You are on page 1of 17

Subject: Urdu

Module: 29
Paper: LANGUAGE & LINGUSTICS
Topic: Terjuma Nigari
Content writer: Prof. Ali R Fatihi
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫ترجمہ نگاری‬
:‫اغراض و مقاصد‬
‫اس سبق میں آپ کو اطالقی لسانیات کی ایک شاخ ’ ترجمہ نگاری ‘کی تفصیالت دی جائنگی تاکہ‬
‫آپ کو ’ ترجمہ نگاری ‘ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع حاصل ہو ۔ اس حقیقت سے‬
‫تو آپ واقف ہیں کہ دنیا میں زبانوں کی تعداد بے شمار ہے اور ان تمام زبانوں کو سیکھا نہیں جا‬
‫سکتا ۔ جسکی وجہ سے ایک ترسیلی رکاوٹ کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس ترسیلی رکاوٹ کو ختم کرنے‬
‫کا واحد ذریعہ ترجمہ ہے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جس کی مدد سے کسی متن کو ایک زبان سے‬
‫دوسری زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس لسانی منتقلی کے کئ لسانی مسائل ہیں لہذا ترجمہ‬
‫نگاری کا مطالعہ لسانیات کے بغیر ممکن نہیں۔ اطالقی لسانیات کی ایک اہم شاخ ترجمہ نگاری‬
‫زبان اور لسانی منتقلی کے رشتے کو واضح کرتی ہے ۔ ترجمہ نگاری کی تمام تر توجہ زبان‬
‫اور اس کی منتقلی کی طرف ہوتی ہے ۔ اور یہ لسانی منتقلی کی باریکیوں کے موضوع گفتگو بناتی‬
‫ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترجمہ نگاری کو اطالقی لسانیات کا ایک اہم شعبہ مانا جاتا ہے۔ زیر نظر‬
‫سبق میں ترجمہ نگاری کی تعریف اس کی قسمیں اور اس کی دائرہ عمل پر سیر حاصل گفتگو کی‬
‫جاۓ گی۔‬
‫تمہید‬
‫ترجمہ نگاری‬
‫ترجمہ کی عمومی تعریف یہ ہے کہ ایک زبان میں بیان کردہ خیاالت یا معلومات کو دوسری زبان‬
‫میں منتقل کرنا اور بظاہر یہ ایک سادہ سا عمل ہے۔ ماہرین لسانیات ترجمہ کی تعریف یوں کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫”جہاں تک ترجمہ کی تعریف کا تعلق ہے‪ ،‬اسے ہم ان الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں کہ ترجمہ‪ :‬کسی‬
‫زبان پر کیے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا‬
‫اظہار بیان‪ ،‬اسلوب‬
‫ِ‬ ‫انداز بیان اور‬
‫ِ‬ ‫متبادل متن پیش کیا جائے۔ اس تعریف میں معانی‪ ،‬مفہوم‪ ،‬مطالب‪،‬‬
‫اور انداز کے تمام پہلو آجاتے ہیں۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ فن زبان سے تعلق رکھتا ہے اس لیے‬
‫اس کے نظری پہلو کو ہم ترجمہ کا لسانیاتی نظریہ قرار دے سکتے ہیں۔‬
‫ترجمہ کی ایک اور جامع تعریف ایک فرانسیسی ادیب پال نے یوں کی ہے‪:‬‬
‫”ترجمہ کسی علّت (اصل تخلیق) کے معلول کی ایک دوسری علت (ترجمہ) کے توسط سے امکانی‬
‫قربت و صحت کے ساتھ تشکیل کرنے کا عمل ہے۔“ اس تعریف کی روشنی میں علمائے لسانیات‬
‫کا کہنا ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی ترجمہ ایک فن (‪ )Art‬ہے اور ایک ہنر (‪ )Science‬بھی۔ لیکن‬
