You are on page 1of 18

‫ش‬ ‫ق‬

‫ا ب ال کے اردو عری جمموعے‪:‬‬


‫بانگِ درا” کا مطلب ہے گھنٹى کى آواز۔ اس مجموعے کى شاعرى گویا سوئى ہوئى قوم کو جگانے کے‬
‫لیے گھنٹى کى آواز کا کام دیتى ہے۔‬
‫“با ِل جبرئیل” کا مطلب جبرئیل کے پر۔ اس مجموعے کی شاعری انسان کو آسمانوں کى بلندیوں اڑان‬
‫سکھاتى ہے جس طرح جبرئیل اپنے پروں کے ذریعے بلندیوں میں اڑتا ہے۔‬
‫موسى کى ضرب۔ اس مجموعے کی شاعرى ایک ضرب کا کام دیتى ہے‬‫ٰ‬ ‫ب کلیم” کا مطلب ہے‬
‫“ضر ِ‬
‫موسى کى ضرب ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫بالخصوص اس مجموعے کی شاعری مغربى تہذیب کے لیے واقعى‬
‫“ارمغا ِن حجاز” کا مطلب مدینہ کا تحفہ۔ یہ شاعرى واقعى مدینہ سے الیا ہوا ایک تحفہ ہے۔ اس‬
‫مجموعے کی شاعری میں حضور اکرم صلی علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ عشق کا اظہار دیکھنے کو ملتا‬
‫ہے۔‬
‫عالمہ اقبال کی تصنیف ارمغان حجاز‪  ‬کا تعارف اور تفہیم‪ ‬‬
‫ضرب کلیم سے چند ماہ بعد عالمہ اقبال نے فارسی مثنوی "پس چہ باید کرد اے اقوام شرق " شائع کی۔‬
‫اس میں بھی اقبال کے موضوعات ملتے ہیں۔‪ ‬‬
‫اسی میں ایک اور مثنوی "مسافر" بھی شامل ہے جو اقبال کے سفر افغانستان کے تاثرات پر مشتمل‬
‫ہے اور اس سے قبل ‪1934‬ء میں شائع ہوچکی تھی " پس چہ باید کرد " کے بعد عالمہ اقبال کی‬
‫زندگی میں ان کی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی اگرچہ ارمغان حجاز کا مسودہ مکمل ہوچکا تھا مگر یہ‬
‫کتاب ان کی وفات کے چند ماہ بعد‪1938‬ء کے اواخر میں چھپی ۔‬
‫اس کا زیادہ تر حصہ فارسی میں ہے مگر کچھ عرصہ اردو کالم پر بھی محیط ہے اردو کالم میں ان‬
‫ٰ‬
‫شوری شامل ہیں آخر میں مال زادہ ضیغم لوال بی کا بیاض کے‬ ‫کی مشہور طویل نظمیں ابلیس کی مجلس‬
‫عنوان سے چند نظمیں درج ہیں۔‪ ‬‬
‫جن میں اہل کشمیر کی پستی پر آنسو بہائے گئے ہیں محراب گل افغان کی طرح کی مال زادہ لوالبی‬
‫ایک فرضی شخصیت ہے عالمہ اقبال مختلف عالقوں سے اس قسم کے فرضی کردار لے کر یہ بتانا‬
‫چاہتے ہیں کہ ہر عالقے کے مسلمانوں کو بیدار ہو کر راہ عمل میں گامزن ہونے کی ضرورت ہے۔‬

‫ارمغان حجاز یعنی حجاز کا تحفہ۔ یہ کتاب عالمہ اقبال کی وفات کے‬ ‫ارمغا ِن حجاز کی تفصیل‪:  ‬‬
‫کچھ ماہ بعد نومبر ‪1938‬ء میں شائع ہوئی۔حجاز اس سرزمین عرب کا نام ہے جس میں مکہ مکرمہ اور‬
‫مدینہ منورہ واقع ہیں ۔اقبال زندگی کے آخری ایک دو‪  ‬سالوں میں حج اور زیارت کے لئے حجاز کا سفر‬
‫کرنے کے لیے بے حد آرزو مند تھے ۔مگربیماری نے انہیں سفر سے باز رکھا مگر خیالی طور پر وہ‬
‫ان سالوں میں گویا حجاز میں ہی رہے۔‪ ‬‬
‫ارمغان حجاز اس خیالی سفر کی تصویر پیش کرتی ہے ۔یہ سارا حصہ تقریبا ً دو بیتیوں پر مشتمل ہے‬
‫اور اردو حصے سے تقریبا ً دو گنا ہے۔‪ ‬‬
‫دوبیتی یا رباعی ‪،‬دو دو شعروں میں اپنی دل کی کیفیت بیان کرنے کا نہایت موثر ذریعہ ہے اقبال نے‬
‫اس سے کام لیا ہے اس کتاب کے پانچ حصے کئے گئے ہیں ۔‬

‫‪-1‬ہللا تعالی کے حضور‪ ‬‬


‫‪ -2‬نبی کریم صل وسلم کی خدمت میں‪ ‬‬
‫‪-3‬مسلمان قوم سے‪ ‬‬
‫‪ -4‬عالم انسانی سے‪ ‬‬
‫‪-5‬اپنے دوستوں سے‪ ‬‬

‫در اصل کتاب کے پہلے دو حصوں کی مناسبت سے اس کا نام ارمغان حجاز رکھا گیا ہے مگر ان دو‬
‫حصوں میں بھی دوسرا حصہ حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم زیادہ قابل توجہ ہے۔‬
‫‪ ‬پہلے حضور حق میں شاعر اپنے آپ کو حرم کعبہ میں خیال کرتا ہے۔حرم کعبہ دعاؤں کی قبولیت کا‬
‫مقام ہے۔ شاعر یہاں خدا سے گلے شکوے کرتا ہے مسلمانوں کی بہتری کے لیے دعائیں مانگتا ہے اور‬
‫ایک دو اپنی آرزوئیں بھی پیش کرتا ہے ۔ اسے یہ گلہ ہے کہ مسلمان زوال اور پستی کے گڑھے سے‬
‫باہر کیوں نہیں نکلتے؟‪  ‬درد مند اور قابل لوگ دنیا میں ذلیل اور خوار کیوں کیے جارہے ہیں ؟ انسان‬
‫بالعموم خودشناس کیوں نہیں ہورہے ہیں اور دنیا کے محنت کشوں کی حالت بہتر کیوں نہیں ہو رہی؟‬
‫‪ ‬اقبال دعا فرماتے ہیں کہ خدایا موجودہ مسلمانوں میں سے ایک ایسی غیرت مند قوم پیدا فرما جو جلد ہی‬
‫اپنی بستیوں کا ازالہ کر دے اور دین اسالم کے مرتبے کے شایان نظر آئے وہ برصغیر کے مسلمانوں‬
‫کی معاشی اور سیاسی غالمی پر ایک بار پھر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غالمی نے‬
‫مسلمانوں کو ایسا بے عمل کر رکھا ہے کہ وہ دین و شریعت کے احکام کو یکسر بھول جانے لگے ہیں‬
‫اور اگر ان کو اپنا بھی لیں تو ان کی روح سے دور رہتے ہیں ۔‬
‫ایک دو بیتی میں اقبال مسلمانوں کی روش کی بھی شکایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ میری سادہ لوھی‬
‫ہے کہ میں ایک ایسی قوم کی بیداری اور ترقی کا خواب دیکھ رہا ہوں جس کے علماء بھی علم اور یقین‬
‫کی دولت سے محروم ہوچکے ہیں ۔‬
‫اقبال کی ذاتی دعا یہ ہے کہ قیامت کے دن اس کے اعمال کا حساب کتاب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے سامنے نہ لیا جائے اور اسے اس ندامت سے بچایا جائے ۔‬
‫وہ اس بات کا بھی آرزو مند ہے کہ اس کے خیاالت سے خواص کو بہرہ ملے اور وہ عوام کی خاطر‬
‫اس کے خیاالت کو آسان صورت میں پیش کریں کیونکہ بعض باتوں کو عوام شدید براہ راست نہ سمجھ‬
‫سکیں اور ان کا غلط مفہوم لیں۔‪ ‬‬
‫وہ مسلمانوں اور دنیا کے کمزور انسانوں کی بیداری کے لیے اپنی شاعری کی مزید توانائی کا بھی‬
‫طالب ہے ان آرزوؤں کے اظہار کے بعد شاعر عالم خیال میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو روانہ‬
‫ہوتا ہے تاکہ وہ نبی کریم صلی ہللا وسلم کے مقدس روضے پر حاضری دے سکے آخری دو بیتی یوں‬
‫ہے ‪:‬‬
‫میرا بدن تو تھک کے چور ہو گیا مگر روح اس شہر کی آرزو مند ہے جہاں مکہ مکرمہ سے ہوکر‬
‫پہنچا کرتے ہیں خدایا تو اپنے حرم پاک میں اپنے خاص بندوں کو دیکھتا رہ مگر مجھے تو اب دوست‬
‫کی یاد ستا رہی ہے "‬
‫حضور رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم واال حصہ ارمغان حجاز کی جان کہا جا سکتا ہے عشق رسول‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم شاعر اس حصےمیں کوئی شکوہ و شکایت نہیں کرتا اور اس کا لہجہ سراپا ادب و‬
‫احترام بنا ہوا ہے پہلے وہ خیالی سفر کا ذکر کرتا ہے کہ‪ :‬‬
‫جیسے کوئی پرندہ شام کے وقت اپنے آشیانہ کی راہ لیتا ہے ‪،‬میں بھی اس بڑھاپے میں عاشقانہ سوز و‬
‫مستی کے ساتھ اس طرح یثرب شریف کا مسافر بنا ہوا ہوں۔‪ ‬‬

