Professional Documents
Culture Documents
یہ مرثیے کا پہال حصہ ہے اس کو قصیدے کی تشبیب کی طرح سمجھنا چاہیے یعنی چہرہ :۔
یہ کہ اس کا تعلق مضامین ِ مرثیہ سے نہیں ہوتا۔ اور اس لئے کسی موضوع کی بھی تخصیص نہیں
ہوتی۔ دبیر نے عموما ً ،بہار ،طلوع سحر ،ہیرو کی تعریف یا مجلس اعز ا کی تعریف کے لئے اس
حصے کو مخصوص کیا ہے۔ ان تمام موضوعات میں بالخصوص طلو ع سحر کو سب سے زیادہ
اہمیت حاصل ہے۔
ہے۔ زور طبیعت بہت صرف کیا حصے پر مراثی کے اس نے دبیر
خورشید کے نشان نے مٹایا نشاننشان ِ شب جب سرنگوں ہوا علم کہکشاں شب
تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنسان شب تیر شباب سے ہوئی خالی کمان شب
شب نے زرہ ستاروں کی آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
رکھدی اتار کے
جس طرح قصیدے میں تشبیب کے بعد گریز آتا ہے بالکل اسی طرح مرثیہ گریز:۔
میں چہرہ کے بعد گریز آتا ہے ۔ دبیر نے اپنے مرثیوں میں عام طورپر گریز کا استعما ل کیا ہے۔ اور
مجموعی طور پر یہ ان کی مراثی میں خاصا جاندار ہے ،اور یہاں پہنچ کر کم از کم قاری اتنا
مح سوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر بڑی کوشش کے بعد ایک موضوع سے دوسرے
موضوع کی طرف آرہا ہے۔ مثالً وہ اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے حال میں چہرے کو
مخصوص
ہیں کرتے عطا آہنگ و رنگ
مرثیے میں رخصت کا مقام اس وقت آتا ہے جب طرفدارین حسین یا اصحاب اہل رخصت :۔
میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اس موضوع کو دبیر نے جس
ِ بیت میں سے کوئی
انداز سے باندھا ہے وہ دیبر کے ہاں اس موضوع کو شمشیر بے زنہار کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔
کیونکہ انہوں
نے اس کو پیش کرنے میں تاریخی حقیقت سے زیادہ آفاقی اصلیت سے کام لیا ہے۔
اردو مرثیوں میں آمد کا موضوع ان مواقع کے لئے اپنا یا جاتا ہے جب جنگجو
ُ آمد:۔
میدانمیدان ِ جنگ میں وارد ہوتے ہیں مرزا دبیر کے مرثیوں میں ا س موقع پر آمد کی تمام خصوصات
پائی جاتی ہیں چونکہ اس میں جذبات نگاری اور محاکات کا موقع نہیں ہوتا اس لئے شاعر بغیر کسی
ذمہ داری کے اپنے تخیلی قوتوں کا حتی االمکان مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ دبیر نے اس موضوع پر جس
حد تک طبع آزمائی کی ہے۔ اما م حسین کی میدان میں آمد کو وہ یوں بیان کرتے ہیں ۔
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رہا ہے
قصر سالطین زمن کانپ رہا ہے
ِ ہر رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
کو پسر کے ر حید کے دیکھ شمشیر بکف
کو سمٹتے ہوئے پر جبریل لرزتے ہیں
سراپا مرثیے کا وہ جزو ہے جس میں مرثیہ نگار اہل بیت کا سراپا کھینچتے سراپا :۔
ہیں ان کی حسن و خوبصورتی بیا ن کرتا ہے۔ ان کی توصیف کرتا ہے دبیر نے بھی اس جزو پر زور
قلم صرف کیا ہے۔ اور بہت ہی نادر سراپے تخلیق کئے۔ امام حسین کا سراپا یوں کھینچا ہے۔
تعریف کو مداح کمر بستہ اٹُھے ہیں کیا غلغلہ ابروئے پیوستہ اٹُھے ہیں
میزاں کی طرح مصرعہ برجستہ اٹُھے ہیں ہاتھوں میں لئے ظلم کا گلدستہ اٹُھے ہیں
نظر آیا کا ُر خ صاف میں پرتو ابرو
آیا نظر نو مہ خورشید کاپہلو میں
اردو مرثیہ نگاروں نے میدان کربال میں لڑائی کے نقشے بڑے اہتمام کے ساتھ رقم رزم :۔
کئے ہیں اگر دبیر کے مرثیوں ک ا مطالعہ کیا جائے وہ ایک اہم رزمیہ شاعر ثابت ہوتے ہیں ۔ اردو
