Professional Documents
Culture Documents
Module: 25
Paper: LANGUAGE & LINGUSTICS
Topic: Uslubiyaat
Content writer: Prof. Ali R Fatihi
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
اسلوبیات
:اغراض و مقاصد
اس سبق میں آپ کو اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ’اسلوبیات ‘کی تفصیالت دی
جائنگی تاکہ آپ کو ا سلوبیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع
حاصل ہو ۔ اس حقیقت سے تو آپ واقف ہیں کہ ادب زبان کے استعمال کے بغیر
وجود میں نہیں آسکتا لہذا ادب کا مطالعہ بھی لسانیات کے بغیر ممکن نہیں۔ اطالقی
لسانیات کی ایک اہم شاخ اسلوبیات زبان اور تخلیقی اظہار کے رشتے کو واضح
کرتی ہے ۔ اسلوبیات کی تمام تر توجہ زبان اور ادب کے تخلیقی اظہار کی صرف
ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری جانب لسانیات صرف زبان کی باریکیوں کے
موضوع گفتگو بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ا سلوبیات کو اطالقی لسانیات کا ایک
اہم شعبہ مانا جاتا ہے۔ زیر نظر سبق میں اسلوبیات کی تعریف اس کی قسمیں اور
اس کی دائرہ عمل پر سیر حاصل گفتگو کی جاۓ گی۔
تمہید
اسلوبیات کو اسلوبیاتی تنقید اور لسانیاتی اسلوبیات بھی کہاجاتاہے اور ’’یہ ادبی
اسلوبیات سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ یہ اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے
او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب کہ ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور
مزاج کے اعتبار سے یہ تشریحی ہے ‘‘۔
طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس کے
ٔ اسلوبیاتی تنقید کا
اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے چونکہ اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا
اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ
تعین قدر میں معاون ثابت
ِ سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا شاعر کی
ہوسکتاہے ۔
اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے
تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ضرور ملتے ہیں البتہ اسلوبیاتی
طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء 1960ء میں ٹامس اے سیبیوک کی تالیف Style in
ٔ
languageکی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے تخلیقی امکانات لسانیاتی
تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔
ادبی زبان کے مطالعے کی شروعات اگرچہ اس صدی کی تیسری دہائی میں آئی
طریقہ نقد کی ابتداء 1960ء کے بعد
ٔ اے رچرڈز کے ذریعہ ہوئی ۔ البتہ اسلوبیاتی
ہی ہوئی ہے ۔ موجودہ دور میں جن ناقدین نے اسلوبیاتی طریقہ نقد کو عام کرنے
میں پہل کی ان میں ٹامس اے سیبیوک ،روجرفائولر ،اسٹیفن المن ،نلز -ایرک-
انکوسٹ ،ڈیوڈ کرسٹل کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
اُردو میں ابتدائی تنقیدی نمونے اُردو شاعری کے قدیم تذکروں میں ضرورملتے
ہیں اور ان کو تاثراتی تنقید کے ابتدائی نمونے کہا جاسکتاہے البتہ ہمارے یہاں
سلسلہ نقد کا باضابطہ آغاز آزاد ،حالی اور شبلی کے ذریعے ہواہے۔
اُردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا ہے
اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ،جمالیاتی ،عمرانی تنقیدی نظریات
کے تحت لیا جانے لگا اور ان تنقیدی نظریات کے تحت سماجی حقائق ،اقدار ،
مصنف کے ذاتی کوائف ،فضاء ،ماحول کے تناظر میں ایک فن پارے کا جائزہ لیا
