Professional Documents
Culture Documents
تمہید
امابعد
انتساب
میں اپنی اس سعی جمیلہ کو انتہائی خلوص اور انکساری کے ساتھ اپنے معزز و محتشم والدین کے تحت خيركم من تعلم
القرآن وعلمه کی طرف رہنمائی کی۔
کے نام کرتا ہوں جنہوں نے مجھ پر احسان عظیم کرتے ہوئے الدين النصيحة
فہرست
باب اول
فصل اول
فصل دوم
باب دوم
فصل اول
فصل دوم
فصل اول
بزرگان دین کے ملفوظات و مکتوبات سے پہلے بزرگان دین کے تصوف کا ذکر ضروری ہے تاکہ مقصود
لہذا مذکورہ بحث سے پہلے تصوف اور صوفیاء کا مختصر بوجہ اتم حاصل ہو جاۓ
سا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
:صوفی‘‘ اور ’’تصوف‘‘ کی اصل قرآن مجید میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہللا رب العزت نے ارشاد فرمایا’’
ص َو َّ
آف کہتے اس آیت مبارکہ کے مطابق نذر ہونے سے پہلے ہللا کے حضور ایک صف میں کھڑے ہو جانے والوں کو َ
ہیں۔
موسی اشعری رحمۃ ہللا علیہ ،امام حسن بصری رحمۃ ہللا علیہ ،حضرت مجاہد رحمۃ ہللا علیہ اور زید بن اسلم
ٰ حضرت ابو
صافِيَہ کی جمع ہے۔ اسی سے
ص َوافِ َي پڑھا جو َ ص َو َّ
آف کو دوسری قرات میں َ رحمۃ ہللا علیہ نے قرآن کے اس لفظ َ
’’صوفی‘‘ مشتق ہے کہ صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی ہللا کے حضور نذر کر دیتے ہیں اور ان کے دل ایک صف
میں جڑ کر موال کے ُرخ اور چہرے کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ دن ہو یا رات ،تھکن ہو یا راحت ،کاروبار ہو یا
صف اول کی حاضری نصیب ِ ریاضت و مجاہدہ اُن کے دلوں پر کبھی غفلت نہیں آتی۔ جنہیں یہ حضوری مل جائے اور
طرز زندگی کو تصوف کہتے• ہیں۔
ِ ہو جائے ،ایسا دل رکھنے والوں کو صوفی اور ایسے
معنی یہ ہے کہ جنگ میں فتح کی صورت میں ملنے واال وہ مال غنیمت جو بادشاہ تقسیم سے پہلے اپنے ٰ لغت میں صَ َفا کا ایک
صفِی کہتے ہیں ،یہ صَ َفا سے ہے۔ بادشاہ دوسروں .کا حصہ نہیں مارتا ،چونکہ بادشاہ ہونے کی ُ
لیے چن لیتا ہے ،اس کو ال َّ
حیثیت سے اس کا بھی حصہ ہوتا ہے لہذا وہ اپنا حصہ لیتا ہے ،لیکن دوسروں سے پہلے لے لیتا ہے۔
قرآن مجید سے صوفی اور تصوف کی اصل اور اس کا مفہوم جاننے کے بعد آیئے اب حدیث مبارکہ سے اس کی اصل
:تالش کرتے ہیں
کسی غزوہ میں دو صحابی اکٹھے شہید ہوگئے۔ ایک صحابی کا نام عبد اﷲ بن عمرو .بن حرام رحمۃ ہللا علیہ تھا اور دوسرے
صحابی کا نام حضرت عمرو بن جموح رحمۃ ہللا علیہ تھا۔آقا علیہ السالم کی بارگاہ میں دونوں کے جسد الئے گئے۔ آقا علیہ
:السالم نے فرمایا
طرز عمل ایسا تھا کہ صوفی و صافی تھے۔ ان کے دلوں میں کدورت ،رنجش
ِ یعنی یہ دونوں اہل صفاء تھے۔ ان دونوں کا
اور غبار نہیں تھا۔ پس جن کے دلوں سے کدورت کا غبار نکل جائے اُس کو صوفی و صافی کہتے ہیں اور اسی طبقے
کو صوفیاء کہتے• ہیں۔
زبان
ِ آقا علیہ السالم نے اس حدیث مبارکہ میں متصافیین کا لفظ استعمال فرمایا۔ گویا اس حدیث میں تصوف کا لفظ
صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہونے
ٰ ت مصطفی
مصطفی سے ادا ہوا۔ کیا اب بھی تصوف پر خارج از اسالم یا خارج از تعلیما ِ
کا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟
ٰ
معنی واضح کرتی ہے کہ صوفی کون ہوتے ہیں؟ حضرت ابو مالک االشعری ایک اور حدیث مبارکہ تصوف اور صوفی کا
:رحمۃ ہللا علیہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السالم نے فرمایا
