You are on page 1of 11

‫قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان‬

‫جمعرات‪ 14 ،‬مارچ‪2019 ،‬‬


‫نظم نگاری میں خواتین کا حصّہ (اسّی کے بعد) مضمون نگار‪:‬۔ محمد‬
‫مستمر‬

‫صہ‬
‫نظم نگاری میں خواتین کا ح ّ‬

‫سی کے بعد(‬
‫)ا ّ‬

‫محمد مستمر‬

‫تلخیص‬
‫اردو نظم نگاری میں خواتین کا حصہ (سنہ اسّی کے بعد) یہ مضمون اسّی کے بعد اف ق ادب پ ر ابھ رنے‬
‫والی شاعرات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ یوں تو ابتدائی دور ک و قلم زدک رتے ہ وئے اردو ش اعرات کی‬
‫اس ی کے بع د اردو نظم نگ اری میں ج و ک روٹیں نم و‬ ‫تاریخ کو بھی پیش کیا گیا ہے۔بعدازاں بالخصوص ّ‬
‫پذیر ہوئی ہیں‪ ،‬وہ اردو ادب کی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ جدیدیت کے بعد فن ک ار کے‬
‫پاس تخلیقی آزادی بھی تھی‪ ،‬بت ہزار شیوہ کا نظریہ بھی تھا اور جڑوں کی تالش کا مسئلہ بھی تھا۔ اسی‬
‫پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے یہ مضمون بعنوان اردو نظم نگ اری میں خ واتین ک ا حص ہ قلم بن د کی ا گی ا‬
‫ہے۔ جس میں یہ بت انے کی کوش ش کی گ ئی ہے کہ ادب جس ط ریقے س ے ک روٹیں لے رہ ا تھ ا ان میں‬
‫اس ی کے بع د جس ط رح‬ ‫بالخصوص خواتین کا کنٹری بیوشن کیا تھا اور جہاں تک میں سمجھتا ہ وں کہ ّ‬
‫کی حیرت انگیز تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں اس میں ت انیثیت ک ا بھی بہت ب ڑا ہ اتھ ہے۔اس مض مون س ے یہ‬
‫اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری شاعرات ادب میں کس طرح کے موضوعات پیش کر رہی تھیں‬
‫اور ان کے یہاں تخلیق کا تنوع کس طرح جنم لے رہا تھا ن یز س ماج و معاش رے پ ر ان کی کت نی گہ ری‬
‫نظر تھی اور وہ اپنی نظموں میں عصری حسیت و تقاضوں کو کیس ے ب رت رہی تھیں۔یہ ب ات ت و اظہ ر‬
‫من الشمس ہے کہ ہر فنکار اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ اپ نے اط راف واکن اف میں دیکھت ا‬
‫ہے اور گردونواح کا مشاہدہ کرتا ہے نیز وقوع پذیر حاالت و حادثات پر عمیق نظ ر رکھت ا ہے اور پھ ر‬
‫اپنے میکانکی آخذات سے مہیج وص ول کرت ا ہے گ و اپ نے ت وجہ و احس اس و ادراک کے مثلث زاویے‬
‫اس ی کے بع د ابھ رنے‬‫سے تخلیقی عمل کو صفحہ قرطاس پر اتارتا ہے۔ کچھ ایس ا ہی تخلیقی عم ل س نہ ّ‬
‫والی شاعر ات نے بھی کیا ہے۔ ان میں خاص طور پ ر‪ ،‬پ روین ش اکر‪،‬کش ور ناہی د‪ ،‬رفیعہ ش بنم عاب دی‪،‬‬
‫عشرت آفرین‪ ،‬شائستہ یوسف‪ ،‬ترنم ریاض‪ ،‬شاہین مفتی‪ ،‬فاطمہ حسن‪ ،‬شہناز نبی‪ ،‬حمیرا راحت‪ ،‬کہکش اں‬
‫تبسم‪ ،‬فاخرہ بتول‪ ،‬تسنیم کوثر‪ ،‬ہاجرہ رحمان‪ ،‬فرزانہ فرح‪ ،‬وغ یرہ خ واتین کے اس ماء گ رامی قاب ل ذک ر‬
‫ہیں۔ ان متذکرہ شاعرات میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کی شاعرات کی نظموں کا ذکر کی ا گی ا‬
‫ہے۔ اس طرح ان خواتین کی نظموں سے دون وں ملک وں کے سیاس ی و س ماجی اور معاش ی و اقتص ادی‬
‫حاالت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ان شاعرات نے اپنے تخلیقی عم ل س ے نہ ص رف م رد س ماج کے ذہن وں پ ر‬
‫ایک دستک دی بلکہ اپنے نظریات وخیاالت اور استعاراتی وتمثیالتی انداز سے اردو ادب کو ایک س مت‬
‫و رفتار بھی عطا کی۔چنانچہ ان ش اعرات کے یہ اں مش رقی روایت کی پاس داری بھی ہے‪ ،‬تہ ذیبی اق دار‬
‫بھی ہیں‪ ،‬شوہر پرس تی ک ا ج ذبہ بھی ہے‪ ،‬محبت کے نغمے بھی ہیں‪،‬دل کے مچل تے ہ وئے ج ذبات بھی‬
‫ہیں‪ ،‬رومانی فضا بھی ہے‪ ،‬تخیل کی آمیزش بھی ہے اور حقیقت کا پرت و بھی ہے لیکن جہ اں ان خ واتین‬
‫کی نظموں میں اس طرح کی انفرادیت نظر آتی ہے تو اس کے برعکس ان کی نظم وں میں پ دری س ماج‬
‫کابائیکاٹ اور اپنے وجود کے تئیں وہ جذبہ بھی کار فرما ہے جسے بغاوت‪ ،‬احتجاج یا عورت کی آزادی‬
‫اس ی کے‬ ‫سے منسوب کیا جاتا ہے۔مختصر طور پر ہم یہ بات وثوق کے س اتھ کہہ س کتے ہیں کہ جب ہم ّ‬
‫اس ی کے بع د‬ ‫بعد کی نظموں کا غائر مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات سمجھنے میں دی ر نہیں لگ تی کہ ّ‬
‫نمو پذیر شاعر ات نے اپنی شاعری میں ان تمام جذبات و احساسات اور حاالت و حادثات کو سمیٹنے کی‬
‫کوشش کی ہے جن کا وہ مشاہدہ کر رہی تھیں اور کر رہی ہیں۔ آپ کو اس مضمون میں ع ورت کے بہت‬
‫سے رنگوں سے اور پہلوؤں سے واقفیت حاصل ہوگی۔ یہاں اس بات کی بھی وضاحت کی ج اتی ہے کہ‬
‫اس ی کے بع د منظرع ام پ ر آئے اور‬ ‫اس مضمون میں انہیں شعری مجموعوں کو اساس بنایا گیا ہے ج و ّ‬
‫انھیں کی روشنی میں خواتین نظم نگاری کا جائزہ لیا گیا ہے۔‬

‫جب ہم اردو ادب میں خواتین کے حصے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں س ب س ے پہال ن ام ’‬
‫امیر النسا‘ کا ملتا ہے جن کا تعلق دکن کی سرزمین سے رہا اور یہ پن درہویں س ولہویں ص دی ک ا زم انہ‬
‫تھا۔ شمالی ہندوستان میں بھی بہت سے ایسے نام پ ائے ج اتے جنھ وں نے باقاع دہ ط ور پ ر ش اعری کی‬
‫نوک پلک سنواری۔ اس فہرست میں مغل شہزادیوں کے نام شامل ہیں اورنگ زیب کی دختر نیک ’ زیب‬
‫النسا‘ خو د ایک اچھی شاعرہ تھی۔ زیب النسا سے اردو شاعرات ک ا نقطۂ آغ از تس لیم کیاجات ا ہے۔ اردو‬
‫ب دیوان شاعرہ لطف النسا نے چھے ہزار اشعار پر مشتمل مثن وی ’ گلش ِن ش عرأ‘ تحری ر‬ ‫کی پہلی صاح ِ‬
‫کی۔ میر تقی میر کی بیٹی’ بیگم‘ بھی شعر گوئی میں دلچسپی ہی نہیں لیتی تھی بلکہ معیاری ش عر کہ تی‬
‫تھی۔ بیگم نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ؂‬
