Professional Documents
Culture Documents
شکوہ ،جواب شکوہ عالمہ اقبال کی دو طویل نظمیں ہیں جو بانگ درا ،گھنٹیوں کی صدا کے اوراق? کی
زینت ہیں ،شکوہ اپریل 1911ءمیں لکھی گئی ریواز? ہوسٹل اسالمیہ کالج کے صحن میں ہونے والے
انجمن حمایت اسالم الہور کے اجالس میں اقبال نے سنائی۔
جواب شکوہ 1913میںاقبال نے لکھی یہ نظم موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام میں بعد نماز
مغرب سنائی? گئی۔ اس جلسے کا اہتمام موالنا ظفر علی خان نے کیا جواب شکوہ اسی جلسے میں
ہزاروں کی تعداد میں فروخت? ہوئی ،اوراس کی پوری آمدن بلقان فنڈ میںدے دی گئی
شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کی اقبال کو ضرورت? کیوں ہوئی اس کے بارے میں مختلف شارع اپنی
اپنی آراءرکھتے ہیں لیکن جس ایک پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے اقبال 1905سے 1908تک یورپ
میںرہے۔ میونج یونیورسٹی? سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور قانون امتحان برطانیہ سے پاس
کیا۔
یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی سائنسی ،مادی ،سیاسی ،اقتصادی ?،معاشرتی ترقی? اور تہذیبی اقدار
کو اقبال نے بہت قریب سے دیکھا۔ اہل یورپ کی علمی لگن ،عملی کوشش ،سائنسی? ترقی ،جذبہ عمل
اور حب الوطنی سے متاثر ہوئے۔ جب واپس ہندوستان آئے تو اہل یورپ کے برعکس مسلمانوں میں
کاہلی ،جمود ،بے عملی ،غالمانہ ذہنیت ،اقتصادی پسماندگی? اور عملی ذوق و شوق کا فقدان دیکھ
کرآزردہ خاطر ہوئے مسلمانوں کی اسالم سے محض زبانی عقیدت ،خدا کی محبوب قوم? ہونے کا عجیب
احساس ،اسالم کا شیدا ہونے کا دکھادے کا اعتقاد ،قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور اسوہ رسول
سے وابستگی کے خیالی دعوے اقبال کی پریشیانی کا باعث بن گئے۔ ان ساری باتوں کے باوجود
مسلمان ہر وقت دین و دنیاکی برکات چھن جانے کا خدا سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔یہی نظم شکوہ کا بنیاد
ی تصور? ہے۔
شکوہ جب اقبال نے لکھی تب صرف? ہندوستان کے مسلمان ہی زبوں حالی کا شکار نہیں تھے۔ ایران،
ترکی ،مصر اور افریقہ کے مسلمانوں? کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں نے
مسلمانوں کے احساس زوال کو مزید شدید کردیا تھا۔ جس نے اقبال کو شکوہ ،جواب شکوہ جیسی انقالبی
نظمیں لکھنے کی تحریک دی۔
عالمہ اقبال حکیم امت ،نباض ملت اور مفکر اسالم ہیں۔ انہوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کے زوال
کے اسباب اور زمانہ قدیم کے مسلمانوں کے عروج کی وجوہات کو دونوں نظموں کا مرکزی? خیال بنایا،
تاکہ مسلمان اپنے شان دار ماضی سے زوال پذیر حال کو دیکھیں اور روشن مستقبل کا سراغ لگاسکیں۔
مسلمانوں کے طرز عمل سے ناالں اقبال اسالم کے عظیم ماضی کوحسرت سے دیکھتے ،حال کا جائزہ
لیتے تو بے بسی سے سپر ڈال دیتے۔ مگر ان کی مایوسی? اور ناامیدی انہیں کشاں کشاں تاریکی? سے
روشنی? کی طرف لے آئی۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں
مبتال تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے اللہ زار تھے۔ اس دور میں اقبال نے جو نظمیں
لکھیں ان کے اثر سے ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا۔ جس پر انہوں نے شکوہ ،جواب شکوہ لکھیں۔
یاد رہے انجمن حمایت اسالم کے اجالس میں اقبال نے جب شکوہ پڑھی تو لوگ پھولوں کی جھولیاں بھر
کر الے اور عالمہ پر گل پاشی کی اقبال کے والد گرامی بھی اس محفل میں موجود? تھے۔ سیرت اقبال
میں سر عبدالقادر نے لکھا ہے اقبال کے والد بیٹے کی کامیابی پر نازاں اور تاثر کالم سے آبدیدہ تھے۔
شکوہ ،جواب شکوہ کے حوالے سے حکیم محمد حسن قرشی لکھتے ہیں شکوہ نذرت تخیل ،حقیقت
نگاری اور شاعرانہ مصوری? کی شان ہے۔ شرح بانگ درا میں پروفیسر? یوسف سلیم چشتی رقم طراز?
