You are on page 1of 32

‫‪Adbi warsa‬‬

‫‪Paish’kash:‬‬ ‫‪Maqsood Hasni‬‬

‫‪Hyderabad main gher'mosalmoun‬‬


‫‪ki Urdu kay liay khidmaat‬‬
‫دددددددد ددد ددد دددددد دد دددد کےے لےیےخدےم اےت‬

‫رشید الدین | حیدرآباد دکن‬

‫اردو ہندوستانیوں کی پسندیدہ زبان ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لل نہرو اردو‬
‫کے پرستاروں میں سے تھے ۔ اردو ادبا اور شعراء کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بل تفریق‬
‫مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا ۔‬
‫ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں موثر رول ادا کیا ۔ اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے‬
‫نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے ۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی‬
‫مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار‬
‫دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیور طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لیا ۔‬
‫حیدرآباد میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے‬
‫ہیں ۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں ۔‬
‫ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف‬
‫اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد‬
‫دریابادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ ‪ ،‬جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا‬
‫کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعراء کہہ سکتے ہیں ۔ ذکی کو میلدالنب ؐی کے‬
‫جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا ۔ میلدالنب ؐی کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلم سنارہے تھے‬
‫۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ۔‬

‫قیامت میںمحم ؐد کا سہارا ڈھونڈھنے والے‬


‫سنا بھی زندگی میں تو نے فرمایامحم ؐد کا‬

‫ایسے ہی قلمکاروں میں ایک ہستی رائے جانکی پرشاد کی بھی تھی ۔ اردو میں اعلی قابلیت کی‬
‫وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے ۔‬
‫قیام جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لئے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا‬
‫جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعراء کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح‬
‫آبادی ‪ ،‬علمہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں ۔ رائے‬
‫جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی‬
‫اصطلحات کی تدوین فرمائی ۔‬
‫رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے ۔ ان کا لباس ٹوپی‪ ،‬شیروانی اور‬
‫ن خدمت پر علحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ‬ ‫پاجامہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ وظیفہ حس ِ‬
‫ہوئے اور ان کی رہنمائی کی ۔ وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے ۔ حامد نواز جنگ‬
‫نے جو لولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے‬
‫فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء کو وظائف جاری کئے جاتے تھے ۔ رائے جانکی پرشاد‬
‫اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی تھے۔‬
‫نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے‪ ،‬انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے‬
‫پر ہی کینسر ہاسپٹل قائم کیا ۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل‬
‫ہے ۔ ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا‬
‫۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور ’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں‬
‫ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔‬
‫تخلیق کار اپنی تخلیق ‪ ،‬محقق اپنی تحقیق اور نقاد اپنی تنقید سے ادب کے گیسو سنوارنے میں‬
‫مصروف رہتے ہیں ۔ باگاریڈی نے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کی‬
‫گراں قدر خدمت انجام دی ۔ راقم کا آندھرا کی تشکیل کے بعد پہلے سب انسپکٹر پولیس بیاچ‬
‫‪1958‬ء سے تعلق رہا ہے ۔ شرائط ملزمت کے اعتبار سے تین سال کے عرصہ میں اس بیاچ‬
‫والوں کو تھرڈ کلس تلگو زبان دانی کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا ۔ ‪1959‬ء میں ٹریننگ‬
‫کے کامیاب اختتام پر راقم کو نظام آباد پر تعینات کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تین سال تک پبلک‬
‫سروس کمیشن نے مطلوبہ زبان دانی کا امتحان ہی منعقد نہیں کیا ۔ شرائط ملزمت کے تحت راقم‬
‫‪ ،‬سری دھر راؤ اور محمد علی خاں کو ملزمت سے ہٹادیا گیا ۔ باگاریڈی نے بحیثیت صدر‬
‫انجمن تحفظ اردو ہمارے کیس کو اس وقت کے چیف منسٹر جناب نیلم سنجیواریڈی صاحب سے‬
‫رجوع کیا اور ان کی کامیاب نمائندگی سے تین مہینے میں ہم لوگوں کی بحالی عمل میں آئی۔‬
‫باگاریڈی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے ۔ وہ ضلع پریشد میدک کے صدر نشین رہ چکے‬
‫ہیں ۔ انہوں نے ظہیر آباد میں ایک ادبی انجمن ’’بزم سخن‘‘ قائم کی تھی ۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی‬
‫آندھرا پردیش کے صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں ۔ انھوں نے اردو ویلفیر فنڈ‬
‫قائم کیا تھا جس سے مستحق اور ضرورت مند قلم کاروں کی مدد کی جاتی تھی ۔ ان کے‬
‫مضامین کا ایک مجموعہ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘ اور دوسری کتاب ’’تلگو زبان اور‬
‫ادب‘‘ اور تیسری کتاب ’’آندھرا پردیش‘’ ان کی یادگار ادبی تصانیف ہیں ۔‬
‫بھارت چند کھنہ ملک کے ممتاز مزاح نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے جامعہ‬
‫عثمانیہ سے ایم اے کیا ۔ وہ انجمن زندہ دلن حیدرآباد کے بانی رہے ۔ انہوں نے ‪1966‬ء میں زندہ‬
‫دلن حیدرآباد کی پہلی کل ہند کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا ۔ ان کے ظریفانہ مضامین‬
‫حیدرآباد کے موقر روزنامہ سیاست میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان کے طنزیہ مضامین کا مجموعہ‬
‫’’تیر نیم کش‘‘ اور ان کی مشہور مزاحیہ کتاب ’’ذرا مسکراؤ‘‘ شائع ہوچکی ہے ۔ انہوں نے راج‬
‫بھون میں گورنر کے سکریٹری کے فرائض بھی انجام دئے ۔ اس زمانہ میں سکریٹریٹ کی اردو‬
‫اسوسی ایشن قائم ہوئی جس کے وہ پہلے صدر تھے ۔‬
‫کنول پرشاد کنول ‪ ،‬اردو اور ہندی کے ممتاز شاعر تھے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلم مخصوص‬
‫ترنم کے ساتھ سناتے اور کبھی تحت اللفظ بھی سنایا کرتے تھے ۔ انہوں نے لل قلعہ میں منعقد‬
‫ہونے والے مشاعروں میں بھی اپنا کلم سنایا ۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر محکمہ اطلعات کی حیثیت سے‬
‫کام کرتے ہوئے انہوں نے اردو کی بڑی خدمت انجام دی ۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری کی‬
‫ایک نظم ’’مجھ سے میرا نام نہ پوچھو‘‘ کافی مقبول ہوئی ۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف‬
‫میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا نعتیہ کلم بھی سند مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ کڑپہ میں منعقدہ ایک‬
‫مشاعرہ میں ان کی نعت شریف حاصل مشاعرہ رہی ۔ ان کے تعلقات نہ صرف ہندوستانی شعراء‬
‫سے تھے بلکہ پاکستانی شعراء سے بھی خاص تعلقات تھے ۔ پاکستان کے ایک مشاعرہ میں ان کو‬
‫مدعو کیا گیا تھا ۔ اس مشاعرہ میں جو غزل انہوں نے پڑھی تھی اس کے چند اشعار ملحظہ‬
‫فرمایئے۔‬

‫جسے تم یاد میں اپنی تڑپتا چھوڑ آئے ہو‬


‫تمہاری نذر اس بھولے وطن کا نام لیا ہوں‬
‫میں دیکھوں گا کہ اب کن کن سے تم آنکھیں چراؤگے‬
‫شب عثمان ساگر صبح باغ عام لیا ہوں‬
‫اٹھاؤ اپنی نظریں پی سکو تو ان کو پی جاؤ‬
‫بھری آنکھوں میں الفت کے چھلکتے جام لیا ہوں‬

‫محبوب نارائن نہ صرف علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی‬
‫وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ پرانے شہر میں جب بھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی جیسے چیچک ‪،‬‬
‫پلیگ ‪ ،‬ہیضہ وغیرہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی سرگرمی سے متاثرین کو دواخانہ پہنچاتے‬
‫اور مرنے والوں کی نعشوں کو آبادی سے دور لے جا کر سپرد خاک و آگ کردیا کرتے تھے ۔ وہ‬
‫حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت اور اردو کے پرستار تھے ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب‬
‫’’گزشتہ حیدرآباد‘‘ حیدرآبادی تہذیب کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اسی طرح راج بہادر گوڑ نے‬
‫ساری زندگی اردو کی خدمت کی جنہوں نے اپنے پیشہ طبابت کو خیرباد کہہ کر اردو کی خدمت‬
‫انجام دی ۔ ایسے ہی بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے نام آج بھی روشن ہیں جنہوں نے اردو‬
‫شعر و ادب کی خدمت انجام دے کر اس زبان کی لطافت کو نمایاں کیا ۔‬
‫‪|Bazm e Qalam‬‬
‫‪http://www.forumpakistan.com/hyderabad-main-‬‬
‫‪ghermosalmoun-ki-urdu-kay-liay-khidmaat-‬‬
‫‪t70876.html#ixzz1FMxlByuk‬‬

‫‪Eman ka sabaq‬‬
‫ایمان کا سبق‬

‫حامد کمال الدینکوئی شخص اپنی ”امید“ میں سچا ہے تو وہ اس کی ”طلب“ میں ضرور نکلتا‬
‫ہے! راستہ جہنم کا اور امید جنت کی‪ ،‬اسی کو علمائے قلوب کی اصطلح میں ’فریب‘ اور‬
‫’غروِر آرزو‘ کہتے ہیں۔ نہ اس کا نام ’امید‘ ہے اور نہ ’خدا کے ساتھ حس ِ‬
‫ن ظن‘! آدمی جہنم کے‬
‫بیج بوئے اور اس سے جنت کے میووں کی آس کرے‪ ،‬یہ خوش زعمی اور نادانی ہے اور‬
‫درحقیقت شیطان کے جھانسے میں آجانا!۔‬

‫کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا‪:‬۔‬


‫نجات کے متلشی ہو‪ ،‬مگر راستہ تباہی کا چل رہے ہو‬
‫امید کی جس کشتی پہ جا بیٹھے ہو‪ ،‬یہ ’خشکی‘ پر تو آخر نہیں چلے گی!۔‬

‫گناہ ہیں تو تب کیا ہے‪’ ،‬امید‘ کا راستہ تو بہت کھل ہے! مگر تعجب تو اس شخص پر ہے جو‬
‫’توبہ‘ اور ’عمل صالح‘ کی طرف آنے کا نام نہیں لیتا اور برابر ’خوش گمانی‘ کا سہارا لئے‬
‫بیٹھا ہے!۔‬

‫خدا کے ہاں جو سلمتی کا گھر ہے‪ ،‬اس میں اگر اسکے سوا کوئی اور خوبی نہ ہوتی کہ نہ تو‬
‫وہاں ’موت‘ اور نہ ’بیماری‘ اور نہ ’پریشانی‘‪ ..‬تو بخدا لوگ ِاس جہان کو چھوڑ چھوڑ کر ُاس‬
‫کی جانب بھاگ رہے ہوتے! لوگ اگر کسی ایسے جزیرے کا سن لیں جس میں موت کا گزر نہیں‬
‫تو سب لوگ اسی کا رخ کررہے ہوتے‪ ،‬چاہے یہاں کے محلت چھوڑ کر وہاں ُپرمشقت زندگی‬
‫کیوں نہ گزارنی پڑے! جبکہ خدا نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ ِاسکو چھوڑ کر وہاں آؤ۔ ُاس نے تو‬
‫صرف یہ کہا ہے کہ جب یہاں تمہارا وقت پورا ہوجائے تو وہاں آجاؤ‪ ،‬مگر تیاری کرکے! بھل اس‬
‫سے بہتر کوئی پیش کش ہوسکتی ہے؟۔‬

‫زمین پر اگر ایسا کوئی جزیرہ ہوتا جہاں موت نہیں‪ ،‬تو لوگ اپنے بنے بنائے مکانات اور زمینیں‬
‫جائدادیں سب چھوڑ کر وہاں کوچ کر رہے ہوتے‪ ،‬چاہے وہاں ان کو فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں‪....‬‬
‫تو پھر ُاس جہان کی بابت کیا خیال ہے جس میں لوگ بادشاہوں کی طرح رہیں گے! سدا خوشیوں‬
‫اور لذتوں میں لوٹیں گے! جو دل خواہش کرلے سو حاضر ہو۔ جو نگاہ کو لطف دے وہ دیکھنے‬
‫کو ملے‪ ،‬اور خلد کی نعمت اس پر سوا! ایک نعمت سے دل بھرا نہ ہوگا کہ ایک اور نعمت آدمی‬
‫نگا ِہ التفات کی منتظر! ایک ایسی دنیا جو ’زوال‘ کے مفہوم سے ہی آشنا نہیں! وہاں تو‬ ‫کی‬
‫’نیند‘ نہیں‪ ،‬کیونکہ نعمتیں اتنی ہیں اور دلچسپیوں کا سامان اس قدر ہے کہ لطف و سرود سے‬
‫فرصت ہی نہیں! نعمت کہ نری نعمت ہو‪ ،‬اور ساتھ میں کسی مصیبت یا پریشانی کی ذرہ بھر‬
‫آلئش نہ ہو‪ ،‬ایسی نعمت کا تو تصور ہی نہیں مگر اسی ’سلمتی کے گھر میں‘ جو خدا کے ہاں‬
‫پایا جاتا ہے!۔‬