‫ب وصل نہیں کی‪ ‬‬
‫کچھ بے ادبی اور ش ِ‬
‫ہاں یار کے رخسار پر رخسار تو رکھا‬
‫نواب واجد علی شاہ کی بیگم نواب بیگم حجاب کا یہ شعر بھی ضرب ال َمثَل کی حیثیت رکھتا ہے ؂‬
‫خوف خدا کیجیے اس طرح نہ چلیے‪ ‬‬
‫ِ‬ ‫کچھ‬
‫سو بار تو اس چال پہ تلوار چلی ہے‪ ‬‬
‫چندا بائی ماہ لقا بھی اردو شاعرات میں ایک اہم مق ام رکھ تی ہیں۔ لیکن ت ذکرہ نگ اروں نے ش اعرات ک ا‬
‫بہت کم ذکر کیا ہے۔ آہستہ آہستہ مغل سلطنت کا زوال ہوتا گیا اور برطانوی حکومت اپنا تسلط قائم ک رتی‬
‫چلی گئی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہی ‪1857‬کا دور ہندوس تان کے ل یے نش أۃ الث انیہ ث ابت ہ وا اور‬
‫دیکھتے دیکھتے نہ صرف سیاست اور صنعت و حرفت میں ہی انقالب آیا بلکہ ادب بھی پورے طور پ ر‬
‫متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔‬
‫اردو ادب انیسویں صدی سے اپنا سفر طے کرتا ہو ابیسویں ص دی اور آج اکیس ویں ص دی میں داخ ل ہ و‬
‫چکا ہے۔ اس صدی کو انٹرنیٹ اور تکنیکی دور کی صدی کہا جاتا ہے۔ اسّی کے بعد کا زمانہ نہ ص رف‬
‫ادب بلکہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ نہ اب کوئی فنکار کسی نظریے کا قائل ہے اور‬
‫نہ کسی تحریک کا مقلد۔ بلکہ وہ تخلیقی آزادی کے تحت اپنا ادبی سفر طے کر رہا ہے۔ جس طرح س ماج‬
‫کا چہرہ بدال ہے‪ ،‬حیرت انگیز تبدیلیاں ہوئی ہیں‪ ،‬نئے نئے مسائل پید اہوئے ہیں ت و انس ان کی س ائیکی و‬
‫ذہنیت نے بھی کر وٹ لی ہے۔ جہاں پوری دنیا ع المی گ اؤں میں س مٹ گ ئی ہے ت و تہ ذیبیں اور ثق افتیں‬
‫بھی ایک دوسرے سے متأثر ہوئی ہیں بلکہ اگر یوں کہہ دیا جائے کہ ایک دوس رے میں اس ط رح خل ط‬
‫ملط ہورہی ہیں کہ آپس میں امتیاز کرنا مشکل ہو گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اب ظاہر س ی ب ات ہے کہ ان‬
‫سب باتوں کا اثر ادب پر بھی پڑنا واجب ہے۔ آج جو مسائل ہمارے سامنے ہیں واجبی طور پر ان کا دخل‬
‫ادب میں بھی ہوناہے۔ انسان نے جہ اں دنی ا پ ر فتح حاص ل کی ہے‪ ،‬وہ چان د پ ر بھی پہنچ گی ا ہے۔ انگلی‬
‫کے ہلکے سے اشارے سے وہ پوری دنیا کی جانکاری حاصل کر لیت ا ہے۔ چن انچہ انس ان ک و جہ اں ہ ر‬
‫طرح کی آزادی میس ر ہ وئی وہیں اس نے بہت کچھ کھ و بھی دی ا ہے۔ آج رش توں کی شکس ت و ریخت‪،‬‬
‫قدروں کا زوال‪ ،‬اور اقتص ادی و معاش ی ایس ے بہت س ے مس ائل نے جنم لے لی ا جس کے ب اعث انس ان‬
‫مختلف قسم کی بیماریوں جیسے ڈپریشن‪ ،‬افسردگی‪ ،‬تشویش‪ ،‬التب اس‪ ،‬مالیخولی ا‪ ،‬م راق وغ یرہ ک ا ش کار‬
‫اس ی فیص د س ماج نفس یاتی م ریض ہے۔بہت کم ایس ے خان دان ہیں جن کی خ انگی‬ ‫ہے۔ آج بنیادی طورپر ّ‬
‫زندگی خوشگوار ہو‪ ،‬میاں بیوی میں باہمی مناسبت وتوازن قائم ہو‪ ،‬تعلیم ی افتہ ہ وتے ہ وئے بھی رش توں‬
‫میں نہ جانے مٹھاس کہاں چلی گئی ہے۔ سب کے سامنے انا کامسئلہ کھڑا ہواہے نیز انا کے آپسی تصادم‬
‫نے زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجہ پروفیشنل تعلیم ہوگئی ج و‬
‫علم نہ ہو کر صرف ہنررہ گیا ہے۔ سنسکار کہاں سے جنم لیں گے‪ ،‬ایک طرف مش ترکہ س ماج ک ا زوال‬
‫دوسری طرف اخالقی تعلیم کا فقدان۔ فقدان کیا بلکہ سرے سے ہی غائب ہو گئی ہے۔ ل ٰہذا یہ تمام عناص ر‬
‫ہم آج کی شاعری میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ جس طرح کا م احول چ اروں ج انب پی دا ہ و رہ ا ہے‪ ،‬اس‬
‫سے انسان مختلف قس م کے فوبی از میں گرفت ار ہوگی ا ہے اور ان س ب کیفیت وں اور پہل وؤں کی عکاس ی‬
‫ہماری ش اعرات اپ نی نظم وں میں بخ وبی ک ر رہی ہیں۔ اب ہم یہ اں اُن ش اعرات ک ا ذک ر ک ریں گے ج و‬
‫فق ادب پر نمودار ہوئیں اور ‪ 2000‬تک آتے آتے اپنی شناخت مستحکم کر چکی ہیں اور‬ ‫‪ 1980‬کے بعد اُ ِ‬
‫دوسری وہ شاعرات ہیں جو ‪2000‬کے بعد اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئیں۔‪ ‬‬
‫یہ امر بھی واضح ہے کہ اسّی کے بعد ابھرنے والی شاعرات نے کچھ زیادہ ہی باغی انہ رویے اور تی ور‬
‫اختیار کیے۔ کچھ نے اپنے دلی جذبات کی ترجم انی دائ رہ میں رہ ک ر کی اور کچھ نے بغ اوت ک ا پ رچم‬
‫بلند کیا۔ روایت سے انحراف اور پدری نظام کا بائیکاٹ شاعرات نے اپنی نظموں میں خوب کی اہے۔ لیکن‬
‫کچھ شاعرات کے یہاں اس قدر شدت در آئی کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ عورت کی آزادی و حقوق کی مان گ‬
‫نہیں کر رہی ہیں بلکہ اپنے اندر کے دبے ہوئے آتشی سیال کو باہر نکا ل رہی ہیں‬
‫کچھ ش اعرات نے اچھی پیش رفت بھی کی اور اپ نے ح ق کی مان گ اس تن اظر میں کی ج و مت وازی و‬
‫معتدل ہے۔ تانیثی تحریک یا عورتوں کے جذبات کا بھی وہی مقصد ہونا چ اہیے جس س ے بہ تر معاش رہ‬
‫کی تشکیل ہو۔ سنہ اسّی کے بعد بے شمار شاعرات نے اپنے وج ود ک ا احس اس کرای ا اور کچھ نے اپ نی‬
‫انفرادیت کے جھنڈے بھی گاڑے۔ زیادہ تر شاعرات نے غزل گوئی میں طبع آزمائی کی مگر نظم وں کی‬
‫طرف بھی اپنی توجہ ُمنعطف کی۔ ان میں زیادہ تر نثری نظمیں شامل ہیں۔ اسّی کے بعد پروین ش اکر اور‬
‫کشور ناہید اردو نظم نگاری کی دو بڑی آوازیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ بعد ازاں رفیعہ ش بنم عاب دی‪ ،‬فہمی دہ‬
‫ریاض‪ ،‬ترنم ریاض‪ ،‬فرخندہ نسرین‪ ،‬بلقیس ظفیر الحسن‪ ،‬عذرا پروین‪ ،‬زہ را نگ اہ‪ ،‬عش رت آف رین‪ ،‬نس یم‬
‫سید‪ ،‬شائستہ پوسف‪ ،‬شاہین مفتی‪ ،‬فاطمہ حسن‪ ،‬شہناز ن بی‪ ،‬ش بنم عش ائی‪ ،‬ح ُم یرا راحت‪ ،‬کہکش اں تبس م‪،‬‬
