You are on page 1of 19

‫دورجدید کا فقہی ذخیرہ‬

‫ِ‬
‫عصر حاضر تک مختلف مراحل سے گزری‪،‬اس پر متنوع انقالبات آئے‪،‬فقہ اسالمی کے‬ ‫ِ‬ ‫زمانہ تدوین سے لے کر‬
‫ٴ‬ ‫فقہ اسالمی‬
‫طریقہ تدریس میں نوع بنوع تبدیلیاں واقع ہوئیں‪،‬فقہائے کرام نے ہر دور کے مطابق فقہ اسالمی کے گرانقدر‬‫ٴ‬ ‫طرز تصنیف اور‬
‫ِ‬
‫ب تحریر‪،‬ترتیب‬ ‫طرزتصنیف‪،‬اسلو ِ‬
‫ِ‬ ‫ب فقہ کے‬
‫ذخیرے کی تہذیب وتنقیح کی‪ ،‬ہر دور کے علمی مزاج و مذاق کے مطابق کت ِ‬
‫مباحث‪ ،‬تحریر مسائل اورتقریر ادلہ میں فقہ اسالمی کے دائرے میں رہتے ہوے مفید تبدیدلیاں کیں‪،‬یہی وجہ ہے کہ فقہ اسالمی‬
‫کی طویل تاریخ پر عمیق نگاہ ڈالنے سے مختلف ادوار سامنے آتے ہیں‪،‬ان مختلف مراحل سے واقفیت اور ہر دور کی‬
‫خصوصیات سے آگاہی فقہ اسالمی کے طا لب علم کے لیے انتہائی ضروری ہے‪،‬ان مختلف ادوار و مراحل میں فقہ اسالمی کا‬
‫دور جدید مختلف وجوہات کی بنا پر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے‪ ،‬اس مضمون میں ہم دور جدید کے فقہی ذخیرے اور اس‬ ‫ِ‬
‫کی متنوع خصوصیات پر ایک تحقیقی نگاہ ڈالنے کی کوشش کریں گے۔‬
‫دور جدید کی ابتداء‬
‫فقہ اسالمی کی تاریخ کو ادوار و مراحل میں تقسیم کرنے والے کم و بیش تمام معاصر مورخین کے مطابق فقہ اسالمی کے دور‬
‫جدیدکا آغاز” مجلةا الحکام العدلیہ“ کی تصنیف سے ہوتاہے۔( تاریخ التشریع االسالمی للقطان ‪:‬ص‪،۳۹۷‬تاریخ الفقہ االسالمی لال‬
‫شقر ‪:‬ص‪،۱۸۷‬المدخل الی الشریعة االسالمیہ للدکتور الزیدان ‪:‬ص‪،۱۵۰‬خالصة التشریع االسالمی للخالف ‪:‬ص‪)۱۰۳‬‬
‫ت عثمانیہ میں عدالتیں فقہ حنفی کے مطابق فیصلے کیا کرتی تھیں‪،‬اس نظام میں جج‬ ‫مجلہ کی تصنیف کا پس منظر یہ تھاکہ خالف ِ‬
‫حضرات کو عموما ً فقہ حنفی کے وسیع ذخیرے میں مطلوبہ مبحث کی تالش اور مفتی بہ قول کی تعیین میں کافی دقت کا سامنا‬
‫کرنا پڑتا‪،‬اس پر مستزاد وقت بھی کافی خرچ ہوتا۔اس کے عالوہ قدیم مصنّفین چونکہ قواعد و ضوابط کو مستقالً ذکر کرنے کی‬
‫بجاے جزئیات کے ضمن میں ذکر کرتے تھے؛اس لیے نئے مسائل کا فیصلہ کرتے وقت قواعد کااستخراج بھی انتہا ئی دقت‬
‫ت عثمانیہ کے وزیر انصاف نے وقت کے جید فقہاء کی ایک کمیٹی تشکیل‬ ‫طلب مرحلہ ہوتا‪،‬ان مشکالت کو دیکھتے ہوے خالف ِ‬
‫دی اور معامالت و نکاح کے ابواب کو قانونی ترتیب کے مطابق دفعہ وار مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی؛چنانچہ کمیٹی نے‬
‫ت شاقہ کے بعد ‪۱۲۸۵‬ھ میں ایک مجموعہ تیار کیا‪،‬اس مجموعے کو ”مجلة االحکام‬ ‫اپنا کام شروع کیا اور سات سال کی محن ِ‬
‫العدلیہ“ کا نام دیا گیا‪،‬اس کے مقدمے میں فقہ کے مختصر قانونی تعارف کے ساتھ فقہ اسالمی کے ننانوے ایسے بنیادی قواعد‬
‫ذکر کیے گے‪ ،‬جن پر تقریبا ً فقہ کی پوری عمارت کھڑی ہے اور ان قواعد کا فقہ کے تمام ابواب کے ساتھ انتہا ئی مضبوط ربط‬
‫ہے۔اس پر مغز کے مقدمے کے بعد سولہ مرکزی عنوانات کے تحت‪ ۱۸۵۱‬دفعات میں معامالت کے تمام اہم ابواب کا ذکر کیا‬
‫گیا ہے‪،‬ان تمام مسائل میں مفتی بہ اقوال لینے کی کوشش کی گئی ہے؛البتہ بعض مسائل میں حاالت و زمانہ کی ضروریات کے‬
‫پیش نظر ضعیف و مرجوح اقوال بھی لیے گئے ہیں(فقہ اسالمی‪،‬ایک تعارف ‪ :‬ص‪) ۱۰۹‬۔‬ ‫ِ‬
‫مجلہ کی تصنیف نے واقعی فقہ اسالمی کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی داغ بیل ڈال دی‪،‬اس وقت سے لے کر آج تک فقہ‬
‫عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق فقہ اسالمی کا وسیع ذخیر ہ سامنے آیا‪،‬ذیل میں اس چکا‬ ‫ِ‬ ‫اسالمی پر اچھا خاصا کام ہوا اور‬
‫مختصرا ً ذکر کیا جاتا ہے۔‬
‫پہلی قسم ‪:‬جدید قانونی طرز کے مطابق فقہ اسالمی کی ترتیب و تدوین‬
‫فقہ اسالمی کی عام کتب کا طرز اور مباحث کی ترتیب جدید قانونی کتب سے کافی مختلف ہے‪ ،‬کتب فقہ میں فقہاء کے‬
‫اختالفات‪،‬دالئل‪،‬قواعد کی بجاے فروع و جزئیات اور عموما ً راجح و مرجوح کی تعیین کے بغیر مسائل ذکر کیے جاتے ہیں‪،‬جس‬
‫کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کتب سے کامل استفادہ اور راجح اقوال کا انتخاب ایک ماہر اور منجھا ہوا فقیہ ہی کر سکتا ہے‪،‬مجلہ کی‬
‫تصنیف کے بعد عالم اسالم میں فقہ اسالمی کی دفعہ وار ترتیب و تدوین کے رجحان میں کافی تیزی آئی‪،‬اور فقہاء نے تقنین کے‬
‫جواز و عدم جواز پر طویل بحثیں کیں‪،‬اس کے ممکنہ طرق کا ذکرکیا‪،‬خاص طور پر عالم اسالم کے مایہ ناز فقیہ شیخ مصطفی‬
‫الزرقاء نے ”المدخل الفقہی العام“ میں تقنین کے حوالے سے مفصل اور پر مغز بحث کی ہے۔( ص‪)۱/۲۶۹‬‬
‫ذیل میں اس حوالے سے چند مفید کاوشوں کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪- ۱‬سعودی عرب کے معروف عالم شیخ احمد بن عبد ہللا القاری نے سعودی حکومت کے ایماء پر فقہ حنبلی کے معامالت کے‬
‫ابواب کو دفعہ وار مرتب کیا‪،‬یہ مجموعہ ”مجلة اال حکام الشرعیہ علی مذہب االمام احمد بن حنبل الشیبانی“کے نام سے موسوم‬
‫ہوا‪،‬اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪۲۳۸۴‬ہیں۔‬
‫‪- ۲‬مشہور فقیہ محمد قدوری پاشا نے احوال شخصیہ یعنی نکاح‪،‬وقف اور معا مالت کے ابواب کو فقہ حنفی کے مطابق دفعہ وار‬
‫مرتب کیا اور اسے ”مرشد الحیران لمعرفة احوال االنسان“ کا نام دیا۔اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪ ۱۰۴۵‬ہیں۔‬
‫‪- ۳‬شیخ ابو زہرہ مرحوم نے نکاح و طالق کے مو ضوع پر ”االحوال الشخصیہ“ کے نام سے ایک مفصل کتاب لکھی‪،‬اس کے‬
‫آخر میں بھی مواد کو دفعہ وار لکھا۔‬
‫‪- ۴‬مصر کے معروف عالم اور اخوان کے مشہور رہنما شیخ عبد القادر عودہ شہید نے اسالم کے نظام جرم و سزا پر ”التشریع‬
‫الجنائي مقارنا با لقانون الوضعی“ کے نام سے ایک مفید و مفصل کتاب لکھی‪،‬اس کے آخر میں تمام مسائل کو دفعات کی شکل‬
‫میں ذکر کیا کل دفعات تقریبا‪ ۶۸۹‬ہیں۔‬
‫‪- ۵‬پاکستان کی مشہور شخصیت ڈاکٹر نزیل الرحمان نے ”مجموعہ قوانین اسالم“ کے نام سے چھ جلدوں میں اردو میں ایک‬
‫کتاب لکھی‪،‬جس میں تمام اہم مسائل کو دفعات کی شکل میں لکھا گیا ہے۔‬
‫‪- ۶‬ہندو ستان میں آل انڈیا مسلم پرسنل الء کی طرف سے نکاح و طالق کے مسائل دفعہ وار مرتب کیے گئے‪،‬یہ کاوش‬
‫”مجموعہ قوانین اسالمی“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪۵۳۰‬ہیں۔‬
‫‪- ۷‬ہندوستان کے معروف عالم قاضی مجاہد االسالم قاسمی صاحب نے اسالم کے عدالتی نظام کو دفعات کی شکل میں مرتب‬
‫کیا‪،‬اس کی کل دفعات تقریبا ً ‪ ۷۴۰‬ہیں اپنی افادیت کی بنا پر عربی میں ترجمہ ہوکر بیروت سے بھی چھپ چکی ہے۔‬
‫دوسری قسم ‪:‬فقہی موسوعات اور انسائیکلو پیڈیازکی تیاری‬
‫دور جدید میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ پوری فقہ اسالمی کو الف بائی ترتیب سے موسوعہ‬ ‫ِ‬
‫اور انسائیکلو پیڈیا کی شکل میں مرتب کیا جائے؛ تا کہ وہ حضرات جو فقہ اسالمی کی کتب سے ممارست نہیں رکھتے اور نہ‬
‫انھیں فقہی کتب کے ابواب و مسائل کی ترتیب معلوم ہے‪،‬وہ فقہ اسالمی سے آسانی کے ساتھ استفادہ کر سکے؛چنانچہ اس‬
‫سلسلے میں درج ذیل کوششیں ہوئیں ہیں‪:‬‬
‫‪- ۱‬فقہی موسوعہ تیا ر کرنے کی سب سے پہلی تجویز مشہور فقیہ اور ممتاز مفکر داکٹر مصطفی سباعی کی طرف سے آئی‬
‫جب وہ دمشق یونیورسٹی میں کلیة الشریعہ کے صدر بنے‪،‬انھوں نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا منصوبہ حکومت شام‬
‫کے سامنے پیش کیا اور حکومت نے اسے منظور بھی کیا۔اس سلسلے میں شامی حکومت نے عالم عرب کے ممتاز محققین کی‬
‫ایک کمیٹی تشکیل دی؛لیکن چند وجوہات کی بنا پر یہ منصوبہ چل نہیں سکا اور فقہی موسوعہ تیار کرنے کا خواب شرمندئہ‬
‫تعبیر نہ ہو سکا۔‬
‫‪۱۹۶۲‬ء میں حکومت مصر نے ایک موسوعہ فقہیہ تیار کرنے کا منصوبہ بنا یا‪،‬یہ موسوعہ”موسوعہ جمال عبد الناصر فی الفقہ‬
‫االسالمی“ کے نام سے موسوم کیا گیا؛چنانچہ اس موسوعہ پر باقاعدہ کا م شروع کیا گیا؛لیکن کام کی سست رفتاری کی وجہ‬
‫ب اربعہ کے ساتھ شیعہ‪،‬زیدیہ‪،،‬زیدیہ‪،‬اباضیہ اور‬ ‫سے ابھی تک اس کی سولہ جلدیں منظر عام پر آئی ہیں‪،‬اس موسوعہ میں مذاہ ِ‬
‫ظاہریہ کے مسالک کے بیان کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔‬
‫‪- ۳‬فقہی موسوعہ تیار کرنے کی سب سے کامیاب کوشش وزارت اوقاف کویت کی طرف سے سامنے آئی‪،‬حکومت کویت نے‬
‫ممتاز فقیہ داکٹر مصطفی الزرقا ء کی میں سر براہی ‪ ۱۹۶۶‬ء میں ایک ضخیم موسوعہ کی منظوری دی؛چنانچہ ڈاکٹر صاحب‬
‫نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس موسوعہ کی تیاری پر تیزی سے کام شروع کیا‪،‬ڈاکٹر صاحب کی محنت رنگ الئی اور تیزی کے‬
‫ساتھ اس کی جلدیں منظر عام پر آنے لگیں اور اب تک اس کی پینتالیس جلدیں چھپ چکی ہیں۔بال شبہ موضوعات کے استیعاب‪،‬‬
‫ب اربعہ کے‬ ‫عصر حاضر کا منفرد و ممتاز ترین کام ہے۔اس میں مذاہ ِ‬
‫ِ‬ ‫اختصار و جامعیت اور تسہیل و ترتیب کے لحاظ سے‬
‫بیان کا التزام کیا گیا ہے‪ ،‬اسالمک فقہ اکیڈمی نے اس ضخیم موسوعہ کا اردو میں ترجمہ کیاہے‪ ،‬جو یقینا اردوداں حضرات کے‬
‫لیے بیش بہا تحفہ ہے۔‬
‫عصر حاضر کے ممتاز محقق ڈاکٹر رواس قلعہ جی نے صحابہ و تابعین کے اقوال فقہیہ یکجا کرنے کا منصوبہ بنا یا؛چنانچہ‬ ‫ِ‬
‫اس سلسلے میں اب تک صحابہ میں سے حضرت عمر ‪،‬حضرت عبد ہللا بن مسعود‪ ،‬ام المومنین حضرت عایشہ اور‬
‫حضرت عبد ہللا بن عمر اور تابعین حضرت حسن بصری اور حضرت ابراہیم نخعی و دیگر معروف تابعین کے اقوال فقیہہ‬
‫فقہی ترتیب کے مطابق جمع کیا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر قلعہ جی کی یہ کوشش بال شبہ ایک مایہ ناز و تاریخی پیشکش ہے‪،‬اس‬
‫سلسلے سے صحابہ و تابعین کی فقہ ایک مرتب شکل میں سامنے آئی ہے‪،‬ہللا تعالی ڈاکٹر صاحب کو اس کا بہترین بدلہ عطا‬
‫فرماے۔اب تک تقریبا ً ‪ ۱۸‬موسوعات منظر عام پر آچکے ہیں۔‬
‫‪- ۵‬ہندوستان کے معروف عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی صاحب نے ”قاموس الفقہ“ کے نام سے اردو میں ایک جامع فقہی‬
‫موسوعہ ترتیب دیا ہے‪،‬جو چھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے‪،‬اس کے شروع میں فقہ کے تعارف و تاریخ پر ایک مفصل مقدمہ‬
‫اہل علم سے خراج تحسین وصول کر چکا ہے۔‬ ‫بھی شامل ہے۔رحمانی صاحب کا یہ عظیم کام ممتاز ِ‬
‫‪- ۶‬نامور عالم ڈاکٹر احمد علی ندوی نے معامالت سے متعلق قواعد و ضوابط فقہیہ کو ایک موسوعہ کی شکل میں جمع کیا‬
‫ہے‪،‬یہ موسوعہ تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و الضوابط الفقیہ الحاکمة للمعامالت“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔اس‬
‫میں معامالت سے متعلق مذاہب اربعہ کے قواعد و ضوابط الف بائی ترتیب سے ذکر کیے گئے ہیں۔‬
‫‪- ۷‬ممتاز محقق محمد صدقی بن احمد البورنو نے پوری فقہ اسالمی کے تمام قواعد و ضوابط کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا؛چنانچہ‬
‫یہ موسوعہ ”موسوعہ القواعد الفقیہ“ کے نام سے تیرہ ضخیم جلدوں میں منظر عام پر آیاہے‪،‬محقق بورنو کے اس عظیم الشان‬
‫اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔‬
‫کارنامے کی افادیت ِ‬
‫‪- ۸‬معروف محقق ڈاکٹر سعدی ابو جیب نے ”موسوعة الجماع فی الفقہ االسالمی“ کے نام سے تین ضخیم جلدوں میں ایک منفرد‬
‫کرام‪،‬ائمہ اربعہ و دیگر فقہاء کے متفقہ و اجماعی مسائل فقہی ترتیب کے مطابق جمع‬
‫ٴ‬ ‫صحابہ‬
‫ٴ‬ ‫موسوعہ تیار کیا ہے‪،‬جس میں‬
‫کیے ہیں۔اس ضخیم موسوعہ میں تقریبا ً نوہزار سے زائد اجماعی مسائل ذکر کیے گئے ہیں۔‬
‫ت صحابہ کو جمع کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلے‬ ‫‪- ۹‬فلسطین کے محقق ڈا کٹر عبد الرحمن العقبی نے اجماعا ِ‬
‫میں اب تک تیرہ جلدیں تیار ہوچکی ہیں‪،‬اس ضخیم موسوعة میں مصنف نے ان تمام مسائل کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے‪،‬جن‬
‫اصول دین سے متعلق ہوں یا فروع دین سے۔اس منفرد و ممتاز کارنامے پر مصنف‬ ‫ِ‬ ‫پر صحابہ کا اجماع منعقد ہوا ہے‪،‬خواہ‬
‫یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔معروف ویب سائٹ ”ملتقی اہل الحدیث“کے مطابق یہ کتاب عنقریب چھپ جائیگی۔‬
‫عصر حاضر کے نامور فقیہ جمال الدین العطیہ نے ”تجدید الفقہ االسالمی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے‪،‬اس کے آخر‬ ‫ِ‬ ‫‪– ۱۰‬‬
‫میں مصنف نے ایک ضخیم موسوعہ تیار کرنے کا ایک منصوبہ پیش کیا ہے‪،‬جس میں عنوانات اور متعلقہ کتب کی بھی اپنی‬
‫استطاعت کے مطابق نشاندہی کی ہے۔ اس موسوعہ کے عنوانات اور اس کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کسی‬
‫شخص‪،‬ادارے اور ملک کا کام نہیں ہے؛بلکہ ممالکِ اسالمیہ کے نامور فقہاء مل کر اسے مرتب کر سکتے ہیں۔اگر یہ موسوعہ‬
‫دور جدید کی سب سے بڑی فقہی پیشکش ہوگی۔‬ ‫اسی ترتیب کے مطابق منظر عام پر آیا‪،‬تو غالبا ً ِ‬
‫تیسری قسم ‪:‬فقہ و اصول فقہ کی تاریخ اور جامع تعارف پر مبنی مفید کتب‬
‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک مفید کام یہ ہوا ہے کہ فقہ و اصول فقہ کی مرحلہ وارتاریخ اور مکمل‬ ‫ِ‬
‫تعارف پر مبنی متعدد کتب سامنے آئی ہیں‪،‬جن میں عہ ِد نبوت سے لے کر عصر حاضر تک فقہ و اصول فقہ کی مرحلہ وار‬