.هم ناس من أفناء الناس ونوازع القبائل مل تصل بينهم أرحام متقاربة
میری امت میں مختلف عالقوں ،مختلف ملکوں ،مختلف قبیلوں ،مختلف معاشروں کے یہ لوگ وہ ہوں گے کہ ان کے ’’
درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوگا۔‘‘ مگر
.حتابوا فی اﷲ وتصافوا
‘‘وہ ہللا کی مخلوق سے آپس میں ہللا کے لیے محبت کریں گے اور اُن کے دل صوفی و صافی ہوں گے۔’’
یعنی ان کے دلوں میں کوئی کدورت نہیں ہوگی۔ یاد رکھیں! سارا تصوف دلوں کی کدورتوں کو ختم کر دینے• کا نام ہے۔۔۔
تصوف دلوں کی رنجش مٹا دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف دلوں کی تنگ نظری کو وسعت میں بدل دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف
تکبر کو مٹا کر تواضع النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف بخیلی ،کنجوسی ختم کر کے سخاوت النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت مٹا
کر محبت النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف تفرقے مٹا کر وحدت کرنے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت کا بخار مٹا کر محبت و پیار
النے کا نام ہے۔۔۔
‘‘یہی صوفیاء و اولیاء ہوں گے جنہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’
گویا صافی دل رکھنے والے اولیاء ہللا اور صوفی سب کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل صاف اور کشادہ ہوتے ہیں ،ان
کے دلوں میں فراخی ،سخاوت ،شفقت ،رحمت اور وسعت ہوتی ہے۔
۔
:اس سارے روحانی سفر میں تین وسائط استعمال ہوتے ہیں
شریعت 1.
طریقت 2.
حقیقت 3.
شریعت :زندگی میں اِعتدال کا نام شریعت ہے۔
طریقت :اپنے نفس سے اِنفصال کا نام طریقت ہے۔
حقیقت :محبوب سے اِتصال کا نام حقیقت ہے۔
:بالفاظ دیگر
ِ
)افادات تصوف(
اولیٕا صوفیٕا کا کام ہمیشہ ہللا اور اسکے رسول کی رضامندی اور خلق خداکی خدمت ہے خواہ بھوکے كاپیٹ بھرنا ہو یا جہنم
سے بچانا ہو۔قرب و جوار میں رہنے والوں کو تو بالواسطہ فیضیاب فرماتے ہیں اور دور والوں کو مکتوبات و قاصدین کے
ذریعے فیضیاب فرماتے ہیں۔ماضی قریب میں مذکورہ صفات کی متحمل شخصیات ہمیں پیر سیدجماعت علی شاہ(آستانہ عالیہ
علی پورسیداں شریف)پیر سید مہرعلی شاہ(آستانہ عالیہ گولڑہ شریف)اور خواجہ قمرالدین سیالوی(آستانہ عالیہ سیال شریف)
کی صورتوں میں نظرآتی ہیں
خواجہ قمرالدین سیالوی رحمة ہللا علیہ
نام ونسب
نام :خواجہ محمدقمرالدین• سیالوی۔
سلسلۂ نسب اس طرح ہے خواجہ قمر الدین سیالوی ،بن خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی بن خواجہ محمد الدین سیالوی ،بن
خواجہ محمدشمس الدین سیالوی
پیدائش
ت ،15جمادی االول1324 ،ھ ،بمطابق1904 ء ،کو خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی
قمرالدین سیالوی کی والد ِ
(گھرسیال شریف ضلع سرگودھا پنجاب میں ہوٸی۔
)تاریخ مشاٸخ چشت
حصول علم
ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے دادا خواجہ محمدالدین سیالوی( ثانی الثانی) کے زیر اہتمام
ہوئی۔ ابھی آپ کی عمر مبارک 4سال کی تھی تودادا کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار سال ،چارماہ ،دس دن کے ہوئے تو
حفظ قرآ ِن مجید کے لیے بٹھادیا گیا۔ اپنی خانقاہ کے
ِ قصبہ پوہال کے معروف حاف ِظ قرآن ،حافظ کریم بخش کی خدمت میں
مدرسہ ضیاء شمس االسالم کے اساتذہ اور والد ماجد سے اکثر درسی کتب کا درس لینے کے بعد1346 ھ میں مدرسہ