مرثیوں میں رزم کی تیاری کا آغاز ”طلوع سحر“ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کے بعد فوجوں کی صف
بندی ہوتی
واقعات کربال کی مناسبت سے اردو مرثیوں میں شہادت کا موضوع فطری ہے شہادت :۔
لیکن دبیر نے شہادت سے قبل ہیرو کی مدح سرائی پر اس قدر مضامین حرف کر دئیے ہیں کہ شہادت
سے قبل واقعہ کو موڑ دے کر اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز کرنا پڑتا ہے۔ دبیر نے حضرت امام
حسین کی شہادت کے لئے بھی اس طرح کا ایک جواز پیش کیا ہے۔ یعنی جب شمشیر ِ امام سے
دشمنوں میں کھلبلی مچ گئی اور سر پر سر گرنے لگے ۔ تو اس سے بچنے کی انہوں نے یہ تدبیر
زینب سے کہے کوئی کہ مارے القصہ یہ مکاروں نے کی بچنے کی تدبیر سوچی۔
پھر فوج پہ حملہ نہ کریں گے شہ سرپیٹتی جو رن میں نکل آئے گی ہمشیر گئے شبیر
سیدانیوں میں دھوم قیامت کی مچے گی دلگیر
گریہ نہ کیا جان کسی کی نہ بچے گی
کس منہ سے کہوں دختر ِ زہراد علی ہوں سر کھولے ہر ارماں کے الشے پہ چلی ہوں
زینب تھی میں یثرب میں یہاں کوکھ جلی ہوں سب جانتے ہیں حوروں کے دامن میں پلی ہوں
خصوصیات:۔ کی دبیرکی مرثیہ گوئی
ادبی دنیا کی وہ تنہا ہستی جو مرثیہ کے میدان میں میرانیس جیسی شخصیت کی
مدمقابل ٹھہرائی جا سکتی ہے وہ مرزا دبیر کی ہستی ہے۔ ان کے مرثیہ کی خصوصیات مندرجہ زیل
ہیں
جذبات نگاری شاعری کی روح ہے اور اسی سے شاعر کی صحیح جذبات نگاری :۔
اعلی مرقعے نکل گئے ہیں وہٰ عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دبیر کے قلم میں جہاں جذبات نگاری کے
اعلی
ٰ کسی طرح بھی میر انیس کے بہترین شاہکاروں سے کم نہیں مثالً ذیل میں دیا ہوا ایک بند اس کی
م ثال ہے۔ حضرت علی اکبر رن میں جانے کے لئے ماں سے رخصت طلب کرتے ہیں مگر پھوپھی
سے اجازت نہیں مانگتے اس سے حضرت زینب کو رنج ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ
علی اکبر
تھ پاال نے انہوں کو
اب عون و محمد تمہیں الئوں میں کہاں اکبر کے سنانے کویہ کہتی تھی زباں سے
اب قدر ہوئی پیاروں کی جب چھٹ جو کام کیا پوچھ ،کے مجھ سوختہ جاں سے سے
گئے ماں سے
ہمشکلہمشکل ِ نبی بھرتی تھی دم کے جان کیا
کا کوئی کسی نہیں ہیں باتیں کہنے کی سب کا
و ہ سرد ہوا اور وہ سحر قتل کا سماں وہ روشنی صبح وہ جنگل وہ بیاباں
اور شاخوں پہ وہ زمزمہ مرغِ خوش الحاں ہر مرتبہ جنبش میں بہم برگِ درختاں
خیموں میں اور خورشید کی وہ جلوہ گر ی اوج و سما سے
سے ہوا کا چراغوں وہ بجھنا
دبیر کے ہاں انیس کے مقابلے میں مکالمہ نگاری کا وصف نہایت مکالمہ نگاری :۔
کمزور ہے تاہم کہیں کہیں خود کالمی کی کیفیت ضرور ملتی ہے ۔ امام حسین اور دیگر ایمہ حرم کی
آپس میں گفتگو ،شمر ذوی الجوش اور لشکر اسالم کی گفتگو اس انداز میں رقم کی ہے کہ صاف
معلوم ہوتا ہے کہ کون کس سے مخاطب ہے ۔ خود کالمی کا انداز دوران ِ جنگ حسین کا چھ ماہ کے
معصوم بچے اصغر کو میدان کارزار میں لے کر آنا اور پانی کے لئے التجا کرنے یا نہ کرنے کی
گومگو کیفیت اس
گی آئے نظر میں مثال
فصاحت بالغت :۔ بالغت کی تعریف عالمہ شبلی کی الفاظ میں علمائے معانی نے یہ کی ہے۔ ”کالم
ہو فصیح اور ہو موافق کے حال اقتضائے
انیس کو اس معاملے میں دبیر پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن کہیں کہیں ا ُن کے ہاں بھی فصاحت
کی بہترین مثالیں ملتی ہیں ۔ ایک جگہ علی اصغر کے لئے امام محترم پانی مانگنے کے واقعہ انہوں
