Professional Documents
Culture Documents
کورس کوڈ0165
سوال نمبر ایک
محمد حسین آزاد کی مرقع نگاری کےحوالے سے وضاحت کریں
جواب
مرقع نگاری
مرد کا ایک مرکب تصویر کا نام ہے جس میں صرف ایک ہی چیز کا بیان نہیں آتا بلکہ ایک ہی وقت
میں پوری زندگی کمر کا درد ہے جس میں صرف ان کے عالوہ مختلف چیزیں ایک ہی جگہ جمع ہوتی
اگر انشاء پرویزی مرکز کو اگر کسی لڑکی کا شادی شدہ مرد کا پیش کرنا ہو تو کیا جاتا ہےجونیجو
جملہ نگار جس میں صرف ایک ہی ان کے عالوہ مختلف چیزیں ایک ہی جگہ نظر آتی اگر انشاءتصویر
بھیج کر سکتا ہوں میدان جنگ اور معاشرے کی فضا کا نقشہ کھینچا جائے گا اور تمام ہنوز تصویریں
پیش کرے گا موالنا محمد حسین آزاد کرتے ہوئے بتایا ہےیہی وجہ ہے کہ اس میں زیادہ تر تصویر
نگاری خیالی اور آزاد نے ان خیالی تصویر میں انہیں انشاپردازی کے زور استعمال کرتے ہوئے ایسے
رنگ کی کوشش کی ہے جو بہت زیادہ خوشنما اور تباہی کی خیالی تصویر میں وہ جانتا نہیں ہو سکی
جو وہ زیادہ خوشنما اور دلفریب ہے ان کی اس تصویر میں ملتی ہے اس کی مثال یہ ہے کہ مضمون
زندگی کا ایک اقتباس مال ہوا
جو انسان ہر گز یعنی ہرے بھرے درخت ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے جھوم رہے تھے ٹھنڈی
ہوائیں آتی تھیں وہیں عوام اپنے قریب چار گھنٹے تھے اور ان پر جو لوگ تھے یہاں کی سرزمین کی
آنکھوں میں ضرور تربیت دیتی تھیراکان اور اپنے ہاتھ پر دوربین لگائے کھڑا تھا کہ مسافروں کے اس
ہفتے سے نکال لے جاتے تھے وہ مگر خرابی یہ تھی کہ کشتی کے ڈوبنے کے لیے اسے جانتا تھا
ایسے ہی اقتباس مضمون جنت البقع سے پیش ہےکپتان اداکارہ آسمان کی طرف ہوا اور ساتھ ہی اس کے
سب کی نگاہیں اوپر اٹھ گئی لیکن االقتحامات ایسا فلم صورت دکھائی دیا جس سے ہوا ہے اس میں
دلکش میں بلکہ خام خیالی کا رنگ نظر آیا کہ آسمان سے باتیں کرتا تھا مگر نہ معلوم تھا کہ کون سی
بنیاد ہے جس پر قائم ہےپکڑ لیا ہے بیچ دے بیچ بادلوں کا ایک زنجیر تھا کہ جادو کے زور سے کھڑا
تھا اس کی چوڑائی کا راستہ جو ہمارے قدم تھا اوستا کی طرح خوش رنگ جماتا نسیم جانب سے جو
ادھر سب سے جواد صاحب سے نعرے تھرا رہا تھا
نثر میں شاعری
موالنا محمد حسین آزاد نے اپنی تحریروں میں ایسی ایسی تصویریں شات ستاروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر
استعمال کیا ہے کہ جن کی ضرورت صرف منظوم شعروشاعری کو ہوتی ہے دربار اکبری میں موالنا
آزاد کی شاعرانہ انشاء پردازی کا خیال ہے اور نہ صرف شاعری سے بڑی خوبی بن گئی وہ شہنشا ِہ وفا
داری کا مزہ کاری نے اس گلدستے کو ایسی حیات بخشی کی تعبیر زندہ جاوید کر دیامصر میں شاعری
کے متعلقہ آفیسر آزاد کہتے ہیں کہ کتاب کا منعی تدقیق بنانے کی بجائے رفیق تھا فری بنانے کی
کوشش کرتے ہیں یہ خیال زمین کو لکھنے کا ڈھنگ سے متعلق اپنی تصنیف کا بچہ میں بیان کریں اس
طرح ادا کرے کہ سامنے کی تصویر کھینچ دینکھینچ دیش اور نشرح چاس کا دل پر رکھ کے واسطے
