You are on page 1of 13

‫اقبال کی بنیادی تصورات‬

‫عائشہ گل‬
‫رول نمبر ‪202309‬‬
‫سمسٹر ‪6th‬‬

‫ڈاکٹر کبیر‬

‫ڈیپارٹمیٹ آف اردو‬
‫اسالمیہ کالج یونیورسٹی پشاور‬
‫اقبال کی بنیادی تصورات‬

‫جنون محبت کے شاعر‪ ،‬فلسفی اور سیاسی مفکر تھے جو ایک مستحکم مسلمان امہ کے ترقی اور تعلیم پر‬
‫ِ‬ ‫محمد اقبال‪،‬‬
‫زور دیتے تھے۔ وہ ایک بہترین شعرا اور متکلمین میں سے ایک تھے اور انہوں نے فلسفی اور دینی موضوعات پر اہم‬
‫تحقیقات کی ہیں۔‬
‫اقبال کی بنیاد تصورات‪ ،‬اسالمی فلسفے اور مذہبی تعلیمات پر مشتمل تھیں جنہیں وہ ایک عصری دور کے آداب اور‬
‫تحریک پاکستان کیلئے بھی اپنا فکری عطیہ دیا اور انہوں نے‬
‫ِ‬ ‫معاشرتی تناظرات کے ساتھ جوڑتے تھے۔ انہوں نے‬
‫اسالمی جمہوریہ پاکستان کے بنیادی تصورات اور اس کی نظامیہ کی بنیاد رکھی۔‬
‫ت پاک‪ ،‬خودی‪ ،‬شاعری‪،‬‬ ‫اقبال کی فکری اور فلسفی تصورات کے مضامین میں شامل ہیں‪ :‬معرفت شناسی‪ ،‬توحید‪ ،‬ذا ِ‬
‫عدم وجود‪ ،‬اخالقیات‪ ،‬تاریخ‪ ،‬جمہوریت‪ ،‬اور تعلیم۔ انہوں نے اپنے شعر‪ ،‬نثر‪ ،‬خطابات‪ ،‬مضامین‪ ،‬تحقیقات‪ ،‬اور کتابوں‬
‫ِ‬
‫میں ان موضوعات پر بھرپور غور کیا۔‬
‫اقبال کے تصورات کی بنیاد ایک سادہ‪ ،‬محبت بھرا‪ ،‬توحید پر مبنی‪ ،‬اور جمہوری فکریت پر مبنی نظریہ تھا جو ان کے‬
‫تحریک مستقل ترقی اور تعلیم کو فراہم کرتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫خیال میں ایک‬

