Professional Documents
Culture Documents
ارمغان حجاز یعنی حجاز کا تحفہ۔ یہ کتاب عالمہ اقبال کی وفات کے ارمغا ِن حجاز کی تفصیل:
کچھ ماہ بعد نومبر 1938ء میں شائع ہوئی۔حجاز اس سرزمین عرب کا نام ہے جس میں مکہ مکرمہ اور
مدینہ منورہ واقع ہیں ۔اقبال زندگی کے آخری ایک دو سالوں میں حج اور زیارت کے لئے حجاز کا سفر
کرنے کے لیے بے حد آرزو مند تھے ۔مگربیماری نے انہیں سفر سے باز رکھا مگر خیالی طور پر وہ
ان سالوں میں گویا حجاز میں ہی رہے۔
ارمغان حجاز اس خیالی سفر کی تصویر پیش کرتی ہے ۔یہ سارا حصہ تقریبا ً دو بیتیوں پر مشتمل ہے
اور اردو حصے سے تقریبا ً دو گنا ہے۔
دوبیتی یا رباعی ،دو دو شعروں میں اپنی دل کی کیفیت بیان کرنے کا نہایت موثر ذریعہ ہے اقبال نے
اس سے کام لیا ہے اس کتاب کے پانچ حصے کئے گئے ہیں ۔
در اصل کتاب کے پہلے دو حصوں کی مناسبت سے اس کا نام ارمغان حجاز رکھا گیا ہے مگر ان دو
حصوں میں بھی دوسرا حصہ حضور پاک صلی ہللا علیہ وسلم زیادہ قابل توجہ ہے۔
پہلے حضور حق میں شاعر اپنے آپ کو حرم کعبہ میں خیال کرتا ہے۔حرم کعبہ دعاؤں کی قبولیت کا
مقام ہے۔ شاعر یہاں خدا سے گلے شکوے کرتا ہے مسلمانوں کی بہتری کے لیے دعائیں مانگتا ہے اور
ایک دو اپنی آرزوئیں بھی پیش کرتا ہے ۔ اسے یہ گلہ ہے کہ مسلمان زوال اور پستی کے گڑھے سے
باہر کیوں نہیں نکلتے؟ درد مند اور قابل لوگ دنیا میں ذلیل اور خوار کیوں کیے جارہے ہیں ؟ انسان
بالعموم خودشناس کیوں نہیں ہورہے ہیں اور دنیا کے محنت کشوں کی حالت بہتر کیوں نہیں ہو رہی؟
اقبال دعا فرماتے ہیں کہ خدایا موجودہ مسلمانوں میں سے ایک ایسی غیرت مند قوم پیدا فرما جو جلد ہی
اپنی بستیوں کا ازالہ کر دے اور دین اسالم کے مرتبے کے شایان نظر آئے وہ برصغیر کے مسلمانوں
کی معاشی اور سیاسی غالمی پر ایک بار پھر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ غالمی نے
مسلمانوں کو ایسا بے عمل کر رکھا ہے کہ وہ دین و شریعت کے احکام کو یکسر بھول جانے لگے ہیں
اور اگر ان کو اپنا بھی لیں تو ان کی روح سے دور رہتے ہیں ۔
ایک دو بیتی میں اقبال مسلمانوں کی روش کی بھی شکایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ میری سادہ لوھی
ہے کہ میں ایک ایسی قوم کی بیداری اور ترقی کا خواب دیکھ رہا ہوں جس کے علماء بھی علم اور یقین
کی دولت سے محروم ہوچکے ہیں ۔
اقبال کی ذاتی دعا یہ ہے کہ قیامت کے دن اس کے اعمال کا حساب کتاب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
کے سامنے نہ لیا جائے اور اسے اس ندامت سے بچایا جائے ۔
وہ اس بات کا بھی آرزو مند ہے کہ اس کے خیاالت سے خواص کو بہرہ ملے اور وہ عوام کی خاطر
اس کے خیاالت کو آسان صورت میں پیش کریں کیونکہ بعض باتوں کو عوام شدید براہ راست نہ سمجھ
سکیں اور ان کا غلط مفہوم لیں۔
وہ مسلمانوں اور دنیا کے کمزور انسانوں کی بیداری کے لیے اپنی شاعری کی مزید توانائی کا بھی
طالب ہے ان آرزوؤں کے اظہار کے بعد شاعر عالم خیال میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو روانہ
ہوتا ہے تاکہ وہ نبی کریم صلی ہللا وسلم کے مقدس روضے پر حاضری دے سکے آخری دو بیتی یوں
ہے :
میرا بدن تو تھک کے چور ہو گیا مگر روح اس شہر کی آرزو مند ہے جہاں مکہ مکرمہ سے ہوکر
پہنچا کرتے ہیں خدایا تو اپنے حرم پاک میں اپنے خاص بندوں کو دیکھتا رہ مگر مجھے تو اب دوست
کی یاد ستا رہی ہے "
حضور رسالت مآب صلی ہللا علیہ وسلم واال حصہ ارمغان حجاز کی جان کہا جا سکتا ہے عشق رسول
صلی ہللا علیہ وسلم شاعر اس حصےمیں کوئی شکوہ و شکایت نہیں کرتا اور اس کا لہجہ سراپا ادب و
احترام بنا ہوا ہے پہلے وہ خیالی سفر کا ذکر کرتا ہے کہ :
جیسے کوئی پرندہ شام کے وقت اپنے آشیانہ کی راہ لیتا ہے ،میں بھی اس بڑھاپے میں عاشقانہ سوز و
مستی کے ساتھ اس طرح یثرب شریف کا مسافر بنا ہوا ہوں۔
میں نے سویرے اپنی اونٹنی سے کہا کہ چونکہ تیرا سوار بیمار اور بوڑھا ہے اس لیے آہستہ آہستہ چل
مگر وہ اس مست طریقے سے بھاگ رہی ہے گویا اس کے پاؤں کے نیچے کی ریت ریشم بن گئی ہے۔
ساربان نے اس کی لگام پکڑنا چاہیے مگر میں نے منع کر دیا ۔مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ بھی میری
طرح عشق کی بصیرت رکھتی ہے اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر بھاگ رہی ہے۔ اس کی سیاہ آنکھیں
میری طرح آنسو بہا رہی ہیں۔ سحری کے وقت اس کی آواز سے میرا دل جل رہا ہے ۔جس شراب عشق
سے میرا ضمیر روشن ہے وہ اس اونٹنی کی نگاہ سے ظاہر ہو رہی ہے ۔
ساربانوں کے ساالر کو میرے اشعار نے متوجہ کر ہی دیا ۔کہنے لگا یہ کوئی غیر عرب ہے ۔اس کی
لے عربوں سے نہیں ملتی مگر شعر ایسے کہہ رہا ہے کہ ان کی تاثیر سے صحراؤں میں خنکی آتی جا
رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عراقی کے شعر پڑھ رہا ہوں اور کبھی جامی کے ۔عربوں کے سُر سے میں
