You are on page 1of 11

‫حضرت سید شاہ اسماعیل‬

‫بخاری‬
‫ؒ‬
‫الہور میں پہلے مبلغ اسالم‬
‫بخاری‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬
‫اس بات میں کوئی دو رأے نہیں ہے کہ برصغیر پاک‬
‫و ہند میں اسالم صوفیأے اکرام کی بدولت پھیال ہے۔یہ‬
‫وہ لوگ تھے جو محض ہللا کی رضا کی خاطر اپنا‬
‫وطن‪،‬اہ ل و عیال اور تمام دنیاوی مال و اسباب ترک‬
‫خلق خدا کو ہدایت کی راہ دکھانے کےلیٔے‬‫ِ‬ ‫کر کے‬
‫دور دراز عالقوں سے سفر کی صعوبتیں برداشت کر‬
‫کے ہندوستان تشریف الٔے تھے اور اپنی شبانہ روز‬
‫مخلوق خدا سع محبت کی‬‫ِ‬ ‫اعلی کرداد اور‬
‫ٰ‬ ‫محنت اپنے‬
‫بدولت لوگوں کے دل میں ہللا کی محبت پیدا کرنے میں‬
‫کامیاب ہؤے تھے۔انکی زندگی کا واحد مقصد محض‬
‫پیغام حق پہنچانا تھا۔‬
‫ِ‬
‫بخاری‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬
‫ت اسالم کا اولین مرکز •‬
‫محققین کے مطابق برصغیر پاک و ہند میں اشاع ِ‬
‫جنوبی ہند میں ماال بار کا عالقہ تھا‪ ،‬پھر اسکے بعد سندھ کا عالقہ ہے جو‬
‫مسلمان فاتحین کی بدولت خاص طور پر محمد بن قاسم کی ٓامد کے بعد‬
‫اسالمی حکومت کا حصہ بنا اور برصغیر پاک و ہند میں باب االسالم کے‬
‫ہوا۔بزرگان دین‪،‬صوفیأے کرام اور علمأےاسالم کی تبلیغ‬
‫ِ‬ ‫نام سے مشہور‬
‫کی بدولت یہاں پر اسالم بہت تیزی سے پھیال اور کئ اسالمی مرکز قائم‬
‫ہؤے جن میں منصورہ (ضلع سانگھڑ‪،‬سندھ)‪ ،‬اوچ شریف اور ملتان خاص‬
‫قابل ذکر ہیں۔(الہور میں اسالم کے سفیر‪،‬ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی)‬
‫طور پر ِ‬
‫الہور مںی ٓامد‬

‫الہور غزنی دور میں اسالمی سلطنت کا حصہ بنا۔۔ سلطان محمود غزنوی •‬
‫نے‪ ۳۹۰‬ہجری میں ہندوستان کا رُخ کیا اور ٓاہستہ ٓاہستہ ہندوستان کا بیشتر‬
‫مغربی حصہ اسالمی سلطنت میں شامل ہوا۔ ‪ ۴۱۲‬ہجری میں الہور غزنی‬
‫حکومت میں شامل ہوا ‪ ،‬تو یہاں مسلمان مبلغین کی ٓامد کا سلسلہ شروع ہوا۔‬
‫مٓا ثر الہور کے مٔولف کے مطابق قرین قیاس یہی ہے کہ حضرت سیّد شاہ •‬
‫‪ ۴۱۲‬ہجری کو الہور میں ٓأے اور اسی سال‬ ‫بخاری‬
‫ؒ‬ ‫اسماعیل مح ّدث‬
‫سلطان محمود غزنوی بھی الہور کی طرف ٓایا تھا۔ اس وقت راجہ جے پال‬
‫کا پوتا ‪ ،‬جے پال دوم الہور کا حکمران تھا۔چناچہ سلطان محمود غزنوی کی‬
‫ٓامد کی خبر سنتے ہی وہ اجمیر کے راجہ کے پاس بھاگ گیا اور سلطان‬
‫سلطان محمود غزنوی‬ ‫محمود غزنوی نے الہور پر قبضہ کر کے الہور کو غزنی کے ماتحت ایک‬
‫صوبہ قرار دیا۔‬
‫بخاری‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬
‫زیادہ تر مٔورخین کا یہی کہنا ہے کہ حضرت سید اسماعیل شاہ بخاری ؒ •‬
‫غزنوی فوج کے ساتھ ہی الہور تشریف الٔے اور پھر اسالم کی تبلیغ کا‬
‫ٓاغاز اور الہور کو ہی اپنا مسکن بنا لیا۔‬
‫لیکن موالنا اعجاز الحق قدوسی نے "تذکرہ صوفیأے پنجاب" میں •‬
‫کی الہور ٓامد کا سال‪۳۹۶‬‬ ‫حضرت شیخ اسماعیل بخاری ؒ‬
‫ہجری(مطابق ‪ ۱۰۰۵‬ء) تحریر کیا ہے۔‬
‫وہ لکھتے ہیں‪":‬الہور میں جو سب سے پہلے مبلغ تشریف الٔے ‪،‬وہ شیخ •‬
‫اسماعیل بخاری ؒ تھے۔وہ اس زمانے میں الہور وارد ہؤے ‪،‬جب الہور‬
‫میں ایک ہندو راجہ کی حکومت تھی۔یہ راجہ سلطان محمود غزنوی کو‬
‫بخاری‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬

‫‪۳۹۵‬ہجری میں •‬ ‫بخاری‬


‫ؒ‬ ‫خزینتہ االصفیا کے مطابق حضرت سیّد شاہ اسماعیل مح ّدث‬
‫سلطان محمود غزنوی کے دور میں بخارا سے الہورتشریف الٔے۔ٓاپ الہور میں ٓانے والے‬
‫وہ پہلے بزرگ تھے جنہوں نے باقاعدہ اسالم کی تبلیغ کا ٓاغاز کیا۔‬
‫اس بات پر تمام محققین متفق ہیں کہ الہور میں جو سب سے پہلے مبلغ اسالم ٓأے او ر جن •‬
‫کی تبلیغ سے بے شمار لوگ دائراہ اسالم میں داخل ہؤے وہ حضرت شیخ اسماعیل محدث‬
‫بخاری ؒ ہی تھے۔ ان محققین میں مفتی غاالم سرور الہوری اور نوراحمد چشتی ‪ ،‬مٔولف تحقیقا‬
‫ت چشتی‪،‬اور مولوی فقیر محمد جہلمی‪،‬مٔولف "حدائق الحنفیہ" خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔‬
‫بخاری کے بیان میں اور انکی زبان میں اس قدر تاثیر تھی کہ •‬
‫ؒ‬ ‫حضرت سیّد شاہ اسماعیل‬
‫لوگ پروانوں کی طرح اُن کے گرد جمع ہو جاتے تھے(بحوالہ نقوش الہور نمبر‪،‬ص‪)۱۴۶:‬‬
‫ت اسالم‬
‫حصول علم اور دعو ِ‬
‫ِ‬
‫• تحفتہ الواصلین میں منقول ہے کہ پہلے پہل جس مبلغ اسالم صوفی نے اسالم کی‬
‫ت گرامی تھی ۔ٓاپ بلند پایہ شیخ تھے۔‬
‫تعلیمات کا پرچم بلند کیا وہ ٓاپ ہی کی ذا ِ‬
‫شریعت و طریقت کے علوم و معا رف پر ٓاپ کی گہری نظر تھی ۔مشہور فلسفی‬
‫ڈاکٹر ٓارنلڈ کی کتاب "دعوت اسالم" کے اردو ترجمہ میں درج ہے کہ حضرت سیّد‬
‫بخاری کی تبلیغ کا انداز عجیب تھا۔کسی کے پیروں کی ٓاہٹ سنتے تو‬‫ؒ‬ ‫شاہ اسماعیل‬
‫بس ٓانکھ اُٹھا کر ایک نظر دیکھ لیتے تھے۔نظر اس قیامت کی ہوتی تھی کہ اسکا وار‬
‫خالی نہیں جاتاتھا۔‬
‫بخاری کی مجلس واعظ میں عوام کثرت سے شریک •‬‫ؒ‬ ‫حضرت سیّد شاہ اسماعیل‬
‫ہوتے تھے اور روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اسالم قبول کرتے تھے۔جو‬
‫شخص تھوڑی دیر کے لیے بھی اُن کی مجلس وعظ میں شریک ہوتا ‪،‬وہ کلمہ پڑھے‬
‫بغیر نہیں رہ سکا۔‬
‫اورتبلیغ اسالم‬
‫ِ‬ ‫خطبہ جمتہ المبارک‬

‫• "اولیأے الہور" کے مٔولف محمد لطیف ملک کے مطابق جب حضرت‬


‫الہور تشریف الٔے تو یہاں پر ایک بھی مسلمان موجود نہ تھا۔ پہلے‬
‫روز جمعہ کو انہوں نے واعظ فرمایا تو دو سو پچاس (‪ )۲۵۰‬لوگ‬
‫مسلمان ہؤے‪ ،‬اسی طرح دوسرے جمعہ کو تین سو پچاس (‪ )۳۵۰‬اور‬
‫تیسرے جمعہ کو پانچ سو (‪ )۵۰۰‬ہندو حلقہ اسالم میں داخل ہؤے۔‬
‫حدائق الحنفیہ میں ہے کہ جو بھی غیر مسلم ٓاپ کی مجلس واعظ میں •‬
‫شریک ہوتا ‪،‬کلمہ توحید پڑھے بغیر واپس نہ جاتا تھا۔(صفحہ‪)۲۲۱ :‬۔‬
‫رأے بہادر الل کنہیا نےلکھا ہے کہ ٓاپ کی تبلیغی مساعی کی بدولت یہ‬
‫حال ہوا کہ ہر جمعہ کو ٓاپ کے خطبہ کے موقع پر پانچ سو سے زیادہ‬
‫افراد کا مجمع ہو جاتا تھا۔(تاریخ الہور‪ :‬صفحہ ‪)۳۰۸‬‬
‫مزار اقدس‬
‫ِ‬ ‫الہور میں ٓاپکا‬