‫اقبال کے بنیادی تصورات درج ذیل ہیں‬


‫‪1‬۔ نظریہ خودی‬
‫‪2‬۔ تصور عشق‬
‫‪3‬۔ تصور مرد مومن‬
‫‪4‬۔ تصور فن‬
‫نظریہ خودی‬
‫خودی کا مطلب ہے کہ انسان خود کو جانتا ہے اور اپنی قوتوں‪ ،‬صالحیتوں‪ ،‬خواہشوں اور مقاصد کی پہچان کرتا ہے۔‬
‫اقبال کا نظریہ خودی کہتا ہے کہ خودی اسی لئے اہم ہے کہ وہ انسان کی ذاتیت اور قدرت کو پیدا کرتی ہے۔‬
‫اقبال کے نظریہ خودی کے تحت‪ ،‬انسان کو اپنی خودی کی پہچان کرنی چاہئے تاکہ وہ اپنے مقصد تک پہنچ سکے۔ اگر‬
‫انسان خود کو نہیں جانتا تو وہ اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے صرف ناکام ہوگا۔‬
‫اقبال کا نظریہ خودی اسی لئے اہم ہے کہ وہ انسان کو اس سے بہتر بنانے کے لئے ذاتی ترقی کے راستے دکھاتا ہے۔‬
‫اگر انسان اپنی خودی کو جانے بغیر خود کو اچھا بنانا چاہتا ہے تو وہ کبھی بھی اچھا نہیں بن سکتا۔‬
‫اقبال کا نظریہ خودی اسی لئے اہم ہے کہ وہ انسان کے لئے ایک ہدایتی مفتی دیتا ہے جس سے وہ اپنے مقصد تک پہنچ‬
‫سکتا ہے۔ خودی کے ذریعے انسان اپنے ذہن و دل کو بہتر بنا سکتا ہے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنے اندر‬
‫موجود تمام قوتوں کو استعمال کرسکتا ہے۔‬
‫اقبال کا نظریہ خودی ایک فلسفیہ فردیت اور ذاتیت ہے جو انسانی ذہنیت کے بارے میں ہے۔ اقبال نے خودی کو ایک‬
‫فردیت کی شکل میں تصور کیا جو انسان کی فکری‪ ،‬جسمانی اور روحانی جملہ ابعاد پر مبنی ہے۔ اس نظریے کے‬
‫مطابق‪ ،‬خودی کی بنیادیترین قوت اس کے ذہنی موازنے اور تحریک سے جڑی ہے۔‬
‫اقبال کے نظریہ خودی کا مراد یہ ہے کہ انسان کی فردیت اور ذاتیت‪ ،‬اس کے دماغ کی پیشہ وری اور خصوصیات‬
‫سے وابستہ ہے۔ اس کے مطابق‪ ،‬خودی کی پیدائش‪ ،‬ترقی اور بلندیاں صرف اس کے ذہنی مجال کے اضافی موازنے‬
‫کے نتیجے میں ہوتی ہیں۔‬
‫اقبال کا نظریہ خودی‪ ،‬انسانیت کے مختلف شعبوں میں بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس کے مطابق‪ ،‬اگر انسان اپنی خودی کی‬
‫ترقی پر زور دے تو وہ انسانی ترقی کے تمام پیشے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔ اسی طرح‪ ،‬خودی کو بہتر بنانے‬
‫کے لئے انسان کو خود کے عالوہ دوسرے کسی بھی طاقت کی ضرورت نہیں ہوتی‬
‫نظریہ خودی اقبال کی فلسفہ اور عقیدہ کا اہم حصہ ہے جو خود کو شناخت اور خود کی قدرت کی توجہ پر مبنی ہے۔‬
‫اقبال نے اپنے اشعار میں خود کی تعریف کی ہے اور خود کی قدرت کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ وہ اس بات کو اہم‬
‫جانتے تھے کہ انسان کی اصلی قوت اس کی روح ہے جو خدا کی عکاس ہے۔ ان کے نظریہ خودی کے تحت اگر انسان‬
‫خود کو پہچانے اور اپنی قوتوں کو جانے تو وہ خدا کی قدرت کو سمجھ سکتا ہے اور زندگی کی معنی سمجھ سکتا ہے۔‬
‫نظریہ خودی اقبال کے شعر و نظم کے تمام حصوں میں دکھایا گیا ہے‪ ،‬لیکن کچھ نظمات انکے نظریہ خودی کے اہم‬
‫‪:‬ترین نمونے ہیں۔ کم از کم تین اہم نظمات مندرجہ ذیل ہیں‬
‫میں نے دیکھا ہے" ‪ -‬اس نظم میں‪ ،‬اقبال نے اپنے خودی کے فلسفے کو بیان کرتے ہوئے انسان کی فردیت کی اہمیت "‬
‫پر زور دیا ہے۔ یہ نظم اس وقت کے بعد بھی خوب پسندیدہ رہی ہے جب تک انسانیت میں خودی کی بہتری کی بحث‬
‫رائج ہے۔‬
‫خودی کو کر بلند‪ ،‬اتنی رہ تکبیر کہ خدا تیرا کبیر بندہ بنے" ‪ -‬اس نظم میں‪ ،‬اقبال نے خودی کو بلند کرنے کی ترغیب‬
‫دی ہے۔ اس کے ذریعے وہ انسان کو اس کی ذاتیت اور فردیت کی باالدستی کی طرف راغب کرتےہیں۔‬
‫‪1‬۔ میں نے دیکھا ہے" ایک مشہور نظم ہے جو اقبال کی مختلف نظموں میں شامل ہے۔ یہ نظم نظریہ خودی کے دالئل‬
‫کے طور پر مشہور ہے۔‬
‫‪:‬مکمل نظم درج ذیل ہے‬
‫میں نے دیکھا ہے‪ ،‬ایک اہ ِل خرابات کو‬
‫جو کچھ کہتا ہے‪ ،‬ان کے پیچھے چھپاتا ہے‬
‫میں نے دیکھا ہے‪ ،‬جب جمہوریت کے پرچم‬
‫کوئی نہ لہرایا‪ ،‬تو ہزاروں نے بہت خوشی سے جالیا‬
‫میں نے دیکھا ہے‪ ،‬اپنی ہی عیش پر یہ عالم‬
‫کہتا ہے اقبال کو‪ ،‬کہ جہاں ہے تیرا علم‬
‫اس نظم میں اقبال نے اپنی نظریہ خودی کے مفادات کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر شخص کی اپنی‬
‫خرابیاں ہوتی ہیں اور وہ ان سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے‪ ،‬لیکن ایک سچے شاعر کی نظر میں یہ خرابیاں مشکل‬
‫سے چھپتی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ جب جمہوریت کا پرچم کوئی نہ لہراتا ہے‪ ،‬تو لوگ خوشی سے اسے جالتے ہیں۔‬
‫آخر میں‪ ،‬وہ اپنی زندگی کی عیش و عشرت پر بھی غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں‬
‫کہ ان کے لئے دنیا میں کچھ نہیں باقی رہ جاتا۔ یہ ان کی نظریہ خودی کی ترجیحات کو ظاہر کرتا ہے جس کے تحت‬
‫ان کو خود کی اہمیت کے اعتراف کے ساتھ ساتھ دنیا کی دیگر چیزوں کی بھی قدر کم لگتی ہے۔ اس جملے سے آگے‪،‬‬
‫اقبال اپنے نظریہ خودی کے بارے میں اپنے دیگر نظموں میں بھی تفصیالً بیان کرتے ہیں۔‬
‫‪2‬۔" خودی کو کر بلند اتنی رہ تکبیر کہ خدا تیرا کبیر بندہ بنے‪.‬‬
‫تحریک خودی کے دوران لکھی تھی۔ اس نظم میں اقبال نے خودی کے اہمیت کو‬ ‫ِ‬ ‫یہ اقبال کی نظم ہے جو انہوں نے‬
‫بیان کیا ہے اور اس کو عملی زندگی کا حصہ بنانے کی خواہش رکھی ہے۔ انہوں نے خودی کو ایک اصو ِل زندگی قرار‬
‫دیا ہے جو انسان کو مستقبل کے لئے مضبوط بنانے کے لئے اہم ہے۔ اقبال کی نظم "خودی کو کر بلند اتنای رہ تکبیر کہ‬
‫خدا تیرا" ایک اہم پیغام ہے جو خودی کے مفہوم کو آسانی سے سمجھایا جاتا ہے۔‬
‫"بانگ درا" میں نظری ِہ خودی بہت اہم موضوع ہے۔ اس کتاب میں‪ ،‬اقبال نے اپنے نظری ِہ خودی کو بہت‬
‫ِ‬ ‫اقبال کی کتاب‬
‫واضح طور پر بیان کیا ہے۔ وہ اس نظریے کے مطابق معتقد ہیں کہ انسان خود اپنا قدرتی پتھر ہے‪ ،‬اور خدا کی طرف‬
‫سے دیے گئے مقررات کے مطابق زندگی گزارنے کی صالحیت رکھتا ہے۔‬
‫اقبال کے نظری ِہ خودی کے مطابق‪ ،‬انسان کو اپنی قدرت کو جاننا چاہئے‪ ،‬اور اس کو قابو کرنے کی کوشش کرنی‬
‫چاہئے۔ اس کے عالوہ‪ ،‬اقبال کے نظری ِہ خودی کے مطابق‪ ،‬انسان کو اپنے خود کی پہچان کرنا‪ ،‬اپنے اندر کی حقیقیت‬
‫کو جاننا‪ ،‬اور اپنے تمام خواہشات‪ ،‬عزم اور قوت کو پیدا کرنا بہت اہم ہے۔‬
‫"بانگ درا" میں‪ ،‬اس نظری ِہ خودی کو بہت واضح طور پر بیان کیا گیا ہے‪ ،‬اور وہ اس نظریے کے‬
‫ِ‬ ‫اقبال کی کتاب‬
‫مطابق زندگی گزارنے کی خاطر خود کو تیار کرنے کے مشورے بھی دیتے ہیں۔ اس کتاب میں اقبال کے دیگر شعر‬
‫بھی شامل ہیں جن میں نظری ِہ خودی کے متعلق با اثر بیانات پائے جاتے ہیں‬
‫بانگ درا میں اقبال کی نظریہ خودی کی واضح تصویر پیش کرنے والی کئی نظمیں ہیں۔ ان میں سے اہم ترین نظم درج‬
‫ِ‬
‫ذیل ہے ‪:‬‬

