You are on page 1of 2

‫حیدر علی آتش‪ 

1778 ‬خواجہ حیدر علی آتش‪ 1778‬میں فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ باپ کا نام خواجہ علی بخش اور بزرگوں‬
‫کا وطن بغداد‪ 8‬سے تھا۔ تو ان کے آباؤ اجد اور مغلیہ دور میں شاہ جہاں آباد آۓ اور پرانے قلعے میں سکونت اختیار کی۔‬
‫ان کے والد علی بخش شجاع الدولہ کے عہد میں فیض آباد آگئے جہاں آتش پیدا ہوئے۔ فیض آباد ان دنوں نوابان اودھ کا‬
‫دارالحکومت تھا۔ یہ کس کی حیثیت اس وقت ایک معمولی تھے کی تھی۔ چنانچہ شعراء کا جو قافلہ دلی سے نکلتا فیض‬
‫آباد کا ہی رخ کرتا۔ آصف الدولہ نے جب لکھنو کو دارلخالفہ بنایا تو لکھنو میں شعر و ادب کی وہ محفل وجود میں آئی‬
‫جسے دبستان لکھنؤ کی شاعری کا نام دیا جاتا ہے۔ نواب مرزا محمد تقی خان فیض آباد میں اپنے مکان پر مشاعرے‬
‫کرواتے تھے اور شاعروں کے پا سکتے تھے۔ آتش بھی ان کی مالزمت میں داخل ہو گئے اور جب نواب صاحب فیض‬
‫آبا سے کمتر آ گئے تو آتش بھی ان کے ساتھ لکھنو چلے آئے اور یہیں ان کی شاعری پروان چڑھی اور ان کو استادوں کا‬
‫درجہ حاصل ہوا۔ آتش کی جوانی سے متعلق بہت سے روائتیں ہیں۔‬
‫ان روایات کے مطابق‪ ‬آتش‪  ‬کی جو تصور ابھرتی ہے وہ اس طرح ہے کہ جوانی سے پہلے والد کا انتقال ہوگیا اور کوئی‬
‫سرپرست نہ رہا۔ اس لیے تعلیم و تربیت ناقص رہی۔ تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آتش نے جوانی میں زیادہ وقت آوارگی‬
‫اور آزاده روی میں گزارا اور انکے مشہور ہو گئے۔ تیغ زنی بھی سیکھی۔ جب تک‪ ،‬جوانی ربی با نگین اور شوریده‬
‫سری کا سلسلہ جاری رہا جب یہ آندھی اتری تو اور بی رنگ نظر آتا ہے۔ اب جو دور شروع ہوا وہ درویش اور فقیری کا‬
‫تھا۔ ایک تو یہ خواجہ زاروں کے خاندان سے تھے‪ ،‬پھر مصحفی کے شاگرد ہوئے۔ مصحفی خود ایسے شاعر تھے جن‬
‫کے مزاج میں درویشی‪ ،‬قناعت اور توکل تھا اور کچھ حاالت نے انہیں اس زندگی کی طرف مائل کیا۔ چنانچہ آتش کے‬
‫کالم میں تصوف کا جو رنگ نظر آتا ہے انی اثرات کا نتیجہ ہے۔ سواۓ نواب مرزا تقی خان کے دربار سے ابتدائی تعلق‬
‫کے‪ ،‬پھر کسی رئیس یا امیر کے دروازے پر نہیں گئے اور نہ کسی کی تعریف میں قصیدے لکھیں۔‬
‫آتش نے لکھنو میں نواب گنج کے قریب ایک چھوٹا سا مکان خرید لیا۔ مکان خریدنے کے بعد آتش نے اپنا نکاح کی‬
‫شریف خاندان میں کر لیا تھا۔ ان کی اوالد میں صرف ایک صاحب زادے محمد علی کا سراغ مال ہے۔ علی بھی شاعر‬
‫تھے اور جوش تخلص کرتے تھے۔ ان کی وفات ‪ 1948‬ء میں ہوئی۔ ان کی وفات کے دو سال بعد ان کے فرزند محمد علی‬
‫جوش کا بھی انتقال ہوگیا۔‬

‫خصوصیات کالم۔‬
‫آتش نے صرف غزل کی۔ کسی دوسری صنف سخن میں طبع آزمائی نہیں کی۔ ان کا تعلق چونکہ دلبستان لکھنو سے تھا‬
‫اس لیے ان کی خصوصیات کالم جانے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ دلبستان لکھنؤ سے کیا مراد ہے؟ اردو شای ک‬
‫از و کن مں ہوا لین اس کو فردرغ مغلیہ عمد کی دل میں حاصل ہوا۔ دلی میں ارو شاعری سک جس دور و شهری دور‬
‫سے تعبیر کیا جاتا ہے اس دور میں ریلی کے سیاسی و معاشی حاالت بے حد ابتر تھے جس کی وجہ سے دل کے شعراء‬
‫میں دنیا کی بے ثباتی اور تصوف کے مضامین مقبول ہوئے جو داخلی رنگ لیے ہوئے ہیں ۔‬