نے بیان کیا ہے۔اور بقول شبلی” حق یہ ہے کہ مرزادبیر نے اس واقعہ کے بیان میں جو بالغت صرف
کی
ہے ۔ اور جو درد انگیز سماں دکھایا ہے۔ آج تک کسی سے نہ ہو سکا ۔“
چاہا کریں سوال پر شرما کے رہ گئے پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے
چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کی رہ گئے
اصغر تمہارے پاس غرض آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو الئے ہیں
لے کے آئے ہیں
مرزا دبیر کا یہی کمال ہے کہ خیال آفرینی دقت پسندی مضمون بندی اور خیال آفرینی :۔
،جدت ،اس تعارات ،اختراع ،تشبیہات شاعرانہ استداالل میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ یہ بات صحیح
ہے کہ وہ اکثر زور طبع کو سنبھال نہیں سکتے اور اس وجہ سے کبھی کبھی تعقید و اغراق پیدا
ہوجاتا ہے۔
نہایت بلند مرتبہ ہوگیا ہے ۔ مثال بلیغ ہے ان کا کالم فصیح و جہاں مگر
نشان شب
ِ خورشید کے نشاں نے مٹایا کہکشان شب
ِ جب سرنگوں ہوا علم
تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان ِشب تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب
شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
اتار کے
الفاظ کی شوکت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو فارسی و عربی الفاظ کے شوکت الفاظ :۔
کثرت استعمال سے پیدا ہوتی ہے اور ایک طبیعت کے جوش اور الفاظ کے حسن ِ ترکیب سے ۔ دونوں
قسم کی شوکت الفاظ انیس اور دبیر کے یہاں ملتی ہیں ۔ مگر دبیر کا رجحان پہلی قسم اور انیس کا
رجح ان دوسری قسم کی طرف زیادہ ہے اگر شوکت الفاظ بڑے بڑے لغات سے پیدا کی گئی ہے اور
اگر وہ لغت بے محل یابے موقع ہیں تو پھر یہی چیز ایک عیب بن جاتی ہے۔ اور مرزا دبیر کے یہاں
اس قسم کے
ہیں ملتی مثالیں کی معائب
تشبیہات و استعارات :۔ مرزا دبیر کے یہاں عمدہ تشبیہ ،استعاروں کی بھی مثالیں ملتی ہیں ۔انہوں نے
موزوں لکھے ہیں نہایت لطیف و استعارات و تشبیہات جگہ بعض
کیا تار شعاع جیسے ہوں گرد آفتا ب کے تھے آس پاس یوں رفقا ءاس جناب کے
یاں شب کی طرح صبح ستاروں سے بھر ی ہے حسن ہے کےا نور ہے کیا جلوہ گری ہے
پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف سے تا قاف
قاروں کو عذاب ابد ی ڈھونڈ کیا جانے کدھر لے کے خزانہ وہ چھپا تھا قاف
رہا تھا
میرانیس کی سادگی و سالست کے مقابلے میں مرزا دبیر نے نہایت پر پر شکوہ زبان:۔
شکوہ الفا ظ بڑ ے دبدبے سے استعمال کئے ہیں ۔ رزمیہ کے لئے اس قسم کی زبان ہی زیادہ مناسب تھی۔
ت الفاظ
دبیر سے پہلے مرثیوں کی زبان ،آسان ،سادہ اور سلیس ہوا کرتی تھی۔ دبیر نے اس میں شوک ِ
پیدا کردی ۔ حضرت امام حسین کی میدانمیدان ِ جنگ میں آمد کا حا ل یوں بیان کرتے ہیں۔
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
ہر قصر سالطین زمن کانپ رہا ہے رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
کو پسر حیدر کے کے دیکھ شمشیر بکف
جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو
...................................................................................................................
...............................................................................................
سول .2.مثنوی سحرالبیان دہلوی تہذیب کی آئینہ دار ہے وضاحت کرے .
