You are on page 1of 12

‫انگارے میں افسانے کے اردو تراجم کی روایت‬

1
‫ڈاکٹر شگفتہ حسین‬
Abstract:
"Creative writings are the jewels of Literary Treasure and critics like Wordsworth believed
that creative writings should not be criticized by critiques. Even West believes that creation
is superior to translation. No doubt, no one can deny the importance of translations. In fact,
translations open the doors of other languages and introduce us to new worlds of literature.
Literary Journals are the best source of publication of translations. From Twentieth Century
and on wards Urdu Literary Journals, always give prominence to every sort of translation.
“Angarey Multan” is one of them. Angarey started its publication in January 2003. In its
first issue translation of a French short story was published, and till today translations are
best part of this journal. In this article I have tried to illustrate its contribution to tradition
of Urdu Translation (short story). French, Russian, English, Irish, Norvagian, Turkish,
Persian, Bengali and Sindhi, new and old, renowned and best, short story writers have
been translated in Angarey."

‫ترجمے کے فن کی ابتدا یقیناًاسی دن ہو گئی تھی جب دو مختلف قوموں کے افراد کو باہمی‬


‫تعلقات اور تجارتی معامالت کو طے کرنے کے لئے رابطے کی ضرورت پڑی تھی اور تب ہی‬
‫ترجمان بھی ناگزیر ہو گیا تھا۔ بنیادی طور پر ترجمہ ہر اس قوم وزبان کی ضرورت ہے جس میں‬
‫علم کی طلب کا شعور بیدار ہو گیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ متمدن زندگی کے ہر دور میں طلب گار علم‬
‫دوسری قوموں کے علم وحکمت کے خزانوں سے خوشہ چینی کرنے کیلئے ترجمے کے مرحلے‬
‫سے گزرتے رہے۔‬
‫تراجم کے مراحل صرف طلب گار علم نے ہی طے نہیں کئے دوسری زبانوں کے ادب سے‬
‫دلچسپی رکھنے والوں نے بھی ترجمے کی برکات سے فیض حاصل کیا۔ درحقیقت ادبی تراجم کی‬
‫ ترجمہ نامعلوم جزیروں کا سفر اور ان کا مترجم ایک ایسا کھوجی‬،‫کہانی تو تجسس کی کہانی ہے‬
‫مسافر جس کی دریافتیں اس کی زبان کے علی وادبی خزانے میں بیش قیمت اضافے کا باعث بنتی‬
‫ہیں۔ زندہ زبانیں اس سفر سے گھبراتی نہیں ہیں اس لئے ان کا ادب ہمیشہ تراجم سے زرخیز ہوتا‬
‫رہتا ہے۔‬
‫اردو میں لفظ ترجمہ عربی زبان کی دین ہے اورانگریزی میں اس کے لئے لفظ‬
‫ بقول مظفر علی سید الطینی سے آیا ہے جس کے لغوی معنی ’’پار لے جانا‘‘ کے‬Translation
)۱(
‫ہیں قطع نظر اس کے کہ کوئی مترجم کسی کو پار اتارتا بھی ہے یا نہیں۔‬
)۲(
‫ کی تعریف یوں کی گئی ہے۔‬Translation‫( کی ڈکشنری میں‬Cuddon) ‫کڈن‬
"Despite the truth of the Italian aphorism "traduthore traditore", there
have been many praiseworthy and successful translations across a
large number of languages – not least from foreign tongues into
English. Three basic kinds of translation may be distinguished: (a) a
more or less literally exact rendering of the original meaning at the
expense of the syntax, grammar, colloquialism and idiom of the
language into which it is put (b) an attempt to convey the spirit, sense

‫ ملتان‬،‫ دی ویمن یونیورسٹی‬،‫پروفیسر ایمریٹس‬1


‫‪and style of the original by finding equivalents in syntax, grammar and‬‬
‫‪idiom, (c) a fairly free adaptation which retains the original spirit but‬‬
‫"‪may considerably alter style, structure, grammar and idiom.‬‬
‫ترجمے کے بارے میں یہ بحث بھی مغرب اور مشرق میں عام ہے کہ اسے تخلیق کا درجہ‬
‫دیا جائے یا کم تر گردانا جائے۔ اس بارے میں تو کوئی دورائے نہیں کہ تخلیق کا رجس تخلیقی کرب‬
‫سے گزرتا ہے یا کسی حقیقی واقعے کے بارے میں جس تخلیقی مبالغے سے کام لیتا ہے ترجمے‬
‫میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن تخلیق کار جتنا رتبہ نہ ہونے کے باوجود مترجم دوہرے‬
‫عذاب میں مبتال ہوتا ہے کہ اسے ‪ Target Language‬اور ‪ Source Language‬دونوں پر‬
‫مکمل عبور حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں زبانوں کی تہذیب وثقافت‪ ،‬محاورے‪ ،‬اقدار اور لب‬
‫ولہج ہ سے واقف ہونا الزم ٹھہرتا ہے اور ’’مترجم گویا دوقوموں اور دو زبانوں کے درمیان ثقافتی‬
‫اور لسانی سفیر ہوتا ہے۔‘‘(‪)۳‬جبکہ تخلیق کار ایسی ہر ذمہ داری سے مبرا ہے اس لئے کہا جاسکتا‬
‫ہے کہ مترجم ترجمہ کرتے ہوئے تخلیقی کرب سے بھی گزرتا ہے اور اس طرح دوہری ذمہ داریاں‬
‫نبھاتا ہے۔‬
‫ترجمے کی کئی ایک اقسام ہیں مثالً‪:‬‬
‫‪۱‬۔ لفظی ترجمہ ‪۲‬۔ آزاد ترجمہ ‪۳‬۔بامحاورہ ترجمہ‬
‫‪۴‬۔علمی ترجمہ ‪۵‬۔ادبی ترجمہ ‪۶‬۔منظوم ترجمہ‬
‫‪۹‬۔صحافتی ترجمہ‬ ‫‪۷‬۔ماخوذ ترجمہ ‪۸‬۔ملخص ترجمہ‬
‫لفظی ترجمہ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے اس کے لئے لغت ہی کافی ہوتی ہے ۔لیکن‬
‫ادبی یا بامحاورہ ترجمہ کرنا ہو اور وہ بھی کس فن پارے کا تو اس کے لئے ادب کے تقاضوں کو‬
‫پورا کرنا ہوتا ہے ۔ اصل فن پارے کی روح کو سمجھنا ہوتا ہےاس لئے اگر آزاد ترجمہ کیا جائے‬
‫تو بہتر رہتا ہے۔ ٹامس مور کی نظم‪ The Light of other Days‬کاترجمہ نادر کاکو روی‬
‫نے’’گزرے زمانے کی یاد‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔ یہ آزاد ترجمہ ہے۔ اس پر ڈاکٹر عنوان چشتی‬
‫کو اعتراض ہے کہ یہ ناقص ترجمہ ہے اور ایک طرف ’’اعلی شعری محاسن سے محروم ہے اور‬
‫(‪)۴‬‬
‫دوسری طرف اطناب اور اضافہ الفاظ اور خیال کا شکار ہے۔‘‘‬
‫نادر کاکوروی کا ترجمہ آزاد ترجمہ ہے اورڈاکٹر عنوان کے اعتراض کے باوجود اس کا‬
‫جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے گویا بقول پروفیسر ظہور الدین‪:‬‬
