Professional Documents
Culture Documents
اردو ہندوستانیوں کی پسندیدہ زبان ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لل نہرو اردو
کے پرستاروں میں سے تھے ۔ اردو ادبا اور شعراء کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بل تفریق
مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا ۔
ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں موثر رول ادا کیا ۔ اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے
نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے ۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی
مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار
دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیور طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لیا ۔
حیدرآباد میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے
ہیں ۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں ۔
ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف
اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد
دریابادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ ،جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا
کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعراء کہہ سکتے ہیں ۔ ذکی کو میلدالنب ؐی کے
جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا ۔ میلدالنب ؐی کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلم سنارہے تھے
۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ۔
ایسے ہی قلمکاروں میں ایک ہستی رائے جانکی پرشاد کی بھی تھی ۔ اردو میں اعلی قابلیت کی
وجہ وہ دارالترجمہ سے وابستہ ہوگئے تھے ۔
قیام جامعہ عثمانیہ کے بعد اردو کو علمی درجہ تک پہنچانے کے لئے دارالترجمہ قائم کیا گیا تھا
جہاں اردو کے بلند قامت ادبا اور شعراء کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جن میں جوش ملیح
آبادی ،علمہ عبداللہ عمادی اور بابائے اردو جیسی عظیم المرتبت شخصیتیں شامل تھیں ۔ رائے
جانکی پرشاد نے ایسی بلند قامت شخصیتوں کے ساتھ مل کر اس مقصد کو پورا کیا اور علمی
اصطلحات کی تدوین فرمائی ۔
رائے جانکی پرشاد ہندو مسلم تہذیب کی نمائندہ شخصیت تھے ۔ ان کا لباس ٹوپی ،شیروانی اور
ن خدمت پر علحدگی کے بعد مختلف سماجی اداروں سے وابستہ پاجامہ ہوا کرتا تھا ۔ وہ وظیفہ حس ِ
ہوئے اور ان کی رہنمائی کی ۔ وہ بڑے صاحب الرائے شخصیت کے حامل تھے ۔ حامد نواز جنگ
نے جو لولد تھے انہی کے مشورے پر اپنے گراں قدر سرمائے سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس سے
فنی تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلباء کو وظائف جاری کئے جاتے تھے ۔ رائے جانکی پرشاد
اس ٹرسٹ کے واحد غیر مسلم ٹرسٹی تھے۔
نواب مہدی نواز جنگ جو اس وقت وزیر طبابت تھے ،انہوں نے رائے جانکی پرشاد کے مشورے
پر ہی کینسر ہاسپٹل قائم کیا ۔ اردو ہال کا قیام بھی موصوف کے گراں قدر مشوروں کا حاصل
ہے ۔ ان ساری گوناگوں مصروفیات کے باوجود انہوں نے تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھا
۔ ان کی تصانیف ’’عصر جدید‘‘ ’’ترجمہ کا فن‘‘ اور ’’انگریزی اردو ڈکشنری‘‘ اردو ادب میں
ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
تخلیق کار اپنی تخلیق ،محقق اپنی تحقیق اور نقاد اپنی تنقید سے ادب کے گیسو سنوارنے میں
مصروف رہتے ہیں ۔ باگاریڈی نے اردو بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اردو کی
گراں قدر خدمت انجام دی ۔ راقم کا آندھرا کی تشکیل کے بعد پہلے سب انسپکٹر پولیس بیاچ
1958ء سے تعلق رہا ہے ۔ شرائط ملزمت کے اعتبار سے تین سال کے عرصہ میں اس بیاچ
والوں کو تھرڈ کلس تلگو زبان دانی کا امتحان پاس کرنا ضروری تھا ۔ 1959ء میں ٹریننگ
کے کامیاب اختتام پر راقم کو نظام آباد پر تعینات کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد تین سال تک پبلک
سروس کمیشن نے مطلوبہ زبان دانی کا امتحان ہی منعقد نہیں کیا ۔ شرائط ملزمت کے تحت راقم
،سری دھر راؤ اور محمد علی خاں کو ملزمت سے ہٹادیا گیا ۔ باگاریڈی نے بحیثیت صدر
انجمن تحفظ اردو ہمارے کیس کو اس وقت کے چیف منسٹر جناب نیلم سنجیواریڈی صاحب سے
رجوع کیا اور ان کی کامیاب نمائندگی سے تین مہینے میں ہم لوگوں کی بحالی عمل میں آئی۔
باگاریڈی جامعہ عثمانیہ کے فارغ التحصیل تھے ۔ وہ ضلع پریشد میدک کے صدر نشین رہ چکے
ہیں ۔ انہوں نے ظہیر آباد میں ایک ادبی انجمن ’’بزم سخن‘‘ قائم کی تھی ۔ انہوں نے اردو اکیڈیمی
آندھرا پردیش کے صدر کی حیثیت سے بھی نمایاں خدمات انجام دیں ۔ انھوں نے اردو ویلفیر فنڈ
قائم کیا تھا جس سے مستحق اور ضرورت مند قلم کاروں کی مدد کی جاتی تھی ۔ ان کے
مضامین کا ایک مجموعہ ’’شمع ہر رنگ میں جلتی ہے‘‘ اور دوسری کتاب ’’تلگو زبان اور
ادب‘‘ اور تیسری کتاب ’’آندھرا پردیش‘’ ان کی یادگار ادبی تصانیف ہیں ۔
بھارت چند کھنہ ملک کے ممتاز مزاح نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ۔ انہوں نے جامعہ
عثمانیہ سے ایم اے کیا ۔ وہ انجمن زندہ دلن حیدرآباد کے بانی رہے ۔ انہوں نے 1966ء میں زندہ
دلن حیدرآباد کی پہلی کل ہند کانفرنس کے انعقاد کا اہتمام کیا تھا ۔ ان کے ظریفانہ مضامین
حیدرآباد کے موقر روزنامہ سیاست میں شائع ہوا کرتے تھے ۔ ان کے طنزیہ مضامین کا مجموعہ
’’تیر نیم کش‘‘ اور ان کی مشہور مزاحیہ کتاب ’’ذرا مسکراؤ‘‘ شائع ہوچکی ہے ۔ انہوں نے راج
بھون میں گورنر کے سکریٹری کے فرائض بھی انجام دئے ۔ اس زمانہ میں سکریٹریٹ کی اردو
اسوسی ایشن قائم ہوئی جس کے وہ پہلے صدر تھے ۔
کنول پرشاد کنول ،اردو اور ہندی کے ممتاز شاعر تھے ۔ وہ مشاعروں میں اپنا کلم مخصوص
ترنم کے ساتھ سناتے اور کبھی تحت اللفظ بھی سنایا کرتے تھے ۔ انہوں نے لل قلعہ میں منعقد
ہونے والے مشاعروں میں بھی اپنا کلم سنایا ۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر محکمہ اطلعات کی حیثیت سے
کام کرتے ہوئے انہوں نے اردو کی بڑی خدمت انجام دی ۔ ان کی ابتدائی دور کی شاعری کی
ایک نظم ’’مجھ سے میرا نام نہ پوچھو‘‘ کافی مقبول ہوئی ۔ اردو شاعری کی مختلف اصناف
میں طبع آزمائی کی ۔ ان کا نعتیہ کلم بھی سند مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ کڑپہ میں منعقدہ ایک