‫ترجمہ کا ہنر اتنا سادہ و آسان نہیں ہے جتنا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر جو‬
‫پیچیدگیاں ہیں اور اس میں جو خالص علمی‪ ،‬فنی‪ ،‬ادبی اور تخلیقی نوعیت کی صالحیتوں کو ایک‬
‫متوازن آمیزے کے ساتھ بروے کار النے کا عمل ہے۔ اس کی نشاندہی کچھ یوں کی جاتی ہے۔‬
‫”ترجمہ کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صالحیت کی ضرورت پڑتی‬
‫ہے۔ متن کی زبان اور اپنی زبان توخیر آنی ہی چاہیے‪ ،‬اس موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار‬
‫ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی ممثالت ضروری ہے اور‬
‫صنف ادب اور شاخ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے‪ ،‬مترجم کو پیوستگی حاصل ہو‪ ،‬تب‬ ‫ِ‬
‫ترجمہ شاید چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے‪ ،‬تاہم ترجمے کی زیریں انواع میں اتنی ساری شرائط کا‬
‫اجتماع نہیں ہوتا۔ مثالً تعلیمی اور تکنیکی ترجمہ بلکہ علمی ترجمہ بھی مصنف کی شخصیت اور‬
‫مترجم کی پیوستگی پر اصرار نہیں کرتا تاہم اس قسم کا ترجمہ بھی لسانی اور علمی (یا تعلیمی اور‬
‫تکنیکی) اہلیت سے بے نیاز رہ کر نہیں کیا جاسکتا‬
‫پہلی شرط‬
‫پہلی شرط یہ ہے کہ اصل تصنیف کی زبان‪ ،‬اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے نہ صرف‬
‫واقفیت بلکہ دلچسپی اور ہمدردی ہو۔ اس لیے کہ مترجم دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان‬
‫لسانی اور ثقافتی سفیر کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫دوسری شرط‬
‫دوسری اہم شرط اپنی زبان پر اس کی قدرت اور نئے خیاالت کے اظہار کے لیے نئے الفاظ‪،‬‬
‫ترکیبیں اور اصطالحات وضع کرنے کی استعداد ہے۔‬
‫تیسری شرط‬
‫تیسری شرط اور ضرورت تصنیف کی زبان سے ایسی گہری واقفیت ہے کہ وہ اس کی باریکیوں‪،‬‬
‫نفاستوں اور تہہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکے۔‬
‫چوتھی شرط‬
‫چوتھی شرط اور ضرورت یہ کہ اصل تصنیف جس عہد اور جس موضوع سے تعلق رکھتی ہے‪،‬‬
‫اسی عہد کی زندگی‪ ،‬زبان اور اس موضوع کی اہم تفصیالت سے مترجم کی واقفیت ہو۔‬
‫پانچویں اور آخری‪ ،‬شرط‬
‫پانچویں اور آخری‪ ،‬لیکن سب سے اہم شرط ادبی ترجمہ کی صالحیت‪ ،‬دلچسپی اور شوق و شغف‬
‫اور انہماک ہے۔ اگر یہ نہیں تو دوسری تمام شرائط کی تکمیل بھی کامیاب ترجمہ کی ضمانت نہیں‬
‫ہوسکتی۔‬
‫اصول ترجمہ‬
‫”‪1‬۔ اصل عبارت کسی حالت میں مترجم کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کیونکہ مترجم‬
‫بہرصورت متن کے مرکزی خیال کا پابند ہے۔‬
‫‪2‬۔ مترجم کو اپنی جانب سے حذف و اضافہ کا کوئی حق حاصل نہیں نہ صرف عبارات بلکہ‬
‫تشبیہات اور استعارات میں بھی‪ ،‬اس سے انحراف علمی بددیانتی ہوگی۔‬
‫‪ 3‬ترجمہ میں سہولت کے لیے متن کو آگے پیچھے کرنے کا بھی حق نہیں۔‬
