You are on page 1of 8

‫طرز اظہار ابتداء سے ہی کسی نہ کسی شکل میں‬

‫ِ‬ ‫‪ ‬اردو میں شاعری کی ہیئت میں شکوہ‪/‬شکایت کا‬


‫موجود رہا ہے۔‬
‫عالمہ اقبال کی نظم ’شکوہ‘ ‪۱۹۱۱‬ء میں شائع ہوئی۔ اس عہد میں ہندوستان استعماری طاقتوں کے قبضہ‬
‫میں تھا۔ ملک کی قدیم? تہذیبیں اور روایات سب مٹ رہی تھیں‪ ،‬ظلم و تشدد کا ہر طرف شور? و غل تھا۔‬
‫عوام کے دلوں میں انتشار‪ ،‬خوف‪ ،‬بے اعتمادی اور ناامیدی? نے اپنا پہرا کر رکھا تھا۔ اس عہد یعنی‬
‫استعماری? ہندوستان (‪ )colonized india‬کی دردناک تاریخ میں عالمہ اقبال ایک مخصوص ٓاواز کی‬
‫نظام حکومت کے خالف اپنی صدا بلند کی۔ اپنی قوم? کے پریشان کن‬ ‫ِ‬ ‫حیثیت رکھتے ہیں جنہوں نے اس‬
‫اور بدتر حاالت‪ ،‬استعماری دنیا کے مطالبات اور اپنے ماضی کی بازیافت کے تئیں ان کی حساسیت اس‬
‫قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک جانوس کی طرح ایک ہی وقت میں ماضی کی بازیافت اور مستقبل کا ادراک‬
‫دونوں ہی ان کے یہاں نظر ٓاتا ہے۔ حاالں کہ جس وقت اس نظم کی تخلیق ہوئی? ہندوستانی? مسلمانوں کو‬
‫ایک ساتھ ایک پیلٹ فارم? پر النا ممکن نہیں تھا‪ ،‬جب تک کہ وہ ان کی موجودہ ضروریات کو خطاب (‬
‫‪ )adressed‬نہیں کرتے۔ اسی لیے انہوں نے مسلمانوں کو ان کے شاندار ماضی? کی یاد دالئی اور ساتھ‬
‫ہی موجودہ محرومیت? کی نشاندہی? کرتے ہوئے ایک ٓازاد وطن کی تصویر? کی جانب اشارہ بھی کیا۔ نظم‬
‫’’شکوہ‘‘ اس کی نمایاں مثال ہے۔‬
‫عالمہ اقبال کی یہ نظم کل ‪ ۳۱‬بندوں پر مشتمل ہے لیکن نظم کے مطالعہ سے معلوم? ہوتا ہے کہ نظم کل‬
‫چھ حصوں پر مشتمل ہے۔ جسے اظہار کے طریقٔہ کار بیانیہ کی زبان میں پالٹ کہا جا سکتا ہے۔ چوں‬
‫کہ یہ نظم براہ راست بیانیہ نظم نہیں ہے بلکہ ہماری? روایتی شاعرے کے محبوب فارم مسدس کی ہیئت‬
‫انداز بیان ‪Descriptive‬ہے‪ ،‬اس لیے اس میں پالٹ کی وہ‬ ‫ِ‬ ‫میں ایک شکوہ (‪ )Complaint‬ہے جس کا‬
‫ً‬
‫شکل نمایاں نہیں ہے جو برا ِہ راست بیانیہ? یا قصہ گوئی کی نظموں مثال مرثیہ اور مثنوی میں نظر ٓاتی‬
‫کاانداز بیان ‪Descriptive‬ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ شکوہ میں کوئی ایک شخص اپنی‬ ‫ِ‬ ‫ہے۔ نظم‬
‫عرض داشت کسی کے حضور پیش کرتا ہے۔ اس لیے بیانیہ کی طرح کرداروں کی اور اس کے نتیجے‬
‫میں عمل کی کثرت ممکن نہیں۔‬
‫نظم کا بیان واحد متکلم راوی‪/‬شاعر کی زبانی شروع? ہوتا ہے‪ ،‬یہاں راوی خود بحیثیت کردار موجود?‬
‫ہے۔ ٓاگے چل کر بیان کے صیغے میں تبدیلی? ٓاتی ہے اور خطاب جمع متکلم کی زبانی شروع? ہو جاتا‬
‫ہے۔ لیکن یہاں راوی تبدیل نہیں ہوتا بلکہ واحد متکلم بہ زبا ِن قوم اپنا مدعا بیان کرنے لگتا ہے اور اختتام‬
‫تک پہنچتے پہنچتے پھر واحد متکلم راوی? کی زبانی بیان‪/‬خطاب ہونے لگتا ہے۔‬
‫پہلے بند میں راوی‪/‬شاعر? سوال قائم? کرتا ہے‪:‬‬
