You are on page 1of 19

‫کورس ‪ :‬اُردو کا شعری ادب‬

‫کوڈ‪6480 :‬‬ ‫سمسٹرخزاں ‪2022:‬‬

‫مشق نمبر‪1:‬‬

‫سوال نمبر‪1‬۔ ولی کے غزل کے فنی وفکری محاسن بیان کریں؟‬

‫کو اردو کا پہال صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے لیکن ولی دکنی نے اردو غزل کو پستی سے نکال کر بام عروج اور بلندی پر‬
‫اعلی نمونہ موجود‬
‫ٰ‬ ‫پہنچایا ان کےشاعری میں فصاحت و بالغت‪،‬پختگی‪،‬دلگدازی‪،‬موشگافی‪،‬قادراکالمی‪،‬عشق اور صنائع وبدائع کا‬
‫ہے۔دیوان ولی پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔زبان میں جدت ہے بقول میر‪،‬‬

‫واقف نہیں ہم یونہی ریختہ گوئی کے‬

‫معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا‬

‫لیکن ولی دکنی کو جو باوا آدم بناتا ہے وہ اسلوب زبان و بیان ہے ایسی زبان اور الفاظ منتخب کئیں جو دکن اور دہلی میں سمجے‬
‫اور بولے جاتے ہیں۔ان کے تغزل تشبیہات و استعارات کی ایک انفرادی شان ہے۔‬

‫مثال ولی دکنی کہتے ہیں کہ۔‬

‫کیا مجھ عشق نے ظالم کوں آب آہستہ آہستہ‬

‫کہ آتش گل کوں کرتی ہے گالب آہستہ آہستہ‬

‫اردو شاعری کا باوا آدم ولی دکنی۔‬

‫ایک طویل عرصہ تک ولی دکنی کو اردو کا پہال غزل گو تسلیم کیا جاتا رہا لیکن بعد میں تحقیق سے یہ بات ثبوت کو پہنچ گئی کہ‬
‫اردو غزل کا آ غاز ولی سے پہلے امیر خسرو سے ہی ہوچکا تھا۔ڈاکٹر وحید قریشی اس بارے میں لکھتے ہیں۔ کہ "ولی دکنی سے‬
‫پہلے کم ازکم دو ادوار گزر چکے ہیں۔پہال دور حضرت امیر خسروسے شروع ہوتا ہے۔ جڈ میں دس شعرا ہیں دوسرا قلی قطب‬
‫"شاہ سے شروع ہوکر میراں ہاشمی تک ہے یعنی چودہ شاعروں پر مشتمل ہے اس کے بعد ولی دکنی کے معاصرین کا زمانہ ہے۔‬

‫گویا یہ بات طے ہو گئی کہ اردو غزل کی خشت اول ولی دکنی کے ہاتھوں نہیں رکھی بلکہ ولی سے صدیوں قبل غزل اپنی ابتدا‬
‫کر چکی تھی تو پھر کس بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ اردو غزل گو کی اولیت کا تاج ولی کے سر پر رکھا جائے۔‬

‫اس سلسلے میں ہمیں "آب حیات" میں موالنا آزاد کی ایک رائے پر غور کرنا ہوگا۔وہ اپنے مخصوص انداش میں لکھتے ہیں۔"یہ‬
‫نظم اردو کی نسل کا ادم جب ملک عدم سے چال تو اس کے سر لر اولیت کا تاج رکھا گیا جس میں وقت کے محاورے نے اپنے‬
‫جواہرات خرچ کیے اور مضامین کے رائج الوقت دست کاری مینا کاری کی۔‬
‫ولی دکنی کے بارے میں آزاد کے یہ تاثراتی اور ذاتی الفاظ اس بحث کا باعث بنے کہ ولی دکنی کو باوا آدم قرار دیا جائے یا نہیں‬
‫اگر اسے باوا آدم مان لیا جائے تو ان سے پہلے غزل گو شاعر کس کھاتے میں جائیں اگر ان کو باوا آدم تسلیم نہ کریں تو ان کی‬
‫شان میں کیا کمی آجائے گی وغیرہ وغیرہ‬

‫"سفر دہلی"سعد ہللا گلشن سے مالقات‬


‫ِ‬

‫ولی دکنی کی سعد ہللا گلشن سے مالقات ہوئی۔تو وہ ان کا کالم دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تنام مضامین کو جو‬
‫فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ریختہ کی زبان میں کام میں النا چاہہے‪،‬تاہم یہ بات متنازع ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰ ن‬
‫فاروقی کا خیال ہے اس نے اپنے کتاب"اردو کا ابتدائی زمانہ" کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو‬
‫کے اولین تذکرہ نگار میرتقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آکے دہلی میں اردو‬
‫غزل کا آغاز کرے۔اس لیے گلشن واال واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے یعنی سعدہللا‬
‫گلشن نے ولی دکنی کو شاعری سکھائی تھی۔دوسرا مشورہ یہ دیا کہ ولی دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی‬
‫کے شیریں الفاظ کا انتخاب کرو تو بہت بہتر رہے گا اور آپ کی شاعری چمکی گی۔‬

‫فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخالقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔جب بھی اردو‬
‫غزل کی بات ہوگی اولیت کی تاج ولی دکنی کے سر کی زینت بنے گا۔وہ اردو غزل کا بابائے آدم نہ سہی‪،‬غزل کو نئے راستوں پر‬
‫ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔‬

‫مسند گل منزل شبنم ہوئی‬

‫دیکھ رتبہ دیدہ بیدار کا‬

‫قائم چاندپوری نے اپنے تذکرے نکات سخن میں لکھا ہے کہ ولی دکنی نے سعد ہللا گلشن کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری‬
‫مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کالم کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کہ امراء کی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ‬
‫وبازار میں ولی دکنی کے اشعار لوگوں پر تھے۔ولی دکنی کو محمد حسین آزاد نے اردو شاعری میں وہی مقام دیا ہے جو انگریزی‬
‫شاعری میں چاسر اور فارسی شاعری میں رودکی کو حاصل ہے۔اس اردو ادب میں ولی دکنی کو وہ مقام حاصل اور واقعی حقدار‬
‫بھی ہے۔‬

‫ولی دکنی کی تاریخ وفات بھی بے حد متنازع ہے۔‬

‫ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ‪1730‬ء کے بعد فوت ہوئے‪،‬تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی دکنی ‪1708‬ء کے‬
‫لگ بھگ فوت ہوئے تھے‬

‫سوال نمبر‪2‬۔ غالب کی غزل گوئی کے محاسن بیان کریں؟‬

‫اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حسن و عشق کے تجربات کا اظہار‬
‫رہا ہے۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا الزمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی طور پر در آئے‬
‫ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پختگی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موجودگی میں غزل کا پیکر بالکل بے جان اور‬
‫حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا۔‬

‫عشق ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھندال یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے۔فنون لطیفہ‬
‫سے متعلق ہر شخص عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے۔غالب ایک ایسے ہی فنکار ہیں جن کی شاعری‬
‫میں انسانی جذبات و احساسات اور مختلف حاالت میں نفسیاتی رد عمل کا جمالیاتی اظہار پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ‬
‫موجود ہے۔‬
‫عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔غالب کے غزل میں عشق کا تصور کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم غالب‬
‫‪ :‬کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ سر ا ملتے ہیں‬

‫عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا‬

‫درد کی دوا پائی درد ال دوا پایا‬

‫اور پھر جوں جوں آپ ورق پلٹتے جائیں‪ ،‬آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی۔ وہ اسی‬
‫عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں۔وہ عشق کے آالم سے گھبرا کر سو بار بند عشق سے آزاد ہونے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں۔مگر کہاں ؟ اندوہ عشق کی کشمکش تو جا ہی نہیں سکتی۔ دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر وہ اک بت کافر کا پوجنا‬
‫نہیں چھوڑتے۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال ابھرتا ہے کہ کیا عشق کوئی‬
‫شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عشق اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے۔تو کیا عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے ؟ان تمام سواالت کے جوابات غالب کی غزل میں موجود ہیں۔‬