مشاعرہ میں ان کی نعت شریف حاصل مشاعرہ رہی ۔ ان کے تعلقات نہ صرف ہندوستانی شعراء
سے تھے بلکہ پاکستانی شعراء سے بھی خاص تعلقات تھے ۔ پاکستان کے ایک مشاعرہ میں ان کو
مدعو کیا گیا تھا ۔ اس مشاعرہ میں جو غزل انہوں نے پڑھی تھی اس کے چند اشعار ملحظہ
فرمایئے۔
محبوب نارائن نہ صرف علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی
وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ پرانے شہر میں جب بھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی جیسے چیچک ،
پلیگ ،ہیضہ وغیرہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی سرگرمی سے متاثرین کو دواخانہ پہنچاتے
اور مرنے والوں کی نعشوں کو آبادی سے دور لے جا کر سپرد خاک و آگ کردیا کرتے تھے ۔ وہ
حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت اور اردو کے پرستار تھے ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب
’’گزشتہ حیدرآباد‘‘ حیدرآبادی تہذیب کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اسی طرح راج بہادر گوڑ نے
ساری زندگی اردو کی خدمت کی جنہوں نے اپنے پیشہ طبابت کو خیرباد کہہ کر اردو کی خدمت
انجام دی ۔ ایسے ہی بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے نام آج بھی روشن ہیں جنہوں نے اردو
شعر و ادب کی خدمت انجام دے کر اس زبان کی لطافت کو نمایاں کیا ۔
|Bazm e Qalam
http://www.forumpakistan.com/hyderabad-main-
ghermosalmoun-ki-urdu-kay-liay-khidmaat-
t70876.html#ixzz1FMxlByuk
Eman ka sabaq
ایمان کا سبق
حامد کمال الدینکوئی شخص اپنی ”امید“ میں سچا ہے تو وہ اس کی ”طلب“ میں ضرور نکلتا
ہے! راستہ جہنم کا اور امید جنت کی ،اسی کو علمائے قلوب کی اصطلح میں ’فریب‘ اور
’غروِر آرزو‘ کہتے ہیں۔ نہ اس کا نام ’امید‘ ہے اور نہ ’خدا کے ساتھ حس ِ
ن ظن‘! آدمی جہنم کے
بیج بوئے اور اس سے جنت کے میووں کی آس کرے ،یہ خوش زعمی اور نادانی ہے اور
درحقیقت شیطان کے جھانسے میں آجانا!۔
گناہ ہیں تو تب کیا ہے’ ،امید‘ کا راستہ تو بہت کھل ہے! مگر تعجب تو اس شخص پر ہے جو
’توبہ‘ اور ’عمل صالح‘ کی طرف آنے کا نام نہیں لیتا اور برابر ’خوش گمانی‘ کا سہارا لئے
بیٹھا ہے!۔
خدا کے ہاں جو سلمتی کا گھر ہے ،اس میں اگر اسکے سوا کوئی اور خوبی نہ ہوتی کہ نہ تو
وہاں ’موت‘ اور نہ ’بیماری‘ اور نہ ’پریشانی‘ ..تو بخدا لوگ ِاس جہان کو چھوڑ چھوڑ کر ُاس
کی جانب بھاگ رہے ہوتے! لوگ اگر کسی ایسے جزیرے کا سن لیں جس میں موت کا گزر نہیں
تو سب لوگ اسی کا رخ کررہے ہوتے ،چاہے یہاں کے محلت چھوڑ کر وہاں ُپرمشقت زندگی
کیوں نہ گزارنی پڑے! جبکہ خدا نے تو یہ بھی نہیں کہا کہ ِاسکو چھوڑ کر وہاں آؤ۔ ُاس نے تو
صرف یہ کہا ہے کہ جب یہاں تمہارا وقت پورا ہوجائے تو وہاں آجاؤ ،مگر تیاری کرکے! بھل اس
سے بہتر کوئی پیش کش ہوسکتی ہے؟۔
زمین پر اگر ایسا کوئی جزیرہ ہوتا جہاں موت نہیں ،تو لوگ اپنے بنے بنائے مکانات اور زمینیں
جائدادیں سب چھوڑ کر وہاں کوچ کر رہے ہوتے ،چاہے وہاں ان کو فاقے کیوں نہ کرنے پڑیں....
تو پھر ُاس جہان کی بابت کیا خیال ہے جس میں لوگ بادشاہوں کی طرح رہیں گے! سدا خوشیوں
اور لذتوں میں لوٹیں گے! جو دل خواہش کرلے سو حاضر ہو۔ جو نگاہ کو لطف دے وہ دیکھنے
کو ملے ،اور خلد کی نعمت اس پر سوا! ایک نعمت سے دل بھرا نہ ہوگا کہ ایک اور نعمت آدمی
نگا ِہ التفات کی منتظر! ایک ایسی دنیا جو ’زوال‘ کے مفہوم سے ہی آشنا نہیں! وہاں تو کی
’نیند‘ نہیں ،کیونکہ نعمتیں اتنی ہیں اور دلچسپیوں کا سامان اس قدر ہے کہ لطف و سرود سے
فرصت ہی نہیں! نعمت کہ نری نعمت ہو ،اور ساتھ میں کسی مصیبت یا پریشانی کی ذرہ بھر
آلئش نہ ہو ،ایسی نعمت کا تو تصور ہی نہیں مگر اسی ’سلمتی کے گھر میں‘ جو خدا کے ہاں
پایا جاتا ہے!۔
برادرم! دنیا آخرت کی ’کھیتی‘ ہے۔ یہ ’قلب‘ جو تمہیں حاصل ہے دراصل یہ تمہاری ’زمین‘ ہے۔
چاہو تو اس کو سنوار لو اور پھر اس میں ’ایمان‘ کا بیج بو لو۔ بندگی کے افعال سے اس کو
’سیراب‘ کرو۔ گناہوں اور نافرمانیوں کا ’جھاڑ جھنکاڑ‘ یہاں پر تلف کرنے میں برابر لگے رہو۔
اور قیامت اس ’کٹائی‘ کا دن ہے۔ کچھ بھی نہیں تو ایک نظر تو روز ہی اس ’زمین‘ میں دوڑا لیا
کرو۔ یہاں جو فصل پکنے کے لئے آج چھوڑ دی گئی ہے’ ،آخرت‘ میں یہی ’دانے‘ گھر آئیں گے،
اور پھر باقی عمر یہی کھانے ہوں گے! ہونا تو یہ چاہیے کہ نگاہ کو اس فصل کی دیکھ بھال سے
فرصت ہی نہ ملے! کوئی سال دو سال کا تو معاملہ نہیں یہ تو ’زندگی کی فصل‘ ہے!۔
وہ قوی ترین جذبہ جس کی بدولت ایک ’فصل‘ کے اگانے میں آدمی اپنا دل ڈال دیا کرے ،اس
جذبہ کا نام ’امید‘ ہے۔ ’امید‘ ایک حقیقی جذبہ ہے۔ ’تعمیر‘ کی نہایت مضبوط بنیاد ہے۔ پھر اگر
فصل ایک جہان میں بو کر کٹائی ایک دوسرے جہان میں جاکر کرنی ہو ،پھر تو ’امید‘ کی ایک
خاص ہی کیفیت درکار ہے۔ ’امید‘ کی یہ صورت خدا کی صفات اور خدا کی شان جاننے کا ہی
نتیجہ ہوسکتی ہے۔
پس ’امید‘ کی وہ عظیم ترین صورت جو ایک لفانی جہان سے وابستہ ہے ،انسان کے ہاں پایا
جانے وال ایک برگزیدہ ترین جذبہ ہے۔ یہ خدا پر بھروسہ کرنے کی ایک خاص ہیئت ہے!۔
ہر کسان اپنا بیج جب مٹی میں گم کر دیتا ہے تو اس کے دامن میں ’امید‘ کے سوا کچھ باقی نہیں
رہتا!زمین کی اس خاصیت پر اگر اس کا اعتماد نہ ہو کہ یہ ’دانے‘ کو کھا نہیں جائے گی جبکہ
اسکے سوا ہر چیز جو ِاس میں ڈالی جائے یہ اس کو واقعتا کھا جاتی ہے ،نم کی صلحیت پر اگر
اس کو بھروسہ نہ ہو کہ یہ بیج کو پھٹنے اور کونپل بننے میں مدد دے گا ،ہوا اور دھوپ پر اگر
اس کو یقین نہ ہو ،اور سب سے بڑھ کر بیج کی صلحیت سے اگر وہ مطمئن نہ ہو ....تو کبھی وہ
اپنے کھانے کے دانے مٹی کو نہ دے آیا کرے! مگر بات یہ ہے کہ اپنے یہ دانے اگر وہ رکھ بھی لے
تو آخر کب تک کھائے گا؟! ’دانے‘ تو ’مٹی‘ سے ہی ایک نیا جنم پاکر آئیں تو بات بنتی ہے!۔
پس ’امید‘ تو کچھ کھو کر پانے کی ترکیب کا نام ہے! ’امید‘ یہ نہیں کہ آدمی اپناسب کچھ اپنے
پاس رکھ چھوڑے اور اپنی کسی لذت کی قربانی کا روادار نہ ہو! ایسا شخص تو آخری درجے کا
’ناامید‘ کہلنے کا مستحق ہے!۔
دل‘ کی زمین میں ’عبادت‘ کی فصل بونا اور اس کو مسلسل ’نم‘ فراہم کرنااور ’نیکی‘ کے’
اوزاروں سے مسلسل اس کی نگہداشت میں لگے رہنا’ ....امید‘ کی تصویر تو اصل میں یہ ہے!
