You are on page 1of 49

‫بسم هللا الرحمن الرحيم‬

‫تمہید‬

‫الحمدہلل رب العلمین والصلوة والسالم علی سیداالنبیاء والمرسلين‬

‫وعلی الہ وصحبہ اجمعین‬

‫امابعد‬

‫فاعوذباہلل من الشیطن الرجیم‬

‫بسم ہللا الرحمن الرحیم‬

‫وقال النبي‬ ‫ياايهاالذين امنوااتقواهللا وكونوامع الصدقين‬


‫اليجداحدحالوۃااليمان حتی یحب المرءاليحبه االهلل‬ ‫صلي هللا عليه وسلم‬

‫انتساب‬

‫میں اپنی اس سعی جمیلہ کو انتہائی خلوص اور انکساری کے ساتھ اپنے معزز و محتشم والدین کے تحت خيركم من تعلم‬
‫القرآن وعلمه کی طرف رہنمائی کی۔‬

‫کے نام کرتا ہوں جنہوں نے مجھ پر احسان عظیم کرتے ہوئے الدين النصيحة‬

‫اکابرمشاٸخ اہلسنت کے ارشادات ونصاٸح‬


‫)خواجہ قمرالدین سیالوی۔پیر جماعت علی شاہ۔پیرمہرعلی شاہ(‬

‫فہرست‬

‫باب اول‬

‫فصل اول‬

‫تصوف اور صوفیا‬

‫فصل دوم‬

‫ملفوظات و مکتوبات صوفیا کی تاریخی حیثیت‪،‬اہمیت وافادیت‬

‫باب دوم‬

‫فصل اول‬

‫مشہورملفوظاتی کتب فہرست مع مولفین اکابرین کاتعارف وجلیل القدرخدمات‬

‫فصل دوم‬

‫خانقاہی نظام کی اصالح کیلیے کاوشیں‬


‫باب اول‬

‫فصل اول‬

‫تصوف اور صوفیاء‬

‫بزرگان دین کے ملفوظات و مکتوبات سے پہلے بزرگان دین کے تصوف کا ذکر ضروری ہے تاکہ مقصود‬
‫لہذا مذکورہ بحث سے پہلے تصوف اور صوفیاء کا مختصر‬ ‫بوجہ اتم حاصل ہو جاۓ‬
‫سا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔‬

‫تصوف اور صوفیا‬

‫‪:‬صوفی‘‘ اور ’’تصوف‘‘ کی اصل قرآن مجید میں بھی ہے۔ قرآن مجید میں ہللا رب العزت نے ارشاد فرمایا’’‪ ‬‬

‫اﷲ لَ ُکم فِيها خير فَاذْ ُکروا اسم ِ‬


‫اﷲ َعلَْي َها‬ ‫والْب ْد َن جع ْلٰنـها لَ ُکم ِّمن َشعآِئِر ِ‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ٌ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫َ ُ ََ َ ْ ْ َ‬
‫‪.‬ص َو َّ‬
‫آف‬ ‫َ‬
‫اور قربانی کے بڑے جانوروں (یعنی اونٹ اور گائے وغیرہ) کو ہم نے تمہارے لیے اﷲ کی نشانیوں میں سے بنا دیا ’’‬
‫ہے ان میں تمہارے لیے بھالئی ہے پس تم (انہیں) قطار میں کھڑا کرکے (نیزہ مار کر نحر کے وقت) ان پر اﷲ کا نام‬
‫‘‘لو‬

‫)الحج‪(36 :22 ،‬‬

‫ص َو َّ‬
‫آف کہتے‬ ‫اس آیت مبارکہ کے مطابق نذر ہونے سے پہلے ہللا کے حضور ایک صف میں کھڑے ہو جانے والوں کو َ‬
‫ہیں۔‬

‫موسی اشعری رحمۃ ہللا علیہ‪ ،‬امام حسن بصری رحمۃ ہللا علیہ‪ ،‬حضرت مجاہد رحمۃ ہللا علیہ اور زید بن اسلم‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ابو‬
‫صافِيَہ کی جمع ہے۔ اسی سے‬
‫ص َوافِ َي پڑھا جو َ‬ ‫ص َو َّ‬
‫آف کو دوسری قرات میں َ‬ ‫رحمۃ ہللا علیہ نے قرآن کے اس لفظ َ‬
‫’’صوفی‘‘ مشتق ہے کہ صوفیاء وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی ہللا کے حضور نذر کر دیتے ہیں اور ان کے دل ایک صف‬
‫میں جڑ کر موال کے ُرخ اور چہرے کے سامنے کھڑے رہتے ہیں۔ دن ہو یا رات‪ ،‬تھکن ہو یا راحت‪ ،‬کاروبار ہو یا‬
‫صف اول کی حاضری نصیب‬ ‫ِ‬ ‫ریاضت و مجاہدہ اُن کے دلوں پر کبھی غفلت نہیں آتی۔ جنہیں یہ حضوری مل جائے اور‬
‫طرز زندگی کو تصوف کہتے• ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ہو جائے‪ ،‬ایسا دل رکھنے والوں کو صوفی اور ایسے‬
‫‪‬‬ ‫معنی یہ ہے کہ جنگ میں فتح کی صورت میں ملنے واال وہ مال غنیمت جو بادشاہ تقسیم سے پہلے اپنے‬ ‫ٰ‬ ‫لغت میں صَ َفا کا ایک‬
‫صفِی کہتے ہیں‪ ،‬یہ صَ َفا سے ہے۔ بادشاہ دوسروں‪ .‬کا حصہ نہیں مارتا‪ ،‬چونکہ بادشاہ ہونے کی‬ ‫ُ‬
‫لیے چن لیتا ہے‪ ،‬اس کو ال َّ‬
‫حیثیت سے اس کا بھی حصہ ہوتا ہے لہذا وہ اپنا حصہ لیتا ہے‪ ،‬لیکن دوسروں سے پہلے لے لیتا ہے۔‬

‫پس اس معنی کی رو سے جو مال بادشاہ چن لے وہ ال َّ‬


‫صفِی کہالتا ہے اور دلوں کا جو حصہ کائنات کا بادشاہ اپنے لیے‬
‫چن لے اُس کو صوفی کہتے ہیں۔ گویا جنہیں ہللا چُن لے وہ صوفی کہالتے• ہیں۔ بالفا ِظ دیگر صوفی چُنے ہوئے لوگ‬
‫ہوتے ہیں اور جو صوفیاء کو نہیں مانتے وہ دھتکارے ہوئے لوگ ہوتے ہیں۔ ہللا جسے چن لیتا ہے ان کے نام کے‬
‫چرچے چہار دانگِ عالم میں ہوجاتے ہیں اور دنیا اُن میں سے کسی کو خواجہ معین الدین اجمیری رحمۃ ہللا علیہ‪ ،‬کسی‬
‫ب ٰالہی رحمۃ ہللا علیہ‪ ،‬کسی کو غوث االعظم رحمۃ ہللا علیہ‪ ،‬کسی کو شہاب الدین سہروردی رحمۃ ہللا علیہ‪،‬‬
‫کو محبو ِ‬
‫کسی کو شیخ احمد الرفاعی رحمۃ ہللا علیہ اور کسی کو ابو الحسن شاذلی رحمۃ ہللا علیہ‪،‬کسی کو خواجہ قمرالدین سیالوی‬
‫رحمةہللا علیہ‪،‬کسی کو پیر مہر علی شاہ رحمة ہللا علیہ اور کسی کو پیر جماعت علی شاہ کے ناموں سے جانتی اور‬
‫پکارتی ہے۔ بات ُچننے اور رد ہو جانے کی ہے۔ جو چُنے جاتے ہیں وہ صوفی ہو جاتے ہیں اور جو رد کر دیے جاتے‬
‫ہیں وہ صوفیوں کے منکر کہالتے• ہیں۔‬

‫لفظ ’’تصوف‘‘ اور ’’صوفی‘‘ حدیث مبارکہ کی روشنی میں‬

‫قرآن مجید سے صوفی اور تصوف کی اصل اور اس کا مفہوم جاننے کے بعد آیئے اب حدیث مبارکہ سے اس کی اصل‬
‫‪:‬تالش کرتے ہیں‬

‫‪‬‬ ‫کسی غزوہ میں دو صحابی اکٹھے شہید ہوگئے۔ ایک صحابی کا نام عبد اﷲ بن عمرو‪ .‬بن حرام رحمۃ ہللا علیہ تھا اور دوسرے‬
‫صحابی کا نام حضرت عمرو بن جموح رحمۃ ہللا علیہ تھا۔آقا علیہ السالم کی بارگاہ میں دونوں کے جسد الئے گئے۔ آقا علیہ‬
‫‪:‬السالم نے فرمایا‬

‫‪.‬ادفنومها فی قرب واحد‪ ،‬فإهنما کانا متصافيني فی الدنيا‬


‫ان دونوں کو ایک ہی قبر میں اکٹھا دفن کر دو‪ ،‬دنیا میں یہ دونوں صوفی تھے‘‘۔’’‬

‫)ابن ابی شيبه‪ ،‬المصنف‪ ،367 :7 ،‬رقم‪(36757 :‬‬

‫طرز عمل ایسا تھا کہ صوفی و صافی تھے۔ ان کے دلوں میں کدورت‪ ،‬رنجش‬
‫ِ‬ ‫یعنی یہ دونوں اہل صفاء تھے۔ ان دونوں کا‬
‫اور غبار نہیں تھا۔ پس جن کے دلوں سے کدورت کا غبار نکل جائے اُس کو صوفی و صافی کہتے ہیں اور اسی طبقے‬
‫کو صوفیاء کہتے• ہیں۔‬

‫زبان‬
‫ِ‬ ‫آقا علیہ السالم نے اس حدیث مبارکہ میں متصافیین کا لفظ استعمال فرمایا۔ گویا اس حدیث میں تصوف کا لفظ‬
‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہونے‬
‫ٰ‬ ‫ت مصطفی‬
‫مصطفی سے ادا ہوا۔ کیا اب بھی تصوف پر خارج از اسالم یا خارج از تعلیما ِ‬
‫کا اعتراض کیا جاسکتا ہے؟‬
‫‪‬‬ ‫ٰ‬
‫معنی واضح کرتی ہے کہ صوفی کون ہوتے ہیں؟ حضرت ابو مالک االشعری‬ ‫ایک اور حدیث مبارکہ تصوف اور صوفی کا‬
‫‪:‬رحمۃ ہللا علیہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السالم نے فرمایا‬

‫عبادا ليسوا بأنبياء وال شهداء‪ ،‬يغبطهم‬


‫يا أيهاالناس امسعوا واعقلوا واعلموا أن هلل ً‬
‫النبیون والشهداء علی جمالسهم وقرهبم من اﷲ‬
‫لوگو! میری بات سنو سمجھ اور جان لو! میری امت میں کچھ ہللا کے بندے ایسے بھی ہوں گے جو نہ تو نبی ہوں گے‪’’ ،‬‬
‫تعالی انہیں اپنی مجلس اور قرب میں قیامت کے دن عرش کے اردگرد اس طرح قریب کر کے‬
‫ٰ‬ ‫نہ شہید ہوں گے مگر ہللا‬
‫بٹھائے گا کہ انبیاء اور شہداء کو بھی ان پر رشک آئے گا‘‘۔‬

‫صلی ہللا علیہ وآلہ‬


‫ٰ‬ ‫آقا علیہ السالم کی یہ بات سن کر ایک صحابی کھڑے ہو گئے اور عرض کرنے لگے یا رسول ہللا‬
‫وسلم! نبی اور شہید نہ ہونے کے باوجود ہللا کے قرب و حضور میں اس طرح بٹھائے جانے والے وہ لوگ کون ہوں گے؟‬
‫‪:‬اس کا جواب دیتے• ہوئے حضور علیہ السالم نے فرمایا‬

‫‪.‬هم ناس من أفناء الناس ونوازع القبائل مل تصل بينهم أرحام متقاربة‬
‫میری امت میں مختلف عالقوں‪ ،‬مختلف ملکوں‪ ،‬مختلف قبیلوں‪ ،‬مختلف معاشروں کے یہ لوگ وہ ہوں گے کہ ان کے ’’‬
‫درمیان کوئی خونی رشتہ نہیں ہوگا۔‘‘ مگر‬

‫‪.‬حتابوا فی اﷲ وتصافوا‬
‫‘‘وہ ہللا کی مخلوق سے آپس میں ہللا کے لیے محبت کریں گے اور اُن کے دل صوفی و صافی ہوں گے۔’’‬

‫یعنی ان کے دلوں میں کوئی کدورت نہیں ہوگی۔ یاد رکھیں! سارا تصوف دلوں کی کدورتوں کو ختم کر دینے• کا نام ہے۔۔۔‬
‫تصوف دلوں کی رنجش مٹا دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف دلوں کی تنگ نظری کو وسعت میں بدل دینے کا نام ہے۔۔۔ تصوف‬
‫تکبر کو مٹا کر تواضع النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف بخیلی‪ ،‬کنجوسی ختم کر کے سخاوت النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت مٹا‬
‫کر محبت النے کا نام ہے۔۔۔ تصوف تفرقے مٹا کر وحدت کرنے کا نام ہے۔۔۔ تصوف نفرت کا بخار مٹا کر محبت و پیار‬
‫النے کا نام ہے۔۔۔‬

‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلمنے فرمایا‬


‫ٰ‬ ‫‪:‬پھر آپ‬
‫يضع اهلل هلم يوم القيامة منابر من نور فيجلسهم عليها فيجعل وجوههم نورا‬
‫‪.‬وثياهبم نورا يفزع الناس يوم القيامة وال يفزعون‬
‫ہللا انہیں قیامت کے دن نور کے منبروں پر بٹھائے گا۔ ان کے چہرے اور لباس منور ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب‬
‫لوگ ڈر رہے ہوں گے‪ ،‬انہیں ڈر نہیں ہوگا۔‬

‫‪.‬وهم أولياء اﷲ الذين ال خوف عليهم وال هم حيزنون‬


‫)نسائی‪ ،‬السنن‪ ،362 :6 ،‬رقم‪(11236 :‬‬

‫‘‘یہی صوفیاء و اولیاء ہوں گے جنہیں نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’‬

‫گویا صافی دل رکھنے والے اولیاء ہللا اور صوفی سب کے خیرخواہ ہوتے ہیں۔ ان کے دل صاف اور کشادہ ہوتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫کے دلوں میں فراخی‪ ،‬سخاوت‪ ،‬شفقت‪ ،‬رحمت اور وسعت ہوتی ہے۔‬

‫۔‬

‫روحانیت کے تین وسائط‬

‫‪:‬اس سارے روحانی سفر میں تین وسائط استعمال ہوتے ہیں‬

‫شریعت ‪1.‬‬
‫طریقت ‪2.‬‬
‫حقیقت ‪3.‬‬
‫‪‬‬ ‫شریعت‪ :‬زندگی میں اِعتدال کا نام شریعت ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫طریقت‪ :‬اپنے نفس سے اِنفصال کا نام طریقت ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫حقیقت‪ :‬محبوب سے اِتصال کا نام حقیقت ہے۔‬

‫‪:‬بالفاظ دیگر‬
‫ِ‬

‫‪‬‬ ‫شریعت‪ :‬را ِہ حق پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔‬


‫‪‬‬ ‫طریقت‪ :‬خود سے جدا ہو جانے کا نام ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫واصل خدا ہو جانے کا نام ہے۔‬
‫ِ‬ ‫حقیقت‪:‬‬

‫وسائط روحانیت کو اختیار کرتا ہے تو یہ سلوک و تصوف‬


‫ِ‬ ‫صوفی جب درج باال روحانی مراحل سے گزرتا ہے اور تین‬
‫اَخالق کو عمدگی دیتا ہے۔۔۔ حوصلوں کو بلندی دیتا ہے۔۔۔ ارادوں کو پختگی دیتا ہے۔۔۔ معامالت کو درستگی دیتا ہے۔۔۔‬
‫مایوسیوں کو ختم کرتا ہے۔۔۔ یقین اور اعتماد کو استحکام دیتا ہے۔۔۔ اَعمال کو طہارت دیتا ہے۔۔۔ اَحوال کو عظمت دیتا‬
‫ہے۔۔۔ اور مقامات کو سکونت دیتا ہے۔‬

‫)افادات تصوف(‬

‫‪‬‬ ‫اولیٕا صوفیٕا کا کام ہمیشہ ہللا اور اسکے رسول کی رضامندی اور خلق خداکی خدمت ہے خواہ بھوکے كاپیٹ بھرنا ہو یا جہنم‬
‫سے بچانا ہو۔قرب و جوار میں رہنے والوں کو تو بالواسطہ فیضیاب فرماتے ہیں اور دور والوں کو مکتوبات و قاصدین کے‬
‫ذریعے فیضیاب فرماتے ہیں۔ماضی قریب میں مذکورہ صفات کی متحمل شخصیات ہمیں پیر سیدجماعت علی شاہ(آستانہ عالیہ‬
‫علی پورسیداں شریف)پیر سید مہرعلی شاہ(آستانہ عالیہ گولڑہ شریف)اور خواجہ قمرالدین سیالوی(آستانہ عالیہ سیال شریف)‬
‫کی صورتوں میں نظرآتی ہیں‬
‫‪‬‬ ‫خواجہ قمرالدین سیالوی رحمة ہللا علیہ‬
‫نام ونسب‬
‫نام ‪:‬خواجہ محمدقمرالدین• سیالوی۔‬

‫لقب‪:‬شیخ االسالم والمسلمین۔‬

‫سلسلۂ نسب اس طرح ہے خواجہ قمر الدین سیالوی‪ ،‬بن خواجہ محمد ضیاء الدین سیالوی بن خواجہ محمد الدین سیالوی‪ ،‬بن‬
‫خواجہ محمدشمس الدین سیالوی‬

‫پیدائش‬
‫ت ‪،15‬جمادی االول‪1324 ،‬ھ‪ ،‬بمطابق‪1904 ‬ء‪ ،‬کو‪ ‬خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی‪ ‬‬
‫قمرالدین سیالوی کی والد ِ‬
‫(گھرسیال شریف‪ ‬ضلع سرگودھا‪ ‬پنجاب میں ہوٸی۔‬
‫)تاریخ مشاٸخ چشت‬
‫حصول علم‬
‫ابتدائی تعلیم وتربیت اپنے دادا‪ ‬خواجہ محمدالدین سیالوی‪( ‬ثانی الثانی) کے زیر اہتمام‬
‫ہوئی۔ ابھی آپ کی عمر مبارک ‪4‬سال کی تھی تودادا کا انتقال ہو گیا۔ جب آپ چار سال‪ ،‬چارماہ‪ ،‬دس دن کے ہوئے تو‬
‫حفظ قرآ ِن مجید کے لیے بٹھادیا گیا۔ اپنی خانقاہ کے‬
‫ِ‬ ‫قصبہ پوہال کے معروف حاف ِظ قرآن‪ ،‬حافظ کریم بخش کی خدمت میں‬
‫مدرسہ ضیاء شمس االسالم کے اساتذہ اور والد ماجد سے اکثر درسی کتب کا درس لینے کے بعد‪1346 ‬ھ‪ ‬میں مدرسہ‬
‫شرف تلمذ اختیار کیا‪ ،‬اسی سن میں‬
‫ِ‬ ‫المنقول والمعقول معین الدین اجمیر ی سے‬
‫ِ‬ ‫عثمانیہ دار الخیر اجمیر پہنچے‪ ،‬اور جامع‬
‫چند ماہ کے بعد آپ کے والد ماجد نے موالنا اجمیری کو سیال شریف آنے کی دعوت دی‪ ،‬تو آپ بھی اُن کے ساتھ وطن آ‬
‫گئے اور پورے انہماک کے ساتھ اُن سے کسب علم میں مشغول ہو گئے‪ ،‬اور‪1351 ‬ھ‪ ،‬بمطابق‪1932 ‬ء‪ ‬میں تکمیل‬
‫ِدرسیات کر کے سن ِدفراغت حاصل کی۔‪1356‬ھ‪ ،‬بمطابق‪1938‬ء میں بموقع حج وزیارت علماءحرمین شریفین سے بھی‬
‫سندیں حاصل کیں۔‪ ‬مدینہ منورہ‪ ‬میں اندلس کے قاضی شیخ ابوبکر النبائی سے سند حدیث حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں‬
‫مدرسہ صولتیہ کے‪ ‬شیخ الحدیث‪ ‬عالمہ عمرو ممدان المکی سے سند حدیث حاصل کی۔‬
‫مجاہدانہ زندگی‬

‫آپ کے والد نے مجاہدانہ زندگی کا خوگر بنانے کے لیے گھڑ سواری‪ ،‬نشانہ بازی اورشمشیر زنی کی بھی اچھی تربیت‬
‫دی۔ اور جفا کش زندگی کی عادت ڈالی۔‬
‫بیعت وخالفت‬

‫والد خواجہ محمد ضیاءالدین سیالوی سے سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں بیعت وخالفت حاصل ہوئی۔ اور اپنے والد کی‬
‫وفات پر سیال شریف کی مسند سجادگی کو رونق بخشی اور جانشینی کا حق ادا کیا۔‬