‫غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے‪ ،‬مثالی یا ماورائی نہیں۔ان کے نزدیک عشق ایک ایسی آگ ہے‬
‫جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چاہیں تو ہمارے اختیار میں نہیں۔عشق ایک ایسی کیفیت ہے جس میں‬
‫خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے۔عشق زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب نہیں بلکہ حیات‬
‫انسانی کا ایک جزو ہے۔یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے۔اس لیے مختلف‬
‫حاالت میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو‬
‫اپنی گردن پر مشق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو عالم کا خون اپنی گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔کبھی یہ کہہ کر‬
‫جان صاف بچا لے جاتے ہیں کہ میں زہر کھا تو لوں مگر ملتا ہی نہیں۔کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری‬
‫پیکر ان سے کھال اور کبھی محبوب کے عمر بھر کے پیمان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار‬
‫ہے۔کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے باوجود ترک وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی‬

‫؎دائم پڑا ہوا ترے در پر نہیں ہوں میں‬

‫خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہوں میں‬

‫رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اور یہ آالم‬
‫عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔‬

‫تری وفا سے ہو کیا تسلی کہ دہر میں‬

‫تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے‬

‫غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیکر ہی نہیں بلکہ نوازش ہائے بے‬
‫جا بھی فرماتا ہے۔اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامہربان بھی نہیں۔ ضد کی بات اور ہے مگر و ہ سینکڑوں وعدے بھی وفا کر‬
‫چکا ہے۔غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہر ے کا رنگ بھی غالب کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے۔وہ غالب کو اپنی‬
‫زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی آتا ہے۔غالب کا محبوب ان کی طرح ہنگامہ آرا ہے۔رسوائی کی نعمت صرف‬
‫‪ :‬عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی‬

‫عالم تسکین و ضبط میں‬


‫؎ہے وصل‪ ،‬ہجر ِ‬

‫معشوق شوخ و عاشق دیوانہ چاہیے‬

‫غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ‬
‫تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خود داری ہے۔ اگر محبوب بزم میں بالنے کا تکلف گوارا نہیں کرتا تو سر راہ‬
‫ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں۔ وہ محبوب سے سرگرانی کا‬
‫‪ :‬سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں تک کہ در کعبہ بھی اگر وا نہ ہو تو الٹے پھر آتے ہیں‬

‫؎بندگی میں بھی وہ آزادہ و خود بیں ہیں کہ ہم‬

‫الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا‬

‫غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں ا س بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھتا ہے۔ وہ عشق‬
‫میں خود سپردگی کی بجائے برابری کے خواہش مند ہیں۔وہ جب محبوب مہربان ہو کے بالئے تو ضرور آتے ہیں کیونکہ وہ گیا‬
‫وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں۔اور پھر کل تک اُس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا۔‬

‫برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروباری ذہنیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پر قائم ہے‬
‫بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس لیے زنجیروں سے گھبراتے نہیں۔ محبوب کو وہ ایمان سے زیادہ عزیز‬
‫رکھتے ہیں۔وہ محبوب کے راز کو رسو ا نہیں کرتے۔وہ محبوب سے تعلق توڑنا نہیں چاہتے۔خواہ عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم‬
‫رہنا چاہیے۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے۔‬

‫؎وفا داری بشرطِ استواری اصل ایماں ہے‬

‫مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو‬

‫ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑنا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑنا ہو تو پھر کسی سنگ دل کا سنگ آستاں ہی کیوں‬
‫ہو۔غالب ہالک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محبوب کے پاؤں کا بوسہ نہیں لیتے کہ ایسی باتوں سے اس کے‬
‫بدگماں ہو جانے کا خدشہ ہے۔‬

‫کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے وہ راہ پر نہیں آتا تو وہ ا س‬
‫کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں۔جوابا ً محبوب بھی دھول دھپا‬
‫کرنے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے باکی کی اجازت دے‬
‫‪ :‬دے۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو‬

‫ت بے باکی و گستاخی دے‬


‫؎جب کرم رخص ِ‬

‫ت تقصیر نہیں‬
‫کوئی تقصیر بجز خجل ِ‬

‫غالب کی غزل میں عشق کی مثلث کے تیسرے زاویے یعنی رقیب کے متعلق اشعار کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے۔ غالب کے ہاں‬
‫رقیب کے روایتی کردار کے خدوخال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب کا رویہ بڑا نرم اور لچک دار ہے۔‬
‫برا بھال کہنے اور اسے کوسنے کی بجائے وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں۔جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا‬
‫دل ہے۔ اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کی تمیز نہیں۔نامہ بر رقیب ہو گیا تو اسے برا بھال کہنے کی بجائے فرمایا‬

‫؎تجھ سے تو کچھ کالم نہیں لیکن اے ندیم‬

‫میرا سالم کہیو اگر نامہ بر ملے‬

‫یعنی اسے سالم بھجوا رہے ہیں۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ بر رہا ہے۔‬

‫؎دیا ہے دل اگر اس کو‪ ،‬بشر ہے کیا کہیے؟‬

‫ہوا رقیب تو ہو‪ ،‬نامہ بر ہے کیا کہیے؟‬


‫بلکہ رقیبوں سے دوستی گانٹھ لیتے ہیں۔اور محبوب کی شکایت میں اسے اپنا ہم زبان بنا لیتے ہیں۔اس طرح دونوں دل کا پھپھولے‬
‫بھی پھوڑ لیتے ہیں اور محبوب سے شکایت کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔‬

‫؎تا کرے نہ غمازی‪ ،‬کر لیا ہے دشمن کو‬

‫دوست کی شکایت میں‪ ،‬ہم نے ہم زباں اپنا‬

‫البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیبوں کے مقابلے میں سر گرم نظر آتے ہیں۔انہیں بوالہوس کہتے ہیں‬
‫اور اپنے آپ کو اہل نظر۔‬

‫؎ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی‬

‫اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی‬

‫عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں‬

‫فروغ شعلہ خس یک نفس ہے‬


‫ِ‬
‫ناموس وفا کیا؟‬
‫ِ‬ ‫پاس‬
‫ہوس کو ِ‬

‫محبوب مہر بان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتاتا ہے کہ فالں نے یہ کہا تو محبوب کو مائل بہ کرم رکھنے‬
‫‪ :‬کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں‬

‫؎کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں‬

‫ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں‬

‫بہرحال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے‬

‫؎تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو‬

‫ہم کو پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو؟‬

‫موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے‬

‫؎لے شب وص ِل غیر بھی کاٹی‬

‫تو ہمیں آزمائے گا کب تک؟‬

‫غالب کا عشق بازاری نہیں۔ وہ تو عشرت گہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نکو نامی تسلیم ہی‬
‫نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طنز و استہزا سے کام لیتے ہیں۔‬

‫ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگار ہے۔وہ غم دنیا کو غم یار میں شامل نہیں کرتے۔ غم‬
‫ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہوتا‪ ،‬غم روزگار ہوتا۔ محبوب کے خیال سے غافل نہیں مگر رہین ستم ہائے روزگار ضرور‬
‫ہیں۔ان غم و آالم کی تالفی محبوب کی وفا سے نہیں ہوتی۔اور غم زمانہ نشاط عشق کی ساری مستی جھاڑ دیتا ہے۔‬

‫غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے ال کھڑا کرنے واال پہال شخص ہے۔بعد میں اس رجحان نے بڑی قوت حاصل کی۔ عشق‬
‫بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں۔‬
‫سوال نمبر‪3‬۔ نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے ۔ کیوں؟ وضاحت کریں۔‬

‫‪:‬ابتدائیہ ‪(۱) :‬‬

‫نظیر اکبر آبادی اُردو کے پہلے عوامی اور پہلے ترقی پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ایک ایسے خودروپودے کی مانند ہے جو‬
‫چمن بندی کے تکلفات سےآزادرہ کر کھلی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔‬

‫ان کی شاعری میں عوامی زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے تہذیبی مشاغل کے خوبصورت رنگ نظر آتے ہیں ‪،‬‬
‫عوامی تہواروں کی عکس بندی‪ ،‬زندگی کی جزئیات ‪ ،‬انسانی نفسیات کا گہرا شعور‪ ،‬زندگی کے انجام پر گہری نظر ‪ ،‬نظیر کے‬
‫ان کی تمثیلی نظمیں اور ان کا ذخیرہ الفاظ ان کی خاص پہچان ہیں۔ خاص موضوعات ہیں۔‬

