You are on page 1of 19

Subject: Urdu

Module: 25
Paper: LANGUAGE & LINGUSTICS
Topic: Uslubiyaat
Content writer: Prof. Ali R Fatihi
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫اسلوبیات‬
:‫اغراض و مقاصد‬
‫اس سبق میں آپ کو اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ’اسلوبیات ‘کی تفصیالت دی‬
‫جائنگی تاکہ آپ کو ا سلوبیات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع‬
‫حاصل ہو ۔ اس حقیقت سے تو آپ واقف ہیں کہ ادب زبان کے استعمال کے بغیر‬
‫وجود میں نہیں آسکتا لہذا ادب کا مطالعہ بھی لسانیات کے بغیر ممکن نہیں۔ اطالقی‬
‫لسانیات کی ایک اہم شاخ اسلوبیات زبان اور تخلیقی اظہار کے رشتے کو واضح‬
‫کرتی ہے ۔ اسلوبیات کی تمام تر توجہ زبان اور ادب کے تخلیقی اظہار کی صرف‬
‫ہوتی ہے۔ جبکہ اس کی دوسری جانب لسانیات صرف زبان کی باریکیوں کے‬
‫موضوع گفتگو بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ا سلوبیات کو اطالقی لسانیات کا ایک‬
‫اہم شعبہ مانا جاتا ہے۔ زیر نظر سبق میں اسلوبیات کی تعریف اس کی قسمیں اور‬
‫اس کی دائرہ عمل پر سیر حاصل گفتگو کی جاۓ گی۔‬
‫تمہید‬
‫اسلوبیات کو اسلوبیاتی تنقید اور لسانیاتی اسلوبیات بھی کہاجاتاہے اور ’’یہ ادبی‬
‫اسلوبیات سے ان معنوں میں مختلف ہے کہ یہ اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے‬
‫او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب کہ ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور‬
‫مزاج کے اعتبار سے یہ تشریحی ہے ‘‘۔‬
‫طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس کے‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی تنقید کا‬
‫اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے چونکہ اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا‬
‫اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ‬
‫تعین قدر میں معاون ثابت‬
‫ِ‬ ‫سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا شاعر کی‬
‫ہوسکتاہے ۔‬

‫اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے‬
‫تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ضرور ملتے ہیں البتہ اسلوبیاتی‬
‫طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء ‪1960‬ء میں ٹامس اے سیبیوک کی تالیف ‪Style in‬‬
‫ٔ‬
‫‪ language‬کی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے تخلیقی امکانات لسانیاتی‬
‫تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔‬
‫ادبی زبان کے مطالعے کی شروعات اگرچہ اس صدی کی تیسری دہائی میں آئی‬
‫طریقہ نقد کی ابتداء ‪1960‬ء کے بعد‬
‫ٔ‬ ‫اے رچرڈز کے ذریعہ ہوئی ۔ البتہ اسلوبیاتی‬