‫القابات و خطابات‬

‫عاشق نبی مختار‪ ،‬عارف باہلل‪ ،‬مر ِدحقیقت آگاہ‪،‬‬


‫ِ‬ ‫اقلیم فقر کے تاجدار‪،‬‬
‫ب طریقت‪ِ ،‬‬ ‫ب شریعت‪ ،‬ماہتا ِ‬
‫مجسمۂ روحانیت‪ ،‬آفتا ِ‬
‫وارث علوم پیر سیال لجپال‪ ،‬شیخ االسالم و المسلمین کے خطابات سے نوازے گئے جبکہ انگریز نے انہیں ہز ہولی‬
‫نیس(تقدس ماب) جو اس زمانے میں بڑا مذہبی اعزاز تھا یہ یہ خط ان کے پاس پہنچا تو اسے پھاڑ دیا اور فرمایا‬
‫حضورﷺ کی غالمی اور پیر پٹھان ( خواجہ سلمان تونسوی )کی نسبت سے بڑھ کر مجھے کسی اعزاز کی ضرورت‬
‫نہیں۔‬

‫علمی مقام‬

‫محمد قمر الدین سیالوی نے ہزاروں گم کردہ را ہوں کو راہ ِہدایت سے ہمکنار فرمایا۔ آپ سیدھے سادھے مسلمانوں کے‬
‫ایمان اور خوش عقیدگی کے تحفظ کی خاطر ہمیشہ فرقہائے باطلہ کی تردید• میں سینہ سپر رہے۔ شیخ االسالم عربی‬
‫فارسی اردوسرائیکی اور پنجابی زبانوں میں تسلسل کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے۔ عربی میں کمال درجے کا شغف‬
‫تعالی نے آپ کو‬
‫ٰ‬ ‫رکھنے کے عالوہ آپ کو اس زبان میں بال تکلف مضمون لکھنے کی بھی مہارت تامہ حاصل تھی۔ ہللا‬
‫اس غضب کا حافظہ عطا کیا تھا کہ سالوں پہلے پڑھی ہوئی کتابوں کے مضامین آپ کے پیش نظر رہتے تھے۔ آپ کو‬
‫تقاب ِل ادیان پر بھی کامل دسترس حاصل تھی۔ آپ نے اپنے زور علم اور زور بیان سے مسیحیوں کے ساتھ مناظرے اور‬
‫مباحثے کیے جس میں بڑے بڑے مسیحی پادرویوں کو منہ کی کھانی پڑی۔‬

‫سیاسی خدمات‬
‫آپ حُسن اخالق کے پیکر اور اپنے بزرگوں کے سچے جانشین تھے۔ علماءومشائخ کے طبقہ میں یکساں مقبول تھے‪،‬‬
‫پاکستان کے مسلمانوں کی عظیم دینی و سیاسی تنظیم‪ ‬جمعیت علماء پاکستان‪ ‬کے ‪1970‬کے شدید بُحران اور اختالف کی‬
‫فضاء میں باتفاق رائے صدر منتخب کیے گئے۔ آپ کی قیادت میں جمعیت علما پاکستان نے بہترین کا رہائے نمایاں سر‬
‫انجام دیے تھے۔ خواجہ سیالوی نے مہاجرین کی آباد کاری میں بھر پور حصہ لیا اور حکومت کا ہاتھ بٹانے کے عالوہ‬
‫اپنے ذاتی فنڈ سے بے شمار مہاجروں کے گھروں کو آباد کیا۔‪1965‬ء کی جنگ کے موقع پر آپ نے اپنی تمام جمع‬
‫پونجی دفاعی فنڈ میں جمع کرادی اور اپنے مریدین اور معتقدین کو بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا حکم دیا۔ آپ‬
‫کے ایثار و قربانی کا عالم یہ تھا کہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے زیورات بھی ملک پر قربان کر دیے اور اپنے احباب‬
‫کو‪ ‬قنوت نازلہ‪ ‬پڑھنے کا حکم دیا۔ آپ بیحدخودداراورغیورتھے۔ کبھی بھی ذات مفادات آپ کی رکاوٹ نہ بن سکے‬
‫اسالمی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ڈاکٹر جسٹس تنزیل الرحمٰ ن نے بتایا کہ قمر الدین سیالوی نے اسالمی نظریات‬
‫حتی کہ سفر کے اخراجات کے لیے بھی آپ نے کبھی بھی حکومت‬ ‫کونسل کے لیے ہمیشہ تنخواہ کے بغیر کام کیا ہے۔ ٰ‬
‫سے کوئی پیسہ نہیں لیا۔‬
‫تالیفات‬
‫‪‬‬ ‫مذھب شیعہ‬
‫‪‬‬ ‫بالغ المبین‬
‫‪‬‬ ‫تحقیق فی الطالق‬
‫‪‬‬ ‫تنویر االبصار تقبیل المزار‬
‫وفات‬
‫آپ ‪ 17‬رمضان المبارک‪1401 ‬ھ‪ ،‬بمطابق‪20‬جوالئی‪1981 ‬ء‪ ،‬کواپنے• خالق حقیق سے جاملے۔ سیال شریف ضلع سرگودھا‬
‫میں آپ کا مزار مرجع خاص و عام ہے(اولیاہللا)‬
‫پیدائش‬ ‫پیر سید مہر علی شاہ رحمة ہللا علیہ‬
‫پير سید مہر علی شاہ‪ ‬گولڑہ شریف (جو‪ ‬راولپنڈی‪ ‬اور‪ ‬اسالم آباد‪ ‬کے درمیان میں واقع ہے)میں‬
‫‪ 14‬اپریل‪1859 ‬ء‪ ‬بمطابق ‪ 1‬رمضان‪1275 ‬ھ‪ ‬کو پیدا ہوئے‬
‫نام ونسب‬
‫پیر سید مہر علی شاہ کے و ا لد کا نا م سید نذر دین شا ہ ابن سید غال م شا ہ ابن سید رو شن دین شا ہ ہے جبکہ آپ کی‬
‫وا لدہ محتر مہ کا نا م معصو مہ مو صو فہ بنت پیر سید بہا در شا ہ ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب ‪25‬وا سطو ں سے‪ ‬سید نا‬
‫شیخ عبدا لقا در جیال نی المعر و ف غو ث االعظم‪ ‬سے اور ‪ 36‬وا سطو ں سے‪ ‬سیدنا اما م حسن‪ ‬سے جا ملتا ہے۔‬
‫آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کا نام‪ ‬پیر سید غالم محی الدین گیالنی‪ ‬تھا اور انکو آپ پیار سے "بابو" بالیا‬
‫کرتے تھے۔بابو جی کےدو صاحبزادے ہیں‪،‬ایک پیر سیدغالم معین الدین شاہ اور دوسرے پیر سید عبدالحق شاہ۔ پیر سید‬
‫غالم معین الدین شاہ کے صاحبزادگان پیر نصیر الدین نصیر‪،‬پیر غالم جالل الدین شاہ اور پیر غالم حسام الدین شاہ‬
‫ہیں‪،‬جبکہ پیر عبدالحق شاہ کے دو صاحبزادے ہیں‪،‬ایک پیر غالم معین الحق شاہ اور دوسرے پیر غالم قطب الحق شاہ۔‬
‫تعلیم و تربیت‬

‫پیر مہر علی شا ہ نے صرف چار سال کی عمر میں پڑھنا شروع کر دیا اور نا ظر ہ قر آن مجید پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کو خا نقا ہ کی در سگاہ میں اردو‪ ،‬فا رسی وغیر ہ کی تعلیم کے لیے مدرسہ میں دا خل کرا دیا گیا‪ ،‬قو ت حا فظہ کا یہ‬
‫عالم تھا کہ قرآن مجید کا سبق روزانہ آپ حفظ کر کے سُنا دیا کر تے تھے۔ جب قرآن حکیم ناظرہ ختم کیا ‪،‬تو اس وقت‬
‫آپ کو پورا قرآ ن کر یم حفظ بھی ہوچکا تھا۔‬

‫عر بی‪ ،‬فا رسی اور صر ف ونحو کی تعلیم مو ال نا محی الدین سے حاصل کی‪ ،‬آپنے ”کافیہ “ تک اپنے اُستا ذ سے‬
‫تعلیم حا صل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے‪ ‬حسن ابدا ل‪ ‬کے نو اح میں مو ضع ”‪ ‬بھوئی‪ “ ‬کے مو ال نا محمد‬
‫شفیع قریشی کی درسگاہ میں داخل ہوئے اور دو‪ ،‬اڑھائی سال میں رسائل ِمنطق میں سے قطبی تک اور نحو اور اصول‬
‫کے در میا نی اسبا ق تک تعلیم حا صل کی۔ مزید تعلیم کے لیے آپ نے مو ضع ’انگہ‪( ‘ ‬عال قہ سو ن ضلع شا ہ پو ر )‬
‫کا سفر اختیا ر کیا اور وہا ں پر موالنا حافظ سلطان محمود سے تکمیل کی۔‬
‫بیعت و خالفت‬
‫انگہ“ میں قیا م کے دو را ن مو ال نا حا فظ سلطا ن محمو دکے ساتھ ”سیا ل شریف‘ ضلع سر گو دھا‪ ،‬خو اجہ شمس‬
‫الدین سیا لو ی چشتی‪  ‬کی زیا ر ت کے لیے جا یا کر تے اور خو ا جہ سیا لو ی آپ پر خصو صی شفقت و محبت فر‬
‫ما تے تھے۔ چنا نچہ اسی شفقت و محبت کی وجہ سے پیر سید مہر علی شاہ سلسلہ چشتیہ نظا میہ سلیما نیہ میں شمس‬
‫الدین سیا لو ی سلیما نی کے دست پر بیعت ہو ئے اور خالفت سے نواز ا(مہر منیر)‬
‫سیرت و خصائص‬
‫وہ ایک عظیم رہنما‪ ،‬ولی ہللا‪ ،‬حنفی‪  ‬عالم اور قادیانی مرزائی فرقے کے سخت مخالف مانے جاتے ہیں۔ انہوں نے کئی‬
‫کتابیں خاص طور غیر راسخ العقیدہ اور مرزائی فرقے کے رد میں "سیفِ چشتیائی" لکھی‬
‫تصانیف‬
‫تحقيق الحق فی كلمۃ الحق‬ ‫‪‬‬

‫شمس الہدایہ‬ ‫‪‬‬

‫سيف چشتيائى‬ ‫‪‬‬

‫اعال كلمۃ ہللا وما اهل بہ لغير ہللا‬ ‫‪‬‬

‫الفتوحات الصمديہ‬ ‫‪‬‬


‫تصفية ما بين سنی وشيعہ‬ ‫‪‬‬

‫فتاوی مہریہ‬ ‫‪‬‬

‫مراۃ العرفان‬ ‫‪‬‬

‫‪ ‬مکتوبات طیبات‬

‫وصال‬
‫منگل کے دن ‪ 29‬صفرالمظفر‪1356‬ھ بمطابق ‪ 11‬مئی‪1937‬ءکو آپ کاوصال ہوا۔ آپ کا مزار شریف گولڑہ‬
‫مرکز انوار وتجلیات ہے‬
‫ِ‬ ‫شریف‪،‬اسالم آباد میں‬

‫پیر سیدجماعت علی شاہ رحمہ ہللا‬


‫والدت‬
‫پیر سید جماعت علی شاہ‪1834 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬علی پور‪ ‬سیداں‪ ‬ضلع سیالکوٹ‪ ‬پنجاب‪ ‬میں پیدا ہوئے ۔(ایک روایت ‪/4‬صفر‬
‫‪1320‬ھ بمطابق‪ 13‬مئی ‪1902‬ءہے‬
‫))امیرملت پیرسیدجماعت علی شاہ‬
‫نسب‬
‫امیر ملت کے والد کا نام حضرت پیر سید کریم شاہ تھا جو خود بھی عارف باہلل اور ولی کامل تھے۔ آپ نجیب الطرفین‬
‫‪ ‬تک‬ ‫سید ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب اڑتیس‪  ‬واسطوں سے حضرت علی رضی ہللا عنہ‬
‫پہنچتاہے‬
‫تعلیم وتربیت‬
‫امیر ملت نے سات سال کی عمر میں ہی قرآن پاک حفظ کر لیا۔ آپ کا تعلق مسلک اہلسنت و جماعت سے تھا علوم دینیہ‬
‫موالنا غالم قادر بھیروی‪ ،‬موالنا فیض الحسن سہارنپوری‪ ،‬موالنا قاری عبد الرحمن محدث پانی پتی اور موالنا احمد علی‬
‫محدث سہارنپوری سے حاصل کیے۔ سند‪ ‬حدیث‪ ‬علما پاک و ہند کے عالوہ علما عرب سے بھی حاصل کی۔ ایک بار آپ‬
‫علم‬ ‫ث نعمت فرمایا کہ مجھے ‪ 10‬ہزار احادیث مع اسناد کے یاد ہیں‬‫بطور تحدی ِ‬
‫ِ‬ ‫نے‬
‫باطن‬
‫علوم ظاہری کے بعد آپ فیوض باطنی کی طرف متوجہ ہوئے تو امام کاملین قطب زماں‪ ‬بابا جی فقیر محمد چوراہی‪ ‬کے‬
‫ت حق پرست پر‪ ‬سلسلہ عالیہ نقشبندیہ‪ ‬میں داخل ہو کر اسی وقت خرقۂ خالفت سے نوازے گئے۔ اس پر مریدین• نے‬ ‫دس ِ‬
‫اعتراض کیا تو باوا جی نے فرمایا کہ جماعت علی تو چراغ بھی ساتھ الیا تھا‪ ،‬تیل بتی اور دیا سالئی بھی اس کے پاس‬
‫موجود تھی‪ ،‬میں نے تو صرف اس کو روشن کیا ہے۔‬
‫دینی خدمات‬
‫امیر ملت نے پچاس سے زیادہ حج کیے۔ سینکڑوں مسجدیں بنوائیں اور بے شمار دینی مدارس قائم کیے۔ سیاسی تحریکوں‬
‫میں بھی حصہ لیتے رہے۔‪ ‬شہید گنج‪ ‬کی تحریک کے دنوں میں آپ نے ہندوؤں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور برہمنوں کے‬
‫پراپیگنڈے• کا سدباب کرنے کے لیے مبلغین کی ایک جماعت تیار کی جس نے قریہ قریہ اور شہر بہ شہر گھوم کر تبلیغ‬
‫اسالم کی۔‪1935‬ء‪ ‬میں‪ ‬مسجد شہید گنج‪ ‬کے سلسلے میں‪ ‬راولپنڈی‪ ‬شہر میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا‪ ،‬جس میں‬
‫پیر صاحب کو امیر ملت کا لقب دیا گیا۔ تحریک پاکستان کے لیے آپ کی خدمات بے مثال ہیں۔‪ ‬آل انڈیا سنی‬
‫کانفرنس‪ ‬کے سرپرست تھے۔ ‪1885‬ء میں الہور میں‪ ‬انجمن نعمانیہ‪ ‬کی بنیاد رکھی اور‪1901 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬انجمن خدام‬
‫الصوفیہ‪ ‬کی بنیاد رکھی ۔‬
‫عالمہ اقبال اور امیر ملت‬
‫عالمہ اقبال‪ ‬کو امیر ملت سے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیر ملت کی صدارت میں‪ ‬انجمن حمایت اسالم‪ ‬کا جلسہ ہو‬
‫رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں بیٹھنے• کی جگہ نہیں تھی۔ عالمہ اقبال ذرا دیر میں آئے اور امیر ملت کے قدموں میں بیٹھ کر کہا‪:‬‬
‫”اولیا ءہللا کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے۔“ یہ سن کر امیر ملت نے فرمایا‪” :‬جس کے قدموں میں ”اقبال“‬
‫“آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا۔‬
‫عالمہ اقبال کے آخری ایام میں ایک محفل کے دوران میں امیر ملت نے کہا‪” :‬اقبال! آپ کا ایک شعر ہمیں بے حد پسند‬
‫‪:‬ہے۔“ پھر یہ شعر پڑھا‬

‫کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا ؎‬


‫نگا ِہ مر ِد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‬

‫عالمہ اقبال کی خوشی دیدنی تھی چنانچہ آپ نے کہا‪” :‬ولی ہللا کی زبان سے ادا ہونے واال میرا یہ شعر میری نجات کے‬
‫“لیے کافی ہے۔‬

‫وفات‬
‫مزار اقدس‬

‫ذیقد‪1370 ‬ھ‪ ‬بمطابق ‪ 30‬اگست‪1951 ‬ء‪ ‬امیر ملت اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ ‪26‬‬