‫ملکہ نسیم‪ ،‬فاخرہ بتول‪ ،‬تسنیم کوثر‪ ،‬نگار سجاد ظہیر‪ ،‬ثروت زہرا‪ ،‬ہاجرہ رحمٰ ن‪ ،‬ف رزانہ ف رح‪ ،‬رخس انہ‬
‫صدیقی‪ ،‬فریدہ کول‪ ،‬روبینہ شبنم‪ ،‬فاطمہ شاہین‪ ،‬نصرت مہدی‪ ،‬مین ا نق وی‪ ،‬روبینہ م یر‪ ،‬ان دو ش بنم ان دو‪،‬‬
‫وندنا پشپیندر یادو‪ ،‬روپا صبا وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں‪ ،‬جنھوں نے اپنی نظم وں کے توس ل س ے اردو‬
‫نظم نگاری میں ایک الگ نسائی لب و لہجہ کا احساس کرایا ہے۔‬
‫منظر عام پر آی ا‪ ،‬یہ اں ہم ان کی نظم نگ اری ک ا ذک ر‬
‫ِ‬ ‫پروین شاکر کا پہال مجموعہ ’ خوشبو‘ ‪ 1976‬میں‬
‫مجموعہ ’خود کالمی‘ جو ‪ 1990‬س ے آراس تہ ہ وا‪ ،‬کی روش نی میں ک ریں گے۔ مجم وعہ ٰہ ذامیں ش امل‬
‫نظمیں زیادہ تر عالمتی و استعاراتی انداز میں تحریر کی گئی ہیں۔ عالمات و اس تعارات کے توس ل س ے‬
‫بڑے پتے کی باتیں کہہ جاتی ہیں اور قاری انگشت بدندان رہ جاتا ہے۔ ان کے فن کا ابعا ِد ثالثہ ق اری پ ر‬
‫سحر بن کر اس طرح طاری ہوتا ہے کہ وہ س وچنے س مجھنے کے ل یے مجب ور ہوجات ا ہے۔ زن دگی ک ا‬
‫کڑوا سچ اُن کے یہاں ایک طاقتور جذبہ کے ساتھ نمودار ہوتا ہے۔ پروین شاکر کی نظموں کو پڑھ کر یہ‬
‫احسا س بخوبی ہو جات ا ہے کہ اُن ک ا فن اُن کی ذات ک ا آئینہ دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی نظم وں ک ا‬
‫صوتی آہنگ جلد ہی احتجاج میں بدل جاتا ہے۔ وہ ای ک ج دلیاتی عم ل اور نفس ی کش مکش س ے دو چ ار‬
‫نظر آتی ہیں۔ ان کی نظموں میں ذاتی غم بھی ہیں‪ ،‬سیاسی و سماجی سروکار بھی ہیں اور ع ورت کی وہ‬
‫گھٹن‪،‬بپتااور کرب ودرد بھی شامل ہے جس ے وہ ب رس ہ ا ب رس س ے برداش ت ک ر رہی ہیں۔انھیں جہ اں‬
‫سماج و معاشرہ سے گلہ ہے تو اپنے شریک حیات سے بھی شکایت ہے۔ شاعرہ کی نظموں کے مط العہ‬
‫سے ایسامحسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے در ِدنہاں ک و نظم وں کے ق الب میں ان ڈیل ک ر رکھ دی ا ہے۔‬
‫کچھ نظم وں میں انھ وں نے ج انوروں ک وبھی بط ور اس تعارہ اس تعمال کی ا ہے۔ نظم ’بھٹ‘ ک ایہ حص ہ‬
‫دیکھیے ؂‬
‫بھیڑیے کے آنے سے ‪ /‬ایک دو گھڑی پہلے‪ /‬ایک سنسناتی بو ‪ /‬بن میں پھی ل ج اتی ہے‪ /‬آج م یرے گھ ر‬
‫ےں نے‪ /‬تیس ری کہ چھ وتھی‬‫میں بھی ‪ /‬میری تیسری حس نے کوئی ب ات دیکھی ہے ‪ /‬ات نی دی ر میں‪ ،‬م َ‬
‫بار ‪ /‬گھر کے کونے کونے میں‪ /‬پھر گالب چھڑ کا ہے‪ /‬پھر گالب کی ڈھالیں‪ /‬کیا مجھے بچا لیں گی‬
‫کشور ناہید کے لب و لہجہ میں تیکھا پن بھی ہے‪ ،‬طنز بھی ہے بلکہ یہ دونوں عنصر مل کر دو آتش ہ ک ا‬
‫ایس ا ک ام ک رتے ہیں کہ ک ڑواہٹ ک ا جنم ہوت ا ہے اور یہی ک ڑواہٹ بغ اوت میں ب دل ج اتی ہے۔ اگ ر چہ‬
‫موصوفہ کے یہاں باغیانہ رویے ہوتے ہیں مگر ان رویوں میں سچائی کا وصف بھی س ر ابھ ارے کھ ڑا‬
‫رہتا ہے۔ نیز ان کی تیز دھار کا رویہ اُن کے ہم عصروں کوبھی چونکا تا ہے اور ق اری کی آنکھیں بھی‬
‫وا کرتا ہے۔ وہ عورت ذات س ے اس ط رح مخ اطب ہ وتی ہیں کہ اس میں نص یحت‪ ،‬انقالبی و اص الحی‬
‫پہلو کم اور باغیانہ رویہ زیادہ کار فرما ہوتا ہے۔ساتھ ہی وہ پدری سماج پر یورش بھی کرتی ہیں اور اس‬
‫یورش میں پنہاں ہوتے ہیں وہ تلخ تجربات و مشاہدات جن سے کش ور ناہی د زن دگی بھ ر خ ود ن برد آزم ا‬
‫ہوتی رہیں۔ وہ پدری سماج کا ایسانفسیاتی تجزیہ کرتی ہیں کہ جس میں ایسی حقیقت ش امل ہ وتی کہ جس‬
‫سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اپنی ایک نظم ’ جتوئی میں میری بیٹی‘ میں کشور ناہید مرد سماج پ ر‬
‫ایسی سخت یورش کرتی ہیں جو مرد کے منہ پر کس ی طم انچہ س ے کم نہیں۔ وہ م اں ہ ونے کے ن اطے‬
‫اپنی تمام بیٹیوں کو مرد کی گھناؤنی حرکت س ے آگ اہی حاص ل کران ا چ اہتی ہیں‪ ،‬انھیں ہوش یار و بی دار‬
‫کرانا چاہتی ہیں۔ نظم کے چند ٹکڑے دیکھیے ؂‬
‫کون کم بخت ہوگا ‪/‬جو تمھارے کنول کی پتی جیسے جسم کو‪ /‬مس لنا نہیں چ اہے گ ا‪ /‬تمھیں پتہ نہ تھ ا کہ‬
‫مرد کی جوانی‪ /‬جانوروں کو بھی نہیں چھوڑتی ‪ /‬تم تو نازک کلی تھیں‪ ‬‬
‫’شریعت کونسل‘ بھی کش ور ناہی د کی ای ک ایس ی ہی نظم ہے۔ جس میں ع ورت م ردوں س ے اس ط رح‬
‫مخاطب ہے کہ جیسے زخم پر نمک چھڑک دیا گیا ہو۔ زخم پر نمک چھڑکنا بھی ایک س چائی ہے۔جہ اں‬
‫اس نظم میں وہ مرد سماج س ے مخ اطب ہیں ت و دوس ری ج انب وہ اپ نے ع ورت ہ ونے ک ا بھی احس اس‬
‫کراتی ہیں۔ اب آپ نظم کی کچھ سطریں مالحظہ فرمائیں ؂‬
‫کھانستے ہ وئے بھی تمھیں ع ورت دکھ ائی دی تی ہے ‪/‬اور س وتے میں تم ع ورت کے س اتھ‪ /‬وہ کچھ ک ر‬
‫لیتے ہو‪/‬جس کے تمنائی ہوتے ہو‪/‬مگر عورتیں بھی ہوشیار ہو گئی ہیں‪ /‬س وکن ک ا ن ام س نتے ہی‪/‬اُن کے‬
‫ہاتھ تلوار بن جاتے ہیں‪ /‬تمھارا ستم زماں بننے کا خواب ‪ /‬ادھورا رہ جائے گ ا‪ /‬تم بے ش ک ع ورت کے‬
‫خالف‪ /‬بیان دیتے رہو‪ ‬‬
‫رفیعہ شبنم عابدی اردو نظم نگاری کی ایک معتبر آواز ہے۔ ان کے بیانہ میں نہ غصہ کا اظہ ار ہے اور‬
‫نہ کس ی قس م کی یلغ ار۔ بلکہ اُن کے یہ اں وہ نس ائی گفت نی ہے جہ اں تعم یر ک ا پہل و ش امل رہت ا ہے۔ وہ‬
‫عورت پر ہونے والے ظلم و جبر سے متعلق صرف مردسماج کو ہی قص ور وار نہیں گ ر دان تی بلکہ وہ‬
‫کہیں نہ کہیں عورت کو بھی قصوروار ٹھہراتی ہیں۔ رفیعہ شبنم اساطیری پہلوؤں‪ ،‬عالم تی و اس تعاراتی‬
‫انداز سے اپنی ب ات ک و ب ڑی حس ن و خ وبی کے س اتھ کہہ ج اتی ہیں۔ وہ عورت وں کے مس ائل ک و اپ نی‬
