You are on page 1of 1267

‫از ‪ :‬ابن نصیر‬

‫قسط نمبر ‪01‬‬


‫ٓاج پھر سکندر اپنی سوچوں کے سمندر میں چلتے چلتے گھر‬
‫سے بہت دور نکل ٓایا تھا۔۔۔یہ سکندر کا روز کا کام ہو گیا تھا‬
‫جیسے ہی دفتر سے گھر پہنچتا ۔۔بائیک کھڑی کرتا اور گھر‬
‫کو الک کرکے باہر ایویں ہی چل پڑتا ۔۔۔اس کی کوئی سمت‬
‫کوئی منزل نہیں ہوتی۔۔۔جیسے سیالبی پانی میں بہتے جسم‬
‫کا منزل کا تعین پانی کرتا ہے ویسے ہی سکندر کی منزل کا‬
‫تعین اس کی سوچیں کرتی۔۔۔جب وہ سوچوں کے سمندر سے‬
‫نکلتا تو اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا اور پھر کوئی مناسب جگہ‬
‫بیٹھ کر اپنی تھکن اتارتا ۔۔۔جب شام کو سورج خود کو‬
‫تاریکی میں چھپا لیتا تو دوبارہ اپنے گھر کی جانب چل پڑتا‬
‫۔۔کبھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ سکندر راستہ بھٹک جاتا اور‬
‫پوچھتے پچھاتے وہ گھر پہنچ جاتا لیکن اس میں بھی‬
‫سکندر کا وقت ضائع ہو جاتا لیکن وقت کا ضائع ہونا اس کے‬
‫لیے کوئی اہم بات نہیں ہوتی کیونکہ وہ چاہتا یہی تھا کہ‬
‫وقت گزرے اور اتنی تیزی سے گزرے کہ اس کی موت کا‬
‫وقت ٓا جائے۔۔۔‬
‫_______________________________________________‬
‫چند سال پہلے سکندر ایک خوش باش انسان ہوا کرتا تھا‬
‫جس کی مسکراہٹ ہر اس انسان کی زندگی بن جاتا تھا جو‬
‫اس سے مل لیتا تھا۔۔۔۔‬
‫سکندر ایک نجی فرم میں کام کرنے واال ایک ایماندر ‪ ،‬ہونہار‬
‫اور نہاہت ہی قابل مالزم تھا جس کی قابلیت کے چرچے‬
‫پورے فرم میں مشہور تھے ۔۔وہ فرم کی ہر مالزم کی دل‬
‫عزیز شخصیت ہوا کرتا تھا ۔۔وہ تھا تو ایک کلرک لیکن جب‬
‫کبھی کسی کو بھی فرم میں کوئی مشکالت پیش ٓاتی ۔۔‬
‫سکندر اس مشکل کو حل کرنے کے لیے موجود ہوتا ۔۔چاہے وہ‬
‫مشکل فرم کے کام کے سلسلے میں ہوتی یا پھر کوئی نجی‬
‫مسلئہ ۔۔۔کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ فرم کے مالزمین کو‬
‫مالی مشکالت کا سامنا ہوا لیکن سکندر نے دوسرے کو دکھ‬
‫اور پریشانی کو اپنا دکھ سمجھ کر لوگوں کی مالی امداد‬
‫کی ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سکندر کے گن نہ صرف فرم کا عملہ‬
‫گاتا تھا بلکہ اس کے جان پہنچان کے جنتے بھی لوگ تھے وہ‬
‫سب سکندر کو دل سے چاہتے تھے۔۔۔‬
‫لیکن پھر ایسا ہوا کہ ایک کار ایکیسیڈنٹ میں پوری فیملی‬
‫کے چلے جانے کے بعد اس کی زندگی میں تاریکی نے ڈیرے‬
‫ڈال لیے۔۔۔اب فرم کے کاموں میں نہ اس کا دل لگتا اور نہ ہی‬
‫گھر کا ماحول اسے سکون دے پا رہا تھا۔۔جس کی وجہ سے‬
‫وہ اپنے کام اور لوگوں سے بھاگتا پھر رہا تھا۔۔۔۔‬
‫_______________________________________________‬
‫ٓاج جب سکندر کو ہوش ٓایا تو ہمیشہ کی طرح گھر سے بے‬
‫سمت نکل ٓایا تھا لیکن اس بار بارش نے اس کا ساتھ دینے‬
‫کی ٹھان لی تھی۔۔۔سکندر کو ہوش ٓایا تو اس کا پورا لباس‬
‫بارش کے پانی میں بھیگ چکا تھا۔۔۔اب وہ کوئی ایسا ٹھکانہ‬
‫ڈھونڈ رہا تھا جہاں وہ خود کو بارش سے محفوظ رکھ سکے‬
‫لیکن پتا نہیں یہ کونسی جگہ تھی کہ جہاں دور دور تک‬
‫ایک میدان تھا جس کی سڑک پر چل پڑا تھا ۔۔۔کہیں کوئی‬
‫ایسی چھت نظر نہیں ٓا رہی تھی کہ جہاں وہ کچھ دیر رک‬
‫سکے۔۔۔ٓاخر الچار ہو کر اس نے سڑ ک چھوڑ دی اور اپنے قدم‬
‫قریب کے ایک گھنے درخت کی جانب بڑھا دیے۔۔اب یہ‬
‫درخت ہی ایک ایسی چھت تھی جس کے نیچے وہ خود کو‬
‫کسی حد تک بارش سے بچا سکتا تھا۔۔۔۔درخت کے نیچے‬
‫پہنچ کر اس نے اپنی جیکٹ اتار دی اور پھر ایک بڑے پھتر‬
‫پر بیٹھ گیا ۔۔۔بیٹھے ہی اس کو سوچوں نے‪  ‬دوبارہ اپنے جال‬
‫میں پھنسا دیا۔۔۔کبھی وہ سوچتا ہے کہ ٓاخر وہ کیوں اتنا‬
‫سوچتا ہے کیا ہے جو اسے سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور‬
‫کیوں وہ خود کو سوچنے سے نہیں روک پا رہا ہے۔۔۔اس کے‬
‫دماغ میں عجیب سی سوچوں چل رہی ہوتی ہیں۔۔کبھی وہ‬
‫اپنے ماں باپ کے غم میں کھو جاتا ہے تو کبھی اسے اکلوتی‬
‫بہن کی شرارتی اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔۔کبھی وہ‬
‫لوگوں کے مطلبی رویوں سے عاجر ٓا جاتا ہے تو کبھی اہلل‬
‫سے شکوہ کرتا ہے کہ ٓاخر اہلل نے اسے ایسی زندگی کیوں دی‬
‫ہے۔۔۔‬
‫کیا ہوا بالک ۔۔۔یہاں اس ویرانے مین‪  ‬بارش میں کیوں بھیگ‬
‫رہے ہوں۔۔گھر نہیں ہے کیا تمہارا؟ ایک انجانی سی ٓاواز نے‬
‫سکندر کو سوچوں کے سمندر سے نکال کر حقیقی زندگی‬
‫میں ال کھڑا کیا۔۔۔ اس نے نگاہ اٹھا کر دیکھا تو ایک عجیب و‬
‫غریب کا انسان اس کی دائیں جانب کھڑا تھا۔۔جس کے جسم‬
‫پر لباس نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔وہ اپنے شکل و صورت اور‬
‫حلیے سے ہندو لگ رہا تھا۔۔۔قریب قریب کوئی ٓابادی بھی‬
‫نہیں تھی جس سے لگتا کہ وہ یہاں کا باسی ہے لیکن اس‬
‫ویرانے میں اس انسان کا موجودگی نے سکندر کو چند‬
‫لمحوں میں سوچنے میں مجبور کر دیا۔۔لیکن اس نے سوال‬
‫کا جواب دینا مناسب سمجھا۔۔۔۔‬
‫ایسی ہی گھومتے پھرتے یہاں تک ٓا گیا لیکن بارش کی وجہ‬
‫سے رکنا پڑا اور اب بارش کے تھم جانے کا انتظار کر رہا‬
‫‪ ‬ہوں۔۔۔ٓاپ کون ہو؟‬
‫میرے بار ے میں جان کر تم کیا کرو گے بالک لیکن میں‬
‫تمہیں اپنا نام بتا دیتا ہوں ۔۔میرا نام مدھور ہے اور میں یہاں‬
‫سے گزر رہا تھا تو تمہیں دیکھ لیا ۔۔سوچا کہ تم سے پوچھ‬
‫لوں کہ یہاں کیوں بیٹھےہو۔۔۔۔‬
‫ٓاپ کو بتایا تو صحیح کہ گھومتے پھرتے یہاں تک ٓا گیا۔۔۔۔‬
‫سکندر نے بیزاری سے جواب دیا۔۔۔وہ اب اس ہندو انسان کی‬
‫موجودگی سے عاجز ہونا شروع ہو گیا۔۔۔اس کا دل کر رہا تھا‬
‫کہ یہ انسان جلد سے جلد یہاں سے چال جائے۔۔۔تاکہ وہ اپنے‬
‫گھر کی راستہ تالش کرکے چل پڑے۔۔۔‬
‫ایک بات کہوں بالک اگر ُبرا نہ لگے تمہیں؟‬
‫جی کہو۔۔۔۔۔۔۔۔سکندر کی نگائیں اب سڑک کی جانب دیکھ‬
‫رہی تھیں اور اس نے جواب بھی بنا اس کی جانب دیکھے‬
‫دیا تھا۔۔۔۔‬
‫مجھے لگ رہا ہے کہ تم پریشان ہو۔۔۔اگر تم برا نہ سمجھو تو‬
‫میں تمہاری کوئی مدد کروں۔۔۔پنڈت نما اس ہندو انسان نے‬
‫سکندر کو مدد کی پیشکش کی۔۔۔‬
‫ٓاپ میری کیا مدد کر سکتے ہو۔۔۔سکندر نے سوال کیا‬
‫کوئی بھی مدد ۔۔۔کچھ بھی ۔۔۔۔تم بتاو تو ذرا ۔۔۔تمہیں کیا‬
‫مسلئہ ہے ۔۔۔دولت چاہیے ۔۔۔لڑکی کا مسلئہ ہے یا پھر نوکری ۔۔‬
‫کچھ بھی بس تم مجھے بتاو کہ تم کیوں پریشان ہو۔۔۔‬
‫پنڈت کی ٖٓا فر سن کر سکندر دل ہی دل مین مسکرا دیا ۔۔۔اس‬
‫نے دوبارہ ایک بھرپور نگاہ اس پنڈت پر ڈالی جس کے‬
‫پیروں میں کوئی جوتے نہیں تھے اور کپڑے بھی نہ ہونے کے‬
‫برابر لیکن وہ پیشکش کچھ ایسے کر رہا تھا کہ کسی‬
‫سلطنت کا بادشاہ ہو۔۔۔‬
‫بابا مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے بس گھومتے‬
‫پھرتے یہاں تک ٓا گیا تھا اب رات ہوتی جا رہی ہے اور مجھے‬
‫چلنا ہے اسی لیے مجھے اجازت دیں۔۔سکندر اپنی جگہ سے‬
‫اٹھ کھڑا۔۔۔‬
‫دیکھو بالک ۔۔۔میں جانتا ہوں تم پریشان ہو اور ٹھیک ہے تم‬
‫مجھے اپنے پریشانی نہین بتا رہے لیکن اگر بتا دو تو میں‬
‫اوش تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔۔۔‬
‫لیکن سکندر نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا۔۔۔اور درخت‬
‫کی چھت چھوڑ کر اپنے قدم سڑک کی جانب بڑھا لیے ۔۔۔‬
‫سڑک پر پہنچ کر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ پنڈت‬
‫درخت کے نیچے موجود نہیں تھا۔۔اس نے ایسے ہی چاروں‬
‫جانب مڑ کر دیکھا لیکن دور دور تک بس یہ سڑک تھی اور‬
‫کچھ نہیں تھا۔۔۔۔‬
‫شکر ہے چال گیا ۔۔۔سکندر نے یہ سوچ کر اہلل کا شکر کیا۔۔‬
‫لیکن جیسے ہی اس نے کچھ قدم بڑھائے وہ اچانک رک سا‬
‫گیا۔۔ایک خیال اس کے ذہن میں اچانک سے ٓا گیا ۔۔۔ جب وہ‬
‫پنڈت کو دیکھ رہا تھا تو اس کے پاوں میں جوتے نہیں تھے‬
‫لیکن اس کے پاوں خشک تھے۔۔یہ کیسے ممکن ہے۔۔۔؟؟؟ اس‬
‫نے خود سے سوال کیا۔۔لیکن پھر اس کے ذہن سے خود سے‬
‫جواب بنا لیا۔۔شاید وہ بارش کے شروع ہونے سے پہلے ہی‬
‫درخت کے نیچے ٓا گیا ہو گا۔۔۔لیکن بارش کا پانی تو درخت‬
‫کے نیچے بھی ٓا رہا تھا تو اس پنڈت کے پاوں گیلے کیوں‬
‫نہیں ہوئے۔۔ ذہن کے سوال جواب نے سکندر کو ماوف کر دیا‬
‫اور پھر اس نے سر جھٹک کر سڑک پکڑ لی۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم نے روز کی طرح آج بھی‪  ‬اپنا تخت سمندر پر‬
‫لگا رکھا تھا اور اس کا قابل چیال ایموڈیس اسے آج کی اپنی‬
‫رپورٹ پیش کر رہا تھا۔۔ایموڈیس شیطانی دنیا کا سب سے‬
‫خطرناک مہرہ ہے جس کا کام لوگوں میں زنا اور بے حیائی‬
‫پھیالنا ہے ۔۔آج کے جدید دور میں ایموڈیس کا کام بہت بڑھ‬
‫چکا تھا اور اس کے کارناموں کی تعداد کروڑوں میں نہیں‬
‫بلکہ اربوں میں ہے ۔۔۔کوئی ایسا دن نہیں جس دن ایموڈیس‬
‫نے لوگوں کو گمراہ نہ کیا ہو۔۔۔‬
‫مانا کہ تمہارے کارناموں کی تعداد اربوں میں ہے لیکن مجھے‬
‫میرا مطلوبہ کام ابھی تک تم نہیں دے رہے ہو۔۔مجھے کام‬
‫چاہیے کام۔۔۔سمجھے تم۔۔۔۔۔۔شیطان اعظم نے قہر برساتے‬
‫لہجے میں کہا‬
‫ایموڈیس کو شیطان اعظم کے غلیظ منہ سے جھاگ نکلتی‬
‫نظر آ رہی تھی لیکن وہ جانتا ہے کہ شیطان اعظم کو خوش‬
‫کرنا اس کے لیے بہت مشکل ہے لیکن وہ کر بھی کیا سکتا ہے‬
‫اس لیے روز کی جھڑکیاں سننا اس کا معمول تھا‬
‫تم نے سنا نہیں میں نے تم سے کیا کہا ہے۔۔۔شیطان اعظم نے‬
‫اپنی چھڑی کو تخت پر مارتے ہوئے کہا۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ میں نیک اور‬
‫شادی شدہ لوگوں کو گمراہ کروں ۔۔۔ان کو نکاح جیسے عظیم‬
‫رشتے کا تقدس مجروع کراؤں ۔۔۔لیکن اول تو شادی شدہ‬
‫لوگ بہت کم ہیں جو زنا اور بے حیائی کے کام کرتے ہیں اور‬
‫جو کرتے ہیں ان میں سے بہت راہ راست پر آ جاتے ہیں۔۔۔‬
‫مجھے یہ سب نہیں سننا ۔۔۔۔مجھے لوگوں کو اور مسلمانوں‬
‫کو جہنم میں اپنا ساتھی بنانا ہے۔۔۔۔مجھے اچھا لگتا ہے جب‬
‫کسی اہل کتاب کے گھر میں طالق ہوتی ہے۔۔۔مجھے خوشی‬
‫ہوتی ہے جب لوگ اپنے خونی رشتوں کے ساتھ زنا کرتے ہیں‬
‫۔۔۔مجھے خوشی ہوتی ہے جب لوگ اپنے رب سے کیے گئے‬
‫وعدہ کو بھول جاتے ہیں۔۔۔۔سمجھے تم‬
‫جی جی سمجھ گیا۔۔۔ایموڈیس نے بوکھالتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫اب دفع ہو جاؤ میری نظروں سے۔۔اگلی دفعہ یہ پرانی‬
‫بکواس نہیں سنانا۔۔۔جو میں نے کہا ہے وہ یاد رکھنا۔۔یہ کہہ‬
‫کر شیطان اعظم سمندر کی اڑتی لہروں کو دیکھنا لگا اور‬
‫ایموڈیس سر جھکائے الٹے قدم لوٹ آیا۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاہ جنات کی سواری اس وقت عقبر کے جنگالت سے نکل‬
‫کر‪  ‬انسانی آبادیوں کے اوپر سے گزر رہی تھی‪  ‬۔۔۔ایک ہجوم‬
‫تھا جنوں کا جو قطار در قطار شاہ جنات کی سواری کے آگے‬
‫پیچھے اور دائیں بائیں‪  ‬اڑ رہے تھے ۔۔۔۔‬
‫آج شاہ جنات کے بیٹے کا نکاح ہےاور یہ سب اسی سلسے‬
‫میں جا رہے ہیں۔۔۔سب جنوں اور جنیوں نے چمکیلے لباس‬
‫پہن رکھے تھے اور خوشی ان سب کے چہرےپر نظر آرہی‬
‫ہے۔۔۔آخر کیوں نا خوش ہوتے ۔۔انکے شہزادے الباس کا نکاح‬
‫ہے اور شہزادہ الباس شروع دن سے سب کی آنکھوں کا تارا‬
‫تھا ۔۔۔کوئی ایسا جن نہیں تھا جس کی آنکھوں کا تارا‬
‫شہزادہ الباس نہ ہو۔۔۔کوئی ایسا نوجوان جن نہیں تھا جس‬
‫کی دوستی شہزادے سے نہ ہو۔۔۔کوئی ایسی جننی نہیں تھی‬
‫جس کی آہیں شہزادے کے لیے نہ نکلی ہوں۔۔۔۔لیکن وہ سب‬
‫جانتی تھیں کہ شہزادے کی دوستی اور قربت صرف اس‬
‫کے دوست جن اور اس کی ہونے والی بیوی ہی حاصل کرے‬
‫گی۔۔۔۔‬
‫آسمانوں کی بلندیوں پر ایک ہجوم تھا جو روشنی کی تیزی‬
‫سے سفر کر رہا تھا۔۔۔اچانک مغرب کی جانب سے ایک روشنی‬
‫چمکی جسے ہر جن اور جننی نے دیکھا۔۔۔اور دیکھتے ہی پورا‬
‫قافلہ جہاں تھا وہیں رک گیا۔۔۔۔کیونکہ شاہ جنات بھی یہ‬
‫دیکھ کر رک گئے تھے۔۔۔۔وہ کالے چغے میں چہرے پر سفید‬
‫داڈھی سجائے اپنے ہم سفر کے ساتھ ساتھ اڑ رہے تھے کہ‬
‫روشنی چمکی تھی۔۔۔شاہ جنات کو رکھتے دیکھ کر وزیر‬
‫کرکوس آگے بڑھا۔۔۔۔‬
‫کرکوس یہ تھا ۔۔۔کیا تم نے بھی دیکھا ؟‬
‫جی شاہ جنات ۔۔۔۔میں بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔۔۔‬
‫آسمان میں ایسی روشنی کا نظر آنا بہت عجیب بات ہے۔۔۔۔‬
‫ایسا کرو ۔۔۔جلد سے جلد شاطر کو بھیجو اور معلوم کرو کہ‬
‫یہ کیا ہے۔۔۔‬
‫جی شاہ جنات ۔۔ ابھی شاطر کو بھیجتا ہوں معلوم کرنے کے‬
‫لیے۔۔۔۔۔۔وزیر کرکوس نے آداب بجا التے ہوئے کہا۔۔۔۔‬
‫_____________________________________________‪ ‬‬
‫اگلی قسط میں جانیے‬
‫کیا ہندو پنڈت کی دوبارہ سکندر سے مالقات ہوگی؟ *‬
‫کیا وہ سچ میں کوئی انسان تھا؟*‬
‫کیا سکندر اس سے مدد کے لیے سوال کرے گا؟‬
‫کیا وہ سکندر کی کوئی مدد کر سکے گا؟‬
‫سکندر کہیں ذہنی دباو کی وجہ سے موت کو گلے نہیں لگا لے‬
‫گا؟‬
‫آسمان سے چمکتی روشنی کا کیا چکر تھا؟‬
‫کیا شاطر روشنی کا راز معلوم کر پائے گا؟‬
‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک خطرناک مگر‬
‫چاالکیوں میں گھری سکندر اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے‬
‫کیے آپ کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے ضرور‬
‫آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪next kon kon read kra ga very intressting‬‬
‫‪novelEpisode  2‬‬

‫‪ ‬گزشتہ قسط کا خالصہ‬


‫سکندر اپنے زہنی دباؤ کی وجہ سے فارغ وقت باہر گزارتا *‬
‫ہے۔۔‬
‫ا یک دن‪  ‬انجان جگہ پر سکندر کی مالقات ایک پنڈت سے*‬
‫ہوتی ہے‬
‫پنڈت سکندر کو مدد کی پیشکش کرتا ہے جسے سکندر*‬
‫ٹھکرا دیتا ہے‬
‫سکندر پنڈت کے خشک پاؤں دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے*‬
‫‪ ‬شیطان اعظم ایموڈیس کی کارکردگی پر غصہ ہوتا ہے*‬
‫شاہ جنات اپنے بیٹے کی شادی کرنے جا رہا ہوتا ہے کہ*‬
‫آسمان پر ایک عجیب سی بجلی چمکتی دیکھی جاتی ہے‬
‫شاطر کو بجلی چمکنے کی وجہ جاننے کے لیے بھیجا جاتا*‬
‫ہے‬
‫اب آگے پڑھیے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫‪ ‬سفرینا‬
‫از ‪ :‬ابن نصیر‬
‫قسط نمبر ‪02‬۔۔۔۔۔۔‬
‫سکندر کچھ دن سے‪  ‬میں دیکھ رہا ہوں کہ تمیں اب کام میں‬
‫کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ نہ ہی تم وقت پر ٓافس ٓاتے ہو اور‬
‫کام کرتے وقت بھی تم کسی سوچ میں گم ہو کر گھنٹوں‬
‫ٹیبل پر خاموش بیٹھے رہتے ہو۔۔۔کیا تم مجھے بتا‪  ‬سکتے ہو‬
‫کہ تمہیں کیا پرابلم ہے۔۔۔فرم کے مینیجر نے سکندر کو اپنی‬
‫ٓافس میں بال لیا تھا اور اب اس سے اس کے موجودہ حاالت‬
‫کے متعلق پوچھ رہا ہے۔۔۔‬
‫باس مجھے خود بھی سمجھ نہیں ٓا رہی ہے کہ میرے ساتھ‬
‫ایسا کیوں ہو رہا ہے۔۔۔میں جتنا ہی خیالی دنیا سے نکلنے کی‬
‫کوشش کرتا ہوں اتنا ہی اس دنیا میں پھنستا جا رہا ہوں۔۔۔‬
‫مجھے معلوم ہے کہ میں اس طرح خود کو برباد کر لوں گا‬
‫لیکن مجھے سمجھ نہیں ٓا رہی ہے کہ میں کیا کروں۔۔۔‬
‫کیا مطلب ۔۔برباد کر لوں گا۔۔۔تم خود کو برباد کر چکے ہو۔۔۔‬
‫مجھے تو سمجھ نہیں ٓا رہی کہ تمہارے جیسا انٹیلیجنٹ‬
‫انسان ٓاخر ایسے کیسے کر سکتا ہے۔۔تمہارے سامنے تمہارا‬
‫فیوچر پڑا ہے۔۔میں جانتا ہوں کہ تم اپنی فیملی کھو چکے‬
‫ہو۔۔لیکن سکندر میری ایک نصحیت یاد رکھنا۔۔۔کسی انسان‬
‫کے چلے جانے کے بعد بھی زندگی چلتی رہتی ہے۔۔تم خود کو‬
‫دیکھو۔۔۔اپنا فیوچر دیکھو۔۔ابھی تم ماشا اہلل سے جوان ہو۔۔‬
‫تمہیں ٓاگے بہت کام کرنے ہیں۔۔ایسا مت کرو اپنے ساتھ۔۔۔۔‬
‫سمجھ ٓائی میری بات۔۔۔‬
‫جی سر۔۔۔میں کوشش کروں گا کہ میں خود کو بدل ڈالوں‬
‫اور ٓائندہ سے ٓاپ کو کام کے سلسلے میں کوئی شکایت نہ‬
‫ہو۔۔۔۔‬
‫گڈ۔۔۔میں بھی تم سے یہی چاہتا ہوں۔۔۔اچھا مجھے خلیل‬
‫صاحب کے ٹینڈر کی فائل دو۔۔۔مجھے دیکھنا ہے کہ ہمیں یہ‬
‫ٹینڈر لینا چاہیے یا نہیں۔۔۔‬
‫اوکے سر ۔۔۔میں ابھی التا ہوں۔۔یہ کہہ کر سکندر واپس مڑ‬
‫گیا۔۔۔۔‬
‫_____________________________________‬
‫سکندر نے بائیک ٓافس سے باہر نکالی اور گھر کی جانب والی‬
‫سڑک پر مڑ گیا۔۔۔اس وقت دن کے چار بج چکے تھے۔۔۔اور‬
‫سکندر سوچ رہا تھا کہ ٓاج اس نے کہاں جانا ہے۔۔۔ابھی‬
‫سکندر گھر سے چند گلیاں دور تھا کہ ایک جگہ پر لوگوں کو‬
‫ہجوم دیکھ کر سکندر نے بائیک کی رفتار کم کر لی۔۔۔‬
‫لوگ ایک دائرے کی صورت میں کھڑے تھے جس کی وجہ‬
‫سے سکندر سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ٓاخر ہوا کیا ہے۔۔۔سکندر‬
‫نے بائیک ہجوم کے قریب روک لی اور الک کرکے ہجوم کی‬
‫بھیڑ میں چال گیا۔۔۔کسی غریب انسان کو گرمی نے مارا تھا۔۔۔‬
‫اور کچھ لوگ اس غریب انسان کے چہرے پر پانی کے‬
‫چھینٹے مار رہے تھے۔۔۔کچھ مشورہ دے رہے تھے کہ اسے‬
‫کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے اور کچھ کہہ رہے تھے کہ‬
‫ہسپتال لے جانا چاہیے۔۔۔پھر مشترکہ صلح مشورے سے اس‬
‫غریب انسان کو پرائیوٹ گاڑی میں ہسپتال لے جایا گیا۔۔۔‬
‫سکندر نے اس پورے معاملہ میں کوئی بات نہیں کی۔۔۔گاڑی‬
‫کے چلے جانے کے بعد سکندر اپنی بائیک کی جانب چل پڑا ۔۔‬
‫ابھی بائیک پر بیٹھ کر اس نے کک نہیں ماری کہ ایک‪ ‬‬
‫مانوس ٓاواز پر اس نے‪  ‬کک پر رکھا پاوں سڑک پر رکھ دیا۔۔۔۔‬
‫بالک ۔۔۔۔کیسے ہو‬
‫سکندر نے مڑ کر دیکھا تو گزشتہ شام واال ہنڈو پنڈت اس کے‬
‫پیچے کھڑا ہوا تھا۔۔‬
‫میں ٹھیک ہوں۔۔۔سکندر نے مختصر جواب دیا۔۔۔۔‬
‫میں نے سنا ہے کہ چند سال پہلے ایک کار ایکسیڈنٹ میں تم‬
‫نے اپنے ماتا پتا کو کھو دیا تھا ۔۔۔۔‬
‫پنڈت کی اس بات نے سکندر کو چونکا دیا۔۔۔وہ سوچنے لگا‬
‫کہ یہ بات پنڈت کو کیسے پتا چلی۔۔۔۔‬
‫زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں۔۔ہمارے لیے یہ چھوٹی‬
‫چھوٹی باتیں معلوم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔ہم تو‬
‫تمہارے بارے میں وہ بھی بتا دے سکتے ہیں جو صرف تم‬
‫جانتے ہو اور کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔‬
‫یہ بات سکندر کے لیے کسی ایٹم بم سے کم نہیں تھی۔۔۔پنڈت‬
‫کی اس بات نے سکندر کو حیرانگی کے سمندر میں اتار‬
‫پھینکا تھا۔۔۔‬
‫یہ باتیں آپ ان جاہل لوگوں کو بتائیں جو تمہارے جیسوں‬
‫کے جھانسے میں آ جاتے ہیں۔۔۔۔سکندر سمجھ گیا کہ پنڈت‬
‫بات بڑھانے کے لیے ہوا میں تیر چال رہا ہے۔۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔۔تم بھی مجھے ایک عام سا سادھو جانتے ہو بالک۔۔۔‬
‫لیکن تمہارا کوئی قصور نہیں۔۔۔آج کی دنیا میں کون ایسی‬
‫باتوں پر یقین رکھتا ہے۔۔۔لیکن میں نے جو کہا ہے وہ سچ ہے۔۔‬
‫میں تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔۔۔۔‬
‫مثًال۔۔۔۔سکندر نے پنڈت کو آزمانے کا سوچا‬
‫مثًال کہ جس ایکسیڈنٹ میں تم نے اپنے گھر والوں کو کھو‬
‫دیا تھا۔۔وہ ایکسیڈنٹ درخت کو لگ کر نہیں ہوا تھا۔۔۔تم نے‬
‫قتل کیا تھا ایک بچی کا۔۔جسے تم نے جیل اور بدنامی کے ڈر‬
‫سے زندہ حالت میں دفنا دیا تھا۔۔۔‬
‫مثًال کہ جس فرم میں تم کام کرتے ہو وہاں جو ڈھائی کروڑ‬
‫کا گپال ہوا تھا۔۔اس میں تمہارا ہاتھ بھی تھا۔۔۔‬
‫اور کچھ بھی اگر جاننا چاہتے تو میں اور بھی بتا سکتا‬
‫ہوں۔۔تمہارا ماضی میرے سامنے ایسے ہیں جیسے کھلی‬
‫کتاب۔۔۔کہا تو ہے تمہیں کہ میں تمہارے بارے میں وہ بھی‬
‫جانتا ہوں جو صرف تم جانتا ہو ۔۔۔‬
‫سکندر کے لیے زمین پر پاوں ٹکانا مشکل ہو رہا تھا۔۔۔ایسا لگ‬
‫رہا تھا کہ زمیں پوری رفتار سے گول گول گھوم رہی ہے اور‬
‫ارد گرد کے سارے لوگ‪ ،‬بلڈنگز سب کچھ بھی گھوم رہے‬
‫ہیں۔۔۔‬
‫چند منٹ تو سکندر کو ہوش ہی نہیں رہا کہ اس کی زندگی‬
‫کے کچھ راز اب راز نہیں رہے لیکن جب دماغ اپنی جگہ پر‬
‫آیا تو پہال خیال اس کو یہی آیا کہ یہ پنڈت کوئی عام انسان‬
‫نہیں ہے۔۔۔بلکہ یہ وہ انسان ہے جو اس کے بارے میں بہت‬
‫کچھ جانتا ہے۔۔۔‬
‫تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔۔۔سکندر نے کپکپاتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔ارے بالک میں تم سے کچھ نہیں چاہتا ۔۔میں تو یہ‬
‫چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے کچھ چاہو۔۔۔‬
‫کیا مطلب ہے آپکا۔۔۔۔۔سکندر اب تم سے آپ پر آگیا تھا۔۔۔‬
‫مطلب ۔۔مجھ سے تمہاری یہ اداسی دیکھی نہیں جاتی ۔۔۔۔‬
‫میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی جیو۔۔جیسے دوسرے لوگ‬
‫جیتے ہیں۔۔۔تم بھی ہنسو مسکراؤ۔۔۔وہ سب کرو جو تمہارا‬
‫دل چاہتا ہے۔۔۔۔‬
‫لیکن میرا دل تو کچھ بھی نہیں چاہتا بابا۔۔۔۔‬
‫کیوں نہیں چاہتا۔۔تمہارا دل سب کچھ کرنا چاہتا ہے۔۔لیکن تم‬
‫دل کی سنو بھی۔۔تم ہر وقت دماغ کی سنتے ہو۔۔اور دماغ نے‬
‫تمہیں پاگل بنا رکھا ہے۔۔۔۔کیا میں نے صحیح کیا؟؟‬
‫جی ۔۔۔آپ صحیح کہہ رہے ہو۔۔۔‬
‫‪ ‬اچھا ۔۔۔کیا نام ہے تمہارا؟‬
‫کیا مطلب۔۔جب آپ میرے بارے میں سب کچھ جانتے ہو تو‬
‫کیا میرا نام نہیں جانتے ہو۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔۔سکندر میں صرف چاہتا ہوں کہ تم بات کرو۔۔۔دل‬
‫سے بولو۔۔۔مجبور مت بنو۔۔۔لوگوں نے دنیا میں اس سے بھی‬
‫بڑے گناہ کیے ہیں لیکن وہ آج بھی خوشی خوشی‪  ‬جی رہے‬
‫ہیں اور ایک تم ہو جو اپنے آپ کو ہلکان کیے جا رہے ہو۔۔۔‬
‫تو آپ بتائیں کہ میں کیا کروں؟؟؟‬
‫میں نے کہا نا تم وہ کرو جو تمہارا دل چاہتا ہے لیکن اس سے‬
‫پہلے ایک کام کرو۔۔کہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔۔۔سڑک پر‬
‫کھڑے کھڑے میرے پاؤں شل ہو گئے ہیں۔۔۔‬
‫جی ٹھیک ہے۔۔۔آپ میرے ساتھ چلیں ۔۔۔میرے گھر چلتے ہیں‬
‫وہیں بیٹھ کر بات کرتےہیں۔۔۔میں اکیال ہی رہتا ہوں وہاں‬
‫کوئی ہمیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔۔۔‬
‫اچھا چلو یہ ٹھیک ہے۔۔۔۔لیکن میں تمہارے ساتھ نہیں چل‬
‫سکتا۔۔تم ایسا کرو بائیک پر اپنے گھر پہنچو۔۔میں بھی وہیں‬
‫تم سے ملتا ہوں۔۔۔۔‬
‫کیا مطلب ۔۔۔۔آپ پیدل آئیں گے اور آپ نے تو میرا گھر بھی‬
‫نہیں دیکھا ہے؟؟؟‬
‫ہاہاہاہا۔۔بالک تم پھر میرے بارے میں غلطی کر رہے ہو۔۔۔تم‬
‫بس گھر پہنچو میں تمہیں وہیں ملتا ہوں۔۔۔‬
‫جی ٹھیک ہے۔۔۔سکندر نے بائیک سٹارٹ کی اور گھر کی‬
‫جانب روانہ ہو گیا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وزیر کرکوس سے کہو کہ شاطر ملنے آیا ہے۔۔۔‬
‫آج شادی کو دوسرا دن تھا۔۔۔ شاہ جنات اپنے بیٹے کی شادی‬
‫دھوم دھام سے کر کے دوبارہ اپنے محل میں پہن چکے‬
‫تھے۔۔۔۔۔۔اور شاطر کو جس چمکتی بجلی کا معلوم کرنے کا‬
‫حکم دیا گیا تھا۔۔۔۔وہ اس بارے میں معلومات حاصل کرکے‬
‫اب وزیر کرکوس کو بتانے آیا تھا۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر بعد محل کا داخلہ درواذہ کھال اور محافظ باہر‬
‫آگیا۔۔۔۔‬
‫وزیر کرکوس نے آپ کو طلب کیا ہے۔۔۔‬
‫ہمممم۔۔۔۔صحیح ہے۔۔یہ کہہ کر شاطر نے محل کی جانب قدم‬
‫بڑھانے شروع کیے۔۔۔۔‬
‫وزیر کرکوس کی رہائش محل کے عقبی طرف تھی۔۔۔شاطر‬
‫کو وہاں پہنچے میں چند منٹ لگے۔۔۔۔وزیر کے کمرے پر بھی‬
‫دو محافظ جن پہرا دے رہے تھے۔۔۔شاطر کو دیکھ کر انہیں‬
‫نے درواذہ کھول‪  ‬دیا۔۔۔شاید انہیں بھی شاطر کی آمد کا پتا‬
‫چل گیا تھا۔۔۔‬
‫ہال نما کمرے میں داخل ہونے پر شاطر نے وزیر کرکوس کو‬
‫چہل قدمی کرتے پایا۔۔۔شاید شاطر کی آمد کا سن کر وزیر نے‬
‫تمام وزراء کو کمرے سے جانے کا کہہ دیا ہوگا۔۔۔۔‬
‫شاطر وزیر کرکوس کی خدمت میں سالم عرض کرتا ہے۔۔۔‬
‫آؤ شاطر آو۔۔۔میں تمہارا بے چینی سی انتظار کر رہا تھا۔۔‬
‫مجھے ڈر تھا کہ کہیں شاہ جنات مجھ سے اس روشنی کا‬
‫پوچھ نہیں لیں اور تم ابھی تک غائب تھے۔۔۔مجھے تو تم نے‬
‫پریشان کر دیا تھا۔۔۔تم جیسے طاقتور جن کے لیے ایک‬
‫چھوٹی سی بات معلوم معلوم کرنے میں اتنا وقت لینا کافی‬
‫مضحکہ خیز ہے۔۔۔‬
‫نہیں وزیر کرکوس‪ ،‬ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔لیکن جس کام‬
‫کے لیے آپ نے مجھے بھیجا تھا وہ اتنا آسان نہیں تھا۔۔پہلے‬
‫میں بھی یہی سمجھ رہا تھا کہ بہت جلد یہ بات معلوم کر‬
‫لوں گا۔۔۔لیکن مجھے کافی وقت لگا‪  ‬تب جا کر مجھے معلوم‬
‫ہوا کہ یہ کیا ماجرا تھا۔۔۔‬
‫کیا مطلب شاطر۔۔۔۔مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ کیا بات‪  ‬ہے؟؟‬
‫وزیر کرکوس آپ کے حکم کے بعد میں جب وہاں پہنچا تو‬
‫وہاں صرف ایک انسان کی جلی ہوئی الش پڑی ہوئی تھی‬
‫اس کے عالؤہ کوئی ایسی چیز یا انسان نہیں تھا کہ مجھے‬
‫بات معلوم ہو سکتی کہ وہاں کیا ہوا تھا۔۔۔پھر میں نے اڑ کر‬
‫اس جگہ کو دیکھا لیکن آسمان سے دیکھنے پر مجھے کچھ‬
‫معلوم نہ ہو سکا۔۔۔اس کے بعد مجھے زمین کے اندر جا کر‬
‫دیکھنا پڑا۔۔۔زمیں کے اندر سے مجھے معلوم ہوا کہ کسی‬
‫وقت میں وہاں قبرستان ہوا کرتا ہے جو اب زمیں کے برابر ہو‬
‫گیا ہے۔۔قبرستان کو دیکھ کر مجھے یہی لگا کہ یہ شخص‬
‫کسی چلے میں مصروف تھا اور اس نے ایسی کوئی غلطی‬
‫کر دی تھی جس کی وجہ سے اسے جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔۔۔‬
‫اس شخص کے مارے جانے کے بعد میں نے اس روشنی کا‬
‫پیچھا کیا تو وہ روشنی دنیا کے آخری کنارے پر موجود‬
‫سمندر کی جانب چلی گئی لیکن وہاں کالی طاقتوں کا اس‬
‫قدر اندھیرا تھا کہ مجھے خالہ ہاتھ لوٹ آنا پڑا۔۔۔‬
‫ہممم۔اس کا مطلب تم ناکام لوٹ آئے ہو ۔۔۔ایک دن کے بعد‬
‫بھی تم صرف یہ معلوم کر آئے ہو اس انسان کی موت کا زمہ‬
‫دار وہ روشنی ہے لیکن وہ روشنی کس چیز کی تھی۔۔اس کا‬
‫تمہیں کچھ بھی پتا نہیں چال ہے۔۔۔۔مجھے تم سے مایوسی‬
‫ہوئی ہے شاطر۔۔۔۔تم سے مجھے یہ امید نہیں تھی۔۔۔‬
‫وزیر کرکوس میں شرمندہ ہوں لیکن اندھیری طاقتوں کی‬
‫وجہ سے میں کچھ بھی معلوم نہیں کر سکا ۔۔‬

‫کیا مطلب۔۔۔تم یہ کہنا چاہ رہے ہو کہ شیطانی طاقتوں اب‬


‫ہم سے طاقتور ہو گئی ہیں۔۔۔وزیر کرکوس کی کڑک آواز نے‬
‫شاطر کو ہال دیا ۔۔۔‬
‫میرا یہ مطلب نہیں تھا وزیر کرکوس۔۔۔شاطر نے کانپتے ہوئے‬
‫جواب دیا۔۔۔‬
‫کیا مطلب تم نے ایک دن ضائع کر دیا اور بس یہی معلوم کر‬
‫آئے ہو۔۔۔‬
‫نہیں وزیر کرکوس ۔۔۔اس واقعی کے بعد میں پوری دنیا میں‬
‫جہاں جہاں کوئی انسان چلہ میں مصروف نظر آ رہا ہے میں‬
‫اسے دیکھ رہا ہوں۔۔۔اگر اب بجلی چمکتی نظر آئی تو میں‬
‫اس کا راز پا لوں گا۔۔۔انشا اہلل‬
‫لیکن شاطر اب میں شاہ جنات کو کیا جواب دوں کہ تم‬
‫ناکام لوٹ آئے ہو۔۔۔۔‬
‫میں معافی چاہتا ہوں وزیر کرکوس۔۔۔‬
‫اچھا ٹھیک ہے اب تم جاؤ اور اس بجلی کا راز معلوم کر کے‬
‫ہی آنا۔۔۔میں دیکھتا ہوں کہ شاہ جنات کو کیسے مطمئن کرنا‬
‫ہے۔۔۔‬
‫جی بہتر ہے۔۔۔۔شاطر الٹے قدم چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل‬
‫آیا۔۔اس نے ایک لمبی سانس لی اور محل کے خارجی دروازے‬
‫کی جانب چل پڑا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سکندر نے بائیک گھر کے باہر کھڑی ہی کی کہ اتر کر درواذہ‬
‫کھولے کہ اس کی نگاہ سڑک کے دوسرے کنارے پر موجود‬
‫درخت پر چلی گئی۔۔سادھو پنڈت درخت کے پیچھے سے نکل‬
‫کر اب سکندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔۔‬
‫بہت دیر کر دی بالک لیکن کوئی بات نہیں۔۔۔۔پنڈت نے نزدیک‬
‫پہنچ کر کہا‬
‫لیکن آپ اتنی جلدی کیسے پہنچ گئے۔۔۔سکندے نے حیرانگی‬
‫سے پوچھا‬
‫بالک میں جلدی نہیں پہنچا بلکہ تم نے دیر کر دی ہے۔۔۔۔‬
‫او ۔۔اچھا۔۔۔میں رستے میں کھانا لینے کے‪  ‬لیے رکا تھا شاید‬
‫اسی لیے دور ہو گئی۔۔آئیں گھر کے اندر چلتے ہیں۔۔۔۔‬
‫سکندر نے گھر کا الک کھوال اور اندر داخل ہوا۔۔سکندر کے‬
‫پیچھے پنڈت بھی اندر داخل ہو گیا تھا۔۔۔صحن عبور کرنے‬
‫کے بعد سکندر دائیں جانب کمرے میں داخل ہوا۔۔یہ شاید‬
‫بیڈ روم تھا۔۔۔پینڈت بھی دیکھا دیکھی اس کے پیچھے‬
‫کمرے کے اندر آ گیا۔۔۔۔‬
‫آپ یہاں بیٹھیں ۔۔میں کھانا برتن میں ڈال کر التا ہوں۔۔۔‬
‫سکندر نے کرسی کی جانب اشارہ کیا تھا۔۔۔یہ کہہ کر سکندر‬
‫کمرے سے نکل کر کچن میں چال گیا اور کھانا برتن میں ڈال‬
‫کر واپس بیڈ روم میں آگیا ۔۔۔پنڈت کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔‬
‫میں کھانا نہیں کھاؤں گا۔۔۔پندت نے سکندر کو کھانا برتنوں‬
‫میں ڈالتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا۔۔۔۔‬
‫کیوں۔۔۔آپ کو بھوک نہیں ہے۔۔۔۔‬
‫نہیں ۔۔۔۔مجھے بھوک نہیں ہے۔ تم بے فکر ہو کر کھانا کھاو۔۔۔‬
‫پنڈت کی بات سن کر سکندر نے نواال بنانا شروع کر دیا۔۔‬

‫اچھا بابا ایک بات کہوں اگر آپ کو برا نہ لگے۔۔۔۔‬


‫کہو بالک۔۔۔مجھے برانہیں لگے گا۔۔۔‬
‫بابا جب میری آپ سے پہلی مالقات ہوئی تھی اس وقت‬
‫بارش ہو رہی تھی اور اس جگہ صرف ایک درخت تھا جس‬
‫کے نیچے آپ اور میں تھے۔۔لیکن میں نے آپ کے‪  ‬پیروں کو‬
‫دیکھا تو خشک تھے۔۔۔اتنی بارش میں آپ کے پاؤں خشک‬
‫دیکھ کر میں پریشان ہو گیا تھا بابا۔۔۔اور پھر آج جب آپ نے‬
‫میرے بارے میں جب بتایا تو مجھے لگا کہ آپ کوئی جن‬
‫بھوت ہو۔۔۔سکندر نے کھانا کھاتے ہوئے یہ بات کہی تھی۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔۔نہیں بالک۔ میں بھی انسان ہی ہوئی بس بھگوان‬
‫کی دیا سے تھوڑا بہت علم حاصل کر رکھا ہے جس سے‬
‫لوگوں کے بارے میں پتا چل جاتا ہے۔۔۔اس دن جب میں نے‬
‫تمہیں وہاں دیکھا تھا تو اس وقت بارش شروع نہیں ہوئی‬
‫تھی۔۔۔جیسے ہی میں درخت کے قریب پہنچا تو بارش بھی‬
‫شروع ہو گئی۔۔شاید اس وجہ سے میرے پاؤں خشک تھے۔۔‬
‫اچھا۔۔۔ سکندر نے اچھا کو لمبا کرتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫کیا آپ میرے بارے میں اور کچھ بتا سکتے ہیں لیکن پلیز‬
‫اچھا ہی بتائیے گا۔۔۔اب سکندر کی پنڈت میں دلپسچی بڑھنے‬
‫لگی تھی۔۔۔‬
‫کیا جاننا چاہتے ہو ۔۔بالک ؟‬
‫کچھ بھی بابا۔۔۔میں اس زندگی سے بیزار ہو گیا ہوں۔۔ایسا‬
‫لگتا ہے کہ اب میرا جینے کا مقصد ختم ہو گیا ہے۔۔۔اگر سب‬
‫کچھ ایسے ہی چلتا رہا تو ایک دن میں اپنی زندگی خود ہی‬
‫ختم کر لوں گا۔۔۔‬
‫نا بالک نا۔۔ایسا کبھی نہ کرنا۔۔۔تمہیں ابھی زندگی میں بہت‬
‫کچھ دیکھنا ہے۔۔۔تم نے خوشیاں ابھی دیکھی کہاں ہیں۔۔۔‬
‫تو بابا مجھے بتائیں میں کیا کروں۔۔۔‬
‫ہمممم۔۔۔اچھا جو میں کہوں وہ تم کر لو گے۔۔۔‬
‫کیا مطلب۔۔۔۔؟‬
‫دیکھو نا۔۔۔تم نے کہا کہ تم زندگی سے بیزار ہو۔۔تم نے فضول‬
‫سوچیں لگا کر اپنا مقام اور عزت خود خراب کر لی ہے۔۔۔‬
‫دولت جتنی تھی وہ تم نے آہستہ آہستہ اڑا لی۔۔۔کام میں‬
‫تمہیں کوئی دلچسپی نہیں رہی۔۔۔آگے پیچھے تمہارا کوئی‬
‫نہیں۔۔۔ایسی بہت سی باتیں ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے تم‬
‫انتہا کی حد تک بیزار ہو خود سے۔۔تم قابل انسان ہو ۔تمہیں‬
‫خود کو ضائع کرنا اپنا ہاتھ سے خود کا قتل کرنے جیسا ہے۔۔۔‬
‫تم ایک کام کیوں نہیں کر لیتے ۔۔۔تم سفرینا سے دوستی کر‬
‫لو‬
‫یہ سفرینا کون ہے بابا؟؟؟‬
‫یہ ایک طاقت کا نام ہے بالک۔۔۔وہ طاقت جس کے پیچھے‬
‫انسان نے اپنی زندگیاں ختم کر ڈالیں ہیں۔۔۔لیکن جسے بھی‬
‫یہ طاقت مل گئی وہ دنیا کا طاقت ور ‪ ،‬دولتمند اور‬
‫خوشحال انسان ہوگا۔۔۔‬
‫کیا یہ کوئی لڑکی ہے؟‬
‫بلکل یہ ایک لڑکی ہے بلکہ خوبصورت لڑکی ہے لیکن بال کی‬
‫چاالک ہے۔۔طاقت میں جنوں اور شیطانوں کو بھی مات دے‬
‫دے۔۔آج تک کسی نے بھی سفرینا کو قابو نہیں کیا جس نے‬
‫بھی کوشش کی وہ اپنی جان سے گیا۔۔۔‬
‫تو ایسی خطرناک لڑکی کا میں کیا کروں گا بابا اور جسے‬
‫کوئی قابو نہیں کر سکا اسے میں کیسے قابو کر لوں گا؟‬
‫بالک وہ خطرناک کے ساتھ چاالک بھی ہے لیکن جس طرح‬
‫کے انسان تم مجھے لگتے ہو۔۔مجھے لگتا ہے تم اسے قابو کر‬
‫لو گے اور جب سفرینا تمہیں مل جائے گی پھر تمہیں دنیا‬
‫کی کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔۔‬
‫لیکن بابا۔۔۔۔کیا وہ جن ہے؟‬
‫نہیں جن نہیں ہے۔۔۔ سفرینا ایک چڑیل کا نام ہے جو‬
‫خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ بے حد چاالک بھی ہے۔۔۔‬
‫ہمممممم۔۔۔کیا کرنا ہوگا سفرینا کے لیے مجھے بابا۔۔۔اب سکندر‬
‫کی دلچسپی بھی بڑھ رہی تھی۔۔وہ بھی گھٹن زدہ زندگی‬
‫سے تنگ آگیا تھا وہ اب الئف میں ایڈوینچر چاہتا تھا اور‬
‫اس ایڈوینچر کے لیے وہ اپنی جان کی بازی بھی لگانے کے‬
‫لیے تیار ہو گیا تھا۔۔۔‬
‫‪ ‬تم نے تین دن ایک سنسان جگہ پر چلہ کرنا ہے‬
‫اور یہ چلہ کتنے دن کا ہو گا۔۔۔۔؟؟‬
‫پوری بات تو سن لو بالک۔۔۔۔جگہ میں تمہیں بتاؤں گا۔۔۔اور‬
‫کیا کرنا ہے وہ بھی میں تمہیں بتاؤں گا لیکن تمہیں یہ چلہ‬
‫پورا کرنے کے لیے ایک بچہ کی الش کی ضرورت ہوگی۔۔۔‬
‫کیا۔۔۔۔الاااااش‪  ‬۔۔ایک بچے کی؟؟‬
‫بلکل ۔۔۔۔۔‬
‫لیکن بابا میں کسی جانور کو نہیں مار سکتا تو بچہ ۔کیسے؟‬
‫تمہیں کس نے کہا کہ تم بچے کو مارو۔۔تم کہیں سے مردہ‬
‫بچے کی الش ڈھونڈھ آؤگے اور پھر تین دن تک کچھ الفاظ‬
‫پڑھنے ہیں۔۔۔‬
‫اور وہ الش کہاں سے ملے گی بابا۔۔۔‬
‫ہر روز بہت سے بچے مر جاتے ہیں۔۔۔کسی مردہ خانے سے‬
‫تمہیں الش مل جائے گی۔۔۔‬
‫لیکن بابا ۔۔مردہ خانے سے الش النا۔۔یہ سوچ کر ہی میرے‬
‫پسینے چھوٹ گئے ہیں جب لینے جاؤں گا تب کیا حالت‬
‫ہوگی۔۔۔‬
‫میں تمہارے ساتھ ہوں گا بالک۔۔بس تم یہ بتاؤ کہ تم یہ سب‬
‫کر لو گے ۔۔میں دوبارہ بتا رہا ہوں سفرینا کوئی عام سی‬
‫چاالک لڑکی نہیں ہے۔۔وہ چڑیل ہے چڑیل ۔۔اس کے پاس‬
‫خطرناک طاقتیں ہیں۔ اس سے جن اور شیطان تک بھاگتے‬
‫ہیں۔پر پتا نہیں کیوں مجھے‪  ‬لگتا ہے کہ تم اسے قابو کر لو‬
‫گے۔۔۔‬
‫اگر آپ کو لگتا ہے تو پھر ضرور میں اس کو قابو کر لوں گا۔۔۔‬
‫آپ بس میری مدد کریں ۔۔۔۔سکندر نے کہا‬
‫بالک ایک بات میری یاد رکھنا ۔۔۔وہ تمہارے قابو میں آنے کے‬
‫بعد بھی تمہارے قابو میں نہیں ہوگی۔۔وہ کسی کی غالمی‬
‫پسند نہیں کرتی‪  ‬لیکن اگر کوئی اسے سمجھ جاتا ہے‪ ،‬قابو‬
‫کر لیتا ہے تو پھر وہ بھی‪  ‬غالمی میں رہنے کے لیے مجبور ہو‬
‫‪  ‬جائے گی‬
‫پھر ٹھیک ہے بابا۔۔اب میں اسے ضرور قابو کروں گا‬
‫یہ ہوئی نا بات۔۔۔اچھا اب سنو تمہیں کیا کرنا ہے۔۔یہ سن کر‪ ‬‬
‫سکندر پنڈت کے قریب ہو کر بیٹھ گیا۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آؤ سفرینا آؤ ۔۔مجھے تمہاری آمد کا پتا چل گیا تھا۔۔۔‬
‫شیطان اعظم تعظیمًا سفرینا کے لیے کھڑا ہو گیا لیکن یہ‬
‫بھی سچ تھا کہ وہ سفرینا سے خوف بھی کھاتا ہے۔۔۔کیونکہ‪ ‬‬
‫بیشک سفرینا طاقت میں اسے سے بڑھ کر نہیں ہے لیکن‬
‫چاالک میں اس کی ماں ہے۔۔اگر سفرینا پر حملہ کر دیا گیا‬
‫اور وہ حملہ سے بچ جاتی ہے تو پھر شیطان اعظم کی موت‬
‫یقینی ہے۔۔‬
‫سفرینا ایک معصوم سی صورت کی خوبصورت چڑیل تھی۔۔‬
‫جب تک کسی کا سفرینا سے واسطہ نہیں پڑا ۔۔ہر کوئی اس‬
‫کی معصومیت پر دھوکہ کھا جاتا ہے لیکن ایک دفعہ جو‬
‫کوئی بھی سفرینا کے مقابلے میں آیا اس کے بعد وہ زندہ‬
‫میں شمار نہیں ہوا۔۔۔‬
‫کیسے پتا نہیں چلے گا شیطان اعظم۔۔۔ہم کوئی عام سی‬
‫چڑیل تھوڑی ہیں۔۔۔ہم سے پہلے ہماری دہشت کا استقبال ہوتا‬
‫ہے۔۔شاید تمہارے کارندوں نے ہماری دہشت کو چمکتے ہوئے‬
‫دیکھ لیا ہوگا۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔بلکل ایسا ہی ہے۔۔شیطان اعظم نے جعلی ہنسی سے‬
‫ہامی بھری۔۔۔‬
‫سفرینا شیطان اعظم کے تخت کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ‬
‫گئی اور اس کے لیے اسے اجازت لینے کی بھی ضرورت پیش‬
‫نہیں آئی۔۔۔شاید شیطان اعظم نے بھی اس بات کا برا نہیں‬
‫منایا تھا اور وہ برا منا بھی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔‬
‫کہاں سے آ رہی ہو سفرینا۔۔۔۔کافی دنوں بعد تمہارا آنا ہوا‬
‫ہے۔۔۔‬
‫آنا تو اب بھی نہیں ہوتا بس کچھ بیوقوف انسان مجھے‬
‫قابو کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں اور پھر جان سے ہاتھ‬
‫دھو بیٹھتے ہیں۔۔۔۔‬
‫ہاہاہاہا۔۔تمہیں بھی کوئی قابو کر سکتا ہے سفرینا؟‬
‫یہی تو مجھے سوچ کر غصہ آتا ہے کہ جس چیز کو سنبھاال‬
‫نہیں جا سکتا اسے حاصل کیوں کیا جاتا ہے۔۔۔‬
‫بڑا بیوقوف ہوگا وہ انسان اور مجھے امید ہے کہ وہ اب‬
‫زندوں میں نہیں ہوگا۔۔۔۔‬
‫بلکل ۔۔اس کی جلی ہوئی الش چھوڑ آئی ہوں چیل کوؤں کے‬
‫کھانے کے لیے۔۔‬
‫بڑی ظالم ہو سفرینا۔۔۔‬
‫شیطان اعظم میں نے اسے بہت آسان موت مارا ہے‪  ‬کیونکہ‬
‫جس وقت وہ انسان مرنے لگا تھا اس وقت جنات کی بہت‬
‫زور کی بو میرے نکا میں آئی تھی شاید انکا کوئی قافلہ‬
‫قریب سے گزر رہا تھا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ میں‬
‫نظروں میں آؤں اسے لیے اسے آسان موت دی اور پھر یہاں آ‬
‫گئی۔۔۔‬
‫ہمممم۔۔۔۔چلو اچھا ہوا۔۔اور سناؤ کہاں ہوتی ہو آجکل؟؟‬
‫شیطان اعظم نے رسمًا باتیں شروع کر دی تھیں۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اگلی قسط میں جانیے‬


‫کیا سکندر بچے کی الش حاصل کر پائے گا؟*‬
‫چلے کی پہلی رات سکندر کی کیسی گزرتی ہے؟*‬
‫کیا سفرینا کا ٹکراؤ ہو پائے گا؟*‬
‫کیا سکندر چلہ پورا کر پائے گا؟*‬
‫شاطر چمکتی بجلی کا راز پا لے گا؟*‬
‫پنڈت سکندر کی مدد کیونکر کرنا چاہتا ہے؟*‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک خطرناک مگر‬


‫چاالکیوں میں گھری سکندر اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے‬
‫کیے آپ کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے ضرور‬
‫آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا‬
‫‪ ‬۔۔۔۔‬
‫)از ابن نصیر(‬
‫‪  ‬قسط نمبر ‪3‬‬
‫________________________________‬
‫‪ ‬گزشتہ قسط کا خالصہ‬
‫پنڈت سکندر کو چلہ کاٹنے کے لیے راضی کرتا ہے*‬
‫شاطر چمکتی بجلی کا راز معلوم کرنے جاتا ہے*‬
‫سفرینا شیطان اعظم سے مالقات کرنے جاتی ہے *‬
‫اب ٓاگے پڑھیے‬
‫________________________________‬
‫اس وقت رات کے دس بج رہے تھے اور سکندر شہر کے‬
‫سرکاری ہسپتال کے قریب والی سڑک پر پنڈت کا انتظار کر‬
‫رہا تھا۔۔۔سکندر نے وقت گزاری کے لیے جیب سے سگریٹ اور‬
‫الئیٹر‪  ‬نکاال ۔۔جیسے ہی الئیٹر سے شعلہ چمکا۔۔سکندے نے‬
‫اپنی جانب قدموں کی آہٹ محسوس کی۔۔۔ایک ھیوال سا تھا‬
‫جو سکندر کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔شاید پنڈت ہوگا۔۔یہ سوچ‬
‫کر سکندر نے الئیٹر کے شعلے کو بجھا دیا۔۔۔‬
‫بالک میں نے دیر تو نہیں کر دی۔۔۔۔؟‬
‫نہیں بابا۔۔۔۔مجھے بھی آئے ابھی چند منٹ ہی ہوئے ہیں۔۔۔اب‬
‫آپ بتائیں کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔‬
‫تم اپنے ساتھ بوری‪  ‬تو لے آئے ہو نا۔۔۔۔؟‬
‫جی ۔۔یہ رہی۔۔۔سکندر نے پالسٹک کی بوری پنڈت کے سامنے‬
‫کر دی جو وہ گھر سے لے آیا تھا۔۔۔‬
‫شاباش بالک۔۔۔اچھا اب خاموشی سے میرے پیچھے پیچھے‬
‫آؤ اور یاد رہے آواز نہیں نکالنی۔۔‬
‫جی ٹھیک ہے۔۔۔۔‬
‫پنڈت نے ہسپتال کے ساتھ والی گلی میں قدم رکھا۔۔۔چونکہ‬
‫رات کا وقت تھا چاند نہ ہونے کی وجہ سے گھپ اندھیرا‬
‫تھا۔۔لیکن ہسپتال کی عقبی دیوار کے ساتھ موجود بجلی کی‬
‫کھمبے پر ایک سو والٹ کا بلب جل رہا تھا ۔۔جس کی وجہ‬
‫سے ان دونوں کا ایک ھیوال سا بنا ہوا تھا۔۔پنڈت ک رخ بھی‬
‫اس کھمبے کی جانب تھا۔۔۔۔جیسے جیسے وہ دونوں کھمبے‬
‫کے قریب ہو رہے تھے ویسے ہی ان دونوں کے خدو خال‬
‫واضح ہو رہے تھے۔۔۔دو سو قدم چلنے کے بعد اب وہ کھمبے‬
‫کے نیچے پہنچ چکے تھے اور وہیں پر ہسپتال کی دیوار ختم‬
‫ہو رہی تھی۔۔جیسے ہی وہ کھمبے کی دائیں جانب مڑے۔۔‬
‫لوہے کا ایک چھوٹا سا دروازہ انکا انتظار کر رہا تھا۔۔۔حیرت‬
‫کی بات یہ تھی کہ رات کے اس پہر بھی وہ دروازہ کھال ہوا‬
‫تھا۔۔شاید یہ ہسپتال کا عقبی دروازہ تھا جو مالزم استعمال‬
‫کرتے تھے۔۔پنڈت نے آہستہ سے دروازہ کے ایک پٹ کو مکمل‬
‫کھوال اور اندر داخل ہو گیا۔۔سکندر بھی اس کے پیچھے بغیر‬
‫آواز پیدا کیے اندر داخل ہو گیا۔۔۔ہسپتال کے عقبی جانب کو‬
‫کھمبے کے بلب نے روشن کر رکھا تھا۔۔۔اس لیے ہسپتال میں‬
‫اچھی خاصی روشنی تھی۔۔ یہ ہسپتال کی پارکنگ والی‬
‫جگہ تھی اور اس وقت ایک پرانی ایمبولنس پارکنگ میں‬
‫کھڑی ہوئی تھی۔۔۔پنڈت نے پارکنگ کی جانب قدم بڑھائے اور‬
‫سکندر بھی اس کے پیچھے چل پڑا تھا۔۔۔ایمبولنس کے قریب‬
‫پہنچ کر پنڈت نے سکندر کو اشارہ کیا اور سکندر پنڈت کے‬
‫قریب ہو گیا۔۔۔‬
‫بوری مجھے دو‪  ‬اور یاد رہے جب تک میں واپس نہ آؤں‪ ‬‬
‫کوئی آواز نہیں نکالنی۔۔‬
‫سکندر نے ہاں میں گردن ہالنے میں ہی عافیت جانی۔۔پنڈت‬
‫نے بوری لینے کے لیے ہاتھ بڑھائے اور سکندر نے بوری پنڈت‬
‫کو تھما دی۔۔۔‬
‫پنڈت سکندر کو وہیں چھوڑ کر چال گیا ۔۔اب سکندر تھا اور‬
‫ویران ہسپتال ۔۔سکندر سوچ رہا تھا کہ اگر اس وقت کوئی‬
‫انسان یہاں آ گیا تو وہ کیا جواب دے گا کہ کیوں وہ یہاں‬
‫کھڑا ہوا ہے۔۔لیکن شکر ہے اب تک کوئی انسان نظر نہیں آیا‬
‫تھا۔۔۔سکندر کا دل کر رہا تھا کہ سگریٹ جیب سے نکال کر‬
‫سلگائے لیکن پنڈت کی ہدایت تھی کہ کوئی آواز نہیں‬
‫نکالنی۔۔ایسا نہ ہو کہ لئیٹر کی آواز یا روشنی سے کوئی اس‬
‫طرف ٓا جائے اس لیے خاموش کھڑا رہنا ہی بہتر تھا۔۔۔ابھی‬
‫سکندر یہ سوچ ہی رہا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی‬
‫جسے سن کر سکندر ایمولنس کے پیچھے چھپ گیا ۔۔قدم‬
‫ایمبولنس کے قریب آ کر رک گئے۔۔۔‬
‫کہاں ہو بالک۔۔۔پنڈت کی سرگوشی سنائی دی۔۔‬
‫یہاں۔۔۔سکندر پنڈت کی آواز سن کر ایمبولنس کے پیچھے سے‬
‫باہر نکل آیا۔۔۔پنڈت کے کندھے پر وہی بوری تھی جو سکندر‬
‫نے اسے دی تھی۔‬
‫شاید اس میں بچے کی مردہ الش ہو۔۔۔سکندر نے سوچا۔۔۔‬
‫اب چلو یہاں سے۔۔۔کوئی آواز پیدا مت کرنا۔۔۔اور یہ پکڑو۔۔‬
‫پنڈت نے بوری سکندر کو تھما دی۔۔بوری کا وزن بڑھ چکا تھا‬
‫جسے سکندر نے اپنے کندھے پر ڈال دیا ۔۔‬
‫سکندر لمبے لمبے قدم اٹھاتا پنڈت کے پیچھے چل پڑا۔۔اس‬
‫وقت سکندر کے دل کی دھڑکنے کی رفتار بہت تیز تھی۔۔‬
‫ایسے لگ رہا تھا کہ ابھی سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔۔‬
‫پسینے کے موٹے موٹے قطروں نے قمیض بھی گیلی‪  ‬کر دی‬
‫تھی۔۔۔لیکن حیرت ہے پنڈت کی چال میں بال کا اطمینان‬
‫تھا۔۔۔اس کا چہرہ پر سکون لگ رہا تھا۔۔۔اس وقت وہ ہسپتال‬
‫کا عقبی دروازہ کراس کر کے کھمبے کے نیچھے پہنچ چکے‬
‫تھے۔۔۔‬
‫اب یہاں سے تم اپنی سڑک پکڑو اور میں دوسری سمت پکڑتا‬
‫ہوں۔۔تمہیں میں اسی جگہ ملوں گا جہاں تم نے چلہ کرنا ہے۔۔‬
‫یاد رہے ۔۔تمہارے پاس وقت بہت کم ہے۔۔۔اور تم نے باقی کا‬
‫سامان بھی اٹھا لیا ہے نا؟؟ پنڈت ابھی بھی ہلکی آواز میں‬
‫بات کر رہا تھا‬
‫جی ۔۔۔آپ نے جو جو چیزیں بتائی تھیں میں نے سب اٹھا لی‬
‫ہیں۔۔۔‬
‫شاباش۔۔بس اب چلو ۔۔میں تمہیں وہیں ملتا ہوں۔۔۔‬
‫یہ کہہ کر پنڈت نے اپنا رخ سڑک کی بائیں جانب کر لیا اور‬
‫سکندر نے دائیاں راستہ پکڑ لیا۔۔۔‬
‫اب یہ کہاں جائے گا؟؟؟ سکندر نے دل میں سرگوشی کی۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاطر کو رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا اسے سمجھ نہیں آ‬
‫رہی تھی کہ کیا کرے۔۔اس نے وزیر کرکوس کو تو کہہ دیا کہ‬
‫پوری دنیا میں کہیں بھی کوئی چلہ کر رہا ہوگا وہ وہاں‬
‫جائے گا اور دیکھے گا کہ چمکتی بجلی وہاں نظر آ تی ہے یا‬
‫نہیں لیکن اب اسے اپنی بیوقوفی پر غصہ آ رہا تھا ۔۔۔کیونکہ‬
‫اس طرح معلوم کرنے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔۔۔‬
‫شاطر نے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وزیر کرکوس نے اس‬
‫بارے میں شاہ جنات کو تو نہیں بتا دیا اس نے اپنی آنکھیں‬
‫بند کر لیں اور لمبا سا سانس لے کر وزیر کرکوس کے جسم‬
‫کی خوشبو کو اپنے دماغ میں محسوس کرنے لگا۔۔۔چند‬
‫سیکنڈ نہیں گزرے کہ وزیر کرکوس اس کے سامنے نظر‬
‫آگیا۔۔۔وزیر کرکوس کہیں شاطر کی خوشبو نہ سونگھ لے‬
‫اس لیے اس نے وزیر کرکوس سے تھوڑا فاصلہ رکھا۔۔۔ اس‬
‫وقت وزیر کرکوس اپنی آرام گاہ میں لیٹا ہوا تھا۔۔۔یہ۔ دیکھ‬
‫کر شاطر نے خوشبو سونگھنے کا سلسلہ منقطع کر لیا اور‬
‫آنکھیں کھول لیں۔۔۔‬
‫وزیر کرکوس تو سو رہے ہیں۔۔اب کیسے پتا چلے گا کہ انہیں‬
‫نے شاہ جنات سے بات کی ہے یا نہیں۔۔۔۔؟ شاطر نے خود‬
‫کالمی کی‬
‫جیسے اندھیرے کمرے میں بلب چمکتا ہے ویسے ہی شاطر‬
‫کے دماغ میں روشنی چمکی۔۔‬
‫اگر میں وہیں اس روشنی کا انتظار کروں جہاں میں اسے‬
‫چھوڑ آیا تھا۔۔ہو سکتا ہے وہ روشنی ابھی وہیں ہو۔۔جیسی‬
‫ہی وہ روشنی باہر نکلے گی۔۔میں اسکا پیچھا کر لوں گا اور‬
‫پھر اس کا راز معلوم کر لوں گا۔۔۔ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔۔شاطر‬
‫نے اپنے ہی سوال کا خود جواب دیا۔۔۔‬
‫ارے یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں۔۔۔شاطر نے اپنے سر پر‬
‫تھپکی ماری اور پھر اس نے اس سمندر کا سوچنا شروع کیا‬
‫جہاں اس نے چمکتی روشنی کو چھوڑا تھا۔۔۔اب اس کی‬
‫‪ ‬منزل وہ سمندر تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے شیطان اعظم کو گردن ہال کر سالم کیا اور پھر‬
‫روشنی کی صورت اختیار کر لی۔۔۔اب وہ آہستہ آہستہ کی‬
‫آبادی‪  ‬کی جانب بڑھ رہی تھی لیکن ابھی اس نے ایک‬
‫فرالنگ کا فاصلہ نہیں طے کیا کہ ایک خوشبو اسکے نتھنوں‬
‫سے ٹکرائی اس نے ٓاگے جا کر تھوڑا غور کیا تو وہ خوشبو‬
‫متواتر اس کے ساتھ ساتھ اڑ رہی تھی۔۔۔‬
‫یہ کون ہو سکتا ہے جو میرا پیچھا کرکے اپنی موت چاہتا‬
‫ہو۔۔۔‬
‫سفرینا نے اپنی رفتار بڑھائی اور جب اسے لگا کہ وہ خوشبو‬
‫اس سے دور ہے ۔۔اس نے زمین پر اتر کر دوبارہ انسانی روپ‬
‫دھار لیا۔۔۔نزریک ہی ایک سایہ دار درخت تھا۔۔سفرینا اس کے‬
‫نیچے جا کر کھڑی ہو گئی لیکن اب اس کا دماغ اور ناک اس‬
‫خوشبو کے تعاقب میں تھے۔۔۔اور پھر جیسے ہی خوشبو‬
‫قریب پہنچی ۔۔سفرینا نے خوشبو کی سمت میں روشنی‬
‫پھینکی۔۔۔یہ کوئی ان دیکھا وجود تھا جو ہوا میں اڑ رہا‬
‫تھا۔۔۔شاید کوئی جن ہے۔۔۔سفرینا نے سوچا‬
‫وہ وجود روشنی کی زد میں آ کر زمیں پر گر پڑا تھا اور‬
‫سفرینا اس کی جانب بڑھ رہی تھی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاطر کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا ابھی اسے پہنچے کچھ‬
‫ہی دیر ہوئی کہ وہی روشنی اسے سمندر کی سطح پر نظر‬
‫آئی۔۔‬
‫پہلے کی طرح آج پھر کہیں شاطر اسے کھو نہ دے یہ سوچ‬
‫کر شاطر نے روشنی کا پیچھا کرنا شروع کیا۔۔۔روشنی کے‬
‫اڑنے کی رفتار آہستہ تھی اور اس کا رخ مغرب کی جانب‬
‫تھا۔۔۔ابھی شاطر نے کچھ ہی پیچھا کیا کہ روشنی کی رفتار‬
‫تیز ہو گئی۔۔۔یہ دیکھ کر شاطر نے بھی اپنی رفتار بڑھا لی۔۔‬
‫لیکن روشنی کی رفتار بہت تیز تھی جس کی وجہ سے وہ‪ ‬‬
‫آہستہ آہستہ دور ہوتی گئی اور پھر اچانک نظروں سے‬
‫اوجھل ہو گئی لیکن شاطر نے سمت نہیں بدلی وہ بھی اپنی‬
‫رفتار سے اسی سمت میں اڑ رہا تھا جس رخ روشنی اڑ رہی‬
‫تھی۔۔۔لیکن روشنی کا اب کوئی وجود نہیں تھا۔۔۔شاطر اس‬
‫باری اسے کھونا نہیں چاہتا تھا اگر اس بار بھی اس نے‬
‫روشنی کو کھو دیا تووزیر کرکوس کے ہاتھوں اس کی‬
‫بیعزتی پکی تھی۔۔شاطراپنی بیعزتی کا سوچ کر اڑ رہا تھا کہ‬
‫اچانک سے اس کے آنکھوں کے سامنے جھماکا ہوا اور کوئی‬
‫چیرتی سی چیز اس نے اپنے کندھے پر محسوس کی۔۔شاطر‬
‫کے لیے اپنا وجود سنبھالے رکھنا مشکل ثابت ہوا ۔۔جس کی‬
‫وجہ سے وہ زمیں پر گرنے لگا ۔۔اس کی آنکھیں بند ہو رہی‬
‫تھیں تو کبھی کھل رہی تھیں۔۔اور پھر دھڑام سے وہ زمیں‬
‫پر آن گرا۔۔۔ایک مٹی کا گوال تھا جو اس کے گرنے کے بعد اٹھا‬
‫تھا۔۔جب مٹی زمیں پر بیٹھ گئی تو وہ دیکھنے کے قابل ہوا۔۔‬
‫ایک جسم چلتا ہوا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔شاطر نے‬
‫اپنے‪  ‬کندھے کی جانب دیکھا۔۔۔اس کا زخم آہستہ آہستہ بند‬
‫ہو رہا تھا جسے بھرنے میں ابھی چند لمحے لگنے تھے۔۔۔‬
‫وہ وجود اب شاطر کے پیروں کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔چونکہ سورج شاطر کے سر پر تھا ااس لیے وہ وجود‬
‫واضح نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔‬
‫تم میرا پیچھا کیوں کر رہے تھے۔۔۔یہ ایک نسوانی آواز تھی‬
‫جو شاطر کے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔‬
‫اچھا تو وہ روشنی یہ تھی۔۔۔شاطر نے دل میں سوچا۔۔۔‬
‫ایک ضرب شاطر کی کمر پر پڑی جس سے اس کے جسم نے‬
‫جھٹکا کھایا۔۔۔‬
‫تم نے کل کسی انسان کا قتل کیا تھا میں بس یہ جاننے آیا‬
‫تھا کہ وہ روشنی کس چیز کی تھی۔۔شاطر نے جواب دینے‬
‫میں ہی عافیت جانی۔۔۔‬
‫ہاہاہا ۔اچھا وہ۔۔۔وہ پاگل پتا ہے کیا کر رہا تھا۔۔۔سفرینا کو‬
‫قابو کر رہا تھا۔۔سفرینا کو۔۔۔‬
‫تم جن ہو شاید‪،‬دیکھو تمہارا جو بھی نام ہےمیری تم سے‬
‫کوئی دشمنی نہیں ہے تمہاری زندگی اسی میں ہے کہ تم میرا‬
‫پیچھا کرنا چھوڑ دونہیں تو اپنے موت کے زمہ دار تم خود‬
‫ہوگے۔۔فلحال تمہارے لیے یہ سزا کافی ہے اب اگر تم میرے‬
‫پیچھے آئے تو پھر یاد رکھنا تمہیں دوسرا موقعہ نہیں ملے گا‬
‫۔۔سفرینا نے شاطر کو دھمکی دی ۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا واپس‬
‫مڑی اور پھر شاطر کے سامنے ایک روشنی کا جھماکہ ہوا جو‬
‫تیز رفتار سے اڑنے لگا تھا۔۔۔سفرینا یہ نہیں جانتی تھی کہ‬
‫شاطر اس کی خوشبو سونگھ چکا تھا۔۔۔‬
‫شاطر کا زخم بھر گیا تھا۔۔جسے دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے‬
‫اٹھ کھڑا ۔۔اس نے اپنی پرواز کا رخ محل کی طرف کر دیا۔۔۔‬
‫اس کی بیعزتی پکی تھی لیکن‪  ‬اب اس کے پاس ایک نام‬
‫تھا۔۔سفرینا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بالک چلہ شروع کرنے سے پہلے میری ایک بات یاد رکھنا۔۔۔‬
‫سفرینا کو دوست بنانا نا ممکنات میں سے ہے جس نے بھی‬
‫سفرینا کو قابو کرنا چاہا وہ موت کی وادی میں چال گیا۔۔‬
‫جیسے ہی تم دائرے میں بیٹھ کر پڑھنا شروع کرو گے تمہیں‬
‫ایسے خوفناک منظر دیکھنے کو ملیں گے کہ عام بندہ اگر‬
‫دیکھ لے تو اس کا دل دھڑکنا بھول جائے ۔۔۔کالی طاقتیں‬
‫کبھی نہیں چاہیں گی کہ سفرینا تمہاری غالمی میں آئے ۔۔۔‬
‫اگر دو راتوں‪  ‬تک تم یہ سب برداشت کرتے رہے اور بچ گئےتو‬
‫تیسری رات سفرینا تمہارے سامنے آئے گی لیکن وہ تمہارے‬
‫قابو میں آنے کے لیے تمہارے سامنے کوئی ایسی شرط رکھے‬
‫گی جسے تم پورا نہیں کر سکو گے اور شرط پورا نہ کرنے کا‬
‫مطلب‪  ‬موت ہےاسی لیے میں تمہیں ایک بار پھر خبردار کر‬
‫رہا ہوں کہ خود کو خوف میں مت ڈالنا وہ تمہیں جو بھی‬
‫کہے وہ ضرور کرنا پھر ہی تم اسے قابو کر لو گے۔۔۔‬
‫پنڈت سکندر کو شہر سے دور ایک ویران جگہ پر لے آیا تھا‬
‫یہ کوئی میدانی عالقہ تھا جس پر جگہ جگہ چھوٹی‬
‫جھاڑیاں تھیں لیکن اس کے عالؤہ جو چیز تھی وہ ایک‬
‫عجیب سی بدبو تھی۔۔۔ایسی بدبو جو گوشت کے جلنے سے‬
‫پیدا ہوتی ہے۔۔۔اس وقت رات کے گیارہ‪  ‬بج کر پینتالیس منٹ‬
‫ہو رہے تھے اور پنڈت سکندر کو مستقبل میں ہونے والے‬
‫خدشات سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔سکندر کے پاس اس وقت الل‬
‫مرچ ‪ ،‬ماچس ‪ ،‬ایک چاقو اور بوری میں ایک بچے کی الش‬
‫تھی۔۔ پنڈت نے ایک صاف اور برابر جگہ ڈھونڈی اور پھر‬
‫سکندر کی طرف اپنا چہرہ کر لیا۔۔‬
‫کیا کہتے ہو بالک ۔۔تیار ہو تم؟؟؟‬
‫جی بابا ۔میں تیار ہوں لیکن چلہ شروع کرنے سے پہلے میں‬
‫ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں آپ سے؟‬
‫پوچھو بالک۔۔ضرور پوچھو۔۔۔‬
‫آپ میری مدد کیوں کر رہے ہیں؟‬
‫کافی مشکل سوال پوچھ لیا ہے بالک۔ ہمارے پاس وقت بہت‬
‫کم رہ گیا ہے لیکن میں تمیں سب سچ بتاتا ہوں۔۔۔‬
‫میں بھی تمہاری طرح ایک نوجوان اور ہنس مکھ انسان ہوا‬
‫کرتا تھا پھر ایک دن میری مالقات ایک پنڈت سے ہوئی جس‬
‫سے مجھے سفرینا کے بارے میں پتا چال۔۔اس وقت میرا خون‬
‫گرم تھا ۔۔میں نے بغیر تصدیق کیے چلہ کرنے چل پڑا ۔۔وہ تو‬
‫بھگوان کی کرپا‪  ‬تھی کہ میں بچ گیا لیکن سفرینا نے مجھ‬
‫سے میری پیاری بیٹی اور بیوی لے لی۔۔۔اس چالک چڑیل نے‬
‫مجھ سے میری خوشیاں چھین لیں۔۔۔میں نے اپنے سامنے‬
‫اپنی بیٹی اور بیوی کو مرتے دیکھا۔۔۔‬
‫پھر سفرینا آپ کے قابو میں نہیں آئی؟؟‬
‫نہیں بالک۔۔۔اس نے مجھے زندہ جانے دیا تا کہ میں اپنی‬
‫بیوی بچوں کے غم میں روز مرتا رہوں اس کے بعد میں نے‬
‫بہت سے چھوٹے چھوٹے جاپ کیے‪،‬سادھوں کی خدمت کی‬
‫تب جا کر کچھ علم حاصل ہوا۔۔۔جب میں نے تمہیں دیکھا‬
‫اور تمہارے بارے میں اپنے چیلوں سے معلوم کیا تو مجھے‬
‫پتا چال کہ تم میں وہ شکتی ہے جس سے تم سفرینا کو قابو‬
‫کر لو گے۔تم بھی میری طرح اپنا سب کچھ ہار چکے ہو۔اب‬
‫تم خود ہی دیکھ لو۔۔کل سے اب تک تمہیں نہ کوئی سوچ‬
‫آئی اور نہ تم پریشان ہوئے۔۔یہ سفرینا تمہاری زندگی کو بدل‬
‫کر رکھ دے گی لیکن بالک یاد رکھنا ۔۔تم سفرینا سے ہر کام‬
‫کروا لینا لیکن اس پر کبھی بھروسہ نہ کرنا ۔۔۔وہ تمہیں‬
‫مارنے کے لیے تم پر بہت سے داؤ چالئے گی لیکن اپنی زندگی‬
‫میں تم جس طرح پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے تھے ویسے‬
‫ہی سفرینا کو سنبھالے رکھنا ۔وہ آفت کی پڑیا ہے۔۔۔اچھا اب‬
‫وقت شروع ہونے واال ہے تم جلدی سے دائرہ لگ کر بیٹھ جاؤ‬
‫اور اپنا جاپ شروع کرو۔۔۔اچھا ایک بات اور۔۔اب میں تم سے‬
‫کبھی نہیں مل سکوں گا‪،‬۔بھگوان تمہاری مدد کرے۔۔یہ کہہ‬
‫کر پنڈت نے سکندر کے سر پر ہاتھ پیرا اور پھر اندھیری‬
‫سمت میں چل پڑا۔۔۔۔‬
‫سکندر نے ہاتھ میں باندھی گھڑی کو دیکھا ۔۔بارہ بجنے میں‬
‫دو منٹ باقی تھےاس نے جلدی جلدی چاقو نکاالاور کچھ‬
‫پڑھ کر چاقو پر پھونک ماری پھر جلدی سے صاف جگہ پر‬
‫کھڑے ہو کر چاقو کی مدد سے‪  ‬دائرے کی صورت میں لکیر‬
‫ماری۔۔بوری کو کھوال اور الش کو باہر نکال لیا۔یہ کسی‬
‫مسلمان بچے کی الش لگ رہی تھی۔۔۔پتا نہیں کس کا بچہ‬
‫ہوگا لیکن سکندر نے وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔‬
‫الش کو سامنے لٹا کر اس نے جلدی جلدی ماچس کی ڈبیا‬
‫جھولی اور چار تیلیاں نکال کر ان کا کراس بنایا اور پھر‬
‫تیلیوں کو‪  ‬بچے کے سینے پر رکھ دیا۔۔ الل مرچ نکال کر اس‬
‫نے بچہ کی الش کے گرد چھوٹا سا دائرہ لگایا۔۔اب تیاری‬
‫مکمل تھی۔۔۔جیسے ہی سکندر نے گھڑی پر نظر ڈالی گھڑی‪ ‬‬
‫نے بارہ بجنے پر چھوٹی سی بیپ کی آواز نکالی جسے سن‬
‫کر سکندر آلتی پالتی مار کرزمیں پر بیٹھ گیا اور اپنی‬
‫آنکھیں بند کر لیں۔۔۔اس کے لب ہلنا شروع ہو گئے تھے۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سفرینا کی چوٹ کی وجہ سے شاطر کے زخم تو بھر گئے‬
‫مگر اس کے اڑنے کی رفتار بہت کم تھی۔۔۔پہلے اس نے سوچا‬
‫کہ وزیر کرکوس سے مل کر اسے سب کچھ بتائے لیکن جس‬
‫طرح سے اس کی حالت تھی اس سے اڑا نہیں جا رہا تھا۔۔۔‬
‫ایک سایہ دار جگہ دیکھ کر اس نے رکنے کا فیصلہ کیا اور‬
‫پھر آہستہ آہستہ زمین پر آگیا۔۔۔ارد گرد نظر دوڑائی مگر‬
‫وہاں خاموشی ہی خاموشی تھی۔۔شاطر نے اپنی آنکھیں بند‬
‫کر لیں اور دماغ میں وزیر کرکوس کا چہرا تصور کیا۔۔۔وزیر‬
‫کرکوس جاگ گئے تھے لیکن اس وقت محل سے باہر کہیں جا‬
‫رہے تھے۔۔۔‬
‫کہو شاطر کیسے یاد کیا ؟ وزیر کرکوس نے شاطر کی‬
‫خوشبو سونگھ لی تھی‬
‫وزیر کرکوس آپ سے جانے کے بعد میں نے اس بجلی کا‬
‫پیچھا کیا وہ اس وقت اندھیری طاقتوں سے ملنے گئی ہوئی‬
‫تھی۔۔جیسے ہی وہ وہاں سے نکلی میں نے اس کا پیچھا‬
‫شروع کر دیا لیکن اسے میری موجودگی کا پتا چل گیا‪  ‬جس‬
‫پر اس نے مجھ پر حملہ کیا اور میں زمیں پر گر گیا۔۔۔وہاں‬
‫میں نے اسے دیکھا وہ ایک لڑکی ہے جو اپنا نام سفرینا بتا‬
‫رہی تھی۔۔اس نے مجھے پیچھے کرنے سے منع کیا اور جان‬
‫سے مارنے کی دھمکی دی۔۔۔‬
‫ہمممم۔۔۔۔سفرینا۔۔۔پہلے کبھی سنا نہیں ہے اس لڑکی کے بارے‬
‫میں۔۔اور جب تم اس کا پیچھا کر رہے تھے تو خود کو حصار‬
‫میں بند کر لینا تھا۔۔تم نے ایسا نہیں کیا اس وجہ سے اس نے‬
‫تمہاری خوشبو سونگھ لی۔۔۔‬
‫جی یہی غلطی ہو گئی مجھ سے لیکن اس وقت میں نہیں‬
‫جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔۔اب پتا چل گیا ہے تو اب احتیاط‬
‫کروں گا۔۔۔‬
‫یہی کرنا ہوگا تمہیں۔۔۔اور اب تمہارا کیا ارادہ ہے شاطر۔۔۔؟‬
‫وزیر کرکوس میں نے اس کی خوشبو سونگھ لی ہے اور اس‬
‫کا نام بھی پتا چل گیا ہے اب آپ ہی مجھے بتائیں کہ میں‬
‫کیا کروں۔۔۔‬
‫ہممم۔۔۔۔اب اس کا پیچھا کرنے کی ضرورت تو نہیں ہے لیکن‬
‫کبھی کبھار اسے دور دور سے دیکھ لو اگر تو وہ انسانیت‬
‫اور ہمارے‪  ‬خالف کوئی کام کرتی ہے تو پھر مجھے بتاؤ ۔۔‬
‫نہیں تو جو اس سے ٹکرائے گا وہی اس کا زمہ دار ہوگا۔۔۔‬
‫جی ٹھیک ہے وزیر کرکوس۔۔۔یہ کہہ کر شاطر نے آنکھیں‬
‫‪ ‬کھول لیں اس کا رابطہ کٹ چکا تھا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ابھی چلہ شروع کیے تھوڑی ہی دیر گزری کہ آسمان پر بادل‬
‫آگئے اور پھر اچانک سے زوردار بارش شروع ہو گئی تھی۔۔ ۔۔‬
‫سکندر نے آنکھیں کھول لیں تو بارش کو برستے پایا لیکن‬
‫حیرت کی بات تھی کہ بارش کا پانی دائرے میں نہیں گر رہا‬
‫تھا۔۔۔اسے پنڈت کی بات یاد آگئی کہ چلہ میں تمہیں نظر کا‬
‫دھوکا ہوگا اس لیے کسی بات پر دھیان نہ دینا بلکہ اپنی‬
‫پڑھائی کرتے رہنا۔۔۔۔یہ سوچ کر سکندر نے دوبارہ اپنی‬
‫آنکھیں بند کر لی۔۔‬
‫او مورکھ! تم نے میری بکری تو نہیں دیکھی۔۔ آواز سن کر‬
‫سکندر نے دوبارہ آنکھیں کھول لیں۔بارش رک چکی تھی‬
‫مگر۔سامنے ایک دھوتی باندھے بوڑھا سا آدمی کھڑا تھا جس‬
‫کے سر پر لمبی سی پگڑی تھی اور ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا‬
‫جو موذی جانوروں کو بھگانے کے کام ٓاتا ہے‬
‫تم نے سنا نہیں ۔۔میں کیا کہہ رہا ہوں‪ ،‬میری ایک بکری گم ہو‬
‫گئی ہے۔۔کالے رنگ کی ہے۔۔کہیں تم نے تو نہیں چھپا لی اگر‬
‫ایسا ہے تو میری بکری مجھے واپس کر دو۔۔۔‬
‫سکندر کو یہ بھی نظر کا دھوکا لگ رہا تھا اس لیے اس نے‬
‫یہاں بھی چپ سادھ لی۔۔۔‬
‫تم جواب کیوں نہیں دے رہے ۔۔گونگے ہو کیا۔۔۔دیکھو تم جو‬
‫بھی ہو مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔۔مجھے بس‬
‫میری بکری دے دو۔۔اگر تم نے‪  ‬نہیں اٹھائی تو مجھے صرف‬
‫اتنا بتا دو کہ تم نے بکری کو دیکھا ہے یا نہیں؟‬
‫یہ ایک چال ہے ‪،‬اس چال میں مت پڑنا۔۔۔سکندر کے دل سے‬
‫آواز آئی۔‬
‫لگتا ہے تم بہرے بھی ہو‪،‬مجھے تو تم شکل سے چور لگ رہے‬
‫ہو۔۔سیدھی طرح بتاؤ کہ میری بکری دیتے ہو یا نہیں۔۔۔‬
‫سکندر اپنے جاپ میں مصروف رہا۔۔‬
‫میرا خیال ہے تم ایسے نہیں بتاؤ گے۔۔رکو میں تمہارا‬
‫بندوبست کرتا ہوں۔۔۔یہ کہہ کر وہ بوڑھا آدمی سکندر کی‬
‫جانب بڑھنے لگا۔۔۔اب سکندر کے دل میں بھی ڈر بیٹھ گیا‬
‫تھا۔۔وہ سوچنے لگا کہ اگر یہ بوڑھا آدمی دائرے کے اندر آ گیا‬
‫تو اس کا جاپ خراب ہو جائے گااور پھر اس کا کوئی‬
‫بھروسہ بھی نہیں ۔۔کہیں یہ سچ میں ڈنڈہ نا مار دے۔۔۔‬
‫بوڑھا آدمی دائرے کے قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔‬
‫نہیں بتاؤ گے نا۔۔۔تو پھر یہ لو۔۔۔یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے‬
‫ڈنڈا سیدھا کیا اور سکندر کی طرف پھینک دیا۔۔۔‬
‫ڈنڈے کو اپنی جانب آتے دیکھ کر سکندر نے آنکھیں بند کر‬
‫لیں۔۔کچھ دیر کے بعد جب کچھ بھی نہ ہوا تو سکندر نے‬
‫آنکھیں دوبارہ کھول دیں لیکن اب وہاں کچھ بھی نہیں‬
‫تھا۔۔۔لگتا ہے وہ بوڑھا بھی نظر کا دھوکہ تھا۔۔پتا نہیں اور‬
‫کیا کیا ہونا ہے آج۔۔یہ سوچ کر سکندر نے آنکھیں بند کر لیں۔۔‬
‫اب اس نے جلدی جلدی جاپ پورا کرنا تھا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاطر کو چوٹ پہنچانے اور خبردار کرنے کے بعد سفرینا نے‬
‫اپنا سفر دوبارہ شروع کیا اب اس کی منزل انسانی آبادیوں‬
‫تھی۔۔اس کے پاس کوئی خاص مصروفیات نہیں تھی تو اس‬
‫نے سوچا کہ انسانی آبادیوں میں جا کر وقت گزاری کرے۔۔۔‬
‫چونکہ انسانی آبادی ابھی بہت دور تھی اس لیے سفرینا کو‬
‫اپنے اڑنے کی رفتار بڑھانی پڑی۔۔۔‬
‫ایک طویل سفر کے بعد سفرینا کو دور دور سے بڑی بلڈنگز‬
‫نظر آنے لگیں مگر شہر میں داخل ہونے سے پہلے سفرینا کا‬
‫انسانی جسم میں آنا ضروری تھاجس کے لیے اس نے ایک‬
‫ویران جگہ دیکھ کر اترنے کا سوچا ۔یہ کوئی پرانا گھر تھا‬
‫جو اب کھنڈر کی شکل اختیار کر گیا تھا۔‬
‫یہ جگہ ٹھیک ہے۔۔سفرینا نے دل میں سوچا اور‪  ‬رفتار کم‬
‫کردی اور پھر روشنی صحن کے فرش پر آ لگی۔۔۔‬
‫سفرینا ایک خوبصورت سی لڑکی میں بدل چکی تھی جس‬
‫کے جسم پر ایک شہزادی سا لباس تھا۔۔۔‬
‫اس نے گھر کے گیٹ سے گزر کر قدم باہر گلی میں رکھا۔۔۔یہ‬
‫کوئی گلی نہیں تھی بلکہ سڑک تھی جس کے آخری سرے پر‬
‫یہ پرانا سا گھر تھا اور دوسرا سرا شاید آبادی کو جا کر لگے‬
‫گا۔۔۔چند سو قدم کی دوری پر سفرینا کو کچھ جھونپڑیاں‬
‫لگی ہوئی نظر ہیں جس کے سامنے چند بچے ننگی حالت‬
‫میں کھیل رہے تھے۔ بچوں نے جب ایک خوبصورت لڑکی کو‬
‫دیکھا تو وہ اپنا کھیل چھوڑ کر سفرینا کو دیکھنے میں مگن‬
‫ہو گئے۔۔۔‬
‫سفرینا نے ایک نظر بچوں پر ڈالی اور پھر ناک کی سیدھ‬
‫میں چلنے لگی۔ ۔کچھ دیر میں گھر نظر آنا شروع ہو گئے اور‬
‫سفرینا سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے‪ ،‬کہاں جائے ؟؟‬
‫وہ دیکھو دوستوں لڑکی ۔۔۔‬
‫سفرینا کو‪  ‬آواز نے اپنی جانب کھینچ لیا۔۔یہ کچھ لڑکوں کا‬
‫ایک گروپ تھا جو اس وقت ایک چھوٹے سے میدان کے‬
‫کنارے پر کھڑے تھے ۔۔ان کے ہاتھ میں لکڑی کے ڈنڈے تھے‬
‫اور کچھ سامان بھی انہیں نے اٹھا رکھا تھا۔۔۔شاید وہ کوئی‬
‫کھیل کھیلنے آئے تھے۔۔۔‬
‫سفرینا کو دیکھ کر لڑکوں نے آواز کسنا شروع کر دی لیکن‬
‫سفرینا ان سے بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔۔۔‬
‫اچانک ایک لڑکا اپنا سامان دوسرے لڑکے کے ہاتھ میں تھما‬
‫کر سفرینا کی جانب قدم بڑھانے لگا اور پھر نزدیک پہنچ کر‬
‫سفرینا کے آگے کھڑا ہو گیا اور رستہ بند کر دیا۔۔‬
‫کون ہو تم اور اکیلی یہاں کیا کر رہی ہو ۔۔۔لڑکے نے سوال‬
‫پوچھا‬
‫دیکھو لڑکے تم جو بھی ہو میرے سامنے سے ہٹ جاؤ نہیں‬
‫تو تمہارے لیے برا ہوگا۔۔۔۔سفرینا نے لڑکے کو خبردار کیا مگر‬
‫لڑکا شاید سفرینا کو ایک عام سی لڑکی سمجھ رہا تھا۔۔۔‬
‫دوستوں دیکھو زرا اس لڑکی کو‪ ،‬دھمکی دے رہی ہے‬
‫مجھے۔۔لڑکے نے یہ بات اپنے دوستوں سے کہی تھی‬
‫مجھے لگتا ہے کہ تم بن سنور کر اپنے یار سے ملنے جا رہی ہو‬
‫۔۔ارےمجھے بھی اپنا یار سمجھ لو جان من۔ ہمیں بھی اپنا‬
‫کچھ وقت دے دو ‪ ،‬ہم بھی تمہارے چاہنے والوں میں سے‬
‫ہے۔۔۔‬
‫اب لڑکے کی باتیں سفرینا کے لیے برداشت سے باہر ہو رہی‬
‫تھی ا۔۔س نے لڑکے کو سبق سکھانے کے لیے آنکھیں بند کر‬
‫لیں ۔۔ابھی اس کی آنکھیں بند ہوئیں کہ اس کے جسم سے‬
‫ایک زور دار جھٹکا کھایا۔۔۔‬
‫ایک تو میں ان انسانوں کے بچوں سے بیزار ہو گئی ہوں جو‬
‫ہر کوئی منہ اٹھائے سفرینا کو غالم بنانے چل پڑتا یے۔۔۔‬
‫سفرہنا نے یہ بات اونچی آواز میں کہی تھی جسے لڑکے نے‬
‫بھی سن لیا۔۔۔‬
‫دیکھو لڑکے تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی اس لیے میں‬
‫تمہیں دس دنوں کی سزا دے رہی ہوں۔۔میں تمہارے ہاتھ اور‬
‫پیر توڑ کر جا رہی ہو جو دس دن بعد خود بخود ٹھیک ہو‬
‫جائیں گے ۔۔یہ تمہارے لیے سبق ہوگا ۔۔آئندہ اکیلی لڑکی‬
‫دیکھو تو اسے اپنی بہن سمجھنا۔۔۔جیسے ہی سفرینا کی بات‬
‫مکمل ہوئی لڑکا زمیں پر گر گیا اس کے ہاتھ پیر الٹی جانب‬
‫میں مڑ گئے تھے۔۔۔‬
‫جب تک اس لڑکے کے باقی دوست قریب آتے سفرینا بجلی‬
‫کی شکل میں ڈھل چکی تھی اور پھر بجلی آسمان کی‬
‫جانب اڑنے لگی۔۔۔کھلے ٓاسمان میں پہنچ کر سفرینا نے اپنی‬
‫ٓانکھیں بند کر لیں اور تصور میں اس جگہ کو دیکھنے لگی‬
‫جہاں اسے قابو میں کرنے کے لیے وہ انسان بیٹھا ہوا تھا۔۔۔‬
‫یہ جگہ اس کی دیکھی بھالی تھی ٓاج سے چند سال پہلے‬
‫بھی ایک ہندو ٓادمی نے یہیں اسے قابو میں رکھنے کے لیے‬
‫چلہ لگایا تھا اور ٓاج ایک اور انسان بھی اسی جگہ پر بیٹھا‬
‫اس کی غالمی کا چلہ کاٹ رہا تھا۔۔۔‬
‫تم لوگوں نے ٓاخر سفرینا کو سمجھ کیا رکھا ہے کہ جس کا‬
‫دل چاہا وہ سفرینا کو غالم بنانے کے لیے چل پڑتا ہے۔۔۔۔‬
‫اس وقت سفرینا کے چہرے کو غصہ نے غضبناک بنا دیا تھا۔۔۔‬
‫اس کی خوبصورت‪ٓ  ‬انکھیں شعلے برسا رہی تھی‪،‬اگر وہ‬
‫انسان اس کے سامنے ہوتا تو شاید سفرینا اسے زندہ چبا‬
‫جاتی لیکن اس انسان کی خوش قسمتی کہ وہ سفرینا سے‬
‫بہت دور بیٹھا ہوا تھا۔۔۔‬
‫دیکھتی ہوں کہ تم کیسے مجھے اپنا غالم بناتے ہو۔۔۔یہ بات‬
‫سفرینا نے ٓانکھیں کھول کر کہی تھی۔۔۔سفرینا نے اپنے جسم‬
‫کو ٓاگے کی جانب دھکا دیا اور پھر روشنی ایک سمت میں‬
‫اڑنے لگی۔۔۔‬
‫_________________________________________‬
‫سکندر بند کرو یہ سب تمہیں اپنے بوڑھے ماں باپ کا واسطہ‬
‫نہیں تو یہ لڑکی ہمیں مار ڈالے گی۔۔۔۔‬
‫ایک مانوس سی ٓاواز سکندر کے کانوں سے ٹکرائی اور اس‬
‫نے جھٹ سے ٓانکھیں کھول دیں۔۔۔‬
‫ٓاگے کا منظر دیکھ کر سکندر کا دل حلق میں ٓان اٹکا ۔۔۔اس‬
‫کے ماں باپ اور چھوٹا بھائی خون میں لت پت زمیں پر لیٹے‬
‫ہوئے تھے اور ایک دس سال کی بچی ان پر خنجر سے وار کر‬
‫رہی تھی۔۔۔‬
‫یہی ہیں نا تمہارے ماں باپ۔۔دیکھ لو جی بھر کے انہیں ۔۔ٓاج‬
‫یہ ان کی ٓاخری رات ہے پھر تم انہیں کبھی زندہ نہیں دیکھ‬
‫سکو گے۔۔۔بچی نے چنگاڑے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫بیٹا ہمیں اس سے بچاو‪،‬یہ ہمیں مار ڈالے گی۔۔۔‬
‫چالو اور چالو‪ٓ،‬اج میں دیکھتی ہوئی تمہیں مجھ سے کون‬
‫بچا سکتا ہے۔۔۔بچی کی دہشت ناک ٓاواز سکندر کو سنائی‬
‫دی۔۔‬
‫سکندر کے لب ہلنا بند ہو گئے تھے‪،‬اس کی ٓانکھیں پھترا سی‬
‫گئی تھیں۔اسے سمجھ نہیں ٓا رہا تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔۔‬
‫کیسے اس کے ماں باپ اور بھائی یہاں تک ٓا گئے اور وہ زندہ‬
‫ہیں۔۔یہ سب سوچ کر سکندر کا دماغ ماوف ہو گیا۔‬
‫تم سب کو کیا لگتا ہے کہ تمہارا بیٹا تمہیں مجھ سے بچا لے‬
‫گا۔۔۔ہاہاہاہا ۔۔۔ٓاج تم سب کی موت یقینی ہے۔۔۔کلمہ پڑھ لو تم‬
‫سب ۔۔۔یہ کہہ کر بچی نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ سکندر کو بچی‬
‫کے ہاتھ میں خنجر نظر ٓایا۔۔۔‬
‫یہ خونی منظر دیکھ کر سکندر کے چودہ طبق روشن ہو‬
‫گئے‪،‬وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔اس کے لیے چلہ سے‬
‫زیادہ ماں باپ اور بھائی عزیز تھے۔۔ابھی سکندر نے قدم‬
‫بڑھایا ہی تھا کہ سکندر کو پنڈت کی ٓاواز سنائی دی۔۔۔‬
‫پاگل ہو گیا ہو کیا بالک‪،‬تمہارے ماں باپ تو بہت پہلے کے مر‬
‫چکے ہیں۔۔یہ نظر کا دھوکہ ہے‪،‬چپ کرکے اپنا چلہ پورا‬
‫کرو‪،‬یہ سب نظر کا فریب ہے۔۔۔‬
‫یہ سن کر سکندر نے اٹھتا قدم روک دیا اور پھر سکندر کے‬
‫چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔‬
‫وہ اپنی جگہ پر بیٹھ گیا اور دوبارہ سے ٓانکھیں بند کرلی ۔۔‬
‫اس کے لب پھر سے ہلنا شروع ہو گئے ۔۔۔‬
‫اچانک ایک زور دار چیخ سنائی دی ‪ ،‬سکندر نے ٓانکھیں‬
‫کھول کر دیکھا تو سامنے کوئی انسان نہیں تھا سب کچھ‬
‫غائب ہو چکا تھا۔۔۔۔‬
‫پہلی رات اپنے اختتام کو ہونے والی تھی اور روشنی ہونی‬
‫میں تھوڑی ہی دیر باقی تھی۔۔سفرینا ۔۔۔۔قسط نمبر ‪ ( 4‬از‬
‫)ابن نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سفرینا جب شہر کے قریب پہنچی تو اس وقت دن کے گیارہ‬
‫بج رہے تھے۔۔وہ اس انسان سے دوبدو ملنہ چاہتی تھی وہ‬
‫دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر یہ کس طرح کا انسان ہے جو اسے‬
‫اپنا غالم بنانا چاہتا ہے۔۔۔سفرینا نے اس انسان کا چہرہ دماغ‬
‫میں بٹھا لیا تھا اس لیے اس تک پہنچنا سفرینا کے زیادہ‬
‫مشکل ثابت نہیں ہوا۔۔۔‬
‫یہ کوئی بڑی سی عمارت تھی جس کا آخری سرا آسمان کی‬
‫بلندی کو چھو رہا تھا۔۔جیسے ہی سفرینا نے بلڈنگ کا داخلی‬
‫گیٹ عبور کیا۔۔گیٹ پر موجود آدمی اپنی کرسی سے اٹھ‬
‫کھڑا ہوا۔۔وہ سیکیورٹی پر مامور مالزم تھا‪  ‬اور اب وہ‬
‫سفرینا کی جانب بڑھ رہا تھا۔۔۔‬
‫میڈیم۔۔۔کیا تم کسی کو ڈھونڈ رہی ہو؟ قریب پہنچ کر اس‬
‫آدمی نے سفرینا کو مخاطب کیا‬
‫تمہیں کیسے پتا چال کہ میں کسی کو ڈھونڈ رہی ہو؟ سفرینا‬
‫نے سن گالسز اپنی آنکھوں سے اوپر کر کے سر پر رکھ دیا‬
‫اس وقت سفرینا نے ایک مشرقی مگر خوبصورت لڑکی کا‬
‫‪ ‬روپ دھار لیا تھا جس نے جینز پہن رکھی تھی‬
‫میڈم ہمارا یہاں سات سال سروس ہے ‪ ،‬ہم دیکھ کر بتا سکتا‬
‫ہے کہ کون یہاں کیا کرنے آتا ہے؟‬
‫مالزم نے انگلی اپنے منہ میں ڈال کر کچھ باہر نکال پھینکا‪ ‬‬
‫تھا‬
‫مسٹر! میں جسے ملنے آئی ہوں اس کا نام مجھے بھول گیا‬
‫ہے ۔۔بس شکل یاد ہے ۔۔۔سفرینا کہیں پھنس نا جائے اس لیے‬
‫اس نے بات کو تبدیل کر دیا‬
‫ارے۔۔یہ کیا بولتا ہے تم‪ ،‬جس سے ملنا ہے اس کا نام ہی بھول‬
‫گیا ہے۔ مالزم نے اپنا دائیاں ہاتھ سر پر رکھ کر سر کو‬
‫کھجانا شروع کیا‬
‫تم پریشان نہیں ہو ۔۔۔ یہ تمہارا مسلہ نہیں ہے ‪ ،‬میں نے کہا نا‬
‫کہ مجھے اس کی شکل یاد ہے ‪ ،‬میں خود اسے ڈھونڈھ لوں‬
‫گی‬
‫سفرینا کو یہاں کھڑے کھڑے گرمی لگ رہی تھی اور یہ‬
‫آدمی اس کی جان نہیں چھوڑ رہا تھا۔۔۔اس کا دل چاہا کہ‬
‫اپنی شکتی سے مالزم کو ُس ال دے لیکن وہ کوئی پریشانی‬
‫نہیں چاہتی تھی اس لیے اس نے ضبط کر رکھا تھا‬
‫ایسے کیسے ڈھونڈھ لے گا تم۔۔۔ یہاں ‪1800‬لوگ کام کرتا ہے ‪،‬‬
‫تم کیسے ہر ایک کاشکل دیکھتا پھرے گا‬
‫مالزم کو بھی شاید اس لڑکی کو تنگ کرنے میں مزا آنے لگا‬
‫تھا اس لیے وہ اسے جانے نہیں دے رہا تھا‬
‫دیکھو مسٹر تم مجھے تنگ کر رہے ہو ‪ ،‬اب اگر تم نے اور‬
‫کوئی سوال کیا تو میں تمہاری شکایت تمہارے افسر سے کر‬
‫دوں گی۔۔سفرینا نے محافظ کو ڈرانے کی کوشش کی اور وہ‬
‫اس میں کامیاب بھی ہو گئی‬
‫میڈم ۔۔۔ایسا مت کرو ‪ ،‬ویسے بھی باس آج بہت تپا ہوا ہے‪،‬‬
‫اگر باس کو پتا چل گیا کہ ہم نے تم کو تنگ کیا ہے تو ہمارا‬
‫خیر نہیں‪ ،‬چلو تم جاؤ لیکن ہم کو اپنا نام بتاؤ ‪ ،‬ہم رجسٹر‬
‫میں لکھے گا‬
‫یہ بات سن کر پریشان ہو گئی کہ اب اسے اپنا اصل نام بتائے‬
‫یا نہیں‬
‫اب کیا تم کو اپنا نام بھی بھول گیا ہے میڈم ؟‬
‫سفرینا کو خاموش دیکھ محافظ بوال‬
‫نہیں ۔۔مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ میں نے‬
‫تمہیں کہیں دیکھا ہے۔۔سفرینا نے بات کو گول کرنا چاہا‬
‫ضرور دیکھا ہوگا میڈم ۔۔ہمارا بھائی کا شہر میں نسوار کا‬
‫بہت بڑا دوکان ہے‪ ،‬ہم بھی وہاں آتا جاتا ہے ‪ ،‬شاید تم نے ہم‬
‫کو ادھر دیکھا ہو گا‬
‫ہاں شاید وہیں دیکھا ہوگا۔۔۔سفرینا کو کوئی اور جواب نہیں‬
‫سوجا‬
‫میڈم ۔۔تم بھی نسوار کرتا ہے کیا؟ مالزم نے نزدیک ہو کر‬
‫سرگوشی میں پوچھا‬
‫نہیں ۔۔میں نہیں کرتی ہوں ۔۔ایک دن میں وہاں سے گزر رہی‪ ‬‬
‫تھی تو تم کو وہیں بیٹھے دیکھا تھا۔۔۔سفرینا بری طرح‬
‫پھنس چکی تھی اور اب اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ‬
‫اس انسان سے جان کیسے چھڑائے‬
‫سفرینا نے تو یہ بات کر دی تھی لیکن اسے پتا نہیں تھا کہ‬
‫اس بات کا مالزم نے کچھ اور مطلب لے لیا تھا اور اب وہ‬
‫اسے دوسری نظروں سے دیکھ رہا تھا‬
‫ہمارا اماں بھی بولتا ہے کہ شربت خان تم بہت خوبصورت‬
‫ہے۔۔ مالزم جس کا نام شربت خان تھا نے بھی ٹھان رکھی‬
‫تھی کہ آج اس نے جی بھر کے دل لگی کرنی ہے‬
‫جو بھی ہے ۔۔۔ تم نے میرا بہت ٹائم ضائع کر دیا ہے ۔۔اب میں‬
‫چلتی ہوں ۔۔۔اس نے شربت خان کی بات بھی نہیں سنی اور‬
‫آگے بڑھ گئی‬
‫ارے میڈم ۔۔ادھر سنو ۔۔ہم کو اپنا نام تو بتاؤ ۔۔لیکن سفرینا‬
‫نے اسے مڑ کر بھی نہیں دیکھا‬
‫چلو مت بتاؤ تم کونسا بھولنے کا چیز ہے ۔۔۔۔یہ کہہ کر شربت‬
‫خان اپنے چھوٹے سے کمرے کی جانب چل پڑا جو گیٹ کے‬
‫قریب بنایا گیا تھا۔۔اس کے لبوں پر کسی پشتو گانے کی دھن‬
‫تھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شائستہ۔۔۔تمہیں میں نے فرم کے تمام سٹاف کا ڈیٹا اکھٹا‬
‫کرنے کا کہا تھا۔۔تمہارا کام کہاں تک پہنچا ہے؟ سکندر اس‬
‫وقت اپنے کمرے کے باہر کھڑا ہوا تھا۔۔۔‬
‫سکندر صاحب۔۔جیسے آپ نے کہا تھا میں نے تمام ریکارڈ‬
‫اکھٹا کر لیا ہے۔۔ابھی میں فائل آپ کے آفس میں التی ہو۔۔‬
‫گڈ۔۔۔یہ کہہ کر سکندر نے اپنے آفس کی جانب قدم بڑھائے‬
‫سنیے۔۔۔ایک نسوانی آواز سکندر کے کانوں میں ٹکرائی اور‬
‫اس نے بڑھتے قدم روک لیے۔پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک‬
‫خوبصورت سی لڑکی اس سے مخاطب تھی‬
‫جی۔۔آپ نے مجھ سے کہا؟۔ سکندر نے اس‪  ‬لڑکی سے کہا‬
‫جی بلکل ۔۔کیا آپ مجھے کچھ منٹ دینا پسند کرینگے۔۔لڑکی‬
‫جو سفرینا تھی‬
‫بلکل۔۔آئیں میری آفس میں‪ ،‬وہیں بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔‬
‫سکندر نے سفرینا کو رستہ دیکھتے ہوئے کہا‬
‫آفس میں پہنچ کر سکندر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور‬
‫سفرینا ٹیبل کے ساتھ لگے صوفے پر بیٹھ گئی‬
‫جی تو مس۔۔۔۔۔؟ سکندر یہاں پہنچ کر رک گیا‬
‫میرا نام الفت ہے ۔ سفرینا نے اپنا فرضی نام بتایا‬
‫اچھاتومس الفت۔۔۔کیا بات کرنی تھی آپ نے ؟ ویسے ہمارے‬
‫سٹاف میں ایک لڑکی ہے اس کا نام بھی الفت یے۔۔‬
‫سکندر نے الفت جو کہ سفرینا تھی کی معلومات میں اضافہ‬
‫کرتے ہوئے کہا‬
‫‪ ‬او۔۔اچھا ۔۔ویسے اسے حسین اتفاق کہا جا سکتا ہے‬
‫سفرینا نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔‬
‫اب وہ کیسے سکندر کو بتاتی کہ یہ نام اس نے آفس میں‪ ‬‬
‫ہی سن کر رکھ لیا تھا‬
‫وہ بات کچھ یوں ہے کہ میرے چچا کچھ دن سے ال پتہ ہیں‬
‫اور مجھے پتا چال ہے کہ وہ آپ کے ساتھ دیکھے گئے ہیں۔۔‬
‫سفرینا نے بات کو بڑھاتے ہوئے کہا‬
‫کیا نام ہے آپ کے چچا کا؟‬
‫شہباز خان نام ہے انکا۔۔۔یہ نام بھی سفرینا نے آفس میں سنا‬
‫تھا‬
‫میں اس نام کے کسی انسان کو نہیں جانتا ہوں۔۔آپ کے چچا‬
‫میرے ساتھ کب اور کہاں دیکھے گئے ہیں۔۔۔‬
‫یہ تو میں نہیں جانتی لیکن مجھے محلے والوں سے پتا چال‬
‫کہ چچا ٓاپ کے ساتھ دیکھے گئے تھے اسی لیے ٓاپ سے‬
‫پوچھنے ٓا گئی۔۔۔‬
‫اچھا ‪ٓ..‬اپ کو میرے بارے میں کہاں سے پتا چال؟‬
‫سکندر نے ٓاخر وہ سوال پوچھ لیا جس کا سفرینا کا ڈر تھا۔۔۔‬
‫سفرینا سوچ رہی تھی کہ سکندر کو کیا بتائے کہ جس سے‬
‫وہ مطمئن بھی ہو جائے اور اسے شک بھی نہ ہو۔۔‬
‫مجھے محلے کا بچہ یہاں چھوڑ گیا تھا‪ ،‬شاید وہ ٓاپ کو‬
‫جانتا ہے ۔۔ٓاخر سفرینا کو جواب مل گیا‬
‫اور ٓافس میں ٓاپ نے مجھے کیسے ڈھونڈا یہاں؟سکندر نے‬
‫دوسرا سوال داغ دیا۔‬
‫مسٹر ۔۔۔یہ کیا بات ہوئی۔۔میں یہاں اپنے چچا کا پتا کرنے ٓائی‬
‫ہوں اور ٓاپ مجھ سے ہی سوال جواب کر رہے ہیں۔۔۔لگتا ہے‬
‫میرا یہاں مزید بیٹھا فضول ہے‬
‫یہ کہہ کر سفرینا نے اپنی جگہ چھوڑ دی ‪ ،‬اسے لگا کہ مزید‬
‫بیٹھنا اسے پھنسا دے گا اس لیے جانے میں ہی بہتری ہے۔‬
‫سوری مس۔۔۔۔سچ میں‪ ،‬میں نے فضول سوال کرنا شروع کر‬
‫دیے ٓاپ سے۔۔ ٓاپ بیٹھیں میں ٓا پکے لیے کولڈ ڈرنک منگواتا‬
‫ہوں۔۔۔ سکندر نے سفرینا کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی‬
‫جی نہیں ۔۔میں اب یہاں اور نہیں بیٹھ سکتی۔۔ٓاپ کی مدد‬
‫کا شکریہ‬
‫یہ کہہ کر سفرینا ٓافس کے دروازے کی جانب چل پڑی اور‬
‫باہر نکل گئی‬
‫سکندر اگر ایسا ہی چلتا رہا تو تم اپنی عزت اور ساکھ خراب‬
‫‪ ‬کر دو گے‬
‫سکندر نے دبے الفاظ میں کہا‬
‫سکندر سوچ رہا تھا کہ الفت نامی لڑکی اسے مسٹر کہہ کر‬
‫بال رہی تھی ‪ ،‬اس کا مطلب کہ وہ سکندر کا نام نہیں جانتی‬
‫تھی اور اگر نام نہیں جانتی تھی تو وہ یہاں تک کیسے ٓان‬
‫پہنچی۔شاید اس محلے کے بچے نے یہاں بھی الفت کی مدد‬
‫کی ہو گی۔۔۔لیکن اس بچے کو میرا پتا کہاں سے چال ۔۔‬
‫بہت سے سوال تھے جن کے جواب سکندر کے دماغ میں نہیں‬
‫بن رہے تھے اور اب مزید سوچنے پر اس کے دماغ میں کاال‬
‫اندھیرا چھا رہا تھا۔۔جس کا مطلب تھا کہ اس کا دماغ اب‬
‫کورا کاغذ بن گیا ہے اور مزید سوچنے کا مطلب خود کو‬
‫اذیت دینا ہے۔۔‬
‫سکندر نے اپنا سر جھٹک کر اس سوچ کو باہر نکالنے کی‬
‫کوشش کی‬
‫__________________________________________‬
‫اس ٓادمی کو تھکا تھکا کر مارنے میں بہت مزہ ٓانے واال ہے‬
‫سفرینا۔۔۔‬
‫سفرینا نے یہ بات خود سے کہی تھی ۔۔اس وقت وہ ٓافس‬
‫سے باہر نکل آئی تھی اور اب مین گیٹ کی جانب بڑھ رہی‬
‫تھی‬
‫‪ ‬اوہ میڈم ۔۔۔رکو ۔۔ ہم کو تمہارا نام لکھنا ہے‬
‫شربت خان نے جیسے ہی سفرینا کو دیکھا تو اس نے اپنا‬
‫کیبن چھوڑ دیا اور اب سفرینا کی جناب بڑھ رہا تھا لیکن‬
‫سفرینا اب اسے لفٹ دینے کی موڈ میں تھی ۔۔اس لیے اس‬
‫کے قدم نہیں رکھے اور وہ شربت خان کو ان سنا کرتی ہوئی‬
‫مین گیٹ سے باہر نکل گئی۔۔۔‬
‫یہ تو چال گیا ۔۔ اب ہم رجسٹر میں کیا لکھے گا ۔۔چلو لکھتا‬
‫"ہے "خوبصورت چہرہ واال لڑکی‬
‫مڑ کر میرا دیوانا ۔۔ٓائے گا میرا جانا ۔۔۔پغیر راغلے ۔۔۔ یا قربان‬
‫یا قربان‬
‫شربت خان پشتو گانا گنگناتے ہوئے واپس اپنے کیبن کی‬
‫طرف چل پڑا‬
‫سفرینا ایک سنسان گلی میں داخل ہو گئی اور اس نے اپنا‬
‫جسم چھوڑ دیا اب وہ روشنی کی شکل اختیار کر چکی‬
‫تھی جس کی منزل شیطان اعظم تھی‬
‫___________________________________________‬
‫ایموڈیس جس کا کام انسانوں میں بے حیائی پھیالنا اور‬
‫میاں بیوی میں جدائی پیدا کرنا ہے اس وقت شیطان اعظم‬
‫کو آج کی اپنی رپورٹ پیش کر رہا تھا اور شیطان اعظم‬
‫ایموڈیس پر مکمل برہم تھا‬
‫ایموڈیس پتا نہیں کیا وجہ ہے تم اب پہلے جیسے نہیں رہے‬
‫اور نہ تمہارا کام پہلے جیسا رہا ہے‪ ،‬یہ دن کے دو چار طالقیں‬
‫اور زنا کے چند کیسز ‪ ،‬یہ تمہارا کام نہیں تو نہیں تھا مجھے‬
‫کام چاہیے کام۔۔۔جو کام اہلل کو پسند نہیں میں چاہتا ہوں کہ‬
‫تم وہ کام کرہ۔۔۔میاں بیوی میں پھوٹ ڈلواو ۔۔ان میں‬
‫طالقیں کرواؤ ‪ ،‬نوجوانوں میں بے حیائی پھیالؤ انکے لیے‬
‫راستہ آسان کرو۔۔زنا ان کے لیے آسان کرو ‪ ،‬میں نے تمہیں‬
‫کتنا آسان کرکے دیا ہے ‪ ،‬آج کل لوگوں کے پاس موبائل ہے‪،‬‬
‫انٹر نیٹ ہے لیکن پھر کیا وجہ ہے تم اپنے مشن میں ناکام‬
‫ہو۔۔؟‬
‫شیطان اعظم ! میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں کہ لوگوں‬
‫کو گمراہ کرو ان سے وہ سب کراؤں جن کی وجہ سے اہلل ان‬
‫سے نفرت کرے لیکن افسوس کے ساتھ‪  ‬شیطان اعظم آج کا‬
‫مسلمان ہمارے آڑھے آ رہا ہے وہ سارا دن گناہ بھی کرتا ہے‪،‬‬
‫جسموں سے بھی کھیلتا ہے لیکن انکے پاس وہ طاقت ہے جو‬
‫ہمارے پاس نہیں ہے‬
‫ایموڈیس اپنی صفائی میں بولے جا رہا تھا‬
‫‪ ‬کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔کونسی طاقت ہے انکے پاس؟‬
‫کیا ہم سے بھی طاقتور کوئی ہے؟‬
‫شیطان اعظم انکے پاس معافی کی طاقت ہے۔۔ ڈر کی طاقت‬
‫ہے ‪  ،‬اہلل کی طاقت ہے ۔ میں نے انسانوں میں بھی اپنے‬
‫چیلے بنا لیے ہیں لیکن ابھی بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جن کے‬
‫دل میں اہلل کا ڈر رہتا رہتا ہے اور وہ گناہ‪  ‬کرنے سے باز آ‬
‫جاتے ہیں‪  ‬اور اگر میں ان سے زنا کروا بھی لوں وہ توبہ کر‬
‫لیتے ہیں‬
‫تمہارا کام یہ نہیں کہ تم لوگوں کی معافیاں دیکھتے پھرو۔۔‬
‫ایموڈیس تم ان میں زنا عام کراو‪،‬شوہر اور بیوی کے دل میں‬
‫شک ڈلواو ‪ ،‬طالقیں کرواؤ ‪ ،‬میں نے ایگزر کو اسی کام پر‬
‫لگایا ہوا کہ وہ مسلمانوں کو خوش فہمی میں مبتال رکھے‬
‫اور وہ آخری سانس تک توبہ کرنا سے باز رہیں ۔۔تمہیں جو‬
‫کام میں نے دیا ہے بس اس پر دھیان دو‬
‫جی ٹھیک ہے شیطان اعظم ‪ ،‬اب میں زیادہ توجہ سے کام‬
‫کرتا ہوں۔۔ایموڈیس نے کہا‬
‫ٹھیک ہے اب تم جا سکتے ہو اور میری باتوں کو یاد رکھنا‬
‫یہ کہہ کر شیطان اعظم نے ایموڈیس کو جانے کا اشارہ کر‬
‫دیا‬
‫جیسے ہی ایموڈیس نظروں سے اوجھل ہوا ۔۔سمندر کا‪ ‬‬
‫محافظ چیال سامنے آ کر جھک گیا جس کے پیچھے سفرینا‬
‫اپنے لمبے بالوں کی ُگت ہوا میں لہراتے ہوئے آ رہی تھی‬
‫شیطان اعظم نے محافظ کو بعد میں آنے کا کہا اور سفرینا‬
‫کے استقبال کے لیے کھڑا ہو گیا‬
‫آؤ سفرینا آؤ ۔ مجھے خوشی ہوئی کہ تمہیں اتنی جلد‬
‫دیکھنا نصیب ہوا ورنہ تمہارا دیدار تو سالوں میں بھی نہیں‬
‫ہوتا۔۔۔۔شیطان اعظم نے خوشامدی لہجہ اپنا رکھا تھا‬
‫شیطان اعظم ! میرے آنے کا ارادہ نہیں تھا لیکن مجھے آپ‬
‫سے اور آپ کے محافظوں سے گلہ ہے ۔۔۔سفرینا نے نخریلے‬
‫انداز میں کہا‬
‫میرے محافظوں نے کیا کر دیا ‪ ،‬مجھے بتاؤ تو زرا پھر دیکھو‬
‫میں انکا کیا حال کرتا ہوں۔۔۔شیطان اعظم بھی شاید سفرینا‬
‫کے نخرے اٹھانے کے موڈ میں تھا‬
‫پچھلی بار جب میں یہاں سے نکلی تھی تو تھوڑی دور بعد‬
‫ہی مجھے اندازہ ہوا کہ کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے ۔۔اتنا تو‬
‫مجھے پتا تھا کہ کوئی شیطان اتنی ہمت نہیں کر سکتا کہ‬
‫سفرینا کا پیچھا کرے اس لیے میں نے پیچھا کرنے والے کو‬
‫دھوکہ دیا اور کچھ آگے جا کر پکڑ لیا ۔ وہ کوئی جن تھا جو‬
‫میرے پیچھے پڑ گیا تھا جسے میں نے زخمی کرکے بھگا دیا‬
‫لیکن مجھے گلہ آپ سے ہے کہ کوئی آپ کے سمندری محل کے‬
‫اتنے قریب تک آ سکتا ہے اور آپ کے محافظوں کو پتا نہیں‬
‫چلتا ۔۔۔کیا شیطان اعظم اور اس کی سلطنت اتنی کمزور ہو‬
‫گئی ہے کہ ایک کمزور سا جن بھی اتنے قریب آ سکتا ہے؟‬
‫سفرینا شیطان اعظم کو شاطر جن کے بارے میں بتا رہی ہے‬
‫جسے اس نے زخمی اور آخری بار خبردار کرکے چھوڑ دیا تھا‬
‫ایسی بات نہیں ہے سفرینا۔۔میری سلطنت میں یہ نہیں ہو‬
‫سکتا کہ کوئی جن بھی داخل ہو سکے‬
‫تو پھر کیا میں جھوٹ بول رہی ہوں؟سفرینا کو شیطان‬
‫اعظم پر غصہ آ گیا تھا اسے اپنی توہین محسوس ہو رہی‬
‫تھی‬
‫!میرا یہ مطلب نہیں تھا سفرینا۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم نے سفرینا کو ٹھنڈا کرنے کے لیے نچلی سائیڈ‬
‫پکڑ لی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر سفرینا ٹھنڈیانی نہ ہوئی‬
‫تو اسے سارے محافظوں کو مار کر سفرینا کے غصے کو ٹھنڈا‬
‫کرنا پڑے گا‬
‫میں یہ کہہ رہا تھا کہ شاید محافظوں کی نظر نہیں پڑی‬
‫ہوگی اس لیے وہ جن کامیاب ہو گیا لیکن اب میرا وعدہ ہے‬
‫آئندہ سے ایسا نہیں ہوگا‬
‫میرا کوئی کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا شیطان اعظم۔۔آج تک‬
‫کوئی ایسا جن ‪ ,‬شیطان یا انسان پیدا نہیں ہوا جو سفرینا کا‬
‫زرا سا بھی بگاڑ سکے ۔۔۔میں آپ کو بس یہ بتا رہی ہوں کہ‬
‫آپ اپنی اور سلطنت کی حفاظت کا خیال رکھیں کہیں ایسا‬
‫نہ ہو کہ کوئی نقصان پہنچا دے‬
‫اول تو ایسا ممکن نہیں ہے لیکن میں پھر بھی دیکھتا ہوں‬
‫کہ ایسا کس وجہ سے ہوا تھا‬
‫بلکل ۔۔یہ چیز آپ کو ضرور دیکھنی ہوگی‬
‫اچھا انسان سے مجھے یاد آیا کہ آج ایک انسان سے مل کر آ‬
‫رہی ہوں ۔۔۔سفرینا سکندر کے بارے میں بات کرنے جا رہی‬
‫تھی‬
‫ہاہاہاہا ۔۔مطلب اب کوئی ایسا انسان بھی ہے کہ جس سے‬
‫سفرینا خصوصی ملنے گئی تھی۔۔ مجھے تو اس انسان سے‬
‫جلن ہو رہی ہے۔۔۔‬
‫شیطان اعظم نے لفظ خصوصی کو کھینچتے ہوئے کہا‬
‫آپ غلط سمجھے ہو شیطان اعظم۔۔میرا مطلب یہ تھا کہ اب‬
‫پھر کوئی ایسا انسان پیدا ہوا ہے جس نے سفرینا کو غالم‬
‫بنانے کی کوشش کی ہے‬
‫تو اب میں یہ سمجھوں کہ وہ انسان اب اس دنیا میں نہیں‬
‫ہے۔۔۔شیطان اعظم نے ہنستے ہوئے یہ بات کہی تھی‬
‫فی الحال تو وہ انسان زندوں میں شمار ہے لیکن آج کی رات‬
‫اس کی آخری رات ہے‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔اچھا۔۔ویسے اس کی کی ہمت کی داد دینی ہوگی کہ‬
‫جس سفرینا سے شیطان اور جن بھاگتے ہوں اسے قابو کرنے‬
‫چال ہے‬
‫یہ بات شاید اسے پتا نہیں ہے یا اس نے سفرینا کو مزاق‬
‫سمجھ لیا ہے لیکن اس کے زیادہ دن نہیں ہیں ۔۔جتنا جینا‬
‫تھا اس نے جی لیا ۔ آج رات اس کی آخری رات ہے‬
‫اچھا شیطان اعظم میں چلتی ہوں کیونکہ جس جگہ وہ‬
‫انسان چلہ کر رہا ہے وہاں اب رات ہو چکی ہوگی اور مجھے‬
‫اب وہاں پہنچنا ہے‬
‫چلو ٹھیک ہے لیکن مجھے اس انسان پر افسوس ہو رہا ہے‬
‫بیچارہ کل کا سورج‪  ‬نہیں دیکھ پائے گا‬
‫شیطان اعظم نے کہا تو سفرینا نے اس کی ہاں میں گردن‬
‫ہالئی اور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سکندر نے بوری اپنے کندھے سے اتارکر زمیں پر رکھ دی ۔ اس‬
‫وقت وہ چلہ کی جگہ پہنچ چکا تھا ۔ ‪12‬بجنے میں آدھا‬
‫گھنٹہ باقی تھا اس لیے سکندر کو کوئی جلدی نہیں تھی۔‬
‫ایسا انسان جس نے خودکشی نہیں کی مگر موت کی آرزو‬
‫کرتا رہا ہو اس کے لیے یہ ڈراونی رات کا سناٹا‪ ،‬بچے کی‬
‫الش‪ ،‬اکیلی اور ویران جگہ پر چلہ کاٹنا کوئی خوفناک چیز‬
‫نہیں تھی۔‬
‫آج الش کو دوسرا دن تھا اور الش کی بدبو ناقابل برداشت‪ ‬‬
‫ہو چکی تھی ۔سکندر نے جب الش کو باہر نکاال تو وہ پھول‬
‫چکی تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس میں ہوا بھر‬
‫دی ہو۔‬
‫سکندر سوچ رہا تھا کہ یہ بھی کسی کا پھول ہوگا جو‬
‫انتظار کر رہا ہوگا کہ ماں باپ یا کوئی اپنا آئے اور اسے اپنے‬
‫ساتھ لے جائے لیکن نصیب ایک ایسی چیز ہے جس کے‬
‫سامنے انسان چاہے زندہ ہو یا مردہ بے بس ہو جاتا ہے۔۔پتا‬
‫نہیں کیسے سکندر اتنا بے حس ہو گیا تھا کہ اسے نا تو‬
‫معصوم بچے کی الش کا خیال آیا اور نہ ہی اس نے سوچا کہ‬
‫سفرینا کو پا لینے کے بعد کیا کیا کرے گا اور اگر سفرینا اسے‬
‫نہ ملی اور وہ چلے کے دوران ہی مر گیا تو یہ موت کیسی‬
‫ہوگی‬
‫۔کیا وہ اہلل کو جواب دے پائے گا کہ وہ کیونکر ایک شیطانی‬
‫چکر میں پڑ گیا تھا ‪ .‬اس وقت تو اس نے بس یہی سوچا کہ‬
‫خود کو بچانا ہے لیکن اب وہ بری طرح سے پھنس گیا ہے ۔‬
‫اب وہ چلہ کو چھوڑ بھی نہیں سکتا ہے اگر ایسا کرتا ہے تو‬
‫اس کی موت یقینی ہے اور سکندر حرام موت نہیں مرنا‬
‫چاہتا ہے۔ اتنی ہی کئی سوچیں اس کے دماغ میں آ رہی تھی‬
‫اور پھر وہی ہوا اس کے دماغ پر کالی چادر چھا گئی اور اس‬
‫نے صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنا چھوڑ دیا ۔‬
‫بس جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا فی الحال اسے چلہ مکمل‬
‫کرنا ہے ۔۔‬
‫یہ سکندر نے گھڑی پر نظر ڈالی تو بارہ ہونے میں چند منٹ‬
‫باقی تھی ۔ اس نے جلدی جلدی جیب سے چاقو نکاال اور اس‬
‫پر کچھ پڑھ کر پھونک ماری اور اپنے گرد ایک بڑا سا دائرہ‬
‫کھینچ لیا۔۔‬
‫دائرہ میں بیٹھ کر اس نے جیب سے ماچس نکالی اور چار‬
‫تیلیاں کا کراس بنا لیا۔۔الش کو وہ پہلے ہی بوری سے نکال‬
‫چکا تھا ۔۔اس نے جلدی جلدی تیلیاں الش کے سینے پر رکھ‬
‫دی اور پھر الل مرچ سے الش کے گرد چھوٹا سا دائرہ بنا لیا۔‬
‫اب وہ تیار تھا اور اسی وقت گھڑی نے بیپ کی آواز نکالی‬
‫جسے سنتے ہی سکندر کے لب ہلنے لگ گئے‬
‫ابھی سکندر کو پڑھتے ہوئے دو منٹ ہی نہیں ہوئے کہ ایک‬
‫زوردار کڑاکہ ہوا اور کوئی چیز سکندر کے سامنے آ کر گر‬
‫گئی‬
‫سکندر نے آنکھ کھول کر دیکھا تو سامنے ایک جسم تھا جس‬
‫کا چہرہ دوسری جانب تھا ۔۔اندھیرا ہونے کے سبب سکندر‬
‫چہرہ دیکھنے سے قاصر تھا لیکن جسامت اور حلیہ سے یہ‬
‫کسی مرد کا جسم لگ رہا تھا۔۔‬
‫مجھے روکنے والے آ گئے ہیں۔۔سکندر دل میں یہ سوچ رہا تھا‬
‫کہ دوسرا کڑاکہ ہوا اور بجلی چمک اٹھی لیکن یہ آسمانی‬
‫بجلی نہیں تھی کیونکہ یہ بجلی بجھ نہی رہی تھی بلکہ یہ‬
‫ایسی سفید روشنی تھی جیسے کسی نے سکندر کے سامنے‬
‫ہزاروں بلب روشن کر دئے ہوں۔۔‬
‫اس بجلی نے سکندر کے سامنے ہر چیز ظاہر کر دی تھی اور‬
‫جس چیز پر سکندر کی نگاہ پہلے پڑی وہ خون میں لت پت‬
‫پڑی الش تھی اور یہ الش کسی اور کی نہیں بلکہ اس پنڈت‬
‫کی تھی جس کی وجہ سے سکندر آج چلہ کر رہا تھا‬
‫سکندر کے جسم پر پسینے پھوٹنے لگے‬
‫‪ ‬کیا پنڈت مر گیا ؟‬
‫پنڈت کو کس نے مارا؟‬
‫کیا سفرینا نے مارا؟‬
‫پنڈت کو اس کا علم کیوں نہیں بچا سکا ؟‬
‫سکندر یہ سب سوچ رہا تھا کہ اچانک گھپ اندھیرا ہو‬
‫گیامگر یہ اندھیرا دو سیکنڈ کا تھا جیسی ہی دوبارہ روشنی‬
‫ہوئی منظر پہلے سے بڑھ کر خوفناک ہوگیا۔‬
‫سامنے ایک بوڑھی سی چڑیل ہاتھ میں پنڈت کا کٹا سر لیے‬
‫جھکی کھڑی تھی اور بار بار اپنی زبان پنڈت کی گردن کے‬
‫بہتے خون پر مار رہی تھی۔۔اچانک اس بوڑھی چڑیل نے اپنے‬
‫بائیں کی انگلی پنڈت کی آنکھ میں گھسا دی اور آنکھ کا‬
‫ڈیال باہر نکال کر منہ میں ڈال لکر چبانے لگ گئی‬
‫چڑیل کے منہ سے پچک پچاک کی آوازیں آنے لگیں جسے سن‬
‫کر سکندر کو ابکائی آ رہی تھی لیکن سکندر کی طبعیت‬
‫خوف کے سامنے ہار گئی‬
‫چڑیل کی نگاہ بھی سکندر پر پڑ چکی تھی اس لیے اس نے‬
‫پنڈت کا سر زمیں پر پھینک دیا تھا اور ال ل زبان سے اپنے‬
‫ہونٹوں پر پھیر رہی تھی۔مرے ہوئے پنڈت کے سامنے سکندر‬
‫کا خون کافی گرم تھا جس طرح سے سکندر کی رنگت سرخ‬
‫و سفید تھی ۔چڑیل کو سکندر کا خون کافی مزہ دار لگ رہا‬
‫تھا اور اب وہ پیاسی نگاہوں سے سکندر کو دیکھ رہی تھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا ۔۔۔۔قسط نمبر ‪ ( 5‬از ابن‬
‫)نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫________________________‬
‫ایک مرتبہ تو سکندر کے دل نے چاہا کہ سب کچھ چھوڑ کر‬
‫بھاگ جائے کیونکہ اس بوڑھی چڑیل کے ارادے اچھے نہیں‬
‫لگ رہے تھے ۔۔جس طرح سے اس نے پنڈت کا حال کیا تھا‬
‫سکندر کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرنے والی تھی‬
‫ابھی سکندر یہ سوچ رہا تھا کہ اچانک تھوڑی فاصلے پر ایک‬
‫بجلی سے چمکی اور اندھیرا سا ہو گیا لیکن سکندر کے‬
‫سامنے ابھی روشنی تھی اور یہ روشنی اس بوڑھی چڑیل‬
‫کی وجہ سے تھی‬
‫چڑیل پیاسی نگاہ سے سکندر کو دیکھ رہی تھی اس کی‬
‫پیاس ابھی تک نہیں بجھی تھی ‪ ،‬اگال شکار سامنے بیٹھا ہوا‬
‫تھا جس کے خون سے اس نے پیاس بجھانے تھی۔۔چڑیل نے‬
‫سکندر کی جانب قدم بڑھایا۔‬
‫چڑیل کا اٹھتا قدم سکندر نے دیکھ لیا تھا اس وقت سکندر‬
‫کے لب نے پڑھائی شروع کر دی تھی ‪،‬اسے یہ بھی پتا نہیں‬
‫تھا کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے ۔ وہ سوچ رہا تھا تو یہ کہ چڑیل کا‬
‫ہاتھ اس کی گردن تک پہنچے اس سے پہلے ہی اس نے چلہ‬
‫مکمل کرنا ہے لیکن جس طرح سے چڑیل سکندر کے نزدیک آ‬
‫رہی تھی اتنی جلدی چلہ ختم کرنا نا ممکن تھا‬
‫چڑیل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی سکندر کی جانب بڑھ رہی‬
‫تھی اور چند قدم چلنے کے بعد چڑیل رک گئی ‪،‬ابھی بھی ا‬
‫س کے لبوں سے پنڈت کا خون رس رہا تھا‬
‫تمہارا خون تو بڑا لزیز ہوگا آج صدیوں بعد تازہ خون پیوں‬
‫گی ۔۔ ہاہاہاہا‬
‫چڑیل نے کراہت بھرے لہجے میں قہقہ لگاتے ہوئے کہا‬
‫سکندر نے ایک نظر پنڈت کی الش کی جانب دیکھا اور پھر‬
‫دور پڑے بغیر دھڑ والے سر کو دیکھا‬
‫اسے کیا دیکھ رہا ہے وہ تو مر گیا اب تیری باری ہے‬
‫ارے یہ تیرے پاس بچے کی الش پڑی ہے کیا؟‬
‫تو بھی خون پیتا ہے لیکن اتنا پرانا خون کیوں پی رہا ہے‪ ،‬رک‬
‫میں تجھے پنڈت کا خون پالتی ہوں اس کا خون ابھی اتنا‬
‫پرانا نہیں ہے‬
‫یہ کہہ کر چڑیل پلٹی اور پنڈت کے سر کی جانب چل پڑی ۔۔‬
‫سر کے قریب پہنچ کر وہ جھکی اور پنڈت کے سر کو بالوں‬
‫سے پکڑ کر اٹھا لیا۔۔۔‬
‫اب وہ دوبارہ سکندر کی طرف آ رہی تھی ۔۔دائرے سے‬
‫تھوڑے فاصلہ پر رک کر اس نے پنڈت کا سر سکندر کی‬
‫جانب اچھال پھینکا جو کہ دائرے سے چند فٹ کے فاصلے پر‬
‫جا گرا تھا۔۔‬
‫یہ لے ۔۔اٹھا اور پی مگر یاد رکھ ‪ ،‬زیادہ دیر نہیں کرنی ‪،‬‬
‫جلدی جلدی پینا پھر میں نے تیرا خون بھی پینا ہے‬
‫پنڈت کا سر سکندر کے قریب پڑا ہوا تھا جس کی ایک آنکھ‬
‫نہیں تھی لیکن ایک آنکھ کے ساتھ بھی وہ سکندر کو بے‬
‫بسی سے دیکھ رہا تھا جیسے موت کے وقت وہ التجا کر رہا‬
‫ہو کہ کوئی اسے بچا لے گا۔‬
‫کیوں ۔۔کیا ہوا؟ خون نہیں پینا کیا تم نے؟‬
‫اس کا خون بھی لزیز تھا لیکن وہ بات نہیں تھی اس میں۔۔‬
‫تیری طرح جوان نہیں تھا‬
‫سوچ زرا جب میں اپنے نوکیلے دانت تیری گردن میں گاڑوں‬
‫گی اور پھر تیرا خون فوارے کی طرح ابل ابل کر زمیں پر‬
‫گرے گا اور تو میرے ہاتھ میں کانپ رہا ہو گا ۔۔۔سسک رہا‬
‫ہوگا‬
‫ہاہاہاہا ۔۔۔کتنا مزہ آئے گا نا؟‬
‫چل اب مجھے دیر ہو رہی ہے ‪,‬مجھ سےگرم خون کی پیاس‬
‫برداشت نہیں ہو رہی ہے‪ ،‬اب میں اور دیر نہیں کر سکتی‬
‫بوڑھی چڑیل دائرے سے ایک فٹ کے فاصلہ پر پہنچ چکی‬
‫تھی ۔یہاں آ کر وہ رک گئی ۔ اس نے اپنا ہاتھ فضا میں‬
‫اٹھایااور پھر اس کا ہاتھ لمبا ہوتا گیا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سفرینا جیسے ہی چلے کی جگہ پہنچی تو سکندر کو دائرے‬
‫میں بیٹھے دیکھا اور ایک بوڑھی چڑیل سکندر کے سامنے‬
‫کھڑی اس سے بات کر رہی تھی‬
‫سفرینا دیکھنا چاہتی تھی کہ سکندر اس بوڑھی چڑیل سے‬
‫ڈر کر حصار سے باہر نکل آتا ہے یا نہیں کیونکہ جس طرح کا‬
‫خوف سکندر کے چہرے پر نظر آ رہا تھا ۔۔بس کچھ لمحوں‬
‫کی بات ہے ۔۔سکندر دم دبا کر بھاگ جائے گا‬
‫اچانک سفرینا کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی اور اس پر‬
‫عمل کرنے کے لیے اس نے ایک بوڑھی عورت کا روپ دھار لیا‬
‫جس کے چہرے پر نور ہی نور تھا اور اس نے سفید رنگ کا‬
‫لباس پہن رکھا تھا‬
‫او خبیث چڑیل‬
‫نزدیک پہنچ کر سفرینا چالئی‬
‫کیوں اچھے لوگوں کو تنگ کر رہی ہے۔۔منحوس‬
‫رکو ۔۔۔تمہیں نرگ بھیجتی ہوں‬
‫یہ کہہ کر سفرینا نے اپنا دائیاں ہاتھ بوڑھی چڑیل کی جانب‬
‫اٹھایا اور پھر اس کے ہاتھ سےآگ کی ایک دھار نکلی جو‬
‫چڑیل کے جسم سے جا ٹکرائی۔۔۔آگ کے لگتے ہی بوڑھی‬
‫چڑیل کا جسم دھڑا دھڑ جلنے لگا اور تھوڑی دیر کے بعد‬
‫وہاں پر جلی ہوئی راک پڑی ہوئی تھی۔۔۔‬
‫نوجوان ۔۔تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے‬
‫اب تمہیں کوئی تنگ نہیں کرے گا لیکن کیا تم مجھے یہ بتاؤ‬
‫گے کہ تم کس کو قابو کرنے کا چلہ کر رہے ہو‬
‫سکندر نے کوئی جواب نہیں دیا ۔۔بوڑھی چڑیل کے جلنے کے‬
‫بعد سکندر کا حوصلہ بڑھ گیا تھا لیکن اب اس کے پاس جتنا‬
‫بھی وقت بچا تھا ‪ ،‬اس نے چلہ ختم کرنا تھا ۔۔۔اس لیے‬
‫سکندر نے آنکھیں بند کر لیں ۔اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ‬
‫بوڑھی چڑیل کے جلنے کے بعد پنڈت کا سر اور دھڑ دونوں‬
‫غائب ہو چکے تھے۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫شاطر سونے کی تیاری کر رہا تھا آج کا دن اس کا بہت‬
‫مصروف گزرا تھا۔۔وزیر کرکوس دو دن سےکسی کام کے‬
‫سلسے میں دوسرے گاؤں گئے ہوئے تھے اور محل کی دیکھ‬
‫بھال کی زمہ داری شاطر کو دے گئے تھے‬
‫لباس تبدیل کرکے وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا اور اپنی آنکھیں‬
‫بند کر لیں لیکن پھر اچانک آنکھیں کھول دیں۔۔‬
‫اس چڑیل سفرینا کو تو دیکھوں زرا۔۔کیا کرتی پھر رہی ہے‬
‫یہ کہہ کر شاطر نے آنکھیں بند کیں اور لمبا سانس لے کر‬
‫سفرینا کی خوشبو کو اپنے دماغ میں محسوس کیا اور پھر‬
‫سفرینا کا چہرہ شاطر کے سامنے آ گیا تھا‬
‫شاطر نے ایک خوبصورت سی عورت کو دیکھا جس نے‬
‫سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور وہ ایک نوجون سے‬
‫بات کر رہی تھا جو اس وقت حصار میں بیٹھا چلہ کر رہا‬
‫تھا‬
‫لیکن یہ تو سفرینا نہیں ہے‬
‫یہ نوجوان لڑکا کون ہے اور سفرینا اس سے کیا کہہ رہی ہے‬
‫شاطر کے دماغ نے اس سے کہا‬
‫ان دونوں کی باتیں سننے کے لیے شاطر سفرینا کے کچھ‬
‫نزدیک ہو گیا‬
‫دیکھو بیٹے۔۔۔یہ کام اسالم میں منع ہے ۔۔تم ایک بچے کا قتل‬
‫کر چکے ہو اور اب بیٹھے حرام کام کر رہے ہو۔۔قیامت کے دن‬
‫تمہاری معافی نہیں ہوگی ‪ ،‬ساری زندگی تمہیں جہنم میں‬
‫جلنا پڑتا گا‬
‫اچانک سفرینا چپ ہو گئی اور پھر اس نے شاطر کی طرف‬
‫غضبناک نگاہوں سے دیکھا‬
‫یہ دیکھ کر شاطر نے آنکھیں کھول دی‬
‫مجھے اس نوجوان کو بچانا ہوگا ۔۔‬
‫سفرینا اس نوجوان کی جان لینے کے لیے خطرناک چال چل‬
‫رہی ہے‬
‫اس وقت شاطر یہ بات بھول گیا کہ وزیر کرکوس نے اسے‬
‫سفرینا سے دور رہنے کا کہا تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نوجوان ۔۔میں تم سے پوچھ رہی ہوں۔۔تم یہاں بیٹھ کر کس‬
‫کو قابو کر رہے ہو؟‬
‫سفرینا نے دوبارہ سکندر کو مخاطب کیا تھا لیکن سکندر نے‬
‫اس بار بھی کوئی جواب نہیں دیا۔‬
‫مجھے شکل سے تم مسلمان لگ رہے ہو اور مسلمان تو ایسا‬
‫کام نہیں کرتے ہیں تو تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔۔بتاو مجھے‬
‫سکندر نے جواب نہیں دیا‬
‫تم بھی وہی کر رہے ہوگے جو دوسرے لوگ کرتے ہیں ۔۔کسی‬
‫جن کو قابو کرو اس سے مدد لے کر دنیا کا ہر کام کرو پھر‬
‫امیر بن جاو لیکن کبھی یہ سوچا کہ اس کام کا اختتام کیا‬
‫ہوتا ہے۔۔؟‬
‫سکندر نے ٓانکھیں کھول لی تھیں لیکن چلہ اس نے نہیں روکا‬
‫تھا‬
‫میں تمہیں بتا تی ہوں۔۔تمہاری زندگی کا اختتام کیا ہوگا۔۔تم‬
‫طاقت حاصل کرو گے ‪ ،‬دولت حاصل کرو گے پھر تمہارا شمار‬
‫بھی طاقتور اور امیر لوگوں میں ہوگا۔۔لوگ تمہارے ٓاگے‬
‫پیچھے گھومیں گے اور تمہارا سر فخر سے بلند ہو جائے گا‬
‫لیکن یہ تمہاری زندگی نہیں ہوگی ‪ ،‬تم چاہے سب کچھ‬
‫حاصل کر لوگے لیکن تمہارا دل سکون میں نہیں ہوگا۔۔کیونکہ‬
‫تم مسلمان نہیں رہوگے بیشک تم مسلمان والے نام سے بالئے‬
‫جاوگے لیکن تم ایک کافر بن جاوگے جس نے دنیا حاصل‬
‫کرنے کے لیے معصوم جان کو قتل کیا تھا ‪ ،‬جس نے شیطان‬
‫کو ٓاقا مان کر اس کی عبادت کی تھی ‪ ،‬اس کے نام کا چلہ‬
‫کیا تھا‪ ،‬ان سب چیزوں کا پتہ تمہیں اس وقت چلے گا جب‬
‫تم اس دنیا سے چلے جاوگے اور پھر جب خدا کے سامنے‬
‫حاضر ہو گے تو تمہارے دولت‪ ،‬طاقت اور دکھاوے کی‬
‫مسلمانی تمہارے منہ پر مار دی جائے گی۔۔۔‬
‫جیسے جیسے سکندر یہ باتیں سن رہا تھا سکندر کے دماغ‬
‫میں ٓاندھیں چلنے لگی تھیں کیونکہ وہ عورت سچ بول رہی‬
‫تھی ‪ ،‬سکندر نے تو یہ سوچا ہی نہیں تھا ‪ ،‬ایک پنڈت کے‬
‫کہنے پر اس نے سب کچھ کھو دیا تھا اور اب وہ نام کا‬
‫مسلمان اور پکا کافر بن چکا تھا۔۔۔‬
‫دیکھو بیٹے۔۔۔یہ کام اسالم میں منع ہے ۔۔تم ایک بچے کا قتل‬
‫کر چکے ہو اور اب بیٹھے حرام کام کر رہے ہو۔۔قیامت کے دن‬
‫تمہاری معافی نہیں ہوگی ‪ ،‬ساری زندگی تمہیں جہنم میں‬
‫جلنا پڑے گا‬
‫یہ کہہ کر سفرینا خاموش ہو گئ اور اچانک اس نے سر‬
‫جھٹک کر دائیں طرف دیکھا ‪ ،‬سکندر کی نگائیں بھی اس‬
‫طرف اٹھ گئیں لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا‬
‫اب بھی تمہارے پاس وقت ہے ‪ ،‬یہ سب چھوڑ دو ‪ ،‬ختم کر‬
‫دو یہ چلہ اور خدا سے توبہ کرو ‪ ،‬وہ تمہاری توبہ ضرور‬
‫قبول کرے گا‬
‫ایک طوفان تھا جو سکندر کے اندر چل رہا تھا ‪ ،‬اسے رہ رہ‬
‫کر اپنے اوپر غصہ ٓا رہا تھا کہ اس نے بیوقوفوں والی حرکت‬
‫کیسے کر لی‪ ،‬کیا ہو جاتا اگر وہ ایسا ہی رہتا ساری زندگی‪،‬‬
‫یہی نا کہ ٓاخر مر جاتا تو ٹھیک تھا نا لیکن اپنے اہلل کے‬
‫سامنے شرمندہ تو نہیں ہوتا۔۔۔‬
‫یہ عورت ٹھیک کہہ رہی ہے‪ ،‬میرے پاس ابھی بھی وقت ہے ‪،‬‬
‫اہلل غفور و رحیم ہے اگر میں گڑ گڑا کر معافی مانگوں تو وہ‬
‫مجھے معاف کر دے گا۔۔۔‬
‫سکندر نے دل میں سوچا اور پھر اس نے فیصلہ کر لیا اور یہ‬
‫ایسا فیصلہ تھا جس میں سکندر زرا سی بھی دیر نہیں کرنا‬
‫چاہتا تھا۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔‬
‫سکندر کو کھڑا ہوتا دیکھ کر سفرینا کے معصوم چہرے پر‬
‫شیطانی مسکراہٹ ٓا گئی ااور اب وہ اس انتظار میں تھی کہ‬
‫سکندر اپنا پیر دائرے سے باہر نکالے اور وہ اسے موت سے‬
‫ہمکنار کر دے۔۔۔‬
‫سکندر سفرینا کی چال میں ٓا گیا تھا اسے پنڈت کی کہی ہر‬
‫بات بھول چکی تھی اسے بس یہی سمجھ ٓا رہا تھا کہ اب‬
‫اس نے چلہ نہیں کرنا ہے اور پھر سکندر نے پہال قدم اٹھا ‪،‬‬
‫وہ چلہ ختم کرنے جا رہا تھا‬
‫لڑکے ایسی غلطی مت کرنا‬
‫یہ ٓاواز سکندر کے پیچھے سے ٓائی تھی ‪ ،‬سکندر نے پیچھے‬
‫مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان بھاگتا ہوا اس کی جانب ٓا رہا‬
‫تھا ‪ ،‬یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلے تھے جسے سن کر سکندر‬
‫کے قدم رک گئے۔۔‬
‫سفرینا بھی یہ ٓاواز سن پر چونک گئی اور جب اس نے ٓاواز‬
‫کی سمت دیکھا تو ایک مانوس سی شکل دیکھ کر وہ‬
‫چونک گئی‬
‫یہ تو وہی جن ہے جو میرا پیچھا کر رہا تھاور جسے میں نے‬
‫‪،‬زخمی کرکے پیچھا کرنے سے خبردار کیا تھا‬
‫سفرینا کو اپنا منصوبہ ناکام ہوتا دکھائی دیا‬
‫میں تمہارا دوست ہوں‪ ،‬میرا یقین کرو ‪ ،‬یہ وہی چڑیل ہے‬
‫جسے قابو کرنے کے لیے تم یہاں بیٹھے ہو‪ ،‬دائرہ سے نکلنے‬
‫کی غلطی مت کرنا ‪ ،‬نہیں تو تم جان سے جاوگے‬
‫یہ شاطر تھا جو سکندر کی مدد کو ٓان پہنچا تھا اور اب وہ‬
‫سکندر کو حصار سے نکلنے سے روک رہا تھا‬
‫سکندر نے جب یہ سب کچھ دیکھا تو پریشان ہو گیا اسے‬
‫سمجھ نہیں ٓا رہا تھا کہ یہ سب ہو کیا رہا ہے۔۔۔وہ عورت‬
‫اسے صحیح ہی تو کہہ رہی ہے تو یہ کون ہے جو اسے چلہ‬
‫ختم کرنے سے روک رہا ہے‬
‫سفرینا کے تن بدن میں ٓا گ لگ گئی جب اس نے دیکھا کہ‬
‫سکندر اس جن کی باتیں سن رہا ہے ‪ ،‬اس نے جب دیکھا کہ‬
‫اس کا منصوبہ ناکام ہو رہا ہے تو اس نے اپنا ہاتھ شاطر کی‬
‫جانب کر کے اپنے ہاتھ کو جھٹکا دیا لیکن شاطر ایک بار‬
‫پہلے بھی اس حملہ سے چوٹ کھا چکا تھا اس لیے اب وہ‬
‫ہوشیار ہو گیا تھا۔۔۔جیسے ہی اس نے سفرینا کے ہاتھ کو‬
‫اپنی جانب اٹھتے دیکھا تو اس نے جلدی جلدی سے کچھ‬
‫پڑھ کر اپنے اوپر دم کر لیے اور وہ غائب ہو گیا‪ ،‬جیسے ہی‬
‫سفرینا کے ہاتھ سے بجلی نکلی ‪ ،‬شاطر نے اپنی جگہ چھوڑ‬
‫دی ‪ ،‬اب وہ سفرینا کی نظروں سے اوجھل تھا‬
‫یہ خبیث چڑیل چال چل رہی ہے‪ ،‬تم نے جیسے ہی حصار سے‬
‫قدم باہر نکاال یہ تمہیں ختم کر دے گی‪ ،‬اس لیے ایسی کوئی‬
‫غلطی مت کرنا۔۔‬
‫شاطر نے یہ بات غائبی حالت میں کہی تھی‬
‫سکندر کو سمجھ نہیں ٓا رہی تھی کہ یہ دونوں کون ہیں اور‬
‫ان میں سے کون سکندر کا دوست ہے اور کون جان کا دشمن‬
‫لیکن شاطر کی بات سن کر سکندر کا ماتھا ٹھنکا ۔۔ یہ بات‬
‫تو اس نے سوچی ہی نہیں کہ حصار سے باہر نکلنے کا مطلب‬
‫موت ہے اگر اس نے قدم باہر نکاال تو مر جائے گا۔۔توبہ تو وہ‬
‫تب کرے گا جب وہ زندہ رہے گا اگر اس نوجوان نے اسے‬
‫نہیں روکا ہوتا تو اس وقت وہ مر گیا ہوتا‬
‫یہ سب سوچ کر سکندر اپنی جگہ پر رک گیا ‪ ،‬اسے شاطر کی‬
‫بات سمجھ ٓا گئی اور اب وہ دل ہی دل میں اہلل کا شکر ادا‬
‫کر رہا تھا۔۔۔‬
‫اپنی چال ناکام ہوتی دیکھ کر سفرینا غضب ناک ہو گئی‬
‫تھی اور اب وہ جن بھی اس کے نظروں سے غائب ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔‬
‫یہ دیکھ ر سفرینا نے غصہ سے ٓانکھیں بند کیں اور لمبا‬
‫سانس لے کر شاطر کی موجودگی کو دیکھا‬
‫شاطر اب بھی وہیں موجود تھا بس اس نے خود کو چھپا‬
‫رکھا تھا‬
‫اب دیکھو میں تمہارے ساتھ کیا کرتی ہوں۔۔۔‬
‫سفرینا نے ٓانکھیں کھولیں اور پھر دونوں ہاتھ فضا میں بلند‬
‫کر لیے ‪ ،‬وہ کچھ پڑھ رہی تھی اور اس نے اپنی ٓاگ برساتی‬
‫ٓانکھیں کھولیں ‪ ،‬ایک دفعہ سکندر کی جانب دیکھ اور پھر‬
‫دونوں ہاتھ نیچے گرا دیے‬
‫سفرینا کے ہاتھ نیچے ٓا نے کی دیر تھی کہ ہر طرف ٓاگ برس‬
‫پڑی اس سلگتی ٓاگ میں کسی کے چیخنے کی ٓاواز گونجی‬
‫______________________________________‬
‫وزیر کرکوس اس وقت دوڑتا ہوا شاہ جنات کے کمرے کی‬
‫جانب بڑھ رہا تھا ‪ ،‬اس کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔‬
‫ایسا لگ رہا تھا کہ اگر اس نے دیر کر دی تو قیامت ٓا جائے‬
‫گی‬
‫شاہ جنات کے مہمان خانے کے دروازے پر پہنچ کر وزیر‬
‫کرکوس نے دروازہ کھٹکٹانے کی بھی زحمت نہیں کی اور‬
‫اندر داخل ہو گیا ‪ ،‬اندر شاہ جنات تو نہیں تھے لیکن شہزادہ‬
‫طرطوش اپنے چند دوستوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا تناول‬
‫فرما رہے تھے‬
‫شہزادہ طرطوش۔۔۔وہ شاطر‬
‫وزیر کرکوس کی سانس اکھڑی ہوئی تھی اور اسے اس‬
‫حالت میں دیکھ کر شہزادہ طرطوش بھی اپنی جگہ سے‬
‫اٹھ کھڑا ہوا‬
‫کیا ہوا شاطو کو ؟‬
‫شاطر کی زندگی خطرے میں ہے شہزادے ‪ ،‬شاہ جنات کہاں‬
‫ہے‪ ،‬مجھے اس سے جلدی ملنا ہے ‪ ،‬ایسا نہ ہوکہ دیر ہو جائے‬
‫وزیر کرکوس نے جلدی جلدی کہا‬
‫وہ تو یہاں نہیں ہیں لیکن تم مجھے بتاو کہ شاطر کو کیا ہوا‬
‫ہے؟‬
‫شہزادے نے پوچھا‬
‫شہزادے ۔۔۔شاطر اس وقت انسانی دنیا میں گیا ہے اور کسی‬
‫طاقت ور چڑیل کے نرغے میں پھنس گیا ہے‬
‫او۔۔۔یہ تو بہت برا ہوا ۔۔۔میں دیکھتا ہوں شاطر کو۔۔۔‬
‫شہزادہ بوال‬
‫شہزادے اتنا وقت نہیں ہے۔۔۔خدا کے لیے کچھ کریں نہیں تو‬
‫ہم شاطر کو کھو دیں گے‬
‫میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔‬
‫شہزادہ نے جلدی سے ٓانکھیں بند کی اور شاطر کا چہرہ اپنے‬
‫دماغ میں تصور کیا لیکن وہاں تو ٓاگ ہی ٓاگ تھی اور چیخنے‬
‫کی ٓاوازیں ٓارہی تھی۔۔۔‬
‫شاطر کو بچانا ہے ۔۔کرکوس‬
‫یہ بات شہزادے نے بند ٓانکھوں سے کہی تھی اور پھر اپنی‬
‫جگہ سے غائب ہو گیا‬
‫___________________________________________‬
‫)​سفرینا۔۔۔۔۔ قسط نمبر ‪(  6‬از ابن نصیر‬

