You are on page 1of 9

‫ہم قرآن کے چند اخالقی اور لسانی اصول‬

‫عمار خان ناصر‪ ‬‬


‫قرآن مجید کا مط العہ ک رتے ہ وئے‪ ،‬اس کی آی ات کی تفس یر وتوض یح ک رتے ہ وئے اور ہللا تب ارک‬
‫وتعالی کی منشا اور مدعا متعین کرتے ہوئے کچھ اصول ہیں جو ق رآن مجی د کے ہ ر ط الب علم کے‬ ‫ٰ‬
‫سامنے رہنے چاہییں اور ان کی پابندی اس بات کی ضمانت دے گی کہ انسان ہللا کی م راد کے زی ادہ‬
‫قریب پہنچنے کے قابل ہو جائے گا۔ ان میں سے کچھ اص ول علمی ن وعیت کے ہیں اور کچھ اخالقی‬
‫اصول ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھنے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انسان ہر جگہ ہر معاملے میں کس ی‬
‫بھی قسم کی غلطی کا ش کار نہیں ہوگ ا‪ ،‬ا س ل یے کہ بہرح ال ہللا کی کت اب ک و س مجھنا اور اس کی‬
‫تفسیر وتوضیح کرنا‪ ،‬اس میں انسانی فہم کا حصہ اور اس کا کردار بہت زی ادہ ہے اور انس ان ک ا فہم‬
‫دعوی نہیں کر سکتا۔ لیکن بہرحال کچھ اصول ہیں جن کی پابندی سے آدمی یہ اطمینان‬ ‫ٰ‬ ‫کبھی کمال کا‬
‫ہے‪ ،‬کم س ے کم اس ‪ core‬حاصل کر سکتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم اور اس کے خاص پیغ ام ک ا جو‬
‫سے محروم نہیں رہے گا۔ اسی طرح مختلف مقامات پ ر جہ اں ای ک س ے زی ادہ احتم االت ممکن ہیں‬
‫اور جہاں ایک سے زی ادہ تعب یرات اور تش ریحات پیش کی ج ا س کتی ہیں‪ ،‬ان میں آدمی ص حت کے‬
‫قریب تر پہنچ جائے گا۔ اگ ر ان اص ولوں کی دی انت داری کے س اتھ‪ ،‬اور اہلیت کے س اتھ پابن دی کی‬
‫جائے تو اس بات کا اطمینان بڑی حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔‬
‫سب سے بنیادی اخالقی اصول جس کی رع ایت نہ ص رف ہللا کی کت اب کے مع املے میں‪ ،‬بلکہ دنی ا‬
‫کی کس ی بھی کت اب کے مع املے میں ‪ ،‬کس ی بھی متکلم کے کالم ک و پڑھ نے کے مع املے میں‬
‫ضروری ہے‪ ،‬وہ یہ ہے کہ آپ پوری دیانت داری سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہنے والے ک ا‬
‫جو اپن ا م دعا او ر منش ا ہے‪ ،‬اس کی ج و اپ نی م راد ہے‪ ،‬وہ کی ا ہے‪ ،‬نہ یہ کہ آپ کے ذہن میں ج و‬
‫پہلے سے موجود خیاالت ہیں‪ ،‬رجحانات ہیں‪ ،‬کچھ پسندیدہ یا ناپسندیدہ باتیں ہیں‪ ،‬ان کو لے کر ان کی‬
‫تائید یا تصویب کے لیے یا ان کی تردید تالش کرنے کے لیے آپ کسی بھی کت اب کی ط رف رج وع‬
‫کریں۔ یہ انسان کی فطرت میں‪ ،‬اس کی طبیعت میں جو خامی اں رکھ دی گ ئی ہیں‪ ،‬ان میں س ے ای ک‬
‫بڑی خامی ہے کہ اپنے ذہنی رجحانات اور اپنے پسندیدہ خیاالت سے مختلف خیاالت پر پر غور کرنا‬
‫یا ان کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کرنا‪ ،‬یہ انسان کے ل یے ب العموم ممکن نہیں ہوت ا‪ ،‬خ اص‬
‫طور پر جب معاملہ ایک مذہبی کتاب ک ا ہ و جس میں خ اص ط ور پ ر اس ک و م اننے والے‪ ،‬اس پ ر‬
‫ایمان رکھنے والے یہ بنیادی مسلمہ لے کر اس کی طرف جائیں گے کہ یہ کت اب ج و کچھ کہے گی‪،‬‬
‫ہمیں اس کو ماننا ہوگا‪ ،‬جس طرف بھی ہماری راہ نمائی کرے گی‪ ،‬ہمیں اس کو قب ول کرن ا ہوگ ا۔ ت و‬
‫جہاں یہ حساسیت بھی موجود ہو‪ ،‬وہاں اپنے آپ کو بالکل خالی الذہن کر کے اور تعص بات س ے اور‬
‫ذہنی رجحانات سے بالکل پاک کر کے اس کتاب کے سامنے سرنڈر کر دینا‪ ،‬یہ رویہ انسان کے ل یے‬
‫زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔‬
‫اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنی غلط تاویالت مذہبی کتابوں کے معاملے میں پیش آتی‬
‫ہیں‪ ،‬اس کا شاید عشر عشیر دوسری کتابوں کے معاملے میں پیش نہیں آتا۔ دوسری کت ابوں کے س اتھ‬
‫کوئی تقدس کا جذبہ وابستہ نہیں ہوتا‪ ،‬ان کے سامنے سر اطاعت خم ک رنے ک ا ک وئی تص ور وابس تہ‬
‫نہیں ہوتا۔ مذہبی کتابوں کے ساتھ یہ تص ورات بھی وابس تہ ہ وتے ہیں‪ ،‬لوگ وں کے دی نی ج ذبات بھی‬
‫وابستہ ہوتے ہیں‪ ،‬اور اس سے آپ جو بات بھی اخ ذ ک رتے ہیں‪ ،‬وہ گوی ا آپ کی کہی ہ وئی ب ات کی‬
‫تائید بھی فراہم ک رتی ہے‪ ،‬اور دوس روں س ے اس کے س اتھ م وافقت اور اس کی قب ولیت ک ا مط البہ‬
‫کرنے کے لیے بھی آپ کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کی بہت س ی چ یزیں اس کے س اتھ ج ڑی‬
