You are on page 1of 35

‫کورس‪ :‬اردو‬

‫سمسٹر‪ :‬خزاں‬ ‫کوڈ‪6480:‬‬


‫مشق۔‪2‬‬

‫سول‪.1.‬دبیر کی مرثیہ نگاری کے فکری محاسن بیان کریں‬


‫اردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر‬
‫مرزا سالمت علی دیبر ُ‬
‫پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل ِ داد ہیں ۔ مرزا دبیر نے‬
‫چونکہ عربی اور فارسی علم و ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور دوسرے حساس طبیعت کے باعث وہ‬
‫سنجیدہ ہوگئے تھے اس لئے انہیں شعر و سخن کی سلطنت میں یک گونہ عافیت کا احساس ہوا‪،‬‬
‫شاعری سے انہیں فطری لگائو پیداہوگیا تھا۔ اور پھر شاید اپنی جنم بھومی دہلی کی تباہی اور دیگر‬
‫عوامل کے حوالے سے انہوں نے بھی مرثیہ گوئی اختیار کر لی ۔ ویسے بھی اس عہد میں اقلیم غزل‬
‫می ں اس قدر شعراءکی فراوانی اور کثرت تھی کہ محض توانا اور جاندار غزلیہ شاعری پنپ سکتی‬
‫تھی اس پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دور غالب جیسے سورج کا دور تھا۔ جس میں ماہ و انجم ماند پڑ جاتے‬
‫چھوٹے موٹے چراغ کچھ بھی نہ تھے۔ البتہ مرثیہ نگاری میں ابھی ہر طرح کی وسعت کی پوری‬
‫پوری گنجائش موجود تھی۔ اس لئے اپنی موزونی طبع اور حاالت کے مطابق مرزدبیر نے مرثےہ‬
‫نگاری کے میدان کو اپنی شاعری کے لئے چنا۔ اور اسی میں اپنے جوہر دکھانے شروع کئے۔ مرزا‬
‫دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کے اس ذوق کی آبیاری اور اسُتادانہ رہنمائی کی خاطر اس عہد کے ایک‬
‫شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ استاد کا نام امر کیا۔ اسی عہد‬
‫میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا‬
‫تھا۔ اور بال مبالغہ برسو ں تک لکھنوکی مرثیہ کی شاعری مرزا دبیر ہی کے گرد احاطہ کئے ہوئے‬
‫تھی بعد میں میر انیس نے بھی اس فن میں اپنی اسُتادانہ جوہر دکھاکر دبیر کے شانہ بشانہ مرثیہ کی‬
‫وہ قصر تعمیر کی جس کے قمقموں سے آج اردو ادب جگمگ جگمک کر رہا ہے۔ مرزا دبیرکی‬
‫شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو‬
‫شاہی امام باڑے میں دعوت دی ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق ‪ ،‬ضمیر ‪ ،‬دلگیر اور فصیح‬
‫وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس‬
‫پڑھنا اس کے فنی کمال کی دلیل ہے۔ جس پر مرزا نو عمری میں فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر سید ناظر‬
‫حسین زیدی دبیر کے متعلق لکھتے ہیں‪،‬‬
‫ت الفاظ ‪ ،‬بلند تخیل ‪ ،‬ایجاز مضامین اور صنائع کا‬
‫زور بیان ‪ ،‬شوک ِ‬
‫ِ‬ ‫”دبیر کے کالم کا خاص جوہر‬
‫استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ‪ ،‬علمی اصطالحات ‪ ،‬عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین‬
‫کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔“ دبیر اور اجزئے مرثیہ‪:‬۔‬
‫دبیر کے اسُتاد مظفر حسین ضمیر نے مرثیہ نگاری میں نئی جان ڈال دی اور اس سلسلے میں ایک‬
‫ایسا انداز اختیار کیا جو آگے چل کر بہت مقبول ہوا اور لوگ ان کی تقلید کرنے لگے ‪ ،‬ضمیر کے عہد‬
‫تک مرثیہ کے ضروری اجزا ءکے طور پر چہرہ ‪ ،‬گریز ‪ ،‬رخصت ‪ ،‬آمد ‪ ،‬سراپا ‪ ،‬شہادت اور بین‬
‫مرثیہ میں داخل ہو چکے تھے۔ اور دبیر نے بھی ان کو اپنے مراثی میں شامل کیا ۔ اس لئے ان کے‬
‫مرثیوں کا‬
‫چاہیے‬ ‫کرنا‬ ‫میں‬ ‫روشنی‬ ‫کی‬ ‫خصوصیات‬ ‫اپنی‬ ‫پر‬ ‫طور‬ ‫مجموعی‬ ‫بھی‬ ‫مطالعہ‬

‫یہ مرثیے کا پہال حصہ ہے اس کو قصیدے کی تشبیب کی طرح سمجھنا چاہیے یعنی‬ ‫چہرہ‪ :‬۔‬
‫یہ کہ اس کا تعلق مضامین ِ مرثیہ سے نہیں ہوتا۔ اور اس لئے کسی موضوع کی بھی تخصیص نہیں‬
‫ہوتی۔ دبیر نے عموما ً ‪ ،‬بہار ‪ ،‬طلوع سحر‪ ،‬ہیرو کی تعریف یا مجلس اعز ا کی تعریف کے لئے اس‬
‫حصے کو مخصوص کیا ہے۔ ان تمام موضوعات میں بالخصوص طلو ع سحر کو سب سے زیادہ‬
‫اہمیت حاصل ہے۔‬
‫ہے۔‬ ‫زور طبیعت بہت صرف کیا‬ ‫حصے پر‬ ‫مراثی کے اس‬ ‫نے‬ ‫دبیر‬
‫خورشید کے نشان نے مٹایا نشاننشان ِ شب‬ ‫جب سرنگوں ہوا علم کہکشاں شب‬
‫تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنسان شب‬ ‫تیر شباب سے ہوئی خالی کمان شب‬
‫شب نے زرہ ستاروں کی‬ ‫آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے‬
‫رکھدی اتار کے‬

‫جس طرح قصیدے میں تشبیب کے بعد گریز آتا ہے بالکل اسی طرح مرثیہ‬ ‫گریز‪:‬۔‬
‫میں چہرہ کے بعد گریز آتا ہے ۔ دبیر نے اپنے مرثیوں میں عام طورپر گریز کا استعما ل کیا ہے۔ اور‬
‫مجموعی طور پر یہ ان کی مراثی میں خاصا جاندار ہے‪ ،‬اور یہاں پہنچ کر کم از کم قاری اتنا‬
‫مح سوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر بڑی کوشش کے بعد ایک موضوع سے دوسرے‬
‫موضوع کی طرف آرہا ہے۔ مثالً وہ اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے حال میں چہرے کو‬
‫مخصوص‬
‫ہیں‬ ‫کرتے‬ ‫عطا‬ ‫آہنگ‬ ‫و‬ ‫رنگ‬

‫گور غریباں میں ہے دھوم آہ و فغاں کی‬


‫ہم ِ‬ ‫محتاج ِِ کفن الش ہے کس فخر جہاں کی‬
‫تابوت پہ سہر ا نہیں میت ہے جواں کی‬ ‫پوچھو تو زمانے میں ہے یہ رسم کہاں کی‬
‫لیکن یہ شباب اور یہ‬ ‫مرنا تو ہے برحق سبھی اک روز مریں گے‬
‫اجل یاد کریں گے‬

‫مرثیے میں رخصت کا مقام اس وقت آتا ہے جب طرفدارین حسین یا اصحاب اہل‬ ‫رخصت‪ :‬۔‬
‫میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اس موضوع کو دبیر نے جس‬
‫ِ‬ ‫بیت میں سے کوئی‬
‫انداز سے باندھا ہے وہ دیبر کے ہاں اس موضوع کو شمشیر بے زنہار کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔‬
‫کیونکہ انہوں‬
‫نے اس کو پیش کرنے میں تاریخی حقیقت سے زیادہ آفاقی اصلیت سے کام لیا ہے۔‬

‫حالت ہوئی تغیر شہ ارض و سما‬ ‫ت وفا کی‬


‫اکبر نے جو طلب کی رضا دش ِ‬
‫چھوڑیں گے قدم راہ نہ تسلیم و‬ ‫فرمایا میں راضی ہوں جو مرضی ہو خدا کی‬ ‫ءکی‬
‫رضا کی‬
‫ہے‬ ‫غم‬ ‫نہیں‬ ‫کو‬ ‫مجھ‬ ‫تو‬ ‫کا‬ ‫جدائی‬ ‫کی‬ ‫اکبر‬
‫تصویر نبی مٹتی ہے یہ رنج و الم ہے‬

‫اردو مرثیوں میں آمد کا موضوع ان مواقع کے لئے اپنا یا جاتا ہے جب جنگجو‬
‫ُ‬ ‫آمد‪:‬۔‬
‫میدانمیدان ِ جنگ میں وارد ہوتے ہیں مرزا دبیر کے مرثیوں میں ا س موقع پر آمد کی تمام خصوصات‬
‫پائی جاتی ہیں چونکہ اس میں جذبات نگاری اور محاکات کا موقع نہیں ہوتا اس لئے شاعر بغیر کسی‬
‫ذمہ داری کے اپنے تخیلی قوتوں کا حتی االمکان مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ دبیر نے اس موضوع پر جس‬
‫حد تک طبع آزمائی کی ہے۔ اما م حسین کی میدان میں آمد کو وہ یوں بیان کرتے ہیں ۔‬

‫رن ایک طرف چرخ کہن کانپ‬ ‫کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‬
‫رہا ہے‬
‫قصر سالطین زمن کانپ رہا ہے‬
‫ِ‬ ‫ہر‬ ‫رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے‬
‫کو‬ ‫پسر‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫حید‬ ‫کے‬ ‫دیکھ‬ ‫شمشیر بکف‬
‫کو‬ ‫سمٹتے ہوئے پر‬ ‫جبریل لرزتے ہیں‬

‫سراپا مرثیے کا وہ جزو ہے جس میں مرثیہ نگار اہل بیت کا سراپا کھینچتے‬ ‫سراپا‪ :‬۔‬
‫ہیں ان کی حسن و خوبصورتی بیا ن کرتا ہے۔ ان کی توصیف کرتا ہے دبیر نے بھی اس جزو پر زور‬
‫قلم صرف کیا ہے۔ اور بہت ہی نادر سراپے تخلیق کئے۔ امام حسین کا سراپا یوں کھینچا ہے۔‬

‫تعریف کو مداح کمر بستہ اٹُھے ہیں‬ ‫کیا غلغلہ ابروئے پیوستہ اٹُھے ہیں‬
‫میزاں کی طرح مصرعہ برجستہ اٹُھے ہیں‬ ‫ہاتھوں میں لئے ظلم کا گلدستہ اٹُھے ہیں‬
‫نظر آیا‬ ‫کا ُر خ صاف میں پرتو‬ ‫ابرو‬
‫آیا‬ ‫نظر‬ ‫نو‬ ‫مہ‬ ‫خورشید کاپہلو میں‬

‫اردو مرثیہ نگاروں نے میدان کربال میں لڑائی کے نقشے بڑے اہتمام کے ساتھ رقم‬ ‫رزم ‪ :‬۔‬
‫کئے ہیں اگر دبیر کے مرثیوں ک ا مطالعہ کیا جائے وہ ایک اہم رزمیہ شاعر ثابت ہوتے ہیں ۔ اردو‬
‫مرثیوں میں رزم کی تیاری کا آغاز ”طلوع سحر“ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کے بعد فوجوں کی صف‬
‫بندی ہوتی‬

‫ہے‬ ‫ہوتا‬ ‫آغاز‬ ‫کا‬ ‫جنگ‬ ‫پھر‬ ‫ہے‬


‫ہٹ کر عقاب پر علی اکبر ہوئے سوار‬ ‫فرما کے علی شہ صفدر ہوئے سوار‬
‫بتیس شہ سوار برابر ہوئے سوار‬ ‫عباس لے کے رایترایت ِ حیدر ہوئے سوار‬
‫لی کر یہ فوج لڑنے کو شاہ‬ ‫چالیس پیدل آگے جلو میں بہم چلے‬
‫الم چلے‬

‫واقعات کربال کی مناسبت سے اردو مرثیوں میں شہادت کا موضوع فطری ہے‬ ‫شہادت‪ :‬۔‬
‫لیکن دبیر نے شہادت سے قبل ہیرو کی مدح سرائی پر اس قدر مضامین حرف کر دئیے ہیں کہ شہادت‬
‫سے قبل واقعہ کو موڑ دے کر اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز کرنا پڑتا ہے۔ دبیر نے حضرت امام‬
‫حسین کی شہادت کے لئے بھی اس طرح کا ایک جواز پیش کیا ہے۔ یعنی جب شمشیر ِ امام سے‬
‫دشمنوں میں کھلبلی مچ گئی اور سر پر سر گرنے لگے ۔ تو اس سے بچنے کی انہوں نے یہ تدبیر‬
‫زینب سے کہے کوئی کہ مارے‬ ‫القصہ یہ مکاروں نے کی بچنے کی تدبیر‬ ‫سوچی۔‬
‫پھر فوج پہ حملہ نہ کریں گے شہ‬ ‫سرپیٹتی جو رن میں نکل آئے گی ہمشیر‬ ‫گئے شبیر‬
‫سیدانیوں میں دھوم قیامت کی مچے گی‬ ‫دلگیر‬
‫گریہ نہ کیا جان کسی کی نہ بچے گی‬