شرف تلمذ اختیار کیا ،اسی سن میں
ِ المنقول والمعقول معین الدین اجمیر ی سے
ِ عثمانیہ دار الخیر اجمیر پہنچے ،اور جامع
چند ماہ کے بعد آپ کے والد ماجد نے موالنا اجمیری کو سیال شریف آنے کی دعوت دی ،تو آپ بھی اُن کے ساتھ وطن آ
گئے اور پورے انہماک کے ساتھ اُن سے کسب علم میں مشغول ہو گئے ،اور1351 ھ ،بمطابق1932 ء میں تکمیل
ِدرسیات کر کے سن ِدفراغت حاصل کی۔1356ھ ،بمطابق1938ء میں بموقع حج وزیارت علماءحرمین شریفین سے بھی
سندیں حاصل کیں۔ مدینہ منورہ میں اندلس کے قاضی شیخ ابوبکر النبائی سے سند حدیث حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں
مدرسہ صولتیہ کے شیخ الحدیث عالمہ عمرو ممدان المکی سے سند حدیث حاصل کی۔
مجاہدانہ زندگی
آپ کے والد نے مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کے لیے گھڑ سواری ،نشانہ بازی اورشمشیر زنی کی بھی اچھی تربیت
دی۔ اور جفا کش زندگی کی عادت ڈالی۔
بیعت وخالفت
والد خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت وخالفت حاصل ہوئی۔ اور اپنے والد کی
وفات پر سیال شریف کی مسند سجادگی کو رونق بخشی اور جانشینی کا حق ادا کیا۔
القابات و خطابات
علمی مقام
محمد قمر الدین سیالوی نے ہزاروں گم کردہ را ہوں کو راہ ِہدایت سے ہمکنار فرمایا۔ آپ سیدھے سادھے مسلمانوں کے
ایمان اور خوش عقیدگی کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ فرقہائے باطلہ کی تردید• میں سینہ سپر رہے۔ شیخ االسالم عربی
فارسی اردوسرائیکی اور پنجابی زبانوں میں تسلسل کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے۔ عربی میں کمال درجے کا شغف
تعالی نے آپ کو
ٰ رکھنے کے عالوہ آپ کو اس زبان میں بال تکلف مضمون لکھنے کی بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ ہللا
اس غضب کا حافظہ عطا کیا تھا کہ سالوں پہلے پڑھی ہوئی کتابوں کے مضامین آپ کے پیش نظر رہتے تھے۔ آپ کو
تقاب ِل ادیان پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے اپنے زور علم اور زور بیان سے مسیحیوں کے ساتھ مناظرے اور
مباحثے کیے جس میں بڑے بڑے مسیحی پادرویوں کو منہ کی کھانی پڑی۔
سیاسی خدمات
آپ حُسن اخالق کے پیکر اور اپنے بزرگوں کے سچے جانشین تھے۔ علماءومشائخ کے طبقہ میں یکساں مقبول تھے،
پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم دینی و سیاسی تنظیم جمعیت علماء پاکستان کے 1970کے شدید بُحران اور اختالف کی
فضاء میں باتفاق رائے صدر منتخب کیے گئے۔ آپ کی قیادت میں جمعیت علما پاکستان نے بہترین کا رہائے نمایاں سر
انجام دیے تھے۔ خواجہ سیالوی نے مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کا ہاتھ بٹانے کے عالوہ
اپنے ذاتی فنڈ سے بے شمار مہاجروں کے گھروں کو آباد کیا۔1965ء کی جنگ کے موقع پر آپ نے اپنی تمام جمع
پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کرادی اور اپنے مریدین اور معتقدین کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا۔ آپ
کے ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے زیورات بھی ملک پر قربان کر دیے اور اپنے احباب
کو قنوت نازلہ پڑھنے کا حکم دیا۔ آپ بیحدخودداراورغیورتھے۔ کبھی بھی ذات مفادات آپ کی رکاوٹ نہ بن سکے
اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰ ن نے بتایا کہ قمر الدین سیالوی نے اسالمی نظریات