جاتا تھا جس سے متن کی حیثیت ثانوی بن کر رہ گئی تھی اور ایک فن پارے کے
یقہ
اسلوبیاتی خصائص پرد ٔہ خفا میں رہ گئے تھے ۔ اس کمی کو اب اسلوبیاتی طر ٔ
نقد کے ذریعے حتی االمکان پورا کیا جانے لگا ۔
اُردو میں ادبی اسلوب کے مطالعے کے ابتدائی نمونے تذکروں میں ضرور ملتے
ہیں اور بیان وبالغت پر موجود کتابوں میں اسلوب کے مطالعے کے لئے ہدایات
بھی درج ہیں البتہ یہ روایتی نوعیت کے ہیں ۔ اس مطالعے کا ترقی یافتہ روپ
پروفیسر محی الدین قادری زور کے یہاں نظر آتاہے ۔ بقول پروفسر نصیر احمد
انداز فکر اپنایا ہے ۔ جو ان کی
ِ خان ’’انہوں نے قدیم ر ِوش سے ہٹ کر ایک نیا
کتاب ’’اردو کے اسالیب بیان‘‘ میں نظر آتاہے ۔ اس کتاب کو اسلوب کے مطالعے
انداز فکر اور سائنٹفک طریقہ کار کی درمیانی کڑی کہاجاسکتاہے ۔
ِ کے روایتی
البتہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا باضابطہ آغاز 1960ء کے آس پاس ہوا اور اس
کی بنیاد پر وفیسر مسعود حسین خان کے مضامین اور مقاالت سے پڑی ہے ۔
پروفیسر مسعود حسین خان کثیر الجہات شخصیت ہیں وہ بحیثیت ماہر لسانیات
مقدمہ
ٔ ،لسانیاتی محقق ،اسلوبیاتی نقاد ،منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’
ژرف نگاہ ،
ِ تاریخ زبان اردو‘‘ تاریخی لسانیات میں کافی اہمیت کی حامل ہے جو
تحقیقی کدو کاوش اور نتیجہ خیزی کی عمدہ مثال ہے ۔
اُردومیں اسلوبیاتی تنقید کا طریقہ کار اپنا کر انہوں نے اس نئے تنقیدی دبستاں کی
بنیاد ڈالی ہے اس سلسلے میں وہ اپنے ایک مضمون’’لسانیاتی اسلوبیات
اورشعر‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں :۔
’’اردو میں شعری اسلوب کے لسانیاتی تجزیے کا سلسلہ راقم الحروف کے ان
مضامین سے شروع ہوتاہے جو اُس نے 1960ء میں امریکہ سے واپسی پر لکھنا
شروع کئے۔‘‘
وہ دراصل ادبی تنقید کے طریقہ سے صحیح طورپر مطمئن نہیں تھے ۔ اسی وجہ
سے اسلوبیاتی تجزیے اور اسلوبیاتی خصائص کی تالش کی طرف وہ متوجہ
ہوگئے ۔ انہوں نے اسلوبیات کے حوالے سے کئی اہم مضامین لکھے ہیں جن میں
مطالعہ شعر( -صوتیاتی نقطہ نظر سے) کافی وقیع اور معلومات افزاء مضمون ہے
مطالعہ ادب کا جامع اور کلی تجزیہ ہے
ٔ ۔ ان کے نزدیک اسلوبیاتی مطالعہ دراصل
۔بقول ان کے :
نقطہ نظر ہے لیکن یہ اس
ٔ ’’لسانیاتی مطالعہ شعر ،دراصل شعریات کا جدید ہیتی
سے کہیں زیادہ جامع ہے ۔ اس لئے کہ شعری حقیقت کاکلی تصور پیش کرتاہے ۔
ہیئت وموضوع کی قدیم بحث اس نقطہ نظر سے بے معنی ہوجاتی ہے ۔ یہ
کالسیکی نقد ادب کے اصولوں کی تجدید کرتاہے اور قدماء کے مشاہدات اور
اصطالحات ِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتاہے ۔لسانیاتی مطالعہ شعر صوتیات کی
سطح سے اُبھرتاہے اور ارتقائی صوتیات ،تشکیالت ،صرف ونحو اور معنیات کی
پر پیچ وادیوں سے گزرتاہوا ’’اسلوبیات‘‘ پر ختم ہوتاہے ‘‘۔
مسعود حسین خان نے اسلوبیاتی مطالعہ شعر وشاعری کے عالوہ نثر کا بھی پیش
کیا ہے۔ شعر کے اسلوبیاتی مطالعے کے حوالے سے ان کے مضمون ’’مطالعہ
کالم غالب کے قوافی وردیف کا صوتی شعر صوتیاتی نقطہ نظر سے‘‘ کے عالوہ ِ
آہنگ ،کالم غالب کی صوتی آہنگ کا ایک پہلو ،فانی کا صوتی آہنگ ،اقبال کا
صوتی آہنگ قابل ذکر مضامین اور نثری اسلوب کے تجزیے کے حوالے سے
غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت ،خواجہ حسن نظامی کی زبان او راسلوب بھی
قابل ذکر مطالعے ہیں ۔
مسعود حسین خان کی کتاب ’’اقبال کانظری وعملی شعریات‘‘ نہ صرف اُردو تنقید
میں بلکہ اقبالیاتی ادب میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب کے
