Professional Documents
Culture Documents
ہندو مت قدیم ترین معروف مذاہب میں سے ایک ہے ۔ ِاس مذہب کی مقدس تحریروں کا
سلسلہ 1400سے 1500قبل مسیح تک پھیال ہوا ہے۔یہ سب سے زیادہ متنوع اور پیچیدہ
مذاہب میں سے ایک ہے جس کے الکھوں دیوی دیوتا ہیں۔ہندو بنیادی عقائد کی مختلف
اقسام رکھتے ہیں اور ِان میں مختلف فرقے پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ ُد نیا کا تیسرا بڑا
مذہب ہے ،لیکن ہندوؤں کی اکثریت بنیادی طور پر بھارت اور نیپال میں ہے۔
اگرچہ ہندو مت کو اکثر کثیر ُخ دأوں کے ماننے والے سمجھا جاتا ہے ،لیکن وہ ایک بڑے
ُخ دا(براہما) کو بھی مانتے ہیں ۔ براہما کو ایک ایسی ہستی مانا جاتا ہے جو پوری کائنات
کی حقیت اور وجود کے ہر حصے میں رہتی ہے۔ براہما ال شخصی اور ناقابِل ادراک ہے
اور اکثر ُاسے تین الگ اشکال یعنی براہما-خالقِ ،و شنو-محافظ ،اور شِیو-تباہ کرنے والے
کے طور پر ماناجاتا ہے۔ براہما کے ِان "پہلؤوں" کو بہت سے دوسرے اوتاروں کے ذریعہ
سےبھی جانا جاتا ہے۔ ہندو مت کے علم الہیات کا خالصہ کرنا مشکل ہے کیونکہ متعدد
ہندو فرقوں میں تقریبًا ہرطرح کے الہیاتی نظام کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ہندو مت کے
ِان پہلوؤں کے بارےمیں سیکھ کر ِاس کے متعلق مزید جانا جا سکتا ہے۔
ہندو مت کی تاریخ
ہندو مت کی تاریخ برصغیر پاک وہند سے تعلق رکھنے والی مختلف مذہبی روایات کا
احاطہ کرتی ہے۔اس کی تاریخ لوہے کے زمانے سے برصغیر پاک و ہند میں مذہب کی
ترقی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے،۔اس طرح اسے دنیا کا سب سے قدیم مذہب کہا جاتا ہے۔
اسکالرز ہندومت کو مختلف ہندوستانی ثقافتوں اور روایات کی ترکیب سمجھتے ہیں ،جس
کی جڑیں متنوع ہیں اور کوئی ایک بانی نہیں ہے۔
۔ہندو مت کی تاریخ کو اکثر ترقی کے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
پہال دور
پہال دور وید سے پہلے کا دور ہے ،جس میں وادی سندھ کی تہذیب اور مقامی ماقبل
تاریخی مذاہب شامل ہیں ،جو تقریبًا 1750قبل مسیح میں ختم ہوئے۔
دوسرا دور
شمالی ہندوستان میں ویدک دور شروع ہوا ،جس میں تاریخی ویدک مذہب کا تعارف ہند
آریائی ہجرت کے ساتھ ہوا ،جو 1900قبل مسیح اور 1400قبل مسیح کے درمیان شروع
ہوا۔
تیسرا دور
اس کے بعد کا دور 800 ،قبل مسیح اور 200قبل مسیح کے درمیان" ،ویدک مذہب اور
ہندو مذاہب کے درمیان ایک اہم موڑ" ہے ،اور ہندو مت ،جین مت اور بدھ مت کے لیے
ایک ابتدائی دور ہے۔
اپنشد کے مفہوم ہے قریب ہونا ہم تن گوش ہونا یہ ہندووں کی فقھی کتب ہیں اس میں
ہندووں کے نظریات کا فلسفہ ہے اور انہیں ویدوں کا تتمہ بھی کہا جاتا ہے اسکا ایک اور
نام ویدانت بھی ہے اس میں تیرہ لیکچر زیادہ مشھور ہیں اپنشد کے مکالموں کو اس