حتی کہ سفر کے اخراجات کے لیے بھی آپ نے کبھی بھی حکومت کونسل کے لیے ہمیشہ تنخواہ کے بغیر کام کیا ہے۔ ٰ
سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔
تالیفات
مذھب شیعہ
بالغ المبین
تحقیق فی الطالق
تنویر االبصار تقبیل المزار
وفات
آپ 17رمضان المبارک1401 ھ ،بمطابق20جوالئی1981 ء ،کواپنے• خالق حقیق سے جاملے۔ سیال شریف ضلع سرگودھا
میں آپ کا مزار مرجع خاص و عام ہے(اولیاہللا)
پیدائش پیر سید مہر علی شاہ رحمة ہللا علیہ
پير سید مہر علی شاہ گولڑہ شریف (جو راولپنڈی اور اسالم آباد کے درمیان میں واقع ہے)میں
14اپریل1859 ء بمطابق 1رمضان1275 ھ کو پیدا ہوئے
نام ونسب
پیر سید مہر علی شاہ کے و ا لد کا نا م سید نذر دین شا ہ ابن سید غال م شا ہ ابن سید رو شن دین شا ہ ہے جبکہ آپ کی
وا لدہ محتر مہ کا نا م معصو مہ مو صو فہ بنت پیر سید بہا در شا ہ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب 25وا سطو ں سے سید نا
شیخ عبدا لقا در جیال نی المعر و ف غو ث االعظم سے اور 36وا سطو ں سے سیدنا اما م حسن سے جا ملتا ہے۔
آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام پیر سید غالم محی الدین گیالنی تھا اور انکو آپ پیار سے "بابو" بالیا
کرتے تھے۔بابو جی کےدو صاحبزادے ہیں،ایک پیر سیدغالم معین الدین شاہ اور دوسرے پیر سید عبدالحق شاہ۔ پیر سید
غالم معین الدین شاہ کے صاحبزادگان پیر نصیر الدین نصیر،پیر غالم جالل الدین شاہ اور پیر غالم حسام الدین شاہ
ہیں،جبکہ پیر عبدالحق شاہ کے دو صاحبزادے ہیں،ایک پیر غالم معین الحق شاہ اور دوسرے پیر غالم قطب الحق شاہ۔
تعلیم و تربیت
پیر مہر علی شا ہ نے صرف چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا اور نا ظر ہ قر آن مجید پڑھنے کے لیے آپ
کو خا نقا ہ کی در سگاہ میں اردو ،فا رسی وغیر ہ کی تعلیم کے لیے مدرسہ میں دا خل کرا دیا گیا ،قو ت حا فظہ کا یہ
عالم تھا کہ قرآن مجید کا سبق روزانہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے۔ جب قرآن حکیم ناظرہ ختم کیا ،تو اس وقت
آپ کو پورا قرآ ن کر یم حفظ بھی ہوچکا تھا۔
عر بی ،فا رسی اور صر ف ونحو کی تعلیم مو ال نا محی الدین سے حاصل کی ،آپنے ”کافیہ “ تک اپنے اُستا ذ سے
تعلیم حا صل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے حسن ابدا ل کے نو اح میں مو ضع ” بھوئی “ کے مو ال نا محمد
شفیع قریشی کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور دو ،اڑھائی سال میں رسائل ِمنطق میں سے قطبی تک اور نحو اور اصول
کے در میا نی اسبا ق تک تعلیم حا صل کی۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے مو ضع ’انگہ( ‘ عال قہ سو ن ضلع شا ہ پو ر )
کا سفر اختیا ر کیا اور وہا ں پر موالنا حافظ سلطان محمود سے تکمیل کی۔
بیعت و خالفت
انگہ“ میں قیا م کے دو را ن مو ال نا حا فظ سلطا ن محمو دکے ساتھ ”سیا ل شریف‘ ضلع سر گو دھا ،خو اجہ شمس
الدین سیا لو ی چشتی کی زیا ر ت کے لیے جا یا کر تے اور خو ا جہ سیا لو ی آپ پر خصو صی شفقت و محبت فر
ما تے تھے۔ چنا نچہ اسی شفقت و محبت کی وجہ سے پیر سید مہر علی شاہ سلسلہ چشتیہ نظا میہ سلیما نیہ میں شمس
الدین سیا لو ی سلیما نی کے دست پر بیعت ہو ئے اور خالفت سے نواز ا(مہر منیر)
سیرت و خصائص
