You are on page 1of 18

‫مدارس اسالمیہ میں حدیث کی تدریس کے طرق واسالیب‬

‫رفیق احمد رئیس سلفی‬

‫حدیث اسالمی شریعت کا بنیادی ماخذ ہے۔اسالمی شریعت کی تفہیم وتکمی ل اس کے بغ یر ممکن نہیں۔م دارس اس المیہ چ وں کہ‬

‫شریعت ہی کی تعلیم وتدریس کے لیے قائم کیے گئے ہیں‪،‬اس لیے کتب احادیث ان کے نصاب کا الزمی حصہ ہیں۔عہد نبوی ہی‬

‫سے حدیث کی سماعت‪،‬روایت اور تفہیم کا بابرکت سلسلہ قائم ہے اور یہ ان شاء ہللا تاصبح قیامت جاری رہے گا۔‬

‫تاریخ کے مختلف ادوار میں حدیث کو یاد کرنے‪ ،‬جمع کرنے‪،‬امال ک رانے‪،‬اس کی تفہیم ک رانے اور دور دراز عالق وں میں اس‬

‫کی اشاعت کرنے کے مختلف طریقے استعمال میں الئے جاتے رہے ہیں۔ایک دور وہ تھا جس میں احادیث کی تدوین عم ل میں‬

‫ٓائی اور اس کے لیے اتنی کثرت سے اسفار کیے گئے کہ وہ علوم حدیث کاایک مستقل باب بن گیا۔‬

‫درس وتدریس اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ اس دور میں بھی جاری رہ ا۔مح دثین ک رام نے اس تفادہ کے ل یے ٓانے والے طلبہ‬

‫کو کبھی محروم نہیں کیا بلکہ بعض حضرات نے ایک قدم ٓاگے بڑھ کر غریب اور نادار طلبہ کے لیے قیام وطعام کابھی انتظام‬

‫کیا۔کیوں کہ انھیں معلوم تھ ا کہ ن بی اک رم ﷺ نے اح ادیث س یکھنے ‪،‬س کھانے اور اس کی اش اعت ک رنے کی‬

‫فضیلت بیان فرمائی ہے ۔اصحاب حدیث کو اپنی خصوصی دعأوں سے نوازا ہے۔حدیث سیکھنے ‪،‬سکھانے‪ ،‬یاد ک رنے اور امال‬

‫کرانے کی اہمیت وفضیلت سے متعلق عالمہ خطیب بغدادی نے احادیث نب ویہ‪،‬اق وال ص حابہ اورٓاث ار ت ابعین وتب ع ت ابعین اپ نی‬

‫مشہور کتاب’’شرف اصحاب الحدیث‘‘میں جمع کردیے ہیں۔اس خصوص میں اس کا مط العہ مفی د ہوگ ا۔راقم س طور نے خطیب‬

‫بغدادی کی اس کتاب کا ملخص ترجمہ بہت پہلے کیا تھا جو شیخ اکرم مختار حفظہ ہللا کے مکتبہ’’دارالعلم ممبئی‘‘سے ٓاج بھی‬

‫ورہی ہے۔‬ ‫ائع ہ‬ ‫ش‬

‫درس وتدریس حدیث کا کوئی خاص متعین طریقہ اسالم کی ابتدئی صدیوں میں ہمیں نظر نہیں ٓاتا اور نہ وہ پیشہ ورانہ ص ورت‬

‫دکھائی دیتی ہے جس سے ٓاج ہم ٓاشنا ہیں۔بعد کی صدیوں میں جب مختلف علوم وفنون کاارتقا ہوا‪،‬مدارس قائم کیے گئے ت و پھ ر‬

‫وہ طریقہ ایجاد کیا گیا جو ہمارے مدارس میں رائج ہے۔‬

‫زیر نظر تحریر میں مجھے یہ جائزہ پیش کرنا ہے کہ م دارس اس المیہ میں ت دریس ح دیث کے ط رق واس الیب کی ا ہیں؟ان کی‬

‫افادیت کیا ہے؟ان سے کس طرح کے نتائج سامنے ٓارہے ہیں؟کیاان میں کچھ تبدیلی الئی جاس کتی ہے ؟دوس رے لفظ وں میں ہم‬
‫یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ان میں اصالح اور ترمیم کی کوئی ضرورت ہے؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کاخاکہ کیا ہوگ ا اور‬

‫وگی؟‬ ‫اہ‬ ‫ورت کی‬ ‫دیلی کی ص‬ ‫تب‬

‫تدریس حدیث کے طرق واسالیب میں تنوع ہے۔برصغیر کے اساتذہ حدیث کاطریقہ کچھ ہے اورعالم عرب کے اساتذہ ح دیث ک ا‬

‫کچھ اور۔اسی طرح درس نظامی کی کمیت اور کیفیت میں ہر دواعتبارسے عالم عرب کی جامع ات کے مق ابلے میں خاص افرق‬

‫پایا جاتا ہے۔عالم عرب کی جامعات میں یونیورسٹی کاانداز پایا جاتا ہے ‪،‬بی اے کی س طح پ ر ہی اختص اص ش روع ہوجات ا ہے‬

‫اور مختلف فنون کے شعبے الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔ہمارے مدارس میں ٓاج تک ایسا ک وئی نظم نہیں ق ائم کی ا جاس کا بلکہ عل وم‬

‫شریعت کے سارے ہی مضامین ٓاخر تک پڑھائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ح دیث پ ر ت ازہ اور نی ا ک ام جتن ا ع الم ع رب میں‬

‫انجام پارہا ہے ‪،‬اس کاعشر عشیر بھی ہمارے یہاں نہیں ہورہا ہے۔ لیکن ایک سوال ضرور ہمیں پریش ان کرت ا ہے کہ ہندوس تان‬

‫کے اسی طریقہ تدریس سے مستفید ہونے والے ہندوس تانی مح دثین نے ماض ی میں ب ڑے ب ڑے کارن امے انج ام دیے ہیں۔ع ون‬

‫المعبود‪،‬تحفۃ االحوذی‪،‬مرعاۃ المفاتیح‪،‬بذل المجہود‪ ،‬اوجزالمسالک جیسی دسیوں کتابیں وجود میں ٓائیں جن س ے پوراع الم اس الم‬

‫ٓاج بھی استفادہ کرتا ہے۔لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہوتا‪،‬اب اس معیار کے محدثین کیوں نہیں پیدا ہوتے‪،‬نصاب تووہی ہے بلکہ اس‬

‫میں تھوڑی بہت اہم اور مفید تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں؟ا س سوال کا بعض حض رات ج واب یہ دی تے ہیں کہ طلبہ اوراس اتذہ ک و‬

‫جیسی محنت حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں کرنی چاہیے‪،‬اس طرح کی محنت نہیں ہوپارہی ہے۔ب ڑی ح دتک یہ ج واب درس ت‬

‫ہے‪،‬اس پہلو سے بھی اپ نے م دارس میں اص الح ک رنے کی ض رورت ہے۔لیکن ش ایداس س ے بھی انک ار نہیں کی ا جاس کتا کہ‬

‫نصاب تعلیم زمانے کے تقاضوں س ے ہم ٓاہن گ ہوت ا ہے اور ض رورت کے مط ابق اس میں ردوب دل ہوت ا رہت ا ہے لیکن ہم نے‬

‫اسے صدی ڈیڑھ صدی پہلے کے نصاب پر بڑی حدتک ٓاج بھی ب اقی رکھ ا ہے۔نص اب تعلیم مقص د کے حص ول کاای ک ذریعہ‬

‫ہے‪،‬وہ بذات خود مقصد نہیں بلکہ اس سے ایک خاص مقصد کی تکمیل ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں ہر مفید تجربے کو اپنانا چ اہیے‬

‫اہیے۔‬ ‫اچ‬ ‫تفادہ کرن‬ ‫ے اس‬ ‫اور اس س‬

‫برصغیر میں عام طور پر اہل سنت کے تین مکاتب فکر پائے جاتے ہیں‪،‬جن کو ہم دیوبندی ‪،‬بریلوی اور اہل حدیث کے نام س ے‬

‫جانتے ہیں ۔ہر ایک کے یہاں کتب احادیث کانصاب‪،‬اس کا طریقہ تعلیم اور ترسیل کے اسلوب میں تھ وڑا بہت اختالف پای ا جات ا‬
‫ہے۔اس کی وجہ وہ نظریاتی اختالف ہے جو مختلف فقہی مکاتب فکر میں موجود ہے۔اہل حدیث کے عالوہ ب اقی دون وں مک اتب‬

‫فکر حنفی فقہ کے پابند ہیں اور احادیث پڑھاتے ہوئے اس ب ات کاخی ال رکھ تے ہیں کہ تاوی ل اور ت وجیہ کے ذریعے فقہ حنفی‬

‫کی احادیث سے ہم ٓاہنگی واضح کی جائے۔ ہرایک مک اتب فک ر کے ط ریقہ ت دریس ح دیث کے متعل ق چن دباتیں یہ اں ذک ر کی‬