‫ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے مذہبی کتابوں کی تاریخ میں یہ چیز بہت زیادہ مس ئلہ بن تی ہے۔ کت اب ہللا ک و‬
‫خالص نیت کے ساتھ اور ہللا کی منشا ومراد تک پہنچنے کے جذبے کے ساتھ پڑھنا‪ ،‬یہ خاصا مشکل‬
‫کام ہے۔ انسان فطرتا ً اپنے جذبات کا اور احساسات کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب کچھ تعص بات‬
‫وابستہ ہو جائیں‪ ،‬کچھ ذہنی رجحانات اور کچھ پس ند ناپس ند کے مس ائل اس کے ذہن میں جگہ بن ا لیں‬
‫تو پھر وہ انھی کو لے کر ہللا کی کتاب کی طرف آتا ہے اور بجائے اس کے کہ معروض ی ان داز میں‬
‫اس کی کوشش کرے کہ ہللا کی کتاب کی مراد تک پہنچے‪ ،‬انس ان کی خ واہش یہ ہ وتی ہے کہ اپ نے‬
‫پسندیدہ خیاالت کی تصویب اس کو وہاں سے ملے اور اپنے ناپسندیدہ خیاالت کی تردید اس کے الفاظ‬
‫میں وہ پڑھ لے۔‬
‫تو پہلی جو بنیادی چیز ہے‪ ،‬وہ یہ ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے تو خالی الذہن ہو کر‪ ،‬تعصب سے‬
‫پاک ہو کر اور صحیح خالص نیت کے ساتھ ہللا کی مرادک و س مجھنے کی نیت س ے پ ڑھے۔ اس نیت‬
‫سے پڑھے گا تو اس میں ہللا کی تائید وتوفیق بھی ش امل ہ وگی۔ اگ ر یہ نیت نہیں ہ وگی ت و پھ ر عین‬
‫ممکن ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے‪ ،‬اس کی تالوت کرے‪ ،‬اس پ ر غ ور ک رے‪ ،‬ت دبر بھی ک رے‪،‬‬
‫لیکن اس سے جو کچھ اس کو حاصل ہو‪ ،‬وہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو کہ اپ نی ہی خواہش ات ک و ہللا‬
‫کی کتاب کے الفاظ میں پڑھ لے اور اپنے تعصبات کو اس میں منتقل کر کے دوبارہ اس سے اخذ ک ر‬
‫لے۔‬
‫قرآن مجید نے بھی یہ بات اپنے بارے میں ایک اور پس منظ ر میں بی ان کی ہے۔ چن انچہ فرمای ا ہے‬
‫ُضلُّ بِ ِہ َکثِیرًا َّویَھ ِدی بِ ِہ َکثِیرًا۔ یعنی اس کتاب سے ہدایت پانے کے ل یے آدمی کی نیت ک ا خ الص‬
‫کہ‪ :‬ی ِ‬
‫ہونا یہ بنیادی شرط ہے۔ خالص نیت کے بغیر بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ ان میں‬
‫سے ایک گروہ وہ تھا جو نزول قرآن کے زمانے میں موجود تھا۔ اب بھی اس کی باقیات یقینا ہیں ج و‬
‫اصل میں اس کتاب کو ہدایت حاصل ک رنے کے ل یے نہیں‪ ،‬بلکہ اس میں مین میکھ نک النے‪ ،‬اس کے‬
‫مطالب پ ر اعتراض ات اٹھ انے اور لوگ وں ک و اس کے ب ارے میں ش کوک وش بہات میں ڈال نے کے‬
‫جذبے سے اس کی طرف آتے ہیں اور اس میں سے ایسی باتیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو‬
‫وہ اس مقصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ چونکہ یہاں جذبہ حص ول ہ دایت ک ا نہیں ہے‪ ،‬نیت خ الص‬
‫نہیں ہے‪ ،‬قرآن مجید نے ان کے بارے میں تبصرہ کی ا ہے کہ ج و ل وگ اس نیت س ے اس کت اب ک و‬
‫تعالی اسی کت اب کے ذریعے س ے ان ک و گم راہی میں مبتال ک ر دیں گے۔ یہ کت اب‬ ‫ٰ‬ ‫پڑھیں گے تو ہللا‬
‫ایسی ہے کہ اس کے ذریعے سے ہللا لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے اور اسی کے ذریعے سے لوگ وں‬
‫کو گمراہ بھی کرتا ہے۔ مدار صدق نیت پر ہے۔ س چی نیت س ے ل وگ آئیں گے ت و انھیں ہ دایت ملے‬
‫گی اور بری نیت سے آئیں گے تو اسی کتاب کو پڑھ کر بجائے اس کے کہ ہ دایت حاص ل ک ریں‪ ،‬وہ‬
‫اپنی گمراہی میں پختہ ہو جائیں گے۔ یہ پہال اخالقی اصول ہے۔‬
‫دوسرا اخالقی اصول جس کی پابندی قرآن کے پڑھنے والے ہ ر ش خص ک و قب ول کرن ا الزم ہے‪ ،‬یہ‬
‫ہے کہ اگر کہیں اس ک و ق رآن کے مط الب اور اس کی تعلیم ات کے س مجھنے میں اش تباہ پیش آ گی ا‬
‫ہے‪ ،‬آی ات میں ٹک راﺅ نظ ر آ رہ ا ہے‪ ،‬ب ات اپ نے ص حیح مح ل میں نہیں ل گ رہی‪ ،‬ا س ک ا ص حیح‬
‫مصداق جو عقل وفطرت کو مطمئن کر دے‪ ،‬وہ واضح نہیں ہو رہا تو یقینا وہ غور ج اری رکھے گ ا‪،‬‬
‫وہ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے گا‪ ،‬لیکن یہ اصول بھی اس کو سامنے رکھنا چ اہیے کہ‬
‫ایسی چیزوں میں بعض دفعہ توکیل وتفویض کا اصول اختیار کرن ا پڑت ا ہے۔ اس ک ا مطلب یہ ہے کہ‬
‫آدمی اس بات کے درپے ہو جانے کے بج ائے اور جیس ا تیس ا‪ ،‬ک وئی بھی ای ک مفہ وم ض رور طے‬
‫کرنے کے بجائے یہ ذہنی رویہ اپنائے کہ کتاب ہللا کے سارے مع انی اور س ارے مط الب پ ر ح اوی‬