‫اس میں شہدائے کربال کے لئے بین ہوتا ہے‬


‫بین دراصل مرثیے کا آخری جزو ہے ُ‬ ‫بین‪:‬۔‬
‫جب کوئی سپاہ اہل بیت شہید ہو جاتا ہے تو اس کی الش خیمے میں الئی جاتی تو خواتین اس پر بین‬
‫کرتی ۔ مراثی دبیر کا اہم عنصر بین ہے طبیعت کے لگائو او ر عرصہ دراز کے مشق کے باعث یہ‬
‫عنصران کے ہاں کافی کامیاب نظر آتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر حضرت زینب بین کرتی‬
‫ہے۔ دبیر اس‬
‫ہیں‬ ‫کرتے‬ ‫بیان‬ ‫یوں‬ ‫کو‬

‫کس منہ سے کہوں دختر ِ زہراد علی ہوں‬ ‫سر کھولے ہر ارماں کے الشے پہ چلی ہوں‬
‫زینب تھی میں یثرب میں یہاں کوکھ جلی ہوں‬ ‫سب جانتے ہیں حوروں کے دامن میں پلی ہوں‬
‫خصوصیات‪:‬۔‬ ‫کی‬ ‫دبیرکی مرثیہ گوئی‬
‫ادبی دنیا کی وہ تنہا ہستی جو مرثیہ کے میدان میں میرانیس جیسی شخصیت کی‬
‫مدمقابل ٹھہرائی جا سکتی ہے وہ مرزا دبیر کی ہستی ہے۔ ان کے مرثیہ کی خصوصیات مندرجہ زیل‬
‫ہیں‬

‫جذبات نگاری شاعری کی روح ہے اور اسی سے شاعر کی صحیح‬ ‫جذبات نگاری‪ :‬۔‬
‫اعلی مرقعے نکل گئے ہیں وہ‬‫ٰ‬ ‫عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ دبیر کے قلم میں جہاں جذبات نگاری کے‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫کسی طرح بھی میر انیس کے بہترین شاہکاروں سے کم نہیں مثالً ذیل میں دیا ہوا ایک بند اس کی‬
‫م ثال ہے۔ حضرت علی اکبر رن میں جانے کے لئے ماں سے رخصت طلب کرتے ہیں مگر پھوپھی‬
‫سے اجازت نہیں مانگتے اس سے حضرت زینب کو رنج ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس وجہ سے کہ‬
‫علی اکبر‬
‫تھ‬ ‫پاال‬ ‫نے‬ ‫انہوں‬ ‫کو‬

‫اب عون و محمد تمہیں الئوں میں کہاں‬ ‫اکبر کے سنانے کویہ کہتی تھی زباں سے‬
‫اب قدر ہوئی پیاروں کی جب چھٹ‬ ‫جو کام کیا پوچھ ‪ ،‬کے مجھ سوختہ جاں سے‬ ‫سے‬
‫گئے ماں سے‬
‫ہمشکلہمشکل ِ نبی‬ ‫بھرتی تھی‬ ‫دم‬ ‫کے‬ ‫جان‬ ‫کیا‬
‫کا‬ ‫کوئی کسی‬ ‫نہیں‬ ‫ہیں‬ ‫باتیں‬ ‫کہنے کی‬ ‫سب‬ ‫کا‬

‫مناظر قدرت کی منظر کشی میں انیس کا پلہ‬


‫ِ‬ ‫یہ ایک حقیقت ہے کہ‬ ‫منظر کشی‪:‬۔‬
‫دبیر پر کافی بھاری ہے مناظرمناظر ِ فطرت کی منظر کشی بھاری بھر کم الفاظ کی متحمل نہیں ہو‬
‫سکتی جو دبیر کا طرہ ا متیاز ہے۔ تاہم جہاں انہوں نے سادگی اختیار کی ہے وہاں ان کے ہاں منظر‬
‫نگاری کے نسبتا ً‬

‫‪،‬مثال‬ ‫ہیں‬ ‫ملتے‬ ‫کو‬ ‫پڑھنے‬ ‫نمونے‬ ‫اچھے‬

‫و ہ سرد ہوا اور وہ سحر قتل کا سماں‬ ‫وہ روشنی صبح وہ جنگل وہ بیاباں‬
‫اور شاخوں پہ وہ زمزمہ مرغِ خوش الحاں‬ ‫ہر مرتبہ جنبش میں بہم برگِ درختاں‬
‫خیموں میں‬ ‫اور‬ ‫خورشید کی وہ جلوہ گر ی اوج و سما سے‬
‫سے‬ ‫ہوا‬ ‫کا‬ ‫چراغوں‬ ‫وہ‬ ‫بجھنا‬

‫دبیر کے ہاں انیس کے مقابلے میں مکالمہ نگاری کا وصف نہایت‬ ‫مکالمہ نگاری‪ :‬۔‬
‫کمزور ہے تاہم کہیں کہیں خود کالمی کی کیفیت ضرور ملتی ہے ۔ امام حسین اور دیگر ایمہ حرم کی‬
‫آپس میں گفتگو ‪ ،‬شمر ذوی الجوش اور لشکر اسالم کی گفتگو اس انداز میں رقم کی ہے کہ صاف‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ کون کس سے مخاطب ہے ۔ خود کالمی کا انداز دوران ِ جنگ حسین کا چھ ماہ کے‬
‫معصوم بچے اصغر کو میدان کارزار میں لے کر آنا اور پانی کے لئے التجا کرنے یا نہ کرنے کی‬
‫گومگو کیفیت اس‬
‫گی‬ ‫آئے‬ ‫نظر‬ ‫میں‬ ‫مثال‬

‫لے تو چال ہوں فوج ِِ عدو سے‬ ‫سبط مصطفی‬


‫ہر اک قدم پہ سوچتے تھے ِ‬
‫ک‬ ‫گا‬ ‫کہوں‬
‫منت بھی گر کروں تو وہ دیں‬ ‫نے پانی مانگ آتا ہے نہ مجھ کو التجا‬
‫گے‬
‫پانی کے واسطے نہ سنیں گے عدو میری‬ ‫بھال‬ ‫کیا‬
‫بچے کی جان جائے گی اور آبرو میری‬

‫فصاحت بالغت‪ :‬۔ بالغت کی تعریف عالمہ شبلی کی الفاظ میں علمائے معانی نے یہ کی ہے۔ ”کالم‬
‫ہو‬ ‫فصیح‬ ‫اور‬ ‫ہو‬ ‫موافق‬ ‫کے‬ ‫حال‬ ‫اقتضائے‬

‫انیس کو اس معاملے میں دبیر پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن کہیں کہیں ا ُن کے ہاں بھی فصاحت‬
‫کی بہترین مثالیں ملتی ہیں ۔ ایک جگہ علی اصغر کے لئے امام محترم پانی مانگنے کے واقعہ انہوں‬
‫نے بیان کیا ہے۔اور بقول شبلی” حق یہ ہے کہ مرزادبیر نے اس واقعہ کے بیان میں جو بالغت صرف‬
‫کی‬
‫ہے ۔ اور جو درد انگیز سماں دکھایا ہے۔ آج تک کسی سے نہ ہو سکا ۔“‬
‫چاہا کریں سوال پر شرما کے رہ گئے‬ ‫پہنچے قریب فوج تو گھبرا کے رہ گئے‬
‫چادر پسر کے چہرے سے سرکا کے رہ گئے‬ ‫غیرت سے رنگ فق ہوا تھرا کی رہ گئے‬
‫اصغر تمہارے پاس غرض‬ ‫آنکھیں جھکا کے بولے کہ یہ ہم کو الئے ہیں‬
‫لے کے آئے ہیں‬

‫مرزا دبیر کا یہی کمال ہے کہ خیال آفرینی دقت پسندی‬ ‫مضمون بندی اور خیال آفرینی‪ :‬۔‬
‫‪ ،‬جدت ‪ ،‬اس تعارات ‪ ،‬اختراع‪ ،‬تشبیہات شاعرانہ استداالل میں وہ اپنا جواب نہیں رکھتے ۔ یہ بات صحیح‬
‫ہے کہ وہ اکثر زور طبع کو سنبھال نہیں سکتے اور اس وجہ سے کبھی کبھی تعقید و اغراق پیدا‬
‫ہوجاتا ہے۔‬
‫نہایت بلند مرتبہ ہوگیا ہے ۔ مثال‬ ‫بلیغ ہے‬ ‫ان کا کالم فصیح و‬ ‫جہاں‬ ‫مگر‬

‫نشان شب‬
‫ِ‬ ‫خورشید کے نشاں نے مٹایا‬ ‫کہکشان شب‬
‫ِ‬ ‫جب سرنگوں ہوا علم‬
‫تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنان ِشب‬ ‫تیر شہاب سے ہوئی خالی کمان شب‬
‫شب نے زرہ ستاروں کی رکھ دی‬ ‫آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے‬
‫اتار کے‬

‫الفاظ کی شوکت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو فارسی و عربی الفاظ کے‬ ‫شوکت الفاظ‪ :‬۔‬
‫کثرت استعمال سے پیدا ہوتی ہے اور ایک طبیعت کے جوش اور الفاظ کے حسن ِ ترکیب سے ۔ دونوں‬
‫قسم کی شوکت الفاظ انیس اور دبیر کے یہاں ملتی ہیں ۔ مگر دبیر کا رجحان پہلی قسم اور انیس کا‬
‫رجح ان دوسری قسم کی طرف زیادہ ہے اگر شوکت الفاظ بڑے بڑے لغات سے پیدا کی گئی ہے اور‬
‫اگر وہ لغت بے محل یابے موقع ہیں تو پھر یہی چیز ایک عیب بن جاتی ہے۔ اور مرزا دبیر کے یہاں‬
‫اس قسم کے‬
‫ہیں‬ ‫ملتی‬ ‫مثالیں‬ ‫کی‬ ‫معائب‬

‫لئے‬ ‫کے‬ ‫مند‬ ‫ہنر‬ ‫چرخ‬ ‫تھی‬ ‫رفو‬ ‫فکر‬


‫لئے‬ ‫کے‬ ‫پیوند‬ ‫گیا‬ ‫ہو‬ ‫ٹکڑے‬ ‫چار‬ ‫دن‬

‫تشبیہات و استعارات‪ :‬۔ مرزا دبیر کے یہاں عمدہ تشبیہ ‪ ،‬استعاروں کی بھی مثالیں ملتی ہیں ۔انہوں نے‬
‫موزوں لکھے ہیں‬ ‫نہایت لطیف و‬ ‫استعارات‬ ‫و‬ ‫تشبیہات‬ ‫جگہ‬ ‫بعض‬
‫کیا‬ ‫تار شعاع جیسے ہوں گرد آفتا ب کے‬ ‫تھے آس پاس یوں رفقا ءاس جناب کے‬
‫یاں شب کی طرح صبح ستاروں سے بھر ی ہے‬ ‫حسن ہے کےا نور ہے کیا جلوہ گری ہے‬

‫مگر ان کے زور طبیعت و تخیل کی بے اعتدالی نے ان تشبیہات و استعارات کو بعید الفہم‬


‫اور گنجلک بنا دیا ہے ۔ ان میں سادگی و اثر نہیں ان میں مرزا کی علمیت کا تو اندازہ ہوتا ہے مگر‬
‫شعر میں‬
‫مثال‬ ‫ہوتا۔‬ ‫نہیں‬ ‫پیدا‬ ‫حسن‬ ‫کوئی‬

‫پریاں ہوئیں مرغابیاں گرداب بنا‬ ‫شمشیر نے جل تھل جو بھرے قاف سے تا قاف‬
‫قاروں کو عذاب ابد ی ڈھونڈ‬ ‫کیا جانے کدھر لے کے خزانہ وہ چھپا تھا‬ ‫قاف‬
‫رہا تھا‬

‫میرانیس کی سادگی و سالست کے مقابلے میں مرزا دبیر نے نہایت پر‬ ‫پر شکوہ زبان‪:‬۔‬
‫شکوہ الفا ظ بڑ ے دبدبے سے استعمال کئے ہیں ۔ رزمیہ کے لئے اس قسم کی زبان ہی زیادہ مناسب تھی۔‬
‫ت الفاظ‬
‫دبیر سے پہلے مرثیوں کی زبان‪ ،‬آسان ‪ ،‬سادہ اور سلیس ہوا کرتی تھی۔ دبیر نے اس میں شوک ِ‬
‫پیدا کردی ۔ حضرت امام حسین کی میدانمیدان ِ جنگ میں آمد کا حا ل یوں بیان کرتے ہیں۔‬

‫رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے‬ ‫کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‬
‫ہر قصر سالطین زمن کانپ رہا ہے‬ ‫رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے‬
‫کو‬ ‫پسر‬ ‫حیدر کے‬ ‫کے‬ ‫دیکھ‬ ‫شمشیر بکف‬
‫جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو‬
‫‪...................................................................................................................‬‬
‫‪...............................................................................................‬‬