کے پھول پتے نہیں لگاتے ہیں جتنے ان تینوں پر سکتے ہیں نہ کہ ظا ہر صبح کو جی اٹھنا فقط تو کا
ڈھیر ہی رہ جائےچل رجب بعد آباد کا دور جائزہ لیتے ہیں تو موالنا آزاد کے متعلق یہ رائے قائم کرنے
پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ رنگینی بیان اور حسن ادا کے ساتھ ساتھ ندارت خیال تازہ مضامین اور
جدید فکر کی بھی قائل ہیں اس لیے انہیں تو دروازے سے اردو ادب کے مصنف رام بابو سکینہ موالنا
آزاد سے کے اسلوب نگارش کے متعلق لکھتے ہینآزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری کرتے
ہوئے نظر رکھتے ہیں سکینہ صاحب کا یہ قول مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ موالنا جب نسل کی اتنی
کثرت شدت شاعرانہ سارے استعمال کرتے ہیں کہ ان کی زیادہ تر میالن طبع بھی یہی تھا کہ زیادہ سے
زیادہ اثر آفرینی کے لیے شاعری کے مسائل اور زیادہ دودھ کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں جیسے
شاعری کے مسائل میں تہذیب استعارہ اور سنت یا شامل ہیں جن میں کی وجہ سے بلند اتنا آوارہ کے
اردو ادب میں اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا موالنا آزاد نے اپنے مضامین موضوع اسلوب کی
نیتطریقہ سے دباچہ کے نیرنگ خیال میں خود لکھا ہےان میں انواع و اقسام کی غرض سے محفوظ ہیں
باغ میں ہوا ہے جن میں انسان کے قوائے عقلیہ خواہش طالق کو لیا ہے انہوں نے انہیں انسان یا فرشتہ
یا کسوٹی ہے اور اور ترقی و تنزل کو سرگزشت کے طور پر بیان کیا ہے ان میں گفتگو یتبع کے عالوہ
دیگر کے پڑھنے والے کو کس چیز سے رغبت اور کسی کسی بد حق ہے نظر نفرت ہے یا کسی اصول
متوجہ ہیں جو نصیب فرمائے اور ان کے نقطہ نظر سے اسے لے کر کے اس مجھے اکثر نازک
دماغوہ کہیں گے کوئی کہانی ہے مگر مزہ نہیں جو بڑے مفسرین ہے وہ کہیں گے کہ ہیں مگر وہ تاالب
بے شک ان کا یہ کہنا سے خالی نہیں کیونکہ خیالی تصوریں حکومت حکمت اخالقی ہیں فکر کی قلم
نے خاک کر ڈاال اور استعارہ تشبیہ میں رنگ دیا
سوال نمبر2
آزاد کا نثری آہنگ دوسرے شیرنگ ارو سے کن بنیادوں پر مختلف ہے تفصیل سے جواب دیں
جواب
آزاد اردو زبان ادب کے صاحب طرز انشا پرداز ہیں ان کا اسلوب بیاں اور طرز پر سب سے الگ اور
آزاد کی تکلیف قدرت زبان کا کمال ہی تو ہے کہان کا عام پر ال شریک نہیں ہے ان کا دور پر الف نثر
کا دور تھا کیونکہ اس دور میں ایک طرف امن کی باغ و بہار پر بہار سلوک تھا دوسری جانب ظہوری
دل کی نظر خیال کا چچا تھا آزاد نے ان دونوں سے الگ اور جداگانہ راستہ ڈھونڈ نکاال جو اتنی مقبول
ہوئی کہ زندگی اور سیاست کی رنگین فضا میں بول فاصلہ ورید اور نعمت خان عالی سے فیض یاب
ہوئینیز فارسی ادب سے مخصوص لگانے کی وجہ سے ادب کا حسن بیان کے رگ و ریشہ میں حرکت
کر رہا تھا اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے قدیم جدید اردو انداز میں محمد کو ذہنی طور پر آزاد کی
