You are on page 1of 15

‫‪Please follow me‬‬

‫ایک شادی شدہ عورت ہوں میرا‬ ‫میرا نام آسیہ ہے میں ‪ 35‬سال کی‬
‫شوہر ایک بہت بڑا آفیسر ہے میری شادی کو ‪ 5‬سال گزر چکے ہیں ‪،‬میرا‬
‫شوہر مجھ سے ‪ 15‬سال بڑا ہے۔میرے گھر والوں نے یہ رشتہ صرف‬
‫ُا سکے عہدے کو دیکھ کر کیا تھا۔ میرے پاس دنیا کی ہر آسائش تھی‬
‫مجھے دیکھ کر کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ میں خوش نہیں ہوں پر‬
‫اندر ہی اندر مجھے جو دکھ تھا وہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا میرے‬
‫جسم کی آگ جو میرا شوہر نہیں بجھا پا رہا تھا۔۔شادی کے بعد سیکس‬
‫روزانہ ہوتا تھا جو بعد میں ہفتہ میں ایک بار ہونے لگ پڑا اس کے بعد‬
‫مہینے میں ایک بار ہونے لگ پڑا ۔اب تو پتا نہیں کتنے مہینے ہو چکے‬
‫تھے سیکس کیے ہوئے‪ ،‬میرے شوہر کو شوگر بھی تھی جس کی وجہ‬
‫سے ُا ن سے اب سیکس نہیں ہو پاتا تھا۔آج رات کو جب وہ بستر پر‬
‫لیٹے تو میں ان کے ساتھ چپک کر لیٹ گئی اور اپنی جسم کی گرمی‬
‫سے ان کے اندر ُبجھی ہوئی آگ کو بھڑکانے کی کوشش کرتی رہی میں‬
‫نے ان کے لن کوہاتھ سے پکڑ لیا وہ کسی بے جان گوشت کا لوتھڑہ لگ‬
‫رہا تھا میں نے کافی کوشش کی اپنے ہاتھوں اور منھ سے اس میں‬
‫سختی پیدا کرنے کی پر میری تمام کوششیں ناکام چلی گئیں تھک ہار‬
‫کر میں لیٹ گئی اور سونے کی کوشش کرنے لگی شوہر کے چہرے سے‬
‫شرمندگی صاف ظاہر تھی میں نے ُا ن کا دل رکھنے کی خاطر کہا کوئی‬
‫بات نہیں پھر کبھی سہی۔‬
‫شوہر تو کچھ دیر کے بعد سو گیا پر میری آنکھوں سے نیند کوسوں‬
‫دور تھی میں بستر سے اٹھی اور گھر سے باہر باغیچے میں ٹہلنے لگی ۔‬
‫ہمارے گھر کے ساتھ ہمارا سرونٹ کوارٹر تھا جس میں ایک میاں بیوی‬
‫رہتے تھے بیوی کا نام رانی تھااور شوہر کا نام رفیق تھا۔رانی ایک پکے‬
‫رنگ کی موٹی تازی عورت تھی بیوی ہمارے گھر میں کام کرتی تھی‬
‫اور شوہر ہمارا مالی تھا۔ابھی میں ٹہل ہی رہی تھی کہ مجھے کچھ‬
‫آوازیں سنائی دیں میں ان کے سرونٹ کوارٹر کی طرف چل دی نزدیک‬
‫گئی تو کچھ ہلکی دبی دبی جھگڑے کی آوازیں سنائی دیں میں‬
‫سمجھ گئی ُا ن میاں بیوی کا جھگڑا ہو رہا ہوگا کیوں کہ رانی اکثر اپنے‬
‫میاں کی شکائیت کرتی رہتی تھی کہ وہ مارتا پیٹتا ہے۔ُا س کا شوہر‬
‫شراب پیتا تھا اس کے بعد وہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا تا تھا۔ پر دونوں‬
‫کام کے معاملے میں بہت اچھے تھے اس لئے ہم اس کی اس حرکت کو‬
‫نظر انداز کر جاتے تھے‪،‬میرے شوہر نے کافی سمجھایا تھا پر شائید پھر‬
‫آج وہ پھر جھگڑ رہے تھے۔میں نے دروازے کے پاس جا کر کان لگا کر‬
‫سننا چاہا پر کچھ سنائی دی۔میں اب ایک سائیڈ پر لگی کھڑکی کے‬
‫پاس آ گئی اور مجھے کسی کے کمرے میں رات کے ‪ 2‬بجے جھانکتے‬
‫ہوئے اچھا نہیں لگ رہا تھا پر میرا مقصد رانی کو مار پیٹ سے بچا نا‬
‫تھا۔‬