ناواقف ہوں مگر ساربان کی حدی پڑھنے میں بھی شامل ہوں ۔
اوپر کی عمارت میں اقبال کی چند رباعیوں کا آزاد ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔حدی اونٹ والوں کے نغمے
کو کہتے ہیں۔عراقی ساتویں ہجری اور جامی نویں صدی ہجری کے فارسی شاعر ہیں۔ جامی نے بھی
اپنے اشعار میں اونٹنی کے سورو ساز اور عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم میں مست ہونے کا ذکر کیا
ہے ۔
اب اقبال عالم خیال میں حضور پاک کے گنبد پر حاضری دیتے ہیں اور اپنی عرض شروع کرتے ہیں
کہ :
یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم مدد فرمائیے کہ مسلمان کا سوزو ساز جاتا رہا اور مایوسی میں اس
کا دل آہ و فغاں کر رہا ہے ۔مجھے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت و عشق کی تاثیر نے یہ مؤثر آواز
دی۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ برصغیر میں عاشقان رسول صلی ہللا علیہ وسلم کا قحط ہے۔ یہاں کے
مسلمان غالمی اور پستی کی زندگی گزار رہے ہیں ہم پر رحم فرمائے ہم جیسے بدبخت اور مظلوم
مسلمان دنیا میں کم ہوں گے میری زبان اور بیان برصغیر کے مسلمانوں کی بد بختی بیان کرنے سے
قاصر ہیں مگر میرے ظاہری اور باطنی احساسات آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر عیاں ہیں۔ میں یہی کہہ
سکتا ہوں کہ یہاں کے مسلمانوں کی گزشتہ دو سالہ تاریخ کو یاد کر کے میرا دل لکڑی کے اس کندے
کی طرح ہو گیا ہے جس پر قصاب گوشت کاٹتے رہتے ہیں ۔
یہاں کے مسلمانوں کے حاالت بدلتے نہیں انہیں ابھی کوئی رہبر اور رہنما بھی نہیں مال ان کی زندگی
بے تاب اور حرکت و عمل سے محروم ہے اپنی تلواروں کو انہوں نے نیام میں ڈال دیا اور قرآن مجید
کو تاک نسیان پر رکھ دیا ہم غیر ہللا کے سامنے جھک رہے ہیں آتش پرستوں کی طرح ہم غیر ہللا کے
سامنے بھجن گا رہے ہیں میں دوسروں کا شکوہ کیا کر رہا ہوں میں اپنا شکوہ کر رہا ہوں کہ میں آپ
سے کوئی نسبت رکھنے کا اہل نہ تھا ۔
اقبال فرماتے ہیں کہ عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں غیر معمولی قوت دے رکھی ہے یہ قوت
ان کے شعر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے مگر اکثر مسلمانوں کو ان کے تصور خودی کی قدر نہ ہے
وہ انہیں ایک عام سا شاعر سمجھتے ہیں اور ان سے غزل اور تاریخ وفات والے اشعار لکھنے کی
فرمائش کرتے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ انہیں فلسفیوں،مالوں اور صوفیوں کی صحبت سے کوئی لطف نہیں
مال ۔فلسفیانہ بحثیں بڑی سر دردی ہیں جب کہ معاصر مالوں اور صوفیوں کی بے عمل باتوں سے دل
میں کوئی سوز و گداز پیدا نہیں ہوتا۔
رسول کے طفیل مال مگر اکثر مسلمان اس کے رسول صلی ہللا
ؐ فرماتے ہیں کہ انہیں جو کچھ مال عشق
علیہ وسلم کی اہمیت سے غافل ہیں ۔
ابھی میری مٹی میں چنگاریاں موجود ہیں ابھی میرے سینے میں آہ سحرگاہی کی ہمت ہے۔ نبی کریم
صلی ہللا علیہ وسلم اگر اپنی ایک تجلی سے نوازے تو دیکھیں گے کہ بڑھاپے کے باوجود ابھی مجھ
میں تاب نظر موجود ہے ۔۔۔۔۔۔۔آپ کے فیض سے ہی مجھے سوزوساز مال آپ کے آب زمزم نے ہی
میرے انگور کے درخت شاداب کر رکھے ہیں چونکہ میرے سینے میں موجود دل آپ صلی ہللا علیہ
وسلم کا راز داں ہیں اس لئے میری درویشی کے سامنے جمشید کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔یا رسول
ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم میری خاک سے ایک گلستان وجود میں آجائے اور میرے آنسو اللہ کے
پھول کی طرح اللی میں مل جائے اگر میں حضرت علی کی شمشیر اٹھانے کا اہل نہیں تو مجھے
حضرت علی کی تلوار جیسی تیز نگاہ تو مل جائے ۔
سعودی عرب میں حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے روضے پاک کے سامنے کوئی غیر شرعی
حرکت نہیں کی جاسکتی مثالً روضہ پاک کے سامنے سجدہ تعظیمی کرنا غیر معمولی جھکنا اور
جالیوں کو بوسہ دینا ممنوع ہے ۔ارمغان حجاز کی تصنیف کے وقت سعودی عرب کے حاکم ملک
عبدالعزیز تھے اقبال ایسا محسوس کرتے ہیں کہ خیال میں وہ روزہ پاک پر ہیں اور محبت کے ہاتھوں
مجبور ہوکر انہوں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دی ہے اور اتنی میں ملک عبدالعزیز وہاں نکلتے ہیں
اور اس حرکت میں اعتراض کرتے ہیں شاعر نے اس اعتراض کا جواب یہ سوچ رکھا تھا :
ملک عبدالعزیز آپ بھی دوست کی محبت کی شراب اس طرح پی لیتے کہ ہمیشہ اسی کے ساتھ رہتے
میں سجدہ نہیں کر رہا ہوں اپنی پلکوں سے دوست کے دروازے کی گرد جھاڑ رہا ہوں کیا یہ بھی قابل
اعتراض ہے اس ایمان افروز حصے کی ایک مزیدار رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو :
یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یہی آغاز اور انجام چاہیے کہ آپ کے کوچہ محبت کی