‫ق ُک لِّ ِذی ِع ٍلم َعلِیم۔ مجھے‬
‫ہونا یہ ہر شخص کے لیے نہ ضروری ہے اور نہ اس کا امک ان ہے۔ َوفَ و َ‬
‫جتن ا علم اور جت نی س مجھ ہللا نے دی ہے‪ ،‬اس کے لح اظ س ے اگ ر میں نہیں س مجھ پ ا رہ ا ت و کچھ‬
‫دوسرے لوگ ہوں گے جن کے پاس اس کا ہوگا۔ گویا بہت سی جگہ وں پ ر ب ات کے درپے ہ ونے ی ا‬
‫اس سے کوئی نہ کوئی مطلب الزمی طور پر اخذ کر کے اس کو ایک قطعی اور حتمی مفہوم س مجھ‬
‫لینے کے بجائے توکیل کا اصول اختی ار کرن ا پ ڑے گ ا۔ اس کی تعلیم خ ود رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے صحابہ کو دی ہے۔ جہاں پ ر ک وئی ب ات س مجھ میں نہ آئے‪ ،‬ک وئی اش کال ہ و ت و وہ اں پ ر‬
‫مجادلہ میں یا بحث میں الجھنے کے بجائے ی ا اس کی تہہ ت ک ض رور پہنچ نے کے بج ائے بہ تر یہ‬
‫ہے کہ آپ توکیل کریں۔ جو باتیں بالک ل واض ح س مجھ میں آ رہی ہیں‪ ،‬ان پ ر ت وجہ رکھیں۔ ج و ب ات‬
‫سمجھ میں نہیں آ رہی‪ ،‬اس پر غور جاری رکھیں‪ ،‬اس کے متعلق اہل علم سے سوال ک ریں‪ ،‬لیکن اس‬
‫کے بارے میں آدمی کی ذہنی پوزیشن یہ ہونی چاہیے کہ بھئی‪ ،‬بہت سی چ یزیں ہ وں گی ج و م یرے‬
‫علم کی سطح سے بلند ہیں‪ ،‬جن کی حقیقت کو میں نہیں سمجھ سکتا۔ م یرے علم میں اگ ر نہیں ہیں ت و‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فکلوہ الی عالمہ۔ اس کو اس کے ع الم کے س پرد ک ر‬
‫دو جس کو ہللا نے اس کو سمجھنے کی صالحیت دی ہے۔ وہ یقین ا جانت ا ہوگ ا‪ ،‬اگ رچہ م یری س مجھ‬
‫میں یہ نہیں آ رہی۔‬
‫یہ بات خاص طور پر ایک عام آدمی کے لیے بڑی اہم ہے جو علمی طو رپر قرآن کی تشریح وتفسیر‬
‫کے جو لوازم ہیں‪ ،‬اس سے متعلق ج و عل وم وفن ون ہیں‪ ،‬اس کی ج و ای ک پ وری علمی روایت ہے‪،‬‬
‫علمی سطح پر اس کو سمجھنے کی اس طرح سے اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ جب ایک س ادہ انس انی س طح‬
‫پر تذکیر کے لیے‪ ،‬ہدایت کے لیے‪ ،‬اصالح کے لیے‪ ،‬اپنے آپ کو خدا کے س اتھ ج وڑنے کے ل یے‪،‬‬
‫خدا کا قرب حاصل کرنے کے ل یے اس کت اب ک و پڑھت ا ہے ت و اس ک و بہت س ے مقام ات پ ر م دعا‬
‫سمجھنے میں اشتباہ پیش آ سکتا ہے۔ ایسے اشتباہات بھی پیش آ سکتے ہیں‪ ،‬ایسے سواالت بھی پیش آ‬
‫سکتے ہیں جن کو وہ اپنے محدود علم کی حد تک حل کرنے پر قادر نہ ہ و۔ اس ک و بعض جگہ آی ات‬
‫ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی نظر آئیں گی۔ بعض جگہ پر کوئی ایس ی ب ات بی ان ہ وتی ہ وئی نظ ر‬
‫آئے گی جس کو انسان کی سادہ عقل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ بہت سے ش کوک وش بہات‬
‫ک رنے کے ‪ tackle‬بھی پیدا ہوں گے۔ ایسے موقع پر ایک صاحب علم جو اس ط رح کی چ یزوں کو‬
‫علمی وسائل سے آراستہ ہے‪ ،‬اس کو علمی وسائل حاصل ہیں‪ ،‬وہ تو ایک علمی ط ریقے س ے‪ ،‬ای ک‬
‫علمی منہج کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ح ل ک رنے کی کوش ش ک رے گ ا۔ اس س ے بھی غلطی ہ و‬
‫سکتی ہے‪ ،‬لیکن اگر وہ علمی اصولوں کی پیروی کرے گا‪ ،‬اخالقی اصولوں کی پیروی کرے گ ا ت و‬
‫وہ نسبتا ً بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے کہ علمی سواالت سے یا علمی اش کاالت س ے ن برد آزم ا ہ و۔ ت اہم‬
‫ایک عام آدمی کے لیے اس طرح کی الجھنوں کا سامنا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہوت ا ہے۔ بہرح ال ع ام‬
‫آدمی ہو یا ایک صاحب علم ہو‪ ،‬یہ اصول اس کو ہر جگہ ملحوظ رکھنا ہے۔‬
‫زبان میں حقیقت ومجاز کے اسالیب‬
‫اس کے بعد کچھ چیزیں ہیں جو علمی نوعیت کی ہیں جن کا تعلق کت اب ہللا کی زب ان س ے اور کس ی‬
‫بھی کالم کی تشریح وتفسیر کے اصولوں سے ہے۔ متکلم کے لسانی اسالیب‪ ،‬کالم کا س یاق‪ ،‬ای ک ہی‬
‫متکلم کے مختلف بیانات کو سامنے رکھ کر اس کا مدعا طے کرنا اور اس ط رح کی چ یزیں ہیں ج و‬
‫کالم کی تفسیر کے علمی اصول ہیں اور وہ معلوم ومعروف ہیں۔ بحث کی تکمیل کے لحاظ سے یہ اں‬
‫اس پہلو کا کچھ ذکر کر لیتے ہیں۔‬
‫ایک بات جس پر قرآن مجید کے سب مفسرین‪ ،‬تمام اہل علم اصولی ط ور پ ر متف ق ہیں‪ ،‬وہ یہ ہے کہ‬
‫دنیا کی جو بھی زبان ہوگی‪ ،‬اس میں دونوں ط رح کے اس الیب موج ود ہیں۔ ای ک اس لوب جس ک و ہم‬
‫حقیقت کا اسلوب کہتے ہیں‪ ،‬یعنی جس میں لفظ یا لفظوں کا مجموعہ یعنی جملہ اپنے انھی معنوں میں‬
‫بوال اور استعمال کیا جا رہا ہے‪ ،‬اس سے م راد بھی اس کے وہی مع نی ہیں ج و اس کے اپ نے اص ل‬
‫اور حقیقی معنی ہیں جن کے لیے ان لفظوں کو زبان میں وضع کیا گیا۔ اسی طرح ایک دوسرا اسلوب‬
‫ہے جس کو مجاز کا‪ ،‬استعارے اور تمثیل کا اسلوب کہتے ہیں‪ ،‬جس میں لفظ براہ راست اپنے اص لی‬
‫معنی میں نہیں‪ ،‬بلکہ ایسے اسلوب میں استعمال ہوتا ہے جو سننے والے کو بالواسطہ متکلم کی م راد‬
‫ت ک پہنچات ا ہے۔ متکلم ای ک ص ورت ک و کس ی دوس ری ص ورت کی ط رف ت وجہ دالنے کے ل یے‬
‫مستعار لے لیتا ہے۔ لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر اس کو کسی دوسرے‪ ،‬ایس ے مع نی کی ط رف لے‬
‫جاتا ہے جو اس سے وابستہ ہے‪ ،‬اس سے جڑا ہوا ہے اور مجازاً اس کا وہ مفہ وم م راد لے لیت ا ہے۔‬
‫زبان میں یہ دونوں ط رح کے اس الیب موج ود ہ وتے ہیں۔ حقیقت ک ا اس لوب بھی ہوت ا ہے‪ ،‬مج از ک ا‬
‫اسلوب بھی ہوتا ہے اور یہ ض رور ی ہے کہ آپ ان میں س ے ہ ر اس لوب ک و اپ نے اپ نے مح ل میں‬
‫صحیح طور پر ملحوظ رکھیں۔‬
‫اس حوالے سے جو علم اصول اور علم تفسیر کے م اہرین اس کے مختل ف قواع د بھی وض ع ک رتے‬
‫ہیں اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ آپ یہ اصول سامنے رکھیں کہ زبان میں کہیں حقیقت ک ا اس لوب‬
‫ہوگا‪ ،‬کہیں مجاز کا اسلوب ہوگا اور ہر اسلوب کے ساتھ کچھ قرائن اور لوازم ہوں گے۔ جہاں آپ ک و‬
‫حقیقت کے اسلوب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کالم کا مفہوم سمجھنا ہے‪ ،‬اس کا اپنا محل ہے‪ ،‬اور اپنے‬
‫قرائن اور اسالیب ہیں۔ جہاں متکلم نے مجاز کا اسلوب استعمال کیا ہوگا‪ ،‬اس کا کوئی مح ل ہوگ ا‪ ،‬اس‬
‫کے کچھ قرائن اور کچھ اسالیب ہوں گے۔ تو ان دونوں اصولوں ک و اپ نے اپ نے مح ل میں رکھن ا‪ ،‬یہ‬
‫علمی اصولوں میں سے ایک بڑا بنیادی اصول ہے۔ زبان کا عام اسلوب تو یہی ہے کہ لفظ جس مفہوم‬
‫کے لیے وضع کیا گیا ہے‪ ،‬جب وہ بوال جائے ت و وہی م راد لین ا چ اہیے۔ ہ اں‪ ،‬جب کالم کے ان در ی ا‬
‫‪،‬ماحول کے ان در ایس ے ق رائن موج ود ہ وں ی ا متکلم اور س امع کے م ابین ج و ای ک عہ د ذہ نی ہے‬
‫کا جو ایک رشتہ ہے‪ ،‬اس میں ایسے قرائن ہوں جو یہ بتا رہے ہ وں ‪invisible communication‬‬
‫کہ متکلم دراصل ان الفاظ سے وہ لفظی مفہوم مراد نہیں لینا چاہ رہا جو عام طور پ ر اس ک ا ہوت ا ہے‬
‫کریں گے‪ ،‬پھر آپ انتقال کریں گے۔ یہ ق رائن کہیں‪ shift‬تو پھر آپ اس کے مجازی مفہوم کی طرف‬
‫بھی ہو سکتے ہیں‪ ،‬کالم میں بھی ہو سکتے ہیں‪ ،‬ماحول میں بھی ہ و س کتے ہیں‪ ،‬متکلم اور مخ اطب‬
‫کے درمی ان ان کے ذہن میں بھی ہ و س کتے ہیں۔ خ اص ط ورپر گفتگ و کے کچھ مقام ات اور کچھ‬
‫دائرے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں پ ر زب ان ک ا ع رف اور متکلم ک ا اس لوب یہ بت ا رہ ا ہوت ا ہے کہ اس‬
‫دائرے میں وہ استعمال ہی مجازی اسلوب کرتا ہے۔ تو یہ دون وں اس لوب‪ ،‬انھیں ب ڑی دقت نظ ر س ے‬
‫اور علمی طور پر خوب غ ور ک رکے ملح وظ رکھن ا ض روری ہے کہ کہ اں متکلم اپ نے حقیقت کے‬
‫اسلوب کو اختیار کر رہا ہے او رکہاں مجاز کے اسلوب کو اختیار کر رہا ہے۔‬
‫اس کی ایک مثال سامنے رکھیں۔ لف ظ ک ا اپن ا حقیقی مع نی م راد ہون ا چ اہیے‪ ،‬اس کی مث الیں ت و بے‬
‫شمار ہیں۔ مثالً قرآن مجید کہتا ہے‪َ :‬واِذ قَا َل اِب َرا ِھی ُم اِل َبِی ِہ آ َز َر۔ ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔ یہ اں‬
‫بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ جس سے مکالمہ ہوا‪ ،‬وہ ان کا باپ نہیں تھا‪ ،‬بلکہ ان کا چچ ا تھ ا۔‬
‫تاہم کالم میں اس کا کوئی قرینہ نہیں۔ کوئی وجہ ایسی دکھائی نہیں دی تی کہ اب کے لف ظ ک و مج ازی‬
‫مفہوم میں لیا جائے اور باپ کے بجائے باپ کے درجے کا کوئی دوس را رش تہ دار م راد لی ا ج ائے۔‬
‫جب قرآن نے اب کہا ہے‪ ،‬یہاں بھی کہا ہے اور دوسری جگہوں پر بھی جہاں اب راہیم علیہ الس الم ک ا‬
‫اپنے ایک بزرگ سے مکالمہ نقل ہوا ہے‪ ،‬وہاں بھی لفظ اب ہی اس تعمال ہ وا ہے ت و لف ظ ک و اس کی‬
