You are on page 1of 21

‫متعلقہ ادب کا جائزہ‬

‫دکن میں اردو‬


‫‪:‬باب اول‬
‫‪:‬دکن میں اردو شاعری‬
‫دور "ملکی" یا "مقامی" بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬
‫لسانی تحقیقات کا دوسرا ِ‬
‫‪ 1933‬سے شروع سمجھا جاتا ہے۔نصیرالدین ہاشمی کی اہم ترین کتاب "دکن میں‬
‫اردو" اسی سال شائع ہوئی تھی۔‬
‫یہ دو "ملکی" اس لیے ہے کہ تمام محقیقین ملکی تھے اور "مقامی" یوں کہ‬
‫اردور کو کسی خاص مقام یا عالقہ سے مخصوص کرنے کا رجحان قومی تر‬
‫ہے۔ " دکن میں اردو" اور "پنجاب میں اردو" اس دور کی اہم ترین کتابیں ہیں‬
‫بلکہ ژرف نگاہی سے جائزہ لینے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس دورمیں لسانی‬
‫محقیقین نے ایک عالقے سے اردو کے آغاز میں حمایت کی تو کسی دوسرے‬
‫سے تعلق کی تردید کی۔‬
‫اردو ادب کا باقاعدہ آغاز جنوبی ہند یعنی دکن میں ہوا اسی قبل شمال میں کچھ‬
‫تحریریں دیکھنے کو ملتی ہیں مخصوص سیاسی اور تہذیبی ماحول کے سبب‬
‫اردو نے دکن میں باقاعدہ طور پر نہ صرف ایک مستقل زبان کا درجہ حاصل‪ V‬کیا‬
‫بلکہ مختلف ادبی اوصاف کے نمونے بھی دکن ہی میں نظر آتے ہیں۔‬
‫اردو زبان وادب کو شمالی ہند کی بجائے جنوبی ہند میں جو فروغ حاصل ہوا اس‬
‫کے اسباب صدیوں پہلے سیاسی اور تاریخ حاالت میں تالش کیےجا سکتے ہیں۔‬
‫سب سے پہلے تو یہ ہے کہ صدیوں عرب تاجر دکن کے سمندری ساحلوں پر‬
‫آتے رہے انہوں نے ثقافتی اور لسانی سطح پر بھی اپنا ڈانڈ۔ اردو کے عالو‬
‫جنوبی ہند کی زبانوں میں ایسے کئی الفاظ گھل مل گئے جو بنیادی طور پر‬
‫عربی سے لیے گئے ہیں۔‬
‫دوسرا اہم تاریخی واقعہ عالءالدین خلیجی کا دکن پر حملہ تھا۔ خلیجی کے غالم‬
‫سردار ملک کا فورے ‪ 1306‬میں دیوگری پر حملہ کرکے اس کو سلطنت دہلی‬
‫میں شامل کر لیا۔ اس کے بعد محمد تغلق کے حکم سے راج دھانی کو دولت آباد‬
‫منتقل کر دیا گیا۔ جب یہ شاہی لشکر دہلی سے دکن پہنچا تو اپنے ساتھ دہلی میں‬
‫بولے جانے والی زبان۔ یعنی اردو بھی اس کے ساتھ تھی۔‬
‫‪:‬عظمت‬
‫عظمت خان کے والد نعمت ہللا خان صاحب‪ V‬دہلی کے باشندے تھے وہ جس وقت‬
‫حیدرآباد آئے عظمت ہللا خان کی عمر صرف پانچ سال تھی استرا عظمت ہللا خاں‬
‫کی پرورش اور تعلیم و تربیت حیدرآباد میں ہوئی اور حیدر آباد میں انتقال ہوا‬
‫بارہ سو ستاسی میں پیدا ہوئے اور تیرا سو چھیالیس میں آپ کا انتقال ہوا علی‬
‫گڑھ کالج سے بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور شاعری میں ان کا خاص‬
‫درجہ ہے‬
‫‪:‬فیض‬
‫اردو کے ایک زبردست شاعر فیض ہیںآپ کا نام میر شمس الدین ہے آپ کی والد‬
‫مولوی محمد رحمت ہللا عاشقی آصفاہ ثانی کے زمانے میں دہلی سے حیدرآباد‬
‫آئے فیض کی پیدائش ‪ ١١٩۵‬میں برار میں ہوئی آپ کے علم و فضل سے تمام‬
‫دکن نے فیض حاصل کیا ہے ‪ ١٢٨٢‬میں فیض کا انتقال ہوا حیدرآباد میں مدفن‬
‫ہیں (‪)٢‬‬
‫‪ :‬مرزا‬
‫محمد مرزا نام اور مرزا تخلص حیدرآباد کے مشہور مورخ اور شاعر صدارت‬
‫عہدہ تک ترقی کی بڑے پر گو شاعر تھے چھ ہزار شعری مثنوی چند ماہ میں قلم‬
‫بند کر دی۔‬