‫میں نے دیکھا کھڑکی کا شیشہ تھوڑا ٹوٹا ہواتھا میں اندر جھانک‬
‫سکتی تھی میں نے اندر دیکھا تو اندر کا منظر دیکھ کر میرے چودہ‬
‫طبق روشن ہو گئے۔اندر دونوں میاں بیوی ننگے تھے اور رانی نے اپنی‬
‫گانڈ پر ہاتھ رکھا ہواتھا اس کا شوہر اس کو گھوڑی بننے کا کہا رہا تھا‬
‫اور وہ انکار کر رہی تھی اور ا س کے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی دونوں‬
‫کے بیچ تکرار ہو رہی تھی۔رانی نے کہا۔بہن چود مجھ پر رحم کھا تیرا‬
‫گھوڑے جیسا لن میں چوت میں بڑی مشکل سے برداشت کرتی ہوں اور‬
‫تو اس کو میری گانڈ میں گھسانا چا ہتے ہو۔‬

‫اس کی بات سن کر میرا دھیان رفیق کی ٹانگوں میں گیا اس کا کالے‬


‫رنگ کا موٹا تازہ لن جھول رہا تھا جو میرے اندازے میں کم از کم ‪10‬‬
‫انچ سے زیادہ ہی ہوگا نے سچ ہی کہا تھا وہ گھوڑے کا لن ہی لگ رہا‬
‫تھا ایسے لن میں نے فلموں میں ہی دیکھے تھے۔رفیق نے ایک زوردار‬
‫تھپڑ اس کے منھ پر جڑ دیا اور کہا سالی تو ایسے نخرے کر رہی ہے‬
‫جیسے کنواری ہو ‪ 10‬سال ہو گئے ہیں شادی کو۔‬

‫کچھ دیر تک دونوں کی تکرار چلتی رہی رانی نے کہا‪:‬کرنا ہے تو آگے‬


‫‪ ،‬سے کر پیچھے سے میں نہیں کرنے دونگی‬

‫رانی‬ ‫آخر کار رفیق نے ہار مان لی اور رانی کو لیٹنے کو کہا‬
‫سیدھی لیٹ گئی رفیق نے اپنا لن اسکے چوت پر رکھا اور اندر گھسا‬
‫دیا اور جم کر رانی کی چوت کی چدائی کرنے لگ پڑا‬

‫رانی کو اس طرح چدتے دیکھ کر مجھے اس کی قسمت پر رشک آ رہا‬


‫تھا۔سچ کہا ہے کسی نے‬

‫دولت مانگے نہ تخت مانگے‬

‫عورت بس لوڑا سخت مانگے‬


‫ان کو سیکس کرتے ہوئے کم از کم آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا اتنا ٹائم آج‬
‫تک میرے شوہر نے کبھی نہیں لگایا تھا۔شادی کےشروع کے دنوں میں‬
‫بھی زیا دہ سے زیا دہ ‪ 10‬منٹ کے بعد ہی اسکی بس ہو جاتی‬
‫تھی‪،‬رانی شائید ٹانگیں اٹھائے اٹھائے تھک چکی تھی اس نے دھکا دے‬
‫کر رفیق کو ُا وپر سے اٹھایا اور اٹھ کر شلوار پہننے لگی ‪،‬رفیق کا لن‬
‫ابھی بھی پورے جوبن پر تھا۔اس نے غصے سے رانی سے کہا‪:‬مادر چود‬
‫اس کو تو فارغ کر‬

