You are on page 1of 118

‫ن ن‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪1‬‬

‫باب دوم‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال بطور سوانح‬


‫نگار‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال بطور سوانح نگار‬


‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی سوانی زن دہ رود کے‬
‫نام سے تحریر کی۔اس ک ا ج ائزہ لی نے سے پہلے س وانح س وانح‬
‫نگاری اور اس کے اردو میں ارتقاء ک ا ج ائزہ پیش کی ا ج ائے گا۔‬
‫س وانح نگ اری‪  ‬ادب کی ای ک ق دیم ص نف ھے۔س وانح نگ اری‬
‫دراص ل کس ی ش خص کی داخلی اور خ ارجی زن دگی کے تم ام‬
‫پہلوؤں کا مفصل مطالعہ ہے ج و اس کی زن دگی کے ارتق اء اور‬
‫اس کے ظ اہر و ب اطن ک و پیش ک ر س کے ۔اس میں میں اس‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪2‬‬

‫شخص کے خارجی حاالت اور ماحول ک و س امنے رکھ ا جات ا ہے۔‬


‫انس ان ق دیم زم انے سے ہی‪  ‬اپ نی پس ندیدہ شخص یات میں‬
‫دلچسپی لیتا رہا ہے۔ انسان کی یہی دلچس پی س وانع نگ اری ک ا‬
‫موجب بنی ۔سوانح نگاری کو ایک عرصے تک تاریخ کی ایک شاخ‬
‫ق رار دی ا جات ا رہا لیکن رفتہ رفتہ یہ ادب میں ش مار ہونے لگی۔‬
‫سوانح نگار سوانح لکھتے ہوئے ایک م ورخ کے ط ور پ ر پ ر اس‬
‫شخصیت کی زندگی اور اس کے زمانے کے حاالت ک و بھی بی ان‬
‫کرتا ہے۔سوانح نگار کا اسلوب یہ طے کرتا ہے کہ وہ سوانح ت اریخ‬
‫میں ش مار ہوگی ی ا ادبی فن پ ارہ ب نے گی۔ابت دا میں م ذہبی‬
‫شخصیات کی سوانح عمریاں تحریر کی گئی۔یہی وجہ ہے کہ اس‬
‫عہد کی سوالے عمری وں میں میں نیازمن دانہ ی ا عقی دت من دانہ‬
‫رویہ بھی زیادہ پایا جاتا ہے اور عقیدت میں بعض اوقات وہ ب اتیں‬
‫بھی لکھ دیں گی‪  ‬جن کا اس شخص یت سے ک وئی تعل ق نہ تھا۔‬
‫اس رویے کی وجہ سے سے شخصیت کی تصویر کشی مکمل نہ‬
‫ہو پ اتی اور اس کی تص ویر ادھ وری رہ ج اتی۔اگ ر مص نف غ یر‬
‫جانبدارانہ رویہ اختیار کرتا تو اس ص ورت میں میں اس کے ان در‬
‫ایک عدم دلچسپی پی دا ہوتی جس سے جس تجو اور تحقی ق میں‬
‫کمی واقع ہوجاتی۔اس رویے کا ایک فائ دہ یہ بھی ہوت ا کہ مص نف‬
‫صرف بال وجہ جانبداری کا مظ اہرہ نہیں کرت ا کت ا اور شخص یت‬
‫سے ناانصافی یا ناجائز مدح سرائی سے گریز کرتا ہے۔سونح کے‬
‫باب میں ای ک روش وہ بھی تھی جس میں میں محض شخص یت‬
‫کے منفی پہلوؤں کو تالش کیا جاتا اور شخصیت کے روشن پہل و‬
‫نظر انداز کر دیے جاتے حاالنکہ ایک اچھا سوانح نگار کار ان تمام‬
‫چیزوں سے دامن بچ ا ک ر اعت دال کی ص ورت اختی ار کرت ا ہے ۔‬
‫س وانح نگ ار کی ذمہ داری بہت ب ڑی ہوتی ہے کی ونکہ اس‪  ‬کی‬
‫تحری ر لوگ وں ک و مت اثر ک رتی ہے اس ل ئے اسے چ اہئے کہ وہ‬
‫محض شخص یت کے کے زن دگی کے محاس ن اور مع ائب بی ان‬
‫کریں رائے قائم نہ کرے کرے یہ قاری جاری ہے اس پر چھوڑ دینا‬
‫چاہیے۔ گویا سوانح نگاری کے باب میں س چائی اور ص داقت کی‬
‫اہمیت بنیادی ہے۔سوالی دیوار کے لیے یہ بھی ازح د الزمی ہے کہ‬
‫وہ اپنے اپ نے موض وع میں مم دوح کی ح د سے زی ادہ تعری ف نہ‬
‫کریں اور دیانتداری یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یا غیر جانبدرانہ‬
‫ان چیزوں کو کو سامنے رکھیں اور خوبی اں ی ا اور نق ائض پیش‬
‫کیے جائیں جائیں تاکہ اس کا اصل حسن برقرار رہے۔‬
‫س وانح نگ اری کی مقاص د کے تحت لکھی ج اتی ہے۔ان مقاص د‬
‫میں تفریح اور اصالح کے پہل و ک و خصوص ی اہمیت حاص ل ہے ۔‬
‫اس لئے وہی سوانح خوبصورت ہوگی جو تفریح کے س اتھ س اتھ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪3‬‬

‫اپنے اندراصالحی پہلو بھی لیے ہوئے ہو ۔ہر سوانی نگار کو سوانح‬
‫لکھتے وقت مختلف مراح ل سے گزرن ا پڑت ا ہے ان مراح ل میں‬
‫پہال مرحلہ شخصیت کا انتخ اب ہے س وانح نگ ار کے ل یے یہ ب ات‬
‫بہت اہم ہے کہ وہ کس شخصیت کا انتخاب کرے کیا وہ شخص یت‬
‫واقعی اس قاب ل ہے کہ پڑھ نے والے اس کی زن دگی سے کچھ‬
‫حاصل کر س کیں گے ۔دوس رے م رحلے میں شخص یت جس کی‬
‫زندگی کو بیان کرنا ضروری ہے یع نی اس کی زن دگی گھی میں‬
‫ہونے والے واقعات کو اس طرح سے بیان کیا جائے کہ پ ورا عہ د‬
‫آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ای ک اچھی س وانح عم ری وہی ہ وگی‬
‫جس میں افراد کے ساتھ ساتھ تاریخ کے جھ روکے بھی س رگرم‬
‫سفر نظر آئے۔سوانح نگاری کے تیسرے مرحلے میں میں یہ ب ات‬
‫اہم ہے کہ مطلوبہ شخصیت کے کونسے واقعات کو موضوع بنای ا‬
‫جائے۔سوال میں کسی شخص کی زندگی کے ہر واقعے کو بی ان‬
‫کرن ا ممکن نہیں نہیں انتخ اب کے س اتھ س اتھ مص نف ک و انہی‬
‫واقعات کو سامنے النا چاہیے یے جو اہمیت اور افادیت کے اعتبار‬
‫سے سے سب سے بڑھ ک ر ہون۔اس مقص د کے ل یے یے س وانح‬
‫عمری کے لیے حاصل ہونے واال مواد اہم ہیں ہیں یہ مواد مختل ف‬
‫لوگوں کی یاداشتوں روزنامچوں ح دود خ اتون اور اہل خ انہ کی‬
‫گفتگ و سے اکٹھ ا کی ا ج ا س کتا ہے ۔اس ح والے سے سے آج‬
‫اخبارات سوشل میڈیا اور اور ن ئے مص ادر کی خصوص ی اہمیت‬
‫ہے۔اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ بنیادی مآخذ ت ک پہنچ ا ج ائے‬
‫اور اگر بنیادی ماخذ موجود نہیں تو ث انوی حی ثیت کے م واد سے‬
‫استفادہ کیا جائے۔ماخذات تک رس ائی کے بع د بع د موج ود م واد‬
‫کی چھان پھٹک اور اس کی ترتیب کو ایک ت وازن کے س اتھ آگے‬
‫بڑھان ا ای ک مش کل م رحلہ ہے ہے جس میں س وانح نگ ار اگ ر‬
‫کامیاب ہو جائے تو وہ بہترین سوانح تخلی ق ک ر س کتا ہے۔س وانح‬
‫نگاری میں عموما انف رادی شخص یت ک و موض وع بنای ا جات ا ہے‬
‫لیکن تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعیت کا پہل و بھی‬
‫ساتھ ساتھ چلتا ہے۔‬
‫دنی ا میں س وانح نگ اری ف ری ک ا فن کب ش روع ہ وا اس‬
‫ح والے سے مس تند س ب ح والے موج ود نہیں ہیں۔س وانح کی‬
‫ابت دائی نق وش کے ط ور پ ر مق بروں میں محف وظ خ اکوں ک و‬
‫اہمیت دی ج اتی ہے اور چین میں میں مختل ف بادش اہوں کی‬
‫س وانح عم ری ش ائع کی گ ئی ہے ۔انگری زی ادبی ات مین ولیم‬
‫روپرکی تھامس مور کو پہلی بہترین س وانح عم ری ک ا درجہ دی ا‬
‫جات ا ہے ج و ‪ 1626‬میں ش ائع ہوئی۔مغ ربی س وانح عم ری میں‬
‫جیم ز واص ل کی الئ ف س یمل جونس ن ک و اعلی ت رین س وانع‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪4‬‬

‫عمری کا اعزاز حاصل ہے۔دنیا کی پہلی س وانحی لغت س ولہویں‬


‫صدی کے وسط میں سوئٹزرلینڈ میں تیار ہوئی۔سوانح نگاری ک و‬
‫شخص یات کے ح والے سے مختل ف قس موں میں تقس یم کی ا‬
‫جاسکتا ہے ۔مختلف شخصیات کی زندگی اور شعبہ ہے زندگی کو‬
‫مدنظر رکھتے ہوئے ان کی سوان عمری کو مختلف اقس ام میں‬
‫ل ہے‬ ‫یم درج ذی‬ ‫کتا ہے یہ تقس‬ ‫ا جاس‬ ‫یم کی‬ ‫تقس‬
‫‪1‬۔تاریخی سوانح عمری‪ ‬‬
‫‪2‬۔سیاسی وسماجی سوانح عمری‪ ‬‬
‫‪3‬۔افسانوی سوانح عمری‪ ‬‬
‫‪4‬۔ادبی و فکری سوانح عمری‪ ‬‬
‫مشرق میں سوانح کے باب میں اسالم کے بعد ایک روش واض ح‬
‫طور پر نظر آتی ہے جس میں خاص مقص دیت کے تحت ص حت‬
‫سوانح عمریاں لکھیں گی۔یہ سوانح عمریاں سو ان سے بڑھ ک ر‬
‫سیرت کا درجہ رکھتی تھی کیونکہ کہ ان میں تحقیق اور جستجو‬
‫کا رویہ پہلے سے موجود سوانح سے مختلف تھ ا۔اس ض من میں‬
‫ڈاکٹر سید عبداللہ لکھتے ہیں‪ :‬‬
‫"مس لمانوں میں س ب سے زی ادہ ح دیث‬
‫کی وجہ سے ترقی ہوئی کیونکہ حدیث کے‬
‫راویوں کے حاالت زندگی کا جمع کرنا اور‬
‫ان کی چھ ان بین کرن ا ح دیث کی ص حت‬
‫کے تعین کے ل یے ازبس ض روری تھ ا اس‬
‫طرح علم ائے ح دیث نے ہزاروں نہیں بلکہ‬
‫الکھ وں اف راد کے س وال جم ع ک یے اس‬
‫سے اش خاص کی زن دگی سے دلچس پی‬
‫کی تحریک پیدا ہوئی۔"‬
‫عبداللہ سید ڈاکٹر سرسیداحمدخان کے ن امور رفق ا ایجوکیش نل‬
‫بک ہاؤس علی گڑھ ‪ 1988‬صفحہ‪ 93‬‬
‫عربی ادب میں سوانح نگاری کے نمونے سیرت کی ش کل‬
‫میں ملتے ہیں جس میں انہوں نے صحابہ اور دیگر کی ا ہے انہ وں‬
‫نے اس ماحول اور حاالت پر بھی بھی روشنی ڈالی ہے۔یو سیرت‬
‫کو مکمل کرنے کے پیچھے ایک م ذہبی ج ذبہ تھ ا اور اس ج ذبے‬
‫کے تحت بہت کڑی کڑی ش رائط ک و م دنظر رکھ ا گی ا اور انہیں‬
‫ضابطوں کے تحت سوانح میں تحقیق کے عنص ر ک و ش امل ک ر‬
‫دیا گیا۔ع ربی سے یہ روایت فارس ی زب ان میں پہنچیں اور وہ اں‬
‫بھی اسی خیال ک و م دنظر رکھ تے ہوئے اس ح والے تحری ر کی‬
‫گئی۔‪ ‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪5‬‬

‫اردو ادب کی دیگر اصناف کے مق ابلے میں س وانح عم ری‬


‫کی عمر کچھ زیادہ نہین۔اردو زب ان میں میں س وانح کے ابت دائی‬
‫نق وش مختل ف ش کلوں میں نظ ر آتے ہیں۔س وانح کے ابت دائی‬
‫نمونے منتشر ہے جو مختلف تاریخوں تذکروں سیرت کی کتابوں‬
‫ملفوظات روزنامچوں اور یاداشتوں پر مبنی ہے۔ممتاز فاخرہ اس‬
‫حوالے سے لکھتی ہیں۔‬
‫سوانح نگاری کے تدریجی ارتق اء ک ا‬
‫مطالعہ کیا جائے ت و اس کے اج زاء منظم‬
‫نہ سہی لیکن منتشر طور پر تاریخ و تذکرہ‬
‫اور س یرت کی کت ابوں میں مل تے ہیں‬
‫ایس ی تص انیف عموم ا م ذہبی اک ابر کے‬
‫حاالت و ملفوظ ات پ ر مش تمل ہوتی ہیں‬
‫اور اولیائے کرام کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ‬
‫روزن امچوں اور یادداش توں میں بھی‬
‫ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں ۔ملفوظات اور‬
‫مناقب میں‪  ‬نےعام طور پر حقیقت بی انی‬
‫کے بجائے روایات کو اہمیت دی گئی ہے‪ ‬‬
‫ممتاز فاخرہ ڈاک ٹر اردو میں فن س وانح نگ اری ک ا ارتق ا ص فحہ‬
‫‪ 66‬‬
‫‪1857‬ء سے قبل اردو نثر عہد طفولیت میں تھی۔اسی دور‬
‫میں سوانح نویسی ک ا ٓاغ از ہو چک ا تھ ا۔اردو زب ان کی یہ خ وش‬
‫قسمتی ہے کہ سر سید کے زمانے ہی سے ہر لح اظ سے مکم ل‬
‫س وانح عمری اں ادب میں وج ود میں ٓا چکی تھیں۔یہ حقیقیت‬
‫صنف ادب کی طرح سوانح نگاری‬ ‫ِ‬ ‫کسی سے پو شیدہ نہیں کہ ہر‬
‫کے فن میں بھی اردو ادب نے ابتدا میں عربی و فارسی کا تتب ع‬
‫کی ا۔س وانح نگ اری کی اہم اور ق دیم ش اخ س یرت نگ اری ہے۔‬
‫فن سوانح نگاری میں سب سے پہلے اسی شعبے‬ ‫مسلمانوں نے ِ‬
‫کو فروغ دیا۔قدما کے ہاں افراد کے مقابلے میں اجتماعی سوانح‬
‫نگاری کا رجحان زی ادہ رہا۔یہی وجہ ہے کہ پ رانے ادب میں ت ذکرہ‬
‫نگ اری کے فن ک و ت رقی ملی۔انف رادی س وانح عمری وں میں‬
‫بادشاہوں کی سوانح جو سوانح سے زیادہ ت اریخ معل وم ہ وتی ی ا‬
‫اولیاء کرام کی سوانح عمری اں لکھی ج اتی جن میں س وانح کم‬
‫اور اولیاء کے معجزات کا بی ان زی ادہ ہوت ا۔اردو ادب میں س وانح‬
‫نگ اروں نے اس ی ادب سے فائ دہ اٹھای ا۔س وانح کی یہی ابت دائی‬
‫نقوش سوانح نگاری کی ترغیب کا باعث بنے۔ڈاکٹر اشفاق احم د‬
‫ورک لکھتے ہیں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪6‬‬

‫اردو میں س وانحی انگ اری فارس ی کے‬


‫اولین نقوش پر ق دم جم اتی نظ ر آتی ہے‬
‫تجھ کے تیموری ت زک ب ابری ہم ایوں ن امہ‬
‫اور ت زک جہانگیری جہ اں مس لمان‬
‫بادشاہوں کے خ ارجی ح االت سے متعل ق‬
‫م واد ف راہم ک رتی ہے وہیں اردو س وانح‬
‫نگاری کے لئے ترغیب کا سبب بھی ہے ان‬
‫کے جہ انگیری ک ا اس لوب انش اپردازی‬
‫دلکش ی اور ہیئت کے اعتب ار سے لے‬
‫سوال ہی عہد کے لیے راستہ کھولتی نظ ر‬
‫آتی ہے‪ ‬‬
‫اشفاق احمد بزرگ ڈاکٹر اصناف نظم و نثر الہور الفیصل پبلشرز‬
‫صفحہ ‪259‬‬
‫حالی سے قب ل اردو ادب میں س وانح نگ اری کی مس تند روایت‬
‫منتش ر مل تی۔س وانح عم ری کے ض من میں اردو میں ابت دائی‬
‫منظوم پیرائے میں بھی کوشش نظر آتی ہیں نص رتی وجہ قطب‬
‫شاہی ابن نشاطی نے قطب شاہی عہ د مثنوی وں کی ش کل میں‬
‫میں سوانحی نقوش چھوڑے۔ڈاکٹر محمد عمر رضا لکھتے ہیں۔‬
‫اردو میں پ ائی ج انے والی مثنوی وں میں‬
‫بھی سو عناصر پائے جاتے ہیں اس ض من‬
‫میں یہ قابل ذکر ہیں جو سوانح نگاری کے‬
‫اولین نق وش کی حی ثیت رکھ تی ہیں۔‬
‫سترویں ص دی عیس وی میں گولکن ڈہ اور‬
‫بیج ا ب رکی دک نی ریاس توں نے اردو کی‬
‫آبی اری کے دوران مثن وی کے ت ئیں اپ نی‬
‫دلچسپی دکھای۔مال وجھی قلی قطب ش اہ‬
‫نصرتی غواص ی اور ابن نش اطی نے اردو‬
‫ادب کے پ ودے ک و س ینچنے میں اپ نی‬
‫بہترین صالحیتیں صرف کی ہے۔نصرتی نے‬
‫اپ نے وال د کے ع ادات و خص ائل ک ا نقشہ‬
‫م ؤثر ان داز میں کھینچ ا ہے۔اس سلس لے‬
‫میں نص رتی ک ا علی ن امہ بھی اہمیت ک ا‬
‫حامل ہے ۔‬
‫محم د عم ر رض ا ڈاک ٹر اردو میں س وانحی ادب فن اور روایت‬
‫الہور ایکشن ہاؤس ‪ 12 2012‬صفحہ ‪ 331‬‬
‫اس کے بعد بعد سوانح کی دیگر شکلیں سامنے آئی۔ت ذکرہ‬
‫نگاری کی روایت اس سے پہلے موجود تھی جسے مکمل سوانح‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪7‬‬

‫نگاری نہیں کہا جا سکتا۔سر س ید کی تحری ک کے تحت ارود میں‬


‫سوانح نگاری کا باقاعدہ ٓاغاز ہوا۔ مغربی اثرات کے نفوذ کے بع د‬
‫اردو ادب میں سوانح نگ اری کی ابت دائی کوشش وں میں کس ی‬
‫حد تک من اظرانہ رن گ پای ا جات ا ہے۔ اردو ادب نے موالن ا الط اف‬
‫حسین حالی ہی وہ شخصیت ہیں جنہیں اردو کے اوّلین نقاد ہونے‬
‫کے ساتھ ساتھ اوّلین سوانح نگار ہونے کا شرف بھی حاص ل ہے۔‬
‫خصوص ا’’حی اتِ جاوی د‘‘ اردو ادب میں‬
‫ً‬ ‫ان کی س وانح عمری اں‬
‫سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔حقیقی معنوں میں یہی اردو کی‬ ‫ِ‬
‫حیات جاوید سے‬ ‫ِ‬ ‫پہلی با ضابطہ اور باقاعدہ سوانح عمر ی ہے۔(‪)۱‬‬
‫ات س عدی‘‘ اور’’ ی اد گ ارِ‬ ‫پہلے حالی کی دو سوانح عمریاں’’حی ِ‬
‫غالب‘‘منظر ع ام پ ر ٓاچکی تھیں۔ان دو کتب کے ت الیفی مراح ل‬
‫ات‬‫سے گزرتے ہوئے حالی کا سوانحی شعور ارتقا پ ذیر رہا۔ ’’حی ِ‬
‫جاوی د‘‘ میں یہ ش عور پہلے سے کہیں پختہ ص ورت میں س امنے‬
‫ٓایا۔اس تصنیف کے سلس لے میں س ر س ید تحری ک کے زی رِ اث ر‬
‫مغ ربی ادبی ات کے مح دود مط العے سے حاص ل ہونے والی‬
‫تحقیقی و تصنیفی سمجھ بوجھ کو کام میں الیا گیا۔ ڈاک ٹر رفی ع‬
‫الدین ہاشمی رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫ات جاوی د میں خامی اں اور‬ ‫ِ‬ ‫بالش بہ حی‬
‫کوتاہیاں موجود ہیں‪،‬اس کےب اوجود ح الی‬
‫ل س تائش اور‬ ‫کا ذخیرہ سوانح عم ری قاب ِ‬
‫بہت سے ما بع د س وانح نگ اروں کے ل ئے‬
‫الئق رشک ہے۔ج و کچھ وہ نہیں ک ر س کے‬ ‫ِ‬
‫اس کے لئے انہیں معذور سمجھنا چ اہیے۔(‬
‫‪)۲‬‬
‫حالی کے معاصرین میں سوانح نگ اری میں ش بلی ک ا ن ام‬ ‫‪  ‬‬
‫اہم ہے۔شبلی کی سوانح نگاری کے حوالے سے یہ ب ات اہم ہے کہ‬
‫وہ رسول اک رم ﷺ اور حض رت عم رِ ف اروق ؓ‬
‫جیس ی مق دس ہس تیوں کے س وانح نگ ار ہیں۔ــ’’س یرۃ‬
‫النبیﷺ ‘‘کے بعد’’الفاروق‘‘ ش بلی کی بہ ترین‬
‫تص نیف ہے اور س وانحی لح اظ سے مکم ل اورمفص ل‬
‫ہے۔’’الفاروق ‘‘میں شبلی ایک اچھے سوانح نگار بھی ث ابت ہوئے‬
‫ہیں اور ایک اچھے مٔورخ بھی۔ڈاکٹر سید شاہ علی ’’الفاروق‘‘ کے‬
‫حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫حیاتِ جاوید کے بع د ج امعیت اور تکمی ل‬
‫وغیرہ کے لح اظ سے اردوکی ن و تعم یری‬
‫اور تجدی دی س وانح عمری وں میں اگ ر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪8‬‬

‫کسی کتاب کا ن ام لی ا ج ا س کتا ہے ت و وہ‬


‫الفاروق ہے۔(‪)۳‬‬
‫حالی و شبلی کے معاص رین میں جن حض رات نے س وانح‬ ‫‪  ‬‬
‫نگ اری کے می دان میں طب ع ٓازام ائی کی ان میں ذکاء اللہ‪،‬ن ذیر‬
‫احمد‪،‬چراغ علی او رعبد الحلیم شرر کے نام اہم ہیں۔مولوی ذکاء‬
‫تاریخ ہندوستان‘‘ ج و دس جل دوں پ ر‬ ‫ِ‬ ‫اللہ کی اہم تصانیف میں’’‬
‫’’ٓائین قیصری‘‘ ملکہ وکٹ وریہ کی س وانح‪،‬ش امل ہیں۔‬ ‫ِ‬ ‫مشتمل ہے‬
‫حالی اور شبلی کے بعد ٓانے والے سوانح نگ اروں نے ان دو ن وں‬
‫کی روایت سے فائ دہ اٹھای ا۔جس کے ن تیجے میں اردو ادب کے‬
‫سوانح عمریوں کے اثاثے میں گراں قدر اضافہ ہوا۔دار المصنفین‬
‫کے سوانح نگاروں نے حالی و ش بلی کی روایت کی ٓابی اری میں‬
‫صہ لی ا۔س ید س لیمان ن دوی نے س یرت‬ ‫علمی ولولے کے ساتھ ح ّ‬
‫الن بیﷺ کی ت دوین و تکمی ل ک رنے کے س اتھ‬
‫حیات ش بلی لکھ ک ر س وانح‬ ‫ِ‬ ‫مالک‪،‬سیرت عائش ہؓاور‬
‫ِ‬ ‫حیات‬
‫ِ‬ ‫ساتھ‬
‫نگ اری کی روایت ک و ٓاگے بڑھای ا۔افتخارع الم کی’’حی ات‬
‫الن ذیر‘‘اک رام اللہ ن دوی کی’’وقارِحی ات‘‘‪،‬رئیس احم د جعف ری‬
‫’’حیات دب یر‘‘اور‬
‫ِ‬ ‫کی’’سیرت محمد علی‘‘افضل حسین ثابت کیـ‬‫ِ‬
‫قاضی محمد عب د الغف ار کی س وانح عم ری’’ٓاث ار جم ال ال دین‬
‫افغ انی‘‘اس دور کی چن د اہم س وانح عمری اں ہیں۔اس دور کی‬
‫سوانح عمریوں کا س ر چش مہ تحری ک ج ذبہ احی ائے ق ومی ہے۔‬
‫چنانچہ یہ سوانح عمریاں ناموروں کی یادگار کی بجائے ق وم کی‬
‫ترقی کے خیال سے لکھی گئیں۔‬
‫بیس ویں ص دی کے ابت دائی عش روں ت ک اردو ادب میں‬ ‫‪  ‬‬
‫سینکڑوں سوانح عمریاں وجود میں ٓا چکی تھیں۔غالب کے تعل ق‬
‫سے تین اہم س وانحات‪،‬بیس ویں ص دی کی چ وتھی دہ ائی‬
‫میںس امنے ٓائیں۔(‪)۴‬غالم رس ول مہ ر کی ’’غ الب‘‘ ش یخ محم د‬
‫اک رم کی س وانح عم ری’’غ الب ن امہ‘‘اور مال ک رام کی’’ذک رِ‬
‫غالب‘‘۔مالک رام کی تحقیقی کاوش’’ذک رِ غ الب(‪۱۹۳۸‬ئ)‘‘اپ نے‬
‫ل لح اظ ہے۔بالش بہ یہ‬ ‫دور اور غالب کی سوانح عمریوں میں قاب ِ‬
‫ایک محققانہ‪،‬مسرت بخش‪،‬مختصر مگر جامع سوانح ہے۔(‪)۵‬‬
‫غالم رس ول مہ ر کی س وانح عم ری’’س یرت س ید احم د‬ ‫‪  ‬‬
‫شہید‘‘اردو سوانح عمریوں کے سلسلے کی ایک کامیاب کوشش‬
‫ہے۔قیام ِ پاکستان کے بعد پاکستان کے ق ومی و ملی ہیروزپر بہت‬
‫س ی س وانح عمری اں چھ پیں۔ ان س وانح عمری وںمیں جہاں بہت‬
‫سے ت اریخی حق ائق سے پ ردہ اٹھت ا ہے وہ اں ان تخلیق ات پ ر‬
‫مغربی سوانح نگاروں کے اثرات بھی نظر ٓاتے ہیں۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪9‬‬

‫سوانح عمری ای ک انس ان کی پی دائش سے م وت ت ک کے‬ ‫‪  ‬‬


‫افعال کا بیان ہے۔یا یوں کہیے کہ ایک انس ان کی حی ات ی ا ت اریخ‬
‫ناف ادب‬‫ِ‬ ‫ہے۔اردو ادب کے سفر میں ای ک مق ام ٓای ا کہ تم ام اص‬
‫میں ہیتی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں۔اص ناف میں نت ن ئے تج ربے‬
‫سامنے ٓانے لگے۔یہ تجربات قیام پاکستان کے بعد مختلف شکلوں‬
‫میں سامنے آتے رہے۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر ان میں میں‬
‫جدت بھی آئیں اس ح والے سے اگ ر س رکاری ک ردار ک و دیکھ ا‬
‫جائے تو وہ بھی بیجا نہ ہوگا کیونکہ پاکستان میں اک ادمی ادبی ات‬
‫پاکستان کے تحت ایک ادبی سلسلہ شروع ہوا جس می درجن وں‬
‫کتب لکھی گئیں جو س وانح عم ری کے فن ک و م دنظر رکھ ک ر‬
‫تیار کی گ ئی۔یہ سلس لہ پاکس تانی ادب کے معم ار کے ن ام سے‬
‫جاری و ساری ہے۔‬
‫سوانح نگ اری ای ک ص بر آزم ا محنت طلب ک ام ہے اور اس کے‬
‫منصب سے عہدہ برا ہون ا ہر کس ی کے بس ک ا ک ام نہیں ۔ایکس‬
‫والی نویس کو کو اپنی موضوع شخص یت سے والہانہ محبت اور‬
‫دلچس پی نہ ہو ت و اس کی س وانح ک ا ح ق ادا نہیں ک ر س کتا ۔‬
‫سمانی نگار کو کو ایک مورخ اور محقق کا مزاج آج رکھنا چ اہیے‬
‫آئے اور اسے ای ک کامی اب ادیب کی ط رح اظہار کے مختل ف‬
‫مسائل پ ر غ ور ہو۔یہی نہیں اسے ج رت اور بے ب اکی سے اپ نی‬
‫رائے کے اظہار ک ا حوص لہ بھی ہون ا چ اہیے ۔س وانح نگ اری پ ر‬
‫مختلف اوقات میں مختلف حاالت ک ا اور عل وم ک ا اث ر ہوت ا رہ ا‬
‫بیس ویں ص دی میں علم نفس یات کی وجہ سے سے مختل ف‬
‫شخصیات کی کی س وانح نگ اری پ ر لکھ ا گی ا اور ک ئی ن ئے رخ‬
‫سامنے آگئے۔اب سوال یا مریض ض س بق آم وزی اص الح اخالق‬
‫اور کردار سازی کا ذریعہ نہیں رہی ہیں اب اس میں میں من اقب‬
‫ومحاسن سن کے عالوہ اس شخصیت کے کردار شعر پر بے الگ‬
‫تج زیہ بھی کی ا جات ا ہے اور اس میں میں بیت جانب داری اور‬
‫تعصب سے کام نہیں لیا جات ا۔اگرک وئی س وانح محض محاس ن و‬
‫مناقب تذکرہ تک محدود ہو جائے تو وہ سوانح عم ری کے حق ائق‬
‫سے انحراف کی مثال بن جاتی ہے۔عالمہ اقبال کو سوانح نگ اری‬
‫سے دلچس پی تھی وہ اور وہ ام یر مین ائی ای نگ اری کے ح والے‬
‫سے سے اپنے خط میں میں ان تمام امور کا ذکر ک رتے ہیں ج و‬
‫ایک سوانحنگار کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔یہ خط ‪ 28‬فروری ‪1933‬‬
‫کے ہفتہ وار اخبار پنجاب فوالد الہور میں شائع ہوا تھا۔‬
‫م اہ رواں کے کس ی اخب ار میں میں نے‬
‫پڑھا تھا کہ فن س خن کے اس تاد اور مل ک‬
‫نظم کے بادش اہ ام یر مین ائی کی الئ ف‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪10‬‬

‫ابھی تک نہیں لکھی گئی۔راقم مضمون نے‬


‫جناب امیر محمد مرح وم کے اک ثر تالم ذہ‬
‫اور بالخص وص حض رت جلی ل‪ ،‬ری اض‬
‫‪،‬مض طر‪ ،‬ک وثر‪ ،‬عاب د اور ان کے خل ف‬
‫ارشد حضرت اختر وغیرہ کو متوجہ کیا ہے‬
‫کہ ایسا ش اعر بے نظ یر اور ان کی الئ ف‬
‫اب تک نہ لکھی ج ائے۔بے ش ک یہ ح یرانی‬
‫کی بات ہے کہ کیوں اب تک فلس طین کے‬
‫قدر دال بزرگوں نے کی شاعرانہ اور پبلک‬
‫ک و کاغ ذی ج امہ پہنای ا ‪،‬جس کے دیکھ نے‬
‫کے لیے طبیعت بہت بے چینی سے منتظر‬
‫ہیں۔کیسے ص احب کم ال کی س وانے‬
‫عم ری ای ک نہیں‪  ‬ج اتی اور ک ئی ک ئی‬
‫بارچھبتی مگر‪:‬ع‪ ‬‬
‫اے کم ال افس وس ہے تجھ پ ر کم ال‬
‫افس وس ہے ۔حض رت ام یر کے کالم ک ا‬
‫مطالعہ کرنے والوں سے مخفی نہیں کہ وہ‬
‫صرف شاعر ہی نہیں تھے بلکہ ان کا درجہ‬
‫شاعری سے بہت ب ڑا ہوا تھ ا ۔ان کے کالم‬
‫میں ایک خاص قسم کا درد اور ایک خاص‬
‫قسم کی لی پ ائی ج اتی ہے ۔ج و ص احب‬
‫دلوں کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ کلیجہ‬
‫پکڑ ک ر رہ ج اتے ہیں ۔آہ اہ ایسے بے نظ یر‬
‫شخص کے حاالت ج و اص لی معن ون میں‬
‫تلمیذ حمن کہالنے کا مس تحق ہو۔ابھی ت ک‬
‫گنڈا میں پ ڑے ہیں ہی ان دھیر نہیں ت و اور‬
‫کیا ہے ؟ اگر یہی شخص ی ورپ ی ا ام ریکہ‬
‫میں ہوتا تو اس کی زندگی میں ہی اسکی‬
‫کی س وانح عمری اں نک ل ج اتیں۔مگ ر‬
‫افسوس ہے ہندوستان میں ان کی زن دگی‬
‫میں تو درکنار ان کی وف ات کے بع د بھی‬
‫ان کی کوئی الئف نہ لکھی گئی۔میرا ف ا ال‬
‫ایک رسی سے خیال تھ ا کہ حض رت ام یر‬
‫کی زندگی کے جس تہ جس تہ واقع ات قلم‬
‫بن د ک رو مگ ر اب مرح وم کی الئ ف کے‬
‫متعلق ایک تازہ مضمون دیکھ کر پھر آمن د‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪11‬‬

‫آئی ہے کہ جس ط رح ہوں میں اپ نے ک ام‬


‫کو پورا کرو اور بہت جلد۔‬
‫م یرا مقص د اص ل میں حض رت ام یر کی‬
‫شاعری اور شاعرانہ الئف پ ر بحث ک رنے‬
‫کا ہے اس لیے چند باتیں حضرت ام یر کے‬
‫تالمذہ اور دیگر واقف کاروں سے دری افت‬
‫کرنا چاہتا ہوں ‪:‬‬

‫حضرت امیر کی کوئی ایسی ب ات جس نے ان کی زن دگی‬ ‫‪.1‬‬


‫یا شاعری پر کوئی خاص اثر کیا ہو۔‬
‫ان کے زبانی مقولے‪ ‬‬ ‫‪.2‬‬
‫ان کے بچپن کی بعض ب اتیں جن سے ان کی آئن دہ عظمت‬ ‫‪.3‬‬
‫کا پتہ چلتا ہوں ۔‬
‫الولی کس کس مق ام کاس فرکیااور‬ ‫‪.4‬‬
‫کیوں؟‬
‫کس کس استاد سے کیا کیا حاصل کیا ؟‬ ‫‪.5‬‬
‫ان کی عادات‬ ‫‪.6‬‬
‫چند ایک مشاعروں کی مفصل کیفیت‪ ‬‬ ‫‪.7‬‬
‫یہ بت ا دین ا ض روری ہے کہ یہ مض مون انگری زی میں لکھ ا‬
‫جائے گا اور والیت کے کسی مشہور اخب ار ی ا رس الے میں‬
‫چھپوایا جائے گا امید ہے کہ حض رت ام یر کے ن ام لی وا اور‬
‫ان کے تالمذہ مجھے امداد دے کر مبدوءۃ فرمائیں گے ۔‬
‫ال ایم ا۔اے‬ ‫د اقب‬ ‫راقم محم‬
‫اسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ کالج الہور‪ ‬‬
‫محمد عبداللہ قریشی معاصرین اقب ال کی نظ ر میں الہ ور‬
‫مجلس ترقی ادب ‪ 1977‬صفحہ‪23-‬تا‪25‬‬
‫عالمہ اقبال کی سوانح عمریوں کا جائزہ‪ ‬‬
‫عالمہ اقبال کی سوانح عمری زندہ روج جسے ڈاکٹر جاوی د‬
‫اقب ال نے تحری ر کی ا اس سے پہلے یہ ض روری ہے کہ زن دہ‬
‫رود حی ات اقب ال ک ا تش کیلی دور جل د اول کی اش اعت‬
‫‪ 1979‬تک اقبال کے احوال اور س وانگ ج و کچھ طب ع ہ وا‬
‫اس پر ایک اجمالی نظر ڈالی ج ائے ج ائے۔اس ج ائزے کی‬
‫بدولت اقبال کی سوانح تحریر ک رنے کے ح والے سے چن د‬
‫کوششوں اور چیتوں کا اندازہ لگان ا آس ان ہو ج ائے گ ا ت و‬
‫دوسری طرف زندارود کی خصوصیات اور اہمیت میت کے‬
‫طائر نے آسانیہ وجائے گی اور اقبال کی سوانح عم ری کی‬
‫قدروقیمت بھی سامنے آجائے گی۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪12‬‬

‫عالمہ اقبال کی سوانح اور ح االت زن دگی‬


‫کب مرتب کرنے کا احساس اقبال کی کی‬
‫زندگی کے آغاز ہی میں پیدا ہو گیا تھ ا۔اس‬
‫کے ب اوجود ای ک م دت ت ک اقب ال آل کے‬
‫پرستار ان کی مختصر س وانح عم ری کے‬
‫منتظ ر رہے۔اس ح والے سے س ب سے‬
‫پہلی چ یز س ر عب دالقادر کے کے دیب اچے‬
‫میں س امنے آتی ہے ۔رس الہ مخ زن الہ ور‬
‫کے پہلے ش مارہ ی ار اپری ل ‪ 1901‬میں‬
‫حوالہ کی اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھ ا‬
‫ہے‪:‬‬
‫یہ اسی گویا اقبال کی اردو شاعری کا پبلک ط ور پ ر آغ از‬
‫ہوا اور ‪ 1905‬تک جب وہ والیت گ ئے یہ سلس لہ ج اری رہ ا‬
‫اس عرصہ میں وہ عموما مخزن کے ہر نمبر کے لیے ک وئی‬
‫نہ کوئی نظم لکھتے رہے ط‬
‫اقب ال‪ ،‬کلی ات اقب ال اردو الہ ور ش یخ غالم علی این ڈ س نز‬
‫‪ 1983‬صفحہ ‪ 13‬‬

‫عالمہ اقب ال کی شہرت بیس ویں ص دی کے آغ از سے ہی‬


‫شروع ہوگئی اور دو سال کے عرصے میں یعنی ‪ 1902‬ت ک‬
‫لکھنو کے علمی رسالہ خدنگ نظر کو ان کے حاالت زندگی‬
‫شائع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔‬
‫عالمہ اقب ال کی ی ورپ روانگی سے پہلے اردو ن ثر میں ان کے‬
‫چار مضامین ‪ 49‬نظمیں اور تیرا غزلیں ش ایع ہ و چکی تھی اس‬
‫کے س اتھ س اتھ علم االقتص اد کے ن ام سے کت ابیں چھپ چکی‬
‫تھی۔عالمہ اقب ال اس وقت گ ورنمنٹ ک الج الہ ور میں تدریس ی‬
‫رانجام دے رہے تھے اور اس وقت کے الہور کے‬ ‫رائض س‬ ‫ف‬
‫س ماجی اور علمی شخص یات کے س اتھ ان کے گہرے مراس م‬
‫تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ الہور سے انگلس تان کے ل یے روانہ‬
‫ہوئے تو الہور کے ریل وے اسٹیش ن پ ر انہیں اس وقت کی ممت از‬
‫شخصیات نے ال وداع کہا ۔عالمہ اقب ال نے ی ورپ میں اپ نے قی ام‬
‫کے دوران زیادہ تر وقت تعلیمی مصروفیات میں گ زارا رہ ا لیکن‬
‫وہ انگلس تان کی علمی و ادبی اور س ماجی زن دگی میں بھی‬
‫ش ریک رہے ہے اور اس دوران مخ زن کے ل یے ش اعری بھی وہ‬
‫برابر بھیجتے رہے جو شائع ہوتی رہی۔لن دن میں انہوں نے اس الم‬
‫کے ح والے سے لیکچ ر بھی دیے ج و اس زم انے کے انگری زی‬
‫جرائد میں ش ائع ہوئے۔وطن واپس ی پ ر ان کی شہرت پہلے سے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪13‬‬

‫بڑھ چکی تھی اور ریلوے اسٹیشن پر ان کا پرجوش استقبال کیا‬


‫گی ا تھ ا جب وہ س یالکوٹ روانہ ہوئے ت و راس تے میں جگہ جگہ‬
‫لوگوں نے ان کا استقبال کی ا اس سے معل وم ہوت ا ہے کہ اقب ال‬
‫کی دلکشی اچھی اور شخصیت لوگوں کے دل وں میں میں گھ ر‬
‫کر چکی تھی۔‬
‫اقبال کے ح االت زن دگی ‪1909‬ءمیں ان کے دوس ت محم د دین‬
‫ف وق لی‪"  ‬ح االت اقب ال" کے ن ام سے کش میری میگ زین میں‬
‫شائع کیے ۔اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک اقب ال کے ش اعرانہ‬
‫اور علمی کارناموں میں اضافہ ہوت ا رہا اور وہ ملکی اور ع المی‬
‫سطح پر لوگوں کو مت اثر ک رتے رہے لیکن ان کی شخص یت اور‬
‫سوانح پر کوئی کام نہ ہو س کا۔انیس س و چ وبیس میں بان گ درا‬
‫میں شیخ عبدالقادر کا دیباچہ ایک تعارفی تحری ر ہے ہے اور اسے‬
‫عالمہ اقب ال کے متعل ق بنی ادی ماخ ذ کی حی ثیت حاص ل ہے ۔ان‬
‫دنوں کے بعد ‪1932‬ءمیں رسالہ "نیرنگ خی ال" اقب ال نم بر میں‬
‫محمد دین فوق کا مضمون "حاالت اقبال" دوبارہ شائع ہوا۔یہ وہی‬
‫مض مون تھ ا ج و ‪1909‬ءمیں کش میری میگ زین میں بھی چھپ‬
‫چکا تھا لیکن اب اس میں معمولی ترمیم اور اض افے ک ئے گ ئے‬
‫تھے۔اسی سال شیخ برادری کی انگریزی میں کت اب ش ائع ہ وئی‬
‫جس کا عنوان ‪Iqbal His Poetry and Message‬تھا۔اس کتاب‬
‫کا پہال باب اقب ال کی س وانح کے ح والے سے تھ ا اور اور آخ ری‬
‫بارہویں ب اب میں اقب ال کے ذہنی ارتق اء کے ح والے سے گفتگ و‬
‫کی گئی تھی۔اس کے بعد اقبال کی وفات تک ان کی س وانح کے‬
‫حوالے سے کوئی مضمون یا کوئی کتاب س امنے نہیں آئی ۔عالمہ‬
‫اقبال کی وفات کے بعد اس چیز کی ط رف کچھ ت وجہ دی گ ئی‬
‫لیکن وہ بھی خال خال رہی۔اس ح والے سے ڈاک ٹر س ید عب داللہ‬
‫لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫"جب انیس سو اڑتیس میں عالمہ اقبال کا انتقال ہ و گی ا ت و اس‬
‫وقت آسودگی پسند قوم کواس "متاع گراں مايا"‪  ‬لٹ ج انے ک ا‬
‫کچھ احساس ہوا۔ماتمی جلسے ہوئے۔مرث یے لکھے گ ئے۔اخب ارات‬
‫نے ماتمی ایڈیشن شائع کیے۔رسالوں نے خاص نمبر نکالے۔غرض‬
‫ہر شخص نے اپنے اپنے شوق کو رکھ نے اپ نی ط ریقہ سے حکیم‬
‫االمت کے اٹھ جانے پر اپنے دلی درد و افسوس کا اظہار کی ا۔غم‬
‫واندوہ کی فضا علمی لحاظ سے کسی حد تک مفی د ث ابت ہ وئی‬
‫اور اشکبار آنکھوں نے دلوں اور دماغوں کو پیام اقب ال پ ر گہرے‬
‫فکرونظر کا اشارہ کیا۔چن انچہ اس ح ادثے کے زی ر س ر تین چ ار‬
‫س ال ت ک افک ار اور کالم اقب ال کی تنقی د و تش ریح کی ط رف‬
‫خاص توجہ ہوئی۔گو اس تحریک میں سیاس ی ح االت بھی کس ی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪14‬‬

‫حد تک ممدومعاون ثابت ہوئے ب ال ص ورتوں میں محض تج ارتی‬


‫اغ راض نےبھی کارفرم ای کی اور بعض مفی د اور وقی ع کت ابیں‬
‫ئیں۔"‬ ‫لکھی گ‬
‫س ید عب داللہ ڈاک ٹر‪،‬مس ائل اقب ال الہ ور مغ ربی پاکس تان اردو‬
‫اکیڈمی ‪ 1974‬صفحہ ‪ 13‬‬
‫اقبال کی وفات کے بعد مرث یے اور بع د میں مض امین ت و ش ائع‬
‫ہوئے لیکن ایک لمبے عرصے تک کوئی قابل ق در چ یز س امنے نہ‬
‫آس کی۔اقب ال کے متعل ق ق متف رق اور منتش ر مض امین اور‬
‫یادداشتوں پر مشتمل بہت سا سوانحی م واد ض رور س امنے آت ا‬
‫رہا۔عالمہ اقب ال کی وف ات کے ف ورا بعد‪1938‬میں چ راغ حس ن‬
‫حس رت نے "حی ات اقب ال" ض رور ش ائع کی لیکن یہ اقب ال کی‬
‫سوانح عمریوں میں اولیت کا درجہ تو ضرور رکھ تی ہے اس کے‬
‫باوجود یہ یہ تشنہ اور نامکمل ہے۔‪ 1939‬میں محمد طاہر فاروقی‬
‫کی کتاب "سیرت اقب ال" ش اع ہوئی ۔مص ادر کے ح والے سے یہ‬
‫کتاب مس تند نہیں م انیں گی اس ح والے سے احم د می اں اخ تر‬
‫جونا گڑھی لکھتے ہیں ۔‬
‫"یہ کتاب قومی کتاب خانہ الہور نے ‪ 1939‬میں ش ائع کی ہے اور‬
‫اب تک اس کے تین ایڈیش ن نک ل چکے ہیں۔اس سے ان دازہ ہوت ا‬
‫ہے کہ سیرتے اقبال کی کتنی مانگ رہی ہے۔آنس و س فید کی اس‬
‫کتاب میں اقبال کی تمام حی ثیت دکھ انے کی کوش ش کی گ ئی‬
‫ہے اور اس وقت تک اقبال پر جو کچھ لکھا گی ا ہے اس ک ا اک ثر‬
‫حصہ مؤل ف کے پیش نظ ر تھ ا۔اس کے ب اوجود اس ک و مکم ل‬
‫سیرت نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس میں وہ ج امعیت پ ائی ج اتی‬
‫ہے جس کی ایس ی کت اب سے توق ع کی جاس کتی ہے اس میں‬
‫زیادہ حصہ عشاء اور منق والت ک ا ہے اقتباس ات اور واقع ات کے‬
‫لیے اکثر حوالے نہیں دیے گئے ترتیب ع ام ت ذکروں کی س ی ہے‬
‫اور اقبال کی خصوصیات پر سرس ری ط ور سے اظہ ار کی ا گی ا‬
‫ہے۔‬
‫اختر قاضی احمد میاں جوناگڑھی اقبالیات کا تنقیدی جائزہ الہ ور‬
‫اقبال اکادمی طبع دوم‪ 1977‬صفحہ ‪37‬‬
‫"حیات اقبال" اور "سیرت اقبال" میں سے کسے اولیت کا درجہ‬
‫حاصل ہے اس حوالے سے اختر جونا گڑھی اور ڈاکٹر رفیع الدین‬
‫ہاشمی نے اختالف نظر آتا ہے لیکن من ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‬
‫میں "حیات اقب ال" کی داخلی شہادت کے پیش نظ ر اس کت اب‬
‫کے سالے ارشاد کا تعین کیا ہے‪ ‬‬
‫اس کتاب پر س نہ اش اعت درج نہیں البتہ کت اب کے ص فحہ ‪148‬‬
‫کے حاشیے کی عبارت میں اس طرح لکھتے وقت ارمغان حج از‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪15‬‬

‫چھپ رہی ہے اس سے اندازہ لگان ا مش کل نہیں کہ کت اب اقب ال‬


‫کی وفات ‪ 1938‬کے چند ماہ بعد لکھی گئی ڈی ڑھ س و ص فحات‬
‫کی کتاب آسان زبان اور معلوماتی انداز میں لکھی گئی ہے‪ ‬‬
‫رفی ع ال دین ہاش می میں مض مون عالمہ کی س وانح عم ری ک ا‬
‫مسئلہ مشمولہ س ماہی اقب ال الہ ور اپری ل ج والئی ‪ 1977‬ص فا‬
‫‪ 258‬‬
‫سیرت‪  ‬اقبال کا ایک بڑا حصہ قصہ اقب ال کی ش اعری پ ر تنقی د‬
‫اور تبصرے کی صورت میں ہے ہے بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ‬
‫تین چوتھائی حصہ اقب ال کے فک ر و فن پ ر تبص رے کی ص ورت‬
‫میں موجود ہے ہے جبکہ صرف ‪ 35‬ص فحات ان کی س وانح سے‬
‫متعلق ہے ہے یہی وجہ ہے کہ سیرت اقبال ک و س وانح کے ض من‬
‫میں شمار نہیں کیا جا سکتا ۔‬
‫حی ات اقب ال اور س یرت اقب ال کے بع د عب داللہ ان ور بی گ کی‬
‫انگریزی کتاب ‪ The Poet of East‬کوانگریزی میں اقب ال کی‬
‫کی پہلی سوانی قرار دیا جاتا ہے۔یہ کت اب بھی ‪ 1939‬میں ش ائع‬
‫ہوئی۔یہ کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے پہال حصہ سوال ہے اقبال‬
‫دوسرا حصہ اقبال کی شعری کارنامی اور تیسرا حصہ اقب ال اور‬
‫ان کی تعلیم ات پ ر مب نی ہے۔ اس کت اب میں موج ود س وانحی‬
‫م واد بہت کم ہے اور محض ای ک بع د کی بن ا پ ر اسے س وانحی‬
‫کتب کا درجہ دیا جانا مناسب نہیں۔‬
‫عبدالس الم ن دوی نے اقب ال کام ل کے ن ام سے سے ای ک کت اب‬
‫لکھی۔اسے سے دارالمص نفین اعظم گ ڑھ سے ‪ 1948‬میںش ائع‬
‫کیا گیا۔ اس کتاب کو بھی ان کی سوانح میں شمار کی ا جات ا ہے۔‬
‫عالمہ اقب ال کی س وانح ک ا ج ائزہ لی نے والے جے اسے‪  ‬تیس ری‬
‫سوانح عمری شمار کرتے ہیں۔یہ کتاب عالمہ اقبال کی وفات کے‬
‫بعد دس ب رس ب رس کے وقفے سے ش ائع ہوئی اس دوران بہت‬
‫سارا مواد حیات اقب ال سے متعل ق س امنے آچک ا تھ ا جس میں‬
‫اس کتاب کو بہتر سر پیش کش کے ساتھ شائع کیا گیا۔اپنی تمام‬
‫تر خوبیوں کے باوجود یہ یہ کت اب بھی کام ل س وانح عم ری کی‬
‫ذی ل میں نہیں آتی۔اس میں تحقیقی لوازم ات ک و م دنظر نہیں‬
‫رکھا گیا اور جو دستیاب اب مواد تھا اسے چھان بین کے بغیر ہی‬
‫شائع کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ اس میں بھی وہی غلطیاں س رزد‬
‫اولین س وانح نگ اروں کے ہاں موج ود تھی۔اس ح والے سے سے‬
‫اقبال کامل ل کی فہرست دیکھ نے سے ہی پتہ چ ل جات ا ہے اور‬
‫خود عبدالسالم ن دوی بھی اس سے مطمئن نہ تھے دیب اچے میں‬
‫وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪16‬‬

‫"ڈاکٹر اقبال پر میں نے یہ کتاب لکھ نی چ اہییں ت و مجھ ک و یہی‬


‫دوسری مشکل پیش آئی ‪ ،‬اس کتاب کے متعلق مجھ کو شکایت‬
‫نہیں تھی کہ اس کے لئے معلومات کا جو س رمایہ درک ار ہے اس‬
‫پر کتابیں لکھی گئی ہے کہ ان کے پڑھنے کے بعد یہ کہن ا پڑت ا ہے‬
‫کہ ‪ ‬‬
‫شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا‪ ‬‬
‫اس لئے ان خواب بھائے پریشان ک و جم ع ک رکے ان کی ص حیح‬
‫تعبیر نکالنا مشکل اور سخت مشکل کام تھا ۔لیکن بھائی ہم امی‬
‫نے یہ کوشش کی ہے کہ میری اس کتاب سے یہ خواب اور زی ادہ‬
‫پریشان نہ ہونے پائے بلکہ اس کی ایک ایسی تعبیر نک ل آئے ج و‬
‫اس ک و خ واب پریش ان کے بج ائے روی ائے ص الحہ بن ا دے ۔اس‬
‫غرض سے میں نے ان مضامین اور ان رسالوں اور ان کتابوں کا‬
‫مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان سے مکمل طور پ ر ڈاک ٹر‬
‫ص احب کی زن دگی ک ا ک وئی گوشہ نمای اں نہیں ہوت ا ۔زی ادہ ت ر‬
‫مض امین اور رس الی طولہای تس تحی ہے اور لکھ نے وال وں نے‬
‫صرف یہ سمجھ کر لکھا ہے ڈاکٹر صاحب پر لکھن ا نہ ایت آس ان‬
‫ہے ۔اس ل یے میں نے ان ک و بالک ل نظ ر ان داز ک ر دی ا ہے ۔چن د‬
‫رسالے چند مضامین اور چند کت ابیں بےش بہ تحقیقی لکھی گ ئی‬
‫ہیں‪ ،‬لیکن ان میں بھی جامعۃ نہیں پائی جاتی بلکہ وہ خاص خاص‬
‫عنوان ات ت ک مح دود ہیں۔۔۔۔اس حی ثیت سے میں نے اس ذخ یرہ‬
‫معلومات پر نگاہ ڈالیں تو مجھے محس وس ہوا کہ ڈاک ٹر ص احب‬
‫کے سوانح و حاالت پر اگرچہ کوئی مکمل مضمون ک وئی مکم ل‬
‫رسالہ اور کوئی مکمل کتاب نہیں لکھی گئی۔ت اہم انہیں میں اس‬
‫کا مواد اس کثرت سے موجود ہے کہ ان ک و جم ع ک ر کے ڈاک ٹر‬
‫ص احب کے س وانح و ح االت ک و مکم ل ص ورت میں پیش کی ا‬
‫جاس کتا ہے ۔اس ل یے میں نے اس م واد ک و تقریب ا نہیں کہ‬
‫الفاظوں عبارت میں مناسب ترتیب کے ساتھ ایک جگہ جم ع ک ر‬
‫دیا ہے ۔‬
‫عبدالسالم ندوی اقبال کامل‪  ‬اعظم گڑھ معارف ‪ 1948‬ص ‪4‬‬
‫اقبال کامل کا ایک بڑا حصہ اب اقبال کی فکر و فن سے متعل ق‬
‫ہے جبکہ ان کی سوانح اور ذاتی حاالت ‪ 90‬صفحات پ ر مش تمل‬
‫ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سوانح نگاری کا تجزیہ ک رنے وال وں نے اسے‬
‫ایک مکمل سوانح عمری قرار نہیں دی ا۔اس کت اب ک ا زی ادہ حصہ‬
‫عالمہ اقبال کے فلسفیانہ افکار اور ادبی و ش عری محاس ن سے‬
‫متعلق ہے۔یہاں یہ بات اپنی جگہ اہم ہیں کہ ڈاکٹر عبدالسالم ندوی‬
‫نے عالمہ اقب ال کے متعل ق ای ک رویہ مختل ف اپنای ا ہے ان سے‬
‫پہلے اقبال کی زندگی کو موضوع بنانے والے انہیں مفکر فلسفی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪17‬‬

‫سیاستدان مردی دی مومن بنا کر پیش کیا کرتے تھے لیکن لیکن‬
‫ڈاکٹر عبدالسالم ندوی نے اقبال کو ایک فنکار کے طور پرکھا ہے۔‬
‫گویا یہ کتاب اب عالمہ اقب ال کی زن دگی ک و موض وع بن انے کے‬
‫ساتھ س اتھ‪  ‬ان کے مط العے دے اور افط ار ی ار س مجھانے کی‬
‫ایک عم دہ ک اوش ہے۔عالمہ اقب ال کے فک ر و فن پ ر ‪ 1951‬میں‬
‫انگریزی زبان میں ایک کت اب اب ش ائع ہ وئی اس کت اب ک ا ن ام‬
‫‪ The Ardent Pilgrim‬ہے۔یہ کت اب کلکتہ سے ش ائع ہ وئی اور‬
‫اس کے مصنف صرف صحافی اقبال سنگھ تھے ۔‬
‫قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل کا اقبال سے ج ذباتی‬
‫رشتہ قائم نہ ہو سکا ج و کہ ک وئی معی اری اور دلچس پ س وانح‬
‫اقبال موجود نہ تھی۔اقبال کی سوانح کے حوالے سے کچھ ادارے‬
‫ارے نجی اور سرکاری س طح پ ر کوش ش ک رتے رہے لیکن ک ام‬
‫کی رفتار بہت سست رہی۔اس ح والے سے ب زم اقب ال اور ادارہ‬
‫ثقافت اسالمیہ کی سطح پر کوششیں ج اری رہیں‪.‬ڈاک ٹر محم د‬
‫عبداللہ چغتائی اپنی تالیف روای ات ہے اقب ال آل کے کے دیب اچے‬
‫میں لکھتے ہیں‪.‬‬
‫"ب زم اقب ال الہور نے ‪ 1952‬میں ڈاک ٹر خلیفہ عب دالحکیم ن اظم‬
‫ادارہ ثقافت اسالمیہ کی تجویز پر عالمہ اقبال کے ابتدائی س وانح‬
‫کے متعلق مواد جمع اور مرتب کرنے کا ک ام کی ا تھ ا اور یہ بھی‬
‫طے پای ا تھ ا کہ اس ک ام میں موالن ا غالم رس ول مہ ر ص احب‬
‫رہبری کریں گے۔چنانچہ اس سلسلے میں جو کمی ٹی تش کیل دی‬
‫گئی تھی مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل تھی؛‬
‫‪1‬۔غالم رسول مہ‬
‫‪2‬۔ڈاکٹر عبداللہ چغتائی‬
‫‪3‬۔پروفیسر شیخ عطااللہ‬
‫‪4‬۔سید نذیر نیازی‬
‫اس کام کے لئے ای ک س وال ن امہ م رتب کی ا گی ا تھ ا جس میں‬
‫عالمہ اقب ال کے خان دان اور ان کی اوالد کے عالوہ س واالت کی‬
‫ایک شق موالنا سید میر حسن کے متعلق بھی شامل تھی۔"‬
‫محمد عبداللہ ڈاک ٹر چ دائی بھ ائی روای ات اقب ال مجلس ت رقی‬
‫ادب الہور ‪ 1977‬ص ز‬
‫یہ کمیٹی اپنے مشن میں ناکام رہی اور کوئی ایسا م واد جم ع نہ‬
‫کر سکیں کہ جس کی وجہ سے ک وئی مفص ل س وانح ش ائع کی‬
‫جا سکے۔کمیٹی کے پچھلے برس کام نہ ک رنے کی وجہ سے سے‬
‫عبدالمجید سالک سے سواالت مرتب کرنے کا معاہدہ ہوا۔یو اقبال‬
‫کامل کے بعد ایک مدت تک کوئی نئی چیز س امنے نہ آس کی اور‬
‫اقبال کا سوانحی مواد ادھورا ہی رہا۔اقبال کامل کی اشاعت کے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪18‬‬

‫ساتھ س ال بع د "ذک ر اقب ال" عبدالمجی د س الک نے‪ 1955‬ب زم‬


‫اقب ال الہور سے ش ائع کی ۔یہ کت اب اب اقب ال کی پہلے سے‬
‫موجود ہے‪  ‬لکھی گئی بھی س وا نح سے مختل ف تھی۔عبدالمجی د‬
‫سالک مل ک عالمہ اقب ال آل سے سے دی رینہ رف اقت ک ا ش رف‬
‫رکھتے تھے تھے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب میں بہت سارا نیا مواد‬
‫سامنے آیا ۔عبدالمجید سالک کی یہ کتاب ایک مدت ت ک ک اقب ال‬
‫کا ح والہ ب نی رہی ہیں کی ونکہ اس میں میں س وانح کے ح والے‬
‫سے بہت اعلی قسم کا اب م واد موج ود تھ ا تھ ا اس میں م واد‬
‫کی فراہمی کے لیے بنیادی مآخذات تک رسائی حاص ل کی گ ئی‬
‫تھیں۔ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"سالک نے حیات اقبال سے متعلق بہت سہلیاں م واد ف راہم کی ا‬
‫ہے جس کے ذریعے اقب ال کی زن دگی کے متع دد نے واقع ات‬
‫سامنے آئے ہیں ۔مؤلف نے انقالب زمیندار کش میری میگ زین اور‬
‫پیسہ اخبار کی پ رانی ف ائلوں‪  ‬بعض زب انی روای ات کی تحری ری‬
‫یادداشتوں کی مدد لیں جو اس قلم بند ہو چکی تھی۔"‬
‫ہاشمی محولہ باال‪  ‬صفحہ ‪262‬‬
‫عبدالمجید سالک گویا پہلے سوانح نگار ہیں جنہوں نے درست اور‬
‫مناسب ماخذات سے استفادہ کرنے کی کوشش کی کی ای ک ان‬
‫کی سوانگ کی خوبص ورتی یہ ہے کہ وہ اپ نی موض وع شخص یت‬
‫سے ذاتی تعل ق رکھ تے تھے۔اس ذاتی تعل ق کی وجہ سے بعض‬
‫مقامات پر یہ کتاب س والی علی کے م روجہ اص ولوں پ ر پ وری‬
‫نہیں اترتی۔عبدالمجید سالک مرح وم ک و عالمہ اقب ال کی دی رینہ‬
‫رف اقت ک ا ش رف ش رف حاص ل رہا ک ئی ب رس ت ک اقب ال کے‬
‫حضور نشستوں اور گفتگووں سے مس تفید ہوتے رہے۔اس ق رب‬
‫کی بنا پ ر ان سے توق ع تھی (اور بہت امی دیں بھی) کہ وہ اقب ال‬
‫کے مستند حاالت زندگی کی بنیاد پر ایک معیاری س وانح عم ری‬
‫لکھیں گے۔اقب ال کے زرینہ رفی ق اور منجھے ہوئے قلم ک ار کی‬
‫حیثیت سے ہی ب زم اقب ال الہور نے انہیں س وانح لکھ نے کی ذمہ‬
‫داری سونپی تھی مگر "ذکر اقب ال" ک و دیکھ ک ر تم ام توقع ات‬
‫نقش برآب ثابت ہوئیں۔واقعاتی غلطیوں سے قطع نظر ذکراقبال‬
‫می دونمایان نقاص ہیں اول اس میں اقبال کے مختلف ادوار کے‬
‫حاالت و واقعات ایک دوس رے سے مرب وط نہیں بلکہ ہرب اب اور‬
‫ہر فصل اور بعض اوقات ہر فصل کے ض منی عنوان ات کے تحت‬
‫بی ان ک ردہ معلوم ات سے ال گ ال گ نظ ر آتی ہیں۔دوم مختل ف‬
‫واقع ات کے م اہو س نی متعین ک رنے کی بج ائے اس ط رح ک ا‬
‫اسلوب اختیار کیا گیا ہے‪:‬‬
‫"انہی دنوں کا ذکر ہے۔۔۔۔۔"‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪19‬‬

‫" آس زمانے کا واقعہ ہے۔۔۔"‪ ‬‬


‫‪ ‬سیاق و سباق سے "انہی دنوں" ی ا "اس زم انے" ک ا تعین کرن ا‬
‫خاصا مشکل ہوتا ہے۔"‬
‫ہاشمی محولہ باال ص ‪263‬‬
‫اس سوانح نگاری پر آغا شورش کاشمیری نے ش دید ان داز میں‬
‫اعتراض کی ا کی ا کی ونکہ اس میں ک ئی جگہوں پ ر پ ر س الک نے‬
‫جانبدارانہ رویہ اختیار کیا۔اس حوالے سے سے رفیع الدین ہاشمی‬
‫نے نے قادیانیت سے س الک کی ہم درد ح ل چس پی اور دل میں‬
‫نرم گوشہ صاحب کے یونینسٹ ذہن کو بطور مثال وضاحت سے‬
‫پیش کی ا ہے(ایض ا) اس س وانح میں‪  ‬موج ود ہیں اور تحقیقی‬
‫شعور بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے اس سب کے ب اوجود دو دہ ائیوں‬
‫تک ذکراقبال ایک ح والے کی کت اب ک ا ک ام دی تی رہی اور بعض‬
‫ص ورتوں میں اب بھی یہ ناقاب ل اعتن ا نہیں ہے۔ذک ر اقب ال کی‬
‫اشاعت کے تقریبا انیس سال بعد ایک انگریزی کتاب شائع ہ وئی‬
‫اس کا عن وان ‪Iqbal, Hisblife and time b Dr. Lini. S.‬‬
‫‪ May‬تھا۔یہ کتاب اب شیخ اشرف کشمیری بازار الہور نے ‪1974‬‬
‫میں شائع کی ۔اس کتاب کا مصنف ایک امریکی اس کالر تھ ا تھ ا‬
‫اور یہ کتاب اب زیادہ معروف نہ ہوس کی اسے ادبی حلق وں میں‬
‫پ ذیرائی نہیں ملی اور نظ ر ان داز کی ا گی ا۔اس کے دو س ال بع د‬
‫یعنی ‪1976‬میں "یاد اقبال" کے ن ام سے ص ابر کل وری کی ای ک‬
‫شاہکار کتاب شائع ہوئی۔یہ کتاب اقبال کی سوانح نگاری کے باب‬
‫میں ای ک نی ا اض افہ تھی‪  ‬اور اس کت اب ک ا دوس را ایڈیش ن"‬
‫داستان اقبال" کے ن ام سے ‪ 1982‬میں ک راچی سے ش ائع ہوی۔‬
‫اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود زر نظرثانی اقب ال بھی تش نگی‬
‫لیے ہوئے ہے۔اس کتاب کی سب سے بڑی خامی مواد کی چھ ان‬
‫پھٹک ہے۔اقبال کے سوانحی مواد کو کو جس طرح ط رح ت رتیب‬
‫اور تدوین سے لے کے آگے چلنا تھا مصنف صرف اس ب ات سے‬
‫انصاف نہیں کرسکے یو عبارت میں تسلس ل اور رب ط پی دا نہیں‬
‫ہوا اور اس کتاب کے ابواب میں باہمی رش تے اور پیوس تگی کی‬
‫کمی ہے۔مصنف کو عالمہ اقبال آل کا بہت س وانحی م واد میس ر‬
‫آیا تھا تھا لیکن وہ فن سوانح نگاری کے اصولوں کے مطابق اس‬
‫میں کوئی تسلسل اور ربط نہیں پی دا ک ر س کیں یہی وجہ ہے کہ‬
‫یہ کتاب لخت لخت نظر آتی ہے ۔اقبال کے جش ن ص د س الہ کی‬
‫تقریبات تک تمام حلقوں میں میں اقبال کی معی اری س وانح کی‬
‫ضرورت کا احساس موجود تھا۔اس حوالے سے مختلف جرائ د و‬
‫رس ائل میں تج زیہ بھی ش ائع ہو رہے تھے اور اس ض رورت ک و‬
‫بیان کیا جارہا تھا۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪20‬‬

‫انیس س و اٹھ تر میں ڈاک ٹر عبدالس الم خورش ید کی ت الیف‬


‫سرگزش ت اقب ال ش اہ ہوئی دراص ل یہ کت اب اقب ال ص دی کی‬
‫تقریبات کے سلس لے میں اقب ال اک ادمی کے زی ر اہتم ام ش ائع‬
‫ہوئی۔ ڈاکٹر عبدالسالم خورشید پیش لف ظ میں اس ح والے سے‬
‫لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫"جب مجھے حکم مال کہ اقب ال کے س وا نین د قلم بن د ک روں ت و‬
‫میں خوش بھی ہوا اور پریشان بھی ۔خوش اس ل ئے کہ حض رت‬
‫عالمہ کا سوانحنگار بننا م یرے ل یے ب اعث فخ ر و مباہات ہے اور‬
‫پریشان اس لیے کہ اتنا ب ڑا ک ام مختص ر عرصے میں کیسے ک ر‬
‫سکوں گا ۔بہرحال میں نے اللہ کا نام لے کر یہ کام شروع کر دیا۔‬
‫یونیورسٹی ملکی ح االت کی وجہ سے بن د تھی اس ل یے مکم ل‬
‫خانہ نش ینی ممکن تھی اور دنی اوی ک اموں سے آزاد ہ وکر اپ نی‬
‫جملہ مساعی اس نیک کام پر مرتکز کرنے کے قاب ل تھ ا۔ش ب و‬
‫روز کی محنت کے بع د ب ڑے عجزونی از اور انکس ار کے س اتھ‬
‫سرگش ت اقب ال اہل نظ ر کی خ دمت میں پیش کرت ا ہ وں اور‬
‫ملتجی ہوں کہ مجھے خ امیوں سے مطل ع فرم ائیں ت اکہ آئن دہ‬
‫ایڈیشن میں ان کا ازالہ کر سکوں۔"‬
‫رفیق عبدالسالم خورش ید ڈاک ٹر سرگزش ت اقب ال الہ ور اقب ال‬
‫اکادمی ‪ 1977‬ص ب‬
‫ڈاکٹر خورشید کی یہ کتاب اب نہایت عجلت میں مقررہ وقت پ ر‬
‫مکمل کی گئی تاکہ اقبال کے جشن صد سالہ پ ر کچھ ش ائع کی ا‬
‫جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ اس میں خلوص اور جذبے کا فق دان ہے‬
‫جس کا تقاضا عموما س وانح نگ ار سے کی ا جات ا ہے اور یہی فن‬
‫سوانح نگاری کی بنی ادی ش رط ہے۔اس کے ب اوجود یہ اردو ادب‬
‫میں اقبال کے حوالے سے ایک خوبصورت اض افہ ہے کی ونکہ اس‬
‫میں متعلقہ مواد سے پورا اس تفادہ ک رنے کی کوش ش کی گ ئی‬
‫تھی۔اقب ال کی کی صدس الہ والدت من انے کے ل یے ک ئی نجی‬
‫اداروں نے کت ابیں بی لکھ وائی جس میں ای ک اہم کت اب "حی ات‬
‫اقبال" ایس ایم ناز کی تحریر کردہ قابل ذکر ہے۔کس کت اب میں‬
‫کوئی دیباچہ پیش لفظ نہیں لکھا گیا اور یہ سرگزشت اقبال سے‬
‫بھی زیادہ عجلت میں لکھی گئی ہے۔‪ ‬‬
‫‪ ‬اقبال کی سو سالہ تقریبات والدت کو قومی اور حکومتی سطح‬
‫پ ر زور ش ور سے منای ا جان ا تھ ا اس ل یے س رکاری ام داد اور‬
‫سرپرستی میں اقبال اکادمی نے اقب ال کے مختل ف موض وعات‬
‫پر کتابیں لکھوانے اور شائع کرنے کا پروگرام ش روع ک ر دی ا تھا۔‬
‫اقبال دوست لوگوں کی خواہش کے احترام اور آرزو کی تکمی ل‬
‫کے لئے سوانح اقبال کی تصویر کا مرحلہ اب سید نذیر نیازی کو‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪21‬‬

‫تفویض کیا گیا۔اپنی سید سید ن ذیر نی ازی اپ نے دیب اچے میں اس‬
‫حوالے سے بیان کرتے ہیں ‪:‬‬
‫یوبی کوئی س وانح حی ات ہو کس ی نقطہ نظ ر سے لکھی ج ائے‬
‫اس کے کچھ نہ کچھ ل وازم ہوں گے۔ل وازم ک ا تقاضہ ہے کچھ‬
‫انتظامات جنم یسوع نے نویس کی ذاتی حی ثیت سے قط ع نظ ر‬
‫کیا جاسکتا ہے۔ان مش کالت سے ج وہر س وانح ن ویس ک و ط رح‬
‫سے پیش آتی ہیں۔مثآل یہی وہی ماخذ اور معلومات ی ا ی وں کہیے‬
‫اس س ارے م واد کی ف راہمی ک ا مع املہ ہے۔اس کی چھ ان بین‬
‫ترتیب و تقسیم کا جس کے بغیر ناممکن ہے‪ ،‬کوئی سوانح حیات‬
‫معرض تحریر میں آسکے۔معلومات کے لئے افراد اور مقامات کا‬
‫رخ کرنا پڑتا ہے مآخذ کے لئے کتابیات کا اور یہ کوئی آس ان ک ام‬
‫نہیں راقم الح روف ک و اس سلس لے میں کچھ سہولیات کی‬
‫ضرورت تھی کچھ تعاون کی۔خیال تھ ا کہ س ال بھ ر ی ا اس سے‬
‫کچھ زیادہ منطق میں حضرت عالمہ کی ایک ایسی سوانح حی ات‬
‫تیار ہو جائے گی ج و بہمہ وج وہ مکم ل‪ ،‬مبس وط اور مفص ل ت و‬
‫نہیں ہوگی لیکن باوجود اختصار اس حد تک جامع کہ آگے چل ک ر‬
‫ایک ضخیم اور ص حیح معن وں میں مکم ل اور ج امع س وانح کے‬
‫لئے تمہید کا کام دے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایسا نہ ہوا راقم الحروف کو‬
‫تن تنہا یہ خدمت سر انجام دینا پڑی۔دشواریوں بہت تھیں۔لہذا اور‬
‫ک ام کی رفت ار سس ت رہی پھ ر ای ک ذاتی ص دمے کے ب اعث یہ‬
‫سلسلہ دفعہ رک گیا تھا کے بع د س الہ اقب ال آگی ا۔راقم الح روف‬
‫پریشان تھا مگر پھ ر جب معل وم ہوا کہ اس تق ریب کی رع ایت‬
‫سے حض رت عالمہ کی ای ک س وال حی ات تی ار ہو رہی ہے بلکہ‬
‫ہوچکی ہے تو راقم الحروف نے اطمینان کا سانس لیا"‬
‫نذیر نیازی سید سید علی راز سوانح حیات حکیم االمت حض رت‬
‫عالمہ اقبال الہور ‪ 1979‬ص‪7‬‬
‫اس اقتباس میں جس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ڈاک ٹر‬
‫عبدالسالم خورشید کی تالیف سرگزشت اقبال ہے جس ک ا پہلے‬
‫ذک ر ہو چک ا ہے۔کس ی زم انے میں میں اقب ال کی تحری روں ک و‬
‫مدنظر رکھتے ہوئے ای ک کت اب تی ار کی گ ئی اس کت اب ک ا ن ام‬
‫اقب ال ک ا ذہنی ارتق ا‪  ‬رکھ ا گی ا اور اس کے مؤل ف ڈاک ٹر غالم‬
‫حسین ذوالفقار ہیں۔یہ کت اب س تمبر ‪ 1977‬ک و قلمبن د کی گ ئی‬
‫لیکن اش اعت جن وری ‪ 1978‬میں ممکن ہوس کی ۔یہ کت اب اس‬
‫حوالے سے اہم ہے کہ کہ اس میں اقبال کے ذہ نی ارتق اء ک و ان‬
‫کے داخلی اور خارجی عوام ل کے مط ابق پرکھ نے کی کوش ش‬
‫کی گئی ہے۔ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪22‬‬

‫"اس تعریف میں عالمہ اقبال کی اپ نی تحری روں نظم و ن ثر ک و‬


‫بنیاد بنایا گیا ہے اور ثانوی ماخذ کے طور پر صرف ان بیانات ک و‬
‫لیا گی ا ہے ج و روایت و درایت کے مس لمہ اص ولوں کے مط ابق‬
‫مستند کہے جا سکتے ہیں۔‬
‫انسان کا ذہنی ارتقا اس کی داخلی محرکات اور خارجی عوام ل‬
‫کے تابع ہوتا ہے۔ہر انسان اپنی پیدائش سے لے کر وفات تک عمر‬
‫طبعی کی مختلف منزلوں سے گزرتا ہے۔۔۔۔اس تعریف میں اقبال‬
‫کے ذہنی ارتقاءکو ابت دا میں چن د ادوار میں اور پھ ر م اہ و س ال‬
‫کے آئی نے میں پیش کی ا گی ا ہے۔ چن د ب رس قب ل راقم نے عالمہ‬
‫اقبال کی تحریر خصوصیات و مضامین کو شخص یت اور س وانح‬
‫کے نقطہ نظر سے دیکھنا شروع کیا تھا۔دوران مط العہ یہ معل وم‬
‫ہوا کہ اقب ال خ ود بھی ای ک زم انے میں اپ نی ذہ نی و ج ذباتی‬
‫سرگزش ت اس خی ال سے لکھن ا چ اہتے تھے ت اکہ ق ارئین کے‬
‫نشیب و فراز سے واقف ہوسکیں جو ملت اسالمیہ کی نشاۃ ثانیہ‬
‫کے تص ور ت ک پہنچ نے کے سلس لے میں ان کے قلب و ذہن میں‬
‫پی دا ہوئے۔اب ان کے قلب و ذہن کی سرگزش ت ک و ان کی‬
‫تحری روں کے ذریعے ہی ت رتیب دی ا ج ا س کتا ہے مگ ر ایس ی‬
‫صورت میں مرتب ک ا اپن ا تخی ل اور احس اس میں ک ار فرم ا نہ‬
‫ہونے پائے۔چنانچہ راقم نے کوشش یہی کی ہے کہ اس تعریف ک و‬
‫"اقب ال کی کہانی ان کی زب انی" بن اکر پیش کی ا ج ائے۔‬
‫غالم حسین ذوالفقار ڈاکٹر پروفیس ر اقب ال ک ا ذہنی ارتق ا الہ ور‬
‫مکتبہ خیابانی ادب ‪ 1978‬ص ‪ 1‬تا‪3‬‬
‫ڈاکٹر غالم حسین ذوالفق ار کی مت ذکرہ کت اب س وانح اقب ال کے‬
‫لئے ایک موڑ ق رار دی ا جات ا ہے جہاں سے اقب ال کی س وانح کے‬
‫ای ک ن ئے دور ک ا آغ از ہوا ۔اس دور اور ک ا نقطہ آغ از ‪ 1980‬ک ا‬
‫سال ہے کیوں کہ اسی سال ڈاکٹر جاوید اقبال کی سوانح اقب ال‬
‫پر تصنیف زندہ رود حی ات اقب ال ک ا تش کیلی دور کی پہلی جل د‬
‫منصہ شہود پر آئی۔یوں ایک طرف تو اقب ال کی سوانحس وانح نہ‬
‫کا دیرینہ مطالبہ اور خواہش پوری ہوئی تو دوسری ط رف اقب ال‬
‫کی فکر و فن کی تفہیم کے لئے نئے تناظر فی دہ ہونے لگے ۔زن دہ‬
‫رود کی دوس ری جل د ‪ 1981‬میں ش ائع ہ وئی اور تیس ری جل د‬
‫‪ 984‬میں سامنے آئی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی مص روفیات کے‬
‫ب اوجود ن و س ال کے عرصے میں اس ک ام ک و پای ا تکمی ل ت ک‬
‫پہنچایا۔بالشبہ اب یہ یہ اقبال کی سوانح کے حوالے سے نئے در وا‬
‫ک رتی ہے۔ب اپ کے اگلے حصے میں میں زن دہ رود ز ک ا س وانح‬
‫نگاری کے اصولوں کے حوالے سے ج ائزہ لی نے کی کوش ش کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪23‬‬

‫جائے گی اور اردو ادب میں اس کا مقام وم رتبہ طے ک رنے کی‬


‫کوشش کی جائے گی۔‬
‫زندہ رود کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‪              :‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب زندہ رود سوانح اقبال کی سوانح‬
‫اقبال پر مشتمل ہے۔یہ ایک مبسوط سوانح عمری ہے ۔اس سے‬
‫قبل اقبال کی سوانح سے متعلق کئی چیزیں سامنے آچکی تھیں‬
‫لیکن ان میں تحقیقی سطح پر کئی کمزوریاں تھیں۔اس حوالے‬
‫سے باب کے شروع میں میں تنقیدی اشارے کیے جا چکے ہیں۔‬
‫تحقیقی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫عالمہ اقبال کی شخصیت کے حوالے سے پہال مضمون کا عنوان‬
‫"اقبال۔۔۔ ایک بات کی حیثیت سے" ‪  1946‬میں لکھا۔اس مضمون‬
‫میں انہوں نے عمدگی سے عالمہ اقبال کی شخصیت جنت کا‬
‫تذکرہ کیا اور ان کے افکار کو سامنے النے کی کوشش کی۔یہ‬
‫مضمون کچھ اضافوں کے ساتھ ساتھ ان کی کتاب مے اللہ فام‬
‫میں شامل ہے۔اقبال شناسی کی طرف اٹھنے واال یہ ان کا پہال‬
‫قدم تھا جس کو بنیاد بناتے ہوئے وہ آگے بڑھے۔سعشہ خان اس‬
‫حوالے سے رقم طراز ہیں‪:‬‬
‫"یہ مضمون اقبال سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی قلمی و علمی‬
‫دلچسپی‪  ‬کا اولین اظہار کہا جاسکتا ہے ۔جس سادگی اور‬
‫وارفتگی کے ساتھ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس مضمون میں عالمہ‬
‫اقبال کا تذکرہ کیا ہے اس سے یہ مضمون ناقابل فراموش ہو گیا‬
‫ہے۔عالمہ اقبال کی سوانح کے بہت سے روشن پہلو ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال کے آئینہ مشاہدات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔دراصل ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال کا اقبال کی بھرپور سوانح کی طرف اٹھنے واال وہ‬
‫قدم ہے جو انہیں "زندہ رود"یعنی اقبال کی سوانح قبال کے‬
‫روشن مینار تک لے گیا۔"‬
‫سعشہ خان ڈاکٹر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال شخصیت اور ادبی‬
‫خدمات ‪،‬الہور سورج پبلشنگ بیورو ‪1995‬صفحہ ‪154‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب" زندہ رود تین حصوں میں شائع‬
‫ہوئی اس کی پہلی جلد ‪1979‬میں الہور سے شائع ہوئی اور شیخ‬
‫غالم علی اینڈ سنز پبلشرز نے اسے شائع کیا ۔اس کی اگلی‬
‫دونوں جلدیں بھی شیخ غالم علی اینڈ سنز پبلشرز سے ‪1983‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪24‬‬

‫اور ‪1984‬میں شائع ہوئی۔اس کی ہر جلد میں سات ابواب بنائے‬


‫گئے ہیں۔‪ 2000‬میں یہ کتاب اقبال اکیڈمی الہور سے ایک جلد‬
‫کی شکل میں شائع ہوئی۔ہمارے پیش نظر اس کتاب کا‪2014‬کا‬
‫اشاعت کردہ نسخہ ہے جو سنگ میل پبلی کیشنز الہور نے‬
‫‪ 2008‬میں شائع کیا۔یہ ایڈیشن ‪ 752‬صفحات پر مشتمل ہے اور‬
‫اوراس اشاعت میں عالمہ اقبال کے حوالے سے نادرونایاب ‪93‬‬
‫تصاویر کو بھی شامل کیا گیا ہے۔اسی لیے اس نسخے کوبنیادی‬
‫ماخذ کے طور پر استعمال کیا ہے کیونکہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫اس کی تصحیح کی تھی اور اس میں موجود اغالط کو کم سے‬
‫کم کرنے کے لئے اس کی دوبارہ کمپوزنگ کروائی گئی اور کہیں‬
‫کہیں انہوں نے اس میں قلم بھی لگایا ہے اس حوالے سے‬
‫دیباچے میں وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"موجودہ ایڈیشن پاکستان کے ایک معروف اشاعتی ادارہ سنگ‬
‫میل پبلیکیشنز الہور کی جانب سے شائع ہورہا ہے اور اس کی‬
‫اشاعت نومیں اقبال اکیڈمی پاکستان نے بھی مثالی اشتراک‬
‫عمل کا ثبوت دیا ہے۔اس موقع پر میں نے اس پر دوبارہ ایک‬
‫نظر ڈالی ہے اور اس کے پروف بھی دیکھے ہیں تاکہ کتاب ہر‬
‫حوالے سے مستند ہو سکے۔کتاب کو میں نے کہیں کہیں قلم بھی‬
‫لگایا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس میں عالمہ کی نایاب تصاویر‬
‫کا اضافہ کیا گیا ہے‪ ،‬جس سے ان کی زندگی کے مختلف ادوار‬
‫کا مطالعہ کرنے میں سہولت ہوگی۔۔۔موجودہ ایڈیشن کو نظر‬
‫ثانی شدہ ایڈیشن بھی کہا جاسکتا ہے۔"‬
‫جاوید اقبال ڈاکٹر زندہ رود‪  ‬الہور سنگ میل پبلیکیشنز ‪2014‬‬
‫صفحہ ‪ 10 ،9‬‬
‫جاوید اقبال کی یہ تصنیف بہت مشہور ہوئی اور دنیا کی بیشتر‬
‫زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے عربی میں اس کا ترجمہ "نہر‬
‫الخالد" کے نام سے ہوا ۔فارسی اور انگریزی میں بھی ترجمہ ہوا‬
‫جبکہ بنگالی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا۔‬
‫۔ زندہ رود تشکیلی دور )حصہ اول‬
‫زندہ رود کی پہلی جلد میں میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے اقبال کی‬
‫ابتدائی زندگی کو موضوع بنایا ہے ۔یہ کتاب ‪1979‬ء میں شیخ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪25‬‬

‫غالم علی اینڈ سنز پبلشرز‪،‬الہور سے شائع ہوی۔اس کے سات‬


‫ابواب ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪1‬۔سلسلہ اجداد ‪2                    ‬۔خاندان سیالکوٹ میں‬
‫‪3‬۔تاریخ والدت کا مسئلہ‬
‫‪6  ‬۔‬ ‫‪4‬۔بچپن اور لڑکپن ‪5              ‬۔گورنمنٹ کالج الہور‬
‫تدریس و تحقیق‬
‫‪7‬۔یورپ‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کتاب میں ان تمام وجوہات اور‬
‫محرکات کا ذکر کیا ہے جو اس کی تخلیق کا باعث بنیں۔انھوں‬
‫نے اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ ‪ 1975‬میں کیا۔زندہ رود کے پیش‬
‫لفظ میں انھوں نے ان محرکات کو بیان کیا ہے۔ اس حوالے سے‬
‫ایک واقعہ بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫"میں نے حیات اقبال پر اس کتاب کو لکھنے کا ارادہ ‪ 1975‬کی‬
‫گرمیوں میں کیا تھا۔ایک دن میرے دونوں بیٹے منیب اور ولید‬
‫کمرے میں بیٹھے کھیل رہے تھے۔میں نے انہیں دیکھ کر سوچا کہ‬
‫اقبال نے تو مجھے ایک اشارے کے طور پر استعمال کر کے‬
‫نوجوانان ملت سے خطاب کیا تھا۔مگر وقت اس تیزی سے گزر‬
‫رہا ہے کہ اب ایک نئی نسل وجود میں آگئی ہے۔ممکن ہے یہ نئی‬
‫نسل اقبال کے اشعار افکار کو ہم سے بہتر سمجھنے کے قابل‬
‫ہو کیونکہ اقبال تو آنے والے کل یا مستقبل کے شاعر ہیں۔لیکن‬
‫کسی بھی مفکر کے افکارونظریات سے پوری طرح شناسہ‬
‫ہونے کے لئے اس کی حیات کا مطالعہ ضروری ہے۔اقبال کی‬
‫شخصیت‪ ،‬شاعری‪ ،‬فکراور فلسفے پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔‬
‫اقبال شناسوں نے ان کی زندگی کے مختلف گوشوں پر بڑی‬
‫محنت سے کی مضمون اور کتابیں تحریر کر رکھی ہیں۔مگر یہ‬
‫سارا ذخیرہ بکھرا ہوا ہے اور جو کتب سوانح عمری کے طور پر‬
‫لکھی گئی وہ نسبتا کم ہیں اور ان میں سے بیشتر میں درج کردہ‬
‫تفصیالت ناکافی ہیں۔"ص‪32‬‬
‫عالمہ اقبال‪  ‬اپنی سوانح کے لحاظ سے سے خود بھی دلچسپی‬
‫نہ لیتے تھے کیونکہ انہیں اپنے حاالت میں میں کوئی دلچسپی نہ‬
‫تھی لیکن سید سلیمان ندوی کو لکھے گئے اپنے ایک خط میں‬
‫میں انہوں نے نے اپنے دل و دماغ کی سرگزشت دشت لکھنے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪26‬‬

‫نے کے حوالے سے بات کی تھی۔ڈاکٹر جاوید اقبال اس بات سے‬


‫آگاہ تھے کہ عالمہ اقبال اپنے ماہ وسال کی سرگزشت کو تحریر‬
‫کرنا چاہتے تھے جس میں ان کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے‬
‫خیاالت رات میں ہونے والے تدریجی ارتقاء کا جائزہ لینا چاہتے‬
‫تھے لیکن انہیں ہیں اس کا موقع نہیں مال اس حوالے سے ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال آل زندہ رود میں لکھتے ہیں‪ :‬‬
‫"ایک خط میں تحریر کرتے ہیں کہ میری زندگی میں کوئی ایسا‬
‫غیر معمولی واقعہ نہیں جو دوسروں کے لیے سبق آموز ہوسکے۔‬
‫البتہ میرے خیاالت کا تدریجی انقالب سبق آموز ہوسکتا ہے۔لیکن‬
‫خیاالت کے تدریجی انقالب کے متعلق وہ اپنے دل و دماغ کی‬
‫سرگزشت خود قلم بند کرنا چاہتے تھے جس کی انہیں فرصت‬
‫نہ ملی اور یہ موضوع ان کے عزائم کی فہرست میں رہ گیا۔" ص‬
‫‪13‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نےعالمہ اقبال کے کے اس خیال کو مدنظر‬
‫رکھا اور زندہ رود کو‪  ‬اقبال کےمطالعہ احوال کے ساتھ ساتھ‬
‫نفسیاتی مطالعہ پیش کرنے کا ذریعہ بھی بنایا۔عالمہ اقبال کی‬
‫اس سے پیشتر بھی سوانح عمریاں تحریر کی جاچکی تھیں‬
‫لیکن اس اصول کے تحت "زندہ رود" جدید سوانح عمریوں میں‬
‫شامل ہوگی۔انہوں نے نے اقبال کی ذاتی حاالت کے ساتھ ساتھ‬
‫عہد اقبال کی تاریخ کو بھی موضوع بنایا ہے۔وہ وہ اقبال پھول کی‬
‫زندگی کے واقعات نعت اور اس کے پس منظر میں ہونے والے‬
‫تھے سیاسی‪ ،‬معاشرتی ‪،‬سماجی اور اقتصادی تغیرات کو بھی‬
‫پیش‪  ‬نظر رکھتے ہیں۔جدید سوانح عمری کے اصولوں میں میں‬
‫معاشی اور معاشرتی سیاق و سباق کو شخصیت سے الگ نہیں‬
‫کیا جاسکتا تھا اور یہی طریقہ کار ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ‬
‫اقبال کی سوانح میں اختیار کیا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہیں کہ عالمہ‬
‫اقبال خود اپنی سوانح اس طریق پر لکھنا چاہتے تھے۔زندہ رود‬
‫سے پہلے جو سوانح لکھی گئی ہیں ان میں اس چیز کا التزام‬
‫نہیں پایا جاتا۔ان میں مختلف واقعات کے اسباب اور نتائج پر‬
‫تبصرہ نہیں کیا گیا اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں میں درج‬
‫کردہ تفصیالت بھی ناکافی ہیں۔گویا ان خامیوں نے ہی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪27‬‬

‫ڈاکٹرجاویداقبال کو زندہ رود لکھنے کا جواز فراہم کیا۔ڈاکٹر‬


‫جاوید اقبال لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫"سوانح عمری کی ہیت میں اقبال پر جو کتب ان کی وفات کے‬
‫بعد اور والدت اقبال کی صد سالہ تقریبات سے قبل شائع ہوئیں‪،‬‬
‫میں نے انہیں بغور پڑھا اور حیات اقبال کے موضوع پر جو دیگر‬
‫کتب یا مضامین دستیاب ہو سکے انھیں بھی دیکھا۔مگر اقبالیاتی‬
‫ادب میں بالخصوص اس موضوع پر جن معلومات کی مجھے‬
‫ضرورت تھی‪ ،‬ان کے حصول میں تشنگی ہی رہی۔پس میں نے‬
‫قصد کیا کہ اقبال کی ایک ایسی بیاگرافی تحریر کرنی چاہیے‬
‫جس میں خیاالت و افکار کے تدریجی ارتقاء اور ان کے ماحول‬
‫کا زیادہ تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا جائے مگر زندگی کے نجی‬
‫پہلو کو اقبال ہی کی منشا کے مطابق ثانوی حیثیت دی جائے۔"‬
‫ص ‪14‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے "زندہ رود" کے نام کے حوالے سے بھی‬
‫پیش لفظ میں وضاحت کی ہے کہ کس وجہ سے انہوں نے اقبال‬
‫کی سوانح کا نام زندہ رود رکھا ہے۔‬
‫"زندہ رود‪ ،‬عالمہ اقبال نے اپنے لیے خود‪"  ‬جاوید نامہ" میں‬
‫منتخب کر رکھا ہے۔زندہ رود کے معنی ہیں مسلسل بہتی ہوئی‬
‫حیات آفرین ندی۔ اقبال اس کی تعریف میں فرماتے ہیں‬
‫وہ جوئے کہستان اچکتی ہوئی‬
‫اٹکتی‪ ،‬لچکتی‪ ،‬سرکتی ہوئی‬
‫اچھلتی‪ ،‬پھسلتی‪ ،‬سنبھلتی ہوئی‬
‫‪  ‬بڑے پیچ کھا کر نکلتی ہوئی‬
‫رکے جب تو سل چیر دیتی ہے یہ‪ ‬‬
‫پہاڑوں کے دل چیر دیتی ہے یہ‪ ‬‬
‫ذرا دیکھ اے ساق اللہ فام‬
‫‪ ‬سناتی ہے یہ زندگی کا پیام‪ ‬‬
‫اقبال کی حیات دراصل ان کی فکری زندگی کا ارتقاء ہے جو‬
‫ایک مستقل حال میں جاری اور رواں دواں ہے اور جسے موت‬
‫نہیں چھو سکی۔وہ وہ اپنی جسمانی زندگی کو غیر اہم سمجھتے‬
‫تھے۔اس لئے حیات اقبال کو زندہ رود کے سوا اور کیا نام دیا‬
‫جاسکتا ہے۔" ص ‪17‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪28‬‬

‫‪ ‬ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے زندہ رود عید کے نام کا حوالہ‪  ‬جرمن‬


‫شاعر گوئٹے سے جوڑا ہے۔عالمہ اقبال گوئٹے کی بڑے مداح‬
‫تھے‪،‬نام کی وضاحت کے لیے یے ڈاکٹرجاویداقبال مزید لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"زندہ رود غالم بھی انہوں نے غالبا حضور صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کے حوالے سے اپنے لئے چنا۔گوئٹے قرآنی تعلیمات اور حیات‬
‫طیبہ سے بےحد متاثر تھا۔یہاں تک کہ اس نے پیغمبر اسالم پر‬
‫ایک منظوم تمثیل تحریر کرنے کا ارادہ کیا لیکن صرف ابتدائیہ‬
‫ہی لکھ سکا۔تمثیل کی تکمیل تک نوبت نہ پہنجی۔ اس ابتدائیہ یا‬
‫نظم بعنوان نغمہ محمد میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کی‬
‫آپس میں گفتگو کے دوران گوئٹے نبوت کی تشریح کے سلسلے‬
‫میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حیات آفرین جوئے‬
‫آپ کی تشبیہ استعمال کرتا ہے جس کا‪  ‬کام بہت سے نالے‬
‫ندیوں کو اپنی آغوش میں لے کر سمندر یعنی اللہ تعالی کی‬
‫طرف لے جانا ہے۔اقبال نے یہ نظم پڑھی ہوئی تھی اور اس کی‬
‫تشبیہات اور استعارات سے بخوبی واقف تھے بلکہ اس کا آزاد‬
‫ترجمہ بھی پیام مشرق کی نظم "جوئے آب" میں کیا تھا۔کیونکہ‬
‫وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انسان نے کام سمجھتے‬
‫تھے اس لئے ان کے نزدیک ہر مسلمان کے لئے آنحضور صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلنا فرض تھا۔اسی جذبہ‬
‫کے تحت انہوں نے جاوید نامہ کے روحانی سفر کی لئے اپنا نام‬
‫زندہ رود منتخب کیا۔"ص‪ 17‬تا ‪ 18‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے زندہ رود کے حصہ اول پھول میں اقبال‬
‫کی زندگی کا جائزہ برصغیر کے بدلتے حاالت کے مطابق لیا ہے۔‬
‫زندہ رود جلد اول کا ذیلی عنوان "حیات اقبال کا تشکیلی دور"‬
‫ہے۔اس میں‪  ‬اکتیس سال کے حاالت کا جائزہ ہے اور یہ جائزہ‬
‫سلسلہ وار نہیں بلکہ انہوں نے نے سوانح عمری کا تعلق وسیع‬
‫معاشرتی سیاسی اور علمی پس منظر کے ساتھ کیا ہے اور‬
‫انہوں نے ان خارجی محرکات کو بھی مدنظر رکھا ہے جن کی‬
‫بدولت حضرت عالمہ اقبال کی شخصیت کے خدوخال آل کی‬
‫تشکیل ہوئی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اپنی تمام تر محبت اور‬
‫عقیدت کے باوجود زندہ رود میں دوران تحریر عالمہ اقبال کے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪29‬‬

‫لئے صرف ایک لفظ اقبال استعمال کیا ہے اس کی وضاحت میں‬


‫وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"کتاب میں انہیں جذبہ محبت کے تحت اقبال تحریر کیا ہے‪ ،‬لیکن‬
‫اس بے تکلفی میں عقیدت مندی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا‬
‫گیا۔اقبال کی وفات پر میری عمر ساڑھے تیرہ برس تھی اس‬
‫لیے میں ان کے ہم عصر ہونے کا دعوی نہیں کر سکتا۔البتہ ان‬
‫کے عہد سے دوری کے سبب مجھے اپنے نقطہ نگاہ یا انداز‬
‫تحریر کو خارجی رکھنے میں آسانی محسوس ہوئی ہے۔" ص‪18‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے علی عالمہ اقبال کے احوال و آثار ان اور‬
‫ذہنی سطح پر پر ان تمام تشکیلی عوامل کو بیان کیا ہے جن‬
‫کی بدولت اقبال کی شخصیت کی تعمیرہوی اور اس کے‬
‫خدوخال تشکیلی مراحل سے گزر کر سامنے آئے۔جاوید اقبال‬
‫نے ان تمام واقعات کو مرحلہ وار بیان کیا ہے۔وہ سوانح نگاری‬
‫کے تمام رموز سے اچھی طرح آگاہ ہیں اور تحقیقی سطح پر پر‬
‫جن عوامل ل یا اسناد کی ضرورت ہوتی ہے انہیں بھی پوری‬
‫صحت کے ساتھ درج کرتے نظر آتے ہیں۔زندہ رود جلد اول کے‬
‫پہلی تین ابواب باہم مربوط ہیں۔‬
‫‪1‬۔سلسلہ اجداد‪ ‬‬
‫‪2‬۔خاندان سیالکوٹ میں‪ ‬‬
‫‪3‬تاریخ والدت کا مسئلہ‪ ‬‬
‫یہ تینوں ابواب تحقیقی نوعیت کے ہیں ہیں اور ان میں ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے خاندانی اور ذاتی معلومات کے عالوہ اقبال کے‬
‫کے دیگر پہلوؤں کو تفصیل کھیل سے سامنے النے کی کوشش‬
‫کی ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے تحقیق کا کوئی پہلو‬
‫نظر انداز نہیں کیا۔جاوید اقبال نے اس سوانح کا آغاز‪  ‬عالمہ‬
‫اقبال کے آباؤ اجداد سے شروع کیا ہے۔ عالمہ کے آباواجداد اس‬
‫کا تعلق کشمیر سے تھا۔ان کی گوتھ تحقیق کے ذریعے سپرو‬
‫قرار دیا گیا ہے۔ان کے کے آباواجداد میں بابا لول حج یا لولی حج‬
‫کے نسب کو دریافت کیا گیا ہے یہ بزرگ پندرہویں صدی میں‬
‫اسالم الئے۔ اس باب میں عالمہ اقبال کے حوالے سے تمام‬
‫تحقیقی ماخذات کو ڈاکٹر جاوید اقبال نے بہت عمدگی سے‬
‫کھنگاال اور اس پرروشنی ڈالی ہے۔اس حوالے سے انہوں نے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪30‬‬

‫فوق کی تحقیق اور ان کی کتاب مشاہرے کشمیر میں سے چند‬


‫اقتباسات نقل کیے ہیں تو کہیں عالمہ اقبال کے اپنے بیانات کو‬
‫ان کے خطوط کی مدد سے واضح کیا ہے۔فوق کے حوالے سے‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"سلطان زین العابدین بڈ شاہ کے زمانے (تخت نشینی‪ ‬‬
‫‪824‬ھ‪/‬وفات ‪874‬ھ) نے نے شیخ علم شیخ نورالدین ولی کے‬
‫ارادت مندوں میں حضرت بابا نصرالدین ایک بہت بڑے بزرگ‬
‫گزرے ہیں۔حضرت شیخ العالم نے اپنے اشعار(کشمیری) میں‬
‫اپنے اس نامور خلیفہ کا بہت کچھ ذکر کیا ہے۔بابا نصر الدین کے‬
‫مریدوں میں بابا لولی حاجی ایک بزرگ تھے‪ ،‬جنہوں نے کئی‬
‫حاجی کیے تھے اور ‪ 12‬سال تک کشمیر سے باہر سیروسیاحت‬
‫ہی میں رہے تھے۔چنانچہ مصنف "تاریخ کشمیرعظمی" صفحہ‬
‫‪ 72‬پر لکھتا ہے‪:‬دوازدہ سال‪  ‬سیاحت کردو بہ کشمیر آمدہ۔‬
‫باشارات غیبی مرید حضرت بابا نصرالدین بقیہ عمر در خدمت و‬
‫صحبت او گزرانید۔ان کا اصل نام معلوم نہیں ہو سکا۔لول حج یا‬
‫لولی حاجی کے نام سے انہوں نے شہرت پائی۔ انہوں نے کی حج‬
‫پاپیادہ کیے تھے۔ لول یا اللہ یا الل کشمیر میں پیار یا عزت کا‬
‫لفظ ہے۔جیسے بڑے بھائی کو کاکاالل کہتے ہیں۔وطن ان کا پر‬
‫گنہ آدؤن کے موضع چکو میں تھا۔قبول اسالم سے قبل ذات کے‬
‫براھمن تھے۔گوت ستو تھی۔ پیشہ ان کا زراعت کاری اور‬
‫زمینداری تھا لیکن جب فقر اختیار کیا تو سب باتوں سے کنارہ‬
‫کش ہوگئے۔آپ کی قبر چرار شریف میں احاطہ مزار شیخ‬
‫نورالدین ولی کے اندر ہے جہاں ان کے مرشد بابا نصرالدین بھی‬
‫مدفون ہیں"‬
‫زندہ رود صفحہ‪ 22‬تا ‪23‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے بہت‬
‫مستند حوالے دیے ہیں۔اور اس حوالے سے انہوں نے غیر مستند‬
‫کتب کا ذکر نہیں کیا۔سعشہ خان اس حوالے سے لکھتی ہیں‪:‬‬
‫"ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے اسی بات‬
‫میں مختلف حوالے استعمال کیے ہیں جو انہوں نے "ادبی دنیا"‬
‫مئی ‪1965‬ء "تاریخ بڈ شاہی" طباعت ‪"1944‬اقبال کے حضور"‬
‫جلد اول‪ ،‬خط بنام ڈاکٹر جاوید اقبال "نقوش"آپ بیتی نمبرجون‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪31‬‬

‫‪" 1964‬احسان" اقبال نمبر ‪27‬جون ‪ 1958‬سے اخذ کیے ہیں‬


‫لیکن ان کتب کا ذکر نہیں کیا جو ان کے نزدیک مستند نہ تھیں۔‬
‫بہرحال آل ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے سلسلہ اجداد‬
‫میں جو حوالے دیے ہیں انہیں ہم کسی بھی صورت ناکافی نہیں‬
‫کر سکتے کیونکہ ان حوالوں کے بعد اقبال کے شجرہ نسب سے‬
‫متعلق تشنگی باقی نہیں رہتی۔"‬
‫سعشہ خان صفحہ ‪ 161‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے آباؤ اجداد کے سلسلے کو ترتیب دینے‬
‫کے لیے تمام ما خذات سے استفادہ کیا اور خصوصی طور پر‬
‫محمد دین فوق کی کتابوں سے کی ماخذات اکٹھے کیے لیکن‬
‫اس کے باوجود انہوں نے تحقیقی مغالطوں کو واضح بھی کیا ہے‬
‫اور سیالکوٹ میں ہجرت کے بعد آباؤ اجداد کے حوالے سے جو‬
‫غلطیاں فوق سے ہوگئی ہیں انہوں نے اس کی نشاندہی بھی کی‬
‫ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے میں دالئل سے یہ ثابت کرنے کی‬
‫کوشش کی ہے کہ ان کے دادا کے دادا شیخ محمد رفیق‬
‫سیالکوٹ میں مقیم تھے یا انہوں نے پہلے ہجرت کی۔ اپنی آباؤ‬
‫اجداد‪  ‬کی سیالکوٹ ہجرت کے متعلق فوق کی بیان کردہ‬
‫معلومات اور تفاصیل سے اختالف کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"فوق کی اس تفصیل میں کچھ خامیاں رہ گئی ہیں۔شیخ محمد‬
‫رفیق اور ان کے بھائی کے والد کا نام شیخ جمال الدین تھا‪،‬‬
‫کیونکہ شیخ اعجاز احمد کے بیان کے مطابق بعض رجسٹری‬
‫شدہ مسودات میں ان کی ولدیت یوں ہی درج ہے۔اسی طرح‬
‫شیخ محمد رفیق کے اس نامعلوم بھائی کا نام شیخ عبدالرحمن‬
‫تھا یہ درست نہیں کہ انہوں نے الہور میں سکونت اختیار کی اور‬
‫الولد فوت ہوئے۔شیخ عبد الرحمن کی رہائش بھی سیالکوٹ ہی‬
‫میں تھی اور ان کی اوالد آج تک وہی آباد ہے۔ اسی طرح شیخ‬
‫عبداللہ کی اوالد بھی سیالکوٹ میں آباد ہے۔ یہ صحیح ہے کہ ان‬
‫کے خاندان میں سے بعض افراد حیدرآباد دکن چلے گئے تھے۔‬
‫فوک لکھتے ہیں کہ شیخ محمد رمضان(اقبال کے دادہ کے بھائی)‬
‫نے فارسی زبان میں تصوف پر چالئی کتابیں بھی لکھیں لیکن‬
‫ان کتب کی کوئی تفصیل نہیں دی نا یہ بتایا کہ ان کی اس اطالع‬
‫کا ذریعہ کیا تھا۔"‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪32‬‬

‫زندہ رود صفحہ‪ 31-‬‬


‫اپنی اس‪  ‬بات کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے روزگار فقیر میں‬
‫شیخ اعجاز احمد کے حوالے سے ایک اقتباس نقل کیا ہے‪:‬‬
‫"عالمہ اقبال کے اجداد میں کس نے اور کب کشمیر سے ہجرت‬
‫کرکے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی۔ اس بارے میں پورے‬
‫وثوق کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔۔۔قرائن یہ ہیں کہ‬
‫اٹھارویں صدی کے آخر میں یا انیسویں صدی کے ابتدائی سالوں‬
‫میں یہ ہجرت ہوئی ہوگی اور ہجرت کرنے والے بزرگ یا تو عالمہ‬
‫کے دادا کے باپ شیر جمال الدین تھے یا ان کے چار بیٹے جن کا‬
‫نام شیخ عبدالرحمن‪ ،‬شیخ محمد رمضان‪ ،‬شیخ محمد رفیق اور‬
‫شیخ عبداللہ تھااس کا بھی امکان ہے کہ شیخ جمال الدین نے‬
‫اپنے چاروں بیٹوں کو ساتھ لے کر کے وطن کیا ہو۔بحر علیہ تو‬
‫ثابت ہے کہ انیسویں صدی کے آغاز میں یہ چاروں بھائی‬
‫سیالکوٹ میں سکونت پذیر تھے ۔ان میں عالمہ اقبال کے دادا‬
‫شیخ محمد رفیع اور ان کے دو بھائی شیخ عبدالرحمن اور شیخ‬
‫محمد رمضان تو سیالکوٹ میں رہتے تھے اور تیسرے بھائی شیخ‬
‫عبدالللہ موضع جیٹھ یکے میں۔ان چاروں بھائیوں کی اوالد آج تک‬
‫شہر سیالکوٹ اور موضع جیٹھ یکے میں آباد ہے۔عالمہ کے دادا‬
‫کی پہلی شادی شہر سیالکوٹ کے ایک کشمیری خاندان میں‬
‫ہوئی۔اس بیوی سے کوئی اوالد نہ ہوئی اور وہ وفات پا گئیں۔‬
‫دوسری شادی جاللپورجٹاں کے ایک کشمیری گھرانے میں ہوئی۔‬
‫یہ بیوی بہت خوبصورت تھیں‪ ،‬اس لیے ان کا لقب "گجری" پڑ‬
‫گیا تھا۔ان سے شیخ محمد رفیق کے اوپر تالی دس لڑکے ہوئے‬
‫اور سب کے سب فوت ہوگئے۔ عالمہ کے والد شیخ نور محمد‬
‫شیخ محمد رفیق کی گیارہویں اوالد تھے۔"‬
‫روزگار فقیر ص‪115  ‬‬
‫زندہ رود میں عالمہ اقبال کے خاندان کے مطالعے سے پتہ چلتا‬
‫ہے کہ ان کا خاندان ہمیشہ سے دنیاوی آبادی آسودگی سے بڑھ‬
‫کر اخالقی اور روحانی کی جستجو میں تھا۔عالمہ اقبال کو‬
‫کشمیر سے محبت تھی اور اپنی جوانی میں کیا شاعر میں‬
‫انہوں نے کشمیر کے ساتھ‪  ‬وابستگی کو ظاہر کیا۔۔ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے عالمہ اقبال کے نسب پر تفصیلی بحث کرنے کے بعد‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪33‬‬

‫عالمہ اقبال کی ذاتی پسند نا پسند کو بھی بیان کیا ہے اور اس‬
‫حوالے سےانہوں نے اقبال کے اجداد کے برہمن ہونے کے اثرات‬
‫کو بھی ضمنی سطح پر بیان کیا ہے۔ اقبال کے براہمن ہونے پر‬
‫فخر کے حوالے سے ان کی تعداد کا نقشہ ہو یوں کھینچتے ہیں‪:‬‬
‫"سوال پیدا ہوتا ہے‪ ،‬کیا اقبال کو اپنے اسالف کے براہمن ہونے‬
‫پر فخر تھا‪  ‬تھیجی ‪،‬یا جو کچھ اپنے اسالف سے انہیں ورثہ میں‬
‫مال ‪ ،‬اس میں برہمنیت کا کتنا حصہ تھا؟ انسان کی نجی زندگی‬
‫میں متروکہ عقائد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ ان کا اثر تو‬
‫ایک آدھ نسل تک مکمل طور پر زائل ہوجاتا ہے۔اقبال کے جدا‬
‫علی نے ان کی پیدائش سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل‬
‫اسالم قبول کیا۔اس لئے اقبال کو اپنے اسالف کے براہمن ہونے‬
‫پر کیا فخر ہوسکتا ہے‪ ،‬مگر یہ حقیقت ہے کہ اقبال گائے کا‬
‫گوشت نہ کھا سکتے تھے۔ اس لیے گائے کا گوشت گھر میں نہ‬
‫پکتا تھا۔ اگر انہیں غلطی سے کوئی گائے کا گوشت کھال دیتا تو‬
‫انکا معدہ قبول نہ کرتا اور ان کی طبعیت مکدر ہو جاتی۔عالوہ‬
‫اس کے گو وہ علم نجوم کے قائل نہ تھے‪،‬انہوں نے راتوں کی‬
‫پیدائش پر دو جنم پتری بنوائیں‪ ،‬جو محفوظ رکھی گیں۔ایک جنم‬
‫پتری الہور میں راجہ نندر ناتھ میں ترتیب دیں اور دوسری‬
‫محصور کے پنڈت سر نیو آسیہ نے بنا کر بھیجی۔"‪ ‬‬
‫زندہ رود ص ‪36 ،35‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال عالمہ اقبال کی شخصیت کے حوالے سے کی‬
‫باتیں ان کے اشعار سے اخذ کرتے ہیں۔ان کے فلسفہ پر عبور‬
‫اور براہمنی نسبت کے حوالے سے انہوں نے مزید لکھا ہے‪:‬‬
‫"اقبال کے بعض اشعار سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ان کے نزدیک‬
‫فلسفے ایسے علوم پر ان کے امور کا سبب ان کی‪  ‬براہمن‬
‫نسبی تھی‪،‬مگر اقبال نے خود ہی فلسفہ کو اپنی راہبری کیلئے‬
‫ناکافی پا کر مسترد کر دیا۔ان کے تجربے میں تو عشق رسول‬
‫ہیں ایسی نعمت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمام فکری مسائل‬
‫حل کر سکتے تھے۔اس لیے قرآنی تعلیمات سے ان کا شغف‪،‬‬
‫اسالم کے ساتھ ان کی محبت اور مسلمان ہونے پر ان کا فخر‪،‬‬
‫وہ فطری عناصر تھے‪ ،‬جنہوں نے ان کی شخصیت کی تشکیل‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪34‬‬

‫کی۔"‬
‫زندہ رود ص ‪36‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال جہاں پر پہلے باپ کا خاتمہ کرتے ہیں لیکن یہ‬
‫خاتمہ اس باب کو دوسرے باب سے منسلک بھی کرتا ہے۔‬
‫دوسرے باب کاعنوان "خاندان سیالکوٹ میں" رکھا گیا ہے۔ اس‬
‫باب میں انہوں نے اپنے خاندان کی سیالکوٹ آمد اور وہاں پران‬
‫کے شب و روز کو بیان کیا ہے۔وہ سیالکوٹ کی قدیم تاریخ بھی‬
‫بتاتے ہیں اور اس حوالے سے مہابھارت اور اس کے بعد‬
‫سیالکوٹ میں مسلم سالطین کے ادوار کا ذکر بھی کرتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے انہوں‪  ‬نے فوق کی تحقیق کو بیان کیا ہے۔‬
‫سیالکوٹ کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"سیالکوٹ پنجاب کے شمال مشرق میں ایک نہایت قدیم شہر‬
‫ہے۔فوک کی تحقیق کے مطابق اسے پانچ ہزار سال یا اس سے‬
‫بھی زائد عرصہ قبل راجہ شل نے آباد کیا اور شاکل نام رکھا۔‬
‫مہابھارت میں لکھا ہے کہ شاکل نگری اپکاندی کے کنارے مدر‬
‫دیش میں واقع ہے۔اس زمانے میں پنجاب کا یہ حصہ مدر دیش‬
‫کہالتا تھا اور سیالکوٹ کے معروف نالۂ"ایک" کو اپکا ندی پکارا‬
‫جاتا تھا۔مہاراجہ چندر گپت بکرماجیت کے عہد میں ‪ ،‬جسے‬
‫گزرے تقریبا دو ہزار سال ہوچکے ہیں‪ ،‬راجہ شالباہن نے یہاں ایک‬
‫قلعہ تعمیر کرایا۔قلعہ کو ہندی زبان میں کوٹ کہا جاتا ہے۔ اس‬
‫لیے یہ قلعہ شالکوٹ پکارا جانے لگا اور صدیوں بعد سیالکوٹ‬
‫کے نام سے مشہور ہوگیا۔راجا شالباہن کے بیٹے‪  ‬پورن کے‪،‬‬
‫جوتارک الدنیا اور فقیر ہو کر پورن بھگت کہالیا‪ ،‬کئی قصے‬
‫پنجابی زبان میں دستیاب ہیں۔سیالکوٹ کے شمال میں کوئی‬
‫چار میل کے فاصلے پر موضع کرول میں وہ چاہ بھی موجود ہے‬
‫جس میں پورن کو پھینکا گیا تھا اور جہاں اکثر ہندو مستورات‬
‫بخواہش اوالد ہر نئے چاند کی پہلی اتوار کو جاکر نہایا کرتی‬
‫تھیں۔"‬
‫زندہ رود ص ‪38‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب میں مہا بھارت میں‪  ‬میں درج‬
‫سیالکوٹ کی تاریخ کے بعد ‪ 1351‬سے ‪ 1857‬تک کے‪  ‬نمایاں‬
‫واقعات کو پورے برصغیر کی تاریخ کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ان‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪35‬‬

‫تاریخی واقعات کو بیان کرنے کے پیچھے‪  ‬ان کی غایت یہ ہے کہ‬


‫اقبال کی فکر کو اس ماحول میں دیکھ سکیں جس میں انہوں‬
‫نے پرورش پائی اور ان کی ذہنی و باطنی تشکیل ہوئی۔ان کے‬
‫خیال میں ان کے بزرگ انوسی انیسویں صدی کے ابتدائی‬
‫سالوں میں سیالکوٹ آئے اس وقت مہاراجہ رنجیت سنگھ‪ ‬‬
‫پنجاب پر قابض تھا اور سیالکوٹ مسلمانوں کے تسلط سے‬
‫نکل چکا تھا۔اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫"مغلوں کے عہد میں سیالکوٹ پھلتا پھولتا رہا۔ صوفیاء اور‬
‫مشائخ کے حسن عمل اور خلق محمدی سے بیشتر ہندو‬
‫مشرف با اسالم ہوئے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا‬
‫چال گیا۔‪ 1807‬میں مہاراجہ رنجیت سنگھ‪ ،‬سیالکوٹ پر فوج‬
‫کشی کرکے اس پر قابض ہوگیا‪ ،‬لہذا بزرگان اقبال اگرانیسویں‬
‫صدی کے ابتدائی سالوں میں سیالکوٹ آئے ہو تو اس زمانے‬
‫میں سیالکوٹ سکھوں کے تسلط میں تھا۔"‪ ‬‬
‫زندہ رود صفحہ ‪ 39‬‬
‫اقبال کے آباواجداد نے سیالکوٹ میں سکونت اختیار کرنے کے‬
‫بعد کشمیری لوئیوں اوردھسوں کاروبار شروع کیا اور آغاز میں‬
‫شہر کے محلہ کٹھیکاں کے مکان میں آئے۔اسی مکان میں میں‬
‫شیخ نور محمد(عالمہ اقبال کے والد) اور ان کے چھوٹے بھائی‬
‫شیخ غالم محمد پیدا ہوئے اور یہیں ان کی شادیاں ہوئیں۔ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے اس باب میں اقبال کے آباواجداد آج کے کاروبار‬
‫اور ان کی جائیداد کا نقشہ خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔عالمہ‬
‫اقبال کے والد محترم ہم کی تصوف سے دلچسپی پی اور اور‬
‫خانہ نشینی‪  ‬کے حوالے سے بھی انہوں نے بات کی ہے۔یہ وہ دور‬
‫تھا جس میں مسلمان پورے برصغیر میں زوال آمادہ تھے اور‬
‫بڑی تیزی کے ساتھ ان کی سلطنت ان کے ہاتھوں سے نکلتی‬
‫جا رہی تھی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے محض خاندانی مسائل تک‬
‫اپنی توجہ محدود نہیں رکھی بلکہ زوال کی ان وجوہات کو بھی‬
‫بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح انگریزوں کا قبضہ‬
‫مستحکم ہو رہا تھا۔مسلمانوں نے نے انگریزوں کے قبضے کو کو‬
‫چپ چاپ اور کثرت تعامل کے بغیر قبول نہیں کیا کیا بلکہ‬
‫مختلف جہادی تحریکیں شروع ہوئیں جس میں سید احمد برلوی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪36‬‬

‫کا نام خصوصی طور پر ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬بیان کرتے ہیں ہیں۔‬
‫رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ہاتھ سے سے حکومت نکلتی جارہی‬
‫تھی اور اس ہنگامے میں پھر ‪ 1857‬کی جنگ آزادی ہوئی۔اس‬
‫حوالے سے وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"جس زمانے میں اقبال کے اجداد نے کشمیر سے ہجرت کرکے‬
‫سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی اس وقت برصغیر کے‬
‫مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہے‬
‫تھے۔‪1799‬ء میں میسور کے سلطان ٹیپو کی انگریزوں کے‬
‫مقابلے میں شکست نے مسلمانان ہند کی اپنی زوال پذیر‬
‫اجتماعی سیاسی قوت کے احیاء اور بحالی کے لیے تمام امیدوں‬
‫پر پانی پھیر دیا۔۔۔‪ 1835‬میں کمپنی نے ہندوستان کا سکہ تبدیل‬
‫کر دیا اور ‪ 1837‬میں فارسی کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم‬
‫کر دی۔باآلخر ‪ 1857‬ال‪ 3‬گا میں اسے بادشاہ کو معزول کرنے کا‬
‫موقع مل گیا۔ بادشاہ کو ملک بدر بدر کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔‬
‫شہزادوں کو ہمایوں کے مقبرے کے نزدیک گولی سے اڑا دیا گیا‬
‫اور اس طرح مغل تخت کے دعویداروں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ‬
‫ہوگیا۔ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا۔ زندہ رود صفحہ ‪،41‬‬
‫‪42‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے برصغیر کی تاریخ کو اس باب میں‬
‫سمونے کی کوشش کی ہے ہے اساتذہ بھی بتالیا ہے کہ اقبال کے‬
‫والد نے انگریزوں کے ظلم و استبداد کا یہ زمانہ ضرور دیکھا‬
‫ہوگا۔درحقیقت وہ ایک امن پسند شخصیت تھے تھے اور قوم کی‬
‫اس تقلید کو انہوں نے بھی محسوس کیا ہوگا لیکن یہ بھی‬
‫سمجھ گئے ہوں گے کہ ان حاالت میں مسلمانوں کے پاس‬
‫انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔علم کا بیشتر‬
‫وقت ذکر اذکار اور یادیں الہی میں گزرتا تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫نے نے فل سو علی نگاری کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے‬
‫عالمہ اقبال کے والد گرامی اور والدہ ماجدہ کے اخالق و عقائد‬
‫اور اخالق و اطوار کا خاکہ بھی تحریر کیا ہے۔والد اور والدہ کی‬
‫تربیت کے زیر اثر عالمہ اقبال کی شخصیت وقت ہمارے سامنے‬
‫واضح طور پر ابھرتی ہوئی لگ رہی ہے۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪37‬‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اقبال کے سلسلہ اجداد اور ان کے‬


‫خاندان پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اس کے بعد انہوں نے‬
‫عالمہ اقبال اقبال کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے باب ترتیب‬
‫ان"تاریخ والدت کا مسئلہ "ہے۔یہ مسئلہ‬
‫ِ‬ ‫دیا ہے۔اس باب کا عنوان‬
‫ایک مدت تک تک متنازع بنا رہا ہاں اور مختلف لوگوں نے عالمہ‬
‫اقبال کی تاریخ پیدائش کا تعین کیا۔عالمہ اقبال کی زندگی میں‬
‫جو مضامین یا کتابیں شائع ہوئیں ان میں بھی والدت کے حوالے‬
‫سے اختالف پایا جاتا ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ مصنفین ‪3‬‬
‫اقبال کے احباب میں سے ہونے کے باوجود انہیں طور پر نہیں‬
‫جانتے تھے اور خود عالمہ اقبال بھی اس حوالے سے سے کوئی‬
‫زیادہ دلچسپی نہ لیتے تھے۔کیا میں پاکستان کے بعد بھی ایک‬
‫مدت تک یہ مسئلہ حل طلب رہا یہاں تک کہ قیام پاکستان کے‬
‫بعد عالمہ اقبال کے ‪ 20‬ویں یوم وفات پر‪  ‬جو ڈاک ٹکٹ جاری‬
‫ہوا اس میں بھی عالمہ اقبال کی تاریخ والدت درست نہیں ملتی۔‬
‫اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی بنائی گئی وہ بھی عالمہ اقبال‬
‫کے سن والدت کا تعین کرنے میں ناکام رہی۔ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫نے پورے استدالل کے ساتھ عالمہ اقبال کی تاریخ پیدائش کا‬
‫الجھا ہوا معاملہ حل کردیا۔انہوں نے بہت عرق ریزی سے سے‬
‫تمام تواریخ کا ذکر کیا ہے اور درست تاریخی والدت کو منظر‬
‫عام پر النے کی کوشش کی ہے ۔انہوں نے عالمہ اقبال کی تاریخ‬
‫پیدائش کی تردید کے لیے نہایت مربوط دالئل دیے ہیں اور ایسے‬
‫استدالل کو پیش نظر رکھا ہے جن کو جھٹالیا نہیں جاسکتا۔انہوں‬
‫نے نے عالمہ اقبال کی تین تاریخ پیدائش یعنی (‪ 22‬فروری‬
‫‪1873‬ء ‪ 30 ،‬دسمبر ‪1873‬ء‪9 ،‬نومبر ‪1877‬ء) کو ترتیب کے‬
‫ساتھ ساتھ بیان کیا ہے اور داخلی اور خارجی شہادتوں کی بنا‬
‫پر ‪ 9‬نومبر ‪1878‬ء کی تاریخ کو درست قرار دیا ہے۔ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے نے ان تمام کتب اور مضامین کا نا صرف ذکر کیا ہے‬
‫بلکہ ان کا جائزہ بھی پیش کیا ہے اور اس جائزے کو مدنظر‬
‫رکھتے ہوئے انہوں نے تاریخ والدت کے اس مسئلےکو سلجھایا‬
‫ہے۔‬
‫‪ ‬یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ عالمہ اقبال نے اپنی پی‬
‫ایچ ڈی کا مقالہ مقالہ جمع کرواتے وقت اپنے تعارفی نوٹ میں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪38‬‬

‫اپنی تاریخ پیدائش‪1876  ‬ء قرار دی ہے لیکن یہاں یہ سمجھنا‬


‫بھی ضروری ہے کہ یہ تاریخ انہوں نے قوسین میں لکھی ہے جبکہ‬
‫اس سے پہلے ہجری تقویم کے مطابق اپنی تاریخ پیدائش ‪3‬‬
‫ذیقعد ‪1294‬ھ قرار دی ہے۔عیسوی تقویم کے مطابق ہجری‬
‫تقویم کی اقبال کی تحریر کردہ تاریخ پیدائش‪9  ‬نومبر ‪1877‬ء‬
‫ہی بنتی ہے۔بعض جگہ عالمہ اقبال کی بیان کردہ تعریف پر‬
‫اعتراض کیا گیا کہ سرکاری مالزمت کے حصول کے لیے لیے ایک‬
‫مدت تک بچوں کی عمریں کم لکھوانے کا رواج تھا اس لیے‬
‫ممکن ہے کہ اقبال کو بھی یہ تاریخ غلط ہی بتائی گئی ہو۔ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال کے خیال میں عالمہ اقبال دنیاوی منفعت کے لیے‬
‫اپنے تاریخی والدت کو نہیں بدل سکتے کیونکہ یہ ان کی‬
‫شخصیت اور مزاج کے خالف بات ہے۔اس حوالے سے وہ لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"یہ گمان کرنا بھی درست نہ ہوگا کہ اقبال نے اپنی تاریخ پیدائش‬
‫خودساخت کرلی‪،‬کیونکہ ایسا فیل اقبال کی کیریکٹر سے‬
‫مطابقت نہیں رکھتا تھا۔وہ ایک باغ سول آدمی تھے اور اگر کہیں‬
‫فائدہ پہنچنے کا امکان بھی ہوتا تو بھی وہ جھوٹا بیان دینے کو تیار‬
‫نہ ہوتے تھے۔" زندہ رود صفحہ ‪ 66‬‬
‫اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک واقعہ بیان کیا ہے‬
‫جس میں عالمہ اقبال آل ذاتی منفعت حاصل کرسکتے تھے‬
‫لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی کی وضع کردہ‬
‫عالمہ اقبال کی تاریخی والدت کو کو بیشتر عطر مصنفین‪  ‬نے‬
‫تسلیم کیا یہاں تک کہ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں بھی وہی‬
‫تاریخ پیدائش درج کی گئی ہے جو ڈاکٹرجاویداقبال کی وضع‬
‫کردہ ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق میں ہمیں میں ماخذات‬
‫کی ایک طویل فہرست ملتی ہے اس بحث میں انہوں نے‬
‫مختلف شخصیات کی متضاد آراء‪  ‬کو سامنے رکھا اور انہیں‬
‫واقعات اور شواہد کی روشنی میں جانچنے اور پرکھنے کے بعد‬
‫حتمی نتیجہ اخذ کیا۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ روز کے چوتھے پانچویں اور چھٹے باد‬
‫اب درج ذیل عنوانات کے تحت قائم کیے ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔بچپن اور لڑکپن‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪39‬‬

‫‪2‬۔ گورنمنٹ کالج الہور‬


‫‪3‬۔ تدریس و تحقیق‬
‫ان ابواب میں انہوں نے نے عالمہ اقبال کے افکار کی تدریجی‬
‫ارتقاء ف اور اس زمانے نے کے ماحول پر بحث کی ہے جس‬
‫میں اقبال کی فکری تشکیل کھیل پائی اور اس میں مسلسل‬
‫ارتقا ہوتا چال گیا۔ان ابواب میں پہلے تین ابواب کی طرح کوئی‬
‫دقیق الجھا ہوا مسئلہ نہیں ہے اس لیےاقبال آل کی ذہنی نشونما‬
‫واضح طور پر سامنے آئی ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے چوتھے باب میں عالمہ کے بچپن اور لڑکپن‬
‫کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔یہ معلومات فراہم کرتے ہوئے‬
‫ان کا اسلوب بڑا دلچسپ ہو گیا ہے ہے اور وہ وہ ہر واقعے کو‬
‫اس کے پس منظر اور تمام جزئیات کے ساتھ ساتھ یوں پیش‬
‫کرتے ہیں کہ اس واقعے کا لطف دوباال ہو جاتا ہے۔عالمہ اقبال‬
‫کے گھر کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اس غریب یا متوسط الحال خاندان میں ننھا منا اقبال اپنی‬
‫والدہ امام بی کے سایہ شفقت میں رفتہ رفتہ پروان چڑھنے لگا۔‬
‫بجلی کی سہولت سے محروم اس گھر کے محدود داالن میں‬
‫اس نے چلنا سیکھا اور پھر تعلیم کے آغاز کے بعد اسی گھر کی‬
‫تاریک کوٹھڑیوں میں‪ ،‬چراغ کی روشنی میں اس نے ابتدائی‬
‫سبق ازبر کیے۔شیخ نور محمد خود چونکہ بڑے دین دار آدمی‬
‫تھے‪ ،‬اس لیے ان کی خواہش تھی کہ بچے کو صرف دینی تعلیم‬
‫دلوائیں۔وہ سیالکوٹ کے علماء و فضالء سے دوستانہ مراسم‬
‫رکھتے تھے اور معارف دین کی تفہیم کے لئے بعض اوقات موالنا‬
‫ابو عبداللہ غالم حسن کے ہاں جایا کرتے تھے۔موالنا غالم حسن‬
‫محلہ شوالہ کی مسجد میں درس بھی دیتے تھے۔چنانچہ جس‬
‫روز اقبال چار سال چار ماہ کی عمر کو پہنچے‪ ،‬شیخ نور محمد‬
‫انہیں مسجد میں موالنا غالم حسن کے پاس لے گئے۔اقبال ال‬
‫نے اسی مسجد میں درس قرآن سے تعلیم کی ابتدا کی۔"زندہ‬
‫رود صفحہ ‪ 74‬‬
‫اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے‪  ‬عالمہ اقبال اور مولوی میر‬
‫حسن کے تعلق کو بیان کیا ہے۔عالمہ اقبال کے والد انہیں محض‬
‫دینی تعلیم دلوانا چاہتے تھے لیکن مولوی میر حسن کے اصرار‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪40‬‬

‫پر وہ قبال کی دنیاوی تعلیم کے لئے‪  ‬راضی ہوگئے۔اس کے بعد‬


‫عالمہ اقبال کی زندگی پر مولوی میر حسن کی شخصیت حاوی‬
‫ہوگی۔انہی کے زیرسایہ انہوں نے اسکاچ مشن سکول میں داخلہ‬
‫لیا۔مولوی میر حسن خود سکاچ مشن سکول میں پڑھاتے تھے‬
‫اور آخری عمر تک اسی سکول سے وابستہ رہے۔ان کی زندگی‬
‫صاف ستھری اور سادہ تھی گھر کا سودا سلف دالتے تھے اس‬
‫دوران میں شاگردوں سے مالقات بھی جاری رہتی۔مولوی میر‬
‫حسن مسلمانوں کو جدید تعلیم دلوانے کے حق میں تھے۔جدید‬
‫تعلیم کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی ادبیات سے روشناس‬
‫کروانا ان کے پیش نظر رہتا تھا اور وہ اپنے شاگردوں کی تربیت‬
‫انہیں خطوط پر کیا کرتے تھے ۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال اور مولوی میر حسن کے تعلق‬
‫کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اس دور کی تعلیمی ترجیحات کو‬
‫بھی بیان کیا ہے۔یہ وہ دور ہے جس میں سرسید احمد کا‬
‫مسلمانوں میں جدید تعلیم کا بیج بو چکے تھے اور علی گڑھ‬
‫کالج قائم ہوچکا تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے مسلمانوں کے ‪ 1857‬‬
‫کے بعد کے تعلیمی فقدان اور سرسید کی تحریک اور ان کے‬
‫مقاصد کو عمدگی سے بیان کیا ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال آل ہندوؤں‬
‫کے تعصب کو بھی بیان کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ جب سر سید‬
‫کی تحریک کے زیر اثر مسلمان تعلیم حاصل کرنے لگے تو‬
‫ہندوؤں نے کس طرح سے سرسید کا مذاق اڑایا اور ان سے‬
‫دشمنی اختیار کی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اردو ہندی تنازع اور اس‬
‫کے بعد سرسیداحمدخان کے دوران پنجاب آمد کو بھی موضوع‬
‫بنایا ہے۔مولوی میر حسن خود تحریک علی گڑھ سے سے متاثر‬
‫تھے اور ‪ 1877‬میں جب علی گڑھ کالج کی بنیاد رکھی گئی تو‬
‫وہ خود اس تقریب میں بھی شامل ہوئے۔‪ 1895‬میں جب مسلم‬
‫ایجوکیشن کانفرنس کا اجالس الہور میں ہوا تو مولوی میر‬
‫حسن نے اس میں بھی شرکت کی۔۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے مولوی‬
‫میر حسن کی شخصیت کا حق دلکش پیرائے میں کھینچا ہے اور‬
‫ان کی علم دوستی کے عالمہ اقبال پر اثرات کو بھی بیان کیا‬
‫ہے۔مولوی میر حسن جن کی علم دوستی اور تدریس کے حوالے‬
‫سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪41‬‬

‫"اقبال کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سید میر حسن (‬


‫‪1844‬ء تا ‪1929‬ء)کی شخصیت حاوی ہے۔سید میر حسن ایک‬
‫روشن من فکر اہل علم تھے جو مصالح دین اور مصالح دنیا کو‬
‫ایک ساتھ پیش نظر رکھ کر شاگردوں کی تربیت کرتے تھے۔وہ‬
‫ناصرف علوم اسالمی اور عرفان و تصوف سے آگاہ تھے بلکہ‬
‫علوم جدیدہ‪  ،‬ادبیات ‪ ،‬لسانیات اور ریاضیات کے بھی ماہر تھے۔‬
‫ان کے پڑھانے کا انداز ایسا تھا کہ اپنے شاگردوں میں اردو‪،‬‬
‫فارسی اور عربی کا صحیح لسانی ذوق پیدا کردیتے۔انہیں عربی‪،‬‬
‫فارسی‪ ،‬اردو اور پنجابی کے ہزاروں اشعار ازبر تھے۔فارسی کے‬
‫کسی شعر کی تشریح کرتے وقت وہ اس کے مترادف اردو اور‬
‫پنجابی کے بیسیوں اشعار پر ڈالتے تاکہ اس کا مطلب پوری‬
‫طرح ذہن نشین ہو جائے۔اپنی تدریسی مصروفیات کے باوجود‬
‫مسلسل اور متواتر مطالعہ بھی جاری رکھتے۔زندہ رود صفحہ‬
‫‪ 83‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬نے مولوی میر حسن ان کا خاکہ اس محبت‬
‫وقت کے ساتھ مرتب کیا ہے کہ گویا وہ عالمہ اقبال کے استاد نہ‬
‫ہوں بلکہ خود جاوید اقبال کے استاد ہوں۔خود عالمہ اقبال کو‬
‫اپنے استاد مولوی میر حسن سے بہت عقیدت تھی تھی اور‬
‫کبھی وہ عالمہ کے سامنے اپنا شعر نہیں پڑھتے تھے۔‪ 1923‬میں‬
‫جب انہیں سر کے خطاب کی پیشکش ہوئی تو انہوں نے اس‬
‫سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک ان کے استاد کی علمی‬
‫خدمات کا اعتراف نہیں نہیں کر لیا‪  ‬جاتا وہ کوئی ایسا خطاب‬
‫مثنوی قبول نہیں کریں گے ۔مولوی میر حسن کی تصنیف ایف‬
‫کے استفسار پر عالمہ اقبال نے جواب دیا میں خود ان کی‬
‫تصنیف ہوں۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب میں عالمہ اقبال کے گھریلو‬
‫حاالت کو بیان کیا ہے۔انہوں نے نے عالمہ اقبال کے بچپن کا ذکر‬
‫پوری صداقت اور تفصیل سے کیا ہے۔عیداال پائے کے سوانح نگار‬
‫کی طرح انہوں نے اقبال کے مشاغل کل میں کسی قسم کی‬
‫مروت کو نہیں آنے دیا۔انہوں نے زینت داری سے عالمہ اقبال کی‬
‫شرارتیں بھی بیان کی ہیں‪ ،‬باوجودے کے عالمہ اقبال ایک ذہین‬
‫طالب علم تھےانھوں نے خوامخواہ مثالی طالب علم بنانے کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪42‬‬

‫کوشش نہیں کی۔وہ ان کے لکی کبوتر بازی اور پتنگ اڑانے اور‬
‫اکھاڑے میں ورزش کرنے تک کے شوق کو بیان کر دیتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی شخصیت اور قاری کی‬
‫نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہوئے زندہ رود کے تمام‬
‫ابواب تحریر کیے ہیں اس لیے وہ اقبال کی شاعری کی ابتدا کو‬
‫بھی موضوع بناتے ہیں۔اقبال کی شاعری کی ابتدا کے حوالے‬
‫سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر کہنے کب شروع کیے۔ اس‬
‫بات کا جواب دو وثوق سے تو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ شعروں‬
‫سے مناسبت تو انہیں بچپن ہی سے تھی۔ممکن ہے ہے اس عمر‬
‫میں باقاعدہ طبع آزمائی کی ابتدا ہوئی ہو۔یکتا حقانی امروہوی‬
‫اپنی کتاب "سیرت اقبال" میں تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی‬
‫طبیعت کا رجحان نو عمری ہی سے‪  ‬شاعری کی طرف تھا۔‬
‫بچپن میں وہ اکثر فقرے ایسے بول جاتے ہیں جو کسی نہ کسی‬
‫بحر یا وزن میں ہوتے تھے۔زندہ رود صفحہ ‪ 91‬‬
‫اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی شادی کا ذکر‬
‫کیا ہے اس زمانے میں کم عمری میں بچوں کی شادی کردی‬
‫جاتی تھی۔اقبال کی پہلی بیوی کا نام کریم بی بی تھا اور اس‬
‫وقت عالمہ اقبال ‪16‬برس جبکہ ان کی عمر ‪ 19‬برس تھی۔اقبال‬
‫کی بعد کی تحریروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اس شادی کے‬
‫لیے راضی نہ تھے لیکن گھر میں بزرگوں کے سامنے نوعمر‬
‫لڑکوں کے لئے اختالف رائے کرنا اور پھر اس کا اظہار ممکن نہ‬
‫تھا اس لئے اقبال نے خاموشی اختیار کی۔عالمہ اقبال نے ‪1893‬‬
‫میں سکاچ مشن اسکول سے سے میٹرک کیا اور اسی سکول‬
‫میں میں انٹرمیڈیٹ کی کالسیں شروع ہوئیں تو ‪ 1895‬میں یہاں‬
‫سے ایف اے کیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب کے آخر میں‬
‫عالمہ اقبال کی موسیقی ٹی سے دلچسپی کے حوالے سے چند‬
‫کتابوں کا ذکر کیا ہے جو ان کے ابتدائی زمانے میں زیرمطالعہ‬
‫رہیں۔گو یہ درسی کتابیں تھیں لیکن ان میں میں موسیقی کے‬
‫راگ اور مختلف شعراء شعراء کے منتخب اشعار درج تھے۔یو‬
‫عالمہ اقبال آل الہور آنے سے قبل موسیقیمیں بھی دلچسپی‬
‫لینے لگے تھے۔اب عالمہ اقبال کے لئے اس محدود علمی فضا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪43‬‬

‫میں رہنا اور پنپنا ممکن نہ تھا اب‪  ‬وہ مرزا داغ دہلوی سے اصالح‬
‫لے رہے تھے اسی دوران الہور چلے آئے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے پانچویں باب کو "گورنمنٹ کالج الہور"‬
‫کے نام سے موسوم کیا ہے۔عالمہ اقبال پھول کی زندگی میں یہ‬
‫دور بہت اہمیت رکھتا ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اقبال کی شاعری‬
‫کے تشکیلی دور میں جمع حرکات کو سب سے زیادہ اہمیت دی‬
‫ہے وہ الہور میں مشاعرے کی روایت ہے جس میں عالمہ اقبال‬
‫شریک ہوا کرتے تھے ان کے خیال میں اگر عالمہ اقبال الہور نہ‬
‫آتے تو انہیں شہرت اور ناموری نہ ملتی۔الہور کے علمی و ادبی‬
‫ماحول میں عالمہ اقبال کے اندر گوئٹے اور غالب کے افکار کے‬
‫حوالے سے دلچسپی پیدا ہوئی اور اقبال کی ذہنی تربیت موت‬
‫کا سلسلہ جو مولوی میر حسن‪  ‬کی شاگردی میں شروع ہوا تھا‬
‫اب آگے بڑھنے لگا۔عالمہ اقبال کو موسیقی سے دلچسپی تھی‬
‫اس ضمن میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے خصوصی طور پر الہور اور‬
‫ان کی خوش الحانی اور اشعار کرلو ہم سے پڑھ کر سنانے کا‬
‫ذکر کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"ان میں میں میں اپنے اشعار ترنم سے پڑھ کر سنانے کا ذوق‬
‫الہور ہی میں پیدا ہوا۔ اس میں بے تکلف دوستوں کے اصرار کا‬
‫بڑا ہاتھ تھا۔جو نہ صرف اچھے شعر کی داد دے سکنے کے اہل‬
‫تھے بلکہ موسیقی کی صحیح شناخت بھی رکھتے تھے اور ایسی‬
‫محفلوں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔غالبا اسی زمانے میں اقبال نے‬
‫ستار خریدی اور سیکھنے کے لیے باقاعدہ سبق لیے۔ وہ‬
‫ستاربجانے کی مشق کیا کرتے تھے اور انہیں ستار نوازی کا‬
‫شوق ایک مدت تک رہا۔‪ 1905‬میں یورپ جانے سے پیشتر وہ یہ‬
‫ستار اپنے کسی دوست کو دیے گئے لیکن مضراب کو یادگار کے‬
‫طور پر محفوظ رکھ لیا۔یہ مرزا براکن نے ان کی وفات کے بعد‬
‫دیگر استعمال کی اشیاء کے ساتھ پڑی ہوئی خود دیکھی ہے‪،‬‬
‫مگر بعد میں ڈھونڈنے سے نہ مل سکی۔"زندہ رود صفحہ ‪ 107‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی ادبی مصروفیات کے ساتھ‬
‫ساتھ ان کی علمی میں جدوجہد کو بھی بیان کیا ہے۔عالمہ اقبال‬
‫نے گورنمنٹ کالج سے ‪ 1897‬میں بجے کا امتحان‪  ‬پاس کیا۔ان‬
‫کی طبیعت کا رجحان فلسفے کی طرف تھا اس لیے ایم اے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪44‬‬

‫فلسفہ میں داخلہ لے لیا۔اسی دور میں گورنمنٹ کالج میں‬


‫پروفیسر ٹی۔ ڈبلیو۔ آرنلڈ تشریف الئے آئے وہ بھی بہت جلد‬
‫عالمہاقبال کے مداح ہوگئے۔عالمہ اقبال کے اندر بیرون ملک‬
‫اعلی تعلیم حاصل کرنے کی جستجو کی بدولت پیدا ہوئی۔ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے اس باب میں یہاں عالمہ اقبال کے ذوق کے‬
‫متعلق مختلف انکشافات یہ ہیں وہاں اقبال کی شخصیت کے‬
‫نئے زاویوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔عالمہ اقبال کے تمام سوانح‬
‫نگاروں نے ان کی آرنلڈ کے ساتھ عقیدت کو بیان کیا ہے لیکن‬
‫اختالفی امور کا ذکر نہیں کیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے آرنلڈ گڈ سے‬
‫ان کے تعلق ق اور حدود کو پوری طرح بیان کر دیا ہے ۔‬
‫جاویداقبال آرنلڈ کے حوالے سے زندہ رود میں‪  ‬لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"بہرحال‪ ،‬یہاں اس بات کو نظر انداز نہ کرنا چاہیے کہ استاد سے‬
‫گہرے روابط اور تعلقات‪  ‬کے باوجود اقبال آرنلڈ کی شخصیت‬
‫اور اس کی حدود سے پوری طرح آشنا تھے ۔سید نذیر نیازی‬
‫تحریر کرتے ہیں کہ انیس سو تیس میں جب آرنلڈ کی وفات کی‬
‫خبر ان تک پہنچی تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ فرمایا کہ اقبال‬
‫اپنے استاد اور دوست سے محروم ہوگیا۔اس پر نیازی نے آرنلڈ‬
‫کے مرتبہ استشراق اور اسالم سے ان کی عقیدت کا ذکر چھیڑا‬
‫تو تعجب سے گویا ہوئے کہ آرنلڈ کا اسالم سے کیا تعلق؟"دعوت‬
‫اسالم" اور اس قسم کی تصانیف پر مت جاؤ۔آرنلڈ کی وفاداری‬
‫صرف خاک انگلستان سے تھی انہوں نے جو کچھ کیا‪ ،‬انگلستان‬
‫کے مفاد کے لئے کیا۔ میں جب انگلستان میں تھا‪ ،‬تو انہوں نے‬
‫مجھے براؤن کی تاریخ ادبیات ایران پر کچھ لکھنے کی فرمائش‬
‫کی تھی لیکن میں نے انکار کردیا‪ ،‬کیونکہ مجھے اس قسم کی‬
‫تصنیفات میں انگلستان کا مفاد کام کرتا نظر آتا تھا ۔دراصل یہ‬
‫بھی ایک کوشش تھی‪ ،‬ایرانی قومیت کو ہوا دینے کی‪ ،‬تاکہ اس‬
‫طرح ملت اسالمیہ کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے۔بات بھی ہے کہ‬
‫مغرب میں فرد کی زندگی صرف ملک کے لئے ہے اور وطنی‬
‫قومیت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ملک اور قوم (دونوں ایک ہی چیز‬
‫کے دو نام ہیں)کو ہر بات پر مقدم رکھا جائے۔لہذا آرنلنڈ کو‬
‫مسیحیت سے غرض تھی‪ ،‬نہ اسالم سے‪ ،‬بلکہ سیاسی اعتبار‬
‫سے دیکھا جائے تو آرنلڈ کیا ہر مستشرق کا علم وفضل وہی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪45‬‬

‫راستہ اختیار کر لیتا ہے جو مغرب کی ہوس استعمار اور‬


‫شہنشاہیت کے مطابق ہو۔ان حضرات کو بھی شہنشاہیت‬
‫پسندوں اور سیاست کاروں کا دست و بازو تصور کرنا‬
‫چاہیے۔"زندہ رود صفحہ ‪103‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی ذاتی رائے کو چھپانے کی‬
‫کوشش نہیں کی اور نہایت بے باقی سے عالمہ اقبال کی عادات‬
‫و خصائل کو بیان کیا ہے۔ان کے خیال میں اس عہد میں عالمہ‬
‫اقبال کی توجہ زیادہ تر اپنی ذات پر مرتکز رہی۔وہ فلسفی میں‬
‫دلچسپی لیتے رہے اور مغربی دبئی فلسفیوں مثال ہیگل اور‬
‫گوئٹے ے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے‬
‫خیال میں اس عہد کی عالمہ کی شاعری سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫وہ مجموعہ ہے آزاد تھے ابھی زندگی وہ پختہ یقین تک نہیں‬
‫پہنچے‪  ‬تھے۔ گورنمنٹ کالج ایک تجربہ گاہ تھی اور اس تجربہ گاہ‬
‫میں نظریات اور جذبات کی پائداری یا ناپائیداری پری کو‬
‫پرکھنے کی کیفیت خاصی مدت تک طاری رہی۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود کے چھٹے باب‪  ‬کو "تدریس و‬
‫تحقیق" کے نام سے موسوم کیا ہے۔اسباب میں میں ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے نے بتانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح عالمہ اقبال‬
‫گورنمنٹ کالج ج کے زمانہ طالب علمی سے ترقی کرکے‬
‫تدریس وتحقیق کے دور میں داخل ہوئے۔عالمہ اقبال نے ایم اے‬
‫کا امتحان دینے کے بعد ‪ 13‬مئی ‪ 1999‬کو اورینٹل کالج میں‬
‫میں ‪72‬روپے ‪ 14‬آنے ماہوار تنخواہ پر عربک ریڈر کی حیثیت‬
‫سے مالزمت اختیار کر لی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال‪  ‬کے‬
‫اس تحقیقی سفر کو مکمل تحقیقی شعور کے ساتھ تحریر کیا‬
‫ہے۔عالمہ اقبال نے انیس سو میں میں تدریس و تحقیق کے لیے‬
‫تحقیقی مقالے لکھنے شروع کر دیئے جو فکر اقبال کے نئے‬
‫امکانات کو سامنے التے ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق کے‬
‫مطابق انہوں نے مندرجہ ذیل تراجم و تالیفات مرتب کیں‪ :‬یا‪ ‬‬
‫‪1‬۔نظریہ توحید مطلق‪ ،‬پیش کردہ شیخ عبد الکریم‬
‫الجیلی(انگریزی)‬
‫‪2‬۔اسٹبس کی تصنیف "ارلی پالنچنٹس" کی اردو میں تلخیص و‬
‫ترجمہ‪ ‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪46‬‬

‫‪3‬۔واکر کی تصنیف "پولیٹیکل اکانومی" کی اردو میں تلخیص و‬


‫ترجمہ‪ ‬‬
‫‪4‬۔علم االقتصاد‪ ‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے‪  ‬یہاں پر ان کتب کا تعارف بھی دیا ہے‬
‫محض ان کے عنوانات پر اکتفا نہیں کیا کیوں کہ محض عنوانات‬
‫دینے سے اقبال کے فکری گوشوں کے تدریجی ارتقاء کو سامنے‬
‫النے کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا۔اس دور میں وہ وہ ہاسٹل‬
‫سے بھاٹی گیٹ منتقل ہوگئے اس وقت بھاٹی گیٹ الہور کی‬
‫ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ اسی دور میں میں علی بخش‬
‫عالمہ اقبال کا مالزم ہوا۔عالمہ اقبال کے تحقیقی مشاغل سے پتہ‬
‫چلتا ہے کہ ان کے موضوعات میں خاصہ تنوع تھا۔ وہ تاریخ ‪،‬‬
‫معیشت‪ ،‬فلسفہ اور انگریزی پڑھاتے تھے‪  ‬اور انہیں موضوعا پر‬
‫مضامین بھی قلم بند کر رہے تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان کے‬
‫علمی مشاغل کو تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن ‪ 1905‬میں آنے‬
‫والے زلزلے کو کو ایک جملے تک محدود رکھا ہے حاالنکہ انکے‬
‫دیگر سوانح نگاروں نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال کے خیال میں اس عہد میں برصغیر کے پڑھے لکھے‬
‫نوجوان یورپی اقوام کی ترقی کو دیکھ کر ان کی وطنی‬
‫قومیت کے جذبے سے متاثر ہوئے اور اقبال بھی انہی نوجوانوں‬
‫میں تھے‪ ،‬اس لیے وطنی قومیت کی ذات میں بہہ گئے۔اس دور‬
‫کی شاعری میں وطنی قومیت کی گونج سنائی دیتی ہے۔اسی‬
‫عہد میں عالمہ اقبال ہندو مذہب اور فلسفے کو سمجھنے کے‬
‫لیے سنسکرت سے شناسائی پیدا کی کی اور مقامی مذہبی‬
‫رہنماؤں کو موضوع بنایا اور ان برگزیدہ ہستیوں کو خراج تحسین‬
‫پیش کیا۔عالمہ اقبال تعصب کی بنیاد پر پر دوسری ملتوں کے‬
‫مذہبی پیشواؤں کی تذلیل کرنے کو اخالقی جرم سمجھتے تھے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ اس وقت کی ان کی شاعری میں موضوعات کا‬
‫تنوع بہت زیادہ تھا ڈاکٹر جاوید اقبال اس حوالے سے رقم طراز‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"اس دور کی شاعری میں بہت کچھ تھا ۔عشق مجازی کی گونج‬
‫تھی‪ ،‬روایتی تصور تھا‪ ،‬مناظر فطرت کی عکاسی تھی‪ ،‬بچوں‬
‫کے لیے نظمیں تھیں‪ ،‬مغربی شاعری کے آزاد تراجم تھے‪،‬ہنگامہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪47‬‬

‫کائنات‪ ،‬حسن و جمال اور وطنی قومیت کے احساسات تھے اور‬


‫اسالمیات کا عنصر بھی موجود تھا مگر سب کچھ وسیع‬
‫المشربی کے ہمہ اوست میں غرق تھا۔"زندہ رود صفحہ ‪ 120‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬نے عالمہ اقبال پر اس دور میں ہونے والے‬
‫چند اعتراضات کو بیان کیا‪  ‬ہے اور ان کی ایک نظم کے حوالے‬
‫سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"نظم‪  ‬تا"زہد اور رندی" میں ایک مولوی صاحب نے جو اعتراض‬
‫ان پر کیے ک یہ شعر تو اچھے کہتا ہے لیکن احکام شریعت کی‬
‫پابندی نہیں کرتا‪ ،‬صوفی بھی معلوم ہوتا ہے اور رند بھی ہے‪،‬‬
‫مسلمان ہے لیکن ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔طبیعت‪  ‬میں کسی‬
‫قدر تشیع بھی ہے کیونکہ تفضیل علی کرتا ہے۔راگ کو داخل‬
‫عبادت سمجھتا ہے رات کو محفلیں رقص سرور میں شامل ہوتا‬
‫ہے لیکن صبح کے وقت خشوع و خضوع سے تالوت بھی کرتا‬
‫ہے‪ ،‬اس کی جوانی بے داغ بھی ہے اور اسے حسن فروشوں‬
‫سے بھی عار نہیں۔آخر اس مجموعہ اضداد کی سیرت کیا ہے؛تو‬
‫جواب اقبال اس کا دیتے ہیں‪ ،‬وہ اس دور میں ان کے مزاج کی‬
‫صحیح کیفیت تھی‪:‬‬
‫میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا‬
‫‪ ‬گہرا ہے میرے بحر خیاالت کا پانی‪ ‬‬
‫مجھ کو بھی تمنا ہے کہ اقبال کو دیکھوں‬
‫‪ ‬کی اس کی جدائی میں بہت اشک فشانی‬
‫‪ ‬اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‬
‫‪ ‬کچھ اس میں تمسخر نہیں‪ ،‬واللہ نہیں ہے‪ ‬‬
‫اہل زبان اقبال کے جدید اسالیب بیان میں کیڑے نکالتے تھے۔ وہ‬
‫تو حالی کی زبان کو بھی مستند نہ سمجھتے تھے‪ ،‬کیونکہ حالی‬
‫کا تعلق پانی پت سے تھا‪ ،‬جہاں کی زبان ٹکسالی نہ تھی۔شروع‬
‫ہی سے ٹکسالی زبان کے مدعیان نے اقبال کی زبان اور‬
‫محاورے پر اعتراض وارد کیے۔" زندہ رود صفحہ ‪120‬تا ‪121‬ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے انجمن کشمیری مسلمان ان‬
‫سے وابستگی اور پھر اس کے بعد انجمن حمایت اسالم سے‬
‫تعلق کو بھی بیان کیا ہے۔ان کے خیال میں اسی عہد میں وہ‬
‫انجمن حمایت اسالم سے وابستہ ہوئے اور اس کے اجالسوں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪48‬‬

‫میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے ‪ ،‬یہی نہیں بلکہ اس‬


‫انجمن میں وہ اپنی نظمیں بھی پڑھتے رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫نے انجمن حمایت اسالم کی غرض و غایت کو بھی موضوع بنایا‬
‫ہے اور عالمہ اقبال اقبال کی نظموں کی تفصیل بھی بیان کی‬
‫ہے جو انہوں‪  ‬نے ان پان سالوں میں انجمن حمایت اسالم کے‬
‫جلسے میں پڑھیں‪ 1904 ،‬کے جلسے میں موالنا حالی بھی‬
‫موجود تھے۔ڈاکٹر جاوید اقبال اس ساری تفصیل میں میں تاریخ‬
‫کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں اور یہ تاریخ محض برصغیر کی‬
‫تاریخ نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسالم کی تاریخ بھی ہے۔‬
‫سولہویں اور سترھویں صدی نے یورپ میں جو انقالب آیا اور‬
‫مستشرقین نے جو اس کا کا وہ سر سید کی تحریک سے تعلق‬
‫جوڑنے نظر آتے ہیں۔تاریخ کا جائزہ لینے کے متعلق لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اس مرحلے پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عہد کے اقبال نے جو‬
‫وطنی قومیت کی مے سے سرشار اور وسیع المشربی کے ہمہ‬
‫اوست میں مستغرق تھے‪ ،‬اپنے موضوعات میں اسالم کا عنصر‬
‫کیوں کر شامل کیا؟کیا انکی مسلم قومیت یا ملی ماتم کی‬
‫شاعری حالی یا شبلی کی تقلید میں وجود میں آئی؟اس سوال‬
‫کے جواب کے لیے اقبال کے گردونواع سے پوری طرح باخبر‬
‫ہونے کے لئے تحریک اتحاد ممالک اسالمیہ کا سرسری جائزہ‬
‫لینے کی اشد ضرورت ہے۔" زندہ رود صفحہ ‪ 124‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمی منظر نامے کو برصغیر کے حاالت‬
‫سے جوڑا ہے اور اس اس ضمن میں خالفت اور جمال الدین‬
‫افغانی کے بعد سر سید کی تحریک کو وہ مقدم جانتے ہیں۔ان‬
‫کے خیال میں اس وقت وقت برصغیر کا نوجوان طبقہ سرسید‬
‫کے بتائے ہوئے راستے پر چل تو رہا تھا لیکن بیک وقت وہ وطنی‬
‫قومیت اور عالمی اسالمی اخوت کے متضاد جذبات کو بھی لیے‬
‫ہوئے تھا اور یہی کیفیت عالمہ اقبال کی بھی تھا۔ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے اسی کشمکش کو عالمہ اقبال کے سفر یورپ سے‬
‫جوڑا ہے یورپ کے سفر کی تیاری کے حوالے سے انہوں نے اہم‬
‫تفصیالت فراہم کی ہیں‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ وہ عالمہ اقبال کے‬
‫لباس اور حلیہ نگاری بھی کرتے نظر آتے ہیں۔عالمہ اقبال کے‬
‫لباس اور علیہ کے متعلق لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪49‬‬

‫"اقبال انگلستان جانے سے قبل ہمیشہ قومی لباس زیب تن‬


‫کرتے تھے۔ گھر میں وہ عموما تہبند اور بنیان پہنتے۔ اگر سردیوں‬
‫کا موسم ہوتا تو قمیص پہن کر اوپر دھسا‪  ‬اوڑھ لیتے باہر جاتے‬
‫وقت عموما شلوار قمیض اور اچکن یاکوٹ پہنتے تھے۔پاؤں میں‬
‫پمپ یا دیسی جوتا ہوتا اور سر پر رومی ٹوپی یا سیاہ قراقلی‬
‫کی اونچی ٹوپی۔باغات سر پر لونگی بھی باندھ لیتے تھے‪ ،‬لیکن‬
‫یورپ میں پہننے کے لئے انہوں نے خاص طور پر انگریزی لباس‬
‫جانی سوٹ سلوائے اور جب لندن پہنچے تو سوٹ ہی زیب تن‬
‫کر رکھا تھا۔علی بخش نے ایک بار راقم کو بتایا تھا کہ اقبال نے‬
‫فیلٹ ہیٹ صرف یورپ میں طالب علمی کے زمانے میں پہنا۔‬
‫بعد میں اسے استعمال نہ کیا۔" زندہ رود صفحہ ‪129‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب کا اختتام عالمہ اقبال کے کے‬
‫انگلستان پہنچے پر کیا ہے۔انہوں نے عالمہ اقبال کی ذہنی‬
‫نشوونما کو تاریخی پس منظر میں میں دکھانے کی کوشش کی‬
‫ہے ہیں اور اپنے مشاہدے کی بنا پر پر عالمہ اقبال کی تمام‬
‫جزئیات کو موضوع بنایا ہے۔یورپ میں عالمہ اقبال آل کی‬
‫نفسیات اور فکر پر گہرے نقوش مرتب کیے یے ان تمام باتوں‬
‫کا ذکر ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے پہلی جلد کے آخری باب‬
‫بعنوان"یورپ" میں کیا ہے۔‪ ‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نےاس باب میں عالمہ اقبال‪  ‬کی تعلیمی‬
‫مصروفیات کو موضوع بنایا ہے۔کیمبرج کے دوران وہ کن اساتذہ‬
‫سے تعلیم حاصل کرتے رہے اور یورپ کی زندگی نے کس طرح‬
‫ان کی زندگی پر اثرات چھوڑے ان سب کا جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫کیمبرج اور لندن کی زندگی اس کے عالوہ مختلف شخصیات‬
‫خصوصا عطیہ فیضی‪،‬سروجنی‪  ‬نائیڈو سے مالقات اس باب کا‬
‫حصہ ہے۔کیمبرج سے فراغت کے بعد جوالئی ‪ 1907‬میں جرمنی‬
‫کے شہر ہائیڈرل برگ چلے گئے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے ہائڈرل‬
‫برگ میں ان کی کی مصروفیات کو بہت دلچسپی سے بیان کیا‬
‫ہے۔یہاں عالمہ اقبال کی مالقات ایما ویگے ناست سے ہوئی۔ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے ان کے خطوط‪  ‬سے کئی اقتباسات درج کیے‬
‫ہیں۔عالمہ اقبال اور ان کے درمیان ان تصاویر تصاویر اور تحائف‬
‫کا تبادلہ بھی ہوا انہوںنے نے اقبال کو جو خط لکھیں وہ محفوظ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪50‬‬

‫نہیں البتہ اقبال کے خطوط محفوظ ہیں۔عالمہ اقبال اس دور‬


‫میں شاعری کے میدان میں کی تغیرات سے گزرے اور ایک‬
‫مقام پر انہوں نے شاعری کو ترک کرنے کا ارادہ بھی کیا جسے‬
‫صرف عبدالقادر نے نے مستردکیا کیا اور آخر میں آرنلڈ اور‬
‫عبدالقادر سر کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اقبال نے یہ سوچا‬
‫کہ شاعری چھوڑ دینا جائز نہیں۔یورپ کے قیام میں عالمہ اقبال‬
‫شعر بھی کہتے رہے لیکن اب وطنی قومیت سے وہ متنفر ہو‬
‫رہے تھے۔وطنی قومیت کے اس اس رویے کی تبدیلی کے بارے‬
‫میں ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں‪ :‬‬
‫"اقبال یورپ جاتے وقت وطنی قومیت کے نشے سے سرشار‬
‫تھے۔ جب ان کا جہاز اٹلی کے ساحل کے قریب سے گزرا تو‬
‫انہوں نے تعظیما ارشاد کیا‪:‬‬
‫ہرے رہو! وطن مازنی کے میدانو!‬
‫‪ ‬جہاز پر سے تمھیں ہم سالم کرتے ہیں‪ ‬‬
‫مگر انگلستان میں ابھی ڈیڑھ سال ہی گزرا تھا کہ رفتہ رفتہ ان‬
‫کے سامنے وطنی قومیت کے انسان دشمن اور تاریک پہلو‬
‫نمایاں ہونے لگے۔انہیں احساس ہونے لگا کہ انسان کا کسی‬
‫عالقے میں پیدا ہوکر‪ ،‬کسی مخصوص نسل رنگ اور زبان سے‬
‫تعلق رکھنا محض ایک اتفاق ہے‪ ،‬جس پر اس کا کوئی اختیار‬
‫نہیں۔اس اتفاق کی بنا پر اس کا تکبر کرنا یا ایک مخصوص‬
‫انسانی گروہ یا خطہ زمین سے محبت کرنا اور دنیا بھر کے‬
‫دوسرے انسانوں سے نفرت کرنا نیز انھیں کمتر سمجھ کر‬
‫مغلوب کرنا‪ ،‬ان کے حقوق غصب کرنا اور ان کا استحصال کرنا‪،‬‬
‫کیا مذہبی‪ ،‬روحانی‪ ،‬اخالقی یا کسی بھی اعتبار سے جائز قرار‬
‫دیا جاسکتا ہے؟ان کے پیش نظر وطنیت کا مغربی تصور‪ ،‬انسان‬
‫دوستی احترام آدمیت کے آفاقی اصولوں کے سراسر منافی تھا۔‬
‫انیس سو سات میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ‬
‫یورپی قوم کے گروہ عسکری طاقت کے بل بوتے پر ایک‬
‫دوسرے کے خالف صف آرا ہو گئے ہیں۔ان کی نگاہ میں یہ محاذ‬
‫آرائی ڈاکو کے گروہوں کی محاذ آرائی تھی جو غاصبانہ تجارت‬
‫کو وسعت دینے یا کمزوروں کی غارت گری کی خاطر کی گئی‬
‫تھی۔اس اقبال کے دل میں نہ صرف مغربی استعمار اور وطنی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪51‬‬

‫قومیت کے خالف شدید نفرت کا جذبہ پیدا ہوا بلکہ وطنی‬


‫قومیت کے جذبے کو بھی حقارت کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔یہ‬
‫نفرت و حقارت اس قدر عمیق تھیں کہ بعد میں اپنی وطنی‬
‫قومیت کی شاعری پر بھی نادم تھے اور بسا اوقات کہاکرتے‬
‫تھے کہ قیام یورپ سے قبل کا کالم میرے زمانہ جاہلیت کا کالم‬
‫ہے۔"زندہ رود صفحہ ‪162‬تا ‪ 163‬‬
‫یورپ کے قیام کے دوران وہ اس نتیجے پر بھی پہنچے کہ روس‬
‫اور یورپ کی نوآبادیاتی طلقتیں اسالم کو مستقل طور پر‬
‫منتشر کردینا چاہتی ہیں۔وہ اس نتیجے پر پہنچے ک اےہ وطنیت‬
‫کے یورپی تصور کے زیراثر مصر ترکی ایران افغانستان اور‬
‫عرب ممالک میں بھی قومی تحریک وجود میں آ چکی ہیں۔ابو‬
‫نے یہ خطرہ تھا کہ اگر یورپی تصور کے تحت مسلمان قومیتیں‬
‫وجود میں آگئی تو یہ آپس میں نفرت کرنے لگیں گے۔وہ اس‬
‫نتیجے پر پہنچی کہ مسلمانان عالم کی طاقت برقرار رکھنے کے‬
‫لئے ضروری ہے کہ تمام مسلمان اشتراق ایمان کے اصول پر‬
‫متحد ہوں اور اتحاد کے ذریعے باطل قوتوں کو شکست دی دی‬
‫اسی سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وہ مسلمان اقوام کے اتحاد‬
‫کا خواب دیکھنے لگے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب کا اختتام‬
‫جوالئی ‪ 1948‬ان کی وطن واپسی پر کیا ہے لیکن اسباب کی‬
‫سب سے اہم باز وہ خارجی حاالت ہیں جن کا مشاہدہ کرتے ہوئے‬
‫عالمہ اقبال کی شخصیت میں ایک ارتقائی صورتحال پیدا ہوئی‬
‫اور وطنی قومیت کا جذبہ ماند پڑ گیا۔‬
‫۔زندہ رود‪ ،‬وسطی دور (حصہ دوم)‪:‬‬
‫‪ ‬یہ زندہ رود کا دوسرا حصہ ہے اور یہ عالمہ اقبال کی زندگی کا‬
‫وسطی دورہے۔اس جلد میں ستمبر‪ 1908‬لے کر دسمبر ‪1925‬‬
‫تک کے حاالت اور اس میں اقبال کے ذہنی ارتقاء کے جائزے کو‬
‫پیش کیا گیا ہے۔یہ جلد ‪1983‬ء میں شیخ‪  ‬غالم علی اینڈ سنز‬
‫پبلشرز الہور سے شائع ہوئی۔اس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫عالمہ اقبال کے سفر یورپ سے واپسی پر فکر معاش اور‬
‫مختلف امور کو موضوع بنایا ہے۔اس کے ابواب کی تعداد بھی‬
‫سات ہےکیونکہ دوسری جلد میں سوانح اقبال ال کو ایک‬
‫تسلسل سے بیان کیا گیا ہے‪  ‬یااس لیے اس جن کے ابواب کا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪52‬‬

‫نمبر شمار نئے سرے سے شروع نہیں کیا گیا ۔جلد اول سال کی‬
‫آخری باپ کا نمبر ساتھ تھا اور جلد وزن کا پہال باب نمبر‪8‬‬
‫قراردیاگیاہے یو یو عالمہ اقبال کی سوانح "زندہ رود" جلد دوم کا‬
‫باب اول کی بجائے یے آٹھویں باب سے شروع کیا گیا ہے۔ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے نے اس جلد ضد کے ابواب اب کو کو اس کے‬
‫نفس‬
‫ِ‬ ‫نفس نے مضمون کے مطابق الوام دیا ہے یوں وہ باب‬
‫مضمون کا اشاریہ بن جاتے ہیں اور اس کے اندر موجود کہانی‬
‫کو بیان کرتے ہیں۔ان ابواب کی تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪      ‬‬ ‫‪8‬۔فکر معاش‪.9                  ‬ازدواجی زندگی کا بحران‬
‫‪ .10‬ذہنی ارتقا‬
‫‪.11‬تخلیقی کرشمہ‪.12          ‬قلمی ہنگامہ‪                               ‬‬
‫‪13‬۔ خانہ نشینی‬
‫‪14‬۔ہندو مسلم تصادم کا ماحول‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اس حصے میں عالمہ اقبال کی دنیاوی‬
‫جدوجہد اور ان کے افکار کے تدریجی ارتقاء‪  ‬کا جائزہ لیا ہے۔‬
‫عالمہ اقبال نے اس دور میں اپنے خیاالت کا برمال اظہار کیا۔یہی‬
‫وجہ ہے کہ ان کے افکار پر کڑی تنقید کی گئی اور کئی جگہ‬
‫مخالفین نے کردار کشی کی مہم بھی چالئی۔اس دور میں عالمہ‬
‫اقبال کی دنیاوی مصروفیات تو بہت بڑھ گئی تھی لیکن وہ‬
‫اضطراب اور تنہائی کا شکار بھی تھے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑی‬
‫کامیابی اسے تحقیق کی سطح پر ان تمام عوامل کو بیان کیا‬
‫ہے اور انہوں نے اس دور میں پیش آنے والے سیاسی واقعات‬
‫اور عالمی تناظر کو بھی عمدگی سے عالمہ اقبال کی شخصیت‬
‫کے ارتقاء سے جوڑا ہے۔ عالمہ اقبال کی زندگی کے اس حصے‬
‫کے بارے میں "زندہ رود" کے دیباچے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"دوسرے حصے کا تعلق حیات اقبال کے وسطی دور سے ہے۔‬
‫اس کا آغاز ستمبر ‪ 1948‬اقبال کی دنیا درانہ جدوجہد سے ہوتا‬
‫ہے اور جسم بر ‪ 1925‬تک کی مدت میں ان کی زندگی اور‬
‫افکار کے بتدریج ارتقاءکے جائزہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اس دور‬
‫میں اقبال نے ملت اسالمیہ کے لیے نیا سرمایہ حیات فراہم‬
‫کرنے کی غرض سے اپنے خیاالت کا برمال اظہار کرنا شروع کیا‬
‫اور حقیقی اسالمیت کی بیداری کی خاطر ایک مخصوص نظام‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪53‬‬

‫فکر کی تدوین کی۔نتیجہ میں نہ صرف ان کے افکار پر کڑی‬


‫تنقید کی گئی بلکہ ان کے مخالفین نے اقبال کی کردار کشی‬
‫کی مہم کا بھی آغاز کیا۔ان کی ذات کے متعلق مختلف قسم کے‬
‫بہتان تراشے گئے اور مسلمانوں کو خودی کا احساس دالکر ایک‬
‫ملت یا قوم کی صورت میں متحد کرنے والی محترم شخصیت‬
‫پر کفر کا فتویٰ بھی صادر کیا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب اقبال کے‬
‫افکار کو نہ تو کوئی سمجھنے کی کوشش کرتا تھا اور نہ کوئی‬
‫قبول کرنے کو تیار تھا۔بیشتر علماء ‪ ،‬مشائخ اور مسلم سیاسی‬
‫رہنما ان کے خالف ہو چکے تھے۔سو یہ دور مختلف وجوہ کی بنا‬
‫پر بحثیت مجموعی اقبال کے ذہنی و روحانی کرب و اضطراب‬
‫اور شدید تنہائی کا دور تھا اور وہ کسی ایسے ہمدم یا رفیع کے‬
‫لئے ترستے تھے جو ان کا ہم خیال ہو۔گویا اقبال کی شاعری نے‬
‫رحیل کارواں ‪،‬نغمہ جبرئیل آشوب یا جزو پیغمبری بننے کے‬ ‫ِ‬ ‫آواز‬
‫لئے جست تو لے لی تھی۔لیکن عقل یاراں ابھی تک محوتماشائے‬
‫لب بام تھی۔"زندہ رود ص‪ 16-‬‬
‫‪1908‬ء میں یورپ سے واپسی پر پر عالمہ اقبال کو سب سے‬
‫پہلے جس مسئلہ کا سامنا ہوا فکری معاش تھی اسی لیے ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے اس باب کا عنوان بھی "فکری معاش" رکھا ہے۔‬
‫وہ ان تمام امور کو زیر بحث الئے ہیں جو اس دور میں عالمہ‬
‫اقبال کی معاشی پریشانیوں کا سبب بنے۔ان پریشانیوں کی وجہ‬
‫سے عالمہ اقبال کی شاعری پر جو اثرات آئے ان پر ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے قلم اٹھایا ہے۔وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے ٹھیک دو‬
‫ماہ بعد عالمہ اقبال کو علی گڑھ میں فلسفہ بڑھانے کی‬
‫پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اسے رد کردیا۔اسی طرح گورنمنٹ‬
‫کالج الہور میں بھی مولوی ی کا پیشہ اختیار پیار کرنے کی کی‬
‫پیشکش ہوئی اسے بھی انہوں نے ٹھکرا دیا کیونکہ ان کے نزدیک‬
‫وکالت کے ذریعے وہ بہتر طور پر اپنے مالی معامالت چال سکتے‬
‫تھے۔اپنی سوچ کے پیش نظر انہوں نے کسی تعلیمی ادارے جے‬
‫میں پڑھانا شروع کیا لیکن دن پھر گورنمنٹ کالج کے عارضی‬
‫تدریس کی پیش کش کو انہوں نے قبول کیونکہ کہ پرنسپل کی‬
‫درخواست پر حکومت پنجاب میں عالمہ اقبال سے استدعا کی‬
‫تھی کہ عارضی طور پر فلسفے کی توفیق قبول کرلی جو کہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪54‬‬

‫اس اسامی کو پر کرنے کے لیے کوئی بندوبست نہیں ہو رہا تھا۔‬


‫اقبال کی قانونی پریکٹس ابھی ابتدائی مراحل میں تھی پھر‬
‫سیکرٹری تعلیم کی استدعا کی وجہسے انہیں اجازت مل گئی‬
‫کہ وہ تدریس کے‪  ‬بعد عدالت پیش ہوا کریں۔عالمہ اقبال نے‬
‫تدریس کو سنبھال لی لیکن اس وجہ سے ان کی مصروفیات‬
‫بہت زیادہ بڑھ گئیں۔عالمہ اقبال اپنے طالبعلموں نو میں بہت‬
‫زیادہ مقبول تھے اور یہ ہردلعزیزی سید میر حسن کا انداز‬
‫تدریس اختیار کرنے کی وجہ سے تھی۔ڈیڑھ سال کے عرصے‬
‫میں وہ روزگار شعر کی وجہ سے ادبی کاموں سے کچھ ہٹ سے‬
‫گئے۔‪1908‬ء سے ‪1910‬ء تک مخزن میں جو معروف نظمیں‬
‫شائع ہوئیں ان کی تعداد چھ تھی۔اوئے اس کا یہ مطلب ہرگز‬
‫نہیں کہ وہ معاشی معامالت میں کھو کر اپنی روحانی غذا یعنی‬
‫شاعری سے بالکل دستبردار ہوگئے ہوں۔اس حوالے سے ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫سال ڈیڑھ سال کے اس عرصے میں معلمی اور وکالت کے‬
‫سلسلے میں اقبال کو اسی تگ و دو کرنا پڑتی کہ ان کا سارا‬
‫وقت اسی میں صرف ہو جاتا۔تمام دن تدریسی مشاغل یا‬
‫مقدمات کی پیروی میں گزرتا۔شام کو مؤکلوں کی مالقات کے‬
‫لیے دفتر میں بیٹھنا پڑتا اور رات گئے تک اگلے روز کے مقدمات‬
‫کی تیاری کرتے رہتے۔بسااوقات طالب علم گھر پر بھی پڑھنے‬
‫کے لیے آجاتے۔ شعر کہنے کا وقت نہیں ملتا تھا بلکہ ایسی مہلت‬
‫کے لئے ترستے ہی رہتے تھے۔فوق تحریر کرتے ہیں کہ مئی‬
‫‪ 1910‬کی کسی شام کو وہ اور وجاہت حسین جھنجھانوی ان‬
‫کے ہاں گئے اور ان کو اپنا کالم سنانے لگے۔ اقبال سننے میں‬
‫منہمک تھے کہ اسی اثنا میں منشی طاہرالدین کمرے میں داخل‬
‫ہوئے اور کہا کہ ایک مؤکل آیا ہے اور ملنا چاہتا ہے۔ اقبال نے‬
‫جواب دیا کہ اس کو بٹھائے یہاں سے فارغ ہوکر بالؤں گا۔فوق نے‬
‫کہا‪:‬بابا پہلے پیج کی فکر کرنی چاہیے‪ ،‬یہ شغل تو ہوتا ہی رہے گا۔‬
‫بولے‪:‬یہی شغل تو غذاۓ روح ہے اور روح ہے تو سب کچھ ہے۔‬
‫مؤکل میرا نام سن کر آیا ہے تو وہ کہیں بھاگ نہیں جائے گا۔‬
‫چنانچہ ان دونوں کا کالم سننے کے بعد اقبال نے اپنا تازہ کالم‬
‫سنایا اور پھر مجلس برخاست ہوئی"۔زندہ رود صفحہ ‪ 174‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪55‬‬

‫ڈاکٹرجاوید اقبال ان محرکات کا بھی ذکر کرتے ہیں جن کی‬


‫بدولت ان کی شاعری کا رخ تبدیل ہوا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے‬
‫خیال میں میں عالمہ اقبال کسی پیشے کو مناسب وقت نہیں‬
‫دے پا رہے تھے‪  ‬کیوں کہ انہوں نے اور وکالت کے پیشے کو‬
‫اختیار کر رکھا تھا۔ اسی دوران انھیں گورنمنٹ کالج میں شعبہ‬
‫فلسفہ کی صدارت قبول کرلی لیکن عالمہ اقبال نے اسے قبول‬
‫نہ کیا اور ‪ 31‬دسمبر ‪1910‬ء کو تدریسی سے سبکدوش ہوگئے۔‬
‫عالمہ اقبال پنجاب یونیورسٹی اور علیگڑھ‪،‬ناگپور ‪ ،‬الہ آباد‬
‫یونیورسٹی کے ممتحن بھی رہے اور ان کے پرچے بھی مرتب‬
‫کرتے رہے۔سبکدوشی کے باوجود ان کا گورنمنٹ کالج سے تعلق‬
‫ختم نہیں ہوا بلکہ بعد میں مشاعروں کی صدارت اور مختلف‬
‫مقابلوں میں منصف کے فرائض سرانجام دینے کے لیے آتے رہے‬
‫۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول ان کے گوشواروں سے پتہ چلتا ہے‬
‫کیونکہ کی آمدنی کا ایک ایک ذریعہ یہ مختلف یونیورسٹیوں کے‬
‫پرچے ترتیب دینا بھی تھا۔اس باب میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫انجمن حمایت اسالم اور اور دیگر فورم سے جو نظمیں اور‬
‫لیکچر عالمہ اقبال نے دیے امی سے بیشتر کا ذکر کیا ہے۔اس‬
‫کے عالوہ انہوں نے اس دور میں الہور کی سیاست اور برصغیر‬
‫اور عالمی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کو بھی موضوع‬
‫بنایا ہے۔وہ ان کی موسیقی سے دلچسپی پیلے حمایت اسالم کے‬
‫جلسوں میں پڑھی جانے والی نظموں کا ذکر بڑے خوبصورت‬
‫انداز میں کرتے ہیں اور اس عہد میں تخلیق کی جانے والی‬
‫نظموں کا ذکر کیا ہے جن میں شکوہ اور جواب شکوہ شامل ہیں‬
‫جو انجمن حمایت اسالم کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔عالمہ‬
‫اقبال کی نظم شکوہ کے بارے میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"‪ 1911‬میں اقبال بھی اپنے گردو نواح سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ‬
‫سکے‪ ،‬اور اپنی‪  ‬ذاتی محرومیوں‪ ،‬اور دنیائے اسالم پر پے در‬
‫پے نازل ہوتی ہوئی مصیبتوں کے ردعمل کے طور پر ان کا جذبہ‬
‫اندروں "شکوہ" جیسی مار کا معرکۃ اآلرا نظم کی صورت میں‬
‫پھوٹ نکال۔" ص ‪183‬‬
‫""شکوہ" پر بعض علماء نے اعتراض کیا تھا کہ نظم کا لب و‬
‫لہجہ گستاخانہ ہے۔ اقبال نے اس کی تالفی "جواب شکوہ"میں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪56‬‬

‫کی جو ‪1913‬ء میں موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک بہت‬
‫عظیم الشان جلسے میں عوام کے جم غفیر کے سامنے جنگ‬
‫بلقان کے مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر پڑی ہے۔‬
‫اس نظم کا ایک ایک شعر نیالم ہوا اور ایک بھاری رقم بلقان فنڈ‬
‫کے لیے جمع ہوگی۔" زندہ رود ص ‪189‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نےعالمہ اقبال کی نظم شکوہ پر جو‬
‫اعتراضات ہوئے ان کو بھی مختصر بیان کیا‪  ‬ہے اور جواب شکوہ‬
‫کے حوالے سے بھی کئی باتیں لکھیں ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫عالمہ اقبال کی اس جذباتی کشمکش کو بھی بھی موضوع بنایا‬
‫ہے ہے جس میں وہ مبتال ہوئے۔ڈاکٹر جاوید اقبال سوانح عمری‬
‫کے کے تمام موضوعات اسی کشمکش کا تجزیہ بھی کیا ہے جو‬
‫ان سے پہلے‪  ‬عالمہ اقبال کے سوانح نویسوں میں سےکسی نے‬
‫نہیں کیا۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" اقبال یورپ سے واپس آ جانے کے باوجود نفسیاتی طور پر‬
‫ابھی تک ایک لحاظ سے یورپ ہی میں تھے‪ .‬جب دنیا میں‬
‫زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا‘ تو سخت گھبرا جاتے‬
‫اس احساس محرومی کا سبب مختلف عناصر تھے جن میں ایک‬
‫تو ان کی مالی مشکالت تھی اور دوسرا ان کی ازدواجی زندگی‬
‫کی بے سکونی‪ .‬وہ ذہنی کرب و اضطراب کے ایک کٹھن دور‬
‫سے گزر رہے تھے البتہ اس کیفیت میں قیام یورپ کا حسین‬
‫وجمیل تصور انہیں ایک گونا تسکین بخشتا تھا‪ .‬جرمنی میں ان‬
‫کی خط و کتابت فراؤلین ایما ویگے‪  ‬ناست سے جاری تھی‪،‬‬
‫جسے وہ ایک اچھی اور سچی لڑکی سمجھ کر پسند کرتے‬
‫تھے‪ ".‬زندہ رو صفحہ ‪ 192‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس تعلق کو بالوجہ رومانوی رنگ نہیں دیا‪.‬‬
‫انہوں نے عالمہ اقبال کے اس عہد کے خطوط کو کو بڑی‬
‫سمجھداری‪  ‬سے یہاں درج کیا ہے‪ .‬یہی نہیں وہ عطیہ فیضی کے‬
‫خطوط اور اس جذباتی سہارے کو بھی دلچسپ انداز مین بیان‬
‫کرتے ہیں‪ .‬اطیع فیضی رضی کے خطوط کے حوالے سے لکھتے‬
‫ہیں‪ ‬‬
‫" اسی طرح‪ 1909،‬سے لے کر ‪ 1911‬تک عطیہ فیضی کے نام‬
‫تحریر کردہ خطوط ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں‪.‬ان کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪57‬‬

‫نگاہ میں عطیہ فیضی بھی ان کے قیام یورپ کی یادوں کا حصہ‬


‫تھیں اور انکی ہمدردانہ تو جو کے پیش نظر ان کے سامنے‬
‫محرومیوں کا اظہار ممکن تھا‪.‬اقبال کو اپنی بے چینی سے‬
‫نجات حاصل کرنے کے لیے وقتی طور پر ایک جذباتی سہارے‬
‫کی ضرورت تھی‪ .‬ان نہایت ہی حساس‪ ،‬باذوق‪ ،‬صاحب علم‬
‫خواتین سے قلبی تعلق نے انہیں یہ سہارا مہیا کردیا‪ ".‬زندہ رود‬
‫صفحہ ‪193‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے آٹھویں بات کا اختتام قیام یورپ کی‬
‫حسین یادوں پر کیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ اس‬
‫سلسلہ کو اگلے باب کے ساتھ جوڑتے ہیں اور ان محرکات کو‬
‫بھی بیان کرتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے ازدواجی زندگی‬
‫میں مسائل پیدا ہوئے۔‬
‫زندہ رود کے نویں باب کاعنوان "ازدواجی زندگی کا بحران" ہے۔‬
‫اس باب نے ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی ازدواجی‬
‫زندگی‪  ‬کو موضوع بنایا ہے۔ اس باب میں انہوں نے مین ان‬
‫وجوہات کو بیان کیا ہے جن کی بدولت عالمہ اقبال کی ازدواجی‬
‫زندگی بھی بحران میں چلی گئی اور اس کے ساتھ انھوں نے ان‬
‫اثرات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے جو ازدواجی زندگی‬
‫کے مسائل کی وجہ سے ان کی باطنی اور خارجی زندگی پر‬
‫مرتب ہوئے۔ عالمہ اقبال بال‪  ‬کی ازدواجی پریشانیوں کی ایک‬
‫بڑی وجہ ان کی نوعمری میں زبردستی کی شادی تھی۔ اس‬
‫اس پریشانی میں عالمہ اقبال کی ذہنی کیفیات کی وضاحت کے‬
‫لیے ڈاکٹر جاوید اقبال نے عطیہ فیضی کے نام عالمہ اقبال کا‬
‫‪9‬اپریل ‪ 1909‬کا تحریر کردہ خط نقل کیا ہے۔ اس خط میں‬
‫عالمہ اقبال جذباتی ہیجان واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔‪ ‬‬
‫"میں کوئی مالزمت کرنا نہیں چاہتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد‬
‫سے جلد اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم‬
‫ہے ‪ ،‬میں اپنے بھائی کا اخالقی قرضدار ہوں اور صرف اسی‬
‫چیز نے مجھے روک رکھا ہے۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک‬
‫ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے‬
‫ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کر‬
‫دینے کا کوئی حق نہ تھا‪ ،‬بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪58‬‬

‫کے تعلق میں پڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں اس کی کفالت‬


‫کرنے پر آمادہ ہوں‪ ،‬لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو‬
‫عذاب بنانے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت‬
‫سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت‬
‫وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہے تو میں دونوں کے خالف‬
‫بغاوت کروں گا۔میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بد‬
‫بخت ملک کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دوں یا مےخواری میں پناہ‬
‫ڈھونڈوں‪ ،‬جس سے خودکشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ‬
‫بے جان اورربنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح‬
‫کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان‬
‫کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جال کر خاکستر‬
‫بنا سکتا ہوں۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ‬
‫تخلیق کیا ہے‪ ،‬ممکن ہے ایسا ہی ہو‪ ،‬مگر اس زندگی کے تلخ‬
‫حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ذہنی‬
‫طور پر ایک اچھے خدا کی بجائے کسی قادرمطلق شیطان پر‬
‫یقین النا زیادہ آسان ہے۔مہربانی کرکے ایسے خیاالت کے اظہار‬
‫کے لئے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواست گار‬
‫نہیں ہوں۔میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔" زندہ‬
‫رود صفحہ ‪  201 ،200‬‬
‫‪  ‬اس خط سے عالمہ اقبال کی پریشانی واضح طور پر پر‬
‫دیکھی جاسکتی ہے ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے ایک ایماندار‬
‫سوانح نگار کی طرح عالمہ اقبال کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو‬
‫کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی پہلی شادی کی‬
‫ناکامی منی کے نقصان ان کو بیان کیا ہے جو سب سے زیادہ‬
‫بچوں پر ہوا کہ وہ شفقت پدری سے محروم ہوگئے۔ شادی کی‬
‫ناکامی کی بڑی وجہ طبیعت کی عدم مناسبت کو قرار دیتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کے بعد عالمہ اقبال کی دوسری اور‬
‫تیسری شادی‪  ‬کے حوالے سے تمام واقعات کو بیان کیا ہے۔‬
‫خصوصی طور پر سردار بیگم ان کے حوالےسے انہیں جو‬
‫خطوط موصول ہوئے ہوئے انہیں موضوع بنایا ہے۔ خطوط کی‬
‫وجہ س اقبال عالمہ اقبال کے ذہن میں جو غلط فہمیاں پیدا‬
‫ہوئیں ان کو بیان کیا ہے اور ان کے ازالے کے لیے جو کوششیں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪59‬‬

‫انہوں نے کیں وہ شادی پر منتج ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے‬


‫خیال میں ازدواجی زندگی کے اس بحران نے انہیں رومانوی‬
‫شاعری سے دور کردیا اور اضطراب کی یہ کیفیت مختصر تھی‬
‫لیکن اس کی بدولت وہ جرمن ادب کے مطالعے میں مصروف‬
‫ہوئے۔یوں ان کی شاعری‪  ‬میں رومانوی طرز میں ایک الگ‬
‫صورتحال اختیار کرلی۔ڈاکٹر جاوید اقبال ان کی ذہنی اور‬
‫روحانی کرب کی کیفیات کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" بہرحال ذہنی اور روحانی کرب کی یہ کیفیت محض عارضی‬
‫تھی اور اقبال کی غیر معمولی قابلیت کو مستقل طور پر‬
‫مفلوج نہ کر سکتی تھی۔ ان کی تخلیقی قوتوں کی سمت تو‬
‫پہلے ہی سے متعین تھی۔ البتہ شعر یا نثر کے لباس میں ان کے‬
‫افشاء ہونے کا انتظار تھا۔ اضطراب کی کیفیت تو محض رستے‬
‫کی رکاوٹ تھی اور اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کی شخصیت‬
‫کر جرمن ادب کے مطالعے کے زیراثر رومانی طرز کی شاعری‬
‫کی گرفت سے ہمیشہ ہمیشہ کی لیے آزاد کردیا؛ کیوں کہ اس‬
‫مرحلے کو عبور کرنے کے بعد انہوں نے پھر کبھی"۔۔۔۔ کی گود‬
‫میں بلی دیکھ کر" کر یا "پھول کا تحفہ عطا ہونے پر" قسم کی‬
‫نظموں کی طرف رجوع نہیں کیا‪ .‬اقبال کی بعض یورپی‬
‫منظومات یا ان جیسی چند نظموں کا ‪،‬جو واپس آکر لکھی‬
‫گئیں‪،‬شمار ادب کی اصطالح کے مطابق رومانی شاعری میں ہو‬
‫سکتا ہے لیکن بنیادی طور پر وہ رومانی شاعر نہ تھے ‪ ،‬اس لیے‬
‫یہ استدالل کی اگر اقبال‪  ‬اضطراب کے اس مرحلے سے نہ‬
‫گزرتے تو بہت کچھ بن سکتے تھے‪ ،‬درست نہیں۔ وہ خواہ اس‬
‫مرحلے سے گزرتے یا نہ گزرتے ‪ ،‬بننا انہوں نے وہی کچھ تھا جو‬
‫باآلخر بنے۔" زندہ رود صفحہ ‪202‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب میں ایک طرف تو ازدواجی‬
‫زندگی کو بیان کیا ہے تو دوسرے حصے میں اقبال کے مخالفین‬
‫کا ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں میں ہمارے مزاج میں یہ بات‬
‫شامل ہوچکی ہے کہ کسی کسی کی شہرت سے ہم حسد کرتے‬
‫ہیں اور پھر‪  ‬اس کے لیے بہتان تراشی اچھی کی جاتی ہے۔ عالمہ‬
‫اقبال پر مے نوشی‪،‬عیاشی اور ایک مغنیہ کے قتل کا الزام بھی‬
‫لگایا گیا۔ جاوید اقبال نے الزامات کا جائزہ لیا ہے اور دالئل کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪60‬‬

‫بنیاد پر پر انہیں غلط ثابت کیا ہے ۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاں‬


‫ہاں اقبال کے عقیدت مندوں کا اضافہ ہورہا تھا وہیں‪  ‬ان کے‬
‫مخالفین بھی بڑھتے جارہے تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ‬
‫اقبال کی مخالفت کرنے والے چھے گروہوں کا ذکر کیا ہے۔ ان‬
‫گروہوں میں سے بعض کا تعلق تو ادب سے تھا اور بعض کا‬
‫تعلق سیاست اور ان کی شہرت و ناموری سے تھا۔ ان گروہوں‬
‫کی تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪1‬۔ یہ گروہ دہلی اور لکھنؤ کے اہل زبان پر مشتمل تھا جو لسانی‬
‫تعصب کا شکار تھے اور تنزل کے عہد کی شاعری سے وابستہ‬
‫تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عالمہ اقبال کے جدید اسلوب میں‬
‫اعتراضات کرتے تھے۔‬
‫‪2‬۔ یہ گروہ ان علماء پر مشتمل تھا جو کم علم اور تنگ نظر تھے‬
‫لیکن حقیقت میں یہ سر سید کے مخالف تھے اقبال چوں کہ‬
‫سرسید کی تحریک سے متاثر تھے کےاور ان زبردست مداح‬
‫تھے۔ حاالںکہ عالمہ اقبال آل سرسید احمد خان ان کے سیاسی‬
‫افکار اور مذہبی افکار‪  ‬میں اصالح کے قائل تھے۔ اس کی ایک‬
‫وجہ عالمہ اقبال کا ترک مواالت کی تحریک کے خالف جانا بھی‬
‫تھا۔‬
‫‪3‬۔ احمدی عقیدہ رکھنے والوں نے بھی عالمہ اقبال کی مخالفت‬
‫کی کیونکہ عالمہ اقبال نے ان سے بیزاری کا اظہار کیا تھا ۔ ابتدا‬
‫میں عالمہ اقبال نے اس کے حق میں بھی کچھ باتیں کہی لیکن‬
‫جیسے ہی ان سے چیزیں آشکار ہوئیں۔انہوں نے اسے ایک بہت‬
‫بڑا فتنہ قرار دیا یہی وجہ ہے کہ اس سے تعلق رکھنے والے‬
‫لوگوں نے عالمہ اقبال کی کردار کشی شروع کردی اور یہ‬
‫مشہور کر دیا کہ عالمہ اقبال نے ایک احمدی خاتون سے شادی‬
‫کرلی ہے جس کے بعد میں عالمہ اقبال نے تردید بھی کی۔‬
‫‪4‬۔ یہ گروہ مشاورت پر مشتمل تھا کیونکہ عالمہ اقبال ان کی‬
‫نااہلی اور عادات کو مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ اسرار‬
‫خودی کی اشاعت کے بعد اس گروہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا‬
‫چال گیا۔ اقبال برصغیر میں اسالم کی اشاعت اور تبلیغ کے‬
‫سلسلے میں میں صوفیا کی عظمت اور خدمات کے قائل‬
‫تھے‪،‬لیکن اب گدی نشینی‪  ‬نے صورتحال کو بگاڑ دیا تھا۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪61‬‬

‫‪5‬۔ اس گروپ میں کمیونسٹ یا سوشلسٹ خیاالت رکھنے والے‬


‫افراد شامل تھے۔ ابتدا میں میں ان میں سے کچھ افراد نے‬
‫اقبال کو اشتراکی قرار دیا یہی نہیں بلکہ انہوں نے عالمہ اقبال‬
‫کو اشتراکیت کا مبلغ قرار دیا تھا۔اقبال نے اپنے خط کے ذریعے‬
‫اس کی تردید کی۔جس کے بعد عالمہ اقبال کی مخالفت روز‬
‫بروز بڑھتی چلی گئی اور جب انہیں سر کا خطاب مال تو ان‬
‫میں سے کئی کی لوگوں نے عالمہ اقبال کو مغربی گماشتہ قرار‬
‫دے دیا۔‬
‫‪6‬۔ اس گروہ میں میں کئی ایسے افراد تھے جو بظاہر تو عالمہ‬
‫اقبال کے ساتھ عقیدت کا اظہار کرتے تھے لیکن حسد‪  ‬ان کے‬
‫ساتھ موجود تھا۔ بعض ہندو عالمہ اقبال کے ساتھ خصوصی‬
‫تعصب رکھتے تھے جن میں سر شادی الل کا نام سب سے‬
‫مشہور ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال مخالفین کا ذکر کرنے کے بعد اقبال پر اٹھائے‬
‫جانے والے الزامات کا کا جائزہ ایک ایک کرکے لیتے ہیں۔ اقبال پر‬
‫مے نوشی کے حوالے سے انہوں نے مختلف لوگوں کی آراء کو‬
‫کو شامل کیا ہے۔ ان آراء کی روشنی میں میں اگر الزامات کا‬
‫جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسی موثر شہادت نہیں ملتی جو یہ‬
‫الزام ثابت کر سکے ۔ عالمہ اقبال کے طالب علمی کے حاالت‬
‫غالم بھیک نیرنگ نے قلم بند کیے ہیں ان میں بھی ایسی کسی‬
‫بات کا ذکر نہیں ہے ہے۔ اس سلسلے میں وہ وہ محمد دین تاثیر‬
‫کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں جس میں انہوں نے اقبال کی‬
‫رندی کو لفظی اور خیالی رندی کہا تھا۔ اس لیے یہ کہنا کہ عالمہ‬
‫اقبال شاعر کسی زمانے میں شراب پیتے ہو جو باغیوں نے ترک‬
‫کردی‪  ‬درست نہیں کیونکہ یہ باتیں محض مفروضوں کی بنیاد پر‬
‫کی گئی ہیں اور ان کے لیے کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔‬
‫زندہ رود کا دسواں باب ڈاکٹر جاوید اقبال نے "ذہنی ارتقاء"کے‬
‫عنوان سے موسوم کیا ہے۔ اس باب کے کے تناظر میں عالمہ‬
‫اقبال کی شاعری اور فکر و فلسفہ کو سمجھنا نسبتا آسان ہو‬
‫جاتا ہے کیونکہ اس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے‬
‫ذہنی ارتقاء کے پیچھے موجود حقائق اور پس منظر کو بیان کیا‬
‫ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں عالمہ اقبال کی شاعری‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪62‬‬

‫میں وقتا فوقتا نئے موضوعات داخل ہوئے لیکن یہ احیائے اسالم‬
‫شروع سے لے کے آخر تک ان کی شاعری میں موجود رہا۔ یہ‬
‫باب عالمہ اقبال کے ایک مضمون "قومی زندگی" اور چند دیگر‬
‫خطبات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے‪.‬‬
‫اس باب کو اگر ا عالمہ اقبال کے افکار کا خالصہ کہا جائے تو بے‬
‫جا نہ ہوگا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے ذہنی ارتقاء جو‬
‫موضوعات کے وہ درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔عورتوں کی تعلیم‪2  ‬۔پردہ ‪3‬۔شادی بیاہ کی رسومات ‪4‬۔اقبال کا‬
‫ملی تصور‬
‫‪5‬۔اسالمی تہذیب و تمدن‪6  ‬۔موت و حیات کا فلسفہ ‪7‬۔اسالمی‬
‫ریاست کا اصول انتخاب۔‪8  ‬۔نظریہ شاعری‬
‫اس باب میں عالمہ اقبال کی کی تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے‬
‫اور ان کی زمانی ترتیب بھی بھی مدنظر رکھیں نہیں گئی اس‬
‫لیے اس باب کو پڑھتے ہوئے تکرار کی کیفیت‪  ‬سامنے آتی ہے۔‬
‫یہ باب اپنے ساتھہ ابواب کی طرح طرح مواد کے اعتبار سے‬
‫زیادہ مضبوط نہیں اور نہ ہی زمانی ربط موجود ہے۔ ڈاکٹر راشد‬
‫محمود خود اس باب کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫" ظاہر ہے کہ یہ آٹھ موضوعات اقبال کے نظام فکر و فلسفہ‬
‫میں اہم ضرور ہیں‪ ،‬لیکن ان کی حیثیت بنیادی اور مرکزی نہیں‬
‫ہے‪ ،‬کس قدر سر حیرت کی بات ہے کہ ذہنی ارتقاء کے ضمن‬
‫میں عالمہ کے جن افکار کو موضوع بحث بنایا گیا ‪ ،‬ان میں سے‬
‫کوئی بھی مسئلہ ان کی فکر کا بنیادی نقطہ نہیں ہے‪،‬پھر یہ بھی‬
‫کہ اس باب میں کالم اقبال اور جدید تشکیل الہیات اسالمیہ کو‬
‫موضوع نہیں بنایا گیا۔کالم اقبال‪ ،‬خطبات اور دیگر تحریروں کے‬
‫بغیر کس طرح اقبال کے ذہنی ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے‬
‫‪،‬پھریہ بھی کہ اس بات میں زمانی تقدم و تاخر کا لحاظ نہیں‬
‫رکھا گیا۔ یہ باب پوری کتاب کا کمزور ترین باب ہے جو اقبال کی‬
‫سوانح اور فکری شخصیت کی تشکیل میں کسی خوش کن‬
‫منظر کا اظہار نہیں بنتا۔" زندہ رود کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ‬
‫صفہ ‪79‬‬
‫زندہ رود اُن کے گیارہویں باب کا نام "تخلیقی کرشمہ" ہے۔ اس‬
‫میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی مثنوی اسرار خودی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪63‬‬

‫شادی کی طباعت اور اشاعت کے مراحل کو بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر‬


‫جاوید اقبال نے اس باب میں میں اسرار خودی دی کا پس‬
‫منظر بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے اس باب کا آغاز یورپی دو‬
‫عسکری دھڑوں سے کیا ہے جو طاقت کے نشے میں باہم دست‬
‫و گریبان تھے جس کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم ہوئی۔ اس‬
‫تاریخ کو بیان کرنے کے فورا بعد جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ عالمہ‬
‫اقبال اس‪  ‬جنگ سے التعلق رہے اور ان کی تمام تر توجہ‬
‫"اسرار خودی" کی طرف رہی۔ اس مثنوی کی تحریک انہیں‬
‫اپنے والد کی ایک فرمائش سے ملی تھی اور انہوں نے اس کا‬
‫آغاز پہلے اردو میں کیا تھا لیکن اپنے مطالب ادا کرنے سے‬
‫قاصر رہے اور اور جو حصے لکھے تھے۔ انہوں نے ان کو تلف کر‬
‫دیا۔ یہ مثنوی ‪1915‬میں میں شائع ہوئی لیکن اس کا آغاز بہت‬
‫پہلے ہو گیا تھا اور اس کا بیشتر حصہ ‪ 1913‬اور ‪ 1914‬میں‬
‫مکمل ہوا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان ماہ و سال میں عالمہ اقبال‬
‫کی مصروفیات کو موضوع بنایا ہےتو وہیں پر ‪ 1914‬کا خصوصی‬
‫طور پر ذکر کیا ہے کیونکہ یہ وہی سال ہے جس میں عالمہ اقبال‬
‫کی والدہ‪  ‬صبح کی وفات ہوئی۔۔ والدہ کے انتقال پر جس طرح وہ‬
‫کرب اور پریشانی سے گزرے م اس کا بھی ذکر کیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول عالمہ اقبال نے‪  ‬اسرار خودی کے‬
‫بیشتر حصے سے موالنا گرامی کو سنائے تھے اور اپنے استاد‬
‫موالنا سید میر حسن سے بھی مشورے لیتے رہے۔ ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے عالمہ اقبال کی مثنوی کو ان کی کی شاعری میں اہم‬
‫ترین قرار دیا ہے۔ اس باب کے آغاز میں پس منظری مطالعہ ہے‬
‫وہ ان محرکات‪  ‬کو بیان کرتے ہیں جو عالمہ اقبال کے شعورمیں‬
‫موجود تھے۔ اس مثنوی کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کے نام کے‬
‫انتخاب کا مرحلہ شروع ہوا۔ اس حوالے سے انہوں نے مختلف‬
‫لوگوں سے مشاورت بھی کی اور آخر میں خود ہی اس کانام‬
‫"اسرار خودی" منتخب کیا۔ خواجہ حسن نظامی کو لکھتے ہیں‪:‬‬
‫وہ مثنوی جس میں خودی کی حقیقت و استحکام پر بحث کی‬
‫ہے‪،‬اب قریبا تیار ہے اور پریس جانے کو ہے۔ اس کے لئے بھی‬
‫کوئی عمدہ نام یا خطاب تجویز فرمائیے۔ شیخ عبدالقادر نے اس‬
‫کا نام "اسرار حیات"‪ "،‬قیام سروش"‪" ،‬پیام نو" اور "آئین نو"‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪64‬‬

‫تجویز کیے ہیں۔ آپ بھی طبع آزمائی فرمائے اور نتائج سے‬
‫مجھے مطلع فرمائیے تاکہ میں انتخاب کر سکوں۔" زندہ رود‬
‫صفحہ‪ 250‬تا ‪ 251‬‬
‫ڈاکٹرجاویداقبال کے خیال میں عالمہ اقبال کی تخلیقی صالحیتیں‬
‫عروج پر پہنچ گئی اس لیے انہوں نے اس باب کا ننام تخلیقی‬
‫کرشمہ لکھا ہے۔ عالمہ اقبال خود اس مثنوی کے حوالے سے‬
‫بہت احباب سے بھی مشورہ کر چکے تھے تھے اور ان کے خیال‬
‫میں‪  ‬یہ مثنوی ان سے لکھوائی جارہی ہے۔اس سلسلے میں‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال عالمہ اقبال کے کئی خطوط کا حوالہ دیتے‬
‫نظر آتے ہیں۔ عالمہ اقبال کے ایک خط کا متن کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫یہ مثنوی جس کا نام "اسرار خودی" ہے ایک مقصد سامنے رکھ‬
‫کر لکھی گئی‪  ‬ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میالن‬
‫سکرو مستی و بے خودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اس‬
‫خدائے واحد کی‪ ،‬جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو‬
‫ہے‪ ،‬میں‪  ‬نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے‬
‫لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا‬
‫مضمون لکھنے کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔ جب تک اس کا‬
‫دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا‪ ،‬میری روح کو چین نہ آئے گا۔اس‬
‫وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور‬
‫شاید میری زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔مجھے یہ معلوم‬
‫تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی‪ ،‬کیونکہ ہم سب انحطاط کے‬
‫زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہیں‬
‫ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباق کو اپنے شکار(خواہ وہ‬
‫شکار کوئی قوم کو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب‬
‫بنا دیتا ہے‪ ،‬جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بد نصیب شکار اپنی تباہ‬
‫و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا‬
‫ہےمگر‪:‬‬
‫من نوائے شاعر فرداستم‬
‫اور‬
‫نا‪  ‬امید ستم‪  ‬ز یاران قدیم‬
‫‪ ‬طور من سوزد که می آید کلیم‪ "  ‬زندہ رود صفحہ ‪248‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪65‬‬

‫اسرار خودی کی اشاعت کے بعد اس پر بہت زیادہ تنقید کی‬


‫گئی۔ تنقید کرنے والوں میں بیشتر وہ لوگ تھے جن سے عالمہ‬
‫اقبال کا ذاتی تعلق بھی تھا اور خود ان کے والد سے بھی اس‬
‫موضوع پر دلچسپ بحث ہوئی۔ تنقید کرنے والوں‪  ‬میں بڑا گروہ‬
‫ان لوگوں پر مشتمل تھا جو وجودی تصوف کے قائل تھے۔ ان‬
‫معترضین میں عالمہ اقبال کے والد بھی شامل تھے کیونکہ وہ‬
‫خود واحد الوجود کے قائل تھے اور ان کا پورا خاندان بھی اسی‬
‫بات کا قائل تھا۔ عالمہ اقبال اور ان کے والد کے مابین‪  ‬جو‬
‫گفتگو ہوئی ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کا خالصہ بیان کیا ہے۔‬
‫مثنوی کی اشاعت کے بعد عالمہ اقبال کی سیالکوٹ میں جب‬
‫والد سے مالقات ہوئی تو اس میں یہ موضوع زیر بحث آیا اس‬
‫مالقات کا احوال ڈاکٹر جاوید اقبال بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫اتفاق سے انہی دنوں اقبال سیالکوٹ گئے۔ گرمیوں کے موسم‬
‫میں رات کو سب سب کوٹے پر سوتے تھے۔ اقبال ان کے والد‬
‫کی چارپائیوں کے درمیان حسب معمول حقہ بھر کر رکھ دیا گیا‬
‫اور باپ بیٹا اس علمی گفتگو میں مشغول ہوگئے۔ جب گفتگو‬
‫کے دوران ااسرار خودی میں حافظ پر نقطہ چینی کے سلسلے‬
‫میں میں حلقہ صوفیہ کی برہمی کا ذکر آیا تو اقبال نے کہا کہ‬
‫میں نے حافظ کی ذات اور شخصیت پر اعتراض نہیں کیا‪ ،‬بلکہ‬
‫میں نے تو صرف ایک اصول کی وضاحت کی ہے‪،‬لیکن افسوس‬
‫اس بات کا ہے کہ مسلمان ہند ہند پر عجمی تصوف کا اس قدر‬
‫غلبہ ہے کہ وہ زہر کو آب حیات سمجھنے لگے ہیں۔ اس پر شیخ‬
‫نور محمد گویا ہوئے کہ حافظ کے عقیدت مندوں کے جذبات کو‬
‫ٹھیس پہنچائے بغیر بھی تو اس اصول کی تشریح ہوسکتی تھی ۔‬
‫اقبال نے جواب دیا کہ یہ حافظ پرستی بھی تو بت پرستی سے‬
‫کم نہیں۔ شیخ نور محمد نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول نے‬
‫تو بتوں کو بھی برا کہنے سے منع کیا ہے۔ اس لیے مثنوی کے وہ‬
‫اشعار جن پر عقیدتمندان حافظ کو اعتراض ہےحذف کر دینے‬
‫چاہیں۔" زندہ رود صفحہ ‪253‬‬
‫‪ ‬عالمہ اقبال نے نے مثنوی اسرار خودی کی دوسری اشاعت‪  ‬پر‬
‫وہ تمام اشعار حذف کر دیے۔ عالمہ اقبال اس دور میں اسرار‬
‫خودی کے دوسرے حصے "رموز بے خودی" کو لکھنے میں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪66‬‬

‫مصروف ہوگئے۔ "رموز بے خودی کی تکمیل ‪ 917‬میں ہوئی اور‬


‫یہ اپریل ‪ 1918‬میں شائع ہوئی۔ عالمہ اقبال اس مثنوی کا تیسرا‬
‫حصہ بھی لکھنا چاہتے تھے اور اس کے کچھ اشعار بھی انہوں‬
‫نے لکھے جو بعد میں پیام مشرق میں شامل کر دیے گئے۔ اس‬
‫کا عنوان ‪  ‬وہ "حیات مستقبلہ اسالمیہ" رکھنا چاہتے تھے‪ .‬اس‬
‫بات کا ذکر کر موالنا گرامی کے نام لکھے گئے ایک خط میں‬
‫ملتا ہے‪:‬‬
‫"مگر اب تیسراحصہ ذہن میں آرہا ہے اور مضامین دریا کی طرح‬
‫امڈےآرہے ہیں اور حیران ہو رہا ہوں کہ کس کس کو نوٹ کروں۔‬
‫اس حصے کا امضمون ہوگا ‪،‬حیات مستقبل اسالمیہ یعنی قرآن‬
‫شریف سے مسلمانوں کی آئندہ تاریخ پر کیا روشنی پڑتی ہے‬
‫اور جماعت اسالمیہ‪ ،‬جس کی تاسیس دعوت ابراہیمی سے‬
‫شروع ہوئی‪ ،‬کیا کیا واقعات وحوادث آئندہ صدیوں میں دیکھنے‬
‫والی ہے اور باآلخر ان سب واقعات کا مقصود و غایت کیا ہے۔‬
‫میری سمجھ اور علم میں یہ تمام باتیں قرآن مجید میں موجود‬
‫ہیں اور استدالل ایسا صاف اور واضح ہے کہ کوئی یہ نہیں کہہ‬
‫سکتا کہ تاویل سے کام لیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالی کا خاص فضل و‬
‫کرم ہے کہ اس نے قرآن شریف کا یہ مخفی علم مجھ کو عطا‬
‫کیا ہے میں نے پندرہ سال تک قرآن پڑھا ہے اور بعض آیات اور‬
‫سورتوں پر مہینوں بلکہ برسوں غور کیا ہے اور اتنی طویل‬
‫عرصے کے بعد مندرجہ باال نتیجہ پر پہنچا ہوں‪،‬مگر مضمون بڑا‬
‫نازک ہے اور اس کا لکھنا آسان نہیں۔ بہرحال میں نے فیصلہ‬
‫کرلیا ہے کہ اس کو ایک دفعہ لکھ ڈالوں گا‪ ،,‬اور اس کی‬
‫اشاعت میری زندگی کے بعد ہوجائے گی یا جب اس کا وقت‬
‫آئے گا اشاعت ہو جائے گی۔" زندہ رود صفہ صفحہ ‪ 257‬تا ‪258‬‬
‫‪ ‬رموز بے خودی کی‪  ‬کی ان تفصیالت کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫میں عالمہ اقبال کے دیگر روزگار کے مسائل اور حیدرآباد دکن‬
‫کو کئی حوالوں سے موضوع بنایا ہے اور ان کا ایک گوشوارا‬
‫بھی نقل کیا ہے جس میں ان کے اخراجات کی تفصیل دی گئی‬
‫ہے۔ انہوں نے عالمہ اقبال کے ان اخراجات کو کو اس لیے بیان‬
‫کیا ہے کہ ان جھمیلوں کی وجہ سے عالمہ اپنے کی تصنیفی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪67‬‬

‫عزائم‪  ‬کو مکمل نہ کرسکے۔ یہ تصنیفی عزائم درج ذیل تھے‬


‫تھے‪:‬‬
‫‪1‬۔ فقہ اسالم پر انگریزی میں کتاب لکھنا ان کا یہ ارادہ اخیر دم‬
‫تک رہا‬
‫‪2‬۔ تاریخ تصوف‪ ‬‬
‫‪3‬۔رامائن کو اردو کے قالب میں ڈھالنا‪ ‬‬
‫‪4‬۔اسالم میرے نقطہ نظر سے‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے حوالے‪  ‬سے مالی‬
‫مشکالت کو کم کرنے کے لیے احباب کی طرف سے کی جانے‬
‫والی کوششوں کا جائزہ لیا ہے اور گوئٹے ے کی مالی‬
‫سرپرستی کا عالمہ اقبال کے ساتھ موازنہ بھی کیا ہے۔ عالمہ‬
‫اقبال کی سفارش کی بدولت کئی لوگوں کے مالی حاالت بدل‬
‫جاتے‪  ‬تھے اوران کو بہتر روزگار میسر آ جاتا تھا لیکن ان کی‬
‫علمی سرپرستی اس وجہ سے نہ ہوئی کیونکہ مغربی استعمار‬
‫ان کی مغرب بیزاری فری سے آگاہ تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال کے‬
‫خیال میں معاشی معامالت کی وجہ سے عالمہ اقبال جو لکھنا‬
‫چاہتے تھے وہ نہ ہو سکا۔اگر ایسا ممکن ہو جاتا تو میراث اقبال‬
‫کے حوالے سے عالم اسالم کی صورتحال امیری کی ہوتی۔ اس‬
‫باب کے آخر میں میں وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"مختصر یہ کہ اقبال کا بیشتر وقت ایسے معامالت ہیں نظر ہوتا‬
‫رہا جو انہیں اور ان کے خاندان کے افراد کو باعزت زندگی‬
‫گزارنے کے قابل بنا سکیں۔ تحقیق و تصنیف کی خاطر فرصت‬
‫کے لیے وہ تمام عمر ترستے رہے اور شعر شب بیداری کے عالم‬
‫میں یا پھر تعطیل کے دنوں میں کہتے تھے۔ بعض اوقات مضامین‬
‫سیالب کی طرح امڈ کر آتے اور الفاظ میں ڈھلے ہوئے اشعار کا‬
‫طوفان بپا ہو جاتا‪ ،‬جیسے کسی مچھرے کے جال میں بہت‬
‫ساری مچھلیاں آپھنستی ہوں اور وہ اس کشمکش میں ہو کہ‬
‫کس کو پکڑے اور کس کو جانے دے۔ آمد سے پیشتر عموما‬
‫شدید پیچ و تاب کی کیفیت میں سے گزرتے‪ ،‬چہرے کا رنگ‬
‫متغیر ہو جاتا‪ ،‬بستر پر کروٹیں بدلتے‪ ،‬کبھی اٹھ کر بیٹھ جاتے اور‬
‫کبھی گھٹنوں میں سر دے لیتے۔ اشعار بیاض میں لکھ چکنے کے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪68‬‬

‫بعد رفتہ رفتہ سکون کے آثار نمودار ہوجاتے اور اطمینان سے‬
‫سو جاتے۔" زندہ رود صفحہ ‪269‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود کے بارہویں باب کا عنوان "قلمی‬
‫ہنگامہ"رکھا ہے اس میں انھوں نے سوانح کی جدید تکنیک کو‬
‫برتا ہے اور ان تمام باتوں کی نشاندہی کی ہے جو اسرار خودی‬
‫کی اشاعت پر قلمی جنگ کا باعث بنیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس‬
‫حوالے سے لکھتے ہیں‪ :‬‬
‫"مثنوی اسرار خودی کی اشاعت پر پر وجودی تصوف کے‬
‫حامی صوفیوں‪ ،‬روایتی سجادہ نشینوں عہد تنزل کی شاعری‬
‫کے دلدادوں اور فرسودہ یونانی فلسفہ اشراق کے پیرو کاروں‬
‫کی اقبال اور اس کے حامیوں کے ساتھ جو قلمی جنگ ہوئی‪ ،‬وہ‬
‫‪ 1915‬کے اواخر سے لے کر ‪ 1918‬یعنی تقریبا ڈھائی تین برس‬
‫تک جاری رہی۔ اس قلمی ہنگامے کی پوری تفصیل اقبال کے‬
‫اسی تحریر کردہ سوانح حیات میں ملتی ہے نہ ان کتب میں جو‬
‫اقبال اور تصوف کے موضوع پر لکھی گئیں‪ ،‬لیکن حقیقت یہ ہے‬
‫کہ ان سالوں میں بیسیوں مضامین مختلف اخباروں اور رسالوں‬
‫میں مثنوی اسرار خودی کی تعریف یا مخالفت میں‪ ،‬وجودی‬
‫تصوف کے حق میں یا خالف اور حافظ کی حمایت یا ان کے‬
‫نظریہ حیات کی تردید میں شائع ہوئے۔ مشائخ میں اقبال کی‬
‫مخالفت میں خواجہ حسن نظامی اور ان کے مرید سب سے‬
‫آگے تھے اقبال نے خود اس بحث میں پڑھ کر کی مضامین‬
‫لکھے‪ ".‬زندہ رود صفحہ ‪272‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق اس قلمی جنگ کا آغاز خواجہ‬
‫حسن نظامی کی طرف سے ہوا۔ ابتداء میں ان کی ایک مرید‬
‫ذوقی شاہ نے عالمہ اقبال کی مثنوی کے متعلق ایک مضمون "‬
‫خطیب" نے شائع کیا‪ .‬اس مضمون کے بعد مداحین اقبال نے‬
‫بھی مضامین لکھے۔ اقبال کے کسی حامی کشاف نے ‪22‬‬
‫دسمبر ‪1915‬ءمیں اخبار وکیل میں ایک مضمون‪  ‬لکھا جس میں‬
‫انہوں نے نے لکھاکہ مثنوی اسرار خودی کی مخالفت خواجہ‬
‫حسن نظامی کی وجہ سے ہو رہی ہے کیونکہ وہ آل انڈیا صوفی‬
‫کانفرنس کے سیکرٹری ہیں۔عالمہ اقبال نے خود بھی خواجہ‬
‫حسن نظامی کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪69‬‬

‫اپنے تین مضامین میں جواب دیا۔ اسرارِ خودی پر کیا جانے واال‬
‫اعتراض اس کا دیباچہ‪ ،‬حافظ کے متعلق ‪ 35‬اشعار اور اسے‬
‫سر سیدعلی امام کے نام پر معنون کرنا تھا۔ یہ باب‪  ‬ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے عبداللہ قریشی کی تصنیف "معاصرین نے اقبال کی‬
‫نظر میں" اور ان سے بالمشافہ گفتگو کی روشنی میں ترتیب‬
‫دیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں میں اس قلمی ہنگامے میں‬
‫سب سے اہم کردار خواجہ حسن نظامی کے مضمون کشاف‬
‫خودی کا تھا جو ‪ 19‬دسمبر ‪1915‬میں میں اخبار وکیل سے‬
‫شائع ہوا۔ خواجہ حسن نظامی نے چند سواالت مرتب کرکے‬
‫مشائخ کو ارسال کئے اور ان کے جوابات ان حضرات نے مثنوی‬
‫پڑھے بغیر دے دیئے اور وہ مختلف رسائل کی زینت بنے ۔ یوں‬
‫وکیل اخبار میں عالمہ اقبال کی حمایت اور مخالفت‪  ‬میں‬
‫مضامین شائع ہونے لگے اس کے ساتھ ساتھ جہلم کے اخبار‬
‫سراج االخبار ‪ ،‬الئل گزٹ الہوراور لمحات میں بھی ایک ایک‬
‫مضمون شائع ہوا جو عالمہ اقبال کی مخالفت میں تھا۔ حیران‬
‫کن وجہ یہ تھی کہ کہ کسی بھی لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر‬
‫کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ا اس تازہ کے‬
‫حوالے سے زندہ رود میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اس تنازع کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بحث کے دوران خواجہ‬
‫حسن نظامی جیسی معتبر ہستی نے اقبال کے فارسی اشعار کا‬
‫اردو ترجمہ کرتے وقت انہیں خالف حقیقت شکل دی یا دیباچے‬
‫پر نکتہ چینی کرتے وقت ایسی تعبیرات شامل کردیں جو اصل‬
‫میں موجود نہ تھیں۔ اکبر الہ آبادی سمیت بعض بزرگوں نے‬
‫مثنوی پڑھی ہی نہ تھی اور دوسروں کی ہنگامہ آرائی سے متاثر‬
‫ہوگئے تھے۔عالوہ اس کے‪  ‬مخالفین نے علمی سطح سے اتر کر‬
‫اقبال کی ذات پر بھی ناجائز حملے کیے اور انہیں دہریہ‪ ،‬شغال‪،‬‬
‫کتا‪ ،‬دشمن تصوف‪ ،‬دشمن اسالم‪ ،‬دن و ملت فروش‪ ،‬رہزن‬
‫ایمان‪،‬شیطان وغیرہ کے القاب سے پکارا۔" زندہ رود صفحہ ‪ 257‬‬
‫مثنوی اسرار خودی کی مخالفت میں خواجہ حسن نظامی کا‬
‫دوسرا مضمون "سر اسرار خودی" ‪ 30‬جنوری ‪ 1916‬کے‬
‫"خطیب" میں شائع ہوا جس میں انہوں نے مثنوی کے اصولوں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪70‬‬

‫پر بحث کی اور پانچ وجوہات کی بنا پر اسے نامعقول قرار دیا‪.‬‬
‫اسی دور میں پیرزادہ مظفر احمد فضلی نے اسرار خودی کے‬
‫جواب میں ایک مثنوی "راز بے خودی" شائع کی اس میں عالمہ‬
‫اقبال پر ذاتی حملے کیےگئے اور اس کا اصل موضوع سے کوئی‬
‫تعلق نہ تھا۔ وجودی تصوف کے عالوہ حافظ پر عالمہ اقبال کے‬
‫کئے جانے والے اعتراضات کو بھی موضوع بنایا گیا اور بعض‬
‫لوگوں نے اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جنہیں‬
‫عالمہ اقبال سمجھانا چاہ رہے تھے۔ عالمہ اقبال کی حمایت میں‬
‫بھی کئی لوگوں نے مضامین لکھے جن میں مولوی سراج الدین‬
‫پال ایڈوکیٹ‪ ،‬موالنا عبداللہ عمادی‪ ،‬موالنا ظفر علی خان‪،‬‬
‫مولوی الف دین وکیل‪ ،‬مولوی محمود علی اور عبدالرحمن‬
‫بجنوری وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال‬
‫کے تین مضامین کو خصوصی طور پر موضوع بنایا ہے جو خواجہ‬
‫حسن نظامی کے مضامین کے جواب میں تھے ان کی تفصیل‬
‫درج ذیل ہیں ہے۔‪ ‬‬
‫‪1‬۔عالمہ اقبال نے خود بھی ان اعتراضات کے جوابات میں‬
‫مضامین تحریر کئے ڈاکٹر جاوید اقبال ال نے ان مضامین کے‬
‫حوالے سے زندہ رود میں لکھا ہے۔ عالمہ اقبال کا پہال مضمون‬
‫بعنوان "اسرار خودی اور تصوف"وکیل میں ‪ 15‬جنوری ‪1916‬‬
‫میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ وہ‪  ‬تصوف کی تاریخ‬
‫لکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بتا دیں کونسا تصوف اسالمی ہے اور‬
‫کون سا غیر اسالمی۔ عالمہ اقبال درحقیقت صوفیا کے اس گروہ‬
‫کے خالف تھے جنہوں نے غیرمتعلقہ چیزوں کو اسالم میں داخل‬
‫کردیا۔‬
‫‪2‬۔عالمہ اقبال نے "سر اسرار خودی" کے عنوان سے دوسرا‬
‫مضمون خواجہ حسن نظامی کے اعتراضات کے جواب میں‬
‫تحریر کیا اور یہ مضمون وکیل میں ‪ 9‬فروری ‪ 1916‬میں شائع‬
‫ہوا۔ اس میں عالمہ اقبال نے اپنے عقیدے کی وضاحت کی اور‬
‫اور انتشار قابل ذکر کیا جنہوں نے غلط معنی پہناکر دیباچے کے‬
‫بعض حصوں کی غلط تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس‬
‫مضمون کے آخری حصے میں عالمہ اقبال نے مثنوی کو سر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪71‬‬

‫علی امام کے نام سے معنون ن کرنے کی غایت بھی بیان کی‬


‫جو دو آدمیوں کے ذاتی تعلقات پر تھی۔‬
‫‪3‬۔ اسرار خودی پر جو قلمی جنگ شروع ہوئی اس سلسلے کا‬
‫تیسرا مضمون عالمہ اقبال نے بعنوان "علم ظاہر و علم باطن"‬
‫کے نام سے لکھا جو وکیل میں ‪ 28‬جون ‪ 1916‬میں شائع ہوا۔‬
‫اس میں عالمہ اقبال نے اس صوفی گروہ کی نشاندہی کی جو‬
‫معرفت کو علم پر ترجیح دیتا ہے اور رہبانیت صحت کی بنیادی‬
‫جڑ ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں اس قلمی جنگ کا اختتام اکبر‬
‫الہ آبادی کی وجہ سے ہوا۔ عالمہ اقبال اور خواجہ حسن نظامی‬
‫دونوں‪  ‬اکبر الہ آبادی شادی سے خصوصی انس رکھتے تھے‬
‫اس لیے ان کی مداخلت کی بدولت یہ سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔‬
‫اسی عہد میں نکلسن نے اسرار خودی کا انگریزی میں‪  ‬ترجمہ‬
‫کیا۔ انگریز نقاد ڈکنسن نئی چنداعتراضات کے ذریعے فکر اقبال‬
‫کے متعلق غلط فہمیاں یا پھیال دیں۔ ڈکنسن نے عالمہ اقبال کے‬
‫مرد کامل کے نظریات کو نطشے اور برگساں کے ساتھ جوڑ دیا‬
‫‪ ،‬اس کے خیال میں عالمہ اقبال پسماندہ اقوام اور خصوصا ً‬
‫مسلمانوں کو جنگ کی تعلیم دے رہے ہیں اور ان کے ہر لفظ‬
‫میں سیاست چھپی ہوئی ہے۔جس پر عالمہ اقبال نے انھیں ایک‬
‫طویل خط تحریر کیا۔مثنوی کے انگریزی ترجمہ ر امریکی ادیب‬
‫ہربرٹ ریڈ نے بھی تبصرہ کیا جو "نیو ایج" میں ‪ 25‬اگست‬
‫‪ 1921‬میں شائع ہوا۔ عالمہ اقبال کی مثنوی پر ہندوستان یورپ‬
‫اور امریکہ میں رایزنی کی گئی لیکن باقی دنیائے اسالم میں‬
‫خاموشی طاری تھی کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد‬
‫وہاں پر وطنی قومیت پھل پھول رہی تھی اور تمام اہل علم اپنے‬
‫معامالت میں مشغول تھے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں‬
‫عالمہ اقبال اب اب تصوف کی وجودی تصور سے نکل کر‬
‫وحدت الشہود کا اثر قبول کرچکے تھے اور ان کی تمام تر‬
‫کوششیں احیائے سالم کے لیے تھیں۔ اس حوالے سے لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"مثنوی "اسرار خودی" سے متعلقہ بحث سے ظاہر ہے کہ اقبال‬
‫تصوف وجودیہ سے متفر ہوگئے تھے لیکن وہ تصوف اسالمیہ کے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪72‬‬

‫حامی تھے اور آخری دم تک رہے۔ دراصل انہوں نے اپنے عقیدے‬


‫کے تعین کے سلسلے میں مسلک وحدۃالوجود کے مقابلے‬
‫مسلک وحدت الشہود سے زیادہ اثر قبول کیا۔ وہ مفکرو شاعر‬
‫احیائے اسالم تھے۔ اس لئے اسالم کی اصل پاکیزگی کی طرف‬
‫ان کا رجوع کرنا الزمی تھا۔ اس اعتبار سے وہ اس لڑی کا ایک‬
‫موتی تھے جس میں ابن تیمیہ اور شیخ احمد مجدد الف ثانی‬
‫جیسی برگزیدہ ہستیوں کو پرویا جاسکتا ہے۔ مغربی نقادوں نے‬
‫فلسفہ اسالمی کی تاریخ سے ناواقفیت کے سبب ان کے افکار‬
‫کو نطشے اور برگساں کی آواز بازگشت قرار دیا۔ حاالنکہ انسان‬
‫کامل یا ارتقائےحیات کا تخیل مسلم صوفیہ وحکما میں صدیوں‬
‫سے موجود تھا اور اس کا ثبوت الجیلی‪ ،‬جالل الدین رومی‪ ،‬ابن‬
‫مسکویہ اور ابن باجہ کی تحریریں ہیں۔۔۔ اقبال مغرب کے انسانی‬
‫جدید سے اسی طرح بیزار تھے‪ ،‬جس طرح مشرق کے انسان‬
‫مردہ سے ۔وہ جالل الدین رومی کی طرح اور کسی ایسے انسان‬
‫کی تالش میں تھے جو حقیقی معنوں میں کامل ہو۔" زندہ رود‬
‫صفحہ ‪ 296‬تا ‪ 297‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود کے تیرہویں باب کو "خانہ نشینی"‬
‫کا عنوان دیا ہے۔ اس باب میں انہوں نے انیس سو پندرہ سے‬
‫انیس سو ‪ 21‬تک کے داخلی و خارجی حاالت کو پیش کرتے‬
‫ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے خانہ نشینی کیوں‬
‫اختیار کی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اس باغ میں برصغیر میں‬
‫میں چلنے والی سیاسی اسی تحریک اور عوام کی بے چینی ی‬
‫امن وامان کی خرابی اور برصغیر میں موجود طبقات کے‬
‫درمیان پائی جانے والی کشمکش کو موضوع بنایا ہے۔ یہ وہ دور‬
‫تھا جس میں انگریزوں کے خالف احتجاجی تحریکوں نے شدید‬
‫صورتحال اختیار کر لی تھی۔ اسی عہد میں سانحہ جلیانوالہ واال‬
‫باغ ہوا‪ ،‬خالفت کانفرنس‪ ،‬کانگریس کی سرگرمیاں اور علی‬
‫برادران کی جدوجہد عروج پر پہنچی۔ عالمہ اقبال کی گوشہ‬
‫نشینی کا آغاز ‪ 1914‬سے ہو گیا تھا۔ موالنا شوکت علی نے انہیں‬
‫علی گڑھ کالج کے اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے ساالنہ اجالس‬
‫میں شرکت کے لیے دعوت بھیجیں‪  ‬تو اقبال نے جواب میں‬
‫تحریر کیا‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪73‬‬

‫"بھائی شوکت! اقبال عزلت نشین ہے اور اس طوفانی‬


‫بےتمیزی کے دور میں گھر کی چار دیواری کو کشتی نوح‬
‫سمجھتا ہے۔دنیا اور اہل دنیا کے ساتھ تھوڑا بہت تعلق ضرور ہے‪،‬‬
‫مگر محض اس وجہ سے کہ روٹی کمانے کی مجبوری ہے۔ تم‬
‫مجھے علی گڑھ بالتے ہو‪ ،‬میں ایک عرصے سے خدا گڑھ میں‬
‫رہتا ہوں اور اس مقام کی سیر کی عمروں میں ختم نہیں‬
‫ہوسکتی۔" زندہ رود ص ‪301‬‬
‫‪  ‬ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق‪ 1919‬میں حاالت مزید خراب‬
‫ہوگئے‪  ‬ایسے میں اقبال میں باہر جانا بالکل موقوف کر دیا۔‬
‫سانحہ جلیاں واال باغ ہوا‪  ‬اور اس کے بعد الہور اور اس کے‬
‫مضافات میں شدید قسم کا کرفیو لگا دیا گیا۔کرفیو میں لوگوں‬
‫کے لئے بہت زیادہ پریشانیاں پیدا ہوئیں اور انگریز حکومتنے‬
‫مقامی لوگوں لوگوں کو بری طرح سے کچل کر رکھ دیا۔ ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے تحریک خالفت کے حوالے سے تمام تفصیالت کو‬
‫اس باب کا حصہ بنایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ کس طرح عالمہ‬
‫اقبال صوبائی خالفت کمیٹی کے رکن بنے۔ اسی سال کی آخر‬
‫میں موالنا محمد علی‪  ‬جوہر عالمہ اقبال سے ملنے ان کے‬
‫انارکلی والے مکان میں گئے۔ڈاکٹر جاویداقبال زندہ رود میں‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"بعد میں موالنا محمد علی بحیثیت قائد تحریک خالفت الہور‬
‫پہنچے اور اقبال سے ملنے کے لیے انارکلی والے مکان میں گئے۔‬
‫اقبال بیٹھک میں دھنسا اوڑھے حقے کے کش لگا رہے تھے۔موالنا‬
‫محمد علی سے ان کی خاصی بے تکلفی تھی۔ موالنا محمد علی‬
‫نے انہیں دیکھتے ہی طنزا کہا‪:‬ظالم‪  ‬ہم تو تیرے شعر پڑھ کر‬
‫جیلوں میں چلے جاتے ہیں اور قید و بند کی صعوبتیں برداشت‬
‫کرتے ہیں لیکن تو ویسے کا ویسا دھنسا اوڑھےحقے کے کش‬
‫لگاتا رہتا ہے۔ گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔ اقبال نے برجستہ جواب‬
‫دیا‪:‬موالنا میں تو قوم کا قوال ہوں‪ ،‬اگر قوال خود ہی وجدوحال‬
‫میں شریک ہوکر ہوحق میں تہ وباال ہونا لگے تو قوالی ہی ختم ہو‬
‫جائے۔" زندہ رود ص ‪304‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬نے خالفت کانفرنس سے عالمہ اقبال کے‬
‫اختالفات اور استعفی کی وجوہات کو بھی بیان کیا ہے۔عالمہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪74‬‬

‫اقبال نے تحریک خالفت کے لندن جانے والے وفد کی مخالفت‬


‫کی اور کانگریس کے ساتھ ساتھ ہونے والے تھے عدم تعاون کے‬
‫رویے کو بھی نا پسند کیا۔ عالمہ اقبال کے یہی دو بڑے اختالفات‬
‫تھے انہیں اس معاملے پر ہندوؤں سے شدید اختالفات تھے جو‬
‫بعد میں درست ثابت ہوئے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اتحاد دیرپا‬
‫ثابت نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ کانگریس نے محض انگریز دشمنی‬
‫کو بنیاد بنا کر خالفت کانفرنس سے اتحاد کیا تھا۔ عالمہ اقبال‬
‫ترک مواالت کی تحریک میں طلبہ کے شامل ہونے کو درست نہ‬
‫سمجھتے تھے۔ عالمہ اقبال‪  ‬کی اس مخالفت کی وجہ سے سے‬
‫کئی علماء اور سیاسی رہنما ان کے خالف ہو گئے اور کئی‬
‫مسلم قائدین ان کو شبہ کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ عالمہ اقبال‬
‫کے بعض سوانح نگار ان وجوہات کو عالمہ نہ کی گوشہ نشینی‬
‫کا سبب نہیں سمجھتے تھے لیکن اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے لکھا ہے‪:‬‬
‫"اقبال کے بیشتر سوانح نگار یار یہی سمجھتے ہیں کہ اقبال نے‬
‫اس عہد کی پرشور سیاست کے سبب‪  ‬کنارہ کشی اختیار کر لی‬
‫تھی اور اس کے ہنگاموں سے الگ تھلگ" پیام مشرق " کی‬
‫ترتیب میں مصروف رہے۔ لیکن یہ خیال درست معلوم نہیں ہوتا‬
‫بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اقبال کے نقطہ نظر کو نہ تو کوئی سمجھتا‬
‫تھا اورنہ کوئی قبول کرنے کو تیار تھا۔عدم تعاون کے حامی‬
‫علماء اور مسلم سیاسی رہنما سب ان کے خالف ہو چکے تھے۔‬
‫اسی طرح تعاون پسند مسلم قائدین بھی انہیں شبہے کی نظر‬
‫سے دیکھتے تھے۔ اقبال کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔اسی دور میں‬
‫ان کی کردار کشی کی مہم کا آغاز ہوا۔ سو اقبال کی التعلقی کا‬
‫اصل سبب عالم تنہائی تھا اور وہ کسی ایسے ہمدم یار رفیع کے‬
‫لئے ترستے تھے جو ان کا ہم خیال ہو۔" زندہ رود صفحہ ‪316‬‬
‫ڈاکٹرجا وید اقبال کے خیال میں ان حاالت میں عالمہ اقبال‬
‫عملی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے۔ کس عہد میں کوئی‬
‫مستقل نظم بھی تحریر نہ کی اور ‪ 1920‬میں انجمن حمایت‬
‫اسالم کے ساالنہ جلسے میں دو چھوٹی نظمیں پیش کیں۔البتہ‪ ‬‬
‫‪ 16‬اپریل ‪ 1922‬میں انجمن کے ساالنہ جلسے میں انہوں نے‬
‫اپنی مشہور نظم "خضر راہ" بیس ہزار کے مجمع کے سامنے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪75‬‬

‫پڑھی جس میں ان کے انداز بیاں نے سامعین کو روال دیا اور وہ‬


‫خود بھی روپڑے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال دل نے اس باب میں‬
‫برصغیر میں رونما ہونے والے اہم واقعات اور عالمی سطح پر پر‬
‫مسائل کے انبار آر کو بیان کیا ہے۔ یہ تمام تناظر عالمہ اقبال کی‬
‫شاعری اور فکری ارتقا کے حوالے سے اہم ہیں۔ انہی واقعات‬
‫کے پس منظر میں انہوں نے عالمہ اقبال کی نظم خضر راہ کا‬
‫مطالعہ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے اس نظم کے‬
‫حوالے سے عالمہ اقبال کی موالنا گرامی کے ساتھ خطوط کے‬
‫ذریعے بحث کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نظم‬
‫"خضر راہ"کے حوالے سے علی بخش سے ہونے والی گفتگو کا‪ ‬‬
‫خالصہ اپنے الفاظ میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"نظم خضر راہ کے متعلق بعض باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی یہ کہ‬
‫جن دنوں اقبال نے یہ نظم لکھنا شروع کی‪ ،‬ان پر نقرس کے‬
‫مرض کا شدید حملہ ہوا اور انہوں نے کئی راتیں لگاتار بیداری‬
‫کے عالم میں گزاریں۔وہ انارکالی والے مکان کی بیٹھک سے‬
‫ملحقہ کمرے میں اٹھ آئے تھے۔ اور رات کو عموما علی بخش‬
‫ان کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ ایک شب درد کی شدت کے سبب ان‬
‫پر نیم بیہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔اس اس کیفیت میں‬
‫انہیں محسوس ہوا‪ ،‬کوئی کوئی مرد بزرگ ان کے پاس بیٹھا ہے۔‬
‫اقبال اس مرد بزرگ سے سوال پوچھتے ہیں اور وہ ان کے ہر‬
‫سوال کا جواب دیتا جاتا ہے۔ کچھ دیر کے بعد مرد بزرگ اٹھتا ہے‬
‫اور چل دیتا ہے۔اس کے رخصت ہونے کے بعد اقبال نے علی‬
‫بخش کو آواز دے کر بالیا اور اس مرد بزرگ کے پیچھے دوڑایا‬
‫تاکہ اسے واپس لے آئے۔علی بخش کا بیان ہے کہ وہ بیٹھ کے‬
‫فرش پر لیٹا اس وقت جاگ رہا تھا اور اقبال کو تنہائی میں‬
‫کسی کے ساتھ باتیں کرتے سن رہا تھا۔رات کے تقریبا تین بجے‬
‫تھے۔ علی بخش تعمیل حکم میں پھرتی سے سیڑھیاں اترا لیکن‬
‫دروازے کو اندر سے مقفل پایا‪.‬دروازہ کھول کر بازار میں نکال‬
‫مگر ہو کا عالم طاری تھا‪ ،‬اور بازار کے دونوں طرف دور دور‬
‫تک اسے کوئی بھی شخص دکھائی نہ دیا۔ سو ظاہر ہے نظم‬
‫تحریر کرتے وقت کسی مرحلے پر اقبال حالت سکر سے‬
‫گزرے‪ ،‬کیوں کہ وہ بیمار تھے اور شدت درد کا وہ عالم تھا کہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪76‬‬

‫شعوری طور پر اس پر غالب آنا یا حالت صحو برقرار رکھنا‬


‫غالبا ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا۔ اس کے عالوہ شدید تنہائی اور‬
‫ہرطرف سے مخالفت کے سبب انہیں شاید اپنے آپ پر اعتماد نہ‬
‫رہا تھا اور ان کے دل میں یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ انکا‬
‫مؤقف غلط ہے یا وہ صحیح راہ سے بھٹک گئے ہیں‪ ،‬اور انہیں‬
‫راستہ دکھانے کے لئے کسی رہبر کی ضرورت ہے۔" زندہ رود‬
‫صفحہ ‪ 317‬تا‪318‬‬
‫نظم خضر راہ کے حوالے سے گفتگو کرنے کے بعد ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے بتایا ہے کہ ‪ 1922‬کے اختتام میں عالمہ اقبال انارکلی‬
‫واال مکان چھوڑ کر میکلوڈروڈ والی کوٹھی میں منتقل ہوگئے‬
‫اسی سال الہور میں مسجد شب بھر کا واقعہ پیش آیا جس پر‬
‫اقبال نے اشعار تحریر کیے۔ ‪1924‬ءمیں ترکی کی خالفت کے‬
‫خاتمے کے ساتھ برصغیر میں تحریک خالفت خاتمہ ہوگیا۔ عالمہ‬
‫اقبال آل مسلم اقوام میں مغربی طرز کے نیشنلزم کے فروغ‬
‫پر خوش نہ تھے اس کے باوجود انہیں یقین تھا کہ مستقبل میں‬
‫ایسے حاالت زندگی پیدا ہو جائیں گے جب مصروف قوم کو‬
‫اتحاد کے سوا کوئی‪  ‬راستہ نہ نظر آئے گا۔ وہ ایران افغانستان‬
‫اور ترکی کے ذریعے اتحاد کو موزوں سمجھ رہے تھے۔ حاالت‬
‫کی خرابی کے باوجود انہیں یہی امید تھی کہ بنی نوع انسان ایک‬
‫بار پھر نور محمدی کی طرف متوجہ ہوں گے اور تاریکی کا یہ‬
‫دور ختم ہو جائے گا۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے چودھری باب کو "ہندو مسلم تصادم کا‬
‫ماحول" کے نام سے موسوم کیا ہے۔ اس باب میں انھوں نے‬
‫ہندو مسلم تصادم کے اہم محرکات کو موضوع بنایا ہے اور ساتھ‬
‫میں تاریخی سطح پر اس کی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔‬
‫عالمہ اقبال سے سر شادی الل کے تعصب اور دیگر علماء کے‬
‫اختالف کا جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان باتوں کو بھی‬
‫بیان کیا ہے جو ہندو مسلم فسادات کی وجہ تھیں۔ انہوں نے اس‬
‫باب کا عنوان تو ہندو مسلم تصادم کا ماحول رکھا ہے لیکن‬
‫جزوی‪  ‬با توں کو بھی اس میں داخل کردیا ہے۔ وہ اس باب کا‬
‫آغاز عالمہ اقبال کو سر کا خطاب ملنے سے کرتے ہیں۔ بالشبہ‬
‫اس باب میں میں بھاگ ایسے موضوعات لیے آگئے ہیں جن کا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪77‬‬

‫اس کے اصل عنوان سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ موضوعات درج‬


‫ذیل ہے‪:‬‬
‫‪1‬۔عالمہ اقبال کو سر کا خطاب ملنا‬
‫‪2 ‬۔ پیام مشرق کی اشاعت‬
‫‪3 ‬۔بانگ درا کی اشاعت‪ ‬‬
‫‪4‬۔عالمہ کی بیوی کی وفات‪ ‬‬
‫‪5‬۔عالمہ اقبال پر کفریہ فتوے‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس بات کا آغاز عالمہ اقبال کو ‪1923‬‬
‫میں انگریزی حکومت کی طرف سے علمی خدمات کے صلے‬
‫میں ملنے والے سر کے خطاب سے کیا ہے ۔ اس حوالے سے‬
‫انہوں نے تمام تر معلومات‪  ‬نعت روزگار فقیر کے حوالے سے‬
‫نقل کی ہیں اور مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب‬
‫ملنے کے قصے کو بھی بیان کیا ہے۔عالمہ اقبال نے چونکہ ترک‬
‫مواالت کی کی مخالفت کی تھی اس لئے فوری طور پر وہ گروہ‬
‫سرگرم ہو گیا جو عالمہ اقبال کی اس بات کو ماننے سے انکاری‬
‫ہوا تھا۔انھوں نے اخبارات میں عالمہ اقبال پر طنزیہ چوٹیں کیں۔‬
‫غالم بھیک نیرنگ نے خط میں اندیشہ ظاہر کیا کہ خطاب لینے‬
‫سے شاید آپ اظہار آزادی رائےسے کام نہ لے سکیں‪ ،‬لیکن‬
‫اقبال نے اس کا انہیں جواب دیا کہ دنیا کی کوئی طاقت جنت‬
‫میں حق کہنے سے باز نہیں رکھ سکتی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫اس بات کا بھی جائزہ لیا ہے کہ عالمہ اقبال نے یہ خطاب کیوں‬
‫قبول کیا یا اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"یہ حقیقت ہے کہ اقبال کے نزدیک خطبات یا دنیاوی اعزازات‬
‫کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ اس لیے خطاب حاصل کرنے کے بعد‪،‬‬
‫جیسا کہ ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے‪ ،‬آزادی اظہار میں‬
‫کمی کی بجائے اور بھی زیادہ اضافہ ہوا۔ مگر ایسے زمانے میں‬
‫جب عوام میں خطبات کے خالف نفرت پیدا ہوچکی تھی‪ ،‬اقبال‬
‫نے خطاب کیوں قبول کیا؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اقبال‬
‫کا تعلق اقلیتی قوم سے تھا اور برصغیر کے سیاسی پس منظر‬
‫میں اقلیتی قوم کی نفسیات اکثریتی قوم سے مختلف تھیں؛‬
‫یعنی انگریزی حکومت یا ہندو اکثریت کے مقابلے میں مسلم‬
‫اقلیت کا رویہ بنیادی طور پر مدافعانہ تھا اور اقبال کے خطاب‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪78‬‬

‫قبول کرنے کی مصلحت اسی مدافعانہ نفسیات کی غماز تھی۔"‬


‫زندہ رود صفحہ‪331‬‬
‫اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے برصغیر ہندوستان میں ہندو‬
‫مسلم فسادات کو تاریخی لحاظ سے دیکھا ہے اور دونوں اس‬
‫کا سلسلہ البیرونی کی "کتاب الہند" کے ایک اقتباس سے‬
‫جوڑتے نظر آتے ہیں جس میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے باہمی‬
‫اختالفات اور نفرت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انہوں نے ہندو مسلم‬
‫تصادم کی پوری تاریخ‪  ‬کو الگ الگ حصوں میں بیان کیا ہے‪،‬‬
‫جس میں مغلوں کی آمد اور اس کے بعد اکبر کی ہندو اور‬
‫مسلم مسلمانوں ادغام کی کوششیں اور اس کے نتیجے میں‬
‫بھگتی تحریک اور مجدد الف ثانی کی تصوف موجود یہ کی‬
‫تردید قابل ذکر ہے۔ شیخ احمد سرہندی کے ذکر کے ساتھ وہ‬
‫عالمہ اقبال کی ذات کو جوڑتے نظر آتے ہیں۔ ہندومسلم ادغام‬
‫کی دوسری کوشش داراشکو کو کہ دور میں ہوئی ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے اس کا بھی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق‬
‫کے مطابق ‪ 1809‬میں جدید اصطالح کے مطابق پہال فرقہ وارانہ‬
‫فساد ریکارڈ ہوا۔ دوسرا فساد ‪1871‬میں بریلی میں ہوا۔ چھوٹے‬
‫موٹے جھگڑے ساتھ ساتھ چلتے رہیں یہ اور ان فسادات‪  ‬میں‬
‫‪ 1893‬میں بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ ان کے مطابق‬
‫بیسویں صدی میں یہ فسادات بالترتیب‪1905‬ء ‪،1911 ،1909‬‬
‫‪ 12‬اور ‪ 1915‬تا ‪ 1918‬میں ہوتے رہے۔ ‪1920‬ء کے بعد ‪1922‬‬
‫اور ‪ 1923‬میں پنجاب‪ ،‬یوپی اور سندھ کے صوبے فسادات کی‬
‫زد میں آئے۔ عالمہ اقبال ان فسادات رات کی غرض و غایت اور‬
‫اور وجوہات سے بخوبی آگاہ تھے سے لیکن یہ چاہتے تھے کہ‬
‫مسلمان اور ہندو اس رقابت کو روک دیں۔ جاوید اقبال نے زندہ‬
‫رود میں ایک خط کا حوالہ دیا ہے جس میں عالمہ اقبال لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"افسوس ہے کہ پنجاب میں ہندو مسلمانوں کی رقابت بلکہ‬
‫عداوت بہت ترقی پر ہے اگر یہی حالت رہی تو آئندہ تیس سال‬
‫میں دونوں قوموں کے لئے زندگی مشکل ہو جائے گی۔" زندہ‬
‫رود صفحہ ‪334‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪79‬‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں ان فسادات کو روکنے کے لیے‬


‫مختلف سطح پر کوششیں بھی ہوتی رہی جن میں عالمہ اقبال‬
‫کو شریک ہونے کی دعوت بھی ملتی اور وہ شامل بھی ہوجاتے‬
‫لیکن جلد ہی اس سے متنفر بھی ہوجاتے کیونکہ جو اصل مقاصد‬
‫تھے اس سے یہ تمام کوششیں دور تھیں۔ ان کوششوں میں ہر‬
‫سیاسی رہنما اپنایا اپنی قوم کا مفاد سامنے رکھتا تھا اس لیے‬
‫بہت جلد عالمہ اقبال ایسی کوششوں پر پر یقین رکھنے کے‬
‫باوجود ان سے الگ ہو جاتے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"پس ظاہر ہے کہ اقبال اپنے موقف پر قائم رہنے کے باوجود‬
‫ہندوستان میں ہندو اور مسلم اقوام کے درمیان صلح اور امن‬
‫کی خواہش مند تھے اور اس نصب العین کو حاصل کرنے کے‬
‫لیے ہر کوشش میں دوسروں کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار رہتے‬
‫تھے۔مگر ان کو بارہا یہ تجربہ ہوا کہ ہندو اور مسلمانوں دونوں‬
‫کے درمیان مصالحت کی کوشش کے پردے میں میں ہر سیاسی‬
‫رہ نما اپنا یا اپنی قوم کا مفاد سامنے رکھتا تھا اور حقیقی معنوں‬
‫میں سزاؤں کے لیے کوئی بھی مخلص نہ تھا اسی وجہ سے‬
‫ایسی تمام کوششیں ناکام ہوتی تھیں۔" زندہ رود صفحہ ‪336‬‬
‫‪ ‬ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق ‪ 30‬مارچ ‪ 1923‬کو انجمن‬
‫حمایت اسالم کے جلسے میں عالمہ اقبال نے اپنی معروف نظم‬
‫طلوع اسالم پڑھی جس سے مسلمانوں میں بڑا حوصلہ پیدا ہوا۔‬
‫اسی سال میں "پیام مشرق" شائع ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫پیام مشرق کے حوالے سے ان اقتباسات کو بھی زندہ رود کا‬
‫حصہ بنایا ہے جو پیام مشرق کے سلسلے میں مختلف اہل علم‬
‫سے ہوتے رہے۔ ‪ 1923‬میں ہی عالمہ اقبال کے حوالے سے ایک‬
‫مضمون زمیندار میں شائع ہوا جس میں انہیں سوشلسٹ‬
‫نظریات کا حامی اور مبلغ کہا گیا یا عالمہ اقبال کو اس پر بہت‬
‫افسوس ہوا اور اس کی تردید انہوں نے ایک خط کے ذریعے‬
‫زمیندار اخبار میں کی۔ ‪ 1923‬میں عالمہ اقبال کو مختلف احباب‬
‫نے نئی دستوری اصالحات کے تحت ہونے والے الیکشن میں‬
‫حصہ لینےکا مشورہ دیا جسے انہوں نے رد کردیا۔ ‪1924‬ء میں‬
‫بانگ درا شائع ہوئی۔ڈاکٹر جاوید اقبال انے اس کی تکمیل اور‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪80‬‬

‫اشاعت سلسلے کو بیان کیا ہے یہ عالمہ اقبال کا پہال اردو کا‬


‫مجموعہ تھا۔ اس دوران عالمہ اقبال کی مشائخ کے ساتھ‬
‫مالقاتوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ان کی‬
‫خانگی حاالت اور ان کی بیوی مختار چار بیگم کی وفات کو بھی‬
‫اسی باب کا حصہ بنا دیا ہے۔ ‪ 1924‬میں عالمہ اقبال کے ہاں‬
‫جاوید اقبال کی پیدائش ہوئی وی اس کا ذکر بھی اس باب کا‬
‫حصہ ہے۔ اگرچہ خانگی امور اور اس کے حاالت اس بابکے عنوان‬
‫سے لگا نہیں کھاتے لیکن چونکہ وہ عالمہ اقبال کا ذہنی ارتقا لکھ‬
‫رہے تھے اس لیے ان کو یہاں یہاں کے اعتبار سے درج کرنا‬
‫درست لگتا ہے۔ اس باب کے آخر میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫موالنا ابو محمد سید دیدار علی شاہ خطیب مسجد وزیر خان کا‬
‫ذکر کیا ہے۔ جنہوں نے عالمہ اقبال پر کفر کا فتوی فتوی جاری‬
‫کر دیا۔ اس فتوے پر مولوی جدار علی کو خود مالمت کا سامنا‬
‫کرنا پڑا اور مسلمانوں نے انہیں اس بات کا احساس دالنے کی‬
‫کوشش کی کہ انہوں نے اس شخص پر فتوی صادر کیا ہے جو یہ‬
‫چاہتاہے کہ مسلمان ایک قوم اور ملت کے طور پر متحد ہوجائیں۔‬
‫زندہ رود اُس سے پہلے شائع ہونے والی کتابوں میں میں اقبال‬
‫کی زندگی کو عہد بہ عہد د اس طرح سے موضوع نہیں بنایا گیا‬
‫تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے محققانہ مزاج سے سے اقبال‬
‫سے متعلقہ ہر بات کواحاطہ قلم میں النے کی کوشش کی ہے۔‬
‫انہوں نے اس دور کا کا بنظر عمیق مطالعہ بھی کیا ہے اور اور‬
‫اپنے منفرد اسلوب سے اقبال کی داخلی اور خارجی زندگی کی‬
‫شناسائی کے لیے لیے اس کتاب کو ایک کلید کے طور پر پر‬
‫مرتب کیا ہے۔ زندہ رود کی اس جلد پر ہونے والی تنقید اور‬
‫اغالط کی نشاندہی بھی کی گئی ہےاس کا جائزہ صبح اس باب‬
‫کے آخر میں لیا جائے گا۔‬
‫۔زندہ رود (اختتامی دور) حصہ سوم‪:‬‬
‫عالمہ اقبال کی سوانح عمری کی یہ آخری جلد ہے۔یہ کتاب‬
‫‪1984‬ء میں شیخ غالم علی اینڈ سنز پبلشرز الہور سے شائع‬
‫ہوئی۔اس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان کی عملی سیاست سے‬
‫لے کر آخری ایام کو موضوع بنایا ہے سوانح اقبال کا یہ حصہ‬
‫سوانح اقبال کے تشکیلی اور وسطی دور سے پیوست ہے۔ ڈاکٹر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪81‬‬

‫جاوید اقبال نے اس حصے میں عالمہ اقبال کی زندگی کے آخری‬


‫‪13‬سالوں اور ان میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کیا ہے۔‬
‫عالمہ اقبال کی زندگی کا یہ دور اس حوالے سے خاص اہمیت‬
‫رکھتا ہے کہ وہ ‪ 1926‬میں پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے ممبر‬
‫منتخب ہوئے ‪ ،‬یوں انہوں نے عملی طور پر سیاست میں شرکت‬
‫کی۔ اسی دور میں انھوں نے برصغیر میں ایک الگ ریاست کا‬
‫تصور پیش کیا۔علمی سطح پر یہ بات بھی اہم ہے کہ اس دور‬
‫میں انہوں‪  ‬نے شمالی ہند میں خطبات پیش کئے اور ان کی‬
‫شہرہ آفاق کتاب "جاوید نامہ"بھی اسی عہد میں شائع ہوئی۔یہ‬
‫جلد بھی سابقہ دو جلدوں کی طرز پرسات ابواب پر مشتمل‬
‫ہے۔ ان ابواب کے عنوانات کی تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪17‬۔‬ ‫‪15‬۔عملی سیاست کا خارزار‪16        ‬۔دورہ جنوبی ہند‬
‫مسلم ریاست کا تصور‬
‫‪19‬۔افغانستان‪           ‬‬ ‫‪18‬۔گول میز کانفرنسیں ‪           ‬‬
‫‪20‬۔ عاللت‬
‫‪21‬۔آخری ایام ‪                            ‬ماخذ‬
‫زندگی کے آخری سالوں میں عالمہ اقبال کی شخصیت کے کئی‬
‫پہلو سامنے آئے۔ اسی دور میں انھوں نے مسلمانان کی آزادی‬
‫کیلئے جدوجہد کے لئے راستے کا تعین کیا اور احیائے اسالم کے‬
‫لیے عالمی سطح پر کوششیں کرتے رہے اسی دور میں انھوں‬
‫نے افغانستان کا سفر بھی کیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس حصے کا‬
‫تعارف پیش لفظ میں یوں کرواتے ہیں‪:‬‬
‫"تیسراحصہ حیات اقبال کا اختتامی دور ہے۔ اس حصے کا آغاز‬
‫اقبال کے عملی سیاسیات کے میدان میں اترنے سے ہوتا ہے۔‬
‫یعنی جنوری ‪1926‬ء سے‪ ،‬جس سال انھوں نے پنجاب قانون‬
‫ساز کونسل کے انتخابات میں حصہ لیا یا اور ‪ 21‬اپریل ‪1938‬‬
‫کو ان کی رحلت کی مدت‪  ‬میں ان کی نجی زندگی اور ان کے‬
‫افکار و نظریات کے بتدریج ارتقاء کے جائزے پر ختم ہوتا ہے۔‬
‫اس دور میں اقبال کی شخصیت کے کئی نئے پہلو ظاہر ہوئے ۔وہ‬
‫احیاۓاسالم اور مسلمانان برصغیر کی آزادی کے لئے جدوجہد‬
‫کی سمت کے تعین کے بارے میں اپنے دینی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬اخالقی‪،‬‬
‫قانونی‪ ،‬تمدنی‪ ،‬معاشی اور الہیاتی خیاالت کو مخالفین کی پروا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪82‬‬

‫کیے بغیر ترتیب دیتے چلے گئے۔ مگر باآلخر اپنا کام ادھورا چھوڑ‬
‫کے عجب بے چینی‪ ،‬بے تابی اور بے قراری کے عالم میں وفات‬
‫پائی۔روح اقبال کی بے چینی‪ ،‬بےتابی اور بے قراری ایک عجیب‬
‫وغریب کیفیت ہے۔۔۔۔ایک ایسی کیفیت جو آج بھی شعر اقبال کے‬
‫ذریعے رازداروں کے سینوں میں شعلے کی طرح لپکتی ہے۔"‬
‫زندہ رود صفحہ ‪17 ،16‬‬
‫زندہ رود کی تیسری جلد کا پہال اور مسلسل پندرھواں باب‬
‫"عملی سیاست کا خارزار" کے عنوان پر مشتمل ہے۔ اس بار‬
‫میاں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی سیاست میں عملی‬
‫شرکت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے سے‬
‫‪ 1926‬سے ‪ 1935‬تک کا دور ہندوستان کا بہت اہم دور ہے۔‬
‫عالمہ اقبال اس دور سے قبل ل فکری اور نظریاتی سطح پر پر‬
‫سیاست سے گہری وابستگی رکھتے تھے‪  ‬لیکن عملی سیاست‬
‫میں نہیں اترے تھے کیونکہ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی عملی‬
‫سیاست کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے ان کے درج ذیل اشعار اس حوالے کے طور پر درج‬
‫کیے ہیں‪:‬‬
‫ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز‬
‫‪ ‬حصول جاہ ہے وابستئہ مذاق تالش!‬
‫ہزار شکر‪ ،‬طبیعت ہے ریزہ کار مری‬
‫ہزار شکر‪ ،‬نہیں ہے دماغ فتنہ تراش‬
‫مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز‪ ‬‬
‫جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش‬
‫یہ عقد ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں‬
‫کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬نے عالمہ اقبال کی سیاست کے پس منظر‬
‫کو ہندوؤں کی پست ذہنیت‪  ‬اور ہندومسلم فسادات کے تناظر‬
‫میں پیش کیا ہے۔ عالمہ اقبال ابتدا میں ہندو مسلم اتحاد کے‬
‫پرجوش حامی اور مبلغ تھے لیکن جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ‬
‫مسلمان اور ہندو آزادی کے حصول میں اکٹھے نہیں چل سکتے۔‬
‫عملی سیاست میں آنے سے قبل انھوں نے خالفت‪  ‬کانفرنس‬
‫میں شمولیت اختیار کی لیکن جلد ہی اسے ترک کر دیا۔ اس کے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪83‬‬

‫بعد ہندو مسلم فسادات کو روکنے کے لیے جو کوششیں ہوتیں‬


‫وہ ان میں شامل ہوتے ہیں لیکن جلد ہی انھیں معلوم ہوجاتا کہ یہ‬
‫کاروائیاں اپنے اصل مقصد سے دورہیں۔ عالمہ اقبال کو ‪1923‬‬
‫میں صوبائی انتخابات نعت میں حصہ لینے کے لیے کہا گیا اور ان‬
‫کے احباب نے بہت زور اصرار بھی کیا لیکن وہ اس مقابلے میں‬
‫کھڑے نہ ہوئے کیونکہ اسی حلقے سے ان کی دوستیاں‬
‫عبدالعزیز چیز بھی بھی بطور امیدوار سامنے آچکے تھے۔ ایک یہ‬
‫وجہ بھی تھی اور وہ اس میں شامل نہ ہوئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫ہندو مسلم فسادات کی خلیج اور عالمہ اقبال کےمشاغل اور‬
‫سیاسی پس منظر کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"‪1926‬ء تک ہندو مسلم تعلقات میں ایک بہت وسیع خلیج حائل‬
‫ہو چکی تھی۔ترک مواالت کی تحریک کے خاتمے پر کانگریس اور‬
‫خالفت کانفرنس دونوں سیاسی تنظیموں کی اہمیت کم ہو گئی‬
‫تھی۔ سیاسیات کا میدان اب ہندو مہا سبھا یا سواراج پارٹی کے‬
‫ہاتھوں میں تھا جو مسلمانوں کی کسی بھی مطالبے پر غور‬
‫کرنے کو تیار نہ تھیں۔ مسلم لیگ‪  ‬تنظیم نو ن کے مراحل سے‬
‫گزر کر ان مطالبات کو بار بار دھراتی‪ ،‬مگر فرقہ وارانہ تعصب‬
‫اور فسادات کے ماحول میں کسی قسم کی ہندو مسلم کا‬
‫امکان نہ تھا۔"زندہ رود ص ‪320،321‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال مزید لکھتے ہیں‪ :‬‬
‫"‪1926‬ءکے ابتدائی مہینوں میں اقبال معمول کے مطابق وکالت‬
‫کے شغل میں مصروف رہے۔ مجھے اب موٹر کار میں عدالت‬
‫عالیہ جایا کرتے تھے‪ ،‬جسے فیروز نامی ایک شوفر چالتا تھا۔‬
‫انہی ایام میں وہ زبورِ عجم لکھ رہے تھے اور مختلف‬
‫یونیورسٹیوں جو کے امتحانات کے لیے بچے بھی بناتے یا دیکھتے‬
‫تھے۔ احباب کی محفلیں بھی جمتیں جن میں عالمی‪ ،‬ملکی یا‬
‫صوبائی سیاسیات پرگفتگو ہوتی یا علمی ‪ ،‬ادبی اور فلسفیانہ‬
‫موضوعات زیر بحث آتے۔" زندہ رود صفحہ ‪321‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول عالمہ اقبال نے کبوتر بازی کا مشغلہ‬
‫ختم کردیا کہ کہیں جاوید بڑا ہونے پر اس میں مگن نہ ہوجائے۔ ء‬
‫‪ 1926‬کے انتخابات کا اعالن ہوا تو میاں عبدالعزیز بیرسٹر نے‬
‫انھیں یقین دالیا کہ وہ اقبال کے مقابلے میں کھڑے نہ ہوں گے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪84‬‬

‫بلکہ ان کی مدد کریں گے‪ ،‬تب عالمہ اقبال انتخابات میں حصہ‬
‫لینے کے لیے تیار ہوگئے۔ عالمہ اقبال کے مدمقابل ملک محمد‬
‫دین کھڑے ہوئے۔ اس عہد میں الہور اور اس کے مضافات میں‬
‫موجود گاؤں میں برادری کے نام پر ووٹ لیا جارہا تھا۔ مسلم‬
‫اخبارات نے یہ کوشش کی کہ عالمہ اقبال جیسی شخصیت کو‬
‫بالمقابلہ کونسل کا رکن حکم منتخب کروایا جائے لیکن ملک‬
‫محمد دین ڈٹے رہے اور شہر کی برادیوں میں اشتہارات شائع‬
‫کروائے۔ ان اشتہارات میں عالمہ اقبال پر مختلف نوعیت کے‬
‫الزامات لگائے گئے۔‬
‫‪1‬۔عالمہ اقبال وہابی العقیدہ ہیں‬
‫‪2‬۔ان کا تعلق صوفیا کی مخالفت کرنے والے گروہ سے ہے۔‬
‫‪3‬۔ابن سعود کے حامی ہیں۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق کے مطابق عالمہ اقبال نے ان‬
‫اشتہارات کا بالکل جواب نہیں دیا۔سارا شہر ان کے حمایتیوں‬
‫سے بھرا پڑا تھا اور الہور کی تمام معروف شخصیات نے ان کا‬
‫ساتھ دیا۔ اس سلسلے میں محمد حنیف شاہد کی کتاب "اقبال‬
‫اور پنجاب کونسل"‪  ‬میں ان تمام شخصیات اور ان کے واقعات‬
‫درج ہیں۔ الہور میں عالمہ اقبال کی حمایت میں تقریبا بیس‬
‫جلسے منعقد ہوئے جن میں سے باغ میں عالمہ اقبال نے خود‬
‫بھی خطاب کیا۔ عالمہ اقبال کو اس الیکشن کی مہم میں بہت‬
‫معمولی رقم اپنی جیب سے خرچ کرنی پڑی۔ ‪ 23‬اور ‪ 24‬نومبر‬
‫‪ 1926‬کو الہور میں الیکشن ہوا‪ ،‬جس میں عالمہ اقبال بھاری‬
‫اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ یہ پورا سال الیکشن کے ہنگاموں‬
‫میں‪  ‬میں گزر گیا۔وہ ‪1930‬تک پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن‬
‫رہے اور اس مختصر دورمیں انھوں نے مسلمانوں کی بہتری کے‬
‫لئے بہت کام کیا۔ ‪ 3‬جنوری ‪1927‬ءکو پنجاب قانون ساز کونسل‬
‫کا اجالس ہوا جس میں عالمہ اقبال نے حلف اٹھایا۔ڈاکٹراقبال‬
‫اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"جنوری ‪ 1927‬ہی میں اقبال پنجاب کونسل کی فائنانس کمیٹی‬
‫اور ایجوکیشن کمیٹی کے رکن مقرر کیے گئے۔ ‪ 13‬فروری‬
‫‪ 1927‬کو انھوں نے کونسل کے آئندہ اجالس میں دو قراردادیں‬
‫پیش کرنے کا نوٹس دیا۔اول یہ کہ تعلیم یافتہ طبقے میں بےکاری‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪85‬‬

‫اور بے روزگاری کے پیش نظر حکومت بیکار تعلیم یافتہ‬


‫اشخاص کو قطعات اراضی عطاکرےتاکہ وہ اس میں زراعت‬
‫کرسکیں۔دوم یہ کہ چونکہ حکومت ہند نے پنجاب کا ساالنہ‬
‫زرتعاون معاف کر دیا ہے اس لیے ٹیکسوں میں تخفیف کرنے‬
‫کے لئے ایک مجلس تحقیقات مقرر کر دی جائے تاکہ تخفیف‬
‫سبب حصول گزاروں پر مساوی طور پر تقسیم ہوسکے۔" زندہ‬
‫رود صفحہ ‪374‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے سیاست کے حوالے سے‬
‫عملی رویوں کو نمایاں کیا ہے۔ دور عالمہ اقبال نے بڑی‬
‫سرگرمی کے ساتھ گزارا لیکن ہمیشہ کے لئے وہ سیاست سے‬
‫وابستہ نہیں ہوئے اور نہ ہی سیاسی زندگی کو منتہائے مقصود‬
‫بنانے کی کوشش کی۔ ‪1926‬کے بعد ہندوستان میں سیاسی‬
‫حوالوں سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ ان واقعات میں میں‬
‫عبدالرشید کے ہاتھوں سوامی شردہانندکا قتل ‪ ،‬شدھی‬
‫اورسنگھٹن کی تحریکوں کے جواب میں مسلمانوں کی تبلیغ ‪،‬‬
‫جداگانہ اور مخلوط انتخابات کا جھگڑا‪،‬سندھ کو بمبئی سے الگ‬
‫کرنا‪ ،‬صوبہسرحد اور بلوچستان میں دستوری اصالحات کا نفاذ ‪،‬‬
‫پنجاب اور بنگال کی کونسلوں میں مسلم اکثریت کی بحالی ‪،‬‬
‫کشمیر کی آزادی‪ ،‬سائمن کمیشن کی آمد‪ ،‬نہرو رپورٹ‪،‬مسلم‬
‫لیگ کے دو گروہ‪،‬غرض جاوید اقبال نے ان تمام سیاسی واقعات‬
‫ان کے اثرات کا کا تجزیہ یہ کیا ہے اور انہیں عالمہ اقبال کی ذات‬
‫کے حوالے سے بیان کیا ہے۔ عالمہ اقبال اگر حکومتی سطح پر‬
‫پر تنقید عید کے رویے کو زیادہ نہ اپناتے تو یقین سیاست میں‬
‫بہت آگے نکل سکتے تھے تھے لیکن انہوں نے دیانتداری کے‬
‫ساتھ ساتھ اس دور کے مسائل کو کو نظر میں رکھا اور جہاں‬
‫جہاں موقع مال اس کے لیے آواز اٹھاتے رہے رہی۔‬
‫ڈاکٹرجاویداقبال کونسل میں عالمہ اقبال کی کارکردگی اور‬
‫سیاسی بالیدگی کا جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫پنجاب کونسل میں ان کی شخصیت کا ایک نیا پہلو ظاہر ہوا‪،‬اور‬
‫وہ یہ کہ وہ ایک منجھے ہوئے پارلیمانی مقرر تھے‪ ،‬جس مسئلے‬
‫پر بھی زبان کھولتے‪ ،‬پوری تیاری کرکے اظہارخیال کرتے۔ان کی‬
‫تقریریں‪  ‬عموما گہری تحقیق‪ ،‬اعداد و شمار اور حقائق پر مبنی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪86‬‬

‫ہوتیں۔ بسا اوقات تقریروں کے دوران میں اشعار بھی استعمال‬


‫کرتے اور ان کا فطری طنز و مزاح کا پہلو بھی نمایاں ہوتا۔اس‬
‫کے عالوہ چونکہ بنیادی طور پر وہ فلسفی تھے اس لیے دیگر‬
‫ارکان سے بہت آگے سوچتے تھے۔یونینسٹ پارٹی سے وابستہ‬
‫ہوگئے‪ ،‬مگر جلد ہی اس کے موقف سے بددل ہو گئے۔ سر فضل‬
‫حسین سے ہر مرحلے پر اختالف کیا اور اگر ایک آزاد رکن کی‬
‫حیثیت اختیار کی تو اس آزادی کی قیمت بھی ادا کرنے سے‬
‫گریز نہ کیا۔ یہ درست ہے کہ کونسل میں ان کی تقاریرنقار خانے‬
‫میں طوطی کی آواز ہی رہیں‪ ،‬لیکن ان کی بعض‪  ‬تجاویز بڑی‬
‫دور رس تھیں۔ مثال لگان کی وصولی اور انکم ٹیکس کی چھوٹ‬
‫کے اصول پر جس سے چھوٹے مزارعین کو فائدہ پہنچ سکتا تھا‬
‫اموات پر ٹیکس کی وصولی اور انکم ٹیکس کی صوبوں کو‬
‫سپردگی۔" زندہ رود صفحہ ‪400‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال‪  ‬نے اس باب میں برصغیر کی سیاست‬
‫خصوصا علیحدہ ملک کے مطالبے کی طرف اقبال کے بڑھتے‬
‫ہوئے‪  ‬ذہنی ارتقاء کو بیان کیا ہے۔ اس دور میں انھیں کچھ سفر‬
‫بھی اختیار کرنے پڑے۔ ان کی پوری تفصیالت جاوید اقبال نے‬
‫لکھی ہے اور ایک پورا باب جنوبی ہند سے متعلق ہے۔‬
‫زندہ رود کے سولھویں باب کا عنوان "دورہ جنوبی ہند" ہے۔ عالمہ‬
‫اقبال کا یہ سفر علمی نوعیت کا سفر تھا۔ اس حصے میں ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے اس سفر اور اس پیش کیے‬
‫جانے والے خطبات کا جائزہ لیا ہے۔ جنوبی ہند کے سفر کے فورا‬
‫بعد انہیں علیگڑھ بالیا گیا علیگڑھ میں انہوں نے جو خطبات‬
‫دیئے اقبال نے اس میں بھی اظہار خیال کیا ہے۔ یہ خطبات بعد‬
‫میں میں شاعر بھی ہوئے اور عالمہ اقبال کے ذہنی ارتقاء میں‬
‫ان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان خطبات میں انہوں نے نے‬
‫اسالمی تمدن اور اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا۔ جاوید اقبال‬
‫اس سفر کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫'اقبال کا سفر جنوبی ہند ایک خالصتا ً علمی سفر تھا‪ ،‬لیکن‬
‫حیات اقبال میں اس کی اہمیت سے انکار کرنا اس لیے ممکن‬
‫نہیں کہ اس سفر کے دوران میں انہوں نے اپنے "خطبات" کے‬
‫ذریعے اسالمی جدید کی روشنی‪  ‬میں پیش کرکے عہد حاضر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪87‬‬

‫کے مسلمانوں کو ترغیب دی کہ مستقبل میں ایک نیا اسالمی‬


‫معاشرہ وجود میں النے کی کوشش کریں۔۔۔اقبال کے عقیدے کے‬
‫مطابق اسالم کا تصور حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے۔ لہذا وہ‬
‫ابتداء ہی سے اجتہاد کے مسئلے میں گہری دلچسپی رکھتے‬
‫تھے۔" زندہ رود صفحہ ‪311‬‬
‫اس سفر کی دعوت عالمہ اقبال کو سیٹھ جمال محمد نے‪  ‬دی‬
‫جو مدراس کے بہت بڑے تاجر تھے اور ان کی نگاہ سے عالمہ‬
‫اقبال کے مقالے "اسالم میں اتحاد" کی تفصیل گزر چکی تھی۔‬
‫اس مقالے پر قدامت پسند علماء نے اعتراضات کیے تھے اور‬
‫انہی ایام میں ابو محمد دیدار علی نے ان کے خالف کفر کا‬
‫فتویٰ بھی صادر کیا تھا۔ سیٹھ جمال محم اس عہد‪  ‬کے جنوبی‬
‫ہند کے بڑے تاجر تھے اور انہوں نے ایک مسلم ایسوسی ایشن‬
‫بھی قائم کر رکھی تھی جس میں معروف علمی شخصیات کو‬
‫کو دعوت دیا کرتے تھے عالمہ اقبال سے قبل سید سلیمان ندوی‬
‫اس انجمن کی دعوت پر خطبات دے چکے تھے۔ عالمہ اقبال نئی‬
‫نسل کے متعلق بہت فکرمند تھے اور وہ محسوس کرتے تھے کہ‬
‫کہیں نئی نسل فکری طور پر یورپ کے نظریات کو قبول نہ‬
‫کرلے اور اس راہ سے بھٹک نہ جائے۔عالمہ اقبال‪  ‬نے اس سفر‬
‫کی دعوت دو وجوہات کی بناء پر قبول کی‪ .‬ایک تو گو سلطان‬
‫ٹیپو شہید کی تربت کی زیارت کرنا چاہتے تھے اور دوسرا تمدن‬
‫اسالم کے بعض نہایت اہم مسائل پر عصری تقاضوں کی‬
‫روشنی میں اپنے نظریات بیان کرنا چاہتے تھے تاکہ انہیں نہیں‬
‫کتاب کی شکل میں میں شائع کروا کے اس نسل کے سامنے‬
‫پیش کیا جاسکے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں عالمہ اقبال فقہ اسالمی کی‬
‫تشکیل نو کے مسئلے کو سمجھنا چاہتے تھے تھے اور اور چاہتے‬
‫ِ‬
‫تھے کہ وہ بریلوی انسان کے سامنے آئے دوسرا مسئلہ جس پر‬
‫وہ اظہار خیال کرنا چاہتے تھے مسلمان ریاستوں کے طرز‬
‫حکومت اور اور یورپ کی وطنیت قومیت کے تحت بننے والی‬
‫مسلمان ریاستوں کے اتحاد سے متعلق‪  ‬تھا۔۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫کے مطابق وہ ان موضوعات پر مختلف علماء سے رائے لیتے‬
‫رہے اور خصوصی طور پر سید سلیمان ندوی کے ساتھ ان کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪88‬‬

‫مراسلت جاری رہی۔ عالمہ اقبال کی مختلف علماء سے اس‬


‫عرصے میں جو خط و کتابت ہوئی اور جو سواالت انہوں نے‬
‫کیے‪ ،‬ان کا خالصہ ڈاکٹر جاوید اقبال نے بیان کیا ہے ۔ وہ سواالت‬
‫درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫"قرآن کتاب کامل ہے اور وہ خود اپنے کمال کا مدعی ہے۔ اس کا‬
‫کمال عملی طور پر ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ معامالت‬
‫کے اصول پر‪ ،‬جو دیگر اقوام میں اس وقت مروج ہیں‪ ،‬قرآنی‬
‫نقطہ نظر سے تنقید کی جائے۔اس کے لیے کیا ذرائع اختیار کیے‬
‫جائیں؛‬
‫کیا اجماع امت‪ ،‬نص قرآنی کو منسوخ کرسکتاہے؟ مثال مدت‬
‫شیرخوارگی جو نص صریح کی رو سے دو سال ہے کم یا زیادہ‬
‫ہو سکتی ہے‪ ،‬یا حصص میراث میں کمی بیشی کر سکتا ہے؟‬
‫بعض حنفا اور معتزلہ کے نزدیک اجماع امت یہ اختیار رکھتا ہے۔‬
‫کیا مسلمانوں کے فقہی لٹریچر میں کوئی ایسا حوالہ موجود‬
‫ہے؟ آپ نے ارشاد کیا ہے کہ فقہاء نے اجماع سے نص کی‬
‫تخصیص جائز سمجھی ہے۔ ایسی تخصیص یا تعمیم کی کوئی‬
‫مثال؛ کیا ایسی‪  ‬تخصیص یا تعمیم صرف اجماع صحابہ ہی‬
‫کرسکتا ہے یا علماء وومجتہدین امت بھی کر سکتے ہیں؟‬
‫مسلمانوں کی تاریخ میں صحابہ کے بعد کوئی ایسی مثال ہو تو‬
‫آگاہ کیجئے۔ تقسیس یا تعمیم حکم سے کیا مراد ہے؟ اگر صحابہ‬
‫کا کوئی حکم نص کے خالف ہو تو اس سے یہ مراد لی جائے‬
‫گی کہ کوئی ناسخ حکم ان کے علم ہوگا۔ کیا کوئی حکم ایسا‬
‫بھی ہے جو صحابہ نے نص قرآن کے خالف نافذ کیا ہو؟‬
‫حضور سرورکائنات نے کسی دریافت کرتا مسئلے کا جو جواب‬
‫وحی کی بنا پر دیا وہ تمام امت پر حجت ہے اور وہ وحی قرآن‬
‫مجید میں داخل ہوگی ‪،‬لیکن جو جواب محض استدالل‪  ‬پر دیا‬
‫گیا‪ ،‬جس میں وحی کو دخل نہیں‪ ،‬کیا وہ بھی تمام امت پر حجت‬
‫ہے؟ اگر جواب اثبات میں ہو تو اس سے یہ الزم آئے گا کہ حضور‬
‫کے تمام استدالالت بھی وحی میں داخل ہیں یا بالفاظ دیگر یہ‬
‫کہ قرآن و حدیث میں کوئی فرق نہیں؟‬
‫نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو حیثیتیں ہیں ‪،‬نبوت اور‬
‫امامت‪ ،‬نبوت نے احکام قرآنی اور آیات قرآنی سے حضور صلی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪89‬‬

‫اللہ علیہ وسلم کے استنباط داخل ہیں۔ اجتہاد کی بناء محض‬


‫عقل بشری اور تجربہ و مشاہدہ ہے‪ ،‬کیا یہ بھی وہی میں داخل‬
‫ہے اگر وحی میں داخل ہے؟تو اس پر آپ کی دلیل کیا ہے؟ وحی‬
‫غیر متلو کی تعریف نفسیاتی اعتبار سے کیا ہے؟ کیا وحی متلو‬
‫اور غیر متلو کے امتیاز کا پتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫کے عہد مبارک میں چلتا ہے یا یہ اصطالحات بعد میں وضاحت‬
‫کی گئیں؟‬
‫آیہ توریث میں حصص بھی ازلی ابدی ہیں یا قاعدہ توریث میں‬
‫جو اصول مضمر ہے‪ ،‬صرف وہی ناقابل تبدیل ہے اور حصص‬
‫میں حاالت کے مطابق تبدیلی ہو سکتی ہے؟‬
‫آیه وصیت کی وضاحت کیجئے۔‬
‫کیا امام کو اختیار ہیں کہ قرآن کی کسی مقرر کردہ حد ( مثال‬
‫سرقہ کی حد) کو ملتوی کر دے اور اس کی جگہ کوئی اور حد‬
‫مقدر کردے؟اس اختیار کی بنا کون سی آیت قرآنی ہے؟‬
‫امام ایک شخص واحد ہیں یا جماعت بھی امام کی قائم مقام ہو‬
‫سکتی ہے؟ہر اسالمی ملک کے لئے اپنا امام ہو یا تمام اسالمی‬
‫دنیا کے لیے ایک امام ہونا چاہیے؟موخر الذکر صورت موجودہ‬
‫فرق اسالمیہ کی موجودگی میں کیسے بروئے کار آسکتی ہے؟‬
‫حضرت عمر نے طالق کے متعلق جو طریقہ اختیار کیا اگر اس‬
‫کا اختیار انہیں شرعا حاصل تھا تو اس میں اختیار کی اساس کیا‬
‫تھی؟ زمانہ حال کی زبان میں آیا اسالمی کانسٹی ٹیوشن ان کو‬
‫ایسا اختیار دیتی تھی؟‬
‫فقہاء کے نزدیک خاوند کو جو حق اپنی بیوی کو طالق دینے کا‬
‫ہے‪ ،‬وہ بیوی کو یا اس کے کسی خویش یا کسی اور آدمی کے‬
‫حوالے کیا جا سکتا ہے‪ ،‬اس مسئلے کی بنا کوئی آیت قرآنی ہے‬
‫یا حدیث؟‬
‫امام ابوحنیفہ کے نزدیک طالق یا خاوند کی موت کے دو سال‬
‫بعد بھی اگر بچہ پیدا ہو تو قیاس اس بچے کے ولد الحرام ہونے‬
‫پر نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلہ کی اساس کیا ہے؟ کیا یہ اصول‬
‫محض ایک قاعدہ شہادت ہے یا جزو قانون ہے؟‬
‫"شمس بازغہ"یا "صدرا"میں جہاں زمان کی حقیقت کے متعلق‬
‫بہت سے اقوال نقل کیے گئے ہیں ان میں ایک قول یہ ہے کہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪90‬‬

‫زمان خدا ہے۔ "بخاری"میں ایک حدیث بھی اس مضمون کی ہے۔‬


‫التسبو الدھر الخ‪ ،‬کیا حکمائے اسالم میں سے کسی نے یہ مذہب‬
‫اختیار کیا ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ بحث کہاں ملے گی؟‬
‫قرون وسطی کے ایک یہودی حکیم موسی بن میمون نے لکھا‬
‫ہے کہ خدا کے لئے کوئی مستقبل نہیں ہے بلکہ وہ زمان کو لحظہ‬
‫بہ لحظہ پیدا کرتا ہے‪ ،‬میمون نے قرطبہ میں مسلم یونیورسٹیوں‬
‫میں تعلیم پائی‪ ،‬اس لیے کیا اس کا یہ مذہب بھی کسی مسلم‬
‫حکیم کی خوشہ چینی ہے؟‬
‫موالنا شبلی نے ایک فقرہ شعائر دارتفاقات کے متعلق نقل کیا‬
‫ہے‪:‬وہ شعائر الدین امر ظاھر تخصیص به و ہمراز صابه به فی‬
‫زائد االعیان کالختان و تعظیم المساجد و االذہان و الجمعۃ و‬
‫الجماعات۔ کیا یہ شاہ ولی اللہ کی اپنی تشریح ہے؟ اس‬
‫ارتفاقات میں شاہ ولی اللہ کی تشریح کے مطابق تمام تدابیر‬
‫جو سوشل اعتبار سے نافع‪  ‬ہوں‪ ،‬داخل ہیں‪ ،‬مثال ً نکاح و طالق‬
‫کے احکام وغیرہ۔ اگر شاہ ولی اللہ کی یہ تشریح صحیح ہے تو‬
‫سوسائٹی کا کوئی انتظام نہ رہے گا اور ہر ایک ملک کے‬
‫مسلمان اپنے اپنے دستور مراسم کی پابندی کریں گے؟اس کی‬
‫وضاحت کیجیے۔‬
‫"الکالم" یعنی (علم کالم جدید) میں موالنا شبلی نے "حجۃ اللہ‬
‫البالغہ" کے صفحہ ‪ 123‬کا ایک فقرہ عربی میں نقل کیا ہے‪،‬‬
‫جس کے مفہوم کا خالصہ انھوں نے اپنے الفاظ میں بھی دیا ہے۔‬
‫اس کے آخری حصے کاترجمہ یہ ہے‪:‬‬
‫اس بنا پر اس سے بہتر اور آسان طریقہ کوئی نہیں کہ شعار‬
‫تعزیرات اور انتظامات‪  ‬میں خاص اس قوم کے عادات کا لحاظ‬
‫کیا جائے‪ ،‬جن میں یہ امام پیدا ہوا ہے۔ اس آنے والی نسلوں پر‬
‫ان کے متعلق چنداں سخت گیری نہ کی جائے۔اس فقرے میں‬
‫لفظ شعار سے کیا مراد ہے‪ ،‬اور اس کے تحت کون کون سے‬
‫مراسم یا دستور آتے ہیں؟ کیا "حجۃ اللہ بالغہ" میں کسی جگہ‬
‫شعائر کی تشریح شاہ ولی اللہ نے کی ہے؟ شاہ ولی اللہ نے‬
‫لفظ ارتفاقات استعمال کیا ہے؟ موالنا شبلی نعمانی نے ایک‬
‫جگہ اسکا ترجمہ انتظامات اور دوسری جگہ مسلمات کیا ہے۔ان‬
‫کا اصل مقصود کیا ہے؟‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪91‬‬

‫شاہ ولی اللہ نے اتفاقات کی چار قسمیں لکھی ہے ہے ان چار‬


‫قسموں میں تمدنی امور مثال نکاح‪  ‬طالق وغیرہ کے مسائل بھی‬
‫آجاتے ہیں۔ کیا ان کے خیال ان معامالت میں بھی سخت گیری‬
‫نہیں کی جاتی۔محی الدین ابن عربی کی فتوحات یا کسی اور‬
‫کتاب میں حقیقت زمان کی بحث کس کس جگہ ہے؟‬
‫صوفیہ میں اگر کسی اور بزرگ نے اس مضمون پر بحث کی ہو‬
‫تو اس کا حوالہ دیجئے متکلمین کے نقطہ خیال سے حقیقت‬
‫زمان یا آن سیال پربحث کون سی کتاب میں ملے گی؟‬
‫ہندوستان میں بڑے بڑے اشاعرہ کون کون سے ہیں؟ مال‬
‫جونپوری کو چھوڑ کر کیا اور فالسفہ بھی ہندی مسلمانوں میں‬
‫پیدا ہوئے؟ان کے اسماء اور تصانیف سے مطلع فرمائیے۔‬
‫ہندی مسلم فلسفی ساکن پھلواروی مصنف "تسویالت فلسفہ"‬
‫کا نام کیا ہے؟ کتاب مذکور کا نسخہ کہاں سے دستیاب ہوگا؟‬
‫مولوی‪  ‬نور االسالم کا عربی رسالہ بابت "مکان" جو رامپور میں‬
‫ہے‪ ،‬کس زبان میں ہے کل میں ہے یا مطبوعہ۔ مولوی نور اسالم‬
‫کا زمانہ کونسا ہے مسئلہ آن کے متعلق ابھی تک مشکالت باقی‬
‫ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فالسفہ پر جو اعتراض ہمارے‬
‫متکلمین نے کیے‪ ،‬وہ مسئلہ زمان کے متعلق خود ان کے افکار‬
‫پر بھی عائد ہوتے ہیں۔ مولوی سید برکات احمد نے دہر اور زمان‬
‫میں امتیاز کرکے کسی قدر مشکالت کو کم کرنے کی کوشش‬
‫کی۔ مگر مسئلہ نہایت مشکل ہے۔ اس پر مزید روشنی ڈالیے۔‬
‫اگر دہر ممتد م اور مستمر ہے اور حقیقت میں اللہ تعالی ہی‪  ‬تو‬
‫پھر مکان کیا چیز ہے؟‬
‫جس طرح زمان دہر کا ایک طرح سے عکس ہے اسی طرح‬
‫مکان بھی دہر ہی کا عکس ہونا چاہیے‪ ،‬یعنی زمان اور مکان‬
‫دونوں کی حقیقت اصلیہ دہرہی ہے۔ کیا یہ خیال محی الدین ابن‬
‫عربی کے خیال کے مطابق صحیح ہے؟ کیا انھوں نے مکان پر‬
‫بھی بحث کی ہے اور اگر کی ہے تو مکان اور دہر کا تعلق ان کے‬
‫نزدیک کیا ہے؟ میں نے زمان و مکان کے مسئلے کے متعلق‬
‫مطالعہ کیا ہے‪ ،‬جس سے ظاہر ہوا ہے کہ ہندوستان کے مسلم‬
‫فلسفیوں نے بڑے بڑے مسائل پر غور و فکر کیا ہے اور اس‬
‫غوروفکر کی تاریخ لکھی جاسکتی ہے۔یہ کام آپ کو کرنا چاہیے۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪92‬‬

‫آپ نے لکھا ہے کہ اسالمی ریاست کے امیر کو اختیار ہے جب‬


‫اسے معلوم ہو کہ بعض شرعی اجازت تو میں حساب کا امکان‬
‫ہے تو ان اجازتوں کو عارضی طور پر منسوخ کر دے‪ ،‬بلکہ بعض‬
‫فرائض کو بھی یوں ہی منسوخ کرسکتا ہے۔اس کا حوالہ کہاں‬
‫ملے گا؟‬
‫کیا یہ صحیح ہے کہ متعہ (نکاح مؤقت) حضرت عمر سے پہلے‬
‫مسلمانوں میں مروج تھا اور حضرت عمر نے اسے منسوخ کر‬
‫دیا؟کیا زمانہ حال کا کوئی امیر بھی کسی امر کی نسبت ایسا‬
‫فیصلہ کرنے کا مجاز ہے؟‬
‫ان معامالت کی ایک فہرست دیجئے جن کے متعلق رائے قائم‬
‫کرنا امام کے سپرد ہے۔ جرائم میں ایسے جرم‪  ‬ہیں جن کی‬
‫تعزیر قرآن شریف میں مقرر ہے‪ ،‬ان کے متعلق امام کیونکر‬
‫کوئی رائے دے سکتا ہے۔ تواتر عمل کی ایک مثال آپ کے نزدیک‬
‫نماز ہے۔ مالکیوں‪ ،‬حنفیوں اور شیعوں میں جو اختالف صورت‬
‫نماز میں ہے‪ ،‬وہ کیوں کر ہوا؟‬
‫احکام منصوصہ میں توسیع اختیارات امام کے اصول کیا ہیں؟‬
‫اگر امام توسیع کر سکتا ہے تو ان کے عمل کو محدود بھی‬
‫کرسکتا ہے۔ اس کی کوئی تاریخی مثال ہو تو واضح کیجئے؟‬
‫زمین کا مالک قرآن کے نزدیک کون ہے؟ اسالمی فقہ کا مذہب‬
‫اس بارے میں کیا ہے؟ "قاضی مبارک" میں شاید اس کے متعلق‬
‫کوئی فتوی ہے‪ ،‬وہ فتوی کیا ہے؟‬
‫اگر کوئی اسالمی ملک (روس کی طرح) زمین کو حکومت کی‬
‫ملکیت قرار دے تو کیا یہ بات شرع اسالمی کے موافق ہوگی یا‬
‫مخالف؟ کیا یہ بات بھی امام کی رائے کے سپرد ہوگی؟‬
‫صدقات کی کتنی قسمیں اسالم میں ہیں‪ ،‬صدقہ اور خیرات میں‬
‫کیا فرق ہے؟ لفظ نبی کے دو معنی ہیں‪ ،‬خبر دینے واال اور مقام‬
‫بلند پر کھڑا ہونے واال۔ اول الذکر نبی ہمزے کے ساتھ اور دوسرا‬
‫بغیرہ ہمزے کے۔ اس ضمن میں راغب اصفہانی نے "مفردات"‬
‫میں ایک حدیث بھی نقل کی ہے‪ ,‬یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا کہ میں نبی بغیر ہمزہ کے ہوں قرآن شریف میں‬
‫جن انبیاء کا ذکر ہے ان میں سے کون سے نبی بالہمزہ ہیں اور‬
‫قوم سے بغیر ہمزہ۔ یا سب کے سب بغیر ہمزے کے ہیں؟ اگر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪93‬‬

‫قرآنی انبیاء یا خضضور نبی بغیر ہمزہ ہیں تو لفظ نبی کا مروجہ‬
‫انگریزی ترجمہ "پرافٹ" جس کے معنی خبر دینے واال کے ہیں‪،‬‬
‫کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟‬
‫لفظ نار کا روٹ عربی زبان میں کیا ہے؟‬
‫لفظ نجات کا روپ کیا ہے اور روٹ کی روح سے کیا معنی ہیں؟‬
‫زندہ رود صفحہ ‪218 215‬‬
‫اس اقتباس سے‪  ‬سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عالمہ اقبال کن‬
‫سواالت کے جوابات‪  ‬رات کی تالش میں تھے۔انہوں نے تقریبا‬
‫پانچ سال کے کے عرصے میں میں ان جوابات کو تالش کیا اور‬
‫خطبات لکھے۔عالمہ اقبال‪  ‬نے جنوبی ہندوستان کے اس دورے‬
‫میں میں تین خطبات پیش کیے۔ عالمہ اقبال کا یہ سفر جنوری‬
‫کے اوائل میں ہوا تھا۔ یہاں انہوں نے تین خطبے دیے ان کی‬
‫تفصیل درج ذیل ہے‪:‬‬
‫‪1‬۔ دینیات اسالمیہ اور افکار حاضرہ‬
‫‪2‬۔ مذہبی تجربات کے کشف و الہامات کا فلسفیانہ امتحان‬
‫‪3‬۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ روپ میں عالمہ اقبال کے اس سفر‬
‫کی پوری تفصیل فراہم کی ہے۔ خطبات پیش کرنے کے بعد‬
‫عالمہ اقبال ٹیپو سلطان ان کے کے مزار کی زیارت کے لئے‬
‫گئے۔ اسباب کا یہ حصہ عالمہ اقبال کی ٹیپو سے محبت کو ظاہر‬
‫کرتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس حصے کو پوری تفصیل کے‬
‫ساتھ بیان کیا ہے بلکہ انہوں نے خطبات کی تحریر و ترتیب اور‬
‫ان کے پڑھنے کے تمام مراحل کو بھی بھی بیان کیا ہے ہے یہی‬
‫وجہ ہے کہ جامعیت صحت کے لحاظ سے یہ باپ زندہ رود کے‬
‫اہم ترین سونے شامل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاویداقبال کے مطابق‬
‫عالمہ اقبال ‪ 19‬جنوری ‪  1929‬کو حیدرآباد سے الہور روانہ ہوئے‬
‫اور یہ علمی دورہ ختم ہوا۔ عالمہ اقبال کے خطبات کی‬
‫تشہیرپورے برصغیر میں ہوئی اور اب علی گڑھ یونیورسٹی کے‬
‫شعبہ فلسفہ نے عالمہ اقبال کو وہی مقاالت پڑھنے کے لئے‬
‫دعوت دی۔ ‪ 1929‬کے آخر میں میں علی گڑھ میں یہ خطبات‬
‫پڑھے گئے۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪94‬‬

‫"برصغیر کے مسلم علمی حلقوں میں اقبال کے خطبات‬


‫مدراس کی خاصی تشہیر ہوئی۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ‬
‫فلسفہ نے خواہش ظاہر کی کہ وہی مقاالت علی گڑھ میں بھی‬
‫پڑھے جائیں‪ ،‬لیکن چونکہ اقبال نے تین مزید مقاالت اسی سال‬
‫مکمل کر لیے تھے‪ ،‬اس لیے سر راس مسعود کی درخواست‬
‫پر‪ ،‬جو ان دنوں مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے‪ ،‬اقبال‬
‫نے چھے مقاالت علی گڑھ میں پڑھنے منظور فرمالیے۔" زندہ‬
‫رود صفحہ ‪433‬‬
‫یہ خطبات درج ذیل ہیں‬
‫‪1‬۔ علم اور مذہبی مشاہدات‬
‫‪2‬۔ مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‬
‫‪3‬۔ ذاتی الہیہ کا تصور اور حقیقت دعا‬
‫‪4‬۔ خودی‪ ،‬جبرواختیار‪ ،‬حیات بعد الموت‬
‫‪5‬۔ اسالمی ثقافت کی روح‬
‫‪6‬۔ االجتہاد فی االسالم‬
‫‪7‬۔ کیا مذہب کا امکان ہے؟‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق ان خطبات کا اردو ترجمہ سید‬
‫نذیر نیازی نے اقبال کی زندگی میں ہی کر دیا تھا۔اس کا نام‬
‫"تشکیل جدید الہیات اسالمیہ" عالمہ اقبال کا ہی تجویز کردہ ہے‬
‫اور یہ کتاب اقبال کی وفات کے بیس سال بعد ‪ 1958‬میں شائع‬
‫ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس کتاب کے حوالے سے بھی‬
‫تفصیالت اسباب کا حصہ بنا دی ہیں۔ یوں یہ باب اس جلد کا‬
‫مفصل ترین باب بن جاتا ہے۔‬
‫زندہ رود کے سترھویں باب کا عنوان "مسلم رسیاست کا‬
‫تصور" ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس بعد میں میں وہ تاریخی اور‬
‫سیاسی عوامل بیان کئے ہیں ہیں جو ایک مسلم ریاست کے‬
‫تصور کا باعث بنے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں برصغیر‬
‫میں الگ مسلم ریاست کا سب سے بڑا سبب ہندو مسلم‬
‫فسادات تھے۔ہندو مسلمانوں کے ساتھ‪  ‬بے پناہ عداوت رکھتے‬
‫تھے اور یہ عداوت آٹھویں صدی عیسوی میں ہیں ہیںاسالم کے‬
‫برصغیر میں آنے کے ساتھ شروع ہوگئی تھی۔ ہندوستان میں‬
‫چوں کہ مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ قابض ہوتے چلے گئے اور‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪95‬‬

‫حکومت ان کے ہاتھ میں تھی‪ ،‬اس لیے ہندو ان کی مخالفت‬


‫کھل کر نہیں کیا کرتے تھے۔ ‪ 1857‬کی جنگ آزادی مسلم‬
‫حکومت کے زوال‪  ‬کے بعد ان کی مخالفت کھل کر سامنے‬
‫آگئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں نے مسلمانوں کے لئے‬
‫ہندوستان میں رہنا مشکل سے مشکل تر بنا دیا اور تمام‬
‫مفاہمت کے باوجود وہ مسلمانوں کو زک پہنچانے کی کوششوں‬
‫میں لگے رہے لہذا ‪ 1930‬میں عالمہ اقبال نے خطبہ الہ آباد میں‬
‫مسلم ریاست کا تصور پیش کیا اور ‪ 17‬سال بعد ‪ 1947‬میں‬
‫پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال‬
‫کے اس خطبے کے حوالے سے تمام جزئیات کو موضوع بنایا ہے۔‬
‫عالمہ اقبال پر اس حوالے سے جو اعتراضات ہوئے انہوں نے ان‬
‫کا بھی شافی جواب دیا ہے۔ڈاکٹرجاویداقبال الہ آباد میں ہونے‬
‫والے اس جلسے کی کارروائی کچھ یوں بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫"نہایت خاموشی سے جلسے کی کار روائ شروع ہوئ تالوت‬
‫قرآن مجید کے بعد اقبال نے اپنا خطبہ پڑھنا شروع کیا۔خطبہ‬
‫انگریزی میں تھا اور غالب چند لوگ ہی اسے سمجھ سکے‪،‬‬
‫باقیوں کے پلے کچھ نہ پڑا۔ فرانسیسی مفکر البرٹ کامیو کا‬
‫قول ہے ہے کہ کہ عظیم خیاالت دنیا میں معصوم پرندوں کی‬
‫طرح چپ چاپ آتے ہیں لیکن اگر ہم اپنی توجہ سے سننے کی‬
‫کوشش کریں تو شاید قوموں اور سلطنتوں کے شوروغل میں‬
‫ہمیں ان کے پروں کی ہلکی سی پھڑپھڑاہٹ سنائی دے جائے۔‬
‫گویا زندگی میں معمولی ہلچل کے ساتھ انسانیت کا خاموش‬
‫پیغام دیا جا رہا ہے۔ اقبال نے اپنے خطبے میں جن امور کا ذکر‬
‫کیا ان پر زیادہ توجہ نہ دی گئی بھی خود بھی پیش کی حمایت‬
‫میں کوئی قرارداد منظور نہ ہوئی مقامی اخباروں نے بھی‬
‫خطبے کی تفصیل شائع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔‬
‫کسی کو بھی یہ احساس نہ ہوا کہ خطبے میں جو خیال پیش کیا‬
‫جارہا ہے‪ ،‬اس کے سبب ہزاروں انسان اپنی جانیں قربان کر دیں‬
‫گے‪ ،‬الکھوں‪  ‬لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوں گی اور کروڑوں‬
‫انسانوں کی آبادی پر مشتمل ایک نیا ملک معرض وجود میں‬
‫آجائے گا۔" زندہ رود ‪ 456‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪96‬‬

‫عالمہ اقبال نے ‪ 1930‬میں میں مغربی ہند میں مسلم ریاست‬


‫کا تصور پیش کیا۔ اس کی زیادہ تشیع بھی نہ ہوسکی اور فوری‬
‫طور پر کوئی‪  ‬کوئی ردعمل مسلمانوں کی طرف سے نہ دیا‬
‫گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال آل نے اس بات کی وضاحت زندہ رود کے‬
‫اس باب میں بہت خوبصورتی اور دلیل کے ساتھ دی ہے ۔اس‬
‫تصور میں صوبہ بنگال کا ذکر نہیں تھا۔اس حوالے سے ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال‪  ‬نے لکھا ہے۔‬
‫"خطبہ الہ آباد میں شمال مغربی ہند میں مسلم ریاست کا‬
‫تصور پیش کیا گیا‪ ،‬لیکن مسلم اکثریتی صوبہ بنگال کا ذکر‬
‫موجود نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجوزہ مسلم ریاست کا‬
‫تصور ایک نصب العین کے طور پر پیش کیا گیا تھا اور شمالی‬
‫مغربی ہند میں مسلم ریاست کے قیام کے سلسلے میں بھی‬
‫وہاں کی مسلم اکثریت کے بارے میں "کم از کم" کے الفاظ‬
‫استعمال کیے گئے تھے‪ ،‬جس سے ظاہر ہے کہ بنگال بھی اقبال‬
‫کے پیش نظر تھا‪ ،‬مگر اس کا واضح ذکر اس لیے نہ کیا گیا کہ‬
‫اگر شمال مغربی ہند میں مسلم اکثریت کی بنا پر مسلم‬
‫ریاست کے قیام کا اصول قابل قبول ہوتا ہے تو منطقی طور پر‬
‫اسی اصول کا اطالق مشرقی ہند پر بھی کیا جا سکتا تھا۔ جہاں‬
‫تک مسلم اقلیتی صوبوں کا تعلق ہے‪ ،‬ان کا خطبے میں ذکر کرنا‬
‫اس لیے غیر ضروری تھا کہ وہاں مسلمانوں کو ویٹیج یا پاسنگ‬
‫مدینے پرہندوؤں کو کوئی اعتراض نہ تھا‪ ،‬بلکہ شمال مغرب میں‬
‫مسلم ریاست کے قیام کے نتیجے میں قوت کے توازن کے سبب‬
‫ان کی پوزیشن زیادہ مضبوط ہوتی تھی۔۔۔ خطبے میں پیش کردہ‬
‫تجویز کی تائید میں کوئی قرارداد منظور نہ کیے جانے کا ایک‬
‫سبب تو یہ تھا کہ لیگ کے سرکردہ لیڈر محمد علی جناح سمیت‬
‫گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے تھے‪،‬‬
‫لیکن چند اور اہم وجوہ بھی تھیں۔ اس اس مرحلے پر ہندوؤں کے‬
‫ساتھ مفاہمت کے لیے مسلمانوں کی طرف سے محمد علی‬
‫جناح نے چودہ نکات پیش کر رکھے تھے اور گول میز کانفرنس‬
‫میں حکومت برطانیہ کے نمائندوں کے سامنے بھی یہی مطالبات‬
‫تھے۔ گویا ‪ 14‬نکاح کا بھی زیرغور تھے اور ان کے قبول بول یا‬
‫کلی طور پر رد کئے جانے کا حتمی فیصلہ ابھی ہونا تھا۔ اس‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪97‬‬

‫صورتحال میں اقبال کی پیش کردہ تجویز کی تائید میں کوئی‬


‫قرارداد منظور کرنا نامناسب یا قبل از وقت تھا۔ عالوہ ازیں‪  ‬اس‬
‫کے باوجود کہ اقبال‪ ،‬لیگ کے ساتھ عرصہ سے وابستہ تھے‪،‬‬
‫پنجاب پروانشل مسلم لیگ کے سیکرٹری رہ چکے تھے اور اب‬
‫مسلم لیگ کے منتخب صدر کے طور پر اجالس ہی صدارت‬
‫فرما رہے تھے۔ انہوں نے نے کتب کے ابتدائی حصے میں واضح‬
‫کیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے رہنما یا کسی سیاسی رہنما‬
‫کے پیرو کی حیثیت سے مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش‬
‫نہیں کر رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر اقبال کی پیش کرتا تجویز ایک‬
‫متبادل بلکہ ایک قدم آگے بڑھانے کی تجویز تھی‪ ،‬یعنی اگر چودہ‬
‫نکاح پر رد کر دیئے گئے یا ہندوستان کے اندر مسلم انڈیا قائم‬
‫کرنے کی تجویز منظور نہ ہوئی تو پھر یہ الئحہ عمل اختیار کرنا‬
‫پڑے گا۔" زندہ رود ‪457‬‬
‫ڈاکٹرجاوید اقبال نے تفصیل کے ساتھ‪  ‬ان اخبارات کا جائزہ پیش‬
‫کیا ہے جنہوں نے عالمہ اقبال پر مختلف اعتراضات کیے۔‪  ‬یہ‬
‫اعتراضات خطبہ الہ آباد کے بعد سامنے آئے۔ ہندو پریس عالمہ‬
‫اقبال کے خطبے پر تبصرہ کرتے ہوئے گالی گلوچ اور بہتان پر اتر‬
‫آیا اور عالمہ اقبال کی ہرزہ سرائی کرنے کی کوشش کی گئی۔‬
‫دیگر مسلم سیاسی رہنماؤں نے بھی‪  ‬بھی خطبہ الہ آباد کے حق‬
‫میں کوئی بات نہ کی بلکہ مصلحت کے تحت سب خاموش رہے‬
‫کیوں کہ وہ سب ہندومسلم سمجھوتے یا کسی اور نتیجے کے‬
‫منتظر تھے۔ ہندو پریس کی اس مہم کا جواب مسلم پر یس نے‬
‫دیا اورخطبہ الہ آباد کے حوالے سے انقالب اور دیگر اخبارات‪ ‬‬
‫میں اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کےلئے اداریے لکھے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے ان الزامات کا احاطہ کیا ہے جو عالمہ‬
‫اقبال پر لگائے گئے۔یہ الزامات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ انگریز حکام کی مدح میں یا فرمائش پر نظمیں لکھنا۔‬
‫‪2‬۔ خالفت یا ترک مواالت کی تحریکوں میں حصہ نہ لینا۔‬
‫‪3‬۔ سرکا خطاب قبول کرنا۔‬
‫‪4‬۔ پنجاب کونسل کی رکنیت کے ذریعے انگریز کے نظام‬
‫حکومت سے تعاون کرنا۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪98‬‬

‫‪5‬۔ کونسل کے اندر برطانوی استعمال کو مستحکم کرنے کی‬


‫خاطر انگریز عہدہ داروں کی تعداد میں اضافے کی خواہش کا‬
‫اظہار کرنا۔‬
‫‪6‬۔ سائمن کمیشن سے تعاون کرنا۔‬
‫‪7‬۔ سر محمد شفیع جیسے برطانیہ کے حاشیہ بردار کا ساتھ دینا۔‬
‫‪8‬۔ انگریز کے اشارے پر خطبہ الہ آباد میں مسلم ریاست کا‬
‫تصور پیش کرنا۔‬
‫‪9‬۔ دوسری اور تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کے لئے‬
‫انگریزی حکومت کا انہیں نامزد کرنا۔‬
‫‪10‬۔ انگریز کے اشارے پر ہندو مسلم مفاہمت میں رخنہ انداز‬
‫ہونا۔" زندہ رود صفحہ ‪462‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال پر خطبہ الہ آباد کے بعد لگنے‬
‫والے تمام الزامات کا کا دالئل اور سند کے ساتھ مفصل ثبوت‬
‫دیا ہے۔ انہوں نے یہ بتانے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ کیا‬
‫وجوہات ہیں جن کی بنا پر پر پنڈت نہرو اور ڈاکٹر راجندر پرشاد‬
‫وغیرہ نے کیا میں پاکستان کے لئے تحریک سے عالمہ اقبال کو‬
‫التعلق قراردیا ہے۔ جاوید اقبال نے ان تمام الزامات رات کے‬
‫جوابات عالمہ اقبال کی زندگی اور اس عہد میں ہونے والے‬
‫واقعات کے ساتھ پیش کئے ہیں اور ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ‬
‫مفصل گفتگو کی ہے۔ عالمہ اقبال کا کا ریاستی تصور ہندوؤں‬
‫سے کسی انعقاد کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ برصغیر کے سیاسی‬
‫حاالت اور مشاہدے کی بنیاد پر اس نتیجے پر پہنچے تھے۔‬
‫انگریزوں نے بھی اس پر اپنا ردعمل دیا اور اس وقت کے‬
‫برطانیہ کے وزیراعظم نے اس پر برہمی کا اظہار کیا۔ عالمہ‬
‫اقبال جب دوسری گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے تو‬
‫ایڈورڈ ٹامسن نے لندن ٹائمز میں میں ‪31‬ستمبر ‪1931‬میں پان‬
‫اسالمی سازش کے زیر عنوان ایک مراسلہ عالمہ اقبال کے پیش‬
‫کردہ خطبہ الہ آباد کے متعلق‪  ‬شائع کیا۔ عالمہ اقبال نے اس اس‬
‫کا جواب بارہ اکتوبر انیس سو اکتیس اِس میں ایک خط کے‬
‫ذریعے دیا ہے جو "لندن ٹائمز" میں "شمال مغربی مسلم‬
‫صوبے" کے نام سے شائع ہوا۔‪ ‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات ‪99‬‬

‫ڈاکٹر جاوید اقبال ایڈورڈ ٹامسن کونسل اور اس کی شر انگیزی‬


‫کا ذکر کرنے کے بعد بعد عالمہ اقبال اور چودھری رحمت علی‬
‫کی اسکیم کا جائزہ لیتے ہیں اور انہوں نے اس حوالے سے‬
‫چوہدری رحمت علی کی کتاب "پاکستان" جو انگریزی زبان میں‬
‫‪1947‬ء میں شائع ہوئی کو موضوع بنایا ہے۔ پاکستان میں اس‬
‫حوالے سے خاصی بحث پائی جاتی ہے اور ایک طبقہ اس بات پہ‬
‫مصرہے کہ پاکستان کا تصور عالمہ اقبال نے نہیں بلکہ چوہدری‬
‫رحمت علی نے پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس اس ذہن‬
‫کے متعلق تمام غلط فہمیوں اور سے وابستہ کیے جانے والی‬
‫باتوں کا جائزہ عالمہ اقبال کے خطبے کی جزیات اور عالمہ اقبال‬
‫کی اپنی زندگی میں کی جانے والی تشریحات کے مطابق کردیا‪ ‬‬
‫ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے عالمہ اقبال کے قائد اعظم کے نام‬
‫خطوط کو بجائے کے طور پر پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫چوہدری رحمت علی کی پاکستان کی سکیم اور عالمہ اقبال کے‬
‫مسلم ریاست کے تصور کے حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"یہاں یہ واضح کردینا ضروری ہے کہ اقبال کے مسلم ریاست کے‬
‫قیام کے تصور اور اور چوہدری رحمت علی کی پاکستان میں‬
‫فرق کیا تھا۔ اقبال نے مسلم ریاست کے قیام کی تجویز‬
‫ہندوستان میں ایک ذمہ دار مسلم سیاسی شخصیت کی حیثیت‬
‫سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے پیش کی تھی۔‬
‫چوہدری رحمت علی نے ایک مسلم طالب علم کی حیثیت سے‬
‫اور پر مشتمل ریاست کا نام پاکستان تجویز کرکے اپنا انگلستان‬
‫سے شائع کرایا۔ اقبال کی خود مختار مسلم ریاست کسی قابل‬
‫قبول ہندو‪-‬مسلم مفاہمت کی بنیادوں پر ہندوستان کے وفاق‪،‬‬
‫برطانوی سلطنت یا برطانوی دولت مشترکہ کے اندر قائم‬
‫ہوسکتی تھی اور اس کا علیحدہ طور پر آزاد مملکت کی حیثیت‬
‫سے قائم ہونے کا امکان صرف اسی صورت میں تھا جب‬
‫ہندومسلم مفاہمت کی کوئی امید نہ رہے‪ ،‬لیکن چوہدری بڑی‬
‫رحمت علی کی پاکستان اسکول کا مقصد شمال مغربی ہند کے‬
‫مسلم اکثریتی صوبوں اور کشمیر پر مشتمل ایک علیحدہ‬
‫فیڈریشن قائم کرنا تھا۔ اقبال کی مسلم ریاست کے قیام کی‬
‫تجویز میں آبادیوں کے تبادلے کی ضرورت نہ تھی مگر رحمت‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪100‬‬

‫علی کے تصور پاکستان میں آبادیوں کا تبادلہ الزمی تھا۔"‬


‫زندارود ص ‪481‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے خطبہ الہ آباد کے حوالے سے اس باب میں‬
‫میں تمام سیاسی‪ ،‬سماجی اور مذہبی‪  ‬پس منظر کو استعمال‬
‫کرتے ہوئے اقبال کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ عالمہ اقبال کے کے‬
‫خطبہ کے بعد جو جو ان کی مخالفت اور کردار کشی ہوئی اس‬
‫کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب میں عالمہ اقبال‬
‫اور چودھری رحمت علی کے تصورات کے مابین جو اختالفات‬
‫ہیں ان کی وضاحت بہت تحقیق کے ساتھ کی گئی ہے۔ عالمہ‬
‫اقبال کی اپنی‪  ‬خطبہ الہ آباد کے متعلق تشریحات اور قائد‬
‫اعظم کے خطوط تو بھی اس باب کا حصہ ہیں جو اس باب اور‬
‫اس میں کی جانے والی علی بحث کو منطقی نتائج تک پہنچانے‬
‫میں مدد دیتے ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اپنی تحقیقی لگن‬
‫سے تمام غلط فہمیوں کا کا خاتمہ کردیا ہے جو عالمہ اقبال اور‬
‫خطبہ عالمہ اقبال کے حوالے سے پائی جاتی ہیں۔‬
‫زندہ رود کے اٹھارویں باب میں عالمہ اقبال کی گول میز‬
‫کانفرنس میں دو بار شرکت کی داستان کو بیان کیا گیا ہے اور‬
‫اس باب کا عنوان "گول میز کانفرنسیں" رکھا گیا ہے۔ یہ باب‬
‫محض عالمہ اقبال کی گول میز کانفرنس میں شرکت تک‬
‫محدود نہیں بلکہ اس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی‬
‫گول میز کانفرنسوں کے دوران سیاحت اور برگساں اور‬
‫مسولینی سے مالقاتوں کا مفصل نقشہ مختلف روایات کے‬
‫تناظر میں بیان کیا ہے۔ اس بار میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ‬
‫اقبال اور خود اپنے حوالے سے بھی کی باتوں کو کو بیان کیا ہے۔‬
‫جاوید اقبال نے بچپن میں عالمہ اقبال کو گھر میں جس طرح‬
‫دیکھا اور کس قسم کا ڈسپلن عالمہ اقبال نے ایک باپ کی‬
‫حیثیت سے ان پر نافذ کیا‪ ،‬بالشبہ یہ اس باب کا خوبصورت حصہ‬
‫ہے۔ عالمہ اقبال اس سفر کے دوران کیمبرج کی علمی و ادبی‬
‫نشستوں میں‪  ‬بھی شامل ہوتے رہے۔ گول میز کانفرنس میں‬
‫اپنے نقطہ نظر کی وضاحت بھی کی۔ عالمہ اقبال میں گول میز‬
‫کانفرنس کے لیے یہ سفر یکم ستمبر ‪1931‬ء میں الہور سے‬
‫شروع کیا جانا تھا لیکن جن الہور چلنے سے چند گھنٹے پہلے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪101‬‬

‫اقبال کو بخار ہوگیا اس لیے ‪ 5‬ستمبر ہر ‪1931‬کو روانگی‬


‫ملتوی ہوگئی اور وہ آٹھ ستمبر کو الہور سے روانہ ہوئے علی‬
‫بخش بمبئ تک ان کے ساتھ گیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بقول‬
‫عالمہ اقبال ‪27‬ستمبر کو لندن پہنچے اور تار کے ذریعے جاوید‬
‫اقبال اپنے لندن پہنچنے کی اطالع دی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس‬
‫وقت کے یورپ کے حاالت کو موضوع بنایا ہے اور اقبال کے ایک‬
‫خط (بنام سید سلیمان ندوی)کا تذکرہ کیا ہے ‪ ،‬جس میں اقبال‬
‫کی ذہنی کیفیت اور خدشات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔‬
‫عالمہ اقبال ‪ 23‬سال بعد یورپ آئے تھے اورتئیس سال بعد‬
‫یورپ کے سفر نے پرانی یادیں بھی تازہ کردی‪  ‬تھیں۔ ‪1908‬ء‬
‫میں جب اقبال واپس الہور آئے تو شدید ذہنی کشمکش میں‬
‫مبتال تھے۔ پہلی بیوی سے کشیدگی کی ناگوار صورتحال‪ ،‬والد‬
‫اور بھائی کی مفاہمت کے لیے کوششوں کے باوجود‪ ،‬بدستور‬
‫قائم تھی۔ مالی مشکالت یا فراہمی روزگار کا مسئلہ بھی تھا۔‬
‫سو ازدواجی بے سکونی اور مالی مشکالت کےسبب استراب‬
‫کی اس کیفیت میں ہندوستان میں تو عطیہ فیضی جیسی حاضر‬
‫دماغ خاتون نے اپنی ہمدردانہ توجہ کے ذریعے انہیں جذباتی‬
‫سہارا فراہم کیا لیکن اس دور میں ان کی خط و کتابت جرمنی‬
‫میں ایما ویگے ناست سے بھی جاری تھی۔‬
‫عالمہ اقبال نے ایما ویگے ناست کا پتا معلوم کرکے ان سے‬
‫رابطہ کیا اور اپنےپروگرام کے بارے میں بتایا۔ ان کا پروگرام‬
‫ہائڈرل برگ جانے کا تھا لیکن پروگرام میں تبدیلی کے باعث وہ‬
‫ہائیڈل برگ نہ جا سکے۔ یوں ان کی مالقات نہ ہوسکی۔ ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال کے مطابق ق لندن میں عالم اقبال دو قسم کے‬
‫مشاغل میں مصروف رہے۔‪1‬۔ گول میز کانفرنس ‪2‬۔ علم و ادب‬
‫کی محفلیں یا ان کے اعزاز میں دی گئی دعوتوں میں شمولیت۔‬
‫گول میز کانفرنس میں عالمہ اقبال نے سرگرمی سے شرکت‬
‫نہیں کی کیونکہ وہ اس کی کاروائی سے سے مکمل طو پر‬
‫مایوس ہوچکے تھے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال گول میز‬
‫کانفرنس کے ریکارڈ کے تناظر میں لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"دوسری گول میز کانفرنس کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ‬
‫اقبال نے مباحث میں کوئی عملی حصہ نہ لیا بلکہ اقلیتی سب‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪102‬‬

‫کمیٹیوں کے اجالسوں میں خاموش بیٹھے رہے۔ سوال یہ ہے کہ‬


‫وہ خاموش نہ بیٹھے تو کیا کرتے‪ ،‬کیونکہ اقلیتی سب کمیٹی کے‬
‫اجالس تو ہر دفعہ ملتوی ہوتے رہے‪ ،‬یہاں تک کہ انہیں اپنی لکھی‬
‫ہوئی تقریر بھی پڑھنے کا موقع نہ مال۔ فرقہ دارانہ مصالحت کے‬
‫لیے پرائیویٹ گفتگو شنید میں انہوں نے کچھ حد تک حصہ لیا‪،‬‬
‫مگر یہ ایک بے کار مشق سے زیادہ نہ تھا۔ اوربہر حال اس کا‬
‫کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ برطانوی حکام سے غیر رسمی طور پر‬
‫انہوں نے ریاست حیدرآباد کو ڈومینن اسٹیٹس دلوانے کی بات‬
‫چیت کی‪ ،‬مگر سر اکبر حیدری نے ان کی مخالفت کی جس کے‬
‫سبب‪ ،‬بقول عظیم حسین‪ ،‬اقبال سر اکبر حیدری سے جھگڑ‬
‫پڑے۔ کانفرنس کے آخری مراحل میں اقبال کا دیگر مسلم‬
‫مندوبین سے اختالف ہوگیا‪ ،‬کیونکہ وہ فرقہ وارانہ مصالحت کی‬
‫عدم موجودگی میں مرکزی ذمہ داریوں کے مسئلے پر بحث میں‬
‫حصہ لینے کے خالف تھے۔ دیگر مسلم مندوبین نے کو اصولی‬
‫طور پر ان کی رائے سے اتفاق کیا‪ ،‬لیکن جب اجالس میں‬
‫پہنچے تو ایسا اعالن کرنے کی بجائے مصلحت میں خاموش رہے‬
‫جس کا اقبال نے برا منایا اور دل برداشتگی کے عالم میں وفد‬
‫سے علیحدگی کا اعالن کردیا۔ بحیثیت مجموعی اقبال دوسری‬
‫گول میز کانفرنس کی کارروائی سے مایوس تھے۔ عالوہ ازیں‬
‫مسلم صحافت کے بعض اراکین کے کردار سے بھی انہیں‬
‫مایوسی ہوئی۔" زندہ رود صفحہ ‪513‬‬
‫‪ ‬ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق عالمہ اقبال وہاں علمی مشاغل‬
‫میں مصروف رہے اور باآلخر ‪21‬نومبر کو نو بجے وکٹوریہ‬
‫اسٹیشن لندن سے روم رو آ نہ ہوئے۔ روم اور نئی کے بعد انہوں‬
‫نے تاریخی مقامات کی سیر کی اور ‪ 25‬نومبر کو ان کی‬
‫مالقات بات سابق شاہ افغانستان امان اللہ خان سے ہوئی۔ اگلے‬
‫دن انہوں نے اٹلی کی رائل اکیڈمی میں لیکچر دیا۔ ‪ 27‬نومبر کی‬
‫صبح شاہ امان اللہ‪  ‬اللہ سے سے دو گھنٹے کی مالقات ہوئی‬
‫اسی دن انکی مسولینی سے مالقات بھی ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے عالمہ اقبال کی مسولینی سے مالقات کے حوالے سے‬
‫پائی جانے والی تین روایات کو بیان کیا ہے۔یہ روایات درج ذیل‬
‫ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪103‬‬