‫شکوہ و شکر کی نظم‪:‬‬


‫شکوہ و شکر کی اس نظم میں اقبال نے خودی کی پسندیدہ شکل کو بیان کیا ہے۔ اس نظم کے تحت وہ شخص‪ ،‬جو خود‬
‫کو جانتا ہے اور اپنے عزت و اقدار پر فخر کرتا ہے‪ ،‬حقیقی خدا کے نزدیک ترین ہو جاتا ہے۔‬

‫یہاں پوری نظم پیش کرتی ہوں ‪:‬‬

‫بیان ذات‪،‬‬
‫شکوہ و شکر کی جاتی ہے جب ِ‬
‫خوشنودی مات‬
‫ٔ‬ ‫مثا ِل رنگ و بو و گل و‬
‫نیاز نفس ہیں‪ ،‬تو خود خدا ہے‪ ،‬یا رب‪،‬‬
‫ہم ِ‬
‫ہم مح ِو خودی میں‪ ،‬تو جما ِل خدا پائے جات‬

‫عالمہ اقبال کی دیگر نظموں میں بھی نظریہ خودی کے بارے میں بحث موجود ہے‪ ،‬لیکن شکوہ و شکر اس موضوع‬
‫کو بہترین طور پر بیان کرتی ہے۔‬
‫‪4‬۔ اقبال کی ایک اورنظم جو بانگ درا کے نظریہ خودی کے متعلق بات کرتی ہے وہ نظم"خودی" ہے‪.‬‬
‫"خودی کو کر بُلند‪ ،‬اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‬
‫خدا بندے سے خود پوچھے‪ ،‬بتا تیری رضا کیا ہے۔"‬
‫اس نظم میں‪ ،‬اقبال نے خود کی شناخت کو بہتر کرنے کے لئے اپنے خود کو بلند تر بنانے کا ذکر کیا ہے اور اس نے‬
‫خدا سے خود پوچھا ہے کہ اس کی رضا کیا ہے۔ یہ نظم اقبال کے نظری ِہ خودی کے اہم ترین نظموں میں سے ایک ہے‬
‫جو بانگ درا میں شامل ہیں۔‬
‫بال جبریل ایک اسالمی کتاب ہے جو حضرت جبرائیل علیہ السالم کے وحی کی رو سے حضرت محمد صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کو پہنچایا گیا۔ اس کتاب میں نظریہ خودی کے بارے میں بھی بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔‬
‫نظریہ خودی کے مطابق‪ ،‬خداوند کی ذات ہر وجود میں موجود ہے۔ یعنی‪ ،‬ہر انسان کے اندر خداوند کی عبادت کے لئے‬
‫وہ خود حاضر ہے۔ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خداوند کی عبادت کرنے والے کو خداوند کے عالوہ کوئی دوسرا‬
‫معبود نہیں ہو سکتا کیونکہ خداوند ہی سب کچھ ہے اور اس کے سوا کچھ بھی نہیں۔‬
‫نظریہ خودی کے تحت‪ ،‬اگر کوئی شخص خداوند کی عبادت کرتا ہے تو وہ خداوند کی خوشنودی کی حالت میں رہتا ہے‬
‫اور اسے خداوند کی عظمت اور قدرت کا علم بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح‪ ،‬خداوند کے سامنے تمام انسان برابر ہوتے ہیں‬
‫اور ان کے لئے کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔‬
‫بال جبریل میں نظریہ خودی کے عالوہ بھی بہت سے دینی‪ ،‬فلسفی اور اخالقی مسائل پر بحث کی گئی ہیں‬
‫بال جبریل میں نظریہ خودی کے بارے میں نظموں اور غزلوں میں بھی بہت کچھ بیان کیا گیا ہے۔ شاعری کے ذریعہ‬
‫نظریہ خودی کی اہمیت کو اظہار کرنا ایک عرفانی تقلید کا حصہ رہا ہے۔‬
‫نگار ترا نام نہ جانتے ہوں تو فرق نہیں پڑتا" میں‪ ،‬شاعر کہتا ہے کہ وہ‬
‫ِ‬ ‫بال جبریل میں نظم "تو ہے تو‪ ،‬یا مثا ِل ُرخِ‬
‫خداوند کی عبادت کرتا ہے‪ ،‬چاہے خداوند کو جانے یا نہ جانے‪ ،‬کیونکہ خداوند کی حقیقت انسانی دماغ سے بالکل نہیں‬
‫سمجھی جا سکتی۔‬
‫اسی طرح غزل "نہ پوچھ مجھ سے کہ میرا تصور کیا ہے" میں‪ ،‬شاعر کہتا ہے کہ وہ خداوند کی عظمت کو بے بس‬
‫ہے‪ ،‬اور اس کے لئے وہ خود کو بے بسی کے درمیان محسوس کرتا ہے۔‬
‫بال جبریل میں دیگر نظموں اور غزلوں میں بھی نظریہ خودی کی عظمت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ شاعری کے‬
‫ذریعہ‪ ،‬شاعر اپنے قارئین کو ان کے خود کی عظمت کی حقیقت سے آگاہ کرتاہے‬