طرح لکھا گیا ہے کہ انہیں یاد کرنے میں آسانی ہو اس کے مضامین میں تضاد بھی ہے
اور تنوع بھی ہے نتائج اور فکر میں یکسانیت نہ ہے تاہم ایک بات جو اس میں مشترک
اور نمایاں ہے وہ ہے خدا پرستی کا رحجان پیدا کرنا
اپنشد کا بنیادی فلسفہ وحدت الوجود ہے یعنی برہما (خدا) اور آتمن(انسان) ایک ہی ہے
گویا کہ خدا اور انسان کی ماہیت ایک ہی ہے اسی فلسفہ کو حلول کا عقیدہ بھی کہا جاتا
ہے
اپنشد کی ابتدائی تعداد تیس تھی مگر اب ایک روایت کے مطابق 108ہو چکی ہے
اپنشد کا زمانہ تالیف 800قبل مسیح سے 500قبل مسیح بتایا جاتا ہے
۲۔مہابھارت(رزم نامہ،داستاِن جنگ):
کورووں اور پانڈووں کے درمیان کی لڑائی کی کہانی ہے،اس کا موّلف عارف ’’پراشر‘‘
کا بیٹا’’ویاس‘‘ ہے ،جس نے اسے ۹۵۰قبل مسیح میں ترتیب دیا تھا ،یہ کتاب شاہی
خاندانوں کے سرداروں کے درمیان ایک جنگ کا تذکرہ کرتی ہے ،اوراس جنگ میں دیوتا
بھی شریک ہوئے تھے۔مہا بھارت میں رزمیہ نظمیں بھی ہیں اور یہ مختلف عقائد اور
نظریات کا مرکب اور آمیزہ ہے اس میں ایک طرف ویدوں اور برہما کی مشرکانہ
رسومات کا سلسلہ موجود ہے تو دوسری طرف مواحدانہ وابستگی کے آثار بھی ہیں اس
میں کرم مارک کا نظریہ بھی ہے اور ثنویت بھی موجود ہے
بھگوت گیتا
بھگوت سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ہے مقدس نغمہ اور الہامی کالم ہندو دھرم
میں بھگوت گیتا کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے
اسے انجیل کرشن بھی کہا جاتا ہے بھگوت گیتا دراصل مہا بھارت کا ھی حصہ ہے یہ
باری کتب پر مشتمل ہے جن میں سے دس میں کرشن مہا راج کے کارنامے بیان ہیں
بھگوت گیتا میں تقریبا سات سو اشعار ایسے ہیں جن میں کرشن اور ارجن کا مابین مکالمہ
کی صورت میں ہیں
بھگوت گیتا کے دیگر اہم مضامین میں دنیا سے نفرت ،زندگی کے مختلف شعبوں کے
بارہ میں رہنمائی ،روھ کے الفانی ہونے ،دیوتا کا اوتار کی شکل میں آنے اور اچھوتوں
کے لئے بھگوان کی عبادت کے طریقے بیان ہیں
رامائن
ہندو دھرم میں ایک اور مژھبی کتاب رامائن ہے اگر چہ اسے مہابھارت اور گیتا کی طرح
زیادہ مقبولیت تو حاصل نہ ہے تاہم یہ بھی ہندو دھرم کا ایک سرمایہ کہالتا ہے اس کتاب
میں زیادہ تر مغربی بنگال اور بہار کی روایات بیان کیا گیا ہے اس میں اشلوک درج ہیں
جن تعداد تقریبا بیس ہزار ہے اور اس کتاب کا ایک بڑا حصہ ان کے ایک مشھور شاعر
والمیک کی تصنیف ہے اس میں میں رام چندر کے واقعات شامل ہیں جنہیں وشنو کے
اوتار کے طور پر پیش کیا گیا ہے
۱۔ کرما :بدلہ کا قانون یعنی دنیا کا نظام ایک الہی نظام ہے جو خالص عدل پر قائم ہے ،یہ عدل
ضروری طور پر ہوکررہے گا،چاہے موجودہ زندگی میں،یا آنے والی زندگی میں ،اور ایک زندگی کا
بدلہ دوسری زندگی میں ملے گا ،اور دنیا ابتال وآزمائش کا گھرہے ،جس طرح کہ یہ بدلے اور ثواب کا