ایک بات کر لینے کا سوز حاصل کر لوں۔ میں تو اس جرات مند عاشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی
ہمت کا عاشق ہوں جو خدائے تعالی سے بھی کہہ دے کہ مجھے محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کافی
ہیں "
ارمغان حجاز کے تیسرے حصے کا عنوان "حضور ملت" ہے ۔یہ کافی طویل باب ہے اور اس کئی ذیلی
سرخیاں ہیں جیسے محمد صلی وسلم کے طریقے پر چلو ،خودی ،صوفی و مال ،رومی،عرب شاعروں
سے ،خالفت و ملوکیت ،مسلمان عورتوں سے عصر حاضر اور تعلیم ۔فرماتے ہیں کہ دنیا کے مسلمانوں
کو اس وقت ترک اور مصری مسلمانوں کی ترقی سے سبق حاصل کرنا چاہئے ان کی خودی بیدار ہوئی
تو ممالک طاقت ور بننے لگے اور چند سالوں میں کہاں سے کہاں جا پہنچے ۔اقبال صوفیا اور علماء کا
احترام کرتے تھے مگر اکثر معاصر صوفیوں اور ملووں میں انہوں نے بے عملی ہی دیکھی،اس لیے
انھوں نے ان پر نکتہ چینی بھی کی ہے۔ کہتے ہیں کہ صوفیوں اور مالؤں کی دنیاوی پستی کی کوئی
پروا نہیں اگر مغربی استعمار دین و ایمان کی چولیں ہال رہا ہے مگر یہ لوگ حاکموں کی ہاں میں ہاں
مالتے جا رہے ہیں اور یاالہی آخرت اچھی ہو کی رٹ لگائے جا رہے ہیں۔ ان کی تاویالت سے ہللا کی
پناہ ۔وہ ذرا ذرا سے اختالفات پر لوگوں کو جہنم رسید کر رہے ہیں مگر غالمی کی جہنم سے انہیں
کوئی چڑنہیں اقبال نے یہاں ایک بار پھر رومی کو پڑھنے کی ضرورت بتائی ہے عربی شاعروں سے
اقبال فرماتے ہیں کہ ان کی طرح قرآن مجید کی تعلیمات کے سمندر میں غوطہ زنی کرے اور مسلمانوں
کوعروج اور ترقی کی دعوت دی ۔
فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی برکت سے میں نے برصغیر کے مسلمانوں کی ایک سو تیس سالہ دور
زوال کا خاتمہ کر دیا اقبال نے یہاں سلطان ٹیپو کی شہادت سے شروع ہونے والے دور زوال کی طرف
اشارہ کیا ہے خالفت و ملوکیت کے عنوان سے اقبال نے فرمایا ہے کہ خلفائے راشدین کے دور سے بعد
کی خالفت ایک طرح کی ملوکیت اور بادشاہت رہی ہے ۔فرماتے ہیں کہ دین اسالم کی بنیادی
خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ملوکیت اور ڈکٹیٹرشپ کی کوئی گنجائش نہیں مسلمان عورتوں سے یہاں
بھی اقبال نے تقریبا وہی باتیں کی ہیں جو پہلے مثنوی رموز بیخودی میں کر چکے تھے یہ اقبال نے
اپنے بعض تعلیمی نظریات بھی پیش کئے ہیں ۔اقبال صحیح تربیت دینے ادب و آداب سکھانے دینی اور
فنی تعلیم اور اخالقی اوصاف سکھانے پر زور دیتے ہیں ایک بار فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے نقطہ
نظر سے تعلیم وہی اچھی ہے جو خودی کی نشوونما کے لیے سازگار ہو اور جو طالب علموں کو
آزادانہ سوچنے میں مدد دے ۔
ارمغان حجاز کا چوتھا حصہ حضور عالم انسانی ہے اس میں اقبال صرف مسلمانوں سے نہیں پوری
عالمی برادری سے مخاطب ہیں اقبال کے بارے میں یہ نکتہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ وہ پاکستان اور
برصغیر کے مسلمانوں کے قومی شاعر ہیں لیکن اگر عالم اسالم ان کو اپنا قومی شاعر مان رہے ہیں
مگر اس کے ساتھ وہ عالمی مفکر اور شاعر بھی ہیں ۔عام انسانوں کے لیے اقبال نے درج ذیل امور
خاص طور پر پیش نظر رکھے ہیں۔ خود شناختی ،سخت کوشی ،احترام انسانی کی حفاظت ،تقدیر کی
آزادی کی حدود اور ناری اور خاکی ابلیسوں کی پہچان ۔
اقبال کا مطالعہ کرنے والوں کو عالمہ مرحوم کے قائم کئے عنوانوں سے ہی ان کے افکار کا پتہ چل
جاتا ہے سخت کوشش اور تکلیف برداشت کرنے کے بارے میں ایک بار فرماتے ہیں کہ :
زمانے کی تکالیف کا گلہ چھوڑ دو جس نے تکلیف نہ اٹھائی ہو وہ ناخالص اور کچا رہتا ہے تم دیکھتے
نہیں کہ جن پتھروں پر آبشاروں اور سوتوں کا پانی بہتا ہے وہ کس قدر صاف اور خوبصورت ہوجاتے
ہیں"
انسانی تقدیر کی زندگی کے بارے میں ایک رباعی کا ترجمہ مالحظہ ہو ۔
اٹلی کے شہروں میں ایک بڑے پادری نے مجھ سے کہا کہ میرا ایک لطیف نکتہ یاد کر لو ہر قوم اپنی
موت کا سامان خود فراہم کردیتی ہے چنانچہ تجھے تقدیر کے مسئلے نے مار ڈاال اور ہمیں تدبیر کے
نظریے نے ۔
اگر اقبال نے واقعی کسی بڈھے پادری سے بات کی ہو تو یہ 1931ء کا واقع ہوگا جب اٹلی گئے تھے
اقبال کا مدعا یہ ہے کہ مشرقی قومیں خصوصا ً مسلمان اپنے آپ کو تقدیر کا پابند مانتے ہیں جبکہ
مسیحی اور دوسرے مغربی قومیں اپنی تقدیر کو بالکل آزاد ماننے لگی ہیں ۔یہ دونوں باتیں سہی نہیں
انسان بعض کاموں میں مجبور ہے اور بعد میں آزاد انسان کو چاہیے کہ کوشش کرے اور نتیجہ خدا پر
چھوڑ دے خاکی اور شیطان واال حصہ سب سے بڑا دلچسپ ہے۔
اقبال فرماتے ہیں کہ زمانے کے کمزور ایمان والے انسانوں کی گمراہی کے لیے خاکی شیطان کافی
ہیں ناری ابلیس آج بیکار بیٹھا ہوا ہے اور اس کی اوالد یعنی شیاطین بھی آرام فرما رہے ہیں نئی تہذیب
پر اسی طرح کا ایک طنز اور دو اشعار میں بھی کیا گیا تھا ۔
ارمغان حجاز کا پانچواں حصہ یا آخری باب "بہ یاران طریق" کے عنوان سے ہے اقبال نے کبھی کبھی