‫برادرم! دنیا آخرت کی ’کھیتی‘ ہے۔ یہ ’قلب‘ جو تمہیں حاصل ہے دراصل یہ تمہاری ’زمین‘ ہے۔‬
‫چاہو تو اس کو سنوار لو اور پھر اس میں ’ایمان‘ کا بیج بو لو۔ بندگی کے افعال سے اس کو‬
‫’سیراب‘ کرو۔ گناہوں اور نافرمانیوں کا ’جھاڑ جھنکاڑ‘ یہاں پر تلف کرنے میں برابر لگے رہو۔‬
‫اور قیامت اس ’کٹائی‘ کا دن ہے۔ کچھ بھی نہیں تو ایک نظر تو روز ہی اس ’زمین‘ میں دوڑا لیا‬
‫کرو۔ یہاں جو فصل پکنے کے لئے آج چھوڑ دی گئی ہے‪’ ،‬آخرت‘ میں یہی ’دانے‘ گھر آئیں گے‪،‬‬
‫اور پھر باقی عمر یہی کھانے ہوں گے! ہونا تو یہ چاہیے کہ نگاہ کو اس فصل کی دیکھ بھال سے‬
‫فرصت ہی نہ ملے! کوئی سال دو سال کا تو معاملہ نہیں یہ تو ’زندگی کی فصل‘ ہے!۔‬

‫وہ قوی ترین جذبہ جس کی بدولت ایک ’فصل‘ کے اگانے میں آدمی اپنا دل ڈال دیا کرے‪ ،‬اس‬
‫جذبہ کا نام ’امید‘ ہے۔ ’امید‘ ایک حقیقی جذبہ ہے۔ ’تعمیر‘ کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ پھر اگر‬
‫فصل ایک جہان میں بو کر کٹائی ایک دوسرے جہان میں جاکر کرنی ہو‪ ،‬پھر تو ’امید‘ کی ایک‬
‫خاص ہی کیفیت درکار ہے۔ ’امید‘ کی یہ صورت خدا کی صفات اور خدا کی شان جاننے کا ہی‬
‫نتیجہ ہوسکتی ہے۔‬

‫پس ’امید‘ کی وہ عظیم ترین صورت جو ایک لفانی جہان سے وابستہ ہے‪ ،‬انسان کے ہاں پایا‬
‫جانے وال ایک برگزیدہ ترین جذبہ ہے۔ یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی ایک خاص ہیئت ہے!۔‬
‫ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں‬
‫رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ‬
‫اسکے سوا ہر چیز جو ِاس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے‪ ،‬نم کی صلحیت پر اگر‬
‫اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا‪ ،‬ہوا اور دھوپ پر اگر‬
‫اس کو یقین نہ ہو‪ ،‬اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو‪ ....‬تو کبھی وہ‬
‫اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے‬
‫تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!۔‬

‫پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے‬
‫پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا‬
‫’ناامید‘ کہلنے کا مستحق ہے!۔‬

‫دل‘ کی زمین میں ’عبادت‘ کی فصل بونا اور اس کو مسلسل ’نم‘ فراہم کرنااور ’نیکی‘ کے’‬
‫اوزاروں سے مسلسل اس کی نگہداشت میں لگے رہنا‪’ ....‬امید‘ کی تصویر تو اصل میں یہ ہے!‬
‫اور خدا کو اس کے اسماءوصفات سے جاننا بھی دراصل یہ! تبھی تو آخرت کا انکار خدا کا انکار‬
‫ہے‪ ،‬خصوصًا خدا کی عظمت و کبریائی اور حکمت ودانائی اور اس کی رحمت و کرم اور ُاس‬
‫کے وکیل وکارساز اور قابل بھروسہ ہونے کا انکار ہے!۔‬

‫ت کمال پر’‬‫ب مومن میں موجزن ہوتا ہے‪ ،‬اور خدا کی بے شمار صفا ِ‬
‫امید‘ ایسا عظیم جذبہ جو قل ِ‬
‫س جلی ہے‪ ،‬اس کا ایک فاجر شخص کے اس انداِز فکر سے کیا تعلق جو پورے‬ ‫یقین کا ایک عک ِ‬
‫دھڑلے سے خدا کی نافرمانی کرتے وقت کہے‪’ :‬ارے کیا ہوتا ہے‘؟!۔‬
‫‪http://www.eeqaz.com/main/articles/11/20110118_umeed-‬‬
‫‪e-samar.htm I c e b e r‬‬
‫‪ayesha.hafzal@yahoo.com‬‬
‫‪Read more: http://www.forumpakistan.com/eman-ka-‬‬
‫‪sabaq-t70858.html#ixzz1FMyAaK3l‬‬

‫‪Hamari lisani osrat aur os ka‬‬


‫‪asbaab‬‬
‫ہماری لسانی عسرت اور اس کے اسباب )شاہ نواز فاروقی‬
‫پاکستان کی سب سے بڑی معاشی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا ‪ 80‬فیصد خط ِغربت سے‬
‫نیچے زندگی بسر کررہا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی لسانی حقیقت یہ ہے کہ ملک کی آبادی کا‬
‫‪ 80‬فیصد ”خط ِغربت ِلسانی“ سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ‬
‫صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ملک کو لسانی دہشت گردی کا سامنا ہے۔ ملک کے‬
‫ممتاز نقاد ڈاکٹر تحسین فراقی نے برادرم رؤف پاریکھ کے ایک مضمون کے حوالے سے لکھی‬
‫گئی ایک تحریر میں اس امر پر گہری تشویش ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے ذرائع ابلغ میں‬
‫انگریزی الفاظ اور رومن رسم الخط کا استعمال ہولناک حد تک بڑھ چکا ہے۔اس سلسلے میں‬
‫ل کیپٹل ٹاک‪ ،‬کرائسس سیل‪ ،‬اے‬ ‫انہوں نے ٹی وی کے پروگراموں کے ناموں کی مثال دی ہے۔ مث ً‬
‫مارننگ ود فرح‪ ،‬برنچ ودبشر ٰی‪ ،‬لئیو ود طلعت‪ ،‬اونسٹلی اسپیکنگ‪ ،‬خواجہ آن لئن‪ ،‬شادی آن‬
‫لئن‪ ،‬عالم آن لئن۔ڈاکٹر تحسین فراقی نے اشتہاری تختوں میں رومن اور انگریزی کے استعمال‬
‫کی مثالیں بھی دی ہیں‪ ،‬مث ً‬
‫ل‬
‫‪)، Thund‬نو سمجھوتا( ‪)، No Sumjhota‬پیو اور جیو( ‪P i y o aur Jiyo‬‬
‫‪)،‬ہیلدی ہوگا پاکستان( ‪)، Helthy Hoga Pakistan‬ٹھنڈ پروگرام( ‪Programme‬‬
‫سب کہہ دو( وغیرہ وغیرہ۔( ‪Sub Keh do‬‬
‫ڈاکٹر صاحب یہاں صرف مثالیں دے کر نہیں رہ گئی‪ ،‬انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ آخر‬
‫اس لسانی صورت ِحال کا سبب کیا ہی؟ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ کہیں یہ اردو رسم الخط‬
‫کو ختم کرکے اس کی جگہ رومن رسم الخط رائج کرنے کی سازش تو نہیں؟ پاکستان کے خلف‬
‫اتنی سازشیں ہورہی ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں‪ ،‬لیکن ہمارا خیال ہے کہ ملک کو جس لسانی‬
‫صورت ِحال کا سامنا ہے اس کی توجیہہ دلئل کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ آئیے ان دلئل پر ایک‬
‫نظر ڈالتے ہیں۔پاکستان کی اشتہاری دنیا کی دو بنیادی حقیقتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اس پر مغرب اور‬
‫بھارت کے اشتہاری کلچر کا گہرا اثر ہی‪ ،‬بالخصوص بھارت کے اشتہاری کلچر کا۔ اس دنیا کی‬
‫دوسری حقیقت یہ ہے کہ اس میں تخلیق کے بجائے نقل اور ترجمے سے کام چل رہا ہے۔ لیکن ان‬
‫باتوں کا مفہوم کیا ہی؟ بھارت کی لسانی حقیقت یہ ہے کہ وہاں اگر خالص ہندی یا انگریزی میں‬
‫اشتہار بنائے جائیں تو ان کا ابلغ نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ بازار کی ضرورت کے تحت اپنے‬
‫اشتہارات‪ ،‬فلموں‪ ،‬ٹی وی ڈراموں کے عنوانات اور ان کے مواد کے لیے ایک ایسی زبان استعمال‬
‫کررہے ہیں جو اردو‪ ،‬ہندی اور انگریزی کا ملغوبہ ہے۔ یہی ملغوبہ پاکستان میں اشتہاری دنیا اور‬
‫برقی ذرائع ابلغ کے لیے ”نمونہ“ بن گیا ہی‪ ،‬اس فرق کے ساتھ کہ پاکستان میں ہندی نہیں چل‬
‫سکتی اس لیے اس ملغوبے میں ہندی موجود نہیں ہوتی۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ ڈاکٹر تحسین‬
‫فراقی اور بھائی رؤف پاریکھ نے جس لسانی سانچے پر تشویش ظاہر کی ہے وہ بنیادی طور پر‬
‫”بازار کی زبان“ یا جیسا کہ ہمارے معاشرے میں کبھی کہا جاتا تھا ”بازاری زبان“ ہے۔ لیکن‬
‫ہماری رائے میں اس کے لیے بازار کی زبان کی اصطلح زیادہ موزوں ہے۔ اس لسانی صورت‬
‫ِحال کو زیادہ علمی پیرائے میں بیان کرنا ہو تو کہا جائے گا کہ یہ زبان کی عالمگیریت ہی‪ ،‬اور‬
‫عالمگیریت کے عہد میں بہت سی زبانوں کے ساتھ یہی ہوگا۔ لیکن یہ صورت ِحال کا محض ایک‬
‫پہلو ہے۔صورت ِحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہماری اشتہاری ایجنسیوں کے تخلیقی شعبوں اور‬
‫ہمارے ذرائع ابلغ کے فیصلہ کن مقامات پر انگریزی میڈیم لوگوںکا غلبہ ہے۔ یہ لوگ لسانی سطح‬
‫پر ہی نہیں نفسیاتی سطح پر بھی زیادہ سے زیادہ انگریزی کے استعمال کی جانب مائل رہتے ہیں۔‬
‫اس پہلو سے متصل ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اشتہارات اور ذرائع ابلغ کا بنیادی کام اپنے مواد کو‬
‫زیادہ ُپرکشش بنانا ہے۔ اس کے دو طریقے ہیں‪ ،‬آپ زبان کے تعمیری استعمال کے ذریعے بھی‬
‫کشش پیدا کرسکتے ہیں اور زبان کی تخریب کے ذریعے بھی لسانی مواد کو باعث ِکشش بنایا‬
‫جاسکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے اشتہاری ادارے اور ذرائع ابلغ زبان کی تخریب کے ذریعے‬
‫ل عمل‬ ‫ل توجہ بنا رہے ہیں‪ ،‬اور اس کی جو صورت انہیں اپنے لیے قاب ِ‬ ‫اسے لوگوںکے لیے قاب ِ‬
‫محسوس ہورہی ہے وہ یہ ہے کہ اردو اور انگریزی کا ملغوبہ تیار کیا جائے۔اس صورت ِحال کا‬
‫ایک سبب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں انگریزی اور اس کے حوالے سے رومن رسم الخط علم‪،‬‬
‫تہذیب اور جدیدیت کی علمت سمجھے جاتے ہیں‪ ،‬چنانچہ ان کا استعمال جہاں کہیں بھی ہوتا ہے‬
‫اسی تناظر میں ہوتا ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ انگریزی نام اور انگریزی الفاظ کم لوگوں‬
‫کی سمجھ میں آتے ہیں‪ ،‬اور یہ بات درست ہی‪ ،‬لیکن جن لوگوں کو انگریزی نام اور انگریزی‬
‫الفاظ سمجھ میں نہیں آتے وہ ان چیزوں سے ُان لوگوں کی نسبت زیادہ مرعوب ہوتے ہیں جن کو‬
‫یہ چیزیں سمجھ میں آتی ہیں۔ تفہیم الفاظ‪ ،‬اصطلحوں اور ناموں کے جادو کو کم کردیتی ہی‪،‬‬
‫لیکن عدم تفہیم اس جادو کو بڑھا دیتی ہے۔ عدم تفہیم کا یہی جادو ہے جو ہمارے ذرائع ابلغ اور‬
‫اشتہاری اداروں کے لسانی سانچے کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔وقت آگیا ہے کہ ہم اس حقیقت کا‬
‫اعتراف کرلیں کہ ایک قوم کی حیثیت سے ہمارا مجموعی لسانی سانچہ سطحیت بلکہ زوال کا‬
‫شکار ہے۔ ادب میں فیض کی شاعری اس لسانی زوال کی سب سے بڑی مثال تھی۔ بلشبہ فیض‬
‫کی شاعری ”نئی“ تھی‪ ،‬رومانوی تھی‪ ،‬انقلبی تھی‪ ....‬مگر فیض نے شاعری کو اردو شاعری‬
‫کے علمتی نظام سے الگ کرکے اسے عسرت میں مبتل کردیا۔ فیض کی تاریخی اہمیت تسلیم‪....‬‬
‫مگر ان کی شاعری میں معنوی‪ ،‬جذباتی اور نفسیاتی گہرائی نہیں ہے۔ بدقسمتی سے فیض کے‬
‫مقلدین کے یہاں صورت حال اور بھی تشویش ناک ہوگئی۔ فیض کے سب سے اچھے مقلد احمد‬
‫فراز ہیں‪ ،‬اور احمد فراز کی شاعری کے بارے میں خیال تھا کہ اردو شاعری اس سے نیچے کیا‬
‫جائے گی؟ لیکن فرحت عباس شاہ اور وصی شاہ وغیرہ شاعری کی سطح کو فراز کی سطح سے‬
‫بھی نیچے لے گئی‪ ،‬اور اب ہم ایف ایم ریڈیو کی شاعری کے عہد میں زندہ ہیں جو سرے سے‬
‫شاعری ہی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر کسی قوم کے ادب میں معنوی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬جذباتی اور لسانی‬
‫گہرائی کا کال پڑ جائے گا تو اس کے ذرائع ابلغ اور اشتہاری اداروں کی زبان میں جو تباہی‬
‫محو ِرقص ہوجائی‪ ،‬کم ہے۔معاشرے میں علم و ادب کے زوال نے ایک ایسی صورت ِحال پیدا‬
‫کردی ہے جس میں ”ابلغ“ سب سے اہم چیز بن گیا ہے۔ کسی اور کا ذکر کیا‪ ،‬ہم اپنے کالم میں‬
‫ایک اردو لفظ اور اصطلح استعمال کرتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا قارئین اس کو سمجھ لیں‬
‫گی؟ معاشرے کی مجموعی علمی و لسانی صورت حال اس کا جو جواب فراہم کرتی ہے وہ یہ ہے‬
‫کہ شاید قارئین کا ایک حصہ اس لفظ اور اصطلح کو نہ سمجھ سکی‪ ،‬چنانچہ ہم اس لفظ کا‬
‫انگریزی متبادل بھی لکھ دیتے ہیں۔ یہ انگریزی کا علمی و لسانی مجبوری کے تحت ہونے وال‬
‫استعمال ہے۔ ظاہر ہے کہ اشتہاری دنیا اور ٹیلی وژن وغیرہ کا اصل ہدف ابلغ ہی‪ ،‬شاید اس لیے‬
‫ل تردید حقیقت‬‫بھی ان کے لسانی سانچے میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔یہ ایک ناقاب ِ‬
‫ہے کہ زبان کا سیاسی طاقت کے مرکز اور اس کے کھیل سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اس بات کا‬
‫مفہوم یہ ہے کہ جب تک ہمارے حکمران طبقے کی زبان اور لسانی ترجیح نہیں بدلے گی ُاس وقت‬
‫تک وطن عزیز میں زبان کی عسرت بلکہ زبان کی تخریب کا عمل جاری رہے گا۔ بھٹو صاحب‬
‫سے پہلے قمیص شلوار صرف ”محکموں“ کا لباس تھا۔ مگر بھٹو صاحب نے قمیص شلوار پہن‬
‫کر اسے حاکموں کے لیے بھی قابل استعمال بنادیا۔ ہمیں زبان کے حوالے سے بھی ایسے کسی‬
‫تجربے کی ضرورت ہے۔‬
‫‪Read more: http://www.forumpakistan.com/hamari-lisani-‬‬
‫‪osrat-aur-os-ka-asbaab-t70857.html#ixzz1FMyc3RPu‬‬

