You are on page 1of 209

‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬

‫ِ‬

‫‪1‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫میدان وفا‬
‫ِ‬
‫از طیبہ چوہدری‬

‫خاموشی سے پروان چڑھنے والی ایک الزوال‬


‫محبت کی داستان‬

‫‪2‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫خاکستر جو ہوئی ہوں آج میں تو‪.....‬‬

‫سائیں! سارا قصور تو آپ کا بھی نہیں تھا‬

‫'محبت' لفظ سننے میں کتنا میٹھا لگتا ہے نا؟‬


‫مگر حقیقت اس کے متضاد ہے۔‬
‫یہ جتنی میٹھی ہے اتنا ہی درد دیتی ہے۔‬
‫اس نے تو ابھی یہ سفر شروع بھی نہیں کیا تھا۔‬
‫اظہار عشق‬
‫ِ‬ ‫زہر اور امرت کا فیصلہ تب ہوتا ہے جب‬
‫کیا جائے‪......‬بس وہ یہ جانتی تھی کہ وہ کسی ایک‬
‫شخص کی دیوانی ہے۔‬

‫‪3‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے آخر کئی رتجگوں کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ‬


‫آج دل میں کوئی بات بھی چھپائے گی نہیں کہہ ڈالے‬
‫گی‪.....‬‬
‫شاید اسے کھونے کا احساس بڑھنے لگا تھا۔‬
‫دل بہت زیادہ بےقرار ہوتا اور آنکھیں برسنے لگتیں۔‬
‫"آج میں آپ سے کچھ بھی نہیں چھپاؤں گی۔اپنا حا ِل‬
‫دل آپ کے سامنے بیان کر دوں گی پھر خواہ آپ کچھ‬
‫بھی فیصلہ کر لیں مجھے وہ منضور ہو گا۔"‬
‫ایک نظر خود پہ ڈالتی وہ دل ہی دل میں اس شخص‬
‫سے مخاطب تھی جسے نجانے کب سے چاہتی تھی۔‬
‫اسے بس معلوم تھا تو یہ کہ وہ جب سے اسے پہلی‬
‫مرتبہ ملی تھی‪.....‬تو محبت کرنے لگی تھی۔‬
‫یہ ایک قدرتی عمل ہے انسان اس کے سامنے خود کو‬
‫بےبس محسوس کرتا ہے۔‬
‫وہ سارے منفی خیاالت جھٹکتے ہوئے نفی میں سر‬
‫ہال گئی۔‬

‫‪4‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫کاجل کی ایک ایک لکیر اپنی آنکھوں میں کھینچ کر‬


‫اس نے آہستگی سے پلکیں اٹھا کے اپنے سنہری خود‬
‫میں سرخی سموئے ہوئے چہرے کو دیکھا۔‬
‫آج تو چمک مزید بڑھی تھی‪،‬سورج کی پہلی کرن‬
‫جیسی چمک چہرے پہ لیے وہ مبہم سا مسکرائی اور‬
‫سر جھکا گئی۔‬
‫ہاتھ بڑھا کر ڈریسنگ پہ پڑی سرخ لپ اسٹک اٹھائی۔‬
‫مگر یکدم سے کسی کی نگاہوں کے پردے پر ایک‬
‫بچپن کی یاد آ کر فلم کی مانند چلنے لگی۔‬
‫"سنہری رنگت پہ گالبی ہونٹ ہی اچھے لگتے ہیں‬
‫انہیں رنگنے کی ضرورت ہی کیا تھی‪،‬اور ویسے بھی‬
‫ابھی تمہاری عمر کہاں ہے یہ لپ اسٹک وغیرہ‬
‫استعمال کرنے کی۔"‬
‫وہ ہاتھ میں کیمرہ تھامے اس کی تصویر لیتے ہوئے‬
‫جب اس کے پاس سے گزرنے لگا تو بوال تھا۔‬
‫وہ تو اس کی آواز سن کر ہی اپنے دل کی بےتاب‬
‫دھڑکنوں کو سنبھال نہیں سکتی تھی‪.....‬پھر آج تو وہ‬
‫اس سے مخاطب تھا۔‬

‫‪5‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے حال میں لوٹتے ہی ریشمی آنچل کو اپنے سر‬


‫پہ ٹکایا اور سوکھے ہونٹوں پہ زبان پھیر کر تر کرتی‬
‫سر اثبات میں ہالتی کہ‪.....‬اب ٹھیک لگ رہی‬
‫ہو‪....‬سوچتی کمرے سے نکل گئی۔‬
‫"شرم کرو اگر اس نے مائنڈ کر لیا تو‪ ،‬کسی کو بتا دیا‬
‫تو؟" خود کو ٹوکا گیا۔‬
‫"مگر آج تو کہنا ہی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ وہ‬
‫مجھ سے محبت کرتا ہے۔"دل کی بےتابی عروج پہ‬
‫تھی۔‬
‫وہ اسے اکسا رہا تھا کہ وہ ایک لڑکے کے سامنے‬
‫گھٹنے ٹیک دے۔‬
‫"کہاں جا رہی ہو؟"‬
‫والدہ جو صحن میں بیٹھی سبزی بنا رہی تھیں‪،‬اسے‬
‫دیکھتے ہی نہایت ہی غصے سے گویا ہوئیں۔‬
‫"ماں وہ میں‪.....‬چاچا کی جانب جا رہی ہوں۔ آج‬
‫سنگیت ہے نا مصباح بھائی کا تو مجھے طلحہ کئی‬
‫مرتبہ کہہ چکی ہے میں ضرور آؤں۔"‬

‫‪6‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ دوپٹے کا پلو انگلی پہ لپیٹے ہوئے سہمے ہوئے‬


‫انداز میں گویا ہوئی۔‬
‫"آ‪......‬ہاں تو جو ڈی سی لگی ہوئی ہے تیرے جانے‬
‫سے تو اس کی شادی ہی نہیں ہو گی۔"‬
‫"ماں‪"!...‬‬
‫ان کے سخت لہجے کے سامنے وہ بس منمنائی تھی۔‬
‫"دفع ہو جا میری نظروں کے سامنے سے کہیں نہیں‬
‫جا رہی توں۔اور یہ کیا سولہ شنگار کر رکھے ہیں؟"‬
‫ماں کی باز جیسی نظریں ایکسرے کی مانند اس کے‬
‫وجود کے آر پار ہو رہی تھیں۔‬
‫"ماں! آپ میری سگی ماں ہی ہو نا؟"‬
‫اس نے منہ بسورے استفسار کیا۔‬
‫"لو جی‪".....‬‬
‫انہوں نے ہونٹوں پر انگلی ٹکائے لمبی آہ بھری۔‬
‫"اری او بیوفا باپ کی بیوفا اوالد۔ نو مہینے تجھے‬
‫کوکھ میں رکھ کے اپنے بدن سے کھالیا پالیا اتنی‬
‫تکلیفیں اٹھائیں۔اور وہ بھی میں اکیلی جان نے۔"‬

‫‪7‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دانتوں پہ دانت جمائے وہ اس کی جانب ہاتھ اٹھا کر‬


‫ہال ہال کر گویا ہوئیں۔‬
‫"باپ تو تیرا تھا ہی بیوفا اور ہرجائی۔ چھوڑ کے بھاگ‬
‫گیا تھا تجھے اور مجھے۔ پھر الزام بھی مجھ پر لگ‬
‫گیا کہ اس بھگوڑے کو میں نے مروایا ہے‪.....‬تباہ‬
‫ّٰللا ان لوگوں کو جو مجھ پر الزام تراشیاں کرتے‬
‫کرے ہ‬
‫ہیں‪ ،‬آج بھی باز نہیں آئے یہ گھٹیا لوگ۔"‬
‫غصے میں آ کر ان کے ہاتھ بینگن پہ تیز چلنے لگے‬
‫تھے تبھی چھری انگوٹھے پہ لگ گئی مگر انہیں‬
‫پرواہ ہی کہاں تھی۔‬
‫ایک نظر بہتے خون پہ ڈالی اور پھر دوپٹے کے پلو‬
‫سے رگڑ کر خون صاف کیا۔‬
‫شاید انہیں عادت ہو چکی تھی غم اٹھانے کی‪،‬تبھی تو‬
‫وہ گھبرائی نہیں تھیں۔‬
‫"ہو گئی تفتیش پوری جا اب کپڑے بدل اور سبزی بنا۔‬
‫آئی بڑی چھمک چھلو۔"‬
‫وہ منہ کے زاویے بگاڑے اسے ایک شکاری کی مانند‬
‫گھور رہی تھیں۔‬

‫‪8‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ماں! میں انیس سال کی ہو گئی ہوں اور آپ بیوفا باپ‬


‫کا تانہ اس انیس سال میں انیس کروڑ مرتبہ دے چکی‬
‫ہیں۔‬
‫اگر وہ بیوفا تھے تو اس میں میرا کیا قصور تھا؟‬
‫میں تو تب پیدا بھی نہیں ہوئی تھی جب انہوں نے آپ‬
‫کے ساتھ بیوفائی کی۔"‬
‫وہ تنگ آ کر تیکھے لہجے میں گویا ہوئی۔‬
‫اس سے پہلے کہ ماں کی ہوائی چپل پرواز کرتی اس‬
‫کے منہ پہ آ بجتی وہ پہلے ہی ان کا ارادہ بھانپ کر‬
‫بجلی کی پھرتی سے وہاں سے بھاگی اور گھر کی‬
‫دہلیز پار کر گئی۔‬
‫"میں کہتی ہوں واپس آ‪........‬سلو!‪.....‬میں ِچھتر اٹھا‬
‫کر تیرے پیچھے آ جانا ہے‪ ،‬اور مار مار کر واپس لے‬
‫آنا ہے‪....‬واپس آ۔"انہوں نے چینخ کر کہا تھا۔‬
‫مگر وہ کہاں رکنے والی تھی۔‬
‫پلٹ کر دروازے کو دیکھا پھر ماں کی گالیوں پر‬
‫ہنستے ہوئے ساتھ والی گلی میں مڑ گئی۔‬

‫‪9‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫یہ ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جو ہر جانب سے ہریالی‬


‫سے گھیرا ہوا تھا اور یہاں کے رہنے والے زندہ دل‬
‫لوگ‪.....‬شادی بیاہ میں ہر کوئی شرکت کرتا تھا۔اور‬
‫مل جل کر سارے کام نبٹاتے تھے‪......‬‬
‫گاؤں کے لڑکے مل کر حویلی کو الئیٹس سے سجا‬
‫رہے تھے‪ ،‬ان سب کی باتوں اور قہقہوں سے ماحول‬
‫خوشگوار بنا رہے تھے۔‬
‫اس کے قدم تھم گئے اور جلدی سے دوپٹہ سر پہ‬
‫درست کرتی نظریں جھکائے وہ تیزی سے مین گیٹ‬
‫تک پہنچی اور دروازہ دھکیل کر جیسے ہی اندر داخل‬
‫ہوئی نگاہیں اٹھائیں تو‪.......‬سامنے سے آتے شخص‬
‫میں کھو سی گئی تھی۔‬
‫یہ ہی تو وہ تھا جو اس کے لیے آکسیجن تھا‪.....‬یعنی‬
‫اسے دیکھتے ہی اس کی سانسیں ہموار چال کرتیں‬
‫اور دل ایک دم سے تیز تیز دھڑکنے لگتا۔‬
‫وہ سفید شلوار قمیض زیب تن کیے ہوئے تھا۔‬
‫کالے اور الئٹ براؤن سلکی بال پیشانی پہ پف کی‬
‫صورت میں بکھرے تھے‪،‬گالبی ہونٹوں پہ مسکراہٹ‬

‫‪10‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫آس پاس طلسم بکھیرنے کے ساتھ سلومی کو بھی‬


‫پاگل ہونے پہ مجبور کرنے میں مصروف تھی۔ہاتھ میں‬
‫سمارٹ فون تھامے وہ اپنی تمام تر وجاہت اور بارعب‬
‫شخصیت لیے اس کے سامنے تھا۔‬
‫نظریں فون سے ہٹاتے ہوئے جب اس نے سلومی کو‬
‫دیکھا تو چند پل جیسے پہچاننے کی کوشش کرتا‬
‫رہا‪.....‬کہ سالوں بعد تو ان کی مالقات ہو رہی تھی۔‬
‫پھر یاد آنے پہ اپنائیت سے مسکرا دیا۔‬
‫"اسالم و علیکم!"‬
‫اس کی نگاہوں کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے وہ‬
‫اسے طلسم سے آزاد کر چکا تھا۔‬
‫سلومی نے گھبراتے ہوئے سر جھکایا اور لب کچلنے‬
‫لگی۔‬
‫ایک اور خاص چیز جو اسے پسند تھی اس شخص‬
‫میں وہ یہ تھی کہ‪.....‬گول چہرے پہ سٹائلش داڑھی‬
‫کے ساتھ بھرویں موچھیں جو اس کو مزید حسین بنتی‬
‫تھیں۔‬

‫‪11‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ اکثر خود سے سوال کرتی تھی اگر وہ اتنا پرسنیلٹی‬


‫واال نہ ہوتا‪ ،‬شہری بابو کی بجائے یہاں کا ہی کوئی‬
‫دیہاتی ہوتا تو کیا وہ اس کی محبت میں مبتال ہو جاتی؟‬
‫کیا وہ اس کی بارعب شخصیت سے محبت کرتی ہے؟‬
‫"کیا ہوا؟ آپ نے میرے سالم کا جواب نہیں دیا۔"‬
‫نظریں فون کی سکرین پر جمائے وہ اس کے جواب‬
‫کا منتظر تھا۔‬
‫" و علیکم السالم!"‬
‫ایک نگاہ ہی بس ڈالی تھی اس نے پھر اندرونی جانب‬
‫دوڑ لگا دی۔کیونکہ مزید ایک پل بھی اس جادوگر کے‬
‫سامنے کھڑی ہوتی تو وہاں ہی پتھر کی ہو جاتی۔‬
‫اس نے گردن گھما کر سلومی کے اٹھتے قدموں کو‬
‫دیکھتے ہوئے اپنی ہنسی چھپانے کے لیے نیچلے لب‬
‫کو دانتوں تلے دبایا اور سر کھجاتا پلٹ گیا۔‬
‫"اوہ ہو‪......‬ذیاج یزدانی صاحب!‪.....‬مسکرا رہے ہیں۔‬
‫کہیں گاؤں میں ایمبولینس تو نہیں آنے والی۔"‬
‫دروازے پہ کھڑے کزنوں نے اسے گھیر لیا تھا۔‬

‫‪12‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ سٹپٹا گیا مگر دوسرے ہی پل وہ سنبھلتے ہوئے‬


‫مسکرایا۔‬
‫"اتنا لمبا نام مت لو تمہارے گاؤں کی لڑکیاں یاد نہیں‬
‫کر سکیں گی۔" اس نے اپنے اس کزن کی گردن کے‬
‫گرد بازو حائل کرتے ہوئے چہک کر کہا۔‬
‫"میں تو کہتا ہوں ذیاج کا نام یہاں لکھوا دو۔"‬
‫ایک اور کزن نے ہاتھ کا اشارہ چھت کی جانب کیا۔‬
‫سب نے بیک وقت چھت کی جانب دیکھا‪،‬جہاں بہت‬
‫بڑے دل میں شادی مبارک لکھا تھا۔‬
‫"آئیڈیا تو بہت ہی اچھا ہے‪ ،‬مگر اس کا کنٹیکٹ نمبر‬
‫بھی لکھ دینا۔"‬
‫حاور نے سوچنے کے بعد گہری مسکان لیے اثبات‬
‫میں سر ہالتے ہوئے کہا۔‬
‫"چھترول کروانے کا ارادہ ہے ابا حضور سے؟"‬
‫وہ خفگی سے اس کا بازو جھٹکتے ہوئے پیچھے ہٹا۔‬
‫"ہمت تو اتنی سی ہی ہے۔اور بنا پھرتا ہے‬
‫جٹ۔اونہہ‪"....‬‬

‫‪13‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫حاور نے اس کا مذاق اڑایا۔‬


‫"ہمت کی بات مت کرو وہ تو بہت ہے۔مگر تمہارے‬
‫پھوپھا جی سے ڈرتا ہوں۔"‬
‫اس نے صاف گوئی سے اپنے والد صاحب کا نام لیا۔‬
‫وہ سب جانتے تھے کہ یزدانی صاحب کے دونوں‬
‫بیٹے جتنے بھی ماڈرن تھے مگر بڑوں کی عزت کرنا‬
‫جانتے تھے۔ شہر میں پلے پڑھنے کے بعد بھی وہ‬
‫لوگ بہت شریف زادے ثابت ہوئے تھے اور یہ ان کی‬
‫اچھی پرورش کا ثبوت تھا۔‬
‫"تمہاری ماں کیوں نہیں آئی؟"‬
‫چاچی نے اسے دیکھتے ہی استفسار کیا۔‬
‫"سالم چاچی! ماں ہانڈی بنا رہی تھیں‪ ،‬آتی ہی ہوں‬
‫گیں۔"‬
‫اس نے چارپائی سے اٹھتے ہوئے نہایت ادب واحترام‬
‫سے کہا۔‬
‫"اے لے‪.....‬دیکھ لو ناز بہن!"‬

‫‪14‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫چاچی نے کمرے میں داخل ہوتی ناز یزدانی کو مخاطب‬


‫کیا جو سلومی کے سر پہ ہاتھ رکھ رہی تھیں۔‬
‫"کیا ہو گیا؟ جب سے میں آئی ہوں تو نے مجھے یہ‬
‫دیکھ لے وہ دیکھ لے کر کر کے دن میں تارے دکھا‬
‫دیئے ہیں۔"‬
‫وہ کوفت سے کہتیں کرسی پہ بیٹھ گئیں۔‬
‫یہاں چاچی کا منہ بنا تو وہاں سلومی اور طلحہ اپنی‬
‫ہنسی چھپاتی وہاں سے کھسک گئی تھیں۔‬
‫"وہ ماہ رانی اپنا خود کی دیڑھ انچ کی مسجد بنا کر‬
‫بیٹھ گئی ہے۔تمہارے سامنے میں نے حاور کو بھیجا‬
‫ہے دو‪،‬دو مرتبہ مگر اس کے کان پہ جوں نہیں‬
‫رنگتی۔‬
‫پھر سب لوگ مجھے ہی برا قرار دیتے ہیں۔کہ جی‬
‫میں اس بچاری کے ساتھ سوتیلوں واال رویہ اختیار‬
‫کرتی ہوں۔"‬
‫چاچی کی شکایتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔‬
‫"تو دفع کر‪ ،‬نہیں آئی تو اچھا ہی ہے۔چل میرے ساتھ‬
‫تجھے تمہارے کپڑے دکھاؤں۔کراچی کی بڑی دکان‬

‫‪15‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سے خریدے ہیں۔"ناز بیگم نے مسکراتے ہوئے اس‬


‫کا ہاتھ تھاما۔‬
‫"ہائیں‪.....‬تو کتنی اچھی ہے باجی!"‬
‫وہ خوشی سے جھوم اٹھی تھی۔‬
‫"دیکھنا وہ صالحہ کیسے جل بھوج کر کوئلہ ہو گی۔"‬
‫اس نے تصور میں ہی اپنی بھاوج کے اترے چہرے‬
‫اور اسے سستے اور خود کو مہنگے لباس میں دیکھ‬
‫کر من ہی من میں بھنگڑا ڈالتی ان کے ساتھ ہو لیں۔‬
‫باہر جا کر وہ دونوں خوب ہنسی تھیں۔‬
‫"پھوپھو ناز کو چاچی نے دن میں تارے کیسے دکھا‬
‫دیئے؟"‬
‫اس نے ناز پہ زور ڈالتے ہوئے کہا۔‬
‫وہ دونوں اب کچن کی جانب جا رہی تھیں۔‬
‫جہاں یاور بھائی کی بیگم کام والیوں کے ساتھ موجود‬
‫تھی اور روٹی پانی کا انتظام کروا رہی تھی۔‬
‫"ہاں تو اور کیا۔ تھوڑی سی بات ہوتی تو اماں پھوپھو‬
‫سے کہتی ہیں۔‬

‫‪16‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫یہ دیکھ ناز باجی!‬


‫وہ دیکھ‪ ،‬وہاں دیکھ‪.....‬ادھر اُدھر۔‬
‫میں یقین سے کہہ سکتی ہوں پھوپھو کی گردن کی‬
‫ایکسرسائز بہت اچھے سے ہو گئی ہے۔ کچھ چربی کم‬
‫ہو جائے گی ان کی۔"‬
‫وہ دونوں ہاتھ پہ ہاتھ مار کر ہنسیں۔‬
‫"تمہیں کتنی مرتبہ کہہ چکا ہوں بیگم کہ سر پہ چادر‬
‫اوڑھ کر کوکنگ کیا کرو۔اب یہ دیکھو بال نکل آیا ہے‬
‫روٹی سے۔"‬
‫یاور اپنی بیگم کا ہاتھ سختی سے پکڑے دانتوں پہ‬
‫دانت جمائے اسے لتاڑ رہا تھا۔‬
‫وہ ہوائیاں اڑے چہرے کے ساتھ اس کی سفاکی پر سر‬
‫جھکائے ہوئے تھی۔‬
‫وہ دونوں ایک دوسرے کا منہ دیکھ کر رہ گئیں۔‬
‫"یاور بھائی! کیا کر رہے ہیں آپ۔"‬
‫دو دونوں دائیں جانب والے دروازے کی دہلیز پہ‬
‫پہنچی تھیں تو دوسری جانب سے حاور آ گیا۔‬

‫‪17‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"چھوڑیں بھابھی کا ہاتھ۔"‬


‫اس نے نرم لہجے میں کہتے ہوئے ایک نظر بھابھی‬
‫کے برستے آنسؤں پہ ڈالی۔‬
‫ان دونوں لڑکیوں نے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا‬
‫اور پھر حاور کو جس کے چہرے پہ تو غصہ تھا مگر‬
‫لہجہ نارمل سا تھا۔‬
‫"تم میرے معامالت میں مداخلت مت کیا کرو حاور!‬
‫کتنی مرتبہ سمجھا چکا ہوں کہ چھوٹے ہو تو چھوٹوں‬
‫کی مانند ہی رہو۔جاؤ یہاں سے۔" یاور نے سرخ‬
‫نگاہوں کے ساتھ اس کو گھورا۔‬
‫"ٹھیک ہے نہیں کرتا مداخلت مگر‪.......‬پہلے آپ‬
‫بھابھی کو چھوڑیں۔"‬
‫وہ بھی حاور تھا‪ ،‬جہاں اٹکا وہاں اٹک ہی گیا۔‬
‫"آئندہ اگر مجھے تم نے کسی شکائت کا موقع دیا تو‬
‫مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔" وہ اسکا ہاتھ‬
‫جھٹکتے ہوئے تیزی سے باہر کی جانب بڑھ گئے۔‬

‫‪18‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ان دونوں کے پاس آ کر ایک پل کو رکا گردن گھما کر‬


‫جب دیکھا تو وہ دونوں ان کی سرخ آنکھوں سے ڈر‬
‫کے سر جھکا گئیں۔‬
‫وہ لمبے لمبے ڈنگ بھرتا وہاں سے چال گیا۔بھابھی‬
‫منہ ہاتھوں میں چھپا ک پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں۔‬
‫"سب ٹھیک ہو جائے گا بھابھی!" ایک افسردہ نگاہ‬
‫ان پہ ڈالتے ہوئے وہ سرد سانس خارج کرتا وہاں‬
‫سے ہٹ گیا۔‬
‫وہ دونوں تیزی سے بھابھی کے پاس پہنچیں۔‬
‫"بھابھی! آپ جا کر ریڈی ہو جاؤ۔" طلحہ نے آگے بڑھ‬
‫کے ٹرے اٹھایا اور روٹیاں جوڑنے لگی۔‬
‫"تم رہنے دو میں کر لوں گی۔ملکانی! ارے او ملکہ!"‬
‫انہوں نے طلحہ کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔‬
‫غصہ تو انسان کو آ ہی جاتا ہے‪.....‬اور بھابھی کو تو‬
‫آنا ہی تھا۔‬
‫اس کے ساتھ اتنا برا سلوک کیا جاتا تھا کہ کوئی باہر‬
‫سے آنے واال یہ مان ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ اس گھر‬
‫کی بڑی بہو ہے۔‬

