You are on page 1of 50

‫ڈاکٹر سلمان بھٹی صاحب‬ ‫معلم‬

‫ماہ روز ندیم‬ ‫متعلمہ‬

‫غالم عباس کے افسانوں میں حقیقت نگاری‬ ‫موضوع‬

‫‪MCF1800022‬‬ ‫رول نمبر‬

‫یونیورسٹی آف ایجوکیشن لوئر مال کیمپس‬


‫حوالہ جات‬

‫مصنف کا نام ‪ :‬محمد حمید شاہد‬

‫‪ ‬‬
‫کتاب کا نام جہلم پاکستان‬
‫‪ ‬‬
‫شہر پبلیشر زاہد بک سیلرز جہلم پاکستان‬
‫‪ ‬‬
‫اشاعت اپریل ‪2018‬‬
‫ص نمبر ‪220‬‬
‫غالم عباس کے افسانے میں حقیقت‬
‫نِگاری‬
[Document subtitle]

[DATE]
[COMPANY NAME]
[Company address]
‫غالم عباس ‪ 17 ‬نومبر ‪1909‬ء میں‪ ‬امر تسر(چند محققین کی‬
‫رائے میں ‪ )1907‬میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم الہور کے دیال‬
‫سنگھ ہائی اسکول میں حاصل کی ۔ لکھنے لکھانے کا شوق فطرت‬
‫میں داخل تھا۔ ساتویں جماعت میں ایک کہانی "بکری" لکھی۔‬
‫کہانی استاد محترم مولوی لطیف علی کو دکھائی۔ جنھوں نے حوالہ‬
‫افزائی فرمائی تو یہ شوق اور بڑھا۔ نویں جماعت تک پہنچتے‬
‫پہنچتے اس قابل ہو گئے کہ انگریزی نظموں اور کہانیوں کا اردو‬
‫میں ترجمہ کر سکیں‬
‫غالم عباس ان با کمال فکشن نگاروں میں شامل ہیں جن کے افسانے ہر‬
‫نئے افسانہ نگار کو ایک مرتبہ غور سے پڑھنے چاہئیں۔ چاہے وہ ان کی‬
‫طرح حقیقت پسندانہ روش اختیار کرنا چاہتا ہو‪ ،‬چاہے کسی نئے رنگ‬
‫کو اپنانے کے لیے کوشاں ہو‪ ،‬غالم عباس سے کچھ نہ کچھ سیکھ سکتا‬
‫ہے۔‬

‫قابل توجہ ہیں۔ یہاں صفائی اور سادگی‬


‫غالم عباس کی زبان اور بیانیہ ِ‬
‫سے واسطہ رکھا گیا ہے۔ ان کے ہاں کوئی عبارت آرائی نہیں‪ ،‬کوئی لفظ‬
‫فالتو معلوم نہیں ہوتا‪ ،‬کوئی واقعہ‪ ،‬چھوٹا یا بڑا‪ ،‬بے قرینہ نہیں۔ ایسا‬
‫دکھائی دیتا ہے کہ ساری کہانی کا ا ّول‪ ،‬درمیان اور آخر احتیاط سے‬
‫سوچ کر اور اتنی ہی احتیاط سے قلم بند کر لیا گیا ہے۔ ممکن ہے ایسا نہ‬
‫ہو۔ افسانہ لکھتے وقت وہ اسے ادلتے بدلتے رہتے ہوں۔ لیکن افسانے‬
‫جس شکل میں ہم تک پہنچے ہیں‪ ،‬اس سے بے ساختگی کا تاثر ہی اُبھرتا‬
‫ہے۔‬

‫”گوندنی واال تکیہ“ جسے مصنف نے ناولٹ قرار دیا ہے‪ ،‬گو اسے‬
‫آسانی سے ناول کا درجہ بھی دیا جا سکتا تھا‪1953 ،‬ء میں قسط وار ”ما ِہ‬
‫نو “ میں شائع ہوتا رہا تھا۔ کتابی صورت میں اس کی عدم دستیابی کے‬
‫پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے قارئین کو نیا معلوم ہوگا۔ ”‬
‫عرض حال “ میں غالم عباس لکھتے ہیں‪” :‬گوندنی والے تکیے کا خیال‬
‫مدت ہوئی مجھے الہور میں سوجھا تھا جہاں ایسے تکیے بہ کثرت ہیں یا‬
‫ہوا کرتے تھے…‪ .‬انھی دنوں میں نے دو تین بڑے روسی ناول پڑھے‬
‫تھے۔ خیال ہوا کہ ان کی پیروی میں میں بھی اس موضوع پر کوئی‬
‫طویل ناول لکھوں۔ مگر افسوس میری مالزمت نے مجھے کبھی اس کا‬
‫موقع ہی نہ دیا۔“ یہ عذر دل کو نہیں لگتا۔ طویل ناول لکھنے کے لیے‬
‫فرصت کی نہیں جنون کی ضرورت ہوتی ہے اور غالبا ً اس طرح کا‬
‫دیوانہ وار جوش و خروش غالم عباس پر کبھی طاری نہیں ہوا۔‬

‫قصے کے راوی نے ملک سے بیس سال باہر رہنے کے بعد اپنے پُرانے‬
‫قصبے کا رُخ کیا ہے۔ اسے پُرانی یادیں قصبے تک کھینچ کر نہیں الئی‬
‫ہیں۔ وہاں اس کی کچھ آبائی جائیداد‪ z‬تھی جس میں چند حصے دار اور‬
‫بھی تھے۔ جائیداد‪ z‬کی فروخت کے سلسلے میں اس کی قصبے میں‬
‫موجودگی ضروری تھی۔‬

‫قصبے کے ہوٹل میں مقیم ہونے کے فوراً بعد وہ اس تکیے کی تالش میں‬
‫نکال جہاں گوندنی کے آٹھ دس درخت تھے اور جس سے اس کی بچپن‪،‬‬
‫لڑکپن اور نوجوانی کی بہت سی دل آویز یادیں وابستہ تھیں۔ کوشش کے‬
‫باوجود اسے گوندنی واال تکیہ کہیں نظر نہ آیا اور استفسار کرنے پر‬
‫معلوم ہوا کہ تکیے کے پُرانے متولی‪ ،‬نگینہ سائیں‪ ،‬کے انتقال کے بعد‬
‫وہ جگہ اوباشوں کا اڈا بن گئی تھی‪ ،‬بازاری عورتیں وہاں آنے جانے‬
‫لگی تھیں۔ چنانچہ قصبے کے شرفا نے درخت کٹوا کر وہاں مدرسہ‬
‫تعمیر کرا دیا تھا۔‬

‫مایوس اور اداس ہو کر راوی ہوٹل لوٹ آیا اور جو اچھے دن اس نے‬
‫پہلے کبھی گزارے تھے انہیں یاد کرنے لگا۔ بیشتر بیانیہ فلیش بیک کی‬
‫صورت میں ہے۔ تکیہ قصبے میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ وہ وہاں کے‬
‫چھوٹوں بڑوں کے لیے کلب‪ ،‬سیرگاہ‪ ،‬اکھاڑا‪ ،‬سٹیج‪ ،‬سبھی کچھ تھا۔ وہاں‬
‫ایک کنواں بھی تھا جہاں لڑکیاں اور عورتیں پانی بھرنے آتی تھیں اور‬
‫نوجوان عشاق کو دل بہالنے اور آنکھ لڑانے کے مواقع بھی مل جاتے‬
‫تھے۔‬
‫غالم عباس کے تحریری اسلوب کی مخصوص‬
‫خصوصیات سادگی ‪ ،‬روانی اور ایک ہلکی سی‬
‫تال ہیں۔‬
‫ڈرامائی عنصر اس کے انداز میں بہت کم‬
‫ہوتا ہے۔ وہ مختصر کہانی کو قدرتی طور پر‬
‫بہت آہستہ آہستہ اور آہستہ آہستہ آگے لے‬
‫جاتا ہے‬
‫بہاؤ واقعات عملی زندگی کے مطابق ان کی‬
‫مختصر کہانیوں میں پیش آتے ہیں (حیدر ملک‬
‫‪)1993 ،‬۔‬
‫غالم عباس کے انداز کی سادگی داستانوں کی‬
‫طرح ہی ہے ‪ ،‬حاالنکہ ان میں ایک سسپنس اور‬
‫ڈرامائی ہے‬

