You are on page 1of 5

‫کوڈ ‪6481 :‬‬

‫سوال نمبر۔ ‪ 1‬باغ بہار کا جامع تعارف پیش کریں؟‬

‫عاصی گنہگار‪ ،‬میر امن دلی واال بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک‬
‫بادشاہ کی رکاب میں‪ ،‬پشت بہ پشت‪ ،‬جاں فشانی بجا التے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے‪ ،‬قدر‬
‫دانی جتنی چاہیے‪ ،‬فرماتے رہے۔‬

‫جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر‪ ،‬ماال مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد‬
‫زبان مبارک سے فرمایا‪ ،‬چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔‬ ‫ِ‬ ‫موروثی‪ ،‬اور منصب دار قدیمی‪،‬‬
‫جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی‪ ،‬ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ‬
‫بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی‬
‫ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے‪ ،‬اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جال‬
‫وطن ہوا‪ ،‬اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا‪ ،‬غارت ہوا۔‬

‫میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ‬
‫عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی‪ ،‬آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے‪ ،‬روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال‬
‫و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا‪ ،‬اشرف البالد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ‬
‫پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔‬

‫اتفاقا ً نواب دالور جنگ نے بلوا کر‪ ،‬اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے‬
‫مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا‪ ،‬مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے‬
‫وسیلے سے‪ ،‬حضور تک‪ ،‬جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے‪ ،‬رسائی ہوئی۔‬

‫بارے‪ ،‬طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے‪ ،‬چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ‬
‫بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر‪ ،‬پاؤں پھیال کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی‪ ،‬چھوٹے بڑے‪،‬‬
‫پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔‬
‫رگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوجگی ہے‪ ،‬انہیں کے راجا پرجا‬
‫قدیم سے رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود‬
‫غزنوی آیا‪ ،‬پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمدورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان‬
‫کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا‪ ،‬چال جاتا ہے)‬
‫ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار‬
‫اردو کہالیا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر والیت گئے۔ آخر وہاں سے آن کر‬
‫پسماندوں پٹھانوں کی گوشمالی کی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔‬
‫جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم‪ ،‬قدردانی اور فیض رسانی اس‬
‫خاندا ِن الثانی کی سن کر‪ ،‬حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی ُجدی ُجدی‬
‫تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین‪ ،‬سودا سلف‪ ،‬سوال و جواب کرنے کی زبان اردو کی مقرر‬
‫ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہان‪ ،‬صاحب قران نے قلعۂ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا‬
‫اور تخت طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ‪ ،‬چوبوں پر استاد کر‪ ،‬طنابوں سے کھنچوایا اور‬
‫نواب علی مردان خان نہر کو لے کر آیا‪ ،‬تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا‬
‫معلی خطاب دیا۔‬‫ٰ‬ ‫دارالخالفت بنایا‪ ،‬تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا اور وہاں کے بازار کو اردوئے‬
‫امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت‪ ،‬بلکہ احمد شاہ اور عالم گیر ثانی کے وقت تک‪ ،‬پیڑھی‬
‫بہ پیڑھی‪ ،‬سلطنت یکساں چلی آئی‪ ،‬ندان‪ ،‬زبان اردو کی منجھتے منجھتے ایسی منجھی کہ کسو شہر کی‬
‫بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی‪ ،‬لیکن قدردان منصف چاہیے‪ ،‬جو تجویز کرے۔ سو اب خدا نے‪ ،‬بعد موت‬
‫کے‪ ،‬جان گلکرسٹ صاحب سا دانا‪ ،‬نکتہ رس پیدا کیا کہ جنہوں نے اپنے گیان اور اُگت سے‪ ،‬اور تالش‬
‫و محنت سے‪ ،‬قاعدوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اس سبب سے ہندوستان کی زبان کا ملکوں میں رواج ہوا‬
‫اور نئے سر سے رونق زیادہ ہوئی۔‬
‫جب احمد شاہ ابدالی کابل سے آیا اور شہر کو لٹوایا‪ ،‬شاہ عالم پورب کی طرف تھے۔ کوئی وارث اور‬
‫مالک‪ ،‬ملک کا نہ رہا‪ ،‬شہر بے سر ہو گیا۔ ہیچ ہے‪ ،‬بادشاہت کے اقبال سے شہر کی رونق تھی۔ ایک‬
‫بارگی تباہی پڑی۔ رئیس وہاں کے‪ ،‬میں کہیں تم کہیں‪ ،‬ہو کر جہاں جس کے سینگ سمائے وہاں نکل‬
‫گئے۔ جس ملک میں پہنچے‪ ،‬وہاں کے آدمیوں کے ساتھ سنگت سے بات چیت میں فرق آیا۔ اور بہت‬
‫ایسے ہیں کہ دس پانچ برس کسو سبب سے دلی میں گئے اور رہے‪ ،‬وے بھی کہاں تک بول سکیں گے‪،‬‬
‫کہیں نہ کہیں چوک ہی جائیں گے۔ اور جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلی کا روڑا ہو کر رہا‪ ،‬اور دس‬
‫پانچ پشتیں اسی شہر میں گزاریں‪ ،‬اور اس نے دربار امراؤں کے‪ ،‬اور میلے ٹھیلے‪ ،‬عرس چھڑیاں سیر‬
‫تماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدت تلک کی ہوگی‪ ،‬اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی اپنی زبان‬
‫کو لحاظ میں رکھا ہوگا‪ ،‬اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بھی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا‬
‫دیکھتا یہاں تلک پہنچا ہے۔‬