‫کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں‬
‫فکر ِ فردا نہ کروں محو غم دوش رہوں‬
‫نالے بلبل کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں‬
‫ہمنوا! میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‬
‫یہ سوال شاعر یا راوی کس سے کر رہا ہے؟ اس کا مخاطَب کون ہے؟ اور دوسری بات یہ کہ سوال‬
‫کیوں اور کس وجہ سے کیا جا رہاہے؟ ان دونوں سواالت کے جواب مذکورہ اشعار میں درج ہیں۔ اپنے‬
‫وطن کے باشندوں کی پریشاں حالی و زبوں حالی کے نالے سن کر شاعر خاموش نہیں رہ سکتا اس لیے‬
‫وہ اپنے مخاطب ’’ہمنوا!‘‘ سے کہتا ہے کہ مجھے ایسی قوت گویائی عطا کی گئی ہے جو بڑی جرٔات‬
‫اور حوصلے کی حامل ہے یہی وجہ ہے کہ میں خاکم بدہن‪ ،‬اپنے خالق سے ہی شکوہ کر رہا ہوں۔‬
‫مذکورہ بند میں صرف? نظم کا موضوع? ہی بیان نہیں ہوا ہے بلکہ اپنی قوم کی زبوں حالی‪ ،‬قوم کا نئے‬
‫خوابوں کو حقیقت میں شرمندٔہ تعبیر کرنے کے بجائے ماضی? کے امتیاز? و افتخار پر ہی ٓارام طلبی‪،‬‬
‫اپنی اس حالت پر ان کی شکایت اور پہلے بند کے ٹیپ کے مصرعے میں ایک پختہ ارادے کے ساتھ‬
‫جو ایک مومن‪/‬مسلمان کا عقیدہ ہے کہ خدا ہی ان کی اس حالت کو بدلے گا‪ ،‬کا بھی بیان ہوا ہے۔‬
‫نظم کے دوسرے بند سے واحد متکلم‪/‬شاعر بہ زبان قوم برا ِہ راست خدا سے مخاطب ہوتا ہے اور اپنے‬
‫شکوہ کرنے کے سبب کا بیان کرتا ہے کہ اگر ہم ٓاج قصٔہ درد تیرے سامنے بیان کرتے ہیں تو اس لیے‬
‫کہ ہم مجبور ہیں۔ مومن‪/‬مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ہر حالت میں خدا کی مرضی کا پابند رہے گا اور‬
‫اس کا شکر ادا کرے گا۔ مومن کی اسی صفت کو سامنے رکھتے ہوئے عالمہ کہتے ہیں کہ ’’نالہ ٓاتا ہے‬
‫اگر لب پہ تو معذور? ہیں ہم‘‘ اور اسی مصرعے کی وجہ سے ٹیپ کے مصرعے کا لہجہ سختی کے‬
‫بجائے ایک فریادی? کے لہجے میں تبدیل ہو جاتا ہے‪:‬‬
‫اے خدا!شکؤہ ارباب وفا? بھی سن لے‬
‫خوگر حمد سے تھوڑا سا گال بھی سن لے‬
‫ِ‬
‫نظم کے تیسرے بند سے راوی اپنی عرضداشت(‪ )chargesheet‬گزارنے کے بجائے پہلے خدا سے‬
‫اپنے ٓازاد وجود? ہونے کا منطقی جواز پیش کرتا ہے‪:‬‬
‫شرط انصاف ہے اے صاحب الطاف عمیم‬
‫بوئے گل پھیلتی کس طرح جو ہوتی نہ نسیم‬
‫گویا عالمہ انسانی ذات‪ٰ ،‬الہی ضرورت? کی پیداوار? مانتے ہیں اور چوں کہ وہ ٰالہی ضروریات? کے تحت‬
‫وجود میں ٓایا ہے اس لیے اپنی ضروریات? کے تئیں وہ انصاف ٰالہی کی توقع رکھتا ہے۔‬
‫زبان قوم?‬
‫ِ‬ ‫اس کے بعد نظم کے چوتھے بند سے لے کر تیرہویں بند کے چار مصرعوں تک راوی? بہ‬
‫مسلمانوں کے بلند روحانی مرتبے کی حصولیابی اور دنیوی کامیابی? و کامرانی? کا بیان کرتا ہے بلکہ‬
‫خدا کو ان حصولیابیوں کی یاد دالتا ہے جو انہوں نے دی ِن ٰالہی‪/‬رضائے? ٰالہی کی خاطر حاصل کیں۔‬
‫نظم کا یہ پورا? حصہ مسلمانوں? کے درخشندہ ماضی? کا ‪ Descriptive‬بیان ہے۔ اس طرح یہ اس بیانیہ‬