‫‪4‬۔ اصل عبارت میں کسی طرح کی ترمیم کا جواز نہیں۔‬
‫‪ 5‬زبان و بیان کے پیچ و خم کا لحاظ رکھنے کے ساتھ ساتھ موضوع کے لسانی‪ ،‬ادبی‪ ،‬علمی‪،‬‬
‫تاریخی‪ ،‬سماجی اور شخصیاتی پس منظر کو بھی ملحوظ رکھنا ہوگا ورنہ مترجم ہمیشہ فکری‬
‫ٹھوکروں کی زد پہ رہے گا۔‬
‫‪ 6‬اصطالحات کو جوں کا توں سنبھالنے کی وسعت اگر ترجمہ کی زبان میں ہو تو سبحان ہللا! ورنہ‬
‫قریب ترین مفہوم میں اسے منتقل کرنا چاہیے بلکہ اس سلسلہ میں اصطالح سازی کا ایک استنادی‬
‫اعلی اور مستند‬
‫ٰ‬ ‫بورڈ ہونا چاہیے تاکہ اصطالحات کے استعمال میں یکسانیت رہے۔ ‪7‬۔ مترجم کو‬
‫لغت کا سہارا ضرور لینا چاہیے۔ صرف حافظہ پر بھروسہ کرنا مناسب نہیں۔‬
‫‪8‬۔ ترجمہ گہری نظر اور حاضر دماغی سے کرنا چاہیے تاکہ لفظوں کے پردے میں چھپے ہوئے‬
‫تہہ دار جلوہ ہائے معانی بھی آشکار ہوسکیں ورنہ سرسری نگاہ کا ترجمہ زبان کی بہت ساری‬
‫داخلی لطافتوں کو مجروح کرتا چال جائے گا اور جو مفہوم اور اشارے ان الفاظ کی پشت سے‬
‫جھانک رہے ہیں وہ ترجمے میں غائب ہوجائیں گے۔‬
‫‪9‬۔ ترجمہ میں اصل کے کرداروں کی جغرافیائی حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے ایسے الفاظ یا اسماء‬
‫الئے جائیں جس سے اصل کے کرداروں کی بھرپور ترجمانی ہوسکے ورنہ ایرانی‪ ،‬ہندی اور‬
‫امریکن‪ ،‬پاکستانی ہوجائے اور مصنف نے ان کرداروں کے جغرافیائی مزاج اور ماحولیاتی کیف کا‬
‫جو لمس ان لفظوں میں رکھ دیا ہے اس کا احساس تو دور اس کی ہوا بھی نہ لگے گی۔ مثال کے‬
‫طور پر روس کے عظیم شاعر پوشکن (‪ )Pushkin‬کو لے لیجیے۔ اس کے ایک مشہور افسانے‬
‫کے ساتھ اس قسم کے ایک حادثہ کو بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر ظ۔ انصاری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”روس کے شاعر اعظم ”پوشکن“ کے ایک مشہور افسانے کا عنوان انگریزی میں ”اسٹیشن‬
‫ماسٹر“ دیا گیا اور اردو میں جوں کا توں لے لیا گیا۔ روس وہ کردار اس چوکی کے غریب‪ ،‬تباہ‬
‫حال اور بے بس‪ ،‬تھکے ہارے منشی کی نمائندگی کرتا جو ریلوں کا وسیع جال بچھنے سے پہلے‬
‫کسی گاؤ یا کارواں سرائے کے ناکے پر بدلی کے گھوڑے مہیا کرتا تھا۔۔۔ اس کردار کو ہم انگریزی‬
‫کی تقلید میں اسٹیشن ماسٹر لکھ دیں تو افسانے کی روح فنا ہوجائے گی۔ وہ ہمارے یہاں ”ڈاک‬
‫چوکی کا منشی“ ہے اور یہی نام دیا جانا چاہیے تھا۔“‬
‫‪10‬ترجمہ کا پیرایہ اور اسلوب‪ ،‬رواں‪ ،‬شستہ‪ ،‬قاب ِل فہم اور ایسا جاذب ہونا چاہیے کہ اصل کے ساتھ‬
‫جھلکے۔‬ ‫انفرادیت‬ ‫ایک‬ ‫بھی‬ ‫ہوئے‬ ‫چلتے‬ ‫بشانہ‬ ‫شانہ‬ ‫ساتھ‬

‫‪11‬۔ ترجمہ میں محاورات اور ضرب االمثال کو جوں کا توں منتقل کرنے کی تو کوئی صورت ہی‬
‫نہیں البتہ ترجمہ کی زبان کے محاورات سے تقابل کی راہ نکل سکتی ہے لیکن یہ راہ ہے بڑی‬
‫دشوار۔ اس سلسلہ میں زبردستی عبارت کے حسن کو بگاڑ کر رکھ دیتی ہے اس لیے اعتدال سے‬