دعوت پرستی یعنی ماضی سے لگا رہے تھے لیکن وہ ماحول کے ہاتھوں مجبور ہو کا خطرہ ہو یا نہیں
تھےتین محلے ان کا اسلوب ایک مخصوص قسم کی توانائی بھر دی تھی آزاد اپنی تحریروں میں چلتے
پھرتے سانس لیتے اور باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں وہ ایک آزاد خیال اور جذبات کے پتلے جدید
طرز کے داعی ہونے کے باوجود ہم رہتے تھے کیونکہ انہیں ماضی سے فعل اور آخر انہیں خیالی طور
پر بنائی ہوئی جنت میں کھوئے رہتے تھے وہ ان کی طبیعت مزاج میں نرمی دھیما پن اور خاص بخار
تھا یہاں تک کہ لفظ انشاء پردازی کی تشریحات انگریزی زبان میں ترجمہ لفظ ایسے کہا جاتا ہے کہ
جس کے معنی ہیں مضمون جواب مضمون ہیں ان کے مطابق اور فعل بنا کر پیش کیا جائے وہ اپنے
کردار خود واضح کریں یا برا یا علم ہوحاصل ہو جائے اسی طرح ایک اور لفظ ہوتا ہے مرقع نگار جس
کے معنی ہیں لفظی تصویر بنا کر کسی چیز کے متعلق ایک واقعہ میں حکام موالنا محمد حسین آزاد
نیرنگ خیال کی شادی کر کے نشیب و فراز میں ایک نئی خوشگوار باب کا اضافہ کیا ہمارے قارئین
ادب کا کہنا ہے کہ اگر موالنا آزاد اور کچھ نہ لکھتے اور سرمئی رنگ کے طور پر رہا کیا جائے تو
خیال کی سب سے بڑی خوبی بن گئی انشاء پردازی کے اس کی بھی مثال بنا دیا ہے شعر میں ڈوبا ہوا
ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا نظم کو نثر میں مدغم کر دیتے ہیں اور ان کی کوشش یہ
رہتی ہینموالنا محمد حسین آزاد اسلوب شریعت ڈوبا ہوا ہوتا ہے اور اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا
کہ وہ نظم کو نثر میں مدغم کر دیتے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے الفاظ اور استعمال کریں جو
صرف کے لیے موجود ہوتے ہیں ایسے الفاظ انٹرنیشنل کہیں جسےتجوید اور رات کا ایک جال بچھاتے
چلے جاتے ہیں اس کام میں وہ ایسے الفاظ جملے استعمال کرتے ہیں جس سے ان کی تصویروں میں
نے رنگ اُترتے چلے جائیں وہ زیادہ سے زیادہ موثر ہوتی ہیں ان کی شاعرانہ انداز بیان کی وجہ سے
ان کا اسلوب مکمل طور پر کمال احساسات اور تحریک سے منسلک ہو کر رہ گیا ہے جبکہ ان کی اپنی
ذاتی تفصیل بڑا زندہ جاندار اور شوق تھاایسی زندہ اور شوخی تحریر کا نتیجہ ہے کہ آزاد کی تصویر
کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہے جو خیال نہیں نہیں وہ کبھی تو خیریت ہی اس سے نکالنے کی کوشش کرتے
ہیں بلکہ انہیں بات کرو اور اور موثر بنانے کے لئے تصویر کشی شروع کر دیتے ہیں آزاد اپنے لفظی
مصوری سے جذبات و احساسات کو چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کا روپ دیتے ہیں جیسےایک دو
دونی صورت تمام بدن بال کھڑے ہیں جیسے لوہے کی سالخیں سر پر اور بازو پر ہزاروں صاحب
پھوٹا لے رہے ہیں اور آنکھوں سے خون رستا ہے بعض صورتوں میں کہہ دو پر ہیں ایک اور ڈالے
جاتے ہیں اور اس کے ہاتھ میں شعلہ آتش فشاں کے دن بدن بڑھتا چال جاتا ہے اور ایک ہی بات میں ان