‫تایخ‪،‬ہر دور کی خصوصیات‪،‬مختلف فقہی مکاتب خصوصا مذاہب اربعہ کے مناہج استنباط‪،‬ہر فقہی مکتب کے معروف فقہاء اور‬
‫مشہور فقہی کتب کا تعارف اور فقہ اسالمی کے حوالے سے دیگر مفید مباحث شامل ہوتی ہیں۔یہ کتابیں عمومی طور پر ”المدخل‬
‫الی الفقہ“یا ”تاریخ التشریع “کے نام سے لکھی گئیں ہیں۔ان کتب کے بعض مباحث سے اختالف کے باوجود یہ بات ماننی پڑے‬
‫گی کہ ان کتب نے فقہ اسالمی کے وسیع ذخیرے اور فقہ اسالمی کی طویل تاریخ سے آگاہی میں اہم کردار اد اکیا ہے۔جو مباحث‬
‫تاریخ کی کتب میں منتشر اور بکھری ہوئی تھیں‪،‬ان کتب نے مرتب انداز اور عصری اسلوب میں اسے پیش کیا۔ذیل میں اس حوا‬
‫لے سے چند اہم اور مفید کتب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪- ۱‬تاریخ التشریع االسالمی للخضری بک ‪:‬مصر کے معروف عالم و مشہور مورخ شیخ محمد خضری بک وہ پہلی شخصیت‬
‫ہیں‪،‬جنہوں نے فقہ اسالمی کی مرحلہ وار تاریخ لکھنے کی بنیاد ڈالی‪،‬شیخ خضری بک نے عہد نبوت سے لے کر عصر حاضر‬
‫تک فقہ کی تاریخ پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ”تاریخ التشریع االسالمی“ نام سے لکھی‪،‬جس میں پہلی مرتبہ جدید اسلوب کے‬
‫مطابق فقہ کی تاریخ کو چھ ادوار میں تقسیم کر کے ہر دور کا مفصل تعارف اپنی کتاب میں پیش کیا۔چند مقامات سے قابل‬
‫اعتراض ہونے کے باوجود فقہ اسالمی کی تاریخ کے حوالے سے بنیادی ماخذ شمار ہوتی ہے۔‬
‫‪- ۲‬الفکر السامی فی تاریخ الفقہ االسالمی ‪:‬مراکش کے معروف مالکی عالم فقیہ عالمہ محمد حجوی الثعالبی کی تصنیف‬
‫ہے‪،‬فقہ اسالمی کی تاریخ پر مشتمل کتب میں غالبا ً سب سے مفصل کتاب ہے‪،‬کتاب چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے‪،‬فاضل‬
‫مصنف نے فقہ اسالمی کی تاریخ کو چار ادوار میں تقسیم کر کے ہر جلد میں ایک دور کا مفصل تعارف پیش کیا ہے‪،‬اس کتاب‬
‫میں ہر دور کے متعدد معروف فقہاء کے تراجم سمیت فقہ اسالمی کے حوالے سے نفیس مباحث شامل ہیں۔‬
‫‪- ۳‬تاریخ التشریع االسالمی للقطان ‪:‬مصر کے معروف عالم‪،‬اخوان المسلمین کے رہنما‪ ،‬داعی اور مشہور قاضی شیخ مناع‬
‫خلیل القطان کی تصنیف ہے‪،‬یہ کتاب فقہ اسالمی کی تاریخ پر مبنی کتب کا جامع خالصہ ہے‪،‬کتاب میں حسن ترتیب اور عبارت‬
‫میں سالست نمایاں ہے۔‬
‫‪- ۴‬المدخل الفقہی العام ‪:‬نامور فقیہ شیخ مصطفی الزرقاء کی تصنیف ہے‪،‬جنہوں نے فقہ اسالمی کو جدید اسلوب میں پیش‬
‫قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ ”المدخل الفقہی العام“ فقہ کی تاریخ‪،‬مذاہب فقہیہ کے تعارف‪،‬قواعد‬
‫کرنے کے حوالے سے ِ‬
‫عصر حاضر کے اسلوب میں پیش کرنے کی ایک کامیاب تحقیقی اور تاریخی دستاویز ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫فقہیہ اور دیگر فقہی مباحث کو‬
‫ان کتب کے عالوہ معروف مصری عالم و فقیہ محمد سالم مدکور کی ”المدخل للفقہ االسالمی“ مصر کے معروف مورخ اور‬
‫متعدد تاریخی کتب کے مصنف الدکتور احمد شلبی کی ”تاریخ التشریع االسالمی“ مشہورعراقی عالم الدکتور عبد الکریم زیدان‬
‫کی۔”المدخل الی دراسة الشریعة االسالمیة“ نامور مصری فقیہ عبد الوہاب خالف کی ”خالصة تاریخ التشریع االسالمی“ اردن کے‬
‫معروف عالم الدکتور عمر سلیمان االشقر کی ”تاریخ الفقہ االسالمی“ شام کے معروف عالم الدکتور عبد اللطیف صالح الفرفور کی‬
‫”تاریخ الفقہ االسالمی“ معروف سعودی عالم الدکتور ناصر بن عقیل الطریفی کی ”تاریخ الفقہ االسالمی“ عمان کے معروف عالم‬
‫الدکتور صالح محمد ابو الحاج کی مایہ ناز کتاب ”تاریخ الفقہ االسالمی“ معروف مصری عالم الدکتور حسین حامد حسان کی‬
‫”المدخل لدراسة الفقہ االسالمی“ معروف سعودی یونیورسٹی جامعہ امام محمد بن سعود کے مدیر الدکتور سلیمان بن عبد ہللا بن‬
‫حمود ابالخیل کی ”المدخل الی علم الفقہ“ معروف کویتی عالم الدکتور یوسف احمد محمد البدوی کی ”مدخل الفقہ االسالمی و‬
‫اصولہ“ جامعہ قطر کے دو پروفیسرز الدکتور محمد دسوقی اور امینہ الجابر کی مشترکہ کاوش”مقدمہ فی دراسة الفقہ االسالمی“‬
‫جامعہ ازہر کے معروف استاد الدکتور محمد علی السایس کی ”نشاة الفقہ االجتہادی و اطوارہ“ اور معروف فقیہ الدکتور علی‬
‫حسن عبد القادر کی ”نظرة عامة فی تاریخ الفقہ االسالمی“ فقہ اسالمی کی تاریخ کے حوالے سے اہم کتابیں شمار ہوتی ہیں۔‬
‫اردو میں اس حوالے سے ہندوستان کے مشہور عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی کی کتاب ”فقہ اسالمی تعارف و‬
‫تاریخ“پروفیسر فہیم اختر ندوی اور پروفیسر اختر الواسع کی مشترکہ کاوش”فقہ اسالمی تعارف و تاریخ“معروف عالم موالنا‬
‫محمد تقی امینی کی ”فقہ اسالمی کا تاریخی پس منظر“مفتی عمیم االحسان القادری کا مختصر رسالہ”تاریخ علم فقہ“ڈاکٹر سجاد‬
‫الرحمن صدیقی کی ”فقہ اسالمی کا تاسیسی پس منظر“اور مایہ ناز محقق ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مشہور زمانہ‬
‫ت فقہ“فقہ اسالمی کی تاریخ اور تعارف پر مشمتل اہم کتابیں ہیں۔‬
‫خطبات”محاضرا ِ‬
‫اصول فقہ کی تاریخ و تعارف کے حوالے سے شام کے معروف عالم الدکتور معروف دوالیبی کی ”المدخل الی علم اصول الفقہ“‬
‫مشہور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کی مایہ ناز کتاب ”دراسة تاریخیة للفقہ و اصول الفقہ و االتجاہات التی ظہرت فیھا“‬
‫جامعہ ازہر کے معروف پروفیسر ڈاکٹر شعبان محمد اسماعیل کی ”اصول الفقہ تاریخہ و رجالہ“ اور ”المدخل لدراسة اصول‬
‫الفقہ“ اہم کتب شمار ہوتی ہیں؛جبکہ اردو میں اصول فقہ کی مفصل تاریخ کے حوالے سے ڈاکٹر فاروق حسن کا پی ایچ‪ ،‬ڈی کا‬
‫مقالہ ”فن اصول فقہ کی تاریخ“ایک اہم کاوش ہے۔‬
‫چوتھی قسم‪:‬الفقہ المقارن یعنی فقہ و اصول فقہ کا تقابلی مطالعہ‬
‫ب فکر کے تقابلی مطالعے کا رجحان اہ ِل علم کے حلقوں میں کافی‬
‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے مختلف مسالک اور مکات ِ‬ ‫ِ‬
‫بڑھ گیا ہے‪،‬فقہ اسالمی کے مطالعے میں اس بات کی کوشش کی جاتی ہے کہ فقہ اسالمی کے مختلف ابواب میں فقہاء کے‬
‫بنیادی اختالفات اور اختالفی مقدمات سے آگاہی ہو۔اس رجحان کے پیدا ہونے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ فقہ اسالمی کے معروف‬
‫ب فکر کی بجائے فقہ اسالمی کے چاروں مکاتب‬ ‫عالمی ادارے عصر حاضر کے پیدا کردہ نت نئے مسائل میں کسی خاص مکت ِ‬
‫کو سامنے رکھ کر ان مسائل کا آسان اور اقرب الی الصواب حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا فقہ اسالمی‬
‫کے تقابلی مطالعے پر مفید تصانیف منظر عام پر آگئیں۔ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب نامور فقیہ ڈاکٹر وہبہ الزحیلی کی‬
‫مایہ ناز کتاب”الفقہ االسالمی و ادلتہ“ہے جس میں مصنف نے فقہ کے تمام ابواب میں مذاہب اربعہ اور ان کے دالئل کے بیان کا‬
‫اہتمام کیا ہے۔اس کے عالوہ مصر کے معروف عالم عبد الرحمن الجزیری کی کتاب”الفقہ علی المذاہب االربعہ“بھی فقہ اسالمی‬
‫کے تقابلی مطالعے کے لیے اہم کاوش ہے۔اسی طرح معروف فقہی موسوعات اور انسائیکلوپیڈیاز میں بھی تمام مسالک کے بیان‬
‫کا التزام کیا گیا ہے۔ اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے سے سب سے مفصل تصنیف معروف یونیورسٹی جامعہ امام‬
‫محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر عبد الکریم النملة کی مایہ ناز کتاب ”المہذب فی اصول الفقہ المقارن“ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ ڈاکٹر وہبہ الذحیلی کی کتاب”اصول الفقہ االسالمی“ میں چاروں مذاہب کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔اردو میں ادارہ‬
‫تحقیقات اسالمی اسالم آباد کی طرف سے شائع کردہ کتاب ”اصول فقہ ایک تعارف“اصول فقہ کے تقابلی مطالعے کے حوالے‬
‫سے مفید کتاب ہے۔‬

‫پانچویں قسم‪:‬قواعد فقہیہ اور مقاصد الشریعہ کا احیاء‬


‫فقہ و اصول فقہ کے ساتھ فقہ سے متعلق دو اہم علوم ”قواعد فقیہہ“اور ”مقاصد الشریعہ“آج کے فقہاء کی خصوصی توجہ کا‬
‫مرکز ہے؛کیونکہ فقہ کا ایک ادنی طالب علم بھی بخوبی جانتا ہے کہ پیش آمدہ مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے کے‬
‫لیے قواعد فقہیہ اور مقاصد الشریعہ سے واقفیت ایک فقیہ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ماضی کے فقہاء نے بھی اس میدان میں‬
‫اہم کتابیں تصنیف کی ہیں‪،‬عالمہ شاطبی کی الموافقات‪،‬معروف شافعی فقیہ عز الدین بن عبد السالم کی قواعد االحکام فی مصالح‬
‫االنام اور عالمہ ابن نجیم کی االشباہ و النظائر ماضی کی اہم تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔عصر حاضر میں زیادہ وسعت‪،‬جامعیت‬
‫اور مرتب انداز کے ساتھ ہر دو فنون کا احیاء کیا گیا ہے۔ان دو فنون کی تاریخ‪،‬مکمل تعارف اور از سر نو ترتیب و تدوین پر‬
‫مشتمل اہم اور مفید کتب سامنے آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے اہم عصری تصنیفات کا ایک مختصر خاکہ پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫قواعد فقہیہ سے متعلق عصر حاضر کی اہم تالیفات‬
‫عصر حاضر میں قواعد فقہیہ پر متنوع جہات سے کام ہوا ہے‪،‬قواعد فقہیہ کی تاریخ‪،‬تعارف اور اس میدان میں قدماء کی اہم‬
‫تالیفات کے تعارف کے حوالے سے عراق کے معروف عالم اور جامعہ امام محمد بن سعود کے معروف پروفیسر ڈاکٹر یعقوب‬
‫الباحسین کی کتاب”القواعد الفقہیہ“جامع ترین کتاب ہے‪،‬اس کے عالوہ معروف محقق ڈاکٹر احمد علی ندوی کی مایہ ناز کتاب‬
‫”القواعد الفقہیہ‪ ،‬مفہومھا‪ ،‬نشاتھا‪ ،‬تطورھا“ ڈاکٹر محمد الزحیلی کا ضخیم مقالہ”القواعد الفقہیہ و تطبیقاتھا فی المذاہب االربعہ“‬
‫ڈاکٹر عبد الوہاب ابو سلیمان کی کتاب ”النظریات و القواعد فی الفقہ االسالمی“ معروف محقق ڈاکٹر عبد ہللا بن عبد العزیز‬
‫العجالن کی کتاب ”اھمیة القواعد الفقہیہ فی الفقہ االسالمی“ بھی اہم کاوشیں ہیں۔فقہ کے اہم ابواب کے قواعد فقہیہ کو جمع کرنے‬
‫کے حوالے سے مصر کے معروف عالم ڈاکٹر بکر اسماعیل کی کتاب ”القواعد الفقہیہ بین االصالة و التوجیہ“ جس میں مصنف‬
‫نے بار ہ ابواب میں فقہ کے اہم ترین ابواب کے بنیادی قواعد کو تشریح و امثلة کے ساتھ جمع کیا ہے‪،‬اسی طرح ڈاکٹر احمد علی‬
‫ت“کے‬ ‫ندوی نے ابواب المعامالت کے اہم قواعد کو تین ضخیم جلدوں میں ”موسوعة القواعد و الضوابط الفقہیہ الحاکمة للمعامال ِ‬
‫نام سے جمع کیا ہے‪،‬فقہ اسالمی کے پانچ بنیادی قواعد کی تشریح کے حوالے سے معروف عالم ڈاکٹر صالح بن غانم السدالن کی‬
‫ضخیم کتاب”القواعد الفقہیہ الکبری و ما تفرع منھا“ اور مجلہ کے نناوے قواعد کی تشریح‪،‬توضیح اور مصادر سے متعلق نامور‬
‫فقیہ مصطفی الزرقاء کے والد احمد الزرقاء کی کتاب”شرح القواعد الفقہیہ“ اہم کتب ہیں۔قواعد فقہیہ میں اختالف کی وجہ سے‬
‫فقہاء کے اختالفات اور اس کے مسائل پر اثرات کے حوالے سے مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر محمد الروکی کی کتاب‬
‫”نظریة التعقید الفقہی و اثرھا فی اختالف الفقہاء“ اور شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید الخن کی مایہ ناز کتاب”اثر االختالف فی القواعد‬
‫االصولیہ فی اختالف الفقہاء“ اہم کتابیں ہیں۔ قواعد فقہیہ کے حوالے سے عصر حاضر کی سب سے بڑی اور تاریخی کاوش‬
‫”موسوعة القواعد الفقہیہ“ ہے‪،‬تیرہ جلدوں کے اس ضخیم موسوعہ کے مصنف معروف محقق ڈاکٹر صدقی البورنو ہے۔ اس میں‬
‫مصنف نے حروف تہجی کے اعتبار سے پوری فقہ اسالمی کے اہم قواعد و ضوابط کو جمع کیا ہے۔ اس ضخیم موسوعہ میں‬
‫چار ہزار سے زائد قواعد و ضوابط ہیں۔‬
‫مقاصد الشریعہ کے حوالے سے اہم عصری تالیفات‬
‫فقہ کی تاریخ کا عجیب ”اتفاق“ہے کہ مقاصد شریعت کو بطور ایک فن کے متعارف کروانے میں مالکی فقہاء کی خدمات بنیادی‬
‫حیثیت رکھتی ہیں‪،‬خاص طور پر معروف مالکی فقیہ عالم شاطبی وہ شخصیت ہیں‪،‬جنہوں نے اپنی مایہ ناز کتاب”الموافقات“لکھ‬
‫کر شریعت مطہرہ کے مقاصد کو ایک زندہ جاوید فن کے طور پر متعارف کروایا۔اسی طرح مقاصد شریعت کے احیاء میں بھی‬
‫ت اول“کی مانندہیں۔ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر احمد الریسونی نے مقاصد الشریعہ کے احیا ء‬ ‫مالکی فقہاء کی خدمات ”خش ِ‬
‫کے حوالے سے تجدید ی خدمات سر انجام دی ہیں‪،‬الریسونی نے سب سے پہلے ”نظریة المقاصد عند االمام الشاطبی“ لکھ کر اما‬
‫م شاطبی کے نظریہ مقاصد کو عصر حاضر کے اسلوب میں مرتب انداز میں پیش کیا۔اس کتاب کی مقبولیت کا اندازہ اس سے‬
‫لگایا جا سکتا ہے کہ اردو‪ ،‬انگلش اورفارسی تینوں اہم زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے‪،‬اس کے بعد ”مدخل الی مقاصد‬
‫الشریعة“ ”الفکر المقاصدی قواعدہ و فوائدہ“اور ”من اعالم الفکر المقاصدی“ جیسی اہم کتب لکھ کر اس فن کے مختلف جوانب‬
‫اور پہلووں سے علمی دنیا کو آگاہ کیا۔ اسی طرح تیونس کے معروف مالکی عالم و مفسر محمد طاہر بن عاشور نے ”مقاصد‬
‫فلسفہ مقاصد پر عصری اسلوب میں بہترین بحث کی ہے۔سوڈان کے مشہور عالم ڈاکٹر یوسف‬ ‫ٴ‬ ‫الشریعة االسالمیہ“لکھی‪،‬جس میں‬
‫حامد العالم نے ”المقاصد العامة للشریعة االسالمیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی۔اس کے عالوہ تیونس کے معروف مالکی‬