اپنے باز ادارت مند مالقاتیوں کو دوست کہا اور ان کی موجودگی پر خوشی کا اظہار کیا مگر حقیقت یہ
ہے کہ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے اور ان کے ہم خیال دوست جوان کا ذوق و شوق رکھنے والے ہو نہ
ہونے کے برابر تھے اس حصے میں ایک دو بیتی کا ترجمہ یوں ہے :
میں جب دنیا سے چال تو سب نے یہی کہا کہ ہمارا آشنا اور دوست تھا لیکن میری زندگی میں کسی نے
نہ جانا کے مسافر نے کیا کہا کس کو کہا اور تھا کون ہے اسی کتاب میں درج دور رسالت مآب صلی ہللا
علیہ وسلم کے عنوان سے ایک رباعی اس مفہوم کی ہے کہ:
میں ساری دنیا میں اپنے آپ کو تنہا پاتا ہوں کیوں کہ رازدار دوستوں کے وجود سے مرحوم ہوں مگر
میں عجیب معصوم انداز میں اپنی تنہائی کو فریب دیتا ہوں اور اپنا دکھ درد اپنے دل سے بیان کرتا ہوں
اس سے واضح ہے کہ یاران طریقت سیاست ہے جس میں اقبال کی آشنا ان کے ہم پیشہ کھیل ،شاعر،
ادیب اور ان کے سب دوست شامل ہیں۔اس حصے کی اہم باتوں کو مندرجہ ذیل عنوانات دیے جاسکتے
ہیں ۔
شاعر کی شخصیت بے نیازی اور غیرت عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم ،حقیقی عبادات ،خودی ،اقبال
اپنے آپ کو قلندر کہتے ہیں قلندر آزاد طریقہ کے درویشوں کا ایک گروہ رہا ہے۔اس حصے کے آغاز
اور اختتام دونوں میں اقبال نے اپنی قلندری اوربے نیازی کا ذکر کیا ہے وہ دوسروں کو بھی آزاد روش
واال دیکھنے کی آرزو مند ہیں فرماتے ہیں کہ موت سے بے خوفی اور دولت سے بے نیازی دن کی
زندگی کے اصول ہے
فرماتے ہیں کہ فلسفہ و منطق سے اب نہیں تشفی نہیں ہو رہی ان بحثوں سے فارسی شاعروں کے
حکیمانہ شعر کہیں بہتر ہیں ارمغان حجاز کے پانچ بابوں کے سرنامے ہیں جن میں ایک ایک شعر ہے
یا ایک ایک دوبیتی۔اس حصے کے سرنامے والی دو بیتی کو اقبال کے مزار کی ایک بیرونی دیوار پر
لکھ دیا گیا ہے اس کا اردو ترجمہ یوں ہے :
دوستو آؤ کہ مسلمان قوم کی بگڑی بنا دیں اور زندگی کا جوا مردوں کی طرح کھیل گزریں۔آو شہر کی
بڑی مسجد میں ایسا روئیں کہ مال کے سینے میں بھی دل پسیچ جائے مگر اس بات کی 47رباعیوں
میں مال یا صوفی سے اور کوئی اچھائی نظر نہیں آتی ۔
عالمہ محمد اقبال کی تصنیف ضرب کلیم کا تعارف اور تفہیم
ضرب کلیم کی اشاعت 1936ء کے وسط میں ہوئی با ِل جبریل اور ضرب کلیم یکے بعد دیگرے شائع
ہوئیں ان کے درمیان کوئی فارسی کتاب حائل نہیں ہے ۔ضرب کلیم کی تمام نظمیں ایک خاص انداز میں
بیان کی گئی ہیں اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت موسی نے فرعونی
قوتوں پر کاری ضرب لگائی تھی ،اس طرح عالمہ محمد اقبال اس تصنیف کے ذریعے سے دور حاضر
کی فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگانا چاہتے ہیں ۔
اعالن جنگ قرار دیا ہے۔ دور
ِ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس کتاب کو خود ہی دور حاضر کے خالف
حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے مغرب نے اپنے افکار کے ذریعے دنیا بھر میں جو
گمراہیاں پھیالئی ہیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا
روزبروز اخالقی اور روحانی لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ان گمراہیوں میں مبتال افراد
کے بارے میں عالمہ اقبال نے بال جبریل میں لکھا تھا :
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں تو آزادی ہے باطن میں گرفتاری
تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل سے ضرب کلیم میں
موضوع بنایا ہے اس کتاب کے پہلے حصے میں اسالم اور مسلمانوں کی زیرعنوان متفرق نظمیں ہیں ۔
پھر تعلیم و تربیت،عورت ادبیات اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کرکے ہر عنوان کی
ذیل میں اس کے مختلف پہلوؤں پر متعدد نظمیں درج کی گئی ہیں آخری حصے میں" محراب گل افغان
کے افکار " کے زیر عنوان ایک فرضی کردار کے نام سے کچھ نظمیں تحریر کی گئی ہیں ۔
ضرب کلیم کی اکثر نظمیں بے حد مختصر ہیں۔ اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں
کرتیں ہیں۔ تمام نظمیں ہر قسم کے حشووزوائد سے بالکل پاک ہیں ۔خیاالت براہ راست طریقے سے اور
پرزور الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ انداز بیان میں عمداً شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے
باوجود نظموں کے مطالعے سے یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان
میں جذبات ایک آگ کی طرح رواں ہیں جو پڑھنے والے کو پگھال کر رکھ دیتا ہے عالمہ اقبال کی تمام
زندگی کی شاعرانہ مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے۔
اگرچہ اقبال اپنا نظام فکر اس سے پہلے پیش کر چکے تھے مگر اس میں بعض نظمیں اتی واضح ہیں
کہ انہوں نے اقبال کے افکار کے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں اس کتاب کے اکثر اشعار