‫میں نے سویرے اپنی اونٹنی سے کہا کہ چونکہ تیرا سوار بیمار اور بوڑھا ہے اس لیے آہستہ آہستہ چل‬
‫مگر وہ اس مست طریقے سے بھاگ رہی ہے گویا اس کے پاؤں کے نیچے کی ریت ریشم بن گئی ہے۔‬
‫ساربان نے اس کی لگام پکڑنا چاہیے مگر میں نے منع کر دیا ۔مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ بھی میری‬
‫طرح عشق کی بصیرت رکھتی ہے اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھاگ رہی ہے۔ اس کی سیاہ آنکھیں‬
‫میری طرح آنسو بہا رہی ہیں۔ سحری کے وقت اس کی آواز سے میرا دل جل رہا ہے ۔جس شراب عشق‬
‫سے میرا ضمیر روشن ہے وہ اس اونٹنی کی نگاہ سے ظاہر ہو رہی ہے ۔‬
‫ساربانوں کے ساالر کو میرے اشعار نے متوجہ کر ہی دیا ۔کہنے لگا یہ کوئی غیر عرب ہے ۔اس کی‬
‫لے عربوں سے نہیں ملتی مگر شعر ایسے کہہ رہا ہے کہ ان کی تاثیر سے صحراؤں میں خنکی آتی جا‬
‫رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عراقی کے شعر پڑھ رہا ہوں اور کبھی جامی کے ۔عربوں کے سُر سے میں‬
‫ناواقف ہوں مگر ساربان کی حدی پڑھنے میں بھی شامل ہوں ۔‬

‫اوپر کی عمارت میں اقبال کی چند رباعیوں کا آزاد ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔حدی اونٹ والوں کے نغمے‬
‫کو کہتے ہیں۔عراقی ساتویں ہجری اور جامی نویں صدی ہجری کے فارسی شاعر ہیں۔ جامی نے بھی‬
‫اپنے اشعار میں اونٹنی کے سورو ساز اور عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم میں مست ہونے کا ذکر کیا‬
‫ہے ۔‬
‫اب اقبال عالم خیال میں حضور پاک کے گنبد پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عرض شروع کرتے ہیں‬
‫کہ ‪:‬‬
‫یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم مدد فرمائیے کہ مسلمان کا سوزو ساز جاتا رہا اور مایوسی میں اس‬
‫کا دل آہ و فغاں کر رہا ہے ۔مجھے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت و عشق کی تاثیر نے یہ مؤثر آواز‬
‫دی۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ برصغیر میں عاشقان رسول صلی ہللا علیہ وسلم کا قحط ہے۔ یہاں کے‬
‫مسلمان غالمی اور پستی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم پر رحم فرمائے ہم جیسے بدبخت اور مظلوم‬
‫مسلمان دنیا میں کم ہوں گے میری زبان اور بیان برصغیر کے مسلمانوں کی بد بختی‪  ‬بیان کرنے سے‬
‫قاصر ہیں مگر میرے ظاہری اور باطنی احساسات آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر عیاں ہیں۔ میں یہی کہہ‬
‫سکتا ہوں کہ یہاں کے مسلمانوں کی گزشتہ دو سالہ تاریخ کو یاد کر کے میرا دل لکڑی کے اس کندے‬
‫کی طرح ہو گیا ہے جس پر قصاب گوشت کاٹتے رہتے ہیں ۔‬
‫یہاں کے مسلمانوں کے حاالت بدلتے نہیں انہیں ابھی کوئی رہبر اور رہنما بھی نہیں مال ان کی زندگی‬
‫بے تاب اور حرکت و عمل سے محروم ہے اپنی تلواروں کو انہوں نے نیام میں ڈال دیا اور قرآن مجید‬
‫کو تاک نسیان پر رکھ دیا ہم غیر ہللا کے سامنے جھک رہے ہیں آتش پرستوں کی طرح ہم غیر ہللا کے‬
‫سامنے بھجن گا رہے ہیں میں دوسروں کا شکوہ کیا کر رہا ہوں میں اپنا شکوہ کر رہا ہوں کہ میں آپ‬
‫سے کوئی نسبت رکھنے کا اہل نہ تھا ۔‬
‫اقبال فرماتے ہیں کہ عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں غیر معمولی قوت دے رکھی ہے یہ قوت‬
‫ان کے شعر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے مگر اکثر مسلمانوں کو ان کے تصور خودی کی قدر‪  ‬نہ ہے‬
‫وہ انہیں ایک عام سا شاعر سمجھتے ہیں اور ان سے غزل اور تاریخ وفات والے اشعار لکھنے کی‬
‫فرمائش کرتے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ انہیں فلسفیوں‪،‬مالوں اور صوفیوں کی صحبت سے کوئی لطف نہیں‬
‫مال ۔فلسفیانہ بحثیں بڑی سر دردی ہیں جب کہ معاصر مالوں اور صوفیوں کی بے عمل باتوں سے دل‬
‫میں کوئی سوز و گداز پیدا نہیں ہوتا۔‬
‫رسول کے طفیل مال‪  ‬مگر اکثر مسلمان اس کے رسول صلی ہللا‬
‫ؐ‬ ‫‪ ‬فرماتے ہیں کہ انہیں جو کچھ مال عشق‬
‫علیہ وسلم کی اہمیت سے غافل ہیں ۔‬
‫ابھی میری مٹی میں چنگاریاں موجود ہیں ابھی میرے سینے میں آہ‪  ‬سحرگاہی کی ہمت ہے۔ نبی کریم‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم اگر اپنی ایک تجلی سے نوازے تو دیکھیں گے کہ بڑھاپے کے باوجود ابھی مجھ‬
‫میں تاب نظر موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ کے فیض سے ہی مجھے سوزوساز مال آپ کے آب زمزم نے ہی‬
‫میرے انگور کے درخت شاداب کر رکھے ہیں چونکہ میرے سینے میں موجود دل آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کا راز داں ہیں اس لئے میری درویشی کے سامنے جمشید کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یا رسول‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم میری خاک سے ایک گلستان وجود میں آجائے اور میرے آنسو اللہ کے‬
‫پھول کی طرح اللی میں مل جائے اگر میں حضرت علی کی شمشیر اٹھانے کا اہل نہیں تو مجھے‬
‫حضرت علی کی تلوار جیسی تیز نگاہ تو مل جائے ۔‬
‫سعودی عرب میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے روضے پاک کے سامنے کوئی غیر شرعی‬
‫حرکت نہیں کی جاسکتی مثالً روضہ پاک کے سامنے سجدہ تعظیمی کرنا غیر معمولی جھکنا اور‬
‫جالیوں کو بوسہ دینا ممنوع ہے ۔ارمغان حجاز کی تصنیف کے وقت سعودی عرب کے حاکم ملک‬
‫عبدالعزیز تھے اقبال ایسا محسوس کرتے ہیں کہ خیال میں وہ روزہ پاک پر ہیں اور محبت کے ہاتھوں‬
‫مجبور ہوکر انہوں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی ہے اور اتنی میں ملک عبدالعزیز وہاں نکلتے ہیں‬
‫اور اس حرکت میں اعتراض کرتے ہیں شاعر نے اس اعتراض کا جواب یہ سوچ رکھا تھا ‪:‬‬
‫ملک عبدالعزیز آپ بھی دوست کی محبت کی شراب اس طرح پی لیتے کہ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہتے‬
‫میں سجدہ نہیں کر رہا ہوں اپنی پلکوں سے دوست کے دروازے کی گرد جھاڑ رہا ہوں کیا یہ بھی قابل‬
‫اعتراض ہے اس ایمان افروز حصے کی ایک مزیدار رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو ‪:‬‬

