You are on page 1of 4

‫خواجہ میر درد‬

‫خواجہ میر درد اردو کے وہ قادر الکالم ہیں جن کی شاعری‬ ‫‪-1‬‬


‫صوفیانہ مضامین کے رنگوں سے سجی ہوئی ہے ۔تصوف کی اصطالحات ان‬
‫کے کالم کے ذریعے اردو غزل میں شامل ہوئیں ۔میر درد کا عشق ‪،‬عشق‬
‫حقیقی اور ان کا محبوب بھی محبوب ‪ l‬ہے۔وہ ایک باعمل درویش تھے نیز ان‬
‫کی شاعری اور ان کی زندگی دونوں میں یک رنگی ہے ۔ان کے مزاج میں‬
‫سوز وگداز ‪ ،‬دردمندی اور خاکساری پائی جاتی ہے ۔خود ان کا تخلص درد‬
‫پسندی کی عالمت بن گیا ہے ۔‬
‫ابتدا ہی سے تصوف اور روحانیت کی طرف میالن ہونے کی‬ ‫‪-2‬‬
‫وجہ میر درد کی غزل میں عارفانہ رنگ نمایاں ہے ۔اگرچہ ان کی شاعری میں‬
‫مجازی رنگ کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے مگر عشق حقیقی کے عناصر‬
‫غالب ہیں ۔ارباب نقد ونظر نے انھیں صوفی شاعر قرار دیا ہے ۔ چناں چہ ان‬
‫کی غزل میں نظریہ وحدت الوجود‪،‬توحید باری ٰ‬
‫تعالی‪ ،‬صبر وشکر ‪،‬فقرو فاقہ ‪،‬‬
‫توکل علی ہللا‪،‬حیات و کائنات کی بے ثباتی ‪،‬تسلیم ورضا اور دیگر اخالقی‬
‫موضوعات کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔‬
‫میر درد کی شاعری لفظی و معنوی محاسن کی فراوانی سے‬ ‫‪-3‬‬
‫سرشار ہے ۔غنایت وتغزل ‪،‬زبان کی سادگی وسالست اور متانت و نفاست ‪،‬نادر‬
‫تشبیہات اور دلکش استعاروں سے مزین ہے ۔لفظی چاشنی اور شعری ذوق‬
‫قابل صد ستائش ہے۔‬

‫غالم ہمدانی مصحفی—‪----------------‬‬ ‫—‪---------------‬‬

‫وہ قادرالکالم شاعر ہیں جن کی شاعری میں دبستان لکھنؤ اور‬ ‫‪-1‬‬
‫دبستان دہلی دونوں کی خصوصیات کا رنگ جھلکتا ہے ۔یعنی ان کئ شاعری‬
‫داخلیت کی آئینہ دار بھی ہے اور خارجی کیفیات کا مرقع بھی پیش کرتی ہے‬
‫۔ان کا کالم عاشقانہ مضامین سے بھرا ہوا ہے اور صوفیانہ افکار کا بھی‬
‫ترجمان ہے ۔جذبہ عشق کی آنچ ان کی شاعری میں شروع سے آخر تک‬
‫محسوس ہوتی ہے ۔البتہ کہیں تندوتیز ہے اور کہیں ہلکی اور دھیمی ہے ۔‬
‫مصحفی کے کالم میں میر تقی میر کے غم عشق کی‬ ‫‪-2‬‬
‫گھالوٹ ملتی ہے ۔مصحفی کی شاعری میں ان کے ذاتی اور عصری حاالت‬
‫کے عالوہ توکل ‪،‬قناعت‪ ،‬استغنا ‪،‬دنیا کی بے ثباتی ‪،‬احساس محرومی ‪،‬عشق‬
‫حقیقی کا درد غم اور درد وسوز جیسے موضوعات کی فراوانی ملتی ہے۔‬
‫مصحفی کے کالم میں موضوعات کی رنگا رنگی ‪،‬انداز بیان کی‬ ‫‪-3‬‬
‫جدت وندرت ‪ ،‬شاندار تراکیب ‪ ،‬نادر تشبیہات ‪ ،‬عمدہ استعارات ‪ ،‬صنائع بدائع کا‬
‫خوب صورت استعمال ملتا ہے ۔انھوں نے اپنی شاعری میں جمال پسندی ‪،‬مترنم‬
‫آہنگ اور انسانی نفسیات کے مختلف کے مختلف بہلووں کو بھی اجاگر کیا گیا‬
‫ہے ۔‬
‫مصحفی کا شمار کالسیکی اردو شاعری کے اساتذہ میں ہوتا ہے ۔‬ ‫‪-4‬‬
‫انھوں نے اپنی شاعری میں میر تقی میر کی دردمندی اور مرزا سودا کی‬
‫شوکت بیان کو اس انداز سے سمویا ہے کہ ایک نئی طرز اظہار کے بانی قرار‬
‫پائے ہیں۔ ان کے کالم میں تصنع اور بناوٹ نام کو نہیں ۔ "دل سے جو بات‬
‫نکلتی ہے اثر رکھتی ہے " کے مصداق ان کے شعر دل سے نکلتے ہیں اور‬
‫دلوں میں اترتے چلے جاتے ہیں ۔‬
‫۔‬

‫مرزااسدہللا خاں غالب—‪----------------------‬‬ ‫—‪--------------‬‬

‫مرزا اسدہللا خاں غالب کا کالم اردو اور فاسی ادب کا‬ ‫‪-1‬‬
‫وہ سرمایہء نازش ہے جس نے ڈیڑھ صدی پیشتر تخیل مضامین کی ندرت‬
‫‪،‬اسلوب وادا کی جدت ‪،‬تشبیہات واستعارات کی نزہت اور عمدہ الفاظ وتراکیب‬
‫کی شان وشوکت کا ایک ایسا باب روشن کردیا ہے ‪،‬جس میں معانی و مطالب کا‬
‫ایک نیا جہاں نظر آنے لگا ۔غالب ارتقائے شعر کی وہ کڑی ہے جو حیات جاوید‬
‫پاگئی ہے ۔‬
‫غالب کے کالم کو اہل نقدونظر نے اردو ادب کا باقاعدہ‬ ‫‪-2‬‬
‫فلسفہ قرار دیا ہے ۔ان کی طبیعت میں اگرچہ مشکل پسندی ہے مگر مضامین‬
‫کی رنگا رنگی ‪ ،‬خیاالت میں غیر معمولی رفعت اور زبان و بیان پر پوری‬
‫قدرت اور فارسی کی نئی نئی تراکیب نے ان کے کالم کو چارچاند لگا دیے‬
‫ہیں۔‬
‫غالب کے کالم سے اردو شاعری میں ایک نئے دور‬ ‫‪-3‬‬
‫کی ابتدا ہوئی۔ان کا کالم جدید اور منفرد انداز کا حامل ہے ۔حقیقت نگاری ‪ ،‬آالم‬
‫روزگار اور حاالت زمانہ سے الجھ کر زندگی سے پیار ‪ ،‬اپنے اندرونی‬
‫دردوکرب کو طنزومزاح اور شوخی وظرافت کی نذر کردینا غالب ہی کا طرہ‬
‫امتیاز ہے‬
‫مرزا اسدہللا خاں غالب کے کالم میں فلسفہ وحکمت ‪ ،‬پند و‬ ‫‪-4‬‬
‫نصائح ‪،‬صوفیانہ خیاالت ‪،‬ایجازواختصار ‪،‬رمزوایمائیت ‪ ،‬مصوری وموسیقیت‪،‬‬
‫مضامین رشک ‪ ،‬خیاالت کی وسعت ‪،‬مضامین کی نیرنگیاں ‪،‬انسانی نفسیات کی‬
‫ترجمانی ‪ ،‬مبالغہ آرائی اور شاعرانہ تعلی جیسے محاسن کی فراوانی انھیں‬
‫دوسرے شعرا سے منفرد کرتی ہے ۔‬

‫____________عال مہ محمد اقبال—‪------------‬‬

‫‪ -1‬عالمہ اقبال وہ آفاقی شاعر ہیں جنھوں نے اپنی شاعرانہ صالحیتوں کو‬
‫دیگر شاعروں کی طرح محبوب مجازی کے زلف ورخسار اور لب شیریں کی‬
‫تعریف وتوصیف یا ہجر و وصال کے لیے صرف نہیں کیا بل کہ اقبال نے اپنی‬
‫فکری قوت اور تخلیقی صالحیتوں کو ملت اسالمیہ کے لیے وقف کیا ۔ انھوں‬
‫نے اپنی فکر اور شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ہللا اور اس کے رسول کے‬
‫عشق واطاعت کا درس دیا ۔ ان کے شاعری کے بنیادی افکار عشق‬
‫حقیقی‪،‬فلسفہ خودی ‪ ،‬ذوق عمل سے مزین ہیں۔‬
‫‪ -2‬اقبال کی شاعری ایک درس عمل ہے ؛ ایک پیغام زندگی ہے نیز آزادی‬
‫‪،‬عزت و وقار ‪،‬غیرت مندی و خودداری کی زندگی بسر کرنے کی تعلیم کا‬
‫درجہ رکھتی ہے ۔ چناں چہ ان کے کالم میں قاری کو فلسفہ خودی کی اہمیت‬
‫واہمیت ‪،‬فقر ودرویشی کی کی عظمت ‪ ،‬تصوف وروحانیت کی چاشنی ‪ ،‬امید‬
‫ورجا کی سرشاری ‪ ،‬اور اعلی مقاصد کے حصول کے لیے جہد مسلسل اور‬
‫عمل پیہم کی زندگی گزارنے کی ترغیب ملتی ہے ۔‬
‫‪ -3‬اقبال کی شاعری بذات خود ایک نئی روایت کا سر چشمہ ہے ۔وہ اپنے‬
‫ایک ایک شعر میں قران وسنت سے رہنمائی لیتے نظر آتے ہیں ۔ ان کی‬
‫شاعری میں جہاں مسلمانوں کو بلند نگاہی‪ ،‬عرفان نفس ‪ ،‬آداب سحر گاہی کا‬
‫درس ملتا ہے ؛ وہاں ان کا کالم طرزا ادا کی جدت ‪ ،‬زبان وبیان کے حسن اور‬
‫شعری محاسن کا ایک خوب صورت مرقع نظر آتا ہے ۔‬

‫نا صر کاظمی‬
‫ناصر کاظمی اردو غزل کا معتبر حوالہ ہیں ۔ قیام پاکستان کے بعد‬ ‫‪-1‬‬
‫شاعروں کی جو نسل سامنے آئی ؛اس میں ناصر کاظمی سب سے زیادہ نمایاں‬
‫اور منفرد حیثیت کے مالک ہیں ۔قیام پاکستان سے قبل خاص معاشرتی حاالت‬
‫کے سبب نظم کے مقابلے میں غزل اپنا مقام و مرتبہ کھو چکی تھی ۔ناصر نے‬
‫اس مرحلے پر غزل کی تجدید کی اور اس میں ایسے امکانات داخل کیے جو‬
‫ایک طرف تو شاعری کی روایت میں خوب صورت اضافہ ہے ۔‬
‫ناصر کی غزل زندگی کی سچی اور منھ بولتی تصویر ہے ۔ان کے‬ ‫‪-2‬‬
‫نزدیک شعر کہنا اور اور سانس لینا ایک ہی عمل ہے ۔ناصر کے ہاں تشبیہ ‪،‬‬
‫استعارہ کی تازگی اور تصویر کاری ہی نہیں بل کہ خلوص کی گرمی اور‬
‫تجربے کی روشنی بھی ضروری ہے ۔‬
‫‪-3‬‬

You might also like