عالمہ اقبال کے خیاالت کی وضاحت کے لئے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کا
نظریہ فن کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں کہا گیا ہے اور کہیں موجود نہیں دوسرے موضوعات
بھی اسی طرح واضح ہیں ۔
عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پر ہالکت آفریں اثرات
کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگیا ہے ضرب
کلیم کی اکثر نظموں کا اندازہ یہی ہے مثال یہ ایک شعر مالحظہ ہو :
گریز کشمکش زندگی سے مردوں کی
اگر شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں بانگ درا ،بال جبریل اور ضرب
کلیم ان کے عالوہ ارمغان حجاز کے کچھ حصے میں اردو کالم شامل ہے اس کے عالوہ بہت سے
لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا کالم مرتب کیا ہے جو ان کے اب رائج مجموعوں میں شامل نہیں
اسی سلسلے میں عبدالواحد معینی ،محمد عبدہللا قریشی کی مرتبہ" باقیات اقبال " اور موالنا غالم رسول
مہر اور صادق علی دالوری کئی مرتبہ "سرودرفتہ " زیادہ مکمل ہیں۔
مگر ان دونوں مجموعوں میں اکثر کالم مشترک ہے۔ عالوہ ازیں تقریبا سارا کالم وہی ہے جو اقبال کا
رد کیا ہوا ہے فنی شعر یا خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہنی
ارتقا کا مطالعہ کرنے کے لئے اس کی اہمیت یقینا ً بہت زیادہ ہے ۔
دوسرا:
ضرب کلیم کی اشاعت 1936ء کے وسط میں ہوئی۔ بال جبریل اور ضرب کلیم یکے بعد دیگرے شائع
ہوئیں ۔ ان کے درمیان کوئی فارسی کتاب حائل نہیں ہے۔ ضرب کلیم کی تمام نظمیں ایک خاص انداز
موسی نے
ٰ بیاں میں لکھی گئی ہیں ۔ اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت
فرعونی قوتوں پر کاری ضرب لگائی تھی ،اس طرح عالمہ صاحب نے اس کتاب کے زریعے سے
فرعونی قوتوں پر ایک کاری ضرب لگائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہ اس کتاب کو خود ہی دور حاضر کے
خالف اعالن جنگ قرار دیتے ہیں-
دور حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے۔ مغرب نے اپنے افکار کے زریعے سے دنیا بھر میں
جو گمراہیاں پھیالئیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ سے دنیا روز
بروز اخالقی اور روحانی لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ،ان گمرایوں میں مبتال افراد کے
بارے میں عالمہ اقبال نے بال جبریل میں لکھا تھا :
ضرب کلیم کی اکثر نظمیں بے حد مختصر ہیں۔ اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں کرتیں۔
تمام نظمیں ہر قسم کے حشو و زائد سے بلکل پاک ہیں۔ خیاالت براہ راست طریقے سے اور پر زور
الفاظ میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگرچہ انداز بیاں میں عمدا" شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے باوجود
نظموں کے مطالعے سے احساس نہیں ہوتا کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ک ان میں جذبہ
ایک آگ کی طرح رواں ہے جو پڑھنے والے کو پگھال کر رکھ دیتا ہے۔ عالم اقبال کی تمام زندگی
شاعران مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے ۔ اگرچہ اقبال اپنا تمام نظام فکر اس سے
پہلے پیش کر چکے تھے مگر اس میں بعض نظمیں اتنی واضع ہیں کہ انہوں نے اقبال کے افکار کے
متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں ۔ اس کتاب کے اکثر اشعار سے عالمہ اقبال کے خیاالت کی
وضاحت کے لئیے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں جو
کچھ اس کتاب میں کہا گیا اور کہیں موجود نہیں ،دوسرے موضوعات بھی اسی طرح واضع ہیں-
عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پر ہالکت آفریں اثرات
کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگیا ہے ۔ ضرب
کلیم کی اکثر نظموں کا انداز یہی ہے ۔
غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں ۔ بانگ درا ،بال جبریل اور ضرب
کلیم ۔ ان کے عالوہ ارمغان حجاز کے کچھ حصے بھی اردو میں شامل ہیں ۔ اس کے عالوہ بہت سے
لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا وہ کالم مرتب کیا ہے جو ان کے رائج مجموعوں میں شامل نہیں
ہے ۔ اس سلسلے میں عبد الواحد معینی و محمد عبد ہللا قریشی کی مرتبہ " باقیات اقبال" اور موالنہ غالم
رسول مہر اور صادق علی دالوری کی مرتبہ سرود رفتہ زیادہ مکمل ہیں ۔ مگر ان دونوں مجموعوں
میں اکثر کالم مشترک ہے۔ عالوہ ازیں تقریبا" سارا کالم وہی ہے جو اقبال کا رد کیا ہوا ہے ۔ فن شعر یا
خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہنی ارتقاء کا مطالعہ کرنے
کے لئیے اس کی اہمیت یقینا" بہت زیادہ ہے۔
بانگِ درا کا تعارف اور تفصیل
دوست احباب اور عوام کے پیم اصرار پر عالمہ اقبال نے اپنا پہال اردو مجموعہ کالم مرتب کرکے
1924ء میں شائع کیا ۔
اس مجموعے میں ان کے اُس وقت تک کے اردو کالم کا انتخاب شامل تھا ۔" بانگ درا کے کالم کو
