You are on page 1of 7

1

Assignment # 01

Submitted by:
1. Muhammad Adnan Maqbool, (BSCE002203138)
2. Ghulam Asgar (BSCE002203017)
3. Farhan Asharf (BSCE002203023)
4. Saeed Ahmad (BSCE002203011)
5. Abu Bakkar (BSCE002203013)
Section:
D (1st Semester)

Subject: PakStudy

Topic:
‫اسالم میں تصور سیاست‬

Submitted to:
Ma’am Saman Sarwar.

University of Lahore Civil Engineer Department

‫فہرست‬
ADNAN DOCS.
‫‪2‬‬

‫صفحہ نمبر‬ ‫عنوانات‬ ‫نمبر شمار‬


‫تعارف ۔‬ ‫‪1‬‬
‫دین اور سیاست ۔‬ ‫‪2‬‬
‫مزہب کا اسالمی تصور۔‬ ‫‪3‬‬
‫قرآن کریم میں سیاست کا زکر ۔‬ ‫‪4‬‬
‫‪6‬‬
‫حاصل کالم‬ ‫‪7‬‬
‫حواالجات‬ ‫‪8‬‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬
‫‪3‬‬

‫اسالم میں تصور سیاست‬


‫تعارف ‪ :‬۔‬
‫اسالم کے سیا سی نظام کے مطالعہ میں جو سوال سب سے پہلے ہمارے‬
‫سامنے آ تا ہے وہ یہ ہے کہ اسالم کا تصور مزہب میں کیا ہے؟ اور وہ‬
‫سیاست اقدار اور اجتماعی امور حیات کے بارے میں کیا نقطہ نظر پیش‬
‫کرتا ہے مزہب کے محدود تصور کی وجہ سے اس بارے میں بہت سی‬
‫غلط فہمیاں پیدا ہوگی ہیں۔اور مزہبی اور سیاسی دونوں ہی حلقوں کے بہت‬
‫سے لوگ اس بارس میں فکری انتشار میں مبتال ہیں۔ اس لیے ہم اسالم کے‬
‫فلسفہ سیاست کے بارے میں سب سے پہلے اس بحث کی کوشش کر رہے‬
‫ہیں۔‬
‫دور جدید کے اسالمی فکر میں مو النا مو دودی صاحب کا یہ مخصوص‬
‫کارنامہ ہیں۔‬
‫کہ انہوں نے تفریق دین و سیاست پر کاری ضرب لگائ ہے اور اسالم‬
‫کے جامع اور انقالبی اقدار کو آئینہ کی طرح صاف کر کے پیش کیا ہے‬
‫ہماس باب میں موالنا صاحب کی مختلف تحریر ات مرتب کر رہے ہیں ۔‬
‫اس میں مسلمانوں اور موجودہ کشمکش حصہ اول اور القران کریم سے‬
‫ضروری حصے لیے گئے ہیں ۔‬

‫دین اور سیاست ‪:‬۔‬


‫محمد ﷺ کی بعثت سے پہلے دنیا میں مزہب کا عام تصور یہ تھا کہ زندگی‬
‫کے بہت سے شعبوں میں سے یہ بھی ایک شعبہ ہے یا دوسرے الفاظ میں‬
‫انسان کی دنیوی زندگی کے ساتھ ضمیمہ کی حثیت رکھتا ہے۔تا کہ بعد کی‬
‫زندگی میں نجات کے لیے ایک سرٹیفکیٹ کے طو ر پر کام اتا رہے ۔اسکا‬
‫تعلق انسان اور اس کے معبود کے درمیان ہے۔جس شخص کو نجا ت کے‬
‫اعلی شعبے حاصل کرنے ہیں اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دنیوی‬
‫زندگی سے التعلق ہو کر صرف اسی ایک شعبے کا ہو جاۓ۔ مگرجسکو‬
‫نجات مطلوب ہو اوراس کے ساتھ یہ اتنے بڑے مراتب مطلوب نہ ہو بلکہ‬
‫بھی خواہش ہو کہ معبود ان پر نظر عنائت رکھے ۔ اورین کو دنیوی‬
‫معمالت میں برکت عطا کرتا رہے ۔اس‬
‫اس کے لئے بس اتنا کافی ہے کہ اپنی دنیوی زندگی کے ساتھ اس ضمیمہ‬
‫کو بھی لگائے رکھے۔ دنیا کے سارے کام اپنے ڈھنگ پر چلتے رہیں اور‬
‫ان کے سات چند مزہبی رسموں کو ادا کر کے معبود کو بھی خوش کیا‬
‫جاتا رہے۔ انسان کا تعلق خود اپنے نفس سے اپنے گردوپیش کی ساری دنیا‬
‫سے ایک الگ ہے اور اس کا تعلق اپنے معبود سے ایک دو سری چیز ان‬
‫دونوں کے درمیان کوئی ربط نہیں۔‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬
‫‪4‬‬