‫‪:‬عوامی زندگی کی ترجمانی‪(۲) :‬‬

‫عوامی زندگی کی ترجمانی نظیر کی شاعری کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ انہوں نے عوامی زندگی کی ترجمانی اتنی خوبصورتی‬
‫اور سچائی سے کی ہے کہ وہ اُردو کے پہلے عوامی شاعر کہالئے۔جمہوریت کی طرح نظیر کی شاعری عوام کی ہےاور عوام‬

‫‪ :‬کی زبان میں ہے۔ان کی نظم آدمی نامہ سے ایک بند مالحظہ ہو‪:‬‬

‫چلتا ہے آدمی ہی مسافر ہو ‪ ،‬لے کے مال‬

‫او ر آدمی ہے مارے ہے پھانسی گلے میں ڈال‬

‫یاں آدمی ہی صید ہے اور آدم ہی جال‬

‫سچا بھی آدمی ہی نکلتا ہے میرے الل‬

‫اور جھوٹ کا بھرا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫‪:-‬عوامی تہواروں کی عکس بندی اور نظیر کے خاص موضوعات‪(۳) :‬‬

‫نظیر اُردو کے بہترین بیانیہ شاعر ہیں انہوں نے اپنے تہذیبی دور کے رنگ برنگے مشاغل کے جو نقشے کھینچے ہیں اس سے‬
‫الکھوں انسانوں کی دلچسپی کی جامع تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے ۔ ہندؤں اور مسلمانوں کے تہوار‪:‬مثالً‬

‫عید ‪ ،‬بقر عید‪ ،‬ہولی‪ ،‬دیوالی‪ ،‬بسنت ان کی چہل پہل اور گہماگہمی ‪ ،‬میلے ٹھیلے‪” ،‬‬

‫رنگین اور زرق برق ملبوسات‪ ،‬موسم برسات‪ ،‬موسم سرما‪ ،‬پھل پھول‪،‬‬

‫”ترکاریاں‪ ،‬مٹی کے برتن اور چھوٹے بڑے جانور۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔‬

‫‪:‬اشعار مالحظہ ہوں‬

‫جہاں میں یارو عجب طرح کا ہے یہ تیوہار‬

‫کسی نے نقد لیا اور کوئی کرے ہے ادھار‬

‫کھولنے کھیلوں تماشوں کا گرم ہے بازار‬

‫ہر ایک دکان میں چراغ کی ہو رہی ہے بہار‬

‫سبھوں کو صرف ہے اب جابجا دیوالی کی‬


‫‪:-‬نظیر اور قوت مشاہدہ )‪(۴‬‬

‫نظیر کے موضوعات سے ان کے بھرپور قوت مشاہد ہ کا اظہار ہوتا ہے وہ اپنی شاعری میں ایسے مرقعے پیش کرتے ہیں کہ‬
‫واقعات اور اشیاء ہمارے سامنے جیتی جاگتی اور بولتی مسکراتی آجاتی ہیں ۔ نظیر کی یہ خصوصیت ہمارے کالسیکی ادب میں‬
‫اپنی مثال آپ ہے۔‬

‫‪:‬ان کی نظم عید الفطر سے ایک بند‬

‫پچھلے پہر اٹھ کے نہانے کی دھوم ہے‬

‫شیر و شکر سوئیا ں پکانے کی دھوم ہے‬

‫پیرو جواں کو نعمتیں کھانے کی دھوم ہے‬

‫لڑکوں کو عیدگاہ میں جانے کی دھوم ہے‬

‫‪:-‬ناپائیداری حیات )‪(۵‬‬

‫نظیر “فنا و بقا” کے فلسفے سے بخوبی واقف تھے ۔ انہیں احساس تھا کہ اور مخلوقات کی طرح انسان کو بھی فنا ہونا ہے لہذا‬
‫انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ انسان کے فانی ہونے کا احساس دالیا ہے۔‬

‫‪:‬کالم مالحظہ ہو‬

‫پیر و مرید و شاہ و گدا‪۱‬میر اور وزیر‬

‫سب آن کر اجل کے ہوئے دام میں اسیر‬

‫مفلس غریب صاحب تاج و علم شریر‬

‫کوئی ترس ترس کے موا‪،‬غم میں اے نظیر‬

‫کوئی ہزار عیش کی ٹہرا کے مرگیا‬

‫جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آکے مرگیا‬

‫‪:-‬نظیر کی تمثیلی نظمیں )‪(۶‬‬

‫اپنے متحرک آہنگ‪ ،‬اور جزئیات نگاری کی بناء پر نظیر کی نظمیں اُردو کی بہترین تمثیلی نظموں میں شمار کی جاتی ہیں ان میں‬
‫نظیر کا عارفانہ حسن نظر اور شاعرانہ حسن بیان معراج پر ہے۔ ان کی نظموں میں معنی اور بیان میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ‬
‫زندگی کا قافلہ پو رے ہنگامے کے ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے‪ ،‬جو آخر کار تھک ہار کر ختم ہوجاتا ہے۔ اور زندگی کا عبرت‬
‫ناک انجام آنکھوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ہنس نامہ‪ ،‬بنجارہ نامہ‪ ،‬آدمی نامہ‪ ،‬فنا و بقا‪ ،‬نظیر کی شاہکار تمثیلی نظمیں ہیں‪ ،‬جو‬
‫اُردو ادب کا اثاثہ ہیں۔‬

‫‪:‬کالم مالحظہ ہو‬

‫جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جاوے گی‬

‫اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی‬

‫یہ کھیپ جو تونے الدی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی‬


‫دھی ‪ ،‬پوت ‪ ،‬جنوائی ‪ ،‬بیٹا کیا بنجارن پاس نہ آوے گی‬

‫سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب الد چلے کا بنجارہ‬

‫‪:-‬نظیر‪ ،‬ترقی پسند‪ ،‬اور مساوات )‪(۷‬‬

‫نظیر کی نظر میں وہ تمام امتیازات جو اخالقی اقدار‪ ،‬زر و دولت اور عہدہ اور خاندان سے قائم کیے جاتے ہیں ‪،‬محض سطحی‬
‫اعلی‪ ،‬زاہد و رند سب انسان ہیں اور برابر ہیں ۔ نظیر نے اپنی‬
‫ٰ‬ ‫ہیں۔ نظیر اس حقیقت کے علم بردار ہیں کہ امیر و غریب ‪ ،‬ادنی و‬
‫شاعری میں یہ احساس دالیا ہے کہ حیات انسانی ایک وحدت ختم ہونے کے باجود اس قدر متنوع ہے اور دن دونی رات چوگنی‬
‫ترقی کر رہی ہے۔‬

‫‪:-‬آدمی نامہ سے ایک بند مالحظہ ہو‬

‫دنیا میں بادشاہ ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫اور مفلس و گدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫زردار بے نوا ہے وہ ہے وہ بھی آدمی‬

‫نعمت جو کھارہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫‪:-‬نظیر کا ذخیرہ الفاظ اور لفظوں کی جادوگری )‪(۸‬‬

‫نظیر اپنے ذخیرہ الفاظ کی بناء پر “سودا” اور “انیس” کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ نظیر کو جوجزئیات نگاری سے جو‬
‫دلچسپی تھی اس کے سبب انہوں نے اتنے بڑے پیمانے پر الفاظوں کو استعمال کیا ۔‬

‫بقول بابائے اُردو مولوی عبد الحق اگر نظیر کی شاعری سے الفاظ جمع کیے جائیں تو ایک لغت تیار کی جاسکتی ہے۔‬

‫پرندوں ‪ ،‬جانوروں‪ ،‬پھولوں‪ ،‬رسموں‪ ،‬پیشوں‪ ،‬اور دیگر مشاغل کے نام اور اصطالحی الفاظ اس کثرت سے ملتے ہیں جس کی “‬
‫”کوئی نظیر نہیں ملتی۔‬

