You are on page 1of 105

‫بیانات‬

‫ڈاکٹر عتیق ال‬


‫بیانات‬

‫ڈاکٹر عتیق ال‬

‫مشمولت‬

‫’’لندن کی ایک رات‘‘ایک نوآبادیاتی مطالعہ‪3....................................‬‬


‫منٹو فہمی کا مسئلہ اور مظفر علی سید ‪11....................................‬‬
‫راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں نامانوس علحدگیوں اور رفاقتوں کا‬
‫تناؤ‪24...................................................................................‬‬
‫ستیار تھی کی یادوں سے ایک مکالمہ‪46.........................................‬‬
‫جوگندر پال کے ناول ‪ :‬خواب رو میں آئرنی کی نوعیت ‪58..................‬‬
‫اردو ناول‪ :‬تکنیک اور ہئیت کے تجربے‪66.........................................‬‬
‫ج َہوا پیچاں‪ :‬ناول یا ناول کا محض ایک امکان ‪75........................‬‬
‫مو ِ‬
‫رشید احمد صدیقی اور لسانی جمالیت‪84......................................‬‬
‫ب مزاح‪95................................................‬‬
‫مجتب ٰی حسین کا اسلو ِ‬
‫‘‘لندن کی ایک رات‘‘ایک نوآبادیاتی مطالعہ‬

‫اس بحث سے قطع نظر کہ’’لندن کی ایک رات‘‘ ناول ہے یا ناولٹ میں‬
‫اسے اردو ناول کے ُاس پیش رو اور مروجہ فارمیٹ کو توڑنے کے ایک‬
‫تجربے سے موسوم کرتا ہوں‪ ،‬جس کی اشاعت شرر اور پریم چند کے‬
‫ذریعے عمل میں آئی تھی۔ یوں بھی ناول یا افسانہ یا نظم کا فن کوئی‬
‫ایسی بندھی ٹکی ہیئت سے عبارت نہیں ہوتا‪ ،‬جسے مرجح قرار دیا جا‬
‫سکے۔ سجاد ظہیر کے افسانے یا ان کا رپورتاژ یا پگھل نیلم کی شاعری‪،‬‬
‫ان مسلمہ قواعد سے انکار کا نام ہے جنہیں ہم معیاری ہی نہیں مثالی بھی‬
‫قرار دیتے آئے ہیں۔ مجھے سجاد ظہیر کے اس عمل کے پیچھے کسی‬
‫شعوری کاوش کے بجائے ان کے تخلیقی وفور کا دخل زیادہ نظر آتا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر صنفی تجربے میں تخیل کی سرگرمی کسی بھی‬
‫موجود اور قائم شدہ تحدید کو التفات کے لئق نہیں سمجھتی۔ یہ سوال‬
‫بھی بار بار گفتگو کا موضوع بنا ہے کہ’’لندن کی ایک رات‘‘ کے حوالے‬
‫سے سجاد ظہیر کو اپنی مخصوص آئیڈیولوجی کی اشاعت ہی مقصود‬
‫ف ادب میں ناول ہی ایک ایسا فارم ہے‬ ‫تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ تمام اصنا ِ‬
‫جس میں ہزاروں ہزار پردہ داریوں کے باوجود ناول نگار کی زندگی فہمی‬
‫اور اس کا ذہنی‪ ،‬جذباتی اور تہذیبی تناظر جابجا اپنا اثر دکھا ہی جاتا ہے۔‬
‫ناول جیسے فارمیٹ میں محض تجرید کاری کو شروع سے آخر تک اس‬
‫طرح سنبھالے رکھنا بڑا مشکل کام ہے جو پڑھنے والے کی رغبتوں کو بھی‬
‫قائم رکھ سکے۔ پڑھنے والے ہی کی نہیں لکھنے والے کی بھی اپنی کچھ‬
‫ذہنی ترجیحات اور تعصبات ہوتے ہیں‪ ،‬جو بغیر ارادے کے بھی اپنی گھس‬
‫پیٹھ سے باز نہیں آتے۔‬

‫ہمارے اس پس نوآبادیاتی عہد میں ’’لندن کی ایک رات‘‘ کا مطالعہ اس‬


‫ذہن کو سمجھنے میں بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جس کے خمیر کی‬
‫تیاری میں ایک صدی سے زیادہ وقتوں کی کارفرمائی شامل تھی۔ اگرچہ‬
‫’’لندن کی ایک رات‘‘ کے اکثر سوالت اور شبہات وہی ہیں جنہیں سر‬
‫سید نے بھی محسوس کیا تھا‪ ،‬لیکن سر سید کے مقتضیات‪ ،‬ایک جبر کا‬
‫حکم رکھتے تھے۔ جن سے صرف نظر کرنے کے معنی مزید ذہنی پس‬
‫ماندگی کو راہ دینے کے تھے۔ سر سید کے سامنے ایسا کوئی مستحکم‬
‫فلسفیانہ لئحۂ عمل بھی نہ تھا‪ ،‬جس کے عمل ً اطلق ہی سے انہیں‬
‫سروکار ہوتا‪ ،‬ایک محدود بساط میں انہوں نے خود نظریہ سازی کی تھی۔‬
‫دور دیس کی علمی اور اقتصادی ترقی ہی نے نہیں بلکہ روزمرہ کی‬
‫اخلقیات میں ایک ضابطہ بند تہذیبی رکھ رکھاؤ نے بھی انہیں زیست‬
‫بسری کا ایک نیا خاکہ مہیا کیا تھا‪ ،‬جس کی رنگ آمیزی میں انہوں نے‬
‫اپنی ساری زندگی داؤ پر لگا دی تھی۔‬

‫سجاد ظہیر کے سامنے ایک مستحکم لئحۂ عمل تھا۔ ایک ایسے سامراج‬
‫سے ان کا ٹکراؤ تھا جس کے پاس فوکو کے لفظوں میں ‪knowledge is‬‬
‫‪ power‬یعنی علم و فہم کی وہ طاقت تھی جو عقل‪ ،‬دانش اور تجربے‬
‫کی بنیاد پر باخبری اور آگہی کا دوسرا نام تھا‪ ،‬نیز جو کم علم‪ ،‬جاہل اور‬
‫بے خبروں کو اپنے قبضۂ قدرت میں رکھنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ایڈورڈ‬
‫سعید نے اس فقرے کو ‪ knowledge is colonisation‬میں بدل کر‬
‫اسے استعمار پسندانہ نظام کو فروغ دینے والی حکمت عملی سے تعبیر‬
‫کیا ہے۔‬

‫’’لندن کے ایک رات‘‘ کے دوسرے باب میں انگریز مزدوروں کی بات‬


‫چیت اور نشے کی حالت میں ان کے خیالت سے جن دو اہم باتوں کا‬
‫سراغ ملتا ہے وہ یہ ہیں‪:‬‬

‫‪1‬۔ انگلستان میں بھی تمام ترقیات کے باوجود انگریز مزدور طبقہ حاشیہ‬
‫نشین ہی تھا۔ اس کے مطالبات کو میڈیا مسخ کر کے پیش کرتا ہے اور‬
‫میڈیا پاور کی آئیڈیولوجی کے مطابق ہی اپنی راہ کا تعین بھی کرتا ہے۔‬

‫‪2‬۔ بیش تر انگریز مزدور انگلستان کی استعمار پسندانہ حکمت عملی‬


‫سے باخبر ہیں کہ کس طرح ایک امپریلسٹ طاقت ہندوستانیوں پر جور و‬
‫ل انگلستان کو یہ باور‬
‫استبداد سے کام لے رہی ہے اور کس طور پر اہ ِ‬
‫کرایا جاتا ہے کہ ان کا یہ عمل امن پسندوں کے حق میں کیونکر نا گزیر‬
‫ن وطن کو دہشت گرد کے طور پر ہی‬ ‫ہے۔ وہاں بھی میڈیا ہمارے جاں نثارا ِ‬
‫پیش کرتا ہے۔‬

‫راؤ کو یکبارگی ہندوستانیوں کی ایک بھیڑ نظر آتی ہے جو بے بس‪ ،‬غریب‬


‫اور ننگے بھوکے لوگ ہیں‪ ،‬جن کے اردگرد گورے بندوقیں تانے کھڑے ہوئے‬
‫ہیں۔ ذرا سامراجیت کا احساس جاگتا ہے اور وہ دیکھتا ہے‪:‬‬

‫’’وہ اکیل میدان میں کھڑا ہوا ہے‪ ،‬سارا مجمع غائب ہو گیا۔ سامنے گورے‬
‫کھڑے ہیں اور چاروں طرف ِادھر ُادھر خون کے دھبے‪ ،‬گرم تازہ خون اور‬
‫زخمی انسان اور مردے‪ ،‬کوئی منھ کے بل پڑا ہے اور اس کے ہاتھ پیٹ کے‬
‫نیچے دبے ہوئے ہیں۔ کوئی چت پڑا ہے۔ اس کے سرپر گولی لگی ہے۔‬
‫آنکھیں دہشت زدہ ‪ ،‬دیدوں سے پھٹی پڑتی ہیں۔ منھ کھل ہوا۔ اس کے‬
‫چہرے پر ‪،‬گردن پر میلے کرتے پر‪ ،‬لل لل خون کے بڑے بڑے دھبے۔ ایک‬
‫زخمی جس کے پاؤں پر گولی لگی ہے اور جو درد کی شدت سے چل رہا‬
‫ہے۔‘‘‬

‫سجاد ظہیر نے یہاں نام لئے بغیر جلیانہ وال باغ کی لہولہان تصویر سی‬
‫کھینچ دی ہے۔ البرٹ میمی نے )‪The Coloniser And The (1965‬‬
‫‪ colonised‬میں نوآباد کار استعماریوں اور دیسی آبادیوں کا بڑے تفصیل‬
‫کے ساتھ معروضی اور نفسیاتی مطالعہ کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ‪:‬‬

‫’’یہ خیال ہی بے بنیاد ہے کہ نوآباد کار‪ ،‬نئی کالونیوں کے لئے کوئی تہذیبی یا‬
‫اخلقی مشن لے کر آئے تھے۔ ان کا صرف ایک ہی مقصد تھا اور وہ تھا‬
‫اقتصادی ‪ ،‬وہ اپنی اس دوہری قانونی خلف ورزی سے بخوبی آگاہ تھے کہ‬
‫انہوں نے اپنے لئے ایک دوسری سرزمین کو اپنا جائے مقام بنایا ہے۔ جس‬
‫سے انہیں غیر معمولی دولت حاصل ہوئی ہے۔ اور یہ سرزمین وہ ہے جسے‬
‫انہوں نے اس کے قدیم باشندوں سے بالقوت غصب کیا ہے‪،‬کیونکہ وہ‬
‫غصب ہی کے لئق تھے۔ ان کی کاہلی‪ ،‬اقتصادی عدم فہمی ‪،‬حسد و‬
‫رقابت کے جذبے اور مذہبی جنون وغیرہ نے انہیں اس قدر کم زور بنا دیا‬
‫کہ تحفظ ان کے لئے ناگزیر تھا۔‘‘‬

‫راؤ کے کردار میں غصہ وری اور تندی بھری ہوئی ہے۔ وہ اپنے ہم وطنوں‬
‫کی ناعاقبت اندیشی اور ان کی کاہلی اور آپسی نفرت اور تنازعوں سے‬
‫اس قدر ہلکان ہے کہ ‪ cynicism‬اس کے اندر گھر کر لیتا ہے وہ طنزا ً‬
‫سارے ہندوستانیوں کو کیڑوں مکوڑوں کے برابر کہتا ہے جو آپس میں ایک‬
‫دوسرے کی جان کے دشمن ہیں‪ ،‬انگریزوں کے خوشامدی ہیں۔ اس کے‬
‫لئے یہ احساس شدید اذیت ناک ہے کہ ہمیں بڑی حقارت کے ساتھ کالے‬
‫لوگ اور نیٹیوز کہا جاتا ہے اور جو غلموں سے بھی بدتر سمجھے جاتے‬
‫ہیں۔ فرانزفینن نے )‪ black skins white masks (1967‬میں اسی‬
‫موقف کو دہرایا ہے کہ‪:‬‬

‫’’نو آبادوں یعنی ‪ colonised‬کے مقامی کلچر کی خلقیت )اور یجنلٹی(‬


‫کو موت کے گھاٹ اتار نے اور اسے زمینوں کے اندر دفنانے کے باعث ہی‬
‫س کمتری بھی پیدا ہوا ہے۔ ان کی حالت ایک جنونی کی‬ ‫ان میں احسا ِ‬
‫سی ہو گئی ہے کیونکہ نوآباد کار ان کے انفرادیت کے دعوے کو مسترد‬
‫کرتے ہیں۔ اس طرح ان کی حیثیت محض ایک بے جان چیز یا معدوم‬
‫ہستی کی ہو کر رہ گئی ہے جیسے وہ انسان سے کم تر کسی اور وجود‬
‫کے حامل ہوں۔‘‘‬

‫"لندن کی ایک رات" کا ایک کردار ٹام بھی یہی کہتا ہے کہ جب وہ‬
‫ہندوستان میں تھا تب ’’برٹش ایمپائر کا خیال کر کے اس کی رگوں میں‬
‫خون تیزی سے دوڑنے لگتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو کال لوگ‪ ،‬نگرو اور‬
‫نیٹیو کہہ کر خطاب کرتا تھا۔ وہ ہندوستانیوں کو جانوروں سے بدتر‬
‫سمجھتا تھا۔ کیونکہ "اسے فوج میں یہی سکھایا جاتا تھا‪ ،‬فینن کا بھی یہی‬
‫خیال ہے کہ نوآباد کار نیٹیوز کے بارے میں مستقل ً حیوانیاتی اصطلحات‬
‫‪ Zoological Terms‬میں گفتگو کرتے تھے‪ ،‬جو مضر اور شّری واقع‬
‫ہوئے ہیں۔ جنہیں نہ تو اخلق کی تمیز ہے نہ قدروں کا احساس۔ آدمی‬
‫صرف گورے ہیں‪ ،‬جن کی اقدار بھی اعل ٰی ہیں۔ باقی سارے کالے لوگ ان‬
‫حقیر جانوروں سے مماثل ہیں جن میں زہر بھرا ہوا ہے جیسے سانپ یا‬
‫خون چوسنے والے حشرات الرض۔ اس طرح دیسی باشندے ان کے‬
‫نزدیک بشریت کش معروض کا حکم رکھتے تھے۔‬

‫سجاد ظہیر نے ٹام کے لفظوں میں انگریزوں کے پھیلئے ہوئے اس‬


‫مغالطے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ انہوں نے ہی ہندوستان میں امن‬
‫قائم کر رکھا ہے۔ ان کی پولیس‪ ،‬ان کی انتظامیہ اور ان کے قوانین ہی‬
‫ان کے تحفظ کی ضمانت ہیں۔ فینن نے اسے ‪ law of the father‬والد‬
‫کے قانون سے موسوم کیا ہے گویا سارے نیٹیوز بچے ہیں اور نو آباد کار‬
‫منونی نے اسے ‪dependency‬‬ ‫باپ کا حکم بجا لنا ان پر فرض ہے۔ او۔ َ‬
‫‪ complex‬کہا ہے کہ نیٹیوز یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مفادات کا تحفظ‬
‫صرف نو آباد کاروں ہی سے ممکن ہے۔ بلکہ بعض دیسی باشندوں کے‬
‫نزدیک انگریز نجات دہندہ بھی تھے‪ ،‬جنہوں نے عہد ِ تاریک کی محکومی‬
‫جہالت اور اوہام سے نجات دلئی۔ عارف جیسے کردار کے نزدیک انگریزی‬
‫زبان‪ ،‬انگریزی تہذیب اور انگریزوں کے احکام کی بجا آوری اور‬
‫ہندوستان میں صاحب کہلنے کی خواہش سب سے بیش بہا ہے۔ احسان‬
‫جب اس سے پوچھتا ہے کہ عارف صاحب اگر آپ کسی ضلع میں‬
‫مجسٹریٹ ہوئے اور ہم لوگوں نے وہاں سیاسی شورش شروع کی تو آپ‬
‫ہمیں جیل خانے بھیجیں گے یا نہیں؟ آپ ہمارے جلوسوں پر گولی چلنے کا‬
‫حکم دیں گے یا نہیں؟ عارف کا جواب تھا ’ڈیوٹی از ڈیوٹی‘۔‬

‫سجاد ظہیر نے عارف کے حوالے سے ان نوجوانوں کی ذہنی حالت سے‬


‫پردہ اٹھایا ہے جنہیں ملک و قوم کے ان اجتماعی مسائل سے کوئی غرض‬
‫نہیں ہے‪ ،‬جن سے پورا محکوم ہندوستان جوجھ رہا ہے۔ انہوں نے اپنے‬
‫مقاصد کا تعین اپنے ذاتی اغراض کے ساتھ وابستہ کر لیا ہے۔ جو خود بھی‬
‫ب وطن کو گنوار‪ ،‬قبائلی بے وقوف اور نکمے خیال کرتے ہیں۔ ان‬ ‫اپنے اربا ِ‬
‫کے ذہن میں یہ خیال گھر کر گیا ہے کہ اعل ٰی تہذیب اور اعل ٰی اخلق کا‬
‫تصور انگریز قوم ہی مہیا کر سکتی ہے۔ سجاد ظہیر نے عارف کو مثال بنا‬
‫س کم تری کی طرف بھی متوجہ کیا‬ ‫کر ایسے ہزاروں نوجوانوں کے احسا ِ‬
‫ہے جو اعل ٰی تعلیم پاکر بھی زندگی کا عرفان حاصل نہیں کر سکے۔‬
‫عارف کے بارے میں ان کا تجزیہ اس عہد کی ذہنیت ہی کو آشکار نہیں‬
‫کرتا بلکہ موجودہ پس نوآبادیاتی صارفی سماج پر اس کا پہلے سے کچھ‬
‫زیادہ ہی اطلق ہوتا ہے۔‬

‫’’عارف لیلئے سروس کا مجنوں تھا۔ خچر کی طرح وہ بھی ایک سیدھے‬
‫راستے پر لگا ہوا کام کرتا چل جاتا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن میں‬
‫یہ بات بھی سما گئی تھی کی انگریزی کپڑے اچھی طرح پہننا‪ ،‬انگریزی‬
‫زبان انگریزی لہجے میں بولنا‪ ،‬سنیما کی تصویروں کے بارے میں اور ہولی‬
‫ووڈ کے ایکٹروں اور ایکٹریسوں کے ذاتی معاملت‪ ،‬ان کی شادیوں اور‬
‫طلقوں کی تازہ ترین خبروں سے واقف رہنا اور ان پر بات چیت کرنا‬
‫کلکٹری کے امیدوار کا فرض ہے۔ وہ ان لوگوں کا جانشین ہونے وال تھا‪،‬‬
‫جن کو اس پر فخر تھا کہ انہیں اپنی مادری زبان اچھی طرح بولنی نہیں‬
‫آتی۔‘‘‬

‫البرٹ میمی‪ ،‬کو لونائزڈ کے لئے دو راستے بتاتا ہے۔ ایک ‪assimilation‬‬
‫کی طرف جاتا ہے‪ ،‬جو سماجی اور تہذیبی طور پر پوری طرح ڈھل جانے‬
‫کی ترغیب دیتا ہے۔ دوسرے کا رخ ‪petrifaction‬کی طرف ہے جو متحجر‬
‫حالت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اسے ایک جمود کی کیفیت کا نام بھی دیا‬
‫جا سکتا ہے۔ کیونکہ نہ تو وہ پوری طرح غیر تہذیبی ڈھانچے میں ضم ہو‬
‫سکتا ہے اور نہ غیر تہذیبی ڈھانچہ اسے پوری طرح ہضم کر سکتا ہے۔‬
‫ایسی حالت میں وہ اپنے آپ کو صرف اور صرف صیغۂ حاضر تک محدود‬
‫کرنے پر اکتفا کر لیتا ہے۔ میمی کہتا ہے کہ ‪:‬‬

‫''وہ اپنے رہنماؤں کو یاد کرتا ہے نہ انہیں تسلیم کرتا ہے۔ حت ٰی کہ اپنی‬
‫یادداشت تک کھو بیٹھتا ہے۔ وہ ساری چیزیں جن کا تعلق اس کے ماضی‬
‫سے تھا وہ آہستہ آہستہ محو ہونے لگتی ہیں اور پھر اس کے پاس ایک ہی‬
‫راستہ بچتا ہے کہ وہ نو آباد کار کے تہذیبی اور سیاسی اداروں کی طرف‬
‫رجوع کرے۔ وہ مجبورا ً نو آباد کاروں کی تعطیلت اور ان کے تہوار منانے‬
‫لگتا ہے۔ پھر اس کے لئے اس کی مادری زبان جیسے گراں قدر روحانی‬
‫ورثے کی بھی کوئی قیمت نہیں رہ جاتی۔ اس کے بدلے وہ نو آباد کار کی‬
‫زبان کو قبول کر لیتا ہے۔ دراصل اس کا لسانیاتی اشتباہ ‪ ،‬تہذیبی اشتباہ‬
‫ہے۔‘‘‬

‫ل محال‪ ،‬وہ اپنی زبان سے‬‫میمی کہتا ہے کہ اب اسے المیہ کہیں کہ قو ِ‬


‫دست بردار ہو کر جہالت کے الزام سے بچ جاتا ہے۔‬

‫نگوگی واتھیونگ او ‪ Ngugi Wa Thiong'o‬نے زبان اور تہذیب کے تعلق‬


‫سے مغرب کے تہذیبی بم ‪ cultural bomb‬کو سب سے بڑا ہتھیار بتایا‬
‫ہے‪ ،‬جو سب سے پہلے مقامی تہذیبی شناخت کو تہس نہس کرنے کے درپے‬
‫ہوتا ہے۔ لوگ یہ باور کرنے لگتے ہیں کہ ان کا ماضی محض ایک خرابہ تھا‪،‬‬
‫بے مصرف‪ ،‬بے ثمر‪ ،‬بے آب و گیاہ ماضی۔ ان کی شناخت صرف اور‬
‫صرف دوسرے لوگوں کی زبان اور کلچر کو قبول کرنے اور ان کی‬
‫ل یورپ کی اس سازش کو بھی یہ کہہ‬ ‫پیروی ہی سے ممکن ہے۔ نگوگی اہ ِ‬
‫کر بے نقاب کرتا ہے کہ نو آباد کاروں کے لئے دیسی باشندوں پر تسلط‬
‫جمانے کی سب سے اہم اقلیم ذہنی قلمرو ہی ہے۔ ذہنوں پر قبضہ جمانے‬
‫کے معنی دیسی باشندوں کے کلچر ‪ ،‬فن اور ادب وغیرہ کو کوتاہ قرار‬
‫دینے یا اس ورثے کو تہس نہس کر دینے اور اس کے برخلف نوآباد کار‬
‫کی زبان اور کلچر کو نفیس ‪ ،‬ترقی یافتہ اور مکمل ثابت کرنے کے ہیں۔‬
‫نتیجے کے طور پر عارف ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جسے یہ بھی‬
‫احساس نہیں رہتا کہ وہ اپنے ہی فطری اور سماجی ماحول سے بے گانہ‬
‫ہوتا جا رہا ہے۔ جسے نگوگی نے نوآبادیاتی بیگانگی ‪colonial‬‬
‫‪alienation‬کی اصطلح سے موسوم کیا ہے۔‬

‫’’لندن کی ایک رات‘‘ میں سجاد ظہیر نے نوآبادیاتی ذہن کے ہر دو پہلو‬


‫دین ‪ binary apposition‬کے طور پر پیش کیا ہے۔ اعظم‬ ‫کو اجتماِع ض ّ‬
‫جیسا کردار ہے جو اپنی دنیا میں آپ مگن ہے۔ اس کی پسند بھی گوری‬
‫چمڑی ہے۔ عارف جیسا موقعہ پرست ہے۔ جس انگریز لڑکی سے اس کا‬
‫واسطہ پڑتا ہے‪ ،‬اس کے ساتھ شب بسری کی کوشش بھی کرتا ہے۔ نعیم‬
‫جیسا فربہ اور کاہل مگر مجلسی زندگی کا دلدادہ کردار بھی ہے جو ہر‬
‫اس انگریز لڑکی پر ریجھ جاتا ہے جو اس کے ساتھ دو منٹ ہمدردانہ فہم‬
‫کے ساتھ گفتگو کرنے لگتی ہے۔ دوسری طرف راؤ جیسا حقیقت پسند‪،‬‬
‫معاملہ فہم مگر بے عمل اور ‪ cynic‬کردار ہے‪ ،‬جسے ہندوستانیوں کی کم‬
‫عقلی‪ ،‬ناعاقبت اندیشی اور آپسی رقابتوں سے بڑی چڑ ہے۔ یہی وہ‬
‫کمزوریاں ہیں جن کا فائدہ بیرونی غاصب اٹھا رہے ہیں۔ راؤ کو‬
‫ہندوستانیوں کی غربت‪ ،‬جہالت‪ ،‬اوہام پرستی اور حسد و رقابت کی فہم‬
‫ضرور ہے لیکن اس صورت حال سے متصادم ہونے اور ایک نئی منزل کے‬
‫سراغ کی اس کے پاس کوئی کلید ہے نہ فارمول نہ اسٹریٹیجی۔ جبکہ‬
‫احسان اور ہیرن پال کا ذہن اپنے مشن کے تعلق سے واضح ہے۔ احسان‬
‫عقلیت پسند ہے‪ ،‬انسانی نفسیات کی باریکیوں کو خوب سمجھتا ہے اور‬
‫دوسروں کے بھرم چاک کرنے میں بڑا لطف لیتا ہے۔ حالت کے سامنے‬
‫سرنگوں ہونے کے بجائے تصادم اور پھر تبدیلی اس کی ترجیح ہے۔ لیکن‬
‫ابھی وہ ہندوستان سے باہر استعمار پسند ملک میں مقیم ہے اور اپنی‬
‫بحثوں سے دوسروں کی زبان گنگ کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ جبکہ ہیرن پال‬
‫ن عزیز کی طر ف لوٹ گیا ہے۔ اپنے مقصد‬ ‫اپنے عشق کو تج کر اپنے وط ِ‬
‫میں اس کی محویت اسے کہاں لے گئی ہے اور وہ کس مقام پر ہے اس کا‬
‫علم خود اس کی محبوبہ شیل گرین کو بھی نہیں ہے۔‬

‫سجاد ظہیر نے نوآبادیاتی ذہن اور اس کی کشاکش و کشمکش کے ایسے‬


‫بہت سے پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جو اسے تذبذب و تعلیق میں بھی‬
‫ی خاموش بھی اس میں‬ ‫رکھتے ہیں اور جن سے چھٹکارا پانے کی ایک سع ِ‬
‫تہہ بہ تہہ کہیں کا ر فرما نظر آتی ہے۔ آخر میں ہیرن پال کا اپنے مشن پر‬
‫نکل جانا‪ ،‬اسی امید افزا موڑ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کے بعد ہم‬
‫کسی منزل کے سراغ اور اسے سر کرنے کے امکان کے بھی متحمل ہو‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫منٹو فہمی کا مسئلہ اور مظفر علی سید‬