‫شہزادہ طرطوش اہلل سے دعا کر رہا تھا کہ‬


‫شاطر کو کچھ نہ ہوا ہو لیکن آسمان تک‬
‫اٹھتی آگ‪  ‬دور سے ہی نظر آ رہی تھی۔۔ اس‬
‫نے اپنے اڑنے کی رفتار اور تیز کر دی لیکن‬
‫آگ کے قریب پہنچ کر اس نے زمین پر آنے‬
‫میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں سمجھا ‪،‬‬
‫فضا میں نے رک اس نے‪  ‬کچھ پڑھا اور آگ‬
‫کی طرف پھونک مار دی‬

‫جتنی تیز آگ بھڑک رہی تھی اتنی جلدی‬


‫ٹھنڈی ہوکر بجھ گئی‪ ،‬شہزادہ طرطوش نے‬
‫جب ارد گرد دیکھا تو اسے ایک جسم آگ‬
‫میں جال کٹا نظر آیا اور دوسرا جسم ایک‬
‫دائرہ میں پڑا ہو تھا جو کہ صحیح حالت‬
‫میں تھا۔۔‬

‫شہزادہ نے جلدی سے جلے ہوئے جسم کو‬


‫کندھے پر اٹھایا اور پھر اپنی جگہ سے‬
‫غائب ہو گیا ۔۔اسے جال ہوا شاطر جن ہی‬
‫لگا تھا کیونکہ ان دو کے عالؤہ وہاں کوئی‬
‫اور نہیں تھا اور دوسرا جسم حلیے اور‬
‫حالت سے انسان لگ رہا تھا جو چلہ کرنے‬
‫آیا تھا لیکن شاطر کی موجودگی نے‬
‫شہزادہ طرطوش کے دماغ میں کہی سوال‬
‫پیدا کر دیے تھے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔‬
‫فضا نے شاطر کی چیخوں کو دبا لیا تھا‬
‫کیونکہ اس وقت‪  ‬سفرینا کے قہقہوں گونج‬
‫رہے تھے۔۔۔‬

‫تمہیں میں نے منع کیا تھا نا کہ میرے‬


‫پیچھے مت آنا ۔۔تم سفرینا سے نہیں لڑ‬
‫پاؤگے لیکن تمہیں میری بات شاید مزاق‬
‫لگی تھی تو اب بھگتو ۔۔اب میں دیکھتی‬
‫‪ ‬ہوں تمہیں کون مجھ سے بچائے گا‬

‫یہ بول کر سفرینا نے دوبارہ سے قہقے لگانا‬


‫شروع کر دیے لیکن اچانک اس کے قہقہوں‬
‫کو بریک لگ گئی کیونکہ آگ بجھ چکی‬
‫‪ ‬تھی‬

‫کون ہے یہ جس نے سفرینا کی لگی آگ کو‬


‫بجھانے کی غلطی کی ہے۔۔کون ہے۔۔۔سفرینا‬
‫زور سے چالئی تھی‬

‫آگ کے بجنے کے بعد جب سفرینا نے چاروں‬


‫طرف نظر دوڑائی تو اسے دائرے میں‬
‫بیہوش پڑا سکندر نظر آیا ‪ ،‬شاطر کا کچھ‬
‫اتا پتا نہیں تھا‬

‫سفرینا نے آنکھیں بند کر کے لمبی سانس لی‬


‫اور کسی ان دیکھے وجود کو دیکھنے کی‬
‫کوشش کی لیکن فضا میں کسی کی‬
‫موجودگی نظر نہیں آئی۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سکندر کی آنکھیں کھلیں تو اس نے خود‬


‫کو حصار میں لیٹے ہوئے پایا ‪ ،‬ابھی تک‬
‫‪ ‬رات کا سناٹا تھا‬
‫آہستہ آہستہ سکندر کو پچھال گزرا سب یاد‬
‫آ گیا ‪ ،‬اسے یاد آ گیا کہ ایک نوجون اچانک‬
‫سے آ کر اسے چلہ ختم کرنے سے روک رہا‬
‫تھا اور ایک بوڑھی عورت جو اسے چلہ‬
‫ختم کرنے کا کہہ رہی تھی لیکن اب وہاں‬
‫کچھ نہیں تھا سب کچھ ختم ہو گیا تھا ‪،‬‬
‫وہ آگ بھی بجھ چکی تھی جس کے جلنے‬
‫کے بعد سکندر کو کچھ ہوش نہیں رہا تھا‬

‫سکندر اپنی جگہ پر اٹھ کر بیٹھ گیا اور‬


‫سب کچھ بھال کر دوبارہ پڑھائی شروع کر‬
‫‪ ‬دی‬

‫اب ہو گا دیکھا جائے گا ۔۔فلحال مجھے آج‬


‫‪ ‬کی رات کا چلہ پورا کرنا ہے‬
‫رات کا آخری پہر ہو گیا تھا اس وقت‬
‫سکندر دوسری رات کا چلہ پورا کرنے کے‬
‫قریب پہنچ چکا تھا۔۔سکندر دل میں دعا کر‬
‫رہا تھا کہ اب کچھ ایسا نہ ہو کہ جس سے‬
‫چلہ پورا نہ ہو سکے لیکن شکر ہے کہ ایسا‬
‫کچھ نہیں ہوا اور سکندر نے آخری مرتبہ‬
‫پڑھ کر گہری سانس لی ‪،‬وہ تھک چکا تھا‬
‫اس نے کچھ پڑھ کر بچے کی الش پر‬
‫پھونک ماری اور پھر ہاتھ کے پنجے سے الل‬
‫مرچ سے بنے دائرہ کو مٹا دیا ‪ ,‬ماچس کی‬
‫تیلیوں کو اٹھا کر الگ الگ کیا اور اسے‬
‫دوبارہ ماچس کی ڈبیہ میں ڈال دیا ‪ ،‬چاقو‬
‫وہ پہلے ہی نیفے میں ڈال چکا تھا بس اب‬
‫حصار ختم کرنا تھا جو اس نے دوبارہ کچھ‬
‫پڑھ کر اپنے اوپر پھونک ماری اور پھر‬
‫حصار کے دائرے کو مٹا دیا‬

‫سکندر نے بوری کا منہ کھوال اور الش کو‬


‫پیروں سے پکڑ کر بوری میں ڈال دیا‪ ،‬دو‬
‫دن میں الش گل سڑ چکی تھی اور بو‬
‫ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔۔سکندر‬
‫نے سارا سامان اکھٹا کیا اور بوری کندھے‬
‫پر ڈال کر اپنے گھر کی جانب روانہ ہو‬
‫گیا۔۔۔‬

‫اس کے پاس دو گھنٹے تھے جس میں اس‬


‫نے اپنی نیند پوری کرکے آفس جانا تھا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔‬
‫سفرینا کو رہ رہ کر اپنی ناکامی پر غصہ آ‬
‫رہا تھا اس سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس‬
‫کی لگائی آگ کو کس نے بجھایا تھا اور وہ‬
‫کون تھا جو جن جو اٹھا کر لے گیا۔۔۔‬

‫اس وقت سفرینا چلہ کی جگہ سے بہت‬


‫دور ایک درخت کے نیچے بیٹھی گزرے اور‬
‫‪ ‬آنے والے وقت کا سوچ رہی تھی‬

‫وہ سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے کیونکہ‬


‫آج کی رات آخری رات ہے ‪ ،‬آج اگر وہ لڑکا‬
‫چلہ کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر سفرینا‬
‫اس کے قابو میں آ جائے گی اور پھر سفرینا‬
‫مجبور ہو جائے گی کہ اس کی ہر بات مانے‬

‫سفرینا نے آنکھیں بند کر سکندر کے چہرے‬


‫کو تصور کیا تو سکندر اس کے سامنے آ گیا‬
‫وہ اس وقت نیند سے اٹھ چکا تھا اور اب‬
‫اپنے لیے ناشتہ کے لیے کچھ بنا رہا تھا‬

‫یہ دیکھ کر سفرینا کے چہرے پرخونی‬


‫‪ ‬مسکراہٹ آ گئی‬

‫چلو سفرینا ۔۔آج اس لڑکے سے پھر مل لیتے‬


‫‪ ‬ہیں‬

‫یہ کہہ کر سفرینا اپنی جگہ سے اٹھی اور‬


‫پھر اس نے بجلی کا روپ دھار کر سکندر‬
‫کے گھر کی جانب اڑنا شروع کیا‬

‫ایک بجلی کی لہر تھی جو شہر کی جانب‬


‫بڑھ رہی تھی لیکن چونکہ دن کا وقت تھا‬
‫اس لیے کسی انسان کو روشنی کا نظر آنا‬
‫ممکن نہیں تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫سکندر نیند سے اٹھ چکا تھ۔۔نہا دھو کر وہ‬


‫کچن کی طرف چال گیا اور پھر پانی کیتلی‬
‫میں ڈال کر فرج سے انڈے نکالنے لگا۔۔۔ابھی‬
‫سکندر انڈے اٹھا کر مڑا تھا کہ باہر دروازے‬
‫‪ ‬پر دستک ہوئی‬

‫اس وقت کون ہو سکتا ہے۔۔۔سکندر نے یہ‬


‫سوچ کر چائے کی آگ کم کی اور کچن سے‬
‫باہر نکل آ یا۔۔۔‬

‫دروازے کے قریب پہنچ کر سکندر نے کون‬


‫ہے کی آواز نکالی لیکن کوئی جواب نہیں‬
‫آیا تو دروازہ کھول دیا۔۔‬
‫ابھی وہ پاؤں باہر رکھنے واال تھا کہ ایک‬
‫‪ ‬چھوٹی سی بچی اندر آ گئی‬

‫انکل ۔۔میرے امی ابو مجھے اکیال گھر میں‬


‫چھوڑ کر گئے ہیں اور مجھے بھوک لگ رہی‬
‫ہے۔۔کچھ کھانے کو دیں پلیز‬

‫یہ فراک پہنے چھوٹی خوبصورت بچی‬


‫‪ ‬سکندر کو بہت بجلی لگی‬

‫او۔۔۔آپ کون ہو بیٹا؟ میں نے پہلے تو آپ کو‬


‫نہیں دیکھا یہاں ؟‬

‫سکندر بچی کے سامنے جھک کر بیٹھ گیا‬


‫اور اس کے ننھے سے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں‬
‫لے کر کہا‬

‫انکل میں دو گھر چھوڑ کر رہتی ہوں ۔۔اپ‬


‫نے مجھے نہیں دیکھا لیکن میں آپ کو روز‬
‫آفس جاتے ہوئے دیکھتی ہوں‬

‫بچی توتلی آواز میں بات کر رہی تھی‬

‫اچھا۔۔۔تو بیٹا پھر آپ کے امی ابو کہاں گئے‬


‫اور آپ نے ناشتہ نہیں کیا کیا؟‬

‫جی انکل میں نے ناشتہ نہیں کیا اور میرے‬


‫امی ابو راجو کے ساتھ اسکول گئے ہیں‬

‫راجو آپ کے بھائی کا نام ہے بیٹا؟‬

‫سکندر نے بچی سے پوچھا‬

‫جی ہاں انکل۔۔راجو کا آج رزلٹ ہے اور‬


‫سکول گھر سے بہت دور ہے اس لیے امی‬
‫ابو بھی بغیر ناشتے کے چلے گئے اور مجھے‬
‫سوتا چھوڑ گئے ہیں‬

‫اچھا بیٹا۔۔آپ کا کیا نام یے؟‬


‫سکندر نے بچی سے نام پوچھا‬

‫ویسے تو میرا نام شہناز ہے لیکن امی ابو‬


‫مجھے منو کہتے ہیں‬

‫ہممم۔۔۔۔۔چلو آؤ اندر۔۔انکل آپ کو ناشتہ‬


‫کراتا ہے‬

‫ویسے اگر آپ کے امی ابو گھر آ گئے اور آپ‬


‫انکو نظر نہیں آئی تو وہ پریشان ہو جائیں‬
‫گے‬

‫نہیں انکل۔۔امی ابو اتنی جلدی نہیں آ ہیں‬


‫گے‬

‫ہممم۔۔۔صحیح یے۔۔۔آو اندر‬

‫سکندر بچی کو اپنے روم میں لے آیا اور‬


‫اسے بیڈ پر بیٹھنے کا کہہ کر کچن میں چال‬
‫گیا ۔۔اس نے دودھ برتن سے نکاال اور جلدی‬
‫جلدی‪  ‬کیتلی میں دودھ وغیرہ ڈاال۔۔ انڈہ‬
‫فرائی کرکے‪  ‬اور پھر رات‪  ‬کی بچی ہوئی‬
‫روٹی لے کر دوبارہ اپنے کمرے میں آ گیا۔۔۔‬
‫منو ابھی تک بیڈ پر بیٹھی ہوئی تھی‬

‫انکل آپ نے انڈہ فرائی کیا ہے کیا؟‬

‫جی بیٹا ۔۔انڈہ ہے ‪ ،‬روٹی ہے اور چائے ہے‬


‫بس ۔۔لیکں روٹی رات کی بچی ہوئی ہے‬

‫کوئی بات نہیں انکل۔۔۔چائے میں نہیں پیتی‬


‫بس آپ کے ساتھ انڈہ کھاؤں گی‬

‫چلو آؤ پھر بسمہ اہلل کرو بیٹا‬

‫سکندر نے چائے اپنے مگ میں ڈالتے ہوئے‬


‫کہا‬
‫اچانک باہر دھپ کی آواز آئی۔۔ایسا لگا‬
‫جیسے کچھ بھاری سا گرا ہو۔۔۔‬

‫سکندر نے چائے کا مگ بیڈ پر رکھا اور‬


‫کمرے سے باہر نکل آیا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫شہزادہ طرطوش شاطر سے گزرے حال کا‬


‫پوچھ رہا تھا اور شاطر شروع سے اب تک‬
‫کی ساری کہانی بتا رہا تھا‬

‫شاطر کی حالت بہت نازک تھی‪ ،‬اگر وہ‪ ‬‬


‫کوئی عام سا انسان ہوتا تو اس وقت مر‬
‫گیا ہوتا لیکن وہ ایک جن تھا اور جنات کو‬
‫موت کے عالؤہ کوئی چوٹ یا زخم نہیں‬
‫پہنچا سکتا ۔۔ اس وقت شاطر کے جلنے کے‬
‫سارے زخم آہستہ آہستہ بھرتے جا رہے تھے‬
‫اچھا تو پھر تم وہاں کیوں گئے جب اس نے‬
‫‪ ‬تمہیں دور رہنے کا کہاتھا؟‬

‫شہزادے نے شاطر سے پوچھا‬

‫شہزادہ طرطوش۔۔میں وہاں ہرگز نہیں جاتا‬


‫لیکن وہ چڑیل اس لڑکے کو جان اور ایمان‬
‫دونوں کی دشمن ہو گئی تھی‬

‫اس نے لڑکے کو چلے سے باہر نکالنے کے لیے‬


‫اسے اہلل سے ڈرا دیا تھا لیکن وہ لڑکا نہیں‬
‫جانتا تھا کہ اب اگر اس نے چلہ روک دیا تو‬
‫وہ مارا جائے گا اور پھر وہ توبہ نہیں کر‬
‫سکے گا ایک دفعہ وہ چلہ پورا کر لے ‪،‬اگر‬
‫وہ بچ گیا اور اس چڑیل کو قابو کر لیا تو‬
‫پھر ی ممکن ہے کہ وہ توبہ بھی کرے اور‬
‫اس چڑیل سے اپنی جان بچ بھی چھڑائے‬
‫ہمممم۔۔۔تو یہ بات ہے لیکن اب تو تم اس‬
‫کی نظروں میں آ چکے اور مار بھی کھا‬
‫چکے ہو اب میں نہیں چاہتاکہ تم دوبارہ‬
‫اس چڑیل کے قریب بھی جاؤ۔۔تم نے دیکھ‬
‫لیا کہ تمہارے حصار میں ہوتے ہوئے بھی وہ‬
‫تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہے‬

‫جی شہزادہ طرطوش‬

‫شاطر نے سر جھکا کر یہ بات کہی اس کے‬


‫چہرے پر شرمندگی تھی کہ وہ ایک چڑیل‬
‫سے مار کھا کر واپس آیا ہے‬

‫تو اب تک اس کے قریب بھی نہیں جاوگی۔۔‬


‫سمجھے تم‬

‫شہزادے نے بناوٹی غصہ میں کہا‬

‫تو اس نوجوان کا کیا ہوگا شہزادے؟‬


‫اب سفرینا ہم سے ٹکرا چکی ہے اور اس‬
‫نوجوان کو بھی بچانا ہے تو میں خود‬
‫دیکھوں گا کہ کیا کرنا ہے ۔۔تمہیں فکر کرنے‬
‫کی کوئی ضرورت نہیں ہے‬

‫جی صحیح‬

‫اب تم تھوڑا سا آرام کرو جب تک میں اس‬


‫لڑکے اور سفرینا کو دیکھتا ہوں ۔۔شہزادہ‬
‫بوال‬

‫لیکن شہزادے آپ نے ان دونوں کو دیکھا‬


‫نہیں ہے تو پھر کیسے انکو ڈھونڈیں گے‬

‫شاطر نے اہم بات پوچھ لی تھی‬

‫جب میں تمہیں بچانے آیا تھا تو اس وقت‬


‫اس نوجوان کا چہرہ بھی دیکھ لیا تھا۔۔‬
‫پہلے میں اس کے پاس جاؤں گا۔۔پھر اس‬
‫کی مدد سے سفرینا کو بھی ڈھونڈھ لوں گا‬

‫جی یہی ٹھیک رہے گا۔۔۔شاطر نے کہا ‪ ‬‬

‫یہ کہہ کر شہزادہ طرطوش نے اپنی آنکھیں‬


‫بند کیں اور پھر اپنی جگہ سے غائب ہو گیا‬

‫اسے سکندر کے گھر پہنچنے میں کچھ‬


‫زیادہ ہی وقت لگ گیا کیونکہ عبقر اور‬
‫سکندر کے گھر کے درمیاں میں زیادہ فاصلہ‬
‫‪ ‬تھا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا سکندر کے قریب پہنچی تو سکندر‬


‫اس وقت گھر‪  ‬کے گیٹ پر بیٹھا کسی بچی‬
‫سے باتیں کر رہا تھا۔۔۔‬
‫سفرینا کے لیے یہ اچھا موقع تھا ‪ ،‬اس نے‬
‫اپنی حالت تبدیل نہیں کی اور بجلی ہی‬
‫کی صورت میں گھر میں داخل ہو گئی‬
‫‪،‬اس وقت اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا‬
‫تھا کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا اور‬
‫جو کچھ کرنا تھا اسی وقت میں کرنا تھا‬

‫ابھی سفرینا یہ سوچ رہی تھی کہ اس کے‬


‫دماغ میں ایک خیال کوندا اور پھر وہی‬
‫شیطانی مسکراہٹ اس کے لبوں پر آ گئی‬
‫جو اس کی پہچان ہوتی ہے‬

‫اس نے اپنا رخ کچن کی جانب کیا اور پھر‬


‫اندر داخل ہو گئی اس وقت آگ پر کیتلی‬
‫رکھی ہوئی تھی اور اس میں پانی ابل رہا‬
‫تھا‬
‫سفرینا اپنے اصل روپ میں آئی اور ادھر‬
‫ادھر دیکھنے لگی ‪،‬نزدیک ہی ایک بڑے سے‬
‫برتن میں چائے کے لیے دودھ پڑا ہوا تھا۔۔۔‬
‫اس نے خاموش رہ کر آہٹ سننے کی‬
‫کوشش کی لیکن سکندر اس وقت بھی اس‬
‫بچی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا‬

‫اور پھر سفرینا نے اپنی دائیں ہاتھ کی‬


‫انگلی اپنے منہ میں ڈال کر باہر نکالی اور‪ ‬‬
‫پھر اسے دودھ میں ڈبو دی ۔۔یکدم دودھ کا‬
‫رنگ نیال ہو کر دوبارہ پہلے جیسا ہو گیا۔۔۔‬

‫اب دیکھتی ہوں تم کیسے بچتے ہو مجھ‬


‫سے۔۔۔‬

‫سفرینا نے آہستہ لہجے میں کہا تھا‬


‫یہ کہہ کر سفرینا دوبارہ بجلی بن گئی اور‬
‫پھر اس نے اپنی جگہ چھوڑ دی ‪ ،‬وہ گھر‬
‫سے باہر نکل چکی تھی‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔‬

‫شہزادہ جب سکندر کے گھر پہنچا ایک‬


‫بجلی کی لہر گھر میں داخل ہوتی نظر آئی‬

‫یہ کیا ہو سکتا ہے۔۔۔؟‬

‫ایسی لہر شہزادہ طرطوش کو اپنی شادی‬


‫کے دن بھی نظر آئی تھی اور ایک ایک کر‬
‫کے ساری کڑیاں جڑتی گئیں۔۔‬

‫تو یہ ہے سفرینا۔۔۔۔۔‬
‫شہزادہ طرطوش سفرینا کے سامنے نہیں آنا‬
‫چاہتا تھا اور سکندر سے بھی فلحال دور‬
‫رہنا چاہتا تھا۔۔اس لیے اس نے خود کو‬
‫حصار میں بند کر لیا ‪،‬اس کو شاطر کے‬
‫انجام کا بھی پتا تھا اس لیے اس نے خود‬
‫کو سلیمانی حصار میں بند کر لیا ۔۔۔‬

‫اب سفرینا کیا۔۔۔سفرینا کا باپ بھی مجھے‬


‫نہیں محسوس کر سکتا ہے‬

‫شہزادے کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ‬


‫‪،‬تھی‬

‫وہ بھی سفرینا کے پیچھے پیچھے گھر کے‪ ‬‬


‫اندر داخل ہو گیا‪ ،‬وہ اس وقت کچن کی‬
‫جانب بڑھ رہی تھی اور شہزادہ دیکھنا‬
‫چاہتا تھا کہ وہ کیا کرتی ہے‬
‫کچن میں پہنچ کر سفرینا نے ادھر ادھر‬
‫دیکھا اور پھر ایک برتن میں پڑے دودھ‬
‫میں اپنی انگلی ڈبو دی‬

‫یہ دیکھ کر شہزادہ لرز گیا‪ ،‬وہ سفرینا کی‬


‫چال سمجھ گیا تھا‪ ،‬سفرینا سکندر کو زہر‬
‫دینے جا رہی تھی ۔۔سفرینا نے آہستہ لہجے‬
‫میں کچھ کہا اور پھر بجلی بن کر باہر چلی‬
‫گئی‬

‫پہلے تو شہزادے کا دماغ ہی گھوم گیا ‪ ،‬وہ‬


‫حیران تھا کہ سفرینا ایسا بھی کر سکتی‬
‫ہے‬

‫سفرینا کوئی عام سی چڑیل نہیں ہے ‪ ،‬اس‬


‫طرح سے کوئی بھی کسی کو قتل نہیں کر‬
‫سکتا ہے‪  ‬اور سکندر تو اسے قابو میں کرنے‬
‫کے لیے چلہ کر رہا ہے ‪ ،‬اگر کوئی انسان جن‬
‫کے لیے چلہ کر رہا ہو تو وہ جن صرف اس‬
‫انسان کو ڈرا سکتا ہے اس سے زیادہ وہ‬
‫کچھ نہیں کر سکتا لیکن یہ سفرینا۔۔‬

‫کیسے ہو سکتا ہے یہ‪ ،‬کیا اس سے سوال‬


‫کرنے واال کوئی نہیں ہے ؟ کیا اس پر جناتی‬
‫دنیا کا قانون الگو نہیں ہوتا؟‬

‫شہزادہ یہ سب سوچ رہا تھا کہ کسی کے‬


‫پیروں کی آواز سنائی دی ‪ ،‬سکندر بچی کے‬
‫ساتھ اندر آ رہا تھا۔۔‬

‫اس وقت شہزادے کا دماغ جلدی جلدی‬


‫سوچ رہا تھا ‪ ،‬اس کے پاس وقت کم تھا اور‬
‫اسے آج سکندر کو ہر حال میں بچانا ہے۔۔۔‬
‫اچانک اس کی نظر کچن کی کھڑکی سے‬
‫باہر پڑی‪ ،‬ایک بلی اس وقت گھر کی باہر‬
‫والی دیوار پر چل رہی تھی‬

‫بلی کو دیکھ کر شہزادے کے دماغ میں ایک‬


‫ترکیب سوجھی‬

‫اس نے جلدی سے جا کر بلی کو پکڑا اور‬


‫اسے کچن میں لے ایا‪ ،‬تھوڑا سا دودھ ایک‬
‫الگ برتن میں ڈال کر بلی کے سامنے رکھ‬
‫دیا جسے بلی غٹا غٹ پی گئی ‪ ،‬شہزادے کا‬
‫یقین درست ثابت ہوا‪ ،‬دودھ پی کر بلی‬
‫وہیں گر گئی ‪ ،‬اس کے منہ سے جھاگ نکل‬
‫رہی تھی‪،‬شہزادے نے بلی کو اٹھایا اور‬
‫کچن سے باہر نکل آیا جیسے ہی باہر نکال ‪،‬‬
‫سکندر بیڈ روم سے نکل کر‪  ‬کچن میں‪ ‬‬
‫چائے بنانے لگا ‪ ،‬چائے اور انڈہ اٹھا کر وہ‬
‫‪، ‬دوبارہ بیڈ روم میں چال گیا‬

‫شہزادے نے زیادہ دیر کرنا مناسب نہ‬


‫سمجھا اور ہاتھ میں پکڑی بلی کو اتنی زور‬
‫سے سامنے دیوار پر دے مارا کہ آواز‪  ‬سنائی‬
‫دے‪ ،‬وہی ہوا بلی کے گرنے سے دھپ کی‬
‫آواز پیدا ہوئی اور تھوڑے سے انتظار کے‬
‫بعد سکندر کا چہرہ نظر ایا‪ ،‬وہ آواز والی‬
‫جگہ کی طرف جا‪  ‬رہا تھا اور پھر اسے بلی‬
‫نظر آ گئی ‪ ،‬نزدیک جانے پر سکندر کو بلی‬
‫‪ ، ‬کے منہ سے جھاگ نکلتی ہوئی نظر آئی‬

‫کسی نے بیچاری کو زہر دے دیا ہے ‪ ،‬ظالم‬


‫‪ ‬ہیں لوگ‬
‫سکندر نے اونچی آواز میں کہا تھا اور پھر‬
‫بلی کو اٹھا کر باہر گلی میں گیا اور وہیں‬
‫سڑک کے کنارے پھینک کر دوبارہ بیڈ روم‬
‫میں چال گیا۔۔‬

‫بیٹا ابھی تک آپ نے انڈہ ختم نہیں کیا ہے۔۔‬


‫مجھے تو آفس دیر ہو رہی ہے ‪ ،‬جلدی جلدی‬
‫‪ ‬آپ انڈہ ختم کرو‬

‫یہ کہہ کر سکندر نے چائے کا کپ اٹھا لیا‬

‫کیا مطلب ۔۔یہ زہر تمہیں دیا جا رہا ہے‬


‫پاگل۔۔‬

‫شہزادہ سکندر کی بیوقوفی پر تلمال اٹھا‬


‫تھا‬

‫‪ ‬انکل آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟‬


‫شہناز کی بات سن کر سکندر کا کپ وہیں‬
‫ہوا میں رک گیا ‪ ،‬وہ سوچ رہا تھا کہ بچی‬
‫کو ایسا جواب دے جو اس کے چھوٹے سے‬
‫دماغ میں آ جائے‬

‫شہزادے کو‪  ‬سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا‬


‫کرے‪ ،‬اگر وہ سکندر کے سامنے آ گیا تو پھر‬
‫وہ سفرینا کو ظاہر ہو جائے گا اور سفرینا‬
‫کے سامنے شہزادے کے آنے کا مطلب‬
‫شیطانوں اور جنوں کی نا ختم ہونے والی‬
‫لڑائی ہے۔۔‬

‫بس بیٹا۔۔مجھے اکیلے رہنا اچھا لگتا ہے‪،‬‬


‫سکندر کو کوئی جواب سمجھ نہیں ایا۔۔‬

‫اس کا کپ دوبارہ اوپر اٹھنے لگا تھا اور‬


‫شہزادے کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا‬
‫کرے اس سے پہلے کہ سکندر چائے کی‬
‫چسکیاں لیتا‪ ،‬شہزادے نے بچی کو ہلکا سا‬
‫دھکا دیا اور بچی سکندر سے جا ٹکرائی‬

‫سکندر کے لیے یہ سب اچانک ہوا اور وہ‬


‫سنبھل نہیں پایا‬

‫بچی اس‪  ‬ہاتھ سے ٹکرائی تھی جس ہاتھ‬


‫میں کپ تھا اور پھر ساری چائے اور کپ‬
‫بیڈ پر گر گیا۔۔‬

‫سکندر نے جلدی سے بچی کو سنبھاال‬

‫کیا ہوا بیٹا۔۔خیریت تو ہے نا؟‬

‫پتا نہیں انکل کیا ہوا۔۔مجھے بیٹھے بیٹھے‬


‫جھٹکا سا لگا اور پھر میں آپ سے ٹکرا‬
‫گئی۔۔‬
‫سوری انکل میں نے آپ پر چائے گرا دی۔۔‬

‫کوئی بات نہیں بیٹا۔۔‬

‫آپ کو چوٹ تو نہیں لگی ۔۔سکندر نے شہناز‬


‫سے پوچھا‬

‫نہیں انکل۔۔میں ٹھیک ہوں‬

‫ہممم۔گڈ ۔۔رکو میں یہ برتن کچن میں رکھ‬


‫آتا ہوں۔۔سکندر نے سارے برتن اٹھا لیے اور‬
‫کچن میں چال گیا۔۔۔‬

‫سنک پر برتن رکھنے کے دوران ایک برتن‬


‫میں سکندر کو دودھ نظر آیا۔۔‬

‫یہ دودھ یہاں کیسے آ گیا؟‬

‫سکندر یاد کر رہا تھا کہ اس نے یہ دودھ‬


‫کیوں نکاال تھا اور پھر برتن میں کیوں ڈاال‬
‫تھالیکن یہ سب تو اس نے کیا ہی نہیں تھا‬
‫‪ ‬تو یاد کیسے آتا؟‬

‫سکندر نے دودھ واال برتن اٹھایا اور دروازہ‬


‫کھول کر گھر سے باہر گیا اور دودھ کو گلی‬
‫کے کنارے پر گرا دیا‬

‫واپس اندر آیا تو منو گھر کے صحن میں‬


‫اس کا انتظار کر ہی تھی۔۔‬

‫انکل۔۔میرے امی ابو والے آ چکے ہونگے‪ ،‬میں‬


‫اب چلتی ہوں‬

‫ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔مجھے بھی آفس جانا ہے‪،‬‬


‫امی ابو کو میرا سالم دینا‬

‫جی ٹھیک ہے انکل۔۔یہ کہہ کر شاہناز گھر‬


‫کے گیٹ سے باہر نکل گئی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫شہزادہ طرطوش سکندر کے ساتھ ہی کچن‬


‫سے باہر نکال تھا اور جب سکندر دودھ باہر‬
‫گرا ک واپس آیا تو شہزادہ بھی گلی میں‬
‫رک گیا۔۔۔‬

‫شہزادہ سکندر کو سفرینا سے محتاط رکھنا‬


‫چاہتا تھا لیکن اس وقت سکندر کے سامنے‬
‫آنا شہزادے کے لیے بہت سے مسلئے کھڑے‬
‫کر دے گا۔۔‬

‫گلی میں شہزادے کو اپنے مطلب کی چیز‬


‫نظر نہیں آ ہی تو وہ تھوڑا آگے چال گیا۔۔۔‬

‫آخرکار وہ چیز شہزادے کو نظر آ گئی ۔۔وہ‬


‫ایک کالی بلی تھی جسے شہزادے نے پکڑ‬
‫لیا اور اب دوبارہ سکندر کے گھر کی طرف‬
‫جا رہا تھا‬

‫گھر کے گیٹ کے قریب پہنچ کر شہزادے نے‬


‫بلی کو وہاں لے گیا جہاں سکندر نے دودھ‬
‫گرایا تھا‬

‫کیونکہ گلی کا فرش پکا تھا تو دودھ ابھی‬


‫تک زمیں میں جذب نہیں ہوا تھا۔۔۔شہزادے‬
‫نے بلی کو دودھ کے قریب کیا تو بلی دودھ‬
‫پینے لگی اور پھر وہی ہوا جو شہزادے نے‬
‫سوچا تھا۔۔۔بلی اس کے ہاتھ میں جھول‬
‫‪ ‬گئی‬

‫شہزادے نے بلی کو وہیں زمین پر لٹا دیا‬


‫تاکہ سکندر اسے دیکھے اور پھر گیٹ کے‬
‫قریب ہی کھڑے ہو کر سکندر کا انتظار‬
‫کرنے لگا۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔‬

‫سفرینا کو گئے کافی دیر ہو گئی تھی ایک‬


‫جگہ رک کر سفرینا نے سکندر کو تصور کیا‬
‫اور پھر اسے زندہ چلتا پھرتا دیکھ کر‬
‫سفرینا کے پیروں سے زمیں نکل گئی‬

‫یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔سفرینا غصے سے‬


‫‪ ‬چالئی‬

‫اور پھر دوبارہ اس نے اپنا رخ سکندر کے‬


‫گھر کی جانب کر دیا ۔۔گھر میں داخل ہوئی‬
‫‪ ‬تو سکندر بائیک سٹارٹ کر رہا تھا‬
‫بائیک سٹارٹ کرنے کے بعد سکندر گیٹ سے‬
‫باہر نکل آیا اور دروازے کو الک کر کے‬
‫بائیک کی طرف مڑا تو غیر ارادی طور پر‬
‫اس کی نظر دودھ گرانے والی جگہ پر چلی‬
‫گئی‬

‫اس نے ایک زور کا جھٹکا کھایا کیونکہ‬


‫دودھ والی جگہ کے قریب ایک اور بلی مری‬
‫پڑی تھی اور یہ بلی پہلی والی بلی سے‬
‫مختلف تھی‬

‫یہ ہو کیا رہا ہے آخر؟‬

‫سکندر نے سوچا‬

‫پہلے گھر میں بلی مری ہوئی ملی اور اب‬


‫یہاں‪ ،‬اس بلی نے وہی دودھ پیا ہے جو میں‬
‫نے گرایا تھا تو اس کا مطلب کہ وہ دودھ‬
‫زہر واال تھا ۔ لیکن دودھ میں زہر کس نے‬
‫مالیا اور کیوں‪ ،‬کیا کوئی مجھے مارنا چاہتا‬
‫یے؟ لیکن ایسا کون ہے جس کو میری موت‬
‫سے مطلب ہے ‪  ،‬مجھے مارنے واال انسان‬
‫آخر اندر کس طرح آیا اور پھر دودھ میں‬
‫زہر ڈال کر واپس چال گیا لیکن مجھے نظر‬
‫نہیں آیا۔۔۔‬

‫سفرینا سکندر کو گیٹ کے قریب کھڑا‬


‫سوچتا دیکھ رہی تھی‪ ،‬اس کا دل کر رہا‬
‫تھا کہ اب کے ابھی سکندر کا گال دبا دے‬
‫لیکن وہ اس قتل میں خود نہیں پڑنا‬
‫چاہتی تھی وہ کسی زریعے سے سکندر کو‬
‫مارنا چاہتی تھی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫)۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا ۔۔۔قسط نمبر ‪ (7‬از ابن نصیر‬

‫)نوٹ۔۔کمزور دل حضرات نہ پڑھیں(‬

‫رات کافی گہری ہو چکی تھی ہر سو‬


‫اندھیرا تھا ‪ ،‬ہاتھ کو ہاتھ‪  ‬دکھائی نہیں‬
‫دے رہا تھا‪ ،‬شہر کی سڑکیں ویران ہو چکی‬
‫تھیں‪ ،‬ایسا لگتا ہے کہ شہر کے تمام باسی‬
‫نیند کے مزے لے رہے ہیں لیکن ویران‬
‫سڑکوں پر ایک شخص کندھے پر سامان‬
‫الدھے کہیں جا رہا تھا‪ ،‬اس کی چال بہت‬
‫دھیمی تھی‪ ،‬ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی‬
‫منزل بہت قریب ہے یا پھر اس کے پاس‬
‫اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت‬
‫وقت ہے‬

‫رات کے اندھیرے کو کتوں کے بھونکنے نے‬


‫اور خوفناک بنا دیا تھا‪ ،‬رات کے اس پہر‬
‫کتے بین کر کے رو رہے تھے لیکن ان سب‬
‫چیزوں کا اس انسان پر کوئی اثر نہیں ہو‬
‫‪ ‬رہا تھا‪ ،‬اس کی چال میں بال کا اعتماد تھا‬
‫یہ ایک درمیانے قد کا انسان تھا جو اپنی‬
‫آدھی سے زائد کی عمر گزار چکا تھا ‪ ،‬اس‬
‫کے سر پر گنتی کے بال تھے اور چہرے پر‬
‫جھریاں پڑ چکی تھی لیکن ہلکی ہلکی‬
‫داڑھی نے اسے خوبصورت بنا دیا تھا۔۔۔‬

‫کافی دور چلنے کے بعد وہ انسان ایک گھر‪ ‬‬


‫‪ ‬کے قریب رک گیا‬

‫شہر کے مضافات میں الگ تھلگ یہ گھر‬


‫اس وقت روشن تھا ‪ ،‬اس شخص نے گھر‬
‫کے دروازے پر رک کر بوری اپنے کندھے سے‬
‫اتاری اور پھر دروازے پر ہلکی سے دستک‬
‫دی لیکن کوئی جواب نہیں مال ‪ ،‬کچھ‬
‫انتظار کے بعد دوسری دستک دی اور‬
‫خاموش رہ کر آواز سننے لگا‬

‫اندر سے کسی کے پاؤں گھسیٹنے کی آواز آ‬


‫رہی تھی جو دروازے کے قریب آ کر‬
‫خاموش ہو گئی‬

‫کون ہے؟ اندر سے مردانی مگر بوڑھی آواز‬


‫سنائی دی‬

‫میں ہوں بابا۔۔۔۔اپ کا شاگرد‬

‫آ گئے ُد د خان۔۔۔میں تمہارا ہی انتظار کر رہا‬


‫‪ ‬تھا‬
‫یہ کہہ کر اس بوڑھے آدمی نے دروازے کی‬
‫کنڈی گرا دی اور دروازے کا ایک پٹ کھول‬
‫دیا جس سے ُد ر خان اندر آ گیا‬

‫ارے یہ کیا لے آئے اپنے ساتھ بیٹا؟‬

‫کچھ نہیں بابا۔۔۔۔کل میں نے دیکھا کہ آٹا‬


‫ختم ہو گیا تو آج بازار سے لیتا آیا‬

‫ارے اس تکلف کی کیا ضرورت تھی بیٹا۔۔۔‬

‫اس میں تکلف کیسا بابا۔۔آپ میرے لیے اتنا‬


‫سب کر رہے ہیں تو میں کیا اتنا بھی نہیں‬
‫کر سکتا‬
‫یہ تمہارا ظرف ہے بیٹا۔۔اہلل تمہیں ہمیشہ‬
‫‪ ‬خوش رکھے‬

‫بس بابا۔۔مجھے آپ سے بس یہ دعائیں‬


‫چاہیے‪ ،‬اب میرا دنیا میں کوئی نہیں‪ ،‬ایک‬
‫اہلل کے بعد آپ کا آسرا ہے‬

‫میری دعا ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے بیٹا۔۔۔آو‬


‫چل کر کھانا کھاتے ہیں‪ ،‬میں نے آج تمہارے‬
‫لیے چاول ابال کر رکھے ہیں‬

‫ارے بابا ۔۔۔یہ تکلف آپ نے کیوں کیا۔۔۔میں‬


‫خود آ کر پکا لیتا‬
‫نہیں بیٹا۔۔۔اس میں تکلف کیسا۔۔۔۔جب کرنا‬
‫ہے تو تم کیا اور میں کیا‬

‫یہ کہہ کر بوڑھا آدمی اندر کمرے کی طرف‬


‫چل پڑا۔۔۔ در خان بھی چھوٹے قدموں کے‬
‫ساتھ بابا کے پیچھے چل رہا تھا‪ ،‬کمرے میں‬
‫داخل ہونے پر در خان نے دیکھا کہ بابا نے‬
‫ایک چٹائی بچھا لی تھی اور چاول کی‬
‫دیگچی کے ساتھ دو پلیٹ اور پانی واال‬
‫مٹکا رکا ہوا تھا‬

‫بابا۔۔۔یہ آپ نے ٹھیک نہیں کیا۔۔۔میرا تو‬


‫انتظار کرتے ‪ ,‬میں کر لیتا یہ سب‬
‫ارے بیٹا ۔۔ہمارے آقا دو جہاں صلی اہلل‬
‫علیہ وسلم اپنے کام خود کر لیا کرتے تھے تو‬
‫مجھے بھی خوشی ہوتی ہے‬

‫جی بابا ۔۔یہ تو سنت ہے‪ ،‬در خان نے درود‬


‫پاک پڑھ کر جواب دیا‬

‫بابا چٹائی پر بیٹھ گئے تو در خان بھی بابا‬


‫کے سامنے بیٹھ گیا‬

‫اس سے پہلے کہ بابا چاول پلیٹ میں ڈالتے‪،‬‬


‫در خان نے آگے ہو کر دیگچی اپنی جانب‬
‫کھینچ لی‬
‫اب یہ کام تو مجھے کرنے دیں بابا‬

‫اچھا بھئی ۔۔تم ہی کر لو سب۔۔۔بابا نے‬


‫مسکراتے ہوئے کہا‬

‫در خان نے ایک پلیٹ میں چاول ڈال کر بابا‬


‫کے سامنے رکھی اور دوسری اپنے سامنے‬
‫رکھ دی‬

‫شروع کریں بابا۔۔۔۔‬

‫در خان نے ہاتھ اپنی پلیٹ کی طرف بڑھاتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫بسمہ اہلل نہیں پڑھو گے در خان۔۔‬


‫اوہ۔۔غلطی ہو گئی بابا۔۔۔‬

‫بسمہ اہلل الرحمن الرحیم‬

‫‪ ‬یہ کہہ کر در خان نے کھانا شروع کیا‬

‫کمرے میں ایک موم بتی جل رہی تھی‬


‫جس کی ہلکی سی روشنی میں بابا اور در‬
‫خان کھانا کھا رہے تھے‬

‫بابا ایک بات تو بتائیں۔۔۔۔‬

‫میں اپنی ساری زندگی گناہوں میں گزار‬


‫چکا ہوں اور اب اگر بچی ہے تو یہ تھوڑی‬
‫سی زندگی تو کیا اہلل مجھے معاف کر دے‬
‫گا بابا‬
‫بیٹا ایسا نہیں کہتے۔۔۔اہلل تو ہماری سوچ‬
‫سے بھی زیادہ رحیم ہے‪ ،‬وہ اپنے بندوں کو‬
‫ضرور معاف کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ‬
‫بندہ اہلل سے صدق دل سے معافی مانگے‬
‫اور تم تو کچھ دن ہوئے مسلمان ہوئے ہو‪ ،‬تم‬
‫پر اہلل نے اپنا کرم کیا ہے ‪ ،‬اب باقی کی‬
‫زندگی اچھے کاموں میں گزارنا ‪ ،‬مصیبت‬
‫زدہ لوگوں کی مدد کرنا‪ ،‬گناہ سے پرے‬
‫بھاگنا ‪ ،‬پھر دیکھنا اہلل تم پر کیسی کیسی‬
‫رحمتیں نازل کرتا ہے۔۔‬

‫جی بابا ۔۔اب سے میری زندگی کا مقصد ہی‬


‫یہی ہوگا۔۔انشا اہلل‬
‫انشا اہلل۔۔بابا نے در خان کے ساتھ کہا‬

‫کھانا کھا لینے کے در خان نے برتن اکھٹے‬


‫کرکے کمرے کے کونے میں رکھ دیے اور پھر‬
‫چلم چین اٹھا کر بابا کے ہاتھ دھلوانے لگا‪،‬‬
‫پھر اس نے اپنے ہاتھ دھوئے اور برتن کو‬
‫سائیڈ پر رکھ دیا‬

‫بابا میں وضو کر لوں جب تک۔۔۔در خان نے‬


‫اٹھ کر کہا‬

‫میں نے ابھی عشا پڑھی ہے ‪،‬میرا تو وضو‬


‫ہے ‪ ،‬تم جب تک وضو کرو تب تک میں‬
‫تمہارا انتظار کرتا ہوں۔۔۔‬
‫جی ٹھیک ہے بابا۔۔یہ کہہ کر در خان کمرے‬
‫سے باہر چال گیا‬

‫یا اہلل تیرا الکھ الکھ شکر ہے۔۔۔یہ الفاظ در‬


‫خان کے تھے جو اس نے کھانا کھانے اور‬
‫ہاتھ دھونے کے بعد کہے تھے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫شاطرصبح سے شہزادے طرطوش کا انتظار‬


‫کر رہا تھا اور اسوقت دوپہر ہو چکی تھی‬
‫لیکن ابھی تک شہزادے کا کچھ اتا پتا نہیں‬
‫تھا‪ ،‬شاطر کو رہ رہ کر شہزادے طرطوش‬
‫کے بارے میں پریشانی ہو رہی تھی‪ ،‬اس کے‬
‫دل میں وسوسوں نے ڈیرا ڈال رکھا تھا ۔۔۔‬

‫کہیں سفرینا نے شہزادے کو کچھ۔۔۔لیکن‬


‫پھر خود ہی سر جھٹک کر اس سوچ کر‬
‫رفع کر دیا‬

‫اہلل کرے ایسا کچھ نہ ہوا ہو۔۔۔۔‬

‫شاطر کو یاد نہیں کہ شاہزادے کے انتظار‬


‫میں دائیں بائیں اس نے کتنے قدم چلے ہیں‬
‫لیکن اسے ایک جگہ پر آرام نہیں آ رہا تھا ‪،‬‬
‫اس نے کہی مرتبہ شہزادے کا چہرہ تصور‬
‫کرکے شہزادے کو دیکھنا چاہا لیکن وہاں‬
‫گھپ اندھیرا تھا ‪ ،‬پھر اس نے شہزادے کی‬
‫خوشبو کی مدد سے شہزادے سے رابطہ‬
‫کرنا چاہا لیکن یہاں بھی اسے مایوسی‬
‫ہوئی اور اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں‬
‫تھا کہ انتظار کرتا۔۔۔‬

‫آخر شاطر کا صبر رنگ کے آیا اور اس نے‬


‫شہزادے کو محل میں داخل ہوتے دیکھ‬
‫لیا۔۔وہ دوڑتا ہوا شہزادے کے پاس گیا‬

‫شہزادہ طرطوش ۔۔یقین جانیں میرا تو‬


‫سانس صبح سے رکا ہوا ہے‪ ،‬نہ آپ سے‬
‫رابطہ ہو پا رہا تھا اور نہ ہی آپ کی کوئی‬
‫‪،‬اطالع تھی‬
‫شاطر۔۔مجھے سانس تو لینے دو یار۔۔۔دیکھ‬
‫نہیں رہے کہ میں ابھی ابھی پہنچا ہوں‬

‫معاف کیجیے گا شہزادے‪ ،‬مگر آپ کو لے کر‬


‫پریشانی اتنی تھی کہ ادب آداب سب بھول‬
‫گیا۔۔۔معافی کا طلبگار ہوں‬

‫کوئی بات نہیں شاطر۔۔۔تم میرے لیے‬


‫پریشان تھے اور میں تمہارے ہی کام سے‬
‫گیا ہوا تھا‬

‫سب سے پہلے تو مجھے یہ بتائیں کہ میں‬


‫آپ سے رابطہ کیوں نہیں کر پا رہا تھا‪ ،‬ایسا‬
‫آپ نے کیا کیا ہوا تھا کہ آپ مجھے نظر‬
‫نہیں آ رہے تھے؟‬

‫شاطر ۔۔۔تمہیں چوٹ کھاتا دیکھ کر میں‬


‫یہی سمجھا کہ سفرینا حصار میں بھی‬
‫نقصان دے سکتی ہے اس لیے میں نے خود‬
‫کو حصار سلیمانی میں بند کر لیا تھا اس‬
‫وجہ سے میں دنیا میں موجود کسی جن‪،‬‬
‫شیطان اور انسان کو نظر نہیں آ رہا تھا‬

‫اچھا تو یہ بات ہے شہزادے‪ ،‬مجھے بھی‬


‫‪ ‬حصار سلیمانی سکھا دیں‬

‫بلکل سکھاؤں گا ۔۔کیوں نہیں‬


‫اچھا اب بتائیں کہ کیا ہوا تھا وہاں؟‬

‫یار یہ سفرینا تو بہت خطرناک چیز ہے‪ ،‬اس‬


‫سکندر نامی بندے کو اب اہلل ہی اس‬
‫عفریت سے بچا سکتا ہے‬

‫یہ تو آپ نے ٹھیک کہا لیکن ہوا کیا تھا یہ‬


‫بتائیں نا؟‬

‫وہ کسی کی نہیں ہو سکتی ‪ ،‬سکندر اس‬


‫کو اپنا غالم بنا رہا ہے لیکن وہ اسے مارنے‬
‫پر تلی ہوئی ہے ‪ ،‬ویسے یہ عجیب ہے کہ وہ‬
‫اس انسان کو مار سکتی ہے جو اس کا چلہ‬
‫کرتا ہے‪ ،‬یہ کیسے ممکن ہے شاطر؟ مجھے‬
‫اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی ہے۔۔۔‬
‫شہزادے نے پریشانی میں کہا‬

‫یہ تو عجیب بات ہے شہزادے ‪ ،‬اس پر‬


‫کوئی قانون کیوں نہیں چلتا ہے‪ ،‬یہ کیسے‬
‫ہو سکتا ہے کہ کسی چلہ کرنے واال انسان‬
‫کو مارا جائے ‪ ،‬ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ چلہ‬
‫کے اندر انسان کو ڈرا دھمکا کر باہر الیا‬
‫جائے اور پھر اسے مار دیا جائے لیکن وہ‬
‫ایسا کیسے کر سکتی ہے۔۔شاطر بھی سفرینا‬
‫کے بارے میں حیران تھا‬
‫اب شاہ بابا اور تمہاری وجہ سے ہم بھی‬
‫سفرینا کی نظروں میں آ گئے ہیں‪ ،‬اب تم نے‬
‫کسی بھی حال میں سفرینا کی نہ خبر‬
‫رکھنی ہے اور نہ ہی اس کے پیچھے جانا‬
‫ہے‪ ،‬سمجھے تم‬

‫جی ٹھیک ہے شہزادے طرطوش‬

‫اب اس کے پاس پورا پورا جواز ہے کہ وہ‬


‫ہم جنات سے ٹکرائے لیکن میری دعا ہے اہلل‬
‫کرے وہ ایسا نہ کرے‪ ،‬کیونکہ پھر جنات‬
‫اور شیطانوں میں ایک نہ ختم ہونے والی‬
‫لڑائی چھڑ جائے گی جس کا اختتام کبھی‬
‫نہیں ہوگا‬
‫اہلل کرے کہ ایسا نہ ہو شہزادے۔۔۔‬

‫شاطر بھی شہزادے کی باتیں سن کر‬


‫پریشان ہو گیا تھا‬

‫وہ سوچ رہا تھا کہ اگر وہ سفرینا کے‬


‫پیچھے چلہ والی جگہ نا جاتا تو کتنا اچھا‬
‫ہوتا لیکن اب جو بھی ہو گا اس کا زمہ دار‬
‫شاطر ہو گا‬

‫یا اہلل ہم سب کو اپنی امان میں رکھنا۔‬

‫شاطر دل میں بوال‬

‫اچھا میں جا رہا ہوں۔۔۔کل سے میں بابا سے‬


‫‪ ، ‬بھی نہیں مال ہوں‬
‫شہزادے نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر شاطر‬
‫بھی شہزادے کے ادب میں اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫آج چلے کی تیسری اور آخری رات تھی‬


‫جس میں سکندر اور سفرینا کی قسمت کا‬
‫‪،‬فیصلہ ہونا تھا‬

‫سکندر اپنے مقررہ وقت پر چلے کی جگہ پر‬


‫‪ ,‬پہنچ گیا تھا‬

‫آج اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا‬


‫جس طرح سے آج اس کا دن شروع ہوا تھا‬
‫‪ ،‬اس واقعہ نے سکندر کو اندر سے ہال کر‬
‫رکھ دیا تھا ‪ ،‬سارا دن سوچنے پر بھی اسے‬
‫سمجھ نہیں آئی کہ وہ کون تھا جو نہ‬
‫صرف اس کے گھر کے اندر داخل ہو گا بلکہ‬
‫چائے میں زہر مال کر واپس بھی چال گیا‬
‫اور پھر دو دو بلیوں کا زہر پینا ‪ ،‬یہ بھی‬
‫اتفاق نہیں لگ رہا تھا ‪ ،‬ایسا لگتا ہے کہ‬
‫کوئی ہے جو اسکی موت چاہتا ہے لیکن وہ‬
‫کون ہے یہ سکندر کو پتا نہیں لگ رہا تھا۔۔‬

‫سکندر نے جیب سے چاقو نکال کر دائرہ لگا‬


‫اور پھر الش اور ماچس کی تیلیوں کو‬
‫اپنی جگہ پر رکھ کر دائرہ میں بیٹھ گیا۔۔۔‬

‫ااس نے آنکھیں بند کر رکھیی تھیں ‪،‬ابھی‬


‫اسے ایک منٹ ہی نہیں ہوا کہ کسی‪  ‬کے‬
‫چیخنے کی آواز سن کر سکندر نے آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔‬
‫شاہناز زخمی حالت میں سکندر کے سامنے‬
‫گر پڑی تھی اور خون اس کے سر سے نکل‬
‫نکل کر زمین کو تر کر رہا تھا‬

‫انکل مجھے بچاو‪ ،‬وہ چڑیل مجھے مار دے‬


‫‪ ‬گی‬

‫‪ ‬شاہناز کے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‬

‫ایک پچھل پیری شاہناز کی طرف اڑتی‬


‫ہوئی آ رہی تھی‬

‫جس کے لمبے لمبے دو دانت سامنے سے‪ ‬‬


‫نکلے ہوئے تھے اور منہ سے خون نکل کر‬
‫زمیں پر گر رہا تھا‪ ،‬بال تھے کہ زمیں کو لگ‬
‫رہے تھے تو کبھی ہوا میں اڑ رہے تھے ‪ ،‬ایسا‬
‫لگ رہا تھا کہ بال نہیں تھے بلکہ کالے ناگ‬
‫‪، ‬تھے جو چڑیل کے ساتھ اڑتے آ رہے تھے‬

‫اس نے آتے ہی شاہناز کو ایک پیر سے پکڑا‬


‫اور ہوا میں اوپر کر دیا اور پھر سکندر‬
‫کچھ سوچتا ‪ ،‬پچھل پیری نے شاہناز کا‬
‫چھوٹا پیر اپنے منہ میں ڈال کر چبانے‬
‫‪، ‬لگی‬

‫شاہناز کی چیخیں آسمان سر پر اٹھا رہی‬


‫تھیں لیکن پچھل پیری مزے مزے سے پیر‬
‫چبانے میں مصروف تھی‬
‫سکندر سوچ رہا تھا کہ کس طرح شاہناز کو‬
‫اس پچھل پیری سے بچائے لیکن اس کے‬
‫ہاتھ میں کچھ نہیں تھا ‪ ،‬وہ تو دائرے سے‬
‫بھی نہیں نکل سکتا تھا‬

‫پچھل پیری اب شاہناز کے دوسرے پیر کو‬


‫منہ میں ڈال رہی تھی اور شاہناز بیچاری‬
‫اپنی ہاتھ فضا میں لہرا رہی تھی تو کبھی‬
‫پچھل پیری کے منہ پر مار رہی تھی لیکن‬
‫اس کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں‬
‫تھی۔۔‬

‫دونوں پیر چبانے کے بعد اس نے شاہناز کو‬


‫‪ ‬زمین پر پھینک دیا‬
‫کیسا نا مرد ہے تو‪ ،‬ایک بچی کو بھی نہیں‬
‫بچا سکتا‪ ،‬ڈوب کر مر جائے بیغیرت انسان‬

‫یہ سن کر سکندر کا چہرہ غصے سے الل ہو‬


‫گیا لیکن اس نے دائرہ سے نکلنے کی غلطی‬
‫پھر بھی نہیں کی‬

‫پچھل پیری اب زمین پر شاہناز کے قریب‬


‫بیٹھ گئی اور پھر ایک نظر سکندر کو دیکھ‬
‫کر اپنے لمبے لمبے ناخن شاہناز کے سینے‬
‫میں گاڑ کر ہاتھ اندر ڈال دیے‬

‫شاہناز نے ایک لمبی سے ہچکی لی اور وہیں‬


‫سکندر کے سامنے دم توڑ دیا‬
‫لیکن پچھل پیری کو پھر بھی اس معصوم‬
‫پری پر رحم نہیں ایا۔۔ اس نے اپنے دونوں‬
‫ہاتھ باہر نکالے تو شاہناز کا چھوٹا سا دل‬
‫پچھل پیری کے ہاتھ میں جھول رہا تھا ۔۔۔‬

‫سکندر کو اتنے دور سے بھی دل صاف نظر‬


‫آ رہا تھا جو ابھی بھی دھڑک رہا تھا‬

‫پچھل پیری نے دیر کیے بغیر شاہناز کا‬


‫چھوٹا سا دل اپنے منہ میں ڈال کر چبانے‬
‫لگ گئی ۔۔یہ دیکھ کر سکندر کو ابکائی آئی‬
‫اور وہ جو کچھ گھر سے کھا کر آیا تھا وہ‬
‫سب اس نے‪  ‬باہر نکال دیا۔۔‬
‫شاہناز کا سینا کھال ہوا تھا اور آنکھوں سے‬
‫آنسو باہر نکل نکل کر گالوں کو تر کر رہے‬
‫تھے ‪ ،‬وہ چھوٹی سی گڑیا یہ دنیا چھوڑ کر‬
‫جا چکی تھی‬

‫سکندر کے آنکھوں کے گرد اندھیرا چھا رہا‬


‫تھا ‪ ،‬ایسے منظر جو نہ کبھی اس نے‬
‫سوچے اور نہ ہی کبھی کسی فلم میں‬
‫دیکھے وہ آج اپنے سامنے دیکھ رہا تھا‬

‫اس کے جسم میں خون کی روانی بہت‬


‫آہستہ ہو گئی تھی اور دل تھا کہ ابھی‬
‫دھڑکنا چھوڑ دے گا۔۔‬
‫پچھل پیری کو اس پر بھی رحم نہیں ایا‪ ،‬‬
‫دل کے بعد اس نے اپنے لمبے ناخنوں سے‬
‫شاہناز کی چھوٹی چھوٹی دونوں آنکھیں‬
‫باہر نکال پھینکیں اور پھر ایک آنکھ کو‬
‫انگلیوں میں پھنسا کر قینچے کی طرح‬
‫سکندر کی طرف اچھال پھینکی۔‬

‫دوسری آنکھ کو اس نے اٹھا کر منہ میں‬


‫ڈاال اور دانتوں میں چبا ڈاال‪ ،‬شاہناز کی‬
‫آنکھوں کی رطوبت پچھل پیری کے ہونٹوں‬
‫کے کناروں سے باہر آ رہی تھی جسے وہ‬
‫مزے لے لے کر چبا رہی تھی‬

‫سکندر کو دوسری ابکائی آئی اور پھر‬


‫سکندر کے جسم نے زرد رنگ کا بہت سا‬
‫پانی باہر نکال پھینکا تھا‬

‫آنکھوں سے فارغ ہو کر پچھل پیری نے اپنے‬


‫دانتوں کی مدد سے شاہناز کی گردن کو‬
‫جسم سے جدا کیا‪ ،‬اس کے بعد شاہناز کی‬
‫چھوٹی سی ٹانگ کو اپنی گھٹنوں میں‬
‫پھنسا کر دوسری ٹانگ کو اپنے ہاتھوں سے‬
‫پکڑ کر زور سے کھینچا‪  ‬تو شاہناز کی‬
‫چھوٹی سی ٹانگ پچھل پیری کے ہاتھوں‬
‫میں آگئی جسے اس نے پرے پھینک دیا۔۔‬
‫شاہناز کے مرے ہوئے وجود نے ایک جھٹکا‬
‫کھایا لیکن پچھل پیری کے دماغ پر خون‬
‫سوار تھا‪ ،‬اس نے اس پر بھی اکتفا نہیں‪،‬‬
‫وہ شاہناز کی ٹانگ کی جانب کھلے ہوئے‬
‫سینے پر چڑھ کر بیٹھ گئی اور اپنے گھٹنے‬
‫کے نیچے شاہناز کو پھنسا کر اس نے‬
‫دوسری ٹانگ پکڑ لی‪ ،‬اور پھر دوسرے‬
‫جھٹکے پر وہ ٹانگ بھی پچھل پیری کے‬
‫ہاتھ میں ا گئی‪ ،‬اسے بھی‪  ‬اس نے دور‬
‫کرکے پھینک دیا۔۔۔‬

‫شاہناز بیچاری کا بغیر ٹانگوں اور آنکھوں‬


‫واال جسم دیکھ کر سکندر کو غشی کے‬
‫دورے پڑ رہے تھے‪ ،‬اس کے سامنے زمین‬
‫‪ ‬گول گول گھوم رہی تھی‬

‫اب پچھل پیری گھوم کر بیٹھ گئی اور اپنا‬


‫منہ شاہناز کے منہ کی طرف کر دیا۔۔۔‬
‫اس کے بعد تیری باری ہے ‪ ،‬دیکھتی ہوئی‬
‫کہاں تک بھاگتا ہے تو۔۔‬

‫یہ کہہ کر پچھل پیری نے آسمان کی جانب‬


‫منہ کرکے زور کی چیخ ماری اور پھر شاہناز‬
‫کی چھوٹی سی گردن کو اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں میں پکڑ کر زور لگایا تو شاہناز کا‬
‫معصوم سا چہرہ پچھل پیری کے ہاتھ میں‬
‫آ گیا جس کی سانس والی نالی ہوا میں‬
‫جھول رہی تھی۔۔‬

‫یہ منظر سکندر برداشت نہ کر سکا اور‬


‫وہیں زمیں پر گر گیا‬

‫وہ بیہوش ہو چکا تھا‬


‫شور کی آواز سن کر سکندر کو آنکھ کھلی‬
‫تو سکندر اٹھ کر بیٹھ گیا‪ ،‬اس کو اپنے‬
‫نیچے گیال محسوس ہوا ۔۔۔ اس نے اپنا‬
‫دائیاں ہاتھ زمین پر مارا ۔۔یہ سکندر کے منہ‬
‫سے نکال ہوا وہ کھانا اور پانی تھا جو وہ‬
‫کھا کر یہاں آیا تھا اور پھر ایک ایک کر کے‬
‫سکندر کو پچھال سارا یاد آ گیا۔۔۔‬

‫لیکن سامنے کچھ بھی نہیں تھا ‪ ،‬نہ ہی‬


‫شاہناز کی الش پڑی ہوئی تھی اور نہ ہی‬
‫اس پچھل پیری کا کچھ اتا پتا تھا‬

‫سکندر کا دل کر رہا تھا کہ اس سب پر‬


‫لعنت ڈال کر گھر چال جائے لیکن اب یہ‬
‫ممکن نہیں رہا تھا ‪ ،‬اسے آج چلہ پورا کرنا‬
‫‪ ‬تھا‬

‫اچانک فضا میں ہوائیں چلنے لگیں جو‬


‫بڑھتے بڑھتے آندھی کی صورت اختیار کر‬
‫گئی لیکن یہ عام سی آندھی نہیں تھی اس‬
‫کا رنگ الل تھا۔‬

‫آندھی کی وجہ سے مٹی اور چھوٹے‬


‫چھوٹے پتھر اڑ اڑ کر سکندر کو لگ رہے تھے‬
‫اور اسے اپنا جسم سنبھالنا مشکل ہو رہا‬
‫تھا‬
‫اور پھر جس طرح سے آندھی شروع ہوئی‬
‫تھی ویسے ہی اچانک سے رک گئی لیکن‬
‫سکندر کو سب کچھ دھندال نظر آ رہا تھا‪،‬‬
‫اس نے اپنی جلدی جلدی آنکھیں ملنا‬
‫شروع کر یں اور پھر آنکھیں کھول کر‬
‫‪ ‬دیکھا تو منظر کچھ کچھ صاف ہو گیا تھا‬

‫‪ ‬اور پھر اسے وہ نظر آ گئی‬

‫اس کے سامنے ایک خوبصورت لڑکی کھڑی‬


‫ہوئی تھی جس کے دائیں اور بائیں جانب‬
‫دو ڈراونی شکل کے جن کھڑے ہوئے تھے‬

‫یہی سفرینا ہے۔۔۔‬


‫سکندر نے دل ہی دل میں کہا کیونکہ جو‬
‫شکل پنڈت نے اسے بتائی تھی وہی شکل‬
‫لیے یہ لڑکی کھڑی ہوئی تھی۔۔‬

‫جب سفرینا تمہارے سامنے آئیں گی تو اس‬


‫کے ساتھ چار شیطان بھی ہونگے ‪ ،‬وہ تم‬
‫سے بات نہیں کرے گی ‪ ،‬تم نے بچے کی‬
‫الش کو سفرینا کی طرف پھینکنا ہے اس‬
‫کے بعد سفرینا تم سے ایک کام کا کہے گی‬
‫وہ تم نے الزمی کرنا ہے۔۔۔‬

‫‪ ‬سکندر کو پنڈت کے الفاظ یاد آ گئے‬

‫لیکن اس نے تو ابھی تک اپنا چلہ پورا نہیں‬


‫کیا ہے تو یہ کیسے ہو گیا ؟‬
‫سکندر نے خود سے بات کی لیکن اسے وہ‬
‫پورا کرنا ہے جو پنڈت نے اس سے کہا تھا‬

‫اس نے کچھ پڑھ کر ہاتھ پر پھونک ماری‬


‫اور الش کے گرد دائرے کو مٹا کر الش ہاتھ‬
‫میں اٹھا لی۔۔ایک نظر سفرینا کو دیکھا اور‬
‫الش کو زور سے اس کی جانب پھینک دیا۔۔‬

‫الش جیسے ہی زمین پر گری چاروں‬


‫شیطان الش کی طرف لپک پڑے اور پھر‬
‫جس کے ہاتھ میں جو آیا وہ اٹھا کر بھاگ‬
‫گیا‬

‫‪ ‬اب میدان میں سفرینا اور سکندر تھے‬

‫سفرینا یک ٹک ہو کر سکندر کو دیکھ رہے‬


‫تھی‬
‫تمہیں پتا ہے تم سفرینا کو غالم بنانے والے‬
‫ہو‬

‫سفرینا کی گونج دار آواز آئی‬

‫سکندر نے بولنا چاہا لیکن اس کی آواز ہی‬


‫‪ ‬باہر نہیں نکلی‬

‫لیکن ابھی ایک کام باقی ہے ‪ ،‬اگر تم وہ کر‬


‫لو گے تو ہی تم مجھے غالم بنا سکتے ہو‬

‫سکندر کے زور لگانے کے بعد بھی کوئی آواز‬


‫نہیں نکلی‬
‫کیا تم تیار ہو؟‬

‫سفرینا نے کہا‬

‫اور سکندر نےہاں میں گردن ہال کر جواب‬


‫دیا‬

‫ہاہاہاہا۔۔تمہاری تو آواز ہی نہیں نکل رہی ہے‬


‫‪،‬تم مجھے کیسے سنبھال پاؤگے‬

‫یہ الفاظ‪  ‬نہیں تھے‪ ،‬ایک تھپڑ تھا جو‪ ‬‬


‫سکندر کو اپنے گال پر محسوس ہوا‬

‫اور پھر اس نے اپنی تمام قوت یکجا کر‬


‫کوشش کی‬
‫یہ تم مجھ سے کیسے بات کر رہی ہو‬
‫سفرینا۔۔میں تمہارا آقا ہوں اور تم میری‬
‫غالم۔۔۔تمیز سے بات کرو ایسا نہ ہو کہ سب‬
‫یہ بھول جائیں کہ کوئی سفرینا بھی ہوا‬
‫کرتی تھی‬

‫یہ سکندر کے الفاظ نہیں تھے‪  ‬تیر تھے جو‬


‫سفرینا کے سینے کے آر پار چلے گئے تھے ‪،‬‬
‫سفرینا کو سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب‬
‫دے‬

‫تمہاری جو کام ہے وہ بولو ‪ ،‬یہ مت بھولو‬


‫کہ میں تمہارا آقا ہوں اور آقا پر حکم نہیں‬
‫چالئے جاتے‪ ،‬حکم مانے جاتے ہیں‬
‫اور یہ بات پھر کبھی نہیں بھولنا۔۔سمجھی‬
‫‪،‬تم‬

‫‪ ‬سکندر نارمل ہو چکا تھا‬

‫یہ وہ سکندر ہے جس نے نا نہیں سیکھی‬


‫تھی‬

‫یہ وہ سکندر ہے جس کو صرف محبت میں‬


‫جیتا جا سکتا ہے‬

‫یہ وہ سکندر ہے جو ہر دوسروں کی‬


‫پریشانی کو اپنی پریشانی سمجھتا ہے‬

‫بیشک دنیا کے غموں میں وہ بدل گیا تھا‬


‫لیکن بھوال نہیں تھا اور آج وہی سکندر‬
‫سفرینا کے سامنے بیٹھا ہوا تھا‬
‫سفرینا کی گھگھی بندھ گئی تھی اسے‬
‫سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا بولے‬

‫میں یہ چاہتی ہوں کہ تمہارے ہاتھ میں جو‬


‫خنجر ہے اس سے اپنی گردن الگ کرو۔۔‬

‫یہ سوال نہیں تھا ایک بم تھا جو سکندر‬


‫کے سر پر گرا تھا‬

‫یہ کیا کہہ رہی ہے‪ ،‬ایسے کیسے ہو سکتا ہے‬


‫‪ ،‬اگر خود کو مار کر سفرینا کو حاصل کرنا‬
‫ہے تو پھر سفرینا کا کیا فائدہ ہوا‬

‫کیا ہوا آقا۔۔۔۔چپ کیوں ہو گئے‬


‫سفرینا نے طنزیہ لہجے میں سکندر سے‬
‫کہا۔۔۔‬

‫سکندر نے ایک گہری نگاہ سفرینا پر ڈالی‬


‫اور پھر سامنے پڑا چاقو اٹھا کر اپنی گردن‬
‫پر پھیر دیا۔۔۔‬

‫لیکن یہ کیا ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ چاقو پتھر‬


‫پر چالیا جا رہا ہے ‪،‬سکندر نے زور لگا کر‬
‫بھی دیکھا لیکن نا تو اسے خنجر محسوس‬
‫ہوا اور نہ ہی کوئی خون نکال۔۔۔‬

‫اسے سفرینا بھول چکی تھی وہ بار بار‬


‫اپنی گردن پر ہاتھ پھیر رہا تھا لیکن گردن‬
‫تو نارمل سی ہے تو یہ خنجر کیوں نہیں‬
‫چل رہا ہے‬

‫اور پھر اسے پنڈت کے الفاظ یاد آ گئے۔۔‬

‫وہ اگر تمہیں جان دینے کا بھی کہے‪  ‬تو‬


‫جان دے دینا۔۔۔‬

‫اس نے نظر اٹھا کر سفرینا کو دیکھا۔۔۔‬

‫سفرینا حاضر ہے میرے آقا‬

‫سفرینا گھٹنوں پر جھکی ہوئی تھی‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا ۔۔۔۔قسط نمبر ‪ (08‬از ابن‬
‫)نصیر‬

‫سکندر کی آنکھ کھلی تو دھیمی رفتار سے‬


‫چلتے ہوئے سیلنگ فین پر نظر پڑی‬

‫اس کے جسم پر قمیض نہیں تھی ‪ ،‬اس نے‬


‫گزری رات کے واقعات کو ذہن میں دہرایا‬
‫اور پھر ایک‪  ‬ایک کر ساری باتیں اسے یاد آ‬
‫گئیں‪ ،‬گھڑی پر نظر ڈالی تو دن کے گیارہ‬
‫بج رہے تھے۔‬

‫سکندر نے اٹھ کر دل میں سفرینا کا نام‬


‫پکارا اور پھر خوبصورت سے چہرہ لیے‬
‫مکار سفرینا سکندر کے‪  ‬سامنے کھڑی ہوئی‬
‫تھی‬

‫کیا حکم ہے میرے آقا؟‬

‫سفرینا نے سر جھکا کر سکندر کو سالم کیا‬

‫سب سے پہلے تو تم مجھے‪  ‬اپنے بارے میں‬


‫بتاو‬
‫سکندر نے آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫میرا نام سفرینا ہے اور میں شیطانی دنیا‬


‫میں چاالک چڑیل سے جانی جاتی ہوں‪،‬‬
‫کیونکہ مجھ پر‪  ‬ابلیس کا خاص کرم ہے تو‬
‫مجھ پر شیطانی دنیا کا کوئی قانون الگو‬
‫نہیں ہوتا‪ ،‬میری پیدائش کو دس‪  ‬ہزار سال‬
‫ہو گئے ہیں لیکن آج بھی ویسے ہی ہوں‬
‫جیسے میں پیدائش کے وقت تھی‬

‫کیا مطلب‪ ،‬تم پیدائش کے وقت بھی اتنی‬


‫ہی عمر کی تھی؟ سکندر نے حیرت سے‬
‫پوچھا‬
‫جی میرے آقا۔۔میرے پیدائش عام چڑیل‬
‫جیسے نہیں ہوئی‪ ،‬مجھے ابلیس نے خاص‬
‫منتروں سے‪  ‬آگ سے پیدا بنایا‪  ‬ہے اور میں‬
‫پیدائش کے وقت بھی ایسی ہی تھی‬
‫جیسی میں اس وقت آپ کے‪  ‬سامنے ہوں‬

‫اچھا میں نے تو چلہ پورا نہیں کیا تھا تو‬


‫پھر کیسے یہ سب ہو گیا۔سکندر نے اپنے‬
‫ادھورے چلے کے بارے میں پوچھا‬

‫میرے آقا‪ ،‬چلہ کے ضروری تھا کہ منتر کو‬


‫مطلوبہ تعداد میں پڑھا جائے ‪ ،‬آپ نے‬
‫پچھلی دو راتوں سے مقررہ تعداد سے زیادہ‬
‫پڑھ لیا تھا اس وجہ سے تیسری رات آپ کا‬
‫چلہ جلدی پورا ہو گیا۔‬

‫ہممم۔۔۔اچھا مجھے یہ بتاو کہ میں تم سے‬


‫کیا کیا کام لے سکتا ہوں؟‬

‫سکندر نے اہم سوال پوچھ لیا‬

‫میرے آقا ۔۔آپ مجھ سے دنیا کا ہر جائز اور‬


‫ناجائز کام لے سکتے ہیں اور مجھ پر الزم‬
‫ہے کہ میں آپ کا ہر کام کروں‬

‫گڈ۔۔۔۔گڈ سکندر نے خوش ہو کر کہا‬


‫اچھا اگر میں تمہیں کوئی کام کا کہوں اور‬
‫تم وہ کام نہ کرو تو پھر ؟؟‬

‫میرے آقا۔۔پہلے تو یہ ممکن نہیں کیوں کہ‬


‫میں آپ کی غالم ہوں اس لیے مجھ پر الزم‬
‫ہے کہ میں آپ کا ہر کام کروں اور اگر میں‬
‫نے کوئی کام نہیں کیا تو ابلیس کی لعنت‬
‫پڑے گی مجھے اور ہو سکتا ہے کہ ابلیس‬
‫مجھے جان سے مار دے۔‬

‫اچھا ۔۔مجھتے پتا چال ہے کہ تم اپنے آقاوں‬


‫کو بھی مار سکتی ہو۔۔۔کیا یہ سچ ہے؟‬
‫جی بلکل میرے آقا۔۔یہ سچ ہے‪ ،‬میرے خون‬
‫میں غالمی نہیں ہے بلکہ آزادی ہے اور اس‬
‫بات کا ثبوت یہ ہے کہ ایک مرتبہ میں آپ‬
‫سے مل چکی ہوں اور ایک مرتبہ آپ کو‬
‫جان سے مارنے کی کوشش بھی کی ہے‬

‫کیا۔۔۔۔سکندر اپنےبیڈ پر اچھل پڑا‬

‫تم نے مجھ پر حملہ کیا تھا۔۔کب اور کیسے‬


‫‪ ،‬اور تم مجھ سے کہاں ملی ہو؟‬

‫میرے آقا میں آپ سے ملنے آپ کے آفس‬


‫آئی تھی ‪ ،‬آپ کو الفت تو یاد ہوگی‬
‫‪ ‬‬
‫الفت کے نام پر سکندر کا دماغ ماضی میں‬
‫چال گیا جب ایک الفت نام کی لڑکی اس‬
‫سے ملنے آئی تھی ‪ ،‬وہ اپنے چچا کو‬
‫ڈھونڈھ رہی تھی جو کھو گئے تھے‬

‫اس کا مطلب ‪ ،‬تمہارا وہ چچا گم ہونے واال‬


‫بھی جھوٹ تھا۔‬

‫جی میرے آقا۔۔وہ صرف آپ سے ملنے کا‬


‫بہانہ تھا‪ ،‬میں صرف یہ دیکھنا چاہتی تھی‬
‫کہ جو انسان مجھے قابو کرنا چاہتا ہے وہ‬
‫کون ہے‬
‫‪ ‬‬
‫ہممم۔۔۔۔اچھا اور مجھے مارنے‪  ‬کی کوشش‬
‫کب کی تھَی ؟‬

‫میں نے آپ کی چائے میں زہر مالیا تھا۔‬


‫‪ ‬‬
‫اوہ ہو۔۔۔اس کا مطلب وہ جو دو بلیاں مری‬
‫تھی وہ تمہارے زہریال دودھ پینے سے مری‬
‫تھی۔‬

‫جی میرے آقا۔۔۔سفرینا کیونکہ حکم کی‬


‫پابند تھی اس لیے اس کے لیے ہر کی ہوئی‬
‫سازش‪  ‬اور بات بتانا الزم تھا۔۔‬

‫پھر تو تم بڑی خطرناک چیز ہو سفرینا۔۔‬


‫سکندر نے سفرینا کی سفاکیت کا اعتراف‬
‫کرتے ہوئے کہا‬

‫جی ہاں میرے آقا۔۔بس اتنا کہوں گی کہ آپ‬


‫مجھ سے بچ کر رہیے گا‪ ،‬میں نے آپ کو‬
‫بتایا کہ غالمی میرے خون میں نہیں ہے‬
‫‪ ‬‬
‫دیکھ لیں گے یہ بھی‪ ،‬اچھایہ تم مجھے‬
‫"میرے آقا" کہنا بند کرو‬

‫سکندر نے اپنے لقب پر اعتراض کرتے ہوئے‬


‫کہا‬

‫تو پھر کیا کہوں آپ کو؟‬


‫تم مجھے "سکندر " ہی کہا کرو۔‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر‬

‫سفرینا نے سکندر کو اس کے اصل نام سے‬


‫پکارا‬

‫اچھا اب میرا ناشتہ کرنے کو دل کر رہا تھا‪،‬‬


‫تم ناشتہ بھی کرا سکتی ہو یا بس تمہارا‬
‫کام زہر دینا ہے‬

‫اب میں آپ کو ناشتے میں زہر نہیں دے‪ ‬‬


‫سکتی ہوں اس بات کا آپ یقین کر سکتے‬
‫ہیں لیکن کسی دوسرے موقع پر کسی‬
‫دوسرے طریقے سے میں آپ کی جان لینے‬
‫کی کوشش کر سکتی ہوں‬

‫کیا۔۔۔۔۔اس کا مطلب مجھے تم سے احتیاط‬


‫کرنی ہوگی اور تم مجھے اب ناشتے میں‬
‫زہر کیوں نہیں دی سکتی ہو؟‬

‫سفرینا کے اصولوں میں ایک اصول یہ بھی‬


‫ہے کہ ایک وار کسی انسان پر بار بار نہیں‬
‫کرتی تو اب میں آپ کو ناشتے میں زہر‬
‫نہیں دے سکتی ہوں۔‬

‫اگرزہر ڈال بھی لیتی تو پہلے میں تمہیں‬


‫ناشتہ کھالتا۔۔سکندر نے ہنس کر کہا‬
‫مجھ پر زہر اثر نہیں کرتا ہے‬

‫اوہ ہو۔۔۔چال اچھا ہوا بتا دیا۔۔میں یہ بات‬


‫یاد رکھوں گا ‪ ،‬چلو اب میرے لیے ناشتہ لے‬
‫آو‬

‫ابھی التی ہوں۔۔یہ کہہ کر سفرینا اپنی جگہ‬


‫سے غائب ہو گئی‬

‫سکندر اٹھ کرواش روم چال گیا اور اپنے‬


‫اوپر سے رات والی غالضت اور مٹی اتارنے‬
‫لگا‪ ،‬نیا سوٹ پہن کر تیار ہوا اور پھر دوبارہ‬
‫اپنے کمرے میں چال آیا جہاں پر ناشتہ اس‬
‫کا انتظار کر رہا تھا۔‬

‫ناشتہ دیکھ کر سکندر نے آنکھیں سچ میں‬


‫پھیل گئیں‬

‫ناشتہ نہیں تھا بلکہ پورا کھانا تھا‪ ،‬ایک‬


‫کیتلی پڑی ہوئی تھی جس سے کڑک چائے‬
‫کی خوشبو پورے کمرے میں مہک رہی‬
‫تھی ‪ ،‬ایک پلیٹ میں آملیٹ تھا‪ ،‬ساتھ میں‬
‫پلیٹ میں نہاری اور چنے تھے‪ ،‬ایک پلیٹ‬
‫میں مغز رکھا ہوا تھا جس سے گرم گرم‬
‫بھاپ نکل رہی تھی‪،‬ساتھ میں تین پراٹے‪ ‬‬
‫پڑے ہوئے تھے اور ایک جگ میں لسی کے‬
‫ساتھ دوسرے جگ میں مالٹے کا جوس پڑا‬
‫ہوا تھا‬

‫یہ کیا ہے ۔۔۔سفرینا ‪ ،‬سکندر نے حیران ہو‬


‫کرکہا‬

‫آپ کے لیے ناشتہ ہے سکندر‬

‫لیکن اتنا ناشتہ‪ ،‬میں اکیالتو اتنا ناشتہ نہیں‬


‫کر سکتا ہوں‬

‫سکندر نے کہا‬

‫یہ تو بہت کم ہے سکندر‪ ،‬اس وقت دن کے‬


‫گیارہ ہو رہے ہیں‪ ،‬نزدیکی دکانوں سے ناشتہ‬
‫ختم ہو چکا تھا‪ ،‬مجھے کچھ دور جانا پڑا‬
‫وہاں مجھے یہی تیار مال تو اٹھا کر لے آئی۔‬

‫کیا مطلب ۔۔تم یہ سب چوری کرکے آ ئی ہو‬

‫آپ کے لیے یہ چوری ہے لیکن میرے لیے یہ‬


‫حکم کی تعمیل ہے۔‬

‫اچھا۔۔۔آو میرے ساتھ ناشتہ کرو‪ ،‬سکندر نے‬


‫ناشتے کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا‬

‫میں یہ سب چیزں نہیں کھاتی ۔۔۔‬

‫تو پھر کیا کھاتی ہو تم؟‬


‫نہ پوچھیں تو بہتر ہے‪ ،‬لیکن میری خوراک‬
‫جنوں والی ہے‪ ،‬یہ چیزیں آپ لوگ کھاتے‬
‫ہیں۔‬

‫اچھا بابا ٹھیک ہے۔‬

‫سکندر نے بسمہ اہلل پڑھ کر کھانا شروع‬


‫کیا‪ ،‬اس نے سفرینا کو فلحال جانے کا کہہ‬
‫دیا تھا۔‬
‫_________________________________‬
‫___‬
‫شہزادے طرطوش ‪ ،‬میرے پاس آپ کے لیے‬
‫ایک سنسنی خیز خبر ہے‬
‫شاطر تقرہنًا دوڑتا ہوا شہزادے طرطوش‬
‫کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔‬

‫کیا ہوا شاطر جو تم اس قدر پرجوش‬


‫دکھائی دے رہے ہو؟‬

‫شہزادے طرطوش‪ ،‬وہ سفرینا‬

‫شاطر کی سانسیں اکھڑی ہوئی تھیں‬

‫کیا ہوا سفرینا کو؟‬

‫وہ سکندر نے سفرینا کو قابو میں کر لیا‬


‫شہزادے‬
‫یہ خبر شہزادے کے لیے حیرت کا جھٹکا‬
‫تھا جس سن کر شہزادہ اپنی جگہ پر اچھال‬
‫تھا‬

‫کیا کہہ رہے ہو تم۔۔؟‬

‫میں ٹھیک کہہ رہا ہوں شہزادے‪ ،‬اس نے‪ ‬‬


‫سفرینا کو اپنا غالم بنا لیا‬

‫یہ توبہت اچھا ہوا شاطر‬

‫جی میرے آقا‬

‫لیکن شاطر تم ایک بات بھول گئے‪ ،‬میں نے‬


‫تمہیں سفرینا سے دور رہنے کا کہا تھا لیکن‬
‫تم پھر اس کے قریب چلے گئے‪ ،‬اگر پھر‬
‫تمہیں کچھ ہو جاتا تو؟‬

‫معاف کیجیے گا شہزادے ‪ ،‬بس میں یہ‬


‫جاننے کے لیے کہ سفرینا کا کیا ہوا‪ ،‬اس کی‬
‫خبر گیری کی تھی اور پھر اس کو اس‬
‫لڑکے کے گھر میں سر جھکائے دیکھا تو‬
‫سیدھا یہاں چال آیا۔۔شاطر نے وضاحت‬
‫کرتے ہوئے کہا‬

‫ہمم۔۔۔۔چلو ٹھیک ہے ‪ ،‬لیکن اب اگر تم اس‬


‫کے قریب بھی نظر آئے تو تمہیں سلطنت‬
‫بدر کر دیا جائے گا‪ ،‬یہ میری وارننگ ہے ‪،‬‬
‫سمجھے تم‪ ،‬میں نہیں چاہتا کہ تمہاری وجہ‬
‫سے ہماری شیطانوں سے لڑائی ہو‪ ،‬اور تم‬
‫خود سوچو کہ اگر شاہ جنات کو اس بات‬
‫کو پتا چل گیا تو وہ تم پر کتنے برہم‬
‫ہونگے۔‬

‫آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دیں‬


‫شہزادے‪ ،‬آئندہ آپ کو مجھ سے کوئی گلہ‬
‫نہیں ہوگا۔ یہ شاطر کا آپ سے وعدہ ہے۔۔‬

‫چلو ٹھیک ہے ‪ ،‬اب تم جاو اور اپنی سلطنت‬


‫کے کاموں پر توجہ دو‪ ،‬یہ سفرینا سفرینا‬
‫کرنا چھوڑ دو۔‬

‫جی ٹھیک ہے شہزادے‬


‫یہ کہہ کر شاطر نے جھک کرسالم کیا اور‬
‫‪  ‬پچھلے پیروں سے کمرے سے باہر چال گیا۔‬
‫_________________________________‬
‫______________‬
‫ناشتے سے فارغ ہو کر سکندر لیٹ گیا اور‬
‫آگے کا سوچنے لگا‪ ،‬اس نے نوکری کو بغیر‬
‫کسی اطالع کے چھوڑ دیا تھا ‪ ،‬اب وہ‬
‫زندگی جینا چاہتا تھا اس لیے سوچ رہاتھا‬
‫کہ آگے کیا کرے لیکن ہزار سوچوں کے با‬
‫وجود بھی اس کے پاس الئحہ عمل نہ بن‬
‫سکا تو اس نے سفرینا کو آواز دے دی اور‬
‫پھر سفرینا اس کے سامنے سر جھکائے‬
‫کھڑی تھی‬
‫سفرینا میں زندگی کو جینا چاہتا ہوں لیکن‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ میں کیا‬
‫کروں۔‬

‫کیوں ‪ ،‬آپ کو کیا پریشانی ہے‪ ،‬آپ مجھے‬


‫بتائیں پھر دیکھیں میں کیسے آپ کی‬
‫پریشانی دور کرتی ہوں‬

‫مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں اپنی‬


‫‪ ‬نئی زندگی کہاں سے شروع کروں‬

‫یہ تواتنی بڑی بات نہیں ہے‪ ،‬آپ کے سامنے‬


‫دنیا ہے‪ ،‬گھومیں پھریں‪ ،‬عیش کریں‬
‫لیکن کہاں گھوموں سفرینا‪ ،‬یہی تو سمجھ‬
‫‪،‬نہیں آ رہا ہے‬

‫سکندر کو سمجھ نہیں آ رہی تھی‬

‫سب سے پہلے تو آپ یہ کریں کہ اس شہر‬


‫سے نکلیں بلکہ کسی دوسرے سلطنت میں‬
‫جائیں ‪ ،‬وہاں کے لوگوں کو دیکھیں‪ ،‬نئے نئے‬
‫دوست بنائیں‪ ،‬نئی نئی جگہیں گھومیں۔‬

‫ہمم۔۔یہ تم نے اچھی صالح دی‪ ،‬اچھا ایسا‬


‫کرتے ہیں کہ سب سے پہلے ہندوستان سے‬
‫شروع کرتے ہیں‪ ،‬کیا خیال ہے تمہارا؟‬
‫جی صحیح ہے‪ ،‬یہ بھی گھومنے کے لیے‬
‫اچھی جگہ ہے۔‬

‫تو پھر چلو‪ ،‬لیکن یہ گھر‪ ،‬اس کا کیا کرنا‬


‫ہوگا؟‬

‫وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں‪ ،‬میں اپنے چیلوں‬


‫سے کہہ دوں گی وہ آپ کے گھر کو بکوا‬
‫دیں گے۔‬

‫واہ‪ ،‬یہ تو بہت اچھا سوچا تم نے‪ ،‬چلو‬


‫‪  ‬ٹھیک ہے‬
‫آخر میرا نام سفرینا ہے‪ ،‬میرے لیے یہ کوئی‬
‫بڑا کام نہیں ہے سکندر۔‬

‫ہمممم۔۔۔۔۔سکندر نے منہ آواز نکالی‬

‫پھر آپ تیار ہیں چلنے کے لیے؟‬

‫کیا مطلب سفرینا‪ ،‬کیا ہمیں اڑ کر جانا ہوگا؟‬

‫جی ہاں سکندر‪ ،‬آپ بس آنکھیں بند کریں‬


‫گے اور پھر ہم ہندوستان میں ہونگے‬

‫نہیں سفرینا‪ ،‬مجھے ایسے مزہ نہیں آئے گا‬


‫تو پھر آپ کیسے چاہتے ہیں؟‬

‫میں چاہتا ہوں کہ میں دنیا کو دیکھتے‬


‫ہوئے ہر جگہ جاوں ۔‬

‫یہ بھی صحیح ہے سکندر۔‬

‫یہاں سے ہم ٹرین کی مدد سے ہندوستان‬


‫جائیں گے اور پھر آگے ضرورت پڑی تو‬
‫ہوائی جہاز کا سفر کریں گے‬

‫سکندر نے آگےکا پالن بتاتے ہوئے کہا‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر‪ ،‬تو پھر چلیں‬


‫میں اپنے ساتھ کپڑے نا اٹھا لوں؟‬

‫آپ کو کپڑوں کی ضرورت نہیں ہے سکندر۔‬

‫ہیں۔۔۔کیا مطلب؟‬

‫مطلب کہ آپ کو جب بھی کسی چیز کی‬


‫ضرورت ہو ‪ ،‬آپ مجھے حکم کریں ‪ ،‬میں وہ‬
‫چیز آپ کو الدوں گی‬

‫واہ جی واہ‪ ،‬مجھے تو بھول گیا کہ میرے‬


‫‪ ‬پاس ایک طاقت ہےجس کا سفرینا ہے‬

‫‪ ،‬جی ہاں۔ سکندر‬


‫اچھا میں کچھ پیسے تو اٹھا لوں۔‪ ‬‬

‫آپ کو پیسوں کی بھی ضرورت نہیں ہے‬


‫سکندر‪ ،‬میں نے آپ کے پرس میں پیسے ڈال‬
‫دیے ہیں۔‬

‫یہ سن کر سکندر نے جیب میں ہاتھ ڈاال اور‬


‫اپنا بٹوہ باہر نکاال تو حیران رہ گیا کیو نکہ‬
‫پرس نیلے نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔‬

‫اب سکندر کو احساس ہو گیا کہ سفرینا کیا‬


‫چیز ہے‬
‫اہلل کرے بس یہ صحیح رہے ‪،‬ایسا نہ ہو کہ‬
‫‪، ‬لوگوں کو میری الش ملے‬

‫‪ ‬سکندر نے یہ بات دل میں کہی تھی۔‬

‫چلو سفرینا چلیں ۔۔۔یہ کہہ کر سکندر کمرے‬


‫سے باہر نکال لیکن صحن میں پہنچ کر‬
‫سکندر رک گیا‪ ،‬پیچھے نظر کی تو سفرینا‬
‫غائب تھی۔‬

‫یہ پھر چلی گئی ‪ ،‬یہ کہہ کر سکندر نے دل‬


‫میں سفرینا کا نام پکارا اور سفرینا حاضر‬
‫ہو گئی۔‬

‫بھئی مجھ سے یہ سفر اکیلے نہیں کٹے گا۔‬


‫تو‪  ‬پھر بتائیں کہ میں کیا کروں سکندر۔‬

‫تم ایسا کرو کہ میرے ساتھ ساتھ رہو بلکہ‬


‫کسی خوبصورت سی لڑکی کے روپ میں‬
‫میرے ساتھ گھومو پھرو۔‬

‫سفرینا کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔‬


‫سکندر کی بات کے بعد سفرینا بجلی کے‬
‫روپ میں تبدیل ہو کر پھر انسانی روپ‬
‫میں آ گئی اور جو روپ اس نے اپنا یا ہوا‬
‫تھا وہ قیامت سے کم نہیں تھا‪ ،‬جوان تو‬
‫جوان بوڑھے بھی سکندر کی قسمت پر‬
‫رشک کرنےوالے تھے لیکن سکندر جانتا ہے‬
‫کہ یہ نظر کا دھوکہ ہو گا۔‬
‫تم تو قیامت ڈھا رہی ہو سفرینا۔‬

‫تعریف کا شکریہ سکندر‪ ،‬ویسے میں ہوں‬


‫ہی قیامت‬

‫او بھئی ‪ ،‬میرا مطلب وہ والی قیامت نہیں‬


‫تھا۔۔‬

‫اچھا۔۔سفرینا نے بغیر کسی مسکرائٹ کے‬


‫کہا ۔‬

‫دونوں گھر سے باہر نکلے تو سامنے ہی ایک‬


‫رکشہ واال گزر رہا تھا جسے سکندر نے ہاتھ‬
‫کے اشارے سے رکنے کا کہا اورپھر رکشے‬
‫والے کو ریلوے اسٹیشن کا کہہ کر دونوں‬
‫رکشہ میں بیٹھ گئے۔ رکشہ نارمل اسپیڈ‬
‫میں ریلوے اسٹیشن کی جانب چلنے لگا۔ ان‬
‫دونوں کو ریلوے اسٹیشن پہنچنے میں‬
‫‪ ‬بیس منٹ لگے۔‬

‫ارے اب ٹکٹ کہاں سے لینے پڑیں گے‬


‫‪،‬سفرینا‬

‫سکندر نے یہ بات رکشہ سے اتر کر کہی‬


‫تھی‪ ،‬اور اس نے سفرینا کو اس کے اصل‬
‫نام سے پکارا تھا۔‬
‫ٹکٹ آپ کی دائیں جیب میں ہیں سکندر۔‬

‫او ۔۔اچھا ‪ ،‬یہ کہہ کر سکندر نے جیب میں‬


‫ہاتھ ڈاالاور ٹکٹس کی موجودگی جان کر‬
‫ہاتھ دوبارہ باہر نکاال۔‬

‫ریلوے اسٹیشن کے گیٹ سے گزر کر وہ‬


‫پلیٹ فارم پہنچے تو سامنے ہی ایک ٹرین‬
‫کھڑی ہوئی تھی اور ان کی خوش قسمتی‬
‫کہ یہ ٹۓرین انڈیا ہی جا رہی تھی‬

‫دونوں ٹرین میں داخل ہوئی اور پھر‬


‫کھڑکی کے ساتھ دو خالی کرسیاں دیکھ کر‬
‫وہیں بیٹھ گئے۔‬
‫سکندر کھڑکی کے باہر لوگوں کے ہجوم کو‬
‫دیکھ رہا تھا اور سفرینا سکندر کو دیکھ‬
‫رہی تھی۔‬
‫_________________________________‬
‫____‬

‫کمرے میں اہلل‪ ،‬اہلل ‪،‬اہلل کی صدا کمرے‬


‫میں گونج رہی تھی‪،  ‬ایک‪  ‬انسان گھپ‬
‫اندھیرے میں بیٹھ کر اہلل کے با برکت نام‬
‫کا ورد کر رہے تھے۔یہ ُد ر خان تھا ‪ ،‬اس‬
‫وقت اس کا‪  ‬جسم ایک جاللی کیفیت میں‬
‫جھوم رہا تاے اور وقت تھا کہ گزرتا جا رہا‬
‫تھا۔ درخان کو وقت کے گزرنے کا احساس‬
‫تھا نہ ہی پرواہ تھی بس اہلل اہلل کی صدا‬
‫تھی اور اس‪  ‬کا جھومتا ہوا جسم تھا۔‬
‫اچانک سے کمرے میں بھینی بھینی خوشبو‬
‫پھیل گئی‪  ‬جسے محسوس کرکے در خان‬
‫نے اپنے ورد کو اور تیز تیز پڑھنا شروع کر‬
‫دیا۔‬

‫پھر اس کے لب خاموش اور جسم ساکن ہو‬


‫گیا‬

‫اسالم علیکم و رحمت اہلل و برکاتہ‬

‫لیکن آج بھی در خان کے سالم کا جواب‬


‫نہیں آیا تھا‬
‫چند لمحے انتظار کرنے کے بعد در خان نے‬
‫دوبارہ سالم کہا اور اس دفعہ بھی‬
‫خاموشی در خان کا مقدر بنی‬

‫در خان کے ماتھے پر پسینے کے ننھے ننھے‬


‫قطرے موتی کی طرح چمک رہے تھے‪ ،‬اس‬
‫نے ساتھ رکھا پانی کا گالس اٹھا اور پھر‬
‫تین سانس میں گالس خالی کد ریا‪ ،‬آج بھی‬
‫پانی کا ذائقہ میٹھا ہو گیا تھا‬

‫در خان نے شکر الحمداہلل کہا اور اپنے‬


‫جسم پر سے چادر اتار کر لپیٹ دی اور پھر‬
‫کمرے میں پڑے صندوق میں رکھ دی‬
‫دوسرے کمرے میں داخل ہوا تو بابا نیند‬
‫کی وادی میں گھوم رہے تھے‪ ،‬در خان نے‬
‫اپنے بستر کو جھٹک کر دوبارا بچھایا اور‬
‫پھر تین تعوز پڑھ کر اپنے پر دم کیا‪ ،‬اور‬
‫بستر پر سیدھا لیٹ گیا‪ ،‬وہ درود پاک پڑھنا‬
‫نہیں بھوال تھا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔‬

‫ابھی سکندر اور سفرینا‪  ‬کو ٹرین میں‬


‫بیٹھے گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ پانچ لفنگے‬
‫لڑکوں کا ٹولہ اس ڈبے میں قہقے لگاتا داخل‬
‫ہوا اور پھر سکندر کے سامنے والے کھلے‬
‫کیبن میں بیٹھ گئے۔۔‬
‫اسی کیبن میں صرف ایک جوڑا‪  ‬بیٹھا ہوا‬
‫تھا ‪ ،‬باقی سارا کیبن خالی تھا‪ ،‬میاں بیوی‬
‫کو‪  ‬لڑکوں کی آمد ناگوار گزری تھی لیکن‬
‫شرافت سے مجبور ہو کر وہ خاموش بیٹھے‬
‫رہے‬
‫‪ ‬‬
‫سلطان یار آج گرمی بہت زیادہ ہے‬

‫ہاں یار ۔۔نزاکت لگتا ہے سورج ناراض ہے ہم‬


‫سے‪ ،‬لیکن چاند بھی تو بات نہیں کرتا نا؟‬

‫نزاکت کا اشارہ عورت کی جانب تھا جو‬


‫سلطان کی بات سن کر شوہر کے اور قریب‬
‫ہو کر بیٹھ گئی تھی‬
‫یار شاکر سگریٹ تو دینا‪ ،‬نزاکت بوال‬

‫یہ تم تیسری سگریٹ پی رہے ہو‪ ،‬میں نے‬


‫ایک پاکٹ لی تھی اور اب اس میں دس‬
‫سگریٹ سے بھی کم رہ گئے ہیں۔۔‬

‫شاکر یار مجھے زیادہ نہیں سمجھا‪ ،‬میرا‬


‫دل جل رہا کہ میں چاند کو دن کی روشنی‬
‫میں دیکھ سکتا ہوں اور نہ چھو سکتا ہوں‬

‫مجبورًا شاکر نے ایک سگریٹ نکال کر دی‬


‫اور پھر ماچس کی ڈبیا بھی دے دی۔۔‬
‫بھائی صاحب۔۔میری بیوی کو سانس کی‬
‫تکلیف ہے‪ ،‬اگر آپ پلیز سگریٹ نہ پئیں تو‬
‫بڑی کرپا ہوگی‬

‫ارے بھائی ہمیں بھی دل کے جلنے کی‬


‫‪،‬تکلیف ہے ڈاکٹر نے سگریٹ پینے کا کہا ہے‬

‫نزاکت کی اس بات پر کیبن قہقہوں سے‬


‫گونج اٹھا۔۔اور پھر نزاکت نے سگریٹ‬
‫جالئی اور لمبے لمبے کش لے کر پورے کیبن‬
‫کو بھرنے کی کوشش کرنے لگا لیکن چونک‬
‫کھڑکی کھلی ہوئی تھی اس لیے سگریٹ کا‬
‫دھواں کیبن میں نہیں رک رہا تھا‪ ،‬مگر اس‬
‫کے با وجود بھی عورت کی سانس چڑھ‬
‫گئی اور پھر کھانسی کا ایک نا ختم ہونے‬
‫واال سلسلہ ہو گیا‪ ،‬عورت کا شوہر اپنی‬
‫بیوی کو ہاتھ سے پکڑ کر اس کیبن سے چال‬
‫گیا اور پیچھے لفنگوں کے قہقے رہ گئے۔۔۔‬

‫ارے یار سلطان۔۔۔پاکستان میں تو دو دو‬


‫چاند بھی ساتھ نکلتے ہیں‪ ،‬تجھے یہ بات‬
‫پتا ہے؟‬

‫یہ بات اس نے سفرینا کو دیکھ کر کہہ‬


‫تھی‪ ،‬سکندر بھی سلطان کا اشارہ سمجھ‬
‫گیا تھا لیکن اس نے خاموشی اختیار کر‬
‫رکھی تھی اور سفرینا پر اس بات کا کوئی‬
‫اثر نہیں ہوا تھا۔‬
‫ارے بھئی یہ چاند توبڑامغرور ہے‬

‫نزاکت نے سگریٹ کا کش لے کر دھواں‬


‫سفرینا کی جانب اڑاتے ہوئے کہا۔‬

‫لیکن چاند کے ساتھ یہ جو دھبہ ہے نا‪ ،‬اس‪ ‬‬


‫نے چاند کی خوبصورتی کو داغ لگا دیا ہے ‪،‬‬
‫کیا کہتے ہو تم شاکر؟‬

‫ہاں یار‪ ،‬اس دھبہ کو چاند سے دور کرنا‬


‫چاہیے ‪ ،‬اس کے ساتھ چاند کی خوبصورتی‬
‫مانند پڑ‪  ‬رہی ہے۔‬
‫دوستوں ‪ ،‬دیکھو ‪ ،‬ضروری نہیں کہ اس‬
‫ٹرین میں تمہارے جیسے لفنگے ہی سفر‬
‫کریں‪ ،‬کچھ شریف لوگ بھی ٹرین سے سفر‬
‫کرتے ہیں تو بہتر نہیں کہ تم لوگ شریفوں‬
‫کو تنگ کرنے سے باز آجاو۔‬

‫یہ بات سکندر نے کہی تھی اور اس بات کا‬


‫نزاکت پر گہرا اثر ہوا۔‬

‫اوئے بد نما داغ۔۔۔زرا منہ سنبھال کر بات‪ ‬‬


‫کروایسا نہ ہو کہ ٹرین پر سے تمیں وہیل‬
‫چئیر کی مدد سے اترنا پڑے۔‬

‫سفرینا نے اب تک ایک لفظ بھی نہیں کہا‬


‫تھا۔‬
‫اچھا ۔ٹھیک ہے دوستوں‪ ،‬میں اپنا منہ بند‬
‫رکھتا ہوں ‪ ،‬سفرینا خود تم سے بات کر لے‬
‫گی۔کیوں سفرینا تم ان سے بات کرنا‬
‫چاہوگی ‪ ،‬یہ مجھے وہیل چیئر پر بٹھانا‬
‫چاہتے ہیں۔‬

‫آپ حکم کریں سکندر‪ ،‬سفرینا نے کہا۔‬

‫میں چاہتا ہوں کہ انہیں ایک سبق دیا جائے‬


‫لیکن تھوڑا خیال رہے ‪ ،‬یہ پبلک پلیس ہے۔‬

‫سمجھ گئی میں۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا اپنی‬


‫جگہ سےاٹھی اور پھر اپنی کرسی چھوڑ کر‬
‫کیبن میں داخل ہو گئی‬
‫آو‪  ‬جاِن من ۔۔ہم تو تمہارا ہی انتظار کر‬
‫ررر۔۔۔۔۔‬

‫ابھی نزاکت کا جملہ پورا نہیں ہوا کہ‬


‫سفرینا بجلی میں تبدیل ہو کر پھر دوبارہ‬
‫انسانی جسم میں آگئی اور جو جسم‬
‫سامنے آیا اس نے سکندر کو بھی ہال کر رکھ‬
‫دیا۔‬

‫وہ ایک بوڑھی چڑیل تھی‪ ،‬جس کے کھلے‬


‫بالوں کی جگہ ناگ ہوا میں لہرا رہے تھے‪،‬‬
‫لمبے لمبے ناخن اور پاوں پیچھے مڑے ہوئے‬
‫اپنی زبان کو سوکھے لبوں پر پھیر رہی‬
‫تھی‪ ،‬یہ منظر کچھ لمحوں کا تھا لیکن اس‬
‫منظر کو دیکھ کر نزاکت توبغیر آواز پیدا‬
‫کیے‪  ‬اپنی جگہ پر بیہوش ہو گیا‪  ‬لیکن‬
‫سلطان کی دلغراش چیخ نکلی اور پھر وہ‬
‫چیختا ہوا‪  ‬بھاگ کھڑا ہوا‪ ،‬شاکر اور‬
‫دوسرے دوستوں کے جسم پر کپکپی طاری‬
‫تھی شاید وہ مضبوط اعصاب کے مالک‬
‫تھے بس وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پا رہے‬
‫تھے۔‬

‫بوڑھی چڑیل آگے بڑھی اور اس نے شاکر‬


‫کے جسم کو دبوچ کر ہوا میں اٹھا لیا مگر‬
‫شاکر بھی بیہوش ہو چکا تھا۔‬

‫سفرینا اب بس کر دو۔۔ سکندر بوال‬


‫اور سفرینا نےشاکر کو زمیں پر پھینک کر‬
‫دوبارہ اپنا اصل صورت میں آگئی۔۔‬

‫ٹرین کی رفتار کم ہو رہی تھی ‪ ،‬شاید کوئی‬


‫اسٹیشن آ رہا تھا۔‬

‫جلدی نکلو یہاں سے ‪ ،‬اس سے پہلے کہ‬


‫پولیس آئے ‪ ،‬ہم نے ٹرین سے اتر جانا ہے۔‬
‫سکندر نے سفرینا کے ہاتھ سے پکڑتے ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫سکندر اور سفرینا نے وہ بوگی چھوڑ دی‬


‫اور پھر دوسری‪ ،‬تیسری بوگی سے ہوتے‬
‫ہوئے چوتھی بوگی میں پہنچے تو ٹرین کی‬
‫رفتار بہت ہی دھیمی ہو چکی تھی‪ ،‬یہ‬
‫دیکھ کر سکندر نے بوگی کے دروازے سے‬
‫باہر جھانکا اور زمیں کو دیکھ کر ٹرین سے‬
‫چالنگ لگا دی‪ ،‬سکندر کی دیکھا دیکھی‬
‫سفرینا نے بھی ٹرین سے کودی اور پھر وہ‬
‫دونوں تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اسٹیشن کے‬
‫مین گیٹ کی طرف جانے لگے۔‬

‫مین گیٹ پر انہیں کسی نے نہیں روکا اور‬


‫وہ دونوں بغیر کسی دشواری کےریلوے‬
‫اسٹیشن سے باہر آ چکے تھے۔سامنے ہی ایک‬
‫تانگے واال کھڑا ہوا تھا۔‬

‫بابو کہاں چلنا ہے؟‬

‫تانگے والے نے سکندر اور سفرینا کو اپنی‬


‫جانب آتے دیکھ لیا تھا۔‬
‫ہمیں کسی سرائے لے چلو‪ ،‬ہم نے آج رات‬
‫یہاں گزارنی ہے۔‬

‫سکندر نے آگے بڑھ کر کہا۔‬

‫بیٹھ جاو بابو‪،‬ابھی آپ کو لیے چلتا ہوں۔‬

‫یہ سن کر سکندر اور سفرینا دونوں ایک‬


‫ساتھ تانگے میں چڑھ کر بیٹھ گئے۔دونوں‬
‫اس وقت خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔‬

‫کوئی دس منٹ تانگے کو مختلف سڑکوں پر‬


‫بھگاتے ہوئے آخر کوچوان نے تانگہ کسی‬
‫سرائے کے سامنے روک دیا۔‬

‫یہ یہاں کا مشہور سرائے ہے بابو‪ ،‬یہ سب‬


‫سے سستا اوربڑھیا سروس دیتا ہے ‪ ،‬آپ کو‬
‫یہاں کوئی شکایت نہیں ہوگی‬

‫کوچوان بوال۔‬

‫شکریہ‪  ‬اور کتنے پیسے ہوئے آپ کے؟‬

‫جی ۔آٹھ روپے ‪ ،‬کوچوان نے کرایہ بتایا اور‬


‫سکندر نے جیب میں ہاتھ ڈال کر پرس نکاال‬
‫تو اس میں نیلے نیلے نوٹ باہر نکل آئے۔‬

‫ارے‪ ،‬میرے پاس تو کھلے نہیں ہیں‪  ‬اب؟ ۔‪ ‬‬


‫سکندر نے سر کھجاتے ہوئے کہا۔‬

‫رکیں ‪ ،‬میں دیتی ہوں ‪ ،‬اور پھر سفرینا نے‬


‫منہ دوسری طرف کرکے قمیض کے اندر سے‬
‫چھوٹا نوٹ نکال کر سکندر کی طرف بڑھایا‬
‫اور سکندر نے وہ نوٹ کوچوان کو دے دیا‬
‫جو سکندر اور سفرینا کو عجیب نگاہوں‬
‫سے دیکھ رہا تھا۔‬

‫شکریہ بابو‪ ،‬اہلل آپ دونوں کی جوڑی‬


‫سالمت رکھے‪ ،‬یہ کہہ کر کوچوان نے‬
‫گھوڑے کو اشارہ کیا‪  ‬اور تانگہ چل پڑا ‪ ،‬وہ‬
‫دوبارہ اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔‬

‫یہ سن کر سکندر اور سفرینا دونوں نے ایک‬


‫دوسرے کو دیکھا اور پھر کچھ کہے بغیر‬
‫ایک جانب چل پڑے‬
‫سرائے کے پاس ہی کچھ درخت قطار میں‬
‫لگے ہوئے تھے‪ ،‬سکندر اور سفرینا درخت کے‬
‫سائے میں جا کر کھڑے ہو گئے۔‬

‫کیا سمجھی تم سفرینا؟سکندر نے سوال کیا‬

‫یہی کہ وہ ہمیں میاں بیوی سمجھ رہا تھا‪،‬‬


‫سفرینا نے بغیر کوئی تاثر پیدا کیے کہا۔‬

‫میں وہ نہیں کہہ رہا سفرینا۔ سکندر نے‬


‫‪ ‬جواب دیا‬

‫تو پھر؟‬
‫وہ دوبارہ اسٹیشن جا رہا ہے‪ ،‬اگر وہاں‬
‫کسی نے اس سے ہمارے بارے میں پوچھ لیا‬
‫تو پھر وہ سیدھا یہاں آئیں گے۔‬

‫اوہ۔۔۔یہ بھی ٹھیک کہا آپ نے سکندر۔تو‬


‫پھر اب کیا کریں؟‬

‫اب ہمارے پاس ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ‬


‫اس شہر کو جلد سے جلد چھوڑ دیں لیکن‬
‫اس دفعہ ہم ٹرین سے نہیں جائیں گے بلکہ‬
‫تم‪  ‬مجھے غائب کرکے لے جاوگی۔‬

‫جی ٹھیک ہےسکندر۔‬


‫یہ کہہ کر سفرینا نے اپنا ہاتھ آگے کیا تو‬
‫سکندر نے وہ ہاتھ پکڑ لیا۔سفرینا کے ہاتھ‬
‫میں کوئی حرارت نہیں تھی‪ ،‬ایسا لگ رہا‬
‫تھا کہ سفرینا کے ہاتھ برف کے بنے ہوئے‬
‫ہیں۔‬

‫سکندر کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سفرینا‬


‫نے اسے آنکھیں بند کرنے کو کہا اور یہ بس‬
‫چند لمحوں کے لیے تھا۔‬

‫اب آنکھیں کھول دیں سکندر۔سفرینا کی‬


‫آواز سکندر کے کانوں میں ٹکرائی تو اس نے‬
‫آنکھیں کھول دیں۔‬
‫یہ کسی بلڈنگ کی چھت تھی جس پر وہ‬
‫دونوں کھڑے ہوئے تھے۔‬

‫یہ کونسی جگہ ہے سفرینا۔؟‬

‫یہ ہندوستان ہے سکندر اور ہم اس وقت‬


‫شہر کے درمیان میں موجود ایک بلڈنگ کی‬
‫چھت پر کھڑے ہیں۔‬

‫تو اب ہم نیچے کیسے جائیں گے؟‬

‫سکندر آپ میرا ہاتھ پکڑیں رکھیں‪ ،‬ہمیں‬


‫کوئی دیکھ نہیں سکے گا اور ہم سب کی‬
‫نظروں کے سامنے سے ہوتے ہوئے باہر نکل‬
‫جائیں گے۔‬

‫سکندر ہاتھ چھڑانے واال تھا مگر سفرینا کی‬


‫بات سن کر اس نے ہاتھ دوبارہ مضبوطی‬
‫سے پکڑ لیا۔‬

‫آئیں چلیں۔‬

‫سفرینا نے کچھ پڑھ کر سکندر سے کہا اور‬


‫دونوں چھت پر موجود دروازے کی طرف‬
‫چل پڑے۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا ۔۔۔۔قسط نمبر ‪ (  9‬از‪  ‬ابن‬
‫)نصیر‬

‫سکندر اور سفرینا جس عمارت پر اترے‬


‫تھے وہ ایک بینک تھی اور وہ دونوں‪  ‬کسی‬
‫کی نظروں میں آئے بغیر عمارت سے نکل‬
‫آئے تھے‬

‫اب کہاں چلیں سفرینا؟‬


‫چلنا کہاں ہیں بس گھومتے رہیں ‪ ،‬تھک گئے‬
‫تو بیٹھ جائیں گے‪  ‬اور بھوک لگی تو کھانا‬
‫کھا لیں گے‬

‫اس وقت وہ فٹ پاتھ پر ساتھ ساتھ چل‬


‫رہے تھے‪ ،‬ان سے چند قدم آگے ایک باریش‬
‫اور معزز بزرگ تیز تیز قدموں کے ساتھ چل‬
‫رہا تھا جس نے اپنا دائیاں ہاتھ بغل میں دبا‬
‫رکھا تھا‪،‬اس کی چال میں لڑکھڑاہٹ دور‬
‫سے ہی نظر آ رہی تھی‪ ،‬وہ ہر آنے جانے اور‬
‫ساتھ گزرنے والے کو غور غور سے دیکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫سکندر نے سفرینا کی طرف دیکھا‪ ،‬وہ بھی‪ ‬‬
‫سکندر کی جانب دیکھ رہی تھی‬

‫کیا لگتا ہے تمہیں ‪ ،‬یہ کون ہو سکتا ہے؟‬

‫سکندر نے پوچھا‬

‫کچھ کہہ نہیں سکتی سکندر‪ ،‬مجھے آپ‬


‫کی دنیا کا اتنا تجربہ نہیں ہے‪ ،‬لوگوں کو‬
‫سمجھنے کے لیے مجھے کچھ وقت چاہیے‪،‬‬
‫سفرینا بولی‬

‫ہمممم۔۔۔۔میرا خیال ہے یہ انسان بہت‬


‫پریشان ہے اس لیے صحیح سے نہیں چل پا‬
‫رہا ہے‬
‫سکندر نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا‬

‫ایسا ہی ہوگا سکندر۔۔۔‬

‫اچانک اس بوڑھے آدمی کی بغل سے کوئی‬


‫چیز زمین پر گری لیکن اس بات کا اس‬
‫بوڑھے کو احساس نہ ہوا۔۔وہ بنا رکے آگے‬
‫چال جا رہا تھا۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا جب نزدیک پہنچے تو وہ‬


‫آدمی بہت آگے نکل چکا تھا۔۔‬

‫یہ نیلے روپوں کی گڈی تھی ‪،‬جسے سکندر‬


‫نے جھک کر اٹھا لیا‬
‫یہ تو بیس ہزار روپے ہیں۔۔۔سکندر حیرانی‬
‫سے بوال‬

‫آج کل کوئی بھی اتنی بڑی رقم اپنے ساتھ‪ ‬‬


‫لے کر نہیں چلتا‪ ،‬میرا خیال ہے کہ یہ رقم‬
‫اس بوڑھے آدمی نے بینک سے نکالی ہوگی‬
‫لیکن پریشانی میں وہ رقم گرا چکا ہے۔۔۔‬
‫سکندر نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا‪ ،‬سکندر نے‬
‫پیسے جیب میں ڈال دیے۔۔‬

‫اب کیا کریں گے آپ؟‬

‫سفرینا نے سوال کیا‬


‫ہمیں یہ رقم اسے واپس دے دینی چاہیے‪،‬‬
‫جس طرح سے وہ پریشان لگ رہا تھا ‪ ،‬اس‬
‫کا مطلب ہے کہ اسے رقم کی اشد ضرورت‬
‫‪، ‬ہے‪ ،‬سفرینا تھوڑا تیز تیز چلو‬

‫سکندر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا اور سفرینا‬


‫بھی سکندر کے پیچھے چل پڑی لیکن‬
‫سکندر کی رفتار تھوڑی تیز تھی‪ ،‬آخر وہ‬
‫‪ ‬مرد تھا‬

‫اگال چوک کراس کرنے پر وہ آدمی نظر آ گیا‬

‫وہ رہا ۔۔۔۔سکندر نے لوگوں کی بھیڑ کی‬


‫طرف اشارہ کرتے ہوئے کیا ‪ ،‬سفرینا بھی‬
‫اسے دیکھ چکی تھی‬
‫سکندر میں غائب ہو کر آپ کے ساتھ‬
‫چلوں۔۔‬

‫سفرینا کی آواز سن کر سکندر نے مڑ کر‬


‫دیکھا ‪ ،‬وہ رک گیا تھا‬

‫کیوں کیا ہوا؟‬

‫میں اتنا تیز نہیں چل پا رہی ہوں‪ ،‬میری‬


‫سانس اکھڑ رہی ہے‬

‫سفرینا کی سانس پھول چکی تھی‬


‫نہیں۔۔اتنے لوگوں کی بھیڑ میں تمہارا غائب‬
‫ہو جانا مسلئے پیدا کرے گا‪ ،‬تم میرے‬
‫پیچھے پیچھے آو‪ ،‬میں اسے جا کر روکتا‬
‫ہوں ‪ ،‬اگر ہم کھو گئے تو پھر تم کسی‬
‫ویران جگہ پر غائب ہو جانا اور پھر میرے‬
‫پاس ا جانا‪ ،‬ٹھیک ہے‬

‫جی ٹھیک ہے‪ ،‬لیکن سکندر نے یہ نہیں سنا‬


‫تھا کیونکہ وہ بوڑھا انسان لوگوں کی بھیڑ‬
‫میں دوبارہ غائب ہو چکا تھا اور سکندر‬
‫اسے ڈھونڈنے کے لیے آگے بڑھ چکا تھا‬

‫سکندر نے اپنی رفتار اور تیز کر لی‪ ،‬وہ لمبے‬


‫لمبے قدم اٹھاتا ہو آگے بڑھ رہا تھا‬
‫اور پھر وہ نظر آ گیا‪ ،‬وہ کسی رکشہ والے‬
‫سے بات کر رہا تھا‬

‫سنیے جناب ۔۔سکندر نے نزدیک پہنچ کر کہا‬

‫جی فرمائیے۔۔۔اس آدمی نے مڑ کر سکندر‬


‫‪ ‬کو دیکھا‬

‫آپ کا سامان گر گیا تھا لیکن آپ کو شاید‬


‫اس کا پتہ نہیں چال۔۔۔‬

‫سکندر نے سائیڈ جیب سے پیسوں کی‬


‫جھلک دکھائی‬
‫پیسے دیکھ کر آدمی چونک گیا‪ ،‬اس نے بغل‬
‫میں دبائی تھیلی نکالی ‪ ،‬وہ ایک بڑی سی‬
‫تھیلی تھی جس کو مروڑ مروڑ کر بغل میں‬
‫دبایا گیا تھا مگر اب وہ خالی تھی‬

‫بیٹے۔۔۔بوڑھا آدمی نے اچانک سکندر کو پکڑ‬


‫کر سینے سے لگا لیا۔۔اور اس اچانک حرکت‬
‫پر سکندر بھی پریشان ہو گیا‬

‫میں تمہارا کیسے شکریہ کروں‪ ،‬تم انسان‬


‫نہیں ہو سکتے‪ ،‬فرشتے ہو تم بیٹا۔۔۔‬

‫بوڑھا آدمی بولے جا رہا تھا اور بار بار‬


‫سکندر کو سکندر کو سینے سے لگا کر‬
‫چھوڑتا اور دوبارہ گلے لگا لیتا‬

‫تم نہیں جانتے کہ میرے لیے پیسے کتنے‬


‫ضروری ہیں‪ ،‬اگر آج یہ رقم کھو جاتی تو‬
‫زلت میرا مقدر ہوتی۔۔۔‬

‫سکندر نے پیسے جیب سے نکال کر بوڑھے‬


‫آدمی کو دے دیے‬

‫لیکن اب تو رقم مل گئی نا آپ کو تو اب‬


‫پریشان نہ ہوں‬

‫بیٹے بہت بہت شکریہ تمہارا‪ ،‬میں سچ کہہ‬


‫رہا ہوں ‪ ،‬تم انسان نہیں ہو سکتے‪ ،‬آسمان‬
‫سے اترے فرشتے ہو‬
‫بوڑھے آدمی کے یہ الفاظ سن کر ایک انجانا‬
‫سا سکون سکندر کے دل میں اتر رہا تھا ‪،‬‬
‫یہی تو وہ خوشی تھی‪ ،‬وہ سکون تھا‬
‫جسے سکندر اتنے عرصے سے ڈھونڈ رہا تھا‬
‫اسی وقت سفرینا بھی سکندر کے قریب‬
‫پہنچ چکی تھی اور پھر سکندر کے ساتھ‬
‫کھڑا ہوتا دیکھ کر بوڑھا آدمی یہی سمجھا‬
‫کہ وہ سکندر کے ساتھ ہے‬

‫بس بابا‪ ،‬اپ کی دعائیں چاہیے۔۔سکندر نے‬


‫کہا‬

‫اہلل تمہیں دنیا میں ہمیشہ کامیاب رکھے‪،‬‬


‫تمہیں دنیا کی ساری خوشیاں نصیب ہوں‬
‫بیٹے‬

‫‪ ‬شکریہ بابا۔۔۔اچھا اب ہمیں اجازت دیں‬

‫سکندر نے ازاجت مانگی‬

‫‪،‬تم مجھےشہر میں نئے لگ رہے ہو بیٹے‬

‫جی ہاں بابا۔۔ہم آج ہی پاکستان سے آئے‬


‫ہیں‪ ،‬بازار گھومنے نکلے تھے تو آپ کو دیکھ‬
‫لیا اور اب آپ کے سامنے کھڑے ہیں۔۔‬

‫یہ آپ کی زوجہ لگتی ہے۔۔۔۔؟‬

‫بوڑھے آدمی نے سفرینا کا پوچھ لیا‬


‫جی ہاں بابا۔۔۔سکندر کو اور کوئی جواب‬
‫سمجھ نہیں آیا‬

‫پھر تو آج تم دونوں میرے مہمان ہو۔۔۔‬

‫بابا آپ تکلف نہ کریں ہمیں اجازت دیں بس‬


‫ہمیں دعاؤں میں یاد رکھیں یہی ہمارے لیے‬
‫بہت ہے‬

‫ایسے تو میں تم دونوں کو جانے نہیں دوں‬


‫گا‪ ،‬آج تم لوگ میرے گھر چلو گے ‪ ،‬کھانا‬
‫کھاؤ گے پھر اس کے بعد ہی اجازت ملے‬
‫گی۔۔بوڑھا آدمی ضد پر اڑھ گیا تھا‬
‫‪ ‬اچھا ۔۔۔چلیں پھر اگر یہی آپ کی ضد ہے‪ ‬‬

‫سکندر نے سفرینا کو دیکھا اور پھر مجبورًا‬


‫بوڑھے آدمی کی ضد پر ہتھیار ڈال دیے‬

‫یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔رکو میں تانگہ کرواتا‬


‫ہوں۔۔‬

‫رکشہ واال سکندر اور بوڑھے آدمی کو باتوں‬


‫میں لگا دیکھ کر چھوڑ گیا تھا‬

‫نزدیک ہی ایک تانگے واال گزر رہا تھا جو‬


‫بوڑھے آدمی کے اشارے پر انہی کی طرف آ‬
‫رہا تھا‬
‫ناظم کالونی چلو گے بیٹا۔۔۔‬

‫بوڑھا آدمی بوال‬

‫جی بابا کیوں نہیں۔۔۔‬

‫چلو بیٹا ۔۔۔تم دونوں بیٹھ جاو‪ ،‬میں آگے‬


‫بیٹھ جاتا ہوں‬

‫اور پھر‪  ‬تانگہ مختلف سڑکوں پر سرپٹ‬


‫ڈھونڈنے لگا‬

‫سفرینا ہم اس کے گھر جا رہیے ہیں۔۔۔تمہیں‬


‫شاید عورتوں کے پاس جانا پڑے‪ ،‬میں نے‬
‫تمہیں اپنی بیوی بتایا ہے تو تھوڑا خیال‬
‫رکھا‪ ،‬وہ تم سے سواالت کریں گے اور ہاں‬
‫تھوڑا مسکرا بھی لینا‪ ،‬نہیں تو وہ‪  ‬بولے گے‬
‫کہ سکندر کو سڑیل سی بیوی ملی ہے‬

‫سکندر نے یہ بات آہستہ مگر مسکرا کر کہہ‬


‫تھی‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر‪ ،‬سفرینا بولی‬

‫اور پھر سکندر سیدھا ہر کر بیٹھ گیا‬

‫تانگہ ایک کچے سے گھر کے سامنے رک گیا‬


‫اور پھر بوڑھا آدمی سب سے پہلے نیچے‬
‫اترا‪ ،‬اس کی دیکھا دیکھی سکندر اور‬
‫سفرینا بھی نیچے اترے۔‬

‫تانگے والے کو پیسے پکڑا کر بوڑھے آدمی نے‬


‫سڑک کراس کی اور‪  ‬سامنے لگے ایک لکڑی‬
‫کے دروازے کے سامنے رک گیا۔‬

‫آو بیٹا۔یہ کہہ کر بوڑھا آدمی گھر کے اندر‬


‫داخل ہو گیا ‪ ،‬سکندر اور سفرینا بھی‬
‫بوڑھے آدمی کے پیچھے اندر داخل ہو گئے۔‬

‫یہ ایک کچا سا گھر تھا جو تین کمرے پر‬


‫مشتمل تھا‪ ،‬سامنے ایک بڑا سا برآمد تھا اور‬
‫پھر برآمدے‪  ‬کےاندر تینوں کمرے تھے‪،‬‬
‫صحن میں برآمدے کے کونے پر ایک چھوٹا‬
‫سا کمرہ تھا‪ ،‬یہ شاید باورچی خانہ تھا اور‬
‫گھر کے باہر والے دروازے کے ساتھ ہی دو‬
‫چھوٹے چھوٹے کمرے تھے جو کہ واش روم‬
‫تھے‪ ،‬واش روم سے تھوڑا فاصلہ پر ایک‬
‫بیری کا درخت تھا جو کہ گھر کی دیواری‬
‫کے ساتھ لگا ہوا تھا۔‬

‫بوڑھا آدمی سکندر اور سفرینا کو لے کر‬


‫برآمد میں داخل ہوا اور پھر کونے والے‬
‫کمرے میں ان دونوں کو‪  ‬چھوڑ کر واپس‬
‫مڑ گیا۔اب تک گھر میں کسی دوسرے‬
‫انسان سے انکا ٹکراو نہیں ہوا تھا۔سکندر‬
‫کمرے میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا اور‬
‫سفرینا بھی اس کے ساتھ پیر ہوا میں لٹکا‬
‫کر بیٹھ گئی۔‬
‫کافی غریب گھرانا لگتا ہے سفرینا۔۔سکندر‬
‫نے کمرے کی حالت دیکھ کر کہا۔‬

‫جی ہاں سکندر۔ وہی سفرینا کا مختصر‬


‫جواب مال‬

‫کمرے میں چارپائی کے عالوہ ایک بڑی سی‬


‫پیٹی ‪ ،‬ایک کرسی ‪ ،‬اور دیوار پر لگی لکڑی‬
‫کی تختی تھی جس پر برتنوں کو‬
‫خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔‬

‫چند ہی لمحے گزرے کہ بوڑھا آدمی ایک‬


‫عورت کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا‬
‫جنہیں دیکھ کر سکندر اور سفرینا‪ ‬‬
‫چارپائی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔‬

‫اسالم علیکم بیٹا ‪ ،‬یہ بوڑھی عورت کی‬


‫آواز تھی جو اس آدمی کی بیوی لگ رہی‬
‫تھی۔‬

‫وعلیکم سالم آنٹی۔۔۔سکندر نے سال م کا‬


‫جواب دیا۔‬

‫بوڑھی عورت نے آگے بڑھ کر سفرینا کو گلے‬


‫لگایا اور اسے ماتھے پر پیار کیا۔‬

‫تم‪  ‬دونوں بیٹھ جاؤ‪   ‬بیٹا‪ ،‬کھڑے کیوں ہو‬


‫؟ اسے اپنا ہی گھر سمجھو۔ بوڑھے آدمی نے‬
‫کہا‬

‫نہیں ہم ایسے ہی‪  ‬ٹھیک ہیں بابا۔ سکندر‪ ‬‬


‫نے کھڑے کھڑے جواب دیا۔‬

‫ارے مجھے تو یاد ہی نہیں رہا کہ میں‬


‫تمہیں بیٹا بیٹا کر کے مخاطب کر رہا ہوں۔‬
‫ویسے میرا نام حشمت خان ہے اور یہ میری‬
‫زوجہ نور بی بی ہے۔بابا جو کہ حشمت خان‬
‫تھا ‪ ،‬نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا۔‬

‫کوئی بات نہیں بابا۔ اور میرا نام سکندر‪ ‬‬


‫اور میری یہ میری بیوی سفرینا‪  ‬ہے۔ سکندر‬
‫نے یہاں بھی سفرینا کا اصل نام بتایا۔‬
‫ماشاء اہلل دونوں ہی پیارے نام ہیں اور‬
‫جوڑی بھی ماشاء اہلل سے بہت پیاری ہے۔‬
‫اہلل آپ دونوں کی جوڑی سالمت رکھے۔‬

‫یہ نور بی بی کے الفاظ تھے۔‬

‫مجھے لگتا ہے کہ تم دونوں ہماری وجہ سے‬


‫نہیں بیٹھ رہے ہو‪ ،‬اچھا ایسا کرو تم دونوں‬
‫بیٹھو‪ ،‬ہم زرا ابھی آتے ہیں۔‬

‫جی ٹھیک ہے بابا۔۔سکندر بوال۔‬

‫یہ کہہ کر دونوں میاں بیوی کمرے سے باہر‬


‫چلے گئے۔‬
‫اب بیٹھ جاو سفرینا‪ ،‬سکندر نے چارپائی پر‬
‫بیٹھے ہوئے کہا اور سفرینا بھی ساتھ میں‬
‫بیٹھ گئی۔‬

‫ابھی سفرینا بیٹھی ہی تھی کہ ایک ننھی‬


‫سی بچی کمرے میں داخل ہوئی۔‬

‫‪ ‬اسالم وعلیکم و رحمت اہلل و برکاتہ‬

‫بچی نے پورا سالم دیا تھا۔‬

‫وعلیکم السالم بیٹا‪ ،‬سکندر نے جواب دیا‬


‫جب کہ سفرینا نے کوئی جواب نہیں دیا۔‬
‫دیکھیں‪  ‬پہلے تو آپ لوگ بلکل بھی شرم‬
‫اور لحاظ نہ کریں‪ ،‬پھر اس کے بعد اپنا اپنا‬
‫تعارف کرائیں‪ ،‬لیکن رکیں سب سے پہلے‬
‫میں اپنا تعارف کراتی ہوں۔‬

‫چھوٹی بچی نے سامنے پڑی کرسی پر‬


‫بیٹھے ہوئے کہا۔ اس وقت بلکل بڑے لوگوں‬
‫کی طر ح بات کر رہی تھی۔‬

‫ویسے تو میرا نام مقدس ہے لیکن گھر والے‬


‫مجھے پیار سے گڑیا کہتے ہیں اور میرا گھر‬
‫میں بہنوں میں چوتھا نمبر ہے‪ ،‬مجھ سے‬
‫بڑی تین اور بہنیں ہیں لیکن امی ‪ ،‬ابو کی‬
‫الڈلی صرف میں ہوں‪ ،‬صبح اسکول جاتی‬
‫ہوں اس کے بعد سپارے پر جاتی ہوں ‪،‬‬
‫کیونکہ الڈلی ہوں تو گھر کے کام بلکل نہیں‬
‫‪، ‬کرتی‬

‫دیکھیں نا‪ ،‬ایک ننھی سی جان اسکول بھی‬


‫جائے‪ ،‬سپارے بھی پڑھے اس کے بعد گھر‬
‫والے کام کروائے ‪ ،‬یہ میرے چھوٹے چھوٹے‬
‫ہاتھوں پر ظلم کرنے والی بات ہوگی نا۔‬

‫مقدس بغیر رکے‪  ‬بات کیے جا رہی تھی اور‬


‫اس خوبصورتی سی بچی کو دیکھ کر‬
‫‪ ، ‬سکندر مسکرائے جا رہا تھا‬

‫اب اس سے پہلے کہ آپ اپنا تعارف کرائیں ‪،‬‬


‫میں آپ لوگوں کے بارے میں ایک بات بتانا‬
‫چاہتی ہوں۔‬
‫جی جی بلکل بتائیں تاکہ ہمیں بھی پتا‬
‫چلے کہ آپ ہمارے بارے میں کیا بات جانتی‬
‫ہیں۔سکندر نے مسکراتے ہوئے کہا۔‬

‫لیکن اس سے پہلے ایک اور بات بھی بتا‬


‫دوں کہ آپ‪  ‬سچ بولیں گے ‪ ،‬کچھ بھی نہیں‬
‫چھپائیں گے۔ مقدس نے اپنی پیاری سی‬
‫آواز میں کہا۔‬

‫بلکل بھی نہیں چھپائیں گے‪ ،‬سکندر نے‬


‫حامی بھرتے ہوئے کہا۔‬

‫آپ دونوں کی پسند کی شادی نہیں ہے نا؟‬


‫یہ ایک ایسی بات تھی جس پر سکندر کو‬
‫حیرت ہوئی‬

‫آپ کو کیسے پتا چال کہ ہماری شادی پسند‬


‫کی نہیں ہے۔ سکندر نے حیرت سے پوچھا‬

‫کیونکہ ایک تو صرف آپ ہی بولے جا رہے‬


‫ہیں‪ ،‬بھابھی نے اب تک ایک بھی بات نہیں‬
‫کی اور دوسرا بھابھی کو دیکھ کر لگتا ہے‬
‫کہ بھابھی کو خاموشی پسند ہے۔‬

‫یہ ایسی بات تھی کہ سکندر کا قہقہ نکل‬


‫گیا لیکن پھر خود کو مہمان جان کر آواز‬
‫آہستہ کر دی لیکن ہنسنا اب بھی بند‪  ‬نہین‬
‫کیا تھا۔‬

‫بھئی آپ کے تجزیہ کی داد دینی پڑے گی‪،‬‬


‫آپ نے سولہ آنے درست کہا ہے۔سکندر نے‬
‫ہنستے‪  ‬ہوئے کہا۔‬

‫ابھی یہ بات ہو رہی تھی کہ حشمت‬


‫صاحب اپنی بیوی کے ساتھ کمرے میں‬
‫داخل ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے تین‬
‫لڑکیا ں بھی اندر داخل ہوئیں۔تینوں‪  ‬ہی نے‬
‫سر پر دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا‪ ،‬شکل وصورت‬
‫سے تینوں ہی خوبصورت اور سلجھی ہوئی‬
‫لڑکیا ں لگ رہی تھی۔‬
‫‪   ‬اندر داخل ہو کر تینوں نے سالم کہا‬

‫بھئی ‪ ،‬میں آپ کو اپنے‪  ‬تمام گھر والوں‬


‫سے ملواتا ہوں ‪ ،‬یہ میری بڑی بیٹی شگفتہ‪ ‬‬
‫اور یہ‪  ‬دوسرے نمبر پر‪  ‬اقصٰی اور پھر‬
‫اقراء ہے ‪ ،‬میری بیوی سے آپ لوگ مل چکے‬
‫ہیں‪ ،‬اور یہ جو چھوٹی سی بچی نظر آ رہی‬
‫ہے ‪ ،‬یہ اپنا تعارف بھی کرا چکی ہو گی‪  ‬۔‬
‫حشمت صاحب نے اپنی بیٹیوں کا تعارف‬
‫کراتے ہوئے کہا۔‬

‫سکندر نے سب کو سالم کیا‪  ‬لیکن سفرنیا‬


‫نے صرف سالم کہا تھا۔‬
‫جی بابا ‪ ،‬مقدس سے نا صرف میں مل چکا‬
‫ہوں بلکہ ہم میں دوستی بھی ہو چکی ہے۔‬
‫سکندر نے مقدس کی طر ف سے دیکھتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫سکندر کے منہ سے دوستی کا سن کر‬


‫مقدس کے چہرے پر مسکراہٹ چھا گئی۔‬

‫سکندر بیٹا ‪ ،‬اہلل نے مجھے چار بیٹیوں سے‬


‫نوازا ہے لیکن بیٹے سے محروم رکھا ہے‪ ،‬اب‬
‫‪، ‬میرے لیے تم ہی میرے بیٹے ہو‬

‫حشمت صاحب نے سکندر کواپنا بیٹا کہا‬


‫تھا۔‬
‫سچ کہوں تو میں تھوڑا مذہبی قسم کا ہوں‬
‫اور پردے کا بھی خاص خیال رکھتا ہوں‬
‫لیکن آج کے واقعہ کے بعد تمہیں دل سے‬
‫اپنا بیٹا کہا ہے ‪ ،‬اسی لیے نہ صرف تمہیں‬
‫اپنے گھر لے آیا بلکہ‪  ‬اپنا سارا گھرانہ لے کر‬
‫تمہارے سامنے آیا ہوں۔‬

‫بابا ‪ ،‬جب آپ نے مجھے بیٹا کہا ہے تو پھر‬


‫یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬میں نے‬
‫اپنے ماں باپ کھوئے ہیں‪  ‬اور اب سے آپ‬
‫ہی میرے لیے سب کچھ ہیں۔سکندر اچانک‬
‫جذباتی ہو گیا۔‬
‫اچھا بھئی ‪ ،‬یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ‪،‬‬
‫مجھے تو زور کی بھوک لگ رہی ہے ‪،‬تم‬
‫بھی لوگ بھی آجاو‪ ،‬دوسرے کمرے میں‬
‫کھانا لگے گا۔‬

‫یہ تکلف آپ نے کیوں کیا بابا۔۔سکندر نے کہا‬

‫لو کر دیا نا پرایا تم نے ‪ ،‬بابا بھی کہتے ہو‬


‫اور تکلف کی بات بھی کرتے ہو۔‬

‫حشمت صاحب نے شکایت بھرے لہجے میں‬


‫کہا۔‬

‫غلطی ہو گئی بابا‪ ،‬چلیں کھانا کھاتے ہیں۔۔۔‬


‫سکندر نے کہا‬
‫آ و چلیں۔۔یہ کہہ کر حشمت صاحب کمرے‬
‫سے نکلے‪ ،‬ان کے پیچھے باقی گھر والے بھی‬
‫چل دیے‪ ،‬آخر میں سکندر اور سفرینا بھی‬
‫باہر آ گئے۔‬

‫دوسرے کمرے میں داخل ہوئے تو وہاں‬


‫دسترخوان ان کا انتظار کر رہا تھا۔‬

‫بھئی گھر میں یہ سب ہی تیار تھا لیکن‬


‫رات کو انشاء اہلل آپ کی دعوت کریں گے۔۔‬
‫حشمت صاحب نے دستر خوان کے کنارے‬
‫پر بیٹھتے ہوئے کہا۔‬
‫ارے بابا۔۔۔سچ میں یہ بھی بہت ہے اور‬
‫زیادہ تکلف نہ کریں پلیز۔سکندر نے بیٹھتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫ارے بھئی ہمارا بیٹا ‪ ،‬پہلی مرتبہ آیا ہے‪ ،‬ہم‬


‫تو دعوت کریں گے ۔کیوں سفرینا بیٹی‪،  ‬‬
‫تمہیں دعوت پر اعتراض ہے؟‬

‫نہیں بابا‪ ،‬کیوں نہیں کھائیں گے ‪ ،‬ضرور‬


‫کھائیں گے۔‬

‫سفرینا نے یہ تو کہہ دیا لیکن اس کے لیے‬


‫مسلئہ تھا کہ وہ یہ سب نہیں کھاتی ہے‪،‬‬
‫اس کی خوراک کچا خون اور گوشت ہے‬
‫لیکن چونکہ اب مجبوری تھی اس لیے وہ‬
‫بھی سکندر کو دیکھ دیکھ کر چھوٹے لقمہ‬
‫بنا کر کھا رہی تھی۔‬

‫کھانے کے بعد قوہ کا دور چالاور پھر ہنسی‬


‫مزاق میں پتا ہی نہیں چال کہ مغرب ہو‬
‫گئی۔۔ سفرینا کو لوگوں کے ساتھ اٹھنے‬
‫بیٹھنے میں اورانسانی طور طریق اپنانے‬
‫میں کافی دشواری پیش آ رہی تھی ۔‬

‫درمیان بھی حشمت صاحب معزرت کرکے‬


‫باہر چلے گئے اور سکندر ‪ ،‬سفرینا کو گھر‬
‫والوں کے ساتھ چھوڑ گئے۔باتوں باتوں‬
‫سکندر کو پتا چال کہ حشمت صاحب اس‬
‫گھر اور ایک دوکان کے مالک ہیں ‪ ،‬دوکان‬
‫میں وہ‪  ‬کریانہ کا سامان بیچتے‪  ‬تھے‪  ‬لیکن‬
‫اب عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہمت‬
‫جواب دے گئی تھی۔دوکان پر گاہک اور‬
‫بیچنے کا سامان نہ ہونے کے برابر تھا۔بس‬
‫مشکل سے زندگی گزر رہی تھی۔‬

‫اب شگفتہ کے جہیز کے لیے انہوں نے دوکان‬


‫گروی‪  ‬رکھ کر بینک سے بیس ہزار قرض لیا‬
‫تھا‪ ،‬اس میں بھی وہ پریشان تھے کہ یہ‬
‫قرض سود سمیت کیسے واپس کریں گے ۔‬
‫لیکن بیٹیاں جوان ہو رہی تھیں تو ان کی‬
‫شادی بھی کرنی ضروری تھی۔‬

‫رات کے کھانے کے بعد بھی ہنسی مزاق چلتا‬


‫رہا اور اس مزاق میں مقدس سب سے آگے‬
‫تھی‪ ،‬وہ سارے گھر کی رونق تھی‪ ،‬ہوتی‬
‫بھی کیوں نا آخر‪ ،‬اتنی پیاری جو تھی۔بارہ‬
‫بجے حشمت صاحب نے سونے کا کہا اور‬
‫گھر کی ساری چارپائیاں باہر نکل کر صحن‬
‫میں لگا دی گئیں۔‬

‫اب یہاں پر مسلئہ یہ ہو گیا کہ سکندر‬


‫اورسفرینا کو ایک ہی چارپائی پر سونا تھا۔‬
‫گھر والوں کے سامنے تو دونوں چارپائی پر‬
‫لیٹ گئے تھے لیکن سفرینا چونکہ انسان‬
‫نہیں تھی تواس کے جسم کی ٹھنڈک‬
‫سکندر سے ناقابل برداشت تھی۔‬

‫سفرینا کیسے لگے تمیں یہ بھلے لوگ؟‪ ‬‬


‫سکندر نے لیٹے لیٹےپست آواز میں سوال‬
‫کیا‬

‫مجھے تو بہت اچھے لگے سکندر اور یہ‬


‫بچی تو بہت ہی پیاری تھی۔سفرینا نے‬
‫مقدس کے بارے میں کہا تھا۔‬

‫اچھا ۔ میرے دماغ میں کچھ باتیں ہیں جو‬


‫مجھے تم سے پوچھنی ہیں۔‬

‫جی پوچھیں سکندر۔‬

‫پہلے تو مجھے یہ بتاؤ کہ شہناز کو تم نے‬


‫سچ میں مار دیا تھا۔ سکندر نے چلہ کے‬
‫دوران بوڑھی عورت کے ہاتھوں چھوٹی‬
‫بچی کی موت کا پوچھ لیا۔‬

‫جی نہیں۔وہ صرف نظر کا دھوکہ تھا‪ ،‬آپ‬


‫کو چلہ ختم کرنے کے لیے میں نے بوڑھی‬
‫چڑیل کی شکل اختیار کرکے ڈرانے کی‬
‫کوشش کی تھی۔‬

‫ہممم۔۔۔اور تمہارے بارے میں مجھے پتا چال‬


‫اور تم نے بھی بتایا تھا کہ تم اپنے آقاؤں‬
‫کوبھی مار دیتی ہو‪ ،‬لیکن صبح سے میں نے‬
‫تم میں ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی ہے۔‬
‫سچ کہوں تو جب صبح میں آپ کے سامنے‬
‫آئی تھی تو میرا خیال یہ تھا کہ کمرے کی‬
‫چھت آپ پر گرا کر آپ کو مار دوں لیکن‬
‫پھر باتوں باتوں میں میری آپ کی دنیا میں‬
‫دلچسپی بڑھتی گئی اور میں نے سوچا کہ‬
‫کچھ وقت اچھا گزار کر دنیا کو دیکھوں ‪،‬‬
‫آپ بھی یہیں ہو ۔‬

‫مطلب اب بھی تم مجھے مار سکتی ہو؟‬

‫جی بلکل‪ ،‬لیکن فلحال میں دنیا کو نزدیک‬


‫سے دیکھنا چاہتی ہوں اس لیے آپ کو‬
‫مارنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے لیکن آگے کیا‬
‫ہو گا ‪ ،‬کچھ پتا نہیں ہے۔‬
‫ہممم۔۔۔۔سکندر نے کچھ نہیں کہا۔‬

‫اچھا۔ میرے دماغ میں ایک بات آئی ہے۔‬


‫کیوں نہ ہم ان بھلے لوگوں کی مدد کریں‪،‬‬
‫اکیلے حشمت صاحب اتنا سب کیسے کریں‬
‫گے۔ یہ تو ان کا ظرف ہے کہ انہوں نے‬
‫ہمارے سامنے اپنی غریبی کا رونا نہیں رویا‬
‫لیکن دل سے تو وہ بہت پریشان ہونگے۔‬

‫تو آپ کیا کرنا چاہتے ہیں سکندر؟‬

‫وہ میں تمہیں صبح بتاؤ ں گا۔ فلحال تو‪ ‬‬


‫سونے کا سوچا کیونکہ میں تمہارے ساتھ‬
‫نہیں سو سکتا ہوں۔‬
‫جی آپ انسان ہیں ‪ ،‬آپ میرے جسم کی‬
‫ٹھنڈک برداشت نہیں کر پائیں گے۔آپ‬
‫بتائیں میں کیا کروں؟ سفرینا نے سوال کیا۔‬

‫سکندر نے اٹھ کر حشمت صاحب والوں کو‬


‫دیکھا تو سارے گھر والے سو چکے تھے۔‬

‫تم ایسا کروٖ‪،‬غائب ہو کر میرے نزدیک ہی‬


‫رہو۔میں‪  ‬چادر‪  ‬میں اپنے ساتھ تکیہ رکھ کر‬
‫سو جاؤں گا۔ صبح جیسے ہی کوئی اٹھتا‬
‫ہے ‪ ،‬تم نے چادر میں گھس کر مجھے اٹھا‬
‫دینا ہے۔‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر۔‬


‫یہ کہہ کر سفرینا اپنی جگہ سے غائب ہو‬
‫گئی اور سکندر نے تکیہ چادر کے نیچے ایسا‬
‫رکھے کہ رات میں اگر کوئی اٹھ جائے اور‬
‫سکندر کی چارپائی پرنظر پڑے تو انہیں‬
‫لگے کہ سفرینا سو رہی ہے۔‬

‫اس کے سکندر سیدھا ہو کر لیٹ گیا اور‬


‫چادر اپنے اوپر ڈال دی۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا۔۔۔۔قسط نمبر ‪ ( 10‬از ابن‬
‫)نصیر‬

‫سکندر جھٹکا کھا کر نیند سے بیدار ہوا تھا‬


‫کسی نے اسے زور سے جھنجوڑا تھا۔۔۔یہ‬
‫سفرینا تھی جو اس کی چادر میں گھس‬
‫کر لیٹ گئی تھی‬

‫فجر کی آزانیں فضا میں گونج رہی تھی‬


‫سکندر نے اٹھ کر دیکھا تو حشمت صاحب‬
‫واش روم سے نکل رہے تھے انہوں نے فجر‬
‫‪،‬کے لیے وضو بنا لیا تھا‬
‫سفرینا نے تم نے لیٹے رہنا ہے تاکہ کسی کو‬
‫تم پر شک نہ ہو‬

‫یہ کہہ کر سکندر نے چارپائی چھوڑی اور‬


‫پھر واش روم میں چال گیا جب وہ باہر‬
‫نکال تو حشمت صاحب نماز کے لیے جا چکے‬
‫تھے۔۔سکندر کا نماز پڑھنے کا موڈ نہیں تھا‬
‫اس لیے واش روم سے آ کر چار پائی پر‬
‫‪ ‬لیٹ گیا‬

‫آپ نے حشمت صاحب کے کے لیے کیا سوچا‬


‫ہے سکندر؟‬

‫سفرینا بولی‬
‫سفرینا میں چاہتا ہوں کہ تم مجھے پیسے ال‬
‫کر دو اور پھر میں وہ پیسے کمرے میں‬
‫کہیں چھپا دوں گا ‪ ،‬ہم انہیں نہیں بتائیں‬
‫گے کیونکہ جس طرح سے حشمت صاحب‬
‫لگتے ہیں وہ ہم سے ایک روپیہ بھی نہیں‬
‫لیں گے‬

‫یہ ابھی اچھی بات ہے۔۔آپ مجھے کچھ‬


‫وقت دیں ‪ ،‬میں ابھی آتی ہوں یہ کہہ کر‬
‫سفرینا غائب ہو گئی اور سکندر دعا کر رہا‬
‫تھا کہ حشمت صاحب کے آنے سے پہلے‬
‫سفرینا آ جائے‬
‫سفرینا کو دو منٹ بھی نہیں لگے اور وہ‬
‫واپس آ گئی۔۔۔‬

‫یہ لیں سکندر۔۔یہ کہہ کر سکندر نے روپوں‬


‫کی گڈیاں سکندر کو بڑھا دیں جو سکندر‬
‫نے سیدھے بیٹھ کر لے لیں۔‬

‫یہ بیس کے قریب موٹی موٹی گڈیاں تھیں‬


‫جن میں نیلے اور ہرے رنگ کے نوٹ تھے‬

‫گڈ سفرینا۔۔۔یہ تم نے اچھا کیا لیکن یہ الئی‬


‫کہاں سے ہوں‬

‫سکندر نے سوال کیا‬


‫یہاں سے میں شہر کے امیر ترین آدمی کے‬
‫گھر گئی اور اس کی تجوری سے یہ پیسے‬
‫نکال کر آئی‬

‫سفرینا نے وضاحت دی‬

‫گڈ سفرینا گڈ۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر کو روپوں‬


‫کا اندازہ لگایا تو یہ رقم پانچ الکھ سے اوپر‬
‫بن رہی تھی‬

‫اچھا اس سے پہلے کہ کوئی جاگ جائے ہم‬


‫نے یہ رقم چھپانی ہے‬

‫یہ کہہ کر سکندر چارپائی سے اترا‪  ‬اور پھر‬


‫جس کمرے میں وہ دونوں پہلی مرتبہ‬
‫بیٹھے تھے وہ وہاں گیا اور تختی پر رکھی‬
‫دیگچی میں سارے روپے ڈال کر اوپر‬
‫دیگچی کا ڈھکن رکھ دیا۔۔۔‬

‫سکندر چارپائی پر آکر بیٹھ گیا تھا‬

‫اچانک باہری دروازے کے کھلنے کی آواز آئی‬


‫اور حشمت صاحب کا چہرہ نظر آیا‬

‫حشمت صاحب کو دیکھ کر سفرینا بھی‬


‫صحیح سے ہو کر بیٹھ گئی۔‬

‫اٹھ گئے تم لوگ بیٹا ‪ ،‬اور نیند پوری کی یا‬


‫نہیں؟‬
‫جی بابا۔ اٹھ بھی گئے اور نیند بھی پوری‬
‫کر لی ہے۔سکندر نے‪  ‬جواب دیا‬

‫اچھا ۔ میں نور کو اٹھا دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر‬


‫حشمت صاحب نور بی بی کی چارپائی کی‬
‫طرف گئے اور اسےکندھے سے پکڑ کر ہالیا‬
‫تو‪  ‬نور بی بی جاگ گئی‪ ،‬پھر ایک ایک‬
‫کرکے سارے اٹھ گئے‪ ،‬سب کو جگانے کے بعد‬
‫حشمت صاحب گھر سے باہر چلے گئے۔‬

‫ٓاسمان پر روشنی نمودار ہو گئی تھی‪ ،‬دور‬


‫کہیں سے کوئل کی کو کو کی ٓاواز گونج‬
‫رہی تھی جو سکندر کو بہت بھلی لگ رہی‬
‫‪،‬تھی‬
‫سفرینا ایک بات تو بتاؤ ۔ کیا مجھ سے پہلے‬
‫بھی تمہارا کوئی ٓاقا رہا ہے؟‬

‫نہیں سکندر‪ٓ ،‬اپ سے پہلے جس نے بھی‬


‫مجھے غالم بنانے کے لیے چلہ کیا وہ اپنی‬
‫جان سے چال گیا۔‬

‫ہممم۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ یہ تمہارا بھی‬


‫پہال تجربہ ہے انسانوں کے ساتھ۔سکندر نے‬
‫کہا‬

‫جی ہاں‪  ‬۔ اس‪  ‬لیے خاموش رہ کر لوگوں‬


‫اور ٓاپ کو دیکھتی رہتی ہوں کہ ٓاپ لوگ‬
‫کیسے بات کرتے ہیں‪ ،‬کیسے زندگی گزارتے‬
‫ہیں۔‬