‫‪19‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اعلی ضرفی کا‬


‫ٰ‬ ‫وجہ بس ایک ہی تھی کہ یہ معاشرہ‬
‫مظاہرہ کر ہی نہیں سکتا۔دنیا کا رواج ہے یہ کہ جو‬
‫دکھی ہو اسے مزید دکھی کیا جاتا ہے‪....‬اور یہ ہی‬
‫بھابھی کے ساتھ ہو رہا تھا۔‬
‫"طلحہ! کیا اوالد انسان کے ہاتھوں میں ہے؟" سلومی‬
‫نے سوچنے والے انداز میں استفسار کیا۔‬
‫"نہیں۔"‬
‫"تو پھر کیوں یاور بھائی بھابھی کے ساتھ ایسا‬
‫سلوک کرتے ہیں؟" اس کے سوال کا جواب طلحہ کے‬
‫پاس نہیں تھا تبھی ٹھنڈی سی سانس بھر کر خاموش‬
‫ہو گئی۔‬
‫وہ دونوں چھت پہ چلی گئی تھیں کہ وہاں کی فضاء‬
‫میں بہت ہی گھٹن سی تھی۔‬
‫طلحہ کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوئی جبکہ‬
‫وہ کچھ سوچتی ہوئی پیچھلی جانب والے منڈیر پہ جا‬
‫کھڑی ہوئی۔‬
‫گلی میں ادھر سے ادھر نگاہیں دوڑائیں مگر وہ نظر‬
‫نہیں آیا۔‬

‫‪20‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اوہ‪.....‬تیری خیر‪.......‬تیری گڈی(پتنگ) کاٹ گئی‬


‫نیلی گڈی کو۔ذیاج! بھائی دیکھیں میں نے گڈی کاٹ‬
‫دی۔"‬
‫سات سالہ لڑکا خوش ہوتے ہوئے چینخ کر بوال۔‬
‫سلومی نے پلٹ کر دائیں جانب والی چھت پہ دیکھا‬
‫جہاں وہ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ پتنگ اڑانے‬
‫والے بچوں کے ساتھ موجود تھا۔‬
‫دائیں ہاتھ میں تھامے فون کو کان سے لگائے وہ کیٹ‬
‫واک کرتا ہنس ہنس کے سامنے والی ہستی سے‬
‫انگلش میں پٹر پٹر کر رہا تھا۔‬
‫نجانے کیوں اس کا دل بجھ گیا۔‬
‫ذیاج کی مسکراہٹ اور سامنے والی ہستی کی باتوں‬
‫کو غور سے سننا‪ ،‬یہ سب اسے بلکل بھی اچھا نہیں‬
‫لگ رہا تھا۔‬
‫دماغ میں سو سوال انگڑائی بھر کے اٹھے تھے۔‬
‫ذیاج نے اس کی موجودگی پا کر پلٹ کے دیکھا اور‬
‫مبہم سی مسکراہٹ اس کی جانب اچھالی۔‬
‫وہ بنا کوئی ردعمل کے پلٹ گئی۔‬
‫‪21‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫لمبے لمبے سانس بھرتے ہوئے سلومی نے سر نفی‬


‫میں جھٹکا۔‬
‫"وہ ایسے نہیں ہیں۔میں خواہ مخواہ شک کر رہی‬
‫ہوں۔کوئی دوست بھی تو ہو سکتا۔"‬
‫"مگر اس کی مسکراہٹ‪....‬بات کرنے کا انداز‪.....‬اس‬
‫طرح دلفریبی سے لڑکے سے بات نہیں ہوتی۔" دل‬
‫مایوسی سے رو دیا۔‬
‫منڈیر کی اینٹوں پہ ہاتھ سختی سے جمائے اس نے‬
‫پلٹ کر ذیاج کی پشت کو دیکھا اور پھر تیزی سے‬
‫کمرے کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫سلومی کے والد صالحہ بیگم کو پسند نہیں کرتے‬
‫تھے‪.....‬وہ ان سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتے تھے‬
‫مگر بڑوں کے سامنے وہ زیادہ دیر تک بہانے وغیرہ‬
‫نہیں بنا سکے اور خود سے چھوٹے بھائی کو جب‬
‫دوسری اوالد ہوئی تو انہیں بھی لگنے لگا کہ اب‬
‫شادی کر ہی کی جائے‪.....‬‬
‫مگر یہ شادی مجبوری کی تھی تو وہ سلومی اور اس‬
‫کی ماں کو تب ہی چھوڑ گئے تھے جب وہ ابھی اس‬

‫‪22‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دنیا میں بھی نہیں آئی تھی‪......‬وہ اس دنیا سے چلے‬


‫گئے اور اپنے حصے کی ساری جائیداد اپنے چھوٹے‬
‫بھائی اور تینوں بھتیجوں کے نام کر گئے۔‬
‫صالحہ بیگم کے نام پہ صرف سات مرلے کی جگہ‬
‫جس میں دو کمرے اور ایک کچن واشروم تھا چھوٹا‬
‫سا صحن جس میں ایک جامن کا بہت پرانا درخت تھا‬
‫بس یہ ہی ان کے حصے میں آیا۔حاالت کچھ ایسے ہو‬
‫گئے تھے کہ ہر روز سسرالیوں کے تنگ کرنے پر‬
‫صالحہ بیگم کو حویلی چھوڑنی پڑی تھی۔ انہوں نے‬
‫گاؤں کی عورتوں کے کپڑے سالئی کر کے فصلوں‬
‫میں محنت مزدوری کر کے سلومی کو پال تھا۔‬
‫اپنے چھوٹے دیور سے جب بھی کبھی کوئی مدد‬
‫مانگی گئی‪......‬وہ مدد تو کر دیتے مگر پھر شناز اور‬
‫دیور صاحب ہر ہر بات پہ تانے دیتے۔‬
‫چاچا کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔‬
‫سب سے بڑا یاور جو زمینوں کی دیکھ بھال کرتا اور‬
‫باہر کے معموالت نبٹاتا۔‬

‫‪23‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کی شادی کو پانچ سال ہو چکے تھے مگر اوالد‬


‫کی ناامیدی نے اسے بہت چڑچڑا بنا دیا تھا۔‬
‫اس سے چھوٹا تھا مصباح جو نکھٹو سے بھی اوپر‬
‫کے درجے کا شخص تھا‪....‬کسی کام کو ہاتھ لگانے‬
‫سے پہلے ہی اسے موت واقع ہونے لگتی۔‬
‫سب سے چھوٹا حاور چھٹی جماعت سے ہی گاؤں کی‬
‫دنیا سے نکل کر شہر کے کھلے ماحول میں پال بڑھا۔‬
‫شروع سے ہی ہوسٹلوں میں رہتا آیا تھا تبھی تو اسے‬
‫رشتوں کی قدر تھی‪.....‬کہ یہ جو دوریاں ہیں یا تو‬
‫بندے کو انسان بنا دیتی ہیں یا پھر بلکل ہی جانور‬
‫مگر وہ انسان بنا تھا۔‬
‫اور سب سے چھوٹی طلحہ وہ‪ ......‬تو سلومی کی‬
‫طرح بننے کی کوشش کرتی اور کسی حد تک وہ‬
‫کامیاب بھی ہو چکی تھی۔‬
‫اسکی یہ ہی کوشش ہوتی تھی کہ سلومی کی مانند نرم‬
‫و مالئم لہجہ ہو اور آواز بھی سلومی جیسی میٹھی ہو‬
‫کوئی سنے تو پھر سنتا جائے۔‬

‫‪24‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اور رخساروں کو چھوتی لمبی پلکیں جب اٹھائے تو‬


‫آنکھوں کی سیاہی میں لوگوں کے دل ڈوبنے لگیں۔‬
‫جس طرح مرد حضرات کی موجودگی میں سلومی آنچل‬
‫سر پہ ہی ٹکائے رکھتی تھی کہ تمام گاؤں والے‬
‫تعریفیں کرتے تھے وہ بھی ان تعریفوں کو سننا چاہتی‬
‫تھی۔‬
‫اور یہ سب چیزیں سلومی کو خوشی دیتی تھیں کہ‬
‫طلحہ کم از کم اپنی بڑی بہن کی طرح سڑیل تو نہیں‬
‫ہے خواہ وہ کاپی کرتی ہے۔‬
‫اچھا تو بولتی ہے۔‬
‫اس کی ایک پھوپھو بھی تھی جو کہ اس کے دادا کی‬
‫پہلی بیوی سے تھیں۔‬
‫ناز بیگم کی والدہ شہر کے رائس کی بیٹی تھیں‪ ،‬تو‬
‫ان کی والدہ نے اپنے جیسے امیر گھرانے میں ہی ناز‬
‫بیگم کو بیاہ دیا۔‬
‫یزدانی صاحب کے والد کا بزنس بہت وسیع تھا۔‬

‫‪25‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫انہوں نے اپنے اکلوتے بیٹے یزدانی صاحب کو اچھی‬


‫تربیت کے ساتھ ساتھ سخت مزاج اور اصول پسند بھی‬
‫بنایا تھا۔‬
‫ّٰللا‬
‫یزدانی صاحب کے دو ہی بیٹے تھے۔اسکے بعد ہ‬
‫نے ان کو اوالد سے نوازا ہی نہ ‪،‬اور ان کو بھی کوئی‬
‫دکھ نہیں تھا۔‬
‫ّٰللا کا شکر ادا کیا۔‬
‫دو انمول بیٹوں کو پا کر انہوں نے ہ‬
‫ان چند دنوں میں وہ اپنے دل کا حال‪.....‬چاہ کر بھی‬
‫دیاج کے سامنے بیان نہیں کر سکی تھی۔‬
‫کتنی ہی ہمت والی ہوتی مگر تھی تو مشرقی عورت‬
‫اور مشرقی عورت میں کہاں وہ بےباکی کہ‪....‬زبان‬
‫سے اپنے جذبات مرد کے سامنے پیش کر سکتی۔‬
‫حویلی میں مہندی کا فنکشن عروج پر تھا۔‬
‫وہ جو پیچھلے دو گھنٹے سے بالوں کو سٹائل دے‬
‫رہی تھی اماں کے کمرے میں داخل ہونے سے ہڑبڑا‬
‫گئی۔‬
‫کام دار پیلے شرارے‪ ،‬گولڈن کرتی میں وہ بہت پیاری‬
‫لگ رہی تھی۔‬
‫‪26‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫یاور بھائی کی شادی پہ جو اس نے اور طلحہ نے مل‬


‫کر حاور سے میک اپ منگوایا تھا اور بعد میں طلحہ‬
‫نے اسے دے دیا کیونکہ یہ سارا میک اپ الئٹ ٹون‬
‫والوں کے لیے تھا جو کہ سلومی کی سنہری رنگت پہ‬
‫ہی لگ سکتا تھا۔‬
‫سلومی نے اس میک اپ میں سے پونڈز کی بی بی‬
‫کریم لگا کر فیس پاؤڈر سے اسے کوؤر کیا۔‬
‫ہونٹوں پر بہت ہی ہلکی سی گالبی لپ اسٹک لگا کر‬
‫آنکھوں میں کاجل کی ایک لکیر کھینچی۔‬
‫لمبی‪ ،‬پلکوں کو مسکارے سے واضح کیا اور تھوڑا‬
‫سا شائنر لے کر رخساروں کے ابھرویں حصے اور‬
‫ناک کی لو پر لگایا۔‬
‫ماں اس کے گول چہرے پہ سجے پیارے نین نقش اور‬
‫اتنی نفاست سے کیا گیا میک اپ غور سے دیکھتے‬
‫ہی چند پل تو دہلیز پہ ہی جم گئیں مگر دوسرے ہی پل‬
‫وہ اس کے سر پہ تھیں۔‬
‫"اری او موئی‪.....‬یہ کیا توں میک اپ کر کے بیٹھ‬
‫جاتی ہے۔"‬

‫‪27‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ماں! کیا ہو گیا ہے۔مصباح بھائی کی مہندی ہے سب‬


‫نے میک اپ کیا ہوا ہے۔‬
‫ناز آنٹی نے تو اسپیشل بیوٹیشنل کو منگوایا ہے۔‬
‫اور میں نے تو زیادہ سفید سفید چہرہ نہیں کیا‪،‬‬
‫دیکھیں بیس ایک دم میری سکن سے میچ کر رہا‬
‫ہے۔"‬
‫وہ چہکتے ہوئے چہرے کو دائیں بائیں گھما کر انہیں‬
‫اپنی مہارت دکھانے لگی۔‬
‫"ابھی یہ زیادہ نہیں کیا تو پھر اور زیادہ کب ہو گا؟"‬
‫وہ سر تھامے چارپائی پر گرنے کے سے انداز میں‬
‫بیٹھیں۔‬
‫سلومی نے تیز ہاتھ چالتے ہوئے بالوں میں جھلمالتا‬
‫‪،‬شیشوں جڑا پراندہ گندنا شروع کیا۔‬
‫"دیکھ سلومی! تو ابھی ابھی جوانی کی دہلیز پہ قدم‬
‫رکھ رہی ہے۔"‬
‫انہوں نے گہری سانس خارج کرتے ہوئے کہنا شروع‬
‫کیا۔‬

‫‪28‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ایک نظر اس پہ ڈالتے ہوئے وہ رخ پھیر گئیں۔‬


‫"توں نہیں جانتی کہ غلط کیا ہے اور درست کیا ہے۔‬
‫اس عمر میں ‪.....‬خاص طور پہ لڑکیاں‪.....‬ایسی‬
‫امیدیں اور خواب سجا بیٹھتی ہیں جن کی کوئی منزل‬
‫نہیں ہوتی۔"‬
‫ان کی بات پہ سلومی کے ہاتھ رک گئے گردن گھما کر‬
‫صالحہ کی جانب دیکھتے ہوئے وہ اب پراندے کو‬
‫درست کر کے دونوں رخساروں پر جھولتی لٹوں کو‬
‫انگلی پہ لپیٹنے لگی۔‬
‫"کسی کے ساتھ امیدیں وابستہ کرنے اور جھوٹے‬
‫خواب دیکھنے سے پہلے یہ ضرور یاد رکھ لینا کہ اب‬
‫میرے پاس تمہیں کھونے کی ہمت نہیں ہے۔"‬
‫وہ برستی آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے‬
‫رخساروں پر گرتے موتی صاف کرتیں کمرے سے‬
‫نکل گئیں۔‬
‫سلومی نے گالبی پھولوں سے بھی نرم ہونٹوں کو‬
‫کاٹتے ہوئے سنگھار شیشے میں اپنے پورے حسن‬
‫کو دیکھا۔‬

‫‪29‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ماں! میں بھی ایک عام سی لڑکی ہوں۔‬


‫میں بھی چاہتی ہوں کہ سب سے خوبصورت لگوں۔‬
‫مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ‪"......‬‬
‫وہ سوچتے سوچتے خاموش ہو گئی۔‬
‫"اگر میں ذیاج کو دکھانے کے لیے تیار نہیں ہو رہی‬
‫تو کیوں ہو رہی ہوں؟مجھے گاؤں والوں نے تو دیکھ‬
‫رکھا ہے۔"دل نے سوال اٹھایا تھا۔‬
‫"تو کیا مجھے چہرہ دھو لینا چاہیے؟" وہ ہمکالم‬
‫تھی۔‬
‫"کیوں بھئی؟"‬
‫اپنے پیچھے آواز اور دروازے کے وسط میں ابھرتا‬
‫سراپا شیشے میں دیکھ کر وہ پلٹی۔‬
‫"اتنی خوبصورت لگ رہی ہو۔اپنی محنت خراب کرو‬
‫گی‪.....‬چلو۔"‬
‫وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور تھوڑا سا جھک کر اسکا‬
‫ہاتھ تھام لیا۔‬

‫‪30‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"حاور! مجھے عجیب لگ رہا ہے۔بہت زیادہ ہی ہو‬


‫گیا۔"‬
‫حاور اور طلحہ اس کے بہترین دوست تھے ہر بات ان‬
‫دونوں سے شیئر کر لیتی تھی۔ایک حاور ہی تھا جو‬
‫گھر جب بھی آتا ان دونوں لڑکیوں کو شہر لے جاتا تو‬
‫کبھی کسی نہر کنارے تو کبھی بھینی پہ لے جاتا۔‬
‫"بلکل بھی نہیں‪......‬اتنی مہارت سے کیا گیا کہ یوں‬
‫معلوم ہو رہا ہے کہ کسی بیوٹیشنل نے کیا ہو۔" وہ‬
‫مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫"چل اے۔ ایویں گالں نہ مار۔"‬
‫وہ اس کے شانے پہ تھپکی رسید کر کے آئینے کی‬
‫جانب گھوم گئی۔‬
‫"نئیں جی۔چل بس کر اب نظر نہ لگا لینا خود کو۔ پھر‬
‫تائی دم کرتی ہلکان ہوتی رہیں گیں۔"‬
‫وہ اس کے شانے پہ بکھرے دوپٹے کو اٹھا کر اس‬
‫کے سر پہ اوڑھ کر اس کی کالئی تھامتے ہوئے کھینچ‬
‫کر باہر کی جانب لپکا۔‬

‫‪31‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ارے رکو ماں کو تو بتانے دو۔" اس نے بوکھالہٹ‬


‫سے کہا۔‬
‫"تائی! میں سلومی کو لے جا رہا ہوں۔آپ بھی آ‬
‫جائیں۔"‬
‫وہ گھر کی دہلیز پہ رکتے ہوئے پلٹ کر بوال اس کی‬
‫کالئی چھوڑ کر باہر نکال اور اس کی جانب دیکھا جو‬
‫دروازے کے پاس کھڑی ریشمی آنچل سر پہ ٹکا رہی‬
‫تھی۔‬
‫اچانک ہی نظر اس کی خالی کالئیوں پہ پڑیں۔‬
‫"چلیں۔"‬
‫وہ باہر نکلتے ہوئے بولی۔‬
‫"تم نے جیولری کیوں نہیں پہنی؟" اس کے ساتھ‬
‫چلتے ہوئے ایک نظر اس کے کسی قسم کے ائیر‬
‫رنگز سے خالی کانوں کو دیکھا۔‬
‫"ماں کا پتہ تو ہے تمہیں‪،‬پھر کیوں میرے کلیجے پہ‬
‫نمک چھڑکتے ہو۔یہ ذرا سا میک اپ کر لیا تو ایسا‬
‫ری_ایکشن کیا جیسے پتہ نہیں کیا ہو گیا ہو۔" وہ‬
‫بدمزگی سے شکایت کر رہی تھی۔‬

‫‪32‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫حاور قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬


‫سلومی نے اس کی جانب گردن گھما کر دیکھتے ہوئے‬
‫نگاہیں سکوڑیں۔‬
‫"ری ایکشن تو کریں گی ہی۔جب تم نے ایسا ایکشن‬
‫دیا۔‬
‫ویسے سچ بتاؤ میک اپ تم نے کہاں سے سیکھا؟"‬
‫وہ اپنے سفید کرتہ کی جیبوں کو ٹٹولتے ہوئے بوال۔‬
‫"تم جو سمارٹ فون دے گئے تھے نا۔جس میں اتنی‬
‫ساری انگلش سیکھنے کی ویڈیوز تھیں۔ اسی میں چار‬
‫پانچ میک اپ ٹوٹوریل بھی تھے۔بس وہاں سے ہی۔"‬
‫اس نے سینے پہ بازو لپیٹے سر جھکا کر کہا۔‬
‫"اوہ اچھا‪ .....‬اچھا یاد آیا تین سال پہلے دے کر گیا‬
‫تھا ابھی تک پڑا ہے؟"‬
‫اس نے مسکراتے ہوئے استفسار کیا اور جیب سے‬
‫نکالی گئی گاڑی کی چابی کو اچھال کر کیچ کرتا گلی کا‬
‫موڑ مڑ گیا۔‬
‫سلومی نے اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫‪33‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تو چارج کیسے کرتی ہو؟"‬


‫"طلحہ کر کے دیتی ہے۔" اس نے کہا۔‬
‫"تم اس میں سیم کیوں نہیں ڈالتی۔کم از کم کنٹیکٹ‬
‫میں تو رہیں گے ہم دونوں۔"‬
‫حاور نے ہاتھ کا اشارہ حویلی کی دیوار کے ساتھ‬
‫کھڑی جیپ کی جانب کیا۔‬
‫"ادھر کہاں اشارہ کر رہے ہو؟" اس نے ایک نظر گلی‬
‫میں ڈالی جہاں لوگ آ جا رہے تھے۔‬
‫"چلو تمہیں گاؤں کی نکڑ پہ جو بینگلز کا اسٹال ہے‬
‫وہاں سے بینگلز دلوا دوں۔بچیوں کے ہاتھ سونے‬
‫اچھے نہیں لگتے۔"‬
‫آخر میں وہ کسی بڑے بوڑھے کی طرح بوال تو‬
‫سلومی بےاختیار ہنس دی۔‬
‫"حاور! میں اس وقت کہیں نہیں جا رہی۔تم جانتے ہو‬
‫نا کہ سارا خاندان اکھٹا ہے‪....‬لوگ کیا سوچیں گے۔"‬
‫"وہ جو بھی سوچیں گے ان کا مسلئہ ہو گا تمہارا‬
‫نہیں۔چلو اب۔" وہ کمال بےنیازی سے بوال۔‬

‫‪34‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تم مرواؤ گے۔"‬


‫اس نے دانت پیستے ہوئے قدم گھر کی جانب بڑھائے‬
‫ہی تھے کہ وہ اس کے راستے میں حائل ہو گیا۔‬
‫وہ اچھی خاصی بوکھالہٹ کا شکار ہوئی تھی کیونکہ‬
‫چاچی صحن سے دروازے کی جانب ہی آ رہی تھیں۔‬
‫اور ان کی نگاہیں اس پہ ہی تھیں۔‬
‫" ح حاور! چ چاچی آ رہی ہیں تم جاؤ یہاں سے۔"‬
‫وہ اس کو خفگی سے دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫حاور اسکی موٹی موٹی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے‬
‫مسکرا دیا۔‬
‫"تو اس میں ڈرنے والی کون سی بات ہے‪،‬میں تمہیں‬
‫بھگا کر تو لے جا نہیں رہا۔"‬
‫"کیسی بکواس کرتے ہو۔کوئی سن لے گا تو کیا کہہ‬
‫گا؟"‬
‫اس نے اسے گھوری نوازی اور اس کے عقب سے‬
‫نکل کر آگے بڑھ گئی۔‬

‫‪35‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سر جھکائے وہ چاچی کے پاس سے گزرنے ہی والی‬


‫تھی کہ انہوں نے اس کی کالئی تھام کر پوری قوت‬
‫سے روک لیا۔‬
‫"کس کے ساتھ گپیں ہانک رہی تھی؟ شرم نہیں آتی‬
‫تجھے‪......‬ارے او لڑکے ادھر دیکھ میری طرف۔"‬
‫چاچی اپنے کھلے بالوں کو جھٹکتے ہوئے بولیں۔‬
‫ابھی ابھی ناز بیگم کی بالئی گئی بیوٹیشنل ان کا میک‬
‫اپ کر کے گئی تھی۔‬
‫"حاور! تم اس کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟"‬
‫پلٹ کر اپنی جانب آتے حاور کو دیکھتے ہی وہ‬
‫چالئیں۔‬
‫"ادھر آئیں میری بات سنیں۔" وہ ان کا ہاتھ تھام کر‬
‫کونے میں لے گیا۔‬
‫"مجھے معلوم ہے آپ اسے پسند نہیں کرتیں۔"‬
‫ایک نظر سلومی پہ ڈالتے ہوئے وہ افسردگی سے‬
‫بوال۔‬

‫‪36‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اسی لیے تو اس کے ساتھ چپکا رہتا ہے؟" انہوں‬


‫نے دانتوں پر دانت جمائے۔‬
‫"ارے نہیں ماما! ایکچلی آپ اتنی خوبصورت لگ رہی‬
‫ہیں مگر اسے دیکھیں۔"‬
‫حاور نے انہیں سلومی کی جانب متوجہ کیا جو جان‬
‫بوجھ کر اوپر دیکھنے لگی تھی۔‬
‫"وہ بھی بہت پیاری لگ رہی۔ جبکہ تیار بھی خود ہی‬
‫ہوئی ہے۔ایسے میں ساری عورتیں آپ کو نہیں بلکہ‬
‫اسے ہی دیکھیں گی‪ ،‬تو‪......‬میں نے سوچا اسے‬
‫ساتھ لے جاتا ہوں۔" اس نے ہوشیاری سے کام لیا۔‬
‫"بات تو ٹھیک کر رہا۔مگر اسے ابھی اتنی عقل کہاں‬
‫کہ مجھے نہیں لوگ طلحہ کو نہیں دیکھیں گے اور‬
‫خاص طور پر ذیاج اور اس کا بھائی عماد اور ان‬
‫دونوں کی ماں ناز۔ان تینوں کو تو صرف طلحہ ہی نظر‬
‫آنی چاہیے۔ کیونکہ ذیاج یا عماد میں سے کسی ایک‬
‫کو تو اس دل لگی ہو ہی جانی چاہیے۔" وہ اسے کڑی‬
‫نگاہوں کے احصار میں لیے شاطر مسکراہٹ سجائے‬
‫سوچ رہی تھیں۔‬

