Professional Documents
Culture Documents
زادہ کی تحریر پڑھی تھی۔وہ بھی اس طرح کہ مکہ مکرمہ ،جدہ اور مدینہ منورہ کے
کے ضمن میں سعودی عرب جانا پڑا۔ مکہ Photo Grameteryاور Aerial Survey
مکرمہ کی فضائی پٹی چھوٹے ہوائی جہاز کیلئے ہی تھی اور شہر سے دور تھی۔ برطانیہ
کی ٹیم میں عیسائی بھی تھے اور حدود میں داخل نہ ہوسکتے تھے سو خیمے ہوائی پٹی
ت تنہائی بھی ۔کبھی
کے ساتھ ہی لگے تھے۔ دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا۔ دشت بھی دش ِ
کبھی کوئی بگولہ آ نکلتا اور سفر کرتا ہوا گذر جاتا تب ہوائی جہاز کے پنکھ پھڑپھڑاتے۔
ت دل کچھ اور بڑھ جاتی۔ سونچ گھر کے آنگن تک لگتا پرندہ پاؤں بدل رہا ہے ۔ وحش ِ
پہنچتی ضرور تھی لیکن لوٹ آتی تو سوائے سکوت کے کچھ ساتھ نہ التی۔ جب چاند سبز
چشم ہوجائے تب یہی کچھ ہوتا ہے کہ وہ ہمسفر بھی رہے اور ہمنوائی نہ ہو۔ اسی کو
دھوپ چھاؤں کا کھیل کہتے ہیں۔ ایک شام اپنی پرواز مکمل کرکے میں جدہ چالگیا۔
رسالوں کی دوکان پر کئی پاکستانی میگزین رکھے تھے میں یوں ٹوٹ پڑا گویا پل بھر کی
دیر
ہوئی تو یہ خواب بھی سراب نہ ہوجائے۔ سپنس ،جاسوسی ڈائجسٹ ،نیا اُفق ،عالمی
ڈائجسٹ اور نہ جانے کیا کچھ ،اسی میں ’’ سب رنگ‘‘ بھی ۔میں نے سب سمیٹ لئے کہ
کوئی تو ہم کالم ہو۔ ہم سخنی ابھی دور تھی ۔اسی میں دیوتا کی صورت محی الدین نواب
بھی ،فرہاد علی تیمور کی نقاب اوڑھے ،الیاس سیتاپوری ،ضیاء تسنیم بلگرامی ،شوکت
صدیقی ،فرخ جمال ،ایم اے راحت ،مرزا امجد بیگ اور کیا کچھ نہیں تھا ۔ ایسے میں سب
رنگ کے کچھ ورق اُلٹے تو سندھی ادیب شیخ ایاز سے مالقات ہوگئی ۔ کہانی تھی ’’ ہنس
ُمکھ‘‘ مگر ُرالگئی ۔ پھرنہ جانے اسیری کا وہ لمحہ کہاں سانس روکے کھڑا تھا ۔ ’’
بازیگر‘‘ کا شاید ایک صفحہ پڑھا تھا۔ اُس کے بعد تو نہ ’’دامنوں کو خبرتھی نہ آستینوں
کو‘‘یہ شاید وہ وقت تھا جب بابرزماں خاں جیل میں تھے اور کرشنا جی کے التفات کے
بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ کہانی مجھے شب گزیدہ کر گئی۔اردلی جب چائے لئے خیمے
میں داخل ہوا تو پو پھٹنے کوتھی۔ تمام رات خیمے کا در کھال رہا ۔ شبنم پھول کو چومتی
گل تر کردے۔ کمبخت منافق ہوا رات بھر ریت سے یوں اٹکھیلی ہے تو یوں کہ گل تازہ کو ِ
کرتی رہی کہ مجھے خاک بسرکر گئی ۔بدن ٹوٹ رہا تھا لیکن خیمے میں ایک مانوس
خوشبو سی تھی۔ ایسے لگتا کہ یہ خوشبو نہ جانے کب سے وجود کے نہاں خانے میں
سربستہ رہی۔ راز کی طرح ،رات کی طرح۔ جو کبھی آفتاب کے آگے بے حجاب نہ ہوئی ۔
کمبخت فراق تپیدہ سورج ،سارادن شب کے تعاقب میں رہا لیکن وہ البیلی روشنی کے
شہزادے کی رہگذر پر بال کھولے بیٹھ گئی ۔ جب وہ مغرب میں ڈوبا تب یہ چاندنی کی ِردا
سرپہ ڈالے نکل آئی۔ خوشبو تو بس خوشبو ہوتی ہے ۔ پھیلتی ہے تو سمت و جہت سے
ماورا ہوتی ہے ۔ ہر سو ہر جہت ،سمٹتی ہے تو خود میں اپنے آپ کو چھپالیتی ہے ۔ پھراس
کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔ بے ساختہ میری زبان سے نکال ’’ کورا ‘‘ ! اردلی مجھے حیرت
سے تکتا رہ گیا۔ میرا سر ،چہرہ ،پلکیں ،بدن ،سب خاک میں اٹا تھا۔ پھر اُس نے مجھے
آواز دی
‘‘ سرجی ’’
میں چونکا ،اُس نے پوچھا
‘‘ آپ ٹھیک تو ہیں ؟ ’’
‘‘ ہاں ’’
‘‘رات آپ نے شاید اپنا خیمہ بند نہیں کیا ۔ ’’
‘‘ ہوں ’’
جب تک میں نہالیتا اُس نے میرا خیمہ صاف کردیا ۔ لیکن خوشبو ویسی ہی تھی ۔ تب
مجھے لگا خوشبو تو ایک احساس ہے وہ تو وجود میں بسی رہتی ہے ۔ ِسمت اور جہت کا
تعین تو خوشبو کو اسیر کرنا ہے ۔ بھال خوشبو اور روشنی کو کوئی قید کرسکا ہے ! جس
کو زندا ِن بدن نہ قید کرسکا ہو بھال اُسے طوق و سالسل کیا ۔
نے کہا ’’ سر ہمارے کیمرہ Navigatorاُس دن میں نے معمول سے زیادہ فالئنگ کی ۔
‘‘فلم ختم ہورہے ہیں
‘‘ کیوں ’’
‘‘لیا ہے۔ Runسر ! آج بہت ’’
میں نے فالئٹ کو گھما کر کمان معاون پائلٹ کے سپرد کردی اور بدن کو ڈھیال چھوڑ دیا۔
واپسی کے بعد میں نے پھر ’’ سب رنگ ‘‘ نکاال ،چاہا کہ آگے پڑھوں لیکن لگتا تھا
سامنے لفظ نہیں ہیں ،بے جان الشیں پڑی ہیں ۔گویا ’’ پھر اُس کے بعد چراغوں میں
روشنی نہ رہی‘‘۔
میں کوئی 40مہینے کام میں مصروف رہا اور اس دوران دس مرتبہ ہندوستان آیا۔ بمبئی
سے گذرتا تو لگتا کہیں قریب میں بالے ہے ،مارٹی ہے ،کہیں لگتا بٹھل ہے ۔ حیدرآباد کی
گلیاں تو میری اپنی ہیں ،کہیں خالؤں میں خانم کا سراپا دکھائی دے جاتا۔ وہی سوگوار
پس چلمن ۔ میرا خیال ہے کہ ان چالیس آنکھیں وہی جھکی ہوئی پلکوں کی چلمن اور خود ِ
مہینوں مشکل سے کوئی چھ ’’ سب رنگ ‘‘ شائع ہوئے ہوں گے لیکن سرورق پر ماہنامہ
ضرور لکھا ہوتا اور اداریہ میں کوئی نہ کوئی ُعذر بہرحال سب رنگ کا الزمہ تھا لیکن
اس کے باوجود ساری خطائیں خودبخود معاف۔
بٹوارے کے بعد کس نے کیا کھویا کس نے کیا پایا یہ الگ موضوع ہے ۔ نہ میں سیاستداں
ہوں نہ مجھے اس سے کبھی کوئی غرض رہی۔ ہم تو ہمیشہ کھونے والوں ہی میں رہے ہیں
لیکن پانے والوں نے کیا کچھ پالیا یہ سودوزیاں اب بے سود ہے ۔ شکیل عادل زادہ کے فن
اور شخصیت پر پاکستان نے کتنا کام کیا ؟ کیا کچھ لکھا گیا ،فن پر ناقدوں نے کیا رائے
قائم کی یہ سب میری نظر میں نہیں ہے ۔ کتابیں بھی مشکل ہی سے ملتی ہیں ۔ اور یوں بھی
آدمی کی دسترس میں تقریر و تحریر کے ابالغیہ حُسن کا بہ یک رُخ یکجا ہونا خاصہ
دشوار ہوتا ہے ۔ میں تو یوں بھی ہنربے ہنری میں یکتا ئے روزگار ہوں ۔ اسلئے شکیل
عادل زادہ پر دوچار جملے بھی لکھنا شاید میرے بس میں نہیں ہے ۔ شکیل عادل زادہ جو
محبتوں سے اسیر کرے اور بے ُرخی سے پروانۂ رہائی جاری کردے۔اس کی محبتیں
نسرین ناز آفریں ،عذرائے گل عذار ،نستر ِن غنچہ دہن ،سمن
ِ سمندر سمندر جس کے آگے
پیرہن ،اللہ ُرخسار ،شیشہ اندام ہیچ ہوں ۔ ایسا سفاک جو محبت سے زخم لگائے اور اجنبیت
میں وہ تاثیر مسیحائی رکھے کہ اس کے قلم کا لمس اندمال کے سارے سامان بہم پہنچائے ۔
شکیل عادل زادہ تو د ِل سرکش کا دوسرا نام ہے لیکن اسی د ِل خانہ خراب سے تو زندگی کا
رنگ ہے ۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر وہ دراصل صرف ایک ادیب ہوتے تو شایداتنے
قیمتی نہ ہوتے ان کی تحریروں کے پیچھے تو کتاب زاروں کی تہذیب اور فکری رزم
گاہوں کا تمدن ہے ۔ ان کے وجود کی فضاء مصنوعاتی نہیں بلکہ تو فیقی ہے اس لئے
بیرونی زبوں حالیوں میں بھی ہمیشہ نہال و بحال رہتی ہے ۔ اور یہی اُن کے افکار کی
آراستگی کے باوجود انفرادیت کے ادراک سے مکمل آراستہ ہے ۔ تخلیق اور پھر حُسن کو
کمال تک پہنچانے کیلئے کتنا خو ِن جگر درکار ہے یہ ہنوز قرار نہیں پاسکا ،اسلئے بھی
کمال حُسن کا متقاضی ہے ۔
ِ کہ اندر کا فنکار جس کمال حُسن پر ہے وہ تخلیق میں بھی اُسی
