Professional Documents
Culture Documents
۔جون ایلیا یہودیوں کی خفیہ تنظیم فری مینسن کا آلئہ کار بھی رہ چکا ہے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس نے یہودی علم
کبالہ سیکھا ہوا تھا جو صرف فری میسن ارکان سیکھتے ہیں ،کراچی کے پریمیسن ٹیمپل میں باقاعدہ اس کا نام رجسٹرڈ تھا،
اس کے علوہ فرقہ باطنیہ )اسماعیلی ( کے ادارہ طریقہ و مذھب ایجوکیشن بورڈ کے ایڈیٹر کے حیثیت سے بھی خدمات انجام
دیتا رہا ،اور ان کیلئے بنو عباس کے زمانے کی مشہور فتنہ فرقہ معتزلہ کے کتب اور فرقہ باطنیہ کے عالم اسلم میں فساد
کرنے والے بد بخت لیڈر حسن بن صباح کے مقالت کا ترجمہ بھی کیا۔
دوسری بات یہ ہے اسکی آخری عمر میں چول مارنے اور شراب خوری کے علوہ کہی گیا نہیں تو مسجد کہا نظر آتی؟؟؟
ہمارے لئے کسی دھریے اور اس کے واہیات شاعری اور بکواس اقوال کا پیشاپ برابر بھی اھمیت نہیں۔
بہر حال گندگی کو معاشرے سے صاف کرنے کے لئے انسانوں کو پیدا کیا گیا ہے اور جہاں انسان ہوگا وہاں گندگی بھی ہوگی۔
لہذا مسلمانوں خاص کر پاکستانی اھلسنت عوام الناس سے یہ اپیل ہے کہ وہ ان گندگیوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھانے کے
بجائے ایسے گندگیوں کوٹھکانے لگائیں۔اور ان کے واہیات شاعری پر لعنت بھیج دے۔
شاعری ویسے تو خود ایک محتاط شعبہ ہے ۔مگر شاعری کے نشے میں غرق ہو کر ان ابو لہب طرز کے شاعروں کو گلے مت
لگائیں ۔کیونکہ چودہ سو سال پہلے یہ بڑے بڑے شعراء قرآن کے مقابلے کے لئے جمع ہو کر دشمن اسلم ہونے کا ثبوت دے
چکے ہیں اور ان میں سے جن کو ایمان نصیب نہیں ہوسکا آج ان کی ذریت میدان میں نکل پڑی ہے۔
آٹھ سال کے عمر میں اپنے پہل شعر کہنے اور لڑکی سے چکر چلنے کا دعوی کرنے والے اس منحوس نفسیاتی مریض کو شرم
کی وجہ سے ساٹھ سال تک اپنا بکواس وبیکار شعری مجموعہ شائع کرنے کی ھمت نہیں ہوئی مگر جب بھی اس نفسیانی
مریض کو موقع ملتا علمہ اقبال جیسے بین القوامی شاعر پر تنقید کرتا۔حالنکہ جون ایلیا علمہ اقبال کے حقے کے ذریعے
مارے جانے والے کش کے نتیجے میں نکلنے والے دھوئیں کی بھی حیثیت نہیں رکھتا ،اسی طرح غالب سے بھی بہت حسد
رکھتا تھا
ء میں انشاء نام کے رسالے کا مدیر بنا تو وہاں ایک دھریہ لڑکی زاھدہ حنا سے چکر چلیا اور 1969ء اس کے ساتھ 1958
باقاعدگی سے جنسی تعلقات قائم کئےجب اس سے تین بچے پیدا ہوئے مگر اس کے گندے حرکات اور بد سیرتی اور بدصورتی
کیساتھ ہر وقت اس کے شراب نوشی میں واہیات بکنے اور شلوار ہی میں رفع حاجت کرنے جیسے حرکتوں سے تنگ آکر اس
نے بھی چھوڑ دیا ،اور تین بچوں کو لے کر بھاگ گئی۔ اور پھر یہ بدبودار انسان تنہا شراب نوشی اور گندگی میں پڑا واھیات
بکھتا ہوا یہ نمونہ نفسیاتی مریض 2002ء میں کراچی میں جھنم رسید ہوگیا اور سخی حسن قبرستان میں دبادیا گیا،مگر اس کے
شعری اور نثری واہیات جو کسی بھی کام کے نہیں اسکو اس کے دھریہ دوست جو اپنے آپ کو ترقی پسند کہلتے تھے
پاکستانی نوجوانوں میں دھریت کی زھر پھیلنے کیلئے شائع کرتے رہے۔اور اس غلیظ انسان کو میڈیا کے ذریعے ہیرو بنانے کی
کوشش کرنے میں لگے ہیں۔
اس کا ایک قول دھریہ لوگ بہت شئیر کرتے رہتے ہیں کہ مجھے کہی مسلمانوں کی مسجد نہیں ملی سب فرقوں کے مساجد
ہیں ۔پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کی پوری زندگی امام باڑے میں گزری ہے اور امام باڑے میں اس کو کون سی مسجد نظر آنی
تھی ؟؟؟
جون ایلیا،منٹو ،قسم کے لوگوں کا تعلق ان باغی طبقوں سے ہوتا ہے جو بچپن میں لوطی حملہ آوروں کا نشانہ بنے ہوتے
ہیں ،اور اسی ثمرہ کے بدولت یہ اپنی گندگی کو شاعری کے لبادے میں چھپا کر عوام میں گھولتے ہیں۔اس کے غلظتوں کا
کچھ نمونے ،مشت از خروارے
اس نفسیاتی اور روحانی مریض کی شاعریوں میں عشق مجازی ،انسان بے زاری،اور احساس محرومیت اور خدا کے ذات کے بارے
میں الٹی سیدھی بکواسات موجود ہیں جس سے معلوم چلتا ہے کہ یہ دین و دنیا کا راندھا درگا ہ دھریہ انسان تھا اور اس پر
مستقل لعنت پڑی ہوئی تھی جیسا کہ اس کے منحوس شکل سے بھی ظاہر ہے۔