‫‪37‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مگر تو اسے لے کہاں جا رہا ہے؟"‬


‫وہ چونکتے ہوئے بولیں۔‬
‫"ماما! اپنے بیٹے پہ بھروسہ تو ہے نا؟‬
‫ڈیرے پہ جا رہے ہیں وہاں سے گالب کے پھول النے‬
‫ہیں۔‬
‫اس وقت کوئی بھی لڑکا فری نہیں ہے۔ مردان خانے‬
‫میں مردوں کو کھانا کھال رہے ہیں۔ " اس نے معصوم‬
‫صورت بنائی۔‬
‫"اور ویسے بھی اس کو بھی تو اس کی اوقات معلوم‬
‫ہو۔اتنی رات میں جب پھول چنے گی تو عقل ٹھکانے آ‬
‫جائے گی۔"‬
‫اس نے آنکھ دبا کر کہتے ہوئے آخری کیل بھی‬
‫صندوق میں ٹھونک دیا۔گویا اب چاچی کو اس پہ پورا‬
‫یقین ہو گیا کہ حاور ان کا ہی موہرہ ہے‪،‬نہیں تو وہ‬
‫پتہ نہیں کیا کیا سوچے بیٹھی تھیں۔‬
‫"جاؤ پتر! مگر جلد ہی لوٹ آنا۔"‬
‫وہ کچھ سوچتے ہوئے پرسکون انداز میں مسکرا دیں۔‬

‫‪38‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"بس یوں گے اور یوں آئے۔"‬


‫وہ چٹکی بجاتے ہوئے سلومی کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫وہ جو حیران سی اسے تک رہی تھی۔‬
‫قریب آیا تو ہاتھ سے ہی اشارہ کیا کہ کیا گفتگو ہو‬
‫رہی تھی؟‬
‫"چلو بتاتا ہوں۔"‬
‫وہ مسکراتے ہوئے آنکھ دبائے گویا ہوا۔‬
‫سلومی نے حیرت سے آنکھیں پھیالئے اس کی اس‬
‫حرکت کو دیکھتے ہوئے ایک مکا اس کے شانے پہ‬
‫رسید کیا تو وہ ہنس دیا۔‬
‫وہ اس کے پیچھے چل دی۔‬
‫جیپ کا فرنٹ دروازہ اس کے لیے کھولتے ہوئے وہ‬
‫خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"مجھے تو لگتا ہے بابا اپنا کھوکھا بند کر گیا ہو‬
‫گا۔اور ایسی بھی کون سی قیامت آ جانی تھی میرے‬
‫چوڑیاں نہ پہننے سے۔"‬

‫‪39‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے جب اپنی اور ماما کی گفتگو سنائی تو پہلے‬


‫تو وہ کافی دیر تک ہنستی رہی پھر سنجیدگی سے‬
‫گویا ہوئی۔‬
‫"ایک تو تمہاری زبان فضول میں چلتی رہتی ہے۔"‬
‫وہ سختی سے اسے ٹوکتے ہوئے گویا ہوا۔‬
‫"شیٹ اپ۔اوکے‪".....‬‬
‫"واؤ تمہاری لینگویج بہت ہی زبردست ہو چکی‬
‫ہے۔مجھے شکریہ بولو گنوار لڑکی میں نہ ہوتا تو‬
‫تمہارا کیا ہوتا؟"‬
‫سس آمیز لہجے میں گویا ہوا۔بدلے میں‬
‫آخر پہ وہ تج ّ‬
‫وہ ہنس دی۔‬
‫بابا کے کھوکھے پر ابھی بھی الل ٹین روشن تھی۔‬
‫پورے گاؤں میں الئٹ تھی مگر بابا نے اپنے کھوکھا‬
‫(لکڑی کی چھوٹی سی دکان )میں ابھی بھی کوئی بڑی‬
‫سی ٹیوب یا بلب نہیں لگوایا تھا۔‬
‫وہ جیسے ہی جیپ سے اترا وہاں کھڑے عماد اور‬
‫ذیاج کو دیکھ ایک پل کو تو حیران ہوا۔‬

‫‪40‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"حاور! تم‪"......‬‬
‫وہ جو جیپ سے اتر کر اس کی جانب پلٹی ہی تھی کہ‬
‫سامنے کھڑے شخص کو دیکھ اس کے پیروں تلے‬
‫سے زمین سرک گئی۔‬
‫ّٰللا۔پتہ نہیں ذیاج کیا سوچیں گے۔"‬
‫"یا ہ‬
‫"عماد بھائی! آپ دونوں یہاں کیا کر رہے ہیں؟"‬
‫وہ ان دونوں کی جانب بڑھا۔‬
‫سلومی نے شانوں پہ ڈھلکے آنچل کو تیزی سے سر‬
‫پہ درست کیا اور سر جھکا کر اضطرابی کیفیت کے‬
‫زیر اثر دوپٹہ انگلی پہ لپیٹنے لگی۔‬
‫ِ‬
‫"کچھ نہیں بھائی نے سگریٹ لینی تھی۔اور تم دونوں‬
‫کیا کر رہے ہو؟"‬
‫اس نے ہاتھ اٹھا کر ان دونوں کی جانب اشارہ کرتے‬
‫ہوئے مسکرا کے استفسار کیا۔‬
‫"سلومی کو چوڑیاں دلوانے الیا ہوں۔"‬

‫‪41‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے کہا تو ان دونوں بھائیوں نے بیک وقت ایک‬


‫دوسرے کو دیکھا اور پھر جیپ کے دوسرے جانب‬
‫کھڑی سلومی کو۔‬
‫"سلومی! پسند کرو چوڑیاں۔"‬
‫حاور نے پلٹ کر اسے کہا تو وہ جھجھکتے ہوئے‬
‫آگے بڑھی۔‬
‫ابھی اس نے ایک ڈبے میں رکھی چوڑیوں کو ہاتھ‬
‫لگایا ہی تھی کہ اسکے کانوں میں حاور کی گھبرائی‬
‫ہوئی آواز گونجی۔‬
‫"واٹ‪.......‬؟ہم آ رہے ہیں۔"‬
‫وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھی۔‬
‫"کیا ہوا حاور؟" اسے کسی انہونی کا الہام ہوا‬
‫تھا‪.....‬دل خوف سے کانپ گیا تھا۔‬
‫"بعد میں بتاؤں گا۔ ذیاج! تم اسے چوڑیاں دلوا کر گھر‬
‫لے جاؤ ہم ابھی آتے ہیں۔"‬
‫وہ تیزی سے کہتے ہوئے پلٹ گیا۔‬

‫‪42‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سلومی نے ایک گھبرائی ہوئی نظر ذیاج پہ ڈالی اور‬


‫پھر حاور کی پشت پہ۔‬
‫تیزی سے بھاگ کر وہ اس تک پہنچی تھی۔‬
‫"حاور! پلیز پہلے تم مجھے گھر ڈراپ کر دو پھر‬
‫جہاں مرضی جانا آئی ڈونٹ کئیر۔"‬
‫وہ گاڑی کی کھڑکی پہ ہاتھ رکھتے ہوئے خونخوار‬
‫لہجے میں دبی دبی آواز میں چالئی۔‬
‫"بچوں والی حرکتیں مت کیا کرو سلومی!‪ .....‬چپ‬
‫چاپ ذیاج کے ساتھ جاؤ نہیں کھائے گا تجھے‪،‬وہ آدم‬
‫خور ہرگز نہیں ہے۔"‬
‫گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے وہ بوال اور اس کے ہاتھ‬
‫جھٹک کر گاڑی کو بھگا لے گیا۔‬
‫گاؤں کی باہر والی پلی کراس کرتے ہوئے وہ جنگل‬
‫کے درمیان والی سڑک پہ گاڑی ڈال چکا تھا۔‬
‫یہ حصہ پورا اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا ماسوائے اس‬
‫ایک کھوکھے پہ جل رہی تھی۔‬
‫"سلومی!"‬

‫‪43‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اپنے شانے پہ مردانہ بھاری ہاتھ محسوس کرتے‬


‫ہوئے وہ بری طرح اچھل پڑی۔‬
‫"مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"‬
‫وہ اس کی آنکھوں میں خوف دیکھ چکا تھا۔‬
‫"آپ ہی سے تو ڈر ہے۔"‬
‫وہ لب بھینچ کر اس کے پیچھے چلتی ہوئی دکان کی‬
‫جانب بڑھی۔‬
‫***‬

‫عماد اور حاور جیسے ہی دوسرے گاؤں میں داخل‬


‫ّٰللا دتہ کے ڈیرے‬
‫ہوئے تو پہلی پُل پہ ہی انہیں مہر ہ‬
‫سے فائر کی آواز سنائی دی۔‬
‫حاور کی سانسیں رک سی گئیں۔‬
‫گردن موڑ کر عماد کو دیکھا جو خود بھی پریشان‬
‫بیٹھا تھا مگر اس نےحاور کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر‬
‫دالسہ دیا۔‬
‫"گاڑی تیز چالؤ حاور!"‬

‫‪44‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے ہاتھوں کو آپس میں جکڑے کہا۔‬


‫حاور نے اثبات میں سر ہالیا اور گاڑی کی سپیڈ‬
‫بڑھائی۔‬
‫رات کے اندھیرے کو جیپ کی ہیڈ الئٹس چیرتی ہوئی‬
‫آگے بڑھ رہی تھی۔‬
‫گاؤں کی آخری نکڑ سے دائیں جانب جاتی سولنگ پہ‬
‫گاڑی دوڑتی ہوئی آخر ایک جگہ جیپ رک گئی۔‬
‫وہ دونوں بجلی کی پھرتی سے گاڑی سے نکل کر اس‬
‫جانب بڑھے جدھر سے مردوں کے شور کی آواز‬
‫سنائی دے رہی تھی۔‬
‫"یاور بھائی‪"!.....‬‬
‫وہ وہاں پہنچتے ہی چالیا تھا۔‬
‫عماد نے جیب سے فون نکال کر‬
‫اس کی ٹارچ آن کی۔‬
‫جو منظر الل ٹین کی روشنیوں میں واضح نہ تھا اب‬
‫مکمل واضح ہو گیا۔‬

‫‪45‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫یاور اور چند اور لڑکے وہاں موجود تھے جو ہللا دتّہ‬
‫کے سپوت تھے۔‬
‫یاور کے چہرے پر زخموں کے نشانات واضح تھے‬
‫کرتہ پھٹا ہوا تھا۔‬
‫حاور نے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑا کر اس کے وجود کو‬
‫دیکھا اور بےساختہ ہی سکون کی سانس بھری۔‬
‫کیونکہ اسے گولی نہیں لگی تھی‪،‬ہوائی فائر ہوا تھا۔‬
‫"تو اب تم نے ان شہریوں کو ہم لوگوں سے بھڑنے‬
‫کے لیے بالیا ہے۔ہاہا‪"......‬‬
‫ان میں سے ایک نے قہقہہ لگایا۔‬
‫ّٰللا داد!"‬
‫"ہم نے ہاتھوں میں چوڑیاں نہیں پہن رکھیں ہ‬
‫عماد نے آگے بڑھتے ہوئے سخت لہجے میں کہا۔‬
‫"بس اب یہ ہی کام باقی رہ گیا ہے۔یہ لڑکیوں والے‬
‫چوڑی دار پاجامے تو پہن لیے اب چوڑیاں باقی ہیں۔"‬
‫ّٰللا داد نے طنزیہ نگاہ عماد پہ ڈالی۔‬
‫ہ‬
‫سفید پاجامہ اور سفید کرتہ گلے میں سبز مفرل ڈالے‬
‫ہوئے تھا۔‬

‫‪46‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"بکواس بند کر داد! وگرنہ تیری جان نکال لوں گا۔"‬


‫یاور نے آگے بڑھ کے اسے ایک مکا رسید کیا۔‬
‫وہ کچھ ہی دیر میں سب گتھم گتھا ہو چکے تھے۔‬
‫حاور بوکھال کر رہ گیا۔‬
‫اس نے جلدی سے فون نکاال اور جس کا پہلے خیال‬
‫آیا وہ ذیاج ہی تھا۔‬
‫کیونکہ اب پانی سر کے اوپر سے گزر چکا تھا اور وہ‬
‫زیادہ بندے تھے جبکہ ادھر صرف عماد اور یاور۔‬
‫حاور تو لڑائی جھگڑوں سے کوسوں دور ہی رہتا‬
‫تھا۔اب بھی دبک کر پیچھے ہٹ گیا۔‬
‫***‬
‫شیشم کے درخت سے ٹیک لگائے وہ فون پہ نگاہیں‬
‫جمائے ہوئے تھا۔‬
‫اور سلومی سامنے میز پہ پڑی چوڑیاں دیکھ رہی‬
‫تھی۔‬
‫مگر بار بار نگاہیں بغاوت کرتے ہوئے‪ ......‬ذیاج پہ‬
‫جا رکتیں۔‬

‫‪47‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سفید کرتہ پاجامہ زیب تن کیے ہوئے تھا وہ۔‬


‫کُرتے کے گلے پہ پیلے دھاگے سے نفیس کڑھائی کی‬
‫گئی تھی اور گریبان کے سفید بٹن فون کی روشنی‬
‫میں ہیروں کی مانند چمک رہے تھے۔‬
‫گلے میں پیال پٹکا ڈالے وہ سحر انگیز شخصیت لیے‬
‫اس سے تین قدم کے فاصلے پر کھڑا بھی کتنا انجان‬
‫تھا۔‬
‫سفید بےداغ چہرے پہ بال کی مسکراہٹ تھی وہ جب‬
‫بھی فون پہ انگلیاں چالتا کچھ دیر بعد دوسری جانب‬
‫سے میسج وصول ہوتا تو وہ پڑھتے ہی زیر لب‬
‫مسکرا دیتا۔‬
‫اس کی مسکراہٹ میں اس قدر جان تھی کہ سلومی کو‬
‫اپنی جان پہلوؤں سے نکلتی محسوس ہوئی‪،‬دل میں‬
‫سو وسوسے پیدا ہوئے۔‬
‫سر جھٹک کر وہ میز پہ ہی تھک کر بیٹھ گئی۔‬
‫پیلے رنگ کی چوڑیاں اٹھا کر وہ اللٹین کی روشنی‬
‫میں ہاتھ فضا میں لہرا کر چوڑیاں کالئیوں میں پہننے‬
‫لگی۔‬

‫‪48‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"پتر! میں ابھی گھر سے ہو کر آتا ہوں۔‬


‫تب تک تم چوڑیاں دیکھ لو۔اندر ایک دو ڈبے اور بھی‬
‫پڑے ہیں وہ بھی دیکھ لے۔"‬
‫بابا جی نے سلومی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"مگر بابا!‪ .....‬آپ ہمیں یہ دے کر جائیں نا۔"‬
‫وہ منمنائی۔‬
‫"پتر! تیرے بھائی کی شادی میں جانا ہے تیری بابی‬
‫نے اس کو یہ چوڑیاں دے آؤں وگرنہ ناراض ہو جائے‬
‫گی۔"‬
‫بابا جی نے ہاتھ میں پکڑی الل اور ہری چوڑیاں اس‬
‫کے سامنے کیں جو وہ اپنی بیگم کے لیے لے جا رہا‬
‫تھا۔‬
‫سلومی نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫بابا جی جیسے ہی وہاں سے گئے اس کی دھڑکنیں تیز‬
‫ہونے لگیں۔‬
‫اس شخص کی موجودگی میں وہ خوش تو ہوتی تھی‬
‫مگر اس سے کہیں زیادہ اس کا دل گھبرا جاتا۔‬

‫‪49‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ذیاج نے جیسے ہی فون سے نگاہیں اٹھا کر خود‬


‫سے کچھ فاصلے‪ ،‬میز پہ بیٹھی سلومی کی جانب‬
‫دیکھا تو ایک پل کو تو وہ نگاہیں ہٹانا بھول گیا۔‬
‫پاس پڑی اللٹین اس کی سنہری رنگت کو سونے کی‬
‫مانند چمکا رہی تھی۔‬
‫گالبی ہونٹ جو کسی بھی لپ اسٹک‪ ،‬سے عاری تھے‬
‫آپس میں باہم ملے ہوئے تھے‪.....‬وہ چوڑیاں پہننے‬
‫کی کوشش کر رہی تھی مگر ہاتھ مسلسل کانپ رہے‬
‫تھے۔‬
‫ذیاج کے ہونٹوں کو مبہم سی مسکان نے چھوا۔‬
‫"ایسا کرو کوئی اور سائز ٹرائے کر لو‪ ......‬ٹرائے‬
‫سے مراد کہ کوئی اور چوڑیاں دیکھ کر پہن لو۔"‬
‫اسے لگا کہ سلومی کو انگلش کے لفظ کی سمجھ نہیں‬
‫آئی ہو گی۔‬
‫اس کی اس سوچ پہ وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے‬
‫ہوئے پہلے مسکرائی پھر اثبات میں سر ہالتی اٹھی‪،‬‬
‫جھک کر اللٹین اٹھا کر کھوکھے کے اندرونی جانب‬
‫بڑھ گئی۔‬

‫‪50‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ ایک ڈبہ اٹھا کر باہر آئی اور اس میں جو چوڑیاں‬


‫تھیں وہ بڑے سائز کی تھیں۔‬
‫"بس آپ مجھے گھر چھوڑ دیں۔مجھے نہیں پہننیں۔"‬
‫وہ پہلے ہی افسردہ تھی پھر مزید ہو گئی۔‬
‫"ایک منٹ یار! میں دیکھتا ہوں۔"‬
‫وہ فون جیب میں ڈالتے ہوئے اس کی جانب بڑھا اور‬
‫میز پہ اس کے سامنے بیٹھ گیا۔‬
‫"مجھے لگتا ہے کہ ہم کبھی بھی ایک نہیں ہو سکتے‬
‫کیونکہ آپ کی زندگی میں کوئی اور لڑکی ہے۔جس کے‬
‫میسجز پڑھ کر آپ کا چہرہ مزید روشن ہو جاتا ہے۔‬
‫ان ہونٹوں سے میں اپنے لیے وہ لفظ سننا چاہتی تھی‬
‫جو آپ اس لڑکی سے کہتے ہوں گے۔ان آنکھوں‬
‫میں‪،‬میں پہروں کھوئے رہنا چاہتی تھی جس میں وہ‬
‫رہتی ہو گی۔اور آپ کے ساتھ کی خواہش میں نے کی‬
‫تھی مگر آپ کے ساتھ وہ رہتی ہو گی۔نہ جانے وہ‬
‫کیسی ہو گی؟"‬
‫وہ اس کو محبت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے‬
‫بس سوچ ہی رہی تھی۔‬

‫‪51‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہیلو کہاں کھو گئی؟"‬


‫اس نے جب سلومی کی نگاہوں کے سامنے چٹکی‬
‫بجائی تو وہ ہوش میں آئی۔تیزی سے نگاہیں جھکائے‬
‫شرمندگی سے لب بھینچ لیے۔‬
‫"میں کہہ رہا تھا ذرا اپنا ہاتھ میرے سامنے کرو۔"‬
‫ذیاج نے کہا تو اس نے کسی روبوٹ کی مانند اپنا ہاتھ‬
‫اوپر اٹھایا۔‬
‫ذیاج نے کالئی دیکھتے ہوئے مطلوبہ ڈبے کی تالش‬
‫کی پھر اٹھا کر اس کے سامنے رکھا اور خود وہاں‬
‫سے اٹھ گیا۔‬
‫وہ چوڑیاں دیکھنے لگی اور واقع ہی اس کی کالئی‬
‫کے لیے بنی ہوئی تھیں۔‬
‫"مجھے تو لگتا ہے شہر میں چوڑیاں بیچتے ہیں‬
‫محترم۔"وہ سوچ کر خود ہی مسکرا دی۔‬
‫اتنے میں بابا جی بھی آ گئے۔‬
‫"بابا جی! یہ دو درجن لی ہیں۔ وہ پیسے حاور‪"......‬‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ذیاج بوال۔‬

‫‪52‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"یہ لیں بابا جی! اور یہ پورا ڈبہ دے دیں۔"‬


‫پانچ سو کا نوٹ بابا جی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے اس‬
‫نے کہا تو سلومی نے تریچھی نظر سے اسے دیکھا۔‬
‫ہری‪ ،‬پیلی‪ ،‬سفید‪،‬سرخ اور سبز چوڑیوں کا ڈبہ پا کر‬
‫وہ ہرگز خوش نہیں ہوئی تھی۔‬
‫"آپ نے اتنے پیسے کیوں خرچ کیے؟" اس نے‬
‫جیسے ہی کالی گاڑی کا فرنٹ دروازہ اس کے لیے‬
‫کھوال تو وہ گھبرائی ہوئی آگے بڑھی۔‬
‫"مجھے معلوم نہیں۔" وہ شانے آچکا کر گویا ہوا۔‬
‫تبھی اس کے فون پہ کال آئی۔‬
‫فون پہ نمبر دیکھتے ہی اس نے کال اٹینڈ کی اور‬
‫دروازہ بند کر کے گاڑی کے سامنے سے ڈرائیونگ‬
‫سیٹ پہ آ بیٹھا۔‬

‫کس قدر خواہش تھی نا‬


‫اس بےبس د ِل نامراد کی‬
‫تیرے پہلوؤں میں بیٹھ کر‬

‫‪53‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫تجھے پہروں دیکھنے کی‬

‫گردن گھمائے وہ ریشمی آنچل کی اڑھ سے اسے دیکھ‬


‫رہی تھی۔‬
‫"میں آپ کے ساتھ اس سیٹ پہ بیٹھنا چاہتی تھی۔‬
‫ذیاج! آپ کو معلوم ہے میں آپ کے سفید ہاتھوں کو‬
‫سٹیرنگ پہ ٹھہرتے دیکھنا چاہتی تھی۔ آپ کی ہنسی‬
‫کو زندگی بھر دیکھنا چاہتی ہوں آپ نہیں جانتے ذیاج!‬
‫کہ میں آپ سے کس قدر محبت کرتی ہوں۔"‬
‫اس کی ہتھیلیاں پسینے سے شرابور ہونے لگی تھیں‪،‬‬
‫دل اتنی تیزی سے دھڑکنے لگا تھا کہ وہ رخ پھیر‬
‫گئی۔‬
‫"نہیں یار! تمہیں کب سے سمجھا رہا ہوں ٹینشن مت‬
‫لو۔پریشان کیوں ہو رہی ہو‪ ،‬کچھ نہیں ہو گا۔تم بہت‬
‫اچھے نمبروں سے پاس ہو جاؤ گی‪،‬بس ایگزامز کی‬
‫تیاری پر توجہ دو پریشان ہونے کی بجائے۔اور میں‬
‫ہوں نا تمہارے ساتھ پھر یہ ڈر کیسا۔"‬
‫ذیاج فون پہ کسی سے انگلش میں کہہ رہا تھا۔‬

‫‪54‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مگر وہ سمجھ چکی تھی‪.....‬سارا خون نچوڑا گیا اور‬


‫وہ خوف سے کانپ ہی تو اٹھی تھی۔‬
‫یکدم ہی اس کا سر چکرایا تو وہ سیٹ کی پشت پر سر‬
‫گرا گئی۔‬
‫"مطلب میں ٹھیک سوچ رہی تھی وہ کسی اور میں‬
‫انٹرسٹڈ ہے۔ مجھے ‪.....‬مجھے اب ساری زندگی عشق‬
‫کی آگ جالئے گی؟"‬
‫اس نے دل ہی دل میں خود سے ہی استفسار کیا تھا۔‬
‫"میں بعد میں بات کرتا ہوں ذمیم!"‬
‫درمیان میں حاور کی کال آ رہی تھی تو اس نے تیزی‬
‫سے کہہ کر کال کٹ کر کے حاور کی کال اٹینڈ کی۔‬
‫"ٹینشن نہیں لو حاور! میں پہنچ رہا ہوں۔"‬
‫گاڑی روکتے ہوئے اس نے کہا دروازہ کھول کر وہ‬
‫سلومی کی جانب والے دروازے پہ آیا۔‬
‫جیسے ہی دروازہ کھال وہ تیزی سے اتری اور یہ جا‬
‫وہ جا ہوئی۔‬

‫‪55‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ بھی تیزی میں تھا یہ دیکھنا بھول گیا کہ وہ‬