‫سول ‪ .2.‬مثنوی سحرالبیان دہلوی تہذیب کی آئینہ دار ہے وضاحت کرے ‪.‬‬
‫اردو ادب کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو سب سے پہلے جو صنف اردو میں ترقی کرتی نظر آتی ہے وہ‬
‫اردو مثنوی ہے۔اس کا آغاز شاہان دکن کے زمانے میں ہو گیا تھا۔محمد علی قطب شاہ‪ ،‬عبدہللا قطب‬
‫شاہ اور ابو الحسن قطب شاہ خود بھی شاعر تھے اور شاعروں کے بڑے مربی اور قدر دان تھے۔اس‬
‫زم انے میں مثنوی کے مقبولیت کی خاص وجوہات تھیں جو اس وقت موضوع سے خارج ہیں مگر‬
‫بحیثیت صنف سخن اس کی مقبولیت کو دکنی عہد میں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‬
‫میر حسن کی سحر البیان تک پہنچتے پہنچتے مثنوی کو ایک طویل تاریخ سے گذرنا پڑتا ہے مگر جو‬
‫شہرت اور مقبولیت سحر البیان کے حصے میں آئی وہ کسی مثنوی کو حاصل نہیں۔اگر مثنوی بحیثیت‬
‫صنف سخن آج زندہ ہے تو اس میں سحر البیان کا احسان بھی شامل ہے۔‬
‫میر حسن تھوڑے سے زمانی تفرق کے ساتھ میر و سودا کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ دور اردو‬
‫ادب کی تاریخ کا سنہری دور ہے۔میر نے غزل میں خدائے سخن کی سند حاصل کی۔سودا نے قصائد‬
‫میں وہ نام پیدا کیا کہ آج تک کوئی ان کے مقابلے میں دعوی سخن نہیں کر سکا۔درد نے تصوف کے‬
‫میدان میں قدم رکھا اور ان کا کالم سراسر انتخاب ٹھہرا۔میر حسن مذکورہ اصناف میں سے کسی میں‬
‫طبع آزمائی کرتے تو شاید انہیں اردو ادب میں وہ اہمیت حاصل نہ ہوتی جو انہیں مثنوی سحر البیان‬
‫کے سبب حاصل ہے۔حسن نے اور بھی مثنویاں لکھی ہیں مگر ان کی شہرت کا تمام تر دارومدار سحر‬
‫البیان پر ہی ہے۔مثنوی منظوم داستان ہے اور اس میں تمام تر انہی روایات سے کام لیا گیا ہے جو اس‬
‫سے پہلے کی داستانوں میں مو جود تھیں۔داستان حقیقت کی بجائے مثالیت کا نمونہ ہوتی ہے۔یہ چیز‬
‫داستان کے عناصر ترکیبی میں شامل ہے۔ساری دنیا کے ادب میں داستان کے کردار خیر و شر کے‬
‫مثالی نمونے ہوتے ہیں۔سحر البیان کی داستان بھی روایتی اور مثالی ہے اور اس کے کردار بھی۔‬
‫ہماری داستانیں عموما ً ایسے بادشاہوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہیں جن کے اوالد نہیں ہوتی۔پھر‬
‫نجومی اوالد کی خوش خبری دیتے ہیں۔یہ خوش خبری مشروط ہوتی ہے۔عمر کے ایک خاص حصے‬
‫میں شہزادے پر آفتوں کی پیش گوئی کی جاتی ہے۔نجومی کی جنم پتری سچ ثابت ہوتی ہے۔ شہزادہ‬
‫جنوں‪ ،‬پریوں یا کسی بزرگ کے ذریعے تمام آفتوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے اور کامیابی و‬
‫کامرانی اس کا مقدر ہوتی ہے۔‬
‫یہی سب کچھ سحر البیان میں بھی ہے۔عام ڈگر سے ہٹ کر اس میں کچھ بھی نہیں۔ اس لیے سحر‬
‫البیان کے شہرت میں اس کی داستان کا کردار مرکزی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ دوسری منظوم‬
‫داستانوں کے مقابلے میں اس داستان میں بعض خوبیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ مثالً داستان زیادہ طویل‬
‫نہیں ہے۔اس میں تسلسل اور روانی ہے۔اس کی درمیانی کڑیاں کسی بھی موقع پر قاری کے ذہن سے‬
‫محو نہیں ہوتیں۔اس میں کسی نہ کسی حد تک ناول اور افسانہ جیسی وحدت تاثر کی خوبی بھی پائی‬
‫جاتی ہے۔مگر اس کے باوجود اس میں جدت یا نیا پن نہیں۔‬
‫مثنوی چونکہ ایک منظوم داستان ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم داستان کے وہ عناصر جن پر‬
‫اس کی خوبی یا خرابی کا دارومدار ہوتا ہے سحر البیان میں تالش کریں۔‬
‫داستانوں میں واقعات اور عناصر بعید از عقل اور مافوق الفطرت ہوتے ہیں۔ داستانوں میں ان عناصر‬
‫کا مطالعہ آج انسان کو بیزار و متنفر کر دیتا ہے اور وہ پرانے کالسیک ادب کو بے کار محض سمجھ‬
‫کر پھینک دیتا ہے۔سحر البیان کی داستان بھی جنوں اور پریوں کے عناصر موجود ہیں لیکن یہ‬
‫عناصر نہ صرف تعداد میں کم ہیں بلکہ اپنے خصائص میں بھی فطرت سے زیادہ دور نہیں اور‬
‫مثنوی کا مجموعی تاثر فطری حقیقی اور انسانی زندگی سے قریب نظر آتا ہے۔سحر البیان کے مافوق‬
‫الفطرت کردار اپنے خصائص اور حرکات و سکنات سے بالکل ہماری طرح کے انسان معلوم ہوتے‬
‫ہیں۔کسی جگہ بھی بعید از عقل کارناموں کے ذریعے مثنوی کے ارتقا میں مدد نہیں لی گئی۔اگر کسی‬
‫موقعہ پر یہ کردار اہمیت اختیار کر جاتے ہیں تو ان کی سیرت و کردار کا اظہار انسانوں جیسا ہی‬
‫نظر آتا ہے۔‬
‫مثالً پر ی رقابت میں شہزادے کو قید کر دیتی ہے۔یہ عنصر انسانی سیرت کے بالکل قریب‬
‫ہے۔شہزادے کی رہائی کے ل یے وزیر زادی نجم النسا پرستان جاتی ہے۔دیوؤں کا شہزادہ اس پر فدا ہو‬
‫جاتا ہے۔اور اس کی مدد سے شہزادے کو رہائی نصیب ہوتی ہے۔یہاں دیوؤں کا شہزادہ کردار ہے‬
‫لیکن وہ پھونک مار کر یا چراغ رگڑ کر کسی ماتحت دیو کو حکم دے کر شہزادے کی رہائی کا بندو‬
‫بست نہیں کرتا بلکہ شہزادی کو ڈراتا دھمکاتا ہے کہ وہ اس کے باپ کو آدم زاد کے ساتھ عشق کے‬
‫متعلق بتا دے گا۔‬
‫تیرے باپ کو گر لکھوں‬
‫تیرا حال تو کیا حال ہو‬
‫ترا پھر اے چھنال ترا‬
‫رنگ غیرت سے اڑتا‬
‫نہیں تجھے کیا پری زاد‬
‫جڑتا نہیں ہمارا گئی بھول‬
‫خوف و خطر لگی‬
‫رکھنے انسان پر تو نظر‬
‫بھال چاہتی ہے تو اس کو‬
‫نکال کنوئیں میں جسے‬
‫تو نے رکھا ہے ڈال اور‬
‫اس کی قسم کھا کہ پھر‬
‫گر کہیں لیا نام اس کا تو‬
‫پھر تو نہیں‬
‫شہزادہ جب بدر منیر کو پر ی کے متعلق بتاتا ہے تو شہزادی کے احساسات‬
‫مالحظہ ہوں۔ مرو تم پری پہ وہ تم پہ مرے‬
‫بس اب تم ذرا مجھ‬
‫سے بیٹھو پرے میں‬
‫اس طرح کا دل لگاتی‬
‫نہیں‬
‫یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں‬
‫ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ داستان میں مافوق الفطرت عناصر اول تو ارتقائی لحاظ سے اتنے اہم‬
‫نہیں۔اگر کسی موقع پر اہم ہو جاتے ہیں تو ان کا اظہار انسانی فطرت کے بالکل قریب ہے۔‬
‫داستانوں میں کرداروں کی بھر مار ہوتی ہے۔جو نہایت تیزی سے ہمارے سامنے سے گذر جاتے‬
‫ہیں۔اس لئے یہ کردار اپنا کوئ ی تاثر پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔تاہم مرکزی کردار پر کافی توجہ‬
‫صرف کی جاتی ہے۔کردار نگاری کا فنی تقاضا ہے کہ ذیلی کردار مرکزی کردار کی شخصیت کے‬
‫اظہار‪ ،‬نمو اور ارتقا میں حصہ لیں۔داستانوں میں اس قسم کے ارتقائی کردار عموما ً ناپید ہوتے ہیں‬
‫مگر یوں محسوس ہوت ا ہے کہ سحر البیان میں میر حسن نے کردار نگاری پر کافی توجہ صرف کی‬
‫ہے اور یہ کاوش شعوری نظر آتی ہے۔‬
‫کردار نگاری سے کہانی کے ارتقا میں مدد ملتی ہے۔کردار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اصلیت کے‬
‫قریب ہو۔وہ اپنے اعمال کی تکذیب نہ کرے اور اس کی زبان اپنے طبقہ کی نمائندہ زبان ہو۔کردار‬
‫نگاری میں جزئیات سے بہت کام لیا جاتا ہے۔کردار کی اصلی تصویر سامنے النے کے لیے کردار‬
‫کی چھوٹی چھوٹی جزئیات پر بھی فنکار کی نظر ہوتی ہے۔‬
‫پروفیسر احتشام حسین کی نظر میں سحر البیان کی سب سے بڑی خصوصیت یقینا ً یہ ہے کہ اس کا‬
‫انداز بیان‪ ،‬اس کی تفص یالت اور اختصار‪ ،‬محاوروں کا استعمال‪ ،‬اس کی رنگینی اور دل کشی دوسری‬
‫مثنویوں میں نہیں پا ئی جاتی مگر اس کی یہ خصوصیت بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ‬
‫اس میں کردار نگاری کا ایک اعلی نمونہ موجود ہے۔کردار کے تعارف کا سلیقہ مالحظہ فرمائیں۔ تھی‬
‫ہمراہ اک اس کے دخت وزیر نہایت حسین اور قیامت شریر ز بس تھی ستارہ سی وہ دلربا اسے لوگ‬
‫کہتے تھے نجم النسا‬
‫دیکھئے دو شعروں میں کردار کو اس کی تمام قابل لحاظ خصوصیات کے ساتھ کس سلیقہ سے‬
‫متعارف کروایا۔کردار کی معمولی جزئیات اس کے انداز‪ ،‬لباس‪ ،‬تکلم‪ ،‬ماحول اور دوسری ذیلی‬
‫تفصیالت کا نمونہ داستان ـــ ’’تعریف بدر منیر اور عاشق ہونا بے نظیر کا ‘‘میں آپ کو نظر آئے گا۔‬
‫طوالت سے اجتناب کی خاطر مثال میں تلخیص سے کام لیا جا رہا ہے۔‬

‫برس پندرہ ایک کا‬


‫سن و سال نہایت‬
‫حسین اور صاحب‬
‫جمال دیے کہنی تکیے‬
‫پہ اک ناز سے سر‬
‫نہر بیٹھی تھی اک‬
‫انداز سے کروں اس‬
‫کی پوشاک کا کیا بیاں‬
‫پشواز آب‬
‫ِ‬ ‫فقط ایک‬
‫رواں اور اک اوڑھنی‬
‫جوں ہوا یا حباب‬
‫جسے دیکھ شبنم کو‬
‫آوے حجاب وہ ترکیب‬
‫اور چاند سا وہ بد ن‬
‫وہ بازو پہ ڈھلکے‬
‫ہوئے نورتن سب‬
‫اعضا بدن کے موافق‬
‫درست ہر اک کام میں‬
‫اپنے چاالک چست‬
‫کرشمہ‪ ،‬ادا‪ ،‬غمزہ‪ ،‬ہر‬
‫آن میں غرض دل‬
‫بری اس کے فرمان‬
‫میں تغافل‪ ،‬حیا اور‬
‫شوخی‪ ،‬غرور ہر اک‬
‫اپنے موقعے پہ وقت‬
‫ضرور‬
‫الغرض شہزادی کے حسن و جمال اور لباس وغیرہ کی تفصیالت میں میر حسن نے صرف ساٹھ‬
‫اشعار سے کام لیا۔اس سے کردار کی جزئیات پر ان کی نظر کا اندازہ با آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ زبان‬
‫کے حوالے سے بھی میر حسن نے کردار نگاری کا حق بخوبی اد ا کیا ہے۔ شہزادی کی زبان‪،‬‬
‫عورتو ں کی زبان‪ ،‬پنڈتوں اور رمالوں کی زبان‪ ،‬ان سب میں تفاوت و تفریق کرداروں کے لحاظ سے‬
‫برابر موجودہے۔ مثالً ایک برہمن کی زبان کا نمونہ مالحظہ فرمائیے۔‬