شکیل عادل زادہ کی کہانی کا بدن کرنوں سے تراشیدہ ہے اور اس پہلوی بدن کو جہاں کرن
چھولیتی ہے اندر سے رنگ اُچھال دیتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بازیگر کے ہر کردار کو
ت طناز کو میں نے شکیل عادل زادہ نے نہایت احتیاط سے تراشا ہے ۔ اور پھر اس ب ِ
تراشا ،میں نے پرستش کی اور میں نے توڑدیا والی بات بھی نہیں ہے اس صنم خانے کا
ہر پیکر صرف اپنی تراش کی وجہ سے محو کالم ہوتا تب بھی یہ آذری ،ایک کمال تھی
لیکن انہوں نے ہر کردار کو تراشنے سے پہلے اُس کے خمیرکو پرکھا ہے پھر تراشنے
کے دوران جتنے زخم مجسمہ کے بدن پر آئے کچھ اس سے سواء ان کی ہتھیلیوں پر بھی
آئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کہانی کے مرکزی کردار ’’ کورا‘‘ کو انہوں نے
کیسے تراشا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ چھپی ہوئی کورا پل بھر سے بھی کچھ کم میں اپنی
چھبی دکھاکر پھر اُسی چٹان میں چھپ گئی ہو۔ اُس کا بدن تو ازل سے تھا ۔ اس ایک پل
میں شکیل عادل زادہ نے چٹان کے فاضل حصوں کو تراش دیا اور کورا وجود کے نہاں
خانوں میں چھپ گئی ۔ اس تہہ در تہہ نہاں خانہ کے اطراف ان گنت پہرے بھی ہیں ۔ شکیل
کے پاس اس طلسم کدے کا حرف خفی بھی ہے ۔ لیکن جس طرح عذاب و ثواب کے فلسفے
انسان کو بکھیردیتے ہیں ۔ اسی طرح ہجر و وصل کے فلسفے نے شکیل عادل زادہ کے ہر
قاری کو سحر میں اسیر رکھا۔ یہ بات درست ہیکہ سرشارئ وصل ایک کیف ہے اور بدن
کیف سرشارئ وصل کو صرف بدن کہنا دراصل توہی ِن وصل ِ ایک خوب وسیلہ تو ہے لیکن
ہے ۔ ہجر اگر آرزوئے وصال ہے تو اس کی تپش سب کچھ جالکر بھی ذوق سوختنی کو نہ
صرف باقی رکھتی ہے بلکہ فزوں تر کردیتی ہے ۔ ممکن ہے اس نظریہ سے اتفاق نہ ہو
اسلئے کہ یہ واردات اور اسکا تجربہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے ۔
سن دوہزار چار میرے لئے ایک سخت آزمائشی سال تھا۔میری بیوی ُدنیا سے گذر گئی جس
نے تحیرکی لذت سے آشنا کیا تھا وہ تنہائی سے بھی روشناس کرواگئی۔خوشب̃و ہواؤں میں
بکھرجاتی ہے تو زندگی کو دشت دشت کرجاتی ہے ۔ بے مکانی تو میراث آدمیت ہے ۔ ہاتھ
تھامنے کی خواہش اور ہے ۔ ہاتھ میں ہاتھ آکر چھوٹ جائے تو تمام عمر ہتھیلی میں سنسناتا
نصیر ترابی برابر فون کرتے رہے ۔ کبھی دالسہ نہیں دیا۔ صبر کیؔ ہے ۔ پاکستان سے
تلقین نہیں کی ۔ وہ جانتے ہیں کہ صبر کی تلقین کبھی کبھی شقاوت ہوجاتی ہے ۔ سرکشوں
میں دالسے کا شعار کچھ اور ڈھنگ سے ہے ۔
ادب میں سرکشوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔گذشتہ صدی اور اس صدی میں پریم چند ،
سعادت حسن منٹو ،عصمت چغتائی ،کرشن چندر ،بیدی ،جوش ملیح آبادی ،فراق ؔ ،
مجاز ،نظام رامپوری ،احمد ندیم قاسمی ،فیض ؔ ،افتخار عارف ،نصیرترابی،ؔ اخترشیرانی،
جون ایلیا ،شکیل عادل زادہ ،ناصر بغدادی ،مشتاق احمد یوسفی ،غرض ایک طویل
فہرست ہے جن کی سرکشی میں ایک دوسرے ہی کا نہیں بہت سارے انسانوں کے دل کا
اطمینان پوشیدہ ہے ۔ یہ سب ایک دوسرے کو صرف جانتے نہیں پہچانتے بھی ہیں ۔ نصیر
ترابی کا فون آیا ’’ کچھ دنوں کیلئے یہاں چلے آؤ‘‘ وہ میرے خالہ زاد بھی ہیں ،میرے ہم
تار نفس کھینچنے میں کچھ پہلے ہوگئے ۔ میں پاکستان پہنچ گیا۔ وہ
عمر بھی ۔ صرف ِ
مجھے کئی جگہ لے گئے ۔ کوئی شام جمیل جالبی کے ساتھ گذری ،کوئی دوپہر فرہان فتح
پوری کے پاس ،مشتاق احمد یوسفی کے پاس کئی گھنٹے لگ گئے ،پیرزادہ قاسم نے
یونیورسٹی میں اپنے احباب کو جمع کرلیا ۔ افتخار عارف اکیڈیمی آف لیٹرز سے وابستہ
تھے۔اسالم آباد سے وہ آگئے تو ایک شام وہاں گذرگئی ،امجد اسالم امجد نے الہور آنے
کے لئے کہا ،میں جا نہیں پایا۔ مہدی حسن کی عیادت کیلئے گیا وہ اُٹھ نہیں پارہے تھے ۔
پشت تکیوں سے لگاکر بیٹھ گئے ۔ کچھ دیر بعد لڑکے سے کہا ’’ ہارمونیم الؤ‘‘ سب
حیرت سے انھیں دیکھنے لگے ۔ فنکاراپنی زندگی کا ثبوت دینا چاہتا تھا ۔ سرکشی بدن کو
مات دے گئی ۔ انہوں نے اپنے آپ کو سمیٹا ۔ کچھ دیر اپنے آپ میں مگن رہے ۔ پھر وہی
غزل ،وہی لے ،وہی آواز
رنجش ہی سہی ِدل کو ُدکھانے کیلئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کیلئے آ
لگتا تھا گالب کا کانٹا بلبل کے سینے میں چبھ کر سُرخی سینچ رہا ہے ۔ میری آنکھ بھر
آئی۔ سرکشی کس کس کو سینچ رہی ہے ۔ میرے اندر کسی نے سرگوشی کی ’’ کورا‘‘ میں
نے آنسو ضبط کرلیے۔
اُسی شام میں نے نصیر ترابی سے کہا ’’ میں ایک شخص سے ملنا چاہتا ہوں ،ملوادو ‘‘
انہوں نے پوچھا ’’ کس سے ‘‘ میں نے کہا ’’ نام تو اُس کا شکیل عادل زادہ ہے لیکن میں
اُسے شکیل حرام زادہ کہتا ہوں ۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ ایسا کیوں ؟ ‘‘ میں نے کہا ’’ ہے
کوئی وجہ ۔ اُسی سے کہوں گا۔‘‘ پھر بڑی تک باتیں ہوتی رہیں ،مرادآباد ،امروہہ ،ملک
کی تقسیم ،1957 ،1947 ،رئیس امروہی ،شکیل کے والد ،ادبی ذوق ،عالمی ڈائجسٹ،
شکیل عادل زادہ ،جون ایلیا ،پندار ،غیرت مندی ،پھر ’’ سرکشی‘‘ ۔ کافی کی تلخی اور
سگریٹ کا دہواں۔ جانے کتنا کچھ ۔ کیا کچھ۔ رات ڈھل گئی۔
میں اپنی واپسی کا ٹکٹ کنفرم کرواکر لوٹ رہا تھا۔ نصیرترابی˜ ایک مصروف شاہراہ پر
پارکنگ کی تالش میں تھے ۔ کوئی 45منٹ بعد جگہ ملی پھر کوئی ایک کیلو میٹر لوٹ کر
پیدل آئے ۔ایک عمارت کی چوتھی منزل پر پبلیکیشنزکا دفتر تھااس میں داخل ہوئے ۔ ایک
شخص والہانہ استقبال کیلئے لپکا’’ ترابی صاحب آپ ! آئیے آئیے ،بہت زمانہ بعد دیدار
ہوا ،تشریف رکھئے ‘‘ نصیر نے پوچھا ’’ شکیل ہیں ؟‘‘ اس نے کہا ’’ بس آتے ہی ہوں
گے ابھی فون آیا تھا ۔‘‘ کچھ دیر بعد شکیل عادل زادہ آئے۔ نصیرترابی˜ سے والہانہ معانقہ
کیا۔ نصیرترابی نے میرا تعارف کرواتے ہوئے کہا ’’ ان سے ملو ،یہ میرے چھوٹے بھائی
عالمہ اعجاز فرخ ہیں ،حیدرآباد دکن سے آئے ہیں اور تمہیں شکیل حرام زادہ کہتے ہیں‘‘
نصیرترابی بڑا سفاک اور ظالم آدمی ہے لیکن مجھے اتنی سفاکی کی اُمید نہیں تھی۔ شکیل
میرے گلے لگ گئے۔ کہنے لگے ’’ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں اور جب عالمہ صاحب نے
کہدیا تو کہدیا ،ایسے بھی کون کہتا ہے ۔‘‘ نصیر ترابی نے کہا ’’ اب کہو ،تم کہہ رہے
تھے کہ اِنہی سے کہوگے ‘‘ میں ادھر چپ کہ ٹک ٹک دیدم ،دم نہ کشیدم۔پھر میں نے کہنا
شروع کیا ۔ تبت ،بدھ راہب ،ابا جان ،کورا ،بابر ،ہندوستان ،گیا ،بٹھل ،کرشنا جی،
پاڑے ،بمبئی ،حیدرآباد ،نواب ،ہیرے ،خانم ،بالے ،مارٹی ۔ گنگوتری بہتی رہی ،کہیں
سبک خرامی ،کہیں تیزروی کے ساتھ جانے کتنی دیر گذر گئی ۔ ندی کے بہاؤ میں خبر
ہی نہ ہوئی کہ دوگھنٹے سے زیادہ گذر گئے۔ لیکن پیاس لگی تھی۔ میں رُکا ۔ شکیل عادل
زادہ اُٹھے اور مجھ سے لپٹ گئے ۔ جانے کتنے دیر گذر گئی ۔ کتنا زمانہ گذرگیا شاید ایک
