You are on page 1of 14

‫ہ ن دو مت‬

‫ہندو مت قدیم ترین معروف مذاہب میں سے ایک ہے ۔ ِاس مذہب کی مقدس تحریروں کا‬
‫سلسلہ ‪ 1400‬سے ‪ 1500‬قبل مسیح تک پھیال ہوا ہے۔یہ سب سے زیادہ متنوع اور پیچیدہ‬
‫مذاہب میں سے ایک ہے جس کے الکھوں دیوی دیوتا ہیں۔ہندو بنیادی عقائد کی مختلف‬
‫اقسام رکھتے ہیں اور ِان میں مختلف فرقے پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ ُد نیا کا تیسرا بڑا‬
‫مذہب ہے‪ ،‬لیکن ہندوؤں کی اکثریت بنیادی طور پر بھارت اور نیپال میں ہے۔‬
‫اگرچہ ہندو مت کو اکثر کثیر ُخ دأوں کے ماننے والے سمجھا جاتا ہے‪ ،‬لیکن وہ ایک بڑے‬
‫ُخ دا(براہما) کو بھی مانتے ہیں ۔ براہما کو ایک ایسی ہستی مانا جاتا ہے جو پوری کائنات‬
‫کی حقیت اور وجود کے ہر حصے میں رہتی ہے۔ براہما ال شخصی اور ناقابِل ادراک ہے‬
‫اور اکثر ُاسے تین الگ اشکال یعنی براہما‪-‬خالق‪ِ ،‬و شنو‪-‬محافظ‪ ،‬اور شِیو‪-‬تباہ کرنے والے‬
‫کے طور پر ماناجاتا ہے۔ براہما کے ِان "پہلؤوں" کو بہت سے دوسرے اوتاروں کے ذریعہ‬
‫سےبھی جانا جاتا ہے۔ ہندو مت کے علم الہیات کا خالصہ کرنا مشکل ہے کیونکہ متعدد‬
‫ہندو فرقوں میں تقریبًا ہرطرح کے الہیاتی نظام کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ ہندو مت کے‬
‫ِان پہلوؤں کے بارےمیں سیکھ کر ِاس کے متعلق مزید جانا جا سکتا ہے۔‬

‫ہندو مت کی تاریخ‬
‫ہندو مت کی تاریخ برصغیر پاک وہند سے تعلق رکھنے والی مختلف مذہبی روایات کا‬
‫احاطہ کرتی ہے۔اس کی تاریخ لوہے کے زمانے سے برصغیر پاک و ہند میں مذہب کی‬
‫ترقی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے‪،‬۔اس طرح اسے دنیا کا سب سے قدیم مذہب کہا جاتا ہے۔‬
‫اسکالرز ہندومت کو مختلف ہندوستانی ثقافتوں اور روایات کی ترکیب سمجھتے ہیں‪ ،‬جس‬
‫کی جڑیں متنوع ہیں اور کوئی ایک بانی نہیں ہے۔‬
‫۔ہندو مت کی تاریخ کو اکثر ترقی کے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔‬
‫پہال دور‬
‫پہال دور وید سے پہلے کا دور ہے‪ ،‬جس میں وادی سندھ کی تہذیب اور مقامی ماقبل‬
‫تاریخی مذاہب شامل ہیں‪ ،‬جو تقریبًا ‪ 1750‬قبل مسیح میں ختم ہوئے۔‬
‫دوسرا دور‬
‫شمالی ہندوستان میں ویدک دور شروع ہوا‪ ،‬جس میں تاریخی ویدک مذہب کا تعارف ہند‬
‫آریائی ہجرت کے ساتھ ہوا‪ ،‬جو ‪ 1900‬قبل مسیح اور ‪ 1400‬قبل مسیح کے درمیان شروع‬
‫ہوا۔‬
‫تیسرا دور‬
‫اس کے بعد کا دور‪ 800 ،‬قبل مسیح اور ‪ 200‬قبل مسیح کے درمیان‪" ،‬ویدک مذہب اور‬
‫ہندو مذاہب کے درمیان ایک اہم موڑ" ہے‪ ،‬اور ہندو مت‪ ،‬جین مت اور بدھ مت کے لیے‬
‫ایک ابتدائی دور ہے۔‬

‫‪ ،‬ہندو مت کا کالسیکی "سنہری دور‬


‫‪ 320-650‬عیسوی۔اس دور میں ہندو فلسفہ کی چھ شاخیں تیار ہوئیں‪ ،‬یعنی سمکھیا‪ ،‬یوگا‪،‬‬
‫نیایا‪ ،‬ویشیکا‪ ،‬میمانسا اور ویدانت۔شیو ازم اور وشنوزم جیسے توحید پرست فرقوں نے اسی‬
‫دور میں بھکتی تحریک کے ذریعے ترقی کی۔‬
‫تقریبًا ‪ 650‬سے ‪ 1100‬عیسوی تک کا عرصہ کالسیکی دور یا ابتدائی قرون وسطٰی کی‬
‫تشکیل کرتا ہے‪ ،‬جس میں کالسیکی پرانک ہندو مت قائم ہوتا ہے‪،‬‬
‫بھگتی تحریک‬
‫ہندومت ہندو اور اسالمی دونوں حکمرانوں کے تحت ‪ 1750 1200.‬عیسوی میں‪ ،‬بھکتی‬
‫تحریک کی بڑھتی ہوئی اہمیت دیکھی گئی‪ ،‬جو آج بھی اثر انداز ہے‬
‫نو آبادیاتی دور۔‬
‫نوآبادیاتی دور میں مختلف ہندو اصالحی تحریکوں کا ظہور دیکھا گیا جو جزوی طور پر‬
‫مغربی تحریکوں سے متاثر تھے‪ ،‬جیسے کہ وحدت پسندی اور تھیوسفی۔‪ 1947‬میں‬
‫ہندوستان کی تقسیم مذہبی خطوط پر تھی‪ ،‬جمہوریہ ہند ہندو اکثریت کے ساتھ ابھرا۔‪20‬ویں‬
‫صدی کے دوران‪ ،‬ہندوستانی تارکین وطن کی وجہ سے‪ ،‬تمام براعظموں میں ہندو اقلیتیں‬
‫بنی ہیں‪ ،‬جن میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور برطانیہ میں مطلق تعداد میں سب سے‬
‫بڑی برادریاں ہیں۔‬

‫ہندو مت کا مقدس دینی ادب‬


‫۔ہندومذہب کی کتابیں‪:‬‬
‫ہندومذہب کی بہت بڑی تعداد میں کتابیں ہیں جن کا سمجھنا مشکل ہےاوران کی زبان بہت‬
‫عجیب وغریب ہے‪ ،‬ان کتابوں کی شرح کیلئے بہت ساری کتابیں تالیف کی گئی ہیں‪ ،‬جبکہ‬
‫بعض دوسری کتابیں ان شرحوں کی اختصار کے لئے لکھی گئی ہیں‪ ،‬اوریہ سب کی سب‬
‫ان(ہندومت) کے نزدیک مقّد س ہیں‪،‬اور ان میں سے اہم ترین درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔وید(‪:)Veda‬یہ سنسکرت زبان کالفظ ہے جس کا معنٰی حکمت ومعرفت کے ہیں‪،‬یہ‬
‫آریوں کی زندگی اورذہنی زندگی کی سادگی سے فلسفیانہ شعور واحساس تک ترقی کرنے‬
‫کے مدارج کی تصویرپیش کرتا ہے‪،‬اور اس میں کچھ ایسی دعائیں(بھجن) ہیں جو شکوک‬
‫وشبہات پر ختم ہوتے ہیں‪ ،‬اسی طرح اس میں رب کا ایسا تّص ور پایا جاتا ہے جو وحدت‬
‫الوجود (کائنات کی ہرچیز میں اللہ نظرآنایا ہر چیزکو اللہ کی ذات کا جزء سمجھنا) تک جا‬
‫پہنچتا ہے‪،‬اوریہ چار کتابوں سے مل کر بنا ہے۔‬
‫سام وید‬ ‫ج‬ ‫یجر وید‬ ‫ب‬ ‫رگ وید‬ ‫الف‬
‫اتھر وید‬ ‫د‬
‫اپنشد‬ ‫‪2‬‬

‫اپنشد کے مفہوم ہے قریب ہونا ہم تن گوش ہونا یہ ہندووں کی فقھی کتب ہیں اس میں‬
‫ہندووں کے نظریات کا فلسفہ ہے اور انہیں ویدوں کا تتمہ بھی کہا جاتا ہے اسکا ایک اور‬
‫نام ویدانت بھی ہے اس میں تیرہ لیکچر زیادہ مشھور ہیں اپنشد کے مکالموں کو اس‬
‫طرح لکھا گیا ہے کہ انہیں یاد کرنے میں آسانی ہو اس کے مضامین میں تضاد بھی ہے‬
‫اور تنوع بھی ہے نتائج اور فکر میں یکسانیت نہ ہے تاہم ایک بات جو اس میں مشترک‬
‫اور نمایاں ہے وہ ہے خدا پرستی کا رحجان پیدا کرنا‬
‫اپنشد کا بنیادی فلسفہ وحدت الوجود ہے یعنی برہما (خدا) اور آتمن(انسان) ایک ہی ہے‬
‫گویا کہ خدا اور انسان کی ماہیت ایک ہی ہے اسی فلسفہ کو حلول کا عقیدہ بھی کہا جاتا‬
‫ہے‬
‫اپنشد کی ابتدائی تعداد تیس تھی مگر اب ایک روایت کے مطابق ‪ 108‬ہو چکی ہے‬
‫اپنشد کا زمانہ تالیف ‪ 800‬قبل مسیح سے ‪ 500‬قبل مسیح بتایا جاتا ہے‬
‫‪۲‬۔مہابھارت(رزم نامہ‪،‬داستاِن جنگ)‪:‬‬
‫کورووں اور پانڈووں کے درمیان کی لڑائی کی کہانی ہے‪،‬اس کا موّلف عارف ’’پراشر‘‘‬
‫کا بیٹا’’ویاس‘‘ ہے‪ ،‬جس نے اسے ‪ ۹۵۰‬قبل مسیح میں ترتیب دیا تھا‪ ،‬یہ کتاب شاہی‬
‫خاندانوں کے سرداروں کے درمیان ایک جنگ کا تذکرہ کرتی ہے‪ ،‬اوراس جنگ میں دیوتا‬
‫بھی شریک ہوئے تھے۔مہا بھارت میں رزمیہ نظمیں بھی ہیں اور یہ مختلف عقائد اور‬
‫نظریات کا مرکب اور آمیزہ ہے اس میں ایک طرف ویدوں اور برہما کی مشرکانہ‬
‫رسومات کا سلسلہ موجود ہے تو دوسری طرف مواحدانہ وابستگی کے آثار بھی ہیں اس‬
‫میں کرم مارک کا نظریہ بھی ہے اور ثنویت بھی موجود ہے‬

‫بھگوت گیتا‬
‫بھگوت سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ہے مقدس نغمہ اور الہامی کالم ہندو دھرم‬
‫میں بھگوت گیتا کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے‬
‫اسے انجیل کرشن بھی کہا جاتا ہے بھگوت گیتا دراصل مہا بھارت کا ھی حصہ ہے یہ‬
‫باری کتب پر مشتمل ہے جن میں سے دس میں کرشن مہا راج کے کارنامے بیان ہیں‬
‫بھگوت گیتا میں تقریبا سات سو اشعار ایسے ہیں جن میں کرشن اور ارجن کا مابین مکالمہ‬
‫کی صورت میں ہیں‬
‫بھگوت گیتا کے دیگر اہم مضامین میں دنیا سے نفرت ‪ ،‬زندگی کے مختلف شعبوں کے‬
‫بارہ میں رہنمائی ‪ ،‬روھ کے الفانی ہونے‪ ،‬دیوتا کا اوتار کی شکل میں آنے اور اچھوتوں‬
‫کے لئے بھگوان کی عبادت کے طریقے بیان ہیں‬
‫رامائن‬
‫ہندو دھرم میں ایک اور مژھبی کتاب رامائن ہے اگر چہ اسے مہابھارت اور گیتا کی طرح‬
‫زیادہ مقبولیت تو حاصل نہ ہے تاہم یہ بھی ہندو دھرم کا ایک سرمایہ کہالتا ہے اس کتاب‬
‫میں زیادہ تر مغربی بنگال اور بہار کی روایات بیان کیا گیا ہے اس میں اشلوک درج ہیں‬
‫جن تعداد تقریبا بیس ہزار ہے اور اس کتاب کا ایک بڑا حصہ ان کے ایک مشھور شاعر‬
‫والمیک کی تصنیف ہے اس میں میں رام چندر کے واقعات شامل ہیں جنہیں وشنو کے‬
‫اوتار کے طور پر پیش کیا گیا ہے‬

‫ہندؤوں کے عقائدو تعلیمات‬


‫ہندؤوں کے عقائد کا اظہار ’’کرما‪،‬تناسخ ارواح ( آواگون) ‪ ،‬آزادی‪،‬اور وحدۃ الوجود‘‘ میں ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪ ۱‬۔ کرما‪ :‬بدلہ کا قانون یعنی دنیا کا نظام ایک الہی نظام ہے جو خالص عدل پر قائم ہے‪ ،‬یہ عدل‬
‫ضروری طور پر ہوکررہے گا‪،‬چاہے موجودہ زندگی میں‪،‬یا آنے والی زندگی میں ‪،‬اور ایک زندگی کا‬
‫بدلہ دوسری زندگی میں ملے گا‪ ،‬اور دنیا ابتال وآزمائش کا گھرہے ‪،‬جس طرح کہ یہ بدلے اور ثواب کا‬
‫گھرہے۔‬

‫کرم کا عقیدہ کوبہت اہمیت حاصل ہے۔ کرم کے عقیدے کے مطابق ہر عمل چھوٹا بڑا‪ ،‬اچھا بُرا انسانی‬
‫روح پر اثر انداز ہوتا ہے اور انسان اپنے عمل (کرم) کے لحاظ سے سزا اور جزا کا عمل مستحق ہوتا‬
‫ہے۔ یعنی کرم کے مطابق اچھا یا بُرا جنم لیتا ہے۔‬

‫‪۲‬۔آواگون (تناسخ ارواح) ‪:‬جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا جسم فنا ہوجاتا ہے‪ ،‬اوراس سے روح نکل‬
‫جاتی ہےاورپہلی زندگی میں اس نے جو عمل کئے ہیں اس کے مطابق وہ ایک دوسرے جسم میں حلول‬
‫کرجاتی ہے اور اس کا روپ اختیار کرلیتی ہے اور روح اس میں ایک نیا چکرشروع کرتی ہے۔‬

‫عقیدہ تناسخ یا اواگوں یا جونی چکر ہندو دھرم کا ایک اہم عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کے مطابق انسان کو‬
‫صرف ایک زندگی نہیں ملتی ہے‪ ،‬چنانچہ وہ مرنے کے بعد پھر جنم لیتا ہے اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے‬
‫اور ہر موت کے بعد اس کا اعمال نامہ یم یعنی موت کے دیوتا کے سامنے پیش ہوتا ہے‪ ،‬جو اسے‬
‫جانچتا ہے اور روح کو صفائی پیش کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر روح کو اس کے اعمال کے مطابق‬
‫نرک میں کچھ دنوں کے لیے بھیج دیتا ہے۔ جب یہ میعاد ختم ہوجاتی ہے‪ ،‬تو اسے دوبارہ جنم لینے کے‬
‫لیے بھیج دیتا ہے اور یہ چکر اس وقت تک چلتا رہتا ہے۔ جب تک انسان اچھے اور معقول اعمال کا‬
‫ذخیرہ کرلیتا ہے‪ ،‬تو اس کی مکتی نہیں ہوجاتی ہے۔ مگر مکتی (نجات) کیا ہے‪ ،‬معلوم نہیں ہے۔‬

‫معبودوں(دیوتاؤوں) کے بارے میں ہندومت کا تصّو ر ونظریہ‪:‬‬

‫‪ -‬توحید‪ :‬درست معنٰی میں توحید نہیں پایا جاتا ہے‪،‬لیکن جب وہ لوگ کسی ایک معبود (دیوتا) کی طرف‬
‫متوجہ ہوتے ہیں تودل وجان سے متوجہ ہوتے ہیں یہاں تک کہ ان کی نظروں سے دیگرتمام‬
‫معبود (دیوتا) اوجھل ہوجاتے ہیں‪ ،‬اور اس وقت وہ اسےپرم پرمیشور‪،‬یادیوتاؤوں کا دیوتا کے نام سے‬
‫مخاطب کرتے ہیں۔‬

‫‪-‬تعّد د‪ :‬وہ کہتے ہیں کہ ہرفائدہ مندیا نقصان دہ فطرت جیسے ‪:‬پانی‪،‬ہوا‪،‬دریاؤوں اورپہاڑوں ‪...‬کا ایک‬
‫معبود(دیوتا) ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے اور یہ بہت سارے دیوتا ہیں جن کی یہ لوگ پوجا اور‬
‫نذرونیاز کے ذریعے تقّر ب حاصل کرتے ہیں۔‬

‫تری مورتی‬

‫تثلیث(تری مورتی) ‪ :‬نوویں صدی قبل مسیح میں کاہنوں نے تمام دیوتاؤوں کو ایک دیوتا میں جمع‬
‫کردیاجس نے اپنی ذات سے دنیا کووجودبخشا ۔وہ تین دیوتا حسب ذیل ہیں‬

‫‪۱‬۔براہما‪ :‬اس اعتبار سے کہ وہ رب اوروجود کا سبب ہے۔‬

‫‪۲‬۔وشنو‪:‬اس اعتبار سے کہ وہ محافظ ونگہبان ہیں۔‬

‫‪۳‬۔شیو‪:‬اس اعتبار سے کہ وہ ہالک کرنے واال ہے۔ اس لئے جو شخص ان تینوں دیوتاؤوں میں سے‬
‫کسی ایک کی عباد ت کرتا ہے توگویا وہ ان سارےدیوتاؤوں کی عبادت کرنے واال ‪ ،‬یا ایک سب سے‬
‫بلند کی عبادت کرنے واال ہے‪ ،‬اوران کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ‪ ،‬اس طرح سے انہوں نے‬
‫عیسائیوں کے سامنے تثلیث کے عقیدہ کادروازہ کھول دیا۔‬

‫جانوروں خاص کر گائے کا تقدس‬

‫ہندو لوگ گائے اور کئی طرح کے رینگنے والے جانوروں جیسے ناگ (اژدہا)‪،‬اور کئی طرح کے‬
‫حیوانات جیسے بندر کو پاک سمجھتے ہیں‪ ،‬مگران سب کے بیچ گائے کو وہ تقدس حاصل ہے‬
‫جوہرتقّد س سے بر تر ہے۔اورمندروں‪،‬گھروں اور میدانوں میں اس کی مورتیاں(مجّسمے) لگی ہوتی‬
‫ہیں‪،‬اوراسے کسی بھی جگہ جانے اورمنتقل ہونےکی آزادی حاصل ہوتی ہے‪،‬کسی ہندو کے لئے اسے‬
‫تکلیف پہنچانا یا اسے ذبح کرنا جائز نہیں ہے‪ ،‬اگر اس کی موت ہوجائے تو مذہبی رواج کے ساتھ اسے‬
‫دفنایا جائے گا۔‬

‫عقیدہ حلول‬

‫ہندؤوں کے یہاں یہ اعتقاد پایا جاتا ہے کہ ان کے دیوتا کرشنا نامی ایک شخص کے اندربھی حلول‬
‫کئےہیں‪ ،‬اوراس کے اندر خالق انسان سے مل گیا ہے‪،‬یا الہوت (خالق)ناسوت(انسان) کے اندرحلول‬
‫کرگیا ہے‪ ،‬اوریہ لوگ کرشنا کے بارے میں ویسے ہی باتیں کرتے ہیں جیسا کہ نصارٰی لوگ عیسٰی‬
‫مسیح کے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔‬

‫کرم مارگ‬

‫ہندو دھرم میں یہ عقیدہ ہے کہ روح انسانی جسم میں مقید ہو گئی ہے اور زندگی ایک قید ہے انسان‬
‫آزاد نہ ہے بلکہ ماضی کے کرم یعنی اعمال کا پابند ہے انسانی زندگی غایت نجات ہے اور یہ نجات‬
‫تعذیب نفس سے حاصل ہوتی ہے اور نجات کی صورت یہ ہے کہ انسان پاکیزہ زندگی گزارے تاکہ‬
‫اسکی روح عالم ارواح مین چلی جائے اس کے لئے دیوتاونں کو قربانی دے ویدوں کا مطالعہ کرے‬
‫انسانوں کی خدمت کرے ان کے خیال میں برہمن کی مکتی ) نجات) عمل اور حصول علم میں ہے‬
‫کھشتری کی کی نجات جنگ میں ہے ویش کی نجات زراعت میں ہے اور شودر کی نجات خدمت میں‬
‫ہے‬

‫جنان مارگ‬

‫جنان مارگ بھی کرم مارگ کی طرح کا عقیدہ ہے اس کے حامل ہندووں کے نزدیک نجات کے لئے‬
‫صرف راہ عمل کافی نہیں ہے انسان کو پہلے جہالت سے نکل کر علم کی دنیا میں آنا چاہیے انسان کی‬
‫بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کوبرہمن آتما ( عالم ارواح) سے الگ سمجھتا ہے اس جہالت سے‬
‫نکلنا ہگا انسان اور برہمن آتما کا تعلق وہی جو دریا اور سمندر ہے دریا باآلخر سمندر میں گم ہو جاتا‬
‫ہے‬

‫بھگتی مارگ‬
‫بھگتی کا مفہوم ہے اپنے آپ کو وقف کرنا ہندو دھرم بھتی مارگ سے مراد یہ ہے کہ کسی انسان کا‬
‫اپنے آپ کو کسی دیوتا کے لئے وقف کر دینا ہے یعنی ہندو دھرم کے کسی دیوتا سے وابستہ ہوکر اسی‬
‫کی پوجا کے لئے اپنے آپ کو وقف کرنا لینا راہ نجات ہے‬

‫آزادی‪:‬‬

‫نیک اوربرےاعمال کے نتیجے میں باربار نئی زندگی وجود میں آتی ہے‪،‬تاکہ اس کے اندر روح کو‬
‫سابقہ چکرمیں دئیے گئے اعمال کے مطابق ثواب یا عقاب دیا جائے۔‬

‫جس شخص كو کسی چیز کی رغبت نہیں ہے اورہرگز کسی چیز میں رغبت نہیں رکھے گا اور‬
‫خواہشات کی غالمی سے آزاد ہو گيا‪ ،‬اور اس کا نفس مطمئن ہوگيا تو وہ اپنے حواس کی طرف نہیں‬
‫لوٹائى جاتى ہے‪،‬بلکہ اس کی روح جاکر براہما سے مل جاتی ہے۔‬

‫وحدت الوجود‪:‬‬

‫فلسفیانہ تجرید نے ہندؤوں کو اس اعتقاد تک پہنچادیا ہے کہ انسان افکارونظریات ‪،‬قوانین اور تنظیمیں‬
‫پیدا کرسکتا ہے‪،‬جس طرح کہ وہ ان کی نگہداشت کرنے‪،‬یا انہیں برباد کرنے کی طاقت رکھتا ہے‪،‬اور‬
‫اس طرح سے رب سے جاملتا ہے‪،‬اور نفس ہی بعینہ پیدا کرنے والی قّو ت ہوجاتی ہے۔‬
‫أ‪-‬روح معبودوں کی طرح دائمی وابدی مستمرہے‪،‬مخلوق نہیں ہے۔‬
‫ب۔انسان اور اس کے معبود کے درمیان تعلق اسی طرح ہے جیسے آگ کی چنگاری اور آگ کے‬
‫درمیان تعلق ہوتا ہے‪ ،‬اور جیسے بیج اور درخت کے درمیان تعلق ہوتا ہے۔‬
‫ج۔یہ پوری کائنات حقیقی وجود کا مظہر ہے‪،‬اور انسانی روح بلند روح کا ایک حّص ہ ہے۔‬
‫دوسرے نظریات اور عقائد‪:‬‬
‫۔جسموں کو مرنے کے بعد جالدیا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ یہ روح کو بلندی کی طرف اورعمودی شکل میں‬
‫جانے کی اجازت دیتا ہے‪ ،‬تاکہ ملکوت اعلٰی میں قریب سے قریب وقت میں پہنچ سکے‪،‬اسی طرح‬
‫جسموں کے جالنے میں روح کو جسم کے غالف سے مکمل طور سے چھٹکارا دالنا ہے۔‬

‫‪-‬جب روح چھٹکارا پاجاتی ہے اور اوپر چڑھ جاتی ہے تو اس کے سامنے تین دنیا ہوتی ہے‪:‬‬

‫‪1‬۔ عالم باال‪ :‬فرشتوں کی دنیا‬

‫‪2‬۔عالم انس‪ :‬حلول کے ذریعہ آدمیوں کا ٹھکانہ‬

‫‪3‬۔ عالم جہنم‪ :‬اور یہ گنہگاروں ونافرمانوں کے لئے ہوتا ہے۔‬

‫۔صرف ایک جہنم نہیں ہے‪ ،‬بلکہ ہرصاحب گناہ کے لئے ایک مخصوص قسم کی جہنم ہے۔‬

‫‪-‬عالم آخرت میں بعث(دوبارہ زندہ ہونا) صرف روحوں کے لئے ہوگا نہ کہ جسموں کے لئے۔‬

‫‪-‬جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہے وہ دوبارہ شادی نہیں کرے گی‪ ،‬بلکہ دائمی بدبختی میں‬
‫زندگی گزارے گی‪ ،‬اور ذلت ورسوائی اور ہتک عزت کی جگہ بن جائے گی‪ ،‬اور اس کا مرتبہ خادم‬
‫ونوکر کے مرتبہ سے کم ہوگا‪ ،‬اسی لئے بسا اوقات عورت اپنے شوہر کی وفات کے بعد شقاوت‬
‫وبدبختی کی زندگی میں ہونے والے عذاب کے خوف سے اپنے آپ کو خود جالڈالتی ہے‪،‬البتہ موجودہ‬
‫ہندوستان میں قانون نے اس عمل کو حرام قراردیدیا ہے۔‬

‫قربانی‬
‫یعنی قربانی کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ یہ آریاؤں کی رسم تھی‪ ،‬جو ہندو عہد تک جاری رہی۔ مختلف‬
‫راجاؤں کے عہد میں گھوڑے کی قربانی کا تذکرہ ملتا ہے۔ اوائل میں آدمی کی قربانی بھی رائج تھی۔‬
‫جانوروں کی قربانی کو اہمیت حاصل ہے‪ ،‬آج بھی کالی کو سیکڑوں بھنسوں چڑھائے جاتے ہیں۔ ہون‬
‫ہرقربانی کے کے لئےضروری سمجھا جاتا ہے۔‬

‫ستی بھی مذہبی رسم تھی‪ ،‬ہندو عہد میں رائج رہی۔‬

‫‪،‬اس کے عالوہ روزانہ غسل کرنا‬

‫‪،‬صبح شام سورج کی پوجا کرنا‬

‫مقدس مقامات کی زیارت کرنا اور‬

‫دیوتاؤں کے سامنے ناچنا گانا اہم مذہبی رسوم ہیں‬


‫ہندو مت کی اصالحی تحریکیں‬
‫بر صغیر میں بدھ مت سے لے کر سکھ مت تک کی تحریکیں مختصر کامیابی کے بعد صرف‬
‫چند رسم و رواج تک محدود ہو گئیں۔ بدھ مت کو ہی لیجئے جو کہ ایک زمانے میں پنجاب سے‬
‫لے کر افغانستان تک اپنی نظریاتی حدیں وسیع کر چکا تھا۔ لیکن تاریخی شہادت یہ ہے کہ کچھ‬
‫عرصے کے بعد ہندومت نے دوبارہ غلبہ حاصل کر لیا اور بدھ مت چند عجائب گھروں تک‬
‫محدود ہو گیا۔ جین مت اور مختلف دوسری تحریکوں کا بھی یہی انجام ہوا۔ برصغیر میں سب‬
‫سے ٓاخر میں سکھ مت کی تحریک ابھری جس میں ذات پات‪ ،‬جنسی اور طبقاتی نظام کی اصالح‬
‫کا پرچار کیا گیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ تقریبًا دو صدیوں کے بعد جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کی‬
‫شکل میں اس تحریک نے ایک عالقے میں حکومت قائم کر لی تو ہندومت کے بنیادی اعتقادات‬
‫نے دوبارہ غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا۔ یہاں تک کہ ستی کی رسم تک کو دوبارہ زندہ کر‬
‫لیاگیا‪ :‬مہاراجہ رنجیت سنگھ کے ساتھ سات عورتیں ستی ہوئی تھیں‬
‫سوال یہ ہے کہ برصغیر میں ہر اصالحی تحریک کیوں ناکام ہوئی اور ہندو مت کے رسم و رواج‬
‫نے کیوں غلبہ حاصل کر لیا؟ اس کا سطحی جواب تو ہندوئوں کی شاطرانہ چالوں میں ڈھونڈا جاتا‬
‫۔حقیقت یہ ہے کہ پچھلے تین ہزار سالوں میں برصغیر کے پیداواری نظام میں کوئی بنیادی تبدیلی‬
‫نہیں ٓائی تھی۔ پورے عالقے میں نوے فیصد سے زیادہ ٓابادی خود کفیل دیہات میں رہائش پذیر‬
‫رہی اور چھوٹے چھوٹے شہر ان کی وافر پیداوار پر پلتے رہے۔ اس سارے دور میں نہ صرف‬
‫دیہات خود کفیل تھے بلکہ ان کے اندر خاندانی اکائیاں بھی اپنی ضرورت کی ہر جنس خود اگاتی‬
‫تھیں اور باقیماندہ ضرورت کی اشیاء مقامی دستکار مہیا کرتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی تک صرف‬
‫نمک ‪،‬مٹی کا تیل اور دوسری چند اشیاء باہر سے منگوائی جاتی تھیں۔ اس نظام پیداوار نے جس‬
‫طرح کے نظریات کو جنم دیا تھا وہ ہندومت کی شکل میں سامنے ٓائے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں‬
‫کے مذہب تبدیل کرنے کے باوجود ان کے بنیادی اعتقادات میں تبدیلی نہیں ٓاتی تھی یعنی وہ قدیم‬
‫ہندومت کے ارد گرد گھومتے رہتے تھے۔ برصغیر کے مختلف مذاہب کے لوگوں کے بنیادی‬
‫عقائد ایک ہی جیسے تھے اور اسی وجہ سے مذہبی برداشت بھی زیادہ تھی جو اب ختم ہوتی‬
‫نظر ٓارہی ہے۔‬

‫اصالحی تحریکیں‬

‫شنکر اچاریہ ‪:‬‬


‫آٹھویں صدی کے آخر میں ماال باغ کے ساحل پر کانڈی نامی گاوں میں شنکر اچاریہ پیدا‬
‫ہوا جو نہایت ہی ذہین و فطین بچہ تھا سولہ سال کی عمر میں تمام فلسفوں اورالہیات پر‬
‫حاوی ہو گیا تھا۔‬

‫جب شنکر اچا ریہ نے ہندو دھرم کی ابتر حالت دیکھی تو اس کی اصالح کا ارادہ کیا۔اور‬
‫گھر سے نکل کر پورے ہندوستان میں گھومتے رہے۔اس دوران اپنے نظریات کے مطابق‬
‫کتب تحریر کیں ان میں تفسیر ودیانت‪ ،‬تفسیر اپنشد اور تفسیر گیتا قابل ذکر ہیں۔ مہاتما بدھ‬
‫کی طرح انہوں نے بھی الگ مذہبی جماعت قاہم کرنا چاہی۔‬

‫نظریات‪:‬‬
‫شنکر اچاریہ نے تمام ہندوؤں کو ایک ویدک دھرم پر جمع ہونے کی دعوت دی اور کہا خدا‬
‫ایک ہے وہی حقیقت ہے اور باقی سب دھوکا ہے۔ دنیا بے قیمت ہے اس کی حقیقت بر ہمہ‬
‫ہے اور تمام انسان اس حقیقت کے جذ ہیں۔ اس کا نظریا تھا تھا رہبانیت قائم کی جائے اس‬
‫اپنی خواہشات کو رب کے سپرد کیا جاے‬
‫شنکر راما نج‪:‬‬
‫شنکر ‪ 1016‬عیسوی میں مدراس میں پیدا ہوا۔ وہ یادو پرکاش کا شاگرد بنا مگر اپنے استاد‬
‫سے اختالف ہوا تو جمنا منی کا چیال بن گیا اس کی وفات پر اس کا جانشین مقرر ہوا ۔ اسی‬
‫دوران اپنے نظریات اور فلسفوں پر کتب تصنیف کیں ۔بعد اذاں اپنے نظریات کی تبلیغ کے‬
‫لئے ملک کے دورے کئے۔‬
‫نظریات‪:‬‬
‫رامانج حقیت میںبھگتی تحریک کا بانی ہے اس نے شنکر اچاریہ کے مایا( دنیا) کےنظریے‬
‫کی مخالفت کی ۔ شنکر خدا کی صفات کا قائل نہ تھا جبکہ رامانج خدا کی صفات کا قائل‬
‫تھا۔ اس کے نزدیک ہللا کی ذات میں کوئی شریک نہیں‪ ،‬وہی قادر مطلق ہے وہی روح اور‬
‫مادہ کو پیدا کرنے واال ہے۔ سب اس کے محتاج ہیں۔ اس نے خدا کے اوتاروں کو بھی تسلیم‬
‫کیا۔‬
‫رمائج ذاتوں کی پرانی تقسیم کے قائل تھے۔ مگرشودروں کے حق عبادت کو تسلیم کرتے‬
‫تھے۔‬

‫رامانج نے نجات حاصل کرنے کے پانچ درجے بتاے۔‬

‫‪)(1‬مندر میں جھاڑو دینا۔ (‪ )2‬پوجا کےلئے پھول چن کر النا (‪ )3‬خدا کی پوجا کرنا(‪ )4‬خدا‬
‫کے ناموں کے گیت گانا(‪ )5‬مراقبہ کرنا‬

‫لنگایت‪:‬‬

‫لنگایت اور بعض دوسرے فرقوں میں بھی اسالمی تعلیم کے واضع اثرات نظر آتے ہیں ان‬
‫کا گرو بساو تھا ان کا عقیدہ ہے کہ خدا ایک ہے وہ تمام صفات عالیہ کا مجموعہ ہے۔ وہی‬
‫تمام مادے اور تمام ارواح کا خالق و مالک ہے ۔ وہ ذات پات کا کوئی قائل نہیں تھا۔ اس کے‬
‫نظریے کی مطابق طالق کی اجازت تھی اور بیوہ کو دوسری شادی کا حق تھا۔ یہ مردوں‬
‫کو دفن کرتے تھے۔ تناسخ کا عقید ان کے نزدیک غلط تھا۔‬

‫رامانند‪:‬‬
‫رامانند ‪ 1299‬عیسوی میں الہ آباد کے ایک برہمن خاندان میں پیدا ہو ا۔ بنارس میں تعلیم‬
‫حاصل کی۔ رامانند در حقیقت رمانج کے مذہب کا پیروکار تھا۔ اس کا فلسفہ سیکھا اور ہندی‬
‫زبان میں اس کی اشاعت کی۔‬

‫اس نے اپنے ماننے والوں کودو گروہوں میں تقسیم کیا۔ ایک گروہ ان لوگوں کا تھا جو زاہد‬
‫کہالتے تھےاور دوسرا گروہ دنیادار۔ زاہدوں کی تربیت رمانج کے طریقہ پر کی اور‬
‫رمانند ذات پات کا مخالف تھا اس کے مریدوں میں تمام ذاتوں کے افراد تھے۔ اس کے‬
‫شاگردوں میں ناواجی‪ ،‬سور داس‪ ،‬تلسی داس‪ ،‬جے دیو‪ ،‬کبیر مشہور ہیں۔ جنہوں نے رامانج‬
‫کی خواہش کے مطابق ہندو دھرم کی اصالح کا بیڑا اٹھایا۔ناواجی نے رامانند کی خواہش پر‬
‫ایک مشہور کتاب بھگت مال لکھی۔ تلسی داس نے رامائن لکھی۔ جبکہ جے دیو اپنے وقت‬
‫کا مشہور شاعر تھا۔ اس کا کالم وجد اور سماع کی محفلوں میں گایا جاتا تھا۔ بھگت کبیر‬
‫رامانند کا چیال بنا اور رامانند کی ہدایت کے مطابق لوگوں کو گیان کا سبق دیتا تھا۔ وہ ایک‬
‫خدا کا قائل تھا ۔ بت پرستی کو گمراہی ذات پات کی تفریق کو ماتھے کا کلنک لہتا تھا۔‬

‫چےتنیہ‪:‬‬
‫یہ ‪ 1488‬عیسوی میں بنگال میں پیدا ہوا‪ 25 ،‬سال کی عمر میں سنیاسی بن گیا‪ ،‬پورے ملک‬
‫کا دورا کر کے محبت اور امن کا پرچار کیا ۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ خدا ہر آتما میں‬
‫موجود ہے اس لئے ہر فرد قابل تکریم ہے ۔ یہ ذات پات کا مخالف تھا۔ مساوات کا قائل تھا۔‬
‫غربا مساکین اور مصیبت ذدہ لوگوں سے محبت کرتا تھا اس کے نزدیک برہمن اور شودر‬
‫میں کوئی تمیز نہیں اس کے نزدیک خدا کی عبادت اور محبت ہی نجات کا ذریعہ ہے۔‬
‫سادھو‪:‬‬
‫مہاراشتر میں ایک مرہٹہ سادھو نام دیو ایک نیچ ذات خاندان میں پیدا ہوا اس نے توحید کا‬
‫پرچار کیا۔ پت پرستی کے خالف آواز بلند کی اور ذات پات کا شدید مخالف ہوا۔‬

‫گرو نانک‪:‬‬

‫نانک الہور کے قریب تحصیل شرق پور کے گاؤں تلونڈی میں ‪ 1466‬عیسوی میں پیدا ہوا۔‬
‫اس نے ہندی پنڈت سے پڑھی جبکہ فارسی ایک مسلمان سے پڑھی۔ نانک نے تلونڈی کے‬
‫ایک مسلمان کو لے کر مختلف خانقاہوں اور ہندوؤں کے مقدس مقامات کی سیر کی۔‬
‫سادھو‪ ،‬سنتوں اور صوفیوں سے فیض حاصل کیا اور پھراپنی تبلیغ شروع کی۔‬
‫نانک نے شیخ اسماعیل بخاری ‪ ،‬علی ہجویری‪ ،‬بابا فرید ‪ ،‬جالل الدین بخاری اور مخدوم‬
‫جہانیاں سے فیض حاصل کیا۔ اس لئے اسےبعض محققین مسلمان بھی مانتے ہیں۔ بابا گرو‬
‫نانک نے جو تعلیمات دیں ان کا خدوخال یہ ہے‬
‫توحید‪ :‬گرونانک خالص توحید کے قائل تھے۔ ان کے خیال میں خالص توحید کا سبق کسی‬
‫گرو سے ہی مل سکتا ہے ۔‬
‫رسالت کا اقرار‪ :‬گرونانک کا یہ عقیدہ تھا کہ انسانیت کی ہدایے کے لئے رسالت ضروری‬
‫ہے ۔‬
‫قرآ ن مجید ‪ :‬گرونانک قرآن کو ہللا کاکالم مانتے تھے۔ اور اسے دنیا کی ہدایت کا ذریعہ‬
‫مانتے تھے‬
‫بابا نانک اوہام پسندی‪ ،‬ضعیف االعتقادی‪ ،‬رسوم پرستی‪ ،‬ذات پات کی تمیز کے شدید‬
‫مخالف تھے۔‬
‫راے داس‪:‬‬
‫یہ بنارس میں پیدا ہوا۔ چمڑے کا کام کرتا تھا۔ سماجی حیثیت سے نیچ ذات سے تعلق رکھتا‬
‫تھا۔ اس کا نذریعہ تھا کہہ رام اکیال ہے۔ وہ عاقل ہے‪ ،‬وہ ابدی ہے۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ‬
‫ہے۔ جبکہ بندہ بے عقل احمق اور گناہگار ہے۔‬

‫ملوک داس‪:‬‬

‫ملوک داس اکبر کے زمانہ میں ‪ 1574‬میں الہ آباد میں پیدا ہوا۔ اس نے ایک فرقہ کی بنیاد‬
‫رکھی جس میں نیچ ذات کے ہندو شامل ہوتے تھے۔ اس نے ظاہری مذہب کو رد کیا۔ اور‬
‫باطنی پاکیزگی پر زور دیا ۔ اس کی تعلیم یہ تھی کہ دنیا انسان کی دشمن ہے اور اس سے‬
‫حفاظت کا راستہ صرف خدا کا نام ہے ۔ دنیا فانی ہے۔ دنیاوی رشتے کسی کام کے نہیں۔‬
‫آدمی مٹی سے پیدا ہوا اور مٹی میں مل جاے گا۔‬

‫۔ہندوسماج میں طبقاتی نظام‪:‬‬


‫‪ -‬جب سے آریا لوگ ہندوستان آئے ہیں انہوں نے طبقات کو تشکیل دیا ہے جوآج تک موجود ہیں‪،‬اوران‬
‫کے خاتمہ کا کوئی راہ دکھائی نہیں دیتا‪ ،‬کیونکہ ان کے اعتقاد کے مطابق یہ اللہ کی تخلیق کردہ ابدی‬
‫تقسیمات ہیں۔‬

‫‪-‬منو کے قوانین میں طبقات کا ذکراس طرح آیا ہوا ہے‪:‬‬

‫‪ ۱‬۔برہمن‪ :‬یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے منھ سے پیدا کیا ہے‪ :‬انہیں میں سے معلم‪،‬کاہن اور‬
‫قاضی ہیں‪ ،‬اورانہی کی طرف لوگ شادی اوروفات کے معاملے میں رجوع کرتے ہیں‪ ،‬اورانہی کی‬
‫موجودگی میں نذرونیاز دینا جائزہے۔‬
‫‪۲‬۔چتھری(کشتری) ‪ :‬یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے دونوں بازوؤں سے پیدا کیا ہے‪ :‬یہ لوگ تعلیم‬
‫حاصل کرتے ہیں‪ ،‬نیاز پیش کرتے ہیں اور دفاع کے لئے ہتھیار اٹھاتے ہیں۔‬

‫‪۳‬۔ویش‪ :‬یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنی ران سے پیدا کیا ہے‪ :‬یہ لوگ کھیتی باڑی اور تجارت‬
‫کرتے ہیں ‪ ،‬مال کو جمع کرتے ہیں اور مذہبی اداروں میں خرچ کرتے ہیں۔‬

‫‪۴‬۔شودر(چمار) ‪:‬یہ وہ لوگ ہیں جن کو برہما نے اپنے پاؤں سے پیدا کیا ہے‪،‬یہ لوگ اصلی سیاہ فام‬
‫لوگوں کے ساتھ اچھوت طبقہ کی تشکیل کرتے ہیں۔ان کا کام اپنے سابقہ تینوں معّز ز برادریوں کی‬
‫خدمت کرنا ہے‪ ،‬یہ لوگ حقیر وذلیل اورگندے پیشوں کو اپناتے ہیں۔‬

‫‪-‬یہ تمام لوگ دینی جذبےسے اس طبقاتی نظام کے تابع ہونے پر متفق ہیں۔‬

‫‪-‬مرد کے لئے اپنے سے اعلٰی طبقہ سے شادی کرنے کی اجازت ہے‪ ،‬اوراپنے نیچے والے طبقہ سے‬
‫بھی شادی کرسکتا ہے‪ ،‬لیکن بیوی چوتھے طبقہ شودر( چمار) سے نہیں ہونی چاہئے‪ ،‬اسی طرح‬
‫شودر(چمار) طبقہ(ذات) کے مردکے لئے کسی بھی حالت میں اپنے سے اوپر طبقہ سے شادی کرنے‬
‫کی اجازت نہیں ہے۔‬

‫‪v‬برہمن لوگ یہ سب سے چنیدہ مخلوق ہیں‪،‬اور انہیں دیوتاؤوں سے بھی جوڑا جاتا ہے‪ ،‬ان کے لئے‬
‫اپنے غالم’’شودر‘‘کے مالوں میں سے حسب منشا لینے کا اختیار حاصل ہے۔‬

‫‪v‬جو برہمن مقّد س گرنتھ(کتاب) کو لکھتا ہے وہ بخشا ہواہے اگرچہ اس نے تینوں دنیا (لوکوں) کو اپنے‬
‫گناہوں سے تباہ کردیا ہو۔‬

‫‪v‬راجا کے لئے‪ -‬چاہے حاالت کتنے بھی مشکل ہوں‪-‬کسی بھی برہمن شخص سے چنگی یا ٹیکس لینا‬
‫جائز نہیں ہے۔‬

‫‪v‬اگر برہمن قتل کا مستحق ہےتو حاکم کیلئے صرف اتنا جائز ہے کہ اس کا سرمونڈوادے ‪ ،‬لیکن اس‬
‫کے عالوہ (طبقہ کے لوگوں )کو قتل کیا جائے گا۔‬

‫‪v‬وہ برہمن جس کی عمر دس سال کی ہے وہ اس شودر(چمار) پر فوقیت رکھتا ہے جس کی عمر‬


‫سوسال کے قریب ہے‪،‬جس طرح باپ اپنے بیٹے پر فوقیت وبرتری رکھتا ہے۔‬

‫‪v‬برہمن کے لئے اپنے ملک میں بھوک سے مرنا صحیح نہیں ہے۔‬

‫‪v‬منو کے قانون کے مطابق اچھوت لوگ چوپایوں سے زیادہ گرے اور کّتوں سے زیادہ ذلیل ہیں۔‬

‫‪v‬اچھوتوں کے لئے سعادت کی بات ہے کہ وہ برہمن کی خدمت کریں اوراس پران کے لئے کوئی‬
‫اجروثواب نہیں ہے۔‬

‫‪v‬اگرکوئی اچھوت کسی برہمن کو مارنے کے لئے اس پر ہاتھ یا الٹھی اٹھائے ‪،‬تو اس کے ہاتھ کاٹ‬
‫دئیے جائیں‪،‬اور اگر وہ اسے الت مارے تو اس کے َپیر کو چیر وپھاڑدیا جائے۔‬
‫‪v‬اگرکوئی اچھوت کسی برہمن کے ساتھ بیٹھنے کا ارادہ کرے تو راجا کو چاہئے کہ اس کے چوتڑ کو‬
‫داغ دے اور اسے ملک سے جالوطن کردے۔‬

‫‪v‬اگرکوئی اچھوت کسی برہمن کو تعلیم دینے کا دعوٰی کرے تو اسےکھولتا ہوا تیل پالیا جائے گا۔‬

‫‪ v‬کّتا‪،‬بلی‪،‬مینڈھک‪،‬چھپکلی‪،‬کّو ا‪ ،‬اّلو اور اچھوت طبقہ کے قتل کا کفّارہ برابر ہے۔‬

You might also like