Professional Documents
Culture Documents
Module: 30
Paper: Masnavi Nigari
Topic: Urdu Masnavi Shumali Hind Main
Content writer: Professor Mula Bakhsh
Aligarah Muslim University, UP
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi
(Introduction)تمہید/تعارف
اردو میں مثنوی نگاری کی ابتدا بہت پہلے ہوچکی تھی۔ مثنوی کی طوالت زیربحث کم آیا
کرتی تھی اور مثنوی کی شناخت ہیئت کے اعتبار سے ہوا کرتی تھی۔ لہٰ ذا کوئی بھی منظوم ادب
پارہ اگر دو دو مصرعوں کے ہم قافیہ شعر کے ساتھ ارتقا اور پھر اختتام تک پہنچتی تھی تو اسے
مثنوی کے زمرے میں رکھا جاتا تھا۔
جہاں تک شمالی ہند میں مثنوی نگاری کا تعلق ہے تو اس ضمن میں عرض ہے کہ یہاں اس
کی روایت بہت ہی مستحکم اور توانا رہی ہے۔ اس حوالے سے مشہور محقق ڈاکٹر گیان چند جین
نے ایک نہایت ہی مربوط و مبسوط کام کیا تھا جس پر انھیں ڈی۔ لٹ کی ڈگری تفویض کی گئی
تھی۔ لہٰ ذا یہاں ضروری ہوجاتا ہے کہ شمالی ہند کی اس قدیم روایت کا جائزہ پیش کیا جائے۔
سبق کا مقصد ()Learning Outcome
یہاں اس سبق میں یہ دکھانے کی کوشش کی جائے گی کہ شمالی ہند کی مثنویوں کے
محرکات ،موضوعات اور اسالیب کیا رہے ہیں۔ اس سبق سے اس بات کا اندازہ بھی ہوسکے گا کہ
اس قدیم روایت میں وہ کون سے اہم شعرا ہوئے ہیں جنھوں نے مثنوی نگاری کو فروغ بخشا۔
یہاں اس کی گنجائش کم ہوگی کہ تمام اہم مثنویوں کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا جائے ،کیوں کہ اس
کے لیے ایک سبق ناکافی ہوگا۔ البتہ اس سبق کایہ مقصد ضرور ہے کہ شمالی ہند میں مثنوی کی
روایت اور ارتقا پر روشنی پڑسکے۔
ذیلی عنوان) (1شمالی ہند میں مثنوی نگاری
دراصل اردو شاعری میں قدامت کے لحاظ سے دکن کو عام طور پر اولیت حاصل رہی ہے۔
مثنوی کدم راوپدم راو ،پھول بن ،طوطی نامہ ،چندر بدن و مہیار اور قطب مشتری وغیرہ کو دکنی
اعلی مقام حاصل رہا ہے۔ اگر شمالی ہند میں دیکھیں تو محمد افضل پانی پتی کی بکٹ
ٰ مثنویوں میں
کہانی ،جعفر زٹلی کی درصفت پیری اور طوطی نامہ وغیرہ ،شاہ حاتم کی مثنوی سراپا اور ساقی
نامہ ،سودا کی ہجو میر ضاحک ،ہجو حکیم غوث اور مثنوی دربار ٔہ زن و شوہر ،میر تقی میر کی
شعلہ عشق’ اور پھر میر حسن کی ‘سحرالبیان’ اور ‘رموزالعارفین’ ،میر اثر
‘دریائے عشق’ اور ‘ ٔ
کی ‘خواب و خیال‘ ،دیاشنکر نسیم کی ’گلزار نسیم’ ،نواب مرزا شوق کی ‘زہر عشق’‘ ،فریب
عشق’ اور ‘بہار عشق’ تک ایک بڑی کہکشاں رہی ہے۔ وہ شعرا کہ جن کے دم سے شمالی ہند
میں مثنوی کی روایت مستحکم ہوئی ان میں مذکورہ باال شعرا کے عالوہ راسخ عظیم آبادی ،نظیر
اکبرآبادی ،انشا ،جرأت ،ذوق ،مومن ،محسن کاکوری اور شوق قدوائی وغیرہ کے نام بھی لیے
جاسکتے ہیں۔ جدید مثنویوں میں اگر آزاد ،حالی اور شبلی کی نظمیں بھی پیش نظر رکھیں تو مزید
ایک فہرست بن سکتی ہے۔
ذیلی عنوان) (2اردو مثنوی شمالی ہند میں