‫حقیقت میں لینا چاہیے‪ ،‬یعنی یہ ان کا حقیقی باپ تھا جس سے ابراہیم کا یہ مکالمہ ہوا۔ اگرچہ یہ قرآن‬
‫کی تعلیم کے لحاظ سے یہ کوئی بہت اہم بات نہیں ہے ‪ ،‬کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے کہ یہ ابراہیم کا ب اپ‬
‫تھا یا چچا تھا۔ چچا ہو یا باپ ہو‪ ،‬کوئی ف رق نہیں پڑت ا‪ ،‬لیکن مث ال کے ل یے میں یہ ب ات ع رض کی‬
‫ہے۔ یہاں پر جو اہل علم مجازی مفہوم مراد لیتے ہیں‪ ،‬ان کے سامنے یہ سوال رکھا ج ا س کتا ہے کہ‬
‫اس کا کیا قرینہ ہے اس کا؟ کیوں لفظ اب کو اس کے حقیقی مفہوم کے بجائے مج ازی مفہ وم میں لی ا‬
‫جا رہا ہے؟‬
‫اسی اصول کو آپ تھوڑا سا پھیالئیں تو دور جدید میں ہمارے ہ اں اور دوس رے مس لم معاش روں میں‬
‫بھی جو تفسیر کا ایک پورا اسکول وجود میں آیا‪ ،‬اس کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ق رآن‬
‫نے انسانیت کی تخلیق کے حوالے سے آدم اور ابلیس کے دو لفظ استعمال کر کے بعض واقعات بیان‬
‫کیے ہیں۔ ان میں مالئکہ کا ذکر بھی آیا ہے۔ اسی طرح قرآن بعض دوس رے مقام ات پ ر جن اور جنہ‬
‫کے نام سے بھی ایک مخلوق کا ذکر کرتا ہے۔ اب اس واقعے میں آدم ک ا ذک ر ہ و رہ ا ہے‪ ،‬ابلیس ک ا‬
‫ذکر ہو رہا ہے‪ ،‬دونوں کے درمیان گفتگو کا ذک ر ہ و رہ ا ہے‪ ،‬ان کے ای ک آزم ائش کے عم ل س ے‬
‫گزرنے کا‪ ،‬ایک جگہ پر رکھے جانے کا‪ ،‬بہکائے جانے او رپھر وہاں سے ہٹ ا دیے ج انے ک ا ای ک‬
‫پورا واقعہ بیان ہوا ہے۔ دور جدید میں ایک منہج فک ر ایس ا پی دا ہ وا ج و اس ط رح کے واقع ات ک و‪،‬‬
‫خاص ط ور پ ر آدم کی شخص یت اور ابلیس کی شخص یت ک و اور اس پ ورے واقعے ک و تمثی ل کے‬
‫اس لوب میں دیکھت ا ہے۔ یع نی آدم س ے م راد ک وئی شخص یت نہیں ہے جس ط رح ہم ع ام ط ور پ ر‬
‫سمجھتے ہیں۔ ابلیس سے مراد بھی کوئی شخص یت نہیں ہے۔ اور یہ ج و واقعہ ہ وا‪ ،‬یہ حقیقی معن وں‬
‫میں پیش آنے والے کسی واقعے کا بیان نہیں۔ یہ ایک تمثیلی اسلوب ہے۔ آدم س ے م راد خ یر کی اور‬
‫بھالئی کی صالحیت ہے جو انسان کے اندر موجود ہے‪ ،‬اور ابلیس سے مراد شر کی ط رف رجح ان‬
‫رکھنے والی وہ طبیعت ہے جو انسان میں پائی ج اتی ہے۔ اور یہ ج و واقعہ ہے‪ ،‬وہ اص ل میں انس ان‬
‫کی شخصیت میں خیر اور شر کے مابین کشمکش کا ای ک تم ثیلی بی ان ہے۔ یہ ای ک مث ال ہے۔ اس ی‬
‫اسلوب پر وہ قرآن مجید میں اس طرح کے دوسرے بہت سے واقعات کی بھی توضیح کرتے ہیں۔‬
‫یہاں علمی طور پر جو اعتراض بنتا ہے اور جو علمی اصول پامال ہوتا ہوا نظ ر آت ا ہے‪ ،‬وہ یہی ہے‬
‫کہ قرآن جس طرح اس واقعے کو بیان کر رہا ہے‪ ،‬ا س میں آخر ایسے کون س ے ق رائن ہیں ج و اس‬
‫کو حقیقت پر محمول کرنے کے بجائے اس کو تمثیل کا رنگ دینے ک ا ج واز ف راہم ک رتے ہیں؟ جس‬
‫اسلوب میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے‪ ،‬اگر تو یہ بتای ا ج ا س کے کہ حقیقی واقعے کے بی ان ک ا اس لوب یہ‬
‫نہیں ہوتا‪ ،‬کوئی اور ہوتا ہے تو وہ سامنے الیا جائے۔ یعنی قرآن اگر ای ک واقعت ا ای ک حقیقی واقعے‬
‫ہی کو بیان کرنا چاہتا تو اس کے لیے کون سا اسلوب ہوتا ج و اس س ے مختل ف ہوت ا؟ اس ل یے کہ یہ‬
‫اگر تمثیل کا اسلوب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے لیے کوئی اور اسلوب ہوگ ا۔ زب ان کے‬
‫جتنے معروف اسالیب ہیں اور کالم کو سادہ طور پرسمجھنے کے ل یے ہ ر جگہ ہم جس ط ریقے کی‬
‫پیروی کرتے ہیں‪ ،‬اس کے لحاظ سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کوئی تمثیل بیان ہو رہی ہے۔ ق رآن‬
‫نے اس کو کسی ایک جگہ بیان نہیں کیا۔ مختلف مقامات پر بیان کیا ہے اور تفصیالت کی کمی بیش ی‬
‫اور فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہیں یہ تاثر کالم کے اندر نہیں ملتاکہ اس کو ایک حقیقی واقعے کے‬
‫‪ allegorical style‬بیان کے بجائے اس اسلوب کی مثال فرض کیا ج ائے جس ے ادب کی زب ان میں‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہوت ا ہے کہ آپ ک وئی عالم اتی م واد مس تعار لیں اور اس کی م دد س ے‬
‫کسی معنوی حقیقت کی یا کسی ذہنی تصور کی تفہیم کرنا چ اہیں۔ یہ اں کالم کے ان در اس کے ک وئی‬