‫یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہی آغاز اور انجام چاہیے کہ آپ کے کوچہ محبت کی‬
‫ایک بات کر لینے کا سوز حاصل کر لوں۔ میں تو اس جرات مند عاشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫ہمت کا عاشق ہوں جو خدائے تعالی سے بھی کہہ دے کہ مجھے محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کافی‬
‫ہیں "‬
‫ارمغان حجاز کے تیسرے حصے کا عنوان "حضور ملت" ہے ۔یہ کافی طویل باب ہے اور اس کئی ذیلی‬
‫سرخیاں ہیں جیسے محمد صلی وسلم کے طریقے پر چلو ‪،‬خودی ‪،‬صوفی و مال‪  ،‬رومی‪،‬عرب شاعروں‬
‫سے ‪،‬خالفت و ملوکیت ‪،‬مسلمان عورتوں سے عصر حاضر اور تعلیم ۔فرماتے ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں‬
‫کو اس وقت ترک اور مصری مسلمانوں کی ترقی سے سبق حاصل کرنا چاہئے ان کی خودی بیدار ہوئی‬
‫تو ممالک طاقت ور بننے لگے اور چند سالوں میں کہاں سے کہاں جا پہنچے ۔اقبال صوفیا اور علماء کا‬
‫احترام کرتے تھے مگر اکثر معاصر صوفیوں اور ملووں میں انہوں نے بے عملی ہی دیکھی‪،‬اس لیے‬
‫انھوں نے ان پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ صوفیوں اور مالؤں کی دنیاوی پستی کی کوئی‬
‫پروا نہیں اگر مغربی استعمار دین و ایمان کی چولیں ہال رہا ہے مگر یہ لوگ حاکموں کی ہاں میں ہاں‬
‫مالتے جا رہے ہیں اور یاالہی آخرت اچھی ہو کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ ان کی تاویالت سے ہللا کی‬
‫پناہ ۔وہ ذرا ذرا سے اختالفات پر لوگوں کو جہنم رسید کر رہے ہیں مگر غالمی کی جہنم سے انہیں‬
‫کوئی چڑنہیں اقبال نے یہاں ایک بار پھر رومی کو پڑھنے کی ضرورت بتائی ہے عربی شاعروں سے‬
‫اقبال فرماتے ہیں کہ ان کی طرح قرآن مجید کی تعلیمات کے سمندر میں غوطہ زنی کرے اور مسلمانوں‬
‫کوعروج اور ترقی کی دعوت دی ۔‬
‫فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی برکت سے میں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ایک سو تیس سالہ دور‬
‫زوال کا خاتمہ کر دیا اقبال نے یہاں سلطان ٹیپو کی شہادت سے شروع ہونے والے دور زوال کی طرف‬
‫اشارہ کیا ہے خالفت و ملوکیت کے عنوان سے اقبال نے فرمایا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور سے بعد‬
‫کی خالفت ایک طرح کی ملوکیت اور بادشاہت رہی ہے ۔فرماتے ہیں کہ دین اسالم کی بنیادی‬
‫خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ کی کوئی گنجائش نہیں مسلمان عورتوں سے یہاں‬
‫بھی اقبال نے تقریبا وہی باتیں کی ہیں جو پہلے مثنوی رموز بیخودی میں کر چکے تھے یہ اقبال نے‬
‫اپنے بعض تعلیمی نظریات بھی پیش کئے ہیں ۔اقبال صحیح تربیت دینے ادب و آداب سکھانے دینی اور‬
‫فنی تعلیم اور اخالقی اوصاف سکھانے پر زور دیتے ہیں ایک بار فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے نقطہ‬
‫نظر سے تعلیم وہی اچھی ہے جو خودی کی نشوونما کے لیے سازگار ہو اور جو طالب علموں کو‬
‫آزادانہ سوچنے میں مدد دے ۔‬
‫ارمغان حجاز کا چوتھا حصہ حضور عالم انسانی ہے اس میں اقبال صرف مسلمانوں سے نہیں پوری‬
‫عالمی برادری سے مخاطب ہیں اقبال کے بارے میں یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ پاکستان اور‬
‫برصغیر کے مسلمانوں کے قومی شاعر ہیں لیکن اگر عالم اسالم ان کو اپنا قومی شاعر مان رہے ہیں‬
‫مگر اس کے ساتھ وہ عالمی مفکر اور شاعر بھی ہیں ۔عام انسانوں کے لیے اقبال نے درج ذیل امور‬
‫خاص طور پر پیش نظر‪  ‬رکھے ہیں۔ خود شناختی ‪،‬سخت کوشی ‪،‬احترام انسانی کی حفاظت ‪ ،‬تقدیر کی‬
‫آزادی کی حدود اور ناری اور خاکی ابلیسوں کی پہچان ۔‬
‫اقبال کا مطالعہ کرنے والوں کو عالمہ مرحوم کے قائم کئے عنوانوں سے ہی‪  ‬ان کے افکار کا پتہ چل‬
‫جاتا ہے سخت کوشش اور تکلیف برداشت کرنے کے بارے میں ایک بار فرماتے ہیں کہ ‪:‬‬

‫زمانے کی تکالیف کا گلہ چھوڑ دو جس نے تکلیف نہ اٹھائی ہو وہ ناخالص اور کچا رہتا ہے تم دیکھتے‬
‫نہیں کہ جن پتھروں پر آبشاروں اور سوتوں کا پانی بہتا ہے وہ کس قدر صاف اور خوبصورت ہوجاتے‬
‫ہیں"‪ ‬‬
‫انسانی تقدیر کی زندگی کے بارے میں ایک رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو ۔‬
‫اٹلی کے شہروں میں ایک بڑے پادری نے مجھ سے کہا کہ میرا ایک لطیف نکتہ یاد کر لو ہر قوم اپنی‬
‫موت کا سامان خود فراہم کردیتی ہے چنانچہ تجھے تقدیر کے مسئلے نے مار ڈاال اور ہمیں تدبیر کے‬
‫نظریے نے ۔‬
‫اگر اقبال نے واقعی کسی بڈھے پادری سے بات کی ہو تو یہ ‪1931‬ء کا واقع ہوگا جب اٹلی گئے تھے‬
‫اقبال کا مدعا یہ ہے کہ مشرقی قومیں خصوصا ً مسلمان اپنے آپ کو تقدیر کا پابند مانتے ہیں جبکہ‬
‫مسیحی اور دوسرے مغربی قومیں اپنی تقدیر کو بالکل آزاد ماننے لگی ہیں ۔یہ دونوں باتیں سہی نہیں‬
‫انسان بعض کاموں میں مجبور ہے اور بعد میں آزاد انسان کو چاہیے کہ کوشش کرے اور نتیجہ خدا پر‬
‫چھوڑ دے خاکی اور شیطان واال حصہ سب سے بڑا دلچسپ ہے۔‬
‫‪ ‬اقبال فرماتے ہیں کہ زمانے کے کمزور ایمان والے انسانوں کی گمراہی کے لیے خاکی شیطان کافی‬
‫ہیں ناری ابلیس آج بیکار بیٹھا ہوا ہے اور اس کی اوالد یعنی شیاطین بھی آرام فرما رہے ہیں نئی تہذیب‬
‫پر اسی طرح کا ایک طنز اور دو اشعار میں بھی کیا گیا تھا ۔‬
‫ارمغان حجاز کا پانچواں حصہ یا آخری باب "بہ یاران طریق" کے عنوان سے ہے اقبال نے کبھی کبھی‬
‫اپنے باز ادارت مند مالقاتیوں کو دوست کہا اور ان کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا مگر حقیقت یہ‬
‫ہے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے اور ان کے ہم خیال دوست جوان کا ذوق و شوق رکھنے والے ہو نہ‬
‫ہونے کے برابر تھے اس حصے میں ایک دو بیتی کا ترجمہ یوں ہے ‪:‬‬
‫میں جب دنیا سے چال تو سب نے یہی کہا کہ ہمارا آشنا اور دوست تھا لیکن میری زندگی میں کسی نے‬
‫نہ جانا کے مسافر نے کیا کہا کس کو کہا اور تھا کون ہے اسی کتاب میں درج دور رسالت مآب صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے عنوان سے ایک رباعی اس مفہوم کی ہے کہ‪:‬‬
‫‪ ‬میں ساری دنیا میں اپنے آپ کو تنہا پاتا ہوں کیوں کہ رازدار دوستوں کے وجود سے مرحوم ہوں مگر‬
‫میں عجیب معصوم انداز میں اپنی تنہائی کو فریب دیتا ہوں اور اپنا دکھ درد اپنے دل سے بیان کرتا ہوں‬
‫اس سے واضح ہے کہ یاران طریقت سیاست ہے جس میں اقبال کی آشنا ان کے ہم پیشہ کھیل‪ ،‬شاعر‪،‬‬
‫ادیب اور ان کے سب دوست شامل ہیں۔اس حصے کی اہم باتوں کو مندرجہ ذیل عنوانات‪  ‬دیے جاسکتے‬
‫ہیں ۔‬
‫شاعر کی شخصیت بے نیازی اور غیرت عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم ‪،‬حقیقی عبادات ‪،‬خودی ‪،‬اقبال‬
‫اپنے آپ کو قلندر کہتے ہیں قلندر آزاد طریقہ کے درویشوں کا ایک گروہ رہا ہے۔اس حصے کے آغاز‬
‫اور اختتام دونوں میں اقبال نے اپنی قلندری اوربے نیازی کا ذکر کیا ہے وہ دوسروں کو بھی آزاد روش‬
‫واال دیکھنے کی آرزو مند ہیں فرماتے ہیں کہ موت سے بے خوفی اور دولت سے بے نیازی دن کی‬
‫زندگی کے اصول ہے‬
‫‪ ‬فرماتے ہیں کہ فلسفہ و منطق سے اب نہیں تشفی نہیں ہو رہی ان بحثوں سے فارسی شاعروں کے‬
‫حکیمانہ شعر کہیں بہتر ہیں ارمغان حجاز کے پانچ بابوں کے سرنامے ہیں جن میں ایک ایک شعر ہے‬
‫یا ایک ایک‪  ‬دوبیتی۔اس حصے کے سرنامے والی دو بیتی‪  ‬کو اقبال کے مزار کی ایک بیرونی دیوار پر‬
‫لکھ دیا گیا ہے اس کا اردو ترجمہ یوں ہے ‪:‬‬

