Professional Documents
Culture Documents
کنواری بہن اور خالا زاد بہن
کنواری بہن اور خالا زاد بہن
قسط1...
تحریر ....صادق
میرا نام کاشف ھے میری عمر 24سال ھے یونیورسٹی سے ابھی فارغ ھو کر کام کے سلسلے میں سرکردہ ھوں...میرا جسم
بہت مضبوط اور خوبصورت ھے میں کچھ سال جیم میں لگا چکا ھوں جس کی وجہ سے جسم خوبصورت ھو گیا ھے اس وقت
میرے گھر میں میری بہن جو کہ اب میری سمجھو گھر والی ھے میری امی اور میں اس کے عالوہ کوئ نہیں مگر میں جو
کہانی لکھ رھا ھوں کنواری بہن اور خاالزاد بہن
قسط2..
تحریر ...صادق
مجھے اپنے گھر والوں کی سوچ کے خالف نہیں جانا تھا اس لیے سمیہ کو اپنے سے زیادہ فری نہیں کیا ھاں پسند کرنا الگ
بات ھے اور شادی کے لیے پسند کرنا یہ الگ بات ھے یہ میری خاال زاد تھی مگر ممی پاپا کے خالف بھی تو نہیں جا سکتا
تھا...مگر سمیہ نے مجھے کئ بار یہ جتا دیا تھا کہ وہ مجھے پسند کرتی ھے ھم اکثر بائک پر باھر جاتے کبھی شاپنگ
کرنے کبھی کتابوں کے لیے کبھی کوئ نوٹس لینے کبھی آئسکریم کھانے..جبکہ صبا ان سب سے دور رھتی تھی میں کسی
بھی کام سے باھر جاتا سمیہ میرے ساتھ لد جاتی میرے اور اس کے درمیان بے تکلفی بھی بہت تھی مگر میں نے اسے یہ
کہہ دیا تھا کہ ممی پاپا میرا تم سے رشتہ ھرگز نہیں کرائنگے اس لیے مجھ سے شادی کے خواب مت دیکھنا..وہ اداس
ضرور ھوئ تھی مگر اس کا یہ کہنا تھا کہ جدا ایک دن ھونا ھے تو جتنا وقت ملے اسے غنیمت سمجھ کر خوشی سے پیار
سے جی لینا چاھیے..وہ مجھ پر واری واری جاتی تھی اور اکثر میرے کپڑوں کا خاص خیال رکھتی تھی امی نے میرا کمرہ
الگ کرنے کی کئ بار کوشش کی مگر ھر بار یہ دونوں لڑکیاں بیچ میں اجاتیں کہ نہیں ھمیں ڈر لگے گا ھم ایک ھی کمرے
میں رھیں گے...کسی پارٹی یا تقریب میں جانے کے لیے سمیہ اکثر تیار ھو کر مجھ سے خاص کر پوچھتی کہ میں کیسی لگ
رھی ھوں میں اس کی تعریف کر دیتا کیونکہ میں اسے ناراض نہیں کرنا چاھتا تھا..مگر یہ حقیقت تھی کہ وہ ایک بہت
خوبصورت لڑکی نہ صحیح پر مناسب شکل و صورت کے ساتھ بھر پور جوانی لیے ھوے تھی میری والدین اگر اسے ناپسند
نہیں کرتے تو میں اس سے شادی کر لیتا....یہ میرا خیال بھی رکھتی تھی اور اکثر بیویوں کی طرح مخاطب کرتی نام بہت کم
...اور مجوری کے تحت لیتی تھی ورنہ سنیں..ادھر دیکھیں کا لفظ مجھے ..جاری ھے
کنواری بہن اور خاالزاد بہن
قسط3...