‫کام لیتے ہوئے محاورے کی جگہ محاورے کی جستجو کے بجائے اپنی ضرورت کے مطابق‬
‫محاورے کے مفہوم کو الفاظ سے اور الفاظ کے معنوں کو محاورے کی مدد سے پیش کرنے کی‬
‫چاہیے۔‬ ‫کرنی‬ ‫کوشش‬
‫‪12‬۔ ترجمہ میں تکنیک اور اسلوب کا کام آرائش نہیں بلکہ مرکزی خیال کی ترسیل یا اظہار ہے۔‬
‫مترجم کو جان بوجھ کر کوئی نئی تکنیک یا اچھوتا اسلوب نہ اختیار کرنا چاہیے بلکہ ترجمے کے‬
‫مکمل عمل کے دوران اس کے موضوع‪ ،‬مواد اور مزاج کی مناسبت سے ایسی تکنیک اور اسلوب‬
‫اختیار کرنا چاہیے جو ہر طرح سے اس تصنیف کے بنیادی خیال یا تاثر کے اظہار میں مفید ثابت‬
‫ہو۔ یہی معاملہ ہیئت کا ہے۔ مترجم کو ہیئت بھی وہی منتخب کرنی چاہیے جو موضوع اور مواد کا‬
‫ہو۔‬ ‫تقاضہ‬
‫‪13‬۔ جملے اگر پیچیدہ اور طویل ہوں تو ترجمہ میں اسے چھوٹے چھوٹے جملوں میں تقسیم کیا‬
‫جاسکتا۔‬ ‫برتا‬ ‫نہیں‬ ‫جگہ‬ ‫ہر‬ ‫انداز‬ ‫یہ‬ ‫لیکن‬ ‫ہے‬ ‫جاسکتا‬
‫‪14‬۔ ترجمہ کے لیے موضوع سے واقفیت بنیادی شرط ہے۔ اس کے بعد اصل زبان سے پھر اپنی‬
‫زبان سے۔ ”یہی وجہ ہے کہ ڈیٹ رایٹ (امریکہ) کی ‪ Mass Translation Project‬میں یہ‬
‫طریقہ بتایا گیا ہے‪:‬‬

‫‪Editor Translator- Quality Control- Technical Editor- Language‬‬


‫ایڈیٹر۔“‬ ‫کا‬ ‫زبان‬ ‫ایڈیٹر۔‬ ‫ٹیکنیکل‬ ‫نگراں۔‬ ‫کا‬ ‫معیار‬ ‫مترجم۔۔‬ ‫یعنی‬
‫ترجمہ کی مبادیات اور شرائط کے جائزہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو ایک مترجم پر بڑی ذمہ‬
‫بیگ‪:‬‬ ‫حامد‬ ‫مرزا‬ ‫بقول‬ ‫ہیں۔‬ ‫ہوتی‬ ‫عائد‬ ‫داریاں‬
‫”مترجم کا کام دراصل نیاز و ناز کا امتزاج ہے۔ اس کی دو صفات انتہائی قاب ِل تحسین ہیں (اور یہی‬
‫بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔وجاہت) یعنی ایک تو وہ مصنف کا دل سے احترام کرتا ہے‬
‫اور دوسرا بطور مترجم انتہائی دیانت داری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یوں مکمل آزادی اور دیانت دارانہ‬
‫پابندی کا یہ اتصال (ترجمہ) اسے دوسرے کی مصنوعات اپنے ٹریڈ مارک کے ساتھ بیچنے سے‬
‫باز رکھتا ہے۔ حاالنکہ ترجمہ کرتے وقت وہ فن پارے کو اس طرح ڈھالتا ہے کہ کم از کم جزوی‬
‫طور پر وہ اس کا خالق ضرور کہال سکتا ہے لیکن یہ مترجم کی بڑائی ہے کہ وہ ایک عمدہ کاریگر‬
‫کی طرح کام کرتا ہے ۔ دل اور روح کی صفائی کے ساتھ لیکن اپنا نام سامنے نہیں التا اور ترجمہ‬
‫کی حرمت کی مسلسل پاسبانی کرتا ہے۔“‬
‫گویا ترجمہ کسی ایک زبان میں بیان کردہ خیاالت یا معلومات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا"‬
‫ترجمہ کی عمومی تعریف ہے ۔اردو نقاد احمد سھیل نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ھے‪" ،‬ترجمہ‬
‫لسانی و متنی میٹا فرسیس (قلب ماہیت) ھے جو ایک زبان میں منتقل کرکے اپنے نفوز کا عمل‬