‫الفت‬
‫محمد علی شاہ نام اور الفت تخلص اسی دور کے شاعر تھے امامہمذہب کے‬
‫پیرو تھے عربی اور فارسی کی بڑی اچھی قابلیت تھی کی مثنویاں لکھے تھیں(‬
‫‪)۴‬‬
‫‪ :‬حفیظ جالندھری‬
‫تیس جلندھری کا شمار اردو کے رومانی شعراءمیں ہوتا ہے مگر حفیظ کی‬
‫خصوصیات یہ ہیں کہ انہوں نے زندگی کے مادری پہلوں کی نقاب کشائی کی‬
‫بھرپور کوشش کی ہے حفیظ نے تلخابہ کے دو دیباچے میں اعتراف کیا ہے‬
‫حفیظ کی شاعری کی بیشتر ماخذات مشرقی مشرقی ہیں ان کی رومانیت کو‬
‫مشرق پسندی کے اس رجحان کا ایک زاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ (‪)۵‬‬
‫خواجہ میر درد ‪:‬‬
‫اٹھارویں صدی کےہندوستان کا معاشرہ جس سیاسی ابتدائی معاشی بدحالی اور‬
‫معاشرتی خلفشارسے دو چار تھا خواجہ میر درد نے میر سودا کی طرح ہر‬
‫صنف سخن ہیں خواجہ میر درد ‪ ۱۷۲۰‬سوبیس میں پیدا ہوئےاور اٹھارہ بارہ سو‬
‫دیوان درد میں حقیقت‪ V‬اور مزاج دونوں مضامین کے حاصل اشعار‬ ‫ِ‬ ‫پچاسی اگرچہ‬
‫مل جاتے ہیں موالنا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں میر درد کےخالص‬
‫مجازی اشعار کی حقیقت اور معرفت کے نقطہ نظر سے تشریح کر کے ہر بات‬
‫واضح کی ہے مختصر یہ کہ درد کی شاعری میں صوفیانہ مضامین کچھ ایسے‬
‫پر اثر انداز میں جلوہ گر ہیں کہ درد کی انفرادیت کا قاتل ہونا پڑتا ہےاور ان کی‬
‫شاعری خود ان کے بقول صفا ءے سخن کا آئینہ نظر آتی ہے آزاد کے بقول درد‬
‫خصوصی چھوٹی چھوٹی بحروں میں اکثر غزلیں گویا تلواروں کی آبداری نشتر‬
‫میں بھی رہتے تھے( ‪) ۱۴۳‬ڈاکٹر وزیر آغا درد کی صوفیانہ شاعری پر اظہار‬
‫خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں درد کے ہاں صوفیانہ کی ان صوفیانہ تصورات کا‬
‫بہترین اظہار غزل کے ان اشعار میں ہوا ہائے جہاں وہ مجاز سے حقیقت کثرت‬
‫سے وہ وحدت سیم اسی تجرید کی طرف پیش قدمی کرتا ہے خواجہ میر درد(‬
‫‪۱۱۳۳‬ھ‪۱۷۲۰‬ء) تا (‪۱۱۹۹‬ھ‪ ۱۷۸۵/‬ء) نے اردو غزل کو باطنی طہارت کے اس‬
‫حقیقی جوہر آشنا کیاکہ وحدت الوجود وحدت الشہور الگ الگ نہیں بلکہ حقیقت‬
‫و معرفت کی یکتائی کے امن بن گئے (‪)۶‬‬
‫ڈیرہ غازیخان کے شعرائے کرام ‪:‬‬
‫طاہرہ سوز جتوئی شخصیت اور فن ‪:‬‬
‫ڈیرہ غازی خان کی سینئر خواتین شعراء میں آپ آپ کا شمار ہوتا ہے درس و‬
‫تدریس ایس ایس ٹی سے وابست ہیں پرانی شاعری ہونے کے طفیل آ ہے طاہرہ‬
‫سوز کا شعریشیر کین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے طرح سوچ کے کالم میں‬
‫دو باتیں یعنی نعتیہ اشعار گاؤں کی سادہ زندگی توجہ طلب ہیں اور انہیں دوسری‬
‫بشاعرات سےممنیز کرتا معاشی اور سیاسی کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوئے‬
‫ان کی اردو غزل میں ہجر فراق کے مضامین انہیں روایتی انداز فکر کے قریب‬
‫کر دیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں اکثر کالسیکل شعراء قیام‬
‫پاکستان کے وقت ہجرت کر کے آئے تھے اور ایک زمانہ تک ان کا طوطی بولتا‬
‫تھا (کالسیکل شعراء کے سرخیل بھی حامل متھراوی ہیں) بعض اوقات عمر کی‬
‫ایک خاص حصے میں پہنچ کر ہللا اور اس کے پیارے حبیب صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫سے تو لگ جاتی ہے کہ میں نہ ہیں سب توں ہی کا بول باال ہے طاہرہ سوزکی‬
‫شاعری میں نعتیہ اشعار بھی عجب مزدہ دیتے ہیں اور پاکیزگی کا احساس ہوتا‬
‫ہے اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے شہری زندگی اب بزات خود شہریوں کے‬
‫لیے مسائل کا سبب بن گئی ہے صحت‪ V‬پانی مالوٹ مہنگائی بیماریاں برتری کا‬
‫خمار گیس پانی بجلی کے سٹیٹس کا بخار آلودہ خوراک غذائی قلت احساس تحفظ‬
‫ڈاکٹروں کی فیس ٹیکسز کی بھرمار دو نمبر ایشیا کی کثرت جیسے گوناگوں‬
‫مسائل نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے (دیہات سے شہروں کا رخ کرنے والے‬
‫اس بات کو جلد سمجھ لیں تو اچھا ہے )ان حاالت میں گاؤں کی صاف ہوا حسین‬
‫مناظر سے بھرپور زندگی خالص اور سر سبز فصلوں کو دیکھ کر ملنے والی‬
‫طراوت آج بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہےطاہرہ سوز بھی ایک ایسا سے‬
‫تخلیق کار ہونے کی نعتے فطرت سے ہم کالم ہونے اور اس سے زندگی کا عطر‬
‫کشید کرنے کی بھرپور آرزو رکھتی ہیں ان کی غزلوں کا مطالعہ کرنے سے یہ‬
‫مترشح ہے کہ وہ شعر اور ایسی سمجھیں اسے گاؤں کے طرز تمدن کو تکلیف‬
‫کا عذاب سمجھتی ہیں اور ایسے ساسے گاؤں اپنا اصل گھر نظر آتا ہے گویاں کہ‬
‫نہیں کےیاں کے نکالے ہوے توہیں!‬
‫نمونہ کالم‬
‫موج کے دھارے سے کیا نکلے بھٹورمیں آگئے‬
‫ہم شکستہ دل فریب چارہ گر میں آگئے‬
‫کب سے سرگرم سفر ہے کاروان زندگی‬
‫سانس بھی لینے نہ پائے پر سفر میں آگئے‬
‫کون گزرا ہے ادھر سے صورت یاد بہار‬
‫دیدہ و ہوا دل رونے دیوار و در میں آگئے‬
‫میں اگردیکھوں تو مجھ میں دید کی طاقت کہاں‬
‫پھر خدا جانے کیوں وہ میری نظر میں آگئے‬

‫سید عقیل نقوی ‪:‬‬


‫عصاءے مرگ تھامے زندگانی‬
‫میری سانسوں کا ریوڑ ہانکتی ہے‬

‫اس شعر کے ذریعے ڈی جی خان کے ادبی حلقوں کو جس شخص نے دیا اس کا‬


‫نام سعید عقیل نقوی ہے سید عقیل نقوی شعر و سخن کی مجلس میں ایک تازہ‬
‫چونکام ہوا کا جھونکا بن کر نمودار ہوا ہے ان کی شاعری اٹھان وسیع مطالعہ‬
‫اور مشاہدہ دیکھ کر ڈی جی خان کے ادبی حلقے ان سے اردو غزل کے حوالے‬
‫سے بہت سی توقعات وابستہ کر چکے ہیں‬