‫‪2‬۔ تصور عشق‪-:‬‬


‫عشق ایک بہت پرمعنی احساس ہے جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں جاگہ بناتا ہے۔ یہ احساس زندگی کی اہم ترین‬
‫جانبیں میں سے ایک ہے جسے شاعران‪ ،‬مصنفین‪ ،‬فلسفیوں اور متفکرین نے اپنی ادبی‪ ،‬فکری اور فلسفیاتی کتابوں میں‬
‫بہترین طریقے سے بیان کیا ہے۔‬
‫عشق کے مختلف پہلوؤں ہیں جن میں شدید احساسات‪ ،‬جیت‪ ،‬خوشی‪ ،‬غم‪ ،‬وفاداری‪ ،‬بے تابی‪ ،‬تحمل‪ ،‬امید اور تیزی شامل‬
‫ہیں۔ عشق میں عاشق کا دل محبوبہ کے لئے بے شمار تحمل‪ ،‬وفاداری اور خدمت پیدا کرتا ہے۔ عشق کی خصوصیات‬
‫مختلف معاشرتی‪ ،‬فرہنگی اور دینی ترجیحات کے تحت مختلف ہوتی ہیں۔‬
‫عشق ایک طرفہ ہوسکتا ہے یا دو طرفہ بھی ہوسکتا ہے۔ دو طرفہ عشق میں دونوں افراد آپس میں محبت‪ ،‬وفاداری اور‬
‫احساسات کو شریک کرتے ہیں۔ عشق کی انتہائی شدید اور دلچسپ جھلکیاں ہوتی ہیں جو عاشقوں کو یہ محسوس کرانے‬
‫کے لئے بھی کافی ہیں کہ وہ کتنے بے دل محبت کرتے ہیں‬
‫اقبال کے نظریات کے مطابق‪ ،‬عشق کا مطلب بہت گہرا ہے۔ وہ عشق کو صرف ایک جذبہ نہیں بلکہ ایک ذاتیت تصور‬
‫کرتے تھے۔ ان کے مطابق‪ ،‬عشق ایک ایسی حالت ہے جس میں عاشق کو خود کی ذاتیت کا علم ہو جاتا ہے اور وہ خود‬
‫کو اپنے محبوب کے ساتھ آپیل کرتا ہے۔‬
‫اقبال کے نظریات میں‪ ،‬عشق کی خصوصیات کی بہترین وضاحت ان کے شعر میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان کے شعروں‬
‫میں‪ ،‬عشق کا تصور بہت سادہ اور اہم ہے۔ ان کے شعروں میں عشق کا تصور بہت پرمعنی ہوتا ہے جو عشق کی‬
‫حقیقت کو بہتر سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫عشق کی تعریف اقبال کے شعروں میں بہترین طور پر ظاہر ہوتی ہے‪ ،‬جیسے‪:‬‬
‫"عشق وہ شہادت ہے جو مرنے سے ڈرتا ہے‪،‬‬
‫وہ آگ کی شدید لہر جو سمندر سے لڑتی ہے۔"‬
‫اس طرح‪ ،‬اقبال عشق کو بہت پرمعنی اور ذاتیت کی بنیاد کے روپ میں تصور کرتے تھے جو اس حالت کی وضاحت‬
‫کرتا ہے جس میں عاشق کی ذات محبوبہ سے آپیل کرتی ہے‬
‫اقبال کا تصور عشق بہت خاص اور پرمعنی ہے۔ وہ عاشقی کو ایک پاک و مقدس حالت سمجھتے تھے جو زندگی کی‬
‫بہترین جانب ہے۔ ان کے شعروں میں عاشقی کو ایک ذاتیت سے بہتر برتاو کرنے کی خواہش نظر آتی ہے‪ ،‬اور وہ‬
‫اسے ایک بہترین وجود کے راستے کو آگاہ کرتے ہیں۔‬
‫اقبال کے تصور عشق میں عاشقی کو بہت زیادہ توجہ‪ ،‬محبت اور خیاالت سے پیش آنا ضروری ہے۔ عاشق کو محبوبہ‬
‫کے لئے ہر ممکن تحمل کرنا پڑتا ہے‪ ،‬اور وہ اپنی محبوبہ سے جدا ہونے کا خیال بھی نہیں کر سکتا۔ اقبال کے تصور‬
‫عشق میں عاشقی کو ایک مقدس حالت سمجھا جاتا ہے جسے بے نیازی‪ ،‬خود فراموشی اور دنیاوی مصالحہ نہیں تباہ کر‬
‫سکتی۔‬
‫اقبال کے شعروں میں عاشقی کی شدید محبت‪ ،‬وفاداری اور بے تابی دکھایا جاتا ہے۔ اس کے عالوہ‪ ،‬وہ عاشقی کی‬
‫خصوصیات‪ ،‬جیسے کہ زیبائش‪ ،‬محبت‪ ،‬امید‪ ،‬تحمل‪ ،‬وفاداری اور خدمت کو بھی بہتر طریقے سے بیان کرتے ہیں‬
‫‪:‬اقبال کی کتاب "اقبالیات" میں تصور عشق کے بہت سے شعر موجود ہیں‪ ،‬جن میں سے چند عبارتیں درج ذیل ہیں‬
‫"محبت فقر ہے‪ ،‬تجھ سے تو نہ ہو گزر‪ ،‬تیرے سامنے ہر دل اپنی گزرگاہ پیش کرے"‬
‫اس شعر میں اقبال نے محبت کو فقر کے مترادف کے طور پر بیان کیا ہے اور اسے زمینی وجود کی ضرورت کے‬
‫طو ر پر پیش کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت کی حقیقت میں فقر ہے‪ ،‬یعنی محبت کے لئے فقر ہونا ضروری ہے۔ وہ‬
‫کہتے ہیں کہ تم سے محبت کرنا میرے لئے فقر کا اظہار ہے اور میرے سامنے ہر دل اپنی گزرگاہ پیش کرتا ہے‪ ،‬یعنی‬
‫ہر شخص اپنے دل کی حالت اور محبت کے احساسات کو میرے سامنے بہکاتا ہے۔‬
‫"عشق وہ جنون ہے‪ ،‬جو جان لے اُس کی خاطر‪ ،‬جو نہ جانے وہ کیا ہے"‬
‫اس مصرع میں اقبال نے عشق کے جذباتی جان لینے کی طاقت اور اس کے مستی کو بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ‬
‫عشق ایسا جنون ہے جو انسان کو جان لینے کی صالحیت دیتا ہے‪ ،‬یعنی عاشق کی قوت اور شوق اس کے جان لینے‬
‫تک پہنچ سکتے ہیں۔ اور جو شخص عشق کو نہیں جانتا وہ اس کی حقیقت کو نہیں سمجھتا ہے۔‬
‫اس شعر میں اقبال نے عشق کی حقیقت کو بہتر طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق میں غرق ہو جانے‬
‫سے انسان کو اپنے آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا‪ ،‬کیونکہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو خود بخود اپنے آپ‬
‫سے دور کردیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ہونے والے تبدیلیات کی وجہ سے انسان کو خود کو سمجھنے میں‬
‫مشکل پیش آتی ہے‪ ،‬اور وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔‬
‫یہ مجھ کو کیا ہوا ہے‪ ،‬میں نے یہ کیا جانا ہے‪ ،‬تم نے دیکھا تو کیا ہوا‪ ،‬میں نے دیکھا کیا جانا ہے‪ ،‬محبت میں نے "‬
‫"جب کھویا تو کھویا سب کچھ‪ ،‬پھر یہ کہا میرا حال‪ ،‬میں نے کچھ نہ جانا ہے‬
‫اس شعر میں اقبال نے عشق کی حقیقت کو بہتر طریقے سے بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق میں غرق ہو جانے‬
‫سے انسان کو اپنے آپ کو کچھ بھی پتا نہیں چلتا‪ ،‬کیونکہ عشق ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو خود بخود اپنے آپ‬
‫سے دور کردیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ محبت میں ہونے والے تبدیلیات کی وجہ سے انسان کو خود کو سمجھنے میں‬
‫مشکل پیش آتی ہے‪ ،‬اور وہ نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔‬
‫"سوز و گرمی اور دل کی دھڑکن‪ ،‬سب کچھ بجا لے‪ ،‬لیکن جو دل کو سمجھا نہیں‪ ،‬وہ اصل انداز سے گا لے"‬
‫اس مصرعے میں اقبال صاحب نے عشق کی شدت کا تصور پیش کیا ہے‪ ،‬جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن بھی تیز ہو‬
‫جاتی ہے اور سوز و گرمی بھی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں وہ اس بات کو بھی بیان کرتے ہیں کہ جو شخص دل کو‬
‫سمجھنے کی صالحیت نہیں رکھتا‪ ،‬وہ عشق کا اصل انداز نہیں سمجھ سکتا۔‬
‫"جتنا بھی کروں یہاں کچھ نہیں ملتا‪ ،‬محبت کا مجھے کوئی سمجھ نہیں آتا"‬
‫اس مصرع میں اقبال کے تصور عشق کا اظہار ہے کہ جتنا بھی محنت کی جائے‪ ،‬دنیا کی ہر چیز کا حاصل کیا جائے‪،‬‬
‫محبت کی حقیقت اور اس کا اصل مطلب کسی کو نہیں ملتا۔ محبت ایک ایسی چیز ہے جسے کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں‬
‫کیا جاسکتا اور جس کا تجربہ صرف وہی کرسکتا ہے جو اسے محسوس کرتا ہے۔‬
‫"عشق کی وحشت‪ ،‬جو دل میں ہے‪ ،‬جان اور تن میں بھی ہو‪ ،‬کسی کی نہیں سنتا"‬
‫اس مصرعے میں اقبال عشق کی وحشت کو بیان کر رہے ہیں جو دل میں ہوتی ہے اور انسان کے اندر جان اور تن‬
‫دونوں پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ اسے بس ایک شخص ہی محسوس کر سکتا ہے اور کوئی دوسرا اس کی حقیقت کو سمجھ‬
‫نہیں سکتا ہے۔‬
‫"عشق میں جب تیرا جام نشست‪ ،‬میرے حوصلے بڑھ جاتے ہیں"‬
‫اس مصرعے میں اقبال نے تصور عشق کے بارے میں یہ کہا ہے کہ جب وہ عشق کے جام کو پیتا ہے تو اس سے اس‬
‫کے حوصلے بڑھتے ہیں۔ یعنی عشق کے جام نوید و تحفظ اور نیاز و محبت سے بھرے ہوتے ہیں جو کہ آدمی کے‬
‫حوصلوں کو بڑھا دیتے ہیں۔‬
‫"عشق کے ہوتے ہیں دو دل‪ ،‬نہ کوئی پاک ہے نہ کوئی مجنوں"‬
‫اس مصرعے میں اقبال نے عشق کے بارے میں کہا ہے کہ عشق کے ہوتے ہوئے دو دل ہوتے ہیں‪ ،‬نہ تو کوئی صاف‬
‫دل ہوتا ہے اور نہ کوئی پاک‪ ،‬نہ کوئی مجنوں جو عقل سے باہر ہو جاتے ہیں۔ یہ اقبال کا تصور ہے کہ عشق انسان کو‬
‫دو دلی کی حالت میں ڈال دیتا ہے اور اسے ذہنی طور پر پریشان بھی کر دیتا ہے۔‬
‫عشق اقبال کی تصور کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں جو اس کے شاعری اور فلسفے کی وضاحت کرتی ہیں۔‬
‫چنانچہ‪ ،‬اگر آپ عشق اقبال کی تصور کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتے ہیں تو درج ذیل کتابوں کی معلومات آپ کے‬
‫‪:‬لئے مفید ثابت ہو سکتی ہیں‬
‫ت اقبال"‪ ،‬جسے محمد علی جوہر نے ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی شاعری‪ ،‬فلسفہ اور ان کے‬
‫‪1‬۔ "کلیا ِ‬
‫اصولوں کی ۔‬
‫ت اقبال" میں اقبال کے متعلقہ شعر اور نثریات کا مجموعہ شامل ہے‪ ،‬جس میں وہ اپنے تصورات کو اظہار کرتے‬
‫"کلیا ِ‬
‫ہیں۔‬
‫ت اقبال میں بھی بہترین مثال پیش کی جا سکتی ہے۔ اقبال کے مطابق‪ ،‬عشق‬‫اقبال کے تصور عشق کے بارے میں کلیا ِ‬
‫ایک فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کے دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اسے وہ جاننے کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کا مقصد کیا‬
‫ہے اور اسے کیسے پورا کیا جائے۔‬
‫اقبال کا تصور عشق بہت عمیق اور فلسفیانہ ہے۔ ان کے مطابق‪ ،‬عشق کے مختلف مراحل ہوتے ہیں جن میں عاشق کو‬
‫اپنے آپ سے نفرت ہوتی ہے اور وہ اپنی محبوب کے لئے خود کو ناقاب ِل ذکر سمجھتا ہے۔ عشق کا مقصد اقبال کے‬
‫مطابق‪ ،‬صرف خدا کی طرف رجوع کرنا ہوتا ہے‪ ،‬جس میں عاشق اپنی شخصیت کو بھول کر صرف خدا کی خواہشات‬
‫پر عمل کرتا ہے۔‬
‫اقبال کے شعری اور نثریات میں عشق کا تصور اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ عاشقی کی حقیقت‪ ،‬عالمی‪ ،‬عمومی اور‬
‫مستقل ہے‪ ،‬جہاں عشق کو زندگی کا واحد مقصد تصور کیا جاتا ہے۔‬
‫‪2‬۔ "شکوہ و شکایت"‪ ،‬جو اقبال کی شاعری کی ایک بہترین کتاب ہے۔ اس کتاب میں اقبال کے شعر کے بارے میں‬
‫تفصیلی تشریح شامل ہے۔‬

