You are on page 1of 1

‫تھا لیٹا ہی دے مگر میں ایسے پہننا شروع کر ریحانہ باجی نے بھی کپڑے دیکھی دیکھا انکی لگیں

پہننے اور اپنے کپڑے‪. .‬‬


‫کہا چلو اور جاتے ہووے مجہے کہا باجی کو ریحانہ پھر فرزانہ باجی نے سکوں میں اٹھ تھی کے مجھ میں اتنی ہمت نہی‪, .‬‬
‫‪ .‬لینا کچھ کھا‬
‫‪ .‬تھی کے خود کو صاف کروں مجھ میں اتنی ہمت نہی سو گیا لیٹے لیٹے میں ایسے ہی‪.‬‬
‫سرسری میں نے تھے پر موجود کھانے کی میز تائی ہی تو صرف میں اور پر پہنچا میز تو نہا کے ناشتے کی صبح اٹھا‪.‬‬
‫‪ .‬آرہیں ریحانہ باجی نظر نہی آج تائی پوچھا سے انداز میں!‬
‫‪.‬طبیعت خراب ہے دونوں کی آج ان بیٹے‬
‫‪ .‬دیا ہے سے انکار کر دونوں نے اٹھنے تھی مگر دونوں کو اٹھانے گئی تو میں‬
‫‪ .‬ہی ایسی تو ہے نسل آج کل کی اور ناشتہ کرو تم ان دونوں کو خیر چھوڑو‪.‬‬
‫‪ .‬ہے سے اٹھنا عادت بن گئی دیر دیکھنا اور ٹی وی رات ساری ساری‬
‫‪.‬پڑا آفس کی طرف نکل میں نے ناشتہ کیا اور‬
‫بلکے میرا موڈ نہایت ہی خوشگوار تھا آج اسکا نام و نشان نہی تھا دل میں گھر کر چکا ڈر میرے سے جو دن دو پچھلے‪.‬‬
‫‪ .‬تھا‬
‫تھیں سکتی کو کچھ نہی بتا فرزانہ باجی کسی اب تھا ڈر نہی بعد مجہے کوئی تھا اس کے چکا رات ہو پچھلی جو کچھ‪.‬‬
‫‪.‬‬
‫سے تھی کے جو مزہ انھیں مجھ مجہے امید تھا سے چاہیے تو انھیں مجھ ڈرنا تھیں پہ رحم و کرم بلکے اب وہ میرے‪. .‬‬
‫‪ .‬تھیں سکتی رہ ہی نہی تھا اب وہ اس کی بغیر مال‬
‫مگر اصل مسلہ جاؤں گا فرزانہ باجی کو چودنے میں کامیاب ہو تو میں جلد ہی آگے چلی اگر بات تھی کے مجہے امید‪.‬‬
‫‪ .‬تھا ریحانہ باجی کا‬
‫‪ .‬پڑے گی پر محنت کرنی ان لگا کے مجہے تھیں رہیں دے ہی نہی وہ کھل کے‪.‬‬
‫سیدھا اپنے کمرے میں پہنچ کے گھر تھا آیا سے ہی کھا رات کا کھانا باہر میں دن گزر گیا سوچتے ہووے خیر یہی‪. .‬‬
‫‪ .‬گھس گیا‬
‫لہ ذا رات بھر جاگنا ہوگا مجہے تھا کہ مجہے علم سو گیا آتے ہی میں کمرے میں‪. . .‬‬ ‫آنکھ میری تھا آرام کرنا ضروری ٰ‬
‫میں نے لگا خیر میں انتظار کرنے آیا تک کیوں نہی ابھی آج کوئی تھا کے میں حیران بجے کے بعد کھلی بارہ‪. . .‬‬
‫‪ .‬لگ گیا دیکھنے پورن مووی آن کیا اور کمپیوٹر‬
‫آرہا پڑتا نظر پانی پہ مجہے اپنی امیدوں تھا تک کوئی نام و نشان نہ دور دور ریحانہ باجی کا فرزانہ اور دو بج گیے مگر‪.‬‬
‫‪ .‬تھا‬
‫‪ .‬دستک ہوئی ڈری ڈری پہ دروازے ڈھائی بجے میری کوئی‬
‫فرزانہ مطابق میرے خیال کے گیا دیکھ کے حیران ہو میں انھیں تھیں سامنے کھڑی باجی ریحانہ تو دروازہ کھوال میں نے‪. .‬‬
‫‪ .‬تھا آنا چاہیے باجی کو‬
‫‪ .‬دیا راستہ سے ہٹ کے دروازے خیر میں نے‬