صدی ،شائد کئی صدیاں ۔ جب دونوں بیٹھ گئے تو دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔ کمرے میں
خاموشی تھی ۔ ایسی خاموشی کہ گویا ہوا بھی سانس لینا بھول گئی ہو۔ دفتر کے لوگ جو نہ
جانے کب سے کھڑے سُن رہے تھے آہستہ قدم لوٹ گئے ۔ نصیر ترابی نے کہا ’’ تم کچھ
پوچھنا چاہتے تھے ‘‘ شکیل عادل زادہ نے میری طرف دیکھا ۔ میں نے کہا ’’ نہیں ! اب
مجھے کچھ نہیں پوچھنا ہے ۔‘‘ لوٹتے وقت نصیرترابی˜ نے مجھ سے پوچھا ’’ تم کیا
پوچھنا چاہتے تھے۔‘‘ میں نے اُن کی طرف دیکھا ۔ انہوں نے میری آنکھوں میں دیکھ کر
صرف اتنا کہا ’’ اوہ! اچھا ‘‘ وہ شاعر ہیں جانے اُنھیں کیا نظر آیا پھر خود ہی کہا ’’ اچھا
کیا ! جو نہاں خانوں میں رداپوش ہو اُسے بے ردا کرنا اچھانہیں ہوتا۔‘‘ جانے وہ یہ کیوں
کہہ گئے ۔ میں تو نہ نصیرترابی کو سمجھ پایا نہ شکیل عادل زادہ کو۔ نہ اپنے آپ کو ۔ اس
:لئے کہ
شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا
اسے میں بھی راز رکھوں اسے تو بھی راز رکھنا
داستاں،اور وہ بھی داستاں طراز کی ،اُس دشت نورد کی جس نے ذرّہ ذرّہ ریت چنی ہو اور
ہر ذ ّرہ میں ایک کائنات دیکھی ہو‘ اس کائنات نے محرم راز سمجھ کر اپنا سب کچھ کھول
دیا ہو‘ ظاہر بھی ،باطن بھی،تب تو پھر اُس کی خاموشی میں سخن آرائی اور تکلم میں
سکوت کی موسیقی صاف سنائی دیتی ہے۔میری کوتاہ نظری ،کم آگاہی ،علمی بے بضاعتی
اظہار خیال کم کم ہی کیا کرتا ہوں۔کچھ اس لئے بھی کہ اب
ِ اور نادارئ قلم کے تئیں میں
جبکہ نہ مصر ہے‘ نہ مصر کا بازار‘ کوئی سوت کاتنے والی بھی یوسف کے خریداروں
ُسن یوسف ہی انگشت تراش ہے نہ تاثیر زلیخائی باقی رہی اور کچھ یوںمیں نہ ہو تو نہ ح ِ
اظہار خیال انسان کے اندر کی کائنات تک رسائی چاہتا ہے۔ظاہری قد و
ِ بھی کہ
قامت‘وجاہت‘طاقت کے تو پیمانے ہیں جس کا
حساب ہے۔اُس کی تو میزان بھی ہے۔لیکن جو اندر ہے وہ بے شمار ہے‘ بے حساب ہے۔
کسی فنکار کے دروں سیر کی راہ صرف اُس کے فن کے وسیلے سے ہوسکتی ہے کہ اُس
نے اپنے اندر کی کائنات میں کتنے شہر آباد کئے ہیں‘ بحروبر کا تناسب کیا ہے‘کتنی ندیاں
گنگناتی ہیں‘کتنے آبشاروں کی گھن گرج ہے‘ بے انتظاربارشوں کے بعد سیل رواں خس و
خاشاک کو بہا لے گیا تو کہا ں سبزے نے اپنی بساط بچھادی اور کہا ں پیڑ پودوں نے اپنے
چوپال ڈال دی۔زاغ و غن بلبل و پپہیے نے کہا آشیاں بسالئے۔فن کار کی اس کائنات میں
سیر کے لئے یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ اک کانٹے کی کسک سے سیر بیاباں ہوجائے۔
جہاں زخم زخم چلنے کا حوصلہ نہ ہو وہاں خار خار وادیوں کا تذکرہ کیوں ہو۔پتھروں˜ کی
دل گداز نہ ہو تو پھر خون رسے کیسے۔داستاں نگاری کے لئے روشنای کہاں بستی ہو اور ِ
سے آئے۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے۔نیند گہری تھی بہت۔نیند کہیئے کہ اسے گردش ایام کے
ماروں کی تھکن۔نیند کہیئے کہ اسے صورت حاالت کے افعی کاپھن ۔نیند کہیے کہ اسے
سانس کے چلنے کی چبھن۔خواب میں ایسے ہوا تھا محسوس جیسے ایوا ِن تصور کے
دریچوں پر کھڑا‘کوئی˜ دستک سی دیئے جاتا ہے‘دل نے یہ سونچ کے کروٹ بدلی۔اجنبی
ہوگا صدا دے کے چال جائیگا۔پر نہ آواز رُکی اور نہ دستک ہی رکی‘ اور پھر تیز ہوائیں
جو چلیں۔کھڑکیاں کھل گئیں،جوکھل نہ سکیں ٹوٹ گئیں۔کسی کھڑکی سے چمکتا ہوا جگنو
آیا۔ہائے حیرانئ دل۔ایک کرن چوم رہی تھی میری پیشانی کو ہائے بیتابئ دل۔اک کرن
سارے وجود کومنور کرگئی۔ہر سمت ہر جہت روشنی ہی روشنی تھی۔سمت سے ماورا
جہت سے ماورا پھر اسی روشنی کے بیچ سے۔ایک پیکر ابھرا۔کندنی بدن کے مسامات سے
جوش کا سُر اُترا
ؔ اُٹھتی ہوئی دھانی بھاپ ۔سماعت میں
چادر گل سر پر تنی ہے
ِ یہ بھاپ نہیں
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کب ایسا سراپا دیکھا تھا۔پیشانی روشن روشن ۔ابروؤں کی کھنچی ہوئی کمانیں۔پلکوں˜ کی
چلمن۔نیند سے بوجھل آنکھیں‘اوپر سے جوانی کا خمار‘اُٹھتی ہوئی رنگین گھٹائیں‘ستواں
ناک‘کندنی رخسار‘یاقوت کے قلم سے تراشیدہ لب‘دانتوں سے عدن کے موتیوں کو خجالت
اور دہن ‘کہ گویا عدن کی ساری بضاعت یمن میں ہو۔صراحی دار گردن‘سانسوں میں
کوک تو سینہ میں قیامت کا تالطم۔آگے کوپڑی ہوئی گھنے سیاہ بالوں کی چوٹی گویا خزانہ
پر ناگ کا پہرہ۔چھالسی کمر‘قامت زیبا‘تکلم میں بھنور‘کن آنکھوں میں جھجک کہ کوئی
دیکھتا نہ ہو۔تبسم میں کنایہ کہ ’’جو مڑ کے میں بھی نہ دیکھوں تو دیکھنا اُس کو‘‘بے
نیازی میں ادائے دلبری‘کئی رنگ لہرائے لیکن رنگوں میں ایک رنگ تیرے سادگی کا
رنگ۔دل نے کہا’’کورا‘‘ لیکن قلم نے اپنی ٹھانی بے ساختہ لکھا ’’شکیل عادل زادہ سب
رنگ کے حوالے سے‘‘ بس یہی کچھ ہوا تھا۔چند سطریں تحریر کردی گئیں۔تشنہ لبی نے
یاران میکدہ میں دھوم ہوگئی کہ’’دو گھونٹ کا اے ساقی الزام نہیں
ِ بڑھ کے ساغر اٹھالیا تو
لوں گا‘‘ ُدنیا بھر سے ٹیلی فون،ای میل ،فیس بک،ایک تانتا سے لگ گیا اس سے اندازہ ہوا
کہ شکیل عادل زادہ عشق پیشہ ہی نہیں معشوق صفت بھی ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ پیاس
کودوام ہے پانی کو نہیں۔تشنگی باقی رہ جاتی ہے اگر کوئی پیاسا ساحل سے لوٹ جائے
،تب تو دریا بھی پیاسا رہ جاتا ہے۔کراچی سے سید عقیل جعفری عباس صاحب کا گرامی
نامہ آیا۔لکھا تھا’’شکیل عادل زادہ کی شخصیت اور فن پر ایک ضخیم کتاب کی تیاری پیش
نظر ہے‘ میں نے کہا ’’دیر آید درست آید‘‘ انہوں نے عادل زادہ صاحب سے اپنے دیرینہ
روابط کا اور محبتوں کا ذکرکیا۔ ُدنیا کا کونسا حصہ ہے جہاں شکیل عادل زادہ کے گھائل
نہیں ہیں اور تقریبا ً سب کا یہی حال ہے۔میرے ذہن میں بس یہی ایک سوال گردش کرتا رہا
صاحبان نقد ونظر سے یہ چوک کیوں ہوگئی۔ کیا قصہ گوئی،داستان
ِ اور ہنوز باقی ہے کہ
طرازی یاکہانی یا پھر آج کی زبان میں فکشن کو یکسر ادب سے خارج کردیا گیا ہے؟ اگر
ایسا ہے تو پھر باقی کیا رہ جائے گا۔کسی انسان کی کوئی سوانح حیات نہیں ہوتی۔وہ تو
اطراف کے کرداروں سے مل کر تشکیل پاتی ہے ورنہ کسی انسان کی کہانی کیاہے۔پہلی
سانس سے آخری سانس تک انسان کہانی ہے اورکہانی انسان سے جسم وجاں کی طرح
پیوست ہے۔کہانی نہیں تو خواب نہیں‘ خواب نہیں تو زندگی نہیں۔کہانی تو وجود میں رچی
بسی رہتی ہے۔کہانی کار مشاہدے سے اور کبھی تخیل سے دوسرے انسان کے اندر سیر
ذات کرکے تشنہ تمناوؤں اورآرزوؤں کے رنگ سمیٹ کر جب صفحہ قرطاس پر سجا دیتا
ہے تب ساری کائنات کا درد سمٹ کر ایک نقطہ میں تبدیل ہوجاتا ہے یہی نقطہ پھیلے
توکائنات ہے سمٹے تو سمت وجہت سے بے نیاز بھی ہے ماورا بھی۔یہی نقطہ ازل بھی
ہے ابد بھی۔پھر اس کے بعد تو صرف’ ھو‘ ہے۔