‫جنم پترا شاہ کا دیکھ کر‬


‫تال اور برچھیک پر‬
‫کر نظرکہا رام جی‬
‫کی ہے تجھ پر دیا‬
‫چندر ماں سا اک‬
‫بالک ترے ہوئیگا‬
‫نکلتے ہیں اب تو‬
‫خوشی کے بچن نہ ہو‬
‫گر خوشی تو نہیں‬
‫برہمن مہاراج کے‬
‫ہوں گے مقصد شتاب‬
‫کہ آیا ہے اب پانچویں‬
‫آفتاب نصیبوں نے‬
‫کی آپ کے یاوری‬
‫کہ آئی ہے اب‬
‫ساتویں مشتری مقرر‬
‫ترے چاہیے ہو پسر‬
‫کہ دیتی ہے یوں اپنی‬
‫پوتھی خبر‬
‫ان اشعار میں ہند ی الفاظ کی مالوٹ اور لب و لہجہ سے ایک برہمن کا کردار ہی ہمارے سامنے آئے‬
‫گا۔ اسی طرح سب کرداروں کی زبان ان کے طبقہ کے مطابق ہے۔جہاں تک کردار کے اصلیت کے‬
‫قریب ہونے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے بھی سحر البیان کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔ ارسطو‬
‫نے قرین قیاس ناممکن کو ممکن بعید از قیا س پر ترجیح دی ہے۔ کر دار نگاری میں مبالغے سے‬
‫کردار کی تصویر مسخ ہو جاتی ہے۔لہٰ ذا فن کار کردار کو ایسی فنکارانہ چابک دستی سے پیش کرتا‬
‫ہے کہ وہ اصل کے زیادہ سے زیادہ قریب رہے۔ ہماری مثنویوں میں عام طور پریہ خصوصیت نہیں‬
‫پائی جاتی۔گلزار نسیم میں زین الملوک کے فرزندوں کے اوصاف مندرجہ ذیل گنوائے گئے ہیں۔ خالق‬
‫نے دیے تھے چار فرزند دانا‪ ،‬عاقل‪ ،‬ذکی‪ ،‬خردمند‬
‫لیکن ان خوبیوں کے عملی اظہار کی نوبت پور ی مثنوی میں نہیں آتی۔رشید احمد صدیقی نے کہا‬
‫ہے کہ داستان میں ہیرو ووٹ ڈالنے کی عمر سے کم عمر تک پہنچنے سے بھی پہلے مجموعہ‬
‫حسن نے بھی شہزادے کی کردار نگاری پر کافی زور صرف کیا ہے۔وہ چھوٹی‬
‫ؔ‬ ‫کماالت بن جاتا ہے۔‬
‫سی عمر مینہی ہر فن میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔مگر پور ی مثنوی میں ان خوبیوں سے کہیں کام‬
‫نہیں لیا گیا۔ دیا تھا زبس حق نے ذہن رسا کئی سال میں علم سب پڑھ چکا‬
‫معانی و منطق‪ ،‬بیان‬
‫و ادب پڑھا اس نے‬
‫منقول و معقول سب‬
‫خبردار حکمت کے‬
‫مضمون سے غرض‬
‫جو پڑھا اس نے‬
‫قانون سے لگا ہئیت و‬
‫ہندسہ تا نجوم‬
‫زمین آسماں میں پڑی‬
‫اس کی دھوم الغرض‬
‫سوا ان کمالوں کے‬
‫کتنے کمال مروت کی‬
‫خو‪ ،‬آدمیت کی چال‬
‫رذالوں سے نفروں‬
‫سے نفرت اسے سدا‬
‫قابلوں سے تھی‬
‫صحبت اسے گیا نام‬
‫پر اپنے وہ دل پذیر‬
‫ہر اک فن میں سچ مچ ہوا بے نظیر‬
‫مگر پوری مثنوی میں شہزادے نے ان علوم سے دلچسپی کا کوئی عملی اظہار نہیں کیا۔اور سچ تو یہی‬
‫ہے کہ پور ی مثنوی میں شہزادے کا کردار جامد اور غیر عملی ہے۔‬
‫یہ درست ہے کہ شہزادے کا کردار جامد اور حقیقت سے زیادہ قریب نہیں مگر شہزادی کی سہیلی‬
‫وزیر نجم النسا کا کردار بڑا جاندار اور متحرک ہے اور کردار نگاری کے فنی تقاضوں کو پورا کرتا‬
‫ہوا نظر آتا ہے۔کہانی کے ارتقا میں اس کی اہمیت بنیادی ہے۔اس کے عالوہ شہزادی کے کردار میں‬
‫حسن نے ان کرداروں میں کردار نگاری کے عمدہ نمونے پیش کیے‬
‫ؔ‬ ‫بھی جان محسوس ہوتی ہے۔اور‬
‫حسن نے کمال‬
‫ؔ‬ ‫ہیں۔ ان کرداروں کی پیشکش‪ ،‬ان کی تصویر‪ ،‬گفتگو‪ ،‬لب و لہجہ کی تشکیل میں‬
‫فنکارانہ موقلم سے کام لیا ہے۔شاعری نام ہے جذبات و احساسات کی فن کارانہ ترجمانی کا۔ شاعری‬
‫میں جذبات کی عکاسی اور داخلی نفس یاتی کیفیات کی ترجمانی معراج فن کی نشاندہی کرتی ہے۔سحر‬
‫البیان میں کردار کی داخلی کشمکش‪ ،‬شکست و ریخت اور شادی و غم کے جذبات قاری نہ صرف‬
‫محسوس کر تا ہے بلکہان کے حلقہ اثر میں آئے بغیر نہیں رہتا۔‬
‫‪..................................................................................................................‬‬
‫‪.....................................................................................................‬‬

‫‪.‬اکبر نے اپنی قطعہ نگاری مغربی تہذیب کو تفصیال نشانہ بنایا ہوا ضاحت کریں‬
‫سول ‪3.‬‬
‫اکبر ٰالہ آبادی کی سو سالہ برسی تقریبات منائی جارہی ہیں۔ اکبر کا شمار قومی اور مل ّ‬
‫ی شعرا میں‬
‫ہوتاہے۔ آپ نے انگریزی تہذیب‘ انگریزی رسم و رواج‘ ہندوانہ رسومات کے خالف آواز اٹھائی۔ آپ‬
‫نےاردو‘ ہندی جھگڑا‘ سرسید اور علی گڑھ تحریک‘ گاندھی کے خالف جب محسوس کیا‘ شاعری‬
‫کی اور اصالح کرنے کی کوشش کی۔ بیسویں صدی کی ابتدائی دو دھائیوں میں اکبر ایک مزاحمتی‬
‫شاعر کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ آپ کا لہجہ طنزیہ ‘ مزاحیہ تھا۔ مزاح کے انداز میں وہ معاشرتی‬
‫اس‬
‫عیوب کو سامنے التے اور مسلمانوں میں جدید تعلیم و تہذیب کے جو بد اثرات پیدا ہو چلے تھے‘ ُ‬
‫کی نشان دہی کرتے تھے۔ وہ معاشرے کی‘ مسلم معاشرہ کی‘ مشرقی اقدار کی اصالح بھی چاہتے‬
‫تھے اور حفاظت بھی۔ بزم اکبر نے تین جلدوں پر کلیات اکبر شائع کی ہے۔ دو جلدوں پر اکبر ٰالہ آبادی‬
‫کے قطعات و‬
‫رباعیات بھی شائع ہوئے ہیں۔ ہم اکبر ٰالہ آبادی کے ’’قطعات و رباعیات‘‘ کا جائزہ لیتے ہیں۔‬
‫’’قطعات و رباعیات‘‘ اکبر ٰالہ آبادی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ بزم اکبر کراچی کے زیر اہتمام اس کا‬
‫پہال حصہ ‪ 26‬رجب ‪1371‬ہجری مطابق ‪ 22‬اپریل ‪1952‬ء کو ناظم شعبہ تصنیف و تالیف مال محمد‬
‫واحدی کے زیر اہتمام شائع ہوا تھا۔ بزم اکبر کے صدر چوہدری نذیر احمد خان صاحب تھے اور جنرل‬
‫سیکرٹری مشتاق احمد وجدی۔ پہلے تین حصوں پر کلیات اکبر ٰالہ آبادی شائع کی بعد میں ’’قطعات و‬
‫میں‬ ‫حصوں‬ ‫دو‬ ‫رباعیات‘‘‬
‫’’قطعات و رباعیات‘‘ حضرت اختر انصاری اکبر آبادی نے منتخب کیے اور ترتیب و تدوین میاں‬
‫احسان الحق نے کی۔ اس حوالے سے آپ ’’عذر تقبر خدمت‘‘ میں صفحہ ‪ 32,31‬میں تحریر کرتے‬
‫ہیں ’’ جہاں تک قطعات و رباعیات اکبر کی تدوین و ترتیب کا تعلق ہے‘ اس میں اگرچہ منطقی تقسیم‬
‫اور جامعیت و معنویت کا لحاظ نہیں رکھا جا سکا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ ناقص و نامکمل‬
‫تدوین و ترتیب بھی ان حضرات کے لیے کافی مفید ثابت ہوگی جوکسی خاص موقع پر یا مضمون پر‬
‫حضرت اکبر کے خیاالت اور ان کی جوالنی ہائے فکر کو یکجا دیکھنا چاہتے ہیں یا جن کی خواہش‬
‫ہے کہ کالم اکبر کی تدوین و اشاعت میں ایسی ترتیب ملحوظ رکھی جائے کہ کسی مطلوبہ قطعہ یا‬
‫رباعی کو تالش میں ان کو ورق گردانی کی زیادہ زحمت نہ اٹھانی پڑے۔ میں نے قطعات و رباعیات‬
‫اکبر کی تدوین و ترتیب اس طرح کی کہ اہم مطالب و مضامین کے اشتراک کے لحاظ سے ان کو‬
‫ابواب پر تقسیم کردیا ہے۔‘‘ اس کتاب میں حاشیہ نگاری کے فرائض بھی میاں احسان الحق نے مال‬
‫واحدی کے حکم پر انجام دیے تاکہ نئی نسل کو‬
‫آسانی ہو۔’’قعطات و رباعیات‘‘ جل ِد ّاول میں ‪26‬‬ ‫میں‬ ‫سمجھنے‬ ‫مفہوم‬ ‫اور‬ ‫معنی‬
‫ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ ان موضوعات کو دیکھ کر جہاں اکبرکی قادرالکالمی کا اندازہ ہوتا ہے‬
‫وہاں ان کی بصیرت‘ سوچ و فکر‘ اسالمی حمیت اور قومی جذبات کابھی احساس ہوتا ہے۔ شروع کے‬
‫‪ 9‬ابواب کا تفصیلی مطالعہ کریں تو اکبر ٰالہ آبادی کی اسالمی شعائر سے محبت‘ مسلمانوں کے دین‬
‫سے بیگانگی‘ شیعہ سنی فرقہ واریت‘ اختالف‘ دین سے دوری وغیرہ سب آپ کو ملے گی۔ اکبر‬
‫رسول‪ ،‬عشق ٰالہی چاہتے تھے۔ ان کے موضوعات کا جائزہ‬
‫ؐ‬ ‫ق‬
‫مسلمانوں میں اسالمی تعلیمات‘ عش ِ‬
‫لیتے ہیں۔ پہال باب حمد و دعا‘ نعت و منقبت پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب کا نام اسالمیات و عرفانیات‬
‫ہے‘ تیسرا باب موجودہ دور میں جو اسالم سے بیگانگی ہوگئی ہے اس موضوع پر ہے‘ چوتھے باب‬
‫میں دین و دانش کے حوالے سے قطعات و رباعیات جمع کر دی گئی ہیں‘ پانچویں باب میں نئی نسل‬
‫میں جو المذہبی ہو رہی ہے اس پر اظہار خیال کیا گیا ہے‘ چھٹے باب میں شیعہ سنی فرقہ واریت کی‬
‫مذمت میں قطعات کہے گئے ہیں‘ ساتویں باب میں نئی نسل کو ہندو موعظمت کہے گئے‘ آٹھویں باب‬
‫میں اخالق و معاشرت اور نویں میں بصائر وکم اسالمی احکام بتالئے گئے۔ ان ابواب‘ ان قعطات و‬
‫رباعیات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرہ کے زوال کا بنیادی سبب اسالمی احکام سے‬
‫دوری تھا‘ ہندوانہ رسومات کا داخلی اور جدید مغربی تہذیب نے مسلم معاشرہ و ثقافت کو کھوکھال کر‬
‫دیا تھا۔ اکبر اسی مسلم معاشرے کی احیائے نو چاہتے تھے۔ دسویں باب سے ایسے موضوعات جمع‬
‫کیے گئے جو اکبر کی شاعری کی پہچان ہے۔ مثالً دسویں باب میں قومیات اور سیاست پر‘ گیارہویں‬
‫میں طنزیات‘ بارہویں میں گاندھی جی اور ان کی تحریکوں پر اظہار خیال کیا گیا۔ تیرہویں باب میں‬
‫تعلیم نسواں اور پرد ٔہ نسواں پر اکبر کا نظریہ پیش کیا گیا۔ چودھویں باب میں نئی اور پرانی‬
‫تہذیب کے فرق کو پیش کیا گیا۔ پندرہویں باب میں نئی اور پرانی تعلیم کے مابین فرق کو بیان کیا گیا۔‬
‫نقادان فن نے تفصیلی مضامین و‬
‫ِ‬ ‫یہ سب موضوعات ایسے ہیں کہ ہر موضوع پر مقالہ نگاروں نے‘‬
‫قطعات تحریر کیے۔ سرسید اور علی گڑھ تحریک پر شاعری کو سولہویں باب میں جمع کیا گیا اور‬
‫تقلید فرنگ میں مبتال لوگوں کے حوالے سے شاعری سترہویں باب میں جمع کی گئی ہے۔ اٹھارہویں‬
‫باب میں انگریز اور انگریزی حکومت کے خالف شاعری کے نمونے ملتے ہیں۔ انیسویں باب میں‬
‫ہندوانہ رسومات جو مسلم معاشرے میں داخل ہو رہی ہیں‘ ان کا ذکر ہے اور بیسویں باب میں اردو‬
‫ہندی جھگڑوں کے حوالے سے اظہار خیال کیا گیا۔ ان قطعات و رباعیات سے بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے‬
‫کہ اکبر ٰالہ آبادی سیاسی بصیرت‘ مذہبی حمیت رکھنے والے بیدار مغز شاعر تھے جو مسلمانوں کی‬
‫نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے‘ مسلمانوں کی اصالح چاہتے تھے‘ ہندوانہ رسومات اور جدید مغربی تہذیب‬
‫سے بچانا چاہتے تھے۔ مسلمانوں کی سیاسی آزادی بھی چاہتے تھے‘ انگریز کی غالمی سے بھی‬
‫بچانا چاہتے تھےاور ہندوانہ غالمی سے بھی۔ ان کی شاعری قطعات و رباعیات کئی سو ہیں اور دو‬
‫جلدوں‘ ‪ 700‬صفحات‬
‫ہیں۔‬ ‫کرتے‬ ‫پیش‬ ‫انتخاب‬ ‫کا‬ ‫رباعیات‬ ‫و‬ ‫قطعات‬ ‫مشہور‬ ‫چند‬ ‫مشتمل‬ ‫ر‬
‫ہیں‬ ‫جاتے‬ ‫اٹھے‬ ‫سب‬ ‫کے‬ ‫سب‬ ‫سے‬ ‫بزم‬ ‫س‬