ہیں ان نظموں میں اقبال کا لہجہ ویسا? نہیں جیسا دیگر پیغامی اور حکیمانہ نظموں میں ہے۔ اتفاق سے
یہی ان نظموں کی خصوصیت? ہے۔
پروفیسر وقار? عظیم ،معیار اقبال نمبر میں لکھتے ہیں یہ دونوں نظمیں بیک وقت عظمت رفتہ? کی تاریخ
اور دعوت عمل کا بہترین طریقہ ہیں۔ ادبی دنیا کے ایڈیٹر? عبدہللا قریشی کے مطابق? شکوہ اسی ذہنیت کا
آئینہ دار ہے جو یہودیوں ،عیسائیوں اور دیگر امتوں میں پائی جاتی ہے۔ یعنی ہم خدا کی منتخب اقوام?
ہیں۔ ہمارے عقائد برقرار ہیں ،اعمال کا کوئی سوال نہیں ،بس دوسروں کے سامنے ذلیل اور بے بس
نہیں مرنا چاہیے
ڈاکٹر خلیفہ سید الحکیم ”فکر اقبال“ میں بیان کرتے ہیں ،شکوہ میں اخالق و ایثار کے جتنے دعوے ہیں
وہ اسالف کے ہیں ،اقبال اخالف کے متعلق ایسے دعوے نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کے اعمال اور
سیرت کا نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدانے مسلمانوں کے ایک
ایک باطل دعوے کو توڑا ہے۔
شکوہ میں ہللا سے جو شکایات ہیں۔ وہ اقبال کا ذاتی نکتہ نظر نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کے انداز فکر
کی ترجمانی? ہے عام مسلمانوں کا حال تو یہ ہے وہ دعا بھی ایسے مانگتے ہیں جیسے ہللا سے دیا ہوا
قرض واپس لے رہے ہوں۔ حاالنکہ ایک غالم کی کیا حیثیت ہے۔ وہ سارا دن اگرخون پسینہ ایک کرکے
مشقت کرے اور جو معاوضہ اسے ملے وہ اس کا مالک لے لے تو بھی غالم کو اُف و فریاد کرنے کی
مجال نہیں۔ مسلمان تو شکر کے بجائے شکوہ کرنا جانتے ہیں یہی اقبال مسلمانوں کو اپنی نظم شکوہ میں
باور کرانا چاہتے تھے۔
مسلمان اس قرآنی? حقیقت سے نابلد ہیں۔ ”ہللا نے دنیاوی? ترقی اور تسخیر کائنات کیلئے مخصوص قوانین
مقرر کردیتے ہیں۔ جو قوم آئین خداوندی? کی پابندی? کرے گی وہ مسلم ہو یا غیر مسلم وہ اس کے حیات
بخش ثمرات سے فیض یاب ہوگی نماز ،روزہ ،حج ،زکوة جیسی اہم عبادات کو ان کی روح کے مطابق?