‫دوستو آؤ کہ مسلمان قوم کی بگڑی بنا دیں اور زندگی کا جوا مردوں کی طرح کھیل گزریں۔آو شہر کی‬
‫بڑی مسجد میں ایسا روئیں کہ‪  ‬مال کے سینے میں بھی دل پسیچ جائے مگر اس بات کی ‪ 47‬رباعیوں‬
‫میں مال یا صوفی سے اور کوئی اچھائی نظر نہیں آتی ۔‬
‫عالمہ محمد اقبال کی تصنیف ضرب کلیم کا تعارف اور تفہیم‬
‫ضرب کلیم کی اشاعت ‪1936‬ء کے وسط میں ہوئی با ِل جبریل اور ضرب کلیم یکے بعد دیگرے شائع‬
‫ہوئیں ان کے درمیان کوئی فارسی کتاب حائل نہیں ہے ۔ضرب کلیم کی تمام نظمیں ایک خاص انداز میں‬
‫بیان کی گئی ہیں اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسی نے فرعونی‬
‫قوتوں پر کاری ضرب لگائی تھی‪ ،‬اس طرح عالمہ محمد اقبال اس تصنیف کے ذریعے سے دور حاضر‬
‫کی فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں ۔‬
‫اعالن جنگ قرار دیا ہے۔ دور‬
‫ِ‬ ‫یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو خود ہی دور حاضر کے خالف‬
‫حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے مغرب نے اپنے افکار کے ذریعے دنیا بھر میں جو‬
‫گمراہیاں پھیالئی ہیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا‬
‫روزبروز اخالقی اور روحانی لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ان گمراہیوں میں مبتال افراد‬
‫کے بارے میں عالمہ اقبال نے بال جبریل میں لکھا تھا ‪:‬‬
‫‪ ‬مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی‬
‫‪ ‬کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری‪ ‬‬

‫تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل سے ضرب کلیم میں‬
‫موضوع بنایا ہے اس کتاب کے پہلے حصے میں اسالم اور مسلمانوں کی زیرعنوان متفرق نظمیں ہیں ۔‬
‫پھر تعلیم و تربیت‪،‬عورت ادبیات اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کرکے ہر عنوان کی‬
‫ذیل میں اس کے مختلف پہلوؤں پر متعدد نظمیں درج کی گئی ہیں آخری حصے میں" محراب گل افغان‬
‫کے افکار " کے زیر عنوان ایک فرضی کردار کے نام سے کچھ نظمیں تحریر کی گئی ہیں ۔‬
‫ضرب کلیم کی اکثر نظمیں‪  ‬بے حد مختصر ہیں۔‪  ‬اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں‬
‫کرتیں ہیں۔ تمام نظمیں ہر قسم کے حشووزوائد‪  ‬سے بالکل پاک ہیں ۔خیاالت براہ راست طریقے سے اور‬
‫پرزور الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ انداز بیان میں عمداً شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے‬
‫باوجود نظموں کے مطالعے سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان‬
‫میں جذبات ایک آگ کی طرح رواں ہیں جو پڑھنے والے کو پگھال کر رکھ دیتا ہے عالمہ اقبال کی تمام‬
‫زندگی کی شاعرانہ مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے۔‬
‫اگرچہ اقبال‪  ‬اپنا نظام فکر اس سے پہلے پیش کر چکے تھے مگر اس میں بعض نظمیں اتی واضح ہیں‬
‫کہ انہوں نے اقبال کے افکار کے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں اس کتاب کے اکثر اشعار‬
‫عالمہ اقبال کے خیاالت کی وضاحت کے لئے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کا‬
‫نظریہ فن کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں کہا گیا ہے اور کہیں موجود نہیں دوسرے موضوعات‬
‫بھی اسی طرح واضح ہیں ۔‬
‫عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پر ہالکت آفریں اثرات‬
‫کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگیا ہے ضرب‬
‫کلیم کی اکثر نظموں کا اندازہ یہی ہے مثال یہ ایک شعر مالحظہ ہو ‪:‬‬
‫گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی‪ ‬‬
‫اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست‪ ‬‬
‫غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں بانگ درا ‪ ،‬بال جبریل اور ضرب‬
‫کلیم ان کے عالوہ ارمغان حجاز کے کچھ حصے میں اردو کالم شامل ہے اس کے عالوہ بہت سے‬
‫لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا کالم مرتب کیا ہے جو ان کے اب رائج‪  ‬مجموعوں میں شامل نہیں‬
‫اسی سلسلے میں عبدالواحد معینی ‪،‬محمد عبدہللا قریشی کی مرتبہ" باقیات اقبال " اور موالنا غالم رسول‬
‫مہر اور صادق علی دالوری کئی مرتبہ "سرودرفتہ " زیادہ مکمل ہیں۔‪ ‬‬
‫مگر ان دونوں مجموعوں میں اکثر کالم مشترک ہے۔‪  ‬عالوہ ازیں تقریبا سارا کالم وہی ہے جو اقبال کا‬
‫رد کیا ہوا ہے فنی شعر یا خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہنی‬
‫ارتقا کا مطالعہ کرنے کے لئے اس کی اہمیت یقینا ً بہت زیادہ ہے ۔‬

‫دوسرا‪:‬‬

‫***ضرب کلییم ایک مختصر مضمون ***********‬

‫تحریر ‪ :‬شکیل احمد چوھان‬

‫ضرب کلیم کی اشاعت ‪1936‬ء کے وسط میں ہوئی۔ بال جبریل اور ضرب کلیم یکے بعد دیگرے شائع‬
‫ہوئیں ۔ ان کے درمیان کوئی فارسی کتاب حائل نہیں ہے۔ ضرب کلیم کی تمام نظمیں ایک خاص انداز‬
‫موسی نے‬
‫ٰ‬ ‫بیاں میں لکھی گئی ہیں ۔ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت‬
‫فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگائی تھی ‪ ،‬اس طرح عالمہ صاحب نے اس کتاب کے زریعے سے‬
‫فرعونی قوتوں پر ایک کاری ضرب لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہ اس کتاب کو خود ہی دور حاضر کے‬
‫خالف اعالن جنگ قرار دیتے ہیں‪-‬‬