‫’’ ترجمے کا مطلب سورس لنگوئج کے متن کے الفاظ کے سامنے ٹارگٹ لنگوئج کے متبادل‬
‫الفاظ رکھنا نہیں بلکہ الفاظ کی تہہ میں موجود جو معنویاتی جہتیں ہیں انہیں ترجمے کی صورت‬
‫(‪) ۵‬‬
‫میں ٹارگٹ لینگوئج میں منتقل کرنا ہے۔‘‘‬
‫ترجمے کو مشرق میں تخلیق کا ہی درجہ دیا جاتا ہے ۔بی۔جے کمار داس کے کہنے کے‬
‫مطابق‪:‬‬
‫‪"The translation of classics into regional language, were taken a new‬‬
‫‪writing, or creative writing. Indian literary tradition takes it as an‬‬
‫)‪autonomous creation equal to the creative writing."(6‬‬
‫مغرب میں ترجمے کو تخلیق کے برابر نہیں سمجھا جاتا لیکن جریمی منڈے کا کہنا ہے کہ‬
‫(‪)۷‬‬
‫سروالٹربنجامن نے اسے تخلیق مکرر یا ‪ Re-creation‬ہی قرار دیا ہے۔‬
‫اردوزبان میں تراجم بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس زبان کے ادب نے تراجم سے بہت کسب‬
‫فیض کیا ہے۔ بلکہ یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ اس زبان کے ادب کی بنیادوں میں بیشتر خون تراجم کا‬
‫ہی ہے۔ تمام ایسی زبانیں بشمول اردو جوزندہ زبانیں ہیں دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے اندر جذب‬
‫کرتی ہیں اور پھلتی پھولتی رہتی ہیں ۔ یہی کیفیت ادب کی بھی ہوتی ہے کہ ادب کو بھی اپنے‬
‫دروازے دساور سے آنے والی کہانیوں اور رحجانات کے لئے بند نہیں کرنا ہوتے۔ اردو میں داستانیں‪،‬‬
‫افسانہ‪ ،‬ناول‪ ،‬نظم‪ ،‬ڈرامہ ایسی اصناف مختلف زبانوں سے ترجمہ ہوئیں اور اردو ادب کا حصہ بنیں‬
‫۔ مختلف علمی وتکنیکی مضامین کے بھی تراجم ہوئے۔ اس سارے عمل نے ہمارے ادیبوں کو ایک‬
‫طرز احساس بخشا‪ ،‬نئی اصناف سے روشناس کرایا اور انہیں نئے موضوعات سجھائے۔‬ ‫ِ‬ ‫نیا‬
‫کسی بھی ادبی عہد میں طبع ہونے والے ادبی رسائل و جرائد اس عہد کی تخلیقات اور‬
‫رجحانات کی دستاویز کا درجہ رکھتے ہیں۔ عام طور پر تحقیق کے طالب علم رسائل پر کام نہیں‬
‫کرنا چاہتے کہ اس کام کی وہ اہمیت نہیں جو کسی نامور ادبی شخصیت کے بارے میں تحقیق کرنے‬
‫کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی رسائل ادبی شخصیات کے لئے آکسیجن کا کام دیتے ہیں۔ اور ان‬
‫کی اولین تخلیقات کے لئے بنیاد بنتے ہیں۔ انہیں ادبی دنیا میں متعارف کراتے ہیں۔‬
‫برصغیر پاک وہند میں جریدہ نگاری کی ابتدا انگریزی رسائل سے ہوتی ہے جبکہ اردو کا‬
‫پہال ماہانہ رسالہ ’’خیرخواہ ہند ہے‘‘(‪ )۸‬پنجاب خصوصا ً الہور میں ادبی ماہناموں کا آغاز ’’ہمائے بے‬
‫بہا‘‘ (جنوری ‪ )۱۸۵۳‬سے ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ خورشید پنجاب‪ ،‬خیر خواہ پنجاب‪ ،‬رسالہ انجمن‬
‫گنجینہ طائر‪ ،‬راوی بے نظیر اور انتخاب ال جواب جیسے ادبی رسائل نے اہم‬ ‫ٔ‬ ‫پنجاب‪ ،‬آئینہ ہندی‪،‬‬
‫(‪)۹‬‬
‫کردار ادا کیا۔‬
‫بیسویں صدی میں ادبی ماہنامہ ’’مخزن‘‘ سے ادبی جریدہ نگاری کی زریں روایت کا آغاز‬
‫الراء رسائل قابل ذکر ہیں مثالً‪ ،‬کہکشاں‪،‬‬ ‫ہوتا ہے۔ اس روایت میں مخزن کے ساتھ کئی ایک معرکتہ ا ٓ‬
‫نیرنگ خیال‪ ،‬عالمگیر‪ ،‬اورینٹل کالج میگزین‪ ،‬نیا دور‪ ،‬نقاد‪ ،‬نگار‪ ،‬سویرا‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ہزار داستان‪ ،‬ہمایوں‪،‬‬
‫بہارستان‪ ،‬ساقی‪ ،‬ادبی دنیا‪ ،‬شاہکار‪ ،‬اور ادب لطیف وغیرہ ۔ ان میں اکثر ایسے رسائل ہیں جنہیں عہد‬
‫مجلے قرار دیا جا سکتا ہے جو نہ صرف تسلسل کے ساتھ چھپتے رہے بلکہ‬ ‫ساز اور تاریخی‬
‫اپنے مخصوص انداز اور مزاج کے اعتبار سے رحجان ساز رسائل کہالئے اور تحریک کی صورت‬
‫اختیار کر گئے۔‬
‫پاکستان بننے کے بعد جاری ہونے والے رسائل میں ما ِہ نو‪ ،‬نقوش‪ ،‬فنون‪ ،‬اوراق ‪ ،‬قومی‬
‫زبان‪ ،‬صحیفہ‪ ،‬سیپ‪ ،‬طلوعِ افکار وغیرہ قابل ذکر ہیں۔‬
‫پاکستان میں ادبی کتابی سلسلوں کا آغاز ‪ ۱۹۷۷‬کے سیاہ مارشل الئی دور سے ہوتا ہے۔‬
‫سینسر کی پابندیاں انتہائی سخت تھیں اور کسی بھی رسالے کا ڈیکلریشن حاصل کرنا جوئے شیر‬
‫النے کے مترادف تھا جبکہ کتابی سلسلے کےلئے کسی ڈیکلریشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔‬
‫چنانچہ ادبی کتابی سلسلے کی صورت میں نئے ادبی رسائل و جرائد کی ضرورت کو پورا کیا گیا۔‬
‫معروف ادبی کتابی سلسلوں میں آج‪ ،‬دنیازاد‪ ،‬ارتقاء‪ ،‬مکالمہ‪ ،‬پیلوں‪ ،‬محراب‪ ،‬انگارے وغیرہ شامل‬
‫ہیں۔‬
‫تراجم کو جرائد میں پیش کرنے کی روایت ابتدائی دور سے ہی ادبی جرائد و رسائل کا حصہ‬
‫رہی ہے۔ مذکورہ باال تمام جرائد غیر ملکی زبانوں کے ساتھ ساتھ عالقائی زبانوں کے ادب کو تراجم‬
‫کی صورت پیش کر رہے ہیں اور کئی ایک تو باقاعدہ تراجم کے نمبر بھی شائع کر چکے ہیں ان‬
‫تراجم میں ادب کی ہر نثری و شعری صنف شامل ہے۔‬
‫ٓ‬
‫جنوری ‪ ۲۰۰۳‬میں ملتان میں ایک نئے ماہانہ ادبی کتابی سلسلے کا اغاز ہوا۔ اس کے مرتب‪/‬‬
‫مدیر سید عامرسہیل تھے۔ سید عامرسہیل کا تعلق ملتان سے ہے لیکن آج کل سرگودھا یونیورسٹی‬
‫میں شعبہ اردو کے صدر نشین ہیں۔ عہدے کے اعتبار سے پروفیسر ہیں۔ ‪ ۵‬ادبی کتابوں کے مصنف‬
‫ہیں جبکہ ‪ ۱۱‬کتابوں کے مرتب کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ انگارے کے عالوہ ’’پیلوں‘‘ (سہ‬
‫ماہی ادبی کتابی سلسلہ) کے معاون مدیر ہیں۔ ایک اور ادبی سلسلہ ’’سطور‘‘ کے مدیر بھی ہیں۔ ملتان‬
‫کے ادبی حلقوں میں اپنی شاعری‪ ،‬تحقیق اور تنقید کے اعتبار سے انتہائی معروف ہیں اور جدید ادبی‬
‫رجحانات پر بھی ان کی رائے واضح ہے۔‬
‫ٓ‬
‫منظرعام پر ایا۔ شمارے‬
‫ِ‬ ‫جنوری ‪ ۲۰۰۳‬میں ’’انگارے‘‘ (ماہانہ ادبی کتابی سلسلہ) کا پہال پرچہ‬
‫کے سرورق پر درج تھا‪:‬‬
‫(‪)۱۰‬‬
‫’’ترقی پسند ادب کا ترجمان‘‘‬
‫اسے مطبع حافظ پرنٹنگ پریس ملتان سے شائع کرایا گیا اور قیمت مبلغ ‪ ۲۰/-‬روپے مقرر‬
‫ہوئی۔ پہلے شمارے میں فیض احمد فیض کے نام سے گوشہ شامل کیا گیا ‪ ،‬عنوان تھا‪:‬‬
‫’’گوشہ فیض‘‘ (چاند کو ُگل کریں تو ہم جانیں)‬
‫ٔ‬