‫اچھا۔۔۔تم چڑیلوں میں بھی شادیاں ہوتی‬


‫ہیں یا بس ساری زندگی ایسے ہی تنہا‬
‫گزارتے ہو؟‬

‫شادیاں بھی‪  ‬ہوتی ہیں اور بچے بھی ہوتے‬


‫ہیں‪  ‬لیکن میں نے کبھی ایسے نہیں سوچا؟‬

‫ایسا کیوں؟ سکندر نے سوال کیا‬

‫وہ اس لیے کہ میں عام سے چڑیل نہیں ہوں‬


‫‪ ،‬میرے ما ں باپ بھی نہیں ہے ‪ ،‬سب سے‬
‫پہلے جسے دیکھا وہ ابلیس تھا اور پھر‬
‫میں الڈلی بھی تھی ‪ ،‬اس لیے ضدی بھی‬
‫ہو گئی اور غصیل بھی‪ ،‬ابلیس کی دی‬
‫ہوئی شکتیوں نے مجھے سب سے الگ بنا‬
‫دیا تھا تو کسی جن یا شیطان سے دوستی‬
‫تک کا نہیں سوچا۔‬

‫کبھی محبت بھی نہیں ہوئی؟سکندر نے‬


‫دوسرا سوال کیا‬

‫ہاہاہا۔۔محبت اور سفرینا ‪ ،‬یہ دونوں الگ‬


‫الگ چیزیں ہیں سکندر‪ ،‬میں نے اپنے قابو‬
‫کرنے والوں میں سے کسی کو اگر زندہ‬
‫چھوڑا ہے تو وہ ایک‪  ‬ایسا انسان تھا‪ ،‬جس‬
‫کے بیوی بچوں کو میں نے اس کے سامنے‬
‫مار دیا اور پھر اسے ساری زندگی دربدر‬
‫ہونے کے لیے زندہ چھوڑ دیا‪ ،‬اس کے عالوہ‬
‫جو بھی ٹکرایا وہ زندہ نہیں رہا۔‬

‫بھئی ‪ ،‬تم اچھی ہو یا بری ہو لیکن اس‬


‫وقت میری غالم ہو‪ ،‬اور میں نہیں چاہوں گا‬
‫کہ تمہارا‪  ‬شیطانوں میں جو مرتبہ اور مقام‬
‫ہے اس کو کم کروں‪ ،‬تو میرے لیے نہ تو تم‬
‫میری غالم ہو ‪ ،‬نہ قابو میں کی ہوئی کوئی‬
‫طاقت‪ ،‬بیوی تو میں نے یہ دنیا والوں کے‬
‫سوالوں کے ڈر سے بنا لیا تھا ‪ ،‬میرے لیے‪ ‬‬
‫‪ ‬تم صرف ایک دوست اور ہم سفر ہو جو ہر‬
‫وقت میرے ساتھ رہتی ہے۔ اب تمہاری‬
‫مرضی کہ مجھے مار ڈالو یا ساتھ رہو‪،‬‬
‫مجھے اس کی پرواہ نہیں ہے ‪ ،‬میں نے بھی‬
‫زندگی میں دکھ دیکھ لیے ہیں اور کہی‬
‫مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ میں نے خود کو‬
‫مارنے کی کوشش کی لیکن شاید موت کا‬
‫وقت ابھی نہیں ٓایا‪ ،‬تو مجھے اس بات کا‬
‫کوئی ڈر نہیں کہ تم میرے ساتھ کیا کرو‬
‫گی۔‬

‫شکریہ ٓاپ کا سکندر کہ آپ نے مجھے عزت‬


‫دی‪  ‬لیکن چونکہ میں ایک چڑیل ہوں اور‬
‫شیطانوں کی دینا میں میرا نام ہے تو میں‬
‫اپنی ٓازادی پر کوئی سمجھوتہ نہین کر‬
‫سکتی ہوں۔سفرینا بولی‬
‫مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں ہوگا۔ایک بات‬
‫کہوں ‪ ،‬میں نے تمہیں قابو کیا تھا‪ ،‬تم خود‬
‫میرے پاس نہیں ٓائی تھی تو مجھے تم سے‬
‫کوئی دکھ اور شکایت نہیں ہوگی‪ ،‬جو ہو‬
‫گا وہ میری قسمت میں لکھ دیا گیا ہے۔‬

‫ابھی سکندر یہ کہہ رہا تھا کہ حشمت‬


‫صاحب واپس ٓا گئے ‪ ،‬ان کے ہاتھ میں شاپر‬
‫تھے جو انہیں نے نور بی بی کو پکڑا دیے‬
‫اور نور بی بی باورچی خانے میں چلی گئ۔‬

‫سفرینا‪ ،‬ناشتے کے فورًا بعد ہم نے یہاں سے‬


‫نکل جانا ہے ‪،‬اب ہم ایسے بھلے لوگوں کو‬
‫اور تکلیف نہیں دے سکتے ہیں۔سکند ربوال‬
‫ابھی سکندر کی بات ختم ہوئی کہ ایک تیز‬
‫چیخ گھر میں گونجی‪ ،‬یہ نور بی بی کی‬
‫ٓاواز تھی اور پھرہاتھ میں دیگچی پکڑے‬
‫باہر بھاگتی ہوئی ٓائی‪ ،‬یہ وہی دیگچی تھی‬
‫جس میں سکندر نے پیسے رکھے تھے۔‬

‫‪ ‬حشمت صاحب ۔۔یہ‬

‫نور بی بی نے کانپتے ہوئے دیگچی حشمت‬


‫صاحب کے ٓاگے کر دی جو پیسے سے بھری‬
‫ہوئی تھی‪ ،‬اب حیران ہونے کی باری حشمت‬
‫صاحب کی تھی۔‬

‫او میری خدا‪ ،‬یہ کہاں سے ٓائے۔ حشمت‬


‫صاحب نے روپوں‪  ‬کی ایک گڈی‪  ‬دیگچی‬
‫سے باہر نکال کر کہا تھا۔‬
‫پتا نہیں حشمت صاحب ‪ ،‬میں نے چاول‬
‫پکانے کے لیے جب اسے تختی سے اتارا تو‬
‫یہ بہت بھاری لگی‪ ،‬میں سمجھی کہ کسی‬
‫نے اس میں چھوٹے برتن ڈال دیے ہونگے‬
‫لیکن یہ تو۔‬

‫نور بی بی نے بات نا مکمل چھوڑ دی‬

‫کیا ہوا‪  ‬بابا‪ٓ ،‬اپ لوگ پریشان نظر ٓا رہے‪ ‬‬


‫ہیں؟ سکندر نے ٓاگے ٓا کر کہا۔‬

‫بیٹا ‪ ،‬یہ پیسے‪ ،‬پتا نہیں کہاں سے ٓا گئے ‪،‬‬


‫ہمارے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں۔‬
‫سکندر کو کوئی بات نہیں سوجھ رہی تھی‬
‫تو اس نے خاموشی اختیار کر لی۔‬

‫اب کیا کریں حشمت صاحب ‪ ،‬نور بی بی‬


‫بولی۔‬

‫سکندر بیٹا مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ یہ‬


‫پیسے تم نے رکھے ہیں‪ ،‬حشمت صاحب نے‬
‫نور بی بی کو نظر انداز کرکے سکندر کو‬
‫مخاطب کیا۔‬

‫بابا ‪ ،‬میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے ٓائے‬


‫اور میں کیوں رکھوں گا۔؟ سکندر نے‬
‫وضاحت کرتے ہوئے کہا۔‬
‫تم نے مجھے بابا کہا ہے ناسکندر‪ ،‬تو سچ‬
‫سچ بتاو ‪ ،‬یہ پیسے تم نے رکھے ہیں نا؟‬

‫بابا میرا یقین کریں‪ٓ ،‬ا پ خود سوچیں کہ‬


‫اتنے پیسے میں کیسے اپنے ساتھ رکھ سکتا‬
‫ہوں اور یہ تو جیب میں بھی نہیں ٓا سکتے‬
‫ہیں؟‬

‫ہممم۔۔۔۔نور یہ پیسے ہمارے نہیں ہیں‪،  ‬‬


‫جہاں سے بھی ٓائے ہیں لیکن میں اسے اپنی‬
‫ملکیت نہیں سمجھتا ‪ ،‬تم ایسا کرو انہیں ٓا‬
‫گ لگا دو۔‬
‫یہ سن کر سکندر پریشان ہو گیا اب اس کے‬
‫پاس سچ بتانے کے لیے عالوہ کوئی راستہ‬
‫نہیں تھا۔‬

‫بابا جب اہلل نے ُٓا پ کے گھر میں یہ پیسے‬


‫رکھے ہیں تو ٓاپ کے ہوئے نا‪ ،‬یہ تو‪  ‬اہلل کی‬
‫طرف سے ٓاپ کی غیبی امداد ہوئی نا تو‬
‫پھر کیسے اہلل کے دیے ہوئے پیسے ٹھکرا ر‬
‫ہے ہیں۔سکندر بوال‬

‫سکندر ‪ ،‬چاہے تم‪  ‬یہ بات چھپاؤ لیکن یہ‬


‫سچ ہے کہ یہ پیسے تم نے رکھے ہیں اور‬
‫میں یہ پیسے نہیں لے سکتا۔‬
‫بابا دیکھیں نا۔ٓاپ کے حاالت ٹھیک نہیں‬
‫چل رہے ہیں ‪ ،‬اہلل اچھے لوگوں کی مدد‬
‫کرتے ہیں نا؟ تو پھر ٓاپ کو یہ پیسے رکھ‬
‫لینے چاہیے۔ سکندر نے کوشش کرتے ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫لیکن میں یہ پیسے نہیں رکھ سکتا بیٹا‪ ،‬یہ‪ ‬‬


‫میری حیثیت سے بہت زیادہ ہیں‬

‫دنیا میں مالی طور پر ٓاپ کی حیثیت‬


‫تھوڑی کم ہو گئی ہو گی بابا لیکن اہلل کے‬
‫نزدیک ٓاپ ٓاج بھی امیر ہیں‪ ،‬پلیز بابا یہ‬
‫رکھ لیں۔ سکندر نے کوشش کرتے ہوئے کہا‬
‫اچھا ٹھیک ہے ‪ ،‬میں یہ پیسے رکھ لوں گا‬
‫لیکن تم مجھے سچ سچ بتاو کہ یہ پیسے‬
‫تم نے رکھے ہیں نا؟‬

‫ٓاخر سکندر نے ہتھیار ڈال دیے۔‬

‫جی بابا یہ میں نے رکھے ہیں۔ سکندر نے سر‬


‫جھکا کر کہا‬

‫اور کیوں رکھے ہیں؟ حشمت صاحب کا‪ ‬‬


‫اگال سوال آیا‬

‫بابا‪ ،‬میں ٓاپ کا بیٹا ہوں اور میرے پاس اہلل‬


‫کا دیا بہت ہے‪ٓ ،‬اپ خود سوچیں کہ ایک‬
‫بیٹا یہ کیسے برداشت کر سکتا ہے کہ اس‬
‫کا بابا بینک سے قرض لے کر بیٹیوں کی‬
‫شادی کرے۔ کیا‪ٓ  ‬اپ شگفتہ‪ ،‬اقصٰی والوں‬
‫کو میری بہن نہیں سمجھتے ہیں۔‬

‫کیوں نہیں سمجھتا۔ بلکل سمجھتا ہوں اور‬


‫اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔حشمت‬
‫‪ ‬صاحب جذباتی ہو گئے‬

‫تو پھر یہ نہ سمجھیں کہ یہ پیسے میں نے‬


‫رکھے ہیں بلکہ یہ سوچیں کہ ایک بھائی‬
‫اپنی بہنوں کی شادیاں دھوم دھام سے کرنا‬
‫چاہتا ہے۔‬
‫لیکن بیٹا۔ حشمت صاحب نے ہار مانتے ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫لیکن ویکن کچھ نہیں بابا۔ اب اس بات کو‬


‫چھوڑیں‪  ‬اور امی جان یہ پیسے جا کر رکھ‬
‫دیں اور جلدی سے ناشتہ تیار کریں ‪ ،‬پھر ہم‬
‫نے نکلنا ہے‬

‫نور بی بی نے حشمت صاحب کو دیکھا ‪،‬‬


‫انہوں نے نور بی بی‪  ‬کو جانے کا کہا تو وہ‪ ‬‬
‫کمرے کی جانب چلی گئی۔‬

‫اور یہ تم نے کیا کہا کہ نکلنا ہے ‪ ،‬کہاں نکلنا‬


‫ہے تم دونوں نے؟‬
‫بابا‪ ،‬میری چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں‪  ‬اور‬
‫میں چاہتا ہوں کہ میں ہندوستان گھوم پھر‬
‫لوں اس لیے میں ناشتے کے بعد ٓاپ لوگوں‬
‫سے اجازت چاہوں گا۔سکندر نے بہانہ بناتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫اگر گھومنا ہے توہم بھی تمہارے ساتھ‬


‫چلیں گے اور ساتھ میں گھومیں گے بیٹا۔‬

‫نہیں بابا‪ٓ ،‬اپ یہ تکلف نہ کریں‪ٓ ،‬اپ سب سے‬


‫پہلے تو بینک کا قرض واپس دے کر ٓائیں تا‬
‫کہ اور سود نہ چڑھے اس کے بعد میری بہن‬
‫کی شادی کے لیے جہیز اکھٹا کرنا شروع‬
‫کریں ۔‬
‫تو تم میر ےساتھ نہیں چلو گے‪   ‬بیٹا؟‬

‫نہیں بابا‪ٓ ،‬اپ کو بتایانا کہ میری چھٹیاں‬


‫ختم ہونے والی ہیں ‪ ،‬میں سفرینا کو تھوڑا‬
‫گھما پھرا لوں ‪ ،‬اس کے بعد واپس پاکستان‬
‫جانا ہے۔‬

‫اچھا۔۔۔ حشمت صاحب نے اچھا کو لمبا‬


‫کرکے کہا‪  ،‬وہ سکندر اور سفرینا کے جانے‬
‫میں دل سے راضی نہیں تھے۔‬

‫جیسے تمہاری مرضی بیٹا۔ میری تو یہ‬


‫خواہش تھی کہ تم ہمارے پاس ہی ساری‬
‫چھٹیاں گزار تے ‪ ،‬ہم سارے ساتھ میں‬
‫گھومتے لیکن ۔۔‬

‫چلو جیسے تمہاری مرضی بیٹا۔‬

‫سکندر نے کوئی جواب نہیں دیا۔‬

‫وہ دوبارہ چارپائی پر بیٹھ چکے تھے اور‬


‫سفرینا نور بی بی والوں کے پاس چلی گئی‪،‬‬
‫سکندر نے اسے کام میں ہاتھ بٹانے کے لیے‬
‫کہا تھا ‪ ،‬لیکن یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ‬
‫سفرینا کو کام کرنے دیتے‪ ،‬پیسے والے واقعہ‬
‫کے بعد تو یہ بات سوچی بھی نہیں جا‬
‫سکتی تھی۔‬
‫ناشتہ تیار ہونے میں قریبًا گھنٹا لگ گیا اور‬
‫پھر صحن میں ہی درخت کے نیچے چادر‬
‫پھیال دی گئی اور وہیں سارے بیٹھ کر‬
‫ناشتہ کرنے لگے۔ مقدس نے یہاں بھی اپنی‬
‫باتوں سے سب کے چہروں پر مسکراہٹ‬
‫بکھیر دی تھی اور پھر ناشتہ کرنے کے بعد‬
‫سکندر نے جانے کی اجازت چاہی۔‬
‫‪ ‬‬
‫بیٹا ۔ٓاج کا دن تو ہمارے ساتھ گزار لیتے ‪،‬‬
‫ایک دن اپنے بابا سے گزار کر‪  ‬نہیں جاو گے‬
‫کیا؟‬

‫‪ ‬حشمت صاحب جذباتی ہو رہے تھے‬


‫بابا ‪ ،‬میں پاکستان جانے سے ایک دن پہلے‬
‫یہاں بھی ٓاؤں گا اور ٓاپ کے ساتھ پورا دن‬
‫بھی گزارو ں گا۔وعدہ رہا‬

‫‪ ‬ٹھیک ہے بیٹا ‪ ،‬جیسے تمہاری مرضی ۔‬

‫حشمت صاحب نے یہ کہہ تو دیا لیکن وہ‬


‫دل سےس راضی نہیں تھے‬

‫اس دورا ن میں نور بی بی کمرے میں چلی‬


‫گئی تھی اور اب واپس ان کی طرف ٓا رہی‬
‫تھی ان کے ہاتھ میں چادر تھا۔‬

‫سفرینا بیٹی ‪،‬مجھے سمجھ نہیں ٓا رہی کہ‬


‫میں تمہیں کیا دوں لیکن میری طرف سے‬
‫یہ ایک چھوٹا سا تحفہ ہے‪ ،‬یہ کہہ کر نور‬
‫بی بی نے چادر سفرینا کے کندھے پر اوڑھ‬
‫دی۔‬

‫شکریہ امی‪ ،‬سکندر نے وجہ سے سفرینا‬


‫بھی امی بولنے لگ گئی تھی۔‬

‫ان کے ساتھ کوئی سامان تو تھا نہیں ‪ ،‬اس‬


‫لیے انہوں نے حشمت صاحب سے اب‬
‫اجازت چاہی تھی اور پھر ان کو اجازت مل‬
‫گئی۔‬

‫ان کی رخصت کا وقت کافی جذباتی ہو گیا‬


‫‪،‬سکندر سے گلے ملنے کے بعد حشمت‬
‫صاحب کی ٓانکھوں میں پانی ٓا گیا تھا‪،  ‬‬
‫گھر کی عورتوں کی حالت بھی ان سے‬
‫مختلف نہیں تھی ‪ ،‬وہ سب بھی سفرینا‬
‫سے رو رو کر گلے مل رہے تھے۔ اور پھر وہ‬
‫باہر کے دروازے کی جانب چھل پڑے‪،‬‬
‫سارے گھر والے بھی ان کے ساتھ دروازے‬
‫تک ٓائے۔‬

‫بھائی۔ایک پیاری سے ٓاواز سکندر کے کانوں‬


‫‪ ‬سے ٹکرائی‬

‫یہ مقدس تھی۔‬

‫پتا نہیں کیوں یہ لفظ سن کر سکندر کی‬


‫ٓانکھوں میں ٓانسو ٓا گئے اور وہ گھٹنوں پر‬
‫بیٹھ گیا۔‬

‫ٓا پ واپس نہیں ٓائیں گے نا؟‬

‫مقدس نے اپنا منہ سکندر کے کان کے قریب‬


‫الکر سرگوشی میں کہا لیکن سکندر کے‬
‫پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا‪،‬و ہ اس‬
‫پری سے جھوٹ نہیں بولنا چاہتا تھا۔‬

‫اور پھر مقدس نے اپنے چھوٹے چھوٹے‬


‫بازووں سے سکندر کو گلے لگا لیا۔ یہ ایک‬
‫ایسا منظر تھا جس نے سب کی ٓانکھوں سے‬
‫ٓانسو نکلوا‪  ‬دیے‪  ‬مگر سفرینا کا چہرہ‬
‫جذبات سے عاری تھا۔‬
‫سکندر نے کچھ دیر مقدس کو گلے لگے رہنے‬
‫دیا اور پھر خود ہی الگ کر دیا۔ زیادہ دیر‬
‫کا مطلب سب کو رالنا ہے۔ سکندر نے سوچا‬

‫‪، ‬بھابی‪ ،‬مقدس نے سفرینا کو کہا تھا‬

‫سفرینا رشتوں سے اتنی ٓاشنا نہیں ہوئی‬


‫تھی تو وہ اتنی جذباتی نہیں ہو ئی تھی۔‬

‫جی بیٹا‪ ،‬سفرینا بھی سکندر کے ساتھ‬


‫گھٹنے پر بیٹھ گئی۔‬
‫میرے بھائی کا ڈھیر سارا خیال رکھنا‬
‫بھابھی۔‬

‫یہ کہہ کر مقدس نے سفرینا کو گلے لگا گیا‬


‫اور سفرینا نے ماتھے پر بوسہ دیا لیکن وہ‬
‫نہیں جانتی تھی کہ مقدس کا کہا یہ جملہ‬
‫اس کی زندگی میں کیسا طوفان الئے گا۔‬

‫سکندر اٹھ کھڑا ہو ا تھا جسے دیکھ کر‬


‫سفرینا بھی اٹھ گئی اور چادر ٹھیک کر لی‬
‫جو بیٹھنے کے بعد ڈھلک گئی تھی‪ ،‬پھر وہ‬
‫دونوں‪  ‬دروازے سے باہر نکل گئے‪ ،‬ان کے‬
‫لیے‪  ‬پیچھے دیکھنا اور مزید رکنا بہتر نہیں‬
‫تھا اور پھر وہ سب کو روتا چھوڑ کر پیدل‬
‫چل دیے۔‬

‫کچھ قدم چلنے کے بعد سکندر نے مڑ کر‬


‫دیکھا تو ایک تانگہ واال ان کی جانب ٓا رہا‬
‫تھا جسے سکندر نے ہاتھ دے کر رکنے کا‬
‫اشارہ کیا۔‬

‫کہاں جاؤگے بھیا؟‬

‫بازار جانا ہے ‪،‬چلو گے؟سکندر بوال‬

‫کیوں نہیں بھیا۔‬


‫یہ سن کر سکندر اور سفرینا تانگے پر چڑھ‬
‫کر بیٹھ گئے اور پھر تانگہ بازار کی جانب‬
‫‪، ‬دوڑنے لگا‬

‫دس منٹ کے بعد بازار کی رونق نظر ٓانے لگ‬


‫گئی کیونکہ صبح ابھی ابھی ہو ئی تھی تو‬
‫زیادہ دکانیں نہیں کھلی تھی ۔ ایک خالی‬
‫جگہ پر پہنچ کر تانگہ رک گیا‪  ‬اور وہ‬
‫دونوں نیچے اتر ٓائے‪ ،‬سکندر نے بے خیالی‬
‫میں اپنا پرس باہر نکاال تو پرس میں پڑے‬
‫نیلے نوٹ نظر ٓا گئے۔‬

‫اف۔۔۔اب کیا کریں؟ سکندر نے بڑے نوٹ‬


‫دیکھ کر کہا تھا‬
‫میں نے چھوٹے نوٹ ٓاپ کی دائیں جیب‬
‫میں رکھ دیے ہیں سکندر۔سفرینا بولی‬

‫اور پھر سکندر نے دائیں جیب میں ہاتھ‪ ‬‬


‫ڈال کر پیسے باہر نکالے تو الل رنگ کے نوٹ‬
‫ہاتھ میں ٓا گئے جس میں سے ایک نوٹ‬
‫نکال کر کوچوان کو دیا اور پھر پیدل ہی‬
‫بازار کی سڑکوں پر چلنے لگے‪ ،‬کوچوان بھی‬
‫پیسے لے کر تانگے کو ٓاگے بڑھا چکا تھا۔‬

‫سکندر اور سفرینا یہ نہیں جانتے تھے کہ‬


‫کوچوان کو پیسے دینے کے بعد دو ٓانکھیں‬
‫ان دونوں کا پیچھا کر رہی تھی‪ ،‬یہ ایک‬
‫چور تھا جس کی نیت سکندر کے پرس کو‬
‫‪ ‬دیکھنے کے بعد خراب ہو گئ تھی۔‬

‫سکندر جیسے ہی بازار کی کچھ گلیاں‬


‫گھوم کر ایک ویران گلی میں پہنچا تو وہ‬
‫چور دوڑ کر سکندر کے سامنے ٓا گیا۔‬

‫اپنا بٹوہ مجھے دو۔‬

‫چور نے اپنا چاقو باہر نکال لیا تھا اور اب‬


‫سکندر کے سامنے لہرا‪  ‬رہا تھا۔‬

‫چور کو دیکھ کر سکندر بھی حیران ہو گیا‪ ‬‬


‫مگر اب وہ اکیال نہیں تھا ‪ ،‬اس کے ساتھ‬
‫سفرینا تھی جو کچھ بھی کر سکتی تھی ‪،‬‬
‫سکندر نے خاموشی سے پرس نکل کر چور‬
‫کے سامنے کیا جسے چور نے اچک لیا اور‬
‫پھر و ہ ایسا دوڑا کہ پیچھے دیکھنے کی‬
‫بھی زحمت نہیں کی۔‬

‫ٓاپ نے اسے اپنا پرس کیوں دیا اور اسے‬


‫ایسے جانے کیسے دیا سکندر؟‬

‫تم یہ بتاؤ سفرینا کہ تم یہ پر س واپس ال‬


‫سکتی ہو لیکن اس شخص کو کوئی چوٹ‬
‫نہ پہنچے۔‬

‫سکندر نے کہا‬

‫جی ابھی التی ہوں‪ٓ ،‬اپ زرا گلی کے کونے‬


‫‪ ‬میں چلیں‬
‫اور سکندر سفرینا کو لے کر گلی کی ویران‬
‫جگہ میں چال گیا ۔ کونے‪  ‬میں پہنچ کر‬
‫سفرینا نے ٓانکھیں بند کی اور پھر کچھ‬
‫سیکنڈ کے بعد دوبارہ کھول دیں ۔‬

‫پیسے ٓاپ کے جیب میں دوبارہ ٓا چکے ہیں‬


‫سکندر۔‬

‫یہ سن کر سکندر نے جیب کو باہر سے‬


‫تھپتپایا‪ ،  ‬جیب بھاری اور پھولی ہو ئی‬
‫تھی۔‬

‫ٓاپ نے اس وقت کیوں مجھے نہیں کہا‬


‫سکندر‪ ،‬میں وہیں اسے پکڑ بھی لیتی اور‬
‫مزہ بھی چکھاتی ۔ سفرینا بولی‬
‫سفرینا ایسا کرنے میں کچھ مسلئے ہو‬
‫سکتے تھے ‪ ،‬جیسا کہ کوئی ہمیں دیکھ لیتا‬
‫‪  ،‬یا تم کچھ ایسا کر لیتی تو ہم نظروں‬
‫میں ٓا جاتے اور اب‪  ‬اگر کہتا تو تم مجھے‬
‫کہیں اور سے پیسے‪  ‬ال کر دے سکتی تھی؟‬
‫لیکن اس سے پیسے اس لیے نکلوائے تا کہ‬
‫اگر وہ کسی کوبتائے یا پکڑا جائے تو اس‬
‫سے پوچھ گچھ نہ ہو کہ اتنے پیسے کس‬
‫کے پاس تھے اور ہم مزید پریشان ہونے سے‬
‫بچ جاتے۔‬

‫‪، ‬یہ ٓاپ نے ٹھیک کیا سکندر‬

‫اب ٓاپ کا کیا ارادہ ہے؟‬


‫سفرینا نے کہا‬

‫بھئی سفرینا ‪ ،‬مجھے تو لوگوں کی یہ بھیڑ‬


‫بلکل بھی اچھی نہیں لگ رہی ہے ‪ ،‬میرا دل‬
‫چاہ رہا ہے کہ تم مجھے کسی خوبصورت‬
‫جگہ لے چلو‪ ،‬جہاں انسان سے زیادہ‬
‫خوبصورت جگہیں ہوں‪ ،‬میں اہلل کی دنیا‬
‫دیکھنا چاہتا ہوں یار‪ ،‬یہ انسان اور لوگ تو‬
‫میں ساری زندگی دیکھتا ٓایا ہوں۔‬

‫کہاں چلنا پسند کریں گے ٓاپ سکندر؟‬

‫ہمم۔۔کسی خوبصورتی وادی میں لے چلو‬


‫لیکن پلیز انسانوں کی وادی ہو ایسا نہ ہو‬
‫کہ تم مجھے جنوں کی وادی میں پہنچا‬
‫دو۔‬

‫جی ٹھیک ہے‪  ‬لیکن بے فکر رہیں اگر جن‬


‫بھی ٓاگئے تو ٓاپ سے پہلے ان کا واسطہ‬
‫سفرینا سے پڑے گا۔‬

‫ہاں بھئی سفرینا۔۔لیکن میں نے دنیا دیکھنی‬


‫ہے ‪،‬لڑائی وغیر ہ نہیں کرنی ‪ ،‬اسی لیے میں‬
‫نے ایسا کہا۔سکندر نے اپنی بات کی‬
‫وضاحت کرتے ہوئے کہا۔‬

‫اچھا پھر اپنا ہاتھ مجھے دیں اور ٓانکھیں‬


‫بند کریں۔‬
‫سفرینا نے اپنا ہاتھ ٓاگے بڑھایا جسے سکندر‬
‫نے تھام لیا اور پھر اس نے ٓانکھیں بند کر‬
‫لیں۔‬

‫چند لمحوں کی بات تھی اور پھر سفرینا‬


‫نے ٓاواز سکندر کے کانوں سے ٹکرائی جو‬
‫سکندر کو ٓانکھیں کھولنے کا کہہ رہی تھی۔‬

‫سکندر نے ٓانکھیں کھولیں تو منظر تبدیل ہو‬


‫چکا تھا‪ ،‬وہ دونوں اس وقت ایکں جھیل‬
‫کے کنارے کھڑے ہوئے تھے ‪ ،‬یہ کوئی سر‬
‫سبز عالقہ تھا جس کو چاروں طرف سے‬
‫پہاڑوں نے گھیر رکھا تھا‪  ‬اور پہاڑوں پر‬
‫رف جمی ہوئی تھی ۔‬
‫یہ ہوئی نا بات۔ سکندر نے خوش ہو کر کہا۔‬

‫ویسے یہ جگہ کونسی ہے سفرینا؟‬

‫یہ نیپال کی سلطنت ہے سکندر اور ہم اس‬


‫وقت نیپال کی ایک خوبصورت وادی میں‬
‫کھڑے ہوئے ہیں۔‬

‫لیکن یہاں تھوڑی سردی نہیں ہے سفرینا؟‬

‫سکندر نے موسم میں تھوڑی ٹھنڈک‬


‫محسوس کرکے کہا۔‬

‫جی ہاں سکندر اس وادی میں سردی کا‬


‫موسم ہے‪ ،‬رکیں میں آپ کے لیے کپڑوں کا‬
‫بندوبست کروں‬

‫یہ کہہ کر سفرینا نے کچھ پڑھا تو اس کا‬


‫جسم بجلی بن کر دوبارہ اپنے اصل روپ‬
‫میں ا گیا ‪ ،‬سفرینا کے ہاتھ میں ایک‬
‫خوبصورت سی جیکٹ تھی۔‬

‫سکندر آپ کپڑے بھی تبدیل کر لیں تو بہتر‬


‫یے‪ ،‬دو دن سے آپ نے یہی کپڑے پہن رکھے‬
‫ہیں‬

‫ہاں سفرینا ‪ ،‬مجھے بھی یہی لگ رہا ہے کہ‬


‫اب کپڑے تبدیل کر لینے چاہیے۔۔‬
‫سکندر نے یہ بات اپنے لباس کو دیکھ کر‬
‫‪،‬کہہ تھی‬

‫یہ بات سن کر سفرینا نے دوبارہ وہی‬


‫حرکت کی اور کچھ شلوار قمیض کے‬
‫جوڑوں کے ساتھ سامنے کھڑی تھی‬

‫سکندر نے سارےلباس لیے اور ان میں سے‬


‫ایک لباس منتخب کرکے دوسرے سفرینا کو‬
‫دے دیے جو سفرینا نے غائب کر دیے۔۔۔‬

‫کیا تم دو منٹ کے لیے دوسری طرف دیکھو‬


‫‪..‬گی‪ ،‬میں زرا کپڑے تبدیل کر لوں‬

‫سکندر کی بات سفرینا کو عجیب لگی‬


‫وہ کیوں سکندر؟‬

‫وہ اس لیے کہ تم مجھے کپڑے تبدیل کرتے‬


‫دیکھ نہ سکو‬

‫سکندر نے کہا‬

‫میں دوسری طرف اپنا منہ کر بھی لوں۔ تب‬


‫میں آپ کو دیکھ سکتی ہوں سکندر‬

‫میں جانتا ہوں کہ تم سب کچھ کر سکتی‬


‫ہوں لیکن پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ تم‬
‫دوسری طرف دیکھو۔۔میں زرا مشرقی ٹائپ‬
‫لڑکا ہوں‪ ،‬مجھے سے یہ نہیں ہو سکتا کہ تم‬
‫مجھے دیکھتی رہو اور میں تمہارے سامنے‬
‫اپنے کپڑے تبدیل کروں۔۔‬

‫یہ لیں۔۔۔ میں نے اپنا منہ دوسری طرف کر‬


‫‪ ‬لیا ہے‬

‫سکندر نے پیٹھ سکندر کی طرف کر دی‬


‫تھی‬

‫سکندر نے جلدی جلدی لباس تبدیل کر لیا‬


‫اور پھر‪  ‬سفرینا کا نام لیا‬

‫سکندر۔۔۔ آپ کی پیٹھ پر یہ جال ہوا نشان‬


‫کیسا ہے؟ سفرینا بولی‬
‫ہیں۔۔تم باز نہیں آئی نا‪ ،‬سفرینا‬

‫سکندر نے حیران ہو کر کہا‬

‫آپ نے کہا کہ میں دوسری طرف دیکھوں‪،‬‬


‫آپ نے یہ تو نہیں کہا نا کہ مجھے نہ‬
‫دیکھو‪ ،‬سکندر میں انسان تھوڑی ہوں کہ‬
‫منہ پھیر لوں گی تو کچھ بھی نظر نہیں‬
‫آئے گا۔۔‬

‫سفرینا نے شوخ لہجے میں کہا‪ ،‬مقدس سے‬


‫مل کر وہ بھی اب بولنے لگی تھی‬

‫لیکن یار تم میری بات کو سمجھ لیتی نا؟‬


‫اچھا سوری سکندر‪ ،‬آئندہ احتیاط کروں‬
‫گی‪ ،‬اب چلیں‬

‫یہ سوری تم نے کہا سے سیکھ لیا سفرینا‬

‫بس لوگوں سے سیکھ رہی ہوں‪ ،‬سفرینا نے‬


‫گول گول جواب دیا‬

‫اچھا۔۔چلو اب دیکھیں تو یہ کیسی جگہ‬


‫ہے۔۔‬

‫سکندر نے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو‪  ‬بائیں‬


‫طرف پر تھوڑی دور ایک کچا سا رستہ اوپر‬
‫کی جانب جا رہا تھا ۔‬
‫میرا خیال ہے اوپر رستہ ہے‪ ،‬لیکن اوپر‬
‫جانے سے پہلے مجھے کچھ کھال دو‪ ،‬بھوک‬
‫سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔‬

‫جی ابھی التی ہوں‪ ،‬آپ میرا انتظارکریں۔‬


‫یہ کہہ کر سفرینا غائب ہوئی اور پھر کچھ‬
‫ہی دیر میں ایک بڑی سی طشت میں طعام‬
‫لے کر حاضر ہوئی۔ طشت اس نے زمین پر‬
‫رکھ دی‪ ،‬سکندر بھی کھانے کے قریب‪  ‬زمین‬
‫پر صاف جگہ دیکھ کر بیٹھ گیا۔ طشت‬
‫میں بھنا ہوا گوشت تھا جو کہ دنبہ کا لگ‬
‫رہا تھا ‪ ،‬ساتھ میں دو روٹیاں ‪ ،‬لسی کا ایک‬
‫گالس اور ساتھ میں‪  ‬تھرماس میں چائے‬
‫تھی ‪،‬طشت میں ایک پیالہ بھی رکھا‬
‫ہواتھا۔‬

‫سکندر نے کھانا شروع کیا اور سفرینا ساتھ‬


‫بیٹھ کر اردگرد دیکھنے لگی۔‬

‫سفرینا تم سوتی بھی ہو کیاَ؟ سکندر نے‬


‫روٹی کا لقمہ بنا کر منہ میں ڈالتے ہوئے کہا۔‬

‫جی ہاں ۔ سوتی ہوں لیکن میں آپ انسانوں‬


‫کی طرح لیٹ کر نہیں سوتی‪ ،‬بس کھڑے‬
‫کھڑے نیند پوری کر لیتی ہوں اور ہمیں ہر‬
‫روز سونا نہیں پڑتا بلکہ ہم چار ‪ ،‬پانچ دن‬
‫بغیر سوئے گزار سکتے ہیں۔‬
‫اور پھر باتیں کرتے کرتے سکندر نےکھانا‬
‫ختم کیا اور اس کے بعد کیتلی سے چائے‬
‫نکال کر پیالے میں ڈال کر چسکیاں لینے لگا۔‬

‫اس وقت سورج اپنی جگہ سے نیچے آ چکا‬


‫تھالیکن اب بھی اس کے غروب ہونے میں‬
‫کافی وقت تھا۔‬

‫چائے پینے کے بعد سکندر نے سفرینا کو‬


‫برتن لے جانے کا کہا‪ ،‬جسے سفرینا نے پتا‬
‫نہیں کہاں غائب کر دیے ‪ ،‬اس کے بعد‬
‫سکندر اٹھ کھڑا ہوا۔‬

‫آؤ اب چلیں سفرینا۔‬


‫یہ‪  ‬کہہ کر سکندر بائیں جانب چلنے لگا اور‬
‫سفرینا اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگی۔‬

‫کچے رستہ پر پہنچ کر انہیں نے اوپر کی‬


‫طرف چلنا شروع کیا‪  ،‬اوپر کا رستہ تھوڑا‬
‫لمبا تھاجو کہ درختوں پر جا کر ختم ہو رہا‬
‫تھا۔کچے رستے کے اختتام پر انہیں پتریلی‬
‫زمین نظر آئی جو سڑک کا کام دے رہی‬
‫تھی۔‬

‫تم میرے ساتھ چل چل کر تھک تو نہیں‬


‫جاؤ گی سفرینا؟‬

‫سکندر نے سڑک پر پہنچ کر کہا۔‬


‫میں تو نہیں تھکوں گی لیکن آپ تھک‬
‫جائیں گے سکندر۔‬

‫ہمم۔۔۔ چلو اگر میں تھک گیا تو تھوڑا آرام‬


‫کر لیں گے لیکن اب انسانوں کی طرح ہم نے‬
‫سفر کرنا ہے‪ ،‬یہ غائب ہو کر جانا فلحال‬
‫چھوڑ دیتے ہیں‪ ،‬دیکھیں تو ہمیں کیسے‬
‫لوگ ملتے ہیں۔‬

‫‪ ‬جیسے آپ کی مرضی سکندر۔ سفرینا بولی‬

‫آو چلیں اور پھر سکندر نے سڑک کا دائیں‬


‫سمت پکڑ لی ۔‬
‫سڑک‪  ‬جو دونوں اطراف سے درختوں سے‬
‫ڈھکی ہوگئی تھی زگ زیگ کی طرح کبھی‬
‫دائیں جانب کو مڑتی تو کبھی بائیں جانب‬
‫کو مڑ جاتی۔ سامنے نیپال کے برف سے‬
‫ڈھکے ہوئے سرمئی پہاڑ نظر آ رہے تھے ‪،‬‬
‫سورج کے غروب ہونے میں ابھی کافی‬
‫وقت تھا۔‬

‫سکندر اور سفرینا کو چلتے ہوئے آدھا گھنٹہ‬


‫ہو چکا تھا لیکن ابھی تک انہیں کوئی‬
‫انسان نظر نہیں آیا تھا۔سکندر پہلے کبھی‬
‫نیپال کی طرف نہیں آیا تھا اس لیے وہ‬
‫نہیں جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ کیسے ہیں‪،‬‬
‫ان کا رہن سہن کیسا ہے۔بس وہ یہ جانتا‬
‫تھا کہ سفرینا اس کے ساتھ ہے جو کسی‬
‫بھی مشکل کو حل کرنے کی شکتی رکھتی‬
‫ہے۔‬

‫کچھ دور چلنے کے بعد جنگالت کا عالقہ‬


‫شروع ہو گیا تھا اور سڑک نیچے کی جانب‬
‫جا کر ختم ہوتی دکھائی دے رہی تھی‬
‫‪ ، ‬لیکن سکندر نہیں رکا تھا‬

‫سفرینا اگر میں کہوں کہ میرے لیے یہاں‬


‫ایک محل کھڑا کرو تو کیا تم یہ کر سکو‬
‫گی؟‬

‫سکندر نے چلتے ہوئے اچانک عجیب‬


‫سوجھی۔‬
‫سکندر یہ سب کہانیاں میں ہوتا ہے کہ بس‬
‫سوچا اور محل کھڑا ہو گیا۔ ہم جنوں اور‬
‫چڑیلوں میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔‬

‫محل کھڑا کرنے کے لیے میں اپنے چیلوں‬


‫کی مدد لے سکتی ہوں ‪ ،‬وہ اپنی طاقت‬
‫استعمال کرکے جلدی جلد ی یہ سب کریں‬
‫گے لیکن پھر بھی ا نہیں جنگل صاف‬
‫کرنے‪،‬محل کے لیے سامان اکھٹا کرنے اور‬
‫بنانے‪  ‬میں وقت تو لگ جائے گا۔‬

‫ہممم۔۔۔ اچھا میں نے بھی بچپن کی‪ ‬‬


‫کہانیاں پڑھ کر ہی ایسی بات کی تھی‪،‬‬
‫مجھے لگا کہ تم ہاتھ گھماو گی اور محل‬
‫سامنے کھڑا ہوگا۔سکندر بوال‬
‫یہ ہو تو سکتا ہے لیکن یہ سب خیالی ہوگا‪،‬‬
‫جیسے ہی آپ کا خیال ٹوٹے گا ‪ ،‬آپ‪  ‬خالی‬
‫زمیں پر ہو گے‪ ،‬سفرینا بولی‬

‫اچھا اب میں سمجھا۔۔۔سفرینا کو بچپن‬


‫میں سنی کہانیوں کی حقیقت سمجھ آ‬
‫گئی تھی۔‬

‫وہ جنگل کے عالقے میں داخل ہو چکےتھے‪،‬‬


‫انہیں اب پہاڑ نظر آنا بند ہو گئے تھے۔‬

‫انہیں جنگل میں سفر کرتے کرتے رات ہو‪ ‬‬


‫چکی تھی اور جنگل تھا کہ ختم ہی نہیں‬
‫ہو رہا تھا۔‬

‫سفرینا روشنی کا بندوبست کرو یار‪ ،‬مجھے‬


‫اب کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔سکندر کو‬
‫اب بلکل بھی نظر نہیں آ رہا تھا ‪ ،‬وہ بار بار‬
‫درختوں سے ٹکرا رہا تھا۔‬

‫یہ لیں سکندر۔‪ ‬‬

‫یہ کہہ کر سفرینا نے ہاتھ گھمایا تو وہ‬


‫بجلی میں تبدیل ہو چکی تھی ‪ ،‬یہ سفید‬
‫رنگ کی روشنی تھی جس نے ارد گرد کی‬
‫تمام چیزوں کو دن کی روشنی کی طرح‬
‫روشن کر لیا تھا۔‬
‫سفرینا کیا‪  ‬تم اب بھی میرے ساتھ ہو؟‬
‫سکندر نے بجلی سے کہا تھا۔‬

‫جی ہاں سکندر میں نے اپنا جسم تبدیل کر‬


‫لیا ہے ‪،‬لیکن میں آپ کو سن بھی سکتی‬
‫ہوں اور دیکھ بھی رہی ہوں‪ ،‬آپ بے فکر‬
‫رہیں۔‬

‫ابھی سفرینا نے یہ جملہ ادا ہی کیا تھا کہ‬


‫سکندر کے کانوں کے پاس سے بجلی کی‬
‫رفتار سے کچھ گزرا ۔‬

‫سکندر نے روشنی میں مڑ کر دیکھا تو یہ‬


‫خنجر کی شکل کا‪  ‬تیر تھا جو دھاگے نما‬
‫رسے سے بندھا ہوا تھا اور تیر سامنے کے‬
‫درخت میں جا لگا تھا۔‬

‫‪ ‬یہاں کوئی ہے سفرینا۔ سکندر بوال‬

‫میں دیکھتی ہوں آپ یہاں رکیں‪ ،‬یہ کہہ کر‬


‫سفرینا بجلی کی ہی صورت میں آگے بڑھ‬
‫گئی اور سکندر کو اندھیرے میں چھوڑ‬
‫گئی۔‬

‫سفرینا کو گئے تھوڑی دیر گزری کہ وہ‬


‫‪ ‬واپس آگئی۔‬
‫سکندر جنگل ختم ہونے واال ہے‪  ‬اور جنگل‬
‫میں اس وقت کوئی بھی نہیں ہے‪ ،‬یہ کسی‬
‫انسان کا بچھایا ہوا جال ہے ‪ ،‬شاید‬
‫جانوروں کے شکار کے لیے بچھایا گیا تھا‪ ‬‬
‫‪ ‬اور جنگل کے ختم ہوتے ہی پہاڑوں کے‬
‫ساتھ ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ اس وقت‬
‫بستی کے چاروں طرف آگ روشن ہے لیکن‬
‫کوئی انسان نہیں جاگ رہا ہے۔‬

‫سفرینا نے واپس آکر‪  ‬بتایا۔‬

‫اچھا‪،‬پھر چلتی رہو‪ ،‬دیکھتے‪  ‬ہیں کہ یہ‬


‫کیسی بستی ہے اور کیسے لوگ ہیں‪ ،‬یہاں‬
‫جنگل میں تو سونے سے رہے۔سکندر نے‬
‫سفرینا‪  ‬کی بات سن کر‪  ‬آگے بڑھتے ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫)​سفرینا ۔۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪ ( 11‬از ابن نصیر‬

‫کچھ دور چلنے کے بعد سکندر کو آگ کے‬


‫االؤ جلتے دکھائی دیے جو کہ ایک دوسرے‬
‫سے مناسب فاصلے پر جل رہے تھے‬

‫سفرینا اب تم اپنی روشنی بجھا دو اور‬


‫انسانی شکل میں آ جاومجھے پتا نہیں کہ‬
‫آگے ہمیں کیسے لوگ ملیں گے تو تھوڑا‬
‫محتاط رہنا اور جب تک میں نا کہوں تم نے‬
‫کچھ نہیں کرنا ہے‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر۔ یہ کہہ کر سفرینا‬


‫اپنی اصل میں آگئی‬

‫اب وہ اندھیرے میں ڈوب چکے تھے‪ ،‬‬


‫آسمان پر چاند روشن تھا لیکن اتنا بڑا نہیں‬
‫تھا کہ ہر چیز واضح نظر آتی بس ان کے‬
‫سائے نظر آ رہے تھے‬

‫سکندر کو یہ سمجھنے میں غلطی ہوئی کہ‬


‫‪ ، ‬وہ کسی کو نظر نہیں آ رہے ہونگے‬

‫بستی کے لوگ اندھیرے کے عادی تھے‪،‬‬


‫جیسے ہی سکندر اور سفرینا نے جنگل سے‬
‫نکل کر میدان پر پاؤں رکھا‪ ،‬اچانک نزدیک‬
‫ہی نزدیک ہی کسی کی سرگوشی کرنے کی‬
‫آواز سنائی دی‬

‫جب تک سکندر کو سمجھ آتی ‪ ،‬کچھ‬


‫لوگوں کا گروپ دوسرا ہوا سکندر کے قریب‬
‫آیا اور ان دونوں کے گرد دائرے لگا کر کھڑا‬
‫ہو گیا۔۔‬

‫تم دونوں کون ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو۔‬


‫ان میں سے ایک شخص نے آ گے بڑھ کر کہا‬
‫وہ اپنی لمبی جسامت اور حلیے سے ان کا‬
‫سردار لگ رہا تھا‬

‫میرا نام سکندر ہے اور یہ میری بیوی‬


‫سفرینا ہے‪ ،‬ہم وادی گھومتے گھومتے یہاں‬
‫پر پہنچ گئے ہیں‬

‫سکندر نے اس شخص کو جواب دیا‬

‫ان دونوں کے ہاتھ باندھ دو اور بستی میں‬


‫لے چلو‬

‫سردار کا پیغام سن کر ایک دوسرا شخص‬


‫آگے بڑھا اور اپنی کمر سے بندھا رسہ کھول‬
‫کر پہلے سکندر کے دونوں ہاتھ باندھے اور‬
‫رسے کے دوسرے سرے سے سفرینا کے ہاتھ‬
‫باندھے۔۔‬
‫ہاتھ باندھ کر اس شخص نے سکندر کو آگے‬
‫کی جانب دھکا دیا جس کا مطلب تھا کہ‬
‫چلو‬

‫اور پھر وہ دونوں سردار کے پیچھے پیچھے‬


‫بستی کی جانب چلنے لگے۔۔‬

‫دوسرے لوگوں نے ابھی تک سکندر اور‬


‫سفرینا کے گرد گھیرا بنا رکھا تھا‬

‫بستی کے قریب پہنچ کر سکندر نے غور کیا‬


‫تو اسے بستی میں بیس کے قریب گھر نظر‬
‫آ ہے جو جھونپڑی کی شکل میں لکڑیوں‬
‫سے بنائے گئے تھے‬

‫سردار دارو سے کہو کہ نغمان دو قیدی پکڑ‬


‫‪ ‬کر الیا ہے۔۔‬
‫ایک بڑی سی جھونپڑی کے قریب پہنچ کر‬
‫اس لمبی جسامت والے شخص جس کا نام‬
‫نعمان تھا نے جھوپڑی کے قریب کھڑے‬
‫محافظ سے کہا۔۔۔‬

‫سردار دارو کو سوئے ہوئے کافی دیر ہو گئی‬


‫ہے اور انکا حکم ہے کہ انہیں اب نہ جگایا‬
‫جائے‬

‫محافظ نے کہا‬

‫اچھا۔۔۔نغمان بوال‬

‫‪ ‬ان قیدیوں کو میرے پیچھے لے چلو‬

‫کچھ دیر سوچنے کے بعد نغمان بوال‬

‫یہ کہہ کر نغمان سکندر اور سفرینا کو لے‬


‫کر بستی کے وسط میں پہنچا جہاں درخت‬
‫کے موٹے سے تنے زمیں میں گاڑھے ہوئے‬
‫تھے اور یہ چار کے قریب تھے‬

‫‪ ‬ان دونوں کو یہاں سختی سے باندھ دو‬

‫نغمان کا حکم سن کر دو قیدی دور لگی‬


‫جھونپڑی کی جانب بھاگ گئے اور جب‬
‫واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک اور‬
‫مضبوط رسہ تھا۔۔۔‬

‫پہلے انہوں نے سکندر کو تنے کے ساتھ کھڑا‬


‫کر کے باندھا اس کے بعد ایک چھوڑ کر‬
‫دوسرے کے ساتھ سفرینا کو باندھ دیا۔۔‬

‫اب تم میں سے دو لوگ یہاں کھڑے رہ کر‬


‫ان کا خیال رکھو اور اگر یہ بھاگنے کی زرا‬
‫سی بھی کوشش کریں تو انکا قتل کر دینا ‪،‬‬
‫سردار دارو صبح انکا فیصلہ کریں گے اور‬
‫باقی لوگ جا کر سو سکتے ہیں ۔۔‬

‫نغمان کا حکم سن کر دو لوگ کھڑے رہے‬


‫اور باقی نغمان کے پیچھے‪  ‬اپنی اپنی‬
‫جھونپڑی میں چلے گئے‬

‫سکندر نے مڑ کر سفرینا کو دیکھا جو‬


‫سکندر کو دیکھ رہی تھی‪ ،‬ایسا لگتا ہے کہ‬
‫وہ سکندر کے کسی حکم کی منتظر ہے‬
‫لیکن سکندر کسی جادو کے موڈ میں نہیں‬
‫تھا‪ ،‬جب نغمان سکندر اور سفرینا کو پکڑ‬
‫کر ال رہا تھا تو اسی وقت سکندر نے سوچ‬
‫لیا تھا کہ گھومنے پھرنے نکلے تو ایسے‬
‫حاالت کو بھی نارمل انداز میں گزارے گا ‪،‬‬
‫جب تک مرنے کی نوبت نہیں ا جاتی وہ‬
‫سفرینا کو کوئی حکم نہیں دے گا۔۔‬

‫سکندر میں بات غور سے سنیں ‪ ،‬میں آپ‬


‫کے دماغ میں بول رہی ہوں ‪ ،‬اگر میں نے‬
‫سامنے بات کی تو یہ لوگ سن لیں گے‪،‬‬
‫بستی کے پیچھے جو پہاڑ ہیں ۔ دائیں طرح‬
‫سے دو لوگ نیچے کی طرف آ رہے ہیں ‪ ،‬آپ‬
‫انہیں نہیں دیکھ سکتے ہیں ‪،‬وہ ابھی بہت‬
‫دور ہیں لیکن میں اپنی تیز نظر اور‬
‫شکتیوں کی وجہ سے انہیں دیکھ چکی‬
‫ہوں ۔ ان کے ارادے ٹھیک نہیں لگ رہے اور‬
‫ان دونوں میں سے ایک پاس بندوق بھی ہے‬
‫۔‬
‫سکندرپہلے تو اپنے دماغ میں سفرینا کی‬
‫بات سن کر حیران ہو گیا اور پھر وہ‬
‫سمجھ گیا کہ سفرینا اپنی شکتیوں کی‬
‫وجہ سے ایسے بول رہی ہے۔‬

‫اگر میں اپنے دماغ میں بات کروں تو کیا‬


‫سفرینا مجھے سن لے گی۔ سکندر نے اپنے‬
‫آپ سے بات کی ۔‬

‫بلکل سکندر میں آپ کو سن سکتی ہوں‪،‬‬


‫آپ نے جو بات کہنی ہے ‪ ،‬مجھے کہیں‪ ،‬میں‬
‫آپ کو بغیر آواز نکالے بھی سن لوں گی۔‬

‫سفرینا کی یہ طاقت سکندرآج پہلی مرتبہ‬


‫دیکھ رہا تھا اور اب سوچ رہا تھا کہ آئندہ‬
‫کا الئحہ عمل بنائے۔‬
‫سفرینا سب سے پہلے تو تم ان دو لوگوں کو‬
‫گہر ی نیند سال دو‪ ،‬میں دیکھنا چاہتا ہوں‬
‫کہ وہ لوگ کس نیت سے آ رہے ہیں۔سکندر‬
‫نے اپنے دماغ میں کہا تھا۔‬

‫جی سکندر‪ ،‬ابھی سال دیتی ہوں۔ اور پھر‬


‫کچھ دیر کے سکندر نے دیکھا کہ وہ دونوں‬
‫لوگ جو ان پر پہرہ دے رہے تھے ‪ ،‬اچانک‬
‫کھڑے کھڑے زمین پر بیٹھ گئے اور پھر‬
‫لیٹ گئے۔‬

‫ابھی تک سکندر کو وہ دونوں انسان نظر‬


‫نہیں آئے تھے اور نظر بھی کیسے آتے ‪ ،‬ان‬
‫کی طرف سکندر کی پیٹھ تھی اور سکندر‬
‫اتنی گردن نہیں گھما سکتی تھا کہ ان کو‬
‫دیکھ پائے۔‬
‫کچھ دیر بعد سکندر کو کسی کی قدموں‬
‫کی چاپ سنائی دی اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫آواز نزدیک آتی گئی۔‬

‫ارے یہ دونوں کون ہیں؟‬

‫ان میں سے ایک بوال۔‬

‫میرے خیال سے قیدی ہیں‪،‬اور سزا کے طور‬


‫پر یہاں بندھے ہوئے ہیں۔‬

‫ارے گلشن یہ دیکھو‪ ،‬دارو کے محافظ پہرہ‬


‫کس طرح دیتے ہیں؟‬

‫وہ لوگ نزدیک آگئے تھے اور اس وقت‬


‫سکندر کی دائیں جانب کھڑےہوئے تھے۔‬

‫ہاہاہا۔تمہیں کیا لگتا ہے جتندر‪  ،‬یہ ہم سے‬


‫جیت جائیں گے‪ ،‬آج کی رات دارو کی آخری‬
‫رات ہے‪  ‬اور کل سردار نوروز اس بستی کا‬
‫سردار ہوگا ‪ ،‬دیکھ لینا تم۔‬

‫ان دونوں نے سکندر کو نظر انداز کر دیا‬


‫تھا۔‬

‫ارےگلشن یہ دیکھو یار‪ ،‬لڑکی کتنی‬


‫خوبصورت ہے‪ ،‬کیا کہتے ہو ‪ ،‬سردار کو بعد‬
‫میں نہ دیکھ لیں پہلے تھوڑی سی مستی‬
‫کر لیں۔قسم شنکرکی آج کی رات رنگین ہو‬
‫جائے گی یار۔‬

‫جتندر نے سفرینا کو دیکھ کر کہا تھا۔‬

‫ایسی غلطی نہ کرنا‪  ‬جتندر‪ ،‬یاد نہیں‪ ‬‬


‫سردار سالک نے کیا کہا تھا کہ یہ کام کرکے‬
‫جلدی واپس آنا تو وقت ضائع مت کرو‪،‬‬
‫بلکہ موقع ہے ‪ ،‬جلدی سے چل کر دارو کا‬
‫کام تمام کرتے ہیں اور نکل جاتے ہیں‪،‬۔‬

‫کیا یار ‪ ،‬تم بھی نا‪ ،‬نہ خود مستی کرتےہو‬


‫اور نہ مجھے کرنے دیتے ہو‪ ،‬ٹھیک ہے ‪ ،‬چلو‬
‫چل کر دارو کی زندگی کا چراغ بجھا دیتے‬
‫ہیں۔‬

‫اے لڑکے ‪ ،‬اگر ہم نے تمہاری زرا سی بھی‬


‫آواز سنی تو یہیں تمہارا کام تمام کر دیں‬
‫گے۔‬

‫گلشن نے سکندر کو خبردار کرتے ہوئے کہا‬


‫تھا۔‬

‫اور پھر وہ دونوں سردار کی جھونپڑی کی‬


‫جانب چلے گئے۔‬

‫سکندر کیا کہتے ہو؟‬


‫سفرینا نے سکندر سے کہا جو گلشن اور‬
‫جتندر کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا ۔وہ‬
‫دونوں دوسری جھونپڑیوں کے پیچھے چلے‬
‫گئے تھے اور اب‪  ‬چھپ کر سردار کی‬
‫جھونپڑی کی طرف جا رہے تھے‬

‫سفرینا تم سب سے پہلے مجھے آزاد کرو‬


‫لیکن جلدی ‪،‬ہمارے پاس وقت بھی کم ہے‬
‫اور موقع بھی اچھا ہے۔‬

‫سفرینا نے کوئی بات نہیں کی ‪ ،‬اس نے‬


‫کچھ پڑھ کر سکندر کی طرف پھونک ماری‬
‫تو سکندر کے گرد باندھا ہوا رسا کھل کر‬
‫زمین پر گیا ‪ ،‬سکندر نے جلدی سے اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں کو جھٹکا دیا تو ہاتھ واال‬
‫رسہ بھی گر گیا۔‬
‫سفرینا میری بات غور سے سنو‪ ،‬ان کے پاس‬
‫بندوق ہے اور اندھیرا بھی ہے ‪ ،‬میں ان سے‬
‫نہیں لڑ سکتا ہوں ‪ ،‬تم نے کچھ ایسا کرنا ہے‬
‫کہ وہ میرا کچھ نہ بگاڑ سکیں اور میں ان‬
‫کو آسانی سے زیر کر‪  ‬سکوں۔‬

‫سکندر نے کہا۔‬

‫سکندر میں ایسا کرتی ہوں غائب ہو کر آپ‬


‫کے ساتھ رہتی ہوں ‪ ،‬ان دونوں کو پکڑنے‬
‫کے بعد میں ظاہر ہو جاوگی ۔‬

‫ہاں‪  ‬یہ ٹھیک ہے ۔ سسکندر بوال۔‬

‫اور پھر سفرینا غائب ہو گئی جبکہ سکندر‬


‫دبے قدموں کے ساتھ گلشن اور جتندر کے‬
‫پیچھے چلنے گا‪ ،‬وہ دونوں جھونپڑیوں کے‬
‫پیچھے غائب ہو چکے تھے۔ اس لیے سکندر‬
‫تیز تیز قدم اٹھاتا جھونپڑیوں کے پیچھے‬
‫چال گیا اور پھر اسے وہ دونوں نظر آ گئے۔‬
‫وہ سکندر سے تین جھونپٹریا ں آگے تھے۔‬

‫سکندر نے اپنی رفتار مزید بڑھا لی اور پھر‬


‫جیسے ہی اس نے دوسری جھونپڑی پار کی‬
‫‪ ،‬گلشن اور جتندر اچانک سے زمین پر گر‬
‫گئے‪ ،‬وہ شاید بیہوش ہو گئے تھے۔ سکندر‬
‫نزدیک پہنچا تو ان دونوں میں کوئی‬
‫حرکت نہیں تھی۔‬

‫میں نے انہیں سال دیا ہے سکندر۔سفرینا نے‬


‫ظاہر ہو کہا‪  ‬تھا‬

‫یہ اچھا کیا تم نے سفرینا۔‪ ،‬اب سکندر نے‬


‫کہا‬
‫پھر سکندر نے جھونٹپری سے چھپ کر‬
‫دیکھا تو سامنے ہی سردار دارو کی‬
‫جھونپڑی نظر آگئی ‪ ،‬جھونپڑی کے سامنے‬
‫ایک محافظ کھڑا ہوا تھا ‪ ،‬جس کے ہاتھ‬
‫میں کلہاڑی تھی اور وہ دائیں بائیں گھوم‬
‫رہا تھا۔‬

‫اچانک سکندر جھونپڑی کے پیچھے سے نکل‬


‫کر سامنے آگیا‪  ‬اور محافظ نے سکندر کو‬
‫دیکھ کر دو سیٹیاں ماری اور پھر کلہاڑی‬
‫لہرا کر سکندر کی‪  ‬طرف بڑھنے لگا ‪ ،‬وہ‬
‫بھاگ رہا تھا۔‬

‫سیٹیوں کی آواز سن کر جھونپڑیوں میں‬


‫حرکت شروع ہو گئی تھی اور پھر مختلف‬
‫جھونپڑیوں سے لو گ باہر نکل آئے۔‬
‫میری بات سنو۔ سکندرنے آگے بڑھتے ہوئے‬
‫محافظ کو کہا تھا‬

‫کچھ لوگ تم پر حملہ کرنے آئے ہیں لیکن‬


‫میں نے انہیں بیہوش کر لیا تھا۔ جھونپڑی‬
‫‪، ‬کے پیچھے جا کر دیکھو‬

‫لیکن محافظ پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا‪،‬‬


‫وہ اسے سکندر کی چال سمجھ رہا تھا۔ اور‬
‫پھر نزدیک پہنچ کر اس نے ہاتھ میں پکڑی‬
‫کلہاڑی ہوا میں اٹھائی۔‬

‫‪ ‬رکو۔‬

‫یہ آواز سن کر محافظ کا ہاتھ فضا میں ہی‬


‫رک گیا۔‬

‫یہ نغمان تھا جو سب سے آگے آگے چل رہا‬


‫‪ ‬تھا‬
‫تم لوگ آزاد کیسے ہو گئے؟‬

‫نغمان نے سکندر سے پوچھا ‪ ,‬سفرینا سکندر‬


‫کے پیچھے ا کر کھڑی ہو گئی تھی‬

‫مجھے چھوڑو ‪ ،‬میرے ساتھ چل کر دیکھو ‪،‬‬


‫کچھ لوگ تمہارے سردار کو قتل کرنے کے‬
‫ارادے سے آئے تھے لیکن میں نے انہیں‬
‫بیہوش کر دیا ہے اور اب وہ دونوں اس‬
‫جونپڑی کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ‪ ،‬سکندر‬
‫نے جھونپڑی طرف اشارہ کیا جہاں گلشن‬
‫اور جتندر بیہوش پڑے ہوے تھے‬

‫سکندر نے بات سن کر نغمان اس جھونپڑی‬


‫کی طرف بڑھا اور پھر کچھ دیر بات واپس‬
‫آ گیا۔۔‬

‫تم لوگ یہاں آؤ‬


‫نغمان نے اپنے لوگوں کو اشارہ کیا اور پھر‬
‫تین لوگ جنہوں نے اپنے ہاتھوں میں بھالے‬
‫اور کلہاڑی پکڑی ہوئی تھی ‪ ،‬آگے بڑھے اور‬
‫نعمان کے پیچھے پیچھے چلے دیے‬

‫جب ان کی واپسی ہوئی تو گلشن اور‬


‫جتندر ان کے کندھے پر تھے‬

‫تم دونوں بھی میرے ساتھ آؤ ‪ ،‬نغمان نے‬


‫سکندر کی طرف منہ کر کہا تھا‬

‫اور پھر وہ سب اسی جگہ چلے گئے جہاں‪ ‬‬


‫کچھ دیر پہلے سکندر اور سفرینا‪  ‬بندھے‬
‫ہوئے تھے‬

‫ان دونوں کو یہاں باندھ دو‪،‬نغمان نے کہا تو‬


‫بستی کے لوگوں نے گلشن اور جتندر کو‬
‫لکڑی کے تنے کے ساتھ باندھ دیا‬
‫ان دونوں کے باندھنے کے بعد نغمان سکندر‬
‫کی طرف مڑا‬

‫تم دونوں میرے ساتھ چلو اور تم بھی‬


‫میرے ساتھ آؤ‬

‫نغمان نے محافظ کو بھی اپنے ساتھ چلنے‬


‫کا کہا‬

‫کچھ دور چلنے کے بعد نغمان ایک جھونپڑی‬


‫کے اندر چال گیا ‪ ،‬سکندر سفرینا اور محافظ‬
‫بھی اندر چلے گئے۔۔‬

‫جھونپڑی کے اندر لکڑیاں جل رہی تھیں‬


‫جس کی وجہ سے کمرے کا درجہ حرارت‬
‫‪ ‬نارمل تھا‬

‫بیٹھو‪ ،‬نغمان نے بیٹھتے ہوئے سکندر سے‬


‫کہا تو سکندر زمین پر بچھے بستر پر بیٹھ‬
‫گیا‪ ،‬سفرینا بھی سکندر کے ساتھ بیٹھ گئی‬
‫تھی جبکہ محافظ جھونپڑی کے دروازے‬
‫کے ساتھ اندر کھڑا ہو گیا تھا‬

‫اب مجھے تم سچ سچ بتاؤ کہ تم دونوں‬


‫کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو اور تم نے ان‬
‫دو کو کیسے بیہوش کیا ہے؟‬

‫میں تمہیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میرا‬


‫نام سکندر ہے اور یہ میری بیوی سفرینا ہے‪،‬‬
‫ہم وادی گھومنے آئے تھے لیکن ہمیں رستوں‬
‫کا پتا نہیں تھا اس لیے گھومتے گھومتے‬
‫یہاں پہنچ گئے اور پھر تمہاری بستی میں‬
‫پہنچے تو تم لوگوں نے پکڑ لیا ‪ ،‬جب تم‬
‫ہمیں بندھوا کر چلے گئے تو اس کے بعد ہم‬
‫نے ان لوگوں کو دیکھا یہ آپس میں تمہارے‬
‫سردار کو قتل کرنے کی بات کر رہے تھے‪،‬‬
‫جب یہ لوگ سردار کی جھونپڑی کی طرف‬
‫چلے گئے تو میں نے کوشش کرکے خود کو‬
‫رسے سے آزاد کرا لیا اور پھر ان کے پیچھے‬
‫جا کر انہیں سر پر ڈنڈا مار کر بیہوش کر‬
‫دیا ‪ ،‬سکندر نے لمبی سانس چھوڑی تھی‬

‫پتا نہیں کیوں مجھے تمہاری باتوں پر یقین‬


‫نہیں ا رہا ہے‪ ،‬چلو خیر ‪ ،‬مجھے صرف صبح‬
‫ہونے کا انتظار ہے‪ ،‬صبح سردار دارو تمہارا‬
‫فیصلہ کر دیں گے‬

‫مجھے کسی بات کا خوف نہیں ہے‪ ،‬تم‬


‫تسلی کر سکتے ہو‪ ،‬میں صبح تک یہیں ہوں‬
‫اور کہیں بھاگ کر نہیں جاؤں گا‬
‫ٹھیک ہے لیکن میں پھر تم پر پہرہ دینے کے‬
‫لیے ایک محافظ یہاں کھڑا کر کے جا رہا‬
‫ہوں ‪ ،‬اگر تم غلطی سے بھی باہر نکلنے کی‬
‫کوشش کی تو بار کھڑا محافظ تمہاری جان‬
‫لے لے گا ۔ یہ کہہ کر نغمان اٹھ کھڑا ہوا اور‬
‫پھر کہہ بغیر باہر چال گیا‪ ،‬محافظ بھی اس‬
‫کے پیچھے باہر چال گیا تھا۔ الزمی بات ہے‬
‫کہ وہ محافظ کو باہر کھڑا کرکے گیا ہو گا‬

‫سفرینا لیٹ جاؤ بھئی ‪ ،‬مجھے تو زوروں‬


‫کی نیند آ رہی ہے‬

‫سکندر نے بستر پر لیٹے ہوئے کہا‬

‫سکندر کو دیکھ کر سفرینا بھی سیدھی‬


‫لیٹ گئی‬
‫سفرینا ‪ ،‬آج تمہیں بہت کام کرنا ہے‪ ،‬تم نے‬
‫یہاں سے نکل کر آس پاس کی تمام جگہوں‬
‫کو دیکھنا ہے گلشن والے جہاں سے آئے ہیں‬
‫وہ جگہ بھی نزدیک ہی ہوگی‬

‫تم نے سب سے پہلے یہ کام کرنا ہے کہ‬


‫گلشن والوں کی بستی کہ طرف جاوگی اور‬
‫وہاں معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ وہ‬
‫کیوں سردار دارو کو قتل کرنا چاہتے ہیں‬
‫اس کے بعد یہاں سے اگر معلوم ہو سکتا ہے‬
‫کہ نغمان کیا چاہتا ہے تو وہ بھی معلوم‬
‫کرکے ا و لیکن پہلے تم اگر نغمان کو دیکھ‬
‫لو اچھا ہے‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ دیر کرنے پر کچھ‬
‫بھی معلوم نہ ہو سکے۔۔۔یاد رہے تم نے یہ‬
‫کام جلدی جلدی کرنا ہے کیونکہ اگر تم نے‬
‫آنے میں دیر کی تو تمہیں یہاں نا دیکھ کر‬
‫ہم پھنس جائیں گے‬

‫سکندر آہستہ آواز میں بات کر رہا تھا‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر‪ ،‬میں جاتی ہو اور جلد‬


‫ہی سب معلوم کرکے آتی ہوں۔۔۔سفرینا نے‬
‫کہا‬

‫اور ہاں‪ ،‬اپنا خیال رکھنا سفرینا‬

‫ہاہاہا۔۔آپ بھول گئے ہیں کہ میں کون اور‬


‫کیا ہوں سکندر‬

‫سفرینا نے ہلکی آواز میں قہقہ لگا کر کہا‬

‫او سفرینا مجھے یاد بھی ہے اور میں جانتا‬


‫بھی ہوں کہ تم کون ہو لیکن پتا نہیں کیوں‬
‫میرا دل کہہ رہا ہے کہ تم اپنا خیال رکھنا‬
‫میری پرواہ کرنے کا شکریہ لیکن بے فکر‬
‫رہیں مجھے کچھ نہیں ہو گا‪ ،‬آپ تسلی سے‬
‫سو جائیں میں واپس آ کر آپ کو جگا دوں‬
‫گی‬

‫اچھا اب جاؤ تم‪ ،‬سکندر نے کہا تو سفرینا‬


‫اپنی جگہ سے غائب ہو گئی اور سکندر نے آ‬
‫نکھیں بند کر لی تھیں‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫در خان آج پھر اپنے کمرے میں بیٹھا ورد‬


‫کر رہا تھا ‪ ،‬آج بھی کمرے میں حق اہلل کی‬
‫صدا گونج رہی تھی اور در خان کا جسم‬
‫دائیں بائیں جھول رہا تھا‬

‫در خان کو پتا ہی نہیں چال کہ کب کمرے‬


‫میں خوشبو پھیل گئی اور کب سالم کی‬
‫‪ ‬آواز آئی‬

‫ہوش آیا تو اس وقت آیا جب کمرے سفید‬


‫روشنی سے بھر گیا تھا جسے در خان نے‬
‫بند آنکھوں سے محسوس کر لیا‬

‫‪ ‬اور پھر اس کا جسم رک‪  ‬گیا‬

‫اسالم علیکم و رحمت اہلل و برکاتہ‬

‫دوبارہ سالم کی آواز آئی‬

‫یہ آواز نہیں تھی ‪،‬ایک گرج تھی جو محبت‬


‫میں کہے جانے کے باوجود بھی محسوس‬
‫کی جا سکتی تھی‬

‫سامنے ایک سفید لباس پہنے نوجوان در‬


‫خان کو مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا‪ ،‬اس‬
‫کے سر کے لمبے بال کندھے پر گرے ہوئے‬
‫تھے اور چہرے پر داڑھی بہت بھلی لگ رہی‬
‫تھی‬

‫یہ کوئی انسان نہیں تھا کیونکہ اس کے‬


‫پیٹھ پر موجود دو پر اسے انسان نہیں بتا‬
‫‪ ‬رہےتھے‬

‫کیسے مسلمان ہو ‪ ،‬سالم کا جواب بھی‬


‫نہیں دیتے درخان‬

‫‪ ‬اپنا نام سن کر درخان ہوش میں ا گیا‬

‫وعلیکم سالم و رحمت اہلل و برکاتہ‬

‫کیسے ہو تم‪،‬اس فرشتہ نما انسان نے کہا‬

‫میں الحمداہلل ٹھیک ہوں مگر آپ کون ہیں‬


‫اور یہ کمرے میں کیسے خوشبو ہے ‪ ،‬در‬
‫خان نے ڈرتے ڈرتے پوچھا‬
‫کیسے دوست ہو ‪ ،‬اتنے سوال پوچھ لیے ؟‬

‫ویسے میرا نام سلیمان ہے اور میرا تعلق‬


‫جنات سے ہے‪ ،‬یہ خوشبو میرے جسم سے‬
‫نکل رہی ہے‪ ،‬جیسے یہ روشنی تم دیکھ رہے‬
‫ہو ویسے ہی یہ خوشبو ہے۔۔۔‬

‫سلیمان نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫لیکن آپ‪ ،‬مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں‬


‫کیاکہوں‪ ،‬مطلب آپ کیسے ‪ ،‬یہاں مطلب؟‬

‫زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں در‬


‫خان ‪ ،‬مجھے اپنا دوست سمجھو ‪ ،‬میرا گھر‬
‫یہاں سے بہت قریب کی ایک درسگاہ ہے‪،‬‬
‫میں رات کو جب گھومنے نکال تو تمہیں‬
‫ورد کرتا دیکھا ‪ ،‬مجھے تمہیں ورد کرنے کا‬
‫انداز اتنا پیارا لگا کہ میں ہر روز تمہیں‬
‫دیکھنے ا جاتا لیکن جیسے ہی میں یہاں آتا‬
‫تم اپنا ورد بند کر دیتے اور پھر میں چال‬
‫جاتا۔۔‬

‫مجھے آپ کی موجودگی محسوس ہوتی‬


‫تھی لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ‬
‫یہ خوشبو کیسی ہے اور کہی دفعہ میں نے‬
‫آپ سے بات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن‬
‫آپ میرے سالم کا جواب نہیں دیتے تھے۔۔۔‬
‫در خان نے کہا‬

‫ہم جنات کو تم انسانوں سے دور رہنے کی‬


‫سختی سے ہدایت کی گئی ہے اس لیے میں‬
‫تمہیں سالم کا جواب نہیں دیتا تھا‬

‫اور اب ‪ ،‬آپ کیسے میرے سامنے ظاہر ہو‬


‫گئے؟‬
‫در خان بوال‬

‫تم سے دوستی کرنے آیا ہوں در خان‪ ،‬بنو گے‬


‫میرے دوست؟‬

‫دوست اور میں ‪ ،‬کیا یہ ممکن ہے کہ ایک‬


‫جن اور انسان کی دوستی ہو؟ در خان نے‬
‫ڈرتے ڈرتے پوچھا‬

‫کیوں نہیں ممکن ‪ ،‬ہمارے بہت سے جنوں‬


‫کو تمہارے انسانوں نے زبردستی دوست بنا‬
‫لیا ہے اور ان سے ہر اچھے اور‪  ‬برے کام‬
‫‪ ‬لیتے ہیں‬

‫پھر وہ اچھے انسان نہیں ہوئے نا؟ در خان‪ ‬‬


‫بوال‬

‫در خان ہم جنات میں پابندیاں ہوتی ہیں ‪،‬‬


‫اصول ہوتے ہیں ‪ ،‬کمزوریاں ہوتی ہیں جن‬
‫کا فایدہ کچھ انسان اٹھاتے ہیں‪  ‬اور ہمیں‬
‫قابو کرکے ہم سے ہر کام لیتے ہیں؟‬

‫او ۔۔اچھا در خان کو سلیمان کی بات‬


‫سمجھ ا گئی تھی‬

‫اچھا اب میں چلتا ہوں ‪ ،‬میں بغیر اجازت‬


‫درسگاہ سے نکل آیا ہوں اور اب مجھے دیر‬
‫ہو رہی ہے‪ ،‬کل ملیں گے‪ ،‬اہلل حافظ در خان‬

‫اور پھر‪  ‬وہ روشنی کمرے سے غائب ہو‬


‫گئی‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سکندر پتھریلی زمین پر بھاگتا جا رہا تھا‬


‫اور اس نے کندھے پر ایک لڑکی اٹھا رکھی‬
‫تھی‪ ،‬بھاگتے بھاگتے وہ زرا سا رک کر‬
‫پیچھے بھی دیکھتا لیکن اس کے پیچھے‬
‫کوئی نہیں تھا ‪ ،‬اس کی سانس پھول چکی‬
‫تھی‬

‫کچھ فاصلے پر ایک سایہ دار درخت کھڑا‬


‫دیکھ کر سکندر نے اطمینان کی سانس لی‬
‫اب اسے سے مزید نہیں بھاگا جا رہا تھا ‪،‬‬
‫درخت کے نیچے پہنچ کر سکندر نے لڑکی‬
‫کو کندھے سے اتارا اور‪  ‬درخت کے تنے سے‬
‫ٹیک لگا کر بیٹھ گیا‪ ،‬لڑکی کا سر اس نے‬
‫‪،‬اپنے گود میں رکھ دیا تھا‬

‫تمہیں کچھ نہیں ہو گا ابرشمینا ‪ ،‬آنکھیں‬


‫کھولو اور میری طرف دیکھو پلیز‬

‫وہ لڑکی جس کا نام سکندر نے ابرشمینا لیا‬


‫تھا اس نے آنکھیں کھول کر سکندر کو‬
‫دیکھا اور دوبارہ آنکھیں بند کر لیں‪ ،‬اس‬
‫کے آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں‬

‫ابرشمینا آنکھیں کھولو پلیز‪ ،‬سکندر نے زور‬


‫سے چال کر کہا لیکن ابرشمینا میں اتنی‬
‫طاقت نہیں تھی کہ وہ آنکھیں کھولتی‬

‫اچانک دور سے کسی کے دوڑنے کی آواز آنے‬


‫‪ ‬لگی‬

‫ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی بھاری جسم‬


‫سکندر کی طرف دوڑھتا آرہا ہو‬

‫اور پھر سکندر نے اسے دیکھ لیا‬

‫وہ سفرینا تھی جو ایک جنگلی ہاتھی پر‬


‫بیٹھی ہوئی تھی اور ہاتھی غضبناک انداز‬
‫میں چنگھاڑتا ہوا سکندر کی طرف آ رہا تھا‬
‫‪ ،‬ہاتھی اپنے پیچھے بے پنا دھول اڑاتا ہوا ا‬
‫رہا تھا‬

‫سکندر نے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھا‬


‫لیکن اس کوئی محفوظ پناہی گاہ نظر نہیں‬
‫آئی جہاں وہ خود کو اور ابرشمینا کو‬
‫سفرینا کے قہر بچا سکتا اور پھر سفرینا‬
‫سکندر کے نزدیک پہنچ گئی‬

‫کہاں تک بھاگو گے احسان فراموش ‪ ،‬آج‬


‫تمہیں مجھ سے موت کے عالؤہ کوئی نہیں‬
‫بچا سکتا ہے لیکن میں تمہیں نہیں ماروں‬
‫گی یہ سفرینا کی توہین ہوگی ‪ ،‬میں تمہاری‬
‫سامنے تمہاری محبت کو تڑپا تڑپا کر ماروں‬
‫گی اور تم دیکھتے رہ جاؤگے اس لیے بھاگ‬
‫‪، ‬لو جتنا بھاگ سکتے ہو‬
‫سفرینا نے شعلہ برساتی آنکھوں سے کہا‬

‫سفرینا خدا کے لیے ابرشمینا کو چھوڑ دو ‪،‬‬


‫اس کا کوئی قصور نہیں ہے‪ ،‬یہ دیکھو میں‬
‫تمہارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں‬

‫سکندر نے ہاتھ جوڑ لیے تھے‬

‫نا نا نا ۔۔۔یہ تو آج نہیں بچے گی لیکن تم یہ‬


‫سوچو کہ تمہارا کیا ہونے واال ہے‬

‫سفرینا اس معصوم کا آخر قصور کیا ہے‪،‬‬


‫کیوں اس کے پیچھے پڑی ہو تم‬

‫سکندر نے التجائی لہجے میں کہا‬

‫قصور اس کا نہیں ہے سکندر‪ ،‬قصور تمہارا‬


‫‪ ‬ہے‪  ‬کہ تم نے اس سے محبت کیسے کی‬
‫سفرینا میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا‬
‫ہوں‪ ،‬سکندر نے کہا‬

‫اور میری محبت ‪ ،‬اس کا کیا ہوا سکندرررر‬


‫۔۔۔سفرینا چالئی‬

‫سفرینا تم انسان نہیں ہو ‪ ،‬میں تم سے‬


‫کیسے محبت کر سکتا تھا‬

‫اگر محبت نہیں کر سکتے تھے تو میرے دل‬


‫میں محبت کیوں جگائی۔۔بولو سکندر‬

‫سفرینا مجھے پتا نہیں چال تھا کہ تم مجھ‬


‫سے کیسے محبت کرنے لگی تھی اور تم‬
‫انسان نہیں تو میں کیسے تم سے محبت‬
‫کرتا‪ ،‬نہ میں تم سے شادی کر سکتا تھا اور‬
‫نہ گھر بسا سکتا تھا‬
‫خاموش سکندر۔۔۔محبت صرف شادی کا نام‬
‫تو نہیں‪ ،‬تم ساری زندگی میرے ساتھ گزار‬
‫لیتے تو کیا ہو جاتا‪ ،‬ہم پہلے بھی تو رہ رہے‬
‫تھے نا تو پھر یہ لڑکی ہمارے بیچ کیوں آئی‬

‫سکندر کیا جواب دیتا ‪ ،‬خاموش رہا‬

‫جب سفرینا نے دیکھا کہ سکندر کے پاس‬


‫کوئی جواب نہیں تو اس نے ہاتھی کی‬
‫‪ ‬پیٹھ پر تپھڑ ماری ‪ ،‬یہ اشارہ تھا‬

‫جسے محسوس کرکے ہاتھی آگے بڑھا اور‬


‫اپنے دونوں پیر ہوا میں اٹھا لیے ‪ ،‬اس کا‬
‫نشانہ ابرشمینا تھی ‪ ،‬یہ دیکھ کر سکندر نے‬
‫ابرشمینا کو اپنے بازوؤں میں کھینچ لیا‬
‫لیکن وہ ہاتھی کے حملے سے نہیں بچ سکتے‬
‫تھے اور پھر ہاتھی کے پیر نیچے آنے لگے‪ ،‬یہ‬
‫دیکھ کر سکندر نے اپنا سر ابرشمینا کے‬
‫سینے پر رکھ کر ایک ہاتھ کو فضا میں‬
‫کھڑا کر لیا ‪ ،‬ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ابرشمینا‬
‫‪،‬کو ہاتھی کے حملے سے بچانا چاہ رہا ہو‬

‫سکندر کو سفرینا کے قہقے سنائی دے رہے‪ ‬‬


‫تھے‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا۔۔۔۔ قسط نمبر ‪ ( 12‬از ابن‬
‫)نصیر‬

‫سکندر کی آنکھ کھلی تو باہر شور سنائی‬


‫دیا‪ ،‬وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا ‪ ،‬اس کی قمیض‬
‫پسینے سے شرابور تھی لیکن سکندر کے‬
‫پاس خواب کو سوچنے کے لیے وقت نہیں‬
‫تھا‪  ‬کیونکہ سفرینا ابھی تک نہیں آئی تھی‬
‫اور بستی کے لوگ جاگ چکے تھے‬

‫اب وہ کیا کرے‪ ،‬اگر وہ باہر جاتا ہے تو اکیال‬


‫دیکھ کر اس سے سفرینا کے بارے میں‬
‫سوال ہوگا اور اگر یہاں انتظار کرتا ہے تو‬
‫بھی امید نہیں کہ کوئی اندر نہیں آئے گا‬
‫سفرینا ‪ ،‬سکندر نے نام لے کر پکارا اور یہ‬
‫پہلی مرتبہ تھا کہ سفرینا بالنے پر نہیں آئی‬
‫‪ ،‬سکندر نے دوسری اور پھر تیسری مرتبہ‬
‫بھی آواز دے ڈالی لیکن کچھ نہیں ہوا‬

‫یہ کہاں چلی گئی ہے یار۔۔۔۔سکندر الجھ سا‬


‫گیا تھا ‪،‬اس نے خود کو کہا تھا‬

‫ابھی سکندر کا نے یہ کہا کہ سفرینا اس کے‬


‫سامنے ظاہر ہو گئی ‪ ،‬سکندر کچھ کہتا اس‬
‫سے پہلے ہی سفرینا نے اسے ہونٹوں پر‬
‫‪ ‬انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا کہا‬

‫سکندر نغمان کو جھونپڑی میں دیکھ کر‬


‫سفرینا کا اشارہ سمجھ گیا کہ کیوں وہ‬
‫اسے خاموش رہنے کا کہہ رہی تھی‬
‫اٹھو تم دونوں ‪ ،‬سردار دارو تم لوگوں کا‬
‫انتظار کر رہے ہیں‬

‫نغمان نے اندر داخل ہو کر انہیں چلنے کا‬


‫کہا‬

‫یہ بات سن کر سکندر ااور سفرینا اٹھ‬


‫کھڑے ہوئے‬

‫سکندر حملہ ہونے واال ہے‪ ،‬سفرینا نے اٹھتے‬


‫ہوئے سکندر کے کان میں سرگوشی کی تھی‬

‫اور سکندر نے سفرینا کو حیرانی سے‬


‫‪ ‬دیکھا‬

‫پہلے تو اسے سفرینا کی بات کی مکمل‬


‫سمجھ نہیں آئی اور پھر وہ سوچنے لگا ہ‬
‫سردار دارو کو اس بات سے کیسے خبردار‬
‫کرے‪ ،‬اگر سردار نے پوچھ لیا کہ تمہیں‬
‫کیسے پتا چال تو؟‬

‫لیکن اس وقت نہ وہ کچھ کہنے کی‬


‫‪ ، ‬پوزیشن میں تھا اور نا ہی کچھ کرنے کی‬

‫سکندر نے گنتی نہیں کی لیکن کافی‬


‫جھونپڑیوں کے بعد سردار کی جھونپڑی‬
‫آگئی جس کے باہر نئے چہرے کا محافظ‬
‫‪ ،‬پہرہ دے رہا تھا‬

‫شاید وہ رات کو کھڑا ہوتا ہوگا۔۔۔سکندر نے‬


‫سوچا‬

‫سردار سے کہو نغمان آیا ہے اور اپنے ساتھ‬


‫قیدی الیا ہے ۔۔نغمان نے پہرہ دار سے کہا تو‬
‫پہرہ دار جھونپڑی کے اندر چال گیا اور پھر‬
‫‪ ‬اجازت لے کر باہر آیا‬
‫آپ اندر جا سکتے ہیں کمانڈر نغمان ۔۔۔پہرہ‬
‫دار بوال‬

‫اور پھر نغمان سکندر اور سفرینا کو اپنے‬


‫ساتھ لے کر جھونپڑی میں داخل ہوا۔۔‬

‫یہ جھونپڑی باقی جھونپڑیوں سے کافی‬


‫بڑی تھی اور اندر سے خوب سجائی گئی‬
‫تھی ‪ ،‬دائیں طرف ایک چھوٹا سا دروازہ‬
‫تھا شاید یہ باہر کا ہوگا‪ ،‬سکندر نے سوچا‬

‫سردار دارو سامنے موجود گاؤ تکیوں پر‬


‫ٹیک لگائے بیٹھا تھا‪ ،‬نغمان سردار کو دیکھ‬
‫کر وہیں رک گیا اور سکندر سفرینا کو آگے‬
‫جانے کا اشارہ کیا‬

‫سکندر سفرینا کے ساتھ آہستہ آہستہ چلتا‬


‫ہوا سردار دارو کے سامنے گیا تو سردار نے‬
‫انہیں سامنے زمین پر بچھے قالین پر‬
‫بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔‬

‫شکریہ سردار‬

‫یہ کہہ کر سکندر بیٹھ گیا اور سفرینا بھی‪ ‬‬


‫سکندر کو دیکھ کر بیٹھ گئی‬

‫سب سے پہلے تو میں تمہارا شکریہ ادا‬


‫‪ ‬کروں گا کہ تم نے میری جان بچائی‬

‫سردار بوال‬

‫اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں سردار‬


‫لیکن اس سے پہلے کہ آپ مجھ سے کچھ‬
‫اور پوچھیں ‪ ،‬میرے دل میں کل رات سے‬
‫ایک گمان ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں وہ‬
‫بات آپ کے سامنے رکھوں‬
‫بلکل کہو‪ ،‬میرے لیے اب تم ایک مہمان ہو‬
‫اور میں تمہاری بات الزمًا غور سے سنوں گا‬

‫سردار کل ان دو لوگوں کو پکڑنے کے بعد‬


‫جب مجھے جھونپڑی میں سونے کے لیے‬
‫چھوڑ دیا گیا تو میں نے اس بارے میں‬
‫سوچا اور میرے دماغ میں ایک بات آئی کہ‬
‫جب ان کے باقی لوگوں کو پتا چلے گا تو وہ‬
‫الزمی اپنے آدمیوں کو چھڑانے آئیں گے ہو‬
‫سکتا کہ بستی پر حملہ بھی کیا جائے‬

‫سکندر نے سفرینا کی بتائی بات کو اپنا‬


‫‪ ‬خیال بتا کر کہا‬

‫ارے ہاں۔۔۔یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں‬

‫نغمان۔۔۔سردار نے نغمان کو آواز دی‬

‫جی سردار۔۔نغمان نے نزدیک آ کر کہا‬


‫یہ نوجوان ٹھیک کہہ رہا ہے‪ ،‬سالک کو تم‬
‫بہتر جانتے ہو اور جس طرح سے نوجوان‬
‫نے بتایا ہے‪ ،‬سالک ہم پر حملہ بھی کر سکتا‬
‫ہے‪ ،‬میں چاہتا ہوں کہ تم اپنے تمام‬
‫جنگجووں کو اکھٹا کرو اور انہیں کسی‬
‫بھی خطرے کے لیے تیار کرو۔۔۔جلدی‬

‫ایسا نہ ہو کہ ہم بے خبری میں اپنا بڑا‬


‫‪ ‬نقصان کر دیں‬

‫ابھی سردار نے بات پوری کی تھی کہ باہر‬


‫فائر کی آواز سنائی دی اور پھر کسی کے‬
‫چیخنے کی آواز آئی‬

‫‪ ‬سردار ۔۔حملہ‬

‫سکندر نے یہ الفاظ کہے تھے اور پھر‪ ‬‬


‫نغمان‪ ،‬اس کے بعد سردار باہر کو‬
‫دوڈے‪،‬سکندر بھی ان کے ساتھ پیجھے‬
‫جانے کے لیے اٹھا‬

‫سفرینا تم غائب رہ کر میرے ساتھ رہو۔۔اور‬


‫جیسے پہلے تم نے بات کی تھی اب بھی‬
‫میرے دماغ میں بات کرنا‬

‫یہ کہہ کر سکندر آگے بڑھ گیا ‪ ،‬اس نے یہ‬


‫بھی نہیں سنا کہ سفرینا نے کچھ کہا تھا‬
‫شاید اس نے" ٹھیک ہے" کہا ہوگا‬

‫سکندر جھونپڑی سے باہر نکال تو بستی‬


‫میں افراتفری پھیل گئی تھی ‪ ،‬لوگ ادھر‬
‫ادھر بھاگ رہے تھے اور نغمان اونچی آواز‬
‫میں انہیں ہدایات دے رہا تھا۔۔‬

‫سردار دارو جھونپڑی سے باہر نکل کر بستی‬


‫کا معائنہ کر رہا تھا وہ حاالت کو سمجھنے‬
‫کی کوشش کر رہا تھا لیکن لوگوں کی بھیڑ‬
‫‪ ‬سے وہ کوئی نتیجہ اخز نہیں کر پا رہا تھا‬

‫سردار آپ اندر جائیں ‪ ،‬باہر صورتحال‬


‫خطرناک ہے ‪ ،‬گولی کی آواز سے یہی لگتا‬
‫ہے کہ وہ لوگ قریب ہے اور ہم انکی نظروں‬
‫میں ہے‬

‫سکندر نے سردار سے کہا‬

‫لیکن سردار دارو نے سکندر کی بات کی‬


‫نفی کرتے ہوئے کہا‬

‫نوجوان ۔۔میرے لیے میرا قبیلہ زیادہ اہم ہے‪،‬‬


‫اگر میں ہی چھپتا رہا تو میرے لوگ مجھے‬
‫بزدل سردار سمجھیں گے جو کہ میں نہیں‬
‫چاہتا بلکہ تم ایسا کرو کہ جھونپڑی میں‬
‫چلے جاؤ ‪ ،‬تم ہمارے مہمان ہو اور میں نہیں‬
‫چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے‬

‫‪ ‬سردار نے سکندر کی بات اسی پر الٹا دی‬

‫لیکن سکندر اندر نہیں جانا چاہتا تھا ‪ ،‬اس‬


‫کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی جگہ بنائے تا‬
‫کہ یہاں سے خیر عافیت سے نکل سکے‬

‫سکندر جلدی سے سردار کی جھونپڑی کے‬


‫‪ ‬اندر آئیں‬

‫اچانک سکندر نے سفرینا کی آواز‪  ‬سنی اور‬


‫‪،‬وہ جھونپڑی کے اندر چال گیا‬

‫اس دروازے سے اندر آئیں سکندر۔۔سفرین‪ ‬‬


‫کی آواز آئی‬
‫اور پھر سکندر جھونپڑی میں موجود‬
‫دروازے سے داخل ہو گیا ‪ ،‬اندر اس‬
‫جھونپڑی سے منسلک ایک اور جھونپڑی‬
‫تھی اور شاید سردار دارو اس جھونپڑی کو‬
‫گھر کے طور پر استعمال کرتا ہے کیونکہ‬
‫جھونپڑی میں گھریلو سامان کی بہت سی‬
‫چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔۔۔‬

‫سامنے جھونپڑی کی دیوار کو سوارخ کیا‬


‫گیا تھا ‪ ،‬ایسا لگ رہا کہ یہ کسی انسان نے‬
‫اندر آنے کے لیے بنایا ہے‬

‫سکندر‪ ،‬دوسرے قبیلے کے دو لوگ یہاں آئے‬


‫اور سردار کی بیوی اور بیٹی کو اغوا کرکے‬
‫اپنے ساتھ لے گئے ہیں‬
‫سفرینا کی نے سامنے آ کر کہا تو سکندر‬
‫‪ ،‬پریشان ہو گیا‬

‫اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب کیا‪ ‬‬


‫کرے‪ ،‬سردار کو بتائے یا ان لوگوں کے‬
‫پیچھے جائے اور پھر اس نے سردار کو‬
‫بتانے میں وقت ضائع کرنا مناسب نہیں‬
‫‪ ، ‬سمجھا‬

‫وہ بھی جھونپڑی کے سوراخ سے گذر کر‬


‫‪ ,‬باہر نکل آیا‬

‫جھونپڑی کے باہر تھوڑے فاصلہ پر تین‪ ‬‬


‫فٹ کی ایک باڑھ بنائی گئی تھی جس کا‬
‫مقصد بستی کو جانوروں سے بچانا تھا اور‬
‫اسی باڑھ کو درمیاں سے کاٹا گیا تھا۔۔‬
‫اب سکندر کو سمجھ آئی کہ وہ فائرنگ کی‬
‫‪ ‬آواز کہاں سے آئی تھی‬

‫سامنے ایک بستی والے کی الش پڑی ہوئی‬


‫تھی جو ٹھنڈا ہو چکا تھا ‪ ،‬شاید اس‬
‫بیچارے نے آنے والوں سے مزاحمت کی‬
‫ہوگی اور پھر گولی کا نشانہ بن گیا‬

‫سفرینا ۔۔تم جانتی ہو کہ وہ لوگ سردار کی‬


‫بیٹی اور بیوی کو کس راستے سے لے کر‬
‫گئے ہیں؟‬

‫جی ہاں سکندر‪ ،‬وہ ابھی زیادہ دور نہیں‬


‫گئے ییں‪ ،‬سفرینا کی آواز آئی‬

‫تو پھر مجھے وہاں لے چلو ۔۔‬

‫سکندر بوال‬
‫آپ کو غائب کر کے لے جاؤں یا رستہ بتاتی‬
‫جاؤں ۔۔سکندر‬

‫سفرینا نے سوال کیا‬

‫اتنا وقت نہیں کہ میں ان کے پیچھے چل‬


‫کر جاؤں ‪ ،‬تم مجھے ان کے قریب پہنچا دو‬
‫‪ ،‬پھر آگے دیکھتا ہوں کہ کیا کرنا ہے‬

‫جی ٹھیک یے‪ ،‬اپنا ہاتھ مجھے دیں اور‬


‫‪ ‬آنکھیں بند کر لیں‬

‫سفرینا نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا‪  ‬جسے‬


‫سکندر نے پکڑ لیا اور پھر آنکھیں بند کر‬
‫لیں‬

‫سفرینا کی آواز سن کر اس نے آنکھیں‬


‫کھول دیں اب وہ پہاڑوں پر موجود تھا ‪،‬‬
‫سامنے ہی ایک رستہ جا رہا تھا جو پہاڑ کو‬
‫کاٹ کر بنایا گیا تھا‬

‫وہ لوگ آپ سے چند قدم آ گے جا رہے ہیں‬


‫سکندر‬

‫سفرینا نے کہا‬

‫اور پھر سکندر آگے بڑھنے لگا ‪ ،‬پہاڑ کی‬


‫کٹائی گول گھوم رہی تھی ‪ ،‬سکندر جیسے‬
‫ہی گھوم کر آگے آیا تو سامنے ہی اسے چار‬
‫لوگ نظر آئے ‪ ،‬جن میں سے دو تو سردار‬
‫کی بیوی اور بیٹی تھے اور دوسرے دو‬
‫‪، ‬سالک کے آدمی تھے‬

‫ان میں سے ایک نے سردار کی بیوی کا ہاتھ‬


‫پکڑا ہوا تھا اور دوسرے نے بیٹی کا‬
‫سفرینا ان کی بندوقیں خراب کر دو اور اگر‬
‫ان کے پاس خنجر وغیرہ ہے تو وہ بھی‬
‫غائب کر دو ‪ ،‬اس کے بعد میری مدد کرنا ‪،‬‬
‫میں ان پر حملہ کروں گا ‪ ،‬بس تم یہ‬
‫کوشش کرنا کہ وہ زیادہ مزاحمت نہ کر‬
‫سکیں اور میں انہیں آسانی سے زیر کر‬
‫سکوں۔۔۔‬

‫میں آپ کے ساتھ ہوں سکندر‪ ،‬آپ حملہ‬


‫کریں‬

‫سفرینا نے کہا تو سکندر دبے قدموں کے‬


‫ساتھ ان کی بڑھنا شروع کیا ‪ ،‬وہ کوشش‬
‫کر رہا تھا کہ اس کی قدموں کی آواز نہ ہو‬
‫اور وہ پھر ان کے سر پر پہنچ گیا‬
‫سکندر نے نزدیک پہن کر ان میں سے ایک‬
‫پر چھالنگ لگائی اور اسے گردن سے دبوچ‬
‫لیا‬

‫سکندر کو بندوق بھی اسی کے ہاتھ میں‬


‫نظر آئی تھی‬

‫وہ آدمی سکندر کے حملے سے بے خبر تھا‬


‫اور جب تک وہ سمجھتا ‪ ،‬سکندر‪  ‬اسے‬
‫زمیں پر گرا کر اس کے سینے پر چڑھ گیا‬
‫تھا‬

‫دوسرا ابھی تک بے یقینی کے عالم میں‬


‫کھڑا ہوا تھا ‪ ،‬جب تک وہ ہوش میں آتا‬
‫سکندر نے نزدیک پڑا پھتر ہاتھ میں اٹھا کر‪ ‬‬
‫زیر کیے آدمی کے سر میں مارا تو خون کا‬
‫ایک فوارہ سر سے نکلتا ہوا اسے کے بالوں‬
‫‪، ‬کو الل کر رہا تھا‬

‫جسے سکندر نے سر پر پتھر مارا تھا وہ اب‬


‫‪ ‬سر پکڑ کر زمیں پر ہی لیٹ گیا تھا‬

‫سکندر اسے چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا اور پھر‬


‫دوسرے آدمی کے پیٹ پر ایک زور کی الت‬
‫‪ ‬ماری‬

‫دوسرا آدمی آہ کی آواز نکال کر زمین پر‬


‫بیٹھ گیا‪ ،‬اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے‬
‫پیٹ کو پکڑ لیا تھا ‪ ،‬اسے سانس لینے میں‬
‫‪ ‬دشواری ہو رہی تھی‬

‫سکندر نے جلدی سے پہلے آدمی کے کندھے‬


‫سے بندوق اتاری اور پھر ان دونوں کو‬
‫نشانے پر لے لیا۔۔‬
‫اگر تم دونوں نے زرا سی بھی حرکت کی تو‬
‫میں گولی چالنے میں بلکل بھی نہیں‬
‫ہچکچاوں گا‬

‫سکندر نے اپنی آواز میں بھاری پن پیدا‬


‫کرتے ہوئے کہا اور پھر سردار کی بیوی اور‬
‫بیٹی کی طرف منہ کرکے بوال‬

‫آپ دونوں پریشان نہ ہوں‪ ،‬میں آپ دونوں‬


‫کو خیر و عافیت سے واپس بستی لے جانے‬
‫آیا ہوں‬

‫لیکن تم کون ہو بیٹا۔۔۔سردار کی بیوی بولی‬

‫میں آپ کی بستی کا مہمان ہوں اور کل‬


‫رات ہی یہاں آیا ہوں‬

‫سکندر نے سردار کی بیوی کو تسلی دیتے‬


‫ہوئے کہا‬
‫‪ ‬او اچھا۔۔۔وہ تم ہو‬

‫سردار کی بیوی بولی‬

‫شاید اسے سکندر اور سفرینا کی رات والی‬


‫آمد کا پتا چل گیا تھا لیکن وہ ان دونوں کو‬
‫شکل سے نہیں جانتی تھی‬

‫جی ہاں۔۔اپ لوگ چلنے کی تیاری کریں۔۔‬

‫یہ کہہ کر سکندر نے بندوق کا رخ زمین پر‬


‫بیٹھے آدمی کی طرف کیا۔۔‬

‫اگر زرا سی بھی حرکت کی نا۔۔تو پھررررر‬

‫سکندر نے بات کو ادھورا چھوڑ کر بندوق‬


‫کو جھٹکا دیا جس کا مطلب تھا کہ وہ‬
‫گولی مر دے گا‬
‫اور پھر سکندر نے جھک کر نیچے پڑے‬
‫آدمی کے بالوں سے پکڑا اور اسے کھڑا کر‬
‫دیا ‪ ،‬اس کا خون بہنا ابھی بھی بند نہیں‬
‫‪ ‬ہوا تھا‬

‫چلو۔۔یہ کہہ کر سکندر نے چاروں کو دوبارہ‬


‫بستی کی طرف چلنے کا اشارہ کیا‬

‫سردار کی بیوی اور بیٹی سکندر کے پیچھے‬


‫چل رہے تھے اور ایک آدمی جو سکندر نے‬
‫ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا جبکہ دوسرا آدمی‬
‫پیٹ پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ نیچے کی‬
‫طرف جا رہے تھے‬

‫تیز چلتے ہو یا نہیں۔۔۔سکندر نے بازوں سے‬


‫پکڑے ہوئے آدمی کو بوال تھا‬
‫اور اپ لوگ بھی زرا تیز چلیں۔۔ابھی تک‬
‫خطرہ ٹال نہیں‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ ہم پر پیچھے‬
‫سے حملہ ہو اس لیے تھوڑا تیز چلیں‬

‫یہ سکندر نے سردار کہ بیوی کو کہا تھا‬

‫انہوں واپس پہنچنے میں کچھ دیر لگی‬


‫کیونکہ سالک کے آدمی انہں کافی دور لے‬
‫آئے تھے‬

‫سردار دارو اور بستی والوں کو سردار کی‬


‫بیوی اور بیٹی کے غائب ہونے ‪ ،‬سکندر اور‬
‫سفرینا کے غائب ہونے ک پتا چل چکا تھا‬
‫اور اب وہ سمجھ رہے تھے کہ ان دونوں کو‬
‫سکندر اپنے ساتھ اغوا کرکے لے گیا تھا‬

‫لیکن بستی میں داخل ہونے پر جب سب نے‬


‫سردار کی بیوی بیٹی اور دو لوگوں‪  ‬کو‬
‫سکندر کے ساتھ دیکھا گیا تو اس کی‬
‫اطالع سردار دارو کو دی گئی اور پھر‬
‫سردار دارو بھاگتا ہوا سکندر کے قریب‬
‫پہنچا‬

‫تم لوگ ٹھیک ہو ۔۔سردار نے نزدیک پہنچ کر‬


‫اپنی بیوی سے کہا‬

‫جی سردار ‪ ،‬اب ہم ٹھیک ہیں ‪ ،‬یہ تو بھال‬


‫ہو اس لڑکے کا جو یہ وہاں آ پنچا‪ ،‬اگر یہ نا‬
‫ہوتا تو ہم اس وقت سالک کی قید میں‬
‫ہوتے‬

‫سردار کی بیوی نے جب یہ کہا تو سردار‬


‫اپنی عزت و مرتبہ کو بھی بھول لیا اور‬
‫لپک کر سکندر کو سینے سے لگا لیا‬
‫نوجوان۔۔میں کیسے تمہارا شکریہ ادا کرو ‪،‬‬
‫تم نے پہلے میری جان بچائی اور اب میری‬
‫عزت کو سالمت لے آئے ہو‬

‫سردار نے الگ ہوتے ہوئے کہا تھا‬

‫سردار جیسے یہ آپ کی عزت ہے ویسے ہی‬


‫یہ میری ماں اور بہن ہے تو میں کیسے ان‬
‫کو دشمنوں کی قید میں جانے دیتا اس لیے‬
‫جب میں نے جھونپڑی میں سوراخ دیکھا‬
‫تو میں سمجھ گیا کہ کوئی یہاں چوری آیا‬
‫ہے اور پھر جھونپڑی سے باہر نکل کر دیکھا‬
‫تو یہ لوگ مجھے پہاڑ پر چڑھتے نظر ائے‪،‬‬
‫میں ان کے پیچھے گیا ‪ ،‬اب یہ آپ کے‬
‫سامنے ہیں۔۔‬
‫سکندر نے کہانی کو گول کر دیا تھا اگر وہ‬
‫ایسا نہ کرتا تو سفرینا کا نام سامنے آ سکتا‬
‫تھا‬

‫سکندر نے کندھے سے پکڑے آدمی کو زور‬


‫سے زمیں پر پھینکا تو وہ وہیں لیٹ گیا‬
‫جبکہ دوسرا ابھی بھی سر جھکائے‪  ‬اور‬
‫پیٹ کو پکڑے کھڑا ہوا تھا‬

‫لے جاؤ ان دونوں کو اور بستی کے بیچو‬


‫بیچ باندھ دو‬

‫سردار کا اشارہ سالک کے آدمی کی طرف‬


‫تھا‬

‫یہ سن کر نغمان جو سردار کے دائیں جانب‬


‫کھڑا ہوا تھا ‪ ،‬آگے بڑھا اور پھر دونوں کو‬
‫پکڑ کر بستی میں لے جا کر باندھ دیا گیا‬
‫سردار دارو سکندر کو اپنے ساتھ لے کر‬
‫جھونپڑی کی جانب بڑھنے لگا تو سفرینا‬
‫جنگل سے نکل کر ان کے سامنے آ گئی‬

‫تم کہاں گئی تھی سفرینا‬

‫سکندر نے گھبرا کر مگر ڈرامائی انداز میں‬


‫کہا‬

‫جب یہ دونوں کمرے میں گھسے تھے تو‬


‫میں چھپ گئی تھی اور جب وہ سردار کی‬
‫بیوی اور بیٹی کو پکڑ کر باہر لے گئے تو‬
‫میں بھی جنگل میں جا کر چھپ گئی تھی‬

‫‪ ‬سفرینا نے ڈرتے ہوئے بتایا‬

‫سکندر دل ہی دل میں سفرینا کی اداکارہ‬


‫کی داد دے رہا تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرینا۔۔۔‬

‫از ابن نصیر‪,‬‬

‫قسط نمبر ‪13‬‬

‫بیٹی اب تمہیں پریشان ہونے کی کوئی‬


‫ضرورت نہیں ہے‪ ،‬حاالت ہمارے ہاتھ میں‬
‫ہیں‪ ،‬تمہارے شوہر نے‪  ‬میری جان اور ہماری‬
‫بستی کی عزت بچالی‪  ‬ہے ۔‬

‫آو اب جھونپڑی کے اندر چلتے‪  ‬ہیں اور تم‬


‫لوگوں بھی آ جاو‪ ،‬سردار دارو نے سکندر‬
‫اور اپنی بیوی بیٹی سے بھی کہا تھا۔‬

‫جھونپڑی میں داخل ہونے سردار اپنی جگہ‬


‫پر بیٹھ گیا اور اس کی بیوی اور بیٹی بھی‬
‫دائیں جانب سے بیٹھ گئے جبکہ سکندر‪ ‬‬
‫سفرینا کے ساتھ سامنے بیٹھ گیا تھا۔‬

‫اب تمہاری جگہ وہ نہیں ہے نوجوان‪ ،‬یہاں‬


‫‪ ‬آو میرے ساتھ بیٹھو۔‬

‫سردار دارو نے بائیں جناب اپنا ہاتھ رکھ کر‬


‫اشارہ کیا تو سکندر اور سفرینا اٹھ کر‬
‫سردار کے ساتھ بیٹھ گئے۔‬
‫سردار ابھی تک خطرہ ٹال نہیں ہے‪ ،‬ہمیں‬
‫چوکس رہنا‪  ‬ہو گا۔ سکندر نے تشویش کا‬
‫اظہار کیا۔‬

‫نہیں نوجوان ابھی نغمان بہتر انداز سے‬


‫سنبھال لے گا‪ ،‬وہ ایسا بندہ نہیں ہے بس‬
‫چوک ہو گئی تھی ‪ ،‬لیکن اب وہ مر جائے‬
‫گا‪ ،  ‬کسی پر آنچ نہیں آنے دیگا۔‬

‫سردار دارو نے بوال۔‬

‫سردار آپ کا کوئی بیٹا وغیر ہ نہیں ہے؟‬


‫سکندر نے تو یہ بات کہی تھی لیکن اس‬
‫بات نے سردار اور اس کی بیوی دونوں کے‬
‫چہرے پر غم کی لکیر ال دی۔‬

‫بیٹا ہم نے اپنے سے بہت کوشش کی دعا‬


‫اور دوا دونوں کی‪  ‬لیکن خدا کو یہ منظور‬
‫نہیں تھا شاید‪ ،‬میری بھی بڑی تمنا تھی کہ‬
‫میرے بعد بستی کا سردار میرا بیٹا ہو تا‬
‫لیکن قسمت کا لکھا بھی تو کوئی چیز ہے‬
‫نا۔‬

‫ہممم۔۔۔بس سردار کبھی کبھی اہلل ہمارے‬


‫لیے اس سے بہتر سوچتا ہے لیکن ہم سمجھ‬
‫نہیں پاتے ہیں۔سکندر نے تسلی دیتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫سردار آپ اب بھی باپ بن سکتے ہیں۔‬


‫‪ ‬سفرینا نےخالف توقع بات کی‬

‫کیا ؟‬

‫سردار حیران ہو گیا لیکن سردار کے ساتھ‬


‫سکندر بھی حیران تھا کیونکہ یہ پہلی‬
‫دفعہ تھا کہ سفرینا خود سے بولی تھی اور‬
‫بات بھی ایسی کی ہے جس نے سردار اور‬
‫سکندر دونوں کو ہال کر رکھ دیا۔‬

‫سردار کی بیوی بھی پریشان تھی کیونکہ‬


‫اب سردار کی بچہ پیدا کرنے کی عمر نہیں‬
‫رہی اور یہ لڑکی کہہ رہی ہے کہ سردار اب‬
‫بھی باپ بن سکتا ہے۔‬

‫سردار میں ایک ڈاکٹر ہوں اور آپ کو دیکھ‬


‫کر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ بچہ پیدا کر‬
‫سکتے ہیں‪ ،‬سفرینا بولی‬

‫کیا ایسا ہو سکتا ہےبیٹی‪ ،‬اگر ایسا ہو جائے‬


‫تو میں ساری زندگی بھی تمہارے اس‬
‫احسان کا بدلہ نہیں اتا ر سکوں گا۔سردار‬
‫نے جذباتی ہو کر کہا۔‬
‫آپ مجھے اپنا ہاتھ دیں زرا‪ ،‬سفرینا اٹھ کر‬
‫سردار کے سامنے آ کر بیٹھ گئی تھی۔‬

‫سکندر کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ‬


‫سفرینا یہ کیوں کر رہی ہے اور اس بوڑھے‬
‫سردار سے وہ کیسے بچہ پیدا کروا سکے‬
‫گی۔‬

‫سفرینا نے اپنی دو انگلیاں سردار کی نبض‬


‫پر رکھ کر آنکھیں بند کر لیں تھی اور‬
‫سکندر سوچ رہا تھا کہ سفرینا نے یہ‬
‫ڈاکٹری کا کورس کب کیا تھا۔‬

‫سردار آپ بلکل باپ بن سکتے ہیں ‪ ،‬آپ‬


‫ابھی بھی ہر لحاظ سے صحت مند ہیں۔‬
‫بس مجھے ایک دوائی آپ کے لیے بنانی ہے‬
‫اور پھر کچھ عرصے بعد جھنوپٹری میں‬
‫آپ کے بیٹے کی قلقاریاں سنائی دے رہی‬
‫ہونگیں۔‬

‫نگینہ سنا تم نے میں باپ بن سکتا‬


‫ہوں‪،‬۔۔۔۔۔۔۔نغمہ تمہارا بھائی آئے گا‬

‫میرا بیٹا آئے گا۔‬

‫میرا بیٹا آئے گا ‪ ،‬سردار یہ کہتا ہوں اپنی‬


‫جگہ سےاٹھ کھڑا ہوا اور پھر جھنوپڑی سے‬
‫باہر نکل گیا۔وہ چیخ چیخ کر بستی والوں‬
‫کو بتا رہا تھا کہ وہ باپ بن سکتا ہے‪ ،‬اس کا‬
‫بھی وارث ہوگا۔‬

‫سردار کے پیچھے اس‪  ‬کی بیوی اور بیٹی‬


‫بھی باہر نکل گئی تو سکندر نے سفرینا‬
‫کوپکڑ لیا۔‬
‫یہ تم‪  ‬نے کیا کہہ دیا سفرینا‪  ،‬تم کیسے‬
‫سردار کو باپ بناوگی۔؟‬

‫سکندر بوال‬

‫سکندر ‪ ،‬سردار کی بیٹی کو دیکھ کر میں‬


‫سمجھ گئی کہ اس کی‪  ‬کوئی بیٹا نہیں ہے‬
‫اورجب اس نے‪  ‬ایک بیٹا ہونے کی بات کی‬
‫تو میں نے معلوم کیا اور مجھے پتا چال کہ‬
‫سردار باپ بن سکتا ہے‪ ،‬بس مجھے ایک‬
‫جڑی بوٹی کا عرق پالنا ہے اور پھر سردار‬
‫مکمل صحت مند ہو جائے گا۔‬

‫ویسے یہ تم نے بہت ہی عجیب بات کی‬


‫تھی ‪ ،‬میں تو حیران ہو گیا ‪ ،‬کم سے کم‬
‫پہلے مجھے تو کہتی پھر میں خود سردار‬
‫سے بات کر لیتا لیکن اس طرح سے اچانک‬
‫اور تمہارا بات کرنا ‪ ،‬سچ میں یار میں‬
‫حیران ہو گیا۔ویسے تم یہ کیوں کر رہی ہو ‪،‬‬
‫مطلب سردار کے بیٹے ہونے یا نہ ہونے سے‬
‫کیا ہو گا؟‬

‫سکندر اس رات جب آپ نے مجھے باتیں‬


‫معلوم کرنے کے لیے بھیجا تو میں پہلے‬
‫سردار نغمان کی طرف چلی گئی لیکن وہ‬
‫اس وقت سونے کی تیاری کر رہا تھا‪ ،‬میں‬
‫کچھ دیر وہاں کھڑی رہی کہ شاید وہ کام‬
‫کی بات کرے لیکن مجھے وہاں سے‬
‫مایوسی ہوئی تو میں وہاں سے نکل کر‬
‫پہاڑوں پر چلی گئی اور پھر مجھے وہاں‬
‫کچھ لوگ نظر آئے جو مختلف غاروں میں‬
‫چھپے ہوئے تھے ‪ ،‬وہ سردار دارو کو قتل‬
‫کرکے اس کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔ لیکن‬
‫سردار دارو نہیں چاہتا ہے کہ کوئی باہر کا‬
‫آدمی اس کی بستی کا سردار بنے ‪ ،‬اس لیے‬
‫وہ نغمان کو اگال سردار بنانا چاہتا ہے مگر‬
‫اس کے دل کی ایک خواہش یہ بھی ہے کہ‬
‫اس کا اپنا بیٹا سردار‪  ‬ہو ‪ ،‬جب مجھے‬
‫سردار کی خواہش پتا چلی تو میں نے‬
‫سردار کو اپنی شکتیوں سے دیکھا تو اس‬
‫میں مجھے کچھ جسمانی کمزوریاں معلوم‬
‫ہوئی اور یہ کمزوریاں میں آسانی سے دور‬
‫سکتی تھی تو میں نے سردار کو یہ خوش‬
‫خبری سنا دی کہ وہ اب بھی باپ بن سکتا‬
‫ہے ۔ بس یہی بات ہے سکندر۔‬

‫سفرینا نے لمبا سانس لے کر بات ختم کی۔‬


‫اچھا تمہیں یہ پتا نہیں چال کہ وہ لوگ‬
‫کون ہیں اور کیوں سردار کو قتل کرنا‬
‫چاہتے ہیں۔سکندر نے کہا‬

‫وہ لوگ بھی اسی بستی کے ہیں لیکن ان‬


‫کے دل میں چور ہے ‪ ،‬وہ دل میں سردار کے‬
‫لیے نفرت رکھتے ہیں‪  ‬لیکن ان کے پاس‬
‫زیادہ لوگ نہیں ہے ‪ ،‬اس لیے وہ چھپ کر‬
‫آتے ہیں اور سردار کو قتل یا نقصان‬
‫پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫ہممم۔۔ تو سفرینا اب ہم کیا کرسکتے ہیں ‪،‬ا‬


‫ن کے لیے‪ ،‬سکندر بوال‬

‫ہمیں سردار کی ان لوگوں کو پکڑنے میں‬


‫مدد کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ سردار‬
‫کو باپ بنانے کے لیے میں وہ جڑی بوٹی‬
‫ڈھونڈو گی اور بس اس کے بعد اگر آپ کی‬
‫مرضی ہوئی تو ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔‬

‫اچھا۔۔اور ہم کیسے ان کو پکڑنے میں مدد‬


‫کریں گے سفرینا؟‬

‫سکندر‪ ،‬یہ بہت آسان ہے ‪،‬ہم سردار کے‬


‫ساتھ‪  ‬کچھ لوگ لے کر رات میں ان پر حملہ‬
‫کریں گے ‪ ،‬سفرینا نے تجویز دی‬

‫ہممم۔۔ یہ ٹھیک ہے سفرینا۔‬

‫سردار جھونپٹری میں داخل ہوا تو اس کے‬


‫ساتھ اس کی بیوی اور بیٹی بھی تھی۔‬

‫نوجوان ‪ ،‬میں آج بہت خوش ہوں جب سے‬


‫تمہاری ڈاکٹر بیوی نے مجھے خوش خبری‬
‫دی ہے ‪،‬میں تو خود کو ہواوں میں اڑتا‬
‫محسوس کر رہا ہوں۔سردار نے کہا‬
‫سردار ‪ ،‬یہ تو ہمارے لیے خوش کی بات ہے‬
‫کہ ہم آپ کے کام آ رہےہیں‪ ،‬ہم تو یہاں‬
‫گھومنے آئے تھے اور پھر آپ کے آدمیوں نے‬
‫ہمیں قیدی بنا لیا لیکن اب دیکھ لیں ‪،‬ہم‬
‫آپس میں کتنے گھل مل گئے ہیں۔‬

‫بلکل نوجوان ‪ ،‬میں بھی تم لوگوں سے مل‬


‫کر بہت خوش ہوا ہوں۔اچھا بیٹی ‪ ،‬تم پھر‬
‫کب مجھے وہ جڑی بوٹی ال کر دو گی جس‬
‫سے میں ‪ ،‬میرا مطلب۔۔۔ تم سجھ گئی ہو‬
‫نا۔۔ سردار کو سمجھ نہیں آ ہی تھی کہ وہ‬
‫اپنے دل کی بات سفرینا سے کیسے کہے۔‬

‫سردار میں ابھی اپنے شوہر کے ساتھ جنگل‬


‫میں جاتی ہوں اور وہاں سے جڑی بوٹی‬
‫التی ہوں‪ ،‬پھر ہمیں پیس کر اس کا عرق‬
‫نکالنا ہے جسے آپ نے پینا ہے ‪ ،‬اور پھر ایک‬
‫ہی خوراک میں آپ اپنے اندر واضح فرق‬
‫محسوس کریں گے۔‬

‫بہت بہت شکریہ تمہارا بیٹی‪ ،‬تم سوچ نہیں‬


‫سکتی کہ میں اس وقت کتنا خوش ہوں ‪،‬‬
‫سردار نے فرط جذبات میں بہہ کر کہا۔‬

‫میں سمجھ سکتی ہوں سردار‪ ،‬آ پ بس‬


‫ہمیں کچھ وقت دیں ‪ ،‬ہم ابھی جنگل جا کر‬
‫واپس آتے ہیں‬

‫۔‬

‫جی ٹھیک ہے بیٹی‪ ،‬تم جاو اور اگر چاہو تو‬


‫اپنے ساتھ ہمارے کچھ آدمی بھی لے جا‬
‫سکتی ہو‪ ،‬شاید تمہیں کسی اور چیز کی‬
‫ضرورت پڑے تو میرے آدمی تمہاری مدد‬
‫کریں گے۔‬

‫نہیں سردار‪،‬آپ بے فکر رہیں‪ ،‬ہم اکیلے ہی‬


‫جا کر وہ جڑی بوٹی ڈھونڈ الئیں گے‪ ،‬آخر‬
‫سکندر نے بھی اپنی زبان کھولی‬

‫اچھا ‪ ،‬میرے بچوں جیسے تم دونوں کی‬


‫مرضی ‪ ،‬سردار نے انہیں اکیلے جانے کی‬
‫اجازت دے دی۔‬

‫یہ سن کر سکندر اور سفرینا اٹھ کھڑے‬


‫ہوئے اور پھر اجازت لے کر جھونپڑی سے‬
‫باہر نکل گئے۔‬

‫اب کہاں چلنا ہے سفرینا‪ ،‬سکندر نے کہا‬

‫جانا تو کہیں بھی نہیں ہے سکندر‪ ،‬میں وہ‬


‫جڑی بوٹی یہیں بھی ال سکتی ہوں لیکن‬
‫اس طرح سے انہیں شک ہو جاتا ‪ ،‬اس لیے‬
‫مجھے جنگل جانے کا کہنا پڑا‪،‬سفرینا بولی‬

‫اب تم ہوشیار ہوتی جا رہی ہو سفرینا‪ ،‬‬


‫سکندر نے سفرینا کی تعریف کرتے ہوئے کہا‬

‫وہ دونوں جنگل کی طرف چل پڑے تھے۔‬

‫سکندر آپ مجھ سے ابھی بھی واقف نہیں‬


‫ہیں ‪ ،‬سفرینا کوئی عام چیز نہیں ہے ۔‪ ‬‬
‫چلتے چلتے سفرینا نے سکندر کو ڈھکے‬
‫چھپے الفاظ میں اپنی اصلیت بتاتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫پتا‪  ‬ہے بھئ ‪ ،‬مجھ سب پتا ہے ‪ ،‬اور تم‬


‫مجھ سے ایسی باتیں نہ کیا کرو‪ ،‬میں اپنے‬
‫زندگی اور انجام سے مطمئن ہوں لیکن‬
‫فلحال تم نے جو اپنی ڈاکٹری کی دوکان‬
‫کھولی ہے اور اس میں جو تمہارا پہال‬
‫مریض آیا ہے ‪ ،‬اس کا عالج وغیرہ کرلو۔‬

‫میں یہ سب آپ کی وجہ سے کر رہی ہوں‬


‫سکندر ‪ ،‬مجھے کیا پڑی کہ میں لوگوں کی‬
‫‪، ‬مدد کرتی پھروں‬

‫ہیں۔۔۔کیا مطلب ‪ ،‬تمیں مجھ‪  ‬سے محبت تو‬


‫نہیں ہو گی؟ سکندر نےاپنے چہرے پر‬
‫حیرانی التے ہوئے کہا۔‬

‫آپ کو کیسے لگا کہ میں آپ سے محبت‬


‫کرنے لگی ہوں سکندر؟ سفرینا نے معنی‬
‫خیز انداز میں کہا تھا‬

‫تم نے کہا نا کہ تم میری وجہ سے یہ سب‬


‫کر رہی ہو ‪ ،‬اس لیے مجھے لگا کہ تمہیں‬
‫کہیں مجھ سے محبت تو نہیں ہو گئی ہے۔‬
‫سکندر نے اپنی بات کا مطلب بتاتے ہوئے کہا‬

‫ایسی کوئی بات نہیں ہے سکندر‪ ،‬کیونکہ‬


‫آپ میرے آقا ہے اور میرے لیے آپ کی ہر‬
‫بات ماننا فرض ہے ‪ ،‬اس لیے میں نے کہا کہ‬
‫میں یہ سب آپ کے لیے کر رہی ہوں۔‬

‫او ۔۔ اچھا‪ ،‬سکندر نے مختصر سا جواب دیا۔‬

‫وہ دونوں اب جنگل میں داخل ہوچکے تھے۔‬

‫سفرینا ‪ ،‬جنگل میں گھوم کر دیکھو‪ ،‬یہاں‬


‫کوئی جھیل یا چشمہ وغیرہ ہے جہاں میں‬
‫نہا سکوں‪ ،‬میرا نہانے کو دل کر رہا ہے۔اتنے‬
‫دن سے میں نے صحیح سے نہایا نہیں۔‬

‫کل رات جب‪  ‬ہم یہاں آ رہے تھے اور آپ نے‬


‫مجھے جنگل دیکھنے کا کہا تھا توقریب ہی‬
‫میں نے‪  ‬ایک جھیل دیکھی تھی جس کا‬
‫پانی نہانے کے لیے بہتر ہے ‪،‬مجھے ہاتھ دیں‬
‫‪ ،‬میں آپ کو وہاں لے کر چلتی ہوں سکندر۔‬
‫سفرینا نے سکندر کی جانب ہاتھ بڑھاتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫بھئی یہ غائب ہو کر جانے والے کام فلحال‬


‫چھوڑ دو‪ ،‬اگر وہ جگہ نزدیک ہی ہے کہ تو‬
‫ہم پیدل چل کر جائیں گے۔سکندر نے گھوم‬
‫کر جانے کا کہا۔‬

‫اتنی دور تو نہیں ہے وہ جگہ سکندر‪ ،‬چلیں‬


‫‪ ‬جیسے آپ کی مرضی‬

‫سفرینا نے ہاتھ پیچھے کر کے نیچے گرادیا‪ ‬‬


‫اور پھر اس نے اپنا رخ دائیں سمت میں‬
‫موڑ دیا۔‬
‫وہ جھیل اس طرف ہے سکندر۔سفرینا‪ ‬‬
‫بولی‬

‫اچھا۔۔۔چلو‪  ‬پھر‬

‫سفرینا میں نے اتنے دن سے دیکھا ہے کہ تم‬


‫نے کچھ بھی نہیں کھایا ہے‪  ‬اور تم نے کہا‬
‫تھا کہ تم ہماری جیسے خوراک نہیں کھاتی‬
‫ہو اس کا کیا مطلب ہوا؟‬

‫سکندر میں چونکہ چڑیل ہوں تو‪  ‬خون اور‬


‫کچا گوشت کھاتی ہوں‪  ‬اور میں کافی دن‬
‫‪ ‬بغیر کھائے پیے رہ سکتی ہوں۔‬

‫تم خون اور گوشت انسانوں کا کھاتی ہو‬


‫سفرینا۔؟‬

‫جی‪ ،‬میں انسانوں کا بھی کھا لیتی ہوں اور‬


‫جانوروں کا بھی کھا لیتی ہوں‪ ،‬یہ حاالت‬
‫پر منحصر کرتا ہے‪ ،‬جب انسان کا خون‬
‫نہیں ملتا‪ ،  ‬یا کوئی موٹا تازہ جانور نظر‬
‫آجاتا ہے تو میں وہ‪  ‬جانور کھا لیتی ہوں۔‬
‫سفرینا اپنی خوارک کے بارے میں بتا رہی‬
‫تھی‬

‫تو میرے بعد تم نے کیا کیا کھایا ہے‬


‫سفرینا؟‬

‫ابھی تک میں نے کچھ نہیں کھایا ہے لیکن‬


‫تھوڑا تھوڑا میرا دل کر رہا ہے کہ میں کچھ‬
‫کھاوں۔سفرینا نے اپنی بھوک کے بارے میں‬
‫سکندر کو بتایا‬

‫دیکھو بھئی‪ ،‬مجھے نہ کھا لینا‪ ،‬ایسا نا کہ‬


‫ہو سکندر کی گردن تم نے اپنے‪  ‬ہاتھوں میں‬
‫دبا رکھی ہو اور اپنے نوکیلے دانتوں سے‬
‫میرا خو ن پی رہی ہو۔‬

‫ہاہاہا۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ میں ایسا کروں‬


‫گی سکندر؟ سفرینا نے معنی خیز انداز میں‬
‫ہنستے ہوئے کہا تھا۔‬

‫سکندر نے کچھ نہیں کہا ‪ ،‬اس نے سفرینا‬


‫کی آنکھوں میں موجود گہرائی کو دیکھا ‪،‬‬
‫وہاں سکندر کو کچھ ایسا نظر نہیں آیا کہ‬
‫وہ سفرینا کی بات کی تائید یا نفی کر‬
‫سکے۔‬

‫سفرینا پتا ہے ‪ ،‬کل رات میں نے تمہیں‬


‫خواب میں دیکھا ۔۔۔۔‬

‫سکندر نے بات کو ادھورا چھوڑ دیا ‪ ،‬وہ‬


‫سوچ رہا تھا کہ اپنا خواب بتائے یا نہیں‬
‫اچھا۔۔۔ اور کیا دیکھا آپ نے سکندر؟ سفرینا‬
‫نے اشتیاق بھرے لہجے میں کہا‬

‫کہ تم مجھے اپنے ساتھ ہاتھی پر بٹھا کر‬


‫ایک بہت ہی خوبصورت جگہ گھما رہی ہو‬
‫اور ‪ ،‬تم اس وقت بہت خوش ہو‪ ،‬تم ہنس‬
‫رہی ہو ‪ ،‬قہقے لگا رہی ہو۔‬

‫سکندر نے جھوٹ بوال تھا‬

‫‪ ‬اچھا‪ ،‬سچ میں؟؟؟؟ پھر‬

‫پھر کیا‪  ‬شور کی وجہ سےمیں نیند سے اٹھ‬


‫جاتا ہوں ‪ ،‬سکندر نے کہا‬

‫اس وقت سکندر کو خود پر افسوس ہو رہا‬


‫تھا کہ اس نے خواب والی بات سفرینا کو‬
‫کیوں بتائی‪ ،‬اگر اسے یہ بتاتا کہ وہ اسے‬
‫قتل کرنے والی تھی‪  ‬تو پھر سفرینا اس سے‬
‫وجہ پوچھتی ‪ ،‬اگر اسے لڑکی کا بتا دیتا تو‬
‫بھی پوچھتی کہ وہ لڑکی کون تھی اور وہ‬
‫کیوں اسے قتل کر رہی تھی۔‬

‫وہ جھیل کے کنارے پہنچ گئے تھے‪ ،‬یہ ایک‬


‫چھوٹی سی مگر پیاری سی جھیل تھی‬
‫جس کو چاروں طرف سے درختوں نے‬
‫‪ ‬چھپا رکھا تھا۔‬

‫سکندر نے نیچے اتر کر جھیل کے پانی میں‬


‫‪، ‬ہاتھ ڈاال تو پانی نارمل تھا‬

‫اتنی ٹھنڈ میں یہ پانی نارمل کیسے ہے‬


‫سفرینا؟ سکندر نے پوچھ‬

‫یہ پانی پہاڑوں سے نہیں آ رہا سکندر‪ ،‬بلکہ‬


‫یہ نزدیک ہی چشمے کی صورت میں زمین‬
‫سے نکل رہا ہے اس لیے یہ پانی زیادہ ٹھنڈا‬
‫نہیں ہے اور وہاں دیکھیں یہ پانی آگے بھی‬
‫جا رہا ہے۔‬

‫سفرینا نے ایک طرف اشارہ کرکے دیکھایا ‪،‬‬


‫وہاں چھوٹی سی دو نالیاں بنی ہوئی تھی‬
‫جن سے جھیل کا پانی آگے جا رہا تھا۔‬

‫سفرینا کو خواب والی بات بھول چکی‬


‫تھی۔‬

‫اچھا بھئ اب تم تھوڑا گھوم پھر لو تاکہ‬


‫میں نہا لوں‪ ،‬سکندر نے سفرینا سے کہا وہ‬
‫سفرینا کے آگے نہیں نہانا چاہتا تھا۔‬

‫میں یہیں بیٹھ کر آپ کا انتظار نہ کروں‬


‫سکندر اور ویسے بھی میں جہاں جاہوں ‪،‬‬
‫میں تو آپ کو دیکھ سکتی ہوں‪ ،‬سفرینا‬
‫مزاق کے موڈ میں تھی‬
‫لیکن یار مجھے عورتوں کے سامنے بغیر‬
‫قمیض کے نہانے میں شرم آتی ہے ‪ ،‬سکندر‬
‫نے شرما نے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا۔‬

‫چلیں میں آپ کی تسلی کے لیے دوسری‬


‫طرف منہ کرکے بیٹھ جاتی ہو ۔۔۔بس‪ ‬‬
‫سفرینا نے دوسرا مشورہ دیا‬

‫لیکن یار تم نے ہی بتایا تھا کہ تم ایسے‬


‫بھی دیکھ سکتی ہو؟سکندر ہار ماننے واال‬
‫تھا۔‬

‫دیکھ تو میں کو کہیں سے بھی سکتی ہوں‬


‫توپھر کہیں اور جانے کا کیا فائدہ۔۔سفرینا‬
‫بھی سکندر کو زچ کرنے کےموڈ میں تھی۔‬

‫اچھا۔۔۔آخر سکندر نے ہار مان لی۔‬


‫جی ۔۔۔سفرینا نے بھی سکندر کو ہار مانتا‬
‫دیکھ‪  ‬کر "جی"کو لمبا کرکے کہا تھا۔‬

‫سکندر نے آہستہ آہستہ قمیض اتار ی اور‬


‫پھر جلدی سے جھیل میں چھالنگ لگا دی۔‬
‫وہ نہیں جانتا تھا کہ جھیل کا پانی نارمل‬
‫ہونے کے باوجود بھی اس کے جسم کے‬
‫درجہ حرارت کے برابر نہیں تھا۔ اس کا‬
‫جسم میں گرا تو سکندر نے زور کا جھٹکا‬
‫کھایا۔ سردی ہونے کی وجہ سے پانی تھوڑا‬
‫ٹھنڈا تھا۔‬

‫سکندر نے سر باہر نکاال تو کانپ رہا تھا اور‬


‫سفرینا جھیل کے کنارے ایک بڑے سے پتھر‬
‫پر بیٹھ کر سکندر کو نہاتے ہوئے دیکھ رہی‬
‫تھی۔‬
‫ہوہوہوہو۔۔۔۔ٹھنڈا۔۔۔۔پانی ٹھنڈا ہے یار‬

‫سکندر نے کانپتے ہوئے کہا۔‬

‫پانی اتنا ٹھنڈا نہیں ہے سکندر صاحب‪ ،‬بلکہ‬


‫آپ پانی میں نئے نئے اترے ہو تو اس لیے‬
‫ٹھنڈا لگ رہا ہے‪ ،‬تھوڑی دیر میں پانی نارمل‬
‫ہو جائے گا۔ہاہاہا‬

‫سفرینا نے ہنستے ہنستے کہا‬

‫میراٹھنڈے پانی کی وجہ سے برا حال ہے‬


‫اور تم ہنس رہی ہو سفرینا۔رکو زرا ‪ ،‬سکندر‬
‫کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ اس نے دونوں‬
‫ہاتھ کو پیالہ بنا کر اس میں پانی بھرا اور‬
‫پھر وہ پانی سفرینا کی طرف اچھا ل دیا۔‬

‫سفرینا کو یہ پانی کچھ نہیں کر سکتا تھا‬


‫لیکن پانی کو اپنے طرف آتا دیکھ کر اس‬
‫نے دونوں ہاتھوں سے چہرے کو چھپا لیا۔‬
‫اور پھر پانی جسم کے جس حصے پر گرا ‪،‬‬
‫وہاں سفرینا کے لباس کو گیال کر دیا۔‬

‫‪ ‬ہاہاہاہا۔۔۔۔کیسے ٹھنڈا ہے نا پانی‬

‫سکندر نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫جی نہیں‪ ،‬کوئی ٹھنڈا نہیں ہے ‪ ،‬میرا جسم‬


‫ویسے ہی ٹھنڈا ہوتا ہے ‪،‬مجھ پر اس پانی‬
‫کا کوئی اثر نہیں ہوتا ‪ ،‬وہ تو بس پانی کو‬
‫اپنی طرف آتا دیکھ کر منہ چھپا لیا کہ‬
‫کہیں گیلی نہ ہو جاوں۔۔سفرینا نے سچ کہا‬
‫تھا‬

‫ہاں بھئی ۔۔لڑکیا ں کہاں اپنی ہا رمانیں گی‬


‫‪،‬تم کیسے کہو گی کہ پانی ٹھنڈا ہے ‪ ،‬مت‬
‫کرو ایسا۔۔۔سکندر نے سفرینا پر پانی کا اثر‬
‫نہ ہوتے دیکھ کر کہا‬

‫آپ یقین نہیں کر رہے ہیں کہ تو یہ‬


‫دیکھیں۔۔۔اچانک سفرینا اٹھ کھڑی ہوئی اور‬
‫پھر سکندر کے دیکھتے دیکھتے اس نے پانی‬
‫میں چالنگ لگائی اور پھر ایک لمبی سی‬
‫ڈبکی لگا کر سکندر کے سامنےآ کر کھڑی‬
‫ہوئی۔‬

‫مجھے ٹھنڈا پانی اثر نہیں کرتا سکندر۔‬


‫‪ ‬دیکھ لیں‬

‫سفرینا نے سکندر کے قریب کھڑے ہو کر کہا‬


‫تھا۔‬

‫اچھا۔۔۔سکندر نے کہا‬
‫پتا نہیں کیوں سکندر نے گردن جھکا لی‪،‬‬
‫وہ سفرینا کو اس نظر سے دیکھنا چاہتا تھا‬
‫جس نظروں میں محبت ہو ‪ ،‬کیونکہ سفرینا‬
‫انسان نہیں تھی‪ ،‬وہ ایک ٹھنڈے جسم کی‬
‫عفریت تھی ‪ ،‬چڑیل تھی ‪ ،‬جس کا پانی‬
‫گرم خون اور کھانا کچا گوشت ہے۔‬

‫شرما رہے ہو سکندر۔‬

‫سفرینا نے اور قریب ہو کر کہا۔‬

‫بلکل بھی نہیں سفرینا سکندر نے منہ اوپر‬


‫اٹھا کر کہا اور پھر اس نے ہتھیلیوں میں‬
‫پانی بھر بھر کر سفرینا کے چہرے پر‬
‫پھینکنا شروع کیا۔‬

‫ہاہاہاہا۔۔۔نہیں ہوتا نا اثر ۔۔۔۔نہیں نا‬


‫سکندر یہ بولے جا رہا تھا اور پانی سفرینا‬
‫کے اوپر گراتا جا رہا تھا۔‬

‫سکندر مت کریں پلیز۔ میری آنکھیں نہیں‬


‫کھل رہی ہیں۔۔سفرینا نے التجائی لہجے میں‬
‫کہا۔‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔اچھا‪  ‬بس۔۔۔اب نہیں کرتا‬

‫سکندر کو ایک دوسری شرارت سوجھی‪،‬‬


‫اس نے پانی پھینکنا بند کردیا تھا۔‬

‫شکریہ‪ ،  ‬سفرینا نے سکندر کو جب دیکھا‬


‫کہ پانی نہیں پھینک رہا ہے تو کہا۔‬

‫یہ لو۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر نے سفرینا کو‬


‫دھکا دے کر پانی میں اچھا ل دیا۔۔۔‬
‫سفرینا پانی میں گر کر جب اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی تو سکندر قہقے لگا ئے جا رہا تھا۔‬

‫سکندر مت کریں نا پلیز۔۔۔۔سفرینا بھی‬


‫سکندر کو خوش دیکھ کر بلکل انسانوں‬
‫کی حرکت کر رہی تھی۔شاید وہ سکندر کی‬
‫خوشی چاہتی تھی۔‬

‫یہ کیا بات ہوئی بھئی‪ ،‬پہلے کہا کہ پانی‬


‫مت پھینکو‪ ،‬اب جب نہیں پھینک رہا تو‬
‫بھی میڈم کو پرابلم ہے۔۔ سکندر نے سفرینا‬
‫کو تنگ کرتے ہوئے کہا۔‬

‫ہاں جی‪ ،‬پانی پھینکنے سے منع کیا تو پانی‬


‫میں گرا دیا۔۔۔واہ جی واہ‬

‫سفرینا نے نخریلے انداز میں کہا۔‬

‫اچھا بس۔۔۔ نہیں پھینکتا ۔۔یہ لو‬


‫یہ کہہ کر سکندر نے دوسری جانب ڈبکی‬
‫لگائی اور سفرینا کو وہیں کھڑا چھوڑ دیا۔۔‬
‫اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ سفرینا کا دل‬
‫کہہ رہا تھا کہ سکندر اس پر او ر پانی‬
‫پھینکے‪ ،‬اسے پانی میں گرائے‪ ،‬اس کے‬
‫ساتھ‪  ‬بات کرے‪ ،‬اس کے ساتھ مسکرائے‬

‫سکندر نے پانی سے سر نکاال تو سفرینا‬


‫وہیں کھڑی ہوئی تھی‪ ،‬اس کے گیلے بال‬
‫شانوں پر گرے ہوئے تھے اور کچھ بال پیٹھ‬
‫پر پڑے ہوئے تھے‪ ،‬پانی‪  ‬کی بوندیں اس کے‬
‫سر سےقطروں کی صورت میں گرتی‪  ‬ہوئی‬
‫چہرے پر آ رہی تھیں‪  ‬اور پھر نیچے پانی‬
‫میں گر رہی تھی۔۔وہ سکندر کو یک ٹک‬
‫دیکھے جا رہی تھی۔‬
‫ہیلو میڈم۔۔۔کہا ں گم ہو گئی ہو؟ سکندر نے‬
‫نزدیک آ کر کہا‬

‫‪ ‬ہاں۔۔۔۔کچھ نہیں‬

‫سفرینا بولی‬

‫میں نے کہا ۔۔۔کہاں گم ہو گئی ہو؟‬

‫سکندر نے اپنی بات دوہرائی‪ ‬‬

‫کہیں نہیں۔۔۔یہیں تو ہوں سکندر۔۔۔سفرینا‬


‫نے ادھر ادھر دیکھنا شروع کیا۔‬

‫وہ سکندر کو کوئی تاثر نہیں دینا چاہتی‬


‫تھی۔‬

‫اب چلیں۔۔سردار ہمارا انتظار کر رہا ہوگا۔۔۔‬

‫سکندر نے چلنے کے لیے کہا‬

‫جی چلیں۔۔۔سکندر‪ ‬‬
‫لیکن پہلے میں وہ بوٹی منگوالوں۔۔۔سفرینا‬
‫بولی‬

‫سفرینا کیا تم وہ بوٹی یہاں جھیل کے اندر‬


‫کھڑے ہو کر الوگی۔۔۔ہاہاہا‬

‫سکنددر بوال‬

‫کیوں یہاں نہیں منگواسکتی ہوں کیا ؟‬


‫سکندر‬

‫سفرینا نے جواب دیا‬

‫منگوا سکتی ہو‪ ،‬بلکل منگوا سکتی ہو۔۔۔‬


‫لیکن باہر نکل کر بھی تم یہ کام کر سکتی‬
‫ہو سفرینا‬

‫سکندر اب بھی ہنسے جا رہا تھا۔‬


‫اچھا۔۔۔چلیں پھر آپ قمیض پہنے ‪،‬میں وہ‬
‫بوٹی التی ہوں۔۔۔‬

‫یہ سن کر سکندر جھیل کے کنارے کی‬


‫طرف جانے لگا اور سفرینا سکندر کے‬
‫پیچھے آ رہی تھی۔۔اس کی نظریں سکندر‬
‫کی ننگی پیٹھ کا پیچھا کر رہی تھی۔‬

‫سفرینا ہی جانتی تھی کہ وہ کیاسوچ رہی‬


‫تھی۔۔۔‬
‫_________________________________‬
‫_____‬
‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسف‬
‫)رینا۔۔۔قسط نمبر(‪)14‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫سفرینا جھیل سے باہر نکلی تو سکندر اپنی‬


‫قمیض پہن چکا تھا اور اب اپنے بالوں کو‬
‫سنوار رہا تھا‪ ،‬اس نے اپنی کچھ پڑھا تو‪ ‬‬
‫بجلی‪  ‬کی صورت اختیار کر گئی بجلی کی‬
‫روشنی اپنی پوری رفتار سے آسمان میں‬
‫کھو گئی تھی۔۔۔‬

‫سکندر کو اطمینان تھا کہ وہ جلد ہی‬


‫واپس آ جائے گی اس لیے اس نے سفرینا کے‬
‫چلے جانے کا پر کسی خاص ردعمل کا‬
‫اظہار نہیں کیا۔‬
‫بال سنوارنے کے بعد سکندر کے بعد سکندر‪ ‬‬
‫جھیل کے کنارے چال گیا اور پانی میں اپنا‬
‫‪ ‬عکس دیکھنے لگا۔‬

‫باقی سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ کپڑے؟‬


‫سکندر نے خود سے کہا‬

‫جھیل میں نہانے کی وجہ سے سکندر کے‬


‫کپڑے گیلے ہو چکے تھے۔پہلے تو اس نے‬
‫سوچا کہ سفرینا سے کہہ کر نیا سوٹ منگو‬
‫ا لے گا پھر خود اس نے اپنی بات کی نفی‬
‫کر دی کیونکہ وہ اگر لباس تبدیل کرکے جاتا‬
‫تو ہو سکتا ہے کہ سردار یا دوسرا کوئی یہ‬
‫سوچتا کہ سکندر اور سفرینا کے پاس تو‬
‫کچھ بھی نہیں تھا تو یہ لباس انہوں نے‬
‫کہاں سے اور کیسے تبدیل کر لیا۔‬
‫وہ جھیل کے کنارے سے اٹھ کر اس بڑے‬
‫پتھر پر بیٹھ گیا جہان سفرینا بیٹھی ہوئی‬
‫تھی ۔ اس نے اپنے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے‬
‫کنکر اکھٹے کیے اور پھر انہیں جھیل میں‬
‫پھینکنے لگا۔جب کنکر پانی میں گرتا توپانی‬
‫کی لہریں ایک دائرہ کی شکل اختیار کرتی‬
‫اورپھر وہ دائرہ بڑا ہوتا ہوتا کنارے سے جا‬
‫لگتا۔۔‬

‫سکندر کو‪  ‬پانی میں کنکر مارنا بہت بھال‬


‫لگ رہا تھا۔اسے پتانہیں چال کہ پانی سے‬
‫کھیلتے ہوئے اسے‪  ‬کتنی دیر ہو گئی تھی۔‬
‫ہوش تب آیا جب سفرینا نے اسے پیچھے‬
‫سے آکر آواز دی۔‬
‫چلیں سکندر۔۔۔سب ہمارا انتظار کر رہے‬
‫ہونگے۔سفرینا بولی‬

‫آئی گئی تم سفرینا۔۔۔بڑی دیر کر دی۔۔سکندر‬


‫نے اٹھتے ہوئے کہا‬

‫مجھے وہ بوٹی لینے کے لیے عبقر کے‬


‫جنگالت میں جانا پڑا اور وہ جگہ جنات‬
‫کی سلطنت میں آتی ہے۔ میراجنات سے‬
‫کچھ دن پہلے ہی‪  ‬ٹکراو ہوا ہے ۔۔اس لیے‬
‫مجھے چھپ کر جانا پڑا تھا۔۔۔‬

‫ہممم۔۔۔چلو اب لے آئی نا ۔۔وہ بوٹی؟ سکندر‬


‫‪ ‬نے سوال کیا‬

‫جی ہاں سکندر ۔۔۔میں لے آئی ہوں ۔۔۔اب‬


‫چلیں ہم؟‬
‫اور یہ آپ انہی گیلے کپڑوں سے چلیں گے۔۔۔‬
‫سفرینا نے سکندر نے گیلے کپڑوں کو دیکھ‬
‫کر کہا تھا۔‬

‫سفرینا چونکہ اپنی شکل تبدیل کرکے ہو‬


‫آئی تھی اس لیے اس کے کپڑے خشک ہو‬
‫چکے تھے مگر سکندر جنگل میں جھیل کے‬
‫کنارے بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔۔اور جنگالت‬
‫کی وجہ سے سورج کی کرنیں زمیں تک‬
‫نہیں آ رہی تھی تو اس لیے سکندر کے‬
‫کپڑے ابھی تک مکمل خشک نہیں ہوئے‬
‫تھے۔‬

‫پہلے میں نے سوچا کہ تمہیں کہوں کپڑے‬


‫النے کے لیے ۔۔۔لیکن اگرمیں کپڑے تبدیل‬
‫کرتا تو بستی کے لوگ سوچ سکتے ہیں کہ‬
‫ہمارے پاس تو کوئی کپڑے نہیں ہیں تو‬
‫میں نے یہ سوٹ کیسے تبدیل کیا۔۔اس لیے‬
‫انہی کپڑوں میں چلیں گے سفرینا۔۔۔سکندر‬
‫نے اپنا خیال کو سفرینا کو بتایا‬

‫او ہو۔۔۔آپ تو بڑے چاالک ہیں سکندر۔۔یہ‬


‫سوچ تو میرے دماغ میں بھی نہیں آئی‬
‫تھی۔۔۔سفرینا نے سکندر کی تعریف کرتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫دیکھ لو ۔۔۔مانتی ہو نا کہ میں سمارٹ ہوں‬


‫سفرینا۔۔۔۔سکندر نے اپنی تعریف کروانے کے‬
‫لیے کہا۔۔‬

‫مانتی نا ہوتی تو آپ کے ساتھ نہ ہوتی‬


‫سکندر۔۔۔۔سفرینا نے جواب دیا‬

‫‪ ‬کیا مطلب ۔۔۔سکندر کو سمجھ نہیں آئی‬


‫مطلب کہ آپ چاالک اور سمارٹ ہیں تو ہی‬
‫مجھے قابو کر لیا ۔۔عام آدمی میں اتنی‬
‫طاقت کہا ں کہ وہ سفرینا کو غالم بنانے‬
‫کی سوچے۔۔۔سفرینا بولی‬

‫ہاں ۔۔۔یہ تو ہے۔۔۔مگر اب چلو۔۔۔سردار ہمارا‬


‫انتظار کر رہا ہوگا۔۔۔سکندر نے سفرینا سے‬
‫‪ ‬چلنے کے لیے کہا اور پھر خود آگے چل پڑا‬

‫سفرینا بھی سکندر کو "جی چلیں" بول کر‬


‫سکندر کے ساتھ ہو لی۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا بستی میں پہنچے تو‬


‫سور ج سر پر چڑھ آ یا تھا او پوری آب و‬
‫تاب سے چمک رہا تھا۔۔۔بستی کے لوگ اپنے‬
‫روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے مگر‬
‫سردار دارو اپنی جھونپڑی کے باہر ہی ان‬
‫دونوں کا انتظا‪  ‬ر کر رہا تھا۔۔‬

‫بہت دیر کر دی تم نے نوجوان۔۔۔میں تو‬


‫کافی دیر سے کھانے پر تمہارا انتظار کر رہا‬
‫تھا۔۔۔جب تم نہیں آئے تو میں اپنی‬
‫جھونپڑی سے باہر نکل آیا ۔۔سردار نے بوٹی‬
‫کی بات نہیں کہی تھی۔‬

‫جی ہاں۔۔سردار ہمیں دیر ہو گی۔۔۔اتنے بڑے‬


‫جنگل میں جڑی بوٹی کو ڈھونڈنے میں‬
‫تھوڑی مشکل درپیش آ رہی تھی لیکن آپ‬
‫کی‪  ‬دعاووں سے ہم کامیاب لوٹ آئے ہیں۔۔۔‬
‫سکندر مطلب کی بات پر آیا تھا۔‬

‫سچ میں۔۔۔یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے‬


‫لیکن پہلے ہم سب چل کر کھانا کھائیں گے‬
‫اس کے بعد جڑی بوٹی کا سوچیں گے۔۔۔‬
‫‪ ‬کیوں بیٹی‪ ،  ‬تم کیا کہتی ہو؟‬

‫سردار نے سفرینا سے پوچھا‬

‫بلکل سردار‪ ،‬ہماری وجہ سے آپ لوگوں نے‬


‫کھانا نہیں کھایا اور بھوکے رہے تو پہلے ہم‬
‫سب کھانا کھائیں گے اس کے بعد میں آپ‬
‫کو جڑی بوٹی کا رس نکال کر دوںگی۔۔۔‬
‫سفرینا نے سردار کو جواب دیا‬

‫آو چلیں۔۔۔یہ کہہ کر سردار جھونپڑی کے‬


‫اندر داخل ہوا اور اس کے پیچھے سکندر ‪،‬‬
‫سفرینا بھی اندر آ گئے۔۔۔سامنے ہی دستر‬
‫خوان لگا ہوا تھا۔سردار دسترخوان کے ایک‬
‫کنارے پر بیٹھ گیا تو سکندر اور سفرینا‬
‫والے سامنے کے کنارے پر بیٹھ گئے ۔۔انہیں‬
‫بیٹھا دیکھ کر سردار کی بیوی اور بیٹی‬
‫بھی آ کر بیٹھ گئے اور پھر خاموشی سے‬
‫کھانا کھایا گیا۔۔سفرینا نے دکھاوے کے دو‬
‫چار لقمے مارے اور پھر بہانہ کر کے الگ ہو‬
‫کر بیٹھ گئی۔‬

‫کھانا کھانے کے بعد انہی برتنوں میں ہاتھ‬


‫دھوئے گئے اور پھر دسترخوان اٹھا دیا گیا۔۔‬

‫سردار منتظرتھا کہ سکندر اور سفرینا بات‬


‫شروع کریں اور پھر سفرینا نے پہل کی۔‬

‫سردار مجھے ایک مضبور برتن چاہیئے جس‬


‫میں کڑی بوٹی پیس کر اس کا عرق نکاال‬
‫جائے ۔۔سفرینا نے فرمائش سن کر سردار‬
‫کی بیٹی اٹھی اور سائیڈ کے کمرے سے‬
‫اوکھلی نما برتن اٹھا الئی۔‬
‫سفرینا نے بوٹی کے پتوں کو اوکھلی میں‬
‫ڈاال اور پھر جو پتھر سردار کی بیٹی الئی‬
‫تھی ۔ اس پتھر سے پتوں کو کھوٹنے لگی۔۔‬
‫سفرینا کوئی پانچ منٹ تک اپنا ہاتھ چالتی‬
‫رہی اورپھر وہ رک گئی۔۔‬

‫تھوڑا پانی ملے گا۔۔اور ایک پیالہ بھی۔‬


‫سفرینا بولی‬

‫سکندر سوچ رہا تھا کہ کہاں یہ چڑیل اور‬


‫پھر اس کی ڈاکٹری لیکن مجبوری تھی اس‬
‫لیے وہ بھی چھپ بیٹھا ہوا تھا۔‬

‫سردار کی بیٹی ایک گالس میں پانی اٹھا‬


‫الئی اور پھر سفرینا نے پانی کی چند‬
‫بوندیں اوکھلی میں ڈال کر دوبارہ سے‬
‫کھوٹنے لگی‪  ‬لیکن اس مرتبہ اس نے زیادہ‬
‫وقت نہیں لیا۔۔۔اور پھر بوٹی کا عرق نکال‬
‫کر پیالہ میں الگ کر لیا۔۔۔‬

‫سردار اب یہ آپ کو پینا پڑے گا۔۔۔لیکن‬


‫گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔اس سے‬
‫آپ کو صرف پسینہ آئے گا اور دل کی‬
‫دھڑکن تیز ہوگی بس۔۔‬

‫سفرینا نے سردار کو آگاہ کر دیا تو سردار‬


‫نے پیالہ اٹھا کر منہ سے لگایا اور پھر سبز‬
‫رنگ کا مادہ اپنے حلق میں اتار لیا۔‬

‫وہ سب اب کسی معجزے کے انتظار میں‬


‫تھے لیکن ان سب سے الگ سفرینا خاموش‬
‫بیٹھی سردار کو دیکھ رہی تھی۔۔‬

‫سردار کے ماتھے پر پسینے کے چھوٹے‬


‫چھوٹے قطرے نمودار ہوئے اور پھر بڑھتے‬
‫گئے۔۔۔کیونکہ سردار کوپہلے ہی بتایا گیا تھا‬
‫تو سردار مطمئن بیٹھا ہوا تھا۔۔۔‬

‫چند لمحوں کے بعد سردار کی حالت یہ ہو‬


‫گئی کہ اس کی اوپری قمیض پسینے سے‬
‫شرابور ہو چکی تھی۔۔۔سردار کا چہرہ سفید‬
‫سے الل ہو گیا تھا۔۔اور پھر سردار کے‬
‫چہرے پر اطمینان کی جھلک نظر آئی جس‬
‫کے بعد سردار پرسکون ہو‪  ‬تا گیا۔۔‬

‫سردار کی بیوی نے اٹھ کر سردار کے ماتھے‬


‫کا پسینے اپنے پلو سے خشک کیا اور پھر‬
‫سردار کے قریب لگ کر بیٹھ گئی۔وہ بار بار‬
‫پلو سے سردار کے چہرے کو صاف کر رہی‬
‫تھی ۔۔سردار نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو‬
‫وہ رک گئی۔۔‬
‫اب بتائیں سردار۔۔۔آپ کیسا محسوس کر‬
‫رہے ہیں۔۔۔سفرینا نے پوچھا‬

‫سچ کہوں۔۔۔تو میں خود کو دوبارہ سے‬


‫جوان محسوس کر رہا ہوں۔۔۔ایسا لگ رہا ہے‬
‫کہ میرے اندر بجلی سی دوڑ رہی ہے۔۔۔ایک‬
‫طاقت ہے میرے اندر جس کو میں اپنی رگ‬
‫رگ میں محسوس کر رہا ہوں۔ سردار نے‬
‫جوشیلے انداز میں کہا‬