‫کالم مالحظہ ہو‪:‬۔‬

‫شگفتہ کیے گل ‪ ،‬بہ فص ِل بہار‬

‫عنادل بھی اور قمری و کبک و سار‬

‫بر و برگ و نخل و شجر ‪ ،‬شاخسار‬

‫ہنگام کار‬
‫ِ‬ ‫طراوت سے‪،‬خوشبو سے‬

‫رواں کی صبا ہر طرف اور نسیم‬

‫‪:-‬نظیر ایک مصور شاعر )‪(۹‬‬

‫نظیر کو زندگی کے ان پہلوؤں سے بہت دلچسپی ہے جس میں طاقت ‪ ،‬توانائی اور حرکت ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں چلنت‬
‫پھرنت‪ ،‬بھیڑ بھڑکا‪ ،‬دوڑ بھاگ‪ ،‬ہنسی مذاق ‪ ،‬سیر تماشہ اور ریل پیل ہے۔‬

‫‪:‬کالم مالحظہ ہو‬


‫مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں سیاں‬

‫بنتے ہیں آدمی ہی امام اور خطبہ خواں‬

‫پڑھتے ہیں آدمی ہی قرآن و نماز ‪ ،‬یاں‬

‫اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں‬

‫جو ان کو تاڑتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی‬

‫سوال نمبر‪4‬۔ اقبال کی شاعرانہ عظمت کی مثالوں کے ساتھ وضاحت کیں؟‬

‫‪:‬ابتدائیہ )‪(۱‬‬

‫مفکر اسالم ہیں کہ باکل میر تقی میر کی طرح ان پر بھی ان ہی کا شعر اور اس کی حقیقت‬
‫ِ‬ ‫اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور‬
‫صادق آتی ہے ۔آپ نے جذب میں ڈوب کر فرمایا۔‬

‫ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پے روتی ہے‬

‫بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‬

‫حضرت عالمہ اقبال سیالکوٹ میں میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی‬
‫تھا ۔والدین کی مذہب پرستی نے اقبال ؒ کے دل میں ایمان کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا ۔ اور بعد میں مولوی میر حسن کی صحبت نے‬
‫ت مزید چار چاند لگا دئے ۔ گریجویشن کے بعد فلسفیانہ رخ سر تھا مس آرنلڈ کی خاص تربیت کی وجہ سے میسر آیا ۔‬ ‫حضر ِ‬
‫عالمہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر انورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں۔‬

‫ب فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا ’’‬ ‫اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ‪ ،‬ان سے اکتسا ِ‬
‫بر صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر‬ ‫حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے ِ‬
‫‘‘بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔‬

‫اٹھائے کچھ ورق اللے نے ‪،‬کچھ نرگس نے ‪،‬کچھ گل نے‬

‫چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری‬

‫ت انسان‬
‫گلشن شعر و ادب کی روش ر ِوش پر ایسے گل بوٹے کھالئے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو تا قیامت حضر ِ‬
‫ِ‬ ‫آپ نے‬
‫اقبال کو بھی نہیں تھا ۔اسی لیے کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔‬
‫ؒ‬ ‫ت عالمہ‬
‫شاید اس قبو ِل عام کا احساس خود حضر ِ‬
‫عالم بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔‬
‫ِ‬

‫اِقبال بھی اِقبال سے آگاہ نہیں ہے‬

‫کچھ اس میں مسخر نہیں وہللا نہیں ہے‬

‫‪:‬محاسن کالم‬
‫ِ‬

‫حضرت ِ عالمہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی ماال میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کالم مجموعہ ہائے‬
‫محاسن کالم درج ذیل ہیں‬
‫ِ‬ ‫‪ :.‬خصوصیات بن گیا۔ آپ کے چند‬

‫انداز بیان)‪(۲‬‬
‫ِ‬ ‫‪:‬اقبال کا انوکھا اور اچھوتا‬
‫انداز بیان کی دلیل ہے ۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم ‪ ،‬شیریں اور حسین‬
‫ِ‬ ‫ت عالمہ اقبال کا کل کالم خوبصورت‬
‫حضر ِ‬
‫اپنے اس کالم کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔ لہجہ اختیار کیا ۔‬

‫اشعارمالحظہ ہو۔‬

‫انداز بیاں گرچہ شوخ نہیں ہے شاید‬


‫ِ‬

‫پھر بھی اتر جائے ترے دل میں میری بات‬

‫‪:‬نمونہ کالم مالحظہ ہو‬

‫اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم‬

‫ت آہ و فغاں اور بھی ہیں‬


‫مقاما ِ‬

‫اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا‬

‫کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں‬

‫دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ‪،‬منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر‬
‫گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے ‪ ،‬جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی‬
‫انداز بیان یکسر نرالہ اور نیا‬
‫ِ‬ ‫ایون ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے ۔آپ کا لہجہ ‪،‬موضوعات ‪،‬اور‬
‫ِ‬ ‫۔آپ کی شاعری‬
‫ہے ۔‬

‫‪ :‬اقبا ل کی شاعری کے ادوار اور ان کی اہمیت )‪(۳‬‬


‫سر عبد القادر نے بانگِ درا کے دیباچے میں آپ کی شاعری کو واضح طور پر تین ادوار میں تقسیم کیا ہے ۔‬

‫فکر غالب سے آراستہ و پیراستہ ہے ۔‬


‫پہال دور داغ دہلوی کی شوخی اور ِ‬

‫‪:‬اشعار مالحظہ ہوں‬

‫نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی‬

‫مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی‬

‫٭‬

‫موت یہ میری نہیں اجل کی موت ہے‬

‫کیوں ڈروں اس سے کہ مر کر پھر نہیں مرنا مجھے‬

‫‪:‬فطری شاعر )‪(۴‬‬


‫عالمہ اقبال کا ظہور بیسویں صدی کے اردو ادب کا ایک اہم واقعہ ہے ۔اقبال کو شعر کہنے کا عطیہ ہللا عزوجل کی خوص عنایت‬
‫کے طفیل عطا ہوا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی آپ نے اساتذہ کے رنگ میں اشعار کہے ۔نمونہ مالحظہ‬
‫‪:‬ہو‬

‫شان کریمی نے ُچن لیے‬


‫موتی سمجھ کر ِ‬

‫ق انفعال کے‬
‫قطرے جو تھے میرے عر ِ‬
‫آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیاالت کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھاالاور‬
‫اپنی غزل میں قومی‪ ،‬اسالمی‪ ،‬نفسیاتی‪ ،‬اَخالقی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬تہذیبی اور سماجی موضوعات ۔ داخل کیے۔نمونۂ کالم مالحظہ ہو۔‬

‫فر ِد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں‬

‫بیرون دریا کچھ نہیں‬


‫ِ‬ ‫موج ہے دریا میں اور‬

‫٭‬

‫متاع کارواں جاتا رہا‬


‫ِ‬ ‫وائے ناکامی‬

‫احساس زیاں جاتا رہا‬


‫ِ‬ ‫کارواں کے دل سے‬

‫اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے — ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یو گویا ہوئے۔‬

‫ب حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔ ’’‬
‫‘‘اِقبال کی شاعری آ ِ‬

‫آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ ‪،‬سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو ‪،‬‬
‫آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔‬

‫ب پیغام شاعر )‪(۵‬‬


‫‪:‬صاح ِ‬
‫ُ‬
‫ِقبال اسی شاعری کا نقطۂ کمال ہیں ۔‬
‫موالنا حالی نے جس شاعری کا آغاز کیا تھا ا ؔ‬

‫ب زندگی تھا نعرۂ جبرئیل ؑ تھا‬


‫وہ نقی ِ‬

‫بے حسی کی رات میں احساس کی قِندیل تھا‬

‫ب پیغام بھی۔اسی لئے وہ وجدانی کیفیت میں پکار اُٹھتے ہیں۔‬


‫اقبال اردو ادب کے وہ پہلے شاعر ہیں جو مفکر بھی ہیں اور صاح ِ‬
‫ؔ‬

‫میری نوائے پریشانی کو شاعری نہ سمجھ‬

‫درون مسیحانہ‬
‫ِ‬ ‫کہ میں ہو ں محرم راز‬

‫آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں۔‬

‫اول ہے اور ”‬
‫نقش ّ‬
‫چکبست کا کالم ِ‬
‫ؔ‬ ‫‪،‬اکبر اور‬
‫ؔ‬ ‫۔حالی‬
‫ؔ‬ ‫اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا‬
‫نقش ثانی۔‬
‫ت اقبال کا کالم ِ‬
‫”حضر ِ‬

