You are on page 1of 22

‫وہ شائد بیسویں صدی کی ساتویں دہائی کے آخری سال تھے ۔ جب میں نے شکیل عادل‬

‫زادہ کی تحریر پڑھی تھی۔وہ بھی اس طرح کہ مکہ مکرمہ ‪ ،‬جدہ اور مدینہ منورہ کے‬
‫کے ضمن میں سعودی عرب جانا پڑا۔ مکہ ‪ Photo Grametery‬اور ‪Aerial Survey‬‬
‫مکرمہ کی فضائی پٹی چھوٹے ہوائی جہاز کیلئے ہی تھی اور شہر سے دور تھی۔ برطانیہ‬
‫کی ٹیم میں عیسائی بھی تھے اور حدود میں داخل نہ ہوسکتے تھے سو خیمے ہوائی پٹی‬
‫ت تنہائی بھی ۔کبھی‬
‫کے ساتھ ہی لگے تھے۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا۔ دشت بھی دش ِ‬
‫کبھی کوئی بگولہ آ نکلتا اور سفر کرتا ہوا گذر جاتا تب ہوائی جہاز کے پنکھ پھڑپھڑاتے۔‬
‫ت دل کچھ اور بڑھ جاتی۔ سونچ گھر کے آنگن تک‬ ‫لگتا پرندہ پاؤں بدل رہا ہے ۔ وحش ِ‬
‫پہنچتی ضرور تھی لیکن لوٹ آتی تو سوائے سکوت کے کچھ ساتھ نہ التی۔ جب چاند سبز‬
‫چشم ہوجائے تب یہی کچھ ہوتا ہے کہ وہ ہمسفر بھی رہے اور ہمنوائی نہ ہو۔ اسی کو‬
‫دھوپ چھاؤں کا کھیل کہتے ہیں۔ ایک شام اپنی پرواز مکمل کرکے میں جدہ چالگیا۔‬
‫رسالوں کی دوکان پر کئی پاکستانی میگزین رکھے تھے میں یوں ٹوٹ پڑا گویا پل بھر کی‬
‫دیر‬

‫ہوئی تو یہ خواب بھی سراب نہ ہوجائے۔ سپنس‪ ،‬جاسوسی ڈائجسٹ ‪ ،‬نیا اُفق ‪ ،‬عالمی‬
‫ڈائجسٹ اور نہ جانے کیا کچھ‪ ،‬اسی میں ’’ سب رنگ‘‘ بھی ۔میں نے سب سمیٹ لئے کہ‬
‫کوئی تو ہم کالم ہو۔ ہم سخنی ابھی دور تھی ۔اسی میں دیوتا کی صورت محی الدین نواب‬
‫بھی ‪ ،‬فرہاد علی تیمور کی نقاب اوڑھے ‪ ،‬الیاس سیتاپوری ‪ ،‬ضیاء تسنیم بلگرامی‪ ،‬شوکت‬
‫صدیقی ‪ ،‬فرخ جمال ‪ ،‬ایم اے راحت‪ ،‬مرزا امجد بیگ اور کیا کچھ نہیں تھا ۔ ایسے میں سب‬
‫رنگ کے کچھ ورق اُلٹے تو سندھی ادیب شیخ ایاز سے مالقات ہوگئی ۔ کہانی تھی ’’ ہنس‬
‫ُمکھ‘‘ مگر ُرالگئی ۔ پھرنہ جانے اسیری کا وہ لمحہ کہاں سانس روکے کھڑا تھا ۔ ’’‬
‫بازیگر‘‘ کا شاید ایک صفحہ پڑھا تھا۔ اُس کے بعد تو نہ ’’دامنوں کو خبرتھی نہ آستینوں‬
‫کو‘‘یہ شاید وہ وقت تھا جب بابرزماں خاں جیل میں تھے اور کرشنا جی کے التفات کے‬
‫بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ کہانی مجھے شب گزیدہ کر گئی۔اردلی جب چائے لئے خیمے‬
‫میں داخل ہوا تو پو پھٹنے کوتھی۔ تمام رات خیمے کا در کھال رہا ۔ شبنم پھول کو چومتی‬
‫گل تر کردے۔ کمبخت منافق ہوا رات بھر ریت سے یوں اٹکھیلی‬ ‫ہے تو یوں کہ گل تازہ کو ِ‬
‫کرتی رہی کہ مجھے خاک بسرکر گئی ۔بدن ٹوٹ رہا تھا لیکن خیمے میں ایک مانوس‬
‫خوشبو سی تھی۔ ایسے لگتا کہ یہ خوشبو نہ جانے کب سے وجود کے نہاں خانے میں‬
‫سربستہ رہی۔ راز کی طرح ‪ ،‬رات کی طرح۔ جو کبھی آفتاب کے آگے بے حجاب نہ ہوئی ۔‬
‫کمبخت فراق تپیدہ سورج ‪ ،‬سارادن شب کے تعاقب میں رہا لیکن وہ البیلی روشنی کے‬
‫شہزادے کی رہگذر پر بال کھولے بیٹھ گئی ۔ جب وہ مغرب میں ڈوبا تب یہ چاندنی کی ِردا‬
‫سرپہ ڈالے نکل آئی۔ خوشبو تو بس خوشبو ہوتی ہے ۔ پھیلتی ہے تو سمت و جہت سے‬
‫ماورا ہوتی ہے ۔ ہر سو ہر جہت‪ ،‬سمٹتی ہے تو خود میں اپنے آپ کو چھپالیتی ہے ۔ پھراس‬
‫کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ بے ساختہ میری زبان سے نکال ’’ کورا ‘‘ ! اردلی مجھے حیرت‬
‫سے تکتا رہ گیا۔ میرا سر‪ ،‬چہرہ ‪ ،‬پلکیں ‪ ،‬بدن ‪ ،‬سب خاک میں اٹا تھا۔ پھر اُس نے مجھے‬
‫آواز دی‬
‫‘‘ سرجی ’’‬
‫میں چونکا ‪ ،‬اُس نے پوچھا‬
‫‘‘ آپ ٹھیک تو ہیں ؟ ’’‬
‫‘‘ ہاں ’’‬
‫‘‘رات آپ نے شاید اپنا خیمہ بند نہیں کیا ۔ ’’‬
‫‘‘ ہوں ’’‬
‫جب تک میں نہالیتا اُس نے میرا خیمہ صاف کردیا ۔ لیکن خوشبو ویسی ہی تھی ۔ تب‬
‫مجھے لگا خوشبو تو ایک احساس ہے وہ تو وجود میں بسی رہتی ہے ۔ ِسمت اور جہت کا‬
‫تعین تو خوشبو کو اسیر کرنا ہے ۔ بھال خوشبو اور روشنی کو کوئی قید کرسکا ہے ! جس‬
‫کو زندا ِن بدن نہ قید کرسکا ہو بھال اُسے طوق و سالسل کیا ۔‬
‫نے کہا ’’ سر ہمارے کیمرہ ‪ Navigator‬اُس دن میں نے معمول سے زیادہ فالئنگ کی ۔‬
‫‘‘فلم ختم ہورہے ہیں‬
‫‘‘ کیوں ’’‬
‫‘‘لیا ہے۔ ‪ Run‬سر ! آج بہت ’’‬
‫میں نے فالئٹ کو گھما کر کمان معاون پائلٹ کے سپرد کردی اور بدن کو ڈھیال چھوڑ دیا۔‬
‫واپسی کے بعد میں نے پھر ’’ سب رنگ ‘‘ نکاال ‪ ،‬چاہا کہ آگے پڑھوں لیکن لگتا تھا‬
‫سامنے لفظ نہیں ہیں ‪ ،‬بے جان الشیں پڑی ہیں ۔گویا ’’ پھر اُس کے بعد چراغوں میں‬
‫روشنی نہ رہی‘‘۔‬
‫میں کوئی ‪ 40‬مہینے کام میں مصروف رہا اور اس دوران دس مرتبہ ہندوستان آیا۔ بمبئی‬
‫سے گذرتا تو لگتا کہیں قریب میں بالے ہے ‪ ،‬مارٹی ہے‪ ،‬کہیں لگتا بٹھل ہے ۔ حیدرآباد کی‬
‫گلیاں تو میری اپنی ہیں ‪ ،‬کہیں خالؤں میں خانم کا سراپا دکھائی دے جاتا۔ وہی سوگوار‬
‫پس چلمن ۔ میرا خیال ہے کہ ان چالیس‬ ‫آنکھیں وہی جھکی ہوئی پلکوں کی چلمن اور خود ِ‬
‫مہینوں مشکل سے کوئی چھ ’’ سب رنگ ‘‘ شائع ہوئے ہوں گے لیکن سرورق پر ماہنامہ‬
‫ضرور لکھا ہوتا اور اداریہ میں کوئی نہ کوئی ُعذر بہرحال سب رنگ کا الزمہ تھا لیکن‬
‫اس کے باوجود ساری خطائیں خودبخود معاف۔‬
‫بٹوارے کے بعد کس نے کیا کھویا کس نے کیا پایا یہ الگ موضوع ہے ۔ نہ میں سیاستداں‬
‫ہوں نہ مجھے اس سے کبھی کوئی غرض رہی۔ ہم تو ہمیشہ کھونے والوں ہی میں رہے ہیں‬
‫لیکن پانے والوں نے کیا کچھ پالیا یہ سودوزیاں اب بے سود ہے ۔ شکیل عادل زادہ کے فن‬
‫اور شخصیت پر پاکستان نے کتنا کام کیا ؟ کیا کچھ لکھا گیا ‪ ،‬فن پر ناقدوں نے کیا رائے‬
‫قائم کی یہ سب میری نظر میں نہیں ہے ۔ کتابیں بھی مشکل ہی سے ملتی ہیں ۔ اور یوں بھی‬
‫آدمی کی دسترس میں تقریر و تحریر کے ابالغیہ حُسن کا بہ یک رُخ یکجا ہونا خاصہ‬
‫دشوار ہوتا ہے ۔ میں تو یوں بھی ہنربے ہنری میں یکتا ئے روزگار ہوں ۔ اسلئے شکیل‬
‫عادل زادہ پر دوچار جملے بھی لکھنا شاید میرے بس میں نہیں ہے ۔ شکیل عادل زادہ جو‬
‫محبتوں سے اسیر کرے اور بے ُرخی سے پروانۂ رہائی جاری کردے۔اس کی محبتیں‬
‫نسرین ناز آفریں‪ ،‬عذرائے گل عذار‪ ،‬نستر ِن غنچہ دہن ‪ ،‬سمن‬
‫ِ‬ ‫سمندر سمندر جس کے آگے‬
‫پیرہن‪ ،‬اللہ ُرخسار‪ ،‬شیشہ اندام ہیچ ہوں ۔ ایسا سفاک جو محبت سے زخم لگائے اور اجنبیت‬
‫میں وہ تاثیر مسیحائی رکھے کہ اس کے قلم کا لمس اندمال کے سارے سامان بہم پہنچائے ۔‬
‫شکیل عادل زادہ تو د ِل سرکش کا دوسرا نام ہے لیکن اسی د ِل خانہ خراب سے تو زندگی کا‬
‫رنگ ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر وہ دراصل صرف ایک ادیب ہوتے تو شایداتنے‬
‫قیمتی نہ ہوتے ان کی تحریروں کے پیچھے تو کتاب زاروں کی تہذیب اور فکری رزم‬
‫گاہوں کا تمدن ہے ۔ ان کے وجود کی فضاء مصنوعاتی نہیں بلکہ تو فیقی ہے اس لئے‬
‫بیرونی زبوں حالیوں میں بھی ہمیشہ نہال و بحال رہتی ہے ۔ اور یہی اُن کے افکار کی‬
‫آراستگی کے باوجود انفرادیت کے ادراک سے مکمل آراستہ ہے ۔ تخلیق اور پھر حُسن کو‬
‫کمال تک پہنچانے کیلئے کتنا خو ِن جگر درکار ہے یہ ہنوز قرار نہیں پاسکا ‪،‬اسلئے بھی‬
‫کمال حُسن کا متقاضی ہے ۔‬
‫ِ‬ ‫کہ اندر کا فنکار جس کمال حُسن پر ہے وہ تخلیق میں بھی اُسی‬
‫شکیل عادل زادہ کی کہانی کا بدن کرنوں سے تراشیدہ ہے اور اس پہلوی بدن کو جہاں کرن‬