‫غالم عباس کی مختصر کہانیوں میں اس کا کردار گہری سماجی بیداری‬


‫کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے بارے میں پوری معلومات رکھتے ہیں‬
‫معاشرے اور افراد کے مختلف گروہ۔? وہ رجحانات اور معاشرے کے‬
‫معیار کو اپنی نوعیت کا موضوع بناتا ہے بہت فنکارانہ طور پر۔ زندگی‬
‫کے شعور میں اس نے قلم ڈوبا ہے۔ لہذا? اس نے واقعات ‪ ،‬حاالت اور‬
‫اس کی عمر کے مسائل ان کی مختصر کہانیوں کے عنوانات۔ ان سب‬
‫کو پیش کرنا ان کا نظریہ مثبت اور ایسا لگتا ہے تعمیری‪ .‬اس کا‬
‫پسندیدہ موضوع کم اور درمیانے طبقے کے لوگوں کی نمائندگی اور ان‬
‫کے داخلی اور طبقاتی افراد ہے بیرونی معامالت‪ .‬اس کے بیشتر کردار‬
‫کسی نہ کسی اور غیر مہذب معاشرے کے پسے ہوئے لوگ ہیں۔ ان میں‬
‫بے گناہی ہے انہیں‪ .‬یہ سب ایک خراب نظام کے ظلم کے شکار ہیں‬
‫اور ان سے پناہ لینے کے لئے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں ظلم‬
‫انہوں نے دانشمندی کے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش کی ہے‬
‫عنصر وہ اپنی عام روایت کو پوری قوت کے ساتھ‬
‫پیش کرنے کے قابل ہے۔ اس کے انداز کا کمال اس‬
‫قدر ہے کہ میں‬
‫آسان ہونے کے باوجود؛ وہ زندگی کی پیچیدہ‬
‫حقائق کا اظہار کرسکتا ہے۔ جدید مختصر‬
‫کہانیوں کے گہرے مطالعے کے باوجود بھی‬
‫کسی بھی دوسری چیز سے اس کی تخلیقی نوعیت کو‬
‫متاثر کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ لیکن وہ اپنی‬
‫ذہنی صالحیت کے مطابق رکھتا ہے‬
‫اس کی مختصر کہانیوں میں زندگی کے واقعات۔ ان‬
‫کی مختصر کہانیوں کے کرداروں کے عنوانات سب‬
‫اسی کے مطابق ہیں‬
‫فطرت اور انداز وہ سیدھی بات کرنے پر مائل‬
‫ہے۔ اس بات کا اظہار ان کا بعض اوقات ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫چمکتے اور اہم لوگوں میں غالم عباس کا نام‬
‫اردو مختصر کہانی کی روایت میں ہمیشہ چمکتا‬
‫رہے گا‬
‫اس کے انفرادی طرز ‪ ،‬فطرت ‪ ،‬زبان اور بیان کے‬
‫نام۔ انہوں نے مختصر کے میدان میں ایک عمدہ‬
‫کمال حاصل کیا‬
‫کہانی ‪ ،‬اس کی عظمت بصیرت ‪ ،‬صبر ‪ ،‬اور نرمی‬
‫کی وجہ سے‪ .‬اور وقار کے ساتھ ساتھ اس کے لئے‬
‫ان میں زبردست مہارت حاصل ہے‬
‫فنکارانہ امکانات سے ربط۔ اس سلسلے میں اس کا‬
‫انفرادی انداز سب سے زیادہ مددگار رہا ہے۔ کا‬
‫معجزہ‬
‫غالم عباس کا فنکارانہ کمال اور انداز ان کی‬
‫مختصر کہانی ‘آنندی’ (عباس جی۔ ‪ )1980 ،‬میں ‪،‬‬
‫یہ ایک سادہ اور صاف ستھرا ہے‬
‫کہانی لیکن اس کے موضوع اور تکنیک کے پیش نظر‬
‫بہت سارے پہلو ہیں۔ غالم عباس ڈبل کو آگے الیا‬
‫ہے‬
‫اس کہانی میں معاشرے کے معیارات بہت فن پارے۔‬
‫وہ کسی کہانی کو بغیر کسی ردوبدل کے سیدھا‬
‫سنا رہا ہے لیکن اس کی‬
‫پس منظر میں انسان کے خیاالت کے اوپر حیرت‬
‫انگیز منظر دکھاتا ہے۔ حیرت انگیز ماحول میں‬
‫اس کا دماغ جا رہا ہے‬
‫نامعلوم کونے وہ ہمارے معاشرے کو طنزیہ انداز‬
‫میں طنز کرتا ہے اور اس کے مختصر آنے کی‬
‫وضاحت کرتا ہے لیکن ان کی تفصیل نہیں دیتا ہے‬
‫مکمل طور پر اس صورتحال نے اس کی مختصر کہانی‬
‫کو مختصر کہانی تحریر کا ایک اہم ٹکڑا بنا‬
‫دیا ہے۔ بہت سارے پہلوؤں کو جھانکتے ہوئے‬
‫دیکھا جاتا ہے‬
‫ہر جملے سے کہیں طنز ہے ‪ ،‬کہیں اداسی ہے اور‬
‫فطرت کی ستم ظریفی بھی ہے۔‬
‫کچھ مقامات پر انسانی فطرت کی بے بسی کا‬
‫اظہار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی مختصر‬
‫کہانیوں میں ترتیب سے یہ سب ظاہر کیا ہے‬
‫ان تمام پہلوؤں کو پیش کرنے کے لئے ‪ ،‬شدت کے‬
‫بجائے ‪ ،‬تعلیم اور انتہا پسندی نے نرمی اور‬
‫نرمی کا استعمال کیا ‪ ،‬جس کے لئے‬
‫غالم عباس کی پہچان ہے‬
‫تفصیل سے لکھنے کا فن غالم عباس کو بہت پیارا‬
‫ہے۔ اس فن کی مدد سے وہ کہانی کو مزید دلچسپ‬
‫بنا دیتا ہے‬
‫اور زیادہ حقیقی۔ ’آنندی‘ ‪‘ ،‬اوور کوٹ’ اور‬
‫‘کتبہ’ میں ان تفصیالت کی کثرت ہے جو مکمل‬
‫کرتی ہے‬
‫کہانی کا تاثر اور خیال۔ غالم عباس اس کے ساتھ‬
‫مختصر کہانی کے مرکزی خیال کو ظاہری طور پر‬
‫مضبوط کرتا ہے‬
‫’اوور کوٹ‘ میں عام تفصیالت میں مدد۔ مال روڈ‬
‫پر چلنے واال نوجوان کسی خاص طریقے کی‬
‫نمائندگی کرتا ہے‬
‫زندہ‪ .‬اسی طرح سے ’کتبہ‘ میں کلرک ایک ایسے‬
‫طبقے کی نمائندگی کرتا ہے جو ہمارے درمیان‬
‫موجود ہے لیکن ہم ان سے العلم ہیں‬
‫درد ‪ ،‬خواہشات اور سانحات۔ وہ آہستہ آہستہ‬
‫زندگی کی خواہش کھو رہے ہیں۔ اس طرح ہر تفصیل‬
‫بیان کرکے‬
‫غالم عباس نے ہر طبقے کو بیان کیا۔ تو وہ ہمیں‬
‫زندگی کا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ ‘اوور کوٹ’ میں‬
‫نہ صرف نوجوان اندر آیا‬
‫ننگا لیکن ساری نوکری اور غریب معاشرے جو محض‬
‫پیش پیش رہتے ہیں ہمارے سامنے گردن ہوجاتے‬
‫ہیں‬
‫آنکھیں ظاہری طور پر صاف ستھرا کپڑے سے ‪،‬‬
‫زندگی کے چیتھڑے پائے جاتے ہیں اور جہاں ایک‬
‫سوگوار غالم عباس ہے‬
‫عصری نقادوں نے غالم عباس کو عام آدمی کا‬
‫کہانی مصنف کہا ہے۔ اس نے کہانیاں لکھی ہیں‬
‫عام لوگوں کی۔ غالم عباس کی مختصر کہانیوں کے‬
‫کردار عام لوگ ہیں۔ وہ زندہ ہیں‬
‫ہم سب کی زندگی کے لوگ جو متوسط طبقے سے تعلق‬
‫رکھتے ہیں۔ مزدور طبقے کے لوگ بھی وہاں موجود‬
‫ہیں۔ اس میں‬
‫کرداروں میں مختلف لوگ ‪ ،‬کلرکس ‪ ،‬دکاندار ‪،‬‬
‫صاف کرنے والے ‪ ،‬موسیقار اور بے روزگار افراد‬
‫موجود ہیں۔ غالم عباس ہے‬
‫حقیقتوں کے انداز میں دکھوں اور پریشانیوں کو‬
‫بڑی کامیابی کے ساتھ منعکس کیا (عالم خان ‪،‬‬
‫غالم عباس اپنے کرداروں سے فاصلے بڑھاتے رہتے‬
‫ہیں۔ وہ عام طور پر پوری زندگی پر ایک نظر‬
‫ڈالتا ہے لیکن اس کی‬
‫خاص نظر معاشرے کے عام لوگوں کے لئے ہے جو‬
‫عام نہیں ہیں لیکن ان کی پریشانیوں نے ان کو‬
‫بنا دیا ہے‬
‫عام کہا جاتا ہے کہ وہ نچلے طبقے کی نمائندگی‬
‫کرنے والے نچلے شخص کا قصہ لکھنے واال ہے ‪ ،‬ہم‬
‫ان سے ہر ایک کو ملتے ہیں‬
‫دن لیکن ہم اس میں موجود غم سے واقف نہیں‬
‫ہیں۔ اس کے خواب ہمارے سامنے نہیں ہیں لیکن‬
‫یہ عام آدمی بہت ہے‬
‫غالم عباس کے لئے اہم ہے۔ وہ اس کا پیچھا کرتا‬
‫ہے۔ وہ زندگی کے ہر کونے پر جاتا ہے جہاں وہ‬
‫عام آدمی موجود ہوتا ہے۔‬
‫چونکہ غالم عباس بنیادی طور پر ایک حقیقت پسند‬
‫مصنف ہیں ‪ ،‬لہذا وہ اپنی کہانیوں کے لئے‬
‫مختلف گوشوں سے مواد جمع کرتا ہے‬
‫زندگی جہاں لوگوں کو مختلف شکلوں میں مشکالت‬
‫کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ غالم کی مختصر سیریٹس‬
‫میں ایک شخص کا مطالعہ ہے‬
‫عباس۔اس طرح کی اکثر چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں‬
‫اس شخص کا کسی نہ کسی سطح پر مطالعہ کیا گیا‬
‫ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام‬
‫صرف غالم عباس نے کیا ہے اور دیگر مختصر کہانی‬
‫لکھنے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا۔ لیکن اس‬
‫ضمن میں اس کی بصیرت‬
‫اور ذہانت اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے‬
‫کیونکہ وہ زندگی کو ایک خاص نقطہ نظر کے ساتھ‬
‫نہیں دیکھتا ہے‬
‫لیکن وہ وسیع پس منظر میں زندگی پر طنز کرتا‬
‫ہے۔ یہ ایک خاص چیز ہے کہ وہ عام آدمی کو‬
‫چھوٹا بنا کر متاثر ہوتا ہے‬