‫اقبال کی کتاب "شکوہ و شکایت" اس کے شعری مجموعے کا نام ہے‪ ،‬جس میں وہ اپنی شاعری کے ذریعے مختلف‬
‫موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔‬
‫عشق کے تصور کے بارے میں‪ ،‬اقبال نے اپنے شعری مجموعے میں کئی بار بحث کی ہے۔ وہ عشق کو ایک فلسفیانہ‬
‫ت محبت کہتے تھے۔‬‫تصور کرتے تھے‪ ،‬جسے وہ کثر ِ‬
‫ت محبت کے تحت‪ ،‬عاشق کو اپنی شخصیت کو بھول جانا چاہئے اور وہ صرف محبوب کی خاطر‬ ‫اقبال کے مطابق‪ ،‬کثر ِ‬
‫زندگی کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ عاشق کو اپنی محبوب کے سامنے ناقاب ِل ذکر ہونا‬
‫چاہئے‪ ،‬جیسے اس کے وجود کا مطلب صرف اسے محبوب سے محبت کرنا ہو۔‬
‫اقبال کے شعر میں عاشقی کے تصور کو عالمی‪ ،‬عمومی اور مستقل حقیقت سے جوڑا جاتا ہے‪ ،‬جس کے تحت عشق‬
‫کو زندگی کا واحد مقصد تصور کیا جاتا ہے۔‬
‫بانگ درا"‪ ،‬جو اقبال کے فلسفے کی بہترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس کتاب میں اقبال کے فلسفی اصولوں کی‬
‫‪ِ "3‬‬
‫تفصیلی وضاحت کی گئی ہے۔‬
‫انگ درا اقبال کی ایک بہت معروف اور مقبول کتاب ہے جس میں وہ نظمیں شامل کرتے ہیں جو عاشقی‪ ،‬خدا کی محبت‬
‫اور فلسفہ کے متعلق ہیں۔ اس کتاب میں اقبال نے تصور عشق کے بارے میں بہت کچھ کہا ہے۔‬
‫اقبال نے بانگ درا میں عشق کو خدا سے محبت کا رشتہ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عاشق کے لئے خدا کی محبت‬
‫اس کے لئے بہت اہم ہے اور خداوند کے بغیر اس کا دل کبھی بھی خوش نہیں رہ سکتا۔ اس کے عالوہ‪ ،‬اقبال نے عشق‬
‫کو ایک شمع کے طور پر بھی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جو عاشقی کرتا ہے‪ ،‬وہ ایک شمع کی طرح ہے جو‬
‫بلندیوں کی طرف روشنی پھیالتا ہے۔‬
‫اقبال نے بانگ درا میں عاشقی کو ایک نور کی طرف رجوع دینے واال بھی بیان کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق ایک‬
‫روشنی ہے جو ساری دنیا کو روشن کرتی ہے۔ اور جو شخص عاشقی کرتا ہے‪ ،‬وہ ایک شخص کی طرح ہے جو دنیا‬
‫کو بہتر بنانے کے لئے تیار ہے۔‬
‫عالوہ ازیں‪ ،‬اقبال نے بانگ درا میں عاشقی کے ذریعے خداوند کے تجربات کے متعلق بھی بہت کچھ کہا ہے۔‬
‫‪4‬۔"عظیم اقبال"‪ ،‬جسے اشفاق احمد نے لکھا ہے۔ اس کتاب میں اقبال کی زندگی کی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔‬
‫اقبال کی کتاب "عظیم اقبال" میں وہ بہت سارے مضامین پر بات کرتے ہیں‪ ،‬جن میں سے ایک تصور عشق بھی ہے۔‬
‫اقبال نے اپنے کتاب "عظیم اقبال" کے دوسرے حصے میں عشق کے بارے میں اپنی تصورات کو بیان کیا ہے۔‬
‫اقبال کے مطابق‪ ،‬عشق ایک مقدس جذبہ ہے جو ہللا کے لئے حاصل کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق کی توجہ صرف‬
‫خداوند کی طرف ہونی چاہئے‪ ،‬اور عاشق کو اپنی ذات کو فدا کرنا چاہئے۔ اقبال کے مطابق‪ ،‬عشق ایک خدا سے‬
‫وابستہ‪ ،‬مسلمانانہ اور بہترین جذبہ ہے جو انسان کو خداوند کے قرب کے قریب لے جاتا ہے۔‬
‫عشق کے تجربے کی بات کرتے ہوئے‪ ،‬اقبال نے اپنے شعروں اور نثر میں عشق کو ایک نور سے تشبیہ دیا ہے جو‬
‫اپنے آس پاس سب کچھ روشن کر دیتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عشق ایک مسلسل اور بے قرارہ دھواں ہے جو دل کے‬
‫آگے بہتے جاتا ہے۔ عشق کے تجربے کی صداقت کے بارے میں اقبال کے خیاالت ان کے شعروں اور نثریات میں‬
‫ظاہر ہوتے ہیں۔‬