‫اس کا مطلب آپ تندرست ہو گئے ہیں اور‬


‫باپ بننے کے لیے مکمل اہل ہیں۔۔سفرینا نے‬
‫سردار کو ہری جھنڈی دکھا ئی تو سردار‬
‫اٹھ کھڑا ہوا جسے دیکھ کر باقی سب بھی‬
‫اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔‬
‫سچ میں بیٹی۔۔۔میں اب ٹھیک ہو گیا ہوں۔۔۔‬
‫مطلب ۔۔۔مطلب کہ اب میں باپ بن‬
‫سکتاہوں نا۔۔۔سردار جذباتی ہو گیا تھا‬

‫جی ہاں۔۔۔سردار اب آپ کو باپ بننے سے‬


‫کوئی نہیں روک سکتا ہے۔۔۔سفرینا نے سردار‬
‫کو جواب دیا‬

‫آہ۔۔۔آج میری خوشی کی انتہا ہے۔۔ایسا لگ‬


‫رہا ہے کہ مجھے دنیا کا خزانہ مل گیا ہے۔۔‬
‫‪  ‬تم سب میرے ساتھ آو باہر‬

‫سردار یہ کہہ جھونپڑی کے باہر جانے لگا تو‬


‫باقی سب بھی اس کے پیچھے چلے گئے۔۔‬

‫باہر نکل کر سردار نے نغمان کو آواز دی تو‬


‫نغمان ایک جھنپڑی سے نکال اور بھاگتا ہوا‬
‫سردار کے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔‬
‫حکم سردار۔۔۔نغمان نے سر جھکا کر کہا۔۔‬

‫نغمان ۔۔۔میں اب باپ بن سکتا ہوں۔۔آج رات‬


‫جشن کی رات ہے۔۔پوری بستی میں اعالن‬
‫کرو کہ آج رات کوئی نہیں سوئے گا اور‬
‫بستی کے لوگوں کو کہو کہ بستی کو‬
‫سجائیں۔۔۔مزے مزے کے کھانے پکائیں اور‬
‫بوڑھے اربان کو کہو کہ نمک کے غرارے لے۔۔‬
‫آج اس نے اپنی آواز سے ہم سب کو خوش‬
‫کرنا ہے۔۔‬

‫سردار فرط جذبات میں بولے جا رہا تھا‪،‬‬


‫جب وہ خاموش ہوا تو نغمان جی ٹھیک ہے‬
‫بول کر دوبارہ بستی کی جانب دوڑ گیا۔۔۔وہ‬
‫لوگوں کو اکھٹا کر رہا تھا۔‬
‫جب بستی والوں کو سردار کی صحت یابی‬
‫کا پتا چال تو ان کے چہرے بھی خوشی سے‬
‫جگمگا اٹھے۔۔اور پھر وہ سب ایک بے ہنگم‬
‫سے ناچ گانے میں‬

‫مشغول ہوگئے ۔‪ ‬‬

‫سکندر کو ان کے ناچ گانے کی تو سمجھ‬


‫نہیں آئی لیکن وہ یہ سمجھ گیا کہ آج‬
‫بستی والے بہت خوش ہیں۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫حجرہ میں لوگوں کی بھیڑ قابل دید تھی۔۔۔‬


‫جب سے انہیں پتا چال کہ ان کی مسجد کا‬
‫ایک نمازی لوگوں کی بیماری اور مسلئے حل‬
‫کر رہا ہے تو لوگ جوق در جوق بھاگتے آ‬
‫رہے تھے۔۔‬
‫اس وقت مسجد کا حجرہ لوگوں سے بھر‬
‫چکا تھا اور کافی لوگ حجرے کے دروازے‬
‫اور باہر ہی الئن لگا کر کھڑے ہو گئے تھے۔۔‬

‫حجرے میں لوگ ایک دائرے کی صورت‬


‫میں بیٹھے ہوئے تھے اور دائرے کا مرکز‬
‫درخان تھا جس کے پاس نزدیک آبادی کے‬
‫لوگ آئے ہوئے تھے۔‬

‫بھائیوں میں ایک گناہگار بندہ ہوں ۔۔میں تو‬


‫بس اس آدمی کو دم کیا تھا جس کے بعد‬
‫اس کی تکلیف ختم ہو گئی۔۔اس سے زیادہ‬
‫میں کچھ نہیں جانتا۔۔۔‬

‫در خان بار بار یہی بات لوگوں کے سامنے‬


‫دوہرا رہا تھالیکن لوگ در خان کی نہیں سن‬
‫رہے تھے بلکہ ہر انسان اپنا رونا رو رہا تھا۔۔‬
‫کسی کو بیماری نے مار رکھا تھا‪  ‬تو کوئی‬
‫غریبی سے لڑ رہا تھا۔۔کسی کی اکلوتی‬
‫بھینس گم ہو گئی تھی تو کسی کی بیٹی‬
‫کی شادی نہیں ہو رہی تھی‪  ‬۔ان سب‬
‫لوگوں کو یہی نظر آ رہا تھا کہ سامنے بیٹھا‬
‫یہ انسان اہلل کا خاص بندہ ہے اور یہی‬
‫انسان ان کے تمام دکھ درد دور کرے گا۔‬

‫بیٹا ۔۔میرے سر کا درد بچپن سے ہے۔۔جتنی‬


‫دوا کرسکتا تھا میں نے کی لیکن طبیعت‬
‫پھر بھی اچھی نہیں ہوئی۔۔اب تو یہ درد‬
‫میرے ساتھ ہی قبر میں جائے گا۔۔بیٹا اگر‬
‫ہو سکے تو مجھے بھی دم کر دے۔۔تو اہلل‬
‫کاپیارا بندہ ہے‪ ،‬تیری وجہ سے اہلل کرم کر‬
‫دے گا تومیرا سر کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔۔‬
‫ایک بوڑھے آدمی نے اپنی تکلیف کا بتایا۔‬
‫کہاں درد ہوتا ہےبابا۔۔۔۔الچار ہو کر در خان‬
‫نے اس بوڑھے آدمی سے درد کی جگہ‬
‫پوچھی‬

‫یہاں سے شروع ہو کر یہاں تک ہوتا ہے‬


‫بیٹا۔۔۔اس بوڑھے آدمی نے در خا ن کا ہاتھ‬
‫پکڑ کر اپنے سر کی سے سامنے والی جگہ پر‬
‫رکھا اور پھر پھیرتا ہوا پیچھے تک لے گیا۔‬
‫اسے آدھے سر درد کی تکلیف تھی‬

‫در خان نے اپنی ہاتھ کی انگلیوں کو کھول‬


‫کر سر کو پکڑا اور پھر دبے الفاظ میں کچھ‬
‫پڑھ کر تین مرتبہ اس بوڑھے آدمی کی‬
‫طرف پھونک ماری۔‬

‫بس بابا۔۔۔اب آپ جاو۔۔اہلل نے چاہا تو آپ کے‬


‫سر کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔در خان بوال‬
‫یہ سن کر بوڑھا آدمی اپنی جگہ سے اٹھ‬
‫کھڑا ہوا اور پھر در خان کو دعائیں دیتا ہوا‬
‫حجرہ سے چال گیا۔‬

‫بابا ۔۔آپ کا کیا مسلہ ہے۔۔در خان نے سامنے‬


‫بیٹھے ایک دوسرے بوڑھے آدمی سے کہا‬

‫بیٹا ۔۔میری مٹھائی کی دوکان ہے۔۔پہلے‬


‫تھوڑی بہت کمائی ہو جاتی تھی جس سے‬
‫گھر چلتا تھا لیکن اب دو مہینوں سے اتنا‬
‫بھی نہیں ہو رہا کہ ایک وقت کی روٹی کھا‬
‫سکوں۔۔گھر پر بیوی ہے ‪ ،‬دو بچے ہیں لیکن‬
‫اب اتنا نہیں ہوتا کہ گھر جاتے ہوئے کچھ‬
‫لیتا جاوں۔۔۔بوڑھے آدمی نے اپنا مسلہ بتایا۔۔‬

‫کیا نام ہے آپ کا بابا۔۔۔۔در خان نے بوڑھے‬


‫آدمی سے نام پوچھا‬
‫رسول بخش بیٹا۔۔میرا نام رسول بخش‬
‫ہے۔۔۔بوڑھے آدمی نے اپنا نام بتایا۔۔۔‬

‫نام سن کر در خان نے اپنی آنکھیں بند کر‬


‫لیں اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف کرکے‬
‫کچھ پڑھنے لگا۔۔۔‬

‫کافی دیر تک وہ پڑھتا رہا اورپھر اپنی‬


‫آنکھیں کھول دیں۔۔۔‬

‫آپ کے پاس کچھ پیسے ہیں بابا۔۔۔در خان‬


‫نے سوال کیا‬

‫نہیں بیٹا۔۔۔اس وقت تو نہیں ہے‪ ،‬لیکن میں‬


‫ادھار لے سکتا ہوں۔۔تم بتاو مجھے کیا کرنا‬
‫ہوگا۔۔۔بوڑھا آدمی جس کا نام رسول بخش‬
‫تھا استفار کرتے ہوئے پوچھا۔۔‬
‫ایک منٹ۔۔۔یہ کہہ کر در خان نے اپنی‬
‫قمیض کی دائیں جیب میں ہاتھ ڈاال اور‬
‫چند روپے نکال کر بوڑھے آدمی کو دیے‬

‫بابا۔۔ان پیسے کے چاول لینا۔۔اور ان کا میٹھا‬


‫پکا کر بچوں میں خیرات کر دینا۔۔انشااہلل‬
‫آپ کی دوکان چل پڑے گی۔۔‬

‫اہلل تمہارا بھال کرے بیٹا۔۔۔اہلل تمہیں دونوں‬


‫جہاں کی خوشیاں نصیب کرے۔۔۔بوڑھا‬
‫آدمی در خان کو دعائیں دیتے ہوا اٹھ کھڑا‬
‫ہوا اورپھر باہر چال گیا۔۔‬

‫اس کے بعد ایک ایک کر در خان نے تمام‬


‫لوگوں کے مسائل پوچھے اور پھر ان‬
‫دعائیں دیتا گیا‪ ،‬جن کے‪  ‬مشورہ طلب‬
‫مسائل تھے ‪ ،‬انہیں مشورے دیے۔۔لیکن ان‬
‫سب کو سنتے سنتے درخان کو عشا ہو گئی‬
‫اور پھر وہ عشا کی نماز مسجد میں ہی‬
‫پڑھ کر گھر کی جانب چل پڑا۔۔‬

‫خوشبو حجرے میں در خان کے ساتھ ہی‬


‫تھی اور اب اس کے ساتھ ساتھ ساتھ گھر‬
‫کی جانب‪  ‬چل رہی تھی‬

‫سلیمان یہ اچانک لوگوں کو کیا ہوگیا کہ‬


‫ایک دم سے بھیڑ لگ گئی ۔در خان نے‬
‫خوشبو سے سوال کیا‬

‫یہ تم پر اہلل کا کرم ہے درخان ‪ ،‬وہ جسے‬


‫چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلت دیتا‬
‫ہے۔۔۔اہلل نے تمہیں عزت دی ہے‪ ،‬آگے آگے‬
‫دیکھنا اورپتا نہیں کیا کیا ہوتا ہے۔۔۔ایک‬
‫غیبی آواز آئی جو سلیمان کی تھی‬
‫لیکن میں ایک گناہ گار انسان ہوں درخان‪،‬‬
‫میری اتنی اوقات نہیں کہ اہلل کو لوگوں‬
‫کی فریادیں پہنچاوں۔۔۔۔۔درخان نے کہا‬

‫تم ایک گناہ گار انسان تھے در خان لیکن اب‬


‫تم اہلل کے مقرب بندے ہو۔۔۔تمہیں اہلل نے‬
‫عزت سے نوازا ہے تو اس عزت کے بدلے اہلل‬
‫کے مجبور بندوں کی مدد کرو‪ ،‬ان کے کام‬
‫آو۔۔۔۔۔یہیں اب تمہاری عبادت بھی ہے ‪ ،‬یہی‬
‫تمہارا دین بھی ہے۔۔۔۔۔خوشبو بولی‬

‫لیکن سلیمان۔۔۔میں‬

‫اچانک نزدیک کے گھر سے کسی بچے کی‬


‫رونے کی آواز آئی ۔۔۔‬

‫سلیمان۔۔یہ آواز کیسی ہے۔۔۔۔در خان نے‪ ‬‬


‫اپنی بات کو ادھورا چھوڑ کر پوچھا‬
‫خوشبو چلی گئی تھی اور پھر کچھ دیر‬
‫‪ ‬بعد واپس آئی‬

‫اس گھر میں ایک بوڑھی عورت اپنے نواسے‬


‫کے ساتھ رہتی ہے درخان اور پچھلے دو دن‬
‫سے نہ اس عورت نے کچھ کھایا ہے اور نہ‬
‫ہی اس بچے نے‬

‫خوشبو سے آواز آئی‬

‫سلیمان کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟۔۔۔‬


‫درخان نے خوشبو سے کہا‬

‫اپنے پیچھے دیکھو درخان۔۔۔‬

‫درخان نے جب مڑ کر دیکھا تو ایک بھرا ہوا‬


‫تھیال پڑا ہوا تھا۔۔‬
‫اس میں راشن اور کچھ کھانے پینے کی‬
‫چیزیں ہیں درخان‪ ،‬تمہاری جیب میں میں‬
‫نے کچھ پیسے بھی رکھ دیے ہیں۔۔۔تم یہ‬
‫سب اس بوڑھی عورت کو دے دو۔ سلیمان‬
‫نے کہا تو درخان نے خاموشی سے وہ شاپر‬
‫اٹھا یا اور اس گھر کی جانب چل پڑا۔۔‬
‫نزدیک پہنچ کر دروازے پر دستک دی‪  ‬تو‬
‫کچھ دیر بعد ایک بوڑھی عورت دروازے پر‬
‫آئی‬

‫کیا کام ہے بیٹا۔۔۔بوڑھی عورت نے پوچھا‬

‫اماں۔۔یہ رونے کی آواز کیسی ہے؟ در خان‬


‫نے جواب دینے کے بجائے سوال کر ڈاال‬

‫بیٹا گھر میں کچھ بھی نہیں کھانے پینے‬


‫کو‪ ،‬میں اور میرا نواسہ دو دن سے بھوکے‬
‫ہیں۔۔۔بس اسی وجہ سے وہ رو رہا ہے اور‬
‫مجھ میں ہمت نہیں کہ میں اسے مزید‬
‫دالسہ دے سکوں۔۔عورت نے روتی آواز میں‬
‫بتالیا‬

‫اماں یہ تھیال لیں۔۔۔درخان نے مزید بات کرنا‬


‫مناسب نہ سمجھا اور تھیال آگے بڑھاتے‬
‫‪ ‬ہوئے کہا‬

‫کیا ہے اس میں بیٹا۔۔۔۔وہ پوچھی‬

‫کھانے پینے کا سامان ہے اماں۔۔۔اور یہ کچھ‬


‫پیسے بھی رکھ لیں اگر راشن کم پڑ جائیں‬
‫تو دوکان سے لے لیجیے گا۔۔۔درخان نے جیب‬
‫سے پیسے نکال کر عورت کی جانب بڑھائے‬

‫عورت نے بھی خاموشی سے وہ شاپر اور‬


‫پیسے لے لیے اور بنا کچھ کہے دروازے بند‬
‫کرکے چلی گئی شاید اس کی عزت نفس‬
‫گوارہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ یہ سامان لے‬
‫لیکن چونکہ اب سامان لے لیا تھا تو اس‬
‫میں شکریہ کہنے کی بھی ہمت نہ ہوئی اور‬
‫وہ دروازہ بند کرکے چلی گئی۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیرسفرینا۔۔۔‬
‫)قسط نمبر(‪)15‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫آج بستی میں میلے کا سماں تھا‪ ،‬چاروں‬


‫طرف االو جال کر بستی کو خوب روشن کیا‬
‫گیا تھا ‪ .‬بستی کا اربان گیت گا رہا تھا اور‬
‫درمیان میں ایک دائرہ بنا کر لوگ خوشی‬
‫میں ناچ رہے تھے۔ہر آدمی خوش تھا ۔ کیوں‬
‫نا خوش ہوتا‪،‬ان کے سردار جو خوش تھے۔‬

‫سردار دارو اپنے خانددان ‪ ،‬سکندر اور‬


‫سفرینا کے ساتھ بیٹھا لوگوں کو ناچ کرتے‬
‫دیکھ رہا تھا۔ اس کے گلے میں موتیوں کی‬
‫ماال بنا کر ڈالی گئی تھی۔ جبکہ باقی‬
‫لوگوں کو بھی پھولوں کے ہار پہنائے گئے‬
‫تھے ۔‬

‫رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی لیکن‬


‫لوگوں نے ناچنا جاری رکھا ہوا تھا۔ایک لوگ‬
‫تھک جاتے تو وہ سائیڈ پر جا کر کھڑے ہو‬
‫جاتے اور ان کی جگہ پر دوسرے لوگ آ کر‬
‫ناچنا شروع کر دیتے۔‬
‫سکندر سنیں۔۔۔سفرینا نے سکندر کے کان‬
‫میں سرگوشی کی۔‬

‫بستی پر حملہ کرنے کے لے لوگ آ رہے ہیں‬


‫اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے سردار کی‬
‫بیوی اور بیٹی کو اغوا کرنے کی کوشش‬
‫کی تھی ۔‬

‫سکندر نے یہ سن کر اثبات میں سر ہالیااور‬


‫پھر سفرینا سے سائیڈ پر جا کر بات کرنے‬
‫کے لیے سردار سے اجازت چاہی۔‬

‫اجازت ملنے کے بعد سکندر سفرینا کو لے کر‬


‫پرے جا کر کھڑا ہوا۔‬

‫تم کیا کہتی ہو سفرینا۔۔۔ہمیں کیا کرنا‬


‫چاہیے؟‬

‫سکندر نے سفرینا سے مشورہ مانگا۔‬


‫ہم سردار کو بھی خبردار نہیں کر سکتے‬
‫ہیں۔۔۔بس خود کو تیار رکھنا چاہیے ۔۔جیسے‬
‫ہی وہ لوگ بستی میں داخل ہوتے ہیں۔۔۔ہم‬
‫بھی ان کے خالف لڑائی کریں گے۔۔۔سفرینا‬
‫نے اپنے دل کی بات بتائی‬

‫لیکن میں ایسا نہیں چاہتا ہوں سفرینا۔۔۔۔۔‬


‫سکندر‪  ‬نے سفرینا کی مخالفت کی‬

‫پھر آپ کیا چاہتے ہیں سکندر؟‬

‫میں تمہیں بتاتا ہوں کہ میں کیا چاہتا ہوں‬


‫لیکن پہلے مجھے یہ بتاو کہ حملہ آور کتنے‬
‫لوگ ہیں؟ سکندر نے کہا تو سفرینا غائب ہو‬
‫کر چلی گئی اور پھر چند لمحوں کے بعد‬
‫دوبارہ حاضر ہوئی۔‬
‫پندرہ لوگ ہیں سکندر۔۔۔سفرینا نے آ کر‬
‫بتالیا‬

‫سفرینا میں نے یہ سوچا کہ تم ابھی جا کر‬


‫انہیں ختم کر آوگی اور میں یہاں کھڑے رہ‬
‫کر تمہارا انتظار کروں گا ۔ جب تم واپس آو‬
‫گی تو ہم یہاں سے نکل جائیں گے۔۔۔‬

‫ہمارے جانے پر سردار کیا سوچیں گے‬


‫سکندر؟ سفرینا نے سوچنے کے بعد سوال‬
‫کیا‬

‫یار ۔۔سردار ہمیں جانتا تو نہیں ہے کہ ہمارے‬


‫پیچھے آ جائے گا یا اگر اسے ہمارے بارے‬
‫میں پتا چال تو قیامت آ جائے گی۔۔۔۔میں‬
‫لگتا ہے کہ ہم یہاں مزید رہ کر اپنا وقت‬
‫ضائع کر رہے ہیں۔۔۔۔بس تم جا کر وہ کام کر‬
‫آو جو میں نے تمہین کہا ہے ۔۔۔اس کے بعد‬
‫ہم یہاں سے غائب ہو جائیں گے سفرینا‬

‫سکندر نے اپنا حتمی فیصلہ سنایا تو‬


‫سفرینا نے اپنے گردن ہاں میں ہالئی اور پھر‬
‫غائب ہو گئی۔‬

‫سفرینا کے جانے کے بعد سکندر کھڑا سوچ‬


‫رہا تھا کہ اس وقت سفرینا کس طرح سے‬
‫ان سب کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہو‬
‫گی۔۔۔کہ اچانک فضا فائرنگ کی آواز سے‬
‫گونج اٹھی اور پھر نہ رکنے واال سلسلہ‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ پہاڑوں پر‬
‫اندھا دھند فائرنگ ہو رہی ہے۔۔۔‬

‫گولیوں کی آواز سن کر بستی کے لوگ بھی‬


‫خاموش ہو گئے ‪ ،‬ان کا ناچ گانا بند ہو گیا‬
‫تھا اور وہ سب اکھٹا ہو کر اندازہ لگا رہے‬
‫تھے کہ یہ فائرنگ کیسی ہے اور کہاں سے‬
‫ہو رہی ہے۔۔‬

‫گولیوں کی آواز رک چکی تھی‪  ‬اور سکندر‬


‫سفرینا کا انتظار کر رہا تھا۔۔‬

‫سردار نے سکندر اور سفرینا کی غیر موجود‬


‫گی کو بھانپ لیا تھااور اب ان کے لیے‬
‫پریشان تھا۔وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا جس‬
‫کا یہی مطلب تھا کہ وہ سکندر اور سفرینا‬
‫کو ڈھونڈ رہا تھا۔‬

‫میں نے سب کو مار دیا ہے سکندر۔۔۔سفرینا‬


‫نے خود کو ظاہر کرکے کہا‬

‫اچھا کیا۔۔اب جلدی سے نکل چلو یہاں سے۔۔‬


‫سردار کوہماری غیر موجودگی کا پتا چل‬
‫چکا ہے سفرینا۔۔وہ کسی بھی وقت ہمیں‬
‫ڈھونڈنے کے لیے اپنے آدمی دوڑائے گا اور ہو‬
‫سکتا ہے کہ سردار کو پہاڑوں پر پڑی الشیں‬
‫بھی نظر آ جائیں۔۔۔‬

‫سکندر نے تشویش بھرے لہجے میں کہا‬

‫سردار کو کسی کی الش نظر نہیں آئے گی‬


‫سکندر۔۔۔سفرینا نے فخریہ لہجے میں کہا‬

‫کیا مطلب۔۔۔سفرینا؟‬

‫مطلب کہ میں نے ان سب کو مار کر ان کی‬


‫الشوں کو یہاں سے بہت دور پھینک آئی ہو‬
‫۔۔۔سفرینا نے بتایا‬

‫اوہ۔۔۔اتنی سفاک ہو گئی ہو سفرینا۔۔لیکن‬


‫اچھا کیا کہ الشیں غائب کر دیں۔۔۔‬
‫مگر گولیوں کی آواز سب کو سنائی دی‬
‫تھی تو سردار پتا کرنے کے لیے اپنے لوگ ارد‬
‫گرد دوڑائے گا۔۔۔سکندر سوچتے ہوئے کہا‬

‫یہ تو ہے سکندر۔۔۔لیکن انہیں کسی کی الش‬


‫نہیں ملے گی۔۔آپ بے فکر رہیں۔۔۔‬

‫اچھا۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔بس اب چلو۔۔یہاں مزید‬


‫رکنا ہمارے لیے بہت سے سواالت کھڑے کر‬
‫دے گا۔۔۔سکندر نے سفرینا سے کہا‬

‫‪ ‬ہاتھ دیں سکندر۔۔۔چلتے ہیں یہاں سے۔۔۔‬

‫یہ سن کر سکندر نے اپنا ہاتھ سفرینا کے‬


‫ہاتھ میں دیا‪  ‬اور آنکھیں بند کر دیں۔۔‬

‫آنکھیں کھول دیں سکندر۔۔۔کچھ دیر بعد‬


‫‪ ‬سفرینا کی آواز آئی‬
‫سفرینا کی آواز سن کر سکندر نے آنکھیں‬
‫کھولیں تو وہ کسی شہر میں کھڑے ہوئے‬
‫تھے کیونکہ نزدیک ہی گاڑیوں کے چلنے کی‬
‫آوازیں آ رہی تھی۔۔۔‬

‫سفرینا ۔۔جب تم مجھے آنکھیں بند کرنے کا‬


‫کہتی ہو اور اس کے بعد اگر میں آنکھیں‬
‫کھول لوں تو کیا ہو گا؟ سکندر نے پوچھا‬

‫کچھ بھی نہیں ہو گا سکندر۔۔ہم ہوا میں اڑ‬


‫رہے ہو تے ہیں۔۔۔اور ہماری رفتار اس قدر تیز‬
‫ہو تی ہے کہ آپ کو کچھ بھی نظر نہیں آئے‬
‫گا۔۔۔یہ تو میں آپ کو اس لیے کہتی ہوں کہ‬
‫کہیں آپ کی آنکھوں کو نقصان نہ پہنچ‬
‫جائے۔۔۔ویسے آپ کو آنکھیں کھولنے سے‬
‫کچھ نظر نہیں آئے گا۔۔۔سفرینا نے بتالیا‬
‫ہممم۔۔۔۔سکندر نے اسی لفظ پر اکتفا کیا‬

‫‪ ‬اب ہم کہاں ہیں سفرینا؟‬

‫اس وقت ہم نیپال کے دارلحکومت کی بازار‬


‫کے نزدیک ہی کھڑے ہیں سکندر ۔۔۔سفرینا‬
‫نے‪  ‬کہا‬

‫اچھا۔۔۔چلو پھر دارلحکومت کو بھی دیکھ‬


‫لیتے ہیں۔۔‬

‫لیکن رکو۔۔۔پہلے میں کپڑے تبدیل کر لوں‬


‫اور تم بھی دوسرے کپڑے پہن لو یار۔۔پہلے‬
‫دن سے تمہارا یہی لباس دیکھ دیکھ بیزار‬
‫ہو گیا ہوں۔۔۔سکندر نے سفرینا کے لباس کو‬
‫دیکھ کر کہا تھا‬

‫یہ سن کر سفرینا نے کچھ دیر کے اپنی‬


‫آنکھیں بند کر کے کھول لیں ۔۔۔‬
‫اس طرف چلیں سکندر۔۔۔نزدیک ہی ایک‬
‫پرانا گھر ہے ۔۔وہیں چل کر آپ اپنے کپڑے‬
‫تبدیل کر لینا اور میں بھی تبدیل کر لوں‬
‫گی۔۔۔سفرینا نے ایک سڑک کی مخالف سمت‬
‫کی طرف ہاتھ کرکے کہا تھا‬

‫یہ سن کر سکندر سفرینا کے ساتھ چل‬


‫پڑا۔۔۔پچاس قدموں کی دوری پر ایک بند‬
‫گھر نظر آیا جس کا تالہ کھال ہوا تھا۔۔یہ‬
‫سفرینا کا ہی کما ل تھا۔۔سکندر نے ہاتھ‬
‫بڑھا کر دروازے کو دھکا دیا تو دروازہ کھل‬
‫گیا۔۔‬

‫پہلے سکندر اندر داخل ہوا اور اس کے‬


‫پیچھے سفرینا بھی اندر چلی گئی۔‬
‫دروازے کے ساتھ ہی ایک پگڈنڈی تھی‬
‫جس کے ساتھ چھوٹا سا باغ لگا یا گیا تھا‬
‫لیکن شاید یہ جگہ کافی عرصہ سے بند‬
‫تھی کیونکہ چمن کی گھاس ایک ہاتھ تک‬
‫لمبی ہو گئی تھی۔۔۔سامنے ایک چھوٹا سا‬
‫برآمدہ تھا جس کے اندر دو کمرے تھے۔۔۔‬

‫سفرینا سکندر کے ساتھ ایک کمرے میں‬


‫چلی گئی اور پھر آنکھ بند کرکے اس نے‬
‫لباس منگوائے ۔۔جس میں سے ایک لباس‬
‫اس نے سکندر کو دیا اور دوسرا پنے پاس‬
‫رکھ لیا۔۔۔‬

‫ابھی سفرینا کمرے سے باہر نکلنے کے لیے‬


‫مڑی ہی تھی کہ اچانک اس کے بڑھتے قدم‬
‫رک گئے۔۔۔اس نے آنکھیں بند کرکے لمبی سی‬
‫سانس لی۔۔کچھ دیر تک اسی طرح سانس‬
‫لیتی رہی اور پھر آنکھیں کھول دیں۔۔۔‬

‫تم جو بھی ہو ۔۔ہم تمہیں تنگ کرنے نہیں‬


‫آئے ہیں۔۔۔‬

‫بس ہمیں یہ کپڑے تبدیل کرنے دو ۔۔۔پھر ہم‬


‫‪ ‬چلے جائیں گے ۔۔۔سفرینا نے کہا تھا‬

‫سکندر نے سفرینا کو فضا میں بات کرتے‬


‫دیکھا‪  ‬تو سمجھ گیا کہ یہاں کوئی اور‬
‫بھی ہے لیکن وہ کوئی غیر مری قوت ہے ۔۔‬

‫وہ ہونقوں کی طرح سفرینا کو دیکھ رہا‬


‫تھا۔۔۔‬

‫آپ اپنا لباس تبدیل کرلیں سکندر۔۔۔میں‬


‫دوسرے کمرے میں جا کر تبدیل کرتی‬
‫ہوں۔۔سفرینا نے سنجیدہ لہجے میں کہا‬
‫بھئی‪  ‬پہلے میں تبدیل کر لیتا لیکن تمہیں‬
‫اس طرح سے بات کرتا دیکھ کر میرا‬
‫حوصلہ ٹوٹ گیا ہے۔۔۔پتا نہیں کون ہے ۔۔‬
‫کیسا ہے ۔۔۔میں کسی کے سامنے کپڑے‬
‫تبدیل نہیں کر سکتا۔۔۔سکندر نے بچوں والے‬
‫لہجے میں کہا تھا‬

‫ہی ہی ہی۔۔۔کمرے میں کسی کے ہنسنے کی‬


‫آواز گونجی۔۔۔‬

‫کسی جن کا بچہ ہے سکندر۔۔۔میں نے اسے‬


‫بتا دیا ہے ‪،‬آپ کپڑے تبدیل کریں۔۔۔ وہ آپ‬
‫کو تنگ نہیں کرے گا۔۔۔۔سفرینا نے کہا‬

‫یار وہ مجھے دیکھ رہا ہے۔۔۔اوروہ جن کا‬


‫‪ ‬بچہ‪  ‬میرے کپڑے اٹھا کر لے گیا تو؟؟‬
‫ہاہاہا۔۔۔۔وہ کچھ نہیں کر ےگا سکندر۔۔۔آپ‬
‫بلکل بھی پریشان نہ ہوں۔۔سفرینا نے ہنستے‬
‫ہوئے کہا‬

‫اچھا میں اسے کہتی ہوں کہ وہ کچھ دیر‬


‫کے لیے چال جائے۔۔۔بس؟؟‬

‫ہاں۔۔یہ ٹھیک ہے۔۔۔۔سکندر بوال‬

‫پتا نہیں سکندر سچ میں ڈر رہا ہے یا بن رہا‬


‫ہے۔۔سفرینا نے سوچا اور پھر کسی کو‬
‫مخاطب کر کے کہا‬

‫ہمیں کچھ دیر کے لیے اکیال چھوڑ دو۔۔۔ہم‬


‫صرف کپڑے تبدیل کر لیں پھر تم آ جانا۔۔۔‬
‫اس کے بعد ہم چلے جائیں گے۔۔سفرینا نے‬
‫جن کے بچے کو مخاطب کیا تھا‬
‫سکندر فضا میں دیکھ رہا تھا کہ اچانک‬
‫ایک ہوا کا جھونکا اس کے قریب سے گزرا‬
‫اورپھر کسی کے ہی ہی ہی کرنے کی آواز‬
‫آئی جو ہوتی ہوئی کمرے سے باہر چلی‬
‫گئی۔‬

‫میں باہر آپ کا انتظار کروں گی ۔۔۔یہ کہتے‬


‫ہوئے سفرینا بھی کمرے سے باہر چلی گئی‬

‫سکندر نے چند لمحے انتظار کرکے تسلی کی‬


‫اورپھر جلدی جلدی سے کپڑے تبدیل کیے۔۔۔‬
‫اس نے پرانے کپڑوں کو وہیں کمرے میں‬
‫ٹھکانے لگانے کے بعد کمرے سے باہر نکل آیا‬
‫۔۔‬

‫سفرینا صحن میں اس کا انتظار کر رہی‬


‫تھی۔۔۔‬
‫آو چلیں۔۔۔سکندر نے سفرینا کے قریب پہنچ‬
‫کر کہا اور پھر دونوں باہر چل پڑے۔۔ان کو‬
‫دوبارہ کسی کے ہنسنے کی آواز آئی تھی‬
‫لیکن انہوں نے توجہ نہین دی ۔۔۔وہ دروازہ‬
‫سے نکل کر سڑک پر آ گئے تھے۔۔۔‬

‫ان دونوں کا رخ بازار کی طرف تھا۔۔جیسے‬


‫جیسےوہ بازار کی طرف بڑھتے جا رہے تھے‬
‫۔۔لوگوں کے ہجوم اور دوکانیں بھی بڑھتی‬
‫جا رہی تھیں۔۔‬

‫وہ دونوں بے مقصد دارلحکومت کی بازار‬


‫گھوم رہے تھے کہ اچانک ایک جگہ پر چند‬
‫لوگ کو گھیراو کرکے کھڑے دیکھا۔۔۔‬

‫چلو دیکھتے ہیں کہ یہ کس لیے کھڑے‬


‫ہیں۔۔۔سکندر نے سفرینا کی طرف دیکھنے‬
‫بنا کہا تھا‬

‫اور پھر وہ دونوں نزدیک پہنچ گئے۔۔‬

‫ایک آدمی سڑک کے کنارے چٹائی بچھا کر‬


‫بیٹھا ہوا تھا ‪ ،‬جس کے سامنے تاش کے‬
‫کچھ پتے پڑے ہوئے تھے۔۔۔‬

‫یہ دیکھیں جناب۔۔۔میں نے ان دس پتوں‬


‫میں بادشاہ کو رکھا ہے۔۔۔آپ میں سے جو‬
‫بھی بتائے گا کہ بادشاہ کا پتا کونسا ہے ۔۔۔‬
‫اس کو میں پچاس روپے نقد انعام دوں‬
‫گا۔۔۔لیکن یہ کھیل کھیلنے کے لیے آپ کو‬
‫دس روپے لگانے پڑیں گے ۔۔۔‬

‫اور پھر اس آدمی نے پتوں کو آگے پیچھے‬


‫کرکے خوب گھمانے کے بعد الئن میں ایک‬
‫ایک کرکے رکھ دیا۔۔۔‬
‫اب مختلف لوگوں نے دس دس روپے رکھ‬
‫کر اپنا من پسند پتا بتا دیا تو اس آدمی نے‬
‫ایک ایک کرکے پتوں کو اٹھانا شروع کیا۔۔۔‬
‫دس پتوں میں سے چوتھے نمبر پر بادشاہ‬
‫رکھا ہوا تھا۔۔۔اور باقی کے پتے خالی گئے‬
‫تھے‬

‫مبارک ہو آپ کو جناب۔۔آپ جیت گئے ہیں۔۔۔‬


‫چٹھائی پر بیٹھے آدمی نے بادشاہ کا پتا‬
‫بتانے والے کو کہا تھا۔۔‬

‫اس کو پچاس روپے دے کر باقی پیسے‬


‫آدمی نے اپنے جیب میں رکھ لیے۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا بھی یہ کھیل دیکھ رہے‬


‫تھے۔۔۔‬
‫کیا میں اپنی قسمت آزما سکتی ہوں‬
‫سکندر۔۔۔سفرینا نے سکندر کو کہنی مارتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫بلکل۔۔بہن آپ بھی‪  ‬کھیل سکتی ہیں۔۔۔‬


‫چھٹائی پر بیٹھے آدمی‪  ‬نے سفرینا کو سننے‬
‫کے بعد کہا تھا‬

‫کیوں بھائی ۔۔۔کھیل سکتی ہے نا‬


‫بھابھی؟۔۔۔اس نے دوبارہ کہا‬

‫کیوں نہیں۔۔۔بلکل کھیل سکتی ہے ۔۔‬


‫ویسےمیں خبردار کردوں۔۔تمہاری بھابھی‬
‫کی قسمت بہت ہی اچھی ہے۔۔ایسا نہ ہو کہ‬
‫تم اپنا سب کچھ ہار کر چھٹائی جھاڑتے‬
‫ہوئے یہاں سے چلے جاو‬

‫سکندر نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔۔۔‬


‫اب ایسا بھی نہیں ہے بھائی صاحب۔۔اس‬
‫‪ ‬آدمی نے سکندر کو جواب دیا‬

‫وہ پتوں کو بانٹ رہا تھا اور پھر اس نے‬


‫دوبارہ سے پتے الئن میں لگا دیے۔۔۔‬

‫بتائیں بھابھی۔۔۔بادشاہ کہاں ہے۔۔۔۔آدمی بوال‬

‫آج پہلی مرتبہ اس کے کھیل میں کوئی‬


‫عورت آئی تھی اس لیے وہ سب کو چھوڑ‬
‫کر سکندر اور سفرینا کو توجہ دے رہا تھا۔۔‬
‫شاید یہ بھی کاروبار کا ُگر تھا۔۔‬

‫بادشاہ تو میرے ساتھ کھڑا ہوا ہے بھائی۔۔۔‬


‫سفرینا نے ہنستے ہوئے کہا تو سکندر کا بھی‬
‫قہقہ نکل گیا۔۔‬

‫اب بولو ۔۔۔بھئی؟سکندر نے ہنستے ہوئے کہا‬


‫صحیح تو کہا ہے بھابھی نے ۔۔ان کے لیے تو‬
‫آپ ہی بادشاہ ہیں۔۔۔ویسے بہت خوبصور ت‬
‫جوڑی ہے آپ‪  ‬دونوں کی ۔۔۔خدا نظر بد سے‬
‫‪ ‬بچائے‬

‫شکریہ بھائی۔۔اس سے پہلے کہ سکندر کچھ‬


‫کہتا‪ ،‬سفرینا نے آدمی کو جلدی سے جواب‬
‫دے دیا۔‬

‫اب بتائیں بھابھی کہ ان پتوں میں بادشاہ‬


‫واال پتا کونسا ہے۔۔۔آدمی نے سفرینا کو کہا‬
‫تھا۔۔‬

‫یہ واال۔۔۔دائیں طرف سے دوسرا و‬

‫۔۔۔سفرینا نے انگلی کے اشار ے سے کہا تھا۔۔‬

‫آدمی نے پتے کو پلٹ کر دیکھا تو وہ بادشاہ‬


‫ہی نکال۔۔۔۔‬
‫واہ بھابھی واہ۔۔آپ تو سچ میں قسمت‬
‫والی ہیں۔۔۔آدمی سفرینا کی تعریف کر رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫وہ تو‪  ‬میں ہوں لیکن مجھ سے اچھی‬


‫قسمت ان کی ہے بھائی۔۔۔سفرینا نے دوبارہ‬
‫سکندر کو کہنی ماری تھی۔‬

‫وہ ہے بھابھی۔۔۔اچھا یہ لیں بھابھی آپ کے‬


‫پچاس روپے۔۔اس نے پیسے سفرینا کی‬
‫طرف بڑھائے جو سکندر نے لے لیے تھے۔۔‬

‫دوبارہ کھیلیں گی آپ؟ آدمی نے سفرینا کو‬


‫دوبارہ کھیلنے کے لیے کہا تھا‬

‫بلکل‪  ‬کھیلوں گی۔۔۔مجھے تو مزہ آ رہا ہے۔۔‬


‫سفرینا نے جوشیلے انداز میں کہا تھا۔۔اسے‬
‫بھی جیتنے میں مزہ آ رہا تھا۔۔۔‬
‫دوبارہ پتوں کو بانٹ کر الئن میں رکھ دیا‬
‫گیا اور پھر سب نے اپنا اپنا پتا بتایا۔۔اس‬
‫مرتبہ بھی سفرینا ہی جیتی تھی۔۔۔سفرینا‬
‫کی تو ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی اور‬
‫سکندر سفرینا کو حیرت بھری نظروں سے‬
‫دیکھ رہا تھا۔۔اس نے سفرینا کا یہ چہرہ‬
‫پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔‬

‫چار‪ ،‬پانچ مرتبہ کھیلنے کے بعد بھی ہر‬


‫دفعہ سفرینا ہی جیتی تھی۔۔۔اب اس آدمی‬
‫کو اپنی روزی بند ہوتی نظر آئی ۔۔۔جسے‬
‫سفرینا نے بھی محسوس کر لیا‬

‫بھائی ۔۔ہم آپکا شہر گھومنے آئے ہیں اور‬


‫ہمارے پاس اپنےبہت پیسے ہیں۔۔۔اس لیے‬
‫ہمیں آپ کی پیسوں کی کوئی ضرورت‬
‫نہیں ہے ۔۔یہ لیں ۔۔آپ اپنے پیسے واپس لے‬
‫لیں۔۔سفرینا نے یہ کہہ کر جیتی ہوئی ساری‬
‫رقم سکندر سے لے کر نیچھے بیٹھےآدمی‬
‫کی جانب بڑھائی۔۔‬

‫چھٹائی پر بیٹھا انسان بھی اپنا بہت سا‬


‫پیسہ ہار چکا تھا۔۔اس نے جیسے ہی سفرینا‬
‫کا پیسے سے بھرا ہاتھ اپنی جانب بڑھتے‬
‫دیکھاتو جھٹ سے سفرینا سے پیسے لے‬
‫لیے۔۔‬

‫بھابھی۔۔خدا آپ کا بھال کرے۔۔۔آپ دیوی‬


‫ہیں۔۔آپ مہان ہیں۔۔خدا آپ دونوں کو صدا‬
‫سالمت رکھے۔۔آپ دونوں پر کوئی آنچ نہ‬
‫آئے‬
‫اس نے سفرینا کی تعریف میں ہزاروں پل‪ ‬‬
‫باندھ دیے تھے۔۔۔‬

‫بس بس بھائی ۔۔کچھ زیادہ ہی بول دیا‬


‫‪ ‬ہے۔۔۔سفرینا نے کہا‬

‫چلیں سفرینا؟ سکندر نے کہا تھا‬

‫جی۔۔سکندر ۔۔۔چلیں چل کر دوسری جگہیں‬


‫گھومتے ہیں۔۔۔اور پھر وہ دونوں اس جوا‬
‫کھیلتے ہجوم کو چھوڑ کر چل پڑے‬

‫آج تو تم بہت خوش ہو رہی تھی سفرینا۔۔۔۔‬


‫سکندر نے کہا‬

‫ہاں سکندر۔۔پتا نہیں کیوں۔۔مجھے یہ کھیل‬


‫کھیلتے ہوئے بہت اچھا لگ رہا تھا۔۔‬
‫اس نے سکندر کو یہ نہیں بتایا کہ اسے‬
‫کھیل سے زیادہ اس آدمی کی باتیں اچھی‬
‫لگ رہی تھی‬

‫ہاں بھئی۔۔جیتتا ہوا نسان ہمیشہ ہی خوش‬


‫ہوتا ہے۔۔۔سکندر اپنی بات کہی تھی‬

‫وہ دونوں دائیں بائیں دیکھتے ہوئے بازار‬


‫کی رونق کا نظارہ کر رہے تھے‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬
‫)​سفرینا۔۔۔قسط نمبر(‪)16‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫اس وقت رات کے ‪ 11‬ہو رہے تھے ۔ سکندر‬


‫اور سفرینا کو بازار میں گھومتے ہوئے کافی‬
‫دیر چکی تھی۔۔‬

‫سفرینا مجھے بھوک لگ رہی ہے۔۔کہیں چل‬


‫کر کھانا کھاتے ہیں۔۔۔سکندر نے کہا‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر۔۔بتائیں کہاں چلنا ہے۔۔۔‬


‫پھر میں آپ کے لیے کھانا التی ہوں۔۔۔سفرینا‬
‫بولی‬

‫بھئی اب یہ کھانا منگوانے واال چکر چھوڑ‬


‫دو۔۔۔ہم کسی ہوٹل میں جا کر کھانا کھائیں‬
‫گے‬
‫جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔سفرینا نے جواب‬
‫دیا‬

‫ایک جگہ پر رک کر سکندر نے بازار کی‬


‫چاروں جانب نظر دوڑائی اور پھر اسے ایک‬
‫ہوٹل نظر آ گیا۔۔۔‬

‫ہم وہاں کھانا کھائیں گے سفرینا۔۔۔سکندر نے‬


‫ہوٹل کی جانب اشارہ کیا تھا اور پھر وہ‬
‫دونوں ہوٹل کی جانب چل پڑے۔۔۔‬

‫یہ ہوٹل دارلحکومت کا کافی مشہور اور‬


‫مہنگا ہوٹل تھا۔۔۔جیسے ہی وہ دونوں ہوٹل‬
‫کےداخلی دروازے پر پہنچے تو وہاں موجود‬
‫دربان نے جھک کر سالم کیا‪  ‬اور دروازہ‬
‫کھول دیا۔۔۔‬
‫ہوٹل کے اندر کافی رونق تھی ۔۔۔چونکہ یہ‬
‫رات کا وقت تھا اس لیے اندر کی تمام‬
‫میزیں لوگ سے بھری ہوئی تھی۔۔۔‬

‫ایک کونے سے مینیجر نکل کر ان کی جانب‬


‫بڑھ آیا۔۔‬

‫میں اپنے ہوٹل میں نئے مہمانوں کو خوش‬


‫آمدید کہتا ہوں ۔۔۔اس نے سکندر کی طرف‬
‫‪ ‬اپنا ہاتھ بڑھایا‬

‫میرا نام سکندر ہے اور یہ میری بیوی‬


‫سفرینا ہے۔۔۔۔ہم یہاں کھانا کھانے کے لیے آئے‬
‫ہیں۔۔۔لیکن مجھے کوئی جگہ خالی نظر‬
‫نہیں آ ہی ہے۔۔‬

‫سکندر نے مینیجر سے ہاتھ مالنے کے بعد‬


‫کہا‬
‫آپ کو پریشان ہونے کی بلکل بھی ضرورت‬
‫نہیں ہے جناب۔۔آپ جیسے خوبصورت‬
‫جوڑے کے لیے یہاں بیٹھنا مناسب نہیں ہے‬
‫۔۔میں آپ کے لیے ایک شاندار جگہ کا‬
‫بندوبست کرتا ہوں۔۔۔مینیجر نے خوشامد‬
‫بھرے انداز میں کہا‬

‫بلکل۔۔ہم بھی ایسی ہی جگہ چاہتے ہیں۔۔۔‬


‫سکندر ہوٹل کے اندرونی ماحول کو دیکھ‪ ‬‬
‫رہا تھا‪ ،‬اس نے مینیجر کی طرف دیکھے‬
‫بغیر کہا تھا۔۔‬

‫آئیں ۔۔میرے ساتھ چلیں جناب۔۔۔یہ کہہ کر‬


‫مینیجر ایک جانب کو چل پڑا ۔۔۔سکندر اور‬
‫سفرینا بھی اس کے ساتھ ساتھ جا رہے تھے‬
‫آپ لوگوں کے ساتھ سامان وغیرہ نہیں ہے‬
‫جناب۔۔۔مینیجر بوال‬

‫نہیں ۔۔۔ہمارے ساتھ کوئی بھی سامان نہیں‬


‫ہے۔۔جب ضرورت پڑی تو ہم لے لیتے ہیں۔۔۔‬
‫سکندر نے سنجیدگی میں جواب دیا تھا۔۔‬

‫سامنے ایک بڑا سا پردہ گرا ہوا تھا ۔۔مینیجر‬


‫نے نزدیک پہنچ کر پردے کو ایک طرف‬
‫سرکا یا ۔۔یہ ہوٹل کا ٹیرس تھا ۔۔۔‬

‫ہوٹل ایک پہاڑی پر بنایا گیا تھا۔۔۔جس کی‬


‫ایک طرف جنگالت تھا۔۔اس وقت چاند‬
‫اپنی پوری آب و تا ب سے چمک رہا تھا۔۔۔‬

‫مینیجر نے کرسیاں کو کھسکا کر سکندر اور‬


‫سفرینا کو پیش کیں۔۔اور پھر ایک طرف‬
‫ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا۔۔‬
‫آپ لوگ رات کے کھانے میں کیا کھانا پسند‬
‫کریں گے جناب۔۔۔سکندر اور سفرینا کے بیٹھ‬
‫‪ ‬جانے کے بعد مینیجر بوال‬

‫آپ لوگوں کا مینیو نہیں ہے؟۔۔۔سکندر نے‬


‫سوال کیا‬

‫میں ابھی التا ہوں۔۔یہ کہہ کر مینیجر دوڑتا‬


‫ہوا چال گیا۔۔وہ سکندر اور سفرینا کو خود‬
‫ہی ڈیل کر رہا تھا‬

‫سفرینا ۔۔کیا تمہیں بھوک نہیں لگی ہے۔۔۔۔؟‬


‫سکندر نے پوچھا‬

‫بھوک تو لگی ہے سکندر لیکن کیا کروں میں‬


‫آپ لوگوں کا کھانا نہیں کھا سکتی ہوں ۔۔۔‬
‫سفرینا نے مایوس ہو کر کہا‬
‫تمہیں کوشش کرنی چاہیے سفرینا۔۔۔سکندر‬
‫نے کہا‬

‫بلکہ میں ایسا کرتا ہوں کہ مینجر سے کہلوا‬


‫کر ہاف فرائی گوشت منگواتا ہوں۔۔۔تم وہ‬
‫کھا کر دیکھو۔۔۔شاید تمہیں پسند آ جائے۔۔۔‬
‫سکندر نے مشورہ دیتے ہوئے کہا‬

‫آپ منگوا لیں۔۔۔میں چکھ کر دیکھتی ہوں‬


‫سکندر۔۔۔۔سفرینا نے سکندر کی تائید کی‬

‫یہ لیں سر۔۔۔ہمارا مینیو۔۔۔۔۔۔مینیجر نے‬


‫مینیو سکندر کو پکڑاتے ہوئے کہا‬

‫سکندر نے مینیو میں سے کچھ کھانے‬


‫پسندکیے اور‪  ‬مینیجر کو مینیو دوبارہ پکڑا‬
‫دیا۔۔‬
‫اچھا ۔۔۔ایک کام کریں‪  ‬کہ گوشت کو ہاف‬
‫فرائیڈ ہونا چاہیے۔۔۔۔سکندر بوال‬

‫جی ٹھیک ہے سر۔۔۔کھانا آپ کی پسند کے‬


‫مطابق ہو گا۔۔یہ کہہ کر مینیجر مڑ کر چال‬
‫گیا۔۔‬

‫اب آگے کا آپ نے کیا سوچا ہے سکندر۔۔۔۔‬


‫سفرینا نے دونوں بازو ٹیبل پر ٹکاتے ہوئے‬
‫کہا۔۔اس نے چہرہ دونوں ہاتھوں کے پیالہ‬
‫میں پکڑ لیا تھا‬

‫کھانا کھا کر سونا ہے اور کیا کریں‬


‫گےسفرینا۔۔۔سکندر بوال‬

‫میرا مطلب تھا کہ آپ نے مستقبل کا کیا‬


‫سوچا ہے سکندر۔۔۔؟ سفرینا نے اپنی بات کی‬
‫وضاحت کی‬
‫سچ کہوں تو سفرینا تمہارا تاش کے پتوں‬
‫واال کھیل دیکھ کر میرے دماغ میں کچھ‬
‫منصوبے آئے ہیں۔۔۔‬

‫میں سوچ رہا ہوں کہ دنیا تو گھومنی ہے‬


‫لیکن ساتھ میں کچھ کام بھی کر لیا جائے‬
‫تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔سکندر نے جواب‬
‫دیا‬

‫کس طرح کا کام کرنا چاہیں گے آپ‬


‫‪ ‬سکندر۔۔۔؟‬

‫کام تو کوئی خاص نہیں کرنا ہے ۔۔۔بس میں‬


‫زرا اپنے ہاتھ پیر بھی ہالنا چاہتا ہوں‬
‫سفرینا۔۔۔۔‬

‫مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی ہے‬


‫سکندر۔۔۔۔سفرینا نا سمجھنے والے لہجے میں‬
‫بولی‬

‫سمجھ جاو گی سفرینا۔۔۔سب سمجھ جاو‬


‫گی۔۔۔بس تھوڑا انتطار کر لو۔۔میری منہ‬
‫بولی بیوی۔۔۔سکندر شرارتی لہجے میں کہا‬
‫تو سفرینا کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی‬

‫ویٹرایک بڑے سے طشت میں کھانا لے آ یا‬


‫تھا۔۔۔اس کے ساتھ مینجر بھی آیا تھا۔۔۔اور‬
‫پھر ویٹر نے کھانا ٹیبل پر لگانا شروع کیا‬

‫مینیجر صاحب۔۔۔کیا آپ ہر مہمان کے ساتھ‬


‫ایسا ہی کرتے ہیں۔۔مطلب کہ ہر ٹیبل پر‬
‫خود آتے ہیں اور آرڈرلیتے ہیں؟ سکندر نے‬
‫‪ ‬سوال کیا‬

‫بلکل بھی نہیں جناب۔۔۔آپ ہمارے خاص‬


‫مہمان ہیں۔۔۔اس لیے میں اپنی نگرانی میں‬
‫یہ سب کر رہا ہوں۔۔۔مینیجر نے جواب دیا‬

‫شکریہ ۔۔۔لیکن ہم آپ کے خاص مہمان کس‬


‫وجہ سے ہیں؟ سکندر نے اگال سوال کیا‬

‫کیونکہ آپ نیپالی نہیں ہے بلکہ ہمارے‬


‫پڑوسی ملک سے آئے ہیں۔۔۔تو ہمارے مہمان‬
‫ہوئے جناب۔۔۔مینیجر نے کہا تو سکندر‬
‫مطمئن ہو گیا۔‬

‫آپ لوگ کھانا کھائیں جناب۔۔۔یہ کہہ کر‬


‫مینیجر واپس جانے کے لیے مڑا لیکن کچھ‬
‫سوچ کر اس نے دوبارہ سکندر کی جانب‬
‫گھوم گیا۔۔‬

‫آپ لوگ نے سونے کا کیا سوچا ہے جناب۔۔۔‬


‫اگر کہیں تو میں آپ لوگوں کے لیے ایک‬
‫خوبصورت سا کمرہ بک کرلوں۔۔۔مینیجر‬
‫بوال‬

‫ہمارے پاس سونے کی کوئی اور جگہ تو ہے‬


‫نہیں۔۔۔اس لیے ہم یہیں سوئیں گے۔۔۔ٹھیک‬
‫ہے آپ ہمارے لیے ایک کمرے کا بندو بست‬
‫کر دیں ۔۔سکندر نے‪  ‬کہا تو مینیجر چال گیا‬

‫کھانا شروع کرو سفرینا۔۔۔سکندر نے کہا تو‬


‫سفرینا نے گوشت کی ایک بوٹی اٹھا کر منہ‬
‫میں رکھ لی۔۔کچھ دیر تو اس نے گوشت کا‬
‫ذائقہ محسوس‪  ‬کرنے کے لیے بوٹی کو منہ‬
‫میں ادھر ادھر گھمایا اور پھر وہ چبانے لگ‬
‫گئے۔۔۔‬

‫اچھا بنا ہے سکندر۔۔۔سفرینا بولی‬


‫تو پھر جی بھر کے کھاو سفرینا۔۔۔سکندر نے‬
‫نوالہ بناتے ہوئے کہا اور پھر وہ دونوں‬
‫خاموشی سے کھانا کھانے لگ گئے۔‬

‫انہیں کھانا ختم کرتے کرتے آدھا گھنٹہ لگ‬


‫گیا ۔۔۔‬

‫نزدیک ہی ایک ویٹر کھڑا ہوا تھا۔۔اس نے‬


‫جب دیکھا کہ کھانا کھانا بند کر دیا گیا ہے‬
‫تو وہ نزدیک آ یا اور برتن اکھٹے کرکے‬
‫دوبارہ سے طشت میں لگا نے لگا ۔۔۔سارے‬
‫‪ ‬برتن اکھٹے کرکے وہ چال گیا‬

‫ویٹر کے جانے کے بعد ایک اور ویٹر آگیا‬


‫جس نے اپنے ایک ہاتھ میں شراب کی بوتل‬
‫اٹھا رکھی تھی اور دوسرے ہاتھ میں دو‬
‫گالس تھے۔۔‬
‫ہم لوگ یہ نہیں پیتے۔۔۔۔واپس لے جاو اور‬
‫مینجر کو شکریہ کہنا۔۔۔ویٹر کو بوتل‬
‫رکھتے دیکھ کر سکندر نے کہا تو ویٹر نے‬
‫بوتل دوبارہ اٹھا لی اور واپس مڑ گیا۔‬

‫تھوڑا باہر جا کر گھوم پھر نہ لیں سفرینا۔۔۔‬


‫سکندر نے کرسی کو ٹیک لگاتے ہوئے کہا‬

‫جیسے آپ کی مرضی سکندر۔۔۔سفرینا نے‬


‫اپنی مرضی سکندر پر چھوڑدی ۔‬

‫اٹھو ۔۔چلتے ہیں۔۔سکندر نے اٹھتے ہوئے کہا‬


‫تو سفرینا نے بھی اپنی جگہ چھوڑ دی۔‬

‫وہ دونوں چلتے ہوئے ہوٹل کے الن میں‬


‫پہنچے تو مینیجر ان کے پیچھے دوڑتا ہوا‬
‫آیا۔‬
‫آپ دونوں کہاں چل دیے جناب۔۔۔نزدیک‬
‫پہنچ کر مینیجر بوال‬

‫ہم زرا گھوم پھر لیں مینیجر۔۔۔پھر واپس‬


‫آتے ہیں ۔۔۔آپ نے کمرہ تو بک کر لیا ہے نا؟‬
‫سکندر نے مینیجر سے کہا‬

‫جی ہاں جناب۔۔میں نے آپ کے لیے ایک‬


‫کمرہ کھلوا دیا ہے۔۔آپ دونوں تسلی سے‬
‫گھوم پھر آئیں ۔۔۔مینیجر بوال‬

‫ملتے ہیں پھر۔۔یہ کہہ کر سکندر آگے بڑھے‬


‫اور سفرینا بھی اس کے ساتھ چل دی۔۔۔‬

‫مینیجر واپس چال گیا تھا۔۔۔‬

‫ہوٹل کے بیرونی گیٹ سے نکل کر سکندر‬


‫اور سفرینا سڑک کی ایک جناب چل پڑے۔۔‬
‫ان کے چلنے کی رفتار دھیمی تھی۔۔‬
‫دارلحکومت کا موسم اس وقت خاصا سرد‬
‫ہو چکا تھا اور لوگ بھی اپنے اپنے کمروں‬
‫میں دبک کر نیند کے مزے لے رہے تھے۔۔۔‬
‫سڑک پر رش بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا کو پتا ہی نہیں چال کہ‬


‫وہ دونوں گھومتے ہوئے کتنی دور چلے گئے‬
‫ہیں۔۔۔ہوش تب آیا جب کسی نے ایک‬
‫مانوس نام لیا۔۔۔‬

‫سفرینا۔۔۔۔۔۔کیا تم سفرینا ہو۔۔۔۔۔۔یہ کوئی‬


‫انسان تھا جو ان کے پیچھے پیچھے آ رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کا نام لیتا دیکھ کر سکندر بھی‬


‫حیران ہو گیا۔۔۔۔‬
‫کون ہو تم اور مجھے کیسے جانتے ہو۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے سخت لہجے میں کہا‬

‫مجھے ہی بھول گئی تم سفرینا۔۔۔۔میں‬


‫تمہارا کتنے دنوں سے انتظار کر رہا ہوں‬
‫لیکن تمہیں تو میں یاد ہی نہیں۔۔۔۔وہ آدمی‬
‫بوال‬

‫میں تم سے آخری دفعہ پوچھ رہی کہ تم‬


‫کون ہو اور مجھے کیسے جانتے ہو۔۔۔اس کے‬
‫بعد تم اگلی سانس نہیں لے سکو گے۔۔۔‬
‫سفریناسفاک لہجے میں بولی ۔۔‬

‫وہ آہستہ آہستہ اپنے اصل چہرے میں آ رہی‬


‫تھی۔۔۔اس نے اپنی شکل نہیں بدلی تھی‬
‫لیکن جس طرح کے تیور اس کے چہرے پر‬
‫نظر آ رہے تھے۔ بس چند لمحوں کی بات ہے‬
‫۔۔یہ انسان اپنی زندگی کی آخری سانسیں‬
‫لے رہا ہوگا۔۔۔‬

‫میں سمندر کا بادشاہ ہوں سفرینا۔۔۔۔۔و ہ‬


‫آدمی بوال‬

‫یہ بات سن کر سفرینا کو جھٹکا لگا۔۔۔یہ‬


‫شیطان اعظم تھا ۔۔۔لیکن اس طرح سے‬
‫سفرینا کےسامنے آنے کا مقصد سفرینا کو‬
‫نہیں سمجھ آیا۔۔‬

‫آپ۔۔۔یہاں کیسے۔۔۔سفرینا نے نام لیے بغیر‬


‫کہا۔۔۔‬

‫بس تم یاد آئی تو میں تم سے ملنے خود آ‬


‫گیا۔۔۔شیطان اعظم بوال۔۔‬

‫اور ہاں۔۔۔تمہیں بہت بہت مبارک ہو‬


‫نوجوان۔۔۔شیطان اعظم نے سکندر سے کہا‬
‫تھا۔۔‬

‫کس بات کی مبار ک باد دے رہے ہو تم۔۔۔۔‬


‫سکندر نے درشت بھرے لہجے میں کہا‬

‫ہاہاہا۔۔۔سفرینا کی مبارک باد دے رہا ہوں‬


‫تمہیں۔۔۔ایسی طاقت تمہارے قبضے میں‬
‫دیکھ کر میں تو حیران ہو گیا۔۔۔شیطان‬
‫اعظم بوال‬

‫او۔۔اچھا۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔سکندر نے مختصر‬
‫جواب دیا۔۔۔‬

‫ان دونوں کی باتیں سکندر کے اوپر سے گزر‬


‫‪ ‬رہی تھی‬

‫آپ چلیں۔۔۔میں تھوڑی دیر میں آکر آپ سے‬


‫ملتی ہوں ۔۔۔سفرینا نے شیطان اعظم سے‬
‫کہا تھا‬
‫میں تمہارا انتظار کر وں گا سفرینا۔۔۔۔۔یہ‬
‫بول کر شیطان اعظم الٹے قدم مڑا اور پھر‬
‫چل دیا۔۔‬

‫سکندر چلیں۔۔۔ہم کافی دور نکل آئے ہیں اور‬


‫رات بھی کافی گزر گئی ہے۔۔۔سفرینا نے کہا‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔تمہیں ڈر لگ رہا ہے یا اس آدمی سے‬


‫ملنے کی جلدی ہے سفرینا۔۔۔سکندر نے‬
‫ہنستے ہوئے کہا‬

‫سچ کہوں تو میں اس آدمی سے ملنے‬


‫جاوگی لیکن اس سے پہلے آپ سے کو ہوٹل‬
‫پہنچانا بھی ضروری ہے اور آپ سے ملنے‬
‫کی اجازت لینا بھی ضروری ہے سکندر۔۔۔‬
‫سفرینا نے صاف گوئی‪  ‬کا مظاہرہ کیا‬
‫اور اگر میں تمہیں ملنے سے منع کر دوں‬
‫‪ ‬تو۔۔۔۔سکندر نے شرارتی لہجے میں کہا‬

‫میں آپ کی غالم ہوں سکندر اور آپ کا کہا‬


‫نہیں ٹال سکتی ہوں ۔۔اگر ایسا کرتی ہوں‬
‫تو مجھ پر ابلیس کی لعنت پڑے گی۔۔۔‬
‫سفرینا بولی‬

‫مذاق کر رہا ہوں یار۔۔۔ظاہر ہے تمہاری دنیا‬


‫کا ہی کوئی تمہارا رشتے دار ہوگا۔۔مجھے‬
‫تمہارے ملنے سے کوئی مسلئہ نہیں ہے۔۔۔‬
‫بلکہ تم ایسا کرو کہ مجھے ہوٹل پہنچا دو‬
‫اورپھر واپس یہاں آ جانا۔۔۔۔سکندر بوال‬

‫اور ہاں۔۔۔تم کب تک واپس آوگی۔۔تاکہ میں‬


‫ہوٹل میں بتا دوں۔۔۔سکندر نے سوال کیا‬
‫اگر آپ اجازت دیں تو میں اپنے لوگوں سے‬
‫مل کر صبح کو واپس آ جاوں؟ سفرینا نے‬
‫معصوم لہجے میں فرمائش کی‬

‫ہائے۔۔۔۔ایسے بن کر تم اگر مجھ سے میری‬


‫زندگی بھی مانگ لو گی تو میں تمہیں وہ‬
‫دے دوں۔۔۔یہ اجازت کونسے کھیت کی‬
‫مولی ہے۔۔سکندر نے موڈی لہجے میں کہا تو‬
‫سفرینا کھلکھال کر ہنس پڑی‬

‫چلیں۔۔۔میں آپ کو پہنچا آتی ہوں۔۔سفرینا‬


‫نے سکندر کی طرف اپنا ہاتھ‪  ‬بڑھاتے ہوئے‬
‫کہا جسے سکندر نے تھام لیا تھا۔۔۔‬

‫چند لمحوں کے بعد وہ ہوٹل کے قریب‬


‫اندھیرے میں کھڑے ہوئے تھا۔۔سکندر نے‬
‫زیادہ بات نہیں کی‪  ‬اور سفرینا کوچھوڑ کر‬
‫خاموشی سے ہوٹل کے اندر داخل ہو گیا‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫ــــــــ‬

‫ایک روشنی کی لہر تھی جو تیز رفتاری س‬


‫سمندر کی سطح پر تیرتی ہوئی جا رہی‬
‫تھی۔۔یہ سفرینا تھی جس کی منزل شیطان‬
‫اعظم کا تخت تھا۔۔۔‬

‫وہ شیطان اعظم کی سلطنت میں داخل ہو‬


‫گئی تھی۔۔۔کیونکہ اب اس کی رفتار آہستہ‬
‫ہو چکی تھی اور پھر آہستہ ہوتے ہوتے بلکل‬
‫کم ہو گئی۔‬

‫تخت کے قریب پہنچ کر وہ اپنی اصل‬


‫صورت میں آ گئی۔۔۔سامنے شیطان اعظم‬
‫بیٹھا ہوا تھا ۔۔‬

‫سفرینا کو سامنے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑا‬


‫ہوا۔۔‬

‫آوسفرینا۔۔۔آو۔۔۔۔اب ہم خود ہی تم سے ملنے‬


‫آئیں ۔۔۔تم تو ہمیں بھول چکی ہو۔۔۔شیطان‬
‫اعظم نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آپ نے مجھے‬


‫یاد کیا۔۔۔لیکن آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی‬
‫طاقت غالمی میں آ جاتی ہے تو وہ اپنی‬
‫مرضی نہیں کر سکتی ہے۔۔بس اس لیے میں‬
‫مجبور ہو ںشیطان اعظم۔۔۔یقین کریں اب‬
‫بھی میں اپنے آقا سے اجازت لے کر آئی‬
‫ہوں۔۔۔سفرینا نے جواب دیا۔۔‬
‫ایک بات کہوں سفرینا۔۔۔شیطان اعظم نے‪ ‬‬
‫تخت پر بیٹھتے ہوئے کہا‬

‫جی کہیں۔۔۔۔سفرینا بھی شیطان اعظم کے‬


‫تخت کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔۔‬

‫میں نے تمہیں اس آدمی کے ساتھ کچھ دن‬


‫پہلے ہی دیکھ لیا تھا۔۔۔لیکن میں نے تمہیں‬
‫تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔۔۔لیکن اتنے‬
‫دن گزرنے کے بعد بھی وہ آدمی نہ صرف‬
‫زندہ ہے بلکہ تمہارے ساتھ ہے۔۔یہ بات‬
‫مجھے پریشان کر رہی تھی تو میں تم سے‬
‫ملنے آ گیا۔۔۔شیطان اعظم نے کہا‬

‫او۔۔۔تو یہ بات تھی جس کے لیے آپ مجھ‬


‫سے ملنے آ گئے۔۔۔۔سفرینا بولی‬
‫اصل میں میرے پاس کوئی کام کرنے کو‬
‫ہوتا نہیں تو میں نے سوچا کہ اس آدمی کے‬
‫ساتھ رہ کر تھوڑی دنیا دیکھ لوں ۔۔انسان‬
‫دیکھ لوں۔۔جب بور ہو گئی تو اسے مار دوں‬
‫گی۔۔۔بس یہی بات ہے۔۔۔‬

‫کیا سچ میں یہی بات ہے سفرینا۔۔۔۔؟‬


‫شیطان اعظم نے شک بھر ے لہجے میں کہا‬

‫بلکل۔۔۔یہی بات ہے‬

‫لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہی بات ہے۔۔کچھ‬


‫دن پہلے تم اس کے ساتھ کسی جھیل میں‬
‫نہا رہی تھی تو میں نزدیک ہی تھا۔۔جس‬
‫طرح سے تم اس کے ساتھ ہنس ہنس کر‬
‫بات کر رہی تھی اور نہا رہی تھی۔۔۔مجھے‬
‫نہیں لگتا کہ تم دنیا اور انسانوں کو دیکھ‬
‫رہی ہو۔۔‬

‫سچ سچ بتاو سفرینا۔۔تمہیں اس آدمی کے‬


‫ساتھ محبت تو نہیں ہو گئی۔۔۔۔شیطان‬
‫اعظم نے وہ پوچھ لیا تھا جو اسے نہیں‬
‫پوچھنا چاہیے تھا‬

‫ہاہاہا۔۔۔آپ مزاق کر رہے ہیں شیطان اعظم۔۔۔‬


‫ایک چڑیل ۔۔۔اور چڑیل بھی وہ جس کے دل‬
‫میں کسی کے لیے رحم نہیں۔۔۔وہ کسی‬
‫انسان سے محبت کرے گی۔۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔آپ نے‬
‫‪ ‬یہ سوچ کیسے لیا۔۔۔حیرت ہے مجھے‬

‫سفرینا نے ہنستے ہوئے کہا تھا‬

‫ابلیس کرے کہ یہ مزاق ہی ہو سفرینا۔۔۔‬


‫کیونکہ تم ان انسانوں سے صحیح سے‬
‫واقف نہیں ہو۔۔۔یہ ہم شیطانوں کے کبھی‬
‫دوست نہیں ہو سکتے ہیں اور نہ ہم ان کے‬
‫دوست ہو سکتے ہیں۔۔۔تم نے اگر غلطی سے‬
‫بھی یہ آگ اور تیل کا کھیل کھیال تو ساری‬
‫زندگی پچھتاو گی ۔۔۔نہ صرف پچھتاو گی‬
‫بلکہ ابلیس کی نظروں میں بھی گر جاو‬
‫‪ ‬گی۔۔۔یاد رکھنا میری بات سفرینا‬

‫شیطان اعظم نے سفرینا کو خبردار کرتے‬


‫ہوئے کہا تھا‬

‫شیطان اعظم آپ بے فکر رہیں۔۔۔میں ایسا‬


‫کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی ہوں۔۔۔محبت‬
‫تو دور ۔۔۔میں تو کسی پر رحم کا نہیں‬
‫سوچ سکتی۔۔۔۔ہاہاہاہا‬

‫آپ نے آخر یہ سوچ کیسے لیا۔۔۔۔ہاہاہاہا‬


‫سفرینا مجھے تمہارے یہ قہقے پھیکے لگ‬
‫رہے ہیں۔۔۔تم چاہے مجھ سے چھپاو‪  ‬لیکن‬
‫مجھے تمہاری باتوں میں سچائی نہیں دکھ‬
‫رہی ہے۔۔۔۔شیطان اعظم بوال‬

‫اور میں آپ کو یقین دال رہی ہوں کہ میرے‬


‫اور اس انسان کے درمیاں ایسا کچھ بھی‬
‫نہیں ہے۔۔۔کیونکہ اس کےساتھ انسان بن کر‪ ‬‬
‫‪ ‬رہتی ہوں‪  ‬اس لیے اس کے ساتھ کبھی‬
‫کبھی مسکرا بھی لیتی ہوں۔۔۔۔بس یہی بات‬
‫ہے اور کچھ نہیں ہے۔۔۔۔سفرینا بولی‬

‫ہممم۔۔۔۔چلو جیسے تمہاری مرضی ۔۔۔لیکن‬


‫یاد رہے کہ میں نے تمہیں خبردار کر دیا ہے‬
‫۔۔۔آگے جو بھی ہوگا اس کی ذمہ دار تم‬
‫خود ہوگی۔۔میں نے تمہیں اس لیے خبردار‬
‫کیا تاکہ کل اگر ابلیس مجھ سے سوال کرے‬
‫گا تومیں انہیں بتا سکوں کہ میں نے تمہیں‬
‫خبردار کیا تھا۔۔۔بس مجھے یہی کہنا ہے‬
‫سفرینا‬

‫شیطان اعظم نے اپنی بات ختم کر دی‬


‫تھی۔۔۔‬

‫آپ کا بہت بہت شکریہ شیطان اعظم اور‬


‫میں آپ کو بلکل بھی شرمندہ نہیں کروں‬
‫گی۔۔آپ بے فکر رہیں۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے‬
‫اپنی کرسی چھوڑ دی‬

‫اور اس سے پہلے کہ کوئی اور بات ہوتی۔۔‬


‫سفرینا نے بجلی کی صورت اختیار کر لی‬
‫تھی۔۔۔اور پھر اس نے سمندر کی سطح‬
‫چھوڑ کر آسمان کی فضاوں کی طرف اپنا‬
‫رخ کر لیا۔۔۔وہ ناک کی سیدھ میں اڑتی جا‬
‫رہی تھی ۔۔۔لیکن اس کی کوئی منزل نہیں‬
‫تھی۔۔۔‬

‫سفرینا سکندر کو صبح تک آنے کا کہہ آئی‬


‫تھی اور صبح ہونے میں ابھی کافی وقت‬
‫تھا۔۔۔اس‪  ‬کے پاس وقت گزاری کے لیے‬
‫کوئی کام نہیں تھا اس لیے وہ بس اڑتی‬
‫جارہی تھی۔۔۔‬

‫وہ زمین کی حدود سے نکل چکی تھی اور‬


‫اب آسمان کے کالے اندھیرے میں بے لگام‬
‫گھوڑی کی طرح اڑتی جا رہی تھی۔۔۔اس کا‬
‫دل کر رہا تھا کہ وہ بس اڑتی رہے ۔۔۔کائنات‬
‫ختم ہو جائے لیکن وہ نہ رکے۔۔۔لیکن ایسا‬
‫ممکن نہیں تھا۔۔۔‬
‫کیونکہ ابھی وہ پہلے آسمان تک نہیں‬
‫پہنچی تھی کہ آسمان سے آگ کے شعلے‬
‫نکلے کر اس کی جانب آنے لگے۔۔۔۔‬

‫نکل جا یہاں سے مردود کی اوالد۔۔۔۔ایک‬


‫غیبی آواز آئی جسے سن کر سفرینا ڈر سی‬
‫گئی اور پھر اس نے اپنا رخ دوبارہ واپس‬
‫موڑ لیا ۔۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔‬
‫‪ ‬از ابن نصیر‬

‫قسط ‪17‬‬

‫سفرینا ہوٹل کے کمرے میں ظاہر ہوئی‪  ‬تھی‬


‫۔۔۔سکندر ابھی نیند کر رہا تھا۔۔۔اس نے‬
‫سکندر کو جگانا مناسب نہیں سمجھا اور‬
‫وہیں بیڈ کے نزدیک پڑی کرسی پر بیٹھ‬
‫گئی۔‬

‫کہیں مجھے سچ میں تو سکندر سے محبت‬


‫نہیں ہو گئی ہے۔۔سفرینا نے دل ہی دل میں‬
‫کہا‬

‫لیکن میں کیسے محبت کر سکتی ہوں۔۔۔۔‬


‫ہاں یہ ٹھیک ہے کہ اس کے ساتھ رہنا ‪،‬‬
‫باتیں کرنا مجھے اچھا لگتا ہے لیکن‬
‫محبت۔۔۔۔۔؟‬
‫ایک ایک کرکے سکندر کے ساتھ گزرے‬
‫سارے لمحات سفرینا کے دماغ کی سکرین‬
‫پر چلنے لگے۔۔۔سکندر کا اس کے ساتھ‬
‫مسکرانا‪ ،‬باتیں کرنا سب اسے یاد‪ٓ  ‬ا رہا‬
‫تھا۔۔۔۔‬

‫بھابھی میرے بھائی کا خیال رکھنا۔۔۔‬


‫مقدس کی کہی اس بات نے اب سفرینا کے‬
‫دل و دماغ میں ہلچل مچا دی تھی۔۔۔۔‬

‫نہیں ۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔۔میں سفرینا‬


‫ہوں۔۔۔میں محبت نہیں کروں گی ۔۔۔۔۔چاہے‬
‫کچھ بھی ہو جائے‬

‫سکندر دائیں کروٹ پر لیٹا ہوا تھا اور‬


‫سوتے ہوئے بہت معصوم لگ رہا تھا‬
‫اچانک سفرینا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی‬
‫ہوئی اور اپنا ہاتھ سکندر کی جانب کر لیا‬

‫اس سے پہلے کہ مجھے اس سے محبت ہو‬


‫جائے ۔۔۔مجھے اسے مار دینا چاہیے۔۔۔سفرینا‬
‫نے دل میں سوچا‬

‫اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچ گئی تھی‬


‫۔۔۔ہزار سوچوں نے اسے گھیر لیا تھا۔۔‬

‫اس کا دماغ کہہ رہا تھا کہ سکندر کو مار‬


‫‪ ‬دینا چاہیے‬

‫لیکن اس کا دل اس کے دماغ کی مخالفت‬


‫کر رہا تھا‬

‫وہ تمہارا آقا ہے ۔۔۔سفرینا ۔۔۔ہوش کرو‬


‫آخر سفرینا دل کے ہاتھوں مجبور ہو گئی‬
‫اور اس نے اپنا ہاتھ نیچے گرا دیا‬

‫سکندر نے لیٹے لیٹے ہی کروٹ بدلی تھی۔۔‬


‫جسے دیکھ کر سفرینا اپنی جگہ سے غائب‬
‫ہو گئی‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔‬

‫سکندر کی ٓانکھ کھلی تو سورج کی کرنیں‬


‫کھڑکی پر لگے پردوں سے گزر کر اس کے‬
‫چہرے پر پڑ رہی تھی ۔۔۔اس نے ایک لمبی‬
‫سی جمائی لی اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‬

‫سفرینا‪  ‬ابھی تک نہیں ٓائی تھی۔‬

‫سفرینا۔۔۔اس نے نام پکارا‬


‫اور پھر سفرینا اس کے سامنے کھڑی ہو ئی‬
‫تھی۔۔‬

‫کہاں تھی بھئ تم۔۔۔۔میں تو سمجھ رہا تھا‬


‫کہ جب ٓانکھ کھلے گی تو تم سامنے ہو گئی‬
‫لیکن۔۔۔سکندر نے بات ادھوری چھوڑ دی‬

‫میں صبح سویرے ہی پہنچ گئی تھی لیکن‬


‫آپ کو سوتے دیکھ کر چلی گئی‬

‫ہممم۔۔۔۔اچھا ہوٹل پہنچ کر میں نے کچھ‬


‫سوچا تھا‬

‫سکندر نے کہا‬

‫کیا سوچا تھا آپ نے سکندر؟ سفرینا نے‬


‫پوچھا‬
‫وہ سب تو مجھے کلئیر نہیں ہے۔۔۔ساری‬
‫سوچیں گڈ مڈ ہیں لیکن آج ہم یہاں سے جا‬
‫رہے ہیں۔۔سفرینا‬

‫سکندر نے کہا‬

‫کہاں چلیں گے سکندر؟‬

‫سفرینا نے پوچھا‬

‫اپنے ملک جا رہے ہیں سفرینا لیکن اپنے شہر‬


‫‪ ‬نہیں جائیں گے بلکہ دارلحکومت جائیں گے‬

‫سکندر بوال‬

‫چلیں ٹھیک ہے۔۔۔سفرینا نے کہا‬

‫وہ سکندر کو غور سے دیکھ رہی تھی۔۔‬


‫جسے سکندر نے بھی نوٹ کر لیا تھا‬
‫کیا دیکھ رہی ہو سفرینا۔۔۔۔؟ سکندر نے‬
‫پوچھا‬

‫کچھ نہیں۔۔۔سفرینا نے اپنی نظریں ہٹا لیں‬

‫اچھا۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر مڑا اور بیٹھے‬


‫بیٹھے سائیڈ ٹیبل پر پڑے فون سے ویٹر کو‬
‫ناشتہ النے کے لیے کہا‬

‫اچھا ۔۔۔میں نہا لوں سفرینا۔۔تم بیٹھی‬


‫رہنا۔۔۔ویٹر ناشتے الئے تو دروازے کھول دینا‬

‫سکندر نے کہا اور پھر بیڈ سے اتر کر باتھ‬


‫روم میں چال گیا‬

‫سکندر نہا دھو کر جب باہر نکال تو کمرے‬


‫‪ ‬میں پڑے ٹیبل پر ناشتہ رکھا ہوا تھا‬
‫تم ناشتہ کرو گی سفرینا۔۔۔۔سکندر نے‬
‫پوچھا‬

‫جی نہیں۔۔۔ آپ کر لیں سکندر۔۔۔‬

‫سکندر کرسی پر بیٹھ چکا تھا اور پھر اس‬


‫نے ناشتہ شروع کیا ۔۔۔۔‬

‫سفرینا اب بھی چور نگاہوں سے سکندر کو‬


‫دیکھ رہی تھی‬

‫سفرینا کیا کہتی ہو پھر۔۔۔۔۔چلیں؟ سکندر‬


‫نے ناشتہ ختم کرنے کے بعد‪  ‬پوچھا‬

‫جی چلیں سکندر۔۔۔۔سفرینا نے کہہ تو‬


‫سکندر کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا اور پھر‬
‫کمرے سے باہر نکل گئے۔۔۔‬
‫کاوئنٹر پر پہنچ کر سکندر نے کمرے کی‬
‫ادائیگی کی اور ہوٹل سے باہر نکل آئے۔۔۔‬

‫ایک ویران جگہ پہنچ کر سکندر نے چلنے کا‬


‫کہا تو سفرینا نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا جسے‬
‫سکندر نے تھام لیا تھا‬

‫آنکھیں بند کر لیں سکندر۔۔۔سفرینا بولی‬

‫سفرینا اب تمہیں مجھے یہ آنکھیں بند‬


‫کرنے واال نہ کہا کرو یار۔۔۔اتنے دن تمہارے‬
‫ساتھ رہنے کے بعد اب میں سب سمجھ گیا‬
‫ہوں کہ اڑ کر جانے کے لیے آنکھیں بند کرنی‬
‫پڑتی ہیں ۔۔۔۔سکندر نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫لیکن میرا کہنا تو فرض ہے نا سکندر۔۔۔اگر‬


‫اپنے آنکھیں بند نہ کی اور آپ کی آنکھیں‬
‫کھلی رہیں تو آپ کو نقصان ہو سکتا ہے۔۔۔۔‬
‫سفرینا بولی‬

‫میری اتنی پرواہ ہے تمہیں سفرینا۔۔۔۔۔‬

‫‪ ‬سکندر نے کہا تو سفرینا چونک گئی‬

‫آپ اسے جو بھی کہیں لیکن اپنے آقا کا‬


‫خیال رکھنا میرا فرض ہے سکندر۔۔۔۔سفرینا‬
‫سوچ سوچ کر بول رہی تھی‬

‫‪  ‬ہممم۔۔۔اچھا چلو۔‬

‫یہ کہہ کر سکندر نے آنکھیں بند کر لیں اور‬


‫پھر اس کے جسم کو جھٹکا لگا۔۔۔‬

‫یہ سفر چند لمحوں کا تھا کیونکہ سفرینا‬


‫کی آنکھیں کھولنے کی آواز سن کر سکندر‬
‫نے آنکھیں کھول دی تھیں‬
‫ہم اپنے ملک پہنچ چکے ہیں سکندر۔۔۔۔‬

‫سکندر کو آنکھیں کھولتے دیکھ کر سفرینا‬


‫نے کہا تھا‬

‫یہ دارلحکومت کی ایک پارک تھی جس‬


‫میں سکندر اور سفرینا اترے تھے۔۔۔‬

‫گڈ سفرینا۔۔۔۔۔لیکن آج کا دن ہمارا تھوڑا‬


‫مصروف گزرے گا۔۔۔۔کیونکہ آج میں نے‬
‫تمہارا امتحان لینا ہے‬

‫سکندر نے تجسس بھرے لہجے میں کہا‬

‫میں آپ کے ہر امتحان کے لیے تیار ہوں‬


‫سکندر۔۔۔بتائیں کیا کرنا ہوگا۔۔۔۔‬

‫تم نے پورے شہر میں جا کر یہ دیکھنا ہے‬


‫کہ کہاں کہاں جوا بازی ہو رہی ہے۔۔۔‬
‫گھوڑوں کی ریس‪ ،‬سٹہ بازی‪ ،‬تاش‪ ،  ‬جہاں‬
‫جہاں بڑے داو کھیلے جا رہے ہیں ۔۔۔وہ سب‬
‫دیکھ آ نے ہیں۔۔۔ہم نے دولت اکھٹی کرنی‬
‫ہے سفرینا۔۔۔بہت ساری دولت‬

‫جی ٹھیک ہے۔۔آپ میرا یہاں انتظار کریں۔۔۔‬


‫میں ابھی جا کر دیکھ آتی ہوں‬

‫یہ کہہ کر سفرینا اپنی جگہ سے غائب ہو‬


‫گئی اور سکندر درخت کے سائے تلے بیٹھ‬
‫گیا۔۔۔‬

‫اس وقت دن کے دس بارہ بج رہے تھے اور‬


‫پارک میں خاصی رش ہو چکی تھی لیکن‬
‫زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی جو‬
‫سکول اور کالجز کی وردیوں میں آئے ہوئے‬
‫تھے۔۔وہ تعلیم کا بہانہ کرکے یہاں پارک میں‬
‫آکر بیٹھے ہوئے تھے۔۔‬

‫سکندر سوچ رہا تھا کہ جب سفرینا آئے گی‬


‫تو اس کے ساتھ جا کر مقامی پرائیوٹ‪ ‬‬
‫بینک میں ایک اکاونٹ کھلوائے گا اور جیت‬
‫کی ساری دولت اس اکاونٹ میں ڈالتا جائے‬
‫گا۔۔‬

‫سکندر کو بیٹھے ابھی دس منٹ نہیں ہوئے‬


‫تھے کہ سفرینا ٖظاہر ہوئی۔۔۔‬

‫سکندر میں نے پورا شہر گھوما ہے اور‬


‫جہاں جہاں بڑے پیما نے پر جوا کھیال جا‬
‫رہا ہے ۔۔وہ ساری جگہیں نوٹ کر لی ہیں۔۔۔‬
‫اب اگر آپ کہیں تو میں آپ کو وہاں لے کر‬
‫چلتی ہوں۔۔۔سفرینا بولی‬
‫نہیں سفرینا۔۔۔وہاں جانے سے پہلے ہم نے‬
‫بینک جانا ہے ۔۔۔جہاں میں اپنا ایک اکاونٹ‬
‫کھلواوں گا اور جیت کی ساری رقم اس‬
‫اکاونٹ میں ڈالتا جاوں گا‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر۔۔۔آپ مجھے بینک نام‬


‫بتائیں ہم وہاں چلتے ہیں۔۔۔سفرینا نے‪ ‬‬
‫‪ ‬پوچھا‬

‫سکندر نے سفرینا کو بینک کا نام تو سفرینا‬


‫نے اپنا ہاتھ بڑھا دیا جسے سکندر نے تھام‬
‫لیا تھا۔۔۔اس نے آنکھیں بند کر لیں تھی‬

‫دیکھ لو سفرینا۔۔۔میں نے تمہارے کہنے سے‬


‫پہلے ہی آنکھیں بند کر لیں ہیں۔۔۔سکندر نے‬
‫بند آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا‬
‫اب آپ بھی سمجھ دارہو گئے ہیں سکندر۔۔۔‬
‫سفرینا نے سکندر کے معصوم چہرے پر نظر‬
‫‪ ‬ڈالتے ہوئے کہا‬

‫یہ کہہ کر سفرینا نے کچھ پڑھا تو وہ‬


‫دونوں اپنی جگہ سے غائب ہو گئے تھے۔۔۔‬
‫چونکہ یہ جگہ باقی جگہوں سے زرا‪ ‬‬
‫فاصلے پر تھی تو کسی نے سکندر اور‬
‫سفرینا کے غائب ہونے کو نوٹ نہیں کیا تھا۔‬

‫وہ دونوں شہر کی رونق والی جگہ سے‬


‫تھوڑے فاصلہ پر ظاہر ہو ئے تھے ۔۔۔اور پھر‬
‫دونوں چلتے ہوئے بینک کے نزدیک پہنچ کر‬
‫اندر داخل ہو گئے‬

‫مینیجر کا کمرہ کہاں پر ہے ؟ سکندر نے‬


‫بینک کے اندر کھڑے سیکیورٹی گارڈ سے‬
‫‪ ‬پوچھا‬

‫وہ کونے واال کمرہ ہمارے مینیجر کا ہے‬


‫جناب۔۔۔سیکیورٹی گارڈ نے اشارہ کرکے بتایا‬
‫تو وہ دونوں اس کمرے کی جانب چل پڑے‬

‫مینیجر کمرے میں اس وقت اکیال اور اپنے‬


‫موبائل کی سکرین پر مصروف تھا۔۔‬

‫اسالم و علیکم ۔۔۔سکندر نے اندر داخل ہو‬


‫‪ ‬کر کہا‬

‫وعلیکم سالم۔۔۔۔مینیجر نے اپنی جگہ‬


‫سےاٹھ کرسکندر سے ہاتھ مالیا‬

‫میرا نام سیٹھ سکندر ہے اور میں آپ کے‬


‫بینک میں ایک اکاونٹ کھلوانے کا‬
‫خواہشمند ہوں۔۔۔سکندر نے اپنی آواز کو‬
‫رعب دار بناتے ہوئے کہا‬
‫اوہ ۔۔۔اچھا۔۔۔رکیں ۔۔میں اپنے ایک مالزم‬
‫سے بلوا کر آپ کی اکاونٹ کھلوانے میں‬
‫مدد کرتا ہوں۔۔۔مینیجر نے اپنی کرسی پر‬
‫بیٹھتے ہوئے کہا‬

‫وہ سکندر کو ایک عام سا انسان سمجھ رہا‪ ‬‬


‫تھا۔۔‬

‫میں چاہوں گا کہ میرا اکاونٹ آپ خود‬


‫کھلوائیں۔۔۔بات زرا کچھ یوں ہے کہ میرا‬
‫روز کا کروڑوں کا کاروبار ہوتا ہے اور اتنی‬
‫بڑی رقم آپ سمجھ سکتے ہیںکہ لوگوں‬
‫میں نظر آنے کا کیا مطلب ہے ۔۔۔سکندر نے‬
‫اپنی بات ادھوری چھوڑ دی‬

‫اس نے اپنی جیب سے پرس نکال کر چند‬


‫نیلے نوٹ مینیجر کے ٹیبل پر رکھ دیے۔۔۔‬
‫اوہ۔۔اچھا۔۔۔میں سمجھ گیا جناب۔۔۔کیا نام‬
‫بتایا آپ نے اپنا۔۔۔۔مینیجر نے پوچھا‬

‫میرا نام سکندر نسیم ہے لیکن کاروباری‬


‫طبقہ مجھے سیٹھ سکندر کے نام سے جانتا‬
‫ہے ۔۔۔سکندر نے جواب دیا‬

‫ایک منٹ انتظار کریں۔۔یہ کہہ کر مینیجر‬


‫نے سیٹ چھوڑی اور تیز تیزقدم اٹھاتا ہوا‬
‫کمرے سے باہر نکل گیا۔۔‬

‫پیسے کی چمک دیکھ رہی ہو سفرینا۔۔۔۔چند‬


‫نوٹ ملنے کے بعد یہ خود اٹھ کر چال گیا‬
‫ہے۔۔۔سکندر نے مینیجر کے جانے کے بعد کہا‬
‫تھا‬

‫جی ہاں سکندر۔۔۔آپ کی دنیا میں یہ کاغذ‬


‫کے نوٹ بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔۔۔سفرینا نے‬
‫دھیمی آواز میں کہا‬

‫پانچ منٹ کے بعد مینیجر کمرے میں داخل‬


‫ہوا ۔۔۔اس کے پیچھے ایک بینک کا مالزم‬
‫ٹرے لے کر آیا تھا۔۔جس میں دو چائے کے‬
‫کپ تھے۔۔۔‬

‫مینیجر کے ہاتھ میں کچھ فارمز تھے ۔۔۔‬

‫مینیجر صاحب ۔۔یہ تکلف نہ کریں۔۔ہم ابھی‬


‫ابھی ناشتہ کرکے آئیں ہیں۔۔۔آپ بس ہمارا‬
‫یہ چھوٹا سا کام کردیں پھر ہم چلتے ہیں۔۔۔‬

‫کوئی بات نہیں ۔۔۔یہ کہہ کر مینیجر نے‬


‫مالزم کو اشارہ کیا تو وہ چائے کے کپ لے‬
‫کر واپس چال گیا‬

‫مجھے آپ کا شناختی کارڈ نمبر چاہیے ہو گا‬


‫جناب۔۔۔کچھ کاغذئی کاروائی کرنے کے لیے‬
‫یہ ضروری ہے۔۔۔مینیجر بوال‬

‫یہ سن کر سکندر نے اپنی جیب سے‬


‫‪ ‬شناختی کارڈ نکال کر مینیجر کو پکڑا دیا‬

‫مینیجر نے فارم کو‪  ‬ضروری معلومات سے‬


‫بھرنے کے بعد مختلف جگہوں پر سکندر کے‬
‫‪ ‬دستخط لیے‬

‫جناب آپ کا اکاونٹ دو گھنٹوں میں ایکٹو‬


‫ہو جائے گا۔۔۔اسی ہفتے کے آخر تک آپ کو‬
‫دیے گئے پتہ پر چیک بک اور اے ٹی ایم‬
‫کارڈ بھی بھجوا دیا جائے‪  ‬گا۔‬

‫مینیجر نے فارم کو سائیڈ پر کرتے ہوئے کہا۔‬

‫آپ یہ سب بھیجنے کی زحمت نہ کریں۔۔۔‬


‫سوموار کو میں خود ہی آ جاوں گا ۔۔۔‬
‫سکندر نے اٹھتے ہوئے کہا‬
‫اچھا اب ہمیں اجازت دیں ۔۔۔یہ کہہ کر‬
‫سکندر نے اپنا ہاتھ مینیجر کی جانب‬
‫‪ ‬بڑھایا‬

‫چلیں جیسے آپ کی مرضی‪  ‬جناب۔۔۔‬


‫مینیجر نے ہاتھ مالتے ہوئے کہا‬

‫اچھا ۔۔میں دوبارہ آپ کو بتا دوں کہ یہ‬


‫اکاونٹ میرا خاص اکاونٹ ہے تو تھوڑا‬
‫خیال رکھیے گا۔۔۔اگر آپ نے صحیح سے‬
‫خیال رکھا تو میرے گفٹ آپ کو ملتے رہیں‬
‫گے۔۔۔سکندر نے سرگوشی میں کہا‬

‫آپ بے فکر رہیں جناب۔۔۔مینیجر نے‬


‫مسکراتے ہوئے کہا‬

‫تو سکندر اور سفرینا کمرے سے باہر نکل‪ ‬‬


‫آئے‪  ‬اور پھر بینک کے داخلی دروازہ پار‬
‫کرکے سڑک پر پہنچ گئے۔‬

‫آؤ سفرینا کسی خالی جگہ پر چلتے ہیں اور‬


‫وہیں سے تم مجھے وہاں لے جاوں گی‬
‫جہاں اس وقت جوا کھیال جا رہا ہے۔۔‬
‫سکندر نے آگے بڑھتے ہوئے کہا‬

‫صحیح ہے سکندر۔۔اور پھر وہ دونوں ایک‬


‫خالی جگہ پر پہنچ کر رک گئے۔‬

‫سکندر کا ہاتھ تھامنے کے بعد وہ دونوں‬


‫غائب ہو چکے تھے۔‬

‫شہر کے مصافات میں ایک بڑے سے گراونڈ‬


‫میں اچھا خاصا رش تھا۔۔جس طرف نظر‬
‫دوڑائی جائے تو انسانوں کے سر نظر آ‬
‫رہےتھے۔۔۔کہیں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی‬
‫کہ انسان کچھ دیر کے لیے کھڑا ہو سکے۔۔‬
‫آج دارلحکومت میں گھوڑوں کی ریس کا‬
‫دن تھااور شہر کے تمام جواری امراء اس‬
‫وقت میدان میں بیٹھے اپنے گھوڑوں کے‬
‫بارے میں تبصرہ کر رہے تھے۔‬

‫سکندر اور سفرینا گراونڈ سے خاصی دور‬


‫ظاہر ہوئے تھے۔۔۔ان دونوں کو بھی لوگوں‬
‫کا ہجوم نظر آ گیا تھا۔۔‬

‫ہم پہنچ گئے ہیں سکندر۔۔۔سفرینا نے ظاہر‬


‫ہونے کے بعد کہا تھا‬

‫اچھا سفرینا۔۔۔۔مجھے ایک خوبصورت مگر‬


‫قیمتی سوٹ ال کر دو۔۔۔سوٹ ایسا ہو کہ‬
‫میں سچ مچ میں سیٹھ سکندر لگوں۔۔۔اور‬
‫ایک گاڑی بھی‪  ‬چاہیے ہوگی۔۔سمجھ رہی ہو‬
‫نا تم میری بات۔۔۔۔سکندر نے ہجوم کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا تھا‬

‫ابھی آئی میں سکندر۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا‬


‫غائب ہو ئی اورپھر چند ہی منٹوں میں‬
‫واپس آئی ۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک کلف لگا‬
‫کاٹن کا سفید سوٹ تھا۔۔۔‬

‫کس بیچارے کا چوری کر آئی ہو سفرینا۔۔۔۔‬


‫سکندر نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫یہ تو نہیں دیکھا۔۔۔بس ایک بڑے گھر میں‬


‫گئی تو یہ سوٹ لٹکتے ہوئے دیکھا۔۔۔آپ کی‬
‫جسامت کے برابر تھا تو لے آئی۔۔۔سفرینا نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا‬

‫ہاہاہا۔۔۔آج کوئی عورت ضروراپنے شوہر کے‬


‫ہاتھوں ڈانٹ کھائے گی۔۔۔سکندر ہنسا‬
‫جی سکندر‪  ‬یہ تو ہے۔۔۔سفرینا بھی‬
‫مسکرائی تھی‬

‫اچھا ۔۔۔اور گاڑی نہیں الئی ؟ سکندر نے کار‬


‫کا پوچھا‬

‫آپ کے پیچھے کھڑی ہے سکندر۔۔۔سفرینا نے‬


‫معنی خیز انداز میں کہا تو سکندر نے مڑ‪ ‬‬
‫کر دیکھا۔۔‬

‫اس سے چند میٹر کے فاصلے پر ایک الل‬


‫رنگ کی اسپورٹس کار کھڑی ہوئی تھی۔۔‬

‫واہ۔۔۔۔۔یہ تو بلکل میری پسند کی چیز الئی‬


‫ہو سفرینا۔۔۔۔سکندر نے حیرت بھرے انداز‬
‫میں کہا‬

‫ہیں نا۔۔۔۔مانتے ہیں نا کہ میری پسند بری‬


‫نہیں ہے۔۔۔سفرینا‪  ‬تعریف سننے کے موڈ میں‬
‫تھی‬

‫بری تو نہیں ہے بلکہ میری پسند سے کتنی‬


‫ملتی جلتی ہے تمہاری پسند۔۔۔۔سکندر ابھی‬
‫بھی حیرت میں تھا‬

‫آپ کار میں جا کر لباس تبدیل کریں۔۔۔میں‬


‫‪ ‬بھی کچھ نیا پہنتی ہوں۔۔۔سکندر‬

‫سفرینا نے کہا تو سکندر کار کی جانب قدم‬


‫بڑھانے لگا‬

‫سکندر۔۔۔۔اچانک سفرینا نے سکندر کو پکارا‬

‫کیا ہوا سفرینا۔۔۔۔سکندر نے مڑ کر پوچھا‬

‫اگر اب کوئی آپ سے پوچھے گا کہ میں آپ‬


‫کی کیا لگتی ہوں تو آپ کیا جواب دیں گے؟‬
‫سفرینا نے سوال کیا‬
‫ہمممم۔۔۔۔۔۔تم میری بزنس پارٹنر ہو‬
‫سفرینا۔۔۔۔۔سکندر نے سوچتے ہوئے جواب‬
‫دیا‬

‫جی صحیح ہے ۔۔۔پتہ نہیں کیوں یہ سن کر‬


‫سفریناکو مایوسی ہوئی تھی‬

‫سکندر نے لباس تبدیل کرکے جب کار کے‬


‫شیشے گرائے تو سفرینا سامنے ہی کھڑی‬
‫ہوئی تھی۔۔۔‬

‫سفرینا نے نارنجی رنگ کی ساڑھی‪  ‬پہن‬


‫رکھی تھی ۔۔چہرے پر ہلکا سا میک اپ اور‬
‫کانوں میں بڑی سی بالیوں کے ساتھ‪ ‬‬
‫ہونٹوں پر نارنجی رنگ کی لپ سٹک کا‬
‫شید لگایا ہوا تھا۔‬
‫قسم سے قیامت ڈھا رہی ہو سفرینا۔۔۔‬
‫سکندر نے سچے دل سے سفرینا کی تعریف‬
‫کی تھی‬

‫پسند کرنے کا شکریہ سیٹھ سکندر۔۔۔‬


‫سفیرینا نے مسکراتے ہوئے سکندر کو اس‬
‫کے نئے نام سے پکارا تھا۔‬

‫واہ جی واہ۔۔سکندر سے سیدھا سیٹھ‬


‫سکندر۔۔۔۔سکندر نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫‪ ‬کیوں غلط کہا ہے کیا؟ ۔۔۔سفرینا نے کہا‬

‫لباس تبدیل کرنے کے بعد سفرینا کی‬


‫شخصیت بھی تبدیل ہو گئی تھی۔۔۔وہ ایسا‬
‫بات کر رہی تھی جیسے وہ سچ میں سکندر‬
‫کی بزنس پارٹنر ہو۔‬
‫نہیں بھئی ۔۔۔تم‪  ‬غلط نہیں ہو ۔۔۔بس تمہارا‬
‫یہ نیا روپ پہلے نہیں دیکھا تھا تو‪  ‬اس‬
‫لیے۔۔ویسے مجھے اچھا لگا تمہارا یہ روپ‬
‫سفرینا۔۔۔سکندر بوال‬

‫شکریہ سکندر صاحب۔۔۔۔اب چلیں ؟ سفرینا‬


‫کار کا دروازہ کھولتے ہوئے بولی‬

‫بلکل۔۔۔سکندر نے کار کا اگنیشن گھمایا تو‬


‫انجن جاگ اٹھا۔۔۔یہ نئے ماڈل کی سپورٹس‬
‫کار تھی‪  ‬جس کو ابھی استعمال کیے ایک‬
‫ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا‬

‫مزہ آنے واال ہے سفرینا۔۔۔یہ کہہ کر سکندر‬


‫نے کار آگے بڑھا دی‬

‫کار آہستہ آہستہ‪  ‬ہجوم کے نزدیک ہو تی جا‬


‫رہی تھی اور پھر انہیں ہجوم کے ساتھ ہی‬
‫عارضی بنائی گئی کار پارکنگ کی جگہ نظر‬
‫آئی ۔۔۔‬

‫سکندر نے کار پارکنگ کی جانب گھمائی اور‬


‫نزدیک پہنچ کر کار سے اتر آیا‪ ،‬اس نے کار‬
‫سے سن گالسز بھی اٹھا لیے جو سامنے‬
‫ڈیش بورڈ پر پڑے ہوئے تھے‬

‫سکندر کو دیکھ کر سفرینا بھی کا رسے اتر‬


‫آئی۔۔۔‬

‫کار کا انجن بند نہیں کیا گیا تھا۔۔کار کو‬


‫رکتا دیکھ کر پارکنگ بوائے بھاگتا ہوا آیا‬
‫اور پھر کار کو آگے بڑھا کر لے گیا۔۔‬

‫سکندر نے پیچھے دیکھنا بھی اپنی توہین‬


‫سمجھا‪  ‬تھا۔۔اس نے سن گالسز پہن لیے‬
‫تھے‬
‫وہ دونوں گراونڈ کا مین گیٹ پار کرکے‬
‫اندر داخل ہو ئے تو گراونڈ کو لوگوں سے‬
‫‪ ‬کھچا کھچ بھرا پایا۔۔‬

‫گراونڈ کے درمیاں میں گھوڑوں کے دوڑنے‬


‫کے لیے کچہ راستہ بنایا گیا تھا جو گراونڈ‬
‫کے ساتھ دائرے میں بنا ہوا تھا‬

‫بہت سے لوگوں کی نظریں اب گھوڑوں سے‬


‫ہٹ کر سکندر اور سفرینا کی جانب اٹھ‬
‫گئی تھی۔۔۔وہ سب ان دونوں کو حیرت‬
‫بھری نگاہ سے دیکھ رہے تھے‬

‫سکندر‪  ‬یہی تو چاہتا تھا۔۔۔اس نے لوگوں‬


‫کی نظروں کی پرواہ کیے بغیر سفرینا کے‬
‫ہاتھ کو پکڑا اور پھر گراونڈ‪  ‬میں لگی‬
‫کرسیوں کی جانب چل پڑا۔۔‬
‫اس نے چاروں طرف نگاہ ڈالی تو ایک جگہ‬
‫پر شیڈ کے نیچے کچھ‪  ‬ایسے لوگوں کو‬
‫دیکھا جو اپنے حلیے سے شہر کے امیر ترین‬
‫لوگ نظر آ رہے تھے۔۔اس نے اپنا رخ اسی‬
‫جانب کر لیا۔۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا کو آتا دیکھ کر کھیل کی‬


‫انتظامیہ میں سے کچھ لوگ دوڑتے ہوئے ان‬
‫کی جانب آئے۔۔۔‬

‫میرے ساتھ آئیں جناب۔۔۔۔ان میں سے ایک‬


‫نے آگے بڑھ کر کہا اور پھر لوگوں کو پرے‬
‫دھکیلتا ہوا ان دونوں کو شیڈ کے نیچے لے‬
‫گیا۔۔‬

‫آپ دونوں یہاں بیٹھ جائیں ۔۔۔انتظامیہ نے‬


‫کہا تھا‬
‫سکندر نے بنا بات کیے اپنی جیب سےمٹھی‬
‫بھر کر‪  ‬کرارے نیلے نوٹ نکال کر اس کی‬
‫جانب بڑھائے تو اس کا منہ حیرت سے کھال‬
‫رہ گیا‬

‫اس نے کانپتے ہاتھوں سے سکندر سے پیسے‬


‫لیے اور پھر جھک جھک کر سالم ڈالتا ہوا‬
‫واپس مڑ گیا‬

‫سکندر کی اس حرکت نےنزدیک بیٹھے کئی‬


‫امیر لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا۔۔۔‬

‫سکندر جیسے ہی کرسی پر بیٹھا ۔۔۔ایک‬


‫سیٹی بجی جس کے بعد دس گھڑ سوار‬
‫سامنے گراونڈ میں آ کھڑے ہوئے۔‬

‫سفرینا تمہیں کیا لگتا ہے کہ آج کون جیتے‬


‫گا؟‬
‫سکندر نے‪  ‬اپنی آنکھوں سے سن گالسز‬
‫اتارتے ہوئے کہا‬

‫ہممم۔۔۔۔سات نمبر گھوڑاجیتے گا۔۔۔سفرینا نے‬


‫کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا تھا‬

‫مجھے بھی یہی لگ رہا ہے۔۔۔سکندر نے‬


‫سفرینا کی تائید کی ۔۔۔‬

‫جاری ہےسفرینا‬

‫از ابن نصیر‬

‫قسط ‪18‬‬

‫سفرینا نے جس گھوڑا کا کہا تھا۔۔۔وہ باقی‬


‫گھوڑوں سے کمزور ترین تھا اور اس کا‬
‫سوار بھی شکل سے اناڑی لگ رہا تھا لیکن‬
‫چونکہ سفرینا نے کہا تھا تو سکندر کو‬
‫کوئی حیرت نہیں ہوئی تھی۔‬

‫میرے خیال سےآپ کے پاس پیسہ بہت‬


‫ہے۔۔۔سکندر کو دائیں جانب سے آواز سنائی‬
‫دی۔۔‬

‫لیکن یہ آواز ساتھ بیٹھے آدمی کی نہیں‬


‫تھی۔۔بلکہ ساتھ بیٹھے آدمی کی دائیں‬
‫جانب ایک اور آدمی بیٹھا تھا۔۔۔اس نے یہ‬
‫الفاظ کہے تھے‬

‫اس آدمی نے سکندر کے ساتھ بیٹھے آدمی‬


‫سے کچھ کہا تو اس نے اپنی جگہ چھوڑ‬
‫دی جس پر سکندر کو مخاطب کرنے‬
‫‪ ‬واالآدمی آن بیٹھا‬
‫آپ نے کیا کہا؟ سکندر نے ساتھ بیٹھے آدمی‬
‫‪ ‬سے کہا‬

‫میں نے کہا کہ آپ کے پاس پیسہ بہت ہے‬


‫کیا؟‪  ‬آدمی بوال‬

‫کیا مطلب ہے آپ کا۔۔۔؟ سکندر نے پوچھا‬

‫آپ جس گھوڑے کی بات کر رہے ہیں۔۔۔‬


‫پچھلی پانچ ریسوں میں وہ لگا تار ہارتا ہوا‬
‫آیا ہے ۔۔۔اور شکل بھی دیکھ سکتے ہیں کہ‬
‫اس گھوڑے اور گھڑ سوار میں جیتنے والی‬
‫بات ہی نہیں ہے ۔۔آپ نے جب کہا کہ یہ‬
‫گھوڑا جیتے گا تو میں حیران ہو گیا۔۔مجھے‬
‫لگا کہ آپ کے پاس بہت پیسہ ہے اور آپ‬
‫اپنی مرضی سے ہارنا چاہتے ہیں۔۔۔‬
‫آپ نے کس گھوڑے پر‪  ‬پیسہ لگایا ہے۔۔۔اس‬
‫سے پہلے کہ سکندر کچھ کہتی سفرینا نے‬
‫پوچھ لیا‬

‫ہاہاہاہا۔۔۔میرا گھوڑا تین نمبر واال ہے۔۔۔ابھی‬


‫تک اس نے ایک بھی ریس نہیں ہاری ہے اور‬
‫ہر ریس میں اول آیا ہے۔۔۔اس آدمی نے‬
‫فخریہ لہجے میں کہا‬

‫اچھا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ہنہ۔۔۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ‬


‫گھوڑا آج جیتے گا۔۔۔سفرینا بولی‬

‫دیکھ لینا محترمہ ۔۔۔میں نے اس پر دس‬


‫الکھ لگایا ہے۔۔۔۔آج تو یہ الزمی اول آئے گا۔۔۔‬
‫وہ آدمی اپنی جیت کے جشن میں مدہوش‬
‫تھا‬

‫اچھا۔۔۔سفرینا نے صرف اچھا کہا‬


‫ہمیں سات نمبر گھوڑے پر‪  ‬تین کروڑ لگا‬
‫دینا چاہیے۔۔۔کیوں سفرینا۔۔۔تم کیا کہتی‬
‫ہو۔۔۔؟ سکندر نے جب یہ کہا تو ساتھ بیٹھا‬
‫آدمی اپنی جگہ پر اچھل پڑا۔۔‬

‫کیا۔۔۔۔تم۔۔اس گھوڑے پر تین کروڑ لگاو‬


‫گے۔۔۔حیرت کے مارے اس آدمی کے منہ سے‬
‫آواز نہیں نکل رہی تھی۔‬

‫آپ کو اعتراض ہے مسٹر؟ سکندر نے اس‬


‫آدمی سے سوال کیا‬

‫نہیں بلکل بھی نہیں۔۔۔۔مگر۔۔۔اس‪  ‬آدمی کی‬


‫آواز نہیں نکل رہی تھی وہ‪  ‬ابھی بھی‬
‫حیرت میں ڈوبا ہوا تھا‬

‫سکندر نے نیچے کھڑے انتظامہ کو اشارہ‪ ‬‬


‫کیا تو لڑکا دوڑتا ہوا آ گیا۔۔۔‬
‫سات نمبر گھوڑے پر تین کروڑ لکھو‪  ‬اور‬
‫میرا نام سیٹھ سکندر ہے ۔۔۔سکندر نے رعب‬
‫‪ ‬دار لہجے میں کہا‬

‫سکندر نے تو یہ بات کر دی لیکن اس لڑکے‬


‫پر جو اثر ہوا وہ ساتھ بیٹھے آدمی سے‬
‫بھی زیادہ تھا۔۔۔ وہ کئی قدم پیچھے ہٹ کر‬
‫کھڑا ہو گیا۔۔‬

‫اس کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔۔‬


‫کیونکہ اس کھیل کی تاریخ میں اتنی رقم‬
‫کبھی کسی نے نہیں لگائی تھی۔‬

‫اب کھڑے کیوں ہو جاو اور جو کہا ہے وہ‬


‫کرو۔۔۔‬

‫سکندر کی یہ بات کر سن وہ لڑکا دوڑتا ہوا‬


‫چال گیا۔۔۔اس کی چال میں واضح فرق نظر‬
‫آ رہا تھا۔۔۔وہ ایک جگہ پر صحیح سے قدم‬
‫نہیں ٹکا پا رہا تھا۔۔۔‬

‫سیٹھ سکندر ۔۔۔آپ سچ میں اپنا پیسہ‬


‫ضائع کر دیں گے۔۔اس گھوڑے کو دیکھیں‬
‫زرا۔۔آپ کو لگتا ہے کہ وہ جیت جائے گا۔۔۔‬
‫ساتھ بیٹھے آدمی نے کہا‬

‫دیکھتے ہیں ۔۔۔آپ بھی دیکھیے گا۔۔۔سکندر‬


‫نے اس کی طرف دیکھے بغیر کہا تھا‬
‫کیونکہ جس لڑکے کو سکندر نے پیسے بتائے‬
‫تھے وہ اپنے ساتھ ایک آدمی لے کر آ رہا‬
‫تھا۔۔۔اس آدمی کے چہرے پر بھی حیرت‬
‫واضح تھی ۔۔۔‬

‫کیا آپ سات نمبر گھوڑے پر تین کروڑ لگا‬


‫ئیں گےجناب؟‪  ‬۔۔۔لڑکے کے ساتھ جو آدمی‬
‫تھا وہ اس کھیل کا بکی تھی۔۔۔‬

‫بلکل۔۔۔سکندر نے مختصر جواب دیا‬

‫آپ رقم نقد دینا یا لینا پسند کریں گے ؟‬


‫بکی نے دوسرا سوال کیا‬

‫اس نے سکندر کو اوپر سے لے کر نیچے تک‬


‫دیکھا اورپھر ساتھ بیٹھی سفرینا کو دیکھا‬

‫بلکل۔۔۔اب بھی سکندر کا وہی جواب تھا‬

‫ٹھیک ہے۔۔۔یہ کہہ کر آدمی مڑا اور ساتھ‬


‫کھڑے لڑکے کو لے کر چال گیا۔‬

‫گیم شروع ہو چکی تھی‪  ‬اور تمام گھوڑوں‬


‫نے دوڑنا شروع کیا تھا۔۔۔سکندر کا سات‬
‫نمبر گھوڑا اس وقت سب سے آخر میں تھا۔‬
‫جبکہ سب سے آگے دو نمبر گھوڑا‪  ‬پھر چھ‬
‫نمبر‪  ‬اوراس کے پیچھے‪  ‬تین نمبر گھوڑا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫گھڑ سوار وں نے پہال راونڈ مکمل کر لیا تھا‬


‫لیکن شروع کے گھوڑوں میں زرا سا فرق‬
‫آیا کہ جو تین نمبر گھوڑا‪  ‬تیسری پوزیشن‪ ‬‬
‫پر تھا وہ اب دوسری‪  ‬پوزیشن پر آگیا تھا ۔۔‬

‫دوسری پوزیشن پر چھ نمبر گھوڑا تھا اور‬


‫پہلی پوزیشن واال‪  ‬گھوڑا‪  ‬ابھی تک اپنی‬
‫سابقہ پوزیشن پر تھا۔۔‬

‫گراونڈ اس وقت مختلف آواز سے گونج‬


‫اٹھا تھا ۔۔۔سب لوگ اپنے اپنے گھڑ سوار کو‬
‫ہمت دے رہے تھے ۔۔۔سکندر کے ساتھ بیٹھا‬
‫آدمی بھی اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔‬
‫وہ بھی سیٹی بجا کر اور عجیب و غریب‬
‫آوازیں نکال کر شور مچا رہا تھا۔‬

‫ابھی دو نمبر گھوڑا دوسرا راونڈ مکمل‬


‫کرنے والی الئن کے قریب ہی پہنچا تھا کہ‬
‫دوسری پوزیشن پر موجود‪  ‬تین نمبر گھوڑا‬
‫الگی ٹانگوں پر گھٹنوں کے بل چال گیا اور‬
‫پھر دیکھتے ہی دیکھتے زمیں پر قالبازیں‬
‫کھانے لگا۔۔۔‬

‫اپنے گھوڑے کو گرتا دیکھ کر سات بیٹھے‬


‫آدمی کو اچانک چپ لگ گئی۔۔۔سکندر نے مڑ‬
‫کر دیکھا تو اس کے چہرے پر اداسی نے‬
‫ڈیرہ ڈال دیا تھااور‪  ‬منہ سے کوئی آواز‬
‫نہیں نکل رہی تھی۔‬
‫دوسرے راونڈ کے شروع ہوتے ہی سات نمبر‬
‫گھوڑے کو پر لگ گئے۔ایسا لگ رہا تھا کہ‬
‫اس کے اندر کسی نے بجلی بھر دی ہو ۔۔۔‬
‫سب سے آخری گھوڑے کو اس طرح اچانک‬
‫تیز دوڑتا دیکھ کر سارے تماشائی اپنی‬
‫جگہ پر اٹھ کھڑے ۔۔ہر کسی کو سانپ‬
‫سونگھ گیا تھا۔۔۔سکندر اور سفرینا بھی‬
‫اپنی کرسی کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔‬

‫دیکھتے ہی دیکھتے سات نمبر گھوڑا ایک‬


‫ایک کر کے سب کو پیچھے چھوڑتا جا رہا‬
‫تھا۔۔۔پورے گراونڈ میں اگر کوئی آواز تھی‬
‫تو گھوڑوں کے دوڑنے کی تھی۔‬

‫حیرت انگیز۔۔۔سکندر کے ساتھ کھڑے آدمی‬


‫نے حیرت میں ڈوب کر کہا جسے سن کر‬
‫سکندر کے چہرے پر جیتنےوالی مسکراہٹ آ‬
‫گئی۔‬

‫اس وقت‪  ‬چھ اور دو نمبر گھوڑے زرا زرا‬


‫سے فرق سے آگے پیچھے ہو رہے تھے اور‪ ‬‬
‫ان دونوں کے پیچھے سات نمبر گھوڑا اپنی‬
‫پوری رفتار سے دوڑتا ہوا نزدیک آ رہا تھا۔‬

‫دور لگی جیت کی لکیر آہستہ آہستہ نزدیک‬


‫ہو تی جا رہی تھی اور تینوں پوزیشنوں پر‬
‫موجود گھوڑے اپنی اپنی جیت کے لیے‬
‫پورا زور لگا رہے تھے۔۔۔‬

‫سکندر نے مڑ کر سفرینا کو دیکھا جو کھیل‬


‫کی جانب متوجہ تھی۔جب اس کی نظریں‬
‫سفرینا سے ملیں تو سکندر نے اپنا سر ہاں‬
‫میں ہالیا۔۔۔سکندر کو دیکھ کر سفرینا نے‬
‫بھی اپنا گردن ہاں میں ہالئی تھی۔‬

‫اور پھر گراونڈ میں موجود سب لوگوں نے‬


‫دیکھا کہ اچانک سات نمبر گھوڑے کو پر‬
‫لگ گئے اور اس نے بڑی آسانی سے پہلے‬
‫دونوں گھوڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔۔جیت‬
‫کی لکیر تک پہنچتے پہنچتے سات نمبر‬
‫گھوڑے کا فاصلہ باقی دو سے کافی بڑھ‬
‫گیااور پھر اس نے جیت کی لکیر پار کر‬
‫لی۔۔‬

‫دو منٹ تک تو گراونڈ میں مکمل خاموشی‬


‫رہی۔۔‬

‫کسی کو آج کی جیت پر یقین ہی نہیں آ‬


‫رہا تھا۔۔لیکن پھر وہ شور اٹھا کہ قریب‬
‫کھڑے لوگ بھی ایک دوسرے کی بات نہیں‬
‫سن پا رہے تھے۔۔۔‬

‫اپنے گھوڑے کو جیتتا دیکھنے کے بعد‬


‫سکندر نے سفرینا کو چلنے کا اشارہ کیا اور‬
‫پھر دونوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی۔۔۔وہ‬
‫پیدل چلتے ہوئے داخلی دروازے کی طرف‬
‫جا رہے تھے کہ انتظامیہ کا آدمی دوڑتا‬
‫ہواان کی طرف آیا۔۔‬

‫اس کے دونوں ہاتھوں میں دو بڑے بڑے‬


‫بریف کیس تھے۔۔جو اس نے نزدیک آکر‬
‫سکندر کی طرف بڑھائے‬

‫کتنی رقم ہے ۔۔۔ ؟ سکندر نے اس کی طرف‬


‫دیکھے بغیر کہا تھا۔۔۔اس کا چہرہ سامنے‬
‫گیٹ سے گزرتے‪  ‬ہجوم کی جانب تھا۔‬
‫پندرہ کروڑ ہے جناب۔۔۔۔ایک کا پانچ ریٹ‬
‫تھا آج۔۔۔وہ آدمی بوال۔۔۔‬

‫ہممم۔۔۔۔سفرینا بریف کیس لے لو۔۔۔سکندر نے‬


‫رعب میں کہا تو سفرینا نے ہاتھ بڑھا کر‬
‫دونوں بیگ اپنوں ہاتھوں میں لے لیے۔۔‬

‫چلو۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر اور سفرینا آگے‬


‫بڑھنے لگے کہ اچانک سکندر رک گیا۔۔‬

‫اس نے ہاتھ جیب میں ڈال کر اپنا پرس‬


‫نکاال اور آدمی کی طرف پھینک دیا۔۔۔وہ‬
‫آدمی ابھی حیرت بھری نگاہ سے اس‬
‫جوڑی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔جب اس نے پرس‬
‫کو اپنی جانب اڑکر آتے دیکھا تو اسے ہوا‬
‫میں ہی اچک لیا۔۔۔‬
‫تمہارا انعام۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر مڑ گیا۔۔اس‬
‫نے آدمی کو شکریہ کے لیے ہاتھ اٹھاتا‬
‫دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔‬

‫پرس میں اس وقت بھی چالیس ہزار کے‬


‫قریب رقم تھی جو سکندر نے بطور ٹپ اس‬
‫آدمی کی طرف پھینکی تھی۔۔۔‬

‫جب وہ دونوں پارکنگ میں پہنچے تو‬


‫پارکنگ بوائے نے انہیں دیکھ لیا اور پھر‬
‫جلد ی سے سکندر کی سپورٹس کار نکال‬
‫کر ان کی جانب لے آیا۔‬

‫سکندر مڑ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا‬


‫تھا اور سفرینا سکندر کی ساتھ والی سیٹ‬
‫پر بیٹھ گئی تھی۔۔۔چونکہ سپورٹس کار‬
‫میں دو ہی سیٹیں ہوتی ہیں تو دونوں‬
‫بریف کیس سفرینا نے اپنی گود میں ہی‬
‫پھنسا لیے تھے۔۔‬

‫سکندر نے‪  ‬کار کے شیشے گرانے کے بعد ایک‬


‫بریف کیس کی زپ کھولی اور دو بڑے نوٹ‬
‫نکال کر پارکنگ بوائے کی طرف اڑائے۔۔۔‬
‫جسے بوائے نے جلد ی سے پکڑ لیے۔۔‬

‫یہ اس کی پوری سروس میں دئی گئی‬


‫سب سےبڑی ٹپ تھی۔۔۔ ٹپ ملنے کے بعد‬
‫اس نے بھی سکندر کو جھک کر سالم کیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫سکندر نے کار کے شیشے دوبارہ سے چڑھا‬


‫دیے تھے۔۔۔اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور آگے‬
‫بڑھ گئے۔۔۔‬
‫انہوں نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ بہت سی‬
‫نظریں ان دونوں کا پیچھے کر رہی تھی اور‬
‫بہت سے لب ان دونوں کی جیت پر حیرت‬
‫کا اظہار کر رہے تھے۔‬

‫کار شہر کی سڑکوں پر فراٹے بھرتے ہوئے‬


‫جا رہی تھی اور سکندر اور سفرینا خاموش‬
‫بیٹھے سڑک کو دیکھ رہے تھے۔۔‬

‫سفرینا کیا تم مجھے بتا سکتی ہو‪  ‬کہ شہر‬


‫کی سب سے مہنگی زمین کہاں پر ہے۔۔ہم‬
‫نے اپنے لیے ایک گھر لینا ہے۔۔۔سکندر نے‬
‫سفرینا کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔‬

‫ابھی بتاتی ہوں سکندر۔۔۔یہ کہہ کر سکندر‬


‫کار کے اندر بیٹھے بیٹھے ہی آنکھیں بند کر‬
‫لیں اور پھر تھوڑی دیر بعد کھول لیں ۔۔‬
‫ہم اس وقت درست سمت‪  ‬میں جا رہے ہیں‬
‫سکندر۔۔۔فلحال آپ سیدھا چلتے رہیں جیسا‬
‫ہی مڑنا ہوا میں آپ کو بتا دوں گی۔۔سفرینا‬
‫نے کہا‪  ‬تو سکندر نے ہاں میں گردن ہال دی۔‬

‫مختلف سڑکوں پر کار دوڑانے کے بعد‬


‫سکندر ایک پوش عالقے میں پہنچ گیا۔۔۔‬
‫‪ ‬وہاں سارے گھر ہی بنگلے‬

‫نما تھے جو کہ جدید طرز پر بنائے گئے تھے۔‬

‫یہاں کا ڈیلر کون ہے سفرینا۔۔۔سکندر نے‬


‫‪ ‬پوچھا‬

‫میں آپ کو وہیں لے جا رہی ہوں سکندر۔۔‬


‫فلحال آپ چلتے رہیں۔۔۔سفرینا نے جواب دیا‬

‫کیا مطلب بھئی چلتے رہیں۔۔۔ہم اس وقت‬


‫کار میں ہیں۔۔پیدل نہیں ہیں جو تم بار بار‬
‫کہہ رہی ہو کہ چلتے رہیں‪،‬چلتے رہیں۔۔۔ریس‬
‫کی جیت کے بعد پہلی مرتبہ سکندر نے‬
‫ہنس کر سفرینا سے بات کی تھی‬

‫ہی ہی ہی۔۔۔میرا مطلب تھا کہ کار چالتے‬


‫رہیں۔۔سفرینا نے بھی ہنستے ہوئے جواب دیا‬
‫تھا۔‬

‫زرا سا آگے جانے کے بعد سفرینا نے سکندر‬


‫کو کاربائیں طرف موڑنے کا کہا ۔۔۔اور‬
‫سکندر نے گاڑی موڑ دی‬

‫سڑک کے بلکل سامنے ہی ایک بڑی سی‬


‫دوکان تھی ۔۔جس کے ساتھ دوکان کے نام‬
‫کا بورڈ لگا ہوا تھا۔۔۔سکندر نے نزدیک پہنچ‬
‫کر سڑک کے کنارے پر کار روک دی اور‬
‫دونوں باہر نکل آئے۔پیسوں سے بھرے‬
‫دونوں بریف کیس کار میں ہی رہ گئے‬
‫تھےاورسکندر نے کار کو الک کرنا بھی‬
‫مناسب ہی نہیں سمجھا تھا‬

‫دوکان کے اندر داخل ہوئے تو سامنے ہی‪ ‬‬


‫ایک ٹیبل کے پیچھے‪  ‬نظر کی عینک پہنے‬
‫ایک گنجا سا آدمی کرسی پر بیٹھ کر کچھ‬
‫لکھ رہا تھا۔۔۔‬

‫خوش آمید جناب۔۔۔وہ سکندر اور سفرینا‬


‫کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔اس نے‬
‫سکندر سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ‬
‫بڑھایا‬

‫ہاتھ مالنے کے بعد سکندر اور سفرینا کرسی‬


‫پر بیٹھ گئے۔۔‬
‫میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں‬
‫جناب۔۔۔اس نے سکندر اور پھر سفرینا کو‬
‫دیکھ کر کہا‬

‫ہمیں رہنے کے لیے ایک گھر خریدنا ہے لیکن‬


‫شرط یہ ہے کہ گھر جدید طرز کا بنا ہو اور‬
‫اس میں آج کے دور کی تمام بنیادی‬
‫ضروریات اور سہولتیں ہوں۔سکندر نے‪  ‬کہا‬

‫بلکل جناب۔۔آپ کو یہاں سب سے‬


‫خوبصورت ‪ ،‬دلکش اور جدید طرز کے گھر‬
‫ہی ملیں ہے۔۔۔ڈیلر بوال‬

‫اور ہاں ۔۔قیمت کی آپ پرواہ نہ کریں۔۔۔بس‬


‫جگہ بہترین ہونی چاہیے ۔۔۔قیمت آپ کو‬
‫منہ مانگی دی جائے گی۔۔۔سکندر نے ٹھہر‬
‫ٹھہر کر کہا‬
‫آپ سب سے پہلے اپنے لیے گھر پسند کر‬
‫لیں۔۔۔پھر ہم قیمت کی بھی بات کر لیں‬
‫گے۔۔۔ڈیلر نے سامنے پڑی کمپیوٹر کی‬
‫سکرین‪  ‬کو سکندر کی جانب گھمایا۔‬

‫کم سے کم آپ کو کتنے کمروں واال گھر‬


‫چاہیے جناب؟ ڈیلر نے پوچھا‬

‫کمرے اگر‪  ‬پانچ سے زیادہ ہوں تو بہتر ہے۔۔۔‬


‫سکندر نے جواب دیا تو ڈیلر سامنے پڑے‬
‫کی بورڈ پر انگلیاں پھیرنے لگا ۔۔۔‬

‫چند سیکنڈ بعد کمپیوٹر کی سکرین پر‬


‫مختلف بنگلوں کی تصویر گھومنے لگی۔۔۔‬

‫اس بنگلے کی کچھ اور تصویر دکھائیں‬


‫زرا۔۔۔سکندر نے سکرین پر نظر آنےوالے ایک‬
‫خوبصورت بنگلے کی نشاندہی کی تو ڈیلر‬
‫نے اس بنگلے کی لوکیشن دیکھ کر اس کی‬
‫مزید تصویر بھی کھول لیں۔‬

‫یہ بنگلہ یہاں سے بہت نزدیک ہے جناب اور‬


‫شہر کے بھی قریب پڑتا ہے۔۔۔سہولت کے‬
‫لحاظ سے یہ بہترین ہے اور قیمت بھی‬
‫مناسب رکھی گئی ہے۔‬

‫باقی آپ خود تصویر میں دیکھ سکتے ہیں‬


‫کہ جگہ آپ کی پسند کے مطابق ہے۔۔۔ڈیلر‬
‫بوال‬

‫کیا کہتی ہے سفرینا۔۔۔۔یہ کیسا رہے گا۔۔؟‬


‫سکندر نے سفرینا سے پوچھا‬

‫میرے خیال سے تو بہترین ہے‪  ‬باقی آپ‬


‫خود دیکھ لیں۔۔۔سفرینا نے زیادہ بولنا‬
‫مناسب نہیں سمجھا تھا اس لیے مختصر‬
‫جواب دیا‬

‫کیا آپ ہمیں یہ جگہ دکھا سکتے ہیں؟‬


‫‪ ‬سکندر نے گھر دیکھنے کی فرمائش کی‬

‫بلکل دکھا سکتے ہیں۔۔بلکہ ابھی چل کر‬


‫دکھاتا ہوں۔۔آپ صرف مجھے دو منٹ‬
‫دیں۔۔۔یہ کہہ کر ڈیلر نے سامنے پڑے ٹیلی‬
‫فون سے ایک نمبر ڈائل کیا اور اگلے آدمی‬
‫کو دکان پر آنے کا کہا‬

‫دو منٹ نہیں گزرے کہ ایک نوجوان لڑکا‬


‫دوکان میں داخل ہوا ۔۔ڈیلر نے اسے دوکان‬
‫سنبھالنے کا کہہ کر سکندر سے چلنے کا کہا۔‬

‫کیا آپ کے کوئی سوار ی ہے ۔۔۔؟ سکندر نے‬


‫‪ ‬باہر نکل کر ڈیلر سے کہا‬
‫جی بلکل۔۔۔میرے پاس اپنی کار ہے ۔۔۔میں‬
‫وہ نکالتا ہوں۔۔یہ کہہ کر وہ آدمی دوکان ک‬
‫بائیں جانب گلی میں چال گیا ۔۔۔اور تھوڑی‬
‫دیر کے بعد ایک کار کو ریورس کرتا ہوا‬
‫نمودار ہوا۔‬

‫یہ دیکھ کر سکندر اور سفرینا بھی اپنی‬


‫کار میں بیٹھ گئے اورپھر ڈیلر کی گاڑی کے‬
‫پیچھے چلتے ہوئے بنگلے کے گیٹ کے سامنے‬
‫پہنچ گئے۔انہیں پہنچنے میں پانچ منٹ لگے‬
‫تھے‬

‫ڈیلر اپنی گاڑی سے نکال اور سکندر کی کار‬


‫کے قریب آ کر کھڑا ہوا۔۔۔‬

‫سکندر نے کار کا شیشہ نیچے گرادیا۔‬


‫ایک منٹ جناب۔۔۔میں گیٹ کھول لوں۔۔۔یہ‬
‫کہہ کر ڈیلر نے اپنی جیب سے چابیوں کا‬
‫ایک گھچا نکاال اور پھر اس میں سے ایک‬
‫چابی ڈھونڈ کر گیٹ کے تالے میں گھمائی‬
‫تو تالہ کھل‪  ‬گیا۔۔‬

‫گاڑی اندر لے آئیں جناب۔۔۔ڈیلر‪  ‬نے واپس‬


‫آکر اپنی گاڑی کا دروازہ کھوال اور اندر‬
‫بیٹھ کر گاڑی بنگلے کے پورچ میں کھڑی کر‬
‫دی۔۔۔اس کی گاڑی کے پیچھے سکندر کی‬
‫سپورٹس کار بھی آ کر کھڑی ہو گئی۔‬

‫سکندر اور سفرینا کار سے باہر نکل آئے تو‬


‫سکندر نے ایک ظاہر ی نظر بنگلے پر ڈالی۔۔۔‬
‫پہلی نظر میں ہی سکندر کو بنگلہ پسند آ‬
‫گیا تھا‬
‫کیسا لگا تمہیں سفرینا؟ سکندر نے پوچھا‬

‫مجھے تو پسند آیا ہے ۔۔آپ کیا کہتے ہیں‬


‫سکندر؟ سفرینا نے سکندر کی پسند پوچھی‬

‫مجھے تو بھئی بہت پسند آیاہے۔۔میرا تو‬


‫یہی لینے کا ارادہ ہے۔۔۔سکندر نے اپنی‬
‫خواہش ظاہر کی تو سفرینا نے بھی ہاں‬
‫میں ہاں مالد ی‬

‫پورچ کے دونوں طرح چمن اگایا گیا‬


‫تھاجس کی چاروں طرف کیاریوں میں‬
‫خوبصورت پھول اگائے گئے تھے۔۔‬

‫اندر بھی چل کر دیکھ لیں جناب۔۔۔ڈیلر نے‬


‫جب سکندر اور سفرینا کو بنگلے کے بارے‬
‫میں پسندیدگی کا‪  ‬کہتے سنا تو کہا‬
‫اندر کا منظر بھی باہر کے منظر جیسا‬
‫خوبصورت تھا۔۔۔سکندر اور سفرینا نے ہر‬
‫کمرے کو دیکھا ۔۔۔بنگلے کے پیچھے موجود‬
‫سوئمنگ پول بھی سکندر کو بھا گیا۔‬

‫اس وقت بنگلہ اپنی تمام خوبصورتی اور‬


‫سازو سامان سے بھرا ہوا تھا۔‬

‫اس بنگلے کی آپ کی کیا قیمت رکھی ہے ؟‬


‫سکندر نے قیمت پوچھی‬

‫پانچ کروڑ قیمت ہے اس کی جناب۔۔۔ڈیلر نے‬


‫قیمت بتائی‬

‫سفرینا۔۔۔ سکندر نے آواز دی‬

‫وہ بریف کیس لے آنا زرا۔۔۔سکندر نے سفرینا‬


‫کو بریف کیس النے کا کہا جو کہ کار میں‬
‫رکھے ہوئے تھے۔۔‬
‫یہ سن کر سفرینا کمرے سے باہر چلی گئی‬
‫اور پھر تھوڑی دیر بعد دونوں بریف‬
‫کیسوں کے ساتھ کمرے میں آئی۔۔۔‬

‫کسی کمرے میں جا کر ان کی قیمت نکال‬


‫کر النا ذرا۔۔۔سکندر نے کہا تو سفرینا بریف‬
‫کیس لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔‬

‫یہ سکندر نے اس لیے کہا تھا کہ دونوں‬


‫کیسیوں میں پندرہ کروڑ آدھے آدھے کرکے‬
‫رکھے گئے تھے اور سکندر نہیں چاہتا کہ‬
‫سفرینا ڈیلر کے سامنے پانچ کروڑ نکال کر‬
‫دے۔۔اس لیے اس نے سفرینا کو دوسرے‬
‫کمرے میں جا کر پیسے نکال کر النے کو‬
‫کہا۔‬
‫سفرینا نے اپنی طاقتوں سے پانچ کروڑ الگ‬
‫کرکے ایک بریف کیس میں ڈالے اور باقی رہ‬
‫جانے والی رقم کو بیڈ کے نیچے چھپا کر‬
‫رکھ دی۔۔دوسرا بریف کیس بھی اس نے‬
‫بیڈ کے نیچے رکھ دیا تھا۔۔‬

‫پانچ کروڑ واال بریف کیس اٹھا کر وہ کمرے‬


‫سے باہر نکل آئی‪  ‬اور اسے ڈیلر کے ہاتھ‬
‫میں دے دیا۔۔‬

‫آپ رقم گن کر تسلی کر لیں۔۔۔سکندر بوال‬

‫مجھے آپ پر بھروسہ ہے جناب۔۔اور کل‬


‫میں اس بنگلے کے تمام ضروری کاغذات لے‬
‫کر حاضر ہو جاوں گی۔۔فلحال آپ یہ اپنے‬
‫گھر کی چابی لیں‬
‫یہ کہہ کر ڈیلر نے بنگلے کی چابی سکندر‬
‫کو پکڑا دی۔‬

‫اب مجھے اجازت دیں۔۔۔یہ کہہ کر اس نے‬


‫‪ ‬سکندر سے‬

‫ہاتھ مالیا اور بنگلے سے نکل گیا۔۔۔‬

‫یہ اب ہمارا گھر ہے سفرینا۔۔۔۔۔سکندر نے‬


‫چاروں طرف گھوم کر دیکھتے ہوئے کہا‬

‫جی ہاں سکندر۔۔۔سفرینا نے مسکراتے ہوئے‬


‫کہا‬

‫تم کیوں ہنس رہی ہو سفرینا۔۔۔سکندر نے‬


‫رک کر کہا‬

‫اپنا گھر دیکھ کر مسکرا رہی ہوں۔۔۔سفرینا‪ ‬‬


‫نے جواب دیا‬
‫اس نے سکندر کو یہ نہیں بتایا کہ سکندر‬
‫کے ہمارا گھر کہنے پر سفرینا کو کتنی‬
‫خوشی ہوئی تھی۔‬

‫سفرینا تم نے یہ کار کہاں سے الئی تھی۔۔۔‬


‫سکندر نے سپورٹس کار کے متعلق پوچھا‬

‫یہ کار میں نے دوسرے شہر میں موجود‬


‫ایک بڑے سے‪  ‬دوکان سے‪  ‬اٹھا ئی ہے‬
‫سکندر ۔۔۔سفرینا نے جواب دیا‬

‫اوہ۔۔۔پھر تو تمہیں یہ کار واپس پہنچانی‬


‫ہے ۔۔۔۔ہمارے پاس اگر کسی نے دیکھ لیا تو‬
‫سوال جواب ہونگے۔۔۔اور میں نہیں چاہتا کہ‬
‫فلحال اس طرح سے کسی کی نظروں میں‬
‫آوں۔۔۔‬
‫جیسے آپ کی مرضی سکندر۔۔۔یہ کہہ کر‬
‫سفرینا باہر چلی گئی اور سکندر سیڑھیوں‬
‫سے چڑھتا ہوا اوپر جانے لگا۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسفرینا۔۔۔‬

‫)قسط نمبر(‪)19‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫کار میں نے واپس پہنچا دی ہے سکندر۔۔۔‬


‫سکندر کو اپنے پیچھے سفرینا کی آواز‬
‫سنائی دی تو اس نے مڑ کر دیکھا‬
‫وہ بھی سکندر کے پیچھے سیڑھیاں چڑھ‬
‫کر اوپر کے فلور پر آئی تھی۔۔سکندر اس‬
‫وقت ٹیرس سے بنگلے میں موجود سوئمنگ‬
‫پول کو دیکھ رہا تھا۔‬

‫اچھا سفرینا۔۔۔۔اب ہم نے باقی کے پیسے‬


‫بینک میں جمع کرنے جانا ہے ۔۔اس کے بعد‬
‫کھانا کھا کر اپنے لیے ایک‪  ‬کار خریدنے جانا‬
‫ہے۔۔سکندر نے آگے کا منصوبہ بتاتے ہوئے کہا‬

‫جی ٹھیک ہے سکندر۔۔۔سفرینا نے جواب دیا‬

‫آو ۔۔۔چلیں یہ کہہ کر سکندر مڑا اور وہ‬


‫دونوں سیڑھیاں اتر کر نیچے جانے لگے۔‬

‫سفرینا ۔۔وہ باقی کے پیسے تو لے آنا زرا۔۔۔‬


‫سکندر نے نیچے پہنچ کر کہا تو سفرینا‬
‫کمرے کی جانب چلی گئی ۔۔۔سکندر وہیں‬
‫رک گیا تھا۔‬

‫کچھ دیر بعد سفرینا بریف کیس میں باقی‬


‫کی رقم لے آئی تھی۔۔۔چونکہ باقی کی رقم‬
‫دس کروڑ کے لگ بھگ تھی تو بریف کیس‬
‫منہ تک بھر آیا تھا اور بھاری بھی ہو گیا‬
‫تھا۔‬

‫ہم نے بینک جانا ہے سفرینا۔۔۔یہ کہہ کر‬


‫سکندر نے اپنا ہاتھ بڑھا کر آنکھیں بند کر‬
‫لیں۔۔۔اس کے جسم کے جھٹکا کھایا و ہ‬
‫سمجھ گیا کہ اب وہ ہواوں میں ہیں۔۔۔‬

‫تھوڑی دیر بعد جب سکندر کے جسم نے‬


‫دوبارہ جھٹکا کھایا تو اس نے آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔۔وہ بینک کے نزدیک ہی ظاہر‬
‫ہوئے تھے۔۔۔‬

‫کچھ قدم چلنے کے بعد انہیں بینک نظر آئی‬


‫۔۔۔انہوں نے بنا کوئی بات کیے بینک کے اندر‬
‫قدم رکھے اور پھر سیدھا مینیجر کے کمرے‬
‫میں داخل ہو ئے ۔۔‬

‫سالم و جواب کے بعد سکندر نے بریف‬


‫کیس اور اپنا اکاونٹ نمبر مینیجر کو دیا۔۔‬
‫اور رقم کو اکاونٹ میں جمع کرنے کا کہا۔۔‬

‫اتنی بڑی رقم دیکھ کر مینیجر کا بھی منہ‬


‫کھل گیا تھا ۔۔وہ سمجھ گیا کہ سکندر‬
‫کوئی بہت بڑی چیز ہے۔۔۔‬

‫سکندر نے وہیں بریف کیس کھول کر‬


‫پیسوں کی ایک گڈی مینیجر کی جانب‬
‫بڑھائی ۔۔۔جسے مینیجر نے شکریہ کہہ کر‬
‫جلدی سے پکڑ لی‬

‫سفرینا کتنی رقم ہے اس بریف کیس میں۔۔‬


‫سکندر نے پوچھا تو سفرینا نے بریف کیس‬
‫میں رہ جانے والی رقم کا بتایا۔۔‬

‫ضروری بات کرکے مینیجر سے اجازت چاہی‬


‫اور پھر انہوں نے بینک چھوڑ دی۔‬

‫کہیں چل کر کھانا کھاتے ہیں سفرینا۔۔۔۔‬


‫سکندر نے بازار میں کوئی معیاری ہو ٹل‬
‫دیکھتے ہوئے کہا۔۔‬

‫ان کے قدم آگے بڑھتے جا رہے تھے‪  ‬کہ انہیں‬


‫اپنی پسند کا ہوٹل نظر آ گیا۔۔۔‬

‫یہاں کھانا کھائیں گے سفرینا۔۔۔سکندر‬


‫نےہوٹل کی جانب چلتے ہوئے کہا‬
‫سفرینا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔‬

‫ہوٹل میں داخل ہو کر سکندر نے کھانا کا‬


‫آرڈر دیا ۔۔دس منٹ سے بھی کم وقفے میں‬
‫ان کو کھانا سرو کر دیا گیا ۔۔۔‬

‫آج سفرینا پھر سکندر کے ساتھ کھانا کھا‬


‫رہی تھی۔۔۔وہ بھی اس دنیا کے ماحول کی‬
‫عادی ہوتی جا رہی تھی۔‬

‫کھانا کھانے کے بعد سکندرنے اٹھنے کے لیے‬


‫جیسی ہی کرسی کسکائی ۔۔۔ہوٹل کا‬
‫مینیجر ان کے نزدیک آ کر بوال‬

‫آپ مجھے نہیں جانتے ہیں لیکن میں آپ کو‬


‫بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں سیٹھ‬
‫‪ ‬صاحب۔۔مینیجر نے کہا‬
‫سکندر کو اپنے نئےنام سے بالنے پر وہ‬
‫سمجھ گیا کہ یہ مینیجر اس سے ابھی‬
‫ابھی واقف ہوا ہے۔۔‬

‫آپ نے بلکل ٹھیک کہا کہ میں آپ کو نہیں‬


‫جانتا ہوں۔۔۔سکندر نے مینیجر کی بات کی‬
‫تائید کی‬

‫آج کی گھوڑوں والی ریس میں ‪ ،‬میں بھی‬


‫تھا اور آپ سے چند کرسیاں چھوڑ کر آگے‬
‫بیٹھا ہوا تھا۔۔یقین جانیں آپ کی جیت نے‬
‫مجھے بھی حیران کر دیا تھا‬

‫اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔سکندر نے زیادہ بات کرنا‬


‫مناسب نہیں سمجھا‬

‫میں بھی چھوٹے چھوٹے داو کھیلنے کبھی‬


‫کبھار وہاں جاتا ہوں جناب۔۔۔مینیجر خود‬
‫ہی بات کیے جا رہا تھا۔۔‬

‫اچھا۔۔۔سکندر نے مختصر جواب دیا۔۔۔وہ اب‬


‫مینیجر کی موجودگی سے اکتا رہا تھا۔۔۔۔‬
‫اس کا ارادہ ہوٹل سے نکل جانے کا تھا لیکن‬
‫یہ مینیجر اسے فضول باتوں میں الجھائے‬
‫جا رہا تھا۔۔۔سکندر کو اب مینیجر سے‬
‫کوفت ہو رہی تھی۔‬

‫ہمارے ہوٹل میں بھی جوا کھیال جاتا ہے‬


‫جناب۔۔۔اگر آپ کھیلنا چاہیں تو۔۔۔۔مینیجر‬
‫نےنزدیک ہو کر سکندر کے کان میں بات‬
‫کہی تھی‬

‫مینیجر کی بات سن کر سکندر کے کان‬


‫کھڑے ہو گئے۔۔۔اس نے سکندر کے مطلب کی‬
‫با ت کی تھی۔‬
‫کیا آپ کھیلنا چاہیں گے؟ مینیجر نے اب‬
‫بھی اپنی آواز دھیمی رکھی ہوئی تھی‬

‫کیوں نہیں۔۔بلکل کھیلیں گے۔۔۔سکندر نے‬


‫مسکرا کر سفرینا کو دیکھا‬

‫آئیں میرے ساتھ۔۔۔یہ کہہ کر مینیجر دور‬


‫کونے میں موجود دروازے کی طرف چلنے‬
‫لگا۔۔سکندر اور سفرینا بھی اس کے پیچھے‬
‫تھے۔‬

‫دروازے پر کھڑے سیکیورٹی گارڈ نے‬


‫مینیجر کو دیکھ کر دروازہ کھول دیا اور‬
‫وہ تینوں اندر داخل ہوگئی۔۔‬

‫یہ ایک تنگ سی گلی تھی جس کے آخر‬


‫میں ایک اور دروازہ تھا ۔۔۔اور دروازے پر‬
‫موجود ایک سیکیورٹی گارڈ ہاتھ میں‬
‫بندوق لیے چوکس کھڑا ہوا تھا۔‬

‫مینیجر کو اپنی جانب آتا دیکھ کر اس نے‬


‫سالم کیا اور دروازہ کھول دیا۔۔‬

‫یہ ایک‪  ‬دھویں سے بھرا ہال نما کمرہ تھا۔۔۔‬


‫جس پر جگہ جگہ ٹیبل لگائے گئے تھے اور‬
‫اس وقت سارے میزوں پر لوگ بیٹھ کر‬
‫تاش کھیل رہے تھے۔ہال میں سگریٹ اور‬
‫چرس کی بو واضح طور پر محسوس کی‬
‫جا سکتی تھی۔۔۔‬

‫غنی بھائی دیکھیں تو زرا میرے ساتھ کون‬


‫ہے۔۔۔مینیجر نے ایک میز کے قریب پہنچ کر‬
‫میز کر بیٹھے آدمی کو مخاطب کیا تھا‬
‫ایک موٹا سا آدمی پینٹ شرٹ پہنے ہوئے‬
‫تاش کے پتے بانٹ رہا تھا۔۔میز پر تین اور‬
‫آدمی بھی بیٹھے ہوئے تھے اور پانچویں‬
‫کرسی خالی تھی‬

‫مینیجر یہ کون ہے۔۔۔غنی بھائی نے سکندر‬


‫اور سفرینا کو دیکھنے کے بعد کہا‬

‫یہ سیٹھ سکندر ہے اور ان کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔‬


‫مینیجر نے سفرینا کی طرف دیکھ کر بات‬
‫نا مکمل چھوڑ دی‬

‫یہ میری بزنس پارٹر سفرینا ہے مینیجر۔۔۔۔‬


‫‪ ‬سکندر نے مینیجر کی بات مکمل کر دی‬

‫آج یہ آپ کے مہمان ہیں غنی بھائی۔۔۔۔‬


‫مینیجر بوال‬
‫ہم تمہارے مہمان کی خوب تواضع کریں گے‬
‫مینیجر۔۔۔غنی بھائی پیاسی نگاہوں سے‬
‫سفرینا کو دیکھ رہا تھا‬

‫آپ لوگ بیٹھ جائیں ۔۔۔مینیجر سے سکندر‬


‫‪ ‬سے کہا‬

‫سکندر پانچویں کرسی پر بیٹھ گیا جب کہ‬


‫سفرینا سکندر کے کندھے کے ساتھ ہی‬
‫‪ ‬کھڑی رہی‬

‫میں زرا ہوٹل کو دیکھ لوں سیٹھ صاحب۔۔‬


‫جب تک آپ لوگ گیم کو انجوائے کریں‬

‫مینیجر کی بات سن کر سکندر نے ہاں میں‬


‫گردن ہالئی تو مینیجر واپس چال گیا‬

‫کتنے کا داو کھیلے گے سیٹھ صاحب۔۔۔۔غنی‬


‫کی نظریں ابھی بھی سفرینا سے ٹکرا رہی‬
‫تھیں‬

‫کتنے کا داو چل رہا ہے غنی۔۔۔۔سکندر نے‬


‫سنجیدہ لہجے میں کہا‬

‫دس ہزار ۔۔۔۔غنی نے جواب دیا‬

‫ہنہ۔۔۔۔۔سکندر نے‪  ‬کوئی بات نہیں کی۔‬

‫کتنے کا داو کھیلنا ہے سیٹھ۔۔۔۔غنی نے‬


‫پوچھا‬

‫کم سے کم دو الکھ۔۔۔۔سکندر نے کمر کرسی‬


‫سے ٹکاتے ہوئے کہا‬

‫اتنا بڑا داو سن کر غنی کو چھپ لگ گئی‬


‫تھی ۔۔۔ساتھ میں دوسرے ممبران کو بھی‬
‫سکتہ آ گیا تھا‬
‫کچھ دیر سوچنے کے بعد غنی نے اپنے ساتھ‬
‫پڑے بیگ کی زپ کو کھوال اور بڑے بڑے‬
‫نوٹوں کی گڈیاں نکال کر میز پر سکندر کے‬
‫سامنے رکھ دیں‬

‫یہ ہوئی نا بات غنی۔۔۔۔سکندر نے سیدھا ہو‬


‫کر کہا‬

‫تم بھی اپنے ساتھ پیسے الئے ہو یا بس‬


‫ایسے ہی مفت کے مزے لینے آئے ہو سیٹھ۔۔۔‬
‫غنی نے طنز میں کہا‬

‫پیسے تو نہیں الیا ہوں یار لیکن اگر تم‬


‫جیتے تو یہ لڑکی جو میرے ساتھ کھڑی‬
‫ہے۔۔یہ تمہاری ہوئی۔۔۔سکندر نے تو بات کر‬
‫دی‬
‫لیکن یہ ایک ایسا بم تھا کہ جس کے‬
‫پٹتےہی سب ہل کر رہ گئے۔۔۔غنی کو بھی‬
‫زور دارجھٹکا لگا تھا‬

‫سچ میں اگر میں جیتا تو یہ پھلجڑی میری‬


‫ہو جائے گی سیٹھ۔۔۔غنی نے ہوش میں آکر‬
‫کہا‬

‫اگر تمہیں مزاق لگتا ہے تو لڑکی سے پوچھ‬


‫لیتے ہیں ۔۔۔کیوں سفرینا اگر غنی جیت گیا‬
‫تو تم اس کے ساتھ جاوگی؟سکندر نے منہ‬
‫اٹھا کر کہا‬

‫بلکل۔۔۔سفرینا نے تو یہ بات کہی تھی لیکن‬


‫اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اسے سکندر کی‬
‫یہ بات بلکل پسند نہیں آئی تھی‬
‫چلو پھر کھیل شروع کرتے ہیں سیٹھ۔۔۔۔‬
‫غنی نے سارے پتے اکھٹے کرتے ہوئے کہا‬

‫غنی کو دیکھ کر باقی تینوں لوگ اٹھ‬


‫کھڑے ہوئے‬

‫غنی بھائی یہ کھیل ہماری اوقات سے زیادہ‬


‫ہے۔۔۔آپ دونوں کھیل لیں ۔۔۔ہم دوسری میز‬
‫پر جا کر کھیلتے ہیں۔۔۔تینوں نے مل کر کہا‬

‫ہاں پرویز ۔۔۔تم دونوں ساتھیوں کے ساتھ‬


‫دوسری میز پر جا کر کھیلو۔۔۔میں زرا سیٹھ‬
‫کو جیت لوں پھر آج کی رات اس کلی کا‬
‫رس پینا ہے۔۔۔غنی نے زبان ہونٹوں پر‬
‫پھیرتے ہوئے کہا‬

‫غنی بھائی‪  ‬کی بات سن کر باقی تینوں‬


‫لوگ میز چھوڑ کر چلے گئے‬
‫اٹھاو سیٹھ ۔۔۔۔غنی نے پتے میز پر رکھتے‬
‫ہوئے کہاجو کہ اس وقت ایک گڈی کی‬
‫صورت میں پڑے ہوئے تھے‬

‫سکندر نے آدھے پتے اٹھا کر سائیڈ پر رکھے‬


‫۔۔۔‬

‫بادشاہ ۔۔۔ایک الکھ کے لیے۔۔سکندر نے اپنا‬


‫‪ ‬بتایا‬

‫سکندر کا پتا سن کر غنی نے پہلے تین پتے‬


‫اپنی طرف پھینکے لیکن ان میں بادشاہ‬
‫نہیں تھا۔۔۔چوتھا پتا اس نے سکندر کی‬
‫جانب پھینکا جو کہ رانی تھا۔‬

‫اب غنی ایک پتا اپنی طرف پھینک رہا تھا‬


‫اور ایک پتا سکندر کی طرف۔۔لیکن کوئی‬
‫بھی پتا بادشا ہ نہیں تھا‬
‫جیسے جیسے کھیل آگے جا رہا تھا۔۔غنی کے‬
‫چہرے پر پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔‬
‫ایک الکھ کا ایک دم چلے جانا‪  ‬کوئی‬
‫معمولی بات نہیں تھی۔‬

‫غنی نے پتا سکندر کی طرف پھینکا تو دو‬


‫نمبر آیا ۔۔۔‬

‫ہار جاوگے سیٹھ ۔۔کیوں اس خوبصور ت‬


‫کلی سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو۔۔۔غنی نے‬
‫سکندر کو اکساتے ہوئے کہا‬

‫باتیں چھوڑو غنی پتاپھینکو پتا۔۔۔۔سکندر‬


‫نے بھی غنی کو ابھارنے کے لیے کہا‬

‫اور پھر بادشاہ غنی کی طرف آیا‬

‫یہ آیا بادشاہ۔۔۔۔۔غنی نے خوشی سے چالتے‬


‫ہوئے کہا‬
‫کیسے سیٹھ۔۔۔۔کیا کہتے ہو۔۔۔؟ غنی نے‬
‫پوچھا‬

‫دوسری باری کھیلو غنی۔۔۔۔سکندر نے جواب‬


‫دیا‬

‫اچھا سیٹھ مجھے بھی پتا چلے کہ تم نے‬


‫اس لڑکی کی کیا قیمت رکھی ہے۔۔۔غنی نے‬
‫سفرینا کی قیمت پوچھی تھی‬

‫بیس الکھ جیت لو تو یہ تمہاری ہو جائے‬


‫گی غنی۔۔۔۔سکندر نے سفرینا کی قیمت‬
‫بتائی توغنی‪  ‬پتوں کی بانٹ کر نے لگا اور‬
‫پھر سارے پتوں کی گڈی بنا کر سکندر کے‬
‫سامنے رکھ دی۔۔‬

‫بادشاہ۔۔۔دس الکھ کے لیے ۔۔۔سکندر نے‬


‫اچانک ریٹ بہت بلند کر دیا‬
‫کیا۔۔۔۔۔سکندر کی بات سن کر غنی کو سانپ‬
‫سونگھ گیا۔۔۔اس کے ہاتھوں میں کپکپاہٹ‬
‫سکندر کو واضح نظر آ رہی تھی‬

‫کیا ہوا غنی ۔۔۔ڈر گئے؟ سکندر نے غنی کے‬


‫نزدیک ہو کر کہا‬

‫بلکل نہیں۔۔۔سکندر کا طعنہ سن کر غنی نے‬


‫جھٹکا کھایا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا‬

‫غنی نے پہال پتہ پھینکا جو کہ رانی نکال۔۔۔‬

‫رانی آ گئی ہے تو بادشاہ بھی پیچھے‬


‫پیچھے آ جائے گا ۔۔۔غنی نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا۔۔وہ سنبھل چکا تھا‬

‫سکندر نے کوئی جواب نہیں دیا تو غنی نے‬


‫دوسرا پتا پھینکا۔۔۔یہ بھی رانی تھا۔۔۔‬
‫ہاہاہا۔۔۔دو دو رانی ۔۔۔اب تو بادشاہ کا باپ‬
‫بھی آئے گا۔۔۔غنی نے قہقہ لگایا‬