‫ارہی ہیں‪:‬‬ ‫ج‬

‫عام طور پر سلفی اوراہل حدیث مدارس میں بلوغ المرام ‪،‬مش کوۃ المص ابیح ‪،‬موطاام ام مال ک اور کتب س تہ کی تعلیم دی ج اتی‬

‫ہے۔بلوغ المرام جماعت ثالثہ میں اس وقت پڑھائی جاتی ہے جب ع ام طلبہ کی ع ربی زب ان ات نی اچھی نہیں ہ وتی کہ خودس ے‬

‫احادیث کا ترجمہ کرسکیں۔اس لیے بلوغ المرام کے اساتذہ عام طور پر مفردات کے معنی بھی بت اتے ہیں‪،‬جمل وں کی وض احت‬

‫عربی گرامر کے حوالے سے کرتے ہیں اور احادیث کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں۔چوں کہ حافظ ابن حجر عس قالنی‬

‫کی ترتیب فرمودہ یہ کتاب احکام ومسائل کی احادیث پر مشتمل ہے اس لیے اس اتذہ ک رام اح ادیث س ے مس تنبط مس ائل کی بھی‬

‫وضاحت کرتے جاتے ہیں۔کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب مکمل ہوجائے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔بہت سے اب واب رہ ج اتے ہیں‬

‫یاسال کے ٓاخر ی ایام میں ذرا رفتار بڑھا کر کتاب مکمل کردی جاتی ہے۔کتاب کے ٓاخر میں حافظ ابن حجر نے اخالقیات س ے‬

‫متعلق احادیث جمع کی ہیں جو تربیت کے نقطہ نظر س ے خصوص ی اہمیت کی حام ل ہیں‪،‬اس ل یے بعض م دارس اس جم اعت‬

‫کے طلبہ کوسب سے پہلے اخالقیات واال باب ہی پڑھ اتے ہیں۔اس کے بع د فقہی اب واب پڑھ ائے ج اتے ہیں۔طلبہ ک و عم ر کے‬

‫جس مرحلے میں یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے‪،‬کیاان کے اندر فقہ کے تمام ابواب میں زیر بحث ٓانے والے مسائل کو سمجھنے کی‬

‫استعداد ہوتی ہے۔اگر نہیں ہوتی ہے اور یقینا ً نہیں ہوتی ہے تو فقہی مسائل کی تفصیالت بیان کرنا تکلی ف ماالیط اق ہے‪،‬اس پ ر‬

‫اہیے۔‬ ‫رنی چ‬ ‫انی ک‬ ‫رث‬ ‫ہمیں نظ‬

‫مشکوۃ المصابیح کی جلداول جماعت رابعہ میں پڑھائی جاتی ہے اور جلد ث انی جم اعت خامس ہ میں۔ان دون وں س الوں میں بھی‬

‫استاذ کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ مفردات کے معنی بتاتااور احادیث کے جملوں کی وضاحت کرتا ہے۔مسائل واحکام بھی بی ان‬

‫کرتا ہے اور ترغیب وترہیب اور ایمان کے مختلف ابواب کی تشریح کرتا ہے۔مش کوۃ المص ابیح جیس ا کہ ہم ج انتے ہیں‪،‬منتخب‬

‫احادیث کا مجموعہ ہے۔امام بغوی کی مصابیح السنۃ میں صرف صحیح اور حسن احادیث تھیں اور ہر باب صرف دوفصلوں پر‬
‫مشتمل تھا ۔امام تبریزی نے تیسری فصل کااضافہ کیا جس میں بالعموم صحیحین اور س نن اربعہ کے عالوہ دیگ ر کتب اح ادیث‬

‫کی حدیثیں ذکر کی ہیں۔یہ کتاب بھی دونوں جماعتوں کے نصاب میں ازاول ت آاخر داخ ل ہے لیکن ش اذ ون ادر ہی ان کی تکمی ل‬

‫اتے ہیں۔‬ ‫وٹ ج‬ ‫واب چھ‬ ‫ے اب‬ ‫اتی ہے۔بہت س‬ ‫ہوپ‬

‫فضیلت سے پہلے باقی جماعتوں میں عام طور سے موطاامام مالک‪،‬سنن نسائی‪،‬سنن ترمذی‪،‬سنن ابودأود پڑھائی جاتی ہے۔س نن‬

‫ابن ماجہ کہیں پڑھائی جاتی ہے اور کہیں یہ سمجھ کر اسے شامل نصاب نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی بیشترصحیح احادیث دیگر‬

‫کتابوں میں ٓاگئی ہیں۔اس کے زوائد میں کم ہی احادیث ہیں جن کو درجہ استناد حاصل ہے۔ان کتابوں کے پڑھانے کاانداز یہ ہوتا‬

‫ہے کہ باری باری طلبہ حدیث کی عبارت پڑھتے ہیں اوراستاذ جہاں ضرورت محسوس کرت ا ہے‪،‬اح ادیث کی تش ریح کرت ا ہے‬

‫اور مسائل کی وضاحت کرتا ہے۔بعض اساتذہ سال کے ابتدائی چند مہینوں تک ایک ایک حدیث کی تشریح ک رتے ہیں لیکن بع د‬

‫میں ان کے یہاں بھی رفتار بڑھ جاتی ہے کیوں کہ کتاب مکمل کرنے کا خیال غالب رہتاہے۔اس تم ام ج د وجہ د کے ب اوجود کم‬

‫ہی ایس ا ہوت ا ہے کہ کت اب مکم ل ہوج ائے‪،‬بہت س ے اب واب چھ وٹ ج اتے ہیں اوران کی تفہیم مکم ل نہیں ہوپ اتی۔‬

‫فضیلت کے سالوں میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو پڑھایا جات ا ہے۔ان دون وں کی ت دریس ک ا بھی وہی ح ال ہے کہ کچھ‬

‫مہینوں تک استاذ احادیث کی تشریح کرتا ہے‪،‬مسائل بتاتا ہے اور ترجمۃ الباب سے مطابقت س مجھاتا ہے لیکن بع د میں ص رف‬

‫قرٔاۃ علیہ ؤانأاسمع کا منظر ہوتا ہے۔بلکہ اس ٓاپادھ اپی میں ص رف وہی طلبہ درس میں مت وجہ رہ تے ہیں جواس تاذ کے س امنے‬

‫ہوتے ہیں۔باقی یا توسوتے رہتے ہیں یا پھر دوسری مصروفیات میں لگے رہتے ہیں۔صحیحین کو جو مق ام حاص ل ہے اور کتب‬

‫احادیث میں صحت واستناد کے اعتبار سے ان کا جو بلند معیار ہے‪،‬اسے دیکھتے ہوئے طلبائے م دارس کی یہ بے ت وجہی ح د‬

‫درجہ افسوس ناک ہے‪،‬اسے ہر حال میں دور ہوناچاہیے اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ استاذحدیث کو بھی الرٹ رہن ا چ اہیے ت اکہ‬

‫صحیحین کو صحیح معنوں میں ان کا جائزمقام مل سکے۔فضیلتین کے طلبہ کے سامنے احادیث کااردو ترجمہ وہ اں کی ا ج ائے‬

‫جہاں ضرورت ہو باقی ک ام طلبہ ک و خ ود کرناچ اہیے اور س اتھیوں کے س اتھ اجتم اعی مط العہ ک رکے در س میں ش امل ہون ا‬

‫چاہیے۔ اسی اجتماعی مط العہ س ے ایس ے س واالت بھی ذہن وں میں ابھ ریں گے جن ک ا ج واب اس تاذ مح ترم دیں گے اور طلبہ‬

‫ا۔‬ ‫ل ہوگ‬ ‫ان حاص‬ ‫کواطمین‬


‫اصول حدیث میں مصطلحات حدیث کی کوئی مختصر کتاب پہلے پڑھ ائی ج اتی ہے۔اس کے بع دابن حج ر کی ن زہۃ النظ ر ک و‬

‫نصاب کا حصہ بنایاگیا ہے۔اس کے اگلے مرحلے میں کہیں الباعث الح ثیث اور کہیں مق دمہ ابن الص الح کی ت دریس ہ وتی ہے۔‬

‫اص ول ح دیث کی کت ابیں پڑھ اتے ہ وئے چ ونکہ ان اص ولوں کی عملی تط بیق نہیں ک رائی ج اتی اس ل یے طلبہ پڑھ نے کے‬

‫باوجوداصول حدیث میں کوئی خاص مہارت اپنے اندر پیدا نہیں کرپاتے اور ک ئی ای ک اص طالحات س ے وہ ن اواقف رہ ج اتے‬

‫ہیں۔اصول حدیث پر جوجدید کتابیں تیار ہوئی ہیں یاعالم عرب کے بعض اساتذہ حدیث کے جو مذکرات اب شائع ہوچکے ہیں‪،‬ان‬