‫اتے۔‬ ‫ائے ج‬ ‫رائن نہیں پ‬ ‫ق‬
‫تو جس اصول کی ط رف ہم ت وجہ دال رہے ہیں‪ ،‬اس ک ا لف ظ کی ح د ت ک بھی اطالق ہوگ ا اور ای ک‬
‫پورے واقعے پر بھی اس کا انطباق ہوگا کہ جب تک ہمیں قوی قرائن اور دالئل نہ ملیں جس کی بنیاد‬
‫پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں تمثیل کا اسلوب ہے اور استعارے اور مجاز کا اس لوب ہے‪ ،‬تب ت ک اس ک و‬
‫کالم کو ظاہر کے لحاظ سے اس کے حقیقی مفہوم میں ہی رکھنا چاہیے۔‬
‫اسی اصول کا انطباق حقیقت کے مقابل‪ ،‬مجاز کے اسلوب کے دائرے میں بھی ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ‬
‫کچھ دائرے ایسے ہوتے ہیں جہاں قرائن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ متکلم استعارہ کا اس لوب اس تعمال‬
‫الی ک ا اور اس کے‬‫کر رہا ہے۔ اس کی ای ک ب ڑی اچھی مث ال ہے جہ اں ق رآن نے ص فات ب اری تع ٰ‬
‫مختلف افعال کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید سے بطور اصول واضح ہے‪ ،‬ا س نے بت ا دی ا ہے کہ‬
‫خدا کی ذات انسان کے ادراک اور اس کے دائرئہ حواس سے ماورا ہے۔ اس کی ذات ت ک انس ان ک ا‬
‫ذہن اور اس کی جو حسی ادراک کی صالحیت ہے‪ ،‬وہ نہیں پہنچ سکتی اور وہ انسان کے ہ ر تص ور‬
‫سے ماورا ایک ذات ہے۔ لَ َ‬
‫یس َک ِمثلِ ِہ َش یئ‪ ،‬اس ذات جیس ی ک وئی ش ے ہے ہی نہیں۔ اس ک ا مطلب یہ‬
‫ہے کہ خدا کے بار ے میں بھی اور عالم غیب سے تعلق رکھنے والے دوس رے بہت س ے ام ور کے‬
‫بار ے میں بھی انسان کے سامنے جو باتیں بیان کی جائیں گی‪ ،‬وہ بنیادی طور پر تمثیل اور کسی حد‬
‫تک تشبیہ کے اصول کو استعمال کرتے ہ وئے کی ج ائیں گی۔ ان س ے آدمی یہ نہیں س مجھ س کتا کہ‬
‫جیسے اپنی زبان میں ہم ان کا تصو رکر سکتے ہیں‪ ،‬وہ حقیقت میں بھی ایسے ہی ہیں۔ یہ تق ریب ذہن‬
‫کا اصول ہوتا ہے‪ ،‬کیونکہ انسان کے اپنے ذہن میں مشاہدات سے اخ ذ ک ردہ ج و م واد ہے‪ ،‬اس س ے‬
‫مدد لیے بغیر کسی غیر محسوس یا غیر مشاہد چیز کا تصور کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ تو خداکی‬
‫ذات ہو یا قیامت کا ذکر ہو یا جنت کا ذکر ہو یا ماورائے مشاہدہ جو عالم ہے‪ ،‬اس کے جو بھی حق ائق‬
‫بیان ہوں گے‪ ،‬وہ اسی اصول پر ہوں گے کہ اس کا ایسے اسلوب میں ذکر کی ا ج ائے ج و انس ان کے‬
‫لیے بڑی حد تک قابل فہم ہو اور وہ اس کا کسی نہ کسی درجے میں ایک تصور قائم کر سکے۔‬
‫تعالی کی ذات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بات قرآن سے واضح ہے کہ ہللا ای ک ص احب‬ ‫ٰ‬ ‫اسی اصول پر ہللا‬
‫نہیں ‪ force‬ارادہ‪ ،‬صاحب شعور‪ ،‬صاحب اقتدار اور صاحب حکمت ہستی ہے۔ وہ کوئی اندھی بہری‬
‫ہے جو کسی سائنسی طاقت کے طریقے پر کام کرتی ہے۔ وہ باقاعدہ ایک ہس تی ہے‪ ،‬لیکن اس ہس تی‬
‫کے تعارف کے لیے‪ ،‬اس کے افع ال کے بی ان کے ل یے ق رآن مجی د بہت س ے الف اظ وکلم ات ایس ے‬
‫استعمال کرتا ہے جن میں تشبیہ کا ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ مثالً خ دا کے ع رش پ ر مس توی ہ ونے ک ا‬
‫بیان ہے‪ ،‬خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے۔ احادیث میں آپ کو اس کی کچھ مزید تفصیالت ملیں گی۔ مثالً خ دا‬
‫ہر رات عرش سے نیچے ات ر ک ر آس مان دنی ا پ ر آ جات ا ہے۔ قی امت کے دن جب جہنم ک ا پیٹ بھرن ا‬
‫مقصود ہوگا اور وہ ایندھن سے نہیں بھرے گا تو خدا اپنا پاﺅں اس کے اندر رکھے گ ا اور پھ ر جہنم‬
‫کہے گی کہ بس بس‪ ،‬میرا پیٹ بھر گیا۔ تو قرآن نے خ دا کی ذات کے ب ارے میں ج و یہ بنی ادی ب ات‬
‫بیان کر دی ‪ ،‬اس کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ جب ہللا کے ہاتھ کا ذکر ہوگا یا اس کے عرش پ ر‬
‫مستوی ہونے کا ذکر ہوگا تو وہ حقیقت کے لحاظ سے نہیں ہے۔ ایس ا نہیں کہ جیس ے میں کرس ی پ ر‬
‫بیٹھا ہوں‪ ،‬ایسے ہی خدا بھی عرش پر بیٹھا ہے۔ اسی لیے سلف نے اس کے ل یے یہ اص ول بی ان کی ا‬
‫کہ یقینا خدا ان ساری صفات کے ساتھ موصوف ہے‪ ،‬لیکن اس کا بیٹھنا‪ ،‬اس کا اترنا ‪ ،‬چڑھنا‪ ،‬اس ک ا‬
‫متوجہ ہونا یہ ویسے ہے جیسے اس کی ذات اور اس کی شان کے الئق ہے۔ اس کو ہم انسانی اٹھ نے‬
‫بیٹھنے اور انسانی اعضاءپر قیاس نہیں کر سکتے۔‬