اور خدا کو اس کے اسماءوصفات سے جاننا بھی دراصل یہ! تبھی تو آخرت کا انکار خدا کا انکار
ہے ،خصوصًا خدا کی عظمت و کبریائی اور حکمت ودانائی اور اس کی رحمت و کرم اور ُاس
کے وکیل وکارساز اور قابل بھروسہ ہونے کا انکار ہے!۔
ت کمال پر’ب مومن میں موجزن ہوتا ہے ،اور خدا کی بے شمار صفا ِ
امید‘ ایسا عظیم جذبہ جو قل ِ
س جلی ہے ،اس کا ایک فاجر شخص کے اس انداِز فکر سے کیا تعلق جو پورے یقین کا ایک عک ِ
دھڑلے سے خدا کی نافرمانی کرتے وقت کہے’ :ارے کیا ہوتا ہے‘؟!۔
http://www.eeqaz.com/main/articles/11/20110118_umeed-
e-samar.htm I c e b e r
ayesha.hafzal@yahoo.com
Read more: http://www.forumpakistan.com/eman-ka-
sabaq-t70858.html#ixzz1FMyAaK3l
Bazm e Qalam
Read more:
http://www.forumpakistan.com/urdu-ka-avlein-niswani-
safarnama-t70855.html#ixzz1FMyy3rwd
Baad az Khuda bazurg tuee qissa
mukhtasar
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
نعت گوئی فن شاعری کے زیور کا نگینہ ہے۔نعت کا فن بہ ظاہر جس قدر آسان نظر آتا ہے بباطن
اسی قدر مشکل ہے۔ ایک طرف وہ ذات گرامی ہے جس کی مد ح خود رب العالمین نے کی ہے،
دوسری طرف زبان اور شاعری کے جمالیاتی تقاضے ہیں۔اس لیے نعت کا حق وہی ادا کر سکتا
ہے جو جذبہٴ عشق رسول سے سرشار ہو اور یہ وصف وہبی ہے۔ بس جسے اللہ توفیق دے وہی
نعت کہہ سکتا ہے ایک طرح سے یہی کہا جائے گا۔
سہ حرفی لفظ نعت ) ن ع ت ( عربی زبان کا مصدر ہے اس کے لغوی معنی کسی شخص میں
قابل تعریف صفات کا پایا جانا ہے۔ یوں تو عربی زبان میں متعدد مصادر تعریف و توصیف کے
لیے استعمال ہو تے ہیں۔ مث ً
ل حمد ،اللہ جل شانہ کی تعریف کے لیے مخصوص ہے اور نعت
حضور سرور کائنات صلعم کی تعریف و توصیف کے لیے مستعمل ہو کر مخصوص ہوئی۔
اسی طرح اردو شاعری میں نظم کی اصناف سخن میں نعت وہ صنف سخن ہے جس کے اشعار
میں رسول مقبو ل صلعم کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی ہے۔ اردو میں شاید ہی ایسی کو ئی
صنف سخن ہو جس میں نعتیں نہ کہی گئی ہوں۔ اس کے لیے اس کے اسالیب طے شدہ نہیں ہیں۔ اس
طرح سے اس کا دائرہ بھی بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ مگر سب سے اہم تقاضا عشق رسول سے
:سرشاری کا ہے۔ شاہ معین الدین ندوی اپنی کتاب ”ادبی نقوش “ میں رقم طراز ہیں
نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات پاک نبی صلعم کی”
عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے ،لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آ ہونا بہت
مشکل ہے ․․․ حب رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالت اور کارناموں ،اسلم کی
صحیح روح ،عہد رسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے جو کم شعراء
کو ہوتی ہے۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے۔ اس میں
ادن ٰی سی لغزش سے نیکی برباد گناہ لزم آجاتا ہے۔ اس پل صراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس
کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں۔ )ادبی نقوش
)صفحہ 284
ب بصارت اور صاحب بصیرت ہونا شاہ معین الدین ندوی نے نعت گوئی کے لیے شاعر کا صاح ِ
اولین شرط قرار دیا ہے۔ کیوں کہ حضور سرور کائنات صلعم کی ذات مقدس ،نبوت اور عبدیت
کے کمال پر خالق بی نازاں ہیں۔ اللہتعال ٰی نے مدح رسول اور ذکر رسول کواعل ٰی و ارفع قرار
دیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باریتعال ٰی ہے’ ،ورفعنا لک ذکرک‘ )اور ہم نے تمہارے ذکر کو
بلند کیا(۔
خالق جس کی تخلیق پر نازاں ہوں اور مدح سرائی فرمائی ہو اس کی ثنا خوانی انسان سے کہاں
ممکن ہے۔ کیوں کہ ذات مقدس کو وجہ تخلیق کائنات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اس لیے الفاظ پر
کتنی ہی قدرت کیوں نہ ہو شاعر اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے اور یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
ق رسول میں فنا ہو جانا اور فنا کس طرح ہو؟ ایک مجلس
نعت گوئی کی بنیادی شرط ہے کہ عش ِ
میں آں حضورصلعم نے ارشاد فرمایا کوئی انسان اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک
میری ذات اس کے لیے ماں ،باپ ،اولد ،سب سے زیادہ محبوب نہ بن جائے۔ حضرت عمر رضی
اللہ وہاں تشریف فرما تھے۔
انہوں نے عرض کیا کہ جناب وال کی ذات ستودہ صفات والدین اور اولد سے زیادہ محبوب ہے،
لیکن ابھی یہ کیفیت نہیں ہے کہ میں آپ کی ذات کو اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا سمجھوں۔
حضور صلعم نے فرمایا کہ ابھی ایمان کی تکمیل نہیں ہوئی ہے۔ حضور صلعم کا فرمانا تھا کہ
حضرت عمر رضی اللہ کے دل پر ضرب کاری لگی اور آں حضرتصلعم کی توجہ سے دل کی
کیفیت بدل گئی۔ حضرت عمر نے عرض کیا کہ خدا کا شکر ہے اب دل میں کیفیت پیدا ہوئی کہ
جناب صلعم کی ذات گرامی مجھے اپنی ذات سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ آں حضرت صلعم نے
فرمایا کہ اب تمہارا ایمان مکمل ہو گیا۔
نعت گوئی کا محرک قرآن کریم ہے۔ اللہ تبارک وتعال ٰی نے اپنے حبیب لبیب کی شان میں جو الفاظ
استعمال کیے اس کا ثانی تو ہو ہی نہیں سکتا۔انسان ضعیف البنیان کی کیا بساط ہے۔ جو لب کشائی
:کرے۔ ایک سچے عاشق رسول صلعماعل ٰی حضرت احمد رضا خاں بریلوی فرماتے ہیں
جس کا ثنا خواں اللہتعال ٰی ہے وہاں انسان کیا جسارت کر سکتا ہے؟لیکن اپنے محبوب کی مداحی
کرنے سے خود کو روک بھی نہیں سکتا۔ اس لیے نعت کا وروِد مسعود ہوا اور ہمارے شعرا نے ا
س کے لیے آسمان سے زمینیں تراشیں۔