‫دیا جو تند ہواؤں میں چلنے واال ہے‬


‫وہ میرے نقش کف پا پہ چلنے واال ہے‬
‫میرے جنون کی تھکاوٹ پے اتنا طنز نہ کر‬
‫تیرے شباب کا سورج بھی ہے ڈھلنے واال ہے‬
‫پھر دھری رہ جائیں گی اہل جفا کی سازشیں‬
‫رابطہ پھر اس کے تیرے درمیاں ہو جائے گا‬
‫سفر میں ہم سفر رکھتے نہیں ہم‬
‫بچھڑ جانے کا ڈر رکھتے نہیں ہم‬

‫نذیر کسرانی ‪:‬‬


‫پھینک دیں گے اپنے بچوں کو اٹھا کر نیل میں‬
‫وقت کے فرعون کو رب جہاں کہتے نہیں‬
‫اس شعر کا خالق مشاعروں اور ستائش باہمی سے بے نیاز ہو کر شہر سے دور‬
‫وہوا کے مقام پر جدید لب و لہجے کی اردو غزل کہہ رہا ہےمثبت اور منفی‬
‫کردار کا یہ عطا قلندرانہ شان صبر و ضبط اور حق گوئی اس کی شاعری کی‬
‫نمایاں خصوصیات ہیں ان کا کالم بڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کھوکھلی قدروں‬
‫اور نہ ہہمواریوں کے کوڑا کرکٹ دہکتے ہوئے لفظوں کی بارش ہو رہی ہے‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬


‫آج ہی پڑھ لو مجھے وضو کر کے‬
‫ورنہ کل تم سے قضا ہو جاؤں گا‬
‫جو تیرے نام کے منکر تھے خدا بن بیٹھے‬
‫جو تیرے در کا بھکاری تھا بھکاری ہے اب‬
‫جو تیرے نام کے منکر تھیے وہ خدا بن بیٹھے‬
‫جو تیرے در کا بھکاری تھا بھکاری ہے ابھی‬
‫تم نے پھر تم کی صدا دے کے مجھے مار دیا‬
‫میں نے اک عمر تو مر مر کے گزاری ہے ابھی‬
‫ہاں کوئی لخرش پا مجھے جگا دے شاید‬
‫میرے احساس پہاک نیند سی طاری ہے ابھی‬

‫ٰ‬
‫بشری قریشی ‪:‬‬
‫بشرہ قریشی نے رسوم و قیود کی دھند میں لپٹے ہوئے اس شہر میں اپنی اعلی‬
‫حوصلگی بلند ہمتی اور استقامت سے نہ صرف اعلی تعلیمی مدارج طے کئے‬
‫اور لیکچر اردو منتخب ہوئبلکہ اپنی منتشر سوچوں اور تصورات کو ایک تخلیقی‬
‫ٰ‬
‫بشری قریشی کے افسانوں (پیت‬ ‫نکتے پر مرکوز کرنے میں بھی کامیاب رہے‬
‫پرپریت) کی بنیادی کرداری نگاری منظر کشی جذبات نگاری انسانی نفسیات اور‬
‫مشرقی عورت کے احساسات پر رکھی گئی ہیں ان کے بعض افسانے روحانی‬
‫ادب کا شاہکار ہیں‪ (-‬رشید ملغانی )‬
‫ان کی اردو شاعری بالخصوص غزل بھی ہمعصر شاعرات سے منفرد ہے‬
‫جیسے شعر کے میدان میں انہیں ڈی جی خان کی معتبر افسانہ نگار خاتون تسلیم‬
‫کیا ہے ۔ بشرہ قریشی اردو غزل کے حوالے سے ایک معتبر نام بن چکا ہےان‬
‫کی شاعری سے نسوانیات جھلکتی ہے شہری حلقوں میں ان کی اردو غزل کو‬
‫زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے‬
‫تمام خوشیاں ہیں اس کی سر اب میرے نام‬
‫کتاب غم کا ہے پر انتساب میرے نام‬
‫اسی کے دم سے ہیں آباد چاندنی راتیں‬
‫وہ میرا حسن ہے کیسے بھال بھالؤں اسے‬
‫یہ وقت کی سازش ہے یا اوہام کی شورش‬
‫پتھر کی سب شبیہوں میں خدا ڈھونڈ رہی ہوں‬
‫جس آنکھ میں حسن کی چاہت ہو‬
‫ہجر میں تر ہو جاتی ہے‬
‫جس میں ہو حرارت جذبوں کی‬
‫وہ بات امر ہو جاتی ہے‬