‫جاہلیت کا تصور تھا اور اس کی بنیاد پر کسی انسانی تہذیب و تمدن کی‬
‫عمارت قائم نہ ہو سکتی تھی۔ تہذیب و تمدن کے معنی انسان کی پوری‬
‫زندگی کے ہیں اور جو چیزانسان کی زندگی کا ایک محض ضمیمہ ہو‬
‫اس پر پوری زندگی کی عمارت ظاہر ہے کہ کی کسی طرح قائم نہیں ہو‬
‫سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں ہر جگہ مہذب اور تہذیب و تمدن ہمیشہ‬
‫ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ان دونوں نے ایک دوسرے پر تھوڑا بہت اثر‬
‫ضرور ڈاال مگر یہ اثر اس قسم کا تھا جو مختلف اور متضاد چیزوں کے‬
‫یکجا ہونے سے مرتب ہوتا ہے۔ اس لیے یہ اثر کہیں بھی مفید نظر نہیں‬
‫آتا۔ مزہب نے تہذیب و تمدن پر جب اثر ڈاال تو اس میں رہبانیت مادی‬
‫عالئق سے نفرت لزات دینوی سے کراہت عالم اسباب بے تلقی انسانی‬
‫تعلقات میں انفرادیت تنافر اور تعصب کے عناصر داخل کر دیا۔ یہ اثر‬
‫کسی معنی میں بھی ترقی پرور نہ تھا۔ بلکہ د نیوی ترقی کی راہ میں‬
‫انسان کے لیے ایک سنگ گراں تھا۔ دوسری طرف تہذیب و تمدن نے جس‬
‫کی بنیاد پراسراریت اور خواہشات نفس کے اتباع پر قائم تھی “مزہ ب پر‬
‫جب کبھی اثر ڈاال اس کو گندہ کر دیا۔ اس نےمزہب میں نفس پرستی کی‬
‫ساری نجاستیں دال کر دیں اور اس سے ہمیشہ یہ فائدہ اٹھانے کی کوشش‬
‫کی کہ ہراس گندی اور بد سے بدتر چیز کو جسے نفس حاصل کرنا چاہے‬
‫مذہبی تقدس کا جامہ پہنا دیا جائے تا کہ نہ خود اپنا ضمیر مالمت کرے نہ‬
‫کوئی دوسرا اس کے خالف کچھ کہہ سکے مذہب اور تہذیب و تمدن‬
‫کے اس تعلق کو دیکھا دیکھا جائے تو یہ حقیقت بالکل نمایاں نظر آتی ہے‬
‫کہ دنیا میں ہر جگہ تہذیب و تمدن کی عمارت غیر مزہبی اورغیراخالقی‬
‫دیواروں پر قائم ہوئی ہے۔ سچے مزہبی لوگ اپنی نجات کی فکر میں دنیا‬
‫سے الگ رہے اور دنیا کے معامالت دوسر ے لوگوں نے اپنی خواہشات‬
‫کو پورا کرنے کے لیے جیسا چاہا چالیا ۔‬

‫مزہب کا اسالمی تصور‪:‬۔‬

‫حضرت محمدصلی ہللا علیہ وسلم جس غرض کے لیے بھیجے گئے وہ‬
‫اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ مزہیب کے اس جہالی تصور کو مٹاکر ایک‬
‫عقلی و فکری تصور پیش کریں اور صرف پیش ہی نہ کریں بلکہ اسی کی‬
‫اساس پر تہذیب و تمدن کا ایک مکمل نظام قائم کر کے اور کامیابی کے‬
‫ساتھ چال کر دکھا دیں۔ آپ ﷺ نے بتایا مزہب قطعا" بے معنی‬

