You are on page 1of 36

Subject: Urdu

Module: 30
Paper: Masnavi Nigari
Topic: Urdu Masnavi Shumali Hind Main
Content writer: Professor Mula Bakhsh
Aligarah Muslim University, UP
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫اردو مثنوی شمالی ہند میں‬

(Introduction)‫تمہید‬/‫تعارف‬
‫اردو میں مثنوی نگاری کی ابتدا بہت پہلے ہوچکی تھی۔ مثنوی کی طوالت زیربحث کم آیا‬
‫کرتی تھی اور مثنوی کی شناخت ہیئت کے اعتبار سے ہوا کرتی تھی۔ لہٰ ذا کوئی بھی منظوم ادب‬
‫پارہ اگر دو دو مصرعوں کے ہم قافیہ شعر کے ساتھ ارتقا اور پھر اختتام تک پہنچتی تھی تو اسے‬
‫مثنوی کے زمرے میں رکھا جاتا تھا۔‬
‫جہاں تک شمالی ہند میں مثنوی نگاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ یہاں اس‬
‫کی روایت بہت ہی مستحکم اور توانا رہی ہے۔ اس حوالے سے مشہور محقق ڈاکٹر گیان چند جین‬
‫نے ایک نہایت ہی مربوط و مبسوط کام کیا تھا جس پر انھیں ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی‬
‫تھی۔ لہٰ ذا یہاں ضروری ہوجاتا ہے کہ شمالی ہند کی اس قدیم روایت کا جائزہ پیش کیا جائے۔‬
‫سبق کا مقصد (‪)Learning Outcome‬‬
‫یہاں اس سبق میں یہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ شمالی ہند کی مثنویوں کے‬
‫محرکات‪ ،‬موضوعات اور اسالیب کیا رہے ہیں۔ اس سبق سے اس بات کا اندازہ بھی ہوسکے گا کہ‬
‫اس قدیم روایت میں وہ کون سے اہم شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے مثنوی نگاری کو فروغ بخشا۔‬
‫یہاں اس کی گنجائش کم ہوگی کہ تمام اہم مثنویوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے‪ ،‬کیوں کہ اس‬
‫کے لیے ایک سبق ناکافی ہوگا۔ البتہ اس سبق کایہ مقصد ضرور ہے کہ شمالی ہند میں مثنوی کی‬
‫روایت اور ارتقا پر روشنی پڑسکے۔‬
‫ذیلی عنوان)‪ (1‬شمالی ہند میں مثنوی نگاری‬
‫دراصل اردو شاعری میں قدامت کے لحاظ سے دکن کو عام طور پر اولیت حاصل رہی ہے۔‬
‫مثنوی کدم راوپدم راو‪ ،‬پھول بن‪ ،‬طوطی نامہ‪ ،‬چندر بدن و مہیار اور قطب مشتری وغیرہ کو دکنی‬
‫اعلی مقام حاصل رہا ہے۔ اگر شمالی ہند میں دیکھیں تو محمد افضل پانی پتی کی بکٹ‬
‫ٰ‬ ‫مثنویوں میں‬
‫کہانی‪ ،‬جعفر زٹلی کی درصفت پیری اور طوطی نامہ وغیرہ‪ ،‬شاہ حاتم کی مثنوی سراپا اور ساقی‬
‫نامہ‪ ،‬سودا کی ہجو میر ضاحک‪ ،‬ہجو حکیم غوث اور مثنوی دربار ٔہ زن و شوہر‪ ،‬میر تقی میر کی‬
‫شعلہ عشق’ اور پھر میر حسن کی ‘سحرالبیان’ اور ‘رموزالعارفین’‪ ،‬میر اثر‬
‫‘دریائے عشق’ اور ‘ ٔ‬
‫کی ‘خواب و خیال‘‪ ،‬دیاشنکر نسیم کی ’گلزار نسیم’‪ ،‬نواب مرزا شوق کی ‘زہر عشق’‪‘ ،‬فریب‬
‫عشق’ اور ‘بہار عشق’ تک ایک بڑی کہکشاں رہی ہے۔ وہ شعرا کہ جن کے دم سے شمالی ہند‬
‫میں مثنوی کی روایت مستحکم ہوئی ان میں مذکورہ باال شعرا کے عالوہ راسخ عظیم آبادی‪ ،‬نظیر‬
‫اکبرآبادی‪ ،‬انشا‪ ،‬جرأت‪ ،‬ذوق‪ ،‬مومن‪ ،‬محسن کاکوری اور شوق قدوائی وغیرہ کے نام بھی لیے‬
‫جاسکتے ہیں۔ جدید مثنویوں میں اگر آزاد‪ ،‬حالی اور شبلی کی نظمیں بھی پیش نظر رکھیں تو مزید‬
‫ایک فہرست بن سکتی ہے۔‬
‫ذیلی عنوان)‪ (2‬اردو مثنوی شمالی ہند میں‬
‫شمالی ہند میں کئی محققوں نے فریدالدین گنج شکر‪ ،‬امیر خسرو وغیرہ کو بھی مثنوی نگار‬
‫کے زمرے میں رکھا ہے جو کہ غلط ہے۔ اگر پہلے باضابطہ مثنوی نگار کا نام لیاجاسکتا ہے تو‬
‫وہ محمد افضل پانی پتی کا ہوسکتا ہے۔ افضل کی مثنوی بکٹ کہانی مشہور ہے جو کم و بیش تین‬
‫سو اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی ایک بارہ ماسہ ہے۔ ’بارہ ماسہ‘میں ایک فراق زدہ عورت اپنے‬
‫شوہر کو یاد کرتی ہے۔ عام طور پر مار مہینوں کی منظرکشی اور بارہ مہینوں میں ایک شادی شدہ‬
‫عورت کے جو جذبات ہوسکتے ہیں‪ ،‬انھیں بارہ ماسہ میں پیش کرتے ہیں۔ افضل کی مثنوی میں‬
‫ہندی‪ ،‬فارسی‪ ،‬ہریانوی‪ ،‬دکنی زبانوں کا ایک مخلوط رنگ نظر آتا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے‪:‬‬
