Professional Documents
Culture Documents
الفت
محمد علی شاہ نام اور الفت تخلص اسی دور کے شاعر تھے امامہمذہب کے
پیرو تھے عربی اور فارسی کی بڑی اچھی قابلیت تھی کی مثنویاں لکھے تھیں(
)۴
:حفیظ جالندھری
تیس جلندھری کا شمار اردو کے رومانی شعراءمیں ہوتا ہے مگر حفیظ کی
خصوصیات یہ ہیں کہ انہوں نے زندگی کے مادری پہلوں کی نقاب کشائی کی
بھرپور کوشش کی ہے حفیظ نے تلخابہ کے دو دیباچے میں اعتراف کیا ہے
حفیظ کی شاعری کی بیشتر ماخذات مشرقی مشرقی ہیں ان کی رومانیت کو
مشرق پسندی کے اس رجحان کا ایک زاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ()۵
خواجہ میر درد :
اٹھارویں صدی کےہندوستان کا معاشرہ جس سیاسی ابتدائی معاشی بدحالی اور
معاشرتی خلفشارسے دو چار تھا خواجہ میر درد نے میر سودا کی طرح ہر
صنف سخن ہیں خواجہ میر درد ۱۷۲۰سوبیس میں پیدا ہوئےاور اٹھارہ بارہ سو
دیوان درد میں حقیقت Vاور مزاج دونوں مضامین کے حاصل اشعار ِ پچاسی اگرچہ
مل جاتے ہیں موالنا حالی نے مقدمہ شعر و شاعری میں میر درد کےخالص
مجازی اشعار کی حقیقت اور معرفت کے نقطہ نظر سے تشریح کر کے ہر بات
واضح کی ہے مختصر یہ کہ درد کی شاعری میں صوفیانہ مضامین کچھ ایسے
پر اثر انداز میں جلوہ گر ہیں کہ درد کی انفرادیت کا قاتل ہونا پڑتا ہےاور ان کی
شاعری خود ان کے بقول صفا ءے سخن کا آئینہ نظر آتی ہے آزاد کے بقول درد
خصوصی چھوٹی چھوٹی بحروں میں اکثر غزلیں گویا تلواروں کی آبداری نشتر
میں بھی رہتے تھے( ) ۱۴۳ڈاکٹر وزیر آغا درد کی صوفیانہ شاعری پر اظہار
خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں درد کے ہاں صوفیانہ کی ان صوفیانہ تصورات کا
بہترین اظہار غزل کے ان اشعار میں ہوا ہائے جہاں وہ مجاز سے حقیقت کثرت
سے وہ وحدت سیم اسی تجرید کی طرف پیش قدمی کرتا ہے خواجہ میر درد(
۱۱۳۳ھ۱۷۲۰ء) تا (۱۱۹۹ھ ۱۷۸۵/ء) نے اردو غزل کو باطنی طہارت کے اس
حقیقی جوہر آشنا کیاکہ وحدت الوجود وحدت الشہور الگ الگ نہیں بلکہ حقیقت
و معرفت کی یکتائی کے امن بن گئے ()۶
ڈیرہ غازیخان کے شعرائے کرام :
طاہرہ سوز جتوئی شخصیت اور فن :
ڈیرہ غازی خان کی سینئر خواتین شعراء میں آپ آپ کا شمار ہوتا ہے درس و
تدریس ایس ایس ٹی سے وابست ہیں پرانی شاعری ہونے کے طفیل آ ہے طاہرہ
سوز کا شعریشیر کین دہائیوں سے زیادہ پر محیط ہے طرح سوچ کے کالم میں
دو باتیں یعنی نعتیہ اشعار گاؤں کی سادہ زندگی توجہ طلب ہیں اور انہیں دوسری
بشاعرات سےممنیز کرتا معاشی اور سیاسی کشمکش کے نتیجے میں پیدا ہوئے
ان کی اردو غزل میں ہجر فراق کے مضامین انہیں روایتی انداز فکر کے قریب
کر دیتا ہے حقیقت یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان میں اکثر کالسیکل شعراء قیام
پاکستان کے وقت ہجرت کر کے آئے تھے اور ایک زمانہ تک ان کا طوطی بولتا
تھا (کالسیکل شعراء کے سرخیل بھی حامل متھراوی ہیں) بعض اوقات عمر کی