‫’’۔ ۔ ۔ تجزیہ نفس کرنے والے اس خوف کو بے نقاب کرتے ہیں جو سب‬
‫س باطن کا خوف‪ ،‬جس میں‬ ‫سے بڑا خوف ہے ‪ ،‬انسان کے ازلی ترین نف ِ‬
‫خدا ہے ‪،‬اگر خدا نہیں ہے۔ حقیقی آدم یعنی پر اسرار فطری آدمی کا‬
‫خوف جو زمانۂ قدیم سے بنی اسرائیل میں پایا جاتا ہے۔ تجزیۂ نفس میں‬
‫چیخنے کی حد تک بلند ہو گیا ہے۔ اس مادر زاد دیوانے کی طرح جس کے‬
‫منہ سے جھاگ نکلتا ہے ‪ ،‬اور جو اپنی کلئیوں کو کاٹ کا ٹ کر لہو لہان‬
‫کر دیتا ہے۔ قدیم ترین حقیقی آدم جس سے خدا کی ذات اب تک جدا‬
‫نہیں ہوئی۔ فرائڈ اس آدم سے اس قدر نفرت کر تا ہے اسے محض‬
‫انحراف کے ہیبت ناک ہیولے کی شکل میں دیکھتا ہے خود تولید سانپوں کا‬
‫ایک گچھا ‪ ،‬خوفناک حد تک گرہ درہ گرہ۔ یہ تصویر رام شدہ فاسد آدمی‬
‫کی منحرف تصویر ہے جو ہزاروں شرمناک برسوں سے رام ہو چکا ہے۔‬
‫قدیم آدم کسی وقت بھی رام نہیں ہو سکا اور رام شدہ مخلوق ہمیشہ‬
‫اس سے نفرت کرتی رہی ہے۔ خوفناک نفرت کی دہشت کے ساتھ۔ مگر‬
‫جو بے خوف ہیں انہوں نےاس کو ت ِہ دل سے محترم سمجھا ہے۔‬
‫قدیم آدم کے قدیم ترین پیکر میں خدا تھا۔ اس کے سینے کی تاریک دیوار‬
‫کے عقب میں ناف کی مہر تلے۔ پھر آدمی کو اپنے آپ سے گھن آنے لگی‬
‫اور خدا اس سے جدا ہو کر خارجی ترین فضا میں مقیم ہو گیا۔‬
‫مگر اب ہمیں واپس جانا ہے۔ اب پھر قدیم آدم کو اپنا چہرہ اور اپنا سینہ‬
‫اوپر کو اٹھانا ہے اور خود کو پھر سے اصیل بنا نا ہے۔ شرارت اور ل ابالی‬
‫پن کے ساتھ نہیں بلکہ اپنی دیواروں کے درمیان خدا کے ساتھ جسم کے‬
‫تاریک ترین بّراعظم میں خدا موجود ہے اور اسی سے ہمارے محسوسات‬
‫کی تاریک شعاعیں پھوٹتی ہیں‪،‬لفظ کے بغیر اور لفظ سے کامل ً پیشتر۔‬
‫عمیق ترین باطن کی شعاعیں اولین پیغام کی حامل ہمارے وجود کی‬
‫محترم اور ازلی حیوانی شکلیں جن کی آوازیں ہماری روح کے تاریک‬
‫ترین ایوانوں میں لفظ کے بغیر ‪،‬گونجتی ہیں مگر طاقت ور کلم سے‬
‫بھرپور ہوتی ہیں ہمارے اپنے باطنی مفہوم سے بھرپور۔‘‘)محسوسات اور‬
‫ناول ‪ :‬ڈی۔ ایچ لرنس ‪ ،‬ترجمہ ‪ :‬مظفر علی سید (‬
‫استعاروں کی زبان میں کیا منٹو کی باطنی جستجو قدیم ترین حقیقی‬
‫آدم کے تقریبا ً فنا پذیر تصور کی از سرِ نو تشکیل کی سمت راجع نہیں‬
‫ہے؟ لرنس کی طرح کیا منٹو بھی وجود کے تاریک ترین بّراعظم میں‬
‫اس خدا کی موجودگی کی توثیق نہیں کرتا جس سے محسوسات کی‬
‫تاریک شعاعیں پھوٹتی ہیں ؟ منٹو کی آوازوں میں بھی ا تھاہ اور مہیب‬
‫سکوت جاگزیں ہے۔ لرنس کے نفس باطن کا خوف ہی منٹو کی دہشت‬
‫ناک تخلیقی کائنات کا محّرک بھی ہے۔ منٹو کے قریب الفہم اور سہل‬
‫المعنی متن کی تہہ میں جو متن دیگر مخفی ہے اس کی دہشت بہ ظاہر‬
‫متن سے پیدا ہونے والے دہشت کے احساس سے کہیں زیادہ بھیانک تاثر‬
‫فراہم کرتی ہے۔ اسی کے پہلو بہ پہلو درد مندی کی وہ کیفیت بھی شدت‬
‫سے محسوس کی جا سکتی ہے جو خوف اور دہشت ہی کی کوکھ سے‬
‫نمو پاتی ہے۔ تضاد کے انہیں پہلوؤں میں وہ ایسے بہت سے سوال ‪،‬حل‬
‫طلب اور مقدر چھوڑ جاتا ہے جو اپنی بیشتر صورتوں میں انسانی بے‬
‫درات میں وہ دھند‬ ‫حسی اور انسانی سفّاکی کو منتج ہوتے ہیں۔ انہیں مق ّ‬
‫بھی تہہ نشین ہے جسے ابہام سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔‬
‫ممتاز شیریں نے کہیں لکھا ہے کہ ‪:‬‬
‫’’منٹو کے افسانوں میں کوئی ابہام نہیں ‪ ،‬نہ کوئی پوشیدہ اشارے ہیں۔ نہ‬
‫کوئی پوشیدہ گتھیاں ہیں کہ ان کے سلجھانے میں دقت محسوس ہو۔ وقت‬
‫کے ساتھ ساتھ نئی تشریحیں اور تفسیر یں ہوں ‪ ،‬تہہ در تہہ معانی نکالے‬
‫سیدی اور برا ِہ راست نوعیت کی تحریریں ہیں ‪،‬‬ ‫ھ‬ ‫جائیں۔ یہ صاف کھلی‬
‫جن کا پیغام واضح ہے۔‘‘‬
‫دراصل ادب کا معاملہ ہی کچھ ایسا ہے کہ ادبیت اور ادبی روایت کا جبر‬
‫ی ما فی الضمیر کو ہمیشہ پیچھے دھکیل دیتا ہے۔ آخری تجزیے میں‬ ‫معان ِ‬
‫چیزیں کچھ کی کچھ شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ افسانوی اقلیم میں جہاں‬
‫زمان اور مکان کا اکثر سارا ‪ PHENOMENON‬واضح ہوتا ہے اور جو‬
‫افسانے کو ایک واحد ے میں ڈھالنے کے ضمن میں بالعموم ایک اہم عقبی‬
‫کردار ادا کرتا ہے۔ اس ابہام کو کم کرنے کے بجائے زیادہ شدید کرنے کی‬
‫طرف مائل رہتا ہے جو افسانہ نگار کے داخلی تجزیوں ‪،‬جا اور بے جا ‪،‬‬
‫گہانی اور ناگہانی مداخلتوں اور کبھی کبھی اکتشافی نوعیت کے مابعد‬
‫الطبیعاتی اور نفسیاتی بیانوں میں مضمر ہوتا ہے۔ افسانہ نگار کے لئے یہ‬
‫فریب دینے کے بڑے سہارے کہلتے ہیں۔ پھر یہ کہ اس ابہام کی نوعیت تو‬
‫شعری ابہام کا درجہ رکھتی ہے جو کردار کے تفاعل سے نمو پاتا ہے جس‬
‫کے لئے قاری ذہنی طور پر تیار اور آمادہ نہیں تھا۔ وہیں ابہام بھی ‪،‬ہر‬
‫قاری کے ساتھ ایک علحدہ ذہنی واقعے کے طور پر اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔‬
‫ممتاز شیریں کے اس خیال کے بر خلف مظفر علی سید کے نزدیک منٹو‬
‫اتنا واضح اور اتنا دو ٹوک نہیں ہے کہ آن کی آن میں اپنے آپ کو دوسروں‬
‫پر عیاں کر کے طمانیت کے نشے میں سرشار ہو جائے۔ منٹو تو مستقل‬
‫ڈسڑب کرنے کا نام ہے۔‬
‫منٹو نے نام نہاد مہذب و مقطع حضرات سے لے کر یونی ورسٹیوں کے‬
‫ب حل و عقد کو جس طور پر ڈسڑب کیا ‪ ،‬اس‬ ‫اساتذہ اور عدلیہ کے اربا ِ‬
‫کی نوعیت اور فکشن کے قاری میں ‪disturbance‬کی نوعیت میں بڑا‬
‫فرق ہے۔ فکشن کا یہ قاری وہ ہے جو محض ذہنی طمانیت اور جمالیاتی‬
‫اور روحانی آسودگی کے لئے ادب نہیں پڑھتا بلکہ زندگی میں یک دم‬
‫کسی واقعے کی رونمائی اور ناگہانی و اتفاقی وارداتوں سے پیدا ہونے‬
‫والے کشف کے تجربے یا ذہن و دل کو یک لخت صدمہ پہنچانے والے‬
‫وقوعوں اور ثانیوں میں جو زندگی کے غیر معمولی پن کا درک اسے‬
‫حاصل ہوتا ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہوتی ہے اور جو تھپکی دے دے کر‬
‫سلنے کے بجائے ہماری بے چینیوں میں اضافے کا موجب ہی بنتا ہے۔‬
‫مظفر علی سید نے جس کیفیت کو دانستہ تغافل برتنے سے تعبیر کیا ہے‬
‫وہ اصل ً اسی صدمے کا رد ّ عمل ہے اور جس کا اثر اتنا کاری ہے کہ منٹو‬
‫کو انگیز کرنا اب بھی ہم میں سے بہتوں کیلئے مشکل نظر آتا ہے۔‬
‫یہ خیال بے حد تکلیف دہ ہے کہ کسی تخلیقی فن کار کے اچھے ُبرے‬
‫معمولت کی روشنی میں اس کے فکر و فن کے محاسبے کی روش تا‬
‫جوش‪ ،‬اور یگان ؔہ وغیرہ کو بھی‬
‫ؔ‬ ‫ؔ‬ ‫ؔ‬
‫میر‪،‬غالب‪،‬‬ ‫ہنوز قبولیت کا درجہ رکھتی ہے۔‬
‫اکثر ان کی زندگی کی نا مقبول پہلوؤں کو بنیاد بنا کر بار ہا تختۂ مشق‬
‫حالی بڑی تاخیر کے بعد اور معذرت کے ساتھ بلکہ‬‫ؔ‬ ‫بنایا گیا۔ اسی بنیاد پر‬
‫ؔ‬
‫غالب‘‘ کی اشاعت کے لئے راضی ہوئے۔ یہ‬ ‫ل ناخواستہ ’’یاد گارِ‬
‫با د ِ‬
‫ضرور ہے کہ ہمارے اکثر فکشن کے سمیناروں میں منٹو کا نام بڑے افتخار‬
‫سے لیا جاتا ہے بلکہ اردو معاشرے کے لئے وہ ایک ‪status symbol‬کا حکم‬
‫رکھتا ہے۔ بالخصوص ہندوستان میں تواب یہ خیال جڑ پکڑتا جا رہا ہے کہ‬
‫ہماری کوئی بھی زبان نہ تو غالب جیسا شاعر پید ا کر سکی ہے اور نہ‬
‫منٹو جیسا کہانی کا ر۔ لیکن آئرنی )‪(irony‬یہ کہ یہ آوازیں جامعات کے اس‬
‫تعلیمی ماحول میں بھی بلند ہوتی ہیں جہاں منٹو کا داخلہ ممنوع ہے۔ اگر‬
‫کسی دباؤ کے تحت اسے شامل کر بھی لیا جاتا ہے تو بات نیا قانون اور‬
‫ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آگے نہیں بڑھتی۔ مظفر علی سید کا یہ خیال قطعا ً‬
‫درست ہے کہ‬
‫’’ہماری یونی ورسٹیوں میں اور سرکاری سطح پر منٹو ابھی تک شجر‬
‫ممنوعہ ہے۔‘‘‬
‫اس میں کوئی شک نہیں بقول مظفر علی سید کہ ’’ساری زندگی اس پر‬
‫مقدمے چلتے رہے یا چلئے جاتے رہے اور کسی نہ کسی شکل میں اب بھی‬
‫چل رہے ہیں۔ ان مقدموں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی اور وہ ملول‬
‫ہو کر بار بار خود فراموشی کی طرف لپکتا رہا‘‘۔ منٹو نے رد ّ عمل کے‬
‫طور پر خود فراموشی کو تو کبھی ترجیح نہیں دی۔ البتہ اس کے روی ّے‬
‫میں چڑ چڑ ا ہٹ ‪،‬ضد اور ہٹ دھرمی جیسی کیفیات ضرور شامل ہو‬
‫گئی تھیں بلکہ میں اسے اینگری ینگ مین کی غصہ وری اور برافروختگی‬
‫کا نام دوں گا۔ ایک ایسا ینگ مین جو بے حد کم زور واقع ہوا ہے اور‬
‫مختلف سماجی قوتوں کے اجبار ‪ compulsions‬اور شدید دباؤ کے تحت‬
‫جس کی ترجیح محض اپنے آپ سے نبرد آزما ہونے پر ہے۔ اسی لئے اس‬
‫نے اپنے احباب کا حلقہ بھی بہت محدود کر رکھا تھا۔ اس کے خلق کردہ کر‬
‫دار ہی اس کی انجمن سازی کے لئے کا فی تھے۔‬
‫ایک مستقل نا آہنگی جو اندر اور باہر کے درمیان واقع تھی اور جو‬
‫مستقل ً منٹو کے ذہنی اور روحانی تناؤ اور نفاق کا بھی سبب تھی اس کے‬
‫افسانوی فن میں واقع ضبط اور وحدت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اس‬
‫وحدت اور ضبط کو قائم رکھنے کی ا یک صورت غالب ؔ کے یہاں دکھائی‬
‫دیتی ہے جو خارج کے نفاق کو اس طور پر انگیز کر تا ہے کہ شعر کی‬
‫مجموعی صلبت متاثر نہیں ہوتی۔ میں نے ایک مضمون میں غالبؔ کے‬
‫ی عمل کو تطابق بہ نفی کے عمل سے موسوم کیا تھا جس کا‬ ‫اس فن ّ‬
‫اطلق من و عن منٹو کے فن پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ گردش جس کے‬
‫پیروں میں ہو ‪ ،‬آمدنی کی راہیں جس پر مسدود ہوں ‪،‬تس پر مسلسل‬
‫مقدمے بازی جس پر عائد کر دی جائے۔ ا س کے ذہنی انتشار اور روحانی‬
‫نفاق کو سوائے عذاب کے کچھ اور نام نہیں دیا جا سکتا۔ مظفر علی سید‬
‫نے اسی لئے منٹو کو ذاتی زندگی میں ناکام قرار دیا ہے۔ لیکن یہ نہیں بتایا‬
‫کہ منٹو کے افسانوی فن پراس بحران کی چھوٹ کیوں نہیں پڑی۔ اس‬
‫قسم کے حالت میں فن کار جذبوں کے غیر معمولی دباؤ کے تحت‬
‫لمحوں میں جینے پر قانع ہو جاتا ہے۔ فنی بافت جگہ جگہ سے کھلنے لگتی‬
‫ہے۔ دراصل منٹوں تخلیقی لمحوں میں اپنے آپ کو ایک مرکز پر مجتمع‬
‫کر لیتا ہے اور اپنی بوہیمین اسپرٹ کو پرکھنے کی توفیق سے بھی کا م‬
‫لیتا ہے تاکہ افسانے کی تخلیقی ہئیت اور تکنیک پر باہر کا نفاق اثر انداز نہ‬
‫ہو سکے۔‬
‫جہاں تک فیض کے بیان کا تعلق ہے وہ ان کی فکشن کی جمالیات سے‬
‫لعلمی کا نتیجہ ہے۔ فیضؔ اردو شاعری کی تاریخ کے تناظر میں عظیم‬
‫شاعر ہوں یا نہ ہوں۔ البتہ ہمارے عہد کے دو تین بڑے شعر ا میں ان کا‬
‫شمار کیا جانا چاہیے۔ منٹو کے فن کے بارے میں اسی شخص کی رائے کو‬
‫کوئی معنی دیے جا سکتے ہیں جو فکشن کے تقاضوں اور فکشن کی‬
‫تاریخ کے مختلف مراحل اور ادوار میں فن کے تفاعل کا علم رکھتا ہو۔‬
‫عبدالماجد دریآبادی یا ماہرالقادری ‪،‬نعیم صدیقی یا چودھری محمد‬
‫حسین تو خیر قابل معافی ہیں سردار جعفری تک فکشن کی جمالیات‬
‫اور اس کے تخلیقی تقاضوں اور تکنیکی مطالبوں کی فہم کم رکھتے‬
‫تھے۔ عزیز احمد سے یقینا ً منٹو کو سمجھنے میں بڑی چوک ہوئی۔ جس‬
‫عہد کا یہ قصہ ہے اس میں سوائے ممتاز شیریں کے )وہ بھی بعد میں (‬
‫کوئی اور منٹو اور فکشن کی فہم کی اہلیت نہیں رکھتا تھا ‪،‬اہلیت رکھتے‬
‫تھے محمد حسن عسکری‪،‬لیکن وہ منٹو کے لئے زیادہ وقت نہیں نکال‬
‫سکے ادھر ادھر کی باتیں بگھاریں اور آہستہ سے پتلی گلی سے پھوٹ‬
‫نکلے۔‬
‫ہم اپنے ادیبوں کو کیا کہیں وکٹورین عہد میں ہیون برن کی ‪Poems and‬‬
‫‪ballads‬پر جان ہارلی نے کم ضرر رساں قسم کی تنقید نہیں کی۔ لٹن‬
‫ہی نے نہیں رسکن جیسے سخت قسم کے اخلقی نقاد نے اسے قطعی بے‬
‫ضرر ٹھہرایا۔ لیکن یہ وہی ہیون برن تھا جس نے شیکسپئیر کے ‪Venus‬‬
‫‪and Adonis‬کو مذ موم قرار دیا تھا اور باڈ لر کی تلخیص کی پذیرائی‬
‫کی تھی جس میں ان اجزا کو نکال دیا گیا تھا جو بچوں کے اخلق کو‬
‫بگاڑ سکتے تھے۔ ڈاکٹر جانسن نے اسٹرن کے ناول ‪Tristram Shandy‬کو‬
‫بعض اجزا کے پیش نظر ناشائستہ مبتذل اور عامیانہ تک قرار دیا تھا۔ اس‬
‫قسم کی صورتیں ادیبوں کے نظریاتی اختلفات کے باعث ہمیشہ پیدا ہو‬
‫تی رہی ہیں۔‬
‫مظفر علی سید کا یہ سوال یقینا ً توجہ طلب ہے ‪:‬‬
‫’’اس پرسی کیوشن کی بہت سی جہتیں میں اور اس میں برطانوی‬
‫سرکار کے اہل کاروں کے ادبی نظریات کے علوہ دوسرے عناصر بھی‬
‫شامل ہیں۔ پنجاب کے اخبار تو چو دھری صاحب کی مٹھی میں تھے لیکن‬
‫دہلی اور بمبئی کے اخبارات نے کس کے زیر اثر یہی پرسی کیوشن کیوں‬
‫اختیار کی ؟‘‘‬
‫سب سے پہلے برطانوی اہل کاروں کو لیا جائے۔ میرے نزدیک جن کے اپنے‬
‫کوئی ادبی نظریات ہی نہیں تھے۔ اپنی حکومت بچانے کے لئے غلط صحیح‬
‫عمومی رائے کو وہ ان معنوں میں ترجیح دیتے تھے کہ ایک چھوٹی سی‬
‫بات کہیں بتنگڑ نہ بن جائے اور احتجاج ‪ ،‬بغاوت کی شکل نہ اختیار کر لے۔‬
‫دوسرے یہ کہ برطانیہ میں سرکاری احتساب کی تاریخ تقریبا ً ساڑھے چار‬
‫سو پانچ سو برس پرانی ہے۔ ‪۱۷۱۹‬ء میں جان میتھیوز کو ایک سرکار‬
‫مخالف جرم میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ ہمارے یہاں فرخ سیر پر‬
‫پھبتی کسنے کے الزام میں جعفر ز ٹلی کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا‬
‫تھا اور بدر السلم عباسی بدایونی کو انگریزوں کے خلف ایک نظم‬
‫لکھنے پر سولی کی سزا بھگتنی پڑی تھی۔ ڈینیل ڈفو کو ‪۱۷۰۳‬ء میں اور‬
‫ولیم کوبے کو ‪۱۸۱۰‬ء میں سخت سزا کا سامنا کر ناپڑا۔ ‪Puritans‬تو‬
‫تھیڑ ہی کے سخت خلف تھے بالکل اسی طرح جیسے ہندو اور مسلم‬
‫بنیاد پرستوں کی ہمارے دور میں بن آئی ہے۔ سرکاری خردہ گیری اور‬
‫حرف گیری کی ان مثالوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن کا تعلق سابق‬
‫سوویت روس ‪ ،‬ہنگری ‪ ،‬چیکوسلو یکیہ ‪،‬رومانیہ اور البانیہ سے ہے ‪۲۰‬ویں‬
‫صدی میں اینگلو امریکی عدلیوں میں یولیسس ‪،‬روتھ‪،‬لیڈی چٹر لیز لوور‬
‫اور دی لیڈیز ڈائریکٹری پر جو مقدمات چلے ان سے یوروپی ادب میں‬
‫آزادی اظہارکو زبردست تقویت ملی جب کہ لیڈی چٹر لیز لوور کی‬
‫فروخت پر اسی ‪Hicklin‬قانون کے تحت ہماری سپریم کورٹ نے پابندی‬
‫لگا دی جسے یونائیڈ اسٹیٹس نے بہت پہلے منسوخ کر دیا تھا۔ منٹو کو ان‬
‫برطانوی دفعات کا سامنا تھا جنہیں حکومت برطانیہ نے اپنی نوآبادیات پر‬
‫نافذ کر رکھا تھا۔ ہندوستانی پینل کو ڈ ‪ ۲۹۲‬کے تحت ہر وہ تحریر و‬
‫تصنیف احتساب کی مستحق قرار دی جا سکتی ہے جو فحش‬
‫‪،‬ناشائستہ ‪،‬تہذیب و اخلق کے مقررہ معیاروں کے خلف ہو یا جو شہوت‬
‫انگیز ہو یا جس سے سوسائٹی کے کسی طبقہ یا گروہ کے مذہبی عقائد و‬
‫جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ لیکن ہمارے عدلیہ نے اس نکتے کی‬
‫طرف توجہ نہیں کی کہ منٹو کے تقسیم وطن سے قبل جن تین افسانوں‬
‫)کالی شلوار ‪،‬دھواں اور بو( اور ٹھنڈا گوشت پر پاکستان میں مقدمات‬
‫چلے وہ اپنے پورے متون کے تناظر میں بحیثیت عام اور مروج مفہوم کے‬
‫فحش نہیں تھے۔ محض بعض جزئیاتی تفصیلت کی روشنی میں انہیں‬
‫احتساب کے لئق ٹھہرایا گیا تھا۔ اس امر پر غور نہیں کیا گیا کہ مجموعا ً‬
‫ان کی ادبی قدو قیمت کیا ہے ؟ مجموعا ً قاریانہ تاثر کی نوعیت کیا ہے ؟‬
‫جب ہندوستان میں لیڈی چٹرلیز لو ور پر مقدمہ چل رہا تھا تب ملک راج‬
‫آنند نے اپنی ‪ expert‬رائے میں یہ دلیل دی تھی کہ ناول ہذا ایک اہم ادبی‬
‫کارنامہ بلکہ کلسیک ہے۔ انہوں نے اسے فحش ماننے سے تو انکار کیا لیکن‬
‫تھیم کے لحاظ سے ناشائستہ بھی ٹھہرایا۔ جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ‬
‫ن قدر بھی رکھتا ہے۔ اسی نسبت سے فیصلوں اور‬ ‫ہر ادیب اپنی ایک میزا ِ‬
‫ترجیحات میں بھی کہیں کم کہیں زیادہ بے حد زیادہ ُبعد بھی پیدا ہو جاتا‬
‫ہے۔‬
‫منٹو نے چچا سام کے نام ایک خط بابت مورخہ ‪ /۱۶‬دسمبر ‪۱۹۵۱‬ء میں‬
‫ارسکاٹن گولڈول کے ناول کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس کے ناول ’’گوڈز لٹل‬
‫ایکڑ‘‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمہ بھی چل تھا۔ پاکستان جیسی‬
‫اسلمی مملکت میں منٹو اپنے فحاشی کے الزام کو عین ممکنات میں‬
‫سے بتاتا ہے لیکن اسے اس بات پر سخت حیرت تھی کہ چچا سام کی‬
‫امریکی جمہوریت کو کیا ہو گیا ہے۔ بعد ازاں گولڈ ول بری بھی کر دیا‬
‫جاتا ہے۔ منٹو اس جج کو غائبانہ طور پر عقیدت مندانہ سلم بھی پہنچاتا‬
‫ہے اور فیصلے کے آخری سطور کی تعریف کرتے ہوئے انہیں دہراتا بھی ہے۔‬
‫اگر پس نو آبادیاتی عدلیہ ان سطور ہی کو اپنی میز ان بنا لے تو بہت‬
‫سی کتابیں مرگھٹ کی راکھ بننے سے بچائی جا سکتی ہیں۔‬
‫’’میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ایسی کتابوں کو سختی سے‬
‫دبا دینے پر پڑھنے والوں میں خواہ مخواہ تجسس اور استعجاب پیدا ہوتا‬
‫ہے جو انہیں شہوت پسندی کی ٹوہ لگانے کی طرف مائل کر دیتا ہے۔‬
‫حالں کہ اصل کتاب کا یہ منشا نہیں ہے مجھے پورا یقین ہے کہ اس کتاب‬
‫میں مصنف نے صرف وہی چیز منتخب کی ہے جسے وہ امریکی زندگی‬
‫کے کسی مخصوص طبقے کے متعلق سچا خیال کرتا ہے۔ میری رائے میں‬
‫سچائی کو ادب کے لئے ہمیشہ جائز قرار دینا چاہیے۔‘‘‬
‫) جب کہ منٹو کو تین ماہ قید با مشقت اور تین سو روپے کی سزا دینے‬
‫والے جج کی رائے تھی کہ ’’سچائی کو ادب سے ہمیشہ دور رکھنا چاہیے (‬
‫مظفر علی سید کے اس خیال سے میں پوری طرف متفق ہوں کہ منٹو‬
‫فن کار کی آزادی کا نقیب تھا۔ حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ منٹو یا راشد‬
‫کی ذہنی ہم آہنگی ضرور تھی لیکن محض حلقے کے رکن بننے پر منٹو‬
‫زیادہ سے زیادہ اعجاز بٹا لوی بن سکتا تھا اور راشد کی شخصیت یوسف‬
‫ظفر اور قیوم نظر سے زیادہ گہری اور گمبھیر نہیں بن سکتی تھی۔ اس‬
‫عہد میں جو فن کا ر ان دونوں تحریکات کے بین بین چلے ان کی تخلیقی‬
‫صلحیتوں کی آزادانہ سطح پر نشو و نما ہو ئی اور انہوں نے زیادہ بہتر‬
‫طور پر اپنے تجربات کے سلسلے کو بر قرار و قائم رکھا۔ منٹو ‪،‬راشد اور‬
‫مجید امجد ہی نہیں اختر الیمان کو بھی اسی زمرے میں شامل سمجھنا‬
‫ب ذوق دونوں سے قبل ایک ایسی‬ ‫چاہیے۔ ترقی پسند تحریک اور حلقۂ اربا ِ‬
‫نسل وجود میں آ چکی تھی جسے ذہن و ضمیر کی آزادیاں عزیز تھیں‬
‫اور جو روایت کی رسمی پیروی کے برخلف نئے امکانات کی جستجو‬
‫میں تھی۔ البتہ ترقی پسند تحریک نے بین القوامی سطح پر ادیبوں کے‬
‫مابین باہمی روابط اور ان کے مسائل کی فہم کے لئے ایک راہ ضرور‬
‫دکھائی۔ روایت شکنی کے دعاوی کے باوجود لسانیات شعری کے لحاظ‬
‫سے اہم ترقی پسند شعرا کلسیکی آداب کا گہرا شعور رکھتے تھے۔ انہوں‬
‫نے قومی اور بین القوامی سیاسی مسائل اور انسانیت کشی جیسے‬
‫موضوعات کو بنیاد بنا کر شعر کے موضوعاتی کینوس کو نہایت وسیع‬
‫بھی کیا۔ حلقے نے خارجی مسائل سے پہلو تہی تو اختیار نہیں کی لیکن ان‬
‫کا اپنی بیش تر صورتوں میں اصرار داخلی غواصی پر ہی تھا۔ اسی‬
‫باعث ان کے تجربات میں دھند ‪،‬افسر دگی ‪،‬اور کہیں کہیں سریت ایک‬
‫حاوی کیفیت کے طور پر محیط ہو جاتی ہے۔ حلقے نے ہی نا راست زبان‬
‫کو ادبی زبان کے طور پر قایم کیا اور نئے اسالیب کے لئے راہیں بھی ہم‬
‫وار کیں۔ ہیئت کی طرف خاص توجہ کے باوجود میرا جی نے لوک‬
‫روایت ‪،‬کلسیکی ادبیت کے شعار فرانسیسی علمتی شاعری کے میلن‬
‫اور ذہنی گرہوں اور اعمال کے تعلق سے نئی نفسیاتی تحقیقات کے ایک‬
‫وسیع تناظر سے اپنی تخلیقی سرگرمی کو نئے معنی فراہم کرنے کی‬
‫سعی کی۔ ایک لحاظ سے ممتاز شیریں ‪،‬حسن عسکری اور انتظار‬
‫حسین کے حوصلوں کو تازہ دم رکھنے کا سراغ میرا جی اور ان کے حلقے‬
‫ہی سے ملتا ہے۔ تھوڑے بہت انسانی نفس اور کردار کی جو علحدہ‬
‫محسوس ہو تی ہوئی شناخت منٹو کے یہاں دستیاب ہے اسے میرا جی‬
‫سے ذہنی قربت کا نتیجہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ محض داخلی غواصی کا‬
‫عمل یا نفسیاتی اور مابعد الطبیعاتی نیز سیاسی و سماجی مسائل پر‬
‫انحصار کے معنی ان ل محدود امکانات پر قد غن لگا دینے کے تھے جو‬
‫بالعموم ذہنی آزادیوں کی فضا میں نمو پاتے ہیں۔ موضوعات کی جو‬
‫ب ذوق ہر دو تحریک سے وابستہ‬ ‫تحدید و تکرار ترقی پسند اور حلقہ اربا ِ‬
‫فن کاروں کے یہاں نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے منٹو ‪،‬راشد‬
‫اور اختر الیمان نے اس سے دہ چند دوری برقرار رکھی۔ ادبی تجربات‬
‫کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے کہ تجربہ کرنے والے اکثر نقصان میں رہتے ہیں۔‬
‫ان کے بعد کی نسلیں اپنے پیش روؤں کے ناکام یا کچے پکے تجربات سے‬
‫کامیابیوں کا فن سیکھتی ہیں یا وقت کا فاصلہ بصیرتوں اور وجدان کو‬
‫جس طو ر پر حساس تر بناتا ہے۔ اس حساسیت سے تجربہ کرنے والی‬
‫نسل اکثر محروم رہتی ہے۔ حال ؔی اور آزا ؔد کے تجربات نے اقبا ؔل اور میر ؔا‬
‫جی اور ترقی پسند شاعری کے ناکام تجربات نے راشد اور اختر الیمان‬
‫کو زیادہ بہتر تناظر فراہم کیا۔ مسائل کی نوعیت مختلف ہونے کے با‬
‫وصف منٹو حقیقت اور زندگی سے بہ باطن ہی نہیں بہ ظاہر بھی اتنا ہی‬
‫قریب تھا جتنا کہ ترقی پسند فکشن نگار تھے۔ میرے نزدیک دونوں‬
‫تحریکات سے اس کا ایک ایسا معنوی رشتہ ضرور تھا جو بعد اور یگانگت‬
‫کے خطرات اور امکانات کی فہم کا زائدہ تھا۔ مظفر علی سید بھی یہی‬
‫کہتے ہیں کہ‪:‬‬
‫’’منٹو کسی بھی ادبی تنظیم کی پیدا وار نہیں تھا نہ کوئی سماجی یا‬
‫ادبی اشاعتی یا سرکاری ادارہ کسی سچے ادیب کو جنم دے سکتا ہے۔‬
‫ادبی اور فکری تنظیم ایک تربیتی کردار یقینا ً ادا کر سکتی ہے اور یہ‬
‫فریضہ حلقۂ ارباب ذوق نے اپنی آز اد بحث کے ذریعے ضرور انجام دیا‘‘۔‬
‫ب ذوق کے ساتھ ترقی پسند تحریک کے نام کا اضافہ‬ ‫میں یہاں حلقہ اربا ِ‬
‫ضرور کرنا چاہوں گا۔ جس کے نا راست اثر نے منٹو کو محض لفظوں کے‬
‫جنگل میں گم ہو نے سے بچا لیا۔ مظفر علی سید کا یہ خیال بھی درست‬
‫ہے کہ باری علیگ کی صحبتوں اور روسی ادب کے تراجم نے اس کے ذہن‬
‫کو حقیقت فہمی کے ایک نئے اسلوب کی طرف پہلے ہی یعنی ترقی پسند‬
‫تحریک سے قبل ہی مائل کر دیا تھا۔ لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ‬
‫تحریک سے قبل انگارے کی اشاعت )‪(۱۹۳۲‬بھی عمل میں آ چکی تھی۔‬
‫کفن ‪ ،‬پد ما ‪ ،‬دو بیل اور پوس کی رات جیسے افسانے پریم چند کے قلم‬
‫سے ادا ہو چکے تھے۔ پریم چند اپنے بعض اداریوں اور مضامین میں گور‬
‫کی ‪ ،‬ٹالسٹائے او رپشکن وغیرہ کے بدلتے ہوئے محاورے کی طرف توجہ ل‬
‫چکے تھے۔ خود اختر حسین رائے پوری کا مقالہ ادب اور زندگی ‪ ،‬تحریک‬
‫سے پہلے بنگالی اور پھر اردو میں منظر عام پر آ چکا تھا۔ گویا منٹو کے‬
‫لئے حقیقت کو نئے طرز احساس کے ساتھ انگیز کرنے اور افسانوی‬
‫تکنیک کو مختلف طور پر برتنے کا ہنر اسی ‪phenomenon‬کی دین تھا۔‬
‫کرشن چندر نے جن الفاظ میں اور جس دور میں ’ہتک‘ کی تعریف کی‬
‫ہے وہ ان کی فکشن کی تنقیدی فہم کی بہترین دلیل ہے۔ انہوں نے‬
‫سوگندھی کی معصومیت اور عورت پنے کی طرف جو اشارہ کیا ہے۔‬
‫اسی میں ’ہتک‘ کی گنجانیت کا راز بھی مضمر ہے۔ ’ ہتک‘ کی افسانوی‬
‫تکنیک انفرادیت ہے جس نے اس افسانے کو ایک مختصر رزمیے میں بدل‬
‫دیا ہے۔ بو‪ ،‬دھواں اور ہتک کی جزئیاتی تفصیلت میں اجمال اور تلزموں‬
‫کے بہترین موقعیتی عمل نے اکثر و بیش تر جملوں میں جیسے‬
‫‪electrons‬بھر دیے ہوں۔ اور جیسے چقماق کے چھوٹے چھوٹے ذرات آپس‬
‫میں خود بخود ٹکرا رہے ہوں اور روشنیوں کے فوارے چھوڑتے جا رہے‬
‫ہوں۔ مظفر علی سید نے یہ کہہ کر کہ۔ ۔ ۔ افسانہ نگار محض اپنی سر‬
‫گذشت نہیں سناتا ناقابل تصدیق سچی کہانیاں نہیں کہتا‪ ،‬لیکن اس طرح‬
‫سناتا ہے کہ کسی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ کسی‬
‫خارجی شہادت کی ‪ ،‬سید عابد علی ‪،‬اوپندر ناتھ اشک وزیر آغا‪،‬رشید‬
‫جہاں اور انتظار حسین کا کافی و شافی جواب فراہم کر دیا ہے۔‬
‫مظفر علی سید کی طرح میرا بھی یہی خیال ہے کہ منٹو کی دنیا کو‬
‫محدود کہنے والوں نے یا تو منٹو کو پوری طرح پڑھا نہیں ہے اگر پڑھا ہے‬
‫تو وہ فکشن کی فہم رکھنے والے قاری نہیں ہیں۔ جن افسانوں کا حوالہ‬
‫سید صاحب نے دیا ہے ان کے علوہ بھی ایک اور بھری پری کائنات موجود‬
‫ہے جس میں تنوع ہی تنوع ہے۔ میں تنوع محض موضوعات کے حوالے سے‬
‫نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ اس کی تکنیکوں میں بھی بڑا تنوع ہے۔ آپ جنہیں‬
‫خاکے کہتے ہیں جنہیں خطوط کے نام سے موسوم کرتے ہیں وہ منٹو کے‬
‫افسانوی فن ہی کی کرشمہ سازی ہے۔ رام کھلون ‪ ،‬موتری‪ ،‬سڑک کے‬
‫کنارے ‪ ،‬خوشیا‪ ،‬دودا پہلوان ‪ ،‬یزید‪ ،‬گورکھ سنگھ کی وصیت ‪،‬جانکی‬
‫‪،‬باسط‪ ،‬شاردا‪ ،‬بلونت سنگھ مجیٹھا‪ ،‬آنکھیں‪ ،‬تقی کاتب ‪ ،‬کتے کی دعا ‪،‬‬
‫ہار تا چل گیا ‪ ،‬شریفین اور شیر آیا شیر آیا ‪ ،‬دوڑنا وغیرہ ایسے افسانے‬
‫ہیں جو تکنیک اور کردار سازی میں ہتک ہی کی طرح توجہ طلب ہیں۔‬
‫جہاں تک سمر سٹ مام کا تعلق ہے وہ دوسری سے چھٹی دہائی تک‬
‫انگریزی کا مقبول عام فکشن نگار رہا ہے اس نے تھوڑا بہت موپاساں کا‬
‫بھی اثر قبول کیا تھا لیکن وہ ‪cynic‬بھی تھا موپاساں کے یہاں ایک بے‬
‫دردانہ فہم ضرور قایم رہتی ہے جو اس کی غیر جذباتیت کی دلیل ہے۔‬
‫مام کے یہاں غیر جذباتیت سگ خوئی تک پہنچ جاتی ہے۔ منٹو کے تھیم‬
‫کتنے ہی دماغ پاش ہوں‪ ،‬وہ اظہار و اسلوب میں ہر جگہ ضبط وار تکاز کو‬
‫بر قرار رکھتا ہے۔ مظفر صاحب نے منٹو کی نثر کی جس کٹیلی خوبی کا‬
‫ذکر کیا ہے وہ البتہ فلبیر اور موپاساں کی یاد دلتی ہے۔ یہی وہ نثر ہے‬
‫لقی جس کے‬ ‫جسے فکشن کی مثالی نثر سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور خ ّ‬
‫ایک ایک مسام میں رچی بسی ہوئی ہے۔‬
‫س مزاح‪،‬درد مندی ا ور سبک طنز‬‫اوہنری کی سی انسان دوستی ‪،‬ح ّ‬
‫صہ ہیں لیکن تھوڑی سی زہر خند اور‬
‫منٹو کے اسلوب کا بھی خا ّ‬
‫واسوخت کی اس صورت نے تحت المتن میں جگہ ض۔ رور بنا لی ہے جو‬
‫اکثر مام کے یہاں اونچی آواز میں لعن طعن کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔‬
‫بالخصوص چچا سام کے خطوط میں سیاسی آئرنی کو جس طور پر‬
‫منٹو نے نمایاں کیا ہے اور بار بار پاکستان اور امریکہ کے اقتصادی ‪،‬اخلقی‬
‫‪،‬سیاسی اور تہذیبی افتراق کو نمایاں کیا ہے ‪،‬اس کا اطلق پوری نام نہاد‬
‫تیسری دنیا کی اقتصادی بدحالی و پس ماندگی پر کیا جا سکتا ہے۔ منٹو‬
‫ت‬‫‪،‬بقول مظفر علی سید ‪،‬اپدیش نہیں دیتا‪،‬اسباب نہیں بتاتا صرف صور ِ‬
‫حال پیش کر دیتا ہے۔‬
‫یہ خیال اور بحث کوئی معنی نہیں رکھتی کہ منٹو نے کوئی بڑا ناول کیوں‬
‫نہیں لکھا۔ پو یا اوہنری یا موپاساں یا چیخف سے کسی مغربی نقاد نے‬
‫اس قسم کا سوال نہیں کیا۔ کیا یہ سوال قایم کیے جا سکتے ہیں کہ‬
‫ن‪.‬م‪.‬راشد یا اختر الیمان نے غزل کیوں نہیں لکھی ؟ یا یہ سوال کہ‬
‫مجروح ؔ یا فان ؔی نے کوئی نظم کیوں نہیں لکھی؟ غال ؔب کو کوئی ایک‬
‫مکمل مرثیہ تو لکھنا ہی تھا ؟ وغیرہ وغیرہ یہ تمام سوالت بے محل بلکہ ل‬
‫یعنی ہیں۔‬
‫لرنس نے یہ ضرور کہا تھا کہ اپنے قریبی معاصر ین سے منافرت برتنا‬
‫چاہیے۔ لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ ہیر لڈ بلوم نے اپنی تصنیف کا نام ہی‬
‫‪(The anxiety of influence(1973‬رکھا ہے۔ اس کا تجزیہ تحلیل‬
‫نفسی کی بنیاد پروان چڑھنا بڑا مشکل ہو تا ہے۔ بیٹے کو اپنی جگہ بنانے‬
‫کے لئے باپ کو ’ مخالف ‘کے طور پر دیکھنا لزمی ہو جاتا ہے جب ہی وہ‬
‫اپنے انفراد کو قایم کر سکتا ہے بالعموم شاعر اپنے ماضی کے بڑے شاعر‬
‫سے پوری قوت کے ساتھ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اسے عقیدت مندانہ‬
‫محبت کا دم بھرتے ہیں بلکہ ا س سے منافرت بھی کرتے ہیں ‪،‬اس سے‬
‫خوف بھی کھا تے ہیں۔ بلوم کہتا ہے کہ منافرت اور خوف کا یہ رویہ ہی‬
‫پس رو شاعر کو رد و انکار کے عقب کے لئے اکساتا ہے تاکہ اس کی اپنی‬
‫انفرادیت کی راہیں روشن ہو سکیں۔ دراصل انکار کے عقب ہی میں‬
‫اقرار بھی چھپا ہو تا ہے۔ کوئی ایک متن ہی نہیں بلکہ تاریخ ادب کے تقریبا ً‬
‫تمام اہم متون تہ بہ تہ روایت کے تسلسل کے ساتھ ایک دوسرے متون پر‬
‫اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں اثر کاری کی نوعیت انتہائی غیر محسوس‬
‫اور غیر شعوری کی بلکہ لشعوری ہو تی ہے۔ اور کہیں شعوری ہر متن‬
‫جو قرات کے تجربے سے گزرتا ہے تخلیق کا رکے وجدان کا حصہ بن جاتا‬
‫ہے۔ اس کے ذرات جا بجا ہانٹ کرتے ہیں اور دیگر متون کے رگ و پے میں‬
‫سرایت کر جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر نہ تو منافرت کو کلیہ بنایا جا سکتا ہے‬
‫اور نہ عقیدت کو۔‬
‫منٹو کوئی پیغام نہیں دیتا۔ اگر کوئی یہ سوال کرتا ہے تو ہمیں یہ سمجھنا‬
‫چاہیے کہ وہ ادب کی تخلیقی نفسیات ہی سے ناواقف ہے۔ منٹو کی خلق‬
‫کردہ عورت بھی کوئی پیغام نہیں ہے۔ وہ تواسی طرح مخلوق ہے جس‬
‫طرح کہ باسط ہے ‪،‬بابو گوپی ناتھ ہے ‪،‬شنکر اور ودوا پہلوان ہے۔ اس کے‬
‫ہر کردار میں کوئی خامی ضرور ہے۔ وہ کبھی انکشاف بن جاتا ہے اور‬
‫کبھی سوال۔ داخلی ہی نہیں اکثر خارجی جبر بھی اس کے کردار کو‬
‫مخدوش کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ تضاد ہی آئرنی کے تاثر کو گہرے‬
‫معنی بھی عطا کر تا ہے اور یہ چیز منٹو کے تقریبا ہر افسانے کے اسلوب‬
‫میں جو ہر کی طرح بر سر کار ہے۔‬
‫راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں میں نامانوس‬
‫علحدگیوں اور رفاقتوں کا تناؤ‬