‫‪ -:3‬تصور مرد مومن‪.‬‬


‫مرد مومن عام طور پر ایک انسانی خصوصیت کو ظاہر کرتا ہے جو اپنے ایمان پر پورا اعتماد رکھتا ہے اور اسے‬
‫اپنے زندگی کے تمام پہلوؤں پر عمل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اس لفظ کا مطلب عموما ً "ایک سچا‪ ،‬خدا سے ڈرنے‬
‫واال‪ ،‬ایماندار‪ ،‬اور سیدھا راہ چلنے واال شخص" ہوتا ہے۔‬
‫تصور مرد مومن اردو شاعری میں ایک مشہور مصطفی زیدئی کا نظم ہے جس کے تحت مرد مومن کی تعریف کی‬
‫گئی ہے۔‬
‫اس نظم میں مرد مومن کو ایک انسانی خصوصیت کی شکل میں ظاہر کیا گیا ہے جو خدا کی رضا‪ ،‬اخالص‪،‬‬
‫ایمانداری‪ ،‬صبر‪ ،‬شکر‪ ،‬اور خیر خواہی کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔ مرد مومن کی مثالوں کی مدح کرتے ہوئے‪،‬‬
‫مصطفی زیدئی نے ان کے جذبات‪ ،‬نیکی‪ ،‬وفاداری‪ ،‬اور عظمت کی تعریف کی ہے۔‬
‫یہاں تصور مرد مومن کی پہلی پنکتیاں درج ہیں‪:‬‬
‫تصور مرد مومن‬
‫جو میری تالش میں ہے‬
‫وہ ایک عظیم شخصیت ہے‬
‫وہ ایک بے بیان حقیقت ہے‬
‫وہ محبت کا مرکز ہے‬
‫وہ عدل کا ستون ہے‬
‫وہ رحمت کی راہ ہے‬
‫اس لفظ کا استعمال عموما ً دینی مضمونات میں دیکھا جاتا ہے‪ ،‬خاص طور پر اسالم میں‪ ،‬جہاں مرد مومن کی تعریف‬
‫اسالمی تعلیمات کے مطابق کی جاتی ہے۔ اسالم میں‪ ،‬مرد مومن ایک شخصیت کو ظاہر کرتا ہے جو خدا کی رضا‪،‬‬
‫اخالص‪ ،‬عدالت‪ ،‬صبر‪ ،‬شکر‪ ،‬اور خیر خواہی کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔‬
‫"بانگ درا" میں شامل ہے۔ اس نظم‬
‫ِ‬ ‫تصور مرد مومن اقبال کی شاعری کی ایک نظم ہے جو ان کے شعری مجموعہ‬
‫میں‪ ،‬اقبال نے مرد مومن کو ایک خصوصی شخصیت کی شکل میں ظاہر کیا ہے جو ایمانداری‪ ،‬عزت‪ ،‬علم‪ ،‬عمل‪ ،‬اور‬
‫خودی کی اہمیت کو سمجھتا ہے۔‬
‫اس نظم میں‪ ،‬اقبال نے مرد مومن کو ایک انسانیت کا نمونہ بتایا ہے جو دنیا میں کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی‬
‫کامیاب ہوتا ہے۔ اس نظم کے ذریعے‪ ،‬اقبال نے مرد مومن کی اہمیت اور ان کے دینی اور دنیاوی اعمال کی اہمیت کو‬
‫بیان کیا ہے۔‬
‫تصور مرد مومن کی کچھ مصرعے درج ہیں ‪:‬‬
‫تصور مرد مومن‬
‫"جہاں پیر اور فقیر ہوں کمیاب‬
‫جو ہو یہاں‪ ،‬وہی آخرت میں بھی ہوں کامیاب‬
‫نہیں ان کے لئے دنیا میں کوئی کام ناممکن‬
‫جو ہو یہاں‪ ،‬وہی ہو آخرت میں بھی بہتر ین"‬
‫آسرا" میں اقبال نے مر ِد مومن کے تصور کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں اقبال نے مر ِد مومن کے‬
‫حقیقی تصور کو بیان کرتے ہوئے فلسفیانہ پہلو بھی دکھائے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مر ِد مومن وہ شخص ہے جو حقیقت‬
‫کو جانتا ہے‪ ،‬خدا کو مانتا ہے‪ ،‬اور حق کی تالش میں ہمیشہ مصروف رہتا ہے۔‬
‫اقبال کے تحت‪ ،‬مر ِد مومن وہ شخص ہے جو اپنے علم اور دانش کے ذریعے خود کو اور دوسروں کو بہتر بناتا ہے‪،‬‬
‫اور جس کے پاس اصلی علم کی روشنی میں نیکی کی راہ دکھائی دیتی ہے۔ مر ِد مومن علم‪ ،‬عمل‪ ،‬اخالقی اقدار‪ ،‬اور‬
‫بہتری کی پیروی کرتا ہے اور دنیا اور آخرت کے لئے خدمت کرنے کی حمایت کرتا ہے۔‬