‫بھئی ہوں عشق کے غم سوں‬ ‫سنو سکھیو بکٹ میری‬
‫دیوانی‬ ‫کہانی‬
‫بَرہ کے درد سوں سینہ پراتا‬ ‫نہ مجھ کو بھوک دن‬
‫راتا‬ ‫نیند‬ ‫نے‬
‫مرم بایکدگر سنتے و کہتے‬ ‫چوشد مدت پیا کے‬
‫رہتے‬ ‫سنگ‬
‫مرے گھر ناریاں سب آوتی ہیں‬ ‫چرا بینم کہ منگل گاوتی‬
‫ہیں‬
‫محمد افضل کے بعد کے زمانے میں شاہ حاتم‪ ،‬مبارک آبرو اور دوسرے کئی شعرا ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫فائز دہلوی نے جو مثنویاں تحریر کی ہیں‪ ،‬وہ الئق توجہ ہیں۔ گرچہ یہ مثنویاں مختصر ہیں لیکن‬
‫پُراثر اور دل چسپ ہیں۔‬
‫فائز نے مناجات‪ ،‬تعریف پنگھٹ‪ ،‬تعریف ہولی‪ ،‬تعریف نہان نگمبود‪ ،‬بیان میلہ بہتہ‪ ،‬تعریف‬
‫تنبولن‪ ،‬در وصف بھنگیڑن درگاہ قطب‪ ،‬رقعہ )‪ ،(1‬رقعہ )‪ (2‬جیسی مختصر مثنویاں کہی ہیں۔ تین‬
‫مثنویوں سے یہ نمونے مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫کریما رحم کر تو عاجزاں پر‬ ‫خدایا فضل کر تو بیکساں پر‬
‫مجازی پادشہ تیرا گدا ہے‬ ‫خدایا تو حقیقی پادشا ہے‬
‫آمرزگارا‬ ‫عادال‪،‬‬ ‫رحیما‪،‬‬ ‫پروردگارا‬ ‫قادرا‪،‬‬ ‫قدیما‪،‬‬
‫(مناجات)‬
‫‪---‬‬
‫سروقد ہیں بوستاں کے درمیاں‬ ‫آج ہے روز بسنت اے دوستاں‬
‫کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہم‬ ‫سب کے تن میں ہے لباس‬
‫سری‬ ‫کیسری‬
‫دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کے سار‬ ‫جیوں جھڑی ہر سو ہے‬
‫دھار‬ ‫کی‬ ‫پچکاری‬
‫(تعریف ہولی)‬
‫‪---‬‬
‫جیوں روپے کی تھالی میں‬ ‫ندی پرنمایاں ہیں سیمیں بدن‬
‫رتن‬ ‫ڈھلتے‬
‫خجل ان کے مکھ سے سورج‬ ‫کھڑے گھاٹ پر ہیں سبی سیم‬
‫چندر‬ ‫اور‬ ‫بر‬
‫(تعریف نہان نگمبود)‬
‫میر تقی میر نے بھی کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ان کی شاعری‬
‫میں ہمیشہ ایک طرح کی یاسیت نظر آتی ہے۔ لہٰ ذا ان کی مثنویوں میں بھی اس کا رنگ دکھائی‬
‫دیتا ہے۔ مثنوی ‘خواب و خیال’ ک ے یہ اشعار مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫پراگندہ روزی پراگندہ‬ ‫زمانے نے رکھا مجھے‬
‫دل‬ ‫متصل‬
‫نہ پہنچی خبر مجھ کو‬ ‫وطن میں نہ اک صبح‬
‫کی‬ ‫آرام‬ ‫کی‬ ‫شام‬ ‫میں‬
‫داغ‬ ‫لگے‬ ‫دکھانے‬ ‫جالتے تھے مجھ پر جو‬
‫داغ‬ ‫باالئے‬ ‫دماغ‬ ‫اپنا‬
‫میر کی مثنویوں میں’ دریائے عشق ‘کو زیادہ شہرت ملی۔ اس کے شروع میں میر نے عشق‬
‫کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس کی تفصیل تیس سے زائد اشعار تک پہنچتی ہے۔ عشق جب غالب‬
‫ت حال کچھ یوں ہوتی ہے‪:‬‬
‫آتا ہے تو صور ِ‬
‫ہر جگہ اس کی اک نئی‬ ‫عشق ہے تازہ کار تازہ‬
‫چال‬ ‫ہے‬ ‫خیال‬
‫کہیں سر میں جنون‬ ‫کہیں آنکھوں سے خون‬
‫رہا‬ ‫ہوکے‬ ‫بہا‬ ‫ہوکے‬
‫اور پھر عشق کے نتیجے میں مثنوی کا ہیرو اس طرح سامنے آتا ہے‪:‬‬
‫غرق دریائے عشق کیا‬ ‫ڈوبے جو یوں کہیں وہ‬
‫نکلے‬ ‫جانکلے‬
‫آخر آخر ڈبو دیا اس کو‬ ‫عشق نے آہ کھودیا اس‬
‫کو‬
‫اس عشق کا اثر جب ہیروئن نازنیں پر ہوتا ہے تو اس کا اظہار وہ یوں کرتی ہے جس میں‬
‫اضطرابی کیفیت اور اثرانگیزی ہے‪ ،‬مالحظہ کیجیے‪:‬‬
‫مرغ بسمل ہے یا کہ دل‬ ‫دل تڑپتا ہے متصل میرا‬
‫میرا‬
‫مرے‬ ‫کا‬ ‫جی‬ ‫حال‬ ‫وحشت طبع اب تو‬
‫ہے‬ ‫دگرگوں‬ ‫ہے‬ ‫افزوں‬
‫جان تن کے وبال ہوتی‬ ‫بے دماغی کمال ہوتی‬
‫ہے‬ ‫ہے‬
‫آج کل میں جنون ہووے‬ ‫دل کوئی دم میں خون‬
‫گا‬ ‫گا‬ ‫ہووے‬
‫’شعلہ شوق ‘ اور ’اعجاز عشق ‘ میں بھی میر نے جذبات عشق کو خوبصورت انداز میں‬
‫منظوم کیا ہے۔ ایک مثنوی ’مثنوی عشقیہ ‘سے بھی موسوم ہے جس میں افغان پسر کی داستان‬
‫عشق بیان کی گئی ہے۔ اس کی داستان میں غیرفطری پن ہے جس کی ہیروئن اپنے شوہر کی موت‬
‫کے بعد ستی ہوکر بھی اپنے عاشق افغان پسر سے مل کر اُسی آگ کی طرف جاتی ہے جہاں اُسے‬
‫جالیا گیا تھا‪ ،‬پھر دونوں واپس نہیں آتے۔ البتہ اس مثنوی کے شروع میں جو اشعار عشق کے‬
‫مضمون کو پیش کرتے ہیں وہ الئق توجہ اور پرکشش ہیں‪:‬‬
‫بہت خاک َمل ُمنہ پہ‬ ‫بہت عشق میں لوگ‬