نعت گوئی کا آغاز حضورصلعم کی حیات و طیبہ میں ہو چکا تھا۔ اس ذیل میں حضرت حسان بن
ثابت رضی اللہ کا نام نامی اسم گرامی خصوصیت سے لیا جاتا ہے۔ جنہوں نے رسول اکرم صلعم
کی شان میں بے شمار نعتیہ اشعار کہے۔ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا
فرمائی۔ ان کے لیے اپنے سامنے منبر رکھوایا۔ اسی سے نعت گو کےاعل ٰی و ارفع مقام کا اندازہ
کیا جا سکتا ہے۔
حضورصلعم کی حیات و طیبہ کے دور میں جن صحابہ کرام نے نعتیں کہیں ان میں ابو طالب بن
عبد المطلب ،حضرت حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم ،حضرت عبد الرحمن بن رواحہ ،حضرت
عباس بن عبد المطلب ،حضرت ابو بکر صدیق ،حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان غنی،
حضرت علیمرتض ٰی ،حضرت فاطمہ ،حضرت کعب بن زبیر ،ام المومنین حضرت عائشہ
صدیقہ ،امام زین العابدین علی سجادالحسین کے نام نامی اسم گرامی آتے ہیں۔ عرب کے شعرا نے
فن نعت گوئی کو بام عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ہندوستان کے شعرا بھی اس میں پیچھے نہیں
:رہے اسی لیے شاعر مشرق حضرت علمہ اقبال نے اس سرزمین کے بارے میں کہا تھا
ان کے علوہ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی ،خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری ،حضرت
شمس الدین تبریز ،شاہ بو علی شاہ قلند ر پانی پتی ،خواجہ نظام الدین اولیا ،حضرت امیر خسرو
نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
ہندوستان کے اردو اور فارسی شعرا میں نہ صرف مسلمان بلکہ اہل ہنود نے بھی نعتیں لکھی ہیں۔
ان میں کئی تو ایسے ہیں جن کے نعتیہ کلم کے دواوین بھی موجود ہیں۔ نور میرٹھی نے ہندو
نعت گو شعرا پر ایک کتاب مرتب کی ہے۔ جس کا نام ہے ”بہ ہر زماں ،بہ ہر زباں“۔ جس میں
326ہندو نعت گو شعرا کا ذکر ہے اور ان کی نعتیں یکجا کر دی گئی ہیں۔
اردو میں شاعری کی ابتدا عرض دکن سے ہوئی۔ اسی لیے سلطان قلی قطب شاہ اور محمد شاہ کو
اردو کے پہلے نعت گو شاعر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ ان کے کلم کا خاصا حصہ نعت رسول
صلعم پر مشتمل ہے۔ اسی لیے ولی دکنی کے دور سے لے کر عہد جدید کے شعراء تک نعت گوئی
کا سلسلہ برابر قائم ہے اور اردو کا ہر شاعر نعت کہنا اپنے لیے باعث سعادت تصور کرتا ہے۔
اعل ٰی حضرت مولنا احمد رضا خاں بریلوی اگرچہ عالم دین تھے مگر ان کی شہرت نعت گو کی
حیثیت سے بھی ہے۔ انہیں عربی و فارسی اور اردو کے علوہ ہندی زبان پر بھی قدرت حاصل
تھی اور ان کی ایک نعت اس قدر مشہور ہے کہ ان کا ذکر آتے ہی اس کے اشعار زبان پر آجاتے
:ہیں
علمہ محسن کاکوروی نے بے معنی مبالغہ آرائی اور لفظوں کی صنعت گری سے احتراز کر کے
سیدھے سادھے انداز میں نعتیہ قصیدے لکھے۔ اردو نعت گوئی میں کرامت علی خاں شہیدی،مولنا
الطاف حسین حالی ،علمہ اقبال ،منیر شکوہا آبادی ،امیر مینائی ،سحر لکھنوی ،اصغر گونڈوی،
بہزاد لکھنوی ،حفیظ جالندھری ،حمید صدیقی ،ماہر القادری جیسے نام ہیں جو متعبر اور معروف
ہیں۔ ان کے علوہ غیر مسلم شعرا میں پنڈت دیاشنکر نسیم ،چھنو لل دلگیر ،پنڈت ہری چند
اختر ،گوپی ناتھ امن ،نوبت رائے نظر ،پنڈت امر ناتھ آشفتہ دہلوی ،بھگوت رائے راحت
کاکوروی ،مہاراجہ کشن پرساد،پنڈت برج موہن دتا تریہ کیفی ،رگھوپتی سہائے ،فراق
گورکھپوری ،اوم پرکاش ،باقر ہوشیار پوری ،تلوک چند محروم ،تربھون ناتھ زار زتشی دہلوی،
کنور مہندر سنگھ بیدی سحر ،بال مکند عرش ملسیانی ،پریم لل شفا ،کالی داس گپتا رضا ،جگن
ناتھ آزاد ،آنند موہن گلزار دہلوی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
دور حاضر میں بھی نعتیہ شعرا کی بہت بڑی تعداد ہے۔خاص طور سے پاکستان میں نعت گوئی
کو کافی عروج حاصل ہوا ہے۔ وہاں نعتوں پر تحقیق کا بھی خاصا کام ہوا ہے۔ پاکستان کے نعتیہ
شعرا میں حفیظ تائب ،عبد العزیز خالد ،مظفر وارثی ،مشکور حسین یاد اور ریاض مجید نے نعت
کو نیا رنگ و آہنگ دیا ہے اور نئی لفظیات سے آراستہ کیاہے۔
اگرچہ بظاہر نعت گوئی آسان لگتی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر اللہ اگر توفیق نہ دے تو نعت گوئی
انسان کے بس کا کام نہیں ہے۔حضرت شیخ سعدی کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے مدح رسول میں
تین مصرعے کہے۔ کوشش کے باوجود چوتھا مصرعہ نہ ہو تا تھا اور سخت پریشان تھے۔ ایک
شب انہیں خواب میں بشارت ہوئی۔ حضور سرور کائناتصلعم بنفس نفیس موجود ہیں اور شیخ
سعدی سے فرماتے ہیں سعدی تم نے تین مصرعے کہے ہیں ذرا سناؤ۔ شیخ سعدی نے تینوں
مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے۔ آ پ صلعم نے فرمایا یہ مصرعہ بڑھا لو۔ صلو علیہ و آلہ۔اور
یوں حضرت شیخ سعدی کی نعتیہ رباعی مکمل ہوئی۔اللہتعال ٰی نے اس رباعی کو شرف قبولیت
بخشا اور اس طرح شیخ سعدی نعت گو شعرا میں ممتاز ہو گئے۔ اس رباعی کے چار مصرعے
ہمیشہ توصیف مدح رسول صلعم کرتے ہیں۔
bazmeqalam@gmail.com
اردو ہندوستانیوں کی پسندیدہ زبان ہے ۔ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لل نہرو اردو
کے پرستاروں میں سے تھے ۔ اردو ادبا اور شعراء کی فہرست کا جائزہ لیں تو ان میں بل تفریق
مذہب و ملت سارے ابنائے وطن کے نام نظر آتے ہیں۔اردو زبان کا وجود ہندوستان میں ہوا ۔
ہندوستانیوں نے اس زبان کی ترقی میں موثر رول ادا کیا ۔ اس زبان کی شیرینی اور لطافت کے
نہ صرف ابنائے وطن بلکہ مستشرقین بھی دل و جان سے قائل رہے ۔ چنانچہ مشہور فرانسیسی
مستشرق گارساں دتاسی نے اردو کے مشہور شاعر ولی اورنگ آبادی کو اردو کا باوا آدم قرار