‫اور پھر تیسرے پتے میں بادشاہ نکل آیا۔۔۔‬

‫وہ جیتا۔۔۔۔غنی کرسی پر اچھال‬

‫تمہارے باقی نوالکھ ہیں سیٹھ۔۔۔۔غنی‬


‫دوبارہ پتے اکھٹے کر رہا تھا‬

‫اتنی بڑی بازی اور غنی کو جیتتا دیکھ کر‬


‫ہال میں موجود باقی لوگ بھی چپ کر کے‬
‫ان کی گیم دیکھ رہے تھے‬

‫یہ آخری داو ہے غنی۔۔آر یا پار۔۔۔۔سکندر نے‬


‫باقی کی ساری رقم لگانے کا اردہ کر لیا تھا‬

‫کیوں سفرینا۔۔۔یہ داوتو ہم جیت جائیں گے‬


‫نا۔۔۔سکندر نے مڑ کر سفرینا سے کہا‬
‫بلکل جیتیں گے سیٹھ سکندر۔۔۔۔سفرینا نے‬
‫ہاں میں ہاں مالئی‬

‫کونسا پتا کھیلنا ہے سیٹھ ؟ غنی نے پوچھا‬

‫‪  ‬بادشاہ ۔۔بیس الکھ کے لیے‬

‫سکندر نے پتا اور رقم بتائی‬

‫لیکن تمہارے پاس تو نو الکھ ہیں۔۔۔غنی نے‬


‫حیران ہو کر پوچھا‬

‫باقی کے گیارہ الکھ تمہیں اس لڑکی کے‬


‫ساتھ مل جائیں گے غنی۔۔۔سکندر بوال‬

‫اوہ ہو۔۔۔۔یہ تو اور اچھی بات ہے۔۔۔۔غنی نے‬


‫ہنستے ہوئے کہا‬

‫اس نے پہال اور پھر دوسرا پتا پھینکا۔۔۔یہ‬


‫نو اور چار کا پتا تھا‬
‫تیسرا پتا بھی بادشاہ نہیں تھا۔۔۔‬

‫بچ گئے سیٹھ تم ۔۔آج تو میں نے تمہیں‬


‫تیسرے پتے میں ہی فارغ کرنا تھا۔۔۔غنی نے‬
‫ہنستے ہوئے کہا‬

‫پتا پھینکو غنی۔۔۔اور یہ بادشاہ ہے ۔۔۔۔‬


‫سکندر نے آواز میں رعب ال کر کہا‬

‫تمہیں یقین ہے سیٹھ کہ یہ واال بادشاہ‬


‫ہوگا۔۔۔غنی نے مسکراتے ہوئے پوچھا‬

‫اگر یہ بادشاہ نہیں نکال تو میں تمہیں نو‬


‫نہیں بلکہ پندرہ الکھ دوں گا غنی۔۔۔۔سکندر‬
‫کی آواز اور چہرہ مکمل ہی بدل چکا تھا۔۔‬
‫وہ یقین کی اس حد پر تھا جہاں ایک‬
‫مرتبہ اس نے سفرینا کے کہنے پر اپنے ہی‬
‫گلے پر چھری پھیر دی تھی‬
‫کیا۔۔۔۔۔۔؟ غنی کی آنکھیں پھیل گئی۔۔۔‬

‫میں نے کہا پتا پھینکو غنی۔۔۔سکندر نے‬


‫غراتے ہوئے کہا‬

‫غنی نے ڈرتے ڈرتے پتا پھینکااور پھر دونوں‬


‫ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔۔۔‬

‫سکندر کےسامنے بادشاہ پڑا ہوا تھا۔۔۔‬

‫غنی میں تمہیں ڈھیل دے رہا تھا ۔۔۔تمہیں‬


‫اب یاد رکھنا ہوگا کہ اس کھیل کا بادشاہ‬
‫‪  ‬میں ہو ۔۔۔۔سکندر‬

‫سکندر اونچی آواز میں بے مقصد بولے جا‬


‫رہا تھا اور غنی کے جسم پر ریشہ طاری تھا‬

‫سفرینا یہ رقم اٹھا و اور نیچے پڑے بیگ‬


‫میں ڈال کر بیگ بھی اٹھا لو۔۔۔سکندر نے‬
‫کرسی سے اٹھتے ہوئے کہا‬

‫یہ رقم تو بہت تھوڑی ہے سکندر۔۔۔سفرینا‬


‫نے اچانک عجیب بات کر دی تھی‬

‫میرے پاس پانچ الکھ روپے تھے سیٹھ جو‬


‫میں ہار گیاہوں۔۔۔غنی نے روہانسے لہجے‬
‫میں کہا‬

‫باقی کی رقم کون دے گا غنی۔۔۔سکندر کو‬


‫اب غنی پر غصہ آنے لگا تھا‬

‫میرے پاس یہی پیسے ہیں۔۔۔۔غنی اب رونے‬


‫پر آ گیا تھا۔۔اس نے بیس الکھ کی رقم ہاری‬
‫تھی اور اس وقت اس کے پاس پانچ الکھ‬
‫تھے۔۔وہ ہارٹ اٹیک کے قریب تھا کیونکہ‬
‫باقی کے پندرہ الکھ وہ کہاں سے الئے گا۔۔یہ‬
‫سوچ سوچ کر اس کو ٹھنڈے پسینے آ رہے‬
‫تھے‬

‫اس کی تالشی لو سفرینا۔۔سکندر نے کہا تو‬


‫سفرینا نے آگے بڑھ کر سکندر کی شرٹ والے‬
‫جیب اور پھر پینٹ کے تینوں جیبوں کی‬
‫تالشی لی۔‬

‫یہ خالی پرس اور ایک کاغذ ہے ۔۔۔سفرینا نے‬


‫جیبوں سے نکال سامان سکندر کے سامنے کر‬
‫دیا‬

‫کیوں غنی بجلی کا بل بھی جمع نہیں کیا‬


‫ہے ؟ سکندر نے مزاق اڑاتے ہوئے کہا‬

‫یہ بل نہیں ہے سیٹھ۔۔۔مجھے بازار میں‬


‫رستے پر مال تھا۔۔۔غنی نے جواب دیا‬
‫اسے کھول کر دکھاو سفرینا ۔۔۔۔سکندر نے‬
‫کہا تو سفرینا نے تہہ کیا کاغذ کھول کر‬
‫سکندر نے سامنے کیا۔۔۔سفرینا نے خود نہیں‬
‫دیکھا تھا‬

‫یہ کیا غنی ۔۔۔بچوں کی ڈرائنگ کی کتاب کا‬


‫صفحہ جیب میں رکھ کر گھوم رہے ہو۔۔۔‬
‫سکندر نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫کاغز پر آڑھی ترچھی لکیریں اور نام لکھے‬


‫ہوئے تھے‬

‫پتا نہیں۔۔۔میں پڑھا ہوا نہیں ہوں سیٹھ ۔۔۔‬


‫بس میں نے دیکھا تو مجھے اچھا لگا اور‬
‫میں نے جیب میں رکھ لیا‬

‫سکندر۔۔۔۔۔اچھاسفرینا بولی‬
‫یہ کٖا غذ آپ کے بہت کام آئے گا۔۔۔۔سفرینا نے‬
‫کاغذ کو دیکھتے ہوئے کہا‬

‫کیا ہے اس‪  ‬میں سفرینا؟۔۔۔سکندر نے بھی‬


‫تجسس میں پوچھ لیا‬

‫آپ کو باہر چل کر بتاتی ہوں۔۔۔اور غنی‪ ‬‬


‫تمہاری باقی کی رقم معاف ہے۔۔یہ کہہ کر‬
‫سفرینا نے بیگ اٹھا لیا‬

‫اچھا۔۔۔چلو پھر۔۔۔سکندر نے کہا اور دونوں‬


‫مڑ کر جانے لگے لیکن اچانک سکندر رک‬
‫گیا۔۔‬

‫میرا نام سیٹھ سکندر ہے غنی۔۔۔سکندر نے‬


‫‪ ‬غنی سے کہا‬

‫وہ دونوں چلتے چلتے ہال سے باہر نکل کر‬


‫ہوٹل سے باہر آ گئے۔۔۔‬
‫کیا ہے اس میں سفرینا۔۔۔؟ سکندر نے کاغذ‬
‫کے بارے میں پوچھ لیا‬

‫سکندر یہ نقشہ ہے ۔۔۔سفرینا نے ابھی بھی‬


‫پوری بات نہیں بتائی تھی‬

‫کس چیز کا نقشہ سفرینا۔۔؟ سکندر نے‬


‫دوبارہ پوچھا‬

‫خزانے کا نقشہ ہے ۔۔۔۔۔سفرینا بولی‬

‫سچ میں سفرینا ؟ اس بات نے سکندر کو‬


‫حیران کر دیا‬

‫بلکل سکندر ۔۔۔اسی لیے میں نے یہ بات غنی‬


‫کے سامنے نہیں کہی تھی‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬

‫جاری ہےسفرینا۔۔۔‬

‫)قسط نمبر(‪)20‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫یہ تم نے بہت اچھا کیا سفرینا۔۔۔۔اگر غنی‬


‫کو پتا چل جاتا کہ یہ خزانے کا نقشہ ہے تو‬
‫وہ رکاوٹ کھڑی کر سکتا تھا۔سکندر نے‬
‫تعریفی لہجے میں کہا‬

‫شکریہ سکندر۔۔۔اب آپ بتائیں کہ کیا کرنا‬


‫ہے۔۔۔سفرینا نے پوچھا‬
‫بھئی ہمیں کوئی اور کام تو ہے نہیں ۔۔اس‬
‫لیے ابھی ہی چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ‬
‫‪ ‬کیسا خزانہ ہے اور کہاں پر ہے؟‬

‫یہ جگہ ہندوستان میں واقع ہے سکندر۔۔۔‬


‫باقی کامعلوم کرنے کے لیے میں ابھی جاتی‬
‫ہے اور پھر ساری معلومات لے کر آتی ہوں‬
‫۔۔۔‬

‫ہاں سفرینا۔۔۔تم زرا دیکھ آو کہ یہ کیسی‬


‫جگہ ہے۔۔۔۔سکندر کے بعد دونوں ایک ویران‬
‫جگہ پر گئے اور پھر سفرینا غائب ہو کر‬
‫چلی گئی۔۔‬

‫سفریناکو گئے ابھی دس منٹ گزرے کہ وہ‬


‫واپس آ گئی ۔۔‬
‫کہو سفرینا۔۔۔کیا معلوم کرکے آئی ہو۔۔۔‬
‫سفرینا نے سامنے آنے کے بعد سفرینا بوال‬

‫یہ کوئی پہاڑی عالقہ ہے سکندر۔۔۔اور انہی‬


‫پہاڑوں کے بیچ میں ایک غار ہے جس کے‬
‫اندر یہ خزانہ دفن ہے۔۔لیکن خزانے کا پہرہ‬
‫کچھ غیبی قوتیں دے رہی ہیں ۔۔۔سفرینا نے‬
‫مختصر ًا سکندر کو بتایا۔‬

‫ہمم۔۔۔۔پھر چلتے ہیں سفرینا۔۔۔دیکھیں تو‬


‫زرا اس خرانے کو۔۔۔اور اگر یہ مل جاتا ہے‬
‫پھر تو ہمارے مزے ہیں۔۔۔سکندر نے خیالوں‬
‫میں خوش ہو کر کہا‬

‫اچھا سفرینا۔۔۔یہ خزانہ کس نوعیت کا ہے‬


‫۔۔۔مطلب کس طرح کا ہے ۔۔۔سکندر نے‬
‫پوچھا‬
‫اتنا تو میں نہیں دیکھ سکی سکندر۔۔‬
‫کیونکہ پھر غیبی قوتوں کو پتا چل جاتا‬
‫اور خزانہ لینا ہمارے لیےا تھوڑا دشوار ہو‬
‫جاتا۔۔۔۔سفرینا بولی‬

‫ہمم۔۔۔۔اچھا پھر چلو چلیں۔۔۔۔سکندر نے اپنا‬


‫ہاتھ سفرینا کے ہاتھ میں دیا۔۔‬

‫ہم پہاڑی کے ساتھ واقع جنگل میں اتریں‬


‫گے سکندر۔۔۔سفرینا نے بتایا‬

‫ٹھیک ہے سفرینا۔۔۔۔سکندر نے مختصر جواب‬


‫دے کر اپنی آنکھیں بند لیں۔۔ان دونوں‪  ‬کے‬
‫جسم کو جھٹکا لگا ۔۔۔‬

‫آنکھیں کھولنے پر وہ ایک جنگل میں کھڑے‬


‫ہوئے تھے ۔۔۔۔‬
‫سفرینا یہ جنگل کتنا بڑا ہے ۔۔۔سکندر نے‬
‫گھوم کر چاروں طرف دیکھتے ہوئے کہا‬

‫اور اس میں جنگلی جانور وغیر ہ بھی ہیں‬


‫کیا؟‬

‫ہم اس جنگل کی آخری حد میں ہیں‬


‫سکندر۔۔۔اور بلکل اس میں جنگلی جانور‬
‫کی بہتات ہے بلکہ انہیں وحشی جانور کہا‬
‫جائے تو درست ہو گا۔۔سفرینا نے سکندر کی‬
‫بات کا جواب دیا‬

‫اگر مجھے کسی جانور نے کھا لیا سفرینا ۔۔۔‬


‫‪ ‬تو؟‬

‫میرے ہوتے ہوئے آپ کو کچھ نہیں ہو گا‬


‫سکندر۔۔۔سفرینا نے کہا‬
‫ابھی سفرینا کے منہ سے یہ الفاظ ہی نکلے‬
‫تھے کہ ایک چیز اڑتی ہوئی آئی اور سفرینا‬
‫کے دائیں کندھے میں گھس گئی۔۔۔یہ نیزہ‬
‫‪ ‬تھا‬

‫سفرینا نے اچلتے ہوئے چیخ ماری تھی۔۔۔وہ‬


‫اپنی جگہ سے تین فٹ پیچھے جا کر گری‬
‫تھی۔‬

‫سفرینا۔۔۔۔۔۔۔سکندر نے سفرینا کا سر اپنی‬


‫گود میں رکھ کر کہا‬

‫ایک خون کا فوارہ تھا جو سفرینا کے‬


‫کندھے سے نکال تھا۔۔۔‬

‫سفرینا نے اپنا بایاں ہاتھ بڑھا کر نیزہ کو‬


‫پکڑا اور قوت لگا کر اسے باہر نکال کر‬
‫پھینکا۔‬
‫کچھ نہیں سکندر۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔سفرینا‪ ‬‬
‫‪ ‬نے کراہتے ہوئے کہا‬

‫سکندر نے ساڑھی کا پلو کندھے سے ہٹا کر‬


‫دیکھا ۔۔۔خون رسنا بند ہو چکا تھا‪  ‬اور زخم‬
‫آہستہ آہستہ بھرتا جا رہا تھا‬

‫اچانک جنگل میں شور اٹھا تھا۔۔۔بہت سے‬


‫لوگ عجیب و غریب آوازیں نکال‪  ‬رہے‬
‫تھے۔۔ان کی بڑھتی آواز سے یہ لگ رہا تھا‬
‫کہ وہ نزدیک آ رہے ہیں۔‬

‫آوازیں سن کر سفرینا نے اٹھنے کی کوشش‬


‫کی لیکن زخم کے بھر جانے کے باوجود بھی‬
‫اس کے جسم میں چوٹ کا اثر باقی تھا۔۔۔‬
‫وہ درد محسوس کر ررہی تھی‬
‫سفرینا کو اٹھتا دیکھ کر سکندر نے اپنا‬
‫دایاں گھٹنا کھڑا کر دیا اور سفرینا کی‬
‫پشت کو گھٹنے سے ٹیک لگا دیا‬

‫سفرینا اب کیا کریں۔۔۔ہم مصیبت میں‬


‫پھنسنے والے ہیں۔۔۔سکندر نے بدحواسی‬
‫میں کہا ۔۔۔وہ سفرینا کو کمزور ہوتادیکھ کر‬
‫پریشان ہو گیا تھا‬

‫کچھ نہیں ہو گا ۔۔سکندر آپ پریشان نہ‬


‫ہوں۔۔سفرینا اب سیدھی ہو کر بیٹھ گئی‬
‫تھی‬

‫یہ بیس کے قریب لوگوں کا گروہ تھا‬


‫جنہوں نے آتے ہی سکندر اور سفرینا کے گرد‬
‫دائرہ بنا‪  ‬لیا۔۔۔وہ منہ سے عجیب شور پیدا‬
‫کر ہے تھے جن کا کوئی مطلب نہیں تھا ۔‬
‫سکندر نے ایک نظر سفرینا کو دیکھ اور‬
‫پھر ان وحشی انسانوں کو دیکھنے لگا۔‬

‫سکندر کو محسوس ہی نہیں کہ کیا ہوا‬


‫لیکن اچانک اس کے جسم نے جھٹکا کھایا‬
‫اور پھر سارے منظر دھندلے ہو گئے۔۔۔آندھی‬
‫تھی جو سکندر کے آنکھوں سے ٹکرا رہی‬
‫تھی۔۔‬

‫یہ سب چند لمحوں کے لیے ہوا تھا۔۔۔اس کے‬


‫بعد سکندر کے جسم کو دوبارہ جھٹکا لگا۔۔۔‬
‫وہ اپنے نئے خریدے ہوئے بنگلے کے صحن‬
‫میں زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔۔۔اس کے ساتھ‬
‫ہی سفرینا بیٹھی‪  ‬ہوئی تھی۔‬

‫سکندر کو سیکنڈ سے بھی کم وقت میں‬


‫ساری بات سمجھ آ گئی۔۔سفرینا چوٹ‬
‫کھانے کے بعد کمزور ہو گئی تھی۔۔۔اس لیے‬
‫وہ اڑ کر واپس گھر آ گئے تھے۔‬

‫کیسی ہوئی اب تم سفرینا۔۔۔سکندر نے‬


‫سوچوں کی دنیا سے نکل کر کہا۔۔۔‬

‫وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا اور پھر‬


‫سفرینا کو مدد دے کر اٹھنے میں مدد کر‬
‫رہا تھا۔‬

‫میں ٹھیک ہوں سکندر۔۔بس اچانک حملہ‬


‫تھا تو نظر نہیں پڑی۔۔۔اس لیے ہم مار کھا‬
‫گئے۔۔۔‬

‫تمہارا زخم تو ٹھیک ہو چکا ہے سفرینا۔۔۔۔‬


‫‪ ‬سکندر نے پوچھا‬

‫جی ہاں سکندر۔۔میرا زخم ٹھیک ہو گیا ہے‬


‫لیکن اندرونی چوٹ کی وجہ سے تکلیف‬
‫محسوس کر رہی ہوں۔۔ جب تک میں‬
‫سنبھلتی‪ ،  ‬ہمیں نقصان پہنچ سکتا تھا۔۔‬
‫اس لیے ہم واپس آ گئے۔‬

‫سکندر نے سفرینا کی پیٹھ سے بازو گھما‬


‫کر اسے بغل میں دے دیا تھا اور اب آہستہ‬
‫آہستہ اسے لیتا ہوا بنگلے کے اندر جا رہا تھا۔‬

‫کمرے میں پہنچ کر سکندر نے سفرینا کو‬


‫دھیرے سے بیڈ پر لٹایا اور اس کے ساتھ‬
‫ہی بیٹھ گیا‬

‫‪ ‬تمہاری یہ تکلیف کب تک رہے گی سفرینا؟‬

‫آپ کی دنیا کا ایک گھنٹا لگے گا مجھے‬


‫سکندر۔۔۔پھر ہی میں صحیح سے حرکت کر‬
‫سکوں گی۔۔۔سفرینا نے جواب دیا‬
‫تمہارے تو زخم بھر گئے ہیں سفرینا۔۔تو پھر‬
‫یہ تکلیف کیوں ہو رہی ہے۔۔۔۔سکندر نے‬
‫دوسرےسوال کیا‬

‫سکندر ہم آپ انسانوں سے مختلف ہیں ۔۔ہر‬


‫انسان ہمیں مار نہیں سکتا ہے لیکن ہمیں‬
‫تکلیف ضرور دے سکتے ہیں۔۔۔سفرینا نے‬
‫جواب دیا‬

‫میں تمہاری بات نہیں سمجھا سفرینا۔۔۔‬


‫سکندر نے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا‬

‫آپ انسان مٹی کے بنے ہوئے ہیں اور ہم آگ‬


‫کے لیکن نہ مٹی آپ کو مار سکتی ہے اور نہ‬
‫ہی آگ ہمیں جال سکتی ہے۔۔آپ اگر ابھی‬
‫مجھے آگ بھی لگا دیں تو مجھے کچھ‬
‫نہیں ہو گا بلکہ میرا جسم کچھ وقت کے‬
‫بعد دوبارہ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اگر آپ‬
‫مجھے ایک تھپڑ ماریں گے تو اس تکلیف کا‬
‫احساس مجھے ضرور ہوگا۔‬

‫اوہ۔۔۔اب سمجھا۔۔۔۔سکندر نے کہا‬

‫رکو میں تمہارے لیے دودھ گرم کر کے آتا‬


‫ہوں۔۔۔شاید اس سے تمہاری تکلیف کم‬
‫ہوجائے۔۔۔سکندر نے اٹھتے ہوئے کہااور پھر‬
‫رک گیا۔‬

‫لیکن اس نئے گھر میں تو دودھ بھی نہیں‬


‫ہے سفرینا۔۔۔۔سکندر کے چہرے پر شرمندگی‬
‫کے آثار آ گئے۔‬

‫کوئی بات نہیں سکندر۔۔۔۔میں خود ہی‬


‫ٹھیک ہو جاوں گی ۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں۔۔۔۔‬
‫‪ ‬سفرینا نے کہا‬
‫کیوں بھئی پریشان کیوں نہ ہو جاوں ۔۔۔۔‬
‫اس وقت ایک تم ہی تو ہو جو میرے ساتھ‬
‫ہو۔۔۔اور میرے لیے تم اتنا کچھ کر رہی تو‬
‫کیامیں تمہارے لیے یہ چھوٹے سے کام بھی‬
‫نہیں کر سکتا۔۔۔۔سکند نے نقلی سا منہ بنا‬
‫لیاتھا۔۔۔‬

‫لیکن ابھی آپ نے ہی کہا کہ گھر میں کچھ‬


‫نہیں ہے تو‪  ‬دودھ کہاں سے الئیں گے۔۔۔‬
‫بتائیں۔۔ہاں‪   ‬۔۔۔ سفرینا بھی سکندر کو تنگ‬
‫کرنےکے موڈ میں تھی۔‬

‫ہاں یہ بات ہے جس کا میرے پاس کوئی‬


‫جواب نہیں۔۔۔اچھا چلو میں تمہارا بازو‬
‫دباتا ہوں۔۔۔۔یہ کہہ کر سکندر بیڈ پر دوبارہ‬
‫بیٹھ گیا اور سفرینا کے بازو کو ہاتھ میں‬
‫لے لیا۔۔۔‬

‫سکندر ۔۔مجھے شرمندہ نہ کریں پلیز۔۔۔۔جو‬


‫میری جگہ ہے ۔۔مجھے وہی رہنے دیں۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوئے کہا‬

‫کیوں بھئی اس میں شرمندگی والی کیا‬


‫بات ہے۔۔۔۔تم میرے لیے اتنا کچھ کر رہی‬
‫ہوں تو میرا بھی فرض بنتا ہے کہ میں‬
‫تمہارے کام آوں۔۔۔سکندر بھی جان چھڑانے‬
‫کے موڈ میں نہیں تھا۔‬

‫اچھا۔۔۔۔آخر سفرینا ہار گئی ۔۔۔۔اور سکندر‬


‫سفرینا کے کندھے اور بازو کو ہلکے ہلکے سے‬
‫دبانے لگا۔۔۔۔‬
‫اچانک سفرینا کو شیطان اعظم کی باتیں‬
‫یاد آگئی تو اس نے جلدی سے اپنا بازو‬
‫چھڑا لیا ۔۔۔۔‬

‫سکندر‪  ‬پلیز۔۔۔۔سفرینا کے چہرے کو دیکھ‬


‫کر سکندر نے پتا نہیں کیوں اس کا بازو‬
‫چھوڑ دیا۔۔‬

‫اچھا۔۔۔۔سکندر وہیں بیٹھا رہا۔۔‬

‫چلیں چلتے ہیں۔۔۔۔اچانک سفرینا سیدھی ہو‬


‫‪ ‬کر بیٹھ گئی‬

‫ارے۔۔۔ابھی تو‪  ‬دس منٹ بھی نہیں ہوئے‬


‫ہیں۔۔۔سکندر نے حیرانگی سے پوچھا‬

‫میرے زخم کو لگے آدھا گھنٹا گزر چکا ہے‬


‫سکندر ۔۔۔اور اب میں بہت کم تکلیف‬
‫محسوس کررہوں ۔۔۔سفرینا نے‪  ‬جواب دیا‬
‫لیکن گھنٹا تو نہیں ہوا ہے نا۔۔۔سکندر نے‬
‫پھر پوچھ لیا۔۔‬

‫بھئی سکندر کیا ہے ۔۔۔۔کہا نا کہ میں اب‬


‫پہلے سے بہتر ہوں تو کیوں ضد کر رہے‬
‫ہیں۔۔۔سفرینا نے چڑتے ہوئے کہا‬

‫اوہ۔۔۔ہیلو میڈم۔۔۔تم میری غالم ہواور میں‬


‫تمہارا آقا ہوں ۔۔۔سمجھی ۔۔۔۔سکندر نے‬
‫غصے والی شکل بنا لی تھی‬

‫یہ ڈرامے آپ کسی اور سے کریں ںسکندر۔۔۔‬


‫میں آپ کی غالم نہیں بلکہ دوست ہوں۔آپ‬
‫نے خود ہی کہا تھا۔۔۔یاد آیا۔۔۔۔سفرینا نے‬
‫سکندر کی کہی ہوئے بات اسے یاد دالتے‬
‫ہوئے کہا‬
‫اوہ۔۔۔اچھا۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔۔۔سوری۔۔۔‬
‫سکندر جھینپ سا گیا‬

‫لیکن خزانہ کہیں بھاگا تو نہیں جا رہا ہے‬


‫کہ ہم نے دیر کر دی غائب ہو جائے گا۔۔۔۔‬
‫سکندر کہاں رکنے واال تھا وہ ابھی اپنی‬
‫ضد پر اڑا ہوا تھا۔۔‬

‫مجھے پتا ہے آپ مجھے باتوں میں لگا کر‬


‫وقت ضائع کر رہے ہیں۔۔۔۔لیکن ہم چلیں‬
‫گے۔۔۔آج میں بھی ضد پر ہوں۔۔۔۔۔سفرینا کو‬
‫اپنی تکلیف بھول گئی تھی ۔۔وہ‪  ‬نہ چاہتے‬
‫ہوئے بھی سکندر سے اس لہجہ میں بات کر‬
‫رہی تھی جس لہجے میں اسے بلکل بات‬
‫نہیں کرنی چاہیے تھی۔‬
‫بڑی سمارٹ لڑکی ہو تم تو یار۔۔۔اچھا چلو‬
‫چلتے ہیں۔۔۔۔سکندر نے اپنا بایاں ہاتھ آگ‬
‫بڑھاتے ہوئے کہا‬

‫بایاں ہاتھ نہیں سکندر۔۔۔اپنا دایاں ہاتھ‬


‫دیں۔۔۔سفرینا نے اپنا ہاتھ آگے نہیں بڑھایا‬
‫تھا‬

‫کیوں بائیں ہاتھ سے ہم نہیں اڑ سکتے ہیں‬


‫کیا۔۔۔؟ سکندر نے پوچھا‬

‫اڑ سکتے ہیں لیکن میرا دایاں ہاتھ بائیں‬


‫ہاتھ سے زیادہ طاقتور ہے تو اپنا دایاں ہاتھ‬
‫دیں مجھے۔۔۔سفرینا نے کہا تو سکندر نے‬
‫مجبورًا اپنا دایاں ہاتھ آگے کر دیاجسے‬
‫سفرینا نے تھام لیا تھا۔‬
‫آنکھیں کھول دیں سکندر۔۔۔پہنچنے کے بعد‬
‫سفرینا کی آواز آئی تو سکندر نے آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔وہ پرانی جگہ پر اترے تھے۔۔۔‬

‫یہاں کیوں اتری سفرینا۔۔۔۔پہاڑوں پر ہی اتر‬


‫جاتی تو بہتر تھا۔۔۔سکندر پرانے واقعہ کو‬
‫دوبارہ دوہرانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔‬

‫مجھے ان سے بدلہ لینا ہے سکندر۔۔انہیں نے‬


‫سفرینا کو چوٹ پہنچائی ہے اور یہ میں‬
‫کبھی بھی برداشت نہیں کروں گی۔۔۔‬

‫سفرینا آخر سفرینا تھی وہ کہاں اپنی‬


‫چوٹ بھول سکتی تھی۔۔۔‬

‫تو ہم اب کیا کریں گےسفرینا۔۔۔سکندر نے‬


‫سنجیدہ لہجے میں پوچھا‬
‫میں ان کی پوری بستی کو تباہ کر دوں گی‬
‫سکندر۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے بجلی بن کر‬
‫چڑیل کی صورت اختیار کر لی۔۔۔‬

‫اس وقت وہ خطرناک چڑیل لگ رہی تھی‬


‫جس کو سکندر نے کہی مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا ۔۔۔تم صرف انہیں لوگوں کو مارو‬


‫جنہوں نے تمہیں زخمی کیا تھا۔۔۔باقی‬
‫لوگوں کو چھوڑ دو۔۔۔سکندر نے کوشش کی‬
‫کہ سفرینا زیادہ خون خرابہ نہ کرے‬

‫سفرینا نے سکندر نے آنکھیں میں دیکھا۔۔۔۔‬


‫ٹھیک ہے ۔۔۔یہ کہہ کر اس نے اپنا غلیظ ہاتھ‬
‫جس سے پیپ بہہ رہا تھا۔۔سکندر کی طرف‬
‫بڑھایا جسے سکندر نے نہ چاہتے ہوئے بھی‬
‫تھام لیا۔‬
‫اب تم دیکھنا سکندر ۔۔۔میں ان کا کیا حشر‬
‫کرتی ہوں۔۔۔۔۔سفرینا نے سفاک لہجے میں‬
‫غراتے ہوئے کہا‬

‫وہ دونوں اپنی جگہ سے غائب ہو چکے تھے‬


‫اور درختوں کے اوپر اڑ رہےتھے۔۔۔سفرینا‬
‫تھوڑی‪  ‬تھوڑی دور رک کر لمبے سانس لیتی‬
‫لیکن اسے ابھی بھی کوئی انسان نظر نہیں‬
‫آیا تھا۔۔۔‬

‫اچانک سفرینا کے خوفناک چہرے پر‬


‫شیطانی مسکراہٹ آ گئی۔۔۔اسے کسی‬
‫دوسرے انسان کی بو آ گئی تھی‬

‫سفرینا نے تیز چیخ ماری لیکن یہ چیخ نہ‬


‫تھی بلکہ ایک شور تھا جس نے سکندر کے‬
‫کان کے پردے ہال دیے۔۔۔وہ تیز تیز اڑتی‬
‫ہوئی بڑھ رہی تھی اور پھر اسے اپنا شکار‬
‫نظر آ گیا۔۔۔‬

‫وہ ایک وحشی انسان تھا جو درخت کو‬


‫ٹیک لگائے بیٹھا تھا لیکن سفرینا کی چیخ‬
‫سن کر اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اب ارد گرد‬
‫دیکھتے ہوئے آواز کی وجہ جاننے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا۔‬

‫سفرینا نے سکندر کے ہاتھ کو چھوڑا اور‬


‫اڑتے ہوئے اس وحشی کی جانب لپکی۔۔۔‬

‫سکندر ظاہر چکا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کے ہاتھ چھوڑنے پر اس نے خود کو‬


‫ایک درخت کے پیچھے چھپا لیا اور اب‬
‫درخت کی اوٹ سے سفرینا کے وحشی پن‬
‫کو دیکھ رہا تھا۔۔۔‬
‫سفرینا کو چڑیل کے روپ میں دیکھ اس‬
‫آدمی نے زور کی چیخ ماری۔۔۔لیکن اس سے‬
‫پہلے کہ وہ دوسری چیخ نکالتا۔۔۔سفرینا نے‬
‫اس کو نرغے سے پکڑ لیا ۔۔۔‬

‫سفرینا نے اس کی گردن کو پکڑ کر جھٹکا‬


‫تو کھٹک کی آواز آئی۔۔۔اس آدمی کی گردن‬
‫ٹوٹ کر ڈھلک چکی تھی۔۔۔‬

‫سفرینا کو اتنے پر بھی سکون نہیں آیا۔۔۔‬


‫اس نے آدمی کو نیچے گرا کر ٹانگ سے پکڑا‬
‫اور سامنے موجود درخت کے تنے پر دے‬
‫مارا۔۔۔۔‬

‫سفرینا پر پاگل پن کا دورہ پڑ چکا تھا۔۔۔وہ‬


‫بار بار اس آدمی کو درخت پر مار رہی‬
‫تھی۔۔۔اس وحشی آدمی کا سر اور جسم بار‬
‫بار درخت پر لگنے کی وجہ سے سر کچومر‬
‫بن چکا تھا اور چہرے سے اس کی شناخت‬
‫نا ممکن ہو چکی تھی۔۔‬

‫سفرینا نے کافی مرتبہ درخت پر مارنے کے‬


‫بعد اسے ہوا میں ٹانگ لیا اور سر کو زمیں‬
‫پر رکھ کر اپنا پاوں اس پر رکھا۔۔۔۔ایک زور‬
‫دار چیخ مارنے کے بعد سفرینا نے زور لگایا‬
‫تو اس آدمی کا جسم ہوا میں لٹک گیا جس‬
‫پر سر نہیں تھا۔۔۔‬

‫سکندر سمجھا کہ یہ سفرینا کی سفاکیت‬


‫کا آخری حملہ ہو گا لیکن سفرینا نے ابھی‬
‫بھی اسے نہیں چھوڑا تھا۔۔۔‬

‫سر کو دھڑ سے الگ کرنے کے بعد سفرینا نے‬


‫جسم کو زمین پر پھینکا اور اس کی پیٹھ‬
‫پر چڑھ بیٹھ گئی ۔۔۔‬

‫اس نے اپنے لمبے ناخنوں واال ہاتھ‪  ‬کو گردن‬


‫پر پھیرا اور ریڑھ کی ہڈی کو پکڑ کر زور‬
‫لگایا۔۔۔ریڑھ کی ہڈی تھوڑی سی الگ ہوئی‬
‫تو سفرینا نے اپنے دونوں پیر وں کی مدد‬
‫سے جسم کو پھنسایا اور چیخ مار کر زور‬
‫لگایا تو ریڑھ کی ہڈی کمر سے نکل کر اس‬
‫کے ہاتھ میں آ گئی۔۔۔۔نیچے پڑے جسم کی‬
‫جھٹکا کھایا تھا۔۔۔اور ریڑھ کی ہڈی ہوا‬
‫میں لہرا رہی تھی۔۔۔‬

‫یہ منظر دیکھ کر سکندر کی آنکھیں پھٹی‬


‫کی پھٹی رہ گئیں۔۔وہ سفرینا کی غوفناکی‬
‫اور سفاکیت بہت پہلے بھی دیکھ چکا تھا‬
‫لیکن اس دفعہ سفرینا اپنا بدلہ لے رہی‬
‫تھی۔اور جس طرح سے سفرینا نے اس‬
‫وحشی کا حشر کیا تھا۔۔۔سکندر سانس لینا‬
‫بھی بھول چکا تھا‬

‫تمہاری ہمت کیسے ہوئی سفرینا کو زخمی‬


‫کرنے کی۔۔۔۔سفرینا۔۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا‪  ‬اپنا نام لے کر چالئی تھی۔۔اس نے‬


‫ریڑھ کی ہڈی کو دور پرے پھینکا ہی تھا‬
‫کہ لوگوں کا شور سنائی دیا۔۔۔‬

‫آؤ۔۔تم لوگ بھی آؤ۔۔۔سب آؤ۔۔۔سفرینا نے‬


‫اونچی آوازمیں کہا‬

‫وہ لوگ جنہوں نے سفرینا کو نیزہ مارا تھا۔۔‬


‫دوبارہ سے آ رہے تھے لیکن اس بار سفرینا‬
‫پہلے والی نہیں تھی۔وہ‪  ‬چڑیل بن چکی‬
‫تھی‬
‫وحشی لوگ شور کرتے ہوئے سامنے آئے‬
‫لیکن پھر ایک چڑیل کو سامنے دیکھ کر ان‬
‫کو پیروں کوبریک لگ گئی۔۔۔زمین پر پڑے‬
‫ایک انسانی الش ان کے ہوش اڑانے کے لیے‬
‫کافی تھی۔۔۔‬

‫ان کے حوصلے پست ہو گئے۔۔۔وہ شور کرتے‬


‫آئے تھے لیکن اب چیخ مار کر پیچھے کی‬
‫جانب دوڑے تھے۔۔‬

‫لیکن ان کی چیخ سفرینا کی آواز میں گم‬


‫ہو گئی تھی۔۔۔سفرینا چیختی ہوئی ان کے‬
‫پیچھے دوڑی تھی۔۔‬

‫سکندر کو کچھ ہوش نہیں رہا ۔۔وہ ابھی‬


‫بھی سکتے میں اسی جگہ پر بیٹھا ہوا‬
‫تھا۔۔۔‬
‫اچانک ایک اور چیخ فضا میں گونجی لیکن‬
‫یہ سفرینا کی نہیں تھی۔۔۔پھر یکے بعد‬
‫دیگر چیخیں گونجتی گئیں ۔۔۔ان میں‬
‫کبھی کبھی سفرینا کی چیخنے کی آواز‬
‫بھی آ رہی تھی۔‬

‫فضا میں خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔‬

‫یقینًا سفرینا نے ان سب کا کام تمام کر دیا‬


‫ہو گا۔۔۔سکندر نے سوچا‬

‫چند لمحے گزرے کہ سفرینا سکندر کے‬


‫سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔اس وقت بھی‬
‫وہ چڑیل کے روپ میں تھی اس کی‪ ‬‬
‫سانسیں بے ترتیب تھی اور یہ اس کے غصے‬
‫کی وجہ سے تھا۔‬
‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫​سفرینا۔۔۔‬

‫)قسط نمبر(‪)21‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫سکندر ابھی سفرینا کا خوفناک خون سے‬


‫بھرا چہرہ دیکھ رہا تھا کہ ایک بجلی کا‬
‫جھماکہ ہوا اور سفرینا اس کے سامنے لڑکی‬
‫کی صورت میں آ گئی ۔۔۔‬

‫آ جائیں سکندر۔۔اب چلتے ہیں۔۔سفرینا نے‬


‫سکندر کو آواز دی تو سکندر درخت کی‬
‫اوٹ سے نکل کر سامنے کے نزدیک آ گیا۔۔۔‬

‫کیا ہوا سکندر۔۔۔آپ کیوں ڈرے ہوئے ہیں۔۔۔۔‬


‫سفرینا نے سکندر کی حالت کا پوچھ لیا‬
‫کچھ نہیں سفرینا۔۔۔بس جب بھی تمہارا یہ‬
‫خوفناک چہرہ دیکھتا ہوں تو ڈر جاتا‬
‫ہوں۔۔۔۔سکندر نے سنجیدگی میں کہا۔‬

‫آپ پریشان نہ ہوں سکندر۔۔۔یہ چہرہ آ پ‬


‫کے لیے نہیں ہے۔۔۔اچھا چھوڑیں اس بات کو‬
‫۔۔۔اپنا ہاتھ دیں۔۔۔ہم چلتے ہیں۔۔سفرینا نے‬
‫کہا تو سکندر نے اپنا ہاتھ آگے کرکے آنکھیں‬
‫بند کرلیں۔۔۔‬

‫آنکھیں کھول دیں سکندر۔۔۔۔سفرینا کی کہا‬


‫تو سکندر نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔۔۔‬

‫وہ‪  ‬دو پہاڑوں کے درمیاں میں کھڑے ہوئے‬


‫تھے ۔۔سامنے ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی‬
‫تھی جو دونوں پہاڑوں سے ملی ہوئی تھی۔‬
‫ہم پہنچ گئے ہیں سکندر۔۔اور سامنے ہی وہ‬
‫پہاڑی ہے جس کے اندر غار میں خزانہ دفن‬
‫ہے۔۔۔۔سفرینا نے بتایا۔۔۔سکندر اپنا ہاتھ‬
‫سفرینا سے الگ کر چکا تھا۔‬

‫کون ہو تم دونوں اور یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔‬


‫سفرینا کی بات ابھی مکمل ہوئی تھی کہ‬
‫انہوں نے ایک آواز سنی‬

‫ایک نوجوان لڑکا کہیں سے نکل آیا تھا اور‬


‫اب ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔۔۔‬

‫میرا نام سکندر ہے اور یہ سفرینا ہے ۔۔۔لیکن‬


‫تم کون ہو۔۔۔سکندر اب سنبھل چکا تھا‬

‫میں نے پوچھا کہ تم دونوں یہاں کیا کر ہے‬


‫ہو۔۔۔نوجوان نے پھر سے پوچھ لیا۔‬
‫دیکھو تم جو بھی یہاں سے چلے جاو۔۔۔یہ‬
‫ہمارا عالقہ ہے اور ہم یہاں کسی اور کی‬
‫موجودگی بلکل بھی برداشت نہیں کرتے‬
‫ہیں۔۔۔‬

‫تمہارا کیا نام ہے ۔۔۔سفرینا نے پوچھا‬

‫لڑکی تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی کہ‬


‫یہاں سے چلے جاو تم دونوں۔۔۔نوجوان لڑکے‬
‫نے غصے میں کہا ۔۔۔وہ آگے بڑھ رہا تھا‬

‫اور میں تم سے کہہ رہی ہوں کہ ہمارے‬


‫راستے میں مت آو۔۔ایسا نہ ہو کہ جان سے‬
‫چلے جاو۔۔۔سفرینا نے غراتے ہوئے کہا‬

‫لگتا ہے کہ تم ایسے میری بات نہیں مانو‬


‫گے۔۔یہ کہہ کر نوجوان نے ان دونوں کی‬
‫طرف پھونک ماری۔۔۔‬
‫لیکن سفرینا سمجھ چکی تھی کہ یہ انسان‬
‫نہیں ہے ۔۔۔‬

‫جیسے ہی اس لڑکے نے پھونک ماری تو‬


‫سفرینا نے اپنے ہاتھ کا پنجہ کھول کر‬
‫سامنے کر دیا۔۔۔‬

‫نوجوان کے ہاتھ سے ایک آندھی اٹھی تھی‬


‫جو سفرینا اور سکندر کے سامنے آ کر تھم‬
‫گئی۔۔‬

‫اوہ۔۔۔۔تو تم انسان نہیں ہو لڑکی۔۔۔۔لڑکے کو‬


‫سفرینا کی اس حرکت پر کوئی حیرانگی‬
‫نہیں ہوئی تھی۔‬

‫میرا نام سفرینا ہے ۔۔۔تم کون ہو۔۔۔سفرینا نے‬


‫ٹھہر کر کہا‬
‫انگوش ہے میرا نام اور میں تمہیں آخری‬
‫مرتبہ کہہ رہا ہوں کہ یہاں سے چلے جاو‬
‫نہیں تو اپنی موت کے تم دونوں خود ذمہ‬
‫دار ہوگے۔۔۔ یہ ہمارا عالقہ ہے‪  ‬اور‪  ‬ہم یہاں‬
‫رہتے ہیں ۔۔۔۔سمجھ گئے یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نوجوان لڑکا جس کا نام انگوش تھا نے‬
‫کرخت لہجے میں کہا۔‬

‫ہم یہاں خزانہ لینے آئے ہیں انگوش اور لے‬


‫کر جائیں گے ۔۔۔روک سکتے ہو تو روک لو۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے انگوش کو تاؤ دال دیا تھا۔‬

‫اچھا پھر تیار ہو جاؤ۔۔۔۔۔انگوش نے کہا ۔۔۔‬


‫اس کے لب ہلنے لگے۔‬

‫سکندر میرا ہاتھ پکڑ لیں ۔۔۔سفرینا نے یہ‬


‫کہا تو سکندر نے جلدی سے سفرینا کا بایاں‬
‫ہاتھ تھام لیا‬

‫انگوش نے سفرینا کی جانب پھونک ماری‬


‫کہ آسمان پر بجلی کڑک اٹھی۔۔۔‬

‫سکندر اور سفرینا نے آسمان کی طرف نظر‬


‫اٹھائی تو ایک بہت بڑا سا پتھر ان کی اوپر‬
‫گرنے کے لیے آ رہا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا نے اپنا دایاں ہاتھ آسمان کی جانب‬


‫کرکے جھٹکا دیا تو اس کے ہاتھ سے لہر‬
‫نکل کر آتے پتھر سے ٹکرائی اور پتھر فضا‬
‫میں ریزہ ریزہ ہو گیا۔۔۔‬

‫سفرینا نے ہاتھ نیچے کرکے انگوش کی‬


‫طرف مسکرا کر دیکھا ۔۔۔‬

‫کوئی اور بھی شعبدہ‪  ‬ر ہ گیا ہے تو وہ‬


‫بھی کوشش کر کے دیکھ لو انگوش۔۔۔‬
‫انگوش کو طیش میں آتا دیکھ کر سفرینا‬
‫نے اسے مزید بھڑکایا۔۔۔‬

‫سکندر ان دونوں کے درمیاں خاموش‬


‫تماشائی کی طرح دیکھ رہا تھا۔۔۔۔وہ کچھ‬
‫کر بھی نہیں سکتا تھا اس لیے بس دیکھے‬
‫جا رہا تھا۔‬

‫اس سے بچ کر دکھاو ۔۔۔۔یہ کہہ کر انگوش‬


‫نے کچھ پڑھ کر زمین پر پھونک ماری ۔۔‬
‫ایک اژدھا‪  ‬زمیں سے نکال جس سے منہ سے‬
‫آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔۔۔اژدھا آگ برساتا‬
‫ان کی طرف آ رہا تھا۔۔۔‬

‫یہ دیکھ کر‪  ‬سفیرینانے اپنا ہاتھ اژدھے کی‬


‫جانب کرکے جھٹکا دیا تو اژدھے والی جگہ‬
‫پر زمیں نیچے چلی گئی اور اژدھا گہر ی‬
‫کھائی میں غائب ہو گیا۔۔۔زمین دوبارہ سے‬
‫برابر ہو گئی تھی۔‬

‫انگوش کا غصہ اپنے حملے ضائع ہوتے دیکھ‬


‫کر بڑھتا جا رہاتھا۔۔۔‬

‫وہ خاموش کھڑا سفرینا کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔‬

‫کیا ہوا۔۔۔۔تھک گئے کیا۔۔۔؟ سفرینا نے طیش‬


‫دالتے ہوئے کہا‬

‫اچانک انگوش نے قہقہ لگایا۔۔۔‬

‫اس حملے سے بچ کر دکھاو لڑکی۔۔۔۔انگوش‬


‫نے کہا‬

‫انگوش نے زیر لب کچھ پڑھ کر دوبارہ سے‬


‫آسمان کی جانب پھونک تو آسمان پر ایک‬
‫پہاڑ نمودار ہو گیا ۔۔۔جو سفرینا اور سکندر‬
‫کے ٹھیک اوپر گرتا چال آ رہا تھا۔‬

‫سفرینا نے مسکرا کر اپنا ہاتھ دوبارہ آسمان‬


‫کی جانب کیا ۔۔۔لیکن اس دفعہ اس نے اپنے‬
‫ہاتھ کو دو مرتبہ جھٹکا دیا تھا۔۔۔پہلے سی‬
‫بڑی بجلی کی لہر سفرینا کے ہاتھ سے نکل‬
‫کر پہاڑ سے جا ٹکرائی تھی کہ اچانک‬
‫سفرینا اور سکندر کے جسم کو زور دار‬
‫جھٹکا لگا۔۔۔‬

‫وہ دونوں ہوا میں اڑ کر بہت دور جا گرے‬


‫تھے۔۔۔۔سکندر کا ہاتھ سفرینا کو چھوڑ چکا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫انگوش نے اس دفعہ یہ چاالکی کہ سفرینا‬


‫کو آسمان والے حملے میں الجھا کر زمیں‬
‫سے ایک دوسرا حملہ کر دیا تھا۔۔۔‬

‫اس نے آسمان پر پھونک مارنے کے بعد‬


‫دوسری پھونک سفرینا او سکندر کی طرف‬
‫ماری تھی اور یہیں وہ دونوں چوٹ کھا‬
‫گئے۔‬

‫سفرینا نے جلدی سے اٹھ کر دیکھا تو‬


‫انگوش سامنے کھڑا قہقہ لگا رہا تھا۔۔سکندر‬
‫سفرینا سے کافی فٹ دور جا گرے تھا۔‬

‫انگوش کے اس حملے نے سفرینا کے تن بدن‬


‫میں آ گ لگادی۔۔وہ اپنے اصل روپ میں آئی‬
‫گئی تھی۔۔۔ وہ چڑیل بن چکی تھی‬

‫اس سے پہلے کہ انگوش کچھ سمجھتا‬


‫سفرینا ہوا میں اڑ کر اس کی طرف گئی‬
‫اور اسے بازوں میں بھر کر آسمان کی جانب‬
‫اڑ تی چلی گئی ۔۔‬

‫اسے سکندر کی وہ درد میں ڈوبی آواز نہیں‬


‫سنائی دی جو اس نے سفرینا کا نام لے کر‬
‫نکالی تھی۔‬

‫یہ سفرینا کی دوسری غلطی تھی ۔۔۔۔اس نے‬


‫انگوش کو تنہا سمجھ کر سکندر کو وہیں‬
‫زمیں پر چھوڑ دیا۔۔۔‬

‫سفرینا کے اڑنے کے بعد اچانک پہاڑ پر سے‬


‫بہت ہی عجیب الخلقت مخلوق اتر تھی۔۔۔‬
‫وہ تعداد میں چار تھے جنہوں نے آتے ہی‬
‫سکندر کو ہاتھوں اور پیروں سے پکڑ لیا۔۔۔‬

‫سفرینا۔۔۔۔سکندر زور سے چالیا لیکن اس‬


‫کی کوشش بے سود نکلی۔۔۔‬
‫ان چاروں نے قہقہ لگاتے ہوئے سکندر کو‬
‫اٹھا کر سامنے پہاڑ پر دے مارا۔۔جس سے‬
‫سکندر کی ساری پسلیاں ٹوٹ گئی ۔۔۔‬

‫ان چاروں کو اب بھی سکندر پر رحم نہیں‬


‫آیا۔۔۔وہ قہقہ لگاتے آئے‪  ‬اور سکندر کو‬
‫دوبارہ سے پکڑ کر اوپر ہوا میں اچھاال۔۔‬

‫سکندر نے دوبارہ سے سفرینا کا نام لے کر‬


‫چیخ ماری‪   ‬لیکن یہ چیخ بھی بے سود‬
‫نکلی۔۔۔‬

‫سکندر اڑتا ہوازمیں پرآ رہا تھا اور ان‬


‫چاروں نے اپنا ایک ایک ہاتھ ٹھیک سکندر‬
‫کے نیچے کھڑا کر دیا۔۔ان کے ہاتھوں سے‬
‫لمبے لمبے ناخن برآمد ہوئے‪  ‬جو سکندر کے‬
‫گرتے ہی اس کے جسم میں پیوست ہوئے۔۔۔۔‬
‫ناخن سکندر کے سینے کی دوسری طرف‬
‫سے نکل آئے۔۔۔‬

‫سکندر نے آہ کی آواز نکالی۔۔۔خون اس کے‬


‫جسم اور منہ سے نکل کر زمیں کو سرخ کر‬
‫رہا تھا‬

‫سکندر کو اپنے ناخنوں میں پھنسا کر انہیں‬


‫نے قہقہ لگاتے ہوئے اپنے ہاتھ مخالف سمت‬
‫میں کھینچے تو سکندر‪  ‬ٹکڑے ٹکڑے ہو کر‬
‫زمیں پر گر گیا۔۔‬

‫سکندر کا جسم ان گنت حصوں میں بکھر‬


‫چکا تھا۔۔۔اس کے منہ سے آخری ہچکی نکلی‬
‫اور پھر بہت سے سوال لیے دنیا کو چھوڑ‬
‫دیا۔۔۔اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ‬
‫گئیں‬
‫سفرینا انگوش کو بازوں میں بھریں ہوئے‬
‫آسمان میں اڑتی جا رہی تھی ۔۔‬

‫جب انگوش نے دیکھا کہ وہ سفرینا کی‬


‫گرفت سے نہیں نکل سکتا ہے تو اس نے‬
‫سفرینا کے بازوں میں رہتے ہوئے ہی پڑھنا‬
‫شروع کیا ۔۔لیکن سفرینا انگوش کے لبوں‬
‫کو ہلتا ہوا دیکھ چکی تھی۔‬

‫اس نے اپنا ایک ہاتھ آزار کرکے انگوش کو‬


‫گردن سے پکڑا اور زور سے اس کے نرغے کو‬
‫دبایا تو انگوش کی آنکھیں اور زبان باہر‬
‫نکل آئیں۔۔۔‬

‫سفرینا اسے دوسرا موقع نہیں دینا چاہتی‬


‫تھی ۔۔جیسے ہی انگوش کی زبان باہر نکلی‬
‫۔۔سفرینا نے اسے پکڑ کر زور کا جھٹکا دیا۔۔۔‬
‫انگوش کی لمبی سی زبان سفرینا کی ہاتھ‬
‫میں آگئی اور ایک خون کا فوارہ اس کے‬
‫منہ سے نکال تھا۔‬

‫وہ دونوں زمیں کی حدود پار کر چکے‬


‫تھے۔۔۔اوپر پہنچ کر سفرینا نے اسی ہاتھ کے‬
‫ناخنوں کی انگوش کی دونوں آنکھوں میں‬
‫گھسا دیا۔۔۔‬

‫آسمان انگوش کی چیخوں سے گونج اٹھا‬


‫تھا۔۔۔لیکن اس عفریت سے اسے بچانے کوئی‬
‫نہیں آ رہا تھا۔۔۔‬

‫کافی اوپر پہنچ کر سفرینا نےاپنا دوسرا‬


‫ہاتھ انگوش سے الگ کیا تو انگوش‬
‫قالبازیاں کھاتا ہوا زمیں کی جانب آنے لگا۔۔‬
‫سفرینا اس کے پیچھے پیچھے نیچے آ رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی انگوش کے جسم نے الٹی قالبازی‬


‫کھائی ۔۔۔سفرینا نے اسے دوبارہ سے بازوں‬
‫میں بھر لیا اور اپنی رفتار بڑھا لی۔۔۔‬

‫زمین کی حدود میں داخل ہو کر سفرینا نے‬


‫اپنا روپ چھوڑ کر بجلی کی شکل اختیار‬
‫کر لی تھی جو انگوش کے گرد لپٹی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔اور بجلی زمیں سے نزدیک ہوتی‬
‫جارہی تھی۔۔۔‬

‫اور پھر ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔۔زمیں سے‬


‫ٹکرا کر انگوش کا بھرتہ نکل آیا۔۔۔وہ اب‬
‫ایک گوشت لے لوتھڑے کی شکل میں زمیں‬
‫پر‪  ‬چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پڑا ہوا تھا۔۔‬
‫سفرینا نے اپنی شکل میں آکر چیخ ماری ۔۔۔‬
‫اس نے ادھر ادھر دیکھ کر سکندر کو‬
‫ڈھونڈنے کی کوشش کی سکندر تو اسے‬
‫نظر نہیں آیا لیکن پہاڑوں کے قریب اسے‬
‫ایک عجیب مخلوق نظر آ گئی ۔۔۔جو ساتھ‬
‫میں کھڑے ہو کر قہقہ لگا رہے تھے۔۔۔‬

‫سفرینا ہوا بن کر ان کے قریب پہنچی اور‬


‫دو کو اپنے ہاتھوں میں لے کر زمین پر دے‬
‫‪ ‬مارا۔۔۔‬

‫زمین پر دے مارتے وقت اسے ایک جسم‬


‫زمیں پر ٹکڑے ٹکڑے پڑا مال۔۔۔اور پھر‬
‫سفرینا نے آنکھوں نے سکندر کو دیکھ لیا۔۔۔‬

‫ٓ‬
‫چند لمحوں تک تو اسے سمجھ نہیں آئی‬
‫مگرجیسے بجلی چمکتی ہے ویسے ہی‬
‫سکندر کا چہر ہ اسے نظر آیا لیکن یہ جسم‬
‫تو ٹکڑے ٹکڑے میں تھا‬

‫اور اسے سمجھ آ گیا کہ سکندر اب نہیں‬


‫رہا۔۔وہ مر چکا ہے‬

‫سکندر۔۔۔۔سفرینا نے ایک خوفناک چیخ‬


‫ماری اور پھر مارتی گئی۔۔۔‬

‫تم لوگوں نے میری محبت کو مارا ہے۔۔۔۔‬


‫حرام زادوں۔۔۔ یہ کہہ کر سفرینا نے جھٹکا‬
‫کھایا ۔۔۔‬

‫وہ چاروں سفرینا کو اصل روپ میں دیکھ‬


‫کر بھاگنے لگے لیکن سامنے سفرینا تھی‬
‫جس نے ایک نیزہ کی چوٹ پر پندرہ لوگوں‬
‫کا برا حال کیا تھا۔۔‬

‫اب تو اس کی محبت زمیں پر مری پڑی‬


‫ہوئی تھی۔‬

‫سفرینا کی چیخیں نہیں رک رہی تھیں۔۔۔‬


‫اس کی چیخوں نے ارد گرد کے پہاڑوں تک‬
‫کو ہال کر رکھ دیا ۔۔۔‬

‫وہ رو رہی تھی ۔۔۔‬

‫سفرینا رو رہی تھی۔۔۔‬

‫ایک چڑیل اپنی بے نام مگر مردہ محبت کے‬


‫سامنے کھڑی ہو کر رو رہی تھی‬

‫اچانک فضا خاموش ہو گئی۔۔۔‬


‫سفرینا کے لب ہل رہے تھے۔۔۔اس کی آنکھوں‬
‫سے بہتے آنسو ہلتے لبوں کو چھو کر زمین‬
‫پر گر رہے تھے۔۔‬

‫سفرینا نے کچھ پڑھ کر سکندر کے ٹکڑے‬


‫میں پڑے جسم پر پھونک ماری ۔۔۔ اور‬
‫سیدھی ہو گئی‬

‫میں تمہاری نسل مٹا دوں گی۔۔۔میں تمہاری‬


‫دنیا مٹا دوں‪  ‬گی انگوش۔۔۔‬

‫تم نے ۔۔۔تم نے یہ کیا کر دیا۔۔۔‬

‫‪ ‬میری محبت‬

‫سفرینا بولے جا رہی تھی ۔۔ روئے جا رہی‬


‫تھی۔۔‬
‫بہتے آنسووں میں غصہ لیے سفرینا نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھ فضا میں اٹھا لیے۔۔۔وہ موت کا‬
‫پروانہ لکھ رہی تھی‬

‫وہ انگوش کی نسل ‪ ،‬اس کے خاندان سب‬


‫کو مٹانے لگی تھی‬

‫اور پھر سفرینا کے دونوں ہاتھ نیچے‬


‫گرے۔۔۔ہاتھ کیا گرے۔۔۔ایک آگ تھی جو‬
‫اچانک ہر طرف بھڑک اٹھی۔۔۔‬

‫ہر طرف سے چیخوں کا سلسلہ شروع ہو‬


‫گیا تھا۔۔۔لیکن سفرینا کو رحم نہیں آیا۔۔۔‬

‫سفرینا کو رحم آ بھی کیسے سکتا تھا۔۔۔ان‬


‫لوگوں نے سفرینا کی محبت کو مار دیا تھا‬

‫آگ نے صرف سفرینا اور زمین پر پڑے‬


‫سکندر کے جسم کو نہیں چھوا تھا ۔۔اس‬
‫کے عالوہ دور دور تک موجود ہر چیز کو‬
‫راکھ میں تبدیل کر رہی تھی۔‬

‫سفرینا چیخے جا رہی تھی‪  ‬اور آگ سب‬


‫کچھ جالئے جا ر ہی تھی۔۔۔‬

‫ابھی آگ نہین بھجی تھی کہ سفرینا نے‬


‫نیچے جھک کر سکندر کے جسم کے ٹکڑے‬
‫ہاتھوں میں اٹھا لیے۔۔۔‬

‫تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔۔۔سکندر‬

‫کچھ نہیں ہوگا۔۔۔۔۔‬

‫کچھ نہیں۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا دوبارہ چالئی‬


‫اور پھر کچھ فٹ تک فضا میں چلی گئی۔۔‬
‫فضا میں پہنچ کر سفرینا نے دوبارہ کچھ‬
‫پڑھا ۔۔۔اور چاروں طرف منہ کر پھونک‬
‫ماری۔۔‬
‫ابھی سفرینا کے لبوں سے پھونک ختم نہ‬
‫ہوئی کہ زمین پر زلزلہ آ گیا۔۔۔‬

‫پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے تھے۔۔۔زمین کے‬


‫اوپر موجود ہر چیز ریزہ ریزہ ہو رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫زلزلے کے جھٹکوں میں دوبارہ چیخیں‬


‫گونجی تھیں۔۔یہ وہ جنات تھے جو پہاڑوں‬
‫میں چھپ کر آگ سے بچے ہوئے تھے لیکن‬
‫زلزلے نے انہیں بھی باہر نکال پھینکا تھا۔۔‬

‫بھڑکتی آگ پر سفرینا نے دوبارہ کچھ پڑھ‬


‫کر پھونکا تو آگ مزید بھڑک اٹھی۔۔۔‬

‫سفرینا سب کو جلتا مرتا چھوڑ کر فضا‬


‫میں بلند ہوئی اور بجلی کی صورت اختیار‬
‫کر لی۔۔آسمانوں میں بجلی سکندر کے ٹکڑے‬
‫میں بٹے جسم کو لیے تیزی سے اڑتی جا‬
‫رہی تھی۔۔۔‬

‫اس کی کوئی سمت نہیں تھی۔۔۔اسے‬


‫سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔۔۔بس‬
‫وہ اڑے جا رہی تھی۔۔۔کئی سمندر آئے‬
‫جنگالت آئے اور آبادیاں آئیں لیکن سفرینا‬
‫پھر بھی نہیں رکی۔۔۔‬

‫وہ رکتی‪  ‬بھی تو کہاں رکتی ؟‬

‫وہ جاتی بھی تو کہاں جاتی؟‬

‫وہ کرتی بھی تو کیا کرتی؟‬

‫اس نے اپنا رخ آسمان کی جانب کر لیا ۔۔۔‬


‫اس نے اپنی رفتار اب بھی کم نہیں کی‬
‫تھی‬
‫زمیں کی حدود سے نکل کر اس نے اپنا رخ‬
‫دائیں جانب کر لیا۔۔۔‬

‫وہ اڑے جا رہی تھی ۔۔۔۔‬

‫سوچے جا رہی تھی۔۔۔۔۔‬

‫اسے آسمان میں ایک زمیں کا ٹکڑا نظر ایا‬


‫تو اسی طرف اڑنے لگی۔۔‬

‫وہ ٹکڑا بڑا ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔یہ انسانی‬


‫زمین سے نزدیک ایک اور زمین تھی جس‬
‫کی طرف سفرینا اڑے جا رہی تھی۔‬

‫کچھ منٹوں میں بجلی نے زمیں کو چھوا‬


‫لیا۔۔۔اس نے جلدی سے انسانی شکل اختیار‬
‫کی اور سکندر کے جسم کے ٹکڑوں کو زمیں‬
‫پر ہولے سے رکھ دیا۔۔‬
‫سکندر کی درد بھری آنکھوں میں کہی‬
‫سوال تھے۔۔۔ایسے سوال جن کے جواب تو‬
‫شاید سفرینا کے پاس ہوں لیکن وہ سوال‬
‫کیا تھے ۔۔۔یہ سفرینا نہیں جانتی تھی‬

‫سفرینا ۔۔۔تمہاری محبت تمہارے ہاتھ میں‬


‫تو ہے لیکن زندہ نہیں رہی ۔۔اس نے زمیں پر‬
‫بیٹھ کر خود سے کہا‬

‫یہ تھی تمہاری طاقت کہ اپنی محبت کو‬


‫بھی نہیں بچا سکی۔۔۔۔‬

‫‪ ‬وہ چالئی ۔۔۔۔۔بے مقصد چالئی‬

‫سکندر ررررر۔۔۔۔ اس نے سکندر کا نام لے‬


‫چالیا‬

‫تم نہیں مر سکتے ۔۔۔۔۔یہ جھوٹ ہے ۔۔۔۔اٹھو‬


‫۔۔۔میرا نام پکارو‬
‫تم اس دنیا کیا ۔۔۔اس آسمان میں بھی‬
‫‪ ‬کہیں ہوئے تو میں آجاوں گی‬

‫‪ ‬سکندر‪  ‬پلیز۔۔۔۔۔۔۔ایک بار‬

‫وہ گھٹنوں پر گر گئی۔۔۔اس نے اپنا سر‬


‫سکندر کے سر کے قریب ہی زمین پر رکھ‬
‫دیا۔۔‬

‫وہ رو رہی تھی۔۔۔۔ایک مکار چڑیل رو رہی‬


‫تھی‬

‫جسے کسی نے قابو نہیں کیا لیکن جس نے‬


‫قابو کیا تو محبت میں بھی اپنا غالم بنا لیا‬

‫سفرینا نے اپنا سر اٹھا یا۔۔۔سرخ آسمان کو‬


‫دیکھا اورکھڑی ہوئی گئی۔۔۔‬

‫وہ چیخی ۔۔۔پھر چیخی اور چیختی گئی۔۔۔‬


‫جب تک یہ دل پھٹ نہیں جائے گا ۔۔۔میں‬
‫چیختی رہوں گی ۔۔۔وہ بے مقصد بولے جا‬
‫رہی تھی‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔‬

‫)قسط نمبر(‪)22‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫زنگوش جب بھی بور ہو جاتا تو اپنے‬


‫دونوں دوست جالم اور سبزور کے ساتھ‬
‫نکل پڑتا۔۔۔ویسے تو جالم اور سبزور اس کے‬
‫غالم تھے لیکن زنگوش نے انہیں کبھی‬
‫محسوس ہونے نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ان کے‬
‫ساتھ دوستوں واال سلوک رکھا۔‬

‫ان دونوں کو اپنے ساتھ کھالتا پالتا اور‬


‫کہیں گھومنے جانے ہوتا توبھی ان دونوں‬
‫‪ ‬کو اپنے ساتھ لے جاتا‪  ‬تھا‬

‫آج بھی زنگوش دونوں دوستوں کو ساتھ‬


‫لے کر گھومنے کے لیے نکال تھا اور پورا دن‬
‫انسانی دنیا میں گھومنے کے بعدعصر کو وہ‬
‫تینوں اپنے گھر کی طرف جا رہےتھے کہ‬
‫دور سے ہی انہوں نے کالی کالی پہاڑیاں اور‬
‫جلے جنگالت دیکھ لیے۔‬

‫جالم۔۔۔۔وہ دیکھو‬
‫زنگوش نے ساتھ میں اڑتے جالم سے کہا جو‬
‫زنگوش کی دائیں طرف اڑ رہا تھا۔۔‬

‫تیز اڑو۔۔۔میرا دل ڈرا جا رہا ہے۔۔۔۔ہمارے‬


‫پیچھے کچھ برا ہوا ہے۔۔۔یہ کہہ کر زنگوش‬
‫نے اپنے اڑنے کی رفتار تیز کر لی اور اسے‬
‫دیکھ کر جالم اور سبزور بھی‪  ‬تیز ہو‪  ‬گئے‬
‫تھے۔‬

‫جیسے ہی زنگوش کے پاوں زمیں سے‬


‫ٹکرائے وہ دوڑتا ہوا پہاڑی‪  ‬پر چڑھنے لگا۔۔۔‬

‫اہلل خیر کرے جالم۔۔۔۔مجھے کچھ ٹھیک‬


‫نہیں لگ رہا ہے۔۔۔۔سبزور نےکہا جو جالم کے‬
‫ساتھ دوڑتا ہو اپہاڑی پر چڑھ رہا تھا۔‬

‫ہر چیز راکھ ہو چکی تھی ۔۔۔۔پہاڑی پر‬


‫موجود کوئی بھی وجود زندہ نہیں رہا‬
‫تھا۔۔۔ان تینوں نے ساری پہاڑی کنگال ڈالی‬
‫لیکن سوائے جلے راکھ کے کچھ بھی نہیں‬
‫تھا۔۔۔‬

‫بھائی۔۔۔۔زنگوش نے اپنے بھائی کو پکارا۔۔۔۔‬


‫لیکن کوئی بھی جواب نہیں مال نہ ہی‬
‫کہیں سے کوئی حرکت ہوتی دکھائی دی۔‬

‫وہ تینوں بار بار مختلف نام پکار رہے تھے‬


‫لیکن کوئی ہوتا تو جواب ملتا ۔۔۔۔ہر سو‬
‫خاموشی تھی۔۔‬

‫جالم۔۔۔۔زنگوش زور سے چالیا۔۔۔۔‬

‫جالم جو سامنے کی پہاڑی پر چڑھ کر ادھر‬


‫ادھر دیکھ رہا تھا۔۔۔زنگوش کی آواز سن کر‬
‫جلدی سے اس کے پاس آ گیا‬

‫جی زنگوش۔۔۔۔۔جالم نے نزدیک پہنچ کر کہا‬


‫مجھے معلوم کر کے بتاو کہ یہ کس نے کیا‬
‫ہے۔۔۔ہمارے پیچھے کون آیااور کس نے کیا‪،‬‬
‫کیوں کیا۔۔۔مجھے سارے سوالوں کے جواب‬
‫چاہیے۔۔۔‬

‫سمجھے۔۔۔۔زنگوش نے چیخ کر کہا‬

‫میں اپنے بھائی انگوش اور قبیلے والوں کا‬


‫بدلہ لے کر رہوں گا۔۔۔۔جاؤ۔۔۔۔۔زنگوش نے‬
‫دھاڑ کر کہا تو جالم اور سبزور جلدی سے‬
‫مڑے اور اڑ کر چلے گئے۔۔۔‬

‫یار جالم ہم کیسے اسے ٖڈ ھونڈیں گے۔۔۔۔‬


‫سبزور نے ارٹتے ہوئے جالم سے کہا لیکن‬
‫جالم سے کوئی جواب نہیں دیا‬

‫جالم۔۔۔۔۔اس نے نام لے کر جالم کو پکارا‬


‫کیا ہے ۔۔۔۔۔جالم نے غصے میں چنگھاڑتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫ہم کسے ڈھونڈھ رہے ہیں۔۔۔سبزور نے پوچھا‬

‫مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا سبزور۔۔۔۔بس‬


‫اڑتے رہو ۔۔۔جو بھی نزدیک اڑتا نظر آ‪  ‬ئے‬
‫اسے پکڑ لو۔۔۔وہ جو بھی ہے ہم سے زیادہ‬
‫دور نہیں ہو گا‬

‫جالم ابھی بھی غصے میں با ت کر رہا تھا۔۔۔‬

‫سبزور نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔جالم‬


‫کی بات سننے کے بعد وہ بار بار ادھر ادھر‬
‫دیکھ رہا تھاجیسے کسی کو تالش کر رہا‬
‫ہو۔۔۔‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫ــــــــــــــــــ‬
‫در خان ابھی ظہر کی نماز پڑھ کر اپنی‬
‫جگہ سے اٹھا اور پیچھے مڑنے واال ہی تھا‬
‫کہ ایک آدمی اس کے قدموں میں گر گیا۔۔۔‬

‫بیٹا ۔۔۔میری عزت بچا لو۔۔۔تمہیں اہلل کا‬


‫‪ ‬واسطہ ہے‬

‫وہ ایک بوڑھا آدمی تھا جو در خان کے‬


‫قدموں میں گرا بار بار ایک ہی گردان کیے‬
‫جا رہا تھا‬

‫ارے بابا۔۔۔یہ کیا کر رہے ہیں آپ۔۔۔۔در خان‬


‫نے بوڑھے آدمی کو کندے سے پکڑ کر اپنے‬
‫قدموں سے دور کیا اور دوبارہ سےچٹائی پر‬
‫بیٹھ گیا‬

‫کیا بات ہے بابا۔۔۔۔بتائیں مجھے۔۔۔در خان نے‬


‫بوڑھے آدمی کے دائیں ہاتھ کو اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑ کر سہالتے ہوئے کہا‬

‫بیٹا ۔۔۔۔میری بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔بوڑھے نے اتنا ہی‬


‫کہا کہ زمیں پر گر گیا۔۔۔۔وہ بیہوش ہو چکا‬
‫تھا‬

‫درخان‪  ‬اپنی جگہ سے اٹھا اور باہر صحن‬


‫میں پڑے مٹکے سے تھوڑا پانی گالس میں‬
‫نکال آیا۔۔۔‬

‫اور بوڑھے آدمی کے قریب بیٹھ پر اس کے‬


‫چہرے پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔۔۔‬

‫کچھ ہی دیر میں بوڑھا آدمی ہوش میں آ‬


‫کر سیدھا بیٹھ گیا۔‬

‫آپ تسلی سے مجھے ساری بات بتائیں ۔۔۔‬


‫اور پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔۔۔‬
‫اہلل سب ٹھیک کرے گا انشا اہلل‬
‫در خان نے تسلی دیتے ہوئے کہا‬

‫بیٹا میری دو بیٹیاں ہیں اور ان دونوں میں‬


‫سے بڑی بیٹی کا میں نے دوسرے گاؤں میں‬
‫رشتہ پکا کرایا ہے ۔۔۔میری بیٹی بھی اس‬
‫رشتے کے لیے راضی ہے لیکن کل سے میری‬
‫بیٹی کو عجیب دورے پڑ رہے ہیں۔۔۔اچانک‬
‫بیٹھے بیٹھے وہ زمین پر گر جاتی ہے۔۔۔اس‬
‫کے ہاتھ پاوں بھی مڑ جاتے ہیں۔۔۔عجیب‬
‫مردانہ آواز میں بات کرتی ہے ۔۔۔کہتی ہے کہ‬
‫اگر اس کی شادی کی تو میں‪  ‬گل ناز کی‬
‫جان لے لوں گا۔۔۔‬

‫بوڑھے آدمی نے روتے روتے اپنا مسلئہ بتایا۔‬

‫گل ناز آپ کی بیٹی کا نام ہے بابا۔۔۔۔۔در خان‬


‫نے پوچھا‬
‫ہاں بیٹے ۔۔۔اس بد نصیب باپ کی بیٹی کا‬
‫نام گل ناز ہے ۔۔۔یہ کہہ کر وہ دوبارہ سے‬
‫پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔‬

‫بابا۔۔۔آپ روئیں تو نا۔۔۔۔میں نے کہا نا‪  ‬اہلل‬


‫سب ٹھیک کر دے گا۔۔۔۔آپ اٹھیں اور چلیں‬
‫میرے ساتھ۔۔۔در خان نے بوڑھے آدمی سے‬
‫کہا تو اس نے چونک کر سر اوپر کرکے‬
‫درخان کو دیکھا۔۔‬

‫میرے گھر چلو گے نا بیٹا۔۔۔۔میری بیٹی کو‬


‫ٹھیک کر دو گے نا۔۔۔؟ بوڑھا آدمی اپنے‬
‫آنسووں کو پونچھتے ہوئے کہا‬

‫ہاں بابا۔۔۔اٹھیں چلیں‪  ‬ساتھ میرے۔۔۔یہ کہہ‪ ‬‬


‫در خان اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا اور در‬
‫خان کو اٹھتا دیکھ کر بوڑھا آدمی بھی‬
‫اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا‬

‫وہ دونوں مسجد سے نکل کر جانے لگے۔۔۔‬


‫بوڑھے آدمی کا گھر مسجدسے پانچ گلیاں‬
‫چھوڑ کر چھٹی‪  ‬گلی میں تھا۔۔۔‬

‫یہ ایک کچا سا دو کمروں پر مشتمل گھر‬


‫تھا ۔۔جس میں صحن نہ ہونے کے برابر‬
‫تھا۔۔۔کمروں کے سامنے ہی چند فٹ چھوڑ‬
‫کر دروازے کے ساتھ باتھ روم تھا۔۔ایک گلی‬
‫کی مانند جگہ چھوڑی گئی تھی جس میں‬
‫سے گزر کر کمروں میں داخل ہونا پڑتا تھا۔۔‬

‫درخان کو گھر میں باورچی خانہ نہ دیکھ‬


‫کر حیرانی ہوئی لیکن کمرے میں داخل ہو‬
‫کر در خان کی حیرانگی دو ر ہو گی کیونکہ‬
‫کمرے‪  ‬کے دروازے کے ساتھ میں ہی چولھا‬
‫رکھا ہوا تھا اور دیوار کے ساتھ ہی زمین پر‬
‫کھانے پکانے کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔‬

‫زمین پر ایک پھٹی ہوئی چٹائی بچھی‬


‫ہوئی تھی جس میں جگہ جگہ سوراخ‬
‫تھے۔۔۔‬

‫بیٹا تم بیٹھو۔۔۔میں تمہارے لیے پانی التا‬


‫ہوں۔۔۔۔اتنے بڑے مسلئے میں بھی بابا کو‬
‫مہمان داری نہیں بھولی تھی‬

‫بابا۔۔۔تکلف نہ کریں اور ویسے بھی مجھے‬


‫پیاس نہیں ہے ۔۔۔آپ‪  ‬گل ناز بہن کو یہاں لے‬
‫آئیں‪  ‬تاکہ میں دیکھوں سکوں کہ ان کو کیا‬
‫‪ ‬بیماری ہے؟ درخان نے کھڑے کھڑۓ‪  ‬کہا‬
‫بیٹا ۔۔۔۔تم سے کیا پردہ ۔۔۔دوسرے ہی کمرے‬
‫میں ماں اور دونوں بہنیں موجود ہیں۔۔‬
‫وہیں چل کر دیکھ لو۔۔۔بوڑھے‪  ‬آدمی نے‬
‫جواب دیا‬

‫بابا پھر بھی۔۔۔آپ ایک دفعہ انہیں کہہ‬


‫دیں۔۔۔مجھے یہ اچھا نہیں لگ رہا کہ میں‬
‫بغیر اجازت ان کے سامنے جاوں۔۔۔در خان‬
‫نے دھیمے لہجے میں کہا‬

‫اچھا میں کہہ دیتا ہوں۔۔یہ کہہ کر بوڑھا‬


‫آدمی مڑا اور کمرے سے نکل گیا۔۔۔اسے‬
‫کمرے سے گئے ابھی دو منٹ بھی نہیں‬
‫گزرے کہ وہ دوبارہ سے کمرے میں داخل ہو‬
‫گیا۔‬
‫آو بیٹا۔۔۔۔بوڑھے آدمی نے دروازے پر کھڑے‬
‫ہو کر کہا تو درخان آگیا بڑھ آیا۔‬

‫آپ چلیں ۔۔۔۔در خان نے ہاتھ کا اشارہ کرکے‬


‫بوڑھے آدمی کو پہلے چلنے کا کہا اور پھر‬
‫دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔‬

‫در خان کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ایک‬


‫بوڑھی عورت اور دو جوان لڑکیوں کو‬
‫دوپٹہ اوڑھے سامنے بیٹھے پایا۔۔۔‬

‫بوڑھی عورت کی عمر لگ بھگ پچاس کے‬


‫قریب تھی لیکن جوان لڑکیاں ابھی بیس‬
‫سال سے بھی کم عمر لگ رہی تھی۔‬

‫اسالم علیکم۔۔۔در خان نے کمرے میں داخل‬


‫ہو کر سالم دیا‪  ‬تو بوڑھی عورت اور دونوں‬
‫لڑکیا ں کھڑی ہو گئی۔‬
‫وعلیکم سالم۔۔بوڑھی عورت نے اونچی آواز‬
‫میں جواب دیا مگر دونوں لڑکیوں نے زیر‬
‫لب جواب دیا تھا‬

‫آپ سب لوگ بیٹھ جائیں۔۔۔۔در خان نے کہا‬


‫تو سب لوگ چٹائی پر بیٹھنے لگے ۔۔۔وہ‬
‫بھی بیٹھ چکا تھا‬

‫جیسے ہی درخان نیچے بیٹھا۔۔۔کمرے میں‬


‫خوشبو سی پھیل گئی۔۔۔سلیمان بھی آ چکا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫بیٹا یہ میری بیٹی گل ناز ہے جس کی‬


‫طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔۔بوڑھے آدمی نے‬
‫اشارہ کرکے کہا تھا۔‬

‫گل ناز کو دیکھتے ہی سلیمان کو ساری بات‬


‫سمجھ آ گئی لیکن چونکہ وہ لوگوں کے‬
‫سامنے خود کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا تو‬
‫اس نے در خان کے کان میں پانی کا گالس‬
‫منگوانے کا کہا۔‬

‫بابا۔۔۔مجھے ایک گالس پانی چاہیے ۔۔در‬


‫خان نے‪  ‬سلیمان کو سننے کے بعد کہا تو‬
‫بوڑھے آدمی کی چھوٹی بیٹی اٹھ کر‬
‫دوسرے کمرے میں چلی گئی‪  ‬اور پھر مٹی‬
‫کے گالس میں پانی بھر کر واپس آئی اور‬
‫در خان کو پکڑا دیا۔‬

‫اب پانی پر دس مرتبہ درود پڑھو‪ ،‬اس کے‬


‫بعد سات مرتبہ الحمد شریف‪ ،‬چار مرتبہ‬
‫اخالص‪ ،‬کافرون‪ ،‬فلق اور الناس ‪ ،‬سات‬
‫مرتبہ آیت الکرسی پڑھ کر دوبارہ دس‬
‫مرتبہ درودپڑھ کر پھونک مارو اور لڑکی کو‬
‫پینے کے لیے دو۔۔۔اگر پانی کڑوا یا کھارا ہو‪ ‬‬
‫جائے تو جنات کا اثر ہو گا۔ سلیمان نے در‬
‫خان کے کان میں سرگوشی کی تھی‬

‫جیسے سلیمان نے بتایا ٹھیک ویسے ہی‬


‫درخان نے بار ی باری سب پڑھ کر پانی کے‬
‫گالس کو منہ کے قریب الیا اور ایک زور دار‬
‫پھونک مار کر گل ناز کی طرف بڑھایا۔۔۔‬

‫بہن ۔۔۔یہ پانی پینا زرا۔۔۔۔درخان نے پانی کا‬


‫گالس گل ناز کی طرف بڑھا کر کہا‬

‫پانی کا گالس لے کر ابھی گل ناز نے دو‬


‫گھونٹ پانی کے نہیں بھرے کہ گالس کو‬
‫لبوں سے دور کر زمیں پر رکھ دیا اور گردن‬
‫کو دائیں ہاتھ سے مسلنے لگی‬
‫یہ تو کڑوا پانی ہے بابا۔۔۔۔۔گل ناز بولی تو‬
‫درخان مسکرا دیا‬

‫ماسٹر ہوتے جا رہے ہو درخان۔۔۔۔سلیمان نے‬


‫مسکراتے ہوئے کہا‬

‫مجھے پہلے ہی پتا تھا کہ اس پر ایک شریر‬


‫جن کا سایہ ہے اور یہ جن مسلمان ہے‬
‫درخان ۔۔۔اب تم ایسا کرو کہ تمیں میں جو‬
‫کہتا جاوں وہ پڑھتے جانا۔۔۔۔لیکن ایک منٹ‬
‫پہلے تم نے اس لڑکی کے دائیں ہاتھ‪  ‬کی‬
‫چھوٹی انگلی کو پکڑنا ہے۔۔۔سلیمان بوال‬

‫بہن زرا میرے نزدیک آ کر بیٹھنا۔۔۔در خان‬


‫نے کہا تو گل ناز نے ڈرتے ڈرتے اپنے باپ کی‬
‫طرف دیکھا اور پھر اپنے باپ کی گردن کو‬
‫ہاں میں ہلتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے‬
‫سرک کر درخان کے قریب بیٹھ گئی۔‬

‫مجھے اپنا سیدھا ہاتھ دو۔۔۔۔در خان نے کہا‬


‫تو گل ناز ڈر گئی لیکن پھر اپنے باپ کی‬
‫رضا مندی دیکھ کر اپنا دایاں ہاتھ در خان‬
‫کی جانب بڑھایا‬

‫در خان نے انگلی پکڑ کر اپنی آنکھیں بند کر‬


‫لیں۔۔۔‬

‫اب سب سے پہلے تین مرتبہ تعوذ پڑھو ۔۔۔‬


‫سلیمان کی آواز سن کر در خان نے اونچی‬
‫آواز میں تعوذ پڑھ لیا ۔۔‬

‫اب الحمد شریف کو تین مرتبہ پڑھ کر‬


‫سورہ بقرہ کی شروع کی پانچ آیات پڑھو۔۔۔‬
‫سلیمان نے کہا لیکن در خان کے ہونٹ نہیں‬
‫ہلے تھے۔‬

‫شاید تم زبانی نہیں پڑھ سکتے ہو۔۔رکو میں‬


‫پڑھتا جاتا ہوں تم میرے پیچھے پیچھے‬
‫پڑھتے جاو۔۔یہ کہہ کر سلیمان قرآن پاک‬
‫کی مختلف آیات پڑھتا گیا اور درخان اس‬
‫کو دہراتا گیا۔‬

‫در خان کو آنکھیں بند کیے بیس منٹ‬


‫گزرے کہ اس نے سلیمان کی آواز سن کر‬
‫آنکھیں کھول دیں۔۔وہ اسے آنکھیں کھولنے‬
‫کا کہہ رہا تھا‬

‫اس کا نام پوچھو۔۔۔۔سلیمان بوال‬

‫کیا نام ہے تمہارا۔۔۔در خان نے گل نا ز سے‬


‫پوچھا‬
‫‪ ‬گل ناز۔۔۔۔گل ناز نے اپنا نام بتایا‬

‫لڑکی کا نہیں ۔۔۔اس کا نام پوچھو۔۔سلیمان‬


‫نے سرگوشی کی‬

‫اور یہ کس طرح سے بات کر رہے ہو‬


‫درخان۔۔۔تھوڑا رعب الو آواز میں۔۔۔جن‬
‫تمہیں کھا نہیں جائے گا۔۔۔سلیمان نے سنتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫میں لڑکی کا نہیں۔۔تمہارا نام پوچھ رہا‬


‫ہوں۔۔۔۔در خان نے آواز میں کرختگی التے‬
‫ہوئے کہا‬

‫گل ناز نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔‬

‫در خان جب تک نے اس کی انگلی پکڑی‬


‫ہوئی ہے یہ کہیں نہیں جا سکتا ہے۔۔۔اسے‬
‫تھوڑا ڈراو‪ ،‬دھمکاو ۔۔۔یہ شریر اور ڈھیٹ‬
‫جن ہے۔۔ایسے نہیں مانے گا‬

‫سلیمان کی آواز در خان کے کانوں میں‬


‫گونجی‬

‫میں نےکہا‪  ‬تمہارا نام کیا ہے۔۔۔۔در خان نے‬


‫‪ ‬غصے میں بات کی‬

‫اور اگر اب تم نے جواب نہیں دیا تو میں‬


‫تمہاری انگلی توڑ دوں گا۔۔۔‬

‫در خان نے تو یہ بات کر دی لیکن اس بات‬


‫نے کمرے میں بیٹھے سارے لوگوں کو ڈرا‬
‫دیا۔۔۔۔وہ سمجھے کہ درخان سچ میں گل‬
‫ناز کی انگلی توڑ دے گا‬

‫بتاتا ہوں ۔۔۔بتاتا ہوں ۔۔۔۔میری انگلی نہ‬


‫توڑنا۔۔۔گل ناز نے مردانہ لہجے میں منت کی‬
‫تھی‬

‫کیا نام ہے تمہارا۔۔۔در خان نے دوبارہ پوچھ‬


‫لیا‬

‫شہزاب ہے میرا نام۔۔۔۔گل ناز نے جواب دیا‬

‫ہممم۔۔۔۔۔کیوں تنگ کر رہے ہو اسے۔۔۔درخان‬


‫نے سخت لہجے میں کہا‬

‫وہ ۔۔۔میں۔۔۔۔میں اس سے محبت کرتا ہوں‬


‫اور یہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے ۔۔ گل‬
‫ناز نے تو یہ بات کر دی لیکن اس کی بات‬
‫کے بعد بوڑھے آدمی کا چہرہ شرم سے الل‬
‫ہو گیا‬

‫کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔۔۔اور کیا اس نے‬


‫تم سے کہا کہ یہ تم سے محبت کرتی ہے۔۔۔‬
‫در خان نے پوچھا‬
‫کہا تو نہیں ۔۔۔لیکن رات کو جب یہ چارپائی‬
‫پر سوتی ہے تو محبت والے گانے گاتی ہے ۔۔‬
‫میں اس کے گانے سن کر اس سے محبت کر‬
‫بیٹھا ہوں ۔۔۔گل ناز‪  ‬بولی‬

‫لیکن اس نے تم سے کب کہا کہ یہ تم سے‬


‫محبت کر تی ہے۔۔۔درخان نے دوبارہ پوچھا‬

‫اب اور تو کوئی ہوتا نہیں ہے جس کے لیے‬


‫یہ گانا گائے ۔۔۔تو الزمی بات ہے کہ یہ میرے‬
‫لیے گانے گاتی ہے ۔۔۔۔گل ناز نے جواب دیا‬

‫اوہ ذلیل جن ۔۔۔تمہیں شرم نہیں آئی ایسے‬


‫با عزت لوگوں کو تنگ کرتے ہوئے ۔۔۔اور یہ‬
‫گانا گائے یا کچھ بھی کرے ۔۔۔تمہارا اس‬
‫سے کیا مطلب ہے ۔۔۔تم ایک جن ہو اور یہ‬
‫ایک انسان ہے ۔۔تمہارا ہم انسانوں سے کوئی‬
‫لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔سمجھے‬

‫اچانک درخان بھڑک اٹھا تھا‬

‫اچھا۔۔۔۔گل ناز نے مختصر جواب دیا‬

‫اب اسے چھوڑ کر جاتے ہو یا نہیں۔۔۔۔۔‬


‫درخان ابھی بھی غصے میں تھا‬

‫چال تو جاوں گالیکن اگراس نے دوبارہ گانا‬


‫گایا تو میں پھر آ جاوں گا۔۔۔۔جن بھی جان‬
‫چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھا‬

‫اس کا مطلب تم ایسے نہیں مانو گے۔۔۔۔۔۔‬


‫درخان بوال‬

‫اچھا۔۔۔اس کمرے میں ہم انسانوں کے عالوہ‬


‫بھی کوئی ہے ۔۔۔وہ تمہیں نظر آ رہا ہے۔۔۔‬
‫‪ ‬اچانک در خان نے عجیب بات کر دی‬

‫ہاں ۔۔۔ایک اور بھی ہے جو تمہارے پیچھے‬


‫بیٹھا ہوا ہے۔۔۔۔جن نے سلیما ن کا کہا تھا‬

‫کیا میں اسے کہوں کہ تمیں ایک دو تھپڑ‬


‫‪ ‬مارے؟‬

‫نہیں نہیں۔۔۔۔۔میں جاوں گا ۔۔مجھے مت‬


‫مارو۔۔۔جن اب منتوں پر آ گیا تھا‬

‫واپس آو گے ؟ درخان نے پوچھا‬

‫اسے کہوں نا ۔۔۔۔گانا نہ گائے ۔۔۔۔جن نے کہا‬

‫اس کا مطلب تم ایسے نہیں مانو گے۔۔۔۔در‬


‫خان نے کہا‬

‫سلیمان۔۔۔۔اچانک درخان نے سلیمان کا نام‬


‫لے لیا‬
‫اسے زرا دو ‪ ،‬تین تھپڑیں تو مارو۔۔۔اسے‬
‫میری بات سمجھ نہیں آ رہی ہے۔۔۔۔در خان‬
‫کی بات سن کر سلیمان اپنی جگہ سے اٹھا‬
‫اور گل ناز کے ساتھ بیٹھے جن کے سر پر‬
‫زور سے ہاتھ مارا۔۔۔۔‬

‫جن تو الٹی قالبازی کھا پر پیچھے گر گیا‬


‫لیکن جن کے ساتھ گل ناز بھی اپنی جگہ‬
‫سے اچھل کر گر پڑی۔۔‬

‫ایک اور مارو اسے۔۔۔سلیمان‬

‫درخان نے کرخت آواز میں کہا‬

‫مت مارو مجھے۔۔۔میں نہیں آؤں گا۔۔۔اہلل‬


‫کی قسم میں نہیں آؤں گا ۔۔۔۔جن منتوں پر‬
‫آ گیا لیکن سلیمان نے اس کی ایک نہ سنی‬
‫اور جن کو بالوں سے پکڑ کر دوسری تھپڑ‬
‫ماری۔۔۔‬

‫ایک مردانہ چیخ تھی جو گل ناز کے منہ‬


‫سے نکلی تھی۔۔۔‬

‫خدا کے لیے مجھے مت مارو۔۔۔میں کہہ رہا‬


‫ہوں نا۔۔۔۔میں دوبارہ نہیں آوں گا۔۔۔۔جن‪ ‬‬
‫التجائیں کرنے لگا تھا‬

‫اگر یہ گانا گائے تو تم آو گے۔۔درخان نے‬


‫پوچھا‬

‫نہیں۔۔میں کبھی نہیں آؤں گا۔۔۔۔یہ گانا گائے‬


‫یا کچھ بھی کرے میں بلکل بھی نہیں آؤ ں‬
‫گا ۔۔میری توبہ جو پھر کبھی میں آیا۔۔۔جن‬
‫نے توبہ کرتے ہوئے کہا‬
‫ا چھا اب اس کا جسم چھوڑ دو۔۔اور ہمیشہ‬
‫کے لیے چلے جاو۔۔سمجھے‬

‫درخان بوال‬

‫سمجھ گیا۔۔۔۔جن نے جواب دیا‬

‫اب جاتے ہو یا نہیں ۔۔۔۔در خان نے غصیلے‬


‫لہجے میں کہا‬

‫جا رہا ہوں۔۔۔یہ کہہ کر گل ناز نے آنکھیں‬


‫بند کرکے‪  ‬اپنے ہاتھ کی انگلیاں کو مٹھی‬
‫میں بھینچ لیا۔۔۔زمیں پر لیٹے لیٹے اس نے‬
‫اپنے گھٹنے کھڑے کر کے دوبارہ سے سیدھے‬
‫کر دیے۔۔۔۔اس کے پیروں کی انگلیاں بھی‪ ‬‬
‫اکڑ رہی تھی۔۔۔اور پھر گل ناز کے منہ سے‬
‫کلمہ نکال۔۔۔وہ بے سدھ ہو گئی تھی۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر ایسے ہی پڑے رہنے کے بعد گل‬
‫ناز نے آنکھیں کھولیں اور اپنے سامنے ایک‬
‫غیر آدمی کو دیکھ کر جلدی سے اٹھ کر‬
‫بیٹھ گئی ۔۔۔‬

‫اپنی بیٹی کو سیدھے ہوتادیکھ کر بوڑھی‬


‫ماں نے جلدی سے اسے اپنے نزدیک کھینچ‬
‫لیا اور اس کا دوپٹہ ٹھیک کرنے لگی جو‬
‫زمیں پر گرنے کے بعد سر سے الگ ہو گیا تھا‬

‫بابا۔۔۔اب آپ کی بیٹی ٹھیک ہو گئی ہے ۔۔۔‬


‫انشا اہلل یہ جن اب اسے دوبارہ تنگ نہیں‬
‫کرے گا۔۔۔در خان نے مڑکر پیچھے بیٹھے‬
‫بوڑھے آدمی سے کہا تو وہ کھسک کر در‬
‫خان کے نزدیک آیا۔۔۔اور در خان کے دائیں‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر خوشی میں چھومنے لگا‬
‫بیٹا اہلل تمہارا بھال کرے۔۔اہلل تمہیں سوہنے‬
‫حبیب کے صدقے کامیابیاں عطا کرے۔۔۔۔تم‬
‫نے اس بوڑھے آدمی پر جو احسان کیا ہے ۔۔‬
‫اس کا بدلہ یہ غریب آدمی کبھی نہیں اتار‬
‫سکے گا۔۔۔۔بوڑھا آدمی جذبات میں بولے جا‬
‫رہا تھا‬

‫بابا۔۔۔۔آپ کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‬


‫ہے ۔۔۔بس دعاوں میں یاد رکھیے ۔۔یہی‬
‫میرے لیے بہت ہے۔۔۔در خان نے کہا تو بوڑھا‬
‫آدمی ہاتھوں کو دعا کی صورت میں کھڑا‬
‫کرکے درخان کو دعائیں دینے لگا۔‬

‫بابا۔۔اب مجھے اجازت دیں۔۔۔میں اب چلتا‬


‫‪ ‬ہوں۔۔۔درخان نے کہا‬
‫ایسے کیسے بیٹا۔۔۔بیٹھو ۔۔۔۔چائے تو پی کر‬
‫جائے۔۔۔۔بوڑھے آدمی نے کہا لیکن درخان نے‬
‫انکار کر دیا وہ اس بوڑھے آدمی پر کوئی‬
‫بوجھ نہیں بننا چاہتا تھا اس لیے بوڑھے‬
‫آدمی کی منت و سماجت کے باوجود وہ‬
‫اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بوڑھا آدمی اس کے پیچھے‬
‫دروازے تک آیا تھا‬

‫اچھا بابا۔۔۔اہلل حافظ‬

‫اہلل حافظ بیٹا۔۔۔بوڑھا آدمی درخان کے‬


‫ایسے خالی ہاتھ جانے پر شرمندہ تھا‬

‫کیسا بھئی در خان۔۔۔اب تو تم جنوں سے‬


‫بھی کرنے لگ گئے ہو۔۔۔۔‬

‫سلیمان کی آواز آئی۔۔۔وہ اس کے ساتھ ہی‬


‫چل رہا تھا‬
‫ہاں سلیمان۔۔۔یہ میری زندگی کا نیا اور‬
‫عجیب تجربہ تھا لیکن اہلل کا شکر ہے کہ‬
‫تم ساتھ تھے نہیں تو میں کہاں اور جنات‬
‫بھگانا کہاں۔۔۔۔‬

‫در خان نے تعریفی لہجے میں کہا‬

‫چلو اب تو سیکھ لیا نا۔۔۔سلیمان بوال‬

‫ہاں سیکھا تو مگر کچھ کچھ۔۔در خان نے‬


‫کہا‬

‫آگے بھی سیکھو گے در خان۔۔۔ایسے واقعات‬


‫دنیا میں ہوتے رہتے ہیں۔۔۔۔‬

‫بس تم میرا ساتھ نہ چھوڑنا۔۔۔ایسا نا ہو کہ‬


‫ایک دن در خان کی گردن کسی جن نے پکڑ‬
‫رکھی ہو۔۔۔در خان نے مسکرا کر کہا تو‬
‫سلیمان ہنس دیا۔۔۔‬
‫وہ دونوں اپنے حجرے کی طرف جا رہے‬
‫تھے‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫)فرینا ۔۔۔قسط نمبر ‪ ( 23‬از ابن نصیر‬

‫سفرینا کا چیخ چیخ گال خشک ہو چکا تھا‬


‫اور آواز مکمل بیٹھ گئی تھی مگر اس کی‬
‫چیخیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی‬
‫تھیں‬
‫وہ زمیں پر اپنے پاؤں پھیال کر بیٹھی اور‬
‫سکندر کے سر کو محبت سے اٹھا کر اپنی‬
‫گود میں رکھ لیا‬

‫ایسے بھی کوئی جاتا ہے۔۔۔ہاں‬

‫تھوڑی دیر کے لیے آپ کو چھوڑ کر کیا گئی‬


‫آپ نے اتنی بڑی سزا دے دی‬

‫وہ سکندر کے بالوں کو سہال رہی تھی‬

‫‪ ‬ناراض ہو نا۔۔۔۔اسی لیے بات نہیں کر رہے‬

‫بالوں کو سہالتے سہالتے اس کا دایاں ہاتھ‬


‫سکندر کے گال پر آیا تھا اور اب وہ گال پر‬
‫اپنی انگلیاں پھیر کر سکندر کے جسم کی‬
‫حرارت کو محسوس کرنا چاہ رہی تھی‬
‫لیکن سکندر کا جسم اور چہرہ کب کا ٹھنڈا‬
‫ہو چکا تھا‬
‫اس نے دھیرے سے سکندر کا سر سائیڈ پر‬
‫رکھا دیا‬

‫کیوں سفرینا کیوں۔۔۔۔‬

‫اچانک وہ دونوں ہاتھوں سے‪  ‬اپنے ہی‬


‫چہرے پر تھپڑ مارنے لگی‬

‫وہ انسان تھا۔۔۔تمہارے بغیر وہ کچھ نہیں‬


‫کر سکتا تھا تو کیوں اسے تنہا چھوڑ کر‬
‫چلی گئی۔۔۔کیوں آخر‬

‫وہ مسلسل اپنے چہرے پر تھپڑ مارے جا‬


‫رہی تھی ۔۔۔اس کے دونوں گال سفید سے‬
‫الل ہو چکے تھے‬

‫بابا۔۔۔۔۔۔وہ چالئی‬

‫اس نے ابلیس کو پکارا‬


‫مدد کرو میری۔۔۔پلیز‬

‫روتے ہوئے وہ دوبارہ زمیں پر گر گئی۔۔۔لیٹے‬


‫لیٹے ہی اس نے اپنی مٹھی میں مٹی بھر‬
‫کر اپنے اوپر ڈالنے لگی‬

‫اور پھر اچانک وہ رک کر سیدھی ہو بیٹھی‬

‫ہوا میں سرخ مٹی اڑ اڑ کر سکندر کے‬


‫چہرے اور جسم پر گر رہی تھی‬

‫جلدی جلدی سے اس نے سکندر کے چہرے‬


‫پر پڑی مٹی کو اپنی ساڑھی کے پلو سے‬
‫صاف کرنے لگی‬

‫نارنجی رنگ کا پلو دیکھ کر اسے دوبارہ‬


‫سکندر کی یاد آ گئی ۔۔اس ساڑھی میں وہ‬
‫سکندر کو بہت پیاری لگی تھی‬
‫یہ سوچ کر وہ دوبارہ دھاڑیں مارتے ہوئے‬
‫رونے لگی۔۔۔اس نے سکندر کے سر کو اپنے‬
‫سینے سے لگا لیا تھا‬

‫جب اس کو اس میں بھی سکون کو نا مال‬


‫تو اس نے سکندر کی خون آلود پیشانی پر‬
‫بوسہ دیا اور پھر دیوانہ وار چومتی گئی‬

‫کیا کیا کروں میں سکندر۔۔۔۔مجھے بتاؤ پلیز‬

‫میں ایسے زندہ نہیں رہ پاؤں گی‬

‫وہ چومتی ہوئے بار بار یہی کہے جا رہی‬


‫تھی‬

‫مجھے ابلیس سے ملنا ہوگا۔۔۔۔اچانک سفرینا‬


‫چومتے چومتے رک گئی‬
‫ہاں ۔۔۔مجھے ملنا ہو گا۔۔۔اگر ابلیس مجھے‬
‫بنا سکتا ہے تو سکندر کو بھی زندہ کر لے گا‬

‫ایک امید سی سفرینا کے سینے میں جاگی‬


‫تھی۔۔‬

‫اس نے اپنے بہتے آنسوؤں کو صاف کیا اور‬


‫پھر اپنی آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھا‬

‫مجھے ایک صاف بوری ال کر دو۔۔۔ جلدی‬

‫سفرینا نے بند آنکھوں سے کہا تھا اور یہ‬


‫بات اس نے اپنے چیلوں سے کہی تھی‬

‫یہ کہ کر سفرینا نے اپنی آنکھیں کھول دیں‬


‫اور آگے بڑھ کر سکندر کے جسم کے ٹکڑوں‬
‫کو اکھٹا کرنے لگی۔۔۔‬
‫سکندر کے جسم سے‪  ‬ابھی بھی تھوڑا‬
‫تھوڑا کرکے خون بہہ رہا تھا‬

‫سفرینا انسانی دنیا سے بہت آگے نکل آئی‬


‫تھی اس لیے اس کے چیلے ابھی تک بوری‬
‫نہیں ال سکے تھے‬

‫جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا سفرینا‬


‫کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی ۔۔۔ہر‬
‫گزرنے واال لمحہ اس کے لیے صدیوں کے‬
‫برابر ہو گیا تھا۔‬

‫ایک مرتبہ تو اس نے کوشش کی کہ جس‬


‫طرح سے وہ سکندر کے اعضاء اٹھا کر یہاں‬
‫الئی تھی ویسے ہی اٹھا کر لے جائے لیکن‬
‫اب اس میں ہمت نہیں کی تھی ۔۔۔‬
‫آخر انسانی دنیا کے بیس منٹ انتظار کرنے‬
‫بعد ایک پالسٹک‪  ‬کی‪  ‬بوری ہوا میں معلق‬
‫نظر آئی۔۔۔ یہ سفرینا کا چیال تھا جو غیبی‬
‫حالت میں رہ کر سفرینا کو بوری دینے آیا‬
‫تھا‬

‫سفرینا نے بوری پکڑ کر دھیرے سے سکندر‬


‫کے تمام اعضا ء کو یکجا کرکے اندر ڈال‬
‫دیے اور بوری کو سینے سے لگا کر بجلی کی‬
‫صورت اختیار کر لی۔۔۔‬

‫بجلی زمیں سے اٹھی اور آسمان میں بلندی‬


‫پر پہنچ کر دوبارہ انسانی زمیں کی طرف‬
‫رخ کر لیا۔۔۔‬

‫وہ جلد سے جلد ابلیس سے مل کر سکندر‬


‫کی بات کرنا چاہتی تھی ۔۔۔وہ پر امید تھی‬
‫‪ ‬کہ وہ سکندر کو دوبارہ سے زندہ کر لے گی‬

‫انسانی دنیا کی حدود میں پہنچ کر اس نے‬


‫اپنا رخ تبدیل کر لیا اور دنیا کے آخری کونے‬
‫میں موجود سمندر کی جانب اڑنے لگی۔‬

‫شیطان اعظم کی سلطنت میں پہنچ کر‬


‫بھی اس نے اپنی رفتار کم نہیں کی اور نہ‬
‫ہی سلطنت کے کسی شیطان اور پہرے دار‬
‫نے اسے روکنے کی کوشش کی۔‬

‫چمکتی بجلی والی سفرینا ہے ۔۔یہ‪  ‬بات‬


‫شیطانی سلطنت کا ہر شیطان جانتا ہے اور‬
‫کسی شیطان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ‬
‫وہ سفرینا کو روک سکے یا اس سے پوچھ‬
‫سکے۔‬
‫بجلی شیطان اعظم کے تخت کے پاس آکر‬
‫رک گئی اور زمیں پر پہنچ کر انسانی شکل‬
‫اختیار کر لی۔۔۔اس وقت ایموڈیس شیطان‬
‫اعظم کے سامنے کھڑا ہوا اپنی آج کی‬
‫کارگزاری بتا رہا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کو اپنی جانب آتا دیکھ کر شیطان‬


‫اعظم نے ایموڈیس کو چلے جانے کا کہالیکن‬
‫جاتے‪  ‬جاتے بھی ایموڈیس نے سفرینا کے‬
‫ہاتھوں میں پالسٹک کی بوری دیکھ لی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫آو سفرینا۔۔۔۔آؤ۔۔۔مجھے امید نہیں تھی کہ‬


‫میں دوبارہ تمہیں اتنی جلدی دیکھوں گا۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم نے تخت پر سے اٹھ کھڑے ہو‬
‫کر کہا‬
‫مجھے بابا سے ملنا ہے شیطان اعظم۔۔۔‬
‫سفرینا نے اس کی بات کو‪   ‬نظر انداز کیا‬
‫تھا۔‬

‫تم جانتی ہو کہ تم ان سے نہیں مل سکتی‬


‫ہوسفرینا۔۔۔۔اور یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے‬
‫؟ شیطان اعظم بھی اب سنجیدہ ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫اس نے سفرینا کے ہاتھوں میں پکڑی بوری‬


‫پر خون کے نشانات کے ساتھ ساتھ سفرینا‬
‫کے کپڑوں پر لگے دھبے دیکھ لیے تھے۔۔۔‬

‫مجھے ان سے ہر حال میں ملنا ہے اور میں‬


‫ابھی اسی وقت ملوں گی۔۔۔سمجھے‬

‫سفرینا نے کرخت لہجے میں کہا‬


‫تم کیا ۔۔۔۔ا ن سے کوئی بھی نہیں مل سکتا‬
‫ہے۔۔۔۔میں بھی نہیں مل سکتا ہوں سفرینا۔۔۔‬
‫بہتر ہے کہ تم اپنی بات مجھے بتاو۔۔میں‬
‫تمہارا پیغام‪  ‬ان تک پہنچا دوں گا۔۔۔۔۔اور تم‬
‫یہ میرے ساتھ کس لہجے میں بات کر رہی‬
‫ہو ؟ شیطان اعظم نے کہا‬

‫آپ کو میری بات سمجھ نہیں آئی۔۔۔ہاں‬

‫سفرینا غصے میں آ گئی اس نے بوری زمین‬


‫پر رکھ کر اپنی دونوں ہاتھ سیدھے‪   ‬کرکے‬
‫کچھ پڑھا تو اس کے دونوں ہاتھوں کی‬
‫ہتھیلی پر آگ کے شعلے چمک اٹھے‬

‫اگر اب آپ نے کوئی اور بات کی تو میں‬


‫اس سلطنت کو آگ لگا دوں گی۔۔۔۔۔سفرینا‬
‫نے گرجتے ہوئے کہا‬
‫سفرینا تم کیوں میری بات نہیں سمجھ‬
‫رہی ہو۔۔۔۔۔تم خود بھی جانتی ہو کہ آقا‬
‫ابلیس کسی سے بھی نہیں مل سکتے ہیں۔۔‬
‫وہ سمندر کی تہہ میں میں چلے گئے ہیں‬
‫اور جب تک وہ خود نہ چائیں ان کے پاس‬
‫کوئی نہیں جا سکتا ہے۔۔۔۔شیطان اعظم‪  ‬نے‬
‫سفرینا کو سمجھاتے ہوئے کہا‬

‫مجھے ملنے ہے ۔۔آپ کیوں نہیں سمجھ‬


‫رہے۔۔۔۔سفرینا نے دونوں ہاتھ نیچے گرا کر‬
‫گھٹنوں پر بیٹھ گئی‬

‫وہ رو رہی تھی۔۔۔۔۔‬

‫مجھے ان سے کہنا ہے کہ سفرینا ایک بار‬


‫پھر مر گئی ہے ۔۔۔سفرینا کو زندگی‬
‫‪ ‬دےدو۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے روتے ہوئے کہا‬

‫میں تمہاری بات اب بھی نہیں سمجھا۔۔۔‬


‫سفرینا ۔۔۔۔تم مجھے ساری بات بتاؤ ۔۔۔میں‬
‫ضرور تمہاری مدد کروں گا۔۔۔یہ شیطان‬
‫اعظم کا وعدہ ہے‬

‫شیطا ن اعظم تخت سے اتر کر سفرینا کے‬


‫سامنے آ کر بیٹھ گیا تھا‬

‫تم ابلیس کی بیٹی ہو لیکن میں بھی تمہیں‬


‫اپنی بیٹی کی طرح سمجھتا ہوں۔۔۔بتاو‬
‫مجھے‬

‫وہ سفرینا کے سر پر ہاتھ پھیر رہا تھا‬

‫شیطان اعظم یہ دیکھیں۔۔۔۔یہ کہہ کر‬


‫سفرینا نے بوری میں سے سکندر کا سر باہر‬
‫نکاال‬
‫اوہ یہ تو تمہارا آقا ہے سفرینا۔۔۔۔۔۔اس نے‬
‫سکندر کے چہرے کو خون آلود ہونے کے‬
‫باوجود بھی پہچان لیا تھا‬

‫ہاں یہ میرا آقا ہے شیطان اعظم لیکن یہ‬


‫ایک حملے میں مر گئے ہیں ۔۔۔اب میں انہیں‬
‫دوبارہ سے زندہ کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔پلیز‬
‫میری مدد کریں‬

‫اس نے سکندر نے سر کو گود میں‪   ‬رکھ کر‬


‫شیطان اعظم کا ہاتھ پکڑ لیا‬

‫سفرینا میں نے ایک سوال تم سے پہلے بھی‬


‫پوچھا تھا اور تم نے جو‪  ‬جواب دیا تھا اس‬
‫سے میں مطمئن نہ ہوا تھا لیکن‪  ‬اب دوبارہ‬
‫وہی سوال پوچھتا ہوں۔۔۔تمہیں اس سے‬
‫محبت ہے نا؟‬
‫شیطان اعظم نے پوچھا‬

‫سفرینا نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔بس روتے‬


‫آنسوں کے ساتھ سر جھکا کر گردن ہاں میں‬
‫ہال دی۔‬

‫بہت غلط کیا تم نے سفرینا۔۔۔۔بہت غلط۔۔۔تم‬


‫نے میری اور اپنی عزت‪  ‬خاک میں مال دی۔۔۔‬
‫تم نے یہ سوچا بھی کیسے تھا کہ تم ایک‬
‫انسان سے محبت کرو گی۔۔۔۔تم نے یہ بھی‬
‫نہیں سوچا کہ اگر ابلیس کو پتا چل گیا تو‬
‫تمہارا اور میرا کیا انجام ہوگا‬

‫شیطان اعظم بوال‬

‫مجھے اب بھی یقین نہیں ہے کہ مجھے ان‬


‫سے محبت ہے لیکن میں ان کے بغیر نہیں‬
‫رہ سکتی ہوں شیطان اعظم۔۔۔میں یہاں سے‬
‫بہت دور چلی جاوں گی ۔۔کسی کو نظر‬
‫نہیں آؤں گی ۔۔۔بس ایک بار ان کو زندہ‬
‫دیکھنا ہے مجھے۔۔۔صرف ایک بار ۔۔‬

‫سفرینا نے شیطان اعظم کو گریبان سے پکڑ‬


‫رکھا تھا۔۔۔یہ کہنے کے بعداس نے گریبان‬
‫چھوڑ دیا تھا‬

‫بچوں والی حرکت مت کرو سفرینا۔۔۔تم‬


‫بھول گئی کہ تم کون ہو۔۔۔کیا ایک انسان‬
‫کے لیے تم اتنا گر گئی کہ اپنا نام‪ ،‬طاقت ‪،‬‬
‫‪ ‬رتبہ سب بھول گئی‬

‫میں سفرینا تھی شیطان اعظم ۔۔۔۔میں‬


‫سفرینا تھی ۔۔۔ مگر اب نہیں رہی‬

‫اچھا وہ چڑیل کہاں گئی جس سے ہر کوئی‬


‫پناہ مانگتا تھا۔۔۔جس کے نام سن کر انسان ‪،‬‬
‫جن اور شیطان بھاگ جایا کرتے تھے‬

‫کہاں ہے وہ سفرینا جو اونچی آوازمیں‬


‫لہجہ برداشت نہیں کر تی تھی۔۔۔اس‬
‫سفرینا کو کیا ہوا‪  ‬جو اپنے ہی آقاوں کو‬
‫مار دیا کرتی تھی‬

‫کہاں وہ سفرینا۔۔۔بتاو مجھے‪  ‬کہاں ہے۔۔۔۔‬

‫مر گئی وہ سفرینا۔۔۔۔بر باد ہو گئی ۔۔۔بس‬


‫‪ ‬مل گیا جواب‬

‫اسے اب کسی کی بات سے کوئی فرق نہیں‬


‫پڑتا ہے ۔۔۔اسے بس یہ بتا دو کہ ابلیس سے‬
‫کیسے ملنا ہے ۔۔۔یہ دیکھو میں تمہارےآگے‬
‫ہاتھ جوڑ رہی ہوں‬

‫اس درد ماری کو اور مت تڑپاو۔۔۔میں ایک‬


‫امید لے کر آئی ہوں ۔۔۔۔مجھے صرف ابلیس‬
‫سے ایک بار سننا ہے کہ وہ سکندر کو زندہ‬
‫کر دے گا‬

‫سفرینا نے روتے روتے شیطان اعظم کے آگے‬


‫ہاتھ جوڑ لیے‬

‫شیطان اعظم نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔‬


‫وہ‪  ‬کچھ سوچ رہا تھا‬

‫کیا تم ساٹھ دن سرد موسم میں بغیر کھائے‬


‫پیے جاپ کر سکتی ہو۔۔۔۔؟‪  ‬شیطان اعظم‬
‫نے پوچھا‬

‫میں سکندر کو زندہ کرنے کے لیے قیامت‬


‫تک بغیر کھائے پیے بھی جاپ کر سکتی‬
‫ہوں شیطان اعظم۔۔۔بس آپ مجھے بتائیں‬
‫کہ کیا کرنا ہے‬

‫سفرینا کو ایک امید نظر آئی تھی۔۔۔۔‬


‫تم بہت دور جگہ پر ایک جاپ کرو گی‬
‫سفرینا۔۔۔لیکن جاپ کرنے سے پہلے تمہیں‬
‫ایک ایسے انسان کو تالش کرنا ہوگا جس‬
‫کے مرنے میں چند سانسیں باقی ہوں ۔۔۔تم‬
‫نے اس کے ساتھ کھڑے ہو کر اس کی جان‬
‫نکلنے تک ایک جاپ کرنا ہے۔۔۔‬

‫وہ کچھ دیر کے لیے رکا‬

‫اس انسان کی روح جیسے ہی جسم کو‬


‫چھوڑ دے گی وہ تمہارے قبضے میں آ جائے‬
‫گی ۔۔اس کے بعد میں تمہیں جو جگہ بتاوں‬
‫گا۔۔وہاں جا کر تم نے ساٹھ دن تک کچھ‬
‫بھی کھائے پیے بغیر دوسرا جاپ کرنا‬
‫ہوگا۔۔۔یاد رہے اس جاپ کو کرتے ہوئے‬
‫دونوں جسم حصار کے اندر رکھنے ہیں۔ ۔۔۔‬
‫ہر رات کو جاپ مکمل کرنے کے بعد تم نے‬
‫کچھ کہنے سے پہلے اس لڑکے کے سر اور‬
‫دل پر پھونک مارنے ہے۔۔۔ساٹھوں روز جب‬
‫تم جاپ مکمل کر لوں گی تو اس کا سر اور‬
‫دماغ پھٹ جائے گا۔۔جس کا مطلب کہ دماغ‬
‫او ردل مرے ہوئے جسم سے نکل چکے ہیں‬
‫اور پھر جو جسم تم اٹھا کر لے جاو گی۔۔وہ‬
‫‪ ‬جھٹکا کھائے گا‬

‫جاپ مکمل کرکے تم وہ مکمل جسم اپنے‬


‫ساتھ لے جانا ۔۔۔ٹھیک رات کے وقت جب‬
‫چاند نکلتا ہے ۔۔اس وقت اس نئے جسم میں‬
‫جان پڑ‪  ‬جائے گی۔۔مگر وہ‪  ‬جسم کچھ بھی‬
‫سمجھنے اور بولنے کے قابل نہیں ہوگا۔۔۔بس‬
‫اتنا ہو گا کہ حرکت کرتا رہے گا۔۔۔آہستہ‬
‫آہستہ پرانے جسم والےکی یاداشت اور‬
‫جذبات نئے جسم میں مکمل ہو جائیں‬
‫‪ ‬گے۔۔۔‬

‫‪ ‬شیطان اعظم نے بولنا بند کیا‬

‫کیا تم سمجھی کہ میں نے کیا کہا ہے۔۔۔۔‬


‫شیطان اعظم نے بات مکمل کرنے کے بعد‬
‫کہا‬

‫یہ تو میں سمجھ گئی ہوں لیکن سکندر کا‬


‫جسم تو نیا ہو جاے گا نا۔۔۔کیا ہم اس جسم‬
‫کو دوبارہ سے ٹھیک اور زندہ نہیں کر‬
‫سکتے ہیں ؟‬

‫سفرینا نے سوال کیا‬

‫نہیں۔۔۔۔ایک جسم سے روح نکل چکی ہے‬


‫اور اپنے آخری مقام کو پہنچ چکی ہے۔۔اس‬
‫کوہم دوبارہ ہمیشہ کے لیے‪  ‬واپس اسی‬
‫جسم میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔۔۔ہاں اگر تم‬
‫کچھ پل یا وقت کے لیے اس جسم میں‬
‫جان ڈالنا چاہتی ہو تو یہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم نے جواب دیا‬

‫نہیں نہیں۔۔۔بس مجھے سکندر کا‪  ‬ہمیشہ‬


‫کے لیے ساتھ چاہیے ۔۔آپ نے جیسا کہا ہے‬
‫میں ویسا ہی کروں گی۔۔۔سفرینا سکندر کو‬
‫نئے جسم میں قبول کر رہی تھی‬

‫ہممم۔۔۔۔۔اب تم نے جہاں جاپ کرنا ہے وہ‬


‫جگہ بھی سن لو۔۔۔‬

‫جس جسم کی روح تم قبضہ میں کر لوں‬


‫گی۔۔۔۔اس کو اپنے ساتھ لے کر تم نے پہلے‬
‫آسمان تک سیدھے جانا ہے۔۔۔ہم شیطانوں‬
‫کی ایک حد ہے ۔۔ہم جن اور شیطان پہال‬
‫آسمان نہیں پار کر سکتے ہیں۔۔۔جیسے ہی‬
‫تم ایسی جگہ پہنچو کہ تمہیں اپنی طرف‬
‫آگ کے پتھر آتے نظر آئیں ۔۔۔وہاں سے تم نے‬
‫اپنے الٹے ہاتھ کی طرف سفر کرنا ہے۔۔۔۔‬
‫آسمان میں سورج نہیں ہوتا ہے تو تم اپنے‬
‫اس دنیا کے دن کے حساب سے چھ دن اور‬
‫رات سفر کرو گی تو تمہیں ایک زمیں نظر‬
‫آئے گی۔۔۔جس کا رنگ سفید اور نیال ہوگا۔۔۔‬
‫وہ زمیں اتنی سرد ہے کہ ایک انسان لمحہ‬
‫بھی وہاں نہیں گزار سکتا لیکن تم اپنی‬
‫شکتیوں کی مدد سے وہاں آسانی سےداخل‬
‫ہو جاوں گی۔۔وہیں کوئی جگہ دیکھ کر اپنا‬
‫جاپ مکمل کر لیا سفرینا۔۔۔‬

‫شیطان اعظم نے بات مکمل کرکےگہری‬


‫سانس لی ۔۔۔‬
‫اچھا ۔۔۔جب میں پہلے آسمان کے نزدیک‬
‫پہنچ جاوں گی تو مجھے کیسے پتا چلے گا‬
‫کہ میرا دایاں کونسا ہے اور بایاں کونسا‬
‫ہے۔۔۔سفرینا نے سوال کیا‬

‫اس کے لے جب تم زمیں سے اڑنے لگو تو‬


‫اپنا رخ سورج کی جانب کر لینا۔۔اور پھر‬
‫اڑتے رہنا جب تک آسمان کے قریب نہ پہنچ‬
‫جاو۔۔پھر وہاں پہنچ کر اپنے بائیں ہاتھ کی‬
‫طرف اڑنے لگ جانا۔۔۔آخر تمہیں اپنی منزل‬
‫نظر آ جائے گی۔۔۔‬

‫سمجھ گئی میری بات سفرینا۔۔۔۔۔شیطان‬


‫اعظم نے اپنی بات مکمل کر لی تھی‬

‫جی ہاں میں سمجھ گئی۔۔۔۔سفرینا نے‬


‫سوچتے ہوئے کہا۔۔۔وہ پوری بات کو اپنے‬
‫دماغ میں دوہرا رہی تھی‬

‫ٹھیک ہے میں اب چلتی ہوں۔۔۔مجھے ایک‬


‫پل کی بھی دیر نہیں کرنی ہے شیطان‬
‫اعظم۔۔۔۔سفرینا نے جانے کے لیے کہا‬

‫ابلیس تمہاری مدد کرے بیٹی۔۔۔۔۔۔شیطان‬


‫اعظم نے پیار سے سفرینا کے سر پر ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوئے کہا‬

‫شکریہ آپ کا۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے شیطان‬


‫اعظم کو گلے لگا لیا۔۔۔‬

‫اب تم جاو۔۔۔اور دوبارہ یہاں مت‬


‫آناسفرینا۔۔۔۔‬

‫کیوں ؟ سفرینا نے پوچھا‬


‫تم اپنی مقام اور رتبہ کھو چکی ہو۔۔۔اب‬
‫یہاں شیطان صرف تم پر ہنسیں گے اور‬
‫میں نہیں چاہتا کہ کوئی سفرینا کا مذاق‬
‫اڑائے۔۔۔شیطان اعظم نے محبت سے دیکھتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫ایک آخری سوال پوچھ سکتی ہوں۔۔۔۔؟‬


‫سفرینا نے سوال پوچھنے کی اجازت مانگی‬

‫بلکل۔۔۔شیطان اعظم نے کہا‬

‫کیا میں سکندر کی غالمی میں رہوں گی ؟‬

‫نہیں بیٹی۔۔سکندر کے مرنے کے بعد تم اس‬


‫کی قید سے آزاد ہو چکی ہو۔۔اب اگر تم‬
‫خود اس کے ساتھ رہنا چاہو تو ٹھیک لیکن‬
‫اب تم اس کی غالم نہیں ہو۔۔۔اس نے‬
‫‪ ‬سفرینا کو جواب دیا‬
‫میں اس کی محبت کی غالم بن کر رہوں‬
‫گی شیطان اعظم۔۔۔مجھے اب اس کی دنیا‬
‫کے عالوہ کوئی اور دنیا اچھی ہی نہیں‬
‫لگتی ہے۔۔۔وہ مجھے جیسے اور جہاں بھی‬
‫رکھے گا۔۔میں خوش رہوں گی۔۔۔سفرینا نے‬
‫خوش ہوتے ہوئے کہا‬

‫ابلیس تم پر رحم کرے سفرینا۔۔۔۔اب تم‬


‫چلی جاو ۔۔اس سے پہلے کہ یہاں باتیں‬
‫ہوں۔۔۔‬

‫جی میں چلتی ہوں۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے‬


‫سکندر کے اعضا کو بوری میں رکھا اور پھر‬
‫بجلی بن کر ہوا میں اڑ گئی۔۔‬
‫_________________________________‬
‫____________‬
‫میں نے آپ سے کتنی بار کہا ہے کہ‬
‫ڈرائیونگ کرتے وقت نہ ہی مجھے کال کریں‬
‫گے نہ ہی کسی اور کو کال کریں گے لیکن‬
‫آپ بلکل بھی باز نہیں آتے ہیں جلیل۔۔۔‬

‫جلیل اس وقت آفس کے لیے نکال تھا لیکن‬


‫اسے سکینہ کو الوداع کہے دس منٹ ہی‬
‫نہیں ہوئے کہ اس نے کار میں بیٹھے بیٹھے‬
‫ہی موبائل نکال کر سکینہ کو کال مالئی‬

‫وہ اپنے گھر سے نکل کر سکینہ کے گھر جاتا‬


‫ہے اور وہاں سے ناشتہ کرکے پھر آفس جاتا‬
‫ہے۔۔آج بھی وہ سکینہ سے مل کر آفس جا‬
‫رہا تھا‬

‫بس‪  ‬۔۔۔میرا دل نہیں بھرتا نا۔۔میں چاہتا‬


‫ہوں کہ میں ہر وقت تمہیں سنتا رہوں۔۔۔‬
‫جب‪  ‬تم "ہے نا "کہتی ہو تو مجھے بہت ہی‬
‫پیاری لگتی ہو۔۔۔‬

‫جلیل نے ایک ہاتھ سے سٹئیرنگ سنبھاال ہوا‬


‫تھا اور دوسرے ہاتھ سے موبائل کان سے‬
‫لگایا ہوا تھا‬

‫آپ میری بات سنتے کہاں ہیں۔۔۔۔ہے نا؟‬

‫سکینہ نے بوال‬

‫ہائے۔۔۔یہ تمہارا ہے نا‬

‫یہ کہتے ہوئے جلیل نے اپنا سر کار کی سیٹ‬


‫سے ٹکا دیا‬

‫اوریہی پر اس سےغلطی ہو گئی ۔۔اسے پتا‪ ‬‬


‫ہی نہ چال کہ کب ساتھ کی گلی سے ایک‬
‫فراٹے بھرتی کار آئی اور اس کی کار کو‬
‫گھسیٹے ہوئے سڑک کی دوسری طرف جا‬
‫گری۔۔۔جلیل کی کار بھی الٹ کر گرپڑی تھی‬

‫جلیل کیا ہوا۔۔۔۔۔سکینہ کی تشویش میں‬


‫بھری آواز آئی لیکن دوسری طرف سے‬
‫کوئی آواز نہیں آ رہی تھی۔۔۔‬

‫چند سیکنڈ میں ہی سکینہ کو مختلف‬


‫آوازیں سنائی دینے لگی لیکن اسے سمجھ‬
‫نہیں آ رہی تھی کہ دوسری طرف کیا کہا‬
‫جا رہا ہے۔۔۔‬

‫سکینہ بار بار ہیلو ہیلو کہے جا رہی تھی‬

‫آپ کون بول رہی ہیں۔۔۔دوسری طرف سے‬


‫اچانک ایک آواز آئی‬

‫میں سکینہ ہوں۔۔آپ کون ہیں اور جلیل‬


‫کہاں ہیں۔۔۔سکینہ نے ایک ہی دفعہ میں تین‬
‫سوال پوچھ لیے‬

‫میں عاطف‪  ‬ہوں۔۔۔جلیل‪  ‬کا ایکسیڈنٹ ہوا‬


‫ہے اور ان کو کافی چوٹیں آئی‪  ‬ہیں۔۔۔آپ‬
‫جلدی سے نیشنل ہسپتال پہنچیں۔۔ان کی‬
‫حالت کافی خراب ہے۔۔۔یہ کہہ کر الئن کاٹ‬
‫دی گئی‬

‫دوسری طرف سے سن کر سکینہ پر سکتہ‬


‫طاری ہو گیا۔۔۔کچھ دیر تو اسے سمجھ ہی‬
‫نہیں آیا کہ کیا ہوا ہے اور کیا کرے‬

‫لیکن پھر وہ جلیل کہہ کر چیختی ہوئی‬


‫باہر دوڑی۔۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫)فرینا ۔۔۔۔قسط نمبر ‪( 24‬از ابن نصیر‬

‫سفرینا نے انسانی دنیا میں پہنچ کر اپنی‬


‫انسانی شکل اختیار کر لی۔۔۔بوری ابھی‬
‫‪ ‬بھی اس کے ہاتھوں میں تھی‬

‫وہ سوچ رہی تھی کہ ایسی کون سی جگہ‬


‫ہو سکتی ہے کہ جہاں پر اسے ایسا انسان‬
‫ملے جو موت کے قریب ہو لیکن انسانی دنیا‬
‫میں اتنا وقت گزارنے کے بعد بھی اسے‬
‫‪ ‬کوئی جگہ ذہن میں نہیں آ رہی تھی‬

‫ایک ویران گلی دیکھ کر سفرینا اس میں‬


‫گھس گئی اور کونے میں جا کر اس نے‬
‫‪ ‬کچھ پڑھا‬

‫اس شہر میں جو انسان مرنے کے قریب ہیں‬


‫۔۔مجھے ان کے نام اور جگہیں بتاؤ‬

‫سفرینا نے کہا ۔۔۔یہ بات اس نے اپنے چاروں‬


‫چیلوں سے کہی تھی‬

‫یہ کام کرکے وہ گلی سے نکل کر اور یہاں‬


‫وہاں دیکھتی ہوئی مختلف گلیوں میں‬
‫گھومنے لگی‬

‫ابھی سفرینا نے دو گلیاں ہی پار کی کہ اس‬


‫کے چیلے نے کان میں سرگوشی کی۔۔وہ ایک‬
‫عجیب زبان میں سفرینا کو کچھ بتا رہا تھا‬

‫سفرینا نے اقرار میں گردن ہالئی اور آگے‪ ‬‬


‫بڑھ کر ایک دوکان کے پیچھے موجود گلی‬
‫میں داخل ہو گئی‬
‫اس نے کچھ پڑھا تو وہ اپنی جگہ سے‬
‫غائب ہو گئی تھی۔۔۔‬

‫یہ ایک پرائیوٹ ہسپتال تھا جس کی چھت‬


‫پر سفرینا ظاہر ہوئی تھی۔۔۔‬

‫اسے چھت پر ایک دروازہ نظر آیا جو کہ‬


‫نیچے جانے کا رستہ تھا‬

‫ابھی سفرینا نے دو قدم ہی اٹھائے کہ اس‬


‫کے کانوں میں شیطان اعظم کی آواز‬
‫ٹکرائی‬

‫وہ سفرینا کا نام لے رہا تھا‬

‫کیا ہوا شیطان اعظم؟ سفرینا نے حیرانگی‬


‫سے پوچھا ۔۔وہ ان کے اس طرح‪  ‬آنے سے‬
‫پریشان ہو گئی تھی‬
‫سفرینا یہ جگہ چھوڑو۔۔جو میں تمہیں بتا‬
‫رہا ہوں وہاں جاو۔۔۔وہاں جس انسان کو تم‬
‫دیکھو گی تو حیرت میں ڈوب جاؤ گی‬

‫کیا مطلب ؟‬

‫مطلب وطلب چھوڑو۔۔۔اور جلدی نکلو یہاں‬


‫سے ۔۔۔تمہاری زرا سی دیر بھی تمہارے لیے‬
‫‪ ‬نقصان دے ہوگی‬

‫شیطان اعظم نے سفرینا کو جلدی جلدی‬


‫ایک نئی جگہ بتائی‪  ‬۔۔یہ بھی ایک ہسپتال‬
‫ہی تھا مگر اس کے لیے سفرینا کو دوسرے‬
‫شہر جانا ہوگا‬

‫شیطان اعظم سے رابطہ ختم ہونے کے بعد‬


‫سفرینا پڑھ کر غائب ہوئی اور دوسرے شہر‬
‫میں موجود ہسپتال کے پیچھے موجود‬
‫گیلری میں ظاہر ہوئی‬

‫ظاہر ہونے کے بعد وہ تیز تیز قدم اٹھاتے‬


‫ہسپتال کے سامنے والے حصے کی طرف‬
‫جانے لگی لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے‬
‫خود کو غائب کر لیا‬

‫ابھی وہ ہسپتال کے کمپاونڈ کی نزدیک ہی‬


‫پہنچی کہ ایک کار تیزی کے ساتھ ہسپتال‬
‫میں داخل ہوئی ۔۔کمپاونڈ کے نزدیک رکنے‬
‫پر اس سے ایک لڑکی بر آمد ہوئی اور گاڑی‬
‫پارکنگ کے لیے آگے چلی گئی‬

‫تم ایمرجنسی وارڈ کی طرف جاؤ سکینہ‬


‫میں تمہیں وہاں آ کر ملوں گی۔۔۔‬
‫گاڑی کے اندر سے آواز آئی مگر باہر نکلنے‬
‫والی لڑکی جس کا نام سکینہ لیا گیا تھا‬
‫اسے سنے بغیر ہی ہسپتال کے اندر کی‬
‫طرف دوڑی تھی‬

‫سفرینا نے سوچا کہ گاڑی والی لڑکی کی‬


‫طرف جائے لیکن بقول شیطان اعظم اس‬
‫کے پاس وقت نہیں ہے تو وہ اندر جانے‬
‫والی لڑکی کے پیچھے بھاگنے لگی‬

‫وہ لڑکی سیدھے ایمرجنسی وارڈ میں داخل‬


‫ہوئی تھی ۔۔‬

‫اندر داخل ہونے پر سامنے ایک انسان لیٹا‬


‫ہوا نظر آیا جس کے‪  ‬ناک اور منہ پر ماسک‬
‫لگا ہوا تھا‬
‫جلیل۔۔وہ لڑکی اس انسان کے قریب پہنچ‬
‫کر چالئی‬

‫سفرینا بھی اس لڑکی کے ساتھ جا کر‬


‫کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی نظر سامنے‬
‫لیٹے انسان کے چہرے پر پڑی‬

‫سامنے لیٹے انسان کو دیکھ کر سفرینا پر‬


‫حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے‬

‫اسے آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا‬

‫سامنے لیٹا انسان کوئی اور نہیں سکندر تھا‬


‫اور وہ لڑکی سکندر کے سینے سے لپٹی رو‬
‫رہی تھی‬

‫یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔۔‬


‫اگر یہ سکندر کے تو میرے پاس موجود‬
‫ٹکڑے کس کے ہیں؟‬

‫سفرینا سوچ رہی تھی کہ اچانک اس کے‬


‫کانوں میں شیطان اعظم کی آواز گونجی‬

‫سفرینا اس کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔تم‬


‫جلدی سے اپنا جاپ شروع کرو اور ہاں اہلل‬
‫نے اس دنیا میں ایک ہی انسان کے ملتے‬
‫جلتے کچھ اور انسان بھی بنائے ہیں جو‬
‫شکل و صورت میں کافی حد تک ایک‬
‫جیسے ہوتے ہیں‬

‫یہ تمہارا سکندر نہیں ہے بلکہ اس لڑکی‪  ‬کا‪ ‬‬


‫منگیتر ہے جس کی کار ایکسیڈنٹ کی وجہ‬
‫سے موت ہونے والی ہے‬

‫یہ کہہ کر شیطان اعظم خاموش ہو گیا ۔۔‬


‫سامنے لیٹا سکندر کی شکل کا انسان‬
‫جھٹکے جھٹکے سے سانس لے رہا تھا۔۔۔جس‬
‫کا مطلب تھا کہ اس کی موت بس ہونے‬
‫والی ہے‬

‫یہ دیکھ کر سفرینا نے بیڈ کی دوسری‬


‫طرف جا کر بوری کو قریب ہی رکھ دیا اور‬
‫جاپ کرنے لگی‬

‫ڈاکٹر۔۔۔سکینہ چالئی‬

‫اور پھر دوڑتی ہوئی وارڈ سے نکل گئی‬

‫ایک منٹ نہیں گزرا کہ سکینہ اپنی دوست‬


‫اور ایک ڈاکٹر کے ساتھ وارڈ میں داخل‬
‫ہوئی‬

‫ڈاکٹر نے جلیل کے قریب پہنچ کر مشینوں‬


‫کو دیکھا‬
‫جلیل کی سانسیں گہری ہو رہی تھیں اور‬
‫سکینہ چال چال کر ڈاکٹر کو اسے بچانے کا‬
‫کہہ رہی تھی جبکہ دوسری طرف کھڑی‬
‫سفرینا کے لب تیزی سے ہلنا شروع ہو گئے‬
‫‪ ‬تھے‬

‫چند لمحے نہ گزرے کہ جلیل نے ایک لمبی‬


‫سانس لی اور پھر اس کا جسم ڈھیال ہونے‬
‫لگا‬

‫سکینہ جلیل کا نام لے کر چالئی اور پھر‬


‫وہی بیہوش ہو کر گر پڑی‬

‫ساتھ کھڑا ڈاکٹر جو جلیل کو دیکھ رہا تھا‬


‫اس نے جلدی سے سکینہ کو پکڑ لیا‬

‫ایک انسان ہیوال جلیل کے جسم سے نکال‬


‫اور وہیں کھڑا ہو گیاتھا۔۔جو کہ جلیل کی‬
‫روح تھی‬

‫ڈاکٹر سکینہ کو فرش پر لٹا کر ایمرجنسی‬


‫وارڈ سے نکل گیا‬

‫اب وارڈ میں صرف سفرینا تھی جو پورے‬


‫ہوش و حواس میں تھی‬

‫ہیوال نے سفرینا کو دیکھا اور آگے بڑھ کر‬


‫سفرینا کے سامنے کھڑا ہو گیا‬

‫سفرینا کا جاپ مکمل ہو چکا تھا‬

‫‪ ‬سکندر میری جان۔۔۔اپنا ہاتھ دیں مجھے‬

‫یہ کہ کر سفرینا نے اپنا ہاتھ آگے کیا جسے‬


‫ہیولے نے تھام لیا۔۔‬

‫سفرینا نے اپنا دوسرا ہاتھ نیچے کرکے بوری‬


‫کو اٹھایا اور پھر کچھ پڑھنے لگی‬
‫اس کے پیروں نے زمیں کو چھوڑا اور پھر‬
‫وہ اور ہیوال کمرے کی چھت پار کرکے فضا‬
‫میں اڑنے لگے‬

‫تھوڑا اوپر جانے کے بعد‪  ‬سفرینا دائیں‬


‫طرف کو اڑنے لگی ۔۔جب تک اس نے انسانی‬
‫آبادیوں کو نہیں چھوڑا وہ اڑتی جا رہی‬
‫تھی‬

‫انسانی آبادی سے نکل کر سفرینا ایک میدان‬


‫میں پہنچی تو سر اٹھا کر سورج کو دیکھا‬
‫۔۔۔اس کا چہرہ سورج کی طرف تھا‬

‫سفرینا نے مسکرا کر جلیل کے ہیولے کو‬


‫دیکھا اور پھر بجلی کی شکل اختیار کر لی‬

‫بجلی نے آسمان کی طرف اڑنا شروع کر دیا‬


‫اور اس کی منزل پہال آسمان تھی‬
‫کتنے ہی سورج اور ستارے اس کے رستے‬
‫میں آئے لیکن وہ کہیں بھی نہیں رکی ۔۔۔وہ‬
‫ناک کی سیدھ میں اڑے جا رہی تھی‬

‫یہ پہلی دفعہ تھا کہ سکندر کا ہیوال اور‬


‫جسم اس کے ساتھ آسمان کی بلندیوں میں‬
‫سفر کر رہے تھے‬

‫وہ سوچ رہی تھی کہ بس اب وہ وقت دور‬


‫نہیں جب سکندر دوبارہ سے زندہ ہو کر اس‬
‫کے ساتھ ہو گا‬

‫اب کی بار وہ ایک دفعہ بھی سکندر کو‬


‫اپنے سے الگ نہیں کرے گی۔۔چاہے کیسے‬
‫بھی حاالت ہوں وہ سکندر کا ساتھ نہیں‬
‫چھوڑے گی‬
‫ایسی ہی خیاالت میں مگن اسے پتا نہیں‬
‫چال کہ کب وہ آسمان کی آخری حد کے‬
‫قریب پہنچ چکی تھی‬

‫پتا اس وقت چال جب آسمان پر سے کچھ‬


‫شعلے اسے اپنی طرف آتے دکھائی دیے‬

‫نا مردود کی اوالد ۔۔تو پھر آ گئی۔۔۔۔میں‬


‫کہتا ہوں دفعہ ہو جا یہاں سے‬

‫ایک غیبی آواز آسمان کے اندھیرے میں‬


‫گونجی تھی ۔۔یہ آواز آسمان پر موجود‬
‫محافظوں میں سے کسی ایک کی تھی جو‬
‫جنات اور شیطانوں کو پہلے آسمان سے آگے‬
‫جانے سے روکنے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں‬

‫سفرینا اس دفعہ بھی یہ آواز سن کر ڈر‬


‫گئی لیکن اب اسے پتا تھا کہ کہاں جانا ہے۔۔‬
‫غیبی آواز سن کر‪  ‬وہ ہوا میں ہی معلق ہو‬
‫گئی اور پھر اپنے بائیں ہاتھ کی طرف اڑنا‬
‫شروع کیا‬

‫اس کے ایک ہاتھ میں سکندر کے اعضا والی‬


‫بوری تھی جبکہ دوسرے ہاتھ سے اس نے‬
‫جلیل کے ہیولے کو تھام رکھا تھا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫جالم اور سبزور اس وقت زنگوش کے‬


‫سامنے ہاتھ باندھے اور سر کو جھکائے‬
‫کھڑے ہوئے تھے جبکہ زنگوش ان پر خوب‬
‫گرج رہا تھا‬

‫تم دونوں سے ایک چھوٹا سا بھی کام نہ ہو‬


‫سکا اور میں سمجھتا تھا کہ ہمارے قبیلے‬
‫کے سب سے طاقتور اور چاالک جن تم‬
‫دونوں ہو۔۔۔‬

‫زنگوش نے غصے میں کہا‬

‫آقا ہم نے بہت دور دور تک جا کر دیکھا‬


‫لیکن ہمیں کوئی ایسا انسان یا جن نہیں‬
‫نظر آیا جس کو دیکھ کر لگتا کہ اس نے‬
‫ہمیں قبیلے کو آگ لگائی ہے‬

‫جالم نے سچائی دیتے ہوئے کہا‬

‫خاموش رہو تم دونوں ۔۔ایک تو کام نہیں‬


‫کر سکے اور دوسرا بہانہ بنا رہے ہو‬

‫سبزور۔۔۔۔۔زنگوش چالیا‬

‫جی آقا ۔۔۔۔تم میرے ساتھ چل رہے ہو اور‬


‫جالم یہیں رہ کر ہم دونوں کے واپس آنے کا‬
‫انتظار کرے گا‬

‫ٹھیک ہے آقا۔۔۔۔سبزور بوال‬

‫یہ کہہ کر زنگوش نے ہوا میں اڑان بھری‬


‫جس کے پیچھے سبزور نے بھی جست‬
‫لگائی تھی‬

‫وہ دونوں انسانی آبادیوں کی طرف جا رہے‬


‫تھے مگر سبزور نہیں جانتا تھا کہ ان کی‬
‫منزل کونسی ہے‬

‫سفر کے دوران کہی سمندر‪ ،‬جنگالت اور‬


‫بیابان‪  ‬بھی آئے لیکن وہ کہیں بھی نہیں‬
‫رکے تھے‬

‫آقا ہم کہاں جا رہے ہیں۔۔۔۔سبزور نے ڈرتے‬


‫ڈرتے پوچھا‬
‫میں اپنے بھائی کے پاس جا رہا ہوں۔۔ہم‬
‫اسے بھی یہ بری خبر سنائے گے اور اپنے‬
‫ساتھ واپس قبیلے لے چلیں گے تاکہ دشمن‬
‫کو ڈھونڈنے میں وہ ہماری مدد کرے‬

‫لیکن سلیمان کی پڑھائی ابھی مکمل نہیں‬


‫ہوئی ہے اور درگاہ شریف سے انہیں اجازت‬
‫مل جائے گی؟‬

‫کیوں نہیں ملے گی ۔۔۔ہمارا پورا قبیلہ آگ‬


‫میں جل گیا ہے سبزور اور تمہیں اجازت‬
‫کی پڑی یے۔۔اگر پڑھائی کو نامکمل چھوڑنا‬
‫بھی پڑا تو سلیمان کو کہہ کر چھڑوا دیں‬
‫گے۔۔۔سمجھے‬

‫جی ۔۔۔سمجھ گیا۔۔۔۔سبزور سہم گیا تھا‪ ‬‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫در خان اس وقت حجرے میں ایک سائل‬
‫کی بات سن رہا تھا اور سلیمان پاس ہی‬
‫بیٹھا ان دونوں کی گفتگو سن رہا تھا‬

‫بھائی صاحب۔۔۔آپ کی بات تو ٹھیک ہے‬


‫لیکن میں یہ سب کام نہیں کرتا ۔۔۔اگر بات‬
‫جنات کو بھگانے کی ہوتی تو ٹھیک تھا مگر‬
‫زمین میں موجود خزانے کی دھیگ نکالنا‬
‫یہ تو سراسر غلط بات ہے۔۔۔‬

‫در خان آنے والے آدمی سے معزرت کر رہا‬


‫تھا کہ اچانک حجرے میں تیز خوشبو‬
‫پھیلی اور یہ خوشبو سلیمان کی خوشبو‬
‫سے کافی مختلف تھی‬

‫سلیمان نے شاید کسی غیبی مخلوق کو‬


‫دیکھا تھا جو ان دونوں کو باتیں کرتا‬
‫چھوڑ کر باہر چال گیا‬

‫در خان آنے والے سائل سے معزرت کرکے‬


‫وضو کرنے چال گیا ۔۔اس کے واپس آنے پر‬
‫بھی سلیمان حجرے میں نہیں تھا‬

‫اہلل سلیمان کی طرف خیر کرے۔۔یہ کہہ کر‬


‫سلیمان حجرے میں پڑے مائیک کی جانب‬
‫مڑا اور ازان دینے لگا‬

‫ازان مکمل کرنے کے بعد بھی سلیمان کی‬


‫واپسی نہیں ہوئی تھی اور در خان یہ‬
‫دیکھ کر مسجد میں چال گیا‬

‫وہ سنت نماز کی نیت باندھ رہا تھا کہ‬


‫سلیمان کی خوشبو اسے محسوس ہوئ‬

‫اس نے نماز کی نیت توڑی اور ادھر ادھر‬


‫سلیمان کو دیکھنے لگا‬
‫سلیمان بھائی کو کچھ ضروری کام آ گیا ہے‬
‫جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر واپس چلے‬
‫گئے ہیں اور آپ کے لیے پیغام چھوڑا ہے کہ‬
‫وہ جلد آپ سے آکر ملیں گے‬

‫ایک غیبی آواز در خان کو سنائی دی جس‬


‫کے بعد خوشبو نے حجرے کی دہلیز پار کی‬
‫اور باہر چلی گیی‬

‫اس کی خوشبو سلیمان کی خوشبو جیسے‬


‫تھی۔۔یہ سوچنے کے بعد در خان نے دوبارہ‬
‫سے نیت باندھ لی‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫)فرینا۔۔۔قسط نمبر(‪)25‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫سفرینا کو آسمان میں اڑتے ہوئے آج چھٹا‬


‫دن تھا۔۔وہ لگاتار بغیر کہیں رکے اڑے جا‬
‫رہی تھی ۔۔۔جیسا کہ شیطان اعظم نے اسے‬
‫بتایا تھا کہ جب تک اسے سفید اور نیلے‬
‫رنگ کی زمین نظر نہ آئے اسے آگے اڑتے جانا‬
‫ہوگا۔۔۔سفرینا کو نہ ہی بھوک کا خیال تھا‬
‫نہ اور نہ ہی پیاس کا۔۔۔اس کا سکندر زندہ‬
‫ہونے جا رہا تھا ۔۔اس بات نے اس کی بھوک‬
‫اور پیاس مٹا دی تھی۔۔۔‬
‫کائنات کا سارا آسمان ایک کالی چادر میں‬
‫ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ‬
‫کوئی چکتا ستارہ اسے نظر آ جاتا تو کبھی‬
‫کوئی زمین اسے نظر آ جاتی ۔۔ایک مرتبہ تو‬
‫اس نے ایک چمکتی ہوئی زمین دیکھی‬
‫جس کی چمک نے اس کی آنکھوں کو‬
‫چھندیا دیا تھا ۔۔۔۔کچھ پل کے لیے تو اس‬
‫کے دل نے چاہا کہ اس زمیں پر جا کر‬
‫دیکھے لیکن پھر اسے سکندر کی یاد آ جاتی‬
‫تو وہ سوچنے لگ جاتی کہ اگر سکندر زندہ‬
‫ہوتا تو اس کے ساتھ یہاں آئے گی اور اسے‬
‫یہ زمین دکھائے گی۔۔ لیکن وہ تو انسان ہے‬
‫۔۔۔اول تو وہ اتنے دور تک آ نہیں سکے گا‬
‫لیکن اگر میں اپنی شکتیوں استعمال کر وں‬
‫تو ہوسکتاہے کہ وہ یہاں تک آ بھی جائے‬
‫اور زندہ بھی رہے ۔۔پھر ہم دونوں مل کر‬
‫اس چمکتی زمین کا نظارہ کریں گے۔۔اگر‬
‫اس زمین کی چمکنے کی وجہ قیمتی پتھر‬
‫ہوئے تو بہت سارے پتھر اپنے ساتھ زمین‬
‫پر لے جائیں گے‬

‫سفرینا اپنے ہی خیاالت میں اڑتی جا رہی‬


‫تھی کہ سامنے اسے ایک اور زمین نظر‬
‫آئی۔۔۔یہ زمین بھی چمک رہی تھی لیکن‬
‫اس کا رنگ زرد تھا۔۔۔یہ بھی کسی قیمتی‬
‫چیز سے بنی زمین ہے ۔۔۔۔کہیں یہ زمین‬
‫سونے کی تو نہیں بنی ہوئی ہے ۔۔۔‬

‫سفرینا نے دوبارہ سے سوچا‪   ‬شروع کیا‬


‫لیکن اچانک اس کی سوچوں کو بریک لگ‬
‫گئی۔۔سامنے ہی اسے وہ زمین نظر آ گئی‬
‫جس کے لیے وہ یہاں تک آئی تھی۔۔۔اس‬
‫زمین کا رنگ سفید اور نیال تھا اور یہی‬
‫اس کی منزل تھی۔۔۔‬

‫اپنی منزل کو قریب ہوتا دیکھ کر سفرینا‬


‫نے اپنی رفتار اور بڑھا لی۔۔۔اس کے ساتھ‬
‫جلیل کا ہیوال مکمل خاموش تھا کیونکہ یہ‬
‫اپنا جسم زمین پر چھوڑ آیا تھا تو اس‬
‫وقت صرف روح یا ہوا کا بنا جسم تھا‪ ‬‬
‫اسی لیےیہ جسم کوئی بات کرنے سے قاصر‬
‫تھا۔۔‬

‫سفرینا زمین کی مدار میں داخل ہو گئی‬


‫تھی ۔۔۔لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ اس‬
‫زمین کا کوئی سورج نہیں تھا مگر پھر‬
‫بھی اس زمین پر دن کی طرح روشنی تھی‬
‫۔۔اس بات نے سفرینا کی حیران تو کیا مگر‬
‫اسے اپنے کام سے کام رکھنا تھا ۔۔ان چکروں‬
‫میں پڑ کر وہ اپنا وقت ضائع نہیں کرنا‬
‫چاہتی تھی۔‬

‫جیسے جیسے سفرینا زمین کے قریب ہوتی‬


‫جا رہی تھی ۔۔۔فضا میں‪   ‬درجہ حرارت‬
‫گرتا جا رہا تھا۔۔۔اس بات نے سفرینا کو‬
‫حیرت میں ڈال دیا کیونکہ سفرینا کا اپنا‬
‫جسم سرد رہتا ہے لیکن اس زمین کے موسم‬
‫نے سفرینا کو جھٹکا دیا تھا۔۔۔‬

‫اگر ساٹھ دن تک سفرینا اس درجہ حرارت‬


‫میں جاپ کرتی ہے تو سردی کی وجہ سے‬
‫جلد ہی اس کا جسم ٹوٹ کر پھٹ جائے گا۔‬
‫لیکن میں جاپ ضرور پورا کروں گی۔۔۔میں‬
‫سکندر کے بغیر نہیں رہ سکتی ۔۔۔اگر میری‬
‫موت اسی زمین پر لکھی ہے تو مجھے‬
‫منظور ہے ۔۔۔یہ تو میرے لیے خوشی کی‬
‫بات ہوگی کہ میں سکندر کے ساتھ ہی اس‬
‫زمیں میں دفن ہو جاوں گی۔۔۔سفرینا اپنے‬
‫ہی خیاالت میں کھوئی زمین پر پہنچی‪ ‬‬
‫‪  ‬اور اس نے انسانی شکل اختیا ر کر لیا۔۔۔‬

‫زمین پر ہر‪  ‬جگہ سفید برف پڑی ہوئی‬


‫تھی۔۔۔اور کسی زندگی کا کوئی نام و نشان‬
‫نہیں تھا جس سے لگتا کہ یہاں کوئی‬
‫مخلوق‪  ‬رہتی ہے۔۔اس نے چاروں طرف‬
‫گھوم کر دیکھا لیکن سوائے زمین اور‬
‫پہاڑوں کے اسے کچھ اور نظر نہیں آیا ۔۔۔‬
‫ساری زمین اور پہاڑ برف سے ڈھکے ہوئے‬
‫تھے۔‬

‫کیا یہاں کوئی ایسا جگہ ہو سکتی ہے جہاں‬


‫پر درجہ حرارت نارمل یا زیادہ ٹھنڈا نہ‬
‫ہو۔۔۔سفرینا نے سوچا‬

‫لیکن جہاں تک اس کی نظریں جا رہی تھیں‬


‫۔۔ہر جگہ اسے سفیدی ہی سفیدی نظر آئی‬
‫۔۔۔یہ سفیدی یخ اور سرد برف کی وجہ سے‬
‫تھی۔۔۔‬

‫سفرینا تمہیں ا سی موسم میں‪  ‬جاپ مکمل‬


‫کرنا ہوگا۔۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے پہال قدم‬
‫اٹھا یا لیکن پہال قدم ہی اسے ہالنے کے لیے‬
‫کافی تھا۔۔‬
‫وہ کمر تک زمین پر پڑی برف میں دھنس‬
‫گئی تھی‬

‫اے ابلیس خیر کر۔۔۔۔سفرینا نے منہ سے بے‬


‫‪ ‬ساختہ آواز نکلی‬

‫ابلیس کہاں تمہاری مدد کرے گا سفرینا۔۔۔تم‬


‫نے اپنا غرور تو تھوڑ دیا ساتھ میں ابلیس‬
‫کی ناک بھی کٹوا دی ہے۔۔۔اگر ابلیس کو پتا‬
‫ہوتا کہ ایک دن تم یہ کام کرو گی تو تمہیں‬
‫‪ ‬بناتا ہی نہیں۔۔۔۔سفرینانے دھنسے ہوئےکہا‬

‫مجھے باہر نکالو۔۔۔سفرینا نے یہ الفاظ کہے‬


‫تو اس کے ساتھ موجود چیلوں نے سفرینا‬
‫کو کندھوں سے پکڑ کر کھینچا اور پھر ایک‬
‫جگہ پر ہلکی برف محسوس کرکے نیچے‬
‫اتار دیا۔۔۔‬
‫ارے۔۔۔۔یہ میں کیوں بھول گئی کہ میرا نام‬
‫سفرینا ہے سفرینا۔۔۔۔۔وہ خود کالمی کیے جا‬
‫رہی تھی۔۔۔‬

‫سفیرنا نے چاروں طرف دیکھ کر جاپ کے‬


‫لیے حصار کی جگہ منتخب کی اور وہیں‬
‫کھڑے کھڑے ہو کر اپنے گرد دائرہ کھینچا۔‬

‫دائرہ کھینچ کر اس نے سکندر کے جسم کے‬


‫اعضاء کو بوری سے باہر نکال کر نیچے‪ ‬‬
‫رکھ دیا۔۔۔اور پھر اس میں سے سر اور‬
‫سینے والے حصے اپنے سامنے رکھ کر باقی‬
‫ٹکڑے سائیڈ پر رکھ دیے۔۔‬

‫لیٹ جاو۔۔۔یہ بات سفرینا نے ہیولے سے کہی‬


‫تو ہیوال‪  ‬بھی خاموشی سے سفرینا کے‬
‫سامنے لیٹ گیا۔۔‬
‫یہ دونوں کام کرنے کے بعد سفرینا دوبارہ‬
‫سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔۔۔۔اپنے دونوں ہاتھ‬
‫فضا میں اٹھانے کے بعد اس کے لب ہلنا‬
‫شروع ہو گئے لیکن یہ‪  ‬سب کچھ لمحوں‬
‫کے لیے تھا۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا کے دونوں ہاتھ نیچے‬


‫گرے ۔۔۔چاروں طرف سے آگ بھڑک اٹھی‬
‫جس نے ارد گرد کی ساری چیزوں کو اپنی‬
‫لپیٹ میں لے لیا۔۔۔‬

‫کیونکہ یہ آگ سفرینا کی لگائی ہوئی تھی‬


‫اس لیے زمین پر پڑی برف پگھل کر پانی‬
‫میں تبدیل ہوئی اور پھر بھاپ بن فضا میں‬
‫غائب ہوتی گئی‬
‫ساری برف کو غائب ہونے میں دس منٹ‬
‫بھی نہیں لگے کہ سفرینا نے دوبارہ پڑھنا‬
‫شروع کیا اور پھر اچانک سے اپنے دونوں‬
‫ہاتھ اوپر اٹھا لیا۔۔‬

‫سفرینا کے ہاتھ اٹھتے ہی آگ غائب ہو گی‪ ‬‬


‫اور آگے کے ساتھ زمین پر پڑی برف بھی‬
‫غائب ہو چکی تھی۔۔۔اب سفرینا‪  ‬ایک نیلی‬
‫زمین پر کھڑی ہوئی تھی۔۔‬

‫اب میں بغیر رکے جاپ پڑھ سکتی ہوں۔۔۔۔‬


‫‪ ‬سفرینا نے سوچا‬

‫سفرینا جاپ کے حصار میں بیٹھی اور پھر‬


‫اس نے شیطان اعظم کا بتایا جاپ پڑھنا‬
‫شروع کیا ۔۔۔‬

‫ا س کی آنکھیں بند اور لب ہل رہے تھے۔‬


‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫زنگوش آخر مجھے بتاتے کیوں نہیں کہ کیا‬


‫بات ہے۔۔۔اور تم مجھے کیوں اپنے قبیلے لے‬
‫جا رہے ہو۔۔۔سلیمان نے اڑتے ہوئے زنگوش‬
‫سے پوچھا‬