‫ہے اگر وہ انسان کی زندگی کا ایک شعبہ ہے۔ حقیقت میں دین وہ ہے جو‬
‫زندگی کا ایک جزو نہیں بلکہ تمام زندگی ہو اسی مزہب کا نام اسالم ہے۔‬
‫اسی لیے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے‬
‫"کہ ہللا کے نزدیک دین صرف اسالم ہے"‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬
‫‪5‬‬

‫قرآن کریم میں سیاست کا زکر ؛۔‬


‫سیاست ‪,‬ساس یوس ‪,‬کا مصدر ہے جس کے معنی ہیں معامالت کی تدبیر کرنا‬
‫اور نظام کو چالنا ۔قرآن مجید نے سیاست کے اصول و معالم کو بیان کردیا‬
‫اور اس کے راستوں کو واضح کردیا ہے ‪.‬سیاست کی دو قسمیں ہیں ‪.‬خارجی‬
‫سیاست۔ سیاست اور داخلی‬
‫قرآن کریم میں لفظ سیاست تو نہیں البتہ ایسی بہت سی آیات موجود ہیں جو‬
‫صہ سیاست پر‬ ‫سیاست کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں‪ ،‬بلکہ قرآن کا بیشتر ح ّ‬
‫مشتمل ہے‪ ،‬مثالا عدل و انصاف‪ ،‬ا مر بالمعروف و نہی عن المنکر ‪،‬مظلوموں‬
‫اظہار ہمدردی وحمایت ‪،‬ظالم اور ظلم سے نفرت اور اس کے عالوہ انبیا‬ ‫ِ‬ ‫سے‬
‫انداز سیاست بھی قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫ٴاور اولیأ کرام کا‬
‫ڈاکٹر حمید ہللا لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں سیرت طیبہ کا جو پہلو سب سے‬
‫زیادہ نمایاں ہے وہ حضور ﷺ کا داعی اور معلم انسانیت ہونا ہے‪ ،‬جبکہ لفظ‬
‫معلم انسانیت کی زندگی کے ہر پہلو کو سمیٹا جائے‬ ‫"معلم” کا تقاضا یہ ہے کہ ِ‬
‫اور اس کی سیرت و سوانح کا عالقہ‬
‫سیاسیات‪،‬سماجیات‪،‬اخالقیات‪،‬معامالت‪،‬دعوت و تبلیغ اور زندگی کے ہر پہلو‬
‫سے متعلق ہو مگر اکثر و بیشتر مصنفین اس پہلو سے پہلو تہی برتتے رہے‬
‫ہیں ‪،‬عالمہ ابن قیم رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں کہ عدل وانصاف پر مبنی‬
‫سیاست اسالمی شریعت کے خالف نہیں ہو سکتی۔ بلکہ یہ عین اسالمی‬
‫شریعت کا جزو ہے۔اسے ہم سیاست کا نام اس لیے دیتے ہیں کہ لوگوں میں‬
‫یہی نام رائج ہے ورنہ اس کے لیے عدل ٰالہی کا نام زیادہ موزوں ہے۔ امام‬
‫غزالی رحمۃ ہللا علیہ کہتے ہیں کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے اور دنیا کے‬
‫بغیر دین مکمل نہیں ہو سکتا ۔دین ایک بنیاد ہے اور حکمران اس بنیاد کا‬
‫محافظ ہوتا ہے۔اسی لیے عادل حکمرانوں کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کا نائب کہا جاتا ہے یہ ایک حقیقت ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم مبلغ اور داعی ہونے کے ساتھ ساتھ زبردست سیاسی انسان بھی‬
‫‪:‬تھے‪.‬معروف لغوی طریحی اپنی کتاب مجمع البحرین میں لکھتے ہیں‬
‫السیاسة القیام علی الشیء بما یصلحه؛ کسی شے کی اصالح کرتے ہوئے جو‬
‫اقدام کیا جائے اس کو سیاست کہا جاتا ہے۔‬
‫خارجی سیاست کا مدار دو اصولوں پر مشتمل ہے‬
‫‪ :‬دشمن کا قلع قمع کرنے کےلیے کافی قوت تیار کرنا ارشاد باری تعالی ہے‪1‬‬
‫اط ْال َخ ْی ِل ت ُ ْر ِھبُونَ ِب ِه َ‬
‫عد َُّو َّ ِ‬
‫َّللا‬ ‫َوأ َ ِعدُّوا لَ ُھ ْم َما ا ْستَ َ‬
‫ط ْعت ُ ْم ِم ْن قُ َّوةٍ َو ِم ْن ِر َب ِ‬
‫عد َُّو ُك ْم‪(.‬انفال ‪)60‬‬ ‫َو َ‬
‫تم ان کے مقابلے میں اپنی بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار‬
‫رکھنے کی کہ اس سے تم ہللا کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان‬
‫‪ .‬کے سوا اوروں کو بھی‬
‫‪:‬اسی قوت پر مشتمل اتحادواتفاق کو قائم رکھنا ‪.‬ارشاد باری تعالی ہے‪2‬‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬
‫‪6‬‬

