You are on page 1of 1

‫جون ایلیا نامی ایک منحوس شاعر اور ایک قوال عزیز میاں ان دونوں کو میں سکول کے زمانے

میں بیوہ عورتیں سمجھتا تھا ‪،‬‬


‫کالج جاکر معلوم ہوا کہ یہ عورتیں نہیں بلکہ کھسرہ نما مرد ہیں ۔ امروہہ اتر پردیش کے محلہ دربار شاہ ولیت کے متعصب‬
‫شیعہ گھرانے میں ‪ 6‬دسمبر ‪ 1931‬کو مشہور ذاکر علمہ شفیق حسن جو نجومی کا دو نمبری وال دھندہ بھی کرتاتھا اور اسکی‬
‫بیوی نرگس خاتون گھروں میں نوحے اور مجلسیں پڑھا کرتی تھی کے گھر پیدا ہونے والے اور پھر امروہہ کے مشہور شیعہ‬
‫مدرسے سیدالمدارس میں پڑھنے کے بعد خود کو سید کہلنے وال اصغر حسن المشہور بجون ایلیا گمراہ اور خدا کے وجود سے‬
‫انکاری ہوگیا اور بڑے فخر سے اپنے آپ کو انارکسٹ ور کمیونسٹ کہلتا تھا۔۔ایلیا عبرانی زبان کا لفظ اور یہودیوں کے لئے خاص‬
‫ہے‪،‬جون ایلیا عرب کے مشرکین شاعروں کو ایک تحریک کا نام دیتا تھا اور ابو جہل سے خاصا لگاؤ رکھتا تھا‪،‬اور عرب کاہنوں‬
‫سے بہت متآثر تھا۔ اپنے شاعری میں خدا مذھب اور پردے کا مزاق اڑاتا تھا مگر محرم کا مہینہ آتے ہی جون ایلیا اپنے‬
‫دھریت کے باوجود شیعیت کے حق میں شاعری شروع کر دیتا اور نوحے لکھتا پڑھتا‪،‬اس کے علوہ بھی انکی شاعری شیعہ‬
‫حوالوں خاص کر علی رض کو خدا کا منصب دینے اور بغض صحابہ کے بدبو جیسے حرکتوں سے بھری پڑی ہے جیسے سب‬
‫دھریہ شعراء کا خاصہ ہے کیونکہ اکثر دھرئیے پہلے شیعہ تھے۔اس کے بڑے بھائی رئیس امروہی کو مسلمانوں نے اسی گستاخانہ‬
‫‪ ،‬حرکات پر قتل کیا تھا‬
‫کمیونسٹ پارٹی کے رکن کے طور پاکستان کا سخت مخالف اور پاکستان کو علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت کہنے وال یہ‬
‫عجیب وغریب مخلوق ‪1957‬ء میں اپنا بوری بستر اٹھا کر پاکستان آگھسا اور کراچی میں اپنے گند پھیلنے اور چول مارنے کا‬
‫اڈہ بنالیا۔وہاں اسکو اپنے جیسے دھریہ لوگوں کی کمپنی مل گئی اور دوکانداری چمک اٹھی۔‬