‫‪Urdu ka avlein niswani safar'nama‬‬


‫دددد دد ددددد دددددد ددد ناےم ہاردو کا اولین نسوانی سفر نامہ ملک‬
‫نواز احمد اعوان کتاب ‪ :‬زمانہ ¿ تحصیل )عطیہ فیضی کی نادر و نایاب خودنوشت( مصنفہ ‪:‬‬
‫عطیہ بیگم رحیمن ترتیب تقدیم تحشیہ ‪ :‬محمد یامین عثمان صفحات ‪ 174 :‬قیمت ‪ 200‬روپی‬
‫ناشر ‪ :‬ادارہ یادگاِر غالب۔ پوسٹ بکس نمبر ‪2268‬۔ناظم آباد‪ ،‬کراچی ‪ 74600‬زیرنظر کتاب‬
‫”زمانہ ¿ تحصیل“ ‪1923‬ءمیں مطبع مفید عام آگرہ سے شائع ہوئی۔ یہ نادر کتاب پہلے تحقیقی‬
‫مجلے ”معیار“ اسلم آباد میں شائع ہوئی۔ اب کتابی شکل میں ادارہ ¿ یادگاِر غالب نے طبع کی‬
‫ہے۔ یہ اردو کے اولین نسوانی سفرناموں یا روزنامچوں میں سے ایک ہے۔ عطیہ فیضی نے اپنے‬
‫سفر ِ یورپ کے حالت لکھے ہیں جو پہلے قسط وار شائع ہوئی‪ ،‬پھر کتابی صورت میں زمانہ ¿‬
‫تحصیل کے عنوان سے شائع ہوئے۔ جناب محمد یامین عثمان لکھتے ہیں‪” :‬قدیم اور نایاب تصانیف‬
‫کی ازسرنو اشاعت کی علمی و ادبی اہمیت تو مسلمہ ہے ہی‪ ،‬لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ علم و ادب‬
‫ج عقیدت پیش کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے‬ ‫کے ُان محسنوں کے نام کو زندہ رکھنے اور انہیں خرا ِ‬
‫جنہوں نے اپنے علم اور تجربے کو دوسروں تک پہنچانے کی سعی کی اور اپنا قیمتی وقت اور‬
‫وسائل متعلقہ تصنیف کی تکمیل و اشاعت میں صرف کیے۔ عطیہ فیضی کی خودنوشت ”زمانہ ¿‬
‫تحصیل“ کا شمار بھی ایسی ہی نادر تصانیف میں ہوتا ہے۔ عطیہ فیضی اردو ادب میں علمہ‬
‫شبلی نعمانی اور علمہ اقبال سے اپنے قریبی روابط کے حوالے سے معروف ہیں۔ علمہ اقبال پر‬
‫اقبالیات کے مطالعے میں علمہ اقبال کے قیام “‪ ”IQBAL‬ان کی مختصر انگریزی تصنیف‬
‫یورپ کے بیان کے لیے ایک اہم اور بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ ”زمانہ ¿‬
‫تحصیل“ میں اگرچہ عطیہ بیگم نے اقبال کا تذکرہ بہت مختصر اور سرسری انداز سے کیا ہے‬
‫لیکن حقیقت یہ ہے کہ علمہ اقبال اور عطیہ فیضی کے روابط کا آغاز ”زمانہ ¿ تحصیل“ کی‬
‫تصنیف کے دوران ہی ہوا تھا۔ چناں چہ نایاب کتب کے شائقین کے ساتھ ساتھ اقبالیات کا مطالعہ‬
‫کرنے والوں کے لیے بھی ”زمانہ ¿ تحصیل“ یقینا دلچسپی کی حامل ہوگی۔ عطیہ فیضی کے‬
‫خاندان اور ان کے ننھیال یعنی طیب جی خاندان‪ ،‬دونوں کا شمار ہندوستان کےاعل ٰی تعلیم یافتہ‬
‫اور بااثر خاندانوں میں کیا جاتا تھا‪ ،‬لہٰذا اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ فیضی اور طیب جی‬
‫خاندان کے جن افراد کا ذکر ”زمانہ ¿ تحصیل“ میں کیا گیا ہے ان کے بارے میں حواشی میں‬
‫زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کردی جائیں۔ قیاِم یورپ کے دوران عطیہ بیگم کے ہندوستان کے‬
‫کئی مشاہیر سے بھی روابط رہے۔ ان مشاہیر کا مختصر تعارف اور بعض ضروری معلومات‬
‫بھی حواشی میں شامل کردی گئی ہیں۔ اسی طرح بعض وضاحت طلب نکات کی تشریح بھی‬
‫حواشی کا حصہ ہے۔ انگریزی اسماءکی‪ ،‬خواہ وہ شخصیات کے ہوں یا مقامات کی‪ ،‬انگریزی‬
‫ہجے زیادہ تر متن کے ساتھ ہی قوسین میں درج کردیے گئے ہیں‪ ،‬جب کہ بعض کو مختصر‬
‫وضاحت یا حوالے کے ساتھ حواشی میں تحریر کیا گیا ہے۔ بعض مقامات پر عبارت میں ربط پیدا‬
‫کرنے یا کسی لفظ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے قوسین میں الفاظ کا اضافہ کیا گیا ہی‪ ،‬اسی‬
‫طرح ملکر لکھے گئے الفاظ کو امل کے جدید اصول کے مطابق جدا کرکے لکھا گیا ہے“۔ ڈاکٹر‬
‫معین الدین عقیل تحریر فرماتے ہیں‪” :‬اس اہم اور ناگزیر تصنیف کے مرتب ایک نوجوان اور‬
‫ہونہار محقق و اسکالر محمد یامین عثمان ہیں‪ ،‬جنہوں نے اس کم یاب کتاب کو اپنی اس جستجو‬
‫کے تحت تلش کرنے میں کامیابی حاصل کی ہی‪ ،‬جو وہ اپنے مستقل اور مبسوط تحقیقی موضوع‬
‫کے ضمن میں عطیہ فیضی پر ِان دنوں کررہے ہیں۔ کتاب کا مقدمہ اس تصنیف کی نوعیت و‬
‫ع زیر ِنظر پر ان کے مطالعے کی وسعت اور گہرائی‬ ‫اہمیت کے ساتھ ساتھ ان کی جستجو‪ ،‬موضو ِ‬
‫کا نمایاں مظہر ہے۔ پھر ”زمانہ ¿ تحصیل“ کے متن کی وضاحت و تشریح اور سند و استناد کے‬
‫لیے متعلقہ اور ضروری و ناگزیر مآخذ کی تلش اور ان سے استفادہ ان کا اہم کام ہے۔ عطیہ‬
‫ل حیات اور جملہ احوال و کوائف کو انہوں نے‬ ‫فیضی کے حالت‪ ،‬خاندانی پس منظر‪ ،‬مشاغ ِ‬
‫اصول اور بنیادی مآخذ کی مدد سے مرتب کیا ہے اور ایسے نادر و نایاب کثیر مآخذ کی مدد سے‬
‫اسناد فراہم کی ہیں جو اب تک کسی کے علم اور دسترس میں نہ تھے۔ ان مآخذ میں عطیہ فیضی‬
‫کی غیر مطبوعہ ذاتی ڈائریاں‪ ،‬غیر مطبوعہ خطوط‪ ،‬خاندانی یادداشتوں کے غیر مطبوعہ دفتر‬
‫)رجسٹر( اور عطیہ کی نایاب تصانیف‪ ....‬یہ سب محمد یامین عثمان صاحب کی دسترس اور‬
‫استفادے میں آنے کے سبب ”زمانہ ¿ تحصیل“ کے زیرنظر متن اور اس اشاعت کو ایک مثالی‬
‫تحقیق کا نمونہ سمجھنا چاہیی‪ ،‬جس میں محقق نے اپنی تحقیق‪ ،‬اپنی جستجو‪ ،‬اپنے سلیقے اور ایک‬
‫سنجیدہ و شائستہ اسلوب کو اختیار کرکے اس کو ہمارے سامنے پیش کیا ہے“۔ کتاب ایک دلچسپ‬
‫اور ُاس زمانے کے ماحول کی عکاس ہی‪ ،‬درمیانے سفید کاغذ پر طبع ہوئی ہے۔ کتاب ‪ :‬علمہ‬
‫اقبال ‪....‬شخصیت اور فکر و فن مصنف ‪ :‬ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صفحات ‪ ،324 :‬قیمت‪350 :‬‬
‫ن اقبال ‪ ،‬لہور فون ‪[42-92+] :‬‬ ‫روپی ناشر ‪ :‬اقبال اکادمی پاکستان‘ چھٹی منزل‪ ،‬ایوا ِ‬
‫ویب ‪ 36314510 : director@iap.gov.pk‬فیکس ‪ 36314496 [42-92+] :‬ای میل‬
‫محل ِ فروخت ‪116 :‬میکلوڈ روڈ لہور ‪ ،‬فون‪ : www.allamaiqbal.com :‬سائٹ‬
‫‪ 37357214-042‬ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مشہور ومعروف ماہر اقبالیات‪ ،‬محقق اور استاد ہیں۔‬
‫ان کی اقبالیات پر ‪ 20‬کتابیں ہیں جو تنقید و تبصرہ‪ ،‬مفصل و مختصر کتابیات‪ ،‬انتخاب و تدوین‪،‬‬
‫تحقیق‪ ،‬تعارف و تجزیہ جیسے موضوعات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علوہ مختلف ادبی موضوعات‬
‫پر انہوں نے ‪ 19‬کتابیں لکھی ہیں جو تدوین و تحقیق اور انتخاب پر مشتمل ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین‬
‫ہاشمی نے اردو ادب کے مختلف موضوعات پر فکر انگیز تحقیقی تنقیدی کتابیں لکھی ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫ان کا اصل میدان اقبالیاتی ادب ہے ۔ زیرنظر کتاب میں انہوں نے بیسویں صدی کے اس نابغہ ¿‬
‫روزگار شاعر اور مفکر کی سوانح اور شخصیت پر قلم اٹھایا ہے اور اقبال کی عہد بہ عہد‬
‫زندگی‪ ،‬ان کے فکری و شعری ارتقا‪ ،‬اپنے عہد سے نبرد آزمائی‪ ،‬ان کی سیاسی‪ ،‬سماجی‪ ،‬تہذیبی‬
‫اور ادبی خدمات‪ ،‬کلم کی تدوین اور کتابی صورت میں اشاعت‪ ،‬عللت اور موت کا استقبال‬
‫تک کی تمام جزئیات کو مو ¿ثر اور دلکش اسلوب میں پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں حیات ِاقبال‬
‫سے متعلق متعدد ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جو اقبال پر لکھی گئی دیگر سوانحی کتابوں‬
‫میں نظر نہیں آتے۔ مصنف نے کتاب کو حوالوں اور حواشی سے مزین کیا ہے۔ مآخذ اور کتابوں‬
‫کی لمبی فہرست ان کی محنت کا ثبوت ہے۔ ہاشمی صاحب کی یہ کاوش اقبالیات کے موضوع پر‬
‫دستیاب ہمہ نوع معلومات اور کوائف کی ایک جامع ترین کتاب ہے جس میں اقبال کے کلم اور‬
‫حالت کی مطابقت سلیقہ مندی کے ساتھ سامنے لئی گئی ہے“۔ تعارف کتاب‪ :‬یہ کتاب کا طبع دوم‬
‫ہے اور چوبیس ابواب پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصود عام قاری کو علمہ اقبال کی‬
‫حیات و افکار سے آگاہ کرنا ہے۔ ہاشمی صاحب تحریر فرماتے ہیں‪” :‬یہ کتاب محققوں‪ ،‬دانش‬
‫وروں اور نقادوں کے لیے نہیں‪ ،‬اقبال کے عام قاری کے لیے ہی‪ُ ،‬اس قاری کے لیے جو اقبال کے‬
‫بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال بیسویں صدی کا سب سے بڑا‬