‫چھولیتی ہے اندر سے رنگ اُچھال دیتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بازیگر کے ہر کردار کو‬
‫ت طناز کو میں نے‬ ‫شکیل عادل زادہ نے نہایت احتیاط سے تراشا ہے ۔ اور پھر اس ب ِ‬
‫تراشا ‪ ،‬میں نے پرستش کی اور میں نے توڑدیا والی بات بھی نہیں ہے اس صنم خانے کا‬
‫ہر پیکر صرف اپنی تراش کی وجہ سے محو کالم ہوتا تب بھی یہ آذری ‪ ،‬ایک کمال تھی‬
‫لیکن انہوں نے ہر کردار کو تراشنے سے پہلے اُس کے خمیرکو پرکھا ہے پھر تراشنے‬
‫کے دوران جتنے زخم مجسمہ کے بدن پر آئے کچھ اس سے سواء ان کی ہتھیلیوں پر بھی‬
‫آئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کہانی کے مرکزی کردار ’’ کورا‘‘ کو انہوں نے‬
‫کیسے تراشا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چھپی ہوئی کورا پل بھر سے بھی کچھ کم میں اپنی‬
‫چھبی دکھاکر پھر اُسی چٹان میں چھپ گئی ہو۔ اُس کا بدن تو ازل سے تھا ۔ اس ایک پل‬
‫میں شکیل عادل زادہ نے چٹان کے فاضل حصوں کو تراش دیا اور کورا وجود کے نہاں‬
‫خانوں میں چھپ گئی ۔ اس تہہ در تہہ نہاں خانہ کے اطراف ان گنت پہرے بھی ہیں ۔ شکیل‬
‫کے پاس اس طلسم کدے کا حرف خفی بھی ہے ۔ لیکن جس طرح عذاب و ثواب کے فلسفے‬
‫انسان کو بکھیردیتے ہیں ۔ اسی طرح ہجر و وصل کے فلسفے نے شکیل عادل زادہ کے ہر‬
‫قاری کو سحر میں اسیر رکھا۔ یہ بات درست ہیکہ سرشارئ وصل ایک کیف ہے اور بدن‬
‫کیف سرشارئ وصل کو صرف بدن کہنا دراصل توہی ِن وصل‬ ‫ِ‬ ‫ایک خوب وسیلہ تو ہے لیکن‬
‫ہے ۔ ہجر اگر آرزوئے وصال ہے تو اس کی تپش سب کچھ جالکر بھی ذوق سوختنی کو نہ‬
‫صرف باقی رکھتی ہے بلکہ فزوں تر کردیتی ہے ۔ ممکن ہے اس نظریہ سے اتفاق نہ ہو‬
‫اسلئے کہ یہ واردات اور اسکا تجربہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے ۔‬
‫سن دوہزار چار میرے لئے ایک سخت آزمائشی سال تھا۔میری بیوی ُدنیا سے گذر گئی جس‬
‫نے تحیرکی لذت سے آشنا کیا تھا وہ تنہائی سے بھی روشناس کرواگئی۔خوشب̃و ہواؤں میں‬
‫بکھرجاتی ہے تو زندگی کو دشت دشت کرجاتی ہے ۔ بے مکانی تو میراث آدمیت ہے ۔ ہاتھ‬
‫تھامنے کی خواہش اور ہے ۔ ہاتھ میں ہاتھ آکر چھوٹ جائے تو تمام عمر ہتھیلی میں سنسناتا‬
‫نصیر ترابی برابر فون کرتے رہے ۔ کبھی دالسہ نہیں دیا۔ صبر کی‬‫ؔ‬ ‫ہے ۔ پاکستان سے‬
‫تلقین نہیں کی ۔ وہ جانتے ہیں کہ صبر کی تلقین کبھی کبھی شقاوت ہوجاتی ہے ۔ سرکشوں‬
‫میں دالسے کا شعار کچھ اور ڈھنگ سے ہے ۔‬
‫ادب میں سرکشوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔گذشتہ صدی اور اس صدی میں پریم چند ‪،‬‬
‫سعادت حسن منٹو‪ ،‬عصمت چغتائی ‪ ،‬کرشن چندر ‪ ،‬بیدی‪ ،‬جوش ملیح آبادی‪ ،‬فراق ؔ ‪،‬‬
‫مجاز ‪ ،‬نظام رامپوری‪ ،‬احمد ندیم قاسمی‪ ،‬فیض ؔ ‪ ،‬افتخار عارف‪ ،‬نصیرترابی‪،‬‬‫ؔ‬ ‫اخترشیرانی‪،‬‬
‫جون ایلیا‪ ،‬شکیل عادل زادہ ‪ ،‬ناصر بغدادی ‪ ،‬مشتاق احمد یوسفی‪ ،‬غرض ایک طویل‬
‫فہرست ہے جن کی سرکشی میں ایک دوسرے ہی کا نہیں بہت سارے انسانوں کے دل کا‬
‫اطمینان پوشیدہ ہے ۔ یہ سب ایک دوسرے کو صرف جانتے نہیں پہچانتے بھی ہیں ۔ نصیر‬
‫ترابی کا فون آیا ’’ کچھ دنوں کیلئے یہاں چلے آؤ‘‘ وہ میرے خالہ زاد بھی ہیں ‪ ،‬میرے ہم‬
‫تار نفس کھینچنے میں کچھ پہلے ہوگئے ۔ میں پاکستان پہنچ گیا۔ وہ‬
‫عمر بھی ۔ صرف ِ‬
‫مجھے کئی جگہ لے گئے ۔ کوئی شام جمیل جالبی کے ساتھ گذری‪ ،‬کوئی دوپہر فرہان فتح‬
‫پوری کے پاس‪ ،‬مشتاق احمد یوسفی کے پاس کئی گھنٹے لگ گئے ‪ ،‬پیرزادہ قاسم نے‬
‫یونیورسٹی میں اپنے احباب کو جمع کرلیا ۔ افتخار عارف اکیڈیمی آف لیٹرز سے وابستہ‬
‫تھے۔اسالم آباد سے وہ آگئے تو ایک شام وہاں گذرگئی ‪ ،‬امجد اسالم امجد نے الہور آنے‬
‫کے لئے کہا ‪ ،‬میں جا نہیں پایا۔ مہدی حسن کی عیادت کیلئے گیا وہ اُٹھ نہیں پارہے تھے ۔‬
‫پشت تکیوں سے لگاکر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد لڑکے سے کہا ’’ ہارمونیم الؤ‘‘ سب‬
‫حیرت سے انھیں دیکھنے لگے ۔ فنکاراپنی زندگی کا ثبوت دینا چاہتا تھا ۔ سرکشی بدن کو‬
‫مات دے گئی ۔ انہوں نے اپنے آپ کو سمیٹا ۔ کچھ دیر اپنے آپ میں مگن رہے ۔ پھر وہی‬
‫غزل ‪ ،‬وہی لے‪ ،‬وہی آواز‬
‫رنجش ہی سہی ِدل کو ُدکھانے کیلئے آ‬
‫آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ‬
‫لگتا تھا گالب کا کانٹا بلبل کے سینے میں چبھ کر سُرخی سینچ رہا ہے ۔ میری آنکھ بھر‬
‫آئی۔ سرکشی کس کس کو سینچ رہی ہے ۔ میرے اندر کسی نے سرگوشی کی ’’ کورا‘‘ میں‬
‫نے آنسو ضبط کرلیے۔‬
‫اُسی شام میں نے نصیر ترابی سے کہا ’’ میں ایک شخص سے ملنا چاہتا ہوں ‪ ،‬ملوادو ‘‘‬
‫انہوں نے پوچھا ’’ کس سے ‘‘ میں نے کہا ’’ نام تو اُس کا شکیل عادل زادہ ہے لیکن میں‬
‫اُسے شکیل حرام زادہ کہتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ ایسا کیوں ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’ ہے‬
‫کوئی وجہ ۔ اُسی سے کہوں گا۔‘‘ پھر بڑی تک باتیں ہوتی رہیں ‪ ،‬مرادآباد ‪ ،‬امروہہ‪ ،‬ملک‬
‫کی تقسیم ‪،1957 ،1947 ،‬رئیس امروہی ‪ ،‬شکیل کے والد ‪ ،‬ادبی ذوق ‪ ،‬عالمی ڈائجسٹ‪،‬‬
‫شکیل عادل زادہ ‪ ،‬جون ایلیا‪ ،‬پندار‪ ،‬غیرت مندی ‪ ،‬پھر ’’ سرکشی‘‘ ۔ کافی کی تلخی اور‬
‫سگریٹ کا دہواں۔ جانے کتنا کچھ ۔ کیا کچھ۔ رات ڈھل گئی۔‬
‫میں اپنی واپسی کا ٹکٹ کنفرم کرواکر لوٹ رہا تھا۔ نصیرترابی˜ ایک مصروف شاہراہ پر‬
‫پارکنگ کی تالش میں تھے ۔ کوئی ‪ 45‬منٹ بعد جگہ ملی پھر کوئی ایک کیلو میٹر لوٹ کر‬
‫پیدل آئے ۔ایک عمارت کی چوتھی منزل پر پبلیکیشنزکا دفتر تھااس میں داخل ہوئے ۔ ایک‬
‫شخص والہانہ استقبال کیلئے لپکا’’ ترابی صاحب آپ ! آئیے آئیے‪ ،‬بہت زمانہ بعد دیدار‬
‫ہوا‪ ،‬تشریف رکھئے ‘‘ نصیر نے پوچھا ’’ شکیل ہیں ؟‘‘ اس نے کہا ’’ بس آتے ہی ہوں‬
‫گے ابھی فون آیا تھا ۔‘‘ کچھ دیر بعد شکیل عادل زادہ آئے۔ نصیرترابی˜ سے والہانہ معانقہ‬
‫کیا۔ نصیرترابی نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’ ان سے ملو ‪ ،‬یہ میرے چھوٹے بھائی‬
‫عالمہ اعجاز فرخ ہیں‪ ،‬حیدرآباد دکن سے آئے ہیں اور تمہیں شکیل حرام زادہ کہتے ہیں‘‘‬
‫نصیرترابی بڑا سفاک اور ظالم آدمی ہے لیکن مجھے اتنی سفاکی کی اُمید نہیں تھی۔ شکیل‬
‫میرے گلے لگ گئے۔ کہنے لگے ’’ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں اور جب عالمہ صاحب نے‬
‫کہدیا تو کہدیا ‪،‬ایسے بھی کون کہتا ہے ۔‘‘ نصیر ترابی نے کہا ’’ اب کہو‪ ،‬تم کہہ رہے‬
‫تھے کہ اِنہی سے کہوگے ‘‘ میں ادھر چپ کہ ٹک ٹک دیدم ‪،‬دم نہ کشیدم۔پھر میں نے کہنا‬
‫شروع کیا ۔ تبت‪ ،‬بدھ راہب ‪ ،‬ابا جان ‪ ،‬کورا‪ ،‬بابر‪ ،‬ہندوستان ‪ ،‬گیا ‪ ،‬بٹھل‪ ،‬کرشنا جی‪،‬‬
‫پاڑے‪ ،‬بمبئی‪ ،‬حیدرآباد‪ ،‬نواب ‪ ،‬ہیرے ‪ ،‬خانم‪ ،‬بالے ‪ ،‬مارٹی ۔ گنگوتری بہتی رہی ‪ ،‬کہیں‬
‫سبک خرامی ‪ ،‬کہیں تیزروی کے ساتھ جانے کتنی دیر گذر گئی ۔ ندی کے بہاؤ میں خبر‬
‫ہی نہ ہوئی کہ دوگھنٹے سے زیادہ گذر گئے۔ لیکن پیاس لگی تھی۔ میں رُکا ۔ شکیل عادل‬
‫زادہ اُٹھے اور مجھ سے لپٹ گئے ۔ جانے کتنے دیر گذر گئی ۔ کتنا زمانہ گذرگیا شاید ایک‬
‫صدی ‪ ،‬شائد کئی صدیاں ۔ جب دونوں بیٹھ گئے تو دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔ کمرے میں‬
‫خاموشی تھی ۔ ایسی خاموشی کہ گویا ہوا بھی سانس لینا بھول گئی ہو۔ دفتر کے لوگ جو نہ‬
‫جانے کب سے کھڑے سُن رہے تھے آہستہ قدم لوٹ گئے ۔ نصیر ترابی نے کہا ’’ تم کچھ‬
‫پوچھنا چاہتے تھے ‘‘ شکیل عادل زادہ نے میری طرف دیکھا ۔ میں نے کہا ’’ نہیں ! اب‬
‫مجھے کچھ نہیں پوچھنا ہے ۔‘‘ لوٹتے وقت نصیرترابی˜ نے مجھ سے پوچھا ’’ تم کیا‬
‫پوچھنا چاہتے تھے۔‘‘ میں نے اُن کی طرف دیکھا ۔ انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھ کر‬
‫صرف اتنا کہا ’’ اوہ! اچھا ‘‘ وہ شاعر ہیں جانے اُنھیں کیا نظر آیا پھر خود ہی کہا ’’ اچھا‬
‫کیا ! جو نہاں خانوں میں رداپوش ہو اُسے بے ردا کرنا اچھانہیں ہوتا۔‘‘ جانے وہ یہ کیوں‬
‫کہہ گئے ۔ میں تو نہ نصیرترابی کو سمجھ پایا نہ شکیل عادل زادہ کو۔ نہ اپنے آپ کو ۔ اس‬
‫‪ :‬لئے کہ‬
‫شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا‬
‫اسے میں بھی راز رکھوں اسے تو بھی راز رکھنا‬

‫داستاں‪،‬اور وہ بھی داستاں طراز کی‪ ،‬اُس دشت نورد کی جس نے ذرّہ ذرّہ ریت چنی ہو اور‬
‫ہر ذ ّرہ میں ایک کائنات دیکھی ہو‘ اس کائنات نے محرم راز سمجھ کر اپنا سب کچھ کھول‬
‫دیا ہو‘ ظاہر بھی‪ ،‬باطن بھی‪،‬تب تو پھر اُس کی خاموشی میں سخن آرائی اور تکلم میں‬
‫سکوت کی موسیقی صاف سنائی دیتی ہے۔میری کوتاہ نظری‪ ،‬کم آگاہی‪ ،‬علمی بے بضاعتی‬
‫اظہار خیال کم کم ہی کیا کرتا ہوں۔کچھ اس لئے بھی کہ اب‬
‫ِ‬ ‫اور نادارئ قلم کے تئیں میں‬
‫جبکہ نہ مصر ہے‘ نہ مصر کا بازار‘ کوئی سوت کاتنے والی بھی یوسف کے خریداروں‬
‫ُسن یوسف ہی انگشت تراش ہے نہ تاثیر زلیخائی باقی رہی اور کچھ یوں‬‫میں نہ ہو تو نہ ح ِ‬
‫اظہار خیال انسان کے اندر کی کائنات تک رسائی چاہتا ہے۔ظاہری قد و‬
‫ِ‬ ‫بھی کہ‬
‫قامت‘وجاہت‘طاقت کے تو پیمانے ہیں جس کا‬
‫حساب ہے۔اُس کی تو میزان بھی ہے۔لیکن جو اندر ہے وہ بے شمار ہے‘ بے حساب ہے۔‬
‫کسی فنکار کے دروں سیر کی راہ صرف اُس کے فن کے وسیلے سے ہوسکتی ہے کہ اُس‬
‫نے اپنے اندر کی کائنات میں کتنے شہر آباد کئے ہیں‘ بحروبر کا تناسب کیا ہے‘کتنی ندیاں‬
‫گنگناتی ہیں‘کتنے آبشاروں کی گھن گرج ہے‘ بے انتظاربارشوں کے بعد سیل رواں خس و‬
‫خاشاک کو بہا لے گیا تو کہا ں سبزے نے اپنی بساط بچھادی اور کہا ں پیڑ پودوں نے اپنے‬
‫چوپال ڈال دی۔زاغ و غن بلبل و پپہیے نے کہا آشیاں بسالئے۔فن کار کی اس کائنات میں‬
‫سیر کے لئے یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ اک کانٹے کی کسک سے سیر بیاباں ہوجائے۔‬
‫جہاں زخم زخم چلنے کا حوصلہ نہ ہو وہاں خار خار وادیوں کا تذکرہ کیوں ہو۔پتھروں˜ کی‬
‫دل گداز نہ ہو تو پھر خون رسے کیسے۔داستاں نگاری کے لئے روشنای کہاں‬ ‫بستی ہو اور ِ‬
‫سے آئے۔‬
‫ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے۔نیند گہری تھی بہت۔نیند کہیئے کہ اسے گردش ایام کے‬
‫ماروں کی تھکن۔نیند کہیئے کہ اسے صورت حاالت کے افعی کاپھن ۔نیند کہیے کہ اسے‬
‫سانس کے چلنے کی چبھن۔خواب میں ایسے ہوا تھا محسوس جیسے ایوا ِن تصور کے‬
‫دریچوں پر کھڑا‘کوئی˜ دستک سی دیئے جاتا ہے‘دل نے یہ سونچ کے کروٹ بدلی۔اجنبی‬
‫ہوگا صدا دے کے چال جائیگا۔پر نہ آواز رُکی اور نہ دستک ہی رکی‘ اور پھر تیز ہوائیں‬
‫جو چلیں۔کھڑکیاں کھل گئیں‪،‬جوکھل نہ سکیں ٹوٹ گئیں۔کسی کھڑکی سے چمکتا ہوا جگنو‬
‫آیا۔ہائے حیرانئ دل۔ایک کرن چوم رہی تھی میری پیشانی کو ہائے بیتابئ دل۔اک کرن‬
‫سارے وجود کومنور کرگئی۔ہر سمت ہر جہت روشنی ہی روشنی تھی۔سمت سے ماورا‬
‫جہت سے ماورا پھر اسی روشنی کے بیچ سے۔ایک پیکر ابھرا۔کندنی بدن کے مسامات سے‬
‫جوش کا سُر اُترا‬
‫ؔ‬ ‫اُٹھتی ہوئی دھانی بھاپ ۔سماعت میں‬
‫چادر گل سر پر تنی ہے‬
‫ِ‬ ‫یہ بھاپ نہیں‬
‫کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے‬
‫کب ایسا سراپا دیکھا تھا۔پیشانی روشن روشن ۔ابروؤں کی کھنچی ہوئی کمانیں۔پلکوں˜ کی‬
‫چلمن۔نیند سے بوجھل آنکھیں‘اوپر سے جوانی کا خمار‘اُٹھتی ہوئی رنگین گھٹائیں‘ستواں‬
‫ناک‘کندنی رخسار‘یاقوت کے قلم سے تراشیدہ لب‘دانتوں سے عدن کے موتیوں کو خجالت‬
‫اور دہن ‘کہ گویا عدن کی ساری بضاعت یمن میں ہو۔صراحی دار گردن‘سانسوں میں‬
‫کوک تو سینہ میں قیامت کا تالطم۔آگے کوپڑی ہوئی گھنے سیاہ بالوں کی چوٹی گویا خزانہ‬
‫پر ناگ کا پہرہ۔چھالسی کمر‘قامت زیبا‘تکلم میں بھنور‘کن آنکھوں میں جھجک کہ کوئی‬
‫دیکھتا نہ ہو۔تبسم میں کنایہ کہ ’’جو مڑ کے میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو‘‘بے‬
‫نیازی میں ادائے دلبری‘کئی رنگ لہرائے لیکن رنگوں میں ایک رنگ تیرے سادگی کا‬
‫رنگ۔دل نے کہا’’کورا‘‘ لیکن قلم نے اپنی ٹھانی بے ساختہ لکھا ’’شکیل عادل زادہ سب‬
‫رنگ کے حوالے سے‘‘ بس یہی کچھ ہوا تھا۔چند سطریں تحریر کردی گئیں۔تشنہ لبی نے‬
‫یاران میکدہ میں دھوم ہوگئی کہ’’دو گھونٹ کا اے ساقی الزام نہیں‬
‫ِ‬ ‫بڑھ کے ساغر اٹھالیا تو‬
‫لوں گا‘‘ ُدنیا بھر سے ٹیلی فون‪،‬ای میل‪ ،‬فیس بک‪،‬ایک تانتا سے لگ گیا اس سے اندازہ ہوا‬
‫کہ شکیل عادل زادہ عشق پیشہ ہی نہیں معشوق صفت بھی ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ پیاس‬
‫کودوام ہے پانی کو نہیں۔تشنگی باقی رہ جاتی ہے اگر کوئی پیاسا ساحل سے لوٹ جائے‬
‫‪،‬تب تو دریا بھی پیاسا رہ جاتا ہے۔کراچی سے سید عقیل جعفری عباس صاحب کا گرامی‬
‫نامہ آیا۔لکھا تھا’’شکیل عادل زادہ کی شخصیت اور فن پر ایک ضخیم کتاب کی تیاری پیش‬
‫نظر ہے‘ میں نے کہا ’’دیر آید درست آید‘‘ انہوں نے عادل زادہ صاحب سے اپنے دیرینہ‬
‫روابط کا اور محبتوں کا ذکرکیا۔ ُدنیا کا کونسا حصہ ہے جہاں شکیل عادل زادہ کے گھائل‬
‫نہیں ہیں اور تقریبا ً سب کا یہی حال ہے۔میرے ذہن میں بس یہی ایک سوال گردش کرتا رہا‬
‫صاحبان نقد ونظر سے یہ چوک کیوں ہوگئی۔ کیا قصہ گوئی‪،‬داستان‬
‫ِ‬ ‫اور ہنوز باقی ہے کہ‬
‫طرازی یاکہانی یا پھر آج کی زبان میں فکشن کو یکسر ادب سے خارج کردیا گیا ہے؟ اگر‬
‫ایسا ہے تو پھر باقی کیا رہ جائے گا۔کسی انسان کی کوئی سوانح حیات نہیں ہوتی۔وہ تو‬
‫اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے ورنہ کسی انسان کی کہانی کیاہے۔پہلی‬
‫سانس سے آخری سانس تک انسان کہانی ہے اورکہانی انسان سے جسم وجاں کی طرح‬
‫پیوست ہے۔کہانی نہیں تو خواب نہیں‘ خواب نہیں تو زندگی نہیں۔کہانی تو وجود میں رچی‬
‫بسی رہتی ہے۔کہانی کار مشاہدے سے اور کبھی تخیل سے دوسرے انسان کے اندر سیر‬
‫ذات کرکے تشنہ تمناوؤں اورآرزوؤں کے رنگ سمیٹ کر جب صفحہ قرطاس پر سجا دیتا‬
‫ہے تب ساری کائنات کا درد سمٹ کر ایک نقطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے یہی نقطہ پھیلے‬
‫توکائنات ہے سمٹے تو سمت وجہت سے بے نیاز بھی ہے ماورا بھی۔یہی نقطہ ازل بھی‬
‫ہے ابد بھی۔پھر اس کے بعد تو صرف’ ھو‘ ہے۔‬
‫شکیل عادل زادہ سے میں صرف ایک بار مل پایا ہوں وہ بھی کچھ دیر کے لئے۔کبھی کبھی‬
‫ایک پل نظر بھر کر دیکھ لینا صدیوں کی رفاقت پر بھاری ہوجاتا ہے۔انسان کا سب کچھ‬
‫کھل جاتا ہے۔یہ پل اُس عمر بھر کی ہم نشینی سے زیادہ قیمتی ہے جہاں تمام عمر کے بعد‬
‫بھی دونوں اجنبی ہوں۔‬