‫ہوئے‬ ‫جوگی‬ ‫ہوئے‬ ‫روگی‬
‫گئے اہل مسجد سوئے‬ ‫کیا عشق میں ترک صوم‬
‫سومنات‬ ‫صالۃ‬ ‫و‬
‫جہاں سب ہے عشق‬ ‫نہ سبحہ نہ زنّار نَے کفر‬
‫اور کچھ بھی نہیں‬ ‫دیں‬ ‫و‬
‫(طاوس) اور ایک راجہ کی بیوی یعنی رانی کے عشق کی داستان بیان کی‬ ‫ٔ‬ ‫میر نے مور‬
‫صے میں غیرفطری انداز ہے۔ راجہ‬‫ہے۔ اسی لیے مثنوی’مورنامہ ‘ سے موسوم ہے۔ اس کے ق ّ‬
‫کے خوف سے مور کو رانی جنگل میں جانے کو کہتی ہے۔ راجہ اپنی فوج لے کر مور کو ہالک‬
‫کرنے کی غرض سے جنگل میں جاتا ہے۔ مور کی آتش عشق سے پورا جنگل جل جاتا ہے اور‬
‫جب راجہ گھر واپس آتا ہے اور جب رانی کو مور کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو وہ بھی ستی‬
‫ہوجاتی ہے۔ گیان چند جین نے لکھا ہے‪:‬‬
‫’’ مور شوہر کا نعم البدل نہیں ہوسکتا اسی لیے کوئی سالم العقل شوہر اسے اپنا‬
‫رقیب نہ سمجھے گا۔ ایک مور کو مارنے کے لیے راجہ کا پوری فوج لے کر‬
‫جانا مضحکہ خیز ہے۔‘‘‬
‫(اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)230‬‬
‫میر اور سودا میں چشمک بھی رہا کرتی تھی۔ لہٰ ذا اس عہد میں ہجویات کا چلن بھی بہت تھا۔‬
‫میر کی کئی مثنویاں ملتی ہیں جن میں ہجو کی گئی ہے۔ جیسے اژدرنامہ‪ ،‬تنبیہ الجمال‪ ،‬مذمت آئینہ‬
‫دار‪ ،‬ہجونااہلی مس ّٰمی بہ زبان زد عالم (در ہجو محمد بقا) وغیرہ۔ اس کے عالوہ اپنی کَس مپرسی‬
‫اور عسرت کی ہجو بھی کہی ہے۔ اپنے گھر کا حال بھی مثنوی میں بیان کیا۔ میر کے حوالے سے‬
‫گیان چند جین کی یہ رائے اہم ہے کہ ‪:‬‬
‫’’میر شمالی ہند کے چار بہترین مثنوی نگاروں میں سے ہیں۔ باقی تین میر‬
‫حسن‪ ،‬نسیم اور مرزا شوق ہیں۔‘‘ (ایضاً‪ ،‬ص ‪)256‬‬

‫میر کے بعد آئیے اب میر حسن کی مثنوی نگاری پر غور کرتے ہیں۔‬
‫مثنوی ‘سحرالبیان’ از میر حسن ‪ 1784‬میں لکھی گئی۔ یہ آصف الدولہ کا عہد تھا۔ اس لیے‬
‫اس میں شاہی محلوں اور درباروں کے رنگ‪ ،‬رونقیں اور رنگینیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ مثنوی‬
‫جس انداز اور اسلوب کے ساتھ منظرعام پر آئی‪ ،‬اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر حسن نے اس کو‬
‫کس طرح سنوارا تھا اور اپنی تخلیقی اور فنی قوت سے کیا خوبصورت شعری فن پارہ اردو ادب کو‬
‫دیا۔ اس مثنوی کی خوبی کا احساس خود مصنف کو بھی تھا‪ ،‬اس لیے انھو ں نے خود بھی تعریفی‬
‫اشعار کہے‪:‬‬
‫تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے‬ ‫ِز بس عمر کی اس‬
‫حرف‬ ‫صرف‬ ‫میں‬ ‫کہانی‬
‫تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے‬ ‫جوانی میں جب ہوگیا‬
‫نظیر‬ ‫پیر‬ ‫میں‬ ‫ہوں‬
‫مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی‬ ‫نہیں مثنوی ہے یہ اک‬
‫پھلجھڑی‬
‫نہیں مثنوی‪ ،‬ہے یہ سحرالبیاں‬ ‫نئی طرز ہے اور نئی‬
‫زباں‬ ‫ہے‬
‫میر حسن کی گیارہ مثنویوں میں سے سب سے زیادہ شہرت ’سحرالبیان ‘ کو ملی۔ گیان چند‬
‫نے اس مثنوی کے حوالے سے لکھا ہے ‪:‬‬
‫’’مثنوی سحرالبیان کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے ہر بار یہ احساس ضرور ہوتا‬
‫ہے کہ اس کا لکھنے واال غیرمعمولی فنکار تھا۔ اس کا مشاہدہ ان جزیات کو‬
‫دیکھتا تھا جہاں عام نظریں نہیں پہنچتیں ۔الفاظ اس کے محکوم و مطیع تھے جن‬
‫سے وہ حسب خواہش کام لیتا تھا۔‘‘‬
‫(اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)309‬‬

‫اب ذرا اس مثنوی میں جذبات نگاری کی مثالیں دیکھیے جن سے اندازہ ہوجائے گا کہ میر‬
‫رچاوکیسا پختہ تھا۔ ان کی سب سے بڑی یہ خوبی نظر آتی ہے‬
‫ٔ‬ ‫حسن کی تخلیقی قوت اور ان کا فنی‬
‫کہ غیرضروری مبالغہ آرائی یا غیرضروری تشبیہوں اور استعاروں سے کام نہیں لیا ہے۔ میر‬
‫حسن کی سب سے بڑی طاقت ہے جذبات و احساسات کی فطری عکّاسی۔ دو تین مثالیں مختلف‬
‫مقامات سے دیکھیے۔‬
‫بدرمنیر کی خستہ حالی‪:‬‬
‫درختوں میں جا جا کے‬ ‫دوانی سی ہر سمت‬
‫لگی‬ ‫گرنے‬ ‫لگی‬ ‫پھرنے‬
‫بہانے سے جا جا کے‬ ‫خفا زندگانی سے ہونے‬
‫لگی‬ ‫سونے‬ ‫لگی‬