اردو ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سب سے پہلے جو صنف اردو میں ترقی کرتی نظر آتی ہے وہ
اردو مثنوی ہے۔اس کا آغاز شاہان دکن کے زمانے میں ہو گیا تھا۔محمد علی قطب شاہ ،عبدہللا قطب
شاہ اور ابو الحسن قطب شاہ خود بھی شاعر تھے اور شاعروں کے بڑے مربی اور قدر دان تھے۔اس
زم انے میں مثنوی کے مقبولیت کی خاص وجوہات تھیں جو اس وقت موضوع سے خارج ہیں مگر
بحیثیت صنف سخن اس کی مقبولیت کو دکنی عہد میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
میر حسن کی سحر البیان تک پہنچتے پہنچتے مثنوی کو ایک طویل تاریخ سے گذرنا پڑتا ہے مگر جو
شہرت اور مقبولیت سحر البیان کے حصے میں آئی وہ کسی مثنوی کو حاصل نہیں۔اگر مثنوی بحیثیت
صنف سخن آج زندہ ہے تو اس میں سحر البیان کا احسان بھی شامل ہے۔
میر حسن تھوڑے سے زمانی تفرق کے ساتھ میر و سودا کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ دور اردو
ادب کی تاریخ کا سنہری دور ہے۔میر نے غزل میں خدائے سخن کی سند حاصل کی۔سودا نے قصائد
میں وہ نام پیدا کیا کہ آج تک کوئی ان کے مقابلے میں دعوی سخن نہیں کر سکا۔درد نے تصوف کے
میدان میں قدم رکھا اور ان کا کالم سراسر انتخاب ٹھہرا۔میر حسن مذکورہ اصناف میں سے کسی میں
طبع آزمائی کرتے تو شاید انہیں اردو ادب میں وہ اہمیت حاصل نہ ہوتی جو انہیں مثنوی سحر البیان
کے سبب حاصل ہے۔حسن نے اور بھی مثنویاں لکھی ہیں مگر ان کی شہرت کا تمام تر دارومدار سحر
البیان پر ہی ہے۔مثنوی منظوم داستان ہے اور اس میں تمام تر انہی روایات سے کام لیا گیا ہے جو اس
سے پہلے کی داستانوں میں مو جود تھیں۔داستان حقیقت کی بجائے مثالیت کا نمونہ ہوتی ہے۔یہ چیز
داستان کے عناصر ترکیبی میں شامل ہے۔ساری دنیا کے ادب میں داستان کے کردار خیر و شر کے
مثالی نمونے ہوتے ہیں۔سحر البیان کی داستان بھی روایتی اور مثالی ہے اور اس کے کردار بھی۔
ہماری داستانیں عموما ً ایسے بادشاہوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں جن کے اوالد نہیں ہوتی۔پھر
نجومی اوالد کی خوش خبری دیتے ہیں۔یہ خوش خبری مشروط ہوتی ہے۔عمر کے ایک خاص حصے
میں شہزادے پر آفتوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔نجومی کی جنم پتری سچ ثابت ہوتی ہے۔ شہزادہ
جنوں ،پریوں یا کسی بزرگ کے ذریعے تمام آفتوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور کامیابی و
کامرانی اس کا مقدر ہوتی ہے۔
یہی سب کچھ سحر البیان میں بھی ہے۔عام ڈگر سے ہٹ کر اس میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے سحر
البیان کے شہرت میں اس کی داستان کا کردار مرکزی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ دوسری منظوم
داستانوں کے مقابلے میں اس داستان میں بعض خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثالً داستان زیادہ طویل
نہیں ہے۔اس میں تسلسل اور روانی ہے۔اس کی درمیانی کڑیاں کسی بھی موقع پر قاری کے ذہن سے
محو نہیں ہوتیں۔اس میں کسی نہ کسی حد تک ناول اور افسانہ جیسی وحدت تاثر کی خوبی بھی پائی
جاتی ہے۔مگر اس کے باوجود اس میں جدت یا نیا پن نہیں۔
مثنوی چونکہ ایک منظوم داستان ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم داستان کے وہ عناصر جن پر
اس کی خوبی یا خرابی کا دارومدار ہوتا ہے سحر البیان میں تالش کریں۔
داستانوں میں واقعات اور عناصر بعید از عقل اور مافوق الفطرت ہوتے ہیں۔ داستانوں میں ان عناصر
کا مطالعہ آج انسان کو بیزار و متنفر کر دیتا ہے اور وہ پرانے کالسیک ادب کو بے کار محض سمجھ
کر پھینک دیتا ہے۔سحر البیان کی داستان بھی جنوں اور پریوں کے عناصر موجود ہیں لیکن یہ
عناصر نہ صرف تعداد میں کم ہیں بلکہ اپنے خصائص میں بھی فطرت سے زیادہ دور نہیں اور