گھرہے۔
کرم کا عقیدہ کوبہت اہمیت حاصل ہے۔ کرم کے عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا بڑا ،اچھا بُرا انسانی
روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اپنے عمل (کرم) کے لحاظ سے سزا اور جزا کا عمل مستحق ہوتا
ہے۔ یعنی کرم کے مطابق اچھا یا بُرا جنم لیتا ہے۔
۲۔آواگون (تناسخ ارواح) :جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا جسم فنا ہوجاتا ہے ،اوراس سے روح نکل
جاتی ہےاورپہلی زندگی میں اس نے جو عمل کئے ہیں اس کے مطابق وہ ایک دوسرے جسم میں حلول
کرجاتی ہے اور اس کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور روح اس میں ایک نیا چکرشروع کرتی ہے۔
عقیدہ تناسخ یا اواگوں یا جونی چکر ہندو دھرم کا ایک اہم عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق انسان کو
صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے ،چنانچہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے
اور ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ یم یعنی موت کے دیوتا کے سامنے پیش ہوتا ہے ،جو اسے
جانچتا ہے اور روح کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق
نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔ جب یہ میعاد ختم ہوجاتی ہے ،تو اسے دوبارہ جنم لینے کے
لیے بھیج دیتا ہے اور یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اچھے اور معقول اعمال کا
ذخیرہ کرلیتا ہے ،تو اس کی مکتی نہیں ہوجاتی ہے۔ مگر مکتی (نجات) کیا ہے ،معلوم نہیں ہے۔
-توحید :درست معنٰی میں توحید نہیں پایا جاتا ہے،لیکن جب وہ لوگ کسی ایک معبود (دیوتا) کی طرف
متوجہ ہوتے ہیں تودل وجان سے متوجہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کی نظروں سے دیگرتمام
معبود (دیوتا) اوجھل ہوجاتے ہیں ،اور اس وقت وہ اسےپرم پرمیشور،یادیوتاؤوں کا دیوتا کے نام سے
مخاطب کرتے ہیں۔
-تعّد د :وہ کہتے ہیں کہ ہرفائدہ مندیا نقصان دہ فطرت جیسے :پانی،ہوا،دریاؤوں اورپہاڑوں ...کا ایک
معبود(دیوتا) ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے اور یہ بہت سارے دیوتا ہیں جن کی یہ لوگ پوجا اور
نذرونیاز کے ذریعے تقّر ب حاصل کرتے ہیں۔
تری مورتی
تثلیث(تری مورتی) :نوویں صدی قبل مسیح میں کاہنوں نے تمام دیوتاؤوں کو ایک دیوتا میں جمع
کردیاجس نے اپنی ذات سے دنیا کووجودبخشا ۔وہ تین دیوتا حسب ذیل ہیں
۳۔شیو:اس اعتبار سے کہ وہ ہالک کرنے واال ہے۔ اس لئے جو شخص ان تینوں دیوتاؤوں میں سے
کسی ایک کی عباد ت کرتا ہے توگویا وہ ان سارےدیوتاؤوں کی عبادت کرنے واال ،یا ایک سب سے
بلند کی عبادت کرنے واال ہے ،اوران کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ،اس طرح سے انہوں نے
