Professional Documents
Culture Documents
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 1
باب دوم
اپنے اندراصالحی پہلو بھی لیے ہوئے ہو ۔ہر سوانی نگار کو سوانح
لکھتے وقت مختلف مراح ل سے گزرن ا پڑت ا ہے ان مراح ل میں
پہال مرحلہ شخصیت کا انتخ اب ہے س وانح نگ ار کے ل یے یہ ب ات
بہت اہم ہے کہ وہ کس شخصیت کا انتخاب کرے کیا وہ شخص یت
واقعی اس قاب ل ہے کہ پڑھ نے والے اس کی زن دگی سے کچھ
حاصل کر س کیں گے ۔دوس رے م رحلے میں شخص یت جس کی
زندگی کو بیان کرنا ضروری ہے یع نی اس کی زن دگی گھی میں
ہونے والے واقعات کو اس طرح سے بیان کیا جائے کہ پ ورا عہ د
آنکھوں کے سامنے آجائے ۔ای ک اچھی س وانح عم ری وہی ہ وگی
جس میں افراد کے ساتھ ساتھ تاریخ کے جھ روکے بھی س رگرم
سفر نظر آئے۔سوانح نگاری کے تیسرے مرحلے میں میں یہ ب ات
اہم ہے کہ مطلوبہ شخصیت کے کونسے واقعات کو موضوع بنای ا
جائے۔سوال میں کسی شخص کی زندگی کے ہر واقعے کو بی ان
کرن ا ممکن نہیں نہیں انتخ اب کے س اتھ س اتھ مص نف ک و انہی
واقعات کو سامنے النا چاہیے یے جو اہمیت اور افادیت کے اعتبار
سے سے سب سے بڑھ ک ر ہون۔اس مقص د کے ل یے یے س وانح
عمری کے لیے حاصل ہونے واال مواد اہم ہیں ہیں یہ مواد مختل ف
لوگوں کی یاداشتوں روزنامچوں ح دود خ اتون اور اہل خ انہ کی
گفتگ و سے اکٹھ ا کی ا ج ا س کتا ہے ۔اس ح والے سے سے آج
اخبارات سوشل میڈیا اور اور ن ئے مص ادر کی خصوص ی اہمیت
ہے۔اس ضمن میں یہ بات اہم ہے کہ بنیادی مآخذ ت ک پہنچ ا ج ائے
اور اگر بنیادی ماخذ موجود نہیں تو ث انوی حی ثیت کے م واد سے
استفادہ کیا جائے۔ماخذات تک رس ائی کے بع د بع د موج ود م واد
کی چھان پھٹک اور اس کی ترتیب کو ایک ت وازن کے س اتھ آگے
بڑھان ا ای ک مش کل م رحلہ ہے ہے جس میں س وانح نگ ار اگ ر
کامیاب ہو جائے تو وہ بہترین سوانح تخلی ق ک ر س کتا ہے۔س وانح
نگاری میں عموما انف رادی شخص یت ک و موض وع بنای ا جات ا ہے
لیکن تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو اجتماعیت کا پہل و بھی
ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
دنی ا میں س وانح نگ اری ف ری ک ا فن کب ش روع ہ وا اس
ح والے سے مس تند س ب ح والے موج ود نہیں ہیں۔س وانح کی
ابت دائی نق وش کے ط ور پ ر مق بروں میں محف وظ خ اکوں ک و
اہمیت دی ج اتی ہے اور چین میں میں مختل ف بادش اہوں کی
س وانح عم ری ش ائع کی گ ئی ہے ۔انگری زی ادبی ات مین ولیم
روپرکی تھامس مور کو پہلی بہترین س وانح عم ری ک ا درجہ دی ا
جات ا ہے ج و 1626میں ش ائع ہوئی۔مغ ربی س وانح عم ری میں
جیم ز واص ل کی الئ ف س یمل جونس ن ک و اعلی ت رین س وانع
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 4
سیاستدان مردی دی مومن بنا کر پیش کیا کرتے تھے لیکن لیکن
ڈاکٹر عبدالسالم ندوی نے اقبال کو ایک فنکار کے طور پرکھا ہے۔
گویا یہ کتاب اب عالمہ اقب ال کی زن دگی ک و موض وع بن انے کے
ساتھ س اتھ ان کے مط العے دے اور افط ار ی ار س مجھانے کی
ایک عم دہ ک اوش ہے۔عالمہ اقب ال کے فک ر و فن پ ر 1951میں
انگریزی زبان میں ایک کت اب اب ش ائع ہ وئی اس کت اب ک ا ن ام
The Ardent Pilgrimہے۔یہ کت اب کلکتہ سے ش ائع ہ وئی اور
اس کے مصنف صرف صحافی اقبال سنگھ تھے ۔
قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نسل کا اقبال سے ج ذباتی
رشتہ قائم نہ ہو سکا ج و کہ ک وئی معی اری اور دلچس پ س وانح
اقبال موجود نہ تھی۔اقبال کی سوانح کے حوالے سے کچھ ادارے
ارے نجی اور سرکاری س طح پ ر کوش ش ک رتے رہے لیکن ک ام
کی رفتار بہت سست رہی۔اس ح والے سے ب زم اقب ال اور ادارہ
ثقافت اسالمیہ کی سطح پر کوششیں ج اری رہیں.ڈاک ٹر محم د
عبداللہ چغتائی اپنی تالیف روای ات ہے اقب ال آل کے کے دیب اچے
میں لکھتے ہیں.
"ب زم اقب ال الہور نے 1952میں ڈاک ٹر خلیفہ عب دالحکیم ن اظم
ادارہ ثقافت اسالمیہ کی تجویز پر عالمہ اقبال کے ابتدائی س وانح
کے متعلق مواد جمع اور مرتب کرنے کا ک ام کی ا تھ ا اور یہ بھی
طے پای ا تھ ا کہ اس ک ام میں موالن ا غالم رس ول مہ ر ص احب
رہبری کریں گے۔چنانچہ اس سلسلے میں جو کمی ٹی تش کیل دی
گئی تھی مندرجہ ذیل حضرات پر مشتمل تھی؛
1۔غالم رسول مہ
2۔ڈاکٹر عبداللہ چغتائی
3۔پروفیسر شیخ عطااللہ
4۔سید نذیر نیازی
اس کام کے لئے ای ک س وال ن امہ م رتب کی ا گی ا تھ ا جس میں
عالمہ اقب ال کے خان دان اور ان کی اوالد کے عالوہ س واالت کی
ایک شق موالنا سید میر حسن کے متعلق بھی شامل تھی۔"
محمد عبداللہ ڈاک ٹر چ دائی بھ ائی روای ات اقب ال مجلس ت رقی
ادب الہور 1977ص ز
یہ کمیٹی اپنے مشن میں ناکام رہی اور کوئی ایسا م واد جم ع نہ
کر سکیں کہ جس کی وجہ سے ک وئی مفص ل س وانح ش ائع کی
جا سکے۔کمیٹی کے پچھلے برس کام نہ ک رنے کی وجہ سے سے
عبدالمجید سالک سے سواالت مرتب کرنے کا معاہدہ ہوا۔یو اقبال
کامل کے بعد ایک مدت تک کوئی نئی چیز س امنے نہ آس کی اور
اقبال کا سوانحی مواد ادھورا ہی رہا۔اقبال کامل کی اشاعت کے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 18
تفویض کیا گیا۔اپنی سید سید ن ذیر نی ازی اپ نے دیب اچے میں اس
حوالے سے بیان کرتے ہیں :
یوبی کوئی س وانح حی ات ہو کس ی نقطہ نظ ر سے لکھی ج ائے
اس کے کچھ نہ کچھ ل وازم ہوں گے۔ل وازم ک ا تقاضہ ہے کچھ
انتظامات جنم یسوع نے نویس کی ذاتی حی ثیت سے قط ع نظ ر
کیا جاسکتا ہے۔ان مش کالت سے ج وہر س وانح ن ویس ک و ط رح
سے پیش آتی ہیں۔مثآل یہی وہی ماخذ اور معلومات ی ا ی وں کہیے
اس س ارے م واد کی ف راہمی ک ا مع املہ ہے۔اس کی چھ ان بین
ترتیب و تقسیم کا جس کے بغیر ناممکن ہے ،کوئی سوانح حیات
معرض تحریر میں آسکے۔معلومات کے لئے افراد اور مقامات کا
رخ کرنا پڑتا ہے مآخذ کے لئے کتابیات کا اور یہ کوئی آس ان ک ام
نہیں راقم الح روف ک و اس سلس لے میں کچھ سہولیات کی
ضرورت تھی کچھ تعاون کی۔خیال تھ ا کہ س ال بھ ر ی ا اس سے
کچھ زیادہ منطق میں حضرت عالمہ کی ایک ایسی سوانح حی ات
تیار ہو جائے گی ج و بہمہ وج وہ مکم ل ،مبس وط اور مفص ل ت و
نہیں ہوگی لیکن باوجود اختصار اس حد تک جامع کہ آگے چل ک ر
ایک ضخیم اور ص حیح معن وں میں مکم ل اور ج امع س وانح کے