‫فلسفۂ خودی )‪(۶‬‬


‫ُ‬
‫اقبال کے تمام کالم میں ان کا فلسفۂ خودی غالب ہے ۔ اقبال سے پہلے “خودی ” کے معانی غرور ‪،‬تکبر اور عز و ناز کے لیے‬
‫معنی “قرب” کے لیے ہیں‬‫ٰ‬ ‫جاتے تھے‪،‬لیکن اقبال نے پہلی مرتبہ اُسے ایک فصیح و بلیغ مفہوم عطا کیا ۔اقبال نے خودی کے‬
‫ت خودی کو تعلیم کا‬
‫‪،‬ذوق تخلیق ہے ‪،‬خود آگاہی ہے ‪،‬عبادت ہے ۔اسی لیے اقبال تربی ِ‬
‫ِ‬ ‫‪،‬سوز حیات ہے‬
‫ِ‬ ‫۔خودی یقین کی گہرائی ہے‬
‫پہال زینہ قرار دیتے ہیں۔ جو نوجوان اس سے نا آشنا ہے اس کی تربیت نا مکمل اور زندگی بے کار ہے ۔‬

‫‪:‬اسی لیے آپ خود سرشاری کی کیفیت میں فرماتے ہیں‬

‫اشعار مالحظہ ہوں ۔‬

‫خودی کو کر بُلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‬


‫خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری ِرضا کیا ہے‬

‫٭‬

‫تعلیم کے تیزاب میں ڈال کر اُس کی خودی کو‬

‫ہو جائے ُمالئم تو جدھر چاہے اُدھر پھیر‬

‫‪:‬عہد آفرین شاعر )‪(۷‬‬


‫تجربہ ہے ‪،‬اِن تجربات کی بھٹی میں تپ کر ہی وہ ُکندن تیار ہوا ہے جس کی‬
‫ِ‬ ‫مسلسل‬ ‫‪،‬ایک‬ ‫ہے‬ ‫سفر‬ ‫مسلسل‬ ‫ایک‬ ‫اقبال کی شاعری‬
‫دمک نے ایک بار پھر اُن شاہراہوں پر اُجاال پھیال دیا ‪،‬جو دھندلکوں میں چھپ کر نظروں سے پوشیدہ ہو چکیں تھیں ۔ اقبال ہی‬
‫اردو کے وہ پہلے شاعر ہیں جنہوں نے ایک عہد پیدا کیا ہے اور اپنے عہد کے ذہن کو ترقی کی سمتوں سے روشناس کرایا ہے‬
‫۔اسی کیفیت سے سرشار ہو کر آل احمد سرور فرماتے ہیں۔‬

‫شاعر شباب کہنے والے شاعر جوش ملیح آبادی ”‬


‫ِ‬ ‫یہ اقبال ہی کا فیضان تھا کہ جا ُمن والیوں کے نغمے گانے والے اور خود کو‬
‫سرا ہو گئے۔‬
‫ُ‬ ‫نغمہ‬ ‫کے‬ ‫”شاعر انقالب بن گئے اور جامن والیون کی جگہ خاک اور خون اور انقالب‬
‫ِ‬

‫اشعار مالحظہ ہوں۔‬

‫اُٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگادو‬

‫کاخ اُمراء کے در و دیوار کو ہال دو‬

‫جس کھیت سے دہقاں کو ُم َیسّر نہ ہو روٹی‬

‫اُس کھیت کے ہر خوشۂ ندم کو جال دو‬

‫نظام فِکر۔ )‪(۸‬‬


‫ِ‬ ‫ُمن ّ‬
‫ظم‬
‫نظام فکر اور فلسفۂ زندگی موجود ہے ۔خودی ‪،‬یقین ‪ ،‬عشق اور عم ِل پیہم اُن کے فلسفے کے سب سے‬ ‫ِ‬ ‫اقبال کے یہاں ایک منظم‬
‫َ‬
‫نمایاں اور بنیادی عناصر ہیں ۔آپ نے اپنے اشعار میں دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیالنے والے کو فقر کا پرتو کہا ہے اور ہللا‬
‫عزوجل کے احکام پر چلنے والوں کو مومن بتایا ہے ۔ بلندیوں پر اُڑنے والے پرندے کو “شاہین ” کہا ہے ۔یہاں آپ کی مراد‬
‫مسلم نوجوان ہیں ۔‬

‫۔ اشعار مالحظہ ہوں‬

‫کوئی اندازہ کر سکتا ہے اُس کے ِ‬


‫زور بازو کا‬

‫نِگا ِہ مر ِد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‬

‫٭‬

‫طائر الہوتی اُس رزق سے موت اچھی‬


‫ِ‬ ‫اے‬

‫جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‬

‫٭‬

‫پلٹنا ‪ ،‬جھپٹنا ‪ ،‬جھپٹ کر پلٹنا‬

‫لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ‬


‫سوال نمبر‪5‬۔ نظری اکبر آبادی کی نظموں کے موضوعات پر تفصیلی نوٹ لکھیں؟‬

‫نظیر اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد‬
‫ؔ‬
‫سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے‬
‫کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی‪ ،‬کوئی مالزمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ‬
‫کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر‬
‫کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے مالقات ہوئی۔ رائے کھتری سے‬
‫نظیر کا تعلق کاشی کے سربراہ‬ ‫ؔ‬ ‫مالقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں‬
‫راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا‬
‫تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی‪ ،‬پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی‬
‫لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر‬
‫کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے‬
‫اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰ ن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں‬
‫گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اوالدیں بھی ہوئیں۔ ‪۱۸۲۷‬ء میں فالج کے مرض میں مبتال ہوئے ‪ ۹۸‬سال کی عمر میں ‪ ۲۵‬صفر‬
‫‪۱۲۴۶‬ھ بمطابق ‪ ۱۶‬اگست ‪ ۱۸۳۰‬ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و‬
‫نظیر کے مزاج کی شوخی‪،‬‬ ‫ؔ‬ ‫تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔‬
‫بانکپن‪ ،‬کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی‬
‫معامالت کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت‬
‫رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔‬

‫نظیر اکبرآبادی کی نظم نگاری‬

‫نظیر اکبرآبادی حیات تھے وہ شاعری کا ایک ایسا دور تھا جس میں علم عروض‪ ،‬قافیہ اور ردیف کی پابندی الزمی‬ ‫ؔ‬ ‫جس دور میں‬
‫نظیر اکبرآبادی بھی اسی پابند‬
‫ؔ‬ ‫تھی۔ سارے معاشرے میں شاعری کے لئے مدون کئے ہوئے اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔‬
‫ماحول کے پروردہ تھے۔ اسی لئے ان کی شاعری فنی اصولوں کی پابند رہی۔ ان کی نظموں میں مثلث‪ ،‬مربع‪ ،‬مخمس اور مسدس‬
‫کے سانچے استعمال ہوئے ہیں۔ جن میں وزن‪ ،‬بحر‪ ،‬قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی دکھائی دیتی ہے۔‬

‫جدا کسی سے کسی کا غرض حبیب نہ ہو‬

‫یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو‬

‫جدا جو ہم کو کرے اس صنم کے کوچہ سے‬

‫ٰالہی! راہ میں ایسا کوئی رقیب نہ ہو‬

‫عالج کیا کریں حکماء تپ جدائی کا‬

‫سوائے وصل کے اس کا کوئی طبیب نہ ہو‬

‫نظیر اپنا تو معشوق خوب صورت ہے‬


‫ؔ‬

‫جو حسن اس میں ہے ایسا کوئی عجیب نہ ہو‬

‫دنیا کی نیکی بدی‬


‫نظیر اکبرآبادی (‪۱۷۳۵‬ء ‪۱۸۳۰ -‬ء) عوامی شاعر تھے۔ ان کی نظموں میں ہندوستانی مشترکہ تہذیب کی روح اپنی تمام‬ ‫ؔ‬ ‫ولی محمد‬
‫نظیر کے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں۔‬ ‫ؔ‬ ‫رنگینیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ جس کا لب و لہجہ اور مزاج عوامی ہے۔‬
‫بعض میں ہندوئوں اور مسلمانوں کا ذکر ہے تو بعض میں ہندوستانی موسموں اور ان کی کیفیات کا اور بعض میناخالق و تصوف‬
‫کا۔ وہ نظمیں جو ناصحانہ انداز میں ہیں اور جن میں دنیا اور دنیا کی بے ثباتی کا نقشہ کھینچا گیا ہے بڑی دآلویز اور اثرانگیز‬
‫نظیر اپنے گرد و پیش کے واقعات اور مناظر کو نہایت سادگی اور خلوص کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے یہاں‬ ‫ؔ‬ ‫ہیں۔‬
‫شاعرانہ واقعیت اور بیان کی صداقت پائی جاتی ہے۔ ذیل کی نظم اس خوبی کی آئینہ دار ہے‬