‫اس تناس ب اور فہم و ادراک کے س اتھ پیش ک رتی ہیں۔ نہ انھیں پ روین‬ ‫نظموں میں بڑی ایمان داری‪ ،‬احس ِ‬
‫شاکر بننے کا شوق ہے اور نہ ہی کشور ناہید۔ وہ عورتوں کو حقوق دالنا چاہتی ہیں مگر حقوق دالنے او‬
‫رحقوق کی بات کرنے سے قبل دونوں فریق ک ا محاس بہ و تج زیہ ک رتی ہیں۔ وہ ع ورت ک و بھی اس کی‬
‫غلطیوں کا احساس دالتی ہیں اور مرد ذات کی غلطیوں کو بھی محصور کرتی ہیں۔ اگر م رد نے ع ورت‬
‫کو فریب دیا‪ ،‬اسے لونڈی بنا کر رکھا‪ ،‬اسے زرخرید ملکیت سمجھا تو کسی نہ کسی زاویے سے عورت‬
‫بھی اُس ظلم میں شامل رہی۔ جیساکہ اپنی نظم ’ نئی گھٹائیں اُتر رہی ہیں ‘ میں رفیعہ شبنم اسی نقطۂ نگاہ‬
‫کے تحت مخاطب ہیں ؂‬
‫یہ تم نہ کہنا ‪/‬تمھیں کسی سے محبت نہیں رہی ہے ‪/‬تمھاری آنکھوں نے ایک شب بھی‪ /‬نہ کوئی قربت کا‬
‫خواب دیکھا‪ /‬یہ تم نہ کہنا تمھارے احساس کی زمیں سے ‪/‬کوئی نہ گزرا‪ /‬ہتھیلی وں میں نہ چان د ات را‪ /‬نہ‬
‫انگلیوں میں شرارے پھوٹے‪ /‬جو تم کہو تو بس اتنا کہنا ‪ /‬تمھاری آنکھوں کے آنگن وں میں‪ /‬ن ئی گھٹ ائیں‬
‫اتر رہی ہیں‪/‬اسی لیے تو‪ /‬پرانے موسم کا‪ /‬کوئی منظر بچا نہیں ہے !!‬
‫رفیعہ شبنم یہ بھی بھلی بھانتی جانتی ہیں کہ عورت و مرد ایک دوسرے کے لیے خدا نے پید اک یے ہیں۔‬
‫تضاد سے ہی یہ دنیا خوبصورت ہے۔ جب تضاد ہی نہیں رہے گا تو دنیا بھی بد نما ہو جائے گی۔ ع ورت‬
‫و مرد دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ ایک کا تصور دوسرے کے لیے محال ہے۔ محترمہ تنہائی‬
‫کی قائل نہیں ہیں۔ انھیں اس چیز کا بخوبی احساس ہے کہ مرد نے ہزاروں برسوں سے عورت کے ساتھ‬
‫کیا سلوک کیا ہے مگر وہ مرد کے ساتھ رہ کر ہی لڑائی لڑنا چ اہتی ہیں‪ ،‬اپن ا ح ق منوان ا چ اہتی ہیں ن یز‬
‫مرد کو اپنے وجود کا احساس کرانا چاہتی ہیں۔ اُس عظمت سے آگاہی حاصل کرانا چاہتی ہیں جو عظمت‬
‫ا ﷲنے عورت کو بخشی ہے اور جن حقوق ک ا ذک ر ق رآن میں آی ا ہے۔ ل ٰہ ذا ان کے یہ اں س مجھوتہ واال‬
‫تصور نہیں ہے بلکہ مشرقی قدروں کا نبھاؤ ہے۔ ازدواجی زندگی کو سمجھنے کا باریک و عمیق نظ ریہ‬
‫ہے جہاں سے خواتین کے لیے نئی راہیں من ور ہ وتی ہیں۔نص ف بہ تر‪ ،‬آخ ری خ واہش‪ ،‬ج و نہ ہون ا تھ ا‬
‫وغ یرہ نظمیں رفیعہ ش بنم کے انہی معت دل روی وں کی غم از ہیں۔’ نص ف بہ تر ‘ نظم کے کچھ حص ے‬
‫مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫کچھ اختالف نظر نے بھی دل کو دکھایا تھا ‪ /‬کچھ اض طراب ک ا ب اعث بن ا س لوک اُس ک ا ‪ /‬خی ال دل میں‬
‫توآیا کہ چھوڑ جاؤں یہ در‪/‬سوال یہ تھا کہ دہلیز کیسے پار کروں‪ /‬ہزار مسئلے گھیرے ہ وئے تھے گھ ر‬
‫شریک درد کوئی تھا نہ غم گس ار ک وئی‪/‬وہ احتس اب‬
‫ِ‬ ‫میں اسے ‪ /‬محاسبے کے طلب گار تھے سوال کئی‪/‬‬
‫ُ‬
‫ےں ج انتی تھی کہ اس ک و م ری‬ ‫کے گ رداب میں اکیال تھ ا‪ /‬اس ی ل یے ت و ق دم اُٹھ نہیں س کے ش اید ‪ /‬م َ‬
‫ضرورت ہے !!‬
‫عشرت آفرین نسائی ادب کی ایک مضبوط آواز ہے۔ ان کے یہاں بھی کشور ناہید کی ط رح باغی انہ تی ور‬
‫پ ائے ج اتے ہیں۔ مگ ر عش رت کی آواز ناہی د کی آواز س ے ق درے مختل ف ہے۔ ان کے یہ اں بغ اوت ک ا‬
‫عنص ر ت و ہے مگ ر اُس میں اس قدرترش ی نہیں جس ق در کش ور ناہی د کے یہ اں ہے۔ بش ارت‪ ،‬نق ارہ‪،‬‬
‫سونمبر‪ ،‬میرے پرکھوں کی پہلی دعا‪،‬اور ’ میں مطمئن ہ وں ‘ ان کی نمائن دہ نظم وں میں گ نی جاس کتی‬
‫ہیں۔ ’ بشارت ‘ نظم میں وہ عورت کے وجود کو جھنجھوڑتی نظر آتی ہیں نیز عورت کو اُس خول س ے‬
‫باہر آنے پر متحرک کرتی ہیں جس خول میں وہ صدیوں سے گھُٹ گھُٹ کر م ر رہی ہے‪ ،‬جہ اں اُس کی‬
‫کوئی حیثیت نہیں‪ ،‬اُس کا کوئی وق ار نہیں‪ ،‬زن دگی اُس کے ل یے اج یرن کے س وا کچھ اورنہیں۔ عش رت‬
‫صاحبہ عورت کو نئی بشارت سے آگاہ کر رہی ہیں۔ چنانچہ اب نیا موسم اُس ک ا خ یر مق دم ک ر رہ ا ہے‪،‬‬
‫بس ضرورت ہے اسے لب ادۂ کہن ات ار پھینک نے کی اور ن ئی رُت میں ڈھل نے کی۔ نظم کی کچھ س طریں‬
‫پیش کی جاتی ہیں ؂‬
‫باغی لڑکی اپنی کھوہ سے باہر آ ‪ /‬پشت سے پتھ ر لڑھک انے ک ا موس م بیت ا‪/‬س بز رت وں نے دہق انوں کے‬
‫ہاتھوں پر بیعت کرلی ہے‪ /‬سورما ‪ /‬اپنی بنائی حویلی کے ملبے میں دبا چاّل تا ہے‪ /‬س ر س ے اونچ ا پ انی‬
‫باہر ناچ رہا ہے‪/‬سارا قبیلہ گونج رہا ہے‪/‬باغی لڑکی اپنی کھ وہ س ے ب اہر آ‪ /‬اور ج اتی رُت کے ن زع ک ا‬
‫عالم دیکھ!!‬
‫’ م یرے پرکھ وں کی پہلی دع ا‘ بھی عش رت آف رین کی اچھی نظم ہے۔ اس نظم میں اُن ج ذبات کی‬
‫ترجمانی کی گئی ہے کہ جب پہلی ب ار موص وفہ نے دنی ا میں آنکھ کھ ولی تھی اور جب گھ ر وال وں ک و‬
‫لڑکی کے پیدا ہونے کی خبر ملتی ہے تو وہ سکتہ کے عالم میں آ جاتے ہیں۔ گھر وال وں کے منہ س ے ’‬
‫آہ ‘ لفظ کے عالوہ کچھ نہیں نکلتا۔ عشرت آفرین اُس ’آہ ‘ لفظ کوبھی دع ا س ے ہی تعب یر ک رتی ہیں اور‬
‫اُس ’آہ‘ لفظ سے پورے سماج پر ای ک ش یریں ط نز ک رتی ہیں مگ ر ش یریں ط نز میں بھی موص وفہ ک ا‬
‫اندرونی کرب پوشیدہ ہے جو تمام عمر آفرین صاحبہ کے الشعوری خلیات ( ‪)UnConcious Cells‬اور‬
‫اعصابی نظام(‪ )Nervous System‬سے نکلنے کا نام نہیں لیتا ہے۔ نظم کا چند حصہ‪ ،‬غور فرمائیں ؂‬
‫رات کی کوکھ سے ‪/‬صبح کی ایک ننھی کرن نے جنم یوں لیا‪/‬آہٹوں اور سر گوشیوں میں کس ی نے کہ ا‪/‬‬
‫آہ‪ ......‬ل ڑکی ہے یہ!‪/‬ات نی افس ردہ آواز م یرے خ دا‪/‬م یری پہلی س ماعت پہ لکھی گ ئی ‪/‬م یری پہلی ہی‬
‫سانسوں میں گھوال گیا‪ /‬اُن شکستہ سے لہجوں کا زہریال پن ‪/‬آہ‪ .....‬لڑکی ہے یہ! ‪ /‬لڑکی ہے ‪ /‬ل ڑکی ہے‬
