Professional Documents
Culture Documents
علم ہوا ہے کہ موالناصفی الرحمن مبارک پوری؛ مصنف 'الرحیق المختوم' اپنے آبائی قصبے حسین پور
(مبارک پور ،اعظم گڑھ ،بھارت) میں یکم دسمبر 2006ء بروز جمعتہ المبارک دنیاے فانی سے رہ گراے
!إناﷲ وإنا إلیه راجعون عالم بقا ہوگئے۔
ت روزگار قسم کی شخصیاتمبارک پور بھارت کا ایک نہایت مردم خیز خطہ ہے جہاں بڑی بڑی منتخبا ِ
پیدا ہوئیں ،مثالً موالنا عبدالسالم مبارک پوری مصنف سیرة البخاری ،موالناعبدالصمد مبارک پوری،
موالنامحمد امین اثری مبارک پوری،موالناعبدالرحمن مبارک پوری مصنف 'تحفة االحوذی' و 'تحقیق الکالم'
وغیرہ ،موالناعبیدہللا رحمانی مبارک پوری مصنف 'مرعاة المفاتیح' وغیرہ اور قاضی اطہر مبارک
پوریوغیرهم رحمهم ﷲ
موالناصفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اہللا بھی اسی مردم خیز عالقے سے تعلق رکھتے تھے اور اُسی
تعالی نے ان کو بھی بڑی عظیم صالحیتوں
ٰ سلسلة الذہب کی ایک کڑی تھے جس کا تذکرہ اوپر ہوا ہے۔ ہللا
شارح حدیث ،سیرت نگار،
ِ مدرس ،ماہرعلم فرائض ،کامیاب مناظر،سے نوازا تھا۔ وہ بہ یک وقت ایک قابل ّ
اعلی پاے کے قلم کار ،نثر نگار اور انشا پرداز تھے جس پر ان
ٰ محقق اور عربی؍ اُردو دونوں زبانوں کے
کی مشہور زمانہ تالیف 'الرحیق المختوم' شاہد ِعادل ہے جس پران کو رابطہ عالم اسالمی کے زیر اہتمام
سیرت نگاری کے عالمی مقابلے میں ّاول انعام مال۔یہ کتاب اُنہوں نے اصالً عربی میں لکھی اور اس وقت
لکھی جب وہ جامعہ سلفیہ بنارس (بھارت) میں اُستاذ تھے۔ اس وقت تک اُنہوں نے عرب کی کسی
یونیورسٹی کامنہ دیکھاتھا ،نہ سعودی عرب میں ان کی آمدورفت کاکوئی سلسلہ ہی تھا۔ اُنہوں نے بھارت
کے دینی مدارس ہی میں ساری تعلیم حاصل کی اور وہیں سلسلۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ ایسے ماحول میں
رہ کرعربی انشا پردازی میں اتنی استعداد بہم پہنچا لینا کہ عرب بھی اس پر انعام دینے پر مجبور ہوجائیں ،
اعلی قابلیت کی ایک واضح دلیل ہے۔
ٰ بال شبہ ان کی غیرمعمولی ذہانت و فطانت اور
!ذلك فضل اﷲ یؤتیه من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم
پھر 'الرحیق المختوم' کو اُردو کے حسین قالب میں بھی اُنہوں نے خود ہی ڈھاال جس سے ان کے اُردو
اسلوب میں بھی پختگی کا ثبوت ملتا ہے۔ 'الرحیق المختوم' جب عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی
بام عروج پر پہنچ گئی بلکہ دنیوی ترقی کے راستے بھی ان پر َوا ہوگئے۔ اس
تو نہ صرف ان کی شہرت ِ
کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کو الجامعة اإلسالمیة مدینہ منورہ کے ایک ذیلی شعبے ۔ مرکز السیرة
نبویہ سے متعلقہ تاریخی و
ؐ ت
بطور محقق ذمہ داری سونپ دی گئی جس میں ان کے ذمے سیر ِ
ِ النبویة ۔ میں
حدیثی مواد کی تحقیق و تنقیح کا کام تھا۔
ء میں راقم کی ان سے مکتبہ دارالسالم ،الریاض (سعودی عرب) میں مالقات ہوئی۔ جب راقم وہاں 1993
تفسیر 'احسن البیان'کی تالیف میں مصروف تھا ،تو ان سے ان کے مذکورہ کام کی بابت پوچھا کہ وہ کس قسم
کاکام ہے اور وہاں کام کی نوعیت کے اعتبار سے وہ مطمئن ہیں ؟ تو فرمایا کہ یہ ادارہ صرف علما کو
نوازنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یوں گویا اُنہوں نے کام کی نوعیت کے اعتبار سے ِ
عدم اطمینان فرمایا۔ اس پر
راقم نے ان سے عرض کیا کہ جب معاملہ ایسا ہے تو آپ جیسے باصالحیت اَفراد کو ٹھوس علمی و تحقیقی
کام کرنا چاہئے اور یہ واقعہ ہے کہ ہللا نے ان کو علم وتحقیق کی جو گہرائی و گیرائی اور اِنشاء و تحریر
کا جو سلیقہ عطا فرمایا تھا ،وہ علماے اہل حدیث میں بہت کم پایا جاتاہے ،اس اعتبار سے وہ بال شبہ یکتاے
زمانہ اور اپنے اَقران و اماثل میں نہایت ممتاز تھے۔
لیکن غالبا ً موالنا کثیرالعیالی کی وجہ سے اس ادارے سے ہی وابستہ رہے۔ تاہم اس دوران میں دارالسالم
سے بھی ایک گونہ تعلق اُنہوں نے قائم رکھا ،اور دارالسالم کے بعض علمی و وقیع کاموں کی نگرانی و
نظرثانی فرماتے رہے۔ راقم کی تفسیر 'احسن البیان' پر بھی انہی ایام میں اُنہوں نے نظرثانی فرما کر اپنی
توثیق کی مہر اس پرثبت فرمائی تھی۔ راقم اپنی یہ مختصر تفسیر ...جو نہایت عجلت اور مختصر وقت میں
تحریر کی گئی تھی ...اپنے الریاض کے چار مہینے پر محیط قیام کے دوران سورۂ ہود تک لکھ پایا تھا اور
بقیہ کام الہور آکر اپنے گھر میں پورا کیا۔ یہ حصہ ان کی نظر سے گزر چکا تھا۔ راقم نے آنے سے قبل ان
سے مشورةپوچھا کہ تفسیر کے اُسلوب کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں تاکہ اس کی روشنی میں اس
کو مزید بہتر بنایا جاسکے تو اُنہوں نے فرمایا کہ جس اختصار اور قلیل مدت میں آپ یہ کام کررہے ہیں ،
اس کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بہتر ہے ،اس کی بابت مزیدمشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔
مذکورہ ادارے سے فراغت کے بعد پھر وہ دارالسالم،الریاض سے وابستہ ہوگئے اور دارالسالم کی خواہش
پر اُنہوں نے عربی میں صحیح مسلم کی شرح لکھی جو ''منة ال ُمنعم'' کے نام سے چار جلدوں میں دارالسالم
ہی کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ 'الرحیق المختوم'کی تالیف سے پہلے بلوغ المرام کی عربی زبان میں
شرح بھیلکھ چکے تھے جو اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام کے نام سے بھارت سے ہی شائع ہوئی ،پھر
دارالسالم نے اسے شائع کیا۔عالوہ ازیں دارالسالم ہی کے زیر اہتمام اس شرح کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔
دارالسالم نے 'الرحیق المختوم' کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا بلکہ موالنا مرحوم نے 'الرحیق المختوم'
(عربی) کا ایک اختصار بھی عربی میں روضة األنوار في سیرة النبي المختار کے نام سے کیا تھا۔ دارالسالم
نے یہ عربی نسخہ بھی شائع کیا اور خود موالنا مرحوم ہی نے 'الرحیق المختوم' کی طرح اس کا اُردو
ت نبوت' کے نام سے کیا ،دارالسالم نے اسے بھی نہایت دیدہ زیب انداز سے شائع کیاہے۔ ترجمہ بھی ' تجلیا ِ
تعالی ان کی ان تمام خدمات
ٰ ان کے عالوہ دارالسالم کی بہت سی کتابوں پر اُنہوں نے نظرثانی کا کام کیا۔ ہللا
کو قبول فرمائے اور اس کی بہترین جزا اُنہیں اپنے پاس سے عطا فرمائے جہاں اب وہ پہنچ چکے ہیں ۔