‫شاعر تھا‪ ،‬لیکن وہ نرا شاعر نہ تھا‪ ،‬ایک مفکر اور فلسفی بھی تھا۔ اقبال پوری امت ِمسلمہ کا‬
‫محسن اور عالِم انسانیت کا ایک بڑا نام ہے۔ وہ ایک ایسا باکمال شخص تھا جو غلم قوم میں پیدا‬
‫ہوا )اور ُاسے ِاس کا شدید احساس تھا( مگر اس کے عزائم اور مقاصد اتنے بلند تھے کہ اس نی‪:‬‬
‫سوئے قطار مے کشم ناقہ ¿ بے زمام را کا عظیم مّلی فریضہ انجام دیا اور اسی سلسلے میں خطبہ‬
‫¿ الہٰ آباد کی صورت میں اس نے قیام پاکستان کے جواز کے لیے پہلی اینٹ فراہم کی۔ ایسی‬
‫کثیرالجہات شخصیت کا احاطہ ایک مختصر سی کتاب میں ممکن نہیں‪ ،‬یہ ضرور ہے کہ راقم نے‬
‫اس نابغہ ¿ روزگار کے کوائف ِحیات اور اس کے فکر و فن کے اہم پہلو اجاگر کرنے کی کوشش‬
‫کی ہے۔ یہاں قارئین کو بعض ایسے واقعات و بیانات بھی ملیں گے جو سوانح اقبال کی عام کتابوں‬
‫میں نظر نہیں آتے۔ اس کے ساتھ ساتھ سوانح اقبال کے بعض بیانات و نکات کی تصحیح اور‬
‫بعض غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔“ حقیقت یہ ہے کہ ہاشمی صاحب نے‬
‫کسِر نفسی سے کام لیا ہے۔ یہ بڑی جامع‪ ،‬مستند اور عمدہ سوانح عمری ہے جس سے خاص و عام‬
‫سب مستفید ہوسکتے ہیں۔ ہر باب کا عنوان علمہ کے کسی نہ کسی مصرع سے مقتبس ہے۔ کتاب‬
‫کے آخر میں کتابیات اور اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ اشاریے میں رجال‪ ،‬اماکن‪ ،‬کتب‪ ،‬رسائل‪،‬‬
‫اخبارات اور علمی و ادبی اور اشاعتی اداروں کے حوالے دیے گئے ہیں۔ اشاریہ جناب قاسم محمود‬
‫احمد نے تیار کیا ہے۔ ہر باب کے آخر میں حوالے اور حواشی کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ کتاب کا‬
‫انتساب ہاشمی صاحب نے اپنے عزیز شاگرد ماہر اقبالیات صابر کلوروی )‪1949‬ئ۔ ‪2008‬ئ(‬
‫کے نام کیا ہے۔ کتاب بڑے سلیقے سے عمدہ کریم کاغذ پر طبع کی گئی ہی‪ ،‬مجّلد ہے اور نہایت‬
‫خوبصورت سرورق سے مزین ہے۔ اردو اور اقبالیات میں وقیع اضافہ ہے۔ کتاب ‪ :‬مکاتیب ِاب ِ‬
‫ن‬
‫فرید ‪....‬بنام رفیع الدین ہاشمی مرتب ‪ :‬ڈاکٹر خالد ندیم صفحات ‪ ،96 :‬قیمت‪ 100 :‬روپی ناشر ‪:‬‬
‫ادبیات۔ رحمان مارکیٹ‪ ،‬غزنی اسٹریٹ‪ ،‬اردو بازار ملنے کا پتا ‪ :‬ادارہ مطبوعات سلیمانی۔‬
‫‪ :‬رحمان مارکیٹ غزنی اسٹریٹ ‪،‬اردو بازار‪ ،‬لہور فون ‪ 37232788-042 :‬ای میل‬
‫‪ : www.sulemani.com.pk‬ویب سائٹ ‪idarasulemani@yahoo.com‬‬
‫کتاب کے مرتب جناب ڈاکٹر خالد ندیم شعبہ اردو جامعہ سرگودھا میں استاد ہیں‪ ،‬انہوں نے اس‬
‫کتاب میں اردو کے معروف ادیب‪ ،‬نقاد‪ ،‬افسانہ نگار‪ ،‬مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ‬
‫عمرانیات کے سابق استاد ابن فرید )اصل نام محمود مصطفی صدیقی( کے ‪ 49‬خطوط بنام ڈاکٹر‬
‫رفیع الدین ہاشمی جو انہوں نے ‪ 3‬فروری ‪1978‬ءسے ‪ 26‬جون ‪2000‬ءکے درمیانی عرصے میں‬
‫تحریر فرمائی‪ ،‬مرتب فرمائے ہیں۔ جناب ابن فرید ‪ 28‬اکتوبر ‪1925‬ءکو موضع ظفرپور‪ ،‬قصبہ‬
‫سترکھ‪ ،‬ضلع بارہ بنکی‪ ،‬یوپی بھارت میں پیدا ہوئے۔ ابن فرید کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بعد‬
‫میں انہوں نےاعل ٰی تعلیم کی مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے نفسیات‪ ،‬انگریزی ادب اور‬
‫عمرانیات میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں‪،‬حت ٰی کہ عمرانیات میں ڈاکٹریٹ کے اعزار تک‬
‫پہنچے۔ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور ملک عبدالعزیز یونیورسٹی جدہ میں استاد رہے۔‬
‫کثیرالجہتی مطالعے کی بدولت علم النسان‪ ،‬تہذیب و ثقافت‪ ،‬شعر و ادب اور مذاہب ِعالم پر گہری‬
‫خ اسلم‪ ،‬نفسیات‪ ،‬عمرانیات‪ ،‬انگریزی زبان و ادب اور اردو‬ ‫نظر رکھتے تھے۔ قرآن‪ ،‬حدیث‪ ،‬تاری ِ‬
‫زبان و ادب سے انہیں خصوصی شغف تھا۔ اسلمی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ انہوں نے بائبل‬
‫کو سمجھنے کی بھی کوشش کی۔ علم و ہنر کی جستجو کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ‬
‫بہّتر )‪ (72‬سال کی عمر میں کمپیوٹر کا استعمال سیکھ کر وہ اپنی کتابیں خود کمپوز کرنے لگے‬
‫تھے۔ ابن فرید کی تصنیف و تالیف کا دائرہ خاصا وسیع ہے اور اپنے بین العلومی مطالعے کی‬
‫وجہ سے ان کے ہاں اصناف ِ نثر میں بڑا تنوع ملتا ہے۔ افسانہ نویسی کا آغاز میٹرک سے پہلے ہی‬
‫ہوچکا تھا‪ ،‬پہل تنقیدی مضمون بی اے کے دنوں میں لکھا۔ بچوں بچیوں اور خواتین کے لیے‬
‫کتابیں لکھیں‪ ،‬عمرانیات میں بھی ان کی انگریزی تصانیف و تالیفات ہیں۔ ابن فرید مرحوم‬
‫صحافتی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے۔ ”ادیب“ علی گڑھ‪” ،‬نئی نسلیں“ لکھنو ¿‪” ،‬دانش“‬
‫نئی دہلی وغیرہ میں“ ‪، ”Journal of objective studies‬رام پور‪” ،‬معیار“ میرٹھ‬
‫ادارت کا طویل اور وسیع تجربہ رکھتے تھی‪ ،‬زندگی کے آخری ایام میں ”حجاب“ رام پور کی‬
‫مدیرہ اپنی اہلیہ کے ساتھ انتظامی‪ ،‬علمی اور ادارتی شعبوں میں تعاون بھی کرتے رہے۔ انہوں نے‬
‫کسی کی بھی خوشامد‪ ،‬چاپلوسی‪ ،‬مصلحت کوشی اور زمانہ سازی سے بچتے ہوئے صبر و شکر‬
‫کے ساتھ قلم کی حرمت اور عزت ِ نفس کی حفاظت کی۔ بقول ڈاکٹر کبیر احمد جائسی ”[ابن فرید‬
‫نی] علی گڑھ میں سخت دن گزاری‪ ،‬سختیاں جھیلیں‪ ،‬ابنائے جہالت کے وار سہی‪ ،‬مگر اللہ کے‬
‫فضل سے کسی فرعون کے در پر سجدہ ریز نہیں ہوئے“۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ دین کا پختہ شعور‬
‫رکھتے تھے۔ تحریک اسلمی سے وابستگی نے انہیں زندگی میں حوصلہ اور استقامت عطا کی۔‬
‫وہ سیلف میڈ شخصیت تھے۔ اردو زبان و ادب کا یہ روشن ستارہ ‪ 9‬مئی ‪2003‬ءکی صبح ہمیشہ‬
‫ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ )مآخذ از مقدمہ( جناب ڈاکٹر خالد ندیم ان‬
‫خطوط کے متعلق تحریر فرماتے ہیں‪” :‬یہ خط وکتابت محض دو افراد کے مابین نہیں‪ ،‬فقط دو‬
‫ادیبوں کے درمیان بھی نہیں‪ ،‬بلکہ دو عالموں کے باہمی تعلقات کی آئینہ دار ہے۔ ان خطوط سے‬
‫جہاں دو عالموں کے قلبی احساسات‪ ،‬ذہنی رویوں‪ ،‬افکار و نظریات‪ ،‬علم و ادب سے ان کے تعلق‬
‫کی نوعیت اور ان کے تصنیفی‪ ،‬تالیفی‪ ،‬تحقیقی اور تدریسی سفر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہی‪،‬‬
‫وہیں بہت سی علمی‪ ،‬ادبی اور سماجی شخصیات کے بارے میں نہایت اہم معلومات بھی دستیاب‬
‫ہوتی ہیں۔ ان خطوط کے ذریعے سے پاک و ہند کی بہت سی اہم ترین کتب کے بارے میں مفید‬
‫معلومات بھی فراہم ہوتی ہیں۔ چنانچہ تقریبًا بائیس برس پر محیط ان خطوط کی مدد سے اردو‬
‫زبان و ادب کے مو ¿رخ کو ُاس دور کی علمی و ادبی تاریخ مرتب کرنے میں خاصی مدد مل‬
‫سکتی ہے اور یہی بات ان خطوط کو مرتب کرنے کا باعث ہوئی“۔ ابن فرید پختہ نویس تھی‪ ،‬ان‬
‫کے ہاں اسلوب کی شگفتگی اپنی موجودگی کا بھرپور احساس دلتی ہے۔ ان کی تحریر خوش نما‬
‫ہی‪ ،‬خطوط ہمیشہ بہ اطمینان اور جم کر لکھتے تھے۔ ڈاکٹر خالد ندیم )پ ‪ 9‬فروری ‪1963‬ئ(‬
‫محقق‪ ،‬مترجم اور ادیب‪ ....‬پنجاب کے متعدد گورنمنٹ کامرس کالجوں میں کئی برس تک درس‬
‫و تدریس کے بعد ِان دنوں سرگودھا یونیورسٹی کے شعبہ ¿ اردو میں تدریسی فرائض انجام دے‬
‫رہے ہیں۔ ان کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ‪ :‬اختر حسین رائے پوری ‪2008‬ءمیں مجلس ترقی ادب لہور نے‬
‫شائع کیا تھا۔ ان کی مرتبہ و مولفہ سات کتابیں چھپ چکی ہیں۔ آج کل ”اقبالیاتی مکاتیب“ )مقدمہ‪،‬‬
‫حواشی و تعلیقات( زیر تدوین ہے۔ کتاب مجّلد‪ ،‬رنگین سرورق اور سفید کاغذ پر عمدہ طبع ہوئی‬
‫ہے۔‬

‫‪Bazm e Qalam‬‬
‫‪Read more:‬‬
‫‪http://www.forumpakistan.com/urdu-ka-avlein-niswani-‬‬
‫‪safarnama-t70855.html#ixzz1FMyy3rwd‬‬
‫‪Baad az Khuda bazurg tuee qissa‬‬
‫‪mukhtasar‬‬
‫بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‬