‫اس شمارے میں اردو ادب کے معروف نام شامل تھے۔ مثالً پروفیسر خالد سعید‪ ،‬ڈاکٹر انوار‬
‫احمد‪ ،‬ڈاکٹر محمد امین‪ ،‬ڈاکٹر صالح الدین حیدر‪ ،‬لطیف الزماں خان اور جاوید اختر بھٹی وغیرہ‬
‫گوشہ فیض‪ ،‬خاکہ‪،‬‬
‫ٔ‬ ‫اداریہ کا عنوان ’’چند باتیں‘‘ تھا۔ تخلیقات کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا تھاــ‬
‫کہانیاں‪ ،‬مضامین‪ ،‬شاعری۔ پہلی کتاب میں لیاقت رضا جعفری کا ترجمہ کردہ موپساں کا خوبصورت‬
‫حسن کرشمہ ساز کرے۔‘‘‬ ‫ِ‬ ‫افسانہ بھی تھا۔ افسانے کا عنوان تھا‪’’ :‬جو چاہے آپ کا‬
‫لفظ ’’انگارے‘‘سے ادبی حلقے شناسا ہیں۔ ’’انگارے‘‘(افسانوی مجموعہ) رجحان ساز مجموعہ‬
‫تو ثابت نہ ہو سکا البتہ چونکانے میں نہایت کامیاب رہا۔ انگارے کے افسانوں نے ہندوستان کی ادبی‬
‫تخلیقی فضاء میں خاصی گرمی پیدا کی۔ اور اس مجموعے کے افسانہ نگار ترقی پسند تحریک کے‬
‫پس پردہ بھی شاید‬‫رہنماوں میں شامل رہے۔ اس کتابی سلسلے کا نام ’’انگارے‘‘ رکھنے کے ِ‬ ‫ٔ‬ ‫سرکردہ‬
‫چونکانے کی شدید خواہش رہی ہو گی۔ لیکن جنوری ‪ ۲۰۰۳‬سے اکتوبر ‪ ۲۰۱۵‬تک اس کا ایسا کوئی‬
‫ادبی رویہ سامنے نہیں آیا جو قارئین کو چونکانے کا سبب بنتا یا ادبی دنیا میں انگارے (افسانوی‬
‫مجموعے) کی طرح تہلکہ مچا دیتا۔ ترقی پسند ادب کی ترجمانی کا دعویدار یہ کتابی سلسلہ اپنے‬
‫دعوے کے برعکس بہت معتدل ادبی رویوں کا حامل ہے۔ اس کے تمام پرچوں میں ہر مکتبہ فکر‬
‫کے ادیبوں کو پذیرائی ملی۔ اس کے قارئین میں بھی ہر سوچ کے حامل شامل رہے۔ وہ بھی کبھی‬
‫کسی کی شمولیت پر نظریاتی اختالف کی بنیاد پر معترض نہ ہوئے۔ شاید اسی کو ترقی پسندی کہا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫سید عامر سہیل نے اپنے پہلے اداریے میں اپنے کتابی سلسلے کے نام کی معنویت کے بارے‬
‫میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا‪:‬‬
‫’’ یہ کتابی سلسلہ ادب اور معاشرے میں پائی جانے والی توہم پرستی‪ ،‬رجعت پسندی‪ ،‬مذہبی‬
‫منافرت‪ ،‬سامراجیت‪ ،‬برداشت سے عاری جذباتیت‪ ،‬غیرمنطقیت‪ ،‬فکری انتشار‪ ،‬فراریت‪،‬‬
‫الیعنیت اور جدیدیت کے نام پر قدامت پرستی کے خالف ایک ایسا ادب تخلیق کرنے کا جتن‬
‫ہے جو صلح کل‪ ،‬حق پرستی‪ ،‬مساوات‪ ،‬حب الوطنی‪ ،‬مقصدیت‪ ،‬طبقات سے پاک معاشرے‪،‬‬
‫روشن خیالی اور خرد افروزی کا ترجمان ہو‪ ،‬تاکہ ایک مرتبہ پھر ادب کو تفکر‪ ،‬آزادی کے‬
‫جذبے‪ ،‬حسن کی تخلیق‪ ،‬زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے‪ ،‬حرکت پیدا کرنے اور سماج کا‬
‫(‪)۱۱‬‬
‫تجزیہ کرنے کا ذریعہ بنایا جا سکے۔‘‘‬
‫حروف زر (خطوط) کے عنوان‬
‫ِ‬ ‫ادبی حلقوں میں اس کی ترقی پسندانہ آمد کو سراہا گیا اور‬
‫سے مارچ ‪ ۲۰۰۳‬کے پرچے میں جو آراء شائع ہوئیں ان میں کہا گیا کہ‪:‬‬
‫’’ادب کے فروغ کی صرف یہی صورت ہے کہ ہم سب ذہنی کشادگی اور آزادی فکر کی جانب‬
‫(‪)۱۲‬‬
‫رہیں اور اس کا ساتھ دیں۔‘‘‬
‫’’ہمارے کچھ ادیب فحش تحریروں کو ترقی پسندی کا نام دے کر سستی شہرت حاصل کرنا‬
‫چاہتے ہیں۔ آپ سے گزارش ہے کہ ’’انگارے‘‘ کو اس قسم کی تحریروں سے دور رکھا‬
‫(‪)۱۳‬‬
‫جائے۔‘‘‬
‫انگارے کے کتابی سلسلہ نمبر ایک سے لے کر کتابی سلسلہ نمبر ‪( ۶۱‬چھٹا سال پہلی سہ‬
‫ماہی جنوری تا مارچ ‪ )۲۰۰۸‬تک کا جائزہ لیا جائے تو پرچے کی اشاعت کی پالیسی میں کسی قسم‬
‫کی کوئی تبدیلی نہیں آئی کیونکہ مرتب سید عامر سہیل ہی رہے لیکن کتابی سلسلہ نمبر ‪ ۶۲‬میں‬
‫داود راحت بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ اس‬‫مرتبین میں عامر سہیل کے ساتھ عبدالعزیز ملک اور محمد ٔ‬
‫تبدیلی کی بنیادی وجہ بانی ’’انگارے‘‘ کی مصروفیت کے عالوہ کچھ اور نہ تھی لہذا کتابی سلسلے‬
‫کی اداراتی پالیسی میں بھی کوئی تبدیلی رونما نہ ہوئی۔‬
‫انگارے ملتان کی پہلی ادبی کتاب سے تراجم کو پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ‬
‫آج تک جاری ہے‪ ،‬انگارے میں بیشتر افسانے ترجمہ ہوئے لیکن اس کے عالوہ علمی و ادبی مضامین‬
‫اور نوبل لیکچر بھی ترجمہ کئے گئے۔ انگارے میں تقریبا ً ‪ ۴۶‬ترجمہ شدہ افسانے طبع ہوئے۔ جن‬
‫مصنفین کے افسانے ترجمہ ہوئے ان کا تعلق بیشتر عالمی افسانے کے ّاولین اورعہد وسطی سے ہے‬
‫ان میں موپساں‪ ،‬برٹرینڈرسل‪ ،‬ڈیفینی دو مورئیر‪ ،‬جوزف کانریڈ‪ ،‬ارنسٹ ہیمنگوے‪ ،‬جیمز جوائس‪،‬‬
‫ڈاوڈے‪ ،‬گوگول‪ ،‬اناطول فرانسس‪ ،‬لڈوگ بیمل مین‪ ،‬کیتھرائن این پورٹر وغیرہ جیسے معروف‬ ‫الفانسے ٔ‬
‫یورپی مصنفین‪ ،‬ٹیگور‪ ،‬گلی ترقی‪ ،‬سیمین دانشور‪ ،‬علی یارپور مقدم‪ ،‬نورائی اوزترک شین جیسے‬
‫بنگالی‪ ،‬ترکی‪ ،‬ایرانی مصنفین اور اخالق انصاری‪ ،‬وفا صالح‪ ،‬رسول بخش درس‪ ،‬امر جلیل‪ ،‬عبید‬
‫راشدی جیسے عالقائی زبانوں کے افسانہ نگار شامل ہیں۔‬
‫انگارے میں ترجمہ ہو کر طبع ہونے والے معروف چیدہ چیدہ غیر ملکی افسانہ نگاروں کا‬
‫زمانی ترتیب سے جائزہ لیا جائے تو ان میں نکوالئی گوگول (‪ ۳۱‬مارچ ‪ ۴ – ۱۸۰۹‬مارچ‬
‫‪)۱۴()۱۸۵۲‬سرفہرست ہے۔ نکوالئی کو ابتدا میں اسکے معاصرین نے روسی ادبی حقیقت نگاروں‬
‫میں شمار کیا لیکن بعد میں تنقید نگار اس بات کے قائل ہو گئے کہ اس کی تخلیقات میں سرریلزم‬
‫اور ہفت رنگی کے ساتھ ساتھ رومانوی حساسیت ملتی ہے۔ گزرتے وقت نے بعد میں اس میں طنز‬
‫کو بھی شامل کر دیا جس کا نشانہ عموما ً روسی ساستدانوں کی کرپشن کو بنایا گیا۔ اس کی تحریروں‬
‫کا بنیادی وصف اپنی ثقافت اور لوک دانش ہے۔ مارچ ‪ ۲۰۰۵‬کے شمارے میں گوگول کا افسانہ ’’ایک‬
‫پاگل کا روزنامچہ‘‘ طبع ہوا ہے جسے خالد سنجرانی نے ترجمہ کیا ہے۔ گوگول کا یہ افسانہ طنز کی‬
‫زہر ناکی میں ڈوبا شاہکار ہے جس کو کسی طور اس کے افسانے ’’اوورکوٹ‘‘ سے کم قرار نہیں‬
‫دیا جا سکتا۔‬
‫جورنسٹرن جانسن (‪ ۸‬دسمبر ‪ ۲۶ – ۱۸۳۲‬اپریل ‪ ) ۱۹۱۰‬نارویجیئن افسانہ نگار ہے۔ جانسن‬
‫کو ‪ ۱۹۰۳‬کا ادب کا نوبل انعام بھی دیا گیا۔ اس کا شمار ناروے کے چار ادبی بڑوں میں ہوتا ہے‬