‫نہ کھانا نہ پینا نہ لب‬ ‫نہ اگال سا ہنسنا نہ وہ‬
‫کھولنا‬ ‫بولنا‬
‫بے نظیر اور بدرمنیر کا جب وصل ہوتا ہے‪ ،‬اس کے بعد‪:‬‬
‫گئے بیٹھ مسند پہ‬ ‫نشے سے وہ لذت کے‬
‫ہو‬ ‫خاموش‬ ‫ہو‬ ‫ہوش‬ ‫بے‬
‫جذبات ہوں یا مناظر قدرت یا پھر تہذیب و تمدن کی عکّاسی‪ ،‬اس کی پیش کش پر میر حسن‬
‫کو پور ی قدرت حاصل تھی۔ میر حسن نے لکھنوی شہزادوں اور وہاں کے درباروں اور محلوں‬
‫کے رسوم و آداب کی تصویرکشی بھی خوب کی ہے۔ بے نظیر کے جشن والدت کا موقع ہو یا‬
‫شہزادہ کی شادی میں رقّاصہ کی مرقع نگاری‪ ،‬میر حسن کی شاعری اپنا خاص رنگ دکھاتی‬
‫ہے۔ چند اشعار دیکھیے‪:‬‬
‫چبا پان اور رنگ‬ ‫کھڑے ہوکے دو گھونٹ حقّے‬
‫دے‬ ‫کو‬ ‫ہونٹوں‬ ‫لے‬ ‫کے‬
‫نئے سر سے انگیا کو‬ ‫الٹ آستیں اور مہری کا چاک‬
‫ٹھاک‬ ‫ٹھیک‬ ‫کر‬
‫یکایک وہ صف چیر آنا‬ ‫دوپٹے کو سر پر الٹ اور‬
‫نکل‬ ‫سنبھل‬
‫پاوں میں اپنے سر‬
‫پہن ٔ‬ ‫گھنگھرووں کو‬
‫ٔ‬ ‫پکڑ کان اور‬
‫چ ُھوا‬ ‫سے‬ ‫اٹھا‬
‫‪----‬‬
‫کو‬ ‫ہاتھیوں‬ ‫کوئی‬ ‫کوئی دوڑ گھوڑوں کو النے‬
‫لگا‬ ‫بٹھانے‬ ‫لگا‬
‫پیادوں کی رکھ اپنے‬ ‫کوئی پالکی میں چال ہو سوار‬
‫قطار‬ ‫آگے‬
‫سواروں کے گھوڑے‬ ‫سپر اور قبضے کھڑکنے‬
‫لگے‬ ‫بھڑکنے‬ ‫لگے‬
‫اس طرح اور بھی بہت سے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں جن سے اودھ کی تہذیبی زندگی‬
‫سامنے آتی ہے۔‬
‫مثنوی میں منظرنگاری کی اہمیت سے بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ میرحسن نے اپنی مثنویوں‬
‫میں بھی اور بالخصوص ‘سحرالبیان’ میں بڑی ہی خوبصورت منظرنگاری کی ہے۔ کہیں کہیں‬
‫مصنوعی انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع کم آئے ہیں۔ یہ اشعار مالحظہ کیجیے اور‬
‫منظرنگاری کی داد دیجیے‪:‬‬
‫اسی اپنے عالم میں منہ‬ ‫ب نہر پر جھومنا‬
‫گلوں کا ل ِ‬
‫چومنا‬
‫وہ دھانوں کی سبزی وہ‬ ‫چھاوں اور‬
‫ٔ‬ ‫درختوں کی کچھ‬
‫روپ‬ ‫کا‬ ‫سرسوں‬ ‫دھوپ‬ ‫وہ‬ ‫کچھ‬
‫‪----‬‬
‫وہ جاڑے کی آمد وہ ٹھنڈی‬ ‫وہ چھٹکی ہوئی چاندنی جا‬
‫ہوا‬ ‫جا‬ ‫بہ‬
‫اگا نور سے چاند تاروں کا‬ ‫وہ اُجال سا میداں چمکتی‬
‫کھیت‬ ‫ریت‬ ‫سی‬
‫گرے جیسے چھلنی سے‬ ‫درختوں کے سائے سے مہ‬
‫چھن چھن کے نور‬ ‫ظہور‬ ‫کا‬
‫میر حسن کی منظرکشی کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’ہر منظر کی اپنی ڈرامائی کیفیت ہے۔ رومانیت اور فینتاسی سے فنکار کے ذہن‬
‫کی زرخیزی کی پہچان ہوتی ہے۔ ان مناظر میں افسانوی کردار رنگارنگ تجربات‬
‫کے ساتھ آئے ہیں۔ مناظر کی موزونیت اور تازگی متاثر کرتی ہے۔‘‘ (کالسیکی‬
‫مثنویوں کی جمالیات‪ ،2008 :‬ص ‪)78‬‬
‫یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شکیل الرحمن کی مناظر سے مراد اس مثنوی کے‬
‫ابواب ہیں۔ جیسے داستان تولد ہونے کی شاہزادہ بے نظیر کے‪ ،‬داستان پرستان میں لے جانے کی‪،‬‬
‫داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں‪ ،‬وغیرہ۔ یہ ابواب اگر الگ الگ مناظر پیش کرتے ہوئے ایک‬
‫وحدت کی تشکیل کرتے ہیں تو یہ تخلیق کار کی بڑی کامیابی ہے۔‬
‫کردارنگاری کے حوالے سے اگر غور کریں تو شہزادہ بے نظیر اور بدرمنیر (ہیروئن) سے‬
‫زیادہ فع ال اور فطری کردار نجم النسا کا ہے جو وفا و شعار ہے اور جنسی جذبات سے مغلوب نہیں‬
‫ہوتی۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ میر حسن کا اسلوب اور ذہن صاف ‪ ،‬رواں اور شُستہ‬
‫ہے۔‬
‫شمالی ہند میں دیاشنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کوبہت شہرت حاصل رہی۔ گلزار نسیم‬
‫‪ 1844‬میں شائع ہوئی۔ نسیم نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اس مثنوی کا قصہ نہال چند‬
‫الہوری (فورٹ ولیم کالج والے) کی نثری کہانی ‘مذہب عشق’ سے لیا ہے۔مذہب عشق عزت ہللا کے‬
‫فارسی نثری قصے سے ماخوذ ہے۔ یہاں اس مثنوی کا قصہ بیان کرنا ضروری نہیں۔ اس کی زبان‬
‫اور دوسرے لوازم شعری اور تخلیقی فنکاری سےبحث کی جائے گی۔‬