عیسائیوں کے سامنے تثلیث کے عقیدہ کادروازہ کھول دیا۔
ہندو لوگ گائے اور کئی طرح کے رینگنے والے جانوروں جیسے ناگ (اژدہا)،اور کئی طرح کے
حیوانات جیسے بندر کو پاک سمجھتے ہیں ،مگران سب کے بیچ گائے کو وہ تقدس حاصل ہے
جوہرتقّد س سے بر تر ہے۔اورمندروں،گھروں اور میدانوں میں اس کی مورتیاں(مجّسمے) لگی ہوتی
ہیں،اوراسے کسی بھی جگہ جانے اورمنتقل ہونےکی آزادی حاصل ہوتی ہے،کسی ہندو کے لئے اسے
تکلیف پہنچانا یا اسے ذبح کرنا جائز نہیں ہے ،اگر اس کی موت ہوجائے تو مذہبی رواج کے ساتھ اسے
دفنایا جائے گا۔
عقیدہ حلول
ہندؤوں کے یہاں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ ان کے دیوتا کرشنا نامی ایک شخص کے اندربھی حلول
کئےہیں ،اوراس کے اندر خالق انسان سے مل گیا ہے،یا الہوت (خالق)ناسوت(انسان) کے اندرحلول
کرگیا ہے ،اوریہ لوگ کرشنا کے بارے میں ویسے ہی باتیں کرتے ہیں جیسا کہ نصارٰی لوگ عیسٰی
مسیح کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔
کرم مارگ
ہندو دھرم میں یہ عقیدہ ہے کہ روح انسانی جسم میں مقید ہو گئی ہے اور زندگی ایک قید ہے انسان
آزاد نہ ہے بلکہ ماضی کے کرم یعنی اعمال کا پابند ہے انسانی زندگی غایت نجات ہے اور یہ نجات
تعذیب نفس سے حاصل ہوتی ہے اور نجات کی صورت یہ ہے کہ انسان پاکیزہ زندگی گزارے تاکہ
اسکی روح عالم ارواح مین چلی جائے اس کے لئے دیوتاونں کو قربانی دے ویدوں کا مطالعہ کرے
انسانوں کی خدمت کرے ان کے خیال میں برہمن کی مکتی ) نجات) عمل اور حصول علم میں ہے
کھشتری کی کی نجات جنگ میں ہے ویش کی نجات زراعت میں ہے اور شودر کی نجات خدمت میں
ہے
جنان مارگ
جنان مارگ بھی کرم مارگ کی طرح کا عقیدہ ہے اس کے حامل ہندووں کے نزدیک نجات کے لئے
صرف راہ عمل کافی نہیں ہے انسان کو پہلے جہالت سے نکل کر علم کی دنیا میں آنا چاہیے انسان کی
بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوبرہمن آتما ( عالم ارواح) سے الگ سمجھتا ہے اس جہالت سے
نکلنا ہگا انسان اور برہمن آتما کا تعلق وہی جو دریا اور سمندر ہے دریا باآلخر سمندر میں گم ہو جاتا
ہے
بھگتی مارگ
بھگتی کا مفہوم ہے اپنے آپ کو وقف کرنا ہندو دھرم بھتی مارگ سے مراد یہ ہے کہ کسی انسان کا
اپنے آپ کو کسی دیوتا کے لئے وقف کر دینا ہے یعنی ہندو دھرم کے کسی دیوتا سے وابستہ ہوکر اسی
کی پوجا کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا لینا راہ نجات ہے
آزادی:
نیک اوربرےاعمال کے نتیجے میں باربار نئی زندگی وجود میں آتی ہے،تاکہ اس کے اندر روح کو
سابقہ چکرمیں دئیے گئے اعمال کے مطابق ثواب یا عقاب دیا جائے۔
جس شخص كو کسی چیز کی رغبت نہیں ہے اورہرگز کسی چیز میں رغبت نہیں رکھے گا اور