‫یعنی ہیزک ابسن‪ ،‬جوناس لی‪ ،‬الیگزینڈر کیلینڈ اور جورنسٹرن۔ اس کی کہانیوں میں ناروے کے‬
‫دہقانوں کو پیش کیا گیا ہے۔ جانسن اپنی کہانیوں کے عالوہ اپنی شاعری میں روح کی گہرائیوں کو‬
‫چھو لینے والی سچائی و پاکیزگی کےلیے بھی بہت مشہور ہے۔ دسمبر ‪ ۲۰۰۴‬کے انگارے میں اس‬
‫کا افسانہ ’’بھاگوان‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ نیئر عباس زیدی نے ترجمہ کیا۔ اس افسانے کی خوبی‬
‫اس کا سادہ اسلوب ہے۔ یہ ایک سیدھے سادے دہقان کی زندگی میں آنے والی خوشیوں اور پھر‬
‫دکھوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جانے کی کہانی ہے۔ احساس کے جذبوں کی شدت ہے جو پورے‬
‫افسانے کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے۔‬
‫ڈاوڈے (‪ ۱۳‬مئی ‪ ۱۶ – ۱۸۴۰‬دسمبر ‪ ) ۱۸۹۷‬فرانسیسی ناول نگار‪ ،‬افسانہ نگار‪،‬‬ ‫الفانسے ٔ‬
‫ڈرامہ نگار اور شاعر تھا۔ وہ حقیقی کردار نگاری کےلیئے معروف ہے۔ جوالئی ‪ ۲۰۰۴‬کے شمارے‬
‫میں شوکت نعیم قادری کا ترجمہ کیا افسانہ ’’ولی عہد کی موت‘‘ شامل ہے۔ ایک ننھا شہزادہ جو قریب‬
‫المرگ ہے اور اس کے اردگرد موجود لوگوں کا رویہ اسے موت سے شدید خوف زدہ کر رہا ہے‬
‫لیکن ننھے سے وجود میں شاہی وقار اور مرتبے کو ٹھیس نہ لگے‪ ،‬ایک احتیاط بھی موجود ہے۔‬
‫انا طول فرانسس (‪ ۱۶‬اپریل ‪ ۱۲ – ۱۸۴۴‬اکتوبر ‪ )۱۹۲۴‬فرانسیسی شاعر‪ ،‬صحافی اور ناول‬
‫نگار تھا۔ وہ اپنے عہد کا کامیاب ترین ناول نگار تھا۔اس کی تصانیف طنزیہ حقیقت نگاری اور‬
‫تشکیک پرستی کےلیے معروف ہیں۔ اسے اپنے عصر کا آئیڈیل فرانسیسی مفکر قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫‪۱۹۲۱‬ء میں اُسے اس کے شاندار ادبی کارناموں کے اعتراف کے طور پر نوبل پرائز سے نوازا‬
‫اعلی اسلوب‪ ،‬گہری انسانی ہمدردی‪ ،‬وقار اور قدیم‬ ‫ٰ‬ ‫گیا۔ اس کی تصانیف کی چیدہ چیدہ خوبیوں میں‬
‫فرانسیسی گال کے باشندوں کے مزاج کی ترجمانی شامل ہیں۔ اپریل ‪ ۲۰۰۵‬کے شمارے میں خالد‬
‫فتح محمد کی ترجمہ کہانی ’’پوتوآئس‘‘ انسانی فطرت کے اس گوشے کی عکاس ہے جو نت نئے‬
‫بھوت گھڑنے اور پھر انہیں زندگی دینے میں ماہر ہوتا ہے۔ اور یہ سلسلہ اتنا دراز ہوتا ہے کہ دنیا‬
‫انہیں حقیقت قرار دے دیتی ہے۔‬
‫انگارے کے پہلے شمارے میں ہی جو غیر ملکی افسانہ نگار ترجمہ ہوا وہ موپساں ہے۔‬
‫موپساں کے چار افسانے مختلف شماروں میں طبع ہوئے۔ موپساں اور چیخوف دوایسے نام ہیں جنہوں‬
‫نے اردو افسانے کو ابتداء سے ہی متاثر کیا۔‬
‫فرانسیسی افسانہ نگار موپساں (‪ ۵‬اگست ‪ ۶ – ۱۸۵۰‬جوالئی ‪ )۱۸۹۳‬اپنی خوبصورت کہانیوں‬
‫کےلیئے معروف ہے۔ وہ ایسا حقیقت نگار کہانی کار ہے جو انسانوں‪ ،‬ان کی خواہشوں اور معاشرتی‬
‫طاقتوں کی بے رحم عکاسی کرتے ہوئے ان پر پڑے فریب کےسارے نقاب اتار دیتا ہے اور یوں‬
‫کبھی کبھی قنوطیت پسندی کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔ موپساں کے اسلوب کی خوبی اس کا اختصار‬
‫ہے۔ وہ بڑی سہولت سے بڑی سے بڑی بات کہہ گزرتا ہے۔ اس کے اکثر کرداروں کا پس منظر‬
‫‪ ۱۸۷۰‬کی دہائی میں ہونے والی فرانکوپروبیشن جنگ ہے جس میں معصوم شہری انجانے میں ملوث‬
‫ہوئے اور جنگ کے بھیانک تجربات نے ان کی زندگیوں کو یکسر بدل ڈاال۔ موپساں کے کریڈٹ پر‬
‫‪ ۳۰۰‬افسانے‪ ،‬چھ ناول‪ ۳ ،‬سفرنامے اور ایک شعری مجموعہ ہے۔ ‪۱۸۸۰‬ء میں اس کی پہلی کہانی‬
‫’’‪ )Ball of Fat( ‘‘Boule de Suif‬شائع ہوئی جسے موپساں کی شاہ کار کہانی قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫انگارے کی پہلی کتاب جنوری ‪ ۲۰۰۳‬میں موپساں کا ترجمہ شدہ افسانہ ’’جو چاہے آپ کا‬
‫حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ مئی ‪ ۲۰۰۳‬میں ’’محبت کا ایک دور‘‘‪ ،‬جوالئی ‪ ۲۰۰۳‬میں ’’چاندنی رات‬ ‫ِ‬
‫میں‘‘ اور جوالئی ‪ ۲۰۰۴‬م یں ’’بدصورت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ یہ چاروں افسانے لیاقت رضا‬
‫جعفری نے انگریزی سے ترجمہ کئے ہیں۔ ان چاروں افسانوں میں موپساں کی بے رحم حقیقت‬
‫نگاری عروج پر ہے۔ ہر افسانے کا اختتام چونکا دینے واال ہے۔‬
‫سٹیفن کونرڈ(‪ ۳‬دسمبر ‪ ۳ - ۱۸۵۷‬اگست ‪ )۱۹۲۴‬بنیادی طور پر پولش ہے لیکن اسے برٹش‪-‬‬
‫پولش رائٹر کہا جاتا ہے اور ادبی حلقے اس کو انگریزی کا عظیم ترین ناول نگار قرار دیتے ہیں۔‬
‫بیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے وہ انگریزی روانی سے نہیں بول سکتا تھا لیکن پھر جب‬
‫ب طرز نثر نگار قرار پایا جس نے‬ ‫لکھنے کا سلسلہ چل نکال تو وہ انگریزی زبان کا ایسا صاح ِ‬
‫روایتی انگریزی حساسیت اور ذکاوت سے ہٹ کر‪ ،‬انگریزی ادب کو ایک نیا انداز‪ ،‬نئی طرز بخشی۔‬
‫اس نے بے شمار کہانیاں لکھی ہیں اور ان میں اس نے اس ماورائے ادراک‪ ،‬بے حس کائنات کے‬
‫بیچ روح انسانی کو آزمائشوں سے دوچار دکھایا ہے۔ کانرڈ کو ابتدائی دور کا جدیدی کہا جا سکتا‬
‫ہے حاالنکہ اس کی تحریروں میں انیسویں صدی کی حقیقت نگاری کے عناصر بھی موجود ہیں اس‬
‫کے بیانیہ اسلوب اور اینٹی ہیرو کرداروں نے اکثر مصنفین کو متاثر کیا جن میں فٹنر جیرالڈ‪ ،‬ولیم‬
‫فالکز‪ ،‬ارنسٹ ہمینگوے‪ ،‬آندرے میل راکس‪ ،‬جارج آرویل‪ ،‬گراہم گرین‪ ،‬گیبریل گارسیامارکیز‪ ،‬وی‬
‫ایس نائیپال‪ ،‬فلپ روتھ‪ ،‬جے ایم کوئیٹزی وغیرہ شامل ہیں۔ کانرڈ کی تحریروں پر کئی ایک فلمیں‬
‫بھی بن چکی ہیں۔ برطانوی راج کے عروج کے دور میں کانرڈ نے جہاں دوسرے واقعات کو موضوع‬
‫بنایا وہیں اس نے مقامی پولش لوگوں کے تجربات اور فرانسیسی اور برٹش مرچنٹ نیوی کے اپنے‬
‫تجربات کو بھی اپنی کہانیوں اور ناولوں میں پیش کیا ہے۔ کونرڈ دنیا پر یورپی تسلط خصوصا ً‬
‫امپیریل ازم اور کولونییل ازم کی حقیقت کو بیان کرتا ہے جبکہ اس پس منظر میں اُس نے انسانی‬
‫سائیکی کا عمق اور گیرائی سے جائزہ لیا ہے۔‬
‫فروری ‪۲۰۰۴‬ء کے انگارے میں جوزف کونرڈ کا افسانہ ’’آ ٔوٹ پوسٹ آف پراگرس‘‘ طبع‬
‫ہوا ہے جس کا ترجمہ ڈاکٹر فاروق عثمان نے کیا ہے۔ یہ کہانی ‪ ۱۸۹۶‬میں لکھی گئی جس کالوکیل‬