انتخاب کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس میں اپنا بہت سارا ابتدائی کالم انہوں نے سرے سے شامل ہی
نہیں کیا ۔سیالکوٹ اور الہور کے مشاعروں کے لئے لکھی ہوئی سیکڑوں غزلیں انہوں بالکل خارج کر
دیں۔ رسائل میں چھپی ہوئی نظموں اور غزلوں میں بہت زیادہ تبدیلیاں کییں۔ بعض نظمیں بالکل رد
کردیں اور بعض طویل نظموں کا ایک آدھ بند ہی باقی رکھا ۔
بہت سی نظموں اور غزلوں میں سے متعدد اشعار خارج کر دئیے۔بعض اشعار میں لفظی تبدیلیاں کیں
جن سے بعض اوقات ان کی معنویت بدل گئی ۔یہ ردو بدل اتنے وسیع پیمانے پر کیا گیا کہ بہت سے
ایسے اشعار بھی بانگ درا میں شامل نہ ہو سکے جو بے حد مشہور ہو چکے تھے مثال طویل نظم
"فریاد امت "کا صرف ایک بند "دل "کے عنوان سے بانگ درا میں شامل کیا اور وہ بندحذف کر دیا
جس میں یہ مشہور شعر شامل تھا ۔
واعظ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
غرض عالمہ اقبال نے اس وسیع پیمانے پر ردوبدل کیا جسے کوئی غیر معمولی صاحب بصیرت ہی
روا رکھ سکتا ہے ورنہ عموما ً شعرا کو اپنا ہر شعر پسند ہوتا ہے ۔
بانگ درا کی ترتیب یوں ہے کہ تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے پہال دور 1905ء تک کے کالم پر محیط
ہے دوسرا دور 1905سے 1908تک اور تیسرا دور 1908ء سے کتاب کی اشاعت تک پھیال ہوا ہے
ہر دور میں پہلے نظمیں دی گئی ہیں اور آخر میں غزلیں بعض نظموں پر سال تخلیق بھی درج ہے
مگر اکثر نظموں کے لیے یہ اہتمام نہیں کیا گیا پوری کتاب میں زمانی ترتیب ملحوظ رکھی گئی ہے
یعنی پہلے لکھی جانے والی نظم پہلے اور بعد میں لکھی جانے والی نظم بعد میں کتاب کے آخر میں
ظریفانہ کے عنوان سے کچھ اشعار ،قطعات وغیرہ درج کیے گئے ہیں جو اکبر الہ آبادی کی پیروی
میں عالمہ اقبال نے لکھے تھے ان اشعار پر سال تحریر درج نہیں مگر قیاس یہ ہے کہ تمام اشعار
1910ء سے 1914ء تک لکھے گئے ہیں۔
بانگ درا کے شروع میں سرعبدالقادر نے ایک مبسوط دیباچہ لکھا ہے عبدالقادر عالمہ اقبال کے
دوستوں میں شامل تھے اور خود بھی دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں ان کا یہ دیباچہ کسی بھی اردو شعری
مجموعے پر لکھے ہوئے دیباچے سے زیادہ مشہور ہوا ہے اور بعد میں اقبالیات کے اکثر نقادوں نے
اس میں سے اپنی تنقیدی کتابوں میں حوالے نقل کئے ہیں بانگ درا کے تینوں ادوار کی شعری
موضوعات کی رنگارنگی اور اسالیب بیان کے تناع کی وجہ سے پوری اردو شاعری میں منفرد حیثیت
رکھتی ہے ۔اگرچہ تین ادوار متعدد خصوصیات کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ الگ ہیں مگر
تینوں میں نقطہ نظر کی ایک یکسانیت بھی موجود ہے۔
با ِل جبریل:
بانگِ درا اور با ِل جبریل کی اشاعت کے درمیان تقریبا ً بارہ سال کا وقفہ ہے۔ ان بارہ برسوں میں عالمہ
اقبال کا کوئی اُردو مجموعہ کالم شائع نہیں ہوا البتہ فارسی کے دو مجموعے چھپے۔
با ِل جبریل جنوری 1935ء میں طبع ہوئی۔ اس میں وہ اُردو کالم شامل ہے جو عالمہ اقبال نے بانگِ درا
بال جبریل کی اشاعت تک کہا تھا۔ اس لحاظ سے یہ کتاب بہت اہم ہے کہ ان کے فارسی کی تکمیل سے ِ
کالم میں جو کچھ صراحت سے بیان ہوا ہے وہی با ِل جبریل میں اشارۃً آ گیا ہے۔
اقبال کی دوسری تصنیف:
با ِل جبریل اقبال کی دُوسری اُردو شعری تصنیف تھی۔ یہ پہلی بار ۱۹۳۵ء میں شائع ہوئی۔ اِس میں شامل
منظومات پچھلے نو دس برس میں لکھی جاتی رہیں مگر اُن میں سے زیادہ تر آخری دو تین برس میں
زبورعجم( )۱۹۲۷اور جاویدنامہ (،)۱۹۳۲ِ لکھی گئیں جب اقبال اپنی دو عظیم فارسی شعری تصانیف
اسالمی فکر کی تشکی ِل جدید پر انگریزی خطبات ( )۱۹۳۰اور مسلم لیگ کے ٰالہ آباد اجالس کے خطبہ
صدارت ( )۱۹۳۰کی تحریر سے فراغت پا چکے تھے۔ با ِل جبریل کو اِن تحریروں کی روشنی میں
پڑھنا چاہیے کیونکہ اِس میں اُن کی طرف خفی اور جلی اشارے موجود ہیں۔
با ِل جبریل کی ترتیب:
اقبال نے با ِل جبریل کی نظمیں پہلے ایک بڑے سائز کی بیاض میں لکھیں اور پھر وہاں سے اُنہیں
صاف مسودے کی شکل میں دوبارہ لکھا۔ یہ دونوں دستاویزات عالمہ اقبال میوزیم (جاویدمنزل) الہور
میں اور ان کی نقول اقبال اکادمی پاکستان میں موجود ہیں۔اقبال کی زندگی میں شائع ہونے واال اس کتاب
کا واحد اڈیشن اِسی مسودے کے مطابق تھا۔ اِس کے لیے اُنہوں نے کاتب کو واضح ہدایات دی تھیں یہاں
تک کہ خود طے کیا تھا کہ کون سی نظم میں اشعار کے دونوں مصرعے ایک دوسرے کے مقابل اور
کون سی نظم میں اوپر نیچے لکھے جائیں گے۔ با ِل جبریل کی ترتیب اُس کی معنوی شکل کا حصہ ہے۔
اُسے نظرانداز کر کے ہم اصل مطلب سے دُور ہو جاتے ہیں۔
فلک قمر پر استعمال کی تھی مگر وہاں کسی ِ اگرچہ ”با ِل جبریل“ کی ترکیب اقبال نے جاویدنامہ میں