‫رانی‪:‬میری بس ہو گئی ہے‬

‫رفیق‪:‬اچھا چل اس کو منھ میں لے کر فارغ کر‬

‫رانی‪:‬نہیں مجھ سے ایسے کام نہیں ہوتے چپ کر کے سو جاؤ‬

‫رفیق نے غصے میں آ کر اس کو زور سے دھکا دیا اس کا سر چارپائی پر‬


‫لگا وہ رونے لگ پڑی۔‬

‫رفیق نے اپنی دھوتی ُا ٹھا ئی اور پہننے لگ پڑا۔‬

‫میں اب خا موشی سے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی میری نگاہوں میں‬


‫رفیق کا لن جیسے رچ بس گیا تھا۔میرے دماغ میں بس ایک ہی منظر‬
‫جیسے نقش ہو گیا تھا۔‬

‫کمرے میں داخل ہو کر میں نے ایک نظر اپنے شوہر پر ڈالی اور دل میں‬
‫سوچا کاش ا س کی جگہ بستر پر رفیق ہوتاتو رات کتنی حسین‬
‫گزرتی۔ سوچتے سوچتے پتہ نہیں کب جا کر آنکھ لگی صبح دیر سے‬
‫آنکھ کھلی تو دیکھا میرا شوہر کام پر جا چکا تھا ۔اور رانی بھی آ‬
‫چکی تھی میرے اٹھنے پر وہ ناشتہ لے آئی اس کی چال میں کچھ‬
‫لنگراہٹ سی تھی جو رات کی زبردست چدائی کی وجہ سے تھی اگر‬
‫میں نے رات کا منظر نہ دیکھا ہوتا تو شائید میں غور نہ کرتی اس کے‬
‫سر پر بھی چوٹ تھی جو رفیق کے دھکے کی وجہ سےلگی تھی۔‬

‫میں نے پو چھ لیا کہ ماتھے پر چوٹ کیسے لگی‬

‫تو اس نے بتایا کہ رات رفیق نے پھر شراب پی کر مجھے مارا ہے۔‬

‫میں نے انجان بنتے ہوئے وجہ پوچھی۔‬

‫اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا‪ :‬بی بی نشے میں وہ جانور بن جاتا ہے‬

‫میں‪:‬مطلب؟‬

‫رانی‪ :‬بی بی بس میں کیا بتاؤں شراب پی کر مجھ سے الٹی سیدھی‬


‫حرکتیں کرنے کو کہتا ہے‬

‫میں‪:‬کیسی حرکتیں؟‬

‫رانی‪:‬بی بی آپ کو نہیں بتا سکتی وہ جانور ہے مجھے اس سے ڈر لگتا‬


‫ہے۔‬

‫میں‪:‬اچھا تم اس کو میرے پا س بھیجنا میں اس کو سمجھا دوں گی۔‬

‫رانی‪:‬بی بی وہ کسی کی نہیں مانتا صاحب نے کتنی بار اس کو‬


‫سمجھایا ہے کئی بار نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی ہے پر وہ شراب‬
‫پی کر سب کچھ بھول جاتا ہے۔‬
‫میں‪:‬اچھا ایک بار میں اس کو سمجھا کر دیکھوں گی شائید میری بات‬
‫اس کو سمجھ آ جائے۔‬