لئے تمہید کا کام دے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ایسا نہ ہوا راقم الحروف کو
تن تنہا یہ خدمت سر انجام دینا پڑی۔دشواریوں بہت تھیں۔لہذا اور
ک ام کی رفت ار سس ت رہی پھ ر ای ک ذاتی ص دمے کے ب اعث یہ
سلسلہ دفعہ رک گیا تھا کے بع د س الہ اقب ال آگی ا۔راقم الح روف
پریشان تھا مگر پھ ر جب معل وم ہوا کہ اس تق ریب کی رع ایت
سے حض رت عالمہ کی ای ک س وال حی ات تی ار ہو رہی ہے بلکہ
ہوچکی ہے تو راقم الحروف نے اطمینان کا سانس لیا"
نذیر نیازی سید سید علی راز سوانح حیات حکیم االمت حض رت
عالمہ اقبال الہور 1979ص7
اس اقتباس میں جس کتاب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ ڈاک ٹر
عبدالسالم خورشید کی تالیف سرگزشت اقبال ہے جس ک ا پہلے
ذک ر ہو چک ا ہے۔کس ی زم انے میں میں اقب ال کی تحری روں ک و
مدنظر رکھتے ہوئے ای ک کت اب تی ار کی گ ئی اس کت اب ک ا ن ام
اقب ال ک ا ذہنی ارتق ا رکھ ا گی ا اور اس کے مؤل ف ڈاک ٹر غالم
حسین ذوالفقار ہیں۔یہ کت اب س تمبر 1977ک و قلمبن د کی گ ئی
لیکن اش اعت جن وری 1978میں ممکن ہوس کی ۔یہ کت اب اس
حوالے سے اہم ہے کہ کہ اس میں اقبال کے ذہ نی ارتق اء ک و ان
کے داخلی اور خارجی عوام ل کے مط ابق پرکھ نے کی کوش ش
کی گئی ہے۔ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار لکھتے ہیں:
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 22
عالمہ اقبال کی ذاتی پسند نا پسند کو بھی بیان کیا ہے اور اس
حوالے سےانہوں نے اقبال کے اجداد کے برہمن ہونے کے اثرات
کو بھی ضمنی سطح پر بیان کیا ہے۔ اقبال کے براہمن ہونے پر
فخر کے حوالے سے ان کی تعداد کا نقشہ ہو یوں کھینچتے ہیں:
"سوال پیدا ہوتا ہے ،کیا اقبال کو اپنے اسالف کے براہمن ہونے
پر فخر تھا تھیجی ،یا جو کچھ اپنے اسالف سے انہیں ورثہ میں
مال ،اس میں برہمنیت کا کتنا حصہ تھا؟ انسان کی نجی زندگی
میں متروکہ عقائد کی کوئی اہمیت نہیں رہتی بلکہ ان کا اثر تو
ایک آدھ نسل تک مکمل طور پر زائل ہوجاتا ہے۔اقبال کے جدا
علی نے ان کی پیدائش سے تقریبا ساڑھے چار سو سال قبل
اسالم قبول کیا۔اس لئے اقبال کو اپنے اسالف کے براہمن ہونے
پر کیا فخر ہوسکتا ہے ،مگر یہ حقیقت ہے کہ اقبال گائے کا
گوشت نہ کھا سکتے تھے۔ اس لیے گائے کا گوشت گھر میں نہ
پکتا تھا۔ اگر انہیں غلطی سے کوئی گائے کا گوشت کھال دیتا تو
انکا معدہ قبول نہ کرتا اور ان کی طبعیت مکدر ہو جاتی۔عالوہ
اس کے گو وہ علم نجوم کے قائل نہ تھے،انہوں نے راتوں کی
پیدائش پر دو جنم پتری بنوائیں ،جو محفوظ رکھی گیں۔ایک جنم
پتری الہور میں راجہ نندر ناتھ میں ترتیب دیں اور دوسری
محصور کے پنڈت سر نیو آسیہ نے بنا کر بھیجی۔"
زندہ رود ص 36 ،35
ڈاکٹر جاوید اقبال عالمہ اقبال کی شخصیت کے حوالے سے کی
باتیں ان کے اشعار سے اخذ کرتے ہیں۔ان کے فلسفہ پر عبور
اور براہمنی نسبت کے حوالے سے انہوں نے مزید لکھا ہے:
"اقبال کے بعض اشعار سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ ان کے نزدیک
فلسفے ایسے علوم پر ان کے امور کا سبب ان کی براہمن
نسبی تھی،مگر اقبال نے خود ہی فلسفہ کو اپنی راہبری کیلئے
ناکافی پا کر مسترد کر دیا۔ان کے تجربے میں تو عشق رسول
ہیں ایسی نعمت ہے جس کے ذریعے وہ اپنے تمام فکری مسائل
حل کر سکتے تھے۔اس لیے قرآنی تعلیمات سے ان کا شغف،
اسالم کے ساتھ ان کی محبت اور مسلمان ہونے پر ان کا فخر،
وہ فطری عناصر تھے ،جنہوں نے ان کی شخصیت کی تشکیل
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 34
کی۔"
زندہ رود ص 36
ڈاکٹر جاوید اقبال جہاں پر پہلے باپ کا خاتمہ کرتے ہیں لیکن یہ
خاتمہ اس باب کو دوسرے باب سے منسلک بھی کرتا ہے۔
دوسرے باب کاعنوان "خاندان سیالکوٹ میں" رکھا گیا ہے۔ اس
باب میں انہوں نے اپنے خاندان کی سیالکوٹ آمد اور وہاں پران
کے شب و روز کو بیان کیا ہے۔وہ سیالکوٹ کی قدیم تاریخ بھی
بتاتے ہیں اور اس حوالے سے مہابھارت اور اس کے بعد
سیالکوٹ میں مسلم سالطین کے ادوار کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
اس حوالے سے انہوں نے فوق کی تحقیق کو بیان کیا ہے۔
سیالکوٹ کے بارے میں لکھتے ہیں:
"سیالکوٹ پنجاب کے شمال مشرق میں ایک نہایت قدیم شہر
ہے۔فوک کی تحقیق کے مطابق اسے پانچ ہزار سال یا اس سے
بھی زائد عرصہ قبل راجہ شل نے آباد کیا اور شاکل نام رکھا۔
مہابھارت میں لکھا ہے کہ شاکل نگری اپکاندی کے کنارے مدر
دیش میں واقع ہے۔اس زمانے میں پنجاب کا یہ حصہ مدر دیش
کہالتا تھا اور سیالکوٹ کے معروف نالۂ"ایک" کو اپکا ندی پکارا
جاتا تھا۔مہاراجہ چندر گپت بکرماجیت کے عہد میں ،جسے
گزرے تقریبا دو ہزار سال ہوچکے ہیں ،راجہ شالباہن نے یہاں ایک
قلعہ تعمیر کرایا۔قلعہ کو ہندی زبان میں کوٹ کہا جاتا ہے۔ اس
لیے یہ قلعہ شالکوٹ پکارا جانے لگا اور صدیوں بعد سیالکوٹ
کے نام سے مشہور ہوگیا۔راجا شالباہن کے بیٹے پورن کے،
جوتارک الدنیا اور فقیر ہو کر پورن بھگت کہالیا ،کئی قصے
پنجابی زبان میں دستیاب ہیں۔سیالکوٹ کے شمال میں کوئی
چار میل کے فاصلے پر موضع کرول میں وہ چاہ بھی موجود ہے
جس میں پورن کو پھینکا گیا تھا اور جہاں اکثر ہندو مستورات
بخواہش اوالد ہر نئے چاند کی پہلی اتوار کو جاکر نہایا کرتی
تھیں۔"
زندہ رود ص 38
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب میں مہا بھارت میں میں درج
سیالکوٹ کی تاریخ کے بعد 1351سے 1857تک کے نمایاں
واقعات کو پورے برصغیر کی تاریخ کے تناظر میں بیان کیا ہے۔ان
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 35
کا نام خصوصی طور پر ڈاکٹر جاوید اقبال بیان کرتے ہیں ہیں۔
رفتہ رفتہ مسلمانوں کے ہاتھ سے سے حکومت نکلتی جارہی
تھی اور اس ہنگامے میں پھر 1857کی جنگ آزادی ہوئی۔اس
حوالے سے وہ لکھتے ہیں:
"جس زمانے میں اقبال کے اجداد نے کشمیر سے ہجرت کرکے
سیالکوٹ میں سکونت اختیار کی اس وقت برصغیر کے
مسلمان اپنی تاریخ کے ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہے
تھے۔1799ء میں میسور کے سلطان ٹیپو کی انگریزوں کے
مقابلے میں شکست نے مسلمانان ہند کی اپنی زوال پذیر
اجتماعی سیاسی قوت کے احیاء اور بحالی کے لیے تمام امیدوں
پر پانی پھیر دیا۔۔۔ 1835میں کمپنی نے ہندوستان کا سکہ تبدیل