دیا اور ان کے دیوان کو فرانس میں زیور طبع سے آراستہ کرکے منظر عام پر لیا ۔
حیدرآباد میں اردو ادب کے منظر نامے میں بہت سے غیر مسلم حضرات کے نام نمایاں نظر آتے
ہیں ۔ اردو کی وجہ سے جو تہذیب پروان چڑھی اس کو گنگا جمنی تہذیب کہتے ہیں ۔
ان حضرات میں ایک اہم نام دامودر ذکی کا ہے ۔ انہوں نے نہ صرف اردو شاعری کی مختلف
اصناف میں اپنے جوہر دکھائے بلکہ نعت شریف بھی اتنا ڈوب کر لکھتے تھے کہ عبدالماجد
دریابادی جیسی شخصیت نے ان کے اور رگھویندر راؤ ،جذب عالم پوری کے تعلق سے کہا تھا
کہ وہ کس منہ سے ان حضرات کو غیر مسلم شعراء کہہ سکتے ہیں ۔ ذکی کو میلدالنب ؐی کے
جلسوں میں بھی مدعو کیا جاتا تھا ۔ میلدالنب ؐی کے ایک جلسہ میں وہ اپنا نعتیہ کلم سنارہے تھے
۔ ان کے اس شعر پر سامعین پر وجدانی کیفیت طاری ہوگئی اور آنکھیں نمناک ہوگئی تھیں ۔
محبوب نارائن نہ صرف علمی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے بلکہ سماجی سرگرمیوں میں بھی
وہ ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے ۔ پرانے شہر میں جب بھی کوئی وبا پھوٹ پڑتی جیسے چیچک ،
پلیگ ،ہیضہ وغیرہ تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ بڑی سرگرمی سے متاثرین کو دواخانہ پہنچاتے
اور مرنے والوں کی نعشوں کو آبادی سے دور لے جا کر سپرد خاک و آگ کردیا کرتے تھے ۔ وہ
حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت اور اردو کے پرستار تھے ۔ ان کی تحریر کردہ کتاب
’’گزشتہ حیدرآباد‘‘ حیدرآبادی تہذیب کی منہ بولتی تصویر ہے ۔ اسی طرح راج بہادر گوڑ نے
ساری زندگی اردو کی خدمت کی جنہوں نے اپنے پیشہ طبابت کو خیرباد کہہ کر اردو کی خدمت
انجام دی ۔ ایسے ہی بے شمار شاعروں اور ادیبوں کے نام آج بھی روشن ہیں جنہوں نے اردو
شعر و ادب کی خدمت انجام دے کر اس زبان کی لطافت کو نمایاں کیا ۔
Bazm e Qalam
ٹرکوں کے پیچھے لکھی عبارتیں۔۔ ہنسنے ہنسانے کا مفت ٹانک
وسیم اے صدیقی
جی ہاں آپ درست سمجھے۔ یہ پاکستان کی چوڑی چکلی سڑکوں پر دوڑتے ٹرکوں اور رکشا،
ٹیکسی کے پیچھے لکھی عبارتوں کی چاشنی ہے ۔ ڈیپر،موڑ ،پانا ،ہوا ،پانی ،تیل ،بریک ،اسپیڈ،
اوور ٹیک ،ہائی وے اور ۔۔او چھو۔۔و۔۔۔و۔۔ٹ۔۔ٹے کے نعرے ،ڈیزل کی بو۔۔ اپنے آپ میں ایک
الگ دنیا ہے۔ مگر نہایت دلچسپ اور عجیب و غریب۔ آیئے آج اسی دنیاکی سیر کی جائے۔آدمی
آدمی کو ڈنس' ریا' ہے ،سانپ بیٹھا ہنس 'ریا' ہے ۔ ' ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے،
موت سے بچ نکل تو سینٹرل جیل ہے'۔ 'یہ جینا بھی کیا جینا ہے ،جہلم کے آگے دینہ ہے'۔ 'ماں کی
دعا اے سی کی ہوا'۔ 'نظروں نے نظروں میں نظروں سے کہا۔۔ نظریں نہ ملنظروں کی قسم۔۔
نظروں سے نظر لگ جائے گی' ۔۔۔۔
ذرائع آمد ورفت اور خاص کر ٹرک کے پیچھے لکھی دلچسپ عبارتیں ۔۔ جسے ڈرائیور استاد
اوران کا 'چھوٹا' یعنی کلینر 'شاعری' کہتے ہیں۔۔ بہت دفعہ آپ کی نظر وں سے گزری ہوگی۔
دراصل یہ عبارتیں ٹرک کے اندر بیٹھے لوگوں کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتی
ہیں ۔ جبکہ ڈرائیورز کا اپنا کہنا یہ ہے کہ ان کی لئف گھر میں کم اور سڑکوں پر زیادہ گزرتی
ہے۔ بس سفر ہی سفر۔۔ اور تھکن ہی تھکن۔۔ ایسے میں اگر ایک ڈرائیور دوسرے ڈرائیور کو
اپنے جذبات سے آگاہ کرے بھی تو کیسے۔۔۔ پھر چلتے چلتے دوسروں کو ہنسنے اور خود کو
ہنسانے کے لئے یہ عبارتیں مفت کا ٹانک ہیں۔
سچ ہے ۔۔ سواریوں کے پیچھے کوئی ایک جذبہ تحریر نہیں ہوتا بلکہ نصیحت ،ڈرائیور کی 'پرسنل
لئف' ،خیر و بھلئی ،تقدیر ،مذہبی لگاؤ ،ماں کی محبت ،جذبہ حب الوطنی ،رومانس غرض کہ
:زندگی کا ہر انگ ان عبارتوں میں ملتا ہے ۔ مثال کے طور پر کچھ اور عبارتیں ملحظہ کیجئے
عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلنا چھوڑ دو'' ،بریک بے وفاہے تو رکشا چلنا چھوڑ دو'۔ 'محبت'
کو زمانے میں گل نایاب کہتے ہیں ،ہم آپ کو بیٹھنے سے پہلے آداب کہتے ہیں' ' ،تم خود کوکترینہ
سمجھتی ہو تو کوئی غم نہیں۔۔ ذرا غور سے دیکھو ہم بھی سلمان سے کم نہیں'۔ ظالم پلٹ کر
دیکھ ،تمنا ہم بھی رکھتے ہیں' ،تم اگر کار رکھتی ہو تو رکشا ہم بھی رکھتے ہیں'' ،قتل کرنا ہے
تو نظر سے کر تلوار میں کیا رکھا ہے ،سفر کرنا ہے تو رکشہ میں کر کار میں کیا رکھا ہے؛ ۔۔
پورٹ پر رہتے ہیں ،سہراب گوٹھ میں سوتے ہیں ،جب تمہاری یاد آتی ہے تو جی بھر کے روتے
ہیں'۔ 'اے راکٹ تجھے قسم ہے ہمت نہ ہارنا ،جیسا بھی کھڈا آئے ہنس کے گزارنا'۔ 'چلتی ہے
'گاڑی اڑتی ہے دھول ،جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول ۔
سڑک سے دوستی ہے سفر سے یاری ہے ،دیکھ تو اے دوست کیا زندگی ہماری ہے'۔ 'کسی نے'
گھر آکر لوٹا کسی نے گھر بل کر لوٹا ،جو دشمنی سے نہ لوٹ سکا اس نے اپنا بنا کر لوٹا'۔ 'اتنا
دبل ہو گیا ہوں صنم تیری جدائی سے ،کہ کٹھمل بھی کھینچ لے جاتے ہیں چارپائی سے'۔ 'میرے
دل پر دکھوں کی ریل گاڑی جاری ہے ،خوشیوں کا ٹکٹ نہیں ملتا ،غموں کی بکنگ جاری ہے'۔
'جاپان سے آئی ہوں سوزوکی میرا نام ۔ دن بھر سامان لنا لے جانا ہے میرا کام'۔ 'قسمت آزما
چکا ،مقدر آزما رہا ہوں'۔ 'تیرے غصے میں اتنا سرور ہے ،پیار میں کیا ہو گا ،تیری سادگی میں
حسن ہے ،سنگھار میں کیا ہو گا'۔ 'گھر میں رونق بچوں سے ،سڑکوں پر رونق بچوں سے'۔ '
کبھی سائیڈ سے آتی ہو کبھی ہارن دیتی ہو ،میری جان یہ بتاؤ مجھے یوں کیوں ستاتی ہو' ۔
اگر دل پتنگ ہوتا تو اڑاتا غم کی ڈور سے ،لگاتا عشق کے پیچے کٹواتا حسن والوں سے ۔ کون
کہتا ہے ملقات نہیں ہوتا ،ملقات تو ہوتا ہے مگر بات نہیں ہوتا۔ ہم نے انہیں پھول پھینکا دل بھی
ساتھ تھا ،انہوں نے ہم کو پھول پھینکا گمل بھی ساتھ تھا ۔ شیل کی جوانی ہمارے کس کام کی،