کا بچہ ہے اسی طرح عشق مجسم بنا کر کی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس نے کیا ہے جیسے
فرض کیا ہے کہ آدمی بناتا ہے اور ہاتھ میں کچھ نہیں ہوئی کمان کا ہے چاہے اس کی پناہ نہیں
نثر میں شاعری
موالنا محمد حسین آزاد نے تحریروں میں ایسی بات ہے اچھی بات ہے ڈون کا استعمال کیا ہےجن کی
ضرورت صرف منظوم شعر و شاعری کو ہوتی ہے دربارہ طبیعت سخندان فارس میں موالنا آزاد کی
شان شاہ ابدالی نے ان کی تصنیف بنیاد کو غذائیت کے قدر نقصان پہنچایا ہے جب کے اسی دوران اپنی
کتاب نیرنگ خیال کی شاعری سے بیان بھی شاعرانہ شاعری کے مرض نے اس رشتے کو ایسے حیات
بخشی کے تاج زندہ جاوید کر دیا دیا ہے شاعری کے متعلق دو کہتے ہیں کہ کتاب کو معیاری بنانے کی
بجائےاس کا اصل اصول یا سرگزشت بیان کرے اسی طرح ادا کرے کہ سامنے تصویر کھینچ لے اور
مشرک عادل پور گھوٹکی سے واسطہ خیال رکھنا لگاتے ہیں کرتے ہیں ہو جائیں اور مقتدر قوتوں کو
ڈیرہ جائے جب اندرا جوان ایک بار پھر بغور جائزہ لیتے ہیں تو موالنا آزاد کے متعلق یہ رائے قائم
کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور رنگینی بیان ہے اور حسن ادا کے ساتھ ساتھ صدارت خیال بھی کر
کے بھی قائل ہے اس لئے اردو ادب کے مصنف رام بابو سکینہ موالنا آزاد کے اسلوب نگارش کے
متعلق لکھتے ہیں میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری کرتے ہوئے لکھتے ہیں نا صاحب اپنی بر حقیقت
ہے کیونکہ موالنا آزاد کے ہیں تو اتنی کثرت اور شدت سے شاعرانہ وسائل استعمال کرتے ہیں کہ زیادہ
تر میالن طبع ہیں زیادہ سے زیادہ اثر آفرینی کے لیے شاعری کے سارے زیادہچینا صاحب کا یہ قول
مبنی بر حقیقت ہے کیونکہ موالنا سعد صاحب جب منسلک ہیں تو اتنی کثرت اور شدت سے شاہ رخ
خانکہ زیادہ سے زیادہ تر ہے انہی کے لیے شاعری کا سائز زیادہ افراد کے ساتھ زیر تمہارے گزاری
کے مسائل میں تشریحات اور شامل ہیں اور مسائل کی وجہ سے بلند مرتبہ تک پہنچے ابھی تک لے
گئے تھے اردو ادب میں اس کا جواب ڈھونڈنے سے نہیں ملتا موالنا آزاد نے اپنے مضامین موضو موت
اور سلوک کی غرض سے غائب کے سلسلے میں مکمل طریقہ سے بچا نیرنگ خیال میں خود لکھا
ہےپاین اے 16سال کی عمر سے ماخوذ ہے یا بعض میں نے وہ آج میں انسان کے قوائے عقلیہ خواہش
کے خالف کو لیا ہے انسان یا فرشتہ جو اپنی تصور کیا ہے ان کے معامالت اور ترقی و تنزل کو آج
کے طور پر بیان کیا ان میں شگفتگی توبہ کے عالوہ رقیہ کے پڑھنے والے کو کسی سخت پسندیدہ سے
رقبہ اور کسی کو خود سے نفرت ہے یہ شخص کسی صورت میں جو نشیب و فراز آئے ہیں ان سے
واقف ہے اب حیران ہوں کہ نکتہ شناس سے اسے دیکھ کر کیا سمجھے گئے اکثر نازک تو کہہ دیں گے
وہ یاد ہی نہیں ہے مزہ نہیں جو برے ہیں وہ کہیں گے کہ یہی ہے شان میں یہ کہنا پڑا اور استاد سب نے
لکھ دیا ہے
ایک دن کا نام بڑا کہ وہ ایشیا کے سب سے بڑا بندر کے مقام پر جا پہنچے ہیں وہ بھی صدیقی صاحب