آخری حصے میں خصوصیت کے ساتھ اقبال کی شاعری کے لسانیاتی تجزیے پیش
کئے گئے ہیں۔ اس حصے میں انہوں نے اقبال کی عملی شعریات کو لسانی
صالحیت او رشعور ،صوتی آہنگ ،ہئیتی تجربے کے تحت پرکھا اور دیکھاہے اور
ان کے یہاں موجود اسلوبیاتی خصائص اُجالنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ صحیح
معنوں میں اسلوبیاتی تنقید میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ اس میں انہوں نے نظری
سے عملی سفر بحسن وخوبی انجام دیاہے ۔ان کے بعد اسلوبیاتی نقادوں کی ایک
پوری کھیپ نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر مغنی تبسم ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔اردوادب میں وہ بحیثیت شاعر
،مدیر او راسلوبیاتی نقاد کے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انہوں نے فانی بدایونی
پراپنی کتاب کے آخری حصے میں فانی کی شاعری میں صوتی آہنگ ،تکر ِار
اصوات ،بحور واوزان ،ردیف وقوافی کا مطالعہ پیش کرکے اپنے لئے اسلوبیاتی
تنقید میں مستقل جگہ بنائی ہے ۔ انہوں نے فانی بدایونی کی شاعری کے لسانیاتی
تجزئے کے ذریعے ان کے شعری اسلوب اور صوتی حسن کے انفرادی
خصوصیات کو معروضیت کے ساتھ بیان کرنے کی پہلی مرتبہ کوشش کی ہے۔
پروفیسر مسعود حسین خان اس سلسلے میں رقم طراز ہیں :
’’ڈاکٹر مغنّی تبسم کی تحقیقی تصنیف اردو نقادوں کی توجہ کی اس لئے زیادہ
محتاج ہے کہ انہوں نے ایک غزل گو کی شخصیت اور اس کے کالم کے طلسم کو
کھولنے میں ان تمام حربوں کو استعمال کیاہے جس سے تاحال کوئی نقاد مسلح
ہوسکتاہے ۔یہ حربے ابھی تک یورپی نقادوں کی گرفت میں تھے۔ اردومیں پہلی
بار وسیع پیمانے پر ان کا استعمال ڈاکٹر مغنّی نے کیا ہے ۔‘‘
فانی کی شاعری کا جس شرح وبسط او رمہارت کے ساتھ انہوں نے اسلوبیاتی
تجزیہ کیا ہے ۔وہ فانی کے اسلوب کی شناخت وہ ہرلحاظ سے قابل قدر ہے ۔
’’حقیقت تو یہ ہے کہ اس شرح وبسط کے ساتھ اُردو کے کسی ادیب یا شاعر کا
اسلوبیاتی تجزیہ تاحال نہیں کیا گیا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر مغنی تبسم نے اس کے عالوہ
اپنی کتاب ’’آواز اور آدمی‘‘ میں غالب ،میر اور چند دوسرے شاعروں کے
اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں ۔ ان کا رجحان نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں کی
طرف رہاہے ۔
اسلوبیاتی تنقید کو نظری اور عملی بنیادوں پر مستحکم بنانے والوں میں پروفیسر
اعلی ادبی ذوق ،فکری بلوغ کے ساتھ
ٰ گوپی چند نارنگ کافی معتبر نام ہے ۔ وہ
ساتھ ذہن ونظر کی کشادگی بھی رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تجزیوں کے
ذریعے اسلوبیاتی تنقید میں اہم اضافہ کیا ہے ۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید کے دو خاص پہلو ہیں ایک جس میں
انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کی نظری بنیادوں پر بحث کی ہے ،دوسرا پہلو ان کے
عملی تجزیوں کا ہے ۔ وہ اپنے مضامین میں اسلوبیاتی تنقید کی باریکیوں کے
ساتھ ساتھ اس کے اصولی نکات بھی زیر بحث الئے ہیں ۔ ان کے نزدیک
طریقہ کار کے لئے کیا جاسکتاہے جس کی رو سے
ٔ اسلوبیاتی تنقید کا استعمال اُس
روایتی تنقید کے موضوعی او رتاثراتی انداز کے بجائے ادبی فن پارے کے اسلوب
کا تجزیہ معروضی لسانی اور سائنٹفک بنیادوں پر کیا جاتاہے کیونکہ ان کے
نزدیک ’’اسلوبیات یا ادبی اسلوبیات ادب یا ادبی اظہار کی ماہیت سے سروکار
رکھتی ہے ۔
پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوبیات کے حوالے سے عملی اور تجزیاتی