مثنوی کا مجموعی تاثر فطری حقیقی اور انسانی زندگی سے قریب نظر آتا ہے۔سحر البیان کے مافوق
الفطرت کردار اپنے خصائص اور حرکات و سکنات سے بالکل ہماری طرح کے انسان معلوم ہوتے
ہیں۔کسی جگہ بھی بعید از عقل کارناموں کے ذریعے مثنوی کے ارتقا میں مدد نہیں لی گئی۔اگر کسی
موقعہ پر یہ کردار اہمیت اختیار کر جاتے ہیں تو ان کی سیرت و کردار کا اظہار انسانوں جیسا ہی
نظر آتا ہے۔
مثالً پر ی رقابت میں شہزادے کو قید کر دیتی ہے۔یہ عنصر انسانی سیرت کے بالکل قریب
ہے۔شہزادے کی رہائی کے ل یے وزیر زادی نجم النسا پرستان جاتی ہے۔دیوؤں کا شہزادہ اس پر فدا ہو
جاتا ہے۔اور اس کی مدد سے شہزادے کو رہائی نصیب ہوتی ہے۔یہاں دیوؤں کا شہزادہ کردار ہے
لیکن وہ پھونک مار کر یا چراغ رگڑ کر کسی ماتحت دیو کو حکم دے کر شہزادے کی رہائی کا بندو
بست نہیں کرتا بلکہ شہزادی کو ڈراتا دھمکاتا ہے کہ وہ اس کے باپ کو آدم زاد کے ساتھ عشق کے
متعلق بتا دے گا۔
تیرے باپ کو گر لکھوں
تیرا حال تو کیا حال ہو
ترا پھر اے چھنال ترا
رنگ غیرت سے اڑتا
نہیں تجھے کیا پری زاد
جڑتا نہیں ہمارا گئی بھول
خوف و خطر لگی
رکھنے انسان پر تو نظر
بھال چاہتی ہے تو اس کو
نکال کنوئیں میں جسے
تو نے رکھا ہے ڈال اور
اس کی قسم کھا کہ پھر
گر کہیں لیا نام اس کا تو
پھر تو نہیں
شہزادہ جب بدر منیر کو پر ی کے متعلق بتاتا ہے تو شہزادی کے احساسات
مالحظہ ہوں۔ مرو تم پری پہ وہ تم پہ مرے
بس اب تم ذرا مجھ
سے بیٹھو پرے میں
اس طرح کا دل لگاتی
نہیں
یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ داستان میں مافوق الفطرت عناصر اول تو ارتقائی لحاظ سے اتنے اہم
نہیں۔اگر کسی موقع پر اہم ہو جاتے ہیں تو ان کا اظہار انسانی فطرت کے بالکل قریب ہے۔
داستانوں میں کرداروں کی بھر مار ہوتی ہے۔جو نہایت تیزی سے ہمارے سامنے سے گذر جاتے
ہیں۔اس لئے یہ کردار اپنا کوئ ی تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔تاہم مرکزی کردار پر کافی توجہ
صرف کی جاتی ہے۔کردار نگاری کا فنی تقاضا ہے کہ ذیلی کردار مرکزی کردار کی شخصیت کے
اظہار ،نمو اور ارتقا میں حصہ لیں۔داستانوں میں اس قسم کے ارتقائی کردار عموما ً ناپید ہوتے ہیں
مگر یوں محسوس ہوت ا ہے کہ سحر البیان میں میر حسن نے کردار نگاری پر کافی توجہ صرف کی
ہے اور یہ کاوش شعوری نظر آتی ہے۔
کردار نگاری سے کہانی کے ارتقا میں مدد ملتی ہے۔کردار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلیت کے
قریب ہو۔وہ اپنے اعمال کی تکذیب نہ کرے اور اس کی زبان اپنے طبقہ کی نمائندہ زبان ہو۔کردار
نگاری میں جزئیات سے بہت کام لیا جاتا ہے۔کردار کی اصلی تصویر سامنے النے کے لیے کردار
کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر بھی فنکار کی نظر ہوتی ہے۔
پروفیسر احتشام حسین کی نظر میں سحر البیان کی سب سے بڑی خصوصیت یقینا ً یہ ہے کہ اس کا
انداز بیان ،اس کی تفص یالت اور اختصار ،محاوروں کا استعمال ،اس کی رنگینی اور دل کشی دوسری
مثنویوں میں نہیں پا ئی جاتی مگر اس کی یہ خصوصیت بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ
اس میں کردار نگاری کا ایک اعلی نمونہ موجود ہے۔کردار کے تعارف کا سلیقہ مالحظہ فرمائیں۔ تھی
ہمراہ اک اس کے دخت وزیر نہایت حسین اور قیامت شریر ز بس تھی ستارہ سی وہ دلربا اسے لوگ
کہتے تھے نجم النسا
دیکھئے دو شعروں میں کردار کو اس کی تمام قابل لحاظ خصوصیات کے ساتھ کس سلیقہ سے
متعارف کروایا۔کردار کی معمولی جزئیات اس کے انداز ،لباس ،تکلم ،ماحول اور دوسری ذیلی
تفصیالت کا نمونہ داستان ـــ ’’تعریف بدر منیر اور عاشق ہونا بے نظیر کا ‘‘میں آپ کو نظر آئے گا۔
طوالت سے اجتناب کی خاطر مثال میں تلخیص سے کام لیا جا رہا ہے۔
.اکبر نے اپنی قطعہ نگاری مغربی تہذیب کو تفصیال نشانہ بنایا ہوا ضاحت کریں
سول 3.