تحریر ...صادق
مجھے انھی ناموں سے مخاطب کرتی تھی اکیلے میں وہ مجھے آریان کہہ کر پکارتی تھی...یہ نام اسے بہت پسند تھا اور یہ
اپنے ھونے والے بچے کا نام آریان رکھنا چاھتی تھی..وہ مجھے آریان کے پاپا پکارنے کی حسرت رکھتی تھی مگر قریب
مستقبل میں ایسا نہیں دکھ رھا تھا تو وہ اپنے اس پسند کے نام سے مجھے پکارتی تھی جو کہ صرف میں جانتا تھا...اور وہ
اس سلسلے میں بہت احتیاط کرتی تھی...ھم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے مگر اس حد تک کبھی نہیں گئے کہ
بدنامی کا خدشہ ھو...سمیہ کے سیمسٹر ھو رھے تھے جس کی تیاری کے سلسلے میں وہ اکثر رات کافی دیر تک پڑھتی
رھتی(کنواری بہن اور خاال زاد بہن..تحریر..صادق) تھی..اس دن پتہ نہیں اسے کے دل میں کیا آیا کہ وہ میرے بیڈ پر آکر
لیٹ گئ اور مجھ سے لپٹ گئ میرے سر پر ھاتھ پھیرنے لگی میں گہری نید سے بیدار ھو گیا تھا اور اس کے بدن کا لمس
محسوس کر رھا تھا میں اسے اس کے پرفیوم سے پہچھان گیا تھا آھستہ آھستہ اس نے مجھے کس کرنا شروع کیا میری ٹی
شرٹ اوپر کر کے میرے پیٹ اور سینے پر ھاتھ پھیرنے لگی کبھی کس کرتی کبھی اپنا چہرہ میرے سینے سے مس کرتی
کبھی زبان پھیرتی میں اس کے ان حرکتوں سے مکمل بیدار ھو گیا تھا مگر انجان بنا لیٹا ھوا تھا زیرو کا بلب لگا ھوا تھا جس
میں اسے کوئ جلدی سے دیکھ نہیں سکتا تھا اور پھر وہ نیچے جاتے جاتے میرے ٹروزر تک پہنچی اس نے اوپر سے ھی
میرے آلہ تناسل کو آھستہ سے پکڑا اور اس پر بڑے ھی پیار سے ھاتھ پھیرنے لگی...سمیہ کے چومنے کے دوران ھی لن
کھڑا ھو گیا تھا مگر میں برداشت کیے لیٹا تھا وہ کچھ دیر ایسے ھی کرتی رھی اور پھر ٹراوزر کو نیچے کھسکا دیا اور لن
ھچکولے کھانے لگا آزاد ھونے کے بعد یہ لن نہ جانے کس مستی میں..جاری ھے وقت سیمہ میری خاالزاد بہن اٹھارہ سال
کی بھر پور رس والی جوانی پھوٹی پڑتی تھی ھمارے ساتھ رھتی تھی جوکہ فیصل آباد رھتی تھی مگر اس کے گھر والوں نے
پڑھائ کے سلسلے میں کراچی بھیجا ھوا تھا اور ھم تینوں مل کر پڑھنے جاتے تھے میں سب میں بڑا تھا صبا مجھ سے ایک
سال چھوٹی تھی 19سال کی یہ سرخ وسفید رنگت والی شرمائ سی نازک بدن مگر بل کھاتی جوانی لیے اسے ھر کوئ ایک
بار دیکھ کر پھر دیکھنے کی کوشش کرتا تھا میری عمر اس وقت 20سال تھی میں گریجیویشن کر رھا تھا فائنل ایئر سیمہ
میڈیکل پڑھ رھی تھی اس کافرسث ائیر تھا جبکہ صبا کو کامرس پسند تھا وہ بی کام کر رھی تھی...ھم تینوں ایک ھی کمرے
میں سوتے تھے الگ الگ بیڈ پر کمرہ کافی بڑا تھا صوفہ سیٹ کتابوں کی الماری ،کمپیوٹر،ایک چھوٹا فریج ساتھ ھی اٹیچ باتھ
سب موجود تھا...میرے والد ایک عرصے سے سعودیہ میں جاب کے سلسلے میں مقیم تھے ھر دو سال بعد ان کا آنا
ھوتاتھا..گھر میں ھم اتنے ھی لوگ رھتے تھے کسی چیز کی کوئ پریشانی نہیں تھی گھر میں استعمال کے لیے کار تھی اور
میرے استمال کے لیے بائک تھی..ھم کالج کار میں جاتے تھے سمیہ کا کالج الگ تھا جبکہ صبا میرے ساتھ ھی کالج میں
..تھی...میں سمیہ کو پسند کرتا تھا مگر میرے گھر والوں نے کبھی سمیہ کو گھر کی بہو بنانے کا نہیں سوچا ...جاری ھے
قسط10...