‫‪ ‬‬
‫‪‬‬ ‫حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری کا امیر ملت پیر"‪ 22 .‬مارچ ‪ 2017‬میں‪ ‬اصل‪ ‬سے آرکائیو شدہ‪ .‬اخذ("‪↑ ‬‬
‫شدہ بتاریخ ‪ 31‬اگست‬
‫‪‬‬ ‫)‪2015‬‬
‫فصل دوم‬
‫ملفوظات ومکتوبات کی تاریخی حیثیت‬
‫اہمیت وافادیت‬
‫ملفوظات کیا ہیں؟‬
‫اہمیت وافادیت؟‬
‫‪‬‬ ‫ا فاضل بزرگ عالمہ اخالق حسین دہلوی رحمہ ہللا نے اس پر جامع کالم فرمایا ہے۔ موصوف نے اس سوال کا جواب ان‬
‫الفاظ گہربار میں دیا ہے۔ ملفوظات مجموعہ ہوتے ہیں ان بیانات کا جو اخالق فاضلہ اور اعمال صالحہ کی ترغیب و تحریص‬
‫کے لئے صوفی بزرگ اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کے مجمع میں بیان کیا کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ ان میں سامعین کی‬
‫استعداد کا ان کے امراض قلبیہ کے دفعیہ کا اور ان کی روحانی ترقی کا پورا پورا لحاظ ہوتا ہے۔ اکابر اولیاء ہللا کا ذکر بھی‬
‫آجاتا ہے جو اثر اور تاثیر کو دوباال کر دیتا ہے۔ ملفوظات کو اشارات و ارشادات اور اقوال و فوائد بھی کہتے ہیں اور ان کے‬
‫مجموعوں کو کتب اہل سلوک‬
‫‪‬‬ ‫اور کتب مشائخ سے تعبیر کرتے ہیں“‪ ٣‬شعبان ‪ ۲۸ / ۷۰۷‬جنوری ‪۱۳۰۸‬ء کو امیر حسن عالءسنجری سلطان المشائخ حضرت‬
‫نظام الدین اولیاء نور ہللا مرقدہ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضرت والی قدر اس وقت حاضرین سے مصروف گفتگو‬
‫تھے اور پروفیسر خلیق احمد نظامی کے الفاظ میں خانقاہ کا پورا ماحول جنت نگاہ اور فردوس گوش بنا ہوا تھا۔ معا" امیر‬
‫حسن کے دل میں خیال آیا کہ اس ماحول کو الفاظ میں مقید کر لیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان روح پرور مناظر کی ایک‬
‫جھلک دیکھ سکیں۔ امیر حسن کا یہ خیال ایک تاریخی فیصلہ بن گیا۔‬
‫‪‬‬ ‫امیر حسن عالء سنجری نے تصوف میں ایک نئی صنف ایجاد کی اور ملفوظ نویسی کی داغ بیل ڈال دی اور یہ فن تصوف کی‬
‫نشر و اشاعت کا ایک موثر ذریعہ بن گیا۔ امیر حسن کے اس تجربے نے اہل قلم کو اس طرف متوجہ کیا اور اوچہ شریف سے‬
‫لے کر بہار شریف تک ملفوظات کی ترتیب و تدوین کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ امیر حسن کے ایک برادر طریقت علی بن‬
‫محمود جاندار نے سلطان المشائخ کے ملفوظات دررنظامی کے عنوان سے قلمبند کئے۔ حمید قلندر نے حضرت خواجه‬
‫نصیرالدین محمود چراغ دہلی کے ملفوظات خیر المجالس کے نام سے مرتب کئے۔ حضرت بندہ نواز گیسودراز کے فرزند‬
‫ارجمند سید محمد اکبر حسینی نے ان کے ارشادات جوامع الکلم کے عنوان سے اور محمد علی سامانی نے سیر محمدی کے‬
‫نام سے جمع کئے۔ حضرت برہان الدین غریب کی مجالس میں ہونے والی گفتگو کو عماد کاشانی نے نفائس االنفاس کے عنوان‬
‫سے اور حماد کا شانی نے‬
‫‪‬‬ ‫احسن اال قوال کے عنوان سے ترتیب دیا حضرت حمید الدین سوالی" کے ملفوظات ان کےپوتے‬
‫‪‬‬ ‫فرید الدین محمود‪ .‬نے سرور الصدور في نور البدور‪ .،‬کے نام سے مدون کیے اخی جمشید را جگیری کی‬
‫‪‬‬ ‫گفتگو یحیی بن علی االصغر قنوجی نے ملفوظات اخی جمشید را بیگری کے عنوان کے تحت قلمبند کر لی‬
‫‪‬‬ ‫حضرت مخدوم شرف الدین احمد بن یحیی منیری کے ملفوظات کے دو مجموعے زین بدر عربی نے معدن المعانی اور خوان‬
‫پرنعمت کے عنوانات سے مرتب کئے۔ مخدوم جہانیاں سید جالل الدین جہانگشت کے ملفوظات جامع العلوم کے عنوان سے‬
‫عالء الدین نے اور خزانہ جواہر جاللیہ کے نام سے فضل ہللا نے مرتب کئے۔ سید محی الدین رضوی نے ملفوظات شاہ مینا‬
‫لکھنوی جمع کئے اور خواجہ جمال نے خیر آبادی کی مجالس میں ہونے والی گفتگو کو تحفة السعدٕا کے نام سے محفوظ کر‬
‫لیا۔ محمود بن سعد ایرجی نے شیخ احمد کھٹو گنج بخش کے ملفوظات مرتب کئے۔ شیخ رکن الدین نے حضرت عبدالقدوس کی‬
‫زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ لطائف قدوسی میں محفوظ کرلئےاورشیخ محمد بن فضل ہللا نے حضرت شاہ وجیہ‬
‫الدین علوی کے ملفوظات جمع کر لیے۔ حضرت خواب معین الدین نقشبندی نے اپنے والد بزرگوار خواجہ خاوند محمود کے‬
‫ملفوظات مراۃ طیبہ کے نام سے محفوظ کر لئے۔ محمد خان شاہ جہاں پوری نے ملفوظ رزاقی کے عنوان سے شاہ عبدالرزاق‬
‫بانسوی کے ملفوظات مرتب کئے اور شاہ رؤف احمد نے درر المعارف کے نام سے شاہ غالم علی دہلوی کے ملفوظات مدون‬
‫کیے۔ ان بزرگوں کے عالوہ بھی مختلف خانقاہوں میں ملفوظات کے مجموعے تیار ہوئے۔ ان ملفوظات کے مطالعہ سے تاریخ‬
‫کے کئی اہم گوشے ہمارے سامنے آئے۔ اگر اسالمی ہند کی تاریخ مرتب کرتے وقت ان ملفوظات سے استفادہ کیا جاتا تو آج‬
‫ہماری تاریخ اس تاریخ سے جو ہمارے نصاب میں شامل ہے‪ ،‬بالکل مختلف ہوتی۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی نے کیا خوب‬
‫فرمایا ہے کہ ملفوظات لٹریچر ہندوستان کی تہذیبی و فکری تاریخ کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اس سے نہ صرف صوفیاء کرام‬
‫کی زندگی اور ان کے افکار ونظریات پر روشنی پڑتی ہے بلکہ اس دور کی ذہنی فضاء معاشی حاالت ادبی تحریکات اور‬
‫سماجی رجحانات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫قرون وسطی کے بیشتر ہندی مورخین ایرانی نظریه تاریخ سے متاثر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کی تاریخوں میں صرف‬
‫بادشاہوں کے حاالت اور جنگی مہموں کی تفصیل ملتی ہے۔ عوام کی زندگی اور ان کے مسائل کی کہیں کوئی جھلک بھی‬
‫دکھائی نہیں دیتی ملفوظات ہمارے تاریخی ماخذ کی اس تکلیف دہ کمی کو ایک حد تک پورا کر دیتے ہیں۔ ان میں عوام کے‬
‫دلی جذبات ان کی پوشیدہ آرزوٸیں کشمکش حیات میں ہار جیت ان کی مایوسیاں اور پریشانیاں ان کی معصوم مسرتیں سب ہی‬
‫محفوظ ہو گئی ہیں۔‬
‫‪‬‬ ‫ملفوظات کا شاید ہی ایسا کوئی مجموعہ ہو جس میں احتکار کی مذمت نہ آئی ہو۔ جب تاجر پیشہ افراد کسی بزرگ کی مالقات‬
‫کو جاتے تو وہ بزرگ ان کی موجودگی‪ .‬میں احتکار کی مذمت ضرور کرتے تھے۔ اس سے یہ متشرح ہوتا ہے کہ یہ مرض‬
‫قرون وسطی میں عام تھا۔ حضرت حمید الدین سوالی فرماتے ہیں کہ محتکر کی یہ کتنی بدبختی ہے کہ لوگ قحط کے زمانے‬
‫میں دانے دانے کو ترستے ہیں اور وہ ان کی مصیبت پر خوش ہوتا ہے کہ اناج کا بھاؤ بڑھ رہا ہے اور وہ خوب منافع کمائے‬
‫گا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدبختی ہو سکتی ہے کہ ایک شخص دوسروں کو مصیبت میں جلتا دیکھ کر خوش ہو۔‬
‫‪‬‬ ‫اہم تاریخی المشافات‬
‫‪‬‬ ‫ملفوظات کے مطالعہ سے ایک نیا انکشاف ہوا ہے۔ مخدوم‪ .‬جہانیاں جس زمانے میں مدینہ طیبہ میں قیام پذیر تھے ان دنوں‬
‫انہوں نے وہاں ایک نئی رسم دیکھی۔ حضرت فرماتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم غزوۂ احد سے فارغ ہو کر‬
‫مدینہ طیبہ تشریف الئے تو شہداء کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی تھی اور آہ و بکا کی آوازیں آرہی تھیں لیکن سید‬
‫الشھداء امیر حمزہ رضی ہللا عنہ کے گھر میں خاموشی تھی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ امیرحمزہ کی شہادت پر آنسو بہانے واال‬
‫کوئی نہیں ہے؟ جب انصار تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے اپنی خواتین کو حضرت حمزہ رضی ہللا عنہ کی تعزیت کرنے کے‬
‫لئے بھیجا۔ مخدوم صاحب فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہاں یہ رواج ہو گیا کہ جب لوگ کسی کے ہاں تعزیت کے لئے جاتے‬
‫ہیں تو پہلے حضرت حمزہ کی تعزیت کرتے ہیں اور پھر متوفی کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہیں۔ یہ رواج مخدوم‬
‫صاحب کے زمانے تک وہاں‬
‫‪‬‬ ‫چال آتا تھا۔ حملہ تیمور سے پہلے حضرت چراغ دہلی کے انتقال پر مالل کے ساتھ دہلی کا روحانی مرکز ختم ہو گیا اور اس‬
‫کے کچھ ہی عرصہ بعد امیر تیمور نے دہلی کے سیاسی مرکز‪ .‬کو کمزور کر دیا۔ بالفاظ دیگر روحانی مرکز کی کمزوری‪.‬‬
‫سیاسی مرکز‪ .‬کی کمزوری‪ .‬کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ مرکزی حکومت کی کمزوری‪ .‬سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو دھرم‪ .‬کے احیاء‬
‫کے لئے کئی تحریکیں اٹھیں اور بعض جگہ انہوں نے جارحیت کا رنگ اختیار کر لیا۔ حضرت شاہ مینا (م ‪۱۳۷۹‬ء) کے‬
‫ملفوظات میں مرقوم‪ .‬ہے کہ ان کے میں بکسر کے حاکم رائے تاس نے لکھنوٶں پر حملہ کیا۔ مسلمانوں نے بھاگ کر قلعے‬
‫میں پناہ لی تو رائے تاس نے قلعے کا محاصرہ کر لیا اور محصورین کو اشیائے خوردونوش‪ .‬کے حصول میں بڑی تکلیف‬
‫اٹھانا پڑی اسی طرح شیخ سعد خیر آبادی کے ملفوظات تحفة السعداء میں منقول ہے کہ خیر آباد پر چوہدری کہرو نام کے ایک‬
‫چمار کا تسلط قائم ہو گیا تھا اور لوگ اس کے ظلم و تشدد سے ناالں تھے۔ ردولی اودہ میں ایک بڑا روحانی مرکز‪ .‬تھا ہے‬
‫حضرت احمد عبدالحق ردولوی (م ‪ )١٤٣٣‬شیخ محمد عارف محمد شیخ صفی اور حضرت عبد القدوس گنگوہی م (‪)۱۵۳۷‬‬
‫نے اپنے انفاس طیبہ سے مدتوں تک معطر رکھا‪ .‬تھا۔ اس کے باوجود لودھیوں کے عہد میں وہاں ہندوؤں کا عمل دخل شروع‬
‫ہو گیا اور بازاروں میں سر عام سور کا گوشت فروخت ہونے لگا تھا۔ شراب بھی عام دستیاب تھی اور مجازیب جام بکف‬
‫بازاروں میں چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ شیخ رکن الدین فرماتے ہیں کہ ان حاالت میں ان کے والد محترم حضرت عبد‬
‫القدوس گنگوہی بددل ہو کر ردولی سے نقل مکانی کر کے موجودہ صوبہ ہریانہ کے شہر شاہ آباد میں آبسے سالطین سادات‬
‫و لودھی کے زمانے میں ہندوؤں کے غلبے کے یہ واقعات معاصر تاریخوں میں نہیں ملتے اور ان کا واحد ماخذ ملفوظات ہیں۔‬
‫‪‬‬ ‫شاہ مینا لکھنوی کے ملفوظات کے مطالعہ سے ایک نئی حقیقت منکشف ہوئی۔ نیوٹن نے کشش ثقل کا نظریہ ‪۱٦٦٦۶‬ء میں‬
‫ایک سیب کو درخت سے نیچے گرتے دیکھ کر پیش کیا تھا۔ اس نظریے کی دریافت سے دو صدیاں پیشتر حضرت شاہ مینا‬
‫نے حرکت طبعی حرکت قصری اور حرکت ارادی کے عنوان سے نیوٹن کے نظریے سے ملتا جلتا ایک نظریہ پیش کیا تھا۔‬
‫خواص و عوام جونپور کے سلطان حسین شرقی (م ‪۱۵۰۰‬ء) کو موسیقی کے سرپرست حکمران کی حیثیت سے جانتے ہیں‬
‫اور "خیال" کی ایجاد کا سہرا اس کے سر پر باندھتے ہیں۔ شاہ مینا کے ملفوظات کے مطالعہ سے یہ معلوم‪ .‬ہوا کہ اگر اس کے‬
‫عہد حکومت میں کوئی صوفی نماز جمعہ ادا کرنے جامع مسجد نہیں جاتا تھا تو اس سے باقاعدہ باز پرس کی جاتی تھی۔ ایک‬
‫بار ایک صوفی نے مسافر ہونے کا بہانہ پیش کیا تو سلطان حسین نے علماء کا ایک وفد اس کے مواخذہ کے لئے بھیجا‬
‫‪‬‬ ‫اور صوفی صاحب کو جونپور کی سکونت ترک کرنا پڑی۔ عام طور پر یہی مشہور ہے کہ پرتگیز بحری قزاق تھے اور ان‬
‫کی دستبرو سے بحیرۂ عرب اور خلیج فارس میں کوئی جہاز محفوظ نہ رہتا تھا۔ پرتگیز ‪۱٤۹۸‬ء میں واسکوڈی گاما کی‬
‫سرکردگی میں پہلی بار جنوبی ہند پہنچے تھے۔ اس لئے ان کی قزاقانہ سرگرمیوں کا آغاز سولہویں صدی کے شروع میں ہوا۔‬
‫‪۱۴۷۲‬ء میں شاہ عالم گجراتی کا ایک عقیدت مند شیراز سے احمد آباد آیا تو اس نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ راستے‬
‫میں بحری قزاقوں نے اس کا سامان لوٹ لیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پرتگیزوں کی آمد سے بہت پہلے جنوبی ہند کے‬
‫عربی النسل باشندے بھی بحری‬
‫‪‬‬ ‫قزاقی میں سرگرم عمل تھے۔ خواجہ ابوالفضل محمد بن احمد بن حسین المعروف به صدر الدین راجو قتال حضرت مخدوم‬
‫جہانیاں کے حقیقی بھائی اور روحانیت میں ان کے جانشین تھے۔ ان کی کنیت صحیح نام اور حلیہ حضرت شاہ عالم گجراتی‬
‫کے ملفوظات سے ہی معلوم ہوا اور اس تصنیف دلپذیر سے یہ بھی معلوم‪ .‬ہوا کہ سید جالل الدین سرخپوش بخاری کا اصل نام‬
‫حسین تھا۔ عوام خواجہ حافظ شیرازی کو ایک رند مشرب شاعر لکھتے ہیں۔ حضرت اشرف جہانگیر سمنانی کچھ عرصہ‬
‫شیراز میں مقیم رہے تھے جہاں ان کی حافظ سے اکثر مالقات رہتی تھی۔ موصوف نے خواجہ صاحب کو یکے از مجذوبان‬
‫بارگاه عالی و محبوبان بارگاه متعالی فرمایا ہے۔ حضرت واالقدر حافظ شیرازی کو ولی ہللا سمجھتے تھے۔‬
‫‪‬‬ ‫سلطان معز الدین کیقباد (‪ )۱۳۸۷ )۱٢۹۰‬کے بارے میں میں مشہور ہے کہ وہ رند مشرب حکمران تھا اور اس کا زیادہ تر‬
‫وقت ناؤ نوش اور نازک اندام حسیناؤں کی صحبت میں گزرتا تھا۔ سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء نور ہللا مرقدہ کے‬
‫ملفوظات درر نظامی میں یہ منقول ہے کہ اس نے اپنے ایک معتمد خواجہ سرا کافور کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر جمعہ کو اس‬
‫کے دادا سلطان غیاث الدین کی روح کو ایصال ثواب کی غرض سے کچھ رقم خیرات کیا کرے۔ چنانچہ اس رقم میں سے‬
‫کافور نے سلطان المشائخ کو بھی کچھ رقم بھجوائی‬
‫‪‬‬ ‫امیر تیمور نے جب دہلی کی جانب پیش قدمی کی تو پنجاب سے گزرتے وقت فصلیں تباہ کر ڈالیں۔ اس لئے اس کے دہلی کی‬
‫جانب جانے کے بعد پنجاب میں قحط رونما ہو گیا۔ تیمور ہندوستان سے سمر قند واپس جاتے ہوئے الکھوں‪ .‬افراد کو قید کر‬
‫کے ساتھ لے گیا۔ ان قیدیوں میں حضرت شیخ احمد کھٹو رحمتہ ہللا علیہ بھی تھے۔ رسد کی کمی کی وجہ سے قیدی بھوکے‬
‫مرنے لگے۔ ایک دن تیمور کا ایک رشتے دار قیدیوں کے معائنے کے لئے گیا تو اس نے ہر ٹولی میں سے دس پندرہ قیدی‬
‫کم پائے‬
‫‪‬‬ ‫برعظیم پاک و ہند میں مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر نے تزک لکھتے وقت انسان دوستی کا لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔‬
‫تزک بابری میں بر عظیم پاک و ہند کی فتح کا ذکر‪ .‬پڑھتے تو ایسا لگتا ہے کہ خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر اتنا انقالب برپا‬
‫ہو گیا تھا۔ لطاٸف قدوسی کے مطالعہ سے یہ متشرح ہوتا ہے کہ بابر نے شاہ آباد جیسے سرسبز و شاداب قصبے کو اس‬
‫طرح اُجاڑا کہ سوائے ویرانی کے اور کچھ نظر نہ آتا تھا۔ شیخ رکن الدین اس پر شاہد ہیں کہ مغل لشکر نے وہاں ہزاروں‬
‫افراد کو جن میں صدہا اولیاء ہللا بھی شامل تھے' تہ تیغ کر ڈاال شاہ آباد کے نواح میں دیپال پور علماء و صلحاء کی بستی تھی‬
‫جسے شیخ رکن الدین نے "دار االسالم" لکھا ہے۔ بابر کی تاخت کے وقت وہاں علماء و صلحاء بسیار کشته شده و کتب خانه ہا‬
‫غارت شدند ‪ ---‬خدا جانے ان کتب خانوں کی تباہی کے وقت بابر کے جذبہ علم دوستی کو کیا ہوا تھا؟ بابر کے حملے کے‬
‫وقت گنگوہ کے نواح میں جمنا کے کنارے لکھنوٸی میں بھی بے شمار علماء و صلحاء مارے گئے اور ان کے کتب خانے‬
‫برباد ہو گئے۔ قرآن حکیم میں کیا خوب ارشاد ہوا ہے‪ :‬ان الملوك اذا دخلوا قرية افسدوها اہ۔۔۔‬
‫‪‬‬ ‫بابر نے بر عظیم پاک و ہند کی فتح کے بعد مختلف پرگنوں میں بڑے سخت گیر اور جفا پیشہ افیسر مقرر کئے تھے۔ گنگوہ‬
‫کے مغل عامل میر حسن علی نے ظلم و ستم پر کمر باندھی اور فقراء ضعفاء" تک کو معاف نہ کیا۔ ان حاالت میں حضرت‬
‫عبدالقدوس گنگوی بددل ہو کر گنگوہ سے یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ جہاں ظلم ہو گا وہ وہاں نہیں رہیں گے۔ موصوف چلتے‬
‫ہوئے " بلند آواز سے ہللا اکبر ال الہ اال ہللا وہللا اکبر پڑھتے جا رہے تھے۔‬
‫‪‬‬ ‫پانی پت کی جنگ میں سلطان ابراہیم لودھی کی شکست کے بعد افغانوں میں سراسیمگی پھیل گئی اور مغلوں کے خوف سے‬
‫وہ بہار اور بنگال کی جانب فرار ہو گئے۔ حضرت رکن الدین فرماتے ہیں کہ دریائے سرجو کے کنارے پر ان بھگوڑے‬
‫افغانوں کا اتنا ہجوم تھا کہ کشتیاں کم پڑ گئیں بدقسمتی سے وہاں یہ افواہ پھیل گئی کہ مغل فوج جلد ہی وہاں پہنچنے والی ہے۔‬
‫اس افواہ کے پھیلتے ہی افغانوں کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہو گئے اور جب وہ ایک دوسرے پر سبقت کر کے کشتی‬
‫میں سوار ہوتے تو کشتی ان کے بوجھ سے دریا میں ڈوب جاتی۔‬
‫‪‬‬ ‫شاہ رکن الدین شطاری فرماتے ہیں کہ ایک بار شاہی فیل خانے کا ایک ہاتھی مست ہو گیا۔ مغل بادشاہ بابر کے فرزند مرزا‬
‫ہندال کو اس کی اطالع ملی تو اس نے فیلبان سے کہا کہ اس ہاتھی کو اس کے پاس الئیں۔ فیلبان نے کہا کہ آدمی سے تو‬
‫ہاتھی کی مستی بڑھتی ہے اور موجودہ حالت میں وہ سواری کے الئق نہیں ہے۔ شاہزادے نے کہا کہ جیسے بھی ہو اسے اس‬
‫کے پاس الئیں۔ جب وہ ہاتھی شہزادے کے پاس الیا گیا تو اس نے اس کے دانت پکڑ کر اتنازور لگایا کہ ہاتھی تلمال اٹھا اور‬
‫اپنی جگہ سے ہل نہ سکا۔ مرزا ہندال اس کے دانتوں پر پاٶں رکھ کر سوار ہوگیا جس سے اسکی ساری مستی جاتی رہی۔شیخ‬
‫رکن الدین نے اسے صاحب تصرف لکھا ہے ۔ ہمائیوں کی شیر شاہ کے ہاتھوں شکست اور جال وطنی کے بعض اسباب اب‬
‫تک صیغہ راز میں تھے۔ شیخ رکن الدین نے ان پر سے پردہ اٹھایا ہے۔ گجرات کا سلطان بہادر شاہ راجستھان میں ہندوؤں‪ .‬کے‬
‫سب سے بڑے سیاسی مرکز‪ .‬چتوڑ کا محاصرہ کیے پڑا تھا۔ پورے ملک کے مسلمانوں کی نگاہیں چتوڑ پر لگی ہوئی تھیں اور‬
‫ان کی ہمدردیاں بہادر شاہ کے ساتھ تھیں۔ ان حاالت میں ہندوؤں نے ہمایوں کو اپنی مدد کے لئے بالیا اور اسے فی منزل ایک‬
‫الکھ روپے دینے کا وعدہ کیا۔ ہمایوں نے رقم کے اللچ میں بہادر شاہ کی مملکت پر حملہ کردیا۔مملکت کو بچانے کی غرض‬
‫سے بہادر شاہ کو چتوڑ کا محاصرہ اٹھانا پڑا جس کا مسلمانوں کو بیحدرنج ہوا۔ حضرت رکن الدین رقم طراز ہیں کہ ان کے‬
‫والد بزرگوار شیخ عبد القدوس گنگوہی نے دتو سروانی کو خواب میں حکم دیا کہ وہ گجرات جائے اور وہاں کے مشائخ کو ان‬
‫کا سالم پہنچانے کے بعد کہے کہ ہمایوں اسالم کے مفاد کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ اسے یہاں سے نکالنے کے لئے متحد ہو‬
‫جائیں۔ یہ اگرچہ خواب کا واقعہ ہے لیکن اس سے مذہبی طبقوں کے رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ہمایوں سے ناخوش تھے۔‬
‫لطائف قدوسی کے مطالعہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ مشائخ کرام کا رجحان ہمائیوں کی بجائے افغانوں کی جانب تھا‬
‫‪‬‬ ‫حاجی پور بہار میں شطاریوں کی خانقاہ مرجع خالئق تھی۔ بابر اور ہمائیوں کے زمانے میں شاہ ابوالفتح شطاری کی بزرگی‬
‫کا بڑا شہرہ تھا۔ جب ہمایوں شیر شاہ کے مقابلے کو بہار کیا تو وہ شاہ صاحب کی زیارت کے لئے حاضر ہوا۔ اس وقت شاہ‬
‫صاحب پالکی میں سوار ہو کر کہیں جا رہے تھے۔ ہمایوں نے فرط عقیدت سے ان کی پالکی کو کندھا دیا تھا۔‬
‫‪‬‬ ‫شاہ رکن الدین شطاری (م ‪۱۷۰۵‬ء) کے ملفوظات سے یہ معلوم‪ .‬ہوا کہ مغل بادشاہ ہمایوں نے کوئی وظیفہ پڑھنا شروع کیا تھا‬
‫جو کسی بے احتیاطی سے "خراب" ہو گیا اور اس کے اثر سے تفرقہ و انتشار پیدا ہوا جس کے نتیجے میں اسے تخت و تاج‬
‫سے محروم‪ .‬ہوناپڑا۔ شاہ رکن الدین نے اپنے ملفوظات میں ہمایوں کو ۔۔۔ شاہ والیت دست گاہ فرمایا ہے۔ شاه وجیہ الدین‬
‫گجراتی (م (‪۱۵۸۸‬ء) کے ملفوظات میں گجرات کے بارے میں بعض ایسی معلومات ملتی ہیں جن کا ذکر معاصر تاریخوں‬
‫میں نہیں ملتا۔ وہاں اس زمانے میں مہدوی اور بوہرے سر گرم‪ .‬عمل تھے اور لوگ وہاں سے ہجرت کرنے کے بارے میں‬
‫علماء و مشائخ سے مشورے کر رہے تھے۔ ‪۱۵۷۲‬ء میں وہاں بغاوت ہو گئی اور باغیوں نے گجرات کے مغل گورنر مرزا‬
‫عزیز‬
‫‪‬‬ ‫کو کلتاش کا محاصرہ کر لیا۔ اس بغاوت میں علماء و مشائخ نے باغیوں کی طرفداری کی ۔ شاہ عبدالرزاق بانسوی (م ‪١٧٢٤‬‬
‫ملفوظات سے یہ متشرح ہوتا ہے کہ محمد شاہ کے زمانے میں اودہ میں امن و امان کی صورت حال اچھی نہ تھی۔ بانسہ‬
‫شریف (ضلع بارہ بنکی) کے گردو‪ .‬نواح میں امن و امان مفقود ہو چکا تھا اور بڑے بڑے زمیندار اپنے مخالفوں کی بستیاں‬
‫لوٹتے اور جالتے پھرتے تھے‬
‫‪‬‬ ‫بابائے اردو مولوی عبدالحق اپنی مشہور تصنیف اردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاء کرام کا کام میں لکھتے ہیں کہ انہوں‬
‫نے دینہ کے ایک ذی علم بزرگ کے ذاتی کتاب خانے میں ایک مخطوطے کی جلد کی پشت پر بابا فرید الدین مسعود گنج‬
‫‪ :‬شکر کا یہ شعر لکھا دیکھا تھا‬
‫‪‬‬ ‫وقت سحر وقت مناجات ہے‬
‫‪‬‬ ‫خیز دراں وقت کہ برکات ہے‬
‫‪‬‬ ‫بابائے اردو کے خیال میں یہ اردو زبان کا قدیم ترین شعر ہے۔ الہور میں مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں شاہ ابو اسحاق‬
‫قادری ایک ولی ہللا رہتے تھے جو حضرت داؤد کرمانی شیر گڑھی کے خلیفہ مجاز اور شاہ ابوالمعالی الہوری کے برادر‬
‫طریقت تھے۔ ان کی ایک تصنیف رساله رضا الئبریری رام پور میں محفوظ ہے۔ شاہ ابو اسحاق قادری نے یہ شعر حضرت‬
‫ضیاء الدین سنامی کا بتایا ہے ۔ یہ وہی بزرگ ہیں جو حضرت نظام الدین اولیاء قدس سرہ اور شاہ شرف الدین بو علی قلندر‬
‫‪:‬جیسے صوفیاء کرام کا احتساب کیا کرتے تھے۔ ان کی وفات پر حضرت سلطان المشائخ نے بڑی حسرت کے ساتھ فرمایا تھا‬
‫‪‬‬ ‫تاریخی حقائق‬ ‫یک ذات بود حامی شریعت حیف آن نیز نمایند‬
‫عام طور پر ہم عصر تاریخوں میں نہیں ملتے اور ان کا واحد ماخذ‬
‫‪‬‬ ‫ملفوظات ہیں‬
‫‪‬‬ ‫)ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت از پروفیسر محمد اسلم(‬
‫‪‬‬ ‫ملفوظات اور مکتوبات صوفیہ‪ ‬کی حیثیت ایک سوانح اور بکھرے ہوئے شہ پاروں کی مانند‬
‫ہوتی ہے اس میں کسی عظیم بزرگ کے سوانح و اذکار‪ ،‬تعلیمات و نظریات‪ ،‬پندو نصائح اور علمی جواہر پاروں کو جمع‬
‫کیا جاتا ہے صوفیا کرام کے ملفوظات اور گویا لب ہائے نازنیں سے نکلے ہوئے کلمات قدسی تھے جو عام لوگوں کے‬
‫ہزاروں وعظ و تذکیر سے افضل تھےبعض کو اپنے قلم سے مزین فرماکرذریعہ ہدایت بنایا تووہ مکتوبات کہالۓاور‬
‫بعض کوبالواسطہ مریدین کے پاس امانت چھوڑاجسے فیض یافتہ تالمذہ‪ ،‬صحبت یافتہ اخالف اہل ارادت اور حاضر باش‬
‫جو اپنے مرشد گرامی یا اپنے اساتذہ ذوی ا الحترام سے اقوال و گفتار‪ ،‬تعلیمات و مواعظ‪ ،‬فقرے کو جس طرح سنا اسی‬
‫طرح اسے محفوظ رکھنے اور قلم بند کرنے کی سعی بلغ کی۔ملفوظات و مکتوبات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ہر دور میں‬
‫ملفوظات و مکتوبات کا سلسلہ جاری رہا۔کریم آقا علیہ الصلوة والسالم کے ملفوظات و مکتوبات جو احادیث کی صورت‬
‫میں موجود ہیں اس بات پرشاہدہیں۔عرب میں یہ سلسلہ عام تھا کہ بزرگوں کے اقوال و خیاالت ملفوظات ومکتوبات کی‬
‫صورت میں باقی رہتے جبکہ عجم خصوصا ہندوستان میں ملفوظ کی ابتدا اس وقت ہوٸی جب بزرگان دین ادھر آۓ اور‬
‫اسالم کے پرچم کو تھاماتو دور نزدیک میں سلسلہ تبلیغ انہیں ملفوظات و مکتوبات کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔‬
‫ہندوستان میں ملفوظات کی ابتداحضرت امیر حسن عالمہ سنجری کے مرتبہ ملفوظات حضرت شیخ نظام ا لدین اولیا قدس‬
‫سرہ کی ’’فوائد ا لفواد سے ہوتی ہے صاحب سیر ا الولیا نے لکھا ہے کہ حضرت‪ ‬امیر خسرو ملفوظ کے بدلے اپنی‬
‫تمام تصانیف ان ملفوظات کے بدلے دینے کے لئے تیار تھے(سیراالولیا)‬
‫‪‬‬ ‫۔ شیخ ا الولیا حضرت نظام ا لدین کے روحانی فیوض و برکات سے ہندوستان کی مختلف خانقاہوں میں ملفوظات نویسی‬
‫کا آغاز ہوگیا۔‬
‫‪‬‬ ‫اعلی حضرت (‬ ‫ٰ‬ ‫جبکہ مکتوبات بھی ساتھ ساتھ تھے لیکن مکتوبات امام ربانی کو خاص شہرت )ملخص از ملفوظات‬
‫حاصل ہے جو کے الف ثانی کی ابتدا میں لکھے گٸے تھے۔‬
‫‪‬‬ ‫ء تا ‪1700‬ء کے دوران میں شمالی ہند میں جو ادبی لسانی سرمایہ دستیاب ہو ا ان میں صوفیا ئے کرام ‪1200‬‬
‫کے ملفوظات ہیں جو مختلف تذکروں میں بکھرے ہوئے ہیں جنہیں مولوی عبد ا لحق نے اپنی کتاب ’’اردو کی‬
‫نشو نما میں صوفیا ئے کرام کا کام ‘‘(علی گڑہ۔انجمن ترقی اردو (ہند‪ )1968) .‬میں یکجا کیا۔ ان کے فقرے‬
‫اور ملفوظات پر تبصرہ کئے بغیر چندمثالیں ذیل میں حاضر ہیں۔‬
‫شیخ فرید ا لدین گنج شکر (‪1265‬۔ ‪ )1173‬کے فقرے ’’پونوں کا چاند بھی باال ہے ‘‘ آنکھ آئی ہے ‘‘ ان کے دو شعر‬
‫مالحظہ ہوں‬