‫ہی ہوئی ہے ۔ موجودہ دور میں جن ناقدین نے اسلوبیاتی طریقہ نقد کو عام کرنے‬
‫میں پہل کی ان میں ٹامس اے سیبیوک ‪،‬روجرفائولر ‪ ،‬اسٹیفن المن‪ ،‬نلز‪ -‬ایرک‪-‬‬
‫انکوسٹ ‪ ،‬ڈیوڈ کرسٹل کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔‬
‫اُردو میں ابتدائی تنقیدی نمونے اُردو شاعری کے قدیم تذکروں میں ضرورملتے‬
‫ہیں اور ان کو تاثراتی تنقید کے ابتدائی نمونے کہا جاسکتاہے البتہ ہمارے یہاں‬
‫سلسلہ نقد کا باضابطہ آغاز آزاد ‪ ،‬حالی اور شبلی کے ذریعے ہواہے۔‬
‫اُردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا ہے‬
‫اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ‪ ،‬جمالیاتی ‪،‬عمرانی تنقیدی نظریات‬
‫کے تحت لیا جانے لگا اور ان تنقیدی نظریات کے تحت سماجی حقائق ‪ ،‬اقدار ‪،‬‬
‫مصنف کے ذاتی کوائف ‪ ،‬فضاء ‪ ،‬ماحول کے تناظر میں ایک فن پارے کا جائزہ لیا‬
‫جاتا تھا جس سے متن کی حیثیت ثانوی بن کر رہ گئی تھی اور ایک فن پارے کے‬
‫یقہ‬
‫اسلوبیاتی خصائص پرد ٔہ خفا میں رہ گئے تھے ۔ اس کمی کو اب اسلوبیاتی طر ٔ‬
‫نقد کے ذریعے حتی االمکان پورا کیا جانے لگا ۔‬
‫اُردو میں ادبی اسلوب کے مطالعے کے ابتدائی نمونے تذکروں میں ضرور ملتے‬
‫ہیں اور بیان وبالغت پر موجود کتابوں میں اسلوب کے مطالعے کے لئے ہدایات‬
‫بھی درج ہیں البتہ یہ روایتی نوعیت کے ہیں ۔ اس مطالعے کا ترقی یافتہ روپ‬
‫پروفیسر محی الدین قادری زور کے یہاں نظر آتاہے ۔ بقول پروفسر نصیر احمد‬
‫انداز فکر اپنایا ہے ۔ جو ان کی‬
‫ِ‬ ‫خان ’’انہوں نے قدیم ر ِوش سے ہٹ کر ایک نیا‬
‫کتاب ’’اردو کے اسالیب بیان‘‘ میں نظر آتاہے ۔ اس کتاب کو اسلوب کے مطالعے‬
‫انداز فکر اور سائنٹفک طریقہ کار کی درمیانی کڑی کہاجاسکتاہے ۔‬
‫ِ‬ ‫کے روایتی‬
‫البتہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا باضابطہ آغاز ‪1960‬ء کے آس پاس ہوا اور اس‬
‫کی بنیاد پر وفیسر مسعود حسین خان کے مضامین اور مقاالت سے پڑی ہے ۔‬
‫پروفیسر مسعود حسین خان کثیر الجہات شخصیت ہیں وہ بحیثیت ماہر لسانیات‬
‫مقدمہ‬
‫ٔ‬ ‫‪،‬لسانیاتی محقق ‪،‬اسلوبیاتی نقاد ‪ ،‬منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’‬
‫ژرف نگاہ ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫تاریخ زبان اردو‘‘ تاریخی لسانیات میں کافی اہمیت کی حامل ہے جو‬
‫تحقیقی کدو کاوش اور نتیجہ خیزی کی عمدہ مثال ہے ۔‬
‫اُردومیں اسلوبیاتی تنقید کا طریقہ کار اپنا کر انہوں نے اس نئے تنقیدی دبستاں کی‬
‫بنیاد ڈالی ہے اس سلسلے میں وہ اپنے ایک مضمون’’لسانیاتی اسلوبیات‬
‫اورشعر‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں ‪ :‬۔‬
‫’’اردو میں شعری اسلوب کے لسانیاتی تجزیے کا سلسلہ راقم الحروف کے ان‬