‫اگر زبان کے حسن اور مرصع سازی کے لحاظ سے غور کیا جائے تو اس میں کاریگری‪،‬‬
‫بندش کی ُچستی‪ ،‬پُرشکوہ الفاط اور تشبیہات و استعارات کی کارفرمائی خوب دیکھی جاتی ہے۔‬
‫اسی لحاظ سے ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’یہ مثنوی مرصع سازی کی ایسی مثال ہے جس پر کوئی دوسری مثنوی فوقیت‬
‫نہیں رکھتی۔ یہ التزام رکھا گیا ہے کہ حتی االمکان ہر شعر میں رعایت لفظی یا‬
‫ضلع ُجگت ہو۔‘‘‬
‫(اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)465‬‬
‫بندش الفاظ کے حوالے سے آتش لکھنوی کا یہ شعر بہت مشہور ہے‪:‬‬

‫شاعری بھی کام ہے آتش‬ ‫بندش الفاظ َجڑنے سے نگوں‬


‫ِ‬
‫کا‬ ‫ساز‬ ‫صع‬
‫مر ّ‬ ‫نہیں‬ ‫کم‬ ‫کے‬
‫بندش الفاظ سے مراد ہے لفظوں کو نگینے کی طرح جڑنا اور یہ کام‬
‫ِ‬ ‫یعنی اصل شاعری میں‬
‫نسیم نے اپنی اس مثنوی میں کرکے دکھایا ہے۔ حاالں کہ اس خارجی بندش اور غیرضروری تشبیہ‬
‫و استعارہ سے کبھی کبھی شاعری بوجھل بھی ہوتی ہے۔ نسیم نے فنّی مہارت کے سبب شاعری‬
‫کو بوجھل یا مجروح ہونے سے بچا لیا ہے۔ رعایت لفظی اور لکھنوی زبان بالخصوص لکھنو کے‬
‫روزمرہ اور ضرب االمثال‬
‫ّ‬ ‫روزمرہ کو بخوبی نبھایا ہے۔ ساتھ ہی ایسے اشعار بھی کہے ہیں جو‬
‫ّ‬
‫کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ یہ اشعار دیکھیے‪:‬‬
‫جادو وہ جو سر چڑھ‬ ‫کیا لطف جو غیر پردہ‬
‫بولے‬ ‫کے‬ ‫کھولے‬
‫مٹھی میں ہوا کا تھامنا‬ ‫انسان و پَری کا سامنا‬
‫کیا‬ ‫کیا‬
‫کاٹو تو لہو نہیں بدن‬ ‫دونوں کے رہی نہ جان‬
‫میں‬ ‫میں‬ ‫تن‬
‫چل دور ہو میرے‬ ‫صہ تھامنے‬
‫تھمتا نہیں غ ّ‬
‫سے‬ ‫سامنے‬ ‫سے‬
‫دراصل تشبیہ اور استعارے کے برمحل استعمال سے اس مثنوی کا حسن دوباال ہوگیا ہے۔‬
‫نسیم نے اپنی تخلیقی ہنرمندی اور فنی ہنرمندی سے تشبیہوں اور استعاروں کو بڑی کامیابی‬
‫کے ساتھ برتا ہے۔ اگر نسیم کو فن عروض و بالغت اور زبان کی باریکیوں پر دسترس نہ ہوتی‬
‫تو پھر ان کے استعمال سے پیوندکاری کے نمونے ہمارے سامنے ا ٓتے۔ یہ چند اشعار مالحظہ‬
‫کیجیے اور نسیم کی فنی ہنرمندی کی داد دیجیے‪:‬‬
‫بوٹا سا بڑھی وہ سرو‬ ‫دن دن اُسے ہوگیا قیامت‬
‫قامت‬
‫باتیں کرتی‪ ،‬تو پھول‬ ‫سرو‬
‫چلتی تو زمیں میں َ‬
‫جھڑتے‬ ‫گڑتے‬
‫اٹّھی نکہت سی فرش‬ ‫جاگی مرغ سحر کے ُ‬
‫غل‬
‫سے‬ ‫ُگل‬ ‫سے‬
‫رعایت لفظی کا یہ خوبصورت شعر‪:‬‬
‫زباں‬ ‫نے‬ ‫سوسن‬ ‫َ‬ ‫نرگس نے نگاہ بازیاں‬
‫کیں‬ ‫درازیاں‬ ‫کیں‬
‫اس مثنوی میں جذبات نگاری ہو یا واقعہ نگاری یا پھر مکالمہ نگاری‪ ،‬سب کا دار و مدار‬
‫زبان کے تخلیقی استعمال اور شاعر کی فنّی ہنرمندی پر ہے۔ اس چھوٹی بحر میں مکالمہ اور وہ‬
‫بھی جس میں تشنگی کے بجائے موضوع کی پوری ترسیل ہوتی ہو‪ ،‬نسیم کا کمال فن ہے۔ یہ اشعار‬
‫دیکھیے‪:‬‬
‫پوچھا کہ طلب۔ کہا‬ ‫پوچھا کہ سبب۔ کہا کہ‬
‫قناعت‬ ‫قسمت‬
‫بکاولی تاج الملوک کو بلوا کر کہتی ہے‪:‬‬
‫ٔ‬
‫کیوں جی تمھیں لے‬ ‫بولی وہ پری بصد تامل‬
‫ُگل‬ ‫تھے‬ ‫گئے‬
‫میری طرف اک نظر تو‬ ‫کہا کہتی ہوں میں اِدھر‬
‫دیکھو‬ ‫دیکھو‬ ‫تو‬
‫سزا‬ ‫فرمائیے کیا‬ ‫ہے یا نہیں یہ خطا‬
‫تمھاری‬ ‫تمھاری‬
‫طولی حاصل ہے۔ ایسے مناظر اور مواقع کی‬
‫ٰ‬ ‫انسانی جذبات کی پیش کش میں بھی نسیم کو ی ِد‬
‫بکاولی کی ماں شہزادے‬
‫کمی نہیں‪ ،‬لیکن ایک ایسا منظر ہے جہاں جذبات شدید ہوجاتے ہیں۔ جب ٔ‬
‫بکاولی کو ہم بستر دیکھتی ہے تو فطری طور پر وہ غصے اور جذبات سے مغلوب‬ ‫اور اپنی بیٹی ٔ‬
‫ہوجاتی ہے‪:‬‬
‫ّ‬
‫جھال کے کہا کہ خام‬ ‫بیٹی کی طرف کیا نظارہ‬
‫پارہ‬
‫بہار باغ تونے‬
‫ِ‬ ‫لٹوائی‬ ‫حرمت میں لگادیا داغ‬
‫تونے‬
‫چل دور ہو میرے‬ ‫صہ تھامنے‬
‫تھمتا نہیں غ ّ‬
‫سے‬ ‫سامنے‬ ‫سے‬
‫اسی طرح نسیم نے واقعہ نگاری اور مرقع کشی کی بھی خوبصورت مثالیں پیش کی ہیں۔ یہ‬
‫اشعار دیکھیے کہ تاج الملوک نے ان پر یوں کی پوشاکیں چھپا دی ہیں جو نہا رہی ہیں۔ وہ اپنے‬
‫کپڑے لینے کچھ اس انداز میں آتی ہیں‪:‬‬
‫کے قدم‬ ‫رک رک‬ ‫ج ُھک ج ُھک کے بدن‬
‫آئیں‬ ‫بڑھاتی‬ ‫آئیں‬ ‫چراتی‬