‫میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ چل کر‬


‫سب کچھ خود دیکھو سلیمان۔۔۔۔زنگوش نے‬
‫‪ ‬اس کی طرف دیکھے بغیر کہا‬

‫وہ تینوں اس وقت فضا میں اڑ رہے تھے‬


‫اور سبزور ان دونوں کے پیچھے پیچھے اڑتا‬
‫آ رہا تھا‬

‫آپ نے مجھے اتنی مہلت بھی نہیں دی کہ‬


‫میں درگاہ شریف سے ہو کر آتا۔۔وہاں‬
‫موجود میرے استاد اور دوست میری غیر‬
‫موجودگی پر پریشان نہ ہو جائیں۔۔۔سلیمان‬
‫نے افسردہ انداز میں کہا‬

‫تم پریشان نہ ہو سلیمان۔۔۔سبزور تمہارے‬


‫سارے دوستوں کو بتا آیا ہے۔۔۔اب کوئی اور‬
‫سوال مت کرنا ۔۔۔بس میرے ساتھ اڑتے‬
‫رہو۔۔۔‬

‫زنگوش نے کہا ۔۔ سلیمان نے اسے کوئی‬


‫جواب نہیں دیا تھا۔۔‬

‫ابھی و ہ دونوں اپنے قبیلے سے کافی دور‬


‫تھے کہ سلیمان نے‪  ‬بے ترتیب کالی پہاڑیاں‬
‫اور جلے ہوئے جنگالت دیکھ لیے۔۔۔جو کہ‬
‫سب زمین بوس ہو چکے تھے‬

‫یہ پہاڑ اور جنگالت کالے کب سے ہو گئے‬


‫ہیں زنگوش ؟ سلیمان نے پوچھا لیکن‬
‫زنگوش نے کوئی جواب نہیں دیا‬

‫بلکہ سلیمان کی بات سن کر اس نے ہونٹ‪ ‬‬


‫بھینچ لیے تھے‬

‫جیسے جیسے وہ تینوں نزدیک بڑھتے جا‬


‫رہے تھے سلیمان کے دل کی دھڑکن بھی‬
‫بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔اس کے دل میں ہزار‬
‫وسوں نے جگہ لے لی تھی۔۔۔‬

‫زنگوش ۔۔۔بھائی اور گھر والےکیسے ہیں۔۔۔‬


‫خدا کے لیے مجھے بتاو۔۔۔۔سلیما‪  ‬ن نے‬
‫جیسے ہی پاوں زمیں پر رکھے ۔۔زنگوش‬
‫سے سوال پوچھ لیا‬

‫لیکن زنگوش کی جانب سے کوئی جواب نہ‬


‫مال تو سامنے بکھری پہاڑی کی جانب دوڑا‬
‫۔۔۔نزدیک پہنچ کر اس نے زور دار آواز‪  ‬سے‬
‫انگوش کو بالیا۔۔۔ لیکن اپنی کھوکھلی آواز‬
‫کے سوا اسے دوسری کوئی آواز نہیں سنائی‬
‫دی۔۔۔‬

‫وہ دوبارہ سے دوڑتا ہوا زنگوش کی طرف‬


‫آیا۔۔۔‬

‫زنگوش مجھے بتائیں کہ بھائی کہاں ہیں ۔۔۔‬


‫میرا دل ڈوبا جا رہا ہے۔۔۔کہیں کہیں بھائی‬

‫سلیمان نے بھائی کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا‬

‫اچانک زنگوش کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‬


‫۔۔۔اس نے بہتے آنسووں سے سر اثبات میں‬
‫‪ ‬ہالیا‬

‫نہیں۔۔۔۔سلیمان چیخا‬

‫یہ نہیں ہو سکتا زنگوش ۔۔۔یہ نہیں ہو سکتا‬


‫خدا کے لیے کہیں کہ یہ جھوٹ ہے ۔۔۔۔‬

‫سلیمان آپے سے باہر ہو گیا تھا‬

‫زنگوش نے سلیمان کو اپنے سینے سے لگا لیا‬

‫سلیمان خاموش ہو جاو۔۔۔۔جو ہونا تھا وہ‬


‫ہو گیا۔۔۔ہم نے دشمن کو ڈھونڈنا ہے ۔۔۔۔‬
‫زنگوش نے سینے سے لگے سلیمان سے کہا‬

‫کیا مطلب ۔۔۔یہ کسی انسان نے کیا ہے ۔۔۔یہ‬


‫بات سن کر سلیمان کو جھٹکا لگا تھا۔۔وہ‬
‫‪ ‬زنگوش سے الگ ہو گیا‬

‫مجھے نہیں معلوم کہ کس نے کیا ہے‬


‫سلیمان لیکن جس نے بھی کیا وہ سوچے‬
‫سمجھے کیا ہے۔۔۔۔زنگوش بوال‬
‫ارے خزانہ۔۔۔۔۔اچانک زنگوش کو امانت میں‬
‫رکھا خزانہ یاد آ گیا۔۔‬

‫سبزور جلدی جا کر دیکھو ۔۔۔خزانہ موجود‬


‫ہے یا کوئی لے گیا ہے ۔۔۔اور جالم کو بھی‬
‫ساتھ لیتے آو۔۔۔۔زنگوش نے کہا تو سبزور‬
‫بھاگتا ہوا بکھرے پتھروں پر چڑھ دوڑا۔۔۔‬

‫ساری جگہ پر چکر لگانے کے بعد وہ زنگوش‬


‫اور سلیمان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔‬

‫آقا۔۔۔خزانہ موجود ہے لیکن اپنی جگہ سے‬


‫ہٹا ہوا ہے۔۔۔سبزور نے کہا‬

‫اور جالم کہاں ہے ۔۔۔زنگوش نے پوچھا‬

‫ابھی جا کر دیکھتا ہوں آقا۔۔۔سبزور بوال اور‬


‫پھر دوبارہ پہاڑوں کی طرف چال گیا‬
‫بھائی مجھے شروع سے بتائیں کہ کیا ہوا‬
‫تھا۔۔۔سلیمان نے زنگوش سے کہا‬

‫مجھے کچھ بھی نہیں پتا سلیمان۔۔۔جب‬


‫میں یہاں آیا تو یہ جگہ ایسی ہی تھی‬
‫جیسی تم اب دیکھ رہے ہو۔۔۔اس کے بعد ہم‬
‫نے نزدیک کی ہر جگہ ڈھونڈا لیکن کچھ‬
‫بھی ایسا نظر نہیں آیا جس سے ہمیں پتا‬
‫چلتا کہ یہ کس نے کیا ہے ۔۔۔زنگوش نے‬
‫سنجیدہ لہجے میں کہا‬

‫بھائی ہو سکتا ہے کہ آسمانی بجلی گرنے‬


‫سے یہ جگہ ایسے ہو گئی ہو۔۔۔۔سلیمان نے‬
‫پوچھا‬

‫نہیں سلیمان ۔۔۔یہ بجلی یا زلزلے سے نہیں‬


‫ہوا ہے۔۔۔اگر بات صرف آسمانی بجلی کی‬
‫ہوتی تو شاید میں مان لیتا لیکن تم دیکھ‬
‫سکتے ہو کہ پہاڑوں کے ساتھ ساتھ زمین‬
‫بھی جلی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ‬
‫آسمانی بجلی بہت بڑی تھی جس نے ہر‬
‫چیز کو جالنے کے ساتھ ساتھ بکھیر بھی‬
‫دیا ۔۔۔لیکن تم یہ نہیں دیکھ رہے کہ یہ سب‬
‫چیزیں اپنی جگہ سے ہلی ہوئی ہیں۔۔۔چلو‬
‫زلزلے نے پہاڑی کو برابر کر دیا لیکن‬
‫جنگالت کی طرف صرف جلے لکڑیوں کے‬
‫نشانات ہیں۔۔‬

‫وہاں زلزلہ کا زرا سا بھی نشان نہیں ہے۔۔۔یہ‬


‫قدرت کا کام نہیں ہو سکتا سلیمان۔۔۔یہ‬
‫سب کسی شیطان جن کے کام ہیں ۔۔‬

‫زنگوش نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا‬


‫ہممم۔۔۔۔۔سلیمان نے کوئی بات نہیں کی‬

‫تو بھائی جس نے یہ سب کیا ہے ۔۔ہم اسے‬


‫کیوں نہیں پکڑ رہے ہیں۔۔۔سلیمان نے دوبارہ‬
‫پوچھا‬

‫ہمارے پاس اسکا کوئی نشان نہیں ہے‬


‫سلیمان جس سے ہمیں پتا چلے کہ یہ کس‬
‫نے کیا ہے۔اگر خزانہ غائب ہوتا تو بھی‬
‫مجھے لگتا کہ کوئی خزانے کے پیچھے آیا‬
‫ہے لیکن۔۔۔۔زنگوش نے اپنی بات ادھوری‬
‫چھوڑی دی‬

‫تو اب ہم کیا کریں گے بھائی ؟‬

‫ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے سلیمان ۔۔کچھ‬


‫بھی ۔۔سوائے اس کے کہ یہاں بیٹھ کر‬
‫انتظار کریں کہ کوئی آئے اور ہم اسے‬
‫پکڑیں۔۔۔ زنگوش نےمایوسی میں کہا‬

‫ہم اپنا گھر کھو چکے ہیں بھائی۔۔۔اپنا عزیز‬


‫کھو چکے ہیں۔۔۔ہمارا قبیلہ ختم ہو چکا ہے‬
‫بھائی۔۔۔ایسے میں ہم کیسے بیٹھے رہ سکتے‬
‫ہیں۔۔۔سلیمان نے جذباتی‪  ‬ہو کر کہا‬

‫تو ہم کیا کریں ۔۔ہاں۔۔۔بتاو ۔۔۔ہم کیاکریں۔۔۔۔‬


‫زنگوش نے سلیمان کو جھنجھوڑتے ہوئےکہا‬

‫آپ یہاں بیٹھے رہیں لیکن میں یہاں نہیں‬


‫بیٹھوں گا۔۔۔۔میں خود ڈھونڈوں گا کہ اس‬
‫کا زمہ دار کون ہے۔۔۔سلیمان نے غصے میں‬
‫کہا‬

‫تو جا کر ڈھونڈو‪  ‬سلیمان۔۔۔پتا ہے تم کیا‬


‫چاہتے ہو۔۔۔تم یہاں سے بھاگنا چاہتے ہو۔۔۔تم‬
‫چاہتے ہو کہ دوبارہ انسانی دنیا میں جا کر‬
‫اپنا وقت ضائع کرو۔۔۔تمہارے لیے گھر‪،‬‬
‫رشتے‪  ‬کچھ نہیں ہے ۔۔۔تم صرف اپنے لیے‬
‫جیتے ہو۔۔۔جاو ۔۔۔دفع‪  ‬ہو جاو میری نظروں‬
‫سے۔۔۔زنگوش نے چیختے ہوئے سلیمان کو‬
‫دھکا دیا۔۔‬

‫زنگوش کی باتیں سن کر سلیمان‪  ‬کی‬


‫آنکھیں بھر آئیں لیکن اس کی آنکھوں سے‬
‫آنسو پھر بھی نہیں نکلے۔۔۔وہ زنگوش کو‬
‫روتی آنکھوں سے دیکھتا ہوا مڑا اور پھر‬
‫کوئی بات کیے بغیر اڑ گیا۔۔‬

‫۔‬

‫وہ دوبار ہ سے در خان کی طرف جا رہا‬


‫تھا۔۔۔۔اس کے سامنے صرف ایک ہی نام تھا‬
‫جس سے وہ اپنی کوئی بات شئیر کر سکتا‬
‫ہے اور وہ نام در خان کا تھا‬

‫انسانی آبادی میں پہنچ کر اس نے درخان‬


‫کے حجرے کی طرف رخ کر لیا۔۔۔‬

‫حجرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی درخان‬


‫کو بیٹھے پایا جو اہلل کے زکر میں آنکھیں‬
‫بند کیے تسبیح پڑھ رہا تھا‬

‫سلیمان کی خوشبو در خان نے محسوس کر‬


‫لی تھی ۔۔۔اس کے تسبیح پڑھتی انگلیاں‬
‫رک گئیں۔۔۔‬

‫آ گئے سلیمان۔۔۔در خان نے آنکھیں کھولتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫لیکن سلیمان نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ‬


‫اب ابھی زنگوش کی باتوں کی وجہ سے‬
‫غصے میں تھا‬

‫سلیمان ہو ؟۔۔۔درخان نے دوبارہ پوچھا۔۔۔‬


‫اس نے سوچا کہ یہ سلیمان نہیں ہے بلکہ‬
‫‪ ‬کوئی دوسرا جن ہے‬

‫سلیمان ہی ہوں درخان۔۔۔۔سلیمان نے اکتائے‬


‫لہجے میں کہا‬

‫کیا ہوا سلیما ن ۔۔۔خیر تو ہے نا۔۔۔تم بتائے‬


‫بغیر بھی چلے گئے اور اب بھی تمہارا موڈ‬
‫ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔درخان نے پوچھا‬

‫ہمارے قبیلے پر کسی نے حملہ کیا ہے درخان‬


‫۔۔جس میں میرے بھائی اور سارے قبیلے‬
‫والے مر گئے ہیں۔۔۔میں نے جب اپنے بھائی‬
‫زنگوش سے کہا کہ میں خود دشمنوں کو‬
‫ڈھونڈوں گا تو وہ مجھ پر برہم ہو گئے۔۔۔۔‬
‫وہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے بس گھومنے‬
‫پھرنے دیا جائے میں کسی کام کا نہیں ہو‬
‫در خان۔۔۔‬

‫سلیمان نے روہانسی آواز میں کہا‬

‫اوہ۔۔۔ یہ تو بہت برا ہوا سلیمان ۔۔۔۔ درخان‬


‫نے افسوس کرتے ہوئے کہا لیکن پھر اسے‬
‫‪ ‬یاد آیا کہ سلیمان کا موڈ بھی خراب ہے‬

‫ارے نہیں سلیمان تم بلکل بھی ایسے نہیں‬


‫ہو۔۔۔تم بہت اچھے ہو اور تمہارے بھائی‬
‫بھی بہت اچھے ہیں۔۔۔وہ غصے میں تھے‬
‫اس لیے ایسا کہا اس نے ۔۔۔تم خود سوچو‬
‫اتنے بڑے جانی نقصان کے بعد کوئی انسان‬
‫کیسے صحیح سے بات کر سکتا ہے۔۔۔۔‬
‫لیکن در خان۔۔۔۔وہ میرے بھی بھائی تھے۔۔۔‬
‫میرا بھی گھر تھا۔۔دوست تھے ۔۔مجھے بھی‬
‫افسوس ہے لیکن ۔۔۔۔۔سلیمان ابھی تک اپنے‬
‫بھائی کی بات پر برہم تھا‬

‫سلیمان تم بلکل بھی نہ سوچو۔۔۔دیکھنا وہ‬


‫خود ٹھیک ہو جائیں گے ۔۔اور تمہیں انہیں‬
‫چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔۔۔اگر دشمن‬
‫پھر آ گئے اور انہوں نے دوبارہ سے حملہ کر‬
‫دیا تو ؟ در خان نے اپنی بات کو ادھورا‬
‫چھوڑ دیا۔۔۔اس کی بات میں وزن تھا جس‬
‫نے سلیمان کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا‬

‫درخان تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔جیسے بھی ہو‬


‫ہو میرے بھائی ہیں۔۔اور اب میں انہیں‬
‫نہیں کھونا چاہتا ہوں۔۔۔لیکن مجھے بتاو کہ‬
‫میں دشمنوں کو کیسے ڈھونڈوں در خان۔۔۔‬

‫تم سب سے پہلے مجھے ساری بات بتاو ۔۔۔‬


‫پھر میں سوچتا ہوں کہ تم نے کیا کرنا ہے ۔۔‬
‫درخان نے کہا تو سلیمان اسے ساری بات‬
‫اور وہاں کے حاالت بتانے لگا کہ اس کی‬
‫بھائی اور قبیلے والوں کی موت کیسے‬
‫ہوئی تھی‬

‫ہممم۔۔۔۔۔درخان نے سوچتے ہوئے آواز نکالی‬

‫تمہیں کیا لگتا ہے در خان یہ کس کا کام ہو‬


‫سکتا ہے۔۔۔۔؟ سلیمان نے پوچھا‬

‫جہاں تک میرا خیال ہے یہ کسی انسان کا‬


‫کام نہیں ہے ۔۔۔اگر انسان نے ایسا کیا ہے تو‬
‫اس کے ساتھ کوئی اور بھی طاقت ہے ۔۔۔۔‬
‫تم خود سوچو ایک انسان اتنے بڑے پیمانے‬
‫پر کیسے آگ لگا سکتا ہے اور پھر آگ لگانے‬
‫کے بعد پہاڑوں کو تہس نہس بھی کر دیتا‬
‫ہے۔۔۔درخان نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا‬

‫تو اب ہم کیا کریں درخان۔۔۔۔؟ سلیمان‪  ‬نے‬


‫پوچھا‬

‫وہ لوگ خزانے کو ہاتھ نہیں لگا کر گئے ہیں‬


‫۔۔۔ اس کے دو ہی مطلب نکلتے ہیں کہ جس‬
‫نے یہ کیا ہے وہ لوگوں کو تو مارنے میں‬
‫کامیاب ہو گیا لیکن کسی وجہ سے خزانہ‬
‫حاصل نہ کر سکا‬

‫یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے قبیلے کے‬


‫کسی جن کا اس سے مقابلہ ہوا ہو جس‬
‫میں اس نے بھی چوٹ کھائی اور ڈر کر‬
‫بھاگ گیا‬

‫در خان صحیح سمت میں سوچ رہا تھا‬

‫تو پھر اب کیا کریں در خان؟ سلیمان نے‬


‫پوچھا‬

‫وہی جو تمہارے بھائی نے کہا یعنی انتظار۔۔‬

‫یہ انتظار ہی تو مجھ سے نہیں ہو رہا در‬


‫خان۔۔۔۔سلیمان بدلہ لینے کے لیے جزباتی ہو‬
‫رہا تھا‬

‫کرنا پڑے گا سلیمان۔۔۔کرنا پڑے گا‬

‫اچھا۔۔۔۔سلیمان نے مایوسی میں کہا‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫​سفرینا ۔۔۔قسط نمبر (‪...)26‬از ابن نصیر‬

‫اچھا چلو میں انتظار کرتا ہوں بس۔۔۔لیکن‬


‫اس کے عالؤہ کیا کروں۔۔۔۔سلیمان اب تھوڑا‬
‫نارمل ہو گیا تھا‬

‫ہممم۔۔۔۔۔۔اچھا‪  ‬میں تمہاری تھوڑی مدد کر‬


‫دیتا ہوں۔۔‬

‫تم یہاں واپس اکیلے آئے ہو یا تمہارے‬


‫بھائی بھی تمہارے ساتھ آئے ہیں؟‬

‫ابھی بتایا تو‪  ‬بھائی وہیں انتظار کر رہیے‬


‫ہیں۔۔۔سلیمان نے جواب دیا‬

‫بھائی وہاں اکیلے ہیں یا کوئی اور بھی‬


‫ساتھ ہے۔۔۔در خان نے دوسرا سوال کیا‬
‫نہیں ہمارے قبیلے کے دو اور لوگ بھی بچ‬
‫گئے تھے جو ابھی وہیں بھائی کے ساتھ‬
‫ہیں۔۔۔۔‬

‫تو تم ایسا کرو کہ ان میں سے کسی ایک‬


‫کو کہہ دو کہ جیسے ہی کچھ ہوتا ہے وہ‬
‫تمہیں ضرور بتائے۔۔پھر تم بھی بھائی کی‬
‫مدد کرنے چلے جانا۔۔۔۔‬

‫ہاں ۔۔۔یہ بھی ٹھیک رہے گا درخان۔۔۔۔‬


‫سلیمان در خان کے مشورے پر راضی ہو گیا‬
‫تھا‬

‫کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی ۔۔شاید‬


‫سلیمان اپنے قبیلے والوں سے رابطے میں‬
‫تھا‬
‫بتا دیا میں نے انکو۔۔۔ سلیمان کی آواز آئی‬
‫۔۔اس نے جالم سے رابطہ کرکے اسے اطالع‬
‫دینے کا کہا تھا‬

‫اچھا در خان ۔۔۔میرے دماغ میں کچھ‬


‫سواالت تھے اگر تم جواب دو تو میں پوچھ‬
‫‪ ‬لوں؟ در خان نے پوچھا‬

‫بلکل پوچھ سکتے ہو در خان۔۔۔انسانی دنیا‬


‫میں تم ایک ہی میرے دوست ہو جس سے‬
‫میں ملتا ہوں۔۔بات کرتا ہوں‬

‫میں تمہیں کیوں نہیں دیکھ سکتا۔۔مطلب‬


‫اگر میں دیکھنا چاہوں تو؟؟‬

‫در خان تمہیں یہ تو پتا ہے نا ۔۔میں ایک جن‬


‫ہوں اور جنات میں مسلمان ہوں۔۔۔اصل میں‬
‫اہلل تعالٰی نے ہم جنات کو انسانوں سے‬
‫ہزاروں سال پہلے پیدا فرمایا ہے۔۔اور ہم‬
‫جنات کی عمریں بھی انسانوں سے کافی‬
‫زیادہ ہوتی ہے۔۔ہم کھانا پینا‪ ،‬رہنا سب الگ‬
‫ہوتا یے۔۔۔اگر میں کیوں کہ ہماری دنیا تم‬
‫لوگوں سے بہت آگے ہے تو شاید تم سمجھ‬
‫جاؤ۔۔‬

‫جیسے ہماری دنیا الگ ہے ویسے ہی ہماری‬


‫دنیا کے قانون الگ ہیں۔۔ہم جنات میں‬
‫مسلمان ‪ ،‬کافر ‪ ،‬ہندو‪ ،‬عیسائی سب ہوتے‬
‫ہیں لیکن ہم سب پر ایک قانون ایک ہی‬
‫چلتے ہیں‬

‫کیا مطلب سلیمان کہ قانون ایک ہی چلتے‬


‫ہیں۔۔در خان اب غور سے سلیمان کی باتیں‬
‫سن رہا تھا‬
‫ہممم۔۔۔جیسا کہ ہم جنات کی آبادی انسانوں‬
‫سے زیادہ ہے اور‪  ‬ابھی تمہیں بتایا کہ ہمیں‬
‫اہلل نے انسانوں سے پہلے تخلیق فرمایا تھا‬
‫۔۔۔لیکن زیادہ آبادی ہونے اور غائب رہنے کے‬
‫با وجود بھی ہم کسی انسان کو تنگ نہیں‬
‫کر سکتے‪  ‬جب تک کوئی انسان ہمیں تنگ‬
‫نہ کرے‬

‫ہم جنات میں کچھ برے جنات بھی ہوتے‬


‫ہیں اور وہ انسانوں کے دشمن ہوتے ہیں‬
‫لیکن پھر بھی وہ انسان کو مار یا قتل نہیں‬
‫کر سکتے ہیں‬

‫اچھا۔۔۔۔در خان نے مختصر جواب دیا‬

‫سلیمان کیا شیطان جنات سے طاقتور ہوتے‬


‫ہیں ؟‬
‫ہاہاہاہا۔۔۔۔در خان تمہیں سب سے پہلے‬
‫شیطان کی تعریف سمجھ لینی چاہیے ۔۔۔ہر‬
‫وہ انسان اور جن شیطان ہوتا ہے جس میں‬
‫انا‪ ،‬بال وجہ کا غصہ اور ضد ہوتی ہے۔۔۔ایک‬
‫سجدہ ہی تھا جس کا انکار کرکے شیطان‬
‫مردود ہوا تھا‬

‫طاقتور صرف اہلل کی زات ہوتی ہے در‬


‫خان۔۔۔جب تک اہلل کی مصلحت ہوتی ہے‬
‫کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔یہی تو وہ جگہ ہوتی‬
‫ہے کہ جہاں اہلل برے جنات اور شیطانوں‬
‫کو ڈھیل دیتا ہے اور اہلل یہ صرف اپنے‬
‫بندوں کی آزمائش اور صبر دیکھنے کے لیے‬
‫کرتا ہے‬
‫کبھی تم خود دیکھو گے کہ جب اہلل کا‬
‫بندہ اس کی آزمائش پر صبر کر لیتا ہے تو‬
‫کتنی جلدی اہلل کی مدد آن پہنچتی ہے۔۔۔‬

‫جب کوئی برا جن یا ظالم انسان برا کر رہا‬


‫ہوتا ہے تو وہاں اہلل برے کو ڈھیل دیتا ہے‬
‫کہ شاید توبہ کر لے اور اہلل کی طرف لوٹ‬
‫آئے اور اچھے کی اس لیے آزمائش کرتا ہے‬
‫تاکہ آخرت میں اس کا مرتبہ بلند ہو‬

‫سبحان اہلل۔۔۔۔بے اختیار در خان کی زبان‬


‫سے اہلل کی تعریف نکلی‬

‫سلیمان پہلے میں ایک ہندو ہوا کرتا تھا‬


‫لیکن پھر ایک بزرگ کے ساتھ جڑ جانے پر‬
‫میں دین اسالم سے متاثر ہوا اور مسلمان‬
‫بن گیا۔۔۔تو میرا سوال یہ ہے کہ اہلل نے‬
‫مجھے کسی مسلمان کے گھر کیوں پیدا‬
‫نہیں کیا ۔۔۔اگر میں مسلمان کے گھر پیدا‬
‫ہوتا تو اہلل کی زیادہ عبادت کرتا ۔۔۔مجھے‬
‫کافر کے گھر کیوں پیدا کیا؟۔۔۔در خان نے‬
‫پوچھا اس وقت سلیمان کے سامنے در خان‬
‫ایک بچہ بن کر بیٹھا ہوا تھا جس کو کچھ‬
‫بھی نہیں معلوم تھا‬

‫در خان اہلل تعالٰی اپنی کتاب کی سورہ‬


‫االعراف میں فرماتے ہیں کہ جب اہلل نے‬
‫آدم کی اوالد کو پیدا کیا تو اس سے ایک‬
‫عہد لیا اور وہ عہد یہ ہے کہ وہ اہلل کا بندہ‬
‫یعنی اہلل کے واحدانیت کا اقرار کرتا ہے‬
‫یعنی ہر بندہ پیدائش سے پہلے مسلمان ہوتا‬
‫ہے۔۔جب وہ انسانی روپ میں کسی بھی‬
‫مذہب میں پیدا ہوتا ہے تو پھر اہلل اس کو‬
‫اپنا نعمتیں اور نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ وہ‬
‫‪ ‬بندہ اہلل کو پہچانے‬

‫اور تم کو بتا دوں کہ ایک نو مسلم کا رتبہ ‪،‬‬


‫پیدائشی مسلمان سے زیادہ بلند ہوتا ہے۔۔۔‬

‫وہ کیسے سلیمان؟؟؟؟‬

‫وہ ایسے کہ پیدائشی مسلمان اپنا مذہب‬


‫اپنے گھر والوں سے لیتا ہے لیکن کچھ جان‬
‫کر جو مسلمان ہوتا ہے وہ اہلل کو دیکھتا‬
‫ہے‪ ،‬اسکی نعمتوں ‪ ،‬رحمتوں اور نشانیوں‬
‫کو دیکھتا ہے اور پھر مسلمان ہوتا ہے‬

‫اوہ۔۔۔اب میں سمجھا۔۔۔در خان نے سمجھتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫لیکن سلیمان اگر میں پیدائشی مسلمان ہوتا‬


‫تو میں زیادہ عبادتیں کرتا۔۔۔۔در خان نے اگال‬
‫سوال کیا‬

‫در خان تم شاید نہیں جانتے کہ کائنات میں‬


‫موجود ہر مخلوق اہلل کی عبادت کرتی ہے‪،‬‬
‫آسمان پر موجود فرشتے ہر وقت اہلل کی‬
‫ثنا کرتے ہیں‪ ،‬زمیں پر موجود پتا پتا اہلل‬
‫کی بندگی کر رہا یے۔۔۔‬

‫اہلل کو ہماری عبادتوں سے مطلب نہیں۔۔اس‬


‫کی عبادت کرنے کے لیے بہت سی مخلوق‬
‫ہیں۔۔۔اہلل یہ چاہتا ہے کہ آدم کی اوالد اہلل‬
‫کو بغیر دیکھے جانے‪ ،‬اس سے رحم کی‬
‫طلب کرے‬

‫ہم میں سے کوئی بھی اپنی عبادتوں کے بل‬


‫بوتے پر جنت میں نہیں جائے گا جب تک‬
‫اہلل کی رحمت ساتھ نہ ہو ۔۔تو تم عبادتوں‬
‫میں اہلل سے رحم بھی مانگا کرو۔۔یہی‬
‫تمہیں کامیاب کرے گی‬

‫زبردست سلیمان زبردست۔۔۔اب مجھے‪ ‬‬


‫سمجھ آیا کہ اہلل مجھ سے کیا چاہتا ہے‬
‫اور میں اتنے وقت تک اہلل سے کیوں دور‬
‫تھا‬

‫در خان نے جوش اور جزبات میں کہا‬

‫اچھا سلیمان۔۔۔۔میں اگر تم سے ایک بات‬


‫کہوں تو مانو گے؟‬

‫کہو در خان۔۔اگر میرے بس میں ہوا تو میں‬


‫ضرور مانوں گا۔۔۔‬

‫اگر میں کہوں کہ میں تمہیں دیکھنا چاہتا‬


‫ہوں تو کیا تم مجھے اپنا اصل روپ‬
‫دکھاوگے۔۔۔۔در خان نے عجیب سوال کر دیا‬
‫در خان۔۔انسان ہمیں اصل شکل میں نہیں‬
‫دیکھ سکتا ۔۔۔ہو سکتا ہے کہ تم برداشت نہ‬
‫کر سکو اور تمہاری موت ہو جائے لیکن میں‬
‫تمہارے سامنے انسانی روپ میں ضرور آ‬
‫سکتا ہوں‬

‫در خان نے مایوسی میں اچھا کہا۔۔۔۔لہکن‬


‫پھر اس کے دل میں خواہش جاگی‬

‫چلو انسانی روپ میں ہی سامنے آ جاو۔۔۔در‬


‫خان نے اپنی خواہش بتائی‬

‫اچھا ۔۔ٹھیک ہے ۔۔۔سلیمان نے جب یہ کہا تو‬


‫در خان تجسس کے مارے سیدھا ہو کے‬
‫بیٹھ گیا‬

‫وہ آواز کی سمت دیکھ رہا تھا کہ اب کیا‬


‫ہوتا ہے‬
‫اچانک اس کے سامنے ایک نوجوان لڑکا‬
‫نمودار ہوا ۔۔۔جس نے سفید رنگ کا لباس‬
‫پہن رکھا تھا۔۔۔سر پر لمبے بال‪  ‬کندھے تک ا‬
‫رہے تھے‪ ,‬نورانی سفید چہرہ‪،‬زلفیں کانوں‬
‫سے ہو کر گالوں کو چھو رہی تھی۔۔۔۔بڑی‬
‫بڑی آنکھیں جو سلیمان پر خوبصورت لگ‬
‫رہی تھیں۔۔۔ہلکی ہلکی مونچھیں اور ٹھوڑی‬
‫پر داڈھی کے چند بال‬

‫سلیمان سامنے بیٹھا مسکراتا ہوا در خان کو‬


‫دیکھ رہا تھا‬

‫در خان تو جیسے سلیمان‪  ‬میں کھو سا گیا‬


‫تھا۔۔۔۔‬

‫کیا ہوا در خان۔۔۔۔کہاں کھو گئے؟‬


‫سلیمان نے جب یہ کہا تو درخان نے جھٹکا‬
‫کھایا ایسا لگا جیسے وہ نیند سے جاگا ہو‬

‫سلیمان تم بے حد خوبصورت ہو ۔۔۔۔بس‬


‫میں یہ کہوں گا کیونکہ مجھے سمجھ نہیں‬
‫آ رہی کہ تمہاری تعریف کیسے کروں‬

‫ہاہاہاہا۔۔۔۔شکریہ در خان لیکن یہ میرا‬


‫انسانی روپ ہے ۔۔۔‬

‫‪ ‬سلیمان نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫سلیمان جب ہنسا تو اس کے چمکتے موتی‬


‫والے دانت اور پتلے گالبی ہونٹ دیکھ کر در‬
‫خان کھو سا گیا‬

‫اب دوبارہ کھو نا جانا در خان۔۔۔نہیں تو‬


‫میں چال جاتا ہوں‬
‫سلیمان اب بھی مسکرائے جا رہا تھا‬

‫سب تعریف اہلل کے لیے ہیں سلیمان۔۔۔میں‬


‫سوچ رہا تھا کہ جب اہلل کی تخلیق اتنی‬
‫خوبصورت ہے تو خود اہلل کتنا حسین ہو گا‬

‫بیشک درخان۔۔۔اہلل اپنے آپ میں ‪ ،‬اپنی‬


‫رحمتوں میں بلکہ اپنی ساری صفات میں‬
‫حسین ترین ہے‬

‫بیشک۔۔۔در خان نے کہا‬

‫ابھی در خان یہ باتیں کر رہے تھی کہ‬


‫حجرے کے باہر کسی گاڑی کے رکنے کی آواز‬
‫آئی‬

‫آواز سن کر سلیمان اپنی جگہ سے غائب ہوا‬


‫اور وہیں کھڑا رہ کر کسی کے اندر آنے کا‬
‫‪ ‬انتظار کرنے لگا‬
‫دو منٹ نہیں گزری کہ ایک چالیس سالہ‬
‫تندرست آدمی ‪ ،‬ایک عورت کے ساتھ‬
‫حجرے کے دروازے پر کھڑا نظر آیا‬

‫کیا ہم اندر آ سکتے ہیں مولوی صاحب۔۔۔‬


‫‪ ‬آدمی نے بلند آواز میں اجازت چاہی‬

‫بلکل آ پ اندر آ سکتے ہیں محترم۔۔۔در خان‬


‫اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا‬

‫آنے والے آدمی اور عورت نے اپنے جوتے‬


‫حجرے کی دیوار کے ساتھ اتارے اور ننگے‬
‫پاؤں ہی در خان کی جانب بڑھے۔۔‬

‫اسالم علیکم۔۔۔آنے والے آدمی نے در خان کی‬


‫طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا‬

‫درخان نے بھی اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سالم‬


‫کا جواب دیا‬
‫میرے ساتھ آئیں۔۔یہ کہہ کر در خان حجرے‬
‫کے صحن میں موجود کمرے کی جانب بڑھا‬
‫۔۔۔‬

‫دونوں میاں بیوی بھی در خان کے پیچھے‬


‫چل دیے‬

‫دروازے کے قریب پہنچ کر در خان نے‪ ‬‬


‫‪ ‬کنڈی ہٹائی اور اندر داخل ہوا‬

‫دونوں میاں بیوی بھی در خان کے پیچھے‬


‫اندر داخل ہوئے‬

‫یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس میں در‬


‫خان کے استعمال کی کچھ چیزیں اور‬
‫درمیاں میں چٹائی بچھائی ہوئی تھی‬

‫آپ لوگ بیٹھیں۔۔۔میں آپ لوگوں کے لیے‬


‫پینے کا پانی التا ہوں‬
‫در خان نے کہا‬

‫مولوی صاحب آپ تکلف نہ کریں۔۔۔۔ہم یہاں‬


‫اپنا مسلئہ لے کر آئے ہیں اگر آپ ہمارا مسلئہ‬
‫سن لیں اور ہماری مدد کر دیں تو یہی آپکا‬
‫ہم پر احسان ہوگا۔۔۔‬

‫آدمی نے بیٹھنے کے بعد کہا۔۔اس کے ساتھ‬


‫ہی بیوی بھی چٹائی پر بیٹھ گئی تھی‬

‫اچھا۔۔۔چلیں صحیح ہے۔۔یہ کہہ کر در خان‬


‫بھی ان کے سامنے بیٹھ گیا‬

‫جی تو جناب اب بتائیں آپ کو کیا پریشانی‬


‫ہے؟‬

‫در خان نے پوچھا‬


‫میرا نام جنید خان ہے اور یہ میری بیگم‬
‫ہیں۔۔۔ہماری شادی کو دس سال ہونے کو ہیں‬
‫۔۔۔ ہمیں اوالد بھی ہوئی لیکن چار بچوں‬
‫میں سے ایک بھی بچہ بچ نہیں سکا جو‬
‫بھی بچہ پیدا ہوا ۔۔۔پیدائش کے دوسرے دن‬
‫ہی فوت ہو گیا۔۔۔پہلے ہم نے سمجھا کہ‪ ‬‬
‫ہمیں کوئی بیماری ہے لیکن ملک کے تمام‬
‫ڈاکٹروں کے دکھانے کے بعد بھی بیماری‬
‫سمجھ نہیں آئی۔۔ہم میاں بیوی مکمل‬
‫تندرست ہیں لیکن پتا نہیں کیا وجہ تھی‬
‫کہ اوالد بچ نہ سکی۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ‪ ‬‬
‫میرا کاروبار بھی مکمل ٹھپ ہو گیا ۔۔ایک‬
‫وقت تھا کہ دن کے ہزاروں میں کما لیتا تھا‬
‫اور پھر ایسی نحوست پڑی کہ ادھار کی‬
‫نوبت آ گئی۔۔۔اب اپنا دوسرا گھر بیچ کر‬
‫زندگی کی گاڑی کو گھسیٹ رہا ہوں۔۔۔‬

‫آپ کے بارے میں جان کر مجھے‪  ‬بے حد‬


‫افسوس ہوا۔۔۔لیکن آپ میرے پاس کیوں‬
‫آئے ہیں۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬

‫جنید خان نے ایک لمبی سی سانس لی‪  ‬اور‬


‫پھر بولنے لگا‬

‫مولوی صاحب ۔۔۔میں پڑھا لکھاانسان ہوں‬


‫اور مجھے تعویز گھنڈوں پر بلکل بھی یقین‬
‫نہیں لیکن کچھ عرصے سے میرے دوست‬
‫اور بیگم بھی یہی کہہ رہی ہے کہ میں‬
‫کسی مولوی سے بات کروں۔۔۔آپ پہلے‬
‫انسان نہیں جن کے پاس میں اپنا مسلئہ لے‬
‫کر آیا ہوں ۔۔میں کافی مولویوں کے پاس‬
‫گیا لیکن انہوں نے‪  ‬پیسے لینے کے سوا کچھ‬
‫بھی نہیں کیا۔۔۔جب آپ کا نام سنا تو میں‬
‫اور میری بیوی آخری امید سمجھ کر آپ‬
‫کے پاس آئے۔۔‬

‫آپ پریشان نہ ہوں جنید صاحب۔۔۔اہلل‬


‫تعالی بہترین کرنے واال ہے ۔۔۔ در خان نے‬
‫پوری بات سن کر کہا‬

‫کیا آپ دونوں کی پسند کی شادی ہے ؟‬


‫درخان نے پوچھا‬

‫جی ہاں مولوی صاحب۔۔۔ہم دونوں کی‬


‫پسند کی شادی ہے اور اس شادی کے لیے‬
‫میں اپنے سار ے خاندان کے خالف گیا تھا‬
‫۔۔۔کوئی بھی اس شادی کے حق میں نہیں‬
‫تھا لیکن میرے پاس اپنا کاروبار تھا‪  ‬اس‬
‫لیے چند دوستوں کے ساتھ ہی نکاح کرکے آ‬
‫گیا ۔۔۔‬

‫ہممم۔۔۔۔۔۔در خان نے کچھ نہ کہا۔‬

‫در خان اس سے پوچھو کہ ہم اس کے گھر‬


‫چل سکتے ہیں۔۔۔وہاں جا کر میں دیکھوں گا‬
‫کہ اس کا کیا مسلئہ ہے۔۔۔سلیمان نے درخان‬
‫‪ ‬کو کہا‬

‫اگر آپ کو اعتراض نہ ہو تو میں آپ کا گھر‬


‫دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔کیا پتا سچ میں کوئی‬
‫تعویز وغیرہ کیا گیا ہو۔۔۔۔در خان نے‬
‫‪ ‬سلیمان کی بات سننے کے بعد کہا‬

‫بلکل بھی نہیں۔۔۔ہم میاں بیوی کو کوئی‬


‫اعتراض نہیں ہے مولوی صاحب بلکہ ہمیں‬
‫خوش ہوئی کہ آپ وقت نکال کر ہمارے‬
‫ساتھ چلیں گے۔۔۔جنید خان نے مسکرائے‬
‫ہوئے کہا‬

‫تو پھر چلیں ۔۔۔ابھی چل کر دیکھتے ہیں کہ‬


‫کیا بات ہے۔۔۔در خان بوال تو جنید خان‬
‫جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ساتھ میں اس‬
‫کی بیوی بھی اٹھ کھڑی ہوئی تھی‬

‫آپ دونوں چلیں ۔۔میں زرا حجرے کو بند‬


‫کر لوں۔۔۔۔در خان نے کہا تو دونوں میاں‬
‫بیوی حجرے کے کمرے سے نکلے اور جوتے‬
‫پہن کر باہر چلے گئے۔‬

‫در خان نے حجرے کے کمرے کو کنڈی لگائی‬


‫اور پھر باہر نکل کر حجرے کی کنڈی بھی‬
‫چڑھا ئی ۔۔۔گاڑی کے قریب پہنچا تو دونوں‬
‫میاں بیوی سامنے کی سیٹ پر بیٹھ چکے‬
‫تھےیہ دیکھ کر در خا ن نے پچھلی سیٹ کا‬
‫دروازہ کھوال اور اندر بیٹھ گیا‬

‫در خان کے بیٹھتے ہی جنید خان نے گاڑی آ‪ ‬‬


‫گے بڑھا دی‬

‫معاف کیجیے گا جنید صاحب۔۔۔آپ کس‬


‫شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔در خان نے‬
‫بیٹھے بیٹھے پوچھا‬

‫میں آپ کے پڑوسی گاوں سے آیا ہوں‬


‫مولوی صاحب۔۔۔۔جنید خان نے بیک مرر‬
‫میں دیکھتے ہوئے اپنے گاوں کا نام بتایا ۔‬

‫یہ گاوں صرف نام کا تھا کیونکہ اس میں‬


‫وہ ساری سہولتیں موجود تھیں جو ایک‬
‫جدید شہر میں ہوتی ہیں۔۔۔اونچے‬
‫اونچےمنزلہ گھر‪ ،‬پکے روڈ‪ ،‬سیوریج کا‬
‫سسٹم دیکھ کر در خان حیران ہو گیا تھا‬

‫آدھے گھنٹے کے سفر کے بعد گاڑی ایک‬


‫کوٹھی کے سامنے رکی۔۔۔جنید خان‪  ‬نے ہارن‬
‫بجایا تو گیٹ کھول دیا گیا اور گاڑی‪ ‬‬
‫کوٹھی کے اندر داخل ہو گئی۔‬

‫تینوں ایک ساتھ ہی گاڑی سے باہر نکلے‬


‫تھے۔۔۔‬

‫آئیں مولوی صاحب۔۔۔جنید خان نے کہا اور‬


‫آگے بڑھ گیا۔۔۔در خان بھی جنید اور ان کی‬
‫بیوی کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔‬

‫اس گھر میں تعویزات کا بہت برا اثر ہے در‬


‫خان۔۔سلیمان نے در خان کے نزدیک آ کر‬
‫سرگوشی کی تو در خان نے اثبات میں سر‬
‫ہال دیا‬

‫سلیمان شاید گھر کو چیک کر چکا تھا‬

‫ایک بڑے سے کمرے میں پہنچ کر جنید‬


‫خان نے در خان کو بیٹھنے کا کہا اور کمرے‬
‫سے نکل گیا۔۔۔جنید خان کی بیوی رستے‬
‫میں ہی رک گئی تھیں۔۔وہ شاید کسی‬
‫دوسرے کمرے میں چلی گئی ہو گی۔‬

‫در خان کو بیٹھے ابھی پانچ منٹ نہیں‬


‫گزرے کہ جنید خان ایک ٹھنڈے مشروب کا‬
‫جگ ہاتھ میں تھامے داخل ہوا۔‬

‫یہ ٖغلط بات ہے جنید صاحب۔۔۔۔آپ نے میرا‬


‫دیا پانی تو نہیں پیا لیکن میرے لیے‬
‫مشروب بنا الئے۔۔۔در خان نے شکایتی لہجے‬
‫میں کہا تو جنید خان ہنس دیے۔‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔مولوی صاحب ۔۔۔آپ اس وقت اپنے‬


‫حجرے میں بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں‬
‫پیاس تھی نہیں اس لیے آپ کو تکلف کرنے‬
‫سے منع کیا۔۔ لیکن یہاں پہنچنے کے بعد آپ‬
‫کو گرمی لگی ہو گئی تو‪  ‬یہ ٹھنڈا مشروب‬
‫پیاس بجھانے کے کام آئے گا۔۔۔جنید خان نے‬
‫مشروب کا گالس بھرتے ہوئے کہا ۔‬

‫گالس بھر کر اس نے در خان کی جانب‬


‫بڑھایا جسے درخان نے بسمہ اہلل پڑھ کر‬
‫پی لیا۔۔۔‬

‫جنید خان نے دوبارہ گالس بھرنے کے لیے‬


‫اٹھایا تو در خان نے ہاتھ کو پکڑ کر مزید‬
‫مشروب پینے سے روک دیا۔‬

‫اب تھوڑا سا کام کر لیتے ہیں‬


‫جنیدصاحب۔۔۔در خان بوال‬

‫بلکل ۔۔۔۔جنید خان نے یہ کہا تو در خان نے‬


‫اپنی آنکھیں بند کر لی اور زیر لب مختلف‬
‫سورتیں پڑھنے لگا‬

‫سورتیں کے پڑھنے کے بعد اس نے سلیمان کا‬


‫نام پکارا۔۔۔۔در خان نے اپنی آواز اتنی رکھی‬
‫کہ سلیمان تو سن سکے لیکن جنید خان تک‬
‫نہ جا سکے۔‬

‫جی مولوی صاحب۔۔۔سلیمان نے مسکراتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫سلیمان اب تم ہی بتاو کہ میں کیا کروں۔۔۔‬


‫میں تو اہلل اور اس کے بعد تمہارے آسرے‬
‫‪ ‬پر یہاں آیا ہوں۔۔۔در خان نے زیر لب کہا‬

‫در خان تم کچھ بھی نہ کرو۔۔۔بس جو جو‬


‫جگہیں میں کہتا جاوں وہاں جاو اور جس‬
‫کام کے لیے کہوں وہ کرتے جاو۔۔۔سلیمان‬
‫سرگوشی میں بات کر رہا تھا۔‬

‫کوٹھی کے پچھواڑے میں ایک باغ ہے جس‬


‫میں پیپل کے درخت کے نیچے تنے کے قریب‬
‫تم نے زمین کھودنی ہے۔۔۔تمہیں وہاں ایک‬
‫تعویز ملے گا۔۔وہ نکالنا ہے تم نے۔۔۔ سلیمان‬
‫نے جب‪  ‬یہ کہا تو در خان نے اپنی آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔‬

‫آپ کے گھر کے پچھواڑے میں جو باغ ہے ۔۔‬


‫مجھے وہ باغ دیکھنا ہے جنید صاحب۔۔۔۔‬
‫‪ ‬درخان نے کہا‬
‫در خان نے تو یہ بات کر دی لیکن اس کی‬
‫اس بات نے جنید کو حیرت میں ڈال دیا ۔۔۔‬

‫آپ کو کیسے پتا کہ ہمارے گھر میں باغ ہے‬


‫مولوی صاحب۔۔۔۔جنید خان نے حیرت بھرے‬
‫میں لہجے میں کہا۔۔‬

‫جنید صاحب اگر میں یہ‪  ‬بھی نہیں معلوم‬


‫کر سکتا تو پھر آپ مجھے یہاں نہ التے۔۔۔۔‬
‫بس اہلل کا کرم ہے کہ کچھ باتیں‬
‫مجھےمعلوم ہو جاتی ہیں۔۔۔آپ سے جو‬
‫‪ ‬پوچھا ہے وہ بتا دیں۔۔ در خان نے کہا‬

‫بلکل مولوی صاحب ہمارے گھر میں ایک‬


‫باغ ہے۔۔۔۔جنید خان ابھی شاک میں تھا‬

‫چلیں ۔۔۔مجھے وہ باغ دکھائیں۔۔۔مجھے وہ‬


‫جگہ دیکھنی ہے۔۔۔در خان نے اٹھتے ہوئے‬
‫کہا تو جنید خان بھی جلد ی سے اٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔۔۔‬

‫آئیں میرے ساتھ چلیں۔۔۔۔د رخان کی اس‬


‫بات کے بعد دو باتیں ہوئی ایک تو جنید‬
‫خان کی نظر میں در خان کا مقام بڑھ گیا‬
‫اور دوسرا جس طرح سے در خان نے باغ کا‬
‫بتایا تھا ۔۔۔اس کے بعد جنید خان کے‬
‫اندازمیں جوش آ گیا تھا۔۔۔۔اس وقت بھی‬
‫وہ خاصا پرجوش نظر آ رہا تھا۔‬

‫ابھی دونوں کمرے کے باہر نکلے تھے کہ‬


‫سامنے ایک ڈراونی شکل کا آدمی ان کی‬
‫طرف آیا۔۔جس کی بڑی بڑی مونچھوں اور‬
‫آنکھوں میں ڈالے سرمہ نے اس کو غضب‬
‫ناک بنا دیا تھا۔۔‬
‫بھائی‪  ‬یہ آدمی کون ہے۔۔۔اس نے نزدیک آ‬
‫کر درخان کو دیکھتے ہوئے پوچھا‬

‫شاکر ۔۔یہ مولوی صاحب ہے ۔۔۔تم جانتے ہو‬


‫کہ حاالت ٹھیک نہیں ہے تو انہیں زرا اپنا‬
‫گھر دکھانے الیا تھا۔۔۔جنید خان نے کہا‬

‫یہ میرا چھوٹا بھائی‪  ‬شاکر ہے ۔مولوی‬


‫صاحب۔۔۔جنید خان نے اپنے بھائی کا تعارف‬
‫کرایا تو در خان نے اسے سالم دیا لیکن‬
‫شاکر نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔‬

‫وہ در خان کو غصیلے نگاہوں سے دیکھ رہا‬


‫تھا۔۔۔جس کا مطلب‪  ‬تھا کہ وہ در خان کی‬
‫موجود گی کو بلکل بھی برداشت نہیں کر‬
‫رہا ہے۔۔۔‬
‫کیا بھائی۔۔۔آپ بھی نہ ۔۔۔۔ہر روز کوئی نہ‬
‫کوئی مولوی التے رہتے ہیں۔۔۔اگر یہ کچھ کر‬
‫سکتے ہوتے تو آج محلوں میں رہ رہے‬
‫ہوتے۔۔۔‬

‫شاکر نے تو یہ بات کر دی لیکن اس کی بات‬


‫نے درخان ‪ ،‬جنید خان او رسلیمان تینوں کو‬
‫جھٹکا لگا دیا۔۔‬

‫معاف کیجیے گا مولوی صاحب ۔۔۔شاکر‬


‫تھوڑا زبان کا کچا ہے ۔۔اس کی جگہ پر میں‬
‫آپ سے معافی مانگتا ہوں۔۔۔جنید خان نے‬
‫جلدی سے معافی مانگ لی تو درخان‬
‫خاموش ہو گیا‬

‫ہاہاہا۔۔۔ایک تو آپ ڈرتے بہت ہیں بھائی۔۔۔یہ‬


‫مولوی کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔۔انکا کام‬
‫لوگوں کو اپنی میٹھی باتوں سے رام کرکے‬
‫پیسہ نکالنا ہے۔۔۔ شاکر نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔‬

‫در خان کو شاکر کی یہ بات سن کر غصہ آ‬


‫گیا تھا۔۔۔اس سے پہلے کہ شاکر کچھ کہتا‬
‫۔۔۔سلیمان نے در خان کے کان میں سرگوشی‬
‫کی۔۔۔‬

‫در خان اسے کہو کہ جا کر خبر لے ۔۔اس کا‬


‫چرس سے بھرا ٹرک جو شہر سے ابھی‬
‫ابھی نکال تھا اسے دوسری چوکی پر‬
‫پولیس نے پکڑ لیا ہے اور اب شاکر کو پکڑنے‬
‫کے لیے پولیس یہیں آ رہی ہے۔۔‬

‫شاکر میں کیا ہوں تم یہ چھوڑو ۔۔۔تم جا کر‬


‫کہیں چھپ جاو کیونکہ تمہارا جو چرس‬
‫سے بھرا ٹرک شہر سے نکال ہے ۔۔اس کو‬
‫پولیس نے پکڑ لیا ہے اور اب‪  ‬پولیس‬
‫تمہاری طرف آ رہی ہے ۔۔۔در خان نے‬
‫مسکراتے ہوئے یہ بات تو کر دی لیکن اس‬
‫بات کا شاکر پر خاطر خواہ اثر ہوا۔۔وہ چار‬
‫قدم پیچھے جا کر دیوار سے ٹکرایا۔۔۔اس‬
‫کی سرمے سے بھری آنکھیں باہر نکلنے کو‬
‫ابل رہی تھی۔۔۔۔‬

‫یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں مولوی صاحب۔۔۔‬


‫جنید خان بوال‬

‫یہ آپ مجھ سے نہیں اپنے بھائی سے‬


‫پوچھیں جنید خان صاحب۔۔۔در خان ے‬
‫‪ ‬درشت انگیز لہجے میں کہا‬

‫اچانک شاکر مڑا اور بھاگتا ہوا کوٹھی کے‬


‫دروازے سے نکل گیا۔۔۔شاکر کی اس حرکت‬
‫پر جنید خان بھی حیران ہو گیا‬

‫آپ کا بھائی چرس کا کاروبار کرتا ہے جنید‬


‫صاحب۔۔۔در خا ن نے اس کی معلومات میں‬
‫اضافہ کرتے ہوئے کہا‬

‫نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔۔۔شاکر ایسے کام نہیں‬


‫کرسکتا ہے ۔۔مجھے اس پر یقین ہے ۔۔۔جنید‬
‫خان نے بے یقینی کے عالم میں کہا‬

‫وہ یہ کام کرتا ہے یا نہیں ۔۔آپ کو جلد پتا‬


‫لگ جائے گا لیکن فلحال ہم جس کام کے لیے‬
‫جا رہے ہیں ‪ ،‬پہلے وہ کام کر لیتے ہیں۔۔در‬
‫خان نے جب یہ کہا تو جنید خان نے جی‬
‫چلیں کہہ کر قدم آگے بڑھا دیے۔۔۔‬

‫اس کی چال سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی‬


‫شاک میں چال گیا ہے ۔۔۔‬
‫کچھ ہی دیر میں اس کی حالت پتلی ہونے‬
‫والی ہے در خان۔۔۔سلیمان نے ہنستے ہوئے‬
‫کہا تو در خان بھی زیر لب مسکرا دیا۔‬

‫باغ میں پہنچ کر در خان نے جنید سے‬


‫بیلچہ نما کوئی بھی چیز النے کو کہا تو‬
‫جنید خان واپس مڑ گیا اور در خان وہیں‬
‫اس کا انتظار کرنے لگا۔۔‬

‫دو منٹ نہیں گزرے کہ جنید ایک چھوٹا سا‬


‫بیلچہ ہاتھ میں تھامے سامنے آیا۔۔۔‬

‫اب میں آپ سے جہاں کھدائی کرنے کا‬


‫کہوں آپ نے وہاں کھدائی کرنی ہے۔۔۔در‬
‫خان یہ کہہ کرپیپل کے درخت کے پاس‬
‫جانے لگا۔۔جنید بھی بیلچا تھامے اس کے‬
‫پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔۔‬
‫سلیمان کی تعویز والی جگہ بتانے پر‬
‫کھدائی شروع کر دی گی اور ایک فٹ سے‬
‫کم گڑھا کھودنے پر ایک کاال رنگ کا کپڑا بر‬
‫آمد ہوا۔۔۔ جس میں کوئی چیز باندھ‪  ‬دی‬
‫گئی تھی۔‬

‫جنید خان نے یہ کپڑا نکال کر در خان کی‬


‫طرف بڑھایا۔۔۔‬

‫اسے کھولیں جنید صاحب۔۔در خان نے یہ‬


‫بوال تو جنید‪  ‬نے کپڑے پر لگی گانٹھ کھول‬
‫دی ۔۔۔دو کپڑے سے بنے پتلے تھے جو اس‬
‫کپڑے سے نکلے تھے۔۔۔ان میں سے ایک پتال‬
‫کسی مرد کا تھا اور دوسرے پتلے پر‪ ‬‬
‫عورت‪  ‬جیسا حلیہ بنایا گیا تھا ۔۔اس کے‬
‫ساتھ ساتھ‪  ‬پتلوں پر جگہ جگہ سوئیاں‬
‫لگی ہوئی تھی۔۔۔۔‬

‫پتلوں کو دیکھنے کے بعد جنید خان کے‬


‫ہاتھ زور زور سے کانپ رہے تھے۔۔۔‬

‫وہ کبھی در خان کو دیکھتا تو کبھی پتلوں‬


‫کو ۔۔۔‬

‫اوہ میر ے خدا۔۔۔یہ کو ن کر سکتاہے۔۔۔جنید‬


‫‪ ‬نے حیرت میں کانپتے ہوئے کہا‬

‫در خان اسے بتاو کہ ابھی دو اور بھی‬


‫تعویز ہیں جو اس گھر میں چھپے ہوئے‬
‫ہیں۔۔۔سلیمان نے در خان کی معلومات میں‬
‫اضافہ کر دیا‬

‫فلحال یہ بات چھوڑیں کہ کس نے کیا ہے ۔۔۔‬


‫ابھی دو اور‪  ‬کالے تعویز بھی‪   ‬رہتے ہیں‬
‫جنید صاحب۔۔۔ در خان نے کہا تو جنید کو‬
‫دوبارہ سے حیرت کا جھٹکا لگا‬

‫کیا کہہ رہے ہیں آپ مولوی صاحب۔۔۔۔وہ‬


‫حیرت میں بوال‬

‫میں کہا کہہ رہا ہوں وہ چھوڑیں جنید‬


‫صاحب بلکہ چل کر دوسرا تعویز نکالتے‬
‫ہیں۔۔۔در خان نے کہا‪  ‬تو جنید بھی واپس‬
‫اپنی دنیا میں آگیا‬

‫دوسرا تعویز کہاں پر ہے مولوی صاحب۔۔۔‬


‫جنید نے اگلی جگہ کا پوچھا‬

‫اس سے پہلے کہ جنید کوئی بات کرتا ۔۔‬


‫سلیمان نے اسے اگلے تعویز کی جگہ بتا‬
‫دی۔۔۔‬
‫آپ کے گھر کی چھت پر جو ٹینکی ہے۔۔۔اس‬
‫کے پائپ سے بندھا ہوا ہے دوسرا تعویز۔۔۔۔در‬
‫خان‪  ‬نے اگلی جگہ بتائی تو جنید نے اپنا‬
‫قدم آگے بڑھایا لیکن پھر رک گیا۔۔‬

‫چھت پر جانے کے لیے تو کوئی سیڑھی‬


‫بھی نہیں ہے مولوی صاحب ۔۔۔تو ہم کیسے‬
‫اوپر جائیں گے اور پھر تعویز باندھنے کے‬
‫لیے کوئی کیسے اوپر گیا ہے۔۔ جنید اب خود‬
‫کو سنبھال چکا تھا۔۔‬

‫یہ تو آپ کو سوچنا ہو گا جنید صاحب۔ در‬


‫خان نے یہ چیز جنید پر چھوڑ دی۔۔وہ اگر‬
‫چاہتا تو سلیمان سے کہلوا کر سارے تعویز‬
‫نکلوا سکتا تھا لیکن اس کا نہ ہی سلیمان‬
‫نے کہا اور نہ ہی درخان نے کوئی بات کی۔۔۔‬
‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیرسفرینا۔۔۔‬
‫)قسط نمبر(‪)27‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫آپ یہیں میرا انتظار کریں ۔۔میں کچھ کرتا‬


‫‪ ‬ہوں۔۔۔جنید خان نے کہا‬

‫جی ٹھیک ہے جنید صاحب۔۔۔در خان نے‬


‫جب یہ کہا تو جنید تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا‬
‫باغ سے نکل کر گھر کے اندر چال گیا‪  ‬اور‬
‫درخان وہیں کھڑا ہو کر انتظار کرنے لگا‬

‫سلیمان۔۔۔در خان نے پکارا‬

‫کیا ہوا در خان؟۔۔۔۔سلیمان نے پوچھا‬


‫تعویزات کے نکالنے کے بعد ہم نے کیا کرنا‬
‫ہے۔۔۔در خان نے پوچھا‬

‫جب تینوں تعویز نکل جائیں گے تو تم جنید‬


‫سےکہنا کہ تینوں تعویزوں کو دودھ کے‬
‫برتن میں ایک رات کے لیے رکھ دے اور پھر‬
‫اگلی صبح دودھ او ر تعویزوں کو کسی نہر‬
‫میں بہا دے۔۔۔‬

‫دودھ میں رکھنے سے کیا ہو گا سلیمان۔۔۔۔‬


‫در خان نےدوبارہ پوچھا‬

‫جب تعویزوں کو رات بھر کے لیے دودھ‬


‫میں رکھا جائے گا تو اگلی صبح تک‬
‫تعویزات کے تمام حروف مٹ جائیں گے پھر‬
‫وہ صرف کاغذ رہ جائیں گے۔‬
‫یعنی پھر ان کا اثر ختم ہو جائے گا۔۔۔در‬
‫خانے پوچھا‬

‫بلکل۔۔۔اور در خان میں تمہاری جیب میں‬


‫کچھ تعویز رکھ رہا ہوں۔۔۔ان میں سے جو‬
‫بڑا تعویز ہے وہ تم جنید کو دے کر کہنا کہ‬
‫اسے گھر میں ایسی جگہ لٹکائے جہاں ہوا‬
‫کا گزر ہوا اور تعویز ہوا میں ہلتا رہے۔ جو‬
‫سب سے چھوٹا تعویز ہے اس کو کسی‬
‫مٹکے میں ڈال کر سارے گھر والے وہ پانی‬
‫پیں۔۔تیسرا تعویز جنید نے اپنی دوکان میں‬
‫لٹکا دینا ہے۔۔۔انشا اہلل برے تعویز ات کا اثر‬
‫ختم ہو جائے گا۔‬

‫سلیمان نے در خان کو سمجھاتے ہوئے کہا‬

‫‪ ‬اگال تعویز کہاں پر ہے سلیمان؟‬


‫تیسرا تعویز جنید خان کی دوکان پر ہے ۔۔۔‬
‫اسے کہنا کہ جس کرسی پر وہ بیٹھتا ہے ۔۔‬
‫اس کے نیچھے ایک تعویز باندھا ہوا ہے۔۔وہ‬
‫تعویز بھی ابھی جا کر نکالے اور اسے بھی‬
‫دودھ میں ڈال دے۔۔۔سمجھے‬

‫ہاں سلیمان ۔۔۔سمجھ گیا۔۔۔۔جب در خان نے‬


‫یہ کہا تھا اسی وقت جنید خان دوڑتا ہوا‬
‫باغ میں آیا۔۔۔اس کے ہاتھ میں ایک تعویز‬
‫تھا۔۔۔‬

‫یہ لیں مولوی صاحب۔۔۔۔جنید نے تعویز در‬


‫خان کو دیتے ہوئے کہا‬

‫ہمارے گھر سے چھت پر جانے کا کوئی‬


‫راستہ نہیں ہے مولوی صاحب۔۔میں نے‬
‫پڑوس کے ایک بچہ کو کہا تو پہلے وہ اپنی‬
‫چھت پر گیا اور پھر وہاں سے ہماری‬
‫کوٹھی کی چھت پر آیا اور یہ تعویز نکال‬
‫کر الیا۔‬

‫چلو شکر ہے کہ تعویز مل گیا جنید‬


‫صاحب۔۔۔در خان نے کہا‬

‫یہ سب آپ کی کرامات کا نتیجہ ہے مولوی‬


‫صاحب ورنہ ہمیں کہاں پتا چلتا کہ ہمارے‬
‫دشمن ایسا کام بھی کر سکتے ہیں۔۔ویسے‬
‫کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ ایسی گھٹیا‬
‫حرکت کس نے کی ہے ؟‬

‫جنید صاحب یہ باتیں نہ پوچھیں تو بہتر‬


‫ہے کیونکہ ہم یہ بات کسی کو نہیں بتاتے‬
‫ہیں۔۔۔۔در خان بوال‬
‫چلیں جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔جنید خان‬
‫کو مایوسی ہوئی تھی‬

‫اچھا تیسرا تعویز آپ کی دوکان پر ہے جیند‬


‫صاحب۔۔۔آپ جس کرسی پر بیٹھتے ہیں ۔۔‬
‫اس کرسی کے نیچے ایک تعویز چپکا دیا‬
‫گیا ہے ۔۔۔آپ وہ تعویز بھی نکال‪  ‬لیں ۔۔۔در‬
‫خان نے کہا تو جنید دوکان پر جانے کے لیے‬
‫مڑا۔۔۔‬

‫رکیں رکیں جنید صاحب۔۔۔۔پہلے میری بات‬


‫سنیں۔۔۔۔‬

‫آپ ایسا کریں کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے‬


‫جائیں وہیں سے آپ تعویز نکال لینا اور پھر‬
‫مجھے میرے حجرے تک چھوڑ آئیے گا۔۔۔در‬
‫خان نے تجویز دی‬
‫یہ تو اور اچھی بات ہے مولوی صاحب۔۔۔‬
‫‪ ‬جنید بوال‬

‫آئیں چلیں۔۔۔یہ کہہ کر جنید آگے بڑھا اور‬


‫درخان اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔۔‬
‫گھر کے صحن میں پہنچ کر جنید نے گاڑی‬
‫نکالی اور در خان کو اپنے ساتھ بٹھا کر‬
‫گاڑی کو دوکان کی طرف لے گیا۔۔‬

‫رستے میں انہوں نے کوئی بات نہیں کی‬


‫تھی۔۔۔جنید خان کا دوکان گھر سے تھوڑی‬
‫دور ہی واقع تھا اور یہ بازار کے وسط میں‬
‫تھا۔اس وقت دوکان کو تالہ لگا ہوا تھا۔۔۔‬

‫جنید نے گاڑی سے اتر کر جیب سے چابی‬


‫نکالی اور دوکان کا شٹر اوپر کر دیا۔۔۔در‬
‫خان بھی گاڑی سے اتر چکا تھا۔۔‬
‫آئیں مولوی صاحب۔۔۔۔جنید خان نے در خان‬
‫کو دوکان کے اندر آنے کا کہا‬

‫جنید صاحب آپ یہ بار بار مولوی کہنا بند‬


‫کر دیں۔۔میرا نام در خان ہے تو برائے‬
‫مہربانی در خان ہی بالئیں۔۔۔میں ایک گناہ‬
‫گار آدمی ہوں اور مجھے دین کی اتنی‬
‫سوجھ بوجھ نہیں ہے ۔۔۔مولوی بڑی چیز‬
‫ہوتی ہے ۔۔۔تو مجھے میرے نام سے بالیا‬
‫کریں۔۔۔‬

‫در خان کو جنید کا بار بار مولوی کہنا اچھا‬


‫نہیں لگ رہا تھا تو اس نے جنید کو اس‬
‫لقب سے پکارنے سے منع کر دیا ۔‬

‫چلیں صحیح‪  ‬ہےدر خان صاحب۔۔۔آئندہ‬


‫میں آپ کو آپ کے نام سے یاد کروں گا۔۔۔۔‬
‫جنید نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫آپ بیشک خود کو جو بھی کہلوا لیں لیکن‬


‫یہ حقیقت ہے کہ آپ بہت کچھ جانتے ہیں‬
‫اور یہ عاجزی ہے کہ آپ خود کواتنا کچھ‬
‫جاننے کے بعد بھی کمتر سمجھ رہے ہیں۔۔۔‬
‫جنید نے درخان کی تعریف نہ کرتے ہوئے‬
‫بھی تعریف کر دی تھی۔‬

‫یہ سب اہلل پاک کا کرم ہے جنید صاحب‬


‫ورنہ یہ نا چیز کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔۔در خان‬
‫نے کہا‬

‫اس وقت وہ دونوں دوکان کے دروازے پر‬


‫کھڑے ہو کر بات کر رہے‪  ‬تھے ۔۔۔جب در‬
‫خان نے جنید کو یاد دالیا کہ ہم کس کام‬
‫کے لیے آئیں تو جنید آگے بڑھا اور ٹیبل کے‬
‫ساتھ پڑی کرسی کو زمین پر الٹ دیا۔۔۔‬

‫ایک چھوٹا ساتعویز دونوں کو نظر آ گیا۔۔۔‬


‫جسے کسی لیس دار مادے‪  ‬سے کرسی کے‬
‫نیچے چپکا دیا تھا۔‬

‫جنید نے تعویز نکال کر در خان کی طرف‬


‫بڑھایا لیکن اس سے پہلے ہی در خان نے‬
‫پہلے والے دونوں تعویز نکال لیے تھے۔۔‬

‫اب آپ نے میری بات غور سے سننی ہے‬


‫جنید صاحب۔۔۔آپ نے ابھی آدھا لیٹر جتنا‬
‫دودھ لینا ہے ۔۔۔اور پھر ان تینوں تعویزوں‬
‫کو کھول کر پوری رات کے لیے دودھ میں‬
‫رکھ دینا ہے ۔۔صبح کسی بھی وقت وہ‬
‫دودھ اور تعویز والے کاغذ کو کسی قریبی‬
‫نہر میں بہا دینا ہے۔۔۔‬

‫آپ سمجھ گئے کہ میں نے کیا کہا ہے۔۔۔در‬


‫خان نے پوری بات بتانے کے بعد پوچھا‬

‫بلکل در خان صاحب۔۔۔میں اچھی طرح سے‬


‫سمجھ گیا ہوں۔۔۔‬

‫اور ہاں یہ رہے تین اور تعویز ۔۔۔یہ آپ کے‬


‫لیے ہیں۔۔ان میں سے جو بڑا تعویز ہے وہ آپ‬
‫نے اپنے گھر میں کسی کھلے جگہ پر باندھ‬
‫دینا ہے ۔۔۔اسے ایسی جگہ باندھنا ہے کہ ہوا‬
‫میں یہ ہلتا رہے ۔۔۔اور یہ جو تعویز ہے ۔۔۔‬
‫اسے آپ نے اپنے دوکان میں کسی بھی جگہ‬
‫پر باندھ دینا ہے۔۔۔اب رہا یہ چھوٹا سا‬
‫تعویز۔۔۔اس کو آپ گھر میں موجود کسی‬
‫ایسے برتن یا مٹکے میں ڈال دیں جس کا‬
‫پانی گھر کے سارے فرد پیتے ہوں۔۔۔اب آپ‬
‫کا گھر تعویز ات سے پاک ہے ۔۔۔میرے اہلل‬
‫نے چاہا تو آپ کا گھر بہت جلد بچوں کی‬
‫قلقاریوں سے نہ صرف گونج اٹھے گا بلکہ‬
‫کاروبار میں بھی برکت ہو جائے گی۔۔۔‬

‫در خان نے اچھی طرح جنید کو تعویز ات‬


‫کے بارے میں سمجھا دیا‪  ‬تھا۔۔‬

‫جی ٹھیک ہے در خان صاحب۔۔۔۔جنید نے‬


‫ساری بات سمجھنے کے بعد کہا۔۔‬

‫اب آپ چلیں اور مجھے میرے حجرے تک‬


‫چھوڑ آنے کی تکلیف کر دیں کیونکہ میں‬
‫یہاں سے‪  ‬بلکل بھی واقفیت نہیں رکھتا‬
‫ہوں۔۔اگر تھوڑا سا بھی اس شہر سے واقف‬
‫ہوتا تو خود ہی چال جاتا۔۔۔در خان بوال‬

‫آپ نے ایسا بول کر مجھے شرمندہ کر دیا‬


‫ہے در خان صاحب۔۔۔۔آپ ہمارے لیے اتنی‬
‫دور آئے اور ہماری نہ صرف ان کالے‬
‫تعویزوں سے جان چھڑائی بلکہ ہماری‬
‫حفاظت کے لیے تعویز بھی دے دیے۔۔۔اب‬
‫آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ آپ خود چلے‬
‫جائیں گے۔۔۔چھوڑیں در خان صاحب آپ نے‬
‫مجھے مایوس کر دیا۔۔۔ وہ سچ میں در‬
‫خان کی بات سے افسردہ ہو گیا تھا‬

‫ارے جناب ۔۔۔۔اب یوں تو نہ کہیں۔۔۔چلیں‬


‫میں اپنے الفاظ دوبارہ لے لیتا ہے اور آپ‬
‫سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے میرے‬
‫حجرے تک چھوڑ آئیں۔۔۔در خان نے نئے‬
‫انداز میں معافی مانگتے ہوئے کہا‬

‫درخان صاحب ۔۔آپ نے مجھے درخواست‬


‫جیسے الفاظ کہہ کر ابھی بھی مایوس ہی‬
‫کیا ہے۔۔۔جنید نے لہجے میں افسردگی التے‬
‫ہوئے کہا‬

‫اچھا جناب اب کچھ نہیں کہوں گا۔۔۔بس‬


‫۔۔۔۔در خان نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫آپ کچھ نہ کہیں در خان صاحب ۔۔۔آپ‬


‫حکم کریں حکم۔۔۔جنید بھی ہنسا تھا‬

‫اب چلیں۔۔۔در خان بوال تو جنید جلدی سے‬


‫دوکان کو تالہ لگا کر گاڑی میں جا بیٹھا ۔۔‬
‫در خان بھی ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔‬
‫گاڑی در خان کے گاوں کی طرف چل پڑی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫راستے میں در خان جنید سے اس کے‬


‫کاروبار اور اس سے متعلق بات کرتا رہا اور‬
‫جنید اسے جوابات دیتا رہا۔۔بیچ میں جنید‬
‫نے در خان سے شاکر کے متعلق بھی پوچھا‬
‫لیکن در خان نے اسے دوسری باتوں میں لگا‬
‫دیا۔۔‬

‫حجرے کے دروازے کے قریب پہنچ کر‬


‫درخان گاڑی سے باہر نکال ۔۔۔جنید نے گاڑی‬
‫کا انجن بند کیا اور باہر نکل آیا‬

‫در خان نے حجرے کی کنڈی ہٹا کر اندر‬


‫داخل ہوا تو جنید بھی ساتھ ہی اندر آگیا۔۔۔‬
‫در خان صاحب۔۔۔مجھے آپ اپنی فیس کا‬
‫بھی بتا دیں تاکہ میں دائیگی کر دوں۔۔۔‬
‫جنید چونکہ مختلف مولویوں سے ہو کر آیا‬
‫تھا اور ان سب مولویوں کو اس نے پیسے‬
‫دیے تھے تووہ سوچ رہا تھا کہ در خان کی‬
‫بھی فیس ہوگی۔‬

‫ارے جنید صاحب۔۔۔میں‪  ‬نے یہ کام اہلل کی‬


‫خوشی کے لیے کیا ہے۔۔مجھے پیسوں کی‬
‫کوئی ضرورت نہیں ہے ۔۔آپ کا کام ہو جائے‬
‫۔۔میرے لیے یہ بھی بڑی بات ہوگی۔۔۔۔در‬
‫خان نے فیس لینے سے انکار کیا تھا‬

‫یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ میرا کام کریں‬


‫اور آپ کی کوئی فیس نہ ہو۔۔۔مجھے حیرت‬
‫ہو رہی ہے در خان صاحب۔۔۔جنید نے حیرت‬
‫بھرے لہجے میں کہا‬

‫ارے آپ بلکل بھی حیران نہ ہوں۔۔۔میں نے‬


‫کہا نا ۔۔میں یہ کام اہلل کی رضا کے لیے کرتا‬
‫ہوں اور مجھے دنیا کی کوئی طلب نہیں‬
‫ہے۔۔اس لیے آپ بے فکر ہو کر جائیں اور‬
‫ہنسی خوشی اپنی زندگی گزارے۔۔۔بس ایک‬
‫التجا ہو گی کہ کبھی اگر دعا کے لیے ہاتھ‬
‫اٹھائیں تو اس گناہگار کا بھی نام لے لیجیے‬
‫گا۔‬

‫در خان نے جنید کا کندھا تھپتھپایا تھا۔۔‬

‫بلکل یاد کروں گا مولوی صاحب۔۔بلکہ ہر‬


‫روز ‪ ،‬ہر نماز میں آپ کے لیے دعا مانگوں‬
‫گا۔۔۔اہلل آپ کو ہمیشہ کامیاب کرے۔۔دونوں‬
‫جہانوں میں کامیاب کرے۔۔۔اہلل اور اہلل کا‬
‫رسول آپ سے راضی ہو۔۔۔‬

‫جنید خان نے دعائیہ اندازمیں ہاتھ اٹھا لیے‬


‫تھے۔۔‬

‫آمین۔۔شکریہ لیکن آپ نے پھر مجھے مولوی‬


‫کہہ کر مخاطب کیا ہے جنید صاحب۔۔۔در‬
‫خان مسکرایا‬

‫اوہ۔۔۔معاف کیجیے گا بس جذبات میں یاد‬


‫نہیں رہا۔۔۔۔۔جنید بوال‬

‫ارے معافی مانگ کر شرمندہ نہ کریں ۔۔۔‬


‫میں مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔در خا ن نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫چلیں ٹھیک ہے در خان صاحب۔۔۔اب میں‬


‫چلتا ہوں ۔۔۔ان شا اہلل بہت جلد مٹھائیوں‬
‫کے ساتھ آپ سے دوبارہ مالقات ہوگی۔۔۔‬
‫جنید نے کہا‬

‫اہلل آپ کا حامی و ناصر ہو جنید صاحب۔۔۔‬


‫یہ کہہ کر در خان نے جنید کو گلے سے لگایا‬
‫اور پھر جنید سالم کہہ کر حجرے سے باہر‬
‫چال گیا۔۔۔در خان بھی حجرے میں موجود‬
‫غسل خانے کی طرف چل دیا۔ سلیما ن بھی‬
‫شاید نماز پڑھنے کے لیے درگاہ شریف کی‬
‫طرف چال گیا تھا۔۔مغرب کی ازانیں بس‬
‫ہونے ہی والی تھیں۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫رات کے پونے تین ہو رہے تھے کہ خالدہ‬


‫بیگم کی آنکھیں کھلیں۔۔۔ان کا گلہ پیاس‬
‫کی شدت سے خشک ہو گیا تھا ۔۔۔وہ اپنے‬
‫بیڈ سے اتری اور کمرے کا دروازہ کھول کر‬
‫کچن میں‪  ‬چلی گئیں۔۔۔پانی پی کر‪  ‬کچن‬
‫سے باہر نکلیں تو نظریں بے اختیار سکینہ‬
‫کے کمرے کی طرف اٹھ گئیں۔۔۔سکینہ کے‬
‫کمرے کی الئٹ جل رہی تھی۔۔۔‬

‫یہ آج الئٹ بند کرنا بھول گئی ہے شاید ۔۔۔‬


‫خالدہ بیگم نے سوچا اور سکینہ کے کمرے‬
‫کی طرف چل پڑیں۔۔‬

‫دروازے کے قریب پہنچی تو انہیں‬


‫سسکیوں کی آواز سنائی دی۔۔کوئی دبے‬
‫لہجے میں رو رو کر فریا د کر رہا تھا۔۔۔۔‬
‫خالدہ بیگم نے کان دروازے سے لگا کر سننے‬
‫کی کوشش کی ۔‬
‫اے میرے رب ۔۔۔میں تیرے فیصلہ پر راضی‬
‫ہوں ۔۔۔میں کون ہو سکتی ہو ں کہ تجھ سے‬
‫گلہ کروں۔۔۔میں تو تیری بندی ہوں تو‬
‫کیونکر میں تجھ سے مایوس ہو جاوں۔۔۔‬
‫میں تیری مصلحتوں کو نا کبھی جان سکی‬
‫تھی اور نہ کبھی جان سکوں گی۔۔۔۔‬

‫میں پیدا ہوئی تو‪  ‬ماں کو دیکھا ۔۔۔باپ تو‬


‫میری پیدائش سے پہلے ہی تیرے پاس جا‬
‫چکا تھا۔۔۔ایک ماں تھی جو میری ُکل‬
‫کائنات تھی۔۔جس سے میں اپنی بات کہتی‬
‫تھی ۔۔۔پھر تو نے ہی میری زندگی میں‬
‫جلیل کو بھیجا۔۔۔میرے دل میں اس کی‬
‫محبت جگائی۔۔۔محبت بھی‪  ‬وہ جو مٹانے‬
‫پر بھی نہیں مٹ سکی تھی ۔۔۔لیکن تو تو‬
‫بے نیاز ہے نا۔۔۔تو کیسے میرے دل میں کسی‬
‫دوسرے کی محبت برداشت کر سکتا۔۔۔۔تو‬
‫کیسے چاہتا کہ تیرا ہی بنایا دل کسی اور‬
‫کے لیے دھڑکے۔۔۔توکیسے چاہتا کہ تیرے‬
‫عالوہ میں کسی اورکا نام پکاروں۔۔۔میری‬
‫ہر صبح جلیل کے ساتھ ہوتی ‪ ،‬میری ہر رات‬
‫جلیل کو دیکھ کر گزرتی ۔۔۔تجھے یہ کیسے‬
‫گوارہ ہوتا کہ میں صبح ‪،‬شام کسی اور کے‬
‫نام کا ورد کروں۔۔۔‬

‫یا اہلل۔۔۔۔۔یہ کہہ سکینہ سسکیاں لے لے کر‬


‫رونے لگی۔۔‬

‫یا اہلل۔۔۔تو جانتا ہے کہ میرا دل کبھی بھی‬


‫تیری طرف مائل نہیں ہو سکتا ہے۔۔۔اسی‬
‫لیے تو نے میری زندگی میں جلیل کو بھیجا‬
‫۔۔اس کی محبت میرے دل میں جگائی اور‬
‫جب میں اس کی محبت کی عادی ہو گئی‬
‫تو تو نے اسے مجھ سے چھین لیا۔۔‬

‫واہ رے موال۔۔۔تیرے رنگ۔۔۔۔تو جانتا تھا کہ‬


‫میں جلیل کے بغیر نہیں جی سکوں گی ۔۔۔‬
‫میں ہر رات تڑپوں گی‪ ،‬رووں گی ‪ ،‬سسکوں‬
‫گی ‪ ،‬تیرے سامنے گڑگڑاہوں گی ۔۔۔تجھ سے‬
‫سکون کی بھیک مانگوں گی ۔۔۔تیرا نام‬
‫پکاروں گی ۔۔۔۔میں تو یہ بھی نہیں جانتی‬
‫تھی کہ جلیل کے بعد سکون کی تالش میں‬
‫تیرے در کی سوالی بن جاوں گی۔۔۔‬

‫اگر یہی تیری رضا ہے موال تو میں تیری‬


‫رضا میں راضی ہوں۔۔۔‬

‫راضی ہوں موال۔۔۔میں راضی ہوں۔۔۔۔سکینہ‬


‫کی آواز دھب گئی تھی۔۔۔‬
‫خالدہ بیگم نے ہلکا سا دروازہ کھول کر‬
‫دیکھا تو سکینہ جائے نماز پر سجدہ میں‬
‫پڑی روئے جا رہی تھی۔۔۔‬

‫موال ۔۔۔جیسے تو نے مجھ سے جلیل کو‬


‫چھینا ہے ویسے ہی میری پہچان مجھ سے‬
‫چھین لے ‪ ،‬میری زات چھین لے۔۔۔تجھے میں‬
‫جیسا دکھنا چاہتی ہوں ‪ ،‬مجھے تو ویسا بنا‬
‫لے ۔۔۔‬

‫میرے موال‬

‫تجھے تیری وحدانیت کا واسطہ موال‬

‫تجھے تیری عظمت کا واسطہ موال‬

‫جس نور نے تیرے عرش کو منور کیا ہوا ہے۔‬


‫‪ ‬تجھے اس نور کا واسطہ میرے خدا‬
‫جو رحمت تیرے غضب پر بھاری ہے ۔۔تجھے‬
‫اس رحمت کا واسطہ میرے اہلل‬

‫رحم کر اپنی اس بندی پر۔۔رحم موال رحم‬

‫سکینہ کے ہاتھوں نے جائے نماز کے دونوں‬


‫کو نوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا تھا۔۔۔‬
‫جیسے جیسے اس کی آواز گھٹتی جا رہی‬
‫تھی ویسے ہی اس کی گرفت فرش پر‬
‫بچھے جائے نماز پر مضبوط ہوتی جا رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫سکینہ کو پتا ہی نہیں چال کب اس کی آواز‬


‫تھم گئی اور کب وہ نیند کی وادی میں‬
‫چلی گئی‬

‫خالدہ بیگم نے جب سکینہ کو جائے نماز پر‬


‫ہی سوتے دیکھا تو دروازے کو آہستگی سے‬
‫بند کیا۔۔۔‬

‫یا اہلل۔۔۔میری بچی کے حال پر رحم فرما۔۔۔‬


‫خالدہ بیگم نے آسمان کی طرف منہ کر کے‬
‫کہا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔‬
‫_________________________________‬
‫_______________‬
‫در خان کو جنید سے ملے دو دن گزر گئے‬
‫تھے ۔۔۔اس وقت صبح کے سات بج رہے تھے‬
‫اور درخان جائے نماز پر بیٹھا تسبیح کے‬
‫دانوں کو انگلیوں سے گھما رہا تھا کہ‬
‫باہرگلی میں کسی گاڑی کے رکنے کی آواز‬
‫گونجی۔۔‬

‫درخان نے گاڑی کی آواز کو کوئی اہمیت‬


‫نہیں دی تھی وہ اب بھی اپنے وظیفہ میں‬
‫مشغول تھا کہ اچانک اپنا نام سن کر در‬
‫خان نے آنکھیں کھول دیں۔۔‬

‫سامنے جنید دہشت زدہ شکل کے ساتھ‬


‫جوتے اتار رہا تھا۔۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتا در‬
‫خان کی طرف آ رہا تھا‬

‫در خان صاحب۔۔۔در خان صاحب۔۔۔وہ برابر‬


‫در خان کا نام لیے جا رہا تھا‬

‫کیا ہوا جنید صاحب۔۔۔خیر تو تھی۔۔۔اتنی‬


‫صبح صبح آ گئے آپ۔۔۔در خا ن نے اٹھتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫صبح جب میں نماز پڑھ کر اپنے گھرگیا تو‬


‫باغ میں چہل قدمی کرنے چال گیا ۔۔۔ باغ‬
‫میں پہنچا تو دوہڈیاں پڑی ہوئی ملیں اور‬
‫ان دونوں‪  ‬کو‪  ‬انتھڑیوں سے باندھا ہوا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫آپ نے جب تعویز نکالے تھے ۔۔اس وقت کے‬


‫بعد میں اور میری بیگم ڈر سے گئے تھے ۔۔۔‬
‫ہر وقت ہم دونوں یہی سوچتے رہتے کہ‬
‫ہماری ساتھ کون دشمنی کر رہا ہے ۔۔ہم‬
‫دونوں اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگ‬
‫ہیں جناب۔۔۔لیکن ہڈیاں کو دیکھنے کے بعد‬
‫ہماری توجان ہی نکلی جا رہی ہے۔۔۔‬

‫جنید کا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔جس طرح سے‬


‫اس نے بتایا یہ واقعی ایک تشویش ناک‬
‫بات تھی۔۔۔‬

‫آپ‪  ‬پریشان نہ ہوں جیند صاحب۔۔۔۔اہلل‬


‫خیر کرے گا۔۔۔میں آپ کے ساتھ چل کر‬
‫دیکھتا ہوں کہ کیا ماجرا ہے۔۔۔در خان نے‬
‫‪ ‬کہا‬

‫جی در خان صاحب ۔۔آپ کو ضرور چلنا‬


‫چاہیے۔۔۔ ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد تو‬
‫میرا جسم ہر وقت کانپتا رہتا ہے۔۔۔یہ‬
‫دیکھیں‬

‫یہ کہہ کر جنید نے اپنے ہاتھ در خان کے‬


‫سامنے کیے۔۔۔واقعی اس کے ہاتھ کی‬
‫انگلیں‪  ‬میں بہت زیادہ کپکپی طاری تھی۔۔‬

‫چلیں جنید صاحب۔۔۔در خان نے جنید سے‬


‫چلنے کا کہا تو جنید واپس مڑ گیا۔۔۔‬

‫در خان نے جلدی جلدی حجرے کو کنڈی‬


‫لگائی اور پھر جنید کے ساتھ والی سیٹ پر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔گاڑی جنید ہی چال رہا تھا۔۔۔‬
‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫)فرینا۔۔۔قسط نمبر(‪)28‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫جنید اس وقت بد حواسی میں گاڑی چال‬


‫رہا تھا جس کا نتیجہ یہ نکال کہ کچھ دور‬
‫جانے کے بعد ان دونوں کا ایکسیڈنٹ ہوتے‬
‫ہوتے بچا۔۔۔درخان نے جنید کو احتیاط سے‬
‫گاڑی چلنے کا کہا۔جس کے بعد جنید نے‬
‫گاڑی کی رفتار بلکل ہی کم کر دی۔۔۔‬
‫گھر‪  ‬پہنچتے پہنچتے انہیں ایک گھنٹا لگ‬
‫گیا۔۔۔جیسے ہی گاڑی گھر کے اندر رکی۔۔‬
‫جنید جلدی سے گاڑی سےباہر‪  ‬نکال ۔۔درخان‬
‫نے بھی گاڑی سے نکلنے میں تیزی دکھائی‬
‫تھی۔‬

‫وہ در خان کو لیتا ہوا باغ میں چال گیا اور‬


‫پھر وہ ہڈیاں در خان کو نظر آگئی۔۔۔یہ‬
‫چھوٹے سائز کی دو ہڈیاں تھی ۔۔جن کو‬
‫ایک لمبی انتڑی سے باندھا گیا تھا۔۔‬

‫ہڈیوں پر خون کے دھبے بھی واضح نظر آ‬


‫رہے تھے۔۔۔‬

‫یہ دیکھیں درخان صاحب۔۔۔صبح جب میں‬


‫باغ میں آیا تو یہ نظر آ گیا۔۔۔میرے خیال‬
‫سے جس نے ہمارے گھر اور دوکان پر تعویز‬
‫کیے تھے ۔۔اسے تعویز ضائع ہونے کا پتا لگ‬
‫چکا ہے ۔۔اس لیے اس نے یہ نیا حربہ‬
‫استعمال کیا ہے۔۔۔جنید نے ہانپتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫دہشت کے مارے اس کی سانس بھی چڑھی‬
‫ہوئی تھی۔‬

‫در خان نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔وہ‬


‫ہڈیوں کو تکے جا رہا تھا۔‬

‫سلیمان۔۔۔در خان نے زیر لب سلیمان کو نام‬


‫لیا۔‬

‫تمہارے ساتھ ہی ہوں درخان۔۔۔سلیمان کی‬


‫آواز در خان کو قریب سے سنائی دی۔‬

‫جب جنید حجرے پرآ رہا تھا تو میں نے‬


‫اسے دیکھ لیا تھااور میں اس کے ساتھ ہی‬
‫حجرے میں آ گیا تاکہ اس کی بات سنوں۔۔‬
‫جب تم دونوں گھر کی طرف آ رہے تھے تو‬
‫میں تم دونوں سے پہلے ہی پہنچ گیا۔۔یہاں‬
‫اس ہڈی کو دیکھ کر اس عالم کا بھی پتا‬
‫چال لیا ہے ۔۔جس نے یہ حرکت کی ہے۔۔۔اور‬
‫تمہاری معلومات میں اضافہ کر تا چلوں کہ‬
‫یہ عالم ایک عیسائی ہے جو کالے علم کی‬
‫مدد سے لوگوں کے ہر جائز و نا جائز کام‬
‫کرتا ہے۔‬

‫میں نے سب دیکھ لیا ہے جنیدصاحب۔۔۔اور‬


‫مجھے یہ بھی پتا چل گیا ہے کہ یہ کس نے‬
‫کیا ہے۔۔۔آپ پریشان نہ ہوں ‪ ،‬میں آج یہ‬
‫قصہ ہی ختم کر دوں گا۔۔۔ان شا اہلل دوبارہ‬
‫کوئی آپ کے گھر اور کاروبار کو بر ی نظر‬
‫سے نہیں دیکھے گا۔۔۔سلیمان کی بات سننے‬
‫کے بعد در خان نے جنید سے کہا۔‬
‫جی درخان خدا کے لیے ہماری اس مصیبت‬
‫سے جان چھڑائیں۔۔۔یقین جانیں آپ سے‬
‫پہلے ہم مایوس ہو گئے تھے لیکن اس دن‬
‫جس طرح سے آپ نے تعویزوں کو نکاال ۔۔۔‬
‫ہم بہت خوش ہو گئے کہ اب ہمارے برے دن‬
‫ختم ہو گئے ہیں لیکن آج پھر یہ دیکھ کر‬
‫ہم ڈر گئے ہیں۔۔۔‬

‫جنید نے کہا‬

‫ارے جنید صاحب بلکل بھی پریشان نہ‬


‫ہوں۔۔۔بلکہ آپ ایسا کریں ‪ ،‬ہمارے ساتھ چل‬
‫کر خود ہی دیکھ لیں ۔۔۔پھرآپ کو تسلی ہو‬
‫جائے گی۔۔‬

‫درخان نے جنید کو حوصلے دیتے ہوئے کہا‬

‫جی ٹھیک ہے۔۔۔جنید مایوسی میں بوال‬


‫چلیں جنید صاحب ۔۔۔درخان نے کہا تو‬
‫جنید آگے بڑھا اور پھر دونوں گاڑی میں‬
‫بیٹھ کر گھر سے نکل آئے۔۔‬

‫رستے کی نمائندگی سلیمان کر رہا تھا۔۔وہ‬


‫در خان کو بتا رہا تھا اور درخان سلیمان‬
‫سے سن کر جنید کو‪  ‬لے جا رہا تھا۔۔۔‬

‫گاڑی اس وقت شہر سے باہر کھلے میدانوں‬


‫میں سفر کر رہی تھی۔۔‬

‫اور کتنی دور ہے در خان صاحب۔۔۔جنید نے‬


‫در خان کی طرف چہرہ موڑ کر کہا۔۔۔در‬
‫خان اس وقت بھی جنید کی ساتھ والی‬
‫سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔‬

‫بس پہنچے والے ہیں۔۔۔در خان کی بات سن‬


‫کر جنید کو بتایا‬
‫دور میدان میں ایک کچا گھر نظر آ رہا تھا ۔‬
‫شاید ان کو یہیں جانا تھا ۔۔۔اور پھرگاڑی‬
‫کو اسی جانب موڑ لیا گیا ۔۔۔‬

‫نزدیک پہنچ کر در خان اور جنید دونوں‬


‫گاڑی سے باہر نکلے‪  ‬تو جنید نے گاڑی کو‬
‫الک کر دیا۔۔‬

‫در خان نے ایک نظر جنید کو دیکھ کر‬


‫سامنے‪  ‬موجود لوہے کے دروازے پر دستک‬
‫دی۔۔۔دوسری دستک پر اندر سے کسی کی‬
‫آواز سنائی دی ۔۔اندر موجود انسان نے‪ ‬‬
‫کون ہے کی صدا بلند کی تھی۔‬

‫در خان نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔وہ دروازہ‬


‫کھلنے کا انتظار کر رہا تھا۔‬
‫چند لمحوں کے بعد دروازے کی کنڈی ہٹا‬
‫دی گئی اور ایک پٹ کھول کر ایک خرانٹ‬
‫سی شکل واال آدمی کا منہ باہر نکال۔ جس‬
‫کے سر کے بال گند سے بھرے اور بکھرے‬
‫ہوئے تھے۔۔‬

‫کون ہو تم دونوں۔۔۔۔بدنما سی شکل واال‬


‫انسان بوال۔۔وہ جب بوال تو اس کے کالے‬
‫دانت دیکھ کر جنید کو ابکائی آ گئی۔۔‬

‫میرا نام درخان ہے اور میں آپ کے پاس‬


‫تعویز کے سلسلے میں ایک کام سے آیا‬
‫ہوں۔۔۔در خان نے آگے بڑھ کر کہا‬

‫اوہ ۔۔۔۔اچھا۔۔۔اندر آ جاو۔۔۔۔وہ بوال۔۔۔وہ‬


‫آدمی سمجھ رہا تھا کہ در خان کوئی نیا‬
‫گاہک ہے جس کو کسی کام کے لیے تعویز‬
‫چاہیے ۔۔۔اسی لیے اس نے درخان اور جنید‬
‫دونوں کو رستہ دے دیا۔‬

‫دونوں اندر داخل ہوئے تو صحن میں پڑے‬


‫خون کو دیکھ کر جنید کی حالت غیر ہو‬
‫گئی۔۔۔وہ زمین پر ہی بیٹھ کر الٹیاں کر نے‬
‫لگا۔۔۔‬

‫ارے بھائی تم کو کیا ہو گیا۔۔۔یہ بکرے کا‬


‫خون ہے۔۔۔وہ ایک تعویز کے لیے بکرے کا دل‬
‫چاہیے تھا تو آج صبح ہی اس کا گال کاٹا‬
‫ہے۔۔ اس آدمی نے اپنے بد نما دانتوں کی‬
‫نمائش کرتے ہوئے کہا۔‬

‫کچھ دیر کے بعد جنید کی الٹایں رک گئی‬


‫تو در خان نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے‬
‫پکڑا کر سہار ا دیا اور اسے لیتا ہوا آدمی‬
‫کے پیچھے چل پڑا۔۔۔‬

‫گھر میں تین کمرے تھے۔۔۔جس میں سے دو‬


‫کمروں کو تالہ لگا ہوا تھا ۔۔۔‬

‫وہ آدمی جنید اور در خان کو لیتا ہوا کمرے‬


‫میں داخل ہوا۔۔۔‬

‫کمرے کی حالت باہر کی حالت سے زیاد ہ‬


‫ہی بری تھی۔۔۔سامنے‪  ‬کی دیوار پر عجیب‬
‫سے نشانات اور ڈراونی شکلیں دیکھ کر‬
‫جنید نے درخان کا ہاتھ مضبوطی سے تھام‬
‫لیا۔‬

‫سائیڈ کی دونوں دیواروں کو کاال رنگ کیا‬


‫گیا تھا جس پر جگہ جگہ خون کے چھینٹے‬
‫پڑے ہوئے تھے۔۔۔سامنے ایک لکڑی کا چھوٹے‬
‫میز کی شکل کا صندوق بنا ہوا تھا۔۔جس‬
‫کے اوپر انسانی کھوپٹری اور ہڈیاں سجائی‬
‫گئی‪  ‬تھیں۔۔۔‬

‫بیٹھو۔۔۔۔وہ آدمی میز کی دوسری طرف جا‬


‫کر بیٹھ گیا تھا اور جنید ‪ ،‬درخان کو‬
‫سامنے بیٹھنے کا کہہ رہا تھا۔۔‬

‫ہاں تو کیا کام کروانا ہے تم دونوں نے۔۔۔اس‬


‫آدمی نے در خان کو مخاطب کیا تھا۔۔‬

‫ایک آدمی کا قتل کروانا ہے ۔۔۔درخان نے بنا‬


‫جھجکے کہا‬

‫کیا۔۔۔۔۔اس آدمی کے ساتھ جنید کے منہ سے‬


‫بھی حیرت کے مارے کیا لفظ نکال۔‬

‫کیوں نہیں کر سکتے ہو کیا۔۔۔۔در خان نے‬


‫منہ نزدیک کرکے کہا۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ وہ‬
‫کسی سے چھپ کر بات کر رہا ہو۔۔۔‬

‫میں ایسے کام نہیں کرتا۔۔۔اگر کوئی محبت‪،‬‬


‫شادی ‪ ،‬کاروبار وغیرہ کا مسلئہ ہے تو بتاو‬
‫لیکن یہ قتل وتل میں نہیں کرتا۔۔۔آدمی بوال‬

‫وہ در خان اور جنید کو پولیس کا آدمی‬


‫سمجھ رہا تھا۔۔۔‬

‫کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬

‫میرا نام جوزف ہے لیکن تم کیوں پوچھ‬


‫رہے ہو۔۔۔۔آدمی نے جواب دیا‬

‫یہ بات چھوڑو جوزف۔۔یہ بتاو قتل کر‬


‫سکتے ہو یا نہیںَ؟ درخان نے کرخت لہجے‬
‫میں کہا تھا‬
‫آپ کو میرے بارے میں کسی نے غلط‬
‫اطالع دی ہے جناب۔۔میں چھوٹے موٹے‬
‫تعویز کر لیتا ہوں لیکن یہ قتل ۔۔۔نا بابا نا۔۔۔۔‬
‫توبہ ہے میری۔۔جوزف نے کانوں کو ہاتھ‬
‫لگاتے ہوئے کہا‬

‫ہممم۔۔۔لیکن میں قتل کر لیتا ہوں۔۔۔۔در خان‬


‫کا لہجہ ابھی بھی کرخت تھا۔‬

‫کیا مطلب۔۔۔میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا‬


‫۔۔۔۔جوزف ڈر گیا تھا۔۔۔اب اسے یقین ہو گیا‬
‫تھا کہ سامنے والے دونوں آدمیوں کا تعلق‬
‫پولیس سے ہے۔۔‬

‫مطلب کچھ نہیں ہے ۔۔یہ جو میرے ساتھ‬


‫آدمی بیٹھا ہے۔۔تم نے اس کے گھر اور‬
‫کاروبار کو برباد کر دیا ہے۔۔۔تم جیسے ہی‬
‫لوگ ہوتے ہیں جو چند پیسوں کے لیے‬
‫دوسرے کے گھروں میں آگ لگا دیتے ہیں۔۔۔۔‬
‫در خان نے دھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔وہ اپنی جگہ‬
‫پر اٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔‬

‫در خان کو اٹھتا دیکھ کر جنید بھی اٹھ‬


‫کھڑا ہوا۔۔۔‬

‫نہیں۔۔یہ سب جھوٹ ہے ۔۔۔میں‪  ‬تو اس‬


‫آدمی کو جانتا بھی نہیں ہوں تو میں‬
‫کیسے۔۔۔۔۔جوزف کی آواز گھگیا گئی تھی۔‬

‫تم کو شاید معلوم نہیں کہ تم اس وقت‬


‫کس سے بات کر رہے ہو جوزف اور کیا‬
‫جھوٹ ہے اور کیا سچ ۔۔۔یہ پتا کرنے کے لیے‬
‫مجھے تم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت‬
‫نہیں۔۔۔تمہیں لگتا ہے کہ میں جھوٹ بول رہا‬
‫ہوں تو یہ دیکھو۔۔۔۔‬

‫یہ کہہ کر در خان نے اپنا ہاتھ جوزف کی‬


‫طرف کیا۔۔اس کی شہادت کی انگلی آگے کو‬
‫اٹھ گئی تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی در خان نے انگلی جوزف کی‬


‫طرف اٹھی۔۔۔جوزف اپنی جگہ سے اوپر‪ ‬‬
‫اٹھا اور پھر در خان کی انگلی کے ساتھ‬
‫جوزف بھی ہوا میں اوپر کو اٹھتا چال گیا۔‬

‫جوزف کی چیخیں بلند ہو گئی تھیں۔۔۔وہ‬


‫گال پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔۔۔‬

‫جنید بھی جوزف کو اس حالت میں دیکھ‬


‫کر کمرے سے بھاگ گیا ۔۔۔۔ وہ بھی دہشت‬
‫سے گھبرا گیا تھا‬
‫بتاو۔۔۔تم نے کیوں جنید پر تعویز کیے۔۔۔نہ‬
‫صرف تعویز کیے بلکہ آج اس کے گھر میں‬
‫ہڈیاں بھی پھینکوا دی۔۔۔بتاو۔۔کیوں کیا یہ‬
‫سب؟‬

‫در خان کی آواز بلند ہو گئی تھی۔۔۔یہ آج‬


‫پہلی مرتبہ تھا کہ در خان اتنے غصے میں‬
‫نظر آ رہا تھا۔۔۔اس سے پہلے کبھی درخان پر‬
‫یہ نوبت نہیں آئی کہ کسی سے غصے میں‪ ‬‬
‫اتنی بلند اور گرج کر بات کرتا۔۔۔لیکن اس‬
‫نے جوزف کے گھر اور کمرے کی حالت‬
‫دیکھ لی تھی۔۔اسے پتا چل چکا تھا کہ‬
‫جوزف وہ آدمی ہے‪  ‬جو پیسوں کے لیے اپنے‬
‫گھناونے تعویزوں سے کسی کاقتل بھی کر‬
‫سکتا ہے اور کسی کا گھر تباہ بھی کر سکتا‬
‫‪ ‬ہے‬
‫مجھے معاف کر دو۔۔۔میرے باپ کی توبہ‬
‫جو میں آئندہ یہ کام بھی کروں۔۔۔۔میں‬
‫پیسوں کی اللچ میں اندھا ہو گیا تھا ۔۔ورنہ‬
‫میں اتنے خطرناک تعویز بلکل نہیں کرتا۔۔۔۔‬
‫خدا کے لیے مجھے معاف کر دو۔۔میں عیسی‬
‫ٰ ابن مریم کی قسم کھاتا ہوں کہ آئندہ‬
‫‪   ‬کسی کو تعویز نہیں دوں گا۔۔۔‬

‫اب تمہیں معافی بلکل نہیں ملے گی۔۔۔تم نے‬


‫پہلے تعویز کیے۔۔جو میں نے ختم کر دیے ۔۔۔‬
‫لیکن تم پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز‬
‫نہیں آئے۔۔۔اب تمہیں معافی نہیں ملے گی۔۔۔‬

‫نہیں ۔۔۔۔یسوع مسیح کے لیے مجھے معاف‪ ‬‬


‫کر دو۔۔تمہیں خدا کا واسطہ مجھے معاف‬
‫کر دو۔۔۔جوزف چالنے لگا۔۔اس کی چیخیں‬
‫کمرے سے نکل کر باہر تک جا رہی تھیں۔۔۔‬

‫سلیمان۔۔۔اب یہ تمہارے حوالے۔۔۔اسے زرا‬


‫بتاو کہ‪  ‬تم کیا چیز ہے۔۔۔یہ کہہ کر در خان‬
‫مڑا اور باہر نکل گیا۔۔۔‬

‫ابھی در خان صحن کے درمیاں کھڑ ئے‬


‫جنید کے قریب ہی پہنچا کہ جوزف کے‬
‫چیخیں بلند ہوتی گئیں۔۔۔۔وہ اب سلیمان‬
‫سے معافی مانگ رہا تھا۔۔۔‬

‫اچانک جوزف نے ایک زور دار چیخ ماری‬


‫جس نے جنید کو دہال کر رکھ دیا۔۔‬

‫آئیں جنید صاحب چلتے ہیں۔۔۔در خان نے‬


‫جنید کے ہاتھ سے پکڑ کر کہا۔۔۔جنید پر‬
‫غشی طاری تھی۔۔وہ اپنے دونوں ہاتھ کان‬
‫پر رکھ کے چیخوں کی آوازوں کو بند کرنا‬
‫چاہتا تھا۔۔۔۔‬

‫جب در خان نے جنید کے ہاتھ سے پکڑا تو‬


‫وہ چونک گیا اور پھر در خان سے آگے تیز‬
‫تیز قدم اٹھاتا باہر نکل آیا۔۔جب تک درخان‬
‫نے دروازہ پار کیا۔۔جنید گاڑی میں بیٹھ کر‬
‫گاڑی‪  ‬سٹارٹ کر چکا تھا۔۔۔‬

‫وہ جلد سے جلد اس جگہ سے نکل جانا‬


‫چاہتا تھا۔۔۔‬

‫جیسے ہی در خان گاڑی میں بیٹھا۔۔۔جنید‬


‫نے گاڑی کو ریورس گئیر میں دوڑانا شروع‬
‫کیا۔۔۔اس سے اتنا نہ کہ ہوسکا کہ گاڑی کو‬
‫آگے کی طرف چالتا۔۔۔ بیچ میں وہ مڑ مڑ کر‬
‫سامنے بھی دیکھتا ۔۔شاید وہ جوزف کو‬
‫دیکھ رہا تھا ۔‬

‫حوصلہ رکھیں جنید صاحب۔۔۔۔اور گاڑی‬


‫آرام سے چالئیں ۔۔۔در خان نے جنید کو‬
‫حوصلہ دینے کی کوشش کی‬

‫گھر سے کافی دور آ کر جنید نے گاڑی کو‬


‫بریک لگائی۔۔۔اس کی سانسیں تیز تیز چل‬
‫رہی تھیں۔۔‬

‫در خان صاحب۔۔۔وہ ۔۔وہ ۔۔ہوا۔۔۔کیسے ۔۔۔۔‬


‫جنیداٹک اٹک کر بات کر رہا تھا۔۔‬

‫پر سکون ہو جائیں جنید صاحب۔۔۔سب‬


‫ٹھیک ہو گیا ہے ۔۔۔در خان نے جنید کی‬
‫پیٹھ کو تھپکاتے ہوئے کہا‬
‫اب آپ اور آپ کا گھر ‪ ،‬کاروبار سب اہلل کے‬
‫کرم سے ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔‬

‫لیکن وہ ۔۔۔۔کیسے ؟۔۔۔۔جنید ابھی بھی ڈرا‬


‫ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫ارے چھوڑیں نا جنید بھائی۔۔۔جو بھی ہوا‬


‫تھا ۔۔۔بھول جائیں۔۔۔۔در خان نے تسلی دیتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫اچھا۔۔اب آپ پہلے مجھے حجرے چھوڑ‬


‫آئیں گے یا اپنے گھر جائیں گے۔۔۔در خان نے‬
‫جنید کا دماغ بٹانے کے لیے کہا‬

‫میں آپ کو حجرے پر چھوڑ آتا ہوں۔۔۔۔جنید‬


‫نے کہا۔۔وہ ابھی بھی تھوڑا تھوڑا کانپ رہا‬
‫تھا‬
‫جنید کو گاڑی کو گھمایا اور شہر کے باہر‬
‫جانے والے رستے پر ڈال دی۔۔۔ان دونوں نے‬
‫رستے میں کوئی بات نہیں کی ۔۔‬

‫حجرے پر پہنچے تک جنید کی طبعیت‬


‫کچھ بہتر ہو گئی تھی اور پھر در خان کو‬
‫خدا حافظ کہہ کر جنید واپس چال گیا۔‬

‫حجرے میں داخل ہو کر در خان اپنے کمرے‬


‫میں چال گیا۔۔۔‬

‫ہاں بھئی سلیمان۔۔۔اب بتاو تو زرا تم نے‬


‫ایسا کیا کیا کہ جوزف کی چیخیں ہی نہیں‬
‫رک رہی تھی۔‬

‫ہی ہی ہی ۔۔۔۔میں نے اس کو ہاتھ بھی نہیں‬


‫لگایاتھا در خان۔۔بس اپنا اصل چہرہ دکھایا‬
‫اور وہ بے چارہ سیدھا جہنم چال گیا۔۔۔‬
‫سلیمان نے ہنستے ہوئےکہا۔‬

‫کیا۔۔۔۔۔۔۔در خان نے حیرت سے جھٹکا کھایا‬


‫تھا‬

‫تم نے اسے مار دیاسلیمان۔۔۔۔وہ حیرت سے‬


‫بوال‬

‫نہیں در خان ۔۔۔میں نے کہا نا‪  ‬کہ میں نے‬


‫اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔۔۔جیسے تم کمرے‬
‫سے باہر نکلے میں اپنی شکل میں آگیا۔۔۔‬
‫پہلے تو اس کی چیخیں بلند ہوتی گئیں۔۔۔‬
‫میں جیسے ہی تھوڑاآگے بڑھا۔۔۔اس نے ایک‬
‫لمبی چیخ ماری اور وہیں ہوا میں ہی اس‬
‫کا سرایک جانب ڈھلک کیا۔۔شاید اس کے‬
‫دل کی دھڑکن بند ہو گئی تھی۔۔۔‬
‫اوہ۔۔۔۔۔یہ تو اچھا نہیں ہوا درخان۔۔۔ایک‬
‫انسان کو تم نے مارا ہے۔۔۔درخان بوال‬

‫میں نے انسان کو نہیں‪  ‬بلکہ شیطان کومارا‬


‫ہے درخان۔۔۔اچھا ۔۔اب بس بھی کرو۔۔۔۔کوئی‬
‫اور بات کرو۔۔۔۔سلیمان نے بات بدلنے کا کہا‬

‫چھوڑ دیا بات کو بس۔۔۔۔۔میں چائے رکھتا‬


‫ہوں۔۔صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں ہے۔۔۔‬
‫در خان کمرے میں پڑی کیتلی اٹھا رہا تھا‬

‫اچھا ٹھیک ہے ۔۔جب تک تم چائے بناو۔۔میں‬


‫درگاہ شریف سے ہو کر آتا ہوں۔۔۔سلیمان نے‬
‫کہا‬

‫ٹھیک ہے۔۔درخان نے جواب دیا تو خوشبو‬


‫کمرے سے چلی گئی۔۔اور در خان چائے بنانے‬
‫کا سامان اکھٹا کرنے لگا۔۔‬
‫‪------------------------------------------------‬‬
‫سفرینا کو یاد ہی نہیں کہ اسے جاپ کرتے‬
‫ہوئے کتنےدن گزر گئے ہیں۔۔شروع کے دنوں‬
‫میں تو‪  ‬اس نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد‬
‫آنکھیں کھول کر اردگرد دیکھا لیکن بعد‬
‫میں جو وہ ایک ہی منظر دیکھ کر اکتا گئی‬
‫تو اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔۔‬

‫پتا نہیں یہ کیسے زمین تھی کہ اتنے دن تک‬


‫اس نے ابھی تک رات کا اندھیرا نہیں دیکھا‬
‫تھا۔۔۔شاید اس زمین پر رات ہوتی ہی نہیں‬
‫تھی۔۔۔لیکن‪  ‬پھر اس زمین پر روشنی کیسے‬
‫تھی۔۔۔‬

‫سفرینا یہ سوچتی بھی رہی اور اپنا جاپ‬


‫بھی کرتی رہی لیکن جب اسے کوئی جواب‬
‫نہیں مال تو آنکھیں بند کرکے جاپ کرنے‬
‫لگی۔‬

‫آج بھی سفرینا آنکھیں نہ کھولتی لیکن‬


‫سردی کی شدت بڑھ جانے کی وجہ سے‬
‫اسے آنکھیں کھولنی پڑیں۔‬

‫زمین پر ہر طرف برف نظر آ رہی تھی لیکن‬


‫عجیب بات یہ ہے کہ یہ برف آسمان سے‬
‫نہیں گر رہی تھیں۔۔۔کیونکہ فضا بلکل صاف‬
‫تھی ۔۔۔‬

‫سفرینا کے آنکھیں کھلنے پر اسے دو ‪ ،‬دو‬


‫فٹ کی برف زمین پر پڑی نظر آئی اور نیلے‬
‫رنگ کی زمین برف کے نیچے چھپ چکی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫شاید آج سفرینا کو جاپ کرتے ہوئے بیس‬
‫دن ہونے کو تھے۔۔۔‬

‫اس نے دنوں کا شمار تو نہیں کیا تھا لیکن‬


‫جس طرح سے وہ جاپ کرنے میں لگی‬
‫ہوئی تھی اور اپنی بھوک کو دیکھتے ہوئے‬
‫اسے یہی لگا کہ اسے دو ہفتوں سے زیادہ کا‬
‫وقت گزر گیا ہے۔۔‬

‫ابھی سفرینا کو مزید چالیس دن جاپ کرنا‬


‫تھا‪  ‬لیکن بھوک کو محسوس کرکے سفرینا‬
‫سوچ رہی تھی کہ اگر یہ بھوک ایسے ہی‬
‫بڑھتی گئی تو وہ کیسے کرے گی۔۔‬

‫سفرینا نے سامنے نیچے پڑے سکندر کے‬


‫چہرے پر دیکھا ۔۔۔اس کی کھلی آنکھیں‬
‫سفرینا کو ہی دیکھ رہی تھی۔۔۔‬
‫چونکہ سفرینا ‪ ،‬سکندر اور جلیل کی روح‬
‫حصار میں پڑی ہوئی تھیں تو برف سے‬
‫بچے ہوئے تھے لیکن سردی کی شدت حصار‬
‫کے اندر بھی محسوس ہو رہی تھی۔‬

‫اگر سفرینا چاہتی تو زمین پر پڑی برف کو‬


‫دوبارہ ختم کر سکتی تھی‪ ،‬اگر وہ چاہتی‬
‫تو سردی کی شدت کو آگ لگا کر کم کر‬
‫سکتی تھی لیکن جاپ کرنے سے پہلے‬
‫سفرینا سے یہی غلطی ہوئی کہ اس نے اپنے‬
‫اردگرد آگ کو بجھا دیا جس کی وجہ سے نا‬
‫صرف برف بڑھتی جا رہی تھی بلکہ سردی‬
‫کی شدت بھی بڑھتی جا رہی تھی‬

‫لیکن اب سفرینا کچھ بھی نہیں کر سکتی‪ ‬‬


‫تھی۔۔۔اگر وہ جاپ روک دیتی ہے تو سارے‬
‫کیے کرائے پر پانی پھیر دے گی ‪ ،‬یہ بھی‬
‫نہیں معلوم کہ جاپ کو ختم کرنے کے بعد‬
‫کیا ہوگا۔۔۔کچھ برا بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔یہ‬
‫سب سوچ کر سفرینا جاپ کو ختم کرنے‬
‫سے با ز آ گئی۔۔‬

‫اس کے لب اب جاپ کے الفاظ پر عبور‬


‫حاصل کر چکے تھے۔۔۔اب وہ الشعوری طور‬
‫پر بغیر سوچے جاپ کو پڑھے جا رہی‬
‫تھی۔۔۔ایسے حاالت میں بیٹھ بیٹھ کر وہ‬
‫بور ہو رہی تھی۔۔۔‬

‫اف ۔۔۔اگر یہ جاپ نہ ہوتا تو میں سکندر‬


‫سے باتیں کرکے وقت گزار لیتی۔۔۔۔کیا‬
‫کروں۔۔۔سفرینا نے شعوری طور پر سوچتے‬
‫ہوئے کہا‬
‫اب تم کچھ بھی نہیں کر سکتی ہو۔۔بہتر‬
‫یہی ہے کہ چپ چاپ بیٹھ کر جاپ کرتی‬
‫‪ ‬رہو۔۔۔سفرینا نے دل ہی دل میں کہا‬

‫اس نے دوبارہ سے آنکھیں بند کر لیں‬


‫تھیں۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیرسفرینا۔۔۔‬
‫)قسط نمبر(‪)29‬۔۔۔(از ابن نصیر‬

‫سلیمان کی وجہ سے در خان لوگوں میں‬


‫اب کافی مشہور ہو چکا ہے۔۔۔پہلے نزدیک‬
‫گاوں کے لوگ در خان کے پاس اپنے مسائل‬
‫لے کر آتے تھے لیکن آہستہ آہستہ درخان کا‬
‫نام‪  ‬سن کر‪  ‬دور دراز کے شہروں سے بھی‬
‫لوگ آنے لگے‬

‫جنید خان کے واقعہ کو تین ہفتے گزر گئے‬


‫تھے اور جنید خان نے دوبارہ حجرے کی‬
‫طرف رخ نہیں کیا تھا۔۔۔شایداب وہ اور اس‬
‫کا گھر‪،‬کاروبار ٹھیک ہو گئے تھے۔‬

‫آج صبح در خان ناشتہ سے فارغ ہونے کے‬


‫بعد حجرے کو جھاڑو لگا رہا تھا اور‬
‫سلیمان اس کے ساتھ باتوں میں مصروف‬
‫تھا جب باہر گلی میں گاڑی رکنے کی آواز‬
‫آئی۔۔۔‬

‫لگتا ہے جنید پھر آ گیا ہے۔۔۔در خان نے گاڑی‬


‫رکنے کی آواز سن کر کہا‬
‫مجھے نہیں لگتا درخان کیونکہ وہ اب‬
‫مکمل ٹھیک ہو گیا ہے ۔یہ کوئی اور ہوگا۔۔۔‬
‫سلیمان نے نزدیک کھڑے در خان سے کہا‬

‫وہ دونوں ابھی باتوں میں مصروف تھے کہ‬


‫جنید خان کا چہرہ حجرے میں نظر آیا۔۔۔۔‬
‫اس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا‬

‫جنید خان کو سامنے دیکھ کر درخان‬


‫مسکرا دیا۔۔‬

‫ٓ‬

‫اسالم علیکم جنید صاحب۔۔۔در خان نے آگے‬


‫بڑھتے ہوئے کہااس نے اپنا آگے بڑھایا تھا‬

‫وعلیکم سالم در خان صاحب۔۔۔جنید نے‬


‫مسکراتے ہوئے در خان کا ہاتھ تھام لیا‬
‫کیسے ہیں آپ ۔۔۔جنید صاحب؟ ۔۔۔در خان‬
‫نے پوچھا‬

‫اہلل کے کرم اور آپ کی مدد کے بعد‬


‫الحمداہلل میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔جنید کے‬
‫چہرے پر مسکراہٹ بھلی لگ رہی تھی۔۔۔‬

‫در خان جنید کو مسکراتا دیکھ کر دل ہی‬


‫دل میں بے حد خوش تھا‬

‫چلیں ۔۔۔اہلل پاک کا شکر ہے۔۔۔در خان بوال‬

‫سب سے پہلے تو یہ مٹھائی لیں۔۔۔۔جنید نے‬


‫شاپر در خان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا‬

‫کیا مطلب جنید صاحب۔۔ کہیں آپ باپ تو‬


‫نہیں بننے والے ہیں۔۔۔در خان نے حیرت میں‬
‫کہا‬
‫ارے نہیں در خان صاحب۔۔۔وہ بھی ہو جائے‬
‫گا ایک دن لیکن یہ مٹھائی میری طرف سے‬
‫آپ کی محنت کا تحفہ ہے۔۔آپ نے مجھے‬
‫اتنے بڑے مسلئہ سے نکاال ہے ۔۔یہ کم ہے‬
‫کیا۔۔۔۔۔‬

‫اوہ۔۔۔اچھا۔۔۔۔میں سمجھا کہ مبارک باد دوں‬


‫آپ کو۔۔۔لیکن کوئی بات نہیں۔۔اگر اہلل نے‬
‫چاہا تو یہ‪  ‬خوش خبری بھی سن لیں گے۔۔۔‬
‫در خان‪  ‬نے شاپر پکڑتے ہوئے کہا‬

‫جی درخان صاحب۔۔۔۔اچھا میں آپ کے‬


‫پاس ایک اور مسلئہ لے کر آیا ہوں اور امید‬
‫کرتا ہوں کہ جیسے آپ نے مجھے مشکالت‬
‫سے نکاال ہے ۔۔ویسے ہی میری منہ بولی بہن‬
‫کی مشکل بھی حل کر دیں گے۔۔‬
‫جنید صاحب۔۔۔مشکالت حل کرنے والی ذات‬
‫اہلل کی ہے ۔۔۔ہم انسان صرف کوشش کر‬
‫سکتے ہیں۔۔آپ مجھے مشکل بتائیں پھر‬
‫دیکھتے ہیں کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔لیکن‬
‫آئیں پہلے حجرے میں بیٹھ جاتے ہیں۔۔۔‬
‫دھوپ میں کھڑے رہ کر بات کرنا مجھے‬
‫مناسب نہیں لگ رہا ہے۔۔۔در‪  ‬خان بوال‬

‫جی ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔یہ کہہ کر جنید در خان‬


‫کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔۔در خان نے‬
‫حجرے کا کمرہ کھوال اور اندر چٹائی پر‬
‫دونوں بیٹھ گئے۔‬

‫جی جنید صاحب۔۔اب بتائیں کہ کیا بات‬


‫ہے۔۔۔در خان نے بیٹھنے کے بعد کہا۔۔۔‬
‫بات کچھ یوں ہے در خان صاحب کہ میری‬
‫ایک منہ بولی بہن دوسرے شہر میں رہتی‬
‫ہیں۔۔۔۔سال میں ایک دو دفعہ ایک دوسرے‬
‫کے گھر آنا بھی ہوتا ہے۔۔۔‬

‫کچھ دن پہلے جب آپ نے تعویز نکالے تھے‬


‫تو رات میں میری بہن سے بات ہوئی ۔۔۔پہلے‬
‫تو وہ ڈر گئی لیکن جب میں نے آپ کی‬
‫کرامات انہیں بتائیں تو بےحد خوش‬
‫ہوئی۔۔۔ان کی ایک بیٹی ہے جس کی‬
‫طبیعت دو سالوں سے بہت خراب رہتی‬
‫ہے۔۔۔ہر وقت خاموش خاموش سی رہنے‬
‫لگی ہے۔۔۔کہتی ہے کہ کوئی میرے ساتھ‬
‫ہے۔۔۔جو اسے تنگ کرتا ہے۔۔۔شادی کی عمر‬
‫ہونے کے باوجود بھی کہیں بھی رشتہ نہیں‬
‫طے پاتا ہے۔۔۔جب بھی کوئی دیکھنے آتا ہے‬
‫تو بغیر کسی وجہ کے انکار ہو جاتا ہے۔۔۔‬
‫میں نے پہلے بھی اپنی بہن سے کہا کہ‬
‫کسی عا لم کو دکھائیں لیکن وہ ان چیزوں‬
‫پر یقین نہیں رکھتی ہیں۔۔۔لیکن اس د ن‬
‫جب میں نے اپنی بات بتائی تو اس کے دل‬
‫میں بھی یہ بات آئی کہ وہ بھی اپنی بیٹی‬
‫آپ کو دکھائے۔۔۔‬

‫میں نے سوچا کہ پہلے آپ سے بات کر لوں۔۔‬


‫کیونکہ ان کے ساتھ کوئی ایسا بندہ نہیں‬
‫ہے جو انہیں یہاں لے ائے۔۔۔دو بیٹیاں ہیں‬
‫اور تیسری خود ہیں۔۔۔اس لیے وہ یہاں نہیں‬
‫آ سکتی ہیں۔۔۔میں نے انہیں کہا کہ میں‬
‫کوشش کروں گا آپ میرے ساتھ وہاں‬
‫چلیں۔۔۔اب اگر آپ برا نہ منائیں تو اس بہن‬
‫کی بھی مدد کر دیں۔۔۔پلیز‬
‫ہممم۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے اس لڑکی کا؟ در خان نے‬
‫نام پوچھا‬

‫حدیقہ نام ہے ۔۔۔۔جنید نے نام بتایا‬

‫نام سن کر جنید نے اپنی آنکھیں بند کر‬


‫لیں۔۔۔۔چونکہ جنید در خان کو ہی دیکھ رہا‬
‫تھا۔۔۔اس لیے در خان نے نہایت آہستگی سے‬
‫سلیمان کا نام لیا۔۔‬

‫میں نے ساری بات سن لی ہے در خان ۔۔۔‬


‫مجھے ایک منٹ دو زرا۔۔۔میں سب بتاتا ہوں‬
‫‪ ‬تمہیں۔۔۔سلیمان نے کہا‬

‫اور پھر کمرے میں خاموشی چھا گئی۔۔۔در‬


‫خا ن نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔۔‬

‫ابھی ایک منٹ بھی پورا نہیں ہوا کہ‬


‫سلیمان کی آواز در خان کے کانوں میں‬
‫گونجی۔۔۔‬

‫حدیقہ نامی لڑکی پر ایک جن عاشق ہے د‬


‫رخان۔۔۔۔جس کی وجہ اس لڑکی کا با پ‬
‫ہے۔۔۔جو کہ ابھی مر چکا ہے۔۔۔حدیقہ کے‬
‫باپ نے اپنی جوانی میں ایک چلہ کرنے کی‬
‫کوشش کی تھی لیکن وہ چلہ مکمل نہیں‬
‫کر سکا۔۔جس کے بعد جنات میں سے ایک‬
‫جن اسے مارنے پر تل گیا۔۔۔لیکن چونکہ‬
‫حدیقہ کا باپ جنات سے بچاو کا علم رکھتا‬
‫تھا تو اپنی زندگی میں وہ اپنے گھر والوں‬
‫کو اس جن سے بچاتا رہا لیکن ایک‬
‫ایکسیڈنٹ میں موت ہو جانے کے بعد اس‬
‫جن کو گھر میں داخل ہونے کا رستہ مل گیا‬
‫۔۔۔جب اس نے حدیقہ کو دیکھا تو بدلے کی‬
‫آگ میں اس لڑکی پر قبضہ کر لیا۔۔۔یہ سب‬
‫اس جن کی حرکت ہے۔۔۔‬

‫سلیمان نے در خان کو حدیقہ کے بارے میں‬


‫سب کچھ بتا یا تو در خان نے آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔۔‬

‫جنید صاحب اس بچی پر ایک شریر جن کا‬


‫سایا ہے۔۔۔۔در خان نے جنید کو زیادہ کچھ‬
‫نہیں بتایا‬

‫جی درخان صاحب۔۔۔مجھے بھی ایسا ہی‬


‫لگتا ہے۔۔۔اب آپ بتائیں کہ آپ میری بہن کی‬
‫مدد کر سکتے ہیں۔۔۔۔جنید نے سوالیہ‬
‫نظروں سے در خان کو دیکھا۔۔‬

‫ارے ۔۔کیوں نہیں کریں گے بھئی۔۔ضرور‬


‫کریں گے۔۔۔اہلل کی بندی پریشانی میں مبتال‬
‫ہے اور اگر میری وجہ سے اس کی پریشانی‬
‫دور ہو سکتی ہے تو پھر میں کیوں مدد‬
‫نہیں کروں گا۔۔۔در خان نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫اہلل آپ کا بھال کرے در خان صاحب۔۔۔‬


‫مجھے بھی آپ سے یہی امید تھی۔۔۔تو پھر‬
‫آپ میرے ساتھ کب چلیں گے۔۔۔جنید بوال‬

‫جب آپ کہیں‪ ،  ‬میں چل دوں گا۔۔بس‬


‫مجھے اتنی مہلت چاہیے کہ میں اپنا‬
‫حجرے کسی کے حوالے کر دوں۔۔میرا دنیا‬
‫میں اور کوئی تو ہے نہیں بس اس گاوں‬
‫کی محبت ہے جس‪  ‬نے مجھے یہاں باندھ‬
‫رکھا ہے۔۔۔در خان بوال۔۔‬
‫تو پھر ابھی چلتے ہیں در خان صاحب۔۔‬
‫اصل میں بات یہ ہے کہ میری جب بہن سے‬
‫بات ہوئی تھی تو میں نے انہیں یہی کہا تھا‬
‫کہ میں مولوی صاحب کو بہت جلد آپ کے‬
‫گھر لے آؤں گا۔۔۔اگر آپ کو مناسب لگے تو‬
‫ابھی چلتے ہیں۔۔۔میں گھر میں بھی یہی‬
‫بتا کر آیا ہوں۔۔۔جنید نے کہا‬

‫مجھے کوئی مسلئہ نہیں ہے جنید صاحب۔۔۔‬


‫آپ چلیں ۔۔۔گاڑی سٹارٹ کریں ۔۔۔میں‬
‫حجرے کی چابی مسجد کے موذن کو دے‬
‫کر آتا ہوں۔۔۔در خان یہ کہہ کر اٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔۔۔‬

‫در خان کو دیکھ کر جنید بھی اٹھ کھڑا‬


‫ہوا۔۔۔درخان نے کمرے میں پڑا تالہ اٹھایا اور‬
‫پھر دونوں حجرے سے باہر نکل آئے۔۔۔باہر‬
‫نکل کر در خان نے حجرے کو تالہ لگایا اور‬
‫پھر مسجد کے ساتھ والے گھر کا دروازہ‬
‫کھٹکھٹایا۔۔۔‬

‫ایک چھوٹی سی بچی گھر سے باہر آئی ۔۔۔‬


‫جسے درخان نے پیار کرنے کے بعد چابی‬
‫پکڑا دی۔۔۔اور اسے یہ بھی بتا دیا کہ شہر‬
‫سے باہر جا رہا ہے تو پریشان مت ہونا۔۔۔۔‬

‫بچی کو یہ بات سمجھ آئی یا نہیں لیکن در‬


‫خان مطمئن تھا کہ چابی مل جائے گی تو‬
‫موذن سمجھ جائے گا۔۔۔اس کے بعد در خان‬
‫جنید کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔‬

‫جنید نے گاڑی سٹارٹ کی اور پھر وہ‬


‫دونوں دوسرے شہر کے سفر کے لیے روانہ‬
‫ہو گئے۔۔۔چونکہ یہ سفر لمبا بھی تھا اور نیا‬
‫بھی تھا تو درخان بیچ بیچ میں جنید سے‬
‫شہر سے متعلق باتیں پوچھتا رہا۔۔رستے‬
‫میں ایک ہوٹل پر رک کر جنید نے کھانا‬
‫منگوایا ۔۔۔۔کھانا کھا کر دونوں پھر سے‬
‫گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔‬

‫جب گاڑی شہر میں داخل ہوئی تو شام ہو‬


‫چکی تھی۔۔۔اور فضا میں اذانوں کی آواز‬
‫گونج رہی تھی۔۔۔۔درخان نے ایک مسجد کو‬
‫دیکھ کر جنید سے گاڑی روکنے کا کہا ۔۔۔۔‬
‫اور پھر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں چال‬
‫گیا جبکہ جنید وہیں گاڑی میں بیٹھ کر در‬
‫خان کا انتظار کرنے لگا۔۔‬
‫نماز پڑھنے کے بعد ان کا باقی کا‪  ‬سفر‬
‫شروع ہوا۔۔اس وقت گاڑی شہر کی بازار‬
‫میں سے گزر رہی تھی۔۔۔۔یہ شہر جنید خان‬
‫کے شہر کی نسبت کافی بڑا تھا۔۔لوگوں کا‬
‫ایک ہجوم تھا جو سڑکوں پر چل رہا تھا۔۔۔‬
‫در خان نے شہر میں چھوٹی ‪ ،‬بڑی گاڑیا ں‬
‫بھی دیکھی تھیں۔۔‬

‫شہر میں آدھا گھنٹا گاڑی دوڑانے کے بعد‬


‫جنید نے گاڑی ایک گھر کے سامنے روکی۔۔۔‬
‫دو مرتبہ ہارن دینے کے بعد ایک بار ہ سالہ‬
‫بچی گھر سے باہر نکلی اور اپنے ماموں کو‬
‫دیکھ کر واپس اندر دوڑ گئی۔۔اس نے گیٹ‬
‫نہیں کھوال تھا۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر بعد ایک عورت کا چہرہ گیٹ پر‬
‫نظر آیا ۔۔۔جو جنید کو دیکھ کر مسکرائی‬
‫تھی۔۔یہ شاید جنید کی منہ بولی بہن‬
‫تھی۔۔۔‬

‫گیٹ کھال تو جنید گاڑی کو اندر لے گیا۔۔۔۔‬

‫شاید اس گھر میں پردے کا کوئی نظام‬


‫موجود نہیں تھا۔۔کیونکہ جنید در خان کو‬
‫گھر اندر لے گیا تھا۔۔۔‬

‫جنید کی منہ بولی بہن کافی عمر کی لگ‬


‫رہی تھیں۔۔جو اپنے دونوں بیٹیوں کے ساتھ‬
‫ایک چھوٹے سے گھر میں رہ رہی تھی۔۔۔‬

‫۔ٓ‬

‫جنید نے درخان کا تعارف گھر کے دونوں‬


‫افراد سے کرایا لیکن در خان کوابھی تک‬
‫حدیقہ نظر نہیں آئی تھی۔۔۔۔اس عورت نے‬
‫اپنا نام شکیلہ بتایا جو ایک سرکاری‬
‫اسکول میں ٹیچر تھیں‬

‫در خان اور جنید کو کمرے میں بٹھانے کے‬


‫بعدشکیلہ چائے بنانے کے لیے چلی گئی۔۔‬

‫جب چائے تیار ہو کرشکیلہ‪  ‬واپس آئی تو‬


‫اس کے ساتھ دو لڑکیا ں تھیں۔۔۔جن میں‬
‫‪ ‬سے ایک حدیقہ تھی‬

‫یہ میری بیٹی ہہے اور یہ اس کی دوست‬


‫سکینہ ہے۔۔اس بیچاری کا ابھی ایک مہینے‬
‫پہلے ہی منگیتر کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں‬
‫وہ بیچارہ فوت ہو گیا۔شکیلہ نے دونوں‬
‫لڑکیوں کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔‬
‫دونوں لڑکیوں نے در خان کو سالم کیا ۔۔۔‬
‫اور در خان کے سامنے ہی موجود کرسیوں‬
‫پر بیٹھ گئیں تھیں۔۔۔‬

‫مجھے یہ سن کر بہت افسوس ہوا بہن ۔۔۔‬


‫لیکن ہمیں اہلل کی رضا میں راضی ہونا‬
‫چاہیےاور اہلل کی طرف سے دی گئی کسی‬
‫بھی آزمائش میں صبر کرنا چاہیے۔۔در خان‬
‫نےابھی یہ الفاظ ہی کہے کہ حدیقہ کر سی‬
‫پر بیٹھے بیٹھے ہی زمین پر گرگئی۔۔اس پر‬
‫غشی کا دورہ پڑا تھا۔۔۔۔جھاگ اس کے منہ‬
‫سے نکل کر زمین پر گر رہی تھی۔۔۔‬

‫شکیلہ بیٹی کہہ کر حدیقہ کی طرف دوڑی‬


‫۔۔۔ساتھ بیٹی لڑکی جس کا نام شکیلہ نے‬
‫سکینہ بتایا تھا اس نے جلد ی سے حدیقہ‬
‫کو تھام لیا۔۔‬

‫سلیمان ۔۔۔جنات کا اثر ہے ۔۔۔اور وہ اس‬


‫وقت اس کمرے میں موجود ہے۔۔۔۔سلیمان‬
‫نے در خان کے کان میں بات کہی تھی۔۔۔‬

‫شکیلہ بہن چھوڑ دیں حدیقہ کو۔۔۔اور آپ‬


‫بھی سائیڈ پر ہو جائیں۔۔۔در خان نے شکیلہ‬
‫اور سکینہ سے کہا ۔۔۔‬

‫دونوں نے جب درخان کی بات‪  ‬سنی تو‬


‫خاموشی سے پرے ہو گئیں۔۔۔ان کے چہرے‬
‫پر پریشانی واضح نظر آ رہی تھی۔۔‬

‫حدیقہ کی آنکھیں اوپر کو اٹھ گئیں تھیں۔۔‬


‫ایسا لگ رہا تھا کہ اس کی جان نکلنے والی‬
‫ہے ۔۔لیکن سلیمان جانتا تھا کہ یہ سب جن‬
‫کی شرارت ہے۔۔جو ایسی حرکتیں کر کے‬
‫سب کو پریشان کر رہا تھا۔۔۔‬

‫کون ہو تم اور کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔درخان نے‬


‫لہجے کو کرخت بنا لیا تھا۔۔لیکن حدیقہ نے‬
‫کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔‬

‫سکینہ بھی درخان کو حیرت سے دیکھ‬


‫رہی تھی۔۔۔اسے سمجھ نہیں آہی تھی کہ‬
‫حدیقہ زمین پر پڑی تڑپ رہی ہے اور یہ‬
‫آدمی اس سےنام پوچھ رہا ہے۔۔‬

‫کیا آپ کو نظر نہیں آتا کہ یہ بیمار ہے ۔۔۔۔‬


‫اور آپ یہاں بیٹھ کر اس کا نام پوچھ رہے‬
‫ہیں۔۔۔سکینہ نے غصے میں در خا ن سے کہا‬

‫آپ برائے مہربانی خاموش رہیں۔۔۔شکیلہ‬


‫بہن اس لڑکی کو منع کریں۔۔۔در خان نے‬
‫‪ ‬سکینہ اور شکیلہ دونوں سے کہا‬

‫سکینہ کو در خان یہ بات بری لگی لیکن‬


‫پھر شکیلہ کو خاموش دیکھ کر وہ بھی‬
‫خاموش ہو گئی۔‬

‫تم نے سنا نہیں میں نے کیا پوچھا ہے؟ در‬


‫خان نے غراتے ہوئے حدیقہ سے کہا۔۔‬

‫لیکن اسے ابھی بھی کوئی جواب نہیں‬


‫مال۔۔۔۔‬

‫تم ایسے نہیں سمجھو گے۔۔۔۔‬

‫مجھے ایک پانی کا گالس بھر کر دیں۔۔۔۔در‬


‫خان نے کہا تو شکیلہ دوڑتی ہوئی کمرے‬
‫سے باہر گئی اور پانی کا ایک گالس بھر کر‬
‫الئی۔۔‬
‫در خان نے تین تعوذ پڑھ کر پانی پر دم کیا‬
‫اور پانی سے بھرا گالس حدیقہ کے منہ پر‬
‫اچھال پھینکا۔۔۔‬

‫جیسے ہی پانی حدیقہ کے چہرے پر گرا۔۔۔‬


‫اس نے ایک زور دار چیخ ماری۔۔۔‬

‫حدیقہ کی اوپر کو چڑھی آنکھیں‪  ‬صحیح‬


‫تو ہو گئی لیکن اب حلقوں سے باہر نکلنی‬
‫والی تھی۔۔۔منہ سے گرتی جھاگ آدھے منہ‬
‫پر لگ گئی تھی۔۔۔‬

‫نکل جاو۔۔یہاں سے نکل جاو۔۔۔۔حدیقہ‬


‫مردانہ آواز میں بولی۔۔۔‬

‫کیا نام ہے تمہارا۔۔۔۔درخان نے دوبارہ پوچھا‬

‫حدیقہ کی حالت دیکھ کر سکینہ کی حالت‬


‫بھی بری ہو گئی تھی۔۔۔وہ زیر لب کچھ‬
‫پڑھ رہی تھی۔۔۔شاید کوئی دعا پڑھ رہی‬
‫تھی‬

‫نکل جاو۔۔۔نکل جاوووووو۔۔۔۔حدیقہ زور سے‬


‫چیخی اور پھر وہ منہ اوپر کو اٹھائے‬
‫چیختی گئی۔۔۔‬

‫اچانک اس گردن پیچھے کو مڑنے لگی۔۔۔یہ‬


‫منظر دیکھ کر کمرے میں موجود تمام‬
‫لوگوں کی چیخیں نکل گئیں۔۔۔جن حدیقہ‬
‫کی گردن توڑنے جا رہا تھا۔۔۔۔‬

‫سنبھالو اسے۔۔۔اچانک در خان زور سے‬


‫چیخا۔۔۔۔یہ اشارہ سلیمان کے لیے تھا لیکن‬
‫باقی لوگ سمجھے کہ در خان انہیں کہہ رہا‬
‫ہے۔۔۔وہ سب حدیقہ کی طرف تیزی سے‬
‫بڑھے۔۔۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ سب حدیقہ کو‬
‫سنبھالتے۔۔اچانک حدیقہ نے زور سے پیچھے‬
‫کو جھٹکا کھایا۔۔۔اس کا سر زور سے کرسی‬
‫سے ٹکرایا تھا۔۔‬

‫حدیقہ کے منہ سے ایک لمبی سے آہ نکلی۔۔۔‬


‫اس کا سر ڈھلک گیا تھا۔۔۔‬

‫شکیلہ اپنی بیٹی کو ایسی حالت میں‬


‫‪      ‬دیکھ کر کانپ سی گئی۔۔۔‬

‫ان سب کو لڑکی سے دور کرو۔۔۔۔سلیمان‬


‫اونچی آواز میں بوال‬

‫دور ہو جاو سب۔۔۔در خان چیخا‬

‫در خان کی آواز میں اتنی شدت تھی کہ‬


‫سب جہاں تھے وہیں رک گئے۔۔۔‬
‫میں نے اس جن کو اس کمرے میں بند کر‬
‫دیا ہے۔۔اب وہ یہاں سے کہیں نہیں جا سکتا‬
‫ہے در خان۔۔۔لڑکی ٹھیک ہے ۔۔۔اسے کچھ‬
‫نہیں ہوا ہے۔۔۔‬

‫سلیمان نے در خان کو بتایا‬

‫جن اس لڑکی کے جسم سے نکل چکا ہے اور‬


‫اب اس کمرے میں بند ہے۔۔۔۔اس لیے سب‬
‫اس لڑکی سے دور رہو۔۔۔۔‬

‫زندگی اور موت کے درمیان کشمکش میں‬


‫موجود سامنے پڑی حدیقہ کو دیکھ کر سب‬
‫پر سکتہ طاری تھا لیکن وہ سب در خان کے‬
‫سامنے مجبور تھے۔۔اب در خان ہی ان کا‬
‫سہارا تھا۔۔۔اس لیے درخان کی بات سن کر‬
‫سب پرے کھڑے ہو گئے۔۔‬
‫سلیمان جو میں پڑھ رہا ہے ۔۔۔تم اپنی‬
‫انگلی منہ کے سامنے کر کے پڑھتے جاواور‬
‫مکمل ہونے کے بعد اپنی انگلی پر پھونک‬
‫مارنا۔۔۔اس کے بعد اس انگلی کی مدد سے‬
‫حدیقہ کے ارد گرد ایک دائرہ بنانا۔۔۔یہ ایک‬
‫سلیمانی حصار ہے جس کی مدد سے وہ‬
‫جن سے محفوظ رہے گی۔۔۔‬

‫یہ کہہ کر سلیمان نے اونچی آواز میں پڑھنا‬


‫شروع کیا۔‬

‫در خان بھی سلیمان کے الفاظ کو روہرا رہا‬


‫تھا اس نے اپنی انگلی منہ کے قریب کر دی‬
‫تھی۔۔۔جیسے ہی سلیمان نے پڑھنا بند کیا ۔۔۔‬
‫در خان نے جلد ی سے اپنی انگلی پر پھونک‬
‫ماری اور پھر آگے بڑھ کر حدیقہ کے گرد‬
‫ایک دائرہ کھینچا۔‬

‫حدیقہ اب جن سے محفوظ ہے ۔۔آپ سب‬


‫پریشان نہ ہوں۔۔۔لیکن جن ابھی بھی اس‬
‫کمرے میں بند ہے۔۔اگر کوئی باہر جانا چاہے‬
‫تو جا سکتے ہے۔۔‬

‫درخان نے‪  ‬جلدی جلد ی کہا لیکن اس کی‬


‫بات کے بعد کوئی بھی کمرے سے باہر نہیں‬
‫گیا۔۔انہیں ڈر لگ رہا‪  ‬تھا۔۔اس لیے وہ کمرے‬
‫میں رہ کر در خان کے سامنے رہنے چاہتے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫اچانک کمرے میں بھیانک قہقوں کی آواز‬


‫گونجے لگی۔۔۔۔جسے سن کر کمرے میں‬
‫موجود ہر انسان کی چیخ نکل گئی لیکن ان‬
‫میں در خان اور سلیمان ایسے تھے جو‬
‫خاموش کھڑے دیکھ رہے تھے‬

‫میں پھر کہہ رہا ہوں ۔۔آپ لوگ باہر چلے‬


‫جائیں۔۔در خان دوبارہ چیخا ۔۔اس کی آواز‬
‫جن کے قہقوں میں گم ہو گئی تھی۔۔۔جس‬
‫کی وجہ سے کوئی بھی کمرے سے باہر‬
‫نہیں نکال۔۔‬

‫اس وقت سب کمرے میں کھڑے ارد گرد‬


‫دیکھ رہے تھے۔۔وہ ان قہقے لگانے والے کو‬
‫دیکھنا چاہتے تھے یا پھر اس سے بچنا‬
‫چاہتے تھے۔۔۔‬

‫تمہیں میری بات سمجھ نہیں آئی نا۔۔۔۔فضا‬


‫میں ایک پتلی سی آواز گونجی جو کہ اس‬
‫جن کی تھی۔۔‬
‫میں نے جب تمہیں کہا کہ نکل جاوتو کیوں‬
‫نہیں گئے۔۔۔اب ان سب کی موت کے ذمہ دار‬
‫تم ہو گے۔۔۔جن در خان سے مخاطب تھا‬

‫اور اب میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ تمہارے‬


‫پاس آخری موقع ہے ۔۔۔اگر اس لڑکی اور‬
‫گھر کو چھوڑکر چلے جاو گے تو میں تمہیں‬
‫کچھ نہیں کہوں گا لیکن اگر تم نہیں گئے‬
‫تو اپنی موت کے تم خود ذمہ دار ہو گے۔۔۔در‬
‫خان نے کہا۔۔۔‬

‫چونکہ اس کو جن نظر نہیں آ رہا تھا تو‬


‫آواز کا اندازہ لگا کر سمت میں بات کر رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫ٹھیک ہے پھر ۔۔دیکھتے ہیں کس کی موت‬


‫آتی ہے۔۔۔جن کی آواز آئی۔۔۔‬
‫کمرے میں خاموشی چھا گئی تھی۔۔ در‬
‫خان سمیت سب لوگ پریشان کھڑے دیکھ‬
‫رہے تھے کہ اب کیا ہونے واال ہے ۔۔گھڑی کی‬
‫ٹک ٹک کی آواز سب لوگوں کو واضح‬
‫سنائی د ے رہی تھی کہ اچانک کمرے میں‬
‫دروازے کی جانب چھت کے کونے پر ایک‬
‫بال نظر آئی۔۔۔‬

‫یہ نا انسانی شکل کا تھا اور نہ کوئی جانور‬


‫تھا۔۔۔‬

‫در خان کے دیکھتے ہی اس نے زمیں پر‬


‫چھالنک ماری۔۔۔اور دروازے کے سامنے آ کر‪ ‬‬
‫کھڑا ہو گیا۔۔۔۔‬

‫اس جانور نما انسان کو دیکھ کر سب کی‬


‫چیخیں نکل گئیں اور پھر کمرے میں‬
‫چیخوں کا نہ تھمنے واال سلسلہ شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔۔‬

‫ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔اس نے ابھی تک مجھے نہیں‬


‫دیکھا ہے در خان۔۔ سلیمان نے ہنستی ہوئی‬
‫‪ ‬آواز در خان کے کانوں میں گونجی‬

‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪ 30‬از ابن نصیر‬

‫انسان نما بال دروازے کے سامنے کھڑے‬


‫قہقے لگا رہی تھی اور کمرے میں تمام‬
‫لوگوں کی چیخیں گونج رہی تھی‬

‫در خان بھی اس بال کو دیکھ کر خوفزدہ‬


‫ہو گیا تھا لیکن سلیمان کی بات سن کر اس‬
‫کی ڈھارس بندھ گئی ۔۔۔‬

‫اس بال کے سارے جسم پر لمبے لمبے بال‬


‫تھے جس نے اس کے پورے جسم کو کالے‬
‫رنگ سے ڈھانپ رکھا تھا ۔۔لمبے لمبے کان‬
‫اور سامنے کے نکلے تیز اور نوکیلے دانت‬
‫جن سے رال ٹپک رہی تھی۔۔۔‬

‫بال نے زور سے بھیڑیا کی آواز نکالی تو‬


‫کمرے میں زلزلہ سے آ گیا۔۔۔سامنے دیوار پر‬
‫لگی سارے فوٹو فریمز زمین پرآن‪  ‬گرے‬
‫جبکہ الماری میں رکھے برتن اپنی جگہ سے‬
‫ہل کر الماری میں ہی گرتے جا رہے تھے‬
‫بال نے بھیڑیا کی آواز کیا نکلی کہ شکیلہ‬
‫بھی غش کھا کر زمیں پر گر گئی ۔۔۔وہ بے‬
‫ہوش ہو چکی تھی‬

‫اب کمرے میں سکینہ‪ ،‬جنید اور در خان‬


‫موجود تھے جبکہ سلیمان غیبی حالت میں‬
‫کھڑا در خان کی پکار کا انتظار کر رہا تھا‬

‫اور پھر بال‪  ‬اپنے دونوں ہاتھ زمیں پر رکھ‬


‫کر جانور کی طرح چلتی ہوئی آ گے بڑھنے‬
‫لگی‬

‫اس کا نشانہ سکینہ تھی کیونکہ سکینہ اس‬


‫کے دائیں طرف دیوار کے کونے میں دبکے‬
‫کھڑی کچھ پڑ رہی‪  ‬تھی۔۔۔‬

‫در خان نے جب بال کو سکینہ کی‪  ‬طرف‬


‫بڑھتا دیکھا تو زیر لب سلیمان کو پکارا‬
‫لیکن سلیمان کا کوئی جواب نہیں دیا‬

‫در خان نے دوبارہ سلیمان کو آواز دی۔۔۔‬


‫‪ ‬لیکن کچھ بھی نہیں ہوا‬

‫اس سے پہلے کہ در خان کچھ کرتا اچانک‬


‫کمرے میں شکیلہ کی چھوٹی بیٹی بھاگتی‬
‫ہوئی داخل ہوئی اور سامنے کھڑی بال کو‬
‫دیکھ کر ایک زور دار چیخ ماری اور زمین‬
‫پر گر گئی۔۔۔‬

‫‪ ‬اب حاالت قابو سے باہر ہوتے جا رہے تھے‬

‫در خان نے جیسے ہی سلیماں کو بالنے کے‬


‫لیے لب ہالئے ۔۔‬

‫کمرے میں ایک اور بال ظاہر ہو گئی‬


‫یہ بال پہلے والی بال کی طرح بد صورت‬
‫نہیں تھی اور نہ ہی اس کے جسم پر بال‬
‫تھے لیکن یہ بھی جانور نما تھی جس کے‬
‫کان لمبے اور دانت نوکیلے تھے‬

‫یہ بال قد میں پہلے والی بال سےکافی بڑی‬


‫تھی۔۔۔جس کمرے میں یہ سب ہو رہا تھا‬
‫اس کی دیواریں شاید سولہ فٹ کی تھیں‬
‫لیکن دوسری بال کا سر چھت کو چھو رہا‬
‫تھا‬

‫جنید نے جب اپنے سامنے دو دو بالؤں کو‬


‫دیکھا تو ہوش گنوا بیٹھا اور چکراتا ہوا‬
‫زمیں پر آن گرا‬

‫پہلی بال نے جب اپنے سامنے ایک بال کو‬


‫دیکھا تو‪  ‬ٹھٹک کر رک گئی ۔۔اس سے پہلے‬
‫کہ دوسری بال اسے پکڑتی۔۔۔۔اس نے کمرے‬
‫سے باہر نکلنے کے لیے چالنگ لگائی‬

‫دروازے کے قریب پہنچتے ہی اس کے جسم‬


‫کو ایک جھٹکا لگا اور وہ چار فٹ پیچھے‬
‫جا گری‬

‫بعد والی بال جو کہ سلیمان تھا اس نے جن‬


‫کو مزید موقع دینا مناسب نہیں سمجھا ۔۔‬
‫جیسے ہی جن کا جسم زمیں پر گرا ۔‬
‫سلیمان‪  ‬لمبی چھالنگ لگا کر اس کے سینے‬
‫پر بیٹھا اور اپنے نو کیلے دانت جن کی‬
‫بالوں سے بھری گردن میں گاڑھ دیے‬

‫جن کی گردن سے سبز رنگ کا مادہ نکال اور‬


‫سلیمان کے منہ کو لگنے لگا۔۔۔‬
‫سلیمان نے ابھی بھی اس بال کو نہیں‬
‫چھوڑا تھا اور وہ بال سلیمان کے لمبے اور‬
‫نوکیلے دانتوں میں پھنسی خود کو بچانے‬
‫‪ ‬کے لیے ہاتھ پیر مار رہی تھی‬

‫سلیمان نے جن کی گردن چھوڑ کر اپنا منہ‬


‫آسمان کی طرف کیا اور ایک زور دار چیخ‬
‫ماری‬

‫جن نے جب سلیمان کو چیخ مارتے دیکھا‬


‫تو اسے ہاتھوں کی مدد سے پکڑ کر دور‬
‫پھینک دیا‬

‫دھکا کھانے کی وجہ سے سلیمان پیچھے جا‬


‫گرا لیکن اسے چھوٹ نہیں لگی تھی۔۔۔وہ‬
‫دوبارہ سے سیدھا ہوا اور جن پر چھالنگ‬
‫دی‬
‫جن اس اچانک حملے کے لیے تیار نہیں‬
‫تھا۔۔۔سلیمان کو ہوا میں اپنی طرف اڑتا‬
‫دیکھ اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کیے اور‬
‫سلیمان کو پکڑ لیے‬

‫چونکہ سلیمان اپنی پوری قوت سے اچھال‬


‫تھا تو جن سے ٹکرانے کے بعد وہ جن کو‬
‫ساتھ لیتا ہوا پیچھے رکھی الماری سے جا‬
‫ٹکڑا۔۔۔لکڑی سے بنی الماری کے دونوں‬
‫دروازے ٹوٹ گئے تھے اور اندر موجود‬
‫سارے ٹوٹے برتن چھناکے سے فرش پر گر‬
‫گئے۔‬

‫جن کی گردن سے خون ابل ابل کر فرش پر‬


‫بچھے قالین کو سبز کرتا جا رہا تھا۔۔لیکن‬
‫سلیمان نے اسے اب بھی نہیں چھوڑا تھا‬
‫اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے جن کی‬
‫گردن کو پکڑا اور اپنا پورا زور لگا دیا‬

‫وہ جن کی گردن الگ کرنے جا رہا تھا۔۔۔‬

‫جن نے جب سلیمان کو گردن پکڑتے دیکھا‬


‫تو اپنے دونوں ہاتھوں سے سلیمان کے‬
‫ہاتھوں کو پکڑ لیا لیکن سلیمان جیسے قد‬
‫آور جن کے سامنے وہ کمزور پڑ گیا اور‬
‫دوسرے جھٹکے میں جن کی گردن سلیمان‬
‫کے ہاتھ میں آگئی‬

‫جن کی گردن جیسے ہی سلیمان کی ہاتھوں‬


‫میں آگئی۔۔سلیمان اپنی جگہ سے غائب ہو‬
‫گیا‬

‫اب کمرے میں جن بغیر دھڑ کے زمیں پر‬


‫گرا تڑپ رہا تھا اور در خان دونوں جانوروں‬
‫کی لڑائیاں دیکھ کر دہشت کے مارے ایک‬
‫ہی جگہ پر کھڑا ہوا تھا‬

‫سلیمان کو غائب ہونے کے بعد اسے سمجھ‬


‫نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے ۔۔۔‬

‫اچانک کمرے میں آگ کی ایک دھار نمودار‬


‫‪ ‬ہوئی جو بغیر دھڑ کے پڑے جسم کو لگی‬

‫جن کا جسم بھڑکتی آگ میں جل رہا تھا‬


‫لیکن پتا نہیں یہ کیسی آگ تھی کہ کمرے‬
‫میں پڑے قالیں کو کچھ نہیں ہوا ۔۔اور دو‬
‫منٹ سے بھی کم وقت میں جن کا پڑا‬
‫جسم راکھ ہوا اور پھر ہوا بن کر اڑ گیا‬

‫جن مر کر چکا ہے در خان۔۔۔سلیمان کی آواز‬


‫در خان کے کانوں میں گونجی تو در خان‬
‫کو جیسے ہوش آ گیا۔۔۔‬
‫کمرے میں موجود در خان واحد انسان تھا‬
‫جو ابھی تک ہوش میں تھا‬

‫اس نے کمرے میں موجود تمام لوگوں کو‬


‫دیکھا۔۔سارے کے سارے بیہوش پڑے ہوئے‬
‫‪ ‬تھے۔۔۔‬

‫در خان نے کچھ دیر سوچا اور پھر کمرسے‬


‫باہر نکل گیا۔۔۔۔‬

‫اس نے ارد گرد نظر دوڑائی تو صحن میں‬


‫پڑے پانی کے کولر پر اس کی نظر پڑی۔۔۔۔‬
‫جس کے اوپر پانی کا گالس پڑا ہوا تھا۔۔‬

‫اس نے جلد ی سے پانی کا گالس بھرا اور‬


‫دوبارہ سے کمرے میں آ گیا۔۔۔‬

‫کمرے میں پہنچ کر در خان نے بار ی باری‬


‫پانی کے چھینٹے سب کے چہرے پر مارے۔۔۔‬
‫آخر میں اس نے حدیقہ کے‪  ‬منہ پر چھینٹے‬
‫مارے تھے۔۔‬

‫حدیقہ کو پانی مارنے کے بعد در خان نے مڑ‬


‫کر جنید کو دیکھا ۔۔۔جو اپنی جگہ پر لیٹا‬
‫کراہ رہا تھا۔۔۔‬

‫وہ جلد ی سے جنید کے قریب گیا۔۔۔۔‬

‫جنید صاحب۔۔اٹھیں۔۔۔۔در خان نے اس کے‬


‫جسم کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا اور پھر اسے‬
‫سہارا دے کر بٹھا دیا۔۔۔‬

‫در خان نے اپنا گھٹنا کھڑا کر کے جنید کی‬


‫پیٹھ کے پیچھے دیا ہوا تھا‬

‫ہوش میں آنے کے بعد جنید نے دونوں‬


‫ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا ۔۔۔شاید اس کے‬
‫سر پر چھوٹ لگی تھی‬
‫اچانک جنید کو گزرا وقت یاد آیا۔۔۔اس نے‬
‫جھٹکا مار کر اپنا سر اوپر کیا ۔۔۔اور پھر‬
‫پورے کمرے میں نظر دوڑائی‬