‫ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے ‪ types‬کے سینے حوصلے سے بھر دینے‬
‫کی سعی کی تھی کہ انھیں بالخر ایک چو مکھی جنگ لڑنا ہے۔ ایسے‬
‫کردار اکثر اپنے آپ میں پیراڈکس کی عبرتناک مثال بن گئے ہیں۔ راجندر‬
‫سنگھ بیدی نے جس انسان پر فوکس کیا ہے وہ عام ہے‪ ،‬نزدیک ہے لیکن‬
‫ایک محسوس ترین فصل کا حامل بھی ہے۔ انھوں نے کرشن چندر کے‬
‫مضبوط کاٹھی کے انسان کی باطنی دراڑوں پر نگاہ ڈالی ہے۔ کرشن‬
‫چندر نے اس پر بہ یک وقت کئی محاذ کھول دئیے تھے۔ ان سے قبل پریم‬
‫چند نے اپنے کرداروں کو مسلح اور شاطر دشمنوں کے بیچ چھوڑ دیا تھا۔‬
‫مگر انھیں جنگ کے اصول سکھائے تھے نہ بلند حوصلگی کا درس دیا تھا۔‬
‫وہ خوف زدہ اور کمزور ہیں‪ ،‬ان کی حدود متعین ہیں‪ ،‬ان کی راہ مبہم‪،‬‬
‫پریم چند کبھی کبھی ان کا نفسیاتی تجزیہ ضرور کرتے ہیں لیکن کردار‬
‫خود اپنے آپ کے نفس اور فطرت و کائنات کے پس منظر میں اپنی‬
‫خودی‪ ،‬اپنے وجود اور اپنی اہمیت‪ ،‬حتی کہ اپنی قدر کا احساس کر پاتے‬
‫ہیں نہ سراغ لگا پاتے ہیں۔ کہیں کہیں مثل ً ’’پوس کی رات‘‘‪’’ ،‬مس پدما‘‘‬
‫اور ’’کفن‘‘ وغیرہ میں ایک دوسری ہی دنیا بسی بسی دکھائی دیتی ہے۔‬
‫یہاں دھارے ایک دوسرے کو کاٹتے بھی ہیں۔ کہیں کہیں اپنے اناء اور اپنے‬
‫ہونے کا ہلکا سا شعور بھی روشن ہو تا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر پریم‬
‫چند کا انسان پس ماندہ ہے اور سارا دکھ یہ ہے کہ وہ معاشی سطح پر ہی‬
‫پس ماندگی کا شکار نہیں ہے بلکہ ذہنی طور پر بھی پس ماندہ ہے۔ وہ اگر‬
‫باغی ہے تو اس قدر کہ سارا جلل اس میں سمٹ آتا ہے اور پورا افسانہ‬
‫انتہائی سطحی جذباتیت کا شکار ہو کر ‪ sensational‬یا میلوڈرامٹک‬
‫شکل اختیار کر لیتا ہے یا پھر اس کے کردار فرسودہ اخلقی قدروں پر‬
‫خود کو بڑی آسانی اور بڑی سہولت کے ساتھ قربان کر دیتے ہیں۔ پریم‬
‫چند کے کردار خواہ وہ اپنے حقوق کے لیے لڑیں یا مشترکہ خاندان کے‬
‫لزمی تناؤ سے گزریں‪ ،‬کسی بھی جنگ کے بعد جب ان کی موت واقع‬
‫ہوتی ہے تو وہ موت فطری محسوس نہیں ہوتی بلکہ ایسا لگتا ہے جیسے‬
‫اسے ان پر مسلط کیا گیا ہے اور اس طور پر وہ ناگہانی کم خود کشی‬
‫کے مترادف زیادہ ہے۔ پریم چند انھیں یہ سبق نہیں دے سکے کہ کب جبر‬
‫ظلم بن جاتا ہے اور برداشت گناہ۔ مزاحمت کی موت بہر حال سپردگی‬
‫کی موت سے کئی درجہ بلند ہے۔‬
‫بیدی نے پریم چند سے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ کہیں کہیں یہ گمان بھی‬
‫ہوتا ہے کہ پریم چند کے کرداروں نے ایک نیا جنم لے لیا ہے۔ مثل ً ’’گرہن‘‘‪،‬‬
‫’’من کی من میں‘‘‪’’ ،‬دیوالہ‘‘ اور ’’منگل آشتکا‘‘ وغیرہ کہانیوں میں پریم‬
‫چند کے دکھی دل کی پکار عود کر آئی ہے۔ نیم متوسط اور نچلے طبقے‬
‫کے اپنے اوہام اور شکوک‪ ،‬تنازعے‪ ،‬شکایتیں‪ ،‬محبتیں اور نفرتیں۔ ان میں‬
‫اور ان کے علوہ دیگر چند کہانیوں میں مشترک ہیں۔ لیکن بیدی اپنی‬
‫درمیانی ساعتوں میں رمز آگیں تعطلت‪ ،‬غیر متوقع ‪ cuts‬اور وقت کی‬
‫الٹ پلٹ‪ ،‬نفسیاتی توضیحات اور علمتی تلزموں سے اس طور پر کام‬
‫لیتے ہیں کہ پریم چند کے افسانے کا مجموعی اسٹرکچر بہت پیچھے رہ جاتا‬
‫ہے۔ ایک اچھا افسانہ اپنے آخری لمحوں میں ادراک کی غیر معمولی قوت‬
‫کا مطالبہ کرتا ہے اور اس لحاظ سے پریم چند کی آسودگی پسند طبیعت‬
‫نتیجے کی افسانویت کو قائم رکھنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ بیدی کے‬
‫افراد کا ُرخ اس نواح میں باطن کی طرف ہے اور وہ اپنی خودی سے ایک‬
‫نئی نہج سے متعارف ہوتے ہیں کہ ایک نئے اخلقی سیاق میں انھیں ایک‬
‫مختلف طور پر زندگی کرنا اور زندگی کی تعذیب جھیلنا ہے۔ یہ رشتے‬
‫مختلف ہیں اور ان کا سارا پس منظر ہی مختلف ہے۔ زندگی نہ تو اتنی‬
‫سادہ رہی کہ پریم چند کی نظر اس کی ساری مکاریوں اور پہلوداریوں‬
‫صہ بنا سکے اور نہ اتنی مستقیم کہ پہلی نظر میں اس‬ ‫کو اپنی فہم کا ح ّ‬
‫کے سارے انسلکات اور اس کی ساری پیچیدگی سے آگہی حاصل ہو‬
‫جائے۔ بیدی نے پریم چند کی خلقت کو تربیت نہیں دی ہے بس انھیں ایک‬
‫دوسرے جہنم میں جھونک دیا ہے۔ اس جہنم کے مسائل پریم چند کے جہنم‬
‫سے مختلف اور پیچیدہ ہیں۔ پریم چند کے افراد نے صعوبت پائی تھی‬
‫تعذیب نہیں۔ انہوں نے جسمانی عذاب جھیلے تھے۔ ذہنی اور نفسیاتی‬
‫زلزلوں سے ان کا گزر کم ہی ہوا تھا۔‬
‫بیدی کے یہاں رشتوں کی ساری منطق ہی بدل گئی ہے۔ متوسط اور نیم‬
‫متوسط درجے کے خاندان ان کی اقتصادی بد حالی‪ ،‬ان کی جذباتی‬
‫کشاکشیں‪ ،‬ان کی شیطانی مگر فطری ہیجانات‪ ،‬وقت و حالت کی ستم‬
‫ظریفیوں کے مابین اپنی انفرادیت کی جستجو‪ ،‬خارج کے ایک مختلف‬
‫دباؤ اور اس کے سامنے باطن کی اپنی آواز‪ ،‬متداول اخلقی قدروں سے‬
‫ذہن و ضمیر کی نا وابستگی‪ ،‬واہمے کا تانڈو ناچ‪ ،‬اتفاقات کی ہمیشہ یک‬
‫طرفہ عمل داری‪ ،‬یہ ہیں بیدی کے افسانوی فینو مینا کے چند پہلو نیز یہ کہ‬
‫حقیقت کے المناک پہلو انھیں کبھی نہیں بھولتے۔ پریم چند نے اپنے المیے‬
‫کی حدود‪ ،‬مختلف رکھی تھیں۔ ان کے کردار اپنا سراغ نہیں لگا پائے تھے۔‬
‫ان کا جسم )مگر نصف( ان کی سب سے بڑی مملکت تھا۔ عزت نفس‬
‫کا مسئلہ تھا مگر ایک خاص حد رکھتا تھا۔ انا کا احساس تھا مگر اس کا‬
‫راستہ سوکھے ہوئے شکم سے ہو کر جاتا تھا۔ عظیم انسانی المیوں اور‬
‫پسپائیوں کے بجائے پریم چند کی مخلوق کا مسئلہ جس قدر اجتماعی تھا‬
‫اسی قدر ذاتی بھی تھا۔ پریم چند نے انھیں بھرپور زندگی جینے کا درس‬
‫نہیں دیا تھا۔ بیدی نے بھی بھرپور زندگی جینے کا درس نہیں دیا ہے اور وہ‬
‫ان نا مانوس علحدگیوں اور رفاقتوں سے آگاہ بھی نہیں ہیں۔ جنھیں پہلے‬
‫بھی بھوگا گیا تھا مگر انھیں کوئی نام نہیں دیا گیا تھا۔ بیدی اپنی پہلی‬
‫سطح پر ایک دوسرے سے وابستہ اور ایک دوسرے میں شامل افراد کی‬
‫بستیاں آباد کرتے ہیں۔ انھیں خوابوں کا حوصلہ دیتے ہیں یقین کی چمک‬
‫دکھاتے ہیں حتی کہ ان کے سینے دھڑکنے لگتے ہیں۔ ان کے مساموں سے‬
‫آنچ آنے لگتی ہے۔ وہ اپنی زندگی جینے کے درپے نظر آتے ہیں اور پھر‬
‫دوسرے ہی مرحلے پر بیدی کی وہ جانبدار فطرت بیدار ہو جاتی ہے جسے‬
‫زندگی کی نامانوس علحدگیاں رقم کرنے میں لطف آتا ہے۔ زخموں کے‬
‫کھرنڈ چھیلنے میں جسے تسکین ملتی ہے۔ آن کی آن میں تقدیر کا دھارا‬
‫اپنا ُرخ موڑ لیتا ہے۔ اختیار دھرے رہ جاتے ہیں اور بیدی کی نگاہ انسان کی‬
‫کوتاہیوں‪ ،‬مجبوریوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ انسانوں سے بھرے پرے‬
‫معاشرے میں ایک فرد کی بے بسی‪ ،‬علحدگی‪ ،‬بے گانگی اور نا طاقتی‪،‬‬
‫روحانی‪ ،‬نظری یا ماورائی سطح پر نہیں بلکہ واقعی سطح پر ایک عظیم‬
‫آئرنی کا احساس دلنے لگتی ہے۔ بیدی خارج کا کردار ‪ understood‬مان‬
‫کر چلتے ہیں۔ وہ تمام قوتیں جو باہر سے اثر انداز ہوتی ہیں اور اندر ہی‬
‫اندر آدمی کو توڑ تی بکھیرتی رہتی ہیں بیدی انھیں نام نہیں دیتے بلکہ‬
‫نتائج کے ذریعے ان تک پہنچنے اور انھیں جاننے کی ترغیب دیتے ہیں۔‬
‫ُاردو افسانے کی تاریخ میں بیدی سے قبل کسی نے انسانوں کے مابین‬
‫نامانوس علحدگیوں اور رفاقتوں کی طرف اشارہ نہیں کیا تھا اور نہ‬
‫کسی نے انھیں مسئلہ بنایا تھا۔ انسانی وابستگیوں کی منطق سیدھی اور‬
‫ستواں نہیں ہوتی۔ ایک رشتہ کبھی کبھی بغیر کسی سبب دوسرے رشتے‬
‫پر اثر انداز ہو جاتا ہے اور پرانی وفاداریاں‪ُ ،‬پرانے لفظ بے اوقات ہو کر رہ‬
‫جاتے ہیں۔ انسانی شرکتیں اپنی تمام نیک نیتی کے باوجود مکمل نہیں‬
‫ہوتیں۔ ان میں بہ ظاہر ایک استقلل ایک استحکام کا شائبہ ہوتا ہے۔ وہ‬
‫رفاقتیں ہمیں اپنے اٹوٹ پن کا یقین دلتی ہیں اور ہم اس خارجی مدنی‬
‫نظم کو انسانیات کی سب سے بڑی عطا گرداننے لگتے ہیں۔ اصل ً ہر‬
‫انسان کی اپنی ذات کا سیاق اپنی تخلیق کردہ اخلقیات پر منتج ہے۔‬
‫معاشرے کی متداول اخلقیات ہمیشہ ایک آگاہ و نیم آگاہ ذات کے لیے‬
‫مسئلہ بنی رہتی ہے۔ بیدی نے اس مسئلہ کو بے حد واقعی اور محسوس‬
‫سطح پر اخذ کیا ہے۔ گویا یہ مسئلہ محض مذکورہ بال آگاہ و نیم آگاہ ذات‬
‫ہی سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ایک عام آدمی بھی از سرِ نو اپنے تجربے کی‬
‫کوکھ سے جنم لے سکتا ہے۔ وہ کبھی آہستہ آہستہ بے خبری سے با خبری‬
‫کی حدود میں داخل ہوتا ہے اور کبھی یکایک اس پر بلوغت کے دروازے‬
‫واہو جاتے ہیں۔ چیزوں کا ایک نیا ُرخ اس کے سامنے آجاتا ہے۔ حقائق کی‬
‫نئی سطحیں اس پر روشن ہو جاتی ہیں۔ سچ کے سارے جھوٹ اور‬
‫جھوٹ کے سارے سچ اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ زندگی ایک دوسری‬
‫زندگی کا روپ دھارن کر لیتی ہے۔ آسان بھی مشکل بھی۔ اپنے طور پر‬
‫جینا یا اپنی فطرت کے مطابق زندگی کرنا رشتے بنانا یا رشتے قائم کرنا‬
‫تہذیبی تناسب کے منافی سمجھا جاتا ہے۔ اپنی شناخت اپنی سزا ہے۔‬
‫بیدی نے اپنے کرداروں کے مابین جہاں ایک نا آہنگی سی قائم کر رکھی‬
‫ہے۔ اس کی بنا کرداروں کا اپنا تخلیق کردہ طریق رسائی بھی ہو سکتا‬
‫ہے۔ اپنی فطرت کی کوئی خامی بھی باہمی غلط فہمی یا دوسرے کی‬
‫ذات پر مکمل اعتقاد و اعتماد بھی کہیں اپنے طور پر جینے کا عمل‬
‫انسان کو ایک ساتھ کئی رشتوں سے کاٹ دیتا ہے اور وہ کمزور محض ہو‬
‫کر رہ جاتا ہے۔ کہیں آگہی کی ایک روشن لکیر اس طور پر نمودار ہوتی‬
‫ہے کہ انسان کو ایک نئی راہ لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ بیدی نے‬
‫علحدگیوں کے المیے بیان نہیں کیے ہیں بلکہ اپنی پوری رفتار کے ساتھ‬
‫اس تناؤ کو پیش کیا ہے جو انسانی رشتوں اور رفاقتوں کے مابین آپ ہی‬
‫آپ جگہ بنا لیتا ہے اور ایک نقطہ آہستہ آہستہ پھیل کر پوری انسانی‬
‫سائیکی اور رابطوں پر محیط ہو جاتا ہے۔‬
‫’’من کی من میں‘‘ مادھو کلکارنی اور امبو مل کر ایک ترکون بناتے ہیں۔‬
‫کلکارنی کا مسئلہ امبو ہے۔ امبو کا مسئلہ مین میڈ سوسائٹی جہاں عورت‬
‫دیوی بھی ہے اور داسی بھی‪ ،‬مرد کا حصہ انصاف ہے اور عورت رحم‪،‬‬
‫مرد جلل اور غضب ہے‪ ،‬عورت جمال اور معافی ہے۔ گھر کے اندر وہ‬
‫کلموہی حالں کہ اسے مہیل بھی کہا گیا ہے اور مہہ کے معنی پوجا کے ہیں‬
‫اور وہ جو عبادت کے لئق ہے۔ وہ جو ایک طاقت ہے‪ ،‬آنند ہی آنند ہے۔ جس‬
‫کا ایک خفیف سا تبسم تخلیق کا ایک لزوال سرچشمہ ہے اور جس کی‬
‫ذہانت کا لوہا رشی منی مانتے آئے ہیں۔ وہی عورت کبھی رانو بن کر‬
‫حالت کی دھری پر بے محابا گردش کرنے پر مجبور محض دکھائی دیتی‬
‫ہے۔ کبھی امبو بن کر بد نصیب‪ ،‬خانماں برباد‪ ،‬سوت کہلنے لگتی ہے۔‬
‫کلکارنی ایک کم فہم‪ ،‬رسوم کی ماری ہوئی وہم پرست عورت ہے۔ امبو‬
‫کو اس کی بیوگی نے زندگی کو ایک دوسرے انداز سے سمجھنے والی‬
‫نگاہ عطا کی ہے۔ اس کے دائیں بائیں کوئی نہ تھا وہ اکیلی تھی اس لیے‬
‫قدم قدم پر اسے اپنی سوچ سے کام لینا پڑتا ہے۔ کوئی بھی سہارا یا‬
‫سہارے کی امید آدمی کو کمزور اور کاہل بنا دیتی ہے۔ آدمی ذمہ داریوں‬
‫سے بچنا چاہتا ہے۔ چاروں طرف سے کٹا ہوا انسان بے حد حساس‪،‬‬
‫دوربین اور معاملہ فہم ہوتا ہے۔ وہ خطرناک بھی ثابت ہو سکتا ہے کیوں کہ‬
‫انسانی احتیاج و اغراض ہی انسان کو ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھتے‬
‫ہیں کہ انسان اپنی انفرادیت میں بے بس اور بے چارہ ہی ہے۔ لیکن جب‬
‫کوئی اپنے کو مرکوز و محدود کر لے اپنے نفس کو مارنے لگے‪ ،‬خواہشیں‬
‫پروان نہ چڑھائے‪ ،‬ضرورتوں کی ایک حد قائم کر لے تو واقعتا ً ایسا انسان‬
‫خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ مطلق اور خود کار بھی۔ امبو کی حد یہ نہیں‬
‫ہے۔ وہ بے بس اور تنہا ہے اور با شعور ہے۔ مادھو اس کا ہمدرد بن جاتا ہے‬
‫اور یہ ہمدردی جو ایک مرد کی ہمدردی ہے امبو کی زندگی امبو کی‬
‫طاقت بن جاتی ہے۔ کلکارنی کا غضب اور مادھو کے لیے موت۔ مادھو کی‬
‫ہمدردانہ فہم اس کا فیٹل فل ہے جو یقینا ً تعظیم کے قابل ہے۔ تحسین کے‬
‫لئق ہے۔ لیکن مادھو مکر سے بعید ہے معاملہ فہمی سے عاری۔ اگر وہ‬
‫کلکارنی کے ساتھ مکر سے کام لیتا تو یقینا ً بہت دیر اور دور تک وہ امبو‬
‫کا ساتھ دے سکتا تھا۔ کلکارنی اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جانتی کہ‬
‫مادھو اس کا حق ہے مگر مادھو نے جس طور پر اپنا سراغ لگایا ہے وہ‬
‫اسی کے مطابق زندگی جینا چاہتا ہے۔ اس کا سراغ اس کا اپنا اندرونی‬
‫دباؤ اور اندرونی کش مکش ہے۔ ایک مستقل تناؤ کے بیچ اس کا وجود‬
‫ہچکولے کھا رہا ہے۔ کلکارنی کو وہ ‪ educate‬نہیں کر سکتا تھا مگر مکر‬
‫کے ذریعے دھوکے اور دھند میں ضرور رکھ سکتا تھا۔ امبو سے وہ جس‬
‫شرافت سے پیش آتا ہے کلکارنی کے باب میں اس کی ضرورت نہ تھی۔‬
‫اور یہ شرافت ہی کلکارنی اور اس کے بیچ ایک فصلی خط کھینچ دیتی‬
‫ہے۔‬
‫’’چھوکری کی لوٹ‘‘ اصل ً ایک ِانی سیشن افسانہ ہے۔ پرسادی رام ایک‬
‫بڑے عرصے تک اپنی کیفیت کے اصل نا معلوم جز کو سمجھنے سے قاصر‬
‫رہتا ہے۔ ایک خاص عمر اور اس عمر کا جذباتی تناؤ اسے حقیقت کے اس‬
‫حیرتناک پہلو سے آگاہ کرتا ہے جو بعد ازاں اس کے ’’معلوم‘‘ کا حصہ بننے‬
‫پر تذبذب کے ایک دوسرے تجربے سے دوچار کراتا ہے۔ البتہ یہ ’’معلوم‘‘ کا‬
‫تذبذب اور حیرانی نا معلوم کے تذبذب اور حیرانی سے قدرے کم تر ہے۔‬
‫صرف ایک آگہی پرسادی کے تصور کو تبدیل کر دیتی ہے‪ ،‬ایک تجربہ اپنے‬
‫پیش رو تجربے سے متصادم ہوتا ہے۔ حقیقت کی ایک نئی سطح اجاگر‬
‫ہوتی ہے۔ اپنے آپ سے ایک نیا تعارف ہوتا ہے۔ حیات و کائنات سے ایک نئے‬
‫تعلق کی راہ پیدا ہوتی ہے۔ پرسادی رام کے بالمقابل رتنی پر آگہی کا‬
‫باب بہت پہلے وا ہو چکا ہے۔ وہ اپنی ارد گرد کی نا آہنگیوں میں ایک آہنگ‬
‫کی تلش میں سرگرداں بھی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی لوٹ کے بعد وہ‬
‫پرسادی رام کے تناؤ کو سمجھ نہیں پاتی۔ لیکن پرسادی رام ہی وہ ہے‬
‫جس نے ماضی میں برقت اسے اپنے آپ سے آگاہ بھی کیا ہے اور اس کے‬
‫لیے ڈھال بھی بنا ہے۔ اسی لیے شادی کے کچھ دنوں کے بعد جب وہ اپنے‬
‫گھر لوٹ کر آتی ہے تو بے تحاشا پرسادی رام کو چومتی ہے‪ ،‬پیار کرتی‬
‫ہے اور ساری رات اسے پیار سے بھینچتی رہتی ہے۔ پرسادی رام کی بے‬
‫نام سی جذباتی کشمکش اصل ً اس کی عدم شناخت کا نتیجہ ہے۔ اسی‬
‫عدم شناخت کے باعث پرسادی رام کے دل میں رتنی کے تئیں شکوک و‬
‫وسوسے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ رتنی )جو کہ غیر ذات بھی ہے( اور خود کے‬
‫مابین رسمی فصل کو کوئی نام نہیں دے پاتا جو بہر حال ان دونوں کو‬
‫علحدہ کر رہا ہے۔ اسی لیے اپنی نامانوس علحدگی‪ ،‬پر سادی رام کا ایک‬
‫ایسا جذباتی مسئلہ بن کر ابھرتی ہے جس سے رتنی کی شادی کے بعد‬
‫ہی چھٹکارا ملتا ہے۔‬
‫’’تل دان‘‘ کے بابو کا سارا کرب درجہ بندیوں اور دوسرے لفظوں میں‬
‫علحدگیوں کا کرب ہے۔ قبل از وقت اسے اپنی سطح کی شناخت ہو‬
‫جاتی ہے اور اس شناخت کا سرچشمہ سکھ نندن ہے۔ دونوں ہم عمر اور‬
‫ہم سایے ہیں۔ آگہی اور نا آگہی کے فصل کو بابو ایک جست میں طے نہیں‬
‫کر لیتا بلکہ آہستہ آہستہ مگر قبل از وقت وہ دو گھروں‪ ،‬دو افراد کے مابین‬
‫واقع ہونے والے خط تنسیخ کو محسوس کرتا ہے۔ اگر سکھ نندن کی‬
‫رفاقت اسے میسر نہ آتی تو اسے اپنی کم حدود اور اپنے ماں باپ کی بے‬
‫بضاعتی کا احساس اتنی جلد نہ ہوتا۔ بیدی کا فن شیشہ گری کا فن ہے‬
‫’’تل دان‘‘ میں بیدی نے بڑی سلیقگی اور باریکی کے ساتھ افسانوی‬
‫گراف خلق کیا ہے۔ سکھ نندن ہی نہیں بابو کی ماں کا بھی یہ المیہ ہے کہ‬
‫وہ بابو کے اصل تنازعے کو سمجھنے والی نگاہ سے محروم ہے بابو ایک‬
‫ٹائپ طبقے سے وابستہ ہونے کے باوجود اپنی انفرادیت کے راز کو پا لیتا ہے‬
‫اور یہ انفرادیت اس کی آگہی ہے جس نے اسے عذاب میں مبتل کر رکھا‬
‫ہے۔ با بو کا المیہ یہ ہے کہ وہ معاشی جبر کی اس مطلقیت سے نا آگاہ ہے‬
‫جس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ ماضی میں تقدیر کا نام‬
‫دے کر اپنی پسماندگی ‪،‬پسپائی اور کمتری کو قبول کر لیا جاتا تھا مگر‬
‫جدید صنعتی فروغ کے ادوار میں انا کے انکشاف نے ان وجوہ کا عرفان‬
‫بھی کرایا ہے جو معاشی عدم مساوات کے پس پشت کام کر رہے ہیں۔‬
‫معاشرہ جب تغیری دور ‪ transition‬سے گزرتا ہے تو اس سے وابستہ‬
‫نسلوں کو بہر حال بڑے نقصانات بھوگنا پڑتے ہیں۔ ’’گؤ دان‘‘ کے گوبر‬
‫کی مصیبت اور ’’تل دان‘‘ کے بابو کا عذاب اسی تغیری دور کا لزمی‬
‫نتیجہ ہے۔ بابو اپنے خارج سے مفاہمت نہیں کر پاتا۔نتیجت ًہ اس کا ذہنی اور‬
‫ل برداشت بوجھ میں بدل دیتا‬ ‫جذباتی عذاب اس کی زندگی کو ایک ناقاب ِ‬
‫ہے۔ سارا طبقاتی تفاوت اور عدم مساویت اس کے لشعور میں اس‬
‫وقت بھی کام کرتی رہتی ہے جب وہ نزع کے عالم میں ہوتا ہے۔‬
‫’’دو تین دن تو بابو نے پہلو تک نہ بدل ایک دن ذرا افاقہ سا ہوا صرف اتنا‬
‫کہ وہ آنکھیں کھول کر دیکھ سکتا تھا۔ آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا‪ ،‬سکھی‬
‫اور اس کی ماں دروازے کے قریب بیٹھے ہوئے تھے۔ سیٹھانی نے ناک پر‬
‫دوپٹہ لے رکھا تھا۔ در اصل وہ دروازے میں اس لیے بیٹھے تھے کہ کہیں بو نہ‬
‫پکڑ لیں۔ مگر بابو نے سمجھا آج ان لوگوں کا غرور ٹوٹا ہے۔ اس نے دل‬
‫میں ایک خوشی کی لہر محسوس کی۔‘‘‬
‫بابو اور اس کے والدین کے درمیان نفسیاتی سطح پر‪ ،‬نسلی فصل کا‬
‫مسئلہ ضرور موجود ہے‪،‬لیکن معاشی جبر کی اہمیت بھی کم نہیں ہے۔‬
‫بابو کی ماں اور سادھو رام کی فہم کا محور غیر مبدل ہے۔ ان کی فہم‬
‫کو ایک خاص قسم کے معاشی اور معاشرتی دباؤ نے منقبض کر رکھا ہے۔‬
‫بابو کی داخلی کشمکش اس کی ماں کی فہم سے بعید ہے اور خود بابو‬
‫اپنی شناخت کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ یہ باہمی علحدگیاں قاری کے‬
‫نزدیک ایک فکر انگیز جواز بھی رکھتی ہیں مگر خود ان افراد کے لیے‬
‫نامانوس ہیں جن سے وہ بذات خود دوچار ہیں۔‬
‫’’ہڈیاں اور پھول‘‘ میں بیدی کا کرافٹ بے حد مضبوط ہے۔ ملم کی کاٹھ‬
‫دار صحت اور گوری اس کے سامنے ایک ہڈیوں کاڈھانچہ۔ جیسے ایک‬
‫تندرست و توانا کتا کسی مریل سی کھجیلی کتیا سے محبت کا دم بھر‬
‫رہا ہو۔ بعد ازاں وہی گوری جو ملم کے مسلسل زد و کوب اور اس کی‬
‫طبیعت سے نالں ہو کر اپنے مائکے بھاگ جاتی ہے۔ واپس لوٹنے پر ایک‬
‫تنومند بھرے بھرے سے جسم والی گوری بن جاتی ہے۔ تندرست و توانا‬
‫کتیا اور ایک مسلسل ہجر بھوگا ہوا ملم اس کھجیلے اور مریل کتے کا‬
‫روپ دھارن کر لیتا ہے جس سے محلے کی ساری کتیائیں آٹھ آٹھ گز دور‬
‫بھاگتی ہیں۔ تاہم ملم کی سختی میں ایک نہایت نرم گوشہ بھی ہے کہ وہ‬
‫گوری کی مفارقت زیادہ دن تک برداشت نہیں کر سکتا۔‬
‫’’گوری ایک دفعہ تو بول‪ ،‬دیکھ میں کتنی دھوپ میں‪ ،‬کتنی دور سے پاپیادہ‬
‫تیری سمادھی پر آیا ہوں۔ جنڈ کی چتکبری چھانو موت کی آواز بن کر‬
‫کہتی ہے۔ میں مرے ہوؤں سے انسان کا سا عارضی پیار نہیں کرتی۔ ملم‬
‫کہتا ہے۔ گوری ایک دفعہ تو جی لے۔ میں نے رنڈوے ہو کر بہت دکھ پایا ہے۔‘‘‬
‫بیدی نے ملم کی فطرت کے حوالے سے انسان کی ُاس عجیب و غریب‬
‫سائیکی کو برہنہ کر دکھایا ہے جو دوسروں کے لیے ہی نہیں خود اپنے لیے‬
‫بھی ایک معمہ ہے۔ وہ جو کچھ کہ حاصل ہے قدرت میں ہے‪ ،‬آدمی اسے‬
‫درگزر کرتا ہے اس کے نزدیک ’’حاصل‘‘ کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے‬
‫اور وہ جو دور ہے‪ ،‬رسا سے باہر ہے اسے مسخر کرنے کے درپے ہوتا ہے۔‬
‫بیدی کے لفظوں میں۔‬
‫’’جب اس )ملم( کی بیوی دلہن بن کر آئی تو ملم اس کی جوانی اور‬
‫خوبصورتی کی بے طرح پاسبانی کرنے لگا۔ وہ اسے دروازے میں بھی‬
‫کھڑی دیکھتا تو پیٹنے لگتا۔ یہ شک و شبہ کی عادت ابھی تک باقی تھی۔‬
‫اس وقت کہ گوری کا جسم توانا اور بھرا ہوا تھا۔ وہ اسے کہتا رہا مجھے‬
‫دبلی ہو گئی تو کہنے لگا مجھے‬ ‫ایک پتلی نازک عورت پسند ہے اور جب وہ ُ‬
‫تم سی مریل عورتوں سے سخت نفرت ہے۔‘‘‬
‫اور یہی مریل سی عورت جب اپنے میکے چلی جاتی ہے تو ملم کے لیے‬
‫اس کی مفارقت سوہان جان بن جاتی ہے۔ کبھی اسے گوری کا کوئی دکھ‬
‫بھرا گیت یاد آتا ہے اور اس کے دکھ کو شدید کر جاتا ہے۔ کبھی وہ کھونٹی‬
‫پر لٹکے ہوئے اس چٹلے کو اتار کر بڑی بے اختیاری کے ساتھ پیار کرتا ہے‬
‫جسے گوری اپنے ساتھ لے جانا بھول گئی تھی۔ کبھی گوری کے دوپٹے کو‬
‫اپنی چھاتی سے بھینچنے لگتا ہے۔ کبھی اسے آنکھوں سے لگاتا اور زار و‬
‫قطار رونے لگتا ہے۔‬
‫’’رات کے نو ساڑھے نو بجے کا وقت تھا‪ ،‬میں اور ٰیسین چھجے پر کھڑے‬
‫ملم کو دیکھ رہے تھے۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں ملم نے‬
‫ہمارے دیکھتے دیکھتے سب کپڑے اتار دیے اور ننگا کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے‬
‫کہیں سے اپنی بیوی کی سرخ صدری بر آمد کی اور اس چار پائی پر‬
‫جس کے نیچے شراب کی خالی بوتلیں اور ڈھکنے پڑے رہتے تھے۔ وہ اکیلی‬
‫صدری پہن کر سو گیا۔‘‘‬
‫یہی وہ مقام ہے جہاں بیدی کے کرداروں کے سارے عیب درگزر کرنے کو‬
‫جی چاہتا ہے۔ ملم کی پیچیدہ سائیکی خود ملم کے لیے ناقابل ادراک ہے۔‬
‫اس کا ایک عمل جہاں نفرین کے قابل ہے وہاں دوسرا اس کے لیے‬
‫ہمدردی پیدا کر دیتا ہے۔ ہمیں اس کے عیب بھی بھلے معلوم ہونے لگتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کی خطائیں عزیز‪ ،‬ان کا کوئی فیٹل فل‪،‬اس کی بدبختی کا‬
‫سارا عمل خود کار سا معلوم ہوتا ہے۔ جس کے پیچھے نہ تو کسی بدنیتی‬
‫کا دخل ہوتا ہے۔ نہ کوئی فوری منفعت کے حصول کا سرکش جذبہ کام‬
‫کرتا ہے۔ وہ طبعا ً معصوم ہوتے ہیں اور اپنی خطاؤں کے باوجود ہمیں ان‬
‫کی رفاقت ایک تجسس آگیں آسودگی بہم پہنچاتی ہے۔ وہ نامانوس‬
‫علحدگی جو ملم اور گوری کے درمیان جگہ بنا لیتی ہے اور جو خود ملم‬
‫کے اندر بھی موجود ہے جو اسے اپنی اصل فطرت کے تعارف سے باز‬
‫رکھتی ہے۔ قاری کے لیے ذہنی کرب کا سبب بنی رہتی ہے۔ ایک لمبے ہجر‬
‫کی واردات ملم کو گوری کے نزدیک تر کر دیتی ہے اور وہ اس کی شدید‬
‫ضرورت محسوس کرنے لگتا ہے۔ اسے کھونے سے پانے کی اہمیت کا‬
‫احساس ہوتا ہے۔ مگر اپنی طبیعت کے اس بنیادی نفاق کو وہ سمجھ نہیں‬
‫پاتا جس کے باعث وہ دولخت ہو گیا ہے۔ اسی نامانوس علحدگی سے نا‬
‫آگہی بالخر گوری کی واپسی پر اسے پہلے کے سخت و سرکش حصے‬
‫سے دوبارہ جوڑ دیتی ہے کہ افسانہ پھر اپنی ابتدا کی راہ لیتا ہے۔ ۔‬
‫’’گھر میں بازار میں‘‘ میں نامانوس علحدگی بڑے ستم ظریفانہ شکل‬
‫اختیار کر لیتی ہے۔ یہ ایک نو بیاہتا جوڑے کی کہانی ہے۔ درشی خود کو ایک‬
‫اچھی بیوی ثابت کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے شوہر رتن کو معاشی سطح پر‬
‫پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ اسی لیے کچھ عرصے تک اپنی خواہشات کو‬
‫دبائے رکھتی ہے اور رتن کی خوشنودی کے لیے جی جان سے لگی رہتی‬
‫ہے۔ آہستہ آہستہ ورشی یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ رتن کو کسی بات‬
‫کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ دفتری کاموں سے اسے اتنی فرصت نہیں کہ‬
‫وہ ورشی کے ساتھ بازار جا کر برساتی کوٹ یا جھومر خرید سکے۔ جب‬
‫رتن خود ہی جھومر خرید کر لے آتا ہے تو اسے ناگوار گزرتا ہے۔ اسے یہ‬
‫احساس ہوتا ہے کہ‬
‫’’مرد کبھی بھی عورت کی فرمائش پر زیور خرید نا پسند نہیں کرتے‬
‫بلکہ ان کو اپنے لیے سجانے کو خریدتے ہیں۔‘‘‬
‫یہ وہی درشی ہے جو ایک معمولی قسم کے جھومر خریدنے کی آرزو مند‬
‫ہے اور جس کے لیے وہ خود رتن سے پیسے مانگنا نہیں چاہتی بلکہ رتن سے‬
‫یہ توقع کرتی ہے کہ وہ خود ورشی کے ہاتھوں میں پیسے رکھ کر اپنی‬
‫فرض شناسی کا ثبوت دے۔ مگر جب رتن ایک دفعہ اپنی تمام نقدی نکال‬
‫کر درشی کے قدموں میں ڈال دیتا ہے تو درشی اسے اپنے لیے سب سے‬
‫بڑی گالی سمجھتی ہے جیسے اسے کسی نے بیسوا کہہ دیا ہو۔‬
‫دو ایک سال بیت جانے پر بھی رتن اور درشی کے مابین علحدہ کرنے‬
‫والی باریک سی لکیر جوں کی توں قائم رہتی ہے۔ رتن یہ سمجھ ہی نہیں‬
‫پاتا کہ درشی کا اصل نفسیاتی مسئلہ کیا ہے۔ اس کے اندر کون سی گرہ‬
‫ہے جو آہستہ آہستہ اس کی پوری سائیکی پر محیط ہو چکی ہے اور بالخر‬
‫درشی اپنے تناؤ سے رتن کے سامنے یہ کہہ کر چھٹکارا پا لیتی ہے کہ وہ‬
‫بیسوا )جس کا ذکر رتن نے بڑی حقارت کے ساتھ درشی سے کیا تھا(‬
‫کسی گرہستن سے کیا بری ہے؟‬
‫’’رتن لل کا منہ کھلے کا کھل رہ گیا۔ مشکوک نگاہوں سے اس نے درشی‬
‫کے چہرے کا مطالعہ کرتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫تو تمھارا مطلب ہے۔ ۔ ۔ ُاس جگہ اور اس جگہ میں کوئی فرق نہیں؟‬
‫درشی نے اسی طرح بپھرے ہوئے کہا۔ ’فرق کیوں نہیں۔ ۔ ۔ یہاں بازار کی‬
‫نسبت شور کم ہوتا ہے۔‘‘‬
‫اس موڑ کے بعد وہ سارا تناؤ جو درشی کا تھا رتن کی تقدیر بن جاتا ہے۔‬
‫اور ایسا ہونا ایک فطری امر ہے۔ کیوں کہ رتن اور درشی کے مابین جو نا‬
‫مانوس علحدگی آہستہ آہستہ جگہ بناتی چلی جاتی ہے۔ اس کی گنجائش‬
‫دونوں ہی فراہم کرتے ہیں۔ دونوں ہی اپنے درمیانی تفاوت کے ذمہ دار‬
‫ہیں۔ درشی کی سوچ یک طرفہ ہے اور وہ ایک جھوٹے بھرم کے ساتھ اپنے‬
‫طور پر اپنے اندر زندگی جینے کے درپے ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ کسی بھی‬
‫ت دگر کے ساتھ اپنے نج کی رفاقت ایک خاص حد کی رفاقت ہوتی ہے۔‬ ‫ذا ِ‬
‫وہ نہ تو مکمل سپردگی ہوتی ہے اور نہ مکمل سپردگی ممکن ہے۔ درشی‬
‫کا مکمل سپردگی کا بھرم بالخر آہستہ آہستہ درہم برہم ہونے لگتا ہے اور‬
‫وہ اپنے کرب میں قطعی تنہا نظر آنے لگتی ہے۔ وہ طبعا ً معصوم اور صابر‬
‫ہے۔ لیکن وہ جو اس کا اپنا کلچر ہے۔ اس کے مطابق وہ اپنے شوہر سے‬
‫بھی متوقع ہے کہ رتن وہ کردار ادا کرے جو اس کے ذہن میں مجرد تصور‬
‫کے طور پر تہہ نشین ہے۔ جب کہ رتن کا مسئلہ بڑی حد تک معاشی ہے۔ وہ‬
‫اپنی نئی نویلی دلہن کے سامنے حقیقت بیانی سے کام نہیں لیتا۔ اپنے‬
‫اصل مسئلے سے درشی کو آگاہ نہیں کرتا۔ وہ یقینا ً ایک فرض شناس‬
‫شوہر ہے لیکن اس کی آمدنی اتنی قلیل ہے کہ وہ اپنے گھر کی ضرورتوں‬
‫کو پورا نہیں کر سکتا۔ درشی رتن کی حدود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔‬
‫وہ اپنے کو بیسوا سمجھنے لگتی ہے حتی کہ جھومر کو بھی و ہ مرد کی‬
‫ضرورت کا نام دیتی ہے۔ دیکھا جائے تو دونوں غلط فہمی کے شکار ہیں۔‬
‫دونوں کا ‪__ flaw‬یہ ہے کہ وہ مستقل ایک ایلوژن میں جی رہے ہیں۔‬
‫حقیقت کے ادراک سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور نہ دو ٹوک اور‬
‫واضح انداز سے ایک دوسرے میں شریک ہو کر جینے کی ضرورت‬
‫محسوس کرتے ہیں۔ اشیا ان کے رشتوں کے تقدس کو مسخ کرتی ہیں۔‬
‫ان کی معصومیتوں کے درمیان ایک بڑی طاقت بن جاتی ہیں۔ دونوں کی‬
‫علحدہ علحدہ انفرادیتیں ایک دوسرے کو ایک دوسرے کی تفہیم سے باز‬
‫رکھتی ہیں۔نتیجت ًہ ایک معمولی سا ایک بے نام سا جذباتی کومپلیکس آخر‬
‫آخر میں ایک تنا ور مسئلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور انھیں آپس‬
‫میں جوڑنے والی کڑیاں بکھر جاتی ہیں۔ بیدی نے کہانی کا اختتام ایک‬
‫ایسے موڑ پر کیا ہے جو اختتامیہ بھی نہیں ہے بلکہ افسانے کا آغاز ہی ہے‪،‬‬
‫ایک ایسا مقام جہاں ساری وضاحتیں بے معنی اور سارے جواز غیر متعلق‬
‫معلوم ہوتے ہیں۔ وہ سلست جو درشی میں ہے اور وہ سادگی جو رتن‬
‫میں ہے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری بھی ہے دونوں کی دنیا دارانہ فہم‬
‫نا پختہ ہے اور یہی ناپختگی ان کے مابین ایک بے نام سی علحدگی کی‬
‫لکیر کھینچ دیتی ہے۔‬
‫’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ میں ضمیر متکلم )نندی( کی داخلی حقیقی‬
‫ذب مّلمع چڑھا دیا تھا اور یہ‬
‫فطرت پر استاد نے بڑی چالکی سے ایک مہ ّ‬
‫مّلمع غیر محسوس طور پر نندی پر اس قدر محیط ہو جاتا ہے کہ اسے‬
‫قائم رکھنے کے لیے وہ اپنی حقیقی آزادی کو بھی قربان کر دیتا ہے۔ بلکہ‬
‫وہ اپنی فہم اپنی سوچ اپنی فکر سے کام نہیں لیتا یہی وجہ ہے کہ اس کی‬
‫غیر مشروط حوالگی اس کے لیے تشنج کا سبب بن جاتی ہے اور ایک‬
‫روز وہ کروندوں اور سنگاڑوں کے لیے پیسے چرا کر اپنے نشان کو‬
‫حقارت کے ساتھ پھاڑ دیتا ہے۔‬
‫’’اب قرنطین سے باہر وہ سبز خاموش سپاہی مجھے دیکھ کر مسکرائے‬
‫تھے میری جرات کی داد دیتے تھے میرا دل بے پایاں آسمان کی طرح‬
‫کھل رہا تھا۔‘‘‬
‫اگرچہ ’’جب میں چھوٹا تھا‘‘ کے پراٹا گونسٹ کا پہلی بار اس چوری کے‬
‫بعد اپنے آپ سے تعارف ہوتا ہے۔ اسے اپنے آپ کا سراغ بھی یہیں سے ملتا‬
‫ہے۔ وہ محسوس کرتا ہے کہ آزادی کے کیا معنی ہیں۔ لکڑی کے بڑے بڑے‬
‫لٹھوں کو پانی میں دھکیل دینے اور پھر ان پر منہ کے بل لیٹ کر ہاتھ اور‬
‫پاؤں کو چپو کی طرح چلنے میں جو طمانیت ملتی ہے وہ اس سزا سے‬
‫کم ہے جو ایسا کرنے پر بالمکند یا کسی اور بچے کو دی جاتی ہے۔ شانتی‬
‫اور سوماں کا مٹی میں کھیلنا پھر اسے تعجب خیز نہیں گزرتا۔ یہ خود‬
‫یافتگی‪ ،‬حقیقت کی ایک نئی سطح کا سراغ‪ ،‬اس کہانی کو انی سیشن‬
‫کہانیوں کے ذیل میں لے آتا ہے۔ لیکن انی سیشن یہاں مکمل نہیں ہوتا۔‬
‫مکمل اس وقت ہوتا ہے جب نندی کو یہ علم ہوتا ہے کہ بابا نے بھی بچپن‬
‫میں کبھی چوری کی تھی اور انھوں نے اپنی ماں کے سامنے اس کا آج‬
‫تک اعتراف نہیں کیا ہے۔ دراصل نندی کے ضمیر کی تربیت استاد اور‬
‫فرسودہ اخلقی اقدار کے مارے ہوئے معاشرے کے حق میں ہے لیکن اس‬
‫ذات کے لیے نقصان کا سودا جو ابھی خود پر منکشف ہوئی ہے نہ جس‬
‫کی شخصیت نے آزادانہ طور پر اپنا سراغ ہی لگایا ہے۔ نندی کا باپ جو‬
‫کم و بیش ایسے ہی تجربات سے گزر چکا ہے۔ نندی کے حقیقی تناؤ کو‬
‫سمجھ لیتا ہے اور وہ نا مانوس علحدگی جسے نندی کوئی نام نہیں دے‬
‫سکا تھا۔ اس کا عرفان پہلے مرحلے میں خود اس کے چوری کے عمل کے‬
‫ذریعے حاصل ہوتا ہے اور وہ اپنے اندر ایک ربط محسوس کرتا ہے۔ دوسرے‬
‫مرحلے میں نندی کا باپ اپنے جھوٹ کو اس پر ظاہر کر کے اسے ضمیر‬
‫کے ناقابل برداشت تناؤ سے نجات دلتا ہے کیونکہ وہ ایک معلوم فہم بھی‬
‫رکھتا ہے مگر ’’تل دان‘‘ میں بابو کے والدین کی رسائی اس فہم تک‬
‫ممکن نہیں تھی کہ وہ جس طبقے سے متعلق ہیں اس میں ایک محکومانہ‬
‫جبّلت بھی بڑا طاقتور کردار ادا کرتی ہے اور جو گو یا انہیں اپنی وراثت‬
‫میں ملتی ہے۔ اسی وجہ سے بابو کے والدین بروقت بابو کے کرب کا ازالہ‬
‫نہیں کر پاتے اور بڑی بے چینی کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے اس کو‬
‫مرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ نندی کا باپ نندی کو بچا لیتا ہے مگر بابو کا باپ بابو‬
‫کو بچانے میں ناکام ثابت ہو تا ہے۔‬
‫’’دوسرا کنارہ‘‘ میں سندر اور اس کے بھائیوں کے اصل کرب کو ان کا‬
‫باپ نہیں سمجھ پاتا نہ ہی زینو کے اصل نفسیاتی مسئلے کو ’’زین‬
‫العابدین‘‘ کے افسانے کے ’’میں‘‘ نے سمجھا۔ ان سب کے درمیان بھی‬
‫ایک نامانوس علحدگی کا م کر تی رہتی ہے ان میں مشترک نسب نما‬
‫کی کمی ہے۔ اپنی زندگی جینے کے انداز کو دوسرے پر عائد کرنے کی ضد‬
‫ہے۔ ان کی رفاقتیں مشترک قدر سے عاری ہونے کے باعث عارضی اور‬
‫جھوٹی معلوم ہو تی ہیں۔ رفاقتیں دیر اور دور تک اسی وقت تک قائم رہ‬
‫سکتی ہیں اور رہتی ہیں جب تک ان میں معروضی تطبیق کی گنجائش‬
‫موجود ہے ’’معاون اور میں‘‘ کا وہ لڑکا جس کے بارے میں بیدی نے لکھا‬
‫ہے ‪:‬‬
‫’’بہت کچھ استفسار کے بعد مجھے یہ پتہ چل کہ میرے مقابل کھڑا ہوا لڑکا‬
‫ایک خود دار انسان ہے۔ کسی ناجائز بات کو نہیں مانتا اس لئے دو تین‬
‫جگہ جہاں بھی اس نے کام کیا اپنی خود داری کو ٹھیس لگنے سے چھوڑ‬
‫دیا۔ اب وہ عرصے سے بیکار تھا۔‘‘‬
‫یہی لڑکا )پتمبر لل ( جو کہ جبّلی طور پر آزادانہ فطرت لے کر آیا ہے اور‬
‫جس کی خاموشی یہ ظاہر کر تی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی اخلقیات‬
‫سے سخت نالں ہے۔ اس کی غصہ وری کا سبب قطعا ً نفسیاتی نہیں ہے‬
‫بلکہ وہ استحصالی قوتیں ہیں جنہوں نے مجبور نوجوانوں سے ان کی‬
‫محنت ہی خرید نہیں کی ہے بلکہ ان کے ذہن‪ ،‬ان کی فکر اور ان کی آزاد‬
‫روش کو بھی محکوم بنا لیا ہے۔ پتمبر لل کی شب و روز کی خدمات کا‬
‫جواب مدیر کے یہ مکر آمیز الفاظ ہیں کہ‬
‫’’ایک معاون رکھ کر میں نے اپنے رسالے پر جو کہ عمر کی اّولین منازل‬
‫ل برداشت بوجھ ڈال دیا ہے۔‘‘‬
‫طے کر رہا ہے۔ ایک ناقاب ِ‬
‫پتمبر لل ان نوجوانوں میں سے ہے جن کا نصیب محنت ہے اور جو اپنی‬
‫سخت کوشی اور انتھک خدمات کو ایک ایسی ڈھال بنائے رکھتے ہیں جن‬
‫سے ان کی انا کا تحفظ قائم رہ سکے۔ کم از کم وہ اپنے اندر اپنے طور پر‬
‫اوقات بسر کر سکیں۔ لیکن پتمبر لل کو اپنی مسلسل خدمات کا جواب‬
‫چیلنج کی صورت میں ملتا ہے۔ آخر آخر میں جب وہ بالکل ٹوٹنے لگتا ہے‬
‫تو پھر اپنی ٹوٹن کے لئے کوئی مرہم تلش نہیں کرتا۔ بلکہ ضمیر کی‬
‫طمانیت سے سرشار ہو کر مدیر سے آن کی آن میں قطع تعلق کر لیتا‬
‫ہے ’’معاون اور میں‘‘ کے مابین بہر حال ایک کارو باری رشتہ تھا مگر‬
‫’’زین العابدین‘‘ کے میں اور زینو میں کوئی کارو باری اشتراک نہیں تھا۔‬
‫ان کی رفاقت میں ایک نفسیاتی ربط ہے۔ زینو خود ایک نفسیاتی مسئلہ‬
‫ہے جس کی تفہیم افسانے کے ’’میں‘‘ کے نزدیک بہت مشکل ہے زینو کی‬
‫سائیکی جیسی جو کچھ بھی ہے۔ اس کے بچپن کے حالت کی زائیدہ و‬
‫پروردہ ہے۔ زینو کے کردار میں الجھاؤ بھی ہے ٹیڑھ بھی۔ وہ خود اپنی‬
‫معمولی سے معمولی حرکات کو کوئی نام نہیں دے پاتا۔ اکثر مقامات پر‬
‫اس کے عیب محترم اور اس کی خطائیں معصوم نظر آتی ہیں۔ ہمیں وہ‬
‫اس کی پوری ‪ totality‬میں عزیز ہے۔ افسانے کے ’’میں‘‘ کو یہ علم ہی‬
‫نہیں ہوتا کہ زینو اپنی کمزوریوں ‪،‬اپنی تمام غلط کاریوں کے باوجود آہستہ‬
‫آہستہ اس کے جسم کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ زینو اس کی عادت ہے ‪،‬اس‬
‫کا سوال ہے ‪ ،‬اس کا موضوع ہے۔ معاون بھی افسانے کے ’’میں‘‘ کی ایک‬
‫عادت ہی نہیں بن چکا تھا۔ بلکہ اس کا استاد‪،‬اس کا ہدایت کا ر تھا۔‬
‫دونوں اپنی عادت سے مجبور ہیں لیکن انا کی ان ُپر فریب حدود سے‬
‫تجاوز نہیں کر پاتے جنھوں نے ان کے درمیان لمبی لمبی فصیلیں کھینچ‬
‫دی ہیں۔ زینو کے چلے جانے کے بعد افسانے کے ’’میں‘‘ پریہ راز وا ہو تا‬
‫ہے۔‬
‫’’جب ہم اپنے اردگرد غور سے دیکھتے ہیں تو محسوس کر تے ہیں ‪،‬نہ‬
‫کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا ‪ ،‬بہنوئی ہے نہ سال‪،‬ماموں ہے نہ بھانجا گویا سب‬
‫رشتے ناطے ٹوٹ چکے ہیں۔‘‘‬
‫’’معاون اور میں‘‘ کے ’’میں‘‘ اور ’’زین العابدین‘‘ کے ’’میں‘‘ کو جہاں‬
‫اپنی انا سے پرے ہونا تھا نہ ہوئےنتیج ًۃ انہیں ایک بہت بڑے جذباتی صدمے‬
‫سے دوچار ہونا پڑتا ہے ’’۔ معاون اور میں‘‘ میں بہ ظاہر ’’میں‘‘ کا‬
‫کاروباری خمیازہ ایک حد تک اہمیت ض۔ رور رکھتا ہے لیکن یہی کل‬
‫س ذات‪ ،‬اس کی‬ ‫حقیقت نہیں ہے۔ اصل ً معاون کی رفاقت ‪ ،‬اس کا احسا ِ‬
‫خودی مدیر کا مکتب تھا۔ معاون کی علحدگی پر یہ عیاں ہوتا ہے کہ وہ‬
‫مدیر کے لئے کس قدر نا گزیر تھا۔ اگر مدیر کاروباری منفعت کو ذہن‬
‫میں رکھتا تو ’’بے کار خدا‘‘ کے مراری کی طرح دنیا داری کا ثبوت دے‬
‫سکتا تھا۔ مراری نے نتھو کو اپنی تمام غلط کاریوں ‪ ،‬بد معاشیوں اور‬
‫عیوب کے ساتھ قبول کر لیا تھا لیکن مدیر اور زین العابدین کا مسئلہ خود‬
‫ان کی تربیت یافتہ ذات بھی تھی۔ اور اس ذات کے اپنے مطالبے بھی تھے۔‬
‫یہی مطالبے ایک کمزور لمحے میں ان پر اتنے محیط ہو جاتے ہیں کہ ان‬
‫سے چشم پوشی برتنا ان کے بس میں نہیں رہتا۔ اس قسم کی‬
‫علحدگیاں بھی قطعا ً نا مانوس ہیں کہ کردار ایک خاص فہم رکھنے کے‬
‫باوجود اپنے اعمال میں مجبورِ محض ہیں۔ انہیں کوئی عزیز تھا تو کیوں‬
‫تھا ؟ اور پھر یکا یک دوسرے سے علحدگی کے کیا معنی ہیں ؟ اور پھر یہ‬
‫کہ ہر رفاقت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ ایک رفیق کا فوری لمحاتی عمل ‪،‬‬
‫دوسرے کے لئے قطعی اور حتمی کیسے بن جاتا ہے ؟ کیا ایسے آزمائشی‬
‫لمحوں میں دوسرے پر کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی؟کیا واقعتا ً رفاقتیں‬
‫یک لخت ٹوٹ سکتی ہیں؟ ہر علحدگی کی پشت پر ایک بہت بڑا‬
‫شکایتوں سے بھرا پرا ماضی ہوتا ہے۔ ایک رفیق کے نزدیک جو ایک لمحے‬
‫کا عمل ہے دوسرے کے نزدیک اس کا بہت بڑا ماضی ایک بہت بڑا پس‬
‫منظر ہے۔ اور جو عمل ہے اصل ً وہ رد ّ عمل ہے۔ جتنا حیرت خیز ہے اتنا ہی‬
‫منطقی اور متوقع بھی ہے۔ ان معنوں میں علحدگیاں ہی اجنبی نہیں‬
‫ہوتیں بلکہ رفاقتیں بھی بڑی نامانوس اور بے نام سی ہوتی ہے۔ اس ذیل‬
‫میں ’’لجونتی‘‘ اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ اور ’’ٹرمینس سے پرے ‘‘اور‬
‫’’صرف ایک سگریٹ‘‘ جیسے افسانے غور طلب ہیں۔‬
‫’’لجونتی ‘‘بھی ’’گرہن‘‘ کی ہولی اور ’’ہڈیاں اور پھول‘‘ کی گوری کی‬
‫طرح اس ‪ typical‬ہندوستانی عورت کی مثال ہے جسے مرد کا تسلط‬
‫عزیز ہے اور مرد کے بغیر جو اپنے وجود کو غیر محفوظ بلکہ بے معن ٰی‬
‫خیال کرتی ہے مرد کی خدمت ‪،‬غلمی اور خوش نودی اس کے نجات کے‬
‫ذرائع ہیں۔ بھوکوں مرنا شوہر کی لتیں اور گھونسے کھانا تس پر رات‬
‫میں بستر کی طرح بچھ جانا ‪ ،‬اپنی ہڈیوں کی دشمن‪ ،‬اپنی رسموں کی‬
‫غلم ‪،‬وہی کبھی ہولی بن جاتی ہے ‪،‬تو کبھی گوری۔ لجونتی کا سند ر لل‬
‫اتنی فہم نہیں رکھتا کہ لجو کے اصل دکھ کو جان سکے وہ لجو کے اغوا‬
‫سے قبل لجو کی سپر دگی کو کوئی اعزاز دے سکا نہ اغوا کے بعد کی‬
‫دیوی کے اس کرب کو سمجھ سکا کہ بھری بھری یہ آبادیاں اندر سے کتنی‬
‫کچھ خالی ہیں ؟ اس کے آنسوؤں کے اندر کون سی آگ موجزن ہے ؟اس‬
‫کی آہوں میں کیسی چیخیں پیوست ہیں ؟ وہ تو سندر لل ہی کی پرانی‬
‫لجو ہو جانا چاہتی تھی جو گاجر سے لڑ پڑتی اور مولی سے مان جاتی۔‬
‫لجو کی باز یافت کے بعد سندر لل کا تکلف اس کے لئے قطعا ً نامانوس‬
‫تھا اور وہ جیسی کہ سندر لل کے لئے پرانی لجو نہ رہی تھی۔ اسی طرح‬
‫سندر لل بھی اب وہ سندر لل نہ رہا تھا۔ دونوں کی رفاقتوں کے مابین‬
‫ایک نامانوس سی علحدگی جگہ پا لیتی ہے اور اس علحدگی کو دونوں‬
‫کوئی نام نہیں دے پاتے۔‬
‫’’کون تھا وہ ؟‘‘‬
‫ماں‘‘۔ ۔ ۔ پھر وہ اپنی نگاہیں‬
‫ج ّ‬
‫لجونتی نے نگاہیں نیچی کرتے ہوئے کہا۔ ’’ ُ‬
‫سندر لل کے چہرے پر جمائے کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سندر لل ایک‬
‫عجیب سی نظروں سے لجونتی کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا اور اس‬
‫کے بالوں کو سہل رہا تھا۔ لجونتی نے پھر آنکھیں نیچی کر لیں اور سندر‬
‫لل نے پوچھا ‪:‬‬
‫’’اچھا سلوک کرتا تھا وہ ؟‘‘‬
‫’’ہاں‘‘‬
‫’’مارتا تو نہیں تھا ؟‘‘‬
‫لجونتی نے اپنا سر سندر لل کی چھاتی پر سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں‘‘ اور‬
‫پھر بولی ’’وہ مارتا نہیں تھا ‪ ،‬پر مجھے اس سے زیادہ ڈر آتا تھا۔ تم مجھے‬
‫مارتے بھی تھے پر میں تم سے ڈرتی نہیں تھی۔ ۔ ۔ اب تو نہ مارو گے ؟‘‘‬
‫سندر لل کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے اور اس نے بڑی ندامت اور بڑے‬
‫تاسف سے کہا۔ ’’نہیں دیوی ! اب نہیں۔ ۔ ۔ نہیں ماروں گا۔ ۔ ۔‘‘‬
‫’’دیوی!‘‘لجونتی نے سوچا اور وہ بھی آنسو بہانے لگی۔‬
‫’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کی اندو بہ ظاہر ایک عام سی گھریلو عورت ہے۔‬
‫مدن بھی ایک عام سا کچھ کچا ّ کچھ پکا ّ آدمی ہے۔ اندو نے سارا اپنا آپ‬
‫شوہر اور اس کے بہن بھائیوں اور بوڑھے باپ کے اوپر لٹا دیا تھا۔ اور اس‬
‫لوٹ سے جو کچھ بچا تھا۔ مدن کے لئے وہ کم تر تھا کہ اسے ایک ایسی‬
‫عورت مطلوب تھی جو پور پور سے اس کی ہو ‪،‬اس کے اوقات میں لمحہ‬
‫لمحہ جیتی ہو۔ وہ جب چاہے شکن شکن بستر میں ڈھل جاۓ وہ جب چاہے‬
‫ٹوٹے ‪،‬بنے ‪،‬بکھر جائے۔ وہ بدن نہیں جو مدن کے باپ کو اس کی دائم‬
‫المریض‪ ،‬سوکھے ٹھونٹھ کی طرح ماں کی صورت میں مل تھا۔ ایسا‬
‫جسم جو ریشے ریشے سے بولتا ہو‪،‬پھوٹتا ہو سر تا پا پھڑکتا ہو۔ چاروں‬
‫طرف زندگی کی قوتیں سی بکھیر دے ‪ ،‬صرف بچے ہی پیدا نہ کرے بلکہ‬
‫بار بار مدن کو ایک نقطے میں سمیٹ کر اپنی کوکھ میں ا گائے۔ اور بار‬
‫بار باہر نکالے تاوقتیکہ اس کی تکمیل نہ ہو جائے ‪،‬مدن کو ہریش چندر کی‬
‫بیٹی نہیں ہنسنے لجانے اور آن کی آن میں بچھ جانے والی آدم کی بیٹی‬
‫اندو درکار تھی۔ اور اندو اپنے شوہر کے دکھوں کو بانٹنے میں اتنی کھو‬
‫گئی کہ اسے یہ بھی خیال نہیں رہا کہ اس کے پا س مدتوں کا ایک اور‬
‫خزانہ بھی ہے اور جس پر مدن اور صرف مدن کا حق ہے۔ دکھوں کا ایک‬
‫پہاڑ بھی ہو تو اس کے جسم سے مس ہو کر لخت لخت ہو جائے۔ اسے‬
‫اپنے اس جادو کا عرفان ہوا بھی تو کب جب لمحے برسوں میں بدل گئے‬
‫اور عمریں اپنے زوال کی راہ لینے لگیں۔‬
‫اندو بولی۔ ۔ ۔ ’’یاد ہے شادی کی رات ‪ ،‬میں نے تم سے کچھ مانگا تھا ؟‘‘‬
‫’’ہاں‘‘۔ ۔ ۔ مدن بول۔ ۔ ۔ ’’اپنے دکھ مجھے دے دو۔‘‘‬
‫’’تم نے تو کچھ نہیں مانگا مجھ سے۔‘‘‬
‫’’میں نے ؟‘‘ مدن نے حیران ہو تے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔ ’’میں کیا مانگتا ؟‬
‫میں تو جو کچھ مانگ سکتا تھا وہ سب تم نے دے دیا۔ میرے عزیزوں سے‬
‫پیار‪،‬ان کی تعلیم ‪،‬بیاہ شادی۔ ۔ ۔ یہ پیارے پیارے بچے۔ ۔ ۔ یہ سب کچھ تم‬
‫نے دے دیا۔‘‘‬
‫’’میں بھی یہی سمجھتی تھی‘‘ اندو بولی۔ ۔ ۔ ’’لیکن اب جا کر پتہ چل‬
‫‪،‬ایسا نہیں۔‘‘‬
‫’’کیا مطلب ؟‘‘‬
‫’’کچھ نہیں‘‘ پھر اندو نے رک کر کہا۔ ۔ ۔ ’’میں نے بھی ایک چیز رکھ لی۔‘‘‬
‫’’کیا چیز رکھ لی ؟‘‘‬
‫اندو کچھ دیر چپ رہی اور پھر اپنا منہ پرے کر تے ہوئے بولی۔ ’’اپنی لج ‪،‬‬
‫اپنی خوشی ‪،‬اس وقت تم بھی کہہ دیتے۔ اپنے سکھ مجھے دے دو۔‬
‫تومیں۔ ۔ ۔‘‘ اور اندو کا گل رندھ گیا۔‬
‫اور کچھ دیر بعد وہ بولی۔ ۔ ۔ ’’اب تو میرے پاس کچھ نہیں رہا۔‘‘‬
‫اندو کو اسی بات کی خوشی تھی کہ اس نے اپنی لج رکھ لی۔ یہ اس کا‬
‫کلچر تھا۔ اس کی تربیت ‪،‬اس کا ایمان تھا۔ اس نے یہ مفروضہ قائم کر‬
‫لیا تھا کہ مرد اور اس کے عزیزوں کی نگہداشت ‪ ،‬کنبہ پروری ‪،‬خدمت‬
‫گزاری اور گھریلو الجھنوں سے اپنے خدا کو دور رکھنا ہی عورت کا دھرم‬
‫ہے۔ اندو َان پڑھ ہے لیکن بیدی نے اس میں بل کی سوجھ بوجھ بھر دی ہے۔‬
‫جب وہ کسی ناگہانی واردات سے گزرتی ہے تو اس کا ایک ایک لفظ تاب‬
‫کاریوں سے معمور ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ ایک معمولی سی گھریلو‬
‫حساس بھی ہے‪ ،‬آگاہ‬ ‫عورت کے بجائے ایک ایسی ذات میں بدل جاتی جو ّ‬
‫بھی اور جس نے محض اپنے شوہر کی خوشنودی کی خاطر اپنی ذات کے‬
‫مطالبوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ پرے کر دیا ہے۔ شاید اسے یہ علم نہ‬
‫تھا کہ یہ جو کچھ اس نے کیا تھا یا وہ کر رہی تھی وہ اس کا اپنا کلچر تھا‬
‫اور کلچر کے مطابق اس کا برتاؤ ا س کی مجبوری تھی۔ اس وسیلے‬
‫سے وہ روحانی طمانیت پاتی ہے۔ سارے گھر بھر کی دادو تحسین وصول‬
‫کرتی ہے۔ مگر وہ جس کے لئے اس نے اپنا آپ فنا کر دیا تھا اسے وہ پوری‬
‫طرح سمجھ سکی نہ ا س کے وجود میں سرایت کر سکی۔ اس نے اپنے‬
‫کرم سے دیوی کا درجہ ضرور پا لیا تھا اور وہ مدن کی نظروں میں واقعتا ً‬
‫پوجا کے لئق بھی تھی لیکن اندو کو کیا خبر تھی کہ اب اس کا مقام‬
‫طاق تھا اور وہ بھی طاق نسیان جو مدن کے جسم کا حصہ بننے کے لئے‬
‫آئی تھی مگر اس کے لئے اپنے شباب کے بہترین لمحوں کا بہترین‬
‫استعمال محض خدمت تھا۔ وہ خدمت جس نے ایک روز اسے دیوی بنا دیا‬
‫تھا۔ لجونتی کی لجو کو دیوی بننے سے انکار تھا اور اندو نے اپنی ساری‬
‫زندگی کی خوشیاں قربان کر کے دیوی کا لقب حاصل کیا تھا پھر بھی‬
‫غیر عورتوں کے ساتھ مدن کی راہ و رسم اس کی نسائیت پر ایک الزام‬
‫تھا۔ اس نے محسوس کر لیا کہ روح کی عظمت کو پا نے میں اس کا‬
‫جسم کئی بر س پیچھے رہ گیا ہے اور کوئی بھی لمبی سی لمبی جست‬
‫اس درمیانی فصل کو پاٹ نہیں سکتی۔‬
‫’’شادی کے پندرہ برس گزر جانے کے بعد اندو کو آج فرصت ملی تھی۔‬
‫اور وہ بھی اس وقت جبکہ چہرے پر جھائیاں ابھر آئی تھیں۔ ناک پر ایک‬
‫سیاہ سی کاٹھی بن گئی تھی اور بلؤز کے نیچے ‪،‬ننگے پیٹ کے پا س کمر‬
‫پر چربی کی دو تین تہیں دکھائی دینے لگی تھیں۔ اس سے پہلے کہ مدن‬
‫اندو کی طرف ہاتھ بڑھاتا ‪ ،‬اندو خود ہی مدن سے لپٹ گئی پھر مدن نے‬
‫ہاتھ سے اندو کی ٹھوڑی اوپر اٹھائی اور دیکھنے لگا۔ اس نے کیا کھویا کیا‬
‫پایا ہے ! اندو نے ایک نظر مدن کے سیاہ ہوتے ہوئے چہرے کی طرف پھینکی‬
‫اور پھر آنکھیں بند کر لیں۔‬
‫’’یہ کیا ؟‘‘ مدن نے چونکتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ’’تمہاری آنکھیں سوجی ہوئی‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫’’یونہی‘‘ اندو نے کہا اور بچی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ’’رات‬
‫بھر جگایا ہے اس چڑیل میا ّ نے۔‘‘‬
‫یہ ہے وہ اندو جو ساری رات اپنے خمیازے پر روتی رہی ہے لیکن مدن سے‬
‫شکایت کا ایک لفظ نہیں کہتی۔ الٹے اپنے آپ پر کڑھتی ہے کہ اس نے مدن‬
‫کے دکھ تو بانٹ لیے لیکن سکھ نہیں دے سکی۔ وہ مدن کے بوڑھے باپ‬
‫دھنی رام کی اتنی سیوا کرتی ہے کہ دھنی رام کو اپنی بیوی کی کمی تک‬
‫نہیں کھلتی۔ مدن کی بہن اور بھائی کو اپنے جی جان سے لگا کے رکھتی‬
‫ہے کہ انہیں اپنی ماں کا دھیان تک نہیں آتا۔ پس اگر اسے یاد نہیں رہتا تو یہ‬
‫کہ مدن اس کا شوہر ہے اور وہ مدن کی بیوی ہے۔ دونوں کی رفاقت‬
‫بالخر بے گانہ وار ثابت ہوتی ہے۔ انہیں خود اپنی علحدگیوں اور نا‬
‫وابستگیوں کا بعد میں جا کر احساس ہوتا ہے یہاں پہنچ کر شادی کا‬
‫بندھن محض مشینی نوع کا احساس دلتا ہے۔ رشتے کس طرح ایک مقام‬
‫پر پہنچ کر غیر محسوس بن جاتے ہیں اور ان میں ایک میکنزم سا در آتا‬
‫ہے۔ اس میکنزم کو ’’ٹرمینس سے پرے‘‘ میں جب اچل اور موہن جام‬
‫توڑنا چاہتے ہیں تو ان کی رفاقتوں میں ایک تناؤ سا پیدا ہونے لگتا ہے۔‬
‫اخلقیات کا دباؤ بالخر انہیں مراجعت پر مجبور کر دیتا ہے۔ اچل‪ ،‬موہن‬
‫جام کی کمی رام گدکری )اچل کا شوہر ( کے پیار سے پورا کرنے پر‬
‫مجبور ہے اور موہن جام کے لئے آہ سر د بھرکر اچل سے رخصت لینے کے‬
‫علوہ اور کوئی راستہ نہیں۔‬
‫ت حال سے‬ ‫’’صرف ایک سگریٹ‘‘ میں یہ باہمی رشتے بڑی عبرتناک صور ِ‬
‫گزرتے ہیں۔ ایک بیوی اپنے شوہر کے لئے اجنبی ہے ‪ ،‬باپ اپنے بیٹے کے لئے‬
‫عجوبہ‪ ،‬بیٹا‪ ،‬باپ کے نزدیک بے گانہ اور شادی شدہ بیٹی کیلئے اپنا باپ بے‬
‫وقعت۔ معا ً پریم چند کی کہانی ’’شکوہ شکایت‘‘ کا خیال آتا ہے۔ وہاں‬
‫ایک بیوی کا واسوخت ہے اور یہاں ایک باپ کی اپنی اجنبیت کی دہائی۔ وہ‬
‫اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سارے رشتے ضرورتوں کے مدار پر گردش کرتے‬
‫ہیں۔ جب تک آپ کسی کی کمی کو پورا کرتے ہیں نا گزیر ہیں۔ جب زائد‬
‫ہونے لگتے ہیں تو غیر متعلق۔ ہمارے اپنے امکانات دوسروں کے لئے ہمیں‬
‫عزیز بنا دیتے ہیں۔ امکانات سے عاری باپ‪ ،‬بیٹے کے لیے حشو ہے اور‬
‫شوہر بیوی کے لیے۔ مگر ’’صرف ایک سگریٹ‘‘ کے سنت رام کا المیہ یہ‬
‫ہے کہ ا س نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ اب وہ آہستہ آہستہ سارے گھر‬
‫بھر کے لئے غیر ضروری ہوتا جا رہا ہے۔ ا س کی وفاداری کا کوئی صلہ ہے‬
‫نہ بے لوثی کا کوئی انعام۔ حتی کہ اپنے بیٹے کی ایک سگریٹ پی لینا اس‬
‫کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ وہ اپنے خیالت کے دلدل میں پھنستا چل جاتا ہے‬
‫اور یہ کامپلیکس اس قدر فروغ پاتا ہے کہ اس کی سوچ محدود ہو کر رہ‬
‫جاتی ہے۔ بس ایک ہی تکرار کہ وہ سارے اپنوں کے لیے غیر ضروری اور‬
‫زائد ہو گیا ہے۔ جب کہ اس کے بیٹے کے اندر اپنے باپ کے لیے کوئی ایسا‬
‫جذبہ نہیں جس سے اس کی تکریم پر کوئی حرف آتا ہو۔ اس کے اپنے‬
‫مسئلے ‪،‬اپنے غم ہیں۔ اس کا اپنا ایک نج ہے ‪ ،‬ذات کا ایک دائرہ ہے جس‬
‫کے اپنے صرف و حاصل‪ ،‬نفع و نقصان ہیں۔ اس کی خاموشی کے اپنے‬
‫اسباب ہیں اس کی بے توجہی کی اپنی وجوہ ہیں۔ سنت رام کے دل میں‬
‫چور تھا‪ ،‬جس نے اسے حقیقت کی فہم سے دور کر دیا تھا۔ بیٹا اپنے باپ‬
‫کی رفاقت کے تناؤ کو سمجھ نہیں پاتا۔ بلکہ باپ میں شکوک پیدا کرنے‬
‫کی گنجائش بھی خود فراہم کرتا ہے۔ جب کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے‬
‫انتہائی محترم ‪،‬انتہائی معزز‪ ،‬انتہائی محبی ہیں۔‬
‫بیدی نے جہاں کہیں رشتوں کی بے حرمتی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہاں‬
‫افسانہ نے پیچیدہ راہ اختیار کر لی ہے۔ وہ پھر اتنا سلیس اور سادہ نہیں رہ‬
‫جاتا اور اندر ہی اندر الجھتا اور الجھاتا چل جاتا ہے۔ اس ضمن میں‬
‫’’دیوالہ‘‘ ’’باری کا بخار‘‘ ’’کش مکش‘‘ ’’ایک عورت‘‘ ’’غلمی‘‬
‫‘’’لروے‘‘ اور ’’ایک باپ بکاؤ ہے‘‘ جیسے افسانے خصوصی طور پر‬
‫مطالعے کے لئق ہیں۔‬
‫ستیار تھی کی یادوں سے ایک مکالمہ‬