‫اس معاملے میں بھی آپ دیکھیں گے کہ علم کالم میں ای ک پ ورا اس کول آف تھ اٹ ہے جس نے اس‬
‫اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بعض انتہا پس ندانہ کالمی تعب یرات اختی ار ک ر لی ہیں اور‬
‫اس ک ا اص رار ہے کہ جیس ے یہ ب اتیں بی ان ہ وئی ہیں‪ ،‬ان ک و ایس ے ہی باللف ظ مانن ا چ اہیے۔ ان ک ا‬
‫استدالل اس اصول کے غلط انطباق پر مبنی ہے کہ لفظ کا حقیقی معنی مراد ہونا چاہیے۔ اگر خدا کے‬
‫ہاتھ کا ذکر ہے تو وہ ایسا ہی ہاتھ ہے جیسے میرا ہاتھ ہے۔ یع نی اس انتہ ا ت ک بعض کالمی اس کول‬
‫پہنچ گ ئے۔ بنی ادی غلطی یہ ہے کہ اس اص ول ک و نہیں س مجھا گی ا کہ زب ان میں دون وں ط رح کے‬
‫اسالیب موجود ہیں۔ حقیقت ک ا بھی موج ود ہے‪ ،‬اس تعارے ک ا بھی موج ود ہے۔ دیکھن ا یہ ہوت ا ہے کہ‬
‫کون سا محل اور کون سا دائرہ کس قسم کے اسلوب کے لیے موزوں ہے۔ عالم غیب سے متعلق امور‬
‫کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید نے ہماری اس ط رف راہ نم ائی کی ہے کہ جب یہ چ یزیں انس ان‬
‫کے سامنے بیان کی جاتی ہیں تو وہ حقیقت کے اس لوب میں نہیں ہ وتیں۔ ان میں مج از اور اس تعارے‬
‫کا اسلوب ہوتا ہے او رمقصود یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے تص ورات کی ح د ت ک جس ح د ت ک ممکن‬
‫ہو‪ ،‬ان چیزوں کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے آئے اور ایک عمومی سا تصور ان کا قائم ک ر س کے۔‬
‫ایسی چیزوں میں حقیقت کے اسلوب پر اصرار کرنا‪ ،‬یہ اس اصول کو پامال کرنے کا نتیجہ ہوگا۔‬
‫سواالت‬
‫سوال‪ :‬خالی الذہن ہونے سے کیا مراد ہے؟ انسان اپنے علمی پس منظر سے جدا ہو ک ر کیس ے کس ی‬
‫نئی چیز کو دیکھ سکتا ہے؟‬
‫جواب‪ :‬خالی الذہن ہونے سے یہ یقینا مراد نہیں ہے کہ آدمی ایک صاف سلیٹ لے ک ر آئے گ ا۔ ظ اہر‬
‫ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ خالی الذہن ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی کوئی تعصب لے کر یا یہ ارادہ‬
‫لے ک ر نہ آئے کہ مجھے ای ک خ اص مفہ وم کی تالش ک رنی ہے۔ یہ چ یز اخالقی ط و رپ ر قاب ل‬
‫اعتراض بن جاتی ہے کہ آپ اپنے خیال کو یا اپنی مراد کو کہیں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس‬
‫کی تائید دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی جب ایک خاص ذہن لے ک ر آت ا ہے کہ‬
‫اس طرح کی بات مجھے ملنی چاہیے تو پھر اس کو الفاظ میں جہ اں بھی تھ وڑی س ی گنج ائش نظ ر‬
‫آتی ہے اس بات پر منطبق کرنے کی تو وہ ان ساری باتوں کو نظر انداز ک ر دیت ا ہے کہ وہ اں متکلم‬
‫کا مدعا کیا ہے‪ ،‬ا س کی منشا کیا ہے‪ ،‬سیاق سباق میں کیا بات چلی رہی ہے‪ ،‬کس محل میں کی ا ب ات‬
‫ہو رہی ہے‪ ،‬اور بس اگر ایک جملہ اس کے مطلب پر لفظی لحاظ سے منطبق ہو سکتا ہے ت و وہ کہہ‬
‫دیتا ہے کہ مجھے قرآن کی نص مل گئی۔ جو بات میں سوچ رہا تھ ا‪ ،‬ق رآن نے بھی اس کی تائی د ک ر‬
‫دی۔ تو خالی الذہن سے مراد یہ ہے کہ ایسا رویہ نہ ہو۔ باقی آدمی کا اپنا ج و ای ک علمی وفک ری پس‬
‫منظر ہے‪ ،‬اس سے آدمی یقینا پوری طرح اوپر اٹھ نہیں سکتا۔ اس کے لیے آدمی کو بعض دفعہ ای ک‬
‫سفر بھی کرنا پڑتا ہے‪ ،‬ایک ریاضت بھی کرنی پڑتی ہے۔ جو چ یز اخالقی ط و رپ ر قاب ل اع تراض‬
‫ہے‪ ،‬وہ یہی ہے کہ آپ پہلے سے ای ک خ اص م راد‪ ،‬ای ک منش ا طے ک ر کے آئیں کہ اس ط رح کی‬
‫چیزیں مجھے تالش کرنی ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬ہم کس طرح طے کریں گے کہ یہ حقیقت ہے یا استعارہ ہے؟‬
‫جواب‪ :‬اس کے اصول تو زبان میں کم وبیش طے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ق رآن کے س اتھ خ اص نہیں ی ا‬
‫دینیات کا کوئی علم نہیں۔ زبان کیا ہے‪ ،‬اس کے معانی ومطالب کیسے طے کرنے ہیں‪ ،‬اس ک ا انس ان‬
‫کو ایک فطری علم دیا گیا ہے‪ ،‬اس کی روشنی میں یہ باتیں طے ہوتی ہیں۔ قرآن کے لیے کوئی ال گ‬
‫اص ول نہیں ہے۔ یہ ج انے پہچ انے اص ول ہیں۔ دنی ا کی ہ ر زب ان میں ان کی پابن دی کی ج اتی ہے۔‬
‫انطباق میں بعض جگہ یقینا فرق ہو ج ائے گ ا‪ ،‬لیکن بنی ادی ج و اص ول ہیں‪ ،‬وہ ہ ر زب ان میں معل وم‬