اور معنی میں تھی کہ نبوت وہ حقیقت ہے جس سے جبریل کے پروں کو بھی خطرہ الحق ہو جاتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ معراج سے متعلق اُس حدیث کی طرف اشارہ تھا جب ایک مقام پر جبرئیل علیہ السالم
بھی رُک گئے تھے جہاں سے آگے رسول ہللا ﷺکو تنہا جانا تھا۔
کتاب کا عنوان:
بال جبریل کی ترکیب جب کتاب کا عنوان بنتی ہے تو اُس پرغور کرنا ضروری ہے۔ یہ اُس فرشتے
البتہ ِ
کا نام ہے جس کے ذمے پیغمبروں کے پاس وحی النے کا فریضہ تھا مگر اسالمی تصوف میں جبرئیل
کے پَروں کی عالمت سے کچھ اور راز بھی وابستہ ہیں۔ اشراقی فلسفے کے بانی شیخ شہاب الدین
سہروردی مقتول جنہیں ۱۱۹۱ء میں سلطان صالح الدین ایوبی کے حکم پر سزائے موت دی گئی فارسی
پر جبرئیل ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ جبرئیل کے دو پَر ہیں جن میں سے
آواز ِ
ِ میں اُن کی ایک تصنیف
دایاں خدا کی روشنی سے منور ہے اور اِسے دنیا سے کوئی کام نہیں۔ سچائی کی روشنی اِسی کے
ذریعے ہم تک پہنچتی ہے۔ بایاں پَر جبرئیل کی اپنی ہستی کا نمائندہ ہے لہٰذا اِس کی روشنی پر عدم کے
اندھیرے کے دھبے ہیں جیسے چاند کے پُرن ُور چہرے پر داغ۔ اِس بائیں پر کا سایہ پڑتا ہے تو دنیائے
وہم و فریب جنم لیتی ہے۔
شیخ مقتول کے فلسفے سے اِتنے واقف ِ پر جبرئیل اقبال کی نظر سے گزری ہو یا نہیں مگر وہ
آواز ِ
ِ
ضرور تھے کہ۱۹۰۷ء میں اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں اُن کی فکر پر تفصیل سے لکھا تھا اور
۱۹۲۹ء میں تشکی ِل جدید والے خطبات میں بھی اُن کا ذکر کیا تھا۔ با ِل جبریل کے عنوان پر غور کرتے
ہوئے ہمیں یہ حوالہ ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے۔ جب کبھی اِس موضوع پر تحقیق ہوئی کہ کب کون
سی کتب اقبال کے مطالعے میں آئیں تو شائد اِس بات پر بھی روشنی پڑ سکے کہ اپنی کتاب کا عنوان
تجویز کرتے ہوئے اقبال کے سامنے کون کون سے صوفیانہ خیاالت موجود تھے۔ اِس تاریخی معلومات
کے بغیر بھی یہ حوالہ دلچسپ اورغورطلب ہے۔
ت مضامین:
فہرس ِ
ت مضامین شامل کرنا مناسب نہیں سمجھی۔ اِس سے پہلے شائع ہونے والی شعری کتابوں اقبال نے فہرس ِ
پیام مشرق ،بانگِ درا اورجاویدنامہ کے شروع میں فہرستیں موجود ہیں جبکہ اسرارورموز میں سے ِ
زبورعجم میں نہیں ہیں۔ موخرالذکر دراصل مجموعے نہیں بلکہ مسلسل بیانات ہیں۔ با ِل جبریل میں
ِ اور
بھی فہرست موجود نہ ہونااِس کتاب کو شروع سے آخر تک ایک ساتھ پڑھنے کی ضرورت کی طرف
اشارہ ہے۔ مثال کے طور پر ناولوں کے شروع میں ابواب کی فہرست عام طور پر نہیں ہوتی مگر
افسانوں کے مجموعے میں ضرور ہوتی ہے تو اِس کی وجہ یہی ہے کہ ناول شروع سے آخر تک
مستقل پڑھا جاتا ہے جبکہ افسانوں کے مجموعے میں سے اپنی پسند کا افسانہ نکال کر اُسے پہلے پڑھ
لیتے ہیں۔
پیر و مرشد:
بال جبریل میں پیر و مرید کے عنوان سے لکھی گئی نظم میں عالمہ اقبال کی رومی سے قلبی انسیت
جھلکتی ہی نہیں بھرپوراندازمیں چھلکتی ہے۔ یہ نظم ایک تخیالتی مکالمے پر مشتمل ہے جس کے ایک
شعرمیں مرید یعنی اقبال اپنے پیر یعنی جالل الدین رومی سے عجز و انکساری سے بوجھل لہجے میں
مخاطب ہوتے ہیں:
”آپ خداکے چاہنے والوں کے سردار ہیں۔“
اقبال اور رومی:
ادبیات عالیہ میں ”مثنوی معنوی“ کو منفرد اور خاص مقام حاصل ہے۔ یہ اسرار دین پر مشتمل علم
الکالم ہے جسے مداحین رومی کے حلقہ میں مقدس اور الہامی تصور کیا جاتا ہے اور برصغیرپاک و
ہند میں اقبال کے کالم کو بھی قریب قریب یہی مرتبہ و مقام حاصل ہے۔ اقبال اور رومی دونوں کی
شخصیات اس حوالے سے خاصی مماثلت رکھتی ہیں۔
صحبت پیرروم سے ہوا مجھ پہ ہوا یہ راز فاش
الکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سربکف
جاوید نامہ میں اقبال فرماتے ہیں:
رفیق راہ ساز
ِ پی ِر رومی را
تا خدا بخشد ترا سوز وگداز
شرح او کر دند ادراکس ندید
معنی ء اوچوں غزال از مارمید
حرف ا و آمو ختند
ِ ص تن از
رق ِ
چشم راز رقص جاں بر دوختند
ص تن در گردش آرد خاک را رق ِ
ص جاں برہم زند افالک را رق ِ
ص جاں آید بدست علم و حکم از رق ِ
ہم زمیں ہم آسماں آید بدست
ص جاں آموختن کارے بود رق ِ
غیر حق را سو ختن کارے بُود
رومی سے انسیت:
اقبالیات کا عہد بہ عہد جائزہ لیا جائے ،رومی سے انسیت اور فیض کے نقوش پا اقبال کے عہد طفولیت
تک جا پہنچتے ہیں۔ جب والد کی عقیدت رومی پدرانہ دروس کی صورت اقبال کو وقتا ً فوقتا ً منتقل ہوتی
رہی اور پھر میر حسن جیسا استاد جس نے اپنی جادو اثر روحانی معلمی کے ذریعے اقبال کو رومی کی
محبت بچپن سے ہی دی۔ والد اور استاد کے دروس نے مثنوی روم کو اقبال کے جمالیاتی اور روحانی
مزاج کا حصہ بنا دیا کہ رومی کے افکار عالیہ اقبال کے ذاتی خیاالت میں غیرشعوری طور پر شامل
ہوتے گئے۔ اقبال کی زبان رومی کے پیغام رساں کا کردار ادا کرنے لگی۔ اقبال کو شعوری طور پر
شاید اس کا کبھی ادارک بھی نہ ہوا ہو کہ وہ موالنا روم کی تعلیمات ہی کو اپنی فکرگردانتے رہے ہیں۔