‫رانی‪:‬اچھا آپ بھی اپنی کوشش کر کے دیکھ لیں۔‬

‫مجھے پتا تھا صبح کا ناشتہ بنانے کے بعد رانی سودا سلف لینے مارکیٹ‬
‫جاتی تھی اور ہمارے گھر سے مارکیٹ کافی فاصلے پر تھی سودا سلف‬
‫لینے میں بھی کم از کم اس کو ‪ 3‬گھنٹے لگ جاتے تھے اتنا ٹائم میرے‬
‫لئے بہت تھا۔‬

‫رانی جب جانے لگی تو میں نے کہا اچھا رفیق کو بھیج دینا‬

‫رانی نے اثبات میں سر ہالیا اور گھر ے نکل گئی میں نے واش روم میں‬
‫جا کر شاور لیا اور گاؤن پہن کر میں کمرے میں آ گئی اتنے میں باہر‬
‫بیل ہوئی میں سمجھ گئی رفیق ہو گا میں نے انٹر کام پر اس کو اندر‬
‫آنے کا کہا وہ ڈرائنگ روم میں آ گیا میں بھی اپنے کمرے سے نکل کر‬
‫ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئی۔میرے گیلے بالو ں سے ابھی بھی پانی‬
‫ٹپک رہا تھا۔‬

‫میں صوفے پر بیٹھ گئی اس کو میں نے بیٹھنے کا کہا وہ میرے سامنے‬


‫قالین پر نیچے بیٹھ گیا۔‬

‫میں‪:‬دیکھو رفیق تمہارا گھر کا معاملہ ہے پر تم رانی کو کیوں بالوجہ‬


‫مارتے ہو‬

‫رفیق‪:‬بی بی وہ میں اس سے خو ش نہیں ہوں‬


‫میں‪:‬کوئی وجہ تو ہو گی تمہا ری شادی کو اتنےسا ل بیت چکے ہیں اب‬
‫جا کر اچانک کیا ہو گیا ہے‬

‫رفیق ہچکچاتے ہوئے‪:‬بی بی وہ مجھے خوش نہیں رکھ پاتی‬

‫وہ باتیں کررہا تھا اور نظر یں چرا کر میری ننگی بالوں سے صاف‬
‫گوری ٹانگوں کو بھی دیکھ لیتا تھا ۔جو میں نے جان بوجھ کر اس کے‬
‫سامنے ننگی کی ہوئی تھیں ۔‬

‫میں‪:‬کیا وہ تم کو کھانا وغیرہ نہیں پکا کر دیتی‬

‫‪،‬میں سب کچھ جان کر بھی انجان بنی ہوئی تھی‬

‫رفیق‪:‬نہیں بی بی بات کھانے کی نہیں ہے مرد کو کچھ اور بھی چاہیے‬


‫ہوتا ہے‬

‫میں‪ :‬اچھا میں سمجھ گئی رانی نے کہا ہے تمہا را کسی اور عورت سے‬
‫بھی تعلق ہے‬

‫میں نے جان بوجھ کر اندھیرے میں تیر چال جو نشانے پر جا لگا۔‬

‫رفیق‪:‬بی بی جی جب بندے کو گھر سے کچھ نہیں ملے گا تو وہ ادھر‬


‫ُا دھر منھ تو مارے گاہی۔‬

‫اس نے نظریں جھکائی ہوئی تھیں میں نے جان بوجھ کر اپنی ٹانگوں‬
‫کو کھول دیا ‪،‬اب میری گالبی چوت اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔‬

‫جیسے ُا س نے نظر اٹھائی تو میری ٹانگوں کے بیچ میں جیسے ُا س کے‬


‫‪ ،‬آنکھیں ُج ڑ سی گئیں تھیں‬
‫اب ُا س نے میری آنکھوں میں دیکھا تو سمجھ گیا میں کیا چاہتی ہوں‬
‫پر وہ جھجھک رہا تھا۔‬

