Professional Documents
Culture Documents
عاصی گنہگار ،میر امن دلی واال بیان کرتا ہے کہ میرے بزرگ ہمایوں بادشاہ کے عہد سے ہر ایک
بادشاہ کی رکاب میں ،پشت بہ پشت ،جاں فشانی بجا التے رہے اور وہ بھی پرورش کی نظر سے ،قدر
دانی جتنی چاہیے ،فرماتے رہے۔
جاگیر و منصب اور خدمات کی عنایات سے سرفراز کر کر ،ماال مال اور نہال کر دیا اور خانہ زاد
زبان مبارک سے فرمایا ،چنانچہ یہ لقب بادشاہی دفتر میں داخل ہوا۔ ِ موروثی ،اور منصب دار قدیمی،
جب ایسے گھر کی (کہ سارے گھر اس گھر کے سبب آباد تھے) یہ نوبت پہنچی ،ظاہر ہے۔ (عیاں را چہ
بیاں) تب سورج مل جاٹ نے جاگیر کو ضبط کر لیا اور احمد شاہ درانی نے گھر بار تاراج کیا۔ ایسی
ایسی تباہی کھا کر ویسے شہر سے (کہ وطن اور جنم بھوم میرا ہے ،اور آنول نال وہیں گڑا ہے) جال
وطن ہوا ،اور ایسا جہاز کہ جس کا ناخدا بادشاہ تھا ،غارت ہوا۔
میں بے کسی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔ ڈوبتے کو تنکے کا آسرا بہت ہے۔ کتنے برس بلدۂ
عظیم آباد میں دم لیا۔ کچھ بنی کچھ بگڑی ،آخر وہاں بھی پاؤں اکھڑے ،روزگار نے موافقت نہ کی۔ عیال
و اطفال کو چھوڑ کر تن تنہا کشتی پر سوار ہوا ،اشرف البالد کلکتے میں آب و دانے کے زور سے آ
پہنچا۔ چندے بیکاری گزری۔
اتفاقا ً نواب دالور جنگ نے بلوا کر ،اپنے چھوٹے بھائی میر محمد کاظم خاں کی اتالیقی کے واسطے
مقرر کیا۔ قریب دو سال کے وہاں رہنا ہوا ،مگر نباہ اپنا نہ دیکھا۔ تب منشی میر بہادر علی جی کے
وسیلے سے ،حضور تک ،جان گلکرسٹ صاحب بہادر (دام اقبالہ) کے ،رسائی ہوئی۔
بارے ،طالع کی مدد سے ایسے جواں مرد کا دامن ہاتھ لگا ہے ،چاہیے کہ دن کچھ بھلے آویں۔ نہیں تو یہ
بھی غنیمت ہے کہ ایک ٹکڑا کھا کر ،پاؤں پھیال کر سو رہتا ہوں اور گھر میں دس آدمی ،چھوٹے بڑے،
پرورش پا کر دعا اس قدردان کو کرتے ہیں۔
رگوں کے منہ سے یوں سنی ہے کہ دلی شہر ہندوؤں کے نزدیک چوجگی ہے ،انہیں کے راجا پرجا
قدیم سے رہتے تھے اور اپنی بھاکھا بولتے تھے۔ ہزار برس سے مسلمانوں کا عمل ہوا۔ سلطان محمود
غزنوی آیا ،پھر غوری اور لودھی بادشاہ ہوئے۔ اس آمدورفت کے باعث کچھ زبانوں نے ہندو مسلمان
کی آمیزش پائی۔ آخر امیر تیمور نے (جن کے گھرانے میں اب تلک نام نہاد سلطنت کا ،چال جاتا ہے)
ہندوستان کو لیا۔ ان کے آنے اور رہنے سے لشکر کا بازار شہر میں داخل ہوا۔ اس واسطے شہر کا بازار
اردو کہالیا۔ پھر ہمایوں بادشاہ پٹھانوں کے ہاتھ سے حیران ہو کر والیت گئے۔ آخر وہاں سے آن کر
پسماندوں پٹھانوں کی گوشمالی کی۔ کوئی مفسد باقی نہ رہا کہ فتنہ و فساد برپا کرے۔
جب اکبر بادشاہ تخت پر بیٹھے تب چاروں طرف کے ملکوں سے قوم ،قدردانی اور فیض رسانی اس
خاندا ِن الثانی کی سن کر ،حضور میں آ کر جمع ہوئے۔ لیکن ہر ایک کی گویائی اور بولی ُجدی ُجدی
