Professional Documents
Culture Documents
صہ
نظم نگاری میں خواتین کا ح ّ
سی کے بعد(
)ا ّ
محمد مستمر
تلخیص
اردو نظم نگاری میں خواتین کا حصہ (سنہ اسّی کے بعد) یہ مضمون اسّی کے بعد اف ق ادب پ ر ابھ رنے
والی شاعرات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ یوں تو ابتدائی دور ک و قلم زدک رتے ہ وئے اردو ش اعرات کی
اس ی کے بع د اردو نظم نگ اری میں ج و ک روٹیں نم و تاریخ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔بعدازاں بالخصوص ّ
پذیر ہوئی ہیں ،وہ اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ جدیدیت کے بعد فن ک ار کے
پاس تخلیقی آزادی بھی تھی ،بت ہزار شیوہ کا نظریہ بھی تھا اور جڑوں کی تالش کا مسئلہ بھی تھا۔ اسی
پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مضمون بعنوان اردو نظم نگ اری میں خ واتین ک ا حص ہ قلم بن د کی ا گی ا
ہے۔ جس میں یہ بت انے کی کوش ش کی گ ئی ہے کہ ادب جس ط ریقے س ے ک روٹیں لے رہ ا تھ ا ان میں
اس ی کے بع د جس ط رح بالخصوص خواتین کا کنٹری بیوشن کیا تھا اور جہاں تک میں سمجھتا ہ وں کہ ّ
کی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس میں ت انیثیت ک ا بھی بہت ب ڑا ہ اتھ ہے۔اس مض مون س ے یہ
اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری شاعرات ادب میں کس طرح کے موضوعات پیش کر رہی تھیں
اور ان کے یہاں تخلیق کا تنوع کس طرح جنم لے رہا تھا ن یز س ماج و معاش رے پ ر ان کی کت نی گہ ری
نظر تھی اور وہ اپنی نظموں میں عصری حسیت و تقاضوں کو کیس ے ب رت رہی تھیں۔یہ ب ات ت و اظہ ر
من الشمس ہے کہ ہر فنکار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ اپ نے اط راف واکن اف میں دیکھت ا
ہے اور گردونواح کا مشاہدہ کرتا ہے نیز وقوع پذیر حاالت و حادثات پر عمیق نظ ر رکھت ا ہے اور پھ ر
اپنے میکانکی آخذات سے مہیج وص ول کرت ا ہے گ و اپ نے ت وجہ و احس اس و ادراک کے مثلث زاویے
اس ی کے بع د ابھ رنےسے تخلیقی عمل کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔ کچھ ایس ا ہی تخلیقی عم ل س نہ ّ
والی شاعر ات نے بھی کیا ہے۔ ان میں خاص طور پ ر ،پ روین ش اکر،کش ور ناہی د ،رفیعہ ش بنم عاب دی،
عشرت آفرین ،شائستہ یوسف ،ترنم ریاض ،شاہین مفتی ،فاطمہ حسن ،شہناز نبی ،حمیرا راحت ،کہکش اں
تبسم ،فاخرہ بتول ،تسنیم کوثر ،ہاجرہ رحمان ،فرزانہ فرح ،وغ یرہ خ واتین کے اس ماء گ رامی قاب ل ذک ر
ہیں۔ ان متذکرہ شاعرات میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی شاعرات کی نظموں کا ذکر کی ا گی ا
ہے۔ اس طرح ان خواتین کی نظموں سے دون وں ملک وں کے سیاس ی و س ماجی اور معاش ی و اقتص ادی
حاالت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ان شاعرات نے اپنے تخلیقی عم ل س ے نہ ص رف م رد س ماج کے ذہن وں پ ر
ایک دستک دی بلکہ اپنے نظریات وخیاالت اور استعاراتی وتمثیالتی انداز سے اردو ادب کو ایک س مت
و رفتار بھی عطا کی۔چنانچہ ان ش اعرات کے یہ اں مش رقی روایت کی پاس داری بھی ہے ،تہ ذیبی اق دار
بھی ہیں ،شوہر پرس تی ک ا ج ذبہ بھی ہے ،محبت کے نغمے بھی ہیں،دل کے مچل تے ہ وئے ج ذبات بھی
ہیں ،رومانی فضا بھی ہے ،تخیل کی آمیزش بھی ہے اور حقیقت کا پرت و بھی ہے لیکن جہ اں ان خ واتین
کی نظموں میں اس طرح کی انفرادیت نظر آتی ہے تو اس کے برعکس ان کی نظم وں میں پ دری س ماج
کابائیکاٹ اور اپنے وجود کے تئیں وہ جذبہ بھی کار فرما ہے جسے بغاوت ،احتجاج یا عورت کی آزادی
اس ی کے سے منسوب کیا جاتا ہے۔مختصر طور پر ہم یہ بات وثوق کے س اتھ کہہ س کتے ہیں کہ جب ہم ّ
اس ی کے بع د بعد کی نظموں کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھنے میں دی ر نہیں لگ تی کہ ّ
نمو پذیر شاعر ات نے اپنی شاعری میں ان تمام جذبات و احساسات اور حاالت و حادثات کو سمیٹنے کی
کوشش کی ہے جن کا وہ مشاہدہ کر رہی تھیں اور کر رہی ہیں۔ آپ کو اس مضمون میں ع ورت کے بہت
سے رنگوں سے اور پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہوگی۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی ج اتی ہے کہ
اس ی کے بع د منظرع ام پ ر آئے اور اس مضمون میں انہیں شعری مجموعوں کو اساس بنایا گیا ہے ج و ّ
انھیں کی روشنی میں خواتین نظم نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔
جب ہم اردو ادب میں خواتین کے حصے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں س ب س ے پہال ن ام ’
امیر النسا‘ کا ملتا ہے جن کا تعلق دکن کی سرزمین سے رہا اور یہ پن درہویں س ولہویں ص دی ک ا زم انہ
تھا۔ شمالی ہندوستان میں بھی بہت سے ایسے نام پ ائے ج اتے جنھ وں نے باقاع دہ ط ور پ ر ش اعری کی
نوک پلک سنواری۔ اس فہرست میں مغل شہزادیوں کے نام شامل ہیں اورنگ زیب کی دختر نیک ’ زیب
النسا‘ خو د ایک اچھی شاعرہ تھی۔ زیب النسا سے اردو شاعرات ک ا نقطۂ آغ از تس لیم کیاجات ا ہے۔ اردو
ب دیوان شاعرہ لطف النسا نے چھے ہزار اشعار پر مشتمل مثن وی ’ گلش ِن ش عرأ‘ تحری ر کی پہلی صاح ِ
کی۔ میر تقی میر کی بیٹی’ بیگم‘ بھی شعر گوئی میں دلچسپی ہی نہیں لیتی تھی بلکہ معیاری ش عر کہ تی
تھی۔ بیگم نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا
ب وصل نہیں کی
کچھ بے ادبی اور ش ِ
ہاں یار کے رخسار پر رخسار تو رکھا
نواب واجد علی شاہ کی بیگم نواب بیگم حجاب کا یہ شعر بھی ضرب ال َمثَل کی حیثیت رکھتا ہے
خوف خدا کیجیے اس طرح نہ چلیے
ِ کچھ
سو بار تو اس چال پہ تلوار چلی ہے
چندا بائی ماہ لقا بھی اردو شاعرات میں ایک اہم مق ام رکھ تی ہیں۔ لیکن ت ذکرہ نگ اروں نے ش اعرات ک ا