‫صابر شہزاد ‪:‬‬


‫کھوکھلے رویوں کے عین قلب میں تہذیب و شائستگی کا منحج صابر شہزاد‬
‫پچھلی تین دہائیوں سے اردو غزل کہہ رہا ہے ان کے ہاں اردو غزل تازگی اور‬
‫ندارت خیال کے آمیزے سے جنم لیتی ہے دھیما لہجہ ذادری دلوں میں اترتے‬
‫ہوئے اشعار زبان چٹخارے‪ V‬اور سگریٹ کے بغیر ماہی بے آب مشاہدہ عمیق‬
‫انداز بیاں سب سے جدا نا ابہام نہ ابتدال نہ مشکل پسندی نہ عدم ابالغ کا مسئلہ‬
‫جی ہاں یہی خصوصیات‪ V‬ان کے شعری اور شخصی زاویوں کا الزمی حصہ بن‬
‫چکی ہیں –‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫وہ کارگہ منافقت تھی کہ جس میں رہ کر‬
‫ملک نے سیکھا ہےدن میں تارے چھپائے رکھنا‬
‫بت صنم خانوں کے شاید اگلے وقتوں کے ہیں لوگ‬
‫حادثے اتنے بڑے ہوں گے کہ یہ پتھراگئے‬
‫مجھ سے بدن میں آگ لگائی نہ جا سکی‬
‫میں جگنو کے ساتھ گزارہ نہ کر سکا‬
‫تیرے غم نے میری آنکھوں میں آنسو کر دیے روشن‬
‫وگرنہ آگ پانی میں لگانا کس کو آتا ہے‬
‫سلیم فراز ‪:‬‬
‫جوش نمو تو اب کے برس بھی کمال تھا‬
‫گلیوں کے سارے پیڑ مکانوں میں آگئے‬
‫سلیم فراز اور اردو غزل جزوالنفیک بن چکے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ بنانے‬
‫والے نے بھی سلیم فراز کو غزل کی مٹی میں گوندھ کر بنایا ہے انہیں دیکھ کر‬
‫احساس ہوتا ہے کہ حسن ثغزل جدت سالمت اور غزل کا رواں دواں ہونا کسے‬
‫کہتے ہیں سلیم فراز کی غزل میں بے ساختگی کے ساتھ ساتھ آبشاروں کی‬
‫گنگناہٹ بھی سنائی دے جاتی ہے اور کہیں کہیں دہر کے یزداں سے بغاوت‬
‫بجلی کی کٹراور بادلوں کی گرج بھی سنائی دیتی ہے سلیم فراز اس دشت منافقت‬
‫میں کبھی ایک شجر سایہ دار اور کبھی مہربان ابر کی صورت نمودار ہوتا ہے‬
‫اگر میں یہ کہوں کہ سلیم فراز جدید اردو غزل کا ایک توانا اور معتبر حوالہ ہے‬
‫تو یہ جملہ بھی ان کے تعارف کے لیے کافی ہے‬
‫منہ نہ کالم ‪:‬‬
‫کچھ تلخ و ترش سچ کے بیانوں میں آگئے‬
‫یہ سنگ کیسے آئینہ خانوں میں آ گئے‬
‫شہروں میں خوف تھا تو پرندے بھی لوٹ آئے‬
‫دن سے ہی اپنے اپنے ٹھکانوں میں آگئے‬
‫شاخ سے لٹکے ہوئے گھر نہیں دیکھے تم نے‬
‫میں پرندے بھی ہنرور نہیں دیکھی تم نے‬
‫جاوید احسن خان ‪:‬‬
‫فکر اقبال اور اسالمی اقدار سے متاثر لمحہ موجود میں جاوید احسن خان‬
‫سدوزئی سرائیکی ثقافت کے میدان میں ایک معتبر حوالہ اردو غزل میں‬
‫کالسیکل رنگ اپنی پوری آب و تاب سے نمایاں ہے کہیں کہیں جدت کی دیوی‬
‫سے محانقہ نہ کرنے کی سعی بھی کرتے ہیں مگر بات بمشکل صحافحے تک‬
‫رہتی ہے غزلوں اور قطعات میں اپنے خانوادہ علی اپنی دوستاساتذہ وغیرہ کا‬
‫ذکر لے آتے ان کی غزلیں مقافی ثقافت کی آئینہ دار ہیں رہی تھل دامان باہو‬
‫خشک صحر ا کی بوٹی پیلو بیری روشنے ٹیلے کوہ دشت تھاوچڑسی ہوٹ بلوچل‬
‫پنل ہیر جھنگ وادی بوالن گومل ملتان کوہ سلیمان بادیہ نشین اباسین کوٹ مٹھن‬
‫(خواجہ فرید کی نگری )سب وطن بیت ہللا عرش عال اور اسی ہی طرح کے بے‬
‫شمار الفاظ ان کی غزل کی اٹھان میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اسالمی موضوعات‬
‫میں وہ عشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم میں ڈوبے نظر آتے ہیں ان کا کالم پڑھ‬
‫کر یہ اندازہ لگانا دشوار نہیں ہے کہ انہوں نے اردو غزل سے کتھارس کا کام لیا‬
‫ہےلہذا خود کالمی بھی اکثر جگہوں پر نمایاں ہے اور پندو نصاح کی بکثرت‬
‫ملتے ہیں یہ شاید فکر اقبال کا اثر ہے‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫ہر کوچہ ترے نقش کف پا سے منقش‬
‫ہر صحن تیرے جسم کی خوشبو میں بسا ہے‬
‫مریض عشق ہوں میں میری طبیب سے کہہ دو‬
‫عش یہ ہے تیری چاہت میں مٹا جاتا ہوں‬
‫لطف یہ ہے کہ ابھی تک تجھے دیکھا بھی نہیں‬
‫اپنے گاؤں کا ہوں میں بیٹا قبیلے کا سپوت‬
‫خود ہی مشاط فطرت نے سنوارا ہے مجھ کو‬
‫میں تجھے کوہ اس سے کاہان سے اونچا دیکھوں‬
‫تو میرے دیس میں آہوت بلوچل کی طرح‬
‫علی عارف ‪:‬‬
‫بنیادی طور پر آزاد نظم کا شاعر ہے مگر حیرت انگیز طور پر اینگری ینگ‬

‫مین نظر آنے واال یہ نوجوان شاعر جدید اردو غزل پر بھی پوری دسترس رکھتا‬
‫ہے غزل اور نظم میں ان کا اسلوب یکساں رہتا ہےزمانے کی تلخیاں اور باٹوں‬
‫کی نا مہربانیاں مل کر بھی انیس بیس کا فرق پیدا نہیں کر سکتیں علی عارف‬
‫اپنے عہد کی ترجمانی کرتے کرتے کسی اور عہد کے مدار میں داخل ہوچکا‬
‫ہےساری ساری رات جاگ کر خواب موسموں کی شاعری کرتا ہے اور ظلم‬
‫سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں خود کو مردہ کے حسین تصور اور سے‬
‫بہالتا ہے حاالنکہ جانتا ہے کہ اس دور میں جینے کی قیمت یادارورسن ہے‬
‫یاخواری‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫جنگل جسم بچھا کر جب آوازیں دیتا ہے‬
‫سنگریزوں کی الماری میں بھیڑیا روتا ہے‬
‫جو روکھا سوکھا سا سورج تھا کر دیا حاضر‬
‫ہمارے شہر میں ایسا ہی بس سویرا ہے‬