خواہشات کی غالمی سے آزاد ہو گيا ،اور اس کا نفس مطمئن ہوگيا تو وہ اپنے حواس کی طرف نہیں
لوٹائى جاتى ہے،بلکہ اس کی روح جاکر براہما سے مل جاتی ہے۔
وحدت الوجود:
فلسفیانہ تجرید نے ہندؤوں کو اس اعتقاد تک پہنچادیا ہے کہ انسان افکارونظریات ،قوانین اور تنظیمیں
پیدا کرسکتا ہے،جس طرح کہ وہ ان کی نگہداشت کرنے،یا انہیں برباد کرنے کی طاقت رکھتا ہے،اور
اس طرح سے رب سے جاملتا ہے،اور نفس ہی بعینہ پیدا کرنے والی قّو ت ہوجاتی ہے۔
أ-روح معبودوں کی طرح دائمی وابدی مستمرہے،مخلوق نہیں ہے۔
ب۔انسان اور اس کے معبود کے درمیان تعلق اسی طرح ہے جیسے آگ کی چنگاری اور آگ کے
درمیان تعلق ہوتا ہے ،اور جیسے بیج اور درخت کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔
ج۔یہ پوری کائنات حقیقی وجود کا مظہر ہے،اور انسانی روح بلند روح کا ایک حّص ہ ہے۔
دوسرے نظریات اور عقائد:
۔جسموں کو مرنے کے بعد جالدیا جاتا ہے ،کیونکہ یہ روح کو بلندی کی طرف اورعمودی شکل میں
جانے کی اجازت دیتا ہے ،تاکہ ملکوت اعلٰی میں قریب سے قریب وقت میں پہنچ سکے،اسی طرح
جسموں کے جالنے میں روح کو جسم کے غالف سے مکمل طور سے چھٹکارا دالنا ہے۔
-جب روح چھٹکارا پاجاتی ہے اور اوپر چڑھ جاتی ہے تو اس کے سامنے تین دنیا ہوتی ہے:
۔صرف ایک جہنم نہیں ہے ،بلکہ ہرصاحب گناہ کے لئے ایک مخصوص قسم کی جہنم ہے۔
-عالم آخرت میں بعث(دوبارہ زندہ ہونا) صرف روحوں کے لئے ہوگا نہ کہ جسموں کے لئے۔
-جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے وہ دوبارہ شادی نہیں کرے گی ،بلکہ دائمی بدبختی میں
زندگی گزارے گی ،اور ذلت ورسوائی اور ہتک عزت کی جگہ بن جائے گی ،اور اس کا مرتبہ خادم
ونوکر کے مرتبہ سے کم ہوگا ،اسی لئے بسا اوقات عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد شقاوت
وبدبختی کی زندگی میں ہونے والے عذاب کے خوف سے اپنے آپ کو خود جالڈالتی ہے،البتہ موجودہ
ہندوستان میں قانون نے اس عمل کو حرام قراردیدیا ہے۔
قربانی
یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ آریاؤں کی رسم تھی ،جو ہندو عہد تک جاری رہی۔ مختلف
راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی۔
جانوروں کی قربانی کو اہمیت حاصل ہے ،آج بھی کالی کو سیکڑوں بھنسوں چڑھائے جاتے ہیں۔ ہون
ہرقربانی کے کے لئےضروری سمجھا جاتا ہے۔
ستی بھی مذہبی رسم تھی ،ہندو عہد میں رائج رہی۔
اصالحی تحریکیں
جب شنکر اچا ریہ نے ہندو دھرم کی ابتر حالت دیکھی تو اس کی اصالح کا ارادہ کیا۔اور
گھر سے نکل کر پورے ہندوستان میں گھومتے رہے۔اس دوران اپنے نظریات کے مطابق
کتب تحریر کیں ان میں تفسیر ودیانت ،تفسیر اپنشد اور تفسیر گیتا قابل ذکر ہیں۔ مہاتما بدھ
کی طرح انہوں نے بھی الگ مذہبی جماعت قاہم کرنا چاہی۔
نظریات:
شنکر اچاریہ نے تمام ہندوؤں کو ایک ویدک دھرم پر جمع ہونے کی دعوت دی اور کہا خدا
ایک ہے وہی حقیقت ہے اور باقی سب دھوکا ہے۔ دنیا بے قیمت ہے اس کی حقیقت بر ہمہ
ہے اور تمام انسان اس حقیقت کے جذ ہیں۔ اس کا نظریا تھا تھا رہبانیت قائم کی جائے اس
اپنی خواہشات کو رب کے سپرد کیا جاے
شنکر راما نج:
شنکر 1016عیسوی میں مدراس میں پیدا ہوا۔ وہ یادو پرکاش کا شاگرد بنا مگر اپنے استاد
سے اختالف ہوا تو جمنا منی کا چیال بن گیا اس کی وفات پر اس کا جانشین مقرر ہوا ۔ اسی
دوران اپنے نظریات اور فلسفوں پر کتب تصنیف کیں ۔بعد اذاں اپنے نظریات کی تبلیغ کے
لئے ملک کے دورے کئے۔
نظریات:
رامانج حقیت میںبھگتی تحریک کا بانی ہے اس نے شنکر اچاریہ کے مایا( دنیا) کےنظریے
کی مخالفت کی ۔ شنکر خدا کی صفات کا قائل نہ تھا جبکہ رامانج خدا کی صفات کا قائل
تھا۔ اس کے نزدیک ہللا کی ذات میں کوئی شریک نہیں ،وہی قادر مطلق ہے وہی روح اور
مادہ کو پیدا کرنے واال ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس نے خدا کے اوتاروں کو بھی تسلیم
کیا۔
رمائج ذاتوں کی پرانی تقسیم کے قائل تھے۔ مگرشودروں کے حق عبادت کو تسلیم کرتے
تھے۔
)(1مندر میں جھاڑو دینا۔ ( )2پوجا کےلئے پھول چن کر النا ( )3خدا کی پوجا کرنا( )4خدا
کے ناموں کے گیت گانا( )5مراقبہ کرنا
لنگایت:
لنگایت اور بعض دوسرے فرقوں میں بھی اسالمی تعلیم کے واضع اثرات نظر آتے ہیں ان
کا گرو بساو تھا ان کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے وہ تمام صفات عالیہ کا مجموعہ ہے۔ وہی
تمام مادے اور تمام ارواح کا خالق و مالک ہے ۔ وہ ذات پات کا کوئی قائل نہیں تھا۔ اس کے
نظریے کی مطابق طالق کی اجازت تھی اور بیوہ کو دوسری شادی کا حق تھا۔ یہ مردوں
کو دفن کرتے تھے۔ تناسخ کا عقید ان کے نزدیک غلط تھا۔
رامانند:
رامانند 1299عیسوی میں الہ آباد کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہو ا۔ بنارس میں تعلیم
حاصل کی۔ رامانند در حقیقت رمانج کے مذہب کا پیروکار تھا۔ اس کا فلسفہ سیکھا اور ہندی
زبان میں اس کی اشاعت کی۔
اس نے اپنے ماننے والوں کودو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو زاہد
کہالتے تھےاور دوسرا گروہ دنیادار۔ زاہدوں کی تربیت رمانج کے طریقہ پر کی اور
رمانند ذات پات کا مخالف تھا اس کے مریدوں میں تمام ذاتوں کے افراد تھے۔ اس کے
شاگردوں میں ناواجی ،سور داس ،تلسی داس ،جے دیو ،کبیر مشہور ہیں۔ جنہوں نے رامانج
کی خواہش کے مطابق ہندو دھرم کی اصالح کا بیڑا اٹھایا۔ناواجی نے رامانند کی خواہش پر
ایک مشہور کتاب بھگت مال لکھی۔ تلسی داس نے رامائن لکھی۔ جبکہ جے دیو اپنے وقت
کا مشہور شاعر تھا۔ اس کا کالم وجد اور سماع کی محفلوں میں گایا جاتا تھا۔ بھگت کبیر