‫ومعروف ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬فرشتے‪ ،‬مالئکہ اور شیاطین‪ ،‬جب ہم نے ان کو دیکھا نہیں تو ان کے وجود کو کس طرح م ان‬
‫سکتے ہیں؟‬
‫جواب‪ :‬ان کے وجود کو ماننا اس لیے ض روری ہے کہ ای ک ایس ا ماخ ذ جس کے ب ارے میں ہم یقین‬
‫رکھتے ہیں کہ وہ سچی بات ہمیں بتاتا ہے‪ ،‬اس نے ہمیں اطالع دی ہے۔ اگر قرآن ی ا ح دیث نے ہمیں‬
‫ان کے متعلق نہ بتایا ہوتا تو ان کی حیثیت بھی ان بے شمار مخلوقات کی طرح ہوتی ج و ہم ارے علم‬
‫میں نہیں اور جن کو جاننا یا ماننا ہم ارے ل یے ک وئی اہمیت بھی نہیں رکھت ا۔ یقین ا اور بھی بہت س ی‬
‫مخلوقات ہ وں گی‪ ،‬لیکن ان کے ب ارے میں ق رآن میں ذک ر آ گی ا ہے۔ یہ بھی معل وم ہ و گی ا کہ ان ک ا‬
‫انسانی زندگی کے ساتھ اور انسانی معامالت کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔ توقرآن کے ی ا پیغم بر کے بی ان‬
‫کی بنیاد پر ہم ان کو مانتے ہیں۔ یہ ہمارا قرآن اور رسول ہللا پر ایمان کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬قرآن کے سمجھنے کے اصول کون وضع کرے گا؟‬
‫جواب‪ :‬وہی لوگ جو قرآن کا علم رکھتے ہیں‪ ،‬قرآن پر غور کرتے ہیں۔ جیسے دنی ا بھ ر میں ہ ر علم‬
‫سے متعلق‪ ،‬ا س کے علمی مباحث اور اصول وہی لوگ وضع کرتے ہیں جو اس پر ک ام ک رتے ہیں‪،‬‬
‫اس پر غور وفکر کرتے ہیں‪ ،‬اس کی اہلیت پیدا ک رتے ہیں‪ ،‬اس ی ط رح ق رآن کے مع املے میں بھی‬
‫کریں گے۔‬
‫سوال‪ :‬قصہ آدم حقیقی اسلوب میں بیان ہوا ہے اور جنت اور دوزخ ک ا ت ذکرہ تم ثیلی اس لوب میں ہ وا‬
‫ہے‪ ،‬یہ تفریق کس بنیادی اصول سے ہوگی؟‬
‫جواب‪ :‬بنیادی اصول تو میں نے عرض کیا کہ جنت اور دوزخ کا تعلق اس عالم سے ہے ج و ہم ارے‬
‫لیے قابل مشاہدہ نہیں اور اس ع الم س ے مل تی جل تی ک وئی چ یز ج و حقیقت کے لح اظ س ے اس کے‬
‫مماثل ہو‪ ،‬وہ ہماری اس دنیا میں موج ود نہیں۔ اس ل یے اس کے ب ار ے ہمیں یہی تص ور کرن ا ہوگ ا۔‬
‫قرآن جگہ جگہ اس کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآن اپنی تصریحات س ے بھی اور ق رائن واس الیب س ے‬
‫بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ جنت حقیقت میں کیا ہوگی‪ ،‬اس کے جو پھ ل ہیں‪ ،‬وہ نعم تیں‪ ،‬وہ‬
‫سکون‪ ،‬وہ لذت جو انسان کو وہاں حاصل ہوگی‪ ،‬اس کا اس دنیا میں ج و س کون‪ ،‬ل ذت‪ ،‬نعمت‪ ،‬ذائقے‬
‫ہیں‪ ،‬ان کے ساتھ کوئی حقیقی مماثلت نہیں ہے‪ ،‬لیکن ہمیں دنیا میں ان چیزوں کا ج و کچھ ادراک اور‬
‫احساس حاصل ہے‪ ،‬اس پر قیاس کرتے ہوئے ہم ایک ح د ت ک ان ک ا تص ور ک ر س کتے ہیں۔ حقیقت‬
‫میں وہ لطف کیا ہوگ ا‪ ،‬حقیقت میں وہ نعمت کی ا ہ وگی‪ ،‬حقیقت میں وہ س کون قلب کی ا ہوگ ا‪ ،‬اور جن‬
‫نعمتوں کا اور جن باغات کا اور جن دوسری چیزوں کا ہمیں بتایا گیا ہے‪ ،‬ان کا حقیقت میں وہ اں کی ا‬
‫رنگ ہوگا؟ یہاں ان کا محض ایک تصور کر سکتے ہیں۔ حقیقت وہاں جا کر معلوم ہوگی‪ ،‬کی ونکہ وہ‬
‫بنیادی طور پر ایک ایسی دنیا سے متعلق بات ہے جو ہمارے مش اہدے میں بھی نہیں اور ج و چ یزیں‬
‫ہم ارے مش اہدے میں ہیں‪ ،‬ان میں ک وئی چ یز ایس ی نہیں ہے ج و حقیقت کے لح اظ س ے اس کی‬
‫ترجمانی کر سکے۔‬
‫دم کا جو قصہ ہے‪ ،‬وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہم نے آدم کو نہیں دیکھا‪ ،‬لیکن آدم ایک انسان‬
‫تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ماضی کے واقعات بیان‪ %‬کریں۔ ہم نے تو ان کو نہیں دیکھا‪ ،‬لیکن ہم‬
‫ان کو سمجھ سکتے ہیں‪ ،‬اس لیے کہ ہم انسان آج بھی انسان ہیں۔ انسان کی زندگی کے جو احوال‬
‫ہیں‪ ،‬وہ وہی ہیں جو ان کے ہیں۔ تو ہم اپنے احوال سے‪ ،‬اپنے مشاہدئہ انسان سے یہ سمجھ سکتے‬
‫ہیں کہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے‪ ،‬اس میں حقیقت کے لحاظ سے کیا ہوا ہوگا۔ آدم بھی ایک انسان‬
‫تھے۔ ان کو جو واقعات اور احوال پیش آئے‪ ،‬وہ بالکل اسی طرح مادی زندگی کے احوال ہیں جو‬
‫ہمارے لیے قابل فہم بھی ہیں اور قابل ادراک بھی ہیں۔ تو اس کو ایک تمثیل‪ %‬قرار دینے کی یا ایک‬
‫استعاراتی اور مجازی اسلوب میں بیان‪ %‬کردہ واقعہ فرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں‪ %‬ہے۔‬

You might also like