‫دور حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے۔ مغرب نے اپنے افکار کے زریعے سے دنیا بھر میں‬
‫جو گمراہیاں پھیالئیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا روز‬
‫بروز اخالقی اور روحانی لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے‪ ،‬ان گمرایوں میں مبتال افراد کے‬
‫بارے میں عالمہ اقبال نے بال جبریل میں لکھا تھا ‪:‬‬

‫" مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی "‬


‫" کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری"‬
‫تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل سے ضرب کلیم کا موضوع‬
‫بنایا ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں اسالم اور مسلمان کے زیر عنوان متفرق نظمیں ہیں۔ پھر تعلیم‬
‫و تربیت ‪ ،‬عورت‪ ،‬ادبیات اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کر کے ہر عنوان کی ذیل میں‬
‫اس کے مختلف پہلوؤں پر متعدد نظمیں درج کی گئی ہیں ۔ آخری حصے میں محراب گل افغان کے‬
‫افکار کے زیر عنوان ایک فرضی کردار کے نام سے کچھ نظمیں تحریر کی گئی ہیں۔‬

‫ضرب کلیم کی اکثر نظمیں بے حد مختصر ہیں۔ اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں کرتیں۔‬
‫تمام نظمیں ہر قسم کے حشو و زائد سے بلکل پاک ہیں۔ خیاالت براہ راست طریقے سے اور پر زور‬
‫الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ انداز بیاں میں عمدا" شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے باوجود‬
‫نظموں کے مطالعے سے احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ک ان میں جذبہ‬
‫ایک آگ کی طرح رواں ہے جو پڑھنے والے کو پگھال کر رکھ دیتا ہے۔ عالم اقبال کی تمام زندگی‬
‫شاعران مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے ۔ اگرچہ اقبال اپنا تمام نظام فکر اس سے‬
‫پہلے پیش کر چکے تھے مگر اس میں بعض نظمیں اتنی واضع ہیں کہ انہوں نے اقبال کے افکار کے‬
‫متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں ۔ اس کتاب کے اکثر اشعار سے عالمہ اقبال کے خیاالت کی‬
‫وضاحت کے لئیے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں جو‬
‫کچھ اس کتاب میں کہا گیا اور کہیں موجود نہیں ‪ ،‬دوسرے موضوعات بھی اسی طرح واضع ہیں‪-‬‬

‫مثال" نظم مالحظہ ہو بعنوان " تن بہ تقدیر "‬

‫اسی قرآں میں ہے اب ترک جہاں کی تعلیم‬

‫جس نے مومن کو بنایا مہ و پرویں کا امیر‬

‫'تن بہ تقدیر' ہے آج ان کے عمل کا انداز‬

‫تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر‬

‫تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا‬

‫کہ غالمی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر‬

‫عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پر ہالکت آفریں اثرات‬
‫کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگیا ہے ۔ ضرب‬
‫کلیم کی اکثر نظموں کا انداز یہی ہے ۔‬

‫مثال" ایک شعر مالحطہ ہو ‪:‬‬


‫گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی‬
‫اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست !‬

‫غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں ۔ بانگ درا‪ ،‬بال جبریل اور ضرب‬
‫کلیم ۔ ان کے عالوہ ارمغان حجاز کے کچھ حصے بھی اردو میں شامل ہیں ۔ اس کے عالوہ بہت سے‬
‫لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا وہ کالم مرتب کیا ہے جو ان کے رائج مجموعوں میں شامل نہیں‬
‫ہے ۔ اس سلسلے میں عبد الواحد معینی و محمد عبد ہللا قریشی کی مرتبہ " باقیات اقبال" اور موالنہ غالم‬
‫رسول مہر اور صادق علی دالوری کی مرتبہ سرود رفتہ زیادہ مکمل ہیں ۔ مگر ان دونوں مجموعوں‬
‫میں اکثر کالم مشترک ہے۔ عالوہ ازیں تقریبا" سارا کالم وہی ہے جو اقبال کا رد کیا ہوا ہے ۔ فن شعر یا‬
‫خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہنی ارتقاء کا مطالعہ کرنے‬
‫کے لئیے اس کی اہمیت یقینا" بہت زیادہ ہے۔‬
‫بانگِ درا کا تعارف اور تفصیل‬
‫دوست احباب اور عوام کے پیم اصرار پر عالمہ اقبال نے اپنا پہال اردو مجموعہ کالم مرتب کرکے‬
‫‪1924‬ء میں شائع کیا ۔‬
‫اس مجموعے میں ان کے اُس وقت تک کے اردو کالم کا انتخاب شامل تھا ۔" بانگ درا کے کالم کو‬
‫انتخاب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس میں اپنا بہت سارا ابتدائی کالم انہوں نے سرے سے شامل ہی‬
‫نہیں کیا ۔سیالکوٹ اور الہور کے مشاعروں کے لئے لکھی ہوئی سیکڑوں غزلیں انہوں بالکل خارج کر‬
‫دیں۔ رسائل میں چھپی ہوئی نظموں اور غزلوں میں بہت زیادہ تبدیلیاں کییں۔‪  ‬بعض نظمیں بالکل رد‬
‫کردیں اور بعض طویل نظموں کا ایک آدھ بند ہی باقی رکھا ۔‬
‫بہت سی نظموں اور غزلوں میں سے متعدد اشعار خارج کر دئیے۔بعض اشعار میں لفظی تبدیلیاں کیں‬
‫جن سے بعض اوقات ان کی معنویت بدل گئی ۔یہ ردو بدل اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا کہ بہت سے‬
‫ایسے اشعار بھی بانگ درا میں شامل نہ ہو سکے جو بے حد مشہور ہو چکے تھے مثال طویل نظم‬
‫"فریاد امت "کا صرف ایک بند "دل "کے عنوان سے بانگ درا میں شامل کیا اور وہ بندحذف کر دیا‬
‫جس میں یہ مشہور شعر شامل تھا ۔‬
‫واعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا‪ ‬‬
‫اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں‪ ‬‬
‫غرض عالمہ اقبال نے اس وسیع پیمانے پر ردوبدل کیا جسے کوئی غیر معمولی صاحب بصیرت ہی‬
‫روا رکھ سکتا ہے ورنہ عموما ً شعرا کو اپنا ہر شعر پسند ہوتا ہے ۔‬
‫بانگ درا کی ترتیب یوں ہے کہ تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہال دور ‪1905‬ء تک کے کالم پر محیط‬
‫ہے دوسرا دور ‪ 1905‬سے ‪ 1908‬تک اور تیسرا دور ‪1908‬ء سے کتاب کی اشاعت تک پھیال ہوا ہے‬
‫ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں بعض نظموں پر سال تخلیق بھی درج ہے‬
‫مگر اکثر نظموں کے لیے یہ اہتمام نہیں کیا گیا پوری کتاب میں زمانی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے‬
‫یعنی پہلے لکھی جانے والی نظم پہلے اور بعد میں لکھی جانے والی نظم بعد میں کتاب کے آخر میں‬
‫ظریفانہ کے عنوان سے کچھ اشعار ‪،‬قطعات وغیرہ درج کیے گئے ہیں جو اکبر الہ آبادی کی پیروی‬
‫میں عالمہ اقبال نے لکھے تھے ان اشعار پر سال تحریر درج نہیں مگر قیاس یہ ہے کہ تمام اشعار‬
‫‪1910‬ء سے ‪1914‬ء تک لکھے گئے ہیں۔‬
‫‪ ‬بانگ درا کے شروع میں سرعبدالقادر نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا ہے عبدالقادر عالمہ اقبال کے‬
‫دوستوں میں شامل تھے اور خود بھی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں ان کا یہ دیباچہ کسی بھی اردو شعری‬
‫مجموعے پر‪  ‬لکھے ہوئے دیباچے سے زیادہ مشہور ہوا ہے اور بعد میں اقبالیات کے اکثر نقادوں نے‬
‫اس میں سے اپنی تنقیدی کتابوں میں حوالے نقل کئے ہیں بانگ درا کے تینوں ادوار کی شعری‬
‫موضوعات کی رنگارنگی اور اسالیب بیان کے تناع کی وجہ سے پوری اردو شاعری میں منفرد حیثیت‬
‫رکھتی ہے ۔اگرچہ تین ادوار متعدد خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر‬
‫تینوں میں نقطہ نظر کی ایک یکسانیت بھی موجود ہے۔‬
‫با ِل جبریل‪:‬‬
‫بانگِ درا اور با ِل جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریبا ً بارہ سال کا وقفہ ہے۔ ان بارہ برسوں میں عالمہ‬
‫اقبال کا کوئی اُردو مجموعہ کالم شائع نہیں ہوا البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔‬
‫با ِل جبریل جنوری ‪1935‬ء میں طبع ہوئی۔ اس میں وہ اُردو کالم شامل ہے جو عالمہ اقبال نے بانگِ درا‬
‫بال جبریل کی اشاعت تک کہا تھا۔ اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ ان کے فارسی‬ ‫کی تکمیل سے ِ‬
‫کالم میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے وہی با ِل جبریل میں اشارۃً آ گیا ہے۔‬
‫اقبال کی دوسری تصنیف‪:‬‬