شکیل عادل زادہ سے میں صرف ایک بار مل پایا ہوں وہ بھی کچھ دیر کے لئے۔کبھی کبھی
ایک پل نظر بھر کر دیکھ لینا صدیوں کی رفاقت پر بھاری ہوجاتا ہے۔انسان کا سب کچھ
کھل جاتا ہے۔یہ پل اُس عمر بھر کی ہم نشینی سے زیادہ قیمتی ہے جہاں تمام عمر کے بعد
بھی دونوں اجنبی ہوں۔
انسان کے اندر کی کائنات تو ایک سربستہ راز ہے۔جتنا کھلتا ہے اُس سے کہیں زیادہ اور
چھپ جاتاہے۔اتنی تہہ داریاں کہ ایک پرت اُلٹی جانے تک ہزار پرتیں اوربڑھ جاتی ہے وہ
سب کچھ جو مشاہدے سے شعور اور الشعور میں پنہاں ہوگیا ہو اور وہ بھی جو اندر کی
تپش سے بھسم ہوکر اکسیر ہوگیا۔میرے اپنے خیال میں کسی انسان کے اندر کی سیر مشکل
ہے‘ خالء نوردی آسان ہے۔آتش فشاں سے اُبلنے والے الوے کا تجزیہ کچھ اتنا مشکل نہیں
لیکن جو اپنے ہی دل سے اُٹھے اپنے ہی دل پر برسے اُس کا حساب تو بے حساب ہے۔
اندیشۂ سود وزیاں سے پرے۔تخلیق کے کرب کا کوئی پیمانہ نہیں۔خود شکیل عادل زادہ کے
مطابق’’ میں آگ بھی نہیں تھا کہ جل جاتا‘پتھر بھی نہیں تھا کہ ٹوٹ کر بکھر جاتا‘لیکن
میرے سینہ میں آگ لگی ہوئی تھی اور میرے پتھر آپس میں ٹکرارہے تھے ایک شور مچا
ہوا تھا‘سمندر میں وہ شور نہیں مچتا جو آدمی کے اندر مچتا ہے۔صحرا میں وہ دھوپ نہیں
پڑتی جس سے آدمی کا صحرا تپتا رہتا ہے اورآدمی یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔
سمندر‘پہاڑ‘صحرا اورآگ کے تمام خواص اس میں موجود ہوتے ہیں لیکن یہ سب کچھ
نہیں ہوتا۔سمندر ‘پہاڑ‘صحرا اور آگ اپنے گرج،چمک،اپنے فشار کا اظہار کردیتے
ہیں‘آدمی کا کچھ نظر نہیں آتا۔اور یہی کچھ اگر نظر آجائے تب پھر جوتار سے نکلی ہے
وہ ُدھن کچھ نہیں ہوتی دیکھنا تویہ ہوتا ہے کہ ساز پہ کیا گذری۔دھن‘ تار‘ سازندہ‘ ساز‘
آگ‘ تپش‘ لئے‘ راگ‘ دیپک‘ چنگاری‘
شعلہ‘راکھ‘برکھا‘برسات‘گیت‘سکھی‘ساجن‘ملہار‘ناؤ‘ندی‘مانجھی‘ اُس پار یہ داستان در
داستان خود ایک ہزار داستان ہے اور کوئی ہزار شیوہ اس داستان ہزار داستان کے یوں بند
قبا کھولے کے ہر گرہ کشائی کے بعد پھر قبا کچھ اور چست ہوگئی ہو تو شکیل عادل زادہ
ب انصاف سے انصاف طلب ہے۔ کو کوئی کیا کہے؟ ’دل صاح ِ
کے نظریہ اضافت نے ایک انقالب برپا پیدا کیا۔اتنی Albert Einsteinتاریخ طبیعات میں
سے پہلی سوچ کے تار میں برقی رو کس رفتار سے سفر کرتی ہے اگرانسان اسی رفتار
سے سفر کرے تو پھر تیز روی کا کوئی تقابل وتصور نہیں کیا جاسکتا بلکہ دونوں کو ایک
Warmکا نظریہStephen Hikingدوسرے کے لئے ساکن ہیں۔اس نظریہ کے بعد اب
ایک اور نئی جہت کی تالش میں ہے۔ادب میں ان اصطالحات کا صرف اور گنجائشhole
ایک عالحدہ موضوع ہوسکتا ہے لیکن اس سے ہٹ کر یہ بات طئے ہے کہ خیال ماضی
ومستقبل میں کس رفتار سے سفرکرتا ہے‘ کن کن وادیوں کی سیر کرتاہے‘ کن غیر مانوس
جزیروں کی بازیافت کرتا ہے‘ کن اجنبی پگڈنڈیوں پر اپنی غیر مرئی نقش قدم ثبت کرتا
ہے اورپھر اس سفر نامہ کو کس وسیلے سے پیش کرتا ہے۔یہ غور طلب ہے ۔ماضی کے
کھنڈر کو آباد کرنا اُن عجائب گھروں کی سیر‘ نوادرات سے گفتگو‘ اُن کی کہانیاں‘قصے‘
واقعات‘ حکایات‘کرداروں کی واردات ان سب کی یکجائی اپنی تسلسل کے ساتھ ماضی کا
حال میں اور حال کا ماضی میں سفر دراصل سالماتی سفر سے زیادہ نازک ہے جہاں اگر
کوئی سالمہ غیر متوازن ہو تو خیال کی کائنات بکھر کر رہ جاتی ہے۔داستان دراصل اسی
محشر خیال کا دوسرا نام ہے۔
داستاں گوئی میں وہ ہنر مندی کے جو سننے والے یا قاری کو ہمہ تن گوش بنادے تو ساری
داستاں آواز،سُر،گیت،لَے ،تال ،نغمہ ہوجاتی ہے اور ایسے میں خوش ذائقہ سماعت کے
ساتھ دل اپنا مزہ چاہے،جاں اپنا مزہ چاہے۔ اس کیف و کم میں داستاں کا اپنا ذائقہ ہے‘لفظ
کا اپنا ذائقہ ہے‘سماعت کا اپنا ذائقہ ہے۔وصف تو یہ ہے کہ شکیل عادل زادہ یا تو ہر
ذوق ذائقہ کا سامان فراہم کرتے ہیں
ِ سماعت کو ہم ذائقہ کرنے کا ہنر جانتے ہیں یاپھر ہر
یہی تو وہ ستم ہے کہ انہوں نے ایک ہی ناوک کو ہردل میں یوں ترازوکیا کہ’’یہ خلش
‘‘کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
شاخ گل پر نغمہ سرائی اپنے جگہ ِ بلبل ہزار داستاں کی بھی ایک داستان ہوتی ہے۔رات بھر
شاخ گل کا ایک کانٹا اگر بلبل کے سینہ میں چبھ کر گالب کے لئے سرخی ِ لیکن اُسی
سینچے تب سرخئ گل تو نظر نواز بھی ،دل فریب بھی،صبح کی پہلی کرن پیڑ تلے بلب ِل
دیکھے۔رخ گل پر آنسو کی صورت قطرۂ شبنم بھی۔لیکن یہِ خوش نوا کی بے نوا ئی بھی
کوئی داستاں نہ ہوئی داستاں تویوں ہوئی کہ
شاخ گل کے تلے
ِ پھر صبا سایۂ
کوئی قصہ سناتی رہی رات بھر
شاید اس بات سے اتفاق ہو کہ کہانی،افسانہ،قصہ،ناول ان سب کی صورت الگ الگ سہی
لیکن کسی نہ کسی رشتے سے ان کا تعلق داستان ہی کے قبیلے سے ہے۔ اس اعتبار سے
کہانی کار،افسانہ نویس،قصہ گو ،ناول نگار،داستان طراز یہ سب فنکار اپنے وجود کے
اندر خود بھی داستان ہیں۔یہ داستاں اس الئق ہے کہ اسے ورق ورق پڑھیئے ،سطر سطر
پڑھیئے،لفط لفظ پڑھیئے ،حرف حرف پڑھیئے اور ان سب سے زیادہ الفاظ کے درمیان
خاموشی کے تکلم کا ذائقہ حکایت حرف و لفظ سے ماورا ہے اس کے لئے وہ سماعت
چاہئے جو کلی چٹکنے کی موسیقی کی رمز آشنا ہو۔
کہنے کو تو یہ آسان ہے کہ کسی انسان کے ظاہر و باطن میں تضاد نہیں۔لیکن شاید یہ محال
ہے۔ہر ظاہر کے کئی باطن ہیں اور اُس کے رسائی کے لئے انسان کے دروں رسائی
چاہئے۔ایک عجیب رسم چل پڑی ہے انسان کی قیمت اُس کی آرائش،زیبائش،سجاوٹ،
فرش ،قالین،فرنیچر ،رنگ،روغن ،پردے ،الماریوں،تصاویر،میز،کرسیوں˜ اوراسباب تفاخر
سے ہونے لگی ہے گویا انسانی یہی کچھ ہے۔شکیل عادل زادہ نے اپنے تحریروں سے
شہرآباد کئے ہیں۔یہ خواہش بھی فطری سی ہے کہ اُن کے ایوا ِن ذات کے دروں ’’کیاکچھ
‘‘تک رسائی ہو لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ کمندیں ڈال کر باال خانہ تک تورسائی
ہوسکتی ہے لیکن نہاں خانہ تک نہیں۔ دربان ،پاسبان،نگہبان ،سب سد راہ در ،دروازہ،
دریچہ،کھڑکی،روشن دان ،تنبی،جھروکا،درز ،شگاف ،روزن،کچھ تو ہو‘ لیکن لگتا تھا
سب کچھ قلعہ بند ہے۔
جانے کہاں سے سُرابھرا۔دور˜ کوئی گارہا تھا۔کوئی لَے تھی۔کوئی گیت تھا۔کوئی راگ تھا۔
غم ہجراں سنبھالے نہیں سنبھل ایک لپک سی تھی۔شاید راگ راگنی کو تالش رہا تھا۔لگتا تھا ِ
رہا ہے مگر ،ہَوا سنبھال رہی تھی۔شاید وہ اسی سمت آرہا تھا‘ وہ وارث شاہ کی ہیر گارہا
تھا۔گارہا تھا کہ شعلہ سا لپک رہا تھا لگتا تھاکلیجہ اُس کا غم سے پھٹ رہا تھا۔ قریب پہنچا
تو رُک گیا،سرگم تھم گئی،لیکن ہَوا بلک رہی تھی پھر ہر طرف خاموشی،سکوت،سناٹا۔وہ
مجھے غورسے دیکھ رہا تھا گویا ایک ہی نظرمیں سب کچھ پڑھ لیناچاہتاہو۔بالوں کی
سفیدی ،شکن آلودچہرہ،ہاتھوں کی جھریاں،پاؤں کے آبلے،زخموں کی کھرنڈ ،صدیوں کی