‫انسان کے اندر کی کائنات تو ایک سربستہ راز ہے۔جتنا کھلتا ہے اُس سے کہیں زیادہ اور‬
‫چھپ جاتاہے۔اتنی تہہ داریاں کہ ایک پرت اُلٹی جانے تک ہزار پرتیں اوربڑھ جاتی ہے وہ‬
‫سب کچھ جو مشاہدے سے شعور اور الشعور میں پنہاں ہوگیا ہو اور وہ بھی جو اندر کی‬
‫تپش سے بھسم ہوکر اکسیر ہوگیا۔میرے اپنے خیال میں کسی انسان کے اندر کی سیر مشکل‬
‫ہے‘ خالء نوردی آسان ہے۔آتش فشاں سے اُبلنے والے الوے کا تجزیہ کچھ اتنا مشکل نہیں‬
‫لیکن جو اپنے ہی دل سے اُٹھے اپنے ہی دل پر برسے اُس کا حساب تو بے حساب ہے۔‬
‫اندیشۂ سود وزیاں سے پرے۔تخلیق کے کرب کا کوئی پیمانہ نہیں۔خود شکیل عادل زادہ کے‬
‫مطابق’’ میں آگ بھی نہیں تھا کہ جل جاتا‘پتھر بھی نہیں تھا کہ ٹوٹ کر بکھر جاتا‘لیکن‬
‫میرے سینہ میں آگ لگی ہوئی تھی اور میرے پتھر آپس میں ٹکرارہے تھے ایک شور مچا‬
‫ہوا تھا‘سمندر میں وہ شور نہیں مچتا جو آدمی کے اندر مچتا ہے۔صحرا میں وہ دھوپ نہیں‬
‫پڑتی جس سے آدمی کا صحرا تپتا رہتا ہے اورآدمی یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔‬
‫سمندر‘پہاڑ‘صحرا اورآگ کے تمام خواص اس میں موجود ہوتے ہیں لیکن یہ سب کچھ‬
‫نہیں ہوتا۔سمندر ‘پہاڑ‘صحرا اور آگ اپنے گرج‪،‬چمک‪،‬اپنے فشار کا اظہار کردیتے‬
‫ہیں‘آدمی کا کچھ نظر نہیں آتا۔اور یہی کچھ اگر نظر آجائے تب پھر جوتار سے نکلی ہے‬
‫وہ ُدھن کچھ نہیں ہوتی دیکھنا تویہ ہوتا ہے کہ ساز پہ کیا گذری۔دھن‘ تار‘ سازندہ‘ ساز‘‬
‫آگ‘ تپش‘ لئے‘ راگ‘ دیپک‘ چنگاری‘‬
‫شعلہ‘راکھ‘برکھا‘برسات‘گیت‘سکھی‘ساجن‘ملہار‘ناؤ‘ندی‘مانجھی‘ اُس پار یہ داستان در‬
‫داستان خود ایک ہزار داستان ہے اور کوئی ہزار شیوہ اس داستان ہزار داستان کے یوں بند‬
‫قبا کھولے کے ہر گرہ کشائی کے بعد پھر قبا کچھ اور چست ہوگئی ہو تو شکیل عادل زادہ‬
‫ب انصاف سے انصاف طلب ہے۔‬ ‫کو کوئی کیا کہے؟ ’دل صاح ِ‬
‫کے نظریہ اضافت نے ایک انقالب برپا پیدا کیا۔اتنی‪ Albert Einstein‬تاریخ طبیعات میں‬
‫سے پہلی سوچ کے تار میں برقی رو کس رفتار سے سفر کرتی ہے اگرانسان اسی رفتار‬
‫سے سفر کرے تو پھر تیز روی کا کوئی تقابل وتصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ دونوں کو ایک‬
‫‪ Warm‬کا نظریہ‪Stephen Hiking‬دوسرے کے لئے ساکن ہیں۔اس نظریہ کے بعد اب‬
‫ایک اور نئی جہت کی تالش میں ہے۔ادب میں ان اصطالحات کا صرف اور گنجائش‪hole‬‬
‫ایک عالحدہ موضوع ہوسکتا ہے لیکن اس سے ہٹ کر یہ بات طئے ہے کہ خیال ماضی‬
‫ومستقبل میں کس رفتار سے سفرکرتا ہے‘ کن کن وادیوں کی سیر کرتاہے‘ کن غیر مانوس‬
‫جزیروں کی بازیافت کرتا ہے‘ کن اجنبی پگڈنڈیوں پر اپنی غیر مرئی نقش قدم ثبت کرتا‬
‫ہے اورپھر اس سفر نامہ کو کس وسیلے سے پیش کرتا ہے۔یہ غور طلب ہے ۔ماضی کے‬
‫کھنڈر کو آباد کرنا اُن عجائب گھروں کی سیر‘ نوادرات سے گفتگو‘ اُن کی کہانیاں‘قصے‘‬
‫واقعات‘ حکایات‘کرداروں کی واردات ان سب کی یکجائی اپنی تسلسل کے ساتھ ماضی کا‬
‫حال میں اور حال کا ماضی میں سفر دراصل سالماتی سفر سے زیادہ نازک ہے جہاں اگر‬
‫کوئی سالمہ غیر متوازن ہو تو خیال کی کائنات بکھر کر رہ جاتی ہے۔داستان دراصل اسی‬
‫محشر خیال کا دوسرا نام ہے۔‬
‫داستاں گوئی میں وہ ہنر مندی کے جو سننے والے یا قاری کو ہمہ تن گوش بنادے تو ساری‬
‫داستاں آواز‪،‬سُر‪،‬گیت‪،‬لَے‪ ،‬تال‪ ،‬نغمہ ہوجاتی ہے اور ایسے میں خوش ذائقہ سماعت کے‬
‫ساتھ دل اپنا مزہ چاہے‪،‬جاں اپنا مزہ چاہے۔ اس کیف و کم میں داستاں کا اپنا ذائقہ ہے‘لفظ‬
‫کا اپنا ذائقہ ہے‘سماعت کا اپنا ذائقہ ہے۔وصف تو یہ ہے کہ شکیل عادل زادہ یا تو ہر‬
‫ذوق ذائقہ کا سامان فراہم کرتے ہیں‬
‫ِ‬ ‫سماعت کو ہم ذائقہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں یاپھر ہر‬
‫یہی تو وہ ستم ہے کہ انہوں نے ایک ہی ناوک کو ہردل میں یوں ترازوکیا کہ’’یہ خلش‬
‫‘‘کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا‬
‫شاخ گل پر نغمہ سرائی اپنے جگہ‬ ‫ِ‬ ‫بلبل ہزار داستاں کی بھی ایک داستان ہوتی ہے۔رات بھر‬
‫شاخ گل کا ایک کانٹا اگر بلبل کے سینہ میں چبھ کر گالب کے لئے سرخی‬ ‫ِ‬ ‫لیکن اُسی‬
‫سینچے تب سرخئ گل تو نظر نواز بھی‪ ،‬دل فریب بھی‪،‬صبح کی پہلی کرن پیڑ تلے بلب ِل‬
‫دیکھے۔رخ گل پر آنسو کی صورت قطرۂ شبنم بھی۔لیکن یہ‬‫ِ‬ ‫خوش نوا کی بے نوا ئی بھی‬
‫کوئی داستاں نہ ہوئی داستاں تویوں ہوئی کہ ؂‬
‫شاخ گل کے تلے‬
‫ِ‬ ‫پھر صبا سایۂ‬
‫کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر‬
‫شاید اس بات سے اتفاق ہو کہ کہانی‪،‬افسانہ‪،‬قصہ‪،‬ناول ان سب کی صورت الگ الگ سہی‬
‫لیکن کسی نہ کسی رشتے سے ان کا تعلق داستان ہی کے قبیلے سے ہے۔ اس اعتبار سے‬
‫کہانی کار‪،‬افسانہ نویس‪،‬قصہ گو‪ ،‬ناول نگار‪،‬داستان طراز یہ سب فنکار اپنے وجود کے‬
‫اندر خود بھی داستان ہیں۔یہ داستاں اس الئق ہے کہ اسے ورق ورق پڑھیئے‪ ،‬سطر سطر‬
‫پڑھیئے‪،‬لفط لفظ پڑھیئے‪ ،‬حرف حرف پڑھیئے اور ان سب سے زیادہ الفاظ کے درمیان‬
‫خاموشی کے تکلم کا ذائقہ حکایت حرف و لفظ سے ماورا ہے اس کے لئے وہ سماعت‬
‫چاہئے جو کلی چٹکنے کی موسیقی کی رمز آشنا ہو۔‬
‫کہنے کو تو یہ آسان ہے کہ کسی انسان کے ظاہر و باطن میں تضاد نہیں۔لیکن شاید یہ محال‬
‫ہے۔ہر ظاہر کے کئی باطن ہیں اور اُس کے رسائی کے لئے انسان کے دروں رسائی‬
‫چاہئے۔ایک عجیب رسم چل پڑی ہے انسان کی قیمت اُس کی آرائش‪،‬زیبائش‪،‬سجاوٹ‪،‬‬
‫فرش‪ ،‬قالین‪،‬فرنیچر‪ ،‬رنگ‪،‬روغن‪ ،‬پردے‪ ،‬الماریوں‪،‬تصاویر‪،‬میز‪،‬کرسیوں˜ اوراسباب تفاخر‬
‫سے ہونے لگی ہے گویا انسانی یہی کچھ ہے۔شکیل عادل زادہ نے اپنے تحریروں سے‬
‫شہرآباد کئے ہیں۔یہ خواہش بھی فطری سی ہے کہ اُن کے ایوا ِن ذات کے دروں ’’کیاکچھ‬
‫‘‘تک رسائی ہو لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ کمندیں ڈال کر باال خانہ تک تورسائی‬
‫ہوسکتی ہے لیکن نہاں خانہ تک نہیں۔ دربان ‪،‬پاسبان‪،‬نگہبان ‪،‬سب سد راہ در‪ ،‬دروازہ‪،‬‬
‫دریچہ‪،‬کھڑکی‪،‬روشن دان‪ ،‬تنبی‪،‬جھروکا‪،‬درز‪ ،‬شگاف‪ ،‬روزن‪،‬کچھ تو ہو‘ لیکن لگتا تھا‬
‫سب کچھ قلعہ بند ہے۔‬
‫جانے کہاں سے سُرابھرا۔دور˜ کوئی گارہا تھا۔کوئی لَے تھی۔کوئی گیت تھا۔کوئی راگ تھا۔‬
‫غم ہجراں سنبھالے نہیں سنبھل‬ ‫ایک لپک سی تھی۔شاید راگ راگنی کو تالش رہا تھا۔لگتا تھا ِ‬
‫رہا ہے مگر ‪،‬ہَوا سنبھال رہی تھی۔شاید وہ اسی سمت آرہا تھا‘ وہ وارث شاہ کی ہیر گارہا‬
‫تھا۔گارہا تھا کہ شعلہ سا لپک رہا تھا لگتا تھاکلیجہ اُس کا غم سے پھٹ رہا تھا۔ قریب پہنچا‬
‫تو رُک گیا‪،‬سرگم تھم گئی‪،‬لیکن ہَوا بلک رہی تھی پھر ہر طرف خاموشی‪،‬سکوت‪،‬سناٹا۔وہ‬
‫مجھے غورسے دیکھ رہا تھا گویا ایک ہی نظرمیں سب کچھ پڑھ لیناچاہتاہو۔بالوں کی‬
‫سفیدی ‪،‬شکن آلودچہرہ‪،‬ہاتھوں کی جھریاں‪،‬پاؤں کے آبلے‪،‬زخموں کی کھرنڈ‪ ،‬صدیوں کی‬
‫مسافت‪،‬پڑھنے کو بہت کچھ تھا۔سادہ ورق پڑھنے میں زندگی بیت جاتی ہے‘ اُس کی عمر‬
‫چالیس بیالیس برس تھی ابھی اندر سے وہ آگ تھا اورراکھ کا بھید جاننا چاہتا تھا میں نے‬
‫اُسے غور سے دیکھا۔ خد وخال پنجابی تھے۔لگتا تھا اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے‬