‫وقت سحر وقت مناجات ہے۔‬

‫خیزدراں وقت کہ برکات ہے۔‬

‫عشق کا رموز نیارا ہے۔‬

‫جز مدد پیر کے نہ چارا ہے‬


‫ٰ‬
‫(متوفی ‪ )1323‬کا ایک شعر مالحظہ کریں‪ : ‬سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے‬ ‫شیخ شرف الدین بو علی قلندر‬
‫روئے۔‬

‫دھنا ایسی رین کر بھور کدھی نہ ہوئے۔‬

‫شیخ شرف ا لدین بو علی قلندر حضرت امیر خسرو کے ہم عصر تھے انہوں نے ایک موقع پر امیر خسرو سے مخاطب‬
‫(متوفی ‪ ( 1380‬سے منسوب فقروں‬ ‫ٰ‬ ‫ہوکر یہ جملہ کہا ’’تو سب کا کچھ سمجھ دا ‘‘۔۔ شیخ شرف ا لدین احمد ٰ‬
‫یحی منیری‬
‫میں یہ شامل ہیں‪ ’’ :  ‬دیس بھال پروور ‘‘ باٹ بھلی برسا نہ کرے ‘‘ اب لک دن برے گئے اب سکھ ہوئے ‘‘ جو من کا‬
‫منسا سوئی ہووئے‘‘ امیر خسرو (‪1325-1252‬ء) کی اردو اور فارسی شاعری اور ملفوظات کے بعد شمالی ہند میں‬
‫پورے تین سو سال تک سناٹا چھایا رہا اس طویل خاموشی کے بعد سترھویں صدی کے اوائل میں پھر سے ادبی شعور‬
‫کی روح بیدار ہوئی جس کی بنیاد میں ’’صوفیا ئے کرام کاا ردو زبان و ادب کی خدمات‘‘ اہم ذریعہ اور سبب بنیں‬
‫(ملخص‪ : ‬اردو زبان و ادب‪ ،‬بی اے سال اول )۔‬

‫عالؤ الدین خلجی اور محمد تغلق کے زمانے میں معاشرتی اورسیاسی سطح پرترک باشندوں نے مقامی زبانوں کو اپنے‬
‫بول چال میں شامل کیا اس طرح ابالغ و ترسیل کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔شاہان وقت کے ہمراہ صوفیا اور‬
‫علما زبان کا سرمایہ اپنے ساتھ الئے تھے لسانی سطح پر مقامی زبانوں کے میل مالپ نے اردو زبان و ادب کو جنم دیا‬
‫جسے ہم ادب کا قدیم سرمایہ تصور کرتے ہیں۔ سید محمد حسینی بندہ نواز گیسو دراز (‪1422‬۔‪ )1321‬اسی عہد میں‬
‫رشدو ہدایت‪ ،‬تفسیر حدیث اورسلوک کے درس و تدریس‪ ،‬اور ماتحتوں کے ساتھ عدل و انصاف کے قیام پر بڑا زور دیا‬
‫اس حوالے سے آپ کے ملفوظات‪ ،‬محفل سماع میں گائے جانے والے سہیلے‪ ،‬چکی نامے‪ ،‬اور غزلیں بھی دستیاب ہیں۔‬
‫میراں جی شمس ا لعشاق(‪ 902 – 994‬یا۔‪)904‬جن کا سلسلہ ء خالفت دو واسطوں سے بندہ نواز تک پہونچتا ہے آپ‬
‫نے چھ مثنویاں شہادت الحق یا شہادت ا لحقیقت‪ ،‬خوش نامہ خوش نغز‪ ،‬شہادت نامہ‪ ،‬مغز مرغوب اور وصیت ا لنور‬
‫لکھے ہیں۔خواجہ بندہ نواز کے صاحب زادے اکبر حسینی کی علم او ادب سے وابستگی نے اردو زبان و ادب کو پروان‬
‫چڑھانے‪ ،‬اس کے خد و خال متعین کرنے اور اس کی نوک پلک درست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔شمس ا لعشاق نے‬
‫مقصدیت میں ڈوبا ہوا صوفیانہ افکارو خیاالت و ملفوظات کی تشریح و توضیح کے لئے سادہ اور براہ راست انداز بیان‬
‫اختیار کیا۔(ملخص از اردوزبان و ادب‪،‬بی اے سال اول )‬

‫فخر الدین نظامی بیدری کی مثنوی ’’پدم راؤ کدم راؤ ‘ ‘ کا مطالعہ لسانی ارتقا کی منزل کا پتہ دیتا ہے جہاں زبان ترقی‬
‫کے زینے طی کررہی تھی اور ادبی زبان کے معیار کی طرف گامزن ہوچکی تھی اور اپنے لفظی سرمایہ کو وسیع سے‬
‫وسیع کرنے کی کوشش کررہی تھی۔نظامی نے اسلوب اور پیرایہ ترسیل کو موثر بنانے اور اس کی معنویت میں اضافہ‬
‫کرنے کے لئے ملفوظات‪،‬مکتوبات‪ ،‬کہاوتوں اور محاوروں سے بھی مدد لی ہے۔ یہ مثنوی ‪ 22–1421‬تا ‪)35-1434-‬کے‬
‫درمیان میں کی تصنیف ہے پندھرویں صدی عیسوی کے نصف اول سے گجرات کے بزرگوں کے جو اقوال‪ ،‬ملفوظات‬
‫متوفی‪1453‬ء‪)807‬کا فقرہ ہے کہ ’’کیا ہے لوہ ہے کہ لکڑ ہے کہ پتھر‘‘آپ کے‬ ‫اور فقرے ملتے ہیں مثالً قطب عالم( ٰ‬
‫فرزند شاہ عالم(‪ 888‬ھ ‪1483‬ء )کا فقرہ ہے کہ ’’بکروٹے بدل بکروٹا یا ’’پڑھ دو کرے‘‘۔شیخ بہا الدین باجن احمدآباد ی(‬
‫‪912‬ھ ‪)1406‬نے اپنی یاد گار ’’خزائن رحمت اﷲ ‘‘ میں ان کا اردو شعر ملتا ہے۔ باجن چے کسی کے عیب ڈھانچے۔اس‬
‫تھی درجن ستھر ستھرکانپے۔باجن کی ایک مثنوی ’’جنگ نامہ پیشوا زوساری‘‘ جو ‪ 219‬اشعارپر مشتمل ہے۔قاضی‬
‫محمود ریائی نے جکریاں یادگار چھوڑی ہیں دو شعر مالحظہ فرمائیں۔ جاگ پیاری اب کیا سوئے۔ رین کمیٹی تیوں دن‬
‫کھودے۔ باچ نہ پالے اپنے پیو کیوں پیتاوے۔ تیرے چرنوں کیری محمود وارن جائے۔(ملخص ازاردوزبان وادب‪،‬بی‬
‫اے‪،‬سال اول)‬

‫صوفیا نے رشد و ہدایت کے لئے تصوف کے رموز و اسرار کی وضاحت کو زیادہ موزوں اور مناسب سمجھا اور اسی‬
‫پر اپنی تصنیف و تالیف کی عمارت کھڑی کی وہ تما م عال متیں جو صو فیا ئے کرام نے معر فت کے منا زل اور مر ا‬
‫حل کے اظہا ر کے لئے وضع کی تھی اردو غزل میں صو فی شعر ا ء اور غیر صو فی شعر اء سبھی استعما ل کر نے‬
‫لگے یہ لفظ استعار ے غزل کا ال ز می جزبن گئے۔جیسے شراب‪ ،‬سا قی‪ ،‬سا گر۔ وغیرہ چنا نچہ ان کی شعر ی الفا ظ کی‬
‫ضر ورت شعر ی کے مطا بق مو ڑ توڑ لیا جا تا تھا۔ کہیں کسی حر ف کو گر ا کر پڑ ھنے سے وزن کا سرا مل جا تا‬
‫ہے اور کہیں سکتے کو دور کر نے کے لئے اا ٓ و از کے کھینچ کر پڑ ھنا پڑ تا ہے۔ قا فیو ں کی بھی کو ئی خا ص اصو‬
‫ل کی پا بند ی ان کے ہا ں اکثر مفقو د ہے۔ قا فیے میں صر ف آ و از کا خیا ل رکھتے۔ لفظ جیسے بو ال جا تا ویسا ہی‬
‫تحر یر میں لے آ تے جیسے شروع کو شرو اور صحیح کو سہی لکھ دیتے۔اور ان ملفوظات کا عو ام سے چونکہ گہر ا‬
‫تعلق تھا ا اسلئے اس زبا ن کو صوفیا نے اخال ق کا ذر یعہ بنا یا یہ ز با ن اس وقت عو ام میں را ئج تھی لیکن فا رسی‬
‫کی قدر و منز لت تک نہیں پہنچ سکی تھی۔اس عہدمیں• ا ن عر و ضی ا صو لو ں کی بھی سختی سے پا بند ی ممکن نہ‬
‫تھی۔ اس لیے ردیف و قو ا فی میں حسب ضر ورت تغیر و تبدل کی مثا لیں بھی مو جو د ہیں۔ اکثر ردیفو ں میں َ’’س‘‘‬
‫ضر ورت ) ‪ ( PHONEME‬اور ’’ص‘‘ اور ’’ط‘‘ اور ’’ت‘‘ اور ’’ا ‘‘اور ’’ک‘‘ اور ’’ق‘‘ کو ایک ہی صو یتے‬
‫شعر ی کے لحا ظ سے سا کن کو متحر ک اور متحر ک کو سا کن بنا دیا گیا ہے اور اسے طر ح سا دہ الفا ظ کو مشد د‬
‫اعلی ترین‬
‫ٰ‬ ‫اور مشدد کو سا دہ الفا ظ میں تبد یل کر دیا گیا ہے۔۔ادب کے اس ابتدا ئی دور میں نثر اور شعرا کے کے‬
‫نمونوں کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ادبی زبان کا عہد طفولیت تھا اس لئے اس میں منجھی ہوئی زبان اور نکھرے‬
‫ہوئے اسلوب کی مثال نہیں ملتی اردو زبان و ادب میں رچاؤ اور پختگی تشکیلی دور آغاز سے نہیں دور ترقی کی پیداوار‬
‫ہوتی ہے جو آٹھارویں صدی سے شروع ہوئی اور تھے عہد بلو غیت سے تعلق اور اس طرح بعد• بعد ملفوظات نے کیوں‬
‫کہ دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے کے مصداق آج بھی اس کی اہمیت اور انفرادیت مسلم ہے۔(ملخص از‬
‫اردوزبان وادب‪،‬بی اے‪،‬سال اول)‬
‫فصل دوم‬

‫ملفوظات و مکتوبات صوفیا کی اہمیت و افادیت‬


‫صوفیا کے ذریعے لکھے گٸے مکتوبات وملفوظات صرف مذہبی معلومات کا ذریعہ نہیں ہیں بلکہ ایک تاریخی‬
‫ماخذکاخزانہ ہیں ملفوظات و مکتوبات ایک ایسا تاریخی ماخذہیں جس سے اس عہد کی سماجی صورتحال کا پتہ چلتا ہے۔‬
‫صوفیا کے ذریعے خانقاہوں میں کی گٸی تقریریں جو ان ادوار کی ترجمانی کرتی ہیں انہیں ملفوظات کہا جاتا ہے جنہیں‬
‫روزانہ لکھنے کا کام بھی کیا جاتا تھااور بعض اوقات اپنی تقریریں خود ہی قلمبندکردیاکرتےتھے جن کو تصنیف کا نام‬
‫دیاجاتا ہے ایک نظر میں وہ بھی ملفوظات ہی ہوتے ہیں۔گزرے ہوۓ صوفی کے سلسلے میں کچھ کہنے• یاان کے حاالت‬
‫زندگی مرتب کرنے کو تذکرہ کہا جاتا ہے۔اور جو صوفیا کسی کی ہدایت کیلیے• کچھ لکھ کربھیجتے• تھے انہیں مکتوبات‬
‫صوفیا کہتے• ہیں جنہیں بعد میں کتابی شکل دیکرمکتوبات کا نام دیا گیا(ملخص از سیراالولیا ٕ)۔‬

‫ان ملفوظات و مکتوبات سے ہمیں صوفیٕا اور علما کے درمیان پاۓ جانے والے رشتے‪،‬سلطان اورصوفیا کے درمیان‬

‫تعلقات‪،‬سلطان کی مذہبی سوچ اور ان کی زندگی میں مذہب کے تٸیں روداری کے بارے میں پتہ چلتا ہے جتنی بھی‬

‫مذہبی کتابیں لکھی گٸی ہیں ان میں سماجی صورتحال کوبڑے خوبصورت انداز سے واضح کیا گیا ہے۔خانقاہ اور صوفیا‬