‫دت میں کمی آ گئی تھی۔ موہن‬ ‫یہ بات ‪۷۷‬۔ ‪۱۹۷۶‬ء کی ہے۔ سرما کی ش ّ‬
‫سنگھ پیلیس کے کافی ہاؤس میں چاروں طرف کی بند کھڑکیاں اب تازہ‬
‫ہواؤں کے لئے کھلنے لگی تھیں۔ زیادہ تر ادیب اور فن کار ٹیرس میں‬
‫بیٹھنے لگے تھے۔ ِادھر جرنلسٹوں کی ہاؤ ہو‪ ،‬ادھر شاعروں ‪ ،‬کویوں اور‬
‫وروں کے درمیان محبت و نفرت آمیز جھڑپیں۔ کافی پر کافی‬ ‫مص ّ‬
‫‪،‬سگریٹ پر سگریٹ‪ ،‬شکایتیں ‪ ،‬بحثیں‪ ،‬رودادیں ‪،‬تنازعے ‪،‬مجادلے‪،‬‬
‫مناظرے ‪ ،‬سیاست ‪ ،‬شاعری‪ ،‬جدیدیت‪ ،‬ترقی پسندی ‪،‬نیا‪،‬پرانا‪،‬کہاں کیا‬
‫چھپا ہے ‪،‬کس نے کس کے لئے کیا کہا ہے۔ کون کس خیمے میں ہے ‪ ،‬کس‬
‫لبی کا بول بال ہے۔ اور اس گہماگہمی میں سگریٹ کے دھوئیں کو چیرتی‬
‫ہوئی دور کونے میں ایک ڈاڑھی ہوا سے پینگیں بڑھاتی ہوئی لہلہا رہی‬
‫تھی۔ جسے دیکھ کر معا ً رابندر ناتھ ٹیگور کی ڈاڑھی یاد آ گئی۔ جو‬
‫شخصیت کا ایک ناگزیر حصہ بن کر رہ گئی تھی۔ چہرہ کیا تھا ‪ ،‬صرف‬
‫ڈاڑھی تھی۔ میں نے بانی سے پوچھا کیا وہی دیوندر ستیار تھی ہیں۔‬
‫’’ہاں ابھی ابھی پنجاب سے آئے ہیں۔ کل دوستوں نے انہیں بہت تنگ کیا ‪،‬‬
‫اسی لئے خاموش بیٹھے ہیں۔ چلو گرو دیو سے کچھ چہلیں ہو جائیں۔‘‘‬
‫بانی مرحوم بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ مطالعے کے جو یا ‪ ،‬بے نیاز‪،‬‬
‫مرنجاں مرنج مگر چھیڑ چھاڑ سے باز نہیں آتے تھے۔ کنور سین ان کے‬
‫داہنے ہاتھ تھے بلکہ ایک تازیانہ ‪،‬جس طرف باگ موڑ دی مڑ گئے۔‬
‫’گرو دیو نمستے ‘کیوں بھائی کیا ہم سے بھی ناراض ہو۔ یہ عتیق ہے ‪،‬عتیق‬
‫جانتے ہو نا اسے ‪،‬ابھی پچھلے سال ہی دّلی آیا ہے۔‬
‫ہا ں۔ ہاں جانتا ہوں ‘بلراج ورما نے ذکر کیا تھا۔ یہ دونوں ’’تناظر‘‘ نکالنے‬
‫والے ہیں۔ اور کہو کیسے ہو؟‬
‫دیوندر ستیار تھی سے دو گھنٹے گفتگو ہو تی رہی۔ بالکل ان کے افسانوں‬
‫کی زبان میں‪ ،‬یہ نئے دیوتا یا ہرے رنگ کی چڑیا والے ہی ستیارتھی تھے۔‬
‫مگر اب اس ستیارتھی نے اپنے اندر بڑی گہرائی میں اپنی جگہ بنا لی ہے‬
‫اور مستقل اپنی جڑوں کی تلش میں رہتے ہیں۔ لہور ان کی سب سے‬
‫بڑی کمزوری بن چکا تھا۔ ان کے وہ دشمن بھی انہیں بے حد عزیز تھے‬
‫جن سے ماضی میں انہیں بڑی شکایت تھی ‪ ،‬بلکہ اکثر ان کی زبان پر‬
‫انہیں ناموں کا ورد زیادہ رہا کرتا تھا جنہیں ہم آج کے محاورے میں بڑی‬
‫آسانی سے دشمن کہہ سکتے ہیں۔‬
‫’بانی! یہ تم نے کیا کہا ‘میں کیوں کسی سے ناراض ہو نے لگا۔ انسانیت‬
‫دکھی ہے۔ تم بھی بہت دکھی ہو‪ ،‬میرے یار‘ میں جانتا ہوں۔ میں تو اپنے‬
‫آپ سے بھی خفا نہیں ہوتا‘۔‬
‫’کیوں نہیں ہوتا ‘ کیا منٹو سے بھی نہیں‘۔ میں نے بیچ ہی میں ستیار تھی‬
‫کی بات کاٹ دی۔ ’ منٹو نے ’ ترقی پسند‘ لکھی اور یہ ترقی پسند آپ ہی‬
‫تھے جس پر منٹو نے بڑے تیکھے وار کئے تھے اور پھر آپ نے نئے دیوتا‬
‫جیسی کہانی لکھی جو منٹو پر تھی‘۔‬
‫’عتیق ! میں نے بھی کوئی گہرا اثر نہیں لیا تھا۔ اور مجھے امید ہے کہ منٹو‬
‫پر بھی اس کا زیادہ اثر نہیں ہو تا اگر ہمارے درمیان کچھ ہمارے احباب‬
‫اسے ہوا نہیں دیتے‘۔‬
‫’تو کیا آپ خفا نہیں ہوئے ؟‘‬
‫’ار ے دوست خفا ہونے کا ایک الگ مزہ ہے۔ پیار ‪،‬محبت اور دوستی ‪،‬اس‬
‫سے پکی ہو تی ہے۔ میں سچ بتاؤں جھوٹ مو ٹ ہی منہ بنا لیا کر تا تھا۔‬
‫ورنہ منٹو اس کے بعد بھی مجھے بہت عزیز تھا۔ میں ناراض نہیں تھا ہاں‬
‫پیار بھری خفگی ضرور تھی ‪،‬جوانی کا زمانہ تھا۔ آج کا ستیارتھی تو تھا‬
‫نہیں۔ شاید اسی لئے نئے دیوتا بھی لکھ پایا ‘۔‬
‫’’سنا ہے آپ نے منٹو کی بڑی منت سماجت کی تھی تاکہ اس کی خفگی‬
‫ناراضگی دور ہو جائے۔‘‘‬
‫’دوستی بنتے بنتے بنتی ہے۔ اسے بگڑنے میں دیر نہیں لگتی۔ منٹو کتنا ہی‬
‫بڑا فنکار کیوں نہ ہو۔ کہیں کہیں بہت چھوٹا ہو جاتا تھا۔ معاف بہت مشکل‬
‫سے کرتا تھا۔ اس کے اپنے ‪complexes‬تھے۔ کسی کی بڑائی یا خود کی‬
‫ہنسائی اسے بالکل گوارہ نہیں تھی۔ پھر بھی منٹو بہت پیار ا تھا۔ سر تا پا‬
‫ایک جینون فن کار‪ ،‬کیا میر کیا میرا جی اور کیا منٹو‘۔‬
‫’اور کیا دیوندر ستیارتھی‘۔ بانی نے لقمہ دیا۔‬
‫’ہاں اور کیا؟ میں ‪،‬ہم سب فطری انسان ہیں‘۔‬
‫دیوندر ستیارتھی فطری انسان کتنے ہیں۔ اس کے بارے میں تو مجھ سے‬
‫زیادہ ان کے احباب ہی کچھ بتا سکتے ہیں۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ فطر ت‬
‫‪ nature‬ان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔‬
‫ایک شام میں نے ان سے دریافت کیا ‘ گرو دیو! پہلے تو آپ کی کہانیوں‬
‫میں قطعی پلٹ ہو ا کرتا تھا‪ ،‬آپ اس کی بنت پر بھی بہت محنت کیا‬
‫ن دیوتا‪ ،‬ستلج پھر بپھرا ‪،‬ل وارث ‪ ،‬جشن ‪،‬‬ ‫کرتے تھے۔ کم از کم آپ کی ا ّ‬
‫پرانے ہل ‪ ،‬دو راہا اور نئے دیوتا جیسی کہانیوں سے یہی تاثر ابھرتا تھا۔‬
‫مگر اب آپ کی کہانیوں میں پلٹ دھندل گیا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگتا کہ آپ‬
‫کی کہانی میں آپ کے سوانح اور فطرت کی رنگا رنگی کا عنصر حاوی‬
‫ہوتا جا رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے ‘۔‬
‫’دوست ! جوں جوں میں بوڑھا ہو تا جا رہا ہوں ‪،‬ماضی کے کھٹے میٹھے‬
‫دن پانو کی زنجیر سے بنتے جار ہے ہیں۔ وہ ساری وارداتیں میرے خوابوں‬
‫سے اتر کر میرے پنوں پر بکھرتی جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو اپنے ماضی‬
‫کو اور ماضی کیا وہی لہور سے امرتسر تک کے ہزاروں ہزار میلوں کے‬
‫فاصلے کو یاد کر کے مجھے رونا آ جاتا ہے۔‬
‫’پتہ ہے پچھلے دد ہفتوں سے مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے ایک کہانی شروع‬
‫کر رکھی ہے۔ ’پل کنجری ‘لکھنے بیٹھا تو سمجھ رہا تھا چار پانچ صفحوں‬
‫میں پوری ہو جائے گی۔ مگر یہ بڑھتی جار ہی ہے اور میں اس کے اندر اور‬
‫اندر اترتا جا رہا ہوں‘۔‬
‫’’گھر کی طرح کہانی کا بھی پچھواڑا ہوتا ہے۔ اچھا متی کی لہریں ہماری‬
‫بھول پر آج تک رو رہی ہیں۔‬
‫کاش دست گیر کی باتوں میں آنے کی بجائے شہر یا رکے دماغ پر درویش‬
‫کی چھاپ رہتی۔‬
‫ناٹک تو ہوتا ہی رہے گا۔ ہم کہیں تو گہرائی میں ڈبکی لگائیں۔‬
‫رتن کٹوری گھی جلے ‪،‬چولھے جلے کسار‬
‫گھونگھٹ میں گوری جلے‪ ،‬جا کے مورکھ بھرتا ر‬
‫نتھ کا موتی کہاں گرا؟ گوری اداس ہو گئی۔ کون کہے رانی آگا ڈھانپ۔ تم‬
‫گاؤ گے اور ہم سنیں گے راگ دیش۔ اب کے ساون گھر آ جا۔ ۔ ۔ من کی‬
‫تلیا سوکھی پڑی ہے ایک بوند برسا جا۔‬
‫صبح کی چائے سب کو جگائے۔ ۔ ۔ جاگو ! جاگو! جاگو!‬
‫رات کا پیالہ سب کو سلئے سو جاؤ سپنوں کی دنیا میں کھو جاؤ۔‬
‫پیل موسم ‪،‬ہریال سپنا‪ ،‬کال ناگ ‪،‬سب ساتھ‪ ،‬آس پاس‪ ،‬گھاٹ پڑا ملتا۔‬
‫کارواں کی وہی بات۔ آنکھ اوٹ ‪،‬پہاڑ اوٹ‬
‫کیا ہم اپنے آپ کو معاف کر دیں؟ کہاں لکھو گے شل لیکھ؟کوئی پتھر نظر‬
‫نہیں آتا۔‬
‫گونگے بہرے مہاوت کے آگے فائلوں کے ڈھیر پڑے رہے۔‬
‫علی امام مارا گیا۔ رفو کر تے کرتے کون جانے دنیا سے جاتے وقت وہ‬
‫کس کس کی چادر کے گھاؤ بے سلے چھوڑ گیا۔‬
‫جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے کہ لہور اور لہور سے وابستہ کھٹی میٹھی‬
‫یادوں کا ایک نا پیدا کنار سلسلہ ہے جو دیوندر ستیارتھی کو ہانٹ کر تا‬
‫رہتا ہے۔ پہلے یہ لے قدرے دھیمی تھی ‪ ،‬اب کافی تیز ہو گئی ہے۔ انہوں نے‬
‫بیس برس پہلے یہ بات کہی تھی کہ ان سے ماضی اور وہ بھی تقسیم‬
‫وطن کے اردو گرد کا ماضی اور اس سے جڑی ہوئی بھلی بری زندگی‬
‫بھلئے نہیں بھولتی۔ تقسیم وطن کی واردات کا زخم جب تب ہرا ہو جاتا‬
‫ہے اور وہ کبھی اپنے ذہن کدے میں سرحد کے پار کے مو سموں کے جشن‬
‫منانے لگتے ہیں۔ کبھی وہاں کے کھیتوں کھلیان میں دوڑ نے بھاگنے لگتے‬
‫ہیں۔ کبھی ہوک اٹھتی ہے کبھی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جا تی ہے۔ کبھی‬
‫قصیدہ کبھی مرثیہ۔ یہی رنگ ان کے تازہ افسانوں میں رچا بسا ہوا ہے۔‬
‫مگر اب میں دیکھ رہا ہوں کہ لفظوں سے ان کی گرفت ڈھیلی ہو تی جا‬
‫رہی ہے۔ یادوں میں تناؤ تو ہے مگر بکھر اؤ زیادہ ہو گیا ہے۔ ایک ساتھ اتنی‬
‫زیادہ یادوں کا دباؤ کہ جیسے ساغر چھلکنے لگے۔ پڑھنے والے کو کہیں‬
‫انشائیہ کا لطف آتا ہے۔ کہیں سوانح کا کہیں یادداشت ناموں ‪memoirs‬کا‬
‫‪،‬کہیں ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری رعایت تمام‬
‫چیزوں کو بہ یک وقت باندھ دیتی ہے۔ حت ٰی کہ زمانے کا سلسلہ بھی بار بار‬
‫ٹوٹ جاتا ہے ‪ ،‬مکان یا مقام بھی بہت دیر تک ایک صورت میں قائم نہیں‬
‫رہتا۔ مگر لہور بار بار عود کر آتا ہے۔‬
‫’’ہیلولہور‪،‬تیرے رنگ ہزار۔ میں کون؟مان کا دیو۔ دیو گندھار۔‬
‫جھک گیا آسمان۔ ہم قربان!کتھا سرکس عرف صدیوں پہ پھیل فاصلہ‬
‫سنت نگر وشنو گلی۔ گھوڑا اسپتال کہاں کا ؟‬
‫لہور کا ‪،‬اور کہاں کا ؟‬
‫سپنے میں دیکھا ‘نیل گنبد۔ دیوگندھار کا ایک نام۔ امریان۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سرپٹ‬
‫میدان‪،‬گھوڑا ندارد۔ اس کے باوجود میں ہوں اپنی شکست کی آواز !‬
‫۔ ۔ ۔ نگری نگری پھرا مسافر ‪،‬گھر کا رستہ بھول گیا۔‬
‫میں ہوں خانہ بدوش‘۔ ۔ ۔ ۔ امرت یان کی کتاب۔ میاں بشیر احمد ایڈیٹر‬
‫’’ہمایوں‘‘ نے اس کتاب کا دیباچہ لکھنے کے لئے لہور سے کراچی جا کر‬
‫سمندر کے کنارے بیٹھ کر قلم کا سفر طے کرنا مناسب سمجھا۔ ہاں ہاں‬
‫لہور سے چھپی تھی یہ کتاب۔ آزادی سے سات برس پہلے اب کون سا‬
‫الپ شروع کیا جائے۔‬
‫میری تیری اس کی بات ‪،‬ایک اور سوغات امرت یان کی ایک کتاب گائے‬
‫جا ہندوستان!‬
‫الخاموشی نیم رضا!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا!‘‘‬
‫دیوندر ستیارتھی کے لئے لہور شہروں کا شہر ہے۔ جہاں گیر اور نور جہاں‬
‫کا شہر۔ نورجہاں نے خود ایک خط میں شاہ جہاں کو یہ شعر لکھا تھا۔‬
‫ت دیگر خریدہ ایم‬
‫ن برابر خریدہ ایم جاں دادہ ایم و جن ِ‬
‫لہور را بہ جا ِ‬
‫مغلوں نے دہلی ‪ ،‬آگرہ اور لہور میں سمر قند اور بخار ا بسائے تھے۔ ان‬
‫شہروں کو انہوں نے اپنے ذہنوں میں آباد کر رکھا تھا۔ انہیں کا عکس ان‬
‫کے منصوبوں میں دکھائی دیتا ہے۔ خواہ وہ دلکش باغ جیسی شکل میں‬
‫ہو کہ تاج محل یا لل قلعہ کی شکل میں۔ ہر جگہ وہی نفاست ‪،‬ذوق جمال‬
‫کی تسکین کا سامان ‪،‬تہذیبی خوش آہنگی کی جستجو۔‬
‫’’ارے بھئی یہ میں نہیں کہتا ‘ یہ دعو ٰی تو لہور والے ہی نہیں۔ ادھر سارے‬
‫مشرقی پنجاب والے بھی کر تے آئے ہیں ‘‘ستیارتھی نے کہا کیا آپ لوگوں‬
‫نے نہیں سنا ‘ نئیں ایسا شہر لہور دیاں‘۔ )کوئی شہر لہور کی برابری‬
‫نہیں کر سکتا( اور ان کا یہ دعو ٰی تو ہر زبان پر چڑھا ہوا ہے۔ تقسیم کے‬
‫بعد بھی کیا ادھر کیا ادھر۔ کسی کا بس ہو تو یہ محاورہ تقسیم کر دے‬
‫’’جیڑا لہو ر نئیں دیکھا او جنمائی نئیں‘‘)جس نے شہر لہور نہیں دیکھا‬
‫گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ (‬
‫دیوندرستیارتھی کے لئے اس دھرتی کے عظیم تہذیبی ورثے ناقابل تقسیم‬
‫ہیں۔ خواہ وہ ہڑپا ّ اور موہن جو داڑو ہوں یا کھجوراہو‪ ،‬ایلورہ اجنتا ہو کہ‬
‫اردو زبان یا کسی بھی علقے کی لوک روایت اور اس کی رنگا رنگ‬
‫وراثت یعنی ہماری شناخت۔ دیوندر ستیارتھی نے اپنی عمر عزیز کا ایک‬
‫بڑا حصہ لوک گیتوں کو جمع کر نے میں صرف کیا ہے۔ وہ بستی بستی‬
‫گھومے ہیں۔ فطرت کے آغوش میں پلنے بڑھنے والے معصوم دیہاتیوں اور‬
‫قبائلیوں کے ساتھ ان کے غموں اور خوشیوں میں شریک ہوئے ہیں۔ ایک‬
‫بنجارے کی طرح ‪،‬بندہ عشقم و ازہر دو جہان آزادم کے مصداق ہزاروں‬
‫کو س کے سفر طے کئے ہیں اور وہ جہان اندر جہان بھی دیکھے ہیں جو‬
‫ن دیگر‘ تھے۔ ستیار تھی نے ان عوامی نغمات‬ ‫میر کے لفظوں میں ’ جہا ِ‬
‫میں جو آفاقیت چھپی ہوئی ہے‪ ،‬یعنی انسانی روح کہ آفاقیت اسے ڈھونڈ ھ‬
‫نکالنے کی سعی کی ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں لوک گیتوں کو پرو‬
‫پرو کر بات کہی ہے اور اس تکنیک میں وہ اپنے سارے معاصرین سے‬
‫مختلف ہیں۔ لہور کی طرح یہ لوک ورثہ بھی ان کی یادداشت اور ان کے‬
‫ی قریب و بعید کی یادوں‬ ‫ضمیر کے تہ کدوں میں محفوظ ہو گیا ہے۔ ماض ِ‬
‫کے ساتھ لوک گیتوں میں مضمر خواب اور خواہشیں‪ ،‬ملنے اور بچھڑنے‬
‫‪،‬کے سکھ اور دکھ کے ننھے منے جذبے‪ ،‬انسانی بنیادی نیکی اور معصومیت‬
‫کے احوال انہیں تہ کدوں میں گھل مل گئے ہیں۔ ایک یاد دوسری کی اور‬
‫دوسری‪ ،‬تیسری کی محّرک اس طرح یکے بعد دیگر کئی یادیں بر‬
‫انگیخت ہو جاتی ہیں۔ یہاں یاد ماضی عذاب ہی نہیں ہے بلکہ ایک خوش‬
‫کن اور راحت آگیں تجربہ بھی ہے۔ اس توسط سے ستیارتھی وقت کو‬
‫اپنے سارے پھیلؤ کے باوجود اکائی میں دیکھتے ہیں۔ ا س طرح ان کے‬
‫گزشتہ بیس پچیس برسوں میں لکھے ہوئے افسانوں میں مصوری کا وہ‬
‫عمل اپنی حاوی صورت میں نظر آتا ہے جس کے ایک سے زیادہ نام ہیں۔‬
‫آپ اسے مونتاژ بھی کہہ سکتے ہیں۔ کولژ بھی‪ ،‬اور اسمبلژ بھی۔ فنی‬
‫تکنیک کے لحاظ سے آزاد تلزمہ خیال یا نفسیاتی اصلح میں یاد آوری‪ ،‬باز‬
‫آوری ‪ anamnasis‬اور خواب آوری سے بھی یاد کر سکتے ہیں۔‬
‫اس تکنیک میں بیک وقت کئی گوناگوں تجربات اور وارداتیں ایک واحدے‬
‫میں ڈھل جاتی ہیں یا ان کے بکھراؤ کے تاثر کو ارادتا ً برقرار رکھنے کی‬
‫سعی کی جاتی ہے۔ ستیارتھی کے افسانوں میں ماضی کی یادیں اور‬
‫لوک گیت بہ باطن تو مربوط ہیں یا انہیں ذہانت کے ساتھ ربط دیا جا سکتا‬
‫ہے مگر بہ بظاہر ان میں کوئی باہمی تال میل دکھائی نہیں دیتا یا یہ کہیے‬
‫کہ کم سے کم دکھائی دیتا ہے۔‬
‫ساتویں دہائی تک کے افسانوں میں پلٹ ‪،‬کردار اور تکنیک بالکل واضح‬
‫ہے۔ کہانی جو ڑ جوڑ سے کسی بندھی ہے۔ سلسلہ بہت کم ٹوٹتا ہے آدھا‬
‫ادھورا کہیں نہیں چھوٹتا۔ ستیارتھی نے ان افسانوں میں لوک گیتوں کے‬
‫لئے پلٹ میں ایسی گنجائشیں نکالی ہیں کہ وہ سلسلے کے تحت از خود‬
‫نمایاں ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ مثل ً ہرے رنگ کی گڑیا ‪ ۱۹۵۵‬ء میں صوفیا نام‬
‫ور ہے‪ ،‬وہ کٹھمنڈو میں پیدا ہوئی‪ ،‬بچپن‬
‫کی ایک لڑکی ہے جس کا باپ مص ّ‬
‫کے ابتدائی برسوں میں اس کی ایک انڈونیشیائی آیا تھی جو اسے‬
‫انڈونیشیا ئی لوک گیت سنایا کر تی تھی۔ سات برس کی عمر سے اسے‬
‫نیپالی لوک گیت سننے کا موقع مل۔ صوفیا خود بھی بہت اچھی مصور‬
‫طوں میں پروان چڑھنے والے لوک گیت بے حد‬ ‫ہے۔ اسے بھی مختلف خ ّ‬
‫پسند ہیں وہ خود بھی اپنے دوستوں کے درمیان لوک گیت سناتی ہے اور‬
‫دوسری اجنبی بولیوں کے گیت بڑے چاؤ سے سنتی ہے۔‬
‫میرے ساتھی نے اس شرط پر ایک ڈوگری لوک گیت پیش کر نا منظور‬
‫کیا کہ صوفیا ایک انڈونیشیا ئی لوری سنائے اور ایک نیپالی لوک گیت جس‬
‫میں نیپال کی روح بول رہی ہو۔‬
‫’’ہاں ہاں منظور ہے‘‘ صوفیا نے وعدہ کیا‬
‫میرے ساتھی نے وہ گیت سنایا جس میں کوئی بھگت اپنے بھگوان سے‬
‫شکایت کرتا ہے۔‬
‫ہر یا میں کئیاں کری جہاں تیرے نام ؟‬
‫گھراں جو رو ‪ ،‬بنائی لیندی کامے!‬
‫ڈنگر ے گی چھڈی آیاں دھارا‬
‫منوآں کھڈیاں‬
‫نہوئی دھوئی لگیاں رسوئی‬
‫ج آؤ نائی منوئے دے مامے!‬
‫ا ّ‬
‫ہر یا! میں کئیاں کراں جہاں تیرے نامے !‘‘‬
‫’’ہے ہری ! میں کس طرح تیرا نام جپوں ؟ گھر میں جورو‪ ،‬مجھے غلم‬
‫بنائے رکھتی ہے۔ ڈھور‪ ،‬ڈنگروں کو سامنے والی پہاڑی چھوڑا )اب جورو‬
‫کہتی ہے( منے کو کھلؤ نہا دھوکر رسوئی کا کام شروع کر دو۔ آج منے‬
‫کے ماموں نے ہمارے ہاں آنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ہے ہری ! میں تمہارا نام‬
‫کیسے جپوں!۔ ۔ ۔ گیت کا مفہوم بتایا گیا تو صوفیا دیر تک کھلکھل کر‬
‫ہنستی رہی۔ میں نے سوچا کہ نیلے لباس والی یہ جدید قسم کی جل پری‬
‫جب بیاہ کرے گی تو شاید اپنے شوہر کو اتنا غلم نہیں بنائے گی جتنا کہ‬
‫ڈوگری گیت میں ایک شوہر کی تصویر پیش کر تے وقت کسی لوک کوی‬
‫نے دکھانے کی کوشش کی تھی‘‘۔‬
‫س ہٰذا ایک واضح سیاق و سباق رکھتا ہے۔ یہاں ستیار تھی نے تمام‬
‫اقتبا ِ‬
‫چیزوں کو ایک مرکز پر سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ آپ محسوس کریں‬
‫گے کہ افسانہ نگار اپنی افسانوی اہلیت ‪ competency‬کا بہتر سے بہتر‬
‫طور پر اظہار و استعمال کرنا چاہتا ہے۔ مگر اہلیت کی بھی اپنی حدیں‬
‫ہیں۔ ستیارتھی نے ان حدوں کو کبھی توڑنے کی سعی نہیں کی۔ انہیں کے‬
‫معاصرین میں عزیز احمد‪،‬حسن عسکری ‪،‬ممتاز شیریں‪ ،‬منٹو‪،‬بیدی اور‬
‫عصمت چغتائی نے اپنے انفراد کے نقش کو جس طرح نمایاں کیا ہے وہ‬
‫صورت ستیارتھی کے یہاں بہت کم نمایاں ہوتی ہے۔ تاہم ‪ ۷۰‬کے بعد کے‬
‫افسانوں میں جس طور پر انتشار کی صورت اجاگر ہوتی ہے۔ وہ ان کے‬
‫گزشتہ افسانوں میں نظر نہیں آتی اور یہی چیز ان کو دوسرے افسانوں‬
‫سے ممتاز بھی کرتی ہے۔ ‪ ۷۰‬کے بعد کا افسانہ پل کنجری اسی نوعیت کا‬
‫افسانہ ہے اس میں بھی ان کا پاشان یا تری افسانے میں سوتر دھار بنا‬
‫ہوا ہے۔ پاشان یا تری کون ہے ؟سوائے ستیارتھی کے ‪،‬جس کی روح تاریخ‬
‫کے مختلف ادوار اور ان کے نشانات میں رچ بس جانا چاہتی ہے۔ بلکہ‬
‫رچی بسی ہوئی ہے۔ پل کنجری کا آغاز ان لفظوں سے ہوتا ہے۔‬
‫’’آج پھرپاشان یاتری کو تاج محل کے سامنے ریت کے گھروندے بناتے‬
‫دیکھا۔ ۔ ۔ موہن جوداڑو کو سر پر اٹھائے او ر کھجوراہو بغل میں‬
‫دبائے۔ ۔ ۔ ہمیں تو موہن جوداڑو اور کھجوراہو میں بھی تاج محل نظر آتا‬
‫ہے۔‬
‫گھٹنوں پر کہانیاں‪ ،‬ہتھیلیوں میں چہرہ کیا بانو‪ ،‬کیا دیو یانی۔ اندھا ہاتھی‬
‫سنے گا تو ہنس دے گا پل کی طرف کھلی رہے گھر کی کھڑکی۔‬
‫جے ہو! جے ہو ! پل کنجری تیری جے ہو۔‘‘‬
‫’’کہانی میں پل کنجری۔ جیسے آئینے کے سامنے بصرے کی حور‪،‬بانو‬
‫آپا۔ ۔ ۔ یہی تو میں کہہ رہی تھی۔ دیویانی کہ آنکھ کا پانی سوکھنے نہ پائے۔‘‘‬
‫آندھی کہاں سے ُاٹھی؟ملتان سے‪،‬جہاں مورا کنجری کا جنم ہوا۔ واہ ری‬
‫موراں !تیری آنکھ کا جادو۔‬
‫رات بھرتھرکتی رہی موراں‪:‬‬
‫’’عشقے دی گلی کوچوں کوئی کوئی لنگھ دا‘‘‬
‫مہاراجہ کے خزانےمیں آیا کو ِہ نور اور رنواس میں موراں۔ ۔ ۔‬
‫گھنگھرو کی جھنکار ‪،‬سکہ تیرے نام کا واہ ری موراں!‬
‫گھوڑے نہیں ہاتھی بیچ کر سوئے اوتار اور شہریار۔ ان کی زبان پر بچپن کا‬
‫گیت‪:‬‬
‫اٹکن بٹکن دہی چٹاکن‬
‫اگل جھولے‪ ،‬بگل جھولے‬
‫ساون میں کریل پھولے‬
‫رفو گر امام علی کی اور بات جس کے لئے درویش کی بات پتھر کی‬
‫لکیر‪ ،‬شل لیکھ پر درویش کے ساتھ تین بندر۔ یہ تصویر دیکھتے دیکھتے وہ‬
‫سوئی میں دھاگا پروتا اور کپڑے کے گھاؤ سیتے ہوئےگنگناتا‪:‬‬
‫پیسے کا لوبھی فرنگیا‬
‫دھوئیں کی گاڑی اڑائے لئے جائے‬
‫’’گھاٹ پر جانے سے پہلے جوتے مت اتارو‘‘ درویش نے کہا تھا۔‘‘‬
‫اس اقتباس کو آپ ایک سے زیادہ بار پڑھیں۔ تب بھی کہانی کو اپنے دماغ‬
‫ہی میں سہی ایک سلسلے میں پرونا مشکل نظر آتا ہے۔ ہر پیرا گراف‬
‫میں بات کا رخ بدل جاتا ہے۔ بات جملوں میں نہیں کہی گئی ہے بلکہ‬
‫فقروں کا تواتر ہے۔ افسانہ نگار اشاروں اور کنایوں میں اپنا تاثر بیان کر‬
‫رہا ہے۔ پوری کہانی سے جو تاثر ابھرتا ہے وہ اسی تقسیم کے کرب اور‬
‫تقسیم کے المیے کا رد ّ عمل ہے۔ جسے اپنے ذہن سے جھٹکنا ستیارتھی کے‬
‫بس میں نہیں۔ یادوں کی جھڑی سی لگی ہوئی ہے۔ مگر افسانہ نگار کو‬
‫پھر بھی تھوڑا بہت انہیں باندھنے کی اہلیت ہے۔ جب کہ ادھر پانچ دس‬
‫ورانہ اسمبلژ و کو لژ کا عمل دخل زیاد ہ‬ ‫برسوں کے افسانوں میں مص ّ‬
‫ہو گیا ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ کولژ میں ارادہ کام کر تا ہے اور جہاں تک‬
‫میں سمجھ سکا ہوں ستیار تھی کے یہاں محض ایک َروکا م کر رہی ہے۔‬
‫جو اپنی راہ آپ بناتی ہوئی جا رہی ہے۔ ان کہانیوں میں ستیارتھی کے‬
‫مختلف نام بھی تواتر کے ساتھ آتے ہیں۔ پاشان یاتری کے علوہ امرت یان‬
‫اور ستیہ کام وغیرہ‪ ،‬ایک ازلی مسافر۔‬
‫’’دائرہ در دائرہ ‘دائرے میں ایک سیدھی لکیر۔‬
‫امرت یان کا ایک نام ستیہ کام۔ وقت کروٹ بدلتا ہے کہو اب کون سی‬
‫تصویر دیکھو گے ؟‬
‫میرا نام ‪،‬تیرا نام۔ َان کہی سرگوشیاں ‪،‬قلم قبیلہ‪‘،‬کتھا سرکس جو ڈراتا‬
‫ہے ‪،‬خود اپنے سے پوچھتا ہے۔ کیا تمہیں ہنسنا نہیں آتا ؟کہیں موسم خراب‬
‫نہ ہو جائے ‪،‬کویتا کی ماں!‬
‫گفتگو میں جستجو ‪،‬جستجو میں آرزو۔‬
‫آرزو میں کتھا سرکس۔ ہم چشم دید تماشائی۔ بس یہی سوچتے رہتے ہیں‬
‫کہ زندہ رہنے کا کیا مقصد ہے! اس کے باوجود!وجود مفت ہاتھ آئے تو برا‬
‫کیا ہے۔‬
‫سڑک پر چل رہا ہے اخبار کا ہاکر۔ ۔ ۔ ۔ پنچم سے بلند آواز میں۔ ۔ ۔‬
‫میرا نام تیرا نام۔ ۔ ۔ ویت نام۔ ۔ قصہ ادھورا ہی رہا۔ کبھی کبھی کتھا‬
‫سرکس اداس ہو جاتا ہے۔ صبح کا تازہ اخبار آج نہیں آیا۔ ہم جانتے ہیں‪،‬ہم‬
‫کیا ہیں۔ ایک نہ ایک معصوم سوال۔ کیا ہم اپنے آپ میں گم ہیں۔‘‘‬
‫اس اقتباس میں گزشتہ اقتباس سے زیادہ بکھراؤ ہے۔ یہ پاشان یا تری کا‬
‫اندر اور باہر کا طویل تر سفر ہے۔ جہاں ٹھہراؤ کے لمحے کم ہی آتے ہیں۔‬
‫جیسے مختلف رنگوں کی تصویروں کو گڈ مڈ کر کے کسی کینوس پر جو‬
‫ڑ دیا جائے۔ تحریر میں اس طرح کی صورت کو نحوی بے قاعدگی‬
‫‪ anacoluthon‬کا نام دیا جاتا ہے۔ افسانے میں اگر اس قسم کی صورت‬
‫کہیں کہیں پیدا ہو جا تی ہے۔ تو کوئی مضائقہ نہیں مگر کتھا سرکس ‘ پل‬
‫کنجری ‘ کفن‪ ،‬ایک سو ایک سال اورجے امرت شان میں ریزہ خیالی‬
‫اپنی انتہا پر ہے۔ ادھر ادھر سارے بکھرے ہوئے سروں کر جوڑ کر چلنے کا‬
‫کام قاری کا ہے۔ وہ جوڑ کر کیسا پیکر بنا تا ہے۔ یہ اس کی اہلیت اور‬
‫صلحیت پر مبنی ہے۔‬
‫ستیارتھی کو اب صرف اپنے سوانح پر دھیان دینا چاہئے کہ وہ اب بھی لکھ‬
‫رہے ہیں اور سوچنے کے عمل سے کسی نہ کسی حد تک جڑے ہوئے ہیں۔‬
‫)یہ مضمون ستیارتھی کے انتقال سے پہلے لکھا گیا تھا(‬
‫جوگندر پال کے ناول ‪ :‬خواب رو میں آئرنی کی نوعیت‬