ایک خاص حصے میں پہنچ کر ہللا اور اس کے پیارے حبیب صلی ہللا علیہ وسلم
سے تو لگ جاتی ہے کہ میں نہ ہیں سب توں ہی کا بول باال ہے طاہرہ سوزکی
شاعری میں نعتیہ اشعار بھی عجب مزدہ دیتے ہیں اور پاکیزگی کا احساس ہوتا
ہے اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے شہری زندگی اب بزات خود شہریوں کے
لیے مسائل کا سبب بن گئی ہے صحت Vپانی مالوٹ مہنگائی بیماریاں برتری کا
خمار گیس پانی بجلی کے سٹیٹس کا بخار آلودہ خوراک غذائی قلت احساس تحفظ
ڈاکٹروں کی فیس ٹیکسز کی بھرمار دو نمبر ایشیا کی کثرت جیسے گوناگوں
مسائل نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے (دیہات سے شہروں کا رخ کرنے والے
اس بات کو جلد سمجھ لیں تو اچھا ہے )ان حاالت میں گاؤں کی صاف ہوا حسین
مناظر سے بھرپور زندگی خالص اور سر سبز فصلوں کو دیکھ کر ملنے والی
طراوت آج بھی اپنے اندر ایک کشش رکھتی ہےطاہرہ سوز بھی ایک ایسا سے
تخلیق کار ہونے کی نعتے فطرت سے ہم کالم ہونے اور اس سے زندگی کا عطر
کشید کرنے کی بھرپور آرزو رکھتی ہیں ان کی غزلوں کا مطالعہ کرنے سے یہ
مترشح ہے کہ وہ شعر اور ایسی سمجھیں اسے گاؤں کے طرز تمدن کو تکلیف
کا عذاب سمجھتی ہیں اور ایسے ساسے گاؤں اپنا اصل گھر نظر آتا ہے گویاں کہ
نہیں کےیاں کے نکالے ہوے توہیں!
نمونہ کالم
موج کے دھارے سے کیا نکلے بھٹورمیں آگئے
ہم شکستہ دل فریب چارہ گر میں آگئے
کب سے سرگرم سفر ہے کاروان زندگی
سانس بھی لینے نہ پائے پر سفر میں آگئے
کون گزرا ہے ادھر سے صورت یاد بہار
دیدہ و ہوا دل رونے دیوار و در میں آگئے
میں اگردیکھوں تو مجھ میں دید کی طاقت کہاں
پھر خدا جانے کیوں وہ میری نظر میں آگئے
ٰ
بشری قریشی :
بشرہ قریشی نے رسوم و قیود کی دھند میں لپٹے ہوئے اس شہر میں اپنی اعلی
حوصلگی بلند ہمتی اور استقامت سے نہ صرف اعلی تعلیمی مدارج طے کئے
اور لیکچر اردو منتخب ہوئبلکہ اپنی منتشر سوچوں اور تصورات کو ایک تخلیقی
ٰ
بشری قریشی کے افسانوں (پیت نکتے پر مرکوز کرنے میں بھی کامیاب رہے
پرپریت) کی بنیادی کرداری نگاری منظر کشی جذبات نگاری انسانی نفسیات اور
مشرقی عورت کے احساسات پر رکھی گئی ہیں ان کے بعض افسانے روحانی
ادب کا شاہکار ہیں (-رشید ملغانی )
ان کی اردو شاعری بالخصوص غزل بھی ہمعصر شاعرات سے منفرد ہے
جیسے شعر کے میدان میں انہیں ڈی جی خان کی معتبر افسانہ نگار خاتون تسلیم
کیا ہے ۔ بشرہ قریشی اردو غزل کے حوالے سے ایک معتبر نام بن چکا ہےان
کی شاعری سے نسوانیات جھلکتی ہے شہری حلقوں میں ان کی اردو غزل کو
زبردست پذیرائی حاصل ہو رہی ہے
تمام خوشیاں ہیں اس کی سر اب میرے نام
کتاب غم کا ہے پر انتساب میرے نام
اسی کے دم سے ہیں آباد چاندنی راتیں
وہ میرا حسن ہے کیسے بھال بھالؤں اسے
یہ وقت کی سازش ہے یا اوہام کی شورش
پتھر کی سب شبیہوں میں خدا ڈھونڈ رہی ہوں
جس آنکھ میں حسن کی چاہت ہو
ہجر میں تر ہو جاتی ہے
جس میں ہو حرارت جذبوں کی