‫میں نے پوچھا’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ کہا ’’کبھی منڈی بہاء الدین میں رہتے تھے‬
‫‘‘جی۔ اب توجہاں سانجھ ہوجاتی ہے وہی شام کرلیتے ہیں۔‬
‫کیانام ہے تمہارا؟‘‘ میں نے بڑی اپنائیت سے پوچھا۔’’‬
‫اُس نے رکتے رکتے کہا۔’’نام کیاہوتاہے جی! وہ تو ایک شناخت ہے‘ اُس کی اپنی‘جو‬
‫کسی دوسرے میں ضم ہوجائے اُس کا اپنا کیارہ جاتاہے۔ گوندل قبیلے سے ہوں‘ ماں باپ‬
‫نے حسن رضا نام رکھا تھا‘اب تو تن بھی اُس کا من بھی اور نام بھی۔ آپ توگیانی ہو بابو‬
‫جی سب جانتے ہو پھر بھی پوچھتے ہوں۔‘‘ پھر خود ہی کہنے لگا۔’’یُگ˜ بیت گیا۔چیت کے‬
‫مہینے میں ملی تھی۔بیساکھ میں قریب آئی‪،‬ساون بھادوںیوں گذر گئے‪،‬پھاگن میں رات کو دن‬
‫بناگئی‪،‬چیت میں بچھڑ گئی ‪،‬کہتے ہیں جو چیت میں بچھڑ جاتا ہے پھر کبھی نہیں ملتا پر‬
‫میرا دل نہیں مانتا۔یہاں بہت لوگ آتے ہیں جی۔جب تک دردسہا جاتا ہے کھلی آنکھوں سے‬
‫تکتے رہتے ہیں پر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بندکرلینے سے پہلے ایک ہی لفظ کہتے‬
‫ہیں’’کورا‘‘˜ پھر سوجاتے ہیں۔میں نے جی‪ ،‬برسوں میں اندر جانے کا راستہ کھوج لیا ہے‬
‫لیکن وہ ہر کسی سے نہیں کھلتا آپ بھی دیکھ لوبابو جی شاید آپ سے کھل جائے پھر وہ‬
‫مجھے دوسری طرف لے گیا چھوٹا سادروازہ تھا‘ بند تھا دیوار پرتختی لگی تھی’’سب‬
‫رنگ‘‘میں نے جیسے ہی دروازہ پر ہاتھ رکھا دروازہ کھل گیا۔ بہت قدیم عمارت تھی۔بہت‬
‫ہی پرشکوہ۔لیکن˜ اتنی پر شکوہ عمارت میں سامان کچھ نہیں تھا۔وسیع ایوان میں صرف‬
‫ایک قد آدم آئینہ تھا اور میں تھا۔کیفیت یہ تھی ؂‬
‫لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا جیسے کہ تو‬
‫محو حیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں‬ ‫ِ‬
‫نوٹ ‪ :‬شکیل عادل زادہ ‪،‬اردوادب میں ایک خوش اعتبار نام ہے۔ان کے پڑھنے والوں اور‬
‫چاہنے والوں کی تعداد الکھوں میں ہے۔یہ مقبولیت اردو کے بہت کم اہل قلم کے حصے میں‬
‫آئی ہے کہ جن کی تحریر کیلئے قارئین اپنی روزانہ مصروفیت سے چھٹی لے لیا کرتے‬
‫تھے۔ آج بھی قارئین کو اُن کی تحریروں کا انتظار ہے۔شکیل عادل زادہ نے تنہااپنے ادبی‬
‫اور سب رنگ کے ادارتی سفر کو کیسے طئے کیا۔کن حاالت سے نبردآزمائی کی‪،‬بلکہ اس‬
‫کہانی کارکی خود کہانی کیا ہے‪،‬یہ سب ہنوز تشنہ ہے۔معیاری ادب کے نام پر جن‬
‫جواہرنگارادیبوں کو نظرانداز کیا گیا‪ ،‬اُن میں شکیل عادل زادہ بھی شامل ہیں۔ان کی‬
‫شخصیت اور فن پر کوئی کام نہیں ہوا‪،‬جبکہ بر صغیر میں معمولی ادیبوں اور شعراء پر‬
‫بھی ضخیم مقالے لکھے گئے۔جہان اردو نے سب سے پہلے شکیل عادل زادہ پر عالمہ‬
‫اعجاز فرخ کا مضمون شائع کیا تھا جس کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی۔عالمہ نے اپنی‬
‫گوناگوں مصروفیات کے باوجودہماری خواہش کا احترام کیا۔ ہم اُن کے ُشکرگزار ہیں۔زیر‬
‫نظر مضمون اس سلسلہ کی تیسری قسط ہے۔اس تحریر پرآپ کی رائے کا انتظاررہے‬
‫گا‪،‬تاکہ عالمہ سے مزید کی خواہش کی جاسکے۔اس مضمون کے ساتھ عالمہ کا ویڈیو بھی‬
‫لگایا گیا ہے جس میں عالمہ نے دلچسپ اونداز میں مضمون سنایایے ۔مضمون کے ساتھ‬
‫اس کے ویڈیو پیش کرنےکی یہ پہلی کوشش ہے۔(جہان اردو)‬

‫میں جانتا تو بہت پہلے سے تھا۔ برسوں سے‪ ،‬نہیں‪ ،‬صدیوں سے اور شاید ازل سے لیکن‬
‫میں اُس کا نام نہیں جانتا تھا۔ وہ تو بس ایک چہرہ تھا خیال کی طرح نازک‪،‬راگنی کی طرح‬
‫دل فریب‪ ،‬صبح کی پہلی کرن کی طرح دل آویز‪ ،‬نسیم سحر کی طرح سبک خرام‪،‬جھرنے‬
‫کی طرح مترنم‪ ،‬آنکھوں میں خواب کی طرح اُترتی ہوئی اوروجود میں خوشبو کی طرح‬
‫سماتی ہوئی۔ کبھی زندگی کی راہ میں جب تھکن اور آبلہ پای سے قدم دوبھر ہوجاتے تووہ‬
‫یوں نمودارہوجاتی جیسے روشنی کا شہزادہ گزرنے کوہواوربال کھول کے راستے میں‬
‫شام بیٹھ گئی ہو ‪،‬اور پھر رات کی تاریکی میں یوں چھپ جاتی جیسے طو ِل شب میں‬
‫سحرپوشیدہ ہو۔میں نے چہرہ دیکھا تھا‪،‬نقوش یاد نہیں۔یادوں سے گزرتے محسوس‬
‫کیا‪،‬سراپا یاد نہیں۔مہک محسوس کی‪،‬خوشبو کا سراغ نہ مال۔ روپ دیکھا تھا‪ ،‬رنگ کے‬
‫لیے تشبیہ نہ مل سکی۔آواز˜ سنی تھی لیکن سرگم میں وہُ سرنہ مال۔قامت وخم کی زیبائی‬
‫کے لئیے قوس وخط عاجز نظر آئے۔بھالجس کی سمت نہ ہو‪،‬جہت نہ ہو‪،‬خدوخال نگاہ میں‬
‫نہ سما سکے ہوں‪،‬خیال جس کی قامت زیبا کا احاطہ نہ کر سکا ہو۔جس کے لئے حرف‬
‫وظرف کی اصطالح متروک ہوجائے‪،‬اُس کی طرف اشارہ کیا ہو‪،‬اُس کا نام کیاہو۔شاید اسی‬
‫کو حسن مکمل کہتے ہیں کہ جہاں تکلم سکوت میں اورخاموشی گویائی میں بدل جاتی ہے۔‬
‫میں توہوں ہی اس مزاج کے دشت کو دیکھتا ہوں تو گھر یاد آتا ہے اورگھرکودیکھتاہوں تو‬
‫دشت کی تنہای یاد آتی ہے۔صحرا میں بگولوں کا رقص‪ ،‬سمندر میں تالطم اور آتش فشاں‬
‫کو الوا اُگلتے دیکھتا ہوں تو مسکرا اٹھتا ہوں کہ جن سے اضطراب کی بے قراری نہ‬
‫سنبھل سکی اُن سے غم ہجراں کیا سنبھل سکے گا۔‬
‫ایک دن یوں ہواکہ ہرطرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ہوا ساکت‪ ،‬فضا ُء چپ‪،‬سمندر پرسکون لیکن‬
‫میرے اندر قیامت کا تالطم تھا لگتا تھا میرے اندرکی کائنا ت درہم برہم ہورہی ہے اور سب‬
‫کچھ بکھرنے واال ہے کسی نے چپکے سے سرگوشی کی‪،،‬کورا‪،،‬۔اُس˜ کا نام کورا ہے۔میں‬
‫نے اُسے آواز دی‪،،‬کورا‪،،‬۔و̃ہ سامنے تھی لیکن پلک جھپکتے میں جھلک دکھا کر غائب ہو‬
‫گئی۔میں نے ُمڑکر دیکھا‪،‬ایک شخص کھڑا تھا۔میری ہی عمررہی ہوگی‪،‬لگتا تھاعشق کی‬
‫جس آنچ میں وہ جل رہا ہے اُسکی تپش مجھ تک پھنچ رہی ہے۔رنگ سُرخی مائل گورا رہا‬
‫ہوگا‪،‬لیکن زندگی کے جس سفرسے گذرکرآیا ہے اُس کی دھوپ چہرے کو کجال گئی ہے۔۔‬
‫نیم وا آنکھوں پرڈھلکے ڈھلکے سے غالف‪،‬جیسے ان آنکھوں کوصدیوں سے نیند کا‬
‫انتظار رہا ہو۔چہرے ُمہرے سے متانت آشکار‪،‬شرافت کا وقار‪،‬پیشانی پر تجربے اور تفکر‬
‫کی لکیریں‪،‬سکون˜ ایسا کہ‬
‫بازیچۂ اطفال ہے ُدنیامرے آگے‬
‫ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے‬
‫کی مکمل شرح‘ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس شخص کوپہچانتا ہوں ‪،‬اتنا قریب سے ‪،‬جتنا‬
‫میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں۔خانماں آباد‪،‬دل برباد‪،‬خیال پرور‪،‬علم دوست‪،‬ذات میں‬
‫تنہا‪،‬انجمن ساز‪،‬دوست گزیدہ‪،‬دشمن نواز‪،‬عشق طبع‪،‬حلم پوشاک‪،‬تدبرپیرہن‪،‬ادب قبا‪،‬سلوک‬
‫مزاج‪،‬نرم خو‪،‬خوش گفتار‪،‬رمزآشنا‪،‬محرم حرف ولفظ‪،‬زرنگار‪،‬آتش رقم‪،‬شعلہ فشاں‪،‬شبنم‬
‫بیاں‪،‬عہدنورد‪،‬صدیوں˜ کا فرزند۔‬
‫مجھے دیکھ کراُس کے ہونٹوں پرتبسم کی لکیر سی اُبھری۔اُس˜ نے پوچھا‪،،‬کسے ڈھونڈھ‬
‫رہے ہو؟‪،،‬میں چپ رہا۔ پھر اُس نے کہا‪،،‬اُسے سب تالش کرتے ہیں۔زندگی بھر۔‬
‫ہرلمحہ‪،‬ہرپل‘وہ ایک چہرہ ہے‪،‬چہرہ جو نفس کا آئینہ ہے‪ ،‬کتاب زندگی کاسرورق‬
‫ہے‪،،‬فکر‪،‬خیال‪،‬تصور‪،‬سیرسفر کا عکس ہے۔اندیشۂ سود وزیاں‪،‬حاصل و الحاصل‪،‬پانے‬
‫اور کھونے کا حساب ہے۔یہ حساب اتنا آسان بھی نہیں۔اُسے پاکرسب کچھ کھو دینے کی‬
‫لذت‪،‬سب کچھ پاکر اُسے کھو دینے سے کہیں زیادہ ہے۔یہی نصاب جاں ہے‪،‬یہی حساب‬
‫جاں ہے‪،‬لیکن قرض جاں کچھ اور ہے۔ادا کرتے کرتے زندگی بیت جاتی ہے‪،‬حساب جاں‬