‫’’خواب رو‘‘ کا تھیم جوگیندر پال کا مرغوب ترین تھیم ہے‪ ،‬جسے انہوں‬
‫نے افریقی کہانیوں سے لے کر ’’آمدورفت‘‘ اور ’’کھل‘‘ تک کے اکثر‬
‫طویل و مختصر افسانوں میں برتا ہے۔ یہ تھیم‪ ،‬دراصل ان کا اور ان کی‬
‫معاصر نسلوں کا ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ ہجرت بالجبر ہو کہ بخوشی‪،‬‬
‫آدمی جسمانی سطح پر ہی اپنی سر زمینوں سے علحدہ نہیں ہو جاتا بلکہ‬
‫اس کا پورا ذہنی اور تہذیبی وجود ہی علحدگی کے عذاب سے دوچار ہوتا‬
‫ہے۔ کہیں دوسرے اجنبی دیس اس کے لیے ایک نئی آب و ہوا‪ ،‬ایک نیا جائے‬
‫وقوع مہیا کرتے ہیں اور وہ بہ باطن ایک مسلسل تنہائی کے گہرے غار میں‬
‫اترتا چل جاتا ہے اور کہیں اپنے ہی دیس میں اسے ایک بالجبر زندگی‬
‫کرنی پڑتی ہے۔ اسے جب اپنی ہی قوم شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی‬
‫ہے‪ ،‬اس کی تہذیب اور اس کے عقائد کو جھٹلنے کے نت نئے بہانے تلش‬
‫کرتی ہے‪ ،‬روزگار کے باب اس پربند کر دیے جاتے ہیں اور محض ذلت‪،‬‬
‫بھوک‪ ،‬خوف اور بے یقینی اور یکے بعد دیگرے ہجرت کے دکھ اس کی‬
‫تقدیر کے دوسرے نام بن جاتے ہیں تب اسے اپنے پیروں تلے زمین کا‬
‫بالشت بھر ٹکڑا بھی دھوکا معلوم ہوتا ہے۔ وہ کسے اپنا وطن کہے‪ ،‬کسے‬
‫اپنا رفیق ‪ ،‬کسے اپنا رہنما۔‬
‫جوگندر پال نے اس مسئلے کو ایک تلخ ترین حقیقت کے طور پر پیش کیا‬
‫ہے۔ اس حقیقت کا ایک سراغ انتظار حسین کے فن میں ملتا ہے۔ ان کے‬
‫اکثر افسانے اور بالخصوص ان کا ناول ’’بستی‘‘ اسی تھیم کا دوسرا‬
‫عنوان ہے۔ انتظار حسین اور جوگندر پال کے فنی برتاؤ میں قطبین کا‬
‫فرق ہے۔ مگر بعض اعتبار سے دونوں میں بلیغ مماثلتیں بھی پائی جاتی‬
‫ہیں۔ دونوں معاصر ہیں‪ ،‬دونوں مہاجر‪ ،‬فن کی حدود میں دونوں تجربہ‬
‫ی تھیم اور تلفیظ)ڈکشن( اور ماضی فہمی کا تعلق‬ ‫پسند‪ ،‬جہاں تک ادائیگ ِ‬
‫ہے دونوں کے احساس و ادراک کے طرز میں ترجیح کی بنا ایک دوسرے‬
‫کی ضد پر قائم ہے۔ یہی سبب ہے کہ انتظار حسین جہاں فاصلے کو وسیع‬
‫سے وسیع تر کر دیتے ہیں وہاں جوگندر پال فاصلے کی ہمیشہ ایک حد‬
‫قائم کر لیتے ہیں۔ حال جوگندر پال کا مرغوب صیغہ ہے اسی نسبت سے‬
‫ان کی افسانوی دنیا کا سارا کا سارا تناظر انتہائی قریب ترین اور‬
‫سامنے کا محسوس ہوتا ہے۔ جہاں کہیں انہوں نے ماضی کی طرف نگاہ‬
‫کی ہے۔ نگاہ ہر بار لوٹ کر اپنی پتلی میں جذب ہو جاتی ہے۔ انتظار‬
‫حسین کی طرح ماضی بعید سے نت نئے رشتے نہیں قائم کرتی۔ باوجود‬
‫اس کے دونوں کا کرب اور دکھ یکساں ہے۔‬
‫جوگندر پال نے ایک قدم آگے جست لگائی ہے۔ انہوں نے اپنے آپ میں‬
‫ڈوبنے کے بجائے دوسروں میں ڈوب کر سراِغ زندگی پایا ہے کہ وقت یا‬
‫سیاست کی ماری ہوئی خلقت جہاں کہیں بھی ہے اس سے ان کا درد کا‬
‫رشتہ ہے۔ یہی وہ قدرِ مشترک ہے جسے پال نے اپنی اکثر کہانیوں کا تھیم‬
‫بنایا ہے۔‬
‫’’خواب رو‘‘ میں شروع سے آخر تک ایک آئرنی ہے۔ اور یہ آئرنی‬
‫‪ anachronistic perspective‬کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ جہاں وقت‬
‫ہی گڈ مڈ نہیں ہو گیا ہے۔ بلکہ مقامات کی وحدتیں بھی تہس نہس ہو گئی‬
‫ل خواب سے زیادہ نزدیک ہے۔‬ ‫ل حقیقت سے کم عم ِ‬
‫ہیں۔ یہ صورت عم ِ‬
‫خواب میں وقت کی رو کا اپنا رخ اور اپنی رفتار ہوتی ہے۔ جس طرح‬
‫کسی چیز کے یکایک غیاب میں چلے جانے کا کوئی جواز واضح نہیں ہوتا‬
‫اسی طرح یکایک کسی چیز یا واقعے کی رونمائی کی پشت پر بھی‬
‫کوئی صاف صورت دکھائی نہیں دیتی۔ بہت کچھ دکھائی دینے کے باوجود‬
‫بہت کچھ آنکھوں سے اوجھل ہوتا ہے۔ اور دیکھنے والی ہماری خارجی‬
‫آنکھیں نہیں ہوتیں بلکہ داخلی بینشں ہوتی ہے۔ چوں کہ سارے مشاہدے اور‬
‫تجربے کی اساس ہی داخلی بنیشں پر ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے ردہائے‬
‫عمل بھی ہماری روزمرہ کی زندگی سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔‬
‫جوگندر پال کے ناول کی ساخت میں خواب اور حقیقت ایک دوسرے میں‬
‫اتنے ُ‬
‫گتھ گئے ہیں کہ ایک کو دوسرے علحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قیاس‬
‫بھی مشکل ہے کہ خواب کہاں تک خواب ہے۔ اور حقیقت کس حد تک‬
‫حقیقت ہے۔ پال نے دونوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا ہے۔ ایک لکھنؤ‬
‫محض خواب ہے اور دوسرا حقیقت‪ ،‬جو دوسرا حقیقت ہے وہ بھی محض‬
‫ایک خواب ہے۔ جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب کے حوالے سے آئرنی‬
‫کے اس تضاد کو بڑی فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ ابھارا ہے۔ جو تلخ بلکہ‬
‫انتہائی تلخ بلکہ ضرب کار اور حوصلہ شکن ہے۔‬
‫دیوانے مولوی صاحب ان لکھوں انسانوں میں سے محض ایک ہیں۔‬
‫جنہوں نے ایک نئی مملکت کے خواب دیکھے‪ ،‬اس خواب کو اپنے ذہنوں‬
‫میں مدتوں رچایا اور بسایا اور جب اس کی تعبیر ان کی تقدیر بنی تو وہ‬
‫ہکا بکا رہ گئے۔ یہاں اگر سحر‪ ،‬شب گزیدہ تھی تو اس کی وجوہ کچھ اور‬
‫تھیں‪ ،‬اجالے اگر داغ داغ تھے تو ان کے اسباب بھی قطعی مختلف تھے۔‬
‫اسباب خواہ کچھ ہوں‪ ،‬وطن عزیز کی تقسیم ایک زندہ حقیقت کے طور‬
‫پر عمل میں آ کے رہی۔‬
‫جوگندر پال نے دیوانے مولوی صاحب کی صورت میں ان ہزاروں لکھوں‬
‫معصوم انسانوں کی زندگی اور ان کی ذہنی و جذباتی کیفیات اور‬
‫ت حالت کی ترجمانی کی ہے۔ جنہیں تقسیم کے بھیانک نتائج کا‬ ‫صور ِ‬
‫احساس تھا نہ اس بات کا علم کہ اپنے پیروں تلے کی مٹی کو تج دینے کے‬
‫بعد کی صورت کتنی غیر متوقع ہو گی۔ المیہ اور وہ بھی بھیانک المیہ یہ کہ‬
‫مولوی صاحب جیسے حساس اور طبعا ً نیک انسانوں کو اس غیر متوقع‬
‫صورت کا احساس بھی نہیں ہے۔ کیوں کہ وطن عزیز تو اب بھی ان کی‬
‫یادداشت میں محفوظ ہے۔ جو ان کا معمول ہے‪ ،‬ان کی عادت ہے ان کی‬
‫شناخت ہے اس سے بچھڑنے کے معنی اپنی شناخت کھو دینے کے ہیں۔ ا‬
‫ور شناخت کھودینا اپنے حواس سے منقطع ہو جانا ہے۔ آئرنی یہ کہ مولوی‬
‫صاحب اپنے تئیں لکھنؤ ہی میں بسر کر رہے ہیں اور ان کے حواس بھی‬
‫خبطہیں۔‬
‫مولوی صاحب انہیں لوگوں میں سے ایک ہیں۔ جنہوں نے ایک نئی مملکت‬
‫کا نعرہ بلند کیا ہو یا نہ کیا ہو بہ باطن انہیں یہ یقین ہی نہیں تھا کہ بالخر‬
‫ایک نئے ملک کی ولدت ہو گی۔ اور انہیں آن کی آن میں اپنے تہذیبی اور‬
‫موروثی اثاثوں‪ ،‬روز مرہ کی معمولی اشیا‪ ،‬قریب و دور کے رشتوں ‪،‬‬
‫عزیزوں اور پرکھوں کی قبروں اور دیگر ان تمام حوالوں کو خیر باد کہہ‬
‫دینا پڑے گا جن سے ان کی ذات اپنی پہچان قائم کرتی تھی۔ خوشیوں کا‬
‫اپنا طور تھا۔ دکھوں کی اپنی لذت تھی۔ مولوی صاحب کے علوہ اور‬
‫ہزاروں ہزار افراد ہیں جنہیں ہجر ت کے اس شدید کرب سے دوچار ہونا‬
‫پڑا ہے۔ مگر خیر ہو زندہ یاد داشتوں کی کہ ان کا حیدر آباد‪ ،‬ان کا دہلی‪،‬‬
‫ان کا امروہہ ‪ ،‬ان کا الٰہٰآباد اور ان کا لکھنؤ ان کی سانسوں میں رچ بس‬
‫گیا ہے۔ وہی گلی کوچے وہی دکانیں‪ ،‬وہی شور‪ ،‬وہی سکوت ‪،‬وہی آداب‪،‬‬
‫وہی انداز گویا مملکتوں کو قطع کرنے والے خطوط ذہن کی آباد وحدتوں‬
‫کو ریزہ ریزہ نہیں کر سکے۔‬
‫بقول جوگندر پال‪:‬‬
‫’’لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مقامات ہمیشہ وہیں مقام کیے رہتے ہیں‘‘۔‬
‫مگر حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔ مولوی صاحب اپنے خواب میں مست‬
‫ہیں۔ ان کی محبوب بیوی اچھی بیگم بھی ان کی دیوانگی سے پوری‬
‫طرح واقف ہیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ نیندوں میں بسر کرنا خواہ‬
‫فاک ترین عمل سے اس کی‬ ‫کتنا ہی فریب دہ عمل ہو‪ ،‬حقیقت کے س ّ‬
‫مدت اور اس کا نقصان کم ہی ہے۔ مولوی صاحب کا پودا اب ایک ایسی‬
‫سرزمین میں لگا دیا گیا ہے۔ جہاں کی آب و ہوا‪ ،‬جہاں کی مٹی کی‬
‫خوشبو‪ ،‬جہاں کے نشوونما کے آداب قطعی مختلف ہیں۔ اس منطقے میں‬
‫نہ تو ان کی زبان کو سمجھنے اور برتنے والے ہیں نہ ان کی تہذیب اور ان‬
‫ب زندگی کے قدر شناس ہیں۔ وہ تو وہاں کے قدیم باشندوں پر بس‬ ‫کے آدا ِ‬
‫تھوپ دیے گئے ہیں۔‬
‫اچھی بیگم نہیں چاہتیں کہ مولوی صاحب کے ارد گرد جو التباس کی چادر‬
‫ت‬‫تنی ہوئی ہے۔ اس میں چاک پیدا ہو جائیں کیوں کہ مولوی صاحب حقیق ِ‬
‫حال کی کڑواہٹوں اور ظلمتوں کو انگیز نہیں کر پائیں گے۔ اچھی بیگم ان‬
‫ن عزیز ‪،‬اچھی بیگم کو ان کی‬‫کی محبت ہیں اور وہ اچھی بیگم کی جا ِ‬
‫نیندیں ان کا طویل ترین مسلسل خواب بلکہ ان کا پاگل پن بھی عزیز ہے‬
‫کہ پاگل پن ان کے بہت سے غموں کا دافع ہے۔ ح ّٰتی کہ مولوی صاحب کا‬
‫چھوٹا صاحبزادہ اسحق مرزا جیسا حقیقت پسند آدمی بھی اپنے اّبو کی‬
‫دیوانگی کو اّبو کے حق میں ایک رحمت قرار دیتا ہے۔ اس کا یہ خیال بھی‬
‫کم عبرت ناک نہیں کہ‪:‬‬
‫’’جو مہاجرین اپنے چھٹے ہوئے مقامات کی دید کو ترستے رہتے ہیں انہیں‬
‫زبردستی پاگل پن کے ٹیکے لگا دیئے جائیں۔ ایک لمحے کی چبھن ہی تو‬
‫ہے‪ ،‬جس کے بعد سرکاری شعبوں کے ضابطے سے آزاد ہو کر وہ اپنے‬
‫اولین مقامات پر ہنستے کھیلتے بسر کرنے لگیں گے۔‘‘‬
‫یہاں دونوں نسلوں کا فرق ‪ generation gap‬واضح ہے۔ ایک مولوی‬
‫صاحب کی صورت میں جو تقسیم ِ وطن سے قبل کی پیداوار ہیں۔ ا ور‬
‫ض‬
‫دوسری اس ٰحق مرزا ور ہاشم علی کی شکل میں جن کا مؤلد ار ِ‬
‫پاکستان ہے۔ خواب کی بھی آخر ایک حد ہے۔ اس لمبی نیند کو بالخر‬
‫کسی نہ کسی لمحے پر ٹوٹنا ہی تھا۔ دیوانے مولوی صاحب کے ساتھ بھی‬
‫خواب شکنی کا حادثہ ہو کر رہا۔ تقسیم کے بعد وہ اپنے لکھنؤ میں بھی‬
‫کہاں سکون سے تھے۔ کبھی کسی جگہ مقامی اور غیر مقامی کے مابین‬
‫تلواریں چل جاتی ہیں۔ کہیں خنجر زنی کی وارداتیں‪ ،‬کہیں لوٹ مار‪،‬‬
‫چوری ڈکیتی اور کہیں بم کے دھماکے۔ مولوی صاحب کے نزدیک اس‬
‫ساری افراتفری اور خلفشار کے پیچھے ان سندھیوں اور پنجابیوں کا ہاتھ‬
‫ہے جنہوں نے مقامی آبادی کا توازن بگاڑ دیا ہے )کتنی بڑی آئرنی ہے کہ‬
‫مولوی صاحب خود اس الزام کے مورد ٹھہرتے ہیں( ایک دن نواب محل‬
‫کے پائیں باغ میں ایک طاقتور بم کا دھماکہ ہوتا ہے اور چشم زدن میں‬
‫مولوی صاحب کا ہرا بھرا خاندان تہس نہس ہو جاتا ہے۔ ان کی دکھ درد‬
‫کی شریک بیوی اچھی بیگم‪ ،‬نواب بیٹا‪ ،‬بہو چاند بی بی اور ان کی لڈلی‬
‫نواسی ثرّیا زندہ درگو رہو جاتے ہیں۔ جیسے کوئی یکایک کسی بھیانک‬
‫خواب سے دو چار ہو اور چیخ مار کر بستر سے اٹھ جائے۔ مولوی صاحب‬
‫بھی یک دم نیند سے چونک پڑے۔ اب انہیں پتہ چل کہ وہ فی الواقعہ کراچی‬
‫ہی میں ہیں۔ جیسے وہ ابھی ابھی لکھنؤ سے کراچی آئے ہیں۔ جوگندر پال‬
‫نے اس آئرنی کو رفع نہیں ہونے دیا ہے۔ آئرنی تو مولوی صاحب کی بحالی‬
‫ہوش کے بعد بھی برقرار ہے۔ اس معنی میں کہ مولوی صاحب کے لیے ان‬
‫کی چہیتی بیوی‪ ،‬نواب مرزا‪ ،‬چاند بی بی اور ننھی سی جان ثرّیا اب بھی‬
‫لکھنؤ میں ان کی واپسی کے منتظر ہیں۔ ایک خواب کے بعد یہ دوسرا جو‬
‫پہلے سے بھی زیادہ بھیانک خواب کا آغاز یہ ہے کہ اب تو وہ عزیز از جان‬
‫افراد خانہ بھی ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکے ہیں‪ ،‬جنہیں ان‬
‫کی دیوانگی بھی عزیز تھی‪ ،‬جو ان کے بے لوث درد مند تھے جو ان کے‬
‫صحیح معنی میں رفیق و شفیق تھے۔ جوگندر پال نے آئرنی کے اس پہلو‬
‫کو بڑی فنکاری اور چابک دستی کے ساتھ ابھارا ہے۔‬
‫ت حالت کا بشری نقطۂ نظر سے جائزہ لیا ہے یہ‬ ‫جوگندر پال نے تمام صور ِ‬
‫نقطۂ نظر ہی ان کے ناول کا پلٹ ہے۔ جس میں ظالم نہ تو ظالم ہے اور‬
‫ت حالت کے شکنجے میں وہ‬ ‫نہ مظلوم اتنا مظلوم۔ کیوں کہ جس صور ِ‬
‫پھنسے ہوئے ہیں وہ ان کی ‪ destiny‬ہے۔ جو آہستہ آہستہ ایک پورے اجتماع‬
‫کو کسی نا معلوم ‪ catastrophe‬کی طرف کھینچے لیے جا رہی ہے۔ بلکہ‬
‫اسے ایک وسیع تر ‪ ironical situation‬کہنا زیادہ درست ہو گا۔ جس میں‬
‫ساری کی ساری خلقت دو مختلف دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔ اور دونوں‬
‫دھڑے ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے غلط‪ ،‬ایک‬
‫دوسرے کے دشمن‪ ،‬ایک دوسرے کے مقابل و متقابل۔‬
‫یہ بوالعجبی ہی ہے کہ اتنے بہت سے برسوں کے بعد بھی سندھی اور مہاجر‬
‫کے مابین تہذیبی دوئی برقرار ہے۔ اس دوئی نے ہی تفرقوں کی گہری‬
‫خلیجیں پیدا کر دی ہیں۔ جہاں فاصلہ ہے وہاں شکوک ہی پروان چڑھتے ہیں‬
‫اور ہر دو فریق ایک دوسرے کے حق میں آسیب بن جاتے ہیں۔ جوگندر‬
‫ت حال کی آئرنی کو اجاگر ضرور کیا ہے اور چوں کہ ہر‬ ‫پال نے اس صور ِ‬
‫دو فریق کی پوری سیچویشن ہی ‪ ironical‬ہے۔ جوگندر پال ایک کے حق‬
‫میں دوسرے کو مورد الزام نہیں ٹھہراتے بلکہ اس زبردست تضاد کو‬
‫ت‬
‫نمایاں کر کے دکھانا ہی ان کا مقصود ِ فن ہے جو ایک مخصوص صور ِ‬
‫حال کی ہر سطح پر قائم ہے۔ بشری باہمی عدم فہمی ہی اس بے حسی‬
‫س تمیز ہی کو معطل کر دیا‬‫ح ّ‬‫کی زایدہ ہے جس نے انسانی رشتوں کی ِ‬
‫ہے۔‬
‫ت حالت میں اس ٰحق مرزا بھی ہے جو دیوانے مولوی صاحب‬ ‫اسی صور ِ‬
‫جیسے مہاجر کا چھوٹا لڑکا ہے۔ اس ٰحق مرزا کو موجود نا آہنگیوں کا گہرا‬
‫شعور ہے اس نے تمام نفرتوں اور مخالفتوں کے باوجود ایک سندھی‬
‫لڑکی سے شادی کر لی ہے اور اس رشتہ زوجیت سے پوری طرح مطمئن‬
‫بھی ہے۔ نواب مرزا کی فیکٹری میں اکثریت سندھی کارکنان کی ہے۔‬
‫حکیم جمال الدین )مہاجر( کا بیٹا ہاشم علی بھی قدرے ترقی پسند واقع‬
‫ہوا ہے‪ ،‬اس کی بیٹی شہزادی ایک سندھی سے شادی رچا لیتی ہے اور وہ‬
‫دونوں کو خوش آمدید کہتا ہے۔ اس ٰحق مرزا کی ایک سالی کلثوم کی‬
‫شادی کسی پنجابی سے ہوتی ہے۔ اس ٰحق مرزا کا عزیز تر ین یار غار‬
‫یاور فقیر محمد ایک پنجابی ہے۔ ح ّٰتی کہ غریب طبقے میں بھی اسی‬
‫طرح کے رشتے پروان چڑھ رہے ہیں۔ جیسے عزیز جو کہ مہاجر ہے اس کی‬
‫بیوی کا تعلق ایک سندھی خاندان سے ہے۔ یہ رشتے جو نئی رفاقتوں اور‬
‫نئی آہنگیوں کے مظہر ہیں اسی فضا میں نشوونما پا رہے ہیں۔ جہاں‬
‫نفرتوں نے ایک کو دوسرے کا نقیض بنا دیا ہے۔‬
‫اس آئرنی کا سب سے عبرت ناک پہلو ناول کے آخر میں نمایاں ہوتا ہے۔‬
‫مولوی صاحب کے نواب محل میں جب بم دھماکہ ہوتا ہے۔ اور ان کے‬
‫بیش تر عزیز و اقارب اس حادثے کی نذر ہو جاتے ہیں۔ ایسے بحرانی‬
‫حالت میں ان کا باورچی سائیں بابا ہی ان کی ڈھارس بنتا ہے۔ جو نسل ً‬
‫سندھی ہے۔‬
‫’’ان کی اچھی بیگم اور نواب بیٹا اور چاند بی بی اور چہیتی ثرّیا ملبے‬
‫کی قبر میں دفن تھے اور ان کے اپنوں کے بجائے ایک غیر شخص‪ ،‬ان کا‬
‫باورچی‪ ،‬جس کے ہم ذاتوں کے باعث یہ بل نازل ہوئی تھی انہیں سہارا‬
‫دینے کے لیے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ جب اور کوئی نہ ہو اور دشمن ہی‬
‫سہارا دینے کے لیے بڑھ آئے تو محبوب سا لگتا ہے اور اسی کی بغلوں میں‬
‫سر دے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دینے سے چین آ جاتا ہے‪ ،‬سو دیوا نے مولوی‬
‫صاحب بھی بے اختیار سائیں بابا کے سینے سے آ لگے اور اتنا روئے کہ ان‬
‫کے ہوش و حواس بہ حال ہونے لگے‘‘۔‬
‫دوسری طرف باقیات میں سے ان کی چھوٹی بہو سلم ٰی تھی جو‬
‫ن‬‫سندھی گھرانے سے آئی تھی۔ وہ سلم ٰی ہی ہے جو بڑوں میں تنہا خاتو ِ‬
‫خانہ ہے۔ جس نے مولوی صاحب اور ان کے بچے کھچے چھوٹے بڑے افراد‬
‫کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ اس کی مادرانہ شفقت اور احساس ذمہ‬
‫داری تمام مغالطوں کی دافع ہے۔ انسان دراصل اپنی کلیت میں انسان‬
‫ہی ہے۔ جوگندر پال انسان کی بنیادی نیکی اور معصومیت کو برحق ‪،‬‬
‫اس کی وحشت ناکی‪ ،‬اس کے حرص و آز اور اس کی بدی کو طویل‬
‫عرصہ رواں کا محض ایک کمزور ترین لمحہ قرار دیتے ہیں۔ آئرنی یہ کہ‬
‫انسان‪ ،‬بشری فہم سے عاری ہوتا جا رہا ہے اسے اپنی ضدوں‪ ،‬اپنی‬
‫ت حال کی دو لختی اور نا آہنگیوں‬ ‫سائیکی کی پیچیدگی اور اپنی صور ِ‬
‫کا شعور ہی نہیں ہے جس کے باعث وہ اپنی سر زمین پر ہی کسی اجنبی‬
‫کی طرح زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔‬
‫جوگندر پال نے ایک نہایت ہی نازک ترین مسئلے کو اپنے ناول کا موضوع‬
‫بنایا ہے‪ ،‬قدم قدم پر ان کے بہک جانے کا ڈر تھا مگر جس کامیابی بلکہ فن‬
‫کارانہ کامیابی کے ساتھ وہ اپنے موضوع سے عہدہ بر آ ہوئے ہیں۔ وہ انہی کا‬
‫حصہ ہے۔ ان کے تجربے میں بڑی گہرائی ‪،‬پختگی اور صلبت ہے۔ ناول نگار‬
‫کا فن وہاں اپنے عروج پر ہوتا ہے جہاں ناول نگار اپنے نقطۂ نظر میں‬
‫واضح اور دو ٹوک ہو نیز اس کا نقطۂ نظر اس کے فن میں ایک دوسرے‬
‫کی تکمیل کی صورت میں حل ہو جائے۔ ’’خواب رو‘‘ اسی فنی ارتکاز‪،‬‬
‫دھیمے آہنگ اور لمحہ سکوت کی ایک شکیل ترین صورت ہے۔‬
‫اردو ناول‪ :‬تکنیک اور ہئیت کے تجربے‬