وہ بات امر ہو جاتی ہے
مین نظر آنے واال یہ نوجوان شاعر جدید اردو غزل پر بھی پوری دسترس رکھتا
ہے غزل اور نظم میں ان کا اسلوب یکساں رہتا ہےزمانے کی تلخیاں اور باٹوں
کی نا مہربانیاں مل کر بھی انیس بیس کا فرق پیدا نہیں کر سکتیں علی عارف
اپنے عہد کی ترجمانی کرتے کرتے کسی اور عہد کے مدار میں داخل ہوچکا
ہےساری ساری رات جاگ کر خواب موسموں کی شاعری کرتا ہے اور ظلم
سہتے ہوئے انسانوں کے اس مقتل میں خود کو مردہ کے حسین تصور اور سے
بہالتا ہے حاالنکہ جانتا ہے کہ اس دور میں جینے کی قیمت یادارورسن ہے
یاخواری
نمونہ کالم :
جنگل جسم بچھا کر جب آوازیں دیتا ہے
سنگریزوں کی الماری میں بھیڑیا روتا ہے
جو روکھا سوکھا سا سورج تھا کر دیا حاضر
ہمارے شہر میں ایسا ہی بس سویرا ہے
ایمان قیصرانی
،،کوئی میری چاہ میں جل بجھا ،،
جو چراغ راہ حیات تھا یوں ہی رسم و راہ میں جل بجھا
میں کسی کے عشق میں گم رہی کوئی میری چاہ میں جل بجھا
جنوبی پنجاب Vکے شہر ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی ایمان قیصرانی
ایک تازہ کار شاعرہ کے روپ میں کوئی میری چاہ میں جل بجھا کی دہاءی دیتی
ابھری ہیں شاعری مجموعوں میں قبل ازیں اس طرح کا نام دیکھنے میں نہیں آیا
جن عالقوں میں أنرکالنگ اور کاروکاری جیسی قبحیح رسمیں خود روجڑی
بوٹیوں کی طرح پھیلی ہوئی ہیں وہاں یہ عنوان ہی ان کی جراتوں کا شاہد ہے۔
پیش لفظ شاعرہ نے منظوم کرکے پیش کیا ہے یہ روایت نی نہیں مگر ان کے
ہاں تخلیقی وفور کا پتہ دیتی نظر آتی ہے پیش لفظ کے آخر میں انہوں نے قاری
کو کس خوبصورتی سے اپنا کالم پڑھنے پر لگا دیا ہے یعنی
سو آگئے بڑھ کے ورق الٹ دو
کے میری دنیا بہت حسیں ہے
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے یہ شاعرہ ایم اے اردو کرکے اپنے قبیلے
میں لوٹی تو ان کے اندر ہی سندر کومل اور احساس شاعرہ اور ان کے سامنے
آکر کھڑی ہو گئیں اور اپنے قیصرانی قبیلے کی پہلی خاتون شاعرہ بن کر کسی
شاعر سے اصالح نہ لے کر بھی اچھی شاعری کر ڈالی -یہی ان کا کریڈٹ ہے
(اس قبیلے میں شعر و ادب کے حوالے سے رشید قیصرانی نذیر قیصرانی کے
نام نمایاں ہیں )
ان کا یہ شعری مجموعہ ایک حمد ایک نعت کے عالوہ 28غزلوں اور 39
نظموں پر مشتمل ہے یعنی نظم کہنے پر بھی قادر ہیں عموما شعری مجموعوں
میں غزل کو غزل کے عنوان سے شائع نہیں کیا جاتا اور وہ بھی واوین کےساتھ
غزل تو خوشبو کی طرح اپنا تعارف آپ ہے یہ خود بولتی ہے کہ میں غزل ہوں
ان کی ہر غزل 8سے لے 16اشعار پر مشتمل ہے یہ ان کی غزل پر دسترس کا
ثبوت ہے اس عمر میں طویل غزل کہنے میں مہارت رکھتی ہیں جبکہ یہ قادر
الکالم شاعر کا وصف ہے -
چونکہ شاعرہ نے اپنا شعری سلسلہ غالب و اقبال پروین شاکر اور ندیم سے جوڑا
ہے اس لیے سعد ہللا شاہ کو ان میں پروین شاکر کی جھلک دکھائی دیتی ہے
ورنہ راءے دینے والے بڑی آسانی سے انہیں ڈیرہ غازی خان کی نوشی گیالنی
