Professional Documents
Culture Documents
مشق نمبر1:
کو اردو کا پہال صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے لیکن ولی دکنی نے اردو غزل کو پستی سے نکال کر بام عروج اور بلندی پر
اعلی نمونہ موجود
ٰ پہنچایا ان کےشاعری میں فصاحت و بالغت،پختگی،دلگدازی،موشگافی،قادراکالمی،عشق اور صنائع وبدائع کا
ہے۔دیوان ولی پچاس ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔زبان میں جدت ہے بقول میر،
لیکن ولی دکنی کو جو باوا آدم بناتا ہے وہ اسلوب زبان و بیان ہے ایسی زبان اور الفاظ منتخب کئیں جو دکن اور دہلی میں سمجے
اور بولے جاتے ہیں۔ان کے تغزل تشبیہات و استعارات کی ایک انفرادی شان ہے۔
ایک طویل عرصہ تک ولی دکنی کو اردو کا پہال غزل گو تسلیم کیا جاتا رہا لیکن بعد میں تحقیق سے یہ بات ثبوت کو پہنچ گئی کہ
اردو غزل کا آ غاز ولی سے پہلے امیر خسرو سے ہی ہوچکا تھا۔ڈاکٹر وحید قریشی اس بارے میں لکھتے ہیں۔ کہ "ولی دکنی سے
پہلے کم ازکم دو ادوار گزر چکے ہیں۔پہال دور حضرت امیر خسروسے شروع ہوتا ہے۔ جڈ میں دس شعرا ہیں دوسرا قلی قطب
"شاہ سے شروع ہوکر میراں ہاشمی تک ہے یعنی چودہ شاعروں پر مشتمل ہے اس کے بعد ولی دکنی کے معاصرین کا زمانہ ہے۔
گویا یہ بات طے ہو گئی کہ اردو غزل کی خشت اول ولی دکنی کے ہاتھوں نہیں رکھی بلکہ ولی سے صدیوں قبل غزل اپنی ابتدا
کر چکی تھی تو پھر کس بنیاد پرکہا جاسکتا ہے کہ اردو غزل گو کی اولیت کا تاج ولی کے سر پر رکھا جائے۔
اس سلسلے میں ہمیں "آب حیات" میں موالنا آزاد کی ایک رائے پر غور کرنا ہوگا۔وہ اپنے مخصوص انداش میں لکھتے ہیں۔"یہ
نظم اردو کی نسل کا ادم جب ملک عدم سے چال تو اس کے سر لر اولیت کا تاج رکھا گیا جس میں وقت کے محاورے نے اپنے
جواہرات خرچ کیے اور مضامین کے رائج الوقت دست کاری مینا کاری کی۔
ولی دکنی کے بارے میں آزاد کے یہ تاثراتی اور ذاتی الفاظ اس بحث کا باعث بنے کہ ولی دکنی کو باوا آدم قرار دیا جائے یا نہیں
اگر اسے باوا آدم مان لیا جائے تو ان سے پہلے غزل گو شاعر کس کھاتے میں جائیں اگر ان کو باوا آدم تسلیم نہ کریں تو ان کی
شان میں کیا کمی آجائے گی وغیرہ وغیرہ
ولی دکنی کی سعد ہللا گلشن سے مالقات ہوئی۔تو وہ ان کا کالم دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور مشورہ دیا کہ ان تنام مضامین کو جو
فارسی میں بیکار پڑے ہیں۔ریختہ کی زبان میں کام میں النا چاہہے،تاہم یہ بات متنازع ہے اور اردو نقاد اور محقق شمس الرحمٰ ن
فاروقی کا خیال ہے اس نے اپنے کتاب"اردو کا ابتدائی زمانہ" کہ محض دہلی والوں کی امپیریل ازم کا نتیجہ ہے کیوں کہ اردو
کے اولین تذکرہ نگار میرتقی میر اور قائم چاندپوری یہ بات تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں تھے کہ کوئی خارجی آکے دہلی میں اردو
غزل کا آغاز کرے۔اس لیے گلشن واال واقعہ ایجاد کیا گیا تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ اصل میں الٹا دہلی والوں نے یعنی سعدہللا
گلشن نے ولی دکنی کو شاعری سکھائی تھی۔دوسرا مشورہ یہ دیا کہ ولی دکنی الفاظ کا استعمال کم کرو اور ان کی جگہ فارسی
کے شیریں الفاظ کا انتخاب کرو تو بہت بہتر رہے گا اور آپ کی شاعری چمکی گی۔
فلسفہ کی گہرائیوں اور علمی مضامین اور اخالقی باتیں نہ ہونے کے باوجود ولی کی شاعرانہ اہمیت مسلمہ ہے۔جب بھی اردو
غزل کی بات ہوگی اولیت کی تاج ولی دکنی کے سر کی زینت بنے گا۔وہ اردو غزل کا بابائے آدم نہ سہی،غزل کو نئے راستوں پر
ڈالنے کا معمار اول ضرور ہے۔
قائم چاندپوری نے اپنے تذکرے نکات سخن میں لکھا ہے کہ ولی دکنی نے سعد ہللا گلشن کے مشورے پر عمل کیا اور دوسری
مرتبہ دہلی گئے تو ان کے کالم کی خوب قدر ہوئی اور یہاں تک شہرت ہوئی کہ امراء کی محفلوں میں اور جلسوں اور کوچہ
وبازار میں ولی دکنی کے اشعار لوگوں پر تھے۔ولی دکنی کو محمد حسین آزاد نے اردو شاعری میں وہی مقام دیا ہے جو انگریزی
شاعری میں چاسر اور فارسی شاعری میں رودکی کو حاصل ہے۔اس اردو ادب میں ولی دکنی کو وہ مقام حاصل اور واقعی حقدار
بھی ہے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی کی تحقیق کے مطابق وہ1730ء کے بعد فوت ہوئے،تاہم زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ولی دکنی 1708ء کے
لگ بھگ فوت ہوئے تھے
اردو شاعری اور بالخصوص اردو غزل کا مرکزی موضوع ہمیشہ واردات قلبی کا بیان اور حسن و عشق کے تجربات کا اظہار
رہا ہے۔ جہاں عشق ذاتی تجربہ ہے وہاں تاثیر غزل کا الزمی جزو بن گئی ہے لیکن جہاں عشقیہ اشعار روایتی طور پر در آئے
ہیں وہاں مشاہدے کی گہرائی اور فن کی پختگی ایسے عناصر ہیں جن کی عدم موجودگی میں غزل کا پیکر بالکل بے جان اور