‫کارشتہ صحیح معانی میں سماج سے جڑا ہوا تھا جسکی وجہ سے ان کی تحریروں میں سماجی زندگی کی تصویر‬

‫دیکھنے• کو ملتی ہے۔اور اگر ہندوستان کی بات کریں توپروفیسر خلیق احمدنظامی نے ٹھیک ہی لکھا ہے کہ ہندوستان کی‬

‫سماجی اہمیت کا مطالعہ ملفوظات کے مطالعہ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا(ملفوظات کی تاریخی اہمیت)۔‬
‫اینالس اسکول آف تاریخ نویسی“نے تاریخ نویسی کے سلسلے میں ایک نظریہ پیش کرتے ہوۓ کہاکہ کوٸی بھی تاریخ ”‬

‫بغیر سماج کا مطالعہ کیے پوری نہیں ہوسکتی۔صرف راجا اور اسکی سیاست کو پڑھ لینے سے صحیح تاریخ کی بنیاد‬

‫نہیں رکھی جا سکتی بلکہ سماجی صورتحال اور ماحول کو دیکھتے• ہوۓ راجا اوراسکی سیاست کا مطالعہ کرنا ہوگا۔‬

‫اینالس اسکول آف تاریخ نویسی کے اس خیال کو پوری دنیا میں قبول کیا گیا۔اس کے خیال کے مطابق ان ملفوظات و‬

‫مکتوبات کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ان کے مطالعہ کے بغیر تمام تاریخی پہلوٶں کا مطالعہ کرنا اور سمجھنا‬

‫ملفوظات و مکتوبات‬ ‫ناممکن ہے(تصوف اور صوفیا کی تاریخ)‬

‫ہمارے بزرگوں کی ایسی وراثت ہیں جس میں ہماری تہذیب و ثقافت علمی و دینی وراثت اور تاریخ پوشیدہ ہےجس کی‬

‫پاسداری بے حد ضروری ہے ۔ یہ بات شعبہ فارسی کے صدر پروفیسر عبدالحلیم نے اپنے صدارتی کلمات میں کہی‬

‫وسطی میں فارسی تاریخ نویسی“ کے موضوع‬


‫ٰ‬ ‫شعبہ فارسی جامعہ ملیہ اسالمیہ کے چوتھے توسیعی خطبہ بعنوان ”عہد‬

‫پر منعقدہ اس تقریب میں انہوں نے کہا کہ تاریخ سے ناآشنائی کی سب سے بڑی وجہ اس کا نصاب میں شامل نہ ہونا‬

‫ہے۔ جس کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے اپنے نصاب میں تاریخ کو جگہ دی ہے۔ پروفیسر موصوف نے‬

‫کہا کہ فارسی ادبیات عرفان و تصوف سے لبریز ہے آج دنیا میں اختالفات کی اصل وجہ مادیت پرستی ہے جس کو‬

‫تصوف ہی کافورکرسکتا ہے۔ شعبہ تاریخ جامعہ ملیہ اسالمیہ کے سابق صدر پروفیسر عزیز الدین حسین ہمدانی نے کہا‬

‫کہ ہندوستان میں مذہبی کتابیں بہت لکھی گئی مگر تاریخ پر کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جن کتابوں کو ہم تاریخی کتابوں‬

‫میں شمار کرتے ہیں وہ دراصل تاریخی نہیں بلکہ مذہبی ہیں انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں تاریخ نویسی کی بنیاد‬

‫مسلمانوں نے ڈالی ۔ منہاج سراج کی ”طبقات ناصری“ ہندوستان کی سب سے پہلی تاریخ کی کتاب مانی جاتی ہے لیکن‬

‫اس کے اندر بھی ہندوستانی تاریخ کم اسالمی تاریخ زیادہ ہے انہوں نے کہا کہ ضیاء الدین برنی کی تاریخ ”فیروز شاہی“‬

‫میں جو دیباچہ رقم ہے وہ بہت جامع ہے اس جیسا دیباچہ موجودہ تاریخ والوں نے نہیں• لکھا آج ہماری پسماندگی کی ایک‬

‫وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نہ صرف اپنے مذہب بلکہ اپنے ملک کی تاریخ سے بھی ناآشنا ہیں پروفیسر موصوف نے کہا کہ‬

‫خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی رہی ہے کہ ان کے فیض یافتگان میں امیر خسرو جیسا‬

‫انہوں نے کہا کے ضیاء‬ ‫شاعر حسن سنجری جیسا شاعر و ادیب اور ضیاء الدین برنی جیسا نامور مورخ پیدا ہوا ہے‬

‫الدین برنی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تاریخ کو اسالمی اور مذہبی حدود میں محصور نہ رکھ کر سماجیات اور‬

‫معاشیات پر بھی گہرا نقش چھوڑا ہے انہوں نے کہا کہ حسن سنجری نے ملفوظات میں فوائد الفواد کے نام سے خواجہ‬

‫نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو جس ڈھنگ سے ترتیب دیا ہے وہ کسی اور کے ملفوظات میں خال خال ہی ملتا‬

‫)‬ ‫‪UNI‬ہے( نئی دہلی ‪ ١٣‬مارچ‬

‫پروفیسر موصوف نے کہا کہ بابرنے ” تزک بابری “لکھی ہمایوں پراگندہ حاالت کا شکار رہا جس کے سبب اسے‬

‫لکھنے کا موقع نہ مل سکا البتہ اکبر نے اسالم کے ہزار سال پورے ہونے کی مناسبت سے علماء کی ایک ٹیم تیار کی‬
‫جس نے” تاریخ الفی“ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جو اکبر کے معیار پر کھڑی نہ ثابت ہوٸی سولہویں صدی‬

‫عیسوی میں ابوالفضل جیسا گزیٹر ہمیں مشرق و مغرب میں کہیں دکھائی نہیں دیتا ‪” .‬آئینہ اکبری“ کو ہم اس عہد کی‬

‫جامع و مانع اور منفرد گزیٹر کے طور پر یاد کر سکتے ہیں۔ پانچویں توسیع خطبہ کے خطیب المصطفی انٹرنیشنل‬

‫یونیورسٹی ایران کے ہندوستان میں نمائندہ محمد رضا صالح نے” فارسی ادب میں عرفان اسالمی “کے موضوع پر اپنا‬

‫خطبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سبھی ادبیات میں چار عناصر مشترک ہیں ۔ ‪١‬۔ نکویی ‪٢‬۔زبایی ‪٣‬۔دانائی ‪٤‬۔اور عشق۔ اور‬

‫یہ چاروں عناصر ہماری فارسی زبان میں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔عرفان و تصوف پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے‬

‫کہا کہ کسی بھی صوفی کے لیے چار چیزیں الزم ہیں ۔‪١‬۔ قرآن کے موافق ہو ‪٢‬۔سنت نبوی کے مطابق ہو ‪٣‬۔ اس کے‬

‫عمل میں بدعت نہ ہو ‪٤‬۔اور اسے عقل بھی قبول کرے انہوں نے فارسی ادب بالخصوص تصوف کے حوالے سے گفتگو‬

‫کرتے ہوئے کہا کہ فارسی کا پہال شاعر جس کے یہاں باقاعدہ تصوف دیکھا جا سکتا ہے وہ سنائی ہے سنائی نے نہایت‬

‫حسین پیرایہ میں تصوف پر گفتگو کی ہے اس سلسلے میں موصوف نے غزالی و رومی اور حافظ کے کالم پر جامع‬

‫)‪ UNI‬نٸی دہلی۔‪ ١٣‬مارچ( بحث کی‬ ‫لہذا مکتوبات و ملفوظات کا مطالعہ از حد‬

‫ضروری ہے تاکہ اول وآخر کے علم تک رساٸی حاصل کی جا سکے۔تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ ملفوظات و مصنفات ہماری‬

‫ہرمحاذپراصالح کرتے ہیں آجکل جن براٸیوں میں انسان مدہوش ہے ملفوظات ان سے بھی نجات کا ذدریعہ ہیں۔عاٸلی‬

‫زندگی‪،‬اخالقیات‪،‬حسن معاشرہ‪،‬اسالم کے ضروری پہلو‪،‬علم حاصل کرنا اور اس موجودہ دور کی ظاہری و باطنی‬

‫بیماریوں سے بچاٶ میں ملفوظات و مکتوبات مٶثر ثابت ہو سکتے ہیں۔حضرت مجدد الف ثانی کےملفوظات و مکتوبات‬

‫شریفہ ان تمام کیلیے کافی کارآمد ہیں۔آپکے مکتوبات میں دور اکبری و جہانگیری کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی‬

‫رہنماٸی ملتی ہے خصوصا باطنی بیماریاں دور کرنے میں آپکے مکتوبات اپنی مثال آپ ہیں۔باطنی بیماریوں میں بڑی‬

‫بیماری عقاٸد کی عدم درستگی ہے جسکی لپیٹ میں آج کافی پیر حضرات آچکے ہیں۔ان پیروں اور انکے مریدوں کی‬

‫ت صوفیٕا خصوصا مکتوبات امام ربانی شیخ احمد سرھندی رحمہ ہللا ہیں۔یہ مکتوبات‬
‫نجات کا ذریعہ مکتوبات و ملفوظا ِ‬
‫‪ ٤٠٠‬سال پہلے کے ہیں۔بلکہ اگرماضی قریب کے مشاٸخ(خواجہ خواجگان خواجہ فقیر محمد چوراہی فاروقی رحمہ ہللا ‪،‬‬

‫خواجہ خواجگان خواجہ نور محمد چوراہی فاروقی رحمہ ہللا ‪ ،‬خواجہ پیر محمد شفیع چوراہی فاروقی رحمہ‬

‫ہللا ‪،‬پیرسیدجماعت علی شاہ صاحب رحمہ ہللا ‪،‬پیر سیدمہرعلی شاہ صاحب رحمہ ہللا ‪،‬خواجہ پیر محمد قمرالدین سیالوی‬