‫سوال نمبر‪2‬۔ مراۃ العروس کا خالصہ بیان کریں؟‬

‫نذیر احمد کی ناول نگاری کی ابتداء ہی سماجی مسائل کے حل کے لیے ہوئی ہندوستان میں جب تعلیم‬
‫کو عام کرنے کی تحریک چلی تو تعلیم نسواں کا سوال بھی درپیش ہوا کیونکہ اس کے بغیر سماج کی‬
‫قرار واقعی اصالح نہیں ہو سکتی تھی۔ عورت صرف بیٹی بہن یا بیوی نہیں ہوتی بلکہ ماں بھی ہوتی‬
‫ہے۔ ماں سے ہی بچے کو دنیا کی پہلی تعلیم ملتی ہے اگر وہی جاہل اور ان پڑھ رہے جائے تو بچے کی‬
‫شخصیت کی تعمیر میں خرابی کی کئی صورتیں مضمر رہ سکتی ہیں۔ اسکے عالوہ نسوانی تعلیم کی‬
‫ضرورت گھر اور ازدواجی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ بیوی کی وجہ سے گھر جنت‬
‫بھی بن سکتا ہے اور جہنم بھی۔ نذیر احمد مراۃ العروس میں اسی مسئلے کو پیش کرتے ہیں کہ ایک‬
‫پردے میں بیٹھنے والی عورت بھی کسطرح سماجی زندگی میں خاموش مگر بے حد اہم خدمات انجام‬
‫دیتی ہے ان کے سامنے عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ اہم بن کر آیا۔ وہ خود اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینا‬
‫چاہتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی موزوں کتاب نہ تھی جس سے‬
‫مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں دلچسپی سے پڑھ کر اپنی علمی استعداد کو بڑھا سکیں۔ اس وقت تک اردو‬
‫میں جتنے قصے اور کہانیاں تھیں وہ سب کی سب حسن و عشق سے پر تھیں۔ ہر داستان کا ہیرو ایک‬
‫بادشاہ شہزادہ یا امیر زادہ ہوا کرتا تھا جس کو عیش کوشی اور لذت پرستی کی ساری سہولتیں حاصل‬
‫تھیں۔ یہ داتا مسلم گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے مخرب اخالق ثابت ہو سکتی تھیں۔ لڑکیوں کے معصوم‬
‫اور سادہ ذہن پر ان کے غلط طور سے اثر انداز ہو نے کا امکان تھا اور اسکے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو‬
‫تعلیم دینے کا جو امکانی فائدہ تھا وہ اس طرح کی کتابوں کو پڑھنے سے نہ صرف فوت ہو سکتا تھا‬
‫بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا تھا اس لئے نذیر احمد نے خود ایک قصہ ناول کے روپ میں لکھا جو‬
‫ان کو نہ صرف تعلیم دے بلکہ ان ک ی تربیت بھی کرے چنانچہ وہ مراۃ العروس کے دیباچے میں لکھتے‬
‫ہیں ‪:‬‬
‫’’ اس ملک میں مستورات کے پڑھنے کا رواج نہیں مگر پھر بھی بڑے شہروں میں خاص خاص شریف‬
‫خاندان کی عورتیں قرآن شریف کا ترجمہ مذہبی مسائل کے اردو رسالے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ میں خدا کا‬
‫شکر کرتا ہوں کہ می ں دلی کے ایک ایسے ہی خاندان کا آدمی ہوں۔ خاندان کے دستور کے مطابق میری‬
‫لڑکیوں نے بھی قرآن شریف اور اردو کے رسالے گھر کی بوڑھی عورتوں سے پڑھے۔ گھر میں رات‬