کر دیا اور 1837میں فارسی کی سرکاری زبان کی حیثیت ختم
کر دی۔باآلخر 1857ال 3گا میں اسے بادشاہ کو معزول کرنے کا
موقع مل گیا۔ بادشاہ کو ملک بدر بدر کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔
شہزادوں کو ہمایوں کے مقبرے کے نزدیک گولی سے اڑا دیا گیا
اور اس طرح مغل تخت کے دعویداروں کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ
ہوگیا۔ ہندوستان تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا۔ زندہ رود صفحہ ،41
42
ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے برصغیر کی تاریخ کو اس باب میں
سمونے کی کوشش کی ہے ہے اساتذہ بھی بتالیا ہے کہ اقبال کے
والد نے انگریزوں کے ظلم و استبداد کا یہ زمانہ ضرور دیکھا
ہوگا۔درحقیقت وہ ایک امن پسند شخصیت تھے تھے اور قوم کی
اس تقلید کو انہوں نے بھی محسوس کیا ہوگا لیکن یہ بھی
سمجھ گئے ہوں گے کہ ان حاالت میں مسلمانوں کے پاس
انگریزوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں۔علم کا بیشتر
وقت ذکر اذکار اور یادیں الہی میں گزرتا تھا۔ڈاکٹر جاوید اقبال
نے نے فل سو علی نگاری کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے
عالمہ اقبال کے والد گرامی اور والدہ ماجدہ کے اخالق و عقائد
اور اخالق و اطوار کا خاکہ بھی تحریر کیا ہے۔والد اور والدہ کی
تربیت کے زیر اثر عالمہ اقبال کی شخصیت وقت ہمارے سامنے
واضح طور پر ابھرتی ہوئی لگ رہی ہے۔
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 37
کوشش نہیں کی۔وہ ان کے لکی کبوتر بازی اور پتنگ اڑانے اور
اکھاڑے میں ورزش کرنے تک کے شوق کو بیان کر دیتے ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی شخصیت اور قاری کی
نفسیات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہوئے زندہ رود کے تمام
ابواب تحریر کیے ہیں اس لیے وہ اقبال کی شاعری کی ابتدا کو
بھی موضوع بناتے ہیں۔اقبال کی شاعری کی ابتدا کے حوالے
سے لکھتے ہیں:
"سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہوں نے شعر کہنے کب شروع کیے۔ اس
بات کا جواب دو وثوق سے تو نہیں دیا جاسکتا کیونکہ شعروں
سے مناسبت تو انہیں بچپن ہی سے تھی۔ممکن ہے ہے اس عمر
میں باقاعدہ طبع آزمائی کی ابتدا ہوئی ہو۔یکتا حقانی امروہوی
اپنی کتاب "سیرت اقبال" میں تحریر کرتے ہیں کہ اقبال کی
طبیعت کا رجحان نو عمری ہی سے شاعری کی طرف تھا۔
بچپن میں وہ اکثر فقرے ایسے بول جاتے ہیں جو کسی نہ کسی
بحر یا وزن میں ہوتے تھے۔زندہ رود صفحہ 91
اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی شادی کا ذکر
کیا ہے اس زمانے میں کم عمری میں بچوں کی شادی کردی
جاتی تھی۔اقبال کی پہلی بیوی کا نام کریم بی بی تھا اور اس
وقت عالمہ اقبال 16برس جبکہ ان کی عمر 19برس تھی۔اقبال
کی بعد کی تحریروں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ اس شادی کے
لیے راضی نہ تھے لیکن گھر میں بزرگوں کے سامنے نوعمر
لڑکوں کے لئے اختالف رائے کرنا اور پھر اس کا اظہار ممکن نہ
تھا اس لئے اقبال نے خاموشی اختیار کی۔عالمہ اقبال نے 1893
میں سکاچ مشن اسکول سے سے میٹرک کیا اور اسی سکول
میں میں انٹرمیڈیٹ کی کالسیں شروع ہوئیں تو 1895میں یہاں
سے ایف اے کیا۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس باب کے آخر میں
عالمہ اقبال کی موسیقی ٹی سے دلچسپی کے حوالے سے چند
کتابوں کا ذکر کیا ہے جو ان کے ابتدائی زمانے میں زیرمطالعہ
رہیں۔گو یہ درسی کتابیں تھیں لیکن ان میں میں موسیقی کے
راگ اور مختلف شعراء شعراء کے منتخب اشعار درج تھے۔یو
عالمہ اقبال آل الہور آنے سے قبل موسیقیمیں بھی دلچسپی
لینے لگے تھے۔اب عالمہ اقبال کے لئے اس محدود علمی فضا
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 43
میں رہنا اور پنپنا ممکن نہ تھا اب وہ مرزا داغ دہلوی سے اصالح
لے رہے تھے اسی دوران الہور چلے آئے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے پانچویں باب کو "گورنمنٹ کالج الہور"
کے نام سے موسوم کیا ہے۔عالمہ اقبال پھول کی زندگی میں یہ
دور بہت اہمیت رکھتا ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اقبال کی شاعری
کے تشکیلی دور میں جمع حرکات کو سب سے زیادہ اہمیت دی
ہے وہ الہور میں مشاعرے کی روایت ہے جس میں عالمہ اقبال
شریک ہوا کرتے تھے ان کے خیال میں اگر عالمہ اقبال الہور نہ
آتے تو انہیں شہرت اور ناموری نہ ملتی۔الہور کے علمی و ادبی
ماحول میں عالمہ اقبال کے اندر گوئٹے اور غالب کے افکار کے
حوالے سے دلچسپی پیدا ہوئی اور اقبال کی ذہنی تربیت موت
کا سلسلہ جو مولوی میر حسن کی شاگردی میں شروع ہوا تھا
اب آگے بڑھنے لگا۔عالمہ اقبال کو موسیقی سے دلچسپی تھی
اس ضمن میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے خصوصی طور پر الہور اور
ان کی خوش الحانی اور اشعار کرلو ہم سے پڑھ کر سنانے کا
ذکر کیا ہے۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
"ان میں میں میں اپنے اشعار ترنم سے پڑھ کر سنانے کا ذوق
الہور ہی میں پیدا ہوا۔ اس میں بے تکلف دوستوں کے اصرار کا
بڑا ہاتھ تھا۔جو نہ صرف اچھے شعر کی داد دے سکنے کے اہل
تھے بلکہ موسیقی کی صحیح شناخت بھی رکھتے تھے اور ایسی
محفلوں کا اہتمام بھی کرتے تھے۔غالبا اسی زمانے میں اقبال نے
ستار خریدی اور سیکھنے کے لیے باقاعدہ سبق لیے۔ وہ
ستاربجانے کی مشق کیا کرتے تھے اور انہیں ستار نوازی کا
شوق ایک مدت تک رہا۔ 1905میں یورپ جانے سے پیشتر وہ یہ
ستار اپنے کسی دوست کو دیے گئے لیکن مضراب کو یادگار کے
طور پر محفوظ رکھ لیا۔یہ مرزا براکن نے ان کی وفات کے بعد
دیگر استعمال کی اشیاء کے ساتھ پڑی ہوئی خود دیکھی ہے،
مگر بعد میں ڈھونڈنے سے نہ مل سکی۔"زندہ رود صفحہ 107
ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی ادبی مصروفیات کے ساتھ
ساتھ ان کی علمی میں جدوجہد کو بھی بیان کیا ہے۔عالمہ اقبال
نے گورنمنٹ کالج سے 1897میں بجے کا امتحان پاس کیا۔ان
کی طبیعت کا رجحان فلسفے کی طرف تھا اس لیے ایم اے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 44
نمبر شمار نئے سرے سے شروع نہیں کیا گیا ۔جلد اول سال کی