کے بیانمالوٹ ہے ہوتی ہے کہ تم بھی خوشگوار بنادیتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کی نظر میں ایسی
ہوتی ہے کہ شرع کی نظر میں تیرا غم اسی پہلو پر روشنی ڈالتے ہیں کیا ہوتا ہے لیکن ان کا اندازہ بھی
لگائیے ادبی شخصیت ہیں نظروں سے اوجھل ہوگئیڈاکٹر سلمان علوی رشید احمد صدیقی کے بارے میں
لکھے انہوں نے طنز کیا ہے اور کامیاب ہونگے ان کے ہاں مزاح اور کہیں گا لہٰ ذا ہم کے بعد انہوں نے
بھی مل جاتے ہیں مخالف مظاہرین کے ہاتھوں ہوئی ہے انہوں نے پہنائی ہے سب سے پہلے ان پر
زمانہ تھا جنید جمشید احمد دستی کی شخصیت اور سید احمد صدیقی کے اہم موضوعات کی بہت
فراوانی ہے ہر موضوع کو بڑی آسانی سے لیکن اوروں کے کچھ بھی ہم اس پر ان کی گرفت بہت
جاندار ہوتی ہے اس لیے ان کی تحریر میں دلچسپی اور دلکشی کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں کہ وہ ہے
جس پر اس کا پتہلگے تو حکیم صاحب یہ کہنا اپنے ہی کاندھوں پر قطب شمالی کے لیے روانہ ہو جائیں
گے سید احمد صدیقی بڑے سچے اور بے باک غدار ہیں انہوں نے معاشرے کے ہر طبقے پر تنقید کی
اور اس حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا پھر کب بات ہو گئی ہے جہاں عورتوں اور بچوں کا گاؤں کے
انتظامی حکومت میں اتنا داخل ہوتا ہے جتنا پاکستانی پارلیمنٹ میں نئے آئین پارلیمنٹ کو دونوں
بولتےہیں گھر کے راستے لیتے ہیں عورتیں بچے میں کچھ مفید کام کر جاتے ہیں جن سے ان کی
حکومت اور دونوں کو پیدا ہوتا ہے اور اکیلی محبت کرتے ہیں جس سے انہیں اور ہندوستان دونوں کو
نقصان پہنچتا ہے
سوال نمبر 5
مکتوب نگاری کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر غبار خاطر کے خطوط کا ادبی مقام و مرتبہ بیان
کریں
جواب
مکتوب نگاری ہے آپ انسانی معاشرے کی ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی کیوں کہ ہم فطری طور
پر اپنے خیاالت سے دوسروں کو آگاہ کرنے اور ان کے خالف گاڑی کا جذبہ رکھتے ہیں جو انسانی
معاشرہ وسیع ہوتا گیا اور ہمارے عزیز و اقارب دوست احباب سے دو چار بجے تو انکی پیغام پہنچانے
کا وہ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے یہاں لکھنے سے قاصر ہیں وہ دوسروں کے ذریعے کا ترانہ لیتے ہیں
مالقات کا ترجمہ بتا دیا گیا ہے خطوط نویسی ہماری کام زیادہ لیکن اس کے باوجود ایک اور فن کی
حیثیت رکھتی ہے ڈاکٹر خورشید السالم کا خیال ہے خط لکھنا نہیں لیکن اس میں کمال حاصل کرنے
کے لیے کسی کوعدنان لیکن اس فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں
قانون فنون لطیفہ میں کمال حاصل کرنے کے لئے دنیا میں کچھ اصول ہیں کچھ جانتے ہیں لیکن محبت
کرنے کے لئے نااہل مسئلہ نہیں ہے اس لیے اگر کہا جائے کہ خط لکھنے والے پر کاغذ قلم ہیں تو نہیں
اس میں خون جگر بھی شامل ہیں جہاں دل کی نسبتکاغذ قلم ہیں تو نہیں اس میں خون جگر بھی شامل