‫تعالی پر توکل کی تعلیم دینے واال قرآن کریم‬ ‫ٰ‬ ‫ہر موقع پر مسلمانوں کو ہللا‬
‫مسلمانوں کو ہر طرح کے سامان جنگ سے لیس ہونے کی تاکید کر رہا ہے۔‪9‬‬
‫تعالی نے مومنین کو حکم دیا ہے کہ وہ دشمنوں اور کافروں‬ ‫ٰ‬ ‫اس آیت میں ہللا‬
‫سے مقابلہ اور جنگ کرنے کے لیے اسلحہ‪ ،‬ساز و سامان‪ ،‬جنگ اور قوت و‬
‫طاقت جمع کریں تاکہ دشمن خوف زدہ رہیں اور مسلمانوں کے خالف اٹھنے‬
‫کی جرات نہ کریں یعنی جنگ و جہاد اور دفاع کا حکم دیا گیا ہے ظاہر ہے‬
‫سیاست کے بغیر یہ امور سر انجام دینا ممکن نہیں ہیں اس طرح سیاست کی‬
‫اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔‬
‫اسالمی حکومت کے فرائض میں سے ایک امت مسلمہ کے اتحاد کو مستحکم‬
‫کرنا اور اس کے مفادات کی حفاظت کرنا بھی ہے۔ اس طرح سیاست کی‬
‫اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے ذریعے رعایا کی فالح و بہبود اور ان‬
‫کی حفاظت ہوتی ہے۔اتحا ِد امت کے فروغ کے لیے سیاست ضروری امر‬
‫علَی ِ‬
‫ہللاﺚ اِ َّنھ۫‬ ‫س ْل ِم فَاجْ نَحْ لَ َھا َوت ََو َّک ْل َ‬ ‫ہے‪.‬ارشاد باری تعالی ہے۔۔ َوا ِْن َج َن ُح ْوا ِلل َّ‬
‫س ِم ْی ُع ْال َع ِل ْی ُم﴾‬ ‫ھ َُو ال َّ‬
‫ترجمہ‪ :‬اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو بھی صلح کی طرف جھک جا اور‬
‫ہللا پر بھروسہ رکھ‪ ،‬یقینا ا وہ بہت سننے‪ ،‬جاننے واال ہے۔‬
‫آیت میں دشمن سے معاہدہ امن کی پالیسی کی وضاحت کی گئی ہے۔‬
‫صلح و امن کے معاہدے کرنا اورسیاسی اعمال میں خارجہ پالیسی متعین کرنا‬
‫‪ ،‬ظاہرہے کہ ان امور کے لیے سیاست کا ہونا ضروری ہے۔‬
‫‪:‬دیگر امور کی انجام دہی کے لیے –‪۷‬‬
‫سالمتی‪,‬استحکام معاشرہ‪,‬ظلم کا خاتمہ اور‬ ‫ِ‬ ‫داخلی سیاست کے مسائل امن و‬
‫مستحق کو اس کا حق دینا وغیرہ پر مشتمل ہیں داخلی سیاست چھ عظیم‬
‫‪.‬اصولوں پر مبنی ہے‬
‫دین کی حفاظت ‪:‬بنی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے ‪.‬من بدل ‪1‬‬
‫دینه فاقتلوہ (بخاري)‬
‫‪.‬جس نے اپنے دین کو بدل لیا اس کو قتل کردو‬
‫ب لَ َعلَّ ُك ْم ‪2‬‬‫ي ّّآ اُو ِلى ْاالَ ْل َبا ِ‬ ‫اص َح َیاة ٌ َّ‬ ‫ص ِ‬ ‫‪:‬ولَ ُك ْم فِى ْال ِق َ‬‫جانوں کی حفاظت َ‬
‫)‪ (179‬تَتَّقُ ْونَ‬
‫اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم (خونریزی‬
‫سے) بچو۔‬
‫ٰ‬ ‫ْ‬
‫اص فِى القَ ْتلى‪..‬تم پر‬ ‫ص ُ‬ ‫ْ‬
‫علَ ْی ُك ُم ال ِق َ‬
‫ب َ‬ ‫اور دوسری جگہ بھی ہللا فرماتا ہے ‪ُ :‬ك ِت َ‬
‫مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے ‪.‬قرآن نے ہمیں واضح کر رکھا ہے‬
‫‪ .‬کہ کیسے اس نظام زندگی کو چالیا جائے‬
‫يـھَا ا َّلـ ِذیْنَ ٰا َم ُنـ ٓوا اِ َّن َما ْال َخ ْم ُر ‪3‬‬ ‫عقل کی حفاظت ہللا کا ارشاد ہے‪َ :‬یآ ا َ ُّ‬
‫ان فَاجْ تَ ِنب ُْوہُ لَعَلَّ ُك ْم‬
‫ط ِ‬ ‫ش ْی َ‬ ‫ع َم ِل ال َّ‬ ‫س ِ ّم ْن َ‬ ‫اب َو ْاالَ ْز َال ُم ِرجْ ٌ‬ ‫َو ْال َمی ِْسـ ُر َو ْاالَ ْن َ‬
‫ص ُ‬
‫)‪ (90‬ت ُ ْف ِل ُح ْونَ‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬
‫‪7‬‬