مسافت،پڑھنے کو بہت کچھ تھا۔سادہ ورق پڑھنے میں زندگی بیت جاتی ہے‘ اُس کی عمر
چالیس بیالیس برس تھی ابھی اندر سے وہ آگ تھا اورراکھ کا بھید جاننا چاہتا تھا میں نے
اُسے غور سے دیکھا۔ خد وخال پنجابی تھے۔لگتا تھا اُس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے
میں نے پوچھا’’کہاں کے رہنے والے ہو؟‘‘ کہا ’’کبھی منڈی بہاء الدین میں رہتے تھے
‘‘جی۔ اب توجہاں سانجھ ہوجاتی ہے وہی شام کرلیتے ہیں۔
کیانام ہے تمہارا؟‘‘ میں نے بڑی اپنائیت سے پوچھا۔’’
اُس نے رکتے رکتے کہا۔’’نام کیاہوتاہے جی! وہ تو ایک شناخت ہے‘ اُس کی اپنی‘جو
کسی دوسرے میں ضم ہوجائے اُس کا اپنا کیارہ جاتاہے۔ گوندل قبیلے سے ہوں‘ ماں باپ
نے حسن رضا نام رکھا تھا‘اب تو تن بھی اُس کا من بھی اور نام بھی۔ آپ توگیانی ہو بابو
جی سب جانتے ہو پھر بھی پوچھتے ہوں۔‘‘ پھر خود ہی کہنے لگا۔’’یُگ˜ بیت گیا۔چیت کے
مہینے میں ملی تھی۔بیساکھ میں قریب آئی،ساون بھادوںیوں گذر گئے،پھاگن میں رات کو دن
بناگئی،چیت میں بچھڑ گئی ،کہتے ہیں جو چیت میں بچھڑ جاتا ہے پھر کبھی نہیں ملتا پر
میرا دل نہیں مانتا۔یہاں بہت لوگ آتے ہیں جی۔جب تک دردسہا جاتا ہے کھلی آنکھوں سے
تکتے رہتے ہیں پر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بندکرلینے سے پہلے ایک ہی لفظ کہتے
ہیں’’کورا‘‘˜ پھر سوجاتے ہیں۔میں نے جی ،برسوں میں اندر جانے کا راستہ کھوج لیا ہے
لیکن وہ ہر کسی سے نہیں کھلتا آپ بھی دیکھ لوبابو جی شاید آپ سے کھل جائے پھر وہ
مجھے دوسری طرف لے گیا چھوٹا سادروازہ تھا‘ بند تھا دیوار پرتختی لگی تھی’’سب
رنگ‘‘میں نے جیسے ہی دروازہ پر ہاتھ رکھا دروازہ کھل گیا۔ بہت قدیم عمارت تھی۔بہت
ہی پرشکوہ۔لیکن˜ اتنی پر شکوہ عمارت میں سامان کچھ نہیں تھا۔وسیع ایوان میں صرف
ایک قد آدم آئینہ تھا اور میں تھا۔کیفیت یہ تھی
لمحہ لمحہ منکشف ہوتا ہوا جیسے کہ تو
محو حیرت آئینہ در آئینہ جیسے کہ میں ِ
نوٹ :شکیل عادل زادہ ،اردوادب میں ایک خوش اعتبار نام ہے۔ان کے پڑھنے والوں اور
چاہنے والوں کی تعداد الکھوں میں ہے۔یہ مقبولیت اردو کے بہت کم اہل قلم کے حصے میں
آئی ہے کہ جن کی تحریر کیلئے قارئین اپنی روزانہ مصروفیت سے چھٹی لے لیا کرتے
تھے۔ آج بھی قارئین کو اُن کی تحریروں کا انتظار ہے۔شکیل عادل زادہ نے تنہااپنے ادبی
اور سب رنگ کے ادارتی سفر کو کیسے طئے کیا۔کن حاالت سے نبردآزمائی کی،بلکہ اس
کہانی کارکی خود کہانی کیا ہے،یہ سب ہنوز تشنہ ہے۔معیاری ادب کے نام پر جن
جواہرنگارادیبوں کو نظرانداز کیا گیا ،اُن میں شکیل عادل زادہ بھی شامل ہیں۔ان کی
شخصیت اور فن پر کوئی کام نہیں ہوا،جبکہ بر صغیر میں معمولی ادیبوں اور شعراء پر
بھی ضخیم مقالے لکھے گئے۔جہان اردو نے سب سے پہلے شکیل عادل زادہ پر عالمہ
اعجاز فرخ کا مضمون شائع کیا تھا جس کی دنیا بھر میں پزیرائی ہوئی۔عالمہ نے اپنی
گوناگوں مصروفیات کے باوجودہماری خواہش کا احترام کیا۔ ہم اُن کے ُشکرگزار ہیں۔زیر
نظر مضمون اس سلسلہ کی تیسری قسط ہے۔اس تحریر پرآپ کی رائے کا انتظاررہے
گا،تاکہ عالمہ سے مزید کی خواہش کی جاسکے۔اس مضمون کے ساتھ عالمہ کا ویڈیو بھی
لگایا گیا ہے جس میں عالمہ نے دلچسپ اونداز میں مضمون سنایایے ۔مضمون کے ساتھ
اس کے ویڈیو پیش کرنےکی یہ پہلی کوشش ہے۔(جہان اردو)
میں جانتا تو بہت پہلے سے تھا۔ برسوں سے ،نہیں ،صدیوں سے اور شاید ازل سے لیکن
میں اُس کا نام نہیں جانتا تھا۔ وہ تو بس ایک چہرہ تھا خیال کی طرح نازک،راگنی کی طرح
دل فریب ،صبح کی پہلی کرن کی طرح دل آویز ،نسیم سحر کی طرح سبک خرام،جھرنے
کی طرح مترنم ،آنکھوں میں خواب کی طرح اُترتی ہوئی اوروجود میں خوشبو کی طرح
سماتی ہوئی۔ کبھی زندگی کی راہ میں جب تھکن اور آبلہ پای سے قدم دوبھر ہوجاتے تووہ
یوں نمودارہوجاتی جیسے روشنی کا شہزادہ گزرنے کوہواوربال کھول کے راستے میں
شام بیٹھ گئی ہو ،اور پھر رات کی تاریکی میں یوں چھپ جاتی جیسے طو ِل شب میں
سحرپوشیدہ ہو۔میں نے چہرہ دیکھا تھا،نقوش یاد نہیں۔یادوں سے گزرتے محسوس
کیا،سراپا یاد نہیں۔مہک محسوس کی،خوشبو کا سراغ نہ مال۔ روپ دیکھا تھا ،رنگ کے
لیے تشبیہ نہ مل سکی۔آواز˜ سنی تھی لیکن سرگم میں وہُ سرنہ مال۔قامت وخم کی زیبائی
کے لئیے قوس وخط عاجز نظر آئے۔بھالجس کی سمت نہ ہو،جہت نہ ہو،خدوخال نگاہ میں
نہ سما سکے ہوں،خیال جس کی قامت زیبا کا احاطہ نہ کر سکا ہو۔جس کے لئے حرف
وظرف کی اصطالح متروک ہوجائے،اُس کی طرف اشارہ کیا ہو،اُس کا نام کیاہو۔شاید اسی
کو حسن مکمل کہتے ہیں کہ جہاں تکلم سکوت میں اورخاموشی گویائی میں بدل جاتی ہے۔
میں توہوں ہی اس مزاج کے دشت کو دیکھتا ہوں تو گھر یاد آتا ہے اورگھرکودیکھتاہوں تو
دشت کی تنہای یاد آتی ہے۔صحرا میں بگولوں کا رقص ،سمندر میں تالطم اور آتش فشاں
کو الوا اُگلتے دیکھتا ہوں تو مسکرا اٹھتا ہوں کہ جن سے اضطراب کی بے قراری نہ
سنبھل سکی اُن سے غم ہجراں کیا سنبھل سکے گا۔
ایک دن یوں ہواکہ ہرطرف سناٹا ہی سناٹا تھا۔ہوا ساکت ،فضا ُء چپ،سمندر پرسکون لیکن
میرے اندر قیامت کا تالطم تھا لگتا تھا میرے اندرکی کائنا ت درہم برہم ہورہی ہے اور سب
کچھ بکھرنے واال ہے کسی نے چپکے سے سرگوشی کی،،کورا،،۔اُس˜ کا نام کورا ہے۔میں
نے اُسے آواز دی،،کورا،،۔و̃ہ سامنے تھی لیکن پلک جھپکتے میں جھلک دکھا کر غائب ہو
گئی۔میں نے ُمڑکر دیکھا،ایک شخص کھڑا تھا۔میری ہی عمررہی ہوگی،لگتا تھاعشق کی
جس آنچ میں وہ جل رہا ہے اُسکی تپش مجھ تک پھنچ رہی ہے۔رنگ سُرخی مائل گورا رہا
ہوگا،لیکن زندگی کے جس سفرسے گذرکرآیا ہے اُس کی دھوپ چہرے کو کجال گئی ہے۔۔
نیم وا آنکھوں پرڈھلکے ڈھلکے سے غالف،جیسے ان آنکھوں کوصدیوں سے نیند کا
انتظار رہا ہو۔چہرے ُمہرے سے متانت آشکار،شرافت کا وقار،پیشانی پر تجربے اور تفکر
کی لکیریں،سکون˜ ایسا کہ
بازیچۂ اطفال ہے ُدنیامرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ مرے آگے
کی مکمل شرح‘ مجھے ایسا لگا جیسے میں اس شخص کوپہچانتا ہوں ،اتنا قریب سے ،جتنا
میں اپنے آپ کو پہچانتا ہوں۔خانماں آباد،دل برباد،خیال پرور،علم دوست،ذات میں
تنہا،انجمن ساز،دوست گزیدہ،دشمن نواز،عشق طبع،حلم پوشاک،تدبرپیرہن،ادب قبا،سلوک
مزاج،نرم خو،خوش گفتار،رمزآشنا،محرم حرف ولفظ،زرنگار،آتش رقم،شعلہ فشاں،شبنم
بیاں،عہدنورد،صدیوں˜ کا فرزند۔
مجھے دیکھ کراُس کے ہونٹوں پرتبسم کی لکیر سی اُبھری۔اُس˜ نے پوچھا،،کسے ڈھونڈھ
رہے ہو؟،،میں چپ رہا۔ پھر اُس نے کہا،،اُسے سب تالش کرتے ہیں۔زندگی بھر۔
ہرلمحہ،ہرپل‘وہ ایک چہرہ ہے،چہرہ جو نفس کا آئینہ ہے ،کتاب زندگی کاسرورق
ہے،،فکر،خیال،تصور،سیرسفر کا عکس ہے۔اندیشۂ سود وزیاں،حاصل و الحاصل،پانے