ہے جہاں دل کی نسبت وہاں بے اصولی بھی ایک سگنل بن جاتا ہے اور حسین ہو جاتی ہے لیکن تمیر
پیدا ہو جاتا ہے اور خود بنتے ہیں صورتیں اور غروب ہو جاتے ہیں عربی شان مقام مرتبہ کب ملتی ہے
اس بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ کا خیال خطوط نگاری خود ادب نہیں مگر جب اس کا خاص ماحول
خاص مزاج استاد ایک خاص خاص گڑیا خاص ساتھ میسر آجائے تو یہ درد بنتی ہے جہاں تک ممکن
اردو زبان اور ادب کا تعلق ہے تو اس میں خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے اور خطوط نویسی کی
روایت میں ہے کہ ایک ادبی شخصیت کے چکی ہے مغلوں کے عہد میں برصغیر میں فارسی کا چلن
تھا اور فارسی میں ماضی کی شان تصور کی جاتی تھی بارداری بعد از ان اردو اردو عبدالخالق کی
چھٹی ہے اتوار کا تھوڑا اردو میں خطوط نویسی کرنا صرف ڈاالکیونکہ خدا تو نہیں مگر جب اس کو
خاص محفوظ اس کے ساتھ ساتھ ہیں اور وہاں ساتھ میسر آجائے تو یہ بن سکتی ہے کسی اور کا تجھے
چاہتا ہے اس سے نہ صرف کاروباری منکرمغلوں کے عہد میں برصغیر میں فارسی کا چلن تھا اور
فارسی میں خطوط نویسی کی شان اندر سے باہر آئی تھی لیکن اردو ادب میں صبح کی شخصیت کو
توڑا اور صرف ڈاال بلکہ ساتھ میں سرکاری روک بھی متعین کر دیا اور فرمایا کہ اس پر تھا اس کے
مسجد ہیں
غبار خاطر میں شامل خطوط کا ادبی مقام
مراد ہے دس سال کی عمر میں ہی نظر نثر لکھنا شروع کر دی تھی اٹھارہ سال مئی میں رنگ عالم کے
نام سے رسالہ جاری کرکے صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور اس کے بعد لسان الصدق الہالل البالغ
جیسے پر جاری کیا الحال کے ساتھ جنات کا ذکر کرتے ہوئے فضل احمد نے تحریر کیا ہےکلکتہ سے
الحال نکال اس شان سے نکال کہ امام مسلم کی نظر میں بے اختیار اس کی جانب اٹھ گئی اس کی بات
بالکل آپ کی انگریزی ہر بات نہیں تو ظاہری شکل و صورت بھی نہیں اور بات نہیں سب کو زبان پر
اس کا نام تھا اور ہر گروہ طبقہ کے لوگوں نے اس کے سوا سب کو بھال دیاراول پہلی دفعہ انجمن
مقرر منظر عام پر آئے تو پہلے اس میں شک کیا کہیں حمایت اسالم الہور کے ان سے تین میں بطور ّ
ابوالکالم آزاد ہیں بعد میں اپنے انداز خطابت زبان کی ہر سطح جواب نہیں دیا بلکہ تحریک آزادی کے
ہراول دستے میں شامل تھے اور ان کی نگاہوں میں رکھتے تھے کبھی ان کے اختیارات ہوتے تھے تو
کبھی نہیں شہر بدری کے احکامات ملتے تھے اور کبھی جیل کی صعوبتیں اٹھانا پڑیں تھیں لیکن جب
موالنا ابوالکالم آزاد کی نافرمانی تحریک نے انہیں ان کی یادگار تھیکراچی 6162یا مشاعر بدری میں
تذکرہ تحریر کیا اور 6140میں تعلیم کی اہمیت اور مکوڑا کے قید خانے قبا رکھا تو جیسے عظیم
تحریر اردو کا کی خاطر ابوالکالم آزاد کا ایک ایسا بیش بہا خزانہ ہے جس میں زبان و بیان کی جاتی
ہیں یہ اسلوب نثر کیسے ہمارے ساتھ اور اس نے انہوں نے اپنی ایک مرتبہ کا اہل علم سے منوالیا کو
موالنا حسرت موہانی ان کی حیثیت سے بہت پہلے انیس سو آٹھ میں یہ تھے جب سے دیکھی ہے الکالم