‫یہ !! ‪ /‬اب بھی میری سماعت پہ لکھی ہے وہ ‪ /‬میرے پرکھوں کی پہلی دعا‪ !!.....‬‬
‫شائستہ یوسف کی نظموں میں خود کالمی ک ا لب و لہجہ یاس یت میں بھی داخ ل ہوجات ا ہے اور کبھی ذرا‬
‫سی جست کے ساتھ باغیانہ زاویہ بھی اختیار کر لیتا ہے ن یز کبھی کبھی اُن کے یہ اں مکم ل س کوت کی‬
‫کیفیت طاری ہو جاتی ہے جہاں پیکر ابھرتے ہوئے بھی مع دوم ہوج اتے ہیں یع نی ان کے یہ اں طل وع و‬
‫غروب ک ا ای ک عجیب س ا ع الم ہے اور اس ی ع الم میں پنہ اں ہیں وہ بنی ادی حق وق بھی جس کی آج کی‬
‫عورت متقاضی ہے۔ مگر شائستہ یوسف کے تقاضے اور مانگ میں بے بسی و الچاری بھی شامل رہ تی‬
‫ہے۔ وہ مرد ذات و سماج سے اپنا حق تو مانگتی ہیں مگر جلد ہی سمجھوتہ بھی کرلیتی ہیں یع نی اُن کے‬
‫یہاں ایک طرح کی شکل پذیری (‪ )Plasticity‬واالپہلو بھی پایا جاتا جو انھیں کہیں کہیں کم زور بن ا دیت ا‬
‫ہے۔ ’حق‘ اُن کی اسی نوع کی نظم ہے جسے منظوم افس انے س ے بھی تعب یر کی ا جاس کتا ہے۔ دوس ری‬
‫جانب محترمہ کے باطن (‪ )Introvert Muscles‬میں شکس ت و ریخت ک ا سلس لہ بھی ج اری رہت ا ہے۔‬
‫ایک جدلیاتی عمل اور نفسیاتی کشمکش سے وہ نبرد آزما رہتی ہیں اور اسی نفس یاتی کش اکش (‪Psycho‬‬
‫‪ )Confilict‬کے مابین کبھی کبھی وہ تص وف کی راہ بھی اختی ار ک ر لی تی ہیں جس میں ای ک ایس اجذبہ‬
‫عرفان ذات ہوتا ہے‪ ،‬تزکیۂ نفس کی بات ہ وتی ہے‬ ‫ِ‬ ‫جنم لیتا ہے جس میں تقدس ہوتا ہے‪،‬علمیت ہوتی ہے‪،‬‬
‫صراط مستقیم کی ط رف لے ج اتے ہیں۔ ’ تم کی ا‬ ‫ِ‬ ‫اور روحانیت کے وہ عناصر تحلیل ہوتے ہیں جو ہمیں‬
‫جانو‘ نظم ایسے ہی تارو پود سے بافندہ ہے۔ جس میں مراق بے کی کیفیت میں مح ترمہ خ دا س ے ہم کالم‬
‫عالم شہود کی طرف لے جار ہی‬ ‫صغری سے ِ‬ ‫ٰ‬ ‫ہے۔ وہ ایسی سحر گاہی حاصل کر رہی ہیں جو انھیں عالم‬
‫پیش خدمت ہیں ؂‬
‫ِ‬ ‫ہے۔ نظم کی چند سطریں‬
‫ےں نے اسے دیکھا ہے‪ /‬وہ مری آنکھوں میں نور‬ ‫ےں تم سے‪/‬ایک راز کی بات بتانا چاہتی ہوں‪ /‬م َ‬ ‫سنو م َ‬
‫ُ‬
‫ےں نے اس س ے‬ ‫بن کر‪ /‬چمکتا ہے ‪/‬م یرے دل کی دھ ڑکن نے‪ /‬اپ نی آواز میں ‪ /‬اس ے ش امل کی ا ہے‪/‬م َ‬
‫لگاتار‪ /‬بے انتہاباتیں کی ہیں‪/‬لیکن تم اُسے کیا پہچانو گے ‪/‬تم نے تو کبھی‪ /‬اپنے اندر جھان ک ک ر دیکھ ا‬
‫ہی نہیں‪ ‬‬
‫ترنم ریاض افسانہ نگار بھی ہیں‪ ،‬ناول نگار بھی اور شاعری بھی ک رتی ہیں۔ پابن د نظمیں بھی کہ تی ہیں‬
‫اور آزاد نظمیں بھی لکھ تی ہیں۔ اُن کی نظم وں میں کش میریت کی بھی عکاس ی ہے اور اپ نی ذات ک ا‬
‫عرفان بھی۔ ترنم ریاض اپنی نظموں میں نازکی سے کام لیتی ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ق درتی اش یا‬
‫و مناظر کی دلدادہ ہیں۔ اُن کے جذبات و احساسات میں ایک الگ قس م کی گ دازی اور ن ازک م زاجی ک ا‬
‫عنصر قاری کو سحر انگیزی میں لے جاتا ہے۔ کبھی کبھی اُن کے جذبات میں ہلکی سی اُداسی بھی پائی‬
‫جاتی ہے نیز ایک سکوتیت اور ہ و ک ا ع الم بھی اُن کی نظم وں ک ا حص ہ ہے جس میں کہیں کہیں چبھن‬
‫بھی شامل ہوتی ہے۔ ان کے یہاں انحراف و اعتراف دونوں پہلو ایک ساتھ چلتے ہیں اگر ترنم صاحبہ کو‬
‫قدرتی مناظر کی دلکشی اپنی طرف مائ ل ک رتی ہے ت و وہیں اُن کے ل یے یہ ق درتی من اظر بے مع نی و‬
‫مجہول بھی ثابت ہوتے ہیں جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کس ی زاویہ س ے زن دگی کے‬
‫معموالت سے بے زار سی ہو گئی ہیں۔ ’ نسبت ‘ نظم سے یہ اندازہ بخوبی ہوتا ہے ؂‬
‫مسکرانا‪ ،‬گھومنا‪ ،‬پھرنا‪/‬ش ہر س ے دور جان ا‪/‬چن د دن فرص ت میں پھول وں ک و نظ ر بھ ر دیکھ لین ا‪ /‬کچھ‬
‫پرندوں کی بھی سننا‪/‬آسماں کی وسعتوں کے سائے میں ہلکی چہل قدمی ‪ /‬پہاڑوں پر چمکتی چان دنی کی‬
‫مہکی خاموشی ‪ /‬درختوں میں وہ پُر اسرار جھینگر کی بولی اور‪ /‬بغیر آل ودگی ک ا آس ماں‪ /‬ت اروں بھ ری‬
‫راتیں !‪ /‬یہ سب جینے کی ہیں باتیں ‪/‬م یرے ش انوں پہ ذمہ داری وں ک ا ب وجھ ہے اتن ا‪/‬کہ م رنے کی نہیں‬
‫فرصت‪/‬مجھے پھولوں‪ ،‬پرندوں سے‪ /‬ستاروں سے کہاں نسبت!‬
‫شاہین مفتی کی نظموں میں ایک بے چینی و بیقراری پائی جاتی ہے۔ اس بے چی نی و بیق راری میں ای ک‬
‫خفی ف س ی م اورایت بھی ہے‪ ،‬اداس ی بھی اور گھٹن بھی پیوس ت ہے۔ اُن کی نظم وں ک و پ ڑھ ک ر‬
‫ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اُن کا دل ڈوبا ہوا سا رہتا ہے جیساکہ طمانیت اُن سے دور بھ اگتی ہے۔ ان درونی‬
‫ط ور پ ر وہ زن دگی س ے بے زار ہیں۔ اُن کے ب اطن (‪ )Introvert Muscles‬اور اعص ابی نظ ام (‬
‫‪ )Nervous System‬میں شکست و ریخت کا سلسلہ ج اری رہت ا ہے۔ اپ نے اط راف واکن اف میں پھیلی‬
‫ہوئی جمالیات سے بھی شاہین مفتی کی‪،‬ترنم ریاض کی طرح کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ظاہر سی ب ات ہے‬
‫کہ جب فنکار کی ایسی کیفیت ہوگی تو وہ نفس یاتی م رض میں بھی مبتال ہ و س کتا ہے۔ اس میں رج ائیت‬
‫بھی معدوم ہو جائے گی چنانچہ زندگی اس کے لیے اجیرن بن جائے گی۔ شاہین مفتی کا فنی کمال یہ ہے‬
‫کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو بڑی جامعیت کے ساتھ شعری سانچے میں ڈھال دی تی ہیں جنھیں پ ڑھ‬
‫کر قاری بھی اپنے آپ کو اسی ماحول کا حصہ سمجھنے لگتا ہے‪ ،‬جن حاالت و حادثات سے شاہین مفتی‬
‫دو چار ہوتی ہیں۔ نیز ان کی نظموں کے کینوس پر ایسا ملگجا‪ ،‬ایسافوگ چھایا رہتا ہے جس میں روشنی‬