‫نظم کا دوسرا? پالٹ ہے جس میں کوئی مخصوص کردار تو نظر نہیں ٓاتا لیکن مختلف مقامات کے‬
‫واقعات کی جانب اشارے اس پالٹ کی تشکیل کرتے ہیں۔‬
‫‪۱۳‬ویں بند کے ٓاخری دو مصرعے یعنی ٹیپ کا مصرعہ بعد کے ٓانے والے بیان‪/‬پالٹ کے درمیان کی‬
‫کڑی ہے جو ایک کو دوسرے متصل کرتا ہے۔ بیانیہ کی زبان میں کہیں تو ٹیپ کا یہ مصرعہ‬
‫پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار? نہیں‬
‫ہم وفادار نہیں‪ ،‬تو بھی تو دلدار نہیں‬
‫اُس عمل کا کام کرتا ہے جو ایک صورت حال سے دوسرے صورت? حال میں جانے کا منطقی جواز‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫نظم میں اسی شعر سے برا ِہ راست شکوہ کے مضمون کی ابتداء ہوتی ہے لیکن یہاں شکوہ کا لہجہ‬
‫فریادی? کا نہیں بلکہ اس خود مختار انسانی وجود? کا ہے جسے ضروریات ٰالہی کے لیے بنایا گیا ۔ شاید‬
‫اسی لیے شکوہ کا لہجہ سخت معلوم ہوتا ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ نظم کا‬
‫راوی ‪/‬مدعی کوئی بلند پایہ شخصیت مثالً ولی ہللا‪ ،‬صوفی? یا ناصح نہیں بلکہ ایک ایسا انسان ہے جس‬
‫کی زندگی? پریشانی اور غم و ٓاالم سے بھری ہوئی ہے۔ ایسی صورت میں لہجے کی سختی بالکل فطری‬
‫معلوم ہوتی ہے نہ کہ اس میں انکار کا پہلو نظر ٓاتا ہے۔‬
‫‪۱۴‬ویں بند سے لے کر ‪۱۶‬ویں بند تک میں راوی? مسلمانوں پر ہونے والے عذاب‪ ،‬ملت اسالمیہ کی‬
‫زوال پذیری‪ ،‬غیروں ‪/‬استعمار کے ذریعہ قوم? کی ہونی والی تضحیک کا بیان کرتے ہوئے سوال قائم‬
‫کرتا ہے‪:‬‬
‫خندہ زن کفر ہے احساس تجھے ہے کہ نہیں؟‬
‫اپنی توحید? کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟‬
‫لیکن اسی کے ‪ Parallel‬جہاں راوی مسلمانوں پر نازل ہونے والے عذاب اور زوال پذیری? کا ذکر کرتا‬
‫ہے وہیں اغیار پر ہونے والی رحمت اور ان کی سرخروئی کا بھی بیان کرتا ہے۔ گویاراوی‪/‬شاعر?‬
‫منطقی طور پر ٹھوس بنیادوں کے ذریعہ اپنی حاالت و کیفیات کا بیان‪/‬شکوہ کرتا ہے۔‬
‫شکوہ کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ نظم کے ‪۲۱‬ویں بندتک جاری رہتا ہے لیکن ‪۱۷‬ویں بند سے‬
‫ِ‬
‫‪۲۱‬ویں بند تک میں شکوہ کے ساتھ ساتھ راوی سواالت بھی قائم کرتے ہوئے چلتا ہے۔ یعنی‬
‫‪Chargesheet‬پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ‪Interrogation‬کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ مثالً ٓاخر ہماری‬
‫حالت ایسی کیوں ہوئی‪ ،‬کیوں تیرے چاہنے والوں کے ساتھ برا سلوک ہو رہا ہے۔ مزید اس بات کی‬
‫طرف بھی اشارہ ہے کہ تو ہر چیز کو بدلنے پر قادر ہے اور تیرے سوا یہ قوت کسی میں نہیں۔‬
‫اس حصہ کا ٓاخری یعنی ‪۲۱‬واں بند اس سوال و شکوہ کا ‪Climax‬ہے جب متکلم راوی? بہ زبان وقوم‬
‫خدا سے پوچھتا? ہے‪:‬‬
‫رسول عربی کو چھوڑا؟‬
‫ؐ‬ ‫تجھ کو چھوڑا کہ‬
‫بت گری پیشہ کیا؟ بت شکنی کو چھوڑا؟‬
‫عشق کو عشق کی ٓاشفتہ سری کو چھوڑا؟‬