بہت کم ذکر کیا ہے۔ آہستہ آہستہ مغل سلطنت کا زوال ہوتا گیا اور برطانوی حکومت اپنا تسلط قائم ک رتی
چلی گئی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی 1857کا دور ہندوس تان کے ل یے نش أۃ الث انیہ ث ابت ہ وا اور
دیکھتے دیکھتے نہ صرف سیاست اور صنعت و حرفت میں ہی انقالب آیا بلکہ ادب بھی پورے طور پ ر
متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
اردو ادب انیسویں صدی سے اپنا سفر طے کرتا ہو ابیسویں ص دی اور آج اکیس ویں ص دی میں داخ ل ہ و
چکا ہے۔ اس صدی کو انٹرنیٹ اور تکنیکی دور کی صدی کہا جاتا ہے۔ اسّی کے بعد کا زمانہ نہ ص رف
ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ نہ اب کوئی فنکار کسی نظریے کا قائل ہے اور
نہ کسی تحریک کا مقلد۔ بلکہ وہ تخلیقی آزادی کے تحت اپنا ادبی سفر طے کر رہا ہے۔ جس طرح س ماج
کا چہرہ بدال ہے ،حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئی ہیں ،نئے نئے مسائل پید اہوئے ہیں ت و انس ان کی س ائیکی و
ذہنیت نے بھی کر وٹ لی ہے۔ جہاں پوری دنیا ع المی گ اؤں میں س مٹ گ ئی ہے ت و تہ ذیبیں اور ثق افتیں
بھی ایک دوسرے سے متأثر ہوئی ہیں بلکہ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ ایک دوس رے میں اس ط رح خل ط
ملط ہورہی ہیں کہ آپس میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب ظاہر س ی ب ات ہے کہ ان
سب باتوں کا اثر ادب پر بھی پڑنا واجب ہے۔ آج جو مسائل ہمارے سامنے ہیں واجبی طور پر ان کا دخل
ادب میں بھی ہوناہے۔ انسان نے جہ اں دنی ا پ ر فتح حاص ل کی ہے ،وہ چان د پ ر بھی پہنچ گی ا ہے۔ انگلی
کے ہلکے سے اشارے سے وہ پوری دنیا کی جانکاری حاصل کر لیت ا ہے۔ چن انچہ انس ان ک و جہ اں ہ ر
طرح کی آزادی میس ر ہ وئی وہیں اس نے بہت کچھ کھ و بھی دی ا ہے۔ آج رش توں کی شکس ت و ریخت،
قدروں کا زوال ،اور اقتص ادی و معاش ی ایس ے بہت س ے مس ائل نے جنم لے لی ا جس کے ب اعث انس ان
مختلف قسم کی بیماریوں جیسے ڈپریشن ،افسردگی ،تشویش ،التب اس ،مالیخولی ا ،م راق وغ یرہ ک ا ش کار
اس ی فیص د س ماج نفس یاتی م ریض ہے۔بہت کم ایس ے خان دان ہیں جن کی خ انگی ہے۔ آج بنیادی طورپر ّ
زندگی خوشگوار ہو ،میاں بیوی میں باہمی مناسبت وتوازن قائم ہو ،تعلیم ی افتہ ہ وتے ہ وئے بھی رش توں
میں نہ جانے مٹھاس کہاں چلی گئی ہے۔ سب کے سامنے انا کامسئلہ کھڑا ہواہے نیز انا کے آپسی تصادم
نے زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجہ پروفیشنل تعلیم ہوگئی ج و
علم نہ ہو کر صرف ہنررہ گیا ہے۔ سنسکار کہاں سے جنم لیں گے ،ایک طرف مش ترکہ س ماج ک ا زوال
دوسری طرف اخالقی تعلیم کا فقدان۔ فقدان کیا بلکہ سرے سے ہی غائب ہو گئی ہے۔ ل ٰہذا یہ تمام عناص ر
ہم آج کی شاعری میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح کا م احول چ اروں ج انب پی دا ہ و رہ ا ہے ،اس
سے انسان مختلف قس م کے فوبی از میں گرفت ار ہوگی ا ہے اور ان س ب کیفیت وں اور پہل وؤں کی عکاس ی
ہماری ش اعرات اپ نی نظم وں میں بخ وبی ک ر رہی ہیں۔ اب ہم یہ اں اُن ش اعرات ک ا ذک ر ک ریں گے ج و
فق ادب پر نمودار ہوئیں اور 2000تک آتے آتے اپنی شناخت مستحکم کر چکی ہیں اور 1980کے بعد اُ ِ
دوسری وہ شاعرات ہیں جو 2000کے بعد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔
یہ امر بھی واضح ہے کہ اسّی کے بعد ابھرنے والی شاعرات نے کچھ زیادہ ہی باغی انہ رویے اور تی ور
اختیار کیے۔ کچھ نے اپنے دلی جذبات کی ترجم انی دائ رہ میں رہ ک ر کی اور کچھ نے بغ اوت ک ا پ رچم
بلند کیا۔ روایت سے انحراف اور پدری نظام کا بائیکاٹ شاعرات نے اپنی نظموں میں خوب کی اہے۔ لیکن
کچھ شاعرات کے یہاں اس قدر شدت در آئی کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ عورت کی آزادی و حقوق کی مان گ
نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنے اندر کے دبے ہوئے آتشی سیال کو باہر نکا ل رہی ہیں
کچھ ش اعرات نے اچھی پیش رفت بھی کی اور اپ نے ح ق کی مان گ اس تن اظر میں کی ج و مت وازی و
معتدل ہے۔ تانیثی تحریک یا عورتوں کے جذبات کا بھی وہی مقصد ہونا چ اہیے جس س ے بہ تر معاش رہ
کی تشکیل ہو۔ سنہ اسّی کے بعد بے شمار شاعرات نے اپنے وج ود ک ا احس اس کرای ا اور کچھ نے اپ نی
انفرادیت کے جھنڈے بھی گاڑے۔ زیادہ تر شاعرات نے غزل گوئی میں طبع آزمائی کی مگر نظم وں کی
طرف بھی اپنی توجہ ُمنعطف کی۔ ان میں زیادہ تر نثری نظمیں شامل ہیں۔ اسّی کے بعد پروین ش اکر اور
کشور ناہید اردو نظم نگاری کی دو بڑی آوازیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ بعد ازاں رفیعہ ش بنم عاب دی ،فہمی دہ
ریاض ،ترنم ریاض ،فرخندہ نسرین ،بلقیس ظفیر الحسن ،عذرا پروین ،زہ را نگ اہ ،عش رت آف رین ،نس یم
سید ،شائستہ پوسف ،شاہین مفتی ،فاطمہ حسن ،شہناز ن بی ،ش بنم عش ائی ،ح ُم یرا راحت ،کہکش اں تبس م،
ملکہ نسیم ،فاخرہ بتول ،تسنیم کوثر ،نگار سجاد ظہیر ،ثروت زہرا ،ہاجرہ رحمٰ ن ،ف رزانہ ف رح ،رخس انہ
صدیقی ،فریدہ کول ،روبینہ شبنم ،فاطمہ شاہین ،نصرت مہدی ،مین ا نق وی ،روبینہ م یر ،ان دو ش بنم ان دو،
وندنا پشپیندر یادو ،روپا صبا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ،جنھوں نے اپنی نظم وں کے توس ل س ے اردو
نظم نگاری میں ایک الگ نسائی لب و لہجہ کا احساس کرایا ہے۔
منظر عام پر آی ا ،یہ اں ہم ان کی نظم نگ اری ک ا ذک ر
ِ پروین شاکر کا پہال مجموعہ ’ خوشبو‘ 1976میں
مجموعہ ’خود کالمی‘ جو 1990س ے آراس تہ ہ وا ،کی روش نی میں ک ریں گے۔ مجم وعہ ٰہ ذامیں ش امل
نظمیں زیادہ تر عالمتی و استعاراتی انداز میں تحریر کی گئی ہیں۔ عالمات و اس تعارات کے توس ل س ے