‫چھن چھن کر بھی آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتی بلکہ اسی ملگجے اور کہرے میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔‬
‫’ ضد نہیں کیجیے ‘ نظم کا حصہ مالحظہ کیجیے ؂‬
‫زندگی کی دعائیں نہیں دیجیے‪/‬ضد نہیں کیج یے‪/‬س احلوں پ ر ک وئی بھی ہم ارا نہ ہ و‪ /‬آس مانوں پہ ک وئی‬
‫ہو‪/‬کشتی عم ر ک و بادب انوں ک ا ک وئی س ہارا نہ ہ و‪ /‬حلقۂ م وج میں ک وئی آواز ج و‪ /‬آکے پیچھ ا‬
‫ِ‬ ‫ستارہ نہ‬
‫کرے ‪ /‬مڑ کے تکنا بھی ہم کو گوارا نہ ہو‪/‬اس سمندر کا کوئی کنارا نہ ہو‪/‬اب ہمارا تعاقب نہیں کیج یے ‪/‬‬
‫ڈوبنے دیجیے ‪ /‬ضد نہیں کیجیے‬
‫ف اطمہ حس ن کے نس ائی لب ولہجہ میں ای ک خوش گواری پ ائی ج اتی ہے۔ ان کے یہ اں مس رت ہے‪،‬‬
‫سرمستی ہے‪،‬زندگی کا سلیقہ و قرینہ ہے۔ رجائیت کا پہلو ہر سو بکھ را ہ وا نظ ر آت ا ہے۔ وہ زن دگی ک و‬
‫جینا جانتی ہیں۔ شاہین مفتی کی طرح اُن کے یہاں گھٹن اور حبس نہیں اور نہ ہی بے زاری ہے۔ وہ اپنے‬
‫گرد و ن واح میں موج ود ق درت کی ص ناعی س ے لط ف ان دوز ہ وتی ہیں۔ اُن کے کالم میں زن دہ دلی ک ا‬
‫عنصر ہے۔ انھیں ہر زاویے سے زندگی گزارنااچھا لگت ا ہے۔ انہی پہل وؤں کے س اتھ موص وفہ ک و اپ نی‬
‫وراثت سے بھی بے پن اہ لگ اؤ اور ج ڑاؤ ہے۔ وہ ق دروں کی ق درداں ہیں اور انھیں ہ ر ح الت میں نبھان ا‬
‫چاہتی ہیں۔ ان کے لیے وراثت و اقدار ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ زندگی ان کے ل یے حس ین تحفہ ہے۔ تبھی‬
‫تو ان کی نظموں میں خوبصورت احساسات و ج ذبات کی عکاس ی مل تی ہے اور اس ی ل یے اُن کے یہ اں‬
‫متناسب زاویے پائے جاتے ہیں۔ جن میں منفیت نام کو بھی دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ل ٰہ ذا فن پ ارہ‬
‫ِ‬ ‫متوازی و‬
‫ابعا ِد ثالثہ کے لحاظ سے مزید معنی خیز ہوتا چال جاتا ہے۔’ ایک دوست کے گھر میں انجیر کا پیڑ دیکھ‬
‫پیش خدمت ہیں ؂‬
‫ِ‬ ‫کر‘ اور ’مصروفیت ‘ نظم کے کچھ حصے‬
‫ےں اپنے بچوں کی یادیں‪/‬رکھنا چاہتی ہوں ‪ /‬اُن ناموں سے جو پیڑوں اور رشتوں‪ /‬کے ہیں‪/‬اُن پرن دوں‬ ‫م َ‬
‫کی آواز سے جو ‪/‬موسم کے ساتھ آتے ہیں ‪ /‬تم اپنے آنگن کے پھلدار پیڑوں سے‪ /‬خ الی نہ کرن ا‪/‬پرن دے‬
‫اور بچے کہیں بھی جائیں ‪ /‬لوٹ آتے ہیں اُن کی طرف(انجیر کا پیڑ دیکھ کر)‬
‫دروازے کی چولیں ہلتی رہتی ہیں‪/‬دی واروں س ے م ٹی جھ ڑتی رہ تی ہے ‪/‬ڈرتی ہ وں‪/‬ت یز ہ وا ک ا ک وئی‬
‫جھونکا‪/‬دیواروں کو ڈھ ا دے گ ا ‪ /‬رش توں ک و بکھ را دے گ ا‪/‬ان کی حف اظت‪ /‬گھ ر کی وراثت س اتھ ملی‬
‫ےں دن بھ ر‪/‬دروازے کی چ ولیں کس تی رہ تی ہ وں‪ /‬دی واروں کے درزے بھ رتی رہ تی ہ وں‬ ‫ہے‪/‬س و م َ‬
‫( مصروفیت)‬
‫شہناز نبی کے کالم میں تجربے کی تیز دھار ہے اور جب کالم میں ایسی کیفیت ہوگی تو یقی نی ب ات ہے‬
‫کہ وہ اں تلخی بھی ہ وگی‪ ،‬ط نز بھی ہوگ ا اور ایس ی یلغ ار بھی ہ وگی ج و فرس ودہ و بے رب ط نظ ام‬
‫کو ِدگرگوں کر دینا چاہتی ہے۔ شہناز نبی ک و یہ فک ر بھی الح ق رہ تی ہے کہ کس ط رح ن و آبادی ات اور‬
‫انسان کی خود غرضی کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کا توازن و تناسب م تزلزل ہ و رہ ا ہے۔ ق درت س ے‬
‫چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے سب کچھ در ہم برہم ہوتا ج ا رہ ا ہے۔ س ائنس کے ن ئے ن ئے تجرب ات کی وجہ‬
‫سے ہر روز منفی نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں‪ ،‬نئے نئے مسائل اپ نے پ یر پس ار رہے ہیں یع نی پ ورا‬
‫ماحولیاتی نظام چر مرا گیا ہے۔ اس ضمن میں ’ دریا کے آس پاس ‘ نظم کا حصہ مالحظہ فرمائیں ؂‬
‫ترازو کے پلڑے ‪ /‬اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں ‪ /‬اس تول مول میں ‪ /‬آنکھیں کھلی قبر کا روپ اختیار ک ر‬
‫لیتی ہیں‪ /‬ان قبروں ک و بھ رنے والی م ٹی ب ک چکی ہے ‪/‬ان میں لپک نے والے س واالت ی وں ہی لپک تے‬
‫رہیں‪/‬جواب دینے کی کوئی جلدی نہیں‪ /‬اگلی نسل کے لیے ایک بہانہ محفوظ رکھ لیا گیا ہے‪ ‬‬
‫شہناز نبی کے یہاں دوسری ط رح کی وہ بھی نظمیں ہیں جن میں ان کے باغی انہ تی ور کی گ ونج س نائی‬
‫دیتی ہے۔ ’بے شرمی ‘اور ’محبت سے انح راف ‘ ایس ی ہی نظمیں ہیں جن میں ش ہناز ن بی اُن اص ول و‬
‫قوانین او ررسم و رواج سے انحراف ک رتی نظ ر آتی ہیں ج و پ دری س ماج کے تخلی ق ک ردہ ہیں۔ اُن کی‬
‫لغت میں محبت لفظ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ان کے یہاں ش کوہ بھی ہے اور یلغ ار بھی۔ ’ محبت ‘ لف ظ‬
‫کے تئیں ان کی زیریں لہروں میں ایک تصادم ہے‪ ،‬ایک ہیجان ہے۔ انہی امور کے ساتھ وہ کن ایتی ان داز‬
‫اپناتے ہوئے ایسا حربہ استعمال کرتی ہیں جس میں مردو ں کو الجواب کر دی تی ہیں۔ اگ ر موص وفہ کے‬
‫یہاں احتجاج ہے تو اس میں حقائق کے پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ ’ محبت س ے انح راف ‘ نظم ک ا کچھ حص ہ‬
‫آپ کی نذر ہے ؂‬
‫ےں بھی لے الئی‪/‬لیکن بعد میں انگنت سوالوں میں اُ لجھ گئی‪/‬زمین و آسمان کے سارے‬ ‫ایمان النے کو م َ‬
‫طبق‪/‬مجھے مصنوعی معلوم ہونے لگے‪ /‬ہوائیں جیسے زہر آل ود‪ /‬م یر ادم گھُٹ نہ ج ائے کہیں‪ /‬وہ جس‬
‫نے میری دنیا تخلیق کی تھی‪ /‬وہ کہاں ہے ‪/‬کوئی ہے ‪ /‬جس نے نا محرم کی طرف نہ دیکھا ہو‪ /‬بس وہی‬
‫مجھے سنگسار کر نے کا حق رکھتا ہے‪ ‬‬
‫حمیراراحت کا نسوانی لب و لہجہ ذرا انوکھا بھی ہے اور دلکش بھی۔ وہ اپنے آپ سے خود کالمی کرتی‬
‫ہیں‪ ،‬سوال اُٹھاتی ہیں اور پھر جواب بھی تالش کرتی ہیں او ر’ کاش‘ لفظ کے ساتھ ایک لمبی آہ بھر ک ر‬