‫اس نظم میں شاعر نے انسانی اعمال کے جزا و سزا کے تصور جو مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئےبتایا ہے کہ اس دنیا میں‬
‫بھی انسان کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا ملتی ہے۔‬

‫ہے دنیا جس کا نا ْنو یاں یہ اور طرح کی بستی ہے‬

‫جو مہنگوں کو تو مہنگی ہے اورسستوں کو سستی ہے‬

‫یاں ہر دم جھگڑے اٹھتے ہیں‪ ،‬ہر آن عدالت بستی ہے‬

‫گر مست کرے تو مستی ہے اور پست کرے تو پستی ہے‬

‫کچھ دیر نہیں‪ ،‬اندھیر نہیں‪ ،‬انصاف اور عدل پرستی ہے‬

‫اس ہاتھ کرو‪ ،‬اس ہاتھ ملے‪ ،‬یاں سودا دست بدستی ہے‬

‫جو اور کسی کا مان رکھے تو اس کو بھی ارمان ملے‬

‫جو پان کھالوے پان ملے‪ ،‬جو روٹی دے تو نان ملے‬

‫نقصان کرے نقصان ملے‪ ،‬احسان کرے احسان ملے‬

‫جو جیسا جس کے ساتھ کرے پھر ویسا اس کوآن ملے‬

‫کچھ دیر نہیں‪ ،‬اندھیر نہیں‪ ،‬انصاف اور عدل پرستی ہے‬

‫اس ہاتھ کرو‪ ،‬اس ہاتھ ملے‪ ،‬یاں سودا دست بدستی ہے‬

‫جو پار اتار دے اوروں کو اس کی بھی نائو اترتی ہے‬

‫جو غرق کرے‪ ،‬پھر اس کی بھی یاں‪ ،‬ڈبکوں ڈبکوں کرتی ہے‬

‫شمشیر ‪،‬تبر‪ ،‬بندوق سناں اور نشتر تیر نہرتی ہے‬

‫یاں جیسی جیسی کرتی ہے پھر ویسی ویسی بھرتی ہے‬

‫کچھ دیر نہیں‪ ،‬اندھیر نہیں‪ ،‬انصاف اور عدل پرستی ہے‬

‫اس ہاتھ کرو‪ ،‬اس ہاتھ ملے‪ ،‬یاں سودا دست بدستی ہے‬

‫نظیر اکبرآبادی کی انسان دوستی‬

‫نظیر کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ نمایاں ہے۔ وہ پورے احساس کے ساتھ انسان کی قدر اور اس زندگی کی حفاظت کے‬ ‫ؔ‬
‫خیاالت کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ وہ صرف نادار و مفلس انسان سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں ہر‬
‫انسان سے محبت کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ اس بات کی دلیل ہےکہ ان کے یہاں انسانیت کا درد ہے۔‬
‫روٹی انسان کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ ہر ایک روٹی کے لئے در در کی خاک چھانتا ہے۔ بھوکا ہو تو چاند سورج بھی اسے‬
‫روٹی ہی نظر آتے ہیں۔‬

‫پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے‬

‫یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کس لئے‬

‫وہ سن کے بوال بابا خدا تجھ کو خیر دے‬

‫ہم تو نہ چاند سمجھے نہ سورج ہی جانتے‬

‫بابا ہمیں تو سب نظر آتی ہیں روٹیاں‬

‫اپنی مشہور نظم ’’مفلسی‘‘ اور ’’آٹے دال‘‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم ’’مفلسی‘‘ میں لکھتے ہیں۔‬

‫مفلس کی کچھ نظر نہیں رہتی ہے آن پر‬

‫دیتا ہے اپنی جان وہ ایک ایک نان پر‬

‫ہر آن ٹوٹ پڑتا ہے روٹی کے خوان پر‬

‫جس طرح کتے پڑتے ہیں ایک استخوان پر‬

‫ویسا ہی مفلسوں کو لڑاتی ہے مفلسی‬

‫نظیر نے مفلسی کے عالوہ آٹے دال‪ ،‬کوڑی نامہ‪ ،‬پیسہ جیسی نظمیں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب زندگی کے حقائق ہیں‬ ‫ؔ‬
‫اس کے بغیر دنیا میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں ان کی نظم ’’آٹے دال‘‘ کا یہ بند مالحظہ ہو‬

‫گر نہ آٹے دال کا ہوتا قدم یاں درمیاں‬

‫منشی و میر و وزیر و بخشی و نواب و خاں‬

‫جاگتے دربار میں کیوں آدھی آدھی رات یاں‬

‫کیا عجب نقشہ پڑا ہے آن کر کہئے میاں‬

‫سب کے دل کو فکر ہے دن رات آٹے دال کی‬

‫نظیر اکبرآبادی ا یک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقاء کے لئے انسان کو‬ ‫ؔ‬
‫نظیر نے بعض نظمیں بچوں کے لئے بھی لکھی ہیں۔ جیسے ریچھ کا بچہ‪ ،‬بلی کا بچہ‬ ‫ؔ‬ ‫چاہئیں۔‬ ‫ملنے‬ ‫وسائل‬ ‫یکساں‬ ‫کے‬ ‫جینے‬
‫نظیر کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم نہیں اٹھایا۔ مثالً کورا‬ ‫ؔ‬ ‫وغیرہ۔‬
‫برتن‪ ،‬لکڑی‪ ،‬تل کے لڈو وغیرہ‬

‫مناظر قدرت کی عکاسی‬


‫ِ‬ ‫نظیر اکبرآبادی کی شاعری میں‬

‫نظیر ایک عوامی شاعر ہیں اس لئے ان کی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس‪،‬‬‫ؔ‬ ‫بنیادی طور پر‬
‫میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ قدرتی مناظر کی بھرپور عکاسی‬
‫نظیراکبرآبادی نے قدرتی مناظر کو پورے سلیقے کے‬
‫ؔ‬ ‫کرتی ہے۔ اس کے عالوہ ان کی نظم ’گرمی‘ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ‬
‫نظیر کی نظموں میں مناظر قدرت کی عکاسی لفظوں کے ذریعے نمایاں ہے ان کی نظمیں ’بنجارہ‬
‫ؔ‬ ‫ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔‬
‫نامہ‘ اور ’آدمی نامہ‘ بھی ایک طرح سے انسان کے مختلف روپ و رنگ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان نظموں میں بین السطور‬
‫اخالقی اقدار بھی سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ’کل جگ‘ کے اشعار مالحظہ ہوں۔‬

‫نیکی کا بدلہ نیک ہے بد کر بدی کا ساتھ لے‬

‫کانٹا لگا کانٹا پھلیں‪ ،‬پھل پات بو پھل پات لے‬

‫کل جگ نہیں کرجگ ہے یہ یاں دن کو دے اور رات لے‬

‫کیا خوب سودا نقد ہے ‪ ،‬اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‬

‫قدرتی مناظر کے عالوہ نظیر اکبرآبادی ہر نظم کو کسی نہ کسی فطری منظر سے وابستہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی‬
‫نظیر اکبرآبادی کی نظموں‬‫ؔ‬ ‫نظموں میں نیکی‪ ،‬سچائی اور حقیقت کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے اور اسی خصوصیت کی وجہ سے‬
‫کے مناظر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ ان کی نظم ’’بلدیو سنگھ کا میال‘‘ اور ’’عید گاہ اکبرآباد‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظ ؔیر‬
‫نے اپنے ماحول کے مناظر کو بھی نظموں میں شامل کر لیا ہے۔‬