وہ تو بدنام ہو گئی ہے تم لکھو ایک کہانی میرے نام کی ۔ جن کے چہروں پر نقاب ہوتے ہیں ،ان
کے جرم بے حساب ہوتے ہیں۔ یار کو آزما کے دیکھ لیا ،پارٹی میں بل کر دیکھ لیا ،یہ جراثیم
عشق کے مرتے نہیں انجکشن لگا کے دیکھ لیا۔ کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مر جاؤں
گا،رکشہ وال ہوں کٹ مار کے نکل جاؤں گا ۔ تپش سورج کی ہوتی ہے جلنا پیٹرول کو ہوتا ہے،
قصور سوار ی کا ہوتا ہے پٹنا ڈرائیور کو ہوتا ہے ۔ اس کے رخسار سے ٹپکتے ہوئے آنسو ،توبہ
میں نے شعلوں سے لپٹتے شبنم دیکھی ۔
دیکھ ضرور مگر پیار سے ۔ ہارن دے رستہ لے ۔ جلو مت کالے ہو جاؤ گئے ۔ ہمت ہے تو پاس کر
ورنہ برداشت کر ۔ پپو یار تنگ نہ کر۔ تولنگ جا ساڈھی خیر ہے ۔ ساڈھے پچھے آویں ذرا سوچ
کے )میرے پیچھے آنا ذرا سوچ کے(۔ نواں آیاں سونیاں)نیا آیا ہے ڈارلنگ(۔ زندہ رہنے کیلئے فاصلہ
رکھنا ضروری ہے ۔ فاص لہ رکھیے اس سے قبل کے ہماری منزل ایک ہو جائے۔ پہاڑوں کا
شہزادہ ،فخر ملتان ۔ گڈی جاندی ہے چھلنگا ماردی۔ شرارتی لوگوں کے لئے سزا کا خاص انتظام
ہے ۔
نماز پڑھئے۔۔ اس سے قبل کہ آپ کی نماز پڑھی جائے۔ تعجب ہے تجھے نماز کی فرصت نہیں ۔
اپنی گناہوں کی معافی مانگ لیجئے ہو سکتا ہے کہ یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر ہو ۔ نصیب
سے زیادہ نہیں ،وقت سے پہلے نہیں۔ نیک نگاہوں کو سلم ۔ دعوت تبلیغ زندہ باد۔ داتا کی دیوانی۔
میں نوکر بری سرکار دا ۔ گستاخ اکھیاں کھتے جا لڑیاں۔ جھولے لعل۔ کبھی آؤ ناں ہمارے شہر۔
Bazm e Qalamپیار کرنا صحت کے لئے مضر ہے ،وزارت عشق حکومت پاکستان
سی
،آٹھ ہوں یا ا ّ
اس سے کوئی فرق نہیں پڑ ے گا
آ ٹھ شادیا ں
مجھے ایک ایسا شخص مل جس نے آٹھ بار شادی کی تھی اور وہ مجھ سے شکایت کرتے ہوئے
کہہ رہا تھا’’ :میری پوری زندگی تباہ ہوگئی۔ میں نے ہربار اچھی عورت کو پانا چاہا ،لیکن میییں
اسے کھوجنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ہر عورت بدل کر پہلے جیسی ہی ہو گئی۔‘‘
میں نے کہا‘‘ ،میرے کہنے کا اتنا ہی مطلب ہے کہ تم ایییک کلسییکل احمیق ہو۔ ایییک ہی عیورت
کافی تھی ،زیادہ سے زیادہ دو،اور کوئی موقع بھی نہ چھوڑو تو تین پر تو بیس کرنییا چیاہیے ت ھا،
سی ،اس سے کوئی لیکن تم شادی کرتے چلے گئے ،اور ہر بار اسی نتیجے پر پہنچے۔ آٹھ ہوں یا ا ّ
فرق نہیں پڑے گا کیوں کہ تم تو وہی ہو۔ انسانوں میں بہت تھوڑا فرق ہی ہوتییا ہےےے۔ ییہ بسییوں اور
کاروں کے فرق جیسا ہی ہوتا ہے۔ ان کے میک ماڈل ،بونٹ اور ہیڈ لئٹس الگ الگ ڈیزائن کے
ہوتے ہیں ،لیکن سارا بنیادی میکنزم اور انجن ایک جیسا ہی ہوتا ہےےے۔ اور اگییر ڈرائیییور وہےی بنییا
رہے تو وہ بار بار گڈھے میں گرے گا ہی
آٹھ بار شادی تو بہت زیادہ ہے۔ تمہیں ڈرائیو کرنا بہت پہلے بند کر دینا چاہیے تھا۔ تم جییانتے ہی
نہیں کہ عورت نام کی کار کیسے چلئی جاتی ہے۔
اس نے کہا‘‘ ،یہ ٹھیک ہو سکتا ہے ،لیکن کسی نے مجھے یہ بتایا ہی نہیں۔
میں نے کہا‘‘ ،تمہیں یہ خود سمجھ لینا چاہیے تھا۔ سییب لیوگ اپنییی ہی ک ھائیوں اور گیڈھوں سیے
عاجز و لچار ہیں ،تمہارے بارے میں کون فکر کرتا ؟
( ترجمہ )Bazm e Qalam
اس ذلت و رسوائی سے بچنےکے لئے ضروری ہے کہ ہم اس ذمہ داری کو پورا کریں جو اللہ
نے ہمارے سپردکی ہے ،یعنی تبلیغ دین ،غلبہء دین اور اقامت دین وغیییرہ ،اور ییہ ذمیہ داری ہمییں
اجتماعی حیثیت سے عطا کی گئی ہے۔۔۔ کنتییم خیییر ام ۃاخرجت لّنییاس۔ تییم پ ہترین امییت ہےےو تمہییں
لوگوں کی بھلئی کے لئے برپا کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس ذمہ داری کا حق اس وقییت تییک ادا نہییں کیییا جییا
سکتا جب تک ہم میں اتفاق و اتحاد قائم نہ ہو۔۔۔۔۔ واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ول تفرقو۔۔۔۔ سب مل کر
سی کو مضبوط تھام لو اور تفرقے سے بچو۔ جہاں اختلف و انتشار پایاجاتییا ہےےے و ہاں اللہ کی ر ّ
اجتماعیت باقی نہیں رہتی اور جب اجماعیت نہیں رہتی تو انسان وہ ذمہ داری بھی ہوری نہیں کییر
پاتا جو اس کے سپرد کی گئی ہے ،اور جب ذمہ داری پوری نہیں ہوتی تو ہر آن یہ خطرہ بنا رہتییا
ہے کہ ایسے غیر ذمہ دار انسانوں کو اس مقام و منصب سےہٹا دیا جییائےجس پیر وہ فیائز کئے گئے
ہیں ،یہ معاملہ تو دنیا سے وابستہ ہے لیکن آخرت کا معاملہ بہت سخت ہے۔
دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی سے خود کو بچانے کی صرف یہی ایک
صورت ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔
اس دور میں روّیوں میں ایمانداری اور مثبت سوچ و فکییر کییی ضییرورت کچیھ زیییادہ ہےےی
محسوس ہو رہی ہے ،نیکی اور بھلئی کے کاموں میں تعییاون کییا جییذبہ درکییار ہےےے ،دییین کییا کییام
کرنے والے کسی بھی شخص ،کسی بھی گروہ ،تنظیم ،تحریک یا جمییاعت کییی مخییالفت نہییں کییی
جانا چاہئے ،گروہی عصبیتیں ختم کی جا کر اختلف کے با وجود اتحاد قائم کرنے کی کوشش کییی
جانا چاہئے ،اختلفات کو اس عظیم مقصد پر غالب نہیں ہونے دینا چاہئے جییس مقصیید کیے لئے ہےےم
پیدا کئے گئے ہیں ،تنقید تنقیص کی شکل اختیار نہ کرنے پائے ،اور تنقید ب ھی بییرائے اصییلح ہونییا
چاہئے ،تمام تر احتیاط کے باوجود اگر کہیں کوئی تنازعہ رونما ہوتا ہے تو اسے قرآن و س یّنت کییی
روشنی میں خلوص و محبت کے ساتھ ختم کرنے کی کوشش کی جانا چاہئے۔
طرح مونڈ دیتا ہے جس طرح استرہ بالوں کو مونڈ دیتا ہے اور اللہ کا فرمان ہے کہ اگر تییم نیے اللیہ
کی اطاعت سے روگردانی کی تو اللہ تمہاری جگہ پر ایییک دوسییری قییوم کییو ک ھڑا کییر دیگییا جییو
تمہاری طرح نافرمان نہیں ہوگی۔