وہ ایک عظیم رہنما ،ولی ہللا ،حنفی عالم اور قادیانی مرزائی فرقے کے سخت مخالف مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی
کتابیں خاص طور غیر راسخ العقیدہ اور مرزائی فرقے کے رد میں "سیفِ چشتیائی" لکھی
تصانیف
تحقيق الحق فی كلمۃ الحق
مکتوبات طیبات
وصال
منگل کے دن 29صفرالمظفر1356ھ بمطابق 11مئی1937ءکو آپ کاوصال ہوا۔ آپ کا مزار شریف گولڑہ
مرکز انوار وتجلیات ہے
ِ شریف،اسالم آباد میں
عالمہ اقبال کی خوشی دیدنی تھی چنانچہ آپ نے کہا” :ولی ہللا کی زبان سے ادا ہونے واال میرا یہ شعر میری نجات کے
“لیے کافی ہے۔
وفات
مزار اقدس
شیخ شرف ا لدین بو علی قلندر حضرت امیر خسرو کے ہم عصر تھے انہوں نے ایک موقع پر امیر خسرو سے مخاطب
(متوفی ( 1380سے منسوب فقروں ٰ ہوکر یہ جملہ کہا ’’تو سب کا کچھ سمجھ دا ‘‘۔۔ شیخ شرف ا لدین احمد ٰ
یحی منیری
میں یہ شامل ہیں ’’ : دیس بھال پروور ‘‘ باٹ بھلی برسا نہ کرے ‘‘ اب لک دن برے گئے اب سکھ ہوئے ‘‘ جو من کا
منسا سوئی ہووئے‘‘ امیر خسرو (1325-1252ء) کی اردو اور فارسی شاعری اور ملفوظات کے بعد شمالی ہند میں
پورے تین سو سال تک سناٹا چھایا رہا اس طویل خاموشی کے بعد سترھویں صدی کے اوائل میں پھر سے ادبی شعور
کی روح بیدار ہوئی جس کی بنیاد میں ’’صوفیا ئے کرام کاا ردو زبان و ادب کی خدمات‘‘ اہم ذریعہ اور سبب بنیں
(ملخص : اردو زبان و ادب ،بی اے سال اول )۔
عالؤ الدین خلجی اور محمد تغلق کے زمانے میں معاشرتی اورسیاسی سطح پرترک باشندوں نے مقامی زبانوں کو اپنے
بول چال میں شامل کیا اس طرح ابالغ و ترسیل کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔شاہان وقت کے ہمراہ صوفیا اور
علما زبان کا سرمایہ اپنے ساتھ الئے تھے لسانی سطح پر مقامی زبانوں کے میل مالپ نے اردو زبان و ادب کو جنم دیا
جسے ہم ادب کا قدیم سرمایہ تصور کرتے ہیں۔ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز (1422۔ )1321اسی عہد میں
رشدو ہدایت ،تفسیر حدیث اورسلوک کے درس و تدریس ،اور ماتحتوں کے ساتھ عدل و انصاف کے قیام پر بڑا زور دیا
اس حوالے سے آپ کے ملفوظات ،محفل سماع میں گائے جانے والے سہیلے ،چکی نامے ،اور غزلیں بھی دستیاب ہیں۔
میراں جی شمس ا لعشاق( 902 – 994یا۔)904جن کا سلسلہ ء خالفت دو واسطوں سے بندہ نواز تک پہونچتا ہے آپ
نے چھ مثنویاں شہادت الحق یا شہادت ا لحقیقت ،خوش نامہ خوش نغز ،شہادت نامہ ،مغز مرغوب اور وصیت ا لنور
لکھے ہیں۔خواجہ بندہ نواز کے صاحب زادے اکبر حسینی کی علم او ادب سے وابستگی نے اردو زبان و ادب کو پروان
چڑھانے ،اس کے خد و خال متعین کرنے اور اس کی نوک پلک درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔شمس ا لعشاق نے
مقصدیت میں ڈوبا ہوا صوفیانہ افکارو خیاالت و ملفوظات کی تشریح و توضیح کے لئے سادہ اور براہ راست انداز بیان
اختیار کیا۔(ملخص از اردوزبان و ادب،بی اے سال اول )
فخر الدین نظامی بیدری کی مثنوی ’’پدم راؤ کدم راؤ ‘ ‘ کا مطالعہ لسانی ارتقا کی منزل کا پتہ دیتا ہے جہاں زبان ترقی
کے زینے طی کررہی تھی اور ادبی زبان کے معیار کی طرف گامزن ہوچکی تھی اور اپنے لفظی سرمایہ کو وسیع سے
وسیع کرنے کی کوشش کررہی تھی۔نظامی نے اسلوب اور پیرایہ ترسیل کو موثر بنانے اور اس کی معنویت میں اضافہ
کرنے کے لئے ملفوظات،مکتوبات ،کہاوتوں اور محاوروں سے بھی مدد لی ہے۔ یہ مثنوی 22–1421تا )35-1434-کے