اقبال کے والد ماجد بوعلی قلندر کی مثنوی کے سحرمیں گرفتار تھے ،وہ چاہتے تھے کہ اقبال ان کے
انداز بیان کواپنائیں لیکن اقبال موالنا روم کی مثنوی کے لحن و بحر ( )Metrical compositionسے
اس درجہ متاثر تھے کہ ان کی پہلی فارسی تصنیف میں رومیت کا رنگ سرچڑھ کر بولتا نظر آتا ہے۔
عملیت:
عالمہ اقبال امت مسلمہ کو عملیت کی طرف راغب کرتے ہیں ،وہ قرآن میں بھی ان آیات کی طرف
خاص توجہ مبذول کرواتے ہیں جن کا تعلق تسخیرکائنات سے ہے۔ وہ قران سے ”جدت کردار“ کا
تصور دیتے ہیں کہ مطالعہ و تدبر قرآن کردار میں وہ عملی وصف پیدا کرتا ہے جس سے انسان
تسخیرکائنات کے چیلنج کو عمالً قبول کرتا ہے اور شاہکاران قدرت کے اسرار و رموز کی تہہ تک
پہنچ کر دراصل وہ اس انسان ہی کو دریافت کرلیتا ہے جس پر اسے اشرف المخلوقات ہونے کا شرف
حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک علم و حکمت کا قرآن کے بعد اگر کوئی ماخذ ہو سکتا ہے تو وہ مثنوی
رومی ہے۔ مثنوی کو یہ مقام اور درجہ اقبال ہی کے ہاں ملتا ہے۔ اقبال ہی متقدمین و متاخرین سے سبقت
لیتے ہوئے مثنوی سے علم و حکمت کے خزائن دریافت کرنے والے وہ صاحب کردار ہیں جنھوں نے
مثنوی کی ان جہتوں کو نمایاں کیا اور آج معتقدین اقبال اسی تناظر میں مثنوی کی علمی دریافتوں میں
مصروف عمل ہیں۔
با ِل جبریل کا پہال حصہ:
با ِل جبریل کا پہال حصہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ دوسرے حصے میں نظمیں ہیں۔ دونوں حصے عالمہ
اقبال کی شاعری میں فن کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ جہاں تک افکار و خیاالت کا تعلق ہے ،ان
نظموں اور غزلوں میں وہی کچھ کہا گیا ہے جو اُن کی فارسی کتابوں یا بانگِ درا کے تیسرے دور کی
بعض نظموں میں ہے ،البتہ اس کتاب میں غزل گوئی اور نظم نگاری کے جو تجربت کیے گئے ہیں ،وہ
ف ِن شعر کے اعتبار سے معجزے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حصہ غزل:
حصہ غزل میں سولہ غزلیں بقیہ غزلوں سے الگ درج کی گئی ہیں۔ اس کا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ
یہ زیادہ تر مابعد الطبیعاتی موضوعات کو محیط ہیں۔ یعنی خدا ،کائنات اور انسان کے تعلق کو واضح
کرتی ہیں۔ ان کے بعض اشعار خاصے دقیق ہیں۔
مغرب کے اثرات:
خودی ،عشق ،کشمکش ،حیات فقر ،وجدان اور عقل کا تقابل ،اصل اسالم کی طرف واپسی یا دوسرے
لفظوں میں ان تمام عناصر کا اسالم سے اخراج جو مسلمانوں نے غیر مذاہب سے لے کر اسالم میں
داخل کر لیے ہیں۔ ان کے عالوہ صوفی و مال کی بے عملی ،مغرب کے مشرق پر ہالکت خیز اثرات،
مغربی تعلیم کے نقصانات وغیرہ کو بھی بار بار بڑے زور دار اشعار میں بیان کیا گیا ہے۔
جدت طرازی:
انداز بیان
ِ با ِل جبریل کی غزلیات کی غزلیات اُردو غزل کی پوری تاریخ میں ایک نئی آواز ہیں۔ ان کے
میں ایسی ایسی جدتیں ہیں جو ان سے پہلے کی غزلیات میں نہیں ہیں۔ ان کا ذخیرہ الفاظ نیا ہے۔ ان کی
تشبیہات ،استعارے اور تصویریں نئی ہیں۔ ان کی زمینیں نئی ہیں جن میں سینکڑوں نئی تراکیب ہیں اور
ظاہر ہے کہ جو خیاالت پیش کیے گئے ہیں وہ بھی اس سے پہلے غزل میں بیان نہیں ہوئے تھے۔ گویا
عالمہ اقبال نے غزل کا باطن بھی بدل کر رکھ دیا ہے اور ظاہر بھی۔ یہ صنف غزل میں بہت بڑا تجربہ
ہے۔ اس تجربے نے جدید غزل گو شعرا کو بہت متاثر کیا ہے۔ جدید اُردو غزل میں تجربات کی جو
بال جبریل کی غزلیات تک جاتا ہے۔ یہ غزلیات افراط نظر آتی ہے ،ان کا بالواسطہ یا بالواسطہ سلسلہ ِ
انداز بیان کی دل کشی کی وجہ سے بہت متاثر کرتی ہیں۔ چند مثالیں یہ ہیں:
ِ اپنی نکتہ آفرینی اور
اگرچہ بحر کی موجوں میں مقام ہے اس کا
صفائے پاکی طینت سے ہے گہر کا وضو
تری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
ت زمانہ
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکای ِ
اختصار:
با ِل جبریل میں اکثر نظمیں مختصر ہیں مگر تین طویل نظمیں بھی اس میں شامل ہیں جن میں سے ہر
ایک کے بارے میں مختلف نقاد یہ آرا رکھتے ہیں کہ یہ عالمہ اقبال اقبال کی بہترین نظم ہے۔ ذوق و
شوق ،مسجد قرطبہ اور ساقی نامہ ایسے عظیم کارنامے ہیں جن پر کوئی بڑی سے بڑی ترقی یافتہ زبان
بھی فخر کر سکتی ہے۔ زوق و شوق ایک الجواب نعتیہ نظم ہے۔ مسج ِد قرطبہ اور ساقی نامہ میں عالمہ
انداز بیان اور موضوع کی ہم
ِ اقبال کے تمام نظریات کا خالصہ موجود ہے۔ تینوں نظموں کا خلوص،
آہنفی اور زور بیان ایسا ہے کہ بہت کم یکجا ہو پاتا ہے۔ پھر نظموں کا ربط و تسلس دیدنی ہے۔
قابل ذکر ہیں۔ با ِل
مختصر نظموں میں طاتق کی دعا اال رض ہللا اللہ صحرا ،زمانہ ،شاہین وغیرہ بھی ِ
ً
اظہار خیاالت برا ِہ راست کیا گیا ہے مثال آزادی
ِ جبریل کے آخر میں چند نظمیں ایسی بھی ہیں جن میں
ب کلیم میں اور بھی چمکایا ہے۔ انداز بیان کو عالمہ اقبال نے ضر ِ
ِ افکار ،یورپ ،سینما ،فقر وغیرہ۔ اس