ادا کرنے سے بالشبہ انفرادی ،روحانی ،اجتماعی ،اقتصادی ،سیاسی ،اخالقی اور سماجی زندگی? کو
نکھار تو ملے گا۔ تاہم روحانی اور مادی ترقی کیلئے قدرت کے مخصوص? نظام اور قوانین سے بھی
صرف نظر نہیں کیا جاسکتا خدا کو اپنے آئین کی پابندی منظورہے ،خدا کے قوانین پر عمل کرنے والی
قومیں متعین نتائج سے محروم? نہیں رہتیں ،قرآن مجید نے تسخیر کائنات اور مادی ترقی کیلئے علم،
جدوجہد ،مطالعہ اور عمل کو الزم قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”بے شک ہللا عمل کرنے والوں کے
عمل ضائع نہیں کرتا جس شخص نے بلب ایجاد کیا ہے وہ کتنا بڑا عامل ہے کتنا بڑا محسن ہے۔ جواب
شکوہ میں اقبال نے ہللا کی طرف سے یہی مسلمانوںکو بتایا ہے۔
عقل کے استعمال اور عمل کی دولت سے محروم شخص آئین خداوندی? کی رو سے تسخیر? کائنات اور
مادی ترقی کے راز نہیں پاسکتا۔ اقبال قوانین فطرت اور اس کے مخصوص نتائج سے آگاہ تھے اسی
لئے انہوں نے شکوہ میں مسلمانوں کی علم و عمل سے روگردانی? کا تذکرہ کیا ہے اور جواب شکوہ میں
آئین خداوندی کے مطابق? نہ چلنے والوں کی تصویر? دکھائی ہے۔
انگلستان کے مشہور متشرق? پروفیسر جے آربری? کے مطابق? اقبال کی مشہور نظمیں شکوہ ،جواب
شکوہ میں اسالم کی عظمت رفتہ? کی روشنی? میں مسلمانوں کو ترقی کی راہ اختیار? کرنے کا درس دیا
گیا ہے شاعر نے ان دونوں نظموں میں اپنے ماضی اور حال کو بڑی مہارت سے یکجا کیا ہے۔ یوں تو
شکوہ کے ہر شعری بند کا جواب شکوہ میں توڑ موجود ہے لیکن یہاں ہر ایک کو زیر بحث الناممکن
نہیں ،موازنے کیلئے صرف? ایک آدھ پر ہی اکتفا کیا جاسکتا? ہے جیسے:
تجھ کو چھوڑ کہ رسول عربی کو چھوڑا؟
بت گری پیشہ کیا ،بت شکنی کو چھوڑا؟?
عشق کو ،عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟
ؓ
سلمان واویس قرنی? کو چھوڑا؟? رسم
آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں
زندگی مثل بالل حبشی رکھتے ہیں
ان اشعار کا شافی جواب ،جواب شکوہ میں اس طرح دیا گیا جس میں بے شمار سواالت پوشیدہ ہیں
کون ہے تارک آئین رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟
ہوگئی کس کی نگہ ،طرز سلف سے بیزار؟
قلب میں سوز نہیں ،روح میں احساس نہیں
کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں
ایسے ہی شکوہ کے آغاز میں اقبال نے مسلمانوں کی جانب سے ہللا سے کالم کیا ہے
اے خدا! شکوہ ارباب وفا? بھی سن لے
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بن سن لے
اس شعر کا جواب ،جواب شکوہ کے آخری شعر میں دے کر ہللا کی طرف سے مسلمانوں کو الجواب
کردیا گیا ہے
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں فکر انگیز سوال یہ ہے ،مسلمانوں سے ہللا محمد کے لئے کون سی وفا? کا طالب ہے جس کے بدلے
میں وہ یہ جہاں کیا ،لوح و قلم تک دینے پر تیار ہے یہ راز ہللا والے ہی بتا سکتے ہیں اپنے محبوب
کیلئے ہللا کو مسلمانوں سے کیسی وفا مقصود ہے تاہم میاں محمد بخش نے سمجھانے کے لئے قابل ذکر
بات کی ہے ”جبرائیل جہے جس چاکر نییاںداسر کردہ“ مطلب یہ ہے محمد تمام نبیوں کے سردار? ہیں
اور جبرائیل جیسے آپ کے نوکروں کے نوکر ہیں ۔چاکر مطلب نوکروں کا نوکر ہے۔ تو میاں محمد
صاحب نے یہ سمجھانا چاہا ہے جب حضور پاک کا مرتبہ? اور مقام یہ ہے تو پھر آپ سے وفا? کا معیار
بھی اتنا ہی بلند ہے ،جو ہللا کو پسند ہے۔