درمیان میں کی تصنیف ہے پندھرویں صدی عیسوی کے نصف اول سے گجرات کے بزرگوں کے جو اقوال ،ملفوظات
متوفی1453ء)807کا فقرہ ہے کہ ’’کیا ہے لوہ ہے کہ لکڑ ہے کہ پتھر‘‘آپ کے اور فقرے ملتے ہیں مثالً قطب عالم( ٰ
فرزند شاہ عالم( 888ھ 1483ء )کا فقرہ ہے کہ ’’بکروٹے بدل بکروٹا یا ’’پڑھ دو کرے‘‘۔شیخ بہا الدین باجن احمدآباد ی(
912ھ )1406نے اپنی یاد گار ’’خزائن رحمت اﷲ ‘‘ میں ان کا اردو شعر ملتا ہے۔ باجن چے کسی کے عیب ڈھانچے۔اس
تھی درجن ستھر ستھرکانپے۔باجن کی ایک مثنوی ’’جنگ نامہ پیشوا زوساری‘‘ جو 219اشعارپر مشتمل ہے۔قاضی
محمود ریائی نے جکریاں یادگار چھوڑی ہیں دو شعر مالحظہ فرمائیں۔ جاگ پیاری اب کیا سوئے۔ رین کمیٹی تیوں دن
کھودے۔ باچ نہ پالے اپنے پیو کیوں پیتاوے۔ تیرے چرنوں کیری محمود وارن جائے۔(ملخص ازاردوزبان وادب،بی
اے،سال اول)
صوفیا نے رشد و ہدایت کے لئے تصوف کے رموز و اسرار کی وضاحت کو زیادہ موزوں اور مناسب سمجھا اور اسی
پر اپنی تصنیف و تالیف کی عمارت کھڑی کی وہ تما م عال متیں جو صو فیا ئے کرام نے معر فت کے منا زل اور مر ا
حل کے اظہا ر کے لئے وضع کی تھی اردو غزل میں صو فی شعر ا ء اور غیر صو فی شعر اء سبھی استعما ل کر نے
لگے یہ لفظ استعار ے غزل کا ال ز می جزبن گئے۔جیسے شراب ،سا قی ،سا گر۔ وغیرہ چنا نچہ ان کی شعر ی الفا ظ کی
ضر ورت شعر ی کے مطا بق مو ڑ توڑ لیا جا تا تھا۔ کہیں کسی حر ف کو گر ا کر پڑ ھنے سے وزن کا سرا مل جا تا
ہے اور کہیں سکتے کو دور کر نے کے لئے اا ٓ و از کے کھینچ کر پڑ ھنا پڑ تا ہے۔ قا فیو ں کی بھی کو ئی خا ص اصو
ل کی پا بند ی ان کے ہا ں اکثر مفقو د ہے۔ قا فیے میں صر ف آ و از کا خیا ل رکھتے۔ لفظ جیسے بو ال جا تا ویسا ہی
تحر یر میں لے آ تے جیسے شروع کو شرو اور صحیح کو سہی لکھ دیتے۔اور ان ملفوظات کا عو ام سے چونکہ گہر ا
تعلق تھا ا اسلئے اس زبا ن کو صوفیا نے اخال ق کا ذر یعہ بنا یا یہ ز با ن اس وقت عو ام میں را ئج تھی لیکن فا رسی
کی قدر و منز لت تک نہیں پہنچ سکی تھی۔اس عہدمیں• ا ن عر و ضی ا صو لو ں کی بھی سختی سے پا بند ی ممکن نہ
تھی۔ اس لیے ردیف و قو ا فی میں حسب ضر ورت تغیر و تبدل کی مثا لیں بھی مو جو د ہیں۔ اکثر ردیفو ں میں َ’’س‘‘
ضر ورت ) ( PHONEMEاور ’’ص‘‘ اور ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ اور ’’ا ‘‘اور ’’ک‘‘ اور ’’ق‘‘ کو ایک ہی صو یتے
شعر ی کے لحا ظ سے سا کن کو متحر ک اور متحر ک کو سا کن بنا دیا گیا ہے اور اسے طر ح سا دہ الفا ظ کو مشد د
اعلی ترین
ٰ اور مشدد کو سا دہ الفا ظ میں تبد یل کر دیا گیا ہے۔۔ادب کے اس ابتدا ئی دور میں نثر اور شعرا کے کے
نمونوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ادبی زبان کا عہد طفولیت تھا اس لئے اس میں منجھی ہوئی زبان اور نکھرے
ہوئے اسلوب کی مثال نہیں ملتی اردو زبان و ادب میں رچاؤ اور پختگی تشکیلی دور آغاز سے نہیں دور ترقی کی پیداوار
ہوتی ہے جو آٹھارویں صدی سے شروع ہوئی اور تھے عہد بلو غیت سے تعلق اور اس طرح بعد• بعد ملفوظات نے کیوں
کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق آج بھی اس کی اہمیت اور انفرادیت مسلم ہے۔(ملخص از
اردوزبان وادب،بی اے،سال اول)
فصل دوم
ان ملفوظات و مکتوبات سے ہمیں صوفیٕا اور علما کے درمیان پاۓ جانے والے رشتے،سلطان اورصوفیا کے درمیان
تعلقات،سلطان کی مذہبی سوچ اور ان کی زندگی میں مذہب کے تٸیں روداری کے بارے میں پتہ چلتا ہے جتنی بھی