‫مکمل کرتا ھے ۔ اس عمل میں تخلیق یا تحریر اپنی مخصوص ماحولیاتی قیود سے باہر نکل کر‬
‫جہاں ایک طرف نئے معاشرتی گروہ کو فکر کی دعوت دیتا ھے تو دوسری جانب اس حوالے سے‬
‫اس کی فکری گہرائی اور گیرائی کو صحیع طور پر پرکھنے میں آسانی ھوجاتی ھے ۔ یوں ترجمے‬
‫کا فن تقابل اور افتراق کے عمل سے گزر کر اپنی مجموعی اور دیانت دارانہ انکشاف کرنے میں‬
‫کامیاب ھو جاتا ھے۔۔ ترجمے کا عمل۔۔۔ زیادہ پیچیدہ اور دقت طلب ہے۔ ترجمے کے عام قارئین کو‬
‫انداز بیان کیا تھا‪ ،‬وہ ترجمے کو‬
‫ِ‬ ‫ا س سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ اصل تصنیف میں کیا تھا یا اس کا‬
‫اصل کے نعم البدل کی حیثیت سے پڑھتے ہیں۔ اس میں جو کچھ ہوتا ہے‪ ،‬وہی ان کے لیے سب‬
‫کچھ ہوتا ہے۔‬
‫ترجمے کے لسانی نظریے کے مطابق عم ِل ترسیل کے دو مدارج ہوتے ہیں۔ پہال وہ جہاں ذہن کے‬
‫الفاظ دیگرترجمہ نگار کی مجرد‬
‫ِ‬ ‫آئینہ خانہ میں لفظ اور خیال ایک دوسرے میں تحلیل ہوتے ہیں‪ ،‬بہ‬
‫آگہی الفاظ کا مرئی پیکر اختیار کرتی ہے۔ ترسیل کا عمل مجرد سے غیر مجرد کی طرف ہوتا ہے‬
‫اس لیے ترسیل کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ ترجمہ نگار نے شاعر یا مصنف کی آگہی‬
‫کو کس حد تک ترجمے کی زبان میں سمویا ہے۔‬
‫دوسری منزل وہ ہے جب ترجمہ نگار‪ ،‬مصنف یا شاعر کی مجرد آگہی کو ایک نئی زبان میں قارئین‬
‫کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ منزل ترجمہ نگار کی تخلیقی اور فنی صالحیتوں کی آزمائش کی منزل‬
‫ہے۔‬
‫ترجمہ کا ہنر اتنا سادہ و آسان نہیں ہے جتنا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر بے‬
‫شمار لسانی پیچیدگیاں ہیں کیونکہ یہ خالص علمی‪ ،‬فنی‪ ،‬ادبی اور تخلیقی نوعیت کی صالحیتوں‬
‫کو ایک متوازن آمیزے کے ساتھ بروے کار النے کا عمل ہے۔‬
‫”ترجمہ کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صالحیتوں کی ضرورت‬
‫پڑتی ہے۔اس کے لیےذو لسانیت الزمی شرط ہے یعنی متن کی زبان اور مادری زبان توخیر آنی ہی‬
‫چاہیے‪ ،‬اس کے لیے موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف‬
‫صنف ادب اور شاخ علم سے بھی جس‬ ‫ِ‬ ‫سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی ممثالت ضروری ہے اور‬
‫سے متن پیوست ہے‪،‬ترجمہ نگار کو پیوستگی حاصل ہو‪ ،‬تب ترجمہ شاید عام معیار سے اوپر اٹھ‬
‫پاتا ہے‪ ،‬تاہم ترجمے کی زیریں انواع میں اتنی ساری شرائط کا اجتماع نہیں ہوتا۔ مثالً تعلیمی اور‬
‫تکنیکی ترجمہ بلکہ علمی ترجمہ بھی مصنف کی شخصیت اورترجمہ نگار کی پیوستگی پر اصرار‬
‫نہیں کرتا تاہم اس قسم کےترجمے بھی لسانی اور علمی (یا تعلیمی اور تکنیکی) اہلیت سے بے‬
‫نیاز رہ کر نہیں کیےجاسکتے۔“‬
‫ان مثالوں سے زبان میں ہونے والی تبدیلیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ یہ آج کی علمی اور‬
