You are on page 1of 9

‫موسیقی اور ہماری زندگی‬

‫محمد صآلح‬
‫کیا گیت گانے سے یا سننے سے ہماری صحت بہتر ہو‬
‫سکتی ہے؟‬
‫موسیقی یا گانا روح کی غذا ہے اور بقول شاعر‪ ’ ،‬ہر دل جو پیار کرے گا‪ ،‬گانا گائے گا‘۔ تاہم جدید تحقیق ظاہر کرتی ہے‬
‫کہ اس کے جسمانی اور ذہنی فائدے بھی ہو سکتے ہیں۔‬

‫گانا سانس کی شکایت والے افراد کے پھیپھڑے بہتر کرتا ہے اور یادداشت کی کمزوری کی بیماری‬
‫یعنی ڈیمینشیا کی عالمتوں سے نمٹنے میں مدد بھی دے سکتا ہے۔‬

‫گذشتہ دو دہائیوں میں محققین نے گانا گانے کے نفسیاتی‪ ،‬جسمانی اور انسانی رویے پر پڑنے والے‬
‫صحت مند اثرات کو سمجھنے کو کوشش کی ہے۔‬

‫برطانیہ کی یونیورسٹی کالج آف لندن کی پروفیسر ڈیزی فنکورٹ کہتی ہیں کہ گانا گانے سے انسانی‬
‫جسم پر کئی صحت مند اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫’ اس سے اعصابی دباؤ پیدا کرنے والے کارٹیزول جیسے ہارمونز کم ہو سکتے ہیں۔ ہم اس سے‬
‫اینڈورفینز (درونی افیون) جیسے ہارمونز میں کمی بیشی دیکھ سکتے ہیں جن سے ہمارے موڈ میں‬
‫تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔‬

‫مختلف نوعیت کے اثرات‬


‫پروفیسر فنکورٹ نے گانے سے صحت کی بہتری کے بارے میں پیدا ہونے والے اثرات پر گہری‬
‫تحقیق کی ہے اور وہ کہتی ہیں کہ اس کے کئی فوائد ہیں۔‬

‫گانا ایک کثیرالجہتی صحت مند کام ہے۔ اس کام کے کئی حصے ہیں۔‬

‫گانے گانے یا سننے سے آپ اپنے اُن جذبات کا اظہار کرتے ہیں جو ہم جانتے ہیں کہ ’ہماری ذہنی‬
‫صحت کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ ان سے دوسروں سے بہتر انداز میں ملنے جلنے کا موقع بھی ملتا ہے‬
‫جس سے آپ الگ تھلگ ہونے کے احساس سے محفوظ ہو سکتے ہیں۔‘‬

‫جبکہ ہماری قدیم موسیقی قبیلوں کی ریاستوں کی کپہانیاں ہیں۔ بعض تو مذہبی گیت ہیں جو بدھ مت کے‬
‫دور سے مشہور و معروف ہیں۔ زیادہ تر گلگت بلتستان میں ترخن خاندان کے دور میں ہر قبیلہ اور ہر‬
‫ریاست کا اپنا ترانہ اور گیت تھا جسے بعد میں سننے والے افراد پہ ایک ہیجانی اور بہت اچھے اثرات‬
‫مرتب ہوتے ارہے تھے۔ مگر اب معدومیت اور حقیقی موسیقی ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ اس کے‬
‫بدلے دیگر عالقوں کی مویسیقی جگہ لے رہی ہے‬
‫پروفیسر فنکورٹ کہتی ہیں کہ گانا سننے سے بھی فائدے دیکھنے میں آئے ہیں۔‬

‫’ان میں موسیقی کے پروگراموں کو سننے کے لیے جانا‪ ،‬چاہے وہ کالسیکی موسیقی ہو یا مقبو ِل عام‬
‫موسیقی ہو‪ ،‬ہماری تحقیق میں یہ نظر آیا ہے کہ اس سے دباؤ پیدا کرنے والے ہارمونز میں کمی واقع‬
‫ہوتی ہے۔ اس سے ماحول کے سیاق و سباق کے عوامل کے اثرات اپنا بہتر اثر پیدا کرتے ہوئے نظر‬
‫آتے ہیں۔‘‬

‫برطانیہ میں کینٹربری کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے سنہ ‪ 2011‬میں لکھے گئے ایک تحقیقی مقالے‬
‫سے معلوم ہوا کہ ’ گانے سے ان افراد کو فائدہ ہوتا ہے جنھیں جسمانی اور ذہنی مسائل الحق ہوتے ہیں۔‘‬

‫اس تحقیق کے مطابق‪’ ،‬ایسی انجمنیں جہاں گانا گایا جاتا ہے وہ اپنے ارکان کی کافی عرصے سے‬
‫موجود ذہنی بیماریوں کی شدت میں کمی النے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔‬

‫کولنز نامی ایک محقق ‪ 1970‬کی دہای میں گلگت بلتستان یہاں کی موسیقی پر تحقیق اور ترتیب دینے‬
‫کے سلسلے تشریف الے اور بہت سارے نامکمل دھنوں کو اکٹھا کیا مگر اس سے قبل چند دھنیں ایک‬
‫ٹیپ ریکارڈر کے زریعے آڈیو ریکارڈ کرچکے ہیں ۔ نگر میں مشہور زمانہ موسیقار جولو غریب کے‬
‫زمانے میں عروج پایا اور ہر میدان کیلے الگ الگ ترانے اور دھنیں ترتیب دی گی جن میں اسکندرے‬
‫بنا کے نام سے ‪ 44‬راگ پیدا کی گی ہیں جس کی مکمل تفصیل بعد میں مشہور استاد سفرو نے ریکارڈ‬
‫کروایا ہے جو اب تک محفوظ و معروف ہیں۔‬

‫مراقبہ یا لولو‬

‫جرمنی میں رہنے والی اینابل جو کوائر مغنیہ ہیں اور یہ کہتے ہوئے خوشی محسوس کرتی ہیں کہ‬
‫گانے کے جسمانی اور ذہنی صحت پر بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫’ جب میں گاتی ہوں تو ایسا محسوس کرتی ہوں جیسے مراقبے میں بیٹھی ہوں۔ میں اپنے آپ کو موسیقی‬
‫میں ڈبو لیتی ہوں۔ مجھے واقعی بہت اچھا لگتا ہے۔‘ وہ ہر جمعرات تین گھنٹے کے لیے گانا گانے کی‬
‫مشق کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گانے میں آپ کا پورا جسم شامل ہوتا ہے۔ میں اسی وجہ سے جم بھی‬
‫نہیں جاتی ہوں۔‘‬

‫جبکہ لولو گلگت بلتستان کی قدیم مرثیہ نگاری ہوتی ہے جس میں کسی صدمے یا کہ رو بہ رو ہونے‬
‫والی کسی کہانی کی داستان ہوتی ہے ۔ اب تک جن جن قصہ کہانی اور روداد ہین ان میں چھلت بر‬
‫حاتمو لولو ۔ہی سپر لولو میاچھر لولو ۔شاریستہ شاہ قلندرے لولو مشہور و موروف مراقبے ہیں‬
‫ذہنی جبلتوں کا انحطاط (ڈیمینشیا)‬
‫ذہنی جبلتوں کے کمزور ہونے والی بیماری جو ڈیمینشیا کہالتی ہے‪ ،‬اس کے لیے موسیقی اور خاص‬
‫طور پر گیت گانے کو‪ ،‬عالج کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‬

‫ڈاکٹر سائم ن اوفر کہتے ہیں کہ جب ہم گاتے ہیں تو دماغ کے ایک حصے میں خون کے بہاؤ کی مقدار‬
‫میں اضافہ ہو جاتا ہے‪ ،‬اس حصے کو پری کورٹکل کہتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے ’جہاں ڈیمینشیا پنپتا ہے‬
‫جب خون کی کمی ہو جاتی ہے۔ اسی حصے کا احساسات سے بھی تعلق ہے۔‘‬

‫انگلینڈ کے شہر چیلتھم کے فیملی ڈاکٹر‪ ،‬سائمن اوفر کہتے ہیں کہ گانوں کو سننے سے ڈیمینشیا کے‬
‫متاثرین افراد کے جذبات جاگتے ہیں جس کی بدولت وہ اپنے ماحول کے معامالت میں شامل ہوتے ہیں۔‬

‫موسیقی کے فوائد‬
‫برطانیہ کی ایک خیراتی تنظیم ’مائینڈ سانگ‘ اپنے گلوکاروں کو اولڈ ہومز (بزرگ افراد کے لیے بنائے‬
‫گئے مراکز) میں اکثر و بیشتر بھیجتی رہتی ہے جو ان کی گانے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔‬

‫اگر آپ کسی گروہ کے ساتھ مل کر گاتے ہیں تو اُس کے کئی فائدے ہوتے ہیں۔‬

‫مائنڈ سانگ کی میوزک ڈائریکٹر میگی گریڈی کہتی ہیں کہ انھیں بوڑھوں کے دیکھ بھال کرنے والے‬
‫بتاتے ہیں کہ گانے سننے اور گانا گانے سے ان بوڑھوں کو سکون ملتا ہے اور موڈ اچھا ہو جاتا ہے جو‬
‫اگلے دن تک برقرار رہتا ہے۔‘‬
‫مائنڈ سانگ کینسر سے لے کر دمے جیسے پھیپھڑوں کے امراض میں مبتال مریضوں کے لیے بھی‬
‫گانے سکھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔‬

‫’گلوکاری سیکھنے کی پانچ یا چ ھ کالسوں کے بعد چند شرکا نے اپنی سانس کے پیک فلو میں بہتری‬
‫محسوس کی۔‘‬

‫’پیک فلو‘ سے مراد یہ ہے کہ سانس کتنی تیزی سے پھیپھڑوں سے باہر نکلتی ہے۔ اس سے سانس کی‬
‫بیماری میں مبتال مریضوں کی صحت کا معیار ماپا جاتا ہے۔‬

‫پھیپھڑوں کی طاقت‬
‫اس لیے اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہئیے کہ جو افراد شدید قسم کی سانس کی بیماریوں میں مبتال‬
‫ہوتے ہیں وہ اپنی حالت بہتر محسوس کرنے کے لیے گانا گانے کی کافی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫کو ِلن کو ایڈیو پلمونیری فائبرو ِسس نامی ایک سانس کی بیماری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق‪ ،‬جن افراد‬
‫کو یہ وائرس لگ جاتا ہے ان میں سے نصف تین برس کے اندر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔‬

‫لیکن اپنی اس بیماری کی شدت کے باوجود کو ِلن کہتے ہیں کہ گانا گانے سے ان کی حالت بہتر ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫’میں ‪ 16‬افراد کے ایک گروہ کے ساتھ گاتا ہوں۔ اس سے مجھے سانس کو بہتر کرنے میں مدد ملتی‬
‫ہے۔ میں باقاعدگی کے ساتھ پھیپھڑوں کی صحت کا ٹیسٹ کرواتا رہتا ہوں‪ ،‬اور اب کچھ بہتری کے‬
‫اشارے مل رہے ہیں۔‘‬

‫ہارمونز‬
‫گلوکاری سے جسم میں اینڈورفینز (درونی افیون) پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان‬
‫سے مسرت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‬

‫گانے سے ہم یں گہری سانس لینا پڑتی ہے جس کی وجہ سے جسم میں خون کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا‬
‫ہے اور اس سے اینڈورفینز کا اثر بڑھ جاتا ہے۔‬

‫اس لیے اس میں حیرانی نہیں ہونی چاہئیے کہ جو افراد شدید قسم کی سانس کی بیماریوں میں مبتال‬
‫ہوتے ہیں وہ اپنی حالت بہتر محسوس کرنے کے لیے گانا گانے کی کافی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫کو ِلن کو ایڈیو پلمونیری فائبرو ِسس نامی ایک سانس کی بیماری ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق‪ ،‬جن افراد‬
‫کو یہ وائرس لگ جاتا ہے ان میں سے نصف تین برس کے اندر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔‬
‫اینڈروفینز جسم میں خون کے بہاؤ میں تیزی سے اسی طرح کا اثر پیدا کرتے ہیں جیسا ہنسنے یا‬
‫چاکلیٹ کھانے سے پیدا ہوتا ہے۔‬

‫ایک اور تحقیق سے انکشاف ہوا کہ اعصابی دباؤ بڑھانے والے ہارمونز ’کورٹیزول‘ کی مقدار میں عام‬
‫حاالت کی نسبت‪ ،‬صرف ‪ 40‬منٹ گروپ میں گانا گانے سے زیادہ تیزی سے کمی آئی۔‬

‫عام طور پر ہمارے جسم میں کورٹیزول کی مقدار میں کمی آنے میں ایک دن لگ جاتا ہے۔ لیکن گانا‬
‫گانے سے اس کی مقدار میں کمی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔‬

‫کوائر میں گانا گانے سے آکسی ٹوسن نامی ہارمونز پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬جن کو عام طور پر پیار و محبت‬
‫والے ہارمونز کہا جاتا ہے۔‬

‫’جب ہم کسی کو پیار سے گلے ل گاتے ہیں تو اس کا ہمارے جسم میں اخراج ہوتا ہے‪ ،‬اور ایک دوسرے‬
‫کے لیے اعتماد اور انسیت کے احساسات بیدار ہوتے ہیں۔‬

‫شاید اس بات سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ جو لوگ ایک گروپ میں گاتے ہیں وہ ایک دوسرے کے‬
‫لیے دوستی کا زیادہ جذبہ رکھتے ہیں۔‬

‫گانے سے جسم میں ڈوپامین نامی مادے کا اخراج بھی ہوتا ہے جو دماغ کے اعصابی ریشوں سے‬
‫رسنے واال کیمیائی مادہ ہے۔‬