‫محسن نقوی( مروم)‪:‬‬


‫ہم سفروں دعا کرو کاش ہمیں نصیب ہو‬
‫رات کی رانیوں کا رس اور ہوا کا سامنا‬
‫بندقبا برگ صحرا موج ا دراک ردائے خواب طلوع اشک ریزہ حرف رخت شب‬
‫عذاب دید خیمہ جاں فرات فکر جیسے دس شعری مجموعے ہیں ان کا اصل‬
‫تعارف ہیں بقول سلیم فرازاس(محسن نقوی )کی غزل عصری تقاضوں سے ہم‬
‫آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ ماضی کی اعلی روایات سے بھی رشتہ رکھے ہوئے‬
‫ہے(شعر و ادب میں ایک توانا آواز ایوان)اس جملے کے تناظر میں دیکھنے سے‬
‫پتہ چلتا ہے کہ محسن نقوی لفظ محبت سے بہت متاثر تھا اور اسی جذبے سے‬
‫اس کی اردو غزل پھوٹتی تھی اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ محسن نقوی دراصل‬
‫ایک ایسا جوہری تھا جس نے صدیوں کےان روحانی جذبات کے ہیروں کو اپنی‬
‫فکر و نظر کے قیمتی آالت سے از سر نو تراش کر نظر کو خیرہ کردینے والی‬
‫چمک عطا کی جورویتی ترکیب کے گرد و غبار میں لوٹ کر اپنا حسن کھو‬
‫چکے تھےوہ خود بھی مظہر فطرت سے ہمہ کالم رہتا تھا اور ایک محبت بھری‬
‫مسکراہٹ اس کے لبوں سے کھلتی رہتی تھی محسن نقوی روایت سے منسلک‬
‫ہونے کے باوجود اردو غزل میں اپنا علیحدہ مقام رکھتے تھے‪-‬‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫یہ ہم سے کس نے لہو کا خراج پھر مانگا‬
‫ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے‬
‫اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن‬
‫دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر‬
‫اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر‬
‫حاالت کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر‬
‫ترے مرے مالپ پر وہ دشمنوں کی سازشیں‬
‫وہ سانپ رینگتے ہوئے چنبیلیوں کی اوٹ میں‬
‫اعجاز ڈیروی ‪:‬‬
‫گمان ہوتا ہے گل کا جمال عارض پر‬
‫ہیں اس کے ہونٹ کسی ادھ کھلی کلی کی طرح‬
‫اعجاز ڈیروی اردو اور سرائیکی کے ممتاز بزرگ شاعر ہیںان کی شعری و‬
‫فنی تربیت رائیس المتخذ موالنا حسرت موہانی کے شاگرد رشید ڈی جی خان‬
‫کے ممتاز غزل گو شاعر سید شفقت کاظمی مرحوم کےگہوارہ فن اور آغوش‬
‫سخن میں ہوئی عمیق مشاہدے کے سبب اعجاز ڈیروی کی اردو غزل کی روایت‬
‫اور جدت کا ایک دلکش مرقح ہےوہ غزل میں حسن و عشق کے معامالت محنت‬
‫و مشقت کی عظمت جبر و استبداد کی مزمت صداقت و اخالقیات‪ V‬اس خوبصورتی‬
‫سے سموتے ہیں کہ غزل اپنی تمام تر خوبیوں یعنی سادگی سالست شحریت اور‬
‫بہاو کے ساتھ ابھر کر سامنے آتی ہے اعجاز ڈیروی توازن و اعتدال کے ساتھ‬
‫ساتھ روایت وجدت سے مربوط اور ہم آہنگ غزل کہنے میں کامیاب تجربات کے‬
‫شاعر ہیں دو شعری مجموعے تاب سخن زخم آرزو منظر عام پر آ چکے ہیں‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫اسی کے نام زمانے نے لکھ دیا ہر غم‬
‫خلوص جس کی وفاؤں میں انتہا کا تھا‬
‫تسلیم کے پابند روایات کہن ہوں‬
‫لیکن میرا بیٹا تو سمجھدار ہوا ہے‬
‫اس راہ سے گزرنے کی تحریک مر گئی‬
‫جب سے وہ بک گیا ہے کھلونا دکان سے‬
‫جس کو روزی نہ ملی خالی پھرا شام کے بعد‬
‫کیسے لے جاتا وہ بچے کی دوا شام کے بعد‬

