Professional Documents
Culture Documents
شاعری
شاعری
ذیشان خان
رخ سے نقاب ہٹا رکھا ھے
بلوچ
جو اس نے نقاب بھی رخ سے ہٹا رکھا ہے
آج کل ہم سے نظریں نہیں مالتے
بلوچ
آج کل تمھاری آنکھوں 0میں تمھاری نظریں 0نھیں ملتیں
اس نے جواب میں 0بوال ُمرشد
یہ آنکھیں ہی تو تھیں 0اپنی اس جاں کے سوا
جن سے جب چاہا تم سے نظریں مال لیا
بلوچ
اب خرید الئے ھ0یں یہ جاں تمھارے لیے ان آنکھوں کو بیچ کر
باکمال لوگ ہیں
بلوچ
بلوچ
کمبخت لفظ بھی ایسے نکلے کہ لبوں کو ہلنے نہ دیا
منافق لوگ ہیں دنیا کے موال
لوگ
اے 0موال
آنسوؤں بھی گراتے ھیں تو دکھاوے 0کے
کیوں رخ چھپا کے بیٹھے ہو
بلوچ
!کل تو اسی رخ سے رخ مال کے ہمارا رخ اپنے رخ لے لیا تھا
سراپائے نظر سے دیکھتے ہیں اب
ِ
بلوچ
جس نظر سے وہ نظر انداز کیا کرتے 0تھے
دغا بازیاں کرتے ہیں ہم سے
چلیا
جیویں کوی نئ رھنداے او دے 0خوا0ب خیاالں سٹاں وچ
َغزل
سنا ہیں چاند بھی تاروں کے جھر ُمٹ میں ٹہر کے تکتا رہتا ہے
یہ سن کر میں بھی آیا تھا دیکھنے اُسے
پر وہ کسی سے بات نہیں کرتے بس بیگانے ہوکے تکتے رہتے ہیں
سب کو یوں دیکھ کر میں نے 0بھی دیکھا اُسے
آو تو سہی ِدل میں جگہ دیں گے 0جی بھر کے جتنا پیٹ بھر لینا
بلوچ
پیار کی مٹھاس کے دستر خوان لگا دیں گے0
دعائیں ہی بے اَثر سمجھتے رہے
بلوچ
اور کمبخت ہم اِدھر دعایں ہی بے 0اثر سمجھتے رہے0
تیری یادوں میں دل کی گہرائی کا سورج
بلوچ
اسے 0ال حاصل ہوتے 0دیکھ کر