‫رسم سلمان و اویس قرنی? کو چھوڑا؟?‬
‫ٓاگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں؟‬
‫مثل بالل حبشی رکھتے ہیں؟‬
‫زندگی ِ‬
‫نبی کی محبت سے روگردانی? کی یا توحید? کو چھوڑ? کر ملحد ہو‬
‫کہ کیا ہم نے تیری عبادت چھوڑ دی؟ ؐ‬
‫گئے اور اگر ایسا نہیں ہے تو کوئی وجہ تو ہونی چاہیے؟ جب کہ ٓاج بھی ہمارے سینے میں تکبیر کی‬
‫ٓاگ محفوظ ہے۔‬
‫مایوسی کی اس انتہا پر پہنچنے کے بعد عالمہ اقبال مدعی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسے باشعور‬
‫حامی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں جو خطا کار بھی ہے۔نظم کے ‪۲۲‬ویں بند سے لے کر ‪۲۵‬ویں بند کے‬
‫دو اشعار تک راوی? مسلمانوں کی خطأوں یا کمیوں کا اعتراف بھی کرتا ہے اور پھر ان کی حمایت بھی‬
‫کرتا ہے۔ چند اشعار مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫عشق کی خیر وہ پہلی سی ادا بھی نہ سہی‬
‫پیمائی تسلیم و رضا بھی نہ سہی‬
‫ٔ‬ ‫جادہ‬
‫کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی? ہے‬
‫بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہر جائی ہے‬
‫سرفاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے‬
‫اک اشارے میں ہزاروں کے لیے دل تو نے‬
‫ٓاج کیوں سینے ہمارے شرر ٓاباد نہیں؟‬
‫ہم وہی سوختہ? ساماں ہیں‪ ،‬تجھے یاد نہیں؟‬
‫مدعی کے ذریعے شکایت پیش کر دینے اور خطأوں کا اعتراف کر لینے کے بعد نظم کا اگال حصہ‬
‫‪۲۶‬واں و ‪۲۷‬واں بند دعائیہ انداز میں ہے۔یہاں بھی ٹیپ کے مصرعے کے ہی ذریعہ عالمہ اگلے‬
‫حصے ‪/‬بیان کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں بلکہ اس کے ذریعہ وہ بیان کے درمیان منطقی ربط قائم‬
‫کرتے ہیں جو پالٹ کی تشکیل میں بنیادی عنصر کا درجہ رکھتا ہے۔راوی اس حصے میں خدا سے اس‬
‫کی نصرت اور مردہ قوم? کے اندر نئی روح پھونکنے کی التجا کرتا ہے۔‬
‫‪۲۸‬ویں بند میں واحد متکلم راوی اب قوم? کی موجودہ صورت حال اور وطن کی بدحالی کا ذکر کرتے‬
‫ہوئے کہتا ہے کہ سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا ہے‪ ،‬جو لوگ رہنمائی کرتے تھے وہ سب بھی بدظن ہو‬
‫گئے ہیں لیکن ٹیپ کے مصرعے میں راوی بیان کرتا ہے کہ صرف? میں‪/‬شاعر ہی ہے جو اب تک زندہ‬
‫ہے اور خاموش نہیں رہ سکتا ہے‪:‬‬
‫ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک‬
‫اس کے سینے میں ہے نغموں کا تالطم اب تک‬
‫شکوہ کی وجہ بتاتے ہیں کہ میں اس لیے‬‫ِ‬ ‫گویا اقبال متکلم کی زبانی اس بند سے ما قبل کیے گئے تمام‬
‫سوال یا شکایت کر رہا ہوں کیوں کہ میرے اندر میری قوم? ‪/‬وطن کے لیے نالہ و فریاد کا طوفان اب تک‬
‫جاگزیں ہے۔ ٹیپ کے اسی مصرعے سے شاعر‪ ،‬واحد متکلم بحیثیت کردار راوی میں تبدیل ہو جاتا ہے‬
‫اور اس کا مخاطب بھی اب خدا کے بجائے اس کے قوم‪/‬وطن والے ہیں مثالً یہ شعر دیکھیں‪:‬‬
‫قید موسم سے طبیعت رہی ٓازاد اس کی‬