‫فقیہ ڈاکٹر نور الدین الخادمی کی”علم المقاصد الشرعیة“ معروف مصری عالم ڈاکٹر محمد سلیم العواکی ”مقاصد الشریعة‬
‫االسالمیة“ معروف عالم ڈاکٹر جاسر عودہ کی ”فقہ المقاصد“معروف فقیہ ڈاکٹر جمال الدین العطیہ کی ”نحو تفعیل مقاصد‬
‫الشریعة“ مراکش کے معروف عالم ڈاکٹر عالل الفاسی کی ”مقاصد الشریعة االسالمیة و مکارمھا“ معروف عالم محمد سعید‬
‫رمضان البوطی کی ”ضوابط المصلحہ فی الشریعة االسالمیة“ عراق کے معروف عالم ڈاکٹر طہ جابر العلوانی کی ”مقاصد‬
‫الشریعة“ اور معروف مصری عالم داکٹر بکر اسماعیل کی کتاب”مقاصد الشریعة االسالمیة تاصیال وتفعیال“ عصر حاضر کی اہم‬
‫تصنیفات شمار ہوتی ہیں۔معروف مصری عالم ڈاکٹر محمد کمال الدین االمام نے تین ضخیم جلدوں میں ”الدلیل االرشادی الی‬
‫مقاصد الشریعة االسالمیة“کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں مصنف نے مقاصد الشریعہ پر لکھی گئی قدیم و جدید‬
‫کتب کا مفصل تعارف پیش کیا ہے۔اس ضخیم موسوعہ پر مصنف یقینا مبارکباد کے مستحق ہیں۔عربی کی طرح اردو کا دامن‬
‫قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں‪،‬اور‬‫بھی اس فن سے خالی نہیں ہے‪،‬اسالمک فقہ اکیڈمی نے مقاصد الشریعہ کے حوالے سے ِ‬
‫تقریبا اوپر ذکر کردہ اکثر کتب کا اردو ترجمہ اکیڈمی کی طرف سے شائع ہوچکا ہے‪ ،‬جس میں ڈاکٹر محمد کمال الدین کا تیار‬
‫کردہ ضخیم موسوعہ ”الدلیل االرشادی الی مقاص ِد الشریعة“ بھی شامل ہے۔اس کے عالوہ ڈاکٹر نجات ہللا صدیقی کی کتاب‬
‫”مقاصد شریعت “ اس موضوع پر اردو میں ایک بہترین کتاب ہے‪،‬کتاب کے آٹھ ابواب میں مصنف نے مقاصد شریعت کے‬
‫مختلف پہلووں پر فاضالنہ بحث کی ہے‪،‬یہ کتاب ادارہ تحقیقات اسالمی۔اسالم آباد کی طرف سے شائع ہو ئی ہے۔‬
‫چھٹی قسم‪:‬مذاہب اربعہ کا مفصل تعارف‬
‫عصر حاضر میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے کہ مذاہب اربعہ کے تفصیلی تعارف پر مواد تیا ر‬ ‫ِ‬
‫ناقلین مذہب‪،‬اہم متون و شروح‪،‬راجح مرجوح اقوال کے‬ ‫ِ‬ ‫کیا جائے‪،‬جس میں مذہب کے بانی‪ ،‬اور اس کے براہ راست تالمذہ‪،‬‬
‫ضوابط‪،‬نامور فقہاء اوراصول استنباط و استخراج کے تعارف سمیت اہم مباحث شامل ہوں۔اس رجحان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ‬
‫ب اربعہ کو سامنے رکھ کر عصری مسائل‬ ‫عصر حاضر میں نت نئے مسائل کے حل کے لیے ایک فقہ کافی نہیں ہے؛بلکہ مذاہ ِ‬ ‫ِ‬
‫کا شریعت کی روشنی میں حل تالش کیا جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ کسی فقہی مذہب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے لیے اس‬
‫قابل‬
‫سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ضروری ہے۔مذاہب اربعہ کے تفصیلی تعارف کے حوالے سے درجہ ذیل عصری کاوشیں ِ‬
‫ذکر ہیں‪:‬‬
‫‪- ۱‬معروف مصری فقیہ شیخ ابو زہرہ مرحوم نے مذاہب فقہیہ کے تعارف کے حوالے سے قابل قدر خدمات سر انجام دی‬
‫ائمہ اربعہ کی مفصل سوانحات لکھیں ہیں‪،‬جن میں ہر امام کے تفصیلی حاالت‪،‬معروف اساتذہ‪،‬مشہور‬ ‫ہیں‪،‬موصوف نے ٴ‬
‫استنباط‪،‬دالئل اربعہ سے متعلق اس امام کی خاص آراء اور اس کی طرف منسوب مذہب کے مختلف‬ ‫ِ‬ ‫تصنیفات‪،‬اصول‬
‫ِ‬ ‫تالمذہ‪،‬اہم‬
‫پہلووں اور متنوع جوانب پر تحقیقی ابحاث شامل ہیں۔ان مفصل کتب کے عالوہ شیخ ابو زہرہ مرحوم کی دو اہم کتب ”تاریخ‬
‫قابل قدر کتب‬
‫المذاہب االسالمیہ“ اور ”محاضرات فی تاریخ المذاہب الفقھیہ“ بھی فقہی مذاہب کے تعارف کے حوالے سے ِ‬
‫ہیں۔شیخ ابو زہرہ مرحوم کے عالوہ معروف مصری ادیب احمد تیمور پاشا کی کتاب”نظرة تاریخیة فی حدوث المذاہب االربعہ“‬
‫اور معروف مصری فقیہ اور مفتی ڈاکٹر علی جمعہ کی ”المدخل لدراسة المذاہب الفقہیہ“ اہم کاوشیں ہیں۔اردو میں اس حوالے‬
‫ت ائمہ اربعہ“اہم کتاب ہے۔‬ ‫سے بر صغیر کے معروف مورخ قاضی اطہر مبارکپوری کی کتاب”سیر ِ‬
‫‪- ۲‬مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے اردن کے معروف عالم داکٹر احمد سعید حوی کی کتاب ”المدخل الی مذہب ابی‬
‫احنیفہ “اہم کاوش ہے‪،‬اس کے عالوہ جامعہ امام محمد بن سعود سے شائع شدہ ضخیم مقالہ ”المذہب الحنفی‪ ،‬مراحلہ و طبقاتہ‪،‬‬
‫ضوابطہ و مصطلحاتہ‪ ،‬خصائصہ و مولفاتہ“ مذہب حنفی کے تعارف کے حوالے سے عصر حاضر کی مفصل ترین کتاب ہے۔‬
‫دو ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے حنفی مذہب کے تعارف کے حوالے سے کوئی بحث تشنہ نہیں چھوڑی‬
‫ہے۔اس کے عالوہ جامعہ قطر کے پروفیسر داکٹر محمد الدسوقی کی مایہ ناز کتاب”االمام محمد و اثرہ فی الفقہ االسالمی“ قابل‬
‫ذکر کتاب ہے‪،‬اس میں مصنف نے خاص طور پر مذہب حنفی کی تدوین کے حوالے سے قابل قدر بحث کی ہے‪،‬اس کی افادیت‬
‫کے پیش نظر ادارہ تحقیقات اسالمی۔ اسالم آباد کی طرف سے ”امام محمد بن حسن شیبانی اور ان کی فقہی خدمات “ کے نام‬
‫سے اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا ہے۔‬
‫‪- ۳‬مالکی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”مرکز زاید للتراث و التاریخ“ (متحدہ عرب امارات)کی طرف سے شائع شدہ‬
‫مفصل کتاب”المذہب المالکی‪ ،‬مدارسہ و مولفاتہ‪ ،‬خصائصہ و سماتہ“ بہترین کاوش ہے‪،‬اس کے عالوہ ”دار البحوث للداراسات‬
‫االسالمیہ“ (دبئی) کی طرف سے شائع شدہ کتاب”اصطالح المذہب عند المالکیہ“ مالکی مذہب کے مختلف ادوار اور ہر دور کے‬
‫علمی ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔مالکی مذہب کے فقہی ذخیرے کے تعارف کے حوالے سے‬
‫مراکش سے تعلق رکھنے والے عالم ڈاکٹر ابو الزبیر عباد السالم احمد کی کتاب”امہات الکتب الفقہیہ“ قابل ذکر ہے‪،‬اس میں‬
‫مالکی مذہب کی تدوین کے زمانے سے لے کر عصر حاضر تک زمانی ترتیب سے اہم فقہی کتب کا تعارف شامل ہے۔مالکی‬
‫ب فکر پائے جاتے‬ ‫مذہب کی خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ مالکی مذہب میں عراقی اور اندلسی دو مستقل مکات ِ‬
‫ت اوقاف کی طرف سے شائع شدہ کتاب ”المدرسة المالکیہ‬ ‫ہیں‪،‬اندلسی مکتب فکر کے تعار ف کے حوالے سے مراکش کی وزار ِ‬
‫االندلسیہ نشاة و خصائص“ جبکہ عراقی مکتب کی خصوصیات کے حوالے سے معروف مراکشی عالم ڈاکٹر عبد الفتاح الزنیقی‬
‫کا رسالہ ”المدرسة المالکیہ العراقیہ‪ ،‬نشأتھا‪ ،‬خصائصھا و اعالمھا“ مفید کتب ہیں۔نیز عبد العزیز بن صالح الخلیفی کی ضخیم‬
‫کتاب ”االختالف الفقہی فی المذہب المالکی مصطلحاتہ و اسبابہ“بھی اس حوالے سے ایک مفید کتاب ہے۔‬
‫‪- ۴‬شافعی مذہب کے تعارف کے حوالے سے ”المدخل الی مذہب االمام الشافعی“ایک جامع کتاب ہے‪،‬یہ کتاب اردن سے معروف‬
‫شافعی فقیہ ڈاکٹر سعید مصطفی الخن کے پیش لفظ کے ساتھ چھپی ہے‪،‬کتاب کے مصنف ڈاکٹر اکرم یوسف القواسمی ہے‪،‬چھ سو‬
‫سے زائد صفحات کی اس کتاب میں مصنف نے فقہ شافعی کے مختلف جوانب کا جامع تعارف کرایا ہے‪،‬کتاب شافعی مذہب کے‬
‫اہم ادوار‪،‬معروف فقہاء‪،‬فقہ و اصول فقہ کے ذخیرے کا زمانی ترتیب سے تعارف‪،‬فقہ شافعی کی خصوصیات واصطالحات‬
‫وغیرہ جیسے تحقیقی مباحث پر مشتمل ہے۔ اس کے عالوہ فقہ شافعی کی کتب کے تعارف کے حوالے سے ”موسسة الرسالة‬
‫ناشرون“ کی طرف سے چھپی کتاب”الخزائن السنیہ من مشاہیر الکتب الفقہیہ الئمتنا الفقہاء الشافعیہ“ اہم کتاب ہے‪،‬دو سو‬
‫صفحات پر مشتمل اس کتاب میں حروفِ تہجی کے اعتبار سے فقہ شافعی کے ذخیرے کی فہرست دی ہے۔فقہ شافعی کی‬
‫خصوصیات سے واقف حضرات جانتے ہیں کہ فقہ شافعی میں امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور اس کے اصول‬
‫سے معرفت انتہائی اہم ہے‪،‬ورنہ فقہ شافعی سے واقف حضرات کو علم ہے کہ امام شافعی کے قول قدیم و جدید کی تعیین اور‬
‫اس کے اصول سے کامل استفادہ نہیں ہوسکتا‪ ،‬اس حوالے سے سب سے مفصل کتاب ڈاکٹر لمین الناجی کا پی ایچ‪ ،‬ڈی مقالہ‬
‫”القدیم و الجدید فی فقہ الشافعی“ اہم ترین کتاب ہے‪،‬دو ضخیم جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مصنف نے قول قدیم و جدید کے‬
‫اصول‪،‬مصنفات‪،‬قدیم و جدید میں ترجیح کے اصولوں پر سیر حاصل بحث کی ہے‪ ،‬اس کے عالوہ انڈونیشیاء سے تعلق رکھنے‬
‫والے عالم ڈاکٹر احمد انحراوی عبد السالم کی ضخیم کتاب ”االمام الشافعی فی مذہبیہ القدیم و الجدید“ اہم کاوش ہے۔اسی طرح‬
‫جامعہ ام القری کے پروفیسر ڈاکٹر محمد بن ردید المسعودی کی کتاب ”المعتمد من قدیم قول الشافعی علی الجدید“ اور ڈاکٹر محمد‬
‫السمیعی الرستاقی کا مقالہ ”القدیم و الجدید من اقوال االمام الشافعی“ مفید کتابیں ہیں۔‬
‫عصر حاضر میں وقیع کام ہوا ہے‪ ،‬زمانہ تدوین سے لے کر عصر حاضر تک فقہ حنبلی کے فقہاء‬ ‫ِ‬ ‫‪- ۵‬فقہ حنبلی کے تعارف پر‬
‫اور ان کی تصانیف کے تعارف پر مشتمل مفصل کتاب”معجم المصنفات الحنابلہ“ہے‪،‬آٹھ جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں فقہ‬
‫حنبلی کے بارہ صدیوں کے فقہی ذخیرے اور علماء کا جامع تعارف شامل ہے۔کتاب کے مصنف مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر‬
‫ڈاکٹر عبد ہللا بن محمد الطریقی ہیں۔معروف حنبلی فقیہ ڈاکٹر بکر بن عبد ہللا ابو زید نے ”المدخل المفصل الی فقہ االمام احمد بن‬
‫حنبل و تخریجات اال صحاب“کے نام سے دو جلدوں میں ضخیم کتاب لکھی ہے‪ ،‬جس میں تفصیل سے فقہ حنبلی کا تعارف شامل‬
‫ہے۔دمشق کے معروف عالم عالمہ عبد القادر بن بدران کی کتاب”المدخل الی مذہب االمام احمد بن حنبل“فقہ حنبلی کے تعارف‬
‫کے حوالے سے ایک جامع کتاب ہے۔فقہ حنبلی کی کتب اور مخصوص اصطالحات کے حوالے سے ڈاکٹر عبد الملک بن عبد‬
‫ہللا کی کتاب ”المنھج الفقہی العالم للعلماء الحنابلة و مصطلحاتہم فی مولفاتہم“ اور جامعہ ملک عبد العزیز کے پروفیسر ڈاکٹر سالم‬
‫کی ضخیم کتاب ”مصطلحات الفقہ الحنبلی و طرق استفادة االحکام من ألفاظہ“ اہم کاوشیں ہیں‬
‫ساتویں قسم ‪:‬فقہ اسالمی اور معاصر قانون کا تقابلی مطالعہ‬
‫عصر حاضر میں مغرب عسکری‪،‬اقتصادی اور سیاسی لحاظ سے دنیا کی غالب قوت ہے‪،‬اس غلبے کا نتیجہ یہ ہے کہ فکری‬
‫میدان میں بھی مغربی افکار اور نظریات کی باالدستی ہے اور عالم اسالم کے بیشتر ممالک میں نظام حکومت و سیاست مغربی‬
‫قوانین کے مطابق ہے‪،‬ان ممالک کے دساتیر میں اسالمی قوانین کی آمیزش کے باوجود مغربی قوانین اور اقوام متحدہ کے‬
‫عالمی چارٹر کے اصولوں کا غلبہ ہے۔برصغیر میں انگریز ایک طویل عرصے تک قابض رہے‪،‬اس لیے یہاں انگریزی قوانین‬
‫اور برطانوی طرز فکر سے مرعوبیت مقتدر طبقے پر چھائی ہے‪،‬جبکہ افریقی اور بعض عرب ممالک پر فرانس نے ایک‬
‫لمبے عرصے تک قبضہ جمائے رکھا‪،‬جس کے نتیجے میں وہاں فرانسیسی قوانین اور افکار سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ مرعوب‬
‫ہے۔اسالمی طرز فکر کی مغلوبیت اور مغربی افکار کے غلبے کی وجہ سے اسالمی قوانین کے بارے میں عالم اسالم کا مقتدر‬
‫طبقہ ذہنی کشمکش اور فکری اضطراب کا شکار ہوگیا‪،‬اس فکری بے چینی کے نتیجے میں اسالمی قوانین کے بارے میں‬
‫متنوع اشکاالت اور مختلف اعتراضات پیدا ہوئے‪،‬اس لیے معاصر فقہاء اور اصحاب فکر و نظر کے حلقوں میں یہ رجحان پیدا‬
‫ہوا کہ اسالمی طرز حیات یعنی فقہ اسالمی اور مغربی قوانین کا ایک تقابلی جائزہ لیا جائے‪،‬جس میں فقہ اسالمی کے محاسن‬
‫اور خوبیوں کو آشکارا کیا جائے۔چنانچہ عصر حاضر میں فقہ اسالمی اور اس کے مختلف ابواب کا معاصر قانون سے تقابل پر‬
‫مفید تصنیفات منظر عام پر آئی ہیں۔ذیل میں اس حوالے سے چند اہم تصانیف کا ایک مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪- ۱‬معروف فقیہ علی علی المنصور نے فقہ اسالمی اور عصری قوانین کے اجمالی تقابل اور خاص طور پر فقہ االسرة(نظا م‬
‫نکاح و طالق )اور فقہ السیر یعنی اسالم کے بین اال قوامی قانون کے تقابلی جائزے پر”مقارنات بین الشریعة االسالمیة و القوانین‬
‫الوضعیہ “کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے ۔‬
‫‪-۲‬معروف مصری عالم ڈاکٹر سید عبد ہللا نے فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کے تقابلی جائزے پر مشتمل ایک ضخیم‬
‫کتاب”المقارنات التشریعہ بین القوانین الوضعیہ و التشریع االسالمي“ کے نام سے لکھی ہے‪،‬چار جلدوں کی اس مفصل کتاب میں‬
‫مصنف نے ت فصیل سے معاصر طرز کے مطابق فقہ مالکی اور فرانسیسی قوانین کا تقابلی جائزہ لیا ہے‪،‬مصنف نے اس‬
‫کتاب میں اسلوب یوں اختیار کیا ہے کہ دفعہ وار تقابلی جائزہ پیش کرتے ہیں‪،‬ایک دفعہ فرانسیسی قوانین سے لے کر پھر‬
‫التشریع االسالمی کا عنوان باندھ کر اس دفعہ سے متعلق فقہ اسالمی کی تعلیمات پیش کرتے ہیں۔‬
‫‪- ۳‬مصری عالم احمد ابو الفتح نے فقہ المعامالت اور مصری قوانین کے تقابل پر دو جلدوں میں ضخیم کتاب ”المعامالت في‬
‫الشریعة االسالمیة و القوانین المصریہ “کے نام سے ایک مفید کتاب لکھی ہے۔‬
‫‪-۴‬اخوان کے رہنما اور معروف عالم اور فقیہ ڈاکٹر عبد القادر عودہ شہید نے فقہ الجنایات کے تقابلی جائزہ پر مشتمل ”التشریع‬
‫االسالمي الجنائی مقارنا بالقانون الوضعي“کے نام سے ایک جامع کتاب تصنیف کی ہے‪،‬چار جلدوں کی اس ضخیم کتاب میں فقہ‬
‫الجنایات اور معاصر قوانین جرم و سزا کا بہترین تقابل پیش کیا گیا ہے‪،‬عودہ شہید کی یہ کتاب نہ صرف مصر بلکہ عالم اسالم‬
‫کے ممتاز محققین سے خراج تحسین وصول کر چکی ہے۔‬