‫دن پڑھنے لکھنے کا چرچا رہتا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہم مردوں کی دیکھا دیکھی لڑکیوں کو بھی علم‬
‫کی طرف ای ک طرح کی خاص رغبت ہے۔ لیکن اسکے ساتھ مجھ کو یہ بھی معلوم تھا کہ جو مضامین‬
‫بچوں کے پیش نظر رہتے ہیں ان میں ان کے دل افسردہ‪ ،‬ان کی طبیعتیں منغض اور ذہن کند ہو جاتے‬
‫ہیں۔ تب مجھ کو ایسی کتاب کی حاجت ہوئی جو اخالق و نصائح سے بھری ہوئی ہو اور ان معامالت میں‬
‫جو ع ورتوں کی زندگی میں پیش آئے ہیں اور عورتیں اپنی جہالت اور توہمات کی وجہ سے ہمیشہ ان‬
‫میں مبتال رنج و مصیبت رہا کرتی ہیں۔ ان کے خیاالت کی اصالح اور ان کی عادات کی تہذیب کرے‬
‫اور کسی دلچسپ پیرائے میں ہو جس سے ان کا دل نہ اکتائے‪ ،‬طبیعت نہ گھبرائے مگر تمام کتاب خانہ‬
‫چھان مارا ایسی کتاب کا پتہ نہ مال تب میں نے اس قصے کا منصوبہ باندھا‘‘۔‬
‫نذیر احمد صرف عورتوں کے لئے اخالق و نصائح سے بھری ہوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے‬
‫جو ان کے خیاالت کی اصالح اور انکے عادات کی تہذیب کرے ایسی کتاب لکھنے کا منصوبہ باندھنے‬
‫کے لئے ان معامالت کو پیش کرنا ہی ضروری تھا جو عورتوں کی زندگی میں پیش آتے ہی۔ اصل میں‬
‫یہی وہ چیز ہے جس کی پیش کش نے نذیر احمد کو اردو کا پہال ہی نہیں بلکہ احتشام حسین کے الفاظ‬
‫میں بہت اہم ناول نگار بنا دیا ورنہ نذیر احمد ایک واعظ ناصح بن کر رہ جاتے وہ لڑکیوں کو تعلیم دینا‬
‫چاہتے تھے اسکے ساتھ ہی ساتھ اسالمی اور دینی سماجی تربیت بھی ان کے پیش نظر تھی اور وہ یہ‬
‫بھی چاہتے تھے کہ انکی باتیں دلچسپ اور موثر ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ ہر انسان میں تنقید کا مادہ ہوتا‬
‫ہے ایک انسان دوسرے ہی کو دیکھ کر سب کچھ سیکھتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتابوں میں انسانی‬
‫زندگی کے نمونے پیش کئے ہیں چونکہ ابتداء میں لڑکیاں اور عورتیں انکی مخاطب تھیں اس لئے‬
‫انھوں نے زیادہ تر عورتوں کی زندگی کے نمونے پیش کئے ہیں۔ اس طرح نذیر احمد کو ہمارے شریف‬
‫گھرانوں کی سماجی زندگی کی عکاسی کو موقعہ ہاتھ آگیا۔‬
‫مراۃ العروس میں عورتوں کے ہی کردار نمایاں ہیں۔ اصغری پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے‬
‫کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اصغری کے کردار کو مثالی اور اہم بنانے کے لئے نذیر احمد نے‬
‫ایسے متوسط مسلم گھرانے کو پیش کیا ہے۔ جس میں کئی خرابیاں تھیں۔ مسلم گھرانے کی تصویر پیش‬
‫کرنے پر نذیر احمد پر اعتراض بھی کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ عالوہ دوسرے کے سر سید جیسے‬
‫آدمی بھی مراۃ العروس پر معترض ہوتے ہیں۔ اسکا حال ہم کو حیات جاوید میں حالی کے ایک بیان سے‬
‫معلوم ہوتا ہے ‪:‬‬