آخری باپ کا نمبر ساتھ تھا اور جلد وزن کا پہال باب نمبر8
قراردیاگیاہے یو یو عالمہ اقبال کی سوانح "زندہ رود" جلد دوم کا
باب اول کی بجائے یے آٹھویں باب سے شروع کیا گیا ہے۔ڈاکٹر
جاوید اقبال نے نے اس جلد ضد کے ابواب اب کو کو اس کے
نفس
ِ نفس نے مضمون کے مطابق الوام دیا ہے یوں وہ باب
مضمون کا اشاریہ بن جاتے ہیں اور اس کے اندر موجود کہانی
کو بیان کرتے ہیں۔ان ابواب کی تفصیل درج ذیل ہے:
8۔فکر معاش.9 ازدواجی زندگی کا بحران
.10ذہنی ارتقا
.11تخلیقی کرشمہ.12 قلمی ہنگامہ
13۔ خانہ نشینی
14۔ہندو مسلم تصادم کا ماحول
ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے اس حصے میں عالمہ اقبال کی دنیاوی
جدوجہد اور ان کے افکار کے تدریجی ارتقاء کا جائزہ لیا ہے۔
عالمہ اقبال نے اس دور میں اپنے خیاالت کا برمال اظہار کیا۔یہی
وجہ ہے کہ ان کے افکار پر کڑی تنقید کی گئی اور کئی جگہ
مخالفین نے کردار کشی کی مہم بھی چالئی۔اس دور میں عالمہ
اقبال کی دنیاوی مصروفیات تو بہت بڑھ گئی تھی لیکن وہ
اضطراب اور تنہائی کا شکار بھی تھے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑی
کامیابی اسے تحقیق کی سطح پر ان تمام عوامل کو بیان کیا
ہے اور انہوں نے اس دور میں پیش آنے والے سیاسی واقعات
اور عالمی تناظر کو بھی عمدگی سے عالمہ اقبال کی شخصیت
کے ارتقاء سے جوڑا ہے۔ عالمہ اقبال کی زندگی کے اس حصے
کے بارے میں "زندہ رود" کے دیباچے میں لکھتے ہیں:
"دوسرے حصے کا تعلق حیات اقبال کے وسطی دور سے ہے۔
اس کا آغاز ستمبر 1948اقبال کی دنیا درانہ جدوجہد سے ہوتا
ہے اور جسم بر 1925تک کی مدت میں ان کی زندگی اور
افکار کے بتدریج ارتقاءکے جائزہ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔اس دور
میں اقبال نے ملت اسالمیہ کے لیے نیا سرمایہ حیات فراہم
کرنے کی غرض سے اپنے خیاالت کا برمال اظہار کرنا شروع کیا
اور حقیقی اسالمیت کی بیداری کی خاطر ایک مخصوص نظام
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 53
کی جو 1913ء میں موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک بہت
عظیم الشان جلسے میں عوام کے جم غفیر کے سامنے جنگ
بلقان کے مجاہدین کے لیے چندہ جمع کرنے کی خاطر پڑی ہے۔
اس نظم کا ایک ایک شعر نیالم ہوا اور ایک بھاری رقم بلقان فنڈ
کے لیے جمع ہوگی۔" زندہ رود ص 189
ڈاکٹر جاوید اقبال نےعالمہ اقبال کی نظم شکوہ پر جو
اعتراضات ہوئے ان کو بھی مختصر بیان کیا ہے اور جواب شکوہ
کے حوالے سے بھی کئی باتیں لکھیں ہیں۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے
عالمہ اقبال کی اس جذباتی کشمکش کو بھی بھی موضوع بنایا
ہے ہے جس میں وہ مبتال ہوئے۔ڈاکٹر جاوید اقبال سوانح عمری
کے کے تمام موضوعات اسی کشمکش کا تجزیہ بھی کیا ہے جو
ان سے پہلے عالمہ اقبال کے سوانح نویسوں میں سےکسی نے
نہیں کیا۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں:
" اقبال یورپ سے واپس آ جانے کے باوجود نفسیاتی طور پر
ابھی تک ایک لحاظ سے یورپ ہی میں تھے .جب دنیا میں
زندگی کے تلخ حقائق کا سامنا کرنا پڑتا‘ تو سخت گھبرا جاتے
اس احساس محرومی کا سبب مختلف عناصر تھے جن میں ایک
تو ان کی مالی مشکالت تھی اور دوسرا ان کی ازدواجی زندگی
کی بے سکونی .وہ ذہنی کرب و اضطراب کے ایک کٹھن دور
سے گزر رہے تھے البتہ اس کیفیت میں قیام یورپ کا حسین
وجمیل تصور انہیں ایک گونا تسکین بخشتا تھا .جرمنی میں ان
کی خط و کتابت فراؤلین ایما ویگے ناست سے جاری تھی،
جسے وہ ایک اچھی اور سچی لڑکی سمجھ کر پسند کرتے
تھے ".زندہ رو صفحہ 192
ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس تعلق کو بالوجہ رومانوی رنگ نہیں دیا.
انہوں نے عالمہ اقبال کے اس عہد کے خطوط کو کو بڑی
سمجھداری سے یہاں درج کیا ہے .یہی نہیں وہ عطیہ فیضی کے
خطوط اور اس جذباتی سہارے کو بھی دلچسپ انداز مین بیان
کرتے ہیں .اطیع فیضی رضی کے خطوط کے حوالے سے لکھتے
ہیں
" اسی طرح 1909،سے لے کر 1911تک عطیہ فیضی کے نام
تحریر کردہ خطوط ان کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں.ان کی
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 57
میں وقتا فوقتا نئے موضوعات داخل ہوئے لیکن یہ احیائے اسالم
شروع سے لے کے آخر تک ان کی شاعری میں موجود رہا۔ یہ
باب عالمہ اقبال کے ایک مضمون "قومی زندگی" اور چند دیگر
خطبات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ہے.
اس باب کو اگر ا عالمہ اقبال کے افکار کا خالصہ کہا جائے تو بے
جا نہ ہوگا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کے ذہنی ارتقاء جو
موضوعات کے وہ درج ذیل ہیں:
1۔عورتوں کی تعلیم2 ۔پردہ 3۔شادی بیاہ کی رسومات 4۔اقبال کا
ملی تصور
5۔اسالمی تہذیب و تمدن6 ۔موت و حیات کا فلسفہ 7۔اسالمی
ریاست کا اصول انتخاب۔8 ۔نظریہ شاعری
اس باب میں عالمہ اقبال کی کی تحریروں کو یکجا کیا گیا ہے
اور ان کی زمانی ترتیب بھی بھی مدنظر رکھیں نہیں گئی اس
لیے اس باب کو پڑھتے ہوئے تکرار کی کیفیت سامنے آتی ہے۔
یہ باب اپنے ساتھہ ابواب کی طرح طرح مواد کے اعتبار سے
زیادہ مضبوط نہیں اور نہ ہی زمانی ربط موجود ہے۔ ڈاکٹر راشد
محمود خود اس باب کے حوالے سے لکھتے ہیں:
" ظاہر ہے کہ یہ آٹھ موضوعات اقبال کے نظام فکر و فلسفہ
میں اہم ضرور ہیں ،لیکن ان کی حیثیت بنیادی اور مرکزی نہیں
ہے ،کس قدر سر حیرت کی بات ہے کہ ذہنی ارتقاء کے ضمن
میں عالمہ کے جن افکار کو موضوع بحث بنایا گیا ،ان میں سے
کوئی بھی مسئلہ ان کی فکر کا بنیادی نقطہ نہیں ہے،پھر یہ بھی
کہ اس باب میں کالم اقبال اور جدید تشکیل الہیات اسالمیہ کو
موضوع نہیں بنایا گیا۔کالم اقبال ،خطبات اور دیگر تحریروں کے
بغیر کس طرح اقبال کے ذہنی ارتقاء کو سمجھا جاسکتا ہے
،پھریہ بھی کہ اس بات میں زمانی تقدم و تاخر کا لحاظ نہیں
رکھا گیا۔ یہ باب پوری کتاب کا کمزور ترین باب ہے جو اقبال کی
سوانح اور فکری شخصیت کی تشکیل میں کسی خوش کن
منظر کا اظہار نہیں بنتا۔" زندہ رود کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ
صفہ 79
زندہ رود اُن کے گیارہویں باب کا نام "تخلیقی کرشمہ" ہے۔ اس
میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی مثنوی اسرار خودی