‫‪-۵‬مشہور فقیہ خاص طور پر قضا کے حوالے سے قابل قدر تصنیفات کے مصنف محمد مصطفی الزحیلی نے ”التنظیم القضائي‬
‫في الفقہ االسالمی دراسة مقارنة“کے نام سے ایک قابل قدر کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں خاص طور پر شام‪،‬سعودی عرب اور‬
‫متحدہ عرب امارات کے نظام قضا کا اسالمی نظام قضا کے ساتھ ایک تقابلی جائزہ لیا ہے۔‬
‫مبادی‬
‫ٴ‬ ‫‪-۶‬اسالم کے نظام سیاست و حکومت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے معروف مصری کاتب عبد الحمید المتولی نے ”‬
‫المبادی الدستوریہ الحدیثة“ کے نام سے ایک جامع کتاب لکھی ہے‪،‬جس میں اسالم کے نظام‬ ‫ٴ‬ ‫نظام الحکم في االسالم مع المقارنة ب‬
‫سیاست کا معاصر انظمہ کے ساتھ تقابل پیش کیا گیا ہے۔‬
‫‪- ۷‬مکہ مکرمہ کی معروف یونیورسٹی جامعہ ام القری سے معروف فقیہ ڈاکٹر شعبان اسماعیل کی زیر نگرانی اسالم کے‬
‫عسکری قوانین کا بین االقوامی قانون جنگ کے ساتھ تقابل پر ایک ضخیم مقالہ چھپا ہے‪”،‬الحرب في الشریعة االسالمیة و القانون‬
‫الدولي العام “ کے نام سے دو جلدوں پر مشتمل اس مقالے میں مقالہ نگا ر نے تفصیل کے ساتھ معاصر قوانین جنگ و صلح کا‬
‫اسالمی قوانین کے ساتھ تقابل پیش کیا ہے۔‬
‫عالم عرب سے چھپی تقابلی مطالعے پر نمونے کے طور پر چند ایک تصانیف کا ذکر کیا گیا ہے‪،‬نہ حصر مقصود ہے اور نہ‬
‫ہی یہ بتانا مقصود ہے کہ مذکورہ موضوع پر یہی کتب حرف آخر ہیں‪،‬فقہ اسالمی کا مجموعی حیثیت سے اور فقہ اسالمی کے‬
‫مختلف ابواب کا معاصر قوانین اور انظمہ کے ساتھ تقابل آج کے فقہا ء کا پسندیدہ موضوع ہے‪،‬اور اس پر روز نت نئی کتب‬
‫منظر عام پر آتی ہیں‪،‬اردو میں اس حوالے سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کے مشہور زمانہ خطبات ”محاضرات فقہ “کا ذکر نہ‬
‫کرنا ناانصافی ہوگی‪،‬یہ خطبات اگر چہ بنیادی طور پر فقہ اسالمی کے تعارف پر مشتمل ہیں‪،‬لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس میں‬
‫جگہ جگہ فقہ اسالمی کا مغربی قوانین کے ساتھ بہترین تجزیہ پیش کیا ہے۔فقہ اسالمی کو عصری اسلوب میں سمجھنے واال‬
‫کوئی شخص ان محاضرات سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔‬
‫آٹھویں قسم ‪:‬ابواب فقہیہ پر تفصیلی کتب‬
‫عصر حاضر اختصاص و تخصص کا دور ہے‪،‬پورے فن کی بجائے فن کے مندرجات میں سے ہر ایک پر علیحدہ مواد تیار‬
‫کرنے کا رجحان ہے‪،‬بلکہ ایک باب کے مختلف پہلووں میں سے ہر پہلو پر الگ الگ کتب لکھنے کا رواج ہے۔یہ رجحان فقہ‬
‫اسالمی کے عصری ذخیرے میں بھی نظر آتا ہے‪،‬پوری فقہ اسالمی پر کتب لکھنے کی بجائے فقہ اسالمی کے ابواب میں سے‬
‫ہر ایک پر تفصیلی کتب لکھی گئی ہیں۔ذیل میں مختلف ابواب فقہیہ پر اہم عصری تصنیفات کی ایک فہرست دی جاتی ہے۔‬

‫‪:‬فقہ العبادات پر اہم کتب‬


‫العبادة في االسالم‪ ،‬مولف ‪:‬ڈاکٹر یوسف القرضاوی ‪۱-‬‬
‫مقاصد المکلفین في ما یتعبد بہ لرب العالمین‪ ،‬مولف‪ :‬ڈاکٹر عمر بن سلیمان االشقر ‪۲-‬‬
‫نظام االسالم ‪:‬العقیدة و العبادة‪،‬مولف ‪:‬محمد المبارک ‪۳-‬‬
‫احکام العبادات في التشریع االسالمي‪،‬مولف ‪:‬فائق سلیمان دلول‪۴-‬‬
‫فقہ الزکوة‪،‬مولف ‪:‬ڈاکٹر یوسف القرضاوی‪۵-‬‬
‫األرکان األربعہ‪،‬مصنف ‪:‬مفکر اسالم ابو الحسن علی ندوی‪۶-‬‬
‫‪:‬فقہ االحوال الشخصیہ یعنی اسالم کے نظام نکاح و طالق اور خاندانی نظام پر کتب‬
‫األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪ :‬عبد الوہاب الخالف ‪۱-‬‬
‫األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪:‬شیخ ابو زہرہ مرحوم‪۲-‬‬
‫خالصہ األحوال الشخصیہ‪،‬مصنف ‪ :‬محمد سالمة‪۳-‬‬
‫احکام األسرة‪،‬مصنف ‪:‬محمد مصطفی الشلبی‪۴-‬‬
‫الزوجہ في التشریع االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر ابراہیم عبد الحمید‪۵-‬‬
‫المفصل في أحکام المرأة و البیت المسلم‪،‬مصنف ڈاکٹر عبد الکریم زیدان آٹھ جلدوں پر مشتمل اس موضوع پر عصر حاضر کی ‪۶-‬‬
‫سب سے مفصل تصنیف ہے۔‬
‫‪:‬فقہ المعامالت و االقتصاد پر کتب‬
‫المعامالت المعاصرة المالیہ‪،‬مصنف ڈاکٹر علی سالوس ‪۱-‬‬
‫مصاد ر الحق في الفقہ االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر عبد الرزاق السنہوری‪۲-‬‬
‫األموال و نظریة العقد في الفقہ االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر محمد یوسف موسی‪۳-‬‬
‫البنوک االسالمیة‪،‬مصنف‪:‬ڈاکٹر شوق اسماعیل شحاتة‪۴-‬‬
‫االقتصاد االسالمي مذہبا و نظاما‪،‬مصنف ‪:‬ابراہیم الطحاوی‪۵-‬‬
‫مبادی فی االقتصاد االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر اسماعیل شحاتة‪۶-‬‬ ‫ٴ‬ ‫مفاہیم و‬
‫أصول اال قتصاد االسالمي۔مصنف ‪:‬ڈاکٹر رفیق العمری‪۷-‬‬
‫المعجم االقتصادي االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر احمد الشرباصی‪۸-‬‬
‫بحوث فقہیة في قضایا اقتصادیہ معاصرة‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر عمر سلیمان االشقر‪۹-‬‬
‫معجم المصطلحات المالیة و االقتصادیة في لغة الفقہاء‪،‬مصنف ‪:‬نزیہ حماد‪۱۰-‬‬
‫اسالم کا نظام معامالت معاصر فقہاء کا اختصاصی موضوع ہے‪،‬اور بال شبہ اس پر عصر حاضر میں ایک ضخیم مکتبہ وجود‬
‫میں آچکا ہے‪،‬پاکستانی علماء بھی اس میدان میں عالم اسالم سے پیچھے نہیں ہیں‪،‬سید ابو االعلی مودودی‪،‬ڈاکٹر تنزیل‬
‫الرحمن‪،‬ڈاکٹر محمود احمد غازی کی خدمات اور خاص طور پر شیخ االسالم مفتی تقی عثمانی صاحب کو اگر فقہ االقتصاد کا‬
‫”مجدد“کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا‪،‬حضرت شیخ االسالم صاحب کی اس میدان میں خدمات جلیلہ کا اعتراف صرف اسالمی‬
‫ممالک کی سطح پر نہیں‪،‬بلکہ عالمی سطح پر کیا جاچکا ہے۔ہللا تعالی حضرت کا سایہ تا دیر عالم اسالم پر قائم و دائم رکھیں۔‬
‫‪:‬فقہ الجنایات و الحدود پر کتب‬
‫‪۱‬۔ التشریع الجنائي االسالمي مقارنا بالقانون الوضعي‪،‬مولف ‪:‬عبد القادر عودہ‬
‫‪۲‬۔دراسات في الفقہ الجنائي االسالمي‪،‬مصنف‪:‬عوض محمد عوض‬
‫‪۳‬۔نظریات في الفقہ الجنائي االسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۴‬۔القصاص في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۵‬۔التعزیر في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫‪۶‬۔التعزیر في الشریعة اإلسالمیة‪،‬مصنف ‪:‬عبد العزیز عامر‬
‫‪۷‬۔نظام العاقلة في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬عوض محمد عوض‬
‫‪۸‬۔الدیة في الشریعة اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬احمد فتحی بھنسی‬
‫شحت الجندی‬ ‫‪۹‬۔جرائم االحداث في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمود ٓ‬
‫‪۱۰‬۔الفقہ الجنائی في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬امیر عبد العزیز‬
‫‪:‬فقہ الدولہ یعنی نظام حکومت و سیاست پر کتب‬
‫۔مبادی نظام الحکم في اإلسالم‪،‬مصنف عبد الحمید المتولی‬
‫ٴ‬ ‫‪۱‬‬
‫‪۲‬۔الدولة في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬عبد الحمید المتولی‬
‫‪۳‬۔النظریات السیاسیہ اإلسالمیہ‪،‬مصنف ‪:‬ضیاء الدین الریس‬
‫‪۴‬۔فقہ الخالفة و تطورہا‪،‬مصنف‪،‬عبد الرزاق السنہوری‬
‫‪۵‬۔الحاکم و أصول الحکم في النظام السیاسي اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬صبحی عبدہ سعید‬
‫‪۶‬۔مراجعات في الفقہ السیاسي اإلسالمي‪،‬مصنف سلیمان بن فھد العودہ‬
‫‪۷‬۔نظریة الدولة و آدابھا في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬سمیر عالیہ‬
‫‪۸‬۔قواعد نظام الحکم في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬محمدود الخالدی‬
‫فقہ االقتصاد کی طرح فقہ الخالفة معاصر فقہاء کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے‪،‬پاکستانی علماء میں سے شیخ االسالم مفتی تقی‬
‫عثمانی صاحب‪،‬موالنا گوہر رحمان‪،‬سید ابو العلی مودودی‪،‬موالنا امین احسن اصالحی‪،‬موالنا محمد زاہد اقبال کی تصانیف‬
‫(نمونے کے طور پر چند علماء کا نام لیا‪،‬ورنہ اس میدان میں برصغیر کے علماء کی خدمات جلیلہ کافی زیا دہ ہیں‪،‬جو مستقل‬
‫مضمون کا متقاضی ہیں ) اور خاص طور پر جامعہ حقانیہ کے سابق استاد موالنا عبد الباقی حقانی کی ضخیم اور مایہ ناز‬
‫تصنیف ”السیاسة واالدارة في اإلسالم “اہم عصری کاوشیں ہیں۔‬
‫‪:‬فقہ القضاء پر کتب‬
‫‪۱‬۔نظام القضاء في ا لشریعة اإلسالمیہ‪،‬مصنف ‪:‬عبد الکریم زیدان‬
‫‪۲‬۔النظام القضائي في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمد رافت عثمان‬
‫‪۳‬۔السلطات الثالث فیاإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬عبد الوہاب الخالف‬
‫‪۴‬۔التنظیم القضائي في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬محمد مصطفی الزحیلی‬
‫‪۵‬۔القضاء و نظامہ‪،‬مصنف ‪:‬عبد الرحمن ابراہیم عبد العزیز‬
‫‪۶‬۔طرق االثبات الشرعیہ‪،‬مصنف ‪:‬احمد ابراہیم بک‬
‫‪۷‬۔القضا في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬علی مشرفہ‬
‫برصغیر کے علماء میں سے ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ”ادب القاضی “ اورمجاہد االسالم قاسمی صاحب کی مایہ ناز کتاب‬
‫”اسالم کا عدالتی نظام “اس سلسلے کی اہم کتابیں ہیں۔‬
‫‪:‬فقہ العالقات الدولیہ یعنی اسالم کے قانون بین الممالک پر کتب‬
‫‪۱‬۔سیاسة الدولة اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬ڈاکٹر محمد حمید ہللا‬
‫‪۲‬۔العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬ابراہیم عبد الحمید‬
‫‪۳‬۔القانون و العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬صبحی محمصانی‬
‫‪۴‬۔الشریعہ و القانون الدولي العام‪،‬مصنف ‪:‬علی علی المنصور‬
‫‪۴‬۔آثار الحرب في الفقہ اإلسالمي‪،‬مصنف ‪:‬وہبہ الزوحیلی‬
‫‪۵‬۔العالقات الدولیہ في اإلسالم‪،‬مصنف ‪:‬محمد ابوزہرہ‬
‫‪۶‬۔أحکام القانون الدولي في الشریعة اإلسالمیة‪،‬مصنف ‪:‬حامد سلطان‬
‫‪۷‬۔اإلسالم و العالقات الدولیة‪،‬مصنف ‪:‬احمد مبارک‬
‫‪۸‬۔اسالم کا قانون بین الممالک‪،‬محاضرات ڈاکٹر احمد محمود غازی‬
‫نویں قسم ‪:‬معدوم فقہی مسالک کا احیا ء‬
‫فقہ کے دور تدوین میں عالم اسالم کے معروف بالد سے قابل قدر مجتہدین اٹھے‪،‬اور ہر ایک نے قرآ ن و سنت سے مسائل فقہیہ‬
‫کے اسنتباط و استخراج کے سلسلے میں ناقابل فراموش خدمات سر انجام دیں‪،‬چنانچہ ائمہ اربعہ کے عالوہ شام سے امام‬
‫اوزاعی‪،‬مصر سے امام لیث بن سعد‪،‬عراق سے امام داود ظاہری‪،‬خراسان سے امام اسحاق بن راہویہ‪،‬اور طبرستان سے امام‬
‫جریر بن طبری قابل ذکر ہیں۔لیکن مختلف اسباب اور عوامل کی بنا پر ائمہ اربعہ کے عالوہ بقیہ مسالک معدوم ہوگئے۔ان ائمہ‬
‫مجتہدین کے اقوال فقہیہ‪،‬اصول استنباط تفسیر‪،‬حدیث اور کتب فقہ میں بکھرے ہوئے ہیں۔عصر حاضر میں ایک رجحان یہ پیدا‬
‫ہوا ہے کہ ان ائمہ مجتہدین کی بکھری فقہی کاوشوں کو یکجا کیا جائے اور نت نئے مسائل میں ان کے اقوال اور فقہی بصیرت‬
‫سے استفادہ کیا جائے۔کیونکہ ان کے اصول استنباط سے حوادث و نوازل پر حکم شرعی لگانے سے نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔‬
‫‪ :‬اس سلسلے میں درجہ ذیل عصری کاوشیں قابل ذکر ہیں‬
‫‪۱‬۔امام اوزاعی کی فقہی اقوال کے بارے میں محقق شہیر محمد رواس قلعہ جی کی ضخیم کتاب ”موسوعة فقہ اإلمام‬
‫األوازعي“قابل ذکر ہے‪،‬اس کے عالوہ عبد المحسن بن عبد العزیزکی کتاب ”مذہب اإلمام األوازاعي “اور عبد العزیز سید االہل‬
‫کی مفید کتاب ”اإلمام األوزاعی فقیہ أہل الشام“ اہم کاوشیں ہیں۔‬
‫‪۲‬۔امام لیث بن سعد کے حوالے سے محقق قلعہ جی ”موسوعة فقہ اللیث بن سعد “ڈاکٹر عبد الحلیم کی ”اللیث بن سعد إمام أہل‬
‫مصر“اور ڈاکٹر سعد محمود کی مایہ ناز کتاب ”فقہ اللیث بن سعد في ضوء الفقہ المقارن “اہم کتب ہیں۔‬
‫‪۳‬۔معدوم فقہی مسالک کے بارے میں اہم عصری تصنیف جامعہ جزائر سے چھپا مقالہ ”المذاہب المفقہیة المندثرة أثرہا في التشریع‬
‫اإلسالمي “قابل ذکر ہے‪،‬اس میں مقالہ نگار نے ان تمام ائمہ مجتہدین اور ان کی فقہ سے بحث کی ہے‪،‬جن کے مسالک حوادث‬
‫زمانہ کی نظر ہوگئے۔‬
‫‪۴‬۔سلف کی فقہی اقوال کو جمع کرنے کے سلسلے میں محقق معروف محمد رواس قلعہ جی کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں‬
‫گی‪،‬موصوف نے صحابہ و تابعین میں سے معروف حضرات کے فقہی اقوال جمع کرنے بیڑا اٹھایا اور تقریبا اٹھا رہ کے قریب‬
‫موسوعات تیار کر گئے۔ہللا مصنف کو اس پر اجر جزیل عطا فرمائے۔‬
‫دسویں قسم ‪:‬ماجستیر‪،‬ایم فل اور پی ایچ ڈی مقاالت‬
‫عصر حاضر کی فقہی بیدار ی اور انقالب میں عالم اسالم کی مشہور جامعات سے فقہی موضوعات پر ایم فل اور پی ایچ ڈی‬
‫کے مقاالت کا بنیادی کردار ہے۔جامعة االزہر‪،‬جامعہ اسالمیہ مدینہ منورہ‪،‬جامعہ االمام محمد بن سعود‪،‬جامعہ ام القری‪،‬دمشق‬
‫یونیورسٹی‪،‬جامعہ زرقاء‪،‬بین االقوامی اسالمی یونیورسٹی اسالم ٓباد‪،‬عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی‪،‬پنجاب یونیورسٹی کا اسالمک‬
‫ڈیپارٹمنٹ‪ ،‬شیخ زاید اسالمک سنٹر‪،‬جامعہ کراچی اور عالم اسالم کی دیگر معروف جامعات سے مختلف فقہی موضوعات پر بے‬
‫شمار مقاالت لکھے گئے۔ان مقاالت میں فقہ و اصول فقہ کے مختلف جوانب اور متنوع پہلووں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ان‬