نمونے پیش کئے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی ان کی کتاب ’’اسلوبیات میر‘‘
ہے ۔ اس میں انہوں نے میر کے آہنگ شعر کامختلف پہلوئوں سے بھر پور جائزہ
لیاہے ۔میر کے اشعار میں موجودغنائیت اور روانی کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں
نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ میر کی زبان میں اسماء اور اسماء صفات کا
تناسب کم ہے ۔ اس کے مقابلے میں ان کے یہاں چھوٹے چھوٹے نحوی
واحدونکا بکثرت استعمال ملتاہے جو مغیاتی گرہوں کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے
نزدیک میر کے یہاں ’’طویل مصوتوں‘‘ ()Long Vowelکا استعمال دوسرے
ب اسلوب شعراء کی بہ نیست زیادہ ہوا ہے ۔ ردیف وقوافی اور بحروں کا صاح ِ
انتخاب بھی موسیقیت کا اہم جزو ہے اس ضمن میں انہوں نے صوتیاتی امتیازات
کی جانب اشارے بھی کئے ہیں ۔مثالً یہ کہ فارسی عربی کی صغیری آوازوں کے
ساتھ میر نے دیسی او رمعکوسی آوازوں کو گھالمالدیاہے ۔لسانیاتی تجزیوں میں
طریقہ کار اپنایا گیا ہے ۔ اس کی مثال ’’میرشناسی‘‘ میں اگر نایاب نہیں تو کم
ٔ جو
یاب ضرور ہے ۔پروفسر گوپی چند نارنگ نے میرکے عالوہ انیس ،اقبال ،فیض
،شہریار ،افتخار عارف بانی اور ساقی فاروقی کی شاعری کے اسلوبیاتی مطالعے
بھی پیش کئے ہیں ۔ انہوں نے میر انیس اور اقبال کی شاعری کے جس منفرد
انداز سے اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں ۔ وہ نئے انداز نقد کا ابتدائیہ کہے
جاسکتے ہیں۔ انہوں نے شعر وشاعری کے عالوہ نثری نمونوننے کے بھی
اسلوبیاتی مطالعے پیش کئے ہیں ۔
اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں پروفیسر محمد حسن کے کارناموں سے کسی طور
صرف نظر نہیں کیا جاسکتاہے وہ ادبی تنقید اور اسلوبیات کی مد د سےِ سے
اسلوب کی پہچان کراتے ہیں۔ ان کے دو مضامین غالب کا شعری آہنگ اور غالب کا
نثری آہنگ اس سلسلے کے اہم مطالعے ہیں ۔وہ اپنے تجزیوں میں غالب کے
اسلوبیاتی خصوصیات بڑی سلیقہ مندی سے ابھارتے ہیں ۔
اسلوبیاتی تنقید میں نصیر احمد خان کا نام بھی کافی اہمیت کاحامل ہے ۔ انہوں نے
اسلوبیات کے نظر ی پہلوئوں کو مور ِد بحث النے کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی
تجزیوں کے منفردعملی نمونے بھی پیش کئے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’ادبی
طریقہ کار کی بھر پور وضاحت
ٔ اسلوبیات‘‘ میں اسلوب ،اسلوبیات اور اسلوبیاتی
ملتی ہے ۔ انہوں نے اقبال کے عالوہ کئی شاعروں اور ادبیوں کے اسالیب کا
مطالعہ بھی پیش کیاہے ۔
پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ اسلوبیاتی نقادوں میں امتیازی حیثیت مقام رکھتے
ہیں ۔ وہ تاریخی لسانیات کے عالوہ اطالقی لسانیات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ
اسلوبیاتی تنقید کی نظری اور عملی باریکیوں کا صحیح ادراک رکھتے ہیں ۔
مرزا خلیل احمد بیگ کے یہاں ادبی ذوق احمد لسانیاتی محارت بقول مسعود حسین
خان’’ ہم دگر‘‘ ہیں ۔ ان کی کتاب ’’زبان ،اسلوب اور اسلوبیات ‘‘اُردو ادب میں
اسلوبیاتی تنقید میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے
طریقہ نقد کا نہ صرف بھرپور جائزہ کیاہے بلکہ اصول وضوابط او ٔ اسلوبیاتی
رعملی نمونے بھی پیش کئے ہیں۔انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کے تمام پہلوئوں پر
لکھ کر اسلوبیاتی تنقید کو فروغ دینے میں اہم رول اداکیاہے ۔ انہوں نے اپنی
عملی تجزیوں میں جو مہارت دکھائی ہے وہ ان سے قبل اسلوبیاتی تنقید میں کم