چند سال قبل ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے ان کی صحت خاصی متاثر ہوئی اور آپ تصنیف و تالیف
کا کام کرنے کے قابل نہ رہے اور بظاہر ان کی صحت یابی کی اُمید بھی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن ہللا نے
اپنا فضل فرمایا اور وہ قدرے صحت یاب ہوکر تھوڑا بہت کام کرنے لگے تھے ،تاہم بیماری سے طبیعت
میں جو نقاہت اور نڈھال پن پیدا ہوگیا تھا ،اس کو دیکھتے ہوئے محسوس یہی ہوتا تھا ع دل کا جانا ٹھہرگیا
!! ہے ،صبح گیا یا شام گیا
باآلخر وہ وقت آہی گیا کہ علم و عمل کا یہ آفتاب سارے عالم میں اپنی تابانیاں بکھیرنے کے بعد بھارت کی
سرزمین میں غروب ہوگیا۔ غفراہللا لہ ورحمہ
واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات سے تدریس و افتا کی ایک عظیم مسند خالی ہوگئی ہے ،علم و تحقیق کا ایک
باب بند ہوگیا ہے ،اَسالف کی علمی و اخالقی روایات کا حامل ایک حسین پیکر ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے
اوجھل ہوگیا ہے ،حلم و تدبر کا ایک عظیم مرقع پیوند ِخاک ہوگیا اور پاک و ہند کی جماعت ِاہل حدیث اپنے
میر وہ ایسے عظیم انسان تھے جس کی بابت اس نے کہا تھا
:گوہرشب چراغ سے محروم ہوگئی۔ بقول ؔ
موالنا صفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ 21برس قبل( 29نومبر تا 10دسمبر 1985ئ) پاکستان میں
تشریف الئے تھے۔ حافظ صالح الدین یوسف ان دنوں ہفت روزہ 'االعتصام' کے مدیر تھے۔ اس موقعہ پردار
الدعوة السلفیہ میں موالنا مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں دور دراز
سے علماے کرام نے شرکت فرمائی۔ موالنا نے 'ہندوستان میں جماعت ِاہل حدیث کا ماضی ،حال اور
مستقبل' کے عنوان سے جامع خطاب فرمایا اور حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا نے خطبہ استقبالیہ پیش
کیا ،بعد میں یہ خطبہ ،موالنا علیم ناصری کے قلم سے دورہ کی مختصر روداد کے ہمراہ 'االعتصام' کے
20؍دسمبر 1985ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ مزید برآں موالنا مرحوم کے سوانح حیات ان کی کتاب 'الرحیق
)المختوم' کے آغاز میں مالحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ (ح م
کا مصداق ہے کیونکہ ہماری جماعت کے بہت سے اکابر کا تعلق اسی مبارک پور سے ہے۔مثالً موالنا
عبدالسالم مبارکپوری رحمہ ہللا مصنف 'سیرة البخاری' موالنا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ مصنف
جس نے عرب و عجم کے علما سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس کے ' تحفة األحوذي شرح جامع ترمذي'
تحقیق الکالم في وجوب قراءة الفاتحة خلف ' عالوہ ان کی متعدد اہم علمی و تحقیقی تالیفات ہیں جیسے
'أبکار المنن في جواب آثار السنن' ''...اإلمام وغیرہ۔موالنا عبدالصمدمبارکپوری مرحوم جو موالنا صفی
الرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ کے تایا تھے۔ ان کی ایک اہم کتاب 'تائید ِحدیث بجواب ِتنقید ِحدیث' ہے۔
جو مشہور منکر حدیث حافظ محمد اسلم جیراج پوری کے جواب میں ہے ،یہ کتاب باالقساط موالنا ثناء ہللا
امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کے ہفتہ وار پرچے 'اہل حدیث' امرتسر میں شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور
'شان حدیث' ہے جو حجیت ِحدیث پر ایک مفصل اور بڑی اہم کتاب ہے تاہم یہ ابھی غیر مطبوعہ
ِ کتاب
تعالی جن کی
ٰ نے 'مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح' ہے۔موالنا عبید ہللا رحمانی شیخ الحدیث حفظہ ہللا
کم ترک األولون لآلخرینکے مقولے کو ایک حقیقت ثابت کردیا ہے۔
برصغیر پاک وہند میں اہل حدیث کی ماضی قریب کی یہ عظیم علمی شخصیات ہیں جو اہل حدیث کی تاریخ
کا عظیم سرمایہ اور مایۂ صد فخر و ناز ہیں اور جن کے بارے میں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں
اکثر اہل علم جانتے ہیں کہ آج سے چند سال قبل رابطہ عالم اسالمی (مکہ مکرمہ) کے زیراہتمام سیرت پر
لکھی گئی کتابوں کا ایک عالمی مقابلہ ہوا۔ موالنا محترم موالنا صفی الرحمن مبارک پوری نے بھی اس
مقابلے میں شرکت فرمائی اور عربی زبان میں 'الرحیق المختوم' کتاب تالیف کی اور سیرت کے عالمی
مقابلے کے لئے سعودی عرب روانہ فرما دی۔ اس عالمی مقابلے میں ان کی یہ کتاب ّاول نمبر پر آئی اور
اُنہیں حرمین شریفین بالکر پہال انعام عطا کیا گیا۔
اس لحاظ سے موالنامحترم اُن باکمال ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایک عجمی ملک اور خالص
عجمی ماحول میں رہتے ہوئے عربی زبان و ادب اور عربی انشا و تحریر میں یہ کمال پیدا کیا کہ عرب کے
سزاوار انعام قرار دیا۔ یہ
ِ اہل علم و اہل قلم نے بھی اس کی داد دی اور اس کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے
کتاب پونے چھ سو صفحات پر مشتمل رابطہ عالم اسالمی کی طرف سے چھپ کر عام تقسیم ہورہی ہے۔ یہ
بات مزید مسرت کا باعث ہے کہ موالناے محترم نے اپنی اس سیرت کی کتاب کو اب اُردو کے قالب میں
بھی ڈھال دیا ہے اور اسے مکتبہ سلفیہ ،الہور کو اشاعت کے لئے دے دیا ہے جسے اب یہ مکتبہ اپنے
روایتی معیار اور حسن و خوبی کے ساتھ ان شاء ہللا شائع کرے گا۔
عربی انشا و تحریر کے ساتھ موالنا موصوف اُردو کے بھی ایک منجھے ہوئے ادیب اور صاحب قلم ہیں
اور ماہنامہ 'محدث' بنارس کے مدیر ہیں جس میں ان کی فکر انگیز تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ قارئین
'االعتصام' آپ سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ متعدد مرتبہ ان کی نگارشات 'االعتصام' کے صفحات میں شائع
ہوچکی ہیں ۔
موالنا محترم کا ایک کامیاب مناظر بھی ہیں ۔ آج سے چند سال قبل قبر پرستی اور اس سے متعلقہ مشرکانہ
اور مبتدعانہ اُمور پر موالنا موصوف کا ایک مناظرہ بنارس ہی کے ایک محلے' 'بجرڈیسہ' میں ہوا جس کا
یہ اثر ہواکہ اس مناظرے میں شریک فریق ثانی کی ایک خاصی تعداد اہل حدیث ہوگئی اور یوں موالنا کے
تعالی نے ان کو شرک و بدعت کی تاریکیوں سے نکال کر توحید و سنت کی روشنی نصیب
ٰ ذریعے سے ہللا
'رزم حق وباطل' کے نام سے کتابی شکل میں چھپ گئی ہے اور عنقریب یہ
ِ فرمائی۔ اس مناظرے کی ُروداد
کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوگی۔
جامعہ سلفیہ بنارس ،جماعت اہل حدیث ہند کی عظیم مرکزی درس گاہ ہے جس میں سینکڑوں طالب ِعلم زیر