‫مقاالت کی بدولت قدیم فقہی ذخیرے کے مکنون خزانے منصہ شہود پر آئے اور سینکڑوں کتب سے جمع شدہ نوادرات ان‬
‫مقاالت میں یکجا ہوئے۔جو ظاہر ہے فقہ و اصول فقہ پر تحقیق کرنے والے حضرات کے لیے بیش بہا اور قیمتی سرمایہ‬
‫‪ :‬ہیں۔نامور فقہیہ شیخ مصطفی زرقاء ان مقاالت کی افادیت کے حوالے سے لکھتے ہیں‬
‫و بذلک وجدت رسائل ماجستیر و دکتورا في موضوعات فقہیة کثیرة‪ ،‬تستوعب کل موضوع و تنقاشہ بتعمق من مختلف جوانبہ‪،‬‬
‫)وتغني الباحثین و المراجعین (المدخل الفقہي العام ‪۲۵۰/۱:‬‬
‫ترجمہ ‪:‬اور یوں ایم ائے اور پی ایچ ڈی کے مقاالت بے شمار فقہی موضوعات پر وجود میں آئے۔جو ہر قسم کی فقہی‬
‫موضوعات پر مشتمل ہیں۔ان مقاالت میں موضوع کے مختلف جوانب کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا جاتا ہے۔ ان مقالہ جات نے‬
‫محققین اور طویل کتب کی طرف مراجعت کرنے والوں کی ضروریات کو پورا کیا۔‬
‫گیارہویں قسم‪:‬قدیم فقہی کتب کی نئے طرز پر تحقیق کے ساتھ اشاعت‬
‫عصر حاضر میں فقہی کتب کی نئے طرز پر اشاعت کی داغ بیل ڈالی گئی‪،‬اس مقصد کے لیے ہر ملک میں کچھ افراد نے‬
‫مستقل طور پر اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کیا‪،‬کتب پر کام کرنے والے ان حضرات کو محققین کا نام دیا گیا۔یہ محققین‬
‫کسی فقہی کتاب کو منتخب کرکے درجہ ذیل جہات اس پر کام کرتے ہیں‪،‬پھر اشاعتی ادارے دیدہ زیب ٹائٹل‪،‬عمدہ کاغذ اور‬
‫‪:‬کمپیوٹرائز کتابت کے ساتھ اس کو شائع کرتے ہیں‬
‫‪۱‬۔کتاب کے مخطوطات کے درمیان تقابل اور ان مخطوطات میں اختالفات کی نشاندہی‬
‫‪۲‬۔کتاب میں وارد شدہ آیات‪،‬احادیث اور آثار کی تخریج‬
‫‪۳‬۔کتاب میں مذکور اعالم اور شخصیات کے مختصرحاالت‬
‫‪۴‬۔کتاب کے مشکل الفاظ کی حاشیے میں وضاحت‬
‫‪۵‬۔ہر جلد کے آخر میں موضوعات کی تفصیلی فہرست اور آخری جلد میں کتاب کے جملہ مضامین کی ابجدی فہرست اور‬
‫اشاریہ‬
‫‪۶‬۔آخری جلد میں تخریج شدہ آیات اور روایات کی الفبائی فہرست‬
‫‪۷‬۔کتاب کے شروع میں ”مقدمة التحقیق“ کے نام سے ایک جامع مقدمہ‪،‬جس میں مصنف کے تفصیلی حاالت‪،‬دیگر تصانیف‪،‬‬
‫مذکورہ کتاب کا تعارف اوراپنی تحقیق کا منہج ذکر کیا جا تا ہے۔‬
‫مذکورہ طرز تحقیق کے ساتھ عالم عرب خصوصا بیروت سے تقریبا تمام مسالک کی فقہی کتب تحقیق کے ساتھ شائع ہو چکی‬
‫ہیں۔‬

‫بارہویں قسم ‪:‬فقہی ویب سائٹس اور سافٹ وئیرز‬


‫عصر حاضر سائنس و ٹیکنالوجی کا دور ہے‪،‬کتب و رسائل کی اشاعت کے ساتھ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے معلومات‬
‫تک رسائی کو انتہائی آسان بنادیا۔ہر موضوع سے متعلق بال مبالغہ ہزاروں ویب سائٹس وجود میں آچکی ہیں۔آج کے بالغ نظر‬
‫فقہاء اور اہل علم اس اہم ٹیکنالوجی کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی آگاہ ہیں‪،‬اور اس میدان میں فقہ اسالمی کے حوالے سے‬
‫قابل قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔فقہ اسالمی تک رسائی اور فقہ اسالمی سے استفادہ ہر عام و خاص کے لیے آسان بنانے کے‬
‫لیے معاصر فقہاء نے ٹیکنالوجی کے میدان میں متنوع کام کئے ہیں۔ایک طرف ایسی فقہی ویب سائٹس بنائی گئیں ہیں‪،‬جن پر‬
‫چاروں مسالک کی اہم کتب‪،‬فقہی رسائل و مقالہ جات اور آج کے نت نئے مسائل سے متعلق مفید ابحاث موجود ہیں۔اس کے ساتھ‬
‫ایسے فقہی سافٹ ویئرز اور پروگرام ترتیب دئیے ہیں‪،‬جن میں فقہ اسالمی کا معتد بہ ذخیرہ سرچ کی جدید سہولت کے ساتھ‬
‫موجود ہے‪،‬ان مفید اقدامات کا نتیجہ یہ ہے کہ محققین اور مراجعت کرنے والوں کے لیے کسی فقہی مبحث کی تالش آج کے‬
‫دور میں پہلے زمانوں کی بنسبت انتہائی آسان ہے۔ذیل میں اس حوالے سے چند اہم ویب سائٹس اور سافٹ ویئرز کا ذکر کیا جاتا‬
‫‪ :‬ہے‬
‫‪۱‬۔ نیٹ کی دنیا میں قاضی ابویعلی المغربی کا نام اجنبی نہیں ہے‪،‬اسالف کے علمی ذخیرے کو نیٹ پر منتقل کرنے کے حوالے‬
‫سے موصوف کی قابل قدر خدمات ہیں‪،‬موصوف نے چاروں مسالک کے فقہی ذخیرے کے حوا لے سے الگ الگ چار بالگ‬
‫بنائے ہیں‪،‬یہ بالگز ”خزانة الفقہ الحنفي“ خزانة الفقہ المالکي“ ”خزانة الفقہ الشافعي“ اور ”خزانة الفقہ الحنبلي“کیانام سے موسوم‬
‫ہیں۔ ان بالگز میں ہر مسلک کی اہم کتب تین طرح کے عنوانات کے ساتھ رکھی گئیں ہیں‪،‬تاکہ مطلوب کتاب کی تالش میں کسی‬
‫‪ :‬قسم کی دقت پیش نہ آئے‬
‫‪۱‬۔ زمانی ترتیب کے ساتھ کتب رکھی گئیں ہیں‪،‬چنانچہ ہر بالگ میں دوسری صدی سے لے کر پندرہویں صدی تک ہر صدی‬
‫کی اہم کتب موجود ہیں۔‬
‫‪۲‬۔اہم‪،‬معروف اور کثیر التصانیف مصنّفین کی ترتیب سے بھی کتب دستیاب ہیں ۔‬
‫‪۳‬۔ موضوعات کی ترتیب سے بھی کتب رکھی گئیں ہیں۔‬
‫‪ :‬ان بالگز کے ویب ایڈریس یہ ہیں‬
‫‪۱ http://hanafiya.blogspot.com/‬۔خزانة الفقہ الحنفي‬
‫‪۲ http://malikiaa.blogspot.com/‬۔ خزانة الفقہ المالکي‬
‫‪۳ http://chafiiya.blogspot.com/‬۔خزانة الفقہ الشافعي‬
‫‪۴ http://hanabila.blogspot.com/‬۔خزانة الفقہ الحنبلي‬
‫‪۲‬۔فقہ اسال می کے حوالے سے نیٹ کی دنیا کی غالبا سب سے بڑی ویب سائٹ ”الشبکة الفقہیہ “ ہے۔اس ویب سائٹس پر درجنوں‬
‫عنوانات کے ساتھ فقہی کتب‪،‬مقالہ جات‪،‬اہم مضامین‪،‬رسائل اور دیگر فقہی کتب موجود ہیں۔اس کے اہم عنوانات کا یک خاکہ‬
‫‪ :‬پیش کیا جاتا ہے‪،‬تاکہ اس ویب سائٹ کی وسعت اور افادیت کا ایک خاکہ سامنے آئے‬
‫‪۱‬۔الملتقی الفقہي العام ‪۲‬۔ملتقی الفقہ المقارن ‪۳‬۔ملتقی المذہب الحنفي ‪۴‬۔ملتقی المذہب المالکي ‪۵‬۔ ملتقی المذہب الشافعي ‪۶‬۔ملتقی‬
‫المذہب الحنبلي ‪۷‬۔ملتقی فقہ االصول ‪۸‬۔ملتقی التنظیر االصولي ‪۹‬۔ملتقی المناہج األصولیة ‪۱۰‬۔ملتقی األعالم و االصطالحات‬
‫األصولیة ‪۱۱‬۔ملتقی فقہ المقاصد ‪۱۲‬۔ملتقی القواعد و الضوابط الفقہیة ‪۱۳‬۔ملتقی التخریج و النظائر و الفروق ‪۱۴‬۔ملتقی النظریة‬
‫الفقہیة و التقنین المعاصر ‪۱۵‬۔ملتقی فقہ األرکان ‪۱۶‬۔ملتقی فقہ المعامالت ‪۱۷‬۔ملتقی فقہ األوقاف ‪۱۸‬۔ملتقی فقہ األسرة ‪۱۹‬۔ملتقی فقہ‬
‫الجنایات‪ ،‬الحدود ‪۲۰‬۔ملتقی فقہ األقضیہ و ااألحکام ‪۲۱‬۔ملتقی فقہ السیاسة الشرعیة‬
‫‪ :‬اس کے عالوہ بھی مفید عنوانات کے ساتھ فقہی مواد موجود ہے۔ا سکا ایڈریس یہ ہے‬
‫‪http://www.feqhweb.com/‬‬
‫‪۳ : http://feqh.al-‬۔فقہی مواد کے حوالے سے ”جامع الفقہ اإلسالمي“ بھی اچھی ویب سائٹ ہے۔اس کاویب ایڈریس یہ ہے‬
‫‪islam.com/‬‬
‫‪۴ :‬۔کتب فقہیہ اور خاص طور پر جدید فتاوی کی ایک اہم ویب سائٹ ”موقع الفقہ اإلسالمي “ ہے‪،‬اس کا ویب ایڈریس یہ ہے‬
‫‪http://www.islamfeqh.com/‬‬
‫‪۵‬۔ فقہی کتب اور مختلف فقہی موضوعات پر مواد کے حوالے سے ”موقع الفقہ “ ایک مفید ویب سائٹ ہے۔‬
‫‪http://www.alfeqh.com/‬‬
‫‪۶‬۔ سینکڑوں موضوعات پر اہم فتاوی کے حوالے سے ”الفتوی“ایک اہم ویب سائٹ ہے۔اس ویب سائٹ پر عالم عرب خاص طور‬
‫‪ http://www.alftwa.com/‬پر سلفی حضرات کے اہم علماء کے فتاوی کی کثیر تعداد موجود ہے۔‬
‫‪۷‬۔ فقہ المعامالت پر ایک اہم ترین ویب سائٹ ” مرکز األبحاث فقہ المعامالت المالیة “ ہے‪،‬اس ویب سائٹ پر معامالت کے‬
‫حوالے سے سینکڑوں مقاالت‪،‬کتب اور مضامین موجود ہیں۔‬
‫‪http://www.kantakji.com/‬‬
‫‪۸‬۔نیٹ کی دنیا کی معروف اور وسیع ویب سائٹ ”ملتقی أھل الحدیث“میں بھی فقہ اسالمی کے حوالے سے وسیع ذخیرہ موجود‬
‫ہے۔اس ویب سائٹ میں ”منتدی الدراسات الفقہیة“اور ”منتدی أصول الفقہ“ کے عنوان کے تحت کثیر ذخیرہ موجود ہے۔‬
‫‪http://www.ahlalhdeeth.com/vb/‬‬
‫‪۹‬۔مرکز علم و عمل دارالعلوم دیوبند کے ارباب دار االفتاء نے آن الئن فتاوی کی ایک وسیع ویب سائٹ بنائی ہے‪،‬جس میں ایک‬
‫اجمالی جائزے کے مطابق تقریبا ‪۲۵‬ہزار فتاوی موجود ہیں اور ان فتاوی جات میں تالش کی سہولت بھی مہیا کی گئی ہے۔‬
‫‪http://www.darulifta-deoband.org/‬‬
‫‪۱۰‬۔فقہی سافٹ وئیرز کے حوالے سے ایک جامع سافٹ وئیر”موسوعة الفقہ اإلسالمي “ ہے‪،‬جس میں فقہی کتب کی تقریبا چار‬
‫ہزار مجلدات کو اکٹھا کیا گیا ہے۔اس سافٹ وئیر میں متنوع طریقوں سے تالش کی سہولت کے ساتھ کسی کتاب کی عبارت کو‬
‫ڈاون لوڈ کیا تھا۔لیکن اب اسکا لنک کافی تالش کے‬ ‫کاپی پیسٹ کا آپشن بھی موجود ہے۔یہ سافٹ وئیر بندہ نے کافی عرصہ پہلے ٴ‬
‫باوجود نہیں مل سکا۔کسی صاحب کو مل جائے تو بندہ کو بھی مطلع فرمادیں۔‬
‫تیرہویں قسم ‪:‬فقہی مسائل پر اجتماعی غور و فکر کے لیے اداروں کا قیام‬
‫عصر حاضر کے اہل علم اور فقہاء میں فقہ اسالمی کے حوالے سے ایک رجحان یہ سامنے آیا ہے‪،‬کہ دور جدید کے پیدا کردہ‬
‫مسائل کا شریعت کی روشنی میں جائزہ لینے اور فقہ اسالمی پر مختلف پہلووں پر کام کرنے کے لیے اجتماعی فقہی ادارے قائم‬
‫کئے جائیں‪،‬جن میں عالم اسالم کی ممتاز علمی شخصیات اور مختلف مکاتب فقہیہ کے سر کردہ افراد شامل ہوں‪،‬تاکہ فقہی‬
‫مسائل پر اجتماعی غور و فکر کیا جاسکے‪،‬اور مذاہب اربعہ کی روشنی میں عصری مسائل اور فقہی چینلجز کا آسان اور اقرب‬
‫الی الصواب حل ممکن ہو سکے۔اجتماعی فقہی اداروں کے قیام کی کوششیں ہر سطح پر ہو ئیں‪ ،‬مختلف اسالمی ممالک میں‬
‫ملکی سطح کے فقہی ادارے بن گئے‪،‬اس کے ساتھ عالم اسالم کی سطح پر بھی عالمی اداروں کے قیام کی کوششیں ہوئیں۔ذیل‬
‫میں مختلف ممالک میں قائم شدہ معروف اداروں کی ایک فہرست دی جارہی ہے۔‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل (اسالم آباد‪،‬پاکستان) (‪ )۲‬المرکز العالمی اإلسالمي (بنوں‪ ،‬پاکستان ) (‪ )۳‬مجلس تحقیق مسائل حاضرہ )‪(۱‬‬
‫(کراچی‪،‬پاکستان ) (‪ )۴‬اسالمی فقہ اکیڈمی (انڈیا ) (‪ )۵‬مجلس تحقیقات شرعیہ (ندوة العلماء ) (‪ )۶‬ادارة المباحث الفقھیہ (جمعیت‬
‫علمائے ھند) (‪ )۷‬مجمع البحوث االسالمیہ (مصر ) (‪ )۸‬ھیئة کبار العلماء (سعودی عرب ) (‪ )۹‬یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق‬
‫(لندن ) (‪ )۱۰‬مجمع الفقہ اإلسالمي الدولی (او آئی سی ) (‪)۱۱‬المجمع الفقہ اإلسالمي (رابطہ عالم اسالمی ) (‪ )۱۲‬فقہائے شریعت‬
‫)اسمبلی (امریکہ ) (‪ )۱۳‬شمالی امریکی فقہ کونسل (شمالی امریکہ ) (‪ )۱۴‬االدارة العامة لال فتاء (کویت‬
‫ان میں سے بعض ادارے اب غیر فعال ہیں‪،‬البتہ بعض ادارے جیسے مجمع الفقہ اإلسالمي‪ ،‬اسالمی فقہ اکیڈمی‪،‬ھیئة کبار العلماء‬
‫اور یورپی مجلس افتاء و تحقیق کی فقہی کاوشیں عالم اسالم کی سطح پر ممتاز حثیت کی حامل ہیں۔اور بال شبہ درجنوں مسائل‬
‫پر ان فقہی اداروں نے مفید مواد تیار کیا ہے۔‬
‫عالم اسالم کے ممتاز اجتماعی اداروں کی خدمات‪،‬اجتماعی اجتہاد کی عصری کاوشوں اور اس سلسلے میں ہونے والی کوششوں‬
‫کے حوالے سے ادار ہ تحقیقات اسالمی۔اسالم آباد کی طرف سے شائع کردہ کتاب ”اجتماعی اجتہاد‪،‬تصور‪،‬ارتقاء اور عملی‬
‫صورتیں “ڈاکٹر محمد زبیر صاحب کا دو جلدوں پر مشمتل پی ایچ ڈی کا ضخیم مقالہ ”عصر حاضر اور اجتماعی اجتہاد “‬
‫جامعة االمارات العربیہ المتحدة کی طرف سے دو جلدوں پر مشمتل کتاب ”االجتہاد الجماعي في العالم اإلسالمي “اور معروف‬
‫عالم ڈاکٹر محمد اسماعیل شعبان کی کتاب ”االجتہاد الجماعي و دور المجامیع الفقہیة في تطبیقہ “اہم کتب ہیں۔‬
‫تحریر سمیع ہللا سعدی‪ ،‬ماہنامہ الشریعہ و ماہنامہ دیوبند‬
‫فقہ اسالمی کی تاریخ و تدوین‪-‬ایک جائزہ‬

‫ہرعلم وفن کی تدوین اور اس کے ارتقاء بتدریج پایہ کمال کو پہونچتا ہے ‪،‬فقہ اسالمی پر بھی تدوین کے کئی مراحل گذرچکے‬
‫ہیں۔علماء تاریخ فقہ کو پانچ دور میں تقسیم کرتے ہیں‪ ،‬پہال دور اس کی نشوونما اور ابتداء کا ہے جس کا سلسلہ ‪۱۰‬ھء تک‬
‫سے ‪۴۱‬ھء تک رہی ہے‪ ،‬تیسرا اور چوتھا دور اس جاری رہا‪ ،‬دوسرا دور اس کی وسعت کا ہے جس کی مدت عہد صحابہ‬
‫صغار صحابہ‬
‫ِ‬ ‫کے دورسے دوسری صدی ہجری کی ابتدا تک رہا ہے اور کی پختگی و کمال اور تدوین کا ہے ۔ تیسرا دور‬
‫چوتھا دور چوتھی صدی ہجری کے تقریبا ً نصف تک رہا۔ پانچویں دور میں فقہ اسالمی کا ِ‬
‫دور تقلید شروع ہوجاتا ہے‪،‬اور عہد‬
‫نبوی سے بُعد کی بنا پر لوگوں میں اسالف جیسی فقاہت اور فقہ اسالمی میں درک و کمال باقی نہیں رہتا ہے‪ ،‬اس لیے عام طور‬
‫پر لوگ ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب کے پیرو ہوجاتے ہیں۔‬

‫٭فقہ اسالمی کا پہال دوراور اس کی خصوصیات٭‬


‫آپﷺ کی رسالت ونبوت سنہ‪۶۱۰‬ء سے شروع ہوتی ہے اور وفات سنہ‪۱۰‬ھ مطابق سنہ‪۶۳۲‬ء میں ہوئی ‪،‬اس دور میں فقہ ‪1.‬‬
‫اسالمی کا سرچشمہ قرآن تھا‪ ،‬آپﷺ کے ارشادات اور آپﷺکی مکی ومدنی زندگی کے حاالت وواقعات قرآن کریم کی تشریح‬
‫دورنبوت میں فقہ اسالمی کا تمام ترمدار وحی پر تھا‪ ،‬چاہے وحی متلو قرآن کریم ہو یاغیرمتلو‬ ‫کی حیثیت رکھتے تھے‪،‬الغرض ِ‬
‫)احادیث مبارکہ۔(مقدمہ درمختار‪۶/۱:‬‬
‫تعالی کی طرف ‪2.‬‬ ‫ٰ‬ ‫فرمان باری پر ہے‪ ،‬فرق یہ ہے کہ قرآن مجید میں الفاظ ومعانی دونوں ہللا‬
‫ِ‬ ‫قرآن وحدیث کی بنیاد برا ِہ راست‬
‫ت خداوندی ہے اور‬ ‫سے ہیں اور حدیث میں الفاظ اور تعبیر رسول ہللاﷺ کی طرف سے ہےپس قرآن وحدیث کا سرچشمہ ذا ِ‬
‫خطاوں سے محفوظ‬ ‫ٴ‬ ‫واسطہ رسول ہللاﷺ کا ہے‪ ،‬اس لیے اس کے ذریعہ جوعلم حاصل ہوگا وہ معصوم ہوگا‪ ،‬یعنی غلطیوں اور‬
‫اور اجتہاد کے ذریعہ جواحکام اخذ کیے جاتے ہیں‪ ،‬ان میں خطاء کا احتمال موجود ہوتا ہے اور جب محفوظ طریقہ علم موجود‬