شمالی ہند میں کئی محققوں نے فریدالدین گنج شکر ،امیر خسرو وغیرہ کو بھی مثنوی نگار
کے زمرے میں رکھا ہے جو کہ غلط ہے۔ اگر پہلے باضابطہ مثنوی نگار کا نام لیاجاسکتا ہے تو
وہ محمد افضل پانی پتی کا ہوسکتا ہے۔ افضل کی مثنوی بکٹ کہانی مشہور ہے جو کم و بیش تین
سو اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ مثنوی ایک بارہ ماسہ ہے۔ ’بارہ ماسہ‘میں ایک فراق زدہ عورت اپنے
شوہر کو یاد کرتی ہے۔ عام طور پر مار مہینوں کی منظرکشی اور بارہ مہینوں میں ایک شادی شدہ
عورت کے جو جذبات ہوسکتے ہیں ،انھیں بارہ ماسہ میں پیش کرتے ہیں۔ افضل کی مثنوی میں
ہندی ،فارسی ،ہریانوی ،دکنی زبانوں کا ایک مخلوط رنگ نظر آتا ہے۔ کچھ اشعار دیکھیے:
بھئی ہوں عشق کے غم سوں سنو سکھیو بکٹ میری
دیوانی کہانی
بَرہ کے درد سوں سینہ پراتا نہ مجھ کو بھوک دن
راتا نیند نے
مرم بایکدگر سنتے و کہتے چوشد مدت پیا کے
رہتے سنگ
مرے گھر ناریاں سب آوتی ہیں چرا بینم کہ منگل گاوتی
ہیں
محمد افضل کے بعد کے زمانے میں شاہ حاتم ،مبارک آبرو اور دوسرے کئی شعرا ہیں ،لیکن
فائز دہلوی نے جو مثنویاں تحریر کی ہیں ،وہ الئق توجہ ہیں۔ گرچہ یہ مثنویاں مختصر ہیں لیکن
پُراثر اور دل چسپ ہیں۔
فائز نے مناجات ،تعریف پنگھٹ ،تعریف ہولی ،تعریف نہان نگمبود ،بیان میلہ بہتہ ،تعریف
تنبولن ،در وصف بھنگیڑن درگاہ قطب ،رقعہ ) ،(1رقعہ ) (2جیسی مختصر مثنویاں کہی ہیں۔ تین
مثنویوں سے یہ نمونے مالحظہ کیجیے:
کریما رحم کر تو عاجزاں پر خدایا فضل کر تو بیکساں پر
مجازی پادشہ تیرا گدا ہے خدایا تو حقیقی پادشا ہے
آمرزگارا عادال، رحیما، پروردگارا قادرا، قدیما،
(مناجات)
---
سروقد ہیں بوستاں کے درمیاں آج ہے روز بسنت اے دوستاں
کرتے ہیں صد برگ سوں سب ہم سب کے تن میں ہے لباس
سری کیسری
دوڑتی ہیں ناریاں بجلی کے سار جیوں جھڑی ہر سو ہے
دھار کی پچکاری
(تعریف ہولی)
---
جیوں روپے کی تھالی میں ندی پرنمایاں ہیں سیمیں بدن
رتن ڈھلتے
خجل ان کے مکھ سے سورج کھڑے گھاٹ پر ہیں سبی سیم
چندر اور بر
(تعریف نہان نگمبود)
میر تقی میر نے بھی کئی مثنویاں لکھی ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ان کی شاعری
میں ہمیشہ ایک طرح کی یاسیت نظر آتی ہے۔ لہٰ ذا ان کی مثنویوں میں بھی اس کا رنگ دکھائی
دیتا ہے۔ مثنوی ‘خواب و خیال’ ک ے یہ اشعار مالحظہ کیجیے:
پراگندہ روزی پراگندہ زمانے نے رکھا مجھے
دل متصل
نہ پہنچی خبر مجھ کو وطن میں نہ اک صبح
کی آرام کی شام میں
داغ لگے دکھانے جالتے تھے مجھ پر جو
داغ باالئے دماغ اپنا
میر کی مثنویوں میں’ دریائے عشق ‘کو زیادہ شہرت ملی۔ اس کے شروع میں میر نے عشق
کے اوصاف بیان کیے ہیں۔ اس کی تفصیل تیس سے زائد اشعار تک پہنچتی ہے۔ عشق جب غالب
ت حال کچھ یوں ہوتی ہے:
آتا ہے تو صور ِ
ہر جگہ اس کی اک نئی عشق ہے تازہ کار تازہ
چال ہے خیال
کہیں سر میں جنون کہیں آنکھوں سے خون
رہا ہوکے بہا ہوکے