‫ناول ادب کی ایک اہم ترین صنف ہے۔ ہمارے یہاں ناول کی تاریخ زیادہ‬
‫سے زیادہ سو سوا سو برسوں اور مغرب میں ڈھائی تین سو برسوں پر‬
‫محیط ہے۔ تاہم یہ سوال جوں کا توں قائم رہتا ہے کہ ناول کے خصوصی‬
‫فن میں کون سی ہئیت یا کہانی ادا کرنے کی کون سی تکنیک معیاری‬
‫کہی جا سکتی ہے یعنی شاعری کی شعریات کے علوہ فکشن کی اپنی‬
‫افسانویت کیا ہے یا اسے کس طرح مرّتب یا مدّون کیا جا سکتا ہے۔‬
‫شاعری محض اسلوب کے نام پر زندہ رہ سکتی ہے‪ ،‬اس کے پاس لفظوں‬
‫کو بے قاعدہ ‪ ،‬بے اصولے طریقے سے برتنے اور لفظوں کے نئے معنیاتی‬
‫قرینے خلق کرنے کے اپنے جواز ہوتے ہیں۔ جب کہ فکشن میں زبان کے‬
‫اندر اور اندر چھپے ہوئے لمحدود تخلیقی اور تخئیلی امکانات کو بروئے‬
‫کار لیا جا سکتا ہے۔ لیکن زبان کے قواعد کو شاعری کے مقابلے پر توڑنا‬
‫کم ہی ممکن ہوتا ہے۔ شعور کی رو کی تکنیک کے تحت مغرب کی‬
‫مثالوں میں تو یہ ٹوٹ پھوٹ بہت نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے‬
‫ت ضمیر اور‬ ‫یہاں کسی بھی ناول نگار نے نہ تو اوقاف ‪ ،‬نہ واوین‪ ،‬نہ اشارا ِ‬
‫ل اقتباس کی رو میں حذف‬ ‫ف عطف وغیرہ کو ذہنی و فطری عم ِ‬ ‫نہ حرو ِ‬
‫ور ہمارے یہاں‬ ‫کرنے کی سعی کی اور نہ ہی ‪ capital letters‬کا کوئی تص ّ‬
‫قائم ہو سکتا ہے جس کے تحت اسماء و ضمائر کی تخصیص متعین کی‬
‫جائے۔‬
‫تھوڑے بہت فقروں اور جملوں کے درمیان فطری ‪ pauses‬یا بے ربطیاں‬
‫یا پر سکوت وقفے ضرور واضح ہو جاتے ہیں مگر اس عمل میں بھی‬
‫)فہیم اعظمی کے ناول جنم کنڈلی کے استثنا کے ساتھ( شدت کم سے کم‬
‫ہے۔ لغات سے چھیڑ چھاڑ یا لفظوں کے نئے قرینے وضع کرنا تو بہت دور‬
‫کی بات ہے‪ ،‬مروجہ لغات کے علوہ انہی نئے قرائن کا استعمال ضرور کیا‬
‫گیا ہے جو عوام میں رائج ہو چکے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شاعری‬
‫زمان و مکان کا ایک دھندل سیا ق و سباق رکھنے کے باوجود اسے اپنے‬
‫لیے شرط کے طور پر قبول نہیں کرتی۔ شاعری میں کئی زمانوں کا‬
‫سفر لمحوں میں طے کر لیا جاتا ہے اور اس منطقے میں زبان جو اندر‬
‫سے دھند قائم کرتی ہے‪ ،‬باہر کی روشنیوں سے زیادہ چکا چوند کرنے والی‬
‫ہوتی ہے۔ اس کے برعکس فکشن میں زبان کا عمل کئی دوسرے تکنیکی‬
‫مقاصد کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔ اسی لیے شاعری جس قدر آزادیاں اور‬
‫کھل کھیلنے کے مواقع فراہم کرتی ہے ‪ ،‬فکشن کی فطرت سے بعید تر‬
‫ہے۔ شاعری میں زبان اپنے بہترین تخلیقی جوہر کے ساتھ وارد ہوتی ہے‬
‫جب کہ فکشن میں تخلیق کے اس جوہر کی کمی کو اس میں نمو پانے‬
‫والے واقعات و کردار کے رمز آگیں اور اکثر مبہم اور غیر یقینی رشتے ا‬
‫ور علمتی معنویتوں سے بھری ہوئی ‪ situations‬اور ان کے سیاق و‬
‫سباق پُر کرتے ہیں۔ ان ذیلی حقائق کے باوجود ناول کی ہئیت اور تکنیک‬
‫کی معیار بندی ایک مشکل تر عمل ہے۔‬
‫حجم کے لحاظ سے اگر عزیز احمد کے طویل افسانوں کے علوہ ہاؤسنگ‬
‫سوسائٹی ایک ناول ہے تو ندی یا پانی کو کیوں محض ایک ناولٹ قرار دے‬
‫کر ناول کے زمرے سے الگ رکھا جا سکتا ہے۔ ناول تو لہو کے پھول بھی ہے‬
‫جس کی اپنی ایک دستاویزی حیثیت ہے اور کارِ جہاں دراز بھی ایک‬
‫نوعیت میں دستاویزی ہے۔ جو اپنا مواد سوانح سے اخذ کرتا ہے اور حجم‬
‫میں کئی اہم ترین ناولوں سے ضخیم بھی ہے بسیط بھی۔ ان کی نسبت‬
‫کیا گیان سنگھ شاطر یا ندا فاضلی کے دیواروں کے بیچ کو ہم ناول میں‬
‫شمار نہیں کریں گے۔ عبداللہ حسین کے ناول باگھ کے آخری ڈیڑھ دو سو‬
‫صفحات میں شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہے لیکن واقعاتی رو میں یہ‬
‫حصہ ضرورت سے زیادہ طویل ہو گیا ہے‪ ،‬تاہم یہ بھی ایک اہم ناول ہے اور‬
‫ابتدائی دو ڈھائی سو صفحات پر مشتمل تاریخ و تہذیب اور فلسفوں کی‬
‫انضمامی جز رسی کے باوجود ’’آگ کا دریا‘‘ ناول کی تاریخ میں ایک اہم‬
‫ترین واقعہ ہے۔ اسباب و علل کے قطعی سلسلے کے مطابق لکھے گئے‬
‫ایک چارد میلی سی ‪ ،‬مکان ‪ ،‬گھروندہ‪ ،‬یا شب گزیدہ یا دو گز زمین‬
‫جیسے ناولوں کا اپنا ایک مقام ہے تو اسی قطعیت سے بے دردانہ انحراف‬
‫ن وجود یا خواب رو جیسے ناولوں کا اپنا‬ ‫کی مثالوں میں سنگم‪ ،‬کاروا ِ‬
‫ایک فنی کردار ہے۔ کوئی ناول جیسے علی پور کا ایلی‪ ،‬گھروندہ‪)،‬شہاب(‬
‫ایک چادر میلی سی)رانو( یا مکان)نیر ا(کسی ایک کردار کے تلزمے سے‬
‫زندگی کی حیرتوں ‪ ،‬المناکیوں اور بوالعجبیوں کو اسی طور پر اخذ کرتا‬
‫ہے کہ فن اور زندگی کے مابین فکشن کی گہری یا دھندلی سی لکیر بھی‬
‫محو ہو جاتی ہے۔ تذکرہ‪ ،‬بستی‪ ،‬اداس نسلیں اور آخر شب کے ہم سفر‬
‫کے بے شمار کرداروں کے جھرمٹ بھی اپنے عمل و ردہائے عمل کے ایک‬
‫ن افتاں و خیزاں کے مظہر ہیں‪ ،‬جہاں اندیشہ و امکان کی کوئی‬ ‫ایسے جہا ِ‬
‫لکیر سیدھی‪ ،‬صاف اور مس ّ‬
‫طح نہیں دکھائی دیتی۔ گویا ناول کا فن اپنی‬
‫وع اور‬‫ہئیت میں اتنا سّیال اور اتنا وسیع ہے اور اس کی تکنیکیں اتنی متن ّ‬
‫تغیر پذیر ہیں کہ انہیں کسی ایک عنوان کے تحت اخذ کرنا کچھ کم دقت‬
‫طلب نہیں۔‬
‫ایک معنی میں تو ہر ناول ایک نیا تجربہ ہے کہ مواد کو جذب و قبول کرنے‬
‫اور ایک دوسرے قالب میں ڈھالنے کے موہوم ہی سہی اس کے کچھ اپنے‬
‫طریقے اور قرینے ہیں۔ دوسرے معنی میں اگر کوئی صنف اپنی ہئیت کے‬
‫بعض مخصوص اور صاف پہچان میں آنے والے معیار و اصول سے عاری‬
‫ہے جیسے نظم‪ ،‬افسانہ اور خود ناول تو وہ بادی النظر میں جتنی سہل‬
‫دکھائی دے گی اس کو عمل ً برتنا اتنا ہی دشوار گزار ہو گا۔ گزشتہ چار‬
‫پانچ دہوں میں لکھے ہوئے ناول اس لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں‬
‫کہ ان میں کسی ایک خاص ہئیت‪ ،‬کسی ایک خاص اسلوب یا کسی ایک‬
‫خاص تکنیک کو آزمانے سے بالعموم اجتناب برتا گیا ہے۔ بلکہ وہ تکنیکیں‬
‫جو خاصی مروج ہو چکی تھیں اور جنہیں ہمارے قریب ترین پیش روؤں‬
‫نے بالتکرار استعمال کیا تھا‪ ،‬نئی نسلوں نے انہیں یا تو التفات کے لیق‬
‫کم سمجھا یا اپنے ادراکات پر بھروسہ کر کے انکار و اقرار کے اپنے حدود‬
‫قائم کیے اور اپنی ترجیحات کی طرف زیادہ توجہ دی۔ ان برسوں میں جو‬
‫ہئیت و تکنیک کے تجربے کیے گئے انہیں واضح طور پر دو شقوں میں‬
‫تقسیم کیا جا سکتا ہے۔‬
‫وہ ناول جن میں پلٹ کو بنیادی تنظیمی اور ساختی ‪structural‬‬
‫اصولوں کے مطابق اخذ کیا گیا ہے اور جن میں زمان اپنی رو کے اعتبا ر‬
‫سے ایک فطری رفتار رکھتا ہے اور جو ناول کو ایک خاص خارجی نوع‬
‫ش بہاراں‪ ،‬چہرہ بہ چہرہ رو بہ‬‫کی ہئیت بھی مہیا کرتا ہے۔ جیسے آنگن ‪ ،‬تل ِ‬
‫ت سوس‪ ،‬زمین‪ ،‬خوابوں کا سویرا‪ ،‬دارا شکوہ اور غالب وغیرہ‪،‬‬ ‫رو‪ ،‬دش ِ‬
‫ر ٗوسی ہئیت پسندوں کی اصطلح میں پلٹ کی یہ ب ُّنت ‪ fabula‬یعنی‬
‫قصہ و کہانی سے مختلف معنی کی حامل ہے۔ روسی ہئیت پسند ‪ recit‬ا‬
‫ور ‪ histoire‬کو معنی کے دو علیحدہ علیحدہ خانوں میں رکھتے ہیں۔‬
‫‪ recit‬کسی بھی متن ‪ /‬بیانیہ میں واقعات کی سلسلہ وار تنظیم سے‬
‫عبارت ہے جب کہ ‪ histoire‬وہ سلسلہ ہے جس میں زمان کے مطابق‬
‫واقعات اپنی حقیقی صورت میں واضح ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ناول کا فن‬
‫زمان کے اس سلسلے اور واقعات کی رونمائی کی اس ترتیب کی نفی‬
‫ن غزل‪،‬‬‫کرتا ہے جو فکشن اور فینتیسی کے رد پر استوار ہے۔ ایوا ِ‬
‫فرار‪،‬کسی دن اور نا دید ہی نہیں مکان اور فائر ایریا کے پلٹ میں بھی‬
‫تنظیم کا جچا تل تصور کارفرما ہے حت ٰی کہ گیان سنگھ شاطر اور مدار‬
‫میں بھی زمان کی رو معین اور واضح سی ہے۔ کیا اس معین اور واضح‬
‫صورت کے باوجود ہم ان ناولوں کو من و عن تاریخ وار کہہ سکتے ہیں۔‬
‫یعنی جن میں حقیقی وقوعوں کو تاریخی ترتیب کے ساتھ جگہ دی گئی‬
‫ہو۔ ظاہر ہے یہ بھی ہمارا ایک بھرم ہی ہے۔ ان ناولوں میں بھی راوی جو‬
‫کہیں ظاہر اور کہیں مخفی ہے‪ ،‬داخلی تجزیوں ‪ interior analysis‬میں‬
‫وقت کی باطنی رو کے مطابق عمل کرتا ہے یا یہ کہیے کہ ذہن کی‬
‫نفسیاتی منطق کی کارکردگی وقوعاتی منطق کو رد کرتی ہے اور یہ‬
‫عمل ناول میں بڑی خاموشی اور اکثر غیر محسوس طور پر جاری رہتا‬
‫ہے۔‬
‫دوسری شق ان ناولوں سے عبارت ہے جن میں خارجی بنت کی ذمہ‬
‫داری قاری کے سر منڈھ دی جاتی ہے۔ ناول کے عادی قاری کے لیے‬
‫مختلف انمل پارچوں کو اپنے ذہن میں اپنے طور پر جوڑتے ہوئے چلنا ایک‬
‫ج ہوا پیچاں‪ ،‬خوش بو بن‬ ‫معمول کا حکم رکھتا ہے۔ خوشیوں کا باغ‪ ،‬مو ِ‬
‫کر لوٹیں گے۔ بیانات اور خواب رو جیسے ناول واضح طور پلٹ کی‬
‫مضمنوں ‪ episodes‬کے جماؤ میں بے‬ ‫روایتی تنظیم سے گریز مختلف ُ‬
‫ترتیبی ‪ ،‬اعمال و معروضات کے سیاق و سباق کی تفصیلت کے کم‬
‫سے کم یا زیادہ سے زیادہ بیان ‪ ،‬اکثر فقروں اور وقوعوں کی تکرار اور‬
‫کہیں کہیں قواعد ِ زبان سے انحراف کی مثالیں بھی مہیا کرتے ہیں۔‬
‫غضنفر کے ناول پانی میں طریق کار تمثیلی اور اکثر کردار ‪adopted‬‬
‫ہیں لیکن تمثیل کے اندر جو علمتی رو ہے اس کا سلسلہ ناول کے عادی‬
‫قاری کے لیے رسمی نوعیت ہی رکھتا ہے۔ اگر غضنفر یا مستنصر حسین‬
‫تارڑ اپنے ناول فاختہ کو ایک طویل بساط پر پھیل دیتے تو ناول کی‬
‫‪ consistency‬خطرے میں پڑ سکتی تھی۔ حالں کہ اس قسم کے ناول‬
‫ج ہو ا‬‫روایتی ‪ consistency‬کے تصور کے منافی ہی ہوتے ہیں۔ مو ِ‬
‫پیچاں ‪ ،‬اپنے اسی حجم میں جوڑ جوڑ سے کسا بندھا ہوا ناول ہے۔ کیوں‬
‫کہ داخلی کلمی میں ذہنی رو کی اپنی ایک آزادانہ منطق کام کرتی ہے‬
‫اور پھر وہ اور دیکھتی ہے نہ چھو ر۔ ناول کے اندر کی رو پر ساجدہ زیدی‬
‫ج ہواپیچاں‪ ،‬جگہ جگہ سے لخت‬ ‫کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے مو ِ‬
‫لخت ہونے سے بچ گیا۔ اس قسم کی تکنیکوں کو طویل ناولوں میں‬
‫صرف اور صرف قرۃ العین نے کامیابی سے برتا ہے یا علمتی سطح پر‬
‫عبداللہ حسین کا باگھ ایک کامیاب ترین مثال ہے۔ جوگندر پال اپنے حدود‬
‫ن وصل اتنا نہیں‬ ‫سے تجاوز نہیں کر پاتے اور انتظار حسین کبھی اپنا دام ِ‬
‫پھیلتے کہ اسے سمیٹنا مشکل ہو جائے۔ خطرات مول لینے کا سودا تو قرۃ‬
‫العین ہی کو آتا ہے۔ جو بکھرنا ہی نہیں سمیٹنا بھی جانتی ہیں‪ ،‬توڑتی ہیں‬
‫تو بنانے کے فن سے بھی واقف ہیں۔ انہیں شوخ و شنگ دریاؤں کے سفر‬
‫سے زیادہ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے زندگی سے معمور سمندروں کی سیاحت‬
‫ن خطر۔‬ ‫مرغوب ہے جہاں ہر لہر ایک لطمۂ موج ہے اور ہر موج ایک نشا ِ‬
‫بالعموم اس قسم کی تکنیکیں جو پلٹ کے خارجی نظم کو شکست و‬
‫ریخت سے گزارتی ہیں‪،‬ان کا راوی بہ ظاہر یا بہ باطن خود مصنف ہی ہوتا‬
‫ہے۔ وہ اپنی بکھری ہوئی معلومات‪ ،‬یادوں ‪ ، memoirs‬ذاتی‪ ،‬نجی‪ ،‬اور‬
‫نفسی تجربوں ‪ ،‬انسانی رشتوں کی آگاہیوں‪ ،‬گناہوں‪ ،‬ناکردہ گناہوں‪ ،‬عدم ِ‬
‫تکمیل خواہشوں‪ ،‬ناکام ارادوں ‪ ،‬کامیابیوں ‪ ،‬اور ناکامیوں جیسے تجربوں‬
‫کے اژدہام کو کبھی صبر اور کبھی بڑی بے صبری اور عجلت کے ساتھ‬
‫پلٹ میں ضم کرنے کی سعی کرتا ہے۔نتیجت ًہ زمانے گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ بہ‬
‫ظاہر وقت تنگ بہ باطن اس کی بساط ایک دور یا کئی ادوار تک پھیلی‬
‫ہوئی ہوتی ہے۔ یاد ِ ماضی کبھی عذاب بن کر ابھرتی ہے اور کبھی جذباتی‬
‫نا آہنگیوں اور نا آسودگیوں کے درمیان طمانیت کا بہانہ‪ ،‬بیانات میں یکے‬
‫بعد دیگر تین راویوں سے سابقہ پڑتا ہے تینوں راویوں کی پشت پر ایک‬
‫ہمہ بین و ہمہ دان راوی اور بھی ہے جو بیان کنندہ ہے اور عدم موجود ہے۔‬
‫لیکن ایسا عدم موجود جو بہ یک وقت ‪ heterodiegetic‬یعنی غائب‬
‫متکلم بھی ہے اور ‪ autodigetic‬یعنی بیانیہ میں حاوی موجود کردار‬
‫بھی۔ جسے تینوں راویوں کی معصومیتوں ‪ ،‬کمینگیوں ‪ ،‬ترددات اور‬
‫تاملت کا بخوبی علم ہے۔ جو چیزوں کو جتنا سلجھا تا ہے اتنا بلکہ اس‬
‫سے زیادہ الجھاتا بھی جاتا ہے۔ چوتھے راوی کی شمولیت سے جہاں کہانی‬
‫کے تانے بانے بگڑنے کا ڈر لحق تھا وہیں مصنف ایک سوتر دھار کی طرح‬
‫بڑی خوش مذ اقی اور بغیر کسی ذہنی تحفظ اور شعوری کوشش کے‬
‫اسے چست و درست بھی کر لیتا ہے۔ یہی صورت خواب رو کی ہے۔‬
‫آخرِ شب کے ہم سفر میں ایک سیاحتی ذہن برسرِ کار ہے جو بہ یک وقت‬
‫کئی ذہنوں اور روحوں کے اندر گھس کر ان کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وقت جگہ‬
‫جگہ سے الٹ پلٹ دیا جاتا ہے۔ ایک مضمنے ‪ episode‬کا گم کردہ سلسلہ‬
‫بہت دیر اور دور جا کر دوسرے مضمنے سے جا ملتا ہے۔ کرداروں کا اژ‬
‫دہام ہے‪ ،‬جو جتنا واضح ہے اتنا ہی مبہم بھی ہے۔ باز کشی ‪ flashback‬اور‬
‫بعد کشی ‪ flash forward‬اور متواتر ‪ cuts‬کے ذریعے فلمی اور مصورانہ‬
‫طریقے سے بہ ظاہر مختلف اور بے جوڑ ٹکڑے بڑی خوبی سے ایک واحدے‬
‫میں ڈھل جاتے ہیں۔ دیوندر اسر اور انور سجاد بھی اسمبلژ اور کولژ‬
‫کی مصورانہ تکنیکوں کو بروئے کار لتے ہیں لیکن ان تجربوں کا کینوس‬
‫ش رنگ چمن میں جتنی‬ ‫محدود ہے۔ قرۃالعین‪ ،‬کا رجہاں دراز ہے‪ ،‬یا گرد ِ‬
‫‪ autodiegetic‬ہیں۔ آخرِ شب کے ہم سفر میں ان کی شمولیت اتنی‬
‫نہیں‪ ،‬تاہم غیاب کے پردے میں بھی ان کی گونج صاف اور بہت صاف‬
‫سنائی دیتی ہے۔ چوں کہ اس گونج سے ہم جیسے قاری بخوبی واقف ہیں‬
‫اس لیے وہ اب ہمیں نہ تو نامانوس معلوم ہوتی ہے اور نہ کہیں بے جوڑ اور‬
‫زائد۔ قرۃالعین کا ’’میں‘‘ ان کی تحریروں میں ہمیشہ یہ تاثر فراہم کرتا‬
‫ت واحد ہی کا استعارہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک مکمل ہستی ہے‬ ‫ہے کہ وہ محض ذا ِ‬
‫جو کئی ہستیوں کا حاصل جمع ہے‪ ،‬جسے لسانیات کی اصطلح میں‬
‫‪ aggregate of the self‬یعنی مجموعی ذات کا نام دینا زیادہ درست ہو‬
‫گا۔ قرۃ العین کے انہی تجربات اور بالخصوص آگ کے دریا جیسے ناول‬
‫شکن تجربے نے جو مثال قایم کی تھی فہیم اعظمی کا ناول ’’جنم‬
‫کنڈلی‘‘‪ ۱۹۸۴‬ء اس کا یقینا ً اگل بہت اگل قدم ہے۔ جس میں تاریخ ‪،‬‬
‫سیاست ‪ ،‬فلسفہ اور مذہب اور ان سے وابستہ تصورات‪ ،‬روایات اور‬
‫وارداتیں ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ ایک کے بعد ایک مختلف‬
‫ضمائر کے اشارے ذہن میں کردار نہیں کردار کے ہیولے کھینچ دیتے ہیں۔‬
‫اور وہ بھی ایک دوسرے سے اجنبی۔ جن کی داخلی یا باہمی گفتگوئیں‪،‬‬
‫تناقضات و تضادات اور مختلف علمی اور تلمیحی کنایوں سے معمور‬
‫ہوتی ہیں۔ کہیں خواب گونی کی گہری گاڑھی دھند کے پس نظر سے‬
‫پھوٹتے ہوئے خود کلمیے‪ ،‬بحث مباحثے‪ ،‬تکرار‪ ،‬تاریخی و نیم تاریخی‬
‫اسماء اور ‪ allusion‬کے جمگھٹے ‪ ،‬لفظی تلزمات کی بے ہنگم رو‪،‬‬
‫شکوک ہی شکوک ‪ ،‬سوال ہی سوال جیسے کسی لمحے کی کوئی کل‬
‫سیدھی نہیں ہے۔ انہی لمحوں سے جوجھتا ہوا انسانی وجود محسوس تر‬
‫ہستی کا حامل بھی ہے اور طوفان بل خیز کی زد میں آیا ہوا ایک کمزور‬
‫تنکا بھی۔ پورا ناول انہی تلزموں اور طنز و تضحیک سے آلودہ فقروں اور‬
‫بیانوں سے بھرا ہوا ہے۔ ہر باب کے شروع میں سرئیلی طرز کی تجریدی‬
‫پینٹنگ کے نیچے کسی ایک وجودی مفکر کا قول درج ہے جو اس باب کی‬
‫باطنی فضا کے لیے ‪forshadowing‬یعنی پیش سایہ افگنی کا کام کرتا‬
‫ہے۔ یہ ناول بیانیہ کی تکنیک کو پوری طرح رد تو نہیں کرتا لیکن جز بہ جز‪،‬‬
‫لمحہ بہ لمحہ انحراف ضرور کرتا ہے۔ چمارن اور کشکول کی علمت کی‬
‫ت حال سے سابقہ پڑتا ہے جو‬ ‫بنیاد پر محض ایک مسلسل اور طویل صور ِ‬
‫ایک یا ایک سے زیادہ کہانیاں قاری کے ذہن میں برانگیخت کر دیتی ہے۔‬
‫بیان اور بیانیہ کی بحث سے قطع نظر فہیم اعظمی کا یہ ناول‪ ،‬ناول کے‬
‫فن کو ایک نئی راہ ضرور سجھاتا ہے۔‬
‫تاریخ کو ناول کے فن میں ضم کرنا ہمیشہ ایک اہم تکنیکی مسئلہ رہا ہے۔‬
‫خواہ تاریخ بادشاہوں اور شہزادوں سے متعلق ہو‪ ،‬ان ادوار یا ان ادوار کی‬
‫اہم اور نمایاں شخصیات کی۔ تاریخ اور ناول یعنی فیکٹ اور فکشن میں‬
‫کیف و کم کے اعتبار سے حدود قائم کرنا اور ان کا لحاظ رکھنا بڑا‬
‫مشکل کام ہے۔ تاریخ خود ایک رومانی منطقہ ہے جو جتنا نمایاں اور‬
‫واضح ہے اس سے زیادہ مخفی اور مسخ بھی ہے۔ ہر تاریخی ناول نگار‬
‫تاریخ کے انتخاب میں اپنا ایک مقصد رکھتا ہے جس سے اس کے نقطۂ‬
‫نظر کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ یہ اس لیے بھی کہ تاریخی ناول نگار کے لیے‬
‫تاریخ محض ایک خواب کا نام ہے جو ہمیشہ ‪ formative process‬میں‬
‫ہوتا ہے دیکھنے والے کی صوابدید بلکہ اس کے آئیڈیل پر مبنی ہے کہ وہ‬
‫تاریخ کو کس طرح دیکھتا اور اسے کس طرح پیش کرنا چاہتا ہے۔ جس‬
‫طرح تاریخ اس کو دکھائی دیتی ہے یا جس طرح اسے دیکھنا چاہتا ہے بس‬
‫وہی تاریخ ہے اور وہی چیز تاریخ کے اندر ناول کے موضوع کا تعین بھی‬
‫کرتی ہے۔ دارا شکوہ‪ ،‬صلح الدین ‪ ،‬منصور حلج‪ ،‬قرۃالعین طاہرہ یا ا میر‬
‫تیمور محض کردار نہیں ہیں۔ نقط ہائے نظر اور فنی معروضی تلزمے‬
‫بھی ہیں۔ جن کے حوالے سے ہم ایک ان کہی اور ان لکھی تاریخ سے‬
‫متعارف ہوتے ہیں۔ ان کہی تاریخ ہی ان نمونوں کا تحت المتن بھی ہے کہ‬
‫دارا شکوہ ہمارے عہد کے ضمیر کے قریب تر ہے۔ منصور حلج اور قرۃ‬
‫العین طاہرہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ مصنفہ کی آمرانہ مملکتوں میں اگر آج بھی‬
‫زندہ ہوتے تو بالخر رسن و دار ہی ان کی تقدیر ہوتا۔ انیس ناگی‪،‬‬
‫عبدالصمد‪،‬امراؤ طارق‪ ،‬اعجاز راہی‪ ،‬فخر زماں ‪ ،‬انور سجاد اور حسین‬
‫الحق کے کردار اور ان کا سیاق و سباق اس عظیم انسانی آئرنی کو‬
‫پوری آواز کی بلندی کے ساتھ نمایاں کرتا ہے۔ جو تاریخ سے زیادہ موجودہ‬
‫سیاست کے بے چہرگی اور عوامی بے حسی پر منتج ہے۔ مجموعا ً ایک‬
‫وسیع پیمانے پر انسانی زندگیوں کی بے حرمتی اور بے وقعتی ہی نہیں‬
‫تذلیل کا ڈرامہ اندر ڈرامہ‪ ،‬ان ناولوں کی تکنیک کا خاص پہلو ہے۔ جہاں‬
‫معنی کا ایک جز گم ہے وہاں بھی ہیرلڈ پنٹر کے لفظوں میں ‪The‬‬
‫‪ pressure behind the words‬ہمیں کئی ناگہانی آگاہیاں فراہم کرتا‬
‫ہے۔ اسی دباؤ کے تحت پلٹ کی ایک خاص نوع کی شکل متعین ہوتی ہے‬
‫اور امیجری کے قماشات کا امکان بھی اسی میں مضمر ہے‪،‬ان ناولوں‬
‫کے متون کا مافیہ جتنا شعوری ہے اس سے زیادہ لشعوری ہے۔ لشعوری‬
‫اس لیے بھی کہ طاقت کے مختلف زمروں اور صیغوں کا جبر اس کی‬
‫معصومیت کو خراب و پامال کر دیتا ہے یا توڑ مروڑ دیتا ہے۔ ان معنوں‬
‫میں متن کے سیاسی لشعور کے تصور کا اطلق ہم محولہ بال ناولوں پر‬
‫بڑی آسانی سے کر سکتے ہیں۔‬
‫مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ خطوط‪ ،‬ڈائری ‪ ،‬رپورٹس‪ ،‬داخلی‬
‫تجزیوں‪،‬ڈرامائی اور امیجری سے مملو جزئیائی تفصیلت ‪ ،‬خواب گوں‬
‫یادداشتوں‪ ،‬حوالوں‪ ،‬اسطوری اور تاریخی و نیم تاریخی ‪ allusions‬کی‬
‫مدد سے یقینا ً ہمارے نالوں کا داخلی کینوس کافی وسیع ہوا ہے۔‬
‫داخلی کلمی‪،‬شعور کی رو‪ ،‬اور مختلف مصورانہ اور بار بار افقی اور‬
‫عمودی یا دائیں بائیں جانب فوکس کرنے یا گڈ مڈ امیج قایم کرنے کی‬
‫فلمی تکنیکوں ح ّٰتی کے موسیقی کی علمتوں سے بھی جا بجا مدد لی‬
‫گئی ہے۔ پیش و پس آفرینی کے نت نئے طریقے آزمائے گئے ہیں۔ کردار‬
‫اور کردار کے ان ہزار پہلوؤں کا بڑی دقت کے ساتھ ‪ scansion‬کیا گیا ہے‬
‫جو اپنی بیش تر صورتوں میں عام انسانی بصارتوں سے اوجھل ہوتے‬
‫ہیں۔ کہیں کہیں جیسے اکثر پاکستان کے سیاسی ناولوں میں سارا تناظر‬
‫ہی ایک ہولناک کردار کا روپ دھارن کرلیتا ہے۔ اس قسم کے متنوع‬
‫تجربات نے ناول کی ہئیت کے رسمی پن پر کاری ضرب لگائی ہے اور نت‬
‫نئے قالب کے آثار رونما ہوئے ہیں۔‬
‫َ‬
‫مو ِج ہوا پیچاں‪ :‬ناول یا ناول کا محض ایک امکان‬