‫چمکائی کسی نے تیغ‬ ‫دکھالئی کسی نے چش ِم‬
‫ابرو‬ ‫جادو‬
‫بکاولی نہ‬
‫ٔ‬ ‫ہم کو بھی‬ ‫ج ُھنجھال کے کہا کہ ال ٔو‪،‬‬
‫جانو‬ ‫مانو‬
‫جہاں تک قدرتی مناظر کی بات ہے‪ ،‬اس مثنوی میں اس کے نمونے نہیں ہیں‪ّ ،‬اال ماشاء ہللا۔‬
‫بکاولی دونوں کو ذہین اور فعّال دکھایا ہے۔‬
‫کردار نگاری میں نسیم نے البتہ تاج الملوک اور ٔ‬
‫آخر میں اس مثنوی کی خوبی کے حوالے سے چکبست کی یہ رائے مالحظہ کرلیجیے‪:‬‬
‫’’ گلزار نسیم کو جو مقبولیت عام حاصل ہوئی حیرت انگیز ہے۔ لیکن اگر اس کی‬
‫خوبیوں کا اندازہ کیا جائے تو یہ بے انتہا شہرت بھی اس کے مرتبے سے کم‬
‫ہے۔ اردو ہی نہیں اکثر زبانوں میں اس پائے کی نظمیں کم ملیں گی۔‘‘‬
‫(بحوالہ‪ :‬اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬از گیان چند جین‪ ،‬ص ‪)470‬‬
‫شمالی ہند میں مثنوی نگاری کی مستحکم روایت کی ایک اہم کڑی مرزا شوق ہیں۔ انھوں نے‬
‫تین مشہور مثنویاں تخلیق کی ہیں۔ فریب عشق‪ ،‬بہار عشق اور زہر عشق۔ کہیں کہیں ’لذّت عشق‬
‫‘ کا ذکر بھی ملتا ہے جسے رشید حسن خاں نے غلط بتایا ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کی بنیاد‬
‫تسامح پر ہے۔‬
‫شوق کی مثنوی’زہرعشق‘ کی ہیروئن جب چھت پر ہوتی ہے تو اپنی سہیلیوں کو نیچے بھیج‬
‫دیتی ہے پھر اس کے عشق کی کہانی شروع ہوتی ہے‪ ،‬حاالں کہ ہیرو ہیروئن ایک دوسرے سے‬
‫بہت واقف نہیں ہوتے۔ پھر بھی ایک دوسرے سے بام پر نہ آنے کی شکایت اور پھر اس ضمن میں‬
‫صفائی پیش کی جاتی ہے‪:‬‬
‫بام پر آ ذرا خدا کے‬ ‫شکل دکھال دے کبریا‬
‫لیے‬ ‫لیے‬ ‫کے‬
‫ہیرو دیدار سے ناامید ہوکر کہتا ہے‪:‬‬
‫بام پر دن میں آتا سو‬ ‫پاتا طاقت جو طالب دیدار‬
‫بار‬ ‫سو‬
‫ج ب ہیروئن کو اس کے گھر والے بنارس بھیج دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہیروئن (مہ جبین)‬
‫کہتی ہے‪:‬‬
‫بھیجتے ہیں مجھے‬ ‫مشورے ہورہے ہیں‬
‫میں‬ ‫بنارس‬ ‫میں‬ ‫آپس‬
‫موت بہتر ہے ایسے‬ ‫طعنے سنتی ہوں دو‬
‫سے‬ ‫جینے‬ ‫سے‬ ‫مہینے‬
‫مہ جبیں ہیروئن عاشق کو یہ بھی سمجھاتی ہے کہ میرے مرنے پر مجھے دیکھنے مت آنا‬
‫اور اگرآنا تو میرے جنازے کو ہاتھ مت لگانا ورنہ لوگ حقیقت تاڑ لیں گے‪:‬‬
‫یوں نہ دوڑے ہوئے‬ ‫میرے مرنے کی جب‬
‫آنا‬ ‫چلے‬ ‫پانا‬ ‫خبر‬
‫رکھنا اس وقت تم وہاں‬ ‫جمع ہولیں سب اقربا‬
‫قدم‬ ‫پہ‬ ‫دم‬ ‫جس‬
‫ساتھ غیروں کی طرح‬ ‫اشک آنکھوں سے مت‬
‫گا‬ ‫جائیے‬ ‫گا‬ ‫بہائیے‬
‫سید عقیل رضوی نے اعتراض کیا ہے کہ اس قدر راز رکھنے کے بعد شوق آخر میں ہیروئن‬
‫کی زبانی یہ بھی عاشق کو پیغام دلواتے ہیں کہ مرنے کے بعد میری قبر پر فاتحہ پڑھنے ضرور‬
‫آئیے گا‪:‬‬
‫فاتحہ سے نہ ہاتھ‬ ‫میرے مرقد پہ روز آنا‬
‫تم‬ ‫اٹھانا‬ ‫تم‬
‫پڑھنا قرآن میری تربت‬ ‫اگر آجائے کچھ طبیعت‬
‫پر‬ ‫پر‬
‫سید عقیل رضوی کے بقول‪:‬‬
‫’’ظاہر ہے کہ کسی قبر پر قرآن پڑھنا‪ ،‬روز جاکر فاتحہ پڑھنا غیرآدمی کا کام‬
‫نہیں۔ یہ صرف قریبی عزیز یا ماں باپ ہی کرسکتے ہیں۔‘‘ (اردو مثنوی کا ارتقا‬
‫شمالی ہندمیں‪ ،‬ص ‪)237‬‬
‫گیان چند جین نے شوق کی مثنویوں کے سلسلے میں لکھا ہے کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں‬
‫کہ شوق نے کسی ایک شاعر سے متاثر ہوکر یہ مثنویاں لکھیں‪ ،‬بلکہ اس نے میر‪ ،‬میراثر‪ ،‬مومن‬
‫سب کے شعلہ سے اپنا چراغ روشن کیا۔‬
‫(اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)501‬‬
‫اپنی اِس بات کی توثیق کے لیے جین صاحب نے سب کے ایک دوسرے سے مماثل اشعار‬
‫بھی پیش کیے ہیں۔ یہاں اس کی تفصیل پیش نہیں کی جاسکتی۔ شوق کی مثنوی ‘زہرعشق’ میں‬
‫جذبات کی پیش کش میں پختگی خوب ملتی ہے۔ ‘بہار عشق’ اپنے طرز ادا اور اسلوب کے سبب‬
‫زیادہ شہرت رکھتی ہے۔ ‘فریب عشق’ چھوٹی مثنوی ہے جبکہ ‘بہار عشق’ بقول گیان چند جین‬
‫‘فریب عشق’ ہی کا نقش ثانی ہے۔‬
‫شمالی ہند میں مثنوی نگاروں کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہاں اگر گنجائش ہوتی تو میر اثر‬