‫میں‪:‬رفیق آج اپنی سب خواہشوں کو پورا کر لو میں کسی چیز سے‬


‫منع نہیں کروں گی۔‬

‫میری بات سن کر جیسے اس کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی‬

‫وہ اٹھ کر میرے قدموں میں بیٹھ گیا اور اجازت بھری نظروں سے‬
‫مجھے دیکھنے لگ پڑا وہ اب بھی تھوڑا جھجھک رہا تھا۔میں نے ُا س‬
‫کے سر کو پکڑ کر ُا س کے منھ کو اپنی چوت پر رکھ دیا ُا س نے میری‬
‫چوت کو چاٹنا شروع کر دیا ُا س کی زبان کا لمس پا کر میری چوت‬
‫میں جیسے لگی آگ اور زیا دہ بھڑک اٹھی تھی وہ بھی ایسے لگ رہا تھا‬
‫جیسے برسوں کا پیاسا ہو جم کر میری چوت کو چاٹ رہا تھا اپنی زبان‬
‫کو میری چوت کے سوراخ میں اندر باہر کر رہا تھا۔اس نے ایسی گالبی‬
‫چوت کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی ہوگی میں ُا س کے سر کو پکڑ‬
‫کر اور اپنی چوت کی طرف دبا رہی تھی ُا س کے چوت کو چاٹنے کا‬
‫انداز وحشیانہ تھا کبھی اپنی زبان کو میرے اندر کرتا کبھی میری‬
‫چوت کو اوپر بنے دانے کو چوستا ۔وہ جیسے میری چوت میں کھو سا‬
‫گیا تھا سب کچھ بھول کر بس میری چوت کو چوس رہا تھا ُا س کے‬
‫چوسنے کی وجہ سے میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی جووہ‬
‫مزےسےپی رہا تھا۔ ُا س نے میری چوت سے سر اٹھا یا تو ُا س کےکالے‬
‫چہرے کے ارد گرد میری چوت کا پانی لگا ہوا تھا‬
‫‪Part 9‬‬
‫رفیق‪:‬بی بی اتنی مزے دار چوت آج زندگی میں پہلی بار ملی ہے‬

‫میں ُا س کو لے کر اپنے بیڈ روم میں لے کر آ گئی ۔میں نے ُا س کو کپڑے‬


‫اتارنے کا کہا اوراس نے اپنی قمیض اور شلوار اتار دی اب وہ ننگا ہو‬
‫چکا تھاُا س کا کسرتی کاال جسم چمک رہا تھا۔ ُا س کا موٹا لن میری‬
‫چوت میں جانے کے لیے بے تاب لگ رہا تھا میں نے اُ سکو بیڈ پر لٹا‬
‫دیا اور خود اس کے لن کو منھ میں لے کر چوسنے لگی اس کا لن میری‬
‫بازو جتنا موٹا تھا ُا سکی کالی رنگ کی ٹوپی بڑی مشکل سے میرے منھ‬
‫میں گئی تھی میں چاہ کر بھی ُا سکے لن کو ایک چوتھا ئی سے زیا دہ‬
‫اندر نہیں دھکیل پا رہی تھی میں نے اپنی زبان سے ُا سکے لن کو چاروں‬
‫طرف سے گیال کر دیا تھا اب میں ُا سکے موٹے کالے ٹٹوں کو چوس رہی‬
‫تھی ۔رفیق ‪ :‬بی بی میں کبھی زندگی میں بھی نہیں سوچ سکتا تھا کہ‬
‫میں اتنا خوش قسمت ہوں گا کہ آپ جیسی خوبصورت عورت کو چود‬
‫سکوں گا‬

‫میں نے کوئی جواب نہیں دیا ۔اب میں لیٹ گئی اور اس کو کہا ‪:‬رفیق‬
‫میرا سارا جسم تمہا را ہے آؤ جیسے دل کرے مجھے چودو۔‬

‫وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھ کر اپنے لن کو میری چوت پر رگڑنے‬
‫لگا‬