‫کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد? اس کی‬
‫نظم کے ٓاخری بند میں واحد متکلم‪/‬شاعر اپنے مقصد کے متعلق پ ُر اعتماد نظر ٓاتا ہے اور یہ امید کرتا‬
‫ہے کہ وہ اپنی قوم کو نیند سے جگائے گا اور خدا کی نصرت ٓائے گی ۔ اس اعتماد کامل کا اندازہ نظم‬
‫کے ٓاخری شعر سے لگایا جا سکتا ہے‪:‬‬
‫عجمی خم ہے تو کیا‪ ،‬مے تو حجازی ہے مری‬
‫نغمہ ہندی ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری‬
‫نظم کے اس ٓاخری شعر میں لفظ ہندی کا استعمال کرکے عالمہ نے اس بیانیہ نظم کے زمان و مکان کا‬
‫تعین بھی کر دیا ہے جو بیانیہ قصہ? کا ایک بنیادی عنصر ہے۔ مسدس کی ہیئت میں کہی گئی یہ نظم‬
‫جتنی غنائی ہے اتنی ہی ‪ descriptive‬بھی۔ چوں کہ یہ ایک شکوہ کا بیان ہے اس لیے بیانیہ کی وہ‬
‫صورت موجود? نہیں جو کسی افسانوی? بیانیہ کا خاصہ ہوتی? ہے۔ لیکن اس میں بیانیہ شاعری کا بنیادی?‬
‫عنصر قصہ? موجود ہے۔ نظم میں ایک بیان‪/‬واقعے کا دوسرے بیان‪/‬واقعے سے منطقی ربط ٹیپ کے‬
‫مصرعے کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے جس سے پالٹ کی تشکیل ہوتی ہے۔ تمام اجزاء کو ایک ساتھ رکھ‬
‫کر دیکھیں تو ابتدا‪ ،‬وسط اوراختتام? صاف نظر ٓاتا ہے۔نظم کے مطالعے سے متکلم راوی کی صفات‬
‫یعنی اس کے علم‪ ،‬مشاہدات و ترجیحات? کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مثالً متکلم راوی انہیں واقعات‬
‫کا بیان کر سکتا ہے جو اس کے مشاہدے میں ہو یا وہ اس میں خود شامل ہو۔ نظم میں راوی? جہاں بھی‬
‫کسی ایسی بات کا ذکر کرتا ہے جو اس کے مشاہدے میں نہیں ہے یا وہ اس میں شامل نہیں ہے‬
‫وہاںعالمہ نے تاریخی? شخصیتوں کے نام یا مقامات کے اسماء کا ذکر کیا ہے۔‬
‫نظم کے اس بیانیاتی تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمہ اقبال کو واقعہ کی تفصیالت کا وہ ہنر ٓاتا ہے‬
‫جس سے اس کی معنویت اور شدت سطح پر نمایاں ہو جاتی ہے۔ نظم میں واقعات کی یہ تشکیل عالمہ کا‬
‫امتیاز تصور کیا جا سکتا ہے۔‬

‫شکوہ‪ ،‬جواب شکوہ عالمہ اقبال کی دو طویل نظمیں ہیں جو بانگ درا‪ ،‬گھنٹیوں کی صدا کے اوراق? کی‬
‫زینت ہیں‪ ،‬شکوہ اپریل ‪1911‬ءمیں لکھی گئی ریواز? ہوسٹل اسالمیہ کالج کے صحن میں ہونے والے‬
‫انجمن حمایت اسالم الہور کے اجالس میں اقبال نے سنائی۔‬
‫جواب شکوہ ‪1913‬میںاقبال نے لکھی یہ نظم موچی دروازے کے باہر ایک جلسہ عام میں بعد نماز‬
‫مغرب سنائی? گئی۔ اس جلسے کا اہتمام موالنا ظفر علی خان نے کیا جواب شکوہ اسی جلسے میں‬
‫ہزاروں کی تعداد میں فروخت? ہوئی‪ ،‬اوراس کی پوری آمدن بلقان فنڈ میںدے دی گئی‬
‫شکوہ اور جواب شکوہ لکھنے کی اقبال کو ضرورت? کیوں ہوئی اس کے بارے میں مختلف شارع اپنی‬
‫اپنی آراءرکھتے ہیں لیکن جس ایک پہلو پر سب کا اتفاق ہے وہ یہ ہے اقبال ‪1905‬سے ‪1908‬تک یورپ‬