قرار دے ڈالتے-
ایمان قیصرانی ڈیرہ غازی خان کی شاعرات میں ایک خوبصورت اضافہ ضرور
ہیں تاہم یہ ان کا دوسرا یا پہال شعری مجموعہ ہے سو ان کی قدوقامت بارے کہنا
قبل از وقت تاہم تنقید نگاروں کی توجہ کا طلب ضرور ہے (یہاں شاہین
ٰ
بشری قریشی اور سید افضل شاعری کر رہی ہیں) ڈیروصابرہ شاہین
لفظیVVات کے حVVوالے اگVVر شVVعری مجمVVوعہ دیکھVVا جVVائے تVVو ان کی غزلVVوں میں
آنکھیں چشم و ابرو خواب نینVVد تجگے محبت سVVمندر سVVاحل سVVیپی مVVوتی سVVتارے
فلک چراغ گناہ مٹی خوشبو بچپن بھولپن اور ضد جیسے الفاظ بکثرت ملVVتے ہیں
جو ابتدائی شاعری کےلیے دیس مہیا کVVرتے ہیں اور غزلVVوں کے لVVئے وہ آمVVیزہ
تیار کرتے ہیں جن سے سوندھی سوندھی مہک اٹھVVتی ہے یعVVنی ابھی کVVوزہ گVVر
نے ظروف تVVو بنVVا دیے لیکن ان کی زیبVVائش وآرائش ابھی بVVاقی ہےصVVرف ایVVک
جگہ انہوں نے روہی سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے-
مجھے روہی کے بانہوں سے کوئی بڑھ کر نہیں لگتا
وہ مٹی میری خوشبو ہے مجھے اس کی عطا لکھنا
مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ اس کی تقریبا ہر غزل میں ایک سے زیادہ بار
آنکھ موجود ہے بلھے شاہ فرماتے ہیں :
لوں لوں دے وچ لکھ لکھ چشماں
اک کھوالں اک کجاں ہو
ہمارے شاعروں کا پسندیدہ موضوع آنکھ ہے کیونکہ آنکھ آگہی سے عبVVارت ہے
لہذا ان شاعروں کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے جن کVVا موضVVوع آنکھ ہVVو اور اگVVر
اندر کی آنکھ روشVVن ہVVو جVVائے تVVو کیVVا کہنVVا یہی آنکھ محسVVن نقVVوی کے ہVVاں بھی
بکVVثرت پVVائی جVVاتی ہے اپVVنے پہلے مجمVVوعے کے لVVیے مختلVVف شVVاعروں سVVے
تاثرات لکھوانا فلیپ نگاری ) فیشن بن گیا ہے (اوریجنل شاعر ان خرخشوں سVVے
دامن بچاتا ہے ) یعنی تا نہ بخشذ خدائے بخشندہ
جہاں انہوں نے بڑے اعتماد سے شاعری کی اور اس بات کا برمال اظہVVار کیVVا کہ
ان کے سر پVر کسVی اسVتاد شVاعر کVا ہVاتھ نہیں ہے -اگVر ایمVان قیصVرانی ایVک
مضبوط سوچ مربوط فکر اور عصری تقاضوں سے لپVVٹی ہVVوئی کVVر آگے بڑھVVتی
جدت سفر بنا کVVر خVVارزار غVVزل میں آگے بڑھVVتی ہیں اردو غVVزل اپVVنے تمVVام تVVر
امکانات کے جلو میں ان کا استقبال کVVرے گی اور یہیں سVVے ان کVVا شVVعری سVVفر
مسVVتند اور ان کVVا کالم معتVVبر ہوگVVا اس مجمVVوعہ کی اشVVاعت پVVروہ مبارکبVVاد کی
مستحق ہے –
مضمون نگار :
ڈاکٹر محبوب عالم محبوب
نمونہ کالم :
میری ایسی ہتھیلی پر
ایڑی ترچھی ریکھا ءیں
اور کتنے دھارے ہیں
لیکن اس ہتھیلی پر
منزلوں کی راہوں کے
جتنے بھی اشارے ہیں
جتنے بھی ستارے ہیں
سب تمہارے ہیں
میرے خیال کے سب موسموں میں رہتا ہے
وہ عکس بن کے سدا آئینوں میں رہتا ہے
وہ مجھ سے بات بھی کرتا نہیں تسلی سے
خدا خبر کہ وہ کن الجھنوں میں رہتا ہے
میں آنکھ بھر کے جو دیکھو اسے تو جل جاؤں
خوشا وہ چاند سدا بادلوں میں رہتا ہے