اور پھر عشق کے نتیجے میں مثنوی کا ہیرو اس طرح سامنے آتا ہے:
غرق دریائے عشق کیا ڈوبے جو یوں کہیں وہ
نکلے جانکلے
آخر آخر ڈبو دیا اس کو عشق نے آہ کھودیا اس
کو
اس عشق کا اثر جب ہیروئن نازنیں پر ہوتا ہے تو اس کا اظہار وہ یوں کرتی ہے جس میں
اضطرابی کیفیت اور اثرانگیزی ہے ،مالحظہ کیجیے:
مرغ بسمل ہے یا کہ دل دل تڑپتا ہے متصل میرا
میرا
مرے کا جی حال وحشت طبع اب تو
ہے دگرگوں ہے افزوں
جان تن کے وبال ہوتی بے دماغی کمال ہوتی
ہے ہے
آج کل میں جنون ہووے دل کوئی دم میں خون
گا گا ہووے
’شعلہ شوق ‘ اور ’اعجاز عشق ‘ میں بھی میر نے جذبات عشق کو خوبصورت انداز میں
منظوم کیا ہے۔ ایک مثنوی ’مثنوی عشقیہ ‘سے بھی موسوم ہے جس میں افغان پسر کی داستان
عشق بیان کی گئی ہے۔ اس کی داستان میں غیرفطری پن ہے جس کی ہیروئن اپنے شوہر کی موت
کے بعد ستی ہوکر بھی اپنے عاشق افغان پسر سے مل کر اُسی آگ کی طرف جاتی ہے جہاں اُسے
جالیا گیا تھا ،پھر دونوں واپس نہیں آتے۔ البتہ اس مثنوی کے شروع میں جو اشعار عشق کے
مضمون کو پیش کرتے ہیں وہ الئق توجہ اور پرکشش ہیں:
بہت خاک َمل ُمنہ پہ بہت عشق میں لوگ
ہوئے جوگی ہوئے روگی
گئے اہل مسجد سوئے کیا عشق میں ترک صوم
سومنات صالۃ و
جہاں سب ہے عشق نہ سبحہ نہ زنّار نَے کفر
اور کچھ بھی نہیں دیں و
(طاوس) اور ایک راجہ کی بیوی یعنی رانی کے عشق کی داستان بیان کی ٔ میر نے مور
صے میں غیرفطری انداز ہے۔ راجہہے۔ اسی لیے مثنوی’مورنامہ ‘ سے موسوم ہے۔ اس کے ق ّ
کے خوف سے مور کو رانی جنگل میں جانے کو کہتی ہے۔ راجہ اپنی فوج لے کر مور کو ہالک
کرنے کی غرض سے جنگل میں جاتا ہے۔ مور کی آتش عشق سے پورا جنگل جل جاتا ہے اور
جب راجہ گھر واپس آتا ہے اور جب رانی کو مور کے مرنے کی خبر ملتی ہے تو وہ بھی ستی
ہوجاتی ہے۔ گیان چند جین نے لکھا ہے:
’’ مور شوہر کا نعم البدل نہیں ہوسکتا اسی لیے کوئی سالم العقل شوہر اسے اپنا
رقیب نہ سمجھے گا۔ ایک مور کو مارنے کے لیے راجہ کا پوری فوج لے کر
جانا مضحکہ خیز ہے۔‘‘
(اردو مثنوی شمالی ہند میں ،ص )230
میر اور سودا میں چشمک بھی رہا کرتی تھی۔ لہٰ ذا اس عہد میں ہجویات کا چلن بھی بہت تھا۔
میر کی کئی مثنویاں ملتی ہیں جن میں ہجو کی گئی ہے۔ جیسے اژدرنامہ ،تنبیہ الجمال ،مذمت آئینہ
دار ،ہجونااہلی مس ّٰمی بہ زبان زد عالم (در ہجو محمد بقا) وغیرہ۔ اس کے عالوہ اپنی کَس مپرسی
اور عسرت کی ہجو بھی کہی ہے۔ اپنے گھر کا حال بھی مثنوی میں بیان کیا۔ میر کے حوالے سے
گیان چند جین کی یہ رائے اہم ہے کہ :
’’میر شمالی ہند کے چار بہترین مثنوی نگاروں میں سے ہیں۔ باقی تین میر
حسن ،نسیم اور مرزا شوق ہیں۔‘‘ (ایضاً ،ص )256
میر کے بعد آئیے اب میر حسن کی مثنوی نگاری پر غور کرتے ہیں۔
مثنوی ‘سحرالبیان’ از میر حسن 1784میں لکھی گئی۔ یہ آصف الدولہ کا عہد تھا۔ اس لیے
اس میں شاہی محلوں اور درباروں کے رنگ ،رونقیں اور رنگینیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ یہ مثنوی