‫مضامین سے شروع ہوتاہے جو اُس نے ‪1960‬ء میں امریکہ سے واپسی پر لکھنا‬
‫شروع کئے۔‘‘‬
‫وہ دراصل ادبی تنقید کے طریقہ سے صحیح طورپر مطمئن نہیں تھے ۔ اسی وجہ‬
‫سے اسلوبیاتی تجزیے اور اسلوبیاتی خصائص کی تالش کی طرف وہ متوجہ‬
‫ہوگئے ۔ انہوں نے اسلوبیات کے حوالے سے کئی اہم مضامین لکھے ہیں جن میں‬
‫مطالعہ شعر‪( -‬صوتیاتی نقطہ نظر سے) کافی وقیع اور معلومات افزاء مضمون ہے‬
‫مطالعہ ادب کا جامع اور کلی تجزیہ ہے‬
‫ٔ‬ ‫۔ ان کے نزدیک اسلوبیاتی مطالعہ دراصل‬
‫۔بقول ان کے ‪:‬‬
‫نقطہ نظر ہے لیکن یہ اس‬
‫ٔ‬ ‫’’لسانیاتی مطالعہ شعر‪ ،‬دراصل شعریات کا جدید ہیتی‬
‫سے کہیں زیادہ جامع ہے ۔ اس لئے کہ شعری حقیقت کاکلی تصور پیش کرتاہے ۔‬
‫ہیئت وموضوع کی قدیم بحث اس نقطہ نظر سے بے معنی ہوجاتی ہے ۔ یہ‬
‫کالسیکی نقد ادب کے اصولوں کی تجدید کرتاہے اور قدماء کے مشاہدات اور‬
‫اصطالحات ِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتاہے ۔لسانیاتی مطالعہ شعر صوتیات کی‬
‫سطح سے اُبھرتاہے اور ارتقائی صوتیات ‪ ،‬تشکیالت ‪،‬صرف ونحو اور معنیات کی‬
‫پر پیچ وادیوں سے گزرتاہوا ’’اسلوبیات‘‘ پر ختم ہوتاہے ‘‘۔‬
‫مسعود حسین خان نے اسلوبیاتی مطالعہ شعر وشاعری کے عالوہ نثر کا بھی پیش‬
‫کیا ہے۔ شعر کے اسلوبیاتی مطالعے کے حوالے سے ان کے مضمون ’’مطالعہ‬
‫کالم غالب کے قوافی وردیف کا صوتی‬ ‫شعر صوتیاتی نقطہ نظر سے‘‘ کے عالوہ ِ‬
‫آہنگ ‪ ،‬کالم غالب کی صوتی آہنگ کا ایک پہلو ‪،‬فانی کا صوتی آہنگ ‪ ،‬اقبال کا‬
‫صوتی آہنگ قابل ذکر مضامین اور نثری اسلوب کے تجزیے کے حوالے سے‬
‫غالب کے خطوط کی لسانی اہمیت ‪ ،‬خواجہ حسن نظامی کی زبان او راسلوب بھی‬
‫قابل ذکر مطالعے ہیں ۔‬
‫مسعود حسین خان کی کتاب ’’اقبال کانظری وعملی شعریات‘‘ نہ صرف اُردو تنقید‬
‫میں بلکہ اقبالیاتی ادب میں ایک اہم اضافہ کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب کے‬
‫آخری حصے میں خصوصیت کے ساتھ اقبال کی شاعری کے لسانیاتی تجزیے پیش‬
‫کئے گئے ہیں۔ اس حصے میں انہوں نے اقبال کی عملی شعریات کو لسانی‬
‫صالحیت او رشعور‪ ،‬صوتی آہنگ ‪ ،‬ہئیتی تجربے کے تحت پرکھا اور دیکھاہے اور‬
‫ان کے یہاں موجود اسلوبیاتی خصائص اُجالنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ صحیح‬
‫معنوں میں اسلوبیاتی تنقید میں گراں قدر اضافہ ہے ۔ اس میں انہوں نے نظری‬
‫سے عملی سفر بحسن وخوبی انجام دیاہے ۔ان کے بعد اسلوبیاتی نقادوں کی ایک‬
‫پوری کھیپ نظر آتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر مغنی تبسم ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں ۔اردوادب میں وہ بحیثیت شاعر‬