‫پھر اس نے ایک ہاتھ سے میری چوت کے لبوں کو جدا کیا اور اپنے لن‬
‫کو میری چوت کے اندر ڈال دیا ۔حاالنکہ میں شادی شدہ تھی پر پھر‬
‫بھی مجھے ایسا لگا کسی نے میری چوت کو چیر دیا ہو میں نے نا‬
‫چاہتے ہوئے بھی ہلکی چیخ ماری رفیق میری چیخ سن کر رک گیا۔میں‬
‫نے ُا س سے کہا ‪:‬تم رکو نہیں ا سکا آدھے سے زیا دہ لن میری چوت‬
‫میں تھا اب ُا س نے لن کو باہر نکاال اور ایک زور دار جھٹکے سے پورا لن‬
‫میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دیا میں نے درد کی شدت سے بے‬
‫اختیا ر اپنے ہاتھوں سے بیڈ کی چادر کو نوچ ڈاال اب وہ زور زور سے‬
‫اپنے لن کو میری چوت میں اندر باہر کر رہا تھا۔میری چوت اب ُا س کے‬
‫لن کو برداشت کر پا رہی تھی میں جیسے مزے کی بلندیو ں پر تھی‬
‫ُا س نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دئے اور میرے ہونٹوں اور زبان‬
‫کو چوسنے لگا ُا س کے منھ میں ابھی تک میری چوت کے پانی کا زائقہ‬
‫آ رہا تھا۔‬

‫میں نے جم کر ُا س کی کسنگ کا جواب دیا‬

‫ُا س کے جھٹکے جاری تھے اور میں نیچے سے اپنی چوت کو اوپر اٹھا‬
‫اٹھا کر اسکا ساتھ دے رہی تھی مجھے جیسے اپنے آپ پر قابو نہیں رہا‬
‫تھا۔ایسی مزے دار چدائی میں نے کبھی نہیں کروائی تھی۔میں مزے‬
‫کی شدت سے چیخ رہی تھی چال رہی تھی ۔‬

‫ھی ‪Part 10‬‬

‫میں‪:‬رفیق اور زور سےچود اور زور سے چود پھاڑ دے میری چوت‬

‫وہ لگاتا ر میری چوت میں کسی مشین کی طرح اپنے لن کو اندر باہر کر‬
‫رہا تھا۔اُ سکا لن جب پھنس پھنس کر باہر نکلتا تو ایسا لگتا میری چوت‬
‫میں کا سارا اند کا گوشت اس کے ساتھ نکل جائے گاُا س کی موٹی‬
‫ٹوپی میری چوت کے آخری دیوار سے ٹکراتی تو میری درد کے مارے‬
‫چیخ نکل جاتی۔‬

‫میں نے اُ سکو نیچے لٹا لیا اور اسکے لن پر بیٹھ گئی ُا سکا کاال موٹا لن‬
‫میں نے پورا چوت میں لے لیا اور اسکے لن کی سواری کرنے لگی۔میں‬
‫اوپر نیچے ہو رہی تھی اور وہ اپنے ہاتھوں سے میرے مموں کو دبا رہا‬
‫تھا۔میری مزے کی شدت سے منھ سے آہیں نکل رہی تھیں ہلکی ہلکی‬
‫تکلیف کااحساس مجھے بہت مزہ دے رہا تھا۔پتا نہیں کتنی دیر تک‬
‫میں اس کے لن کی سواری کرتی رہی اچانک مجھے ایسا لگا میرے‬
‫جسم کا سارا خون میری چوت کی طرف منتقل ہوگیا ہو میرے جسم‬
‫میں اکڑا ؤ سا پیدا ہوا میں مزے کی بلند یوں پر پہنچ گئی تھی ایسا‬
‫احسا س آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔میں اس کے اوپر جیسے ڈھ سی‬
‫گئی میرے جسم کو جھٹکے لگنے لگے میری چوت سےزور کا پانی کا‬
‫فوارا نکالمیں زندگی میں پہلی بارچدائی میں فارغ ہوئی تھی۔میری‬
‫بس ہو گئی تھی ‪ 30‬منٹ کی لگاتار چدائی نے میری چوت کی حالت کر‬
‫دی تھی ۔وہ ابھی تک فارغ نہیں ہوا تھا ُا س نے لن میری چوت ے نکاال‬
‫۔میں نے ُا س ے پوچھا ‪:‬یار تمہارا لن ابھی تک کھڑا ہے تم فارغ بھی‬
‫ہوتے ہو یا نہیں کیا کھاتے ہو۔‬