‫ایمان قیصرانی‬
‫‪،،‬کوئی میری چاہ میں جل بجھا ‪،،‬‬
‫جو چراغ راہ حیات تھا یوں ہی رسم و راہ میں جل بجھا‬
‫میں کسی کے عشق میں گم رہی کوئی میری چاہ میں جل بجھا‬
‫جنوبی پنجاب‪ V‬کے شہر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی ایمان قیصرانی‬
‫ایک تازہ کار شاعرہ کے روپ میں کوئی میری چاہ میں جل بجھا کی دہاءی دیتی‬
‫ابھری ہیں شاعری مجموعوں میں قبل ازیں اس طرح کا نام دیکھنے میں نہیں آیا‬
‫جن عالقوں میں أنرکالنگ اور کاروکاری جیسی قبحیح رسمیں خود روجڑی‬
‫بوٹیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں وہاں یہ عنوان ہی ان کی جراتوں کا شاہد ہے۔‬
‫پیش لفظ شاعرہ نے منظوم کرکے پیش کیا ہے یہ روایت نی نہیں مگر ان کے‬
‫ہاں تخلیقی وفور کا پتہ دیتی نظر آتی ہے پیش لفظ کے آخر میں انہوں نے قاری‬
‫کو کس خوبصورتی سے اپنا کالم پڑھنے پر لگا دیا ہے یعنی‬
‫سو آگئے بڑھ کے ورق الٹ دو‬
‫کے میری دنیا بہت حسیں ہے‬
‫بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے یہ شاعرہ ایم اے اردو کرکے اپنے قبیلے‬
‫میں لوٹی تو ان کے اندر ہی سندر کومل اور احساس شاعرہ اور ان کے سامنے‬
‫آکر کھڑی ہو گئیں اور اپنے قیصرانی قبیلے کی پہلی خاتون شاعرہ بن کر کسی‬
‫شاعر سے اصالح نہ لے کر بھی اچھی شاعری کر ڈالی‪ -‬یہی ان کا کریڈٹ ہے‬
‫(اس قبیلے میں شعر و ادب کے حوالے سے رشید قیصرانی نذیر قیصرانی کے‬
‫نام نمایاں ہیں )‬
‫ان کا یہ شعری مجموعہ ایک حمد ایک نعت کے عالوہ ‪ 28‬غزلوں اور ‪39‬‬
‫نظموں پر مشتمل ہے یعنی نظم کہنے پر بھی قادر ہیں عموما شعری مجموعوں‬
‫میں غزل کو غزل کے عنوان سے شائع نہیں کیا جاتا اور وہ بھی واوین کےساتھ‬
‫غزل تو خوشبو کی طرح اپنا تعارف آپ ہے یہ خود بولتی ہے کہ میں غزل ہوں‬
‫ان کی ہر غزل ‪ 8‬سے لے ‪ 16‬اشعار پر مشتمل ہے یہ ان کی غزل پر دسترس کا‬
‫ثبوت ہے اس عمر میں طویل غزل کہنے میں مہارت رکھتی ہیں جبکہ یہ قادر‬
‫الکالم شاعر کا وصف ہے ‪-‬‬
‫چونکہ شاعرہ نے اپنا شعری سلسلہ غالب و اقبال پروین شاکر اور ندیم سے جوڑا‬
‫ہے اس لیے سعد ہللا شاہ کو ان میں پروین شاکر کی جھلک دکھائی دیتی ہے‬
‫ورنہ راءے دینے والے بڑی آسانی سے انہیں ڈیرہ غازی خان کی نوشی گیالنی‬
‫قرار دے ڈالتے‪-‬‬
‫ایمان قیصرانی ڈیرہ غازی خان کی شاعرات میں ایک خوبصورت اضافہ ضرور‬
‫ہیں تاہم یہ ان کا دوسرا یا پہال شعری مجموعہ ہے سو ان کی قدوقامت بارے کہنا‬
‫قبل از وقت تاہم تنقید نگاروں کی توجہ کا طلب ضرور ہے (یہاں شاہین‬
‫ٰ‬
‫بشری قریشی اور سید افضل شاعری کر رہی ہیں)‬ ‫ڈیروصابرہ شاہین‬
‫لفظی‪VV‬ات کے ح‪VV‬والے اگ‪VV‬ر ش‪VV‬عری مجم‪VV‬وعہ دیکھ‪VV‬ا ج‪VV‬ائے ت‪VV‬و ان کی غزل‪VV‬وں میں‬
‫آنکھیں چشم و ابرو خواب نین‪VV‬د تجگے محبت س‪VV‬مندر س‪VV‬احل س‪VV‬یپی م‪VV‬وتی س‪VV‬تارے‬
‫فلک چراغ گناہ مٹی خوشبو بچپن بھولپن اور ضد جیسے الفاظ بکثرت مل‪VV‬تے ہیں‬
‫جو ابتدائی شاعری کےلیے دیس مہیا ک‪VV‬رتے ہیں اور غزل‪VV‬وں کے ل‪VV‬ئے وہ آم‪VV‬یزہ‬
‫تیار کرتے ہیں جن سے سوندھی سوندھی مہک اٹھ‪VV‬تی ہے یع‪VV‬نی ابھی ک‪VV‬وزہ گ‪VV‬ر‬
‫نے ظروف ت‪VV‬و بن‪VV‬ا دیے لیکن ان کی زیب‪VV‬ائش وآرائش ابھی ب‪VV‬اقی ہےص‪VV‬رف ای‪VV‬ک‬
‫جگہ انہوں نے روہی سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے‪-‬‬
‫مجھے روہی کے بانہوں سے کوئی بڑھ کر نہیں لگتا‬
‫وہ مٹی میری خوشبو ہے مجھے اس کی عطا لکھنا‬
‫مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس کی تقریبا ہر غزل میں ایک سے زیادہ بار‬
‫آنکھ موجود ہے بلھے شاہ فرماتے ہیں ‪:‬‬
‫لوں لوں دے وچ لکھ لکھ چشماں‬
‫اک کھوالں اک کجاں ہو‬
‫ہمارے شاعروں کا پسندیدہ موضوع آنکھ ہے کیونکہ آنکھ آگہی سے عب‪VV‬ارت ہے‬
‫لہذا ان شاعروں کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے جن ک‪VV‬ا موض‪VV‬وع آنکھ ہ‪VV‬و اور اگ‪VV‬ر‬
‫اندر کی آنکھ روش‪VV‬ن ہ‪VV‬و ج‪VV‬ائے ت‪VV‬و کی‪VV‬ا کہن‪VV‬ا یہی آنکھ محس‪VV‬ن نق‪VV‬وی کے ہ‪VV‬اں بھی‬
‫بک‪VV‬ثرت پ‪VV‬ائی ج‪VV‬اتی ہے اپ‪VV‬نے پہلے مجم‪VV‬وعے کے ل‪VV‬یے مختل‪VV‬ف ش‪VV‬اعروں س‪VV‬ے‬
‫تاثرات لکھوانا فلیپ نگاری ) فیشن بن گیا ہے (اوریجنل شاعر ان خرخشوں س‪VV‬ے‬
‫دامن بچاتا ہے ) یعنی تا نہ بخشذ خدائے بخشندہ‬
‫جہاں انہوں نے بڑے اعتماد سے شاعری کی اور اس بات کا برمال اظہ‪VV‬ار کی‪VV‬ا کہ‬
‫ان کے سر پ‪V‬ر کس‪V‬ی اس‪V‬تاد ش‪V‬اعر ک‪V‬ا ہ‪V‬اتھ نہیں ہے‪ -‬اگ‪V‬ر ایم‪V‬ان قیص‪V‬رانی ای‪V‬ک‬
‫مضبوط سوچ مربوط فکر اور عصری تقاضوں سے لپ‪VV‬ٹی ہ‪VV‬وئی ک‪VV‬ر آگے بڑھ‪VV‬تی‬
‫جدت سفر بنا ک‪VV‬ر خ‪VV‬ارزار غ‪VV‬زل میں آگے بڑھ‪VV‬تی ہیں اردو غ‪VV‬زل اپ‪VV‬نے تم‪VV‬ام ت‪VV‬ر‬
‫امکانات کے جلو میں ان کا استقبال ک‪VV‬رے گی اور یہیں س‪VV‬ے ان ک‪VV‬ا ش‪VV‬عری س‪VV‬فر‬
‫مس‪VV‬تند اور ان ک‪VV‬ا کالم معت‪VV‬بر ہوگ‪VV‬ا اس مجم‪VV‬وعہ کی اش‪VV‬اعت پ‪VV‬روہ مبارکب‪VV‬اد کی‬
‫مستحق ہے –‬
‫مضمون نگار ‪:‬‬
‫ڈاکٹر محبوب عالم محبوب‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫میری ایسی ہتھیلی پر‬
‫ایڑی ترچھی ریکھا ءیں‬
‫اور کتنے دھارے ہیں‬
‫لیکن اس ہتھیلی پر‬
‫منزلوں کی راہوں کے‬
‫جتنے بھی اشارے ہیں‬
‫جتنے بھی ستارے ہیں‬
‫سب تمہارے ہیں‬
‫میرے خیال کے سب موسموں میں رہتا ہے‬
‫وہ عکس بن کے سدا آئینوں میں رہتا ہے‬
‫وہ مجھ سے بات بھی کرتا نہیں تسلی سے‬
‫خدا خبر کہ وہ کن الجھنوں میں رہتا ہے‬
‫میں آنکھ بھر کے جو دیکھو اسے تو جل جاؤں‬
‫خوشا وہ چاند سدا بادلوں میں رہتا ہے‬

‫یوں تو آنکھ کے تارے نہیں ٹکپتے ہیں‬


‫شرر کوئی ان جگنوؤں میں رہتا ہے‬
‫ٹھہر گئی کوئی صورت چراغ آنکھوں میں‬
‫وہ شخص آنکھ کی عینک تتلیوں میں رہتا ہے‬
‫آپ اس سے بھاگ کے جاؤں تو کس طرف جاؤں‬
‫وہ میری نیند مرے رتجگوں میں رہتا ہے‬
‫وہ جس کو بیر تھا ایماں ہماری غزلوں سے‬
‫سنا ہے اب کہ سدا شہروں میں رہتا ہے‬