تھی۔ اکٹھے ہونے سے آپس میں لین دین ،سودا سلف ،سوال و جواب کرنے کی زبان اردو کی مقرر
ہوئی۔ جب حضرت شاہ جہان ،صاحب قران نے قلعۂ مبارک اور جامع مسجد اور شہر پناہ تعمیر کروایا
اور تخت طاؤس میں جواہر جڑوایا اور دل بادل سا خیمہ ،چوبوں پر استاد کر ،طنابوں سے کھنچوایا اور
نواب علی مردان خان نہر کو لے کر آیا ،تب بادشاہ نے خوش ہو کر جشن فرمایا اور شہر کو اپنا
معلی خطاب دیا۔ٰ دارالخالفت بنایا ،تب سے شاہ جہاں آباد مشہور ہوا اور وہاں کے بازار کو اردوئے
امیر تیمور کے عہد سے محمد شاہ کی بادشاہت ،بلکہ احمد شاہ اور عالم گیر ثانی کے وقت تک ،پیڑھی
بہ پیڑھی ،سلطنت یکساں چلی آئی ،ندان ،زبان اردو کی منجھتے منجھتے ایسی منجھی کہ کسو شہر کی
بولی اس سے ٹکر نہیں کھاتی ،لیکن قدردان منصف چاہیے ،جو تجویز کرے۔ سو اب خدا نے ،بعد موت
کے ،جان گلکرسٹ صاحب سا دانا ،نکتہ رس پیدا کیا کہ جنہوں نے اپنے گیان اور اُگت سے ،اور تالش
و محنت سے ،قاعدوں کی کتابیں تصنیف کیں۔ اس سبب سے ہندوستان کی زبان کا ملکوں میں رواج ہوا
اور نئے سر سے رونق زیادہ ہوئی۔
جب احمد شاہ ابدالی کابل سے آیا اور شہر کو لٹوایا ،شاہ عالم پورب کی طرف تھے۔ کوئی وارث اور
مالک ،ملک کا نہ رہا ،شہر بے سر ہو گیا۔ ہیچ ہے ،بادشاہت کے اقبال سے شہر کی رونق تھی۔ ایک
بارگی تباہی پڑی۔ رئیس وہاں کے ،میں کہیں تم کہیں ،ہو کر جہاں جس کے سینگ سمائے وہاں نکل
گئے۔ جس ملک میں پہنچے ،وہاں کے آدمیوں کے ساتھ سنگت سے بات چیت میں فرق آیا۔ اور بہت
ایسے ہیں کہ دس پانچ برس کسو سبب سے دلی میں گئے اور رہے ،وے بھی کہاں تک بول سکیں گے،
کہیں نہ کہیں چوک ہی جائیں گے۔ اور جو شخص سب آفتیں سہہ کر دلی کا روڑا ہو کر رہا ،اور دس
پانچ پشتیں اسی شہر میں گزاریں ،اور اس نے دربار امراؤں کے ،اور میلے ٹھیلے ،عرس چھڑیاں سیر
تماشا اور کوچہ گردی اس شہر کی مدت تلک کی ہوگی ،اور وہاں سے نکلنے کے بعد اپنی اپنی زبان
کو لحاظ میں رکھا ہوگا ،اس کا بولنا البتہ ٹھیک ہے۔ یہ عاجز بھی ہر ایک شہر کی سیر کرتا اور تماشا
دیکھتا یہاں تلک پہنچا ہے۔
نذیر احمد کی ناول نگاری کی ابتداء ہی سماجی مسائل کے حل کے لیے ہوئی ہندوستان میں جب تعلیم
کو عام کرنے کی تحریک چلی تو تعلیم نسواں کا سوال بھی درپیش ہوا کیونکہ اس کے بغیر سماج کی
قرار واقعی اصالح نہیں ہو سکتی تھی۔ عورت صرف بیٹی بہن یا بیوی نہیں ہوتی بلکہ ماں بھی ہوتی
ہے۔ ماں سے ہی بچے کو دنیا کی پہلی تعلیم ملتی ہے اگر وہی جاہل اور ان پڑھ رہے جائے تو بچے کی
شخصیت کی تعمیر میں خرابی کی کئی صورتیں مضمر رہ سکتی ہیں۔ اسکے عالوہ نسوانی تعلیم کی
ضرورت گھر اور ازدواجی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ بیوی کی وجہ سے گھر جنت