‫نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن‬
‫اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے‪،‬‬
‫دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا‬
‫ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی‬
‫نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔‬

‫آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‬

‫سہ حرفی لفظ نعت ) ن ع ت ( عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں‬
‫قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے‬
‫لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مث ً‬
‫ل حمد‪ ،‬اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت‬
‫حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔‬

‫اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار‬
‫میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی‬
‫صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس‬
‫طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے‬
‫‪:‬سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں‬

‫نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی”‬
‫عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے‪ ،‬لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت‬
‫مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالت اور کارناموں‪ ،‬اسلم کی‬
‫صحیح روح‪ ،‬عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء‬
‫کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں‬
‫ادن ٰی سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لزم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس‬
‫کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ )ادبی نقوش‬
‫)صفحہ ‪284‬‬

‫ب بصارت اور صاحب بصیرت ہونا‬ ‫شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاح ِ‬
‫اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلعم کی ذات مقدس‪ ،‬نبوت اور عبدیت‬
‫کے کمال پر خالق بی نازاں ہیں۔ اللہتعال ٰی نے مدح رسول اور ذکر رسول کواعل ٰی و ارفع قرار‬
‫دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باریتعال ٰی ہے‪’ ،‬ورفعنا لک ذکرک‘ )اور ہم نے تمہارے ذکر کو‬
‫بلند کیا(۔‬

‫خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں‬
‫ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر‬
‫کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ‬
‫بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‬

‫ق رسول میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس‬
‫نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے کہ عش ِ‬
‫میں آں حضورصلعم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک‬
‫میری ذات اس کے لیے ماں‪ ،‬باپ‪ ،‬اولد‪ ،‬سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی‬
‫اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔‬

‫انہوں نے عرض کیا کہ جناب وال کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولد سے زیادہ محبوب ہے‪،‬‬
‫لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔‬
‫حضور صلعم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلعم کا فرمانا تھا کہ‬
‫حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرتصلعم کی توجہ سے دل کی‬
‫کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ‬
‫جناب صلعم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلعم نے‬
‫فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا۔‬

‫ن نبوی صلعم کی رو سے ایک مومن کی تکمیل ایمانی کے لیے اس کے قلب کی یہی‬


‫اس فرما ِ‬
‫کیفیت ضروری ہے کہ اس کے اندر مکمل سپردگی ہو۔‬

‫نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک وتعال ٰی نے اپنے حبیب لبیب کی شان میں جو الفاظ‬
‫استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی‬
‫‪:‬کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلعماعل ٰی حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں‬

‫قرآں سے میں نے نعت گوئی سیکھی‬


‫یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ‬

‫‪:‬مولنا رؤف امروہوی کہتے ہیں‬


‫لکھوں کیا وصف شاہ انس و جاں سے‬
‫زباں اللہ کی لؤں کہاں سے‬

‫‪:‬علمہ محسن کاکوروی کہتے ہیں‬

‫ادھر مخلوق میں شامل ادھر اللہ سے واصل‬


‫خکبر ٰی میں ہے حرف مشدد کا‬
‫خواص اس برز ِ‬

‫‪:‬ایک او رشاعر کا اعتراف ہے‬

‫حدیثوں میں خدا کا ذکر ان کا ذکرقرآں میں‬


‫خدا کے مدح خواں وہ ہیں خدا ہے مدح خواں ان کا‬

‫جس کا ثنا خواں اللہتعال ٰی ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟لیکن اپنے محبوب کی مداحی‬
‫کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا وروِد مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا‬
‫س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔‬

‫نعت گوئی کا آغاز حضورصلعم کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن‬
‫ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلعم‬
‫کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا‬
‫فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کےاعل ٰی و ارفع مقام کا اندازہ‬
‫کیا جا سکتا ہے۔‬

‫حضورصلعم کی حیات و طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں ابو طالب بن‬
‫عبد المطلب‪ ،‬حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم‪ ،‬حضرت عبد الرحمن بن رواحہ‪ ،‬حضرت‬
‫عباس بن عبد المطلب‪ ،‬حضرت ابو بکر صدیق‪ ،‬حضرت عمر فاروق‪ ،‬حضرت عثمان غنی‪،‬‬
‫حضرت علیمرتض ٰی‪ ،‬حضرت فاطمہ‪ ،‬حضرت کعب بن زبیر‪ ،‬ام المومنین حضرت عائشہ‬
‫صدیقہ‪ ،‬امام زین العابدین علی سجادالحسین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے‬
‫فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں‬
‫‪:‬رہے اسی لیے شاعر مشرق حضرت علمہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا‬

‫میِر عرب کوآئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‬


‫یہ کہنا مشکل ہے کہ ہندوستان میں نعت گوئی کا آغاز کب ہوا۔ کبیر داس نے ایک دوہے میں لکھا‬
‫‪:‬ہے‬

‫عدد نکالوں ہر چیز سے چوتن کر لو دائے‬


‫دو مل کہ پچگن کر لو بیس کا بھاگ لگائے‬
‫باقی بچے کے نو تن کر لو دو اس میں دو اور ملئے‬
‫کہت کبیرسنو بھئی سادھو نام محمد صلعم آئے‬

‫‪:‬اسی طرح گرو گرنتھ میں آتا ہے‬

‫میم محمد من تو ں من کتابہ چار‬


‫من خدائے رسول نو ں سچا ای دربار‬

‫ان کے علوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی‪ ،‬خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری‪ ،‬حضرت‬
‫شمس الدین تبریز‪ ،‬شاہ بو علی شاہ قلند ر پانی پتی‪ ،‬خواجہ نظام الدین اولیا‪ ،‬حضرت امیر خسرو‬
‫نے بھی نعتیں کہی ہیں۔‬

‫ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔‬
‫ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلم کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو‬
‫نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ”بہ ہر زماں‪ ،‬بہ ہر زباں“۔ جس میں‬
‫‪326‬ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔‬

‫اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو‬
‫اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلم کا خاصا حصہ نعت رسول‬
‫صلعم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی‬
‫کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔‬

‫اعل ٰی حضرت مولنا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی‬
‫حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل‬
‫تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫شد پیدا جانا‬


‫لم یات نظیر ک فی نظر مثل تو نہ ُ‬
‫جگ راج کو تاج تورے سرسوہے تجھ کو شہ دوسرا جانا‬
‫یا شمس نظرت الی لیلی چوبہ طیبہ رسی عرضے بکنی‬
‫توری جوت کی جھلجھل جگ میں رچی موری شب نے نہ دن کو ہوا جانا‬
‫انا فی عطش و سخاک اتم اے گیسوئے پاک اے ابر کرم‬
‫برسن ہارے رم جھم رم جھم دو بوند ادھر بھی گرا جانا‬

‫علمہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے‬
‫سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی‪،‬مولنا‬
‫الطاف حسین حالی‪ ،‬علمہ اقبال‪ ،‬منیر شکوہا آبادی‪ ،‬امیر مینائی‪ ،‬سحر لکھنوی‪ ،‬اصغر گونڈوی‪،‬‬
‫بہزاد لکھنوی‪ ،‬حفیظ جالندھری‪ ،‬حمید صدیقی‪ ،‬ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف‬
‫ہیں۔ ان کے علوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم‪ ،‬چھنو لل دلگیر‪ ،‬پنڈت ہری چند‬
‫اختر‪ ،‬گوپی ناتھ امن‪ ،‬نوبت رائے نظر‪ ،‬پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی‪ ،‬بھگوت رائے راحت‬
‫کاکوروی‪ ،‬مہاراجہ کشن پرساد‪،‬پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی‪ ،‬رگھوپتی سہائے‪ ،‬فراق‬
‫گورکھپوری‪ ،‬اوم پرکاش‪ ،‬باقر ہوشیار پوری‪ ،‬تلوک چند محروم‪ ،‬تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی‪،‬‬
‫کنور مہندر سنگھ بیدی سحر‪ ،‬بال مکند عرش ملسیانی‪ ،‬پریم لل شفا‪ ،‬کالی داس گپتا رضا‪ ،‬جگن‬
‫ناتھ آزاد‪ ،‬آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔‬

‫دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی‬
‫کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ‬
‫شعرا میں حفیظ تائب‪ ،‬عبد العزیز خالد‪ ،‬مظفر وارثی‪ ،‬مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت‬
‫کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔‬

‫اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی‬
‫انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں‬
‫تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک‬
‫شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائناتصلعم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ‬
‫سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں‬
‫مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے۔ آ پ صلعم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔اور‬
‫یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللہتعال ٰی نے اس رباعی کو شرف قبولیت‬
‫بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے‬
‫ہمیشہ توصیف مدح رسول صلعم کرتے ہیں۔‬

‫بلغ العلےٰ بکمالہ‬


‫کشفالدج ٰی بجمالہ‬
‫حسنت جمیع خصالہ‬
‫صلوا علیہ و آلہ‬
‫‪:‬لیکن جب نعت محمدصلعم کی بات آتی ہے تو پھر اس قطعے پر آکر ختم ہو جاتی ہے‬

‫یا صاحب الجمال و یا سید البشر‬


‫من وجہک المنیر لقد نور القمر‬
‫ل یمکن الثنا کما کان حقہ‬
‫بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‬

‫‪bazmeqalam@gmail.com‬‬

‫‪-‬وایس آف امریکہ کی سا(‬ ‫‪`ead more:‬‬


‫‪http://www.forumpakistan.com/baad-az-khuda-bazurg-‬‬
‫‪tuee-qissa-mukhtasar-t70760.html#ixzz1FMzPhKAI‬‬
‫حیدرآباد میں غیر مسلموں کی اردو کے لیےخدمات‬
‫رشید الدین | حیدرآباد دکن‬

‫اردو ہندوستانیوں کی پسندیدہ زبان ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لل نہرو اردو‬
‫کے پرستاروں میں سے تھے ۔ اردو ادبا اور شعراء کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بل تفریق‬
‫مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا ۔‬
‫ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں موثر رول ادا کیا ۔ اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے‬
‫نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے ۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی‬
‫مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار‬
‫دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیور طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لیا ۔‬
‫حیدرآباد میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے‬
‫ہیں ۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں ۔‬
‫ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف‬
‫اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد‬
‫دریابادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ ‪ ،‬جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا‬
‫کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعراء کہہ سکتے ہیں ۔ ذکی کو میلدالنب ؐی کے‬
‫جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا ۔ میلدالنب ؐی کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلم سنارہے تھے‬
‫۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ۔‬