‫فن‪.‬‬ ‫‪ - :4‬تصور‬
‫تصور فن سے مراد ایک انسانی جذباتی تجربہ ہے جس کو انسان فن کی شکل میں اظہار کرتا ہے۔ یہ اظہار مختلف‬
‫فنون مثالً شاعری‪ ،‬نغمہ‪ ،‬نقاشی‪ ،‬ادب‪ ،‬فلمی فن‪ ،‬اور دیگر متعلقہ فنون کی شکل میں ہو سکتا ہے۔‬
‫فن کے تصور کے تحت‪ ،‬فن میں کچھ نئے اور خالقانہ ایجاد کیا جاتا ہے جو کہ اس کی خصوصیت ہے۔ فن انسانی‬
‫جذبات کو باہر نکالنے اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اشتراک کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‬
‫فن کے تصور کے لحاظ سے‪ ،‬فن بہت ہی اہم ہے کیونکہ اس کے ذریعے انسانی جذبات کو بیان کرنے کا ایک‬
‫خصوصی طریقہ ہے جو کہ انسانوں کو دوسرے لوگوں سے متعلقہ کرتا ہے۔ فن ایک ذہین فرض ہے جو کہ انسانیت کو‬
‫بہتر بنانے کے لئے ہمارے پاس موجود ہے۔‬
‫محمد اقبال‪ ،‬پاکستان کے عظیم شاعر‪ ،‬فیلسوف‪ ،‬اور تہذیبی ماہر تھے۔ وہ فن اور زندگی کے بارے میں اپنے اصولوں‬
‫کے حامل تھے۔‬
‫اقبال نے فن کی اہمیت کو اپنے شاعری اور نثر کے ذریعے اظہار کیا۔ انہوں نے فن کو زندگی کا حصہ قرار دیا اور‬
‫کہا کہ فن زندگی کو خوبصورت بناتا ہے۔ انہوں نے اپنے شاعری میں اردو اور فارسی کے ذریعے مختلف فنون کو مال‬
‫کر نئی شکل دی ہے۔‬
‫اقبال نے اپنے اصولوں کے تحت فن کو ایک فرصت قرار دیا جو زندگی کو خوبصورت بنانے کا ذریعہ ہے۔ وہ کہتے‬
‫تھے کہ فن انسانیت کی بنیاد ہے اور ہر انسان کو اس کا حصہ بننا چاہئے۔‬
‫اقبال کی کتابوں میں تصور فن کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ فن کے معنوی اور مادی جوہر کو ایک‬
‫دلچسپ اور رومانوی شکل میں پیش کرتے ہیں۔‬
‫اقبال نے اپنی کتابوں میں فن کو ایک عظیم قدرتی قوت کی شکل میں تصور کیا ہے جو انسانیت کے جزبات اور جذبات‬
‫کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے فن کو انسانی جذبات کو بیان کرنے اور انہیں باہر نکالنے کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔‬
‫اقبال نے اپنے شاعری کے ذریعے فن کو بہترین شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے شعر کو ایک موسیقی کی شکل میں بیان‬
‫کیا جو کہ سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں فن کی قدرتی تجربہ کی شکل میں جذباتی اور‬
‫تخیلی تجسس کا خالئی جوش پائی جاتی ہے۔‬
‫شکوہ وشکایت اقبال کی ایک مشہور کتاب ہے جس میں انہوں نے ادبی فن کی بہترین تعریف کی ہے۔ ان کے مطابق‪،‬‬
‫فن ایک ایسا تصور ہے جو کہ انسانی جذبات‪ ،‬خیاالت‪ ،‬اور احساسات کو ایک ایسی شکل دیتا ہے جس سے قارئین کے‬
‫دلوں پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اقبال کا معتقد ہے کہ فن انسانیت کے قدموں کو بلند کرتا ہے‪ ،‬اور انسان کو اس کی‬
‫حقیقت کے قریب لے جاتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ فن مذہب کے مترادف ہے‪ ،‬جو انسانیت کی بنیاد پر قائم ہے۔‬
‫اسی کتاب میں انہوں نے فن کی قدرت اور اہمیت پر بھی غور کیاہے۔‬
‫شکوہ وشکایت میں اقبال نے اپنے تصور فن کے نظمیں اور غزلیں بھی شامل کی ہیں۔ ان کی نظمیں انسانی جذبات‪،‬‬
‫احساسات‪ ،‬وجدان‪ ،‬اور عشق کو بہت خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں۔ ان کے شعر اور نظموں میں غالب‪ ،‬مرزا‪ ،‬و امیر‬
‫خسرو کی شاعری کا اثر بھی دیکھا جا سکتا ہے‪ ،‬لیکن اقبال کی شاعری کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک نئی تجربہ‬
‫آرائی کے ساتھ زندہ ہوتی ہے۔ ان کی شاعری میں اسلوب کی تبدیلی‪ ،‬تحریری شیوہ‪ ،‬اور اظہار کے طریقے کی بہترین‬
‫مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اپنے شعروں میں فلسفی اصولوں‪ ،‬تصورات‪ ،‬اور مقاصد کو بھی شامل کیا ہے‬
‫جو کہ ان کی شاعری کو ایک انوکھا دلچسپی دیتے ہیں۔‬