‫میں بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ہمارے اصول حدیث کے اساتذہ کوان سے مدد لینی چ اہیے اورم دارس کی انتظ امیہ ک و چ اہیے کہ‬

‫جدید کتابیں اساتذہ کے لیے فراہم کرے۔ اب توکتابوں کی حصولیابی بہت ٓاسان ہوگئی ہے۔ان ٹرنیٹ پ ر ع ربی اس المیات ک ا بہت‬

‫بڑا ذخیرہ فری ڈأون لوڈن گ کے ل یے دس تیاب ہے۔ٓاپ ک و ج و کت اب بھی چ اہیے‪،‬وہ ٓاس انی کے س اتھ نیٹ پ ر م ل س کتی ہے۔‬

‫‪sultan.org‬کے نام سے ایک سائٹ ہے‪،‬اس کے عربی والے حص ے میں س یکڑوں ذیلی س ائٹس ہیں‪،‬جن میں ہ زاروں کت ابیں‬

‫موجود ہیں۔ٓاپ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں بلکہ ہمارے مدارس کو چ اہیے کہ وہ طلبہ اوراس اتذہ کے ل یے چن د تحفظ ات کے‬

‫س اتھ ان ٹرنیٹ کی س ہولیات ف راہم ک ریں۔ح دیث کی تالش اور تخ ریج ک ا مع املہ بھی نیٹ نے بہت ٓاس ان کردی ا ہے۔‬

‫یہ صورت حال ہمارے اہل ح دیث م دارس کی ہے۔ممکن ہے بعض م دارس میں ص ورت ح ال اس س ے کچھ مختل ف ہ و اوروہ‬

‫پوری ذمہ داری سے کتب احادیث کی تدریس کاحق ادا ک رتے ہ وں‪،‬لیکن عم ومی ط ور پ ر ص ورت ح ال وہی ہے جوبی ان کی‬

‫اچکی ہے۔‬ ‫ج‬

‫سلفی مکاتب فکرکے عالوہ دوسرے مکاتب فکر میں ت دریس ح دیث کے ط رق واس الیب کچھ اس ط رح ہیں‪:‬بعض م دارس میں‬

‫کتب ستہ کے منتخب ابواب پڑھانے کی روایت پائی جاتی ہے۔جامعۃ الفالح بلریاگنج اور مدرسۃ االصالح سرائے میر میں ش اید‬

‫یہی ط ریقہ اپنای ا جات ا ہے۔ان م دارس کے اس اتذہ اور نص اب کی ت رتیب دی نے والے م اہرین کاخی ال ہے کہ اس ط رح ہم کتب‬

‫احادیث کے تمام ابواب کی تدریس میں کامیاب ہوجائیں گے اور طلبہ کے سامنے احادیث کے مختلف ابواب ٓاجائیں گے۔بہ ظاہر‬

‫یہ بات بہت معقول نظرٓاتی ہے اور اس طریقہ سے حدیث کے مختلف ابواب کی س یر ہوج اتی ہے لیکن اس ط ریقہ ت دریس کے‬

‫نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔طلبہ کے اندرحدیث میں وہ مہارت اور صالحیت پیدا نہیں ہوپاتی جو مطلوب ہے اور طلبہ نہ صرف‬
‫حدیث میں کمزور ہوجاتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت اور تشریعی حیثیت بھی ان کے سامنے واض ح نہیں ہ وتی۔مزی د ب راں ح دیث‬

‫کی حجیت اوراس کی اس تنادی حی ثیت کے تعل ق س ے ان کے د ل میں ط رح ط رح کی غل ط فہمی اں راہ پاج اتی ہیں۔ان دون وں‬

‫اداروں کی قیادت چوں کہ تحریک اسالمی کے ہاتھوں میں رہی ہے اور تحریک کی اولین قیادت میں موالنا مودودی اور موالنا‬

‫امین احسن اصالحی کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے اور ان دونوں حضرات ک ا نظ ریٔہ ح دیث ‪،‬مح دثین کے نظ ریہ س ے مختل ف‬

‫ہے‪،‬یہاں کے طلبہ چوں کہ ان دون وں حض رات کی تحری روں س ے اس تفادہ ک رتے ہیں ‪،‬اس ل یے ان کے نظ ریہ ح دیث میں نہ‬

‫صالبت پائی جاتی ہے اور نہ وسعت جو فہم حدیث کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کے برعکس قرٓان وح دیث کے ب اہمی تعل ق‬

‫اور ان کے اٹ وٹ رش تے کے ح والے س ے ط رح ط رح کے ش کوک وش بہات ان کے ان در پی دا ہوج اتے ہیں۔‬

‫بعض مدارس میں تعلیم کے ٓاخ ری م رحلے میں دورہ ح دیث کی روایت ہے۔اس س ے پہلے کے مراح ل میں وہ فقہ کی مختل ف‬

‫کتابیں پڑھاتے ہیں اور جب طلبہ کی ذہن سازی مکمل ہوجاتی ہے توتبرک کے طور پر ح دیث ک ادور کرادی ا جات ا ہے۔یہ دورہ‬

‫حدیث بس قراۃ علیہ وانااسمع کا منظر پیش کرتا ہے۔استاذحدیث اگر کہیں تقری ر کرت ا بھی ہے توص رف وہ اں جہ اں ح دیث اس‬

‫کے مسلک کے خالف ہوتی ہے یاحدیث کی تاویل اپنے مسلک کے مطابق کرنے کی ضرورت محس وس ہ وتی ہے۔مزی د یہ کہ‬

‫طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ محدثین نے فقہا کی تائید میں م روی روای ات ک و ض عیف ق رار دے دی ا ہے‪،‬ان کے راوی وں پ ر ج رح‬

‫کردی ہے اور اس طرح مح دثین اور فقہ ا کودوحری ف کی ش کل میں پیش ک رکے طلبہ ک و ح دیث اور مح دثین کے ب ارے میں‬

‫بدگمان کردیا جاتاہے۔موالناانورشاہ کشمیری رحمہ ہللا ایک محدث کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں‪،‬انھوں نے فیض الب اری میں‬

‫مغرب سے قبل کی سنتوں کے بارے میں ایک بڑی عجیب بات یہ لکھی ہے کہ حضرت عب دہللا بن مغف ل م زنی رض ی ہللا عنہ‬

‫نے مغ رب کے ف رض س ے پہلے کی س نتوں ک ااس ح دیث س ے اس تنباط کی ا ہے جس کے راوی وہ خ ود ہیں کہ ٓاپ‬

‫ﷺ نے فرمایا‪:‬ہراذان اور تکبیر کے درمیان نماز ہے۔یعنی ہللا کے نبی ﷺ نے مغرب سے‬

‫پہلے سنتیں پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ایک صحابی نے ایک عمومی حدیث سے یہ دوسری حدیث خود بنالی ہے۔بہ ظاہر‬

‫یہ بات بہت معمولی نظرٓاتی ہے لیکن اگر غور کیاج ائے ت و پ ورے ذخ یرہ ح دیث ک و مش تبہ بن انے کے ل یے ک افی ہے۔روایت‬

‫حدیث میں صحابہ کی احتیاط اور محدثین کی تمام خدمات جس کے سامنے ہوں گی ‪،‬کیا وہ اس طرح کی کمزور ب ات کہہ س کتا‬
‫ہے۔اس بات کوتسلیم کرلینے کے بعد کسی حدیث کو فرمان رسالت کہنا بھی مشکل ہوجائے گا کیوں کہ یہ اندیشہ الحق رہے گ ا‬

‫کہ کی ا معل وم ص حابی نے کس ی دوس ری ح دیث س ے اس تنباط ک رکے یہ ح دیث ازخ ود بن الی ہ و۔‬

‫ایک طویل عرصے سے کتب احادیث کی تدریس کے یہی طرق واسالیب اپنائے ج ارہے ہیں۔ان ط رق واس الیب کی اف ادیت بھی‬

‫ہے اور ان کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اہم کتب احادیث تک طلبہ کی رس ائی ہوج اتی ہے اور‬

‫وہ ان کتابوں کے منہج تالیف وتصنیف سے واقف ہوجاتے ہیں۔چ وں کہ یہ کت ابیں امہ ات کتب ح دیثیہ میں ش مار ہ وتی ہیں ‪،‬اس‬

‫لیے احادیث میں زیر بحث ٓانے والے بیشتر موضوعات اور مضامین کی ایک سیر ہوجاتی ہے اور ذہین طلبہ ان سے کس ی ح د‬

‫تک واقف ہوجاتے ہیں۔افادیت کے اسی پہلو کے پیش نظر ہمارے یہاں کتب احادیث کی تدریس کا یہی طریقہ اپنایا گیا ج و ب ڑی‬

‫حد تک ٓاج بھی جاری ہے۔اس طریقہ تدریس میں س ب س ے ب ڑی کمی یہ ہے کہ ح دیث ک و ج واہمیت مل نی چ اہیے وہ نہیں م ل‬