رامانند کا چیال بنا اور رامانند کی ہدایت کے مطابق لوگوں کو گیان کا سبق دیتا تھا۔ وہ ایک
خدا کا قائل تھا ۔ بت پرستی کو گمراہی ذات پات کی تفریق کو ماتھے کا کلنک لہتا تھا۔
چےتنیہ:
یہ 1488عیسوی میں بنگال میں پیدا ہوا 25 ،سال کی عمر میں سنیاسی بن گیا ،پورے ملک
کا دورا کر کے محبت اور امن کا پرچار کیا ۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ خدا ہر آتما میں
موجود ہے اس لئے ہر فرد قابل تکریم ہے ۔ یہ ذات پات کا مخالف تھا۔ مساوات کا قائل تھا۔
غربا مساکین اور مصیبت ذدہ لوگوں سے محبت کرتا تھا اس کے نزدیک برہمن اور شودر
میں کوئی تمیز نہیں اس کے نزدیک خدا کی عبادت اور محبت ہی نجات کا ذریعہ ہے۔
سادھو:
مہاراشتر میں ایک مرہٹہ سادھو نام دیو ایک نیچ ذات خاندان میں پیدا ہوا اس نے توحید کا
پرچار کیا۔ پت پرستی کے خالف آواز بلند کی اور ذات پات کا شدید مخالف ہوا۔
گرو نانک:
نانک الہور کے قریب تحصیل شرق پور کے گاؤں تلونڈی میں 1466عیسوی میں پیدا ہوا۔
اس نے ہندی پنڈت سے پڑھی جبکہ فارسی ایک مسلمان سے پڑھی۔ نانک نے تلونڈی کے
ایک مسلمان کو لے کر مختلف خانقاہوں اور ہندوؤں کے مقدس مقامات کی سیر کی۔
سادھو ،سنتوں اور صوفیوں سے فیض حاصل کیا اور پھراپنی تبلیغ شروع کی۔
نانک نے شیخ اسماعیل بخاری ،علی ہجویری ،بابا فرید ،جالل الدین بخاری اور مخدوم
جہانیاں سے فیض حاصل کیا۔ اس لئے اسےبعض محققین مسلمان بھی مانتے ہیں۔ بابا گرو
نانک نے جو تعلیمات دیں ان کا خدوخال یہ ہے
توحید :گرونانک خالص توحید کے قائل تھے۔ ان کے خیال میں خالص توحید کا سبق کسی
گرو سے ہی مل سکتا ہے ۔
رسالت کا اقرار :گرونانک کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانیت کی ہدایے کے لئے رسالت ضروری
ہے ۔
قرآ ن مجید :گرونانک قرآن کو ہللا کاکالم مانتے تھے۔ اور اسے دنیا کی ہدایت کا ذریعہ
مانتے تھے
بابا نانک اوہام پسندی ،ضعیف االعتقادی ،رسوم پرستی ،ذات پات کی تمیز کے شدید
مخالف تھے۔
راے داس:
یہ بنارس میں پیدا ہوا۔ چمڑے کا کام کرتا تھا۔ سماجی حیثیت سے نیچ ذات سے تعلق رکھتا
تھا۔ اس کا نذریعہ تھا کہہ رام اکیال ہے۔ وہ عاقل ہے ،وہ ابدی ہے۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ
ہے۔ جبکہ بندہ بے عقل احمق اور گناہگار ہے۔
ملوک داس:
ملوک داس اکبر کے زمانہ میں 1574میں الہ آباد میں پیدا ہوا۔ اس نے ایک فرقہ کی بنیاد
رکھی جس میں نیچ ذات کے ہندو شامل ہوتے تھے۔ اس نے ظاہری مذہب کو رد کیا۔ اور
باطنی پاکیزگی پر زور دیا ۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ دنیا انسان کی دشمن ہے اور اس سے
حفاظت کا راستہ صرف خدا کا نام ہے ۔ دنیا فانی ہے۔ دنیاوی رشتے کسی کام کے نہیں۔
آدمی مٹی سے پیدا ہوا اور مٹی میں مل جاے گا۔