تعلیم ہیں ۔ اس کے عالوہ جامعہ کے زیراہتمام دو ماہنامے نکلتے ہیں ۔ ایک عربی میں جس کا نام مجلة
الجامعة السلفیة ہے۔ دوسرا اُردو میں جس کا نام 'محدث' ہے۔ مزید برآں اُردو ،عربی اور انگریزی تینوں
زبانوں میں جامعہ کا شعبۂ تصنیف و تالیف کتابوں کی ترتیب و تصنیف اور اشاعت کا کام خاصے وسیع
پیمانے پر اور بڑے وقیع انداز سے سرانجام دے رہا ہے اور درجنوں کتابیں اس کے اہتمام میں شائع ہوکر
خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ اسی شعبے نے موالنا صفی الرحمن کے ساتھی ،موالنا
ِ اہل علم سے
محمد مستقیم سلفی جو ان کے ساتھ پاکستان تشریف الئے ہوئے ہیں اور اس تقریب سعید میں وہ موجود ہیں
ان کوعلمائے اہل حدیث کی تصنیفی خدمات کو مرتب کرنے کے کام پر لگایا ہے او رموالنا سلفی بڑی
تعالی ان کو توفیق دے کہ وہ اس کام کو بہ احسن
ٰ محنت و جانفشانی سے اس کام پر لگے ہوئے ہیں ۔ ہللا
طریق پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں ۔
جامعہ سلفیہ بنارس کے تدریس امور اور مجالت مذکورہ کی نگرانی و ادارت اور اس کے اہتمام میں
چھپنے والی تمام کتابوں کی نظرثانی وغیرہ ان تمام امور و معامالت میں موالناصفی الرحمن مبارکپوری
حفظہ ہللا ہمہ تن مصروف اور متوجہ رہتے ہیں اور ان کا بیشتر وقت انہی پر صرف ہوتا ہے۔بلکہ استفتاء
ات و استفسارات کے لئے بھی موالنائے محترم کو وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے موالنا موصوف کی
شخصیت
اے کہ مجموعۂ خوبی بہ چہ نامت خوانم
کی مصداق ہے۔ وہ محدث وفقیہ بھی ہیں ،مصنف و صحافی بھی ،خطیب و مناظر بھی ہیں اور ماہر منتظم
بھی اور بین االقوامی شہرت کے مالک بھی۔
تالیفات
مدرس اور شیخ الحدیث ہیں ۔ اس لئے زیادہ وقت تدریسی مصروفیات میں گذرتا
موالنا موصوف چونکہ ایک ّ
ہے۔ عالوہ ازیں تبلیغ و دعوت اور فرق باطلہ سے مناظرہ وغیرہ میں بہت سا وقت صرف ہوجاتا ہے۔ او
راب تقریبا ً تین سال سے ماہنامہ ''محدث'' بنارس کی مستقل ادارت بھی موالنا موصوف ہی کے ذمے ہے۔
:لیکن اس کے باوجود متعدد کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔ جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے
عربی) ازہار العرب عالمہ محمد سورتی کاجمع کردہ نفیس عربی اشعار کا ایک ( شرح أزهار العرب )(1
منتخب اور ممتاز مجموعہ ہے۔ شرح 1963ء میں لکھی گئی۔ مگر قدرے ناقص رہی او رطبع نہیں کرائی
جاسکی۔
المصابیح في مسئلة التراویح للسیوطي ،کا اردو ترجمہ1963 ،ء چند بار طبع ہوچکا ہے۔ )(2
ء غیر مطبوع۔ 1966ترجمة الکلم الطیب ،البن تیمیہ )(3
ء مع مختصر تعلیق 1969ترجمہ کتاب األربعین للنووي )(4
نصاری میں محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں ( ،اردو) 1970ء غیر مطبوع۔ )(5
ٰ صحف یہود و
تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب1972 ،ء تین بار طبع ہوچکی ہے۔ )(6
یہ اصالً محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی شیخ احمد بن حجر کی عربی تالیف کا ترجمہ ہے لیکن اس میں
کسی قدر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔
تاریخ آل سعود (اردو) 1972ء تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ شائع )(7
ہوچکی ہے۔
عربی1974 :ء مطبوع۔( اتحاف الکرام تعلیق بلوغ المرام البن حجر عسقالني )(8
قادیانیت اپنے آئینہ میں (اردو) 1976ء مطبوع۔ )(9
فتنہ قادیانیت اور موالنا ثناء ہللا امرتسری (اردو) 1976ء مطبوع۔ )(10
اردو ترجمہ ''الرحیق المختوم''مذکورہ کتاب رابطہ عالم اسالمی میں پیش کرنے کے لئے تالیف کی )(11
گئی۔
انکار حدیث کیوں ؟ (اردو)1976ء مطبوع۔ )(12
انکار حدیث حق یا باطل (اردو ) 1977ء مطبوع )(13
رزم حق و باطل (مناظرہ بجر ڈیسہ) کی ُروداد 1978،ء مطبوع۔ )(14
عربی1978ء ڈاکٹر تقی الدین ہاللی مراکشی حفظہ )إبراز الحق والصواب في مسئلة السفور والحجاب( )(15
ہللا کی رائے پر تنقید۔
مجلہ عربی 1979ء) چند قسطیں( تطور الشعوب والدیانات في الهند و مجال الدعوة اإلسالمیة فیها )(16
۔ الجامعة السلفیہ میں شائع ہوچکی ہیں
عربی 1982ئ) غیر مطبوع۔( الفرقة الناجیة والفرق اإلسالمیة األخری )(17
اسالم اور عدم تشدد (اردو 1984ء)مطبوع۔ یہ موالنا موصوف کی اہم تقریر تھی جسے کتابی شکل )(18
میں شائع کردیا گیا ہے۔ اور اس کا ایک حصہ ''االعتصام'' میں بھی
تاریخ آل سعود (اردو) 1972ء تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ شائع )(7
ہوچکی ہے۔
عربی1974 :ء مطبوع۔( اتحاف الکرام تعلیق بلوغ المرام البن حجر عسقالنی )(8
قادیانیت اپنے آئینہ میں (اردو) 1976ء مطبوع۔ )(9
فتنہ قادیانیت اور موالنا ثناء ہللا امرتسری (اردو) 1976ء مطبوع۔ )(10
اردو ترجمہ ''الرحیق المختوم''مذکورہ کتاب رابطہ عالم اسالمی میں پیش کرنے کے لئے تالیف کی )(11
گئی۔
انکار حدیث کیوں ؟ (اردو)1976ء مطبوع۔ )(12
انکار حدیث حق یا باطل (اردو ) 1977ء مطبوع )(13
رزم حق و باطل (مناظرہ بجر ڈیسہ) کی ُروداد 1978،ء مطبوع۔ )(14
عربی1978ء ڈاکٹر تقی الدین ہاللی مراکشی حفظہ )إبراز الحق والصواب في مسئلة السفور والحجاب( )(15
ہللا کی رائے پر تنقید۔
مجلة عربی 1979ئ) چند قسطیں( تطور الشعوب والدیانات في الهند و مجال الدعوة اإلسالمیة فیہا )(16
شائع ہوچکی ہیں ۔ الجامعة السلفیة میں
عربی 1982ئ) غیر مطبوع۔( الفرقة الناجیة والفرق اإلسالمیة األخری )(17
اسالم اور عدم تشدد (اردو 1984ئ)مطبوع۔ یہ موالنا موصوف کی اہم تقریر تھی جسے کتابی شکل )(18
میں شائع کردیا گیا ہے۔ اور اس کا ایک حصہ ''االعتصام'' میں بھی شائع ہوچکا ہے۔
موالنا صفی الرحمن مبارکپوری صاحب کو حضرت الشیخ الفاضل موالنا محمد عطاء ہللا حنیف صاحب جو
اس ادارے ...دارالدعوة السلفیہ ...کے بانی اور نگران ہیں ،سے غایت درجہ غائبانہ عقیدت تھی اور
حضرت الشیخ کی زیارت اور ان سے استفادے کے لئے سخت مضطرب اور بے قرار تھے ،ان کا موجودہ
پاکستانی دورہ دراصل حضرت الشیخ دام ظلہ سے بے انتہا محبت اور عقیدت ہی کا نتیجہ اور مظہر ہے۔ ہللا
تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے حضرت الشیخ کی محبت میں ان کی زیارت کے لئے
ٰ
اتنا دور دراز کا پُرصعوبت سفر اختیار فرمایا۔ جس سے ان کو تو ان کامقصد حاصل ہوگیا لیکن ہم جیسے
فلله الحمد مشتاقان دید کو مفت میں موالنا صفی الرحمن مبارکپوری کی زیارت کا شرف حاصل ہوگیا۔
والمنة۔
......٭٭٭......