‫عوامی اردو زبان کی عکاسی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن الفاظ کے اپنالینے سے اردو کی تصویر‬
‫بگڑی نہیں بلکہ ذخیر ٴہ الفاظ میں اضافہ ہوا ہے۔ اِنٹرنیٹ کے دنیا بھر میں ”حاضرناظر“ ہونے کی‬
‫وجہ سے اردو کےنئے الفاظ کے لیے چند معتبر اِنٹرنیٹ سائٹوں سے اَسناد لیے جانے کی‬
‫دورحاضر کی پکار بن گئی ہے؛ ظاہر ہے کہ اِس ضرورت‬ ‫ضرورت ہے۔ یہ ہر جدید لغت کے لیے ِ‬
‫مستثنی نہیں ہے۔ مزید وضاحت کے لیے انگریزی لفظ بالگ پر غور کریں‬ ‫ٰ‬ ‫سے اردو لغت بھی‬
‫جو ویب اور لوگ کا آمیختہ ہے۔ انگریزی اصول کے کے حساب سے اس لفظ کی اردو تیار کی‬
‫جاۓ گی تو اردو الفاظ کو مالنے کے بعد نوشتۂ جال ہی بالگ کا متبادل ہو سکتا ہے۔ چونکہ‬
‫عربی میں اسکے لیۓ مدونہ کا لفظ مستعمل ہے لہذا اسی کو اردو میں اپنایا جارہا ہے مدونہ‬
‫عربی کا لفظ مدون سے بنا ہے جس کے معنی رکھنے کے ہوتے ہیں جو انگویزی لفظ بالگ کا‬
‫ہم معنی ہے۔ ایسی صورت میں ترجمہ نگار کے سامنے تین صورتیں ہونگی ۔ پہلی صورت میں‬
‫انگریزی لفظ بالگ کا استعمال ممکن ہے جب کہ دوسری اور تیسری صورت میں مدونہ یا نوشتہ‬
‫جال کا استعمال ممکن ہے۔مترجم کا فیصلہ یقینی طور پر اصول ترسیل کی بنیاد پر ہی ممکن ہے۔‬
‫ترجمے میں بعض مسایل یکرو امالی صورتوں سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ بعض صورتوں‬
‫میں یکرو امالی الفاظ ایک سے زاید قواعدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔مثال‬
‫بچہ آیا کے ساتھ آیا‬
‫اس میں لفظ آیا کی دو یکسر مختلف قواعدی حیثیتیں ہیں۔جبکہ صوت و صورت بالکل ایک جیسی‬
‫ہے۔مزید وضاحت کے لیے اس جملے پر غور کریں‬
‫سہالوں کی محنت سے وہ آج اس مقام پر ہے‬
‫اس جملے کا ترجمہ سالوں کی حیثیت کے تعین کی بغیر ممکن نہیں۔ایسی صورتوں مینترجمہ نگار‬
‫جملے کے سیاق و سباق سے ہی یہ فیصلہ کر سکے گا کہ یہ لفظ سال سے مشتق ہے یا ساال‬
‫سے۔اور اب اس مصرع پر توجہ دیں‬
‫کچھ لفظ درختوں کے تنوں پر بھی کھدے ہیں‬
‫اس مصرع کے ترجمے میں دشواری لفظ تنوں کے ترجمے میں آسکتی ہے کیونکہ سیاق و سباق‬
‫سے بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہ تن سے مشتق ہے یا تنا سے‬
‫تقریبا یہی صورت حال کوڈ مکسنگ کی ہے۔مثال کے طور پر اس جملے کو دیکھیں‬
‫میں لیٹ سے آیا اور بستر پر لیٹ گیا اس جملے میں پہال لیٹ انگریزی لفظ لیٹ ہے جب کہ دوسرا‬
‫لیٹ اردو مصدر لیٹنا کی تصریفی شکل ہے۔ یہ اردو انگریزی کوڈ مکسنگ کی ایک سادہ سی‬
‫صورت ہے۔اس کی نسبتا پیچیدہ مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایسے دخیل لفظ جو اردو لفظ‬
‫کے ہم صوت اور ہم صورت ہوں فالس فرینڈ کہالتے ہیں۔ فالس فرینڈ کی امالي مطابقت بھی بعض‬
‫اوقات غلط فہمیوں کا سبب بنتی ہے۔مثال کریم اور کریم‬
‫سینوں اور سینوں کی امالی مطابقت ترجمے میں دشواریاں کھڑی کر سکتی ہے۔ مثال مندرجہ ذیل‬