اکبر ٰالہ آبادی کی سو سالہ برسی تقریبات منائی جارہی ہیں۔ اکبر کا شمار قومی اور مل ّ
ی شعرا میں
ہوتاہے۔ آپ نے انگریزی تہذیب‘ انگریزی رسم و رواج‘ ہندوانہ رسومات کے خالف آواز اٹھائی۔ آپ
نےاردو‘ ہندی جھگڑا‘ سرسید اور علی گڑھ تحریک‘ گاندھی کے خالف جب محسوس کیا‘ شاعری
کی اور اصالح کرنے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دو دھائیوں میں اکبر ایک مزاحمتی
شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کا لہجہ طنزیہ ‘ مزاحیہ تھا۔ مزاح کے انداز میں وہ معاشرتی
اس
عیوب کو سامنے التے اور مسلمانوں میں جدید تعلیم و تہذیب کے جو بد اثرات پیدا ہو چلے تھے‘ ُ
کی نشان دہی کرتے تھے۔ وہ معاشرے کی‘ مسلم معاشرہ کی‘ مشرقی اقدار کی اصالح بھی چاہتے
تھے اور حفاظت بھی۔ بزم اکبر نے تین جلدوں پر کلیات اکبر شائع کی ہے۔ دو جلدوں پر اکبر ٰالہ آبادی
کے قطعات و
رباعیات بھی شائع ہوئے ہیں۔ ہم اکبر ٰالہ آبادی کے ’’قطعات و رباعیات‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔
’’قطعات و رباعیات‘‘ اکبر ٰالہ آبادی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ بزم اکبر کراچی کے زیر اہتمام اس کا
پہال حصہ 26رجب 1371ہجری مطابق 22اپریل 1952ء کو ناظم شعبہ تصنیف و تالیف مال محمد
واحدی کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ بزم اکبر کے صدر چوہدری نذیر احمد خان صاحب تھے اور جنرل
سیکرٹری مشتاق احمد وجدی۔ پہلے تین حصوں پر کلیات اکبر ٰالہ آبادی شائع کی بعد میں ’’قطعات و
میں حصوں دو رباعیات‘‘
’’قطعات و رباعیات‘‘ حضرت اختر انصاری اکبر آبادی نے منتخب کیے اور ترتیب و تدوین میاں
احسان الحق نے کی۔ اس حوالے سے آپ ’’عذر تقبر خدمت‘‘ میں صفحہ 32,31میں تحریر کرتے
ہیں ’’ جہاں تک قطعات و رباعیات اکبر کی تدوین و ترتیب کا تعلق ہے‘ اس میں اگرچہ منطقی تقسیم
اور جامعیت و معنویت کا لحاظ نہیں رکھا جا سکا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ ناقص و نامکمل
تدوین و ترتیب بھی ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی جوکسی خاص موقع پر یا مضمون پر
حضرت اکبر کے خیاالت اور ان کی جوالنی ہائے فکر کو یکجا دیکھنا چاہتے ہیں یا جن کی خواہش
ہے کہ کالم اکبر کی تدوین و اشاعت میں ایسی ترتیب ملحوظ رکھی جائے کہ کسی مطلوبہ قطعہ یا
رباعی کو تالش میں ان کو ورق گردانی کی زیادہ زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ میں نے قطعات و رباعیات
اکبر کی تدوین و ترتیب اس طرح کی کہ اہم مطالب و مضامین کے اشتراک کے لحاظ سے ان کو
ابواب پر تقسیم کردیا ہے۔‘‘ اس کتاب میں حاشیہ نگاری کے فرائض بھی میاں احسان الحق نے مال
واحدی کے حکم پر انجام دیے تاکہ نئی نسل کو
آسانی ہو۔’’قعطات و رباعیات‘‘ جل ِد ّاول میں 26 میں سمجھنے مفہوم اور معنی
ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ ان موضوعات کو دیکھ کر جہاں اکبرکی قادرالکالمی کا اندازہ ہوتا ہے
وہاں ان کی بصیرت‘ سوچ و فکر‘ اسالمی حمیت اور قومی جذبات کابھی احساس ہوتا ہے۔ شروع کے
9ابواب کا تفصیلی مطالعہ کریں تو اکبر ٰالہ آبادی کی اسالمی شعائر سے محبت‘ مسلمانوں کے دین
سے بیگانگی‘ شیعہ سنی فرقہ واریت‘ اختالف‘ دین سے دوری وغیرہ سب آپ کو ملے گی۔ اکبر
رسول ،عشق ٰالہی چاہتے تھے۔ ان کے موضوعات کا جائزہ
ؐ ق
مسلمانوں میں اسالمی تعلیمات‘ عش ِ
لیتے ہیں۔ پہال باب حمد و دعا‘ نعت و منقبت پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب کا نام اسالمیات و عرفانیات