‫وسطی افریقہ ہے۔ اس کہانی میں کرداروں کی اندرونی کیفیات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ‬
‫ان کے رویے پر ت اسف بھی ہوتا ہے اور ہمدردی بھی۔ مصنف انسانی تہذیب اور ترقی کو طنز کا‬
‫نشانہ بناتا ہے۔‬
‫برٹرینڈرسل (‪ ۱۸‬مئی ‪ ۲ - ۱۸۷۲‬فروری ‪ )۱۹۷۰‬برطانوی فلسفی‪ ،‬منطقی‪ ،‬ریاضی دان‪،‬‬
‫مورخ ‪ ،‬سماجی نقاد‪ ،‬سیاسی اصالح کار اور نوبل انعام یافتہ ادیب تھا۔ وہ برطانیہ کے انتہائی معروف‬ ‫ٔ‬
‫مت مول خاندان میں پیدا ہوا۔ بیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں اس نے مثالیت پسندی کے خالف‬
‫احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ رسل جنگ کے شدید خالف تھا بلکہ وہ اینٹی امپریلزم کا داعی تھا۔ اس‬
‫نے ‪ ۱۹۵۴‬سے ‪ ۱۹۷۳‬تک پھیلی امریکہ ویت نام جنگ کی بھی شدید مخالفت کی۔ زاہدہ حنا اپنے‬
‫اخباری کالم میں لکھتی ہیں کہ ویت نام کی ہولناک تباہی کے خالف آواز بلند کرنے سے پہلے اس‬
‫نے کیوبن میزائل کرائسس کے موقع پر اس وقت کے امریکی صدر جون ایف کینیڈی کو ایک کھال‬
‫تار بھیجا کہ آپ کا یہ اضطراری عمل انسانی وجود کےلیئے خطرہ ہے اور اس پاگل پن کو ختم‬
‫(‪)۱۵‬‬
‫کریں۔‬
‫جنگ عظیم میں ایٹمی تباہی کے خالف‬ ‫ِ‬ ‫رسل تمام عمر جنگ کے خالف لڑتا رہا۔ دوسری‬
‫اس نے آئن سٹائن کے ساتھ مل کے ’’رسل – آئن سٹائن مینی فیسٹو‘‘ پر دستخط کیے اس مینی‬
‫(‪)۱۶‬‬
‫فیسٹو میں ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ‪ ۱۹۵۰‬میں رسل کو ادب کا نوبل انعام‬
‫زادی‬
‫ٔ‬ ‫دیا گیا جو اس کی ان ادبی تحریروں کے اعتراف میں دیا گیا تھا جن میں اس نے انسانیت اور آ‬
‫اظہار کا پرچار کیا تھا۔ دسمبر ‪۲۰۰۴‬ء کے انگارے میں رسل کا افسانہ ’’ملکہ شیبا کاکابوس‘‘ شائع‬
‫ہوا جسے راقمہ نے ترجمہ کیا تھا۔ اُسے ترجمہ کرنے کی وجہ رسل کا لطیف طنزیہ انداز اور‬
‫خواتین کی عالمی حماقت تھی کہ عورت ہر دور میں مرد کے ہاتھوں بیوقوف بنتی رہی ہے۔‬
‫جیمز جوائس (‪ ۲‬فروری ‪ ۱۳ – ۱۸۸۲‬جنوری ‪ ) ۱۹۴۱‬آئرش شاعر اور ناول نگار ہے۔‬
‫جدیدیت کی تحریک میں اس کا کردار نمایاں رہا۔ اس کا شمار بیسویں صدی کے نہایت اہم اور متاثر‬
‫کن ادیبوں میں ہوتا ہے۔ جوائس اپنی تصنیف ‪Ulysses‬کےلیئے نہایت مشہورہے یہ اس کی تصنیفی‬
‫سنگ میل اس کی پہچان ہے۔ اس میں ہومرکی اوڈیسی کو شعور کی روکی تکنیک برتتے‬ ‫ِ‬ ‫زندگی کا‬
‫ہوئے پیش کیا گیا ہے۔ اس کی دیگر مشہور تصنیفات میں افسانوی مجموعہ ’’‪ ‘‘Dubliners‬اور دو‬
‫ناول ’’‪ ‘‘A Portrait of the Artist as a Youngman‬اور ’’‪ ‘‘Finnegans Wake‬شامل‬
‫ہیں۔ انگارے اپریل ‪ ۲۰۰۵‬میں جیمز جوائس کا ترجمہ شدہ افسانہ ’’جوڑی دار‘‘ کے عنوان سے طبع‬
‫ہوا ہے۔ جسے ڈاکٹر خالد سنجرانی نے ترجمہ کیا ہے۔ اپنی ناکامیوں کا غصہ کمزور خصوصا ً ننھے‬
‫بچو ں پر اتارنے کی ایسی کہانی ہے جو مرکزی کردار کےلیئے ہمدردی نہیں اکراہ کی کیفیت پیدا‬
‫کرتی ہے۔ نہایت مختصر سی کہانی ہے جس کا مرکزی خیال ‪ displacement‬کی نفسی کیفیت‬
‫ہے۔‬
‫کیتھرین این پورٹر (‪ ۱۵‬مئی ‪۱۸۹۰‬ء – ‪ ۱۸‬ستمبر ‪۱۹۸۰‬ء ) ‪ Pulitzer‬انعام یافتہ امریکی‬
‫صحافی‪ ،‬مضمون نگار‪ ،‬افسانہ نگار‪ ،‬ناول نگار اور سرگرم سیاسی کارکن تھی۔ ‪۱۹۶۲‬ء میں شائع‬
‫ہونے واال اس کا ناول ’’‪‘‘Ship of Fools‬امریکہ میں اسی سال کا سب سے زیادہ فروخت ہونے‬
‫واال ناول تھا لیکن اس کے افسانے ناولوں کے مقابلے میں زیادہ مقبول اور معروف ہیں۔ وہ اپنی‬
‫عمیق نگاہی کےلیئے جانی جاتی ہے اور اس کی تحریریں عموما ً فطرت انسانی کے تاریک گوشوں‬
‫مثالً دغابازی‪ ،‬موت اور حضرت انسان کی بد فطرتی کے اصل منبع کی ترجمانی کرتی ہیں۔ جوالئی‬
‫‪ ۲۰۰۵‬کے انگارے میں کیتھرین کا افسانہ ’’چوری‘‘ طبع ہوا جسے خالد فتح محمد نے ترجمہ کیا۔ یہ‬
‫افسانہ کیتھرین کی مذکورہ خوبیوں کا عکاس ہے۔‬
‫لڈوگ بیمل مین (‪ ۲۷‬اپریل ‪ ۱ – ۱۸۹۸‬اکتوبر ‪ ) ۱۹۶۲‬آسٹریا میں پیدا ہونے واال امریکی‬
‫ادیب تھا جو بچوں کی کہانیوں کے مصور کی حیثیت سے بھی معروف ہوا۔ جون ‪ ۲۰۰۵‬کے انگارے‬
‫میں لڈوگ کا افسانہ ’’اندر باہر‘‘ طبع ہوا جس کا ترجمہ راقمہ نے کیا تھا۔‬
‫ارنسٹ ہیمینگوے (‪ ۲۱‬جوالئی ‪ ۲ – ۱۸۹۹‬جوالئی ‪ ) ۱۹۶۱‬امریکی ناول نگار‪ ،‬افسانہ نگار‬
‫اور صحافی تھا۔ بیسویں صدی کے ادب کو اس کے پُرکفایت‪ ،‬مختصر اسلوب نے بہت متاثر کیا۔‬
‫جبکہ اس کی مہم جویانہ فطرت اور اس کے عوامی انداز نے آنے والی نسلوں کو اس کا گرویدہ‬
‫بنایا۔ ہیمینگوے نے اپنی زیادہ تر تخلیقات ‪۱۹۲۰‬ء سے ‪۱۹۵۰‬ء کے عرصے میں تصنیف کیں اور‬
‫‪ ۱۹۵۴‬ء میں ادب کا نوبل انعام حاصل کیا۔ اس کے سات ناول‪ ،‬چھ افسانوی مجموعے اور دو غیر‬
‫ادبی تصنیفات اس کی زندگی ہی میں طبع ہوئیں جبکہ تین ناول‪ ،‬چار افسانوی مجموعے اور تین غیر‬
‫ادبی تصنیفات اس کی وفات کے بعد شائع ہوئیں۔ اس کی بیشتر تخلیقات کو امریکی کالسیک کا درجہ‬
‫حاصل ہے۔ جوالئی ‪ ۲۰۰۵‬کے انگارے میں ہیمینگوے کا افسانہ ’’ایک اور نگر‘‘ کے عنوان سے‬
‫شائع ہوا جسے خالد سنجرانی نے ترجمہ کیا۔ یہ افسانہ جنگ میں زخمی ہونے والے سپاہیوں کی‬
‫زندگی کی کہانی ہے کہ اعضاء بریدہ جسم کے ساتھ وہ کن نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوتے ہیں اور‬
‫کن محرومیوں کے ساتھ جیتے ہیں۔‬
‫ٓ‬
‫فرنیک اوکانر (‪ ۱۷‬ستمبر ‪ ۱۰ – ۱۹۰۳‬مارچ ‪ ۱۵۰ ) ۱۹۶۶‬تخلیقات کا ائرش مصنف ہے‬
‫جو اپنے مختصر افسانوں اور یادداشتوں کےلیئے معروف ہے۔ فرنیک اوکانر انٹرنیشنل شارٹ سٹوری‬
‫ایوارڈ’’ کا اجراء اس کی خدمات کا اعتراف ہے۔ جون ‪ ۲۰۱۵‬کے انگارے میں اس کا افسانہ ’’ایک‬
‫دعوت‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کا ترجمہ منور آکاش نے کیا ہے۔ یہ ایک خوبصورت‬
‫افسانہ ہے اس المیے کے بارے میں‪ ،‬جو والدین کی بڑھتی عمر اور اس کے تقاضوں اور جوان ہوتی‬
‫اوالد اور اس کی الپرواہی کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔‬
‫ایچ ای بیٹس(‪ ۱۶‬مئی ‪ ۲۹ – ۱۹۰۵‬جنوری ‪ )۱۹۷۴‬انگریزی ادیب ہے۔ اس کے ادبی‬
‫کارناموں میں ’’‪ ‘‘The Darling Buds of May’’ ،‘‘Love for Lydia‬اور ’’ ‪My Uncle‬‬
‫‪ ‘‘Silas‬قاب ِل ذکر ہیں۔ انگارے اپریل ‪ ۲۰۱۵‬میں بیٹس کا افسانہ ’’چھوٹی اداکارہ بڑی کہانی‘‘ کے‬
‫عنوان سے منور آکاش نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ افسانہ تو ایسا لگتا ہے یورپ کی نہیں پاکستان کے‬
‫کسی ذمہ دار شہری کی کہانی ہے جسے اپنی اس ذمہ داری کی کیسی کیسی سزا بُھگتنی پڑتی ہے۔‬
‫براوننگ ‪ ۱۳( DBE‬مئی ‪ ۱۹ – ۱۹۰۷‬اپریل ‪ )۱۹۸۹‬انگریزی ادیب‬ ‫ڈیفینی دُومورئیر لیڈی ٔ‬
‫اور ڈرامہ نگار تھی۔ اگرچہ اس کا شمار رومانی مصنفین میں ہوتا ہے لیکن اس کی کہانیوں کا اختتام‬
‫شاذونادر ہی خوشگوار ہوتا ہے۔ اس کی کہانیاں نسبتا ً دلگیر قرار دی جاتی ہیں جن پر مافوق الفطرت‬
‫فضا چھائی رہتی ہے۔ دو موریر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تجزیہ سوچا سمجھا ہوتا ہے۔‬
‫لگتا ہے کہ جیسے وہ نہیں چاہتی کہ اس کے پڑھنے والوں کا ذہن پُر سکون رہے اس لیئے جو گھمن‬
‫گھیریاں‪ ،‬بھول بھلیاں وہ تخلیق کرتی ہے چاہتی ہے کہ قاری انہی میں الجھا رہے یہ سلسلہ ختم نہ‬
‫ہو۔ اور اپنے ناو لوں میں تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ ختم ہونے کے بعد بھی ان کے کردار ان‬
‫کی کہانی قارئین کا آسیب کی طرح پیچھا کرتی رہے۔ اس کے ناول ’’‪Jamaica ’’ ،‘‘Rebecca‬‬
‫‪ ‘‘Inn‬اور افسانے ’’‪ ‘‘Don’t Look Now’’ ،‘‘The Birds‬فلمائے جا چکے ہیں۔‬
‫دسمبر ‪ ۲۰۰۳‬کے انگارے میں ڈیفینی کا افسانہ بہ عنوان ’’بوڑھا آدمی‘‘ طبع ہوا جسے راقمہ‬
‫نے ترجمہ کیا تھا۔ یہ افسانہ گویا ڈیفینی کی مخصوص بھید بھری تخلیق ہے۔ آپ افسانہ شروع کرتے‬
‫ہیں تو آپ کو ایک بوڑھا آدمی اس کی بیوی‪ ،‬بیٹیاں اور بیٹے مختلف سرگرمیوں میں مصروف‬
‫دکھائی دیتے ہیں۔ ایک بھرا پُرا خاندان جس کے اپنے مسائل بھی ہیں اور خوشیاں بھی اور آخر میں‬
‫بھید کھلتا ہے کہ یہ راج ہنس (‪ )Swans‬ہیں لیکن ان پرندوں کو ڈیفینی نے یوں پیش کیا ہے گویا‬
‫جیتے جاگتے انسان ہیں اور ان کے رویے بھی انسانی ہیں۔‬
‫برنارڈ ماالمنڈ (‪ ۲۶‬اپریل ‪ ۱۸ – ۱۹۱۴‬مارچ ‪ )۱۹۸۶‬امریکن ناول نگار اور افسانہ نگار‬
‫ہے۔ ‪ Saul Ballow‬اور فلپ روتھ کی طرح وہ بھی بیسویں صدی کا بہترین اور مقبول یہودی‬
‫امریکی افسانہ نگار ہے۔ اس کے ناولوں ‪ Natural‬اور ‪ The Fixer‬کو ہالی ووڈ میں فلمایا گیا اور‬
‫موخرالذکر کو نیشنل بُک ایوارڈ اور ‪ Pulitzer‬ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔‬
‫ٔ‬
‫مئی ‪ ۲۰۱۵‬کے انگارے میں برنارڈ کا افسانہ بہ عنوان ’’پہلے سات دن‘‘ طبع ہوا۔ جسے‬
‫منور آکاش نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ یورپی تمدن کا عکاس افسانہ ہے۔‬
‫ایلس منرو (‪ ۱۰‬جوالئی ‪ )۱۹۳۱‬کینیڈین نوبل انعام یافتہ افسانہ نگار ہے۔ منرو کے بارے میں‬
‫کہا جاتا ہے کہ اس کی کہانیوں نے افسانہ کی فنی تعمیر و تشکیل ہی بدل کر رکھ دی ہے۔ بالخصوص‬
‫جب وہ بڑی سہولت سے ماضی و حال میں سفر کرتی ہے۔ اس کی کہانیوں کے بارے میں کہا جاتا‬
‫ہے کہ یہ کہانیاں منادی نہیں کرتیں پالٹ ان میں جما دیا جاتا ہے اور ان میں ظاہری نمائش یا پریڈ‬
‫نہیں ہوتی بس واقع ات کو منکشف کرتی جاتی ہیں۔ منرو انسانی پیچیدگیوں کو رواں اور سادہ انداز‬
‫میں بیان کرتی ہے۔ منرو کی تخلیقات اسے رواں عصر کے عظیم فکشن رائٹرز کی صف میں ال‬
‫کھڑا کرتی ہیں۔ منرو کو کئی ایک اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جن میں ادب کا نوبل انعام ‪۲۰۱۳‬‬
‫اور ‪ ۲۰۰۹‬کا ‪Man Booker International prize‬شامل ہیں۔ اس نے کینیڈا کا ‪Governor‬‬
‫‪ General Award‬جو فکشن کے لئے ہے‪ ،‬تین مرتبہ حاصل کیا اور رائٹرز ٹرسٹ آف کینیڈا کا‬
‫‪ ۱۹۹۶‬کا ‪ Marian Engel Award‬اور ‪ ۲۰۰۴‬کا ‪ Rogers writers‬کا ‪Trust Fiction Prize‬‬
‫بھی حاصل کیا۔‬
‫ایلس منرو کا افسانہ بہ عنوان ’’چہرہ‘‘ انگارے جون ‪ ۲۰۱۵‬میں شائع ہوا جسے اظہر خان‬
‫نے ترجمہ کیا ہے۔ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے چہرے پر پیدائشی نشان تھا۔ نہایت‬
‫خوبصورت افسانہ ہے۔ جس کا تمام تر تاثر وہ مقام ہے جہاں مرکزی کردار کی بچپن کی ننھی‬
‫معصوم دوست بلیڈ سے اپنا چہرہ بھی کھرچ لیتی ہے کہ وہ اپنے دوست جیسی خوبصورت لگنا‬
‫چاہتی ہے جبکہ بچے کا احساس کمتری اس کے جذبوں کی معصومیت کو سمجھنے سے قاصر رہتا‬
‫ہے۔‬
‫یورپی مصنفین کے عالوہ چینی‪ ،‬ترکی‪ ،‬ایرانی‪ ،‬بنگالی افسانہ نگاروں کے افسانے بھی‬
‫انگریزی سے اردو میں ترجمہ ہوئے اور انگارے میں شائع ہوئے۔ ان مصنفین کو بھی اگر زمانی‬
‫ترتیب سے لیا جائے تو یہ احوال کچھ یوں ہو گا‪:‬‬
‫ستمبر ‪ ۲۰۰۳‬کے انگارے میں راقمہ کی ترجمہ شدہ چینی کہانی ’’رکشاس کے باسی اور‬
‫سمندری مارکیٹ‘‘ طبع ہوئی۔ اس کہانی کا مصنف پوسونگ لنگ ہے۔ پوسونگ لنگ (‪۱۶۴۰‬ء‬
‫۔‪۱۷۱۵‬ء ) کی کہانیاں ‪ Tales of Liaozhai‬کے نام سے ملتی ہیں۔ ان کہانیوں میں لومڑ ی پریاں‪،‬‬
‫بھوت اور دوسری عجیب و غریب روحیں موجود ہیں جو اچھوں کو نوازتی اور بُروں کو سزائیں‬
‫دیتی ہیں۔ یہ دراصل چین کی مقبول لوک کہانیاں ہیں جنہیں پوسونگ لنگ نے نئے ‪Manchu‬‬
‫حکمران کے دور میں لکھا۔ یہ دور شدید سنسرشپ کا دور ہے جس میں پوسونگ لنگ نے حکمران‬
‫کے خالف اور اس کے کرپٹ افسروں کے خالف اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ انگارے میں طبع ہونے‬
‫والی پوسونگ لنگ کی کہانی کو ترجمہ کرنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کہانی کی ابتدا میں ایسے‬
‫لوگوں کا ذکر تھا جو جتنے کریہہ المنظر ہوتے تھے انہیں اتنا زیادہ خوبصورت جانا جاتا تھا ۔اگر‬
‫آپ اس کی معنویت پر غور کریں تو یہ دراصل ان کریہہ المنظر لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو‬