‫با ِل جبریل اقبال کی دُوسری اُردو شعری تصنیف تھی۔ یہ پہلی بار ‪۱۹۳۵‬ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں شامل‬
‫منظومات پچھلے نو دس برس میں لکھی جاتی رہیں مگر اُن میں سے زیادہ تر آخری دو تین برس میں‬
‫زبورعجم(‪ )۱۹۲۷‬اور جاویدنامہ (‪،)۱۹۳۲‬‬‫ِ‬ ‫لکھی گئیں جب اقبال اپنی دو عظیم فارسی شعری تصانیف‬
‫اسالمی فکر کی تشکی ِل جدید پر انگریزی خطبات (‪ )۱۹۳۰‬اور مسلم لیگ کے ٰالہ آباد اجالس کے خطبہ‬
‫صدارت (‪ )۱۹۳۰‬کی تحریر سے فراغت پا چکے تھے۔ با ِل جبریل کو اِن تحریروں کی روشنی میں‬
‫پڑھنا چاہیے کیونکہ اِس میں اُن کی طرف خفی اور جلی اشارے موجود ہیں۔‬
‫با ِل جبریل کی ترتیب‪:‬‬

‫اقبال نے با ِل جبریل کی نظمیں پہلے ایک بڑے سائز کی بیاض میں لکھیں اور پھر وہاں سے اُنہیں‬
‫صاف مسودے کی شکل میں دوبارہ لکھا۔ یہ دونوں دستاویزات عالمہ اقبال میوزیم (جاویدمنزل) الہور‬
‫میں اور ان کی نقول اقبال اکادمی پاکستان میں موجود ہیں۔اقبال کی زندگی میں شائع ہونے واال اس کتاب‬
‫کا واحد اڈیشن اِسی مسودے کے مطابق تھا۔ اِس کے لیے اُنہوں نے کاتب کو واضح ہدایات دی تھیں یہاں‬
‫تک کہ خود طے کیا تھا کہ کون سی نظم میں اشعار کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کے مقابل اور‬
‫کون سی نظم میں اوپر نیچے لکھے جائیں گے۔ با ِل جبریل کی ترتیب اُس کی معنوی شکل کا حصہ ہے۔‬
‫اُسے نظرانداز کر کے ہم اصل مطلب سے دُور ہو جاتے ہیں۔‬
‫فلک قمر پر استعمال کی تھی مگر وہاں کسی‬ ‫ِ‬ ‫اگرچہ ”با ِل جبریل“ کی ترکیب اقبال نے جاویدنامہ میں‬
‫اور معنی میں تھی کہ نبوت وہ حقیقت ہے جس سے جبریل کے پروں کو بھی خطرہ الحق ہو جاتا ہے۔‬
‫ظاہر ہے کہ یہ معراج سے متعلق اُس حدیث کی طرف اشارہ تھا جب ایک مقام پر جبرئیل علیہ السالم‬
‫بھی رُک گئے تھے جہاں سے آگے رسول ہللا ﷺکو تنہا جانا تھا۔‬
‫کتاب کا عنوان‪:‬‬

‫بال جبریل کی ترکیب جب کتاب کا عنوان بنتی ہے تو اُس پرغور کرنا ضروری ہے۔ یہ اُس فرشتے‬
‫البتہ ِ‬
‫کا نام ہے جس کے ذمے پیغمبروں کے پاس وحی النے کا فریضہ تھا مگر اسالمی تصوف میں جبرئیل‬
‫کے پَروں کی عالمت سے کچھ اور راز بھی وابستہ ہیں۔ اشراقی فلسفے کے بانی شیخ شہاب الدین‬
‫سہروردی مقتول جنہیں ‪۱۱۹۱‬ء میں سلطان صالح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی فارسی‬
‫پر جبرئیل ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ جبرئیل کے دو پَر ہیں جن میں سے‬
‫آواز ِ‬
‫ِ‬ ‫میں اُن کی ایک تصنیف‬
‫دایاں خدا کی روشنی سے منور ہے اور اِسے دنیا سے کوئی کام نہیں۔ سچائی کی روشنی اِسی کے‬
‫ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ بایاں پَر جبرئیل کی اپنی ہستی کا نمائندہ ہے لہٰذا اِس کی روشنی پر عدم کے‬
‫اندھیرے کے دھبے ہیں جیسے چاند کے پُرن ُور چہرے پر داغ۔ اِس بائیں پر کا سایہ پڑتا ہے تو دنیائے‬
‫وہم و فریب جنم لیتی ہے۔‬
‫شیخ مقتول کے فلسفے سے اِتنے واقف‬ ‫ِ‬ ‫پر جبرئیل اقبال کی نظر سے گزری ہو یا نہیں مگر وہ‬
‫آواز ِ‬
‫ِ‬
‫ضرور تھے کہ‪۱۹۰۷‬ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کی فکر پر تفصیل سے لکھا تھا اور‬
‫‪۱۹۲۹‬ء میں تشکی ِل جدید والے خطبات میں بھی اُن کا ذکر کیا تھا۔ با ِل جبریل کے عنوان پر غور کرتے‬
‫ہوئے ہمیں یہ حوالہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جب کبھی اِس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ کب کون‬
‫سی کتب اقبال کے مطالعے میں آئیں تو شائد اِس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ اپنی کتاب کا عنوان‬
‫تجویز کرتے ہوئے اقبال کے سامنے کون کون سے صوفیانہ خیاالت موجود تھے۔ اِس تاریخی معلومات‬
‫کے بغیر بھی یہ حوالہ دلچسپ اورغورطلب ہے۔‬
‫ت مضامین‪:‬‬
‫فہرس ِ‬

‫ت مضامین شامل کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ اِس سے پہلے شائع ہونے والی شعری کتابوں‬ ‫اقبال نے فہرس ِ‬
‫پیام مشرق‪ ،‬بانگِ درا اورجاویدنامہ کے شروع میں فہرستیں موجود ہیں جبکہ اسرارورموز‬ ‫میں سے ِ‬
‫زبورعجم میں نہیں ہیں۔ موخرالذکر دراصل مجموعے نہیں بلکہ مسلسل بیانات ہیں۔ با ِل جبریل میں‬
‫ِ‬ ‫اور‬
‫بھی فہرست موجود نہ ہونااِس کتاب کو شروع سے آخر تک ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت کی طرف‬
‫اشارہ ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں کے شروع میں ابواب کی فہرست عام طور پر نہیں ہوتی مگر‬
‫افسانوں کے مجموعے میں ضرور ہوتی ہے تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ ناول شروع سے آخر تک‬
‫مستقل پڑھا جاتا ہے جبکہ افسانوں کے مجموعے میں سے اپنی پسند کا افسانہ نکال کر اُسے پہلے پڑھ‬
‫لیتے ہیں۔‬
‫پیر و مرشد‪:‬‬

‫بال جبریل میں پیر و مرید کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں عالمہ اقبال کی رومی سے قلبی انسیت‬
‫جھلکتی ہی نہیں بھرپوراندازمیں چھلکتی ہے۔ یہ نظم ایک تخیالتی مکالمے پر مشتمل ہے جس کے ایک‬
‫شعرمیں مرید یعنی اقبال اپنے پیر یعنی جالل الدین رومی سے عجز و انکساری سے بوجھل لہجے میں‬
‫مخاطب ہوتے ہیں‪:‬‬
‫”آپ خداکے چاہنے والوں کے سردار ہیں۔“‬
‫اقبال اور رومی‪:‬‬