جس انداز اور اسلوب کے ساتھ منظرعام پر آئی ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ میر حسن نے اس کو
کس طرح سنوارا تھا اور اپنی تخلیقی اور فنی قوت سے کیا خوبصورت شعری فن پارہ اردو ادب کو
دیا۔ اس مثنوی کی خوبی کا احساس خود مصنف کو بھی تھا ،اس لیے انھو ں نے خود بھی تعریفی
اشعار کہے:
تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے ِز بس عمر کی اس
حرف صرف میں کہانی
تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے جوانی میں جب ہوگیا
نظیر پیر میں ہوں
مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی نہیں مثنوی ہے یہ اک
پھلجھڑی
نہیں مثنوی ،ہے یہ سحرالبیاں نئی طرز ہے اور نئی
زباں ہے
میر حسن کی گیارہ مثنویوں میں سے سب سے زیادہ شہرت ’سحرالبیان ‘ کو ملی۔ گیان چند
نے اس مثنوی کے حوالے سے لکھا ہے :
’’مثنوی سحرالبیان کو جتنی مرتبہ بھی پڑھا جائے ہر بار یہ احساس ضرور ہوتا
ہے کہ اس کا لکھنے واال غیرمعمولی فنکار تھا۔ اس کا مشاہدہ ان جزیات کو
دیکھتا تھا جہاں عام نظریں نہیں پہنچتیں ۔الفاظ اس کے محکوم و مطیع تھے جن
سے وہ حسب خواہش کام لیتا تھا۔‘‘
(اردو مثنوی شمالی ہند میں ،ص )309
اب ذرا اس مثنوی میں جذبات نگاری کی مثالیں دیکھیے جن سے اندازہ ہوجائے گا کہ میر
رچاوکیسا پختہ تھا۔ ان کی سب سے بڑی یہ خوبی نظر آتی ہے
ٔ حسن کی تخلیقی قوت اور ان کا فنی
کہ غیرضروری مبالغہ آرائی یا غیرضروری تشبیہوں اور استعاروں سے کام نہیں لیا ہے۔ میر
حسن کی سب سے بڑی طاقت ہے جذبات و احساسات کی فطری عکّاسی۔ دو تین مثالیں مختلف
مقامات سے دیکھیے۔
بدرمنیر کی خستہ حالی:
درختوں میں جا جا کے دوانی سی ہر سمت
لگی گرنے لگی پھرنے
بہانے سے جا جا کے خفا زندگانی سے ہونے
لگی سونے لگی
نہ کھانا نہ پینا نہ لب نہ اگال سا ہنسنا نہ وہ
کھولنا بولنا
بے نظیر اور بدرمنیر کا جب وصل ہوتا ہے ،اس کے بعد:
گئے بیٹھ مسند پہ نشے سے وہ لذت کے
ہو خاموش ہو ہوش بے
جذبات ہوں یا مناظر قدرت یا پھر تہذیب و تمدن کی عکّاسی ،اس کی پیش کش پر میر حسن
کو پور ی قدرت حاصل تھی۔ میر حسن نے لکھنوی شہزادوں اور وہاں کے درباروں اور محلوں
کے رسوم و آداب کی تصویرکشی بھی خوب کی ہے۔ بے نظیر کے جشن والدت کا موقع ہو یا
شہزادہ کی شادی میں رقّاصہ کی مرقع نگاری ،میر حسن کی شاعری اپنا خاص رنگ دکھاتی
ہے۔ چند اشعار دیکھیے:
چبا پان اور رنگ کھڑے ہوکے دو گھونٹ حقّے
دے کو ہونٹوں لے کے
نئے سر سے انگیا کو الٹ آستیں اور مہری کا چاک
ٹھاک ٹھیک کر
یکایک وہ صف چیر آنا دوپٹے کو سر پر الٹ اور
نکل سنبھل
پاوں میں اپنے سر
پہن ٔ گھنگھرووں کو
ٔ پکڑ کان اور
چ ُھوا سے اٹھا
----
کو ہاتھیوں کوئی کوئی دوڑ گھوڑوں کو النے
لگا بٹھانے لگا
پیادوں کی رکھ اپنے کوئی پالکی میں چال ہو سوار
قطار آگے
سواروں کے گھوڑے سپر اور قبضے کھڑکنے
لگے بھڑکنے لگے