اور کھونے کا حساب ہے۔یہ حساب اتنا آسان بھی نہیں۔اُسے پاکرسب کچھ کھو دینے کی
لذت،سب کچھ پاکر اُسے کھو دینے سے کہیں زیادہ ہے۔یہی نصاب جاں ہے،یہی حساب
جاں ہے،لیکن قرض جاں کچھ اور ہے۔ادا کرتے کرتے زندگی بیت جاتی ہے،حساب جاں
میں قرض کچھ اور بڑھ جاتا ہے۔جو چہرہ تمھیں دکھائی دے گیا،وہ ذوق نظر بھی ہے
،ذائقہ بھی۔جوآوازسُنای دے گئی وہ سماعت کا ذائقہ ہے،خوشبو تمھارے شامہ کا ذائقہ ہے
اور المسہ تمھارے مسام کاذائقہ۔ زائقہ تو بس زائقہ ہے ،تلخ و شیریں تو لذت نفس کی پسند
و نا پسندکا دوسرا نام ہے۔یہ نہیں کہ صرف تم کو اُس چہرے کی تالش ہے،خود اُس چہرے
کو بھی ایک چہرے کی تالش ہے۔وہ چہرہ مل جائے تواُسے روبرو کرنا۔آنکھیں فرط
حیاسے جھک جائیں توسمجھوآئینہ روبرو ہے۔حقیقی آئینہ تو بس وہ چہرہ ہوتا ہے ،باقی تو
سب فریب آئینہ ہے۔لوگ آئینہ دیکھنے کی ہمت نہیں رکھتے،اس لئے کہ آئینہ نقاب اندر
نقاب چہرے دکھا دیتا ہے۔ آئینہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ،لوگ اپنے آپ سے ڈر جاتے ہیں۔
شیشوں کا آئینہ خانہ تو ہزار زاویوں سے ظاہر کو دکھا دیتا ہے،ظاہر پسندوں کے لئے۔ذوق
زینت تو بھوکی بھکارن کو بھی ہے۔اُس کی جھولی میں بھی آئینے کے ٹکڑے مل جائیں
گے۔باطن تو صرف اُس چہرے میں دکھائی دیتاہے جس کی تالش عمربھر کی تالش ہے۔
کبھی بابر زماں خاں کو وہ چہرہ مل جائے تو اُس کا نام ،،کورا ،،ہے ،اور کبھی اُس
چہرے کواُس کی تالش مل جائے تو اُسے جمشید عا لم خاں کہتے ہیں۔ایک ،،بازی گر ،،
ہے اور ایک ،،امبربیل،،۔اب یہ تُم جانو کہ نام کیا ایک لفظ ہے،اشارہ ہے ،عالمت
ہے،تشبیہ ہے،استعارہ ہے،آہنگ ہے،راگ ہے ،رنگ ہے،موسیقی ہے،ترنم ہے،سُر ہے
،تال ہے،تصور ہے ،خیال ہے،شعر ہے،تصویر ہے،خد ہے ،خال ہے،بدن ہے ،روشنی
ہے،کلی ہے ،غنچہ ہے،پھول ہے،خار ہے،خوشبو ہے،کسک ہے،آرام ہے،آزارہے،مسرت
ہے،تبسم ہے،ہنسی ہے،غم ہے،آہ ہے،آنسو ہے،گریہ ہے ،کرب ہے،اضطراب ہے،بیخودی
ہے،مدہوشی ہے،کیف ہے،نشہ ہے،سرور ہے،تمناہے،یاس ہے،سرخوشی ہے،اُداسی
ہے،آرزوئے وصال ہے ،تپش فراق ہے،یا یہ سب کچھ بھی نہیں ہے۔لفظ بھی نہیں ،نام بھی
نہیں۔چہرہ ہے ،صرف چہرہ۔سب کچھ تحلیل ہو جائے تب بھی چہرہ باقی رہ جاتا ہے۔چہرہ
خراج چاہتا ہے ،عمربھرکا خراج۔سوغات بھی دیتا ہے۔درد کی سوغات،فن کی
سوغات،زندگی کی سوغات،بے حالی کی سوغات،بے نیازی کی سوغات‘زندگی اُس کے
نام کردوپھر بھی قرض جاں باقی رہتا ہے۔ایک جھلک پانے کی تمناساری عمر کاخراج
چاہتی ہے۔
وہ ُرکا ،ڈبیہ سے پان نکال کرمنہ میں رکھا۔داہنے گال میں،کچھ دیر خالء میں تکتا رہا،پھر
کہا،ہرشخص کی زندگی میں ،کورا ،ہے۔ لینارڈو زندگی بھر اُس چہرے کو تالش کرتا
رہا،وہ اُسے مونا لیزا کی صورت میں مال۔اسی طرح کبھی یہ چہرہ عذرا ہے،شیریں
ہے،لیلی ہے۔جتنے فنکار ہیں سب کی آنکھوں میں کسی نہ کسی ٰ ہے،سوہنی ہے،جولیٹ
چہرے کی چھبی ہے،کسی نہ کسی چہرے کی پرچھائیاں ہیں۔بہزاد،مانی،مقبول فدا حسین‘
،ساحر،پریم چند ،کرشن
ؔ ،فیض
ؔ ،جوش،فراقؔ
ؔ ؔ
،ناسخ ،ولی
،آتش ؔ
،غالب ؔ
ؔ میر
ؔ
چندر،منٹو،راجندرسنگھ بیدی،احمد ندیم قاسمی،انتظارحسین،قاضی عبدالستار،پنڈت روی
شنکر،اُستاد امجد علی خان،مہدی حسن،سب قرض جاں کے اسیر ہیں۔یہ کہہ کروہ رک
گیا،کہیں کھوگیا۔محویت میں وہ مجھے بہت اچھا لگا۔جیسے کوئی فرشتہ،جیسے کوئی
معصوم بچہ،جیسے نئی صبح کا طلوع ہوتا ہواسورج،جیسے امن کاسفید پرندہ،میرے دل
میں اُس کے لئیے محبت بھی ابھری احترام بھی۔
،،میں نے نرمی سے پوچھا ،،آپ کا نام؟
کہا،،کیا چہرہ کافی نہیں،،پھر خود ہی کہا،،نام تو ہوتا ہی ہے۔یہ چہرے کوکھولنے کا حرف
،،خفی ہے۔
خود کالمی کے سے انداز میں کہا۔،،اب تو مجھے نام بھی یاد کرنا پڑتا ہے۔ہجرت نصیبوں
کے گھر ہی نہیں بدلتے،سب کچھ بدل جاتا ہے۔ گھر،گلیاں،راستے،محلے،ہوا ،پانی،ذائقہ
،لباس،زبان،ماحول،سونچ،برتاو،شناخت،وطن،نام بھی۔خود اپنا آپ بھی۔،،پھر کہا ۔
دس مارچ ۱۹۳۸ء کی بات ہے،ابھی دوسری جنگ عظیم دور تھی۔ہندوستان کی آزادی’’
ہنوز ایک خواب تھی۔میری والدت ُمراد آباد میں ہوئی۔ماں باپ نے میرا نام،محمد
شکیل،رکھا۔اب تو شائد مجھے محمد شکیل کہہ کر آواز دینے واال بھی نہ ہو۔اب تو میں
شکیل عادل زادہ ہوں۔یہی نام سرکاری کاغذات میں ہے،یہی زباں زد خاص و عام
بھی،دوست احباب کبھی شکیل بھائی کہتے ہیں ،کبھی شکیل۔،،وہ ُمسکرائے پھر کہا،،بچپن
کا چہرہ ماں باپ کادیا ہوا،جوانی کا چہرہ فیاض قدرت کی عطاء اوربڑھاپے کا چہرہ اپنی
کمائی کا چہرہ ہوتا ہے۔بچپن کا نام رہا نہ چہرہ،ہاں مگر یادیں رہ گئیں۔خیال سے تیز
رفتارشاید برق رفتاری بھی نہیں۔پلک˜ جھپکنے میں شاید دیر لگے،خیال اُس سے بھی تیز
رفتار ہوتا ہے۔اب بھی کبھی کبھی یادوں کی بارات نکلتی ہے تو چراغاں ساچراغاں ہو جاتا
ہے۔معصوم بچپن،لڑتا جھگڑتابچپن،مٹی میں اٹا ہوا بچپن‘ماں کی آغوش میں مچلتا ہوا
بچپن،ضد کرتا ہوا بچپن،روٹھتا منتا بچپن،شرارتوں پر پٹتا ہوا بچپن،سیپارہ رٹتا ھوا بچپن۔
سونچتے تو سب ہیں کہ سب کچھ تج کر بچپن میں لو ٹ جائیں ،لیکن وقت کی سوئی ایک
ہی سمت میں گردش کرنا جانتی ہے۔نہ تھم سکتی ہے نہ لوٹ سکتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم میں کہاں کہاں قیامت برپا ہوئی یہ الگ بات ہے۔لیکن ہمارے گھر کے
آنگن میں تو گویا قیامت آکر ٹہر گئی۔۱۹۴۴ء میں ابا گزر گئے۔میرے نانا ،محمد شریف
صاحب ،تھے بھی نہایت شریف انسان۔یہ وہ دور تھا جہاں شرافت اپنے پورے مفہوم کے
ساتھ تھی۔اُس دور میں تو پھٹی چٹائی پرراحت بھی تھی سکون بھی تھا۔ شرافتوں کا مفہوم،
دوستی ،غریب پروری،اعزہ نوازی،مروت ،سلوک،اخالق،تہذیب،خبرگیری،پاس˜
ولحاظ،سب کچھ تھا۔آج کی طرح سجے ہوے گھر اورجامہ زیبی ،نہ شرافت تھی نہ امارت
وہ تو صرف سلیقہ تھا جو غریب امیر دونوں مین مشترک تھا۔ نانا نے ماں اور ہم تینوں بہن
بھائیوں کو اپنی کفالت میں لے لیا۔مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا،کہ میں ابا کے ساتھ
جگرمرادآبادی کو بھی دیکھا تھا۔اُن
ؔ مشاعروں میں جایا کرتا تھا۔اُسی زمانے میں ،میں نے
کا گھرالل باغ میں تھا اور یہ ہمارے محلہ رفعت پورہ سے متصل تھا۔مشاعروں میں تو اُن
کی کیفیت ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ابا سے اُ ن کی اچھی دوستی تھی۔گہرا سانوال رنگ تھا۔
زلفیں گردن تک،لیکن چہرہ مہرہ پر کشش تھا۔رئیس امروہوی،کوکب˜ صاحب اور میرے
والد میں بہت گہری چھنتی تھی۔ان تینوں نے ایک رسالہ نکاال تھا ،،مسافر،،۔ جس دن ابا کا
انتقال ہوا،تدفین کے بعد کوکب صاحب نے ایک چیخ ماری اور ہمیشہ کیلئے ذہنی توازن
کھو بیتھے۔ میں یہ سب کچھ دیکھتا رہا،یوں میں ایک ہی لمحے میں اپنا بچپن کھو بیٹھا۔نانا
نے مجھے مدرسہ قاسمیہ میں حفظ قرآن کیلئے بٹھال دیا۔مار تو میں نے کھائی۔زندگی میں