حسن و دلکشی سے عاری نظر آئے گا۔
عشق ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہو نہ ہو مگر ہر ذہن میں عشق کا ایک دھندال یا واضح تصور ضرور موجود ہوتا ہے۔فنون لطیفہ
سے متعلق ہر شخص عام آدمی کے بر عکس اس کے اظہار پر بھی قادر ہوتا ہے۔غالب ایک ایسے ہی فنکار ہیں جن کی شاعری
میں انسانی جذبات و احساسات اور مختلف حاالت میں نفسیاتی رد عمل کا جمالیاتی اظہار پوری فنکارانہ آب و تاب کے ساتھ
موجود ہے۔
عشق غزل کا سب سے بڑا موضوع ہے۔غالب کے غزل میں عشق کا تصور کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے جب ہم غالب
:کے دیوان کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں تیسری غزل کے دوسرے شعر ہی میں غالب یوں نغمہ سر ا ملتے ہیں
اور پھر جوں جوں آپ ورق پلٹتے جائیں ،آپ دیکھیں گے کہ غالب کے نزدیک تو بے عشق عمر کٹ ہی نہیں سکتی۔ وہ اسی
عشق خانہ ویراں ساز کو رونق ہستی قرار دیتے ہیں۔وہ عشق کے آالم سے گھبرا کر سو بار بند عشق سے آزاد ہونے کی کوشش
کرتے ہیں۔مگر کہاں ؟ اندوہ عشق کی کشمکش تو جا ہی نہیں سکتی۔ دنیا انہیں کافر قرار دیتی ہے مگر وہ اک بت کافر کا پوجنا
نہیں چھوڑتے۔ غالب جب عشق کو انسانی زندگی کے لیے اتنا ضروری قرار دیتے ہیں تو سوال ابھرتا ہے کہ کیا عشق کوئی
شعوری کوشش ہے ؟ میر کے والد میر کو عشق اختیار کرنے کی ہدایت فرماتے۔تو کیا عشق کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کی
ضرورت ہوتی ہے ؟ان تمام سواالت کے جوابات غالب کی غزل میں موجود ہیں۔
غالب کی غزل میں عشق کی سطح بالکل زمینی اور انسانی ہے ،مثالی یا ماورائی نہیں۔ان کے نزدیک عشق ایک ایسی آگ ہے
جسے اگر ہم لگانا چاہیں تو لگا نہیں سکتے اور اگر بجھانا چاہیں تو ہمارے اختیار میں نہیں۔عشق ایک ایسی کیفیت ہے جس میں
خیال کی تمام رعنائیوں کا مرکز و محور صرف ایک شخص ہوتا ہے۔عشق زندگی کے تمام پہلوؤں پر غالب نہیں بلکہ حیات
انسانی کا ایک جزو ہے۔یہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے اور ان سے اثر قبول بھی کرتا ہے۔اس لیے مختلف
حاالت میں محبوب کے ساتھ غالب کا تعلق اور محبوب کے رویوں پر ان کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔ کبھی وہ اپنے محبوب کو
اپنی گردن پر مشق ناز کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور دو عالم کا خون اپنی گردن پر لینے کو تیار ہو جاتے ہیں۔کبھی یہ کہہ کر
جان صاف بچا لے جاتے ہیں کہ میں زہر کھا تو لوں مگر ملتا ہی نہیں۔کبھی وہ صرف اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ وہ پری
پیکر ان سے کھال اور کبھی محبوب کے عمر بھر کے پیمان وفا باندھنے پر بھی راضی نہیں ہوتے کہ عمر بذات خود نا پائیدار
ہے۔کبھی وہ محبوب کی بے نیازی کے باوجود ترک وفا پر آمادہ نہیں بلکہ تسلیم کی خو اپنا لیتے ہیں اور کبھی
رویوں میں تضاد کی وجہ شاید یہی ہے کہ عشق ساری زندگی نہیں اور زمانے میں محبت کے سوا اور بھی غم ہیں اور یہ آالم
عشق کے جذباتی نظام کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
غالب اور ان کے محبوب کے تعلقات میں ایک بات اہم ہے کہ غالب کا محبوب جور و جفا کا پیکر ہی نہیں بلکہ نوازش ہائے بے
جا بھی فرماتا ہے۔اگر وہ غالب پر مہربان نہیں تو نامہربان بھی نہیں۔ ضد کی بات اور ہے مگر و ہ سینکڑوں وعدے بھی وفا کر
چکا ہے۔غالب ہی اس کے لیے تباہ حال نہیں اس کے چہر ے کا رنگ بھی غالب کو دیکھ کر کھل اٹھتا ہے۔وہ غالب کو اپنی
زندگی کہہ کر پکارتا ہے اور غالب کے گھر بھی آتا ہے۔غالب کا محبوب ان کی طرح ہنگامہ آرا ہے۔رسوائی کی نعمت صرف
:عاشق کی سعی سے حاصل نہیں ہوتی
غالب کے اشعار میں عشق کا نظام یک طرفہ نہیں۔ خود سپردگی کا وہ عالم نہیں کہ ہر طرح کے جور و جفا کے باوجود شیوہ
تسلیم و رضا ہو بلکہ غالب کے ہاں ایک انا اور خود داری ہے۔ اگر محبوب بزم میں بالنے کا تکلف گوارا نہیں کرتا تو سر راہ
ملنے پر وہ بھی تیار نہیں۔ اگر محبوب اپنی خو نہیں چھوڑتا تو وہ اپنی وضع بدلنے پر راضی نہیں۔ وہ محبوب سے سرگرانی کا
:سبب تک نہیں پوچھتے کہ اس میں سبک سری ہے یہاں تک کہ در کعبہ بھی اگر وا نہ ہو تو الٹے پھر آتے ہیں
غالب کی وفا جہاں شخصی خصوصیت ہے وہاں ا س بات کا ثبوت بھی کہ غالب کا محبوب غالب سے محبت رکھتا ہے۔ وہ عشق
میں خود سپردگی کی بجائے برابری کے خواہش مند ہیں۔وہ جب محبوب مہربان ہو کے بالئے تو ضرور آتے ہیں کیونکہ وہ گیا
وقت نہیں کہ پھر آ بھی نہ سکیں۔اور پھر کل تک اُس کا دل مہر و وفا کا باب بھی تھا۔
برابری کی سطح سے مراد ہر گز یہ نہیں کہ جذبہ عشق کی بنیاد کاروباری ذہنیت ہے اور وہ کچھ دے اور کچھ لے پر قائم ہے