بھی بن سکتا ہے اور جہنم بھی۔ نذیر احمد مراۃ العروس میں اسی مسئلے کو پیش کرتے ہیں کہ ایک
پردے میں بیٹھنے والی عورت بھی کسطرح سماجی زندگی میں خاموش مگر بے حد اہم خدمات انجام
دیتی ہے ان کے سامنے عورتوں کی تعلیم کا مسئلہ اہم بن کر آیا۔ وہ خود اپنی لڑکیوں کو تعلیم دینا
چاہتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوئی موزوں کتاب نہ تھی جس سے
مسلمان گھرانوں کی لڑکیاں دلچسپی سے پڑھ کر اپنی علمی استعداد کو بڑھا سکیں۔ اس وقت تک اردو
میں جتنے قصے اور کہانیاں تھیں وہ سب کی سب حسن و عشق سے پر تھیں۔ ہر داستان کا ہیرو ایک
بادشاہ شہزادہ یا امیر زادہ ہوا کرتا تھا جس کو عیش کوشی اور لذت پرستی کی ساری سہولتیں حاصل
تھیں۔ یہ داتا مسلم گھرانوں کی لڑکیوں کے لئے مخرب اخالق ثابت ہو سکتی تھیں۔ لڑکیوں کے معصوم
اور سادہ ذہن پر ان کے غلط طور سے اثر انداز ہو نے کا امکان تھا اور اسکے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو
تعلیم دینے کا جو امکانی فائدہ تھا وہ اس طرح کی کتابوں کو پڑھنے سے نہ صرف فوت ہو سکتا تھا
بلکہ نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا تھا اس لئے نذیر احمد نے خود ایک قصہ ناول کے روپ میں لکھا جو
ان کو نہ صرف تعلیم دے بلکہ ان ک ی تربیت بھی کرے چنانچہ وہ مراۃ العروس کے دیباچے میں لکھتے
ہیں :
’’ اس ملک میں مستورات کے پڑھنے کا رواج نہیں مگر پھر بھی بڑے شہروں میں خاص خاص شریف
خاندان کی عورتیں قرآن شریف کا ترجمہ مذہبی مسائل کے اردو رسالے پڑھ لیا کرتی تھیں۔ میں خدا کا
شکر کرتا ہوں کہ می ں دلی کے ایک ایسے ہی خاندان کا آدمی ہوں۔ خاندان کے دستور کے مطابق میری
لڑکیوں نے بھی قرآن شریف اور اردو کے رسالے گھر کی بوڑھی عورتوں سے پڑھے۔ گھر میں رات
دن پڑھنے لکھنے کا چرچا رہتا تھا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہم مردوں کی دیکھا دیکھی لڑکیوں کو بھی علم
کی طرف ای ک طرح کی خاص رغبت ہے۔ لیکن اسکے ساتھ مجھ کو یہ بھی معلوم تھا کہ جو مضامین
بچوں کے پیش نظر رہتے ہیں ان میں ان کے دل افسردہ ،ان کی طبیعتیں منغض اور ذہن کند ہو جاتے
ہیں۔ تب مجھ کو ایسی کتاب کی حاجت ہوئی جو اخالق و نصائح سے بھری ہوئی ہو اور ان معامالت میں
جو ع ورتوں کی زندگی میں پیش آئے ہیں اور عورتیں اپنی جہالت اور توہمات کی وجہ سے ہمیشہ ان
میں مبتال رنج و مصیبت رہا کرتی ہیں۔ ان کے خیاالت کی اصالح اور ان کی عادات کی تہذیب کرے
اور کسی دلچسپ پیرائے میں ہو جس سے ان کا دل نہ اکتائے ،طبیعت نہ گھبرائے مگر تمام کتاب خانہ
چھان مارا ایسی کتاب کا پتہ نہ مال تب میں نے اس قصے کا منصوبہ باندھا‘‘۔
نذیر احمد صرف عورتوں کے لئے اخالق و نصائح سے بھری ہوئی کتاب لکھنا چاہتے تھے
