You are on page 1of 9

‫حافظ صالح الدین‬

‫آہ! موالنا صفی الرحمن مبارک پوری رحمۃ ہللا علیہ‬

‫تاز بزم عشق یک داناے راز آید بروں‬


‫ِ‬ ‫عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات‬

‫علم ہوا ہے کہ موالناصفی الرحمن مبارک پوری؛ مصنف 'الرحیق المختوم' اپنے آبائی قصبے حسین پور‬
‫(مبارک پور‪ ،‬اعظم گڑھ‪ ،‬بھارت) میں یکم دسمبر ‪2006‬ء بروز جمعتہ المبارک دنیاے فانی سے رہ گراے‬
‫!إناﷲ وإنا إلیه راجعون عالم بقا ہوگئے۔‬

‫ت روزگار قسم کی شخصیات‬‫مبارک پور بھارت کا ایک نہایت مردم خیز خطہ ہے جہاں بڑی بڑی منتخبا ِ‬
‫پیدا ہوئیں ‪ ،‬مثالً موالنا عبدالسالم مبارک پوری مصنف سیرة البخاری‪ ،‬موالناعبدالصمد مبارک پوری‪،‬‬
‫موالنامحمد امین اثری مبارک پوری‪،‬موالناعبدالرحمن مبارک پوری مصنف 'تحفة االحوذی' و 'تحقیق الکالم'‬
‫وغیرہ‪ ،‬موالناعبیدہللا رحمانی مبارک پوری مصنف 'مرعاة المفاتیح' وغیرہ اور قاضی اطہر مبارک‬
‫پوریوغیرهم رحمهم ﷲ‬

‫موالناصفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اہللا بھی اسی مردم خیز عالقے سے تعلق رکھتے تھے اور اُسی‬
‫تعالی نے ان کو بھی بڑی عظیم صالحیتوں‬
‫ٰ‬ ‫سلسلة الذہب کی ایک کڑی تھے جس کا تذکرہ اوپر ہوا ہے۔ ہللا‬
‫شارح حدیث‪ ،‬سیرت نگار‪،‬‬
‫ِ‬ ‫مدرس‪ ،‬ماہرعلم فرائض‪ ،‬کامیاب مناظر‪،‬‬‫سے نوازا تھا۔ وہ بہ یک وقت ایک قابل ّ‬
‫اعلی پاے کے قلم کار‪ ،‬نثر نگار اور انشا پرداز تھے جس پر ان‬
‫ٰ‬ ‫محقق اور عربی؍ اُردو دونوں زبانوں کے‬
‫کی مشہور زمانہ تالیف 'الرحیق المختوم' شاہد ِعادل ہے جس پران کو رابطہ عالم اسالمی کے زیر اہتمام‬
‫سیرت نگاری کے عالمی مقابلے میں ّاول انعام مال۔یہ کتاب اُنہوں نے اصالً عربی میں لکھی اور اس وقت‬
‫لکھی جب وہ جامعہ سلفیہ بنارس (بھارت) میں اُستاذ تھے۔ اس وقت تک اُنہوں نے عرب کی کسی‬
‫یونیورسٹی کامنہ دیکھاتھا‪ ،‬نہ سعودی عرب میں ان کی آمدورفت کاکوئی سلسلہ ہی تھا۔ اُنہوں نے بھارت‬
‫کے دینی مدارس ہی میں ساری تعلیم حاصل کی اور وہیں سلسلۂ تدریس سے وابستہ رہے۔ ایسے ماحول میں‬
‫رہ کرعربی انشا پردازی میں اتنی استعداد بہم پہنچا لینا کہ عرب بھی اس پر انعام دینے پر مجبور ہوجائیں ‪،‬‬
‫اعلی قابلیت کی ایک واضح دلیل ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫بال شبہ ان کی غیرمعمولی ذہانت و فطانت اور‬
‫!ذلك فضل اﷲ یؤتیه من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم‬