‫قیامت میںمحم ؐد کا سہارا ڈھونڈھنے والے‬


‫سنا بھی زندگی میں تو نے فرمایامحم ؐد کا‬
‫ایسے ہی قلمکاروں میں ایک ہستی رائے جانکی پرشاد کی بھی تھی ۔ اردو میں اعلی قابلیت کی‬
‫وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے ۔‬
‫قیام جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لئے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا‬
‫جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعراء کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح‬
‫آبادی ‪ ،‬علمہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں ۔ رائے‬
‫جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی‬
‫اصطلحات کی تدوین فرمائی ۔‬
‫رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے ۔ ان کا لباس ٹوپی‪ ،‬شیروانی اور‬
‫ن خدمت پر علحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ‬ ‫پاجامہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ وظیفہ حس ِ‬
‫ہوئے اور ان کی رہنمائی کی ۔ وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے ۔ حامد نواز جنگ‬
‫نے جو لولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے‬
‫فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء کو وظائف جاری کئے جاتے تھے ۔ رائے جانکی پرشاد‬
‫اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی تھے۔‬
‫نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے‪ ،‬انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے‬
‫پر ہی کینسر ہاسپٹل قائم کیا ۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل‬
‫ہے ۔ ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا‬
‫۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور ’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں‬
‫ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔‬
‫تخلیق کار اپنی تخلیق ‪ ،‬محقق اپنی تحقیق اور نقاد اپنی تنقید سے ادب کے گیسو سنوارنے میں‬
‫مصروف رہتے ہیں ۔ باگاریڈی نے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کی‬
‫گراں قدر خدمت انجام دی ۔ راقم کا آندھرا کی تشکیل کے بعد پہلے سب انسپکٹر پولیس بیاچ‬
‫‪1958‬ء سے تعلق رہا ہے ۔ شرائط ملزمت کے اعتبار سے تین سال کے عرصہ میں اس بیاچ‬
‫والوں کو تھرڈ کلس تلگو زبان دانی کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا ۔ ‪1959‬ء میں ٹریننگ‬
‫کے کامیاب اختتام پر راقم کو نظام آباد پر تعینات کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تین سال تک پبلک‬
‫سروس کمیشن نے مطلوبہ زبان دانی کا امتحان ہی منعقد نہیں کیا ۔ شرائط ملزمت کے تحت راقم‬
‫‪ ،‬سری دھر راؤ اور محمد علی خاں کو ملزمت سے ہٹادیا گیا ۔ باگاریڈی نے بحیثیت صدر‬
‫انجمن تحفظ اردو ہمارے کیس کو اس وقت کے چیف منسٹر جناب نیلم سنجیواریڈی صاحب سے‬
‫رجوع کیا اور ان کی کامیاب نمائندگی سے تین مہینے میں ہم لوگوں کی بحالی عمل میں آئی۔‬
‫باگاریڈی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے ۔ وہ ضلع پریشد میدک کے صدر نشین رہ چکے‬
‫ہیں ۔ انہوں نے ظہیر آباد میں ایک ادبی انجمن ’’بزم سخن‘‘ قائم کی تھی ۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی‬
‫آندھرا پردیش کے صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں ۔ انھوں نے اردو ویلفیر فنڈ‬
‫قائم کیا تھا جس سے مستحق اور ضرورت مند قلم کاروں کی مدد کی جاتی تھی ۔ ان کے‬
‫مضامین کا ایک مجموعہ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘ اور دوسری کتاب ’’تلگو زبان اور‬
‫ادب‘‘ اور تیسری کتاب ’’آندھرا پردیش‘’ ان کی یادگار ادبی تصانیف ہیں ۔‬
‫بھارت چند کھنہ ملک کے ممتاز مزاح نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے جامعہ‬
‫عثمانیہ سے ایم اے کیا ۔ وہ انجمن زندہ دلن حیدرآباد کے بانی رہے ۔ انہوں نے ‪1966‬ء میں زندہ‬
‫دلن حیدرآباد کی پہلی کل ہند کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا ۔ ان کے ظریفانہ مضامین‬
‫حیدرآباد کے موقر روزنامہ سیاست میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان کے طنزیہ مضامین کا مجموعہ‬
‫’’تیر نیم کش‘‘ اور ان کی مشہور مزاحیہ کتاب ’’ذرا مسکراؤ‘‘ شائع ہوچکی ہے ۔ انہوں نے راج‬
‫بھون میں گورنر کے سکریٹری کے فرائض بھی انجام دئے ۔ اس زمانہ میں سکریٹریٹ کی اردو‬
‫اسوسی ایشن قائم ہوئی جس کے وہ پہلے صدر تھے ۔‬
‫کنول پرشاد کنول ‪ ،‬اردو اور ہندی کے ممتاز شاعر تھے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلم مخصوص‬
‫ترنم کے ساتھ سناتے اور کبھی تحت اللفظ بھی سنایا کرتے تھے ۔ انہوں نے لل قلعہ میں منعقد‬
‫ہونے والے مشاعروں میں بھی اپنا کلم سنایا ۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر محکمہ اطلعات کی حیثیت سے‬
‫کام کرتے ہوئے انہوں نے اردو کی بڑی خدمت انجام دی ۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری کی‬
‫ایک نظم ’’مجھ سے میرا نام نہ پوچھو‘‘ کافی مقبول ہوئی ۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف‬
‫میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا نعتیہ کلم بھی سند مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ کڑپہ میں منعقدہ ایک‬
‫مشاعرہ میں ان کی نعت شریف حاصل مشاعرہ رہی ۔ ان کے تعلقات نہ صرف ہندوستانی شعراء‬
‫سے تھے بلکہ پاکستانی شعراء سے بھی خاص تعلقات تھے ۔ پاکستان کے ایک مشاعرہ میں ان کو‬
‫مدعو کیا گیا تھا ۔ اس مشاعرہ میں جو غزل انہوں نے پڑھی تھی اس کے چند اشعار ملحظہ‬
‫فرمایئے۔‬

‫جسے تم یاد میں اپنی تڑپتا چھوڑ آئے ہو‬


‫تمہاری نذر اس بھولے وطن کا نام لیا ہوں‬
‫میں دیکھوں گا کہ اب کن کن سے تم آنکھیں چراؤگے‬
‫شب عثمان ساگر صبح باغ عام لیا ہوں‬
‫اٹھاؤ اپنی نظریں پی سکو تو ان کو پی جاؤ‬
‫بھری آنکھوں میں الفت کے چھلکتے جام لیا ہوں‬

‫محبوب نارائن نہ صرف علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی‬
‫وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ پرانے شہر میں جب بھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی جیسے چیچک ‪،‬‬
‫پلیگ ‪ ،‬ہیضہ وغیرہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی سرگرمی سے متاثرین کو دواخانہ پہنچاتے‬
‫اور مرنے والوں کی نعشوں کو آبادی سے دور لے جا کر سپرد خاک و آگ کردیا کرتے تھے ۔ وہ‬
‫حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت اور اردو کے پرستار تھے ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب‬
‫’’گزشتہ حیدرآباد‘‘ حیدرآبادی تہذیب کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اسی طرح راج بہادر گوڑ نے‬
‫ساری زندگی اردو کی خدمت کی جنہوں نے اپنے پیشہ طبابت کو خیرباد کہہ کر اردو کی خدمت‬
‫انجام دی ۔ ایسے ہی بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے نام آج بھی روشن ہیں جنہوں نے اردو‬
‫شعر و ادب کی خدمت انجام دے کر اس زبان کی لطافت کو نمایاں کیا ۔‬
‫‪Bazm e Qalam‬‬
‫ٹرکوں کے پیچھے لکھی عبارتیں۔۔ ہنسنے ہنسانے کا مفت ٹانک‬
‫وسیم اے صدیقی‬

‫جی ہاں آپ درست سمجھے۔ یہ پاکستان کی چوڑی چکلی سڑکوں پر دوڑتے ٹرکوں اور رکشا‪،‬‬
‫ٹیکسی کے پیچھے لکھی عبارتوں کی چاشنی ہے ۔ ڈیپر‪،‬موڑ‪ ،‬پانا‪ ،‬ہوا‪ ،‬پانی‪ ،‬تیل‪ ،‬بریک‪ ،‬اسپیڈ‪،‬‬
‫اوور ٹیک‪ ،‬ہائی وے اور ۔۔او چھو۔۔و۔۔۔و۔۔ٹ۔۔ٹے کے نعرے‪ ،‬ڈیزل کی بو۔۔ اپنے آپ میں ایک‬
‫الگ دنیا ہے۔ مگر نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب۔ آیئے آج اسی دنیاکی سیر کی جائے۔آدمی‬
‫آدمی کو ڈنس' ریا' ہے‪ ،‬سانپ بیٹھا ہنس 'ریا' ہے ۔ ' ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے‪،‬‬
‫موت سے بچ نکل تو سینٹرل جیل ہے'۔ 'یہ جینا بھی کیا جینا ہے‪ ،‬جہلم کے آگے دینہ ہے'۔ 'ماں کی‬
‫دعا اے سی کی ہوا'۔ 'نظروں نے نظروں میں نظروں سے کہا۔۔ نظریں نہ ملنظروں کی قسم۔۔‬
‫نظروں سے نظر لگ جائے گی' ۔۔۔۔‬
‫ذرائع آمد ورفت اور خاص کر ٹرک کے پیچھے لکھی دلچسپ عبارتیں ۔۔ جسے ڈرائیور استاد‬
‫اوران کا 'چھوٹا' یعنی کلینر 'شاعری' کہتے ہیں۔۔ بہت دفعہ آپ کی نظر وں سے گزری ہوگی۔‬
‫دراصل یہ عبارتیں ٹرک کے اندر بیٹھے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی‬
‫ہیں ۔ جبکہ ڈرائیورز کا اپنا کہنا یہ ہے کہ ان کی لئف گھر میں کم اور سڑکوں پر زیادہ گزرتی‬
‫ہے۔ بس سفر ہی سفر۔۔ اور تھکن ہی تھکن۔۔ ایسے میں اگر ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو‬
‫اپنے جذبات سے آگاہ کرے بھی تو کیسے۔۔۔ پھر چلتے چلتے دوسروں کو ہنسنے اور خود کو‬
‫ہنسانے کے لئے یہ عبارتیں مفت کا ٹانک ہیں۔‬
‫سچ ہے ۔۔ سواریوں کے پیچھے کوئی ایک جذبہ تحریر نہیں ہوتا بلکہ نصیحت‪ ،‬ڈرائیور کی 'پرسنل‬
‫لئف'‪ ،‬خیر و بھلئی‪ ،‬تقدیر‪ ،‬مذہبی لگاؤ‪ ،‬ماں کی محبت‪ ،‬جذبہ حب الوطنی‪ ،‬رومانس غرض کہ‬
‫‪:‬زندگی کا ہر انگ ان عبارتوں میں ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اور عبارتیں ملحظہ کیجئے‬
‫عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلنا چھوڑ دو'‪' ،‬بریک بے وفاہے تو رکشا چلنا چھوڑ دو'۔ 'محبت'‬
‫کو زمانے میں گل نایاب کہتے ہیں‪ ،‬ہم آپ کو بیٹھنے سے پہلے آداب کہتے ہیں'‪ ' ،‬تم خود کوکترینہ‬
‫سمجھتی ہو تو کوئی غم نہیں۔۔ ذرا غور سے دیکھو ہم بھی سلمان سے کم نہیں'۔ ظالم پلٹ کر‬
‫دیکھ‪ ،‬تمنا ہم بھی رکھتے ہیں'‪ ،‬تم اگر کار رکھتی ہو تو رکشا ہم بھی رکھتے ہیں'‪' ،‬قتل کرنا ہے‬
‫تو نظر سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے‪ ،‬سفر کرنا ہے تو رکشہ میں کر کار میں کیا رکھا ہے؛ ۔۔‬
‫پورٹ پر رہتے ہیں‪ ،‬سہراب گوٹھ میں سوتے ہیں‪ ،‬جب تمہاری یاد آتی ہے تو جی بھر کے روتے‬
‫ہیں'۔ 'اے راکٹ تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا‪ ،‬جیسا بھی کھڈا آئے ہنس کے گزارنا'۔ 'چلتی ہے‬
‫'گاڑی اڑتی ہے دھول‪ ،‬جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول ۔‬
‫سڑک سے دوستی ہے سفر سے یاری ہے‪ ،‬دیکھ تو اے دوست کیا زندگی ہماری ہے'۔ 'کسی نے'‬
‫گھر آکر لوٹا کسی نے گھر بل کر لوٹا‪ ،‬جو دشمنی سے نہ لوٹ سکا اس نے اپنا بنا کر لوٹا'۔ 'اتنا‬
‫دبل ہو گیا ہوں صنم تیری جدائی سے‪ ،‬کہ کٹھمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں چارپائی سے'۔ 'میرے‬
‫دل پر دکھوں کی ریل گاڑی جاری ہے‪ ،‬خوشیوں کا ٹکٹ نہیں ملتا‪ ،‬غموں کی بکنگ جاری ہے'۔‬
‫'جاپان سے آئی ہوں سوزوکی میرا نام ۔ دن بھر سامان لنا لے جانا ہے میرا کام'۔ 'قسمت آزما‬
‫چکا‪ ،‬مقدر آزما رہا ہوں'۔ 'تیرے غصے میں اتنا سرور ہے‪ ،‬پیار میں کیا ہو گا‪ ،‬تیری سادگی میں‬
‫حسن ہے‪ ،‬سنگھار میں کیا ہو گا'۔ 'گھر میں رونق بچوں سے‪ ،‬سڑکوں پر رونق بچوں سے'۔ '‬
‫کبھی سائیڈ سے آتی ہو کبھی ہارن دیتی ہو‪ ،‬میری جان یہ بتاؤ مجھے یوں کیوں ستاتی ہو' ۔‬
‫اگر دل پتنگ ہوتا تو اڑاتا غم کی ڈور سے‪ ،‬لگاتا عشق کے پیچے کٹواتا حسن والوں سے ۔ کون‬
‫کہتا ہے ملقات نہیں ہوتا‪ ،‬ملقات تو ہوتا ہے مگر بات نہیں ہوتا۔ ہم نے انہیں پھول پھینکا دل بھی‬
‫ساتھ تھا‪ ،‬انہوں نے ہم کو پھول پھینکا گمل بھی ساتھ تھا ۔ شیل کی جوانی ہمارے کس کام کی‪،‬‬
‫وہ تو بدنام ہو گئی ہے تم لکھو ایک کہانی میرے نام کی ۔ جن کے چہروں پر نقاب ہوتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫کے جرم بے حساب ہوتے ہیں۔ یار کو آزما کے دیکھ لیا‪ ،‬پارٹی میں بل کر دیکھ لیا‪ ،‬یہ جراثیم‬
‫عشق کے مرتے نہیں انجکشن لگا کے دیکھ لیا۔ کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مر جاؤں‬
‫گا‪،‬رکشہ وال ہوں کٹ مار کے نکل جاؤں گا ۔ تپش سورج کی ہوتی ہے جلنا پیٹرول کو ہوتا ہے‪،‬‬
‫قصور سوار ی کا ہوتا ہے پٹنا ڈرائیور کو ہوتا ہے ۔ اس کے رخسار سے ٹپکتے ہوئے آنسو‪ ،‬توبہ‬
‫میں نے شعلوں سے لپٹتے شبنم دیکھی ۔‬

‫ایک جملے میں داستان جس میں فلمی دنیا کے اثرات نمایاں‬


‫وقت نے ایک بار پھر دلہن بنا دیا ۔ نہ صنم‪ ،‬نہ غم ۔ امریکا حیران‪ ،‬جاپان پریشان‪ ،‬میڈان پاکستان ۔‬
‫دل جلے‪ ،‬صنم بے وفا‪ ،‬منی بدنام ہوئی‪ ،‬خان تیرے لئے۔ پھر وہی راستے جہاں سے گزرے تھے ہم ۔‬
‫پریشان نہ تھیویں میں ول آساں)پریشان مت ہونا میں پھر آؤں گا (۔ پاک فوج کو سلم‪ ،‬ماواں‬
‫ٹھنڈیاں چھاواں ۔ باجی انتظار کا شکریہ۔ کوئی دیکھ کر جل گیا اورکسی نے دعا دی ۔ روک مت‬
‫جانے دے۔ دل برائے فروخت قیمت ایک مسکراہٹ‪ ،‬چل پگلی صنم کے شہر‪ ،‬صدقے جاؤں پر کام‬
‫نہ آؤں ۔‬