بڑے پتے کی باتیں کہہ جاتی ہیں اور قاری انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ ان کے فن کا ابعا ِد ثالثہ ق اری پ ر
سحر بن کر اس طرح طاری ہوتا ہے کہ وہ س وچنے س مجھنے کے ل یے مجب ور ہوجات ا ہے۔ زن دگی ک ا
کڑوا سچ اُن کے یہاں ایک طاقتور جذبہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ پروین شاکر کی نظموں کو پڑھ کر یہ
احسا س بخوبی ہو جات ا ہے کہ اُن ک ا فن اُن کی ذات ک ا آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظم وں ک ا
صوتی آہنگ جلد ہی احتجاج میں بدل جاتا ہے۔ وہ ای ک ج دلیاتی عم ل اور نفس ی کش مکش س ے دو چ ار
نظر آتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ذاتی غم بھی ہیں ،سیاسی و سماجی سروکار بھی ہیں اور ع ورت کی وہ
گھٹن،بپتااور کرب ودرد بھی شامل ہے جس ے وہ ب رس ہ ا ب رس س ے برداش ت ک ر رہی ہیں۔انھیں جہ اں
سماج و معاشرہ سے گلہ ہے تو اپنے شریک حیات سے بھی شکایت ہے۔ شاعرہ کی نظموں کے مط العہ
سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے در ِدنہاں ک و نظم وں کے ق الب میں ان ڈیل ک ر رکھ دی ا ہے۔
کچھ نظم وں میں انھ وں نے ج انوروں ک وبھی بط ور اس تعارہ اس تعمال کی ا ہے۔ نظم ’بھٹ‘ ک ایہ حص ہ
دیکھیے
بھیڑیے کے آنے سے /ایک دو گھڑی پہلے /ایک سنسناتی بو /بن میں پھی ل ج اتی ہے /آج م یرے گھ ر
ےں نے /تیس ری کہ چھ وتھیمیں بھی /میری تیسری حس نے کوئی ب ات دیکھی ہے /ات نی دی ر میں ،م َ
بار /گھر کے کونے کونے میں /پھر گالب چھڑ کا ہے /پھر گالب کی ڈھالیں /کیا مجھے بچا لیں گی
کشور ناہید کے لب و لہجہ میں تیکھا پن بھی ہے ،طنز بھی ہے بلکہ یہ دونوں عنصر مل کر دو آتش ہ ک ا
ایس ا ک ام ک رتے ہیں کہ ک ڑواہٹ ک ا جنم ہوت ا ہے اور یہی ک ڑواہٹ بغ اوت میں ب دل ج اتی ہے۔ اگ ر چہ
موصوفہ کے یہاں باغیانہ رویے ہوتے ہیں مگر ان رویوں میں سچائی کا وصف بھی س ر ابھ ارے کھ ڑا
رہتا ہے۔ نیز ان کی تیز دھار کا رویہ اُن کے ہم عصروں کوبھی چونکا تا ہے اور ق اری کی آنکھیں بھی
وا کرتا ہے۔ وہ عورت ذات س ے اس ط رح مخ اطب ہ وتی ہیں کہ اس میں نص یحت ،انقالبی و اص الحی
پہلو کم اور باغیانہ رویہ زیادہ کار فرما ہوتا ہے۔ساتھ ہی وہ پدری سماج پر یورش بھی کرتی ہیں اور اس
یورش میں پنہاں ہوتے ہیں وہ تلخ تجربات و مشاہدات جن سے کش ور ناہی د زن دگی بھ ر خ ود ن برد آزم ا
ہوتی رہیں۔ وہ پدری سماج کا ایسانفسیاتی تجزیہ کرتی ہیں کہ جس میں ایسی حقیقت ش امل ہ وتی کہ جس
سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی ایک نظم ’ جتوئی میں میری بیٹی‘ میں کشور ناہید مرد سماج پ ر
ایسی سخت یورش کرتی ہیں جو مرد کے منہ پر کس ی طم انچہ س ے کم نہیں۔ وہ م اں ہ ونے کے ن اطے
اپنی تمام بیٹیوں کو مرد کی گھناؤنی حرکت س ے آگ اہی حاص ل کران ا چ اہتی ہیں ،انھیں ہوش یار و بی دار
کرانا چاہتی ہیں۔ نظم کے چند ٹکڑے دیکھیے
کون کم بخت ہوگا /جو تمھارے کنول کی پتی جیسے جسم کو /مس لنا نہیں چ اہے گ ا /تمھیں پتہ نہ تھ ا کہ
مرد کی جوانی /جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتی /تم تو نازک کلی تھیں
’شریعت کونسل‘ بھی کش ور ناہی د کی ای ک ایس ی ہی نظم ہے۔ جس میں ع ورت م ردوں س ے اس ط رح
مخاطب ہے کہ جیسے زخم پر نمک چھڑک دیا گیا ہو۔ زخم پر نمک چھڑکنا بھی ایک س چائی ہے۔جہ اں
اس نظم میں وہ مرد سماج س ے مخ اطب ہیں ت و دوس ری ج انب وہ اپ نے ع ورت ہ ونے ک ا بھی احس اس
کراتی ہیں۔ اب آپ نظم کی کچھ سطریں مالحظہ فرمائیں
کھانستے ہ وئے بھی تمھیں ع ورت دکھ ائی دی تی ہے /اور س وتے میں تم ع ورت کے س اتھ /وہ کچھ ک ر
لیتے ہو/جس کے تمنائی ہوتے ہو/مگر عورتیں بھی ہوشیار ہو گئی ہیں /س وکن ک ا ن ام س نتے ہی/اُن کے
ہاتھ تلوار بن جاتے ہیں /تمھارا ستم زماں بننے کا خواب /ادھورا رہ جائے گ ا /تم بے ش ک ع ورت کے
خالف /بیان دیتے رہو
رفیعہ شبنم عابدی اردو نظم نگاری کی ایک معتبر آواز ہے۔ ان کے بیانہ میں نہ غصہ کا اظہ ار ہے اور
نہ کس ی قس م کی یلغ ار۔ بلکہ اُن کے یہ اں وہ نس ائی گفت نی ہے جہ اں تعم یر ک ا پہل و ش امل رہت ا ہے۔ وہ
عورت پر ہونے والے ظلم و جبر سے متعلق صرف مردسماج کو ہی قص ور وار نہیں گ ر دان تی بلکہ وہ
کہیں نہ کہیں عورت کو بھی قصوروار ٹھہراتی ہیں۔ رفیعہ شبنم اساطیری پہلوؤں ،عالم تی و اس تعاراتی
انداز سے اپنی ب ات ک و ب ڑی حس ن و خ وبی کے س اتھ کہہ ج اتی ہیں۔ وہ عورت وں کے مس ائل ک و اپ نی
اس تناس ب اور فہم و ادراک کے س اتھ پیش ک رتی ہیں۔ نہ انھیں پ روین نظموں میں بڑی ایمان داری ،احس ِ
شاکر بننے کا شوق ہے اور نہ ہی کشور ناہید۔ وہ عورتوں کو حقوق دالنا چاہتی ہیں مگر حقوق دالنے او
رحقوق کی بات کرنے سے قبل دونوں فریق ک ا محاس بہ و تج زیہ ک رتی ہیں۔ وہ ع ورت ک و بھی اس کی
غلطیوں کا احساس دالتی ہیں اور مرد ذات کی غلطیوں کو بھی محصور کرتی ہیں۔ اگر م رد نے ع ورت
کو فریب دیا ،اسے لونڈی بنا کر رکھا ،اسے زرخرید ملکیت سمجھا تو کسی نہ کسی زاویے سے عورت
بھی اُس ظلم میں شامل رہی۔ جیساکہ اپنی نظم ’ نئی گھٹائیں اُتر رہی ہیں ‘ میں رفیعہ شبنم اسی نقطۂ نگاہ
کے تحت مخاطب ہیں
یہ تم نہ کہنا /تمھیں کسی سے محبت نہیں رہی ہے /تمھاری آنکھوں نے ایک شب بھی /نہ کوئی قربت کا
خواب دیکھا /یہ تم نہ کہنا تمھارے احساس کی زمیں سے /کوئی نہ گزرا /ہتھیلی وں میں نہ چان د ات را /نہ
انگلیوں میں شرارے پھوٹے /جو تم کہو تو بس اتنا کہنا /تمھاری آنکھوں کے آنگن وں میں /ن ئی گھٹ ائیں
اتر رہی ہیں/اسی لیے تو /پرانے موسم کا /کوئی منظر بچا نہیں ہے !!