‫بھی رہ جاتی ہیں۔ ان کے یہاں محبت کا فلسفہ بھی ہے اور عص ریت کی غم ازی بھی۔ خ د اس ے خط اب‬
‫بھی ہے اور اس خطاب میں حمیرا راحت ہلکا ساشکوہ تو کرتی ہیں جو انسان کا فطری خاصہ ہے مگ ر‬
‫دہ‬
‫وہ الدین ی ا ب اغی نظ ر نہیں آتی ہیں۔ اپ نے ش کوہ میں بھی وہ ص بر س ے ک ام لی تی ہیں اور خ دا وح ٗ‬
‫صنف نازک ک و کم زور اور ڈری ہ وئی تص ور نہیں ک رتی‬‫ِ‬ ‫الشریک سے مخاطب ہوتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ‬
‫پس پردہ وہ عناصر کارفرما ہوتے ہیں کہ بچپن س ے‬‫ہیں بلکہ نفسیاتی رو سے عورت کی کمزوری کے ِ‬
‫ہی اسے بتا یا جاتا ہے کہ وہ ایسے رہے‪ ،‬ویسے رہے اور اس کے اندر آہستہ آہستہ خوف داخل ہوتا چال‬
‫جاتا ہے۔ جس باعث عورت خود کو کمزور س مجھنے لگ تی ہے۔ ’ ڈر‘ حم یرا راحت کی ای ک ایس ی ہی‬
‫نظم ہے۔ معجزۂ عشق‪ ،‬کہا تھا ناں‪ ،‬اگر میں رات ہوتی‪ ،‬یہ موص وفہ کی ایس ی نظمیں ہیں جن میں ان کی‬
‫خود کالمی کو ایک نئے زاویے کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جا س کتا ہے۔ وہ ان نظم وں میں تخیالت کی‬
‫دنیا میں غوطہ زن ہیں ایسامحسو س ہوتا ہے کہ وہ تصوراتی کشتی پر سوار ماورائیت کا س فر طے ک ر‬
‫انداز بیان اور الفاط و استعارات کا استنباطی عمل دل کو چھو لینے واال ہے۔‪ ‬‬
‫ِ‬ ‫رہی ہیں۔ نظموں کا‬
‫کہکشاں تبسم کا تجربہ و مشاہدہ بڑ اعمیق ہے۔ وہ اپنے گرد و نواح اور اطراف و اکناف پ ر گہ ری نظ ر‬
‫ت حاضرہ کا جائزہ لیتی ہیں‪ ،‬غور و فکر ک رتی ہیں‪ ،‬نت ائج اخ ذ ک رتی ہیں اور تب کہیں‬‫رکھتی ہیں۔ حاال ِ‬
‫جاکر موضوعات کا انتخاب ک رتی ہیں۔ ان کی نظم وں میں عص ری حس یت وعص ری مس ائل ای ک ن ئے‬
‫جہ ان ک و جنم دی تے ہیں۔ وہ اپ نی نظم وں میں ایس ے پہل وؤں س ے نق اب کش ائی ک رتی ہیں کہ جن میں‬
‫تجدیدیت ہوتی ہے۔ اسی کے باعث ان کی نظموں میں کہی گئی تحدیث مرد سماج پر ضرب کاری کا ک ام‬
‫کرتی ہے۔ کہکشاں تبسم پدری سماج سے کسی طور پر مطمئن نظر نہیں آتی ہیں۔ انھیں م ؤرخ س ے بھی‬
‫شکایت ہے اور مفسر سے بھی گلہ ہے۔ کیونکہ مؤرخ بھی اپنے مطابق تاریخ رقم ک ر رہ ا ہے۔ کہکش اں‬
‫تبسم کہتی ہیں مؤرخ جو لکھ رہا ہے اس میں وہی سازشیں اور لغزشیں ش امل ہیں ج و س دا س ے ع ورت‬
‫کے تئیں ہوتی آرہی ہیں۔ ’ سودا گری ‘ نظم موصوف کے انہی خی االت و ج ذبات کی ترجم ان ہے۔ ’ فن ا‬
‫کی دستک ‘ بھی اسی قبیل کی نظم ہے جس میں وہ مفسرین پر یلغار کررہی ہیں کہ وہ اپنی اپنی مرض ی‬
‫رقص جنوں‪ ،‬مصور سوچتا ہے‪ ،‬وغیرہ نظموں میں ان کی ژرف نگاہی اور‬ ‫ِ‬ ‫سے تاویالت گھڑ رہے ہیں۔‬
‫فہم وادراک کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔‪ ‬‬
‫فاخرہ بتول کے لب ولہجہ میں نسائیت اس طور پر نمودار ہوتی ہے کہ اس میں دبی دبی نفس ی خواہش یں‬
‫اور تقاض ے موج ود رہ تے ہیں۔ اُن کی نظم وں میں مچل تے ہ وئے ج ذبات و احساس ات بھی ہیں اور‬
‫تصوراتی و خیاالتی دنیا بھی خلق ہوتی ہے اور اس تصوراتی و خیاالتی دنیا میں وہ جمالی اتی و روم انی‬
‫استعارے موجود ہوتے ہیں جن کا تعلق تصورات سے ہوتا ہوا بھی حقیقت سے بعید نہیں ہوت ا۔ اس ط رح‬
‫ہم دیکھتے ہیں کہ فاخرہ بتول کی نظمیہ شاعری حقیقت و تخی ل ک ا حس ین ام تزاج ہے اور اس ی ام تزاج‬
‫میں مقصدیت بھی پنہاں ہوتی ہے۔ ’ ہو اس ے ب ات ک رنے دو ‘ مح ترمہ کی ایس ی نظم ہے جس میں وہ ’‬
‫ہوا ‘ سے مخاطب ہیں۔ جس طرح فاخرہ بتول نے ہوا کے توسل س ے الف اظ ک ا انتخ اب کی ا ہے اس س ے‬
‫کالم میں ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس میں ایک ساتھ زندگی سے متعلق کئی پہل و ای ک مح ور پ ر آک ر‬
‫ت ت أثر بھی ہے‪ ،‬رم زیت بھی‬ ‫مجتمع ہوگئے ہیں۔ جیس ے نظم میں ش ور بھی ہے‪ ،‬سنس نی بھی ہے‪ ،‬وح د ِ‬
‫ہے اور کہیں کہیں سکوت بھی ہے۔ ہوا کے چاروں جانب بہنے سے جو سماعی پیکر ابھ ر رہے ہیں اس‬
‫سے فنکارہ کے اعصابی نظام (‪ )Nervous System‬میں مہیج (‪ )Stimulus‬کے ذریعہ تم ام جس م میں‬
‫ہلچل برپا ہے‪ ،‬چاند نے بادل اوڑھ لیا‪ ،‬گڑیا آج بھی اندھی ہے‪ ،‬کل سے کالج بن د تمہ ارا‪ ،‬کہ انی اوڑھ لی‬
‫میں نے‪ ،‬اور ’ فیصلہ ‘ اچھی نظموں میں شمار کی ج ا س کتی ہیں۔ ’ فیص لہ‘ نظم میں جہ اں ش اعرہ کی‬
‫دور اندیشی دکھائی دیتی ہے تو اُس دور اندیشی میں نفسی تقاضے بھی تحلیل ہیں۔‪ ‬‬
‫تسنیم کوثر کی نظموں کے غائر مطالعے سے یہ ا ندازہ بخوبی ہوجاتا ہے کہ وہ ماضی سے چھٹکارا تو‬
‫پانا چاہتی ہیں مگر ماضی ان کا تعاقب ہر قدم پر کرتا رہتا ہے اور اس ماضی میں محبت کی داستان بھی‬
‫ہے‪ ،‬بے وفائی بھی ہے‪ ،‬محبوب س ے ش کوہ بھی ہے اور در ِد نہ اں بھی ہے۔ ان تم ام پہل وؤں ک و تس نیم‬
‫کوثر نے شعوری سطح سے کھرچ کر برسوں پہلے الشعور ی نہاں خ انوں میں پھین ک دی ا تھ ا لیکن نہ‬
‫جانے کیوں جب مختلف اشیا وجزئیات‪ ،‬راہوں یا قدرتی مناظر سے ان ک ا واس طہ پڑت ا ہے ت و رہ رہ ک ر‬
‫گزری ہوئی وہ تمام باتیں ایک ایک کرکے قبل شعور سے ہوتی ہوئی شعوری سطح پر آنے لگتی ہیں۔ وہ‬
‫ذہن سے اُن یادوں کو جھٹکنا چاہتی ہیں مگر ایساکرنے میں وہ ناکام رہتی ہیں۔ ای ک واہمہ(‪،)Delusion‬‬
‫ایک خبط(‪ ،)Mania‬محترمہ کا تعاقب کرتا رہتا ہے اورایک جانی انجانی سی ص دا تس نیم ک وثر کے دل‬
‫پر دستک دیتی رہتی ہے۔ خوش گمانی‪ ،‬سر گوشی‪ ،‬دس تک‪ ،‬ی ادوں کے پل و‪ ،‬او ر’واہمہ ‘ اس ی قبی ل کی‬
‫نظمیں ہیں۔‪ ‬‬