‫میں قرض کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔جو چہرہ تمھیں دکھائی دے گیا‪،‬وہ ذوق نظر بھی ہے‬
‫‪،‬ذائقہ بھی۔جوآوازسُنای دے گئی وہ سماعت کا ذائقہ ہے‪،‬خوشبو تمھارے شامہ کا ذائقہ ہے‬
‫اور المسہ تمھارے مسام کاذائقہ۔ زائقہ تو بس زائقہ ہے ‪،‬تلخ و شیریں تو لذت نفس کی پسند‬
‫و نا پسندکا دوسرا نام ہے۔یہ نہیں کہ صرف تم کو اُس چہرے کی تالش ہے‪،‬خود اُس چہرے‬
‫کو بھی ایک چہرے کی تالش ہے۔وہ چہرہ مل جائے تواُسے روبرو کرنا۔آنکھیں فرط‬
‫حیاسے جھک جائیں توسمجھوآئینہ روبرو ہے۔حقیقی آئینہ تو بس وہ چہرہ ہوتا ہے ‪،‬باقی تو‬
‫سب فریب آئینہ ہے۔لوگ آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے‪،‬اس لئے کہ آئینہ نقاب اندر‬
‫نقاب چہرے دکھا دیتا ہے۔ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا‪ ،‬لوگ اپنے آپ سے ڈر جاتے ہیں۔‬
‫شیشوں کا آئینہ خانہ تو ہزار زاویوں سے ظاہر کو دکھا دیتا ہے‪،‬ظاہر پسندوں کے لئے۔ذوق‬
‫زینت تو بھوکی بھکارن کو بھی ہے۔اُس کی جھولی میں بھی آئینے کے ٹکڑے مل جائیں‬
‫گے۔باطن تو صرف اُس چہرے میں دکھائی دیتاہے جس کی تالش عمربھر کی تالش ہے۔‬
‫کبھی بابر زماں خاں کو وہ چہرہ مل جائے تو اُس کا نام ‪،،‬کورا‪ ،،‬ہے ‪،‬اور کبھی اُس‬
‫چہرے کواُس کی تالش مل جائے تو اُسے جمشید عا لم خاں کہتے ہیں۔ایک ‪،،‬بازی گر ‪،،‬‬
‫ہے اور ایک ‪،،‬امبربیل‪،،‬۔اب یہ تُم جانو کہ نام کیا ایک لفظ ہے‪،‬اشارہ ہے‪ ،‬عالمت‬
‫ہے‪،‬تشبیہ ہے‪،‬استعارہ ہے‪،‬آہنگ ہے‪،‬راگ ہے‪ ،‬رنگ ہے‪،‬موسیقی ہے‪،‬ترنم ہے‪،‬سُر ہے‬
‫‪،‬تال ہے‪،‬تصور ہے‪ ،‬خیال ہے‪،‬شعر ہے‪،‬تصویر ہے‪،‬خد ہے‪ ،‬خال ہے‪،‬بدن ہے ‪،‬روشنی‬
‫ہے‪،‬کلی ہے‪ ،‬غنچہ ہے‪،‬پھول ہے‪،‬خار ہے‪،‬خوشبو ہے‪،‬کسک ہے‪،‬آرام ہے‪،‬آزارہے‪،‬مسرت‬
‫ہے‪،‬تبسم ہے‪،‬ہنسی ہے‪،‬غم ہے‪،‬آہ ہے‪،‬آنسو ہے‪،‬گریہ ہے ‪،‬کرب ہے‪،‬اضطراب ہے‪،‬بیخودی‬
‫ہے‪،‬مدہوشی ہے‪،‬کیف ہے‪،‬نشہ ہے‪،‬سرور ہے‪،‬تمناہے‪،‬یاس ہے‪،‬سرخوشی ہے‪،‬اُداسی‬
‫ہے‪،‬آرزوئے وصال ہے ‪،‬تپش فراق ہے‪،‬یا یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔لفظ بھی نہیں‪ ،‬نام بھی‬
‫نہیں۔چہرہ ہے ‪،‬صرف چہرہ۔سب کچھ تحلیل ہو جائے تب بھی چہرہ باقی رہ جاتا ہے۔چہرہ‬
‫خراج چاہتا ہے ‪،‬عمربھرکا خراج۔سوغات بھی دیتا ہے۔درد کی سوغات‪،‬فن کی‬
‫سوغات‪،‬زندگی کی سوغات‪،‬بے حالی کی سوغات‪،‬بے نیازی کی سوغات‘زندگی اُس کے‬
‫نام کردوپھر بھی قرض جاں باقی رہتا ہے۔ایک جھلک پانے کی تمناساری عمر کاخراج‬
‫چاہتی ہے۔‬
‫وہ ُرکا‪ ،‬ڈبیہ سے پان نکال کرمنہ میں رکھا۔داہنے گال میں‪،‬کچھ دیر خالء میں تکتا رہا‪،‬پھر‬
‫کہا‪،‬ہرشخص کی زندگی میں ‪،‬کورا‪ ،‬ہے۔ لینارڈو زندگی بھر اُس چہرے کو تالش کرتا‬
‫رہا‪،‬وہ اُسے مونا لیزا کی صورت میں مال۔اسی طرح کبھی یہ چہرہ عذرا ہے‪،‬شیریں‬
‫ہے‪،‬لیلی ہے۔جتنے فنکار ہیں سب کی آنکھوں میں کسی نہ کسی‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪،‬سوہنی ہے‪،‬جولیٹ‬
‫چہرے کی چھبی ہے‪،‬کسی نہ کسی چہرے کی پرچھائیاں ہیں۔بہزاد‪،‬مانی‪،‬مقبول فدا حسین‘‬
‫‪،‬ساحر‪،‬پریم چند‪ ،‬کرشن‬
‫ؔ‬ ‫‪،‬فیض‬
‫ؔ‬ ‫‪،‬جوش‪،‬فراقؔ‬
‫ؔ‬ ‫ؔ‬
‫‪،‬ناسخ‬ ‫‪،‬ولی‬
‫‪،‬آتش ؔ‬
‫‪،‬غالب ؔ‬
‫ؔ‬ ‫میر‬
‫ؔ‬
‫چندر‪،‬منٹو‪،‬راجندرسنگھ بیدی‪،‬احمد ندیم قاسمی‪،‬انتظارحسین‪،‬قاضی عبدالستار‪،‬پنڈت روی‬
‫شنکر‪،‬اُستاد امجد علی خان‪،‬مہدی حسن‪،‬سب قرض جاں کے اسیر ہیں۔یہ کہہ کروہ رک‬
‫گیا‪،‬کہیں کھوگیا۔محویت میں وہ مجھے بہت اچھا لگا۔جیسے کوئی فرشتہ‪،‬جیسے کوئی‬
‫معصوم بچہ‪،‬جیسے نئی صبح کا طلوع ہوتا ہواسورج‪،‬جیسے امن کاسفید پرندہ‪،‬میرے دل‬
‫میں اُس کے لئیے محبت بھی ابھری احترام بھی۔‬
‫‪،،‬میں نے نرمی سے پوچھا‪ ،،‬آپ کا نام؟‬
‫کہا‪،،‬کیا چہرہ کافی نہیں‪،،‬پھر خود ہی کہا‪،،‬نام تو ہوتا ہی ہے۔یہ چہرے کوکھولنے کا حرف‬
‫‪،،‬خفی ہے۔‬
‫خود کالمی کے سے انداز میں کہا۔‪،،‬اب تو مجھے نام بھی یاد کرنا پڑتا ہے۔ہجرت نصیبوں‬
‫کے گھر ہی نہیں بدلتے‪،‬سب کچھ بدل جاتا ہے۔ گھر‪،‬گلیاں‪،‬راستے‪،‬محلے‪،‬ہوا‪ ،‬پانی‪،‬ذائقہ‬
‫‪،‬لباس‪،‬زبان‪،‬ماحول‪،‬سونچ‪،‬برتاو‪،‬شناخت‪،‬وطن‪،‬نام بھی۔خود اپنا آپ بھی۔‪،،‬پھر کہا ۔‬
‫دس مارچ ‪۱۹۳۸‬ء کی بات ہے‪،‬ابھی دوسری جنگ عظیم دور تھی۔ہندوستان کی آزادی’’‬
‫ہنوز ایک خواب تھی۔میری والدت ُمراد آباد میں ہوئی۔ماں باپ نے میرا نام‪،‬محمد‬
‫شکیل‪،‬رکھا۔اب تو شائد مجھے محمد شکیل کہہ کر آواز دینے واال بھی نہ ہو۔اب تو میں‬
‫شکیل عادل زادہ ہوں۔یہی نام سرکاری کاغذات میں ہے‪،‬یہی زباں زد خاص و عام‬
‫بھی‪،‬دوست احباب کبھی شکیل بھائی کہتے ہیں ‪،‬کبھی شکیل۔‪،،‬وہ ُمسکرائے پھر کہا‪،،‬بچپن‬
‫کا چہرہ ماں باپ کادیا ہوا‪،‬جوانی کا چہرہ فیاض قدرت کی عطاء اوربڑھاپے کا چہرہ اپنی‬
‫کمائی کا چہرہ ہوتا ہے۔بچپن کا نام رہا نہ چہرہ‪،‬ہاں مگر یادیں رہ گئیں۔خیال سے تیز‬
‫رفتارشاید برق رفتاری بھی نہیں۔پلک˜ جھپکنے میں شاید دیر لگے‪،‬خیال اُس سے بھی تیز‬
‫رفتار ہوتا ہے۔اب بھی کبھی کبھی یادوں کی بارات نکلتی ہے تو چراغاں ساچراغاں ہو جاتا‬
‫ہے۔معصوم بچپن‪،‬لڑتا جھگڑتابچپن‪،‬مٹی میں اٹا ہوا بچپن‘ماں کی آغوش میں مچلتا ہوا‬
‫بچپن‪،‬ضد کرتا ہوا بچپن‪،‬روٹھتا منتا بچپن‪،‬شرارتوں پر پٹتا ہوا بچپن‪،‬سیپارہ رٹتا ھوا بچپن۔‬
‫سونچتے تو سب ہیں کہ سب کچھ تج کر بچپن میں لو ٹ جائیں ‪،‬لیکن وقت کی سوئی ایک‬
‫ہی سمت میں گردش کرنا جانتی ہے۔نہ تھم سکتی ہے نہ لوٹ سکتی ہے۔‬
‫دوسری جنگ عظیم میں کہاں کہاں قیامت برپا ہوئی یہ الگ بات ہے۔لیکن ہمارے گھر کے‬
‫آنگن میں تو گویا قیامت آکر ٹہر گئی۔‪۱۹۴۴‬ء میں ابا گزر گئے۔میرے نانا ‪،‬محمد شریف‬
‫صاحب ‪،‬تھے بھی نہایت شریف انسان۔یہ وہ دور تھا جہاں شرافت اپنے پورے مفہوم کے‬
‫ساتھ تھی۔اُس دور میں تو پھٹی چٹائی پرراحت بھی تھی سکون بھی تھا۔ شرافتوں کا مفہوم‪،‬‬
‫دوستی‪ ،‬غریب پروری‪،‬اعزہ نوازی‪،‬مروت ‪،‬سلوک‪،‬اخالق‪،‬تہذیب‪،‬خبرگیری‪،‬پاس˜‬
‫ولحاظ‪،‬سب کچھ تھا۔آج کی طرح سجے ہوے گھر اورجامہ زیبی ‪،‬نہ شرافت تھی نہ امارت‬
‫وہ تو صرف سلیقہ تھا جو غریب امیر دونوں مین مشترک تھا۔ نانا نے ماں اور ہم تینوں بہن‬
‫بھائیوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا‪،‬کہ میں ابا کے ساتھ‬
‫جگرمرادآبادی کو بھی دیکھا تھا۔اُن‬
‫ؔ‬ ‫مشاعروں میں جایا کرتا تھا۔اُسی زمانے میں ‪،‬میں نے‬
‫کا گھرالل باغ میں تھا اور یہ ہمارے محلہ رفعت پورہ سے متصل تھا۔مشاعروں میں تو اُن‬
‫کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ابا سے اُ ن کی اچھی دوستی تھی۔گہرا سانوال رنگ تھا۔‬
‫زلفیں گردن تک‪،‬لیکن چہرہ مہرہ پر کشش تھا۔رئیس امروہوی‪،‬کوکب˜ صاحب اور میرے‬
‫والد میں بہت گہری چھنتی تھی۔ان تینوں نے ایک رسالہ نکاال تھا ‪،،‬مسافر‪،،‬۔ جس دن ابا کا‬
‫انتقال ہوا‪،‬تدفین کے بعد کوکب صاحب نے ایک چیخ ماری اور ہمیشہ کیلئے ذہنی توازن‬
‫کھو بیتھے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا‪،‬یوں میں ایک ہی لمحے میں اپنا بچپن کھو بیٹھا۔نانا‬
‫نے مجھے مدرسہ قاسمیہ میں حفظ قرآن کیلئے بٹھال دیا۔مار تو میں نے کھائی۔زندگی میں‬