رفیعہ شبنم یہ بھی بھلی بھانتی جانتی ہیں کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے لیے خدا نے پید اک یے ہیں۔
تضاد سے ہی یہ دنیا خوبصورت ہے۔ جب تضاد ہی نہیں رہے گا تو دنیا بھی بد نما ہو جائے گی۔ ع ورت
و مرد دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ایک کا تصور دوسرے کے لیے محال ہے۔ محترمہ تنہائی
کی قائل نہیں ہیں۔ انھیں اس چیز کا بخوبی احساس ہے کہ مرد نے ہزاروں برسوں سے عورت کے ساتھ
کیا سلوک کیا ہے مگر وہ مرد کے ساتھ رہ کر ہی لڑائی لڑنا چ اہتی ہیں ،اپن ا ح ق منوان ا چ اہتی ہیں ن یز
مرد کو اپنے وجود کا احساس کرانا چاہتی ہیں۔ اُس عظمت سے آگاہی حاصل کرانا چاہتی ہیں جو عظمت
ا ﷲنے عورت کو بخشی ہے اور جن حقوق ک ا ذک ر ق رآن میں آی ا ہے۔ ل ٰہ ذا ان کے یہ اں س مجھوتہ واال
تصور نہیں ہے بلکہ مشرقی قدروں کا نبھاؤ ہے۔ ازدواجی زندگی کو سمجھنے کا باریک و عمیق نظ ریہ
ہے جہاں سے خواتین کے لیے نئی راہیں من ور ہ وتی ہیں۔نص ف بہ تر ،آخ ری خ واہش ،ج و نہ ہون ا تھ ا
وغ یرہ نظمیں رفیعہ ش بنم کے انہی معت دل روی وں کی غم از ہیں۔’ نص ف بہ تر ‘ نظم کے کچھ حص ے
مالحظہ فرمائیں:
کچھ اختالف نظر نے بھی دل کو دکھایا تھا /کچھ اض طراب ک ا ب اعث بن ا س لوک اُس ک ا /خی ال دل میں
توآیا کہ چھوڑ جاؤں یہ در/سوال یہ تھا کہ دہلیز کیسے پار کروں /ہزار مسئلے گھیرے ہ وئے تھے گھ ر
شریک درد کوئی تھا نہ غم گس ار ک وئی/وہ احتس اب
ِ میں اسے /محاسبے کے طلب گار تھے سوال کئی/
ُ
ےں ج انتی تھی کہ اس ک و م ری کے گ رداب میں اکیال تھ ا /اس ی ل یے ت و ق دم اُٹھ نہیں س کے ش اید /م َ
ضرورت ہے !!
عشرت آفرین نسائی ادب کی ایک مضبوط آواز ہے۔ ان کے یہاں بھی کشور ناہید کی ط رح باغی انہ تی ور
پ ائے ج اتے ہیں۔ مگ ر عش رت کی آواز ناہی د کی آواز س ے ق درے مختل ف ہے۔ ان کے یہ اں بغ اوت ک ا
عنص ر ت و ہے مگ ر اُس میں اس قدرترش ی نہیں جس ق در کش ور ناہی د کے یہ اں ہے۔ بش ارت ،نق ارہ،
سونمبر ،میرے پرکھوں کی پہلی دعا،اور ’ میں مطمئن ہ وں ‘ ان کی نمائن دہ نظم وں میں گ نی جاس کتی
ہیں۔ ’ بشارت ‘ نظم میں وہ عورت کے وجود کو جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں نیز عورت کو اُس خول س ے
باہر آنے پر متحرک کرتی ہیں جس خول میں وہ صدیوں سے گھُٹ گھُٹ کر م ر رہی ہے ،جہ اں اُس کی
کوئی حیثیت نہیں ،اُس کا کوئی وق ار نہیں ،زن دگی اُس کے ل یے اج یرن کے س وا کچھ اورنہیں۔ عش رت
صاحبہ عورت کو نئی بشارت سے آگاہ کر رہی ہیں۔ چنانچہ اب نیا موسم اُس ک ا خ یر مق دم ک ر رہ ا ہے،
بس ضرورت ہے اسے لب ادۂ کہن ات ار پھینک نے کی اور ن ئی رُت میں ڈھل نے کی۔ نظم کی کچھ س طریں
پیش کی جاتی ہیں
باغی لڑکی اپنی کھوہ سے باہر آ /پشت سے پتھ ر لڑھک انے ک ا موس م بیت ا/س بز رت وں نے دہق انوں کے
ہاتھوں پر بیعت کرلی ہے /سورما /اپنی بنائی حویلی کے ملبے میں دبا چاّل تا ہے /س ر س ے اونچ ا پ انی
باہر ناچ رہا ہے/سارا قبیلہ گونج رہا ہے/باغی لڑکی اپنی کھ وہ س ے ب اہر آ /اور ج اتی رُت کے ن زع ک ا
عالم دیکھ!!
’ م یرے پرکھ وں کی پہلی دع ا‘ بھی عش رت آف رین کی اچھی نظم ہے۔ اس نظم میں اُن ج ذبات کی
ترجمانی کی گئی ہے کہ جب پہلی ب ار موص وفہ نے دنی ا میں آنکھ کھ ولی تھی اور جب گھ ر وال وں ک و
لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو وہ سکتہ کے عالم میں آ جاتے ہیں۔ گھر وال وں کے منہ س ے ’
آہ ‘ لفظ کے عالوہ کچھ نہیں نکلتا۔ عشرت آفرین اُس ’آہ ‘ لفظ کوبھی دع ا س ے ہی تعب یر ک رتی ہیں اور
اُس ’آہ‘ لفظ سے پورے سماج پر ای ک ش یریں ط نز ک رتی ہیں مگ ر ش یریں ط نز میں بھی موص وفہ ک ا
اندرونی کرب پوشیدہ ہے جو تمام عمر آفرین صاحبہ کے الشعوری خلیات ( )UnConcious Cellsاور
اعصابی نظام( )Nervous Systemسے نکلنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ نظم کا چند حصہ ،غور فرمائیں
رات کی کوکھ سے /صبح کی ایک ننھی کرن نے جنم یوں لیا/آہٹوں اور سر گوشیوں میں کس ی نے کہ ا/
آہ ......ل ڑکی ہے یہ!/ات نی افس ردہ آواز م یرے خ دا/م یری پہلی س ماعت پہ لکھی گ ئی /م یری پہلی ہی
سانسوں میں گھوال گیا /اُن شکستہ سے لہجوں کا زہریال پن /آہ .....لڑکی ہے یہ! /لڑکی ہے /ل ڑکی ہے
یہ !! /اب بھی میری سماعت پہ لکھی ہے وہ /میرے پرکھوں کی پہلی دعا !!.....