بلکہ غالب با وفا عاشق ہیں۔ وہ خانہ زاد زلف ہیں اس لیے زنجیروں سے گھبراتے نہیں۔ محبوب کو وہ ایمان سے زیادہ عزیز
رکھتے ہیں۔وہ محبوب کے راز کو رسو ا نہیں کرتے۔وہ محبوب سے تعلق توڑنا نہیں چاہتے۔خواہ عداوت ہی کیوں نہ ہو تعلق قائم
رہنا چاہیے۔ بلکہ وفا میں استواری ان کے نزدیک ایمان کی اصل ہے۔
ان کے نزدیک عشق اور وفا صرف سر پھوڑنا ہی نہیں اور سر ہی پھوڑنا ہو تو پھر کسی سنگ دل کا سنگ آستاں ہی کیوں
ہو۔غالب ہالک حسرت پابوس ہونے کے باوجود سوتے میں محبوب کے پاؤں کا بوسہ نہیں لیتے کہ ایسی باتوں سے اس کے
بدگماں ہو جانے کا خدشہ ہے۔
کہیں کہیں ایسا لگتا ہے کہ غالب کا عشق ہوس کا درجہ اختیار کر رہا ہے اور جب عرض و نیاز سے وہ راہ پر نہیں آتا تو وہ ا س
کے دامن کو حریفانہ کھینچنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔کبھی کبھی وہ پیش دستی بھی کر دیتے ہیں۔جوابا ً محبوب بھی دھول دھپا
کرنے لگتا ہے۔ لگتا ہے کہ غالب کے ہاں ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے جب محبوب اس گستاخی اور بے باکی کی اجازت دے
:دے۔ اور جب یہ اجازت حاصل ہو تو
ت تقصیر نہیں
کوئی تقصیر بجز خجل ِ
غالب کی غزل میں عشق کی مثلث کے تیسرے زاویے یعنی رقیب کے متعلق اشعار کا مطالعہ بڑا دلچسپ ہے۔ غالب کے ہاں
رقیب کے روایتی کردار کے خدوخال کچھ بہت مختلف نہیں مگر رقیبوں کے بارے میں غالب کا رویہ بڑا نرم اور لچک دار ہے۔
برا بھال کہنے اور اسے کوسنے کی بجائے وہ اسے بھی اپنی ہی طرح کا ایک انسان سمجھتے ہیں۔جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا
دل ہے۔ اس میں مومن و کافر اور نیک و بد کی تمیز نہیں۔نامہ بر رقیب ہو گیا تو اسے برا بھال کہنے کی بجائے فرمایا
یعنی اسے سالم بھجوا رہے ہیں۔ اس کے لیے اس نرمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آخر وہ ہمارا نامہ بر رہا ہے۔
البتہ محبوب کو اپنی طرف مائل کرنے کے عمل میں وہ رقیبوں کے مقابلے میں سر گرم نظر آتے ہیں۔انہیں بوالہوس کہتے ہیں
اور اپنے آپ کو اہل نظر۔
عاشق صادق اور بوالہوس میں کیا فرق ہے ؟ محبوب پر واضح کرتے ہیں
محبوب مہر بان ہو تو رقیب بھی گلہ کرتا ہے اور جب محبوب انہیں بتاتا ہے کہ فالں نے یہ کہا تو محبوب کو مائل بہ کرم رکھنے
:کے لیے قاطع دلیل دیتے ہیں
بہرحال رقیب سے وہ اس قدر موافقت پر تیار ہیں کہ محبوب کا اپنا معاملہ ہے
موافقت کی یہ سطح مومن کے ہاں اتنی بڑھ گئی ہے کہ عشق بازاری نظر آتا ہے
غالب کا عشق بازاری نہیں۔ وہ تو عشرت گہ خسرو کی مزدوری کے جرم کی پاداش میں فرہاد کی عشق میں نکو نامی تسلیم ہی
نہیں کرتے اور اپنی شاعری میں اس کے لیے جگہ جگہ طنز و استہزا سے کام لیتے ہیں۔
ایک چیز جو غالب کے ہاں غم عشق کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ غم روزگار ہے۔وہ غم دنیا کو غم یار میں شامل نہیں کرتے۔ غم
ان کا نصیب ہیں اور غم عشق گر نہ ہوتا ،غم روزگار ہوتا۔ محبوب کے خیال سے غافل نہیں مگر رہین ستم ہائے روزگار ضرور
ہیں۔ان غم و آالم کی تالفی محبوب کی وفا سے نہیں ہوتی۔اور غم زمانہ نشاط عشق کی ساری مستی جھاڑ دیتا ہے۔
غالب غم زمانہ کو غم عشق کے سامنے ال کھڑا کرنے واال پہال شخص ہے۔بعد میں اس رجحان نے بڑی قوت حاصل کی۔ عشق
بہت کچھ ہے مگر سب کچھ نہیں۔اس لیے غالب کا عشق زمینی اور انسانی ہے مثالی اور ماورائی نہیں۔
سوال نمبر3۔ نظیر اکبر آبادی کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے ۔ کیوں؟ وضاحت کریں۔
نظیر اکبر آبادی اُردو کے پہلے عوامی اور پہلے ترقی پسند شاعر ہیں۔ ان کی شاعری ایک ایسے خودروپودے کی مانند ہے جو
چمن بندی کے تکلفات سےآزادرہ کر کھلی فضا میں پھلتا پھولتا ہے۔
ان کی شاعری میں عوامی زندگی کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے تہذیبی مشاغل کے خوبصورت رنگ نظر آتے ہیں ،
عوامی تہواروں کی عکس بندی ،زندگی کی جزئیات ،انسانی نفسیات کا گہرا شعور ،زندگی کے انجام پر گہری نظر ،نظیر کے
ان کی تمثیلی نظمیں اور ان کا ذخیرہ الفاظ ان کی خاص پہچان ہیں۔ خاص موضوعات ہیں۔
عوامی زندگی کی ترجمانی نظیر کی شاعری کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ انہوں نے عوامی زندگی کی ترجمانی اتنی خوبصورتی
اور سچائی سے کی ہے کہ وہ اُردو کے پہلے عوامی شاعر کہالئے۔جمہوریت کی طرح نظیر کی شاعری عوام کی ہےاور عوام
:کی زبان میں ہے۔ان کی نظم آدمی نامہ سے ایک بند مالحظہ ہو:
نظیر اُردو کے بہترین بیانیہ شاعر ہیں انہوں نے اپنے تہذیبی دور کے رنگ برنگے مشاغل کے جو نقشے کھینچے ہیں اس سے