‫جملوں پر غور کریں تو ترجمے کی دشواری کا اندازہ ہوگا‬
‫یہ کریم ہے‬
‫یہ کریم ہے‬
‫معنوی تنوع کی بعض مثالیں درون زبان بھی ملتی ہیں جوترجمہ نگار کے لیے دشواریاں کھڑی کر‬
‫تی ہیں اب ان مثالوں کو دیکھیں‬
‫وہ تپائ پر چڑھ بیٹھا‬
‫میری زبان پر یہ لفظ چڑھ گیا ہے‬
‫اس کی تنخواہ چڑھ گئی ہے‬
‫اس کی آنکھیں چڑھ گئی ہیں‬
‫وہ مجھ پر چڑھ دوڑا‬
‫اس کا دماغ چڑھ گیا ہے‬
‫ان جملوں میں چڑھ کے معنوی فرق کو آپ باسانی محسوس کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس لفظ‬
‫کا لفظی متبادل ٹارگٹ ز بان کے کسی ایک لفظ میں نہیں مل سکتا۔‬
‫ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہترجمہ نگار کے لیے لسانی شعور الزمی شرط‬
‫ہے۔‬
‫‪POINTS TO PONDER‬‬ ‫‪ ‬اہم نکات‬
‫‪ ‬ایک زبان میں بیان کردہ خیاالت یا معلومات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا ترجمہ کی‬
‫عمومی تعریف ہے‬
‫‪ ‬ترجمہ ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا‬
‫متبادل متن پیش کیا جائے۔‬
‫‪ ‬ترجمے کے لسانی نظریے کے مطابق عم ِل ترسیل کے دو مدارج ہوتے ہیں۔ پہال وہ جہاں ذہن‬
‫کے آئینہ خانہ میں لفظ اور خیال ایک دوسرے میں تحلیل ہوتے ہیں‪،‬‬
‫‪ ‬دوسری منزل وہ ہے جب ترجمہ نگار‪ ،‬مصنف یا شاعر کی مجرد آگہی کو ایک نئی زبان میں‬
‫قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔ یہ منزل ترجمہ نگار کی تخلیقی اور فنی صالحیتوں کی‬
‫آزمائش کی منزل ہے۔‬
‫‪ ‬ترجمہ کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صالحیتوں کی ضرورت‬
‫پڑتی ہے۔اس کے لیےذو لسانیت الزمی شرط ہے‬
‫‪ ‬اس کے لیے موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف‬
‫سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی ممثالت ضروری ہے ان مثالوں سے زبان میں ہونے والی‬
‫تبدیلیاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔‬
‫‪ ‬ترجمے میں بعض مسایل یکرو امالی صورتوں سے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کیونکہ بعض‬
‫صورتوں میں یکرو امالی الفاظ ایک سے زاید قواعدی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔مثال‬
‫بچہ آیا کے ساتھ آیا‬
‫خالصہ‬
‫ترجمہ کی عمومی تعریف یہ ہے کہ ایک زبان میں بیان کردہ خیاالت یا معلومات کو دوسری زبان‬
‫میں منتقل کرنا اور بظاہر یہ ایک سادہ سا عمل ہے۔ ماہرین لسانیات ترجمہ کی تعریف یوں کرتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫”جہاں تک ترجمہ کی تعریف کا تعلق ہے‪ ،‬اسے ہم ان الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں کہ ترجمہ‪ :‬کسی‬
‫زبان پر کیے گئے ایسے عمل کا نام ہے جس میں کسی اور زبان کے متن کی جگہ دوسری زبان کا‬
‫اظہار بیان‪ ،‬اسلوب‬
‫ِ‬ ‫انداز بیان اور‬