‫ہولی‘‘ نظیرایک شاہکار نظم’’‬

‫نظیر کی نظم ’’ہولی‘‘ کا تعلق ہندوستان کے ایک رنگ رنگیلے تہوار سے ہے۔ جس میں رنگ و پانی کے ساتھ دلوں کی کدورتیں‬ ‫ؔ‬
‫دور ہو جاتی ہیں۔ یہ ‪۶‬بند کا مخمس ترکیب بند ہے۔ ہر بند ہولی کا ایک ایک منظر پیش کرتا ہے۔ جس میں زندگی ہی زندگی ہے۔‬
‫نظم میں ہر چار مصرعوں کے بعد ایک مصرعے کو ہراتے ہوئے ایک ایک منظر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس نظم میں طبلے‬
‫کی تال‪ ،‬ڈھولک اور مردنگ کی تھاپ‪ ،‬رباب اور سارنگی کی آوازوں‪ ،‬تنبوروں کی جھنک اور گھنگھروئوں کی چھنک سے ایک‬
‫خوشگوار تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں گالل‪ ،‬رنگ اور پچکاری کا ذکر کر کے اس تہوار میں کی جانے والی دھینگا مستی‪،‬‬
‫کھینچا تانی اور کیچڑ پانی کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔ رنگ چھڑکنے‪ ،‬راگ راگنی کی محفلوں‪ ،‬شراب کے جام چھلکنے اور‬
‫نظیر نے اس نظم میں فارسی و ہندی الفاظ کو بھرپور‬
‫ؔ‬ ‫کھیل کود کی کیفیت کو مناسب حال الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔‬
‫نظیر کے گہرے مشاہدے کا اندازہ ہوتا ہے۔ پانچ پانچ مصرعوں پر مشتمل ‪ ۶‬بند کی اس نظم ہولی کی‬ ‫ؔ‬ ‫استعمال کیا ہے۔ اس سے‬
‫نظیراکبرآبادی نے اس حقیقت کی نمائندگی کی ہے کہ ہولی کے آنے کی وجہ‬ ‫ؔ‬ ‫مختلف کیفیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ پہلے بند میں‬
‫نظیر اکبرآبادی‬
‫ؔ‬ ‫سے عیش و عشرت کا موقعہ فراہم ہو گیا ہے اور ہر طرف خوشی کی دھوم مچی ہے۔ نظم کے دوسرے بند میں‬
‫نے اپنے دور میں استعمال ہونے والے باجوں اور سازوں کی تفصیل پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ طبلے کی تال کھٹک رہی‬
‫ہے۔ ڈھولک اور مردنگ بج رہے ہیں۔ ربابوں‪ ،‬سارنگی اور چنگ کی آوازیں پھیلتی جا رہی ہیں۔ تنبورے کے تار جھنک رہے ہیں‬
‫اور گھنگھروئوں کی آواز پر لوگ دھوم مچارہے ہیں۔ غرض ناچنے گانے کا یہ سلسلہ ہولی کی دولت ہے۔نظم کے تیسرے بند میں‬
‫وہ لکھتے ہیں کہ تھالوں میں گالل پیش ہو رہے ہیں اور پچکاری سے رنگ چھڑکے جا رہے ہیں۔ عبیر چھڑکا جا رہا ہے۔ لوگوں‬
‫نظیر نے یہ لکھا ہے کہ رنگ بھری پچکاری سے لوگوں کے منہ اور جسم گلنار ہو رہے ہیں۔‬ ‫ؔ‬ ‫کی خوشیوں کا ذکر کرتے ہوئے‬
‫نظیر اکبرآبادی نے نظم کے‬
‫ؔ‬ ‫ہیں۔‬ ‫رہے‬ ‫دے‬ ‫دکھائی‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫ہولی‬ ‫داز‬ ‫ان‬ ‫تمام‬ ‫یہ‬ ‫ہے۔‬ ‫رہا‬ ‫جا‬ ‫اور جسم رنگ میں تر بتر ہوتا‬
‫چوتھے بند میں رنگ کھیلتے ہوئے خوشی میں کی جانے والی دھینگا مشتی اور کیچڑ پانی میں تربتر ہونے کے منظر کی عکس‬
‫بندی کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوشحالی کا جوش ہولی کی وجہ سے چاروں طرف نمایاں ہے۔ نظم کے پانچویں بند میں ہنس‬
‫ہنس کر دیا ہے اور بتایا کہ لوگ ہنستے کھیلتے کس طرح خوش ہیں۔ کبھی وہ سوانگ بھرتے ہیں اور کبھی موج مستی کی باتیں‬
‫کرتے ہوئے ہولی کی وجہ سے خوش ہو رہے ہیں۔ کچھ گانے میں مصروف ہیں تو کچھ ناچنے اور سوانگ بھرنے میں مصروف‬
‫نظر آتے ہیں۔ غرض خوشی کا یہ سامان ہولی کی وجہ سے میسر آیا ہے۔‬

‫نظیر نے نظم ہولی کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں نظم کر دیا ہے۔‬‫ؔ‬
‫اس نظم میں سادہ زبان اور عوامی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے نظم کا لطف دوباالہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم بھی ہولی‬
‫کے تہوار میں شریک ہیں۔‬

‫آجھمکے عیش و طرب کیا کیا‪ ،‬جب حسن دکھایا ہولی نے‬

‫ہر آن خوشی کی دھوم ہوئی‪ ،‬یوں لطف جتایا ہولی نے‬


‫ہر خاطر کو خورسند کیا‪ ،‬ہر دل کو لبھایا ہولی نے‬

‫دفِ رنگین نقش سنہری کا‪ ،‬جس وقت بجایا ہولی نے‬

‫بازار‪ ،‬گلی اور کوچوں میں‪ ،‬غل شور مچایا ہولی کا‬

‫نظیر اکبرآبادی کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا تجزیہ‬

‫نظیر اکبرآبادی اردو نظم کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے فطری موضوعات کے عالوہ سماجی‪ ،‬معاشی اور معاشرتی‬ ‫ؔ‬
‫نظیر کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ نظم نظ ؔیر کے مزاج کے عین‬
‫ؔ‬ ‫میں‬ ‫نظموں‬ ‫ہی‬ ‫ایسی‬ ‫لکھیں۔‬ ‫نظمیں‬ ‫بھی‬ ‫پر‬ ‫موضوعات‬
‫مطابق ہے۔ اس نظم کو انھوں نے پانچ مصرعوں کے بند یعنی مخمس میں تحریر کیا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے‪ ،‬جس میں‬
‫نظیر نے ان حقائق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جن کی وجہ سے مفلسی اور بدحالی کے پھیلنے کا‬ ‫ؔ‬ ‫سماجیاتی مطالعہ کے ساتھ‬
‫نظیر نے اپنے‬
‫ؔ‬ ‫میں‬ ‫نظم‬ ‫اس‬ ‫ہے۔‬ ‫نظم‬ ‫کی‬ ‫انداز‬ ‫وضاحتی‬ ‫پر‬ ‫طور‬ ‫بنیادی‬ ‫’مفلسی‘‬ ‫نظم‬ ‫مشتمل‬ ‫پر‬ ‫بند‬ ‫‪۱‬‬ ‫امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ ‪۹‬‬
‫مشاہدے کی گہرائی اور تشبیہ اور تلمیح کے استعمال اور محاورے کی گرمی سے ایسا ماحول تیار کر دیا ہے کہ یہ نظم مفلسی‬
‫کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہے۔‬

‫نظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب آدمی پر مفلسی کا حملہ ہوتا ہے تووہ مختلف طریقوں سے انسان کو‬
‫ؔ‬ ‫نظم کے پہلے بند میں‬
‫پریشان کرتی ہے۔ کبھی وہ رات بھر بھوکا سالتی ہے اور کبھی پیاسا رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔ جس پر بھی مفلسی آتی ہے‬
‫اسے ہر قسم کے دکھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ حکیم جو بیماریوں کا عالج کرتا ہے اور جس کی عزت بڑے بڑے نواب اور پٹھان بھی‬
‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی غریب ہو جائے تو اس کو کوئی پوچھنے واال نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ لقمان سے بڑا طبیب اور‬
‫جیسا مسیحا بھی موجود ہو لیکن وہ غریب ہو تو اس کی تمام تر حکمت غریبی میں ڈوب جاتی ہے۔‬