شائستہ یوسف کی نظموں میں خود کالمی ک ا لب و لہجہ یاس یت میں بھی داخ ل ہوجات ا ہے اور کبھی ذرا
سی جست کے ساتھ باغیانہ زاویہ بھی اختیار کر لیتا ہے ن یز کبھی کبھی اُن کے یہ اں مکم ل س کوت کی
کیفیت طاری ہو جاتی ہے جہاں پیکر ابھرتے ہوئے بھی مع دوم ہوج اتے ہیں یع نی ان کے یہ اں طل وع و
غروب ک ا ای ک عجیب س ا ع الم ہے اور اس ی ع الم میں پنہ اں ہیں وہ بنی ادی حق وق بھی جس کی آج کی
عورت متقاضی ہے۔ مگر شائستہ یوسف کے تقاضے اور مانگ میں بے بسی و الچاری بھی شامل رہ تی
ہے۔ وہ مرد ذات و سماج سے اپنا حق تو مانگتی ہیں مگر جلد ہی سمجھوتہ بھی کرلیتی ہیں یع نی اُن کے
یہاں ایک طرح کی شکل پذیری ( )Plasticityواالپہلو بھی پایا جاتا جو انھیں کہیں کہیں کم زور بن ا دیت ا
ہے۔ ’حق‘ اُن کی اسی نوع کی نظم ہے جسے منظوم افس انے س ے بھی تعب یر کی ا جاس کتا ہے۔ دوس ری
جانب محترمہ کے باطن ( )Introvert Musclesمیں شکس ت و ریخت ک ا سلس لہ بھی ج اری رہت ا ہے۔
ایک جدلیاتی عمل اور نفسیاتی کشمکش سے وہ نبرد آزما رہتی ہیں اور اسی نفس یاتی کش اکش (Psycho
)Confilictکے مابین کبھی کبھی وہ تص وف کی راہ بھی اختی ار ک ر لی تی ہیں جس میں ای ک ایس اجذبہ
عرفان ذات ہوتا ہے ،تزکیۂ نفس کی بات ہ وتی ہے ِ جنم لیتا ہے جس میں تقدس ہوتا ہے،علمیت ہوتی ہے،
صراط مستقیم کی ط رف لے ج اتے ہیں۔ ’ تم کی ا ِ اور روحانیت کے وہ عناصر تحلیل ہوتے ہیں جو ہمیں
جانو‘ نظم ایسے ہی تارو پود سے بافندہ ہے۔ جس میں مراق بے کی کیفیت میں مح ترمہ خ دا س ے ہم کالم
عالم شہود کی طرف لے جار ہی صغری سے ِ ٰ ہے۔ وہ ایسی سحر گاہی حاصل کر رہی ہیں جو انھیں عالم
پیش خدمت ہیں
ِ ہے۔ نظم کی چند سطریں
ےں نے اسے دیکھا ہے /وہ مری آنکھوں میں نور ےں تم سے/ایک راز کی بات بتانا چاہتی ہوں /م َ سنو م َ
ُ
ےں نے اس س ے بن کر /چمکتا ہے /م یرے دل کی دھ ڑکن نے /اپ نی آواز میں /اس ے ش امل کی ا ہے/م َ
لگاتار /بے انتہاباتیں کی ہیں/لیکن تم اُسے کیا پہچانو گے /تم نے تو کبھی /اپنے اندر جھان ک ک ر دیکھ ا
ہی نہیں
ترنم ریاض افسانہ نگار بھی ہیں ،ناول نگار بھی اور شاعری بھی ک رتی ہیں۔ پابن د نظمیں بھی کہ تی ہیں
اور آزاد نظمیں بھی لکھ تی ہیں۔ اُن کی نظم وں میں کش میریت کی بھی عکاس ی ہے اور اپ نی ذات ک ا
عرفان بھی۔ ترنم ریاض اپنی نظموں میں نازکی سے کام لیتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ق درتی اش یا
و مناظر کی دلدادہ ہیں۔ اُن کے جذبات و احساسات میں ایک الگ قس م کی گ دازی اور ن ازک م زاجی ک ا
عنصر قاری کو سحر انگیزی میں لے جاتا ہے۔ کبھی کبھی اُن کے جذبات میں ہلکی سی اُداسی بھی پائی
جاتی ہے نیز ایک سکوتیت اور ہ و ک ا ع الم بھی اُن کی نظم وں ک ا حص ہ ہے جس میں کہیں کہیں چبھن
بھی شامل ہوتی ہے۔ ان کے یہاں انحراف و اعتراف دونوں پہلو ایک ساتھ چلتے ہیں اگر ترنم صاحبہ کو
قدرتی مناظر کی دلکشی اپنی طرف مائ ل ک رتی ہے ت و وہیں اُن کے ل یے یہ ق درتی من اظر بے مع نی و
مجہول بھی ثابت ہوتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کس ی زاویہ س ے زن دگی کے
معموالت سے بے زار سی ہو گئی ہیں۔ ’ نسبت ‘ نظم سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے
مسکرانا ،گھومنا ،پھرنا/ش ہر س ے دور جان ا/چن د دن فرص ت میں پھول وں ک و نظ ر بھ ر دیکھ لین ا /کچھ
پرندوں کی بھی سننا/آسماں کی وسعتوں کے سائے میں ہلکی چہل قدمی /پہاڑوں پر چمکتی چان دنی کی
مہکی خاموشی /درختوں میں وہ پُر اسرار جھینگر کی بولی اور /بغیر آل ودگی ک ا آس ماں /ت اروں بھ ری
راتیں ! /یہ سب جینے کی ہیں باتیں /م یرے ش انوں پہ ذمہ داری وں ک ا ب وجھ ہے اتن ا/کہ م رنے کی نہیں
فرصت/مجھے پھولوں ،پرندوں سے /ستاروں سے کہاں نسبت!