‫دوسرے ڈرائیور بھائی کیلئے کوئی اشارہ‬

‫دیکھ ضرور مگر پیار سے ۔ ہارن دے رستہ لے ۔ جلو مت کالے ہو جاؤ گئے ۔ ہمت ہے تو پاس کر‬
‫ورنہ برداشت کر ۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ تولنگ جا ساڈھی خیر ہے ۔ ساڈھے پچھے آویں ذرا سوچ‬
‫کے )میرے پیچھے آنا ذرا سوچ کے(۔ نواں آیاں سونیاں)نیا آیا ہے ڈارلنگ(۔ زندہ رہنے کیلئے فاصلہ‬
‫رکھنا ضروری ہے ۔ فاص لہ رکھیے اس سے قبل کے ہماری منزل ایک ہو جائے۔ پہاڑوں کا‬
‫شہزادہ‪ ،‬فخر ملتان ۔ گڈی جاندی ہے چھلنگا ماردی۔ شرارتی لوگوں کے لئے سزا کا خاص انتظام‬
‫ہے ۔‬

‫مذہبی قربت اور نصیحت‬

‫نماز پڑھئے۔۔ اس سے قبل کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ تعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیں ۔‬
‫اپنی گناہوں کی معافی مانگ لیجئے ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر ہو ۔ نصیب‬
‫سے زیادہ نہیں‪ ،‬وقت سے پہلے نہیں۔ نیک نگاہوں کو سلم ۔ دعوت تبلیغ زندہ باد۔ داتا کی دیوانی۔‬
‫میں نوکر بری سرکار دا ۔ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں۔ جھولے لعل۔ کبھی آؤ ناں ہمارے شہر۔‬
‫‪ Bazm e Qalam‬پیار کرنا صحت کے لئے مضر ہے‪ ،‬وزارت عشق حکومت پاکستان‬
‫سی‬
‫‪،‬آٹھ ہوں یا ا ّ‬
‫اس سے کوئی فرق نہیں پڑ ے گا‬
‫آ ٹھ شادیا ں‬

‫مجھے ایک ایسا شخص مل جس نے آٹھ بار شادی کی تھی اور وہ مجھ سے شکایت کرتے ہوئے‬
‫کہہ رہا تھا‪’’ :‬میری پوری زندگی تباہ ہوگئی۔ میں نے ہربار اچھی عورت کو پانا چاہا‪ ،‬لیکن میییں‬
‫اسے کھوجنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہر عورت بدل کر پہلے جیسی ہی ہو گئی۔‘‘‬

‫میں نے کہا‪’’ ،‬تم دوسروں کے لیے عبرت بن جاوگے۔‬

‫وہ بول‪‘‘ ،‬آخر آپ کا مطلب کیا ہے؟’’‬

‫میں نے کہا‪‘‘ ،‬میرے کہنے کا اتنا ہی مطلب ہے کہ تم ایییک کلسییکل احمیق ہو۔ ایییک ہی عیورت‬
‫کافی تھی‪ ،‬زیادہ سے زیادہ دو‪،‬اور کوئی موقع بھی نہ چھوڑو تو تین پر تو بیس کرنییا چیاہیے ت ھا‪،‬‬
‫سی‪ ،‬اس سے کوئی‬ ‫لیکن تم شادی کرتے چلے گئے‪ ،‬اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچے۔ آٹھ ہوں یا ا ّ‬
‫فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ تم تو وہی ہو۔ انسانوں میں بہت تھوڑا فرق ہی ہوتییا ہےےے۔ ییہ بسییوں اور‬
‫کاروں کے فرق جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان کے میک ماڈل ‪ ،‬بونٹ اور ہیڈ لئٹس الگ الگ ڈیزائن کے‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬لیکن سارا بنیادی میکنزم اور انجن ایک جیسا ہی ہوتا ہےےے۔ اور اگییر ڈرائیییور وہےی بنییا‬
‫رہے تو وہ بار بار گڈھے میں گرے گا ہی‬

‫آٹھ بار شادی تو بہت زیادہ ہے۔ تمہیں ڈرائیو کرنا بہت پہلے بند کر دینا چاہیے تھا۔ تم جییانتے ہی‬
‫نہیں کہ عورت نام کی کار کیسے چلئی جاتی ہے۔‬

‫اس نے کہا‪‘‘ ،‬یہ ٹھیک ہو سکتا ہے‪ ،‬لیکن کسی نے مجھے یہ بتایا ہی نہیں۔‬

‫میں نے کہا‪‘‘ ،‬تمہیں یہ خود سمجھ لینا چاہیے تھا۔ سییب لیوگ اپنییی ہی ک ھائیوں اور گیڈھوں سیے‬
‫عاجز و لچار ہیں‪ ،‬تمہارے بارے میں کون فکر کرتا ؟‬
‫( ترجمہ )‪Bazm e Qalam‬‬

‫‪ y pas haiMarhum hamara‬عصییر حاضییر‬


‫انتہائی خطرناک شکل میں ہمارے سامنے ہے‪ ،‬کفر کی تاریکیاں چراغ توحیدو رسالت کییو‬
‫بجھانے کے لئے اپنی پوری قوت کے ساتھ سرگرم ہیں‪ ،‬یہ وقت ملت اسلمیہ کےلئے سخت‬
‫ترین آزمائش کا وقت ہے‪ ،‬ان حالت میں پیغمبر اسلم صلی اللہ علیہ وسییلم کیے امییتی کییی‬
‫حیثیت سے ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں ‪ ،‬اگر ہم اپنی ذمیہ دارییوں سیے منیہ میوڑ‬
‫کر راہ فرار اختیار کرتے ہیں تو اس دن کی رسوائی سے ہمیں کوئی نہیں بچیا سیکتا جیس‬
‫دن مجرمین کو تمام عالم کے سامنے ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑیگا اور اسییی ذلییت و‬
‫رسوائی کے ساتھ انہیں دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈال دیا جائیگا۔‬

‫اس ذلت و رسوائی سے بچنےکے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو پورا کریں جو اللہ‬
‫نے ہمارے سپردکی ہے‪ ،‬یعنی تبلیغ دین‪ ،‬غلبہء دین اور اقامت دین وغیییرہ‪ ،‬اور ییہ ذمیہ داری ہمییں‬
‫اجتماعی حیثیت سے عطا کی گئی ہے۔۔۔ کنتییم خیییر ام ۃاخرجت لّنییاس۔ تییم پ ہترین امییت ہےےو تمہییں‬
‫لوگوں کی بھلئی کے لئے برپا کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس ذمہ داری کا حق اس وقییت تییک ادا نہییں کیییا جییا‬
‫سکتا جب تک ہم میں اتفاق و اتحاد قائم نہ ہو۔۔۔۔۔ واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ول تفرقو۔۔۔۔ سب مل کر‬
‫سی کو مضبوط تھام لو اور تفرقے سے بچو۔ جہاں اختلف و انتشار پایاجاتییا ہےےے و ہاں‬ ‫اللہ کی ر ّ‬
‫اجتماعیت باقی نہیں رہتی اور جب اجماعیت نہیں رہتی تو انسان وہ ذمہ داری بھی ہوری نہیں کییر‬
‫پاتا جو اس کے سپرد کی گئی ہے‪ ،‬اور جب ذمہ داری پوری نہیں ہوتی تو ہر آن یہ خطرہ بنا رہتییا‬
‫ہے کہ ایسے غیر ذمہ دار انسانوں کو اس مقام و منصب سےہٹا دیا جییائےجس پیر وہ فیائز کئے گئے‬
‫ہیں‪ ،‬یہ معاملہ تو دنیا سے وابستہ ہے لیکن آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔‬

‫دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی سے خود کو بچانے کی صرف یہی ایک‬
‫صورت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔‬

‫اس دور میں روّیوں میں ایمانداری اور مثبت سوچ و فکییر کییی ضییرورت کچیھ زیییادہ ہےےی‬
‫محسوس ہو رہی ہے‪ ،‬نیکی اور بھلئی کے کاموں میں تعییاون کییا جییذبہ درکییار ہےےے‪ ،‬دییین کییا کییام‬
‫کرنے والے کسی بھی شخص‪ ،‬کسی بھی گروہ‪ ،‬تنظیم‪ ،‬تحریک یا جمییاعت کییی مخییالفت نہییں کییی‬
‫جانا چاہئے‪ ،‬گروہی عصبیتیں ختم کی جا کر اختلف کے با وجود اتحاد قائم کرنے کی کوشش کییی‬
‫جانا چاہئے‪ ،‬اختلفات کو اس عظیم مقصد پر غالب نہیں ہونے دینا چاہئے جییس مقصیید کیے لئے ہےےم‬
‫پیدا کئے گئے ہیں‪ ،‬تنقید تنقیص کی شکل اختیار نہ کرنے پائے‪ ،‬اور تنقید ب ھی بییرائے اصییلح ہونییا‬
‫چاہئے‪ ،‬تمام تر احتیاط کے باوجود اگر کہیں کوئی تنازعہ رونما ہوتا ہے تو اسے قرآن و س یّنت کییی‬
‫روشنی میں خلوص و محبت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے۔‬

‫طرح مونڈ دیتا ہے جس طرح استرہ بالوں کو مونڈ دیتا ہے اور اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تییم نیے اللیہ‬
‫کی اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تمہاری جگہ پر ایییک دوسییری قییوم کییو ک ھڑا کییر دیگییا جییو‬
‫تمہاری طرح نافرمان نہیں ہوگی۔‬

‫دوستوں‬

‫ہمیں سمجھنا ہے اپنے مقام و منصب کو‬

‫ہر ایک زخم کا مرہم ہمارے ہاتھ میں ہے‬

‫جس انقلب کی حاجت ہے آج دنیا کو‬

‫اس انقلب کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہے‬

‫احمد رئیس نظامی‬

‫‪Bazm e Qalam‬‬
‫‪Qaisar Tamkein ki adbi khidmaat‬‬
‫قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور‬
‫اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔‬
‫ابراہیم رضوی۔لندن‬

‫قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور‬
‫اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ ایک ایسے دور میں جب ناولوں کی بھر مار تھی اور‬
‫ادب میںجمود کے نعرے لگ رہے تھے وہ مستقل لکھتے رہے۔ان کی ‪ ۳۱‬کتابیں شائع‬
‫ہوچکی ہیں ان میں افسانوں کے مجموعے تنقیدی مضامین اور دیگر موضوعات پر‬
‫مضامین شامل ہیں ان کا پہلمجموعہ ”جگ ہنسائی“ ان کے زمانہ طالب علمی میں‬
‫ءمیںادارہ فروغ اردو لکھنوکی طرف سے شائع ہوا تھا اس پر یوپی حکومت ‪۸۵۹۱‬‬
‫نے نقد انعام بھی دیا تھا۔صف اول کے افسانہ نگاروں میں بعض سیاسی وجوہ سے‬
‫اور خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے ایک خاص دور انتہا پسندی کی بنا پر‬
‫کرشن چندر ‪ ،‬راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس کے نام اتنے نمایاں‬
‫‪،‬رہے کہ بہت سے لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ اصل میں جدید افسانے میں منٹو‬
‫احمد ندیم قاسمی اور حیات اللہ انصاری زیادہ بڑے فنکار ہیں اور زندگی کے‬
‫مشاہدات اور روز مرہ کی زندگی کے بعض غیر مقبول پہلووں پر ان تینوں کی‬
‫نگاہ جتنی تیز اور موثر ہے وہ احمدعباس اور کرشن چندر کی گرفت سے بہت دور‬
‫ہے۔ اس بارے میں قیصر تمکین منٹو سے سب زسے زیادہ متاثر تھے۔ ان کے جنسی‬
‫موضوعات سے نہیں بلکہ فن کی شدت اور مشاہدے کی بے پناہ سفاکی کی وجہ سے‬
‫“ قیصرکا کہنا تھا کہ ”منٹو پہل فرانسیسی ادیب ہے جو اردو میں پیداہوا۔‬ ‫۔‬