‫ادبیات عالیہ میں ”مثنوی معنوی“ کو منفرد اور خاص مقام حاصل ہے۔ یہ اسرار دین پر مشتمل علم‬
‫الکالم ہے جسے مداحین رومی کے حلقہ میں مقدس اور الہامی تصور کیا جاتا ہے اور برصغیرپاک و‬
‫ہند میں اقبال کے کالم کو بھی قریب قریب یہی مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ اقبال اور رومی دونوں کی‬
‫شخصیات اس حوالے سے خاصی مماثلت رکھتی ہیں۔‬
‫صحبت پیرروم سے ہوا مجھ پہ ہوا یہ راز فاش‬
‫الکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف‬
‫جاوید نامہ میں اقبال فرماتے ہیں‪:‬‬
‫رفیق راہ ساز‬
‫ِ‬ ‫پی ِر رومی را‬
‫تا خدا بخشد ترا سوز وگداز‬
‫شرح او کر دند ادراکس ندید‬
‫معنی ء اوچوں غزال از مارمید‬
‫حرف ا و آمو ختند‬
‫ِ‬ ‫ص تن از‬
‫رق ِ‬
‫چشم راز رقص جاں بر دوختند‬
‫ص تن در گردش آرد خاک را‬ ‫رق ِ‬
‫ص جاں برہم زند افالک را‬ ‫رق ِ‬
‫ص جاں آید بدست‬ ‫علم و حکم از رق ِ‬
‫ہم زمیں ہم آسماں آید بدست‬
‫ص جاں آموختن کارے بود‬ ‫رق ِ‬
‫غیر حق را سو ختن کارے بُود‬
‫رومی سے انسیت‪:‬‬

‫اقبالیات کا عہد بہ عہد جائزہ لیا جائے‪ ،‬رومی سے انسیت اور فیض کے نقوش پا اقبال کے عہد طفولیت‬
‫تک جا پہنچتے ہیں۔ جب والد کی عقیدت رومی پدرانہ دروس کی صورت اقبال کو وقتا ً فوقتا ً منتقل ہوتی‬
‫رہی اور پھر میر حسن جیسا استاد جس نے اپنی جادو اثر روحانی معلمی کے ذریعے اقبال کو رومی کی‬
‫محبت بچپن سے ہی دی۔ والد اور استاد کے دروس نے مثنوی روم کو اقبال کے جمالیاتی اور روحانی‬
‫مزاج کا حصہ بنا دیا کہ رومی کے افکار عالیہ اقبال کے ذاتی خیاالت میں غیرشعوری طور پر شامل‬
‫ہوتے گئے۔ اقبال کی زبان رومی کے پیغام رساں کا کردار ادا کرنے لگی۔ اقبال کو شعوری طور پر‬
‫شاید اس کا کبھی ادارک بھی نہ ہوا ہو کہ وہ موالنا روم کی تعلیمات ہی کو اپنی فکرگردانتے رہے ہیں۔‬
‫اقبال کے والد ماجد بوعلی قلندر کی مثنوی کے سحرمیں گرفتار تھے‪ ،‬وہ چاہتے تھے کہ اقبال ان کے‬
‫انداز بیان کواپنائیں لیکن اقبال موالنا روم کی مثنوی کے لحن و بحر (‪ )Metrical composition‬سے‬
‫اس درجہ متاثر تھے کہ ان کی پہلی فارسی تصنیف میں رومیت کا رنگ سرچڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔‬
‫عملیت‪:‬‬

‫عالمہ اقبال امت مسلمہ کو عملیت کی طرف راغب کرتے ہیں‪ ،‬وہ قرآن میں بھی ان آیات کی طرف‬
‫خاص توجہ مبذول کرواتے ہیں جن کا تعلق تسخیرکائنات سے ہے۔ وہ قران سے ”جدت کردار“ کا‬
‫تصور دیتے ہیں کہ مطالعہ و تدبر قرآن کردار میں وہ عملی وصف پیدا کرتا ہے جس سے انسان‬
‫تسخیرکائنات کے چیلنج کو عمالً قبول کرتا ہے اور شاہکاران قدرت کے اسرار و رموز کی تہہ تک‬
‫پہنچ کر دراصل وہ اس انسان ہی کو دریافت کرلیتا ہے جس پر اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف‬
‫حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک علم و حکمت کا قرآن کے بعد اگر کوئی ماخذ ہو سکتا ہے تو وہ مثنوی‬
‫رومی ہے۔ مثنوی کو یہ مقام اور درجہ اقبال ہی کے ہاں ملتا ہے۔ اقبال ہی متقدمین و متاخرین سے سبقت‬
‫لیتے ہوئے مثنوی سے علم و حکمت کے خزائن دریافت کرنے والے وہ صاحب کردار ہیں جنھوں نے‬
‫مثنوی کی ان جہتوں کو نمایاں کیا اور آج معتقدین اقبال اسی تناظر میں مثنوی کی علمی دریافتوں میں‬
‫مصروف عمل ہیں۔‬
‫با ِل جبریل کا پہال حصہ‪:‬‬

‫با ِل جبریل کا پہال حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔ دونوں حصے عالمہ‬
‫اقبال کی شاعری میں فن کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ جہاں تک افکار و خیاالت کا تعلق ہے‪ ،‬ان‬
‫نظموں اور غزلوں میں وہی کچھ کہا گیا ہے جو اُن کی فارسی کتابوں یا بانگِ درا کے تیسرے دور کی‬
‫بعض نظموں میں ہے‪ ،‬البتہ اس کتاب میں غزل گوئی اور نظم نگاری کے جو تجربت کیے گئے ہیں‪ ،‬وہ‬
‫ف ِن شعر کے اعتبار سے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔‬
‫حصہ غزل‪:‬‬

‫حصہ غزل میں سولہ غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ‬
‫یہ زیادہ تر مابعد الطبیعاتی موضوعات کو محیط ہیں۔ یعنی خدا‪ ،‬کائنات اور انسان کے تعلق کو واضح‬
‫کرتی ہیں۔ ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں۔‬
‫مغرب کے اثرات‪:‬‬

‫خودی‪ ،‬عشق‪ ،‬کشمکش‪ ،‬حیات فقر‪ ،‬وجدان اور عقل کا تقابل‪ ،‬اصل اسالم کی طرف واپسی یا دوسرے‬
‫لفظوں میں ان تمام عناصر کا اسالم سے اخراج جو مسلمانوں نے غیر مذاہب سے لے کر اسالم میں‬
‫داخل کر لیے ہیں۔ ان کے عالوہ صوفی و مال کی بے عملی‪ ،‬مغرب کے مشرق پر ہالکت خیز اثرات‪،‬‬
‫مغربی تعلیم کے نقصانات وغیرہ کو بھی بار بار بڑے زور دار اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔‬
‫جدت طرازی‪:‬‬

‫انداز بیان‬
‫ِ‬ ‫با ِل جبریل کی غزلیات کی غزلیات اُردو غزل کی پوری تاریخ میں ایک نئی آواز ہیں۔ ان کے‬
‫میں ایسی ایسی جدتیں ہیں جو ان سے پہلے کی غزلیات میں نہیں ہیں۔ ان کا ذخیرہ الفاظ نیا ہے۔ ان کی‬
‫تشبیہات‪ ،‬استعارے اور تصویریں نئی ہیں۔ ان کی زمینیں نئی ہیں جن میں سینکڑوں نئی تراکیب ہیں اور‬
‫ظاہر ہے کہ جو خیاالت پیش کیے گئے ہیں وہ بھی اس سے پہلے غزل میں بیان نہیں ہوئے تھے۔ گویا‬
‫عالمہ اقبال نے غزل کا باطن بھی بدل کر رکھ دیا ہے اور ظاہر بھی۔ یہ صنف غزل میں بہت بڑا تجربہ‬
‫ہے۔ اس تجربے نے جدید غزل گو شعرا کو بہت متاثر کیا ہے۔ جدید اُردو غزل میں تجربات کی جو‬
‫بال جبریل کی غزلیات تک جاتا ہے۔ یہ غزلیات‬ ‫افراط نظر آتی ہے‪ ،‬ان کا بالواسطہ یا بالواسطہ سلسلہ ِ‬
‫انداز بیان کی دل کشی کی وجہ سے بہت متاثر کرتی ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫اپنی نکتہ آفرینی اور‬
‫اگرچہ بحر کی موجوں میں مقام ہے اس کا‬
‫صفائے پاکی طینت سے ہے گہر کا وضو‬
‫تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں‬
‫ت زمانہ‬
‫نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکای ِ‬
‫اختصار‪:‬‬