‫پھر 'الرحیق المختوم' کو اُردو کے حسین قالب میں بھی اُنہوں نے خود ہی ڈھاال جس سے ان کے اُردو‬
‫اسلوب میں بھی پختگی کا ثبوت ملتا ہے۔ 'الرحیق المختوم' جب عربی اور اُردو دونوں زبانوں میں شائع ہوئی‬
‫بام عروج پر پہنچ گئی بلکہ دنیوی ترقی کے راستے بھی ان پر َوا ہوگئے۔ اس‬
‫تو نہ صرف ان کی شہرت ِ‬
‫کے کچھ ہی عرصے کے بعد ان کو الجامعة اإلسالمیة مدینہ منورہ کے ایک ذیلی شعبے ۔ مرکز السیرة‬
‫نبویہ سے متعلقہ تاریخی و‬
‫ؐ‬ ‫ت‬
‫بطور محقق ذمہ داری سونپ دی گئی جس میں ان کے ذمے سیر ِ‬
‫ِ‬ ‫النبویة ۔ میں‬
‫حدیثی مواد کی تحقیق و تنقیح کا کام تھا۔‬

‫ء میں راقم کی ان سے مکتبہ دارالسالم‪ ،‬الریاض (سعودی عرب) میں مالقات ہوئی۔ جب راقم وہاں ‪1993‬‬
‫تفسیر 'احسن البیان'کی تالیف میں مصروف تھا‪ ،‬تو ان سے ان کے مذکورہ کام کی بابت پوچھا کہ وہ کس قسم‬
‫کاکام ہے اور وہاں کام کی نوعیت کے اعتبار سے وہ مطمئن ہیں ؟ تو فرمایا کہ یہ ادارہ صرف علما کو‬
‫نوازنے کے لئے بنایا گیا ہے۔ یوں گویا اُنہوں نے کام کی نوعیت کے اعتبار سے ِ‬
‫عدم اطمینان فرمایا۔ اس پر‬
‫راقم نے ان سے عرض کیا کہ جب معاملہ ایسا ہے تو آپ جیسے باصالحیت اَفراد کو ٹھوس علمی و تحقیقی‬
‫کام کرنا چاہئے اور یہ واقعہ ہے کہ ہللا نے ان کو علم وتحقیق کی جو گہرائی و گیرائی اور اِنشاء و تحریر‬
‫کا جو سلیقہ عطا فرمایا تھا‪ ،‬وہ علماے اہل حدیث میں بہت کم پایا جاتاہے‪ ،‬اس اعتبار سے وہ بال شبہ یکتاے‬
‫زمانہ اور اپنے اَقران و اماثل میں نہایت ممتاز تھے۔‬

‫لیکن غالبا ً موالنا کثیرالعیالی کی وجہ سے اس ادارے سے ہی وابستہ رہے۔ تاہم اس دوران میں دارالسالم‬
‫سے بھی ایک گونہ تعلق اُنہوں نے قائم رکھا‪ ،‬اور دارالسالم کے بعض علمی و وقیع کاموں کی نگرانی و‬
‫نظرثانی فرماتے رہے۔ راقم کی تفسیر 'احسن البیان' پر بھی انہی ایام میں اُنہوں نے نظرثانی فرما کر اپنی‬
‫توثیق کی مہر اس پرثبت فرمائی تھی۔ راقم اپنی یہ مختصر تفسیر ‪ ...‬جو نہایت عجلت اور مختصر وقت میں‬
‫تحریر کی گئی تھی‪ ...‬اپنے الریاض کے چار مہینے پر محیط قیام کے دوران سورۂ ہود تک لکھ پایا تھا اور‬
‫بقیہ کام الہور آکر اپنے گھر میں پورا کیا۔ یہ حصہ ان کی نظر سے گزر چکا تھا۔ راقم نے آنے سے قبل ان‬
‫سے مشورةپوچھا کہ تفسیر کے اُسلوب کے بارے میں کچھ وضاحت فرما دیں تاکہ اس کی روشنی میں اس‬
‫کو مزید بہتر بنایا جاسکے تو اُنہوں نے فرمایا کہ جس اختصار اور قلیل مدت میں آپ یہ کام کررہے ہیں ‪،‬‬
‫اس کو دیکھتے ہوئے یہ بہت بہتر ہے‪ ،‬اس کی بابت مزیدمشوروں کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫مذکورہ ادارے سے فراغت کے بعد پھر وہ دارالسالم‪،‬الریاض سے وابستہ ہوگئے اور دارالسالم کی خواہش‬
‫پر اُنہوں نے عربی میں صحیح مسلم کی شرح لکھی جو ''منة ال ُمنعم'' کے نام سے چار جلدوں میں دارالسالم‬
‫ہی کی طرف سے شائع ہوئی ہے۔ 'الرحیق المختوم'کی تالیف سے پہلے بلوغ المرام کی عربی زبان میں‬
‫شرح بھیلکھ چکے تھے جو اتحاف الکرام شرح بلوغ المرام کے نام سے بھارت سے ہی شائع ہوئی‪ ،‬پھر‬
‫دارالسالم نے اسے شائع کیا۔عالوہ ازیں دارالسالم ہی کے زیر اہتمام اس شرح کا اُردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔‬

‫دارالسالم نے 'الرحیق المختوم' کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کیا بلکہ موالنا مرحوم نے 'الرحیق المختوم'‬
‫(عربی) کا ایک اختصار بھی عربی میں روضة األنوار في سیرة النبي المختار کے نام سے کیا تھا۔ دارالسالم‬
‫نے یہ عربی نسخہ بھی شائع کیا اور خود موالنا مرحوم ہی نے 'الرحیق المختوم' کی طرح اس کا اُردو‬
‫ت نبوت' کے نام سے کیا‪ ،‬دارالسالم نے اسے بھی نہایت دیدہ زیب انداز سے شائع کیاہے۔‬ ‫ترجمہ بھی ' تجلیا ِ‬
‫تعالی ان کی ان تمام خدمات‬
‫ٰ‬ ‫ان کے عالوہ دارالسالم کی بہت سی کتابوں پر اُنہوں نے نظرثانی کا کام کیا۔ ہللا‬
‫کو قبول فرمائے اور اس کی بہترین جزا اُنہیں اپنے پاس سے عطا فرمائے جہاں اب وہ پہنچ چکے ہیں ۔‬

‫چند سال قبل ان پر فالج کا حملہ ہوا تھا جس سے ان کی صحت خاصی متاثر ہوئی اور آپ تصنیف و تالیف‬
‫کا کام کرنے کے قابل نہ رہے اور بظاہر ان کی صحت یابی کی اُمید بھی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن ہللا نے‬
‫اپنا فضل فرمایا اور وہ قدرے صحت یاب ہوکر تھوڑا بہت کام کرنے لگے تھے‪ ،‬تاہم بیماری سے طبیعت‬
‫میں جو نقاہت اور نڈھال پن پیدا ہوگیا تھا‪ ،‬اس کو دیکھتے ہوئے محسوس یہی ہوتا تھا ع دل کا جانا ٹھہرگیا‬
‫!! ہے‪ ،‬صبح گیا یا شام گیا‬

‫باآلخر وہ وقت آہی گیا کہ علم و عمل کا یہ آفتاب سارے عالم میں اپنی تابانیاں بکھیرنے کے بعد بھارت کی‬
‫سرزمین میں غروب ہوگیا۔ غفراہللا لہ ورحمہ‬

‫واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات سے تدریس و افتا کی ایک عظیم مسند خالی ہوگئی ہے‪ ،‬علم و تحقیق کا ایک‬
‫باب بند ہوگیا ہے‪ ،‬اَسالف کی علمی و اخالقی روایات کا حامل ایک حسین پیکر ہمیشہ کے لئے آنکھوں سے‬
‫اوجھل ہوگیا ہے‪ ،‬حلم و تدبر کا ایک عظیم مرقع پیوند ِخاک ہوگیا اور پاک و ہند کی جماعت ِاہل حدیث اپنے‬
‫میر وہ ایسے عظیم انسان تھے جس کی بابت اس نے کہا تھا‬
‫‪ :‬گوہرشب چراغ سے محروم ہوگئی۔ بقول ؔ‬

‫مت سہل ہمیں جانو‪ ،‬پھرتا ہے فلک برسوں‬


‫تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں‬

‫‪ :‬یقینا وہ اپنے علمی کارناموں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہیں گے‬


‫ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق‬
‫ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما‬
‫موالنا مرحوم کی چنددیگر تصانیف‬
‫شرح أزہار العرب(عربی)‪ :‬أزہار العرب عالمہ محمد سورتی کاجمع کردہ نفیس عربی اشعار پرمشتمل )‪(1‬‬
‫ایک منتخب اور ممتاز مجموعہ ہے۔ یہ شرح ‪1963‬ء میں لکھی گئی مگر قدرے ناقص رہی او رطبع نہیں‬
‫کرائی جاسکی۔‬
‫کا اُردو ترجمہ‪1963‬ء المصابیح في مسئلة التراویح للسیوطي )‪(2‬‬
‫ئ‪ 1966‬ترجمة الکلم الطیب البن تیمیة )‪(3‬‬
‫ء مع مختصر تعلیق‪ 1969‬ترجمة کتاب األربعین للنووي )‪(4‬‬
‫نصاری میں محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں (اُردو) ‪1970‬ء )‪(5‬‬
‫ٰ‬ ‫صحف ِیہود و‬
‫تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوہاب ‪1972‬ء ۔ یہ اصالً محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی شیخ احمد بن )‪(6‬‬
‫حجر کی عربی تالیف کا ترجمہ ہے لیکن اس میں کسی قدر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔‬
‫تاریخ آ ِل سعود (اُردو) ‪1972‬ئ۔ یہ کتاب تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوہاب رحمۃ ہللا علیہ کے پہلے )‪(7‬‬
‫ایڈیشن کے ساتھ شائع ہوچکی ہے۔‬
‫عربی) ‪1974‬ء( اتحاف الکرام حاشیة بلوغ المرام البن حجر عسقالني رحمة ﷲ علیه )‪(8‬‬
‫قادیانیت اپنے آئینہ میں (اُردو) ‪1976‬ء )‪(9‬‬
‫فتنۂ قادیانیت اور موالنا ثناء ہللا امرتسری رحمۃ ہللا علیہ (اُردو) ‪1976‬ء )‪(10‬‬
‫الرحیق المختوم' عربی اور اسی نام سے اُردو ترجمہ' )‪(11‬‬
‫انکار حدیث کیوں ؟ (اُردو)‪1976‬ء )‪(12‬‬
‫ِ‬
‫انکار حدیث حق یا باطل؟ (اُردو ) ‪1977‬ء )‪(13‬‬
‫ِ‬
‫رزم حق و باطل (مناظرہ بجر ڈیسہ) کی ُروداد ‪1978،‬ء )‪(14‬‬
‫ِ‬
‫عربی)‪1978‬ء(إبراز الحق والصواب في مسئلة السفور والحجاب )‪(15‬‬
‫ا س کتاب میں ڈاکٹر تقی الدین ہاللی مراکشی حفظہ ہللا کی رائے پر علمی محاکمہ کیا گیا ہے۔‬
‫) عربی( تطور الشعوب والدیانات في الهند ومجال الدعوة اإلسالمیة فیها )‪(16‬‬
‫)عربی ‪1982‬ئ( الفرقة الناجیة والفرق اإلسالمیة األخری )‪(17‬‬
‫عدم تشدد ‪1984‬ء )‪(18‬‬
‫اسالم اور ِ‬

‫موالنا صفی الرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ ‪ 21‬برس قبل(‪ 29‬نومبر تا ‪ 10‬دسمبر ‪1985‬ئ) پاکستان میں‬
‫تشریف الئے تھے۔ حافظ صالح الدین یوسف ان دنوں ہفت روزہ 'االعتصام' کے مدیر تھے۔ اس موقعہ پردار‬
‫الدعوة السلفیہ میں موالنا مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا گیا جس میں دور دراز‬
‫سے علماے کرام نے شرکت فرمائی۔ موالنا نے 'ہندوستان میں جماعت ِاہل حدیث کا ماضی ‪،‬حال اور‬
‫مستقبل' کے عنوان سے جامع خطاب فرمایا اور حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا نے خطبہ استقبالیہ پیش‬
‫کیا‪ ،‬بعد میں یہ خطبہ‪ ،‬موالنا علیم ناصری کے قلم سے دورہ کی مختصر روداد کے ہمراہ 'االعتصام' کے‬
‫‪20‬؍دسمبر ‪1985‬ء کے شمارہ میں شائع ہوا۔ مزید برآں موالنا مرحوم کے سوانح حیات ان کی کتاب 'الرحیق‬
‫)المختوم' کے آغاز میں مالحظہ کئے جاسکتے ہیں ۔ (ح م‬

‫موالنا صفی الرحمن مبارکپوری ؛ تعارف اورخدمات‬


‫مبارک پور کاعالقہ اہل علم میں معروف ہے کہ ہند کی یہ سرزمین بڑی مردم خیز رہی ہے۔ اور اب بھی‬
‫ہے اور ہماری دُعا ہے کہ تاقیامت رہے۔بالخصوص جماعت اہل حدیث کے لئے مبارک پور کانام‬

‫بار خدایا یہ کس کانام آیا‬


‫زبان پہ ِ‬
‫کہ میرے نطق نے بوسے مری زبان کے لئے‬

‫کا مصداق ہے کیونکہ ہماری جماعت کے بہت سے اکابر کا تعلق اسی مبارک پور سے ہے۔مثالً موالنا‬
‫عبدالسالم مبارکپوری رحمہ ہللا مصنف 'سیرة البخاری' موالنا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ مصنف‬
‫جس نے عرب و عجم کے علما سے خراج تحسین حاصل کیا۔ اس کے ' تحفة األحوذي شرح جامع ترمذي'‬
‫تحقیق الکالم في وجوب قراءة الفاتحة خلف ' عالوہ ان کی متعدد اہم علمی و تحقیقی تالیفات ہیں جیسے‬
‫'أبکار المنن في جواب آثار السنن' ‪''...‬اإلمام‬ ‫وغیرہ۔موالنا عبدالصمدمبارکپوری مرحوم جو موالنا صفی‬
‫الرحمن مبارکپوری رحمۃ ہللا علیہ کے تایا تھے۔ ان کی ایک اہم کتاب 'تائید ِحدیث بجواب ِتنقید ِحدیث' ہے۔‬
‫جو مشہور منکر حدیث حافظ محمد اسلم جیراج پوری کے جواب میں ہے‪ ،‬یہ کتاب باالقساط موالنا ثناء ہللا‬
‫امرتسری رحمۃ ہللا علیہ کے ہفتہ وار پرچے 'اہل حدیث' امرتسر میں شائع ہوئی ہے۔ اسی طرح ایک اور‬
‫'شان حدیث' ہے جو حجیت ِحدیث پر ایک مفصل اور بڑی اہم کتاب ہے تاہم یہ ابھی غیر مطبوعہ‬
‫ِ‬ ‫کتاب‬
‫تعالی جن کی‬
‫ٰ‬ ‫نے 'مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح' ہے۔موالنا عبید ہللا رحمانی شیخ الحدیث حفظہ ہللا‬
‫کم ترک األولون لآلخرینکے مقولے کو ایک حقیقت ثابت کردیا ہے۔‬

‫برصغیر پاک وہند میں اہل حدیث کی ماضی قریب کی یہ عظیم علمی شخصیات ہیں جو اہل حدیث کی تاریخ‬
‫کا عظیم سرمایہ اور مایۂ صد فخر و ناز ہیں اور جن کے بارے میں ہم بجا طور پر کہہ سکتے ہیں‬

‫أولئك آبائي فجئني بمثلهم‬


‫إذا جمعتنا یا جریر المجامع‬

‫ذرہ تاباں اور اسی‬


‫آسمان علم و عمل کے ایک کوکب ِدرخشاں ‪ ،‬اسی سرزمین مبارک کے ایک ّ‬
‫ِ‬ ‫اسی‬
‫خانوادئہ علم وفضل کے ایک روشن چشم و چراغ موالناصفی الرحمن مبارک پوری بھی تھے جن کو اسی‬
‫مشہور سرزمین سے صرف خلقی نسبت ہی نہیں اور اس نامور خانوادہ علمی سے صرف نسبی تعلق ہی‬
‫نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اس سرزمین کی صفت ِمردم خیزی کاایک زندئہ جاوید ثبوت ہیں اور‬
‫۔کثر اﷲ أمثالهم‬ ‫!اپنے نامور خاندان کی علمی و دینی روایات کے حامل اور امین ہیں‬

‫اکثر اہل علم جانتے ہیں کہ آج سے چند سال قبل رابطہ عالم اسالمی (مکہ مکرمہ) کے زیراہتمام سیرت پر‬
‫لکھی گئی کتابوں کا ایک عالمی مقابلہ ہوا۔ موالنا محترم موالنا صفی الرحمن مبارک پوری نے بھی اس‬
‫مقابلے میں شرکت فرمائی اور عربی زبان میں 'الرحیق المختوم' کتاب تالیف کی اور سیرت کے عالمی‬
‫مقابلے کے لئے سعودی عرب روانہ فرما دی۔ اس عالمی مقابلے میں ان کی یہ کتاب ّاول نمبر پر آئی اور‬
‫اُنہیں حرمین شریفین بالکر پہال انعام عطا کیا گیا۔‬

‫بزور بازو نیست‬


‫ِ‬ ‫این سعادت‬
‫تا نہ بخشد خدائے بخشندہ‬

‫اس لحاظ سے موالنامحترم اُن باکمال ہستیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ایک عجمی ملک اور خالص‬
‫عجمی ماحول میں رہتے ہوئے عربی زبان و ادب اور عربی انشا و تحریر میں یہ کمال پیدا کیا کہ عرب کے‬
‫سزاوار انعام قرار دیا۔ یہ‬
‫ِ‬ ‫اہل علم و اہل قلم نے بھی اس کی داد دی اور اس کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے‬
‫کتاب پونے چھ سو صفحات پر مشتمل رابطہ عالم اسالمی کی طرف سے چھپ کر عام تقسیم ہورہی ہے۔ یہ‬
‫بات مزید مسرت کا باعث ہے کہ موالناے محترم نے اپنی اس سیرت کی کتاب کو اب اُردو کے قالب میں‬
‫بھی ڈھال دیا ہے اور اسے مکتبہ سلفیہ‪ ،‬الہور کو اشاعت کے لئے دے دیا ہے جسے اب یہ مکتبہ اپنے‬
‫روایتی معیار اور حسن و خوبی کے ساتھ ان شاء ہللا شائع کرے گا۔‬

‫عربی انشا و تحریر کے ساتھ موالنا موصوف اُردو کے بھی ایک منجھے ہوئے ادیب اور صاحب قلم ہیں‬
‫اور ماہنامہ 'محدث' بنارس کے مدیر ہیں جس میں ان کی فکر انگیز تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ قارئین‬
‫'االعتصام' آپ سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ متعدد مرتبہ ان کی نگارشات 'االعتصام' کے صفحات میں شائع‬
‫ہوچکی ہیں ۔‬

‫موالنا محترم کا ایک کامیاب مناظر بھی ہیں ۔ آج سے چند سال قبل قبر پرستی اور اس سے متعلقہ مشرکانہ‬
‫اور مبتدعانہ اُمور پر موالنا موصوف کا ایک مناظرہ بنارس ہی کے ایک محلے' 'بجرڈیسہ' میں ہوا جس کا‬
‫یہ اثر ہواکہ اس مناظرے میں شریک فریق ثانی کی ایک خاصی تعداد اہل حدیث ہوگئی اور یوں موالنا کے‬
‫تعالی نے ان کو شرک و بدعت کی تاریکیوں سے نکال کر توحید و سنت کی روشنی نصیب‬
‫ٰ‬ ‫ذریعے سے ہللا‬
‫'رزم حق وباطل' کے نام سے کتابی شکل میں چھپ گئی ہے اور عنقریب یہ‬
‫ِ‬ ‫فرمائی۔ اس مناظرے کی ُروداد‬
‫کتاب پاکستان میں بھی شائع ہوگی۔‬

‫جامعہ سلفیہ بنارس‪ ،‬جماعت اہل حدیث ہند کی عظیم مرکزی درس گاہ ہے جس میں سینکڑوں طالب ِعلم زیر‬
‫تعلیم ہیں ۔ اس کے عالوہ جامعہ کے زیراہتمام دو ماہنامے نکلتے ہیں ۔ ایک عربی میں جس کا نام مجلة‬
‫الجامعة السلفیة ہے۔ دوسرا اُردو میں جس کا نام 'محدث' ہے۔ مزید برآں اُردو‪ ،‬عربی اور انگریزی تینوں‬
‫زبانوں میں جامعہ کا شعبۂ تصنیف و تالیف کتابوں کی ترتیب و تصنیف اور اشاعت کا کام خاصے وسیع‬
‫پیمانے پر اور بڑے وقیع انداز سے سرانجام دے رہا ہے اور درجنوں کتابیں اس کے اہتمام میں شائع ہوکر‬
‫خراج تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ اسی شعبے نے موالنا صفی الرحمن کے ساتھی‪ ،‬موالنا‬
‫ِ‬ ‫اہل علم سے‬
‫محمد مستقیم سلفی جو ان کے ساتھ پاکستان تشریف الئے ہوئے ہیں اور اس تقریب سعید میں وہ موجود ہیں‬
‫ان کوعلمائے اہل حدیث کی تصنیفی خدمات کو مرتب کرنے کے کام پر لگایا ہے او رموالنا سلفی بڑی‬
‫تعالی ان کو توفیق دے کہ وہ اس کام کو بہ احسن‬
‫ٰ‬ ‫محنت و جانفشانی سے اس کام پر لگے ہوئے ہیں ۔ ہللا‬
‫طریق پایہ تکمیل تک پہنچا سکیں ۔‬

‫جامعہ سلفیہ بنارس کے تدریس امور اور مجالت مذکورہ کی نگرانی و ادارت اور اس کے اہتمام میں‬
‫چھپنے والی تمام کتابوں کی نظرثانی وغیرہ ان تمام امور و معامالت میں موالناصفی الرحمن مبارکپوری‬
‫حفظہ ہللا ہمہ تن مصروف اور متوجہ رہتے ہیں اور ان کا بیشتر وقت انہی پر صرف ہوتا ہے۔بلکہ استفتاء‬
‫ات و استفسارات کے لئے بھی موالنائے محترم کو وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اس اعتبار سے موالنا موصوف کی‬
‫شخصیت‬
‫اے کہ مجموعۂ خوبی بہ چہ نامت خوانم‬
‫کی مصداق ہے۔ وہ محدث وفقیہ بھی ہیں ‪ ،‬مصنف و صحافی بھی‪ ،‬خطیب و مناظر بھی ہیں اور ماہر منتظم‬
‫بھی اور بین االقوامی شہرت کے مالک بھی۔‬

‫ولیس علی اﷲ بمستنکر أن یمجع العالم في واحد‬

‫تالیفات‬
‫مدرس اور شیخ الحدیث ہیں ۔ اس لئے زیادہ وقت تدریسی مصروفیات میں گذرتا‬
‫موالنا موصوف چونکہ ایک ّ‬
‫ہے۔ عالوہ ازیں تبلیغ و دعوت اور فرق باطلہ سے مناظرہ وغیرہ میں بہت سا وقت صرف ہوجاتا ہے۔ او‬
‫راب تقریبا ً تین سال سے ماہنامہ ''محدث'' بنارس کی مستقل ادارت بھی موالنا موصوف ہی کے ذمے ہے۔‬
‫‪ :‬لیکن اس کے باوجود متعدد کتابیں بھی تالیف کی ہیں ۔ جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے‬
‫عربی) ازہار العرب عالمہ محمد سورتی کاجمع کردہ نفیس عربی اشعار کا ایک ( شرح أزهار العرب )‪(1‬‬
‫منتخب اور ممتاز مجموعہ ہے۔ شرح ‪1963‬ء میں لکھی گئی۔ مگر قدرے ناقص رہی او رطبع نہیں کرائی‬
‫جاسکی۔‬
‫المصابیح في مسئلة التراویح للسیوطي‪ ،‬کا اردو ترجمہ‪1963 ،‬ء چند بار طبع ہوچکا ہے۔ )‪(2‬‬
‫ء غیر مطبوع۔‪ 1966‬ترجمة الکلم الطیب‪ ،‬البن تیمیہ )‪(3‬‬
‫ء مع مختصر تعلیق‪ 1969‬ترجمہ کتاب األربعین للنووي )‪(4‬‬
‫نصاری میں محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے متعلق بشارتیں ‪( ،‬اردو) ‪1970‬ء غیر مطبوع۔ )‪(5‬‬
‫ٰ‬ ‫صحف یہود و‬
‫تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب‪1972 ،‬ء تین بار طبع ہوچکی ہے۔ )‪(6‬‬
‫یہ اصالً محکمہ شرعیہ قطر کے قاضی شیخ احمد بن حجر کی عربی تالیف کا ترجمہ ہے لیکن اس میں‬
‫کسی قدر ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔‬
‫تاریخ آل سعود (اردو) ‪1972‬ء تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ شائع )‪(7‬‬
‫ہوچکی ہے۔‬
‫عربی‪1974 :‬ء مطبوع۔( اتحاف الکرام تعلیق بلوغ المرام البن حجر عسقالني )‪(8‬‬
‫قادیانیت اپنے آئینہ میں (اردو) ‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(9‬‬
‫فتنہ قادیانیت اور موالنا ثناء ہللا امرتسری (اردو) ‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(10‬‬
‫اردو ترجمہ ''الرحیق المختوم''مذکورہ کتاب رابطہ عالم اسالمی میں پیش کرنے کے لئے تالیف کی )‪(11‬‬
‫گئی۔‬
‫انکار حدیث کیوں ؟ (اردو)‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(12‬‬
‫انکار حدیث حق یا باطل (اردو ) ‪1977‬ء مطبوع )‪(13‬‬
‫رزم حق و باطل (مناظرہ بجر ڈیسہ) کی ُروداد ‪1978،‬ء مطبوع۔ )‪(14‬‬
‫عربی‪1978‬ء ڈاکٹر تقی الدین ہاللی مراکشی حفظہ )إبراز الحق والصواب في مسئلة السفور والحجاب( )‪(15‬‬
‫ہللا کی رائے پر تنقید۔‬
‫مجلہ عربی ‪1979‬ء) چند قسطیں( تطور الشعوب والدیانات في الهند و مجال الدعوة اإلسالمیة فیها )‪(16‬‬
‫۔ الجامعة السلفیہ‬ ‫میں شائع ہوچکی ہیں‬
‫عربی ‪1982‬ئ) غیر مطبوع۔( الفرقة الناجیة والفرق اإلسالمیة األخری )‪(17‬‬
‫اسالم اور عدم تشدد (اردو ‪1984‬ء)مطبوع۔ یہ موالنا موصوف کی اہم تقریر تھی جسے کتابی شکل )‪(18‬‬
‫میں شائع کردیا گیا ہے۔ اور اس کا ایک حصہ ''االعتصام'' میں بھی‬
‫تاریخ آل سعود (اردو) ‪1972‬ء تذکرہ شیخ االسالم محمد بن عبدالوھاب کے پہلے ایڈیشن کے ساتھ شائع )‪(7‬‬
‫ہوچکی ہے۔‬
‫عربی‪1974 :‬ء مطبوع۔( اتحاف الکرام تعلیق بلوغ المرام البن حجر عسقالنی )‪(8‬‬
‫قادیانیت اپنے آئینہ میں (اردو) ‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(9‬‬
‫فتنہ قادیانیت اور موالنا ثناء ہللا امرتسری (اردو) ‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(10‬‬
‫اردو ترجمہ ''الرحیق المختوم''مذکورہ کتاب رابطہ عالم اسالمی میں پیش کرنے کے لئے تالیف کی )‪(11‬‬
‫گئی۔‬
‫انکار حدیث کیوں ؟ (اردو)‪1976‬ء مطبوع۔ )‪(12‬‬
‫انکار حدیث حق یا باطل (اردو ) ‪1977‬ء مطبوع )‪(13‬‬
‫رزم حق و باطل (مناظرہ بجر ڈیسہ) کی ُروداد ‪1978،‬ء مطبوع۔ )‪(14‬‬
‫عربی‪1978‬ء ڈاکٹر تقی الدین ہاللی مراکشی حفظہ )إبراز الحق والصواب في مسئلة السفور والحجاب( )‪(15‬‬
‫ہللا کی رائے پر تنقید۔‬
‫مجلة عربی ‪1979‬ئ) چند قسطیں( تطور الشعوب والدیانات في الهند و مجال الدعوة اإلسالمیة فیہا )‪(16‬‬
‫شائع ہوچکی ہیں ۔ الجامعة السلفیة‬ ‫میں‬
‫عربی ‪1982‬ئ) غیر مطبوع۔( الفرقة الناجیة والفرق اإلسالمیة األخری )‪(17‬‬
‫اسالم اور عدم تشدد (اردو ‪1984‬ئ)مطبوع۔ یہ موالنا موصوف کی اہم تقریر تھی جسے کتابی شکل )‪(18‬‬
‫میں شائع کردیا گیا ہے۔ اور اس کا ایک حصہ ''االعتصام'' میں بھی شائع ہوچکا ہے۔‬

‫موالنا صفی الرحمن مبارکپوری صاحب کو حضرت الشیخ الفاضل موالنا محمد عطاء ہللا حنیف صاحب جو‬
‫اس ادارے ‪ ...‬دارالدعوة السلفیہ‪ ...‬کے بانی اور نگران ہیں ‪ ،‬سے غایت درجہ غائبانہ عقیدت تھی اور‬
‫حضرت الشیخ کی زیارت اور ان سے استفادے کے لئے سخت مضطرب اور بے قرار تھے‪ ،‬ان کا موجودہ‬
‫پاکستانی دورہ دراصل حضرت الشیخ دام ظلہ سے بے انتہا محبت اور عقیدت ہی کا نتیجہ اور مظہر ہے۔ ہللا‬
‫تعالی ان کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ انہوں نے حضرت الشیخ کی محبت میں ان کی زیارت کے لئے‬
‫ٰ‬
‫اتنا دور دراز کا پُرصعوبت سفر اختیار فرمایا۔ جس سے ان کو تو ان کامقصد حاصل ہوگیا لیکن ہم جیسے‬
‫فلله الحمد مشتاقان دید کو مفت میں موالنا صفی الرحمن مبارکپوری کی زیارت کا شرف حاصل ہوگیا۔‬
‫والمنة۔‬

‫وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے‬


‫کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‬

‫‪......‬٭٭٭‪......‬‬

You might also like