چوٹیں بھی بہت لگیں،لیکن زندگی نے سکھایا بہت کچھ ۔
نہیں معلوم یادوں کی حرارت تھی یاجذبات کی آنچ۔،شکیل عادل زادہ کے چہرے پر پیاس
کی سی کیفیت دکھای دی۔میں نے صراحی سے مٹی کے آ بخورے میں پانی بھرکراُنھیں
پیش کیا۔اُنھوں نے دونوں ہاتھوں سے کٹورا تھام لیا،دو گھونٹ لے کر دیر تک پانی کو
تکتے رہے پھر تپتے ہوے صحرا کو دیکھا اور کہا،،آپ کے پاس میرا حرف خفی بھی ہے
اور اپناجام سفال بھی،جن کے پاس جام سفال ہو ،اُن سے کچھ کہنا کیا دکھالنا کیا۔جن کے
پاس جام جم کی توقیر نہ ہو وہ اپنے جام سفال میں سب کچھ دیکھ لیتے ہیں،ماضی بھی حال
!بھی اور پھر یہ بھی کہ
اور لے آئیں گے بازار سے جو ٹوٹ گیا
جام جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
ہے،جہان اردوکے موسس ومد یر ڈاکٹر سیدفضل ہللا مکرم
ِ کوئی چھ مہینے پہلے کی بات
نے مجھ سے مضمون کی خواہش کی۔ اتفاق سے اُس دن میں سب رنگ کا پرانا رسالہ دیکھ
رہا تھا۔مجھے خیال آیا کہ میرے پاکستان سفر کے دوران شکیل عادل زادہ سے مالقات کا
احوال لکھ دوں۔ میں نے قلم برداشتہ ایک مختصر سا مضمون لکھ دیا۔عجیب یہ ہواکہ وہ
مضمون نہ صرف ُدنیا بھر میں پڑھا گیابلکہ سینکڑوں احباب نے اپنی پسندیدگی اور رائے
سے بھی نوازا۔اورمجھ سے خواہش کی گئی کہ اس سلسلے کو جاری رکھوں۔خواہش تو
میری بھی تھی لیکن یہ کچھ اتنا اآسان بھی نہیں تھا۔ ان کے حاالت
زندگی،کوائف،بچپن،ہندوستان سے پاکستان کا سفر ،کشمکش،
جدوجہد،احباب،قرابتیں،دوریاں،یگانگت،اجنبیت،سب˜ کچھ تو چاہئے۔ہندوستان اور پاکستان
کے درمیان جغرافیائی نقشوں میں تو کوئی خلیج نہیں،لیکن کتنی قربتیں اور کتنی دوریاں
ہیں یہ تو سب پر عیاں ہے ۔ !!۔ایسے میں خامہ فرسائی کوئی سہل نگاری بھی نہیں۔
دراصل قصہ کچھ یوں بھی ہے کہ میں نے ایک عمر گزاردی،بوریہ نشین تھا سوہوں۔لیکن˜
میرے خیال کی آوارگی نہ گئی۔نہیں معلوم اس کوہوا اپنے بھنور میں لئے لئے پھرتی ہے یا
خیال ہوا کا دامن تھام لیتا ہے کہ ابھی یہاں تھا سو وہاں ہے۔یوں میں اسے’’ خلل ہے دماغ
کا‘‘ سمجھوں ہوں،لیکن یہ بات نہاں بھی ہے عیاں بھی کہ کس نے ،ہم کو نکما
کردیا ۔’’ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‘‘۔دنیامیں کام کے تو سارے ہی لوگ ہیں۔نکمے کم
کم ہی پائے جاتے ہیں،سو میں ایک ہوں،اور اگر دوسرے کا نام لوں توڈر ہے کہیں اُن کے
دوست بُرانہ مان جائیں ۔ اہل خرد کا بھروسہ کیا ہے۔
شکیل عادل زادہ کی دو طویل کہانیوں ،بازیگراور امبر بیل کا ایک عالم دیوانہ ہے۔ایسی
دیوانگی کم کم ہی دیکھی گئی کہ انتظار میں آنکھیں طاق پر رکھ دی گئی ہوں اور،،پتیاں
کھڑکیں تو میں سمجھا کہ آپ آہی گئے،،۔یہ تو طئے ہے کہ اضطرا ب ا ور وارفتگی شوق
اس وقت تک ممکن نہیں،جب تک قاری یہ نہ محسوس کرے کہ’’ میں نے یہ جانا کہ گویا
یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔آپ شائد اتفاق کریں گے کہ جب تک کہانی کار ،کہانی میں
خود ایک کردار نہ ہو،کہانی میں گداز نہیں پایا جاتا۔یہ گداز اگر اس کی کہانیوں میں یکساں
ہوتو اسے کہانی کار کا ظاہر سمجھئے۔جس کے لئے میزان بھی ہے،پیمانہ بھی۔جس کی
قامت کو ناپا بھی جاسکتا ہے،جس کے خیال کا وزن اور الفاظ کے بدن کے قوس وخم فن
کی مقیا س سے پرکھے بھی جاسکتے ہیں۔ظاہر تو بہت کم ہوتا ہے،کہیں کم کم ہوتا
ہے،آدمی کہیں تو پورا ہوتا ہے،کہیں آدھا اور کہیں کم بہت ہی کم۔کہیں آدمی اپنے اندرایک
سے زیادہ بھی ہوتاہے۔دو،تین،چار کئی روپ میں،کئی صورتوں میں،زندگی کے ہر موڑ
پر ملنے واال،ٹکراتا ہوا،انجان بن کرگزرتا ہوا،محبتوں سے اسیر کرتا ہوا،بے رخی سے
پروا نۂ رہائی جاری کرتا ہوا،چاہتوں کے زخم لگاتا ہوا،اجنبیت سے مسیحائی کرتا ہوا۔کبھی
سوز کی صورت کبھی،کبھی سازکی۔نغمہ بھی ،نغمہ گر بھی۔اس ہزار چہرہ،ایک باطن کی
مضراب جب تار کو چھیڑتی ہے،کبھی مارٹی،کبھی بالے،کبھی ٹھل،کبھی کرشنا جی،کبھی
بابر زماں خاں،کبھی چندراوتی،کبھی کیچو،اور کبھی میر جمشید عالم خاں کی صورت
ابھر آتی ہے۔ہر نغمہ الگ ،ہر تار کی
لرزش جدا۔نغمہ مسحور کن سہی،روح میں اترتاہواسہی،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ساز پہ کیا
گزری۔مجھے تالش بھی اُسی فنکار کی تھی اور یہ بھی کہ ’’دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے
پہ گہر ہونے تک‘‘۔
جہاں تک میری تالش ہے،وہ یوں کہ شکیل عادل زادہ کی کہانی کا سفر بہت پہلے ہی
شروع ہو چکاتھا۔ ابھی وہ کوئی گیارہ بارہ برس کے رہے ہوں گے اُنھیں ایک سات آٹھ
برس کی لڑکی اچھی لگی،لیکن˜ وہ اس سے کچھ کہہ نہ پائے ۔جب تک آنکھیں کچھ کہنے
سُننے کے قابل نہیں ہوتیں نہ کچھ کہا جائے ہے نہ سُنا جائے ہے،بلکہ بن کے انجان اُس
سے خود سے،بچا کے اک دوسرے سے نظریں،بن بُالئے ُگزرا جائے ہے۔یہ عمر تو ایسی
ہوتی ہے جیسے نازک گالبی ہتھیلی کے بیچ کچے اخروٹ کی گری،کہ بس دیکھا جائے
ہے۔کہیں سے سُن رکھا تھاتسخیر محبوب کے لئے اگر چالیس دن سورۂ ُمزمل کا ورد کیا
جائے تو مراد بر آتی ہے۔ابھی اس ورد کو دو چار دن گزرے ہوں گے کہ ایک زور دار
موکل نہیں بلکہ اُستاد روبرو تھے۔غضب ناک تھپڑ پڑا۔گھبرا کر آنکھیں کھولیں تو کوئی ٗ
آنکھیں،تمتمایا ہوا چہرہ،غصے سے کہتے ہوے کہ،،سبق تو یاد نہیں کرتا،بس مسجد میں
بیٹھا کرتا ہے۔،،اتنی مار پڑی کہ پتھر ہو تو ٹوٹ جائے۔کوئی اور ہوتا تو دوسرے دن
جھولتا ہوا قرآن حفظ کرنے میں مصروف ہو جاتا ،لیکن شکیل نے مسجد سے گھر کی
نہیں،مراد آباد اسٹیشن کی راہ لی اور ٹرین میں بیٹھ گئے۔بغیر ٹکٹ،بغیر زا ِد راہ۔رات کو
ایک آنے کے چنے کھا لئے اور اسٹیشن کے نل سے پانی پی لیا۔صبح ایک آنے کی چائے
پی لی۔دن بھر میں باقی دو آنے بھی خرچ ہو گئے۔شام تک بھوک نے چہرے پر پرچھائیاں
ڈالنا شروع کردیا۔ساتھ کے مسافرین نے اپنے توشے سے کھانا پیش کیا۔بھوک ہاتھ بڑھانا
چاہتی تھی،غیرت مانع ہو رہی تھی۔آخر کارغیرت جیت گئی۔شکیل عادل زادہ کی زبان فاقہ
کے ذائقے سے آشنا ہے اور وجود بے چراغ روشنی کے اُجالوں سے مانوس بھی ۔بچپن
میں جب پھل کھانے کو جی چاہتا تھا تو اس کا ذائقہ صرف آنکھوں کی حد تک رہا،جب
استطاعت ہو گئی تب رغبت نہ رہی طلب و رسد کے یہ فاصلے اوربے چراغ روشنی ،
زندگی کے ہر پیچ و خم کوواضح کر ہی دیتے ہیں۔ایک بار اُن کی خالہ زاد نے کسی بات
پر کہہ دیا کام کے نہ کاج کےُ ،دشمن اناج کے۔شکیل نے کئی دن کھانا نہیں کھایا۔ایک بار
کسی عزیز کی شادی میں مراد آباد سے کوئی پچیس ،تیس میل سارا خاندان گیا ،میزبان
نے دستر خوان پر التفات خاص کیا۔شکیل کو خیال گزرا کہ شا ئد اُن کی یتیمی پر ترس
کھایا جارہا ہے ۔وہ آہستہ سے اُٹھے اور چپ چاپ نکل پڑے۔دن بھر ریل کی پٹریوں کے