مذہبی کتابیں لکھی گٸی ہیں ان میں سماجی صورتحال کوبڑے خوبصورت انداز سے واضح کیا گیا ہے۔خانقاہ اور صوفیا
کارشتہ صحیح معانی میں سماج سے جڑا ہوا تھا جسکی وجہ سے ان کی تحریروں میں سماجی زندگی کی تصویر
دیکھنے• کو ملتی ہے۔اور اگر ہندوستان کی بات کریں توپروفیسر خلیق احمدنظامی نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ ہندوستان کی
سماجی اہمیت کا مطالعہ ملفوظات کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا(ملفوظات کی تاریخی اہمیت)۔
اینالس اسکول آف تاریخ نویسی“نے تاریخ نویسی کے سلسلے میں ایک نظریہ پیش کرتے ہوۓ کہاکہ کوٸی بھی تاریخ ”
بغیر سماج کا مطالعہ کیے پوری نہیں ہوسکتی۔صرف راجا اور اسکی سیاست کو پڑھ لینے سے صحیح تاریخ کی بنیاد
نہیں رکھی جا سکتی بلکہ سماجی صورتحال اور ماحول کو دیکھتے• ہوۓ راجا اوراسکی سیاست کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
اینالس اسکول آف تاریخ نویسی کے اس خیال کو پوری دنیا میں قبول کیا گیا۔اس کے خیال کے مطابق ان ملفوظات و
مکتوبات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ان کے مطالعہ کے بغیر تمام تاریخی پہلوٶں کا مطالعہ کرنا اور سمجھنا
ہمارے بزرگوں کی ایسی وراثت ہیں جس میں ہماری تہذیب و ثقافت علمی و دینی وراثت اور تاریخ پوشیدہ ہےجس کی
پاسداری بے حد ضروری ہے ۔ یہ بات شعبہ فارسی کے صدر پروفیسر عبدالحلیم نے اپنے صدارتی کلمات میں کہی
پر منعقدہ اس تقریب میں انہوں نے کہا کہ تاریخ سے ناآشنائی کی سب سے بڑی وجہ اس کا نصاب میں شامل نہ ہونا
ہے۔ جس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے اپنے نصاب میں تاریخ کو جگہ دی ہے۔ پروفیسر موصوف نے
کہا کہ فارسی ادبیات عرفان و تصوف سے لبریز ہے آج دنیا میں اختالفات کی اصل وجہ مادیت پرستی ہے جس کو
تصوف ہی کافورکرسکتا ہے۔ شعبہ تاریخ جامعہ ملیہ اسالمیہ کے سابق صدر پروفیسر عزیز الدین حسین ہمدانی نے کہا
کہ ہندوستان میں مذہبی کتابیں بہت لکھی گئی مگر تاریخ پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جن کتابوں کو ہم تاریخی کتابوں
میں شمار کرتے ہیں وہ دراصل تاریخی نہیں بلکہ مذہبی ہیں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں تاریخ نویسی کی بنیاد
مسلمانوں نے ڈالی ۔ منہاج سراج کی ”طبقات ناصری“ ہندوستان کی سب سے پہلی تاریخ کی کتاب مانی جاتی ہے لیکن
اس کے اندر بھی ہندوستانی تاریخ کم اسالمی تاریخ زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ ضیاء الدین برنی کی تاریخ ”فیروز شاہی“
میں جو دیباچہ رقم ہے وہ بہت جامع ہے اس جیسا دیباچہ موجودہ تاریخ والوں نے نہیں• لکھا آج ہماری پسماندگی کی ایک
وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے مذہب بلکہ اپنے ملک کی تاریخ سے بھی ناآشنا ہیں پروفیسر موصوف نے کہا کہ
خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ ان کے فیض یافتگان میں امیر خسرو جیسا
انہوں نے کہا کے ضیاء شاعر حسن سنجری جیسا شاعر و ادیب اور ضیاء الدین برنی جیسا نامور مورخ پیدا ہوا ہے
الدین برنی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ کو اسالمی اور مذہبی حدود میں محصور نہ رکھ کر سماجیات اور
معاشیات پر بھی گہرا نقش چھوڑا ہے انہوں نے کہا کہ حسن سنجری نے ملفوظات میں فوائد الفواد کے نام سے خواجہ
نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو جس ڈھنگ سے ترتیب دیا ہے وہ کسی اور کے ملفوظات میں خال خال ہی ملتا
پروفیسر موصوف نے کہا کہ بابرنے ” تزک بابری “لکھی ہمایوں پراگندہ حاالت کا شکار رہا جس کے سبب اسے
لکھنے کا موقع نہ مل سکا البتہ اکبر نے اسالم کے ہزار سال پورے ہونے کی مناسبت سے علماء کی ایک ٹیم تیار کی
جس نے” تاریخ الفی“ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جو اکبر کے معیار پر کھڑی نہ ثابت ہوٸی سولہویں صدی
عیسوی میں ابوالفضل جیسا گزیٹر ہمیں مشرق و مغرب میں کہیں دکھائی نہیں دیتا ” .آئینہ اکبری“ کو ہم اس عہد کی
جامع و مانع اور منفرد گزیٹر کے طور پر یاد کر سکتے ہیں۔ پانچویں توسیع خطبہ کے خطیب المصطفی انٹرنیشنل
یونیورسٹی ایران کے ہندوستان میں نمائندہ محمد رضا صالح نے” فارسی ادب میں عرفان اسالمی “کے موضوع پر اپنا
خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سبھی ادبیات میں چار عناصر مشترک ہیں ۔ ١۔ نکویی ٢۔زبایی ٣۔دانائی ٤۔اور عشق۔ اور
یہ چاروں عناصر ہماری فارسی زبان میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔عرفان و تصوف پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے
کہا کہ کسی بھی صوفی کے لیے چار چیزیں الزم ہیں ۔١۔ قرآن کے موافق ہو ٢۔سنت نبوی کے مطابق ہو ٣۔ اس کے
عمل میں بدعت نہ ہو ٤۔اور اسے عقل بھی قبول کرے انہوں نے فارسی ادب بالخصوص تصوف کے حوالے سے گفتگو
کرتے ہوئے کہا کہ فارسی کا پہال شاعر جس کے یہاں باقاعدہ تصوف دیکھا جا سکتا ہے وہ سنائی ہے سنائی نے نہایت
حسین پیرایہ میں تصوف پر گفتگو کی ہے اس سلسلے میں موصوف نے غزالی و رومی اور حافظ کے کالم پر جامع
) UNIنٸی دہلی۔ ١٣مارچ( بحث کی لہذا مکتوبات و ملفوظات کا مطالعہ از حد
ضروری ہے تاکہ اول وآخر کے علم تک رساٸی حاصل کی جا سکے۔تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ ملفوظات و مصنفات ہماری
ہرمحاذپراصالح کرتے ہیں آجکل جن براٸیوں میں انسان مدہوش ہے ملفوظات ان سے بھی نجات کا ذدریعہ ہیں۔عاٸلی
زندگی،اخالقیات،حسن معاشرہ،اسالم کے ضروری پہلو،علم حاصل کرنا اور اس موجودہ دور کی ظاہری و باطنی
بیماریوں سے بچاٶ میں ملفوظات و مکتوبات مٶثر ثابت ہو سکتے ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی کےملفوظات و مکتوبات
شریفہ ان تمام کیلیے کافی کارآمد ہیں۔آپکے مکتوبات میں دور اکبری و جہانگیری کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی
رہنماٸی ملتی ہے خصوصا باطنی بیماریاں دور کرنے میں آپکے مکتوبات اپنی مثال آپ ہیں۔باطنی بیماریوں میں بڑی
بیماری عقاٸد کی عدم درستگی ہے جسکی لپیٹ میں آج کافی پیر حضرات آچکے ہیں۔ان پیروں اور انکے مریدوں کی
ت صوفیٕا خصوصا مکتوبات امام ربانی شیخ احمد سرھندی رحمہ ہللا ہیں۔یہ مکتوبات
نجات کا ذریعہ مکتوبات و ملفوظا ِ
٤٠٠سال پہلے کے ہیں۔بلکہ اگرماضی قریب کے مشاٸخ(خواجہ خواجگان خواجہ فقیر محمد چوراہی فاروقی رحمہ ہللا ،
خواجہ خواجگان خواجہ نور محمد چوراہی فاروقی رحمہ ہللا ،خواجہ پیر محمد شفیع چوراہی فاروقی رحمہ
ہللا ،پیرسیدجماعت علی شاہ صاحب رحمہ ہللا ،پیر سیدمہرعلی شاہ صاحب رحمہ ہللا ،خواجہ پیر محمد قمرالدین سیالوی
صاحب رحمہ ہللا کے فرمودات کو بھی لیا جاۓ تو توشہ نجات میسر آسکتا ہے
باب دوم
فصل اول