شاہین مفتی کی نظموں میں ایک بے چینی و بیقراری پائی جاتی ہے۔ اس بے چی نی و بیق راری میں ای ک
خفی ف س ی م اورایت بھی ہے ،اداس ی بھی اور گھٹن بھی پیوس ت ہے۔ اُن کی نظم وں ک و پ ڑھ ک ر
ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اُن کا دل ڈوبا ہوا سا رہتا ہے جیساکہ طمانیت اُن سے دور بھ اگتی ہے۔ ان درونی
ط ور پ ر وہ زن دگی س ے بے زار ہیں۔ اُن کے ب اطن ( )Introvert Musclesاور اعص ابی نظ ام (
)Nervous Systemمیں شکست و ریخت کا سلسلہ ج اری رہت ا ہے۔ اپ نے اط راف واکن اف میں پھیلی
ہوئی جمالیات سے بھی شاہین مفتی کی،ترنم ریاض کی طرح کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ظاہر سی ب ات ہے
کہ جب فنکار کی ایسی کیفیت ہوگی تو وہ نفس یاتی م رض میں بھی مبتال ہ و س کتا ہے۔ اس میں رج ائیت
بھی معدوم ہو جائے گی چنانچہ زندگی اس کے لیے اجیرن بن جائے گی۔ شاہین مفتی کا فنی کمال یہ ہے
کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو بڑی جامعیت کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھال دی تی ہیں جنھیں پ ڑھ
کر قاری بھی اپنے آپ کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے ،جن حاالت و حادثات سے شاہین مفتی
دو چار ہوتی ہیں۔ نیز ان کی نظموں کے کینوس پر ایسا ملگجا ،ایسافوگ چھایا رہتا ہے جس میں روشنی
چھن چھن کر بھی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی بلکہ اسی ملگجے اور کہرے میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
’ ضد نہیں کیجیے ‘ نظم کا حصہ مالحظہ کیجیے
زندگی کی دعائیں نہیں دیجیے/ضد نہیں کیج یے/س احلوں پ ر ک وئی بھی ہم ارا نہ ہ و /آس مانوں پہ ک وئی
ہو/کشتی عم ر ک و بادب انوں ک ا ک وئی س ہارا نہ ہ و /حلقۂ م وج میں ک وئی آواز ج و /آکے پیچھ ا
ِ ستارہ نہ
کرے /مڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو/اس سمندر کا کوئی کنارا نہ ہو/اب ہمارا تعاقب نہیں کیج یے /
ڈوبنے دیجیے /ضد نہیں کیجیے
ف اطمہ حس ن کے نس ائی لب ولہجہ میں ای ک خوش گواری پ ائی ج اتی ہے۔ ان کے یہ اں مس رت ہے،
سرمستی ہے،زندگی کا سلیقہ و قرینہ ہے۔ رجائیت کا پہلو ہر سو بکھ را ہ وا نظ ر آت ا ہے۔ وہ زن دگی ک و
جینا جانتی ہیں۔ شاہین مفتی کی طرح اُن کے یہاں گھٹن اور حبس نہیں اور نہ ہی بے زاری ہے۔ وہ اپنے
گرد و ن واح میں موج ود ق درت کی ص ناعی س ے لط ف ان دوز ہ وتی ہیں۔ اُن کے کالم میں زن دہ دلی ک ا
عنصر ہے۔ انھیں ہر زاویے سے زندگی گزارنااچھا لگت ا ہے۔ انہی پہل وؤں کے س اتھ موص وفہ ک و اپ نی
وراثت سے بھی بے پن اہ لگ اؤ اور ج ڑاؤ ہے۔ وہ ق دروں کی ق درداں ہیں اور انھیں ہ ر ح الت میں نبھان ا
چاہتی ہیں۔ ان کے لیے وراثت و اقدار ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ زندگی ان کے ل یے حس ین تحفہ ہے۔ تبھی
تو ان کی نظموں میں خوبصورت احساسات و ج ذبات کی عکاس ی مل تی ہے اور اس ی ل یے اُن کے یہ اں
متناسب زاویے پائے جاتے ہیں۔ جن میں منفیت نام کو بھی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ل ٰہ ذا فن پ ارہ
ِ متوازی و
ابعا ِد ثالثہ کے لحاظ سے مزید معنی خیز ہوتا چال جاتا ہے۔’ ایک دوست کے گھر میں انجیر کا پیڑ دیکھ
پیش خدمت ہیں
ِ کر‘ اور ’مصروفیت ‘ نظم کے کچھ حصے
ےں اپنے بچوں کی یادیں/رکھنا چاہتی ہوں /اُن ناموں سے جو پیڑوں اور رشتوں /کے ہیں/اُن پرن دوں م َ
کی آواز سے جو /موسم کے ساتھ آتے ہیں /تم اپنے آنگن کے پھلدار پیڑوں سے /خ الی نہ کرن ا/پرن دے
اور بچے کہیں بھی جائیں /لوٹ آتے ہیں اُن کی طرف(انجیر کا پیڑ دیکھ کر)
دروازے کی چولیں ہلتی رہتی ہیں/دی واروں س ے م ٹی جھ ڑتی رہ تی ہے /ڈرتی ہ وں/ت یز ہ وا ک ا ک وئی
جھونکا/دیواروں کو ڈھ ا دے گ ا /رش توں ک و بکھ را دے گ ا/ان کی حف اظت /گھ ر کی وراثت س اتھ ملی
ےں دن بھ ر/دروازے کی چ ولیں کس تی رہ تی ہ وں /دی واروں کے درزے بھ رتی رہ تی ہ وں ہے/س و م َ
( مصروفیت)
شہناز نبی کے کالم میں تجربے کی تیز دھار ہے اور جب کالم میں ایسی کیفیت ہوگی تو یقی نی ب ات ہے
کہ وہ اں تلخی بھی ہ وگی ،ط نز بھی ہوگ ا اور ایس ی یلغ ار بھی ہ وگی ج و فرس ودہ و بے رب ط نظ ام
کو ِدگرگوں کر دینا چاہتی ہے۔ شہناز نبی ک و یہ فک ر بھی الح ق رہ تی ہے کہ کس ط رح ن و آبادی ات اور
انسان کی خود غرضی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کا توازن و تناسب م تزلزل ہ و رہ ا ہے۔ ق درت س ے
چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سب کچھ در ہم برہم ہوتا ج ا رہ ا ہے۔ س ائنس کے ن ئے ن ئے تجرب ات کی وجہ
سے ہر روز منفی نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں ،نئے نئے مسائل اپ نے پ یر پس ار رہے ہیں یع نی پ ورا
ماحولیاتی نظام چر مرا گیا ہے۔ اس ضمن میں ’ دریا کے آس پاس ‘ نظم کا حصہ مالحظہ فرمائیں
ترازو کے پلڑے /اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں /اس تول مول میں /آنکھیں کھلی قبر کا روپ اختیار ک ر
لیتی ہیں /ان قبروں ک و بھ رنے والی م ٹی ب ک چکی ہے /ان میں لپک نے والے س واالت ی وں ہی لپک تے
رہیں/جواب دینے کی کوئی جلدی نہیں /اگلی نسل کے لیے ایک بہانہ محفوظ رکھ لیا گیا ہے
شہناز نبی کے یہاں دوسری ط رح کی وہ بھی نظمیں ہیں جن میں ان کے باغی انہ تی ور کی گ ونج س نائی
دیتی ہے۔ ’بے شرمی ‘اور ’محبت سے انح راف ‘ ایس ی ہی نظمیں ہیں جن میں ش ہناز ن بی اُن اص ول و
قوانین او ررسم و رواج سے انحراف ک رتی نظ ر آتی ہیں ج و پ دری س ماج کے تخلی ق ک ردہ ہیں۔ اُن کی
لغت میں محبت لفظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے یہاں ش کوہ بھی ہے اور یلغ ار بھی۔ ’ محبت ‘ لف ظ
کے تئیں ان کی زیریں لہروں میں ایک تصادم ہے ،ایک ہیجان ہے۔ انہی امور کے ساتھ وہ کن ایتی ان داز