‫‪ ،‬مدیر او راسلوبیاتی نقاد کے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ انہوں نے فانی بدایونی‬
‫پراپنی کتاب کے آخری حصے میں فانی کی شاعری میں صوتی آہنگ ‪ ،‬تکر ِار‬
‫اصوات ‪ ،‬بحور واوزان ‪ ،‬ردیف وقوافی کا مطالعہ پیش کرکے اپنے لئے اسلوبیاتی‬
‫تنقید میں مستقل جگہ بنائی ہے ۔ انہوں نے فانی بدایونی کی شاعری کے لسانیاتی‬
‫تجزئے کے ذریعے ان کے شعری اسلوب اور صوتی حسن کے انفرادی‬
‫خصوصیات کو معروضیت کے ساتھ بیان کرنے کی پہلی مرتبہ کوشش کی ہے۔‬
‫پروفیسر مسعود حسین خان اس سلسلے میں رقم طراز ہیں ‪:‬‬
‫’’ڈاکٹر مغنّی تبسم کی تحقیقی تصنیف اردو نقادوں کی توجہ کی اس لئے زیادہ‬
‫محتاج ہے کہ انہوں نے ایک غزل گو کی شخصیت اور اس کے کالم کے طلسم کو‬
‫کھولنے میں ان تمام حربوں کو استعمال کیاہے جس سے تاحال کوئی نقاد مسلح‬
‫ہوسکتاہے ۔یہ حربے ابھی تک یورپی نقادوں کی گرفت میں تھے۔ اردومیں پہلی‬
‫بار وسیع پیمانے پر ان کا استعمال ڈاکٹر مغنّی نے کیا ہے ۔‘‘‬
‫فانی کی شاعری کا جس شرح وبسط او رمہارت کے ساتھ انہوں نے اسلوبیاتی‬
‫تجزیہ کیا ہے ۔وہ فانی کے اسلوب کی شناخت وہ ہرلحاظ سے قابل قدر ہے ۔‬
‫’’حقیقت تو یہ ہے کہ اس شرح وبسط کے ساتھ اُردو کے کسی ادیب یا شاعر کا‬
‫اسلوبیاتی تجزیہ تاحال نہیں کیا گیا ہے ‘‘۔ ڈاکٹر مغنی تبسم نے اس کے عالوہ‬
‫اپنی کتاب ’’آواز اور آدمی‘‘ میں غالب ‪ ،‬میر اور چند دوسرے شاعروں کے‬
‫اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں ۔ ان کا رجحان نظری سے زیادہ عملی پہلوئوں کی‬
‫طرف رہاہے ۔‬
‫اسلوبیاتی تنقید کو نظری اور عملی بنیادوں پر مستحکم بنانے والوں میں پروفیسر‬
‫اعلی ادبی ذوق ‪،‬فکری بلوغ کے ساتھ‬
‫ٰ‬ ‫گوپی چند نارنگ کافی معتبر نام ہے ۔ وہ‬
‫ساتھ ذہن ونظر کی کشادگی بھی رکھتے ہیں ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تجزیوں کے‬
‫ذریعے اسلوبیاتی تنقید میں اہم اضافہ کیا ہے ۔‬
‫پروفیسر گوپی چند نارنگ کی اسلوبیاتی تنقید کے دو خاص پہلو ہیں ایک جس میں‬
‫انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کی نظری بنیادوں پر بحث کی ہے ‪ ،‬دوسرا پہلو ان کے‬
‫عملی تجزیوں کا ہے ۔ وہ اپنے مضامین میں اسلوبیاتی تنقید کی باریکیوں کے‬
‫ساتھ ساتھ اس کے اصولی نکات بھی زیر بحث الئے ہیں ۔ ان کے نزدیک‬
‫طریقہ کار کے لئے کیا جاسکتاہے جس کی رو سے‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی تنقید کا استعمال اُس‬
‫روایتی تنقید کے موضوعی او رتاثراتی انداز کے بجائے ادبی فن پارے کے اسلوب‬
‫کا تجزیہ معروضی لسانی اور سائنٹفک بنیادوں پر کیا جاتاہے کیونکہ ان کے‬
‫نزدیک ’’اسلوبیات یا ادبی اسلوبیات ادب یا ادبی اظہار کی ماہیت سے سروکار‬
‫رکھتی ہے ۔‬