‫گذشتہ پانچ سات برسوں میں جن ناولوں کو موضوِع بحث بنایا گیا ہے‪،‬‬
‫انہیں بڑی آسانی کے ساتھ دو شقوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔‬
‫اول وہ ناول جن میں داخلیت کی رو گہری ہے اور جن میں مخاطبہ اندر‬
‫کی طرف ہے۔ اس قسم کے ناولوں میں بالعموم بیانیہ کی روایت سے‬
‫انحراف کیا گیا ہے یا داخلی رو کے شدید دباؤ کے تحت ناول نے اپنی‬
‫شکل آپ بنائی ہے۔ خود یافتگی کی یہ صورت ‪ autotalic‬نوعیت کی‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫اسی شق کے تحت ان ناولوں کا بھی شمار کیا جانا چاہیے جن میں خود‬
‫یافتگی کی صورت تو نمایاں نہیں ہے مگر دانستہ ایسی تدابیر کا‬
‫استعمال کیا گیا ہے کہ وہ خود یافتہ معلوم ہوں‪ ،‬یعنی وہ ایسا شائبہ دیں‬
‫جیسے ان کی تشکیل و تکمیل میں کسی پیش بند ارادے کو دخل نہیں‬
‫سر کا ناول ’’خوش بو‬ ‫تھا۔ انور سجاد کا ’’خوشیوں کا باغ‘‘ اور دیویندر ا ّ‬
‫بن کر لوٹیں گے‘‘ میں اسمبلژ اور کولژ کی مصورانہ تکنیک کا دخل ہے۔‬
‫قرۃ العین کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ میں بھی ا سمبلژ کی‬
‫صورت جا بجا نمایاں ہے مگر اسے ہم خود یافتہ ناول نہیں قرار دے سکتے۔‬
‫وہ ناول جن میں بدیعیت پر بنائے ترجیح رکھی گئی ہے جیسے غضنفر کا‬
‫ناول پانی۔ اور جن میں کردار سے ہی نہیں فضا تک میں استعارہ و تمثیل‬
‫کی ہنر مندیوں کو بروئے کار لیا گیا ہے۔ ان میں قدیمیات یا روایتی‬
‫اسالیب اظہار سے ایک خاص نسبت کا پتہ چلتا ہے باوجود اس کے معنی و‬
‫مقصد وہ اپنے عہد ہی سے اخذ کرتے ہیں اس لیے ان کا شمار بھی‬
‫تجرباتی ناول ہی میں کرنا چاہیے۔‬
‫دوم وہ ناول ہیں اور ایسے ناولوں کی تعداد نسبتا ً زیادہ ہے‪ ،‬جن میں‬
‫مخاطبہ باہر کی طرف ہے اور جن میں ‪histreographical element‬‬
‫دوسرے اجزا کے مقابلے میں جلی عنوان کا حکم رکھتا ہے۔ یہ وہی روایت‬
‫ہے جس کی پہلی خشت عبداللہ حسین‪ ،‬قرۃ العین حیدر‪ ،‬شوکت صدیقی‬
‫اور خدیجہ مستور نے ‪۱۹۶۰‬کے ارد گرد رکھی تھی۔ عبدالصمد کے ناول‬
‫’’دو گز زمین‘‘ نے اس روایت کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ ان ناولوں میں‬
‫مسائل کی نوعیت قومی یا اجتماعی ہے اس قسم کے ناولوں کی‬
‫تکنیکوں میں نمایاں فرق ہے مگر یہ تکنیکیں ادبی ناول کے قاری کے لیے‬
‫معمول کا حکم رکھتی ہیں۔ ان میں ہمارے حقائق و مسائل کے ذہنی اور‬
‫وجودی تجربات اس طرح ہم آمیز ہو گئے ہیں کہ حقیقت ‪ ،‬فن کے قالب‬
‫میں ڈھلنے کے باوجود اپنے کسی بھی تاثر میں وہ حقیقت ہی ہے۔‬
‫آپ ذرا سوچیں جہاں ایک طرف’’ فائر ایریا‘‘ کی بو دور دور تک پھیلی‬
‫ہوئی ہو اور انھیں دو چار برسوں کے دوران مستنصر حسین تارڑ کا‬
‫ج ہوا‬
‫’’بہاؤ‘‘ جیسا صدیوں پر پھیل ہوا ناول منظرِ عام پر آیا ہو۔ وہاں ’’مو ِ‬
‫پیچاں‘‘ کی کیا قیمت؟ ان معنوں میں کہ ناول کا فن‪ ،‬شاعری اور‬
‫افسانے کے مقابلے پر زندگی کے وسیع تر تجربے‪ ،‬تاریخ‪ ،‬سیاست اور‬
‫افراد کی نفسیات ‪،‬ان کے عمل و ر دہائے عمل‪ ،‬ان کی توفیق و بد‬
‫توفیقی‪ ،‬ان کے حدود اور ان کے اجبار وغیرہ کے گہرے علم کا مطالبہ کرتا‬
‫ہے۔ ناول‪ ،‬داخل و خارج کے تصادمات کی ایک معتبر دستاویز بھی اسی‬
‫وقت بنتا ہے جب ناول نگار کو اپنے جذبات و احساسات کے بے محابا‬
‫وفور پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ اس میں یہ صلحیت ہونی چاہیے کہ جہاں‬
‫چاہے وہ اپنی رفتار پر قدغن لگا دے اور جس جگہ چاہے انائے دگر میں ضم‬
‫ہو جائے‪ ،‬معروضیت کی ایک حد بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی داخلیت‬
‫کی‪ ،‬تب ہی ناول میں زندگی کا سارا زہر اتر سکتا ہے‪ ،‬ساری چمک ڈھل‬
‫سکتی ہے‪ ،‬اسی بنیاد پر ہم اسے اپنے عہدوں کا رزمیہ بھی کہتے ہیں۔‬
‫ج ہوا پیچاں‪ ،‬میں یقینا ً ایسا کچھ نہیں ہے یہ ناول نہیں ناول کا محض‬
‫مو ِ‬
‫ایک امکان ہے۔ نہ تو اس میں زمان و مکان کا کینوس وسیع ہے‪ ،‬نہ‬
‫زندگیوں کا اژدحام ہے۔ نہ ذہنی اور نفسیاتی کشاکشوں اور کشمکشوں‬
‫کو اپنے تناظرات میں ایک مناسب مہلت تک پھیلیا گیا ہے۔ جن افراد کے‬
‫نام درمیان میں آتے ہیں ان کی شخصیت و کردار کے محض چند جذباتی‬
‫پہلوؤں تک تو ہماری رسائی ہوتی ہے۔ علوہ اس کے ہم ان کے دیگر‬
‫ت زندگی سے کم ہی واقف ہوتے ہیں۔ میں یہاں پلٹ کی بات نہیں‬ ‫متعلقا ِ‬
‫کروں گا۔ کیوں کہ پلٹ کی ایک ہزار تعریفیں ہیں ‪ ،‬اور ناول نگار اپنے‬
‫طور پر کہانی بیان کرتا ہے یا کوئی روداد رقم کرتا ہے۔ جدید ناولوں میں‪،‬‬
‫بالخصوص وہ ناول جنہیں تجرباتی کہا جاتا ہے اور جن میں کہانی کہنے کی‬
‫منطق روایتی ہئیتوں‪ ،‬سانچوں اور طریقوں کو بے دردی سے توڑتی ہوئی‬
‫دکھائی دیتی ہے۔ ان میں پلٹ ناول کی گہری ساخت میں پروان چڑھتا‬
‫ہے بلکہ بیش تر اوقات پلٹ سازی کی ذمہ داری کا بار قاری کو اٹھانا پڑتا‬
‫ہے۔ اتنا ہی نہیں ہر قاری کے اسباب و علل اور محرکات و عوامل کے اپنے‬
‫پیمانے ہوتے ہیں‪ ،‬نیز اپنی فہم‪ ،‬اپنے علم اور اپنے تجربے کے مطابق وہ‬
‫پلٹ کو بنتا ہے۔ اس قسم کے پلٹ کو رولں بارتھ کے لفظوں میں‬
‫ج‬
‫مصنفانہ ‪ : writerly‬سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ اس معنی میں ’’مو ِ‬
‫ہوا پیچاں‘‘ کو آپ ایک مصنفانہ ناول بھی کہہ سکتے ہیں مگر ہے یہ محض‬
‫ایک ناول کا امکان۔‬
‫ج ہوا پیچاں‘‘ کو اس معنی میں تو تجرباتی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ‬ ‫’’مو ِ‬
‫کسی نئی تکنیک سے ہمیں متعارف کراتا ہے‪ ،‬کیوں کہ داخلی کلمی کی‬
‫تکنیک‪ ،‬خواہ اس میں شعور کی رو یا آزاد تلزمۂ خیال کا استعمال کیا گیا‬
‫ہو اب ہمارے لیے قطعی نامانوس نہیں رہی۔ اکثر ٹھیٹھ حقیقت پسند‬
‫ناولوں میں بھی اسے جزوا ً بلکہ معمول ً استعمال کر لیا جاتا ہے۔ دراصل‬
‫ہمارے ناولوں میں ایسا کوئی ناول نہیں ہے جسے اول تا آخر شعور کی‬
‫رو کا نمونہ کہا جائے۔ اس قسم کے ناولوں میں بل شبہ ایک سے زیادہ‬
‫تکنیکوں کا استعمال کیا گیا ہے۔‬
‫اکثر ناول نگار ابواب کی تقسیم میں زمان یا مکان کو سیدھی منطق‬
‫کے ساتھ بروئے کار نہیں لتے۔ ابواب کے درمیان طویل سکوت بیز وقفوں‬
‫کو قاری اپنی بصیرتوں کے مطابق ُپر کرتا جاتا ہے۔ اس طرح بہ ظاہر بے‬
‫تعلقی میں تحت اندر تحت ایک تعلق کی راہ پیدا ہو جاتی ہے۔ قرۃ العین‬
‫ج ہوا‬ ‫ً‬
‫کے تقریبا ہر ناول میں اس قسم کی صورت موجود ہے۔ ’’مو ِ‬
‫پیچاں‘‘ چھ ابواب پر مشتمل ہے اور ہر باب اپنے سابقے اور لحقے سے کٹا‬
‫ہوا ہے۔ مگر ابواب اتنے چھوٹے ہیں کہ انہیں ہم بڑی آسانی کے ساتھ اپنے‬
‫ذہن کدوں میں ایک دوسرے سے جوڑ کر آگے کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫ج ہوا پیچاں‘‘ میں ابواب ہی نہیں‪ ،‬ایک ہی باب میں تواتر کے ساتھ‬ ‫’’مو ِ‬
‫منظر بدلتے جاتے ہیں۔ بڑی سرعت سے ایک سیاق دوسرے سیاق میں‬
‫تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک مضمنہ یعنی ‪ episode‬ہی میں دوسری مضمنے کے‬
‫برگ و بار پھوٹ پڑتے ہیں۔ کہیں کوئی ایک لفظ‪ ،‬رعایت کا کام کرتا ہے‬
‫اور اسی لفظ سے ملتی جلتی وارداتیں رقم ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ہمیں‬
‫یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رعایت ‪،‬تطابق کے ساتھ مغائرت کی صورتیں بھی‬
‫نکالتی ہے اور اس طرح ایک دوسرے سے متضاد اور موافق انسلکات کا‬
‫سلسلہ تابہ دیر قایم رہتا ہے۔ اسی تکنیک کو ہم آزاد تلزمۂ خیال سے تعبیر‬
‫کرتے ہیں۔ ساجدہ زیدی نے اپنے ناول میں اس تکنیک کو بڑی کامیابی سے‬
‫برتا ہے۔ بنیادی طور پروہ ایک شاعرہ ہیں۔ افسانوی ادب کے میدان میں یہ‬
‫ان کا پہل قدم ہے۔ ا سی سبب ان میں خفیف ترین لمحے کو ایک طویل‬
‫مدت تک پھیلنے یا کسی صدمے کو کچھ دیر اپنے اندر سنبھالنے اور‬
‫ٹھہرانے یا ‪ sustain‬کرنے کی صلحیت کم سے کم ہے۔ جس طرح‬
‫شاعری میں چھوٹے چھوٹے جذبوں کی رفاقت ایک لطیف ترین سیاق‬
‫مہیا کر دیتی ہے اور شاعری سننے یا پڑھنے وال قاری تقریبا ً اس قسم کے‬
‫تجربوں کا عادی ہوتا ہے اس لیے اسے نہ تو وہ اجنبی محسوس ہوتے ہیں‬
‫اور نہ گراں بلکہ عین اس کی توقع کے مطابق ہوتے ہیں۔ ناول کے قاری کا‬
‫مسئلہ دوسرا ہے وہ تعمیم اور تجزیہ چاہتا ہے وہ ایک ضخیم ناول میں تو‬
‫اس طرح کے شعری وقفوں‪ ،‬شاعرانہ بیانات‪ ،‬خود کلمی کی صورتوں‬
‫اور ناول اور ناول نگار کے جا بجا عدم ِ تحمل کو برداشت کر سکتا ہے۔‬
‫مگر ایک مختصر ناول میں شروع سے آخر تک جذباتی ہیجان کی ایک ہی‬
‫سطح کو برقرار رکھنے سے ناول بہت سی کشادگیوں سے محروم ہو جاتا‬
‫ہے۔ ساجدہ زیدی کے ناول کی کمزوری بھی یہی ہے کہ جہاں وہ بے حد‬
‫کامیاب ہیں وہاں ناول اپنی کلیت میں ناکام ہے۔ کیوں کہ پورا ناول اسی‬
‫قسم کی ایک طویل ترین جذباتی گفتار و اظہار کا نمونہ بن گیا ہے۔ یقینا ً‬
‫ساجدہ کی جذباتی‪ ،‬سلیس اور دل و دماغ کو پوری شدت کے ساتھ‬
‫مسحور کرنے والی زبان اور بے محابا طرزِ اظہار ہمارے ذہنوں کو بے حد‬
‫متاثر کرتا ہے۔ مگر المیہ یہ کہ ناول محض اس عنصر ہی کو مسلسل‬
‫برقرار رکھنے کا نام نہیں ہے۔ ناول کا فن اب پہلے سے زیادہ علم‪ ،‬زیادہ‬
‫تجربے اور زیادہ تحمل و انہماک کا مطالبہ کرتا ہے۔‬
‫ج ہوا پیچاں‘‘ جیسا کہ عرض کر چکا ہوں محض کسی ایک تکنیک پر‬ ‫’’مو ِ‬
‫قایم نہیں ہے۔ مجموعا ً یہ ایک طویل داخلی کلمی ‪interior‬‬
‫‪ monologuing‬ہے۔ مصنفہ نے کہیں خطوط‪ ،‬کہیں ڈائری‪ ،‬کہیں مختلف‬
‫مشعرات ‪ allusions، Philosophication‬اور کہیں اپنی یادوں‬
‫‪ memoires‬کے سہارے اسے ایک داخلی تسلسل عطا کرنے کی ضرور‬
‫کوشش کی ہے ‪،‬مگر اس کوشش کے باوجود پورے ناول میں بڑی یکساں‬
‫روی ہے‪ ،‬تکرار ہے‪ ،‬لفظوں کا بے جا صرف ہے۔ ناول کا فن کتنا ہی سیال‬
‫اور آزاد کیوں نہ ہو بعض صنفی تقاضوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے‬
‫اور یہ تقاضے وہ ہیں جنہیں بہ و جوہ ریکارڈ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر ناول کے‬
‫ساتھ اس کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔‬
‫ساجدہ زیدی نے ا پنے ناول کا عنوان میر تقی میر کے اس شعر سے اخذ‬
‫کیا ہے‪:‬‬
‫ج ہوا پیچاں اے میر نظر آئی شاید کہ بہار آئی زنجیر نظر آئی‬
‫پھر مو ِ‬
‫زنجیر کی استعاراتی معنویت کو ذہن میں رکھیں تو راویہ‪ ،‬صوفیہ‪ ،‬اور‬
‫زینو کی ننھی منی آرزوؤں‪ ،‬ان کی محرومیوں ‪ ،‬مجبوریوں اور ان کی‬
‫پابستگی کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ ہر ایک کا اپنا ایک محبس ہے۔ ان‬
‫میں سے ہر ایک اعل ٰی متوسط طبقے کی نمائندہ ہے اور اسی نسبت سے‬
‫اس کی زندگی میں ہل چل ہے ‪،‬پیچ و تاب ہے‪ ،‬یقینی و بے یقینی کا کہرام‬
‫مچا ہوا ہے۔ قرۃ العین کے ابتدائی افسانوی مجموعہ ‪ ،‬ستاروں سے آگے‪،‬‬
‫اور ان کے دونوں ابتدائی ناولوں کے نسوانی کرداروں میں بھی اس‬
‫قسم کی رومانی اداسیوں اور پر تکلف کشمکشوں نے زیادہ بار پایا ہے۔‬
‫ساجدہ زیدی نے اس زندگی کے محض چند پہلوؤں ہی کی طرف لطیف‬
‫اشارے کیے ہیں۔ انہوں نے قرۃ العین کی طرح وقت کو ایک زبردست‬
‫کردار کے طور پر حاضر و ناظر جانا ہے۔ جو کہیں اندھا اور بہر ا ہو گیا ہے‬
‫‪ ،‬کہیں پیچھے کی طرف دوڑ رہا ہے‪ ،‬کہیں برف کی طرح جم جاتا ہے‪،‬‬
‫کہیں وہ صرف ایک واہمہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ کہیں مر جاتا ہے۔‬
‫وقت کے تیزی کے ساتھ روند کر آگے نکلنے کا دکھ اور موت کے تصور سے‬
‫حیات و کائنات کی بے معنویت کا شدید تر احساس تما م چیزوں کو‬
‫واہمے میں بدل دیتا ہے۔‬
‫مصنفہ نے زندگی اور موت کے درمیان پروان چڑھنے والی محبتوں ‪،‬‬
‫آرزؤں اور مختلف رشتوں کو بہت سے نام دینے کی کوشش کی ہے۔ ان‬
‫میں مردو عورت کا رشتہ ہی نہیں ہے بلکہ عورت کا عورت سے رشتہ بھی‬
‫ہے۔ عصمت نے بہت پہلے بڑی بل خوفی کے ساتھ اس رشتے کے جنسی‬
‫پہلو کو اپنا موضوع بنایا تھا۔ ساجدہ کا پیرایہ بڑا مہذب ہے۔ راویہ اور صوفیہ‬
‫یا راویہ اور زینو کے رشتے کی نوعیت اردو ناول میں پہلی مرتبہ ایک‬
‫لطیف تجربہ بلکہ ایک نازک مسئلہ بن کر ابھرتی ہے۔ یہی پہلو اس ناول کو‬
‫دوسرے ناولوں سے ممتاز بھی کرتا ہے۔ ساجدہ نے ایک طرف اس سوشل‬
‫آئرنی کے تاثر کو ابھارنے کی کوشش کی ہے جو عورت اور مرد کو دو‬
‫الگ الگ خانوں میں بانٹ دیتی ہے۔ جہاں عورت اور مرد کے مابین‬
‫رفاقتوں ہی پر قدغن نہیں لگائی جاتی بلکہ ایک عورت کے لیے کسی‬
‫دوسری عورت کا لمس اور ایک مرد کے لیے کسی دوسرے مرد کا لمس‬
‫بھی اخلقی تقاضوں کے خلف سمجھا جاتا ہے۔ جاگیرداری معاشرے اور‬
‫اعل ٰی متوسط طبقے میں مرد و عورت کے لیے اخلقی ضابطے بھی‬
‫مختلف تھے۔ مرد جہاں آزاد ہے وہاں عورت‪ ،‬عورت سے رشتہ قایم کرنے‬
‫پر مجبور ہے۔ حالں کہ راویہ کی زندگی میں اس کی بہن صوفیہ کے بعد‬
‫راہیل نام کا ایک مرد بھی واقع ہوتا ہے مگر جس شدت سے راویہ اسے‬
‫چاہتی ہے راہیل میں اس شدت کی کمی ہے۔ صوفیہ اپنے غموں میں‬
‫گرفتار ہو جاتی ہے اور راہیل کسی دوسری لڑکی سے شادی رچا لیتا ہے‬
‫پھر راویہ کی زندگی میں راہیل سے بھی زیادہ قوی ہستی کے طور پر اگر‬
‫کوئی ابھرتا ہے تو وہ ہے زینو دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک جان دو قالب‬
‫ہیں۔ ایک دوسرے کے رفیق‪ ،‬ایک دوسرے کے شریک ‪ ،‬روز و شب کے‬
‫ساتھی‪ ،‬وصل و ہجر کے ہم راز۔ ان کی دوستی اور ان کی رفاقت کو‬
‫ایک سے زیادہ نام دیے جا سکتے ہیں۔ مگر اصل مسئلہ نہ تو رفاقت ہے اور‬
‫نہ باہمی انس۔ بلکہ وہ مفارقت ہے جس کی طرف خود ساجدہ نے اشارہ‬
‫کیا ہے۔‬
‫’’ہر چند کہ محبت کسی بھی عنوان ہو انسان کو رشتہ زندگی میں پروتی‬
‫چلی جاتی ہے۔ لیکن ‪ .........‬شاید اپنی مکمل معنویت کے ساتھ دوام‬
‫اسے بھی نہیں ‪ ......‬کہ زماں کی گزر گاہ کو تو اسے بھی عبور کرنا پڑتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫کبھی موت بن کر وقت اس محبت کے آڑے آ جاتا ہے اور کبھی ایک کی‬
‫محبتیں دوسرے کی محبتوں کو محو کر دیتی ہیں۔ گویا انسان بہ یک وقت‬
‫ایک سے زیادہ انسانوں سے محبت کر سکتا ہے۔ خواہ وہ مرد و عورت کے‬
‫ج ہوا پیچاں میں راویہ اور زینو کا‬
‫مابین رشتۂ محبت ہی کیوں نہ ہو۔ مو ِ‬
‫رشتہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ راویہ راہیل کے ساتھ زینو کو بھی عزیز از‬
‫جان رکھتی ہے اور زینو‪،‬روایہ کے ساتھ اصغر کا ساتھ بھی نباہتی ہے اگرچہ‬
‫وہ اپنے ا ور اصغر کے رشتے کو کوئی نام دینے سے قاصر ہے۔ وہ کہتی ہے‪:‬‬
‫’’وہ )یعنی اصغر( میرے لشعور کی آواز ہے‪ ......‬میں عورت ہوں ‪ .......‬وہ‬
‫مرد ہے‪ .......‬مجھے مرد کی خواہش تھی یہ جاننے کی کہ مرد کا قرب کیا‬
‫ہوتا ہے‪ ......‬ہم متوسط طبقے کی لڑکیاں مردوں سے کتنی دور رکھی‬
‫جاتی ہیں‪......‬یہی دوری میری خواہش بن گئی۔‘‘‬
‫بالخر یہ خواہش اصغر اور زینو کو ایک دوسرے کے جسمانی قرب تک لے‬
‫آتی ہے۔ باوجود اس کے زینو جس کی پہلی رفیق و شریک راویہ تھی ‪،‬‬
‫اصغر سے وفا نہیں کر پاتی بقول اصغر اس نے ڈیوڈ سے بھی وفا نہیں کی‬
‫تھی۔ اس بے وفائی کا سبب غالبا ً راویہ کی وہ ذات ہے جو بار بار زینو اور‬
‫اصغر‪،‬زینو اور ڈیوڈ کے درمیان مانع آتی رہتی ہے۔ زینو اصغر کی کم‬
‫زوری بن جاتی ہے مگر زینو اس کی رفاقتوں کی شدت سے تقریبا ً بیگانہ‬
‫وار ہے۔ ایک انسانی درد کا رشتہ ضرور ہے جو زینو کو اصغر سے علحدہ‬
‫نہیں ہونے دیتا۔ ناول کے پورے سیاق میں راویہ ہی وہ ہستی ہے جو ایک ایک‬
‫کر کے اپنے تمام احباب سے بچھڑتی چلی جاتی ہے اور دوسروں کی‬
‫طرح اپنے خل کو کسی اور امکان یا ہستی سے پُر نہیں کرتی۔ اس ضمن‬
‫میں راویہ کا زینو سے درج ذیل مکالمہ جو مکالمے سے زیادہ داخلی کلمی‬
‫ہے توجہ طلب ہے‪:‬‬
‫’’خواہشات کی دنیا حقیقی نہیں زینو ‪ ........‬عشق کی دنیا بھی اپنا‬
‫فریب آپ آشکار کر دیتی ہے‪ ......‬رفاقت کا خواب محض تصور کے‬
‫دھوکے ہیں‪ ......‬شاید وہ دنیا جس کی تلش میں ہم تم اور ہم جیسے بہت‬
‫سے لوگ ‪ .......‬ازل سے سرگرداں ہیں ‪ .......‬محض واہمہ ہے ‪ ......‬شاید‬
‫تمہاری دوستی و رفاقت محض میرا تصور تھا‪ ....‬شاید راہیل محض‬
‫میری اندھی خواہش تھا‪ ......‬شاید اصغر سے وابستگی محض تمہاری‬
‫تلش ہے‪ .......‬کچھ کر دکھانے کی تلش‪ ......‬ہم سب اپنے اپنے روز و‬
‫شب میں جکڑے ہوئے ہیں‪ ......‬راہیل کو بھی اس کی عام زندگی نے آواز‬
‫دی ہے‪ .......‬آخر میں نے اس کے لیے ‪ .......‬تمہارے لیے ‪ ........‬اپنی عام‬
‫زندگی سے کیوں رو گردانی کی‪ ........‬اپنے خالص غموں سے کیوں‬
‫غداری کی؟؟ ‪ ........‬ہاں وہ غم جن میں زہر نہیں ہوتا ‪.......‬تلخیاں نہیں‬
‫ہوتیں‪ ........‬زندگی کی زیادہ بڑی حقیقتیں ہیں۔‘‘‬
‫راویہ کی یہ فریب شکستگی کی منزل اس کے اعتراف مگر انتہائے ملل‬
‫کی منزل ہے۔ خواب شکنی اور التباس شکنی کی منزل ہے۔ یہ اعتراف‬
‫اپنے انا اور انائے دگر کا اعتراف ہے۔ زندگی کو اس کے پورے وجود اور‬
‫دوسرے رشتوں کے تناظر میں دیکھنے‪ ،‬سمجھنے اور قبول کرنے کی‬
‫طرف پہل اقدام ہے۔ مگر اس ثانیے پر یہ حقیقت فہمی اور زندگی سے‬
‫نئی معاملت اور رشتوں کے تعلق سے نئی آگہی‪ ،‬راویہ کے حق میں ایک‬
‫نئے زہر‪ ،‬ایک نئے زخم کا حکم بھی رکھتی ہے کہ وقت اب نہ تو پیچھے کی‬
‫طرف مڑ سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی قدغن لگائی جا سکتی ہے۔ کیوں‬
‫کہ ‪:‬‬
‫’’وقت ‪،‬ہر کیفیت سے بے نیاز گزر رہا ہے زینو‪ .......‬سلسلۂ روز و شب‬
‫نیں ‪......‬سلسل ِہ روزوشب بڑی سنگین‬ ‫واہمہ ہے‪......‬شاید واہمہ‪ .....‬ہ‬
‫حقیقت ہے ‪‘‘......‬‬
‫ناول کے آخری کلمات میں سلسلہ روز و شب جو پہلے واہمہ تھا اب ایک‬
‫بڑی سنگین حقیقت میں بدل جاتا ہے اور حقیقت کی سنگینی کا اعتراف‬
‫ہی زندگی کی سب سے بڑی آئرنی ہے۔ جسے قبول کر کے ہی اپنے اختیار‬
‫کو کوئی معنی دیے جا سکتے ہیں‪ ،‬اپنی آزادیوں کی کوئی حد متعین کی‬
‫جا سکتی ہے۔‬
‫رشید احمد صدیقی اور لسانی جمالیت‬

‫رشید احمد صدیقی کو نہ تو خالص مزاح نگار اور نہ ہی خالص طنز نگار‬
‫کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کا لطیف امتزاج ان کے مقصد کا تعین کرتا ہے۔‬
‫اس ہر دو عمل میں ایک عالمانہ وقار اور عالمانہ شان پائی جاتی ہے۔ وہ‬
‫فلسفی نہیں ہیں مگر فلسفیانہ مغالطے ضرور پیدا کرتے ہیں۔ فقرہ بازی‬
‫اور فقرہ سازی سے طبعی لگاؤ ہے۔ مگر اکثر تصنع اور تکلف کا دباؤ ان‬
‫فقروں کو عوام کے بجائے خواص کی گفتگو کا موضوع بنا دیتا ہے۔ اور‬
‫پھر آنا ً فانا ً یہی فقرے مجلسی تہذیب کے روح رواں بن جاتے ہیں۔ رشید‬
‫ب فکر بھی۔ جس پر‬ ‫ب حیات ہے اور ایک اسلو ِ‬
‫صاحب کا اپنا ایک اسلو ِ‬
‫مشرقی اخلقیات کا نقش گہرا ہے۔ وہ بات کسی کی اور کہیں سے بھی‬
‫شروع کریں اپنی تربیت کا رنگ اور تربیت کے رنگ سے ذرا بچے تو علی‬
‫گڑھ کا رنگ اس میں ضرور شامل کر دیتے ہیں۔ وہ اخلق پرست سے‬
‫زیادہ اخلق مند تھے اور ان قدروں کو عزیز رکھتے تھے جن سے بشریت‬
‫کا وقار بلند ہوتا ہے اور زندگی کی حرمت محفوظ۔ ترقی پسندی کو‬
‫قبولیت نہیں بخشی مگر ایسے قدامت پسند بھی نہ تھے کہ انہیں اپنے عہد‬
‫کے تقاضوں کا علم و احساس ہی نہ تھا۔ انہیں بعض صالح روایات پر‬
‫مضبوط اعتقاد تھا‪ ،‬تاہم وہ روایتی نہ تھے کم از کم اس حد تک نہ تھے‬
‫جس حد تک اکبرؔ الٰہٰآبادی کو ہم سمجھتے آ رہے ہیں۔‬
‫رشید صاحب کی ملفوظی وراثت انشائیہ ‪ ،‬خاکہ‪ ،‬تنقید اور خطبات پر‬
‫مشتمل ہے۔ انشائیہ ان کی داخلی ترغیب ہے‪ ،‬جس میں وہ زیادہ سے زیادہ‬
‫ذہنی آزادیوں کو بروئے کار لتے ہیں۔ خاکہ اپنے رفقاء کے نزدیک و دور نیز‬
‫دو ایک مثالوں کو چھوڑ کر ان فضلیت مآب معاصرین کی شخصیات کو‬
‫محیط ہے‪ ،‬جن کے ذکرو فکر کو وہ اپنے اوپر قرض خیال کرتے تھے کہ بہر‬
‫حال رشید صاحب اگلی شرافت کے نمونے تھے اور قرض کی رعایت کو‬
‫دیکھتے ہوئے عاقبت کی انہیں فکر تھی اور بالخر ایک دن خدا کو انہیں‬
‫منہ بھی دکھانا تھا۔ یہ ایک علیحدہ گفتگو ہے کہ ان کے اسماء الرجال کے‬
‫محضر پر کندن جیسے عامی شخص کے دستخط کی گنجائش کیسے نکل‬
‫ض ابد سے‬ ‫ن عز و جاہ نے معر ِ‬
‫ن رفتہ و صاحبا ِ‬
‫آئی اور کیوں کر ہم نفسا ِ‬
‫صدائے احتجاج بلند نہیں کی )اگرچہ رشید احمد صدیقی کی بیش تر‬
‫تحریریں دوستوں کی فرمائش پر لکھی گئی ہیں( تنقید‪ ،‬ان کی پیشہ‬
‫ورانہ ضرورت تھی‪ ،‬جسے ان کے فوری تاثرات کی رمق ‪ ،‬چمک نے دیدہ‬
‫زیب اور سامعہ نواز ضرور بنا دیا ہے مگر سوائے فریب نظر کے وہ بہت‬
‫دیر اور دور تک ہماری رہنمائی نہیں کر سکتی۔ پتہ نہیں یہ ہماری بے بصری‬
‫ہے کہ رشید صاحب کی محرومی۔ جہاں تک خطبات کا تعلق ہے‪،‬وہ ایک‬
‫سراپا استاد بن کر مخاطبہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ‬
‫دردمندی‪ ،‬فکر اور زندگی کے تلخ و شیریں تجربات او ر اندیشوں سے‬
‫معمور یہی خطبات ہیں۔ اس نواح میں وہ ایک رقیق القلب بزرگ استاد‬
‫کا فرض نبھاتے ہوئے طنز کے کئی حربے استعمال کرتے ہیں‪ ،‬تھوڑا سا‬
‫آہنگ بھی بلند ہو جاتا ہے‪ ،‬کہیں لعن ہے کہیں طعن‪،‬کہیں صلح ہے‪ ،‬کہیں‬
‫ق گل۔ وہ سترہویں صدی کے کردار‬ ‫اصلح ‪ ،‬کہیں برق دم ہے کہیں ور ِ‬
‫نگاروں کے نثری آہنگ‪ ،‬ذکاوت اور جامعیت کے امین ہیں تو اس‬
‫سسیروئی کلم یا ‪ ciceronian sentence‬کے اثر سے بھی بری نہیں‬
‫ض ِالتواء میں‬
‫جس میں آخری فقرے تک اصل خیال‪ ،‬ارادہ اور مفہوم معر ِ‬
‫رہتا ہے۔ یہ چیز رشید صاحب کے انشائیوں اور شخصیت نگاری کے‬
‫نمونوں میں برقرار ہے۔ ان جملوں کی ساخت ستم ظریفانہ ذہانت سے‬
‫تونگر ضرو ر ہے۔ لیکن صنعت گری یا انشائے مرصع کی وہ نظیر جو‬
‫یوفیت ‪ euphuism‬نے قائم کی تھی یا سقراط کی وہ جملہ سازی جس‬
‫ق سخن سے‬ ‫میں تعّلی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ رشید صاحب کے مذا ِ‬
‫قطعی میل نہیں کھاتی۔‬
‫‪۱‬۔ حاجی صاحب شعر کہتے ہیں اور بسکٹ بیچتے ہیں۔ شعر اور بسکٹ‬
‫دونوں خستہ۔‬
‫‪۲‬۔ علی گڑھ میں نوکر کو آقا ہی نہیں آقا ئے نام دار بھی کہتے ہیں اور وہ‬
‫لوگ کہتے ہیں جو آج کل خود آقا کہلتے ہیں یعنی طلبہ۔‬
‫‪۳‬۔ دیوتاؤں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جسے عزیز رکھتے ہیں اسے دنیا‬
‫سے جلد اٹھا لیتے ہیں۔ دیویوں کے بارے میں سنا ہے کہ وہ جس کو عزیز‬
‫رکھتی ہیں اسے کہیں کا نہیں رکھتیں۔‬
‫‪۴‬۔ چارپائی او ر مذہب ہم ہندوستانیوں کا اوڑھنا بچھونا ہے۔‬
‫‪۵‬۔ ارہر کا کھیت دیہات کی زنانہ پارلیمینٹ ہے۔ کونسل اور اسمبلی کا‬
‫تصور یہیں سے لیا گیا ہے۔‬
‫‪۶‬۔ ہندوستانی کسان کو دیکھتے ہوئے یہ بتانا مشکل ہے کہ اس کے بال بچے‬
‫مویشیان ہیں یا مویشیان اس کے بال بچے۔‬
‫اس قسم کے جملوں سے شروع ہونے والی عبارتوں میں مبالغہ اتنے‬
‫وثوق کے ساتھ آمیز کیا گیا ہے کہ ہم بغیر ارادے کے اپنے تعقل کو کچھ‬
‫ض ِالتواء میں ڈال دیتے ہیں۔ اس طرح کے تحیر ز ا‬ ‫وقفوں کے لیے معر ِ‬
‫فقرے ذہنی پیش منظری ‪ mental : foregrounding‬کا بھی کام کرتے‬
‫ہیں۔ ا ور کئی چھوٹے چھوٹے ‪ climaxes‬کے بعد پیراگراف کے عین آخری‬
‫جملے پر پہنچ کر یہ پتہ چلتا ہے کہ رشید احمد صدیقی کا قصد کس سمت‬
‫اور کس کی طرف تھا۔ دراصل آخری جملہ ہی وسیع الذیل کلئمکس کا‬
‫حکم بھی رکھتا ہے۔‬
‫’’اسلم کا نظریۂ نکاح مشتبہ ہے۔ اتنا بیان دے کر حاجی صاحب نے داڑھی‬
‫کو اس طرح تکان دی کہ ایک ایک بال باہمہ و بے ہمہ ہو گیا۔ پیشانی پر‬
‫کرۂ سر کے خط استوا پر جا کر ختم ہوئیں‬ ‫شکنیں پڑنی شروع ہوئیں تو ُ‬
‫اور آنکھیں شاہ نامۂ فردوسی بن گئیں۔‘‘‬
‫لفظ اپنے انفراد سے نہیں کسی جملے‪ ،‬مصرعے یا فقرے میں اپنے‬
‫استعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ لفظ کے مطالب و معنی جہاں دیگر لفظوں‬
‫ق معنی‬‫کے تال میل سے اپنی تعبیر میں مختلف ہوتے جاتے ہیں وہاں تخلی ِ‬
‫کے ضمن میں لکھنے والے کا نقطہ نظر بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ا‬
‫س طرح طنز و مزاح کی تحریر میں مصنف کسی ایسے خاص ہنر کو‬
‫بروئے کار لتا ہے کہ اخذ کردہ مطالب بڑی سرعت کے ساتھ اپنے ان فوق‬
‫المعنی سلسلوں میں گم ہو جاتے ہیں جو اپنے خصوص میں عموم سے‬
‫علقہ رکھتے ہیں اور ہم ان کے اطلقات کے معروض بھی جا بجا اور موقع‬
‫بہ موقع بڑی آسانی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ رشید احمد صدیقی کی‬
‫تحریروں میں اس قسم کی صورتیں تضاد‪ ،‬تناقض‪ ،‬مشابہت اور مغائرت‬
‫قائم کرنے کے دوران نمایاں ہوتی ہیں۔ اور خیال کی تدریجی صورتوں‬
‫کی ترتیب کو یکسر الٹ پلٹ دیتی ہیں۔‬
‫’’ہاں تو ہم موڑ پر اس تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے جیسے پیکر کوہ‬
‫کسی ناگ کے فشار آغوش میں راستہ خشک اور خنک منظر‪ ،‬حسن و‬
‫شباب کا تصور‪ ،‬اور تصویر سردی بڑھتی جاتی تھی‪ ،‬نشیب سے گہرا اور‬
‫ابر کی فضائیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔ دیکھتے دیکھتے زمان و مکان جسم‬
‫و جان پر برودت سی مستولی ہو گئی اور سارا ماحول ایک المناک دھند‬
‫میں تبدیل ہو گیا۔‘‘‬
‫دراصل جنہیں ہم معنی معدوم کا نام دیتے ہیں۔ وہی پیرے ماشیرے کی‬
‫اصطلح میں تحت المتن ‪ sub-text‬کا جواز بھی رکھتے ہیں۔ اظہار کی‬
‫منطق ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ کبھی مکمل‪ ،‬مکمل بہ معنی مکمل موافق‬
‫بہ خیال نہیں ہوتا اور جسے ہم خیال کہتے ہیں وہ بھی خود ہمارے ذہن میں‬
‫ایک نا مکمل ابلغ کی صورت ہوتی ہے۔ ادائیگی سے ہمیشہ کچھ نہ کچھ رہ‬
‫جاتا ہے اور جو رہ جاتا ہے تحریر میں وہی جوف اور وقفے قاری کو نئی‬
‫متن کاری کے لیے اکساتے ہیں۔ ان غیر تکنیکی مگر متنی توّقفات کے لیے‬
‫پیرے ماشیرے سکوتیے اور وقفے جیسے الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ ہمارے‬
‫نزدیک یہ سکوتیے صرف خارج کے اجبار ہی کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ داخلی‬
‫و لسانی جبر‪ ،‬نیز لکھنے والے کے نقطۂ نظر کا جبر بھی انہیں قائم کرنے‬
‫میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک نقاد اس جبر اور ان اسباب کا پتہ لگانے‬
‫کی سعی کرتا ہے۔ جو متن کے اندر ہی اس کے اپنےلشعور میں تٰ ِہہ‬
‫نشست ہوتے ہیں۔ یوں بھی ظرافت کے باب میں لفظوں کے کھیل کی‬
‫اپنی جگہ اہمیت ہے۔ اس طرح مزاح نگار کہیں جبر کے تحت اور کہیں‬
‫پوری دانست کے ساتھ تسلسل کو توڑتا اور تخیل کو مغالطے میں ڈالے‬
‫رکھتا ہے کہ قاری کی توقع شکنی بھی اس کے بہت سے مقاصد میں سے‬
‫ایک مقصد ہے۔‬
‫آمدم برسرِ مطلب‪ :‬ایک طرف رشید صاحب کی جملہ سازی کا فن ہے۔ ا‬
‫ور دوسری طرف ان کی ادائیگی میں وہ سکوتیے اور وقفے ہماری توجہ‬
‫کے مستحق ہیں جو متعلق ہونے کے باوجود ایک ایسا تناظر ہمارے ذہن کو‬
‫مہیا کر دیتے ہیں جو شاید رشید صاحب کا مدعا و منصب ہو سکتا ہے‬
‫مگر متن کے سیا ق میں وہ غیر موجود ہوتا ہے۔‬
‫میں یہاں صرف ایک مثال پر اکتفا کروں گا۔ ’’چارپائی‘‘ رشید صاحب کا‬
‫ایک معروف ترین انشائیہ ہے بظاہر مزاح بہ باطن طنز کی ایک بہترین‬
‫بت ت ِہ دار اور‬‫مثال جس میں ڈرامائیت اور فنتاسیہ نے مل کر مزاح کو ہ‬
‫فعال بنا دیا ہے۔ اسی لیے بعض حضرات کے نزدیک چارپائی‪ ،‬خالص مزاح‬
‫کا ایک نادر نمونہ ہے۔ جیسے پطرس کی سائیکل یا سید محمد جعفری‬
‫کی مسدس بعنوان موٹر۔ مگر چارپائی میں جو رعایتیں قائم کی گئی‬
‫ہیں ‪ ،‬جن مشعرات ‪ allusions :‬کا استعمال کیا گیا ہے‪ ،‬جن سیاسی‬
‫تلزمات کی طرف اشارے کیے گئے ہیں۔ ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں‬
‫اپنے قاری کی تربیت بھی مطلوب ہے اور وہ اس کی آگاہیوں کو بھی‬
‫وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ چارپائی محض ایک ‪ objective correlative‬ہے۔‬
‫ایک قصباتی چارپائی جیسے ہندوستانی برگشتہ نصیب مسلمان کی‬
‫چرمراتی ہڈیوں سے ُاس کی ُبنائی کی گئی ہو ‪ ،‬جیسے پوری ایک قوم‬
‫کی نفسیات ‪ ،‬اس کی معاشرت اس کی بے حالی و بد حالی‪ ،‬اس کی‬
‫بے حسی و کسمپرسی کا مرثیہ ہو‪ ،‬مرثیہ نہ سہی طربیہ‪ ،‬طربیہ نہ سہی‬
‫چربہ ‪caricature :‬‬
‫’’چارپائی ہی کھانے کا کمرہ بھی ہوتی ہے۔ باورچی خانے سے کھانا چل اور‬
‫اس کے ساتھ پان سات چھوٹے بڑے بچے ‪ ،‬اتنی ہی مرغیاں ‪ ،‬دو ایک کتے‪،‬‬
‫بلی اور بے شمار مکھیاں آ پہنچیں۔ سب اپنے قرینے سے بیٹھ گئیں۔‬
‫ب خانہ صدرِ دستر خوان ہیں۔ ایک بچہ زیادہ کھانے پر مار کھاتا ہے‪،‬‬
‫صاح ِ‬
‫دوسرا بد تمیزی سے کھانے پر‪ ،‬تیسرا کم کھانے پر ‪ ،‬چوتھا زیادہ کھانے پر‬
‫اور بقیہ اس پر کہ ان کو مکھیاں کھائے جاتی ہیں۔ دوسری طرف بیوی‬
‫مکھی اڑاتی جاتی ہے اور شوہر کی بد زبانی سنتی اور بد تمیزی سہتی‬
‫جاتی ہے۔ کھانا ختم ہوا۔ شوہر شاعر ہوئے تو ہاتھ دھو کر فکر سخن میں‬
‫چارپائی ہی پر لیٹ گئے۔ کہیں دفتر میں ملزم ہوئے تو اس طرح جان لے‬
‫کر بھاگے جیسے گھر میں آگ لگی ہے اور کوئی مذہبی آدمی ہوئے تو اللہ‬
‫کی یاد میں قیلولہ کرنے لگے۔ بیوی بچے بدن دبانے اور بد دعائیں سننے‬
‫لگے۔‘‘‬
‫رشید احمد صدیقی کی تحریروں میں لطافت اور ذکاوت انہی مہین مہین‬
‫اخفائی شقوں سے قائم ہوئی ہے اور یہ پڑھنے والے کے ذہن کو تابہ دیر بر‬
‫انگیخت رکھتی ہیں۔ مصنف ہی نہیں قاری بھی جہاں ذرا سا چوکا وہیں‬
‫اس کا وہ مجتمع اور مرتب تاثر تہس نہس ہو جاتا ہے‪ ،‬جسے اس نے‬
‫تدریجا ً یعنی فقرہ بہ فقرہ اور جملہ بہ جملہ اپنے تجربے اور فہم کا حصہ بنایا‬
‫تھا۔ اس معنی میں رشید احمد صدیقی کی عبارتوں اور بالخصوص‬
‫طویل عبارتوں میں آخری جملہ یا جملے کا موخر جزو ہماری حیرتوں کو‬
‫ایک نئی نظم ایک نئی ترتیب سے دوچار کراتا ہے اور یہی آخری جزو اکثر‬
‫ان کے طنز کے اسلوب کا تعین بھی کر دیتا ہے کہ اپنے قصد و ہدف میں‬
‫اس کی نوعیت کیا ہے۔‬
‫نواب محمد اس ٰمعیل خاں مرحوم کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’مولنا ان ہستیوں میں تھے جو اپنے عہد سے بڑی تھیں‪ ،‬وہ آفرینندۂ عہد‬
‫رتی جو زایئد ِٔہ عہد ہوتے‬
‫تھے اس لیے ان کی کشمکش ایسے لوگوں سے ہ‬
‫اور ہماری تاریخ‪ ،‬ہماری تہذیب اور ہمارے علوم کا اعتبار و افتخار تھے‪،‬‬
‫اس کا احساس آج ہو رہا ہے جب وہ ہم میں نہیں رہے کیاکیاجائے ایسا‬
‫احساس بھی ایسے ہی وقت ہوتا ہے۔‘‘‬
‫اس اقتباس کے مؤخر جملہ پر غو ر فرمائیں‪ ،‬یہاں طنز میں عبرت کا پہلو‬
‫بھی مضمر ہے یعنی ہم بہ حیثیت مجموع کس قدر خود اپنی مذمت و‬
‫طل ہو چکی ہو‪ ،‬بصارتیں‬‫حس مع ّ‬ ‫ملمت کے مستحق ہیں۔ جیسے ہماری ِ‬
‫معدوم اور سماعتیں کند۔ رشید احمد صدیقی ایسے لمحوں میں بڑے‬
‫سکوت مگر پورے اعتماد کے ساتھ طعن وتشنیع سے بھی گریز نہیں کرتے‬
‫کہ تحت المتن میں ہم ان کی آواز کو پوری بلندی کے ساتھ سن لیتے ہیں‬
‫محسوس کر لیتے ہیں۔‬
‫مزاح نگار کے لیے زبان بہت بڑا آلہ ہوتی ہے۔ وہ وقوعے جو یکایک اور بے‬
‫ساختہ نمو پاتے ہیں اور جو بالعموم معمول کے رد پر منتج ہوتے ہیں‪ ،‬وہی‬
‫مزاح نگار کے لیے مواد کا بہترین مخرج بھی کہلتے ہیں۔ اسی طرح ان‬
‫کے ‪ type‬جیسے شاعر اور مولوی وغیرہ یا دیگر پیشہ ور افراد اور ان کے‬
‫کردار کے بعض خارج و داخل ‪ ،‬محسوس و کم محسوس خصائص جو‬
‫شاید کسی دوسرے کے لیے اتنی توجہ کے لئق نہ ہوں مگر ایک مزاح نگار‬
‫ان میں طنزیہ ُبعد کے جن پہلوؤں کا مشاہدہ کر لیتا ہے وہ نتیجہ ہوتا ہے اس‬
‫کی باریک بینی اور غیر معمولی حساسیت کا۔ جو چیزوں کو ان کے تمام‬
‫تضادات و تناقضات کے ساتھ دیکھنے اور محسوس کرنے کی صلحیت‬
‫رکھتی ہے۔ رشید صاحب نے اّول الذکر نوعیت کے ساتھ بعدہٗ نوعیت سے‬
‫بھی اکثر فائدہ اٹھایا ہے۔ مگر ان دونوں صورتوں کو جس چیز نے نہایت‬
‫ک حقیقت کا طرز اور زبان‬ ‫جل بخشی اور کاری بنایا ہے وہ ان کا اپنا ادرا ِ‬
‫کو قطعی تہذیبی نفاست کے ساتھ برتنے کا عمل ہے۔ جب یہ دونوں چیزیں‬
‫کسی مزاح نگار کے مخاطبے ‪ discourse‬میں مشمولت کی صورت‬
‫اختیار کر لیتی ہیں‪ ،‬وہاں طنز خود اپنی حدیں قائم کر لیتا ہے اور مزاح‬
‫اپنی حد سے تجاوز کرنے کے باوجود حد ِ ادب سے پرے نہیں جاتا۔ یہ وصف‬
‫رشید صاحب کی اپنی توفیق ہے‪ ،‬اور جو اس نکتے سے بخوبی آگاہ ہیں کہ‬
‫طنز کن چیزوں سے آلودہ ہو کر دشنام بن جاتا ہے اور مزاح‪ ،‬مسخرگی‬
‫کی تعمیل۔‬
‫’’برسات کی سڑی گرمی پڑ رہی ہو۔ کسی گھریلو تقریب میں آپ‬
‫دیکھیں گے کہ محلہ نہیں سارے قصبے کی عورتیں خواہ وہ کسی سائز‪،‬‬
‫عمر‪ ،‬مزاج یا مصرف کی ہوں‪ ،‬رونق افروز ہیں‪،‬اور یہ بتانے کی ضرورت‬
‫ت‬‫نہیں کہ ہر عورت کی گود میں دو ایک بچے اور زبان پر پانچ سات کلما ِ‬
‫خیر ضرور ہوں گے۔ کتنی زیادہ عورتیں کتنی کم جگہ میں آ جاتی ہیں‪،‬‬
‫اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ‪ ،‬جب تک چارپائی کے بعد کسی یکہ اور‬
‫تانگے پر ان کو سفر کرتے نہ دیکھ چکا ہو۔ یہ اللہ کی مصلحت اور ایجاد‬
‫کرنے والے کی پیش بینی ہے کہ ہانکنے والے اور گھوڑے دونوں کی پشت‬
‫سواریوں کی طرف ہوتی ہے‪ ،‬اگر کہیں یہ سواریوں کو دیکھتے ہوتے تو‬
‫ن رشید ص ‪(۸۶‬‬ ‫ً‬
‫یقینا غش کھا کر گر پڑتے۔‘‘)چارپائی‪ :‬مضامی ِ‬
‫مزاح کی دوسری صورت ملحظہ فرمائیں‪ ،‬اس اقتباس میں موقع کی‬
‫ش نظر یکے بعد دیگرے کئی ڈرامائی مشابہتوں‬
‫مناسبت بلکہ نزاکت کے پی ِ‬
‫سے کام لیا گیا ہے۔ یہاں عبرت کا نقش معدوم ‪ ،‬طنز کی ل َے دھیمی اور‬
‫سر اونچا ہے۔ سارا زور آخری جملے پر ہے جہاں پہنچ کر سارے‬‫مزاح کا ُ‬
‫جستہ جستہ تاثرات ایک وسیع الذیل تاثر میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ معاشرت‬
‫جس کی تصویر گہرے‪ ،‬تیکھے رنگوں سے چارپائی میں کھینچی گئی ہے‪،‬‬
‫اس کے دوسرے رخ کو ’’شیطان کی آنت‘‘ میں حکیم صاحب کے تانگے‬
‫سے اس طور پر نمایاں کیا گیا ہے۔‬
‫’’حکیم صاحب کے تانگے پر بیٹھ کر کوئی شخص نہ اپنے آپ کو محفوظ‬
‫خیال کر سکتا تھا نہ دوسروں کو جو سڑک پر چل رہے ہوں یا دکان پر‬
‫بیٹھے ہوں۔ چال جیسے کڑی کمان کا تیر‪ ،‬تیور جیسے کسی دیہاتی تھانے‬
‫کا تھانیدار۔ کسی کو نہیں معلوم کس وقت یہ سڑک چھوڑ کر کسی دکان‬
‫میں داخل ہو جائے گا‪ ،‬یا تانگے سمیت‪ ،‬بال خانے پر چڑھ جائے گا۔ گومتی‬
‫سے متصل سڑک پر اس بے پناہ رفتار سے چل جا رہا تھا جیسے رفتار کا‬
‫ریکارڈ قائم کرنے کے لیے کوئی شخص سمندر کے کنارے ریت پر موٹر چل‬
‫رہا ہو۔ جادۂ مستقیم سے ذرا انحراف ہو جائے تو یہ تانگہ اپنی مشمولت‬
‫کے ساتھ دریا میں جا رہے۔ لکھنؤ میونسپل بورڈ نے سڑک اور دریا کے‬
‫درمیان کوئی آڑ نہیں قائم کی ہے۔ اس فروگذاشت کا جو شخص ذمہ دار‬
‫ہو اسے حکیم صاحب کے اس تانگے پر سوار کر کے ریور بنک روڈ کی‬
‫طرف ہانک دینا چاہیے۔‘‘‬
‫اس اقتباس میں تخیل‪ ،‬مشاہدے‪ ،‬ادراک اور معاملہ فہمی کی خصوصیات‬
‫و اہلیت ایک درست توازن کے ساتھ کار فرما ہے۔ ان تمام خصائص کو‬
‫ایک خاص لسانی جمالیت سے ادا کرنا اور طویل تر عبارتوں میں بھی‬
‫ارتکاز اور صلبت کے جوہر کو قائم رکھنا اتنا آسان کام نہ تھا۔‬
‫اس لسانی عمل کی دوسری بہترین صورت ان کلمات‪ ،‬فقروں اور‬
‫جملوں میں دکھائی دیتی ہے جو چستی و برجستگی‪ ،‬جامعیت اور ذکاوت‬
‫کے جوہر سے مال مال ہیں۔ رشید صاحب کو ‪ neologism‬یعنی لفظ‬
‫گڑھنے‪ ،‬نئی ترکیبیں وضع کرنے‪ ،‬نامانوس لحقے اور سابقے لگانے کا ہنر‬
‫بھی خوب آتا ہے جیسے محاربۂ الیکشن یا بھبھوتیائی آرٹ یا گھاگھیات اور‬
‫گھاگھس وغیرہ۔ مبالغہ جو کہیں فنتاسیہ بلکہ افسانوی غلو اور افسانوی‬
‫التباس کا تاثر بھی پیدا کرتا ہے‪ ،‬ان کلمات کی روح ہے۔ یہ کلمات کبھی‬
‫بے اختیار ہنسی پر آمادہ کرتے ہیں‪ ،‬کبھی زیرِ لب خفیف سے تبسم کے لیے‬
‫س حیرت کو کافی دیر تک برانگیخت‬ ‫اکساتے ہیں اور کبھی ہمارے احسا ِ‬
‫کیں پار ِہ حکمت‬
‫گر کی مانند ہیں‪ ،‬ہ‬‫رکھتے ہیں ‪،‬کہیں یہ کلمات دانائی کے ُ‬
‫اور ضابطہ اخلق و عمل جنہیں مسلمات و کلیات کی طرح رہنما اصول‬
‫کے طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے اور کہیں محض لفظی الٹ پھیر‪ ،‬من کی‬
‫موج اور صرف خوش طبعی کا نمونہ۔ مگر یہ صورتیں بھی وہ ہیں جو بے‬
‫ن دل کھینچ لیتی ہیں اور ہمارے تخیل کو مسلسل حرکت میں‬ ‫محابا دام ِ‬
‫رکھتی ہیں۔ ہمیں بہرِ صورت یہ بھی عزیز ہیں اور وہ بھی عزیز۔‬
‫ت خلق سے عاری ہو وہ عمر رائیگاں ہے۔‬
‫‪۱‬۔ جو عبادت خدم ِ‬
‫ب علم صحت مند ہے وہاں کا معاشرہ معتبر و مستحکم ہے۔‬
‫‪۲‬۔ جہاں طال ِ‬
‫‪۳‬۔ اگر انسان کو بد ترین دشمن کی تلش ہو تو اس کو اپنے عزیزوں‬
‫میں مل جائیں گے۔‬
‫‪۴‬۔ نشاط بری چیز نہیں ہے بلکہ نشاط سے مغلوب یا اس کا محتاج ہونا‬
‫بزدلی اور کم مائیگی ہے۔‬
‫‪۵‬۔ خدا نے اپنی نجات انسانوں کے سپرد نہیں کی ہے بلکہ انسانوں کی‬
‫نجات انسانوں کے سپرد کی ہے۔‬
‫‪۶‬۔ جو قوم صرف افسانے کہنے سننے پر اتر آتی ہے وہ جلد ہی خود افسانہ‬
‫بن جاتی ہے۔‬
‫یہ مثالیں رشید صاحب کے اپنے طرزِ بیان کی نمائندہ تو ہیں ہی‪ ،‬مگر ان‬
‫کا پورا سیاق ان کے کشید کیے ہوئے اخلقی نقطہ نظر کا زائیدہ و آفریدہ‬
‫ہے۔‬
‫دوسری مثالیں ملحظہ فرمائیں جو محض خوش وقتی کا نمونہ ہیں مگر‬
‫ادراک کی تیزی اور نگاہ کی باریکی ان سے بھی مترشح ہے۔ یہ کم نہیں‬
‫ہے کہ جب بھی ہم انہیں دہراتے ہیں تھوڑے وقتوں کے لیے ہی سہی حقیقت‬
‫کے تئیں ہماری ہوش مندی معطل ہو جاتی ہے اور ہم اپنے آپ کو دھوکہ‬
‫دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔‬
‫‪۱‬۔ میں نے آج تک کسی دھوبی کو میلے کپڑے پہنے نہیں دیکھا اور نہ اس‬
‫کو خود اپنے کپڑے پہنے دیکھا‪ ،‬البتہ اپنا کپڑا پہنے ہوئے اکثر دیکھا ہے۔‬
‫‪۲‬۔ میری زندگی میں شاعرِ انقلب پیدا ہونے لگے تھے لیکن جس وقت‬
‫میں نے ان کو چھوڑا ہے تو وہ سر بہ کف تھے اور انقلب سر بہ گریباں!‬
‫‪۳‬۔ چارپائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے۔ فتح ہو یا شکست وہ رخ‬
‫کرے گا ہمیشہ چارپائی کی طرف۔‬
‫‪۴‬۔ چارپائی ہندوستان کی آب و ہوا‪ ،‬تمدن و معاشرت‪ ،‬ضرورت اور ایجاد‬
‫کا سب سے بھرپور نمونہ ہے۔‬