‫لیکن انسانوں کے سوا اسے کمرے میں‬


‫کوئی دوسرا نظر نہیں آیا تھا۔۔۔‬

‫وہ مر چکا ہے جنید صاحب۔۔اٹھیں اور باقی‬


‫لوگوں کو ہوش دالنے میں میری مدد‬
‫کریں۔۔۔‬

‫در خان کی بات سن کر جنید‪  ‬سیدھا ہو کر‬


‫بیٹھا اور پھر جلد ی سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔‬

‫دوسرا جو انسان ہوش میں آرہا تھا وہ‬


‫شکیلہ تھی۔۔۔جنید نے آگے بڑھ کر انہیں‬
‫سہارا دیا ۔۔۔‬
‫چونکہ در خان سب کے لیے غیر تھا اور یہ‬
‫مناسب بھی نہیں تھا کہ کسی عورت کے‬
‫پاس جا کر اسے سہارے دے۔۔۔اسی لیے‬
‫اپنی جگہ بیٹھ کر جنید کو دیکھا رہا‬

‫سکینہ بھی ہوش میں آ گئی تھی۔۔۔۔وہ‬


‫کمرے کے کونے میں دبک کر بیہوش ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫آہستہ آہستہ باقی لوگ بھی ہوش میں آ‬


‫چکے تھے لیکن حدیقہ اب بھی بیہوش پڑی‬
‫ہوئی تھی۔۔۔‬

‫در خان پانی پر الحمد شریف پڑھ کر‬


‫حدیقہ کے چہرے پر چھینٹے مارو۔۔۔سلیمان‬
‫نے در خان کے کان میں کہا تو درخان گالس‬
‫اٹھا کر باہر چال گیا اور پھر پانی کا بھرا‬
‫گالس لے کر واپس آیا۔۔۔‬

‫اس نے الحمد شریف آتے ہوئے ہی پڑھ لی‬


‫تھی۔۔۔حدیقہ کے قریب پہنچ کر اس نے‬
‫پانی کے چھینٹے حدیقہ کے منہ پر مارے ۔‬

‫جیسے ہی پانی حدیقہ کے چہرے پر لگا ۔۔۔‬


‫اس نے ایک لمبی آہ کی آواز نکالی اور‬
‫آنکھیں کھول دیں۔۔۔‬

‫ہوش میں آنے کے بعد جب شکیلہ نے اپنی‬


‫بیٹی کو ہوش میں آتے دیکھا تو جلد ی سے‬
‫اٹھ کر اپنی بیٹی کے پاس چلی گئی اور‬
‫بیٹی کو گود میں لٹا دیا۔۔۔‬

‫حدیقہ اس وقت سکتے کی حالت میں تھی‬


‫سب سے برا اثر حدیقہ اور اس کی چھوٹی‬
‫بہن نبیلہ پر ہوا تھا۔۔۔چونکہ حدیقہ جنات‬
‫کے اثر میں تھی اس لیے ہوش میں آنے کے‬
‫بعد اسے پچھال کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا‬
‫جبکہ نبیلہ چھوٹی بچی ہونے کی وجہ سے‬
‫جنات کو دیکھنے کا منظر برداشت نہیں کر‬
‫سکی تھی۔۔‬

‫ہوش میں آنے کے بعد حدیقہ گم سم اپنی‬


‫ماں کی گود میں لیٹی رہی جبکہ نبیلہ‬
‫دوبارہ سے چیخیں مارنے لگی تھی۔‬

‫شکیلہ نے حدیقہ کو دیوار کے ساتھ سہارا‬


‫دے کر بٹھایا اور جلد ی سے اپنی چھوٹی‬
‫بیٹی کی طرف چلی گئی۔۔۔‬
‫وہ اپنی بیٹی کےبالوں میں انگلیاں پھیر کر‬
‫اسے تسلی دی رہی تھی‬

‫سکینہ ہوش میں آنے کے بعد اپنی جگہ پر‬


‫ہی بیٹھی رہی تھی لیکن نبیلہ کی چیخوں‬
‫کے بعد وہ حدیقہ کی طرف چلی گئی اور‬
‫وہیں بیٹھ کر اپنی دوست کو سینے سے لگا‬
‫لیا۔۔‬

‫رات کے دس بجے تک ان کی حالت نارمل‬


‫نہیں ہوئی تھی لیکن اب اتنا ہوا تھا کہ‬
‫سب ایک دوسرے کمرے میں‪   ‬خاموش‬
‫بیٹھے ہوئے تھے‬

‫کوئی بھی کسی سے بات نہیں کر رہا تھا۔‬

‫شکیلہ بہن سب سےپہلے آپ کو بہت بہت‬


‫مبارک ہو ۔۔۔آپ کی بیٹی اب مکمل ٹھیک ہو‬
‫چکی ہے۔۔در خان نے کہا تو شکیلہ نے اسے‬
‫مسکرا کر دیکھا مگر منہ سے کوئی لفظ‬
‫نہیں کہا‬

‫خاصی دیر خاموش بیٹھنے کے بعد سب‬


‫سے پہلے شکیلہ اٹھی اور کمرے سے باہر‬
‫چلی گئی۔۔۔ان کے پیچھے جنید اور پھر‬
‫سکینہ بھی چلی گئی تھی۔۔‬

‫اب کمرے میں درخان ‪ ،‬کمبل میں لیٹی‬


‫حدیقہ اور نبیلہ تھے۔۔۔ وہ دونوں کمرے‬
‫میں موجود بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں‬

‫پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں شکیلہ اور‬


‫سکینہ واپس آ گئے۔۔۔‬

‫جنید صاحب کہاں گئے۔۔شکیلہ بہن۔۔۔در‬


‫خان نے پوچھا‬
‫جی ۔۔۔۔وہ رات کے کھانے کا بندوبست کرنے‬
‫گئے ہیں۔۔۔اب رات کافی ہو چکی ہے اور اس‬
‫وقت کچھ پکایا بھی نہیں جا سکتا ہے تو‬
‫جنید بھائی قریب کی بازار کے رات‪  ‬کے‬
‫کھانے کے لیے کچھ لینے گئے ہیں۔۔۔ شکیلہ‬
‫نے بتایا‬

‫جی صحیح ہے ۔۔۔در خان بوال‬

‫سکینہ اپنے دوپٹہ کو ٹھیک کرتے ہوئے بیڈ‬


‫کے ساتھ پڑی کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ‬
‫شکیلہ اپنی دونوں بیٹیوں کے پہلو میں‬
‫بیٹھ گئی تھی۔‬

‫میں نے آپ سے تلخ کالمی کی تھی۔۔۔مجھے‬


‫اس کے لیے معاف کر دیجیے گا۔۔اتنا واقعہ‬
‫ہو جانے کے بعد سکینہ اب بولی تھی‬
‫ارے کوئی با ت نہیں سکینہ۔۔۔اگر آپ کی‬
‫جگہ میں ہوتا تو میں بھی یہی کرتا۔۔اس‬
‫میں معافی مانگنے کی کوئی بات نہیں ہے‬
‫۔۔۔در خان نے کہا تو سکینہ مسکرا دی۔۔‬

‫بھائی ۔۔اب میری بیٹی مکمل ٹھیک ہو گئی‬


‫ہے نا۔۔۔شکیلہ بولی‬

‫جی بہن۔۔اب آپ کی بیٹی جن کی چنگل‬


‫سے مکمل آزاد ہو گئی ہے۔۔۔چونکہ جنات کے‬
‫اثر میں دماغ پر سکون حالت میں نہیں‬
‫ہوتا۔۔۔ تو ہو سکتا ہے کہ حدیقہ بیٹی کو‬
‫مکمل ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے۔۔۔۔در‬
‫خان نے کہا‬

‫اچھا۔۔۔۔شکیلہ نے مایوس لہجے میں کہا‬


‫لیکن کچھ سوچ کر مسکرا دی۔۔۔‬
‫اہلل پاک کا الکھ الکھ شکر ہے کہ میری‬
‫بیٹی ٹھیک ہو گئی ہے۔۔۔۔اور بھائی میں آپ‬
‫کا جتنا بھی شکریہ ادا کروں ۔۔۔کم ہوگا۔۔۔‬
‫شکیلہ نے دوپٹے سے اپنی‪  ‬ایک آنکھ کو‬
‫رگڑتے ہوئے کہا‬

‫وہ جذباتی ہو گئی تھی اس وجہ سے ان‬


‫کی آنکھوں میں آنسو آ گیا تھا۔۔۔‬

‫ارے بہن۔۔۔شرمندہ نہ کریں۔۔۔۔میں‪ ،‬آپ اور‬


‫باقی سب اہلل کا شکر ادا کریں۔۔شکرانے کے‬
‫نوافل پڑھیں ۔۔۔خیرات کریں۔۔۔یہ سب‬
‫کریں۔۔۔مجھے معاف ہی رکھیں تو بہترہے ۔۔‬
‫در خان نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫اچانک باہر گاڑی کی آواز سنائی دی تو‬


‫شکیلہ باہر چلی‪  ‬گئیں ۔۔۔شاید جنید آ گیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫اور پھر جنید کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔‬

‫سکینہ تم زرا شکیلہ کے پاس چلی جاو‬


‫بیٹا۔۔۔۔ان کی کھانا نکالنے میں مدد کر دو۔۔۔‬
‫‪ ‬جنید نے سکینہ سے کہا‬

‫جی انکل۔۔۔یہ کہہ کر سکینہ کرسی سے‬


‫اٹھی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔‬

‫جنید اور در خان کمرے میں بیٹھ کر باتیں‬


‫کرنے لگے‬

‫دس منٹ بعد سکینہ دوبارہ کمرے میں‬


‫داخل ہوئی اور انہیں دوسرے کمرے میں‬
‫چلنے کا کہا۔۔۔کھانا وہیں لگا دیا تھا۔۔۔۔‬
‫جنید‪ ،‬در خان ‪ ،‬شکیلہ اور سکینہ چاروں‬
‫قالین پر بچھے دستر خوان پر بیٹھ گئے اور‬
‫خاموشی سے کھانا کھانے لگے۔۔۔‬

‫کھانا ختم کرنے کے بعد شکیلہ اور سکینہ‬


‫نے دستر خوان لپیٹا اور سارے برتن باہر لے‬
‫گئے۔۔۔۔‬

‫جنید اور در خان آج کے قصہ کے متعلق‬


‫بات کر رہے تھے کہ شکیلہ ہاتھ میں ٹرے‬
‫اٹھائے اندر داخل ہوئی۔۔۔‬

‫وہ ان دونوں کے لیے سبز چائے بنا کر الئی‬


‫تھی۔۔۔‬

‫جنید اور درخان نے خاموشی سے چائے پی‬


‫تو شکیلہ نے دربارہ سے کمرے میں آکر‬
‫جنید کے کانوں میں سرگوشی کی۔۔۔۔اور‬
‫پھر کمرے سے باہر چلی گئی‬

‫در خان صاحب۔۔۔آپ کا بستر جن والے‬


‫کمرے میں لگا دیا گیا ہے۔۔سلیمان نے ہنستے‬
‫‪ ‬ہوئے جنید خان کے کان میں کہا‬

‫در خان اگر آپ تھک گئے ہوں اور سونا‬


‫چاہتے ہوں تو دوسرے کمرے میں آپ کے‬
‫لیے بستر لگا دیا گیا ہے۔۔۔جنید نے سلیمان‬
‫والی بات بتائی‬

‫میں تو نہیں تھکا ہوں جنید صاحب لیکن‬


‫آج کے واقعہ کے بعد سب گھر والے ضرور‬
‫تھک گئے ہوں گے۔۔۔اس لیے میں ضرور‬
‫سونے جاوں گی۔۔در خان نے مسکراتے‬
‫ہوئےکہا‬
‫جی ۔۔۔آئیں چلیں۔۔۔جنید نے مسکرا کر کہا‬
‫اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔‬

‫جنید کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے در خان‬


‫دوسرے کمرے میں آیا تو قالین پر بچھا اپنا‬
‫بستر دیکھا۔۔کمرے سے ٹوٹی ہوئی ساری‬
‫چیزیں باہر نکل دی گئیں تھی۔۔۔اور یہ سب‬
‫اس وقت ہوا تھا جب در خان اور جنید‬
‫چائے پی رہے تھے۔۔‬

‫آپ سو جائیں در خان صاحب۔۔۔ان شا اہلل‬


‫صبح بات ہو گی ۔۔۔کمرے میں پہنچ کر‬
‫جنید نے کہا‬

‫چلیں ٹھیک ہے جنید صاحب۔۔۔در خان نے‬


‫کہا تو جنید شب بخیر بول کر کمرے سے‬
‫باہر چال گیا۔۔۔‬
‫در خان نے اپنے کندھے پر رکھی چادر اتاری‬
‫اور بستر پر رکھے تکیے کے ساتھ رکھ دی۔۔۔‬
‫‪   ‬سر سے ٹوپی وہ پہلے ہی اتار چکا تھا۔۔۔‬
‫‪  ‬‬
‫بستر پر بیٹھ کر اس نے آیت الکرسی پڑھی‬
‫اور اپنے جسم پر پھونک مار کر بستر پر‬
‫لیٹ گیا۔۔۔‬

‫سلیمان نے بھی در خان کو تنگ کرنا‬


‫مناسب نہیں سمجھا ۔۔۔وہ بھی شاید باہر‬
‫چال گیا تھا۔۔۔‬

‫رات کے تیسرا پہر تھا کہ در خان کو کسی‬


‫نے جھنجھوڑا۔۔۔‬

‫در خان ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔۔۔‬


‫اس سے پہلے کہ در خان کچھ کہتا ۔۔۔‬
‫سلیمان بوال‬

‫در خان میرے ساتھ چلو ۔۔۔تمہیں ایک چیز‬


‫دکھاتا ہوں۔۔۔۔‬

‫کیا ہوا سلیمان۔۔۔اس طرح سے مجھے اٹھا‬


‫یا تم نے۔۔۔میں تو ڈر گیا تھا۔۔۔۔۔در خان نے‬
‫آنکھیں ملتے ہوئے کہا‬

‫تم چلو تو میرے ساتھ ۔۔۔۔۔سلیمان نے در‬


‫خان کے ہاتھ کو پکڑ لیا‬

‫چلنا کہاں ہے بھئی۔۔۔در خان نے بستر پر‬


‫اٹھتے ہوئے کہا‬

‫ساتھ والے کمرے میں۔۔۔۔سلیمان بوال‬


‫کیا مطلب۔۔۔کیا پٹوانے کا ارادہ ہے کیا۔۔۔۔در‬
‫خان نے چونکتے ہوئے کہا‬

‫کیوں ۔۔۔تمہیں کون مارے گا۔۔۔۔سلیمان بھی‬


‫حیران ہو گیا تھا۔۔۔‬

‫ساتھ والے کمرے میں سب گھر والے سو‬


‫رہے ہیں سلیمان۔۔۔اگر کسی نے دیکھا تو کیا‬
‫سمجھے گا۔۔۔در خان نے کہا‬

‫اگر بھئی۔۔وہ واال کمرے نہیں ۔۔۔دائیں طرف‬


‫جو دوسرا کمرے ہے ۔۔میں اس کی بات کر‬
‫رہا ہوں۔۔۔اب چلو ۔۔دوسری بات مت کرنا۔۔۔‬
‫اور ہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا۔۔۔سلیمان‬
‫نے در خان کے ہاتھ سے پکڑا اور اسے‬
‫کھینچنے والے انداز میں لے کر کمرے سے‬
‫باہر نکل گیا۔‬
‫انسان‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیان ایک‬
‫خطرناک مگر چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬
‫​سفرینا۔۔۔۔۔ قسط نمبر ‪ 31‬۔۔۔۔۔از ابن نصیر‬

‫کمرے سے باہر نکل کر در خان نے ادھر ادھر‬


‫دیکھا تو گھر میں خاموشی چھائی ہو ئی‬
‫تھی لیکن سلیمان نے جس کمرے کی بات‬
‫کی تھی۔۔رات کے اس پہر اس کمرے کی‬
‫الئٹ جل رہی تھی۔۔۔‬

‫در خان دبے پاوں کمرے کے نزدیک پہنچا‬


‫لیکن کمرے کو اندر سے الک لگا ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫یہ تو اندر سے بند ہے سلیمان۔۔۔۔در خان نے‬


‫‪ ‬سرگوشی میں بات کی‬

‫اوہ۔۔۔ہاں میں تو بھول گیا کہ تم انسان‬


‫ہو۔۔۔۔چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔ایسا کرو ‪،‬‬
‫مجھے اپنا ہاتھ دو۔۔۔۔سلیمان نے کہا تو در‬
‫خان نے اپنا ہاتھ سلیمان کی طرف بڑھایا۔۔۔‬

‫اب چلو ۔۔۔سلیمان نے درخان کا ہاتھ پکڑ کر‬


‫کہا۔۔۔۔‬

‫سلیمان نے بند دروازے کی طرف قدم‬


‫بڑھائے تو در خان کے منہ سے اوہ ہو کی‬
‫آواز نکل گئی۔۔۔اس نے اپنا دوسرا ہاتھ منہ‬
‫پر رکھ لیا۔۔۔اس نے آنکھیں بھی بند کر لی‬
‫تھیں‬

‫وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ سلیمان کے‬


‫سامنے دیوار اور بند دروازے کوئی معنی‬
‫نہیں رکھتے ہیں۔۔اور سلیمان کا ہاتھ پکڑنے‬
‫کے بعد در خان بھی بند دروازوں اور‬
‫دیواروں سے گزر سکتا ہے۔۔‬
‫آنکھیں تو کھولو بھئی۔۔۔سلیمان کی‬
‫چہکتی ہوئی آواز آئی تو در خان نے اپنی‬
‫آنکھیں کھول دیں‬

‫وہ خود کو بند کمرے میں دیکھ کر حیران‬


‫ہو گیا۔۔۔اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫دروازہ ابھی بھی اندر سے الک تھا۔۔۔‬

‫ادھر کدھر دیکھ رہے ہو در خان۔۔۔۔آگے‬


‫دیکھو ۔۔۔۔سلیمان نے آواز پر در خان نے‬
‫سامنے مڑ کر دیکھا‬

‫سامنے کوئی عورت دوپٹہ اوڑھے‪  ‬جائے نماز‬


‫پر سجدہ میں پڑی‪  ‬جھٹکے کھا رہی‬
‫تھی۔۔۔۔شاید وہ رو رہی تھی‬

‫چونکہ وہ لڑکی سجدہ میں تھی تو درخان‬


‫کو سمجھ نہیں آ ہی کہ یہ عورت کون ہے۔۔۔‬
‫اس نے دائیں طرف کھڑے سلیمان کو دیکھا‬
‫۔۔۔‬

‫سلیمان کا ہاتھ پکڑنے کے بعد وہ اسے دیکھ‬


‫پا رہا‪  ‬تھا۔۔۔اس وقت سلیمان نوجوان لڑکے‬
‫کے روپ میں تھا‬

‫درخان نے ہاتھ کے اشارے سے سلیمان سے‬


‫پوچھا کہ سامنے والی عورت کو ن ہے۔۔۔‬

‫حدیقہ کی دوست۔۔۔۔سلیمان نے در خان کے‬


‫کان میں کہا‬

‫‪ ‬سکینہ؟‬

‫سلیمان نے ہاں میں گردن ہالئی‬

‫کیوں؟۔۔۔۔۔ در خان نے پوچھا‬


‫اہلل کی نیک بندی ہے ۔۔اہلل کے سامنے اپنے‬
‫غم کھول رہی ہے۔۔۔۔‬

‫کونسے غم ۔۔۔سلیمان؟ در خان نے دوبارہ‬


‫پوچھا‬

‫اس کا منگیتر‪  ‬فوت ہو گیا ہے۔۔۔جس سے یہ‬


‫بہت محبت کرتی ہے۔۔۔اب اس کے چلے جانے‬
‫کے بعد یہ بلکل اکیلی ہے درخان۔۔۔بس اہلل‬
‫کو اپنا در د سنا رہی ہے۔۔۔اس لیے رو رہی‬
‫ہے ۔۔۔ سلیمان نے کہا‬

‫تو مجھے کیوں یہاں لے آئے ہو سلیمان۔۔۔۔۔‬


‫پہلے در خان کو یہ سب عجیب لگا ۔۔لیکن‬
‫اب وہ سوچ رہا تھا کہ کسی کے راز و نیاز‬
‫میں مداخلت کرنا بری بات ہے۔۔۔اگر و ہ اہلل‬
‫کے ساتھ تعلق بنائے بیٹھی ہے تو ہم کیوں‬
‫اس کی باتیں سنیں۔۔۔‬

‫اس کی مدد کر نے کے لیے ۔۔۔۔در خان‬

‫کیا۔۔۔۔۔۔در خان کو حیرت کا جھٹکا لگا۔۔۔۔‬

‫پاگل ہو گئے ہو کیا۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬

‫نہیں ۔۔۔۔۔سلیمان نے مختصر جواب دیا‬

‫تو پھر ہم کیوں اس کی مدد کریں۔۔۔۔اور‬


‫مدد بھی کیسی مدد۔۔۔۔ایک منٹ ۔۔۔ایک‬
‫منٹ ۔۔۔کہیں تمہیں اس سے۔۔۔۔۔؟‬

‫در خان نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔۔۔‬

‫ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔توبہ کرو در خان۔۔۔۔۔۔اسے مدد‬


‫کی ضرورت ہے اور ہمیں اس کی مدد کرنی‬
‫چاہیے۔۔۔۔بس یہی بات ہے۔۔۔سلیمان نے‬
‫ہنستے ہوئے‪  ‬کہا‬

‫میں تو اس کی مدد نہیں کروں گا بھئی۔۔۔۔‬


‫در خان نے پیچھے ہٹتے ہوئے کہا‬

‫نہیں کرو گے۔۔۔۔۔سلیمان نے غصے والی شکل‬


‫بنا کر کہا‬

‫نہیں کروں گا۔۔۔۔۔در خان بھی ضد پر تھا۔۔۔۔‬

‫سوچ لو پھر۔۔۔۔۔سلیمان نے آخری موقع دیتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫سوچ لیا ہے۔۔۔۔در خان نے فیصلہ کن لہجے‬


‫میں کہا‬

‫ٹھیک ہے پھر۔۔۔میں تمہارا ہاتھ چھوڑ رہا‬


‫ہوں۔۔۔اس کے بعد تم اسے نظر آ جاوگے۔۔۔یہ‬
‫تمہیں دیکھ کر چیخ مارے گی۔۔۔پھر‬
‫تمہاری عزت ‪ ،‬نام سب خاک میں مل جائے‬
‫گا۔۔۔سلیمان در خان کو پھنسا رہا تھا۔۔۔‬

‫سلیمان۔۔۔در خان نے اونچی آواز میں کہا۔۔۔‬

‫وہ دونوں غیبی حالت میں تھےاس لے ان‪ ‬‬


‫دونوں کو نہ کوئی دیکھ سکتا تھا اور نہ‬
‫ہی سن سکتا تھا۔۔۔‬

‫درخان۔۔۔سلیمان نے بھی اونچی آواز میں‬


‫در خان کی نقل اتاری‬

‫اف۔۔۔۔۔۔آخر در خان ہار گیا‬

‫یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔ویسے بھی میں تمہارا‬


‫غالم نہیں ہو۔۔۔دوست ہو ۔۔سمجھے۔۔۔۔‬
‫سلیمان مسکرایا‬
‫کیا کرنا ہو گا مجھے۔۔۔۔در خان نے سلیمان‬
‫کو جواب نہیں دیا تھا‬

‫اب جو کروں گا میں کروں گا۔۔۔تم‪  ‬نے بس‬


‫خاموش رہنا ہے ۔۔۔سمجھے‬

‫ٹھیک ہے ۔۔۔سمجھ گیا۔۔در خان نے سکھ کی‬


‫سانس لی کہ وہ‪  ‬کچھ نہیں کرے گا۔۔۔لیکن‬
‫اسے ڈر بھی تھا کہ کہیں سلیمان اس کا‬
‫ہاتھ نہ چھوڑ دے۔۔یہ سوچ کر اس نے ہاتھ‬
‫کو سختی سے پکڑ لیا‬

‫سلیما ن نے در خان کے ہاتھ کو جھٹکا دیا‬


‫اور قد م آ گے بڑھایا تو در خان بھی اس‬
‫کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔۔۔‬

‫دونوں سکینہ کے سامنے جا کر کھڑے ہو‬


‫گئے‬
‫سکینہ۔۔۔۔سلیمان نے بھاری لہجے میں کہا تو‬
‫سکینہ نے جھٹکا کھا کر اپنا سر سجدے‬
‫سے اٹھایا اور پھر سیدھی ہو کر بیٹھ‬
‫گئی۔۔۔‬

‫وہ پریشانی میں اٹھ کر کھڑی ہوئی اور‬


‫چاروں طرف دیکھنے لگی۔۔۔‬

‫میں تمہارے سامنے کھڑا ہوں ۔۔۔سکینہ‬

‫پہلی مرتبہ سکینہ آواز کو وہم سمجھ رہی‬


‫تھی لیکن جب دوبارہ سے اس کا نام لے کر‬
‫پکارا گیا اور وہ جو بھی تھا سامنے کھڑا‬
‫تھا۔۔۔ یہ سوچ کر سکینہ کی ٹانگیں کانپنے‬
‫لگی۔۔۔‬

‫ڈرو مت میری بچی۔۔۔۔۔۔میں تمہارا خیر خوا‬


‫ہ ہوں ۔۔۔اور تمہاری مدد کے لیے آیا ہوں۔۔۔‬
‫سلیمان رک رک کر اور دھیمے لہجے میں‬
‫بات کر رہا تھا‬

‫کون ہے تم۔۔۔۔سکینہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا‬

‫کہا تو تمہیں۔۔۔تمہارا خیر خواہ‪  ‬ہوں۔۔۔مجھ‬


‫سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں‪  ‬ہے۔۔۔یہ‬
‫‪ ‬کہہ کر سلیمان منہ پر ہاتھ رکھ کر ہنسا‬

‫سلیمان کو اس طرح بات کرتے دیکھ کر در‬


‫خان بھی مسکرا دیا لیکن پھر سکینہ کی‬
‫پریشانی کو سوچ کر اس نے سلیمان کے‬
‫ہاتھ کو جھٹکا دیا اور اسے ہنسی روکنے کے‬
‫لیے اپنے منہ پر انگلی رکھ کر اسے خاموش‬
‫رہنے کا کہا تو سلیمان نے بھی ہنستا بند کر‬
‫دیا۔۔۔‬
‫میں بھی اہلل کا ہی بندہ ہوں۔۔۔اور تمہارے‬
‫لیے ایک پیغام الیا ہوں۔۔۔۔۔ سلیمان نے‬
‫سنجیدہ لہجے میں کہا‬

‫آپ کا کیا نام ہے اور کس نے مجھے پیغام‬


‫بھیجا ہے ۔۔۔سکینہ اب نارمل ہوتی جا رہی‬
‫تھی کیونکہ وہ یہ جان چکی تھی کہ‬
‫سامنے موجود ہستی‪  ‬نقصان پہنچانے کے‬
‫لیے نہیں آئی ہے۔۔۔‬

‫میرا نام سلیمان ہے اور مجھے حکیم‬


‫انگوش نے بھیجا ہے ۔۔۔‬

‫‪ ‬۔ٓ‬

‫سلیمان نے بے دھیانی میں نہ صرف اپنا‬


‫صحیح بتا دیا بلکہ اپنے بھائی کا بھی نام‬
‫بتا دیا تھا۔۔اسے سمجھ نہیں آئی کہ کیا‬
‫کہے۔۔اس لیے اس کے دماغ میں جو بھی آیا‬
‫اس نے وہی بول دیا‬

‫اچھا۔۔۔سکینہ کو سلیمان نے باتیں سمجھ‬


‫نہیں آ رہی تھی‬

‫کیا پیغام بھیجا ہے حکیم۔۔۔۔۔۔۔۔سکینہ کو‬


‫نام بھول گیا‬

‫حکیم انگوش نے کہا کہ وہ تمہارے حال اور‬


‫ماضی سے مکمل واقف ہے ۔۔۔اور تمہیں کہا‬
‫ہے کہ اس گھر میں جو انسان مہمان آیا ہے‬
‫۔۔اس کا دامن تھام لو۔۔۔وہ اہلل کا بہت‬
‫قریب بندہ ہے۔۔۔۔اس سے مل کر تم بھی اہلل‬
‫کے قریب ہو جاو گی۔۔۔۔‬

‫سلیمان نے جب یہ کہا تو در خان نے سو‬


‫والٹ کا جھٹکا لگا۔۔۔۔سلیمان سکینہ کو در‬
‫خان کے پیچھے لگا رہا تھا۔۔۔‬

‫یہ سچ ہے کہ سکینہ در خان کی بیٹی کی‬


‫عمر کی ہے ۔۔اس کے ساتھ در خان کو دیکھ‬
‫کر کسی کو اعتراض نہیں ہو گا۔۔لیکن‬
‫سلیمان کو کیا ضرورت تھی کہ سکینہ کو‬
‫درخان کے پیچھے لگائے۔۔۔‬

‫میں آپ کی بات نہیں سمجھی سلیمان‬


‫بھائی۔۔۔سکینہ نے آواز کی سمت میں کہا‬

‫سمجھ جاو گی ۔۔۔آہستہ آہستہ سب سمجھ‬


‫جاو گی۔۔۔۔فلحال جو کہا ہے وہ کرو۔۔۔اس‬
‫انسان سے بات کرو۔۔۔تمہار ے دل کا بوجھ‬
‫بھی ہلکا ہو جائے گا اور اہلل کے بھی قریب‬
‫ہو جاو گی۔۔۔‬
‫اچھا۔۔۔۔۔سکینہ کے چہرے پر ایسے تاثرات‬
‫تھے جیسے اسے اس بات کی نہ خوشی‬
‫ہوئی تھی اور نہ ہی غم۔۔۔اسے یہ سب‬
‫عجیب لگ رہا تھا‬

‫خوش رہو بیٹی۔۔۔۔یہ کہہ کر سلیمان آگے‬


‫بڑھا۔۔۔اور سکینہ کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔‬

‫سکینہ کو اپنے نزدیک ایک جسم کی‬


‫موجود گی نہ صرف محسوس ہوئی بلکہ‬
‫سر پر بھی بھاری پن محسوس ہوا۔۔۔‬

‫جیسے ہی سلیمان نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو‬


‫سکینہ کا سر ہلکا ہو گیا۔۔‬

‫فی امان اہلل بیٹی۔۔۔۔۔‬

‫اہلل حافظ۔۔۔سکینہ ٖڈ رتے ہوئے بولی‬


‫سلیمان نے در خان کو اشارہ کیا تو دونوں‬
‫کمرے سے باہر آ گئے ۔۔۔‬

‫اپنے کمرے میں پہنچ کر‪  ‬در خان نے‬


‫سلیمان کا ہاتھ چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔‬

‫سلیمان کی تو ہنسی نہیں رک رہی تھی۔۔۔‬


‫لیکن چونکہ در خان اب سلیمان سے‬
‫علیحدہ ہو گیا تھا۔۔۔اس لیے اس نے نہ کچھ‬
‫کہا اور نہ مسکرایا۔۔۔‬

‫اسے سلیمان کی اس حرکت کی سمجھ‬


‫نہیں آرہی تھی۔۔‬

‫بستر پر لیٹنے کے بعد در خان نے دائیں‬


‫کروٹ لی۔۔۔تو سلیمان بھی اس کی دائیں‬
‫جانب جا کر بیٹھ گیا‬
‫سلیمان اگر میری بیٹی زندہ ہوتی نا۔۔۔تو‬
‫اس وقت سکینہ کی عمر کی ہوتی۔۔۔۔در‬
‫خان نے اداسی بھرے لہجے میں کہا‬

‫تمہاری بیٹی بھی تھی در خان۔۔۔۔۔۔سلیمان‬


‫نے حیرت بھرے لہجے میں کہا‬

‫ہاں سلیمان۔۔۔میری بیٹی تھی‪ ،‬بیوی تھی ۔۔۔‬


‫ایک پیارا سا گھر تھا۔۔۔۔۔در خان اب بھی‬
‫اداس تھا‬

‫کیا ہواانہیں۔۔در خان کو اس لہجے میں بات‬


‫کرتا دیکھ کر سلیمان بھی سنجیدہ ہو گیا‬
‫تھا‬

‫مر گئے دونوں ۔۔سلیمان۔۔۔اور گھر بھی تباہ‬


‫ہو گیا۔۔۔۔۔۔ایک آنسو در خان کی آنکھ سے‬
‫نکل کر بستر پر جا گرا تھا‬
‫اوہ۔۔۔۔افسوس ہو ا درخان۔۔۔۔سلیمان نے‬
‫دھیمے لہجے میں کہا‬

‫ٓ‬

‫اچھا چھوڑو اس بات کو ۔۔جو گزر گیا ۔۔اس‬


‫کو کیا یاد کرنا۔۔۔مجھے یہ بتاو کہ تم نے یہ‬
‫سب ڈرامہ کیوں کیا ہے۔۔۔۔سلیمان پیٹھ کے‬
‫بل سیدھا لیٹ گیا‬

‫یار ۔۔۔۔وہ لڑکی اپنی منگیتر کی موت کے‬


‫بعد بہت غم زدہ ہو گئی ہے۔۔۔اب اس بھری‪ ‬‬
‫دنیا میں اکیلی ہونے کی وجہ سے اہلل سے‬
‫لو لگا لیتی ہے۔۔۔اس لیے میں نے سوچا کہ‬
‫تم سے کچھ باتیں کرکے غم ہلکا کر لے‬
‫گی۔۔۔۔۔‬
‫کیا مطلب ۔۔۔اس کا اس دنیا میں کوئی اور‬
‫نہیں ہے؟ در خان نے حیرت سے کہا‬

‫بس ایک ماں ہے ۔۔۔یہ اس گھر کے ساتھ‬


‫دوسرے والے گھر میں رہتی ہے۔۔۔آج کے‬
‫واقعے کے بعد یہیں سو گئی‪  ‬ہو گی۔۔۔‬

‫لیکن اب میں کیا کروں گا ۔۔۔یہ بھی بتاو‬


‫نا۔۔۔درخا ن نے پوچھا‬

‫تم بس اس کے ساتھ باتیں کر لو۔۔تم کیسے‬


‫ان کاموں میں آئے ‪ ،‬کیسے اہلل نے تمہارا دل‬
‫موڑا۔۔۔ایسے ہی باتیں کرو ۔۔اور کیا کرنا ہے‬
‫تم نے۔۔۔‬

‫‪ ‬اچھا ۔۔۔۔در خان نے مختصر جواب دیا‬

‫دیکھو سلیمان تم مجھے سچ سچ بتاو ۔۔۔تم‬


‫اسے پسند تو نہیں کرنے لگے ہو۔۔۔۔۔درخا ن‬
‫نے اپنی آنکھیں بڑی کر لیں تھیں‬

‫وہ میری بہن ہے بس۔۔۔۔اب‪  ‬خوش ہوئے۔۔۔‬


‫یار میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔۔‬
‫سلیمان نے مصنوئی غصے میں کہا‬

‫اچھا بابا ٹھیک ہے ۔۔۔اب نہیں پوچھوں گا۔۔۔‬


‫بس۔۔۔۔‬

‫ٹھیک ہے ۔۔۔۔ سلیمان بوال‬

‫ویسے سلیمان۔۔تم مجھ سے بہت چھوٹے ہو‬


‫۔۔۔لیکن جب تم مجھے یار بولتے ہو تو‬
‫مجھے عجیب لگتا ہے ۔۔کہاں میری عمر اور‬
‫‪ ‬کہاں تم۔۔۔‬

‫تمہاری کتنی عمر ہے در خان۔۔۔سلیمان نے‬


‫پوچھا‬
‫پچاس سے تو اوپر ہی ہے۔۔۔ویسے میں نے‬
‫کبھی یاد رکھنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔‬
‫کیوں۔۔۔تم کیوں پوچھ رہے ہو سلیمان‬

‫میری عمر دو‪  ‬سو سال سے بھی اوپر ہے ۔۔‬


‫شاید دو سو چالیس ہو گی۔۔۔ سلیمان نے‬
‫سوچ کر کہا‬

‫کیا۔۔۔۔۔۔در خان‪  ‬لیٹے لیٹے ہی چونکا تھا‬

‫سچ ۔۔۔۔۔نہیں مجھے یقین نہیں ہو رہا۔۔۔‬

‫لیکن یہی سچ ہے در خان۔۔۔تو میں تم سے‬


‫بڑا ہوا اور تمہیں یار بھی بول سکتا ہے۔۔۔‬
‫لیکن تم تھوڑا خیال رکھنا۔۔اپنے سے بڑے‬
‫کو یار نہ بول دینا۔۔۔‬

‫در خان نے جب سلیمان کو خبردار کرتے‬


‫ہوئے لہجے میں سنا تو اس کی ہنسی نکل‬
‫گئی۔۔۔۔‬

‫اچھا۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔۔سلیمان۔۔۔۔در خان نے‬


‫مصنوعی غصے میں کہا‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔ارے بھئی مذاق کر رہا تھا۔۔۔۔۔سلیما‬


‫ن ہنسا تھا‬

‫اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔در خان مسکرایا۔۔۔‬

‫اب مجھے سونے دو۔۔۔صبح تم سے بات ہو‬


‫گی۔۔۔۔درخان اپنی چادر اٹھا کر جسم پر‬
‫ڈالنے لگا۔۔‬

‫کہاں سونے جا رہے ہو درخان۔۔۔صبح کی‬


‫نماز کا وقت ہونے واال ہے۔۔۔‬

‫ابھی کچھ وقت ہے نماز میں سلیمان۔۔۔میں‬


‫تھوڑا سو جاتا ہوں۔۔۔تم مجھے نماز کے‬
‫وقت جگا دینا ۔۔۔۔در خان نے آنکھیں بند‬
‫کرکے چادر اپنے چہرے پر ڈالتے ہو ئے کہا‬

‫چلو صحیح ہے ۔۔۔تم سوجاو۔۔۔میں تھوڑا‬


‫گھوم پھر لیتا ہوں۔۔۔سلیمان نے اٹھتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫تم کہاں گھومنے جاو گے سلیمان۔۔بلکہ تم‬


‫ایک کام کرو۔۔۔تم بھائی کے پاس چلے جاو‬
‫۔۔وہاں جا کر دیکھو کہ کچھ معلوم ہوا یا‬
‫نہیں۔۔۔۔۔در خان نے چادر اپنے منہ سے ہٹاتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫اچھا۔۔درخان۔۔۔یہ بھی اچھا کیا تم نے کہ‬


‫یاد دال دیا۔۔۔میں ابھی جا کر دیکھ آتا‬
‫ہوں۔۔۔سلیمان اٹھ کھڑا ہوا‬

‫وہ اپنی جگہ سے غائب ہو چکا تھا۔۔‬


‫در خان نے چادر اپنے منہ پر ڈالی کہ اچانک‬
‫اسے کچھ یاد آ گیا۔۔۔اس نے جلد ی سے‬
‫چادر چہرے سے ہٹائی‬

‫آج میں نے اپنا وظیفہ بھی نہیں کیا ہے۔۔۔۔‬


‫در خان نے بڑبڑاتے ہوئے کہا‬

‫وہ جلدی سے اپنے بستر پر اٹھ کھڑا ہوا اور‬


‫بغیر آواز کیے کمرے سے نکل آیا۔۔۔‬

‫اس گھر میں اٹیچ باتھ روم نہیں تھا ۔۔۔اس‬


‫لیے در خان کمرے سے باہر نکل آیا۔۔۔۔صحن‬
‫میں ہی اسے باتھ روم نظر آ گیا۔۔۔وہ ابھی‬
‫باتھ روم کی طرف جانے لگا تھا کہ ساتھ‬
‫والے کمرے سے سکینہ باہر نکل آ ئی۔۔۔‬

‫اسالم علیکم۔۔۔۔۔۔سکینہ نے در خان‪  ‬کو‬


‫دیکھ کر کہا‬
‫وعلیکم سالم بیٹی۔۔۔۔اٹھ گئی تم۔۔۔۔۔۔در‬
‫خان نے سکینہ کو مسکراتے ہو ئے کہا‬

‫جی ۔۔۔اٹھ گئی ہوں۔۔آپ بھی شاید نماز کے‬


‫لیے اٹھے ہیں۔۔۔سکینہ نے اپنی بات چھپا دی‬
‫لیکن وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ درخان اس‬
‫کے بارے میں سب جان گیا ہے‪  ‬اور تھوڑی‬
‫دیر پہلے وہ کیا کر رہی تھی‬

‫دوسرے نماز نہیں پڑھتے ہیں کیا۔۔؟ در خان‬


‫نے پوچھا‬

‫انکل جنید کا تو پتا نہیں لیکن گھر میں‬


‫صرف آنٹی شکیلہ نماز پڑھتی ہیں۔۔وہ بھی‬
‫تھوڑی دیر میں اٹھ جائیں گی۔۔۔سکینہ نے‬
‫جواب دیا‬
‫اچھا۔۔۔۔۔چلو میں جب تک وضو بنا لوں‬
‫بیٹی۔۔۔‬

‫جی‪  ‬ٹھیک ہے۔۔۔۔سکینہ کا لہجہ در خان کے‬


‫ساتھ کافی مودبانہ ہو چکا تھا۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سردی سفرینا کی برداشت سے بڑھتی جا‬


‫رہی تھی۔۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا‬
‫تو برف اس کے کندھے تک پہنچ چکی‬
‫تھی۔۔۔۔وہ چونکہ جاپ میں بیٹھی ہوئی‬
‫تھی اس لیے اردگرد کی ساری جگہ برف‬
‫سے ڈھک چکی تھی لیکن دائرے کے اندر‬
‫والی جگہ خشک تھی۔۔۔‬

‫سفرینا کو جاپ کیے ہوئے تقریبا چالیس دن‬


‫گزر چکے تھے اور اب بھوک بھی اسے‬
‫زوروں کی لگی ہوئی تھی لیکن جاپ کی‬
‫وجہ سے نہ وہ سردی کا بندوبست کر‬
‫سکتی تھی اور نہ ہی کچھ کھا سکتی تھی‬

‫اگر اگلے بیس دن تک میں سردی برداشت‬


‫نہ کر سکی تو۔۔۔۔۔سفرینا نے پہلی مرتبہ اس‬
‫زاویے میں سوچنا شروع کیا‬

‫کیا‪  ‬واقعی میں سردی اور بھوک کی وجہ‬


‫سے مر جاوں گی۔۔۔؟‬

‫کیا میری محبت میرے ساتھ ہی اس برف‬


‫میں دفن ہو جائے گی۔۔۔۔؟‬

‫کیا میں سکندر کے ساتھ ہی مر جاوں‬


‫گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‬

‫جب سفرینا نے یہ سوچا تو اس کے جسم‬


‫میں جھرجھری آ گئی۔۔۔‬
‫نہیں۔۔۔نہ میں خود مروں گی اور نہ ہی‬
‫سکندر کو مرنے دوں گی۔۔۔‬

‫سوچو سفرینا۔۔۔سوچو۔۔۔۔سفرینا دل میں‬


‫‪ ‬بولے جا رہی تھی‬

‫سامنے پڑی جلیل کا ہیولہ لیٹا ہوا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کے دماغ میں سینکڑوں سوچیں چل‬


‫رہیں تھیں۔۔۔‬

‫وہ اس طرح سے مرنا نہیں چاہتی تھی۔۔۔۔‬

‫اچانک سفرینا کو اپنے چاروں چیلوں کا‬


‫خیال آیا۔۔۔وہ بھی تو اس کےساتھ ہی یہاں‬
‫کھڑے ہوئے ہیں۔۔۔انہیں بھی تو سردی لگ‬
‫رہی ہوگی۔۔۔‬
‫ارے۔۔۔۔۔۔میں نے یہ کیوں نہیں سوچا۔۔۔اس‬
‫کے دماغ میں کچھ آیا تھا‬

‫سفرینا مسکرائی اور جاپ پڑھتے ہوئے وہ‬


‫الشعوری طور پر اپنے چیلوں سے مخاطب‬
‫ہوئی جیسے وہ سکندر سے دماغ میں بات‬
‫کرتی تھی۔۔۔‬

‫اس برف کو آگ لگا کر‪  ‬پگھالو۔۔۔جلدی۔۔۔‬


‫سفرینا نے اپنے دماغ سے چیلوں کو حکم‬
‫دیا۔۔۔‬

‫سفرینا کے حکم کی دیر تھی کہ اس کے ارد‬


‫گرد آگ بھڑک اٹھی۔۔۔۔‬

‫سفرینا جاپ میں رہنے کی وجہ سے تو‬


‫محفوظ تھی لیکن اسے دوسرے کی لگائی‬
‫آگ کی شدت محسوس ہو رہی تھی۔۔۔۔‬
‫اس نے دل ہی دل میں چیلوں کو یہ بات‬
‫بتائی تو آگ سفرینا کے نزدیک سے کم ہو‬
‫گئی لیکن دور سے نظر آتی آگ ابھی بھی‬
‫تیزی سے بھڑک رہی تھی۔۔۔‬

‫سفرینا کم ہوتی آگ کو دیکھ کر مسکرائی‬


‫تھی۔۔۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں ور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔۔۔ قسط نمبر ‪ 32‬۔۔۔۔ از ابن نصیر‬
‫اس وقت صبح کے ناشتے پر گھر میں‬
‫موجود تمام افراد بیٹھے ہوئے تھے اور‬
‫‪ ‬چھپ چاپ ناشتہ کر رہے تھے‬

‫ان سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے در‬


‫خان۔۔۔۔ سلیمان کی آواز سنائی دی‬

‫سلیمان اپنے عالقے سے واپس آیا تو سب‬


‫کو ناشتہ کرتے پایا۔۔وہ بھی در خان کے‬
‫پیچھے قالین پر بیٹھ گیا تھا ۔۔پانچ منٹ‬
‫خاموش بیٹھے رہنے کے بعد بھی جب کوئی‬
‫نہیں بوال تو سلیمان بول اٹھا‬

‫در خان نے سلیمان کی آواز سننے کے بعد‬


‫کوئی جواب نہیں دیا۔۔‬

‫اتنے کافی لوگوں کے نزدیک بیٹھے ہوئے وہ‬


‫جواب نہیں دے سکتا تھا اور سب لوگ‬
‫خاموش بھی بیٹھے ہوئے تھے‬

‫مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ میں آپ کو‬


‫کیا کہہ کر کر مخاطب کروں ۔۔سکینہ نے‬
‫کہا تو در خان نے اس کی جانب دیکھا ۔۔وہ‬
‫در خان سے کہہ رہی تھی‬

‫میرا نام در خان ہے بیٹی تو آپ مجھے در‬


‫خان ہی بالؤ ۔۔۔ در خان نے چائے کا کپ‬
‫نیچھے رکھتے ہوئے کہا‬

‫اوہ ہو۔۔۔۔بڑے مہذب بن رہو ہو ۔۔سلیمان کی‬


‫چہکتی آواز سنائی دی‬

‫ایک تو آپ مجھے بیٹی کہہ رہے ہیں اور‬


‫دوسرا مجھ سے عمر میں بھی کافی بڑے‬
‫ہیں۔۔۔آپ خود سوچیں کہ میں آپ کا نام لے‬
‫کر بال سکتی ہوں۔۔۔‬
‫تو پھر خود ہی بتا دو بیٹی کہ کس طرح‬
‫بالنا چاہتی ہو۔۔۔ در خان نے سوال کیا‬

‫پیدائش سے پہلے ہی میرے ابو اہلل میاں‬


‫کے پاس چلے گئے ۔۔بھائی بھی نہیں ہے۔۔۔۔‬
‫ہممممم۔۔۔۔۔۔میں آپ کو آغا بال سکتی ہوں‬

‫سکینہ نے سوچتے ہوئے پوچھا‬

‫اچھا ہوا اس نے آغا کہا۔۔۔اگر آقا کہتی تو‬


‫میں نے بول دینا تھا کہ آقا تم نہیں ۔۔میں‬
‫‪ ‬ہوں۔۔۔۔۔ہی ہی ہی‬

‫سلیمان آج کافی چہک چہک کر باتیں کر رہا‬


‫تھا‬

‫بہت پیارا نام ہے بیٹی۔۔۔تم مجھے بلکل آغا‬


‫کہہ کر بال سکتی ہو۔۔۔۔در خان نے کہا‬
‫در خان یہ کیا ۔۔۔کبھی تم اسے آپ کہ رہے‬
‫تو کبھی تم کہہ رہے ہو۔۔۔۔تمہارا دماغ بھی‬
‫کام کرنا چھوڑ گیا ہے ۔۔ہی ہی ہی‬

‫سلیمان اپنی مستیوں سے باز آنے واال نہیں‬


‫تھا‬

‫وہ سب ناشتہ کر چکے تھے۔۔۔سکینہ نے برتن‬


‫سمیٹ کر سائیڈ پر رکھے اور دوبارہ اپنی‬
‫جگہ پر آ بیٹھی‬

‫آغا۔۔آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔۔۔اور آپ ان‬


‫کاموں میں کیسے آئے۔۔۔۔سکینہ نے بیٹھے‬
‫‪ ‬ہی‪  ‬در خان سے پوچھا‬

‫بھئی ان کا تعلق تو ہمارے شہر کے ساتھ‬


‫والے گاؤں سے ہے لیکن یہ ان کاموں میں‬
‫کیسے آئے۔۔۔یہ درخان صاحب خود ہی‬
‫بتائیں گے۔۔‬

‫اس سے پہلے کہ در خان سکینہ کو جواب‬


‫دیتا‪ ،‬جنید بیچ میں بول پڑا تھا۔۔‬

‫سکینہ بیٹی۔۔۔۔اہلل جب انسانوں کو اپنے‬


‫قریب التا ہے نا۔۔تو سب سے پہلے انسانوں‬
‫کے لیے بہانہ بناتا ہے۔۔۔میرا بہانہ میرے گھر‬
‫والے تھے۔۔۔جب میری بیوی اور بیٹی یہ دنیا‬
‫چھوڑ کر چلے گئے تو میں اس بھری دنیا‬
‫میں اکیال رہ گیا۔۔۔سارا دن یہاں وہاں‬
‫گھومنے کے عالوہ کوئی کام نہیں تھا۔۔اور‬
‫ہاں اس وقت میں مسلمان نہیں بلکہ ہندو‬
‫مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔۔۔‬
‫پھر اہلل کا کرنا ایسا ہوا کہ مجھے ایک بابا‬
‫ملے ‪ ،‬وہ اپنے چھوٹے سے گھرمیں اکیلے‬
‫رہتے تھے۔۔۔ایک دن میری ان سے رستے میں‬
‫مالقات ہوئی ۔۔ وہ اپنے ساتھ گھر کا سامان‬
‫لے جا رہے تھے لیکن کافی عمر کا ہونے کی‬
‫وجہ سے وہ بوجھ نہیں اٹھا سک رہےتھے۔۔‬
‫تو میں نے سامان ان کے گھر تک لے جانے‬
‫میں مدد کی۔۔وہیں سے میں ہر روز ان کے‬
‫گھر جانے لگا‪  ‬اور ان کے گھر کے سارے کام‬
‫‪ ‬کرنے لگا۔۔۔‬

‫بابا کافی اہلل والے تھے‪ ،‬جب کبھی رات‬


‫میں ان کے ساتھ ٹہرتا تو ساری ساری رات‬
‫ان کو اہلل کی عبادت میں مصروف دیکھتا‪،‬‬
‫بس یہی سے مجھے بھی اسالم سیکھنے کا‬
‫شوق ہوا اور اس کے لیے مجھے پہلے‬
‫مسلمان ہو نا پڑا۔۔۔باقی رہا کہ میں یہ کام‬
‫کیسے کر لیتا ہوں۔۔۔مجھے خود بھی نہیں‬
‫معلوم کہ میں کیسے ان کاموں میں آگیا۔۔‬

‫جب بابا فوت ہو گئے تو‪  ‬ان کو دفنانے کے‬


‫بعد میں وہ شہر چھوڑ کر گاؤ ں چال گیا۔۔۔‬
‫وہیں ایک مسجد میں میرا کھانا ‪ ،‬پینا‪ ‬‬
‫اورلیٹنا تھا۔۔۔جب گاؤں والوں کو پتا چلے‬
‫کہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے تو‬
‫انہوں نے مسجد کے ساتھ ہی میرے لیے‬
‫ایک حجرا‪  ‬بنایا‪ ،‬جہاں میں اکیال رہا کرتا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫ایک دن میں اپنی معمول کی عبادت میں‬


‫مصروف تھا تو ایک آدمی میرے پاس آیا ۔۔‬
‫اسے کوئی جسمانی تکلیف تھی۔۔۔۔اس نے‬
‫مجھ سے دم کرنے کے لیے‪  ‬کہا۔۔۔دم کرنے کے‬
‫بعد وہ تو چلے گئے لیکن اہلل کے کرم سے‬
‫رات میں ہی وہ مکمل صحت یاب ہو گئے۔۔‬
‫بس اس کے بعد تو گاوں کے سارے لوگ ہی‬
‫حجرے میں جمع ہو گئے۔۔۔میں انہیں دم‬
‫کرتا جاتا ‪ ،‬اہلل انہیں شفا دیتا جاتا۔۔۔بس‬
‫یہی سے اہلل کا کرم ہوا مجھ پر اور اب جو‬
‫کچھ ہوں آپ لوگوں کے سامنے ہوں۔۔۔‬

‫سبحان اہلل۔۔۔ما شا اہلل۔۔۔۔۔ناشتے پر موجود‬


‫سارے لوگ ہی بو ل اٹھے‬

‫بے شک اہلل جسے چاہتا ہے ‪ ،‬ہدایت دیتا ہے‬


‫۔۔۔۔سکینہ نے کہا‬

‫بڑی تعریفیں ہو رہی ہیں‪  ‬مولوی در خان‬


‫صاحب آپ کی تو۔۔۔۔۔سلیمان نے در خان کو‬
‫ہلکی سے کہنی ماری تھی۔‬

‫۔ٓ‬

‫کہنی لگتے ہی درخان کو ہلکا سا جھٹکا لگا‬


‫۔۔۔۔لیکن اس نے جلدی سے ایسی حرکت کی‬
‫جیسے کہنی والی جگہ پر کچھ چبھ گیا‬
‫ہو۔۔۔‬

‫بلکل بیٹی۔۔۔میں نے کہا نہ اہلل اپنے بندوں‬


‫کو خود سے جوڑنے کے لیے بہانے بناتا ہے۔۔۔‬
‫اگر اہلل مجھ سے میرے گھر والے نہ لیتا ۔۔‬
‫اور میں اس بابا سے نہ ملتا تو ہو سکتا ہے‬
‫کہ میں آج بھی اہلل کو نا ماننے والوں میں‬
‫سے ہوتا۔۔۔اور اپنی دنیا اور آخرت بر باد کر‬
‫چکا ہوتا۔۔ لیکن اب اہلل کا الکھ الکھ شکر‬
‫ہے۔‬
‫بلکل آغا۔۔۔۔۔‬

‫در خان بھائی۔۔۔اب میری بیٹی کی حالت‬


‫کب تک ایسے رہے گی۔۔۔۔شکیلہ بولی‬
‫‪-‬‬
‫بہن۔۔اب ان شا اہلل ۔۔۔آہستہ آہستہ حدیقہ‬
‫بیٹی ٹھیک ہو جائے گی۔۔آپ بلکہ ایک کام‬
‫کریں۔۔مجھے پانی کا‪  ‬بھرا ایک جگ ال کر‬
‫دیں۔۔میں آپ کو پانی دم کر کے دیتا ہوں۔۔۔‬
‫جب بھی حدیقہ بیٹی کو پانی پینا ہو تو‬
‫اس جگ سے پی لیا کرے۔۔۔ان شا اہلل چند‬
‫روز میں یہ بھلی چنگی ہو جائے گی۔۔۔‬

‫در خان نے یہ کہا تو شکیلہ جی ابھی التی‬


‫ہو ں کہہ کر اٹھی اور کچن سے پانی‪  ‬کا‬
‫جھگ بھر کر الئی۔۔۔۔درخا ن نے پانی کا‬
‫جگ‪  ‬لے کر قرآن کی مختلف سورتیں‬
‫پڑھیں اور پانی کو منہ کے قریب ال کر دم‬
‫کرکے شکیلہ کو واپس دے دیا۔۔۔‬

‫یہ اچھا کیا در خان تم نے کہ لڑکی کو پانی‬


‫دم کر کے دے دیا۔۔۔سلیمان نے سنجیدہ‬
‫لہجے میں کہا‬

‫جنید صاحب میرا کام تو ہو گیا ہے ۔۔۔۔اگر‬


‫اب آپ لوگ مجھے اجازت دےد یں اور‬
‫مجھے میرے حجرے تک چھوڑ آئیں تو بڑی‬
‫مہربانی ہو گی۔۔۔‬

‫در خان‪  ‬نے جنید کی طرف دیکھ کر کہا۔۔‬


‫وہ در خان کے ساتھ ہی بیٹھا ہوا تھا۔‬

‫ارے ایسے کیسے جاتے ہیں۔۔۔سکینہ سے بات‬


‫ہی نہیں ہوئی تمہاری۔۔۔۔سلیمان نے دوبارہ‬
‫کہنی ماری لیکن اس دفعہ کی کہنی تھوڑی‬
‫زور سے لگی تھی۔۔‬

‫جسے در خان سمیت سب نے محسوس کیا‬


‫لیکن چونکہ درخان سے کوئی پوچھ نہیں‬
‫سکتا تھا اس لیے سب ہی خاموش رہے۔۔۔‬

‫بھائی میں تو آپ کو نہیں جانے دوں گی ۔۔۔‬


‫آپ اتنی دور آئے اور ایک رات گزار کر‬
‫واپس چلے جائیں گے۔۔۔ایسے کیسے ہو سکتا‬
‫ہے؟‬

‫شکیلہ بھی بول پڑی‬

‫دل تو میرا بھی نہیں چاہ رہا ہے لیکن کیا‬


‫کروں ۔۔۔گاوں کو چھوڑ آیا ہوں۔۔وہاں اگر‬
‫میری غیر موجودگی میں کوئی آگیا‪  ‬اور‬
‫مجھے نہیں پایا تو۔۔۔‬
‫درخان نے جواب دیا‬

‫اگر وہاں کوئی آ گیا تو میں تمہاری شکل‬


‫میں‪  ‬جواب بھی دوں گا اور سنبھال بھی‬
‫لوں گا۔۔۔۔بس‬

‫سلیمان بھی کہاں پیچھے ہٹنے واال تھا‬

‫ہاں در خان صاحب۔۔۔۔ایک دن تو ہمارے‬


‫ساتھ گزار لیں۔۔۔پھر میں خود آپ کو چھوڑ‬
‫آوں گا۔۔۔ جنید بوال‬

‫لیکن۔۔۔۔۔۔در خان سب لوگوں کو جواب نہیں‬


‫دے پا رہا تھا‬

‫میں ایک بات کہوں۔۔۔۔۔سکینہ بیچ میں بول‬


‫پڑی‬

‫کہو بیٹی۔۔۔۔جنید نے سکینہ سے کہا‬


‫آغا آپ گاوں بھی نہ جائیں اور یہاں بھی‬
‫نہ رہیں۔۔۔آپ میرے گھر چلیں۔۔وہیں آج کی‬
‫رات گزار لیں۔۔۔اور شکیلہ آنٹی والے بھی آج‬
‫میرے گھر مہمان ہونگے۔۔۔کیوں۔۔آغا۔۔۔اپنی‬
‫بیٹی کی بات مانیں گے نا؟‬

‫سکینہ نے ایسی صلح دی کہ سب ہی اس‬


‫پر راضی ہو گئے۔۔۔۔۔۔سلیمان تو بچوں کی‬
‫طرح ضد کرنے لگ گیا۔۔۔۔‬

‫اب تو سکینہ بھی بول رہی ہے مولوی‬


‫صاحب۔۔۔اب تو چلیں نا۔۔۔۔۔۔۔سلیمان بوال‬

‫چلیں ٹھیک ہے۔۔۔اب سب اتنا بول رہے ہیں‬


‫تو میں آج کی رات سکینہ کے گھر گزار لیتا‬
‫ہوں لیکن آپ سب نے بھی آنا ہے۔۔۔در خان‬
‫نے سب سے کہا تو سب نے خوشی خوشی‬
‫رضا مندی دکھائی‬

‫ناشتے کے برتن سمیٹنے اور دھونے کے بعد‬


‫جنید نے اس گھر کو تالہ لگایا ۔۔۔اور پھر‬
‫سات لوگوں کا یہ قافلہ سکینہ کے گھر کو‬
‫چل پڑا۔۔‬

‫سکینہ کی والہ جن کا نام حاجرہ تھا۔۔۔‬


‫کافی عمر کی تھیں لیکن صحت کے معاملہ‬
‫میں کافی بہتر لگ رہی تھی‬

‫وہ شکیلہ اور نئے مہمانوں کو دیکھ کر بہت‬


‫خوش ہو گئی تھی۔۔۔۔اور پھر سکینہ کے‬
‫گھر میں ہنسی مذاق کا وہ دور چال کہ در‬
‫خان کچھ وقت کے لیے بھول ہی گیا کہ وہ‬
‫یہاں مہمان ہے۔۔۔۔‬
‫سکینہ بھی اتنے لوگوں کے بیچ خود کو‬
‫بہت خوش محسوس کر رہی تھی۔۔۔۔۔‬

‫ابھی وہ سب خوش گپیوں میں مصروف‬


‫تھے کہ سکینہ کی والدہ اچانک سے زمین‬
‫پر گر کر تڑپنی لگی۔۔۔۔سب لوگ ان کو‬
‫اچانک اس طرح سے دیکھ کر پریشان ہو‬
‫گئے۔۔۔‬

‫شکیلہ اور سکینہ‪  ‬حاجرہ کے ساتھ بیٹھ کر‬


‫ان کی مالش کرنے لگے جبکہ جنید باہر کی‬
‫جانب دوڑا۔۔وہ نزدیک کے کسی ڈاکٹر کو‬
‫لینے گیا تھا۔۔۔‬

‫معلوم کرنے پر پتا چال کہ حاجرہ بی بی کو‬


‫سال میں ایک دو‪  ‬بار مرگی کا دورہ پڑتا‬
‫ہے۔۔۔یہ اتنا شدید تو نہیں ہوتا لیکن چونکہ‬
‫وہ ایک عورت تھیں تو انہیں کافی تکلیف‬
‫ہوتی تھیں۔۔اس وقت بھی وہ زمین پر‬
‫لیٹی تڑپ رہی تھیں۔۔۔۔‬

‫در خان میں اپنے عالقے سے مٹی لینے جا‬


‫رہا ہوں۔۔۔وہ مٹی اسے چٹوا دینا ۔۔۔ان شا‬
‫اہلل ہمیشہ کے لیے ٹھیک ہو جائیں گی۔۔۔یہ‬
‫کر سلیمان غائب ہو گیا‬

‫درخان نے کوئی بات نہیں کی تھی۔۔۔وہ‬


‫بھی حاجرہ بی بی کے پہلو میں پریشان‬
‫کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫ابھی سلیمان کو گئے پانچ منٹ نہیں گزرے‬


‫کہ وہ واپس آ گیا۔۔۔‬

‫درخان اپنی قمیض کی جیب میں ہاتھ‬


‫ڈالو۔۔۔میں نے مٹی تمہارے جیب میں ڈال‬
‫دی گئی ہے۔۔۔‬

‫جیسے ہی درخان نے یہ سنا ۔۔۔اس نے جلدی‬


‫سے جیب میں ہاتھ ڈاال۔۔۔ایک کاغذ کا ٹکڑا‬
‫اس کے ہاتھ کو لگا۔۔جسے اس نے جلدی سے‬
‫باہر نکاال۔۔۔‬

‫مجھے راستہ دیں آپ لوگ۔۔۔۔در خان نے‬


‫پریشان حال شکیلہ اور سکینہ سے کہا‬

‫درخان کی بات سن کر وہ دونوں حاجرہ‬


‫بی بی سے تھورا پرے ہو کر بیٹھ گئیں۔۔۔‬

‫در خان نے جیب سے نکالے کاغذ کو کھوال‬


‫تو اس میں کالے رنگ کی مٹی نکل آئی۔۔۔‬

‫در خان نے اپنی شہادت کی انگلی کو مٹی‬


‫پر رکھ کر رگڑا تو تھوڑی سی مٹی اس کی‬
‫انگلی کو لگ گئی۔۔۔‬
‫در خان‪  ‬بسمہ اہلل کہہ کر اپنی انگلی‬
‫حاجرہ بی بی کے ہونٹوں کے قریب لے گیا۔۔‬

‫بہن۔۔۔۔زرا یہ دیکھیں۔۔۔درخان نے حاجرہ‬


‫سے کہا‬

‫لیکن حاجرہ نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں۔۔‬


‫وہ برابر زمین پر تڑپے جا رہی تھی۔۔۔‬

‫ان کا منہ کھولیں۔۔۔در خان نے شکیلہ سے‬


‫کہا تو شکیلہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے‬
‫حاجرہ کا منہ کھولنے کی کوشش کی۔۔۔‬

‫جیسے ہی تھوڑا سا منہ کھال ۔۔۔در خان نے‬


‫اپنی انگلی حاجرہ بی بی کے منہ میں دے‬
‫دی اور انگلی کو گول دائرہ کی صورت میں‬
‫گھمایا۔۔۔جیسے ہی اسے یقین ہوا کہ مٹی‬
‫منہ میں پہنچ گئی ہے ۔۔اس نے اپنی انگلی‬
‫باہر نکالی اور سکینہ کو پانی کا گالس بھر‬
‫کر النے کو‪  ‬کہا۔۔‬

‫سکینہ دوڑتی ہوئی گئی اور کہیں سے پانی‬


‫کا گالس بھر کر الئی۔۔۔۔‬

‫ان کو سیدھا بٹھا کر پال دیں۔۔۔۔۔در خان نے‬


‫سکینہ کے کہا تو شکیلہ نے حاجرہ بی بی‬
‫کو اپنے گھٹنوں سے ٹھیک لگا کر سیدھا‬
‫بٹھایااور پھر سکینہ نے چند گھونٹ پانی‬
‫کے حاجرہ بی بی کے منہ میں ڈال دیے۔۔‬

‫جیسے ہی سکینہ نے پانی کا گالس منہ سے‬


‫دور کیا۔۔۔جنید کمرے میں ڈاکٹر کو لیتا ہوا‬
‫آیا۔۔۔۔‬

‫ڈاکٹر نے جب حاجرہ کو دیکھا تو دیکھتے‬


‫ہی سمجھ گیا کہ یہی مریضہ ہیں۔۔وہ‬
‫گھٹنوں پر بیٹھ کر اپنے ساتھ الیا باکس‬
‫کھولنے لگا کہ حاجرہ بی بی نے آنکھیں‬
‫کھول دیں۔۔۔‬

‫ڈاکٹر نے جیسے ہی انڈوسکوپ کے حاجرہ‬


‫سے لگانے کے نزدیک کیا۔۔۔حاجرہ نے انہیں‬
‫روک دیا۔۔۔‬

‫ڈاکٹر صاحب۔۔۔اب میں بہتر ہوں۔۔۔آپ‬


‫تکلیف نہ کریں۔۔۔یہ میرا پرانا مرض ہے ۔۔۔‬
‫اور میں کافی جگہ دکھا چکی ہوں۔۔۔لیکن‬
‫کہیں بھی افاقہ نہیں ہوا۔۔۔۔آپ کی مہربانی‬
‫لیکن اب میں ٹھیک ہوں۔۔۔‬

‫حاجرہ بی بی کی اس بات کا مطلب یہ تھا‬


‫کہ ڈاکٹر کا محنت کرنا فضول ہے۔۔اب وہ‬
‫ٹھیک ہو گئی ہیں تو عالج کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔۔‬

‫ڈاکٹر نے جب یہ‪  ‬سنا تو انڈوسکوپ‪  ‬کو‬


‫دوبارہ سے باکس میں ڈالنے لگا۔۔۔۔‬

‫اپنا سامان ڈالنے کے بعد وہ اٹھ کھڑا ہوا اور‬


‫جنید کی ہمراہی میں گھر سے باہر چال‬
‫گیا۔۔۔باہر گیٹ پر آ کر جنید نے بھی ڈاکٹر‬
‫سے معذرت کی ۔۔‬

‫اس وقت درخان خاموش تما شائی کی‬


‫صورت میں کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔‬

‫حاجرہ کو سہارا دے کر صوفہ پر بٹھا دیا‬


‫گیا ۔۔۔اور دائیں بائیں شکیلہ اور سکینہ‬
‫بیٹھ گئیں۔۔۔۔‬
‫بہن۔۔۔اب آپ مکمل تندرست ہیں۔۔۔ان شا‬
‫اہلل اب آپ کو یہ مرض دوبارہ تنگ نہیں‬
‫کرے گا۔۔۔درخان نے جب یہ کہا تو حاجرہ‬
‫بی بی نے حیرانی اسے دیکھا ۔۔۔کیونکہ وہ‬
‫نہیں جانتی تھیں کہ کیا ہوا تھا۔۔‬

‫آغا نے آپ کا عالج کیا ہے امی۔۔۔اب آپ بلکل‬


‫تندرست ہو جائیں گی۔۔۔۔۔سکینہ نے اپنی‬
‫امی کو آسان لفظوں میں ساری بات بتائی‬
‫تو وہ تشکر نگاہوں سے در خان کو دیکھنے‬
‫لگی۔۔۔‬

‫در خان ۔۔۔اس سے کہو کہ رات کو سوتے‬


‫ہوئے ایک مرتبہ پھر اس مٹی کو چاٹ لے۔۔۔‬
‫ان شا اہلل پھر یہ مرض دوبارہ کبھی نہیں‬
‫ہوگا۔۔۔‬
‫سلیمان نے در خان سے کہا تو در خان نے‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑا مٹی واال کاغذ سکینہ‬
‫کی طرف بڑھا دیا۔۔۔‬

‫بیٹی ۔۔رات کو سوتے وقت یہ مٹی ایک‬


‫مرتبہ دوبارہ سے انہیں پانی کے ساتھ دے‬
‫دینا۔۔۔میرے اہلل نے چاہا تو دوبارہ یہ مرض‬
‫نہیں ہوگا۔۔۔در خان نے کاغذ سکینہ کو‪ ‬‬
‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔‬

‫سکینہ نے کاغذ ہاتھ میں پکڑ کر سائیڈ پر‬


‫پڑے ٹیبل کی دراز میں ڈال دیا۔۔۔‬

‫بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ۔۔۔بلکہ مجھے‬


‫اہلل کا شکر کرنا چاہیے کہ اس نے آپ کو‬
‫یہاں بھیجا ۔۔۔اہلل کی برکت اور آپ کی‬
‫نوازش سے میں نے نہ صرف گھر میں‬
‫خوشی دیکھی بلکہ اپنی بیماری کا بھی‬
‫عالج کروا لیا۔۔۔۔‬

‫حاجرہ بی بی کی جان میں اینٹھ سی پڑ‬


‫رہی تھی ۔۔۔اس کے باو جود اس نے ہمت‬
‫کرکے اہلل اور درخان کا شکریہ ادا کیا۔۔‬

‫یہ سب اس نیلی چھتری والے کا کرم ہے‬


‫بہن۔۔نہیں تو اس گناہ گار میں ایسی کوئی‬
‫بات نہیں ہے۔۔۔در خان نے حاجرہ کو جواب‬
‫دیا‬

‫دس منٹ میں حاجرہ بی بی کی طبیعت‬


‫کافی بہتر ہو گئی تھی۔۔۔جس کے بعد‬
‫سکینہ نے کچن میں جا کر سب کے لے چائے‬
‫بنائی اور پھر حدیقہ کی مدد سے چائے‬
‫کمرے میں لے آئی جہاں سب بیٹھے ہوئے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫چھا رہے ہو بھئی۔۔۔در خان چھا رہے ہو۔۔۔۔‬


‫سلیمان نے چہکتے ہوئے در خان کے کان‬
‫میں کہا لیکن اتنے لوگوں کی موجودگی‬
‫میں وہ کہاں سلیمان کو جواب دے سکتا‬
‫تھا ۔۔اس لیے خاموش ہی رہا۔‬

‫بہن آپ لوگوں کی گزر بسر کیسے ہوتی‬


‫ہے۔۔۔۔میرا مطلب کہ آپ کی یا سکینہ کی‬
‫کوئی نوکری وغیرہ ہے۔۔۔در خا ن نے‬
‫ڈائریکٹ حاجرہ بی بی سے پوچھا‬

‫وہ حاجرہ بی بی کا دماغ دوسری طرف لگا‬


‫نا چاہتا تھا ۔۔اس لیے اس نے یہ بات پوچھ‬
‫لی لیکن سوال پوچھنے کے بعد اسے‬
‫شرمندگی ہو رہی تھی کہ اس نے یہ بات‬
‫کیوں پوچھی۔۔۔پہلے ہی دن ایسے سواالت‬
‫کرنے پر سکینہ والے کیا سوچیں گے لیکن‬
‫اب تیر ہوا میں چل چکا تھا۔۔۔‬

‫بھائی ۔۔اب آپ سے کیا چھپانا۔۔۔۔جب تک‬


‫سکینہ کا منگیتر زندہ تھا۔۔وہ بیچارہ مہینے‬
‫کا راشن ال دیا کرتا تھا۔۔۔پھر سکینہ کے ابو‬
‫کی پنشن بھی تھی لیکن اب صرف پنشن‬
‫ہے ۔۔اسی میں ہم دونوں ماں بیٹی گزارا کر‬
‫رہے ہیں۔۔۔حاجرہ بی بی نے افسردہ لہجے‬
‫‪ ‬میں کہا‬

‫اہلل مالک ہے‪  ‬بہن۔۔۔۔کبھی کبھی اہلل اپنے‬


‫نیک بندوں کے پاس آزمائش بھیجتا ہے۔۔۔‬
‫میرے اہلل نے چاہا تو جلد ہی آپ اچھے دن‬
‫دیکھیں گی۔۔۔‬

‫درخان ابھی بھی شرمندہ محسوس کر رہا‬


‫تھا۔۔۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا‬
‫کہے۔۔اس لیے جو منہ میں آیا ‪ ،‬بول کر‬
‫خاموش ہو گیا‬

‫ان شا اہلل بھائی۔۔۔حاجرہ نے ان شا اہلل کہا‬


‫تو سب ہی بول پڑے۔‬

‫ایک بات کہوں در خان۔۔۔سلیمان دوبارہ بول‬


‫پڑا تھا۔۔‬

‫اس گھر میں جہاں گاڑی کھڑی ہوتی ہے ۔۔‬


‫اس کے ساتھ پھولوں کی کیاری والی‪  ‬جو‬
‫دیوار ہے۔۔کمرے کے باہر دیوار کے ساتھ ہی‬
‫زمین میں ایک سونے کی دیگ چھپی ہوئی‬
‫ہے۔۔۔اگر تم ان کی مدد کرنا چاہو تو کر‬
‫سکتے ہو۔۔۔۔‬

‫سلیمان کی یہ ایسی بات تھی کہ در خان‬


‫کو جھٹکا لگ گیا۔۔۔۔لیکن پھر لوگوں میں‬
‫دیکھ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔‬

‫در خان کی یہ حرکت سب ہی دیکھ رہے‬


‫تھے اور نوٹ بھی کر رہے تھے۔۔۔‬

‫آغا۔۔۔آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔۔۔۔سکینہ‬


‫نے آخر پوچھ ہی لیا۔۔۔‬

‫ہاں بیٹی۔۔۔طبعیت بلکل ٹھیک ہے ۔۔بس‬


‫کبھی کبھی ایسے جھٹکا سا لگ جاتا ہے۔۔۔۔‬
‫در خان نے جھینپ کر کہا‬

‫اچھا ۔۔۔کبھی کبھی جھٹکا لگتا ہے۔۔۔۔۔سلیما‬


‫ن بوال‬
‫ابھی بھی تمیں سب کے سامنے نچوا سکتا‬
‫ہوں درخان۔۔۔۔سلیمان نے ایسی بات کہی کہ‬
‫درخان سنبھل نہ سکا۔۔‬

‫نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔درخان بے دھیانی میں بول‬


‫پڑا۔۔۔‬

‫کیا مطلب۔۔۔آغا۔۔۔ سکینہ نے پریشانی میں‬


‫پوچھا‬

‫کچھ نہیں بیٹی۔۔۔۔در خان سلیمان کی اس‬


‫حرکت پر جھینپ گیا تھا اور اسے اب‬
‫سلیمان پر غصہ آنے لگا تھا۔۔۔‬

‫جنید صاحب۔۔۔میں حاجرہ‪  ‬بہن کی مدد‬


‫کرنا چاہتا ہوں۔۔۔در خان نے کچھ سوچ لیا‬

‫کیسی مدد ۔۔درخان صاحب۔۔۔جنید نے‬


‫پوچھا‬
‫چونکہ میں نے سکینہ کوبیٹی اور حاجرہ‬
‫بی بی کو بہن کہا ہے تو میرا دل نہیں مانتا‬
‫کہ میں اپنی بہن کو اس مشکل وقت میں‬
‫دیکھوں۔۔۔لیکن میری آپ لوگوں سے ایک‬
‫گزارش ہیکہ یہ بات یہاں بیٹھے لوگوں تک‬
‫رہے۔۔۔کیونکہ اگر یہ بات باہر گئی تو آپ‬
‫لوگ کو ہی پریشانی اٹھانی پڑے گی۔۔۔‬
‫مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکے گا۔۔۔۔۔‬
‫درخان نے جواب دیا‬

‫کیا مطلب ۔۔آغا۔۔۔سکینہ نے بھی پوچھ لیا‬

‫بیٹی آپ لوگوں کے اس گھر میں خزانہ‬


‫دفن ہے۔۔۔یہ کہہ کر در خان خاموش ہو گیا‬

‫وہ تو خاموش ہو گیا لیکن اس بات نے‬


‫کمرے میں موجود سارے لوگوں کو جھٹکا‬
‫دے دیا۔۔۔جنید تو جیسے ہوا میں اچھل پڑا‬
‫تھا‬

‫کیا۔۔۔سب ہی‪  ‬ایک ساتھ بول اٹھے۔۔۔‬

‫جی ہاں۔۔۔آپ کے گھر میں ایک سونے کی‬


‫دیگ دفن ہے ۔۔۔اور میں چاہتا ہوں کہ اس‬
‫دیگ کو نکلوانے میں آپ کی مدد کروں۔۔۔‬
‫جس سے میری بیٹی اور بہن اپنی باقی کی‬
‫زندگی سکون سے گزار سکیں۔۔۔۔در خان نے‬
‫کہہ کر سب کی طرف دیکھا‬

‫سب کے منہ ہی حیرت سے کھلے ہوئے‬


‫تھے۔۔۔سونے کی دیگ ۔۔۔یہ ایسے الفاظ تھے‬
‫کہ جن کا آج کی دنیا میں سننا ہی انسان‬
‫کو اچھل پڑنے پر مجبور کر دیتا ہے لیکن‬
‫یہاں یہ دیگ گھر میں دفن تھی۔۔۔‬
‫در خان صاحب ۔۔۔یہ کہاں پر دفن ہے۔۔۔؟‬
‫آخر جنید نے ہمت کرکے پوچھ لیا۔۔۔‬

‫کار پارکنگ کے ساتھ کیاریوں والی جگہ‬


‫پر۔۔۔۔درخان نے مختصر بتایا‬

‫حاجرہ بی بی ابھی بھی شاک میں‪  ‬تھیں۔۔‬


‫عورتوں اور لڑکیوں کو سمجھ نہیں آ رہی‬
‫تھی کہ کیا کہیں یا کیا کریں۔۔۔۔‬

‫ابھی دن کا وقت ہے ۔۔ابھی یہ کام کرنا‬


‫لوگوں کو شک میں ڈال سکتا ہے۔۔۔ہم رات‬
‫میں اس جگہ کی کھدائی کریں گے ۔۔۔اور‬
‫وہ دیگ نکال لیں گے۔۔۔درخان نے جنید کو‬
‫مشورہ دیا۔۔۔‬

‫بلکل۔۔۔بلکل۔۔۔ہم رات میں ہی یہ کام کریں‬


‫گے۔۔۔۔جنید نے خوشی‪  ‬میں کہا‬
‫بھائی۔۔۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ہم‬
‫آپ سے کیا کہیں۔۔۔کیسے آپ کا شکریہ ادا‬
‫کریں۔۔۔جس طرح سے آپ نے حدیقہ بیٹی‬
‫کو ٹھیک ہے ۔۔۔اس کے بعد میرا عالج کیا۔۔‬
‫اور اب یہ۔۔۔۔یقین جانیں ۔۔۔میری نظر میں‬
‫آپ انسان نہیں ہے۔۔۔۔فرشتہ ہیں فرشتہ۔۔۔‬
‫حاجرہ بی بی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫بہن اب ایسی بات کہہ کر مجھے شرمندہ‬


‫تو نہ کریں۔۔۔۔۔میں نے کہا نا ۔۔آپ میری بہن‬
‫کے جیسی ہیں۔۔۔اور یہ ۔۔سکینہ تو میری‬
‫بیٹی ہے۔۔۔میں نے اسے بیٹی کہا ہے تو کیا‬
‫میں آپ لوگوں کےاتنا بھی نہیں کر سکتا۔۔۔‬
‫ویسے بھی میں نے کچھ نہیں کیا ہے۔۔یہ‬
‫دیگ یا جو بھی ہے ۔۔آپ کے گھر میں دفن‬
‫ہے تو آپ کا حق ہے۔۔میں نے آپ لوگوں کو‬
‫آپ کا حق دیا ہے۔۔بس اتنا ہی کیا ہے۔۔۔در‬
‫خان کہتے کہتے اپنا سر جھکا چکا تھا۔۔۔‬

‫وہ حاجرہ بی بی کی بات پر دل ہی دل‬


‫میں گر گیا تھا۔۔۔ وہ جانتا ہے کہ وہ ایک‬
‫گناہ گار انسان ہے۔۔۔لیکن اس کے باوجود‬
‫بھی اہلل نے اس کا پردہ رکھا ہے۔۔اب لوگوں‬
‫کی نظر میں اسے اتنا اونچا کر دیا ہے کہ‬
‫اگر اس کے دل میں زرہ برابر بھی غرور آ‬
‫گیا ۔۔۔تو وہ ایسا گرے گا کہ کبھی نہیں اٹھ‬
‫پائے گا۔۔۔‬

‫ایک منٹ ۔۔‬

‫یہ کہہ کر درخان اپنی جگہ سے اٹھا۔۔۔۔‬


‫سارے لوگ ہی اسے دیکھ رہے تھے۔۔۔انہیں‬
‫سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ درخان کو کیا ہو‬
‫گیا ہے۔۔‬

‫کمرے کی ایک صاف جگہ دیکھ کر در خان‬


‫بے اختیار سجدے میں چال گیا۔۔۔‬

‫یا اہلل شکر ہے ۔۔۔تیرا الکھ الکھ شکر ہے۔۔یہ‬


‫بندہ گناہ گار ہے۔۔۔۔عزت ‪ ،‬ذلت تیرے اختیار‬
‫میں ہے۔۔۔۔مجھے معاف کر دے اگر کبھی‬
‫بھی میرے دل میں تھوڑا سا بھی غرور آیا‬
‫ہو۔۔۔در خان بولتے چال جا رہا تھا۔۔۔‬

‫سب لوگ در خان کا یہ روپ دیکھ کر‬


‫حیران ہو گئے۔۔وہ اپنی جگہ پر اٹھ کھڑے‬
‫ہوئے تھے۔۔۔لیکن اس بات کا سب سے زیادہ‬
‫اثر سکینہ کے دل پر ہوا تھا۔۔۔ اس کی نظر‬
‫میں در خان کا ایک مقام بن گیا ۔۔اور وہ در‬
‫خان کا ہاتھ تھام کر اس مقام کی درباری‬
‫بننا چاہتی تھی۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں ور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪33‬۔۔۔از ابن نصیر‬

‫در خان سجدے سے اٹھ کھڑا ہوا تو سب کو‬


‫اپنی طرف متوجہ پایا۔۔اس کی کوئی بات‬
‫نہیں کی اور چپ چاپ سے اپنی جگہ پر‬
‫واپس آ کر بیٹھ گیا‬

‫‪ ‬اچھا بھئی میں تو جا رہا ہوں بازار‬


‫سب اپنی جگہ پر بیٹھ گئے لیکن جنید‬
‫کھڑا ہی رہا‬

‫کیوں جنید صاحب۔۔۔خیر تو ہے نا۔۔۔‬

‫در خان نے پوچھا‬

‫ہاں بھئی خیر ہی ہے۔۔۔میں زرا دن کے‬


‫کھانے کے لیے کچھ التا ہوں‬

‫میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہو جنید‬


‫صاحب‬

‫در خان بھی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا‬

‫نہیں در خان صاحب ۔۔۔۔آپ ہییں بیٹھے‬


‫رہیں۔۔۔‬

‫اپنی بہن اور بیٹی کے ساتھ گپ شپ‬


‫لگائیں ۔۔میں یوں گیا اور یوں آیا‬
‫جنید نے چٹکی بھجاتے ہویے کہا‬

‫لیکن۔۔۔۔۔۔در خان نے اپنی بات مکمل نہیں‬


‫کی‬

‫لیکن ویکن کچھ نہیں۔۔۔۔ آپ بیٹھے رہیں۔۔‬


‫اچھا شکیلہ زرا میرے ساتھ آنا۔۔۔‬

‫جنید یہ کہہ کر باہر نکل گیا ۔۔۔‬

‫حاجرہ بی بی اور شکیلہ اٹھ کر جانے لگے‬


‫تو حدیقہ بھی ان کے ساتھ چلی گئی‬

‫اس وقت کمرے میں در خان ‪ ،‬سکینہ اور‬


‫نبیلہ بیٹھے ہوئے تھے۔۔سلیمان بھی ساتھ‬
‫ہی غیبی حالت میں کھڑا ہوا تھا‬

‫آغا ۔۔ایک بات پوچھوں آپ سے؟ سکینہ نے‬


‫در خان کی طرف دیکھتے ہو ئے کیا‬
‫بلکل بیٹی پوچھو۔۔بلکہ بنا جھجھک کے‬
‫پوچھو‬

‫آپ کو یہ دیگ والی بات کیسے پتا چلی؟‬

‫سکینہ نے ایسی بات پوچھ لی جس نے در‬


‫‪ ‬خان کو خاموش کر دیا‬

‫اب وہ سوچ رہا تھا کہ سکینہ کو کیا بتائے‬


‫کیونکہ سچ بتانے کا مطلب تھا ۔۔سکینہ کو‬
‫سلیمان کے بارے میں بتانا‬

‫بس بیٹی۔۔۔کچھ باتیں مجھے پتا چل جاتی‬


‫ہیں ویسے ہی یہ بات پتا چل گئی‬

‫آغا اگر میں کچھ کہوں ‪ ،‬آپ کو برا تو نہیں‬


‫لگے گا‬
‫سکینہ نے چہرے نیچے کرکے یہ بات کہی‬
‫تھی۔۔وہ جان چکی تھی کہ در خان اسے‬
‫سچ نہیں بتانا چاہتا لیکن اس کے دل میں‬
‫جو چبھن تھی وہ سکینہ کو آرام کرنے‬
‫نہیں دے رہی تھی‬

‫نہیں بیٹی۔۔مجھے بلکل بھی برا نہیں لگے‬


‫گا‬

‫در خان دماغی طور پر تیار ہو چکا تھا۔۔۔اب‬


‫اس سے جو بھی پوچھا گیا وہ سچ سچ‬
‫جواب دے گا‬

‫آپ صبح جب ناشتے پر بیٹھے ہوئے تھے تو‬


‫آپ نے ایک دو مرتبہ ہلکے سے جھٹکے کھائے‬
‫تھے اس کے بعد جب ہم سب یہاں بیٹھے‬
‫تھے تو آپ نے نہیں نہیں کہا تھا‬
‫مجھے کیوں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم سب کے‬
‫عالوہ بھی کوئی یہاں ہے جس صرف آپ‬
‫دیکھ سکتے ہیں‪ ،‬ہم نہیں دیکھ پا رہے ہیں‬

‫سکینہ نے بات سن کر در خان کو چپ لگ‬


‫گئ وہ گومگوں کی حالت میں تھا۔۔اس نے‬
‫سوچ لیا تھا کہ سکینہ کو سچ بتائے گا‬
‫لیکن سچ بتانے کے بعد کیا ہوگا یہ بات اس‬
‫کو پریشان کر رہی تھی‬

‫ہاں بیٹی۔۔میرے ساتھ ایک ایسی مخلوق‬


‫ہے جو صرف مجھے دکھائی دیتی ہے یا‬
‫پھر اسے دکھائی دیتی یے جسے وہ خود‬
‫دکھانا چاہے‬

‫اور یہی وہی ہے نا آغا جس نے حدیقہ والے‬


‫‪ ‬جن کو مارا تھا‬
‫سکینہ نے بھی سلیمان کو اصل شکل میں‬
‫دیکھ لیا تھا اس لیے اسے شک تھا کہ وہی‬
‫جن ہی در خان کا ساتھی ہے‬

‫اس وقت سلیمان خاموش بیٹھا دونوں کی‬


‫گفتگو کو سن رہا تھا‬

‫ہاں بیٹی یہ وہی ہے ۔۔در خان نے کہا‬

‫اب آخری بات اگر سچ سچ بتا دیں گے تو‬


‫مجھے سکون مل جائے گا آغا‬

‫سکینہ نے یہ کہنے سے پہلے ایک ٹھنڈی‬


‫سانس بھری تھی‬

‫کہو بیٹی۔۔۔۔۔‬

‫کل رات جب میں نماز پڑھ رہی تھی تو اس‬


‫وقت ایک ان دیکھی مخلوق میرے کمرے‬
‫میں آئی تھی۔۔۔کیا وہ بھی یہی تھا؟‬

‫اس بات‪  ‬کو سن کر در خان چونک گیا‪ ‬‬


‫لیکن اس نے محسوس نہیں ہونے دیا کہ‬
‫سکینہ کی اس بات نے اسے چونکا دیا ہے‬

‫اس کے دماغ میں سوچیں چل رہی تھی۔۔۔‬


‫ایک طرف سلیمان کے بارے میں سچ بتانا‬
‫تھا تو دوسری طرف اپنی سچائی کا بھرم‬
‫رکھنا تھا‬

‫ہاں۔۔بیٹی۔۔۔یہ وہی تھا۔۔۔‬

‫در خان کو شرمندگی محسوس ہو رہی تھی‬


‫کیونکہ وہ دونوں چھپ کر سکینہ کے‬
‫کمرے میں گئے تھے اور یہ بات سکینہ کو‬
‫پتا چل ہو گی ۔۔اگر اس نے یہ پوچھ لیا کہ‬
‫وہ بھی در خان کے ساتھ تھا تو سکینہ کیا‬
‫سوچے گی کہ در خان کیسا انسان ہے جو‬
‫کسی کے روز و نیاز اور بند کمرے میں‬
‫کیوں آیا تھا‬

‫سکینہ کو پتہ نہیں کیوں لگ رہا تھا کہ اس‬


‫مخلوق کے ساتھ در خان بھی اس کے‬
‫کمرے میں آیا تھا لیکن اس نے جب در خان‬
‫کے چہرے پر شرمندگی کے آثار دیکھے تو‬
‫مزید پوچھنے سے گریز کیا‬

‫آغا ۔۔۔اہلل کیسا ہے۔۔۔سکینہ نے اچانک‬


‫مختلف اور عجیب سوال پوچھ لیا‬

‫بیٹی مجھے کیا پتا کہ اہلل کیسا ہے۔۔۔یہ تو‬


‫شاید کوئی بھی نہیں جانتا ہے‬

‫آپ جب عبادت کرتے ہیں اس کا مطلب اہلل‬


‫سے بات کرتے ہیں ۔۔تو یہ کیسے ممکن ہے‬
‫کہ ہم کسی کی عبادت کریں اور اس کا‬
‫تصور ہمارے دماغ میں نہ بنے‬

‫بیٹی کافی مشکل بات پوچھ لی ہے۔۔۔‬


‫درخان بوال‬

‫میں بتاوں۔۔۔سلیمان نے سرگوشی کی تو‬


‫ایک لمحے کے لیے در خان کی آنکھیں‬
‫سکینہ سے ہٹ کر کہیں اور چلی گئی ۔۔اور‬
‫اس لمحے کو سکینہ نے محسوس کر لیا‬

‫وہ اب بھی یہیں ہے نا؟ سکینہ نے سوال‬


‫تبدیل کر لیا‬

‫کون۔۔۔۔۔در خان سکینہ کے سواالت سے‬


‫خاصا پریشان ہو گیا تھا‬

‫وہی مخلوق آغا۔۔۔۔۔‬


‫ہاں ۔۔۔۔۔در خان زیادہ نہ بول سکا‬

‫کیا کہہ رہا ہے وہ آغا۔۔۔۔‬

‫سلیمان کیا کہہ رہے ہو۔۔۔اب در خان کے لیے‬


‫مزید چھپانا مشکل ہو گیا تھا۔۔اس نے‬
‫سکینہ کے سامنے ہی سلیماں کو مخاطب‬
‫کیا‬

‫اسے کہو کہ اہلل نور ہے۔۔۔۔سلیمان نے سکینہ‬


‫کے سوال کا جواب دیا‬

‫اہلل نور ہے بیٹی۔۔۔۔درخان نے جواب دیا۔۔‬

‫بس۔۔۔۔۔سکینہ بول کر خاموش ہو گئی‬

‫‪ ‬ہاں بیٹی۔۔۔بس یہی کہا ہے‬

‫میں بتاؤں آغا۔۔۔۔سکینہ جواب دینے کی‬


‫اجازت مانگ رہی تھی‬
‫میں چند دن سے باقاعدہ قرآن پاک بمعہ‬
‫ترجمہ پڑھتی ہوں جس میں اہلل تعالٰی‬
‫فرماتے ہیں کہ وہ اپنے بندوں کے گمان کے‬
‫مطابق ہے‬

‫یہ کہہ کر سکینہ خاموش ہو گئی‬

‫کیا مطلب ہوا اس کا بیٹی۔۔۔۔؟ سکینہ کے‬


‫سامنے در خان بچہ بن رہا تھا‬

‫کہاں وہ سکینہ جو در خان کو دیے گئے‬


‫مقام کی درباری بننا چاہتی تھی اور کہاں‬
‫یہ در خان جو اہلل کے تصور کو سکینہ سے‬
‫سیکھ رہا تھا‬

‫مطلب کہ ہم اہلل سے جیسی امید رکھیں‬


‫گے اہلل ہمیں ویسا ہی نظر آئے گا یا ہم کو‬
‫ویسا ہی صلہ دے گا‬
‫اگر ہماری اہلل سے مانگی گئی دعاؤں میں‬
‫یقین نہیں ہوتا تو اہلل ہماری دعاؤں کو‬
‫قبول بھی نہیں کرتا‬

‫یہ تو ہے بیٹی۔۔۔۔آج در خان کے سیکھنے کا‬


‫دن تھا اور وہ اپنی بیٹی سے سیکھ رہا تھا‬

‫وہ یہ سوچ رہا تھا کہ سامنے بیٹھی سکینہ‬


‫نہیں بلکہ سکینہ کے روپ میں وہ بیٹی ہے‬
‫جو چھوٹی عمر میں اس سے بچھڑ گئی‬
‫تھی‬

‫آپ کی ساتھی نے ٹھیک کہا کہ اہلل نور ہے‬


‫لیکن اہلل نور سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ‬
‫اہلل وہ نور ہے کہ جو دیکھا بھی جا سکتا‬
‫ہے اور محسوس بھی ہو سکتا ہے‬
‫مجھے اب بھی تمہاری بات سمجھ نہیں آ‬
‫رہی ہے بیٹی۔۔۔۔‬

‫شاید مجھے خود سمجھ نہیں آرہی ہے کہ‬


‫آپ کو کیسے سمجھاوں۔۔۔۔اچھا آپ مجھے‬
‫بتائیں کہ جب آپ عبادت کر رہے ہو تے ہیں‬
‫تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں۔۔۔‬

‫ہمم۔۔۔۔در خان سوچ رہا تھا‬

‫جب بھی ذکر یا عبادت کرتا ہوں تو کہیں‬


‫کھو سا جاتا ہوں۔۔۔۔اپنے آپ میں نہیں‬
‫رہتا۔۔۔ایسا لگتا ہے کہ کسی ایسی دنیا‪  ‬میں‬
‫پہنچ گیا ہوں جو دکھائی تو نہں دے رہی‬
‫لیکن یہ بتا رہی ہے کہ میرے ساتھ کوئی‬
‫ایسا ہے ۔۔۔جو مجھے دالسہ دیتا ہے‪ ،‬پیار‬
‫دیتا ہے۔۔۔ایسا پیار جو ایک ماں دیتی ہے ۔۔۔‬
‫بس۔۔۔۔اتنا ہی۔۔۔۔سکینہ کو اب بھی در خان‬
‫سے وہ جواب نہیں مال تھا جو وہ چاہتی‬
‫تھی‬

‫جب شروع شروع میں ‪ ،‬میں عبادت کرتی‬


‫تھی نا تو اہلل سے شکوہ کرتی تھی‪ ،‬انہیں‬
‫کہتی تھی کہ وہ بہت ظالم ہے ۔۔۔اس نے‬
‫مجھے کبھی بھی خوشی نہیں دی ‪ ،‬ہمیشہ‬
‫ہی مجھ سے چھینا ہے ۔۔۔مجھ سے میرا‬
‫باپ چھین لیا‪ ،‬میری محبت چھین لی۔۔۔‬
‫لیکن پھر پتا ہے کہ کیا ہوتا تھا۔۔۔میں اہلل‬
‫سے شکوہ کرتے ‪ ،‬لڑتے لڑتے سو جاتی تھی‪،‬‬
‫کسی دوسری دنیا میں چلی جاتی تھی۔۔۔۔‬

‫میں خود کو دیکھتی کہ مجھے پر لگ گئے‬


‫ہیں اور میں اوپر آسمانوں میں کہیں اڑتی‬
‫جا رہی ہوں۔۔۔اڑتی جا رہی ہوں۔۔۔۔کالے‬
‫آسمان کو پار کرتی ہوں تو ایک حصار ہوتا‬
‫ہے جس سے گزر کر مجھے دوسرا آسمان‬
‫نظر آ جاتا ہے ۔۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلتا ہے‬
‫کہ میں کہاں تک اڑتی رہتی ہوں۔۔۔بس میرا‬
‫دل کرتا ہے کہ میں اڑتی رہوں۔۔۔ایسے ہی‬
‫اڑتے اڑتے میں چھ آسمان پار کر جاتی‬
‫ہوں۔۔۔تب مجھے ساتویں آسمان پر ایک‬
‫سفید روشنی دکھتی ہے۔۔ہر طرف روشنی‬
‫ہی روشنی ہے۔۔۔جو امجھے اپنے پاس بال‬
‫رہی ہوتی ہے۔۔۔میں بہت تھک جاتی ہوں‬
‫لیکن اس روشنی میں کچھ ایسی کشش‬
‫ہوتی ہے کہ تھک جانے کے باوجود بھی‬
‫اڑتی جاتی ہوں۔۔۔یہاں تک کہ میں اس نور‬
‫کے بلکل قریب پہنچ جاتی ہوں۔۔۔وہاں‬
‫مجھے ایک جگہ نظر آتی ہے ۔۔۔شاید کوئی‬
‫پہاڑ ہے یا کوئی بڑا سا پتھر۔۔۔جس پر میں‬
‫بیٹھ کر اپنے دونوں پروں کو سکیڑ‪  ‬کر‬
‫خود کو چھپا لیتی ہوں۔۔۔وہ نور میرے‬
‫قریب آ کر مجھے اپنی سفید روشنی میں‬
‫لپیٹ لیتا ہے۔۔۔مجھے اس وقت بس یہی‬
‫سمجھ آ رہا ہوتا ہے کہ میں اب پر سکون‬
‫ہوں‪،‬۔۔۔مجھے کوئی غم نہین‪ ،‬کوئی تکلیف‬
‫نہیں۔۔۔ایسے میں مجھے ایک آواز آتی ہے‬
‫جو مجھے کہہ رہی ہوتی ہے کہ میری بندی‬
‫پریشان کیوں ہوتی ہے۔۔۔کیا میں نے تمہیں‬
‫دنیا میں بھیج کر بھال دیا ہے ۔۔۔بلکل‬
‫نہیں۔۔۔۔میں تو تیری شہ رگ کے قریب ہوں‬
‫تو ‪ ،‬تو کیوں مجھ سے مایوس ہوتی ہے ‪،‬‬
‫کیوں شکوے کرتی ہے۔۔۔میں تجھے بتا دو ں‬
‫کہ اگر میں تجھ سے کچھ چھینتا ہوں تو‬
‫اس کا بدلہ بھی تجھے دوں گا۔۔۔اور جو‬
‫بدلہ ہو گا ‪ ،‬وہ تمہارے لیے کافی ہوگا۔۔۔۔بس‬
‫تو میرے سے مایوس نہ ہو۔۔۔۔اگر یہ دنیا‬
‫میں نے تیرے لیے بنائی ہوتی تو ‪ ،‬تو‬
‫دیکھتی کہ میرے بندے کیسے اس دنیا میں‬
‫جیتے ہیں۔۔۔یہ دنیا تو میرے بندوں کے لیے‬
‫ہے ہی نہیں۔۔۔یہ تو ان کے لیے آزمائش کا‬
‫گھر ہے ۔۔۔تو جب یہاں میری رضا میں رہے‬
‫گی تو میں بھی تجھ سے راضی ہو جاوں‬
‫گا۔۔۔۔‬

‫آغا ۔۔مجھے پتا ہی نہیں چلتا کہ میں کون‬


‫ہوں‪ ،‬کہاں ہوں۔۔۔کیوں ہوں۔۔بس میں چاہتی‬
‫ہوں کہ ہمیشہ وہی رہوں۔۔۔اس نور میں‬
‫بیٹھی رہوں۔۔‬
‫مجھے جب آپ کے ساتھی نے کہا کہ میں‬
‫آپ کا دامن تھام لوں تو مجھے پتا نہیں‬
‫کیوں لگا کہ آپ ہی ہیں جن کے ساتھ جڑ‬
‫کر میں بھی اہلل کی رضا میں جینا سیکھ‬
‫لوں گی۔۔۔‬

‫مجھے کوئی دکھ نہیں ‪ ،‬کوئی پرواہ‬


‫نہیں۔۔۔کہ آپ کا ساتھی کیوں آیا تھا۔۔کس‬
‫مقصد سے آیا تھا لیکن اس نے جو بھی کہا‬
‫تھا ۔۔وہ میرے دل کی آواز تھی۔۔آپ یہاں‬
‫ایک دن کے لیے‪  ‬ہیں۔۔۔۔ایک دن میں ‪ ،‬میں‬
‫کچھ نہیں سیکھ سکوں گی۔۔۔لیکن میں اتنا‬
‫جان گئی ہوں کہ میں چاہے جتنی بھی‬
‫عبادات کروں۔۔۔میں آپ کے برابر تو کیا۔۔۔آپ‬
‫کے پاوں کی مٹی بھی نہیں بن سکتی۔۔۔۔‬
‫بس میری عرض ہے کہ آپ کو جو مقام ہے‬
‫مجھے اس مقام کی درباری ہی بنا دیں۔۔۔۔‬
‫میری زندگی میں اب کوئی مقصد نہیں رہا‬
‫ہے۔۔۔بس مقصد ہے تو ایک کہ‪  ‬اہلل سے‬
‫جڑے رہنا ہے۔۔‬

‫سکینہ خاموش ہو گئی تھی۔۔۔۔اور درخان‬


‫کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس بچی‬
‫سے کیا کہے۔۔۔‬

‫بیٹی مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ تمہیں‬


‫میں کیا کہوں۔۔۔۔تم نے کہا کہ تمہیں چند‬
‫دن ہوئے ہیں اہلل کو جانے ہوئے اور ایک‬
‫میں ہوں جو بہت دنوں سے اہلل کو یاد کرتا‬
‫ہوں لیکن کبھی اہلل کو خود کے اتنے قریب‬
‫نہیں پایا جتنا آج تم سے سن کر پایا ہے۔۔۔‬
‫ہم سب نے دنیا میں غم کھائے ہیں۔۔۔اور‬
‫کھائے جا رہے ہیں۔۔۔لیکن‪  ‬ہم یہ نہیں‬
‫سمجھ پاتے کہ جو ہم پر تکلیف اور غم‬
‫بھیجتا ہے وہ کیسے اس غم کو پرے کرنا‬
‫بھول جائے گا۔۔۔۔‬

‫مجھے پتا نہیں کہ یہ بات اس موقع پر‬


‫بولی جا سکتی ہے یا نہیں لیکن میں پھر‬
‫بھی کہوں گا۔۔۔تم سوچو کہ تمہارے پاس‬
‫سو روپے ہیں۔۔۔اور اچانک تم سے سو روپے‬
‫گم ہو جائیں ۔۔۔تو تم کیا کرو گی۔۔۔یہی نا‬
‫پریشان ہو جاو گی۔۔۔۔۔ہو سکتا ہے کہ پورا‬
‫دن ہی خراب گزرے۔۔۔ لیکن تمہیں ابھی سو‬
‫روپے نہیں ملے کہ تمہارے پاس پڑے دو سو‬
‫روپے بھی گم ہو گئے‪  ‬تو اب کیا کرو گی۔۔۔‬
‫تم اپنے پہلے سو روپے بھول جاو گی اور‬
‫دو سو روپے کے غم کو کوستی رہو گی۔۔۔۔‬

‫شاید اہلل بھی ہم سے یہی کرتا ہے۔۔۔وہ ہم‬


‫سے ہماری عزیز چھینتا ہے ۔۔اور ہم اہلل سے‬
‫گلے شکووں کی قطاریں لگا دیتے ہیں۔۔۔پھر‬
‫اس کے بعد کیا ہوتا ہے۔۔۔اہلل ہم سے اس‬
‫سے بڑھ کر عزیز چھین لیتا ہے ۔۔۔اور ہم‬
‫پچھلےانسان‪ ،‬غم اور تکلیف کو بھول جاتے‬
‫ہیں۔۔۔‬

‫تم نے ہی ابھی کہا‪  ‬کہ یہ دنیا اہلل والوں‬


‫کے لیے آزمائش ہے ۔۔۔۔تو اہلل ہمیں ہم سے‬
‫عزیز ترین رشتے بلکہ سب کچھ چھینتا‬
‫رہتا ہے ۔۔جب تک اس کے پاس نہیں پہنچ‬
‫جاتے ۔۔۔کچھ اس دنیا میں ہی اہلل کے پاس‬
‫پہنچ جاتے ہیں اور کچھ مرنے کے بعد ۔۔۔۔‬
‫لیکن پہنچتے ضرور ہیں۔۔۔تم اور میں ایک‬
‫ہی کشتی کے مسافر ہیں۔۔۔دونوں نے ہی‬
‫اپنے پیارے لوگ کھوئے ہیں۔۔۔لیکن اگر ہم‬
‫دونوں خود کو دیکھیں تو ہم کھو کر اہلل‬
‫کے قریب پہنچ چکے ہیں۔۔۔تو خود بتاوہ کہ‬
‫ہم نقصان میں ہوئے یا فائدے میں۔۔۔‬

‫در خان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور‬


‫سکینہ کے ساتھ والی جگہ پر جا بیٹھا تھا‬

‫آغا۔۔۔ہم تو فائدے میں ہوئے نا۔۔۔۔سکینہ‬


‫بولی‬

‫تو پھر تم کیا چاہو گی کہ اس فائدے کے‬


‫کام کو چھوڑ کر دوبارہ دنیا میں لوٹ‬
‫جاو۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬
‫بلکل بھی نہیں آغا۔۔۔۔۔سکینہ نے انکار میں‬
‫گردن ہال کر کہا‬

‫تو پھر میری بچی اس کے نقصان میں بھی‬


‫خوش رہنا سیکھو‪ ،‬اس کے فائدے میں بھی‬
‫۔۔۔پھر ہی تم اس کو پا سکوں گی۔۔اور پھر‬
‫جو اسے پا لیتا ہے تو وہ بگڑے سارے کام‬
‫بنا لیتا ہے۔۔در خان نے سکینہ کے سر پر‬
‫شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا‬

‫جی آغا۔۔۔۔۔اب اگر اہلل مجھ سے سب کچھ‬


‫بھی چھین لے گا۔۔۔تب بھی میں ان‬
‫سےکوئی شکوہ نہیں کروں گی۔۔۔سکینہ کے‬
‫در خان کے ہاتھ کو پکڑ لیا‬

‫شاباش میری بچی۔۔۔۔۔۔‬


‫کچھ دیر کے لیے کمرے میں خاموشی‬
‫رہی۔۔۔۔‬

‫اپنی بیٹی کو اس بھائی کا سالم‪  ‬بھی دے‬


‫دو آغا۔۔۔۔سلیمان نے اچانک سے چہکتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫سلیمان تمہیں سالم کہہ رہا ہے بیٹی۔۔۔در‬


‫خان نے سکینہ کی جانب دیکھ کر مسکراتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫سلیمان کون۔۔۔آغا۔۔۔۔سکینہ نے حیرت سے‬


‫پوچھا‬

‫وہی جسے تم میرا ساتھی کہتی ہو۔۔۔۔‬

‫اوہ۔۔اچھا۔۔۔تو ان کا نام سلیمان ہے۔۔۔کیا وہ‬


‫جن ہے آغا۔۔۔۔؟‬
‫ہاں بیٹی۔۔۔۔جن بھی ہے اور مجھ سے عمر‬
‫میں بڑا بھی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ‬
‫شرارتی بھی ہے ۔۔۔۔در خان نے سلیمان کو‬
‫‪ ‬چڑاتے ہوئے کہا‬

‫سکینہ بہن۔۔۔۔یہ سچ نہیں ہے ۔۔۔۔میں بہت‬


‫شریف جن ہوں۔۔۔۔۔اچانک سلیمان بول اٹھا‬
‫اور اس کی آواز سکینہ نے بھی سن لی۔۔‬

‫ہی ہی ہی ۔۔۔۔۔سکینہ پہلے تو چونکی لیکن‬


‫پھر سلیمان کی آواز سمجھ کر ہنس پڑی‬

‫بہت شریف ہے ۔۔۔سکینہ بیٹی۔۔۔یہ سلیمان‬


‫بہت شریف ہے ۔۔۔دیکھو نا ۔۔جن تو ہوتے ہی‬
‫شریف ہیں۔۔۔در خان نے سکینہ کو آنکھ‬
‫مارتے ہوئے کہا‬
‫اور شریف لوگ دوسروں کے کمروں میں‬
‫چھپ کر بھی جاتے ہیں۔۔۔۔در خان‪  ‬بولے جا‬
‫رہا تھا‬

‫اچھا۔۔۔تو یہ بات ہے ۔۔۔۔در خان۔۔۔سلیمان کی‬


‫مصنوعی غصے میں آواز آئی۔۔۔‬

‫بتاوں۔۔۔میں بھی بتاوں کہ کون شریف ہے‬


‫اور کون نہیں ہے۔۔۔۔۔سلیمان بوال‬

‫ہاہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔در خان کے منہ سے قہقہ بلند‬


‫ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫ایک بات کہو ں سکینہ بہن۔۔۔۔لیکن پہلے‬


‫مجھ سے وعدہ کرو کہ نا تو رونے والی‬
‫شکل بناوگی اور نہ افسردہ ہو گی۔۔۔سلیمان‬
‫نے ڈائریکٹ سکینہ کو مخاطب کیا‬

‫جی بھائی۔۔۔بولیں۔۔۔سکینہ نے حامی بھری‬


‫جلیل بھائی بہت اچھے انسان تھے۔۔۔۔میں‬
‫نے تھوڑی دیر پہلے ہی ان کی تصویر‬
‫دوسرے کمرے میں دیکھی۔۔۔سلیمان نے‬
‫‪ ‬کہا‬

‫مانتے ہو نا بھائی‪  ‬میری چوائس کو۔۔۔‬


‫سکینہ نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫یہ چیز۔۔۔۔یہ ہوئی نا بات۔۔۔۔۔سلیمان نے‬


‫ہنستے ہوئے کہا‬

‫میں دیکھنا چاہ رہا تھا کہ تم دونوں نے جو‬


‫اتنی بڑی بڑی باتیں کی ہیں۔۔وہ سمجھ‬
‫بھی آئی ہیں یا بس ایک دوسرے سے مقابلہ‬
‫بازی ہو رہی تھی۔۔۔۔‬

‫ہی ہی ہی ۔۔۔سمجھ بھی آ گئی ہے اور عمل‬


‫بھی کر نے لگے ہیں۔۔۔سکینہ نے ہنستے ہوئے‬
‫کہا‬

‫در خان بھی سکینہ کو ہنستے دیکھ کر‬


‫مسکرا دیا تھا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا کو اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے‬


‫کتنے دن کا جاپ کر لیا ہے ۔۔۔چونکہ اس‬
‫زمین پر دن اور رات کا شمار نہیں تھا ۔۔۔‬
‫اس لیے وہ بس آنکھیں بند کرکے جاپ‬
‫کرتی رہی تھی۔۔۔‬

‫آج بھی وہ اپنے جاپ میں مصروف تھی کہ‬


‫اچانک سے اس کے پیٹ میں تیزی سے در د‬
‫جاگا اور پھر بڑھتا ہی گیا۔۔۔یہ شدید بھوک‬
‫کا االرم تھا جو اسے اس کے جسم کی‬
‫طرف سے آیا تھا۔۔۔‬

‫سفررینا نے جھٹ سے آنکھوں کھول دیں۔۔۔۔‬


‫اس کے سامنے ہلکی ہلکی سی آگ روشن‬
‫تھی جو برف کو جمنے نہیں دے رہی‬
‫تھی۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے اپنا ایک ہاتھ پیٹ پر رکھ کر‬


‫اسے زور سے دبایا ۔۔۔اس طرح سے وہ درد‬
‫کی شدت کو کم کرنا چاہتی تھی لیکن در د‬
‫تھا کہ کم نہیں ہو رہا تھا۔۔۔‬

‫ایسے درد میں بھی اس کے لب نہیں رکے‬


‫تھے۔۔۔وہ برابر جاپ کرتی جا رہی تھی۔۔۔‬

‫اور پھر درد اتنا بڑھا کہ اس کے لیے‬


‫برداشت کرنا ناممکن ہو گیا۔۔۔وہ دائیں‬
‫طرف ڈھلکی اور سکندر کے جسم کے‬
‫ٹکڑوں کے ساتھ ہی گر گئی۔۔۔اس کی‬
‫آنکھیں بند رہی تھیں۔۔۔‬

‫اس نے بند ہوتی آنکھوں کے جھروکوں سے‬


‫دیکھا تو اسے اپنے چاروں چیلے کھڑے نظر‬
‫آئے جو اپنی ہی لگائی آگ میں کچھ پکڑے‬
‫کھڑے تھے۔۔۔چونکہ سفرینا کو کچھ بھی‬
‫واضح نظر نہیں آ رہا تھا۔۔۔اس لیے اس کے‬
‫لیے کچھ بھی اندازہ لگانا نا ممکن تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کے لبوں کی حرکت میں کمی آ رہی‬


‫تھی۔۔۔۔وہ اپنے سارے جسم کی وقت جاپ‬
‫کے دنوں میں ختم کر چکی تھی اور اب‬
‫نقاہت اسے مزید کچھ پڑھنے یا اٹھ کر‬
‫بیٹھنے بھی نہیں دے رہی تھی۔۔۔‬
‫زمین پر دائیں کروٹ پر لیٹے اس نے ساتھ‬
‫پڑے سکندر کی آنکھوں کو دیکھا۔۔۔جس‬
‫میں موجود سوال ابھی بھی اس کے جواب‬
‫کے انتظار میں تھے۔‬

‫سفرینا کی آنکھ سے آنسو گرا اورنیلی زمین‬


‫پر ایک چھوٹا سا دائرہ بن گیا۔۔۔وہ بے بسی‬
‫سے اپنی محبت سے معافی مانگ رہی‬
‫تھی۔۔۔وہ دل ہی دل میں کہہ رہی تھی کہ‬
‫سکندر مجھے معاف کر دینا۔۔تمہاری سفرینا‬
‫تمہیں نہ بچا سکی۔۔۔سفرینا کی آنکھیں بند‬
‫ہو گئی تھیں۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں ور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬

‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــسفرین‬
‫ا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪34‬۔۔۔از ابن نصیر‬

‫سفرینا کی بند آنکھوں نے بھی ایک منظر‬


‫دیکھ لیا ۔۔جس میں سامنے لیٹے ہیولے نے‬
‫جھٹکا کھایا تھا۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے آنکھیں بند ہی ہوئیں کہ دوبارہ‬


‫جھٹ سے کھل گئیں۔۔۔۔اس نے پورے جسم‬
‫کی قوت کو یکجا کر کے‪  ‬زور لگایا لیکن وہ‬
‫اپنی جگہ سے ہل نہیں پائی۔۔۔وہ نقاہت سے‬
‫زمین پر گرے کراہ رہی تھی۔۔۔‬

‫لیٹے لیٹے ہی اس نے جاپ مکمل ہونے کے‬


‫بعد واال منتر پڑھا۔۔۔اور منہ کو دائرہ کی‬
‫شکل میں بنا کر پھونک ماری۔۔۔‬

‫سفرینا کے پھونک مارنے کی دیر تھی کہ‬


‫اس کے گرد بنا دائرہ غائب ہو گیا۔۔۔۔‬

‫خون۔۔۔سفرینا نے منہ سے ہلکی سی آواز‬


‫نکلی جو دائرے کے باہر کھڑے اس کے‬
‫چیلوں نے سن لی ۔۔۔‬

‫ان میں سے دو‪  ‬چیلوں کے ہاتھ میں ایک‬


‫بوتل نما برتن‪  ‬تھاجس میں الل رنگ کا‬
‫سیال مادہ بھرا ہوا تھا۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا کے گرد دائرہ ختم ہوا۔۔۔‬


‫چیلوں نے اپنی لگی آگ کو بجھا کر سفرینا‬
‫کی جانب ہوا میں قدم اٹھائے۔۔اور نزدیک آ‬
‫کر بوتل کا منہ سفرینا کے منہ سے لگا کر‬
‫ایک عجیب زبان میں الفاظ کہے۔۔۔‬
‫سفرینا نے بھرپور نقاہت کے باوجود بھی‬
‫الل رنگ کے خون کو اپنی منہ میں ڈالنے‬
‫کی کوشش کی اور پھر چھوٹے چھوٹے‬
‫گھونٹ میں خون پیتی گئی۔‬

‫جیسے جیسے خون سفرینا کے جسم میں‬


‫داخل ہوتا جا رہا تھا۔۔ویسے ہی اس کے‬
‫چہرے کی رنگت نکھرتی جا رہی تھی۔۔۔۔وہ‬
‫دوبارہ سے بھرپور طاقت والی جوان‬
‫سفرینا بنتی جا رہی تھی۔۔۔‬

‫ایک بوتل کے ختم ہونے کے بعد دوسری‬


‫بوتل سفرینا کے منہ کے قریب الئی گئی جو‬
‫اس نے بنا رکے پوری ختم کر دی۔۔۔‬

‫اس کی آنکھوں کی رنگت جو پیالہٹ کی‬


‫وجہ سے کمزور پڑ گئی تھیں اب دوبارہ سے‬
‫خون سے بھر کر الل ہو گئی تھیں۔۔۔۔‬

‫دونوں بوتلوں کو ختم کرنے کے بعد ساتھ‬


‫کھڑے دوسرے چیلوں نے گوشت کے ٹکڑے‬
‫سفرینا کے سامنا ال کر رکھ دیے۔۔۔جسے‬
‫سفرینا اپنے نوکیلے دانتوں سے چٹ کرتی‬
‫جا رہی تھی۔۔۔‬

‫خون اور گوشت سے اپنی بھوک اور پیاس‬


‫بجھانے میں سفرینا کو دس منٹ بھی نہیں‬
‫لگے۔۔۔۔۔وہ اب پہلی والی سفرینا بن چکی‬
‫‪ ‬تھی۔۔۔۔‬

‫وہ بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی پیروں پر‬


‫کھڑی ہو گئی۔اور باری باری اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں اور پیروں کو حرکت دینے لگی۔۔۔۔‬
‫ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کئی صدیوں سوئی‬
‫ہو ئی تھی۔۔۔سفرینا نے ایک بھرپور انگڑائی‬
‫لی اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔‬

‫کھڑے ہو جاو۔۔۔۔۔۔۔سفرینا نے حکم دیا تو‬


‫ہیوال اپنی جگہ پر اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔‬

‫اب زرا چل کر دیکھتے ہیں کہ کونسے کام‬


‫کرنے باقی رہ گئے ہیں۔۔۔سفرینا نے یہ بات‬
‫ہیولے سے کہی تھی۔۔۔‬

‫وہ آگے بڑھی اور جھک کر سکندر کے سر‬


‫اور سینے کو دونوں ہاتھوں میں اٹھا کر‬
‫سینے سے لگا لیا۔۔۔۔‬

‫میرے سکندر۔۔۔۔وہ سکندر کے اعضا سے‬


‫بولی‬

‫اب میں تم سے کبھی بھی جدا نہیں‬


‫ہونگی۔۔۔یہ سفرینا کا وعدہ ہے۔۔۔۔‬
‫یہ کہہ کر کے اس نے سکندر کےاعضا کو‬
‫بوری میں ڈاال ۔۔۔اور اپنا ہاتھ ہیولے کی‬
‫جانب بڑھایاجسے ہیولے نے بنا کوئی بات‬
‫کیے تھام لیا۔۔‬

‫ہم اپنی دنیا میں جا رہے ہیں۔۔یہ بات‬


‫سفرینا نے اپنے چیلوں او رہیولے سے کی‬
‫اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔۔‬

‫وہ بجلی میں تبدیل ہو گئی تھی۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے بجلی کے روپ میں آسمان کی‬


‫جانب اڑان بھر ی اور اوپر اٹھتی چلی‬
‫گئی۔۔۔۔وہ اب پہلے سےزیادہ پرجوش اور‬
‫مطمئن تھی ۔۔اس لیے اسے پہلے آسمان کے‬
‫قریب پہنچے تک زیادہ وقت نہیں لگا۔۔۔۔اس‬
‫تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ کب اس نے نیلے‬
‫زمین کے حصار کو پار کیا تھا۔۔۔وہ بس یہ‬
‫جانتی تھی کہ اسے جلد سے جلد واپس‬
‫اپنی دنیا میں پہنچنا ہے۔۔‬

‫جیسے ہی اس نے‪  ‬آگ کو شعلے کو اپنی‬


‫جانب دیکھا۔۔۔اس نے اپنا رخ تبدیل کیا اور‬
‫پھر وہ واپس کے سفر پر اڑنے لگی۔۔۔۔‬

‫واپس کا سفر کتنے دن کا تھا۔۔۔کب پورا ہوا‬


‫اور کیا کیا اس نے درمیان میں دیکھا ۔۔۔اس‬
‫نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔۔۔۔جیسے‬
‫ہی اس نے چھ دن اور رات کا سفر پورا‬
‫کیا۔۔۔۔اس نے اپنا رخ نیچے کی جانب کر لیا‬
‫۔۔۔۔۔اس کی منزل آہستہ آہستہ نزدیک ہوتی‬
‫جا رہی تھی۔۔۔‬
‫اس کی خون سے بھری آنکھیں جو اب‬
‫سفید ہو چکی تھیں ۔۔۔انسانی زمین کو‬
‫ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔‬
‫_________________________________‬
‫________‬
‫رات کے‪  ‬کھانے پرگھر کے تمام فرد‬
‫بیٹھےہوئے تھے اور ساتھ میں ہنسی مزاق‬
‫بھی چل رہا تھا ۔۔۔‬

‫در خان نے‪  ‬سکینہ کو‪  ‬سلیمان کے بارے‬


‫میں کسی سے بات کرنے سے منع کر دیا‬
‫تھا۔۔۔۔لیکن یہ سب جان گئے تھے کہ در خان‬
‫کے ساتھ ایک غیبی مخلوق ہے جو درخاں‬
‫کی خیر کے کاموں میں مدد کرتی ہے۔۔۔‬
‫آغا ۔۔۔ایک سوال پوچھوں ۔۔۔۔سکینہ نے‬
‫کھانا کھاتے ہوئے سوال پوچھ لیا۔۔۔‬

‫بلکل پوچھو بیٹی ۔۔۔کیوں کہ تمہاری وجہ‬


‫سے میں بھی سیکھ رہا رہوں۔۔۔۔در خان نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا‬

‫میں نے سنا ہے کہ جنات انسان سے زیارہ‬


‫تیزی سے سفر کرتے ہیں۔۔بلکہ اگر میں کہوں‬
‫کہ وہ چند لمحوں میں ایک جگہ سے‬
‫دوسری جگہ پہنچ جاتے ہیں۔۔۔کیا آپ بتا‬
‫سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔؟‬

‫کیونکہ اہلل نے ان کو یہ طاقت د ی ہے اس‬


‫لیے بیٹی۔۔۔در خان نے جواب دیا‬

‫آغا ۔۔آپ جانتے ہیں کہ اہلل نے یہ کائنات یا‬


‫دنیا بنانے سے پہال کیا بنایا ہو گا۔۔یعنی‬
‫میرامطلب اس دنیا یا کائنات کی بنیاد‬
‫یعنی اکائی کیا ہوگی۔۔۔سکینہ نے اگال سوال‬
‫پوچھا‬

‫ہمم۔۔۔۔کیا بنایا ہوگا۔۔۔۔۔بے دھیانی میں در‬


‫خان نے ہی سوال پوچھ ڈاال‬

‫میں آپ سے پوچھ رہی ہوں آغا۔۔۔۔‬

‫اوہ۔۔۔اچھا۔۔۔۔نہیں‪  ‬بیٹی۔۔۔۔ میں یہ نہیں‬


‫جانتی ہوں۔۔۔۔اتنے مشکل سواالت ہی مجھے‬
‫سمجھ نہیں آ رہے تو جوابات کہاں سے دے‬
‫سکتا ہوں۔۔۔در خان نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫اچھا چلیں۔۔۔میں سوال کو آسان کر دیتی‬


‫ہوں۔۔۔سکینہ نے کچھ سوچ کر کہا‬

‫اگر ایک آدمی یہاں سے گاڑی پر بازار کو‬


‫جاتا ہے اور دوسرا آدمی سائیکل پر جاتا ہے‬
‫تو ان دونوں میں جلدی کون پہنچے گا۔۔۔۔؟‬

‫الزمی بات ہے ‪،‬۔۔۔گاڑی واال ہی جلدی پہنچے‬


‫گا بیٹی۔۔۔۔در خان نے بنے سوچے سمجھے‬
‫کہہ دیا کیونکہ یہ سامنے کی بات تھی‬

‫اور وہ گاڑی واال جلدی کیون پہنچے گا۔۔۔۔۔‬


‫سکینہ نے پھر پوچھا‬

‫کیونکہ اس کی رفتار تیز تھی اسی لیے۔۔۔۔‬

‫بلکل آغا۔۔۔۔اچھا تیز رفتار سے اسے کیا‬


‫فائدہ مال ؟‬

‫یہی کہ وہ جلدی پہنچ گیا ۔۔۔اس کا وقت‬


‫بچ گیا۔۔۔‬

‫بلکل۔۔۔۔میں بھی یہی کہنا چاہ رہی تھی ۔۔۔۔‬


‫جب میں کالج میں فزکس پڑھتی تھی تو‬
‫وقت کو بہت سوچتی تھی ۔۔۔پتا نہیں کیو‬
‫ں آغا۔۔۔مجھے لگتا ہے کہ اس کائنات ‪،‬دنیا‬
‫کی سب کی بنیاد وقت پر ہے۔۔۔وقت وہ‬
‫چیز ہے جس کی مدد سے اہلل نے ہر چیز کو‬
‫قابو کر رکھا ہے۔۔۔‬

‫ہو سکتا ہے بیٹی۔۔۔۔۔۔در خان نے سمجھنے‬


‫والے انداز میں کہا‬

‫آپ کو سمجھ نہیں آئی نا بات۔۔آغا۔۔۔۔۔؟‬


‫سکینہ نے مسکراتے ہو ئے کہا‬

‫ہاں بیٹی۔۔۔۔یہ تھوڑا مشکل لگ رہا ہے۔۔۔‬

‫اچھا چلیں ۔۔۔ایک اور مثال دیتی ہوں ۔۔۔۔۔‬


‫سوچیں آپ کو ایک خوشی کی خبر ملی ہے‬
‫یا ایسی چیز ملی ہے جس سے آپ بہت‬
‫خوش ہیں۔۔۔تو آپ کو وقت کا بلکل بھی‬
‫پتا نہیں چلےگا۔۔۔لیکن اگر اہلل نا کرے کوئی‬
‫بری خبر ملتی ہے تو کیسے ایک ایک لمحہ‬
‫مشکل سے گزرتا ہے۔۔۔گزرتا ہے نا۔۔۔؟‬

‫بلکل بیٹی ۔۔۔۔۔در خان نے کہا‬

‫اہلل نے سب چیزوں کو وقت کا پابند بنا‬


‫رکھا ہے آغا۔۔۔۔ایک جنات جس کے لیے کسی‬
‫جگہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔۔۔وہاں بھی‬
‫وقت ہوتا ہے۔۔۔ہم خوش ہوتے ہیں۔۔۔افسردہ‬
‫ہوتے ہیں۔۔۔۔یہاں بھی وقت ہو تا ہے۔۔۔‬

‫اہلل نے جنت میں ایسے ایسے درخت بنائے‬


‫ہیں جس کے سائے میں انسان کہی سال‬
‫چلے گا لیکن اس کا سایہ ختم نہیں ہوگا۔۔‬
‫مطلب وہ اتنے بڑے ہونگے۔۔جہنمیوں کے لیے‬
‫ایک تو عذاب ہوگا اور دوسرا وقت کا‬
‫آہستہ چلنا۔۔۔‬

‫ایسے کہی مثالیں ہیں جن سے مجھے لگتا‬


‫ہے کہ اس دنیا ‪ ،‬کائنات میں سب سے اہم‬
‫وقت ہے اور سب کی اکائی بھی وقت ہے۔۔۔‬
‫سکینہ نے اپنی بات ختم کر دی‬

‫اہلل کے بھید اہلل ہی جانتا ہے بیٹی۔۔۔۔ویسے‬


‫یہ چیز مرنے کے بعد ہی پتا چلے گی۔۔در‬
‫خان نے مسکرا کر کہا تو جو باقی لوگ‬
‫خاموشی سے سن رہے تھے سب‬
‫مسکرادیے۔۔۔‬

‫سلیمان بھی ساتھ میں بیٹھا مسکرا رہا تھا‬


‫کہ اس نے ایک جھٹکا کھایا۔۔۔ایسے لگا‬
‫جیسے اس کے کانوں نے کچھ سنا ہو۔۔۔۔‬
‫در خان میں ایک ضروری کام سے جا رہا‬
‫ہوں۔۔۔جلد ہی واپس آتا ہوں۔۔۔سلیمان یہ‬
‫بات کہہ کر غائب ہو گیا۔۔۔‬

‫بھائی اگر باتیں ختم ہو گئی تو تو میں‬


‫چائے بنا کر الوں۔۔۔شکیلہ نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫وہ سب کھانا بس کر چکے تھے ۔۔۔اوربرتن‬


‫بھی سمیٹ لیے تھے۔۔۔چونکہ سکینہ اور‬
‫درخان باتیں کر رہے تھے اس لیے برتن‬
‫اٹھائے نہیں گئے‬

‫بلکل بلکل۔۔۔کیوں نہیں۔۔۔جنید بوال‬

‫لیکن میں کہتا ہوں کہ رات بھی ہو چکی ہے‬


‫۔۔۔اپنا کام پہلے کر لیں اور پھر تھکاوٹ‬
‫اتارنے کے لیے چائے بعد میں پیں گے۔۔۔در‬
‫خان نے مشورہ دیا‬

‫ہاں یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔جنید بوال‬

‫آئیں پھر چلتے ہیں۔۔۔در خان نے کہا تو جنید‬


‫اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔شکیلہ اور حدیقہ برتن کچن‬
‫کی طرف لے کر جا رہے تھے جبکہ سکینہ‪،‬‬
‫جنید ‪ ،‬در خان اور حاجرہ بی بی ساتھ میں‬
‫کمرے سے باہر نکل کر صحن میں آگئے۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سلیمان اس وقت عبقر کے جنگالت سے گز‬


‫رر ہا تھا۔۔۔اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔۔۔‬
‫ایسا لگ رہا تھا کہ اسے جلد ہی کہیں پہنچا‬
‫ہے لیکن اس کی منزل کہاں ہے ۔۔۔یہ صرف‬
‫سلیمان ہی جانتا تھا۔۔۔‬
‫سلیمان نے اڑتے اڑتے ہی آنکھیں بند کر‬
‫لیں۔۔۔اس نے جالم کا چہرہ تصور میں الیا‬
‫تھا۔۔۔۔‬

‫جالم اس وقت انسانی بھیس میں تبدیل کر‬


‫ہو کر انسانی دنیا میں گھو م رہا تھا۔۔۔۔‬
‫سلیمان کو جگہ سے کچھ اندازہ نہیں ہو‬
‫سکا کہ یہ کونسا شہر یا عالقہ ہے۔۔۔‬

‫جالم۔۔۔کوئی خبر دو۔۔۔۔سلیمان نے کہا‬

‫سلیمان کی آواز سن کر جالم ٹھٹکا لیکن‬


‫جلد ہی اس نے خود کو سنبھال لیا۔۔۔‬

‫کوئی خبر نہیں ہے‪  ‬جن زادے۔۔۔۔۔جالم نے‬


‫چھینک کے بعد دھیمی لہجے میں کہا‬

‫یہ سن کر سلیمان نے جالم سے رابطہ‬


‫منقطع کر لیا۔۔۔اس نے آنکھیں کھول کر‬
‫دیکھا تو وہ عبقر کے جنگالت سے گزر چکا‬
‫تھا اور اس وقت لمبی ‪ ،‬اونچی اونچی‬
‫پہاڑیوں کا سلسلہ جاری تھی۔۔۔۔اور پھر‬
‫سلیمان کو تین کٹی پہاڑیاں نظر آ گئیں ۔۔یہ‬
‫پہاڑیاں ایک ساتھ تھیں اور انکو دور سے‬
‫دیکھنے پر تین پیالوں کا گمان ہوتا ہے۔۔۔‬

‫سلیمان نے نزدیک پہنچ کر رفتار کم کی ۔۔۔۔‬


‫تیسری پہاڑی کی چھوٹی کے قریب ہی اس‬
‫نے اپنے قدم پہاڑ پر جما لیے۔۔۔‬

‫وہ تیزی کے ساتھ قدم بڑھاتا ہوا آگے جا رہا‬


‫تھا۔۔۔۔۔سامنے اسے خشک جھاڑیاں دکھ رہی‬
‫تھیں۔۔۔۔‬

‫نزدیک پہنچ کر اس نے جھاڑیوں کو انگلی‬


‫کا اشارہ کیا‪  ‬تو جھاڑیاں پرے ہٹ گئی اور‬
‫سامنے ہی ایک غار کا دہانہ نظر آ گیا۔۔۔‬

‫یہ ایک چھوٹی سی غار تھی ۔۔۔جس میں‬


‫سلیمان داخل ہو رہا تھا۔۔۔۔‬

‫اس وقت دن کا وقت ہونے کے باوجود غار‬


‫میں اندھیرا تھا۔۔۔۔لیکن سلیمان ایسے قدم‬
‫اٹھا رہا تھا جیسے وہ سورج کی روشنی‬
‫میں چل رہا ہو۔۔۔‬

‫وہ سیدھا آگے کی جانب بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔۔‬


‫ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہلے بھی یہاں آتا رہا‬
‫ہے۔۔۔وہ چال جا رہا تھا کہ اسے دو سو قدم‬
‫چلنے کے بعد غار میں تھوڑی سی روشنی‬
‫نظر آ گئی۔۔۔روشنی دیکھ کر سلیمان مسکرا‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ برابرچلتا جا‪  ‬رہا تھا اور غار میں‬
‫روشنی بڑھتی جا رہی تھی۔۔۔یہاں تک کہ‬
‫غار کا آخرا سرا نظر آ گیا۔۔۔‬

‫یہ ایک کھلے کمرے نما غا ر تھی ۔۔۔جس‬


‫کی چھت پر چھوٹا سا سوراخ ہونے کی‬
‫وجہ سے روشنی‪  ‬غار میں آ رہی تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی سلیمان کمرے میں پہنچا۔۔۔‬

‫ایک وجود سلیمان کے قدموں کی آہٹ سن‬


‫کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔اور پھر سلیمان کو سامنے‬
‫دیکھ کر اس نے اس نے سکون کی سانس‬
‫لی‬

‫وہ لڑکی زمین کی حدود میں داخل ہو گئی‬


‫ہے۔۔۔۔سلیمان نے نزدیک پہنچ کر کہا‬

‫اب ہم کیا کریں گے سلیمان۔۔۔۔وجود بوال‬


‫تم بس تیار رہنا۔۔۔۔ہم نے اس شیطان کو‬
‫نیست و نابود کرنا ہے۔۔۔۔اس نے کہی‬
‫معصوموں کی جان لی ہے۔۔۔میرا قبیلہ برباد‬
‫کیا ہے ۔۔‬

‫سلیمان نے غراتے ہوئے کہا۔۔۔‬

‫اس وقت اس کے چہرے سے ساری‬


‫معصومیت ختم ہو گئی تھی بلکہ ایک‬
‫خوبصورت چہرے پر غصے سے بھری‬
‫آنکھیں اور تنی ہوئی بھنویں بتا رہی تھیں‬
‫کہ سلیمان اب ایک پل بھی برداشت نہیں‬
‫کر پا رہا تھا۔۔۔‬

‫کیا میں آپ کے ساتھ چلوں۔۔۔۔وجود نے‬


‫پوچھا۔۔۔‬
‫نہیں سارے لوگوں کے مر جانے کے بعد اگر‬
‫کسی نے تمہیں زندہ دیکھ لیا تو طوفان مچ‬
‫جائے گا۔۔۔اب میں چلتا ہوں ۔۔۔ایک ضروری‬
‫کام چھوڑ آیا ہوں۔۔۔جلد ہی اچھی خبر کے‬
‫ساتھ واپس آوں گا۔۔۔۔اور ہاں ۔۔۔اپنے گرد‬
‫حصار سلیمانی بنائے رکھو۔۔۔۔تمہیں کوئی‬
‫ڈھونڈ نہ پائے۔۔۔سلیمان نے وجود سے کہا‬
‫اور الٹے رخ پر مڑ کر واپس باہر کی جانب‬
‫جانےلگا۔۔۔۔‬

‫وجود نے جب سلیمان کو واپس جاتے‬


‫دیکھا تو واپس اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ‬
‫گیا۔اس نے اپنے گرد حصار سلیمان کو‬
‫دوبارہ سے قائم کیا۔۔۔اور اپنے سر دونوں‬
‫گھٹنوں پر رکھ کر سوچنے لگا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سلیمان جب سکینہ کے گھر پہنچا تو سب‬


‫کو باہر صحن میں کھڑے پایا۔۔۔‬

‫اس وقت جنید اپنے ہاتھ میں گینتی لے کر‬


‫کیاری کی زمین میں گڑھا بناتے جا رہے‬
‫تھے۔۔۔اور در خان وہیں اس کے ساتھ کھڑا‬
‫اس سے باتیں کرنے میں لگا ہوا تھا۔۔۔گھر‬
‫کے باقی عورتیں بھی ساتھ کھڑی ہوئی‬
‫تھیں لیکن ان کے چہرے پر خوف واضح‬
‫نظر آ رہا تھا۔۔۔‬

‫انہیں در خان نے بتا دیا تھا کہ ایسی‬


‫چیزوں کی حفاظت غیبی قوتیں کرتی‬
‫ہیں۔۔ہو سکتا ہے کہ ہمارا سامنا بھی کسی‬
‫کے ساتھ ہو۔۔۔ایسی صورت حال میں کسی‬
‫نے بھی نہیں چیخنا۔۔۔اگر کسی کی چیخ‬
‫کی آواز باہر گئی تو ہم سب مصیبت میں‬
‫پھنس جائیں گے۔۔۔‬

‫اور کتنا کھودنا ہوگا در خان۔۔۔۔جنید نے‬


‫کھڑے ہو کر ہانپتے ہوئے پوچھا۔۔۔اس کا‬
‫ماتھا پسینے سے بھرا ہوا تھا‪  ‬اور بوندیں‬
‫وقفے وقفے سے‪  ‬نیچے پڑی مٹی پر گر رہی‬
‫تھیں۔۔۔‬

‫بس ہم قریب ہی ہیں جنید صاحب۔۔۔۔در‬


‫خان نے جنید کو ہمت دیتے ہوئے کہا‬

‫آپ میرا خیال ہے ۔۔تھک گئے ہونگے۔۔۔چلیں‬


‫باہر نکلیں ‪،‬۔۔اب میری باری ہے۔۔۔در خان نے‬
‫کہا تو جنید نے اسے منع کر دیا لیکن چونکہ‬
‫دونوں باری باری کھدائی‪  ‬کر رہے تھے ۔۔اس‬
‫لیے جنید نے بھی زیادہ بات نہیں کی اور‬
‫گڑھے سے باہر نکل آیا۔۔۔‬

‫اس وقت گڑھا چھ فٹ تک کھود لیا گیا‬


‫تھا۔۔۔‬

‫در خان نے نیچے اتر کر ساتھ پڑا بیلچہ‬


‫اٹھایا اور‪  ‬بسم اہلل کہ کر مٹی کو باہر‬
‫پھینکنے لگا۔۔‬

‫در خان زرا خیال سے ۔۔۔اب ہم نزدیک ہی‬


‫ہیں۔۔۔۔سلیمان نے در خان کے کان میں کہا‬

‫آ گئے تم سلیمان۔۔۔۔در خان نے سلیمان کی‬


‫آواز سنی تو دھیمی آواز میں کہا‬

‫ہاں در خان۔۔۔سلیمان‪  ‬بوال‬


‫ساری مٹی باہر پھینکے میں در خان کو دس‬
‫منٹ ہی لگے تھے۔۔۔جب ساری مٹی باہر نکل‬
‫گئی تو جنید نے در خان سے باہر آنے کو کہا‬
‫لیکن جب در خان نے اسے بتایا کہ ہم‬
‫نزدیک ہی ہیں تو جنید پہلے چونک پڑا اور‬
‫پھر پیچھے کھڑے باقی گھر والوں کو‬
‫آہستہ آواز میں بتانے لگا۔۔‬

‫یہ گینتی مجھے پکڑانا جنید صاحب۔۔۔در‬


‫خان نے گردن اٹھا کر کہا۔۔۔‬

‫جنید دوڑتا ہوا آیا اور ساتھ پڑی گینتی اٹھا‬


‫کر در خان کے ہاتھ میں پکڑا ئی اور نیچے‬
‫پڑے بیلچے کو تھوڑا دور کرکے رکھ دیا۔۔‬
‫کیونکہ گڑھے سے باہر مٹی کے ٹیلے بن گئے‬
‫تھے ۔۔اور بیلچہ ٹیلے کے اوپر ہی جا کر‪  ‬گرا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫ابھی در خان نے تیسری گینتی نہیں ماری‬


‫کہ گینتی کا نوکیال سرا کسی بھاری اور‬
‫ٹھوس چیز سے جا لگا۔۔۔۔‬

‫سلیمان۔۔۔در خان نے ٹھوس چیز کو‬


‫محسوس کرنے کے بعد ہاتھ چالنا بند کر دیا‬
‫اور سلیمان کو پکارا‬

‫یہی ہے در خان۔۔۔۔اب گینتی نہیں مارو بلکہ‬


‫ہاتھ کی مدد سے مٹی اٹھاو۔۔۔سلیمان نے د‬
‫رخان کو سمجھا یا تو در خان گڑھے میں‬
‫بیٹھ کر ہاتھ سے مٹی اکھاڑنے لگا۔۔۔‬

‫پارکنگ میں لگے بلب کی وجہ سے پہلے‬


‫گڑھے میں کچھ روشنی تھی لیکن در خان‬
‫کے نیچے بیٹھ جانے کی وجہ سے‪  ‬اب‬
‫مکمل اندھیرا ہو گیا تھا۔۔‬

‫یہ کوئی بیس انچ کے قریب کوئی گول سا‬


‫برتن تھا ۔۔۔جسے سلیمان نے دیگ کہا تھا۔۔۔۔‬
‫جس کا منہ لوہے کی باریک تاروں سے بندھا‬
‫ہوا تھا۔۔‬

‫در خان نے دیگچی نما دیگ کے ارد گرد سے‬


‫مٹی ہٹا لی‪  ‬تھی لیکن مزید نیچے کھدائی‬
‫کرنے کے لیے ضروری تھا کہ کوئی چھوٹی‬
‫سی نوکیلی چیز مل جائے۔۔‬

‫وہ اٹھ کھڑا ہوا اور جنید کو آواز دی تو‬


‫جنید دوڑتا ہوا نزدیک آیا۔۔‬

‫چھری یا چاقو مل جائے گا۔۔درخان نے کہا‬


‫جنید نے سکینہ سے کہا اور سکینہ تیز تیز‬
‫قدم اٹھاتی کچن سے چھری لے آئی‬

‫یہ لیں در خان صاحب۔۔جنید نے چھری‬


‫بڑھاتے ہوئے کہا‬

‫در خان نے چھری لے کر آہستہ آہستہ سے‬


‫اردگرد کی مٹی کو کھودنے لگا۔۔۔دیگچی اب‬
‫آدھی سے زیادہ واضح ہو چکی تھی۔۔۔اس‬
‫نے چھری باہر کھڑے جنید کو پکڑائی اور‬
‫نیچے جھک کر دیگچی کو مضبوطی سے‬
‫پکڑ کر اوپر کی طرف زور لگانے لگا۔۔۔۔‬

‫جب جنید اور گھر والوں کو پتا چال کہ‬


‫دیگ نکلنے والی ہے تو ان کے چہرے پر بھی‬
‫پسینے آ گئے تھے۔۔وہ ایسے سہمے کھڑے‬
‫تھے کہ اب کوئی بال نکلے گی اور انہیں چبا‬
‫ڈالے گی ۔۔‬
‫چوتھی‪  ‬مرتبہ زور لگانے پر دیگچی زمین‬
‫سے باہر اکھڑ آئی ۔۔۔‬

‫زبر دست در خان۔۔۔سلیمان نے تحسین آمیز‬


‫لہجے میں کہا‬

‫اب یہ جنیدکو دو۔۔اور یاد رہے فلحال اس‬


‫کا منہ نہیں کھولنا ہے۔۔۔نہیں تو کچھ برا‬
‫بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔سلیمان نے در خان سے‬
‫کہا تو اس نے جنید کو احتیاط سے پکڑاتے‬
‫ہوئے منہ نہ کھولنے کی ہدایت بھی کر دی۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں ور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬
‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــس‬
‫فرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪35‬۔۔۔از ابن نصیر‬

‫جنید نے احتیاط سے دیگچی پکڑ کر باہر‬


‫قریب ہی رکھ دی اور پھر در خان کو ہاتھ‬
‫پکڑا کر باہر نکاال۔۔۔۔‬

‫گھر کی عورتیں بھی ایک دوسرے کا ہاتھ‬


‫پکڑے نزدیک آ کر کھڑی ہو گئی تھیں۔۔۔‬

‫در خان نے باہر نکل کر جنید کو بیلچے سے‬


‫گڑھا بند کرنے کا کہا تو جنید جلدی جلد ی‬
‫سے مٹی گڑھے میں ڈالنے لگا۔۔۔درمیان میں‬
‫ایک دفعہ در خان نے بھی بیلچہ پکڑ کر‬
‫مٹی ڈالنے میں مدد کی۔‬

‫جب گڑھا مٹی سے بھر گیا تو اسے برابر کر‬


‫دیا گیا ۔۔۔اس کے بعد در خان نے دیگچی‬
‫اٹھائی اور سب سے آگے چلتا ہوا کمرے کی‬
‫طرف بڑھنے لگا۔۔‬

‫دیگچی کو کمرے میں درمیاں میں رکھی‬


‫میز پر رکھ دیا گیا اور گھر کے سارے افراد‬
‫دیگچی کے ارد گرد ہی کھڑے ہو گئے۔۔۔‬

‫آپ لوگ بیٹھ جائیں۔۔۔در خان نے سب سے‬


‫کہا لیکن آگے کیا ہونے واال ہے اس خوف‬
‫سے کوئی بھی صوفے پر نہیں بیٹھا۔۔‬

‫صرف جنید تھا جو در خان کے ساتھ ہی‬


‫پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔۔۔‬

‫سلیمان آیت الکرسی پڑھ لو اور باقی گھر‬


‫والوں سے بھی پڑھنے کا کہو۔۔۔میں اس‬
‫کمرے کے گرد حصار سلیمانی کھینچ رہا‬
‫ہوں۔۔سلیمان نے در خان سے کہا‬
‫آپ سب آیت الکرسی پڑھ لیں ۔۔۔در خان نے‬
‫یہ کہہ کر زیر لب آیت الکرسی پڑھنی‬
‫شروع کی۔۔۔باقی افراد بھی پڑھ رہے تھے‬

‫اب اس کے گرد لپٹی لوہے کی تار کو آہستہ‬


‫‪ ‬آہستہ کھولنا شروع کرو۔۔۔۔سلیمان بوال‬

‫در خان نے بسم اہلل پڑھ کر لوہے کی تار کو‬


‫پکڑا اور ہلکا سا اپنی جانب کھینچا۔۔۔‬

‫اچانک کمرے میں شور سا اٹھا۔۔۔۔ایسا لگ‬


‫رہا تھا کہ بہت سے وجود بین کر رہے ہوں۔۔۔‬

‫رونے کی آوازیں سن کر ساری عورتیں ایک‬


‫دوسرے سے چمٹ گئیں۔۔۔ان کے آنکھیں‬
‫دہشت سے باہر کو نکل آئی تھیں۔۔۔وہ سب‬
‫زیر لب کچھ پڑھ رہے تھے۔۔۔‬

‫در خان کے ہاتھ رک گئے تھے۔۔۔‬


‫رکو نہیں درخان۔۔۔کھولتے جاو۔۔۔میں‬
‫تمہارے ساتھ ہوں۔سلیمان کی آواز سن کر‬
‫در خان کی ہمت بڑھی اور وہ جلد ی جلد‬
‫ی ہاتھ کو دائرے کی صورت میں گھما کر‬
‫تار‪  ‬کو کھلتا جا رہا تھا۔۔۔‬

‫جیسے جیسے تار کھلتی جا رہی تھی ۔۔‬


‫کمرے میں رونے کی آوازیں بھی بلند ہوتی‬
‫جا رہی تھیں۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ بہت‬
‫سارے بچے‪ ،‬عورتیں اور مرد مل کر ماتم کر‬
‫رہے ہوں۔۔‬

‫خاموش۔۔۔۔سلیمان نے جب بلند آواز میں‬


‫کہا تو شور تھم گیا۔۔۔۔‬

‫سلیمان کی آواز کو سوائے در خان کے کسی‬


‫نے نہیں سنا تھا۔۔۔اس نے جب سلیمان کو‬
‫سنا تو ہاتھ روک کر ارد گرد دیکھا۔۔۔سلیمان‬
‫تو اسے نظر نہیں آیا لیکن شور کی آواز اب‬
‫بند ہو گئی تھیں۔۔۔‬

‫سب عورتوں نے سکھ کا سانس لیا تھا لیکن‬


‫ڈر کی وجہ سے ابھی بھی حدیقہ کی‬
‫ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔۔۔۔جسے شکیلہ نے‬
‫اپنی سینے سے لگا کر چھپا رکھا تھا۔۔‬

‫در خان نے جیسے ہی دوبارہ تار کو پکڑا۔۔۔‬

‫ایک بونے قد کا جن کمرے میں نمودار ہو‬


‫گیا۔۔۔جس کا سر گنجا اور کان لمبے لمبے‬
‫تھے۔۔۔اس کا قد‪  ‬تین فٹ کے قریب تھا۔۔۔‬
‫اور آنکھوں میں کالے سرمہ جیسی چیز‬
‫ڈال رکھی تھی۔۔۔وہ روئے جا رہا تھا۔۔‬
‫اب ابن آدم۔۔۔یہ مت کرو۔۔۔۔تم ہم سے امانت‬
‫چھین رہے ہو۔۔۔۔بونے قد والے جن نے روتی‬
‫آنکھوں سے کہا‬

‫ہم اس کے محافظ ہیں۔۔۔لیکن تم نے ہمیں‬


‫اس کمرے میں قید کرکے کمزور کر دیا ہے۔۔۔‬
‫اب تم سے درخواست کرتے ہیں کہ اسے ہم‬
‫سے مت لو۔۔۔‬

‫بونا بولے جا رہا تھا‬

‫تم کون ہو۔۔۔۔در خان نے ہمت کرکے پوچھا‬

‫میں بونے کی بستی کا سردار شنگوز ہوں‬


‫اور اس امانت کا ذمہ میرے قبیلے کو دیا‬
‫گیا ہے۔۔۔بونے نے اپنی آنکھوں سے نکلتے‬
‫آنسووں کو اپنے بازو سے پونچھتے ہوئے کہا‬
‫اس کا مالک کون ہے۔۔۔۔در خان کے چہرے پر‬
‫سنجیدگی تھی‬

‫یہ امانت ہمیں چوبیس سال پہلے ایک‬


‫مسلمان‪  ،‬دین دار اور امیر تاجر نے دی‬
‫تھی۔۔ہم اس کے گھر میں برگد کے در خت‬
‫پر رہتے تھے۔۔۔ لیکن ایک دن زلزلہ آنے کی‬
‫وجہ سے وہ گھر زمین بوس ہو گیا ۔۔جس‬
‫میں وہ مالک بھی شدید زخمی ہو گیا تھا۔۔۔‬
‫اس نے مرنے سے پہلے برگد والی جگہ پر آ‬
‫کر ہمیں یہ امانت کا بتایا اور اس کا خیال‬
‫رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔۔۔۔ بونا اب بھی‬
‫روئے جا رہا تھا‬

‫درخان یہ مکار بونا جھوٹ بول رہا ہے۔۔یہ‬


‫دیگ کسی تاجر کی نہیں بلکہ ایک ہندو‪ ‬‬
‫کی تھی اور اس نے مرنے سے پہلے اسے‬
‫نہیں دی تھی بلکہ انہوں نے اس گھرانے کو‬
‫ڈرا کر گھر سے بے گھر کر دیا اور اس سونے‬
‫پر قبضہ کر لیا ۔۔۔جسے بعد میں چھپا لیا‬
‫گیا تھا۔۔۔۔سلیمان کی آواز در خان کے کان‬
‫میں گونجی۔۔‬

‫وہ بونا بھی سلیمان کی آواز نہیں سن پا‬


‫رہا تھا۔۔۔شاید سلیمان نے اس سے خود کو‬
‫چھپا رکھا تھا‬

‫تم اگر سچ بولتے تو میں شاید یہ امانت‬


‫تمہیں دے دیتا لیکن تم مکار بونے نے مجھ‬
‫سے جھوٹا بوال ہے۔۔اب نہ صرف میں یہ‬
‫دولت لوں گا بلکہ تمہیں بھی جھوٹ بولنے‬
‫کی سزا دوں گا۔۔۔ در خان نے گرج کر کہا‪ ‬‬
‫تو بونا ڈر گیا ۔۔۔اس کا پول کھل چکا تھا۔۔۔‬

‫نہیں نہیں یہ جھوٹ ہے۔۔میں سچ کہہ رہا‬


‫ہوں۔۔مجھے اپنے دیوتا کی قسم ۔۔۔۔بونا‬
‫گڑگڑانے لگا‬

‫اس کو الٹا ٹانگ دو۔۔۔درخان نے آواز کمرے‬


‫میں گونجی تو بونا ڈر کے مارے ادھر ادھر‬
‫دیکھنے لگا اور پھر اس کی چیخیں کمرے‬
‫میں گونج اٹھی۔۔۔‬

‫سلیمان نے اسے دونوں پیروں سے پکڑ کر‬


‫ہوا میں اچھل دیا تھا اور اب وہ الٹا لٹکا‬
‫ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫مجھے معاف کر دو۔۔۔مجھ پر رحم کھاو۔۔۔‬


‫میں تم سے کچھ بھی نہیں لوں گا۔۔یہ سب‬
‫تمہارا ہوا۔۔بس تم مجھے جانے دو۔۔۔بونا اب‬
‫در خان سے منت‪  ‬سماجت کر رہا تھا‬

‫کیا تم اب تنگ کرو گے۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬

‫بلکل بھی نہیں۔۔۔میں یہاں سے اپنے گھر‬


‫چال جاوں گا۔۔۔بس صرف ایک بار مجھے تم‬
‫جانے دو۔۔۔بونے نے دونوں ہاتھ جوڑ لیے تھے‬

‫ٹھیک ہے ۔۔جاو یہاں سے۔۔۔در خان نے غصے‬


‫سے کہا تو بونا بھاگتا ہوا دروازے کی جانب‬
‫لپکا لیکن پھر جھٹکا کھا کر پیچھے کو‬
‫گرا۔۔۔‬

‫سارے گھر والے اس بونے جن کو دیکھ کر‬


‫ڈر بھی رہے تھے اور پریشان بھی دکھائی‬
‫دے رہے تھے۔۔۔انہوں نے ایک جن حدیقہ کا‬
‫دیکھا تھا اور اب یہ چھوٹا سا جن جو د‬
‫رخان سے منت کر رہا تھا۔۔۔‬

‫میرا راستہ بند ہے ۔۔۔بونے نے اٹھ کر در خان‬


‫کی طرف دیکھ کر کہا‬

‫جاو۔۔۔اب کھل گیا ہے ۔۔درخان نے یہ بات‬


‫سلیمان اور بونے دونوں سے کہی۔۔۔جس کے‬
‫بعد سلیمان نے کمرے کے گرد حصار ختم کر‬
‫دیا۔۔‬

‫بونے کے نکل جانے کے دو منٹ بعد بھی‬


‫سارے گھر والے خوف ذدہ کھڑے ہوئے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫اہلل کی مدد سے وہ اب چال گیا ہے۔۔۔ا ب آپ‬


‫لوگ تسلی سے بیٹھ جائیں۔۔۔در خان نے‬
‫ساری عورتوں سے کہا‬
‫جنید اب بھی اپنی جگہ پر بیٹھا ہوا تھا۔۔‬
‫لیکن اب اس کی کرسی در خان کے مزید‬
‫قریب ہو گئی تھی‬

‫درخان کے کہنے کے بعد گھر کی عورتیں‬


‫چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی صوفے کے‬
‫سامنے آئیں اور بنا کوئی بات کیے سب‬
‫بیٹھ گئیں۔۔ان کے چہرے پر ڈر اب بھی‬
‫دکھائی دے رہا تھا۔۔‬

‫اب کھولو در خان۔۔۔سلیمان بوال‬

‫درخان نے دوبارہ سے بسم اہلل پڑھی اور تار‬


‫کو دوبارہ سے گھمانے لگا۔۔لیکن اس بار‬
‫کوئی شور نہین ہوا تھا۔۔۔‬

‫جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو در خان نے‬


‫جلدی جلد ی سے ساری تار کھول کر‬
‫دیگچی سے الگ کر لی۔۔اب صرف ڈھکن‬
‫باقی رہ گیا تھا جسا اٹھا کر سائیڈ پر رکھنا‬
‫تھا۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا نے زمین کے آسمان کو پار‬


‫کیا ۔۔اس نے اپنا رخ دنیا کے آخری کونے پر‬
‫موجود شیطان کی سلطنت کی طرف کر‬
‫دیا۔۔۔وہ جلد سے جلد یہ خوش خبری‬
‫شیطان اعظم کو دینا چاہتی تھی۔۔‬

‫اس کی رفتار اپنی آخری حدوں کو چھو‬


‫رہی تھی۔۔۔اتنی تیز رفتار ہونے کے باوجود‬
‫بھی سلطنت اسے بہت دور لگ رہی تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی اس نے سمندر‪  ‬کو دیکھا۔۔۔اس‬


‫کے چہرے پر مسکان نمودار ہو گئی۔۔۔‬
‫وہ اڑتی ہوئی سلطنت میں داخل ہوئی اور‬
‫بنا رکے ہی شیطان اعظم کے تخت کی‬
‫جانب بڑھنی لگی۔۔۔ہمیشہ کی طرح اس‬
‫دفعہ بھی اسے کسی نے نہیں روکا تھا۔۔‬

‫سفرینا جب تخت شیطان اعظم کے قریب‬


‫پہنچ تو سلطنت کے دو‪  ‬چیلے اس کے تخت‬
‫کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی شیطان اعظم نے سفرینا کو‬