‫صاحب رحمہ ہللا کے فرمودات کو بھی لیا جاۓ تو توشہ نجات میسر آسکتا ہے‬

‫باب دوم‬

‫فصل اول‬

‫مشہور ملفوظاتی کتب‬


‫فہرست مع مولفین اکابرین کا تعارف وجلیل القدرخدمات‬
‫مشہور ملفوظاتی کتب‬
‫فوائد الفواد‬
‫درر نظامی‬
‫سرور الصدور‬
‫خیر المجالس‬
‫جوامع الکلم‬
‫لطاٸف اشرفی‬
‫احسن اال قوال‬
‫نفائس االنفاس‬
‫خوان پر نعمت‬
‫معدن المعاني‬
‫الدر المنظوم‬
‫خزانہ جواہر جاللیہ‬
‫ملفوظات شاہ عالم گجراتی‬
‫ملفوظات اخی جمشید را جگیری‬
‫ملفوظات شاه مینا لکھنوی‬
‫تحفة السعدا‬
‫تحفة المجالس‬
‫لطائف قدوسی‬
‫ملفوظات شیخ وجیہ الدین گجراتی‬
‫مراة طيبه‬
‫ملفوظات شاہ رکن الدین شطاری‬
‫ملفوظات شاہ عبدالرزاق بانسوی‬
‫محبوب القلوب‬
‫مناقب الحسن و فواٸح العرفان‬
‫مجالس کلیمی‬
‫احسن الشمائل‬
‫ملفوظات خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی‬
‫ملفوظات شاه عبدالعزیز محدث دہلوى‬
‫در المعارف‬
‫ملفوظات پیر مہر علی شاہ‬
‫ملفوظات خواجہ قمرالدین سیالوی‬
‫ملفوظات پیر جماعت علی شاہ‬
‫)ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت‪،‬تصوف اور صوفیا کی تاریخ(‬
‫مولفین اکابرین کا تعارف وجلیل القدرخدمات‬
‫فوائد الفواد‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫صاحب ملفوظات کا اسم گرامی محمد اور لقب نظام الدین تھا۔ انہیں عام طور پر‬
‫سلطان الشائخ یا محبوب الہی کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ دہلی والے انہیں‬
‫پیار سے "سلطان جی" کہتے ہیں۔‬
‫سلطان المشائخ بخاری سید تھے اور ان کا سلسلی نسب جعفر تواب بن امام علی‬
‫نقی سے جا ملتا ہے۔‬
‫اکتوبر ‪١٣٣٦‬ء کو ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو سلطان المشائخ نے ‪۲۹‬‬
‫آنکھیں کھولیں۔ آپ پانچ سال کے ہوئے تو سایہ پدری سے محروم ہو گئے۔ ان‬
‫کی والدہ ماجدہ بی بی زلیخا نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سنبھالی۔‬
‫آپ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر سے بیعت ہوئے تو ان سے ابوشکور سالمی‬
‫کی "تمہید" اور‬
‫ساٹھ برس تک مسند رشد و‬ ‫عوارف المعارف کے پانچ باب پڑھے۔‬
‫ہدایت پر تشریف فرما ہونے کے بعد سلطان المشائخ نے ‪ ۲‬اپریل ‪۱۳۲۵‬ء کو‬
‫انتقال فرمایا۔‬
‫۔ جامع الملفوظات‬
‫جامع ملفوظات کا اصل نام نجم الدین حسن ہے لیکن وہ علمی و دینی حلقوں میں‬
‫امیر حسن عٕال سنجری کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کا ہاشمی النسب ہونا‬
‫ثابت ہے۔ ان کے بزرگ عرب سے ہجرت کر کے سجستان میں آباد ہوئے اور‬
‫آغاز سلطنت دہلی میں جب وسط ایشیاء خوارزم سجستان اور افغانستان سے‬
‫شرفاء کے متعدد گھرانے ہندوستان چلے آئے تو امیر حسن عالء سنجری کے‬
‫بزرگوں نے دہلی میں سکونت اختیار کی ہیں ‪۱۳۵۴‬ء میں امیر حسن عالء‬
‫سنجری پیدا‬
‫ہوئے‬
‫۔ شیخ جمالی صاحب‪ .‬سیرالعارفین لکھتے ہیں کہ جوانی کے عالم میں امیر حسن‬
‫عالء سنجری رند مشرب اور ناؤ نوش کے رسیا تھے لیکن جب انہوں نے‬
‫سلطان المشائخ کے دست مبارک پر توبہ کی تو ان کی زندگی میں انقالب آگیا۔‬
‫اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ مسعود علی محوی لکھتے ہیں‬
‫کہ انہوں نے تجرد اختیار کیا اور شادی نہیں کی‬
‫۔)ملخص ازسیراالولیا(‬
‫فوائد الفواد حضرت نظام الدین اولیاء علیہ الرحمہ کی پندرہ سالہ تعلیمات کا‬
‫نچوڑ ہونے کے عالوہ معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جس میں شریعت‬
‫طریقت عبادات احسان عدل رشد و ہدایت تاریخی واقعات اور اپنے ہم عصر‬
‫معاشرے کے در پیش مسائل پر آنجناب‪ .‬نے اظہار خیال فرمایا ہے۔‬
‫امیر حسن عالء سنجری کا پندرہ سال تک سلطان الشائخ سے تعلق رہا۔ اس‬
‫دوران میں انہوں نے اپنے مرشد گرامی کے ملفوظات جمع کر کے ادب میں‬
‫بنیاد ڈالی‬ ‫ایک نئی صنف کی‬
‫سلطان المشائخ اور امیر خسرو کی وفات کے بعد دہلی سے ان کا جی اچاٹ‪ .‬ہو‬
‫گیا‬
‫امیر حسن عالء سنجری دیو گیر چلے گئے اور وہیں ‪۱۳۳۷‬ء میں ان کا انتقال‬
‫ہوا۔ ان کی تصانیف میں سے فوائد الفواد" دیوان ‪،‬مخ المعانی اور قواعد النحو ہم‬
‫تک پہنچے ہیں۔‬
‫)ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت(‬
‫درر نظامی‬
‫حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ ہللا کے مریدوں میں سے امیر حسن عالء‬
‫سنجری‪ ،‬علی بن محمود جاندار خواجہ محمد بن موالنا بدرالدین اسحاق اور‬
‫خواجہ عزیز الدین صوفی نے بالترتیب فوائد الفواد‪ ،‬درر نظامی‪ ،‬انوار المجالس‬
‫اور تحفة االبرار و کرامت االخیار کے عنوانات سے اپنے مرشد گرامی کے‬
‫ملفوظات جمع کئے تھے۔ موخر الذکر دونوں بزرگوں کی کاوشیں اب ناپید ہیں۔‬
‫امیر حسن عالء سنجری کی تالیف فوائد الفواد کو شہرت دوام ملی ہے۔ ہماری‬
‫خوش قسمتی سے علی بن محمود جاندار کے جمع کردہ ملفوظات کے دو‬
‫مخطوطے دریافت ہو چکے ہیں۔ ان میں سے ایک مخطوطہ سر ساالر جنگ‬
‫میوزیم حیدر آباد دکن میں محفوظ ہے اور دوسرا نسخہ کلکتہ میں موجود ہے‬
‫(مخطوطہ نمبر‪٤٦٠/٥٩٩/٦١‬سرساالرجنگ میوزیم حیدرآباد دکن‪،‬روٹوگراف‬
‫نمبر‪٢٦٤‬سیمینار الٸبریری شعبہ تاریخ‪،‬علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‪ ،‬علی گڑھ)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫درر نظامی میں علی بن محمود جاندار نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ ہللا‬
‫سے بیعت ہونے کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے قاضی محی الدین کا شانی کے توسط‬
‫سے بیعت کی درخواست پیش کی جو منظور ہوئی۔ ان کی دوسری درخواست پر‬
‫سلطان المشائخ نے انہیں محلوق ہونے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی جامع‬
‫ملفوظات نے قاضی صاحب‪ .‬کے توسط سے یہ بھی حضرت کی خدمت میں‬
‫عرض کیا کہ وہ مقروض ہیں اس لئے نوکری ترک نہیں کر سکتے۔ ان کی یہ‬
‫درخواست بھی منظور ہوئی۔‬
‫بیعت کے بعد علی بن محمود نے سلطان المشائخ سے قرآن پاک حفظ کرنے کی‬
‫اجازت‪ .‬مانگی۔ حضرت نے اجازت دیتے ہوئے انہیں یہ نصیحت فرمائی کہ وہ‬
‫قرآن حکیم کسی اچھے قاری سے ابوعمر عاصم رحمتہ ہللا کی روایت سے‬
‫پڑھنا سیکھیں‪۲‬‬
‫درر نظامی کے ایک اندراج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جامع الملفوظات ‪۱۳‬‬
‫رمضان المبارک (‪۱۳۰۸‬ء) کو حضرت نظام الدین اولیاء رحمت ہللا کے حلقہ‬
‫مریدی میں داخل ہوے تھے‬
‫علی بن محمود لکھتے ہیں کہ وہ اور موالنا الشیبانی ہر ہفتے حضرت نظام‬
‫الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے اور وہاں جو باتیں سنتے تھے‬
‫انہیں نقل کر لیتے تھے (دررنظامی سرساالرجنگ میوزیم)۔ پروفیسر خلیق احمد‬
‫نظامی نے اس مجموعہ ملفوظات کا نام درر نظامیہ تحریر فرمایا ہے (ملفوظات‬
‫کی اہمیت)‬
‫جامع ملفوظات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملیں شیخ عبدالحق محدث‬
‫دہلوی نے ان کے بارے میں صرف اتنا لکھا ہے کہ موصوف سلطان المشائخ‬
‫کے مرید تھے اور انہوں نے خال صة اللطائف کے عنوان سے ایک کتاب لکھی‬
‫ہے۔ شیخ محدث نے اس کتاب سے ایک مختصر سی عربی عبارت بھی نقل کی‬
‫ہے۔(اخباراالخیار)‬
‫درر نظامی کا زمانہ تالیف‬
‫امیر حسن عالء سنجری نے حضرت نظام الدین اولیاء رحمہ ہللا کی ایک مجلس‬
‫کے ملفوظات صفر ‪ 22‬کی تاریخ کے تحت درج کئے ہیں۔ یہ مجلس فوائد الفواد‬
‫کے آخر میں ہے اور درر نظامی کی ابتداء میں اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ‬
‫جس زمانے میں فوائد الفواد قریب االختتام تھے ان دنوں علی بن محمود درر‬
‫نظامی کا آغاز کر رہے تھے۔ اس حساب سے اس تصنیف دلپذیر میں زیادہ تر‬
‫مواد فوائد الفواد کی تکمیل کے بعد کا ہونا چاہئے‬
‫)ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت(‬
‫سرور الصدور‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫سلطان التارکین صوفی حمید الدین سوالی ناگوری کا شمار چشتیہ سلسلہ کے‬
‫اکابر اولیاء ہللا میں ہوتا ہے۔ دارا شکوہ ان کے بارے میں لکھتا ہے کہ مقتدر‬
‫مشائخ میں ان کا بڑا اونچا مرتبہ ہے۔ وہ علم ظاہری اور باطنی کے جامع اور‬
‫صاحب کرامت بزرگ تھے۔ خدا نے ان کو بڑا بلند مرتبہ عطا کیا‬
‫تھا(داراشکوہ‪،‬سفینة االولیا)موصوف نے کافی طویل عمر پائی اور ایک روایت‬
‫کے مطابق ان کی سلطان المشائخ سے مالقات بھی ثابت ہے (معارج الوالیت)‬
‫ان کے ملفوظات "سرور الصدور" کے مطالعہ سے قرون وسطی کے مسلمانوں‬
‫کی دینی سیاسی اور سماجی زندگی کے کئی اہم گوشے بے نقاب ہوتے ہیں۔‬
‫جامع ملفوظات‬
‫سرور الصدور کے مرتب کا نام متن میں کہیں نہیں آیا‪ ،‬اس لئے ہمارے‬
‫مورخین ابھی تک اس کے مرتب کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پائے۔‬
‫بعض لوگوں نے سرور الصدور کی ترتیب کا سہرا سلطان التارکین کے پوتے‬
‫شیخ محی الدین یا شیخ قطب الدین کے سر باندھا ہے (سرورالصدور)‬
‫مجمع اال ولیاء کے فاضل مصنف محمد اکبر حسینی اردستانی اسے شیخ فرید‬
‫الدین محمود بن شیخ عبدالعزيز بن سلطان التارکین کی تصنیف بتاتے ہیں‬
‫(ملخص مجمع االولیا) ہمارے خیال میں یہی قول راجح ہے۔ جامع ملفوظات شیخ‬
‫فرید الدین محمود چشتیہ سلسلہ میں اپنے عظیم المرتبت دادا سلطان التماركين‬
‫کے مرید تھے۔ حضرت نے اپنے پوتے اور مرید کی تربیت بڑے اہتمام کے‬
‫( ساتھ کی تھی‬
‫)مجمع االولیا‬
‫موصوف اوائل عمر سے ہی بڑے عابد و زاہد اور شب بیدار تھے۔ سلطان‬
‫التارکین فرمایا کرتے تھے کہ انہیں اس بات پر شرم آتی ہے کہ جب وہ رات کو‬
‫تہجد ادا کرنے کے لئے بیدار ہوتے ہیں تو وہ فرید کو عبادت میں مشغول پاتے‬
‫ہیں(سرورالصدور)‬
‫سرور الصدور کے مطالعہ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ شیخ فرید الدین محمود‬
‫بڑے صاحب‪ .‬ذوق انسان تھے اور وہ عربی فارسی اور ہندی میں بڑے اچھے‬
‫شعر کہہ لیتے تھے۔ ان کے اشعار‬
‫سرور الصدور میں موجود ہیں۔ علی اکبر حسینی اردستانی لکھتے ہیں کہ فرید‬
‫الدین ناگوری سلطان التارکین کے بڑے فرزند شیخ عبد العزیز کے نور نظر‬
‫تھے۔ موصوف محمد بن تغلق کے عہد میں دہلی تشریف لے گئے۔ انہوں نے‬
‫سوبرس کے لگ بھگ عمر پائی اور دہلی میں فوت ہوئے۔ ان کا مزار خواجہ‬
‫قطب الدین بختیار کاکی کے مزار کے قریب واقع ہے۔‬
‫خیر المجالس‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫بر عظیم پاک و ہند میں قرون وسطی میں تحریر ہونے والے ملفوظاتی لٹریچر‬
‫میں حضرت چراغ دہلی کے ملفوظات خیر المجالس" کا بڑا اونچا مقام ہے۔‬
‫صاحب ملفوظات حضرت خواجه نصیرالدین محمود اودھی المعروف به چراغ‬
‫دہلی رحمتہ ہللا علیہ کا شمار سلسلہ عالیہ چشتیہ کے مشائخ عظام میں ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے اکتیس برس تک اپنے شیخ طریقت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین‬
‫اولیاء نور هللا مرقدہ کی مسند پر بیٹھ کر ان کی جانشینی کا حق ادا کیا اور‬
‫ہزاروں طالبان حق کی رہنمائی کر کے انہیں منزل مقصودتک پہنچایا‬
‫حضرت چراغ دہلی‪٦٧٥‬ھ میں اودھ میں پیدا ہوئے۔‬
‫پچیس سال کی عمر میں جب انہوں نے فقر و تجرید کی راہ اختیار کی تو‬
‫دنیاوی لذات سے منہ موڑ لیا(عبدہللا خویستگی‪،‬معارج الوالیت)۔ اس راہ میں‬
‫انہوں نے کڑی ریاضتیں کیں۔ موصوف کئی برسوں تک اودھ کے جنگالت میں‬
‫مصروف مجاہدات رہے۔ انہوں نے صوم دوام کو اپنا معمول بنا لیا تھا جس پر‬
‫وہ مرتے دم تک‬
‫قائم رہے۔ وہ جنگلی پھل کھا کر سحری کرتے اور شام کو سنبھالو کے پتوں‬
‫سے افطار کرتے(معارج الوالیت)‬
‫ان مجاہدات نے ان کے سرکش نفس کو مار کر ان کے مزاج میں صبر و تحمل‬
‫پیدا کر دیا جومسند نشینی کے بعد ان کے بہت کام کیا‬
‫جامع ملفوظات‬
‫جامع ملفوظات حمید قلندر کے حاالت زندگی کے بارے میں ہمارے پاس زیادہ‬
‫معلومات نہیں ہیں(خیرالمجالس)‬
‫خیر المجالس کے ایک اندراج سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیلو کہڑی کے‬
‫رہنے والے تھے ۔ ان‬
‫کے والد موالنا تاج الدین حضرت سلطان المشائخ کے مرید تھے۔ انہوں نے نو‬
‫عمری میں اپنے فرزند حمید کو بھی اپنے مرشد کا مرید کروا دیا۔ ایک روز‬
‫موالنا تاج الدین حمید کو ساتھ لے کر سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر‬
‫ہوئے۔ افطاری کا وقت تھا اور حضرت واال قدر روزه افطار کر رہے تھے۔‬
‫انہوں نے نصف روٹی حمید کوعطا فرمائی۔ جب حمید وہ روٹی لے کر باہر‬
‫نکلے تو وہاں چند قلندر کھڑے تھے انہوں نے ان سے کہا کہ انہیں بھی اس‬
‫میں شریک کریں۔ انہوں نے وہ روٹی حمید کے ہاتھ سے چھین کر آپس میں‬
‫بانٹ لی جب ان کے والد موالنا تاج الدین کو یوں روٹی چھین جانے کا علم ہوا‬
‫تو وہ اپنے بیٹے سے بہت خفا ہوئے کہ اس نے اتنی بڑی نعمت یونہی گنوا دی۔‬
‫موالنا تاج الدین نے یہ واقعہ سلطان المشائخ کو سنایا تو انہوں نے فرمایا "خاطر‬
‫جمع رکھو۔ تمہارا بیٹا قلندر بنے گا۔‬
‫))اخباراالخیار‬
‫خیر المجالس کی تدوین سے یہ متشرح ہوتا ہے کہ حمید پڑھا لکھاانسان تھا اور‬
‫اسے شاعری کا بھی ذوق تھا۔ اُس نے اپنا دیوان مرتب کیا تھاجو اب نایاب ہو‬
‫چکا ہے(معارج الوالیت)‬
‫اسے قرآن و حدیث پر بھی عبور حاصل تھا لیکن افتاد طبع کے مطابق قلندرانہ‬
‫وضع اختیار کر لی اور گیروے رنگ کا لباس اوڑھ لیا۔ سلطان محمد بن تغلق‬
‫نے جب دلی کے باشندوں کو دولت آباد جا کر آباد ہونے کا کہا تو حمید قلندر‬
‫بھی دکن چلے گئے۔ وہاں انہیں سلطان المشائخ کے خلیفہ حضرت برہان الدین‬
‫غریب کی صحبت میسر آئی(معارج الوالیت)۔‬
‫خیر المجالس کے ایک اندراج سے یہ معلوم ہوا کہ اس نے غریب کے ملفوظات‬
‫جمع کرنا شروع کئے تھے اور وہ بیسں مجالس کے ملفوظات جمع کر کےرک‬
‫گیا(خیرالمجالس)۔‬
‫بعض حضرات‪ .‬کا یہ خیال ہے کہ حضرت برہان الدین غریب کے ملفوظات‬
‫نفائس االنفاس حمید قلندر کے مرتب کردہ ہیں‪ ،‬جو بیسں مجالس پر مشتمل‬
‫ہیں(معارج الوالیت)‬
‫تو یہ خیال صحیح نہیں ہے کیونکہ نفائس االنفاس کے متن میں جامع ملفوظات‬
‫نے اپنا نام عماد کاشانی المعروف بہ دبیر لکھا ہے(نفاٸس االنفاس)۔‬
‫جوامع الکلم‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫حضرت سید محمد الحسيني المعروف به سید بندہ نواز گیسو دراز کا شمار‬
‫برعظیم پاک و ہند کے اولیائے کبار میں ہوتا ہے۔ آپ ‪٤‬رجب ‪۷۲۰‬ہ کو خسرو‬
‫خان کے عہد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدت کے چند سال بعد جب سلطان محمد‬
‫بن تغلق نے دہلی کی بجائے دولت آباد کو اپنا پایہ تخت بنایا‬
‫اور دہلی کے باشندوں کو وہاں جانے کا حکم دیا تو حضرت گیسو دراز اپنے‬
‫والد بزرگوار سید محمد یوسف المعروف بہ راجو قتال کی معیت میں دولت آباد‬
‫تشریف لے گئے(آب کوثر) ۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دولت آباد میں اپنے والد‬
‫بزرگوار سے حاصل کی۔ حضرت گیسودراز ابھی دس برس کے تھے کہ شفقت‬
‫پدری سے محروم ہو گئے۔ والد کی وفات کے بعد ان کی تربیت کا بار ان کے‬
‫ماموں ملک االمراء سید ابراہیم کے کندھوں پر پڑا اور وہ پانچ سال تک ان کی‬
‫کفالت کرتے رہے(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)۔‬
‫۔ سید گیسودراز پندره یا سولہ سال کی عمر میں حضرت نصیر الدین چراغ دہلی‬
‫سے متعارف ہوئے(جوامع الکلم)‬
‫اور آپ نے طالب علمی کے زمانہ میں ہی ‪ ١٦‬رجب ‪۷۳٦‬ھ کو ان کے ہاتھ پر‬
‫بیعت کر لی(بزم صوفیہ)۔‬
‫سید گیسو دراز نے مرشد کی نگرانی میں سلوک کی‬
‫منازل طے کرنا شروع کیں۔ گیسو دراز کا جذبہ اور ذوق و شوق دیکھ کر‬
‫چراغ دہلی فرمایا کرتے تھے کہ ستر برس کے بعد ایک لڑکے نے پھر مجھ‬
‫میں شوریدگی پیدا کر دی ہے اور پہلے زمانے کے واقعات مجھے یاد دال‬
‫دیئے(سیرمحمدی)‬
‫حضرت نصیر الدین چراغ دہلی نے ‪ ۱۸‬رمضان ‪۷۵۷‬ء کو وفات پائی اور وفات‬
‫سے تین روز پہلے انہوں نے حضرت گیسودراز کو خالفت عطا فرمائی‬
‫حضرت گیسودراز نے چوالیس برس تک دہلی میں مسند ارشاد کو زینت بخشی‬
‫اور جب‪ ٨٠١‬ھ میں امیر تیمور کے حمله کا غلغلہ بلند ہوا تو حضرت گیسو‬
‫دراز نے ‪ ۸۰‬برسی کی عمر میں دہلی کو خیر آباد کہا(دیباچہ خیرالمجالس)‬
‫اور گجرات کے راستے دولت آباد تشریف لے گئے۔ دولت آباد میں چندے قیام‬
‫کے بعد آپ شاہان جمنی کے دارالحکومت گلبرگہ تشریف لے گئے اور سلطان‬
‫تاج الدین فیروز کی درخواست پر آپ نے وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی اور‬
‫وہیں ‪۸۲۵‬ھ میں ‪١٠٥‬سال کی عمر میں وفات پائی۔ آپ کا مزار مبارک‬
‫گلبرگہ میں مرجع خالئق ہے‬
‫گیسود راز نے متعدد کتابیں اپنی یادگار چھوڑی ہیں جن میں سے شرح فصوص‬
‫الحکم ‪،‬معارف شرح عوارف‪ ،‬شرح فقہ اکبر' رسالہ سیرة النبی‪ ،‬شرح آداب‬
‫المریدین‪ ،‬اسماء االسرار مکتوبات اور اُن کا مجموعہ کالم انیس العشاق خاص‬
‫طور پر مشہور ہیں۔ ان کے ملفوظات کے دو مجموعے سیر محمدی مرتبہ‬
‫محمد علی سامانی اور جوامع الکلم مرتبہ سید محمد اکبر حسینی طبع ہو چکے‬
‫ہیں۔ ان میں سے آخر الذکر مجموعہ ملفوظات بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔‬
‫جامع ملفوظات‬
‫جوامع الکلم حضرت بندہ نواز گیسو دراز کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو ان‬
‫کے فرزند سید محمد‬
‫اکبر حسینی نے جمع کئے ہیں۔ جن ایام میں فاضل مرتب نے ملفوظات جمع‬
‫کرنے شروع کئے ان دنوں حضرت‪ .‬گیسو دراز دہلی سے براہ گجرات دکن جا‬