‫قبال کی کتاب "تصور فن" میں انہوں نے فن کے مختلف پہلوؤں پر تبصرے کئے ہیں۔‬

‫انہوں نے فن کو ایک مرتبہ "جمال کا اظہار" کہا ہے۔ ان کے نظریات کے مطابق‪ ،‬فن انسانی جذبات اور احساسات کو‬
‫اظہار کرنے کا ایک شاہکار طریقہ ہے۔ اقبال کے مطابق‪ ،‬فن اس قوت کی بنا پیدا ہوتا ہے جو انسان کو قریبی جہان‬
‫سے باہری جہان کی طرف لے جاتی ہے۔‬

‫اقبال نے اپنی کتاب میں فن کے مختلف اشکال پر بھی بحث کی ہے۔ انہوں نے شاعری‪ ،‬نقاشی‪ ،‬فلمی فن‪ ،‬اور موسیقی‬
‫کے بارے میں بھی بحث کی ہے۔ ان کے نظریات میں‪ ،‬ہر ایک اس کام کا مشترک جواز ہے جو کہ فنان کی خصوصیت‬
‫ہے۔ یعنی‪ ،‬فن ایک انفرادی تجربہ ہے‪ ،‬جو کہ فنان کے دل کی گہراؤوں سے نکل کر‪ ،‬قریبی جہان میں لوگوں کے دلوں‬
‫تک پہنچتا ہے۔‬

‫اقبال نے اپنے نثر کے ذریعے بھی فن کو بہترین شکل میں پیش کیا ہے۔ ان کی نثر کے ذریعے فن کو ایک نہایت‬
‫دلچسپ طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ وہ اپنے نثر کے ذریعے قارئین کو موضوعات کے ذریعے جذباتی تجربات کے‬
‫اظہار کے لئے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔‬

‫اقبال کی نثر میں فن کا تصور ایک تاریخی اور فلسفیاتی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ان کی نثر میں فن کو ایک‬
‫بیانیہ اور فکری شکل میں پیش کیا گیا ہے جو کہ قارئین کے لئے دلچسپ اور تعلیمی ثابت ہوتا ہے۔‬

‫اقبال نے اپنے نثر کے ذریعے فن کو عام لوگوں تک پہنچانے کا بھی بہترین طریقہ اختیار کیا ہے۔ وہ نثر کے ذریعے‬
‫انسانی جذبات‪ ،‬احساسات‪ ،‬اور جزبات کو سمجھنے کے لئے ایک آسان اور دلچسپ طریقہ قائم کرتے ہیں۔‬
‫اقبال نے نثر کے ذریعے فن کو ایک فکری‪ ،‬تاریخی‪ ،‬اور اجتماعی زاویہ سے دیکھا ہے۔ وہ فن کو انسانی تاریخ اور‬
‫فلسفے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی شان اور قدرت کو ظاہر کرنے کے لئے نثر کا‬
‫استعمال کرتے ہیں۔‬

‫آسرا" میں اقبال کی کئی غزلیں اور نظمیں ہیں جن میں وہ مر ِد مومن کے تصور کو بہترین انداز میں بیان کرتے ہیں۔ "‬
‫‪:‬چند مثالیں درج ذیل ہیں‬

‫اگر خوشی ہے تجھے تو اے مومن ستیاں کر‪،‬‬


‫خود مختار ہو‪ ،‬کسی کی طاعت نہ کر۔‬

‫عرصے سے تری ایک انا کی آہ کی طرح‪،‬‬


‫اے مر ِد مومن ‪ ،‬دل میں دبی بجھاہ کرتے ہوئے۔‬

‫مجھ کو نہ دکھانا میری بے حجابی کو‪،‬‬


‫اہمیت کے الئق نہیں۔‬
‫عرض نازک ہے وہ ِ‬
‫ِ‬ ‫جو‬
‫یی خطا مانگو‪،‬‬
‫مر ِد مومن سے تو زیبا ِ‬
‫عالم دانش میں پیدا ہونے والی ہر انداز۔‬
‫ِ‬

‫ک مجاہدہ‪،‬‬
‫مر ِد مومن کی طبیعت میں ہے تحری ِ‬
‫کامیابی سے بھرا ہوا انسانی جسم ہے وہی۔‬
‫حوالہ جات‬
‫‪1‬۔)ء‪) by Iqbal (1924‬بانگ درا( "‪"Bang-e-Dra‬‬
‫‪2‬۔)ء‪) by Allama Iqbal(1936‬ضرب کلیم( "‪"Zarb-i-Kalim‬‬
‫‪3‬۔)ء‪) by Allama Iqbal(1915‬اسرار خودی( "‪2"Asrar-i-Khudi‬‬
‫‪4‬۔)ء‪) by Allama Iqbal(1918‬رموز بیخودی( "‪"Rumuz-i-Bekhudi‬‬
"Payam-i-Mashriq" (‫ )پیام مشرق‬by Allama Iqbal(1923‫۔)ء‬5
"Javid Nama" (‫ )جاوید نامہ‬by Allama Iqbal(1932‫۔)ء‬6
"Musafir" (‫ )مسافر‬by Allama Iqbal(1934)‫۔‬7
"Armughan-e-Hijaz" (‫ )ارمغان حجاز‬by Allama Iqbal(1938)‫۔‬8
"Zabur-i-Ajam" ()‫(زبور عجم‬1927)‫۔‬9
"Kulliyat-e-Iqbal"‫۔‬10
‫ میں شائع ہوا‬1984 ‫(کلیات اقباز)یہ اقبال کی مجموعی کتاب ہے۔ جس کو مختلف تاریخوں میں درج کیا ہے ۔‬

You might also like