‫پارہی ہے۔فقہ کادبأو اتنازیادہ ہے کہ طلبہ اسی کے ہوکے رہ جاتے ہیں بلکہ حدیث کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں طرح طرح‬

‫کی غلط فہمیاں پی دا ہوج اتی ہیں اور تاحی ات وہ فقہ اور ح دیث کے ب اہمی تعل ق کی گتھی ک و س لجھا نہیں پ اتے۔ منتخب اب واب‬

‫پڑھانے میں ایک نقص ان یہ ہوت ا ہے کہ ب ار ب ار کی تک رار س ے اح ادیث جس ط رح دل ودم اغ میں س رایت کرج اتی ہیں اور‬

‫تے ہیں۔‬ ‫روم رہ‬ ‫ے یہ طلبہ مح‬ ‫وب بھی ہے‪،‬اس س‬ ‫یے مطل‬ ‫وت کے ل‬ ‫وم نب‬ ‫ان عل‬ ‫جوطالب‬

‫اصول ح دیث کی کس ی ح دتک خ واہ وہ اص طالحات کی ح د ت ک ہی کی وں نہ ہ و‪،‬تعلیم وت دریس ہوج اتی ہے لیکن ح دیث کے‬

‫دوس رے مض امین جیس ے ت دوین ح دیث کی م رحلہ وار ت اریخ‪،‬ح دیث پ ر اعتراض ات اور ش بہات ک ا ج واب اورازالہ‪،‬ج رح‬

‫وتعدیل‪،‬رجال حدیث کے مختلف طبقات سے واقفیت‪،‬حدیث کی تخریج اور اس کی استنادی حیثیت کا تعین وغیرہ ہماری درسیات‬

‫کا حصہ نہیں ہیں۔حاالنکہ ان مضامین اور موضوعات کو پڑھے اور س مجھے بغ یرتفہیم ح دیث ک احق ادا نہیں کی ا جاس کتا ہے‬

‫اور نہ ان شبہات کودور کیا جاسکتا ہے جوحدیث کے تعلق سے بعض متجددین اور مستش رقین نے پھیالرکھے ہیں۔یہ مض امین‬

‫احادیث کاتتمہ کہے جاسکتے ہیں۔احادیث کی عظمت‪،‬معنویت اور اس کی استنادی حیثیت ان مضامین سے اج اگر ہ وتی ہے اور‬

‫حدیث کے تعلق سے جواعتراضات کیے جاتے ہیں‪،‬ان کا جواب بھی اسی وقت دینا ممکن ہے جب ان مضامین حدیثیہ سے طلبہ‬

‫و۔‬ ‫وواقفیت ہ‬ ‫ک‬


‫اب جب کہ عالم عرب میں پائے جانے والے طرق واس الیب س ے ہم واق ف ہ وچکے ہیں‪،‬اس کی اف ادیت بھی س امنے ٓاچکی ہے‬

‫اور بحمدہللا اس طریقہ تدریس سے استفادہ کرنے والے علما بھی ہمارے یہاں استاذ کی حی ثیت س ے موج ود ہیں ت و ک وئی وجہ‬

‫نہیں کہ اس کو نہ اختیار کیا جائے۔ہمارے یہاں کے طریقہ تدریس س ے اص ول ح دیث میں مجتہ دانہ بص یرت‪،‬تحقی ق س ندومتن‬

‫کاذوق‪،‬جرح وتعدیل کے اصول وضوابط سے کماحقہ واقفیت اور احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگ انے کی ص الحیت س ے‬

‫طلبہ بالعموم عاری ہوتے ہیں۔حاالنکہ علوم حدیث کے ان شعبوں کی خصوصی اہمیت ہے ‪،‬ان کے بغیر ح دیث کی تفہیم اوراس‬

‫سے مسائل مستنبط کرنا دشوار ہے۔اس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض باطل پرست اور‬

‫شرک اور بدعت کے پرستار اپنی بدعات اوردیگر اوہام وخرافات ک و موض وع اور منک ر روای ات س ے م دلل ک رتے ہیں۔اس ی‬

‫طرح امت میں فقہی گروہ بندی کی ایک بڑی وجہ ضعیف اور غیر مستند روایات ہیں۔عالم ع رب میں اب یہ رجح ان ع ام ہوگی ا‬

‫ہے کہ ضعیف اور منکر روایات دلیل میں پیش نہیں کی جاتی ہیں اور ح دیث کے ح والے مکم ل تحقی ق وتخ ریج کے بع د دیے‬

‫جاتے ہیں لیکن برصغیر کی دینی ثقافت ابھی اس شیریں چشمے سے فیض یاب نہیں ہوپارہی ہے اور نہ اس منہج کو اپنا پ ارہی‬

‫ہے جو علمی دنیا میں معروف ہوچکا ہے۔موضوع اور منکر روایات سے امت کودور رکھ نے کے ل یے اس ی منہج کی پ یروی‬

‫روری ہے۔‬ ‫ض‬

‫میری بدقسمتی ہے کہ میں سعودی جامعات سے استفادے کی س عادت س ے مح روم ہ وں۔البتہ ج امعہ اس المیہ م دینہ من ورہ اور‬

‫جامعہ ام القری ‪،‬مکہ مکرمہ کے فارغین اور مستفیدین سے وہاں کے طریقہ تدریس کے بارے میں جو معلوم ات میں نے جم ع‬

‫کی ہیں اور انٹرنیٹ پر ان دونوں جامعات کا جونص اب تعلیم دس تیاب ہے‪،‬اس کامط العہ ک رنے کے بع د یہ پتاچلت ا ہے کہ وہ اں‬

‫کتابیں پڑھانے کی بجائے فن کی تعلیم دی جاتی ہے‪،‬چن داحادیث کام ذکرہ اس تاذتیار کرت ا ہے اور پھ ران کی اس ناد‪،‬راوی وں پ ر‬

‫ج رح وتع دیل‪،‬اح ادیث کے مش کل الف اظ کی تش ریح‪،‬اح ادیث میں تع ارض ہے‪،‬ت واس ک ودور ک رنے ک ا ط ریقہ‪،‬تط بیق دی نے‬

‫کاطریقہ‪،‬حدیث سے مستنبط احکام ومسائل‪،‬فقہائے اسالم کے نقطہائے نظر‪،‬ان کے دالئل اور مختلف فیہ مسائل میں راجح اقوال‬

‫کی تعیین وغیرہ بہت تفصیل سے کی جاتی ہے اورایک ایک حدیث کئی کئی اس باق پ ر مش تمل ہ وتی ہے۔اس تم رین اور مش ق‬

‫کے نتیجے میں طلبہ‪،‬کتب احادیث‪،‬کتب شروح حدیث‪ ،‬کتب رجال‪،‬کتب ج رح وتع دیل‪،‬کتب مص طلحات ح دیث اور کتب مس الک‬
‫فقہ کی سیر اور ورق گردانی کرجاتے ہیں اور ان سے اپنے نصاب سے متعلق مواد جم ع کرلی تے ہیں۔اس تاذ ح دیث لکچ ر دیت ا‬

‫ہے اور بلیک بورڈ کا بھی استعمال کرتا ہے۔امتحانات بھی اسی معیار کے مطابق کرائے جاتے ہیں اوراس میں کسی ط رح کی‬

‫کوئی ڈھیل اور چھوٹ نہیں دی جاتی۔عالمہ البانی رحمہ ہللا نے تدریس حدیث کا جو طریقہ جامعہ اسالمیہ مدینہ منورہ میں اپن ا‬

‫یا تھا‪،‬کم وبیش ٓاج بھی وہی طریقہ رائج ہے۔اس میں استاذ کو طلبہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور ت دریس ک ا م واد ب ڑے‬

‫ا ہے۔‬ ‫ا پڑت‬ ‫ع کرن‬ ‫ے جم‬ ‫لیقے اور محنت س‬ ‫س‬

‫اس کے عالوہ وہاں کے موضوعات میں سنت کی مرحلہ وار تدوین‪،‬سنت کی حجیت‪،‬منکرین حدیث اور مستشرقین کے ش بہات‬

‫واعتراضات کا جواب‪،‬جرح وتعدیل‪،‬تخریج حدیث ‪،‬حدیث پر صحیح‪ ،‬حسن یا ضعیف ہونے کا حکم‪،‬مصطلحات حدیث اور وضع‬

‫اور وضاعون جیسے مضامین بھی شامل ہیں۔ان مضامین کی تدریس بھی استاذ کے اپنے تیار کردہ مذکرے س ے ہ وتی ہے اور‬

‫اس میں مضامین کے تمام گوشے شامل ہوتے ہیں۔مختص ر یہ کہ کلیۃ الح دیث میں پڑھ نے والے طلبہ چ ار س الوں میں ص حیح‬

‫معن وں میں مح دث بن ک ر س امنے ٓاتے ہیں اور ح دیث کے تم ام موض وعات پ ر ب ڑے اعتم اد کے س اتھ گفتگ و ک رتے ہیں۔‬