‫چوڑیاں ڈیش بورڈ پہ ہی چھوڑ کر جا رہی ہے اور جو‬
‫اس کے ہاتھ میں تھیں وہ اب گاڑی میں اس جگہ پڑی‬
‫تھیں جہاں اس کے قدم تھے۔‬
‫***‬
‫"ذیاج! روکو انہیں یہ سر ور پھوڑ لیں گے اک‬
‫دوسرے کا۔"‬
‫وہ جیسے ہی وہاں ریش ڈرائیونگ کرتے ہوئے پہنچا‬
‫حاور اس کی جانب بڑھا۔‬
‫وہ تو ان کو جاہلوں کی مانند جھگڑتا دیکھ ہقا بقا ہی‬
‫رہ گیا۔‬
‫ّٰللا دتہ کا ڈیرہ اور اس کے‬
‫"اوہ تو یہ ہے ہ‬
‫سپوت‪".....‬‬
‫اس نے پسلیوں پہ ہاتھ ٹکائے ان لوگوں کو دیکھتے‬
‫ہوئے بھنویں آچکا کر بوال۔‬
‫حاور نے ہوں کہتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫‪56‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫پیشانی مسلتے جیسے ہی اس نے نگاہیں دائیں جانب‬


‫گھمائیں جہاں عماد کا فون زمین بوس تھا اور کچھ‬
‫فاصلے پر ہی ریوالور پڑا تھا۔‬
‫"اب جو ہوگا دیکھا جائے گا۔پتہ نہیں مجھے یہ چالنی‬
‫بھی آتی ہے یا نہیں۔"‬
‫چور نگاہوں سے ان سب کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫آگے بڑھا اور جھک کر پہلے فون اٹھایا۔‬
‫حاور بھی اسے دیکھ رہا تھا تو کبھی ان سب کو۔‬
‫ذیاج نے تیزی سے ریوالور اٹھا لیا‪......‬فون حاور کی‬
‫جانب اچھالتے ہوئے اس نے ریوالور سنبھاال۔‬
‫اوپر کی جانب ہاتھ اٹھا کر ڈریگر پہ شہادت انگلی‬
‫رکھی۔‬
‫"ذیاج! تم جس فیملی سے تعلق رکھتے ہو وہاں‬
‫لڑائیاں عام ہیں مگر میں چاہتا ہوں تم اس ماحول سے‬
‫دور رہو۔کیونکہ تم میں آگے بڑھنے کی صالحیت‬
‫ہے‪....‬تمہارے ماموں لوگ تو لڑائی جھگڑے کو ہی‬
‫اپنا غرور سمجھتے ہیں مگر کبھی کبھی جھکنے میں‬

‫‪57‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہی بھالئی ہوتی ہے اور جھکنے سے انسان کی عزت‬


‫کم نہیں ہو جاتی۔"‬
‫اس کی سماعتوں میں شفقت صاحب کی آواز گونجی‬
‫تھی۔جو کہ اسکے کراٹوں کے استاد تھے‪.....‬ساتھ ہی‬
‫ساتھ بہترین دوست بھی تھے۔‬
‫ڈریگر دبا کر جیسے ہی اس نے ہوائی فائرنگ کیا تو‬
‫وہ سب چونکے تھے۔‬
‫"چھوڑو ایک دوسرے کو وگرنہ ابھی میں پولیس کو‬
‫بال لوں گا۔" اس نے ان سب کو مشترکہ کہا۔‬
‫"جٹ اتنے کمزور ہیں کہ اب پولیس کا سہارا لیں‬
‫گے۔"‬
‫ّٰللا دتہ کے لڑکے ہنستے چلے گئے۔ یاور نے ایک‬
‫ہ‬
‫سخت نگاہ اس پہ ڈالی۔‬
‫"ہر وقت لڑتے جھگڑتے رہتے ہو آپ لوگ۔مجھے‬
‫سمجھ نہیں آتی یہ کون سی انا اور طاقت ہے جو یوں‬
‫لڑ جھگڑ کر خود کو بدنام کر کے دکھائی جا رہی‬
‫ہے؟"‬

‫‪58‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ ان کی بات اور یاور کی نگاہوں کو نظر انداز کرتے‬


‫ہوئے بوال۔‬
‫"اور آپ عماد بھائی! پڑھے لکھے سلجھے ہوئے‬
‫شخص ہیں۔پھر بھی جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔"‬
‫اس نے افسردگی سے نفی میں سر ہالیا۔حاور نے‬
‫مسکراتے ہوئے اس کی بات پہ سر ہالیا کہ وہ ٹھیک‬
‫کہ رہا ہے۔‬
‫"ذیاج! میں نے تجھے یہاں مشورے دینے کے لیے‬
‫نہیں بالیا۔ جو تجھے دودھ‪ ،‬مکھن کھالیا ہے اس کو‬
‫ثابت کرنے کے لیے بالیا ہے‪.....‬کہ توں جٹوں کا منڈا‬
‫ہے۔"‬
‫یاور دانت کچکاتے ہوئے اس کے سامنے جا کھڑا ہوا‬
‫اور کرختگی سے بوال۔‬
‫"معاف کیجیے گا بھائی! میں اپنا دودھ مکھن یہاں‬
‫حرام نہیں کرنا چاہتا۔اور ہاں ہللا داد بھائی!"‬
‫یاور کے عقب سے گردن جھکا کر اس نے ان کی‬
‫جانب دیکھا۔‬

‫‪59‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"جٹ کسی سے ڈرتے نہیں ہیں۔کیونکہ وہ جٹ ہوتے‬


‫ہیں۔ہمارے خون میں ہی غصہ اس قدر بہتا ہے کہ کئی‬
‫دشمنوں کو زمین میں گاڑھ دیں۔تو آئندہ خیال رکھیے‬
‫گا۔"‬
‫وہ ایک ایک قدم اٹھاتا اس تک پہنچا تھا۔‬
‫اس کی آنکھوں میں جو غصہ تھا جو خون اترا تھا‬
‫اسے دیکھتے ہوئے وہ لوگ ایک پل کو تو خوف زدہ‬
‫ہوئے۔‬
‫"ارے او چھوٹو۔ابے اپنی عمر دیکھ اور باتیں دیکھ۔‬
‫اتنا سا‪".....‬‬
‫ایک لڑکے نے ہنستے ہوئے اس کی گردن کے گرد‬
‫بازو لپیٹا اور دوسرے ہاتھ سے اسے بتایا کہ وہ اتنا‬
‫سا ہے۔‬
‫مگر وہ اس کو بہت چھوٹا بتا رہا تھا۔‬
‫"اتنا سا ہے تجھے مسل کے رکھ دیں گے۔"‬
‫وہ اس کی گردن دبوچتے ہوئے دانت پیس کر بوال۔‬
‫"ذیاج!‪".....‬‬

‫‪60‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫عماد نے جب اپنے بھائی کو تکلیف میں دیکھا تو‬


‫آگے بڑھا مگر اس سے پہلے ہی وہ لڑکا اسے چھوڑ‬
‫کر اپنی پسلیوں پہ ہاتھ رکھے کراہتے ہوئے پیچھے‬
‫ہٹنے لگا۔‬
‫"ہائے گولی مار دی‪ ،‬مجھے اس نے مار دیا۔"‬
‫وہ گر گیا تھا۔‬
‫یاور اور عماد بوکھال کر اس کے پاس پہنچے مگر‬
‫گولی کہیں بھی نہیں لگی ہوئی تھی۔‬
‫انہوں نے پلٹ کر ذیاج کو دیکھا جو زیر لب مسکراتے‬
‫ہوئے پیشانی پہ بکھرے بالوں میں ہاتھ چال کر‬
‫ایڑھیوں پہ پلٹا تھا۔‬
‫"جب تمہیں لگے کہ دشمن سر کے اوپر سے گزر رہا‬
‫ہے۔اب ہاتھ نہ اٹھایا تو جان جائے گی تب تمہیں ہاتھ‬
‫اٹھانے کا حق حاصل ہے۔بس دو انگلیاں‪......‬ہی کافی‬
‫ہوتی ہیں‪ ،‬اگر کسی کو ٹھیک سے پڑ جائیں تو۔"‬
‫اس کے کانوں میں شفقت صاحب کی آواز پھر سے‬
‫گونجی تھی اور وہ زیر لب مسکراتا ریوالور سے‬

‫‪61‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫گولیاں نکال ہتھیلی پہ ڈالتے ہوئے ریوالور شانے کے‬


‫اوپر سے پیچھے اچھالتا آگے بڑھ گیا۔‬
‫ان میں سے ایک لڑکے نے آگے بڑھ کر پستول اٹھایا‬
‫مگر اس میں گولیاں نہیں تھیں۔‬
‫وہ مارنے کے لیے عماد کی جانب بڑھا۔‬
‫"بس‪"......‬‬
‫عماد نے ہاتھ اٹھا کر دھاڑتے ہوئے کہا تو وہ شخص‬
‫وہاں ہی رک گیا۔‬
‫"اس کو ہسپتال لے جاؤ۔"‬
‫وہ چاروں ڈھلوانی حصہ اترتے ہوئے اپنی گاڑیوں تک‬
‫پہنچے۔‬
‫"یہ تم نے کیسے کیا ذیاج!‬
‫میرا مطلب ہے اس کی پسلیوں میں ایسا کیا مارا کہ وہ‬
‫اٹھ ہی نہیں سکا؟"‬
‫یاور نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"بس دو انگلیاں۔"‬

‫‪62‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے انگلدشت اور درمیانی انگلی کو آپس میں‬


‫جوڑتے ہوئے کہا۔‬
‫"یاور بھائی! آپ کو نہیں معلوم یہ بلیک بیلٹ ہے۔"‬
‫حاور نے ہنستے ہوئے کہا۔‬
‫"تم تو کچھ بولو ہی مت۔ چپ چاپ ایک کونے میں‬
‫کھڑے تماشہ دیکھتے رہے ہو۔"‬
‫وہ اب پوری طرح حاور کی جانب گھوم گئے۔‬
‫وہ سر کھجاتا مسکرا دیا۔‬
‫"بھیا! چھوڑیں نا۔ آپ لوگ جائیں جا کر تایا گھر اپنا‬
‫ڈیش بورڈ ٹھیک کریں۔تائی گھر ہی ہوں گیں۔"‬
‫اس نے بات بدلی اور ذیاج کی گاڑی کی جانب تیزی‬
‫سے بڑھ گیا۔‬
‫یاور پنچ و تاب کھا کر اپنی جیپ کی جانب بڑھا۔‬
‫"مجھے لگتا ہے مصباح بھائی کا دوست مہندی لے‬
‫کر آ چکا ہے۔"‬

‫‪63‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫آتش بازی اور فائرنگ کی آوازیں سنتے ہی حاور نے‬


‫ایک نظر آسمان پر ڈالی اور دروازہ تھام کر سیٹ پہ‬
‫بیٹھ گیا۔‬
‫جیسے ہی بیٹھا اس سےایک جانی پہچانی خوشبو‬
‫ٹکرائی تھی جو سلومی کی تھی جس پہ اس نے ذیاج‬
‫کی جانب دیکھا۔جو سٹی بجاتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫"لگ تو رہا۔ہم بھی ابھی پہنچ جائیں گے۔"‬
‫وہ چابی گھماتے ہوئے بوال کہ اچانک نگاہ ڈیش بورڈ‬
‫پہ پڑی تو اس نے گردن گھما کر حاور کو دیکھا۔‬
‫دونوں کی نگاہیں ملی تو ذیاج نے نگاہیں جھکائیں۔‬
‫"سلومی چوڑیاں تو یہاں ہی چھوڑ گئی۔اچھا یہ تم‬
‫اسے دے دینا۔"‬
‫ہاتھ بڑھا کر چوڑیوں کا ڈبہ اس کے سامنے‬
‫کھسکاتے ہوئے گویا ہوا۔‬
‫اس نے مسکرا کر اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫‪64‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫پیروں کی جگہ بدلنے پہ جب اس کے قدموں کے تلے‬


‫ہری‪،‬پیلی‪،‬سبز چوڑیاں ٹوٹیں تو اسے احساس ہوا‬
‫کوئی چیز اس کے پیر کو زخمی کر رہی ہے۔‬
‫جھک کر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وہ تو چوڑیاں‬
‫تھیں۔‬
‫چند ٹکڑے اٹھا کر وہ حیران کن نگاہوں سے انہیں‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫ذیاج کی نگاہ بھی ان ٹوٹے ٹکڑوں پہ پڑ گئی‬
‫تھیں‪.....‬بےاختیار ہی ذیاج نے بھرے ہوئے ڈبے کی‬
‫جانب دیکھا اور پھر اسےیاد آیا کہ یہ وہ چوڑیاں تھیں‬
‫جو سلومی نے ہاتھ میں تھام رکھی تھیں۔‬
‫حاور نے چوڑیوں کے ٹکڑے کھڑکی سے باہر‬
‫پھینکے اور اس کی جانب متوجہ ہوا جو نجانے کن‬
‫خیالوں میں گم تھا۔‬
‫"ذیاج! کیا ہوا‪ ،‬کیا سوچ رہے ہو؟"‬
‫وہ اس کی پکار پہ چونکا اور گہری سانس خارج‬
‫کرتے ہوئے بوال۔‬

‫‪65‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میری دادی کہا کرتی تھیں کہ جو مرد عورتوں کی‬


‫چادر یا پھر اس کے شنگار کو پیروں تلے روندتے‬
‫ہیں وہ انہیں کبھی خوش نہیں رکھ سکتے۔"‬
‫اس کی بات پہ حاور ایک پل کو تو ناسمجھی سے‬
‫اسے تکتا رہا پھر زور سے قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬
‫"تم بھی نا‪....‬ایسا کچھ نہیں ہوتا یار! یہ سب فیئرز‬
‫ہمارے آباؤ اجداد کے تھے۔مگر اب زمانہ بدل چکا ہے‬
‫اور ویسے بھی‪......‬وہ میری عورت تھوڑی ہے۔"‬
‫اس نے خوشگوار لہجے میں کہا تو ذیاج نے بھی‬
‫ہنستے ہوئے شانے آچکائے۔‬
‫اگر حاور نے چوڑیاں قدموں تلے روند دی تھیں تو‬
‫زمہ دار صرف ذیاج تھا‪......‬جس نے اس کے کومل‬
‫ہاتھوں سے ان چوڑیوں کو گرنے پہ مجبور کیا‬
‫تھا‪.....‬جو کالئیاں چومنے کو بےتاب تھیں۔‬
‫ایک دم وہ سلومی کی طرح ٹوٹ چکی تھیں فرق‬
‫صرف یہ تھا کہ چوڑیاں توڑنے واال شخص اور تھا‬
‫اور دلوا کر چھیننے واال اور‪.......‬‬
‫*******‬

‫‪66‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫باقی کی پوری شادی میں وہ بےدلی سے ہی شریک‬


‫ہوئی تھی۔‬
‫وہ لوگ ولیمے کی تقریب کے بعد شہر کی جانب روانہ‬
‫ہو گئے تھے۔‬
‫یاور کی شادی میں ذیاج اس کی نیندیں چرا لے گیا‬
‫تھا‪.......‬اسے میٹھا سا درد اور انتظار سونپ گیا تھا‬
‫جو اس نے آج تک کیا‪......‬سلومی کے دل میں یہ بات‬
‫ان پانچ سالوں میں ایک مرتبہ بھی نہیں آئی تھی کہ‬
‫ذیاج کسی اور کو بھی چاہ سکتا ہے۔‬
‫اور اب‪.......‬وہ مصباح کی شادی میں آیا تو اس کا‬
‫چین سکون سب اڑا لے گیا۔ایک طوفانی خاموشی اس‬
‫کی بولتی آنکھوں میں چھوڑ گیا۔وہ ہنسی جو اسے یاد‬
‫کر کے سلومی کے ہونٹوں کو چھو جاتی تھی اب وہ‬
‫یاد آنسو کی صورت اختیار کر چکی تھی۔‬
‫وہ چنگاری جو اس نے پانچ سال کے عرصے میں‬
‫اپنے ہاتھوں سے اپنی روح اور تن میں لگائی تھی وہ‬
‫اب آگ کی صورت اختیار کیے اسے جال رہی‬
‫تھی‪......‬وہ اتنی جلدی بدل جائے گا اس کے وہم و‬
‫گمان میں بھی نہیں تھا۔‬
‫‪67‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مگر وہ موسم کی مانند بدل گیا تھا۔‬


‫*****‬
‫دن بہت تیزی سے گزرتے چلے گئے۔‬
‫مصباح بھائی کے ہاں ایک گول مٹول سا ننھا سا گڈا‬
‫پیدا ہوا تھا۔‬
‫جس کے ساتھ وہ ہر وقت کھیلتی رہتی تھی۔‬
‫صالحہ بیگم اس کی کھوکھلی مسکان دیکھ دیکھ تنگ‬
‫آ چکی تھیں آخر انہوں نے اسے گھیر ہی لیا۔‬
‫وہ صحن میں کرسی ڈالے آنکھیں موندے سر کرسی‬
‫کی پشت سے ٹکائے سینے پہ ہاتھ لپیٹے بیٹھی تھی۔‬
‫بارش کے قطرے رفتہ رفتہ اس کے چہرے پہ گر رہے‬
‫تھے مگر وہ پلکیں تک جھپکنے کو نہ تھی۔‬
‫صالحہ بیگم اپنے کمرے سے جیسے ہی باہر نکلیں ان‬
‫کے قدم زمین نے جکڑ لیے۔‬
‫ان کی نگاہیں سلومی کے بکھرے تر بالوں سے ہوتیں‬
‫اس کے ہلدی رنگ چہرے پہ جا ٹھہریں۔‬

‫‪68‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دنیا جہاں کی اداسیوں نے اس کے چہرے کو اپنے‬


‫احصار میں لے رکھا تھا۔‬
‫"سلومی!"‬
‫وہ آگے بڑھتے ہوئے جھک کر اس کے شانے پہ ہاتھ‬
‫رکھتی بولیں۔‬
‫وہ ہڑبڑا کر یکدم سے اٹھی تھی اور خوف سے بھری‬
‫نگاہوں سے انہیں یوں دیکھنے لگی جیسے اسے‬
‫کرنٹ لگا ہو۔‬
‫"اوہ‪ ......‬آپ۔"وہ خجل سی ہو کر دل پہ ہاتھ رکھ کے‬
‫بولی۔‬
‫"اندر چلو تم سے کچھ بات کرنی ہے۔" ان کے لہجے‬
‫سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ شدید غصے میں ہیں۔‬
‫ریشمی آنچل شانے پہ ٹکائے بالوں کو کمر پہ ڈالے‬
‫وہ ان کے پیچھے پیچھے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫"بیٹھو۔"‬
‫اشارہ کرسی کی جانب تھا۔‬
‫وہ خود چارپائی پہ بیٹھ گئیں۔‬

‫‪69‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ اسے تکتی رہیں اور وہ کنفیوژ سی ہو کر سر‬


‫جھکائے ہتھیلیاں مسلنے لگی۔‬
‫"تم کسی کو پسند کرتی ہو؟"‬
‫اچانک ہی ایسے سوال پہ وہ بوکھال کر رہ گئی تھی۔‬
‫"کیا؟"‬
‫"میں نے جو پوچھا ہے اسی کا جواب دو۔کون ہے وہ؟‬
‫اب یہ مت کہنا کہ کوئی بھی نہیں۔کیونکہ میں جانتی کہ‬
‫وہ تمہیں چھوڑ چکا ہے۔"‬
‫ایک دوست کی طرح وہ نرم لہجے میں بول رہی تھیں۔‬
‫"ایسا کچھ بھی نہیں ماں!" نظریں چراتے ہوئے وہ‬
‫آہستگی سے بولی۔‬
‫"بیوقوف سمجھ رہی ہو کیا مجھے؟‬
‫ایک بات دھیان میں رکھنا تم جس کے خواب دیکھتی‬
‫تھی نا‪ ".....‬وہ اسے آپ پاس آنے کا اشارہ کرتے‬
‫ہوئے ایک پل کو خاموش ہوئیں۔‬
‫سلومی اٹھ کر ان کے پاس جا بیٹھی۔‬

‫‪70‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"وہ واقع ہی تمہارا نہیں ہو سکتا۔اس کی رگوں میں‬


‫ہی بیوفائی دوڑتی ہے۔بھول جاؤ اسے۔"‬
‫ان کی بات پر اس نے گردن گھما کر آنکھیں پھاڑے‬
‫خوف سے انہیں دیکھا۔‬
‫"آ‪ ......‬آپ کس کی بات کر رہی ہیں؟"‬
‫اسے حیرانی ہوئی تھی۔‬
‫"ذیاج یزدانی‪.......‬وہ ہی تھا نا جس کے خواب تم‬
‫کھلی آنکھوں سے بھی دیکھتی تھی؟"‬
‫وہ تو اس شخص تک بھی پہنچ گئی تھیں‪.....‬اب کوئی‬
‫فایدہ نہیں تھا جھوٹ بولنے کا۔‬
‫لب کاٹتی ہوئی وہ نم پلکوں کو جھپکا جھپکا کر آنسو‬
‫پیچھے دھکیلتی سر جھکا گئی۔‬
‫"دیکھ پتر! یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے جو دل کو‬
‫حسین لگتا ہے اس سے محبت ہونے لگتی ہے پھر‬
‫کوئی دوسرا شخص نظر ہی نہیں آتا۔مگر محبت زہر‬
‫ہے‪.......‬‬

‫‪71‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ایسی زہر جو رگوں میں اترتے ہی ہلچل مچا دیتی‬


‫ہے‪........‬موت نہیں آتی مگر یہ محبت موت سے‬
‫پہلے ہی مار جاتی ہے۔"‬
‫وہ اکھڑے فرش کو پھیلی ہوئی آنکھوں سے گھورتے‬
‫ہوئے کھوئے کھوئے اور زخمی لہجے میں کہہ رہی‬
‫تھیں۔‬
‫سلومی نے ذرا سی گردن موڑ کر ان کی جانب دیکھا۔‬
‫وہ خاموشی سے آنسو بہا بھی رہی تھیں۔‬
‫"کیا آپ نے ابا سے محبت کی تھی؟"‬
‫اس نے غیر ارادی طور پر استفسار کیا تو صالحہ‬
‫بیگم نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"پتہ نہیں پھر آپ دکھی کیوں ہیں۔ محبت حاصل کرنے‬
‫کے بعد کھوئی ہے اور مجھے تو ابھی چند پل سکوں‬
‫کے حاصل بھی نہیں ہوئے تھے اماں!"‬
‫وہ بڑبڑائی تھی مگر وہ سن چکی تھیں‪ ،‬تبھی تو‬
‫زخمی سا مسکرا دیں۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں دروازے پر دستک‬
‫ہوئی۔‬
‫‪72‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میں دیکھتی ہوں۔"‬


‫وہ آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫صالحہ بیگم نے اثبات میں سر ہال دیا اور پلو سے‬
‫آنکھوں کو صاف کیا تھا۔‬
‫آج ان کے درمیان ماں بیٹی سے بڑھ کر ایک اور‬
‫دوستی کے رشتے نے جنم لیا تھا۔‬
‫"ارے حاور! تم کب آئے۔"‬
‫کنڈی کھولتے ہی اس نے سامنے کھڑے حاور کو‬
‫دیکھا جو ایک ہاتھ دیوار پہ رکھے اس کی جانب‬
‫جھکا اور بھنویں اچکا کر مسکرا دیا۔‬
‫"ابھی ابھی آیا ہوں۔اب اندر آنے دو گی یا یہاں سے‬
‫ہی واپس کراچی بھیج دو گی؟"‬
‫وہ اسے شرمندہ کر گیا۔‬
‫"اوہ ایم ریلی سوری۔ پلیز کم۔"‬
‫وہ مسکراتے ہوئے ایک جانب ہوئی اور شہزادیوں کی‬
‫مانند گھٹنوں پر جھک کر ہاتھ سے اندر آنے کا اشارہ‬
‫کیا۔وہ ہنستے ہوئے اندر داخل ہوا۔‬

‫‪73‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کی گرے شرٹ بھیگ کر بدن سے چپک چکی‬