‫فن افسانہ نگاری میں بھی لکھنو کا بڑا نمایاں حصہ رہا ہے۔ پریم چند کو‬
‫لکھنو اسکول کے تھے ہی )ترقی پسند مصنفین کی اساسی کانفرنس منعقدہ لکھنو‬
‫‪،‬ءکی صدارت پریم چند ہی نے کی تھی(ان کے بعد اعظم کریوی پنڈت سدرشن ‪۶۳۹۱‬‬
‫محمد علی ردولوی علی عباس حسینی ‪،‬حیات اللہ انصاری‪ ،‬قرة العین حیدر اور‬
‫شوکت علی صدیقی کے نام آتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بھی اپنی‬
‫زندگی کا بڑا حصہ لکھنو میں ہی گزارا۔ خواجہ احمد عباس اپنے کو کسی خاص‬
‫دبستان سے وابستہ نہیں کرتے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے دوران‬
‫قیام میںوہ بھی زیادہ وقت لکھنوی ادیبوں اور تحریکوں کی معیت میں گزارتے‬
‫تھے۔ ان کے علوہ بہت سے لوگ تھے جو لکھنوکی محفلوں میں ہی سرگرم تگ و‬
‫تاز رہے تھے ان میں نیاز فتح پوری‪ ،‬مجنوں گورکھپوری اور اکبر الہ آبادی‬
‫کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہی کیا۔‬
‫بعد کی نسل میں لکھنو اسکول سے متعلق کچھ بہت ہی نمایاں نام ہیں مث ً‬
‫ل‬
‫رام لعل‪ ،‬قیصر تمکین‪ ،‬قاضی عبد الستار اور رتن سنگھ۔‬
‫رام لعل اور رتن سنگھ لکھنو میںہی سکونت پذیر رہے۔ قاضی عبد الستار علی‬
‫گڑھ جابسے۔ قیصر تمکین نے شروع زندگی لکھنو ہی میں گزاری اور تعلیم مکمل‬
‫کرنے کے بعد دہلی چلے گئے جہاں سے وہ ‪۵۶۹۱‬ءمیں ترک وطن کرکے برطانیہ‬
‫آگئے۔ اس لئے وہ اپنے کو کسی طرح لکھنو اسکول سے وابستہ کئے جانے کے حامی‬
‫نہیں تھے۔ قائل وہ اردو دنیا میں صرف منٹو ‪،‬عصمت چغتائی اور شفیق الرحمن‬
‫کے تھے اور انہیں اپنا پیش رو اور معنوی گرو مانتے تھے۔ مگر ان کے کہنے‬
‫سے کیا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال پہلے لکھنو چھوڑنے‬
‫‪،‬کے بعدبھی وہ غیرشعوری طور پر لکھنوی ہی رہے۔ اگر ان کے شعور پر منٹو‬
‫احمد ندیم قاسمی اور عصمت چغتائی کے اثرات ہیں تو غیر ارادی طور پر ان پر‬
‫پریم چند سے لے کر شوکت صدیقی تک کا اثرنظر آتا ہے مگر یہ بات وہ اتنے‬
‫واضح طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔‬

‫میں نے دبستان لکھنو کا ذکر محض کسی بے تکی تخصیص یا درجہ بندی کے لئے‬
‫نہیں کیا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ لکھنو کے تہذیبی و لسانی اثرات اور منٹو‬
‫اور قاسمی کی صداقت تسلیم کرتے ہوئے وہ اردو افسانے میں ایک ایسا امتزاج‬
‫پیش کرتے ہیں جو خود قرة العین حیدر کے یہاں بھی اتنا واضح اور بے لوچ‬
‫نہیں ہے۔ ان کی اس خوبی پر جل ہوئی ہے ان کے وسیع مطالعے سے جو انہوںنے‬
‫روسی‪ ،‬فرانسیسی اور چینی افسانوی ادب سے واقفیت کے سلسلے میں بہت طالب‬
‫علمانہ طور پر کیا ہے۔ ان کے موضوعات کاتنوع ان کی تکنیکی اپج ان کی زبان‬
‫کی لطافت اور پھر ان کے مطالعے اور مشاہدے کی رنگ آمیزی نے ان کوایسی‬
‫ممتاز اور منفرد جگہ عطا کی ہے جو ان کو لکھنو اسکول سے ہی نہیں بلکہ‬
‫تمام اردو بزم افسانہ نگاری سے ممتاز کرتی ہے۔‬

‫ادب کا ذوق قیصر تمکین کو ورثہ میں مل ہے۔ ان کے گھر میںپچھلی تین‪ ،‬چار‬
‫پشتوں سے ادب اور شاعری کا ذوق چلآرہا ہے ان کے والد مشیر احمد علوی‬
‫ناظر کاکوروی ایک ممتاز ادیب اور نقاد تھے ان کے دادا امیر احمد علوی نے‬
‫انیس‪ ،‬بہادر شاہ ظفر‪ ،‬اور مثنویات پر جو تحقیقی کام کیا ہے اس سے آج بھی‬
‫لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ حسان الہند محسن کاکوروی جن کا نعتیہ قصیدہ‪” ،‬سمت‬
‫کاشی سے چل جانب متھرا بادل“ تمام ہندوستان میں مشہور تھا امیر احمد‬
‫علوی کے نانا تھے۔‬

‫قیصر کے بڑے بھائی حسین مشیر علوی ایک ممتاز شاعر تھے قیصر کے چھوٹے‬
‫بھائی احمد ابراہیم علوی اتر پردیش کے ایک بڑے اور موقر اخبار ”آگ“ کے‬
‫مدیر اعلیٰ ہیں۔‬

‫قیصر نے بچپن سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں ان کی پہلی کہانی‬


‫ءمیں لہور کے مشہور رسالے عالم گیر میں شائع ہوئی تھی اس وقت ان کی ‪۹۴۹۱‬‬
‫عمر زیادہ سے زیادہ بارہ تیرہ سال کی ہوگی۔ بہت سے افسانے انہوںنے فرضی‬
‫ناموں سے لکھ کو مختلف رسالوں کو بھیجیں اس ڈر سے کہیں والدین کی ڈانٹ‬
‫پھٹکار نہ سننا پڑے۔‬

‫یہ کہنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ قیصر بہتر ادیب اور افسانہ نگار ہیں‬
‫یا بہتر صحافی ہیں۔ صحافت بطور پیشہ انہوں نے ‪ ۴۱‬سال کی عمر سے اختیار کی‬
‫ابتدا اردو اخباروں سے کی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لندن کے ٹائمز‬
‫کے شعبہ ادارت تک پہونچ گئے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جو کسی ایشیائی کو شاذ و‬
‫نادر ہی ملتا ہے۔لیکن پھر بھی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صحافی کی‬
‫بہ نسبت ادیب غالب رہتا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب ”خبر گیر“ ہے۔ بظاہر‬
‫تو وہ ایک صحافی کی کہانی دنیائے صحافت کے شب و روز اور صحافیوں کی‬
‫مصروفیات اور زندگی کے پیچ و خم کی داستان ہے لیکن در اصل اسلوب بیان کی‬
‫شگفتگی ‪ ،‬زبان پر عبور اور ان کے عمیق مشاہدے نے ”خبر گیر“ کو سوانح سے‬
‫بلند تر کرکے ادبی رنگ دے دیا ہے۔ قیصر تمکین بہت بے باکی اور ایمانداری‬
‫سے اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ اپنی یا اپنے خاندانی کی کمزوریوں کا ذکر‬
‫کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب نہیں آتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ”والد کی ماہانہ‬
‫تنخواہ ایک چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم تھی۔ اس پر مشکل یہ کہ وہ رشوت‬
‫لینے کے قائل نہیں تھے۔ اور ان کاپورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا۔ ان کا‬
‫کہنا یہ تھا کہ حلل کی کمائی خواہ کتنی قلیل کیوں نہ ہو اس میں بڑی برکت‬
‫ہوتی ہے۔)ہم نے اپنے گھر میںکبھی کوئی برکت نہیں دیکھی( ایک بار عید کے‬
‫“دن ہمارے گھر میں چولہا تک نہ جل سکا۔‬

‫اپنے منہ میاں مٹھو بننا تو بہت آسان ہے مگر اس طرح کی سچائی کو زیر‬
‫تحریر لنا بڑے ظرف کی بات ہے۔‬

‫مجھے معلوم ہے قیصر فرضی ناموں سے مختلف اردو انگریزی اخباروں میں لکھتے‬
‫رہتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے پہلے مجموعہ ”جگ ہنسائی“ کی‬
‫اشاعت پر ناشر نے ان کو سو روپئے دیے تھے جس سے انہوں نے ایک سوٹ سلوایا‬
‫تھا یہ ‪۹۵۹۱‬ءکی بات ہے اس کتاب پر اتر پردیش حکومت نے ‪ ۰۵۲‬روپئے کا نقد‬
‫انعام دیاتواس سے انہوں نے ایک کل ہند مقابلے کے امتحان کی فیس جمع کی۔‬
‫یہ دوسری بات ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایک مہنے(‬
‫میں ملزمت چھوڑ دی اور اپنے عم محترم سے جن کی صاحبزادی سے قیصر کی شادی‬
‫ہوئی تھی یہ جھوٹ بول کہ وہ امتحان میں فیل ہوگئے ہیں( بعد میں ان کے‬
‫چچا کو جب اصل بات معلوم ہوئی تو بیٹی کی قسمت اور داماد کی حماقت پر سر‬
‫پیٹ کر چپ ہوگئے۔ ویسے بھی اچھی اچھی ملزمتیں حاصل کرنا اور پھر بور‬
‫ہوکر استعف ٰی دیدینا ان کا مشغلہ تھا۔ٹائمز میں پورے چھ سال تک کام کرنے‬
‫کے بعد یونین کے سلسلے میں ایک اصولی اختلف کی بناءپر استعف ٰی دے کر چلے‬
‫آئے۔‬

‫قیصر تمکین انتہائی منکسر المزاج ‪ ،‬سادہ طبیعت اور پر خلوص انسان تھے‬
‫نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وہ ستائش کی تمنا یا صلہ کی پر وا‬
‫کئے بغیر اپنا کام کرتے تھے۔ ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ زہر ہلہل کو قند‬
‫نہیں کہہ سکتے تھے۔ کسی انجمن تحسین باہمی کے ممبر نہیں تھے۔ شاید اسی‬
‫لئے انہیں وہ سستی شہرت حاصل نہیں ہوئی جسے پاکر اکثر لوگ اپنے کو عظیم‬
‫سمجھنے لگتے ہیں۔‬

‫قیصر اپنے افسانوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں‬
‫لیکن جو بات کہنا ہوتی ہے وہ اس طرح کہانی میں سمو دیتے ہیں کہ بعض اوقات‬
‫پڑھنے والے ان کے مقصد تک نہیں پہونچ پاتے۔ اس سلسلے میں دلچسپ مثال ان‬
‫کی تصنیف ”خبر گیر“ ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ صرف‬
‫انگریزی ذریعہ تعلیم پانے والے اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے ہی قابل اور‬
‫انگریزی داں ہوتے ہیں یا مغرب میں ہر ٹام‪ ،‬ڈک اور ہیری ذہانت اور دانش کا‬
‫¿ پیکر ہوتا ہے۔ بعض لوگ بی بی سی اور ”ٹائمز“ جیسے اخبار کو صحیفہ‬
‫“آسمانی سمجھتے ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایاہوا۔ قیصر نے جس طرح ”ٹائمز‬
‫کا مذاق اڑایا ہے وہ تیسری دنیا کو چھوڑئے خود یورپ اور امریکہ کے‬
‫دانشوروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ”خبر گیر“ کے ان دو مقاصد تک عام طور پر‬
‫کسی کی نظر نہیں گئی اور ڈاکٹر محمد حسن اور حنیف فوق جیسے لوگ بھی اس کو‬
‫خود نوشت سوانح عمری سمجھے۔ تو کہنا یہ تھا کہ قیصر کی کہانیوں میں جو‬
‫بات کہی جاتی ہے وہ اکثر پنہاں رہتی ہے۔ بقول قیصر بات اس طرح کہو کہ پند‬
‫و نصیحت نہ لگے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں کرشن چندر یا احمد عباس کی طرح‬
‫وعظ خوانی یا نعرہ بازی کرنا چاہوں گا تو کہانی لکھنے کی بجائے مضمون‬
‫لکھوں گا۔ اگر واجدہ تبسم کی طرح بھونڈے طریقے پر کسی جمی جمائی تہذیب کی‬
‫بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرنا ہوگی تو طنزیہ و استہزائیہ انشائیے لکھوں گا۔‬
‫کہانی لکھنا کیا ضروری ہے۔ موپاساں کی طرح خوش اسلوبی سے حقیقت کی جھلک‬
‫دکھانا یا منٹو کی طرح کسی مسئلے پر ”سرچ لئٹ“ پھینک کر توجہ دلنا ہی‬
‫میرا مقصد ہے۔ میں واعظ نہیں ہوں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہوں یا کسی اسکول یا‬
‫کالج میں مدرس نہیں ہوں‪ ،‬الف لیل ٰی کی شہر زاد ایک ہزارراتوں تک کہانیاں‬
‫اور داستانیںسناتی رہتی ہے اور پھر ہم خود بخود اس نتیجے پر پہونچ جاتے‬
‫ہیں جو شہر زاد کا اصل مقصد تھا۔‬

‫قیصر کی اکثر کہانیوں میں بعض کردار ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ ہم کو شبہ‬
‫ہوتا ہے کہ خود ان کا نقطہ نظر یہی ہے۔ پھر اس کے بعد ہی وہ ایسی متضاد‬
‫اور مختلف باتیں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو ان کی ”ناوابستگی“ کا احساس‬
‫ل”میگھ دوت“ نامی کہانی میں ایک کردار کہتا ہے‬‫‪:‬ہوجاتا ہے مث ً‬

‫تنہائی سے مفر کہاں؟ نئے نئے ملکوں میں گھومئے۔ نئے نئے شہر دیکھئے‪ ،‬نئے”‬
‫نئے دوستوں سے ملئے اور نئے نئے تجربات سے دو چار ہوئیے۔ مگران سب باتوں‬
‫کے نتیجے میں ملتا کیا ہے؟ نئی نئی تنہائیاں۔یا ”تندور“نامی کہانی میں‬
‫ایک ناکام ترقی پسند شاعر اپنے سوا ساری دنیاکو الزام دیتے ہوئے کہتا ہے۔‬
‫اردو میں ترقی پسندی کی تحریک اصل میں ایک شیعہ تحریک تھی اور مجھ کو”‬
‫ہمیشہ سنی ہونے کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔“)ہم یہاں اس طنز لطیف‬
‫‪).‬پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے‬

You might also like