‫غالم عباس کے ثانوی کردار ایک عام انداز میں‬
‫عام آدمی کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے کردار‬
‫آگے بڑھ جاتے ہیں‬
‫ایک لمحے میں اسکرین ان کی محرومی کی تصویر‬
‫دکھاتی ہے۔ کردار واقعی کے نمائندے ہیں‬
‫عام آدمی‪ .‬عملی زندگی میں بھی انسان اسی‬
‫نوعیت کے حاالت کا شکار ہے۔ اس کا وجود نہیں‬
‫ہے‬
‫داخل کیا۔ معاشرہ ‪ ،‬اس کے پاس سے گزرتا ہے‬
‫اور اسے نوٹس نہیں کرتا ہے۔ غالم عباس ہماری‬
‫نظروں کے سامنے آگے آئے ہیں‬
‫مختلف کالسوں کے چھوٹے چھوٹے کردار اور یہ‬
‫زندگی کے ایک منٹ کے مشاہدے کے بغیر ممکن‬
‫نہیں (اختر ‪،‬‬
‫‪)1991‬۔‬
‫غالم عباس اپنی مختصر کہانیوں میں زندگی کے‬
‫مختلف مقامات کو اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ اس کے‬
‫تمام رنگوں کی زندگی ہے‬
‫اس کے مردوں میں موجود ہے۔ ہر دوسرے بڑے‬
‫فنکار کی طرح ان کی تصانیف میں بھی زندگی کے‬
‫کچھ خاص پہلوؤں پر توجہ دی جارہی ہے۔ وہاں‬
‫زندگی کے ہر پہلو پر خصوصی توجہ ہے۔ وہ عام‬
‫آدمی کی محرومیوں کو اپنا خاص عنوان بناتا‬
‫ہے۔ بہت اچھا ہے‬
‫غالم عباس کی مختصر کہانیوں میں موضوعات کے‬
‫حوالے سے متنوع۔ انہوں نے غیر مستحکم کی‬
‫تصاویر بھی کھینچی ہیں‬
‫معاشرے اور اس کے اقدار کا نظام۔ اس نے اس‬
‫معاشرے کے مختلف طبقات کی نقل و حرکت کو نقاب‬
‫کشائی کی ہے۔ اس کے پاس ہے‬
‫ان کی خصوصیات ‪ ،‬ان کی برائیوں اور نظریات‬
‫اور نظریات کی بھی وضاحت کی۔ انہوں نے کی‬
‫نفسیاتی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے‬
‫ان لوگوں نے اور اجتماعی طور پر اپنے ارد گرد‬
‫اور ماحول کے گراف کھینچ لئے جو رب نے قائم‬
‫کیا ہے‬
‫اس معاشرے کے لوگوں کی تحریک اور خاص طور پر‬
‫ذہنی اور جذباتی مائالت۔ اگر اس میں دیکھا‬
‫جائے‬
‫پس منظر میں غالم عباس کی مختصر کہانیاں ان کے‬
‫ذہنی ‪ ،‬جذباتی اور معاشرتی رویوں کی عکاس ہیں‬
‫نصف صدی کے اس معاشرے کے لوگ۔ معاشرے کی اس‬
‫صورتحال اور حقیقی تاریخ کو خداوند متعال بھی‬
‫پیش نہیں کرسکتا ہے‬
‫تہذیب اور معاشرتی علوم کے بارے میں علمی‬
‫کتابیں جس میں غالم عباس نے انجام دیا ہے۔ یہ‬
‫ایک بہت اچھا ہے‬
‫وہ چیز جو معاشرے کی نمائندگی کرتی ہے وہ‬
‫اپنی راہوں میں ایک عالمی رنگ پیدا کرتا ہے۔‬
‫یہ انسانی زندگی کا المیہ ہے کہ کوئی وقت روک‬
‫نہیں سکتا۔ جوان عمر بڑھاپے میں بدل جاتی‬
‫ہے ‪ ،‬خواہشات اور خواہشات مر جاتی ہیں‬
‫وقت سے پہلے شرافت کو برائی کا سامنا کرنا‬
‫پڑتا ہے اور زندگی کے مقدس جذبات کو خوابوں‬
‫میں تبدیل کردیا جاتا ہے۔ مدت‬
‫جس میں غالم عباس نے اپنی مختصر کہانی تحریر‬
‫کا آغاز ترقی پسند تحریک کا دور تھا۔ مختصر‬
‫تھا‬
‫سیاسی موضوعات پر کہانی تحریر۔ مختصر کہانی‬
‫لکھنے میں سیاسی اور معاشرتی بصیرت بھی پیدا‬
‫ہوگئی تھی۔ یہ ہے‬
‫غالم عباس کے فن کا کمال کہ وہ مروجہ موضوعات‬
‫پر عمل نہیں کرتا تھا۔ لیکن اس نے ایک نیا‬
‫انداز پیدا کیا اور‬
‫عنوانات کے حوالے سے طریقہ۔ لیکن ایک حساس‬
‫فنکار اپنے وقت کے سیاسی حاالت سے العلم نہیں‬
‫رہ سکتا۔ وہ‬
‫اس کا اظہار کسی بھی سطح پر کرتا ہے۔ جیسا کہ‬
‫سیاسی حاالت انسانی زندگی کو گہرائی سے متاثر‬
‫کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ بھی انسان‬
‫تبدیلیاں انسانی حاالت میں ہوتی ہیں‬
‫غالم عباس اقدار اور معیار کے مختصر افسانوں‬
‫کے مصنف ہیں۔ وہ کبھی نیچے نہیں گرتا ‪ ،‬کبھی‬
‫بھٹکتا نہیں ‪ ،‬وہ کبھی نہیں‬
‫غلطیاں کرتا ہے۔ وہ کسی بھی ناانصافی سے‬
‫التعلق نہیں رہ سکتا۔ وہ تعمیری نوعیت کا ایک‬
‫مختصر قصہ لکھنے واال ہے۔‬
‫وہ‬
‫اظہار کرنے کے لئے ایک بہت واضح سوچ ہے وہ‬
‫شدت سے اور انتہائی کام کرتا ہے۔ اسے بے بسی‬
‫کا گہرا احساس ہے‬
‫لوگوں کے‪ .‬انہوں نے لوگوں کو ان کی غلطیوں‬
‫اور جرائم پر معاف کیا۔ وہ سوچتا ہے کہ اس‬
‫آدمی کا ارتکاب کرنے میں ہے‬
‫مخصوص حاالت کا چنگل۔ واقعات اور حادثات اسے‬
‫اپنی منزل سے دور کرتے ہیں۔ غالم عباس ہے‬
‫عورت کے مسائل ‪ ،‬اس پر ہونے والے ظلم اور اس‬
‫کے جنسی استحصال کو اس کی مختصر کہانیوں کا‬
‫موضوع بنادیا۔ غالم‬
‫عباس نے خواتین کے بہت سے نفسیاتی مسائل پر‬
‫تبادلہ خیال کیا ہے۔ خواتین کا تذکرہ صرف‬
‫بیرونی سطح پر ہے۔ یہ ہے‬
‫شاید وہ ان خواتین اور کوڑے کو نہیں سمجھتا‬
‫جن کی تفہیم الزمی نہیں ہے۔ وہ اسے ایک کے طور‬
‫پر لیتا ہے‬
‫چیلنج‬
‫غالم عباس کا دور ‪ ،‬جب ’انگارے‘ جیسی مختصر‬
‫کہانیوں اور ترقی پسند تحریک نے حوصلہ افزائی‬
‫کی تھی‬
‫خواتین کے بارے میں ڈھٹائی کے ساتھ اپنے فن‬
‫کا اظہار کرنے کے لئے فنکار ‪ ،‬وہ خواتین کے‬
‫بارے میں بہت محتاط نظر آتا ہے۔ اس کی عورت‬
‫چھوٹی کہانیاں طوائف ہونے کے باوجود کسی‬
‫طوائف کی حیثیت سے نہیں لگتی ہیں۔ شاید وہ اس‬
‫کی قابلیت کو برقرار نہیں رکھتا ہے‬
‫عورت کے اندر جھانکنا یا روایتی عظیم سلوک اس‬
‫سلسلے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ کی دنیا‬
‫غالم عباس کے کردار بنیادی طور پر انسان کی‬
‫دنیا ہے۔‬
‫غالم عباس کے کرداروں کی دنیا در حقیقت عام‬
‫لوگوں کی دنیا ہے۔ اور عام لوگ ہیں‬
‫عام طور پر تعداد میں زیادہ وہ زندگی جو غالم‬
‫عباس کی مختصر کہانیوں کا موضوع ہے ‪ ،‬عام‬
‫زندگی ہے‬
‫وہ لوگ جو خاموشی اور خفیہ طور پر زندگی‬
‫گزارتے ہیں۔ معاشرہ ان کا وجود تسلیم کرنے سے‬
‫قاصر ہے۔ انہیں کوئی نہیں دیکھتا ہے‬
‫دنیا میں چل رہا ہے۔ ان کو کوئی نوٹس نہیں‬
‫دیتا۔ کوئی ان سے محبت نہیں کرتا ہے۔ غالم‬
‫عباس کے قریب قریب تمام کردار ان میں ہیں‬
‫زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی عادت اور ان‬
‫کے وجود کے ل ‪ necessary‬زندگی کے ساتھ ہم آہنگی‬
‫برقرار رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس میں‬
‫مختصر کہانیاں ‪ ،‬ثانوی کردار ‪ ،‬جو زندگی کا‬
‫مکمل میلہ بناتے ہیں بہت سارے لوگ ‪ ،‬جو آتے‬
‫اور جاتے ہیں‬
‫غالم عباس کا براہ راست مطالعہ ان کی مختصر‬
‫کہانیاں سے عیاں ہے۔ وہ ہر اس آدمی کا چہرہ‬
‫پڑھنے کا فن جانتا ہے جو‬
‫بے قیمت اور انمول ہے لیکن وہ عزت کا مستحق‬
‫ہے۔ وہ زندگی کی خوبصورتی سے دور ہے۔ لیکن وہ‬
‫یقینا واقف ہے‬
‫زندگی کی خوبصورتی کے ساتھ وہ زندگی کی اقدار‬
‫کو اپنانے کے خواہاں ہے لیکن اس کی معاشرتی‬
‫حیثیت اس کی راہ میں سب سے اونچی دیوار ہے۔‬
‫فن اور موضوع کے حوالے سے ‪ ،‬غالم عباس کی‬
‫مختصر کہانی لکھنے میں پختگی ہے۔ اس نے تعارف‬
‫کرایا ہے‬
‫اس کی مختصر کہانیوں میں نرمی اور نرمی۔ اس‬
‫کے پالٹ سادہ لیکن زندگی سے بھرے ہیں۔ اس کا‬
‫انداز متاثر کن اور اس کے مطابق ہے‬
‫واقعات اور کرداروں کو اس کے عنوانات عام‬
‫انسانی زندگی سے وابستہ ہیں۔ معاشرتی حقائق‬
‫اس کے مختصر سے واضح ہیں‬
‫کہانیاں معاشرے کے دوہرے معیار پیش کرتے ہوئے‬
‫وہ ان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔‬
‫قصے کو آخر میں جو طرفہ پیچ دیا گیا ہے اس سے موپساں اور اوہنری کی‬
‫یاد تازہ ہوتی ہے۔ فلیش بیک میں تکیے کی جو عکاسی ہے اس سے کہیں‬
‫کہیں چیخوف کی ہنر مندی جھلکتی ہے۔ ان تینوں لکھنے والوں کے مرتبے‬
‫یکساں نہ سہی‪ ،‬انہیں پڑھ کر بہت سوں نے افسانہ لکھنا سیکھا ہے۔‬