تحریر ...صادق
سمیہ نے میرے لن پر اپنی گرفت مضبوط کر لی اور بولی لن چوسنے دو پلیز ...میں اس کو جوس پیونگی...میں نے اسے کس
کیا اور چوسنے کی ااجازت دے دی...سمیہ نے تابڑ توڑ چوپا لگانا شروع کیا گلے تک لے رھی تھی کبھی ٹٹوں کو چوس رھی
تھی واہ کیا مزا آرھا تھا میں تو شادی کے پروگرام گیا تھا مگر چال باز سمیہ کیسے ڈرامہ کر کے گھر الئ اور اب میرے لن
پر ٹوٹی ھوئ تھی اس کے تجربہ کار ھونٹوں اور ربان کے کمال نے مجھے منزل پر پہنچا دیا اور سمیہ مزے سے میرے لن
کا پانی پینے لگی مجھے تو لذت کے ایک نئے انداز کا پتہ دیا تھا سمیہ نے...مجھے فارغ کرنے کے بعد بھی سمیہ نے لن کی
چسائ جاری رکھی جس کی وجہ سے میرا لن جلد ھی تیار ھو گیا میں نے سمیہ کے منہ سے لن نکاال اور کہا اس لن کو اپنی
چوت کا مزا لینے دو...سمیہ نے بیڈ پر ایک پالسٹک کی شیٹ بچھا دی اور دراز سے لوشن نکال کر مجھے دی....اسے اچھی
طرح اپنے لن پر لگاو اور میری چوت پر بھی لگا دو..سمیہ یہ کہہ کر بیڈ پر لیٹ گئ..میں نے پہلے اس کے چوت میں اچھی
طرح لوشن لگایا چوت کے اندر سائٹوں پر بھی لگایا.پھر اپنے لن پر لوشن کو اچھی طرح لگایا..اور میں سمیہ کی ٹانگیں پکڑ
کر سیدھی کرنے لگا سمیہ نے میری مدد کی اور ٹانگیں کھول دیں...آجاو میرے راجا...مجھے رانی بنا دو...میں نے گھٹنوں
کے بل اس کی چوت کے پاس بیٹھ کر چوت کے منہ پر لنڈ سیٹ کرنا شروع کیا...اور لن کا ٹوپا چوت میں ڈالنا شروع کیا اور
ھلکا سا دھکا لگایا...اس نے آہ بھری...اس کے چہرےسے تکلیف کے اثار نظر آرھے تھے میں نے اس کے چہرے پر پیار
سے ھاتھ پھیرا وہ شرما گئ...میں نے ایک اور دھکا مارا وہ آدھی بیٹھ گئ اور تکلیف سے سسکیاں لینے لگی...میں نے اسے
...چوما...جاری ھے
دوسری صبح ھم نے گھر پر ھی ٹائم گزاری کیونکہ رات دیر سے آنے کی وجہ سے کالج کی چھٹی مار لی(...کنواری بہن اور
خاالزاد بہن..تحریر ..صادق) صبح امی کو بھی پتہ چل گیا کہ سمیہ واش روم میں سلپ ھو گئ تھی لہذا اب سب کا وقت سمیہ
کے یعنی ھمارے کمرے میں زیادہ وقت گزر رھا تھا..سمیہ کو دوائ گرم دودھ اور بڑی تاکید سے کھانا کھالیا جا رھا تھا..اب
تو جب بھی کوئ سمیہ کے پاس نہ ھوتا تو میرا فالئنگ کس یا قریب جا کر کس کرنا،مموں کو دبانا میرا کھیل بن گیا تھا وہ
مجھے دیکھ کر مسکرا دیتی کچھ نہ کہتی جو کہ مجھے اور شہہ دے رھا تھا..تین دن ایسے ھی گزر گئے...سمیہ کی بڑی آو
بگت ھوتی رھی..چوتھے دن رات کو میں نے سمیہ کو اس کے بیڈ پر جا کر پکڑ لیا...مجھ سے رھا نہیں جا رھا تھا...سمیہ کی
چدائ کے بعد ھمت بڑھ گئ تھی..سمیہ سو رھی تھی میں نے بڑے پیار سے اس کے ماتھے پر کس کیا اور اس کے مموں پر
ھاتھ رکھ کر دبانے لگا..جس سے وہ ھڑ بڑا کر اٹھ بیٹی..میں نے اس کو بانھوں میں کس کر دبایا...اور خاموش رھنے کو
....کہا....جاری ھے
میرے جانے کے بعد گھر میں کام کاج سے فارغ ھو کر صباء نے سمیہ کو کمرے میں بالیا...سمیہ کمرے میں آئ تو صباء نے
کمرے کا لوک لگایا اور اس کا ھاتھ پکڑ کر بولی..مجھے تم سے کچھ پوچھنا ھے وعدہ کرو جو پو چھونگی اس کا صحیح
صحیح جواب دو گی...کیا بات ھے پوچھو جو پوچھنا ھے اس میں اتنی راز داری کی کیا بات ھے سمیہ نے اسے حیرت سے
دیکھ کر کہا...دعورت والے دن میں اور تم ایک ساتھ تیار ھو رھے تھے تم نے اپنے لیے کپڑے نکالے مگر اسے پہنا نہیں
بلکہ تم صرف نقاب لگا کر ھمارے ساتھ چلی گئیں اور وھاں جا کر تم بہانہ بنایا کہ تمھارا ٹیسٹ ھے تیاری کرنی ھے تم بھائ
کے ساتھ چلی آئیں...بتاو میں غلط بول رھی ھوں...صباء نے سمیہ کی جانب غور سے دیکھتے ھوے کہا...صباء کی بات سن
کر سمیہ گھبرا سی گئ..تم کیا کہہ رھی ھو...ایسا نہیں..ھے..اس کء منہ سے گھبراھٹ میں نکال...تم جھوٹ بول رھی ھو
تمھاری زبان تمھارا ساتھ نہیں دے رھی...صباء نے اس کے ھاتھ پر دباو ڈاال..اور اسے کس کے پکڑ کر اپنی جانب کیا ..جاری
ھے
...