Professional Documents
Culture Documents
غالم عباس 17نومبر 1909میں امرتسر انڈیا میں پیدا ہوئے جبکہ انکا انتقال 2نومبر
1982میں کراچی میں ہوا
انہوں نے اپنی تعلیم الہور میں حاصل کی اور 1925میں ایک مصنف کے طور پر
اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھیں جو
داراالشاعت ،پنجاب ،الہور میں کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔ انہوں نے غیر ملکی زبانوں
کی کہانیوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا۔ 1928میں انہوں نے امتیاز علی تاج کے ساتھ
اپنے جریدے پھول اور تہذیب نسوان کے معاون مدیر کے طور پر کام شروع کیا۔
1938میں انہوں نے آل انڈیا ریڈیو میں شمولیت اختیار کی۔ آواز اور سارنگ نامی
ریڈیو میگزین ان کے زیر انتظام تھے۔
خدمات:۔ ادبی
کسی بھی ادیب کی بڑی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیش کردہ ماحول کا تاثر دیر پا ہو
اور کافی دور تک سفر کرے اور غالم عباس یہ ہنر اچھی طرح جانتے ہیں ان کے افسانے
اپنے اندر اس قدر بھرپور تاثر لیے ہوئے ہوتے ہیں کہ پڑھنے واال کہانی ختم کرنے کے بعد
بھی کرداروں کے ساتھ کچھ نہ کچھ وقت گزارنے پر مجبور ہوتا ہے۔ زندگی غالم عباس کے
نزدیک صرف خوشی یا صرف غم کا نام نہیں وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ دونوں
کیفیات مل کر زندگی میں رنگ بھرتی ہیں اس لیے ان کی کہانیاں اپنے اندر بیک وقت دونوں
کیفیات لیے ہوئے ہوتی ہیں وہ اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنی بات کو بغیر
کسی الجھاؤ کے ذہن نشین کر دیں یہی وجہ ہے کہ الفاظ کی سادگی اور پرکاری سے جو تاثر
غالم عباس کے افسانوں میں پیدا ہوتا ہے وہ آ ج تک ادب کی دنیا میں موجود ہے۔
شعور کی پختگی:
غالم عباس اپنی تحریروں میں ایک پختہ شعور رکھنے والے ادیب دکھائی
دیتے ہیں اور وہ کہانی کی ترتیب سے اس بات کو ثابت بھی کرتے ہیں کہ
ان کی نگاہ معاشرتی زندگی پر بڑی گہری ہی نہیں بلکہ دور تک دیکھنے
کی اہلیت رکھتی ہے اسی لئے وہ اپنے موضوعات کے بعد اثرات کو بھی
مد نظر رکھتے ہوئیے ان کی ٹریٹمنٹ کرتے ہیں وہ بظاہر عام سی نظر
آ نے والی بات کو محض اپنے شعور کی کار فرمائی سے آسمان پر پہنچا
دیتے ہیں۔
سیاسی خدمات:
تقسیم ہند کے حاالت :دیگر ادیبوں کی طرح غالم عباس پر بھی تقسیم ہند کے حاالت
نے گہرا اثر چھوڑا تھا ۔اورآ پ اپنے مضامین میں تقسیم کے موقع پر پیش آ نے والے
واقعات کے نہ صرف متاثر نظر آتے ہیں بلکہ ان کا ذکر بھی کرتے ہیں ۔اپ کی نثر
میں آپ کے حب وطن اور حب قوم ہونے کا جذبہ نمایاں ہے ۔ "قومی ایثار و قربانی کا
عظیم طوفان تھا---------کالجوں کے طلبا اپنی تعلیم کے اوقاف کے بعد بیلچوں سے
نہریں کھوندتے ،پل بناتے ،مہاجروں کے لیے جھونپڑیاں تیار کرتے --------میں
پولیس کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا لیکن اب میرا دل چاہا کہ ان سے لپٹ جاؤں
ان کو پیار کروں کیونکہ وہ میرے وطن کے محافظ ہیں“-
تعلیمی خدمات:۔
•وسیع مطالعہ:
•عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ لکھنے واال صرف موضوع کی وضاحت سے
الجھتا رہتا ہے اور اس میں وہ کسی نہ کسی طرح کامیاب بھی ہو جاتا ہے لیکن اس
کی کم علمی اور شعور کی ناپختگی اس کی تحریروں سے جا بجا عیاں ہوتی رہتی
ہے لیکن غالم عباس اس الزام کی رد میں نہیں آ تے وہ اپنی تحریروں میں ایک وسیع
الم طالعہ شخص دکھائی دیتے ہیں ان کی تحریریں ایک ایسے شخص کے شعور کی
عکاسی کرتی ہیں جو زندگی کو پڑھنا ہی نہیں برتنا بھی جانتا ہے۔ غالم عباس کا
مطالعہ انہیں اس اعتبار سے بھی دوسروں سے ممتاز کرتا ہے کہ وہ مختلف علوم اور
دوسری زبانوں کے ادب کے اثرات اپنے افسانوں میں دکھاتے ہیں-
انداز بیان کی سادگی :
آ پ کے بیان میں سادگی اور روانی پائی جاتی ہے ۔نہ اس میں دوسری زبانوں کے
الفاظ ٫نہ ترکیب اور نہ ہی اردو کے مترو کات کا استعمال ہے نہ اشعار کا بے جا
استعمال اور نہ ہی الفاظ کو توڑنے مروڑنے کے نئے تجربات ہیں جیسا کہ منٹو
،اشفاق انتظار حسین یا پریم چند کے افسانوں میں ہے ۔اپ سیدھی اردو زبان میں
لکھتے ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے ۔" ------رفتہ رفتہ فکر
معاش نے مجھے ٫سارہ مشرق میں مالزمت کرنے پر مجبور کر دیا یہ ایک ہوٹل
تھا جس کا مالک بمبئی کا ایک سیٹھ تھا ۔میرے زمہ یہ خدمت تھی کہ ہوٹل میں
ٹھہرنے والوں کا خیال رکھوں ۔"
زندگی کےمختلف پہلو :
• غالم عباس کے افسانے صرف وقت گزاری اور لذت یا دلچسپی کی عالمت نہیں ہوتے بلکہ ان
میں زندگی کے مسائل سے لڑنے کا حوصلہ ملتا ہے وہ زندگی کے نشیب و فراز کی تصویریں
بھیانک بنا کر پیش نہیں کرتے بلکہ انہیں ہر مقام پر انسانی حوصلے سے پست نقل میں دکھاتے
ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ایک خاص مقام پر جا کر زندگی کے مصائب جدوجہد سے ہار
جاتے ہیں اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے افسانے غمگین انداز سے اختتام پذیر ہوتے ہیں لیکن اس
کے باوجود ان میں مایوسی یا محرومی کا تاثر نہیں پیدا ہوتا اور کس نہ کسی زاویے سے وہ
پڑھنے والے کو پورے قد سے کھڑا رہنے کی ترغیب دے جاتے ہیں ان کے افسانوں کی خاص
بات یہ ہی ہے کہ وہ زندگی کی تلخیوں پر مسکرانے کا فن جانتے ہیں اسی لئے وہ ان تلخ حقائق
کو اس قدر دلچسپ بنا کر پیش کرتے ہیں کہ بے لطف زندگی بھی پر لطف معلوم ہونے لگتی ہے
اور اس فضا میں مل کر وہ پڑھنے والے کو زندگی کا رخ بدلنے کی حکمت سکھا دیتے ہی-
تصنیفات:
غالم عباس نے بچوں کے لیے کہانیاں ،ڈرامے اور نظمیں بھی لکھی ہیں ،ان کا بنیادی شعبہ
افسانہ ہے۔ جدید اردو افسانے میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔
تقریب ََ 73کتابیں 34کہانیاں اور 6نظم لکھی ہیں کتابوں میں سے کچھ کتابوں
َ غالم عباس نے
کی نام جال وطن ،چاند کی بیٹی ،جڑے کی چاندنی ،دھنک ،محبت روتی ہے۔
اور کچھ کہانیاں ہیں جواری ،سیاہ و سفید ،بہروپیا ،سایہ اور نظمیں چوہیا کی فریاد ،ہماری
گڑیا ،سلمہ کی گڑیا ،بے چارہ شیر ،مسخرا گھوڑا ،مرغی کی مصیبت -
غالم عباس کی تصنیفات میں گوندنی واال تکیہ ،مجسمہ ،کتبہ ،جیسے مشہور افسانوں کے عالوہ
جزیرہ سخن وراء ،کن رس ،آنندی ،دھنک ،جاڑے کی چاندی اور الحمر کے افسانے وہ تخلیقات
ہیں جو آ نے والے زمانے میں بھی ادب میں اپنی حیثیت منواتی رہیں گی-
حرف آخر
بزاہر غالم عباس ایک بہت اچھے افسانہ نگار تو تھے لیکن ایک بہت اچھے
افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی لکھائی سے ہی اور کہانیوں
سے ہی سب کو بہت متاثر کیا اور معاشرے میں ایک اچھا افسانہ نگار ہونے
کے ساتھ ساتھ ایک بہت اچھا انسان ہونے کا حق بھی نبھایا اُن کی تصنیفات
ابھی بھی اسی ذوق و شوق سے پری جاتی ہیں اور انکی کہانیوں میں ابھی
بھی سب ویسے ہی دلچسپی لیتے ہیں اور انکی نظمیں ابھی بھی شوق سے
سنی اور پڑھائی جاتی ہیں اور یہ سب کہانیاں لوگوں کو اس دور میں بھی
بیدار کرتی ہیں انکی تعلیمی اور سیاسی خدمات بتاتی ہیں کے انہوں کے ایک
اچھے افسانہ نگار ہونے کا حق ادا کردیا -