‫با ِل جبریل میں اکثر نظمیں مختصر ہیں مگر تین طویل نظمیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ہر‬
‫ایک کے بارے میں مختلف نقاد یہ آرا رکھتے ہیں کہ یہ عالمہ اقبال اقبال کی بہترین نظم ہے۔ ذوق و‬
‫شوق‪ ،‬مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ ایسے عظیم کارنامے ہیں جن پر کوئی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان‬
‫بھی فخر کر سکتی ہے۔ زوق و شوق ایک الجواب نعتیہ نظم ہے۔ مسج ِد قرطبہ اور ساقی نامہ میں عالمہ‬
‫انداز بیان اور موضوع کی ہم‬
‫ِ‬ ‫اقبال کے تمام نظریات کا خالصہ موجود ہے۔ تینوں نظموں کا خلوص‪،‬‬
‫آہنفی اور زور بیان ایسا ہے کہ بہت کم یکجا ہو پاتا ہے۔ پھر نظموں کا ربط و تسلس دیدنی ہے۔‬
‫قابل ذکر ہیں۔ با ِل‬
‫مختصر نظموں میں طاتق کی دعا اال رض ہللا اللہ صحرا‪ ،‬زمانہ‪ ،‬شاہین وغیرہ بھی ِ‬
‫ً‬
‫اظہار خیاالت برا ِہ راست کیا گیا ہے مثال آزادی‬
‫ِ‬ ‫جبریل کے آخر میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں‬
‫ب کلیم میں اور بھی چمکایا ہے۔‬ ‫انداز بیان کو عالمہ اقبال نے ضر ِ‬
‫ِ‬ ‫افکار‪ ،‬یورپ‪ ،‬سینما‪ ،‬فقر وغیرہ۔ اس‬

‫‪ ‬عالمہ محمد اقبال ؓ کی تصنیف با ِل جبریل‪  ‬کا تعارف اور تفہیم‬


‫بانگ درا اور بال جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریبا ‪ 12‬سال کا وقفہ ہے ۔ان ‪ 12‬برسوں میں عالمہ‬
‫اقبال کا کوئی اردو مجموعہ کالم شائع نہیں ہوا البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔‬
‫بال جبریل جنوری ‪1935‬ء میں طبع ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں وہ اردو کالم شامل ہے جو عالمہ اقبال‬
‫نے بانگ درا کی تکمیل سے با ِل جبریل کی اشاعت تک کہا تھا اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ‬
‫بال جبریل میں اشارةً آگیا ہے ۔‬
‫ان کے فارسی کالم میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے وہی کچھ ِ‬
‫بال جبریل کا پہال حصہ غزلیات پر مشتمل ہے ۔دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔دونوں حصے عالمہ‬
‫اقبال کی شاعری فن کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں ۔جہاں تک افکار و خیاالت کا تعلق ہے ان نظموں‬
‫اور غزلوں میں وہی کچھ کہا گیا ہے جو ان کی فارسی کتابوں یا بانگ درا کے تیسرے دور کی بعض‬
‫فن شعر‬
‫نظموں میں ہے ‪،‬البتہ اس کتاب میں غزل گوئی اور منظر نگاری کے تجربات کیے گئے ہیں وہ ِ‬
‫کے اعتبار سے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں ۔‬
‫پہلے حصے میں پہلی ‪ 16‬غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔‪  ‬اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا‬
‫ہے کہ یہ زیادہ تر بعدالطبیعات موضوعات پر محیط ہیں ۔یعنی خدا‪،‬کائنات اور انسان کے‪  ‬تعلق کو‬
‫واضح کرتی ہیں۔ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں ۔اس کے بعد حکیم سنائی (جو فارسی کے اہم‬
‫شاعرہیں اور جن کی پیروی موالنا روم نے کی ہے)کی غزل میں قصیدہ نما غزل ہے اور پھر غزلیات‬
‫کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ان غزلیات میں وہ تمام موضوعات اشارے کنائے ‪،‬عالمت یا‬
‫صراحت‪  ‬کے ساتھ آگئے ہیں جو ان سے پہلے بھی اقبال کے فارسی اور اردو کالم میں موجود ہیں مگر‬
‫جن موضوعات کا ذکر کثرت سے آتا ہے وہ یہ ہیں ‪:‬‬
‫خودی‪ ،‬عشق‪ ،‬کشمکش حیات ‪،‬فقر‪ ،‬وجدان اور عقل کا تقابل ‪،‬اسالم کی طرف واپسی یا دوسرے لفظوں‬
‫میں ان تمام عناصر کا اسالم سے اخراج جو مسلمانوں نے غیر مذاہب سے لے کر اسالم میں داخل کر‬
‫لیے ہیں ۔ان کے عالوہ صوفی و مال کی بے عملی‪ ،‬مغرب کے مشرق پر ہالکت خیز اثرات‪ ،‬مغربی تعلیم‬
‫کے نقصانات وغیرہ کو بھی بار بار بڑے زور دار اشعار میں بیان کیا گیا ہے ۔‬
‫با ِل جبریل کی غزلیات اردو غزل کی پوری تاریخ میں ایک نئی آواز ہیں۔ ان کے انداز بیان میں ایسی‬
‫ایسی جدتیں ہیں جو ان سے پہلے کی غزلیات میں نہیں ہے ۔ان کا ذخیرہ الفاظ نیا ہے ان کی تشبیہات‪،‬‬
‫استعارات اور تصویریں نئی ہیں ان کے زمینیں نئی ہیں‪  ،‬ان میں سینکڑوں نئی تراکیب ہیں اور ظاہر‬
‫ہے کہ جو خیاالت پیش کئے گئے وہ بھی اس سے پہلے غزل میں بیان نہیں ہوئے تھے گویا عالمہ اقبال‬
‫صنف غزل میں بہت بڑا تجربہ ہے اس تجربے‬ ‫ِ‬ ‫نے غزل کا باطن بھی تبدیل کر دیا ہے اور ظاہر بھی یہ‬
‫نے جدید غزل گو شعرا کو بہت متاثر کیا جدید اردو غزل میں تجربات کی جو افراط نظر آتی ہے ان کا‬
‫انداز‬
‫ِ‬ ‫بال جبریل کی غزلیات تک جاتا ہے یہ غزلیات اپنے نقطہ آفرینی اور‬ ‫بالواسطہ یا بالواسطہ سلسلہ ِ‬
‫بیان کی‪  ‬دل کشی کی وجہ سے بہت متاثر کرتی ہیں ۔‬
‫غزل کا یہ انداز اردو غزل کی تاریخ میں یقینا ً نیا ہے اور جب قاری اس سے کسی قدر آشنائی حاصل کر‬
‫لے تو اس کی غرابت دور ہوجاتی ہے اور ایک نئی دنیا کا دروازہ اس پر وا ہو جاتا ہے ۔‬
‫بال جبریل میں اکثر نظمیں مختصر ہے مگر تین طویل نظمیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ہر‬
‫ایک کے بارے میں مختلف نقاد یہ آراء رکھتے‪  ‬ہیں کہ یہ عالمہ اقبال کی بہترین نظمیں ہیں ذوق و‬
‫شوق مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ‪  ‬ایسے عظیم کارنامے ہیں جن پر کوئی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان‬
‫بھی فخر کرسکتی ہے نقادوں‪  ‬کے درمیان یہ فیصلہ تو شاید کبھی نہ ہو سکے کہ ان میں سے بہترین‬
‫نظم کون سی ہے لیکن اس پر بہت سے نقاد متفق ہوجائیں گے کہ ان سے بہتر نظمیں اور عالمہ نے‬
‫نہیں لکھیں ۔ذوق و شوق ایک الجواب نعتیہ نظم ہے مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ میں عالمہ اقبال کے‬
‫انداز بیان اور موضوع کی ہم‪  ‬آہنگی اور‬
‫ِ‬ ‫تمام نظریات کا خالصہ موجود ہے تینوں نظموں کا خلوص‬
‫زور بیان ایسا ہے کہ بہت کم یکجا ہوپاتاہے پھر نظموں کا ربط و تسلسل دیدنی ہے ۔‬
‫ِ‬
‫بال‬
‫مختصرنظموں میں طارق کی دعا ‪،‬االرض ہللا‪ ،‬اللہ صحرا ‪،‬زمانہ‪ ،‬شاہین وغیرہ بھی قابل ذکر ہیں ِ‬
‫جبریل کے آخر میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں خیاالت کا اظہار براہ راست طریقے سے کیا گیا‬
‫ب کلیم میں اور‬
‫انداز بیان کو عالمہ اقبال نے ضر ِ‬
‫ِ‬ ‫ہے مثال آزادی افکار ‪،‬یورپ ‪،‬سینما فقر‪ ،‬وغیرہ اس‬
‫بھی چمکایا ہے ۔‪  ‬‬

You might also like