‫شاعر میرتقی میر کہتے ہیں کہ۔‬


‫ہم آپ ہی کو اپنا مقصود جانتے ہیں‬
‫اپنے سوائے کس کو موجود جانتے ہیں۔‬

‫شاعر خواجہ میر درد کہتے ہیں کہ۔‬


‫وائے نادانی کہ وقت مرگ یہ ثابت ہوا‬
‫خواب تھاجو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔‬

‫دلی کی شاعری کا مجموئی رجحان سادگی کی طرف ہے اس کی سادہ الفاظ میں حالت بیان کرنے کی کوشش کی جاتی‬
‫ہے جو براہ راست دل پر اثر کرتی ہے۔ دلی میں اردو شاعری کا دور پردہ داری کا دور ہے اس لیے محبوب سے مالقات‬
‫کے امکانات بہت کم تھے لہذا ہجروفراق کے مضامین بھی دلی کی شاعری میں عام ہے۔ محتصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ‬
‫سادگی واداخلیت اور رنج والم دبستان دلی کے نمایاں اوصاف ہیں۔‬

‫شاعر میرتقی میر کہتے ہیں کہ۔‬


‫دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے‬
‫یہ دھواں ساکہاں سے اٹھتا ہے‬
‫جب دلی کے حاالت خراب ہونے شروع ہوئے اور شعراۓ دہلی نے لکھنؤ کی طرف ہجرت کی تو کھتو اردو شاعری کا‬
‫دوسرا بڑا مرکز بن گیا ۔ ابتدا میں تو لکھنو میں شعر و شاعری کا چرچا شعرائے دہلی ہی کی بدولت ہوا تھا لیکن آہستہ‬
‫آہستہ لکھنوی معاشرے کی خوشحالی اور خوش باشی کے زیر اثر لکھنوی شاعری کا وہ رنگ بدلنا شروع ہوا جو دلی‬
‫کے مہاجر شعراء میرا سوا اور میر حسن وغیرہ اپنے ساتھ الئے تھے۔ اول اول یہ تبدیلی جن شعراء کے ہاں نظر آتی ہے‬
‫ان میں انشاء معنی اور جرات شامل ہیں جبکہ ناسخ و آتش کے دور میں یہ تبدیلی نمایاں ہو کر ایک نیا رنگ اختیار کرتی‬
‫نظر آتی ہے۔ جس کا طرۂ امتیاز لفاظی اور خارجیت ہے۔ لینی بیان کی سادگی کے بجائے شعرا کی توجہ شاندار الفاظ یا‬
‫تشبیہ و استعارہ اور ‪ :‬رعایت لفظی کی طرف ہو گئی۔ اس کے عالوہ چونکہ لکھنو میں عیش و عشرت کا ساماں تھا اور‬
‫یہاں محبوب پردہ دار نہیں تھا اس لیے یہاں کی شاعری میں محبت کے ان جذبات کو اہمیت ملی جو محبوب کے سراپا‬
‫یعنی اس کے اعضا کی تعریف اور محبوب سے وصل کے معامالت کو بیان کرتے ہیں۔‬

‫شاعر انشا کہتے ہیں کہ۔‬


‫دیوار پھانڈے میں دیکھو گے کام میرا‬
‫جب دھم سے آکہوں گا صاحب سالم میرا۔‬

‫مختصر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سادگی اور داخلیت دلی کی پہچان ہے اور لفاظی و خارجیت دبستان لکھنے مخصوع‬
‫سمجھی جاتی ہے۔ ان کا تعلق اگرچہ لکھنؤ سے تھا جہاں شاعری کی بنیاد گلف اور شعر پر تھی۔ اس کے باوجود ان کے‬
‫کالم میں جذبات اور احساسات کی سچائی ملتی ہے‪ -‬اس وجہ سے ان کالم میں اثر اور لچک ہوتا ہے۔رام بابو سسکینہ‬
‫تاریخ ادب اردو میں ان کے کالم پر رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے بعض اشعار پوری اردو شاعری میں اپنا‬
‫ٰ‬
‫دعوی درست نہیں‪ 8‬ہے کہ‬ ‫جواب نہیں رکھتی‪ -‬میر اور غالب کے بعد اگر کسی کا درجہ ہے تو وہ آتش میں ‪ -‬اگرچہ ان کا‬
‫کہ میرو غالب کے بعد صرف آتش ہی قابل غزل ہیں تاہم یہ درست ہے کہ ان کے بعض اشعار واقعی کاجواب ہیں۔ چندانی‬
‫اشعار مالحظہ ہوں۔‬

‫بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا‬


‫جو چیرا تو ایک قطرہ خوں نہ نکال‬

You might also like