‫الہور میں جس مقام کو ٓاپ نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں •‬


‫کا مرکز بنایا وہ موجودہ "ہال روڈ" پر واقع وہی جگہ‬
‫ہے جہاں پر ٓاجکل ٓاپکا مزار مبارک ہے۔یہیں ٓاپ نے‬
‫ایک مسجد بھی تعمیر کرائ تھے جس میں ٓاپ قرٓان‬
‫مجید اور حدیث شریف کا درس دیا کرتے تھے۔اس‬
‫زمانے میں مسجد کے ساتھ ایک تاالب بھی تھا اور‬
‫مدرسہ کی عمارت بھی بہت بڑی تھی‪،‬جو کہ اب‬
‫دکانوں ‪،‬سڑکوں اور گرجوں کی عمارات میں تبدیل ہو‬
‫چکی ہے۔البتہ تنگ سی جگہ پر ایک بلند چبوترے پر‬
‫ٓاپکا مزار مبارک ٓاج بھی محفوظ ہے۔‬
‫بخاری کا وصال اور مزار کا جالل‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬
‫ٓاپ کا وصال‪ ۴۴۸‬ہجری کو ہوا اور ٓاپ کو اپنے قائم کردہ مدرسے کے قریب ہی •‬
‫دفن کیا گیا جہاں پر ٓاپ نے تقریبا ً چھتیس سال تک وعظ و تبلیغ سے ِ‬
‫اہل الہور کے‬
‫دلوں کو اسالم کے نور سے منور کیا تھا۔‬
‫مٔولف ے ل کھا ہے ک ہ ٓاپک یت بلیغیمساعیس ے ہزاروں" •‬‫ن‬ ‫خفتگانخاکال ہور" ک ے‬
‫مشرف ہ اسالم ہؤے۔ل فظ" مہتاب"س ے ٓاپک ا س ا لوفات‪۴۴۸‬‬
‫ب‬ ‫ک یت ع داد میںغیر مسلم‬
‫‪،‬مٔولف روفیسر محمد اسلم)‬
‫پ‬ ‫ہ جریب رٓامد ہوتا ہے۔(ص فحہ‪۴۵۳ :‬‬
‫ٓاپ کے مزار مبارک کا جالل اس قدر زیادہ تھا کہ رات کہ کوئی بھی شخص نہیں رہ •‬
‫سکتا تھا۔اگر کوئی رہتا تو شدید خوف ٓاتا اور اعضاء شکنی ہونے لگتی اس لیے‬
‫کوئی شخص یہاں پر رات نہیں بسر کر سکتا تھا۔‬
‫عمارت •‬
‫"‬ ‫ما لروڈ ال ہور ک یجانبس ے ہا لروڈ میںداخلہوںت و ک اتھیڈرلس کولک ی‬
‫بخاری کا مزارمبارک‬
‫ؒ‬ ‫حضرت شاہ اسماعیل‬
‫حضرت کے مزار کے سامنے سے ٓاج ہزاروں لوگ بے خبری کے عالم •‬
‫میں گزر جاتے ہیں۔اور کوئی نہیں جانتا کہ ہال روڈ جیسی پُر رونق سڑک‬
‫کے کنارے کونسی عظیم ہستی ٓاسودٔہ خواب ہے۔اگر اہل ِ الہور کو اُنکا‬
‫مقام اور مرتبہ معلوم ہو تو شاید کوئی بھی شخص یہاں پر فاتحہ پڑھے‬
‫بغیر یہاں سے نہ گزرے کہ ان کے اباواجداد کے قبول اسالم میں اس‬
‫بزرگ ہستی کی تبلیغی مساعی کا کردار کلیدی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ جہاں‬
‫ہم الہور میں باقی عظیم بزرگ ہستیوں کے نام اور مرتبہ سے واقف ہیں‬
‫وہاں پر اسالم کے پہلے مبلغ کو بھی یاد رکھیں۔(وہللا عالم باالصواب)‬
‫ی ال ہور میںاسالم ک ے س فیر‪ ،‬ت ذکر ہ اولیأے( •‬
‫حقیقاتچشت ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫جات ت‬
‫حوا لہ ‪:‬‬

You might also like