اپناتے ہوئے ایسا حربہ استعمال کرتی ہیں جس میں مردو ں کو الجواب کر دی تی ہیں۔ اگ ر موص وفہ کے
یہاں احتجاج ہے تو اس میں حقائق کے پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ ’ محبت س ے انح راف ‘ نظم ک ا کچھ حص ہ
آپ کی نذر ہے
ےں بھی لے الئی/لیکن بعد میں انگنت سوالوں میں اُ لجھ گئی/زمین و آسمان کے سارے ایمان النے کو م َ
طبق/مجھے مصنوعی معلوم ہونے لگے /ہوائیں جیسے زہر آل ود /م یر ادم گھُٹ نہ ج ائے کہیں /وہ جس
نے میری دنیا تخلیق کی تھی /وہ کہاں ہے /کوئی ہے /جس نے نا محرم کی طرف نہ دیکھا ہو /بس وہی
مجھے سنگسار کر نے کا حق رکھتا ہے
حمیراراحت کا نسوانی لب و لہجہ ذرا انوکھا بھی ہے اور دلکش بھی۔ وہ اپنے آپ سے خود کالمی کرتی
ہیں ،سوال اُٹھاتی ہیں اور پھر جواب بھی تالش کرتی ہیں او ر’ کاش‘ لفظ کے ساتھ ایک لمبی آہ بھر ک ر
بھی رہ جاتی ہیں۔ ان کے یہاں محبت کا فلسفہ بھی ہے اور عص ریت کی غم ازی بھی۔ خ د اس ے خط اب
بھی ہے اور اس خطاب میں حمیرا راحت ہلکا ساشکوہ تو کرتی ہیں جو انسان کا فطری خاصہ ہے مگ ر
دہ
وہ الدین ی ا ب اغی نظ ر نہیں آتی ہیں۔ اپ نے ش کوہ میں بھی وہ ص بر س ے ک ام لی تی ہیں اور خ دا وح ٗ
صنف نازک ک و کم زور اور ڈری ہ وئی تص ور نہیں ک رتیِ الشریک سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ
پس پردہ وہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں کہ بچپن س ےہیں بلکہ نفسیاتی رو سے عورت کی کمزوری کے ِ
ہی اسے بتا یا جاتا ہے کہ وہ ایسے رہے ،ویسے رہے اور اس کے اندر آہستہ آہستہ خوف داخل ہوتا چال
جاتا ہے۔ جس باعث عورت خود کو کمزور س مجھنے لگ تی ہے۔ ’ ڈر‘ حم یرا راحت کی ای ک ایس ی ہی
نظم ہے۔ معجزۂ عشق ،کہا تھا ناں ،اگر میں رات ہوتی ،یہ موص وفہ کی ایس ی نظمیں ہیں جن میں ان کی
خود کالمی کو ایک نئے زاویے کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا س کتا ہے۔ وہ ان نظم وں میں تخیالت کی
دنیا میں غوطہ زن ہیں ایسامحسو س ہوتا ہے کہ وہ تصوراتی کشتی پر سوار ماورائیت کا س فر طے ک ر
انداز بیان اور الفاط و استعارات کا استنباطی عمل دل کو چھو لینے واال ہے۔
ِ رہی ہیں۔ نظموں کا
کہکشاں تبسم کا تجربہ و مشاہدہ بڑ اعمیق ہے۔ وہ اپنے گرد و نواح اور اطراف و اکناف پ ر گہ ری نظ ر
ت حاضرہ کا جائزہ لیتی ہیں ،غور و فکر ک رتی ہیں ،نت ائج اخ ذ ک رتی ہیں اور تب کہیںرکھتی ہیں۔ حاال ِ
جاکر موضوعات کا انتخاب ک رتی ہیں۔ ان کی نظم وں میں عص ری حس یت وعص ری مس ائل ای ک ن ئے
جہ ان ک و جنم دی تے ہیں۔ وہ اپ نی نظم وں میں ایس ے پہل وؤں س ے نق اب کش ائی ک رتی ہیں کہ جن میں
تجدیدیت ہوتی ہے۔ اسی کے باعث ان کی نظموں میں کہی گئی تحدیث مرد سماج پر ضرب کاری کا ک ام
کرتی ہے۔ کہکشاں تبسم پدری سماج سے کسی طور پر مطمئن نظر نہیں آتی ہیں۔ انھیں م ؤرخ س ے بھی
شکایت ہے اور مفسر سے بھی گلہ ہے۔ کیونکہ مؤرخ بھی اپنے مطابق تاریخ رقم ک ر رہ ا ہے۔ کہکش اں
تبسم کہتی ہیں مؤرخ جو لکھ رہا ہے اس میں وہی سازشیں اور لغزشیں ش امل ہیں ج و س دا س ے ع ورت
کے تئیں ہوتی آرہی ہیں۔ ’ سودا گری ‘ نظم موصوف کے انہی خی االت و ج ذبات کی ترجم ان ہے۔ ’ فن ا
کی دستک ‘ بھی اسی قبیل کی نظم ہے جس میں وہ مفسرین پر یلغار کررہی ہیں کہ وہ اپنی اپنی مرض ی
رقص جنوں ،مصور سوچتا ہے ،وغیرہ نظموں میں ان کی ژرف نگاہی اور ِ سے تاویالت گھڑ رہے ہیں۔
فہم وادراک کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
فاخرہ بتول کے لب ولہجہ میں نسائیت اس طور پر نمودار ہوتی ہے کہ اس میں دبی دبی نفس ی خواہش یں
اور تقاض ے موج ود رہ تے ہیں۔ اُن کی نظم وں میں مچل تے ہ وئے ج ذبات و احساس ات بھی ہیں اور
تصوراتی و خیاالتی دنیا بھی خلق ہوتی ہے اور اس تصوراتی و خیاالتی دنیا میں وہ جمالی اتی و روم انی
استعارے موجود ہوتے ہیں جن کا تعلق تصورات سے ہوتا ہوا بھی حقیقت سے بعید نہیں ہوت ا۔ اس ط رح
ہم دیکھتے ہیں کہ فاخرہ بتول کی نظمیہ شاعری حقیقت و تخی ل ک ا حس ین ام تزاج ہے اور اس ی ام تزاج
میں مقصدیت بھی پنہاں ہوتی ہے۔ ’ ہو اس ے ب ات ک رنے دو ‘ مح ترمہ کی ایس ی نظم ہے جس میں وہ ’
ہوا ‘ سے مخاطب ہیں۔ جس طرح فاخرہ بتول نے ہوا کے توسل س ے الف اظ ک ا انتخ اب کی ا ہے اس س ے
کالم میں ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں ایک ساتھ زندگی سے متعلق کئی پہل و ای ک مح ور پ ر آک ر
ت ت أثر بھی ہے ،رم زیت بھی مجتمع ہوگئے ہیں۔ جیس ے نظم میں ش ور بھی ہے ،سنس نی بھی ہے ،وح د ِ
ہے اور کہیں کہیں سکوت بھی ہے۔ ہوا کے چاروں جانب بہنے سے جو سماعی پیکر ابھ ر رہے ہیں اس
سے فنکارہ کے اعصابی نظام ( )Nervous Systemمیں مہیج ( )Stimulusکے ذریعہ تم ام جس م میں
ہلچل برپا ہے ،چاند نے بادل اوڑھ لیا ،گڑیا آج بھی اندھی ہے ،کل سے کالج بن د تمہ ارا ،کہ انی اوڑھ لی
میں نے ،اور ’ فیصلہ ‘ اچھی نظموں میں شمار کی ج ا س کتی ہیں۔ ’ فیص لہ‘ نظم میں جہ اں ش اعرہ کی
دور اندیشی دکھائی دیتی ہے تو اُس دور اندیشی میں نفسی تقاضے بھی تحلیل ہیں۔
تسنیم کوثر کی نظموں کے غائر مطالعے سے یہ ا ندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ وہ ماضی سے چھٹکارا تو
پانا چاہتی ہیں مگر ماضی ان کا تعاقب ہر قدم پر کرتا رہتا ہے اور اس ماضی میں محبت کی داستان بھی
ہے ،بے وفائی بھی ہے ،محبوب س ے ش کوہ بھی ہے اور در ِد نہ اں بھی ہے۔ ان تم ام پہل وؤں ک و تس نیم
کوثر نے شعوری سطح سے کھرچ کر برسوں پہلے الشعور ی نہاں خ انوں میں پھین ک دی ا تھ ا لیکن نہ
جانے کیوں جب مختلف اشیا وجزئیات ،راہوں یا قدرتی مناظر سے ان ک ا واس طہ پڑت ا ہے ت و رہ رہ ک ر
گزری ہوئی وہ تمام باتیں ایک ایک کرکے قبل شعور سے ہوتی ہوئی شعوری سطح پر آنے لگتی ہیں۔ وہ
ذہن سے اُن یادوں کو جھٹکنا چاہتی ہیں مگر ایساکرنے میں وہ ناکام رہتی ہیں۔ ای ک واہمہ(،)Delusion