‫اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور فال کے تیر سب شیطان کے‬
‫گندے کام ہیں سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پاؤ۔‬
‫‪ .‬عقول کی حفاظت کے لئے ہی تو شارب خمر پر حد واجب کی گئی ہے‬
‫الزا ِن ْى فَاجْ ِلـد ُْوا ُك َّل َو ِ‬
‫اح ٍد ِ ّم ْن ُھ َما ‪4‬‬ ‫لزا ِن َیةُ َو َّ‬ ‫انساب کی حفاظت ہللا فرماتا ہے ‪.‬ا َ َّ‬
‫‪ِ .‬مائَةَ َج ْلـ َدةٍ‬
‫زناکار عورت ومرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ (النور ‪)2‬‬
‫‪ .‬عزت کی حفاظت ‪ :‬ارشاد باری تعالی ‪5‬‬
‫ت ث ُ َّم لَ ْم َیأْتُوا ِبأ َ ْر َب َع ِة ُ‬
‫ش َھ َدا َء فَاجْ ِلدُو ُھ ْم ثَ َمانِینَ‬ ‫َوالَّذِینَ َی ْر ُمونَ ْال ُمحْ َ‬
‫صنَا ِ‬
‫َج ْل َدةا‪(.‬النور‪)4‬‬
‫اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار‬
‫‪.‬گواہ نہ الئیں تو ان کو اَسی درے مارو‬
‫‪.‬اور جو آخری مسئلہ ہے اس داخلی سیاست کا وہ ہے‬
‫ط ُعـ ٓوا ‪6‬‬ ‫ارقَةُ فَا ْق َ‬‫س ِ‬‫ار ُق َوال َّ‬ ‫س ِ‬‫‪.‬وال َّ‬ ‫مالوں کی حفاظت ہللا رب العزت فرماتا ہے َ‬
‫يـ ٌم (المائدہ ‪)38‬‬ ‫ع ِزی ٌْز َح ِكـ ْ‬ ‫اال ِ ّمنَ ال ّلـ ّٰ ِہ ۫ َوال ّلـ ّٰہُ َ‬ ‫سبا َ َن َك ا‬
‫ِيـ ُھ َما َجزَ آ اء ِب َما َك َ‬‫ا َ ْید َ‬
‫اور چور خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا‬
‫بدلہ اور ہللا کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے‪ ،‬اور ہللا غالب حکمت واال‬
‫ہے۔‬
‫مزکورہ اصولوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرے کے من جملہ‬
‫مسائل و مصالح کا حل قرآن مجید میں موجود ہے ‪.‬یہی وہ کتاب ہے جس میں‬
‫‪-‬ہر سوال کا جواب ہے ۔۔‬

‫‪ADNAN DOCS.‬‬

You might also like