‫ہیں‬ ‫جاتے‬ ‫اٹھے‬ ‫سبب‬ ‫تھے‬ ‫جو‬ ‫کے‬ ‫سکین‬

‫تھی‬ ‫سے‬ ‫عقیدوں‬ ‫مذہبی‬ ‫ت‬


‫قو ِ‬ ‫ک‬

‫ہیں‬ ‫جاتے‬ ‫اٹھے‬ ‫اب‬ ‫دلوں‬


‫تو‬ ‫بھی‬ ‫ہ‬
‫رخصت‬ ‫وظیفہ‬ ‫اور‬ ‫نماز‬ ‫سے‬ ‫گلوں‬

‫رخصت‬ ‫حنیفہ‬ ‫ابو‬ ‫امام‬ ‫سے‬ ‫لج‬

‫خبر‬ ‫کی‬ ‫قیامت‬ ‫اب‬ ‫ہے‬ ‫سنی‬ ‫سے‬ ‫صاحب‬

‫رخصت‬ ‫خلیفہ‬ ‫ہیں‬ ‫سے‬


‫سطنطنیہ‬

‫گئی‬ ‫اٹھ‬ ‫محبت‬ ‫و‬ ‫صلح‬ ‫ہوں‬ ‫دیکھتا‬ ‫یں‬

‫سے‬ ‫خاندان‬ ‫ہر‬ ‫سے‬ ‫گروہ‬ ‫ہر‬ ‫میں‬ ‫دل‬ ‫ر‬

‫کچھ‬ ‫اور‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫سوا‬ ‫ہے‬ ‫نہیں‬ ‫سبب‬ ‫کا‬ ‫س‬

‫سے‬ ‫درمیان‬ ‫خدا‬ ‫ہے‬ ‫گیا‬ ‫اٹُھ‬ ‫کہ‬ ‫نی‬

‫برباد‬ ‫کو‬ ‫آدمی‬ ‫ہے‬ ‫کرتی‬ ‫یا‬

‫ناشاد‬ ‫طبیعت‬ ‫ہے‬ ‫رہتی‬ ‫سے‬ ‫کار‬

‫کی‬ ‫دل‬ ‫محافظ‬ ‫بس‬ ‫ہیں‬ ‫چیزیں‬ ‫ہی‬ ‫و‬

‫یاد‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫اور‬ ‫تصور‬ ‫کا‬ ‫قبی‬


‫ٰ‬

‫کو‬ ‫باپ‬ ‫آسمانی‬ ‫یورپ‬ ‫ہے‬ ‫جاتا‬ ‫دلتا‬

‫کو‬ ‫بھاپ‬ ‫اور‬ ‫کو‬ ‫برق‬ ‫نے‬ ‫اس‬


‫ُ‬ ‫ہے‬ ‫سمجھا‬ ‫خدا‬ ‫س‬

‫بھاپ‬ ‫گی‬ ‫جائے‬ ‫ُ‬


‫اڑ‬ ‫اور‬ ‫دن‬ ‫اک‬ ‫گی‬ ‫جائے‬ ‫گر‬ ‫رق‬

‫کو‬ ‫آپ‬ ‫اپنے‬ ‫رکھنا‬ ‫بچائے‬ ‫اکبر‬


‫ؔ‬ ‫کھنا‬
‫قوم‬ ‫فالح‬ ‫سکتی‬ ‫نہیں‬ ‫ہو‬ ‫سے‬ ‫مذہبی‬

‫آپ‬ ‫سے‬ ‫منزلوں‬ ‫نہ‬ ‫گے‬ ‫سکیں‬ ‫گزر‬ ‫رگز‬

‫نے‬ ‫رسول‬
‫ؐ‬ ‫تھے‬ ‫دیے‬ ‫نکال‬ ‫بت‬ ‫سے‬ ‫عبے‬

‫آپ‬ ‫سے‬ ‫دلوں‬ ‫ہیں‬ ‫رہے‬ ‫نکال‬ ‫کو‬ ‫ہللا‬

‫رکھو‬ ‫توانا‬ ‫دل‬ ‫مضبوط‬ ‫اطر‬

‫رکھو‬ ‫اچھا‬ ‫خیال‬ ‫اچھی‬ ‫ید‬

‫آسان‬ ‫تمہاری‬ ‫مشکلیں‬ ‫گی‬ ‫جائیں‬

‫رکھو‬ ‫بھروسا‬ ‫پر‬ ‫ہللا‬ ‫بر‬

‫کرو‬ ‫تیز‬ ‫کو‬ ‫طبع‬ ‫علم‘‬ ‫کرو‬ ‫حاصل‬

‫کرو‬ ‫پرہیز‬ ‫سے‬ ‫ا ُن‬ ‫ہیں‘‬ ‫بری‬ ‫جو‬ ‫تیں‬

‫اکبر‬
‫ؔ‬ ‫سے‬ ‫نیکیوں‬ ‫نے‬ ‫عزت‬ ‫ومی‬

‫کرو‬ ‫انگریز‬ ‫نقل‬ ‫ہے‬ ‫کیا‬ ‫میں‬ ‫س٭‬

‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫مذہب‬ ‫رنگ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫وہ‬ ‫ذیب‬

‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫مودب‬


‫ٔ‬ ‫جو‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫وہ‬ ‫زاد‬

‫ساتھ‬ ‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫خاکساری‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫وہ‬ ‫زئین‬

‫ہو‬ ‫بھی‬ ‫یارب‬ ‫میں‬ ‫جس‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫وہ‬ ‫سپیچ‬

‫کروں‬ ‫کیا‬ ‫سفارش‬ ‫کی‬ ‫مے‬ ‫سے‬ ‫وم‬


‫یہ‬ ‫ہے‬ ‫دیتی‬ ‫کر‬ ‫شیطان‬ ‫کو‬ ‫ک‬

‫مفید‬ ‫میں‬ ‫اس‬ ‫فقط‬ ‫ہے‬ ‫جوہر‬ ‫ک‬

‫یہ‬ ‫ہے‬ ‫دیتی‬ ‫کر‬ ‫آسان‬ ‫ودکشی‬


‫٭‬
‫صاحب‬ ‫شیخ‬ ‫میں‬ ‫مسجد‬ ‫صاحب‬ ‫الٹ‬ ‫میں‬ ‫رجا‬
‫ہیں‬ ‫رہے‬ ‫لڑ‬ ‫میں‬ ‫کمرے‬ ‫کے‬ ‫صوفی‬ ‫فالں‬ ‫دھو‬

‫ہے‬ ‫مچا‬ ‫غل‬ ‫میں‬ ‫ڈیوڑھی‬ ‫میں‬ ‫گھر‬ ‫ہے‬ ‫رہی‬ ‫ُ‬
‫اڑ‬ ‫اک‬

‫ہیں‬ ‫رہے‬ ‫لڑ‬ ‫سے‬ ‫بھائی‬ ‫مخالف‬ ‫ہیں‬ ‫کے‬ ‫ذہب٭‬

‫میل‬ ‫کیسا‬ ‫ترقی‬ ‫سی‬

‫کھیل‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫لو‬ ‫سن‬ ‫سے‬

‫بھینس‬ ‫کی‬ ‫اس‬


‫ُ‬ ‫الٹھی‬ ‫کی‬ ‫جس‬

‫فعل‬ ‫فعل‬ ‫فعل‘‬ ‫ل‘‬

‫ہے‬ ‫کافی‬ ‫لیے‬ ‫کے‬ ‫عمر‬ ‫سائش‬

‫صاحب‬ ‫کلکٹر‬ ‫اور‬ ‫ہوں‬ ‫راضی‬ ‫بی‬ ‫ی٭‬

‫اکبر‬
‫ؔ‬ ‫بندے‬ ‫نیک‬ ‫کے‬ ‫خدا‬ ‫ہیں‬ ‫ہم‬ ‫س‬

‫ہیں‬ ‫کھاتے‬ ‫گھر‬ ‫اپنے‬ ‫ہیں‬ ‫گاتے‬ ‫کی‬ ‫ن‬

‫جا‬ ‫بھول‬ ‫کو‬ ‫ہسٹری‬ ‫اپنی‬ ‫کو‬ ‫لٹریچر‬ ‫ھوڑ‬

‫جا‬ ‫اسکول‬ ‫کر‬ ‫ترک‬ ‫تعلق‬ ‫سے‬ ‫مسجد‬ ‫و‬ ‫شیخ‬


‫فائدہ‬ ‫کیا‬ ‫سے‬ ‫کوفت‬ ‫ہے‬ ‫زندگی‬ ‫کی‬ ‫دن‬ ‫چار‬

‫جا‬ ‫پھول‬ ‫سے‬ ‫خوشی‬ ‫کر‬ ‫کلرکی‬ ‫روٹی‬ ‫ڈبل‬ ‫ھا‬

‫میں‬ ‫خانے‬ ‫شراب‬ ‫اک‬ ‫کل‬ ‫تھا‬ ‫جشن‬ ‫کا‬ ‫زے‬

‫میں‬ ‫ترانے‬ ‫کسی‬ ‫گایا‬ ‫یہ‬ ‫خوب‬ ‫نے‬ ‫سی‬

‫ہیں‬ ‫مسلماں‬ ‫کے‬ ‫نام‬ ‫ہم‬ ‫سے‬ ‫فضل‬ ‫کے‬ ‫دا‬

‫میں‬ ‫زمانے‬ ‫اس‬ ‫نہ‬ ‫رہتے‬ ‫سے‬ ‫چین‬ ‫گرنہ‬


‫٭‬
‫کرو‬ ‫سامان‬ ‫ایسے‬ ‫کر‬ ‫لے‬ ‫سے‬ ‫قوم‬ ‫ر‬
‫بہشت‬ ‫جائے‬ ‫بن‬ ‫بزم‬ ‫تمہاری‬ ‫کہ‬ ‫سے‬ ‫جس‬

‫بھائی‬ ‫رکھ‬ ‫کام‬ ‫سے‬ ‫مانڈے‬ ‫لوے‬

‫بہشت‬ ‫پائے‬ ‫یا‬ ‫جائے‬ ‫میں‬ ‫دوزخ‬ ‫ردہ‬

‫بیبیاں‬ ‫چند‬ ‫نظر‬ ‫آئیں‬ ‫جو‬ ‫کل‬ ‫پردہ‬ ‫ے‬

‫گیا‬ ‫گڑ‬ ‫سے‬ ‫قومی‬ ‫غیرت‬ ‫میں‬ ‫زمیں‬ ‫بر‬

‫ہوا‬ ‫کیا‬ ‫وہ‬ ‫پردہ‬ ‫کا‬ ‫آپ‬ ‫سے‬ ‫ا ُن‬ ‫جو‬ ‫چھا‬

‫گیا‬ ‫پڑ‬ ‫کے‬ ‫مردوں‬ ‫پہ‬ ‫عقل‬ ‫کہ‬ ‫لگیں‬ ‫ہنے٭‬

‫مگر‬ ‫ہے‬ ‫تو‬ ‫ضروری‬ ‫کی‬ ‫لڑکیوں‬ ‫لیم‬

‫ہوں‬ ‫نہ‬ ‫پری‬ ‫کی‬ ‫سبا ّ‬ ‫و‬ ‫ہوں‬ ‫خانہ‬ ‫اتون‬

‫منتظم‬ ‫کے‬ ‫ا ُن‬ ‫ہوں‬ ‫جو‬ ‫ہوں‬ ‫متقی‬ ‫و‬ ‫علم‬ ‫ی‬
‫ہوں‬ ‫نہ‬ ‫جی‬ ‫استاد‬ ‫مگر‬ ‫ہوں‬ ‫اچھے‬ ‫ستاد‬

‫اکبر‬
‫ؔ‬ ‫کرنا‬ ‫نہ‬ ‫شوق‬ ‫سا‬

‫ساال‬ ‫بنانا‬ ‫نہ‬ ‫کو‬ ‫ورے‬

‫اچھا‬ ‫ہے‬ ‫یہی‬ ‫رنگ‬ ‫ھائی‬


‫ہم بھی کالے یار بھی کاال‬

‫‪....................................................................................................................‬‬
‫‪....................................................................................................‬‬