کم ہی نظر آتی ہے ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کی مبادیات پر جس طرح اور جس
نوعیت کا لکھاہے وہ ان سے پہلے اُردو میں مفقود ہے۔ انہوں نے اپنے عملی
تجزیوں میں ادب اور لسانیات کو اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ روئی مٹتی ہوئی
نظرآتی ہے۔ فیض کی شعری اسلوبیات (تسلس ِل بیان اور معنیاتی وحدت)اختر
انصاری کی طویل نظم ’’وقت کی بانہوں میں ‘‘ ایک اسلوبیاتی مطالعہ ،شعری
اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ ،ابوالکالم کی نثر ،اکبر ٰالہ آبادی اور ’’لغات مغربی‘‘
ایسے اسلوبیاتی مطالعے ہیں جو اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں اہم اضافہ کہے
جاسکتے ہیں ۔
اس طرح مرزا خلیل احمد بیگ اردو کے وہ ممتاز اسلوبیاتی نقادہیں جو اسلوبیاتی
تنقید کی تمام باریکیوں اور اس کے تمام ابعاد وجہات سے کماحقہ واقفیت رکھتے
ہیں ۔ ان کی خدمات اسلوبیاتی تنقید کے حوالے سے کافی وقیع ہیں۔
اُردو میں اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں علی رفاد فتیحی بھی کافی معتبر نام ہے ۔
انہوں نے اپنے مضامین میں نظری او رعملی پہلوئوں سے اسلوبیات پر سیر
حاصل طریقے سے گفتگو کی ہے ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کے اصول وضوابط
اور مبادیات کے عالوہ موجودہ دورمیں اس کے امکانات پر بھی اپنے مضامین
میں روشنی ڈالی ہے ۔ ’’مسجد قرطبہ کا اسلوبیاتی مطالعہ ‘‘ایک ایسا اسلوبیاتی
تجزیہ ہے جو نہ صرف اُردو تنقید میں اہم اضافہ کہاجاسکتاہے بلکہ اقبالیاتی ادب
میں نئے مطالعات کی طرف بھی متوجہ کرتاہے ۔ ان کے نزدیک :
’’تخلیقی عمل ایک نفسیاتی اور لسانی عمل ہے ۔ جس کی مدد سے تجربے اور
فکر و احساس کو خارجی اور لسانیاتی ہیئت دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہی
وجہ ہے کہ لسانیاتی ڈھانچے اور انفرادی تجربے کے درمیان ایک طرح کا تفاعل
پیدا ہوجاتاہے ۔ انفرادی تجربے اور لسانیاتی ڈھانچے کی مکمل ہم آہنگی
Assimilationسے تخلیق ابھرتی ہے ۔
طریقہ نقد ہماری موجودہ تنقید ی تاریخ میں اس طرح در آیاہے کہ اس
ٔ اسلوبیاتی
زاویہ نگاہ رکھنے
ٔ صرف نظر کرنا ناممکنات میں سے ہے چونکہ اسلوبیاتی
ِ سے
والوں نے نہ صرف اس کی مبادیات ،اصول و ضوابط ،جہات وابعاد بلکہ وقتا ً
فوقتا ً موجودہ دور میں اس کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ اس وجہ سے
طریقہ کار نہ صرف بہت حد تک
ٔ ایک فن پارے کی تعین قدر میں آگے یہ تنقیدی
ممدومعاون ثابت ہوگا بلکہ اسے صحیح طور پر اپنایا بھی جائے گا ۔
POINTS TO PONDER اہم نکات
اسلوبیات اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب
کہ ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور مزاج کے اعتبار سے یہ
تشریحی ہے ‘‘۔
طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس
ٔ اسلوبیاتی تنقید کا
کے اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے
اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی
خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا
تعین قدر میں معاون ثابت ہوتاہے ۔
ِ شاعر کی
اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے
تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ملتے ہیں۔
طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء 1960ء میں ٹامس اے سیبیوک کی ٔ اسلوبیاتی
تالیف Style in languageکی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے
تخلیقی امکانات لسانیاتی تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔
اردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا
ہے اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ،جمالیاتی ،عمرانی
تنقیدی نظریات کے تحت لیا جانے لگا ۔
اُردومیں اسلوبیاتی تنقید کا طریقہ کار اپنا کر انہوں نے اس نئے تنقیدی
دبستاں کی بنیاد ڈالی ہے
خالصہ
اسلوبیات اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب کہ
ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور مزاج کے اعتبار سے یہ تشریحی
ہے ‘‘۔
طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس کے
ٔ اسلوبیاتی تنقید کا
اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے چونکہ اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا
اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ
تعین قدر میں معاون ثابت
ِ سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا شاعر کی
ہوسکتاہے ۔
اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے
تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ضرور ملتے ہیں البتہ اسلوبیاتی
طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء 1960ء میں ٹامس اے سیبیوک کی تالیف Style in
ٔ
languageکی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے تخلیقی امکانات لسانیاتی
تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔
ادبی زبان کے مطالعے کی شروعات اگرچہ اس صدی کی تیسری دہائی میں آئی
طریقہ نقد کی ابتداء 1960ء کے بعد
ٔ اے رچرڈز کے ذریعہ ہوئی ۔ البتہ اسلوبیاتی
ہی ہوئی ہے ۔ موجودہ دور میں جن ناقدین نے اسلوبیاتی طریقہ نقد کو عام کرنے
میں پہل کی ان مینٹامس اے سیبیوک ،روجرفائولر ،اسٹیفن المن ،نلز -ایرک-
انکوسٹ ،ڈیوڈ کرسٹل کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔
اُردو میں ابتدائی تنقیدی نمونے اُردو شاعری کے قدیم تذکروں میں ضرورملتے
ہیں اور ان کو تاثراتی تنقید کے ابتدائی نمونے کہا جاسکتاہے البتہ ہمارے یہاں
سلسلہ نقد کا باضابطہ آغاز آزاد ،حالی اور شبلی کے ذریعے ہواہے۔
اُردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا ہے
اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ،جمالیاتی ،عمرانی تنقیدی نظریات
کے تحت لیا جانے لگا اور ان تنقیدی نظریات کے تحت سماجی حقائق ،اقدار ،
مصنف کے ذاتی کوائف ،فضاء ،ماحول کے تناظر میں ایک فن پارے کا جائزہ لیا
جاتا تھا جس سے متن کی حیثیت ثانوی بن کر رہ گئی تھی اور ایک فن پارے کے
طریقہ
ٔ اسلوبیاتی خصائص پرد ٔہ خفا میں رہ گئے تھے ۔ اس کمی کو اب اسلوبیاتی
نقد کے ذریعے حتی االمکان پورا کیا جانے لگا ۔
اُردو میں ادبی اسلوب کے مطالعے کے ابتدائی نمونے تذکروں میں ضرور ملتے
ہیں اور بیان وبالغت پر موجود کتابوں میں اسلوب کے مطالعے کے لئے ہدایات
بھی درج ہیں البتہ یہ روایتی نوعیت کے ہیں ۔ اس مطالعے کا ترقی یافتہ روپ
پروفیسر محی الدین قادری زور کے یہاں نظر آتاہے ۔ بقول پروفسر نصیر احمد
انداز فکر اپنایا ہے ۔ جو ان کی
ِ خان ’’انہوں نے قدیم ر ِوش سے ہٹ کر ایک نیا
کتاب ’’اردو کے اسالیب بیان‘‘ میں نظر آتاہے ۔ اس کتاب کو اسلوب کے مطالعے
انداز فکر اور سائنٹفک طریقہ کار کی درمیانی کڑی کہاجاسکتاہے ۔ ِ کے روایتی
البتہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا باضابطہ آغاز 1960ء کے آس پاس ہوا اور اس
کی بنیاد پر وفیسر مسعود حسین خان کے مضامین اور مقاالت سے پڑی ہے ۔