اس طرح اور بھی بہت سے اشعار پیش کیے جاسکتے ہیں جن سے اودھ کی تہذیبی زندگی
سامنے آتی ہے۔
مثنوی میں منظرنگاری کی اہمیت سے بھی انکار نہیں ہوسکتا۔ میرحسن نے اپنی مثنویوں
میں بھی اور بالخصوص ‘سحرالبیان’ میں بڑی ہی خوبصورت منظرنگاری کی ہے۔ کہیں کہیں
مصنوعی انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن ایسے مواقع کم آئے ہیں۔ یہ اشعار مالحظہ کیجیے اور
منظرنگاری کی داد دیجیے:
اسی اپنے عالم میں منہ ب نہر پر جھومنا
گلوں کا ل ِ
چومنا
وہ دھانوں کی سبزی وہ چھاوں اور
ٔ درختوں کی کچھ
روپ کا سرسوں دھوپ وہ کچھ
----
وہ جاڑے کی آمد وہ ٹھنڈی وہ چھٹکی ہوئی چاندنی جا
ہوا جا بہ
اگا نور سے چاند تاروں کا وہ اُجال سا میداں چمکتی
کھیت ریت سی
گرے جیسے چھلنی سے درختوں کے سائے سے مہ
چھن چھن کے نور ظہور کا
میر حسن کی منظرکشی کے حوالے سے ڈاکٹر شکیل الرحمن لکھتے ہیں:
’’ہر منظر کی اپنی ڈرامائی کیفیت ہے۔ رومانیت اور فینتاسی سے فنکار کے ذہن
کی زرخیزی کی پہچان ہوتی ہے۔ ان مناظر میں افسانوی کردار رنگارنگ تجربات
کے ساتھ آئے ہیں۔ مناظر کی موزونیت اور تازگی متاثر کرتی ہے۔‘‘ (کالسیکی
مثنویوں کی جمالیات ،2008 :ص )78
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ شکیل الرحمن کی مناظر سے مراد اس مثنوی کے
ابواب ہیں۔ جیسے داستان تولد ہونے کی شاہزادہ بے نظیر کے ،داستان پرستان میں لے جانے کی،
داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں ،وغیرہ۔ یہ ابواب اگر الگ الگ مناظر پیش کرتے ہوئے ایک
وحدت کی تشکیل کرتے ہیں تو یہ تخلیق کار کی بڑی کامیابی ہے۔
کردارنگاری کے حوالے سے اگر غور کریں تو شہزادہ بے نظیر اور بدرمنیر (ہیروئن) سے
زیادہ فع ال اور فطری کردار نجم النسا کا ہے جو وفا و شعار ہے اور جنسی جذبات سے مغلوب نہیں
ہوتی۔ یہاں اس کی تفصیل کی گنجائش نہیں۔ میر حسن کا اسلوب اور ذہن صاف ،رواں اور شُستہ
ہے۔
شمالی ہند میں دیاشنکر نسیم کی مثنوی گلزار نسیم کوبہت شہرت حاصل رہی۔ گلزار نسیم
1844میں شائع ہوئی۔ نسیم نے وضاحت کی ہے کہ انھوں نے اس مثنوی کا قصہ نہال چند
الہوری (فورٹ ولیم کالج والے) کی نثری کہانی ‘مذہب عشق’ سے لیا ہے۔مذہب عشق عزت ہللا کے
فارسی نثری قصے سے ماخوذ ہے۔ یہاں اس مثنوی کا قصہ بیان کرنا ضروری نہیں۔ اس کی زبان
اور دوسرے لوازم شعری اور تخلیقی فنکاری سےبحث کی جائے گی۔
اگر زبان کے حسن اور مرصع سازی کے لحاظ سے غور کیا جائے تو اس میں کاریگری،
بندش کی ُچستی ،پُرشکوہ الفاط اور تشبیہات و استعارات کی کارفرمائی خوب دیکھی جاتی ہے۔
اسی لحاظ سے ڈاکٹر گیان چند لکھتے ہیں:
’’یہ مثنوی مرصع سازی کی ایسی مثال ہے جس پر کوئی دوسری مثنوی فوقیت
نہیں رکھتی۔ یہ التزام رکھا گیا ہے کہ حتی االمکان ہر شعر میں رعایت لفظی یا
ضلع ُجگت ہو۔‘‘
(اردو مثنوی شمالی ہند میں ،ص )465
بندش الفاظ کے حوالے سے آتش لکھنوی کا یہ شعر بہت مشہور ہے: