You are on page 1of 3

‫اوور کوٹ‬

‫تبصرہ اور تنقیدی جا ئزہ‬


‫غالم عبا س کا افسا نہ اوور کو ٹ ہما رے آس پاس کی زندگی اور عام انسا نی جذبات کی‬
‫آئینہ دا ر ہے۔مفلس اور ما لی مشکال ت کے شکا ر طبقے کے جذبات کا عکا س ہے۔‬
‫افسانہ"اوور کو ٹ"سماج کی وہ حقیقت ہے جس سے نظریں چرا نا خود کو دھو کہ دینے‬
‫کے مترادف ہے۔مفلس اور مجبور انسان کی کہا نی ہے جس کے دل میں ہزا رو ں خوا‬
‫ہشا ت جنم تو لیتی ہیں مگر ان خوا ہشا ت کو پو را کر نے کی استطا عت نہیں رکھتا ۔کہا‬
‫نی ایک ایسے‬
‫نو جوان کے گرد گھومتی ہے‪،‬جو معا شرے میں با عزت طریقے سے رہنا چا ہتا‬
‫ہے۔جس عزت اور احترام کا وہ خوا ہش مند ہے اس کے لئے جیب کا گرم ہو نا بہت‬
‫ضروری ہےکیونکہ ہما را معا شرہ ظاہر دا ری اور بنا وٹ پر ہی چل رہا ہے اور کہا نی‬
‫کا مرکزی کردار بھی‬
‫ظا ہر دا ری کا شکا ر تھا ۔کہا نی کے شرو ع میں مصنف نے اس کی جوتصویرپیش کی‬
‫وہ کچھ یو ں ہے۔۔‬
‫"نوجوان اپنی ترا ش خرا ش سے خا صا فیشن ایبل معلو م ہو تا تھا۔لمبی لمبی قلمیں‬
‫‪،‬چمکتے ہو ئے بال‪،‬با دا می رنگ کا گرم اوور کو ٹ پہنے ہو ئے جس کے کا ج میں شر‬
‫بتی رنگ کے گال ب کا ایک آدھ کھال پھو ل اٹکا ہوا ‪،‬سفید سلک کا گلو بند گلے کے گرد‬
‫لپٹا ہوا ایک ہا تھ کو ٹ کی جیب میں اور دو سرے ہا تھ میں بید کی ایک چھو ٹی چھڑی‬
‫پکڑے ہو ئے"۔‬
‫مصنف نے کہا نی کے آغا زمیں مرکزی کردا ر کا جو حلیہ تحریر کیا ہما رے معا شرے‬
‫کا مرا عا ت یا فتہ طبقہ ایسا حلیہ اپنا تا ہے ۔بظا ہربے فکری سے سڑک پر چہل قدمی کر‬
‫نے واال نوجوان وقت گزار تھا۔جا ڑے کی خو بصو رت اور ٹھنڈی شام سے لطف اندو ز‬
‫ہو رہا تھا ۔اس کا ہر ہر اندا ز بے فکری اور بے اعتنا ئی کو ظا ہر کر رہا تھا ۔مصنف ظا‬
‫ہری حا لت کے سا تھ زمانے سے بے نیا زی اُجا گر کر نے میں بہت کا میا ب ہے۔اور‬
‫پھر آگے چل کرنوجواں نسل کے مشا غل بہت خوبصورت اندا ز میں تحریر کئے گئے‬
‫ہیں ۔ایک بے فکر اور ایک بے نیا ز شخص اپنی ذات کی تسکین اور معلومات میں اضا‬
‫فہ کے لئے کبھی مو سیقی کی دو کا ن پر جا تا ہےتو کبھی سینما کے با ہر کھڑا ہو کر‬
‫مستقبل قریب میں‬
‫نما ئش کے لئے آنے والی فلمو ں کے با رے میں معلو مات حا صل کرتا ہے ۔گو یا وہ‬
‫ایسی تمام سرگرمیو ں میں دل چسپی لیتا ہے جس میں‬
‫خو شحا لی اور غم اور آالم سے بے نیا ز لوگ دلچسپی لے سکتے ہیں ۔جیسے کہ ایک‬
‫قالینو ں کی دکا ن میں دا خل ہو تے ہو ئے۔‬
‫"ذرا یہ ایرا نی قالین دیکھنا چا ہتا ہو ں اُتا رئیے نہیں یہیں سے دیکھ لو ں گا "۔یہ جملہ‬
‫اور ایسے کئی مزید جملے اچھے ذوق کی نشا ندہی کر تے ہیں ایسا ذوق جو خوشحا لی‬
‫کا ترجمان ہے۔‬
‫پڑھنے واال مرکزی کردا ر کی سر گر می کو دیکھتے ہو ئے اس کی فرا غت اور قسمت‬
‫دو نو ں پر رشک کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔چا نکہ مصنف یعنی غال م عبا س مو ضو عا‬
‫ت کا انتخا ب بہت سوچ سمجھ کر تے تھےاس لئے ان کا یہ افسا نہ فنی لحا ظ سے مکمل‬
‫ہے اور کہیں بھی جھو ل کا‬
‫شکا ر نہیں ہوا ۔‬
‫کہا نی خوشگوار ما حول میں آگے بڑھتے بڑھتے ایک المیہ کی شکل اختیار کر لیتی‬
‫ہے۔جہا ں نو جوان یعنی کہا نی کا مرکزی کردار سڑک پا ر کر تے ہوئے حا دثہ کا شکا‬
‫ر ہو جا تا ہے۔کہا نی کے اس مو ڑ پر نو جوان کے ساتھ پیش آنے واال حا دثہ درا صل پو‬
‫ری کہا نی کےاندر چھپی ہو ئی وہ حقیقت ہے۔جو ظا ہر داری کا جا مہ زیب تن کئے ہو‬
‫ئے ہے۔مصنف یہا ں ہر معا شرے کی مفلسی ‪،‬مجبو ری اور بد حا لی کی تصویر پیش کر‬
‫رہے ہیں جس کے اندر خواہشا ت تڑپتی اور سسکتی ہو ئی دکھا ئی دیتی ہیں ۔نو جوان کو‬
‫آپریشن تھیٹر پہنچا یا گیااور طبقاتی تضا د کے‬
‫دو نو ں رخ سامنے آگئے ۔ظا ہری حلیے اور بنا وٹ کو دیکھتے ہو ئے ایک نرس نے کہا‬
‫۔‬
‫"کسی بھلے گھر کا معلوم ہو تا ہے بے چا رہ"تو دو سری نے کہا۔‬
‫"خوب بن ٹھن کے نکال تھا بے چا رہ ہفتہ کی شا م منانے"‬
‫حا دثے کا شکا ر ہو نے والے نوجوان کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔‬
‫"نوجوان کے گلو بند کے نیچے نکٹائی اور کا لر تو کیا ‪،‬سرے سے قمیص ہی نہ‬
‫تھی۔اوور کو ٹ اتا را گیاتو نیچے سے ایک بو سیدہ اونی سویٹر نکال جس میں جا بجا‬
‫بڑے بڑے سو را خ تھے ۔اور ان سو را خوں سے سویٹر سے بھی زیا دہ میال کچیال بنیا‬
‫ن نظر آرہا تھا ۔"‬
‫بو ٹ اور جرا بو ں کی با ری آئی "بوٹ تو پرا نے ہو نے کے با وجو د خوب چمک رہے‬
‫تھےمگر ایک پا ؤں کی جرا ب دو سرے پا ؤں کی‬
‫جرا ب سے با لکل مختلف تھی دونو ں جرا بیں پھٹی ہو ئی تھیں اور ان میں سے نو‬
‫جوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آرہیں تھیں۔"‬
‫المیائی اختتام پڑھنے والے کو یہ سوچنے پر مجبو ر کر دیتا ہے کہ اس بنا وٹی دو ر میں‬
‫انسا ن کو انسانیت کے آلے سے نہیں پرکھا جا تا ۔ہر‬
‫انسا ن اپنی ظا ہردا ری اور تصنع میں جس قدر کا میا ب اداکاری کرتا ہے ۔اس کو اسی‬
‫تصنع اور ظا ہر دا ری پر عزت و تکریم دی جا تی ہے۔‬
‫یہ انسا نی فطرت ہے کہ ہر انسان عزت و تکریم کا خواہش مند ہو تا ہے اور اس‬
‫سما جی عزت واحترام کے لئے وہ ہر طرح کا لبا دہ اوڑھنے کے لئے تیا ر رہتا ہےخواہ‬
‫اس کے لئے وہ خود با ر با ر جی جی کر مرتا رہےمگر سما جی نفرت سما جی کمتری‬
‫کسی بھی انسان کو آگے بڑھنے نہیں دیتی ۔یہی پیغا م مصنف نے کہا نی کے ذریعے ہم‬
‫سب تک پہنچا نے کی کو شش کی ہےکہ ہم ظا ہر دا ری کے لئے اپنی ذات کی نفی کر‬
‫دیتے ہیں ۔یہ بھو ل جا تے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے۔ہر غم کے بعد خوشی ال زمی‬
‫ہے۔ ہر رات کی صبح ضرور آتی ہے ۔ہمیں بنا وٹ سے گریز کرتے ہو ئےخود کو مثبت‬
‫را ہ پر ال نا چا ہیے تا کہ غم کے لمحا ت میں خو شیو ں کو ہمارا مقدر بنا دیں۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like