‫پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اسلوبیات کے حوالے سے عملی اور تجزیاتی‬
‫نمونے پیش کئے ہیں۔ اس سلسلے کی پہلی کڑی ان کی کتاب ’’اسلوبیات میر‘‘‬
‫ہے ۔ اس میں انہوں نے میر کے آہنگ شعر کامختلف پہلوئوں سے بھر پور جائزہ‬
‫لیاہے ۔میر کے اشعار میں موجودغنائیت اور روانی کا تجزیہ کرتے ہوئے انہوں‬
‫نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ میر کی زبان میں اسماء اور اسماء صفات کا‬
‫تناسب کم ہے ۔ اس کے مقابلے میں ان کے یہاں چھوٹے چھوٹے نحوی‬
‫واحدونکا بکثرت استعمال ملتاہے جو مغیاتی گرہوں کا کام کرتے ہیں ۔ ان کے‬
‫نزدیک میر کے یہاں ’’طویل مصوتوں‘‘ (‪)Long Vowel‬کا استعمال دوسرے‬
‫ب اسلوب شعراء کی بہ نیست زیادہ ہوا ہے ۔ ردیف وقوافی اور بحروں کا‬ ‫صاح ِ‬
‫انتخاب بھی موسیقیت کا اہم جزو ہے اس ضمن میں انہوں نے صوتیاتی امتیازات‬
‫کی جانب اشارے بھی کئے ہیں ۔مثالً یہ کہ فارسی عربی کی صغیری آوازوں کے‬
‫ساتھ میر نے دیسی او رمعکوسی آوازوں کو گھالمالدیاہے ۔لسانیاتی تجزیوں میں‬
‫طریقہ کار اپنایا گیا ہے ۔ اس کی مثال ’’میرشناسی‘‘ میں اگر نایاب نہیں تو کم‬
‫ٔ‬ ‫جو‬
‫یاب ضرور ہے ۔پروفسر گوپی چند نارنگ نے میرکے عالوہ انیس ‪ ،‬اقبال ‪ ،‬فیض‬
‫‪،‬شہریار‪ ،‬افتخار عارف بانی اور ساقی فاروقی کی شاعری کے اسلوبیاتی مطالعے‬
‫بھی پیش کئے ہیں ۔ انہوں نے میر انیس اور اقبال کی شاعری کے جس منفرد‬
‫انداز سے اسلوبیاتی تجزیے پیش کئے ہیں ۔ وہ نئے انداز نقد کا ابتدائیہ کہے‬
‫جاسکتے ہیں۔ انہوں نے شعر وشاعری کے عالوہ نثری نمونوننے کے بھی‬
‫اسلوبیاتی مطالعے پیش کئے ہیں ۔‬
‫اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں پروفیسر محمد حسن کے کارناموں سے کسی طور‬
‫صرف نظر نہیں کیا جاسکتاہے وہ ادبی تنقید اور اسلوبیات کی مد د سے‬‫ِ‬ ‫سے‬
‫اسلوب کی پہچان کراتے ہیں۔ ان کے دو مضامین غالب کا شعری آہنگ اور غالب کا‬
‫نثری آہنگ اس سلسلے کے اہم مطالعے ہیں ۔وہ اپنے تجزیوں میں غالب کے‬
‫اسلوبیاتی خصوصیات بڑی سلیقہ مندی سے ابھارتے ہیں ۔‬
‫اسلوبیاتی تنقید میں نصیر احمد خان کا نام بھی کافی اہمیت کاحامل ہے ۔ انہوں نے‬
‫اسلوبیات کے نظر ی پہلوئوں کو مور ِد بحث النے کے ساتھ ساتھ اسلوبیاتی‬
‫تجزیوں کے منفردعملی نمونے بھی پیش کئے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’ادبی‬
‫طریقہ کار کی بھر پور وضاحت‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیات‘‘ میں اسلوب‪ ،‬اسلوبیات اور اسلوبیاتی‬
‫ملتی ہے ۔ انہوں نے اقبال کے عالوہ کئی شاعروں اور ادبیوں کے اسالیب کا‬
‫مطالعہ بھی پیش کیاہے ۔‬
‫پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ اسلوبیاتی نقادوں میں امتیازی حیثیت مقام رکھتے‬