‫اور مومن کی مثنویوں کا ذکر بھی کیا جاتا۔ اسی طرح جدید مثنویوں میں محمد حسین آزاد‪ ،‬حالی‬
‫اور شبلی کی ان نظموں کا ذکر بھی کیا جاتا جو کہ مثنوی کی ہیئت میں کہی گئی تھیں۔ عالمہ اقبال‬
‫کی نظم ساقی نامہ‪ ،‬سردار جعفری کی جمہور‪ ،‬کیفی اعظمی کی خانہ جنگی وغیرہ مثنویاں بھی‬
‫مطالعہ کرنے کی متقاضی ہیں۔ کسی اور سبق میں ممکن ہے کہ یہ سب زیربحث آسکیں ۔‬
‫خالصہ‪:‬‬
‫جہاں تک شمالی ہند میں مثنوی نگاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ یہاں اس کی‬
‫روایت بہت ہی مستحکم اور توانا رہی ہے۔ اس حوالے سے مشہور محقق ڈاکٹر گیان چند جین نے‬
‫ایک نہایت ہی مربوط و مبسوط کام کیا تھا جس پر انھیں ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی تھی۔ اگر‬
‫پہلے باضابطہ مثنوی نگار کا نام ہوسکتا ہے تو وہ محمد افضل پانی پتی کا ہوسکتا ہے۔ افضل کی‬
‫مثنوی بکٹ کہانی مشہور ہے جو کم و بیش تین سو اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی ایک بارہ ماسہ‬
‫ہے۔ افضل کی مثنوی میں ہندی‪ ،‬فارسی‪ ،‬ہریانوی‪ ،‬دکنی زبانوں کا ایک مخلوط رنگ نظر آتا ہے۔‬
‫کچھ اشعار دیکھیے‪:‬‬
‫بھئی ہوں عشق کے غم‬ ‫سنو سکھیو بکٹ میری‬
‫دیوانی‬ ‫سوں‬ ‫کہانی‬
‫بَرہ کے درد سوں سینہ‬ ‫نہ مجھ کو بھوک دن‬
‫براتا‬ ‫راتا‬ ‫نیند‬ ‫نے‬
‫مرم بایکدگر سنتے و کہتے‬ ‫چوشد مدت پیا کے‬
‫رہتے‬ ‫سنگ‬
‫مرے گھر ناریاں سب آوتی‬ ‫چرا بینم کہ منگل گاوتی‬
‫ہیں‬ ‫ہیں‬
‫محمد افضل کے بعد کے زمانے میں شاہ حاتم‪ ،‬مبارک آبرو اور دوسرے کئی شعرا ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫فائز دہلوی نے جو مثنویاں تحریر کی ہیں‪ ،‬وہ الئق توجہ ہیں۔ گرچہ یہ مثنویاں مختصر ہیں لیکن‬
‫پُراثر اور دل چسپ ہیں۔‬
‫فائزے مناجات‪ ،‬تعریف پنگھٹ‪ ،‬تعریف ہولی‪ ،‬تعریف نہان نگمبود‪ ،‬بیان میلہ بہتہ‪ ،‬تعریف‬
‫تنبولن‪ ،‬در وصف بھنگیڑن‪ ،‬درگاہ قطب‪ ،‬رقعہ )‪ ،(1‬رقعہ )‪ (2‬جیسی مختصر مثنویاں کہی ہیں‪:‬‬
‫سروقد ہیں بوستاں کے‬ ‫آج ہے روز بسنت اے‬
‫درمیاں‬ ‫دوستاں‬
‫کرتے ہیں صد برگ‬ ‫سب کے تن میں ہے‬
‫سوں سب ہم سری‬ ‫کیسری‬ ‫لباس‬
‫(تعریف ہولی)‬
‫میر تقی میر نے بھی کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‪ ،‬ان کی شاعری‬
‫میں ہمیشہ ایک طرح کی یاسیت نظر آتی ہے۔ لہٰ ذا ان کی مثنویوں میں بھی اس کا رنگ دکھائی‬
‫دیتا ہے۔‬
‫میر کی مثنویوں میں ‘دریائے عشق’ کو زیادہ شہرت ملی۔ اس کے شروع میں میر نے عشق‬
‫کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس کی تفصیل تیس سے زائد اشعار تک پہنچتی ہے۔ عشق جب غالب‬
‫ت حال کچھ یوں ہوتی ہے۔ یہ اشعار دیکھیے‪:‬‬
‫آتا ہے تو صور ِ‬
‫ہر جگہ اس کی اک نئی‬ ‫عشق ہے تازہ کار تازہ‬
‫چال‬ ‫ہے‬ ‫خیال‬
‫کہیں سر میں جنون‬ ‫کہیں آنکھوں سے خون‬
‫رہا‬ ‫ہوکے‬ ‫بہا‬ ‫ہوکے‬
‫‘شعلہ شوق’ اور ‘اعجاز عشق’ میں بھی میر نے جذبات عشق کو خوبصورت انداز میں منظوم‬
‫کیا ہے۔‬
‫میر اور سودا میں چشمک بھی رہا کرتی تھی۔ لہٰ ذا اس عہد میں ہجویات کا چلن بھی بہت تھا۔‬
‫میر کی کئی مثنویاں ملتی ہیں جن میں ہجو کی گئی ہے۔ جیسے اژدرنامہ‪ ،‬تنبیہ الجمال‪ ،‬مذمت آئینہ‬
‫دار‪ ،‬ہجونااہلی مس ّٰمی بہ زبان زد عالم (در ہجو محمد بقا) وغیرہ۔ اس کے عالوہ اپنی کَس مپرسی‬
‫اور عسرت کی ہجو بھی کہی ہے۔ اپنے گھر کا حال بھی مثنوی میں بیان کیا۔‬
‫مثنوی ‘سحرالبیان’ از میر حسن ‪ 1784‬میں لکھی گئی۔ یہ آصف الدولہ کا عہد تھا۔ اس لیے اس میں‬
‫شاہی محلوں اور درباروں کے رنگ‪ ،‬رونقیں اور رنگینیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ مثنوی جس انداز اور‬
‫اسلوب کے ساتھ منظرعام پر آئی‪ ،‬اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر حسن نے اس کو کس طرح سنوارا تھا‬
‫اور اپنی تخلیقی اور فنی قوت سے کیا خوبصورت شعری فن پارہ اردو ادب کو دیا۔‬
‫اب ذرا اس مثنوی میں جذبات نگاری کی مثالیں دیکھیے جن سے اندازہ ہوجائے گا کہ میر‬