‫ِ‬ ‫متبادل متن پیش کیا جائے۔ اس تعریف میں معانی‪ ،‬مفہوم‪ ،‬مطالب‪،‬‬
‫اور انداز کے تمام پہلو آجاتے ہیں۔ چونکہ بنیادی طور پر یہ فن زبان سے تعلق رکھتا ہے اس لیے‬
‫اس کے نظری پہلو کو ہم ترجمہ کا لسانیاتی نظریہ قرار دے سکتے ہیں۔‬
‫ترجمہ کی ایک اور جامع تعریف ایک فرانسیسی ادیب پال نے یوں کی ہے‪:‬‬
‫”ترجمہ کسی علّت (اصل تخلیق) کے معلول کی ایک دوسری علت (ترجمہ) کے توسط سے امکانی‬
‫قربت و صحت کے ساتھ تشکیل کرنے کا عمل ہے۔“ اس تعریف کی روشنی میں علمائے لسانیات‬
‫کا کہنا ہے کہ بحیثیت ِ مجموعی ترجمہ ایک فن (‪ )Art‬ہے اور ایک ہنر (‪ )Science‬بھی۔ لیکن‬
‫ترجمہ کا ہنر اتنا سادہ و آسان نہیں ہے جتنا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر جو‬
‫پیچیدگیاں ہیں اور اس میں جو خالص علمی‪ ،‬فنی‪ ،‬ادبی اور تخلیقی نوعیت کی صالحیتوں کو ایک‬
‫متوازن آمیزے کے ساتھ بروے کار النے کا عمل ہے۔ اس کی نشاندہی کچھ یوں کی جاتی ہے۔‬
‫”ترجمہ کا ہنر اس لحاظ سے خاصا پیچیدہ ہے کہ اس میں دہری تہری صالحیت کی ضرورت پڑتی‬
‫ہے۔ متن کی زبان اور اپنی زبان توخیر آنی ہی چاہیے‪ ،‬اس موضوع سے بھی طبعی مناسبت درکار‬
‫ہے جو متن میں موجود ہے۔ مصنف سے بھی کوئی نہ کوئی نفسیاتی ممثالت ضروری ہے اور‬
‫صنف ادب اور شاخ علم سے بھی جس سے متن پیوست ہے‪ ،‬مترجم کو پیوستگی حاصل ہو‪ ،‬تب‬ ‫ِ‬
‫ترجمہ شاید چالو معیار سے اوپر اٹھ سکے‪ ،‬تاہم ترجمے کی زیریں انواع میں اتنی ساری شرائط کا‬
‫اجتماع نہیں ہوتا۔ مثالً تعلیمی اور تکنیکی ترجمہ بلکہ علمی ترجمہ بھی مصنف کی شخصیت اور‬
‫مترجم کی پیوستگی پر اصرار نہیں کرتا تاہم اس قسم کا ترجمہ بھی لسانی اور علمی (یا تعلیمی اور‬
‫تکنیکی) اہلیت سے بے نیاز رہ کر نہیں کیا جاسکتا۔“ ہر فن کی طرح ترجمے کی بھی کچھ بنیادی‬
‫شرطیں (مبادیات)‪ ،‬ضرورتیں اور اصول ہیں۔‬
‫پہلی شرط یہ ہے کہ اصل تصنیف کی زبان‪ ،‬اس کے ادب اور اس کی قومی تہذیب سے نہ صرف‬
‫واقفیت بلکہ دلچسپی اور ہمدردی ہو۔ اس لیے کہ مترجم دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان‬
‫لسانی اور ثقافتی سفیر کی حیثیت رکھتا ہے۔‬
‫دوسری اہم شرط اپنی زبان پر اس کی قدرت اور نئے خیاالت کے اظہار کے لیے نئے الفاظ‪،‬‬
‫ترکیبیں اور اصطالحات وضع کرنے کی استعداد ہ‬
‫تیسری شرط اور ضرورت تصنیف کی زبان سے ایسی گہری واقفیت ہے کہ وہ اس کی باریکیوں‪،‬‬
‫نفاستوں اور تہہ داریوں کو بخوبی سمجھ سکے‬
‫چوتھی شرط اور ضرورت یہ کہ اصل تصنیف جس عہد اور جس موضوع سے تعلق رکھتی ہے‪،‬‬
‫اسی عہد کی زندگی‪ ،‬زبان اور اس موضوع کی اہم تفصیالت سے مترجم کی واقفیت ہو۔‬
‫پانچویں اور آخری‪ ،‬لیکن سب سے اہم شرط ادبی ترجمہ کی صالحیت‪ ،‬دلچسپی اور شوق و شغف‬
‫اور انہماک ہے۔ اگر یہ نہیں تو دوسری تمام شرائط کی تکمیل بھی کامیاب ترجمہ کی ضمانت نہیں‬
‫ہوسکتی۔‬

You might also like