‫۔جون ایلیا یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری مینسن کا آلئہ کار بھی رہ چکا ہے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس نے یہودی علم‬
‫کبالہ سیکھا ہوا تھا جو صرف فری میسن ارکان سیکھتے ہیں‪ ،‬کراچی کے پریمیسن ٹیمپل میں باقاعدہ اس کا نام رجسٹرڈ تھا‪،‬‬
‫اس کے علوہ فرقہ باطنیہ )اسماعیلی ( کے ادارہ طریقہ و مذھب ایجوکیشن بورڈ کے ایڈیٹر کے حیثیت سے بھی خدمات انجام‬
‫دیتا رہا‪ ،‬اور ان کیلئے بنو عباس کے زمانے کی مشہور فتنہ فرقہ معتزلہ کے کتب اور فرقہ باطنیہ کے عالم اسلم میں فساد‬
‫کرنے والے بد بخت لیڈر حسن بن صباح کے مقالت کا ترجمہ بھی کیا۔‬
‫دوسری بات یہ ہے اسکی آخری عمر میں چول مارنے اور شراب خوری کے علوہ کہی گیا نہیں تو مسجد کہا نظر آتی؟؟؟‬
‫ہمارے لئے کسی دھریے اور اس کے واہیات شاعری اور بکواس اقوال کا پیشاپ برابر بھی اھمیت نہیں۔‬
‫بہر حال گندگی کو معاشرے سے صاف کرنے کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے اور جہاں انسان ہوگا وہاں گندگی بھی ہوگی۔‬
‫لہذا مسلمانوں خاص کر پاکستانی اھلسنت عوام الناس سے یہ اپیل ہے کہ وہ ان گندگیوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھانے کے‬
‫بجائے ایسے گندگیوں کوٹھکانے لگائیں۔اور ان کے واہیات شاعری پر لعنت بھیج دے۔‬
‫شاعری ویسے تو خود ایک محتاط شعبہ ہے ۔مگر شاعری کے نشے میں غرق ہو کر ان ابو لہب طرز کے شاعروں کو گلے مت‬
‫لگائیں ۔کیونکہ چودہ سو سال پہلے یہ بڑے بڑے شعراء قرآن کے مقابلے کے لئے جمع ہو کر دشمن اسلم ہونے کا ثبوت دے‬
‫چکے ہیں اور ان میں سے جن کو ایمان نصیب نہیں ہوسکا آج ان کی ذریت میدان میں نکل پڑی ہے۔‬
‫آٹھ سال کے عمر میں اپنے پہل شعر کہنے اور لڑکی سے چکر چلنے کا دعوی کرنے والے اس منحوس نفسیاتی مریض کو شرم‬
‫کی وجہ سے ساٹھ سال تک اپنا بکواس وبیکار شعری مجموعہ شائع کرنے کی ھمت نہیں ہوئی مگر جب بھی اس نفسیانی‬
‫مریض کو موقع ملتا علمہ اقبال جیسے بین القوامی شاعر پر تنقید کرتا۔حالنکہ جون ایلیا علمہ اقبال کے حقے کے ذریعے‬
‫مارے جانے والے کش کے نتیجے میں نکلنے والے دھوئیں کی بھی حیثیت نہیں رکھتا ‪ ،‬اسی طرح غالب سے بھی بہت حسد‬
‫رکھتا تھا‬
‫ء میں انشاء نام کے رسالے کا مدیر بنا تو وہاں ایک دھریہ لڑکی زاھدہ حنا سے چکر چلیا اور ‪1969‬ء اس کے ساتھ ‪1958‬‬
‫باقاعدگی سے جنسی تعلقات قائم کئےجب اس سے تین بچے پیدا ہوئے مگر اس کے گندے حرکات اور بد سیرتی اور بدصورتی‬
‫کیساتھ ہر وقت اس کے شراب نوشی میں واہیات بکنے اور شلوار ہی میں رفع حاجت کرنے جیسے حرکتوں سے تنگ آکر اس‬
‫نے بھی چھوڑ دیا‪ ،‬اور تین بچوں کو لے کر بھاگ گئی۔ اور پھر یہ بدبودار انسان تنہا شراب نوشی اور گندگی میں پڑا واھیات‬
‫بکھتا ہوا یہ نمونہ نفسیاتی مریض ‪2002‬ء میں کراچی میں جھنم رسید ہوگیا اور سخی حسن قبرستان میں دبادیا گیا‪،‬مگر اس کے‬
‫شعری اور نثری واہیات جو کسی بھی کام کے نہیں اسکو اس کے دھریہ دوست جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلتے تھے‬
‫پاکستانی نوجوانوں میں دھریت کی زھر پھیلنے کیلئے شائع کرتے رہے۔اور اس غلیظ انسان کو میڈیا کے ذریعے ہیرو بنانے کی‬
‫کوشش کرنے میں لگے ہیں۔‬
‫اس کا ایک قول دھریہ لوگ بہت شئیر کرتے رہتے ہیں کہ مجھے کہی مسلمانوں کی مسجد نہیں ملی سب فرقوں کے مساجد‬
‫ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی امام باڑے میں گزری ہے اور امام باڑے میں اس کو کون سی مسجد نظر آنی‬
‫تھی ؟؟؟‬
‫جون ایلیا‪،‬منٹو‪ ،‬قسم کے لوگوں کا تعلق ان باغی طبقوں سے ہوتا ہے جو بچپن میں لوطی حملہ آوروں کا نشانہ بنے ہوتے‬
‫ہیں ‪ ،‬اور اسی ثمرہ کے بدولت یہ اپنی گندگی کو شاعری کے لبادے میں چھپا کر عوام میں گھولتے ہیں۔اس کے غلظتوں کا‬
‫کچھ نمونے ‪ ،‬مشت از خروارے‬
‫اس نفسیاتی اور روحانی مریض کی شاعریوں میں عشق مجازی ‪،‬انسان بے زاری‪،‬اور احساس محرومیت اور خدا کے ذات کے بارے‬
‫میں الٹی سیدھی بکواسات موجود ہیں جس سے معلوم چلتا ہے کہ یہ دین و دنیا کا راندھا درگا ہ دھریہ انسان تھا اور اس پر‬
‫مستقل لعنت پڑی ہوئی تھی جیسا کہ اس کے منحوس شکل سے بھی ظاہر ہے۔‬

You might also like