‫محترمہ شاہین ڈیروی‪:‬‬


‫ڈی جی خان میں خواتین ش‪VV‬اعرات مح‪VV‬دودے چان‪VV‬د ہیں کی وجوہ‪VV‬ات میں اس خطہ‬
‫پر جہاگیردرانہ اثرات اور م‪VV‬ذہبی قی‪VV‬ود سرفہرس‪VV‬ت ہیں مح‪VV‬ترمہ ط‪VV‬اہرہ س‪VV‬وز اور‬
‫سعید افضل کے بعد ش‪VV‬اہین ڈی‪VV‬روی وہ حوص‪VV‬لہ من‪VV‬د خ‪VV‬اتون ہیں جس نےش‪VV‬اعری‬
‫کےسنگالخ میدانوں میں قدم رکھا اور فکر و نظر کوذاداراہ بناکر دش‪VV‬ت س‪VV‬خن ک‪VV‬ا‬
‫سفراس تیزی سے طے کیا کہ یہ‪VV‬اں کے ادبی حلقے بھی ح‪VV‬یران رہ گ‪VV‬ئے مسلس‪VV‬ل‬
‫محنت لگن اور استقامت دیکھ کر غزل کی دیوی ان پ‪V‬ر مہرب‪V‬ان ہوگ‪V‬ئی اگ‪V‬رچہ ان‬
‫کی غزل میں کالسیکل رنگ نمایاں ہے تاہم وہ اردو غ‪VV‬زل کے عرص‪VV‬ی تقاض‪VV‬وں‬
‫سے پوری طرح واقف بھی ہیں اور اسے جدت کا لبادہ پہن‪VV‬انے کی بھی ہ‪VV‬ر ممکن‬
‫سہی کرتی ہیں۔ شاہین ڈیروی ڈیرہ غازی خ‪VV‬ان اور اس کے وس‪VV‬یب کی پہچ‪VV‬ان بن‬
‫چکی ہیں آزاد نظم بھی بڑے اعتماد سے کہتی ہیں۔ اردو زبان و ادب کی لیکچرار‬
‫ہونے کی بنا پر ان کی اردو شاعری پر گہری نظر ہے‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬


‫تنہائی میں اکثر مجھے محسوس ہوا ہے‬
‫اک سایہ ہے چپ چاپ میرا پاس کھڑا ہے‬
‫بستی کے مکینوں کو بھروسا تھا اسی پر‬
‫بس کسی کو اسی شخص نے اب لوٹ لیا ہے‬
‫مایوس ہوئی گردش حاالت سے جب بھی‬
‫یادوں نے تیری دامن دل تھام لیا ہے‬
‫کیف انصاری ‪:‬‬
‫ماضی سے کٹ کے رو پڑی دلہن کیسے خبر‬
‫باراتیوں کے درمیان تو شہنائیوں میں تھے‬
‫سلطان الخزل حضرت عام‪VV‬ل متھ‪VV‬راوی مرح‪VV‬وم ک‪VV‬ا ہونہارش‪VV‬اگرد اس‪VV‬تاد الحش‪VV‬راء‬
‫حضرت کیف انصاری شبستان غزل کا نہ ص‪VV‬رف س‪VV‬ب س‪VV‬ے چمک‪VV‬دار س‪VV‬تارہ اور‬
‫جدید اسلوب کا استعارہ ہے بلکہ اپنی قادرا الکالمی اور ندارت خی‪VV‬ال کے ح‪VV‬والے‬
‫سے جدید غزل کی ایک ناقابل فراموش روایت بھی بن چک‪VV‬ا ہے۔ان کی آگے ن‪VV‬ادر‬
‫تشبیہات منفردترکیبیں استحارے عربی ہندی فارسی اور سنسکرت کے الف‪VV‬اظ ہ‪VV‬اتھ‬
‫باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ کیف انصاری ڈیرہ غازی خان جیس‪VV‬ے دور افت‪VV‬ادہ ش‪VV‬ہر‬
‫میں ہر قسم کے تمخوں اور تاجپوشی کی حسرت سے بے نیاز ہوکر منف‪VV‬رد ت‪VV‬رین‬
‫اور جدید لہجے کی اردو غزل کہہ رہا ہے۔‬
‫نمونہ کالم ‪:‬‬
‫خدا کا شکر ہے آنکھیں کبھی خالی نہیں رہتیں‬
‫بھرے رہتے ہیں آنکھوں میں کبھی چہرے کبھی آنسو‬
‫کہاں سے آ گیا نیلے خال میں تیرتا سورج‬
‫یہ کس نے ڈال دی جلتی ہوئی کشتی سمندر میں‬
‫آنسوں نے جھک کے شاہ بزرچہراں سے کہا‬
‫جو فیصل قصر مثرگاں تھے وہی پرچم ہیں ہم‬
‫حضرت حامل جس شعری مملکت کے صدر تھے‬
‫کیف ان کے نامزد کردہ وزیراعظم ہیں ہم‬
‫سوکھی ہوئی ٹہنی پہ ہرے پات کی خوشبو‬
‫میں اور تیرا لمس یہ قدرت کی عطا ہے‬
‫بے بس کو جو دیوے دھیرج‬
‫سادھو سنت او تار رشی ہے‬