‫تھی‪.....‬اور سلکی بال پیشانی پہ بکھرے ہوئے تھے‬
‫جن میں سے بارش کے قطرے گر رہے تھے۔‬
‫"حاور بیٹا! کب آئے کراچی سے؟"‬
‫صالحہ بیگم آگے بڑھ کر اس کی پیشانی چوم کر سر‬
‫پہ ہاتھ رکھتی بولیں۔‬
‫"ابھی ابھی آیا تھا۔ جب بارش شروع ہوئی تب میں آ‬
‫کر بیٹھا ہی تھا۔سوچا بارش تو پتہ نہیں کب رکے گی‬
‫تو آپ دونوں سے مل آؤں۔" وہ کرسی پہ بیٹھتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"اچھا کیا اچھا کیا۔تم بیٹھو میں تمہارے لیے چائے‬
‫اور پکوڑے بنا کر التی ہوں۔" وہ اٹھتے ہوئے بولیں۔‬
‫"تائی ماں! صالحہ اسپیشل پکوڑے اور ادراک والی‬
‫کڑک چائے۔"‬
‫اس نے چٹکی بجاتے ہوئے مسکرا کر فرمائش کی۔‬
‫"ٹھیک ہے بس تھوڑا سا انتظار میں ابھی آئی۔‬

‫‪74‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سلومی! بھائی کو ٹاول دو کتنا بھیگ چکا ہے۔" ماما‬


‫نے اسے کہا تو وہ سر اثبات میں ہالتی کمرے میں‬
‫پڑی واحد لوہے کی الماری کی جانب بڑھی۔‬
‫"آتے ہی فرمائشیں شروع کر دیں تم نے۔"‬
‫اس نے پلٹ کر گھوری نوازی اور ٹاول اس کی جانب‬
‫اچھاال۔‬
‫"اِدھر آؤ‪ ،‬تم کدھر چلی؟"‬
‫اسے کھسکتے دیکھ وہ تیزی سے گویا ہوا۔‬
‫"ماں کی مدد کرنے جا رہی ہوں۔"‬
‫"اِدھر آ کر بیٹھو میں یہاں اکیال بیٹھنے کے لیے نہیں‬
‫آیا۔" وہ کرختگی سے بوال۔‬
‫"اچھا میں تمہارے لیے فالسے کا شربت تو لے‬
‫آؤں‪،‬ابھی ماں نے بنایا تھا۔"‬
‫"ٹھیک ہے جاؤ۔ اور صرف دو منٹ میں واپس آؤ نہیں‬
‫تو میں نے بھی کچن میں ہی آ جانا۔اور یاد ہے نا‬
‫پیچھلی مرتبہ میں نے کیا کیا تھا؟"‬

‫‪75‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫حاور نے اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا تو وہ ہنس‬


‫دی ۔‬
‫پیچھلی چھٹیوں میں جب وہ آیا تھا تو اس پہ کھانا‬
‫بنانے کا بھوت سوار تھا۔‬
‫گھر میں تو چاچی نے اسے کسی چیز کو ہاتھ بھی نہ‬
‫لگانے دیا تو جناب نے رخ کیا ادھر کا‪.......‬اور پھر‬
‫کچن میں گھس کر ایسی تباہی مچائی کہ اماں صدمے‬
‫سے سر پکڑ کر رہ گئیں۔‬
‫"ٹھیک ہے‪"......‬‬
‫وہ قہقہہ لگا کر کمرے سے نکلی‪،‬ابھی صحن میں‬
‫پہنچی ہی تھی کہ اس کے کانوں میں جو آواز پڑی‬
‫اس نے اس کے قدم صحن میں ہی روک دیئے۔‬
‫"جی آنٹی! پڑھائی تو مکمل ہو چکی ہے۔ بزنس کی‬
‫ٹریننگ بھی ڈیڈ کے ساتھ ہی کی ہے اور اب ان‬
‫شاءّٰللا ایک دو مہینے بعد آفس جوائن کروں گا۔"‬
‫ہ‬
‫"اچھی بات ہے فیملی بزنس کو ہی جوائن کرنا چاہیے۔‬
‫مگر یو ناؤ واٹ‪"...‬‬

‫‪76‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫صالحہ بیگم نے پکوڑے نکال نکال کر ٹرے میں‬


‫رکھتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫وہ دشمن جاں کچن میں صالحہ بیگم کے پاس بیٹھا‬
‫تھا۔‬
‫"میں کیوں گھبرا رہی ہوں؟ جب قسمت میں ہی وہ‬
‫نہیں ہے تو اس کے متعلق سوچنا کیسا۔"‬
‫گہری سانس خارج کرتے ہوئے خود کو کمپوز کرتی‬
‫وہ آگے بڑھی مگر دل کی رفتار تو اس کی موجودگی‬
‫میں ہمیشہ ہی تیز ہوا کرتی تھی۔‬
‫"تمہیں خود کو منوانا چاہیے۔ اپنی قابلیت دنیا کے‬
‫سامنے شو کرنی چاہیے۔ کہیں اور جاب کرو کسی بہت‬
‫اچھی پوسٹ پر‪.....‬فیملی بزنس جوائن کرنے کے لیے‬
‫تو ساری عمر ہی پڑی ہے۔" انہوں نے کہا۔‬
‫"یو رائٹ آنٹی۔" اس نے مسکراتے ہوئے متفق ہو کر‬
‫اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫انہوں نے پلیٹ میں پکوڑے ڈال کر اس کے سامنے‬
‫پڑی چھوٹی میز پہ رکھے اور ساتھ چائے کا مگ‬
‫بھی۔‬

‫‪77‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے ابھی ایک پکوڑا اٹھایا ہی تھا کہ سلومی نے‬


‫اس کے سامنے سے پلیٹ اچکا لی۔‬
‫ذیاج نے چونکتے ہوئے سر اٹھایا اسی لمحے سلومی‬
‫نے بھی اس کی جانب دیکھا تھا۔‬
‫ایک کی نگاہوں میں حیرانی تھی تو دوسری کی‬
‫آنکھیں خالی تھیں‪،‬اجڑی ہوئیں‪......‬‬
‫کچھ پل کے لیے یوں ہوا کہ ان دونوں کے لیے دنیا‬
‫وہاں ہی تھم گئی لمحے وہاں ہی رک گئے۔‬
‫بس وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے کسی‬
‫دوسری دنیا میں جا پہنچے۔‬
‫وہ آج بھی ویسا ہی تھا سحر انگیز شخصیت کا مالک۔‬
‫کاال کرتہ پاجامہ زیب تن کیے وہ آج بھی اتنا ہی‬
‫ہینڈسم لگ رہا تھا جتنا پہلے تھا۔‬
‫پیشانی پہ بکھرے بال اور مسکراتے ہونٹ جو لمحے‬
‫کے ہزاروں حصے میں سکڑے تھے۔‬
‫"یہ پلیٹ حاور کی ہے۔ ماما! آپ اور بنا لیں۔حاور کا‬
‫حصہ میں کسی کو دینے کے حق میں نہیں ہوں۔"‬

‫‪78‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور ایک اچٹتی نگاہ اس پہ‬


‫ڈال کر چائے کا کپ بھی اٹھائے وہاں سے ہٹ گئی۔‬
‫"سوری بیٹا! میں تمہیں اور بنا دیتی ہوں۔"‬
‫انہیں سلومی کے اس رویے پہ تپ چڑھی تھی‬
‫مگر‪.....‬ابھی ان کو لگا تھا کہ اس نے ٹھیک کیا۔‬
‫وہ بس مسکرا ہی سکا تھا۔‬
‫ہاں وہ بدل سکتا تھا سب کچھ بھول سکتا تھا تو وہ‬
‫بھی سلومی جٹ تھی وہ بھی بدل سکتی تھی‪.......‬؟‬
‫"ارے کیا ہوا غصے سے بھری بھرائی کیوں آ رہی‬
‫ہو؟"‬
‫اس نے جب پلیٹ اس کے سامنے پٹخی تو وہ چونکا۔‬
‫"تم اس کو ساتھ کیوں الئے ہو؟"‬
‫"کس کو؟"‬
‫"ذیاج یزدانی کو؟"‬
‫"اس نے تمہیں کیا کہہ دیا؟"‬
‫پکوڑوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے حاور نے‬
‫استفسار کیا۔‬

‫‪79‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تمہارے حق پہ ڈاکا ڈال رہا تھا۔میں نے بھی کھری‬


‫کھری سنا دیں۔"‬
‫اس نے لڑکا عورتوں کی طرح دانت کچکاتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫وہ زیر لب مسکرا دیا۔‬
‫"تو کیا کوئی میرے حق پہ ڈاکا ڈالے گا تو تم اس‬
‫طرح ہی اسکو کھری کھری سناؤ گی؟"‬
‫"جی جناب بلکل۔ بلکہ تمہارا حق اسی طرح لے کر‬
‫آؤں گی جس طرح یہ پکوڑے لے کر آئی۔"‬
‫اس نے آنکھ دبا کر کہا۔‬
‫"آفٹر آل یو آر مائی بیسٹ فرینڈ برو!"‬
‫وہ جھک کے اس کے بال بگاڑ کر گویا ہوئی۔‬
‫وہ سر اثبات میں ہال کر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔‬
‫وہ اس کے سامنے بیٹھی فون کے متعلق کچھ کہہ‬
‫رہی تھی مگر وہ انہماک سا اسے دیکھتے ہوئے کچھ‬
‫اور ہی سوچ رہا تھا‪......‬‬
‫*******‬

‫‪80‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫بارش رکی تو موسم مزید خوشگوار ہو گیا۔ٹھنڈی‬


‫میٹھی ہوا درخت خوشی سے جھوم رہے تھے‪....‬‬
‫چاروں اطراف پھیلی فصلیں اور آدھے ایکڑ پہ پھیلے‬
‫گالب کے سرخ پھول بھی مسکراتے ہوئے ماحول کو‬
‫مہکا رہے تھے۔‬
‫ذیاج لوگوں کے آنے کی خوشی میں وہ سب کزنز‬
‫ایک جگہ اکھٹے تھے۔‬
‫اور آج وہ لوگ ڈیرے پہ گھومنے آئے ہوئے تھے۔‬
‫حاور اور طلحہ اسے بھی اپنے ساتھ کھینچ الئے‬
‫تھے۔‬
‫مگر یہاں آ کر اس کا جیا جلتا رہا۔‬
‫وہ ہر وقت سامنے ہو کر بھی اس کا نہیں تھا۔‬
‫اس نے بھیڑ سے خود کو علیحدہ کیا اور چھوٹی سی‬
‫نہر جو ٹیوب ویل اور بڑی نہر کے پانی سے پھولوں‬
‫اور فصلوں کو سیراب کرتی تھی اس کے پُل پہ‬
‫گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے نہر کے گرد آلودہ پانی کو‬
‫گھور رہی تھی۔‬

‫‪81‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"محبت بھی ایک کھیل ہی تو ہے۔ اگر ذرا سی بھی‬


‫اونچ نیچ ہو تو انسان بازی ہار جاتا ہے۔"‬
‫اس نے سر اٹھا کر نیلے آسمان کو دیکھا جہاں آج‬
‫پھر بادل چھا چکے تھے۔‬
‫ٹی وی پہ بتایا گیا تھا کہ دو ہفتے تک موسم خراب‬
‫رہے گا اور ویسا ہی ہو رہا تھا۔‬
‫"میں نے بھی تو اس کھیل میں کوتاہی برتی ہے۔دماغ‬
‫ہی استعمال نہیں کیا۔پانچ سال اس شخص کے لیے‬
‫ضائع کر دیئے جو میرا تھا ہی نہیں۔"‬
‫لب کچلتے ہوئے اس نے اپنے ہوا کی ذر پہ جھومتے‬
‫آوارہسلکی بالوں کو ہاتھ بڑھا کر کان کے پیچھے کیا۔‬
‫گردن گھما کر خود سے بہت فاصلے پہ ان سب کے‬
‫جھرمٹ کو دیکھا جو خوشی سے بھرپور قہقہے لگا‬
‫رہے تھے۔‬
‫"اے ہللا کاش میں تجھ سے اتنی محبت کرتی تو آج‬
‫تجھے حاصل کر لیتی۔مگر میں نے خود انسان کا‬
‫انتخاب کیا تمہارا کیوں نہ کیا؟"‬

‫‪82‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ بےبس سی آسمان کو دیکھتے ہوئے سر پل کے‬


‫گرد لگے جنگلے سے ٹکائے زیر لب بڑبڑائی۔‬
‫تبھی اس کی آنکھیں خاموشی سے دل کا ساتھ دیتے‬
‫ہوئے برس دیں۔‬
‫"ہاں میں انسان ہوں۔ اور انسان کی فطرت ہی ایسی‬
‫ہے کہ وہ تجھے نہیں تجھ سے تیرے بندے کو مانگتا‬
‫ہے۔میں نے بھی تو وہی کیا۔"‬
‫بےساختہ ہی وہ سر گھٹنوں پر ٹکائے بلک بلک کر‬
‫رو دی۔‬
‫بارش پھر سے برسنے لگی تھی۔سب نے اسے پکارا‬
‫تھا مگر وہ کہاں سن رہی تھی کسی کی‪.....‬‬
‫وہ سب اپنے اپنے کپڑے اور لڑکیاں اپنا میک اپ بچا‬
‫کر ڈیرے پر موجود کمرے میں جا گھسی جہاں ایک‬
‫بہت بڑی لوہے کی چارپائی پڑی تھی۔‬
‫وہ سب اس پہ گول دائرے کی شکل میں بیٹھ گئے‬
‫تھے۔‬

‫‪83‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ذیاج لکڑی کے دروازے سے ٹیک لگائے باہر رفتہ‬


‫رفتہ تیز ہوتی بارش کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک اسے‬
‫یاد آیا سلومی وہاں پُل پہ بیٹھی تھی۔‬
‫اس کی نگاہوں کے سامنے اس کا سوگوار سراپا آیا‬
‫تو‪......‬گردن گھما کر حاور اور طلحہ کو دیکھا جو‬
‫سب کے ساتھ قہقہے لگا رہے تھے‬
‫"اگر کسی سے کہا تو مذاق اڑائیں گے میرا۔انسانیت‬
‫تو اسی میں ہے کہ میں اسے لے آؤں۔"‬
‫وہ سوچتے ہوئے جیسے ہی کمرے سے نکال حاور‬
‫نے سر اٹھا کر اس کی پشت کو دیکھا۔‬
‫"ایم سوری سلومی! مگر تم نے ہی کہا تھا کہ تمہارے‬
‫حق کے لیے تم سب سے لڑ کو گی اب تمہیں لڑنا‬
‫پڑے گا۔کیونکہ تمہارے بنا میں جیت نہیں سکوں‬
‫گا۔اور میری ہار کے ساتھ تمہاری ہار جڑی‬
‫ہے‪....‬تمہیں جتانا ہی میرا مقصد ہے۔"‬
‫وہ تھوڑی کھجاتے ہوئے سوچ کر مبہم سا مسکرا دیا۔‬
‫دل میں کہیں نہ کہیں ندامت ضرور سر اٹھائے اس کا‬
‫منہ چڑھا رہی تھی کہ وہ اسے بارش میں چھوڑ‬

‫‪84‬‬
‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫آیا‪......‬مگر فلحال وہ سر جھٹک گیا کہ یہ ضروری‬


‫تھا۔‬

‫***‬
‫اس کی ماں کے متعلق مشہور تھا کہ وہ اپنے شوہر‬
‫کے ساتھ وفادار نہیں تھی کسی اور کے ساتھ ناجائز‬
‫تعلقات تھے۔‬
‫اور ایسے کئی بہتان‪ ،‬مگر صالحہ بیگم سے اسنے‬
‫اکثر یہ ہی سنا تھا کہ اس کے والد نے بیوفائی کی‬
‫تھی۔‬
‫کون سچا تھا کون جھوٹا ؟‬
‫وہ اپنی انیس سالہ عمر میں کبھی جان ہی نہیں سکی‬
‫تھی۔‬
‫پل سے اتر کر وہ پگڈنڈی پر چلتی آگے بڑھ گئی۔‬
‫وہ اسے ڈھونڈتا جب پل پہ پہنچا تو وہ وہاں موجود‬
‫نہیں تھی۔‬

‫‪85‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اب یہ کہاں چلی گئی؟"‬


‫اضطرابی کیفیت میں بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے‬
‫وہ ادھر ادھر نگاہیں دوڑا رہا تھا‪.....‬وہ کہیں بھی‬
‫نہیں تھی۔‬
‫"سلومی!‪.....‬سلومی کہاں ہو تم؟"‬
‫وہ آہستہ آہستہ چلتا اسے آوزیں دیتا کچھ آگے نکل آیا‬
‫تھا۔‬
‫اب یہاں سے سرخ گالب کے پھولوں کے کھیت شروع‬
‫ہو رہے تھے اور وہ اسے دکھائی دے گئی۔‬
‫منڈر پہ بیٹھی پھول ہاتھ میں تھامے ایک ایک پتی کو‬
‫نوچ کر بکھیر رہی تھی۔‬
‫وہ دور سے ہی اسکی سرخ آنکھوں کی ویرانی دیکھ‬
‫پا رہا تھا‪.....‬سینے پہ ہاتھ لپٹے وہ چند پل وہاں کھڑا‬
‫ہی دیکھتا رہا۔‬
‫سلومی کے چہرے کا رنگ بار بار بدل رہا تھا۔‬
‫"وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔‬
‫"نہیں کرتا۔‬

‫‪86‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫کرتا ہے۔‬
‫نہیں کرتا۔"‬
‫گالب کی ایک ایک پتی توڑ کر پھینکتے ہوئے وہ شاید‬
‫اپنی محبت آزما رہی تھی۔‬
‫ذیاج نے قدم اس کی جانب بڑھائے۔‬
‫"کرتا ہے۔‬
‫وہ‪.......‬وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔"‬
‫آخری پتی کو اتار کر اپنی جھولی میں ڈالتے ہوئے وہ‬
‫چینخ اٹھی تھی۔‬
‫ساری پتیاں سمیٹ کر وہ اٹھی اور ان سب کو ہاتھ‬
‫اوپر اٹھا کر فضا میں اچھاال۔‬
‫ہوا کا رخ پیچھے کی جانب تھا تبھی وہ ساری پتیاں‬
‫ذیاج کے چہرے کو چھو کر اس کے قدموں میں جا‬
‫بکھریں۔‬
‫"کون کیا کرتا ہے؟"‬
‫اس نے مدھم گھمبیر آواز میں استفسار کیا۔‬
‫"وہ‪.....‬وہ مجھ سے محبت کرتا‪".......‬‬

‫‪87‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ جو اس قدر خوش تھی کہ اسی خوشی میں‬


‫جھومتی یہ بھول گئی استفسار کرنے واال خود ذیاج‬
‫یزدانی ہے۔‬
‫اور جیسے ہی پلٹی اس کی زبان کو وہاں ہی بریک‬
‫لگ گئی۔‬
‫"کون محبت کرتا ہے؟"‬
‫لہجہ نارمل سا تھا مگر سلومی کو تپ چڑھ گئی۔‬
‫"بھال کوئی شخص اتنا بیوقوف بھی ہوتا ہے۔‬
‫نہیں‪.....‬حد ہی ہو گئی ویسے اس قدر تو تم معصوم ہو‬
‫نہیں جو میری دلی کیفیت سے واقف نہ ہو۔محض میرا‬
‫مذاق اڑا رہے ہو۔"‬
‫وہ منہ بسورے دل میں ہی اس سے مخاطب تھی۔‬
‫اس کی جانب افسردگی سے دیکھتے ہوئے وہ جیسے‬
‫ہی اس کے عقب سے نکلی‪،‬ابھی دو قدم ہی چلی تھی‬
‫کہ اسے رکنا پڑا۔‬
‫گلے پہ ہاتھ رکھتے رکھتے بھی کھنچاؤ کے زیر اثر‬
‫ریشمی سفید آنچل اڑ گیا۔‬

‫‪88‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ خوف زدہ سی سینے پہ دونوں ہاتھ لپیٹ کر پلٹی۔‬


‫وہ جو اسے کھری کھری سنانے کا ارادہ کر رہی تھی‬
‫یہ دیکھ کر خاموش ہو گئی کہ آنچل تو پھول کے‬
‫کانٹوں میں اٹکا ہوا تھا۔‬
‫اس نے سکون کا سانس بھرا اور آگے بڑھ کر آنچل‬
‫چھڑوانے لگی۔‬
‫وہ ہنوز جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے رخ پھیرے‬
‫آسمان کو دیکھ رہا تھا۔‬
‫"آہ‪.....‬ماں‪"....‬‬
‫وہ جو اس کی جانب انہماک سی دیکھتی یہ سوچ رہی‬
‫تھی کہ "یہ شخص خود کو سمجھتا کیا؟ پل میں تولہ‬
‫پل میں ماشہ کیوں ہو جاتا یے؟" تبھی شہادت کی‬
‫انگلی میں جب کانٹا چبھا تو وہ بےاختیار ہی‬
‫سسکاری بھرتی دو قدم پیچھے ہٹی اور رخ پھیر‬
‫گئی‪.....‬وہ اس کی جانب پلٹا ایک منٹ میں صورت‬
‫حال سمجھتے ہوئے آگے بڑھا اور آنچل کانٹوں سے‬
‫نکال کر اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے الجھا الجھا‬

‫‪89‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سا نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے سفید آنچل کو‬


‫دیکھنے لگا۔‬
‫اسے وہ پکار نہیں پا رہا تھا۔‬
‫پہلی مرتبہ جب وہ دونوں ملے تھے تو ان کے درمیان‬
‫بےتکلفی پیدا ہو گئی تھی‪ ....‬کیوں کہ تب سلومی‬
‫صرف چودہ سال کی تھی اور ذیاج بیس سال کا تھا۔‬
‫وہ سلومی کو بچوں کی طرح ہی پیار سے مخاطب‬
‫کرتا۔ اس نے دوستی بھی کی تھی۔‬
‫مگر ادھر سلومی اس کی ان سب مہربانیوں اور نرمی‬
‫کو محبت سمجھ بیٹھی‪......‬کچی عمر کے خواب اتنے‬
‫پکے ہو جاتے ہیں کہ جب پورے نہ ہوں تو زندگی بھر‬
‫دل کے دریچوں میں سسکتے تڑپتے کھڑے رہتے‬
‫ہیں۔‬
‫سلومی کو لگتا تھا کہ وہ بھی اسے چاہتا ہے مگر اب‬
‫جو سب کچھ ہو رہا تھا وہ حیران کن تھا۔‬
‫مصباح کی شادی پہ جب وہ آیا تھا تو پہلی مالقات‬
‫اچھی تھی محض سالم تک کی مگر سالمی کو لگا تھا‬
‫کہ ابھی کہانی باقی ہے‪.....‬مگر جب ذیاج نے ذمیم‬

‫‪90‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سے بات کی اسے اگنور کیا تو ساری خوش فہمیاں‬


‫ہوا ہو گئیں۔‬
‫"اے ناداں لڑکی وہ کہاں اور تم کہاں‪ ،‬وہ شہری بابو‬
‫اور تم‪.....‬تم ایک دیہاتن‪.....‬وہ پچیس سالہ عمر میں‬
‫ہی اپنے والد کے لمبے چوڑے بزنس کو سنبھال چکا‬
‫ہے اور توں‪.....‬توں انٹر پاس‪ ......‬آخر کیوں توں نے‬
‫پانچ سال اس کے انتظار میں گزارے؟ آنکھوں کو وہ‬
‫خواب کیوں دکھائے جو کبھی پورے نہیں ہو سکیں‬
‫گے؟"‬
‫خود کو ڈپٹ کر بوجھل سانس بھری اور سر جھکا لیا۔‬
‫ذیاج نے تبھی دوپٹہ اس کے دونوں شانوں کے گرد‬
‫لپیٹ کر اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے تیزی سے آگے‬
‫بڑھا تھا۔ سلومی کو مانو یوں لگا ساری جان اس ایک‬
‫ہاتھ میں آ ٹھہری ہو۔‬
‫اس کے اٹھتے قدموں سے بھی وہ ذیاج کی خفگی کو‬
‫بھانپ گئی تھی۔‬
‫***‬

‫‪91‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میں دیکھ رہی ہوں سلومی! جب سے ناز آنٹی لوگ‬


‫آئے ہیں تم ادھر بہت کم آتی جاتی ہو۔کیا بات ہے؟"‬
‫یاور بھائی کی بیگم اس سے استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"ن نہیں تو بھابھی! ایسی کوئی بات نہیں ہے۔وہ کیا‬
‫ہے نا اتنے سارے مہمان ہوں تو بندہ اچھا نہیں لگتا‬
‫آتے ہوئے۔"‬
‫وہ ایک لمحے کو تو گھبرائی۔‬
‫بھابھی نے اس کے سامنے پڑے تہہ شدہ کپڑے اٹھا‬
‫کر وارڈروب میں رکھے اور پلٹ کر اس کے پاس بیڈ‬
‫پہ ہی بیٹھ گئیں۔‬
‫"ایسا کچھ مجھے تو نہیں لگتا۔خیر اگر تم بتانا نہیں‬
‫چاہتی تو مت بتاؤ۔"‬
‫وہ خفگی سے شانے آچکا کر رخ پھیر گئیں۔‬
‫"اچھا بتاتی ہوں آپ ناراض تو نہیں ہوں گی نا؟‬
‫ی یا کسی کو بتائیں گی تو نہیں نا؟"‬
‫وہ مدھم آواز میں بولی۔‬