‫‪ .‬آکے کھڑی ہو گئیں مگر کچھ بولی نہی باجی اندر ریحانہ‬
‫‪ .‬لگا دیکھنے آنے والی انداز میں ان کی طرف سمجھ میں کچھ نہ‬
‫ریحانہ باجی نے بڑی تھا پہ حیران میں انکی حالت تھیں رہی سے مل دوسرے دونوں ہاتھ ایک باجی اپنے ریحانہ‪. .‬‬
‫‪ .‬سے کہا مشکل‬
‫ہوں پہ شرمندہ واقعہ زاہد میں کل کے‬
‫تم مجہے امید ہے آگے نکل گنے مگر ہم کافی تھا تنگ کرنا سا تھوڑا تمہیں صرف کل جو کچھ ہوا اس میں ہمارا مقصد‪. .‬‬
‫‪ .‬رہے گا درمیان تینوں کے اور کل جو کچھ ہوا وو صرف ہم دو گے ہمیں معاف کر‬
‫‪ .‬حل ہو گیا سارا معمہ ذہن میں دم میرے پھر یک رہ گیا سن کے حیران میں انکے الفاظ‪.‬‬
‫‪ .‬زیادتی کی ہے سے تھی کے انھوں نے مجھ رہیں سمجھ دونوں یہ ریحانہ باجی باجی اور فرزانہ کل کے بعد‬
‫‪.‬دوں کو بتا نہ میں کسی تھیں کے ڈر رہی اور‬
‫‪.‬رہنا چاہیے قائم ڈر ذرا تو اچھا ہے رہیں ہیں ڈر سوچا اگر یہ میں نے‬
‫‪.‬ریحانہ باجی کو کہا رونے واال بنایا اور سے اپنا منہ میں نے جلدی‬
‫میں یہ سوچا ہے کے میں نے رہا پا سے نظریں نہی مال تو میں خود ساتھ کیا اسکے بعد آپ لوگوں نے میرے کل جو کچھ‪.‬‬
‫‪ .‬رہنا اب مناسب نہی ہے چال جاؤں میرا یہاں گھر چھوڑ کے‬
‫‪ .‬پوچھا ریحانہ باجی نے مگر کیوں‬
‫‪ .‬ہے یہاں لوٹی گئی میری عزت رہے گا کے رہوں گا مجہے احساس ہوتا تک یہاں ریحانہ باجی میں جب‬
‫‪ .‬تو کیا کہو گے آ گنے تم واپس کیوں پوچھا کے تمھارے گھر والوں نے اور اگر‬
‫‪ .‬راستہ نہی ہے سوا کوئی سچ بولنے کے پاسس تو میرے دیا زور زیادہ سوچا نہی ہے مگر اگر انھوں نے میں نے ابھی یہ‬
‫‪.‬تم مت جاؤ سے معافی مانگتی ہو تم زاہد میں دیکھو رونے والی انداز میں ریحانہ باجی نے‬
‫‪ .‬سکتے سے نہی بھر آسانی لگے ہیں وہ اتنی پہ روح زخم میری سکتا جو میں نے کہا نہی یہ نہی ہو‬
‫‪ .‬پر بیٹھ گئیں اور مجہے کہا بیٹھو پھر وہ کرسی ریحانہ باجی چپ ہو گئیں‪.‬‬
‫‪ .‬میں نے اچانک ان سے کہا دیر باتیں کیں ہم نے کافی لگیں باتیں کرنے سے ادھر ادھر کی پھر وہ مجھ اور‪. .‬‬
‫‪ .‬پوچھو انھوں نے کہا ہاں پوچھوں سے ایک بات آپ ریحانہ باجی میں‪.‬‬
‫‪ .‬سیکس کوئی نئی چیز نہی ہے لئے فرزانہ باجی کے لگا جیسے سارے حادثے میں مجہے کل کے‬
‫فیلو فرزانہ باجی کے ایک کالس دوران پڑھائی کے انھوں نے کہا ہاں دوڑ گئی پر ایک مسکراہٹ ریحانہ باجی کے چہرے‪! .‬‬
‫تو وہ انھیں دیا سب کچھ ان کے حوالے کر باجی نے انھوں نے اپنا فرزانہ پھر جب تھا رچایا ڈھونگ پیار کا سے نے ان‪.‬‬
‫‪ .‬تھے دوست اچھے تو کے چھوڑ گیا کے ہم یہ کہہ‬
‫‪.‬تھیں مکھ تو بڑی ہنس پھلے گئی ہیں فرزانہ باجی ایسی ہو دن سے بس اسی‪.‬‬

You might also like