‫رفیق ‪:‬بی بی میری اسی خاصیت کی وجہ سے کافی عورتیں مجھ سے‬
‫بھاگ جاتیں ہیں۔‬

‫میں‪:‬اچھا میں بھاگنے والی نہیں ہوں‬


‫میں الٹی لیٹ گئی اور رفیق سے کہا ‪:‬جاؤ واش روم سے تیل لے کر آؤ۔‬

‫وہ تیل لے آیا میں الٹی لیٹ گئی اور ُا س سے کہا‪:‬مجھے پتا ہے اب تم‬
‫کیا چاہتے ہو پہلے میری اچھی طرح سے مالش کرو۔‬

‫یہ سن کر ُا س کے چہرے پر خوشی چمکنے لگ پڑی۔‬

‫ُا س نے تیل کو میری گانڈ پر انڈیالاور میری گانڈ کی اچھی طرح سے‬
‫مالش کرنے لگا۔ُا س نے میری گانڈ کو کھوال اور اس میں بھی کافی سارا‬
‫تیل انڈیل دیا اور اب میری گانڈ میں ُا س نے اپنی انگلی گھسیڑ دی‬
‫میری ہلکی سسکاری نکلی میں اپنے شوہر سے بھی گانڈ مروا چکی تھی‬
‫میرا پہال تجربہ نہیں تھا۔‬

‫اب ُا س نے اپنے لن کو بھی اچھی طرح تیل سے نہالیا اور میری اوپر‬
‫لیٹ کر اپنے لن کو میری گانڈ کےسوراخ پر رکھا اور ہلکے ے دھکے سے‬
‫میری گانڈ میں اتار دیا میرے منھ ے چیخ نکلی‬

‫میں‪:‬ہائے امی مر گئ‬

‫رفیق میری چیخ سن کر رک گیا ۔‬

‫میں‪:‬رکو نہیں میری چیخوں کے پروا نا کرو‬

‫رفیق نے اب دوبارا میری گانڈ پر زور لگانا شروع کر دیا ۔‬

‫میں‪:‬بس بس اتنا بہت ہے ہاے میں مر گئی گانڈ چیر دی میری‬

‫رفیق‪:‬بی بی جی ابھی تو آدھا بھی نہیں گیا۔‬


‫میں‪:‬تمہا را آدھا بھی میری جان نکال رہا ہے۔ مجھے گندی گندی گالیا ں‬
‫دو بی بی جی نا کہو‬

‫رفیق‪:‬نہیں بی بی جی آپ کو میں گالیا ں نہیں دے سکتا‬

‫میں‪:‬جان مزہ اور دوباال ہو جائے گا‬

‫رفیق‪:‬نہیں آپ میری مالکن ہیں‬

‫میں‪:‬ابھی تمہا ری کتیا ہوں مجھے گالیاں دو‬

‫رفیق‪:‬بہن چود چپ کر کے چدوا‬

‫میں‪:‬سالے تیرا لن گھوڑے کا ہے میری گانڈ کو بخش دے بس کر دے‬

‫رفیق‪:‬مادر چود یہ پورا اب تیری گانڈ میں گھساؤں گا تب مجھے‬


‫سکون ملے گا۔‬

‫اُ س نے جوش میں آکر ایک زوردار جھٹکا مارا اور ُا سکا تیل سے لتھڑا‬
‫ہوا لن میری گانڈ کو چیرتا ہوا جڑ تک میری گانڈ کی گہرائیوں تک اتر‬
‫گیا۔میرے حلق سے زوردار چیخ نکلی میرے چودہ طبق روشن ہوگئے‬
‫تھے۔‬