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 63
تجویز کیے ہیں۔ آپ بھی طبع آزمائی فرمائے اور نتائج سے
مجھے مطلع فرمائیے تاکہ میں انتخاب کر سکوں۔" زندہ رود
صفحہ 250تا 251
ڈاکٹرجاویداقبال کے خیال میں عالمہ اقبال کی تخلیقی صالحیتیں
عروج پر پہنچ گئی اس لیے انہوں نے اس باب کا ننام تخلیقی
کرشمہ لکھا ہے۔ عالمہ اقبال خود اس مثنوی کے حوالے سے
بہت احباب سے بھی مشورہ کر چکے تھے تھے اور ان کے خیال
میں یہ مثنوی ان سے لکھوائی جارہی ہے۔اس سلسلے میں
ڈاکٹر جاوید اقبال عالمہ اقبال کے کئی خطوط کا حوالہ دیتے
نظر آتے ہیں۔ عالمہ اقبال کے ایک خط کا متن کچھ یوں ہے:
یہ مثنوی جس کا نام "اسرار خودی" ہے ایک مقصد سامنے رکھ
کر لکھی گئی ہے۔ میری فطرت کا طبعی اور قدرتی میالن
سکرو مستی و بے خودی کی طرف ہے۔ مگر قسم ہے اس
خدائے واحد کی ،جس کے قبضے میں میری جان و مال و آبرو
ہے ،میں نے یہ مثنوی از خود نہیں لکھی بلکہ مجھ کو اس کے
لکھنے کی ہدایت ہوئی ہے اور میں حیران ہوں کہ مجھ کو ایسا
مضمون لکھنے کے لیے کیوں منتخب کیا گیا۔ جب تک اس کا
دوسرا حصہ ختم نہ ہو لے گا ،میری روح کو چین نہ آئے گا۔اس
وقت مجھے یہ احساس ہے کہ بس میرا یہی ایک فرض ہے اور
شاید میری زندگی کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔مجھے یہ معلوم
تھا کہ اس کی مخالفت ہوگی ،کیونکہ ہم سب انحطاط کے
زمانے کی پیداوار ہیں اور انحطاط کا سب سے بڑا جادو یہ ہیں
ہے کہ یہ اپنے تمام عناصر و اجزا و اسباق کو اپنے شکار(خواہ وہ
شکار کوئی قوم کو خواہ فرد) کی نگاہ میں محبوب و مطلوب
بنا دیتا ہے ،جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بد نصیب شکار اپنی تباہ
و برباد کرنے والے اسباب کو اپنا بہترین مربی تصور کرتا
ہےمگر:
من نوائے شاعر فرداستم
اور
نا امید ستم ز یاران قدیم
طور من سوزد که می آید کلیم " زندہ رود صفحہ 248
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 65
بعد رفتہ رفتہ سکون کے آثار نمودار ہوجاتے اور اطمینان سے
سو جاتے۔" زندہ رود صفحہ 269
ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ رود کے بارہویں باب کا عنوان "قلمی
ہنگامہ"رکھا ہے اس میں انھوں نے سوانح کی جدید تکنیک کو
برتا ہے اور ان تمام باتوں کی نشاندہی کی ہے جو اسرار خودی
کی اشاعت پر قلمی جنگ کا باعث بنیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس
حوالے سے لکھتے ہیں :
"مثنوی اسرار خودی کی اشاعت پر پر وجودی تصوف کے
حامی صوفیوں ،روایتی سجادہ نشینوں عہد تنزل کی شاعری
کے دلدادوں اور فرسودہ یونانی فلسفہ اشراق کے پیرو کاروں
کی اقبال اور اس کے حامیوں کے ساتھ جو قلمی جنگ ہوئی ،وہ
1915کے اواخر سے لے کر 1918یعنی تقریبا ڈھائی تین برس
تک جاری رہی۔ اس قلمی ہنگامے کی پوری تفصیل اقبال کے
اسی تحریر کردہ سوانح حیات میں ملتی ہے نہ ان کتب میں جو
اقبال اور تصوف کے موضوع پر لکھی گئیں ،لیکن حقیقت یہ ہے
کہ ان سالوں میں بیسیوں مضامین مختلف اخباروں اور رسالوں
میں مثنوی اسرار خودی کی تعریف یا مخالفت میں ،وجودی
تصوف کے حق میں یا خالف اور حافظ کی حمایت یا ان کے
نظریہ حیات کی تردید میں شائع ہوئے۔ مشائخ میں اقبال کی
مخالفت میں خواجہ حسن نظامی اور ان کے مرید سب سے
آگے تھے اقبال نے خود اس بحث میں پڑھ کر کی مضامین
لکھے ".زندہ رود صفحہ 272
ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق اس قلمی جنگ کا آغاز خواجہ
حسن نظامی کی طرف سے ہوا۔ ابتداء میں ان کی ایک مرید
ذوقی شاہ نے عالمہ اقبال کی مثنوی کے متعلق ایک مضمون "
خطیب" نے شائع کیا .اس مضمون کے بعد مداحین اقبال نے
بھی مضامین لکھے۔ اقبال کے کسی حامی کشاف نے 22
دسمبر 1915ءمیں اخبار وکیل میں ایک مضمون لکھا جس میں
انہوں نے نے لکھاکہ مثنوی اسرار خودی کی مخالفت خواجہ
حسن نظامی کی وجہ سے ہو رہی ہے کیونکہ وہ آل انڈیا صوفی
کانفرنس کے سیکرٹری ہیں۔عالمہ اقبال نے خود بھی خواجہ
حسن نظامی کی طرف سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 69
اپنے تین مضامین میں جواب دیا۔ اسرارِ خودی پر کیا جانے واال
اعتراض اس کا دیباچہ ،حافظ کے متعلق 35اشعار اور اسے
سر سیدعلی امام کے نام پر معنون کرنا تھا۔ یہ باب ڈاکٹر جاوید
اقبال نے عبداللہ قریشی کی تصنیف "معاصرین نے اقبال کی
نظر میں" اور ان سے بالمشافہ گفتگو کی روشنی میں ترتیب
دیا ہے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کے خیال میں میں اس قلمی ہنگامے میں
سب سے اہم کردار خواجہ حسن نظامی کے مضمون کشاف
خودی کا تھا جو 19دسمبر 1915میں میں اخبار وکیل سے
شائع ہوا۔ خواجہ حسن نظامی نے چند سواالت مرتب کرکے
مشائخ کو ارسال کئے اور ان کے جوابات ان حضرات نے مثنوی
پڑھے بغیر دے دیئے اور وہ مختلف رسائل کی زینت بنے ۔ یوں
وکیل اخبار میں عالمہ اقبال کی حمایت اور مخالفت میں
مضامین شائع ہونے لگے اس کے ساتھ ساتھ جہلم کے اخبار
سراج االخبار ،الئل گزٹ الہوراور لمحات میں بھی ایک ایک
مضمون شائع ہوا جو عالمہ اقبال کی مخالفت میں تھا۔ حیران
کن وجہ یہ تھی کہ کہ کسی بھی لکھنے والے نے اپنا نام ظاہر
کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال ا اس تازہ کے
حوالے سے زندہ رود میں لکھتے ہیں:
"اس تنازع کا دلچسپ پہلو یہ تھا کہ بحث کے دوران خواجہ
حسن نظامی جیسی معتبر ہستی نے اقبال کے فارسی اشعار کا
اردو ترجمہ کرتے وقت انہیں خالف حقیقت شکل دی یا دیباچے
پر نکتہ چینی کرتے وقت ایسی تعبیرات شامل کردیں جو اصل
میں موجود نہ تھیں۔ اکبر الہ آبادی سمیت بعض بزرگوں نے
مثنوی پڑھی ہی نہ تھی اور دوسروں کی ہنگامہ آرائی سے متاثر
ہوگئے تھے۔عالوہ اس کے مخالفین نے علمی سطح سے اتر کر
اقبال کی ذات پر بھی ناجائز حملے کیے اور انہیں دہریہ ،شغال،
کتا ،دشمن تصوف ،دشمن اسالم ،دن و ملت فروش ،رہزن
ایمان،شیطان وغیرہ کے القاب سے پکارا۔" زندہ رود صفحہ 257
مثنوی اسرار خودی کی مخالفت میں خواجہ حسن نظامی کا
دوسرا مضمون "سر اسرار خودی" 30جنوری 1916کے
"خطیب" میں شائع ہوا جس میں انہوں نے مثنوی کے اصولوں
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 70
پر بحث کی اور پانچ وجوہات کی بنا پر اسے نامعقول قرار دیا.
اسی دور میں پیرزادہ مظفر احمد فضلی نے اسرار خودی کے
جواب میں ایک مثنوی "راز بے خودی" شائع کی اس میں عالمہ
اقبال پر ذاتی حملے کیےگئے اور اس کا اصل موضوع سے کوئی
تعلق نہ تھا۔ وجودی تصوف کے عالوہ حافظ پر عالمہ اقبال کے
کئے جانے والے اعتراضات کو بھی موضوع بنایا گیا اور بعض
لوگوں نے اس نکتے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی جنہیں
عالمہ اقبال سمجھانا چاہ رہے تھے۔ عالمہ اقبال کی حمایت میں
بھی کئی لوگوں نے مضامین لکھے جن میں مولوی سراج الدین
پال ایڈوکیٹ ،موالنا عبداللہ عمادی ،موالنا ظفر علی خان،
مولوی الف دین وکیل ،مولوی محمود علی اور عبدالرحمن
بجنوری وغیرہ زیادہ اہم ہیں۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال
کے تین مضامین کو خصوصی طور پر موضوع بنایا ہے جو خواجہ
حسن نظامی کے مضامین کے جواب میں تھے ان کی تفصیل
درج ذیل ہیں ہے۔
1۔عالمہ اقبال نے خود بھی ان اعتراضات کے جوابات میں
مضامین تحریر کئے ڈاکٹر جاوید اقبال ال نے ان مضامین کے
حوالے سے زندہ رود میں لکھا ہے۔ عالمہ اقبال کا پہال مضمون
بعنوان "اسرار خودی اور تصوف"وکیل میں 15جنوری 1916
میں شائع ہوا۔ اس میں انہوں نے بتایا کہ وہ تصوف کی تاریخ
لکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بتا دیں کونسا تصوف اسالمی ہے اور
کون سا غیر اسالمی۔ عالمہ اقبال درحقیقت صوفیا کے اس گروہ
کے خالف تھے جنہوں نے غیرمتعلقہ چیزوں کو اسالم میں داخل
کردیا۔
2۔عالمہ اقبال نے "سر اسرار خودی" کے عنوان سے دوسرا
مضمون خواجہ حسن نظامی کے اعتراضات کے جواب میں
تحریر کیا اور یہ مضمون وکیل میں 9فروری 1916میں شائع
ہوا۔ اس میں عالمہ اقبال نے اپنے عقیدے کی وضاحت کی اور
اور انتشار قابل ذکر کیا جنہوں نے غلط معنی پہناکر دیباچے کے
بعض حصوں کی غلط تعبیر کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس
مضمون کے آخری حصے میں عالمہ اقبال نے مثنوی کو سر
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 71
کیے بغیر ترتیب دیتے چلے گئے۔ مگر باآلخر اپنا کام ادھورا چھوڑ
کے عجب بے چینی ،بے تابی اور بے قراری کے عالم میں وفات
پائی۔روح اقبال کی بے چینی ،بےتابی اور بے قراری ایک عجیب
وغریب کیفیت ہے۔۔۔۔ایک ایسی کیفیت جو آج بھی شعر اقبال کے
ذریعے رازداروں کے سینوں میں شعلے کی طرح لپکتی ہے۔"
زندہ رود صفحہ 17 ،16
زندہ رود کی تیسری جلد کا پہال اور مسلسل پندرھواں باب
"عملی سیاست کا خارزار" کے عنوان پر مشتمل ہے۔ اس بار
میاں ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی سیاست میں عملی
شرکت کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ سیاسی لحاظ سے سے
1926سے 1935تک کا دور ہندوستان کا بہت اہم دور ہے۔
عالمہ اقبال اس دور سے قبل ل فکری اور نظریاتی سطح پر پر
سیاست سے گہری وابستگی رکھتے تھے لیکن عملی سیاست
میں نہیں اترے تھے کیونکہ وہ برصغیر میں مسلمانوں کی عملی
سیاست کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ڈاکٹر جاوید
اقبال نے ان کے درج ذیل اشعار اس حوالے کے طور پر درج
کیے ہیں:
ہوس بھی ہو تو نہیں مجھ میں ہمت تگ و تاز
حصول جاہ ہے وابستئہ مذاق تالش!
ہزار شکر ،طبیعت ہے ریزہ کار مری
ہزار شکر ،نہیں ہے دماغ فتنہ تراش
مرے سخن سے دلوں کی ہیں کھیتیاں سرسبز
جہاں میں ہوں میں مثال سحاب دریا پاش
یہ عقد ہائے سیاست تجھے مبارک ہوں
کہ فیض عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
ڈاکٹر جاوید اقبال نے عالمہ اقبال کی سیاست کے پس منظر
کو ہندوؤں کی پست ذہنیت اور ہندومسلم فسادات کے تناظر
میں پیش کیا ہے۔ عالمہ اقبال ابتدا میں ہندو مسلم اتحاد کے
پرجوش حامی اور مبلغ تھے لیکن جلد ہی انہیں معلوم ہوگیا کہ
مسلمان اور ہندو آزادی کے حصول میں اکٹھے نہیں چل سکتے۔
عملی سیاست میں آنے سے قبل انھوں نے خالفت کانفرنس
میں شمولیت اختیار کی لیکن جلد ہی اسے ترک کر دیا۔ اس کے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 83
بلکہ ان کی مدد کریں گے ،تب عالمہ اقبال انتخابات میں حصہ
لینے کے لیے تیار ہوگئے۔ عالمہ اقبال کے مدمقابل ملک محمد
دین کھڑے ہوئے۔ اس عہد میں الہور اور اس کے مضافات میں
موجود گاؤں میں برادری کے نام پر ووٹ لیا جارہا تھا۔ مسلم
اخبارات نے یہ کوشش کی کہ عالمہ اقبال جیسی شخصیت کو
بالمقابلہ کونسل کا رکن حکم منتخب کروایا جائے لیکن ملک
محمد دین ڈٹے رہے اور شہر کی برادیوں میں اشتہارات شائع
کروائے۔ ان اشتہارات میں عالمہ اقبال پر مختلف نوعیت کے
الزامات لگائے گئے۔
1۔عالمہ اقبال وہابی العقیدہ ہیں
2۔ان کا تعلق صوفیا کی مخالفت کرنے والے گروہ سے ہے۔
3۔ابن سعود کے حامی ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کی تحقیق کے مطابق عالمہ اقبال نے ان
اشتہارات کا بالکل جواب نہیں دیا۔سارا شہر ان کے حمایتیوں
سے بھرا پڑا تھا اور الہور کی تمام معروف شخصیات نے ان کا
ساتھ دیا۔ اس سلسلے میں محمد حنیف شاہد کی کتاب "اقبال
اور پنجاب کونسل" میں ان تمام شخصیات اور ان کے واقعات
درج ہیں۔ الہور میں عالمہ اقبال کی حمایت میں تقریبا بیس
جلسے منعقد ہوئے جن میں سے باغ میں عالمہ اقبال نے خود
بھی خطاب کیا۔ عالمہ اقبال کو اس الیکشن کی مہم میں بہت
معمولی رقم اپنی جیب سے خرچ کرنی پڑی۔ 23اور 24نومبر
1926کو الہور میں الیکشن ہوا ،جس میں عالمہ اقبال بھاری
اکثریت سے کامیاب ہو گئے۔ یہ پورا سال الیکشن کے ہنگاموں
میں میں گزر گیا۔وہ 1930تک پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن
رہے اور اس مختصر دورمیں انھوں نے مسلمانوں کی بہتری کے
لئے بہت کام کیا۔ 3جنوری 1927ءکو پنجاب قانون ساز کونسل
کا اجالس ہوا جس میں عالمہ اقبال نے حلف اٹھایا۔ڈاکٹراقبال
اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"جنوری 1927ہی میں اقبال پنجاب کونسل کی فائنانس کمیٹی
اور ایجوکیشن کمیٹی کے رکن مقرر کیے گئے۔ 13فروری
1927کو انھوں نے کونسل کے آئندہ اجالس میں دو قراردادیں
پیش کرنے کا نوٹس دیا۔اول یہ کہ تعلیم یافتہ طبقے میں بےکاری
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 85
قرآنی انبیاء یا خضضور نبی بغیر ہمزہ ہیں تو لفظ نبی کا مروجہ
انگریزی ترجمہ "پرافٹ" جس کے معنی خبر دینے واال کے ہیں،
کیوں کر درست ہوسکتا ہے؟
لفظ نار کا روٹ عربی زبان میں کیا ہے؟
لفظ نجات کا روپ کیا ہے اور روٹ کی روح سے کیا معنی ہیں؟
زندہ رود صفحہ 218 215
اس اقتباس سے سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ عالمہ اقبال کن
سواالت کے جوابات رات کی تالش میں تھے۔انہوں نے تقریبا
پانچ سال کے کے عرصے میں میں ان جوابات کو تالش کیا اور
خطبات لکھے۔عالمہ اقبال نے جنوبی ہندوستان کے اس دورے
میں میں تین خطبات پیش کیے۔ عالمہ اقبال کا یہ سفر جنوری
کے اوائل میں ہوا تھا۔ یہاں انہوں نے تین خطبے دیے ان کی
تفصیل درج ذیل ہے:
1۔ دینیات اسالمیہ اور افکار حاضرہ
2۔ مذہبی تجربات کے کشف و الہامات کا فلسفیانہ امتحان
3۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے زندہ روپ میں عالمہ اقبال کے اس سفر
کی پوری تفصیل فراہم کی ہے۔ خطبات پیش کرنے کے بعد