‫ناولٹ ختم ہونے پر یہ خیال ضرور آتا ہے کہ راوی کے اچانک قصبے سے فراز‬
‫اور بدیس جابسنے کے پیچھے کوئی اور جذبہ چھپا ہوا نہ ہو۔ شاید محبت‬
‫کرنے اور محبت کو سنبھالنے سے کسی سطح پر خوف زرگی نے اسے اپنا‬
‫بوجھ کسی اور کے کندھوں پر منتقل کرنے پر اکسایا ہو۔ ذمے داری ہر فرد‬
‫خوشی سے قبول نہیں کرتا۔ اس طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں‬

‫کہہ سکتے کہ مصنف کا درپردہ منشا یہی ہو گا۔اُن تخلیقی توفیقات کا‬
‫اندازہ کیے ماجرا نویسوں کو محبوب ہو جانے والی حقیقت نگاری‬
‫سے مختلف اور نمایاں کرتے چلے گئے ہیں‪ ،‬اس باکمال افسانہ‬
‫نگار کو ڈھنگ سے سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ جی‪،‬میں غالم عباس‬
‫کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے ‪۱۹۳۹‬ء میں ’’آنندی‘‘ لکھ کر‬
‫ادبی دنیا میں ایک تہلکہ سا مچا دیا تھا۔ سب حیرت سے اس‬
‫افسانے کو دیکھتے تھے‪ ،‬اچھا یوں بھی افسانہ لکھا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫کہ اس کا کوئی ایک مرکزی کردار نہ ہو‪ ،‬کوئی ہیرو ہو نہ اینٹی‬
‫ہیرو‪ ،‬سب کچھ منظر ہو کر یوں کا غذ پر اترے کہ وقت پہلو بدلنا‬
‫بھول جائے۔ وہ جو اِن کے قلم کے بارے میں کہا گیا کہ وہ نرم رو‬
‫اور سبک سیر تھا تو اس کا سب سے کامیاب مظاہرہ اسی افسانے‬
‫میں ہوا تھا۔ خود غالم عباس کو بھی یہ افسانہ لکھتے ہی احساس‬
‫ہو گیا تھا کہ ایک مصنف کی حیثیت سے ان کی زندگی میں ایک‬
‫بہت بڑا موڑ آچکا تھا۔ انہوں نے بہت پہلے بچوں کے لیے کہانیاں‬
‫اور نظمیں لکھنا شروع کر دی تھیں‪ ،‬تراجم کیے اور ماخوذ‬
‫کہانیاں بھی دیں‪ ،‬افسانے بھی لکھے مگر جب پہلی بار ان کے‬
‫افسانوں کا مجموعہ چھپا تو اس کا نام ’’آنندی‘‘تھا؛ جی اس‬
‫افسانے کے نام پر‪ ،‬جسے لکھ کر انہوں نے خود کو ایک تخلیق‬
‫کار کے طور پر شناخت کیا اور جو ان کے فن کو عجب طرح کی‬
‫توقیر دے گیا تھا۔ غالم عباس نے اس مجموعے کے بارے میں‬
‫لکھ رکھا ہے‪ ’’ :‬یہ افسانے میں نے دلّی میں ‪۱۹۳۹‬ء سے لے کر‬
‫‪۱۹۴۷‬ء تک کے وقفوں میں لکھے۔‘‘ یہیں انہوں نے یہ بھی‬
‫بتایاہے کہ انہوں نے ‪۱۹۳۹‬ء سے پہلے بھی متعدد افسانے لکھے‪،‬‬
‫مگراپنی تصنیفی زندگی کوایک خاص سال سے اہم سمجھنے کی‬
‫وجہ کچھ اور نہیں ’’ آنندی ‘‘ جیسا شاہکار افسانہ ہے۔‬
‫عین آغاز ہی میں ’’آنندی ‘‘ کا ذکر لے آیا ہوں تو اس کا سبب یہ‬
‫ہے کہ غالم عباس کی تخلیقی شخصیت محض اس ایک افسانے‬
‫کے منہا کرنے سے وہ رہتی ہی نہیں جو اِس افسانے کو تصور‬
‫میں التے ہی بن جاتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غالم‬
‫عباس کے پاس اور کامیاب افسانے نہیں ہیں۔ اوور کوٹ‪ ،‬فینسی‬
‫ہیئر کٹنگ سیلون‪ ،‬ہمسائے‪ ،‬کتبہ‪ ،‬اُس کی بیوی‪ ،‬بامبے واال‪ ،‬کن‬
‫رس‪ ،‬دھنک ۔۔۔ پڑھتے جائیے اور مختلف لطف واال بیانیہ آپ کو‬
‫زیادہ ُدور نہیں جانے دے گا‪ ،‬باندھ کر کہانی کے آخر تک لے‬
‫جائے گا۔ میں نے کئی ماجرانویسوں کو بڑی بڑی ہانکتے سنا ہے‬
‫مگر انہیں پڑھ جائے تو شروع سے آخر تک انہیں کہانی کہتے‬
‫ہوئے اپنے بیان کو تخلیقی بیانیے میں ڈھال‪ z‬لینے کی توفیق نہیں‬
‫ہوتی۔ بس واقعہ واقعہ اور واقعہ‪ ،‬جولکھنے والے کے اعصاب پر‬
‫سوار رہتا ہے وہی وہ اپنے قاری کے اعصاب پر بھی سوار کر‬
‫دیتے ہیں۔ غالم عباس کی حقیقت نگاری کی کوئی نسبت ایسے بے‬
‫توفیقوں سے ہے ہی نہیں۔ ذرا دیکھئے وہ پورے منظر کو اور‬
‫پورے ماحول کو اپنے بیانیے میں کیسے مختلف کر رہے ہیں‪:‬‬
‫’’یہ چھوٹا سا کمرہ اپنی ہلکی نیلی روشنی کے ساتھ باہر سے یوں‬
‫دکھائی دیتا‪ ،‬گویا ٹرین کا کوئی ٹھنڈا ڈبہ ہے۔‘‘(‪)۱‬‬
‫’’وہ (بدلیاں) ُدور تک ایک کے پیچھے ایک اس طرح دکھائی دے‬
‫رہی تھیں جیسے شرمیلی لڑکیاں بڑی عمر کی لڑکیوں کی اوٹ‬
‫لے کر جھانک رہی ہوں۔‘‘(‪)۲‬‬
‫’’وہ سارے دارالسلطنت میں اس طرح گھوم گیا جس طرح کوئی‬
‫ُدور دراز ملک کا رہنے واال منچال سیاح تھوڑے سے وقت میں‬
‫کسی مشہور تاریخی شہر کا ایک ایک بازار کو دیکھنا اور ایک‬
‫ایک سڑک پر سے گزرنا اپنے اوپر فرض کر لیتا ہے۔‘‘(‪)۳‬‬
‫تو یوں ہے صاحب ‪ ،‬کہ ٹھہر ٹھہر کر لکھنا اور اپنے تجربے کی‬
‫تازگی‪ ،‬مشاہدے کی گہرائی اور انوکھے تخیل کو تخلیقی کٹھالی‬
‫میں ڈال کر‪ ،‬پگھال کر‪ ،‬ڈھال کر‪ ،‬سہار سہار کر لکھنا غالم عباس‬
‫نے اپنے اوپر فرض کر لیا تھا۔ چونکائے بغیر‪ ،‬واقعات میں اُتھل‬
‫پتھل کیے بغیر‪ ،‬زندگی کو یوں لکھنا جیسی وہ تھی‪ ،‬مگر اُسے‬
‫یوں لکھ دینا کہ عین مین ویسی نہ رہے جیسی وہ تھی۔‬
‫‪۱۹۰۹‬ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے غالم عباس کی زندگی‬
‫کا وہ دورانیہ جو ‪۱۹۳۹‬ء سے پہلے کا تھا‪ ،‬ایک تخلیق کار کی‬
‫حیثیت سے چاہے غالم عباس کے لیے اہم نہ ہو‪ ،‬ان کی تخلیقی‬
‫زندگی میں بعد میں یوں ظاہر ہوا کہ ان کے فکشن کے لیے بہت‬
‫اہم ہو گیا ہے۔ ابھی وہ شیر خوار تھے کہ ان کا باپ مر گیا۔ ماں‬
‫نے دوسری شادی کی اور ابھی نو سال کے ہی تھے کہ ایک بار‬
‫پھر یتیم ہو گئے۔ چار سال کے ہوئے تو امرتسر سے الہور آگئے۔‬
‫ماں نانی اور نانی کی بہن‪ ،‬یہیں بھاٹی گیٹ کے قریب ایک مکان‬
‫میں رہے۔ کمانے واال کوئی نہ تھا‪ ،‬ماں نے پان سگریٹ اور‬
‫مٹھائی کی چھوٹی سی دکان بنا لی‪ ،‬ذوق عمدہ تھا ناول وغیرہ‬
‫پڑھتی رہتی تھیں۔ یہ پڑھنا غالم عباس نے ماں سے لیا۔ چھوٹی‬
‫عمر میں ماں نے انہیں امام حسین علیہ السالم کا ملنگ بنا کر در‬
‫در کا منگتا بھی بنایا تھا‪ ،‬اس سے ان کا مزاج بہت کچھ سہہ لینے‬
‫پر قادر ہوا۔ نویں جماعت میں تھے کہ انگریزی نظموں اور‬
‫کہانیوں کا ترجمہ کرنے لگے اور معاوضہ ملنے لگا‪ ،‬گویا ماں‬
‫کے معاون ہو گئے۔ اسی زمانے میں ان کی مالقاتیں عبد الرحمن‬
‫چغتائی ‪،‬ڈاکٹر تاثیر اور نیرنگ خیال والے حکیم یوسف حسن سے‬
‫ہوئیں کہ وہ سب وہاں ایک پان والی دکان پر اکٹھے ہوتے تھے۔‬
‫نویں پاس نہ کر سکے تو سکول سے اُٹھوا لیا گیا۔ سوچا کیا کر‬
‫سکتے ہیں‪ ،‬موسیقی سیکھنے کی طرف نکل گئے۔ بعد میں پڑھا‬
‫بھی اور بہت کچھ حاصل بھی کیا مگر زندگی کا یہ دورانیہ ان‬
‫کے افسانوں میں بار بار ظاہر ہواہے۔ یہ زمانہ بھی‪ ،‬اور وہ زمانہ‬
‫بھی کہ جب وہ آل انڈیا ریڈیو کے رسالے ’’آواز‘‘ کے ایڈیٹر‬
‫تھے۔ اور ان کا دفتر پرانی دلّی کے علی پور روڈ پر واقع تھا اور‬
‫گھر نئی دلّی کی ایک لین میں‪ ،‬یعنی شہر کے دوسرے سرے پر۔‬
‫تو جو کچھ اُن پر بیتا اور جو کچھ انہوں نے دیکھا‪ ،‬جو کچھ انہوں‬
‫نے سہا اور جس کا اُنہوں نے تخیل باندھا وہ اُن کی زندگی سے‬
‫کٹا ہوا نہیں تھا۔ مثالً دیکھیے کہ تیس روپے ماہانہ کی مالزمت کا‬
‫وہ تجربہ جو انہوں نے اسٹیشن کے مال گودام پر حاصل کیا تھا‪،‬‬
‫’’فینسی ہیئر کٹنگ سیلون‘‘ اور’’ چکر‘‘ لکھتے ہوئے یاد آ جاتا‬
‫ہے۔ ’’تنکے کا سہارا‘‘ لکھتے ہوئے وہ اپنے یتیم ہونے کے‬
‫‪،‬حتی کہ ’’آنندی‘‘‪ z‬اور ’’سایہ‘‘‬
‫ٰ‬ ‫تجربے سے جڑ رہے ہوتے ہیں‬
‫میں پان والی دکان کو اس پان والی دکان سے الگ کرکے کیوں‬
‫کر دیکھا جاسکتا ہے ‪ ،‬جس کا ذکر اُن کی ماں کے حوالے سے‬
‫اوپر ہو چکا۔(‪)۴‬‬
‫دلّی میں قیام کا زمانہ تو ان کے کامیاب افسانوں کے ریشے‬
‫ریشے میں بسا ہو ا ِدکھتا ہے۔ بات ’’آنندی‘‘ سے شروع ہوئی‬