‫میںرہے۔ میونج یونیورسٹی? سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اور قانون امتحان برطانیہ سے پاس‬
‫کیا۔‬
‫یورپ میں قیام کے دوران وہاں کی سائنسی‪ ،‬مادی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬اقتصادی‪ ?،‬معاشرتی ترقی? اور تہذیبی اقدار‬
‫کو اقبال نے بہت قریب سے دیکھا۔ اہل یورپ کی علمی لگن‪ ،‬عملی کوشش‪ ،‬سائنسی? ترقی‪ ،‬جذبہ عمل‬
‫اور حب الوطنی سے متاثر ہوئے۔ جب واپس ہندوستان آئے تو اہل یورپ کے برعکس مسلمانوں میں‬
‫کاہلی‪ ،‬جمود‪ ،‬بے عملی ‪،‬غالمانہ ذہنیت‪ ،‬اقتصادی پسماندگی? اور عملی ذوق و شوق کا فقدان دیکھ‬
‫کرآزردہ خاطر ہوئے مسلمانوں کی اسالم سے محض زبانی عقیدت‪ ،‬خدا کی محبوب قوم? ہونے کا عجیب‬
‫احساس‪ ،‬اسالم کا شیدا ہونے کا دکھادے کا اعتقاد‪ ،‬قرآن مجید کی تعلیمات سے دوری اور اسوہ رسول‬
‫سے وابستگی کے خیالی دعوے اقبال کی پریشیانی کا باعث بن گئے۔ ان ساری باتوں کے باوجود‬
‫مسلمان ہر وقت دین و دنیاکی برکات چھن جانے کا خدا سے شکوہ بھی کرتے ہیں۔یہی نظم شکوہ کا بنیاد‬
‫ی تصور? ہے۔‬
‫شکوہ جب اقبال نے لکھی تب صرف? ہندوستان کے مسلمان ہی زبوں حالی کا شکار نہیں تھے۔ ایران‪،‬‬
‫ترکی‪ ،‬مصر اور افریقہ کے مسلمانوں? کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں نے‬
‫مسلمانوں کے احساس زوال کو مزید شدید کردیا تھا۔ جس نے اقبال کو شکوہ‪ ،‬جواب شکوہ جیسی انقالبی‬
‫نظمیں لکھنے کی تحریک دی۔‬
‫عالمہ اقبال حکیم امت‪ ،‬نباض ملت اور مفکر اسالم ہیں۔ انہوں نے موجودہ عہد کے مسلمانوں کے زوال‬
‫کے اسباب اور زمانہ قدیم کے مسلمانوں کے عروج کی وجوہات کو دونوں نظموں کا مرکزی? خیال بنایا‪،‬‬
‫تاکہ مسلمان اپنے شان دار ماضی سے زوال پذیر حال کو دیکھیں اور روشن مستقبل کا سراغ لگاسکیں۔‬
‫مسلمانوں کے طرز عمل سے ناالں اقبال اسالم کے عظیم ماضی کوحسرت سے دیکھتے‪ ،‬حال کا جائزہ‬
‫لیتے تو بے بسی سے سپر ڈال دیتے۔ مگر ان کی مایوسی? اور ناامیدی انہیں کشاں کشاں تاریکی? سے‬
‫روشنی? کی طرف لے آئی۔ مسلمان بلقان سے نکالے جاچکے تھے۔ ایران موت و حیات کی کشمکش میں‬
‫مبتال تھا۔ طرابلس کے میدان مجاہدین کے خون سے اللہ زار تھے۔ اس دور میں اقبال نے جو نظمیں‬
‫لکھیں ان کے اثر سے ہندی مسلمانوں میں جوش پیدا ہوا۔ جس پر انہوں نے شکوہ‪ ،‬جواب شکوہ لکھیں۔‬
‫یاد رہے انجمن حمایت اسالم کے اجالس میں اقبال نے جب شکوہ پڑھی تو لوگ پھولوں کی جھولیاں بھر‬
‫کر الے اور عالمہ پر گل پاشی کی اقبال کے والد گرامی بھی اس محفل میں موجود? تھے۔ سیرت اقبال‬
‫میں سر عبدالقادر نے لکھا ہے اقبال کے والد بیٹے کی کامیابی پر نازاں اور تاثر کالم سے آبدیدہ تھے۔‬
‫شکوہ‪ ،‬جواب شکوہ کے حوالے سے حکیم محمد حسن قرشی لکھتے ہیں شکوہ نذرت تخیل‪ ،‬حقیقت‬
‫نگاری اور شاعرانہ مصوری? کی شان ہے۔ شرح بانگ درا میں پروفیسر? یوسف سلیم چشتی رقم طراز?‬
‫ہیں ان نظموں میں اقبال کا لہجہ ویسا? نہیں جیسا دیگر پیغامی اور حکیمانہ نظموں میں ہے۔ اتفاق سے‬
‫یہی ان نظموں کی خصوصیت? ہے۔‬
‫پروفیسر وقار? عظیم‪ ،‬معیار اقبال نمبر میں لکھتے ہیں یہ دونوں نظمیں بیک وقت عظمت رفتہ? کی تاریخ‬
‫اور دعوت عمل کا بہترین طریقہ ہیں۔ ادبی دنیا کے ایڈیٹر? عبدہللا قریشی کے مطابق? شکوہ اسی ذہنیت کا‬
‫آئینہ دار ہے جو یہودیوں‪ ،‬عیسائیوں اور دیگر امتوں میں پائی جاتی ہے۔ یعنی ہم خدا کی منتخب اقوام?‬
‫ہیں۔ ہمارے عقائد برقرار ہیں‪ ،‬اعمال کا کوئی سوال نہیں‪ ،‬بس دوسروں کے سامنے ذلیل اور بے بس‬
‫نہیں مرنا چاہیے‬
‫ڈاکٹر خلیفہ سید الحکیم ”فکر اقبال“ میں بیان کرتے ہیں‪ ،‬شکوہ میں اخالق و ایثار کے جتنے دعوے ہیں‬
‫وہ اسالف کے ہیں‪ ،‬اقبال اخالف کے متعلق ایسے دعوے نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کے اعمال اور‬
‫سیرت کا نقشہ وہی ہے جو جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے بیان ہوا ہے۔ خدانے مسلمانوں کے ایک‬
‫ایک باطل دعوے کو توڑا ہے۔‬
‫شکوہ میں ہللا سے جو شکایات ہیں۔ وہ اقبال کا ذاتی نکتہ نظر نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کے انداز فکر‬
‫کی ترجمانی? ہے عام مسلمانوں کا حال تو یہ ہے وہ دعا بھی ایسے مانگتے ہیں جیسے ہللا سے دیا ہوا‬
‫قرض واپس لے رہے ہوں۔ حاالنکہ ایک غالم کی کیا حیثیت ہے۔ وہ سارا دن اگرخون پسینہ ایک کرکے‬
‫مشقت کرے اور جو معاوضہ اسے ملے وہ اس کا مالک لے لے تو بھی غالم کو اُف و فریاد کرنے کی‬
‫مجال نہیں۔ مسلمان تو شکر کے بجائے شکوہ کرنا جانتے ہیں یہی اقبال مسلمانوں کو اپنی نظم شکوہ میں‬
‫باور کرانا چاہتے تھے۔‬
‫مسلمان اس قرآنی? حقیقت سے نابلد ہیں۔ ”ہللا نے دنیاوی? ترقی اور تسخیر کائنات کیلئے مخصوص قوانین‬
‫مقرر کردیتے ہیں۔ جو قوم آئین خداوندی? کی پابندی? کرے گی وہ مسلم ہو یا غیر مسلم وہ اس کے حیات‬
‫بخش ثمرات سے فیض یاب ہوگی نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬حج‪ ،‬زکوة جیسی اہم عبادات کو ان کی روح کے مطابق?‬
‫ادا کرنے سے بالشبہ انفرادی‪ ،‬روحانی‪ ،‬اجتماعی‪ ،‬اقتصادی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬اخالقی اور سماجی زندگی? کو‬
‫نکھار تو ملے گا۔ تاہم روحانی اور مادی ترقی کیلئے قدرت کے مخصوص? نظام اور قوانین سے بھی‬
‫صرف نظر نہیں کیا جاسکتا خدا کو اپنے آئین کی پابندی منظورہے‪ ،‬خدا کے قوانین پر عمل کرنے والی‬
‫قومیں متعین نتائج سے محروم? نہیں رہتیں‪ ،‬قرآن مجید نے تسخیر کائنات اور مادی ترقی کیلئے علم‪،‬‬
‫جدوجہد‪ ،‬مطالعہ اور عمل کو الزم قرار دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ”بے شک ہللا عمل کرنے والوں کے‬
‫عمل ضائع نہیں کرتا جس شخص نے بلب ایجاد کیا ہے وہ کتنا بڑا عامل ہے کتنا بڑا محسن ہے۔ جواب‬
‫شکوہ میں اقبال نے ہللا کی طرف سے یہی مسلمانوںکو بتایا ہے۔‬