دوستوں
Bazm e Qalam
Qaisar Tamkein ki adbi khidmaat
قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔
ابراہیم رضوی۔لندن
قیصرتمکین گذشتہ نصف صدی سے برابر افسانوی دنیا میں لوگوں کو چونکاتے اور
اپنی طرف متوجہ کرتے رہے۔ ایک ایسے دور میں جب ناولوں کی بھر مار تھی اور
ادب میںجمود کے نعرے لگ رہے تھے وہ مستقل لکھتے رہے۔ان کی ۳۱کتابیں شائع
ہوچکی ہیں ان میں افسانوں کے مجموعے تنقیدی مضامین اور دیگر موضوعات پر
مضامین شامل ہیں ان کا پہلمجموعہ ”جگ ہنسائی“ ان کے زمانہ طالب علمی میں
ءمیںادارہ فروغ اردو لکھنوکی طرف سے شائع ہوا تھا اس پر یوپی حکومت ۸۵۹۱
نے نقد انعام بھی دیا تھا۔صف اول کے افسانہ نگاروں میں بعض سیاسی وجوہ سے
اور خاص طور پر ترقی پسند تحریک کے ایک خاص دور انتہا پسندی کی بنا پر
کرشن چندر ،راجندر سنگھ بیدی اور خواجہ احمد عباس کے نام اتنے نمایاں
،رہے کہ بہت سے لوگ اکثر بھول جاتے ہیں کہ اصل میں جدید افسانے میں منٹو
احمد ندیم قاسمی اور حیات اللہ انصاری زیادہ بڑے فنکار ہیں اور زندگی کے
مشاہدات اور روز مرہ کی زندگی کے بعض غیر مقبول پہلووں پر ان تینوں کی
نگاہ جتنی تیز اور موثر ہے وہ احمدعباس اور کرشن چندر کی گرفت سے بہت دور
ہے۔ اس بارے میں قیصر تمکین منٹو سے سب زسے زیادہ متاثر تھے۔ ان کے جنسی
موضوعات سے نہیں بلکہ فن کی شدت اور مشاہدے کی بے پناہ سفاکی کی وجہ سے
“ قیصرکا کہنا تھا کہ ”منٹو پہل فرانسیسی ادیب ہے جو اردو میں پیداہوا۔ ۔
فن افسانہ نگاری میں بھی لکھنو کا بڑا نمایاں حصہ رہا ہے۔ پریم چند کو
لکھنو اسکول کے تھے ہی )ترقی پسند مصنفین کی اساسی کانفرنس منعقدہ لکھنو
،ءکی صدارت پریم چند ہی نے کی تھی(ان کے بعد اعظم کریوی پنڈت سدرشن ۶۳۹۱
محمد علی ردولوی علی عباس حسینی ،حیات اللہ انصاری ،قرة العین حیدر اور
شوکت علی صدیقی کے نام آتے ہیں۔ ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے بھی اپنی
زندگی کا بڑا حصہ لکھنو میں ہی گزارا۔ خواجہ احمد عباس اپنے کو کسی خاص
دبستان سے وابستہ نہیں کرتے۔ مگر زمانہ طالب علمی میں علی گڑھ کے دوران
قیام میںوہ بھی زیادہ وقت لکھنوی ادیبوں اور تحریکوں کی معیت میں گزارتے
تھے۔ ان کے علوہ بہت سے لوگ تھے جو لکھنوکی محفلوں میں ہی سرگرم تگ و
تاز رہے تھے ان میں نیاز فتح پوری ،مجنوں گورکھپوری اور اکبر الہ آبادی
کے نام آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہی کیا۔
بعد کی نسل میں لکھنو اسکول سے متعلق کچھ بہت ہی نمایاں نام ہیں مث ً
ل
رام لعل ،قیصر تمکین ،قاضی عبد الستار اور رتن سنگھ۔
رام لعل اور رتن سنگھ لکھنو میںہی سکونت پذیر رہے۔ قاضی عبد الستار علی
گڑھ جابسے۔ قیصر تمکین نے شروع زندگی لکھنو ہی میں گزاری اور تعلیم مکمل
کرنے کے بعد دہلی چلے گئے جہاں سے وہ ۵۶۹۱ءمیں ترک وطن کرکے برطانیہ
آگئے۔ اس لئے وہ اپنے کو کسی طرح لکھنو اسکول سے وابستہ کئے جانے کے حامی
نہیں تھے۔ قائل وہ اردو دنیا میں صرف منٹو ،عصمت چغتائی اور شفیق الرحمن
کے تھے اور انہیں اپنا پیش رو اور معنوی گرو مانتے تھے۔ مگر ان کے کہنے
سے کیا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ چالیس پینتالیس سال پہلے لکھنو چھوڑنے
،کے بعدبھی وہ غیرشعوری طور پر لکھنوی ہی رہے۔ اگر ان کے شعور پر منٹو
احمد ندیم قاسمی اور عصمت چغتائی کے اثرات ہیں تو غیر ارادی طور پر ان پر
پریم چند سے لے کر شوکت صدیقی تک کا اثرنظر آتا ہے مگر یہ بات وہ اتنے
واضح طور پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھے۔
میں نے دبستان لکھنو کا ذکر محض کسی بے تکی تخصیص یا درجہ بندی کے لئے
نہیں کیا ہے۔ کہنا صرف یہ ہے کہ لکھنو کے تہذیبی و لسانی اثرات اور منٹو
اور قاسمی کی صداقت تسلیم کرتے ہوئے وہ اردو افسانے میں ایک ایسا امتزاج
پیش کرتے ہیں جو خود قرة العین حیدر کے یہاں بھی اتنا واضح اور بے لوچ
نہیں ہے۔ ان کی اس خوبی پر جل ہوئی ہے ان کے وسیع مطالعے سے جو انہوںنے
روسی ،فرانسیسی اور چینی افسانوی ادب سے واقفیت کے سلسلے میں بہت طالب
علمانہ طور پر کیا ہے۔ ان کے موضوعات کاتنوع ان کی تکنیکی اپج ان کی زبان
کی لطافت اور پھر ان کے مطالعے اور مشاہدے کی رنگ آمیزی نے ان کوایسی
ممتاز اور منفرد جگہ عطا کی ہے جو ان کو لکھنو اسکول سے ہی نہیں بلکہ
تمام اردو بزم افسانہ نگاری سے ممتاز کرتی ہے۔
ادب کا ذوق قیصر تمکین کو ورثہ میں مل ہے۔ ان کے گھر میںپچھلی تین ،چار
پشتوں سے ادب اور شاعری کا ذوق چلآرہا ہے ان کے والد مشیر احمد علوی
ناظر کاکوروی ایک ممتاز ادیب اور نقاد تھے ان کے دادا امیر احمد علوی نے
انیس ،بہادر شاہ ظفر ،اور مثنویات پر جو تحقیقی کام کیا ہے اس سے آج بھی
لوگ مستفید ہورہے ہیں۔ حسان الہند محسن کاکوروی جن کا نعتیہ قصیدہ” ،سمت
کاشی سے چل جانب متھرا بادل“ تمام ہندوستان میں مشہور تھا امیر احمد
علوی کے نانا تھے۔
قیصر کے بڑے بھائی حسین مشیر علوی ایک ممتاز شاعر تھے قیصر کے چھوٹے
بھائی احمد ابراہیم علوی اتر پردیش کے ایک بڑے اور موقر اخبار ”آگ“ کے
مدیر اعلیٰ ہیں۔
یہ کہنا ذرا مشکل معلوم ہوتا ہے کہ قیصر بہتر ادیب اور افسانہ نگار ہیں
یا بہتر صحافی ہیں۔ صحافت بطور پیشہ انہوں نے ۴۱سال کی عمر سے اختیار کی
ابتدا اردو اخباروں سے کی اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے لندن کے ٹائمز
کے شعبہ ادارت تک پہونچ گئے۔ یہ وہ مقام ہے کہ جو کسی ایشیائی کو شاذ و
نادر ہی ملتا ہے۔لیکن پھر بھی میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ صحافی کی
بہ نسبت ادیب غالب رہتا ہے۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب ”خبر گیر“ ہے۔ بظاہر