الکھوں انسانوں کی دلچسپی کی جامع تصویر آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتی ہے ۔ ہندؤں اور مسلمانوں کے تہوار:مثالً
عید ،بقر عید ،ہولی ،دیوالی ،بسنت ان کی چہل پہل اور گہماگہمی ،میلے ٹھیلے” ،
رنگین اور زرق برق ملبوسات ،موسم برسات ،موسم سرما ،پھل پھول،
نظیر کے موضوعات سے ان کے بھرپور قوت مشاہد ہ کا اظہار ہوتا ہے وہ اپنی شاعری میں ایسے مرقعے پیش کرتے ہیں کہ
واقعات اور اشیاء ہمارے سامنے جیتی جاگتی اور بولتی مسکراتی آجاتی ہیں ۔ نظیر کی یہ خصوصیت ہمارے کالسیکی ادب میں
اپنی مثال آپ ہے۔
نظیر “فنا و بقا” کے فلسفے سے بخوبی واقف تھے ۔ انہیں احساس تھا کہ اور مخلوقات کی طرح انسان کو بھی فنا ہونا ہے لہذا
انہوں نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ انسان کے فانی ہونے کا احساس دالیا ہے۔
اپنے متحرک آہنگ ،اور جزئیات نگاری کی بناء پر نظیر کی نظمیں اُردو کی بہترین تمثیلی نظموں میں شمار کی جاتی ہیں ان میں
نظیر کا عارفانہ حسن نظر اور شاعرانہ حسن بیان معراج پر ہے۔ ان کی نظموں میں معنی اور بیان میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ
زندگی کا قافلہ پو رے ہنگامے کے ساتھ چلتا ہوا محسوس ہوتا ہے ،جو آخر کار تھک ہار کر ختم ہوجاتا ہے۔ اور زندگی کا عبرت
ناک انجام آنکھوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ ہنس نامہ ،بنجارہ نامہ ،آدمی نامہ ،فنا و بقا ،نظیر کی شاہکار تمثیلی نظمیں ہیں ،جو
اُردو ادب کا اثاثہ ہیں۔
جب چلتے چلتے رستے میں یہ گون تری ڈھل جاوے گی
نظیر کی نظر میں وہ تمام امتیازات جو اخالقی اقدار ،زر و دولت اور عہدہ اور خاندان سے قائم کیے جاتے ہیں ،محض سطحی
اعلی ،زاہد و رند سب انسان ہیں اور برابر ہیں ۔ نظیر نے اپنی
ٰ ہیں۔ نظیر اس حقیقت کے علم بردار ہیں کہ امیر و غریب ،ادنی و
شاعری میں یہ احساس دالیا ہے کہ حیات انسانی ایک وحدت ختم ہونے کے باجود اس قدر متنوع ہے اور دن دونی رات چوگنی
ترقی کر رہی ہے۔
نظیر اپنے ذخیرہ الفاظ کی بناء پر “سودا” اور “انیس” کے شانہ بشانہ کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ نظیر کو جوجزئیات نگاری سے جو
دلچسپی تھی اس کے سبب انہوں نے اتنے بڑے پیمانے پر الفاظوں کو استعمال کیا ۔
بقول بابائے اُردو مولوی عبد الحق اگر نظیر کی شاعری سے الفاظ جمع کیے جائیں تو ایک لغت تیار کی جاسکتی ہے۔
پرندوں ،جانوروں ،پھولوں ،رسموں ،پیشوں ،اور دیگر مشاغل کے نام اور اصطالحی الفاظ اس کثرت سے ملتے ہیں جس کی “
”کوئی نظیر نہیں ملتی۔
ہنگام کار
ِ طراوت سے،خوشبو سے
نظیر کو زندگی کے ان پہلوؤں سے بہت دلچسپی ہے جس میں طاقت ،توانائی اور حرکت ہے۔ اسی لیے ان کی شاعری میں چلنت
پھرنت ،بھیڑ بھڑکا ،دوڑ بھاگ ،ہنسی مذاق ،سیر تماشہ اور ریل پیل ہے۔
:ابتدائیہ )(۱
مفکر اسالم ہیں کہ باکل میر تقی میر کی طرح ان پر بھی ان ہی کا شعر اور اس کی حقیقت
ِ اقبال ایسے بلند پایہ شاعر اور
صادق آتی ہے ۔آپ نے جذب میں ڈوب کر فرمایا۔
حضرت عالمہ اقبال سیالکوٹ میں میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام نور محمد اور والدہ کا نام امام بی بی
تھا ۔والدین کی مذہب پرستی نے اقبال ؒ کے دل میں ایمان کوٹ کوٹ کر بھر دیا تھا ۔ اور بعد میں مولوی میر حسن کی صحبت نے
ت مزید چار چاند لگا دئے ۔ گریجویشن کے بعد فلسفیانہ رخ سر تھا مس آرنلڈ کی خاص تربیت کی وجہ سے میسر آیا ۔ حضر ِ
عالمہ اقبال کی شخصیت سے متاثر ہوکر ڈاکٹر انورسدید کچھ یوں فرماتے ہیں۔
ب فیض کرنے اور ان سے متاثر ہونے والوں کا ’’ اقبال مجموعی طور پر ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں ،ان سے اکتسا ِ
بر صغیر میں پورے ایک عہد کو متاثر کیا ۔ چنانچہ انہیں بجا طور پر حلقہ بہت وسیع ہے ۔ انہونے اپنے فکر و نظر سے ِ
‘‘بیسویں صدی کا مجدد اور عہد آفرین شاعر تسلیم کیا گیا ہے۔
ت انسان
گلشن شعر و ادب کی روش ر ِوش پر ایسے گل بوٹے کھالئے ہیں کہ جن کی بھینی بھینی خوشبو تا قیامت حضر ِ
ِ آپ نے
اقبال کو بھی نہیں تھا ۔اسی لیے کے قلوب و دہن کو فرحت بخشتی رہے گی۔
ؒ ت عالمہ
شاید اس قبو ِل عام کا احساس خود حضر ِ
عالم بے خودی میں بہہ کر گویا ہوئے۔
ِ
:محاسن کالم
ِ
حضرت ِ عالمہ اقبال اپنے افکار و محسوسات کو حروف کی ماال میں پروتے گئے جس کی بدولت ان کا کالم مجموعہ ہائے
محاسن کالم درج ذیل ہیں
ِ :.خصوصیات بن گیا۔ آپ کے چند
انداز بیان)(۲
ِ :اقبال کا انوکھا اور اچھوتا
انداز بیان کی دلیل ہے ۔ آپ نے نظم کیلئے بھی غزل کا نرم ،شیریں اور حسین
ِ ت عالمہ اقبال کا کل کالم خوبصورت
حضر ِ
اپنے اس کالم کی خوبی کے بابت آپ خود فرماتے ہیں۔ لہجہ اختیار کیا ۔