‫احکام فقہیہ کا‬
‫ِ‬ ‫ہوتوغیر محفوظ اور غلطی کا احتمال رکھنے والے ذریعہ علم کی ضرورت نہیں رہتی اسی لیے عہ ِد نبوی میں‬
‫مدار کتاب وسنت پرتھا۔‬
‫یوں تو طلوع اسالم کے ساتھ ہی فقہ اسالمی کا آغاز ہوگیاتھا؛ لیکن چوں کہ یہ وہ زمانہ تھا جس میں لوگ انتہائی سادہ‪ ،‬اور ‪3.‬‬
‫کی توجہات اس کی تدوین کی طرف مبذول نہ ہوسکیں‪ ،‬پھر حاالت ضروریات محدود تھیں‪ ،‬اسی وجہ سے فقہائے صحابہ‬
‫فتاوی و قضایا کے جمع و ترتیب‬ ‫ٰ‬ ‫فتاوی کی داغ بیل ڈالی اور فقہائے کوفہ نے‬
‫ٰ‬ ‫کے تقاضے کے پیش نظر فقہائے مدینہ نے تدوین‬
‫‪.‬پر زور دیا‬
‫چنانچہآپﷺ کے دور میں موجودہ زمانہ کی طرح فقہ اسالمی مدون نہیں ہوا تھا‪ ،‬جس طرح بعد میں فقہاء کرام نے ہرمسئلہ ‪4.‬‬
‫زمانہ نبوت میں نہیں ملتی ہے‪،‬‬ ‫ٴ‬ ‫کی تحقیق وتفتیش کرکے اس کے ارکان وشرائط اور آداب وسنن کی وضاحت کردی ‪،‬یہ تحدید‬
‫آپﷺ سے جو عمل جس طور پر صادر ہوتا‪ ،‬صحابہ کرام بعینہ بغیر کمی وبیشی کے اپنالیتے‪ ،‬مثال کے طور پر آپﷺ کو جس‬
‫طرح وضو کرتے اور نماز پڑھتے دیکھا صحابہ نے اسے اپنالیا‪،‬انہوں نے اس بات کی تحقیق وجستجو نہیں کی کہ وضو میں‬
‫)کتنے ارکان اور کیا کیا ہیں؟ نماز میں کون فرض ہے؟ کون واجب اور کون سنت ہے؟۔(تاریخ الفقہ االسالمی‪۴۱:‬‬
‫٭فقہ اسالمی کا دوسرا دور اور اس کی خصوصیات٭‬
‫کرام کا دور ہے ‪،‬نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد سنہ ‪۱۱‬ھ سے خلفاء راشدین اور دیگر کبار‬ ‫ؓ‬ ‫کبار صحابہ‬
‫یہ خلفاءِ راشدین اور ِ‬
‫صحابہ کا دور شروع ہوتا ہے اور یہ دور سنہ‪۴۰‬ھ میں اختتام کو پہونچتا ہے‪ ،‬آپﷺ کی وفات کے بعد فتوحات اسالمی کا‬
‫ت اسالمیہ میں‬
‫عمر کے دور خالفت میں توہرروز کوئی نہ کوئی عالقہ مملک ِ‬ ‫المتناہی سلسلہ شروع ہوا‪ ،‬بالخصوص حضرت ؓ‬
‫(ابوداود‪ )۵۱۳/۲:‬کے تحت اسالم کا پیغام پہونچانے کے لیے چہاردانگِ عالم میں‬
‫ٴ‬ ‫داخل ہو‪ ،‬صحابہ کرام “بلغوا عنی ولو آیہ”‬
‫پھیل گئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کا دوسری اقوام سے اختالط بڑھتا گیا‪ ،‬بعض عجمی اقوام دامن اسالم میں آئیں اور نئے‬
‫کرام کو ان حوادث اورواقعات کا حکم شرعی معلوم کرنے اور جاننے کی فکر‬ ‫ؓ‬ ‫نئے مسائل وواقعات درپیش ہونے لگے ‪،‬صحابہ‬
‫فتوی دینے کی اہلیت رکھتے تھے ‪،‬قرآن وحدیث کی طرف رجوع ہوئے‬ ‫ٰ‬ ‫کبار صحابہ جو‬‫الحق ہوئی؛ چنانچہ خلفاءراشدین اور ِ‬
‫اور قرآن وحدیث کے قواعد وجزئیات کو سامنے رکھ کراحکام شرعی بیان کرنا شروع کیا‪ ،‬جو حکم قرآن وحدیث میں مذکور نہ‬
‫ہوتا تو آپس میں مشورہ کرتے اور اجتہاد واستنباط سے کام لیتے‪ ،‬اس شورائی اور اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ بہت سے مسائل‬
‫ابوبکر و عمر خود بھی اس بات کے لیے کوشاں رہتے تھے کہ جن مسائل کے بارے میں‬ ‫ؓ‬ ‫حل ہوئے۔ (ترمذی‪ )۹۵/۲:‬حضرت‬
‫قرآن وحدیث کی کوئی نص موجود نہ ہو‪ ،‬ان میں اہم شخصیتوں کوجمع کیا جائے اور ان سے مشورہ کیا جائے اور اگروہ کسی‬
‫)بات پرمتفق ہوجائیں تواس کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ (سنن دارمی‪ ،۵۳/۱:‬باب الفتیا ومافیھا من الشدة‬
‫فقہاء صحابہ‬
‫فتوی نہ تھے اور نہ ہی ان سب سے دین کا علم حاصل کیا‬ ‫ٰ‬ ‫عالمہ ابن خلدون نے تحریر کیا ہے کہ صحابہ سب کے سب صاحب‬
‫جاتا تھا بلکہ دین کے خصوصی معلمین حاملین قرآن تھے‪ ،‬جو قرآن کے ناسخ ومنسوخ ‪،‬مشابہ ومحکم اور اس کے سارے دالئل‬
‫سے پوری طرح واقف تھے انھوں نے یاتونبی اکرمﷺسے برا ِہ راست تعلیم وتربیت حاصل کی تھی یاان جلیل القدر صحابہ سے‬
‫اکتساب فیض کیا تھا جنھوں نے برا ِہ راست نبی اکرمﷺ سے فیض پایا تھا‪ ،‬ان حضرات کو اس زمانہ میں قراء کہا جاتا تھا‪،‬‬
‫وفتاوی کی رونق تھے‪ ،‬جن میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی‪ ،‬ان میں سے سات‬ ‫ٰ‬ ‫کرام میں ایک سو تیس افراد فقہ‬ ‫ؓ‬ ‫صحابہ‬
‫فتاوی کثرت سے‬‫ٰ‬ ‫فتاوی کی وجہ سے مکثرین کہالتے ہیں؛ کیونکہ ان حضرات کے‬ ‫ٰ‬ ‫کرام اپنی فقہی خدمات اور کثرت‬ ‫ؓ‬ ‫صحابہ‬
‫طالب(‪)۳‬حضرت عبدہللا بن مسعودؓ(‪)۴‬ام‬ ‫ؓ‬ ‫خطاب(‪)۲‬حضرت علی بن‬ ‫ؓ‬ ‫منقول ہیں‪ ،‬ان کے اسماء گرامی یہ ہیں‪)۱(:‬حضرت عمر بن‬
‫عمر۔ (تاریخ الفقہ‬
‫عباس(‪)۷‬حضرت عبدہللا بن ؓ‬ ‫ؓ‬ ‫ثابت (‪)۶‬حضرت عبدہللا بن‬‫عائشہ(‪)۵‬حضرت زید بن ؓ‬ ‫ؓ‬ ‫المومنین حضرت‬ ‫ٴ‬
‫صدیق (‪)۲‬حضرت اُم‬ ‫ؓ‬ ‫وفتاوی میں متوسط تھے اُن کی تعداد تیرہ تھی‪)۱(:‬حضرت ابوبکر‬ ‫ٰ‬ ‫االسالمی‪ )۶۴:‬جو صحابہ فقہ‬
‫عثمان (‪)۷‬حضرت عبدہللا بن عمرو‬ ‫ؓ‬ ‫ابوہریرہ (‪)۶‬حضرت‬
‫ؓ‬ ‫خدری (‪)۵‬حضرت‬ ‫ؓ‬ ‫مالک (‪)۴‬حضرت ابوسعید‬ ‫ؓ‬ ‫سلمہ(‪)۳‬حضرت انس بن‬ ‫ؓ‬
‫وقاص (‪)۱۱‬حضرت سلمان‬ ‫ؓ‬ ‫اشعری (‪)۱۰‬حضرت سعد بن ابی‬
‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬ ‫)‬‫‪۹‬‬ ‫(‬ ‫زبیر‬
‫ؓ‬ ‫بن‬ ‫عبدہللا‬ ‫حضرت‬ ‫)‬‫‪۸‬‬ ‫(‬ ‫العاص‬
‫ؓ‬ ‫بن‬
‫صحابہ ہیں انہیں مقلین کہا جاتا ہے‪،‬‬
‫ؓ‬ ‫جبل‪ ،‬ان حضرات کے عالوہ جو‬ ‫فارسی (‪)۱۲‬حضرت جابر بن عبدہللاؓ (‪)۱۳‬حضرت معاذ بن ؓ‬ ‫ؓ‬
‫یادوفتاوی منقول ہیں۔ (مقدمہ ابن خلدون‪۴۴۶:‬‬
‫ٰ‬ ‫)یعنی ان حضرات سے صرف ایک‬
‫٭ ٭فقہ اسالمی کا تیسرا دور اور اس کی خصوصیات‬
‫اصاغرصحابہ اور اکابر تابعین کا دور ہے۔یہ حضرت‬
‫ؓ‬ ‫یہ دورپہلی صدی کے نصف سے دوسری صدی کے شروع تک ہے۔یہ‬
‫معاویہ کی امارت سے شروع ہوتا ہے اور بنواُمیہ کی حکومت کے خاتمہ کے قریبی زمانہ تک کا احاطہ کرتا ہے‪ ،‬اس عہد میں‬ ‫ؓ‬
‫‪:‬بھی بنیادی طور پراجتہادواستنباط کا وہی منہج رہا جوصحابہ نے اختیار کیا تھاــــ اس عہد کی چند خصوصیات قابل ذکر ہیں‬
‫صحابہ کا ورود ہوا‪ ،‬وہاں لوگوں نے ان سے ‪1.‬‬ ‫ؓ‬ ‫فقہاء صحابہ کسی ایک شہر میں مقیم نہیں رہےبلکہ مختلف شہروں میں مختلف‬
‫عمر‪ ،‬مکہ میں حضرت‬ ‫فتاوی کوقبولیت حاصل ہوئی‪ ،‬مدینہ میں حضرت عبدہللا بن ؓ‬ ‫ٰ‬ ‫استفادہ کیا اور اس شہر میں ان کی آراء اور‬
‫کیسان‪ ،‬کوفہ میں حضرت عبدہللا بن مسعودؓ اور‬ ‫ؒ‬ ‫طاوس بن‬
‫ٴ‬ ‫‪،‬‬ ‫رباح‬
‫ؒ‬ ‫ابی‬ ‫بن‬ ‫طاء‬ ‫ع‬ ‫‪،‬‬ ‫جبیر‬
‫عباس اور ان کے تالمذہ مجاہد بن ؒ‬ ‫ؓ‬ ‫عبدہللا بن‬
‫اشعری‪ ،‬حضرت حسن‬ ‫ؓ‬ ‫ابوموسی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬ ‫میں‬ ‫بصرہ‬ ‫‪،‬‬‫نخعی‬
‫ؒ‬ ‫ابراہیم‬ ‫اور‬ ‫یزیدؒ‬ ‫بن‬ ‫اسود‬ ‫‪،‬‬ ‫نخعی‬
‫ؒ‬ ‫علقمہ‪،‬‬ ‫باتوفیق‪،‬‬ ‫شاگردان‬
‫ِ‬ ‫ان کے‬
‫ؓ‬
‫صامت اور‬ ‫جبل‪ ،‬حضرت عبادہ بن‬ ‫سیرین‪ ،‬شام میں حضرت معاذ بن ؓ‬ ‫ؒ‬ ‫مالک اور ان کے شاگرد محمدبن‬ ‫ؓ‬ ‫بصری‪ ،‬حضرت انس بن‬ ‫ؒ‬
‫العاص اور ان‬
‫ؓ‬ ‫خوالنی؛ اسی طرح مصر میں حضرت عبدہللا بن عمروبن‬ ‫ؒ‬ ‫صحابہ سے استفادہ کرنے والے تابعین‪ ،‬ابوادریس‬ ‫ؓ‬ ‫ان‬
‫فتاوی کوبقول حاصل ہوا۔(اعالم الموقعین‪ ،۲۱/۱:‬اور اس کے بعد‪ ،‬فصل‪:‬االئمۃ الذین نشر‬ ‫ٰ‬ ‫کے‬ ‫وغیرہ‬ ‫حبیب‬
‫ؒ‬ ‫بن‬ ‫یزید‬ ‫بعد‬ ‫کے‬
‫)والدین والفقہ‬
‫صحابہ اور فقہاءِ تابعین کے مختلف شہروں میں مقیم ہونے کی وجہ سے فقہی مسائل میں اختالفات کی بھی کثرت ہوئی؛ ‪2.‬‬
‫غنی کی شہادت تک اہل علم یکجا تھے یاایک دوسرے سے قریب‬ ‫ت راشدہ میں خاص کر حضرت عثمان ؓ‬ ‫کیونکہ ایک توخالف ِ‬
‫واقع تھے‪ ،‬اس کی وجہ سے بہت سے مسائل میں اتفاق رائے ہوجاتا تھا‪ ،‬اب عالم اسالم کا دائرہ وسیع ہوجانے‪ ،‬دراز شہروں‬
‫میں مقیم ہونے اور ذرائع ابالغ کے مفقود ہونے کی وجہ سے اجتماعی اجتہاد کی جگہ انفرادی اجتہاد کا غلبہ تھا‪ ،‬دوسرے‬
‫مختلف شہروں کے خاالت‪ ،‬رواجات‪ ،‬کاروباری طریقے اور لوگوں کے فکری وعملی رحجانات بھی مختلف تھے‪ ،‬اس اختالف‬
‫کا اثر مختلف شہروں میں بسنے والے فقہاء کے نقطہ نظر پربھی پڑتا تھا؛ اس لیے بمقابلہ گذشتہ ادوار کے‪ ،‬اس دور میں‬
‫اختالفِ رائے کی کثرت ملتی ہے۔‬
‫نقطہ نگاہ سے علماء دوگروہ میں ‪3.‬‬ ‫یہ دور سابقہ ادوار سے اس اعتبار سے بھی امتیازی حیثیت رکھتا ہے کہ اس دور میں فقہی ٴ‬
‫منقسم ہوگئے اور دومدرسہ فکر وجود میں آئے‪ ،‬ایک حجاز‪ ،‬وہاں کے فقہاء اہل حجاز اور اصحاب حدیث سے مشہور ہوئے‪،‬‬
‫دوسرا عراق میں اوریہاں کے فقہاء اہل عراق اور اصحاب الرائے سے مشہور ہوئے۔ (فیض الباری‪۱۴/۱:‬۔ تاریخ الفقہ‬
‫طرزتعلیم کسی قدر مختلف اور جداگانہ تھا‪ ،‬مدرسہ حجاز کی بنیاد کتاب وسنت کے‬ ‫ِ‬ ‫االسالمی‪)۹۴:‬دونوں مدرسوں کا نہج اور‬
‫ظاہر اور الفاظ پر تھی اور یہاں کے علماء رائے اور قیاس سے حتی االمکان اجتناب کرتے‪ ،‬مدرسہ عراق کے علماء اور اساتذہ‬
‫نصوص کے الفاظ کے ساتھ معانی میں بھی غواصی کرتے‪ ،‬شریعت کے اصل منشاء کو پیش نظر رکھتے اور روایت ودرایت‬
‫)کو ساتھ لیکر چلتے۔(مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ‪۲۷/۱:‬‬
‫طرز استنباط کا تفاوت زیادہ نمایاں ہوگیا‪ ،‬جولوگ ظاہر حدیث پرقانع‬ ‫ِ‬ ‫تابعین کے عہد میں یہ دونوں طریقہ اجتہاد اور ان کے‬
‫تھے وہ “اصحاب الحدیث” کہالئے اور جونصوص اور ان کے مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کررائے قائم کرتے تھے وہ‬
‫“اصحاب الرائے” کہالئے‪ ،‬اصحاب الحدیث کا مرکز مدینہ تھا اور اصحاب الرحائے کا عراق اور خاص طور پرعراق کا‬
‫شہرکوفہ۔ اصحاب الرائی اور اصحاب الحدیث کے درمیان دواُمور میں نمایاں فرق تھا‪ ،‬ایک یہ کہ اصحاب الحدیث کسی حدیث‬
‫کوقبول اور رد کرنے میں محض سند کی تحقیق کوکافی سمجھتے تھے اور خارجی وسائل سے کام نہیں لیتے تھے‪ ،‬اصحاب‬
‫صول درایت کوبھی ملحوظ رکھتے تھے‪ ،‬وہ حدیث کوسند کے عالوہ اس طور پر بھی پرکھتے‬ ‫ِ‬ ‫صول روایت کے ساتھ ا ُ‬ ‫ِ‬ ‫الرائے ا ُ‬
‫ُ‬
‫تھے کہ وہ قرآن کے مضمون سے ہم آہنگ ہے یااس سے متعارض؟ دین کے مسلمہ اصول اور مقاصد کے موافق ہے یانہیں؟‬
‫دوسری مشہور حدیثوں سے متعارض تونہیں ہے؟ صحابہ کا اس حدیث پرعمل تھا یانہیں؟ اور نہیں تھاتواس کے اسباب کیا‬
‫ہوسکتے ہیںـدوسرا فرق یہ تھا کہ اصحاب الحدیث ان مسائل سے آگے نہیں بڑھتے تھے جوحدیث میں مذکور ہوں۔ (تاریخ الفقہ‬
‫)االسالمی‪ ،‬للشیخ محمد علی السایس‪۷۷:‬‬
‫حجاز کا اصحاب الحدیث کا مرکز بننا اور عراق کا اصحاب الرائی کا مرکز بننا کوئی اتفاقی امر نہیں تھا‪ ،‬اس کے چند بنیادی‬
‫اسباب تھے‪ّ ،‬اول یہ کہ حجاز عرب تہذیب کا مرکز تھا‪ ،‬عرب اپنی سادہ زندگی کے لیے مشہور رہے ہیں‪ ،‬ان کی تہذیب میں بھی‬
‫یہی سادگی رچی بسی تھی‪ ،‬عراق ہمیشہ سے د ُنیا کی عظیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور زندگی میں تکلفات وتعیشات اس تہذیب‬
‫کا جزوتھا‪ ,‬پھرمسلمانوں کے زیرنگین آنے کے بعد یہ عالقہ عربی اور عجمی تہذیب کا سنگم بن گیا تھا اس لیے بمقابلہ حجاز‬
‫کے یہاں مسائل زیادہ پیدا ہوتے تھے اور دین کے عمومی مقاصد ومصالح کوسامنے رکھ کراجتہاد سے کام لینا پڑتا تھا یہاں کے‬
‫فقہاء اگرعلمائے اصحاب حدیث کی طرح منصوص مسائل کے آگے سوچنے کوتیار ہی نہ ہوتے توآخر اُمت کی رہنمائی کا‬
‫عمر وغیرہ صحابہ کی چھاپ تھی‪ ،‬جن کا ذوق ظاہر نص‬ ‫دبستان حجاز پرحضرت عبدہللا بن ؓ‬ ‫ِ‬ ‫فرض کیوں کرادا ہوتا؟۔دوسرسے‬
‫علی‪ ،‬حضرت عبدہللا بن مسعودؓ جیسے فقہاء تھے‪ ،‬جن پراصحاب الرائی‬ ‫پرقناعت کرنے کا تھااور عراق کے استاذ اول حضرت ؓ‬
‫ندراز فکر کی چھاپ گھری ہوتی چلی‬ ‫ِ‬ ‫کے طریقہ اجتہاد کا غلبہ تھا‪ ،‬اس لیے دونوں جگہ بعد کے علماء پران صحابہ کے ا‬
‫ق باطلہ کا مرکز عراق ہی تھا‪ ،‬یہ لوگ اپنی فکر کی اشاعت کے لیے حدیثیں وضع کیا کرتے تھے‪ ،‬اس لیے‬ ‫گئی۔تیسرے اکثرفر ِ‬
‫صول درایت سے کام لیتے تھے‪ ،‬اس کے برخالف علماء حجاز‬ ‫ِ‬ ‫علماءِ عراق تحقیق حدیث میں اُصول روایت کے ساتھ ساتھ ا ُ‬
‫کووضع حدیث کے اس فتنہ سے نسبتا ً کم سابقہ تھا۔‬
‫ق باطلہ کا ظہور ہوا اور سیاسی اختالف نے آہستہ آہستہ مذہبی رنگ اختیار کرلیا۔ ‪4.‬‬ ‫اسی دور میں فر ِ‬
‫یوں تورسول ہللاﷺکے عہ ِد مبارک ہی سے حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہوچکا تھالیکن ایک جامع کتابی انداز پراس ‪5.‬‬
‫کی ترتیب عمل میں نہیں آئی تھی بلکہ مختلف لوگوں نے اپنی اپنی یادداشتیں لکھ رکھی تھیں۔ اب چونکہ زیادہ ترصحابہ‬
‫ق باطلہ کے نمائندوں نے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنی شروع کردی تھیں۔اسی کو‬ ‫رخصت ہوچکے تھے اور دوسری طرف فر ِ‬
‫عبدالعزیز نے تدوین حدیث کی طرف توجہ فرمائی اور حاملین علوم حدیث کو اس کی تدوین کا‬ ‫ؒ‬ ‫دیکھتے ہوئے حضرت عمر بن‬
‫زہری نے اسالمی تاریخ میں سب سے پہلے یہ کام انجام دیا۔‬ ‫ؒ‬ ‫شہاب‬ ‫إبن‬
‫حکم دیاچنانچہ آپ کے حکم پر ِ‬
‫‪:‬اس دور کے اہم فقہاء وارباب افتاء کے نام اس طرح ہیں ‪6.‬‬
‫مسیب‪ ،‬عروہ بن زبیر‪ ،‬ابوبکر بن مدینہ‪:‬اُم‬ ‫ؓ‬ ‫ابوہریرہ‪ ،‬سعید بن‬
‫ؓ‬ ‫عمر‪ ،‬حضرت‬ ‫صدیقہ‪ ،‬حضرت عبدہللا بن ؓ‬ ‫ؓ‬ ‫المومنین حضرت عائشہ‬
‫عبدالرحمن بن حارث بن ہشام‪ ،‬امام زین العابدین علی بن حسین‪ ،‬عبدہللا بن مسعود‪ ،‬سالم بن عبدہللا بن عمر‪ ،‬سلیمان بن یسار‪ ،‬قاسم‬
‫مولی عبدہللا بن عمر‪ ،‬محمدبن مسلم ابن شہاب زہری‪ ،‬امام ابوجعفر محمدباقر‪ ،‬ابوالزناد عبدہللا بن ذکوان‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫بن محمدبن ابوبکر‪ ،‬نافع‬
‫یحیی بن سعید انصاری‪ ،‬ربیعۃ الرائے رضی ہللا عنہم اجمعین۔‬ ‫ٰ‬