‫چوٹیں بھی بہت لگیں‪،‬لیکن زندگی نے سکھایا بہت کچھ ۔‬
‫نہیں معلوم یادوں کی حرارت تھی یاجذبات کی آنچ۔‪،‬شکیل عادل زادہ کے چہرے پر پیاس‬
‫کی سی کیفیت دکھای دی۔میں نے صراحی سے مٹی کے آ بخورے میں پانی بھرکراُنھیں‬
‫پیش کیا۔اُنھوں نے دونوں ہاتھوں سے کٹورا تھام لیا‪،‬دو گھونٹ لے کر دیر تک پانی کو‬
‫تکتے رہے پھر تپتے ہوے صحرا کو دیکھا اور کہا‪،،‬آپ کے پاس میرا حرف خفی بھی ہے‬
‫اور اپناجام سفال بھی‪،‬جن کے پاس جام سفال ہو ‪،‬اُن سے کچھ کہنا کیا دکھالنا کیا۔جن کے‬
‫پاس جام جم کی توقیر نہ ہو وہ اپنے جام سفال میں سب کچھ دیکھ لیتے ہیں‪،‬ماضی بھی حال‬
‫!بھی اور پھر یہ بھی کہ‬
‫اور لے آئیں گے بازار سے جو ٹوٹ گیا‬
‫جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے‬
‫ہے‪،‬جہان اردوکے موسس ومد یر ڈاکٹر سیدفضل ہللا مکرم‬
‫ِ‬ ‫کوئی چھ مہینے پہلے کی بات‬
‫نے مجھ سے مضمون کی خواہش کی۔ اتفاق سے اُس دن میں سب رنگ کا پرانا رسالہ دیکھ‬
‫رہا تھا۔مجھے خیال آیا کہ میرے پاکستان سفر کے دوران شکیل عادل زادہ سے مالقات کا‬
‫احوال لکھ دوں۔ میں نے قلم برداشتہ ایک مختصر سا مضمون لکھ دیا۔عجیب یہ ہواکہ وہ‬
‫مضمون نہ صرف ُدنیا بھر میں پڑھا گیابلکہ سینکڑوں احباب نے اپنی پسندیدگی اور رائے‬
‫سے بھی نوازا۔اورمجھ سے خواہش کی گئی کہ اس سلسلے کو جاری رکھوں۔خواہش تو‬
‫میری بھی تھی لیکن یہ کچھ اتنا اآسان بھی نہیں تھا۔ ان کے حاالت‬
‫زندگی‪،‬کوائف‪،‬بچپن‪،‬ہندوستان سے پاکستان کا سفر‪ ،‬کشمکش‪،‬‬
‫جدوجہد‪،‬احباب‪،‬قرابتیں‪،‬دوریاں‪،‬یگانگت‪،‬اجنبیت‪،‬سب˜ کچھ تو چاہئے۔ہندوستان اور پاکستان‬
‫کے درمیان جغرافیائی نقشوں میں تو کوئی خلیج نہیں‪،‬لیکن کتنی قربتیں اور کتنی دوریاں‬
‫ہیں یہ تو سب پر عیاں ہے ۔ !!۔ایسے میں خامہ فرسائی کوئی سہل نگاری بھی نہیں۔‬

‫دراصل قصہ کچھ یوں بھی ہے کہ میں نے ایک عمر گزاردی‪،‬بوریہ نشین تھا سوہوں۔لیکن˜‬
‫میرے خیال کی آوارگی نہ گئی۔نہیں معلوم اس کوہوا اپنے بھنور میں لئے لئے پھرتی ہے یا‬
‫خیال ہوا کا دامن تھام لیتا ہے کہ ابھی یہاں تھا سو وہاں ہے۔یوں میں اسے’’ خلل ہے دماغ‬
‫کا‘‘ سمجھوں ہوں‪،‬لیکن یہ بات نہاں بھی ہے عیاں بھی کہ کس نے ‪،‬ہم کو نکما‬
‫کردیا ۔’’ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‘‘۔دنیامیں کام کے تو سارے ہی لوگ ہیں۔نکمے کم‬
‫کم ہی پائے جاتے ہیں‪،‬سو میں ایک ہوں‪،‬اور اگر دوسرے کا نام لوں توڈر ہے کہیں اُن کے‬
‫دوست بُرانہ مان جائیں ۔ اہل خرد کا بھروسہ کیا ہے۔‬
‫شکیل عادل زادہ کی دو طویل کہانیوں ‪،‬بازیگراور امبر بیل کا ایک عالم دیوانہ ہے۔ایسی‬
‫دیوانگی کم کم ہی دیکھی گئی کہ انتظار میں آنکھیں طاق پر رکھ دی گئی ہوں اور‪،،‬پتیاں‬
‫کھڑکیں تو میں سمجھا کہ آپ آہی گئے‪،،‬۔یہ تو طئے ہے کہ اضطرا ب ا ور وارفتگی شوق‬
‫اس وقت تک ممکن نہیں‪،‬جب تک قاری یہ نہ محسوس کرے کہ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا‬
‫یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔آپ شائد اتفاق کریں گے کہ جب تک کہانی کار ‪،‬کہانی میں‬
‫خود ایک کردار نہ ہو‪،‬کہانی میں گداز نہیں پایا جاتا۔یہ گداز اگر اس کی کہانیوں میں یکساں‬
‫ہوتو اسے کہانی کار کا ظاہر سمجھئے۔جس کے لئے میزان بھی ہے‪،‬پیمانہ بھی۔جس کی‬
‫قامت کو ناپا بھی جاسکتا ہے‪،‬جس کے خیال کا وزن اور الفاظ کے بدن کے قوس وخم فن‬
‫کی مقیا س سے پرکھے بھی جاسکتے ہیں۔ظاہر تو بہت کم ہوتا ہے‪،‬کہیں کم کم ہوتا‬
‫ہے‪،‬آدمی کہیں تو پورا ہوتا ہے‪،‬کہیں آدھا اور کہیں کم بہت ہی کم۔کہیں آدمی اپنے اندرایک‬
‫سے زیادہ بھی ہوتاہے۔دو‪،‬تین‪،‬چار کئی روپ میں‪،‬کئی صورتوں میں‪،‬زندگی کے ہر موڑ‬
‫پر ملنے واال‪،‬ٹکراتا ہوا‪،‬انجان بن کرگزرتا ہوا‪،‬محبتوں سے اسیر کرتا ہوا‪،‬بے رخی سے‬
‫پروا نۂ رہائی جاری کرتا ہوا‪،‬چاہتوں کے زخم لگاتا ہوا‪،‬اجنبیت سے مسیحائی کرتا ہوا۔کبھی‬
‫سوز کی صورت کبھی‪،‬کبھی سازکی۔نغمہ بھی ‪،‬نغمہ گر بھی۔اس ہزار چہرہ‪،‬ایک باطن کی‬
‫مضراب جب تار کو چھیڑتی ہے‪،‬کبھی مارٹی‪،‬کبھی بالے‪،‬کبھی ٹھل‪،‬کبھی کرشنا جی‪،‬کبھی‬
‫بابر زماں خاں‪،‬کبھی چندراوتی‪،‬کبھی کیچو‪،‬اور کبھی میر جمشید عالم خاں کی صورت‬
‫ابھر آتی ہے۔ہر نغمہ الگ ‪،‬ہر تار کی‬
‫لرزش جدا۔نغمہ مسحور کن سہی‪،‬روح میں اترتاہواسہی‪،‬لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ساز پہ کیا‬
‫گزری۔مجھے تالش بھی اُسی فنکار کی تھی اور یہ بھی کہ ’’دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے‬
‫پہ گہر ہونے تک‘‘۔‬
‫جہاں تک میری تالش ہے‪،‬وہ یوں کہ شکیل عادل زادہ کی کہانی کا سفر بہت پہلے ہی‬
‫شروع ہو چکاتھا۔ ابھی وہ کوئی گیارہ بارہ برس کے رہے ہوں گے اُنھیں ایک سات آٹھ‬
‫برس کی لڑکی اچھی لگی‪،‬لیکن˜ وہ اس سے کچھ کہہ نہ پائے ۔جب تک آنکھیں کچھ کہنے‬
‫سُننے کے قابل نہیں ہوتیں نہ کچھ کہا جائے ہے نہ سُنا جائے ہے‪،‬بلکہ بن کے انجان اُس‬
‫سے خود سے‪،‬بچا کے اک دوسرے سے نظریں‪،‬بن بُالئے ُگزرا جائے ہے۔یہ عمر تو ایسی‬
‫ہوتی ہے جیسے نازک گالبی ہتھیلی کے بیچ کچے اخروٹ کی گری‪،‬کہ بس دیکھا جائے‬
‫ہے۔کہیں سے سُن رکھا تھاتسخیر محبوب کے لئے اگر چالیس دن سورۂ ُمزمل کا ورد کیا‬
‫جائے تو مراد بر آتی ہے۔ابھی اس ورد کو دو چار دن گزرے ہوں گے کہ ایک زور دار‬
‫موکل نہیں بلکہ اُستاد روبرو تھے۔غضب ناک‬ ‫تھپڑ پڑا۔گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو کوئی ٗ‬
‫آنکھیں‪،‬تمتمایا ہوا چہرہ‪،‬غصے سے کہتے ہوے کہ‪،،‬سبق تو یاد نہیں کرتا‪،‬بس مسجد میں‬
‫بیٹھا کرتا ہے۔‪،،‬اتنی مار پڑی کہ پتھر ہو تو ٹوٹ جائے۔کوئی اور ہوتا تو دوسرے دن‬
‫جھولتا ہوا قرآن حفظ کرنے میں مصروف ہو جاتا ‪ ،‬لیکن شکیل نے مسجد سے گھر کی‬
‫نہیں‪،‬مراد آباد اسٹیشن کی راہ لی اور ٹرین میں بیٹھ گئے۔بغیر ٹکٹ‪،‬بغیر زا ِد راہ۔رات کو‬
‫ایک آنے کے چنے کھا لئے اور اسٹیشن کے نل سے پانی پی لیا۔صبح ایک آنے کی چائے‬
‫پی لی۔دن بھر میں باقی دو آنے بھی خرچ ہو گئے۔شام تک بھوک نے چہرے پر پرچھائیاں‬
‫ڈالنا شروع کردیا۔ساتھ کے مسافرین نے اپنے توشے سے کھانا پیش کیا۔بھوک ہاتھ بڑھانا‬
‫چاہتی تھی‪،‬غیرت مانع ہو رہی تھی۔آخر کارغیرت جیت گئی۔شکیل عادل زادہ کی زبان فاقہ‬
‫کے ذائقے سے آشنا ہے اور وجود بے چراغ روشنی کے اُجالوں سے مانوس بھی ۔بچپن‬
‫میں جب پھل کھانے کو جی چاہتا تھا تو اس کا ذائقہ صرف آنکھوں کی حد تک رہا‪،‬جب‬
‫استطاعت ہو گئی تب رغبت نہ رہی طلب و رسد کے یہ فاصلے اوربے چراغ روشنی ‪،‬‬
‫زندگی کے ہر پیچ و خم کوواضح کر ہی دیتے ہیں۔ایک بار اُن کی خالہ زاد نے کسی بات‬
‫پر کہہ دیا کام کے نہ کاج کے‪ُ ،‬دشمن اناج کے۔شکیل نے کئی دن کھانا نہیں کھایا۔ایک بار‬
‫کسی عزیز کی شادی میں مراد آباد سے کوئی پچیس ‪ ،‬تیس میل سارا خاندان گیا ‪ ،‬میزبان‬
‫نے دستر خوان پر التفات خاص کیا۔شکیل کو خیال گزرا کہ شا ئد اُن کی یتیمی پر ترس‬
‫کھایا جارہا ہے ۔وہ آہستہ سے اُٹھے اور چپ چاپ نکل پڑے۔دن بھر ریل کی پٹریوں کے‬
‫ساتھ ساتھ چلتے رہے اور مراد آباد پہنچ گئے۔اتنی زود حس‪،‬اور زندگی‪،‬ایسے میں آبلہ پائی‬