‫رچاوکیسا پختہ تھا۔ میر حسن کی سب سے بڑی طاقت ہے‬ ‫ٔ‬ ‫حسن کی تخلیقی قوت اور ان کا فنی‬
‫جذبات و احساسات کی فطری عکّاسی۔ دو تین مثالیں مختلف مقامات سے دیکھیے۔‬
‫بدرمنیر کی خستہ حالی‪:‬‬
‫درختوں میں جا جا کے‬ ‫دوانی سی ہر سمت‬
‫لگی‬ ‫گرنے‬ ‫لگی‬ ‫پھرنے‬
‫بہانے سے جا جا کے‬ ‫خفا زندگانی سے ہونے‬
‫لگی‬ ‫سونے‬ ‫لگی‬
‫نہ کھانا نہ پینا نہ لب‬ ‫نہ اگال سا ہنسنا نہ وہ‬
‫کھولنا‬ ‫بولنا‬
‫بے نظیر اور بدرمنیر کا جب وصل ہوتا ہے‪ ،‬اس کے بعد‪:‬‬
‫گئے بیٹھ مسند پہ‬ ‫نشے سے وہ لذت کے‬
‫ہو‬ ‫خاموش‬ ‫ہو‬ ‫ہوش‬ ‫بے‬
‫جذبات ہوں یا مناظر قدرت یا پھر تہذیب و تمدن کی عکّاسی‪ ،‬اس کی پیش کش پر میر حسن‬
‫کو پوری قدرت حاصل تھی۔ میر حسن نے لک ھنوی شہزادوں اور وہاں کے درباروں اور محلوں‬
‫کے رسوم و آداب کی تصویرکشی بھی خوب کی ہے۔‬
‫مثنوی میں منظرنگاری کی اہمیت سے بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ میرحسن نے اپنی مثنویوں میں بھی‬
‫اور بالخصوص ‘سحرالبیان’ میں بڑی ہی خوبصورت منظرنگاری کی ہے۔ شمالی ہند میں دیاشنکر‬
‫نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کوبہت شہرت حاصل رہی۔‬
‫اگر زبان کے حسن اور مرصع سازی کے لحاظ سے غور کیا جائے تو اس میں کاریگری‪،‬‬
‫بندش کی ُچستی‪ ،‬پُرشکوہ الفاط اور تشبیہات و استعارات کی کارفرمائی خوب دیکھی جاتی ہے۔‬
‫روزمرہ کو بخوبی نبھایا ہے۔ ساتھ ہی‬
‫ّ‬ ‫رعایت لفظی اور لکھنوی زبان بالخصوص لکھنو کے‬
‫روزمرہ اور ضرب االمثال کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ یہ اشعار‬
‫ّ‬ ‫ایسے اشعار بھی کہے ہیں جو‬
‫دیکھیے‪:‬‬
‫جادو وہ جو سر چڑھ‬ ‫کیا لطف جو غیر پردہ‬
‫بولے‬ ‫کے‬ ‫کھولے‬
‫کاٹو تو لہو نہیں بدن‬ ‫دونوں کے رہی نہ جان‬
‫میں‬ ‫میں‬ ‫تن‬
‫اس مثنوی میں جذبات نگاری ہو یا واقعہ نگاری یا پھر مکالمہ نگاری‪ ،‬سب کا دار و مدار‬
‫زبان کے تخلیقی استعمال اور شاعر کی فنّی ہنرمندی پر ہے۔ اس چھوٹی بحر میں مکالمہ اور وہ‬
‫بھی جس میں تشنگی کے بجائے موضوع کی پوری ترسیل ہوتی ہو‪ ،‬نسیم کا کمال فن ہے۔ یہ اشعار‬
‫دیکھیے‪:‬‬
‫پوچھا کہ طلب۔ کہا‬ ‫پوچھا کہ سبب۔ کہا کہ‬
‫قناعت‬ ‫قسمت‬
‫طولی حاصل ہے۔ ایسے مناظر اور مواقع کی‬
‫ٰ‬ ‫انسانی جذبات کی پیش کش میں بھی نسیم کو ی ِد‬
‫بکاولی کی ماں شہزادے‬
‫کمی نہیں‪ ،‬لیکن ایک ایسا منظر ہے جہاں جذبات شدید ہوجاتے ہیں۔ جب ٔ‬
‫بکاولی کو ہم بستر دیکھتی ہے تو فطری طور پر وہ غصے اور جذبات سے مغلوب‬ ‫اور اپنی بیٹی ٔ‬
‫ہوجاتی ہے‪:‬‬
‫ّ‬
‫جھال کے کہا کہ خام‬ ‫بیٹی کی طرف کیا نظارہ‬
‫پارہ‬
‫بہار باغ تونے‬
‫ِ‬ ‫لٹوائی‬ ‫حرمت میں لگادیا داغ‬
‫تونے‬
‫چل دور ہو میرے‬ ‫صہ تھامنے‬
‫تھمتا نہیں غ ّ‬
‫سے‬ ‫سامنے‬ ‫سے‬
‫اسی طرح نسیم نے واقعہ نگاری اور مرقع کشی کی بھی خوبصورت مثالیں پیش کی ہیں۔‬
‫شمالی ہند میں مثنوی نگاری کی مستحکم روایت کی ایک اہم کڑی مرزا شوق ہیں۔ انھوں نے‬
‫تین مشہور مثنویاں تخلیق کی ہیں۔ فریب عشق‪ ،‬بہار عشق اور زہر عشق۔ کہیں کہیں ‘لذّت عشق’‬
‫کا ذکر بھی ملتا ہے جسے رشید حسن خاں نے غلط بتایا ہے۔‬
‫گیان چند جین نے شوق کی مثنویوں کے سلسلے میں لکھا ہے کہ یہ خیال کرنا صحیح نہیں‬
‫کہ شوق نے کسی ایک شاعر سے متاثر ہوکر یہ مثنویاں لکھیں بلکہ اس نے میر‪ ،‬میراثر‪ ،‬مومن‬
‫سب کے شعلہ سے اپنا چراغ روشن کیا۔ (اردو مثنوی شمالی ہند میں‪ ،‬ص ‪)501‬‬
‫شوق کی مثنوی ‘زہرعشق’ میں جذبات کی پیش کش میں پختگی خوب ملتی ہے۔ ‘بہار عشق’‬
‫اپنے طرز ادا اور اسلوب کے سبب زیادہ شہرت رکھتی ہے۔ ‘فریب عشق’ چھوٹی مثنوی ہے جبکہ‬
‫‘بہار عشق’ بقول گیان چند جین ‘فریب عشق’ ہی کا نقش ثانی ہے۔‬
‫یہاں اگر گنجائش ہوتی تو میر اثر اور مومن کی مثنویوں کا ذکر بھی کیا جاتا۔ اسی طرح جدید‬
‫مثنویوں میں محمد حسین آزاد‪ ،‬حالی اور شبلی کی ان نظموں کا ذکر بھی ہوسکتا تھا جو کہ مثنوی‬
‫کی ہیئت میں کہی گئی تھیں‬

You might also like