ہے‘ تیسرا باب موجودہ دور میں جو اسالم سے بیگانگی ہوگئی ہے اس موضوع پر ہے‘ چوتھے باب
میں دین و دانش کے حوالے سے قطعات و رباعیات جمع کر دی گئی ہیں‘ پانچویں باب میں نئی نسل
میں جو المذہبی ہو رہی ہے اس پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ چھٹے باب میں شیعہ سنی فرقہ واریت کی
مذمت میں قطعات کہے گئے ہیں‘ ساتویں باب میں نئی نسل کو ہندو موعظمت کہے گئے‘ آٹھویں باب
میں اخالق و معاشرت اور نویں میں بصائر وکم اسالمی احکام بتالئے گئے۔ ان ابواب‘ ان قعطات و
رباعیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرہ کے زوال کا بنیادی سبب اسالمی احکام سے
دوری تھا‘ ہندوانہ رسومات کا داخلی اور جدید مغربی تہذیب نے مسلم معاشرہ و ثقافت کو کھوکھال کر
دیا تھا۔ اکبر اسی مسلم معاشرے کی احیائے نو چاہتے تھے۔ دسویں باب سے ایسے موضوعات جمع
کیے گئے جو اکبر کی شاعری کی پہچان ہے۔ مثالً دسویں باب میں قومیات اور سیاست پر‘ گیارہویں
میں طنزیات‘ بارہویں میں گاندھی جی اور ان کی تحریکوں پر اظہار خیال کیا گیا۔ تیرہویں باب میں
تعلیم نسواں اور پرد ٔہ نسواں پر اکبر کا نظریہ پیش کیا گیا۔ چودھویں باب میں نئی اور پرانی
تہذیب کے فرق کو پیش کیا گیا۔ پندرہویں باب میں نئی اور پرانی تعلیم کے مابین فرق کو بیان کیا گیا۔
نقادان فن نے تفصیلی مضامین و
ِ یہ سب موضوعات ایسے ہیں کہ ہر موضوع پر مقالہ نگاروں نے‘
قطعات تحریر کیے۔ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر شاعری کو سولہویں باب میں جمع کیا گیا اور
تقلید فرنگ میں مبتال لوگوں کے حوالے سے شاعری سترہویں باب میں جمع کی گئی ہے۔ اٹھارہویں
باب میں انگریز اور انگریزی حکومت کے خالف شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ انیسویں باب میں
ہندوانہ رسومات جو مسلم معاشرے میں داخل ہو رہی ہیں‘ ان کا ذکر ہے اور بیسویں باب میں اردو
ہندی جھگڑوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا۔ ان قطعات و رباعیات سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے
کہ اکبر ٰالہ آبادی سیاسی بصیرت‘ مذہبی حمیت رکھنے والے بیدار مغز شاعر تھے جو مسلمانوں کی
نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے‘ مسلمانوں کی اصالح چاہتے تھے‘ ہندوانہ رسومات اور جدید مغربی تہذیب
سے بچانا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی آزادی بھی چاہتے تھے‘ انگریز کی غالمی سے بھی
بچانا چاہتے تھےاور ہندوانہ غالمی سے بھی۔ ان کی شاعری قطعات و رباعیات کئی سو ہیں اور دو
جلدوں‘ 700صفحات
ہیں۔ کرتے پیش انتخاب کا رباعیات و قطعات مشہور چند مشتمل ر
ہیں جاتے اٹھے سب کے سب سے بزم س
کچھ اور کے اس سوا ہے نہیں سبب کا س
نے رسول
ؐ تھے دیے نکال بت سے عبے
اکبر
ؔ سے نیکیوں نے عزت ومی
ہے مچا غل میں ڈیوڑھی میں گھر ہے رہی ُ
اڑ اک
اکبر
ؔ بندے نیک کے خدا ہیں ہم س
ہوا کیا وہ پردہ کا آپ سے ا ُن جو چھا
منتظم کے ا ُن ہوں جو ہوں متقی و علم ی
ہوں نہ جی استاد مگر ہوں اچھے ستاد
اکبر
ؔ کرنا نہ شوق سا
....................................................................................................................
....................................................................................................
..................................................................................................................
.................................................................................