‫تھی‪ ،‬تو اسی کا قصہ خود غالم عباس کی زبان سے سنیے۔ انہوں‬
‫نے بتارکھا ہے کہ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے کچھ‬
‫ہفتے پہلے‪ ،‬انہوں نے یہ افسانہ لکھا تھا۔ ان دنوں وہ دلّی میں تھے‬
‫اور وہاں کے مشہور بازار چاوڑی کو طوائفوں سے خالی کرا‬
‫کے انہیں شہر سے باہر دھکیل دیا گیا تھا۔ جس سڑک پر ان زنان‬
‫بازاری کو منتقل کیا گیا وہ غیر آباد تھی۔ سڑک کے دونوں طرف‬
‫چوں کہ خالی زمین پڑی تھی‪ ،‬اس لیے دلّی کے شرفا کے لیے‬
‫کم’’ خلل رساں ‘‘ سمجھ کر میونسپل کمیٹی نے اسے طوائفوں کو‬
‫االٹ کر دیا گیا تھا۔ غالم عباس دفتر آتے جاتے وہاں سے گزرتے‬
‫تھے اور دیکھ رہے تھے کہ پہلے پہل تو ہفتوں زمین ویسے ہی‬
‫بے آباد پڑی رہی پھر اس نے انگڑائی لی راج مزدور آگئے اور‬
‫جوش تعمیر جنوں کی حدوں کو چھونے لگا۔ یہی تجربہ ’آنندی‘‬
‫میں ہے مگر محض یہ مشاہدہ اس افسانے میں نہیں اور بھی بہت‬
‫کچھ ہے ‪ ،‬ایسا کہ جسے شاید سہولت سے بیان ہی نہیں کیا جا‬
‫سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس افسانے کاآغاز بلدیہ کے اجالس کی‬
‫کارروائی کی رپورٹنگ سے ہوتا ہے۔ اس اجالس میں زندگی کے‬
‫مختلف شعبوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے زنان بازاری‬
‫کو شہر بدر کیے جانے کے حق میں اپنے اپنے دالئل دے رہے‬
‫ہیں۔ سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ان کا وجود انسانیت‪ ،‬شرافت اور‬
‫تہذیب کے دامن پر بدنما داغ ہے۔ یہیں بیانیہ ہم پر بازار کی‬
‫تجارتی اہمیت اُجاگر کرتا ہے اور مختلف سطحوں پر اس بازار‬
‫کے عام زندگی میں دخیل ہونے کی صورتوں کو سامنے التا ہے۔‬
‫افسانہ ہمیں باور کرا دیتا ہے کہ نئی زندگی کے مرکز میں بازار‬
‫ہے۔ اسی سے نہ صرف سب مردوں کو‪ ،‬ان کی بہو بیٹیوں کو بھی‬
‫گزرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں جاری بحث کا خالصہ یہ بنتا ہے کہ‬
‫شریف زادیاں جب آبرو باختہ‪ ،‬نیم عریاں بیسواؤں کا بناؤ سنگھار‬
‫دیکھتی ہیں تو غریب شوہروں سے فرمائشیں کرتی ہیں۔ طبلے کی‬
‫تھاپ سے زندگی کا وہ بے ہنگم پن خطرے میں پڑ جاتا ہے‪ ،‬جس‬
‫کے وہ عادی ہیں۔ یہیں ایک پنشن یافتہ معمر رُکن کی آواز‬
‫بھراتے دکھایا گیا ہے جس کا مکان بازار کے وسط میں تھا‪ ،‬اور‬
‫کسی ُرکن سے یہ سوال بھی پچھوا لیا گیا ہے کہ آخر یہ طوائفیں‬
‫شادی کیوں نہیں کر لیتیں؟ اس کا جواب سماج کی طرف سے فقط‬
‫ایک قہقہہ ہے۔ جی‪ ،‬یہ افسانے میں بتا دیا گیا ہے۔(‪)۵‬‬
‫بتا چکا ہوں کہ افسانے میں بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو غالم عباس‬
‫نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ بازاری عورتوں کے مکانات‬
‫خرید کر اُنہیں شہر سے چھ کوس باہر ایک ویرانہ االٹ کر دیا‬
‫جانا۔ غالم عباس کا قلم یہاں جادو دکھاتا ہے اور زندگی کی تفہیم‬
‫کرتے ہوئے‪ ،‬جنس کو زندگی کے عین وسط میں متعین کر دیتا‬
‫حتی کہ ادبدا کر پھر سے آدمی اس جنس کو آالئش سمجھتے‬
‫ہے ٰ‬
‫ہوئے اپنی زندگی‪ ،‬کہہ لیجئے سو کالڈ پاکیزہ زندگی سے کاٹ کر‬
‫ُد ور پھینکنے کے جتن کرنے لگتا ہے۔ اس افسانے کو پڑھتے‬
‫ہوئے آج کے کارپوریٹ اداروں کی باالدستی کے عہد میں عورت‬
‫کا پراڈکٹ بن جانا بھی سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ اگر افسانہ یہ بتا‬
‫رہا ہے کہ پانسو بیسواؤں میں سے چودہ ایسی تھی کہ خوب‬
‫مالدار تھیں اور انہوں نے مکانات بنوانا شروع کر دیے تھے تو‬
‫ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ ان بیسواؤں کو کس کی‬
‫سرپرستی حاصل تھی‪ ،‬گویا سرمایہ بیسوؤں پر سرمایہ کاری کر‬
‫رہا تھا۔ اچھا یہ بھی دیکھئے کہ تعمیر کو مزدور‪ ،‬معمار تو آنے‬
‫ہی تھے مگر حیران کن سلیقے سے غالم عباس نے بتایا ہے کہ‬
‫وہاں سب سے پہلے ہللا کا نام بلند ہوا۔ حُسن آباد ‪ ،‬جسے بعد میں‬
‫حسن آباد کا نام دینے کی کوشش کی گئی اور جس کا سرکاری نام‬
‫’’آنندی‘‘‪ z‬ہوا‪ ،‬اس میں ایک جگہ پر مسجد کے آثار تالش کر لیے‬
‫گئے‪ ،‬کنواں بحال ہوا‪ ،‬مسجد بن گئی تو اذان بھی دی گئی۔ ایک‬
‫امام کی ضرورت تھی کسی گاؤں کا مال وہاں پہنچ گیا۔ ایک‬
‫ٹوٹاپھوٹا مزار بھی وہاں مل گیا تھا۔ اس کی پھوٹی قسمت جاگ‬
‫اٹھی‪ ،‬ایک لمبا تڑنگا مست فقیر آگیا‪ ،‬پیر کڑک شاہ کی جاللی‬
‫کرامات کا ذکر ہو نے لگا۔ گویا ہللا کے نام پر حُسن آباد ‪ ،‬آباد ہو‬
‫رہا تھا۔ ایک بڑھیا ایک لڑکے کے ساتھ مسجد کے قریب ایک‬
‫درخت تلے گھٹیا سگریٹ‪ ،‬بیڑی چنے اور گڑ کی مٹھایوں کا ٹھیال‬
‫لگا کر بیٹھ گئی۔ مذہبی وسائل ‪ ،‬عورت اور پسا ہوئے سماج کے‬
‫کارکن‪ ،‬سب ہی بازار کی بھٹی کا ایندھن بننے لگے۔ بوڑھا شربت‬
‫لگا کر بیٹھ گیا‪ ،‬سری پائے واال آیا اور خربوزے وا البھی۔‬
‫خوانچے واال کبابی‪ ،‬تندور واال‪ ،‬شہر کے شوقین‪ ،‬لچے لفنگے‬
‫سب وہاں پہنچ گئے۔ رونق بڑھتی گئی‪ ،‬چھ مہینے میں چودہ مکان‬
‫بن گئے‪ ،‬ہر مکان کے نیچے چار چار دکانیں‪ ،‬بدھ کو نیاز دلوائی‬
‫گئی‪ ،‬دیگیں پکیں‪ ،‬شامیانے کرسیاں لگیں اور نیا شہر بس گیا‪،‬‬
‫بیسوائیں‪ ،‬بناؤ سنگھار رقص و سرود‪ ،‬ناز نخرے‪ ،‬شراب کی‬
‫بوتلیں۔ دکانوں پر کرائے دار آگئے۔ پہلے تھریٹکل کمپنی نے تمبو‬
‫لگائے پھر وہاں سینما بنا‪ ،‬ڈاکخانہ‪ ،‬بینک‪ ،‬اسکول‪ ،‬ریلوے‬
‫اسٹیشن‪ ،‬جیل‪ ،‬کچہری۔ تو یہ ہے وہ سارا ہنگامہ جو غالم عباس‬
‫نے اس افسانے میں دکھایا ہے(‪ )۶‬اور اسی سے یہ نکتہ بھی بہت‬
‫سلیقے سے سجھا دیا ہے کہ زندگی کو اسی دائرے میں گھومنا‬
‫ہوتا ہے اوراسی دائرے میں گھو متے رہے گی۔‬
‫آپ نے دیکھا کہ اس افسانے میں پورا سماج کہانی کا کردار بن کر‬
‫سامنے آتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں‪ ،‬اس کا امکان رہتا ہے کہ‬
‫پڑھنے واال تفصیالت سے اُکتا کر اس سے الگ ہو جائے۔ اس کا‬
‫احساس غالم عباس کو تھا‪ ،‬ل ٰہذا انہوں نے اپنی جزیات نگاری میں‬
‫ایسے ایسے پہلو رکھ دیے ہیں کہ بیانیہ توجہ کھینچے رکھتا ہے۔‬
‫ایسا ہی قرینہ غالم عباس کے ایک اور افسانے ’’کتبہ‘‘(‪ )۷‬میں‬
‫بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر سے باہر ایک ہی وضع کی بنی ہوئی‬
‫عمارتوں کا سلسلہ یوں دکھایا جاتا ہے‪ ،‬جیسے کسی ڈرامے کا‬
‫النگ شارٹ لیا جا رہا ہو۔ گرمی کے زمانے کا منظرنامہ پوری‬
‫طرح نگاہوں میں گھوم جاتا ہے اور ہم کھلی آنکھ سے کلرکوں‪،‬‬
‫ٹائپسٹوں‪ ،‬ریکارڈ کیپروں‪ ،‬اکاونٹنٹوں‪ ،‬ہیڈ کلرکوں‪ ،‬سپریٹنڈنٹوں‬
‫اعلی ہر درجے کے کلرکوں کو سیالب کی صورت‬
‫ٰ‬ ‫ادنی و‬
‫غرض ٰ‬
‫ایک بڑی سی سڑک پر اُمنڈتا دیکھ سکتے ہیں۔ اسی میں سے‬
‫کہانی کا مرکزی کردار چپکے سے برامد ہو کر اپنی شناخت‬
‫مکمل کرتا ہے۔ جی اس سیالب سے ایک چھینٹ کی صورت الگ‬
‫ہونے واال کردار درجہ دوم کا کلرک شریف حسین۔ وہ ایک تانگے‬
‫میں سواری کی گنجائش دیکھ کر لپک کر اس میں سوار ہوتا ہے۔‬
‫شہر کی جامع مسجد کی ا طراف میں لگا کہنہ فروشوں اور سستا‬
‫مال بیچنے والوں کا بازار اس کی منزل ہے۔ اسے وہاں سے کچھ‬
‫خریدنا نہیں ہے‪ ،‬اس کی بیوی بچوں کے ساتھ میکے گئی ہوئی‬
‫ہے۔ پانچ کا نوٹ اور کچھ آنے اس کی جیب میں بچے ہوئے اور‬