۱۔برہمن :یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے منھ سے پیدا کیا ہے :انہیں میں سے معلم،کاہن اور
قاضی ہیں ،اورانہی کی طرف لوگ شادی اوروفات کے معاملے میں رجوع کرتے ہیں ،اورانہی کی
موجودگی میں نذرونیاز دینا جائزہے۔
۲۔چتھری(کشتری) :یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے دونوں بازوؤں سے پیدا کیا ہے :یہ لوگ تعلیم
حاصل کرتے ہیں ،نیاز پیش کرتے ہیں اور دفاع کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں۔
۳۔ویش :یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنی ران سے پیدا کیا ہے :یہ لوگ کھیتی باڑی اور تجارت
کرتے ہیں ،مال کو جمع کرتے ہیں اور مذہبی اداروں میں خرچ کرتے ہیں۔
۴۔شودر(چمار) :یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے پاؤں سے پیدا کیا ہے،یہ لوگ اصلی سیاہ فام
لوگوں کے ساتھ اچھوت طبقہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کا کام اپنے سابقہ تینوں معّز ز برادریوں کی
خدمت کرنا ہے ،یہ لوگ حقیر وذلیل اورگندے پیشوں کو اپناتے ہیں۔
-یہ تمام لوگ دینی جذبےسے اس طبقاتی نظام کے تابع ہونے پر متفق ہیں۔
-مرد کے لئے اپنے سے اعلٰی طبقہ سے شادی کرنے کی اجازت ہے ،اوراپنے نیچے والے طبقہ سے
بھی شادی کرسکتا ہے ،لیکن بیوی چوتھے طبقہ شودر( چمار) سے نہیں ہونی چاہئے ،اسی طرح
شودر(چمار) طبقہ(ذات) کے مردکے لئے کسی بھی حالت میں اپنے سے اوپر طبقہ سے شادی کرنے
کی اجازت نہیں ہے۔
vبرہمن لوگ یہ سب سے چنیدہ مخلوق ہیں،اور انہیں دیوتاؤوں سے بھی جوڑا جاتا ہے ،ان کے لئے
اپنے غالم’’شودر‘‘کے مالوں میں سے حسب منشا لینے کا اختیار حاصل ہے۔
vجو برہمن مقّد س گرنتھ(کتاب) کو لکھتا ہے وہ بخشا ہواہے اگرچہ اس نے تینوں دنیا (لوکوں) کو اپنے
گناہوں سے تباہ کردیا ہو۔
vراجا کے لئے -چاہے حاالت کتنے بھی مشکل ہوں-کسی بھی برہمن شخص سے چنگی یا ٹیکس لینا
جائز نہیں ہے۔
vاگر برہمن قتل کا مستحق ہےتو حاکم کیلئے صرف اتنا جائز ہے کہ اس کا سرمونڈوادے ،لیکن اس
کے عالوہ (طبقہ کے لوگوں )کو قتل کیا جائے گا۔
vبرہمن کے لئے اپنے ملک میں بھوک سے مرنا صحیح نہیں ہے۔
vمنو کے قانون کے مطابق اچھوت لوگ چوپایوں سے زیادہ گرے اور کّتوں سے زیادہ ذلیل ہیں۔
vاچھوتوں کے لئے سعادت کی بات ہے کہ وہ برہمن کی خدمت کریں اوراس پران کے لئے کوئی
اجروثواب نہیں ہے۔
vاگرکوئی اچھوت کسی برہمن کو مارنے کے لئے اس پر ہاتھ یا الٹھی اٹھائے ،تو اس کے ہاتھ کاٹ
دئیے جائیں،اور اگر وہ اسے الت مارے تو اس کے َپیر کو چیر وپھاڑدیا جائے۔
vاگرکوئی اچھوت کسی برہمن کے ساتھ بیٹھنے کا ارادہ کرے تو راجا کو چاہئے کہ اس کے چوتڑ کو
داغ دے اور اسے ملک سے جالوطن کردے۔
vاگرکوئی اچھوت کسی برہمن کو تعلیم دینے کا دعوٰی کرے تو اسےکھولتا ہوا تیل پالیا جائے گا۔