‫اس کیمیائی مادے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مخصوص قسم کے محرکات مثالً مزیدار غذا یا کوکین‬
‫وغیرہ کھانے سے اس کا اخراج ہوتا ہے اور یہ مسرت کا احساس پیدا کرتا ہے۔‬
‫انٹرنیٹ کا سہارا‬
‫وہ لوگ جو گانا گانے کے لیے باہر نہیں جا سکتے ہیں وہ آن الئن ’ورچوئل کوائر‘ میں شریک ہو‬
‫سکتے ہیں۔ ورچوئل کوائر یا انٹرنیٹ کمیونٹی کے ساتھ گانے میں بھی وہی ماحول پیدا ہوتا ہے جو‬
‫باقاعدہ قسم کے گروپس میں گانے سے پیدا ہوتا ہے۔‬

‫اس کا مقصد دنیا بھر کے گانا گانے والوں کا انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ‬
‫بڑھانا ہے۔‬

‫ایرک ِوٹیکر انٹرنیٹ پر اسی قسم کا ایک‬


‫دنیا کے معروف ایوارڈ گریمی حاصل کرنے والے موسیقار ِ‬
‫’ورچوئل کوائر‘ چالتے ہیں۔‬

‫مختلف گلوکار دنیا کی مختلف جگہوں سے اپنے اپنے گانے اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ان کو پھر اکٹھا کر کے‬
‫ہم آہنگ کیا جاتا ہے اور ایک پرفارمنس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫آفاقیت‬
‫برطانیہ کی ایک یونیورسٹی ایسٹ اینگلیا کی سنہ ‪ 2017‬کی ایک تحقیق کے مطابق‪ ،‬جو گلوکار ہفتہ وار‬
‫کسی گانے کی مفت ورکشاپ میں شامل رہے ہیں ان کا موڈ بہت خوشگوار رہتا ہے اور وہ دوسروں‬
‫سے ملنے جلنے کے ہنر میں بہتر ہوتے ہیں۔‬

‫اس تحقیق کے مطابق جو لوگ گانا گانے کی سر گرمیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ ذہنی بیماریوں سے نکل‬
‫آتے ہیں کیونکہ وہ اپنے آپ کو کارآمد سمجھتے ہیں‪ ،‬اپنی قدر بہتر طور پر کر سکتے ہیں جو انھیں‬
‫دوسروں سے ملنے جلنے میں مدد دیتی ہے۔‬

‫لبرٹی کوائر نامی ایک موسیقی گروپ کی ڈائریکٹر ایم جے پارانزینو کہتی ہیں کہ ’گھروں میں رہنے‬
‫والے شروع شروع میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے‪ ،‬لیکن جب انھوں نے گانا گانے کا آغاز کیا تو انھوں‬
‫نے دوسروں کی نظروں سے نظریں مالنا شروع کر دیا۔‘‬

‫ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ ‪ 20‬برسوں میں انھوں نے دیکھا کہ لوگ موسیقی کے گروپوں میں زیادہ سے‬
‫زیادہ تعداد میں شامل ہو رہے ہیں۔‬

‫’ یہ اسی طرح ہے کہ جیسے آپ ایک مشغلہ شروع کریں جس کے ذریعے آپ اپنا ما فی الضمیر بیان‬
‫کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے آپ کو بہترین ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‬

‫ذہنی رکاوٹ‬
‫تحقیق یہ بتاتی ہے کہ دوسرے کے ساتھ مل کر گانے کے نتیجے میں میل جول بڑھتا ہے‪ ،‬تنہائی کے‬
‫احساس میں کمی ہوتی ہے اور سماجی لچک میں اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫سکول کے ان بچوں اور بچیوں سے ذرا مختلف جو اپنے سکولوں میں موسیقی کی کالسیں جوش و‬
‫جذبے کے ساتھ لیتے ہیں‪ ،‬بڑی عمر کے لوگ موسیقی کے گروہوں میں جانے میں مشکل محسوس‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫پارانزینو کہتی ہیں کہ ’ان بڑی عمر کے لوگوں کے لیے گانے کی کالس کا پہال دن تقریبا ً اُسی طرح کا‬
‫ہوتا ہے جیسا کہ کام پر جانے کا پہال دن۔ آپ محسوس کرتے ہیں کہ آپ کسی ایسی جگہ آ گئے ہیں‬
‫جہاں آپ اجنبی ہیں‪ ،‬اور آپ ذرا شرم محسوس کرتے ہیں۔ ایسی جگہ جانے میں ایک ہمت کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے۔ جیسے ہی آپ اس ذہنی رکاوٹ پر قابو پا لیتے ہیں تو آپ بہت ہی حیرت انگیز نئی دنیا‬
‫محسوس کریں گے۔‘‬

You might also like