‫سعودی جامعات کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ہمارے یہاں مدار س میں موجود ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے‬

‫اب تک اس طریقہ تدریس ک و یہ اں رائج نہیں کی ا اور نہ طلبہ کی اس ط رف ک وئی رہنم ائی فرم اتے ہیں۔م دارس کی انتظ امیہ‬

‫اپنانصاب تعلیم تبدیل کرنے پر راضی نہیں اور اس اتذہ ح دیث اس ک ڑی محنت س ے جی چ راتے ہیں ج و س عودی جامع ات کے‬

‫اس اتذہ ح دیث پڑھ انے میں ک رتے ہیں۔ہم اے م دارس کے نظ ام میں اس کی گنج ائش موج ودہے کہ س عودی جامع ات کے کلیۃ‬

‫الحدیث سے جوعلما بی اے‪،‬ایم اے یا پی ایچ ڈی کرکے یہ اں کے م دارس میں اس تاذ کی حی ثیت س ے اپ نے ف رائض انج ام دے‬

‫رہے ہیں‪،‬وہ الگ سے طلبہ کی تربیت فرماسکتے ہیں اوران کے ان در ح دیث ک اذوق پی دا کرس کتے ہیں۔ذہین طلبہ کی رہنم ائی‬

‫اگراس انداز میں کی جائے تواس کافائدہ بھی ہوسکتا ہے اور اندرون مدرسہ ایک علمی فضاقائم ہوسکتی ہے۔لیکن اپنے مدارس‬

‫میں ہم استاذ کی بجائے مالزم کی حیثیت سے اپناوقت پورا کرتے ہیں۔مدارس کی انتظ امیہ س ے ش کایت بج ا ہے‪،‬ان کی ط رف‬

‫سے کئی طرح کی شکایات پیدا ہوتی ہیں لیکن ایک استاذکامقام ان تمام باتوں سے بہت بلند ہے۔وہ مس ند ت دریس پ ر ای ک م ربی‬

‫کی حیثیت سے بیٹھا ہے اور اسے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کی صالحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔‬
‫جب تک اجتماعی عمل جاری ہے‪،‬اس طرح کی شکایات کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی ہیں لیکن وقت گزر ج ائے گ ا اور ہم طلبہ‬

‫میں وہ باتیں منتقل نہیں کر پائیں گے جو ہم نے اپنے اساتذہ سے سیکھی ہیں ی ااپنے ذاتی مط العہ س ے حاص ل کی ا ہے۔علم دین‬

‫ایک ورثہ ہے۔اس کی حفاظت کرنا اور پوری ذمہ داری سے ٓانے والی نسلوں کو منتقل کردینا یہ ہمارادینی اور اخالقی فریض ہ‬

‫ہے۔اس پہلوسے جب بھی کوئی استاذسوچے گا تو طلبہ کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرپائے گا بلکہ اس کا ضمیر اندرسے اسے‬

‫ا۔‬ ‫ار رکھے گ‬ ‫ادہ وتی‬ ‫ے ٓام‬ ‫ر برابراس‬ ‫ام دہی پ‬ ‫رائض کی انج‬ ‫نے ف‬ ‫ا اوراپ‬ ‫رے گ‬ ‫مالمت ک‬

‫قرٓان حکیم کی طرح احادیث نبویہ شریعت کا بنیادی اور اور اہم ماخذ ہیں۔مدارس میں زیر تعلیم طلبہ اور ان کے مح ترم اس اتذہ‬

‫سے یہ توقع بجا طور پر کی جاسکتی ہے کہ وہ حدیث کی تعلیم ‪،‬تدریس اور تفہیم کی ذمہ داریوں س ے عہ دہ ب رٓا ہ وں گے۔ج و‬

‫طریقہ تدریس اور نصاب ہمارے موجودہ مدارس میں مروج ہے‪،‬اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔جو کتب ح دیث زی ر‬

‫درس ہیں‪،‬ان کواستاذ ہی حرفا ً حرفا ً پڑھائے گا‪،‬یہ ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم کتب حدیث کے مختلف ابواب س ے‬

‫اح ادیث منتخب ک ریں‪،‬کچھ اح ادیث کامط العہ طلبہ خ ود ک رکے ٓائیں اور کچھ کی تش ریح اس تاذ ک ریں۔اس کے ل یے طلبہ کے‬

‫سامنے وہ کتب احادیث ہوں جن پر احادیث کے نمبرات پڑے ہوئے ہیں اور جن کو بہت واض ح اور ص اف ان داز میں ش ائع کی ا‬

‫گیا ہے۔ہمارے یہاں ابھی تک مدارس میں وہی بڑے سائز کی کتب احادیث طلبہ کو فراہم کی جاتی ہیں جن میں نہ پیراگراف ہیں‬

‫اور نہ رموزاوقاف۔کتابوں کے ایڈیشن تبدیل کرنا انتہائی ضروری ہے۔بہتر ہوگا کہ جیس ے ہی ک وئی نی ا عن وان(کت اب) ش روع‬

‫ہو‪،‬استاذ ان احادیث پر نشان لگوادے جسے اسے پڑھانا ہے اور ان کی بھی نشان دہی کردے جن کو طلبہ کواز خ ود پڑھن ا ہے۔‬

‫طلبہ کی ذمہ داری ہ وگی کہ کالس میں وقفہ کے دوران مش کل مقام ات کی وض احت اس تاذ س ے طلب ک رلیں اوراس ط رح ان‬

‫احادیث کی تفہیم مکمل ہوجائے۔ورنہ صرف ایک سال کے دورانیہ میں صحیحین کی جل د اول کی ت دریس اس ی ان دازمیں ہ وتی‬

‫ا۔‬ ‫مجھ میں کچھ نہیں ٓائے گ‬ ‫وگی اور س‬ ‫وانی ہ‬ ‫ارت خ‬ ‫رف عب‬ ‫رہے گی کہ ص‬

‫یہاں کے مدارس کے نظام میں ایک گنجائش یہ بھی نکالی جاسکتی ہے کہ طلبہ کو ہوم ورک دی ا ج ائے اور یہ ہ وم ورک ک ئی‬

‫طرح کا ہو۔مثال کے طور پر پانچ ایسی احادیث کاانتخاب کیا جائے جو کتب ستہ میں مشترک ہیں۔طلبہ سے کہا جائے کہ وہ م ع‬

‫سندومتن کے ان کی تخ ریج ک رکے الئیں۔اس تاذ المعجم المفہ رس اللف اظ الح دیث کھ ول ک ر پہلے طلبہ ک و یہ بت ادے کہ اس کی‬
‫تصنیف وترتیب کس نوعیت کی ہے‪ ،‬کسی حدیث تک اس معجم کے ذریعے کیسے پہنچاجاسکتا ہے‪،‬پھر استاذ یہ بھی بت ائے کہ‬

‫حدیث کا مضمون دیکھ کر کیسے اندازہ کیا جائے کہ یہ حدیث ترمذی میں کہاں مل سکتی ہے۔مظان تک پہنچنے کی مش ق بہت‬

‫اہمیت رکھتی ہے۔طلبہ کا ہوم ورک چیک کیا جائے اور پھراسی کے سہارے یہ بتانآاسان ہوجائے گا کہ سندوں ک ااختالف کہ اں‬

‫کہاں ہے‪،‬شاہد اور متابع کیا چیز ہے‪،‬ثقہ کااضافہ کیا ہے۔محدثین کتب ستہ نے ان احادیث کو کن کن ابواب میں درج کیا ہے اور‬

‫ان سے کون کون سے مسائل مستنبط کیے ہیں۔ہوم ورک ک ا تص ور ہم ارے م دار س میں نہیں ہے‪،‬اس ل یے ممکن ہے کہ ابت دا‬

‫میں مشکالت پیش ٓائیں لیکن ٓاہستہ ٓاہستہ ہم ان مشکالت پر قابو پ الیں گے اور ح دیث کی تعلیم وت دریس بہ تر ط ریقے پ ر انج ام‬

‫کے گی۔‬ ‫پاس‬

‫اسماء الرجال کافن ہمارے طلبہ کے لیے بالکل اجنبی ہے‪،‬وہ اس سے بالکل واقف نہیں ہیں حاالنکہ یہ ایک دل چس پ موض وع‬

‫ہے اور طلبہ کی رہنمائی کی جائے تووہ اس سے محظوظ بھی ہوں گے۔ یہ اں بھی ہ وم ورک ک اطریقہ اپنای ا جاس کتا ہے۔مث ال‬

‫کے طور پر سنن ابودأود کی ایک ایک حدیث کی سند کالس کے تمام طلبہ میں تقسیم کردی جائے اور ان سے کہا جائے کہ ہ ر‬

‫راوی کا ترجمہ تہذیب یا تقریب سے لکھ کر الئیں۔جب طلبہ رجال کی ان کتابوں میں راویان ح دیث ک ا ت رجمہ تالش ک ریں گے‬