اشعارمالحظہ ہو۔
دنیائے شعر و ادب میں آپ تمام اساتذہ سے جدا ،منفرد اور نمایاں مقام رکھتے ہیں۔آپ سے پہلے شاعری ایک ہی راستے پر
گامزن تھی اور شعراء کے پاس چند گنے چنے فرسودہ موضوعات ہی تھے ،جن پر ہی لب کشائی و جامہ پُرسائی ہو رہی تھی
انداز بیان یکسر نرالہ اور نیا
ِ ایون ادب میں ایک نئی پر وقار اور با مقصد آواز ہے ۔آپ کا لہجہ ،موضوعات ،اور
ِ ۔آپ کی شاعری
ہے ۔
٭
ق انفعال کے
قطرے جو تھے میرے عر ِ
آپ نے خود ہی اپنے لیے ایک منفرد راستے کا تعیُن کیا اور پہلی مرتبہ فلسفیانہ خیاالت کو اپنی غزل کے سانچے میں ڈھاالاور
اپنی غزل میں قومی ،اسالمی ،نفسیاتی ،اَخالقی ،سیاسی ،تہذیبی اور سماجی موضوعات ۔ داخل کیے۔نمونۂ کالم مالحظہ ہو۔
٭
اسی کیفیت کو محسوس کرتے ہوئے — ڈاکٹر سید عابد حسین کچھ یو گویا ہوئے۔
ب حیات کا خزانہ ہے جس سے زندگی اور زندہ دلی کے چشمے اُبلتے ہیں۔ ’’
‘‘اِقبال کی شاعری آ ِ
آپ نے امسلمانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کو بھی اپنی شاعری کے ذریعے سوچ ،سمجھ اور پرکھ کا ایک منفرد اپیغام دیا جو ،
آج بھی جاری و ساری ہے جس سے آج کا مفکر خوب فیضیاب ہو رہا ہے۔
درون مسیحانہ
ِ کہ میں ہو ں محرم راز
آل احمد سرور اپنے نپے تُلے انداز میں فرماتے ہیں۔
اول ہے اور ”
نقش ّ
چکبست کا کالم ِ
ؔ ،اکبر اور
ؔ ۔حالی
ؔ اقبال ؔ نے سب سے پہلے اردو شاعری کو زندگی کے مسائل سے آشکار کیا
نقش ثانی۔
ت اقبال کا کالم ِ
”حضر ِ
٭
٭
٭
نظیر اکبرآبادی کا پورا نام ولی محمد تھا۔ اکبرآباد کے ایک شریف گھرانے میں نظیر اکبرآبادی کی پیدائش ہوئی تھی۔ ان کے والد
ؔ
سیّد محمد فاروق عظیم آباد کے نواب کے مصاحبین میں شمار کئے جاتے تھے۔ باضابطہ کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس زمانے
کے رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ،کوئی مالزمت نہیں کی۔ باپ دادا کی دولت موجود تھی۔ البتہ محلہ
کے بچوں کو پڑھا کر زندگی گذارتے تھے۔ کچھ روز کے لئے متھرا گئے تو وہاں کے مرہٹہ قلعہ دار نے انھیں اپنا استاد مقرر
کیا۔ دوبارہ آگرہ آئے تو محمد علی خاں کے لڑکوں کو درس دینے لگے۔ اسی دوران کھتری سے مالقات ہوئی۔ رائے کھتری سے
نظیر کا تعلق کاشی کے سربراہ ؔ مالقات ہوئی۔ رائے کھتری نے اپنے بچوں کی تربیت میاں نظیر کے سپرد کر دی۔ آخری عمر میں
راجہ بلوان سنگھ کی سرکار سے ہوگیا تھا۔ اپنے خاندان اور ماحول کی وجہ سے نظیر نے سپہ گری کے فن میں کمال حاصل کیا
تھا۔ فارسی اور عربی جانتے تھے۔ ہندی ،پنجابی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ عوام میں اٹھنا بیٹھنا تھا۔ زبان کے عوامی
لہجے سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ ایک قلندر مزاج آزاد منش انسان تھے۔ اس کا اندازہ ان کی شاعری سے بھی ہوتا ہے۔ نظیر
کے والد سنی تھے لیکن وہ امامیہ مذہب کے قائل تھے۔ عبادتوں کی ادائیگی معمولی طور پر کرتے تھے۔ البتہ تعزیہ داری کے
اہتمام پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔ ادھیڑ عمر میں ظہورالنساء بیگم بنت عبدالرحمٰ ن چغتائی سے شادی کی۔ آخری عمر میں
گوشہ نشینی اختیار کی۔ نظیر کو اوالدیں بھی ہوئیں۔ ۱۸۲۷ء میں فالج کے مرض میں مبتال ہوئے ۹۸سال کی عمر میں ۲۵صفر
۱۲۴۶ھ بمطابق ۱۶اگست ۱۸۳۰ء کو انتقال کیا۔ نماز جنازہ دو مرتبہ سنی اور امامیہ طریقے سے پڑھائی گئی۔ البتہ تجہیز و
نظیر کے مزاج کی شوخی، ؔ تکفین امامیہ طریقہ پر ہوئی۔ ان ہی کے مکان میں موجود نیم کے درخت کے نیچے دفن کئے گئے۔
بانکپن ،کھیل کود اور میلے ٹھیلوں کے شوق اور تجربے کے اظہار کے لئے نظم ہی ان کو راس آئی۔ ان کا مشاہدہ دنیاوی
معامالت کے ساتھ ساتھ زندگی کے پیچ و خم کے متعلق بھی بہت گہرا تھا۔ نظم کی آزادی ان کی آزاد روش سے بڑی مطابقت
رکھتی تھی۔ اس لئے وہ نظم نگاری کی طرف مائل ہوئے اور ہر چھوٹے بڑے موضوع پر نظمیں لکھیں۔
نظیر اکبرآبادی حیات تھے وہ شاعری کا ایک ایسا دور تھا جس میں علم عروض ،قافیہ اور ردیف کی پابندی الزمی ؔ جس دور میں
نظیر اکبرآبادی بھی اسی پابند
ؔ تھی۔ سارے معاشرے میں شاعری کے لئے مدون کئے ہوئے اصولوں کی پابندی کی جاتی تھی۔
ماحول کے پروردہ تھے۔ اسی لئے ان کی شاعری فنی اصولوں کی پابند رہی۔ ان کی نظموں میں مثلث ،مربع ،مخمس اور مسدس
کے سانچے استعمال ہوئے ہیں۔ جن میں وزن ،بحر ،قافیہ اور ردیف کی پابندی بھی دکھائی دیتی ہے۔
اس نظم میں شاعر نے انسانی اعمال کے جزا و سزا کے تصور جو مثالوں کے ذریعے واضح کرتے ہوئےبتایا ہے کہ اس دنیا میں
بھی انسان کو اس کے عمل کے مطابق جزا یا سزا ملتی ہے۔