‫‪92‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫بھابھی نے مسکراتے ہوئے نفی میں سر ہالیا۔سلومی‬


‫نے رازداری سے اپنے سارے راز بھابھی کے گوش‬
‫گزار کر دیئے۔‬
‫بھابھی تو سن ہی رہ گئی تھیں‪.....‬معاملہ اتنا سنجیدہ‬
‫ہو گا وہ جانتی نہیں تھی۔‬
‫"ت تم جانتی ہو ذیاج کی منگنی ہو چکی ہے اپنی‬
‫پھوپھو زاد کے ساتھ؟"‬
‫یہ ہی تو وہ بم تھا جو اسے پوری طرح جال کر راکھ‬
‫کر گیا۔وہ آنکھیں پھیالئے بےیقینی سے بھابھی کو‬
‫تکتی رہ گئی‪.....‬جیسے کوئی ڈراؤنا خواب ہو۔‬

‫عشق کی شدتوں کے باوجود کیوں نہ ہوئے تم‬


‫ہمارے؟‬
‫یہ الجھن دل میں باقی ہے بس تھوڑی سی‬

‫سلومی نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔‬

‫‪93‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اسے لگتا تھا کہ ذیاج کسی لڑکی سے بات کرتا ہے‬


‫مگر وہ تو اس کی منگیتر تھی‪......‬یعنی ذمیم اور‬
‫ذیاج‪........‬‬
‫"مجھے لگتا ہے تم اس بات سے بےخبر تھی۔‬
‫اب جب معلوم ہو چکا ہے تو بھول جاؤ۔کیونکہ تم‬
‫جٹوں کی بیٹی کے ساتھ ساتھ بہو بھی بننے جا رہی‬
‫ہو۔"‬
‫وہ اٹھ کر اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر کہتے ہوئے‬
‫اسے چار سو چالیس ووٹ کا جھٹکا دے گئی تھیں۔‬
‫"کیا مطلب‪.....‬؟ ب بھابھی! رکیں مجھے بتائیں‬
‫آپ‪.....‬؟"‬
‫وہ بےسود ان کے پیچھے بھاگی سیڑھاں اتر کر وہ‬
‫جیسے ہی ہال میں پہنچی وہاں سب موجود تھے۔‬
‫سب نے گردن گھما کر اسے اور اس کے بکھرے‬
‫بالوں‪ ،‬سر سے ڈھلک کر شانوں پہ آئے دوپٹے کو‬
‫تنقیدی نگاہوں سے دیکھا اور پھر آگے آگے آتی‬
‫بھابھی کو دیکھا تھا۔بھابھی نے پلٹ کر آنکھوں سے‬
‫ہی اسے نفی کی اور کچن کی جانب بڑھ گئیں۔‬

‫‪94‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"سلومی! یہاں آؤ بیٹا‪".....‬‬


‫ماما نے اسے اپنی جانب پکارا۔‬
‫اس نے ایک نظر ذیاج پہ ڈالی جو مسکراتے ہوئے‬
‫چاچا سے بہت ادب و احترام کے ساتھ گفتگو کر رہا‬
‫تھا۔‬
‫وہ دوپٹہ سر پہ ٹکاتی انگلیاں پٹختی آہستہ آہستہ ماما‬
‫کی جانب بڑھی۔‬
‫صالحہ بیگم بہت خوش بیٹھی تھیں آج۔‬
‫سب سے باتیں کرتے ہوئے سب کے قہقہوں ہنسی‬
‫میں ان کی ہنسی بھی گونج رہی تھی‪.....‬یہ سب اس‬
‫کے لیے بہت نیا تھا۔‬
‫اچانک ہی ایسا ہو جانا کیسے ممکن ہے؟‬
‫انہوں نے اٹھتے ہوئے اس کی پیشانی چومی گلے‬
‫سے لگایا تو ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔‬
‫"جاؤ جا کر آرام کرو پتر۔"‬
‫وہ ابھی بھی کچھ نہیں سمجھ رہی تھی۔‬
‫بھابھی کا جٹوں کی بہو کہنا؟‬

‫‪95‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ماں کا سب کے ساتھ یوں گھل مل کر بیٹھنا۔‬


‫وہ چونکی‪.....‬اس نے کچھ اور محسوس کیا تھا‬
‫جیسے ہی نگاہ حاور پہ پڑی جو وہاں ہوتے ہوئے‬
‫بھی موجود نہیں تھا‪......‬‬
‫ایک ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھے سر جھکائے وہ سرمئی‬
‫لباس میں اسی کا ہی افسردہ سا حصہ لگ رہا تھا۔‬
‫اس کی نظروں کی تپش خود پہ محسوس کرتے ہوئے‬
‫حاور نے سر اٹھایا تو وہ کانپ کر رہ گئی۔‬
‫سرخ آنکھوں میں بےشمار آنسو چمک رہے تھے۔‬
‫رتجگوں کی بولتی مثال بنا بیٹھا تھا وہ شخص اس‬
‫کے سامنے‪.....‬‬
‫وہ لڑکھڑا سی گئی تھی‪.....‬‬
‫حاور بےبسی سے مٹھیاں بھینچے دانتوں پہ دانت‬
‫جمائے وہاں سے اٹھا اور بنا رکے تیز قدم اٹھاتا ہال‬
‫سے نکل گیا۔‬
‫اس کی خوف سے پھٹی آنکھوں سے بےشمار موتی‬
‫گرے تھے۔‬

‫‪96‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫جس کی اسے خبر نہیں تھی وہ تو ہنوز اس کی پشت‬


‫کو دیکھ رہی تھی۔‬
‫تو جٹوں کی بہو جا مطلب‪......‬حاور اور وہ‪......‬‬
‫اچانک ہی ایک قہقہہ فضا میں گونجا اس نے رخ پھیر‬
‫کر ذیاج کی جانب دیکھا جو برفی کا ٹکڑا اُٹھاتے‬
‫ہوئے طلحہ کی کسی بات پر ہنسا تھا۔‬
‫وہ بےحسی کس قدر خوش تھا۔‬
‫اس کی مسکراہٹ‪ ،‬قہقہے سلومی کو زہر لگ رہے‬
‫تھے‪....‬اس کا بس چلتا تو وہ اس وقت ذیاج یزدانی کا‬
‫گال ہی دبا دیتی۔‬
‫حیران اور وحشت زدہ نگاہوں کو اس پہ ٹکائے وہ یہ‬
‫بھول چکی تھی کہ وہ سب موجود ہیں اور ناز بیگم‬
‫اسے کن اکھیوں سے تک رہی ہے۔‬
‫"ناز باجی! چلیں نکاح کا جوڑا تو آپ ہی پسند کریں‬
‫گیں۔حاور اور سلومی کے لیے۔"‬
‫چاچی کی سوئی ہمیشہ ناز بیگم پہ ہی اٹکتی تھی۔‬
‫وہ چونک کر سر ہالتی اٹھیں۔‬

‫‪97‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"چلیں نا یزدانی بھائی صاحب! آپ بھی۔"‬


‫انہوں نے اب کی بار رخ یزدانی کی جانب کیا۔‬
‫"ارے بھئی میں وہاں کیا کروں گا۔عورتوں کا معاملہ‬
‫ہے۔" انہوں نے بہانہ بنانا چاہا۔‬
‫"جٹ صاحب بھی آ رہے ہیں آپ بھی چلیں۔ سونے کا‬
‫معاملہ ہے مرد تو ساتھ ہونے چاہیے نا۔"‬
‫چادر سر پہ درست کرتے ہوئے انہوں نے سمجھداری‬
‫کا مظاہرہ کیا۔‬
‫وہ گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫"چلو بھئی۔اٹھو جٹ صاحب!"‬
‫انہوں نے چاچا سے کہا تو وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫"سلومی! اندر جاؤ۔" ماما نے آگے بڑھ کر دھیمی آواز‬
‫میں اسے لتاڑا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئی‪.....‬تبھی‬
‫انہوں نے اس بےجان مورت کو سختی سے شانوں‬
‫سے تھام کر اس کا رخ ذیاج سے پھیر دیا تھا۔‬
‫"ایک مہینہ ہو چکا ذیاج یزدانی کی منگنی‬
‫ہوئے‪......‬اور سننے میں آیا ہے کہ یہ لو میرج‬

‫‪98‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہے‪.....‬تمہیں خود کو جالنے کی ضرورت نہیں ہے۔‬


‫ہاں مانتی ہوں کہ تمہاری مرضی کے خالف ہو رہا ہے‬
‫سب مگر حاور اچھا لڑکا ہے امید ہے تمہارا نصیب‬
‫میرے جیسا نہیں ہو گا۔"‬
‫ان کی باتوں کی سلومی کو خاک سمجھ نہ آئی وہ پلٹ‬
‫کر ان سب کی جانب بڑھ گئیں تو وہ پھر سے پلٹ کر‬
‫اسے دیکھنے لگی۔‬
‫ان سب کی بھیڑ میں جب ذیاج نے نظر اس ٹوٹی‬
‫مورت پہ ڈالی جو خاموشی سے آنسو بہاتی اسے ہی‬
‫تو دیکھ رہی تھی‪......‬ذیاج کو یوں احساس ہوا جیسے‬
‫برفی کا ٹکڑا گلے میں ہی پھنس گیا ہو۔‬
‫سلومی نے بےیقینی سے نفی میں سر ہالتے ہوئے‬
‫نیچلے لب کو سختی سے دانتوں تلے دبایا تھا۔‬
‫اس کے کانپتے ہاتھ ایک دوسرے میں سختی سے‬
‫بھینچے ہوئے تھے۔‬
‫ذیاج نے ناسمجھی سے مسکراتے ہوئے اسے اشارے‬
‫سے ہی برفی کھانے کی آفر کی۔‬

‫‪99‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سلومی کا خون کھول اٹھا۔ اس کا دل چاہا وہ اسے‬


‫ایک دو تو ضرور ہی لگا دے مگر وہ چاہ کر بھی ایسا‬
‫کچھ نہیں کر سکتی تھی۔‬
‫سب بڑے جب وہاں سے چلے گئے بس ذیاج ‪...‬‬
‫دونوں بھابھیاں اور طلحہ رہ گئی تو وہ وہاں سے‬
‫جانے ہی لگی تھی جب طلحہ نے اس کا ہاتھ تھامتے‬
‫ہوئے گانا شروع کیا۔‬
‫"ارے کب تک جوانی چھپاؤ گی رانی‬
‫کنواروں کو کتنا ستاؤ گی رانی‬
‫کبھی تو کسی کی دلہنیا بنو گی‬
‫میری بھابھی بنو گی‬
‫حاور سے شادی کرو گی؟‬
‫میری بھابھی بنو گی۔"‬
‫وہ دونوں ہاتھ جوڑے آنکھ دبا کر گنگناتی اس سے‬
‫لیپٹ گئی۔‬
‫"طلحہ! سلومی کو اوپر لے جاؤ۔"‬

‫‪100‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مصباح بھائی کی بیوی نے ننھے بچے کو جھالتے‬


‫ہوئے کہا تو وہ اسے دونوں شانوں سے تھامے‬
‫سیڑھاں چڑھنے لگی۔‬
‫"اوہ یار!"‬
‫اسے اپنے کمرے میں بیٹھاتے ہی اس نے سر پیٹا۔‬
‫"مٹھائی کا تھال تو نیچے ہی رہ گیا۔تم بیٹھو تمہارا‬
‫منہ میٹھا کرواتی ہوں۔" وہ تیزی سے کمرے سے باہر‬
‫نکل گئی۔‬
‫ّٰللا یہ کیا ہو گیا؟ حاور اور میں‪......‬ن نہیں میرے‬
‫"یا ہ‬
‫ّٰللا۔"‬
‫ہ‬
‫وہ خوف زدہ سی سسک اٹھی۔‬
‫"جہاں تک مجھے لگتا ہے حاور مجھ سے شادی نہیں‬
‫کرنا چاہتا۔وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے‪.....‬ہم‬
‫دونوں ہی خوش نہیں ہیں‪....‬پ پھر کیوں یہ رشتہ‬
‫جڑنے جا رہا ہے؟"‬
‫اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا۔‬
‫تبھی مردانہ قدموں کی آہٹ دہلیز پہ ابھری اور پھر‬
‫اس کے قریب آ رکی۔‬
‫‪101‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫جھٹکے سے سر کو اٹھایا تو سامنے ہی ذیاج کھڑا‬


‫تھا۔‬
‫وہ کرنٹ کھا کر اٹھی تھی۔‬
‫اس کے عقب سے نکل کر جانے ہی لگی تھی کہ ذیاج‬
‫نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے اپنی جانب کھینچا۔‬
‫وہ توازن برقرار نہ رکھ سکی اور اس کے دائیں بازو‬
‫پہ آ گری‪.....‬اس کے چھونے کا احساس سلومی کو‬
‫کرنٹ کی طرح لگا تھا۔‬
‫"ایک بات کان کھول کر سن لو مس سلومی جٹ!"‬
‫دائیں شانے سے دبوچ کر اپنے سامنے کرتے ہوئے‬
‫وہ دانتوں پہ دانت جمائے سخت لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫سلومی کی نگاہیں اس کے ہاتھ پہ تھیں جو اس کے‬
‫نازک بازو میں پیوست تھا۔‬
‫"تمہاری شادی‪ ،‬تمہاری ماں کی خواہش کی بنا پر ہو‬
‫رہی ہے‪......‬میرے ڈیڈ نے تمہارے رشتے کے لیے‬
‫ماموں ممانی کو منایا ہے۔"‬
‫وہ کہہ کر چند پل اس کی حیرت سے پھٹی آنکھوں‬
‫میں دیکھتا رہا اور پھر بوال۔‬
‫‪102‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مجھے میرے ڈیڈ کی عزت سب سے بڑھ کر‬


‫ہے‪.....‬کوئی ایسا کارنامہ سر انجام مت دینا جس وجہ‬
‫سے میرے ڈیڈ کی عزت و آبرو پہ کوئی آنچ‬
‫آئے‪.....‬ایسا ہوا تو ذیاج یزدانی سے برا کوئی نہیں ہو‬
‫گا۔"‬
‫وہ اسے پیچھے دھکیل کر پلٹا۔‬
‫سلومی نے توازن برقرار رکھا اور بھاگتے ہوئے اس‬
‫تک پہنچی۔‬
‫"ت تم سے برا تو ویسے بھی کوئی نہیں ہے یزدانی‬
‫صاحب!‪....‬مگر اب جو آپ کر رہے ہیں بہت غلط کر‬
‫رہے ہیں۔"‬
‫اس نے ذیاج کا راستہ روکتے ہوئے کہا۔‬
‫"م میں کیا غلط کر رہا ہوں؟ غلط تم کرر رہی‬
‫ہو‪......‬شرم و حیا کا دامن تھامے رکھو وگرنہ منہ کے‬
‫بل گرو گی۔" غصے کی شدت سے اس کی آواز کانپ‬
‫گئی تھی۔‬

‫‪103‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"وہ ہی تو تھامے رکھا مگر کسی نے میری شرم و‬


‫حیا کی پرواہ نہیں کی اور دیکھو میں منہ کے بل گر‬
‫گئی۔"‬
‫پراسرار مسکراہٹ ہونٹوں پر لیے وہ اسے ایک نگاہ‬
‫دیکھ کر وہاں رکی نہیں تھی اور وہ وہاں ہی کھڑا رہ‬
‫گیا‪....‬‬

‫خوش فہمی میں پڑے رہتے ہیں صاحب!‬


‫ایک یہ ہی تو حد ہے وہ‪،‬‬
‫جس میں آپ ہمارے ہیں‬

‫اس کے ایک فقرے کو سلجھاتے ہوئے وہ سر نفی‬


‫میں جھٹک کے دہلیز پھالنگ گیا۔‬
‫ٹیرس سے ہی اس نے سلومی کو سر پہ پاؤں رکھے‬
‫بھاگتے ہوئے حویلی کا خارجی دروازہ عبور کرتے‬
‫دیکھ لیا تھا۔‬

‫‪104‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اپنی ماں پہ گئی ہے اس کی لڑکی بھی۔اور میں نہیں‬


‫چاہتی وہ تمہیں اپنی زلف کا اسیر کر دے اسی لیے‬
‫تمہاری منگنی تمہارے ڈیڈ نے ذمیم سے کر دی ہے۔"‬
‫سماعتوں میں ناز بیگم کی آواز گونجی تھی۔‬
‫اور تب اس نے وہ ہی کیا تھا جو اس کے والدین کی‬
‫مرضی تھی۔‬
‫اور وہ ہمیشہ سے ہی وہ کرتا آیا تھا جو اس کے‬
‫والدین کہتے تھے۔‬
‫اور اب وہ سوچنے پہ مجبور ہوا تھا کہ کون غلط تھا؟‬
‫کس میں زہر بھرا تھا؟‬
‫رسم دنیا؟‬
‫ِ‬ ‫صالحہ بیگم غلط تھیں یا پھر‬
‫اب سلومی غلط تھی یا پھر وہ سب جو اس کی مرضی‬
‫کے بغیر ہی اس رشتے میں باندھنے جا رہے تھے؟‬
‫بڑوں کی عزت رکھنا غلط تھا‪.......‬یا پھر بچوں کی‬
‫مرضی کے بنا انہیں ایک ان چاہیے بندھن میں باندھ‬
‫دینا غلط تھا؟‬

‫‪105‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫خود سے کتنی ہی دیر الجھتا رہا پھر سر جھٹک کر‬


‫پلٹ گیا‬
‫******‬
‫ذیاج نے آفیس جوائن کر لیا تھا۔‬
‫آج جمعہ تھا تو وہ تینوں باپ بیٹے گھر ہی موجود‬
‫تھے۔‬
‫چاروں افراد اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے خوش‬
‫گپیوں میں مصروف تھے کہ ناز بیگم نے سلومی کا‬
‫قصہ چھیڑ لیا۔‬
‫"مجھے تو وہ بلکل صالحہ کی کاپی لگتی ہے۔ آپ نے‬
‫کچھ اچھا نہیں کیا حاور کے ساتھ۔"‬
‫ان کے لہجے میں شکوہ تھا۔‬
‫"پہلے تم نے ہی کہا تھا کہ میں صالحہ سے حاور اور‬
‫سلومی کی بات کروں۔ اب خود ہی پچھتا رہی ہو۔‬
‫اور ویسے تم مجھے یہ بتاؤ کہ صالحہ میں کیا پرابلم‬
‫ہے؟" انہوں نے سختی سے استفسار کیا۔‬

‫‪106‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫عماد اور ذیاج اپنے اپنے فون کی جانب مصروف تھے‬


‫مگر دونوں کے کان ہمیشہ کی طرح ان کی باتوں کی‬
‫طرف ہی متوجہ تھے۔‬
‫"میں نے تب جس وجہ سے کہا تھا آپ کو بتا چکی‬
‫ہوں۔‬
‫دیکھا نہیں تھا مصباح کی شادی پہ وہ کیسے ذیاج کو‬
‫دیکھتی تھی۔اور اس دن بھی کیسے بےباکی سے سب‬
‫کے سامنے ذیاج کو گھور رہی تھی‪ ......‬ذرا بھی شرم‬
‫و حیا نہیں اس لڑکی میں۔"‬
‫انہوں نے رازداری سے کہا۔‬
‫یزدانی صاحب نے سر تھام لیا۔‬
‫"بیگم آپ اپنی نیگیٹو نگاہوں کو تھوڑا کم استعمال کیا‬
‫کریں۔ذیاج کی منگنی ہو چکی ہے۔"‬
‫"اور کل اس بال کا نکاح بھی ہو جائے گا۔مگر مجھے‬
‫ڈر ہے کہیں وہ بھی صالحہ کی طرح حاور کو‬
‫مروا‪".......‬‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتیں یزدانی صاحب‬
‫نے ان کا ہاتھ دبایا۔‬

‫‪107‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ذیاج کا فون بجا تو وہ اٹھ کر وہاں سے چال‬


‫گیا‪....‬عماد بھی وہاں سے اٹھ گیا تھا۔‬
‫وہ پھر سے بولیں۔‬
‫"اگر حاور کے ساتھ ایسا کچھ بھی ہوا تو اس کے‬
‫زمہ دار آپ خود ہوں گے۔"‬
‫"اب آپ چاہتی کیا ہیں محترمہ؟"‬
‫وہ زچ آ چکے تھے ناز بیگم کی اوٹ پٹانگ باتیں سن‬
‫سن کر۔‬
‫"یہ ہی کہ حاور کا نکاح اس سے نہیں ہونا چاہیے۔"‬
‫وہ اطمینان سے گویا ہوئیں۔‬
‫"آپ کا دماغ تو درست ہے ناز بیگم؟"‬
‫وہ اچھل ہی تو پڑے تھے۔‬
‫"میری بات غور سے سنیں یزدانی!"‬
‫اس نے نرمی سے ان کا ہاتھ دباتے ہوئے آواز مدھم‬
‫کی۔‬

‫‪108‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ دونوں جو دیوار کے پیچھے چھپے سب سن رہے‬


‫تھے آواز خود تک نہ پہنچنے کی وجہ سے بدمزگی‬
‫سے ایک دوسرے کی شکل دیکھ کر رہ گئے۔‬
‫"ارے یار! یہ آنٹی صالحہ تو بڑی ڈینجرس نکلیں۔سچ‬
‫میں چاچا حامد کو مروایا انہوں نے‪"....‬‬
‫سس آمیز لہجے میں‬
‫عماد نے اپنے مخصوص انداز‪،‬تج ّ‬
‫کہا۔‬
‫"کیا پتہ یہ سب یوں ہی باتیں ہوں۔"‬
‫"میں نے سنا تھا کہ وہ کسی کے عشق میں مبتال ہو‬
‫گئی تھیں مگر ان کی شادی اپنے تایا زاد حامد سے ہو‬
‫گئی اور اس شخص کو پھر بھی نہیں چھوڑا‬
‫تھا‪......‬وہ شخص شادی کے بعد بھی ان سے ملنے‬
‫آتا تھا۔‬
‫ایک دن چاچا کو معلوم ہو گیا تو وہ بھڑک اٹھے‪ ،‬اس‬
‫سے پہلے کہ وہ کچھ کرتے آنٹی نے اپنے محبوب‬
‫کے ہاتھوں انہیں مروا دیا۔اور حویلی سے بھی اس‬
‫لیے گئیں کہ اس شخص سے مالقاتیں کر سکیں؟"‬

‫‪109‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ مزے سے یوں سٹوری سنا رہا تھا جیسے کسی‬


‫ڈرامہ ہی ہو نہ کہہ حقیقت۔‬
‫"واٹ‪.....‬آئی تھینک یہ سب بکواس ہے۔مجھے تو وہ‬
‫ایسی نہیں لگتیں۔وہ بہت نیک اور شریف خاتون ہیں۔"‬
‫وہ شیشے کا دروازہ دھکیل کر کمرے میں داخل ہوا۔‬
‫"لو بھئی پورا گاؤں جانتا ہے۔ویسے سچ سچ بتا‬
‫سلومی اور تمہارے درمیان کچھ تھا؟"‬
‫عماد نے اسے کہنی مار کر آنکھ دبا کے شریر لہجے‬
‫میں استفسار کیا۔‬
‫"خدا کا خوف کرو بھائی! وہ مجھ سے چھ سال‬
‫چھوٹی ہے۔اگر اسکے دل میں کچھ ہے تو مجھے‬
‫معلوم نہیں۔"‬
‫وہ شانے آچکا کے بیڈ پہ چیت لیٹ گیا۔عماد گہری‬
‫سوچ میں ڈوب گیا۔ جب کہ ذیاج کی سوچوں کا‬
‫دارومدار سلومی تھی۔‬
‫"آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں ناز بیگم؟"‬
‫ان کی بات پہ یزدانی صاحب اچھل ہی پڑے تھے۔‬

‫‪110‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہوں یزدانی! میں وہ کہ رہی ہوں جو سب کے لیے‬