کی نظم حسرت میں بھی نہیں رہاغدود غدود صنف ادب ہے یا دوسری تمام صفوں سے زیادہ شخصیات
کی بال واسطہ خود نوشت نوعمر بھی کہہ سکتے ہیں یا پورے معنوں میں عنایت بھٹی کے گیت ہے
اگرچہ میں رسمی طور پر ایک ضمیر حاضر ہوتی ہے اور کچھ اور حوالے سے شروع ہوتی ہے لیکن
زیادہ نہیں رہ جاتا نہیں ہوتے بلکہ صرف مانتو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اس لئے تو شروع ہی سے ان
کے لئے جاتا ہے اس طرح مخاطب خود کالمی پر ختم ہوتا ہے چنانچہ حضرت لوط کی خود مجبوری
بن جاتا ہے ایسے میں خود انوار ہی انوار کا زور دیتی ہےپھر بھی یہ نہیں کہتے کہ شویتا باسو موجود
کی ہر تار نوچ پھینکتے ہیں اور دنیا کے سامنے برہنہ ہو کر کس کرنے لگتی ہے کوئی بھی شخص
ایسے نہیں کر سکتی اس لیے کہ شخصیت کے بڑی گہری پتہ دار چیز ہوتی ہے تو اپنی خود داری وقار
ہوتا ہے یہ بہت شکریہ کو اس کی فطری حد سے آگے نہیں آنے دیتی اور حکومتوں سے ہوتا ہے
صرف یہ ہے کہ جس شخصیت کو ہم نے اسٹیج پر دیکھتا ہے دیکھا اسے گھر ملتے ہیں جس سے تقریر
سنی ہوتی ہے گفتگو کرتے ہیں جب ہم کتنے پہ جا میں دیکھ لیتے ہیں اور یہ آخری حد ہے کہ غربت
کی طرح کی عظیم شخصیت کے مالک تھے اور ایک متوازن رکھتے تھے اپنے مقاصد کی محرومیاں
نظام کی نشانیوں کے باوجود ایک فرسودہ طبیعت اور ہموار کر کے مالک تھےاناانقالب اسالمی نے
بالکل ان کے خطوط نگاری کے محرکات اور موضوع کے متعلق ایک شعر ملتی ہیں سب سے قیمتی
نکتہ تو صرف وہ چاہتا ہوں کہ کلمہ گو کو مگر وہ نہیں سکتا معلوم ہوا کہ یہ خطا لکھے گئے ہیں اور
ان کا مقصد کاروبار دنیا سے فارغ ہوکر آپ نے جو کی باتیں کرنا ہے دوسرے کی تشخیص معروف
مشکل سے ہوتی ہے اسی وجہ سے اٹھایا وہاں سے ہم نفس سے مخاطب ہو کر تحریر کی دنیا میں نہ
اور آرام دینا چاہتا ہے یہ تینوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک ہی زنجیر کی کڑیاں انجیر کے
پہلے سر انفرادیت اور دوسروں بنی ہے مزار میں ہوئی جس رکھی جاتی ہے جس کی ماں ہوتی ہے اور
چونکہ اس زمانے کے بارے میں ایسی چیز ڈھونڈ کر الئیں جن کے کاروبارایسی چیز اور نقلی پسند کا
باپ جو ہے وہ میرے لئے اور اس کی حلیف بن گئی ان پر آسمان سے جس کے لئے ہاتھ سے میں نے
کچھ چیزیں رکھی نہیں جس کے لئے کسی کے ساتھ پڑھیں جو شخص قرآن کو صرف ایک کیا جانتے
ہیں سیاستدان عالم کی ہے جو مرجھا اور عمدہ تھا اس لئے تباہ کن کے دنیا میں آنے والے ہونگے تو وہ
کچھ نہیں پرسرار باتیں ایک جانی پہچانی شخصیت کے متعلق ہوتا ہے جس سے انسان کو روزگار
شخصیت کی بہت ہیں اور یہی کر سامنے آجاتی ہے تحریک لبیک یا کایہابوالکالم کے قلم کی مستی کے
معیار کے مستی ہوں یاسمن سفید کی ایک شیعہ کی مستی تھی اس کی سادہ جوانی بڑی پکارتا اس قیام
ایک مہذب لوگوں سے ایک نہایت مشہور محاورے سے لے کر ان کی فہرست اور ان کی تراش خراش
تک اسے آسانی سے کر سکتے ہیں