عالمہ اقبال ٹیپو سلطان ان کے کے مزار کی زیارت کے لئے
گئے۔ اسباب کا یہ حصہ عالمہ اقبال کی ٹیپو سے محبت کو ظاہر
کرتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس حصے کو پوری تفصیل کے
ساتھ بیان کیا ہے بلکہ انہوں نے خطبات کی تحریر و ترتیب اور
ان کے پڑھنے کے تمام مراحل کو بھی بھی بیان کیا ہے ہے یہی
وجہ ہے کہ جامعیت صحت کے لحاظ سے یہ باپ زندہ رود کے
اہم ترین سونے شامل ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاویداقبال کے مطابق
عالمہ اقبال 19جنوری 1929کو حیدرآباد سے الہور روانہ ہوئے
اور یہ علمی دورہ ختم ہوا۔ عالمہ اقبال کے خطبات کی
تشہیرپورے برصغیر میں ہوئی اور اب علی گڑھ یونیورسٹی کے
شعبہ فلسفہ نے عالمہ اقبال کو وہی مقاالت پڑھنے کے لئے
دعوت دی۔ 1929کے آخر میں میں علی گڑھ میں یہ خطبات
پڑھے گئے۔اس حوالے سے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات 94
پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی ۔اس تجربے کا ذکر کرتے ہوئے
انہوں نے غالم رسول کو تحریر کیا :مرنے سے پہلے قرطبہ
ضرور دیکھو۔ پھر راقم کو بھی ایک تصویری کارڈ قرطبہ سے
ارسال کیا اور لکھا :میں خدا کا شکر گزار ہوں کہ اس مسجد
کو دیکھنے کے لئے زندہ رہا۔ یہ مسجد تمام دنیا کی مساجد سے
بہتر ہے۔ خدا کرے کہ تم جوان ہوکر اس عمارت کے انوار سے
اپنی آنکھیں روشن کرو۔ اقبال کی یہ دعا بیالیس سال کے بعد
پوری ہوئی جب راقم اگست 1975میں سیاحت ہسپانیہ کے
دوران میں قرطبہ پہنچا اور نہ صرف مسجد قرطبہ کی زیارت
کی بلکہ محراب کے سامنے اس مقام کو بھی تعظیم چھوا جہاں
شاید کھڑے ہوکر اقبال نے نماز ادا کی تھی۔" زندہ رود صفحہ
554
ڈاکٹر جاوید اقبال مسجد قرطبہ کے حوالے سےتمام روایات کو
بیان کرنے کے بعد ایک نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں
عالمہ اقبال نے میں حکومت ہسپانیہ کی خاص اجازت سے
مسجد میں نماز ادا کی اور اس کے لیے مصلی ساتھ لے کر
گئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس حوالے سے لکھتے ہیں:
"اقبال حکومت ہسپانیہ کی اجازت خاص کے تحت ناظم آثار
قدیمہ کی معیت میں مسجد میں نماز ادا کرنے کی خاطر گئے
تھے اس لیے مصلی ساتھ لے کر گئے اور عین ممکن ہے کہ یہ
انتظام انہوں نے قیام میڈرڈ کے دوران میں پروفیسر آسین پیال
کیوس یا وزیر تعلیم حکومت ہسپانیہ کے ذریعے کرایا ہو۔ ان کے
ہمراہ فوٹو گرافر بھی تھے۔جنہوں نے نماز کی ادائیگی کے دوران
اور بعد میں ان کی تصویریں مسجد کے اندر کھینچیں ،جو کئی
بار اخباروں میں شائع ہو چکی ہے اور خاصی مقبول ہیں۔
حکومت ہسپانیہ نے شاید اپنے ملک کے پراپیگنڈے کی خاطر
انہیں یہ اجازت خاص دی تھی۔ لیکن جس کسی نے بھی مسجد
قرطبہ کی زیارت کی ہے ،اس نے دیکھا ہوگا کہ مسجد کے
ادراس اس کے التعداد ستونوں کے درمیان جگہ گھیر کر چھوٹے
چھوٹے گرجے بنائے گئے ہیں جو ابھی تک صاف نہیں کیے گئے۔
البتہ مسجد کا خوبصورت ترین حصہ محراب واال حصہ ہے ،جو
ستونوں سمیت تمام کا تمام سنہری ہے ،کیونکہ اس پر سونے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات106
کا جڑاؤ کام کیا گیا ہے اور وہ اب تک اپنی اصلی شکل میں
محفوظ ہے۔ مسجد سے باہر اس کے عالی شان مینار واحد پر
جو اذان کے لیے مخصوص تھا ،اب گھنٹا آویزاں ہے اور رومن
کیتھولک عقیدے کے مطابق دن میں خاص خاص وقتوں پر اسے
بجایاجاتا ہے۔ مسجد قرطبہ اب اپنے عہد میں دیگر مساجد یا
مسلمانوں کی عام عبادت گاہوں کی طرح خوب روشن اور
تابندہ عبادت گاہ تھی۔ (چراغ جالنے کے لیے یے تیل کا خرچ 214
من اور موم بتیاں جالنے کے لیے ½ 3-من موم اور 24سیر
سوت سال بھر میں صرف ہوتا تھا) ،لیکن اب عیسائیوں کی
عبادت گاہوں کی طرح اس کی فضا تیرا وتار ہے اور اس کے
اندر بیٹھے ہوئے بھاری آرگن کی کرخت موسیقی کے پس منظر
میں اس کی ویرانی اور کس مپرسی سے خوف آتا ہے۔ رات کو
مسجد کے تمام دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ راقم نے رات کو
مسجد قرطبہ کے گرد طواف کیا اور مخصوص وقفوں کے بعد
انتہائی تاریکی میں مینار سے آویزاں گھنٹے کو بچتے سنا تو یوں
محسوس ہوا گویا وہ ایک آسیب زدہ عمارت ہے۔ مسجد کی شان
و شوکت اور حسن و جمال اور اسی کے ساتھ اس کی ویرانی،
کسمپرسی اور اور تیرہ و تار فضا کا منظر ،ایک بار دیکھ کر
کوئی بھی فراموش نہیں کر سکتا۔ راقم سفر ہسپانیہ سے
واپسی پر عمرہ کی غرض سے مکہ معظمہ گیا اور مدینہ منورہ
کی بھی زیارت کی ،لیکن مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی
روشنیوں ،رونقوں اور اذانوں میں مسجد قرطبہ کا تیرہ و تار
منظر نگاہوں کے سامنے سے نہ ہٹتا تھا۔" زندہ رود صفحہ 556
تا 557
ڈاکٹر جاوید اقبال نے تفصیل کے ساتھ مسجد قرطبہ سے
متعلقہ روایات کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس حوالے سے غلط
روایات کی نشاندہی بھی انھوں نے کر دی ہے اورجذباتی انداز
میں انہوں نے اپنے عالمہ اقبال سے تعلق اور مسجد قرطبہ
حاضری کو بیان کیا ہے۔ عالمہ اقبال کا یورپ کا یہ آخری سفر
تھا اس کے بعد وہ الہور آگئے۔
"زندہ رود" کا انیسواں باب افغانستان کے سفر پر مشتمل ہے
اس لئے اس کا عنوان بھی ڈاکٹر جاوید اقبال نے "افغانستان"
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات107
رکھا ہے۔ اس باب کے پہلے حصے میں گول میز کانفرنس کے
بعد ہندوستان کی صورت حال ،عالمہ اقبال کی مصروفیات اور
سیاست پر بات کی گئی ہے جب کہ دوسرے حصے میں عالمہ
اقبال کے افغانستان کے سفر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اقبال نے
پہلے حصے میں کشمیر کمیٹی اور اس حوالے سے سے جو امور
اور بڑی تیزی سے ہندوستان میں بدل رہے تھے ان پر بات کی
ہے۔ عالمہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کے دستور کا ایک مسودہ
مرتب کروایا لیکن جب اسے کمیٹی کے اجالس میں پیش کیا تو
احمدی ممبران نے اس کی مخالفت کی کی اس دوران عالمہ
اقبال نے محسوس کیا کہ قادیانیوں کو مسلمانوں کی کسی
تنظیم کا خیال نہیں وہ وہ صرف اپنے امیر کے ساتھ وفادار ہیں۔
اس بنا پر کشمیر کمیٹی پر سابقہ کشمیر کمیٹی توڑ کر نئی
کشمیر کمیٹی بنائی گئی اقبال نے اس کی صدارت قبول کی
کے لیے اپنی جدوجہد کو بڑھا دیا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے نے عالمہ اقبال کے افغانستان کے سفر کو
بڑے دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے۔ اس پوری کتاب کو پڑھتے
ہوئے جہاں جہاں سفر کا احوال آیا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے
جیسے ہم کوئی دلچسپ سفر نامہ پڑھ رہے ہوں۔ سید صباح
الدین زندارود میں موجود ان سفرناموں کے حوالے سے لکھتے
ہیں:
"اس کتاب میں ان کےجتنے سفر نامہ میں درج ہیں ،ان کو
سمیٹ کر علیحدہ کتاب میں شاعر کر دیا جائے تو یہ ایک
مستقل تصنیف ہوجائے گی ،جو بہت ہی لطف و لذت کے ساتھ
پڑھی جا سکتی ہے۔ ان میں تفصیل واجمال اور اور اطناب
واعجاز دونوں کے مزے ملتے ہیں۔ جزئیات بھی سمیٹی گئی ہیں
لیکن اس حد تک کتاب کے ناظرین کا ذوق متحمل ہو سکتا ہے۔
بعض غلط فہمیاں بھی دور کی گئی ہے اور غلط بیان کی تردید