کچھ دیر نہیں ،اندھیر نہیں ،انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو ،اس ہاتھ ملے ،یاں سودا دست بدستی ہے
کچھ دیر نہیں ،اندھیر نہیں ،انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو ،اس ہاتھ ملے ،یاں سودا دست بدستی ہے
جو غرق کرے ،پھر اس کی بھی یاں ،ڈبکوں ڈبکوں کرتی ہے
کچھ دیر نہیں ،اندھیر نہیں ،انصاف اور عدل پرستی ہے
اس ہاتھ کرو ،اس ہاتھ ملے ،یاں سودا دست بدستی ہے
نظیر کی نظموں میں انسان دوستی کا جذبہ نمایاں ہے۔ وہ پورے احساس کے ساتھ انسان کی قدر اور اس زندگی کی حفاظت کے ؔ
خیاالت کو اپنی شاعری میں پیش کرتے ہیں۔ وہ صرف نادار و مفلس انسان سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں ہر
انسان سے محبت کا جذبہ نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی مشہور نظم ’’آدمی نامہ‘‘ اس بات کی دلیل ہےکہ ان کے یہاں انسانیت کا درد ہے۔
روٹی انسان کی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ ہر ایک روٹی کے لئے در در کی خاک چھانتا ہے۔ بھوکا ہو تو چاند سورج بھی اسے
روٹی ہی نظر آتے ہیں۔
اپنی مشہور نظم ’’مفلسی‘‘ اور ’’آٹے دال‘‘ میں انسان کی بے بسی کو ظاہر کیا ہے۔ نظم ’’مفلسی‘‘ میں لکھتے ہیں۔
نظیر نے مفلسی کے عالوہ آٹے دال ،کوڑی نامہ ،پیسہ جیسی نظمیں لکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ سب زندگی کے حقائق ہیں ؔ
اس کے بغیر دنیا میں انسان کی کوئی اہمیت نہیں ان کی نظم ’’آٹے دال‘‘ کا یہ بند مالحظہ ہو
نظیر اکبرآبادی ا یک ایسے حقیقت پسند شاعر ہیں جن کی نظموں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت کی بقاء کے لئے انسان کو ؔ
نظیر نے بعض نظمیں بچوں کے لئے بھی لکھی ہیں۔ جیسے ریچھ کا بچہ ،بلی کا بچہ ؔ چاہئیں۔ ملنے وسائل یکساں کے جینے
نظیر کے بعض موضوعات تو اتنے دلچسپ اور انوکھے ہیں کہ ان پر آج تک کسی شاعر نے قلم نہیں اٹھایا۔ مثالً کورا ؔ وغیرہ۔
برتن ،لکڑی ،تل کے لڈو وغیرہ
نظیر ایک عوامی شاعر ہیں اس لئے ان کی شاعری میں جہاں قدرتی مناظر کا عکس دکھائی دیتا ہے وہیں عرس،ؔ بنیادی طور پر
میلوں اور تہواروں کے مناظر بھی پیش کئے گئے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’برسات کی بہاریں‘‘ قدرتی مناظر کی بھرپور عکاسی
نظیراکبرآبادی نے قدرتی مناظر کو پورے سلیقے کے
ؔ کرتی ہے۔ اس کے عالوہ ان کی نظم ’گرمی‘ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ
نظیر کی نظموں میں مناظر قدرت کی عکاسی لفظوں کے ذریعے نمایاں ہے ان کی نظمیں ’بنجارہ
ؔ ساتھ اپنی شاعری میں شامل کیا۔
نامہ‘ اور ’آدمی نامہ‘ بھی ایک طرح سے انسان کے مختلف روپ و رنگ کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان نظموں میں بین السطور
اخالقی اقدار بھی سامنے آتے ہیں۔ ان کی ایک مشہور نظم ’کل جگ‘ کے اشعار مالحظہ ہوں۔
قدرتی مناظر کے عالوہ نظیر اکبرآبادی ہر نظم کو کسی نہ کسی فطری منظر سے وابستہ کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی
نظیر اکبرآبادی کی نظموںؔ نظموں میں نیکی ،سچائی اور حقیقت کی بھرپور نمائندگی ہوتی ہے اور اسی خصوصیت کی وجہ سے
کے مناظر اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ ان کی نظم ’’بلدیو سنگھ کا میال‘‘ اور ’’عید گاہ اکبرآباد‘‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ نظ ؔیر
نے اپنے ماحول کے مناظر کو بھی نظموں میں شامل کر لیا ہے۔
نظیر کی نظم ’’ہولی‘‘ کا تعلق ہندوستان کے ایک رنگ رنگیلے تہوار سے ہے۔ جس میں رنگ و پانی کے ساتھ دلوں کی کدورتیں ؔ
دور ہو جاتی ہیں۔ یہ ۶بند کا مخمس ترکیب بند ہے۔ ہر بند ہولی کا ایک ایک منظر پیش کرتا ہے۔ جس میں زندگی ہی زندگی ہے۔
نظم میں ہر چار مصرعوں کے بعد ایک مصرعے کو ہراتے ہوئے ایک ایک منظر کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس نظم میں طبلے
کی تال ،ڈھولک اور مردنگ کی تھاپ ،رباب اور سارنگی کی آوازوں ،تنبوروں کی جھنک اور گھنگھروئوں کی چھنک سے ایک
خوشگوار تاثر پیدا ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں گالل ،رنگ اور پچکاری کا ذکر کر کے اس تہوار میں کی جانے والی دھینگا مستی،
کھینچا تانی اور کیچڑ پانی کے مناظر پیش کئے گئے ہیں۔ رنگ چھڑکنے ،راگ راگنی کی محفلوں ،شراب کے جام چھلکنے اور
نظیر نے اس نظم میں فارسی و ہندی الفاظ کو بھرپور
ؔ کھیل کود کی کیفیت کو مناسب حال الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔
نظیر کے گہرے مشاہدے کا اندازہ ہوتا ہے۔ پانچ پانچ مصرعوں پر مشتمل ۶بند کی اس نظم ہولی کی ؔ استعمال کیا ہے۔ اس سے