‫ظیر نے نظم کے تیسرے بند میں بتایا ہے کہ اہل علم و فضل بھی ہوں اور ان کو مفلسی گھیرے تو وہ غریبی کی وجہ سے کلمہ‬‫ن ؔ‬
‫تک بھول جانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بھوکے سے کوئی الف کے بارے میں پوچھے تو وہ اسے ب بتاتا ہے۔ غریب کے بچوں‬
‫کو پڑھانے واال سدا مفلس ہی رہتا ہے اور اگر کوئی غریب کے گھر مفلسی آتی ہے تو وہ عمر بھر جا نہیں سکتی۔ اگر مفلس کسی‬
‫مجلس کے درمیان اپنا حال بیان کرتا ہے تو لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ اس نے روزگار حاصل کرنے کے لئے یہ جال پھیالدیا‬
‫ہے۔ غریب کے پاس الکھوں علم و کمال ہوں لیکن وہ مفلس ہو تو ہزار سنبھال لینے کے باوجود اس سے لغزش ہو جاتی ہے۔ اس‬
‫طرح مفلسی انسان کی تمام صالحیتونکو خاک میں مال دیتی ہے۔‬

‫نظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب انسان مفلس بن جاتا ہے تو اسے اپنی عزت سے زیادہ روٹی یا‬
‫ؔ‬ ‫نظم مفلسی کے پانچویں بند میں‬
‫نان پیاری ہوتی ہے۔ اور وہ ایک ایک روٹی پر جان دینے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جہاں بھی روٹی‬
‫اورکھانے کا خوان دیکھتا ہے اس پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس طرح مفلسی نہ صرف روٹی کے لئے جھگڑا‬
‫کراتی ہے بلکہ حددرجہ ذلیل بھی کرواتی ہے۔ مفلسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیا کی بنیاد پر جن کاموں سے انسان خود کو بچائے‬
‫رکھتا ہے وہ سب کام کرنے پر وہ مجبور ہو جاتا ہے اور اس میں حالل و حرام کی بھی تمیز باقی نہیں رہتی۔ غرض جسے شرم و‬
‫حیا کہتے مفلسی کی وجہ سے وہ انسان سے رخصت ہو جاتی ہے۔‬

‫نظیر اکبرآبادی نے ساتویں بند میں بتایا ہے کہ اگرچہ انسان پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اور وہ شور و غل مچائے‬
‫ؔ‬ ‫نظم کے ذریعے‬
‫تو لوگ گوارا کر لیتے ہیں۔ لیکن مفلس کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ غم کے بغیر ہی ہائے ہائے کرتا ہے اور اس کے واویال مچانے‬
‫کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مفلسی کی وجہ سے اس میں اس قدر ذلت آجاتی ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو الش اٹھانے کے لئے‬
‫اس کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا۔ الش کو بے کفن دفن کرنا پڑتا ہے۔ مفلسی کی وجہ سے نہ تو چولھے پر توا رکھا جا سکتا ہے اور‬
‫نہ مٹکے میں پانی بھرا جا سکتا ہے۔ مفلسی کھانے پینے اوراس کے لئے رکابی حاصل کرنے کو بھی محتاج کر دیتی ہے۔ جس‬
‫کی وجہ سے مفلس بے غیرت بن جاتا ہے اور غریب کی بیوی کی عزت بھی ہر ایک کے دل سے ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کتنا ہی‬
‫عظیم کیوں نہ ہو اگر مفلسی اسے گھیر لے تو اس کے طفیل انسان کی قابلیت گھٹ جاتی ہے اور اسے لوگ گدھے اور بیل کا‬
‫درجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ افالس کے مارے پھٹے کپڑوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ جسم‪ ،‬منہ اور بدن کی پاکی پر توجہ نہیں‬
‫دے سکتا۔ افالس کی وجہ سے انسان کی شکل قیدیوں جیسی ہو جاتی ہے۔‬
‫نظیر اکبرآبادی یہ بتاتے ہیں کہ جب کسی پر مفلسی آتی ہے تو اس کی وجہ سے‬
‫ؔ‬ ‫مفلسی کا اثر کیا ہوتا ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے‬
‫دوستوں میں عزت گھٹ جاتی ہے۔ اور چاہنے والوں کی محبت میں کمی آتی ہے۔ اپنے اور غیر میں فرق بڑھاتی ہے اور اسی کے‬
‫ساتھ شرم و حیا کے عالوہ عزت اور حرمت میں بھی مفلسی کی وجہ سے کمی آتی ہے۔ بہرحال انسان پر مفلسی آجائے تو اس کی‬
‫بدولت جسم کی صفائی نہ ہونے سے بال اور ناخن بڑھ جاتے ہیں اور انسان صفائی کی خصوصیات کھو دیتا ہے۔‬

‫ظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ مفلسی کی وجہ سے شرافت کا خاتمہ ہوجاتا ہے انسانی عزت باقی نہیں رہتی۔ عزت کے خاتمے‬ ‫ؔ‬
‫کے ساتھ تعظیم اور تواضع ختم ہوجاتی ہے۔ اور انسان اس قدر ذلیل ہوتا ہے کہ اسے محفلوں میں جوتوں کے قریب بیٹھنا پڑتا ہے۔‬
‫غرض مفلسی ایک ایسی حقیقت ہے جو عزت کو خاک میں مالنے‪ ،‬محبت کا خاتمہ کرے اور انسان کو چوری کی طرف راغب‬
‫نظیر‬
‫ؔ‬ ‫کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور اسی مفلسی کی وجہ سے انسان بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نظم کے آخری بند میں‬
‫اکبرآبادی کہتے ہیں کہ دنیا م یں خدا کسی بادشاہ یا فقیر کو کبھی مفلسی میں گرفتار نہ کرے کیونکہ مفلسی ہی شریف انسان کو‬
‫حقیر بناتی ہے۔ اس کی خرابیاں کہاں تک بیان کی جائیں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ خدا ہر انسان کو مفلسی سے محفوظ رکھے‬
‫نظیر اپنی اس نظم کو دعائیہ کلمات پر ختم کرتے ہیں۔‬
‫ؔ‬ ‫کیوں کہ مفلسی انسان کے دل کو جالتی ہے۔‬

‫نظیر اکبرآبادی کی نظم مفلسی میں بے شمار محاورے‪ ،‬تشبیہات اور استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی نظم میں تلمیحات کی بھی‬‫ؔ‬
‫نظیر نے نئی لفظیات کو‬
‫ؔ‬ ‫عیسی کا تلمیحی اشارہ اپنی نظم میں استعمال کرتے ہیں۔‬
‫ٰ‬ ‫کمی نہیں ہے۔ وہ حضرت لقمان اور حضرت‬
‫استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو بھی اس نظم میں جگہ دی ہے۔ چنانچہ بی بی کا نتھ‪ ،‬لڑکوں‬
‫کے ہاتھ کے کپڑے‪ ،‬چھٹ کی کڑیاں‪ ،‬دروازے کی زنجیر‪ ،‬چولھا‪ ،‬توا‪ ،‬رکابی اور کھانے پینے کی تمام چیزیں اس نظم میں شامل‬
‫نظیر اکبرآبادی نے مفلسی کو ایک جرم کی حیثیت دی ہے‬ ‫ؔ‬ ‫ہیں۔ ان کی تشبیہات اور استعارے اس حقیقت کا اشارہ کرتے ہیں کہ‬
‫چنانچہ وہ انسان کو مفلسی کے دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مفلسی کی وجہ سے شرافت اور عزت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔‬

‫جب آدمی کے حال پہ آتی ہےمفلسی‬

‫کس کس طرح سے اس کو ستاتی ہے مفلسی‬

‫پیاسا تمام روز بٹھاتی ہے مفلسی‬

‫بھوکا تمام رات سالتی ہے مفلسی‬

‫یہ دکھ وہ جانے کہ جس پہ آتی ہے مفلسی‬

‫کہیے تو اب حکیم کی سب سے بڑی ہے شان‬

‫تعظیم جس کی کرتے ہیں نواب اور خان‬

‫مفلس ہوئے تو حضرت لقمان کیا ہیں یاں‬

‫عیسی بھی ہو تو کوئی نہیں پوچھتا میاں‬


‫ٰ‬

‫حکمت حکیم کی بھی ڈوباتی ہے مفلسی‬

‫جو اہل فضل عالم و فاضل کہاتے ہیں‬

‫مفلس ہوئے تو کلمہ تلک بھول جاتے ہیں‬

‫پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں‬

‫وہ جو غریب غربا کے لڑکے پڑھاتے ہیں‬

‫ان کی تو عمر بھر نہیں جاتی ہے مفلسی‬

You might also like