‫تو مقدر ہو ہی جاتی ہے۔ریل کے سفر میں ابھی ایک اور قیامت ٹوٹنی تھی۔ٹکٹ چیکر نے‬
‫ٹکٹ چیک کرتے کرتے جب شکیل سے ٹکٹ پوچھاتو وہ ایک لمحے کے لئے رُکے‪،‬پھر‬
‫اُسے بتایا کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ سفر کر رہے تھے‪،‬ماموں بڑودہ کے اسٹیشن پر‬
‫کھانالینے کیلئے اُترے او ر ٹرین چھوٹ گئی۔آنکھوں میں معصومیت‪،‬چہرے˜ پر‬
‫بھولپن‪،‬کہانی میں سادگی اور پرکاری‪،‬بچھڑ جانے کے تذکرے پراداسی لہجے میں گلو‬
‫گیری ‪ ،‬ساتھ بیٹھے مسافرین بھی ہمنوا ء ہو گئے او ر اس حد تک ہمنواء ہوئے کہ ٹکٹ‬
‫چیکر کو ہار ماننی پڑی۔میرے خیال میں یہ شکیل عادل زادہ کی پہلی کہانی ہے جو شاید‬
‫اب بھی ہوا کے دامن میں محفوظ ہے۔بمبئی میں شکیل دادر اسٹیشن پر اتر پڑے۔بھنڈی‬
‫بازارمیں ان کے کسی رشتے دار کی ُدکان تھی۔دو دن میں سفید لباس ملگجا ہو چکاتھا۔‬
‫بھوک سے پاؤں کانپ رہے تھے‪،‬ایک جگہ چکرا کر گر پڑے ‪،‬راہ گیروں نے پانی چھڑک‬
‫کر اُٹھایا۔بن مسکہ کھال کر چائے پالئی تو قدرے جان میں جان آئی۔بھنڈی بازار پہنچے تو‬
‫وہاں رشتے داروں کیلئے نئی کہانی گھڑنی پڑی۔لیکن˜ شکیل کا بچپن بمبئی کی تجربہ کار‬
‫آنکھوں کودھوکا نہ دے سکا۔ اُن کے دور کے رشتوں سے ایک دادی رہا کرتی تھیں یہ ان‬
‫کے پاس منتقل ہو گئے ۔ وہ ان کے والد کو یاد کرکے رونے لگیں اور انہیں سینے میں بھر‬
‫لیا۔‬
‫وہ دن ہی اور تھے زمانہ اور تھا۔آج اپنوں سے کوئی ناطہ نہیں ‪،‬اُس زمانے میں غیر بھی‬
‫اپنے ہواکرتے تھے۔خاندان بٹے ہوے نہ تھے۔دور دور کی قرابتوں میں جو محبت ہوا کرتی‬
‫تھی‪،‬وہ آج خون کے رشتوں میں بھی مفقود ہے۔کہتے ہیں زمانہ ترقی کر رہا ہے۔شاید اسی‬
‫کو ترقی کہتے ہیں کہ ہر آدمی دوڑ میں ہانپ رہا ہے۔جیتے جی نہ چین ہے نہ آرام۔سب‬
‫راستوں میں دکھائی دیتے ہیں۔شاید کسی کو منزل کا پتہ نہیں‪،‬سب کو بس تالش ہے۔ایک‬
‫بے نام سی تالش‪،‬کوئی راہ نہیں ‪،‬کوئی چاہ نہیں‪،‬کوئی نشان منزل نہیں ‪،‬کوئی سراغ نہیں‬
‫بس دن گذر جائے۔ عمر کا ایک دن ‪ ،‬ایک سال۔ اُس زمانے میں مٹی کے تیل کے چراغ ہوا‬
‫کرتے تھے۔ٹمٹماتے ہوئے چراغ‪،‬ہوا سے لڑتے ہوئے چراغ‪،‬لیکن ہر چہرہ صاف دکھائی‬
‫دیتا تھا۔معصوم ‪،‬بے ریا ‪،‬مخلص چہرے۔ آج روشنیوں کا جنگل ہے لیکن کوئی چہرہ صاف‬
‫دکھائی نہیں دیتا۔لوگ کہتے ہیں کہ شہر بے چہرہ ہو گیا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ مجھ سے‬
‫بینائی چھن گئی ہے‪،‬ورنہ آج بھی تاریکی ہو تو ہر شئے مجھے صاف دکھائی دیتی ہے‬
‫‪،‬روشن روشن ‪ ،‬جیسے رات کی سیاہی‪،‬جیسے آدم کی دعاء۔‬
‫شکیل بمبئی سے مرادآباد لوٹ آئے۔کوئی مستقل تھوڑی گئے تھے‪،‬بس ذرامار سے بچنا‬
‫تھا‪،‬اُستاد جی نے حافظ بنا کر ہی دم لیا۔شکیل کے نانا محمد شریف صاحب بہت خوش‬
‫ہوئے‪،‬انہیں شکیل کے والد کی بہت یاد آئی۔محمد عادل ادیب صاحب جو نہ صرف ادیب‬
‫تھے بلکہ رئیس امروہوی کو بھی ادیب بنانے والے ادیب صاحب ہی تھے۔محمد شریف‬
‫صاحب دیر تک شکیل کو سینے سے لگائے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے‪،‬پھر رومال سے‬
‫آنکھیں خشک کر لیں۔‬
‫محمد شریف صاحب برتنوں کے تاجر تھے ہندوستان بلکہ بیرون سے بھی آرڈر لیا کرتے‬
‫تھے۔کاروبار خاصہ پھیال ہوا تھا‪،‬دونوں لڑکے معاون تھے۔دوردراز کا سفر شکیل کے‬
‫بڑے ماموں کیا کرتے تھے۔شکیل تو تھے ہی سیر سپاٹے کے شائق‪،‬ماموں جب حیدرآباد‬
‫جانے کیلئے تیار ہوئے تو شکیل بھی ساتھ ہو گئے۔حیدرآباد بڑی اور رئیس ریاست تھی۔‬
‫نظام کے زیرنگیں تھی۔ابھی ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔جوش ملیح آبادی ‪،‬عبدہللا عمادی‪،‬مرزا‬
‫محمد ہادی رسوا‪،‬نظم طباطبائی‪،‬عبد الماجد دریا آبادی‪،‬مولوی عبدالحق‪،‬مناظر احسن‬
‫گیالنی‪،‬صدق جائسی‪،‬فانی بدایونی‪،‬نجم آفندی‪،‬سر راس مسعود‪،‬عماد الملک‪،‬کون اہل علم و‬
‫ہنر ایسا تھاجو حیدر آباد میں نہیں تھا۔ریل‪،‬بس‪،‬ہوائی جہاز‪،‬ڈاک کا محکمہ‪ ،‬صنعت و حرفت‬
‫‪ ،‬عثمان ساگر‪ ،‬حمایت ساگر‪،‬حسین ساگر‪،‬عثمانیہ یونیورسٹی‪،‬صاف ستھری پختہ سڑکیں‪،‬‬
‫بجلی‪،‬ٹیلیفون‪،‬تار‪،‬دواخانے‪،‬بلدیہ‪،‬پوپھٹنے سے پہلے جاروب کش صفائی میں مصروف‬
‫‪،‬اُمراء‪،‬نوابین‪،‬روساء‪،‬محالت‪،‬دیوڑھیاں‪،‬حویلیاں‪،‬چمن˜ زار‪،‬شکیل نے اسی حیدرآباد کی سیر‬
‫کی اور جی بھر کے سیر کی۔‬
‫بازی گر میں شکیل عادل زادہ نے جس محبت سے حیدرآباد کاسراپا لکھا ہے اور جس‬
‫باریکی سے محالت اور دیوڑھیوں کے اندر کی تہذیب‪ ،‬ماحول‪،‬سازشیں اور گھٹن کا تذکرہ‬
‫کیاہے‪،‬وہ مجھے حیرت میں ڈال گیا۔خاص طور پر ہیروں کی د مک اور امیر شہر کی‬
‫ریشہ دوانیاں‪،‬ریل کے سفر کے دوران اسٹیشن کے نام‪،‬اس وقت کی ریل اور اس کی‬
‫رفتار‪،‬نظام کی حکومت کے حدود‪،‬بالے اور مارٹی کا آہستگی کے ساتھ دشمنوں سے‬
‫نمٹنا‪،‬یہ سب اُن کے مشاہدے کے صدف سے برآمد کردہ گو ہر ہیں جو بازی گر میں بڑی‬
‫شائستہ مزاجی سے جھلکتے ہیں۔‬
‫سراپا نگاری میں شکیل عادل زادہ سب سے الگ‪،‬سب سے منفرد ہیں۔میری نظر میں‬
‫ابوالفضل صدیقی کا ‪،‬چڑھتا سورج ‪ ،‬بھی ہے بھیا‬
‫د ھیر ج بھی اسکے عالوہ اشفاق احمد بھی ہیں‪،‬قیصر تمکین بھی ‪،‬علی باقر بھی لیکن‬
‫قاضی عبدالستار اور شکیل عادل زادہ ‪،‬یہ دو فنکار ایسے ہیں جن کی تحریریں قاری پر‬
‫بڑے گہرے نقوش چھوڑتی ہیں۔منظر نگاری تو خیر ایک ایسا فن ہے جہاں تخیل کی پرکار‬
‫سے بھی آرائش وزیبائش کے اسباب فراہم کئے جاسکتے ہیں۔سراپا نگاری میں تشبیہ کے‬
‫بغیرحسن کی تعریف محال ہو جاتی ہے۔تشبیہ سبک ہو تو حُسن رسا نہیں ہوتی‪،‬بوجھل ہو‬
‫تو ُحسن کو ماند کر دیتی ہے۔خیال لفظ کا پیرہن چاہتاہے۔آنچل سادہ ہو تو کیفیت اور‪،‬شکن‬
‫درشکن ہو تو تصویر حسن اور‪،‬آنچل کسمساتا ہوتو تعریف حسن اور‪،‬رنگ قبا اور۔کہیں˜‬
‫جوانی کی کوک ہے‪،‬کہیں کچی نیند کا خمار ہے‪،‬کہیں انگڑائی کی قوس ہے ‪،‬خم ہے۔یہ فن‬
‫ان دونوں پر تمام ہے۔لیکن ددونوں کے رنگ الگ‪،‬طرز الگ‪،‬اُٹھان الگ‪،‬بیان الگ۔یہی˜‬
‫سفاکی تو بسمل کئے دیتی ہے۔ شکیل عادل زادہ کورقص بسمل بہت پسند ہے۔‬
‫بازی گر میں شکیل عادل زادہ نے حیدرآبادکے ایک محل کی اندرونی تعمیر اس کی آرائش‬
‫وزیبائش کاجس انداز سے ذکر کیا ہے‪،‬اُس سے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس محل کے‬
‫معمار نے اپنے سارے نقشے ُمہر بند لفافے میں شکیل عادل زادہ کے نام کر دیئے‬
‫تھے‪،‬اور جن سازشوں کے تار پود بیان کئے ہیں تو لگتاہے’’ فتنوں نے پأوں چوم کے‬
‫پوچھا کہاں چلے‘‘ اُس محل کی ستم رسیدہ جوان خاتون ’’خانم ‘‘ کی سراپا نگاری ‪،‬اُکی‬
‫جھکی ہوئی پلکوں کی ہلکی سی لرزش میں پوری داستاں۔خاموشی میں تکلم کے بھنور‪،‬پس˜‬
‫چلمن سے سراپا کی قیامت خیزی‪،‬خوشبو سے پیام رسانی‪،‬آپ بتالئیے کہ لفظ اور خیال کی‬
‫ایسی ترسیل کہ جو لکھا جائے وہ صرف نوشتہ ہوکر رہ جائے اور جو نہ کہا جائے وہ‬
‫سب کچھ سامنے ہو اور گھائل کردے ‪،‬تڑپا کے رکھ د ے پھر مہینوں نہیں برسوں چپ‬
‫سادھ لے تو اُسے کیاکہتے ہیں؟‬
‫ابھی تو بہت کچھ ہے جو کھال نہیں ۔محمد شکیل سے شکیل عادل زادہ تک اور پھر سب‬
‫رنگ تک۔۔۔۔‬
‫!!دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔‬

You might also like