‫ہیں ۔ وہ تاریخی لسانیات کے عالوہ اطالقی لسانیات پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ‬
‫اسلوبیاتی تنقید کی نظری اور عملی باریکیوں کا صحیح ادراک رکھتے ہیں ۔‬
‫مرزا خلیل احمد بیگ کے یہاں ادبی ذوق احمد لسانیاتی محارت بقول مسعود حسین‬
‫خان’’ ہم دگر‘‘ ہیں ۔ ان کی کتاب ’’زبان ‪ ،‬اسلوب اور اسلوبیات ‘‘اُردو ادب میں‬
‫اسلوبیاتی تنقید میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے ۔ اپنی تحریروں میں انہوں نے‬
‫طریقہ نقد کا نہ صرف بھرپور جائزہ کیاہے بلکہ اصول وضوابط او‬ ‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی‬
‫رعملی نمونے بھی پیش کئے ہیں۔انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کے تمام پہلوئوں پر‬
‫لکھ کر اسلوبیاتی تنقید کو فروغ دینے میں اہم رول اداکیاہے ۔ انہوں نے اپنی‬
‫عملی تجزیوں میں جو مہارت دکھائی ہے وہ ان سے قبل اسلوبیاتی تنقید میں کم‬
‫کم ہی نظر آتی ہے ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کی مبادیات پر جس طرح اور جس‬
‫نوعیت کا لکھاہے وہ ان سے پہلے اُردو میں مفقود ہے۔ انہوں نے اپنے عملی‬
‫تجزیوں میں ادب اور لسانیات کو اس طرح ہم آمیز کیا ہے کہ روئی مٹتی ہوئی‬
‫نظرآتی ہے۔ فیض کی شعری اسلوبیات (تسلس ِل بیان اور معنیاتی وحدت)اختر‬
‫انصاری کی طویل نظم ’’وقت کی بانہوں میں ‘‘ ایک اسلوبیاتی مطالعہ ‪،‬شعری‬
‫اسلوب کا صوتیاتی مطالعہ ‪ ،‬ابوالکالم کی نثر‪ ،‬اکبر ٰالہ آبادی اور ’’لغات مغربی‘‘‬
‫ایسے اسلوبیاتی مطالعے ہیں جو اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں اہم اضافہ کہے‬
‫جاسکتے ہیں ۔‬
‫اس طرح مرزا خلیل احمد بیگ اردو کے وہ ممتاز اسلوبیاتی نقادہیں جو اسلوبیاتی‬
‫تنقید کی تمام باریکیوں اور اس کے تمام ابعاد وجہات سے کماحقہ واقفیت رکھتے‬
‫ہیں ۔ ان کی خدمات اسلوبیاتی تنقید کے حوالے سے کافی وقیع ہیں۔‬
‫اُردو میں اسلوبیاتی تنقید کی روایت میں علی رفاد فتیحی بھی کافی معتبر نام ہے ۔‬
‫انہوں نے اپنے مضامین میں نظری او رعملی پہلوئوں سے اسلوبیات پر سیر‬
‫حاصل طریقے سے گفتگو کی ہے ۔ انہوں نے اسلوبیاتی تنقید کے اصول وضوابط‬
‫اور مبادیات کے عالوہ موجودہ دورمیں اس کے امکانات پر بھی اپنے مضامین‬
‫میں روشنی ڈالی ہے ۔ ’’مسجد قرطبہ کا اسلوبیاتی مطالعہ ‘‘ایک ایسا اسلوبیاتی‬
‫تجزیہ ہے جو نہ صرف اُردو تنقید میں اہم اضافہ کہاجاسکتاہے بلکہ اقبالیاتی ادب‬
‫میں نئے مطالعات کی طرف بھی متوجہ کرتاہے ۔ ان کے نزدیک ‪:‬‬
‫’’تخلیقی عمل ایک نفسیاتی اور لسانی عمل ہے ۔ جس کی مدد سے تجربے اور‬
‫فکر و احساس کو خارجی اور لسانیاتی ہیئت دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ لسانیاتی ڈھانچے اور انفرادی تجربے کے درمیان ایک طرح کا تفاعل‬