بھی کی گئی ہے لیکن کسی لمحہ یہ محسوس نہیں ہوتا کہ کوئی
بیٹا اپنے باپ کی خوامخواہ مدافعت کر رہا ہے۔۔۔(اس میں)
معروضی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ اس سفر وسیاحۃ کا مطالعہ
کرتے وقت کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابن بطوطہ اپنا ہی
سفرنامہ مرتب کر رہا ہے۔ کبھی ایسا کہ۔۔۔ لکھنے واال سفر کرنے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات108
"یہ فارسی مثنوی ایک غزل کے سوا دعا زیادہ تر مثنوی معنوی
کی بحر میں ہے ہے اور بقول سید سلیمان ندوی خیبروکابل و
غزنین و قندھار کے عبرت انگیز مناظرومقابر پر شاعر اقبال
کے آنسو ہیں اور بابر ،سلطان محمود ،حکیم سنائی اور احمد
شاہ درانی کی خاموش تربتوں کی زبان حال سے سوال و
جواب ہیں۔ اس کا آغاز نادر شاہ کی مناقب سے اور اختتام
محمد ظاہرشاہ سے اظہار توقعات پر ہے۔" زندہ رود صفحہ 587
ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق عالمہ اقبال افغانستان سے واپسی
پر ہندوستان کی سیاست کی طرف متوجہ ہوگئے۔انہیں
فلسطین کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر بھی بڑی تشویش تھی۔ 4
دسمبر 1933کو پنجاب یونیورسٹی نے اقبال کو ڈی لٹ کی
اعزازی ڈگری دی۔ اب عالمہ اقبال کی صحت مسلسل خراب
رہنے لگی تھی۔ گول میز کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے
پریکٹس ختم ہوگئی تھی اور مالی مسائل کا سامنا بھی تھا۔ اس
کے باوجود وہ علمی مصروفیتوں میں مگن رہتے۔ انہوں نے نومبر
1933میں روڈز لیکچر کی دعوت قبول کر لی تھی جس میں
میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی پسند کے کسی فلسفیانہ
موضوع پر لیکچر دینا تھا۔ عالمہ اقبال اپنے پسندیدہ موضوع
"فلسفہ اسالم کی تاریخ میں زمان و مکان" پر تحقیق کرکے
لیکچر دینا چاہ رہے تھے۔ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ آئن
سٹائن کا نظریہ مغرب کے لیے نئی بات ہے مسلم صوفی اور
ریاضی دار قرون وسطی سے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے۔
ڈاکٹرجاویداقبال ان دنوں کی علمی مصروفیات اور روڈز لیکچر
کے دعوت نامے پر اعتراض کرنے والوں کے حوالے سے لکھتے
ہیں:
"اقبال نے اپنی ناسازئی طبع کے باوجود اس موضوع پر تحقیق
کا کام شروع کر دیا تھا۔ بقول عبدالمجید سالک انکی علمی
مصروفیتوں کا یہ عالم تھا کہ اس زمانے میں انہوں نے سید
سلیمان ندوی اور دیگر احباب کو جو خطوط لکھے ،ان سب
میں زمان و مکاں کے متعلق مختلف کتابوں کا سراغ لگانے کی
استدعا کی گئی اور ملک بھر میں کے بارے میں اکابر اسالم کی
کتب کا تجسس جاری رہا۔ کیونکہ ہر حال میں ان کا مقصد یہ تھا
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات110
کے لیے آئے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے پنڈت نہرو کا استقبال کیا جو
کچھ باتیں ان کے ذہن میں محفوظ تھیں تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال
نے عالمہ اقبال کی پنڈت نہرو سے مالقات کا احوال اور اس
حوالے سے موجود بیانات کا تجزیہ بھی کیا ہے۔
عالمہ اقبال کا غوروفکر علمی مباحث پر آخری وقت میں بھی
جاری و ساری تھا۔ اس حوالے سے سے وہ موالنا حسین احمد
مدنی کے ساتھ وطنیت کے تصور پر اصولی بحث میں شامل
ہوگئے۔ موالنا حسین احمد مدنی نے دلی کے ایک جلسے میں
میں قوم اور وطن پر ایک بیان دیا۔ اگر یہ عالمہ اقبال بسترِ مرگ
پر تھے ہے مگر انہیں یہ گوارا نہ ہوا کہ اتنا بڑا عالم دین ایک غلط
موقف کو لے کر چلے۔ اس لیے اس موضوع پرانہوں نے ایک ان
کے نقطہ نظر سے اختالف کیا اور یہ بحث شروع ہوگئی۔اس
طرح عالمہ اقبال اپنے آخری ایام تک علمی اور ادبی معامالت
میں متحرک رہے۔ آخری دن وہ بہت ہشاش بشاش تھے حاالں کہ
انہیں احباب اب کی آمد سے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ ان کا آخری
وقت ہے۔ ڈاکٹرعبدالقیوم نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی
تو انہوں نے اس سے بھی انکار کردیا.اس حوالے سے ڈاکٹر
جاوید اقبال لکھتے ہیں:
"اقبال کوئی گھنٹے بھر کے لئے سوئے ہوں گے کہ شانوں میں
شدید درد کے باعث بیدار ہوگئے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں
محمد شفیع نے خواب آور دوا دینے کی کوشش کی ،مگر انھوں
نے انکار کر دیا .فرمایا :دوا میں افیون کے اجزا ہے اور میں بے
ہوشی کے عالم میں مرنا نہیں چاہتا۔ علی بخش اور میاں محمد
شفیع ان کے شانہ اور کمر دبانے لگے تاکہ درد کی شدت کم ہو،
لیکن تین بجے رات تک ان کی حالت غیر ہوگئی۔ میاں محمد
شفیع ،حکیم محمد حسن قرشی کوبالنے ان کے گھر گئے ،مگر
ان تک رسائی نہ ہوئی اور ناکام واپس آگئے۔ اقبال درد سے
نڈھال تھے میاں محمد شفیع کودیکھ کر فرمایا :افسوس قرشی
صاحب نہیں پہنچ سکے۔تقریبا پونے پانچ بجے راجہ حسن اختر اٹھ
کر اندر آئے۔ انہیں بھی حکیم محمد حسن قرشی صاحب کو
بالنے کے لیے کہا۔وہ بولے :حکیم صاحب رات بہت دیر سے گئے
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات117
تھے اور اس وقت نہیں بیدار کرنا شاید مناسب نہ ہو۔ اس پر
اقبال نے یہ قطعہ پڑھا:
سرود ِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ نہ آید
سر آمد روز گار ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ نہ آید
راجہ حسن اختر قطع کا مطلب سمجھتے ہی حکیم محمد حسن
قرشی کو النے کے لئے روانہ ہو گئے۔ اقبال کے کہنے پر ان کا
بلب گول کمرے سے ان کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا۔ انہوں
نے فروٹ سالٹ کا گالس پیا۔ صبح کے پانچ بجنے میں کچھ منٹ
باقی تھے۔اذان ہو رہی تھیں سب کا خیال تھا کہ فکر کی رات
کٹ گئی۔ ڈاکٹر عبدالقیوم اور میاں محمد شفیع سب کی نماز
ادا کرنے کی خاطر قریب کی مسجد میں پہنچ گئے تھے اور
صرف علی بخش ہی اقبال کے پاس رہ گیا تھا۔ اسی اثنا میں
اچانک اقبال نے اپنے دونوں ہاتھ سر پر رکھے اور ان کے منہ
سے "ہائے" کا لفظ نکال۔ علی بخش نے فورا آگے بڑھ کر انہیں
شانوں سے اپنے بازوؤں میں تھام لیا۔فرمایا:دل میں شدید درد
ہے اور قبل اس کے علی بخش کچھ کرسکے ،انہوں نے "اللہ"
کہا اور ان کا سر ایک طرف ڈھلک گیا۔ 21اپریل 1938ء تو پانچ
بج کر 14منٹ صبح کی اذانوں کی گونج میں اقبال نے اپنے
دیرینہ مالزم کی گود میں اپنی جان جان آفریں کے سپرد
کردی۔" زندہ رود صفحہ 719تا 720
ڈاکٹرجاوید اقبال نے زندہ رود میں میں سوانح ،تاریخ ،سیاست
اور نفسیاتی حقائق کو بیان کیا ہے۔ انہوں نے عالمہ اقبال کے
حوالے سے کسی پہلو پر پردہ نہیں ڈاال گ اور ان باتوں کا ذکر
بھی کیا ہے جن پر لوگوں نے اختالف کیا۔ ان کی گھریلو زندگی
کو تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کا فلوم شروع
سے لے کے آخر تک ادبی رہا اور تاریخی حقائق اور آزادی کے
لیے جدوجہد قاری کے لیے اکتاہٹ کا باعث نہیں بنتی۔ ڈاکٹر
جاوید اقبال نے 1870سے لے کر 1938تک کے عہد میں ہونے
والے واقعات کو بھی قلمبند کیا ہے۔ یوں یہ سوانح 70سالوں
کی تاریخ اور سماجی داستانیں بھی سمیٹے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر
ن ن
ڈاکٹر جاوید اقبال ب طور سوا ح گار ڈاکٹر جاوید اقبال کی علمی اورادبی خدمات118