نظیراکبرآبادی نے اس حقیقت کی نمائندگی کی ہے کہ ہولی کے آنے کی وجہ ؔ مختلف کیفیتوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ پہلے بند میں
نظیر اکبرآبادی
ؔ سے عیش و عشرت کا موقعہ فراہم ہو گیا ہے اور ہر طرف خوشی کی دھوم مچی ہے۔ نظم کے دوسرے بند میں
نے اپنے دور میں استعمال ہونے والے باجوں اور سازوں کی تفصیل پیش کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ طبلے کی تال کھٹک رہی
ہے۔ ڈھولک اور مردنگ بج رہے ہیں۔ ربابوں ،سارنگی اور چنگ کی آوازیں پھیلتی جا رہی ہیں۔ تنبورے کے تار جھنک رہے ہیں
اور گھنگھروئوں کی آواز پر لوگ دھوم مچارہے ہیں۔ غرض ناچنے گانے کا یہ سلسلہ ہولی کی دولت ہے۔نظم کے تیسرے بند میں
وہ لکھتے ہیں کہ تھالوں میں گالل پیش ہو رہے ہیں اور پچکاری سے رنگ چھڑکے جا رہے ہیں۔ عبیر چھڑکا جا رہا ہے۔ لوگوں
نظیر نے یہ لکھا ہے کہ رنگ بھری پچکاری سے لوگوں کے منہ اور جسم گلنار ہو رہے ہیں۔ ؔ کی خوشیوں کا ذکر کرتے ہوئے
نظیر اکبرآبادی نے نظم کے
ؔ ہیں۔ رہے دے دکھائی سے وجہ کی ہولی داز ان تمام یہ ہے۔ رہا جا اور جسم رنگ میں تر بتر ہوتا
چوتھے بند میں رنگ کھیلتے ہوئے خوشی میں کی جانے والی دھینگا مشتی اور کیچڑ پانی میں تربتر ہونے کے منظر کی عکس
بندی کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ خوشحالی کا جوش ہولی کی وجہ سے چاروں طرف نمایاں ہے۔ نظم کے پانچویں بند میں ہنس
ہنس کر دیا ہے اور بتایا کہ لوگ ہنستے کھیلتے کس طرح خوش ہیں۔ کبھی وہ سوانگ بھرتے ہیں اور کبھی موج مستی کی باتیں
کرتے ہوئے ہولی کی وجہ سے خوش ہو رہے ہیں۔ کچھ گانے میں مصروف ہیں تو کچھ ناچنے اور سوانگ بھرنے میں مصروف
نظر آتے ہیں۔ غرض خوشی کا یہ سامان ہولی کی وجہ سے میسر آیا ہے۔
نظیر نے نظم ہولی کے ذریعے ایک ہندوستانی تہوار میں منائی جانے والی خوشیوں کو بڑے دلچسپ انداز میں نظم کر دیا ہے۔ؔ
اس نظم میں سادہ زبان اور عوامی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے نظم کا لطف دوباالہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم بھی ہولی
کے تہوار میں شریک ہیں۔
آجھمکے عیش و طرب کیا کیا ،جب حسن دکھایا ہولی نے
دفِ رنگین نقش سنہری کا ،جس وقت بجایا ہولی نے
بازار ،گلی اور کوچوں میں ،غل شور مچایا ہولی کا
نظیر اکبرآبادی اردو نظم کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے فطری موضوعات کے عالوہ سماجی ،معاشی اور معاشرتی ؔ
نظیر کی نظم ’’مفلسی‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ نظم نظ ؔیر کے مزاج کے عین
ؔ میں نظموں ہی ایسی لکھیں۔ نظمیں بھی پر موضوعات
مطابق ہے۔ اس نظم کو انھوں نے پانچ مصرعوں کے بند یعنی مخمس میں تحریر کیا ہے۔ یہ ایک طویل نظم ہے ،جس میں
نظیر نے ان حقائق کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ جن کی وجہ سے مفلسی اور بدحالی کے پھیلنے کا ؔ سماجیاتی مطالعہ کے ساتھ
نظیر نے اپنے
ؔ میں نظم اس ہے۔ نظم کی انداز وضاحتی پر طور بنیادی ’مفلسی‘ نظم مشتمل پر بند ۱ امکان بڑھتا جا رہا ہے۔ ۹
مشاہدے کی گہرائی اور تشبیہ اور تلمیح کے استعمال اور محاورے کی گرمی سے ایسا ماحول تیار کر دیا ہے کہ یہ نظم مفلسی
کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب آدمی پر مفلسی کا حملہ ہوتا ہے تووہ مختلف طریقوں سے انسان کو
ؔ نظم کے پہلے بند میں
پریشان کرتی ہے۔ کبھی وہ رات بھر بھوکا سالتی ہے اور کبھی پیاسا رہنے پر مجبور کردیتی ہے۔ جس پر بھی مفلسی آتی ہے
اسے ہر قسم کے دکھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ حکیم جو بیماریوں کا عالج کرتا ہے اور جس کی عزت بڑے بڑے نواب اور پٹھان بھی
عیسی
ٰ کرتے ہیں۔ لیکن وہ بھی غریب ہو جائے تو اس کو کوئی پوچھنے واال نہیں ہوتا۔ حد یہ ہے کہ لقمان سے بڑا طبیب اور
جیسا مسیحا بھی موجود ہو لیکن وہ غریب ہو تو اس کی تمام تر حکمت غریبی میں ڈوب جاتی ہے۔
ظیر نے نظم کے تیسرے بند میں بتایا ہے کہ اہل علم و فضل بھی ہوں اور ان کو مفلسی گھیرے تو وہ غریبی کی وجہ سے کلمہن ؔ
تک بھول جانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بھوکے سے کوئی الف کے بارے میں پوچھے تو وہ اسے ب بتاتا ہے۔ غریب کے بچوں
کو پڑھانے واال سدا مفلس ہی رہتا ہے اور اگر کوئی غریب کے گھر مفلسی آتی ہے تو وہ عمر بھر جا نہیں سکتی۔ اگر مفلس کسی
مجلس کے درمیان اپنا حال بیان کرتا ہے تو لوگ یہی تصور کرتے ہیں کہ اس نے روزگار حاصل کرنے کے لئے یہ جال پھیالدیا
ہے۔ غریب کے پاس الکھوں علم و کمال ہوں لیکن وہ مفلس ہو تو ہزار سنبھال لینے کے باوجود اس سے لغزش ہو جاتی ہے۔ اس