‫سول‪ .4.‬حفیظ تائب کی نعت گوئی پر مضمون قلم بند کریں‬


‫دور نعت کے ایک اور منفرد شاعر ہیں‪ ،‬ان کی نعت ذوق جدید کی نمائندہ ہے‪ ،‬طرز‬
‫حفیظ تائب اس ِ‬
‫احساس اور پیرایہ¿ اظہار کے لحاظ سے بھی وہ نئے شاعروں کے زیادہ قریب ہیں‪ ،‬نعت گوئی جن‬
‫بنیادی خطوط سے عبارت ہے ان میں احترام رسالت مآب اور جذبہ¿ شیفتگی کو خصوصی اہمیت‬
‫حاصل ہے۔ بقول ڈاکٹر وحید قریشی‪:‬‬
‫حفیظ تائب کا مجموعہ نعتیہ شاعری کا عام روایت سے ہٹ کر رسول مقبول سے عقیدت و محبت‬ ‫”‬
‫کااظہار کیا ہے‪ ،‬انہوں نے عام نعتوں کی پیروی میں رسول پاک کی سراپے کو موضوع نہیں بنایا اور‬
‫نہ ہندی شاعری کی روایت سے اثر لیکر حب رسول کو کرشن اور گوبیوں کی سطح پر محسوس کیا‬
‫ہے ‪،‬انہوں نے رسول اکرم کی ذات کو برقرار رکھا ہے اور محبت کے ساتھ اسوہ¿ حسنہ کی‬
‫تفصیالت بھی بیان کی ہیں‪ ،‬مجموعہ کی دوسری اہم خوبی یہ ہے کہ یہ اشعار تائب کے نزدیک‬
‫شخصی ثواب کمانے کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اسے تخلیقی سطح پر محسوس‬
‫اعلی لمحات کی روداد ہے جو کسی بھی بڑے شاعر کے لیے سرمایہ افتخار ہو‬
‫ٰ‬ ‫کیا ہے‪ ،‬یہ کالم ان‬
‫سکتی ہے‪“....‬۔(‪)1‬‬
‫نعت کے موضوع سے حفیظ تائب کی تخلیقی وابستگی کے اثرات ان کے طرز اظہار میں نمایاں ہیں‬
‫‪،‬سبک الفاظ کا انتخاب‪ ،‬مترنم بحور‪ ،‬جذبے کا رچاؤ جو اس دور کے نعت گو شاعروں کے نمایاں‬
‫اوصاف ہیں‪ ،‬تائب کے فن میں اپنی پوری دالویزیوں کے ساتھ جھلکتے ہیں‪ ،‬ان کے ساتھ جذب و کیف‬
‫اور اخالص و گداز کے جوہر نے انہیں معاصر نعت نگاروں کی صف میں ممتاز و منفرد حیثیت عطا‬
‫کی ہے۔ بقول سید عبدہللا‪:‬‬
‫زبا ن و بیا ن میں کمال درجے کی شستگی اور شائستگی‪ ،‬سکون و سکونت اور برجستگی کے‬ ‫”‬
‫صلو اعلیہ وآل ٍہ )تائب کا‬
‫باوجود متانت جو الزمہ ادب ہے۔ آرائش کا یہ رنگ اور زیبائش کا یہ ڈھنگ ٰ‬
‫مجموعہ( میں ہر جگہ جلوہ افزا ہے‪“....‬۔(‪)2‬‬
‫حفیظ تائب کی نعت کا مرکزی موضوع آنحضرت کی ذات و متعلقات سے ارادت اور عقیدت مندی‬
‫ہے مگر یہ عقیدت مندی آپ کی شان کی مدح و توصیف تک محدود نہیں تائب نے صاحب موضوع‬
‫کے ارشادات و پیغام ات اور مقاصد نبوت و بعثت نبوی کو‪ ،‬جو جدید نعت کی اصل خوبی ہے‪ ،‬مسلسل‬
‫پیش نظر رکھا ہے‪ ،‬ان کی نعت گوئی اصالحی اور مقصدی پہلو لیے ہوئے ہے‪ ،‬پاکستان اور ملت‬
‫اسالمیہ کو در پیش مسائل کا اظہار جس شائستگی سے ان کی نعتوں میں ملتا ہے‪ ،‬دوسروں کے ہاں‬
‫نظر نہیں آتا ‪،‬مسلما نوں کی زبوں حالی‪ ،‬پاکستان میں سیاسی انتشار‪ ،‬اخالقی و مذہبی قدروں کی پامالی‬
‫اقصی کے ماتم افغانستان میں روسی جارحیت پر نالہ و فریاد کے جو مضامین تائب کی‬
‫ٰ‬ ‫سے مسجد‬
‫نعت گوئی میں ملتے ہیں‪ ،‬ان کے سبب نہ صرف تائب کے فن بلکہ صنف نعت کو وسعت ملی ہے۔‬
‫دے تبسم کی خیرات ماحول کو‪ ،‬ہم کو درکار ہے روشنی یا نبی‪....‬‬
‫جلنے لگے اب سرو و صنوبر مرے آقا ‪....‬یہ وہ نعتیں ہیں جو ملکی و ملی احساسات سے لبریز‬
‫ہیں‪ ،‬تائب نے معاصر مذہبی‪ ،‬سیاسی اور معاشرتی مسائل و اقدار کو جز و نعت بنا کر صنف نعت کو‬
‫وقیع اور وسیع کیا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے ان کا فن نعت غیر نعت گو شاعروں کے نزدیک بھی مقبول‬
‫وپسندیدہ ہے‪ ،‬بقول احمد ندیم قاسمی‪:‬‬
‫حفیظ تائب کی نعتیں پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کے توسط سے وہ کائنات انسانی کے‬ ‫”‬
‫مثبت مطالعے میں مصروف ہے‪ ،‬زندگی کا مسئلہ اس کے موضوع سے خارج نہیں ہے کیونکہ اس کا‬
‫ای مان ہے کہ اس کائنات کی تخلیق ہی اس وجود گرامی کی خاطر ہوئی جو ختم المرسلین بھی تھا اور‬
‫خاتم النبیین بھی اور جس کا پیغام صرف عرب یا صرف عجم کیلئے نہیں تھا بلکہ پورے کرہ ارض‬
‫کے عالوہ کائنات کیلئے تھا(‪....“ )3‬‬
‫حفیظ تائب کے ذوق نعت کا وہ پہلو جس کے سبب وہ معاصر نعت گو شاعروں میں منفرد ہیں‪،‬‬
‫عصر حاضر میں نعت کے فروغ و ترویج کے سلسلے میں ان کی مساعی جملہ ہیں۔ انہوں نے نعت‬
‫گوئی کے عالوہ مختلف مضامین اور انٹرویو وغیرہ کی صورت میں صنف نعت اور نعت گو شاعروں‬
‫کو قارئین ادب سے روشناس و متعارف کرایا ہے‪ ،‬ادبی حلقوں اور نئے شاعروں میں نعت کا شوق‬
‫ایک حد تک حفیظ تائب کی معیاری نعت گوئی اور صنف سے گہرے شفف کا نتیجہ ہے۔بقول احمد‬
‫ندیم قاسمی‪:‬‬
‫اس حقیقت کو اب تمام اہل فن کے ذہنوں پر آفتاب بن کر طلوع ہونا چاہیے کہ حفیظ تائب ہی نے‬ ‫”‬
‫اردو اور پنجابی نعت گوئی کو حیات نو بخشی ہے اور ہم سب لوگ جو کبھی کبھار نعتیں کہہ لیتے‬
‫ہیں دراصل اسی کے مقلد ہیں ‪“....‬۔(‪)4‬‬

‫‪..................................................................................................................‬‬
‫‪.................................................................................‬‬

‫انور مقصود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے پردے میں یہ رات درد چھپا ہوا‬
‫سول‪.5.‬ہے بحث کرے‬
‫معروف ڈینش فلسفی ‪ Soren Kierkegaard‬کہتا ہے کہ ” ایک شاعر ایک مغموم انسان ہوتا ہے لیکن‬
‫اس کے لبوں کو ایسی ساخت عطا کی گئی ہے کہ جب وہ آہ بھرتاہے یا کرب سے چیخ اٹھتا ہے تو اس‬
‫کی آواز موسیقی کی طرح لگتی ہے۔ لوگ اس کے گرد مجمع لگا لیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ‬
‫ہمارے لیے جلد ہی دوبارہ نغمہ سرا ہونا یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے اس سے کہا جائے کہ آئندہ بھی‬
‫نئے‬
‫رہیں‬ ‫کرتے‬ ‫زخمی‬ ‫کو‬ ‫روح‬ ‫تمہاری‬ ‫غم‬
‫ایسا ہی کچھ اس شاعر پر بھی صادق آتا ہے جو کہ دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام‪ ،‬طنز و مزاح‬
‫کے افق پر سب سے منور ‪ ،‬درخشاں روشن ستارہ جسے دنیا انور مسعود کے نام سے جانتی ہے۔‬
‫الفاظ و محاورات اور زبان و بیان کی بھول بھلیوں میں کسی معصوم بچے کی مانند بظاہر کھیل کود‬
‫میں مصروف لیکن اس بازیچۂ اطفال کے توسط سے کسی بھی فلسفیانہ موضوع کو بیان کر دینا ان‬
‫کے قلم کا کمال ہے اور پھر شستہ رواں اور بے تکلف الفاظ میں سجائی شاعری اپنے مخصوص‪،‬‬
‫حس ظرافت نہ صرف بیدار‬
‫لطیف‪ ،‬بے ضرر اور انتہائی سادہ انداز میں یوں پڑ ھ دینا کہ سامعین کی ِ‬
‫ہو جائے بلکہ کچھدیر کیلئے وہ اپنے زمان و مکاں‪ ،‬مسائل و حاالت سے بے خبر صرف انور مسعود‬
‫کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگتے ہیں۔ ان کی معروف ترین نظمیں” ا َج کیہہ پکائیے‪ ،‬بنُیان‪ ،‬ل ّ‬
‫سی تے‬
‫چاہ‪ ،‬جہلم دے پ ُل تے‪ ،‬ان ار کلی دیاں شاناں اور بو ٹی دا قیمہ “ وغیرہ اپنے اندر زبان و بیاں کی‬
‫چاشنی کے عالوہ اپنے دور کی پوری تہذیب و ثقافت کی ایک مکمل تصویرلیے ہوئے ہیں۔ یہ نظمیں‬
‫محض ازرا ِہ تفنن سننے اور داد و دہش کےلیے نہیں بلکہ اپنے اندر سیاسی سماجی اور معاشرتی‬
‫شعور و ادراک کی ایک مکمل سند لیے ہوئے ہیں۔ ایک معاشرہ جس میں چوہدری ہمیشہ چوہدری اور‬
‫جنبش ابرو پر کریال اپنی کڑواہٹ کے باوجود‬
‫ِ‬ ‫رحما ہمیشہ رحما ہی رہتا ہے۔ جہاں چوہدری کی‬
‫دسترخوان کا بادشاہ ٹھہرتا ہے اور اس کی رائے کے ذرا سا لڑکھڑانے پر وہی کریال دوزخ کا ایندھن‬
‫بن جاتا ہے جہاں رحما سبزیوں کا نوکر نہیں چوہدری کا جاں نثارخادم ہوتا ہے اور وہ سیدھا سادہ‬
‫خوشامدی اور اپنے آقا کے ماتھے کے بل گن کر خود اپنی ہی بات کی تردید کر دینے واال رحما اس‬
‫کے فیصلے ‪ ،‬نیت اور رائے سے بخوبی باخبر ہوتا‬
‫ہے‬ ‫دیتا‬ ‫کر‬ ‫ختم‬ ‫بات‬ ‫میں‬ ‫انداز‬ ‫نیازمندانہ‬ ‫لیکن‬ ‫طنزیہ‬ ‫ایک‬ ‫اور‬ ‫ہے‬

‫”ب ُجھ لیا چوہدری جی چھولیاں دی دال اے”‬


‫ان پنجابی نظموں کی پرت در پرت اور تہہ در تہہ دلکشی کو بیان کرنے کےلیے ایک پوری کتاب‬
‫درکار ہے۔لیکن میرا موضوع یہاں پر بذلہ سنج‪ ،‬مرن جان مرنج‪ ،‬ہنستے مسکراتے اور اپنے قارئین‬
‫‪،‬سامعین اور ناظرین کی مسکراہٹوں کو اپنے الفاظ و انداز کے اشارے پر قہقہوں میں بدلنے والے اس‬
‫شاعر کے اپنے قہقہے نمناک اور کھوکھلے ہیں۔ انور مسعود کی شہرت دوام کا باعث یہی مزاحیہ‬
‫شاعری ہے جو کہ شعر و سخن سے لگاؤ رکھنے والے افراد سے لے کر ایک عام سادہ سے شہری‬
‫کے حافظے میں بھی کسی نہ کسی رنگ اور شکل میں محفوظ ہے لیکن ان تمام تر نظموں اور قطعات‬
‫پس پردہ ایک متین سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری بھی ہے جس میں رات بھر جاگنے والے‬
‫کے ِ‬
‫ستاروں کی جھلمالہٹ ہے لیکن شاعری کا یہ پہلو مزاحیہ شاعری کے ماہ ِ ِکامل کی آب و تاب کے‬
‫سامنے دھندال جات اہے اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ کہ انتشار بے یقینی اور افراتفری کے اس دور میں‬
‫لوگ چند لمحوں کی ہنسی کو غنیمت سمجھتے ہیں اور کسی کے پاس اتنا حوصلہ اور وقت نہیں ہے‬
‫دیوار گریہ کی حقیقت جاننے لی کوشش کرے۔دوسری بڑی وجہ‬
‫ِ‬ ‫کہ وہ ان قہقہوں کے عقب میں کھڑی‬
‫خود شاعر کا م زاج اور حسن ِبیان ہے دنیا بھر میں سینکڑوں سامعین سے کھچاکھچ بھرے ہوئے پنڈال‬
‫ت زعفران بنا دینے‬
‫کو کش ِ‬
‫جو‬ ‫ہے‪:‬‬ ‫عیاں‬ ‫طبع‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ہی‬ ‫سے‬ ‫ابتدائی کالم‬ ‫شاعر کے‬ ‫والے‬
‫ہے‬ ‫ہنسانا ہوتا‬ ‫ہنسنا‬