‫رہے تھے۔ فاضل مرتب نے ملفوظات نویسی کا آغاز ‪ ۱۸‬رجب ‪۱۵ / ۸۰۲‬‬
‫مارچ ‪۱٤۰۰‬ء کو کھمباٸت میں کیا اور نو ماه بعد ‪ ۲۲‬ربیع الثانی‪ ۸۰۳‬ھ ‪١٠‬‬
‫دسمبر ‪۱٤۰۰‬ء کو جوامع الکلم کی تکمیل ہوئی۔ اس کتاب میں فاضل مرتب نے‬
‫حضرت گیسو دراز کی ‪ ١٣٨‬مجالس کے ملفوظات قلمبند کئے ہیں۔‬
‫سید محمد اکبر حسینی رقمطراز ہیں کہ انہوں نے یہ ملفوظات لکھ کر حضرت‬
‫گیسودراز کی خدمت میں پیش کئے اور انہوں نے لفظا لفظا اور حرفا ً حرفاً" ان‬
‫کا مطالعہ کر کے ان کی تصحیح فرمائی۔ حضرت گیسودراز نے ملفوظات پڑھ‬
‫کر فرمایا کہ مرتب نے جس تحقیق اور تدقیق کے ساتھ ملفوظات مرتب کیے‬
‫ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوۓ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صاحب‪ .‬ملفوظات نے خود‬
‫ہی اسے مرتب کیا ہے(جوامع الکلم)‬
‫لطائف اشرفی‬
‫حضرت اشرف جهانگیر سمنانی" کا شمار برعظیم پاک و ہند کے ان اکابر اولیاء‬
‫ہللا میں ہوتا ہے جنہوں نے ہماری مذہبی معاشرتی اور سیاسی تاریخ میں اپنی‬
‫سیرت اور کردار کے ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت‬
‫ہے کہ اودھ کے مشرقی عالقے میں تبلیغ اسالم اور تعمیر ملت کے اہم فریضہ‬
‫کو جس انہماک‪ ،‬خلوص اور اہتمام سے موصوف نے انجام دیا ہے اس کی مثال‬
‫بر عظیم پاک و ہند کی تاریخ میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔‬
‫حضرت اشرف جہانگیر کے ملفوظات ان کے ایک مرید حاجی نظام غریب‬
‫یمنی نے "لطاٸف اشرفی" کے عنوان سے جمع کئے تھے جو ‪١٢٩٨‬ھ میں دہلی‬
‫سے دو ضخیم جلدوں میں شائع ہو چکے ہیں لیکن اب کمیاب ہو گئے‬
‫ہیں(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)۔‬
‫احسن اال قوال‬
‫موالنا آزاد الئبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں حضرت برہان الدین غریب‬
‫کے ملفوظات پر مشتمل احسن االقوال کے عنوان سے ایک نادر مخطوطہ‬
‫محفوظ ہے" اس مخطوطہ کے‪ ٧٩‬ورق ہیں۔ ‪ ۱٣۳۷ /۷۳۸‬میں حضرت برہان‬
‫الدین غریب کے ایک مرید حماد بن عماد کاشانی نے مرتب کیا تھا۔ موجودہ دور‬
‫کے تاریخ دانوں کو قدیم مؤرخین سے یہ گلہ رہا ہے کہ ان کی لکھی ہوئی‬
‫تاریخیں صرف سالطین اور بادشاہوں کے گرد گھومتی ہیں اور ان میں سے‬
‫بعض تاریخیں تو شاہی دربار کا روزنامچہ بن کر رہ گئی ہیں۔ ان مورخین نے‬
‫عوام کی مذہبی اور سماجی حالت کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ اس کمی کو‬
‫صوفیاء کرام کی خانقاہوں میں مرتب ہونے والے ملفوظات نے کافی حد تک‬
‫پورا کیا ہے۔ احسن االقوال میں قرون وسطی کے خانقاہی نظام اور صوفیا اور‬
‫عوام کی معاشرتی اور سماجی زندگی پر جس انداز سے قلم اٹھایا گیا ہے اس‬
‫کی نظیر اور کسی بزرگ کے محرکات میں کم ہی ملتی ہے(یونیورسٹی کلکشن‬
‫فارسیہ‪،‬مذہب‪،‬تصوف نمبر‪)٣١٨‬‬
‫۔ نفائس األنفاس‬
‫حضرت برہان الدین غریب کا شمار برعظیم پاک و ہند‬ ‫صاحب‪ .‬الملفوظات‬
‫کے ان اکابر اولیاء ہللا میں ہوتا ہے جنہوں نے ہماری دینی روحانی اور‬
‫معاشرتی تاریخ میں اپنی سیرت و کردار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں(اردوداٸرہ‬
‫معارف اسالمیہ)۔‬
‫جامع ملفوظات‬
‫نفائس االنفاس کے آغاز میں جامع ملفوظات نے اپنا پورا نام عماد کاشانی‬
‫المعروف بالدبير لکھا ہے(احسن االقوال)‬
‫انہوں نے ایک موقع پر اپنی بیعت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ چار بھائی تھے اور‬
‫چاروں ہی حضرت برہان الدین سے بیعت تھے (احسن االقوال)‬
‫نفائس االنفاس کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک موقع پر حضرت‪ .‬برہان‬
‫الدین نے اپنا مصلی‪ ،‬مسواک اور ٹوپی جامع ملفوظات کو عطا کئے تھے(احسن‬
‫االقوال)‬
‫خوان پر نعمت‬
‫مخدوم شرف الدین بن شیخ یحیی منیری کا شمار اُمت مرحومہ کے اُن مصلحین‬
‫اور مجددین میں ہوتا ہے جنہوں نے مسلمانان پاک و ہند کی تاریخ و ثقافت میں‬
‫اپنی سیرت و کردار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔‬
‫مخدوم کے مریدوں نے ان کے ملفوظات کے متعدد مجموعے مرتب کئے ہیں۔‬
‫اس وقت ان کے ملفوظات کا مجموعہ "خوان پرنعمت" مرتبه زین بدر عربی‬
‫میرے پیش نظر ہے۔ یہ کتاب مطبع احمدی پٹنہ سے ‪١٣٢١‬ھ میں طبع ہوٸی‬
‫تھی‪ ،‬لیکن اب اس کے مطبوعہ نسخے بھی کمیاب ہو گئے ہیں (ملفوظاتی ادب‬
‫کی تاریخی اہمیت)‬
‫۔ معدن المعانی‬
‫مخدوم شرف الدین احمد بن شیخ یحیی منیری کا شمار ان مشاہیر اولیاء ہللا میں‬
‫ہوتا ہے جنہوں نے بر عظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کی تاریخ و ثقافت میں‬
‫اپنی سیرت و کردار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔‬
‫مخدوم صاحب کے مریدوں نے ان کے ملفوظات کے متعدد مجموعے مرتب‬
‫کئے ہیں۔ اس وقت ان کے ملفوظات کا مجموعہ معدن المعانی مرتبہ زین بدر‬
‫عربی میرے پیش نظر ہے۔ مطبع اشرف االخبار بہار شریف میں ح‪۱۸۸٤‬ء میں‬
‫چھپی تھی لیکن اب اس کے مطبوعہ نسخے کمیاب ہو گئے ہیں‬
‫مخدوم صاحب‪ .‬کا شجرہ نسب آنحضرتﷺ کے تایا اورکفیل حضرت زبیربن‬
‫عبدالمطلب سے جا ملتا ہے۔‬
‫))تاریخ دعوت وعزیمت‬
‫الدر ْال َم ْن ُ‬
‫ظوم‬
‫حضرت مخدوم جہانیاں سید جالل الدین جہا نگشت بخاری کے مریدوں نے ان‬
‫کے سوانح حیات اور ملفوظات کے کئی مجموعے تیار کئے تھے۔ ان میں سے‬
‫جامع العلوم تاریخ محمدی‪ ،‬مناقب قطبی‪ ،‬خزانه جاللی اور جواہر جاللیہ خاص‬
‫طور پر مشہور ہیں۔‬
‫)جواہرجاللیہ مرتبہ فضل ہللا‬
‫جامع العلوم کا اردو ترجمہ الدر المنظوم فى ترجمه ملفوظ المخدوم کے عنوان‬
‫سے ‪۱۳۷۷‬ء میں ملتان سے طبع ہواتھا۔ ان ملفوظات کے مطالعہ سے سلطان‬
‫فیروز تغلق (‪ ۱۳۵۱‬تا ‪ )١٣٨٨‬کے عہد کی مذہبی‪ ،‬سماجی اور ثقافتی زندگی پر‬
‫ایک نئے زاویے سے روشنی پڑتی ہے۔ اس لئے برعظیم پاک و ہند میں مسلم‬
‫دور کی تاریخ کے طالب علم کے لئے مخدوم جہانیاں کے ملفوظات کا مطالعہ‬
‫ناگزیر ہے۔‬
‫ملفوظات شاہ عالم گجراتی‬
‫موالنا آزاد الئبریری' علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‪ ،‬علی گڑھ میں ملفوظات‬
‫حضرت قدوة العارفين سید سراج الدین ابو البركات لقب به شاه عالم ابن حضرت‬
‫قطب العالم نبیرہ حضرت مخدوم جہانیاں قدس سر ھما و اسرار هم" کے عنوان‬
‫سے ‪ ۱۷۸‬ورق ایک نادر مخطوطہ محفوظ ہے(ملفوظات شاہ عالم‪،‬مخطوطہ‬
‫فارسی تصوف)‬
‫کراچی کے قومی عجائب گھر میں اس کتاب کی متعدد جلدیں موجود ہیں جو "‬
‫جمعات شاہیہ" کے نام سے موسوم ہیں۔ حضرت شاہ عالم بخاری (المتوفی‬
‫‪ ۱٤۷۴‬کا شمار سهروردی سلسلہ کے ان اکابر اولیاء ہللا میں ہوتا ہے جن کے‬
‫انفاس طیبہ سے گجرات کا ذرہ ذرہ معطر و منور ہو رہا‬
‫ہے‬
‫)ملفوظات شاہ عالم‪،‬مخطوطہ فارسی تصوف(‬
‫جامع ملفوظات‬
‫جامع ملفوظات نے متن میں کہیں بھی اپنا نام ظاہر نہیں کیا۔ بدقسمتی سے‬
‫مخطوطہ کے آخر میں ترقیمہ موجود نہیں اس لئے جامع ملفوظات اور کاتب‬
‫کے نام اور سن کتابت معلوم نہیں ہو سکے۔ دو موقعوں پر اس نے سید محمد‬
‫مقبول عالم کو "جدی" کہہ کر یاد کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان‬
‫کاپوتا تھا (ملفوظات شاہ عالم)‬
‫صاحب‪ .‬مرات احمدی نے ان کے اس عالم و فاضل پوتے کا نام‬
‫سید محمد جعفر بدر عالم بتایا ہے‬
‫۔ ملفوظات حضرت اخی جمشید را جگیری‬
‫موالنا آزاد الئبریری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں "ملفوظات‬
‫حضرت اخی جمشید را جگیری" کے عنوان سے ایک نادر مخطوطہ محفوظ‬
‫ہے(یونیورسٹی کلکشن نمبر‪،٤،٦٦‬فارسیہ مذہب وتصوف)۔‬
‫اس کا کوئی دوسرا نسخہ فی الحال‪ .‬میرے علم میں نہیں ہے۔ اس مخطوط کے‬
‫مطالعہ سے حضرت اخی جمشید را جگیری کی تعلیمات کے عالوہ اس عہد‬
‫کے معاشی اور سماجی حاالت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔‬
‫جامع ملفوظات‬
‫یحیی بن علی االصغر بن عثمان الحسینی قنوج کا رہنے‬ ‫جامع ملفوظات‬
‫واال تھا۔ اس نے بچپن ہی میں حضرت‪ .‬مخدوم جہانیاں کی مریدی کا شرف‬
‫حاصل کیا۔‬
‫اس نے ملفوظات کے متن میں اپنے متعلق یہ لکھا ہے کہ اس نے چودہ سال کی‬
‫عمر تک "بہت کچھ " حاصل کر لیا تھا۔‬
‫سید یحیی نے اپنے مرشد گرامی قدر حضرت‪ .‬مخدوم جہانیاں کے بارے میں‬
‫"مشاغل جاللی و مشاغل متاللی" کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی‪ ،‬جس کا‬
‫ہنوز سراغ نہیں مال‬
‫)ملفوظات اخی جمشیدراجگیری(‬
‫ملفوظات شاہ مینا لکھنوی‬
‫حضرت مخدوم شاہ مینا لکھنوی رحمتہ ہللا علیہ کے ملفوظات کا ایک مطبوعہ‬
‫نسخہ موالنا آزاد الئبریری علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں محفوظ ہے۔ یہ کتاب‬
‫گزشتہ صدی کے اواخر میں مطبع مرقع عالم ہردوئی میں طبع ہوئی تھی اور‬
‫اب اس کے مطبوعہ نسخے نایاب ہو چکے ہیں۔‬
‫شاہ مینا کے ملفوظات ان کے ایک مرید اور خلیفہ میر سید محی الدین بن حسین‬
‫رضوی ساکن امیٹھی نے جمع کئے تھے۔ انہوں نے ملفوظات میں شاہ صاحب‬
‫سے خالفت پانے کا ذکر کیا ہے(ملفوظات شاہ مینا)۔‬
‫ان ملفوظات سے شاہ مینا کے معموالت ان کی تعلیمات اور اس عہد کے‬
‫معاشرے پر کافی روشنی پڑتی ہے۔ ملفوظات میں جا بجا اونچے پایہ کی علمی‬
‫کتابوں کے حوالے ملتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کسی بڑے عالم‬
‫اور پابند شریعت بزرگ کے ملفوظات ہیں(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)۔‬
‫تحفة السعدا‬
‫رضا الئبریری رام پور میں تحفة السعدا" کے عنوان سے حضرت شیخ سعد بن‬
‫بڈهن خیر آبادی کے سوانح پر مشتمل پچاس ورق کا ایک نادر مخطوط محفوظ‬
‫ہے (مخطوطہ تحفة السعدا‪،‬رضاالٸبریری رام پور)‬
‫اس کے مصنف نے متن میں اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے۔ فقیر حقیر‬
‫ضعیف نحیف گناه کار امیدوار رحمت پروردگار غفار خواجه جمال خاکروب‬
‫آستانہ قدوة العارفين عمدة السالكين قطب العارفین شیخ سعد خیر آبادی قدس سرہ‬
‫فاضل مصنف مخدوم شیخ کمال بن سراج االسالم محمود کے مرید تھے۔ موخر‬
‫الذکر بزرگ شیخ سعد کے برادر زادے اور جانشین تھے۔ شیخ کمال کو اپنے‬
‫بزرگوں سے جو خرقہ مال تھا وہ انہوں فاضل مصنف کو پہنایا تھا‬
‫))ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت‬
‫تحفة المجالس‬
‫حضرت شیخ احمد کھٹو گنج بخش کا شمار بر عظیم پاک و ہند کے اُن اولیاء ہللا‬
‫میں ہوتا ہے جنہوں نے ہماری مذہبی معاشرتی اور سیاسی تاریخ میں اپنی‬
‫سیرت اور کردار کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے‬
‫کہ راجستھان گجرات اور کاٹھیاواڑ میں تبلیغ اسالم اور تعمیر ملت کے اہم‬
‫فریضہ کو جس انہماک‪ ،‬خلوص اور اہتمام سے شیخ موصوف نے انجام دیا ہے‬
‫اس کی مثال برعظیم کی تاریخ میں خال خال ہی نظر آتی ہے)۔‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫شیخ احمد کھٹو کا پیدائشی نام نصیر الدین تھا (آٸین اکبری)‬
‫ان کے آباٶاجداد کے بارے میں تمام تذکرہ نگار خاموش ہیں۔ صرف اس قدر‬
‫تذکروں میں مرقوم ہے کہ ان کے اکابر کا شمار دہلی کے شرفا" میں ہوتا‬
‫تھا(گلزارابرار)‬
‫ٰ‬
‫اعلی‬ ‫ان کے نام کے ساتھ "ملک" کا لقب یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فوج میں‬
‫عہدوں پر فائز تھے‬
‫جامع الملفوظات‬
‫شیخ احمد کھٹو کے ملفوظات ان کے ایک مرید سید محمود بن سعد بن صدر‬
‫ایرجی نے جمع کئے‬
‫ہیں۔ وہ ایرج کے رہنے والے تھے اور اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ حج کے‬
‫ارادے سے ایرج سے نکلے تھے۔ احمد آباد پہنچ کر انہوں نے محلہ بھنڈیری‬
‫پورہ میں قیام کیا اور اگلے روز شیخ احمد سے مالقات کے لئے گئے۔ ادھر یہ‬
‫اپنی قیام گاہ سے شیخ موصوف کی زیارت کے ارادے سے نکلے‪ ،‬ادھر شیخ‬
‫نے اپنا ایک خادم انہیں بالنے کیلیےبھیجا۔ راستے میں دونوں کی مالقات ہوئی‬
‫اور خادم انہیں لے کر حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہیں سے دونوں کے‬
‫تعلقات قائم ہو گئے(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)‬
‫لطائف قدوسى‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫حضرت عبد القدوس گنگوہی کا شمار برعظیم کے نامور اولیاء ہللا میں ہوتا ہے۔‬
‫چشتیہ صابریہ سلسلے میں انہیں "مجدد" کا درجہ دیا جاتا ہے۔ ان کے ملفوظات‬
‫"لطائف قدوسی" لودھیوں کے آخری اور مغلوں کے ابتدائی دور حکومت کا‬
‫ایک اہم ماخذ ہے(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)‬
‫جامع الملفوظات‬
‫شیخ رکن الدین‪ ،‬حضرت گنگوہی کے جلیل القدر فرزند ہیں۔ ملفوظات کی تدوین‬
‫کے وقت ان کی عمر ‪ ٤٧‬سال تھی اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک‬
‫پختہ ذہن کی تصنیف ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی کے والد ماجد شیخ عبد االحد‬
‫سہرندی‪ ،‬شیخ رکن الدین کے مرید اور خلیفہ تھے‬
‫))خزینة االصفیا‬
‫اس سے جامع ملفوظات کی رُوحانی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫ملفوظات شیخ وجیه الدین گجراتی‬
‫موالنا آزاد الئبریری مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں ملفوظات شیخ وجیہ الدین‬
‫گجراتی " کے عنوان سے ایک نادر مخطوطہ محفوظ ہے جس میں احمد آباد‬
‫کے اس عظیم بزرگ کی چند مجالس کے ملفوظات قلم بند ہیں(ملفوظات شیخ‬
‫وجیہ الدین گجراتی)‬
‫اس کا ایک مخطوطہ انڈیا آفس الئبریری لندن میں بھی محفوظ ہے جس کی‬
‫مائیکرو فلم شعبه تاریخ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں موجود ہے(انڈیا آفس‬
‫الٸبریری مخطوطہ مذکورہ) ۔علی گڑھ والے مخطوط کے سرورق پر ملفوظات‬
‫شیخ وجیہ الدین گجراتی ۔۔ درج ہے بابائے اردو مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ‬
‫شیخ کے ایک مرید نے بحرالحقائق کے عنوان ے ان کے ملفوظات جمع کئے‬
‫تھے (مجموعہ حاالت شاہ وجیہ الدین گجراتی)‬
‫۔ مولوی صاحب نے اپنا ماخذ نہیں بتایا۔ ہو سکتا ملفوظات کے اس مجموعہ کا‬
‫اصل نام "بحر الحقائق" ہو۔ مرتب نے متن میں ایک موقعہ پر اپنا نام العبد الفقير‬
‫الحقير محمد تحریر کیا ہے۔ شیخ کے تالمذہ میں شیخ محمد بن فضل ہللا برہان‬
‫پوری (‪۱٦۳۰‬ء) کا نام سر فہرست نظر آتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ شیخ کے‬
‫ملفوظات اسی فاضل نے جمع کیےہوں(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)۔‬
‫مراة طيبه‬
‫مراة طیبہ کے عنوان سے ‪ ۱۳۳‬ورق کا ایک نادر مخطوطہ رضا الئبریری رام‬
‫پور میں محفوظ ہے (مراة طیبہ مخطوطہ رضا الٸبریری رام پور)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫فاضل مصنف نے اپنا نام مراۃ طیبہ کے متن میں ابو ضیاء محمد معین الدین بن‬
‫حضرت قدوة الواصلين زبدة العارفين الواصل الى هللا الودود خواجہ خاوند محمود‬
‫العطاری النقشبندي العلوى الحسينى تحریر کیا ہے(مراة طیبہ)‬
‫موصوف الہور کے مشہور نقشبندی بزرگ حضرت خواجہ خاوند محمود‬
‫المعروف به حضرت ایشان کے فرزند تھے۔ ان کا شمار شیخ عبدالحق محدث‬
‫دہلوی کے ارشد تالمذہ میں ہوتا ہے(نزہة الخواطر)‬
‫حدیث اور متعلقہ علوم پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ فاضل مصنف اپنے‬
‫بارے میں لکھتے ہیں کہ وه مراة طیبہ کی تصنیف کے وقت ‪١٠٦٤‬‬
‫تک طلبہ کو چھ بار صحیح بخاری اور صحیح مسلم‪ ،‬تین بار سنن ترمذی اور‬
‫آٹھ بار مشکوة شریف ختم کرا چکے ہیں(مراة طیبہ)‬
‫اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انہوں نے خود کو حدیث کے درس و اشاعت‬
‫کے لئے وقف کر دیا تھا۔‬
‫ملفوظات شاہ رکن الدین شطاری‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫حضرت عین الدین عبدالباری المعروف به شاه رکن الدین شاه جہان اور اورنگ‬
‫زیب جہانگیر کے عہد کے شطاری سلسلے کے ایک نامور بزرگ گزرے‬
‫ہیں۔ان کے والد بزرگوار معین الدين اورجد امجد قطب الدین کا شمار بھی مغلیہ‬
‫عہد کے نامور مشاٸخ میں ہوتا ہے(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)‬
‫جامع الملفوظات‬
‫جامع الملفوظات نے ایک جگہ متن میں اپنا نام فقیر بے تسکین امام الدین‬
‫شطاری" لکھا ہے(ملفوظات شاہ رکن الدین شطاری)‬
‫وہ بہار کی تاریخی اور روحانی بستی را جگیر کا رہنے واال تھا اور اس نے‬
‫تیرہ سال شاہ رکن الدین کی صحبت میں گزارے تھے۔ ملفوظات کی ترتیب اور‬
‫مندرجات دیکھ کر یہ اندازہ ہوا ہے کہ وہ بڑا پڑھا لکھا شخص تھا۔ اس نے‬
‫مناہج الشطار" کے عنوان سے ایک تصنیف اپنی یادگار چھوڑی ہے۔‬
‫جامع ملفوظات نے حضرت مجدد الف ثانی کے پوتے حضرت سیف الدین‬
‫سرہندی سے اپنی مالقات کا ذکر کیا ہے۔ حضرت سیف الدین " التحیات‪ .‬میں رفع‬
‫سبابہ کے سخت مخالف تھے اور اس موضوع پر جامع ملفوظات کی ان سے‬
‫گفتگو بھی ہوٸی(ملفوظات شاہ رکن الدین)‬
‫حضرت عبدالرشید جون پوری" سے بھی مال تھا اور ان سے بھی رفع سبابہ‬
‫کے مسئلے پر بات چیت کی تھی۔ حضرت عبدالرشید نے اس سے کہا کہ بعض‬
‫لوگ رفع سبابہ کو واجب بعض سنت بعض مکروہ اور بعض حرام لکھتے ہیں‪،‬‬
‫اس لئے انہوں نے اسے ترک کر دیا ہے(ملفوظات شاہ رکن الدین)‬
‫ملفوظات شاہ عبدالرزاق بانسوی‬
‫استاد العلماء موالنا نظام الدین فرنگی محلی بانی درس نظامی کے مرشد گرامی‬
‫شاہ عبدالرزاق بانسوی کا شمار برعظیم پاک و ہند کے نامور مشائخ میں ہوتا‬
‫ہے۔ ان کے ملفوظات موالنا نظام الدین نے "مناقب رزاقیہ" کے عنوان سے جمع‬
‫کئے ہیں جو شاہی پریس لکھنؤ سے ‪ ،١٩٢١‬میں طبع ہو چکے ہیں۔ شاہ صاحب‬