تو وہ ایک صحافی کی کہانی دنیائے صحافت کے شب و روز اور صحافیوں کی
مصروفیات اور زندگی کے پیچ و خم کی داستان ہے لیکن در اصل اسلوب بیان کی
شگفتگی ،زبان پر عبور اور ان کے عمیق مشاہدے نے ”خبر گیر“ کو سوانح سے
بلند تر کرکے ادبی رنگ دے دیا ہے۔ قیصر تمکین بہت بے باکی اور ایمانداری
سے اپنی بات کہنے کے عادی ہیں۔ اپنی یا اپنے خاندانی کی کمزوریوں کا ذکر
کرتے ہوئے انہیں کوئی حجاب نہیں آتا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں ”والد کی ماہانہ
تنخواہ ایک چپراسی کی تنخواہ سے بھی کم تھی۔ اس پر مشکل یہ کہ وہ رشوت
لینے کے قائل نہیں تھے۔ اور ان کاپورا محکمہ رشوت پر چلتا تھا۔ ان کا
کہنا یہ تھا کہ حلل کی کمائی خواہ کتنی قلیل کیوں نہ ہو اس میں بڑی برکت
ہوتی ہے۔)ہم نے اپنے گھر میںکبھی کوئی برکت نہیں دیکھی( ایک بار عید کے
“دن ہمارے گھر میں چولہا تک نہ جل سکا۔
اپنے منہ میاں مٹھو بننا تو بہت آسان ہے مگر اس طرح کی سچائی کو زیر
تحریر لنا بڑے ظرف کی بات ہے۔
مجھے معلوم ہے قیصر فرضی ناموں سے مختلف اردو انگریزی اخباروں میں لکھتے
رہتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان کے پہلے مجموعہ ”جگ ہنسائی“ کی
اشاعت پر ناشر نے ان کو سو روپئے دیے تھے جس سے انہوں نے ایک سوٹ سلوایا
تھا یہ ۹۵۹۱ءکی بات ہے اس کتاب پر اتر پردیش حکومت نے ۰۵۲روپئے کا نقد
انعام دیاتواس سے انہوں نے ایک کل ہند مقابلے کے امتحان کی فیس جمع کی۔
یہ دوسری بات ہے کہ مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے ایک مہنے(
میں ملزمت چھوڑ دی اور اپنے عم محترم سے جن کی صاحبزادی سے قیصر کی شادی
ہوئی تھی یہ جھوٹ بول کہ وہ امتحان میں فیل ہوگئے ہیں( بعد میں ان کے
چچا کو جب اصل بات معلوم ہوئی تو بیٹی کی قسمت اور داماد کی حماقت پر سر
پیٹ کر چپ ہوگئے۔ ویسے بھی اچھی اچھی ملزمتیں حاصل کرنا اور پھر بور
ہوکر استعف ٰی دیدینا ان کا مشغلہ تھا۔ٹائمز میں پورے چھ سال تک کام کرنے
کے بعد یونین کے سلسلے میں ایک اصولی اختلف کی بناءپر استعف ٰی دے کر چلے
آئے۔
قیصر تمکین انتہائی منکسر المزاج ،سادہ طبیعت اور پر خلوص انسان تھے
نمود و نمائش سے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وہ ستائش کی تمنا یا صلہ کی پر وا
کئے بغیر اپنا کام کرتے تھے۔ ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ زہر ہلہل کو قند
نہیں کہہ سکتے تھے۔ کسی انجمن تحسین باہمی کے ممبر نہیں تھے۔ شاید اسی
لئے انہیں وہ سستی شہرت حاصل نہیں ہوئی جسے پاکر اکثر لوگ اپنے کو عظیم
سمجھنے لگتے ہیں۔
قیصر اپنے افسانوں میں ہمیشہ کسی نہ کسی مسئلے کی طرف اشارہ کرتے ہیں
لیکن جو بات کہنا ہوتی ہے وہ اس طرح کہانی میں سمو دیتے ہیں کہ بعض اوقات
پڑھنے والے ان کے مقصد تک نہیں پہونچ پاتے۔ اس سلسلے میں دلچسپ مثال ان
کی تصنیف ”خبر گیر“ ہے۔ جس میں انہوں نے اس بات کا مذاق اڑایا ہے کہ صرف
انگریزی ذریعہ تعلیم پانے والے اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے ہی قابل اور
انگریزی داں ہوتے ہیں یا مغرب میں ہر ٹام ،ڈک اور ہیری ذہانت اور دانش کا
¿ پیکر ہوتا ہے۔ بعض لوگ بی بی سی اور ”ٹائمز“ جیسے اخبار کو صحیفہ
“آسمانی سمجھتے ہیں کہ مستند ہے میرا فرمایاہوا۔ قیصر نے جس طرح ”ٹائمز
کا مذاق اڑایا ہے وہ تیسری دنیا کو چھوڑئے خود یورپ اور امریکہ کے
دانشوروں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ”خبر گیر“ کے ان دو مقاصد تک عام طور پر
کسی کی نظر نہیں گئی اور ڈاکٹر محمد حسن اور حنیف فوق جیسے لوگ بھی اس کو
خود نوشت سوانح عمری سمجھے۔ تو کہنا یہ تھا کہ قیصر کی کہانیوں میں جو
بات کہی جاتی ہے وہ اکثر پنہاں رہتی ہے۔ بقول قیصر بات اس طرح کہو کہ پند
و نصیحت نہ لگے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں کرشن چندر یا احمد عباس کی طرح
وعظ خوانی یا نعرہ بازی کرنا چاہوں گا تو کہانی لکھنے کی بجائے مضمون
لکھوں گا۔ اگر واجدہ تبسم کی طرح بھونڈے طریقے پر کسی جمی جمائی تہذیب کی
بخیہ ادھیڑنے کی کوشش کرنا ہوگی تو طنزیہ و استہزائیہ انشائیے لکھوں گا۔
کہانی لکھنا کیا ضروری ہے۔ موپاساں کی طرح خوش اسلوبی سے حقیقت کی جھلک
دکھانا یا منٹو کی طرح کسی مسئلے پر ”سرچ لئٹ“ پھینک کر توجہ دلنا ہی
میرا مقصد ہے۔ میں واعظ نہیں ہوں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہوں یا کسی اسکول یا
کالج میں مدرس نہیں ہوں ،الف لیل ٰی کی شہر زاد ایک ہزارراتوں تک کہانیاں
اور داستانیںسناتی رہتی ہے اور پھر ہم خود بخود اس نتیجے پر پہونچ جاتے
ہیں جو شہر زاد کا اصل مقصد تھا۔
قیصر کی اکثر کہانیوں میں بعض کردار ایسی باتیں کرجاتے ہیں کہ ہم کو شبہ
ہوتا ہے کہ خود ان کا نقطہ نظر یہی ہے۔ پھر اس کے بعد ہی وہ ایسی متضاد
اور مختلف باتیں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو ان کی ”ناوابستگی“ کا احساس
ل”میگھ دوت“ نامی کہانی میں ایک کردار کہتا ہے:ہوجاتا ہے مث ً
تنہائی سے مفر کہاں؟ نئے نئے ملکوں میں گھومئے۔ نئے نئے شہر دیکھئے ،نئے”
نئے دوستوں سے ملئے اور نئے نئے تجربات سے دو چار ہوئیے۔ مگران سب باتوں
کے نتیجے میں ملتا کیا ہے؟ نئی نئی تنہائیاں۔یا ”تندور“نامی کہانی میں
ایک ناکام ترقی پسند شاعر اپنے سوا ساری دنیاکو الزام دیتے ہوئے کہتا ہے۔
اردو میں ترقی پسندی کی تحریک اصل میں ایک شیعہ تحریک تھی اور مجھ کو”
ہمیشہ سنی ہونے کی بنا پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔“)ہم یہاں اس طنز لطیف
).پر مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتے