Professional Documents
Culture Documents
اقبال کی بنیادی تصورات
اقبال کی بنیادی تصورات
عائشہ گل
رول نمبر 202309
سمسٹر 6th
ڈاکٹر کبیر
ڈیپارٹمیٹ آف اردو
اسالمیہ کالج یونیورسٹی پشاور
اقبال کی بنیادی تصورات
جنون محبت کے شاعر ،فلسفی اور سیاسی مفکر تھے جو ایک مستحکم مسلمان امہ کے ترقی اور تعلیم پر
ِ محمد اقبال،
زور دیتے تھے۔ وہ ایک بہترین شعرا اور متکلمین میں سے ایک تھے اور انہوں نے فلسفی اور دینی موضوعات پر اہم
تحقیقات کی ہیں۔
اقبال کی بنیاد تصورات ،اسالمی فلسفے اور مذہبی تعلیمات پر مشتمل تھیں جنہیں وہ ایک عصری دور کے آداب اور
تحریک پاکستان کیلئے بھی اپنا فکری عطیہ دیا اور انہوں نے
ِ معاشرتی تناظرات کے ساتھ جوڑتے تھے۔ انہوں نے
اسالمی جمہوریہ پاکستان کے بنیادی تصورات اور اس کی نظامیہ کی بنیاد رکھی۔
ت پاک ،خودی ،شاعری، اقبال کی فکری اور فلسفی تصورات کے مضامین میں شامل ہیں :معرفت شناسی ،توحید ،ذا ِ
عدم وجود ،اخالقیات ،تاریخ ،جمہوریت ،اور تعلیم۔ انہوں نے اپنے شعر ،نثر ،خطابات ،مضامین ،تحقیقات ،اور کتابوں
ِ
میں ان موضوعات پر بھرپور غور کیا۔
اقبال کے تصورات کی بنیاد ایک سادہ ،محبت بھرا ،توحید پر مبنی ،اور جمہوری فکریت پر مبنی نظریہ تھا جو ان کے
تحریک مستقل ترقی اور تعلیم کو فراہم کرتا ہے۔
ِ خیال میں ایک
بیان ذات،
شکوہ و شکر کی جاتی ہے جب ِ
خوشنودی مات
ٔ مثا ِل رنگ و بو و گل و
نیاز نفس ہیں ،تو خود خدا ہے ،یا رب،
ہم ِ
ہم مح ِو خودی میں ،تو جما ِل خدا پائے جات
عالمہ اقبال کی دیگر نظموں میں بھی نظریہ خودی کے بارے میں بحث موجود ہے ،لیکن شکوہ و شکر اس موضوع
کو بہترین طور پر بیان کرتی ہے۔
4۔ اقبال کی ایک اورنظم جو بانگ درا کے نظریہ خودی کے متعلق بات کرتی ہے وہ نظم"خودی" ہے.
"خودی کو کر بُلند ،اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ،بتا تیری رضا کیا ہے۔"
اس نظم میں ،اقبال نے خود کی شناخت کو بہتر کرنے کے لئے اپنے خود کو بلند تر بنانے کا ذکر کیا ہے اور اس نے
خدا سے خود پوچھا ہے کہ اس کی رضا کیا ہے۔ یہ نظم اقبال کے نظری ِہ خودی کے اہم ترین نظموں میں سے ایک ہے
جو بانگ درا میں شامل ہیں۔
بال جبریل ایک اسالمی کتاب ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السالم کے وحی کی رو سے حضرت محمد صلی ہللا علیہ
وسلم کو پہنچایا گیا۔ اس کتاب میں نظریہ خودی کے بارے میں بھی بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
نظریہ خودی کے مطابق ،خداوند کی ذات ہر وجود میں موجود ہے۔ یعنی ،ہر انسان کے اندر خداوند کی عبادت کے لئے
وہ خود حاضر ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خداوند کی عبادت کرنے والے کو خداوند کے عالوہ کوئی دوسرا
معبود نہیں ہو سکتا کیونکہ خداوند ہی سب کچھ ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔
نظریہ خودی کے تحت ،اگر کوئی شخص خداوند کی عبادت کرتا ہے تو وہ خداوند کی خوشنودی کی حالت میں رہتا ہے
اور اسے خداوند کی عظمت اور قدرت کا علم بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح ،خداوند کے سامنے تمام انسان برابر ہوتے ہیں
اور ان کے لئے کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔
بال جبریل میں نظریہ خودی کے عالوہ بھی بہت سے دینی ،فلسفی اور اخالقی مسائل پر بحث کی گئی ہیں
بال جبریل میں نظریہ خودی کے بارے میں نظموں اور غزلوں میں بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ شاعری کے ذریعہ
نظریہ خودی کی اہمیت کو اظہار کرنا ایک عرفانی تقلید کا حصہ رہا ہے۔
نگار ترا نام نہ جانتے ہوں تو فرق نہیں پڑتا" میں ،شاعر کہتا ہے کہ وہ
ِ بال جبریل میں نظم "تو ہے تو ،یا مثا ِل ُرخِ
خداوند کی عبادت کرتا ہے ،چاہے خداوند کو جانے یا نہ جانے ،کیونکہ خداوند کی حقیقت انسانی دماغ سے بالکل نہیں
سمجھی جا سکتی۔
اسی طرح غزل "نہ پوچھ مجھ سے کہ میرا تصور کیا ہے" میں ،شاعر کہتا ہے کہ وہ خداوند کی عظمت کو بے بس
ہے ،اور اس کے لئے وہ خود کو بے بسی کے درمیان محسوس کرتا ہے۔
بال جبریل میں دیگر نظموں اور غزلوں میں بھی نظریہ خودی کی عظمت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعری کے
ذریعہ ،شاعر اپنے قارئین کو ان کے خود کی عظمت کی حقیقت سے آگاہ کرتاہے
اقبال کی کتاب "شکوہ و شکایت" اس کے شعری مجموعے کا نام ہے ،جس میں وہ اپنی شاعری کے ذریعے مختلف
موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔
عشق کے تصور کے بارے میں ،اقبال نے اپنے شعری مجموعے میں کئی بار بحث کی ہے۔ وہ عشق کو ایک فلسفیانہ
ت محبت کہتے تھے۔تصور کرتے تھے ،جسے وہ کثر ِ
ت محبت کے تحت ،عاشق کو اپنی شخصیت کو بھول جانا چاہئے اور وہ صرف محبوب کی خاطر اقبال کے مطابق ،کثر ِ
زندگی کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ عاشق کو اپنی محبوب کے سامنے ناقاب ِل ذکر ہونا
چاہئے ،جیسے اس کے وجود کا مطلب صرف اسے محبوب سے محبت کرنا ہو۔
اقبال کے شعر میں عاشقی کے تصور کو عالمی ،عمومی اور مستقل حقیقت سے جوڑا جاتا ہے ،جس کے تحت عشق
کو زندگی کا واحد مقصد تصور کیا جاتا ہے۔
بانگ درا" ،جو اقبال کے فلسفے کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں اقبال کے فلسفی اصولوں کی
ِ "3
تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔
انگ درا اقبال کی ایک بہت معروف اور مقبول کتاب ہے جس میں وہ نظمیں شامل کرتے ہیں جو عاشقی ،خدا کی محبت
اور فلسفہ کے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں اقبال نے تصور عشق کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔
اقبال نے بانگ درا میں عشق کو خدا سے محبت کا رشتہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عاشق کے لئے خدا کی محبت
اس کے لئے بہت اہم ہے اور خداوند کے بغیر اس کا دل کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ اس کے عالوہ ،اقبال نے عشق
کو ایک شمع کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو عاشقی کرتا ہے ،وہ ایک شمع کی طرح ہے جو
بلندیوں کی طرف روشنی پھیالتا ہے۔
اقبال نے بانگ درا میں عاشقی کو ایک نور کی طرف رجوع دینے واال بھی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق ایک
روشنی ہے جو ساری دنیا کو روشن کرتی ہے۔ اور جو شخص عاشقی کرتا ہے ،وہ ایک شخص کی طرح ہے جو دنیا
کو بہتر بنانے کے لئے تیار ہے۔
عالوہ ازیں ،اقبال نے بانگ درا میں عاشقی کے ذریعے خداوند کے تجربات کے متعلق بھی بہت کچھ کہا ہے۔
4۔"عظیم اقبال" ،جسے اشفاق احمد نے لکھا ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی زندگی کی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
اقبال کی کتاب "عظیم اقبال" میں وہ بہت سارے مضامین پر بات کرتے ہیں ،جن میں سے ایک تصور عشق بھی ہے۔
اقبال نے اپنے کتاب "عظیم اقبال" کے دوسرے حصے میں عشق کے بارے میں اپنی تصورات کو بیان کیا ہے۔
اقبال کے مطابق ،عشق ایک مقدس جذبہ ہے جو ہللا کے لئے حاصل کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کی توجہ صرف
خداوند کی طرف ہونی چاہئے ،اور عاشق کو اپنی ذات کو فدا کرنا چاہئے۔ اقبال کے مطابق ،عشق ایک خدا سے
وابستہ ،مسلمانانہ اور بہترین جذبہ ہے جو انسان کو خداوند کے قرب کے قریب لے جاتا ہے۔
عشق کے تجربے کی بات کرتے ہوئے ،اقبال نے اپنے شعروں اور نثر میں عشق کو ایک نور سے تشبیہ دیا ہے جو
اپنے آس پاس سب کچھ روشن کر دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق ایک مسلسل اور بے قرارہ دھواں ہے جو دل کے
آگے بہتے جاتا ہے۔ عشق کے تجربے کی صداقت کے بارے میں اقبال کے خیاالت ان کے شعروں اور نثریات میں
ظاہر ہوتے ہیں۔
فن. - :4تصور
تصور فن سے مراد ایک انسانی جذباتی تجربہ ہے جس کو انسان فن کی شکل میں اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار مختلف
فنون مثالً شاعری ،نغمہ ،نقاشی ،ادب ،فلمی فن ،اور دیگر متعلقہ فنون کی شکل میں ہو سکتا ہے۔
فن کے تصور کے تحت ،فن میں کچھ نئے اور خالقانہ ایجاد کیا جاتا ہے جو کہ اس کی خصوصیت ہے۔ فن انسانی
جذبات کو باہر نکالنے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اشتراک کرنے کا ایک طریقہ ہے۔
فن کے تصور کے لحاظ سے ،فن بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے انسانی جذبات کو بیان کرنے کا ایک
خصوصی طریقہ ہے جو کہ انسانوں کو دوسرے لوگوں سے متعلقہ کرتا ہے۔ فن ایک ذہین فرض ہے جو کہ انسانیت کو
بہتر بنانے کے لئے ہمارے پاس موجود ہے۔
محمد اقبال ،پاکستان کے عظیم شاعر ،فیلسوف ،اور تہذیبی ماہر تھے۔ وہ فن اور زندگی کے بارے میں اپنے اصولوں
کے حامل تھے۔
اقبال نے فن کی اہمیت کو اپنے شاعری اور نثر کے ذریعے اظہار کیا۔ انہوں نے فن کو زندگی کا حصہ قرار دیا اور
کہا کہ فن زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ انہوں نے اپنے شاعری میں اردو اور فارسی کے ذریعے مختلف فنون کو مال
کر نئی شکل دی ہے۔
اقبال نے اپنے اصولوں کے تحت فن کو ایک فرصت قرار دیا جو زندگی کو خوبصورت بنانے کا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے
تھے کہ فن انسانیت کی بنیاد ہے اور ہر انسان کو اس کا حصہ بننا چاہئے۔
اقبال کی کتابوں میں تصور فن کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ فن کے معنوی اور مادی جوہر کو ایک
دلچسپ اور رومانوی شکل میں پیش کرتے ہیں۔
اقبال نے اپنی کتابوں میں فن کو ایک عظیم قدرتی قوت کی شکل میں تصور کیا ہے جو انسانیت کے جزبات اور جذبات
کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے فن کو انسانی جذبات کو بیان کرنے اور انہیں باہر نکالنے کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔
اقبال نے اپنے شاعری کے ذریعے فن کو بہترین شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے شعر کو ایک موسیقی کی شکل میں بیان
کیا جو کہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں فن کی قدرتی تجربہ کی شکل میں جذباتی اور
تخیلی تجسس کا خالئی جوش پائی جاتی ہے۔
شکوہ وشکایت اقبال کی ایک مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے ادبی فن کی بہترین تعریف کی ہے۔ ان کے مطابق،
فن ایک ایسا تصور ہے جو کہ انسانی جذبات ،خیاالت ،اور احساسات کو ایک ایسی شکل دیتا ہے جس سے قارئین کے
دلوں پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اقبال کا معتقد ہے کہ فن انسانیت کے قدموں کو بلند کرتا ہے ،اور انسان کو اس کی
حقیقت کے قریب لے جاتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ فن مذہب کے مترادف ہے ،جو انسانیت کی بنیاد پر قائم ہے۔
اسی کتاب میں انہوں نے فن کی قدرت اور اہمیت پر بھی غور کیاہے۔
شکوہ وشکایت میں اقبال نے اپنے تصور فن کے نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی ہیں۔ ان کی نظمیں انسانی جذبات،
احساسات ،وجدان ،اور عشق کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ ان کے شعر اور نظموں میں غالب ،مرزا ،و امیر
خسرو کی شاعری کا اثر بھی دیکھا جا سکتا ہے ،لیکن اقبال کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نئی تجربہ
آرائی کے ساتھ زندہ ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں اسلوب کی تبدیلی ،تحریری شیوہ ،اور اظہار کے طریقے کی بہترین
مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنے شعروں میں فلسفی اصولوں ،تصورات ،اور مقاصد کو بھی شامل کیا ہے
جو کہ ان کی شاعری کو ایک انوکھا دلچسپی دیتے ہیں۔
قبال کی کتاب "تصور فن" میں انہوں نے فن کے مختلف پہلوؤں پر تبصرے کئے ہیں۔
انہوں نے فن کو ایک مرتبہ "جمال کا اظہار" کہا ہے۔ ان کے نظریات کے مطابق ،فن انسانی جذبات اور احساسات کو
اظہار کرنے کا ایک شاہکار طریقہ ہے۔ اقبال کے مطابق ،فن اس قوت کی بنا پیدا ہوتا ہے جو انسان کو قریبی جہان
سے باہری جہان کی طرف لے جاتی ہے۔
اقبال نے اپنی کتاب میں فن کے مختلف اشکال پر بھی بحث کی ہے۔ انہوں نے شاعری ،نقاشی ،فلمی فن ،اور موسیقی
کے بارے میں بھی بحث کی ہے۔ ان کے نظریات میں ،ہر ایک اس کام کا مشترک جواز ہے جو کہ فنان کی خصوصیت
ہے۔ یعنی ،فن ایک انفرادی تجربہ ہے ،جو کہ فنان کے دل کی گہراؤوں سے نکل کر ،قریبی جہان میں لوگوں کے دلوں
تک پہنچتا ہے۔
اقبال نے اپنے نثر کے ذریعے بھی فن کو بہترین شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کی نثر کے ذریعے فن کو ایک نہایت
دلچسپ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ اپنے نثر کے ذریعے قارئین کو موضوعات کے ذریعے جذباتی تجربات کے
اظہار کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
اقبال کی نثر میں فن کا تصور ایک تاریخی اور فلسفیاتی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی نثر میں فن کو ایک
بیانیہ اور فکری شکل میں پیش کیا گیا ہے جو کہ قارئین کے لئے دلچسپ اور تعلیمی ثابت ہوتا ہے۔
اقبال نے اپنے نثر کے ذریعے فن کو عام لوگوں تک پہنچانے کا بھی بہترین طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ نثر کے ذریعے
انسانی جذبات ،احساسات ،اور جزبات کو سمجھنے کے لئے ایک آسان اور دلچسپ طریقہ قائم کرتے ہیں۔
اقبال نے نثر کے ذریعے فن کو ایک فکری ،تاریخی ،اور اجتماعی زاویہ سے دیکھا ہے۔ وہ فن کو انسانی تاریخ اور
فلسفے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی شان اور قدرت کو ظاہر کرنے کے لئے نثر کا
استعمال کرتے ہیں۔
آسرا" میں اقبال کی کئی غزلیں اور نظمیں ہیں جن میں وہ مر ِد مومن کے تصور کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ "
:چند مثالیں درج ذیل ہیں
ک مجاہدہ،
مر ِد مومن کی طبیعت میں ہے تحری ِ
کامیابی سے بھرا ہوا انسانی جسم ہے وہی۔
حوالہ جات
1۔)ء) by Iqbal (1924بانگ درا( ""Bang-e-Dra
2۔)ء) by Allama Iqbal(1936ضرب کلیم( ""Zarb-i-Kalim
3۔)ء) by Allama Iqbal(1915اسرار خودی( "2"Asrar-i-Khudi
4۔)ء) by Allama Iqbal(1918رموز بیخودی( ""Rumuz-i-Bekhudi
"Payam-i-Mashriq" ( )پیام مشرقby Allama Iqbal(1923۔)ء5
"Javid Nama" ( )جاوید نامہby Allama Iqbal(1932۔)ء6
"Musafir" ( )مسافرby Allama Iqbal(1934)۔7
"Armughan-e-Hijaz" ( )ارمغان حجازby Allama Iqbal(1938)۔8
"Zabur-i-Ajam" ()(زبور عجم1927)۔9
"Kulliyat-e-Iqbal"۔10
میں شائع ہوا1984 (کلیات اقباز)یہ اقبال کی مجموعی کتاب ہے۔ جس کو مختلف تاریخوں میں درج کیا ہے ۔