‫کے بارے میں ایک کتاب محمد خان شاہجہانپوری نے” ملفوظ رزاقی" کے‬
‫عنوان سے قلمبند کی تھی جو ‪۱۳۱۳‬ء میں مطبع مجتبائی لکھنو سے چھپ چکی‬
‫تھی۔ محمد خان شاہجہانپوری نے اپنے چچا سے شاہ عبدالرزاق کے حاالت‬
‫سنے تھے اور وہ سید غالم علی کے مرید تھے۔ سید غالم علی غالم دوست‬
‫محمد کے فرزند اور شاہ عبد الرزاق کے پوتے تھے۔ شاہ جہانپوری نے ملفوظ‬
‫رزاقی" کے آغاز میں اس واسطے کو سند کے طور پر نقل کیا ہے(ملفوظ‬
‫رزاقی)‬
‫محبوب القلوب‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫بندگی نظام الدین (‪ )۱۳۹۳( - )۱۵۷۲‬لودھیوں سوریوں اور مغلوں کے حکومت‬
‫میں امیٹھی ضلع لکھنو میں ایک ولی کامل ہو گزرے ہیں۔ ان کا شجرۂ نسب‬
‫خلیفہ سوم حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ سے جا تا ہے(محبوب القلوب)۔‬
‫ان کے آباؤ اجداد کا وطن موضع ستر کھ ضلع بارہ بنکی تھا۔ جب قصبہ امیٹھی‬
‫کی بنا پڑی تو سلطان وقت نے ان کے جد ششم شیخ معروف کو سترکھ سے ال‬
‫کر امیٹھی میں آباد کیا اور وہاں کا قاضی مقرر کیا (محبوب القلوب)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫جامع ملفوظات محمد علی بن عبدالجبار بن عبد الوهاب بن بندگی نظام الدین ہیں۔‬
‫انہوں نے خود تو حضرت کا زمانہ نہیں پایا لیکن ان کے چچا شیخ یسین اور‬
‫ماموں علیم ہللا بندگی نظام الدین سے فیضیاب ہوئے تھے۔ محمد علی کو ان‬
‫دونوں بزرگوں سے شرف تلمذ بھی تھا۔ ان کے عالوہ جامع ملفوظات نے شیخ‬
‫عبدالرحیم گویامٸوی سے بھی روایات لی ہیں۔ محمد علی نے جو کچھ بھی لکھا‬
‫ہے اور سند کے ساتھ لکھا ہے۔ اس لئے محبوب القلوب کی حیثیت سرور‬
‫الصدور جیسی ہے کہ جامع الملفوظات کی صاحب الملفوظات کے ساتھ لقا ثابت‬
‫نہیں(ملفوظاتی ادب کی تاریخی اہمیت)‬
‫مجالس کلیمی‬
‫صاحب الملفوظات‬
‫سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ کے مجدد حضرت شاہ کلیم ہللا جهان آبادی ‪ ۲٤‬جون‬
‫‪ ۱٦۵۰‬شاہجہان کے عہد حکومت میں شاہجہان آباد (دہلی) میں پیدا ہوئے(مناقب‬
‫المحبوبین)‬
‫ان کا خاندان اسالمی فن تعمیرکا ماہر اور علوم ریاضی اور فلکیات میں اپنی‬
‫نظیر آپ تھا۔‬
‫جامع ملفوظات‬
‫جامع ملفوظات خواجه کامگار خان خواجہ برہان الدین کے فرزند خواجہ محمد‬
‫خاوند کے پوتے اور حضرت خواجہ خاوند محمود المعروف به حضرت ایشان‬
‫الہوری کے پڑپوتے تھے۔ ان کا سلسلہ نسب حضرت بہاء الدین نقشبند کے‬
‫داماد حضرت عالء الدین عطار سے جا ملتا ہے(سہ ماہی اردو) نقشبندی ہونے‬
‫کے باوجود خواجہ کامگار خان اور ان کے بھائی محمد نور الدین نے سلسلہ‬
‫عالیہ چشتیہ نظامیہ میں حضرت نظام الدین اورنگ آبادی کے دست مبارک پر‬
‫بیعت کی اور خرقہ خالفت حرکت سے بھی سرفراز ہوئے۔ وہ شاہی لشکرمیں‬
‫مالزم تھے لشکر کے ساتھ نقل وحرکت کرتے رہے شوال پور میں ان کی‬
‫مالقات حضرت نظام الدین سے ہوئی اور وہیں ان کے مرید ہو گئے(ملفوظات‬
‫خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی)‬
‫وہ ایک پڑھے لکھے شخص تھے ۔ انہوں نے "احسن الشمائل" میں اپنے غزل‬
‫گو شاعر ہونے کا اعتراف کیا ہے(احسن الشماٸل)‬
‫انہوں نے اپنے مرشد کے ملفوظات کے دو مجموعے "احسن الشمائل" اور‬
‫ملفوظات خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی" کے عنوانات سے تیار کئے۔ فرخ‬
‫سیر کے عہد میں جب امیر االمراء سید حسین علی خان حیدر آباد سے دہلی‬
‫روانہ ہوا تو کامگار خان بھی اپنے مرشد سے اجازت لے کر اس کے لشکر‬
‫میں شامل ہو گئے (مجالس کلیمی مخطوطہ)‬
‫دہلی پہنچ کر وہ اپنے دادا مرشد شاہ کلیم ہللا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس‬
‫زمانے میں انہیں یہ اطالع ملی کہ ان کی عدم موجودگی میں دکن میں ان کے‬
‫بھائی محمد نور الدین کا انتقال ہو گیا ہے۔ خواجہ کامگار خان نے اپنے مرحوم‬
‫ایصال ثواب کی خاطر شاہ کلیم ہللا کی چودہ مجالس کے ملفوظات‬
‫ِ‬ ‫بھائی کے‬
‫"مجالس کلیمی" کے عنوان سے مرتب کئے (مجالس کلیمی مخطوطہ)‬
‫احسن الشمائل‬
‫احسن الشمائل" حضرت خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی کے ملفوظات کا "‬
‫مجموعہ ہے جو ان کے ایک مرید با اخالص خواجہ محمد کامگار خان نے‬
‫مرتب کیا تھا۔ "احسن الشمائل" کا ایک مخطوطه موالنا آزاد الئبریری مسلم‬
‫یونیورسٹی علی گڑھ میں محفوظ ہے۔ یہ مخطوطہ ‪٨٢‬اوراق پر مشتمل‬
‫ہے(احسن الشماٸل مخطوطہ)‬
‫اس فاضل مرتب نے اپنے شیخ طریقت کے ملفوظات کا ایک دوسرا مجموعہ‬
‫بھی مرتب کیا تھا جو ملفوظات خواجه نظام الدین اورنگ آبادی" کے نام سے‬
‫موسوم ہے۔ اس کا ایک مخطوطہ خانقاہ عالیہ تونسہ شریف میں محفوظ‬
‫ہے(احسن الشماٸل)‬
‫ملفوظات میں انہوں نے "احسن الشمائل" کا ذکر کیا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا‬
‫ہے کہ " احسن الشمائل" "ملفوظات" سے پہلے مرتب ہوئی تھی(ملفوظاتی ادب‬
‫کی تاریخی اہمیت)‬
‫ملفوظات خواجہ نظام الدین اورنگ آبادی‬
‫احسن الشمائل" کی تدوین کے بعد خواجہ محمد کامگار خان نے اپنے شیخ‬
‫طریقت کے ملفوظات جمع کئے۔ اس تصنیف دل پذیر میں جامع ملفوظات تحریر‬
‫فرماتے ہیں کہ انہوں نے یہ کام حضرت نظام الدین کے شوق دالنے پر کیا ہے۔‬
‫انہوں نے فاضل مرتب سے کہا تھا کہ جو مرید اپنے پیر کے "مقاالت و حاالت‬
‫" جمع کرتا ہے اسے اجرعظیم ملتا ہے(ملفوظات خواجہ نظام الدین اورنگ‬
‫آبادی)‬
‫ملفوظات شاہ عبد العزیز محدث دہلوی‬
‫شاه عبد العزیز دہلوی کے ملفوظات ان کے ایک مرید نے جس نے متن میں اپنا‬
‫نام نہیں لکھا قلمبند کئے تھے یہ ان کی عمر کے آخری دور میں مرتب ہوئے‬
‫تھے۔ اس لئے ان ملفوظات کو پکے ہوئے پھل کہنا بیجا نہ ہو گا۔ ملفوظات کی‬
‫تدوین کے دوران میں ہی ‪۱۸١۸‬ء میں شاہ رفیع الدین کا انتقال ہوا اور ان کی‬
‫تکمیل شاہ عبد العزیز کی وفات ‪١٧‬جوالٸی ‪۱٨۲۳‬ء کے ساتھ ہوٸی(ملفوظاتی‬
‫ادب کی تاریخی اہمیت)‬
‫درالمعارف‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫شاہ غالم علی‪ ،‬جن کا اصل نام عبدہللا تھا' ‪۱٧٤۵‬ء میں مشرقی پنجاب کے‬
‫مشہور علمی و روحانی مرکز بٹالہ میں پیدا ہوئے(جواہر علویہ) ان کے والد‬
‫بزرگوار شاہ عبداللطيف علوی شاه ناصر الدین قادری سے بیعت تھے اور ان کا‬
‫قیام زیادہ تر دہلی میں رہتا تھا۔‬
‫جامع الملفوظات‬
‫جامع ملفوظات‬
‫شاه رؤف احمد فاروقی‪ ،‬حضرت مجدد الف ثانی کی اوالد تھے۔ ان کا شجرہ‬
‫نسب حضرت مجدد الف ثانی سے اس طرح سے ملتا ہے‪ :‬شاہ رؤف احمد بن‬
‫شعور احمد بن محمد شرف بن رضی الدین بن زین العابدين بن محمد یحیی بن‬
‫مجدد الف ثانی(تذکرہ اہل دہلی) موصوف ‪ ١٤‬محرم ‪١٢٠١‬ھ رام پور میں پیدا‬
‫ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد انہوں نے شاہ درگاہی کے ہاتھ بیعت کی لیکن کچھ‬
‫عرصہ بعد اپنے خالہ زاد بھائی شاہ ابو سعید مجددی کے ساتھ شاہ غالم علی‬
‫کی خدمت میں چلے آئے اور ان کی خدمت میں رہ کر سلوک کی منازل طے‬
‫کیں۔‬
‫انوار قمریہ‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫شیخ االسالم والمسلمین خواجہ قمرالدین سیالوی سلسلہ چشتیہ کے ایک عظیم‬
‫بزرگ ہیں جنہوں کے ظاہری و باطنی فرمودات سے پاکستان کی سرزمیں کو‬
‫رشد و ہدایت کی باغات میسر آۓ(انوارقمریہ)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫غالم علی سیالوی خود اس مجموع کے بارے لکھتے ہیں کہ فقیر نے قدوۃ‬
‫السالكين زبدة العارفین سیدی و سندی حضرت شیخ االسالم و المسلمین غریب‬
‫نواز حضرت خواجہ حافظ محمد قمرالدین سیالوی قدس سرہ کے وہ ملفوظات و‬
‫مقاالت جمع کئے جو بذات خود ان سے سنے یا ان کے دست اقدس کے تحریر‬
‫شدہ ملے وہ انوار قمریہ کے حصہ اول میں درج کئے گئے۔ حصہ دوم میں چند‬
‫تو اسی قسم کے بیانات ہیں تا ہم اکثر و بیشتر متعلقین حضرات‪ .‬سے اور چندان‬
‫کتابوں سے لئے گئے جو میسر آئے تحریر کئے ہیں۔ انوار قمریہ کے اس حصہ‬
‫سوم میں حضور شیخ االسالم والمسلمین قدس سرہ کے ملفوظات‪ ،‬خطابات‬
‫(بعنوان‬
‫مواعظ قمریہ) کرامات‪ ،‬مکتوبات شریف اور فتاوی جات شامل ہیں۔ عالوہ ازین‬
‫اس حصہ سوم میں ایسی آیات بینات اور احادیث بھی فقیر نے نقل کر دی ہیں‪،‬‬
‫جن کی عوام و خواص کو زیادہ ضرورت ہے۔ نیز بعض حضرات کے اشعار و‬
‫رباعیات کو بھی درج کردیا ہے‪ ،‬جو اصحاب حال اور اصحاب‪ .‬شوق و ذوق کو‬
‫حیات ابدی زندگی میں تازگی کا باعث ہیں۔ لہذا انہیں بے ربط وضبط خیال نہ‬
‫فرماویں کیونکہ اسالف کے کالم میں جو اثر ہوتا ہے وہ بے دل آدمی کو‬
‫صاحب دل بنا دیتا ہے(انوارقمریہ)‬
‫ملفوظات امیر ملت‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫حضرت پیر سید جماعت علی شاہ کا تعلق سلسلہ عالیہ نقشبندیہ سے ہے جن کا‬
‫فیضان برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ بالد عرب و عجم میں عام ہے۔سلسلہ‬
‫عالیہ نقشبندیہ چوراہیہ کے عظیم خلفا میں ان کا شمار ہوتا ہے۔آستانہ عالیہ علی‬
‫پور سیداں شریف انہیں سے پہچانا جاتا ہے۔(ملفوظات پیرجماعت علی شاہ)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫شاہ صاحب کے ملفوظات ان کے ایک مرید حاجی محمد عثمان نے جمع کٸے‬
‫فقیر حامد حسن قادری کا کہنا ہے کہ‬
‫اعلی حضرت امیر ملت قبلہ عالم محدث علی پوری رضی ہللا‬‫ٰ‬ ‫ملفوظات طیبات‬
‫عنہ سب سے پہلے ‪ ١٣٦٩‬میں برادر طریقت جناب حاجی محمدعثمان صاحب‬
‫حیدر آبادی نے خود چھپوا کر حیدر آباد دکن سے شائع فرمائے تھے۔ جس کی‬
‫مفصل کیفیت جناب مولف کے عرض حال ہے معلوم ہوگی ۔ حاجی محمد عثمان‬
‫صاحب‪ .‬مولف کتاب ہم سب خدام درگاہ شاہ جماعت کے زیادہ سے زیادہ شکریہ‬
‫عظمی سے مستفیض ہونے کا‬‫ٰ‬ ‫کے مستحق ہیں کہ انھوں نے ہم کو اس نعمت‬
‫موقع عطا فرمایا۔ حاجی صاحب ممدوح کے خلوص عقیدت اور اس مرتبہ‬
‫اعلی حضرت قبلہ روحی فداہ‬‫ٰ‬ ‫فضیلت کی جس قدر تعریف کی جائے کم ہے کہ‬
‫کے الکھوں خادموں اور جاں نثاروں میں حاجی محمد عثمان صاحب واحد و‬
‫منفر دہستی ہیں جنھوں نے اپنے پیر ومر شد کے ملفوظات شریف جمع کئے ۔‬
‫ہفتوں مہینوں حضور کی خدمت میں بیٹھ کر حضور کی زبانی کلمات طیبات کو‬
‫لکھا اور مرتب کر کے شائع کر دیا۔ (ملفوظات امیر ملت)‬
‫ملفوظات مہریہ‬
‫صاحب‪ .‬ملفوظات‬
‫پیر سید مہر علی شاہ صاحب کا شمار سلسلہ چشتیہ سیالویہ کے اعلی خلفا میں‬
‫ہوتا ہے جن کی بصیرت سے حق و باطل کے امتیاز کے ایسے موتی بکھرے‬
‫کہ اس دنیاۓ پاکستان میں اپنی مثال آپ ہیں۔آپ فاتح قادیانیت و شیعیت ہیں۔آستانہ‬
‫عالیہ گولڑہ شریف آپ سے ہی جانا جاتا ہے(مہرمنیر)‬
‫جامع ملفوظات‬
‫حضرت عالمہ مفتی فیض احمد فیض گولڑوی کی یہ سعی جمیل ہے ک انہوں‬
‫نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔مفتی صاحب جامعہ غوثیہ کے صدر داراالفتا‬
‫والتدریس ہیں۔ایک عالم ہی عالم کی بات صحیح سمجھ سکتا ہے۔ان کی ترتیب‬
‫کو بھی انفرادی اہیمت حاصل ہے‬
‫فصل دوم‬
‫خانقاہی نظام کی اصالح کیلیے کاوشیں‬
‫دین اِسالم کی ترویج و اشاعت کا کارنامہ بیشتر ممالک‬
‫۔ ِ‬
‫میں صوفیائے کرام ہی کی تبلیغی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہی کی مساعی جمیلہ‬
‫سو اِسالم پھیلتا چال گیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اولیاء ہللا‬‫سے ہر ُ‬
‫ب طریقت کی والہانہ عقیدت و محبت اور اکرام و احترام کا جذبہ بغائت‬ ‫اور اربا ِ‬
‫درجہ موج زن ہے۔‬
‫اسی طرح خلفائے راشدین رضی ہللا عنہم کے دور میں مدارس میں دین کے‬
‫ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں کی تعلیم و تربیت دی جاتی تھی ۔ پھر آہستہ‬
‫آہستہ یہ سلسلہ معدوم ہوتا دکھائی دیا تو اولیا ہللا نے خانقاہوں کے ذریعے‬
‫باطنی علوم عوام الناس میں بانٹنے کا بیڑہ اُٹھایا‬
‫چنانچہ برصغیر پاک و ہند کی تہذیبی‪ ،‬سماجی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬معاشی اور‬
‫اخالقی اقدار پر گہرے اثرات مرتب کئے نیز یہ خانقاہی نظام ایک عرصہ تک‬
‫اپنی انہی معیاری بنیادوں پر اُستوار رہا جن پر اِسے قائم کیا گیا تھا۔۔۔۔۔ لیکن‬
‫ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظام ُرو بہ تنزل ہوتا چال‬
‫گیا ۔‬
‫کیوں کہ یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ کوئی ادارہ اور نظام کتنا ہی مثالی کی^^وں نہ‬
‫ہو بتمام و کمال عروج پر قائم نہیں رہ سکتا ۔ زمانہ اپنی تمام تر حشر س^^امانیوں‬
‫کے ساتھ اُسے کچل کر رکھ دیتا ہے۔ یہی حال خانقاہی نظام کے ساتھ بھی ہوا۔‬
‫آہستہ آہستہ مسلمانوں کی دین سے دوری کی وجہ سے غیر مس^^لم اق^^وام نے ان‬
‫خانقاہوں پر قبضہ کر کے مسلمانوں کے دین کو صرف ظاہر پرستی ت^^ک مح^^دود‬
‫کر دیا اور فرقہ واریت کو فروغ دیا ۔ دوسری طرف دین س^^ے دوری اور دنی^^ا کی‬
‫بڑھتی ہوئی طلب کو دیکھتے ہوئے اولیا ہللا نے بھی خود کو چھپا لیا ۔‬
‫نیز نوجوان طبقہ میں انتشار ان تعلیمی اداروں نے ڈاال جو روحانیت جیسے اہم‬
‫شعبے سے خالی تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ انگریزوں نے مسلمانوں کے‬
‫صدیوں سے قائم خانقاہی نظام کو تباہ کرنے کےلیے خانقاہ کی سربراہی کو‬
‫وراثت کے قانون کے تحت ولی ہللا کے وصال کے بعد اس کے اصل روحانی‬
‫وارث کسی اہل و کامل کی بجائے اس کے ظاہری فرزند کے حوالے کر دیا خواہ‬
‫وہ اس کا اہل ہو یا نہ ۔‬
‫اسی طرح اگر کوئی ولی ہللا اپ^^نی زن^^دگی میں ہی اپ^^نے روح^^انی وارث ک^^و اپ^^نے‬
‫مزار کا سجادہ نشین بنا دیتا ہے تو وراثت کے ق^^انون کے مط^^ابق ع^دالت اس ک^^ا‬
‫حق نہیں دیتی اور مزار اور خانقاہ ولی کے فرزندوں کے حوالے ک^^ر دی^^تی ہے ۔‬
‫اور یہ ضروری نہیں کہ سجادہ نشین یا گدی نشین بننے واال بیٹا ولی کا روحانی‬
‫وارث بھی ہو ۔ یہ تو ان کی خ^^وش قس^^متی ہ^^وتی ہے کہ وہ کس^^ی ولی کام^^ل کے‬
‫گھر پیدا ہوتے ہیں ۔‬
‫آج کل کے سجادہ نشین اور گدی نشین کا تو یہ حال ہے کہ وہ گ^^دی کے حص^^ول‬
‫کےلیے قتل و غارت سے بھی گریز نہیں ک^^رتے کی^^ونکہ ان کی نظ^^ر م^^زار س^^ے‬
‫آنے والی کمائی پر ہوتی ہے ۔ اور اگر وہ سیاست میں قدم رکھیں تو مری^^دین کی‬
‫صورت میں بھاری مقدار میں ووٹ بھی حاصل ہو جاتے ہیں ۔‬
‫نیز س^^جادہ نش^^ینوں کی وجہ س^^ے ل^^وگ اص^^ل اولی^^ا س^^ے بھی دور ہ^^و گ^^ئے ہیں‬
‫کی^^ونکہ وہ س^^جادہ نش^^ین ک^^و اس کی ظ^^اہری حی^^ثیت کی وجہ س^^ے ولی س^^مجھ‬
‫بیٹھے ہیں اور جب اس کو تمام روح^^انی اوص^^اف اور قوت^^وں س^^ے ع^^اری پ^^اتے‬
‫ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اس دور میں کوئی ولئ کامل ہے ہی نہیں ۔‬
‫دوسری یہ کہ روحانیت کو کاروبار کا درجہ دینے کا اہم سبب وہ جاہ^^ل مری^^د ہیں‬
‫جو پیر صاحب کے ہر عمل پر ایمان اور ہر ح^^رکت ک^^و ولی ہللا کی ادا س^^مجھتے‬
‫ہیں (معاذ ہللا) اور یہ بات تص^^ور ک^ر لی گ^^ئی ہے کہ جس ط^^رح کارخ^^انے دار ک^^ا‬
‫بیٹا اس کے کارخانے کا ‪ ،‬اور جاگیر دار کا بیٹا اس کی جاگیر کا وارث ہے بالکل‬
‫اسی طرح پیر صاحب کا بیٹا پیر ہی ہو گا۔‬
‫کیوں کہ بعض مرید اپنی گدی کے اسی پیر سے زیادہ تعلقات بنا کے رکھتے ہیں‬
‫جس سے وقتا ً فوقتا ً کچھ مفادات حاصل کئے جا سکیں اور پ^^یر ص^^احب کی نگ^^ا ِہ‬
‫ب ثروت مریدوں پر عام مریدوں سے تھوڑی سی زیادہ ہوتی ہے‬ ‫لطف بھی صاح ِ‬
‫۔‬
‫بہر صورت! آج پیری مریدی ای^^ک خالص^تا ً نف^ع بخش کاروب^ار اور بہ^ترین ذریعہ‬
‫روزگار ہے ۔ اس میں خسارے ک^^ا س^^ودا بالک^^ل نہیں‪ ،‬ک^^وئی بھی ش^^خص پ^^یر بن‬
‫کے بیٹھ جائے اس کی کوٹھی بنگلے‪ ،‬گاڑی‪ ،‬گھر بچوں اور نوکر چاکر کا خرچہ‬
‫بغیر کسی محنت کے بیٹھے بٹھائے چلتا رہتا ہے۔۔‬
‫ُحضور ص^^در الش^^ریعہ مف^^تی امج^^د علی اعظمی رحمۃ ہللا الق^^وی تحری^^ر فرم^^اتے‬
‫ہیں‪ :‬آج کل بہت سے لوگوں نے پیری مریدی کو پیشہ بنالیا ہے‪ ،‬ساالنہ مری^^دوں‬
‫میں دورہ ک^^رتے ہیں اور مری^^دوں س^^ے ط^^رح ط^^رح س^^ے رقمیں کھس^^وٹتے ہیں‬
‫جس کو نذرانہ وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں اور ان میں بہت سے ایسے‬
‫بھی ہیں ج^^و جھ^^وٹ اور ف^^ریب س^^ے بھی ک^^ام لی^^تے ہیں یہ ناج^^ائز ہے۔(بہ^^ار‬
‫شریعت‪ :‬حصہ ‪ ،16‬ص ‪ ،610‬نئی ایڈیشن‬
‫ت اسالمی‬ ‫)دعو ِ‬
‫تن^^بیہ‪ :‬لہ^^ذا تنقیح و تص^^ریح اور تجدی^^د و احی^^اء کی م^^ؤثر آواز بلن^^د ہ^^وتی رہ^^نی‬
‫چاہیے تاکہ اِس نظام کو مثبت ان^^داز کی تعم^^یری تنقی^^د کے ذریعے خراف^^ات س^^ے‬
‫خالف س^^نت اُم^^ور ک^^و آڑ بن^^ا ک^^ر‬ ‫ِ‬ ‫پاک کیا جاتا رہے۔ ن^^یز چن^^د ای^^ک خرابی^^وں اور‬
‫پورے نظام کو فاسد اور باطل بنا دینا قطعی درست نہیں کہ یہ مسلمہ ام^^ر ہے کہ‬
‫ب ط^^ریقت کی تائی^^د اور تحس^^ین‬ ‫خالف ش^^رع اُم^^ور ک^^و کبھی بھی مس^^لمہ ارب^^ا ِ‬ ‫ِ‬ ‫اِن‬
‫نظام‬
‫ِ‬ ‫حاصل نہیں ہوئی جیسا کہ بہا ِر شریعت کے عبارت سے واضح ہے ۔۔۔سو ہم‬
‫خانقاہی کے احیاء کے بھرپور حامی ہ^^ونے کے س^^اتھ اس کی اص^^الح کے داعی‬
‫اور منکرات کی شدید مذمت کرتے ہیں ۔‬
‫تعالی ہمیں ح^^ق ب^^ات کہ^^نے اور لکھ^^نے کی توفی^^ق عط^^ا فرم^^ائے‪ ،‬مس^^لمانا ِن‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اہلسنت کو ان وراثتی جاہل گدی نشینوں سے نجات عطا فرماۓ اور کامل اولیاۓ‬
‫ک^^^^^^^^^^^^^^^رام کی پہچ^^^^^^^^^^^^^^^ان و ص^^^^^^^^^^^^^^^حبت عط^^^^^^^^^^^^^^^ا فرم^^^^^^^^^^^^^^^اۓ۔‬
‫آمین بجاہ النبی االمین صلی ہللا علیہ وسلم‬

You might also like