‫توانھیں یہ معلوم ہوگا کہ راوی کاصحیح نام کیا ہے‪،‬اس کے اس اتذہ ک ون ہیں‪،‬کن تالم ذہ نے اس س ے ح دیث روایت کی ہے‪،‬وہ‬

‫کس طبقے کاراوی ہے‪،‬ائمہ جرح وتعدیل نے اس کے بارے میں کی ا رائے دی ہے اور کن کن لفظ وں میں دی ہے۔جب س ارے‬

‫طلبہ ہوم ورک مکمل کرلیں تواستاذ ایک ایک کی ک اپی دیکھت ا ج ائے اور رج ال کے تعل ق س ے وہ تم ام ب اتیں انھیں س مجھاتا‬

‫جائے جن کا تعلق اس فن سے ہے۔کسی ای ک کالس میں اس ک اعملی تج ربہ ک رکے دیکھ ا ج ائے اور پھ ر طلبہ کے ان در پی دا‬

‫ہونے والی تبدیلی اور ان کے اندر رونما ہونے والے ج ذبے ک ا ج ائزہ لی ا ج ائے ت و پت اچلے گ ا کہ ہم نے طلبہ کے ان در ای ک‬

‫خ اص قس م ک اذوق پی دا کردی ا ہے۔اب اگرانھ وں نے یہ سلس لہ ج اری رکھ ا ت و فن ح دیث میں وہ اختص اص ک ا درجہ حاص ل‬

‫کرسکتے ہیں۔اسی طرح حدیث کے بعض دوسرے مضامین بھی ہوم ورک کے ذریعے طلبہ کے ذہن نشین کرائے جاسکتے ہیں‬

‫ا۔‬ ‫ڑے گ‬ ‫اپ‬ ‫اتھ لگارہن‬ ‫ڑے گی اور طلبہ کے س‬ ‫رنی پ‬ ‫ڑی محنت ک‬ ‫تاذکو ک‬ ‫لے میں اس‬ ‫لیکن اس سلس‬

‫سلفی مدارس میں تخصص فی الحدیث کاشعبہ قائم کیا جانا ضروری ہے۔علوم حدیث کی تمام ش اخوں س ے واقفیت درس نظ امی‬
‫کے موجود ہ ومروج نظام ونصاب میں تقریبا ً ناممکن ہے۔دوسرے فنون کے ساتھ اس کی گنج ائش بھی مش کل ہے لیکن اس ک ا‬

‫یہ مطلب نہیں کہ تفس یر‪،‬فقہ اور ادب کے ش عبہائے تخص ص غ یر ض روری ہیں‪،‬و ہ بھی ض روری ہیں ۔کی ا ہی بہ تر ہوت ا کہ‬

‫ہمارے یہاں چوں کہ اب بحمدہللا کئی ایک بڑے عربی مدارس موجود ہیں‪،‬ان کی موقر انتظامیہ اور سینئر اساتذہ م ل بیٹھ ک ر یہ‬

‫طے کرلیتے کہ کون سے مدارس تخصص کا کون ساشعبہ کھولیں گے۔اس طرح یہ کام جو بہ ظاہر مشکل نظ ر ٓارہ ا ہے‪ٓ،‬اس ان‬

‫ہوجات ا۔ج امعہ س لفیہ بن ارس‪،‬ج امعہ اس المیہ س نابل‪،‬ج امعہ محم دیہ مالیگ أوں‪،‬ج امعہ دارالس الم عمرٓاب اد‪،‬ج امعہ س راج العل وم‬

‫جھنڈانگر‪،‬جامعہ فیض عام مئو‪،‬جامعہ عالیہ عربیہ مئو‪،‬جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو‪،‬جامعہ اسالمیہ دریاباد‪،‬ج امعہ ام ام ابن تیمیہ‬

‫اور جامعہ امام بخاری کشن گنج اپنے وسائل اور تعلیمی معیار کے لحاظ سے اس قابل ہیں کہ وہ تخص ص ک ا ک وئی بھی ش عبہ‬

‫قائم کرسکتے ہیں اور اسے کامیابی کے ساتھ چالسکتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ان م وقر جامع ات کے درمی ان علمی رواب ط نہیں‬

‫ہیں اور نہ ہم اس کے لیے کوئی کوشش کرتے ہیں کہ درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کے مس ائل ک و ای ک دوس رے س ے ش یئر‬

‫ود میں الئیں۔‬ ‫و وج‬ ‫ام ک‬ ‫تحکم نظ‬ ‫ک مس‬ ‫ریں اور ای‬ ‫ک‬

‫تخصص فی الحدیث کاشعبہ کھولے بغیر عل وم ح دیث میں وہ مہ ارت پی دا نہیں ہوس کتی ج و مطل وب ہے۔ممکن ہے بعض طلبہ‬

‫اپنی ذاتی محنت سے اسی نظام میں رہتے ہوئے وہ صالحیت پی دا ک رلیں ج و علم ح دیث کے ل یے ض روری ہے لیکن یہ ای ک‬

‫استثنا ہوگا‪،‬اس کومثال نہیں بنایا جاسکتا اور ایساشاذ ونادر ہی ہوت ا ہے۔دوس الہ تخص ص کے اس نص اب میں ہم تم ام ض روری‬

‫عل وم ح دیث پڑھاس کتے ہیں اور طلبہ کی مش ق بھی ک رائی جاس کتی ہے کہ وہ اح ادیث کی تخ ریج کرس کیں اوران پ ر حکم‬

‫لگاسکیں۔احادیث سے مسائل کااستنباط ایک بڑامسئلہ ہے۔اس شعبے میں جمود طاری ہے اور ہمارا یہ دعوی کمزور نظرٓاتا ہے‬

‫کہ مسائل حیات کتاب وسنت سے طے کیے جاسکتے ہیں۔محدثین عظام نے اپنی تبویب سے جو راہ دکھائی تھی‪،‬اس پر ک اروان‬

‫حدیث کو لے کر چلنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان اصولوں سے واقف ہوجائیں جن کو اس تعمال ک رکے اح ادیث س ے مس ائل‬

‫کااستنباط کیا جاتا ہے۔اس وقت عالم عرب میں بھی اس پہلوس ے ک ام نہیں ہورہ ا ہے۔ابھی ت ک ج و علمی ک ام ہ وئے ہیں ان کی‬

‫نوعیت مخطوطات کی تحقیق‪،‬تخریج اوران کی اشاعت ہے‪،‬اسی طرح ج و کتب اح ادیث ش ائع ش دہ تھیں‪،‬ان کی تحقی ق وتخ ریج‬

‫ہوئی ہے‪،‬حدیث کی صحت اور ضعف کامسئلہ بھی بڑی حد تک واضح ہ وا ہے اور ح والہ دی تے ہ وئے ح دیث ک ادرجہ اس تناد‬
‫متعین کرنے کی روایت بھی عام ہوئی ہے۔اپنے میں خود یہ ایک بڑا کام ہے۔اس پہلوسے ہمیں برصغیر میں بھی کام کرنے کی‬

‫ضرورت ہے۔ہم ارے یہ اں جن مص نفین کی کت ابیں زی ادہ پ ڑھی ج اتی ہیں‪،‬ان کی کت ابوں میں جواح ادیث درج ہیں‪،‬ان ک ادرجہ‬

‫استناد متعین کرنے کی ضرورت ہے۔جامعہ اسالمیہ دریاباد کے ترجمان احتساب بلکہ اس تدراک نے اس پہلوس ے دی نی رس ائل‬

‫وجرائد کا محاسبہ شروع کیا تو لکھنے والے محتاط ہوگئے اوراب وہ حدیث درج کرنے س ے پہلے اس کی ص حت اور ض عف‬

‫کو دیکھ لیتے ہیں۔اسی طرح عالمہ شبلی‪،‬عالمہ سیدسلیمان ندوی‪ ،‬موالناعلی می اں ن دوی‪،‬موالنااش رف علی تھ انوی وغ یرہ کی‬

‫اردو تصانیف کا محاسبہ اگر ہوجائے تو مصنفین محتاط ہوجائیں گے اور ضعاف اور منکرات سے استدالل کرنے کاسلسلہ رک‬

‫جائے گا۔عوام میں جو کتاب مقبول ہواور جس سے لوگ زیادہ استفادہ کرتے ہوں‪،‬اس میں درج احادیث کی تحقیق وتخریج ای ک‬

‫صحت مند عمل ہے‪،‬سید سابق کی فقہ السنۃ ‪،‬ڈاک ٹر یوس ف قرض اوی کی الحالل والح رام اور موالن ا م ودودی کے الحج اب کی‬

‫تخریج وتحقیق عالمہ البانی نے اسی نقطہ نظرسے کی تھی۔بہشتی زیور‪،‬تبلیغی نصاب(فضائل اعمال)س یرۃ الن بی اورالمرتض ی‬

‫وغ یرہ کت ابوں کی تحقی ق وتخ ریج ہوج اتی ت و پتاچلت ا کہ ان میں درج روای ات اوراح ادیث کی اس تنادی حی ثیت کی ا ہے۔‬

‫سلفی مدارس کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا کیوں کہ محدثین کے منہج مستقیم سے انہی کی فک ری ہم ٓاہنگی ہے اور وہی اس‬

‫کا حق بھی ادا کرسکتے ہیں۔حدیث کی حجیت اوراس کی استنادی حیثیت کو یوں تواہل سنت کے تمام مکاتب فک ر تس لیم ک رتے‬

‫ہیں لیکن جب بات فقہ کے اصولوں کی ٓاتی ہے ت و اس پ ر نظ ر ث انی ک رنے کے ل یے ک وئی تی ار نہیں ہوت ا۔ح دیث کی ت او ی ل‬

‫ہوسکتی ہے‪،‬بعض فقہی اصولوں کاسہارا لے کر اسے خبر واحد قرار دے ک ر رد بھی کی ا جاس کتا ہے لیکن مت اخرین متکلمین‬

‫اوراصولیوں کے وضع کردہ اصول وض وابط پ ر نظ ر ث انی نہیں کی جاس کتی۔موالن ا اب راہیم س یالکوٹی نے ت اریخ اہ ل ح دیث‬

‫میں‪،‬موالناعب دالعزیزرحیم ٓاب ادی نے حس ن البی ان میں‪،‬موالن ا عبدالس الم مب ارکپوری نے س یرۃ البخ اری میں اور‬

‫موالنامحمداسماعیل گوجرانوالہ نے حدیث سے متعلق اپنے بعض مقاالت ومضامین میں فقہ حنفی کے ایسے بہت سے اص ولوں‬

‫کی نش ان دہی کی ہے جن کی وجہ س ے بہت س ی اح ادیث رد ہوج اتی ہیں اور ان ک و ناقاب ل حجت ق رار دے دی ا جات ا ہے۔‬

‫صحیح احادیث کو نظر انداز کرکے ضعیف‪،‬منکر اور موضوع روایات کوج و ل وگ ع وام میں پھیالتے اور ع ام ک رتے ہیں‪،‬ان‬

‫کے دالئل اگر ٓاپ سنیں گے تو حیرت زدہ رہ جائیں گے۔پہلے تو یہ کہا جاتارہا کہ فضائل اعمال اور ت رغیب وت رہیب کے ب اب‬
‫میں ضعیف روایات قابل قبول ہوتی ہیں لیکن جب علمائے متق دمین کی تحری ریں س امنے ٓائیں کہ یہ ب ات عم ومی نہیں ہے بلکہ‬

‫اس کی کئی ایک شرطیں ہیں‪ ،‬ان کو مدنظر رکھے بغیر ضعیف روایات پیش کرن ا درس ت نہیں ہے۔اس کے بع د یہ کہ ا گی ا کہ‬

‫کسی حدیث پر صحت اور ضعف کا حکم لگانا ایک اجتہادی مسئلہ ہے‪،‬اس میں ٓارا مختلف ہوسکتی ہیں لیکن جب یہ بتایا گیا کہ‬

‫ماہرین حدیث ہی کی ٓارا اس معاملے میں حجت ہوں گی‪،‬جو حدیث سے سروکار نہیں رکھتے‪،‬ان کی ب ات ص حت وض عف کے‬

‫معاملے میں قطعی حجت نہیں ہے‪،‬اس سلسلے میں موالناعب دالحئی ف رنگی محلی اور بعض دوس رے حنفی علم ائے ح دیث کی‬

‫ٓاراسامنے الئی گئیں تو یہ طوفان کچھ تھما لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ عالمہ الب انی رحمہ ہللا نے س نن اربعہ کی ص حیح اور‬

‫ضعیف کے اعتبارسے تقسیم کرکے غلطی کی ہے‪،‬انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے‪،‬اگرح دیث ض عیف ہے ت واس س ے کی ا ہوت ا ہے‬

‫‪،‬وہ حدیث تو ہے ‪،‬کیا ضعیف والدین کو کوئی اپنے گھرسے نکال دیتا ہے۔ضعیف تو مزید ہماری ت وجہ ک ا مس تحق ہوت ا ہے ۔یہ‬

‫خالص جاہالنا بات ہے لیکن ہندوستانی عوام جو فن حدیث کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہے‪،‬اس ک و بہک انے اور گم راہ ک رنے‬

‫کے لیے اہل بدعت ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔خوف خداسے بے نیاز ہوکرعلم وفن کی حرمتوں ک و پام ال کرن ا‬

‫بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ اب وقت ٓاگیا ہے کہ خالص فنی چیزوں س ے بھی ع وام ک و متع ارف کرای ا ج ائے اور جدی د تعلیم‬

‫یافتہ ذہنوں میں علوم حدیث کی بنیادی باتیں ڈالی جائیں۔علم بڑھ رہا ہے‪،‬اس کادائرہ بھی وسیع ہورہا ہے ‪،‬ک وئی وجہ نہیں کہ فن‬

‫حدیث کی اہم اور بنیادی باتوں سے اب بھی عوام کوان دھیرے میں رکھ ا ج ائے۔ میں نے علی گ ڑھ مس لم یونیورس ٹی کے طلبہ‬

‫میں ذاتی طور پر تجربہ کیا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے سامنے جب بلیک ب ورڈ کی م دد س ے اص ول ح دیث کی بہت‬

‫سی باتوں کی مثالوں کے ذریعے تفہیم کرائی گئی تو نہ صرف انھوں نے اسے س مجھا بلکہ ح دیث کی عظمت بھی ان کے د ل‬

‫میں بیٹھی اورانھیں یہ ادراک ہ واکہ فن ح دیث پ ر ہم ارے اس الف نے کس ق در محنت کی ہے اوراس ے کن کن پہل ووں س ے‬

‫جانچ ااور پرکھ ا ہے۔س ند کی اہے‪،‬متن کس ے کہ تے ہیں‪،‬راوی ک ون ہ وتے ہیں‪،‬کتب س تہ کی ہ ر ح دیث کے ل یے س ند موج ود‬

‫ہے‪،‬صحیح حدیث کی تعریف کیا ہے‪،‬حسن کسے کہتے ہیں اور ضعیف و موضوع ح دیث کی ا ہے اور ک وئی ح دیث ض عیف ی ا‬

‫موضوع کیسے ہوتی ہے‪،‬محدثین اس پر حکم کیسے لگاتے ہیں۔ڈھائی ڈھائی گھنٹوں کے دو لیکچر میں ان پہلووں ک و س مجھایا‬

‫گی ا توعص ری تعلیم ی افتہ طلبہ نے اس س ے بہت کچھ س یکھا اور ان کی بہت س ی غل ط فہمی اں دور ہ وئیں۔منک رین ح دیث نے‬
‫احادیث کی تعداد کو لے کر ہوا کھڑا کیا ہے اور سیدناابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے حدیث کی ات نی ب ڑی تعدادکیس ے م روی ہے‬

‫جب کہ وہ فتح خیبر کے موقع پراسالم الئے تھے۔جب انھیں بتایا گیا کہ محدثین متن کی بنیاد پر نہیں سند کی بنیاد پر احادیث کو‬

‫شمار کرتے ہیں اورایک ایک متن حدیث پچاس پچ اس اور سوسوس ندوں س ے م روی ہے ت وان کی غل ط فہمی دور ہ وئی۔اس ی‬

‫طرح تین سال کا موقع سیدناابوہریرہ کو مال‪،‬تین سالوں میں ایک ہ زار س ے زی ادہ دن ہ وتے ہیں‪،‬ہ ر دن پ ر ان کی مروی ات ک و‬

‫تقسیم کردیا جائے تو روزانہ حدیث سننے اور یاد کرنے کی تعداد پانچ چھ رہ جاتی ہے‪،‬کیااتنی حدیث کاروزانہ ی اد کرن ا ک وئی‬

‫مشکل کام ہے۔‪ ۵۹‬ھ میں ان کی وفات ہوئی اور ساڑھے ٓاٹھ سوسے زیادہ لوگوں نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔جب ت ک علم‬

‫نہیں ہوتا لوگ حدیث کے بارے میں شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں لیکن اگرٓاپ عام لوگوں کواس پہلوسے معلوم ات ف راہم ک ردیں‬

‫کتا۔‬ ‫راہ نہیں کرس‬ ‫وئی انھیں گم‬ ‫وپھر ک‬ ‫ت‬

‫اس دور میں عالمہ البانی رحمہ ہللا کا جوعظیم علمی کام دنیا کے سامنے ٓایا ہے‪،‬اس سے حدیث کی عظمت میں اضافہ ہ وا ہے‬

‫اور ع ام لوگ وں کارجح ان اس کی ط رف ہ وا ہے۔ہم ارے طلبہ عالمہ الب انی رحمہ ہللا کے اس لوب اور ان کے ط ریقہ تحقی ق‬

‫وتخریج س ے ن اواقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی کت ابوں س ے پ ورے ط ور پ ر مس تفید نہیں ہوپ اتے۔اس ب ابت بھی طلبہ کی‬