طرح مفلسی انسان کی تمام صالحیتونکو خاک میں مال دیتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ جب انسان مفلس بن جاتا ہے تو اسے اپنی عزت سے زیادہ روٹی یا
ؔ نظم مفلسی کے پانچویں بند میں
نان پیاری ہوتی ہے۔ اور وہ ایک ایک روٹی پر جان دینے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ جہاں بھی روٹی
اورکھانے کا خوان دیکھتا ہے اس پر بھوکے کتے کی طرح ٹوٹ پڑتا ہے۔ اس طرح مفلسی نہ صرف روٹی کے لئے جھگڑا
کراتی ہے بلکہ حددرجہ ذلیل بھی کرواتی ہے۔ مفلسی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ حیا کی بنیاد پر جن کاموں سے انسان خود کو بچائے
رکھتا ہے وہ سب کام کرنے پر وہ مجبور ہو جاتا ہے اور اس میں حالل و حرام کی بھی تمیز باقی نہیں رہتی۔ غرض جسے شرم و
حیا کہتے مفلسی کی وجہ سے وہ انسان سے رخصت ہو جاتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی نے ساتویں بند میں بتایا ہے کہ اگرچہ انسان پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں اور وہ شور و غل مچائے
ؔ نظم کے ذریعے
تو لوگ گوارا کر لیتے ہیں۔ لیکن مفلس کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ غم کے بغیر ہی ہائے ہائے کرتا ہے اور اس کے واویال مچانے
کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ مفلسی کی وجہ سے اس میں اس قدر ذلت آجاتی ہے کہ اگر کوئی مرجائے تو الش اٹھانے کے لئے
اس کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا۔ الش کو بے کفن دفن کرنا پڑتا ہے۔ مفلسی کی وجہ سے نہ تو چولھے پر توا رکھا جا سکتا ہے اور
نہ مٹکے میں پانی بھرا جا سکتا ہے۔ مفلسی کھانے پینے اوراس کے لئے رکابی حاصل کرنے کو بھی محتاج کر دیتی ہے۔ جس
کی وجہ سے مفلس بے غیرت بن جاتا ہے اور غریب کی بیوی کی عزت بھی ہر ایک کے دل سے ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کتنا ہی
عظیم کیوں نہ ہو اگر مفلسی اسے گھیر لے تو اس کے طفیل انسان کی قابلیت گھٹ جاتی ہے اور اسے لوگ گدھے اور بیل کا
درجہ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ افالس کے مارے پھٹے کپڑوں اور بکھرے بالوں کے ساتھ جسم ،منہ اور بدن کی پاکی پر توجہ نہیں
دے سکتا۔ افالس کی وجہ سے انسان کی شکل قیدیوں جیسی ہو جاتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی یہ بتاتے ہیں کہ جب کسی پر مفلسی آتی ہے تو اس کی وجہ سے
ؔ مفلسی کا اثر کیا ہوتا ہے اس کا جائزہ لیتے ہوئے
دوستوں میں عزت گھٹ جاتی ہے۔ اور چاہنے والوں کی محبت میں کمی آتی ہے۔ اپنے اور غیر میں فرق بڑھاتی ہے اور اسی کے
ساتھ شرم و حیا کے عالوہ عزت اور حرمت میں بھی مفلسی کی وجہ سے کمی آتی ہے۔ بہرحال انسان پر مفلسی آجائے تو اس کی
بدولت جسم کی صفائی نہ ہونے سے بال اور ناخن بڑھ جاتے ہیں اور انسان صفائی کی خصوصیات کھو دیتا ہے۔
ظیر اکبرآبادی نے بتایا ہے کہ مفلسی کی وجہ سے شرافت کا خاتمہ ہوجاتا ہے انسانی عزت باقی نہیں رہتی۔ عزت کے خاتمے ؔ
کے ساتھ تعظیم اور تواضع ختم ہوجاتی ہے۔ اور انسان اس قدر ذلیل ہوتا ہے کہ اسے محفلوں میں جوتوں کے قریب بیٹھنا پڑتا ہے۔
غرض مفلسی ایک ایسی حقیقت ہے جو عزت کو خاک میں مالنے ،محبت کا خاتمہ کرے اور انسان کو چوری کی طرف راغب
نظیر
ؔ کرنے کا کام انجام دیتی ہے۔ اور اسی مفلسی کی وجہ سے انسان بھیک مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ نظم کے آخری بند میں
اکبرآبادی کہتے ہیں کہ دنیا م یں خدا کسی بادشاہ یا فقیر کو کبھی مفلسی میں گرفتار نہ کرے کیونکہ مفلسی ہی شریف انسان کو
حقیر بناتی ہے۔ اس کی خرابیاں کہاں تک بیان کی جائیں بس اتنا کہا جا سکتا ہے کہ خدا ہر انسان کو مفلسی سے محفوظ رکھے
نظیر اپنی اس نظم کو دعائیہ کلمات پر ختم کرتے ہیں۔
ؔ کیوں کہ مفلسی انسان کے دل کو جالتی ہے۔
نظیر اکبرآبادی کی نظم مفلسی میں بے شمار محاورے ،تشبیہات اور استعارے استعمال ہوئے ہیں۔ ان کی نظم میں تلمیحات کی بھیؔ
نظیر نے نئی لفظیات کو
ؔ عیسی کا تلمیحی اشارہ اپنی نظم میں استعمال کرتے ہیں۔
ٰ کمی نہیں ہے۔ وہ حضرت لقمان اور حضرت
استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو بھی اس نظم میں جگہ دی ہے۔ چنانچہ بی بی کا نتھ ،لڑکوں
کے ہاتھ کے کپڑے ،چھٹ کی کڑیاں ،دروازے کی زنجیر ،چولھا ،توا ،رکابی اور کھانے پینے کی تمام چیزیں اس نظم میں شامل
نظیر اکبرآبادی نے مفلسی کو ایک جرم کی حیثیت دی ہے ؔ ہیں۔ ان کی تشبیہات اور استعارے اس حقیقت کا اشارہ کرتے ہیں کہ
چنانچہ وہ انسان کو مفلسی کے دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ مفلسی کی وجہ سے شرافت اور عزت کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