جو ان کے خیاالت کی اصالح اور انکے عادات کی تہذیب کرے ایسی کتاب لکھنے کا منصوبہ باندھنے
کے لئے ان معامالت کو پیش کرنا ہی ضروری تھا جو عورتوں کی زندگی میں پیش آتے ہی۔ اصل میں
یہی وہ چیز ہے جس کی پیش کش نے نذیر احمد کو اردو کا پہال ہی نہیں بلکہ احتشام حسین کے الفاظ
میں بہت اہم ناول نگار بنا دیا ورنہ نذیر احمد ایک واعظ ناصح بن کر رہ جاتے وہ لڑکیوں کو تعلیم دینا
چاہتے تھے اسکے ساتھ ہی ساتھ اسالمی اور دینی سماجی تربیت بھی ان کے پیش نظر تھی اور وہ یہ
بھی چاہتے تھے کہ انکی باتیں دلچسپ اور موثر ہوں۔ وہ جانتے تھے کہ ہر انسان میں تنقید کا مادہ ہوتا
ہے ایک انسان دوسرے ہی کو دیکھ کر سب کچھ سیکھتا ہے۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتابوں میں انسانی
زندگی کے نمونے پیش کئے ہیں چونکہ ابتداء میں لڑکیاں اور عورتیں انکی مخاطب تھیں اس لئے
انھوں نے زیادہ تر عورتوں کی زندگی کے نمونے پیش کئے ہیں۔ اس طرح نذیر احمد کو ہمارے شریف
گھرانوں کی سماجی زندگی کی عکاسی کو موقعہ ہاتھ آگیا۔
مراۃ العروس میں عورتوں کے ہی کردار نمایاں ہیں۔ اصغری پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے
کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔ اصغری کے کردار کو مثالی اور اہم بنانے کے لئے نذیر احمد نے
ایسے متوسط مسلم گھرانے کو پیش کیا ہے۔ جس میں کئی خرابیاں تھیں۔ مسلم گھرانے کی تصویر پیش
کرنے پر نذیر احمد پر اعتراض بھی کیا گیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ عالوہ دوسرے کے سر سید جیسے
آدمی بھی مراۃ العروس پر معترض ہوتے ہیں۔ اسکا حال ہم کو حیات جاوید میں حالی کے ایک بیان سے
معلوم ہوتا ہے :
غالم عباس 17نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی تعلیم الہور میں مکمل کی۔ آل
انڈیا ریڈیو کے رسالے "آواز" اور ریڈیو پاکستان کے رسالے "آہنگ" کے مدیر رہے۔ 1954ء سے لے
کر 1967ء تک بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہے۔
انہوں نے متعدد افسانے اور ناول لکھے اور صدر ایوب خان کی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز" کا اردو
زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اُن کے افسانوی مجموعوں میں 'آنندی'' ،جاڑے کی چاندنی'' ،کن رس'،
'دھنک' اور'گوندنی واال تکیہ'جبکہ تراجم میں'زندگی نقاب چہرے'' ،الحمرا کے افسانے' اور 'انگریزی
افسانے' شامل ہیں۔ وہ ماہنامہ "تہذیب نسواں" اور بچوں کے رسالے "پھول" کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں
نے بچوں کے لیے نظموں کی کتاب "چاند تارا" بھی لکھی۔ غالم عباس کو ان کی کتاب "جاڑے کی
ت پاکستان نے انہیں ستارہ ٔامتیاز کا چاندنی" پر آدم جی ادبی انعام مال۔ اس کے عالوہ 1967ء میں حکوم ِ
اعزاز بھی عطا کیا تھا۔
غالم عباس 2نومبر 1982ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وہیں سوسائٹی قبرستان میں آسودۂ خاک
ہوئے۔
:کتبہ
کتبہ افسانہ غالم عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک نمائندہ افسانہ ہے ۔ راست اسلوب کے اس
افسانہ کا بیانہ سادہ اور اکہرا ہے ۔ جس کی ُبنت بہت مضبوط ہے ۔ تحریر میں انتہائی روانی اور
سادگی ہے ۔ انجام تک پہنچتے پہنچتے قاری بھی ایک دکھ بھری سانس لے کر رہ جاتا ہے ۔ اس افسانہ
پر یہ کہاوت /محاورہ بالکل درست بیٹھتی ہے کہ زرا سی بات کو افسانہ بنا دیا ۔ اس تحریر کا
:پالٹ بہت جاندار ہے قاری کو باندھ کر رکھ دیتا ہے۔
غالم عباس صاحب کا فن یہاں اپنے عروج پہ ہے جس چابکدستی سے انھوں نے صرف ایک ہی
:کردار کے ذریعے زندگی کا ایک پورا دور اور اس کا درد قاری کو دکھا دیا ۔
افسانہ کا آغاز ہی ایک شاندار منظر نگاری سے ہوتا ہے ،کہ پورا منظر مکمل جزیات کے ساتھ قاری
کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے ۔ کہ عمارتوں کے دفاتر میں کام کرنے والے چار ہزار افراد
سامنے چلتے پھرتے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ دفتروں سے نکلنے والے کلرک اپنی مکمل وضع
قطع کے ساتھ فائلیں اٹھائے گھروں کو جاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ پڑھنے واال شریف حسین کے ساتھ
تانگے پر بیٹھ کر جامع مسجد کے گرد سجنے والے بازار پہنچ جاتا ہے ۔ جہاں کی ایک ایک دکان
اور اس کے معیار کا نقشہ ایسی خوبصورتی سے کھینچا گیا ہے کہ ظروف ،گلدان ،گھڑیاں ،فوٹو
گرافر ،گراموفون ،ستار ،ب ُھس بھرا ہرن ،پیتل کے لم ڈھینگ ،بدھ کا نیم قد مجسمہ ۔۔۔۔ سب
نظروں میں اُتر آتے ۔
سنگ مرر کے ٹکڑے کو پسند کرنے کے محسوسات ،اس کو خریدنے اور نہ خریدنے کی کشمکش
بیان کرنے میں مصنف کو ملکہ حاصل ہے ۔ پھر آخر عمر تک اس سنگ مر مر کے ٹکڑے کے جو
رویہ اور احساس شریف حسین محسوس کرتا رہا ،غالم عباس قاری کو بھی وہی محسوس کرواتے
:رہے ۔
:۔
غالم عباس کے افسانوں میں زبان و بیان کی سادگی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار بھی
تھے۔انہیں اپنے انداز بیان کی سادگی کااور واقعات کی صداقت کا یقین ہوتا تھا۔ ان کے افسانے زندگی
کے دائمی عمل کو پیش کرتے ہیں۔ وہ فرد کی بجائے معاشرے کی تشکیل کو موضوع بناتے تھے۔ وہ
کسی خاص موضوع ،اسلوب یا جذباتی فضا میں بند بیانیہ سے افسانہ تخلیق نہیں کرتے بلکہ ایک
صورت حال ہوتی ہے جو بیان اور کردار کے تفاعل کو ہمارے لئے قاب ِل قبول بناتی ہے ۔ بیان غالم
عباس کے یہاں وسیلہ ہے جس سے کہانی وجود میں آتی ہے۔ انہوں نے رواجی موضوعات کی بجائے
عام زندگی کے گوشے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