‫دیکھا ۔۔۔اس نے چیلوں کو چلے جانے کا‬
‫کہا۔۔۔‬

‫چیلوں نے اپنے سردار کی بات سن کر سالم‬


‫کی صورت میں گردن ہالئی اور پیچھے کی‬
‫جانب مڑے۔۔۔‬
‫پیچھے‪  ‬انہیں سفرینا آتی ہوئی دیکھائی‬
‫دی جس نے ایک ہاتھ میں بوری اور‬
‫دوسرے ہاتھ میں انسانی ہیولے کو تھامے آ‬
‫رہی تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا اور چیلوں کی نظریں‬


‫ٹکرائی ۔۔۔تو چیلوں کے چہرے پر طنزیہ‬
‫مسکراہٹ نمودار ہو گئی۔۔جسے سفرینا نے‬
‫دیکھ لیا۔۔‬

‫وہ چیلوں سے دو قدم آگے نکل آ ئی تھی۔۔۔‬


‫لیکن چیلوں کی اس حرکت پر وہ رکی اور‬
‫مڑ گئی۔۔۔‬

‫رکو۔۔۔سفرینا نے چیلوں سے کہا تو وہ‪ ‬‬


‫دونوں رک گئے‬
‫تم کیوں ہنسے تھے۔۔۔۔سفرینا نے غرا کر‬
‫کہا۔۔۔اسے لگا کہ چیلے سفرینا پر مسکرائے‬
‫ہیں‬

‫چیلوں نے کوئی بات نہیں کی بلکہ اب بھی‬


‫مسکرائے جا رہے تھے۔۔۔‬

‫چھوڑوانہیں۔۔سفرینا۔۔۔یہاں آو۔۔۔شیطان‬
‫اعظم نے سفرینا کو آگے آنے کا کہا۔۔۔‬

‫ان کی ہمت کیسے ہوئی کہ سفرینا پر دانت‬


‫نکالیں۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے بوری کو زمین‬
‫پر رکھا۔۔اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگلی کو‬
‫ان چیلوں کی طرف کرکے جھٹکا دیا۔۔‬

‫ایک بجلی کی لہر سفرینا کے ہاتھ سے نکلی‬


‫اور ان دونوں چیلوں کے وجود سے‬
‫ٹکڑائی۔۔۔‬
‫آن کی آن میں ان دونوں کو آگ لگی اور وہ‬
‫چیختے ہوئے بھاگنے لگے۔۔لیکن وہ ابھی‬
‫کچھ ہی قدم دور گئے کہ زمین پر گر گئے۔۔‬
‫آگ نے ان دونوں کو مار دیا تھا۔۔‬

‫یہ کیا حرکت‪  ‬کی تم نے سفرینا۔۔۔۔شیطان‬


‫اعظم نے غصے سے سفرینا سے کہا‬

‫تمہیں پتا ہے کہ یہ ہماری سلطنت کے کتنے‬


‫چاالک چیلے ہیں۔۔لیکن تمہاری اس بچوں‬
‫والی حرکت سے اب مجھ سے سوال ہوگا۔۔۔‬

‫جو بھی ہو‪  ‬مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔۔۔‬


‫مجھے بس یہ نظر آیا کہ یہ دونوں مجھ پر‬
‫ہنسے تھے۔۔۔۔سفرینا نے بوری اٹھاتے ہوئے‬
‫کہا‬
‫تو اس کا مطلب کہ تم انہیں مار دو۔۔۔۔‬
‫شیطان اعظم اب بھی غصے میں تھا‬

‫ہاں۔۔سفرینا پر ہنسنے کا مطلب موت‬


‫ہےموت ۔۔۔۔سفرینا نے مسکرا کر کہا ۔۔وہ‬
‫شیطان اعظم کے تخت کے قریب جا رہی‬
‫تھی‬

‫یعنی تم اس سلطنت میں سارے شیطانوں‬


‫کو مار دوگی سفرینا۔۔۔۔شیطان اعظم کے‬
‫لہجے میں مایوسی آ گئی تھی۔۔۔‬

‫کیا مطلب شیطان اعظم۔۔۔۔سفرینا کو اس‬


‫بات پر حیرت ہوئی تھی۔۔۔‬

‫تمہاری اس حرکت کے بعد اب یہاں ہر کوئی‬


‫تم پر ہنستا ہے سفرینا۔۔۔تمہارا مذاق اڑاتا ہے‬
‫۔۔۔تم پر باتیں بناتا ہے ۔۔۔۔شیطان اعظم نے‬
‫بوری کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا۔‬

‫مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔۔۔بلکہ‬


‫مجھے کسی کی پرواہ نہیں ہے اب۔۔۔میرا‬
‫سکندر میرے ساتھ ہے ۔۔بس یہی میرے لیے‬
‫کافی ہے ۔۔۔سفرینا نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫تمہیں شیطانوں کی سلطنت سے بدر کر دیا‬


‫گیا ہے سفرینا۔۔۔۔شیطان اعظم نے غمگین‬
‫لہجے میں کہا۔۔‬

‫تم اب ہم میں سے نہیں ہو۔۔۔تم پر ابلیس‬


‫بہت غصے ہوئے ہیں اور اب بھی ہیں۔۔انہوں‬
‫نے حکم نامہ جاری کیا ہے کہ تمہیں نا‬
‫صرف اس سلطنت سے نکال دیا جائے بلکہ‬
‫کسی طرح کی کوئی مدد بھی نہ دی‬
‫جائے۔۔۔۔‬

‫اوہ۔۔۔۔‬

‫صحیح ہے ۔۔۔بلکل صحیح ہے۔۔۔یہ تو اور‬


‫اچھا ہوا کہ اب میں جو کروں گی اس کی‬
‫زمہ دار میں خود ہونگی ۔۔اگر یہاں رہتی تو‬
‫پتا نہیں کیا کیا پابندیاں لگ جانی تھیں۔۔۔‬
‫سفرینا نے بوری اٹھاتے ہوئے کہا‬

‫سفرینا ۔۔میری بچی۔۔۔ایسا مت کرو۔۔اب‬


‫بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔۔۔اس کو یہی ختم‬
‫کر دو اور ابلیس سے معافی مانگ لو۔۔۔وہ‬
‫تمہیں ضرور معاف کر دینگے۔۔۔۔شیطان‬
‫اعظم نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫وہیں رک جائیں۔۔سفرینا نے کہا تو شیطان‬
‫‪ ‬اعظم رک گیا۔۔۔‬

‫مجھے کسی سے معافی مانگنے کی ضرورت‬


‫نہیں ہے ۔۔۔میں اب خود ہی اس سلطنت اور‬
‫شیطانوں سے قطع تعلقی کا اعالن کرتی‬
‫ہوں۔۔۔سمجھے آپ۔۔۔اور اب میں جا رہی‬
‫ہوں۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے غصے میں کچھ‬
‫پڑھ تو وہ بجلی بن گئی اور آسمان کی‬
‫جانب اڑ کر انسانی آبادی کی طرف جانے‬
‫لگی۔۔۔‬

‫مجھے تم پر ہمیشہ افسوس ہو گا میری‬


‫بچی۔۔۔۔۔ابلیس تم پر رحم کھائے۔۔۔۔شیطان‬
‫اعظم یہ کہہ کر دوبارہ سے اپنے تخت پر‬
‫جا کر بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫سلطنت سے نکل کر سفرینا نے اپنا رخ گھر‬
‫کی جانب موڑ لیا تھا۔۔۔جہاں وہ اور سکندر‬
‫رہ رہے تھے۔۔۔۔‬

‫ابھی وہ کسی گاوں کے قریب سے گزری کہ‬


‫جگہ جگہ پر مٹی کے چھوٹے چھوٹے ٹیلے‬
‫دیکھ لیے۔۔۔‬

‫یہ تو مرئے ہوئے لوگوں کو دفنانے کی جگہ‬


‫ہے۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے اپنی پرواز کم کی‬
‫اور قبرستان کے ساتھ ہی اتر کر انسانی‬
‫شکل اختیار کر لی۔۔‬

‫یہ مسلمانوں کا قبرستان تھا شاید۔۔۔کیونکہ‬


‫کسی بھی قبر پر صلیب نہیں لگی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔سفرینا نے ایک خالی جگہ دیکھ کر‬
‫بوری کو قریب ہی رکھا ۔۔‬
‫یہاں ایک گڑھا کھودو جس میں یہ بوری‬
‫دفنائی جا سکے۔۔۔سفرینا نے یہ بات اپنے‬
‫‪ ‬چیلوں سے کہی‬

‫سفرینا کی بات مکمل ہی ہوئی کہ زمین‬


‫میں خود بخود گڑھا بنتا گیا اور مٹی باہر‬
‫آتی گئی۔۔‬

‫چند ہی سیکنڈوں میں اتنا گڑھا کھود لیا‬


‫گیا تھا جس میں یہ بور ی آسانی سے‬
‫دفنائی جا سکے۔۔۔‬

‫سفرینا نے آہستی سے سکندر والے اعضا کی‬


‫بوری کو گڑھے میں رکھا ۔۔اور خود ہی اپنے‬
‫ہاتھوں سے مٹی بھر بھر کر گڑھے کو بھرنے‬
‫لگی۔۔۔‬
‫وہ مسکراتی بھی جا رہی تھی اور گڑھے‬
‫میں مٹی ڈالتی جا رہی تھی۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی بوری کا آخری سرا مٹی کے نیچے‬


‫دب گیا۔۔۔سفرینا نے تھوڑی سے مزید مٹی‬
‫ڈال کر گڑھے کو برابر کیا اور پھر کھڑے ہو‬
‫کر تالی بجائی جسے سےہاتھوں پر لگی‬
‫مٹی زمین پر گرنے لگی۔۔۔‬

‫تمہارا خدا ۔۔۔۔تم پر آسانی کرے۔۔۔۔سفرینا نے‬


‫یہ بات بغیر نام لیے کہی کیونکہ وہ یہ نہیں‬
‫جانتی کہ یہ اب ان اعضا کا مالک کون ہے۔۔‬

‫یہ کہہ کر سفرینا نے ہیولے کو دوبارہ سے‬


‫تھاما اور بجلی بن کر آسان کی طرف اڑ‬
‫گئی۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سب کے دلوں کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔ان کو یہ تو پتا چل گیا کہ اب کوئی‬
‫جن نہیں آئے گا۔۔لیکن اب ان کو یہ تجسس‬
‫حیرت میں ڈال رہا تھا کہ اس دیگچی میں‬
‫کیا ہو گا۔۔۔‬

‫در خان نے جیسے ہی دیگچی کا ڈھکن‬


‫اٹھایا۔۔سب نے اپنی گردنیں نزدیک کر لیں۔۔۔‬

‫دیگچی سونے کے سکوں اور چھوٹی‬


‫چھوٹی سونے کی ٹکیوں سے بھرے ہوئی‬
‫تھی۔۔۔۔‬

‫در خان نے جب سونے کو دیکھا تو دیگچی‬


‫کو اٹھا کر الٹا کر دیا ۔۔جس سے سونا‬
‫دیگچی سے نکل نکل کر میز پر گرنے لگا۔۔۔۔‬
‫سب کی نظریں حیرت سے پھٹی کی پھٹی‬
‫رہ گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔آج کے اس دور میں اتنا‬
‫سونا دیکھ کر سب کی بولتی بند ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫آپ سب کو میری طرف سے بہت بہت مبار‬


‫ک ہو۔۔۔در خان نے مسکراتے ہوئے سارے‬
‫افراد‪  ‬کو دیکھ کر کہا‬

‫در خان نے جیسے ہی‪  ‬یہ کہا تو سب جیسے‬


‫دنیا میں واپس آ گئے۔۔۔اور پھر کمرے میں‬
‫خیر مبارک‪  ‬کی صدائیں گونج اٹھیں۔۔۔‬

‫سب کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے‬


‫ملے جلے تاثرات تھے۔۔۔کبھی وہ اتنے سونے‬
‫دیکھ کر حیرات ہو رہے تھے تو کبھی یہ‬
‫سوچ کر کہ یہ سب ان کا ہے ان کے چہرے‪ ‬‬
‫خوشی سے دھمک رہے تھے۔۔۔‬

‫جنید تو بار بار سونے کے سکوں اور ٹکیوں‬


‫کو ہاتھ میں اٹھا کر سہال رہا تھا۔۔۔وہ کبھی‬
‫ان پر ہاتھ پھیر کر سونے کے احساس کو‬
‫دل میں محسوس کرتا تو کبھی ہوا میں‬
‫تھوڑا سا اوپر پھینک کر اس کے وزن کو‬
‫ناپنے کی کوشش کرتا۔۔۔‬

‫اس کی کیا قیمت ہو گی درخان صاحب۔۔۔‬


‫جنید نے سونا دوبارہ سے میز پر رکھتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫یہ تو میں نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ‬


‫یہ ہمار ےدس نسلوں کے لیے کافی ہو گا۔۔۔‬
‫کیوں سکینہ بیٹی۔۔۔درخان نے مسکرا کر‬
‫سکینہ کی طرف دیکھا اور کہا‬

‫بلکل آغا۔۔۔۔۔سکینہ بھی درخان کو دیکھ کر‬


‫مسکرائی لیکن پھر اس کی نگائیں سونے‬
‫کی جانب چلی گئیں تھی۔۔۔‬

‫اس بیچار ی پر بہت مشکل وقت آیا تھا‬


‫اور اب سامنے سونا دیکھ کر وہ سوچ رہی‬
‫تھی کہ اب اس کے برے دن ختم ہونے والے‬
‫ہیں۔۔۔‬

‫انسان‪ ،‬جنوں ور شیطانوں کے درمیان ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کے لیے آپ‬
‫کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔اپنی رائے‬
‫سے ضرور آگاہ کریں۔۔۔ابن نصیر‬
‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫​سفرینا۔۔۔ قسط نمبر ‪ 36‬۔۔۔۔از ابن نصیر‬

‫سکینہ بہن کو دولت بھی مل گئی ۔۔سب‬


‫کچھ مل گیا۔۔۔میرے خیال سے اب سکینہ‬
‫کو کسی دوسری چیز‪   ‬کی ضرورت نہیں‬
‫ہے۔۔۔سلیمان نے درخان سے کہا‬

‫سکینہ بیٹی۔۔۔اب کوئی ٓارزو‪  ‬باقی ہے‬


‫تمہارے دل میں جو پورا ہونا باقی ہو۔۔۔؟در‬
‫خان نے پوچھا‬

‫نہیں ٓاغا۔۔۔اب کوئی ٓارز و باقی نہیں ہے۔۔۔‬


‫جتنا سوچا نہیں تھا۔۔اس سے زیادہ پا لیا‬
‫ہے۔۔۔اس پر میں اہلل تعالی کی صدقے دل‬
‫سے شکرگزار ہوں۔۔۔سکینہ نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫چلو شکر ہے بیٹی کہ تم اب خوش ہو۔۔۔در‬
‫خان نے کہا‬

‫اب میں اپنی بہن سے مل کر بات کرنا چاہتا‬


‫ہوں در خان۔۔۔سلیمان نے یہ بات کہی تو‬
‫درخان چونک گیا۔۔۔وہ سلیمان کی بات کو‬
‫سمجھ گیا تھا۔۔۔سلیمان‪  ‬سامنے‪ٓ  ‬انا چاہتا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫کیا ہوا در خان صاحب۔۔۔‬

‫اسے سوچتا دیکھ کر جنید نے پوچھا‬

‫بیٹی سکینہ۔۔۔سلیمان یہاں ظاہر ہو کر تم‬


‫سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔درخان نے‬
‫جنید کو جواب نہیں دیا بلکہ سکینہ سے‬
‫بات کہہ دی‬
‫یہ بات سن کر سکینہ بھی پریشان ہو گئی‬
‫کیونکہ اس نے سلیمان کو انسانی صورت‬
‫میں نہیں بلکہ جن والوں شکل میں دیکھا‬
‫‪ ‬تھا۔‬

‫سلیمان نے سکینہ کی پریشانی کو بھانپ‬


‫لیا۔۔۔۔‬

‫سکینہ سے کہو کہ میں انسانی شکل میں‬


‫ٓاو ں گا تو ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔‬
‫سلیمان بوال‬

‫سکینہ بیٹی ۔۔۔سلیمان انسانی صورت میں‬


‫یہاں ظاہر ہوگا۔۔۔۔در خان نے جب یہ بات‬
‫کہی تو سکینہ کی پریشانی کچھ کم ہوئی‬
‫لیکن وہ اب بھی پریشان تھی کہ سلیمان‬
‫اس سے کیوں ملنا چاہتا ہے اور کیا بات‬
‫کرنا چاہتا ہے۔۔۔‬

‫جی ٹھیک ہے ٓاغا۔۔۔۔سکینہ نے جواب دیا‬

‫سلیمان یہاں ظاہر ہو گا اور بات کرے گا۔۔یہ‬


‫بات ہی سب کو حیران کرنے جا رہی تھی‪ ‬‬
‫جس کی وجہ سے سب ہی اپنی جگہ پر‬
‫اٹھ کھڑے ہو گئے‬

‫سلیما ن نے سکینہ کی رضا مندی دیکھ کر‬


‫زیر لب کچھ پڑھا اور پھر ایک خوبصورت‬
‫سا جوان لڑکا سب کے سامنے حاضر ہو‬
‫گیا۔۔۔‬

‫سلیمان کو سامنے انسانی شکل میں دیکھ‬


‫کر سب ہی حیران کھڑے ہوئے تھے۔۔۔‬
‫انہیں یقین نہیں‪ٓ  ‬ا رہا تھا کہ جن اتنے‬
‫خوبصورت بھی ہو سکتے ہیں۔۔۔۔وہ سب ہی‬
‫سلیمان کے‪  ‬حسن میں حیران کھڑے ہوئے‬
‫تھے۔۔‬

‫بھئی۔۔۔۔میں جانتا ہوں کہ میں بہت‬


‫خوبصورت ہوں لیکن یہ میرا انسانی روپ‬
‫ہے۔۔اگر ٓاپ لوگ مزید ایسے ہی ٓانکھیں‬
‫پھاڑے مجھے دیکھتے رہے تو میں اپنی‬
‫جنوں والی شکل میں ٓاجاوں گا۔۔۔پھر ٓاپ‬
‫لوگوں کی ہی ٓانکھیں خوف سے باہر نکل‬
‫ٓائیں گئ۔۔۔سلیمان نے مسکراتے ہوئے کہا‪  ‬تو‬
‫جیسے سب ہوش میں ٓا گئے۔۔۔‬

‫ٓاپ کھڑے کیوں ہیں۔۔۔بیٹھ جائیں نا۔۔۔جنید‬


‫نے اپنی کرسی سلیمان کی طرف دھکیلتے‬
‫ہوئے کہا‬

‫ضرور ضرور۔۔۔ہم تو بیٹھ کر ہی بات کریں‬


‫گے لیکن ٓاپ لوگ بھی بیٹھ جائیں۔۔۔‬
‫سلیمان‪  ‬نے مسکراتے ہوئے سب سے کہا‬

‫ویسے جنید صاحب۔۔۔میں سچے دل سے ٓاپ‬


‫کی تعریف کرنا چاہوں گا کہ ٓاپ بہت ہی‬
‫اچھے انسان ہیں۔۔۔اور یہ میں ایسے نہیں‬
‫بول رہا بلکہ ٓاپ کی سوچ کو پڑھ کر‪ٓ ،‬اپ‬
‫کے ماضی کو دیکھ کر بول رہا ہوں۔۔۔‬
‫سلیمان نے بیٹھتے ہوئے کہا‬

‫اوہ۔۔۔شکریہ جناب۔۔۔بہت بہت شکریہ۔۔۔۔‬


‫جنید نے خوش ہوکر جواب دیا‬

‫بھئی میرے پاس وقت بہت کم ہے اور کام‬


‫زیادہ ہیں۔۔۔اس لیے میں مختصر بات ہی‬
‫کروں گا۔۔۔سلیمان اپنی بات پر ٓا رہا تھا۔۔۔‬

‫سکینہ بہن۔۔۔میرے لیے تم میری چھوٹی‬


‫بہن جیسی ہو۔۔۔ٓاج سے کچھ مہینے پہلے‬
‫ہی میں نے اپنا خاندان ایک حملہ میں کھو‬
‫دیا جس کے بعد میرا ایک بھائی اور ٓاپ ہی‬
‫میرے لیے سب کچھ ہیں۔۔۔‬

‫ٓاج سارے گھر والے بہت خوش ہیں اور ٓاپ‬


‫لوگوں کو ایسے دیکھ کر میں بھی بہت‬
‫خوش ہوں۔۔۔لیکن میں اس خوشی کے‬
‫موقع پر اپنی بہن کو ایک تحفہ دینا چاہتا‬
‫ہوں مگر میری ایک شرط ہو گی۔۔۔سلیمان‬
‫‪ ‬نے بات روک دی‬

‫سکینہ نے در خان اور پھر باقی لوگوں کی‬


‫طرف دیکھا ۔۔۔اسے سمجھ نہیں ٓا رہی تھی‬
‫کہ تحفہ تک تو بات ٹھیک ہے لیکن یہ‬
‫شرط‪  ‬والی بات کیوں کی جا رہی ہے۔‬

‫سلیمان بھائی ٓاپ نے مجھے بہن کہا ہے تو‬


‫الزمی بات ہے کہ یہ شرط میری بہتری کے‬
‫لیے ہوگی ۔۔۔۔ٓاپ اپنی شرط بتائیں۔۔۔سکینہ‬
‫نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ یہ شرط منظور‬
‫کر لے گی۔۔‬

‫تحفے کے ساتھ میں تمہیں جو کہوں گا ۔۔تم‬


‫ویسے ہی کرو گی۔۔۔۔سلیمان نے اپنی شرط‬
‫بتا دی‬

‫چونکہ شرط ابھی بھی‪  ‬واضح نہیں تھی ۔۔‬


‫مگر اس کے باوجود سکینہ نے ہاں میں‬
‫اقرار کر لیا۔۔۔وہ سب اہلل پر چھوڑ چکی‬
‫تھی۔۔۔جو ہوگا دیکھ لیا جائے گا۔‬
‫شکریہ میری بہن۔۔۔یہ کہہ کر سلیمان کرسی‬
‫سے اٹھ کھڑا ہوا۔۔‬

‫ٓاپ لوگ یہیں میرا انتظار کریں۔۔۔میں پانچ‬


‫منٹ میں واپس ٓاتا ہوں۔۔یہ کہنے کے بعد‬
‫سلیمان غائب ہو کر گھر سے باہر نکل چکا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫وہ اس وقت غیبی شکل میں عبقر کی‬


‫پہاڑوں کی طرف اڑتا جا رہا تھا۔۔۔جہاں وہ‬
‫تھوڑی دیر پہلے گیا تھا۔۔۔اس وقت سلیمان‬
‫کا دماغ تیز ی سے ٓانے والی صورتحال کا‬
‫جائزہ لے رہا تھا۔۔۔‬

‫بہت جلد ہی اس نے اپنے قدم عقبر کی تین‬


‫پہاڑیوں پر رکھے اور مطلوبہ غار میں داخل‬
‫ہو گیا۔۔۔۔وہ تیز تیز قدم اٹھاتا غار کے اندر‬
‫جا رہا تھا۔‬

‫غار کے ٓاخری‪  ‬سرے میں پہنچا تو سامنے‬


‫وجود کو لیٹے پایا۔۔۔اس نے وجود کے گرد‬
‫حفاظتی حصار دیکھ لیا تھا‬

‫اٹھ جاو۔۔۔سلیمان نے ٓا گے بڑھ کر وجود کو‬


‫کندھے سے ہالیا تو سامنے لیٹا وجود ہڑ بڑا‬
‫کر اٹھ بیٹھا‬

‫‪ ‬کیا ہوا۔۔۔۔وجود نے کہا‬

‫ہم چل رہے ہیں۔۔۔ تمہارا وقت ٓان پہنچا‬


‫ہے۔۔۔‬

‫جی ٹھیک ہے۔۔۔وجود نے کہا تو سلیمان نے‬


‫اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔۔۔‬
‫ہم چل رہے ہیں دوست۔۔سلیمان نے اس سے‬
‫کہا تو وجود نے ہاتھ کو پکڑ کر ٓانکھیں بند‬
‫کر لیں۔۔۔‬

‫اب سلیمان وہ وجود کو ساتھ لیے دوبارہ‬


‫سے انسانی ٓابادی کی طرف جا رہا تھا۔۔۔‬
‫سلیمان کی ٓانکھیں کھلی ہو ئی تھی لیکن‬
‫وجود نے اپنی ٓانکھیں بند کر لی تھیں۔۔‬

‫دو منٹ سے بھی کم وقت میں سلیمان نے‪ ‬‬


‫انسانی ٓاباد ی‪  ‬میں پہنچ کر سکینہ کی گھر‬
‫کی طرف رخ کر لیا۔۔۔اور پھر گھر میں‬
‫داخل ہو کر اس نے اپنے قدم زمین پر رکھ‬
‫لیے۔۔۔‬

‫ٓانکھیں کھول دو۔۔۔۔سلیمان بوال تو وجود نے‬


‫ٓانکھیں کھول دیں۔۔۔‬
‫اب میری بات غور سے سنو۔۔۔تم سے میں نے‬
‫جو کچھ کہا ہے۔۔وہ کسی سے بھی کہنے‬
‫کی ضرروت نہیں ہے لیکن جو باتیں تمہیں‬
‫پہلے سے پتا ہیں ۔۔وہ تم بول سکتے ہو۔۔۔‬
‫سلیمان نے وجود کو نصیحت کرتے ہو کہا۔‬

‫سلیمان مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔۔وجود نے ڈرتے‬


‫ڈرتے کہا‬

‫کس بات کا ڈر لگ رہا ہے دوست۔۔۔۔سلیمان‬


‫بوال‬

‫یہی جو کچھ تم نے بتایا ہے۔۔۔ہمارے اس‬


‫قدم کے بعد ہر طرف ٓا گ لگ جانی ہے۔۔۔۔وہ‬
‫لڑکی ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔۔۔‬
‫وجود نے ڈرتے ڈرتے کہا‬
‫تم کب سے اتنے ڈر پوک ہو گئے ہو۔۔۔کیا‬
‫تمہیں اہلل پر یقین نہیں ہے۔۔۔؟ سلیمان نے‬
‫سنجیدہ سے لہجے میں کہا‬

‫وہ تو مجھے بلکل یقین ہے ۔۔۔لیکن کبھی‬


‫کوئی کام چھپ کر نہیں کیا ہے نا۔۔۔اس لیے‬
‫ڈر لگ رہا ہے۔۔۔وجود بوال‬

‫تمہیں ڈرنا پہلے چاہیے تھا۔۔جب تم غلط‬


‫کام کر رہے تھے۔۔اب تم پر سکون ہو جاو۔۔۔‬
‫میرا اہلل اور میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔‬
‫سلیمان نے کہا‬

‫وہ کمرے میں داخل ہو چکے تھے۔۔چونکہ‬


‫وہ غیبی حالت میں تھے تو کسی نے بھی‬
‫انہیں محسوس نہیں کیا لیکن در خان کو‬
‫سلیمان کی خوشبو محسوس ہو گی تھی ۔۔‬
‫وہ سامنے اب دروازے کی جانب دیکھ رہا‬
‫تھا۔۔‬

‫یہ۔۔۔۔۔۔وجود بس اتنا ہی بوال کہ سلیمان نے‬


‫ہاتھ کو زور دے کر اسے خاموش کر دیا‬

‫میری بہن سکینہ ‪ ،‬درخان اور گھر کے باقی‬


‫افراد۔۔۔میں اپنے وعدکے مطابق سکینہ بہن‬
‫کا تحفہ لے ٓایا ہوں۔۔۔تو کیا ٓاپ لوگ تیار‬
‫ہیں۔۔سلیمان نے غیبی حالت میں یہ بات‬
‫کہی۔۔۔‬

‫سلیمان نے ٓاواز سن کر سارے ہی لوگ اپنی‬


‫جگہ پر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ان سب کے چہرے‬
‫حیرانی سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔‬

‫جی بھائی میں تیار ہوں۔۔سکینہ نے کہا تو‬


‫باقی سب نے بھی ہا ں کہہ دی‬
‫سلیمان نے اپنے گرد غیبی حصار ختم کر‬
‫دیا اور دو انسان کمرے میں ظاہر ہو گئے۔۔۔‬

‫ایک ہی وقت میں کہی‪ٓ  ‬اوازیں کمرے میں‬


‫گونجی‬

‫جلیل۔۔۔‬

‫پنڈت۔۔۔‬

‫تم۔۔۔۔۔‬

‫سکینہ جلیل کہہ کر وجود کی جانب لپکی‬


‫تھی جبکہ در خان تم کہہ کر وہیں حیرا‪  ‬ن‬
‫کھڑا رہا اور وجود بھی پنڈت کہہ کر در‬
‫خان کو حیرانگی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔‬

‫سکینہ کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ کر وہ‬


‫وجود پریشان ہو گیا اور جلد ی سے‬
‫سلیمان کی طرف مڑ گیا۔۔۔‬

‫سکینہ بہن یہ جلیل نہیں ۔۔بلکہ اس کی‬


‫شکل سے ملتا جلتا سکندر ہے۔۔۔سلیمان نے‬
‫جب یہ کہا تو دوڑتی ٓاتی سکینہ کے قدموں‬
‫کو بریک لگ گئی‬

‫اور در خان ہاں یہ وہی انسا ن ہے جسے تم‬


‫نے سفرینا کو قابو کرنے کے لیے جاپ کا‬
‫بتایا تھا ۔۔۔سلیمان نے در خان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا‬

‫اور سکندر۔۔۔سلیمان نے اپنا چہرہ ساتھ‬


‫کھڑے وجود جو کہ سکندر تھا ۔۔اس کی‬
‫جانب گھما کر کہا‬

‫یہ سامنے سفید کپڑوں میں کھڑا انسان‬


‫وہی پنڈت ہے جس کا نیا نام درخان ہے اور‬
‫الحمد اہلل یہ اب مسلمان ہے۔۔‬

‫سب کے منہ حیرت سے کھلے کے کھلے رہ‬


‫گئے تھے۔۔۔سکینہ کو تو کچھ سمجھ ہی‬
‫نہیں ٓا رہی تھی ۔۔۔پہلے وہ سمجھی کہ‬
‫جلیل زندہ ہو کر اس کے سامنے ٓان کھڑا ہے‬
‫۔لیکن اب وہ غور سے سامنے کھڑے سکندر‬
‫کے خدوخال اور چہرے کے نقوش کی مدد‬
‫سے فرق تالش کر رہی تھی۔۔۔‬

‫جب اس نے یقین کر لیا کہ یہ انسان سکندر‬


‫ہے تو وہ واپس مڑی اور شرمندگی سے‬
‫اپنی جگہ پر جا کر کھڑی ہو گئی۔۔‬

‫یہ سب کیا ہے سلیمان ۔۔۔مجھے سمجھاو۔۔۔‬


‫در خان نے حیرت سے سکندر کو دیکھتے‬
‫ہوئے کہا۔۔اسے سمجھ نہیں ٓا رہی تھی کہ‬
‫سلیمان اس لڑکے کو کیوں لے کر ٓایا ہے ۔۔۔‬
‫اور سفرینا کا کیا ہوا ۔۔۔‬

‫اس کے دماغ کہی سوال تھے۔۔اور ایسے ہی‬


‫کچھ سوال سامنے کھڑے سکندر کے دماغ‬
‫میں تھے۔۔جبکہ گھر کے باقی فرد خاموش‬
‫کھڑے اس نئے انسان کو دیکھ رہے تھے۔۔۔‬
‫انہیں بھی کچھ سمجھ نہیں ٓا رہی تھی۔۔۔‬

‫سب سے پہلے تو ٓاپ سب اپنی اپنی جگہ پر‬


‫بیٹھ جائیں ۔۔۔اور جنید ٓاپ یہ کرسی‬
‫سکندر کو دیں ۔۔۔ٓاپ صوفے پر جا کر بیٹھ‬
‫جائیں۔۔پھر میں ٓاپ سب کو ساری باتیں‬
‫شروع سے سمجھا تا ہوں۔۔‬

‫در خان جب میں تم سے پہلی مرتبہ مال تھا‬


‫تو تمہارا دماغ کو پڑھا تھا۔۔۔جہاں سے‬
‫مجھے سفرینا کا نا م مال۔۔۔لیکن چونکہ یہ‬
‫معلومات میرے کسی کام کی نہیں تھی‬
‫اس لیے میں نے اس بات کو وہیں ختم کر‬
‫دیا۔۔‬

‫کچھ مہینے پہلے میری قبیلے پر ایک حملہ‬


‫ہوا جس میں میرے قبیلے کے سارے لوگ۔۔‬
‫میرے خاندان کے سارے لوگ شہید ہو گئے‬
‫۔۔۔لیکن اس حملے کی اطالع مجھے‬
‫شیطانوں کی دنیا کے ایک شیطان نے دی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی مجھے یہ اطالع ملی تو میں‬


‫شیطان کو ساتھ پکڑے اپنے قیبلے پہنچا تو‬
‫سفرینا اور سکندر کو اپنے بھائی کے خالف‬
‫لڑتے پایا۔۔۔‬
‫میرے ایک طرف میرا قبیلہ تھا اور دوسری‬
‫طرف سفرینا اور سکندر۔۔۔‬

‫اب مجھے دونوں میں سے ایک کو چننا‬


‫تھا۔۔۔۔چونکہ سکندر کافر دنیا کو قبول کرنے‬
‫کے بعد ایک کافر بن چکا تھا تو اس طرح‬
‫سفرینا کے ساتھ ہوتے وہ اور بھی کہی‬
‫تبائیاں ال سکتا تھا۔۔اس لیے میں غیبی‬
‫حالت میں ان کے ساتھ ہی کھڑا ان کو لڑتے‬
‫دیکھ رہا تھاپھر‪  ‬جیسے ہی حملے کے دوران‬
‫مجھے موقع مال تو‪  ‬میں نے سکندر کو بھی‬
‫اپنے ساتھ حصار سلیمانی میں غائب کر لیا‬
‫جبکہ اپنے ساتھ الئے شیطان کو سکندر کی‬
‫شکل دے کر اپنے ہی لوگوں سے اسے مروا‬
‫دیا۔۔۔‬
‫جب سفرینا میرے بھائی کو ٓاسمان سے‬
‫واپس الئی تو‪  ‬میرے بھائی مر چکے تھے۔۔۔‬
‫اور شیطان کی الش بھی سکندر کے روپ‬
‫میں ادھڑی پڑی تھی۔۔جسے جلدی جلدی‬
‫میں سفرینا نے سکندر ہی سمجھا اور اسے‬
‫اپنے ساتھ لے کر کہیں چلی گئی۔۔۔ جبکہ‬
‫میں نے سکندر کو اپنے ساتھ لے کر دور ایک‬
‫پہاڑی میں چھپا دیا اور اسے حصار میں‬
‫ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جس کی وجہ سے‬
‫وہ سفرینا نام کی چڑیل اسے اب تک نہین‬
‫ڈھونڈ سکی ہے۔۔۔‬

‫سکندر کو ایک غار میں رکھنے کے ساتھ‬


‫ساتھ اسے میں نے سمجھا نا بھی شروع‬
‫کیا ۔۔۔کہ کس طرح سے وہ ایک شیطان‬
‫چڑیل کے ہاتھو ں میں تماشہ بن کر نا‬
‫صرف اپنا ایمان ختم کر چکا ہے بلکہ‬
‫معصوموں کی جانیں بھی لے رہا تھا۔۔۔اور‬
‫پھر اہلل کے کرم سے ایک دن سکندر نے بھی‬
‫اس بات کو دل سے مان لیا۔۔‬

‫سلیمان نے اپنی بات ختم کر دی لیکن بات‬


‫ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔۔وہ کچھ لمحہ‬
‫رک کر باقی لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔۔‬

‫سب ہی اس حیرت انگیز کہانی کو سن کر‬


‫سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن ان‬
‫میں درخان واحد انسان تھا جسے ساری‬
‫بات جلد ہی سمجھ ٓا گئی تھی۔۔‬

‫تو‪  ‬اسے یہاں النے کا کیا مقصد ہوا‬


‫سلیمان۔۔۔در خان نے پہال سوال پوچھا‬
‫چونکہ ٓاپ کی طرح سکندر بھی اس دنیا‬
‫میں اکیال ہے تو میں اسے بھی اپنا ایک‬
‫ساتھی سمجھ کر یہاں الیا ہوں۔۔سلیمان نے‬
‫یہ بات اشاروں میں کہی تھی لیکن سکینہ‬
‫سوچ رہی تھی کہ جس طرح سے سلیمان‬
‫نے تحفے کی بات کی ہے۔۔ہو نا ہو۔۔یہ تحفہ‬
‫یہی انسان ہے اور اسی سے متعلق ہے۔۔۔‬

‫اوہ ۔۔۔۔اچھا سلیمان شیطان نے تمہاری‬


‫کیوں مدد کی اور تمہیں سفرینا کے بارے‬
‫میں بتایا۔۔۔در خان نے اگال سوال کیا‬

‫میں شیطانی دنیا میں نہیں جا سکتا ہوں‬


‫او ر نا ہی میرا سفرینا سے واسطہ پڑا ہے‬
‫لیکن جہاں تک مجھے لگتا ہے کہ سفرینا نے‬
‫کچھ ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے‬
‫شیطانوں نے غصے میں ٓا کر مجھے سفرینا‬
‫کے خالف کر دیا۔۔اب وہ اپنی‪  ‬ہی چڑیل کو‬
‫تو مرنے کے لیے اکیال نہیں چھوڑ سکتے ہیں‬
‫نا۔۔۔‬

‫سلیمان جواب دے کر خاموش ہو گیا‬

‫‪ ‬تو یہ سکینہ کے لیے تحفہ کیسے ہوا ؟‬

‫ہمممم۔۔۔۔۔۔میں کسی پر زور نہیں دوں گا‬


‫اور نہ ہی سکینہ اور سکندر کو اپنی شرط‬
‫کے لیے پابند کرتا ہوں۔۔لیکن‬

‫سلیمان لیکن کہہ کر خاموش ہو گیا۔۔۔وہ‬


‫سب کے چہروں کو دیکھ رہا تھا جہاں‬
‫کسی کے چہرے پر تجسس تھا تو کوئی‬
‫پریشان تھا‬

‫لیکن کیا سلیمان۔۔۔در خان بوال‬


‫اگر سکینہ اور سکندر کو کوئی اعتراض نہ‬
‫ہو ان کو آپس میں شادی کر لینی چاہیے۔۔۔۔‬

‫کیا ۔۔۔سکینہ‪ ، ،‬در خان اور سکندر کو چھوڑ‬


‫کر باقی سب حیرت سے بولے‬

‫دیکھو بھیی۔۔جب میں نے جلیل کی تصویر‬


‫دیکھی تو میں بھی ایسے ہی حیران ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔لیکن جلیل کے چلے جانے کے بعد ایک‬
‫تو سکینہ تنہا ہو گئی اور دوسرا اسے ایک‬
‫مظبوط اور اچھے سہارے کی بھی ضرورت‬
‫ہے۔۔۔ویسے بھی سکندر کا چہرہ کافی حد‬
‫تک جلیل سے ملتا یے۔۔۔ان سب باتوں کے‬
‫بعد اگر یہ دونوں میری مانیں تو آپس میں‬
‫شادی کر لیں۔۔۔‬
‫مجھے سوچنے کے لیے وقت چاہیے بھائی ۔۔۔‬
‫میں اتنا جلدی کوئی فیصلہ نہیں کرنا‬
‫چاہتی ۔۔۔۔سکینہ نے کہا‬

‫بلکل وقت لو۔۔۔بلکل تمہارے پاس وقت ہی‬


‫وقت ہے۔۔جب تک سفرینا کا کانٹا نہیں نکل‬
‫جاتا ۔۔۔تم دونوں کے پاس وقت ہی وقت‬
‫ہے۔۔۔۔سلیمان نے مسکراتے ہوئے کہا‬

‫کیوں سلیمان۔۔سفرینا کو آخر کیونکر اس‬


‫پر اعتراض ہوگا‬

‫درخان نے پوچھا‬

‫وہ اس لیے کہ جہان تک میں نے سفرینا کے‬


‫متعلق سکندر سے پوچھا ہے ۔۔مجھے کسی‬
‫حد تک یہی لگا ہے کہ وہ سکندر کو پسند‬
‫کرتی ہے لیکن کبھی اس نے اس بات کا‬
‫اعتراف نہیں کیا ۔۔۔اب جبکہ سفرینا کو پتا‬
‫چلے گا کہ سکندر نہ صرف زندہ ہے بلکہ‬
‫میرے ساتھ ہے تو غصے میں آکر کوئی بھی‬
‫خوفناک قدم اٹھا سکتی ہے۔۔۔۔‬

‫اس کا مطلب اب ہم سارے انسان جنوں کی‬


‫لڑائیوں میں شریک ہونگے ۔۔۔جنید نے بھی‬
‫آخر پوچھ لیا‬

‫اگر سفرینا کو یہ ساری باتیں پتا چل جاتی‬


‫ہیں تو وہ انتقام کی آگ میں کچھ بھی کر‬
‫سکتی ہے اور ویسے بھی میرا اس سے بدلہ‬
‫لینا باقی ہے ۔۔۔سلیمان نے جواب دیا‬

‫سکندر تم مجھے سادی باتیں بتاو۔۔جاپ کے‬


‫بعد سے لے کر سفرینا کو چھوڑ دینے تک۔۔۔‬
‫میں دیکھوں کہ وہ تم سے کیا چاہتی ہے۔۔۔‬
‫در خان نے کہا تو سکندر نے شروع سے کے‬
‫کر ساری باتیں بتانی شروع کی کہ وہ اور‬
‫سفرینا مل کر کیا کیا کرتے رہے۔۔کیسے‬
‫انہوں نے مختلف ممالک گھومیں ‪،‬کیسے‬
‫‪ ‬دولت اکھٹی کرنے لگے‬

‫وہ تم سے محبت کرتی ہے سکندر۔۔۔در خان‬


‫نے ساری باتیں سننے کے بعد کہا‬

‫آپ کو یہ کیسے پتا لگا۔۔۔سکندر نے در خان‬


‫سے کہا‬

‫کیونکہ یہ بات سفرینا کی فطرت میں ہے‬


‫کہ وہ کسی کا غالم رہنا پسند نہیں کرتی ۔۔‬
‫اگر وہ کسی کا غالم بن بھی جائے تو جلد‬
‫ہی اسے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے لیکن‬
‫تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ وہ تم سے‬
‫محبت کرتی ہے اس لیے نہ صرف اس نے‬
‫تمہیں زندہ چھوڑ رکھا تھا بلکہ تمہارے‬
‫ساتھ گھومتی پھرتی بھی رہی‬

‫ہممم۔۔۔۔سکندر نے کچھ نہ کہا‬

‫بھئی‪  ‬سلیمان ۔۔تمہاری اس جنگ میں ‪ ،‬میں‬


‫بھی تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔کیونکہ میں نے‬
‫بھی اس سےاپنی بیوی اور بیٹی کی موت‬
‫کا‪  ‬بدلہ لینا ہے‬

‫زبردست در خان ۔۔۔سلیمان نے مسکراتے‬


‫ہوئے کہا‬

‫لیکن سلیمان ۔۔۔تم نے مجے یہ باتیں پہلے‬


‫کیوں نہیں بتائیں ۔۔۔اور اب کیوں بتائیں؟‬

‫کیونکہ اس وقت میں بھی یہ باتیں نہیں‬


‫جانتا تھا ۔۔تمہارے دماغ میں صرف‪  ‬نام‬
‫تھے جن میں سے‪  ‬سفرینا کا ذکر زیادہ‬
‫تھاتھا لیکن سکندر اور سفرینا کو دیکھنے‬
‫کے بعد آہستہ آہستہ مجھے راستہ ملتا گیا‬
‫اور جب میں نے جلیل کی تصویر دیکھی‬
‫تو سارا منصوبہ بنا لیا‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن‬
‫نصیرسفرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪ 37‬از ابن نصیر‬

‫اچھا۔۔۔۔۔۔در خان نے کہا‪ ‬‬

‫کیا اتنے دنوں تک سفرینا کو یہ نہیں پتا‬


‫چال کہ سکندر زندہ ہے۔۔۔۔در خان نے پوچھا‬
‫نہیں در خان۔۔۔میں نے سکندر کو حصار‬
‫سلیمانی سکھا دیا ہے جس سے وہ سفرینا‬
‫کی نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔۔۔‬

‫چلو یہ بھی اچھی بات ہے سلیمان۔۔۔۔درخان‬


‫نے بوال‬

‫اب تمہیں بھی حصار سلیمانی سیکھ لینا‬


‫چاہیے در خان ۔۔۔کہیں بھی اس کی‬
‫‪ ‬ضرورت پڑ سکتی ہے۔۔۔سلیمان نے کہا‬

‫بلکل۔۔۔میں بھی یہ بہت ضروری سمجھ رہا‬


‫ہوں۔۔۔۔۔اچھا‪  ‬اب ہم نے آگے کیا کرنا ہے۔۔۔‬
‫درخان نے پوچھا‬

‫کیا ہم یہ نہیں سیکھ سکتے ہیں؟ جنید نے‬


‫بھی سیکھنے میں دلچسپی دکھائی‬
‫بلکل سیکھ سکتے ہیں۔۔بلکہ سب سیکھ‬
‫سکتے ییں۔۔۔سلیمان نے جنید کو جواب دیا‬

‫در خان یہ سب ابھی تک واضح نہیں ہے ۔۔۔‬


‫اس لیے تو میں نے تمہیں اور سکندر‪  ‬کو‬
‫یہاں اکھٹا کیا ہے تاکہ ہم سب مل کر‬
‫سوچیں کہ اس سفرینا کو کیسے جہنم‬
‫واصل کرنا ہے۔۔۔۔سلیمان نے در خان سے کہا‬

‫سکندر۔۔۔تم کیوں کچھ نہیں کہہ رہے ہو۔۔۔۔۔‬


‫درخان نے مسکراتے ہوئے کہاتو سکندر بھی‬
‫مسکرا دیا۔۔‬

‫میں آپ کا نیا روپ دیکھ کر بہت ہی خوش‬


‫ہوا ہوں۔۔۔اب تو میں بھی کوشش کروں گا‬
‫کہ ایک دن آپ جیسا بن جاوں لیکن پہلے‬
‫اس سفرینا سے تو جان چھوٹ ۔۔۔۔۔‬
‫سلیمان نے جلدی سے سکندر کے منہ ہاتھ‬
‫رکھ دیا۔۔۔‬

‫یہ تم نے کیا کر دیا۔۔۔۔سکندر۔۔۔۔۔میں نے‬


‫تمہیں کہا تھا نا ۔۔۔سفرینا کو نام بھول کر‬
‫بھی نا لینا۔۔۔سلیمان اپنی جگہ سے اٹھ‬
‫کھڑاہوا تھا۔۔۔‬

‫کیوں ۔۔۔کیا ہوا سلیمان۔۔۔۔در خان بھی‬


‫پریشانی میں کھڑا ہو گیا۔۔۔سکندر بھی‬
‫اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا تھا‬

‫سفرینا اب بھی سکندر کی غالم ہے اور میں‬


‫نے اسے منع کیا تھا کہ کبھی بھی اس کا‬
‫نام‪  ‬نہیں لینا۔۔۔لیکن اس نے غلطی کر دی‬
‫ہے۔۔۔‬
‫درخان اس سے پہلے کہ وہ یہاں آئے ۔۔۔میں‬
‫سکندر کو اپنے ساتھ لے جا رہا ہوں۔۔۔‬

‫سلیمان نے جلدی سے سکندر کا ہاتھ پکڑ‬


‫لیا۔۔۔‬

‫اف۔۔۔۔تمہیں تو حصار سلیمانی بھی نہیں‬


‫آتا۔۔۔در خان میں اس کمرے کو حصار‬
‫سلیمانی میں بند کر رہا ہوں۔۔اگر سفرینا‬
‫یہاں آئی تو تمہیں کچھ نہیں کر سکے گی‬
‫۔۔۔لیکن پھر بھی تم لوگ احتیاط کرنا۔۔اگر‬
‫وہ اندر آ گئی توقرآنی سورتیں پڑھ لینا وہ‬
‫بھاگ جائے گی۔۔میں ان دونوں کو‪  ‬کہیں‬
‫چھپا کر جلدی واپس آ رہا ہوں۔۔۔اگر سفرینا‬
‫کو زرا بھی سکندر کا پتا چل گیا تو جو‬
‫جنگ کل چھڑنی ہے وہ آج چھڑ جائے گی۔۔۔‬
‫سلیمان جلدی جلدی بول رہا تھا۔۔۔۔‬

‫سلیمان کی باتیں سن کر کمرے میں موجود‬


‫سارے لوگ بھی خوف سے پریشان ہو گئے۔۔‬

‫آنکھیں بند کرو سکندر۔۔۔یہ کہہ کر سلیمان‬


‫نے جلدی سے پڑھنا شروع کیا کہ اس کی‬
‫نظر سکینہ پر جا پڑی۔۔۔‬

‫یہاں آو سکینہ۔۔جلدی۔۔۔۔۔سلیمان نے تیز‬


‫لہجے میں کہا تو سکینہ دوڑتی ہوئی قریب‬
‫آئی‬

‫اب سلیمان کے ایک ہاتھ میں سکندر کا ہاتھ‬


‫تھا اور دوسرے ہاتھ سے سکینہ کا ہاتھ‬
‫تھام لیا تھا۔۔۔۔‬
‫آنکھیں بند کر لو دونوں۔۔۔۔جب سکندر اور‬
‫سکینہ نے یہ سنا توجھٹ سے اپنی آنکھیں‬
‫بند کر دیں۔۔۔وہ اپنی جگہ سے غائب ہو‬
‫چکے تھے۔۔۔‬

‫سلیمان کمرے کو سلیمانی حصار میں بند‬


‫کرنا نہیں بھوال تھا۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا ہیولے کے ساتھ بنگلےکی پچھلی‬


‫سائیڈ پر واقع سوئمنگ پول کے کنارے پر‬
‫بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک اس نے سکندر‬
‫کی آواز سنی۔جس نے سفرینا کا نام لیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا نے سکندر کی آواز سنی ۔۔‬


‫وہ جھٹکا کھا کر کھڑی ہو گئی۔۔۔‬
‫یہ کیسے ممکن ہے ۔۔۔سفرینا نے بڑبڑاتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫سکندر تو مر چکا تھا اور اب یہ جلیل کے‬


‫جسم میں ہے تو یہ کون ہے جو مجھے‬
‫سکندر کی آواز میں پکار رہا ہے۔۔۔یہ کہہ کر‬
‫سفرینا نے اپنی آنکھیں بند کر لیں تو‬
‫سکندر کا چہرہ اپنے ذہن میں تصور کیا ۔۔‬

‫اور پھر اس کی آنکھوں نے سکندر‪  ‬کی‬


‫جھلک دیکھ لی جو کسی انسان کا ہاتھ‬
‫تھامے کھڑا تھا ۔۔اس انسان کے دوسری‬
‫طرف ایک لڑکی بھی کھڑی ہوئی تھی۔۔۔‬
‫ابھی سفرینا یہ دیکھ رہی تھی کہ سکندر ‪،‬‬
‫وہ انسان اور لڑکی غائب ہو گئے۔۔۔۔‬
‫اب کمرے میں چند عورتیں اور دو‪  ‬مرد‬
‫کھڑے ہوئے تھے۔۔‬

‫داڈھی والے بوڑھے سےمرد کو دیکھ کر‬


‫سفرینا ٹھٹکی ۔۔۔۔یہ چہرہ اسے شناسا لگ‬
‫رہا تھا۔۔۔‬

‫اوہ۔۔۔تو یہ وہی ہے ۔۔۔ سفرینا نے دماغ پر‬


‫تھوڑا سا زور دیا تو اسے یاد آ گیا ۔۔یہ وہی‬
‫آدمی تھا جس نے ایک مرتبہ سفرینا کو‬
‫قابو کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر وہ‬
‫ناکام ہو گیا ۔۔۔سفرینا نے اسے تو زندہ چھوڑ‬
‫دیا لیکن سزا کے طور پر اس کی بیوی اور‬
‫بیٹی کو مار دیا تھا۔۔‬

‫اس کا مطلب ۔۔سکندر مجھے دھوکہ دے رہا‬


‫ہے۔۔لیکن کیسے۔۔۔۔اور‪  ‬یہ جن کون ہے۔۔‬
‫سفرینا‪  ‬بڑبڑائی‬

‫سکندر۔۔۔۔اچانک سفرینا غصے سے چالئی۔۔۔‬


‫اس کی آنکھیں غضب ناک ہو چکی تھیں۔۔۔‬

‫سفرینا سب کچھ برداشت کر سکتی ہے‬


‫لیکن دھوکہ کبھی نہیں برداشت کر‬
‫سکتی۔۔۔اب دیکھتی ہوں کہ تمہیں مجھ‬
‫‪ ‬سے یہ جن کیسے بچا سکتا ہے۔۔‬

‫سفرینا نے دھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔‬

‫ہیوال‪  ‬بھی سفرینا کوکھڑا دیکھ کر اٹھ‬


‫کھڑا ہوا تھا ۔۔۔‬

‫سفرینا نے ایک نظر ہیولے کو دیکھا۔۔۔‬

‫تم کون ہو۔۔۔۔۔سفرینا نے چال کر پوچھا لیکن‬


‫ہیولے نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔‬
‫یہ بھی دھوکہ۔۔۔۔شیطان اعظم۔۔۔۔۔سفرینا کا‬
‫غصہ آنکھوں میں انگارے بن کر نظر آ رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫سفرینا نے اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر ہیولے‬


‫کی گردن سے پکڑا اور پورا زور لگا کر اسے‬
‫دباتے چلی گئی۔۔۔‬

‫ہیولے سفرینا کے ہاتھ میں تڑپ رہا تھا۔۔۔‬


‫لیکن اس نے منہ سے کوئی آواز نہیں نکالی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫جب تک ہیولے تڑپتا رہا ۔۔۔سفرینا نے اس کا‬


‫گال نہیں چھوڑا۔۔۔جیسے ہی اس نے تڑپنا‬
‫بند کیا۔۔۔سفرینا نے ہیولے کو پوری طاقت‬
‫سے سامنے دیوار پر دے مارا۔۔۔‬
‫دیوار سے ٹکراتے ہی ہیولے کا جسم پھٹ‬
‫گیا اور اس میں سے سبز رنگ کا خون باہر‬
‫نکلنے لگا۔۔۔‬

‫میں تمہیں اس حرکت پر کبھی معاف نہیں‬


‫کروں گی شیطان اعظم۔۔۔تم نے ایک چیلے‬
‫کو سکندر بنائے رکھا۔۔۔سفرینا دھاڑ رہی‬
‫تھی‬

‫لیکن پہلے میں اس احسان فراموش سے‬


‫اپنا حساب کتاب پورا کر لوں۔۔۔یہ کہہ کر‬
‫سفرینا‪  ‬بجلی بن کر ٖغ ائب ہو گئی‬

‫سفرینا نے سکندر کو جس گھر میں دیکھا‬


‫تھا وہ گھر اس بنگلے سے زیادہ دور نہیں‬
‫تھا۔۔۔شاید وہ گھر اسی ملک کے کسی‬
‫‪ ‬دوسرے شہر میں تھا۔۔۔‬
‫سفرینا چند سیکنڈز میں اس گھر کے صحن‬
‫میں اتری۔۔۔۔اور بڑے بڑے قد م اٹھاتی‬
‫کمرے کی طرف چل پڑی ۔۔۔‬

‫جیسے ہی اس نے کمرے کے دروازے سے‬


‫اندر جانا چاہا۔۔۔‬

‫سفرینا کے جسم کو ہزار وولٹ کو جھٹکا‬


‫لگا۔۔۔اور وہ چند قدم دور جا کر گر گئی۔‬

‫یہ کوئی حصار تھا جس میں سارے لوگ‬


‫بند ہو گئے تھے۔۔۔سفرینا اب اندر نہیں جا‬
‫سکتی تھی۔۔۔‬

‫سفرینا نے تھوڑا سا دائیں طرف ہو کر‬


‫دیکھا تو کمرے میں اسے در خان ‪ ،‬جنید‬
‫اور کچھ عورتیں کھڑی نظر آئیں۔۔۔جو‬
‫سفیرنا کو دیکھ کر حیران ہو گئی تھیں۔۔‬
‫باہر آو تم لوگ۔۔۔۔سفرینا نے عورتوں سے‬
‫‪ ‬کہا‬

‫کوئی باہر نہیں جائے گا۔۔۔یہ وہی چڑیل ہے۔۔‬


‫درخان چالیا تھا‬

‫سفرینا نے غصے سے در خان کی طرف‬


‫دیکھا‬

‫تم وہی پنڈت ہو نا۔۔۔۔۔۔سفرینا بولی‬

‫اس دن تو میں نے تم پر رحم کھا کر تمہیں‬


‫چھوڑ دیا‪  ‬لیکن آج دیکھتی ہوں کہ تمہیں‬
‫مجھ سے کون بچاتا ہے۔۔۔‬

‫غصے میں سفرینا چند قدم پیچھے جا کر‬


‫کھڑی ہوئی اور کچھ پڑھ کر اپنا دایاں ہاتھ‬
‫آگے کر دیا ۔۔۔جیسے ہی اس نے ہاتھ کو‬
‫جھٹکا دیا۔۔اس کے ہاتھ سے آگ کی ایک لہر‬
‫سی نکلی جو دروازے والی جگہ‪  ‬سے جا‬
‫ٹکرائی لیکن کھلے دروازے‪  ‬اور دیوار کی‪ ‬‬
‫حالت میں زا فرق بھی نہیں آیا تھا۔۔۔‬

‫سفرینا کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔اس نے‬


‫کچھ پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھ دروازے کی‬
‫جانب کر کے جھٹکا دیا ۔۔۔اس دفعہ دونوں‬
‫ہاتھ سے ایک بڑی آگ کی لہر نکل کر ٹکرائی‬
‫۔۔۔‬

‫جب تک سفرینا نے اطمینان نہیں کر لیا ۔۔۔‬


‫اس نے اپنے ہاتھ دروازے کی طرف بڑھا ئے‬
‫رکھے۔۔۔جب کافی دیر ہو گئی تو سفرینا نے‬
‫دونوں ہاتھ نیچے کر دیے۔۔۔‬

‫صحیح سالمت دروازہ‪  ‬اور دیوار سفرینا کا‬


‫منہ چڑھا رہا تھا۔۔۔‬
‫سکندر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا چالئی‬

‫اس نے غصے میں کچھ پڑھا۔۔۔تو وہ اپنے‬


‫انسانی روپ سے چڑیل کے روپ میں آ‬
‫گئی۔۔۔‬

‫وہ خاموش کھڑی دروازے کو دیکھ رہی‬


‫تھی۔۔۔اور دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔۔۔‬

‫اچانک سفرینا کے چہرے پر شیطانی‬


‫مسکراہٹ آ گئی۔۔۔‬

‫اب دیکھتی ہوں کہ تم لوگ کیسے باہر نہیں‬


‫نکلتے ہو۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا غائب ہو گئی۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫چلی گئی کیا۔۔۔۔حدیقہ نے آہستہ آواز میں‬


‫کہا۔۔۔‬
‫میرے خیال سے چلی گئی ہے۔۔جنید نے‬
‫ڈرتے ہوئے کہا۔۔۔وہ سفرینا کا یہ بھیانک‬
‫روپ دیکھ کر ڈر گیا تھا‬

‫نہیں۔۔۔وہ کہیں نہیں گئی ہے ۔۔یہ اس کی‬


‫چال ہے ۔۔۔میں اس سے اچھی طرح واقف‬
‫ہوں۔۔۔‬

‫درخان نے کہا‬

‫ابھی در خان نے یہ کہا کہ کمرے کے باہر‬


‫سے بلند چیخوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔‬
‫شور اتنا تھا کہ سب کے کان پھٹنے والے‬
‫تھے ۔۔۔‬

‫در خان سمیت سب نے اپنے دونوں ہاتھ‬


‫کانوں پر رکھ لیے ۔۔۔‬
‫چیخوں کی آواز تھی کہ تھم نہیں رہی‬
‫تھی۔۔۔بلکہ بلند سے بلند تر ہو تی جا رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫اچانک کمرے میں کسی کی چیخنے کی آواز‬


‫گونجی ۔۔۔‬

‫در خان نے عورتوں کی جانب دیکھا تو‬


‫شکیلہ کی چھوٹی بیٹی بھاگتی ہوئی باہر‬
‫کی طرف جا رہی تھی۔۔۔‬

‫جنید پکڑو۔۔لیکن چونکہ جنید نبیلہ سے‬


‫‪ ‬کافی دور کھڑا تو‬

‫در خان اپنی جگہ سے اچھال مگر وہ نبیلہ‬


‫تک نہ پہنچ سکا اور وہ کمرے سے باہر نکل‬
‫گئی۔۔۔‬
‫نبیلہ کے باہر جاتے ہی شکیلہ کے منہ سے‬
‫نبیلہ نبیلہ کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئی۔۔۔‬

‫درخا ن نے جلدی سے شکیلہ کو پکڑ لیا ۔۔۔‬


‫وہ جان گیا تھا کہ نبیلہ کے باہر نکل جانے‬
‫کا مطلب موت ہے۔۔اب وہ سفرینا کا شکار‬
‫بننے والی ہے یا بن چکی ہے لیکن اب وہ‬
‫شکیلہ کو سفرینا کے ہتھے نہیں چڑھنے دینا‬
‫چاہتا تھا۔۔اس لیے اس نے مضبوطی سے‬
‫شکیلہ کو ہاتھوں میں پکڑ لیا۔۔‬

‫جنید نے بھی شکیلہ کو تھام رکھا تھا‬

‫شکیلہ چیخے جا رہی تھی کہ اچانک باہر‬


‫سے نبیلہ کی زور دار چیخ بلند ہوئی ۔۔۔‬
‫جس سن کر شکیلہ ساکت ہو گئی اور پھر‬
‫اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔۔۔‬
‫وہ سمجھ گئی تھی کہ اس کی بیٹی اب‬
‫اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔۔‬

‫نبیلہ کے باہر چلے جانے اور شکیلہ کے‬


‫بیہوش ہونے کے بعد حدیقہ اور حاجرہ بی‬
‫بی تو دہشت میں اور تیزی سے چالنے‬
‫لگی۔۔۔۔انہیں بھی سمجھ آ گئی‪  ‬تھی کہ‬
‫نبیلہ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔۔۔اس لیے‬
‫وہ‪  ‬دونوں چالئے جا رہی تھیں۔۔۔۔‬

‫باہر چیخوں کا سلسلہ بند ہو گیا تھا۔۔۔۔‬

‫ابھی کمرے میں موجود عورتوں کی‪ ‬‬


‫چیخیں بلند ہی ہوئی کہ انہوں نے دروازے‬
‫پر کسی کا سایہ دیکھ لیا۔۔۔۔یہ کسی بچی‬
‫کا سایہ نہیں تھا ۔ بلکہ کوئی بڑا انسان تھا‬
‫جو جھک کر آگے چال آ رہا تھا۔۔‬
‫سایہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا کمرے کی‬
‫طرف آ رہا تھا۔۔۔۔‬

‫درخان اور جنید بھی پریشانی میں دروازے‬


‫کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔جبکہ دونوں‬
‫عورتوں کی چیخیں‪  ‬اچانک سے بند ہو‬
‫گئیں۔۔۔۔‬

‫در خان شکیلہ کو چھوڑ کر کھڑا ہو گیا‬

‫دروازے پر آنے والے کو دیکھ کر انہوں نے‬


‫دوبارہ سے چیخیں لگانا شروع کر دیا۔۔۔یہ‬
‫بوڑھی چڑیل تھی جو اپنی گندی شکل اور‬
‫ناگن جیسے بالوں کے ساتھ جھک کر اندر‬
‫داخل ہو رہی تھی۔۔ اس کے نوکیلے ناخنوں‬
‫سے انسانی خون رس رہا تھا جو کہ نبیلہ کا‬
‫تھا۔۔۔‬
‫سفرینا کو اس شکل میں دیکھ کر دونوں‬
‫عورتوں نے دوبارہ سے چالنا شروع کر دیا۔۔۔‬
‫چیخوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ‪ ‬‬
‫تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔۔‬

‫اچانک زمین پر پڑے شکیلہ کے جسم میں‬


‫حرکت ہوئی۔۔۔اور پھر اس کی آنکھیں کھل‬
‫گئیں۔۔۔‬

‫چند لمحوں میں ہی اسے پچھال سب یاد آ‬


‫گیا۔۔جیسے ہی اس نے گردن ٹیڑھی‪  ‬کر کے‬
‫کمرے میں دیکھا تو ایک بوڑھی چڑیل کو‬
‫دیکھ کر اس کی چیخ بلند ہوئی ۔۔۔‬

‫وہ لیٹے لیٹے ہی کمرے میں پیچھے کی‬


‫طرف جا رہی تھی۔۔۔۔‬
‫در خان نے سفرینا کو کمرے میں دیکھا تو‪ ‬‬
‫چونک اٹھا۔۔۔ایک پل میں تو اسے سمجھ‬
‫نہیں آئی کہ سفرینا کیسے کمرے کے اندر آ‬
‫گئی لیکن پھر اسی وہ چھوٹی سی بچی یا‬
‫دآ گئ۔۔چونکہ وہ حصار سے باہر نکل گئی‬
‫تھی اس لیے کمرے کے گرد قائم حصار ختم‬
‫ہو گیا تھا۔۔۔‬

‫اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔۔۔مکار‬


‫سفرینا نے اپنے نوکیلے دانتوں کی نمائش‬
‫کرتے ہوئے در خان سے‪  ‬کہا‬

‫میرا اہلل مجھے بچائے گا ۔۔۔سفرینا۔۔۔دیکھ‬


‫لینا تم۔۔۔درخان نے جواب دیا‬

‫تو پھر بالو اپنے اہلل کو۔۔۔میں بھی دیکھوں‬


‫وہ تمہیں کیسے مجھ سے بچاتا ہے۔۔۔۔یہ کہہ‬
‫کر وہ درخان کی جانب بڑھنے لگی۔۔۔‬

‫سفرینا کو بڑھتے دیکھ کر عورتیں کی‬


‫چیخیں بلند ہی ہوئی کہ درخان کی آواز نے‬
‫انہیں چپ کرا دیا۔۔۔‬

‫قرآنی جو جو سورتیں یاد ہیں۔۔۔بلند آواز‬


‫سے پڑھو سب۔۔۔۔درخان چالیا‬

‫در خان نے یہ کہہ کر قرآن پاک کی مختلف‬


‫سورتوں کو بلند آواز میں پڑھنا شروع کیا‬
‫اور در خان کی دیکھا دیکھی جنید اور‪ ‬‬
‫باقی عورتوں نے بھی پڑھنا شروع کر دیا۔۔‬

‫جیسے ہی کمرے میں درخان کی آواز بلند‬


‫ہوئی ۔۔۔سفرینا کے جسم کو ایک جھٹکا‬
‫لگا۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ اسے کوئی چیز چبھ‬
‫رہی ہے ۔۔۔‬
‫سفرینا ایک جگہ پر کھڑی ہو کر اپنے جسم‬
‫کے مختلف حصوں کو اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫سے کھرچ رہی تھی۔۔۔۔‬

‫‪ ‬بند کرو یہ سب۔۔۔۔سفرینا چالئی‬

‫سفرینا کو تکلیف میں دیکھ کر سب لوگوں‬


‫کا حوصلہ بلند ہو ا۔۔۔اب وہ اور بھی بلند‬
‫آواز سے پڑھنے لگے تھے۔۔۔‬

‫سفرینا کے جسم میں آ گ بھڑک اٹھی‬


‫تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا کے جسم کو آگ لگی۔۔۔‬


‫سفرینا چیختی ہوئی کمرے سے باہر کو‬
‫بھاگی۔۔۔‬

‫درخان والوں نے پڑھنا بند نہیں کیا تھا‬


‫لیکن اب ان کی آواز تھوڑی کم ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔سفرینا کو بھاگتا دیکھ کر ان کے‬
‫حوصلے بلند ہو گئے تھے۔۔۔‬

‫کافی دیر پڑھنے کے بعد بھی کچھ نہیں ہوا‬


‫تو در خان نے پڑھنا بند کر دیا۔۔۔باقی لوگ‬
‫بھی درخان کو دیکھنے کے بعد‪  ‬خاموش ہو‬
‫گئے تھے۔۔‬

‫چلی گئی کیا۔۔۔حاجرہ بی بی نے ڈرتے ڈرتے‬


‫پوچھا‬

‫مجھے نہیں لگتا کہ وہ چڑیل گئی ہو گی۔۔۔‬


‫وہ بہت عیار چڑیل ہے ۔۔۔اتنی جلدی وہ‬
‫نہیں جا سکتی ہے۔۔۔درخان نے حاجرہ کو‬
‫جواب دیا لیکن اس کے کان اور آنکھیں‬
‫ابھی بھی باہر کو دیکھ رہے تھے۔۔۔‬
‫کافی دیر بعد بھی باہر خاموشی ہی رہی۔۔۔‬
‫تو حدیقہ بولی‬

‫میرا خیال ہے وہ چلی گئی ہے۔۔۔‬

‫ہاں ۔۔شاید چلی گئی۔۔۔جنید بوال‬

‫کیا کہہ سکتے ہیں۔۔۔درخان کشمکش میں‬


‫مبتال ہو گیا تھا۔۔۔۔کمرے میں بلکل‬
‫خاموشی چھا گئی تھی۔۔۔۔لیکن ان کے دل‬
‫تیزی سے دھڑک رہے تھے۔۔‬

‫جب کافی دیر بعد بھی کچھ نہ ہوا تو‬


‫عورتیں نے سکون کا سانس لیا۔۔۔‬

‫شکر ہے چلی گئی۔۔۔۔حاجرہ بی بی بولی‬


‫لیکن درخان نے کوئی بات نہیں کی۔۔اس کے‬
‫کان ابھی بھی باہر کو لگے ہوئے تھے۔۔‬
‫بچاو۔۔۔۔۔اچانک باہر سے مردانہ آواز گونجی‬

‫یہ سکندر کی آواز لگ رہی ہے ۔۔۔درخان نے‬


‫سوچا اور پھر دروازے پر سکندر کا چہرہ‬
‫نظر آیا جو خون سے لت پت تھا۔۔۔‬

‫اس کے کپڑے جگہ جگہ سے پھٹ چکے تھے‬


‫۔۔۔اور جسم کی کہیں جگہوں سے خون نکل‬
‫نکل کر زمین پر گر رہا تھا۔۔۔‬

‫سکندر کو اس حالت میں دیکھ کر عورتیں‬


‫چالئیں۔۔۔درخان بھاگتا ہوا سکندر کی جانب‬
‫بڑھا۔۔‬

‫کیا ہوا سکندر۔۔۔۔درخان نے سکندر کو تھام‬


‫لیا جو زمین پر گرنے واال تھا۔۔۔‬

‫سفرینا نے سب کو مار دیا۔۔۔سب ختم ہو گیا‬


‫درخان۔۔۔کوئی زندہ نہیں بچا ہے۔۔۔سکندر نے‬
‫چیختے ہوئے کہا‬

‫کیا۔۔۔۔سب عورتیں چالئیں۔۔۔‬

‫کیا بول رہے ہو سکندر۔۔۔یہ کیسے ہوا ۔۔۔رکو‬


‫پہلے میں تمہارے لیے پانی منگواتا ہوں۔۔۔یہ‬
‫کہہ کر درخان نے جنید کی طرف دیکھا تو‬
‫جنید بھاگتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔۔۔‬

‫چند ہی لمحے گزرے کہ جنید پانی کا گالس‬


‫بھر کر الیا جسے درخان نے پکڑ کے سکندر‬
‫کے ہونٹوں سے لگا دیا۔۔۔‬

‫سکندر نے پانی کے چند ہی گھونٹ پیے اور‬


‫منہ کو دائیں طرف کر دیا۔۔۔‬

‫کیا ہوا تھا سکندر۔۔۔جلدی بتاو مجھے۔۔۔‬


‫درخان نے پریشانی میں کہا‬
‫ہم جب یہاں سے نکلے تو ابھی تھوڑی دور‬
‫ہی‪  ‬گئے کہ اچانک ہمیں کچھ بھاری سا‬
‫لگا۔۔۔جس سے ہم سب زمین پر گر گئے۔۔۔‬

‫ہم نزدیک ہی موجود میدان میں گرے تھا۔۔۔‬


‫جب میں نے سیدھے ہو کر دیکھا تو سفرینا‬
‫چڑیل کی شکل میں کھڑی ہوئی تھی۔۔۔‬

‫اس نے آتے ہی سلیمان پر حملہ کر دیا۔۔۔‬


‫سلیمان نے بہت کوشش کی کہ سفرینا کو‬
‫مار دے لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔۔۔سلیمان کو‬
‫مارنے کے بعد اس نے سکینہ کو بھی قتل کر‬
‫دیا۔۔۔اور مجھے بھی اپنی بجلی سےمار دیا‬
‫لیکن میں مرا نہیں بلکہ شدید زخمی ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔‬
‫مجھے مرا ہوا سمجھ کر وہ چلی گئی لیکن‬
‫شکر ہے کہ مجھ میں کچھ سانسیں تھی۔۔‬
‫جب مجھے یقین ہو گیا کہ سفرینا چلی‬
‫گئی ہے تو میں گرتاپڑتا یہاں تک پہنچا‬
‫ہوں۔۔۔‬

‫کیا سکینہ مر گئی۔۔۔۔حاجرہ بی بی چالئی‬


‫اور پھر زمین پر گر کر بیہوش ہو گئی‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن نصیر‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪ 38‬از ابن نصیر‬
‫کیا۔۔۔۔سلیمان بھی مر گیا۔۔۔جنید بھی چالیا‬
‫تھا‬

‫دونوں مر گئے ہیں۔۔۔۔سکندر نے لمبی لمبی‬


‫سانسیں لیتے ہوئے کہا‬

‫درخان سکینہ اور سلیمان کا سن کر پھر‬


‫سکندر کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫درخان صاحب انہیں سہارا دیں۔۔۔جنید نے‬


‫سکندر کو ہاتھ سے پکڑتے ہوئے کہا‬

‫یہ سن کر درخان چونکا اور جلدی سے‬


‫سکندر کو بائیں کندھے سے پکڑ لیا۔۔۔‬

‫وہ دونوں اسے سہارے دے کر صوفے کے‬


‫پاس لے جا رہے تھے۔۔‬
‫صوفے پر‪  ‬بٹھا کر در خان نے جیسے ہی‬
‫سکندر کا کندھا چھوڑا۔۔۔اسی وقت ہی‬
‫سکندر کا ہاتھ در خان کے گلے پر پہنچا‬
‫تھا۔۔‬

‫اس نے در خان کو گردن سے پکڑ لیا تھا۔۔۔‬

‫یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔چھوڑ دو اسے۔۔۔۔جنید‬


‫نے سکندر کے دونوں ہاتھ سے پکڑ کر اسے‬
‫دور کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔‬

‫ان سب کو پکڑو۔۔۔اور منہ بند کر دو۔۔۔۔‬


‫اچانک سکندر زنانہ آواز میں بوال‬

‫یہ سن کر جنید کو جھٹکا لگا۔۔۔اسے سکندر‬


‫کی زنانہ آواز سن کر حیرت ہو ئی تھی ۔۔۔‬
‫اب وہ سنبھال ہی نہیں کہ کسی غیبی قوت‬
‫نے اس کا منہ بند کر اسے پکڑ لیا۔۔‬
‫یہی حال کمرے میں کھڑی عورتوں کا بھی‬
‫ہوا تھا۔۔۔ان سب کے منہ بند تھے اور وہ‬
‫حرکت بھی نہیں کر‪  ‬سک رہے تھے۔۔۔‬

‫سب کی آنکھیں دہشت اور خوف سے باہر‬


‫نکل آئی تھیں۔۔۔‬

‫اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔۔۔۔۔سکندر‬


‫کی شکل تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔۔۔اس کے‬
‫چھوٹے چھوٹے بال بڑھتے جا رہے تھے۔۔۔‬

‫ناخن جو پہلے چھوٹے سے تھے اب لمبے ہو‬


‫کر‪   ‬مڑ رہے تھے۔۔۔چہرے کا رنگ اور ساخت‬
‫تبدیل ہو کر کھال ادھڑتی جا رہی‪  ‬تھی۔۔۔‬

‫چند لمحے نہیں گزرے کہ درخان کی گردن‬


‫پکڑے سفرینا اپنی شیطانی روپ میں‬
‫کھڑی قہقے لگا رہی تھی۔۔‬
‫خر خر خر۔۔۔۔در خان کے منہ سے آواز نکلنے‬
‫لگی‬

‫کیا کہا تھا میں نے ۔۔۔۔تم‪  ‬لوگوں نے مل کر‬


‫مجھے دھوکہ دیا ہے۔۔۔اب بالو اپنے اہلل‬
‫کو۔۔۔میں بھی دیکھوں کہ وہ تمہیں کیسے‬
‫بچاتا ہے۔۔۔سفرینا نے ہنستے ہوئے کہا‬

‫چونکہ در خان کی گردن سفرینا کے ہاتھ‬


‫میں مضبوطی سے دبی ہوئی تھی‪  ‬اس لیے‬
‫اس کے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫مجھے ان میں سے نا کوئی زندہ چاہیے اور‬


‫نہ ہی مکمل جسم۔۔۔ان کا کوئی بھی ٹکڑا‬
‫اگر میرے ہاتھ سے بڑا ہوا تو تم چاروں کو‬
‫میں زندہ جال دوں گی۔۔۔سفرینا نے چال کر‬
‫اپنے چاروں چیلوں سے کہا‬

‫سفرینا کی بات سن کر جنید اور عورتیں‬


‫ہوا میں دائیں بائیں حرکت کرنے لگے۔۔۔ایسا‬
‫لگ رہا تھا کہ وہ خود کو کسی ان دیکھے‬
‫وجود سے آزاد کرنے کی کوشش کر رہے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫کمرے میں اب خر خر خر‪  ‬کی آوازیں بلند‬


‫ہو گئی تھیں۔۔۔‬

‫در خا ن بھی کوشش کر رہا تھا کہ کسی‬


‫طرح سے کچھ ہی دیر کے لیے خود کو‬
‫سفرینا کے ہاتھوں سے آزاد کرا لے۔۔مایوس‬
‫ہو کر اس نے حرکت کرنی چھوڑ دی ۔۔۔‬
‫اس کی آنکھ سے ایک آنسو نکال تھا۔۔۔شاید‬
‫یہ آنسو اس کی مجبوری کا بتا رہا تھا۔۔۔‬

‫جیسے ہی سفرینا کی بات مکمل ہوئی ۔۔۔۔‬


‫چیلوں نے چاروں کو پکڑ ئے ہوئے ہی ان‪ ‬‬
‫سب کا سر دیوار پر زور سے مارا۔۔۔‬

‫دھب کی آواز‪   ‬کمرے میں گونجی تھی۔۔۔‬


‫سب کے سر کا بھرتہ بن کر خون کے ساتھ‬
‫زمین پر گرنے لگے۔۔ان کے جسم تڑپ رہے‬
‫‪ ‬تھے۔۔۔‬

‫در خان نے یہ دیکھ کر آخری کوشش کی‬


‫اور پورا زور لگا کر سفرینا کے دونوں‬
‫ہاتھوں کو گردن سے الگ کرنا چاہا لیکن‬
‫اس کے سامنے سفرینا تھی ۔۔اگر کوئی‬
‫انسان ہوتا تو شاید درخان کی قوت کے‬
‫سامنے اس کے ہاتھ ڈھیلے پڑ جاتے لیکن‬
‫یہاں تو سفرینا کے ہاتھوں کی گرفت بھی‪ ‬‬
‫کمزور نہیں ہوئی تھی۔۔‬

‫کمرے میں شکیلہ‪ ،‬حاجرہ بی بی ‪ ،‬حدیقہ‬


‫اور جنید کا خون فرش کو الل کرتا جا رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫سب کے سروں کو دیوار پر مارنے کے بعد‬


‫بھی چیلے نہیں رکے تھے۔۔۔ان کو سفرینا کے‬
‫ہاتھوں میں نہیں جلنا تھا۔۔۔جیسے ہی‬
‫انہوں نے سب کے سر دیوار سے ٹکرائے۔۔۔‬
‫اس کے بعد چند لمحوں کے لیے وہ رکے۔۔۔‬

‫سب سے پہلے چیلے نے جنید کو زمین پر‬


‫پٹکا تھا۔۔۔جنید کا چہرہ پہچان میں نہیں آ‬
‫رہا تھا۔۔۔۔ان سب کے منہ کا قیمہ بن گیا‬
‫تھا۔۔۔جنید کو زمیں پر پٹکانے کے بعد باقی‬
‫تینوں عورتوں کے جسم کو بھی زمین پر‬
‫زور سے مارا گیا۔۔۔‬

‫زمین پر لگتے ہی ان کے تڑپتے جسموں نے‬


‫زور سے جھٹکے کھائے تھے۔۔۔شاید ان کی‬
‫روح جسم کو چھوڑ چکی تھی۔۔۔‬

‫اچانک ہی چاروں کے جسم ہوا میں بلند‬


‫ہوئے لیکن وہ ہوا میں الٹے لٹکے ہوئے تھے۔۔۔‬
‫اور‪  ‬پھران کے جسم زمیں پر دائیں بائیں‬
‫اس طرح لگنے لگے جیسے دھوبی اپنے‬
‫ڈنڈے کو کپڑے پر مارتا ہے۔۔۔‬

‫تمہیں میں نے ایک موقع دیا تھا لیکن تم‬


‫پھر بھی باز نہیں آے۔۔۔سفرینا نے زور سے‬
‫چال کر در خان کی گردن پر زور لگایا تو در‬
‫خان کی آنکھوں کے ساتھ اس کی زبان‬
‫بھی باہر نکل آئی۔۔۔‬

‫جیسے ہی درخان کی زبان باہر نکلی۔۔۔‬


‫سفرینا نے اپنے لمبے اور نوکیلے دانتوں سے‬
‫اس کی زبان کو پکڑ لیا۔۔۔اور پھر سفرینا نے‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں سے در خان کو پیچھے‬
‫کی طرف دھکیل کر خود کو بھی پیچھے‬
‫کی طرف جھٹکا دیا۔۔۔‬

‫درخان کے منہ سے خون کا ایک فوارہ نکال‬


‫تھا۔۔۔اس کی زبان تالو‪  ‬سے نکل کر سفرینا‬
‫کے دانتوں میں آگئی تھی۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے در خان کو زور سے پیچھے دیوار‬


‫کی طرف دھکا دیا تو درخان لڑکھڑاتا ہوا‬
‫دیوار سے جا لگا‪  ‬اور نیچے بیٹھ گیا۔۔اس‬
‫نے اپنے دونوں ہاتھ خون سے بھرے منہ پر‬
‫رکھ دیے تھے۔۔۔‬

‫سفرینا نے در خان کی زبان کو زمیں پر‬


‫پھینکا اور مڑ کر پیچھے دیکھا تو اس کے‬
‫چیلوں نے باقی لوگوں کو زمین پر لٹا کر ان‬
‫کے سینوں پر چڑھ بیٹھے تھے اور اپنے لمبے‬
‫لمبے ناخنوں سے سارے جسموں کو ٹکڑوں‬
‫‪،،،‬میں تبدیل کر ہے تھے‬

‫ہاہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔سفرینا نے قہقہ لگایا‬

‫وہ آگے بڑھتی ہوئے دیوار کے ساتھ جا لگے‬


‫در خان کے سامنے اکڑوں بیٹھ گئی‬

‫کیوں نہیں بال رہے اپنے خدا کو۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔‬


‫سفرینا نے اپنے انگلی سے درخان کی ٹھوڑی‬
‫کو اوپر کرتے ہوئے کہا‬
‫اچھا ۔۔۔چلو تمہا را خدا نہیں آ رہا ہے نا۔۔۔‬
‫کوئی بات نہیں۔۔۔اس جن کو ہی بال لو۔۔۔یا‬
‫وہ بھی ڈر کر کہیں چھپ گیا ہے۔۔۔‬

‫درخان آنسووں سے بھری آنکھوں سے‬


‫سفرینا کویک ٹک دیکھ رہا تھا۔۔۔‬

‫ارے۔۔۔رو رہے ہو کیا۔۔۔میں تو تمہیں بڑا‬


‫‪ ‬بہادر سمجھتی تھی۔۔۔۔ہا ہا ہا‬

‫چلو میں تم پر ایک احسان کر دیتی ہوں۔۔‬


‫تمہیں تمہاری بیوی اور بیٹی کے پاس بھیج‬
‫دیتی ہوں۔۔۔بس ۔۔۔سفرینا مسکرائی‬

‫اس کے دونوں ہاتھ درخان کی طرف بڑھے‬


‫۔۔۔‬

‫اس سے پہلے کہ سفرینا درخان کو پکڑتی‬


‫۔۔۔درخان نے اپنی دائیں جانب دیکھا تو‬
‫اسے نزدیک ہی پڑی استری نظر آئی۔۔‬

‫درخان نے اسے جلدی سے اٹھا کر سفرینا کے‬


‫منہ پر دے مارا ۔۔۔۔سفرینا کا منہ بائیں‬
‫جانب کو مڑا اور پھر درخان کی طرف ہو‬
‫گیا‬

‫یہ کیا بچوں والی حرکت کر رہے ہو۔۔۔۔بہادر‬


‫بنو بہادر۔۔۔۔سفرینا نے درخان کی آنکھوں‬
‫میں دیکھتے ہوئے کہا‬

‫ہاہا ہاہا ۔۔۔مجھے تمہاری آنکھوں میں ڈر کیو‬


‫ں نظر نہیں آ رہا ہے۔۔۔‬

‫چلو کوئی بات نہیں۔۔۔۔آنسو دیکھ لیے‬


‫ہیں۔۔۔یہی بہت ہے۔۔۔اب چلو مرنے کے لیے‬
‫تیار ہو جاو۔۔۔مجھے سکندر کو بھی جا کر‬
‫مارنا ہے۔۔‬
‫یہ کہہ کر سفرینا نے در خان دائیں ہاتھ‬
‫سےپکڑا ور زور سے جھٹکا دے کر اوپر‬
‫اٹھایا۔۔۔‬

‫تم لوگوں بھوکے ہو نا۔۔۔۔سفرینا نے مڑ کر‬


‫اپنے چیلوں سے کہا تو چیلوں نے عجیب‬
‫آوازمیں جواب دیا۔۔۔‬

‫یہ رہا تمہارا کھانا۔۔۔۔سفرینا نے در خان کو‬


‫اپنے چیلوں کے قریب پھینکا۔۔۔‬

‫اپنے شکار کو سامنے دیکھ کر چیلوں کے‬


‫منہ سے رال ٹپک پڑی تھی۔۔۔وہ بھوکی‬
‫نگاہوں سے در خا ن کو دیکھ کر آگے بڑھنے‬
‫لگے۔۔۔‬

‫رکو۔۔۔سفرینا چالئی‬
‫ایسے نہیں مارنا ہے۔۔۔تم چاروں نے اسے چبا‬
‫چبا کر مارنا ہے اور سب سے پہلے اس کی‬
‫ٹانگیں چبانی ہے ۔۔۔اس کے بعد اس کے ہاتھ‬
‫‪ ،‬پھر گردن سے لے‪  ‬کر سارا جسم چبانا ہے‬
‫۔۔۔سمجھے‬

‫چیلوں نے کچھ کہہ کر ہاں میں گردن ہالئی‬

‫شروع ہو جاو۔۔۔جیسے ہی سفرینا نے‪  ‬یہ‬


‫کہا۔چاروں چیلے بیک وقت در خان کی‬
‫ٹانگوں پر ٹوٹ پڑے۔۔‬

‫ان میں سے دو‪  ‬نے درخان کی ایک ٹانگ کو‬


‫اوپر اٹھا کر‪  ‬دانتوں میں پھنسا لیا اور‬
‫باقی دونوں نے دوسری ٹانگ کو ۔۔اور پھر‬
‫ان کے دانت چلنے لگے۔۔وہ درخان کی‬
‫ٹانگوں کو چبا رہے تھے‬
‫درخان اپنے سر کو دائیں بائیں مار کر تڑپنے‬
‫لگا۔۔۔اس کے منہ خر اہٹ کی آواز تیز ہو‬
‫گئی لیکن چیلوں کے سامنے ان کا پسند ید‬
‫ہ کھانا تھا ۔۔۔وہ کیسے رک سکتے تھے۔۔۔‬

‫کمرے کا فرش اور قالیں خون آلود ہو چکا‬


‫تھا ۔۔۔۔دو طرف کی دیواروں پر خون کے‬
‫بڑے بڑے دھبے بنے ہوئے تھے جو کہ جنید‬
‫اور باقی عورتوں کے تھے۔۔‬

‫چیلے در خا ن کی ٹانگوں کے گوشت کو چبا‬


‫چبا کر اپنے نوکیلے دانتوں سے کھینچ رہے‬
‫تھے۔۔۔اس وقت در خان کی دونوں ٹانگوں‬
‫سے کافی سارا گوشت اتر چکا تھا اور‬
‫سفید سفید ہڈیاں نظر آنے لگی تھی۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی وہ کمر تک پہنچے تو انہیں‬
‫چبانے میں دقت ہو رہی تھی ۔۔۔جس کی‬
‫وجہ سے وہ آپس میں لڑنے لگ گئے۔۔۔‬

‫لڑو‪  ‬نہیں۔۔۔سفرینا غرائی۔۔۔‬

‫اس کی دونوں ٹانگیں الگ کر دو۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی چیلوں نے سفرینا کا حکم سنا۔۔۔‬


‫انہوں نے جوڑی کی شکل میں ٹانگوں کو‬
‫پکڑ لیا ۔۔۔اور پھر ایک جھٹکے کی دیر‬
‫تھی۔۔۔در خان کا جسم سینے تک الگ ہو کر‬
‫تقسیم ہو گیا۔۔۔۔‬

‫در خان کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں ۔۔اس‬


‫کے منہ سے خون کی قطار نکلی۔وہ مر گیا‬
‫تھا لیکن اس کا جسم ابھی بھی‪  ‬تڑپ رہا‬
‫‪ ‬تھا۔۔‬
‫اب چیلے جوڑی کی شکل میں در خان کے‬
‫دونوں حصوں کو سینے تک چبا رہے‬
‫تھے۔۔۔۔۔جبکہ اس کا سینے سے اوپر کا جسم‬
‫ہاتھوں سمیت قریب ہی پڑا ہوا تھا۔‬

‫بس اب ٹانگوں کو چھوڑ دواور باقی جسم‬


‫کو چبانا شروع کرو۔۔۔ہمارے پاس وقت کم‬
‫ہے۔۔۔ہم نے دوسرا شکار بھی پکڑنا ہے۔۔۔‬

‫سفرینا نے حکم دیا تو چیلوں نے در خا ن‬


‫کے نچھلے دھڑ کو چھوڑ کر سینے والے‬
‫حصے کو پکڑ لیا اور پھر در خان کے دونوں‬
‫بازووں کو چبانا شروع کیا۔۔۔‬

‫وہ چاروں پاگل اور خونی کتے کی طرح در‬


‫خان کے جسم کو نوچ رہے‪  ‬تھے۔۔۔چبا رہے‬
‫تھے اور سفرینا اپنے سفاک مسکراہٹ اور‬
‫خون بھری آنکھوں سے در خان کو ادھڑتا‬
‫ہوا دیکھ رہی تھی۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سلیمان سکندر اور سکینہ کو لے کر پہاڑی‬


‫والی جگہ پر اترا تھا۔۔۔جیسے ہی اس کے‬
‫قدم زمین پر پہنچے سکندر سمجھ گیا کہ‬
‫جب تک سفرینا مر نہیں جاتی ہے ۔ ان‬
‫دونوں کو بھی غار میں رکنا ہو گا۔۔۔‬

‫جلدی جلدی چلو۔۔۔۔سلیمان نے سکینہ کو‬


‫مخاطب کیا تھا۔۔۔‬

‫ہمارے باقی دوست خطر ے میں ہیں۔۔۔میں‬


‫نے ان سب کو حصار سلیمانی میں بند تو‬
‫کرلیا ہے لیکن سفرینا جیسی چڑیل کا کوئی‬
‫بھروسہ نہیں ہے ۔۔۔اگر درخان والوں نے‬
‫چھوٹی سی بھی غلطی کر دی تو ان کا‬
‫بچنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔‬

‫جب سکینہ نے یہ سنا تو وہ رک گئی۔۔۔۔‬

‫کیا ہوا۔۔۔۔سلیمان نے پیچھے مڑ کر پوچھا‬

‫مجھے واپس جانا ہے۔۔۔۔۔سکینہ روہانسے‬


‫انداز میں بولی‬

‫کیا۔۔۔۔۔سلیمان حیرت سے بوال‬

‫سکندر بھی سکینہ کی بات سن کر چونکا‬


‫تھا۔۔‬

‫مجھے امی کے پاس جانا ہے ۔۔۔۔۔سکینہ رو‬


‫نے لگی ۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک‬
‫ٹپک کر چہرے سے ہوتے پر زمین پر گر رہے‬
‫تھے۔‬
‫سلیما ن بھی موقع کی نزاکت کو سمجھ‬
‫گیا۔۔۔‬

‫بہن اس وقت حاالت بہت خراب ہیں۔۔۔۔‬


‫تمہارا‪  ‬وہاں جانا بلکل بھی ٹھیک نہیں‬
‫ہے۔۔۔۔میں نے کہا نا۔۔میں ان سب کو حصار‬
‫میں بند کر آیا ہوں۔۔وہ چڑیل اس حصار‬
‫میں داخل نہیں ہو سکتی ہے۔۔۔سلیمان نے‬
‫سکینہ کو اچانک سے سینے سے لگا لیا‬

‫لیکن بھائی۔۔۔اگر انہیں کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔۔۔۔‬


‫سکینہ نے روتے ہوئے کہا‬

‫کچھ نہیں ہوگا بہن۔۔۔۔اہلل پر بھروسہ‬


‫رکھو۔۔۔سلیمان نے سکینہ کے کندھے کو‬
‫تھپکاتے ہوئے کہا‬
‫تو آپ ابھی جائیں اور ان سب کو لے آئیں۔۔۔‬
‫سکینہ نے سلیمان کے کندھے سے الگ ہو کر‬
‫کہا‬

‫وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ تم‪  ‬لوگ جلدی‬


‫جلدی چلو۔۔۔میں تمہیں غار میں چھپا کر‬
‫دوبارہ سے وہیں جاوں گا اور پھر سب کو‬
‫لے آوں گا۔۔۔سلیمان نے دالسہ دیتے ہوئے کہا‬
‫تو سکینہ خاموش ہو گئی۔۔۔‬

‫اچھا پھر چلیں جلدی سے۔۔یہ کہہ کر‬


‫سکینہ آگے بڑھی ۔۔۔سلیمان اور سکندر بھی‬
‫اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے تھے۔۔‬

‫چند قدم کی دور ی پر انہیں غار کا دھانہ‬


‫نظر آ گیا۔۔۔‬

‫یہی غار ہے نا۔۔سکینہ نے مڑ کر پوچھا‬


‫ہاں۔۔چلو اندر۔۔۔سلیمان نے کہا تو سکینہ نے‬
‫لمبے لمبے قدم اٹھائے اور غار میں داخل ہو‬
‫گئی۔۔۔‬

‫ابھی وہ چند قدم ہی آگے گئی کہ غار میں‬


‫اندھیرا ہو گیا۔۔۔‬

‫یہاں تو کچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہے۔۔سکینہ‬


‫نے مڑ کر کہا ۔۔۔‬

‫ابھی نظر آ جائے گا۔۔سلیمان نے سکینہ نے‬


‫نزدیک پہنچ کر کہا۔۔‬

‫اس نے کچھ پڑھا تو اچانک سے غار روشن‬


‫ہو گئی۔۔اور سامنے کا رستہ واضح ہو گیا۔۔۔‬

‫غار میں روشنی دیکھ کر سکینہ نے دوبارہ‬


‫سے آگے بڑھنا شروع کیا۔۔اس دوران سکندر‬
‫نے کچھ بھی بات نہیں کی تھی۔۔ایک تو‬
‫اسے ان سب کی سمجھ نہیں آ رہی تھی‬
‫اور دوسرا سلیمان نے بھی اسے زیادہ باتیں‬
‫کرنے سے منع کیا ہوا تھا۔۔۔اس لیے وہ بس‬
‫خاموش ہو کر سب کو سن رہا تھا۔‬

‫جیسے ہی غار کے آخری سرے پر پہنچے تو‬


‫سامنے غار بند نظر آ گئی۔۔۔‬

‫ہم نے یہاں رکنا ہے۔۔۔سکینہ نے کہا ۔۔‬

‫بلکل ۔۔۔اچھا سکندر ۔۔۔اب میں تم دونوں کو‬


‫یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔۔۔بلکہ اس پوری‬
‫غار کو حصار سلیمانی میں بند کر کے جا‬
‫رہا ہوں۔۔۔لیکن تم نے پھر بھی اپنے اور‬
‫سکینہ کے گرد حصار بنا لینا ہے۔۔۔‬

‫اور ہاں۔۔۔سفرینا کا نام بلکل بھی نہیں لینا‬


‫ہے۔۔۔سمجھے۔۔۔سلیمان بوال‬
‫جی ۔۔۔سمجھ گیا ۔۔۔۔سکندر نے مختصر‬
‫جواب دیا‬

‫ٹھیک ہے ۔۔۔میں جا رہا ہوں۔۔۔یہ کہہ کر‬


‫سلیمان وہیں کھڑے کھڑے غائب ہو گیا‬

‫سلیمان کے جانے کے سکندر اور سکینہ‬


‫دونوں کھڑے رہے۔۔۔وہ دونوں ہی کسی‬
‫سوچ میں گم تھے ۔۔۔لیکن پھر سکندر ہو ش‬
‫کی دنیا میں آیا۔۔۔‬

‫آئیں ۔۔۔یہاں بیٹھ کر انتظار کرتے ہیں۔۔۔‬


‫سکندر نے غار کی ابھر ی ہوئی جگہ کی‬
‫طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔‬

‫آپ بیٹھ جائیں۔۔۔میں یہیں کھڑے ہو کر‬


‫سلیمان بھائی کا انتظار کروں گی۔۔۔سکینہ‬
‫نے بے چینی سے کہا‬
‫یہ بات سن کر سکندر نے کچھ نہیں کہا۔۔وہ‬
‫کھڑا سوچتا رہا کہ بیٹھ جائے یا کھڑا رہے۔۔۔‬
‫اور پھر وہ بھی کھڑا ہی رہا۔۔‬

‫آپ نہیں بیٹھیں گے۔۔۔سکینہ نے سکندر کو‬


‫کھڑے دیکھا تو پوچھا‬

‫مجھے مناسب نہیں لگ رہا کہ میں بیٹھ‬


‫جاوں اور آپ کھڑی رہیں۔۔اس لیے میں بھی‬
‫یہیں ٹھیک ہوں۔۔۔‬

‫آپ پریشان نہ ہوں ۔۔۔مجھے بلکل بھی برا‬


‫نہیں لگے گا۔۔۔آپ بے فکر ہو کر بیٹھ‬
‫جائیں۔۔۔سکینہ بولی‬

‫نہیں نہیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔سکندر نے کہا‬

‫سلیمان بھائی کب تک آجائیں گے۔۔۔‬


‫کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد سکینہ نے‬
‫پوچھا‬

‫میرے خیال میں تو جلدی ہی آ جائیں گے‬


‫۔۔۔لیکن کیا کہہ سکتے ہیں۔۔وہاں لوگ زیادہ‬
‫ہیں۔۔۔شاید اس لیے دیر ہو رہی ہو گی۔۔۔‬
‫سکندر نے سکینہ کو مطمئن کرنے کے لیے‬
‫ایسا بوال کیونکہ کوئی جواب نہیں سوجھ‬
‫رہا تھا۔‬

‫اہلل کرے سارے گھر والے خیریت سے ہوں‬


‫۔۔۔میرا تو دل ہی ڈوبا جارہا ہے۔۔سکینہ نے‬
‫پریشان لہجے میں کہا‬

‫اہلل خیر ہی کرے گا۔۔۔آپ بلکل بھی پریشان‬


‫نہ ہوں۔۔۔اور اب تو سلیمان بھی انہیں لینے‬
‫گئے ہوئے ہیں نا۔۔۔تو جلد ہی واپس آ جائیں‬
‫گے‬

‫سکندر نے تسلی دیتے ہوئےکہا‬

‫اہلل کرے ۔۔۔۔سکینہ نے دعائیہ اندازمیں ہاتھ‬


‫اٹھاے اور زیر لب کچھ پڑھنے لگی۔۔۔‬

‫سکندر اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا۔۔۔‬

‫کچھ دیر بعد سکینہ نے اپنے دونوں ہاتھ‬


‫چہرے پر پھیر دیے۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫چیلوں نے درخان کے پورے جسم کو چبا‬


‫چبا کر ادھیڑ دیا تھا۔۔‬

‫اس وقت در خان کے نہ تو چہرے کی‬


‫سمجھ آ رہی تھی اور نہ ہی جسم کی۔۔۔اس‬
‫کے جسم کے تمام حصوں پر گہرے سوراخ‬
‫تھے۔۔۔جو چیلوں کے دانتوں کے تھے۔۔۔‬

‫اس کی گردن الگ کر دو۔۔۔اب‪  ‬ہم یہاں سے‬


‫‪ ‬جائیں گے۔۔سفرینا نے کہا‬

‫تو دو چیلوں نے آگے بڑھ کر در خان کے سر‬


‫کو پکڑا۔۔۔اور پھر ادھڑے ہو ئے بازووں کو‬
‫اپنے پیروں کے نیچے پھنسا کر زور لگا یا تو‬
‫درخا ن کی گردن اس کے باقی رہ جانے‬
‫والے دھڑ سے الگ ہو گئی۔۔۔۔‬

‫مجھے دو۔۔۔۔سفرینا نے کہا تو ہاتھ میں‬


‫پکڑے در خان کے سر کو چیلے نے سفرینا نے‬
‫طرف بڑھا دیا۔۔۔۔‬

‫یہ میں اپنے ساتھ لے جاوں گی۔۔۔۔۔ہا ہا ہاہا‬

‫یہ کہہ کر سفرینا نے قہقہ لگایا۔۔‬


‫ہم چل رہے ہیں۔۔۔سفرینا نے یہ کہہ کر کچھ‬
‫پڑھا اور پھر بجلی بن گئی۔۔۔‬

‫بجلی گھر سے نکل کر آسمان کی طرف گئی‬


‫اور پھر ہوا میں رک کر گھر کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔صحن میں اسے نبیلہ کی خون میں‬
‫لت پت الش نظر آ رہی تھی۔۔۔‬

‫یہ تو ابھی شروعات ہے سکندر۔۔۔اب تم‬


‫دیکھو کہ سفرینا جب جان لینے پر آتی ہے‬
‫تو کیا کیا کرتی ہے۔۔۔ہاہاہا ۔۔۔سفرینا قہقہے‬
‫لگائی جا رہی تھی۔۔۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن‬
‫نصیرسفرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪39‬از ابن نصیر‬

‫سفرینا آسمان میں بجلی بنے کبھی گھر کی‬


‫طرف دیکھتی تو کبھی آسمان کی چاروں‬
‫طرف دیکھتی۔۔۔وہ کسی کا انتظار کر رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫ابھی اسے چند منٹ ہی نہیں گزرے کہ دور‬


‫فضا میں کسی وجود کو اپنی طرف آتے‬
‫دیکھا لیکن شاید اس نے بھی سفرینا کو‬
‫بجلی کی صور ت میں دیکھ لیا تھا۔۔‬

‫کیونکہ اس نے اپنا رخ تبدیل کر لیا تھا۔۔۔‬

‫اس نے سفرینا سے کنارے کر کے دائیں‬


‫طرف اپنا رخ کر لیا تھا‬
‫یہ پکڑو۔۔۔یہ کہہ کر سفرینا نے در خا ن کا‬
‫سر اپنے چیلے کی طرف اچاال جس پکڑ لیا‬
‫‪ ‬گیا تھا‬

‫دیکھتی ہوں تم کہاں تک بھاگ سکتے‬


‫ہو۔۔۔۔۔سفرینا اپنی سفاک اور خون سے‬
‫بھری آنکھوں سے مسکرائی‬

‫اس نے اپنا رخ اس اڑتے وجود کی طرف‬


‫کیا اور پھر اس کے پیچھے اڑنے لگی۔۔۔‬

‫وہ وجود سفرینا سے زیادہ دور‪  ‬نہیں تھا۔۔۔‬


‫سفرینا نے اپنی رفتار بڑھائی ہوئی تھی۔۔‬
‫اس لیے وہ جلد ہی اس کے قریب پہنچی۔۔۔‬

‫اس‪  ‬کے پیچھے اڑتے ہوئے سفرینا نے بجلی‬


‫سے اپنی صورت تبدیل کی اور انسانی‬
‫شکل میں ہی اڑنے لگی۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی سفرینا اس وجود کے قریب‬
‫پہنچی ۔۔۔اس نے اپنا ہاتھ آگے کی طرف کر‬
‫لیا ۔۔۔‬

‫وہ اسے روکنے کے لیے چوٹ پہنچانے والی‬


‫تھی۔۔۔۔‬

‫لیکن آگے اڑتے ہوئے وجود نے اسے دیکھ لیا‬


‫۔۔کیونکہ جیسے ہی سفرینا کا ہاتھ اس کی‬
‫طرف بڑھا ۔۔۔وہ فضا میں ہی رک گیا۔۔۔‬

‫رکو۔۔۔۔اڑتے وجود نے سفرینا کی طرف مڑ‬


‫کر کہا‬

‫تو تم ہو وہ جن ۔۔۔جو سکندر کی مدد کر‬


‫رہا ہے۔۔۔۔سفرینا نے سامنے فضا میں معلق‬
‫‪ ‬جن سے کہا‬
‫کون سکندر۔۔۔میں کسی سکندر کو نہیں‬
‫جانتا۔۔۔۔۔‬

‫ہاہاہاہا۔۔۔۔۔اتنی جلدی تمہاری یاداشت ہی‬


‫چلے گی۔۔۔۔لیکن کوئی بات نہیں۔۔ تم چاہے‬
‫جتنا بھی اس احسان فراموش کو چھپا‬
‫لو۔۔۔میں جلد ہی اس کو پکڑ لوں گی اور‬
‫اسے عبرتناک سزا دوں گی۔۔۔سفرینا نے‬
‫ہنستے ہوئے کہا‬

‫دیکھو میں‪  ‬نے تمہیں بتایا کہ میں کسی‬


‫سکندر کو نہیں جانتا ۔۔۔اس لیے میرا پیچھا‬
‫نہ کرو۔۔۔۔نہیں تو۔۔۔جن بوال‬

‫ہمم۔۔۔تو تم کسی سکندر کو نہیں جانتے ۔۔۔۔۔‬


‫ہاہاہا۔۔۔۔۔اچھا تم نے مجھے دیکھ کر رستہ‬
‫کیوں تبدیل کر لیا۔۔۔؟‬
‫کیونکہ میں تمہارے منہ نہیں لگنا چاہتا‬
‫تھا۔۔۔۔اس لیے میں سائیڈ ہو کرگزر گیا۔۔۔‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔تم باتیں بڑی اچھی بنا لیتے ہو۔۔۔چلو‬


‫کوئی بات نہیں۔۔۔اب سے کوئی بھی تمہاری‬
‫باتیں نہیں سن سکے گا۔۔۔میں نے تمہیں ایک‬
‫دفعہ پہلے بھی کہا تھا کہ میرے رستے میں‬
‫مت آنا لیکن تم باز نہیں آئے ۔۔اس کے بعد‬
‫جب سکندر جاپ کررہا تھا تو تم وہاں بھی‬
‫اس کی مدد کو آ گئے۔۔۔۔۔اور اب اسے چھپا‬
‫لیا ہے۔۔۔۔۔۔ سفرینا بولی‬

‫سامنے کھڑا جن شاطر تھا جو یہاں سے گزر‬


‫رہا تھا اور پھر سفرینا کی نظروں میں‬
‫آگیا۔۔۔‬
‫سفرینا اس سے سکندر کا پوچھ رہی تھی‬
‫۔۔۔۔لیکن شاطر نے اس واقعہ کے بعد پھر‬
‫کبھی نہ سکندر کے پیچھے گیا تھا اور نہ‬
‫ہی اس کی کوئی خبر لی تھی۔۔۔‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔۔۔کیا ہوا۔۔۔آواز کیوں بند ہو گئی‬


‫تمہاری۔۔۔۔سفرینا نے قہقہ لگایا۔۔۔وہ‬
‫سمجھی کہ شاطر کا جھوٹ اب پکڑا گیا ہے‬
‫۔۔۔اس لیے وہ جواب نہیں دے رہا ہے۔۔۔‬

‫دیکھو۔۔۔مجھ سکندر کا کچھ بھی معلوم‬


‫نہیں ہے۔۔۔ہاں ایک دفعہ میں غلطی سے‬
‫تمہارے پیچھے آیا تھا ۔۔اور اس کے بعد‬
‫سکندر کی مدد کو بھی آیا تھا لیکن اس کے‬
‫بعد مجھے شاہ جنات کے بیٹے‪  ‬کی طرف‬
‫سے حکم مال تھا کہ میں تمہارے رستے میں‬
‫نہ آوں۔۔اس لیے اس کے بعد نہ ہی کبھی‬
‫میں نے سکندر کی معلومات رکھی اور نہ‬
‫تمہارا پیچھا کیا۔۔۔آج میں کسی کام سے جا‬
‫رہا تھا اس لیے ادھر سے گزرا۔۔۔یہ سارا سچ‬
‫ہے ۔۔۔‬

‫شاطر نے کہا‬

‫ہمم۔۔۔۔اس کا مطلب تم سکندر کا نہیں‬


‫بتاوگے۔۔۔۔۔سفرینا نے شاطر کو گہری نگاہ‬
‫سے دیکھا‬

‫تمہیں یقین نہیں آ رہا ہے نا۔۔۔رکو ۔۔۔میں‬


‫ابھی سکندر کا معلوم کرکے تمہیں بتاتا‬
‫ہوں۔۔۔۔شاطر نےسفرینا کو کہا لیکن سفرینا‬
‫نے کوئی بات نہیں کہی تو شاطر نے اپنی‬
‫آنکھیں بند کرکے سکندر کے چہرے کو‬
‫تصور میں الیا۔۔۔‬

‫شاطر کے دماغ میں کاال اندھیرا تھا۔۔۔۔اسے‬


‫سکندر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔‬

‫وہ کہیں چھپا ہوا ہے۔۔۔اور خود کو حصار‬


‫میں بند کر لیا ہے۔۔۔اس لیے مجھے نظر نہیں‬
‫آ رہا ہے۔۔۔شاطر نے آنکھیں کھول کر دیکھا‬

‫بس تمہارا ڈرامہ‪  ‬ختم ہو گیا۔۔۔۔اب تم مرنے‬


‫والے ہو۔۔۔۔سفرینا نے غرا کر کہا۔۔۔وہ فضا‬
‫میں ہی چڑیل کی شکل میں آگئی‬

‫ٹھیک ہے پھر ایسا ہی سہی۔۔۔۔۔یہ کہنے کے‬


‫بعد شاطر کے لب ہلنا شروع ہو گئے‪  ‬اور‬
‫پھر و ہ اپنی اصل صورت میں آ گیا۔۔۔‬
‫ایک وحشی شکل کا انسان نما جن سامنے‬
‫فضا میں کھڑا ہوا تھا۔۔۔جس کے سر پر لمبے‬
‫لمبے دو سینگ اور بڑے بڑے کان تھے۔۔جسم‬
‫پر کسی جگہ بال تھے تو کہیں پر نہیں تھے‬
‫۔۔لمبے لمبے ہاتھوں میں نوکیلی انگلیاں‪  ‬جو‬
‫سفرینا کو چیر پھاڑ کرنے کے لیے بیتابی‬
‫سے حرکت کر رہی تھی۔‬

‫شاطر‪  ‬خون سے بھری نگاہوں سے سفرینا‬


‫کی‪  ‬طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔‬

‫شاطر اگر چاہتا تو شہزادہ طرطوش کو‬


‫سفرینا کی خبر دے سکتا تھا لیکن وہ اس‬
‫بات کو اپنی توہین سمجھ رہا تھا۔۔۔ویسے‬
‫بھی اس نے سفرینا‪  ‬سے اپنا پرانا بدلہ لینا‬
‫تھا۔۔۔‬
‫سفرینا کے لب ہلتے دیکھ کر شاطر بھی‬
‫اپنی جگہ پر ہوشیار کھڑا ہو گیا۔۔۔وہ چاہتا‬
‫تو خود کو غائب رکھ کر سفرینا کو مار‬
‫سکتا تھا ۔۔لیکن اس نے ایک غلطی کی تھی‬
‫کہ اب تک اس نے حصار سلیمانی نہیں‬
‫سیکھا تھا۔۔۔اب اگر وہ خود کو غائب کرتا‬
‫ہے تو سفرینا نے چاروں طرف آگ لگا کر‬
‫اسے‪  ‬نقصان پہنچانا ہے ۔۔اس لیے شاطر نے‬
‫سوچ لیا کہ وہ سامنے رہ کر مقابلہ کرے‬
‫گا۔۔۔‬

‫سفرینا نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف‬


‫کر لیے تھے۔۔۔۔اور پھر اس نے اپنا ایک ہاتھ‬
‫شاطر کی طرف کرکے جھٹکا دیا۔۔اس کا‬
‫دوسرا ہاتھ ابھی بھی آسمان کی طرف‬
‫تھا۔۔۔‬
‫جیسے ہی سفرینا کے ہاتھ نے جھٹکا‬
‫کھایا۔۔۔۔آسمان پر گڑگڑاہٹ کی آواز‬
‫گونجی۔۔۔‬

‫شاطر نے منہ اٹھا کر دیکھا تو آسمان پر‬


‫اسے دس کے قریب‪  ‬وحشی کتے نظر آئے ۔۔۔‬
‫جن کی بڑی بڑی آنکھویں‪  ‬خون سے الل‬
‫تھے ۔۔۔ اور وہ اپنے رال ٹپکاتے دانتوں کے‬
‫ساتھ بھونکتے ہوئے آسمان سے نیچے اتر‬
‫رہے تھے۔۔۔۔۔‬

‫شاطر نے ایک نظر سفرینا کو دیکھا۔۔۔۔‬

‫بس یہی تمہاری‪  ‬طاقت ہے ۔۔۔شاطر طنزیہ‬


‫لہجے میں مسکرایا ۔۔۔‬

‫اس نے زیر لب کچھ پڑھا اور کتوں کی‬


‫طرف منہ کر پھونک ماری‬
‫ابھی اس کے منہ سے پھونک ہی نکلی کہ‬
‫اس کے منہ پر کوئی بھاری سی چیز آ‬
‫لگی۔۔۔‬

‫شاطر فضا میں قالبازیاں کھاتے ہوئے زمین‬


‫پر گر رہا تھا۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے اس پر دو طرف سے حملہ کیا‬


‫تھا ۔۔۔‬

‫شاطر نے ایک طرف کے حملے کو تو دیکھ‬


‫لیا لیکن دوسری طرف نہ دیکھ سکا۔۔۔جس‬
‫کی وجہ سے سفرینا کو موقع مل گیا‪  ‬اور‬
‫اس نے حملہ کر دیا‬

‫شاطر جیسے ہی زمین پر گرا۔۔۔۔سفرینا نے‬


‫بھی اپنے پیر زمین پر رکھ دیے۔۔۔‬
‫وہ اب شاطر کو بلکل بھی موقع نہیں دینا‬
‫چاہتی تھی بلکہ اب سے وہ اپنے کسی بھی‬
‫دشمن کو دوسرا موقع نہیں دینا چاہتی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫شاطر کو جسمانی طور پر کافی چوٹیں لگ‬


‫گئی تھیں اور کچھ جگہوں سے خون بھی‬
‫بہنے لگا تھا۔۔۔لیکن اس نے زخموں کی پرواہ‬
‫نہ کرتے ہوئے ساری قوت کو یکجا کیا اور‬
‫اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔‬

‫سیدھا ہو کر اس نے آسمان سے آتے کتوں‬


‫کی طرف نظر ڈالی تو انہیں بہت ہی قریب‬
‫ہی پایا۔۔۔۔جو بھونکتے اور غراتے ہوئے‬
‫شاطر کی طرف آ رہے تھے۔۔۔‬
‫اب دیکھتا ہوں تم مجھ سے کیسے بچتی‬
‫ہو۔۔۔۔مکار چڑیل۔۔۔۔شاطر چالیا۔۔۔۔‬

‫سفرینا‪  ‬اسے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔۔۔‬


‫کیونکہ وہ سمجھ گئی کہ شاطر اس کےلیے‬
‫آسان شکار ہے ۔۔۔۔اور اسے مارنے کے لیے‬
‫سفرینا کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے‬
‫گی۔۔۔‬

‫شاطر کے لب دوبارہ سے ہل رہے تھے ۔۔۔‬

‫سفرینا نے جب دیکھا کہ شاطر اس پر حملہ‬


‫کرنے واال ہے تو اس نے بھی زیر لب پڑھنا‬
‫شروع کیا۔‬

‫دونوں ایک دوسرے کی طاقت کو آنکھوں‬


‫تول رہے تھے۔۔۔۔‬
‫سفرینا نے پڑھنا بند کیا اور شاطر کی طرف‬
‫کر مسکرائی۔۔۔۔اور پھر اس نے اپنے دونوں‬
‫ہاتھ آسمان کی طرف کرکے دونوں ہاتھوں‬
‫کو جھٹکا دیا۔‬

‫آسمان سے تیروں کی بارش شروع ہو گئی‬


‫اور تیر ہوا میں تیرتے ہوئے شاطر کی طرف‬
‫آ رہے تھے۔۔۔۔۔‬

‫شاطر نے پڑھنا بند کیا۔۔۔اور کچھ سوچ کر‬


‫دوبارہ سے پڑھ کر آسمان کی طرف پھونک‬
‫ماری۔۔۔‬

‫شاطر کے سر کے‪  ‬اوپر ایک بادلوں کی‪ ‬‬


‫ڈھال بن گئی جس نے شاطر کو اپنے نیچے‬
‫چھپا لیا تھا۔۔۔تیر بادلوں میں لگ کر‬
‫پھنستے جا رہے تھے لیکن جو تیر بادل کے‬
‫ارد گرد سے گزر ے تھے وہ ٹھوس زمین‬
‫پیوست ہو گئے۔۔۔‬

‫چند لمحوں میں شاطر کے گرد زمیں کا‬


‫کوئی ایسا ٹکڑا نہیں بچا تھا جہاں پر زمیں‬
‫نظر آ رہی تھی۔۔۔اس کے چاروں طرف تیر‬
‫زمیں میں گڑھے ہوئے تھے۔۔‬

‫میرا تم سے کوئی مقابلہ نہیں ہے ۔۔۔میں نے‬


‫تمہیں کہا ہے کہ میں سکندر کے بارے میں‬
‫کچھ نہیں جانتا ۔۔بہتر ہے کہ تم چلی‬
‫جاو۔۔۔ایسا نہ ہو کہ تم میرے ہاتھوں اپنی‬
‫جان گنوا دو۔۔۔۔‬

‫شاطر نے سفرینا کی طرف دیکھ کر کہا‬

‫لیکن سفرینا نے کوئی بات نہین کی۔۔۔۔وہ‬


‫شاطر کو دیکھ کر مسکرائے جا رہی تھی۔‬
‫جب سفرینا نے دیکھ کہ اس کا حملہ ناکام‬
‫ہو چکا ہے تو اس نے کچھ پڑھ کر آسمان‬
‫کی جانب ہاتھ بڑھا کر جھٹکا دیا تو تیروں‬
‫کی بارش رک گئی۔۔‬

‫اب میری باری ہے۔۔۔۔شاطر بوال‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔ٹھیک ہے تم بھی شوق پورا کر لو۔۔۔‬


‫ایسا نہ ہو‪  ‬تم مرنے کے بعد افسوس کرتے‬
‫رہو ۔۔کہ سفرینا نے تمہیں موقع نہیں دیا ۔۔‬

‫سفرینا نے قہقہ لگا کر کہا‬

‫تو پھر تیار رہو۔۔۔۔۔یہ کہہ کر شاطر سفرینا‬


‫کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔شاید وہ اگلے حملے‬
‫کی نوعیت کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‬

‫اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری ۔۔۔‬


‫شاطر دوبارہ سے کچھ پڑھ رہا تھا۔۔۔۔‬

‫اچانک سے دو خوفناک شکل کے جن شاطر‬


‫کے سامنے ظاہر ہو گئے۔۔۔جو ہاتھ باندھ کر‬
‫کھڑئے ہوئے تھے‬

‫مار دو اسے۔۔۔جیسے ہی شاطر نے‪  ‬سفرینا‬


‫‪ ‬کی طرف انگلی کرکے جنوں کو حکم دیا‬

‫دونوں جن دوڑتے ہوئے سفرینا کی طرف‬


‫بڑھنے لگے۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے ان دونوں کو اپنی طرف آتا‬


‫دیکھ کر کچھ پڑھا اور اپنا ایک ہاتھ ان کی‬
‫طرف کرکے جھٹکا دیا۔۔۔‬

‫اس کے ہاتھ سے آگ کی لہر نکلی تھی جو‬


‫دونوں جنوں کے جسموں سے جا ٹکرائی۔۔۔۔‬
‫ان دونوں کو آگ نے پکڑ لیا تھا۔۔اور وہ‬
‫چالتے ہوئے پیچھے کی طرف بھاگنے لگے۔۔۔‬

‫شاطر اپنا حملہ ناکام ہوتا اور جنوں کو‬


‫ایسے جلتا ہوا دیکھ کر تھوڑا سا پریشان‬
‫ہوگیا تھا۔۔۔‬

‫اب تمہارا وقت ختم ہوا۔۔۔۔۔سفرینا نے غصے‬


‫میں کہا‬

‫پکڑو اسے۔۔۔۔اور منہ بھی بند کر دو۔۔۔سفرینا‬


‫نے جیسے یہی یہ کہا ۔۔اس کے چیلوں‬
‫نےآگے بڑھ کر شاطر کو بازوں‪  ‬اور گردن‬
‫سے پکڑ لیا۔۔۔۔‬

‫جہنم میں جاو۔۔۔یہ کہہ سفرینا نے اپنے‬


‫دونوں ہاتھ آسمان کی طرف کردیے۔۔۔وہ‬
‫کچھ پڑھ رہی تھی۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی اس نے پڑھنا ختم کیا۔۔۔وہ شاطر‬
‫کو دیکھ کر مسکرائی۔۔اور پھر دونوں ہاتھ‬
‫زمین پر گرا دیے۔۔۔۔‬

‫اچانک سے زمین پر ہر طرف آگ بھڑک‬


‫اٹھی۔۔جس نے شاطر کو اپنے اندر سما لیا‬
‫تھا۔۔۔۔‬

‫سفرینا شاطر کو جلتا ہوا دیکھ رہی تھی۔۔۔‬


‫جو چیلوں کے ہاتھوں میں پھنسا پھڑ پھڑا‬
‫رہا تھا۔۔۔۔اس کا منہ چیلوں نے بند کر رکھا‬
‫تھا جس کی وجہ سے کچھ بھی نہیں پڑھ‬
‫سکتا تھا۔۔۔‬

‫آگ شاطر کو جالتی جا رہی تھی۔۔اس کے‬


‫چہرے اور جسم کا گوشت دھڑا دھڑ جل کر‬
‫زمین پر گر رہا تھا ۔۔۔لیکن سفرینا نے اب‬
‫اسے کوئی موقع نہیں دینا تھا۔۔۔۔جب تک‬
‫وہ سکندر کو نہیں مار لیتی ۔۔۔اس کے‬
‫رستے میں جو بھی آئے گا۔۔۔وہ اسے مار دے‬
‫گی ۔۔۔‬

‫اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شاطر کی‬


‫مزاحمت کمزور ہوتی گئی ۔۔۔۔ اس کا جسم‬
‫کمزور ہو کر چیلوں کے ہاتھوں میں ڈھلک‬
‫گیا۔۔۔‬

‫شاطر کا جسم گوشت سے آزاد ہو چکا‬


‫تھا۔۔۔بس کہیں کہیں گوشت کے ٹکڑے‬
‫چپکے ہوئے تھے‪  ‬باقی ہر جگہ سے سفید‬
‫ہڈیاں جھلک رہی تھیں۔۔‬

‫چیلوں نے شاطر کے ڈھانچے کو اپنے‬


‫بازووں کی گرفت سے آزاد کیا تو وہ زمین‬
‫پر گر گیا۔۔۔۔۔‬

‫سفرینا نے دوبارہ سے پڑھ کر اپنے ہاتھوں‬


‫کو آسمان کی طرف جھٹکا دیا۔۔۔تو آگ‬
‫غائب ہو گی۔‬

‫ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔سفرینا کے قہقہے بلند سے بلند‬


‫ہوتے جا رہے تھے‬

‫وہ سر مجھے دو۔۔۔۔سفرینا نے درخان کے سر‬


‫کے بارے میں چیلوں سے کہا تو ہوا میں‬
‫درخان کا سر سفرینا کے سامنے ظاہر ہو‬
‫گیا۔۔۔‬

‫سکندر مجھے مل جائے تو میں اس کو یہ‬


‫تحفہ دوں۔۔۔ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سلیمان جب گھر کے صحن میں اترا تو پہلے‬
‫اسے نبیلہ کی خون سے لت پت الش نظر‬
‫آئی۔۔۔سلیمان کا تو جیسے دل ہی دھڑکنا‬
‫بھول گیا۔۔۔وہ سمجھ گیا کہ سفرینا اپنا کام‬
‫کر گئی ہے۔۔۔کسی نے غلطی کی ہوگی اور‬
‫سفریناکو کمرے کے اندر جانے کا رستہ مل‬
‫گیا ہو گا جس کی وجہ سے اس نے سارو ں‬
‫کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔۔‬

‫درخان۔۔۔اچانک سلیمان کے دماغ میں اپنے‬


‫دوست کا نام گونجا۔۔۔۔‬

‫وہ دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔۔۔لیکن یہ‬


‫کیا۔۔۔کمرے میں ہر جگہ انسانی خون اور‬
‫گوشت کے لوتھڑے پڑے ہوئے تھے۔۔۔‬
‫کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان میں‬
‫کون کونسا ہے۔۔بس گوشت کے اوپر لباس‬
‫کے ٹکڑوں سے یہ معلوم ہو رہا تھا یہ کون‬
‫ہے۔۔۔‬

‫اور پھر‪  ‬سلیمان کو کمرے میں تین ٹکڑوں‬


‫میں پڑی درخان کی الش نظر آ گئی۔۔۔جس‬
‫کی دونوں ٹانگیں الگ الگ تھی اور سینے‬
‫واال حصہ الگ پڑا ہوا تھا۔۔‬

‫پورے کمرے میں خون کی بو پھیلی ہوئی‬


‫تھی۔۔۔۔‬

‫سفرینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سلیمان چالیا‬

‫وہ چیختا ہوا کمرے سے باہر نکال‪  ‬اور پھر‬


‫غائب ہو کر آسمان کی طرف چال گیا۔۔۔فضا‬
‫میں پہنچ کر اس نے چاروں طرف نظر‬
‫دوڑائی لیکن دور دور تک اسے سفرینا نظر‬
‫نہیں آئی۔۔۔۔‬

‫سلیمان کا چہرہ غضب ناک ہو چکا تھا۔۔۔۔‬


‫ایک ایک کرکے اس کے سامنے سارے پچھلے‬
‫منظر چل رہے تھے۔۔۔۔وہ سکینہ اور سکندر‬
‫کو کیا جواب دے گا۔۔۔‬

‫اپنے قبیلے پر تو پھر بھی اسےصبر آ گیا تھا‬


‫لیکن جب سکینہ کو وہ بتائے گا کہ گھر کے‬
‫سارے فرد اور اس کی امی مر گئی ہے ۔۔تو‬
‫وہ کیا کرے گی۔۔۔وہ تو پاگل ہو جائے گی۔۔۔۔‬

‫جب چاروں طرف بھی اسے کچھ نظر نہیں‬


‫آیا تو بےو جہ ادھر ادھر جا کر دیکھنے لگا‬
‫کہ شاید کہیں وہ نظر آ جائے۔۔۔‬
‫سفرینا تو اسے نظر نہیں آئی لیکن اسے گھر‬
‫سے تھوڑا دور ایک ڈھانچہ‪  ‬زمین پر نظر آ‬
‫گیا سلیمان نے نیچے اتر کر دیکھا تو یہ‬
‫ڈھانچہ کسی جن کا تھا کیونکہ یہ انسانی‬
‫آنکھ سے اوجھل تھا۔۔اور اسکےجسم سے‬
‫سارا گوشت اترا ہوا تھا۔۔۔۔‬

‫یہ ابھی بھی نزدیک ہے ۔۔۔سلیمان نے سوچا‬


‫اور پھر فضا میں اڑ کر ادھر ادھر جا کر‬
‫دیکھنے لگا۔۔۔لیکن کافی دور تک دیکھنے کے‬
‫بعد اسے کہیں بھی سفرینا کا نام و نشان‬
‫نہیں مال۔۔۔آخر مایوس ہو کر وہ ایک درخت‬
‫پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔۔۔۔‬

‫اس کے دماغ میں بہت ساری سوچیں چل‬


‫رہی تھیں۔۔۔اپنے دوست کو کھو دینے کی۔۔۔‬
‫سکینہ کی ماں اور جنید کے گھر والوں کو‬
‫کھو دینے کی۔۔۔‬

‫جب اس کا دماغ سوچ سوچ کر ماوف ہونے‬


‫لگا تو وہ درخت سے اتر کر زمیں پر کھڑا ہو‬
‫گیا اور درخت کو بازووں میں بھر کر زور‬
‫مارنے لگا۔۔۔‬

‫درخت اپنی جگہ سے ہل رہا تھا اور سلیمان‬


‫کی چیخیں بلند سے بلند ہو رہی تھی۔۔۔اور‬
‫پھر درخت زمین سے نکل کر سلیمان کے‬
‫بازووں میں آگیا۔۔جسے سلیمان نے چیخ مار‬
‫کر دور پھینک دیا تھا۔۔۔وہ لمبے لمبے سانس‬
‫لے رہا تھا۔۔۔‬

‫انسان ‪ ،‬جنوں اور شیطانوں کے درمیاں ایک‬


‫خطرناک اور چاالکیوں میں گھری سکندر‬
‫اور سفرینا کی جنگ کو پڑھنے کیے آپ کی‬
‫رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔۔اپنی رائے سے‬
‫ضرور آگاہ کریں۔۔۔شکریہ ۔۔۔ابن‬
‫نصیرسفرینا۔۔۔۔۔قسط نمبر ‪.....40‬از ابن‬
‫نصیر‬

‫سلیمان سوچ رہا تھا کہ وہ کس طرح سے‬


‫سکینہ اور سکندر کے سامنے جائےاور کیسے‬
‫انہیں یہ بری اطالع دے۔۔۔سکینہ کو جب یہ‬
‫پتا چلے گا وہ تو پاگل مر جائے گی۔۔۔‬

‫سلیمان نے دل میں اہلل سے مدد کی دعا‬


‫مانگی اور غائب ہو گیا ۔۔۔وہ پہاڑیوں کی‬
‫طرف اڑ رہا تھا۔۔لیکن اس مرتبہ اس کی‬
‫رفتار بہت ہی کم تھی۔۔‬
‫اڑتے اڑتے سلیمان نے آنکھیں بند کرکے جالم‬
‫کا چہرہ تصور میں الیا ۔۔۔۔جالم اس وقت‬
‫اپنے قبیلہ والی پہاڑی پر کھڑا ہوا تھا۔۔اور‬
‫سبزور بھی اس کے ساتھ ہی کھڑا ہوا تھا۔۔۔‬

‫جالم۔۔۔سلیمان نے اس کا نام لیا تو چونک‬


‫گیا۔۔۔‬

‫جی آقا۔۔۔۔جالم نے جواب دیا‬

‫میں تمہیں جو کچھ بتا رہا ہوں ۔۔۔اسے غور‬


‫سے سنو۔۔اور جو جگہ تمہیں بتا رہاہوں۔۔۔‬
‫جلد سے جلدوہاں پہنچو۔۔۔۔‬

‫یہ کہہ کر سلیمان نے مختصر الفاظ میں‬


‫جالم کو سفرینا کے حملے سے لے کر سکینہ‬
‫کے گھر والوں کی موت تک سب بتا دیا ۔۔۔‬
‫اس کے بعد جالم کو پہاڑی جگہ کا بتا کر‬
‫آنکھیں کھول دیں۔۔۔وہ اپنی اڑنے کی رفتار‬
‫تیز کر چکا تھا۔۔‬

‫کہیں وہ ڈھانچہ بھی سفرینا کے عتاب کا‬


‫شکار تو نہیں ہوا۔۔۔سلیمان نے اڑتے ہوئے‬
‫سوچا لیکن پھر خود ہی اس بات کی نفی‬
‫کر دی۔۔۔‬

‫سفرینا کو مارنے کے لیے اسے سوچنا پڑے‬


‫گا۔۔۔اگر اس نے جلد سے جلد کچھ نہیں کیا‬
‫تو سفرینا انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ‬
‫جنوں میں بھی بربادی ال سکتی ہے۔۔۔‬

‫ایک مرتبہ تو اس کا دل چاہا کہ یہاں سے‬


‫شاہ جنات کے محل کی طرف چال جائے اور‬
‫سفرینا کے بارے میں سب کچھ بتا دے۔۔‬
‫لیکن سفرینا کے بارے میں بتانے کا مطلب‬
‫جنوں کو بھی اس لڑائی میں النا ہے جو وہ‬
‫نہیں۔ چاہتا یے‬

‫اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس طرح‬


‫سے سفرینا کے خالف جنگ کا آغاز کرے۔۔۔‬
‫اگر وہ اکیال ہی سفرینا کے خالف اٹھتا ہے‬
‫تو کچھ بھی برا ہونے کی صورت میں‬
‫سکینہ اور سکندر تنہا رہ جائیں گے۔۔۔اس‬
‫لیے سلیمان نے جالم کو وہاں پہنچے کا کہا‬
‫تھا۔۔تاکہ اسے بھی اپنے منصوبہ میں شریک‬
‫کر لے۔‬

‫پہاڑیاں اس کے بے حد قریب پہنچ چکی‬


‫تھی۔۔۔اور پھر نزدیک پہنچ کر سلیمان نے‬
‫غار کے دھانے کے قریب ہی اپنے قدم زمین‬
‫پر رکھے۔‬
‫ا ب جو ہو گا دیکھا جائےگا۔۔۔۔سلیمان نے‬
‫چلتے چلتے سوچا‬

‫غار کے کمرے میں پہنچ کر‪  ‬جب سلیمان‬


‫نے‪  ‬چاروں طرف نظر دوڑائی تو اسے‬
‫سکینہ اور سکندر غار سے غائب ملے۔۔۔ان‬
‫دونوں کو غائب دیکھ کر سلیمان کا سر‬
‫چکرا گیا۔۔‬

‫ایک لمحے میں تو سلیمان کا دل دھک سے‬


‫رہ گیا۔۔۔وہ سمجھا کہ سفرینا اس کے‬
‫پیچھے یہاں بھی آ ئی ہو گی اور پھر‬
‫جیسے ہی سلیمان یہاں سے نکال وہ غار‬
‫میں آ کر ان دونوں کو‪  ‬اپنے ساتھ لے گئی‬

‫سفرینا۔۔۔۔۔۔سلیمان کا غصہ ساتویں آسمان‬


‫کو چھو رہا تھا۔۔۔۔۔‬
‫جب تم میں تمہیں مار نہیں دیتا ۔۔۔میں‬
‫ایک پل بھی سکون سے نہیں بیٹھوں گا۔۔۔۔‬
‫مکار چڑیل ۔۔۔۔سلیمان چال اٹھا‬

‫وہ مڑا اور دوڑتا ہوا غار سے باہر نکال۔۔۔۔اسے‬


‫کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔۔اس‬
‫کے دماغ میں اگر تھا تو ایک سفرینا کا‬
‫نام۔۔۔۔وہ ہر حال میں سفرینا کو ڈھونڈنا‬
‫چاہتا تھا۔۔۔۔لیکن کیسے۔۔۔۔‬

‫سوچ سوچ کر سلیمان کا دماغ پھٹنے واال‬


‫ہو گیا تھا۔۔۔۔اس کے کیے گئے منصوبے اس‬
‫پر ہنس رہے تھے۔۔۔اگر وہ پہلے ہی دن‬
‫سفرینا کا گال دبا دیتا تو نہ صرف سکندر‬
‫بچ جاتا بلکہ اس کا بھائی‪ ،‬خاندان اور‬
‫قبیلے بھی بچ جاتا ہے۔۔اور تو اور سکینہ‬
‫کی امی اور اس کا دوست در خان بھی آج‬
‫زندہ ہوتا۔۔۔‬

‫سلیمان غار کے دھانے پر پہنچ کر رک گیا۔۔۔۔‬

‫یا اہلل میری مدد فرما۔۔۔۔مجھے رستہ دکھا‬


‫کہ میں اس مکار چڑیل کو شکست دے‬
‫سکوں۔۔۔سلیمان نے آسمان کی طرف منہ‬
‫کرکے کہا۔‬

‫سامنے سے جالم تیز تیز قدم دوڑاتا سلیمان‬


‫کی طرف آ رہا تھا۔۔ جیسے ہی وہ پہاڑی پر‬
‫پہنچا تو دور سے ہی سلیمان کو دیکھ لیا‬
‫۔۔۔اس لیے جالم نے جلدی سے اتر کر سلیمان‬
‫کی طرف قدم بڑھا دیے۔۔‬

‫آقا۔۔۔۔۔جالم نے نزدیک پہنچ کر کہا‬


‫جالم۔۔۔سب سے پہلے تو یہ آقا کہنا بند‬
‫کرو۔۔۔میں نے تمہیں اس لفظ کے پکارنے سے‬
‫منع کیا ہے۔۔۔سلیمان نے غصیلے لہجے میں‬
‫کہا تو جالم سہم گیا‬

‫جی ٹھیک ہے سلیمان بھائی۔۔۔۔جالم نے‬


‫سہمے لہجے میں کہا‬

‫صرف سلیمان۔۔۔جالم۔۔۔صرف سلیمان۔۔۔۔۔‬


‫سلیمان نے غصے میں کہا‬

‫جی سلیمان ۔۔۔جالم نے سر کو جھکائے ہو‬


‫کہا۔۔‬

‫میں تمہیں سفرینا کے بارے میں سب کچھ‬


‫بتا چکوں ہوں جالم ۔۔۔لیکن میں چاہتا ہوں‬
‫کہ میں تمہیں مزید بھی اس کے بارے میں‬
‫بتاوں اور وہ سب بھی بتاوں کہ کس طرح‬
‫میں نے ایک انسان جس کا نام سکندر تھا۔۔‬
‫اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس کی مدد‬
‫کرتے کرتے میں اپنا قبیلہ اور دوست گنوا‬
‫بیٹھا۔۔‬

‫لیکن جب میں یہاں پہنچا تو سفرینا مجھ‬


‫سے پہلے یہاں پہنچ چکی تھی۔۔اس نے‬
‫میری غیر موجودگی میں سکندر اورسکینہ‬
‫کو اٹھا لیا ہے۔۔اور اب پتا نہیں سفرینا ان‬
‫کے ساتھ کیا کر چکی ہے۔۔۔اس لیے میں‬
‫چاہتا ہوںکہ تم سفرینا کی خالف میری مدد‬
‫کرو۔۔لیکن تمہاری‪  ‬اس مدد کا بھائی اور‬
‫سبزور‪  ‬کا زرا بھی پتا‪  ‬نہ چلے۔۔۔۔سلیمان نے‬
‫مختصر الفاظ میں جالم کو بتایا‬
‫جی ٹھیک ہے سلیمان۔۔۔۔جالم نے با ادب ہو‬
‫کر کہا‬

‫اب سوچو کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور‬


‫سفرینا کو کیسے ڈھونڈا جائے۔ ہمیں تھوڑی‬
‫سی بھی دیر سکندر اور سکینہ کےلیے خطر‬
‫ناک ثابت ہو گئ۔۔۔سلیمان نے جالم کو‬
‫تجویز دینے کا کہا‬

‫سلیمان آپ نے سفرینا کو ڈھونڈنے کی‬


‫کوشش کی ۔۔۔جالم نے پوچھا‬

‫نہیں جالم ۔۔۔کیونکہ مجھے اس کے بارے‬


‫میں کوئی ایسی بات یا ٹھکانہ معلوم نہیں‬
‫جہاں ہم پہنچ کر سفرینا کو پکڑ سکیں۔۔۔۔۔‬
‫سلیمان نے معذوری دیکھاتے‪  ‬ہوئے کہا‬
‫آپ نے سکندر کو اور سفرینا کو حصار میں‬
‫بند نہیں کیا تھا کیا۔۔۔ جالم سوال پوچھ رہا‬
‫تھا‬

‫جالم۔۔۔میں نے ان دونوں کو حصار سلیمانی‬


‫میں بند کیا ہوا تھا ۔۔اور اس حصار میں‬
‫رہنے کی وجہ سے وہ دونوں سفرینا کی‬
‫نظروں سے بچے ہوئے تھے۔۔لیکن پتا نہیں‬
‫انہوں نے بھی کیا غلطی کی ۔۔۔کہ سفرینا نہ‬
‫صرف یہاں آ گئی بلکہ ان کو بھی کہیں لے‬
‫جا چکی ہے۔۔‬

‫سلیمان کیا آپ کو یقین ہے کہ سفرینا ان‬


‫کے اپنے ساتھ لے گئی ہے۔۔ہو سکتا کہ وہ‬
‫خود ہی یہیں کہیں نکل گئے ہوں۔۔۔۔‬
‫جالم ایسی خطرناک صورتحال میں کون بے‬
‫وقوف کہیں گھومنے جا سکتا ہے۔۔۔سلیمان‬
‫نے جھنجالتے ہوئے کہااسے جالم کے فضول‬
‫سوالوں پر غصہ آ رہا تھا۔۔۔‬

‫میری ایک عرض ہے کہ آپ اس چڑیل کو‪ ‬‬


‫ڈھونڈنے سے پہلے ایک مرتبہ سکندر کو‬
‫ڈھونڈ لیں۔۔۔جالم نے ڈرتے ڈررتے کہا‬

‫سلیمان نے جالم کی بات سن کر کچھ نہیں‬


‫کہا ۔۔اسے صرف غصے سے دیکھا اور اپنی‬
‫آنکھوں بند کر لیں۔۔وہ سکندر کا چہرہ‬
‫تصور میں ال رہا تھا‬

‫چند لمحے نہیں گزرے کہ سلیمان نے‬


‫آنکھیں کھول دیں۔۔۔‬

‫کیا ہوا ۔۔۔جالم نے جلدبازی میں پوچھا‬


‫سلیمان نے جالم کی بات کا کوئی جواب‬
‫نہیں دیا۔۔۔۔وہ اچانک ہوا میں بلند ہوا اور‬
‫آسمان کی طرف اڑتا گیا۔۔۔۔۔خاصا اوپر جا‬
‫کر اس نے اپنی جناتی آنکھوں سے سکندر‬
‫اور سکینہ کو دیکھ لیا جو پہاڑی کے‬
‫پیچھے بہتے دریا کے نزدیک ایک درخت کے‬
‫نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔۔۔‬

‫سلیمان نے اپنا رخ تبدیل کیا اور نیچے‬


‫سکندر کی جانب اترنے لگا‬
‫‪-----------------------------------------‬‬
‫کافی دیر گزر گئی اور سلیمان نہیں آیا تو‬
‫سکینہ سے رہا نہیں گیا۔۔۔‬

‫میرا دل ڈوبا جا رہا ہے۔۔۔سکینہ نے اپنا ہاتھ‬


‫دل کے مقام پر‪  ‬رکھتے ہوئے کہا‬
‫کیوں۔۔۔۔کیا ہوا آپ کو ۔۔۔۔سکندر نے کھڑے‬
‫کھڑے پوچھا‬

‫سلیمان بھائی کو کافی دیر ہو گئی ہے لیکن‬


‫ابھی تک وہ واپس نہیں آئے ہیں۔۔۔پتا نہیں‬
‫وہاں کیا ہوا ہوگا۔۔۔۔سکینہ نے گھبراتے ہوئے‬
‫کہا‬

‫اہلل سب ٹھیک ہے کرے گا۔۔۔آپ پریشان نہ‬


‫ہوں۔۔سکندر نے تسلی دیتے ہوئے کہا‬

‫پریشان کیسے نہ ہوں۔۔۔میری امی ۔۔۔سب‬


‫گھر والے اورآغا ۔۔پتا نہیں ۔۔کیسے اور کیا‬
‫کر رہے ہوں گے۔۔۔۔‬

‫درخان وہاں ہیں۔۔۔وہ بہت پہنچے ہوے‬


‫انسان ہیں۔۔میں انہیں شروع سے جانتا‬
‫ہوں۔۔۔وہ سب کی حفاظت کر لیں گے۔۔۔‬
‫سکندر بوال‬

‫لیکن۔۔۔اب آغااکیلے ہیں۔۔۔۔سلیمان تو انہیں‬


‫چھوڑ کر یہاں ہمارے ساتھ آ گئے ہیں تو‬
‫کیسےوہ سب کی حفاظت کر سکیں گے۔۔۔‬
‫سکینہ نے پریشان لہجے میں کہا‬

‫ان کے پاس اپنی طاقتیں بھی ہیں۔۔۔ان سے‬


‫وہ سب کو بچا لیں گے۔۔۔۔‬

‫اچھا۔۔۔۔۔سکینہ نے مزید کچھ نہ کہا‬

‫آئیں ۔۔۔باہر چلتے ہیں۔۔۔سکندر نے کہا‬

‫باہر کیوں۔۔۔اور سلیمان بھائی نے باہر جانے‬


‫سے منع نہیں کیا ہے۔۔۔۔سکینہ بولی‬
‫منع کیا ہے لیکن میں نے اپنے گرد حصار‬
‫سلیمانی پڑھ رکھا ہے۔۔وہ چڑیل مجھے‬
‫نہیں دیکھ سکتی ہے۔۔۔تو کچھ نہیں ہو‬
‫گا۔۔۔۔‬

‫اگر سلیمان بھائی یہاں آ گئے اور ہم انہیں‬


‫نہ ملے تو وہ غصہ ہو جائیں گے۔۔۔۔سکینہ‬
‫نے‪  ‬پریشان ہو کر کہا‬

‫سلیمان نے اگر ہمیں یہاں نہ دیکھا تو ہو‬


‫ہمیں ڈھونڈھ لیں گے۔۔۔اگر غصہ ہوئے تو ہم‬
‫انہیں بتائیں کہ آپ نے دیر کر دی تھی اور‬
‫ہم بہت پریشان ہو گئے تھے ۔۔۔اس لیے باہر‬
‫نکل آئے۔۔۔۔سکندر نے‪  ‬کہا‬

‫اچھا۔۔۔۔۔سکینہ بھی شاید اس بند غار سے‬


‫نکلنا چاہتی تھی اس لیے اس نے کچھ اور‬
‫نہ کہااور اپنے قدم باہر کی طرف بڑھائے‬

‫سکندر نے جب سکینہ کو باہر جانے پر‬


‫راضی دیکھا تو وہ بھی سکینہ کے ساتھ‬
‫باہر چل پڑا۔۔۔۔‬

‫غار سے باہر نکلے تو انہیں تینوں اطراف‬


‫میں پہاڑیاں نظر آ‪  ‬رہی تھیں۔۔۔‬

‫یہ عالقہ شاید انسانی آبادی سے بہت دور‬


‫ہے ۔۔۔سکندر نے اردگرد نظر دوڑاتے ہوئے کہا‬

‫جی ۔۔۔۔مجھے بھی ایسا ہی لگ رہا ہے۔۔۔‬


‫‪ ‬سکینہ نے چاروں طرف مڑ کر دیکھا‬

‫ایسا لگ رہا کہ نزدیک ہی کوئی دریا یا پانی‬


‫بہہ رہا ہے۔۔سکندر نے خاموش رہ کر کچھ‬
‫محسوس کیا اور کہا‬
‫سکینہ نے کچھ نہ کہا۔۔وہ بھی کچھ سننے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی۔۔۔‬

‫سامنے تو کچھ بھی نہیں نظر آ رہا ہے۔۔۔‬


‫شاید پیچھے کوئی‪  ‬دریا یا جھیل ہو گی۔۔‬

‫چلیں چل کر دیکھتے ہیں۔۔۔سکندر نے‬


‫پوچھا‬

‫لیکن۔۔۔۔سکینہ کو اب بھی سلیمان اور گھر‬


‫والوں کی پریشانی ستائے جا رہی تھی‬

‫لیکن کیا سکینہ۔۔۔۔سکندر نے پہلی دفعہ‬


‫سکینہ کو اس کے نام سے مخا طب کیا تھا‬

‫اگر سلیمان بھائی آ گئے تو ہم نظر نہ آئے‬


‫تو۔۔۔۔۔‬
‫ارے بھئی۔۔۔میں نے کہا نہ ۔۔۔سلیمان ہمیں‬
‫ڈھونڈھ لے گا۔۔۔آپ سلیمان اور گھر والوں‬
‫کے بارے میں بلکل بھی پریشان نہ ہوں۔۔‬
‫دیکھ لینا بہت جلد سب گھر والے یہاں‬
‫ہونگے۔۔۔۔سکندر نے مسکرا کر کہا‬

‫اہلل کرے ۔۔یہ سب جلد‪  ‬ہو جائے۔۔۔۔سکینہ‬


‫‪ ‬بولی‬

‫ان شا اہلل۔۔۔۔۔سکندر نے کہا‬

‫آئیں پیچھے چل کر دیکھتے ہیں۔۔۔سکندر نے‬


‫آگے قدم بڑھا کر کہا‬

‫جی۔۔چلیں۔۔۔سکینہ بھی اس کے پیچھے‬


‫چل پڑی‬

‫دونوں پہاڑی پر چلتے ہوئے پیچھے کی‬


‫طرف جانے لگے۔۔۔‬
‫چونکہ پہاڑی کا اوپری حصہ کٹا ہوا تھا‬
‫اس لیے اس کو چلنے میں زیادہ دشواری‬
‫نہیں ہو رہی تھی۔۔۔‬

‫جیسے ہی دونوں پہاڑی کی آخری حصے پر‬


‫پہنچے انہیں دریا کا پانی نظر آ گیا۔۔۔‬

‫یہ ایک بہت بڑا دریا تھا۔۔۔جو پہاڑوں کی‬


‫پچھلی جانب واقع تھا۔۔۔۔چونکہ نزدیک‬
‫کوئی انسانی آبادی نہیں تھی ۔۔اس لیے‬
‫جہاں تک نظر دوڑائی ۔انہیں نہ ہی کوئی‬
‫گھر یا جھونپڑی نظر آئی اور نہ ہی کوئی‬
‫انسان نظر آیا۔۔۔‬

‫دریا اور پانی کے قریب انسانی آبادی ہوتی‬


‫ہے لیکن یہاں تو دور دور تک کسی انسان کا‬
‫سایہ بھی نہیں نظر آ رہا ہے۔۔۔سکندر نے‬
‫سکینہ کی طرف مڑ کر کہا۔۔۔وہ دونوں‬
‫احتیاط سے پہاڑی پر سے اتر رہے تھے۔۔۔‬

‫میرے خیال سے یہ جگہ انسانی آبادی سے‬


‫بہت دور ہے۔۔اس لیے سلیمان بھائی ہمیں‬
‫یہاں لے آئے تا کہ ہم اس چڑیل کی نظر سے‬
‫بچے رہ سکیں۔۔۔‬

‫ویسے آپ کو کیا لگتا ہے ۔۔ہم یہاں کب تک‬


‫رہیں گے۔۔۔سکینہ نے سوال پوچھ لیا‬

‫جب تک اس چڑیل سے ہماری جان نہیں‬


‫چھوٹ جاتی ہے ۔۔ہم سب کو یہاں چھپ کر‬
‫رہنا پڑے گا۔۔۔۔سکندر نے اندازہ لگا یا تھا‬

‫اور ہماری جان کب اس چڑیل سے چھوٹے‬


‫گی۔۔۔۔‬
‫سامنے ڈھلوان تھا اور بیچ میں تھوڑی جگہ‬
‫خالی تھی جس کے لیے چالنگ لگا کر جانا‬
‫تھا۔۔۔سکندر نے چالنگ لگا لی تھی لیکن‬
‫سکینہ وہیں رکھ کر بولی تھی‬

‫جب تک وہ مر نہیں جاتی۔۔۔مجھے اپنا ہاتھ‬


‫پکڑائیں۔۔۔سکندر نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے‬
‫‪ ‬ہوئے کہا‬

‫سکینہ نے کوشش کی کہ سکندر کے ہاتھ‬


‫تک پہنچ جائے لیکن درمیاں میں کافی جگہ‬
‫خالی تھی اس لیے باوجود کوشش کے اس‬
‫کا ہاتھ سکندر کے ہاتھ تک نہ پہنچ سکا۔۔۔‬

‫دور ہے ۔۔۔سکینہ نے رک کر دونوں طرف‬


‫دیکھا۔۔وہ کوئی اور جگہ دیکھ رہی تھی‬
‫جس سے وہ نیچے جا سکے ۔۔۔لیکن دونوں‬
‫طرف پہاڑ کی کٹائی اس طرح سے تھی کہ‬
‫پھسلن بن گئی تھی۔۔۔اور یہی واحد راستہ‬
‫نیچے جانا کا تھا۔۔۔۔‬

‫آپ کوشش کر کے چالنگ لگائیں۔۔۔میں آپ‬


‫کو پکڑ لوں گا۔۔۔سکندر نے مایوس ہو کر‬
‫سکینہ کو جمپ لگانے کا کہا۔۔۔اسے بھی‬
‫کوئی اور راستہ نظر نہیں آیا تھا۔۔‬

‫سکینہ کچھ نہ بولی۔۔۔وہ سکندر کو دیکھ‬


‫کر کچھ سوچ رہی تھی۔۔۔۔۔‬

‫کیا ہوا۔۔۔سکندر نے سکینہ کو سوچ میں گم‬


‫دیکھ کر کہا‬

‫کچھ نہیں۔۔۔۔سکینہ نے چونک کر کہا‬

‫آپ کو چالنگ لگانی پڑے گی۔۔۔سکندر نے‬


‫دوبارہ کہا‬
‫اچھا۔۔۔۔سکینہ یہ کہہ کر ایک قدم پیچھے‬
‫ہٹی اور کچھ سوچ کر‪  ‬زور سے چالنگ‬
‫ماری۔۔۔‬

‫سکندر نے جب سکینہ کو چھالنگ کے لیے‬


‫راضی دیکھا تو پیچھے مڑ کر دیکھا‪ ‬‬
‫پیچھے قدم رکھنے کی جگہ تھی مگر ایسی‬
‫جگہ تھی کہ پاوں نہیں جم سکتے‪  ‬تھے ۔۔‬
‫لیکن سامنے کافی جگہ تھی۔۔اس لیے وہ‬
‫خود کو کنٹرول کر سکتا تھا۔۔۔‬

‫سکندر نے اپنے دونوں پیر زمین پر سختی‬


‫سے جما لیے۔۔۔اور سکینہ کے لیے آگے سے‬
‫تھوڑی جگہ چھوڑ دی۔۔۔‬

‫سکینہ نے چالنگ لگائی اور سکندر کے بلکل‬


‫قریب ہی اس کے پیر زمین کو لگے ۔۔۔لیکن‬
‫چونکہ وہ زور سے اچھلی تھی تو اس کے‬
‫جسم کا توازن بگڑ گیا اور آگے کو گرنے‬
‫لگی۔۔۔جسے سکندر نے جلدی سے کندھے سے‬
‫پکڑ کر تھام لیا لیکن جلد ہی چھوڑ دیا۔۔۔‬

‫سکینہ جلدی سے سیدھی ہو گئی۔۔۔۔اس کی‬


‫نظریں پتا نہیں کیوں سکندر کا سامنے‬
‫نہیں کر پا رہی تھیں۔۔۔‬

‫آئیں چلیں۔۔۔سکندرنے سکینہ کی طرف‬


‫دیکھا۔۔۔جسے سکینہ کے چہرہ پر شرمندگی‬
‫کے آثار نظر آ گئے تھے‬

‫دونوں احتیاط سے آہستہ آہستہ نیچے اترتے‬


‫جا رہے تھے۔۔۔‬

‫اب ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہو رہی‬


‫تھی ۔۔۔اس لیے خاموشی سے دونوں اتر رہے‬
‫تھے۔۔۔‬

‫پہاڑی کے بلکل آخر میں انہیں دریا کنارے‬


‫ایک درخت نظر آیا تھا۔۔سکندر سوچ رہا تھا‬
‫کہ وہ سکینہ کو لے کر اس درخت کے نیچے‬
‫جا کر بیٹھ جائے گا۔‬

‫پانی کے کنارے بیٹھنا اسے بہت پسند تھا۔۔۔‬


‫اور ہو سکتا ہے کہ سکینہ کو بھی یہ منظر‬
‫اچھا لگے۔۔اس لیے وہ سکینہ کو وہیں لے جا‬
‫رہا تھا۔۔‬

‫آپ کے گھر میں کون کون ہوتا ہے۔۔۔وہ‬


‫درخت کے کافی نزدیک پہنچ چکے تھے۔۔‬

‫امی اور میں ۔۔۔بس ہم دونوں ہی ہوتے‬


‫ہیں۔۔۔سکینہ نے آہستہ سے آگے بڑھے ہوئے‬
‫کہا۔۔اس کی نظریں رستے پر جمی ہوئی‬
‫تھی اور سکندر کوجواب بھی اس نے‬
‫نیچے‪  ‬دیکھتے ہوئے دیا تھا۔‬

‫اور وہ باقی لوگ کون تھے۔۔۔۔سکندر نے‬


‫پیچھے مڑ کر دیکھا۔۔۔وہ دیکھنا چاہ رہا تھا‬
‫کہ سکینہ کو اترنے میں کوئی تکلیف تو‬
‫نہیں ہوئی ہے۔۔‬

‫وہ آنٹی شکیلہ‪  ‬اور ان کی دونوں بیٹیاں‬


‫تھیں۔۔۔ساتھ میں جنید ماموں تھے۔۔۔۔‬
‫سکینہ نے درخت کے نیچھے پہنچ کر کہا۔۔‬

‫وہ دونوں درخت کے نیچے پہنچ چکے‬


‫تھے۔۔۔‬

‫اچھا۔۔۔۔سکندر درخت سے کچھ لکڑیا ں توڑ‬


‫نے لگا۔۔۔وہ درخت کے نیچے والی جگہ کو‬
‫صاف کرنے کے لیے لکڑیاں توڑ رہا تھا‬
‫سکندر نے کچھ لکڑیاں درخت کے پتوں کے‬
‫ساتھ ہی توڑی تھی ۔۔اور پھر وہی جھک‪ ‬‬
‫کر پہاڑی مٹی کو صاف کرنے لگا۔۔۔‬

‫سکینہ بھی ساتھ کھڑی سکندر کو جگہ‬


‫صاف کرتا دیکھ رہی تھی۔۔۔‬

‫آئیں بیٹھ جائیں۔۔۔۔سکندر نے جگہ صاف کر‬


‫لی تھی اور وہیں سکینہ کے لیے جگہ چھوڑ‬
‫کر بیٹھ گیا۔۔۔اس نے دونوں گھٹنے اوپر کر‬
‫لیے‪  ‬اور دونوں گھٹنوں کو بازووں کے حلقے‬
‫میں پھنسا کر بیٹھ گیا۔۔۔‬

‫سکینہ بھی وہی اس کے تھوڑا فاصلہ‪  ‬کرکے‬


‫بیٹھ گئی۔۔۔وہ بھی سکندرکے ساتھ ہی آلتی‬
‫پالتی مار کر بیٹھ گئی تھی۔۔۔‬
‫دونوں خاموش بیٹھ کر بہتے اور شور کرتے‬
‫پانی کو دیکھ رہے تھے۔۔چونکہ دریا کا پانی‬
‫ان سے کافی دور تھا اور اس‪  ‬کی لہروں‬
‫میں زیادہ ہلچل نہیں تھی‪  ‬اس لیے ان پر‬
‫پانی کے چھینٹے نہیں پڑ رہے تھے لیکن دریا‬
‫کے قریب انہیں ٹھنڈی ہوا چہروں کو‬
‫چھوتی بہت بھلی لگ رہی تھی۔۔۔‬

‫آپ کو پانی کے کنارے بیٹھنا کیسا لگتا ہے۔۔۔‬


‫سکندر نے دریا کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔اس‬
‫نے سکینہ کی طرف دیکھ کر یہ بات نہیں‬
‫کہی تھی‬

‫جاری ہے‬

You might also like