‫بہتر ہے۔"‬
‫"دماغ خراب ہو گیا ہے آپ کا۔اب کچھ بھی نہیں ہو‬
‫سکتا۔وہ بچی ٹوٹ جائے گی اگر یہ نکاح نہ ہوا تو۔"‬
‫یزدانی صاحب اٹھ کر انہیں ڈپٹ کے وہاں سے چلے‬
‫گئے تھے۔‬
‫"بہت کچھ ہو سکتا ہے یزدانی صاحب! اور ہو گا‬
‫بھی۔"‬
‫ان کے ہونٹوں کو پراسرار مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫فون اٹھا کر شناز چاچی کا نمبر ڈائل کرنے کے دوران‬
‫وہ کیا کیا نہیں سوچ چکی تھیں۔‬
‫***‬
‫وہ گھر کے گھٹن زدہ ماحول سے تھک کر ڈیرے پر‬
‫چلی گئی تھی‪ ،‬مگر وہ جو اندر ایک گھٹن سی‬
‫محسوس ہو رہی تھی وہ کم نہ ہوئی۔‬
‫یزدانی صاحب کے کہنے پر حاور اور سلومی کی‬
‫شادی کی ڈیٹ عید سے تین دن بعد کی فیکس ہو گئی‬

‫‪111‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫تھی‪ ،‬اور جب رمضان کا آخری عشرہ شروع ہوا تو‬


‫شادی کی تیاریاں بڑھتی گئیں۔‬
‫"تمہیں بھی بیوفا کہنا بیوقوفی ہو گی ذیاج! تم نے‬
‫مجھ سے کبھی کوئی عید و پیماں نہ کیے تھے یہ تو‬
‫میں ہی تھی جو تمہیں چاہنے سے خود کو روک نہ‬
‫پائی۔" صاف پانی والے نالے کے منڈر پر بیٹھی وہ‬
‫پانی میں پاؤں لٹکائے ہوئے تھی۔‬
‫گرمی شدید تھی اور آج اسے روزہ تو خیر نہیں لگ‬
‫رہا تھا مگر سر چکرا رہا تھا۔‬
‫دل میں محبت نے جو آگ لگائی تھی وہ اسے جالئے‬
‫جا رہی تھی۔‬
‫"سلومی!‪ .....‬یہاں کیوں بیٹھی ہو؟" یاور بھائی بیوث‬
‫کی آواز پر وہ چونک کر پلٹی تھی۔‬
‫"کچھ نہیں بھابھی!" وہ اپنی آنکھوں کی نمی چھپا‬
‫نہیں پائی تھی۔‬
‫بھابھی اس کے پہلوؤں میں بیٹھتے ہوئے ذرا سی‬
‫گردن گھما کر اس کے چہرے پر چھائی آسودگی‬
‫دیکھنے لگیں۔‬

‫‪112‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"سلومی! دنیا کا دستور ہے جو چیز چاہی جائے وہ‬


‫یہاں کبھی نہیں ملتی‪.....‬تم نے تو پھر ایک انسان کو‬
‫پانے کی خواہش کی تھی۔" بھابھی نے ٹھنڈی آہ بھر‬
‫کر کہا۔‬
‫"کیا اس بارے میں سب جانتے ہیں؟" وہ خوف زدہ‬
‫سی دکھائی دینے لگی۔ بھابھی نے نفی میں سر جھٹکا‬
‫"تمہاری جو حالت ہے وہ سب کو کچھ ایسا ویسا‬
‫سوچنے پر مجبور کر دے گی۔خود کو سنبھالو۔" انہوں‬
‫نے اس کے شانوں پر بازو پھیالیا۔‬
‫"کیسے سنبھال لوں بھابھی! میری روح تک زخمی ہو‬
‫گئی ہے‪ ،‬یزدانی نے میری خاموش محبت کا پاس نہیں‬
‫رکھا‪....‬اس نے مجھے جیتے جی مار ڈاال۔" وہ ان کے‬
‫شانے سے لگ کر رو دی تھی۔‬
‫"وہ کہتا ہے اسے اپنے بابا کی عزت عزیز ہے ان‬
‫کے متعلق کوئی بات بھی کرے تو برداشت نہیں کرے‬
‫گا‪....‬اسی لیے میں کوئی ڈرامہ نہ کروں‪.....‬میں‬
‫ڈرامے کرتی ہوں؟ میں نے تو اپنی محبت کا اظہار‬
‫بھی نہیں کیا اور وہ ڈرامے کی بات کرتا ہے۔"‬

‫‪113‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫آنکھوں سے آنسو ایک ایک کر کے رخساروں پر‬


‫پھسلتے چلے گئے۔‬
‫وہ واقع ہی روح تک جل گئی تھی۔‬
‫"انکل نے بچوں کی تربیت اس طرح ہی کی ہے‬
‫سلومی! وہ اپنے والدین کے فیصلے کے سامنے کچھ‬
‫بول نہیں سکتے۔"‬
‫"میں نے یہ کب کہا کہ وہ کچھ بولے ‪ ،‬میرے لیے‬
‫محاذ اٹھائے مگر یوں ڈرامے کہہ کر میری محبت کی‬
‫توہین بھی نہ کرے نا۔" وہ ان کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"مجھے یقین ہے تمہاری محبت پر مگر اس کو دل‬
‫میں ہی دفنا دو‪....‬اپنی ماں کے متعلق سوچو ان کی‬
‫عزت کا پاس رکھو۔" بھابھی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔‬
‫وہ نیچلے لب کو دانتوں تلے دبائے سر جھکا کر‬
‫شفاف نیلگوں پانی کو دیکھنے لگی تھی۔‬

‫سائے پورے گاؤں میں پھیل چکے تھے۔‬

‫‪114‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫افطاری ہو چکی تھی مگر وہ جو کب سے جامن تلے‬


‫بیٹھی تھی ہنوز بیٹھی رہی۔‬
‫صالحہ بیگم کے تو آج کل قدم زمین پر ٹکتے ہی نہیں‬
‫تھے‪....‬اب بھی وہ چاچا کے ہاں گئی ہوئی تھیں۔ آج‬
‫آخری روزہ تھا اور اسے ہوش تک نہ تھا کہ روزہ‬
‫کھل گیا ہے۔‬
‫حاور بھی کل کا لوٹ آیا تھا اور ابھی مغرب کی نماز‬
‫ادا کر کے لوٹ رہا تھا کہ جیسے ہی نگاہ سلومی کے‬
‫گھر کے بند دروازے پہ پڑی تو قدم خودبخود وہاں‬
‫رک گئے۔‬
‫اس نے جیسے ہی ہاتھ دروازے پر رکھا وہ کھلتا چال‬
‫گیا‪......‬وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا اس کے سامنے آ‬
‫رکا۔‬
‫وہ جو خال میں دیکھ رہی تھی اس کی نگاہوں کے‬
‫سامنے وہ آیا تو چند پل وہ یوں ہی دیکھتی گئی۔‬
‫دونوں کے وجود خود میں ادھوری کہانی کا دکھ‬
‫سموئے ہوئے تھے۔‬

‫‪115‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دونوں بکھرے ہوئے تھے اپنے حلیے کی‬


‫مانند‪......‬ہر رات خون کے آنسو دونوں ہی روتے‬
‫تھے۔‬
‫"بیٹھو میں تمہارے لیے چائے لے کر آتی ہوں۔"وہ‬
‫سر جھکا کر اٹھی۔‬
‫"میں چائے نہیں لیتا تم جانتی ہو۔"‬
‫اس نے گویا سلومی کے پاؤں جکڑے تھے۔‬
‫کچھ فاصلے پہ پڑی کرسی اٹھا کر دوسری کرسی‬
‫کے سامنے رکھی اور خود براجمان ہو گیا۔‬
‫"یہاں آؤ تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔"‬
‫اس کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔‬
‫یہ لہجہ کبھی بھی حاور کا نہیں رہا تھا۔‬
‫اس ایک ہفتے میں جس میں سب گھر والے ان کے‬
‫نکاح کی تیاریوں میں مصروف تھے ان کی مالقات آج‬
‫ہو رہی تھی۔‬
‫وہ اس ایک ہفتے میں بہت بدل چکا تھا۔‬

‫‪116‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ پلٹ کر دوپٹہ سر پہ ٹکاتی اس کے سامنے جا‬


‫بیٹھی۔‬
‫نظریں جھکائے وہ مکمل طور پر اپنے ہاتھوں کو‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬
‫ایک دیوار تھی جو اس رشتے نے ان کے دوستی اور‬
‫اپنایت کے رشتے میں ال کھڑکی کی تھی۔‬
‫"میں ذیاج کی سالی سے محبت کرتا ہوں۔"‬
‫کچھ پل خاموشی کے نظر ہو گئے تھے۔‬
‫جب وہ بوال تو سلومی نے پٹ سے نگاہیں اٹھا کر‬
‫اسے دیکھا۔‬
‫"بہت پہلے سے تو نہیں مگر ایک سال سے۔اس دن‬
‫جب میں کراچی سے لوٹا تھا تو یہ ہی بتانے آیا تھا‬
‫تمہیں مگر پھر بتا نہیں سکا۔ تم اس دن کہہ رہی تھی‬
‫کہ تم میرا حق کسی کو نہیں دو گی۔"‬
‫وہ اب سر جھکا گیا تھا۔‬
‫"تو پھر تم یہ نکاح کیوں کر رہے ہو حاور! کیا وہ‬
‫جانتی ہے کہ تم اسے چاہتے ہو؟"‬

‫‪117‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مجھ سے کسی نے میری مرضی نہیں پوچھی۔‬


‫میں نے تو ابھی اس سے کچھ کہا بھی نہیں ہے۔اب تم‬
‫بتاؤ میں کیا کروں؟" وہ منمنایا۔‬
‫"تم نے پہلے مجھے کیوں نہیں بتایا ڈفر‪.....‬میں اتنی‬
‫شرمندہ تھی کہ تم سے نکاح ہو رہا ہے میرا‪....‬اور تم‬
‫تو راضی بھی نہیں ہو۔"‬
‫اس نے اس کے شانے پہ دھیرے سے تھپکی رسید‬
‫کرتے ہوئے خوشگوار لہجے میں کہا۔‬
‫"تو تم کون سا راضی ہو تم بھی تو ذیاج کو‪".....‬‬
‫"بس کرو حاور! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔"‬
‫اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے وہ تڑپ کر‬
‫بولی۔‬
‫"مجھے تم دھوکہ نہیں دے سکتی تمہاری رگ رگ‬
‫سے واقف ہوں۔"‬
‫وہ اس کی جانب جھک کر اس کی ناک دباتے ہوئے‬
‫بوال۔‬

‫‪118‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہمیں رونا دھونا نہیں ہے کچھ ایسا کرنا ہے جس‬


‫سے ذیاج تمہارا ہو جائے اور مریم میری۔‬
‫وقت صرف یہ چند دن کا۔پھر ہم کچھ نہیں کر سکیں‬
‫گے۔ بڑوں کے فیصلے کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔" وہ‬
‫سوچتے ہوئے بوال۔‬
‫"وہ میرا نہیں ہو سکتا حاور! ایک منگنی شدہ بندہ‬
‫مجھے ہرگز نہیں چاہیے‪....‬تم صرف اپنے متعلق‬
‫ّٰللا پہ چھوڑ دیا ہے۔"‬
‫سوچو پلیز۔میں نے اپنا فیصلہ ہ‬
‫وہ سنجیدگی سے بولی۔‬
‫"اچھا تم بھی کچھ سوچو میں بھی کچھ سوچتی ہوں۔"‬
‫اس سے پہلے کہ وہ اس کو کچھ کہتا وہ تیزی سے‬
‫بولی۔‬
‫حاور نے اثبات میں سر ہال دیا کیونکہ جانتا تھا ذیاج‬
‫کے موضوع پر گفتگو کرنے کا کوئی فایدہ ہی نہیں۔‬
‫"ویسے ایک بات بتاؤ تمہاری ماما میرے رشتے کے‬
‫لیے کیسے مانی ہوں گیں؟"‬
‫کچھ سوچتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔‬

‫‪119‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫حاور نے نفی میں سر اور شانے نچائے۔‬


‫"ڈفر اسی وجہ سے کہ یزدانی انکل خود چل کر آئے‬
‫اور انہیں راضی کیا۔اگر میں یہ کہہ دوں گی تمہارا‬
‫نکاح مریم سے کروا دیں اور میں یہ بات سب کے‬
‫سامنے کہوں کہ میں کسی اور سے محبت‪".......‬‬
‫"ایسا تو سوچنا بھی مت‪......‬پاپا اور یاور بھائی لوگ‬
‫تمہیں زندہ زمین میں دفن کر دیں گے۔میں یہ ہرگز‬
‫نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تمہاری جان یا عزت پر‬
‫آنچ بھی آئے۔"‬
‫اس نے اس کی بات کاٹتے ہوئے خوف بھرے لہجے‬
‫میں کہا۔‬
‫"تو پھر میں صرف شناز چاچی سے ہی بات کروں‬
‫گی۔"‬
‫"تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔وہ تب تک نہیں مانیں‬
‫گی جب تک یزدانی انکل ان کو نہیں روکیں گے۔"‬
‫اس نے نفی میں سر ہالتے ہوئے سلومی کی عقل پہ‬
‫افسوس کیا۔‬

‫‪120‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تو پھر سمجھو کام ہو گیا۔ تمہارا نکاح مریم سے ہی‬


‫ہو گا۔اب جاؤ اور آرام فرماؤ۔"‬
‫وہ اس کے شانے پہ تھپکی دے کر کسی بڑی بوڑھی‬
‫اماں دادی کی طرح گویا ہوئی۔‬
‫"کیا مطلب؟"‬
‫"مطلب تمہارا اور مریم کا ہی نکاح ہو گا۔"‬
‫"سلومی! تم کیا کرنے والی ہو؟ دیکھو پلیز خود کو‬
‫کسی مصیبت میں مت ڈال لینا۔"‬
‫وہ فکرمندی سے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں‬
‫میں لیتے ہوئے گویا ہوا۔وہ مبہم سا مسکرا دی۔‬
‫"تم نے کہا تھا نا کہ دنیا سے میری خاطر جھگڑ لو‬
‫گی تو میں نے کہا تھا۔جی ہاں۔"‬
‫وہ اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالتے ہوئے بولی۔‬
‫"تمہارے لیے کچھ بھی برو!‬
‫اب جاؤ آرام کرو میں سب سنبھال لوں گی۔"‬
‫اس نے آنکھوں کی نمی کو صاف کرتے ہوئے کہا۔‬

‫‪121‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"بس تین دن ہیں کچھ نہیں ہو سکتا۔وہ لوگ نہیں‬


‫مانیں گے۔"‬
‫وہ مایوسی کی انتہا پر کھڑا تھا۔‬
‫"یہ میرا مسئلہ ہے حاور!"‬
‫"مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" وہ گھبرا کر بوال۔‬
‫اس نے حاور کو گھوری نوازی۔‬
‫"تم نے افطاری کی؟" اس کے استفسار پر وہ نفی میں‬
‫سر ہال کر رہ گئی۔‬
‫"پاگل لڑکی۔" وہ تیزی سے اٹھ کر کچن کی جانب بڑھ‬
‫گیا‪ ....‬واپسی پر اس کے ہاتھ میں کھجور اور پانی کا‬
‫گالس تھا۔‬
‫"ایک بات کہوں سلومی؟" اس نے جب روزہ افطار کر‬
‫لیا تو حاور نے کہا وہ سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگی۔‬
‫"کل وہ لوگ آ رہے ہیں‪.....‬مریم بھی ساتھ آئے گی‪،‬‬
‫میں تو اس کا سامنا نہیں کر سکتا کیا تم کر پاؤ گی‬
‫ذیاج کا سامنا؟" اس کے سوال پر سلومی محض‬
‫اسے دیکھ کر رہ گئی تھی۔‬
‫‪122‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میں اس کا سامنا کرنے سے کیوں گھبراؤں گی اور‬


‫تم کیوں نہیں کر سکتے مریم کا سامنا؟تم کون سا خود‬
‫کر رہے ہو یہ شادی۔ آرام سے رہنا اور اس کے‬
‫سامنے کمال مت جانا۔"‬
‫سلومی نے اسے کسی نہ کسی طرح مطمئن کر کے‬
‫بھیج دیا تھا۔‬
‫مگر وہ کس کھیت کی مولی تھی وہ خود اچھی طرح‬
‫جانتی تھی۔ وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر سکی تھی تو‬
‫کم از کم حاور کے لیے ضرور کرتی۔‬
‫"سب سے پہلے مریم کے دل میں حاور کے لیے کیا‬
‫ہے یہ دیکھنا ہے۔‬
‫پھر چاچی سے بات کروں گی۔پھر یزدانی انکل سے۔"‬
‫اس نے دماغ میں اپنے پالن کو ایک ترتیب دی۔‬
‫صالحہ بیگم کا خیال آیا مگر وہ جانتی تھی پہلے انہیں‬
‫دکھ ہو گا مگر جب یہ معلوم ہو گا کہ حاور کبھی اسے‬
‫خوش نہیں رکھ سکے گا‪،‬کبھی محبت نہیں دے گا تو‬
‫یہ سن کر انہیں تقریبا ً کچھ سکون ہو گا۔‬
‫***‬
‫‪123‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دو بجے کا وقت تھا جب حویلی کے سامنے دو گاڑیاں‬


‫آ رکیں۔‬
‫وہ اور طلحہ تیزی سے منڈیر پہ پہنچی تھیں۔‬
‫ذیاج گاڑی سے اترا اور آنکھوں پر سے سن گالسز‬
‫اتارتے ہوئے لیفٹ سائیڈ والے دروازے کی جانب‬
‫بڑھا۔‬
‫سلومی نے اس سے رخ پھیر لیا تھا‪......‬کہ وہ اسے‬
‫دیکھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔‬
‫کیونکہ دل پہ تو اس کے اختیارات رہ ہی نہیں تھے۔‬
‫اور اسے طلحہ سے ہی خبر ملی تھی کہ آج ذیاج کی‬
‫منگیتر بھی اس کے ساتھ آ رہی ہے‪.....‬اس کی‬
‫سس بہت تھا۔‬ ‫منگیتر کو دیکھنے کا تج ّ‬
‫سلومی نے جب رخ پھیر کر اس دشمن جاں کو دیکھا‬
‫تو وہ یزدانی صاحب کے ہمراہ چل رہا تھا۔‬
‫ہاتھ کے اشارے سے وہ انہیں کچھ سمجھا رہا تھا اور‬
‫وہ پشت پہ ہاتھ باندھے اثبات میں سر ہال رہے تھے۔‬
‫وہ کتنا فرمابردار تھا‪.....‬کتنے احترام سے سب سے‬
‫گفتگو کرتا تھا‪ ....‬بڑوں کی عزت کرنے واال‪....‬ہاں یہ‬
‫‪124‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہی سب تو تھا کہ جو سلومی کے دل کو اس کی جانب‬


‫کھینچ لے جاتا تھا۔‬
‫ہاں‪....‬اگر وہ یہاں کا کوئی دیہاتی بھی ہوتا تو وہ اس‬
‫سے محبت کرتی کیونکہ اسے ذیاج کی بےتحاشا‬
‫دولت اور اونچے عہدے سے نہیں بلکہ اس کی‬
‫اچھائیوں سے محبت تھی۔‬
‫یہ ادراک ہوتے ہی اس کے ہونٹوں کو زخمی سی‬
‫مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫"چلو معلوم تو ہوا کہ اس کی اچھائی سے مجھے‬
‫محبت ہے‪،‬اس کے ٹھہر ٹھہر کر بولنے سے محبت‬
‫ہے‪ ،‬اس کے احسن اخالق سے محبت ہے۔‬
‫وگرنہ حسین تو کئی چہرے ہیں دنیا میں۔"‬
‫وہ روتے تڑپتے دل کو سنبھالتی سر جھکائے آنکھیں‬
‫موند گئی۔‬

‫دھڑکنیں جو دل کی ہو جائیں بہت تیز کبھی‬


‫انہیں خوف سمجھ کے اب بھال دیتی ہوں‬

‫‪125‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ان میں سے مریم کون ہے؟"‬


‫اس نے دو لڑکیوں کو حویلی کا داخلی دروازہ عبور‬
‫کرتے دیکھ استفسار کیا۔‬
‫"الل شرٹ والی۔ چلو چلتے ہیں۔"‬
‫طلحہ کہتے ہوئے سیڑھاں اترنے لگی۔‬
‫وہ بھی اپنا آنچل سنبھالتی سیڑھاں اتری۔‬
‫سب سے وہ گلے ملی تھی۔‬
‫عماد سے سر پہ ہاتھ رکھوایا۔‬
‫مگر ایک واحد وہ شخص تھا جسے اس نے اگنور کیا۔‬
‫اور زیادہ فرق ذیاج کو بھی نہیں پڑا تھا شاید‪....‬وہ تو‬
‫ذمیم میں ہی کھویا ہوا تھا‪....‬سلومی کو تو خیر یہ ہی‬
‫لگ رہا تھا۔‬
‫طلحہ کے ساتھ بیٹھتے ہوئے غیر ارادہ طور پر اس‬
‫نے اپنا اور ذمیم کا معائنہ کیا۔‬
‫ذمیم کیا تھی اور وہ کیا تھی؟‬
‫وہ زمین تھی تو ذمیم آسمان۔‬
‫‪126‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مدھم آواز میں سب سے مسکرا مسکرا کر گفتگو‬


‫کرتی وہ اسے جلن کے احساس سے دو چار کر گئی‬
‫تھی۔‬
‫"بہت خوبصورت ہے نا ذیاج کی پسند۔‬
‫اتنے سال اس کی محبت کی چنگاری کو دن رات ہوا‬
‫میدان وفا‬
‫ِ‬ ‫دیتے ہوئے تمہیں کیا حاصل ہوا سلومی؟‬
‫سے ایک پل بھی پاؤں نہ کھینچ کے آخر مال ہی کیا؟‬
‫دیکھو وہ کتنا حسین رقیب لے آیا ہے‪ "...‬وہ دل ہی‬
‫دل میں خود سے مخاطب تھی۔‬
‫"میں بھی تو خوبصورت تھی۔ مانا کہ شکل کچھ خاص‬
‫نہیں مگر کچھ تو تھی۔" اس کا دل جل رہا تھا۔‬
‫" ذمیم سے بہت کم۔ دیکھو وہ کیسے بیٹھی ہے‪،‬‬
‫کیسے بات کرتی ہے‪ ،‬کتنی سلجھی ہوئی ہے‪،‬اور کتنی‬
‫خوبصورت ہے ایک دم ذیاج جیسی گوری چٹی۔"‬
‫وہ جو کبھی اسے اور کبھی ذمیم کو دیکھ رہی تھی‬
‫ذیاج کی اٹھتی نگاہ پہ وہ ایک پل کو محض اس کی‬
‫آنکھوں میں دیکھ پائی تھی پھر فوری طور پر رخ‬
‫پھیر گئی۔‬

‫‪127‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مجھے ابھی یہ نہیں سوچنا بلکہ یہ سوچنا ہے کہ‬


‫نکاح کیسے رکوا سکتی ہوں؟"‬
‫اس نے اپنے جلے دل کو ایک جانب دھکیلتے ہوئے‬
‫حاور کے متعلق سوچنا شروع کیا۔‬
‫"کہاں جا رہی ہو سلومی؟"‬
‫اسے اٹھتا دیکھ ناز بیگم نے استفسار کیا۔‬
‫"وہ میں‪......‬کہیں نہیں بس یہی ہوں۔"‬
‫کیا بتاتی کہ اب دل مزید برداشت نہیں کر پا رہا۔‬
‫ان دونوں کو اشاروں کناروں میں باتیں کرتے دیکھ‬
‫پھٹا جا رہا ہے‪.....‬بےدلی سے مسکراتی وہ وہاں‬
‫سے ہٹ گئی تھی۔‬
‫ذیاج کی نگاہوں نے بہت دور تک اس کا تعاقب کیا تھا‬
‫پھر لب بھینچے سر جھکا گیا۔‬
‫چاند جیسے ہی نظر آیا حویلی میں خوشیوں کی لہر‬
‫دوڑ گئی تھی۔‬
‫سب ہنسی ٹٹولی کرنے لگے۔‬

‫‪128‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ذیاج! مجھے نہیں لگوانی تم سے مہندی۔" ذمیم اس‬