‫عقل کے استعمال اور عمل کی دولت سے محروم شخص آئین خداوندی? کی رو سے تسخیر? کائنات اور‬
‫مادی ترقی کے راز نہیں پاسکتا۔ اقبال قوانین فطرت اور اس کے مخصوص نتائج سے آگاہ تھے اسی‬
‫لئے انہوں نے شکوہ میں مسلمانوں کی علم و عمل سے روگردانی? کا تذکرہ کیا ہے اور جواب شکوہ میں‬
‫آئین خداوندی کے مطابق? نہ چلنے والوں کی تصویر? دکھائی ہے۔‬
‫انگلستان کے مشہور متشرق? پروفیسر جے آربری? کے مطابق? اقبال کی مشہور نظمیں شکوہ‪ ،‬جواب‬
‫شکوہ میں اسالم کی عظمت رفتہ? کی روشنی? میں مسلمانوں کو ترقی کی راہ اختیار? کرنے کا درس دیا‬
‫گیا ہے شاعر نے ان دونوں نظموں میں اپنے ماضی اور حال کو بڑی مہارت سے یکجا کیا ہے۔ یوں تو‬
‫شکوہ کے ہر شعری بند کا جواب شکوہ میں توڑ موجود ہے لیکن یہاں ہر ایک کو زیر بحث الناممکن‬
‫نہیں‪ ،‬موازنے کیلئے صرف? ایک آدھ پر ہی اکتفا کیا جاسکتا? ہے جیسے‪:‬‬
‫تجھ کو چھوڑ کہ رسول عربی کو چھوڑا؟‬
‫بت گری پیشہ کیا‪ ،‬بت شکنی کو چھوڑا؟?‬
‫عشق کو‪ ،‬عشق کی آشفتہ سری کو چھوڑا؟‬
‫ؓ‬
‫سلمان واویس قرنی? کو چھوڑا؟?‬ ‫رسم‬
‫آگ تکبیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں‬
‫زندگی مثل بالل حبشی رکھتے ہیں‬
‫ان اشعار کا شافی جواب ‪ ،‬جواب شکوہ میں اس طرح دیا گیا جس میں بے شمار سواالت پوشیدہ ہیں‬
‫کون ہے تارک آئین رسول مختار؟‬
‫مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار؟‬
‫کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟‬
‫ہوگئی کس کی نگہ‪ ،‬طرز سلف سے بیزار؟‬
‫قلب میں سوز نہیں‪ ،‬روح میں احساس نہیں‬
‫کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں‬
‫ایسے ہی شکوہ کے آغاز میں اقبال نے مسلمانوں کی جانب سے ہللا سے کالم کیا ہے‬
‫اے خدا! شکوہ ارباب وفا? بھی سن لے‬
‫خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بن سن لے‬
‫اس شعر کا جواب‪ ،‬جواب شکوہ کے آخری شعر میں دے کر ہللا کی طرف سے مسلمانوں کو الجواب‬
‫کردیا گیا ہے‬
‫کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں‬
‫یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‬
‫یہاں فکر انگیز سوال یہ ہے‪ ،‬مسلمانوں سے ہللا محمد کے لئے کون سی وفا? کا طالب ہے جس کے بدلے‬
‫میں وہ یہ جہاں کیا‪ ،‬لوح و قلم تک دینے پر تیار ہے یہ راز ہللا والے ہی بتا سکتے ہیں اپنے محبوب‬
‫کیلئے ہللا کو مسلمانوں سے کیسی وفا مقصود ہے تاہم میاں محمد بخش نے سمجھانے کے لئے قابل ذکر‬
‫بات کی ہے ”جبرائیل جہے جس چاکر نییاںداسر کردہ“ مطلب یہ ہے محمد تمام نبیوں کے سردار? ہیں‬
‫اور جبرائیل جیسے آپ کے نوکروں کے نوکر ہیں ۔چاکر مطلب نوکروں کا نوکر ہے۔ تو میاں محمد‬
‫صاحب نے یہ سمجھانا چاہا ہے جب حضور پاک کا مرتبہ? اور مقام یہ ہے تو پھر آپ سے وفا? کا معیار‬
‫بھی اتنا ہی بلند ہے‪ ،‬جو ہللا کو پسند ہے۔‬

You might also like