‫سس عورت کی فطرت ہے اور پاسبانی اس کی عادت‪ ،‬ان کا سدِ‬ ‫‪۵‬۔ تج ّ‬


‫راہ نہ پردہ ہے نہ پیانو۔‬
‫‪۶‬۔ ہائیڈ پارک کی خوش فعلیاں آرٹ یا اس کی عریانیوں پر ختم ہو جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬ارہر کے کھیت کی خوش فعلیاں اکثر واٹر لو پر تمام ہوتی ہیں۔‬
‫‪۷‬۔ موت کا وقت معین ہے مگر موکل کا نہیں۔‬
‫رشید صاحب کی تخیل کے اس خاص عمل پر تاکید ا ً توجہ دینے کی‬
‫ضرورت ہے‪ ،‬جو فنتاسی کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے۔ رشید صاحب اپنے‬
‫انشائیوں ہی میں نہیں بلکہ اپنے مرقعوں میں بھی اکثر حقیقت کو بڑی‬
‫نیک نیتی‪ ،‬اور سادہ دلی سے مسخ کر کے یا اسے بڑی حد تک گھٹا بڑھا‬
‫کر کچھ اس طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہر پیکرِ تصویر‬
‫ایک کاغذی پیرہن میں اپنے خالق کی شوخی تحریر کا عبرت ناک نمونہ‬
‫بن جاتا ہے۔ اسے عبرت ناک کہیں یا مضحکہ خیز‪ ،‬بہر حال وہ بار بار ہماری‬
‫مروجہ لسانی ساختوں کو توڑتے ہیں‪ ،‬صورتیں بناتے ہیں پھر بگاڑتے ہیں۔‬
‫اس طرح کی توڑ پھوڑ سے انہیں بڑی لذت حاصل ہوتی ہے۔ یہ مسوکیت‬
‫ہے نہ سادیت بلکہ فنتاسی کی وہ صورت ہے جو حقیقت سے ایک مختلف‬
‫طور پر متعارف کراتی ہے۔ مث ً‬
‫ل‪:‬‬
‫’’مغالطے کی تحقیق و تفتیش میں میرے پاس وہی مواد ہے جو سودا کو‬
‫اپنے گھوڑے کے سلسلے میں دستیاب ہوا تھا۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ‬
‫ان کے گھوڑے پر شیطان سوار ہو کر جنت سے نکل تھا اور بڑی تحقیقات‬
‫سے یہ نتیجہ برآمد ہوا کہ مغالطہ خود شیطان پر سوار ہو کر دنیا میں آیا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫’’خلفشار کم ہوا۔ دیا سلئی جلئی گئی تو دیکھتے ہیں کہ حاجی بلغ الع ٰلی‬
‫‪ ،‬بہ شکل سینٹ کلویز وارد ہیں بس یوں کہہ لیجئے کہ ایک ڈاڑھی اور‬
‫کمل پر حاجی صاحب اس طور پر مسلط ہیں‪،‬جس طرح سارے‬
‫ہندوستان پر یونین جیک۔ جہاں تک حاجی صاحب کے چلنے کا تعلق ہے۔‬
‫بہت کم لوگ اس راز سے آشنا ہوں گے کہ فی الحقیقت ڈاڑھی اور مکمل‬
‫حاجی صاحب پر مسلط نہیں ہوتے بلکہ خود حاجی صاحب ڈاڑھی اور‬
‫کمل پر مسلط ہیں۔‘‘‬
‫ان اقتباسات میں صرف زبان سے گڑھنے ہی کا کام نہیں لیا گیا ہے بلکہ‬
‫جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے ‪ ،‬حقیقت سے وابستگی کے ایک نئے‬
‫طور کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ رشید صاحب شدت سے‬
‫محسوس کرتے ہیں کہ ان کے ذہن میں جو ایک معیاری اور مثالی دنیا آباد‬
‫ہے حقیقی دنیا اس کے منافی ہے۔ چاروں طرف حسن‪ ،‬نظم اور یگانگت‬
‫کا فقدان ہے۔ نتیجہ اس مایوسی کی صورت میں نکلتا ہے جو انہیں‬
‫فنتاسیہ کے لیے اکساتا ہے اور وہ حقیقت کے تخیلی متبادلت پیش کرنے‬
‫لگتے ہیں۔ گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انسانی ذہن میں یہ قوت ہے کہ‬
‫وہ کسی وجود کے تجربے ہی کا تصور نہیں کرتا بلکہ تخیلی متبادل بھی‬
‫خلق کر سکتا ہے کیوں کہ ہر حقیقت ایک سے زیادہ متبادلت کی حامل‬
‫ہوتی ہے۔ اسی طرح رشید صاحب ایسے لمحوں میں جہاں بعض معائر‬
‫کو مسترد کرتے ہیں وہاں بعض نئے معائر کی بنیادیں بھی فراہم کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫مجتب ی حسین کا اسلو ِب مزاح‬

‫میں ہی نہیں ہمارے اکثر معاصرین کو یہ شکایت ہے اور بجا ہے کہ ہم آہستہ‬


‫آہستہ ہنسنا اور مسکرانا بھولتے جا رہے ہیں۔ ہنسی ایک فطری عمل و رد ّ‬
‫عمل کا نام ہے‪ ،‬لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ اب ہمیں ہنسی کی بات پر بھی‬
‫دوسرے کو گدگدی چل کر ہنسانا پڑتا ہے۔ جس قوم کے روز مرہ سے‬
‫ہنسی کا عنصر ہی غائب ہونے لگے تو اسے شانزوفرینیا جیسے نفسیاتی‬
‫عارضے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ جہاں تک میرا سوال ہے میں یہ سوچ‬
‫سوچ کر اکثر بہت ملول ہو جاتا ہوں کہ ہم میں اس قدر غم و غصہ کیوں‬
‫بھرا ہوا ہے۔ ہم ذرا ذرا سی اہم اور غیر اہم‪ ،‬متعلق اور غیر متعلق باتوں‬
‫کا جواب لتوں سے کیوں دینا چاہتے ہیں۔ ایک ذرا سا دھکا لگتا ہے اور‬
‫تمام معافیوں اور معذرتوں کے جواب میں ہمیں ایک آدھ تھپڑ نہیں تو‬
‫گالیوں کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔ میں تو یہی کہوں گا اور بہ اصرار اور‬
‫س‬
‫بالتکرار کہنا چاہوں گا کہ وہ قیمتی نعمت جسے عرف عام میں ح ِ‬
‫مزاح یا ‪ sense of humour‬کہا جاتا ہے‪ ،‬ہم اس سے محروم ہو چکے‬
‫ہیں۔ آئرنی یہ کہ ہمیں اس محرومی کا کوئی احساس بھی نہیں ہے کیونکہ‬
‫س مزاح کی محرومی کے معنی میرے نزدیک بے حسی ہی کے ہیں۔ جو‬ ‫ح ِ‬
‫س مزاح کو گنوا بیٹھتی ہے اس کا کردار عجلت پسندی ‪ ،‬ہٹ‬ ‫قوم ح ِ‬
‫خود رائی‪ ،‬بے رحمی اور صحیح‬ ‫دھرمی‪ ،‬نا عاقبت اندیشی ‪،‬تشکیک‪،‬‬
‫پسندی جیسے خاصوں کا تابِع مہمل بن کر رہ جاتا ہے۔‬

‫س مزاح کو موضوع بناتے ہوئے ایک سوال اور میرے‬ ‫مجتب ٰی حسین کی ح ِ‬
‫ذہن پر بار بار دستک دے رہا ہے کہ ہمارے ادب ہی میں نہیں دیگر اہم ترقی‬
‫یافتہ زبانوں میں بھی مزاحیہ ادب کے سوتے کیوں خشک ہوتے جا رہے‬
‫ہیں؟ انگریزی میں ‪17‬ویں صدی کے بعد ہی سے مزاحیہ ادب مسلسل‬
‫زوال پذیر ہے۔ بیسویں صدی کے ربِع آخر تک پہنچتے پہنچتے مزاح کی‬
‫تقریبا ً موت واقع ہو چکی ہے۔ خدا‪ ،‬انسان‪ ،‬نظریہ‪ ،‬تاریخ اور مصنف کی‬
‫یکے بعد دیگرے اموات کے بعد غالبا ً اب مزاح کا نمبر ہے۔ بعض جدید‬
‫ہندوستانی زبانوں کے ادب میں لعن طعن اور طنز و تعریض نے غیر‬
‫معمولی فروغ پایا ہے‪ ،‬لیکن جسے مزاح اور ظرافت کا نام دیا جاتا ہے‪،‬‬
‫اس میں ابتذال کی وہ سطح نمایاں دکھائی دیتی ہے‪ ،‬جو ہمارے بازاری بے‬
‫فکرے اور نکمے لوگوں کا کھاجا ہے۔ بعض صوبائی زبانوں کے مزاح‬
‫نگاروں میں مسابقت کا میلن اس قدر حاوی ہے اور قارئین کے لئے لذت‬
‫کے سامان فراہم کرنے کی ایسی ہوڑ لگی ہے کہ مزاح نگار اور نٹ میں‬
‫کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ ظاہر ہے اردو کی لسانی تہذیب کے تکلفات اور‬
‫اس کی وضع کی اپنی ایک ایسی روایت رہی ہے جس کے باعث مزاح‬
‫نگار ایک حد تک ہی آزادی کے ساتھ ک ُھل کھیل سکتا ہے۔ کم از کم ہمارے‬
‫مقتدر مزاح نگاروں نے تفکر اور تفّنن کے اشتراک کی جو مثال قائم کی‬
‫ہے اور جو ہمارے مزاح کی ایک مستحکم روایت بن چکی ہے‪ ،‬اس کا‬
‫سلسلہ پطرس بخاری‪ ،‬رشید احمد صدیقی اور مشتاق احمد یوسفی سے‬
‫ہوتا ہوا مجتب ٰی حسین تک پہنچتا ہے۔‬

‫مجتب ٰی حسین بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ شخصیت فہمی ‪ ،‬جس گہرے‬
‫نفسیاتی درک اور باریک بینی کا مطالبہ کرتی ہے اور بالخصوص ایک‬
‫مزاح نگار کو جس طور پر بڑے وثوق اور بڑے اعتماد کے ساتھ اسے‬
‫دلچسپ اور توجہ خیز بنانا پڑتا ہے۔ مجتب ٰی کے خاکے‪ ،‬گروہی ‪ stock‬یا‬
‫انفرادی کردار انہیں ترجیحات کے حامل ہیں۔ البتہ آبگینوں کو ٹھیس لگنے‬
‫س احتیاط جہاں طنز کے‬ ‫کا ڈر انہیں بے حد محتاط بھی بنا دیتا ہے۔ یہی پا ِ‬
‫آہنگ کو ایک خاص سطح سے بلند نہیں ہونے دیتا وہیں مزاح کے لئے‬
‫گنجائش پیدا کرنے یا بے خطر راہ نکالنے میں انہیں یقینا ً بڑی کشاکشوں‬
‫سے بھی گزرنا پڑتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ خالص کشتگان شعر و ادب کے‬
‫ن قہر ساماں کے خاکوں‬ ‫ن عہد ِ رواں اور دانش ورا ِ‬
‫مقابلے میں بالنشینا ِ‬
‫میں قلم کی رفتار اور شوخئ گفتار میں بڑا فرق ہے۔ تاہم کوئی بھی‬
‫تحریر مجتب ٰی کے بلیغ جملوں اور ایسی عبارتوں سے خالی نہیں ہوتی‪،‬‬
‫جن میں ظاہر اور باطن کا تضاد قوم ِ محال کو راہ نہ دیتا ہو یا دونوں‬
‫سطحوں کے مابین کسی متوقع معنی یا منشا کے فریب میں مبتل کرنے‬
‫والی جہت برقرار نہ ہوتی ہو۔ اس قسم کی عبارتوں میں پہلی سطح پر‬
‫جس نفی یا اثبات کی کیفیت سے ہم دوچار ہوتے ہیں‪ ،‬دوسرے ہی لمحے‬
‫اس کی ضد سے واسطہ پڑتا ہے‪ ،‬پھر ضد کی ایک اور ضد ِ اثبات یا نفی‬
‫کی صورت میں واقع ہوتی ہے۔ گویا ہاں اور نہیں کا یہ فریب طنز ہی کے‬
‫ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ مجتب ٰی حسین کے یہاں مزاح کی آمیزش اسے‬
‫ایک متوازن کیفیت میں بدل دیتی ہے۔‬

‫’’اگر آپ پندرہ دن پرانا اخبار بھی پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے آپ آج کا‬
‫اخبار پڑھ رہے ہیں۔ وہی فسادات‪ ،‬وہی ہنگامے ‪ ،‬وہی مار دھاڑ‪ ،‬سیاست‬
‫دانوں کی وہی بدعنوانیاں اور کارستانیاں‪ ،‬حادثے‪ ،‬زنا‪ ،‬اغوا اور ڈکیتی کے‬
‫ویسے ہی واقعات۔ بری خبروں میں بھی اتنی یکسانیت پیدا ہو گئی ہے کہ‬
‫اگر کسی روز پچاس ساٹھ آدمی یوں ہی بلوجہ نہیں مر جاتے تو لگتا ہے‬
‫کہ یہ دن تو بس یونہی ضائع ہو گیا۔‘‘)کیا نیا سال آگیا؟(‬

‫’’کسی نے سچ کہا ہے کہ استاد اور طالب علم کی عمروں میں کم از کم‬


‫پندرہ برس کا فرق ضرور ہونا چاہئے ورنہ تعلیم خطرے میں پڑ جاتی ہے۔‬
‫جوان عورت کا بوڑھا شوہر جتنا بھل لگتا ہے‪ ،‬اتنا ہی ایک طالب علم کو‬
‫جوان استاد برا لگتا ہے۔‘‘)پروفیسر علی محمد خسرو(‬

‫’’سیاست دانوں کو یہ آزادی ملی ہوئی ہے کہ وہ جتنی چاہیں پارٹیاں‬


‫بدلیں۔ جب جی چاہے اپنے نظریات بدل دیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد‬
‫سیاسی پارٹیوں کی حیثیت ’ٹی پارٹیوں‘ کی سی ہو گئی ہے کہ چائے پی‬
‫لی اور دوسری پارٹی کی طرف چلے گئے۔ بعض لیڈروں کو تو اب یہ بھی‬
‫یاد نہیں رہا کہ آزادی کے بعد وہ کتنی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔ ایک زمانے‬
‫میں لیڈر کسی پارٹی میں شامل ہوتا تھا تو اس پارٹی کے کارکن کی‬
‫حیثیت سے ہی اس کا جنازہ اٹھتا تھا۔ اب لیڈر کے جنازے کو کندھا دینے‬
‫والے ایک ہی پارٹی کے لوگ نہیں ہوتے بلکہ مخلوط جنازے نکلتے ہیں۔‘‘‬
‫)یوم ِ آزادی(‬

‫افلطون کے بارے میں ہم خوب واقف ہیں کہ مزاحیہ شعرا کو بھی ُاس‬
‫کی مثالی ریاست میں دوسرے شہریوں پر ہنسنے ہنسانے کی اجازت نہیں‬
‫تھی۔ کیونکہ مزاح )طربیہ( کی مسرت خیزی‪ ،‬اس کے نزدیک کینہ توز‬
‫مسرت ہے۔ اور ہنسی کا ایک حد سے بڑھنا متشدد ردعمل کا پیش خیمہ‬
‫ہوتا ہے۔ )افلطون کا موخر بیان کسی حد تک غور طلب ہے( افلطون یہ‬
‫بھی کہتا ہے کہ مزاحیہ شاعری )ادب( کو ہر سطح پر استدلل کے وقار‬
‫اور حکم رانی کو برقرار رکھنا چاہئے۔ کیونکہ طرب و الم کی جو دو‬
‫متضاد کیفیات ہیں‪ ،‬دونوں کی یکجائی انسان کی خود ضبطی کی قوت‬
‫کو کم زور کرتی ہے۔ مجتب ٰی حسین کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔‬
‫ان کے مخاطبوں میں طرب و الم یا تفکر و نفّنن جیسی متضاد کیفیتوں‬
‫کی یک جائی‪ ،‬ان کی خود ضبطی کو کہیں اور کبھی کم زور نہیں کر‬
‫پاتی۔ ان کی طبیعت میں گہری سنجیدگی اور اخلص کا جو عنصر ہے وہ‬
‫ان کی تحریروں میں اس قدر یکساں روی کے ساتھ قائم رہتا ہے کہ اس‬
‫میں تفنن کی راہ نکالنا اور وقت کی یکساں روی سے پیدا ہونے والی‬
‫اکتاہٹ سے تھوڑی دیر کے لئے چھٹکارا پانے کی مہلتیں فراہم کرنا‪ ،‬مجتب ٰی‬
‫ل فن ہے۔ افلطون نے مزاحیہ شاعری میں المیہ پہلوؤں‬ ‫حسین ہی کا کما ِ‬
‫ف نقد بناتے ہوئے اس قسم کے لمحوں کے ورود کو استدلل کے‬ ‫کو ہد ِ‬
‫وقار کو ٹھیس پہنچانے سے تعبیر کیا ہے کہ وہی شخص جو ابھی آنسو بہا‬
‫رہا تھا‪ ،‬آہیں بھر رہا تھا‪ ،‬اچانک ہنسی کا فوارہ چھوڑ دیتا ہے اور یہ تمام‬
‫اعمال وہ ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم جذبے کے غلم ہیں۔ مجتب ٰی‬
‫س مزاح کے تفاعل کے مد ِ نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ‬ ‫حسین کے ح ِ‬
‫وہی شخص جو ابھی ہنس رہا تھا‪ ،‬محظوظ ہو رہا تھا‪ ،‬یک لخت آہیں‬
‫بھرنے لگتا ہے یا گہری سنجیدگی اختیار کر لیتا ہے۔ یہ جذبے کی غلمی‬
‫نہیں جذبے کی آزاد روی اور جذبے کی یک جہتی پر قدغن لگانے کا عمل‬
‫ہے۔ مجتب ٰی حسین نے ایک جگہ لکھا ہے‪:‬‬

‫’’سچا مزاح وہی ہے جس کی حدیں سچے غموں کی حدوں کے بعد‬


‫شروع ہوتی ہیں۔ زندگی کی ساری تلخیوں اور اس کی تیزابیت کو اپنے‬
‫اندر جذب کر لینے کے بعد جو آدمی قہقہے لگا سکتا ہے‪ ،‬ہنسنے کے لئے‬
‫جس قدر گہرے شعور اور ادراک کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬اتنے گہرے شعور‬
‫کی ضرورت شاید رونے کے لئے نہیں ہوتی۔‘‘) قصہ مختصر(‬
‫تفکر اور تفنن یا ہنسنا اور رونا دونوں اعمال نہ تو ایک دوسرے کا ضمیمہ‬
‫ہیں اور نہ تکملہ بلکہ ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اور تخلیقی سطح پر‬
‫ضدوں کو اس طور پر مجتمع کرنا کہ ان کی دولختی ایک جمالیاتی‬
‫واحدے میں ڈھل جائے‪ ،‬کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے مزاح نگار‬
‫کو اپنے شعور کی ایک خاص سطح پر تربیت کرنی پڑتی ہے۔ یہ کسی فلم‬
‫یا ٹیلی وژن سیریل کے فلیش بیک یا فارورڈ فلیش کی تکنیک سے زیادہ‬
‫مشکل کام ہے۔ مزاح نگار کو تخلیقی لمحات کے دوران ہی اپنی تحریر‬
‫کو ایڈیٹنگ سے گزارنا پڑتا ہے تب ہی وہ وقت کی الٹ پھیر کو ایک فطری‬
‫روکا احساس دلنے میں کامیاب ہو سکتا ہے اور دو مختلف کیفیتوں کو‬
‫ایک ایسی وحدت میں ڈھال سکتا ہے‪ ،‬جسے ‪ bathos‬یا تنزل یا اینٹی‬
‫کلئمیکس کے روایتی تصور کا رد کہہ سکتے ہیں۔ پوپ کا خیال تھا کہ‬
‫اینٹی کلئمیکس کی وہ شکل قابل گرفت ہے جس کا مقصود مزاح ہوتا‬
‫ہے۔ عظمت کے بعد ایک دم زوال کا رونما ہونا‪ ،‬مضحکہ خیز صورت حال‬
‫سے تو دوچار کر سکتا ہے‪ ،‬دردمندی یا ترحم کے جذبات کو برانگیختہ نہیں‬
‫کر سکتا۔ مجتب ٰی حسین اور یوسفی کا فن پوپ کے اس کلیے کی نفی پر‬
‫استوار ہے۔ یوں تو مجتب ٰی حسن اور مشتاق احمدیوسفی کے لسانی‬
‫استعمالت اور چیزوں کو دیکھنے اور انہیں اپنے فن میں سمونے‪ ،‬سمیٹنے‬
‫اور انہیں تحریف و تقلیب کے ساتھ ایک خاص وضع دینے کے طریقوں میں‬
‫ت‬‫بڑا فرق ہے‪ ،‬لیکن دونوں کو ضدوں یا دو مختلف کیفیتوں اور صور ِ‬
‫حالت کو یکجا کرنے اور افسانے کو ڈرامہ بنانے پر بڑی قدرت حاصل ہے۔‬
‫س مزاح کو‬ ‫مجتب ٰی حسین نے راجندر سنگھ بیدی کی رقیق القلبی اور ح ِ‬
‫ان کی شخصیت کے ایک ایسے ُبعد کا نام دیا ہے جو کم ہی انسانوں کا‬
‫خاصہ ہوتا ہے۔ ان کم انسانوں میں میرا خیال ہے مجتب ٰی حسین کا شمار‬
‫کر کے بیدی کا ثانی تلش کرنے کی زحمت سے ہم اپنے آپ کو ضرور بچا‬
‫سکتے ہیں۔ بیدی کے بارے میں ان کے ان خیالت کا اطلق بہ آسانی خود‬
‫مجتب ٰی حسین کی ذات پر کیا جا سکتا ہے۔‬

‫’’بات دراصل یہ ہے کہ بیدی صاحب ہمیشہ جذبوں کی سرحد پر رہتے ہیں‬


‫اور سیکنڈوں میں سرحد کو ِادھر سے ُادھر اور ُادھر سے ِادھر عبور‬
‫کرلیتے ہیں۔ ان کی ذات جھٹپٹے کا وقت ہے۔ برسات کے موسم میں آپ‬
‫نے کبھی یہ منظر دیکھا ہو گا کہ ایک طرف تو ہلکی سی پھوار پڑ رہی ہے‬
‫اور دوسری طرف آسمان پر دھل دھلیا سورج چھما چھم چمک رہا ہے۔‬
‫اس منظر کو اپنے ذہن میں تازہ کر لیجئے تو سمجھئے کہ آپ اس منظر‬
‫میں نہیں بیدی صاحب کی شخصیت میں دور تک چلے گئے ہیں۔ ان کی‬
‫ذات میں ہر دم سورج اسی طرح چمکتا ہے اور اسی طرح ہلکی سی‬
‫پھوار پڑ رہی ہوتی ہے۔ ایسا منظر شاذونادر ہی دکھائی دیتا ہے اور یہ سب‬
‫کچھ اس لئے ہوتا ہے کہ بیدی صاحب جیسی شخصیتیں بھی اس دنیا میں‬
‫شاذونادر ہی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘‬

‫آپ اس اقتباس میں بیدی کے نام کو مجتب ٰی حسین کے نام سے بدل دیں‬
‫تو مجتب ٰی کی شخصیت ہی نہیں ان کے فن کی گرہ کشائی کی راہ بھی‬
‫ہمارے لئے آسان ہو سکتی ہے۔ مجتب ٰی حسن نے عزیز قیسی کے خاکے‬
‫میں ان کی شخصیت کے دردمندانہ پہلو کو ان کی ایک خاص شناخت کے‬
‫ق کار ہے‪ ،‬بڑی آہستہ روی کے‬‫نام سے یاد کیا ہے۔ جیسا کہ مجتب ٰی کا طری ِ‬
‫ساتھ پہلے وہ عزیز قیسی کی حساس اور گداز طبیعت کا ذکر کرتے ہیں۔‬
‫پھر انہیں ایک اندر سے ترشے ہوئے ‪ unfinished‬مجسمے کا نام دیتے ہیں‬
‫بعد ازاں دوسرے ہی لمحے میں ایک اسطوری مضمنے )ایپی سوڈ( کے‬
‫حوالے سے اپنے بیان پر استدلل کا رنگ چڑھا دیتے ہیں۔ استدلل بھی‬
‫ایسا جو قاری کی چشم ِ حیرت کو نم ناک کرنے کے لئے کافی ہے۔ بات‬
‫تفنن سے شروع ہوتی ہے اور ختم ہوتی ہے تفکر پر۔ گویا بقول یوسفی‬
‫’’وہ مزاح کہ جو آپ کو سوچنے پر مجبور نہ کرے نا پخت ہے۔‘‘‬

‫’’میں عزیز قیسی کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ بڑا دردمند اور‬
‫حساس دل رکھتے ہیں۔ اٹھارہ سال پہلے میں نے انہیں دیکھ کر کہا تھا ’’یہ‬
‫شخص تو بالکل پتھر کا مجسمہ ہے اور وہ بھی ‪ unfinished‬مجسمہ ‘‘اب‬
‫بھی مجھے عزیز قیسی کبھی کبھی پتھر کے مجسمے کی طرح نظر آتے‬
‫ہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ مجسمہ اندر سے ترشا ہوا ہے باہر سے‬
‫نہیں۔‘‘‬
‫میں نے اپنے بچپن میں ایک قدیم یونانی کہانی پڑھی تھی کہ پتھر کا ایک‬
‫مجسمہ شہر کے چوک میں عرصہ سے گم صم کھڑا تھا۔ وہ اس کے پاس‬
‫سے گزرنے والوں کی سرگرمیوں کا چپ چاپ جائزہ لیا کرتا تھا مگر وہ نہ‬
‫مسکراتا تھا اور نہ رو سکتا تھا۔ ایک دن ایک بڑھیا کا اکلوتا بیٹا مرگیا۔‬
‫بڑھیا پاگل ہو گئی اور پتھر کے اس مجسمے سے لپٹ کر کہنے لگی بیٹا‬
‫کچھ تو بولو‪ ،‬خاموش کیوں ہو؟ اور بڑھیا کے اس پاگل پن کا جواب دینے‬
‫کے لیے پتھر کے مجسمے کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔‬

‫مجھے اس غیر فطری کہانی پر ہنسی آئی تھی۔ آخر پتھر کا آدمی کس‬
‫طرح رو سکتا ہے مگر عزیز قیسی کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ جھوٹی‬
‫کہانی بالکل سچی معلوم ہوتی ہے۔‘‘‬

‫مجتب ٰی حسین کی سب سے بڑی کمزوری‪ ،‬کمزوری جسے ان کی طاقت‬


‫بھی کہا جا سکتا ہے‪ ،‬ان کی طبیعت کی نرمی ہی ہے جسے نبھا کر‬
‫چلناایک مزاح نگار کے لئے کچھ کم تکلیف دہ نہیں ہوتا۔ ایک لمبی پریکٹس‬
‫کے بعد اذیت برداشت کرنا ان کے لئے ہنسی کھیل بن گیا ہے۔ قیاس کہتا‬
‫ہے کہ مجتب ٰی حسین نے اندرونی تخلیقی دباؤ کے تحت کم ہی خاکے لکھے‬
‫ہیں اور اگر مجتب ٰی صاحب مجھے کہنے کی اجازت دیں تویہ کم کا لفظ‬
‫بھی کچھ زیادہ ہی ہے۔ بعض حضرات تو یقینا ً اس لئق تھے اور ہیں کہ ان‬
‫پر خاکہ لکھنے کے معنی اپنے قلم کو آزمائش میں ڈالنے کے تھے یا اپنے‬
‫قلم کو کچھ زیادہ ہی عزت بخشنے کے تھے۔ بعض غیر اہم حضرات کی‬
‫غیر معروفیت کو مجتب ٰی حسین ہی سے غیر معمولی شہرت بھی ملی۔‬
‫جو اپنی زندگی میں ہی مردنی کے عالم میں بسر کر رہا ہو‪ ،‬اس کے لئے‬
‫ن اللہ سے کم طاقت نہیں رکھتا۔ میں نے‬‫مجتب ٰی حسین کا قلم قم باذ ِ‬
‫عرض کیا تھا کہ مجتب ٰی حسین کی سب سے بڑی کمزوری ان کی‬
‫طبیعت کا گداز ہے‪ ،‬جسے ان کی شخصیت کے خاص جوہر کا نام دینا‬
‫زیادہ درست ہو گا۔ پچھلے پچاس برسوں کی ان کی تحریروں کا دفتر‬
‫اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ انہوں نے اپنے اس گداز اور اس نرمی اور‬
‫اس اخلص کے جوہر سے کہیں فرار اختیار کرنے کی کوشش نہیں کی۔‬
‫مزاح میں طنز کے لمحوں کا در آنا ایک عمومی سی بات ہے۔ مزاح نگار‬
‫ش‬
‫کے اندر اگر تھوڑا بہت بھی بے دردی کا عنصر ہے تو وہ بے دھڑک آت ِ‬
‫نمرود میں کودنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ مجتب ٰی حسین آتش کو اور‬
‫ش‬‫زیادہ مشتعل کرنے کے بجائے ایک ایسے گر سے کام لینا جانتے ہیں کہ آت ِ‬
‫نمرود میں کودے بغیر ہی وہ آگ گل گلزار میں بدل جاتی ہے۔ اس‬
‫سلسلے میں حیدرآباد کا جو ذکر کیا‪ ،‬چار مینار اور چار سو برس‪ ،‬کچھ‬
‫حیدرآبادیوں کے بارے میں‪ ،‬قیام الدین کے گھر ہمارا قیام اور دیس سے‬
‫جانے والے بتا‪ ،‬وغیرہ جیسے انشائیوں میں مزاح کا رنگ نہ صرف گہرا اور‬
‫دیرپا ہے بلکہ رشید احمد صدیقی کے علی گڑھ اور مشتاق احمد یوسفی‬
‫کے کراچی اور ماضی کی طرف نکل جائیں تو سرشار کے لکھنؤ سے‬
‫نظر بازی کی جرات بھی رکھتا ہے۔ مجتب ٰی حسین کا حیدرآباد تو کراچی‪،‬‬
‫لندن‪ ،‬شکاگو اور ٹورنٹو ہی میں نہیں دوبئی ‪،‬مسقط اور سعودی عرب‬
‫میں بھی جلوہ فگن ہے۔ حیدرآباد کے مہاجرین میں ناسٹلجیا کی وبا عام‬
‫ہے۔ اس کا علج بھی انہیں معلوم ہے کہ جہاں جاؤ حیدرآباد کو اپنے تمام‬
‫دوستوں اور دشمنوں ‪،‬قورموں اور کبابوں‪ ،‬بریانیوں اور بگھارے بینگنوں‪،‬‬
‫کھٹی بھاجیوں اور گوشت اور مچھلی کے اچاروں کے ساتھ لے جاؤ۔ پھر‬
‫کیا جنت اور کیا دوزخ )بقول مجتب ٰی( ’ ملکی ہیں ہم وطن سے سارا‬
‫جہاں ہمارا‘ بلشبہ مجتب ٰی کے ان مشاہدات میں بڑا تنوع ہے۔ انہوں نے‬
‫جس بے تکلفی اور بلتحفظی کے ساتھ حیدرآباد کو رقم کیا ہے‪ ،‬حیدرآباد‬
‫ایک زندہ اور متحرک ہستی کے طور پر ہمارے ذہنوں میں گشت کرنے لگتا‬
‫ہے۔ یہ بات اس دہلی پر کم ہی صادق آتی ہے جس کی دھجیاں انہوں نے‬
‫دہلی کے جنگلی جانور اور حضرت خواجہ حسن نظامی کے نام ایک خط‪،‬‬
‫ایک عجیب وغریب ٹیلی فونی بات چیت‪ ،‬پردہ فاش ریلی سے گریباں‬
‫چاک ریلی تک‪ ،‬الفریب اور ہمارا الطنز و المزاح اور جامعہ سے‬
‫ظالمیا تک کے علوہ مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر خوب بکھیری‬
‫ہیں۔ مجتب ٰی حسین نے یہاں کے موسموں کی کجی اور سختی‪ ،‬یہاں کے‬
‫انتظامیہ کی بے حسی‪ ،‬ارباب حل و عقد کی غفلت شعاری‪ ،‬سڑکوں کی‬
‫خستہ حالی‪ ،‬سیاست کی پارہ صفتی اور نیتاؤں کی موقع پرستی کو‬
‫ف ملمت بنایا ہے۔ طنز نے کہیں تعریض کی حدوں کو چھولیا ہے‬ ‫جابجا ہد ِ‬
‫تو کہیں غم کی کیفیت غصے میں بدل گئی ہے۔ کہیں کہیں تو وہ دل جلے‬
‫ن دہلی کی طرح واسوخت پر بھی اتر آتے ہیں۔ حیدرآباد کے‬ ‫عاشقا ِ‬
‫انتظامیہ کو بھی انہوں نے کئی جگہ آڑے ہاتھوں لیا ہے تاہم جب کوئی‬
‫حیدرآبادی شخصیت درمیان آتا ہے یا حیدرآباد کی مجلسی زندگی کا یا‬
‫ان پکوانوں کا جو ہمارے ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے حق میں کچھ زیادہ ہی‬
‫مفید مطلب ہیں‪ ،‬مجتب ٰی کے لئے لمحۂ راحت سے کم حیثیت نہیں رکھتے۔‬
‫دہلی کی سخت و درشت زندگی کے تناظر میں اسے ہم ‪comic relief‬‬
‫کا نام دے سکتے ہیں۔‬

‫’’جب شاذ کسی ترنم اور ڈرامہ بازی کے بغیر دونوں ہاتھوں سے مشاعرہ‬
‫لوٹنے لگتا تھا تو میرے تصور میں چار مینار کے مینار کچھ اور اونچے ہو‬
‫جاتے تھے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کی عمارت کچھ اور بھی پر شکوہ نظر آنے‬
‫لگتی تھی۔ نوبت پہاڑ ہمالیہ کی طرح اونچا دکھائی دینے لگتا تھا۔ دکن‬
‫دیس کی سانولی شاموں کا حسن کچھ اور بھی نکھر آتا تھا۔‘‘ )شاذ‬
‫تمکنت(‬

‫لطف کی بات یہ ہے کہ شاذ اپنی غزل دہلی کے مشاعرہ میں سنا رہے ہیں‪،‬‬
‫جس پر داد و تحسین کی وہ بوچھاڑیں پڑتی ہیں کہ حیدرآباد کا حیدرآباد‬
‫نہال ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں "حیدرآباد کا جو ذکر کیا" کے دو اقتباسات‬
‫ملحظہ فرمائیں کہ حیدرآباد والے حیدرآباد ہی میں نہیں حیدرآباد سے دور‬
‫دیسوں میں بھی پیٹ پر جان فدا کرنے کے لئے کتنے اتاؤلے ہوتے ہیں۔‬

‫’’ہم نے کہا یار لندن میں آئے ہوئے بیس دن ہو گئے۔ ان بیس دنوں میں‬
‫اتنے حیدرآبادی کھانے کھائے ہیں کہ خود حیدرآباد میں بھی پچھلے تیرہ‬
‫برسوں میں نہ کھائے ہوں گے۔ کھلنا ہی ہو تو انگریزی کھانا کھلؤ۔ میں تو‬
‫انگریزی کھانا کھانے کے لئے ترس گیا ہوں۔ مجید بول۔ یہ کیسے ہو سکتا‬
‫ہے کہ دو حیدرآبادی پردیس میں ملیں اور بگھارے بینگن بیچ میں نہ آئیں۔‘‘‬

‫’’لندن تو خیر لندن ہے‪ ،‬پیرس میں ہم چار دن کے قیام کے لئے اپنے‬
‫دوست مسرور خورشید کے یہاں پہنچے تو انہوں نے جاتے ہی اپنا‬
‫ریفریجریٹر کھول کر دکھایا کہ بھّیا! میں نے اس میں پورے ایک ہفتہ کے‬
‫لئے حیدرآبادی کھانے پکا کر رکھ دیئے تم صرف چار دن کیوں رہتے ہو؟‬
‫ایک ہفتہ رہو۔ یہ رہی نہاری‪ ،‬یہ رہے بگھارے بینگن‪ ،‬یہ رہی دہی کی چٹنی‪ ،‬یہ‬
‫رہی کھچڑی اور یہ رہی۔ ۔ ۔ ‪ ،‬ہم نے اپنے اور ان کے منھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے‬
‫کہا‪ ،‬خدا کے لئے اب حیدرآبادی کھانوں کا ذکر نہ کیجئے مجھے ابکائی آ‬
‫رہی ہے۔ کیا حیدرآبادی تہذیب اب صرف پکوان میں ہی اٹک کر رہ گئی‬
‫ہے۔‘‘‬

‫مجتب ٰی حسین کا فن صرف اور صرف خوشی بانٹنے سے عبارت ہے۔ اس‬
‫میں عبرت کے اپنے مقامات ہیں جہاں تھوڑا سا شکوَہ ہے تھوڑی سی‬
‫برہمی‪ ،‬تھوڑی سی تنقید ہے تھوڑی سی عیب جوئی تاہم پردہ داری زیادہ‬
‫ہے پردہ دری کم؛ کیونکہ زندگی خود اتنی اذیت ناک ہے کہ اسے اور اذیت‬
‫ناک بنانے میں مجتب ٰی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مجتب ٰی کا مزاح زندگی‬
‫ل قبول‬ ‫کو اس کی تمام تر خامیوں ‪،‬کج رویوں اور بد ہیئتوں کے ساتھ قاب ِ‬
‫بنانے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ وہ ہمیں بار بار اپنی بھولی ہوئی ہنسی کی‬
‫یاد دلتا ہے کہ زندگی کا سب سے صحت بخش اسلوب بھی یہی ہے۔ کہیں‬
‫ایسا نہ ہو کہ وقت تیز رفتاری سے بہت آگے اور آگے نکل جائے اور ہماری‬
‫زبان پر محض یہ شعر چپک کر رہ جائے۔‬
‫زندہ رہنے کے تھے جتنے اسلوب‬
‫زندگی کٹ گئی تب یاد آئے‬
‫***‬
‫مصنف کی اجازت اور تش ّ‬
‫کر کے ساتھ‬
‫ان پیج سے تبدیلی‪ ،‬تدوین اور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز عبید‬
‫پروف ریڈنگ‪ :‬جویریہ مسعود‪ ،‬اعجاز عبید‬
‫اردو لئبریری ڈاٹ آرگ‪ ،‬کتابیں ڈاٹ آئی فاسٹ نیٹ ڈاٹ کام اور کتب‬
‫ڈاٹ ‪ 250‬فری ڈاٹ کام کی مشترکہ پیشکش‬
‫‪http://urdulibrary.org, http://kitaben.ifastnet.com,‬‬
‫‪http://kutub.250free.com‬‬

You might also like