‫وقت گزاری کے لیے یہی اُسے بازار میں لے آئے ہیں۔ غالم‬
‫عباس محض ایک دو کرداروں سے کہانی نہیں بنتے وہ تو زندگی‬
‫کا سارا ہنگامہ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اس افسانے میں بھی‬
‫کباڑیوں کی دکانوں کا منظر‪ ،‬بیٹریاں‪ ،‬گرامو فون کے َکل پرزے‪،‬‬
‫آالت جراہی‪ ،‬ستار‪ ،‬بھس بھرا ہرن‪ ،‬بدھ کا نیم قد مجسمہ‪ ،‬سب اِسی‬
‫زندگی کے مظاہر ہیں۔ یہیں ایک دکان پر سنگ مر مر کے ٹکڑوں‬
‫پر درجہ دوم کے کلرک کی نظر پڑتی ہے اور اس کی زندگی میں‬
‫اول درجے کے خواب داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ ایسے خواب ہیں جو‬
‫اُسے پچھاڑ کر َرکھ دیتے ہیں۔ صارفی نفسیات کے تحت درجہ‬
‫دوم کاآدمی اول درجے کے نام نہاد خواب کس جھانسے میں آکر‬
‫بال ضرورت خرید لیا کرتا ہے‪ ،‬اسے سمجھنے کے لیے افسانے‬
‫کا وہ حصہ پڑھیے جس میں مغل بادشاہوں کے کسی مقبرے یا‬
‫بارہ دری سے اکھاڑے ہوئے‪ ،‬سوا فٹ ایک فٹ کے ٹکڑے کو‬
‫شریف حسین دلچسپی سے دیکھا تھا۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ نفاست‬
‫سے تراشے ہوئے اس مر مر کے ٹکڑے کی قیمت محض تین‬
‫روپے ہے۔ قیمت مناسب تھی کہ اُس کی جیب میں پانچ روپے اور‬
‫کچھ آنے تھے مگر وہ رکھ کر چل دیا کہ اس کی ضرورت کی‬
‫چیز نہ تھی۔ مارکیٹ اپنے شکار کو اپنے شکنجے سے نکلنے‬
‫نہیں دیتی‪ ،‬اس اکانومی کی بنیاد یہی ہے کہ اپنے صارف کی‬
‫ضرورتوں کا تعین‪ ،‬صارف کے ہاتھ سے چھین کراپنے ہاتھ میں‬
‫لے لے‪ ،‬تو یہ اصول یہاں کام کر رہا تھا۔ شریف حسین نے جان‬
‫چھڑانے کے لیے کہہ دیا ’’ہم ایک روپیہ دیں گے۔‘‘ جواب آیا‬
‫’’سوا بھی نہیں ‘‘ اور اس سے پہلے کہ گاہک نکل جاتا مارکیٹ‬
‫کا فیصلہ آگیا ’’لے جائیے۔‘‘ تو یوں ہے کہ شریف حسین کی‬
‫ضرورت کا تعین مارکیٹ نے کر دیا تھا اور وہ ایسا پتھر لے کر‬
‫گھر آگیا‪ ،‬جس کی اُسے ضرورت نہ تھی‪ ،‬مگر اب اس کی زندگی‬
‫میں ا ّول درجے کا خواب بن کر دخیل ہو گیاتھا۔ سنگِ مرمر پر‬
‫شریف حسین نے اپنا نام کندہ کروایا اور رات کھلے آسمان تلے‬
‫لیٹ کر ایسے ذاتی مکان کے خواب دیکھے جس کے صدر‬
‫دروازے پر یہی نام واال کتبہ نصب ہونا تھا‪ ،‬مگر ہوا یہ کہ وہ مر‬
‫گیا اور اُس کی قبر پر یہ کتبہ لگا۔‬
‫یاد رہے کہ دلّی میں سرکاری مالزمین کے کوارٹروں میں غالم‬
‫عباس رہا کرتے تھے اور اس افسانے کے آغاز کا منظر وہیں کا‬
‫ہے۔ یہ کوارٹر کناٹ پیلس نئی دلی کے نواح میں گورنمنٹ نے‬
‫بنوائے تھے اور بقول غالم عباس‪ ،‬ایک مرتبہ وہ موال چراغ حسن‬
‫حسرت کے ساتھ تانگے پرحوض قاضی سے فتح پوری جا رہے‬
‫تھے کہ اُنہیں ایک سنگ تراش کی دکان پر ایک پتھر نظر آیا جس‬
‫پر بس ایک نام لکھا ہوا تھا۔ اسی سے اُنہیں لکھنے کا یہ خیال‬
‫سوجھا تھا۔ اس خیال کو انہوں نے محض سادہ سی کہانی میں نہیں‬
‫رکھا ‪ ،‬ایک افسانے میں ڈھال کر ہمیں زندگی کی گہری معنویت‬
‫بھی سجھا دی ہے‪ ،‬ایسی معنویت جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫کچھ اور گہری ہوتی جارہی ہے۔‪ ‬‬
‫غالم عباس کے معروف افسانوں کے حوالے سے کہا جاتا رہا ہے‬
‫کہ اُن کے بنیادی خیال ماخوذ تھے۔ خود غالم عباس چوں کہ‬
‫تراجم کرتے رہے ‪ ،‬اس باب میں ٹالسٹائی کے اور واشنگٹن‬
‫ارونگ کے سے علمی ادبی حلقوں میں توجہ بھی پائی(‪)۸‬۔ پھر وہ‬
‫کچھ افسانوں کے بارے میں‪ ،‬خود بھی کہاکرتے تھے کہ وہ ماخوذ‬
‫ہیں‪ ،‬جیسے’’ جزیراں سخنواراں‘‘(‪)۹‬۔ یوں ان افسانوں کے بارے‬
‫میں ُدھند بڑھتی چلی گئی۔ غالم عباس نے اپنے بیانات میں اس‬
‫دھند کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے اور اُن مقامات کو نشان‬
‫زد کیا ہے ‪ ،‬جہاں سے انہیں یہ افسانے سوجھے۔ ایسے ہی‬
‫افسانوں میں سے ایک ’’اوور کوٹ ‘‘ ہے۔ آصف فرخی کو‬
‫انٹرویو دیتے ہوئے غالم عباس نے بتایا تھاکہ ایک دفعہ وہ تاثیر‪،‬‬
‫فیض اورپطرس کے ساتھ ہوا خوری کے لیے نکلے اور وہ بھی‬
‫یوں کہ جلدی میں شب خوابی کے لباس پر اوور کوٹ پہن لیا اور‬
‫معقول صورت نظر آنے کے لیے گلے میں گلو بند لپیٹ لیا۔‬
‫پطرس گاڑی چال رہے تھے اور باتوں باتوں ایسی گرم جوشی پیدا‬
‫ہوئی کہ سامنے سے آنے والے ٹرک سے ٹکر ہوتے ہوتے بچی۔‬
‫بس اسی سے انہوں سے سوچا تھا کہ اگر ٹکر ہو گئی ہوتی اور‬
‫ہسپتال جاکر اُن کا اوور کوٹ اُتارا جاتا توکیا ہوتا(‪)۱۰‬۔ خیر‬
‫معاملہ کوئی بھی ہو میرے لیے افسانہ ’’اوورکوٹ‘‘(‪)۱۱‬محض‬
‫ایک واقعہ نہیں رہا‪ ،‬زندگی کرنے کے ایک قرینے کی عالمت ہو‬
‫گیا ہے۔ خوش پوش نوجوان کی جگہ ہم اپنے اپنے آپ کو رکھ کر‬
‫دیکھیں ‪ ،‬تو میری بات پوری طرح واضح ہو تی چلی جائے گی۔‬
‫غالم عباس نے بھی اس نوجوان کا پہلے النگ شارٹ لیا ہے ‪،‬‬
‫اور پھر اس پر فوکس کرتے گئے ہیں ؛ یوں کہ منظر نامہ کہانی‬
‫سے کہیں بھی منہا نہیں ہوتا۔ کہانی کو عالمت بنانے کا یہ قرینہ‬
‫ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں لکھنے والوں کی دسترس سے دور‬
‫رہا حاالں کہ غالم عباس اس بابت بہت کچھ سجھا گئے تھے۔ پالٹ‬
‫‪،‬کردار‪ ،‬منظر ‪ ،‬ماحول اور کہانی کسی بھی عنصر کی تخفیف‬
‫کے بغیر ایک عالمتی کہانی لکھ دینا ممکن تھا اور ممکن ہے۔‬
‫میں نے اس افسانے سے یہی سیکھا ہے۔ بادامی رنگ کا اوور‬
‫کوٹ ‪ ،‬کاج میں شربتی رنگ کا گالب کا پھول ‪ ،‬سر پرسبز ہیٹ‪،‬‬
‫سفید سلک کا گلو بند اور چال میں بانکپن؛ یہ ہے مرکزی کردار۔‬
‫یہاں کردار کا نام نہیں بتایا گیا ہے ‪ ،‬جیسا کہ بعد میں کردار وں‬
‫کو بے نام رکھنے کا چلن ہوا ‪ ،‬مگرلطف یہ ہے کہ اس کردار کی‬
‫شناخت قائم کی گئی ہے۔اس کا طبقہ اور اس کے خواب ‪ ،‬اس کی‬
‫حسرتیں اور تمنائیں سب ہم پر کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ڈیوس روڈ‬
‫سے مال پر اور وہاں سے چیرنگ کراس‪ ،‬ہاتھ میں چھڑی جسے‬
‫بعد میں اس کے وجود سے الگ ہو جانا ہے ‪ ،‬ٹیکسی والے کا‬
‫ُرکنا اور اس کا ’’نو تھینک یو‘‘‪ ،‬کہہ کر آگے نکل جانا ‪ ،‬ادھ‬
‫کھال پھول تھوڑا سااُچھل کر کوٹ کے کاج سے باہر کیوں نکل آیا‬
‫تھا ‪ ،‬اور اسے واپس کاج میں جماتے ہوئے نوجوان کے ہونٹوں‬
‫پر خفیف سی اور پر اسرار سی مسکراہٹ کیوں پھیل گئی تھی ‪،‬‬
‫اس سب کے کچھ معنی ہیں ‪ ،‬مگر غالم عباس نے ایک ایک سطر‬
‫کے معنی بعد میں ظاہر کرنے کے لیے سینت سینت کر متن کے‬
‫اندر چھپا کر رکھ دیے ہیں۔افسانہ ایک اور جست بھرتا ہے ‪ ،‬ایک‬
‫اور نوجوان‪ ،‬اپنی فربہی جسم والی دوست لڑکی کے ساتھ اسی‬
‫کھلے منظر نامے میں داخل ہوتا ہے ‪ ،‬جو اپنی دوست کو سمجھا‬
‫رہا ہے کہ وہ فکر نہ کرے ڈاکٹر اُس کا دوست ہے‪ ،‬کسی کو‬
‫کانوں کان خبر نہ ہوگی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‬
‫زندگی میں سب کچھ ٹھیک کہاں ہوتا ہے۔ غالم عباس نے اپنے‬
‫اس افسانے میں یہی بتایا ہے اور یہ بھی کہ ہم ہر لمحے اپنے اندر‬
‫کے عذاب اوراپنی غالظتیں چھپانے کے جتن کرتے رہتے ہیں ‪،‬‬
‫مگر وہ چھپتے نہیں ہیں۔ ہم اس حقیقت کو بھول کر آگے بڑھتے‬
‫ہیں اور اگال لمحہ ہمارے باطن کو اندوھا کر سامنے رکھ دیتا ہے؛‬
‫یوں جیسے اس مست اور چنچل لڑکے کو کچل ڈالنے والے ٹرک‬
‫کے زن سے گزر جانے اورشدید زخمی لڑکے کے ہسپتال میں‬
‫آپریشن تھیٹر پر پہنچنے کے بعد ہوتا ہے۔ باہر سے خوشنما ریپر‬
‫میں لپٹی ہو ئی زندگی کا اصل چہرہ یہی ہے جو ہم اسے وقفے‬
‫وقفے سے چونک چونک کر دیکھنے پر مجبور ہیں۔ بہ ظاہر اس‬
‫کہانی کا منظر نامہ قدیم ہے مگر اپنی معنویت کے اعتبار سے یہ‬
‫آج کی کی کہانی ہے۔‬
‫ایسا ہی ہم ’’فینسی ہیئر کٹنگ سیلون‘‘(‪ )۱۲‬کے بارے میں کہہ‬
‫سکتے ہیں۔بلکہ یہ تو آج کے اس وزیر خزانہ کی کہانی لگتی‬
‫ہے ‪ ،‬جس کے گھر سے حکومتی خزانہ برآمد ہو گیا تھااور اس‬
‫حکومتی سربراہ کی بھی جو ہمیں خواب دکھا کر اپنی سرمایہ‬
‫کاری کا حجم بڑھائے چال جاتا ہے۔ غالم عباس نے ایسا کیا ہے‬
‫کہ تقسیم کے بعد کے زمانے میں‪ ،‬ایک چھوٹی سی چائے کی‬
‫دکان پرچار حجاموں کو اکٹھاکر دیا ہے۔انہیں ایک ہیئر کٹنگ‬
‫سیلون االٹ کروادیا‪ ،‬جو تقسیم سے پہلے چالو تھا ‪ ،‬مگر مالک‬
‫کے ادھر چلے جانے کی وجہ سے اب اجڑا پڑا ہے۔ پھر چاروں‬
‫کے بیچ ایک خستہ ہال منشی ال بٹھایا۔ یہ چاالک منشی آج کی‬
‫سیاست کا مرکزی کردار ہو گیا ہے۔ تو یوں ہے کہ ہم اسی منشی‬
‫کے رحم و کرم پر ہیں۔‬
‫لیجئے صاحب اب ایک قدرے مختلف افسانہ۔ جی ‪،‬میں غالم عباس‬
‫کے افسانے’’ ہمسائے‘‘ (‪)۱۳‬کا ذکر کرنے جا رہا ہوں۔ اگرچہ‬
‫اس افسانے کا بیانیہ بھی دھیما ہے مگر ہر منظر قاری پر یوں‬
‫کھلتا ہے جیسے ہر منظر کو الگ سے فلما کر ‪ ،‬اور اس کے فالتو‬
‫حصے کاٹ کرباہم جوڑ لیا گیا ہو۔ منظر ایک پہاڑی پر کھلتا ہے ‪،‬‬
‫ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں پہاڑی کی ڈھال پر ایک الگ تھلگ‬
‫مکان ہے۔ جس طرح میں بیان کر رہا ہوں وہاں منظر منظر اس‬
‫طرح لکھا ہوا نہیں ہے ‪ ،‬بس پڑھتے ہوئے جو ذہن کے پردے پر‬
‫تصویر بنتی ہے ‪ ،‬اس کی ترتیب لگ بھگ ایسی ہی ہے۔ اس مکان‬
‫کو لکڑی کی پتلی سی دیوار سے دوگھر وں میں تقسیم کر دیا گیا‬
‫ہے۔ یہ کہانی ان گھروں میں بسنے والے دو الگ خاندانوں کی‬
‫نہیں ایک بچے کی ہے جس کا ِدل محبت کی خوشبوسے مہک رہا‬
‫ہے۔ گرمی کا زمانہ‪ ،‬لکڑی کا لمبا سا زینہ‪ ،‬بے توجہی کی‬
‫شکارپھلواڑی کااکیال پھول‪،‬نیلی دھند میں بسا منظر‪ ،‬جیسے پانی‬
‫میں عکس اور پھر اس منظر کا بدل جانا۔ اسی سے کہانی کا مزاج‬
‫بدلتا ہے۔ آٹھ نو برس کا اکبراپنے گھر سے نکلتے ہی کہانی کے‬
‫منظر نامے کا حصہ ہو جاتا ہے۔ اس کا بے اختیارساتھ والے گھر‬
‫کو یوں دیکھنا ‪ ،‬جیسے وہ مٹھائی یا کھلونوں کی ایسی دکان ہو جو‬
‫دکاندار اپنی کا ہلی کی وجہ سے وقت پرنہیں کھول پاتا۔ پھول‬
‫توڑنا‪ ،‬اور ساتھ والے دروازے تک جانا ‪ ،‬جھجک کر پھول‬
‫پیچھے چھپانا ‪ ،‬پھر بے دھیانی میں اس کی ایک پتی نوچ لینا ‪،‬‬
‫پھر جانتے بوجھتے ایک ایک پتی نوچتے چلے جانا‪،‬یہ سب اس‬
‫کے دل کی تصویریں ہیں۔ مگر یہ تصویریں یوں بدلتی ہیں جیسے‬
‫اس پہاڑی مقام کا موسم ‪ ،‬کبھی بادل پیازی رنگ کے ہو جاتے ہیں‬
‫‪ ،‬کبھی پھوار بر سنے لگتی ہے۔ ابھی ابھی دور اس سکول کا‬
‫منظر صاف نظر آرہا تھا جو گرجا گھرجیسا تھا ‪ ،‬سکول بھی اور‬
‫وہ مکان بھی جس کی انگنائی میں ایک عورت دھلے ہوئے کپڑے‬
‫نچوڑ کر پھیالرہی تھی ‪،‬کہانی کے آخر میں پہنچ کر کچھ بھی‬
‫نظر نہیں آتا زمین اورآسمان پر ایک سیاہ چادر تن جاتی ہے۔ سب‬
‫کچھ اس میں لپٹنے لگتا ہے‪ ،‬انسان‪ ،‬حیوان ‪،‬شجر‪،‬حجر ‪ ،‬اور اکبر‬
‫بھی۔ صرف ننھے اکبر کا جسم نہیں اُس کی روح کو بھی۔ تو یوں‬
‫ہے کہ غالم عباس نے اس کہانی کا بیانیہ اتنا پرلطف بنا دیا ہے‬
‫کہ وہ ہماری روح سے کالم کرنے لگتا ہے۔‬
‫غالم عباس نے افسانوں کے تین مجموعے دیے(‪ ،)۱۴‬ان میں‬
‫موجود ہر افسانے پر بات ہونی چاہیے مگر اس نشست میں ایسا‬
‫ممکن نہیں ہے ل ٰہذا مجھے کہیں اپنی بات روک دینی ہے ؛ یہیں‬
‫روک سکتا ہوں مگر میرا دھیان محمدحسن عسکری کے ایک خط‬
‫کی طرف چال گیا ہے جو ‪۳۰‬اکتوبر ‪ ۱۹۴۸‬کواُنہوں نے غالم‬
‫عباس کے نام لکھا تھا۔ اس خط میں عسکری نے جو لکھا اُنہی‬
‫کے لفظوں میں مقتبس کر رہا ہوں‪:‬‬
‫’’ آپ نے ’’اردو ادب‘‘ کو جو افسانہ دیا ہے وہ منٹو کو بہت پسند‬
‫آیا ہے۔ وہ تو ایک دن یہاں تک کہنے لگے کہ بس عسکری‬
‫صاحب میں تو افسانہ نگار ہوں ہی نہیں‪ ،‬اس افسانے کے سامنے‬
‫میرا افسانہ’’کالی‪ z‬شلوار‘‘ بکواس ہے۔ غرض وہ آپ کے افسانے‬
‫کی اکثر تعریف کرتے رہتے ہیں ‘‘(‪)۱۵‬‬
‫کیا منٹو نے واقعی ایسا کہا ہوگا ‪ ،‬یقین نہیں آتا مگر منٹو نے ‪۳‬‬
‫نومبر ‪ ۱۹۴۸‬کو غالم عباس کو اپنے خط میں جو لکھا اُس کایقین‬
‫کرنا ہی پڑے گا کہ یہ راست حوالہ ہے۔ منٹو نے لکھا تھا‪:‬‬
‫’’تمہارا افسانہ’’دوسری بیوی‘‘ (شایدعنوان کچھ اور ہے)خوب‬
‫تھا۔‘‘(‪)۱۶‬‬
‫اور یہ بھی اضافہ کیا تھا‪:‬‬
‫’’تمہارے قریب قریب سارے افسانے ہی اچھے ہوتے ہیں۔‘‘(‪)۱۷‬‬
‫منٹو کا خدشہ درست تھا ‪ ،‬انہیں افسانے کادرست نام یاد نہ رہا تھا۔‬
‫جسے وہ ’’دوسری بیوی‘‘ لکھ گئے وہ ہو نہ ہو افسانہ ’’اُس کی‬
‫بیوی‘‘ (‪)۱۸‬تھا۔ غالم عباس نے اِسی قبیل کا ایک اور افسانہ بھی‬
‫لکھا تھا؛’’سمجھوتہ‘‘(‪، )۱۹‬وہی جس میں بھاگ جانے والی بیوی‬
‫کے ایک روز خستہ حالت میں واپس آنے کو غالم عباس نے‬
‫ایسے لفظوں میں لکھا کہ پڑھتے ہوئے مجھے ابکائی آ گئی تھی۔‬
‫انہی کے الفاظ مقتبس کرتا ہوں‪:‬‬
‫’’ جیسے کتیا کیچڑ میں دوسرے کتوں کے ساتھ لوٹ لگا کر آئی‬
‫ہو۔‘‘(‪)۲۰‬‬
‫مجھے یہ جملہ پڑھ کر شدید دکھ ہوا تھا۔ یہ جملہ اوراس سے بھی‬
‫ایک اور شدید جملہ جو اسی افسانے میں پہلے پڑھ آیا تھا ‪ ،‬جی‬
‫وہی‪ ،‬جس میں اسی کردار سے کہلوایا گیا ہے کہ‪:‬‬
‫’’عورت کے معاملے پر سنجیدگی سے غور حماقت ہے۔‘‘(‪)۲۱‬‬
‫یہ ایسے جملے ہیں جو مجھے غالم عباس کے اس افسانے سے‬
‫پرے دھکیل دیتے ہیں حاالں کہ ایسا سوچنے واال‪ ،‬جو اس کہانی‬
‫کا مرکزی کردار بھی ہے‪ ،‬خودجنسی کیچڑ میں لوٹ لگانے کے‬
‫بعد واپس اپنی بیوی کے پاس لوٹ آتا ہے‪ ،‬اُسی بیوی کے پاس جو‬
‫اس کی نظر میں باعصمت نہیں تھی۔ خیر ‪ ،‬منٹو بھی اس افسانے‬
‫کو کیسے پسند کر سکتے ہیں تاہم مجھے یقین ہے جس افسانے کو‬
‫منٹو نے پسند کیا ہو گا‪ ،‬وہ ’’اُ س کی بیوی‘‘ ہی ہوگا۔ صاحب‬
‫‪،‬عجیب و غریب کہانی ہے یہ ‪ ،‬ایک نوجوان‪ ،‬نسرین نامی طوائف‬
‫کے کوٹھے پر موجود ہے اور بات بے بات اپنی مرحومہ بیوی‬
‫نجمہ کو یا د کر رہا ہے۔نسرین کے چہرے پر خفیف سا اضمحالل‬
‫ہے اور وہ سوچ رہی ہے کہ کیسا مرد ہے جس کے پاس اپنی‬
‫مرحومہ بیوی کے سوا کوئی اور موضوع ہی نہیں ہے۔ افسانے‬
‫سہج سہج آگے بڑھتا ہے اور اس افسانے میں بیوی کا کردار‬
‫نبھانے والی عورت بھی افسانہ’’ سمجھوتہ ‘‘والی بیوی کی طرح‬
‫بے وفا نکلتی ہے مگر پڑھتے ہوئے کہیں اُکتاہٹ نہیں ہوتی ‪ ،‬حتی‬
‫کہ خریدے گئے بچے کھچے وقت میں پڑنے والی رات کے‬
‫پچھلے پہر اچانک اپنی بے وفا بیوی کو یاد کرنے واال نوجوان‬
‫سوتے میں سبکی لیتا ہے اورایک طوائف اسے چھاتی سے یوں‬
‫چمٹا لیتی ہے جیسے کوئی بچہ سوتے میں ڈر جائے تو ماں اسے‬
‫چھاتی سے چمٹا لیا کرتی ہے۔‬
‫آخر میں ایک بار پھر مجھے دہرا لینے دیجئے کہ غالم عباس کی‬
‫اُن تخلیقی توفیقات کا اندازہ کیے بغیرجواُن کے افسانے کوسیدھی‬
‫سادی کہانی سے مختلف کر ِدیتی ہے ‪ ،‬اُن کی حقیقت نگاری کو‬
‫سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ زمان کے بہاؤ میں رخنے ڈالے بغیر‬

‫یات میں جادو بھرتا چال جائے‪ ،‬یہ غالم عباس کی توفیقات کا ایسا‬
‫عالقہ ہے جس نے اُنہیں اپنے ہم عصروں میں مختلف کیا اور‬
‫ممتاز بھی اور یہی سادہ مگر جادو بھرا قرینہ ہے کہ جس کے‬
‫سبب غالم عباس اردو افسانے کا ایک مستقل باب ہو گئے ہیں۔‬
‫**‬

‫ایک مختصر کہانی کے مصنف کی حیثیت سے محمد‬


‫حسن عسکری کا غالم عباس کا تجزیہ ان کے نوجوان‬
‫ہم عصروں کے مقابلے میں جو انھوں نے معاشرے‬
‫میں تبدیلی النے کے جذبے کے ساتھ لکھا تھا اس‬
‫کے مقابلے میں انھیں اپنی تحریر میں استحکام‬
‫اور تحمل کا احساس واضح طور پر ممتاز ہے۔‬
‫عباس کا معمولی نقطہ نظر انھیں مقبولیت حاصل‬
‫کرنے میں ناکام رہا جو نوجوان لکھاریوں کو‬
‫ملی تھی ‪ ،‬لیکن اس سے وہ آناندی جیسے طاقتور‬
‫کام لکھنے سے باز نہیں آئے جو اس دور کی سب‬
‫سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک بن گئی۔ اس کے‬
‫پیچیدہ انداز نے اس کے انداز کو بے مثال طاقت‬
‫عطا کی ‪ ،‬جس کے نتیجے میں ایسی کہانیاں طاقت‬
‫سے بن گئیں جن کی تفصیل پر فروغ پزیر ہوا۔ اس‬
‫کے کام میں مبتال ماحول کا ایک مروجہ احساس‬
‫تھا جو اس کے اکاؤنٹوں کو زندہ کرتا اور‬
‫تبدیل کرتا تھا۔ اس کا دور اندیشی کا احساس‬
‫دھنک (‪ )1969‬میں جھلکتا ہے ‪ ،‬جو ایک مستقبل‬
‫کی کہانی ہے جو پاکستان کے موجودہ حاالت کو‬
‫نہایت ہی آسانی سے ظاہر کرتا ہے۔‬
‫انٹار حسین ‪" ،‬غالم عباس اور مختصر کہانی‬
‫روایت" ‪ DAWN ،‬کتب اور مصنفین ‪ 29 ،‬ستمبر ‪،‬‬
‫‪http://www.dawn.com/news/1046057 ، 2013‬‬
‫بشکریہ غالم عباس کا بائیو اسکیچ اردو‬
‫ایڈابورف یو بالگ سپاٹ‪:‬‬
‫غالم عباس؛ ایک اردو مختصر کہانی مصنف‬

‫گندنی واال تکیہ‬

‫گندنی واال تکیہ ‪ 20‬ویں صدی کے اوائل میں دیہی‬


‫پنجاب میں اخالقی اقدار اور اتار چڑھاؤ کے‬
‫بارے میں ایک ناول ہے۔ تکیہ ‪ ،‬یا گوشہ ‪،‬‬
‫ہیرمیتوں اور صوفیوں کے لئے ایک مستقل جگہ‬
‫تھا ‪ ،‬جہاں وہ مراقبہ کے لئے ریٹائر ہوسکتے‬
‫تھے۔ لیکن گاؤں کے لوگ بھی یا تو صوفیاء سے‬
‫ملنے یا آپس میں روزمرہ کی زندگی کے معامالت‬
‫پر تبادلہ خیال کرنے ‪ ،‬کونے میں جمع ہوتے‬
‫تھے۔ آج ‪ ،‬بدلتی ہوئی اقدار اور تجارتی کاری‬
‫کے نتیجے میں ‪ ،‬شاید ہی اس طرح کے کوئی‬
‫’کونے‘ باقی رہ گئے ہوں۔ لہذا ‪ ،‬اس ناول میں‬
‫’کونے‘ کی ایک عالمتی اہمیت ہے۔ دیہی پنجاب‬
‫میں اس کام کی تصویر کشی باقی ہے۔ دیہی پنجاب‬
‫کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کرنے کے لئے‬
‫اردو کے ابتدائی ناولوں میں سے ایک ہے۔ مرکزی‬
‫کردار سلطان ایک طویل عرصے کے بعد اپنے گاؤں‬
‫لوٹتا ہے اور یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے کہ‬
‫انجیر کے درخت کے سایہ دار کونے میں اب کوئی‬
‫اور نہیں رہا ہے۔ صوفی نگینہ ‪ ،‬جو وہاں‬
‫حکمرانی کرتے تھے ‪ ،‬چال گیا اور صوفی کو گھیرے‬
‫میں لینے والے کہیں نظر نہیں آئے۔ اگرچہ‬
‫سلطان ان برسوں کے دوران اس گاؤں کی واضح‬
‫پیشرفت سے خوش ہے ‪ ،‬لیکن اس کے گاؤں میں‬
‫اجنبی ہونے کا گہرا احساس اس کے دل کو مسخر‬
‫کرتا ہے۔ جب غالم عباس کی مختصر کہانیاں ‪،‬‬
‫جیسے آنندی اور کٹبہ تھیں ‪ ،‬جس نے انہیں شہرت‬
‫بخشی۔ اور انہیں اردو کی مختصر کہانی کے ماہر‬
‫کی حیثیت سے ان کے ناول گوندنی واال تکیہ کے‬
‫طور پر قائم کیا ‪ ،‬جو بڑے پیمانے پر سراہا‬
‫گیا تھا۔‬

You might also like