‫جتنے زیادہ بُرے ہوتے ہیں‪ ،‬معاشرے میں انہیں اتنا زیادہ قاب ِل عزت گردانا جاتا ہے۔ اور یہی مماثلت‬
‫ہے ہمارے آج کے سماجی رویوں سے جن کی بنا پر اس افسانے کو ترجمہ کیا گیا۔‬
‫رابندر ناتھ ٹیگور انڈین بنگالی دانشور ہیں جنہوں نے بنگالی لٹریچر اور موسیقی کے ساتھ‬
‫ساتھ ہندوستانی آرٹ کو بھی ایک نئی صورت عطا کی۔ وہ تازگی کے احساس سے بھر پور‪،‬‬
‫خوبصورت اور احساس کی گہرائی میں ڈوبی اپنی تخلیق ’’گیتا نجلی‘‘ کے مصنف کی حیثیت سے‬
‫‪ ۲۰۱۳‬میں ادبی نوبل انعام کے حقدار قرار پائے اور یہ بھی ان کا منفرد اعزاز ہے کہ وہ پہلے غیر‬
‫یورپی ہیں جنہیں اس انعام سے نوازا گیا۔ انہیں ’’بھاٹ آف بنگال‘‘ کہا جاتا ہے اورٹیگور کی شاعری‬
‫کو روحانی لیکن زندگی کے احساس سے بھرپور قرار دیا جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ٹیگور کی‬
‫شاندار نثر اور جادوئی شاعری سے بنگال سے باہر کی بیشتر دنیا ناواقف ہے۔ ٹیگور نے سخت‬
‫کالسیکی اصولوں اور لسانی اعتراضات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بنگالی ادب کو جہت بخشی۔ ان‬
‫کے ناول‪ ،‬کہانیاں‪ ،‬گیت‪ ،‬ڈانس ڈرامے اور مضامین عام آدمی کے ساتھ سیاست کے نشیب و فراز کو‬
‫بھی پیش کرتے ہیں۔ گیتا نجلی‪ ،‬گورا‪ ،‬گھر اور باہر ان کی شاندار‪ ،‬مقبول و معروف تخلیقات ہیں۔ ان‬
‫کی شاعری‪ ،‬ان کے افسانے اور ان کے ناول اپنے ترنم‪ ،‬نغمگی‪ ،‬عام بول چال کے انداز‪ ،‬فطرت‬
‫نگاری اور خالف فطرت گیان دھیان کی خوبیوں سے متصف ہیں۔ ستمبر ‪۲۰۰۴‬ء کے انگارے میں‬
‫رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ بہ عنوان ’’نجات‘‘ شائع ہوا ہے جسے نیئر عباس زیدی نے ترجمہ کیا‬
‫ہے۔‬
‫سیمین دانشور (‪ ۲۸‬اپریل ‪ ۸ – ۱۹۲۱‬مارچ ‪ ) ۲۰۱۲‬ایرانی ماہر تعلیم‪ ،‬ناول نگار‪ ،‬کہانی‬
‫کار اور مترجم تھیں۔ انہیں پہلی ایرانی خاتون ناول نگار ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ سیمین کو‬
‫اولیت کے کئی ایک اعزاز حاصل ہیں مثالً ان کا پہال فارسی کہانیوں کا افسانوی مجموعہ ‪۱۹۴۸‬‬
‫میں طبع ہو اور وہ پہلی ایرانی خاتون افسانہ نگار تھیں جن کی کتاب شائع ہوئی۔ وہ پہلی ایرانی‬
‫خاتون ناول نگار بھی ہیں جن کا پہال ناول ‪ )Mourners of Siyavash( Sanushum‬جسے‬
‫’’فارسی مرثیہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬قبولیت عام کی سند حاصل کی۔ سیمین دانشور کا مجموعہ ‪Play‬‬
‫‪ House‬جو پانچ کہانیوں اور دو سوانحی مضامین پر مشتمل ہے‪ ،‬اسے یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ‬
‫پہال ترجمہ ہے ایسی کہانیوں کا جو ایک ایرانی خاتون مصنفہ نے تحریر کیں۔ سیمین بہت اچھی‬
‫مترجم بھی ہیں انہوں نے چیخوف کی کہانی ’’‪ ‘‘The Cherry Orchid‬اور ہاتھورن کے ناول‬
‫’’‪ ‘‘The Scarlet Letter‬کا خوبصورت ترجمہ کیا ہے۔ نومبر ‪۲۰۰۳‬ء کے انگارے میں سیمین‬
‫دانشور کا افسانہ بہ عنوان ‘‘ایکسیڈنٹ‘‘ طبع ہوا جسے رشید قیصرانی نے ترجمہ کیا ہے۔‬
‫ب زمستانی‪ ،‬مادام‬ ‫گلی ترقی (‪ )۱۹۳۹‬بھی ایرانی ناول نگار اور افسانہ نگار خاتون ہیں۔ خوا ِ‬
‫گرگہ‪ ،‬تربوس شمیران‪ ،‬جائے دیگر اور خاطرہ ہائے پراکندہ ان کی مشہور تخلیقات ہیں۔ انگارے‬
‫ستمبر ‪۲۰۰۳‬ء میں گلی ترقی کا افسانہ بہ عنوان ’’طالئی دانت‘‘ شائع ہوا۔ جس کا ترجمہ رشید‬
‫قیصرانی نے کیا ہے۔‬
‫سیلینا حسین (‪ ۱۴‬جون ‪ ) ۱۹۴۷‬بنگلہ دیشی ناول نگار‪ ،‬افسانہ نگار ہیں۔ ‪ ۲۰۱۵‬میں انہیں‬
‫جنوبی ایشیائی ادب کے فروغ میں اہم کردار انجام دینے پر سارک ادبی انعام سے نوازا گیا۔ وہ اس‬
‫شیشو اکیڈمی کی چیئرپرسن کے عہدے پر فائز ہیں۔ سیلینا حسین کا افسانہ بہ عنوان‬ ‫ٔ‬ ‫وقت بنگلہ دیش‬
‫’’بوڑھی دادی‘‘ جوالئی ‪ ۲۰۰۳‬کے انگارے میں طبع ہوا۔ جسے راقمہ نے ترجمہ کیا تھا۔ افسانے کا‬
‫موضوع وہی سیاسی وسماجی جبر و استحصال ہے جس کا نشانہ ازل سے غریب طبقے کے لوگوں‬
‫کو بنایا جا رہا ہے۔‬
‫یاسر نوارئی اوزترک (‪ ۵‬فروری ‪ ۲۲ – ۱۹۵۱‬جون ‪ ) ۲۰۱۶‬اسالمی علم االلہیات کا ترک‬
‫یونیورسٹی پروفیسر‪ ،‬قانون دان‪ ،‬کالم نگار اور ترک پارلیمنٹ کا سابق رکن تھا۔ نورائی نے رشاد‬
‫نوری کی ایک کہانی بہ عنوان ’’آلو بخارے‘‘تبصرہ کرتے ہوئے پیش کی ہے جسے احمد نواز نے‬
‫اردو میں ترجمہ کیا ہے اور یہ ترجمہ اکتوبر ‪ ۲۰۰۴‬کے انگارے میں شائع ہوا ہے۔‬
‫انگارے میں سندھی افسانے بھی ترجمہ کیئے گئے۔ مثالً امر جلیل‪ ،‬انور کاکا‪ ،‬اخالق انصاری‪،‬‬
‫عبید راشدی‪ ،‬وفا صالح‪ ،‬انور بلوچ‪ ،‬رسول بخش درس اور انور شیخ کے افسانوں کو سندھی سے‬
‫اردو کا روپ ننگر چنانے دیا اور یہ افسانے انگارے کی مختلف اشاعتوں میں اس کا حصہ بنتے‬
‫رہے۔‬
‫انگارے میں طبع ہونے والے تمام تراجم کا اگر سرسری موضوعی مطالعہ کیا جائے تو یہ‬
‫حقیقت سامنے آتی ہے کہ پرچے کے مرتب کی معتدل اداراتی پالیسی کا اثر تراجم پر بھی رہا۔ عام‬
‫طور پر رسائل و جرائد میں ان مصنفین کو ترجمہ کیا جاتا ہے جو عصری تقاضوں کے مطابق ہوں‬
‫مکتبہ فکر کے ادیب اور ناقد کی تحریر کا ترجمہ شائع ہوا۔ بیشتر افسانہ نگاروں‬ ‫ٔ‬ ‫لیکن انگارے میں ہر‬
‫کا تعلق عالمی ادب کے ّاولین اور وسطی عہد سے تھا۔ لیکن یہ وہ افسانہ نگار ہیں جنہوں نے اپنے‬
‫انداز نگارش سے نہ صرف اپنی زبان کے ادب بلکہ اردو ادب کو بھی متاثر کیا۔ ان رجحان‬ ‫ِ‬ ‫منفرد‬
‫ساز ادیبوں میں موپساں‪ ،‬چیخوف‪ ،‬گوگول‪ ،‬ٹیگور‪ ،‬جوزف کانرڈ‪ ،‬اناطول فرانسس وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫علمی ادبی اور تنقیدی مضامین میں البتہ جدید رجحانات پیش کئے گئے ہیں۔‬
‫انگارے میں طبع ہونے والے افسانوی تراجم کی مثالیں مالحظہ ہوں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ پھر ایک روز موسم کے تیور خطرناک ہو گئے۔ بادلوں کی دہال دینے والی گھن گرج اور کٹرکتی‬
‫(‪)۱۷‬‬
‫ہوئی بجلیوں نے اپنا تمام تر غیض و غضب اس قصبے پر اُتار ڈاال تھا (فرانسیسی افسانہ)‬