‫ہاجرہ رحمن کی نظموں میں وہ درد پنہاں ہے بلکہ مکمل طور پر موجود ہے جو انھیں پدری سماج س ے‬
‫مال ہے‪ ،‬اپنے شوہرسے مال ہے۔ جسے وہ اپنا ناخدا سمجھتی ہیں‪ ،‬جسم و جان کا مالک م انتی ہیں۔ انھیں‬
‫اپنے شوہر سے حد درجہ شکایت ہے۔ اُن کی نظموں کو پڑھ ک ر ایس ا محس وس ہوت ا ہے کہ وہ ان درونی‬
‫طور پر مجروح ہیں۔ اُن کی خلیوں (‪ )Cells‬پر ایسی ضربیں پڑی ہیں کہ جن کام داوا نہیں ہے۔ وہ ظلم و‬
‫ج بر س ہتے ہ وئے ٹ وٹ چکی ہیں تبھی ت و وہ اپ نے مج ازی خ دا ک و مخ اطب ک رتے ہ وئے کہ تی ہیں‬
‫ےں اپنے بدن کے َمسام سے نک التے نک التے تھ ک چکی ہ وں ‘۔ اس ی ل یے‬ ‫’تمھارے لفظوں کے تیر‪ ،‬م َ‬
‫طح ذہن پ ر وہ نق وش ابھی بھی ق ائم ہیں ج و‬
‫انھیں کوئی منزل دکھائی نہیں دیتی ہے۔ ہ اجرہ رحمن کی س ِ‬
‫انھیں‪ ،‬مرد سماج نے دیے ہیں۔ مگر ہاجرہ رحمن یہ س ب س ہنے کے بع د اب خ اموش بیٹھ نے والی نہیں‬
‫ہیں لہٰذا اُن کا لب و لہجہ وہ نہج اختی ار ک ر لیت ا ہے جس میں اپ نے حق وق کی مان گ ہے۔ چن انچہ وہ ان‬
‫ےں ہوں‪ ،‬ماں کے عہد میں‪ ،‬اپنے عہد میں سانسیں لی تی‬ ‫لفظوں کے ساتھ گویا ہوتی ہیں ’’ مگر میں‪.....‬م َ‬
‫عورت‪ ،‬میں چھین لینا چاہتی ہوں‪ ،‬اپنا حق!!‘‘۔ اسی کے ساتھ وہ گھائل شیرنی کی طرح دہ اڑتی ہیں اور‬
‫ی وں حملہ آور ہ وتی ہیں ’’تلمالت ا ہ وا تمہ ارا وج ود‪ ،‬لہولہ ان دل ک و‪ ،‬روح ک و‪ ،‬س کون بخش تا ہے‬
‫مجھے !!۔‘‘‬
‫فرزانہ فرح کا بنیادی محور عشق و محبت ہے۔ اُن کے نزدیک عشق ایک پاک جذبہ ہے۔ انھیں م رد ذات‬
‫سے کوئی گلہ نہیں۔ نہ وہ پدری سماج کے ظلم و جبر کا ذکر ک رتی ہیں اور ن ا ہی اس کی بے وف ائی ک ا‬
‫رونا روتی ہیں۔ اُن کی نظموں کو پڑھ کر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ فرزانہ فرح کی زن دگی میں خوش یوں‬
‫کی بہار ہے۔ زندگی ان کی حسین وخوشنما ہے۔ وہ اپنے محبوب سے اس طرح مخ اطب ہیں کہ جس میں‬
‫ایک جمالیاتی جذبہ کارفرما ہے۔ انھیں ہر ایک کے چہرے میں اپنے محب وب ک ا عکس دکھ ائی دیت ا ہے۔‬
‫اب یہ محبوب ان کا حقیقی بھی ہو سکتا ہے اور مجازی بھی۔ محبوب کا نام سنتے ہی موصوفہ کے لب وں‬
‫پر مسکراہٹ کی حسین تتلی ٹھہر جاتی ہے اور بدن میں پھول کھلنے لگتے ہیں۔وہ روم انی فض امیں اس‬
‫قدر غوطہ زن ہیں کہ وہ اپنے محبوب کا نام ہواؤں پہ‪ ،‬گھٹاؤں پہ‪ ،‬زمین پہ ستاروں پہ‪ ،‬کجالئی س ی ش ام‬
‫پہ‪ ،‬لرزتی شمع کی ل و پہ‪ ،‬حس ین تتلی کے رنگ وں پہ‪ ،‬لکھن ا چ اہتی ہیں۔ اور دل پ ر اس ل یے لکھن انھیں‬
‫چاہتی ہیں کہ وہ تو شاعرہ کے دل پر پہلے ہی سے نوشتہ ہے۔ بہرکیف فرزانہ فرح کی نظموں میں کہیں‬
‫بھی مردوں کے تئیں بوکھالہٹ اور یلغار نظر نہیں آتی ہے۔‬
‫عالوہ ازیں بھی بہت سی خواتین اچھی نظمیں لکھ رہی ہیں جن میں فریدہ کول‪ ،‬رخسانہ ص دیقی‪ ،‬ث روت‬
‫زہرا‪ ،‬نگار سجاد ظہیر‪ ،‬ملکہ نسیم‪ ،‬بلقیس ظفیر الحسن‪ ،‬اندو شبنم‪ ،‬روپا صبا‪ ،‬نسرین نقاش‪ ،‬ش بنم عش ائی‬
‫قابل ذکر ہیں۔ ان سب کے یہاں مختلف نظ ر ی ات و خی االت‪ ،‬احساس ات و ج ذبات کی ک ار‬‫وغیرہ کے نام ِ‬
‫فرمائی ہے۔ مختلف سوچ ہے‪ ،‬مختلف مسائل و مراحل ہیں۔ ان تم ام ب اتوں کے ب اوجود یہ ام ر بھی مس لم‬
‫ہے کہ زیادہ تر خواتین کے یہاں وہ احساسات و جذبات ہیں جن میں پ دری س ماج کے ت ئیں باغی انہ تی ور‬
‫تحلیل ہیں۔ اپنے حقوق کی وکالت کرنا‪ ،‬اس کے لیے لڑائی لڑنا اچھی بات ہے مگر ادب میں گالی کی حد‬
‫تک جانا یہ زیبا نہیں دیتا ہے۔ اس میں شک و ش بہ نہیں کہ ص دیوں س ے ع ورت ظلم و ج بر ک ا ش کا ر‬
‫رہی‪،‬اُسے غالم بنا کر رکھا گیا۔ آج اُسے آزادی ہے مگر اس آزادی کا یہ مطلب نہیں کہ شرافت کی تم ام‬
‫حدود کو عبور کر دے۔ وہ لڑائی لڑیں اور مضبوطی کے ساتھ ل ڑیں‪ ،‬ت انیثی تحری ک ک و س رگرم ک ریں‬
‫مگر اُن الفاظ سے گریز ک ریں ج و غ یر معی اری ہیں۔ چن انچہ اس ب ات میں بھی دورائے نہیں کہ آج بھی‬
‫مرد سماج عورت کا استحصال کرنے سے چوکتا نہیں ہے۔ وہ آج بھی عورت ک و پھول وں کی س یج س ے‬
‫ہی تعبیر کرتا ہے۔یہ تو وقت کی کروٹ کا تقاضا ہے کہ وہ عورت کے حقوق کی بات کر رہا ہے۔ ایسے‬
‫بہت کم مرد ہوں گے جو واقعی ع ورت کی دل س ے ع زت ک ر تے ہیں‪ ،‬اس کے حق وق کی ب ات ک رتے‬
‫ہیں۔‪ ‬‬
‫بہرکیف نظم نگاری میں جن خواتین نے اپنے جذبات و احساسا ت کا اظہار کیا ہے اُن میں اگر چہ پ دری‬
‫سماج کے خالف احتجاج پیوست ہے مگر یہ بھی حقیقت عیاں ہے کہ ان نظموں میں شاعرات نے زندگی‬
‫سے متعلق عالمتوں‪ ،‬اس تعاروں اور دی و م االئی عناص ر کے ذریعہ ایس ی بہت س ی پ تے کی ب اتیں اور‬
‫نکات و پہلو بیان کیے ہیں کہ جن میں سماج و معاشرہ کی س چائی ای ک ط اقتور ج ذبہ کے س اتھ نم ودار‬
‫ہوتی ہے جسے پدری سماج نے صدیوں سے دبارکھا تھا۔ مجموعی طور پر یہ بات وثوق کے س اتھ کہی‬
‫جا سکتی ہے کہ اب خواتین حضرات نہ صرف غزل گوئی‪ ،‬افسانہ نویسی اور ناول نگ اری میں ہی اپ نی‬
‫خدمات انجام دے رہی ہیں بلکہ وہ نظم نگاری میں بھی اپنی صالحیتوں اور لیاقتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔‬
‫اد اجعفری‪ ،‬پروین شاکر سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ مسلسل آ گے ب ڑھ رہ ا ہے او رش ب و روز اس میں بہ تر‬
‫پیش رفت ہو رہی ہے۔ خواتین کی نظم گوئی کو دیکھتے ہوئے یہ توق ع کی جاس کتی ہے کہ مس تقبل میں‬
‫اردو دب میں خواتین نظم نگاری کے حوالے سے بیش بہا اضافے ہ وں گے‪ ،‬ن ئے نک ات و پہل و س امنے‬
‫آئیں گے اور نئے معرکے سر ہوں گے‬

You might also like