‫پیدا ہوجاتاہے ۔ انفرادی تجربے اور لسانیاتی ڈھانچے کی مکمل ہم آہنگی‬
‫‪ Assimilation‬سے تخلیق ابھرتی ہے ۔‬
‫طریقہ نقد ہماری موجودہ تنقید ی تاریخ میں اس طرح در آیاہے کہ اس‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی‬
‫زاویہ نگاہ رکھنے‬
‫ٔ‬ ‫صرف نظر کرنا ناممکنات میں سے ہے چونکہ اسلوبیاتی‬
‫ِ‬ ‫سے‬
‫والوں نے نہ صرف اس کی مبادیات ‪ ،‬اصول و ضوابط ‪،‬جہات وابعاد بلکہ وقتا ً‬
‫فوقتا ً موجودہ دور میں اس کے امکانات پر بھی روشنی ڈالی ہے ۔ اس وجہ سے‬
‫طریقہ کار نہ صرف بہت حد تک‬
‫ٔ‬ ‫ایک فن پارے کی تعین قدر میں آگے یہ تنقیدی‬
‫ممدومعاون ثابت ہوگا بلکہ اسے صحیح طور پر اپنایا بھی جائے گا ۔‬
‫‪POINTS TO PONDER‬‬ ‫‪ ‬اہم نکات‬
‫‪ ‬اسلوبیات اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب‬
‫کہ ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور مزاج کے اعتبار سے یہ‬
‫تشریحی ہے ‘‘۔‬
‫طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس‬
‫ٔ‬ ‫‪ ‬اسلوبیاتی تنقید کا‬
‫کے اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے‬
‫‪ ‬اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی‬
‫خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا‬
‫تعین قدر میں معاون ثابت ہوتاہے ۔‬
‫ِ‬ ‫شاعر کی‬
‫‪ ‬اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے‬
‫تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ملتے ہیں۔‬
‫طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء ‪1960‬ء میں ٹامس اے سیبیوک کی‬ ‫ٔ‬ ‫‪ ‬اسلوبیاتی‬
‫تالیف ‪ Style in language‬کی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے‬
‫تخلیقی امکانات لسانیاتی تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔‬
‫‪ ‬اردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا‬
‫ہے اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ‪ ،‬جمالیاتی ‪،‬عمرانی‬
‫تنقیدی نظریات کے تحت لیا جانے لگا ۔‬
‫‪ ‬اُردومیں اسلوبیاتی تنقید کا طریقہ کار اپنا کر انہوں نے اس نئے تنقیدی‬
‫دبستاں کی بنیاد ڈالی ہے‬
‫خالصہ‬
‫اسلوبیات اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ہے او راس کا انداز تجزیاتی ہے جب کہ‬
‫ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے ہے اور مزاج کے اعتبار سے یہ تشریحی‬
‫ہے ‘‘۔‬
‫طریقہ کار کسی فن پارے کا لسانیاتی تجزیہ کے عالوہ اس کے‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی تنقید کا‬
‫اسلوبیاتی خصائص کا تعین بھی ہے چونکہ اسلوبیاتی تنقید کسی فن پارے کا‬
‫اسلوبیاتی تجزیہ کے ساتھ اسکے اسلوبیاتی خصائص بھی تالش کرتاہے اس وجہ‬