‫‪1‬۔غالم رسول مہر(جو اس سفر میں عالمہ کے ساتھ تھے)‬


‫‪2‬۔سر مالکم ڈارلنگ (جنھوں نے ‪ 1934‬میں الہور میں عالمہ‬
‫اقبال سے مالقات کی تھی)‬
‫‪3‬۔فقیر سید وحید الدین (روزگار فقیر)‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں ان روایات میں سے کونسی‬
‫روایت درست ہے یہ طے کرنا مشکل ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ‬
‫آغاز میں اقبال مسولینی سے متاثر ہوئے۔ان پر نظم بھی لکھی‬
‫مگر جب مسولینی نے ایبے سینا پر حملہ کر کے چھوٹے ملک کو‬
‫اپنے قبضے میں کرلیا تو اقبال ان سے متنفر ہوگئے۔ عالمہ اقبال‬
‫نے یہاں سے سے اپنے سفر کا‪  ‬آغاز کیا اور وہ مختلف شہروں‬
‫کی سیر کرتے ہوئے قاہرہ پہنچے۔قاہرہ میں انھوں موتمر اسالمی‬
‫کے اجالسوں میں شرکت کی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود‬
‫میں موتمراسالمی کے مقاصد کو بھی بیان کیا ہے اور ان کے‬
‫اجالسوں کے تعارف کی روداد بھی بیان کی ہے ٹکٹ جاوید کے‬
‫مطابق عالمہ اقبال قاہرہ کے بعد اسماعیلیہ اور قنطرہ سے ہوتے‬
‫ہوئے فلسطین پہنچے۔یہاں انہوں نے مختلف زیارتوں کا رخ کیا۔‬
‫اس کے‪  ‬بعد عالمہ اقبال ‪ 30‬دسمبر ‪ 1931‬کی صبح الہور‬
‫پہنچے۔ اس وقت ہندوستان کے سیاسی حاالت بہت خراب‬
‫ہوچکے تھے۔ فروری ‪ 1932‬میں عالمہ کی کتاب جاوید نامہ شائع‬
‫ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے یہاں پر عالمہ اقبال کی گھریلو‬
‫مصروفیات کو بیان کیا ہے اور اپنی بچپن کی زندگی کو بیان کر‬
‫دیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے اٹھارہ بعد میں کیسی گول میز کانفرنس‬
‫کی تفصیل بھی درج کی ہے۔ عالمہ اقبال کا یہ سفر ‪ 17‬اکتوبر‬
‫‪ 1932‬کو شروع ہوا اور وہ ‪ 25‬فروری ‪ 1933‬کو واپس الہور‬
‫تشریف الئے۔ تیسری گول میز کانفرنس ‪17‬نومبر ‪1932‬ءکو‬
‫شروع ہونا تھی لیکن عالمہ اقبال ایک ماہ قبل یورپ روانہ ہوئے‬
‫کیونکہ وہ لندن پہنچنے سے پیشتر یورپ کے بعض علمی مراکز‬
‫میں قیام کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ عالمہ اقبال نے تیسری گول‬
‫میز کانفرنس میں سرگرمی سے حصہ نہ لیا کیونکہ اس‬
‫کانفرنس اِس سے انہیں کچھ زیادہ امیدیں نہ تھیں۔ تیسری گول‬
‫میز کانفرنس کے حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪104‬‬

‫"تیسری گول میز کانفرنس میں کانگریس کی طرف سے کوئی‬


‫شریک نہ ہوا۔ محمد علی جناح کو شرکت کے لیے نا مزد نہ کیا‬
‫گیا تھا‪ ،‬اس لئے وہ بھی موجود نہ تھے‪ ،‬البتہ ہم لندن کے دوران‬
‫میں اقبال نے ان سے کئی مالقاتیں کیں۔ اقبال نے اس کانفرنس‬
‫میں بھی محض تماشائی کی حیثیت سے شرکت کی اور اس‬
‫کی کارروائیوں میں سرگرمی سے حصہ نہ لیا۔ انہیں اینگلو انڈین‬
‫فرقے کی تعلیمی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا لیکن اس کمیٹی کے‬
‫کسی بھی اجالس میں شریک نہ ہوئے۔ بات دراصل یہ تھی کہ کہ‬
‫اس کے بیشتر مباحث کل ہند وفاق یا مرکزی حکومت سے‬
‫متعلقہ امور کے بارے میں تھے اور اقبال وفاق میں کوئی‬
‫دلچسپی نہ رکھتے تھے‪ ،‬بلکہ وہ تو مرکزی حکومت کے قیام کے‬
‫خالف تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ صوبوں کو مکمل خودمختاری‬
‫دے دی جائے اور ہر صوبے کا تعلق براہ راست لندن میں وزیر‬
‫ہند سے ہو۔ اس سلسلے میں انہوں نے کانفرنس کے دوران میں‬
‫صرف ایک تقریر کی۔ زندہ رود صفحہ ‪547‬‬
‫گول میز کانفرنس میں حصہ لینے کے بعد پیرس اور سپین کی‬
‫سیاحت کی اور یہیں پر مشہور نظم "جاوید کے نام"کے حوالے‬
‫سے جاوید اقبال نے واقعہ بھی درج کیا ہے۔ اس سفر کے دوران‬
‫عالمہ اقبال کی مالقات نعت پیرس میں لوئی میسنیوں اور‬
‫برگساں سے ہوئی۔ برگساں سے عالمہ اقبال نے "نظریہ واقعیت‬
‫زمان" پر بحث کی۔ اسپین کے سفر کے دوران ان انہوں نے‬
‫مسجد قرطبہ کی سیر کی۔ مسجد قرطبہ میں جو کیفیت عالمہ‬
‫اقبال کی تھی اس کا ذکر جاوید اقبال نے ولولہ انگیز انداز میں‬
‫کیا ہے۔ آلو نے عالمہ اقبال اور مسجد قرطبہ کے حوالے سے جو‬
‫روایات درج ہیں ان کو بھی تحقیق اور سند کے لحاظ سے درج‪ ‬‬
‫کیا ہے اور ان کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال خود بھی‬
‫مسجد قرطبہ میں گئے اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫جس طرح مسولینی سے اقبال کی مالقات کے متعلق کی‬
‫کہانیاں مشہور ہیں‪ ،‬اسی طرح مسجد قرطبہ میں اقبال کے‬
‫تحتیہ المسجد کے نوافل ادا کرنے کے بارے میں بھی مختلف‬
‫روایتیں ہیں۔ حقیقت یہ‪  ‬ہے کہ قرطبہ میں اس مسجد کی زیارت‬
‫نے اقبال کو جذبات کی ایک ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو انہیں‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪105‬‬

‫پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی ۔اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے‬
‫انہوں نے غالم رسول کو تحریر کیا‪ :‬مرنے سے پہلے قرطبہ‬
‫ضرور دیکھو۔ پھر راقم کو بھی ایک تصویری کارڈ قرطبہ سے‬
‫ارسال کیا اور لکھا‪ :‬میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس مسجد‬
‫کو دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔ یہ مسجد تمام دنیا کی مساجد سے‬
‫بہتر ہے۔ خدا کرے کہ تم جوان ہوکر اس عمارت کے انوار سے‬
‫اپنی آنکھیں روشن کرو۔ اقبال کی یہ دعا بیالیس سال کے بعد‬
‫پوری ہوئی جب راقم اگست ‪ 1975‬میں سیاحت ہسپانیہ کے‬
‫دوران میں قرطبہ پہنچا اور نہ صرف مسجد قرطبہ کی زیارت‬
‫کی بلکہ محراب کے سامنے اس مقام کو بھی تعظیم چھوا جہاں‬
‫شاید کھڑے ہوکر اقبال نے نماز ادا کی تھی۔" زندہ رود صفحہ‬
‫‪554‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال مسجد قرطبہ کے حوالے سےتمام روایات کو‬
‫بیان کرنے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں‬
‫عالمہ اقبال نے میں حکومت ہسپانیہ کی خاص اجازت سے‬
‫مسجد میں نماز ادا کی اور اس کے لیے مصلی ساتھ لے کر‬
‫گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اقبال حکومت ہسپانیہ کی اجازت خاص کے تحت ناظم آثار‬
‫قدیمہ کی معیت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر گئے‬
‫تھے اس لیے مصلی‪  ‬ساتھ لے کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ‬
‫انتظام انہوں نے قیام میڈرڈ کے دوران میں پروفیسر آسین پیال‬
‫کیوس یا وزیر تعلیم حکومت ہسپانیہ کے ذریعے کرایا ہو۔ ان کے‬
‫ہمراہ فوٹو گرافر بھی تھے۔جنہوں نے نماز کی ادائیگی کے دوران‬
‫اور بعد میں ان کی تصویریں مسجد‪  ‬کے اندر کھینچیں‪ ،‬جو کئی‬
‫بار اخباروں میں شائع ہو چکی ہے اور خاصی مقبول ہیں۔‬
‫حکومت ہسپانیہ نے شاید اپنے ملک کے پراپیگنڈے کی خاطر‬
‫انہیں یہ اجازت خاص دی تھی۔ لیکن جس کسی نے بھی مسجد‬
‫قرطبہ کی زیارت کی ہے‪ ،‬اس نے دیکھا ہوگا کہ مسجد کے‬
‫ادراس اس کے التعداد ستونوں کے درمیان جگہ گھیر کر چھوٹے‬
‫چھوٹے گرجے بنائے گئے ہیں جو ابھی تک صاف نہیں کیے گئے۔‬
‫البتہ مسجد‪  ‬کا خوبصورت ترین حصہ محراب واال حصہ ہے ‪ ،‬جو‬
‫ستونوں سمیت تمام کا تمام سنہری ہے‪ ،‬کیونکہ اس پر سونے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪106‬‬

‫کا جڑاؤ کام کیا گیا ہے اور وہ اب تک اپنی اصلی شکل میں‬
‫محفوظ ہے۔ مسجد سے باہر اس کے عالی شان مینار واحد پر‬
‫جو اذان کے لیے مخصوص تھا‪ ،‬اب گھنٹا آویزاں ہے اور رومن‬
‫کیتھولک عقیدے کے مطابق دن میں خاص خاص وقتوں پر اسے‬
‫بجایاجاتا ہے۔ مسجد قرطبہ اب اپنے عہد میں دیگر مساجد یا‬
‫مسلمانوں کی عام عبادت گاہوں کی طرح خوب روشن اور‬
‫تابندہ عبادت گاہ تھی۔ (چراغ جالنے کے لیے یے تیل کا خرچ ‪214‬‬
‫من اور موم بتیاں جالنے کے لیے ½ ‪ 3-‬من موم اور ‪ 24‬سیر‬
‫سوت سال بھر میں صرف ہوتا تھا)‪ ،‬لیکن اب عیسائیوں کی‬
‫عبادت گاہوں کی طرح اس کی فضا تیرا وتار ہے اور اس کے‬
‫اندر بیٹھے ہوئے بھاری آرگن کی کرخت موسیقی کے پس منظر‬
‫میں اس کی ویرانی اور کس مپرسی سے خوف آتا ہے۔ رات کو‬
‫مسجد کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ راقم نے رات کو‬
‫مسجد قرطبہ کے گرد طواف کیا اور مخصوص وقفوں کے بعد‬
‫انتہائی تاریکی میں مینار سے آویزاں گھنٹے کو بچتے سنا تو یوں‬
‫محسوس ہوا گویا وہ ایک آسیب زدہ عمارت ہے۔ مسجد کی شان‬
‫و شوکت اور حسن و جمال اور اسی کے ساتھ اس کی ویرانی‪،‬‬
‫کسمپرسی اور اور تیرہ و تار فضا کا منظر‪ ،‬ایک بار دیکھ کر‬
‫کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ راقم سفر ہسپانیہ سے‬
‫واپسی پر عمرہ کی غرض سے مکہ معظمہ گیا اور مدینہ منورہ‬
‫کی بھی زیارت کی‪ ،‬لیکن مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی‬
‫روشنیوں‪ ،‬رونقوں اور اذانوں میں مسجد قرطبہ کا تیرہ و تار‬
‫منظر نگاہوں کے سامنے سے نہ‪  ‬ہٹتا تھا۔" زندہ رود صفحہ ‪556‬‬
‫تا ‪557‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے تفصیل کے ساتھ مسجد قرطبہ سے‬
‫متعلقہ روایات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس حوالے سے غلط‬
‫روایات کی نشاندہی بھی انھوں نے کر دی ہے اورجذباتی انداز‬
‫میں انہوں نے اپنے عالمہ اقبال سے تعلق اور مسجد قرطبہ‬
‫حاضری کو بیان کیا ہے۔ عالمہ اقبال کا یورپ کا یہ آخری سفر‬
‫تھا اس کے بعد وہ الہور آگئے۔‬
‫"زندہ رود" کا انیسواں باب افغانستان کے سفر پر مشتمل ہے‬
‫اس لئے اس کا عنوان بھی ڈاکٹر جاوید اقبال نے "افغانستان"‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪107‬‬

‫رکھا ہے۔ اس باب کے پہلے حصے میں گول میز کانفرنس کے‬
‫بعد ہندوستان کی صورت حال‪ ،‬عالمہ اقبال کی مصروفیات اور‬
‫سیاست پر بات کی گئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں عالمہ‬
‫اقبال کے افغانستان کے سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اقبال نے‬
‫پہلے حصے میں کشمیر کمیٹی اور اس حوالے سے سے جو امور‬
‫اور بڑی تیزی سے ہندوستان میں بدل رہے تھے ان پر بات کی‬
‫ہے۔ عالمہ اقبال نے کشمیر کمیٹی‪  ‬کے دستور کا ایک مسودہ‬
‫مرتب کروایا لیکن جب اسے کمیٹی کے اجالس میں پیش کیا تو‬
‫احمدی ممبران نے اس کی مخالفت کی کی اس دوران عالمہ‬
‫اقبال نے محسوس کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی کسی‬
‫تنظیم کا خیال نہیں وہ وہ صرف اپنے امیر کے ساتھ وفادار ہیں۔‬
‫اس بنا پر کشمیر کمیٹی پر سابقہ کشمیر کمیٹی توڑ کر نئی‬
‫کشمیر کمیٹی بنائی گئی اقبال نے اس کی صدارت قبول کی‬
‫کے لیے اپنی جدوجہد کو بڑھا دیا۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے عالمہ اقبال کے افغانستان کے سفر کو‬
‫بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس پوری کتاب کو پڑھتے‬
‫ہوئے جہاں جہاں سفر کا احوال آیا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے‬
‫جیسے ہم کوئی دلچسپ سفر نامہ پڑھ رہے ہوں۔ سید صباح‬
‫الدین زندارود میں موجود ان سفرناموں کے حوالے سے لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"اس کتاب میں ان کےجتنے‪  ‬سفر نامہ میں درج ہیں‪ ،‬ان کو‬
‫سمیٹ کر علیحدہ کتاب میں شاعر کر دیا جائے تو یہ ایک‬
‫مستقل تصنیف ہوجائے گی‪ ،‬جو بہت ہی لطف و لذت کے ساتھ‬
‫پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں تفصیل واجمال اور اور اطناب‬
‫واعجاز دونوں کے مزے ملتے ہیں۔ جزئیات بھی سمیٹی گئی ہیں‬
‫لیکن اس حد تک کتاب کے ناظرین کا ذوق متحمل ہو سکتا ہے۔‬
‫بعض غلط فہمیاں بھی دور کی گئی ہے اور غلط بیان کی تردید‬
‫بھی کی گئی ہے لیکن کسی لمحہ یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی‬
‫بیٹا اپنے باپ کی خوامخواہ مدافعت کر رہا ہے۔۔۔(اس میں)‬
‫معروضی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس سفر وسیاحۃ کا مطالعہ‬
‫کرتے وقت کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن بطوطہ اپنا ہی‬
‫سفرنامہ مرتب کر رہا ہے۔ کبھی ایسا کہ۔۔۔ لکھنے واال سفر کرنے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪108‬‬

‫والے کے ساتھ ساتھ سایہ کی طرح رہا ہے اور اس نے جو خود‬


‫دیکھا وہی سپرد قلم کر دیا"‬
‫صباح الدین عبدالرحمن سید تبصرہ زندارود اقبالیات ششماہی‬
‫مجلس اقبال اکادمی پاکستان جلد ‪ 26‬جنوری تا جون ‪1986‬ء‬
‫ص ‪164‬‬
‫ڈاکٹرجاوید اقبال کے مطابق حق بادشاہ بھی تعلیمی امور کے‬
‫بارے میں مشورے کے لیے ‪ 1933‬میں عالمہ اقبال‪ ،‬سید راس‬
‫مسعود اور سید سلیمان ندوی کو افغانستان کی دعوت دی۔‬
‫سید راس مسعود کے ساتھ پشاور سے ہوتے ہوئے ‪23‬اکتوبر کو‬
‫کابل پہنچے اور دارالمان کےشاہی مہمان خانے میں انہیں ٹھہرایا‬
‫گیا جبکہ سید سلیمان ندوی ‪ 26‬اکتوبر کی رات ان سے ملے۔‬
‫عالمہ اقبال کو افغانستان میں علمی حلقوں نے بہت احترام دیا۔‬
‫سفر میں جہاں انہوں نے علمی حلقوں کو میں شرکت کی وہیں‬
‫محمود غزنوی کے مزار حکیم سنائی اور بابر کی قبر پر گئے۔‬
‫کال کی چادر سے مالقات کسرے دلکشا میں ہوئی اس مالقات‬
‫میں کئی امور زیر بحث آئے اور ناظر چھالے اقبال کو قرآن‬
‫مجید تحفتا ً دی۔ نادرشاہ عالمہ اقبال کو پہلے سے ہی جانتے تھے‬
‫اس سےقبل بھی ان کی مالقاتیں ہو چکی تھیں۔ عالمہ اقبال‬
‫سید راس مسعود اور سید سلیمان ندوی کے ساتھ غزنی سے‬
‫ہوتے ہوئے قندھار پہنچے۔ انہوں نے کندھار سے اگلے دن چمن کا‬
‫رخ کیا۔ چمن میں لوگوں تک عالمہ اقبال کی آمد کی خبر پہنچ‬
‫چکی تھی اور سب ان کا انتظار کر رہے تھے۔ کیونکہ لوگوں کا‬
‫تقاضا تھا کہ اقبال اس سید سلیمان بجلی ایک رات چمن میں‬
‫قیام کرے لیکن من آن کی طرف سے معذرت کی گئی۔ کچھ‬
‫وقت گزارنے کے بعد یہ کیا آپ قافلہ کوئٹہ کے لئے روانہ ہوا۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق ایک رات کوئٹہ میں گزارنے کے‬
‫بعد عالمہ اقبال ‪6‬نومبر کو بارہ بجے ملتان پہنچے۔ ‪7‬نومبر کو‬
‫نادر شاہ کو کابل میں قتل کر دیا گیا جس پر عالمہ اقبال بہت‬
‫رنجیدہ ہوئے اور ان کے بیٹے ظاہرشاہ کو تعزیتی خط لکھا۔‬
‫افغانستان کی سیاحت کے متعلق عالمہ اقبال نے اپنے جذبات کا‬
‫اظہار اپنی شعری تالیف "مسافر" میں کیا۔ یہ ‪ 1934‬میں شائع‬
‫ہوئی اس کے متعلق حق پر جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪109‬‬

‫"یہ فارسی مثنوی ایک غزل کے سوا دعا زیادہ تر مثنوی معنوی‬
‫کی بحر میں ہے ہے اور بقول سید سلیمان ندوی خیبروکابل و‬
‫غزنین و قندھار کے عبرت انگیز مناظرومقابر پر شاعر اقبال‬
‫کے آنسو ہیں اور بابر‪ ،‬سلطان محمود‪ ،‬حکیم سنائی اور احمد‬
‫شاہ درانی کی خاموش تربتوں کی زبان حال سے سوال و‬
‫جواب ہیں۔ اس کا آغاز نادر شاہ کی مناقب سے اور اختتام‬
‫محمد ظاہرشاہ سے اظہار توقعات پر ہے۔" زندہ رود صفحہ ‪587‬‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق عالمہ اقبال افغانستان سے واپسی‬
‫پر ہندوستان کی سیاست کی‪  ‬طرف متوجہ ہوگئے۔انہیں‬
‫فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی بڑی تشویش تھی۔ ‪4‬‬
‫دسمبر ‪ 1933‬کو پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی‬
‫اعزازی ڈگری دی۔ اب عالمہ اقبال کی صحت مسلسل خراب‬
‫رہنے لگی تھی۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے‬
‫پریکٹس ختم ہوگئی تھی اور مالی مسائل کا سامنا بھی تھا۔ اس‬
‫کے باوجود وہ علمی مصروفیتوں میں مگن رہتے۔ انہوں نے نومبر‬
‫‪1933‬میں روڈز لیکچر کی دعوت قبول کر لی تھی جس میں‬
‫میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی پسند‪  ‬کے کسی فلسفیانہ‬
‫موضوع پر لیکچر دینا تھا۔ عالمہ اقبال اپنے پسندیدہ موضوع‬
‫"فلسفہ اسالم کی تاریخ میں زمان و مکان" پر تحقیق کرکے‬
‫لیکچر دینا چاہ رہے تھے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ آئن‬
‫سٹائن کا نظریہ مغرب کے لیے نئی بات ہے مسلم صوفی اور‬
‫ریاضی دار قرون وسطی سے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔‬
‫ڈاکٹرجاویداقبال ان دنوں کی علمی مصروفیات اور روڈز لیکچر‬
‫کے دعوت نامے پر اعتراض کرنے والوں کے حوالے سے لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫"اقبال نے اپنی ناسازئی طبع کے باوجود اس موضوع پر تحقیق‬
‫کا کام شروع کر دیا تھا۔ بقول عبدالمجید سالک انکی علمی‬
‫مصروفیتوں کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں انہوں نے سید‬
‫سلیمان ندوی اور دیگر احباب کو جو خطوط لکھے‪ ،‬ان سب‬
‫میں زمان و مکاں کے متعلق مختلف کتابوں کا سراغ لگانے کی‬
‫استدعا کی گئی اور ملک بھر میں کے بارے میں اکابر اسالم کی‬
‫کتب کا تجسس جاری رہا۔ کیونکہ ہر حال میں ان کا مقصد یہ تھا‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪110‬‬

‫کہ ہر شعبہ علم میں مسلمانوں کی برتری ثابت کی جائے۔ لیکن‬


‫دشمنان اقبال اب تک ان کے روڈز لیکچرز میں خصوصی‬
‫دلچسپی سے یہی پہلو نکالنے کے قابل ہو سکے ہیں کہ وہ اس‬
‫دعوت نامے کو حاصل کرنے کے لیے محض اس لئے تھے دنیا‬
‫آکسفورڈ یونیورسٹی کا ایک چکر لگ جائے گا۔ خیر آئندہ دو‬
‫برسوں میں شدید عاللت کے باعث اقبال کو یہ دعوت منسوخ‬
‫کرنا پڑی اور اس موضوع پر قلم اٹھانے کی نوبت نہیں آئی۔" ص‬
‫‪590‬‬
‫"زندہ رود" کے بیسویں باب کا عنوان "عال لت" ہے۔ ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال نے اس باب میں عالمہ اقبال کی عاللت کو موضوع بنایا‬
‫ہے اس دور میں عالمہ اقبال آل سیاسی زندگی سے عملی طور‬
‫پر پر پیچھے کٹ گئے اور ان کا بیشتر وقت بستے عاللت پر لیٹے‬
‫لیٹے گزرتا۔ عالمہ اقبال کے کے آخری سال بڑی پریشانی میں‬
‫گزرے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اس عہد کے حاالت کا جائزہ اور‬
‫اور عالمہ کے نجی حاالت رات کی تفصیل کو مکمل جزئیات کے‬
‫ساتھ بیان کیا ہے۔ بیماری کے دنوں میں بھی وہ ملتے اسالمیہ‬
‫کے دکھ کو محسوس کرتے رہے۔ان کی آواز بند ہو گئی ‪ ،‬بینائی‬
‫پر اثر پڑا‪ ،‬گردے متاثر ہوئے‪  ‬مگر ان کے ذہنی قوتیں اور‬
‫صالحیتیں آخری دم تک قائم رہیں۔ عاللت کے باوجود وہ علمی و‬
‫شعری تخلیقات کے لیے وقت نکالتے رہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے‬
‫اس بعد میں جہاں ان کی عاللت اور اپنے بچپن کہ یہ مشاہدات‬
‫بیان یہ ہیں ہے وہیں پر علمی و ادبی کوششوں کو بھی موضوع‬
‫بنایا ہے۔ جاوید اقبال عالمہ اقبال کے مختلف امراض پر تبصرہ‬
‫کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اقبال بظاہر ہمیشہ درست دکھائی دیتے‬
‫تھے لیکن زمانہ جوانی سے ہی کئی بیماریوں نے انہیں گھیر رکھا‬
‫تھا۔ ان کا مزاج بلغمی تھا تبخیر معدہ کی تکلیف رہی ‪ ،‬پھر‬
‫گردوں کے مرض میں میں مبتال ہوئے۔ احباب کے مشورے سے‬
‫حکیم نابیںا سے عالج کرایا جس سے بہت فائدہ ہوا۔ اس کے بعد‬
‫نقرس کا عارضہ الحق ہوا‪  ‬تو کئی راتیں بے چینی میں تڑپتے‬
‫ہوئے یے جاگتے گزاریں۔ترش چیزیں کھانے کی عادت کے گال‬
‫اکثر خراب رہتا‪،‬تمباکو نوشی سے کھانسی اور دمہ ہو جس نے‬
‫رفتہ رفتہ دمئہ قلبی کی صورت اختیار کر لی۔‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪111‬‬

‫عالمہ اقبال عالج کے حوالے سے احتیاط نہیں کیا کرتے تھے۔‬


‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے عالج کرانے کے طریقے‬
‫دلچسپ انداز میں بیان کئے ہیں۔ اس حوالے سےوہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"عالج کے معاملے میں میں بڑی بے پروا طبیعت پائی تھی۔‬
‫بدذائقہ دوار پینے سے یا نا خوشگوارشئے کھانے سے انکار کرتے‬
‫تھے ۔ملنےوالوں میں سے کسی نے کوئی ٹوٹکا بتا دیا تو اسے‬
‫بھی استعمال میں لے آتے۔ پرہیز کی پابندی سے کتراتے اور ایک‬
‫طریق عالج میں دوسرا اور دوسرے میں تیسرا داخل کر دیتے۔‬
‫ایلوپیتھک طریقہ عالج کی اس لئے خالف تھے کہ ڈاکٹروں کی‬
‫دوائی بدذائقہ ہوتی ہے اور انہیں تجویز کرتے وقت مریض کی‬
‫نفاست طبع کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا۔" زندہ رود ص ‪ 597‬‬
‫حکیم نابینا کے عالج کی بدولت عالمہ اقبال کو کافی افاقہ ہوا‬
‫لیکن گال خراب ہونے کی وجہ سے بول نہ سکتے تھے۔ آواز کی یہ‬
‫خرابی ان کے لئے ایک نفسیاتی دھچکا تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ‬
‫جلد اس پریشانی سے نجات ملے اور وہ معمول کے مطابق‬
‫اپنی مصروفیات شروع کر سکیں۔ اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ‬
‫انہیں مسلمانان ہند کی فکر الحق تھی۔ یہ دور اس لیے بھی‬
‫پریشانی بڑھا گیا کہ گھر میں سردار بیگم بھی شدید علیل تھیں۔‬
‫دونوں بچوں کی دیکھ بھال مناسب طور پر کرنے سے قاصر‬
‫تھیں۔ حکیم نابینا سے جہاں وہ اپنا عالج کروا رہے تھے وہی‬
‫سردار بیگم عاللت کے متعلق مشورہ جاری تھا۔ بھوپال سے‬
‫واپسی پر سردار بیگم کی حالت پہلے سے زیادہ خراب ہوچکی‬
‫تھی اور ان کا جگر بڑھ گیا تھا۔وہ اپنی بیماری سے بے پرواہ واہ‬
‫عالمہ اقبال کی عاللت کے بارے میں فکر مند‪  ‬رہتی تھیں۔ ‪20‬‬
‫مئی ‪ 1935‬ابو نے گھر میں ور جاوید منزل منتقل ہوئے تو‬
‫سرداربیگم بیماری کی حالت میں وہاں چارپائی پر اندر الئی‬
‫گئیں۔ اس گھر میں آنے کےتین دن بعد سردار بیگم کی وفات‬
‫ہوگئی اور یوں ان کی مشکالت میں اور زیادہ اضافہ ہوگیا۔‬
‫سردار بیگم کی موت سے عالمہ اقبال پژمردہ ہو گئے اور اب‬
‫اپنے بچوں کی نگہداشت پر ان کی توجہ زیادہ ہوگی۔ سر راس‬
‫مسعود کی کوششوں سے سے نواب بھوپال کی طرف سے ان‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪112‬‬

‫کو تاحیات پانچ سو وظیفہ حضور ہوا۔ اس وظیفے کی بدولت‬


‫مالی معامالت میں کچھ آسانی ہوگی۔‬
‫عالمہ اقبال اپنی عاللت کے باوجود علمی کاموں میں مشغول‬
‫رہے۔ یہ باب اس حوالے سے بھی اہم ہیں کہ اس میں ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے ان کا تذکرہ کیا ہے جس میں‬
‫انہوں نے قادیانیت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا بڑھ چڑھ کر‬
‫اظہار کیا اور اور ہندوستان کے حاکموں کو مخاطب کرکے کہا‬
‫کہ بہترین راستہ یہی ہے قادیانیوں کو ایک علیحدہ مذہبی فرقہ‬
‫قراردیا جائے۔ اس بیان پر احمدی اخبارات نے بہت اعتراضات‪ ‬‬
‫کیے اور ان کے سابقہ بیانات کو پیش کیا۔جس پر اقبال نے مزید‬
‫دالئل کے ساتھ بات کی اور یہ بتایا کہ مذہبی بی کی حقیقت‬
‫دنوں میں نہیں سالوں میں معلوم ہوتی ہے اور انسان اپنی رائے‬
‫بدل لیتا ہے کیوں کہ صرف پتھر ہیں جو اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔‬
‫اسی دور میں پنڈت جواہر الل نہرو نے قادیانیوں کی حمایت‬
‫میں میں تین مضامین لکھے جن کا جواب عالمہ اقبال نے دیا اور‬
‫پنڈت نہرو کے نام ایک خط میں میں یہ بات بات دہرائی کہ‬
‫بالشبہ احمدی اسالم اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔ ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال اس باب میں یہاں اقبال کے احمدیت کے متعلق‬
‫باتوں کی وضاحت کی ہے وہیں پر عالمہ اقبال کے بھائی شیخ‬
‫عطا محمد اور ان کے بیٹے شیخ اعجاز کے عقائد کو موضوع‬
‫بنایا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق عالمہ اقبال ‪ 1935‬میں جوالئی‬
‫کے مہینے میں برقی عالج کی خاطر بھوپال روانہ ہوئے اس سفر‬
‫میں‪  ‬جاوید ان کے ساتھ تھے۔ اسی ماہ میں الہور میں مسجد‬
‫شہید گنج کا واقعہ پیش آیا اور حاالت خراب ہو گئے۔ مسجد‬
‫شہید کا مقام رسالہ آخری دم تک اقبال کی توجہ کا مرکز بنا رہا‬
‫اور الہور میں ترک ماشال فوج کے بارے میں گولی چالنے سے‬
‫متعدد مسلمان شہید ہوئے جس پر عالمہ اقبال بےقرار ہو گئے۔‬
‫بھگوال جاتے ہوئے دہلی میں قیام کیا اور جاود کو الل قلعہ‪،‬‬
‫نظام الدین اولیا کے مزار‪ ،‬ہمایوں کے مقبرے اور قطب‬
‫میناردکھانے کے لیے لے گئے۔ وہ بال آل برقی عالج سے عالمہ‬
‫اقبال کی طبیعت میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہ ہوئی۔ عالمہ‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪113‬‬

‫اقبال شاعر ہونے کے عالوہ حقیقت پسند چند مزاج کے حامل‬


‫تھے انہوں نے بیماری کے ایام میں اپنا وصیت نامہ لکھا اور اپنی‬
‫جائیداد اور بچوں کے حوالے سے ولی منتخب کیے۔ ‪ 13‬اکتوبر‬
‫‪ 1935‬کو لکھا گیا ان کا وصیت نامہ درج ذیل ہے‪:‬‬
‫"منکہ ڈاکٹر سر محمد اقبال بیرسٹر ایٹ ال الہور کا ہوں۔ اس‬
‫وقت بہ قائمی ہوش و حواس خمسہ خود اقرار کرتا ہوں اور لکھ‬
‫دیتا ہوں چونکہ کہ میری ہر دو اوالد نابالغان ہے اور زندگی کا‬
‫کوئی اعتبار نہیں‪ ،‬اور من مقر کی کی صحت بھی اچھی نہیں‬
‫رہتی‪ ،‬اس لیے میں وصیت کرتا ہوں کہ میری وفات کے بعد اگر‬
‫میری اوالد مذکورہ نابالغ رہیں توان کی جائیداد اور ذات کے ولی‬
‫مندرجہ ذیل ہوں گے۔‬
‫‪1‬۔ خواجہ عبدالغنی‪ ،‬ماموں حقیقی نابالغان‬
‫‪2‬۔ شیخ اعجاز‪ ،‬احمد سب جج برادرزادہ من مقر‬
‫‪3‬۔ چوہدری محمد حسین ایم اے سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ الہور‬
‫‪4‬۔ منشی طاہر الدین‪ ،‬جو کئی سال سے میرے کالرک رہے ہیں‬
‫اور ان کی شرافت و دیانت پر مجھے پورا اعتماد ہے۔‬
‫اس وصیت کی رو سے ان ممالک‪  ‬حضرات کو نابالغان کی ذات‬
‫و جائداد کا ولی مقرر کرتا ہوں۔ تمام امور متعلقہ ذات و جائداد‪ ‬‬
‫نابالغان کا انتظام اولیاء مذکورہ کثرت رائے سے کیا کریں گے‪،‬‬
‫لیکن جب میرا پسر جاویداقبال بالغ ہوجائے تو وہ اپنی ہمشیرہ‬
‫منیرہ کی ذات و جائداد کا ولی ہوگا‪  ‬اور اس کی جائدادوذات کے‬
‫متعلقہ انتظامات خود بطور ولی کرے گا۔ ااگر ان اولیاء‬
‫مقررکردہ میں سے کوئی دستبردار ہو جائے‪ ،‬یا فوت ہوجائے یا‬
‫کسی دیگر وجہ سے کام کرنے کے ناقابل ہو جائے۔ تو اس‬
‫صورت میں باقی اولیا کواختیار ہوگا کہ کثرت رائے سے اس کا‬
‫جانشین مقرر کرلیں۔ اگر کسی معاملہ میں اولیائے مذکورہ کی‬
‫رائے مساوی ہو تو صدر انجمن حمایت اسالم الہور کی رائے‬
‫جس فریق کے ساتھ ہو‪ ،‬اس پر عمل کیا جائے گا اور اسی کے‬
‫مطابق فیصلہ ہوگا۔‬
‫اس وقت جو ملکیت کی چیزیں ہیں‪ ،‬مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫کتب فلسفہ و لٹریچر وغیرہ۔ ان میں سے چند کتب یعنی اپنی‬
‫تصنیف کردہ کتب کے مطبوعہ نسخے معہ مسودات‪ ،‬مثنوی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪114‬‬

‫موالنا روم‪  ،‬فارسی و انگریزی‪ ،‬مرتبہ ڈاکٹر نکلسن‪ ،‬دیوان‬


‫مرزا عبدالقادر بیدل قلمی‪ ،‬مراۃالمثنوی (موالنا روم‪ ،‬مطبوعہ‬
‫حیدر آباد)‪ ،‬اپنے پڑھنے کا قرآن شریف اورباقی مسودات و‬
‫کاغذات میں نے جاوید کو بطور یادگار دے دیے ہیں۔ باقی کتب‬
‫مطبوع انگریزی وغیرہ میری وفات کے بعد اسالمیہ کالج‪ ،‬الہور‬
‫کی الئبریری میں رکھ دی جائیں۔ باقی میرا اسباب مثال دو قالین‬
‫برنگ سرخ ودری و صوفہ وکرسیاں و بکس اور پہننے کے کپڑے‬
‫ہیں۔ کل کی نسبت میری وصیت یہ ہے کہ میری وفات کے بعد‬
‫میرے پہنچنے کے تمام کپڑے غرباءمیں تقسیم کردئیے جائیں۔‬
‫محمد اقبال‪ ،‬بیرسٹرایٹ ال‬
‫الہور۔بقلم خود‪ /13،‬اکتوبر ‪1935‬ء‬
‫مکرر آنکہ‪:‬‬
‫اگر نہا بالغان کے فائدے کی خاطر یا جائیداد کے انتظام یا کسی‬
‫اور جائیداد کی خرید وغیرہ کے لئے اولیاء کو روپے کی ضرورت‬
‫ہو تو وہ کثرت رائے سے بینک سے روپیہ نکالنے کے متعلق فیصلہ‬
‫کریں۔‬
‫دیگر میرے مذہبی اور دینی عقائد سب کو معلوم ہیں۔ میں‪ ‬‬
‫عقائد دینی میں سلف کا پیروہوں۔ نظری اعتبار سے فقہی‬
‫معامالت میں غیر مقلد ہوں۔عملی اعتبار سے حضرت امام ابو‬
‫حنیفہ کا مقلد ہوں۔ بچوں کی شادی بیاہ کے معاملے میں میرے‬
‫ورثاءکا اور اولیاء مقرر کردہ کا فرض ہے کہ وہ اس بات کا پورا‬
‫لحاظ کریں اور رشتہ ناطہ میں شرافت اور دین داری کو علم و‬
‫دولت اور ظاہری چاہت پرمقدم سمجھیں۔‬
‫محمد اقبال‬
‫‪/13‬اکتوبر ‪ "1935‬زندارود ص ‪ 614‬تا ‪615‬‬
‫‪6‬مئی ‪ 1936‬کی شام کو قائد اعظم‪  ‬عالمہ اقبال سے ملنے‬
‫جاوید منزل آئے فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ تھیں۔ ڈاکٹر جاوید‬
‫اقبال خود اس مالقات میں شریک تھے تھے اس مالقات کا‬
‫احوال انہوں نے خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ جوالئی ‪ 1936‬میں‬
‫ضرب کلیم شائع ہوئی اوراسی سال فارسی مثنوی "پس چہ‬
‫باید کرد اے اقوام مشرق" کی اشاعت ہوئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫عالمہ اقبال کے حوالے سے احمدی نقادوں کی طرف سے کی‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪115‬‬

‫جانے والی باتوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یہ تمام تر باتیں‬


‫انہوں نے عالمہ اقبال کی وفات کے بعد کیں لہذا یہ ان کے قیاس‬
‫سے زیادہ کچھ نہیں‪  ‬اور ان میں کسی قسم کی کوئی صداقت‬
‫نہیں۔‬
‫زندہ رود کے آخری باب کا عنوان "آخری ایام" ہے اور یہ اس‬
‫کتاب کا اکیسواں باب ہے۔ اس میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ‬
‫اقبال کے آخری ایام کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمہ‬
‫اقبال آل جسمانی حالت روز بروز بگڑتی جارہی تھی اور آنکھوں‬
‫میں موتیا اترنے کے باعث لکھنا پڑھنا ترک ہوچکا تھا۔ حکیم نابینا‬
‫سے ان کا عالج چلتا رہا مگر جب حکیم نابینا دلی سے حیدرآباد‬
‫چلے گئے یے تو ان کے ظروف کی وجہ سے عالج ممکن نہ رہا‬
‫اب مقامی طبیب اور ڈاکٹر ان کی دیکھ بھال کر رہے تھے۔ اس‬
‫کے باوجود یونینسٹ پارٹی کی سرگرمیوں کو دیکھتے رہے اور‬
‫قائداعظم کومسلم لیگ کی تعمیر نو کے لیے مشورے دیتے رہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال بال کے مطابق عالمہ اقبال آخری دنوں میں‬
‫حج کے لیے بے تاب تھے اس سلسلے میں انہوں نے ایک ایک‬
‫کمپنی سے بات چیت بھی کی لیکن بیماری کی حالت میں میں‬
‫ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تھا اس لئے ان کی یہ خواہش پوری نہ‬
‫ہوسکی۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں عاللت کی بدولت عالمہ اقبال‬
‫گھر پرتوجہ نہیں دے پارہے تھے اور گھر کو سنبھالنے کے لیے‬
‫کسی خاتون کی اشد ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لئے انھوں‬
‫نے احباب سے بات کی اور علی گڑھ سے پروفیسر رشید احمد‬
‫صدیقی کی وساطت سے آنٹی ڈورس آئیں۔ان کی آمد سے گھر‬
‫میں ایک ترتیب آ گئی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے آخری قیام میں‬
‫عالمہ اقبال آل کے واقعات رات کو خود دیکھا فا عل گے کہ وہ‬
‫عمر اور تعلیم کے لحاظ سے ابھی بہت چھوٹے تھے۔ وہ آخری‬
‫ایام کے جن واقعات کے ناظر رہےان کو خوبصورتی سے بیان‬
‫کیا ہے۔ جنوری ‪ 1938‬کی ایک شام الرڈ لو تھیان اقبال سے‬
‫ملنے آئے۔وہ عالمہ اقبال کے مداح تھے اور ہندوستان کی فرقہ‬
‫وارانہ مسائل کا مناسب حل اقبال کی تجویز کو سمجھتے تھے۔‬
‫جنوری کے اواخر میں ہی پنڈت نہرو الہور میں ان سے مالقات‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪116‬‬

‫کے لیے آئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے پنڈت نہرو کا استقبال کیا جو‬
‫کچھ باتیں ان کے ذہن میں محفوظ تھیں تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال‬
‫نے عالمہ اقبال کی پنڈت نہرو سے مالقات‪  ‬کا احوال اور اس‬
‫حوالے سے موجود بیانات کا تجزیہ بھی کیا ہے۔‬
‫‪ ‬عالمہ اقبال کا غوروفکر علمی مباحث پر آخری وقت میں بھی‬
‫جاری و ساری تھا۔ اس حوالے سے سے وہ موالنا حسین احمد‬
‫مدنی کے ساتھ وطنیت کے تصور پر اصولی بحث میں شامل‬
‫ہوگئے۔ موالنا حسین احمد مدنی نے دلی کے ایک جلسے میں‬
‫میں قوم اور وطن پر ایک بیان دیا۔ اگر یہ عالمہ اقبال بسترِ مرگ‬
‫پر تھے ہے مگر انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ اتنا بڑا عالم دین ایک غلط‬
‫موقف کو لے کر چلے۔ اس لیے اس موضوع پرانہوں نے ایک ان‬
‫کے نقطہ نظر سے اختالف کیا اور یہ بحث شروع ہوگئی۔اس‬
‫طرح عالمہ اقبال اپنے آخری ایام تک علمی اور ادبی معامالت‬
‫میں متحرک رہے۔ آخری دن وہ بہت ہشاش بشاش تھے حاالں‪  ‬کہ‬
‫انہیں احباب اب کی آمد سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ان کا آخری‬
‫وقت ہے۔ ڈاکٹرعبدالقیوم نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی‬
‫تو انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا‪.‬اس حوالے سے ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لئے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں‬
‫شدید درد کے باعث بیدار ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں‬
‫محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی‪ ،‬مگر انھوں‬
‫نے انکار کر دیا‪ .‬فرمایا‪ :‬دوا میں افیون کے اجزا ہے اور میں بے‬
‫ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد‬
‫شفیع ان کے شانہ اور کمر دبانے لگے تاکہ درد کی شدت کم ہو‪،‬‬
‫لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد‬
‫شفیع ‪،‬حکیم محمد حسن قرشی کوبالنے ان کے گھر گئے‪ ،‬مگر‬
‫ان تک رسائی نہ ہوئی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے‬
‫نڈھال تھے میاں محمد شفیع کودیکھ کر فرمایا‪ :‬افسوس قرشی‬
‫صاحب نہیں پہنچ سکے۔تقریبا پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ‬
‫کر اندر آئے۔ انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی صاحب کو‬
‫بالنے کے لیے کہا۔وہ بولے‪ :‬حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪117‬‬

‫تھے اور اس وقت نہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اس پر‬
‫اقبال نے یہ قطعہ پڑھا‪:‬‬
‫سرود ِ رفتہ باز آید کہ ناید‬
‫نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید‬
‫سر آمد روز گار ایں فقیرے‬
‫دگر دانائے راز آید کہ نہ آید‬
‫راجہ حسن اختر قطع کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن‬
‫قرشی کو النے کے لئے روانہ ہو گئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا‬
‫بلب گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انہوں‬
‫نے فروٹ سالٹ کا گالس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ‬
‫باقی تھے۔اذان ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات‬
‫کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع سب کی نماز‬
‫ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور‬
‫صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثنا میں‬
‫اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھے اور ان کے منہ‬
‫سے "ہائے" کا لفظ نکال۔ علی بخش نے فورا آگے بڑھ کر انہیں‬
‫شانوں سے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔فرمایا‪:‬دل میں شدید درد‬
‫ہے اور قبل اس کے علی بخش کچھ کرسکے‪ ،‬انہوں نے "اللہ"‬
‫کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔‪ 21‬اپریل ‪1938‬ء تو پانچ‬
‫بج کر ‪ 14‬منٹ‪  ‬صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے‬
‫دیرینہ مالزم کی گود میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد‬
‫کردی۔" زندہ رود صفحہ ‪719‬تا ‪720‬‬
‫ڈاکٹرجاوید اقبال نے زندہ رود میں میں سوانح ‪،‬تاریخ‪ ،‬سیاست‬
‫اور نفسیاتی حقائق کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے عالمہ اقبال کے‬
‫حوالے سے کسی پہلو پر پردہ نہیں ڈاال گ اور ان باتوں کا ذکر‬
‫بھی کیا ہے جن پر لوگوں نے اختالف کیا۔ ان کی گھریلو زندگی‬
‫کو تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا فلوم شروع‬
‫سے لے کے آخر تک ادبی رہا اور تاریخی حقائق اور آزادی کے‬
‫لیے جدوجہد قاری کے لیے اکتاہٹ کا باعث نہیں بنتی۔ ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے ‪ 1870‬سے لے کر ‪ 1938‬تک کے عہد میں ہونے‬
‫والے واقعات کو بھی قلمبند کیا ہے۔ یوں یہ سوانح ‪ 70‬سالوں‬
‫کی تاریخ اور سماجی داستانیں بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر‬
‫ن ن‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار‬ ‫ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات‪118‬‬

‫جاوید اقبال کی یہ کتاب ان کی نو سالہ محنت اور تحقیق کا‬


‫نتیجہ ہے۔ کھلونے جینو جلدوں میں عالمہ اقبال کی زندگی کو‬
‫پہلو بہ پہلو اور اہم شخصیات اور حاالت کے تذکرے کے ساتھ‬
‫بیان کردیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود میں ایک خاص انداز اختیار کیا ہے‬
‫اور مواد کو پوری ترتیب‪  ‬اور اس سے اخذ ہونے والے نتائج بھی‬
‫بیان کردیئے ہیں۔یوں اس ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی‬
‫تردید کا خوف رکاوٹ نہیں بنتا۔ انہوں نے عالمہ اقبال فرزند‬
‫اقبال ہونے کے ناطے گھریلو حاالت اور اپنے بچپن کو جذباتی‬
‫وابستگی کے ساتھ معروضی انداز از سے بیان کیا ہے۔ زندہ رود‬
‫کی اشاعت کے بعد بھی عالمہ اقبال کی سوالی پر مختلف قسم‬
‫کا کام سامنے آچکا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہ زندہ رود کی‬
‫اشاعت کے ‪ 36‬سال بعد بھی زندہ رود کی طرح مربوط اور‬
‫مستند سوانح عمری سامنے نہیں آئی۔ بحیثیت مجموعی‬
‫سوانحی ادب میں زندہ رود کا ایک اہم مقام ہے اور سوانح اقبال‬
‫کے ضمن میں ابھی تک اس پائے کا کوئی کام سامنے نہیں آ‬
‫سکا۔ جب تک عالمہ اقبال کی کوئی اور سوانح مرتب نہیں ہو‬
‫جاتی زندہ رود ممتاز ترین کتاب کا درجہ حاصل کئے رکھی گی۔‬

You might also like