‫رونے کو چھپانا ہوتا ہے‬


‫بقول ان کے وہ آج بھی اس شعر کو بڑے اعتماد کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ کرب کی اتھاہ گہرائی سے‬
‫پھوٹنے والے قہقہوں کی گونج اتنی بلند آہنگ ہوتی ہے کہ وہ اشکوں کی برسات کی رم جھم اور کن‬
‫من پر چھا جاتی ہے۔ عام طور پر جیسا کے پنجابی زبان کے بارے میں رائے ہے کہ اس میں بے‬
‫تکلفانہ ہر بات کہ دی جاتی ہے اور ظرافت کا تخلیقی جوہر اس زبان کی کشادگی اور ادائیگی میں‬
‫چمک اٹھتا ہے۔انور کے ہاں جو مشاہدہ ‪ ،‬تجربہ اور اس کا اظہار پایا جاتا ہے وہ اس بے بناوٹ زبان‬
‫میں جہاں انسان کوکھلکھالکر ہنسنے پر مجبور کرتا ہے وہیں کچھ سنگین حقائق ایسے ہیں کہ جن پر‬
‫وہ لب کشائی کرتا ہے تو آنکھیں ‪ ،‬آنچل ‪ ،‬رومال اور دامن بھیگتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے‬
‫بڑی مثال ان کی پنجابی نظم ”انبڑی“ ہے۔شاعر کا اپنا بیان کہ یہ نظم کہنے میں ان کو دس برس‬
‫لگے۔اور پھر ایک رات ایسا ہو کہ اس نظم نے خود انہیں کہا کہ” اٹھو اورمجھے لکھو“ نظم لکھنے‬
‫معٰری جو کہ اپنا انداز بیان اور ہئیت ساتھ‬
‫کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ ایک پابند نظم نہیں بلکہ نظم ٰ‬
‫لے کر آئی۔اور جو شاعر کے تخیل سے آزاد ہو کر اس کے الفاظ میں حیات جاوداں پا گئی۔ اس کہانی‬
‫میں کرداروں کے نام بھی اصلی ہیں واقعہ حقیقی ہے اور وہ ماسٹر خود انور مسعود ہیں۔ یہ ایک ایسی‬
‫نظم ہے کہ جو اپنی بے پناہ قوت اور آتش صفت تاثیر سے شاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دے اور اسے‬
‫مجبور کرے کہ وہ بے قرار ہو کر اٹھے اور الفاظ کے بکھرے موتیوں کو سمیٹ کر اپنی جادو بیانی‬
‫کے دھاگے میں پرو کر ایک ماال کی صورت میں پیش کر دے۔ اس نظم میں احساس کا جو دریا رواں‬
‫ہے وہ سامعین کے اشکوں کے سمندر‬
‫ہے‬ ‫گئی‬ ‫کی‬ ‫کشی‬ ‫تصویر‬ ‫میں‬ ‫زبان‬ ‫سادہ‬ ‫ہے۔نہایت‬ ‫ملتا‬ ‫جا‬ ‫سے‬
‫”منہ اتُے نیل سن تے سُ ّجا ہویا ہتھ سی۔ اکھاں وچ اتھرو تے ُ‬
‫بال ّں وچ رت سی“‬
‫بیٹے کے ہاتھوں مضروب اس ماں کی بے بس اور مقہور محبت التجا میں بدلتی ہے اور وہ اس کی‬
‫خاطرپراٹھا اور انڈوں کا حلوہ بناتی ہے اور اس کے ہم جماعت کے ہاتھوں بھیجتے ہوئے کہتی ہے‬
‫کہ ” چھیتی نال جائیں بیبا۔۔۔دیریاں نہ الئیں بیبا ۔۔۔۔ اوہدےاں تے لوسدےاں ہو ن گیاں آندرا ں ۔ بھکا‬
‫بھاناں اج‬
‫اے‬ ‫گیا‬ ‫ٹر‬
‫ُ‬ ‫اوسکولی‬
‫گوکہ اس نظم میں موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ عورت کے تمام رشتوں پر جسمانی‪ ،‬ذہنی اور جذباتی‬
‫تشدد نہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات ہے اور نہ ہی کوئی نئی بات۔ طاقتور کے ہاتھ میں ہمیشہ الٹھی رہی‬
‫ہے۔ لیکن یہ نظم جس بات اور جذبے کی پردہ کشائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک ماں کا مجبور جذبہ‬
‫جبرو ستم سہہ کر بھی اپنے فطری تقاضے سے بعض نہیں آتا۔ یہ نظم اپنے تاثر کی نوعیت اور شدت‬
‫کے اعتبار سے دائم شاداب نظموں میں رہے گی۔پنجابی ادب میں ” لسی تے چاہ“سے ہٹ کر یہ‬
‫شیریں بیاں شاعر کی شگفتگی کے پس پردہ معاشرتی نا ہمواری‪ ،‬محروی و محکومی اور صبرو و‬
‫رضا کا ایک بھڑکتا االؤ دکھائی دیتا ہے اور عورت رشتے کی جس آگ میں جل کر کندن بنتی ہے اس‬
‫کی شدت بھی اس نظم کی صورت محفوظ ہو گئی ہے اور جذبوں کی بے بسی بے توقیری‪،‬اور بے‬
‫وقعتی اس نظم کے‬

‫گی‬ ‫چلے‬ ‫نسل‬ ‫در‬ ‫نسل‬ ‫میں‬ ‫قالب‬


‫اپنی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں کہ” میری شاعری مکئی کی طرح ہے کہ‬
‫جب وہ جلتی ہے تو مسکراتی ہے۔ مزاح نگار بھی بادل کی طرح ہوتا ہے کہ جب بجلی چمکتی ہے تو‬
‫وہ‬
‫درون خانہ ہنگامے جو بھی‬
‫ِ‬ ‫ہنستا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ روتا ہو لگتا ہے“۔‬
‫رہے ہوں انہوں نے جب بھی پنجابی شاعری سے ہٹ کر اردو میں قلم اٹھایا ہے تو ان کے تخیل سے‬
‫الفاظ تک کے سفر میں شگفتگی ہمیشہ مضامین کی ہمسفر رہی ہے۔قومی زیاں ہو یا شخصی‬
‫جاگیردارانہ نظام کے خالف صدائے احتجاج ہو یا شاعرانہ بے مائیگی اور بے ہنری کا تذکرہ اس میں‬
‫مزاح کی حاشیہ آرائی واضح نظر آتی ہے۔قطع ان کی” مرغوب ترین“ صنف ہے۔ ایک قطعہ بعنوان‬
‫‪ ”،‬فااعتبرو یا او لی البصار“‬
‫کس طرح کا احساس زیاں ہے جو ہوا گم کس طرح کا احساس زیاں ہے جو بچا ہے ملک آدھا گیا ہاتھ‬
‫سے اور چپ سی لگی ہے۔‬
‫۔۔ اِک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے‬
‫کبھی حساس اور درد آشنا دل باشعور ذہن اور محب وطن قلم ملکی حاالت اور صورتحال سے زخمی‬
‫ہوتا‬

‫ہیں‬ ‫کرتے‬ ‫واضح‬ ‫نظر‬ ‫نکتہء‬ ‫میں‬ ‫انداز‬ ‫مخصوص‬ ‫اپنے‬ ‫تو‬ ‫ہے‬
‫میں‬ ‫وطن‬ ‫باقی‬ ‫نہیں‬ ‫بھی‬ ‫ہاکچھ‬
‫ہے‬ ‫گئی‬ ‫رہ‬ ‫حالی‬ ‫خستہ‬ ‫اک‬ ‫گر‬

‫کو‬ ‫روشنی‬ ‫نگاہیں‬ ‫ہیں‬ ‫رستی‬


‫فقط روشن خیالی رہ گئی ہے‬
‫ملکی بقا کے ساتھ ساتھ عوام کا اور ایک عام انسان کی زبوں حالی کا درد بھی ان کے جگر مینہے‬
‫جو‬

‫اس‬ ‫ہے‪ :‬ترقی‬ ‫مجبور کرتا‬ ‫پر‬ ‫کروانے‬ ‫احتجاج درج‬ ‫اپنا‬ ‫کو‬ ‫ان‬
‫ہے‬ ‫گھاٹا نہیں‬ ‫کوئی‬ ‫صورت‬ ‫کسی‬ ‫ہے‬ ‫ہوئی‬ ‫برپا‬ ‫قدر‬

‫بس اتنی سی پریشانی ہے انور الیکشن سر پہ ہے آٹا نہیں ہے‬


‫غم کو ہنسی میں اڑانے کی ادا ‪ ،‬محسوسات کو الفاظ کا رنگا رنگ پیراہن دینے کا ایک منفرد اسلوب‬
‫‪،‬سنجیدہ اور سنگین موضوعات ‪ ،‬جن پر الٹھی چلنے‪ ،‬گولی چلنے اور فی زمانہ بم چلنے میں ایک‬
‫دقیقہ نہیں لگتا نہایت سہو لت سے یوں بیان کر دینا کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ آجائے اور ما فی الضمیر‬
‫بھی ادا ہو جائے۔ اگر شاعر کی شخصیت کو کالم کے ساتھ ہم آہنگ کر کے دیکھا جائے تو ان کے‬
‫کالم میں ایک پنہا ندرد اور سلگتے رہنے کی جو لذت ہے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔وہ کہتے‬
‫ہیں” جب میں پڑھتا تھا کہ غالب کو آم پسند تھے یا اقبال کو آم پسند تھے تو میں سوچتا تھا کہ مجھے‬
‫آم پسند کیوں نہیں‬
‫ہیں۔غور کرنے پر معلوم ہو ا کہ میں نے تو کبھی آم کھائے ہی نہیں تھے“ جب امرا کے طبقے سے‬
‫کوئی اٹھ کر عوام کے غموں کی بات کرے تو وہ محرومی کی شدت اور بے کسی کی اذیت کو نہ تو‬
‫سمجھ سکتا ہے ‪ ،‬نہ ہی بیان کر سکتا ہے ان الفاظ و بیان مین اثر انگیزی مفقود ہوتی ہے۔ انور مسعود‬
‫کا قلم جب جاگیردارانہ نظام پر لکھتا ہے تو اس کی سیاہی اس کرب سے آشنا ہے جس میں ایک عام‬
‫انسان دن رات بسر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ دور حاضر کا ایسا عظیم مزاح نگار ہے جس کے‬
‫مزاح میں زندگی کے تمام تر سنجیدہ موضوعات اپنے سنگین حقائق سمیت سانس لیتے محسوس ہوتے‬
‫ہیں۔ ملک میں امیروں ‪ ،‬وزیروں اور وڈیروں کا راج معاشرتی اور طبقاتی تقسیم اور انسان کی تحقیر‬
‫ان کی سوچ کو زنجیر بپا کرتی ہے اور وہ رک کر اس نا ہمواری کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے‬
‫کہ ” فیوڈل ازم صرف زمین و جاگیرتک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی رویے کا نام ہے جس میں‬
‫انسان جاہ و منصب کے حصول اور احساس برتری کے نشے میں سرشار رہتا ہے تعلیم ایسے لوگوں‬
‫کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ایک قطعہ جس میں ایک عام آدمی اور خاص آدمی کا امتیاز ہے‪:‬‬
‫میں‬ ‫ایمبولینسوں‬ ‫ہیں‬ ‫تڑپتے‬ ‫کتنے‬ ‫ریض‬
‫ہیں‬ ‫والے‬ ‫مرنے‬ ‫کہ‬ ‫ایسا‬ ‫ہے‬ ‫حال‬ ‫کا‬ ‫ن‬
‫ہے‬ ‫رکھا‬ ‫روک‬ ‫کو‬ ‫ٹریفک‬ ‫نے‬ ‫پلُس‬ ‫گر‬

‫اں سے ”قوم کے خادم“ گزرنے والے ہیں‬

‫ترے‬ ‫سارے‬ ‫ہیں‬ ‫دیکھے‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫جٹ‬

‫ترے‬ ‫خسارے‬ ‫انوکھے‬ ‫وکھے‬

‫ترے‬ ‫ادھارے‬ ‫تللے‬ ‫ے‬


‫ترے‬ ‫اتارے‬ ‫قرضے‬ ‫کون‬ ‫ھال‬

‫نہیں‬ ‫پرواہ‬ ‫کی‬ ‫ضریبوں‬ ‫کچھ‬ ‫جھے‬


‫وڈیرے ہیں پیارے دالرے ترے‬
‫ایسے شاعر کو صرف ایک مزاحیہ شاعر سمجھ لینا اور ان کی شاعری سن کر لمحاتی طور پر‬
‫زندگی کی تلخیوں سے صرف نظر کر کے بھرپور ہنسی کے ساتھ محفل کا حصہ بن جانا گو ان کے‬
‫فن اور شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ شاعرانہ کمال کی زندہ دالنہ داد ہے‬
‫کہ ایک شاعر ایسے زندہ ‪ ،‬توانا لیکن سادہ الفاظ سے ایک تصویر پیش کر دینے پر قادر ہے جو‬
‫امیروں کے غریب ملک مینعوام کو تھوڑی دیر کیلئے آٹے دال کا بھاؤ بھال دینے میں کامیاب ہو جاتی‬
‫ہے۔ شعری کیفیات کا یہ برمال اظہار فنی اور تکنیکی مہارت ایک بے بہا انعام ہے۔ اور اس تخلیقی‬
‫کرب سے وہ کیسے گذرتے ہیں اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں کہ شعر گوئی اور اس کی آمد کے‬
‫بارے مینیقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔کبھی تو ایسے تواتر‪ ،‬تسلسل اور روانی سے مصرعے یلغار‬
‫کر دیتے ہیں کہ ان کو تحریر کرنا مشکل ہو اور کبھی کئی کئی دن گذر جاتے ہیں اور ایک مصرع‬
‫بھی موزوں نہیں ہو پاتا اس کی مثال ماہی گیر کے ایک جال کی سی ہے کبھی تو اس میں بے شمار‬
‫مچھلیاں آجاتی ہیں اور کبھی‬
‫ہے‬ ‫رہتا‬ ‫ہی‬ ‫منتظر‬ ‫بھر‬ ‫دن‬ ‫وہ‬
‫۔شعر کہنے کےلیے خود سے مالقات ہونا بہت ضروری ہے اپنی ہی ذات کے ساتھ مکالمہ اور اپنے‬
‫ہی اقوال و افعال کا بے الگ تجزیہ الزمی عنصر ہے۔ انور مسعود کہتے ہیں کہ ”اگر آپ بھیڑ کے‬
‫اندر بھی خود کو تنہا کر سکیں تو آپ شعر کہہ سکتے ہیں“۔ اگرچہ شاعری یا سخن وری عطیۂ‬
‫خدا وندی ہے اور شعراءبراہ راست تالمیذالرحمان ہوتے ہیں لیکن انور کے ہاں اس عنایت کے عالوہ‬
‫ایک موروثی پہلوبھی موجود ہے۔ان کے تایا اور ان کی نانی کرم بی بی حلقہءسخن وراں میں شامل‬
‫تھے اور پھر گجرات کی شاعر ساز اور شاعر نواز فضاؤں کا اثر شعر گوئی ایک تو ان کے خون‬
‫م یں رواں تھی اور مستزاد امام دین کے محلے کے گلی کوچوں میں ایام طفولیت گزارنے والے اس‬
‫شاعر نے ان فضاؤں سے بھی اپنے سانس معطر کر لئے۔ فارسی‪ ،‬اردو اور پنجابی تینوں زبانوں پر‬
‫یکساں قدرت رکھنے کے سبب وہ اکثر اوقات صرف لفظوں کی ادل بدل سے سنجیدہ موضوعات مین‬
‫بھی ا یسی فضاءپیدا کر دیتے ہینکہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور مسکراہٹ بانٹنا بھی صدقہ‬
‫ق سخن میں کمی اور بے توجہی لیکن شعر‬
‫ت مطالعہ اور مش ِ‬
‫جاریہ ـ دور حاضر کے شعرا کی قل ِ‬
‫گوئی پر مسلسل اصرار کو انہوں نے ایکقطع میں بیان کیا ۔ کسی نے ان کو اپنی کاوش اصالح کے‬
‫لیے بھیجی۔‬
‫پر‬ ‫جس‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫بھیجی‬ ‫نے‬ ‫آپ‬ ‫غزل‬ ‫یہ‬ ‫سی‬
‫سکتا‬ ‫نہیں‬ ‫بھی‬ ‫رو‬ ‫میں‪،‬‬ ‫ہوں‬ ‫سکتا‬ ‫نہیں‬ ‫بھی‬ ‫س‬

‫ہے‬ ‫پڑی‬ ‫پہ‬ ‫خشکی‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫خالی‬ ‫سے‬ ‫بحر‬ ‫وں‬
‫شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا‬
‫آخر میں اس انور مسعود سے بھی مل لیجیے جو پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں‪ ،‬ٹاہلیوں ‪ ،‬میدانوں‪،‬‬
‫چوپالوں اور ڈیروں سے ہوتا ہوا انار کلی جا نکلتا ہے‪ ،‬وہاں کی شاناں دیکھ کر متخیر اور مرعوب‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬لیکن یہی شاعر جب مدینہ کی تقدس بھری فضاؤں میں پہنچتا ہے تو اس کا انداز اور لہجہ‬
‫بھی با وضو ہو جاتا ہے۔ اس نور لٹاتی ہوا میں اس کی روح بھی سانس لیتی محسوس ہوتی ہے۔‬
‫بدلے‬ ‫زندگی‬ ‫رسم‬
‫ِ‬ ‫و‬ ‫رہ‬ ‫تھا‬ ‫چاہتا‬ ‫ہ‬
‫بدلے‬ ‫بندگی‬ ‫انداز‬
‫ِ‬ ‫جو‬ ‫تھا‬ ‫گیا‬ ‫گڑ‬

‫بدلے‬ ‫زندگی‬ ‫ب‬


‫اسلو ِ‬ ‫جو‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫ٹک‬

‫بدلے‬ ‫آدمی‬ ‫سے‬ ‫اندر‬ ‫کہ‬ ‫تھی‬ ‫دھن‬ ‫یہ‬ ‫سے‬

‫کہنے‬ ‫کیا‬ ‫رکاب‪،‬‬ ‫گردوں‬ ‫حضرتِ‬ ‫دور‬


‫ِ‬ ‫ہ‬
‫ب سعادت مآب ‪ ،‬کیا کہنے‬
‫وہ انقال ِ‬
‫ان معطر فضاؤں سے نکل کر وہ کربال کی تپتی زمین اپنے تلووں تلے محسوس کرتا ہے اور جب وہ‬
‫دوش محمد ﷺ کا رتبۂ عالی بیان کرتا ہے تو اپنی بے مائیگی کے اعتراف کے‬
‫سوار ِ‬
‫ِ‬ ‫”سالم“ کہہ کر ‪،‬‬
‫ساتھ‪:‬‬
‫عالی‬ ‫رتبہ‬ ‫کا‬ ‫ﷺ‬ ‫محمد‬ ‫دوش‬
‫ِ‬ ‫وار‬
‫ِ‬
‫اجمالی‬ ‫بیان‬
‫ِ‬ ‫میرا‬ ‫ہے‬ ‫عجز‬ ‫ث‬
‫حدی ِ‬
‫بالی‬ ‫پرو‬ ‫بے‬ ‫کی‬ ‫تخیل‬ ‫آج‬ ‫ہے‬ ‫ھلی‬
‫خالی‬ ‫جھولیاں‬ ‫کی‬ ‫لفظوں‬ ‫ہیں‬ ‫دیتی‬ ‫کھائی‬
‫ہے‬ ‫وسیلہ‬ ‫کا‬ ‫اظہار‬ ‫ہر‬ ‫ضعیف‬ ‫اں‬
‫ہے‬ ‫وسیلہ‬ ‫کا‬ ‫خونبار‬ ‫دیدۂ‬ ‫ایک‬ ‫س‬
‫ممکن‬ ‫نا‬ ‫شہیر‪،‬‬ ‫شہی ِد‬ ‫شا ِہ‬ ‫یل‬
‫ِ‬
‫ممکن‬ ‫نا‬ ‫امیر‪،‬‬ ‫ایسا‬ ‫ہو‬ ‫غریب‬ ‫وئی‬

‫ممکن‬ ‫نا‬ ‫ضمیر‪،‬‬ ‫روشن‬ ‫کوئی‬ ‫سا‬ ‫حسین‬


‫ممکن‬ ‫نا‬ ‫نظیر‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫میں‬ ‫عشق‬ ‫جہان‬
‫ِ‬
‫گیا‬ ‫چھوڑ‬ ‫مثال‬ ‫اک‬ ‫عجب‬ ‫نثار‬ ‫جاں‬ ‫ہ‬
‫گیا‬ ‫توڑ‬ ‫غرور‬ ‫کا‬ ‫ستم‬ ‫صبر‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ہ‬
‫کیسی‬ ‫معرفت‬ ‫میں‬ ‫تدبر‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ہے‬ ‫ھپی‬
‫کیسی‬ ‫مفاہمت‬ ‫کی‬ ‫وفا‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫وس‬
‫کیس‬ ‫مصالحت‬ ‫سے‬ ‫ستم‬ ‫کے‬ ‫گروں‬ ‫تم‬
‫بھی‬ ‫قرینہ‬ ‫کا‬ ‫سوچ‬ ‫یہ‬ ‫ہے‬ ‫دین‬ ‫کی‬ ‫سی‬
‫بھی‬ ‫جینا‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫ظالم‬ ‫ہے‬ ‫جرم‬ ‫ایک‬ ‫ہ‬
‫حسین‬ ‫ہے‬ ‫ضوفشاں‬ ‫تاب‬ ‫جہاں‬ ‫مہر‬
‫ِ‬ ‫ثال‬
‫ِ‬
‫حسین‬ ‫ہے‬ ‫کراں‬ ‫بے‬ ‫ایثار‬
‫ِ‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫خلوص‬ ‫ہ‬
‫حسین‬ ‫ہے‬ ‫رازداں‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ہے‬ ‫راز‬ ‫یات‬
‫حسین‬ ‫ہے‬ ‫جاوداں‬ ‫خوشبوئے‬ ‫میں‬ ‫دہر‬ ‫یاض‬
‫ِ‬

‫ہے‬ ‫بھی‬ ‫انتباہ‬ ‫کا‬ ‫ہمیشہ‬ ‫کو‬ ‫ظالموں‬ ‫ہ‬


‫تفسیر ال الہ بھی ہے‬
‫ِ‬ ‫وہ اپنی ذات میں‬
‫مغربی دنیا میں سال نو کے موقع پر رات بھر آتش بازی کی روایت ہے خصوصا ً ڈنمارک میں اکثر‬
‫برف باری ہو چکی ہوتی ہے۔سرشام ہر طرف تاریکی کا راج ہوتا ہے ایسے میں زمین کے برفیلے‬
‫سینے سے اپنے اندر کی توانائی کی بے پناہ قوت سے ُ‬
‫اڑ کرفضاکی بسیط وسعت میں جب یہ آتش‬
‫بازی سماں باندھتی ہے ‪ ،‬دھماکے سے وجود ریزہ ریزہ ہوتا ہے اور اس کے ٹکڑے واپس زمین پر‬
‫آن گرتے ہیں۔ لیکن فضا میں تھوڑی سی دیر کیلئے رنگا رنگ شراروں کا مجنونانہ رقص ایک‬
‫طلسمی کیفیت پیداکر دیتا ہے ۔ لوگوں کی تالیوں کی گونج میں کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔کبھی ان‬
‫شراروں سے ہواؤں کے سینے پر ”سال نو مبارک ہو “ یا ”ڈنمارک زندہ باد “کے الفاظ بھی لکھے‬
‫جاتے ہیں۔ لوگ یہ خوبصورت نظارہ دیکھ کر سیٹیاں بجاتے‪ ،‬تالیاں پیٹتے گھروں کو رخصت ہو‬
‫جاتے ہیں ےکم جنوری کی چھٹی کے بعد صفائی کا محکمہ آتش بازی کے کٹے پھٹے ” الشے“‬
‫سمیٹنے آ جات ا ہے۔انور مسعود کی شاعری بھی ذہنی فضاؤں میں طلسمات کی گلکاریاں دکھاتی ہے‬
‫مضمون‪ ،‬الفاظ اور انداز کی آتشبازی سے جادو جگاتی ہے۔خود اس کے لئے شاعر کی اپنی ذات پر‬
‫کیا گذرتی ہے یہ ایک علیحدموضوع اورایک الگافسانہ ہے۔ لیکن وہ اپنی سنجیدہ شاعری میں بھی منوا‬
‫چکا کہ انور ‪ ،‬انور اےـ بقیہ انور مسعود کے ہاں وطن عزیز سے محبت غیر مشروط بھی ہے‬
‫اورزندگی کا جزو ال ینفک بھی۔ وہ اگر اس کی بہتری کے اقدامات نہیں کر سکتا تو اس کی پسماندگی‬
‫پر تنقیدبھی نہیں کرتا‪:‬‬
‫ہے‬ ‫بھی‬ ‫جیسا‬ ‫در‬ ‫یہ‬ ‫دیواریں‪،‬‬ ‫یہ‬ ‫ہیں‬ ‫کی‬ ‫طرح‬ ‫س‬
‫ہے‬ ‫بھی‬ ‫جیسا‬ ‫ہے‪،‬گھر‬ ‫تو‬ ‫میسر‬ ‫کو‬ ‫چھپانے‬ ‫سر‬

‫کر‬ ‫مان‬ ‫مرشد‬ ‫کو‬ ‫پرواہ‬ ‫بے‬ ‫ق‬


‫شو ِ‬ ‫ہوں‬ ‫پڑا‬ ‫چل‬

‫ہے‬ ‫بھی‬ ‫جیسا‬ ‫خطر‪،‬‬ ‫پر‬


‫ُ‬ ‫یا‬ ‫ہے‬ ‫پیچ‬ ‫پر‬
‫ُ‬ ‫استہ‬

‫لئے‬ ‫کی‬ ‫محبت‬ ‫تیری‬ ‫یک‬ ‫مخصوص‬ ‫ہے‬ ‫تو‬ ‫ہ‬


‫تیرا انور با ہنر‪ ،‬یا بے ہنر‪،‬جیسا بھی ہے‬
‫اپنی کتاب ” اک دریچہ‪ ،‬اک چراغ” میں وہ ایک سنجیدہ دانش ور کے روپ میں ملتا ہے‪ ،‬اگر کالم کا‬
‫انتخاب پیش کیا جانے لگے تو شاید موضوع سے انصاف نہ ہو سکے‪ ،‬پنجابی کی طرح سنجیدہ اردو‬
‫شاعری بھی بظاہر سادہ الفاظ کے لبادے میں ہے‪ ،‬لیکن گہرائی میں سوچنے پر آمادہ ضرور کرتی‬
‫ہے‪:‬‬
‫انو‬ ‫سُو‬ ‫چار‬ ‫میں‬ ‫دریچوں‬ ‫تھیں‬ ‫گری‬ ‫چقیں‬

‫نظر جھکا کے نہ چلتے تو اور کیا کرتے‬


‫‪...................................................................................................................‬‬
‫‪..............................................................................................................‬‬
‫ختم شد‬

You might also like