‫رہنمائی کی جائے اور عالمہ البانی کی کتابیں مدارس کی الئبریریوں میں فراہم کی جائیں۔عالم عرب میں اس وقت عالمہ الب انی‬

‫پر کئی جہتوں سے کام ہورہا ہے‪،‬ان کی فقہی تحقیقات کوالگ سے شائع کیا جارہا ہے‪،‬بدعات کی جو نشان دہی انھ وں نے اپ نی‬

‫کتابوں میں کی ہے‪،‬اسے الگ سے ابوعبیدہ مشہورحسن سلمان حفظہ ہللا نے ’’قاموس البدع ‘‘کے ن ام س ے م رتب کردی ا ہے ۔‬

‫پاکستان سے اس کااردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے اور ہندوستان سے اسے مکتبہ فہیم نے بھی شائع کی ا ہے۔اس ی ط رح انھ وں‬

‫نے جن راوی ان ح دیث پ ر تبص رے ک یے ہیں‪،‬ان ک و بھی کت ابی ص ورت میں م رتب کردی ا گی اہے۔ان کے فت اوی اور دوس ری‬

‫تحریروں کو بھی جمع کیا جاچکا ہے۔صحیحہ اور ضعیفہ کے دونوں سلسلوں کے فوائد حدیثیہ کو بھی م رتب کردی ا گی ا ہے۔ان‬

‫کی حیات وخدمات پر درجن بھر سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ طلبہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جان ا ض روری ہے۔ان کی‬

‫انجمن کی الئبریری میں کتابوں کی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔مدارس کے موجودہ نص اب اور نظ ام تعلیم میں‬

‫کتے ہیں ۔‬ ‫تر بناس‬ ‫و بہ‬ ‫دریس ک‬ ‫دیث کی تعلیم اور ت‬ ‫ے ہم ح‬ ‫وں س‬ ‫رح کی کوشش‬ ‫اس ط‬
‫ایک ٓاخری بات مدارس نسواں سے متعلق عرض کرنی ہے کیوں کہ وہ بھی اب ہمارے تعلیمی نظ ام کاای ک ہم حص ہ بن چکے‬

‫ہیں اور ان میں بھی حدیث کی تدریس ہوتی ہے۔مدارس نسواں کانصاب عام مدارس کے مقابلے میں مختصر ہوناچاہیے اور اس‬

‫ر بھی۔‬ ‫و اور مختص‬ ‫ان بھی ہ‬ ‫وں کے ل یے ٓاس‬ ‫رتیب دیاجاناچ اہیے ج و بچی‬ ‫یے کچھ ایسانص اب ت‬ ‫کے ل‬

‫نسواں مدارس میں عام مدارس کی طرح کتب احادیث کی ت دریس ک وئی ٓاس ان ک ام نہیں ہے۔بہ تر ہوگ ا کہ کتب س تہ کے منتخب‬

‫ابواب کوان کے نصاب میں شامل کیا جائے اور اس میں بھی خواتین کی ضروریات کو پیش نگاہ رکھا ج ائے۔ابھی ت ک نس واں‬

‫مدارس میں عربی زبان کا معاملہ بہت کمزور ہے۔اس کی وجہ کیا ہے‪،‬اس کو معلوم کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش‬

‫ضروری ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ تعلیم کے مختلف مراحل کے لیے احادیث کا مذکرہ تیار کردیا جاتا اوراسی کے سہارے بچیوں‬

‫کو حدیث پڑھائی جاتی۔خواتین کے تعلق سے اح ادیث نب ویہ کاانتخ اب اس م ذکرے کی ت رجیح ہ وتی اور وہ اپ نے مس ائل س ے‬

‫مکمل ط ور پ ر ٓاگ اہ ہ وتیں۔خ واتین کی تعلیم وت ربیت اس ی ط رح ض روری ہے جس ط رح م ردوں کی ض روری ہے لیکن اس‬

‫کامطلب یہ نہیں کہ خواتین اپنے وظیفہ حی ات س ے غاف ل اوربے گ انہ ہوج ائیں ی اان ک و اپ نے ف رائض انج ام دی نے میں ک وئی‬

‫دشواری پیش ٓائے۔ہماری توقعات تو یہ ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے شوہر اوراپنے بچوں کی بہتر طریقے پ ر دیکھ بھ ال‬

‫کرسکے گی اور امور خانہ داری میں طاق ہ وگی ‪،‬عزی زوں اور رش تہ داروں کے س اتھ اپ نے گھ ر کاص حیح ت ال می ل بن ائے‬

‫رکھے گی لیکن موجودہ صورت حال بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ نتائج اس کے برعکس سامنے ٓارہے ہیں۔امور خ انہ‬

‫داری کی تربیت بھی بچیوں کو دی جاتی ہے لیکن وہ اس میں بھی کوئی امتیاز پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ص حابیات اور دوس ری‬

‫ممتاز خواتین کی سیرت کامطالعہ بھی ان کے نصاب کاحصہ ہونا چاہیے ت اکہ ان کی ذہن س ازی ہوس کے اور وہ ای ک ذمہ دار‬

‫اسالم کی نمائندہ خاتون کی صورت میں سماج میں اپنااہم کردار ادا کرسکیں۔‬

‫رفیق احمد رئیس سلفی‬

‫نام‪:‬‬

‫رفیق احمد بن رئیس احمد‬

‫قلمی نام‪:‬‬
‫رفیق احمد رئیس سلفی‬

‫پیدائش‪:‬‬

‫تاریخ‪ 1 :‬جنوری ‪1963‬‬

‫مقام‪ :‬موضع گورا بھاری‪ ,‬تحصیل تلسی پور‪ ,‬ضلع بلرام پور‪ ,‬یوپی‬

‫تعلیم‪:‬‬

‫مولوی‪ :‬جامعہ سلفیہ سراج العلوم‪ ,‬جھنڈا نگر‪ ,‬نیپال‬

‫عالم‪ :‬جامعہ سلفیہ بنارس‬

‫ماسٹر آف تھیالوجی‪ :‬علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (گولڈ میڈلسٹ)‬

‫عالم فاضل‪ :‬عربی فارسی بورڈ اترپردیش‬

‫ادیب ماہر وکامل‪ :‬جامعہ اردو علی گڑھ‬

‫مشغلہ‪:‬‬

‫اسسٹنٹ سیمینار الئبریری مرکز علوم القرآن علی گڑھ‬

‫تصنیف و تالیف و ترجمہ‬

‫صحافت و مضمون نویسی‬

‫دعوت و تبلیغ‬

‫معروف قلمی خدمات(مقاالت و کتب)‪:‬‬

‫‪ 35‬کتابیں تراجم و تصانیف‬

‫سیکڑوں مضامین و مقاالت‬

‫(تفصیل چمنستان حدیث از اسحاق بھٹی میں درج ہے‪)..‬‬

‫پسندیدہ قلم کار‪:‬‬

‫اسماعیل گوجرانوالہ‪ ,‬نذیر احمد املوی‪ ,‬عطاءہللا حنیف بھوجیانی‪ ,‬محمد حنیف ندوی‪ ,‬اسحاق بھٹی‪ ,‬عبدالماجد دریابادی‪ ,‬سید سلیمان ندوی‪ ,‬شبلی‬

‫نعمانی‪ ,‬علی میاں ندوی‪ ,‬موالنا مودودی‪ ,‬امین احسن اصالحی‪ ,‬صدرالدین اصالحی‪ ,‬سیدجالل الدین عمری‪ ,‬ہندوپاک کے مشہور اردو ادباء‬

‫پسندیدہ کتابیں‪:‬‬

‫تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی ہللا کی تجدیدی مساعی‪ ,‬اہل حدیث اور سیاست‪ ,‬اساسیات اسالم‪ ,‬کتب تذکرہ وسوانح موالنا اسحاق بھٹی‪ ,‬رحمۃ‬

‫للعالمین‪ ,‬الرحیق المختوم‪ ,‬سیرۃ النبی‪ ,‬آپ بیتی‪ ,‬انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر‪ ,‬پردہ‪ ,‬سود‪ ,‬الجہاد فی االسالم‪ ,‬تفہیم القرآن‪ ,‬تدبر‬

‫قرآن‪ ,‬اساس دین کی تعمیر‪ ,‬اسالم اور جاہلیت‪ ,‬مطالعہ تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں‪ ,‬پرانے چراغ‪ ,‬تزکیہ نفس‪ ,‬دعوت دین اور اس کا‬

‫طریقہ کار وغیرہ‬


‫رہائش‪:‬‬

‫کاشانہ زہراء‪ ,‬سلفیہ کامپلیکس‪ ,‬ہمدرد نگر (بی)‪ ,‬علی گڑھ – ‪202002‬‬

‫رابطہ‪:‬‬

‫‪9219789483‬‬

‫‪7906750978‬‬

‫‪hrafeeque@yahoo.in ‬‬

You might also like