‫حضرت عبدہللا بن عباس‪ ،‬امام مجاہد‪ ،‬عکرمہ‪ ،‬عطاء بن ابی رباح۔‪:‬مکہ‬
‫علقمہ‪ ،‬نخعی‪ ،‬مسروق‪ ،‬عبیدة بن عمروسلمانی‪ ،‬اسود بن یزید نخعی‪ ،‬قاضی شریح‪ ،‬ابراہیم نخعی‪ ،‬سعید بن جبیر‪ ،‬عامر بن ‪:‬کوفہ‬
‫شراحیل شعبی رحمہم ہللا۔‬
‫انصاری‪ ،‬ابوالعالیہ‪ ،‬رفیع بن مہران‪ ،‬حسن بن ابی الحسن یسار‪ ،‬ابوالثعثاء‪ ،‬جابر بن زید‪ ،‬محمدبن ‪:‬بصرہ‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت انس بن مالک‬
‫سیرین‪ ،‬قتادہ رحمہم ہللا۔‬
‫حیوہ‪ ،‬حضرت عمربن عبدالعزیز رحمہم ہللا۔ ‪:‬شام‬ ‫عبدالرحمن بن غانم‪ ،‬ابوادریس خوالنی‪ ،‬مکحول‪ ،‬قبیصہ بن ذویب‪ ،‬رجاء بن ٰ‬
‫العاص‪ ،‬مرثد بن عبدہللا بن البزی‪ ،‬یزید بن ابی حبیب رحمہم ہللا۔‪:‬مصر‬ ‫ؓ‬ ‫حضرت عبدہللا بن عمروبن‬
‫یحیی بن ابی کثیر۔‪:‬یمن‬ ‫ٰ‬ ‫صنعانی‪،‬‬ ‫منبہ‬ ‫طاوس بن کیسان‪ ،‬وہب بن‬ ‫ٴ‬
‫٭فقہ اسالمی کا چوتھا دور٭‬
‫یہ دور اوائل دوسری صدی تانصف چوتھی صدی تکہے۔ یہ عباسی دور کی ابتداء سے شروع ہوکر چوتھی صدی ہجری کے‬
‫وسط تک محیط ہے‪ ،‬نہایت اہم ہے اور اسے نہ صرف فقہ اسالمی بلکہ تمام ہی اسالمی وعربی علوم وفنون کا سنہرا دور کہہ‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫‪:‬اس دور کی چند خصوصیات درجِ ذیل ہیں‬
‫عبدالعزیز کی اس کام کی تکمیل سے پہلے ہی وفات ‪1.‬‬ ‫ؒ‬ ‫حدیث کی جمع وکتابت کا کام شروع ہوچکا تھا لیکن حضرت عمربن‬
‫ہوگئی‪ ،‬اب عباسی دور میں باضابطہ حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا۔‬
‫چونکہ تدوین حدیث کے شانہ بشانہ بلکہ اس سے پہلے ہی گمراہ فرقوں اور خداناترس افراد واشخاص کی طرف سے وضع ‪2.‬‬
‫حدیث کا قبیح سلسلہ بھی شروع ہوچکا تھا اس لیے کچھ عالی ہمت‪ ،‬اہل علم نے روایت کی تحقیق کواپناموضوع بنایا اور کسی‬
‫رعایت اور لحاظ کے بغیر مشکوک ونامعتبر راویوں کے احوال سے لوگوں کوباخبر کرنے کی اہم ترین ذمہ داری اپنے سرلی‪،‬‬
‫ؒ‬
‫القطان‬ ‫یحیی بن سعید‬
‫ٰ‬ ‫یہ فن “جرح وتعدیل” کہالتا ہے؛ اسی دور میں اس فن کی بنیاد پڑی‪ ،‬اس فن کے سب سے بڑے امام‬
‫معین (متوفی‪۲۳۰:‬ھ) اور امام‬‫ؒ‬ ‫یحیی بن‬
‫ٰ‬ ‫مہدی (متوفی‪۱۹۸:‬ھ)‪،‬‬ ‫ؒ‬ ‫(متوفی‪ )۸۹۹:‬اسی عہد کے تھے؛ اسی طرح امام عبدالرحمن بن‬
‫حنبل (متوفی‪۲۴۱:‬ھ) جواس فن کے ّاولین معماروں میں ہیں؛ اسی خوش نصیب عہد کی یادگار ہیں۔‬ ‫ؒ‬ ‫احمد بن‬
‫اس دور میں چار بڑے مکاتب فقہ وجود میں آئے اورہرمکتب فکر کے لحاظ سے فقہی کتب کی تدوین وترتیب کا سلسلہ ‪3.‬‬
‫صحابہ چونکہ مختلف عالقوں میں پھیل گئے اس لیے ہرعالقہ کے فقہی مسالک پر‬ ‫ؓ‬ ‫شروع ہوا۔ (تاریخ التشریع االسالمی‪)۱۶۶:‬‬
‫شافعی کی فقہ پر ان کے گہرے اثرات پڑے اور آپ‬ ‫ؒ‬ ‫عباس مکہ میں رہے تو امام‬
‫ؓ‬ ‫ان کا اثر ہوا چنانچہ حضرت عبدہللا بن‬
‫نےزیادہ تر انہی کی روایات پر اپنی فقہ کی بنیاد رکھی‪ ،‬کوفہ میں حضرت عبدہللا بن مسعودؓ قیام پذیر تھے اور آپ کے علوم‬
‫ابوحنیفہ کی فقہ کا غالب ترین حصہ انہی سے ماخوذ ہے‪ ،‬اسی طرح جن عالقوں‬ ‫ؒ‬ ‫نخعی تھے تو امام‬
‫ؒ‬ ‫کے حامل حضرت ابراہیم‬
‫میں صحابہ پہونچے وہاں ان کا منہج فکر زیادہ مشہور ہوا۔‬
‫اس دور میں باب وار فقہی احکام کی ترتیب کے مطابق جمع حدیث کا آغاز ہوا ؛چنانچہ بہت سے آئمہ نے اٴحادیث کو فقہی ‪4.‬‬
‫ابوحنیفہ اور سفیان‬
‫ؒ‬ ‫مالک نے‪ ،‬کوفہ میں امام‬
‫ؒ‬ ‫ترتیب کے مطابق ایک مکمل کتابی اور فنی صورت میں مرتب کیا‪ ،‬مدینہ میں امام‬
‫جریج نے اور خراسان‬‫ؒ‬ ‫اوزاعی نے‪ ،‬مکہ میں عبدالعزیز ابن‬
‫ؒ‬ ‫ثوری نے‪ ،‬بصرہ میں حماد بن سلمہ اور شام میں عبدالرحمٰ ن بن‬ ‫ؒ‬
‫مبارک نے احادیث کی تدوین شروع کی۔ (مقدمہ الموسوعۃ الفقہیۃ‪ )۲۸/۱:‬پھراسی دور کے وسط میں احادیث کے‬ ‫ؒ‬ ‫میں عبدہللا بن‬
‫بڑے بڑے مجموعے صحیح اور مستند طریقہ سے مرتب ہوئے‪ ،‬بعض میں صرف احادیث صحیحہ کے جمع کرنے کا التزام کیا‬
‫گیا اور ضعیف وغیر مستند احادیث کو اس میں جگہ دینے سے اجتناب کیا گیا اور اس سلسلہ کی مشہور کتابوں میں صحاحِ ستہ‬
‫قابل ذکر ہیں‪ ،‬جسے امت نے صحیح ترین مجموعہ تسلیم کیا ہے۔پھراس دور میں صحیح اور غیرصحیح‬ ‫خصوصیت کے ساتھ ِ‬
‫مستند ‪،‬قوی اور ضعیف حدیث کے درمیان امتیاز کے لیے فن اسماءرجال مرتب ہوا اور اس فن پر بڑی بڑی کتابوں کی تصنیف‬
‫)ہوئی۔ (فیض الباری‪۱۴/۱:‬‬
‫اس عہد میں قواعد فقہ اور فن اصول فقہ کا بھی وجود ہوا اور اس کی باقاعدہ تدوین وترتیب عمل میں آئی۔(تاریخ الفقہ ‪5.‬‬
‫االسالمی‪ )۱۰۲:‬اس وقت اس موضوع پرجوقدیم ترین کتاب پائی جاتی ہے‪ ،‬وہ امام شافعی رحمہ ہللا کی “الرسالہ” ہے۔یہ نہایت‬
‫اہم کتاب ہے اور ابتدائی دور کی تالیف ہونے کے لحاظ سے نہایت جامع‪ ،‬واضح اور مدلل تالیف ہے‪ ،‬جس میں قرآن مجید کے‬
‫بیان کے اُصول‪ ،‬سنت کی اہمیت اور قرآن سے اس کا ربط‪ ،‬ناسخ ومنسوخ‪ ،‬علل حدیث‪ ،‬خبرواحد کی حجیت‪ ،‬اجماع‪ ،‬قیاس‪،‬‬
‫اجتہاد‪ ،‬استحسان اور فقہی اختالفِ رائے کی حیثیت پرگفتگو کی گئی ہے۔‬
‫فقہی اصطالحات کا ظہور بھی اسی دور میں ہوا‪ ،‬یعنی جائز وناجائز‪ ،‬حالل وحرام‪ ،‬مکروہ ومستحب‪ ،‬فرض‪ ،‬واجب وغیرہ ‪6.‬‬
‫تھے۔(چراغ راہ‪۳۶۵:‬‬
‫ِ‬ ‫)کی درجہ بندی گوعمالً یہ درجات پہلے بھی پائے جاتے‬
‫بمقابلہ پچھلے ادوار کے اس عہد میں اجتہاد واستنباط کی کثرت ہوئی‪ ،‬اس کے دوبنیادی اسباب تھے‪ ،‬ایک عباسی حکومت کا ‪7.‬‬
‫علمی ذوق‪ ،‬عباسیوں نے جہاں بغداد جیسا متمدن شہرآباد کیا اور عقلی علوم کوعربی زبان کا جامہ پہنایا‪ ،‬وہیں اسالمی علوم‬
‫سے بھی ان کواعتناء تھا اور خود خلفاء علمی ذوق کے حامل ہوا کرتے تھے۔یہ ان کے علمی ذوق ہی کی بات تھی کہ ہارون‬
‫رشید قاضی ابویوسف سے حکومت کے مالیاتی قوانین کے موضوع پرتالیف کا طلب گار ہوتا ہے اور اسی خواہش کے نتیجہ‬
‫میں ان کی معروف مقبول تالیف “کتاب الخراج” وجود میں آتی ہے۔دوسرا سبب عالم اسالم کی وسعت تھی‪ ،‬اب مسلمانوں کی‬
‫حکومت یوروپ میں اسپین سے لے کرایشیاء میں مشرق بعید چین تک تھی‪ ،‬مختلف قوموں‪ ،‬مختلف تہذیبیں‪ ،‬مختلف لسانی گروہ‬
‫اور محتلف صالحیتوں کے لوگ عالم اسالم کے سایہ میں تھے اور ان میں بڑی تعداد نومسلموں کی تھی اس لیے لوگوں کی‬
‫طرف سے سواالت کی کثرت تھی اور اس نسبت سے فقہی اجتہادات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع ترہوتا گیااسی عہد میں بڑے‬
‫بلند پایہ‪ ،‬عالی ہمت اور اپنی ذہانت وفطانت کے اعتبار سے محیرالعقول علماء وفقہاء پیدا ہوئے کیونکہ اس عہد میں اسی درجہ‬
‫دبستان فقہ کی بنیاد رکھی اور ان سے علمی تاثر‬ ‫ِ‬ ‫اہل علم کی ضرورت تھی؛ پھران میں سے بعض بلند پایہ فقہاء نے مستقل‬ ‫کے ِ‬
‫اہل علم کی ایک تعداد ان کے ساتھ ہوگئی اور اس نے ان کے علوم کی اشاعت وتدوین اور تائید وتقویت کے ذریعہ‬ ‫ِ‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬
‫مستقل فقہی مدارس کووجود بخشا‪ ،‬ان شخصیتوں میں سب سے ممتاز شخصیتیں ائمہ اربعہ کی ہیں۔‬
‫آئمہ اربعہ اور انکے فقہی مکاتب کا مختصر جائزہ پیش ہے۔‬
‫فقہ حنفی ‪1.‬‬
‫ابوحنیفہ اپنے علم وفضل اور سن وسال میں سب سے مقدم‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬ ‫میں‬ ‫ان‬ ‫ہیں‪،‬‬ ‫رائج‬ ‫میں‬ ‫دنیا‬ ‫وقت‬ ‫اس‬ ‫مذاہب‬ ‫کے‬ ‫جن‬ ‫ائمہ اربعہ‬
‫تھے اور بالواسطہ یابالواسطہ تمام ائمہ آپ کے فیض یافتہ تھے۔امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ ہللا کو ایک طرف تابعی ہونے کا‬
‫شرف حاصل ہے‪ ،‬جو بقیہ ائمہ میں سے کسی کو حاصل نہیں‪ ،‬دوسری طرف آپ عمر میں ان میں سب سے بڑے ہیں‪ ،‬مالعلی‬
‫کرام کے بعد امت میں‬ ‫ؓ‬ ‫ابوحنیفہ کے فضائل مناقب میں تحریر فرماتے ہیں‪”:‬حاصل یہ ہے کہ تابعین کا درجہ صحابہ‬ ‫ؒ‬ ‫قاری امام‬
‫ؒ‬
‫ابوحنیفہ کا مرتبہ ائمہ مجتہدین میں سب سے اونچا ہے اور‬ ‫ؒ‬ ‫اعظم‬ ‫امام‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫اعتقاد‬ ‫ہمارا‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫اسی‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫ہوا‬ ‫بڑھا‬ ‫سب سے‬
‫مالک کا درجہ ہے‪ ،‬جو تبع تابعین کی صف میں ہیں؛ پھرامام‬ ‫ؒ‬ ‫فقہاء علوم دینیہ میں آپ سب سے بلند واکمل ہیں‪ ،‬آپ کے بعد امام‬
‫شافعی کے شاگرد کے درجہ میں‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬ ‫جو‬ ‫کا‬ ‫د‬ ‫ؒ‬ ‫احم‬ ‫پھرامام‬ ‫ہیں؛‬ ‫مالک؛ بلکہ امام محمدؒ کے شاگرد‬ ‫ؒ‬ ‫شافعی کا اس لیے کہ آپ امام‬ ‫ؒ‬
‫فتاوی دارالعلوم‪۶۳/۱:‬‬ ‫ٰ‬ ‫)ہیں۔ (بحوالہ مقدمہ‬
‫امام ابوحنیفہ رحمہ ہللا کے تالمذہ جو فقہ کی تدوین میں شریک تھے‬
‫ابوحنیفہ نے جس طریقہ سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا وہ نہایت وسیع اور پُرخطر کام تھا‪ ،‬اس لیے انہوں نے اتنے بڑے‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫صاحب نے اپنے شاگردوں میں سے چند‬ ‫ؒ‬ ‫کام کواپنی ذاتی رائے اور معلومات پر منحصر کرنا نہیں چاہا‪ ،‬اس غرض سے امام‬
‫یحیی بن ابی زائدہ‪ ،‬حفص بن غیاث‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫نامور اشخاص کا انتخاب کیا‪ ،‬جن میں سے اکثر خاص خاص فنون میں ماہر تھے‪ ،‬مثالً‬
‫داودالطائی‪ ،‬ابن حبان مندل‪،‬آپ کو حدیث اور آثار میں نہایت کمال تھا‪ ،‬امام صاحب نے ان لوگوں پر مشتمل‬ ‫قاضی ابویوسف‪ ،‬ٴ‬
‫طحاوی نے بسند متصل اسد بن فرات سے روایت کی‬ ‫ؒ‬ ‫ایک مجلس مرتب کی اور باقاعدہ طور پر فقہ کی تدوین شروع ہوئی‪ ،‬امام‬
‫ابوحنیفہ کے تالمذہ جنھو ں نے فقہ کی تدوین میں حصہ لیا تھا ان کی مجموعی تعداد چالیس تھی‪ ،‬جن میں یہ لوگ زیادہ‬ ‫ؒ‬ ‫ہے کہ‬
‫طحاوی نے یہ بھی روایت‬‫ؒ‬ ‫زائدہ ۔امام‬
‫ؒ‬ ‫یحیی بن ابی‬ ‫ٰ‬ ‫التیمی‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫عمر‪ ،‬یوسف بن خالد‬ ‫دطائی‪ ،‬اسد بن ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫داو‬
‫زفر‪ ،‬ٴ‬‫تھے‪:‬ابویوسف‪ؒ ،‬‬
‫ؒ‬ ‫ممتاز‬
‫طحاوی نے جن لوگوں کے نام گنائے ہیں ان کے سوا عافیہ‪ ،‬ازی‪،‬‬ ‫ؒ‬ ‫یحیی سے متعلق تھی‪ ،‬امام‬ ‫ٰ‬ ‫کی ہے کہ لکھنے کی خدمت‬
‫)ابوعلی ‪ ،‬علی بن مسہر‪،‬قاسم بن معن‪ ،‬ابن مندل اس مجلس کے منبر رہےتھے۔ (شرح فقہ اکبر‪۱۴۶:‬‬
‫طریقہ تدوین‬
‫تدوین کا طریقہ یہ تھا کہ کسی خاص باب کا کوئی مسئلہ پیش کیا جاتا تھا ؛اگر اس کے جواب میں سب لوگ متفق الرائے ہوتے‬
‫تھے تواسی وقت قلمبند کرلیا جاتا؛ ورنہ نہایت آزادی سے بحثیں شروع ہوتیں‪ ،‬کبھی کبھی بہت دیرتک بحث قائم رہتی‪ ،‬امام‬
‫صاحب غور وتحمل کے ساتھ سب کے دالئل سنتے اور باآلخر ایسا جچاتال فیصلہ کرتے کہ سب کو تسلیم کرنا پڑتا‪ ،‬کبھی ایسا‬
‫بھی ہوتا کہ امام صاحب کے فیصلہ کے بعد بھی آپ کے شاگردان اپنی اپنی آراء پر قائم رہتے اس وقت ان سب کے مختلف‬
‫)اقوال قلم بند کرلیے جاتے۔ (سیرة النعمان‪۱۲۹:‬‬
‫امام ابوحنیفہ اپنی رائے کو اپنے شاگردوں پر مسلط نہیں کرتے اور نہ بغیر تحقیق ومناقشہ کے اپنی آراء لکھواتے؛ بلکہ جدید‬
‫پہلووں پر گہری نظر ڈالی جاتی ؛پھر بحث ومباحثہ میں تالمذہ‬ ‫مسائل کے بارے میں پوری تحقیق کی جاتی ‪،‬مسائل کے مختلف ٴ‬
‫)کو پوری آزادی رائے دیتے۔ (سیرة النعمان‪۱۳۰:‬‬
‫امام ابوحنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کا منہج استنباط‬
‫ابوحنیفہ نے فرمایا‬
‫ؒ‬ ‫ابوحنیفہ کا طریقہ اجتہاد کیا تھا؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے خود امام‬ ‫ؒ‬ ‫مسائل کی تحقیق وتخریج میں امام‬
‫ہے میں سب سے پہلے کتاب ہللا کی طرف رجوع کرتا ہوں؛ اگراس میں مسئلہ نہیں ملتا ہے تو سنت رسول کی طرف رجوع ہوتا‬
‫صحابہ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور جس صحابی کا قول‬ ‫ؓ‬ ‫ہوں اور اگر اس میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ملتا ہے تو پھر اقوال‬
‫صحابہ کے دائرہ سے قدم باہر نہیں نکالتا؛ لیکن‬
‫ؓ‬ ‫کتاب وسنت سے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے اسے اختیار کرلیتا ہوں؛ لیکن اقوال‬
‫مسیب وغیرہ تک جاتا ہے تو یہ وہ لوگ تھے‬ ‫ؒ‬ ‫عطاء اور سعید ابن‬‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫حسن‪،‬‬ ‫ؒ‬
‫سیرین‪،‬‬ ‫شعبی‪ ،‬ابن‬
‫ؒ‬ ‫ابراہیم‪،‬‬
‫ؒ‬ ‫صحابہ کے بعد معاملہ‬
‫ؓ‬ ‫جب‬
‫فتاوی تاتارخانیہ‪۱۳/۱:‬۔ المدخل‪۱۳۹:‬‬
‫ٰ‬ ‫)جو اجتہاد کرتے تھے اور میں بھی ان کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔ (مقدمہ‬
‫فقہ مالکی ‪2.‬‬
‫فقہ مالکی‪:‬یہ فقہ امام دارالہجرة مالک بن انس کی طرف منسوب ہے‪ ،‬فقہ مالکی اہل سنت والجماعت کا دوسرا بڑا فقہی مسلک‬
‫ماوی وملجا تھا‬‫ہے اس کی نشوونما “مدینۃ الرسول” میں ہوئی ‪،‬جو مہبط وحی ‪،‬مسکن رسول اور ہزاروں جلیل القدر صحابہ کا ٰ‬
‫اور یہاں سے پورے حجاز میں اس کی اشاعت ہوئی؛ پھربصرہ‪ ،‬مصر‪ ،‬افریقہ‪ ،‬اندلس وغیرہ میں اس کو غلبہ حاصل ہوا ‪،‬امام‬
‫اہل مدینہ کا تعامل تھا۔ (مناقب للمکی‪۷۵:‬‬
‫)مالک کے اصول میں سے سب سے اہم چیز عالمہ ابن خلدون کے بقول ِ‬
‫امام مالک تقریبا ً پچاس سال درس وافتاء میں مشغول رہے‪ ،‬طلبہ اور عوام جو مسائل آپ سے پوچھتے تھے آپ کے شاگرد ان‬
‫مسائل کے جوابات یاد کرلیتے یالکھ لیتے تھے‪ ،‬آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں نے آپ کے جوابات اور فقہی اقوال‬
‫مالکی کے نام سے مشہور ہوا۔‬ ‫ؒ‬ ‫وآراء کومدون کیا‪ ،‬یہ مجموعہ فقہ‬
‫امام مالک رحمہ ہللا کا طریقہ اجتہاد‬
‫مالک کا طریقہ اجتہاد اور منہج استنباط یہ تھا کہ اگر کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو آپ سب سے پہلے کتاب ہللا کی طرف‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫ت رسولﷺ کی طرف متوجہ ہوتے؛‬ ‫مراجعت فرماتے اور اگر اس مسئلہ کی کتاب ہللا میں کوئی صراحت نہیں ملتی تو پھرآپ سن ِ‬
‫صحابہ‪ ،‬تعامل مدینہ‪ ،‬قیاس‪ ،‬اجتہاد‪ ،‬استحسان اور سدذرائع کی طرف‬ ‫ؓ‬ ‫اگر اس میں بھی کوئی حکم شرعی نہیں ملتا تو پھر اقوا ِل‬
‫)متوجہ ہوتے۔ (المدخل‪۱۵۶:‬‬
‫فقہ شافعی ‪3.‬‬
‫یہ فقہ امام محمدبن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہے‪ ،‬اس کی نشوونما مکہ مکرمہ میں ہوئی اور پھر اطراف واکناف عالم‬
‫شافعی نے ّاوالً مالک بن انس کی خدمت میں رہ کر ان کے مناہج استنباط اور اصول استنباط وطرق اجتہاد‬ ‫ؒ‬ ‫میں پھیل گئی اور امام‬
‫سے خوب آگاہی حاصل کی؛ پھرامام ابوحنیفہ کے معتمد شاگردِرشید امام محمد بن الحسن الشیبانی کی صحبت میں رہ کر فقہ‬
‫حنفی کے مناہج اور اس کے اصول وکلیات کو اپنے سینہ میں محفوظ کیا اور پھر دونوں مکاتب فقہ کا نچوڑ وماحصل فقہ‬
‫شافعی کی صورت میں مدون کرکے ایک نئی راہ قائم کی‪ ،‬آپ کی فقہ دوحصوں پرمشتمل ہے ‪)۱( .‬فقہ شافعی قدیم (‪)۲‬فقہ‬
‫شافعی جدید۔‬
‫فقہ شافعی قدیم فقہ شافعی کا وہ حصہ ہے جسے امام شافعی نے عراق میں آکر مرتب کیا تھا‪ ،‬اس میں عراقی رنگ کا غلبہ ہے‪،‬‬
‫فقہ شافعی جدید یہ وہ حصہ ہے جسے آپ نے مصر میں آکر مرتب کیا تھا‪ ،‬اس میں حجازی رنگ کا غلبہ ہے‪ ،‬فقہ شافعی میں‬
‫)عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہ کی فقہی آراء اور ان کے مناہج فکر سے بہت فائدہ اٹھایا گیا ہے۔ (کشف الظنون‪۱۲۸۵/۲:‬‬
‫امام شافعی رحمہ ہللا کا منہج استنباط‬
‫شافعی وہ خوش بخت انسان ہیں جنھیں اپنے مناہج فکر اور اصول استنباط واستخراج کو خود مدون‬ ‫ؒ‬ ‫ائمہ اربعہ میں سے امام‬
‫کرنے کا موقع مال ہے‪ ،‬امام صاحب کی تحریرات سے معلوم ہوتا ہے‪ ،‬وہ بالترتیب سات ادلہ کو پیش نظر رکھ کر مسائل مستنبط‬
‫کرتے تھے۔(‪)۱‬اوال کتاب ہللا کی طرف رجوع کرتے اور اسے اپنے مسائل کی بنیاد بناتے (‪)۲‬اگرکتاب ہللا میں حکم نہیں ملتا تو‬
‫سنت رسول کی طرف متوجہ ہوتے (‪)۳‬اگرسنت رسول میں کوئی حکم نہیں ملتا تو پھراجماع امت کا سہارا لیتے (‪)۴‬اگران تینوں‬
‫میں حکم نہیں ملتا ہے تو پہلے کتاب ہللا کی روشنی میں قیاس کرتے (‪)۵‬پھرسنت رسولﷺ کی روشنی میں قیاس کرتے(‪)۶‬اجماع‬
‫)کی روشنی میں قیاس کرتے(‪)۷‬اور آخر میں مختلف فیہ احکام پر قیاس کرتے۔ (المدخل‪۱۴۹:‬‬
‫فقہ حنبلی ‪4.‬‬
‫حنبل بلند پایہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ فقہ شافعی کے سربراہ‬ ‫ؒ‬ ‫حنبل کی طرف منسوب ہے‪ ،‬امام احمدبن‬ ‫ؒ‬ ‫فقہ حنبلی امام احمدبن‬
‫شافعی سے فقہ میں کمال پیدا کیا اور ان کی خدمت میں رہ کر ان کے اصول اور مصادر فقہ سے پوری طرح واقفیت‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫حاصل کی اور پھر حدیث وفقہ کے امتزاج سے ایک نئے فقہی مسلک کی بنیاد ڈالی‪ ،‬جو فقہ حنبلی کے نام سے موسوم ہوئی‪،‬‬
‫آپ کی فقہ بہت سادہ اور زیادہ ترنصوص کے ظاہر تک محدود ہےکیونکہ آپ عقل ودرایت سے کام لینے کے زیادہ قائل نہ‬
‫تھے‪ ،‬آپ کی فقہ کی بنیاد دراصل احادیث وآثار پر ہے‪ ،‬قیاس واجتہاد کو اس میں بہت کم دخل ہے ‪،‬اس لیے بعض بعض مسائل‬
‫)میں امام صاحب کے سات سات اقوال بھی ملتے ہیں۔(فقہ شافعی اور اس کی خصوصیات سہ ماہی بحث ونظر شمارہ‪۱۴:‬‬
‫امام احمد بن حنبل رحمہ ہللا کا طریقہ اجتہاد‬
‫وفتاوی کی بنیاد رکھی ہے‪ ،‬عالمہ ابن قیم حنبلی‬
‫ٰ‬ ‫حنبل نے اپنے فقہ‬ ‫ؒ‬ ‫وہ اصول استنباط اورمناہج استخراج جن پر امام احمد بن‬
‫‪:‬رحمہ ہللا کی تحقیق کے مطابق چار ہیں‬
‫نصوص‪:‬امام صاحب جب کسی مسئلہ میں قرآن وحدیث کی نص پاتے تو اس کے مطابق فیصلہ فرماتے اور اس کے خالف )‪(۱‬‬
‫صحابہ‪:‬اگر کسی مسئلہ میں نص نہیں ملتی اور اس مسئلہ میں کسی‬ ‫ؓ‬ ‫فتاوی‬
‫ٰ‬ ‫وفتاوی ہوتے ان کا اعتبار نہیں کرتے۔ (‪)۲‬‬ ‫ٰ‬ ‫جواقوال‬
‫صحابہ کے اقوال کے دائرہ سے باہر نہیں نکلتے۔ (‪)۳‬اگر کسی مسئلہ میں‬ ‫ؓ‬ ‫فتوی ہوتا‪ ،‬اس کو اختیار کرتے اور‬ ‫ٰ‬ ‫صحابی کا‬
‫فتوی کی بنیاد بنالیتے۔ (‪)۴‬ضرورة ہی قیاس سے کام‬ ‫ٰ‬ ‫مرفوع اور صحیح حدیث نہیں ملتی تو حدیث مرسل اور ضعیف کو اپنے‬
‫)لیتے۔ (المدخل‪۱۶۶:‬‬
‫دیگر فقہی مکاتب‬
‫ائمہ اربعہ کے فقہی مکاتب ان کے طریقہ کار اور اصول فقہ کی تدوین کے ساتھ اسی دور میں بعض دیگر ائمہ مجتہدین کے‬
‫اعلی درجہ کے حامل تھے مثال امام‬ ‫ٰ‬ ‫ت استنباط میں نہایت‬ ‫ت اجتہاد اور لیاق ِ‬ ‫فقہی مکاتب بھی وجود میں آئے ‪ ،‬یہ فقہاء بھی اپنی قو ِ‬
‫داود بن علی‬
‫ابوسعید‪ ،‬حسن بن یسار بصری‪ ،‬امام اوزاعی‪ ،‬امام سفیان بن سعید ثوری‪ ،‬امام لیث بن سعد‪ ،‬امام سفیان بن عیینہ‪ ،‬امام ٴ‬
‫اصبھانی ظاہری‪ ،‬امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ لیکن ان حضران کا مسلک مدون نہ ہوسکا‪ ،‬اس لیے امت مسلمہ کی اکثریت‬
‫)مذاہب اربعہ کی مقلد ہوئی اور قبول عام انہی ائمہ اربعہ کے مسائل مستخرج کو حاصل ہوا۔ (اعالم الموقعین‪۱۳۵/۱:‬۔‪۴۰‬‬
‫٭فقہ اسالمی کا پانچواں دور٭‬
‫چوتھی صدی کے نصف آخر سے تیرہویں صدی ہجری کے اواخر تک ہے‪ ،‬یہ دورتقلید کا دور ہے اور امت کا سواداعظم تقلید‬
‫شخصی کا پابند ہے چنانچہ اس دور میں بڑے بڑے علماء نے ان ائمہ کی تقلید کو اپنے لیے ضروری تصور کیا اور اس پر‬
‫)عمل کیا ۔ (المدخل‪۱۷۱:‬۔‪۱۸۲‬‬
‫درج ذیل ہیں‬
‫ِ‬ ‫‪:‬اس دور کی چند خصوصیات‬
‫اسی عہد میں شخصی تقلید کا رواج ہوا اور لوگ تمام احکام میں ایک متعین مجتہد کی پیروی کرنے لگے‪ ،‬تقلید کی اس ‪1.‬‬
‫ائمہ مجتہدین کی سعی ومحنت )ا(‪:‬صورت کومختلف اسباب کی وجہ سے تقویت پہنچی‪ ،‬جن کا تذکرہ مناسب محسوس ہوتا ہے‬
‫سے فقہ اسالمی کی ترتیب وتدوین پایہ کمال کوپہنچ چکی تھی اور ان کی مساعی کی وجہ سے لوگوں کے لیے ہرطرح کے‬
‫مسائل کا حل موجود تھا؛ اس لیے گذشتہ ادوار میں جس درجہ اجتہاد واستنباط کی ضرورت تھی اب اتنی ضرورت باقی نہیں رہ‬
‫گئی تھی اور یہ قدرتی بات ہے کہ جب کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ہے تواس طرف لوگوں کی توجہ بھی کم‬
‫بعض مجتہدین کومن جانب ہللا الئق تالمذہ اور الئق ماہرین ومتبعین ہاتھ آئے اور انھوں نے اس مجتہد کی آراء )ب(ہوجاتی ہے۔‬
‫قبول عام کا رحجان پیدا ہوگیا‬‫ِ‬ ‫وافکار کونہایت بہتر طور پرمرتب کردیا‪ ،‬اس کی وجہ سے لوگوں میں ان کے اجتہادات کے تئیں‬
‫دبستان فقہ کی تشکیل عمل میں آگئی۔‬ ‫ِ‬ ‫بعض قضاة حق اجتہاد کوجوروزیادتی اور کسی فریق کے )ج(اور اس طرح ایک مستقل‬
‫حق میں طرف داری کا ذریعہ بنانے لگے‪ ،‬اس پس منظر میں حکومتیں جب کسی کوقاضی مقرر کرتیں توان کوپابند کردیتیں کہ‬
‫فالں مذہب کے مطابق فیصلہ کیا کریں؛ تاکہ فیصلوں میں یکسانیت رہے اور جانب داری کی گنجائش باقی نہ رہے؛ چنانچہ‬
‫عباسی خلفاء عام طور پرفقہ حنفی پرقاضی مقرر کیا کرتے؛ اسی طرح ترکوں نے بھی عہدۂ قضاء کواحناف کے لیے‬
‫مخصوص رکھا؛ صالح الدین ایوبی رحمہ ہللا نے مصر میں اور سلطان محمود سبکتگین رحمہ ہللا اور نظام الملک طوسی نے‬
‫مشرقی عالقہ کی عدالتوں کوفقہ شافعی کے مطابق فیصلے کرنے کا حکم دیا‪ ،‬یہ بھی تقلی ِد شخصی کی ترویج کا ایک اہم سبب‬
‫بنا۔‬
‫تقلید کے رواج نے جوایک منفی اثرپیدا کیا وہ فقہی تعصب وتنگ نظری اور جدل ومناظرہ کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ہے گذشتہ‬
‫ادوار میں بھی فقہی مسائل میں اختالفِ رائے پایا جاتا تھا لیکن ایک دوسرے سے تعصب کی کیفیت نہیں تھی اور نہ اس‬
‫کےلیے معرکہ جدل برپا ہوتا تھا‪ ،‬اس کے مختلف ادوار میں بدترین قسم کی تنگ نظری بھی وجود میں آئی‪ ،‬بعض لوگ اپنے‬
‫امام کی تعریف میں مبالغہ کی آخری حدود کوبھی پار کرجاتے تھے اور مخالف نقطہ نظر کے حامل امام ذی احترام کی شان‬
‫میں گستاخی اوربدکالمی سے بھی باز نہیں رہتے تھے‪ ،‬یہاں تک کہ ان مذموم مقاصد کے لیے بعض خداناترس لوگوں نے‬
‫)روایتیں بھی گھڑنی شروع کردیں۔ (تاریخ الفقہ االسالمی‪ ،‬محمدعلی سائس‪۱۳۲:‬‬
‫اس دور کے اہم امور میں سے یہ ہے کہ فقہی کتابوں کی طباعت شروع ہوئی اگر اس زمانہ میں کتابوں کی طباعت نہ ہوتی ‪2.‬‬
‫)تو آج اتنی کتابیں میسر نہ ہوتیں۔ (تاریخ الفقہ االسالمی‪۱۸۷:‬‬
‫)فقہ کے قواعد اور اصطالحات کتابی شکل میں جمع کئے گئے۔ (تاریخ الفقہ االسالمی‪3. ۱۸۷:‬‬
‫)اسی عہد میں شخصی اور عائلی مسائل کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا۔ (تاریخ الفقہ االسالمی‪4. ۱۸۷:‬‬
‫فتاوی کی تالیف ہوئی گو اس کا آغاز پہلے ہی ہوچکا تھا؛ مگراس دور میں ‪5.‬‬ ‫ٰ‬ ‫اسی عہد میں فقہی تطبیقات کی تدوین اور کتب‬
‫اس کی کثرت ہوگئی اس لیے جو حضرات سرکاری مفتی کی حیثیت سے کام کرتے تھے یابلند پایہ علماء جن سے عوام الناس‬
‫فتاوی ابواب فقہی پر مرتب کی‬ ‫ٰ‬ ‫فتاوی کو کتابی صورت میں جمع کرتے تھے ان میں سے اکثر کتب‬ ‫ٰ‬ ‫استفادہ کرتے تھے وہ اپنے‬
‫)گئی ہیں۔ (تاریخ الفقہ االسالمی‪۱۹۵:‬‬
‫فتاوی ہندیہ ‪6.‬‬
‫ٰ‬ ‫فتاوی حامدیہ‪،‬‬‫ٰ‬ ‫فتاوی خانیہ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫فتاوی تاتارخانیہ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫فتاوی کی اہم کتابیں تصنیف کی گئیں‪ ،‬مثالً‬‫ٰ‬ ‫ب‬
‫اس عہد میں کت ِ‬
‫)وغیرہ۔(چراغِ راہ‪ ،۳۷۲:‬اسالمی قانون نمبر‬
‫اسی عہد میں مجلۃ االحکام الشرعیہ کی اشاعت بحیثیت قانون مدنی ازروئے فقہ احناف ہوئی۔ ‪7.‬‬
‫اسی عہد میں قانون سازی کا حلقہ بے حد وسیع ہوگیا؛ چنانچہ تمام بالداسالمیہ میں مختلف موضوعات کے متعلق قوانین ‪8.‬‬
‫قانون مرافعہ جس کو ہمارے یہاں‬ ‫ِ‬ ‫وضع ہوئے‪ ،‬مثالً تجارتی قوانین‪ ،‬جائیداد کے قوانین‪ ،‬اصولی قوانین‪ ،‬جسے قانون اجراء اور‬
‫ت عثمانیہ اور ممالکِ اسالمیہ جیسے شام‪ ،‬فلسطین اور عراق میں اس زور شور سے‬ ‫قانون محکمات حقوق کہا جاتا ہے‪ ،‬مملک ِ‬ ‫ِ‬
‫(چراغ‬
‫ِ‬ ‫ہے۔‬ ‫آتا‬ ‫نظر‬ ‫عمل‬ ‫کا‬ ‫یانسخ‬ ‫تعدیل‬ ‫قانونی‬ ‫وبیش‬ ‫کم‬ ‫میں‬ ‫احکام‬ ‫کے‬ ‫ابواب‬ ‫تمام‬ ‫کے‬ ‫فقہ‬ ‫قریب‬ ‫قریب‬ ‫کہ‬ ‫ہوئے‬ ‫وضع‬ ‫قوانین‬
‫)راہ‪ ،۳۷۲:‬اسالمی قانون نمبر‬
‫اہل علم کا ذکر نہ کیا جائے؛ اس لیے اختصار کے ساتھ ان کا ‪9.‬‬ ‫اس دور کا تذکرہ نامکمل ہوگا اگراس دور کے اہم فقہاء اور ِ‬
‫‪:‬تذکرہ کیا جاتا ہے‬
‫‪:‬حنفیہ‬
‫)امام ابوالحسن عبدہللا بن حسن کرخی (‪۲۶۰‬۔‪۳۴۰‬‬
‫)ابوبکر جصاص رازی (م‪۳۷۰‬ھ‬
‫الھدی (م‪۳۷۳‬ھ‬
‫ٰ‬ ‫)ابواللیث نصربن محمدسمرقندی‪ ،‬امام‬
‫)ابوعبدہللا یوسف بن محمدجرجانی (م‪۳۹۸‬ھ‬
‫)ابوالحسن احمد قدوری (م‪۴۲۷‬ھ‬
‫)شمس االئمہ عبدالعزیز حلوانی (م‪۴۱۸‬ھ‬
‫)شمس االئمہ محمد بن احمد سرخسی صاحب المبسوط (م‪۴۸۳‬ھ‬
‫)ابواسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار (‪۵۷۴‬ھ‬
‫)ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود کاسانی (م‪۵۸۷‬ھ‬
‫)فخرالدین حسن اوز جندی قاضی خان (م‪۵۹۲‬ھ‬
‫)علی ابن ابی بکرمرغینانی صاحب ہدایہ (م‪۵۹۳‬ھ‬
‫)بکربن عالقشیری (م‪۳۱۴‬ھ‬
‫)یوسف بن عمربن عبدالبر (م‪۳۸۰‬ھ‬
‫)ابوالولید سلیمان باجی (م‪۴۹۴‬ھ‬
‫)ابوالولید محمدبن رشد قرطبی (م‪۵۲۵‬ھ‬
‫)ابوبکر محمدبن عربی صاحب احکام القرآن (م‪۵۳۶‬ھ‬
‫)ابوالفضل قاضی عیاضی (م‪۵۴۱‬ھ‬
‫)محمدبن احمد بن محمدبن ارشد صاحب ہدایۃ المجتہد (م‪۵۹۵‬ھ‬
‫)ابومحمدعثمان فخرالدین زیلعی (م‪۷۴۳‬ھ‬
‫)محمدبن عبدالواحدکمال الدین ابن ھمام (م‪۷۶۱‬ھ‬
‫)محمدبن احمد بدرالدین عینی (م‪۷۶۲‬۔ ‪۸۵۵‬ھ‬
‫)شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی (م‪۸۷۹‬ھ‬
‫‪:‬شوافع‬
‫)ابواسحاق ابراہیم مروزی (م‪۲۴۰‬ھ) ابوعلی حسین‪ ،‬المعروف بابن ابی ہریرہ (م‪۳۴۵‬ھ‬
‫)قاضی ابوحامد مروزی (‪۳۶۲‬ھ) محمدبن اسماعیل قفال کبیرشاشی (م‪۳۶۵‬ھ‬
‫)ابوالقاسم عبدالعزیزدارکی (‪۳۷۵‬ھ) ابوالقاسم عبدالواحد یعمری (‪۳۸۶‬ھ‬
‫)ابوعلی حسین سنجی (‪۴۰۳‬ھ) ابوحامد ابن محمداسفرائنی (م‪۴۰۸‬ھ‬
‫)عبدہللا ابن احمدقفال صغیر (م‪۴۱۷‬ھ) ابواسحاق ابراہیم اسفرائنی (م‪۴۱۸‬ھ‬
‫)ابوالطیب طاہرطبری (م‪۴۵۰‬ھ) ابوالحسن علی ماوردی (‪۳۵۰‬ھ‬
‫)ابوعاصم محمدمروزی (م‪۴۵۸‬ھ) ابواسحاق ابراہیم شیرازی (م‪۴۷۶‬ھ‬
‫)ابونصر محمدبن صباغ (م‪۴۷۷‬ھ) امام الحرمین ابوالمعالی عبدالملک جوینی (م‪۴۸۷‬ھ‬
‫)حجۃ االسالم ابوحامد محمدعزالی (‪۴۵۰‬۔‪۵۰۵‬ھ) ابوالقاسم عبدالکریم رافعی (م‪۶۲۳‬ھ‬
‫)محی الدین ابوزکریا نووی (م‪۶۳۱‬ھ) عالمہ تقی الدین سبکی (م‪۶۸۳‬۔‪۷۵۲‬ھ‬
‫)شیخ االسالم زکریا انصاری(م‪۸۲۶‬۔‪۹۲۶‬ھ) شہاب الدین ابن حجر ہیثمی (م‪۹۰۹‬۔‪۹۹۵‬ھ‬

‫‪:‬مالکیہ‬
‫)ابوضیاء خلیل کردی (م‪۷۷۶‬ھ) ابوالحسن نورالدین اجھوری (م‪۹۶۷‬۔‪۱۰۶۶‬ھ‬
‫)محمدبن عبدہللا قریشی (م‪۱۱۱‬ھ) نورالدین عدوی (م‪۱۱۲‬ھ‬
‫‪:‬حنابلہ‬
‫)عالمہ تقی الدین احمد بن تیمیہ (م‪۶۶۱‬۔‪۷۲۸‬ھ) شمس الدین ابن قیم جوزی (م‪۶۹۱‬۔‪۷۵۱‬ھ‬

You might also like