‫تعین قدر میں معاون ثابت‬
‫ِ‬ ‫سے یہ صحیح معنوں میں کسی ادیب یا شاعر کی‬
‫ہوسکتاہے ۔‬
‫اسلوبیاتی تنقید کے ابتدائی نمونے روسی ہیئت پسندوں اور امریکہ میں نئے‬
‫تنقیدی زاویہ نگاہ پیش کرنے والوں کے یہاں ضرور ملتے ہیں البتہ اسلوبیاتی‬
‫طریقہ نقد کی باضابطہ ابتداء ‪1960‬ء میں ٹامس اے سیبیوک کی تالیف ‪Style in‬‬
‫ٔ‬
‫‪ language‬کی اشاعت کے بعد ہوتی ہے اور زبان کے تخلیقی امکانات لسانیاتی‬
‫تجزیوں کے تحت کیا جانے لگا۔‬
‫ادبی زبان کے مطالعے کی شروعات اگرچہ اس صدی کی تیسری دہائی میں آئی‬
‫طریقہ نقد کی ابتداء ‪1960‬ء کے بعد‬
‫ٔ‬ ‫اے رچرڈز کے ذریعہ ہوئی ۔ البتہ اسلوبیاتی‬
‫ہی ہوئی ہے ۔ موجودہ دور میں جن ناقدین نے اسلوبیاتی طریقہ نقد کو عام کرنے‬
‫میں پہل کی ان مینٹامس اے سیبیوک ‪،‬روجرفائولر ‪ ،‬اسٹیفن المن‪ ،‬نلز‪ -‬ایرک‪-‬‬
‫انکوسٹ ‪ ،‬ڈیوڈ کرسٹل کے نام خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔‬
‫اُردو میں ابتدائی تنقیدی نمونے اُردو شاعری کے قدیم تذکروں میں ضرورملتے‬
‫ہیں اور ان کو تاثراتی تنقید کے ابتدائی نمونے کہا جاسکتاہے البتہ ہمارے یہاں‬
‫سلسلہ نقد کا باضابطہ آغاز آزاد ‪ ،‬حالی اور شبلی کے ذریعے ہواہے۔‬
‫اُردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز صحیح معنوں میں مغربی تنقید کے زیر اثر ہوا ہے‬
‫اور جدید وقدیم ادبی سرمائے کا جائزہ نفسیاتی ‪ ،‬جمالیاتی ‪،‬عمرانی تنقیدی نظریات‬
‫کے تحت لیا جانے لگا اور ان تنقیدی نظریات کے تحت سماجی حقائق ‪ ،‬اقدار ‪،‬‬
‫مصنف کے ذاتی کوائف ‪ ،‬فضاء ‪ ،‬ماحول کے تناظر میں ایک فن پارے کا جائزہ لیا‬
‫جاتا تھا جس سے متن کی حیثیت ثانوی بن کر رہ گئی تھی اور ایک فن پارے کے‬
‫طریقہ‬
‫ٔ‬ ‫اسلوبیاتی خصائص پرد ٔہ خفا میں رہ گئے تھے ۔ اس کمی کو اب اسلوبیاتی‬
‫نقد کے ذریعے حتی االمکان پورا کیا جانے لگا ۔‬
‫اُردو میں ادبی اسلوب کے مطالعے کے ابتدائی نمونے تذکروں میں ضرور ملتے‬
‫ہیں اور بیان وبالغت پر موجود کتابوں میں اسلوب کے مطالعے کے لئے ہدایات‬
‫بھی درج ہیں البتہ یہ روایتی نوعیت کے ہیں ۔ اس مطالعے کا ترقی یافتہ روپ‬
‫پروفیسر محی الدین قادری زور کے یہاں نظر آتاہے ۔ بقول پروفسر نصیر احمد‬
‫انداز فکر اپنایا ہے ۔ جو ان کی‬
‫ِ‬ ‫خان ’’انہوں نے قدیم ر ِوش سے ہٹ کر ایک نیا‬
‫کتاب ’’اردو کے اسالیب بیان‘‘ میں نظر آتاہے ۔ اس کتاب کو اسلوب کے مطالعے‬
‫انداز فکر اور سائنٹفک طریقہ کار کی درمیانی کڑی کہاجاسکتاہے ۔‬ ‫ِ‬ ‫کے روایتی‬
‫البتہ اردو میں اسلوبیاتی تنقید کا باضابطہ آغاز ‪1960‬ء کے آس پاس ہوا اور اس‬
‫کی بنیاد پر وفیسر مسعود حسین خان کے مضامین اور مقاالت سے پڑی ہے ۔‬

You might also like