انور مقصود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے پردے میں یہ رات درد چھپا ہوا
سول.5.ہے بحث کرے
معروف ڈینش فلسفی Soren Kierkegaardکہتا ہے کہ ” ایک شاعر ایک مغموم انسان ہوتا ہے لیکن
اس کے لبوں کو ایسی ساخت عطا کی گئی ہے کہ جب وہ آہ بھرتاہے یا کرب سے چیخ اٹھتا ہے تو اس
کی آواز موسیقی کی طرح لگتی ہے۔ لوگ اس کے گرد مجمع لگا لیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ
ہمارے لیے جلد ہی دوبارہ نغمہ سرا ہونا یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اس سے کہا جائے کہ آئندہ بھی
نئے
رہیں کرتے زخمی کو روح تمہاری غم
ایسا ہی کچھ اس شاعر پر بھی صادق آتا ہے جو کہ دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام ،طنز و مزاح
کے افق پر سب سے منور ،درخشاں روشن ستارہ جسے دنیا انور مسعود کے نام سے جانتی ہے۔
الفاظ و محاورات اور زبان و بیان کی بھول بھلیوں میں کسی معصوم بچے کی مانند بظاہر کھیل کود
میں مصروف لیکن اس بازیچۂ اطفال کے توسط سے کسی بھی فلسفیانہ موضوع کو بیان کر دینا ان
کے قلم کا کمال ہے اور پھر شستہ رواں اور بے تکلف الفاظ میں سجائی شاعری اپنے مخصوص،
حس ظرافت نہ صرف بیدار
لطیف ،بے ضرر اور انتہائی سادہ انداز میں یوں پڑ ھ دینا کہ سامعین کی ِ
ہو جائے بلکہ کچھدیر کیلئے وہ اپنے زمان و مکاں ،مسائل و حاالت سے بے خبر صرف انور مسعود
کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی معروف ترین نظمیں” ا َج کیہہ پکائیے ،بنُیان ،ل ّ
سی تے
چاہ ،جہلم دے پ ُل تے ،ان ار کلی دیاں شاناں اور بو ٹی دا قیمہ “ وغیرہ اپنے اندر زبان و بیاں کی
چاشنی کے عالوہ اپنے دور کی پوری تہذیب و ثقافت کی ایک مکمل تصویرلیے ہوئے ہیں۔ یہ نظمیں
محض ازرا ِہ تفنن سننے اور داد و دہش کےلیے نہیں بلکہ اپنے اندر سیاسی سماجی اور معاشرتی
شعور و ادراک کی ایک مکمل سند لیے ہوئے ہیں۔ ایک معاشرہ جس میں چوہدری ہمیشہ چوہدری اور
جنبش ابرو پر کریال اپنی کڑواہٹ کے باوجود
ِ رحما ہمیشہ رحما ہی رہتا ہے۔ جہاں چوہدری کی
دسترخوان کا بادشاہ ٹھہرتا ہے اور اس کی رائے کے ذرا سا لڑکھڑانے پر وہی کریال دوزخ کا ایندھن
بن جاتا ہے جہاں رحما سبزیوں کا نوکر نہیں چوہدری کا جاں نثارخادم ہوتا ہے اور وہ سیدھا سادہ
خوشامدی اور اپنے آقا کے ماتھے کے بل گن کر خود اپنی ہی بات کی تردید کر دینے واال رحما اس
کے فیصلے ،نیت اور رائے سے بخوبی باخبر ہوتا
ہے دیتا کر ختم بات میں انداز نیازمندانہ لیکن طنزیہ ایک اور ہے
ہیں کرتے واضح نظر نکتہء میں انداز مخصوص اپنے تو ہے
میں وطن باقی نہیں بھی ہاکچھ
ہے گئی رہ حالی خستہ اک گر
اس ہے :ترقی مجبور کرتا پر کروانے احتجاج درج اپنا کو ان
ہے گھاٹا نہیں کوئی صورت کسی ہے ہوئی برپا قدر
ہے پڑی پہ خشکی کہ ہے خالی سے بحر وں
شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا
آخر میں اس انور مسعود سے بھی مل لیجیے جو پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں ،ٹاہلیوں ،میدانوں،
چوپالوں اور ڈیروں سے ہوتا ہوا انار کلی جا نکلتا ہے ،وہاں کی شاناں دیکھ کر متخیر اور مرعوب
ہوتا ہے ،لیکن یہی شاعر جب مدینہ کی تقدس بھری فضاؤں میں پہنچتا ہے تو اس کا انداز اور لہجہ
بھی با وضو ہو جاتا ہے۔ اس نور لٹاتی ہوا میں اس کی روح بھی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔
بدلے زندگی رسم
ِ و رہ تھا چاہتا ہ
بدلے بندگی انداز
ِ جو تھا گیا گڑ