‫سوال نمبر‪3‬۔ غالم عباس کی افسانہ نگاری کا جائزہ پیش کریں؟‬

‫غالم عباس ‪ 17‬نومبر ‪1909‬ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم الہور میں مکمل کی۔ آل‬
‫انڈیا ریڈیو کے رسالے "آواز" اور ریڈیو پاکستان کے رسالے "آہنگ" کے مدیر رہے۔ ‪1954‬ء سے لے‬
‫کر ‪1967‬ء تک بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہے۔‬
‫انہوں نے متعدد افسانے اور ناول لکھے اور صدر ایوب خان کی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" کا اردو‬
‫زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اُن کے افسانوی مجموعوں میں 'آنندی'‪' ،‬جاڑے کی چاندنی'‪' ،‬کن رس'‪،‬‬
‫'دھنک' اور'گوندنی واال تکیہ'جبکہ تراجم میں'زندگی نقاب چہرے'‪' ،‬الحمرا کے افسانے' اور 'انگریزی‬
‫افسانے' شامل ہیں۔ وہ ماہنامہ "تہذیب نسواں" اور بچوں کے رسالے "پھول" کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں‬
‫نے بچوں کے لیے نظموں کی کتاب "چاند تارا" بھی لکھی۔ غالم عباس کو ان کی کتاب "جاڑے کی‬
‫ت پاکستان نے انہیں ستارہ ٔامتیاز کا‬ ‫چاندنی" پر آدم جی ادبی انعام مال۔ اس کے عالوہ ‪1967‬ء میں حکوم ِ‬
‫اعزاز بھی عطا کیا تھا۔‬
‫غالم عباس ‪ 2‬نومبر ‪1982‬ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وہیں سوسائٹی قبرستان میں آسودۂ خاک‬
‫ہوئے۔‬
‫‪:‬کتبہ‬
‫کتبہ افسانہ غالم عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک نمائندہ افسانہ ہے ۔ راست اسلوب کے اس‬
‫افسانہ کا بیانہ سادہ اور اکہرا ہے ۔ جس کی ُبنت بہت مضبوط ہے ۔ تحریر میں انتہائی روانی اور‬
‫سادگی ہے ۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری بھی ایک دکھ بھری سانس لے کر رہ جاتا ہے ۔ اس افسانہ‬
‫پر یہ کہاوت ‪ /‬محاورہ بالکل درست بیٹھتی ہے کہ زرا سی بات کو افسانہ بنا دیا ۔ اس تحریر کا‬
‫‪ :‬پالٹ بہت جاندار ہے قاری کو باندھ کر رکھ دیتا ہے۔‬
‫غالم عباس صاحب کا فن یہاں اپنے عروج پہ ہے جس چابکدستی سے انھوں نے صرف ایک ہی‬
‫‪ :‬کردار کے ذریعے زندگی کا ایک پورا دور اور اس کا درد قاری کو دکھا دیا ۔‬
‫افسانہ کا آغاز ہی ایک شاندار منظر نگاری سے ہوتا ہے ‪ ،‬کہ پورا منظر مکمل جزیات کے ساتھ قاری‬
‫کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔ کہ عمارتوں کے دفاتر میں کام کرنے والے چار ہزار افراد‬
‫سامنے چلتے پھرتے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ دفتروں سے نکلنے والے کلرک اپنی مکمل وضع‬
‫قطع کے ساتھ فائلیں اٹھائے گھروں کو جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پڑھنے واال شریف حسین کے ساتھ‬
‫تانگے پر بیٹھ کر جامع مسجد کے گرد سجنے والے بازار پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں کی ایک ایک دکان‬
‫اور اس کے معیار کا نقشہ ایسی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے کہ ظروف ‪ ،‬گلدان ‪ ،‬گھڑیاں ‪ ،‬فوٹو‬
‫گرافر ‪ ،‬گراموفون ‪ ،‬ستار ‪ ،‬ب ُھس بھرا ہرن ‪ ،‬پیتل کے لم ڈھینگ ‪ ،‬بدھ کا نیم قد مجسمہ ۔۔۔۔ سب‬
‫نظروں میں اُتر آتے ۔‬
‫سنگ مرر کے ٹکڑے کو پسند کرنے کے محسوسات ‪ ،‬اس کو خریدنے اور نہ خریدنے کی کشمکش‬
‫بیان کرنے میں مصنف کو ملکہ حاصل ہے ۔ پھر آخر عمر تک اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کے جو‬
‫رویہ اور احساس شریف حسین محسوس کرتا رہا ‪ ،‬غالم عباس قاری کو بھی وہی محسوس کرواتے‬
‫‪ :‬رہے ۔‬
‫‪:‬۔‬
‫غالم عباس کے افسانوں میں زبان و بیان کی سادگی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار بھی‬
‫تھے۔انہیں اپنے انداز بیان کی سادگی کااور واقعات کی صداقت کا یقین ہوتا تھا۔ ان کے افسانے زندگی‬
‫کے دائمی عمل کو پیش کرتے ہیں۔ وہ فرد کی بجائے معاشرے کی تشکیل کو موضوع بناتے تھے۔ وہ‬
‫کسی خاص موضوع ‪ ،‬اسلوب یا جذباتی فضا میں بند بیانیہ سے افسانہ تخلیق نہیں کرتے بلکہ ایک‬
‫صورت حال ہوتی ہے جو بیان اور کردار کے تفاعل کو ہمارے لئے قاب ِل قبول بناتی ہے ۔ بیان غالم‬
‫عباس کے یہاں وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے رواجی موضوعات کی بجائے‬
‫عام زندگی کے گوشے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔‬

You might also like