‫جاوید گل گشکوری ‪:‬‬


‫سدا بہار شحراۓ اردو پر قلم آزم‪VV‬ائی ک‪V‬ر کے جاوی‪VV‬د گ‪VV‬ل بھی س‪VV‬دا بہ‪VV‬ار ہ‪VV‬و گ‪V‬ئے‬
‫ہیں ۔کتب س‪VV‬ے ت‪VV‬و م‪VV‬ارکیٹیں بھ‪VV‬ری ہ‪VV‬وئی ہیں مگ‪VV‬ر جاوی‪VV‬د کے ج‪VV‬واں اور نوخ‪VV‬یز‬
‫جذبات و احساسات بے روزگاری ک‪VV‬ا درد معاش‪VV‬ی بح‪VV‬ران ک‪VV‬ا احس‪VV‬اس۔سیاس‪VV‬ی کال‬
‫بازیوں کے مضرثرات اخالقی قدروں کی پامالی ک‪VV‬ا احس‪VV‬اس ج‪VV‬اگزیں ہ‪VV‬و ت‪VV‬و پھ‪VV‬ر‬
‫جاوید ریاض کھوسہ کی کتاب نہ مور شعرائے اردو میں پن‪VV‬اہ ڈھون‪VV‬ڈ و یقین‪VV‬ا ذہ‪VV‬نی‬
‫اور روحانی تسکین ملے گی آپ کا مزاج جیسا بھی ہے اس قسم کا شاعر ش‪VV‬حرۓ‬
‫اور مرصع نثرمل جائیگی۔ جاوید محمد پور دیوان کے رہائشی ہیں شاعر بھی ہیں‬
‫اور ادیب بھی پرائیویٹ ادارے میں لیکچراربھی مگر ان مصروفیات کے باوجود‬
‫ان کی نائی کتب آرہی ہیں ۔ اس سے ان کے ادبی ذوق اور قلمی خدمات ک‪V‬ا ان‪V‬دازہ‬
‫بخ‪VV‬وبی لگای‪VV‬ا جاس‪VV‬کتا ہے۔ می‪VV‬ٹرک س‪VV‬ے ایم اے ت‪VV‬ک کے طلبہ انہیں ن‪VV‬وٹس نہیں‬
‫خری‪VV‬دنے پ‪VV‬ڑیں گے ادبی ذوق کے ش‪VV‬ائقین س‪VV‬ینکڑوں اور کتب کے مط‪VV‬العہ س‪VV‬ے‬
‫بھی زیادہ اس کتاب سے تسکین وحظ کرتے ہیں کہ‪VV‬تے ہیں کہ ش‪VV‬اعر ی‪VV‬ا قلم ک‪VV‬ار‬
‫زندگی کو کرید تا رہتا ہے مگ‪VV‬ر وطن عزی‪VV‬ز میں زن‪V‬دگی انہیں کری‪V‬دتی رہ‪VV‬تی ہے‬
‫ناصر کاظمی ہو یا مجید امجد ان شعراء کے نام اس ص‪VV‬دی میں عن‪VV‬وان م‪VV‬رثیہ کی‬
‫حیثیت حاصل کر گئے ہیں ۔ فیض کا روح‪VV‬انی م‪VV‬زاج حس‪VV‬رت موہ‪VV‬انی کی غ‪VV‬یرت‬
‫غالب کی کالسکیت میر کا نوحہ غم راشد کے چیختے لفظ اختر شیرانی ک‪VV‬ا ناب‪VV‬الغ‬
‫یا معصوم عشق اور نظر کوعوامیت یہ وہ عنوان ہیں جو ق‪VV‬اری ک‪VV‬و اپن‪VV‬ا مطل‪VV‬وب‬
‫مہیا کرتے ہیں اور یہ سچ ہے کہ ان میں اکثر کو زن‪VV‬دگی نے خ‪VV‬وب کری‪VV‬دا ہے ان‬
‫کی قریدگی کو مصنفین نے بھی زی‪VV‬ر بحث الی‪VV‬ا ہے مثال مجی‪VV‬د امج‪VV‬د کے جن‪VV‬ازے‬
‫میں شرکا کی تعداد پانچ یا چھ تھی اسی طرح میرا جی کی م‪VV‬وت ک‪VV‬ا ح‪VV‬ال ہے ۔فن‬
‫تخلیق و تنقید میں نو وارد سہی۔ فارسی عربی اور انگری‪VV‬زی ل‪VV‬ٹریچر کے مط‪VV‬العہ‬
‫سے خالی سہی پھر بھی طالب علم کی حیثیت سے معاشرے کو ایک مکمل کتاب‬
‫دینا گشکوری وکھوسہ بہت بڑا کام ہے محمد پور دی‪VV‬وان جیس‪VV‬ے پس‪VV‬ماندہ عالقے‬
‫کے باسی ہیں مگر فطرت الے کی حنا بندی خود کرتی ہیں لہ‪V‬ذا اس وقت یہ زن‪V‬دہ‬
‫جاوید محمد کا‬
‫گل اپنی سدابہار تصانیف کے ساتھ کھل رہا ہے۔فاضل اردو اور ایم اے پولیٹیکل‬
‫سائنس ہیں ۔ اردو کے شاعر بھی ہیں لہذا تعارف میں مناسب ہوگا ان کے دو شعر‬
‫بھی آ جائیں ۔‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬


‫اب تو کھلی کتاب کی صورت ہے ہر کوئی‬
‫پہلے تمام شہر کو پڑھنا پڑا بہت‬
‫کبھی جو اپنا جیب ٹھہرا وہ چاند چہرہ‬
‫قریب پہنچا تو خشک صحرا وہ چاند چہرہ‬
‫مجھے یقین ہے تڑپ رہا ہے میرے ملن کو‬
‫ہےسنگدل کا عذاب چہرا وہ چاند چہرہ‬

‫محسن برمانی ‪:‬‬


‫ن‪VV‬ام محس‪VV‬ن عب‪VV‬اس برم‪VV‬انی وال‪VV‬د ک‪VV‬ا ن‪VV‬ام محم‪VV‬د بخش خ‪VV‬ان ت‪VV‬اریخ پی‪VV‬دائش ‪ ۳‬اپری‪VV‬ل‬
‫‪۱۹۸۳‬ء تعلیم ایم اے انگلش پتہ بستی برمانی چوٹی زریں ڈی جی خان‬

‫نمونہ کالم ‪:‬‬


‫تیری یاد کے پتے صحرا پر مجھے پھر وہ کہانی یاد آئی‬
‫جس رات تو مجھ سے الجھی تھی وہ رات ویرانی یاد آئی‬
‫وہ گلشن جس میں ہم دونوں یوں پہروں بیٹھے رہتے تھے‬
‫وہ سونا گلشن یاد آیا وہ گھاس مستانی یاد آئی‬
‫وہ دریا جس کے ساحل پر ہم سیر کو جایا کرتے تھے‬
‫وہ سوکھا دریا یاد آیا ا اوہ ناؤ پرانی یاد آئی‬
‫وہ جھیل کہ جس کے پانی میں تو کنکر ڈاال کرتی تھی‬
‫اس جھیل کا پانی یاد آیا وہ جھیل سہانی یاد آئی‬
‫وہ ماہ ساون جس کی بارش میں تو بھیگا کرتی تھی‬
‫وہ برسا ساون یاد آیا وہ شکل نورانی یاد آئی‬
‫برکھا رت میں جب محسن وہ مجھ سے ملنے آئی تھی‬
‫وہ قرب لمحے بہت یاد آئے وہ رت مستانی یاد آئی‬

You might also like