‫‪۲‬۔ رات گہری اور خاموش تھی جب کچھ لوگ بوڑھی دادی کے گھر داخل ہوئے۔ انہوں نے اس‬
‫کے بیٹے کو قتل کیا‪ ،‬اُس کے گھر کو آگ لگائی اور چلے گے۔ دادی کو نہیں معلوم کہ اس کے‬
‫(‪)۱۸‬‬
‫بیٹے نے ان کا کیا بگاڑا تھا؟ وہ اس سے اس قدر خفا کیوں تھے؟ (بنگلہ کہانی)‬
‫ٓ‬
‫‪۳‬۔ ’’کتنا مزہ ہوتا تھا جب گھر کے ہر کونے سے چکرا دینے والی بوئیں اٹھتیں اور سارے برامدوں‬
‫میں پھیل جاتیں۔ دادی جان کے حقے کے تمباکو کی بو‪ ،‬بی بی جان کے جوشاندوں کی خوشگوار‬
‫خوشبودارچینی اور زیرے گالب والے گرم چاولوں پر زعفران کے عطر کی خوشبو‪ ،‬بھونے‬
‫(‪)۱۹‬‬
‫ہوئے پیاز‪ ،‬سرخ انگاروں پر بھونے گئے کبابوں کی خوشبو‘‘ (ایرانی کہانی)‬
‫‪۴‬۔ ’’میں تمہیں نکال باہر کروں گا۔ میں تمہاری رپورٹ کروں گا ۔میں نہیں دیکھتا کوئی مال وال۔‬
‫میں منع کرتا ہوں ان کو ہاتھ بھی نہ لگانا ان سب کو دریا میں پھینک دو۔ کے ارٹس ایک ہی‬
‫(‪)۲۰‬‬
‫سانس میں اتنا کچھ کہہ گیا۔ وہ اب ہانپ رہا تھا‘‘۔ (انگریزی افسانہ)‬
‫‪۵‬۔ ’’وہ دونوں خاموش ہو گئے۔ تھورڈ نظریں جھکائے بیٹھا رہا۔ اور پادی کی نگاہیں تھورڈ پر جمی‬
‫رہیں۔ پادری بڑے نرم اور شگفتہ انداز میں بوال۔ ’’میں نہ کہتا تھا تمہارا بیٹا بھاگوان ہے۔ آخر وہ‬
‫تمہارے لیئے ابدی خوش قسمتی کا باعث بنا‘‘۔ ’’ہاں میرا بھی یہی خیال ہے‘‘۔ تھورڈ نے نگاہیں‬
‫(‪)۲۱‬‬
‫اوپر کرتے ہوئے کہا اور دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے‘‘۔(نارویجئن افسانہ)‬
‫‪۶‬۔ ’’آج چاندنی جوبن پر ہے۔ تیس برسوں سے میں نے ایسی رات نہیں دیکھی۔ دل افزا چاندنی نے‬
‫میرے اندر بھی شگفتگی کا ڈر کر دیا ہے مجھے احساس ہونا شروع ہوتا ہے کہ پچھلے تیس‬
‫چاو‬
‫سالوں سے میں اندھیرے میں زندہ رہا ہوں۔ اب مجھے محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ٔ‬
‫(‪)۲۲‬‬
‫کے گھر اس کا کتا مجھے دو مرتبہ کیوں دیکھتا‘‘۔(چینی کہانی)‬
‫ث تشویش ہے۔ انہیں نہ جانے کس امر نے روکا ہوا ہے۔‬ ‫‪۷‬۔ ’’خدام کی آمد میں تاخیر میرے لیئے باع ِ‬
‫اسی سلسلے میں آج مجھے ڈاک خانے جانا پڑا۔ خیال تھا کہ شاید خدام بذریعہ ڈاک وہاں آگئے‬
‫(‪)۲۳‬‬
‫ہوں۔ لیکن پوسٹ ماسٹر خاصا احمق نکال‘‘۔(روسی افسانہ)‬
‫پیلووں اور کریڑوں‬
‫ٔ‬ ‫‪۸‬۔ سورج آخری گھڑیوں کا مہمان تھا۔ ہلکا نرم اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا۔ فاختائیں‬
‫میں جا چھپی تھیں کچی قبریں جن میں برسات کا پانی دراڑیں ڈالتا ہوا اندر تک چال گیا تھا‪،‬‬
‫(‪)۲۴‬‬
‫غائب ہو گئی تھیں۔ کچھ دوسری قبریں زمین برابر ہو گئی تھیں‘‘۔(سندھی کہانی)‬
‫حوالہ جات‬
‫‪۱‬۔ مظفر علی سید‪ ،‬فن ترجمہ کے اصولی مباحث‪( ،‬مضمون)مشمولہ ’’اردو زبان میں ترجمے کے مسائل‪،‬‬
‫روداد سیمینار‘‘ اعجاز راہی(مرتب) اسالم آباد‪ :‬مقتدرہ قومی زبان ‪ ،۱۹۸۶‬ص‪۳۳‬‬
‫‪2. J.A. Cuddon, Dictionary of Literary Terms and Literary Theory, New York:‬‬
‫‪Penguin Books, 1977, P.994‬‬
‫فن ترجمہ (مضمون) مشمولہ ’’فن ترجمہ کاری‘‘‪ ،‬ڈاکٹر صوبیہ سلیم‪ ،‬محمد صفدر رشید‬ ‫‪۳‬۔ حسن الدین احمد‪ِ ،‬‬
‫(مرتبین)‪ ،‬اسالم آباد‪ :‬ادارہ فروغ قومی زبان‪۲۰۱۲ ،‬ء‪ ،‬ص‪۸۰‬‬
‫‪۴‬۔ ڈاکٹر عنوان چشتی‪ ،‬منظوم ترجمے کا عمل (مضمون) مشمولہ ’’ترجمے کا فن اور راویت‘‘ ڈاکٹر قمر‬
‫ہاوس ‪ ،۲۰۰۴‬ص‪۱۴۹‬‬ ‫رئیس (مرتب) علی گڑھ‪ :‬ایجوکیشنل بک ٔ‬
‫‪۵‬۔ پروفیسر ظہور الدین ‪ ،‬فن ترجمہ نگاری‪( ،‬مضمون) مشمولہ ’’فن ترجمہ کاری‘‘ ڈاکٹر صوبیہ سلیم‪،‬‬
‫محمد صفدر رشید (مرتبین)‪ ،‬ص‪۱۲۸‬‬
‫‪6. Das Bijay Kumar, Translation as Creative Writing, A Hand Book of‬‬
‫‪Translation Studies, New Delhi: Atlantic Publishers and Distributors, 2005,‬‬
‫‪p.59‬‬
‫‪7. Jaremy Munday, Translation Studies: Theories and Applications, UK,‬‬
‫‪Routledge, 2001, P.69‬‬
‫‪۸‬۔ انور سدید‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ‪ ،‬اسالم آباد‪ :‬اکادمی ادبیات پاکستان‪،۱۹۹۲ ،‬‬
‫ص‪۲۶‬‬
‫‪۹‬۔ محمد یونس خان اظہر‪ ،‬پنجاب کے ادبی ماہنامےــ اجمالی جائزہ‪ ،‬تحقیقی مقالہ برائے ایم۔اے ابالغیات‪،‬‬
‫غیر مطبوعہ‪ ،‬مملوکہ پنجاب یونیورسٹی الئبریری‪ ،‬الہور‪ ،‬ص‪۲۵‬‬
‫‪۱۰‬۔ ’’انگارے‘‘ کتابی سلسلہ نمبر‪ ،۱‬ملتان‪’’ ،‬سرورق‘‘ پہلی کتاب جنوری ‪۲۰۰۳‬‬
‫‪۱۱‬۔ سید عامر سہیل (مدیر) ’’چند باتیں‘‘ (اداریہ) انگارے‪ ،‬ملتان‪ :‬کتابی سلسلہ نمبر ‪ ۱‬پہلی کتاب‪ ،‬جنوری‬
‫‪ ،۲۰۰۳‬ص ‪۴‬‬
‫وف زر (خطوط) انگارے‪ ،‬ملتان‪ :‬تیسری کتاب‪ ،‬مارچ ‪ ،۲۰۰۳‬ص‪۹۴‬‬ ‫ِ‬ ‫حر‬ ‫‪،‬‬ ‫صدیقی‬ ‫‪۱۲‬۔ احمد صغیر‬
‫حروف زر (خطوط) انگارے‪ ،‬ملتان‪ :‬تیسری کتاب‪ ،‬مارچ ‪ ،۲۰۰۳‬ص‪۹۵‬‬ ‫ِ‬ ‫‪۱۳‬۔ ناصر حسین بخاری‪،‬‬
‫‪۱۴‬۔ انگارے میں ترجمہ ہونے والے تمام ادیبوں کی تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات ‪Wikipedia the‬‬
‫‪ free encyclopedia‬سے لی گئی ہے۔‬
‫‪۱۵‬۔ زاہدہ حنا ’’جنگ کے خالف جنگ‘‘ روزنامہ ایکسپریس‪ ،‬ملتان ‪ ۱۷‬جنوری ‪ ،۲۰۱۷‬ص‪۱۲‬‬
‫‪16. Wikipedia the free Encyclopedia.‬‬
‫حسن کرشمہ ساز کرے‘‘ لیاقت رضا جعفری (مترجم) انگارے جنوری‬ ‫ِ‬ ‫‪۱۷‬۔ موپساں ’’جو چاہے آپ کا‬
‫‪ ،۲۰۰۳‬ص‪۴۴‬‬
‫‪۱۸‬۔ سیلینا حسین ’’بوڑھی دادی‘‘ شگفتہ حسین (مترجم) انگارے جوالئی ‪ ،۲۰۰۳‬ص‪۵۱‬‬
‫‪۱۹‬۔ گلی ترقی ’’طالئی دانت‘‘ رشید قیصرانی (مترجم) انگارے ستمبر ‪ ،۲۰۰۳‬ص‪۳۸‬‬
‫‪۲۰‬۔ جوزف کونرڈ ’’آ ٔوٹ پوسٹ آف پروگرس‘‘ ڈاکٹر فاروق عثمان (مترجم) انگارے فروری ‪ ۲۰۰۴‬ص‪۵۵‬‬
‫‪۲۱‬۔ جورنسٹرن جورنسن ’’بھاگوان‘‘ نئیر عباس زیدی (مترجم) انگارے دسمبر ‪ ،۲۰۰۴‬ص‪۴۶‬‬
‫‪۲۲‬۔ لوشون ’’پاگل آدمی کی ڈائری‘‘ خالد فتح محمد (مترجم) انگارے فروری ‪ ،۲۰۰۵‬ص‪۵۶‬‬
‫‪۲۳‬۔ نکوالئی گوگول ’’ایک پاگل کا روزنامچہ‘‘ ڈاکٹر خالد سنجرانی (مترجم) انگارے مارچ ‪ ،۲۰۰۵‬ص‪۲۱‬‬
‫‪۲۴‬۔ اخالق انصاری ’’رتجگے میں دیکھا ہوا سپنا‘‘ ننگر چنا (مترجم) انگارے فروری ‪ ،۲۰۰۶‬ص‪۴۸‬‬

‫‪‬‬

You might also like