‫میں زبح کی ہوئی بکری کی طرح تڑپ رہی تھی۔وہ رکا نہیں اور لگاتار‬
‫میری گانڈ میں اپنے لن کو اندر باہر سیر کرواتا رہا ۔‬

‫میں‪:‬کتے حرامزادے مادرچود میری حالت کر دی ہے تم نے۔‬

‫رفیق‪:‬کتیا تجھے شوق تھا مجھ سے چدوانے کا۔‬

‫میں ‪:‬سالے معاف کر دے مجھے چھوڑ دے‬


‫میں سچ میں بے حال ہو چکی تھی‪،‬پورے کمرے میں میری چیخیں اور‬
‫سسکیاں گونج رہی تھیں۔پر ُا س نے اپنا کام جاری رکھا اور کوئی ‪20‬‬
‫منٹ کی طوفانی چدائی کے بعد اُ س نے کہا‪ :‬سالی رانڈ میں چھوٹنے‬
‫واال ہوں میری منی کو پینا چاہے گی۔‬

‫میں‪:‬ہاں کیوں نہیں‬

‫ُا س نے اپنے لن کو نکاال اور میرے منھ کے پاس لے آیا میں سیدھی ہو‬
‫گئی ُا س نے اپنے لن کو میرے منھ میں ڈال دیا میں نے ُا س کے لن کو‬
‫چوسنا شروع کر دیا ابھی ایک منٹ بھی نہیں گزرا تھا ُا س نے ایک زور‬
‫دار چنگھاڑ ماری ُا س کے جسم نے جھٹکا مارا اور اُ سکے لن سے پریشر‬
‫سے منی نکلنا شروع ہو گئی ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے ٹونٹی چال‬
‫دی ہومنی تھی کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی واقعی اس میں‬
‫گھوڑے کی تمام خصوصیت شامل تھیں۔میں نے کافی منی کو پی لیا‬
‫اور کافی کو باہر انڈیل دیا ۔اچھی طرح فارغ ہونے کے بعد اس نے‬
‫میرے منھ سے اپنے لن کو نکاال ۔‬

‫میں بے جان ہو کر بستر پر لیٹ گئی‬

‫بے جان ہو کر بستر پر لیٹ گئی ۔اس نے کپڑے پہنے اور جانے ‪Part 12‬‬
‫لگا۔میں‪:‬رفیق اپنی بیوی سے جھگڑا مت کیا کرو تمہا ری جو ضرورتیں‬
‫ہوں گی میں پوری کر دیا کروں گی۔‬

‫رفیق‪:‬جی بی بی جی آپ کا شکریہ آپ نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا‬


‫تحفہ دیا ہے ۔‬
‫میں مسکرا دی دل میں سوچا اصل تحفہ تو تم نے دیا ہے مجھے۔‬

‫وہ کمرے سے نکل گیا میں دوبارہ واش روم میں گئی اور شاور لیا ۔‬
‫کچھ دن بعد رانی آئی تو اس نے میرے پاؤں پکڑ لئے اور کہا بی بی آپ‬
‫نے چمتکا ر کر دیا ہے رفیق نے مجھ سے معا فی مانگی ہے اور اب وہ‬
‫میرا بہت خیا ل رکھتا ہے۔اس کو آپ نے بہت اچھے طریقے سے سمجھا‬
‫دیا ہے۔‬

‫میں دل ہی دل میں مسکرا دی۔‬

‫اس کے بعد ہمارا روز کا معمول بن گیا جب بھی موقع ملتا ہم ایک‬
‫دوسرے کی ضرورتیں پوری کرتے۔‬

‫اب میں بھی خوش رہتی تھی‬

You might also like