ساتھ ساتھ چلتے رہے اور مراد آباد پہنچ گئے۔اتنی زود حس،اور زندگی،ایسے میں آبلہ پائی
تو مقدر ہو ہی جاتی ہے۔ریل کے سفر میں ابھی ایک اور قیامت ٹوٹنی تھی۔ٹکٹ چیکر نے
ٹکٹ چیک کرتے کرتے جب شکیل سے ٹکٹ پوچھاتو وہ ایک لمحے کے لئے رُکے،پھر
اُسے بتایا کہ وہ اپنے ماموں کے ساتھ سفر کر رہے تھے،ماموں بڑودہ کے اسٹیشن پر
کھانالینے کیلئے اُترے او ر ٹرین چھوٹ گئی۔آنکھوں میں معصومیت،چہرے˜ پر
بھولپن،کہانی میں سادگی اور پرکاری،بچھڑ جانے کے تذکرے پراداسی لہجے میں گلو
گیری ،ساتھ بیٹھے مسافرین بھی ہمنوا ء ہو گئے او ر اس حد تک ہمنواء ہوئے کہ ٹکٹ
چیکر کو ہار ماننی پڑی۔میرے خیال میں یہ شکیل عادل زادہ کی پہلی کہانی ہے جو شاید
اب بھی ہوا کے دامن میں محفوظ ہے۔بمبئی میں شکیل دادر اسٹیشن پر اتر پڑے۔بھنڈی
بازارمیں ان کے کسی رشتے دار کی ُدکان تھی۔دو دن میں سفید لباس ملگجا ہو چکاتھا۔
بھوک سے پاؤں کانپ رہے تھے،ایک جگہ چکرا کر گر پڑے ،راہ گیروں نے پانی چھڑک
کر اُٹھایا۔بن مسکہ کھال کر چائے پالئی تو قدرے جان میں جان آئی۔بھنڈی بازار پہنچے تو
وہاں رشتے داروں کیلئے نئی کہانی گھڑنی پڑی۔لیکن˜ شکیل کا بچپن بمبئی کی تجربہ کار
آنکھوں کودھوکا نہ دے سکا۔ اُن کے دور کے رشتوں سے ایک دادی رہا کرتی تھیں یہ ان
کے پاس منتقل ہو گئے ۔ وہ ان کے والد کو یاد کرکے رونے لگیں اور انہیں سینے میں بھر
لیا۔
وہ دن ہی اور تھے زمانہ اور تھا۔آج اپنوں سے کوئی ناطہ نہیں ،اُس زمانے میں غیر بھی
اپنے ہواکرتے تھے۔خاندان بٹے ہوے نہ تھے۔دور دور کی قرابتوں میں جو محبت ہوا کرتی
تھی،وہ آج خون کے رشتوں میں بھی مفقود ہے۔کہتے ہیں زمانہ ترقی کر رہا ہے۔شاید اسی
کو ترقی کہتے ہیں کہ ہر آدمی دوڑ میں ہانپ رہا ہے۔جیتے جی نہ چین ہے نہ آرام۔سب
راستوں میں دکھائی دیتے ہیں۔شاید کسی کو منزل کا پتہ نہیں،سب کو بس تالش ہے۔ایک
بے نام سی تالش،کوئی راہ نہیں ،کوئی چاہ نہیں،کوئی نشان منزل نہیں ،کوئی سراغ نہیں
بس دن گذر جائے۔ عمر کا ایک دن ،ایک سال۔ اُس زمانے میں مٹی کے تیل کے چراغ ہوا
کرتے تھے۔ٹمٹماتے ہوئے چراغ،ہوا سے لڑتے ہوئے چراغ،لیکن ہر چہرہ صاف دکھائی
دیتا تھا۔معصوم ،بے ریا ،مخلص چہرے۔ آج روشنیوں کا جنگل ہے لیکن کوئی چہرہ صاف
دکھائی نہیں دیتا۔لوگ کہتے ہیں کہ شہر بے چہرہ ہو گیا ہے۔میں سوچتا ہوں کہ مجھ سے
بینائی چھن گئی ہے،ورنہ آج بھی تاریکی ہو تو ہر شئے مجھے صاف دکھائی دیتی ہے
،روشن روشن ،جیسے رات کی سیاہی،جیسے آدم کی دعاء۔
شکیل بمبئی سے مرادآباد لوٹ آئے۔کوئی مستقل تھوڑی گئے تھے،بس ذرامار سے بچنا
تھا،اُستاد جی نے حافظ بنا کر ہی دم لیا۔شکیل کے نانا محمد شریف صاحب بہت خوش
ہوئے،انہیں شکیل کے والد کی بہت یاد آئی۔محمد عادل ادیب صاحب جو نہ صرف ادیب
تھے بلکہ رئیس امروہوی کو بھی ادیب بنانے والے ادیب صاحب ہی تھے۔محمد شریف
صاحب دیر تک شکیل کو سینے سے لگائے سر پر ہاتھ پھیرتے رہے،پھر رومال سے
آنکھیں خشک کر لیں۔
محمد شریف صاحب برتنوں کے تاجر تھے ہندوستان بلکہ بیرون سے بھی آرڈر لیا کرتے
تھے۔کاروبار خاصہ پھیال ہوا تھا،دونوں لڑکے معاون تھے۔دوردراز کا سفر شکیل کے
بڑے ماموں کیا کرتے تھے۔شکیل تو تھے ہی سیر سپاٹے کے شائق،ماموں جب حیدرآباد
جانے کیلئے تیار ہوئے تو شکیل بھی ساتھ ہو گئے۔حیدرآباد بڑی اور رئیس ریاست تھی۔
نظام کے زیرنگیں تھی۔ابھی ملک آزاد نہیں ہوا تھا۔جوش ملیح آبادی ،عبدہللا عمادی،مرزا
محمد ہادی رسوا،نظم طباطبائی،عبد الماجد دریا آبادی،مولوی عبدالحق،مناظر احسن
گیالنی،صدق جائسی،فانی بدایونی،نجم آفندی،سر راس مسعود،عماد الملک،کون اہل علم و
ہنر ایسا تھاجو حیدر آباد میں نہیں تھا۔ریل،بس،ہوائی جہاز،ڈاک کا محکمہ ،صنعت و حرفت
،عثمان ساگر ،حمایت ساگر،حسین ساگر،عثمانیہ یونیورسٹی،صاف ستھری پختہ سڑکیں،
بجلی،ٹیلیفون،تار،دواخانے،بلدیہ،پوپھٹنے سے پہلے جاروب کش صفائی میں مصروف
،اُمراء،نوابین،روساء،محالت،دیوڑھیاں،حویلیاں،چمن˜ زار،شکیل نے اسی حیدرآباد کی سیر
کی اور جی بھر کے سیر کی۔
بازی گر میں شکیل عادل زادہ نے جس محبت سے حیدرآباد کاسراپا لکھا ہے اور جس
باریکی سے محالت اور دیوڑھیوں کے اندر کی تہذیب ،ماحول،سازشیں اور گھٹن کا تذکرہ
کیاہے،وہ مجھے حیرت میں ڈال گیا۔خاص طور پر ہیروں کی د مک اور امیر شہر کی
ریشہ دوانیاں،ریل کے سفر کے دوران اسٹیشن کے نام،اس وقت کی ریل اور اس کی
رفتار،نظام کی حکومت کے حدود،بالے اور مارٹی کا آہستگی کے ساتھ دشمنوں سے
نمٹنا،یہ سب اُن کے مشاہدے کے صدف سے برآمد کردہ گو ہر ہیں جو بازی گر میں بڑی
شائستہ مزاجی سے جھلکتے ہیں۔
سراپا نگاری میں شکیل عادل زادہ سب سے الگ،سب سے منفرد ہیں۔میری نظر میں
ابوالفضل صدیقی کا ،چڑھتا سورج ،بھی ہے بھیا
د ھیر ج بھی اسکے عالوہ اشفاق احمد بھی ہیں،قیصر تمکین بھی ،علی باقر بھی لیکن
قاضی عبدالستار اور شکیل عادل زادہ ،یہ دو فنکار ایسے ہیں جن کی تحریریں قاری پر
بڑے گہرے نقوش چھوڑتی ہیں۔منظر نگاری تو خیر ایک ایسا فن ہے جہاں تخیل کی پرکار
سے بھی آرائش وزیبائش کے اسباب فراہم کئے جاسکتے ہیں۔سراپا نگاری میں تشبیہ کے
بغیرحسن کی تعریف محال ہو جاتی ہے۔تشبیہ سبک ہو تو حُسن رسا نہیں ہوتی،بوجھل ہو
تو ُحسن کو ماند کر دیتی ہے۔خیال لفظ کا پیرہن چاہتاہے۔آنچل سادہ ہو تو کیفیت اور،شکن
درشکن ہو تو تصویر حسن اور،آنچل کسمساتا ہوتو تعریف حسن اور،رنگ قبا اور۔کہیں˜
جوانی کی کوک ہے،کہیں کچی نیند کا خمار ہے،کہیں انگڑائی کی قوس ہے ،خم ہے۔یہ فن
ان دونوں پر تمام ہے۔لیکن ددونوں کے رنگ الگ،طرز الگ،اُٹھان الگ،بیان الگ۔یہی˜
سفاکی تو بسمل کئے دیتی ہے۔ شکیل عادل زادہ کورقص بسمل بہت پسند ہے۔
بازی گر میں شکیل عادل زادہ نے حیدرآبادکے ایک محل کی اندرونی تعمیر اس کی آرائش
وزیبائش کاجس انداز سے ذکر کیا ہے،اُس سے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس محل کے
معمار نے اپنے سارے نقشے ُمہر بند لفافے میں شکیل عادل زادہ کے نام کر دیئے
تھے،اور جن سازشوں کے تار پود بیان کئے ہیں تو لگتاہے’’ فتنوں نے پأوں چوم کے
پوچھا کہاں چلے‘‘ اُس محل کی ستم رسیدہ جوان خاتون ’’خانم ‘‘ کی سراپا نگاری ،اُکی
جھکی ہوئی پلکوں کی ہلکی سی لرزش میں پوری داستاں۔خاموشی میں تکلم کے بھنور،پس˜
چلمن سے سراپا کی قیامت خیزی،خوشبو سے پیام رسانی،آپ بتالئیے کہ لفظ اور خیال کی
ایسی ترسیل کہ جو لکھا جائے وہ صرف نوشتہ ہوکر رہ جائے اور جو نہ کہا جائے وہ
سب کچھ سامنے ہو اور گھائل کردے ،تڑپا کے رکھ د ے پھر مہینوں نہیں برسوں چپ
سادھ لے تو اُسے کیاکہتے ہیں؟
ابھی تو بہت کچھ ہے جو کھال نہیں ۔محمد شکیل سے شکیل عادل زادہ تک اور پھر سب
رنگ تک۔۔۔۔
!!دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک۔