ایک خبط( ،)Maniaمحترمہ کا تعاقب کرتا رہتا ہے اورایک جانی انجانی سی ص دا تس نیم ک وثر کے دل
پر دستک دیتی رہتی ہے۔ خوش گمانی ،سر گوشی ،دس تک ،ی ادوں کے پل و ،او ر’واہمہ ‘ اس ی قبی ل کی
نظمیں ہیں۔
ہاجرہ رحمن کی نظموں میں وہ درد پنہاں ہے بلکہ مکمل طور پر موجود ہے جو انھیں پدری سماج س ے
مال ہے ،اپنے شوہرسے مال ہے۔ جسے وہ اپنا ناخدا سمجھتی ہیں ،جسم و جان کا مالک م انتی ہیں۔ انھیں
اپنے شوہر سے حد درجہ شکایت ہے۔ اُن کی نظموں کو پڑھ ک ر ایس ا محس وس ہوت ا ہے کہ وہ ان درونی
طور پر مجروح ہیں۔ اُن کی خلیوں ( )Cellsپر ایسی ضربیں پڑی ہیں کہ جن کام داوا نہیں ہے۔ وہ ظلم و
ج بر س ہتے ہ وئے ٹ وٹ چکی ہیں تبھی ت و وہ اپ نے مج ازی خ دا ک و مخ اطب ک رتے ہ وئے کہ تی ہیں
ےں اپنے بدن کے َمسام سے نک التے نک التے تھ ک چکی ہ وں ‘۔ اس ی ل یے ’تمھارے لفظوں کے تیر ،م َ
طح ذہن پ ر وہ نق وش ابھی بھی ق ائم ہیں ج و
انھیں کوئی منزل دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہ اجرہ رحمن کی س ِ
انھیں ،مرد سماج نے دیے ہیں۔ مگر ہاجرہ رحمن یہ س ب س ہنے کے بع د اب خ اموش بیٹھ نے والی نہیں
ہیں لہٰذا اُن کا لب و لہجہ وہ نہج اختی ار ک ر لیت ا ہے جس میں اپ نے حق وق کی مان گ ہے۔ چن انچہ وہ ان
ےں ہوں ،ماں کے عہد میں ،اپنے عہد میں سانسیں لی تی لفظوں کے ساتھ گویا ہوتی ہیں ’’ مگر میں.....م َ
عورت ،میں چھین لینا چاہتی ہوں ،اپنا حق!!‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ گھائل شیرنی کی طرح دہ اڑتی ہیں اور
ی وں حملہ آور ہ وتی ہیں ’’تلمالت ا ہ وا تمہ ارا وج ود ،لہولہ ان دل ک و ،روح ک و ،س کون بخش تا ہے
مجھے !!۔‘‘
فرزانہ فرح کا بنیادی محور عشق و محبت ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ایک پاک جذبہ ہے۔ انھیں م رد ذات
سے کوئی گلہ نہیں۔ نہ وہ پدری سماج کے ظلم و جبر کا ذکر ک رتی ہیں اور ن ا ہی اس کی بے وف ائی ک ا
رونا روتی ہیں۔ اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ فرزانہ فرح کی زن دگی میں خوش یوں
کی بہار ہے۔ زندگی ان کی حسین وخوشنما ہے۔ وہ اپنے محبوب سے اس طرح مخ اطب ہیں کہ جس میں
ایک جمالیاتی جذبہ کارفرما ہے۔ انھیں ہر ایک کے چہرے میں اپنے محب وب ک ا عکس دکھ ائی دیت ا ہے۔
اب یہ محبوب ان کا حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور مجازی بھی۔ محبوب کا نام سنتے ہی موصوفہ کے لب وں
پر مسکراہٹ کی حسین تتلی ٹھہر جاتی ہے اور بدن میں پھول کھلنے لگتے ہیں۔وہ روم انی فض امیں اس
قدر غوطہ زن ہیں کہ وہ اپنے محبوب کا نام ہواؤں پہ ،گھٹاؤں پہ ،زمین پہ ستاروں پہ ،کجالئی س ی ش ام
پہ ،لرزتی شمع کی ل و پہ ،حس ین تتلی کے رنگ وں پہ ،لکھن ا چ اہتی ہیں۔ اور دل پ ر اس ل یے لکھن انھیں
چاہتی ہیں کہ وہ تو شاعرہ کے دل پر پہلے ہی سے نوشتہ ہے۔ بہرکیف فرزانہ فرح کی نظموں میں کہیں
بھی مردوں کے تئیں بوکھالہٹ اور یلغار نظر نہیں آتی ہے۔
عالوہ ازیں بھی بہت سی خواتین اچھی نظمیں لکھ رہی ہیں جن میں فریدہ کول ،رخسانہ ص دیقی ،ث روت
زہرا ،نگار سجاد ظہیر ،ملکہ نسیم ،بلقیس ظفیر الحسن ،اندو شبنم ،روپا صبا ،نسرین نقاش ،ش بنم عش ائی
قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے یہاں مختلف نظ ر ی ات و خی االت ،احساس ات و ج ذبات کی ک اروغیرہ کے نام ِ
فرمائی ہے۔ مختلف سوچ ہے ،مختلف مسائل و مراحل ہیں۔ ان تم ام ب اتوں کے ب اوجود یہ ام ر بھی مس لم
ہے کہ زیادہ تر خواتین کے یہاں وہ احساسات و جذبات ہیں جن میں پ دری س ماج کے ت ئیں باغی انہ تی ور
تحلیل ہیں۔ اپنے حقوق کی وکالت کرنا ،اس کے لیے لڑائی لڑنا اچھی بات ہے مگر ادب میں گالی کی حد
تک جانا یہ زیبا نہیں دیتا ہے۔ اس میں شک و ش بہ نہیں کہ ص دیوں س ے ع ورت ظلم و ج بر ک ا ش کا ر
رہی،اُسے غالم بنا کر رکھا گیا۔ آج اُسے آزادی ہے مگر اس آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ شرافت کی تم ام
حدود کو عبور کر دے۔ وہ لڑائی لڑیں اور مضبوطی کے ساتھ ل ڑیں ،ت انیثی تحری ک ک و س رگرم ک ریں
مگر اُن الفاظ سے گریز ک ریں ج و غ یر معی اری ہیں۔ چن انچہ اس ب ات میں بھی دورائے نہیں کہ آج بھی
مرد سماج عورت کا استحصال کرنے سے چوکتا نہیں ہے۔ وہ آج بھی عورت ک و پھول وں کی س یج س ے
ہی تعبیر کرتا ہے۔یہ تو وقت کی کروٹ کا تقاضا ہے کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ ایسے
بہت کم مرد ہوں گے جو واقعی ع ورت کی دل س ے ع زت ک ر تے ہیں ،اس کے حق وق کی ب ات ک رتے
ہیں۔
بہرکیف نظم نگاری میں جن خواتین نے اپنے جذبات و احساسا ت کا اظہار کیا ہے اُن میں اگر چہ پ دری
سماج کے خالف احتجاج پیوست ہے مگر یہ بھی حقیقت عیاں ہے کہ ان نظموں میں شاعرات نے زندگی
سے متعلق عالمتوں ،اس تعاروں اور دی و م االئی عناص ر کے ذریعہ ایس ی بہت س ی پ تے کی ب اتیں اور
نکات و پہلو بیان کیے ہیں کہ جن میں سماج و معاشرہ کی س چائی ای ک ط اقتور ج ذبہ کے س اتھ نم ودار
ہوتی ہے جسے پدری سماج نے صدیوں سے دبارکھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ بات وثوق کے س اتھ کہی
جا سکتی ہے کہ اب خواتین حضرات نہ صرف غزل گوئی ،افسانہ نویسی اور ناول نگ اری میں ہی اپ نی
خدمات انجام دے رہی ہیں بلکہ وہ نظم نگاری میں بھی اپنی صالحیتوں اور لیاقتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
اد اجعفری ،پروین شاکر سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ مسلسل آ گے ب ڑھ رہ ا ہے او رش ب و روز اس میں بہ تر
پیش رفت ہو رہی ہے۔ خواتین کی نظم گوئی کو دیکھتے ہوئے یہ توق ع کی جاس کتی ہے کہ مس تقبل میں
اردو دب میں خواتین نظم نگاری کے حوالے سے بیش بہا اضافے ہ وں گے ،ن ئے نک ات و پہل و س امنے
آئیں گے اور نئے معرکے سر ہوں گے