‫کے آگے آگے بھاگتے ہوئے کہہ رہی تھی اور وہ‬
‫ہنستے ہوئے اسے مہندی لگانے کی ضد کر رہا تھا۔‬
‫کچن کے دروازے پر کھڑی سلومی کا دل اتنی بری‬
‫طرح سے رویا کہ اسے معلوم بھی نہیں ہوا کب کاجل‬
‫آنکھوں سے بہہ کر رخساروں پر بکھر گیا۔‬
‫ذیاج نے ذمیم کی کالئی تھام لی تھی اور اب وہ اسے‬
‫سیڑھیوں پر بیٹھا کر اس کے ہاتھ پر اپنے گوہر دکھا‬
‫رہا تھا اور ذمیم منہ بسورے اسے گھور رہی تھی‬
‫جبکہ وہ مسکرائے جا رہا تھا۔‬
‫سفید شلوار قمیض میں وہ ہمیشہ کی طرح فریش اور‬
‫دلکش دکھائی دے رہا تھا۔‬
‫"میری قسمت اتنی بری کیسے ہو سکتی ہے؟ ساری‬
‫زندگی میں نے ہر شے کے لیے ترستے گزاری ہے‬
‫اب ایک انسان کے لیے بھی‪ ".....‬وہ ڈبڈباتی آنکھوں‬
‫سے اسے دیکھ رہی تھی جب ذیاج نے کسی کی‬
‫نگاہوں کی تپش محسوس کی تو ادھر اُدھر دیکھنے‬
‫لگا تب تک وہ بےاختیار ہی پلٹ کر کچن میں داخل‬

‫‪129‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہوئی بھابھی کی پشت سے پیشانی ٹکا کر زورو قطار‬


‫رو دی۔‬
‫"بھابھی! مجھے جالنے کا سماں لے کر آیا ہے‬
‫وہ‪......‬کیا وہ جو کچھ بھی تھا‪....‬وہ بچپن میں انتظار‬
‫تھما کر اس کا چلے جانا‪ .....‬میرے ساتھ ہنس کر بات‬
‫کرنا وہ‪....‬وہ سب جھوٹ تھا؟" اس کی سسکیوں سے‬
‫بھابھی گھبرا کر اس کی جانب پلٹی۔‬
‫"ہمت رکھو سلومی! پانچ سال سے میں بھی تو ثابت‬
‫قدم ہوں‪......‬یاور میرا شوہر ہے پھر بھی میں اس کی‬
‫بےرخیوں پر خاموش ہوں‪ ،‬ذیاج تو تمہارا کچھ بھی‬
‫قدر غصے‬ ‫نہیں لگتا پھر امیدیں کیسی؟" بھابھی نے ِ‬
‫سے ڈانٹ دیا۔‬
‫وہ منہ ہاتھوں میں چھپا کر سینک کے ساتھ ٹیک لگا‬
‫کر سر جھکائے کھڑی ہو گئی تھی۔‬
‫بھابھی ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی کہ اس کا تو کوئی‬
‫رشتہ ہی نہیں تھا ذیاج سے۔‬
‫"تمہیں میں نے کہا تھا میرے کپڑے پریس کر‬
‫دو‪.......‬؟" یاور بھائی کچن میں داخل ہوتے ہوئے‬

‫‪130‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اپنی بیوی پر برسے تھے۔سلومی نے تیزی سے رخ‬


‫پھیر کر ان سے آنسو چھپائے کہہ سو سوال اور شک‬
‫کرتے۔‬
‫"سلومی! ذرا چائے کا خیال رکھنا میں آتی ہوں۔"‬
‫بھابھی کہتے ہوئے لپک کر کچن میں سے نکل گئیں۔‬
‫وہ چائے کے قریب جا کھڑی ہوئی۔‬
‫"سلومی! لیموں پانی بنا دو تین گالس جلدی سے۔ذمیم‬
‫اور مریم کے لیے۔" طلحہ کچن میں داخل ہوتے ہوئے‬
‫تیزی سے بولی اور پھر پلٹ کر یہ جا وہ جا ہوئی۔‬
‫وہ بھی ذمیم اور مریم کے اردگرد منڈال رہی تھی۔‬
‫"میں نوکر نہیں ہوں تمہاری یا اس ذمیم اور مریم کی‪،‬‬
‫خود ہی بناؤ۔" منہ ہی منہ میں بڑبڑاتے ہوئے وہ فریج‬
‫میں سے ٹھنڈے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے سٹیل کا‬
‫ڈول بھی نزدیک کر چکی تھی۔‬
‫ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے چائے کی دیگجی پر اس کا‬
‫ڈھکن دیا اور چولہا بند کرتے ہوئے لیموں پانی کی‬
‫جانب متوجہ ہوئی۔‬

‫‪131‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تو سلومی! تمہاری قسمت میں اب یہ ہی لکھا‬


‫ہے‪ ....‬جلنا اور محض تڑپنا۔" دل میں ایک مرتبہ پھر‬
‫سے درد سا اٹھا تھا۔‬
‫آنسو بےلگام ہو کر رخساروں کو تر کرنے لگے۔‬
‫"مجھے ایک گالس پانی ملے گا؟" گال کھنکھارتے‬
‫ہوئے وہ بہت قریب ہی بوال تھا کہ بری طرح سے‬
‫سٹپٹا گئی‪،‬ہاتھ میں سے لیموں پھسال اور چھری‬
‫انگوٹھے پر کٹ لگا کے ہاتھ سے چھوٹتی چلی گئی‬
‫تھی۔‬
‫اس نے ہاتھ دوپٹے میں چھپایا اور تیزی سے لیموں‬
‫پانی گالس میں انڈیلنے لگی۔‬
‫ذیاج کچھ یوں کھڑا تھا کہ اس کا شانا سلومی کے‬
‫شانے سے ٹکرا رہا تھا‪....‬وہ بہت غور سے اس کی‬
‫رخساروں کو تر کرتے آنسو دیکھ رہا تھا۔‬
‫"آپ‪ ....‬آپ جائیں یہاں سے۔" وہ بےجان وجود کو‬
‫پرے کھسکا چکی تھی۔‬
‫"کیوں؟ میرا یہاں کھڑے رہنا تمہیں ناگوار گزر رہا‬
‫ہے؟" تیکھے لہجے میں استفسار کرتے ہوئے وہ‬

‫‪132‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دوسری جانب آ کھڑا ہوا اور اس کا زخمی ہاتھ تھام‬


‫لیا۔‬
‫سلومی کے وجود میں ایک سنسنی خیز لہر دوڑ گئی‬
‫تھی۔‬
‫وہ اچھل کر پیچھے ہٹنا چاہتی تھی مگر ذیاج نے‬
‫اسے اپنی جانب کھینچ کر شانوں سے دبوچتے ہوئے‬
‫پیچھے لے جاتے ہی دیوار سے لگا دیا۔‬
‫وہ ہراساں نگاہوں سے اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔‬
‫دل تھا کہ بری طرح سے کانپ رہا تھا۔‬
‫"چاند رات مبارک۔" اس کا ہاتھ تھام کر سرخ پھولوں‬
‫کے گجرے پہناتے ہوئے وہ اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کر رہا تھا۔‬
‫"ہیلو‪.....‬کہاں کھو گئی ؟ پانی دو۔" ذیاج نے اس کے‬
‫شانے کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا تو وہ بری طرح‬
‫چونکی۔‬
‫پہلے اپنی کالئیوں کو دیکھا جو خالی تھیں پھر ذیاج‬
‫کو دیکھا چند لمحے وہ اسے ساکت پلکوں سے‬

‫‪133‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں کیا کیا تاثر‬


‫تھا‪.....‬دکھ درد‪ ،‬محبت‪ ،‬تاسف‪ ،‬بےیقینی‪ ،‬غصہ‪.....‬‬
‫"ذیاج! میری چوڑیاں تم نے توڑی ہیں مجھے الکر‬
‫دو۔" ذمیم کی آواز پر وہ دونوں ہی ایک انجانے سحر‬
‫سے آزاد ہوتے ہوئے بری طرح سٹپٹا کر ادھر اُدھر‬
‫دیکھنے لگے تھے۔‬
‫" گاؤں کی دوسری نکڑ پر سٹال لگا ہوا ہے سلومی‬
‫کے ساتھ چلی جاؤ۔" وہ تیزی سے کہتے ہوئے پلٹا‬
‫تھا۔‬
‫"جی نہیں تم نے توڑی ہیں ال کر بھی تم ہی دو گے۔"‬
‫وہ ضد پر اڑی۔‬
‫"اگر مزید کچھ کہا تو انکل کو بتا دوں گی کہ تم نے‬
‫میری چوڑیاں بھی توڑ دی ہیں اور مہندی بھی خراب‬
‫کر دی ہے۔" اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا ذمیم‬
‫نے اچھی دھمکی لگائی تھی وہ خاموش ہو کر ہاتھ‬
‫جوڑ گیا۔‬
‫ذمیم نے ہنستے ہوئے سلومی کی جانب دیکھا تو وہ‬
‫مسکرا بھی نہ سکی۔‬

‫‪134‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"سلومی! تم بھی چلو تم نے بھی چوڑیاں نہیں پہنی‬


‫ہوئیں۔" ذمیم اپنائیت سے گویا ہوئی۔‬
‫"ضروری تو نہیں ہیں۔" وہ ایک خفا خفا سی نگاہ‬
‫ذیاج پر اچھال کر رخ پھیر کے پھر سے لیموں کاٹنے‬
‫لگی۔‬
‫"ضروری ہیں پاگل‪ ،‬ماما کہتی ہے لڑکیاں ہار شنگار‬
‫کرتی اچھی لگتی ہیں۔"‬
‫"مگر میری ماما کہتی ہے ہار شنگار لڑکیوں کے دل‬
‫اجاڑ دیتا ہے۔" وہ سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے پانی‬
‫میں چینی اور نمک ڈال کر دونگا ہالنے لگی تھی۔‬
‫ذمیم نے شانے آچکاتے ہوئے ناسمجھی سے ذیاج کی‬
‫جانب دیکھا جو خود اس کی اتنی گہری اور دل کو‬
‫کندچھری سے کاٹنے والی بات پر ساکت ہو گیا تھا۔‬
‫"چھوڑو اسے تم چلو تمہیں چوڑیاں دلواتا ہوں۔اسے‬
‫پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔" وہ اکتاہٹ بھرے انداز‬
‫میں کہتا پلٹ گیا تھا۔‬
‫جبکہ سلومی نے لب بھینچ کر دل کو اس وار پر‬
‫سنبھاال تھا۔‬

‫‪135‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دونوں نے بیک وقت پلٹ کر دیکھا تھا نگاہیں چار‬


‫ہونے پر وہ خاموش آنسو بہا دی تھی جبکہ وہ‬
‫سامنے سے آتے یاور سے ٹکرا گیا۔‬
‫سلومی نے تیزی سے رخ پھیر لیا کہ یاور بھائی کی‬
‫نگاہ نہ پڑ جائے۔‬
‫"مریم سے نہیں بلکہ چاچی سے ہی بات کرتی ہوں۔"‬
‫وہ جلے پاؤں والی بلی کی مانند یہاں وہاں چکرا رہی‬
‫تھی کہ چاچی کو کمرے میں جاتا دیکھ وہ ان کے‬
‫پیچھے بھاگی۔‬
‫"چاچی! مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔"‬
‫اس نے دروازہ بند کرتے ہوئے کہا۔‬
‫چاچی نےسوالیہ نگاہ اس پہ ڈالی۔‬
‫"آپ یہ نکاح روک دیں۔ ک کیونکہ حاور مریم کو چاہتا‬
‫ہے۔"‬
‫"کیا بک رہی ہو تم؟"‬
‫ان کا تو سر ہی گھوم گیا۔‬

‫‪136‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میں سچ کہہ رہی ہوں۔پلیز چاچی! حاور کے متعلق‬


‫سوچیں وہ کیسے میرے ساتھ چل پائے گا جب محبت‬
‫ہی کسی اور سے کرتا ہو گا۔"‬
‫وہ ان کے ہاتھ تھام کر بولی‬
‫یہ زندگی کا پہال حادثہ تھا جب اس نے چاچی کو چھوا‬
‫تھا وگرنہ چاچی کو تو اس کے ہونے سے بھی پرابلم‬
‫تھیں۔‬
‫"تمہاری نظر ذیاج یزدانی پہ ہے نا؟ مگر میں ایسا‬
‫ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ تمہارا نکاح تو حاور سے‬
‫ہی ہو گا۔"‬
‫کچھ سوچتے ہوئے وہ رخ پھیر کر شاطرانہ‬
‫مسکراہٹ لیے سکون کا سانس خارج کرتیں پھر غصہ‬
‫چہرے پر سجائے اس کی جانب پلٹیں۔‬
‫"ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔خدا کا واسطہ آپ کو ایسی‬
‫بات مت کریں۔"‬
‫وہ اپنا نام اس شخص کے ساتھ سن سن کر اکتا چکی‬
‫تھی۔‬

‫‪137‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہاتھ جوڑے وہ روتی ہوئی زمین پہ بھری بھری ریت‬


‫کی مانند بکھرتی چلی گئی۔‬
‫"اٹھو سلومی! میں مریم اور حاور کے لیے کچھ کرتی‬
‫ہوں مگر تم جو میں کہوں گی کرو گی؟"‬
‫اسے شانوں سے تھام کر اٹھاتے ہوئے وہ نرم ہوئیں۔‬
‫"کچھ بھی چاچی! مگر آپ پلیز حاور کی حالت پہ رحم‬
‫کر لیں۔کسی طرح بھی یہ نکاح نہ ہونے دیں۔اگر کرنا‬
‫ہی ہے تو مریم اور حاور کا کروائیں۔"‬
‫آنسوؤں کو رگڑتے ہوئے اس نے کہا۔‬
‫اور پھر چاچی نے اس سے کیا کہا یا اس نے کیا سنا‬
‫اور اس بات کو کیسے برداشت کیا یہ وہ ہی جانتی‬
‫تھی‪.....‬‬
‫مگر اس نے لب بھینچے بھری ہوتے سر کو اثبات‬
‫میں ہال دیا۔‬
‫جب وہ کمرے سے باہر نکلی تو سب کچھ ہار کر نکلی‬
‫تھی۔‬
‫مگر اس نے جو جیتا تھا وہ حاور اور مریم کی خوشی‬
‫تھی۔‬
‫‪138‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ان دونوں کی محبت جتا دی تھی مگر اپنا سب کچھ ہار‬


‫گئی۔‬
‫"میرے پاس کچھ تھا ہی کب جو میں ہار جاتی۔"‬
‫اس نے ایک نظر چھت پہ کھڑے ہنستے ذیاج اور‬
‫ذمیم پہ ڈالی اور دل کی چنخیں دل میں دبائے حویلی‬
‫کی دہلیز پار کر گئی۔‬
‫"مگر چاچی! اس کھیل میں آپ کو بھی جیت حاصل‬
‫نہیں ہو گی میں وعدہ کرتی ہوں۔ آج کے بعد اس دہلیز‬
‫پہ سلومی حامد کبھی نہیں آئے گی۔میں کسی کی‬
‫زندگی تو سنوار سکتی ہوں مگر اجاڑ نہیں سکتی۔"‬
‫وہ اپنے گھر کی جانب جا رہی تھی جب گلی میں حاور‬
‫سے بری طرح ٹکرائی۔‬
‫ایک خالی خالی نگاہ اس پہ ڈالتی وہ اپنے گھر کے‬
‫دروازے کی جانب بڑھی۔‬
‫"سلومی! بات سنو سلومی‪".....‬‬
‫وہ اس کے پیچھے بھاگا۔‬
‫"کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نا؟"‬

‫‪139‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے جب دروازہ بند کرنا چاہا تو حاور نے درمیان‬


‫میں پاؤں اٹکایا اور اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند کر‬
‫کے اس کی جانب گھوما۔‬
‫"ہاں یار! سب اوکے ہے۔ میں نے چاچی سے بات کی‬
‫ہے۔"‬
‫"وہ نہیں مانی نا؟" وہ مایوسی سے آنکھیں پھیالئے‬
‫بوال۔‬
‫"مان گئی ہیں جناب اور آج شام کو تمہاری اور مریم‬
‫کی منگنی ہے مبارک ہو۔"‬
‫اس نے کہا تھا اور حاور خوشی سے جھوم اٹھا۔‬
‫بےاختیار ہی اس نے سلومی کے ہاتھ تھام لیے۔‬
‫"تم‪......‬تم سچ میں گریٹ ہو یار! تمہارا شکریہ‬
‫کیسے ادا کروں مجھے معلوم نہیں مگر بہت بہت‬
‫شکریہ۔‬
‫جب بھی کبھی میری مدد کی ضرورت پڑے تو تمہارا‬
‫برو واال فرینڈ ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے۔" اس نے‬
‫نرمی سے کہا۔‬

‫‪140‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اور میں کبھی تمہیں اور طلحہ کو بھول نہیں پاؤں‬


‫گی۔خواہ ہم کتنا بھی دور کیوں نہ ہو جائیں تم دونوں‬
‫میرے دل میں رہو گے۔"‬
‫وہ عجیب لہجے میں بولی تھی۔‬
‫حاور کی سیاہ آنکھوں میں حیرانی ابھری یہ دیکھ اس‬
‫نے اپنے ہاتھ اس کے ہاتھوں سے چھڑوائے اور‬
‫واپس پلٹی۔‬
‫"کیا مطلب؟" حیرت میں ڈوبا لہجہ۔‬
‫"مطلب اب مریم آ جائے گی تو تم کہاں مجھ غریب‬
‫سے جوس پینے آیا کرو گے۔‬
‫چلو میں تمہیں آخری مرتبہ اپنے ہاتھوں سے جوس‬
‫بنا کے پال دیتی ہوں۔"‬
‫یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئی‬
‫تھیں۔مگر لہجہ ہموار تھا۔‬
‫حاور نے ہنستے ہوئے سر اثبات میں ہال دیا۔‬
‫"مگر یہ جھوٹ ہے کہ میں مریم کے آنے پر یہاں‬
‫نہیں آؤں گا‪.....‬وہ تو میں ہر روز آؤں گا۔" اس نے‬
‫کہا تو سلومی ضبط سے لب بھینچ گئی۔‬
‫‪141‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ آج دنیا میں نہیں کسی اور ہی حسین دنیا میں گم‬
‫تھا وگرنہ سلومی کی آنکھوں کے آنسو ضرور دیکھ‬
‫لیتا۔‬
‫حاور کے جانے کے بعد ہی اس نے صالحہ بیگم سے‬
‫سب کچھ کہہ دیا تھا۔‬
‫انہیں تو گویا چپ لگ گئی۔‬
‫"ماں! اس رشتے کا کیا فایدہ جس میں محبت نہ ہو‪،‬‬
‫جس میں بڑوں کی زور زبردستی ہی شامل‬
‫ہو‪......‬لوگ کہتے ہیں نکاح کے بعد محبت ہو جاتی‬
‫ہے مگر ماں! یہ بھی تو سچ ہے نا پہلی محبت بھولی‬
‫نہیں جاتی۔" اس نے ان کے شانوں کے گرد بازو حائل‬
‫کرتے ہوئے کہا۔‬
‫بہت سمجھا بجھا کر وہ ان کو اپنے ساتھ چلنے پہ‬
‫راضی کر پائی تھی۔‬
‫پیکنگ کرتے وقت اس کی نظر اچانک ہی ایک ریسٹ‬
‫واچ پہ پڑی جو اس کے پرانے وائلٹ میں تھی۔‬
‫یہ واچ ذیاج کی تھی‪....‬چند سال پرانی بچپن کی ایک‬
‫یاد‪.......‬‬

‫‪142‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ اس واچ کو سینے سے لگائے بھری بھری ریت‬


‫کی مانند زمین پر بکھرتی چلی گئی۔‬
‫رخساروں پر بہتے آنسو خود میں سسکتی تڑپتی‬
‫ادھوری کہانی خود میں سموئے ہوئے تھے‬
‫***‬
‫چند سال پہلے‪......‬‬

‫چلو آؤ‬
‫پھر سے بچپن میں کھو جاتے ہیں‬
‫چلو آؤ‬
‫کچھ میٹھی یادیں تازہ کریں‬
‫تیرا وہ چوری چوری دیکھنا مجھے‬
‫میرا شرما کر گھونگھٹ میں چھپ جانا‬
‫پہروں بیٹھے باتیں کرتے رہنا‬
‫پھر سے ان سب پلوں کو دوہراتے ہیں‬
‫چلو پھر سے بچپن میں کھو جاتے ہیں‬

‫‪143‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫یاور کا آج ولیمہ تھا فضا میں خنکی بڑھی ہوئی تھی۔‬


‫طلحہ اور وہ دونوں بھابھی کے ساتھ ہی چپک کر بیٹھ‬
‫گئی تھیں‪.....‬‬
‫کالی ریشمی قمیض پہ گولڈن موتیوں سے دامن‬
‫‪،‬آستین اور گلے پہ کڑھائی کی گئی تھی قمیض کے‬
‫تلے چوڑی دار پاجامہ اور سر پہ سلیقے سے لیا گیا‬
‫گولڈن ریشمی آنچل اس کے معصوم سراپے کو نمایاں‬
‫کیے ہوئے تھا۔‬
‫میک اپ سے پاک چہرہ‪ ،‬گالبی ہونٹوں پر مسکراہٹ‬
‫لیے ہوئے تھی۔‬
‫تبھی ذیاج دروازہ کھٹکھٹا کر اندر داخل ہوا تو اس‬
‫نے چونک کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫ان تینوں کو مشترکہ سالم کر کے وہ سامنے صوفے‬
‫پر بیٹھا کچھ دیر بھابھی سے گفتگو کرتا رہا۔‬
‫وہ انہماک سی اس کی باتیں اس کا لہجہ غور سے‬
‫سن رہی تھی‪......‬ہائے اتنی میٹھی آواز‪.....‬‬

‫‪144‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫کچھ دیر بعد جب طلحہ اور بھابھی کی توجہ دوسری‬


‫جانب ہوئی تو ذیاج نے چپکے سے اسے اٹھتے ہی‬
‫اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔‬
‫گھبراتے ہوئے ایک نگاہ ان دونوں پہ ڈالتے ہوئے وہ‬
‫اثبات میں سر ہالتی اٹھی اور اس کے پیچھے چل دی۔‬
‫"تم کہہ رہی تھی نا مجھے اپنی پسندیدہ جگہ دکھاؤ‬
‫گی۔چلیں اب؟"‬
‫وہ اس کو اپنے پیچھے آتی محسوس کرتے ہوئے رکا‬
‫اور بوال۔‬
‫"شاید آپ کے دماغ پر گہری چوٹ آ گئی ہے ڈاکٹر کے‬
‫پاس جائیں۔"‬
‫وہ خفگی سے کہتی کچن کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫ادھر ادھر نگاہیں دوڑا کر وہ پھر سے اس کے‬
‫پیچھے ہو لیا۔‬
‫"کیا مطلب ہے تمہارا؟ تم وعدہ خالفی کر رہی ہو‬
‫سلومی!"‬

‫‪145‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے رونے والی شکل بناتے ہوئے کچن کے‬


‫دروازے سے ٹیک لگائے سینے پہ ہاتھ لپیٹ لیے رخ‬
‫باہر کی جانب ہی رکھا تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔‬
‫"ٹھیک ہے۔میں آپ کو لے چلوں گی مگر کسی کو‬
‫بتانا نہیں۔میری ماں کو معلوم ہوا تو بہت ڈانٹ پڑے‬
‫گی۔"‬
‫"نہیں بتاتا۔میں باہر تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔"‬
‫وہ کہتے ہوئے مسکرا کر وہاں سے ہٹ گیا اور بس‬
‫اسی پل وہ اس کے سحر میں مبتال ہو گئی مگر تب‬
‫اتنی عمر کہاں تھی بچوں واال ذہن تھا اس کا‪......‬کہ‬
‫سمجھ سکتی کہ جو شخص اسے اچھا لگ رہا ہے‬
‫کیوں لگ رہا ہے؟‬
‫وہ خوف زدہ سی حویلی سے نکل کر سولنگ پہ چلتی‬
‫جا رہی تھی جب وہ بھی تقریبا ً بھاگتے ہوئے اس تک‬
‫پہنچا۔‬
‫"تمہیں کس سے ڈر لگتا ہے مجھ سے بات کرتے‬
‫وقت؟"‬

‫‪146‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ ہاتھ میں پکڑی ششم کی چھڑی کو گھماتے ہوئے‬


‫بوال۔‬
‫"مجھے ڈر تو کسی سے بھی نہیں لگتا مگر میری‬
‫ماں کو اچھا نہیں لگتا کہ میں کسی بھی لڑکے سے‬
‫زیادہ بات کروں۔"‬
‫وہ شانے اچکاتے ہوئے ناسمجھی سے بولی۔‬
‫"ہوں‪......‬ویسے وہ لڑکیاں کیا کہ رہی تھیں؟"‬
‫اس نے کچھ یاد کروایا سلومی نے گردن گھما کر اس‬
‫کے پرسکون چہرے کو دیکھا‪ .....‬ہونٹوں پر شرارتی‬
‫سی مسکراہٹ تھی۔‬
‫"یہ ہی کہ آپ بہت سوہنے ہو۔" اس نے رخ پھیرتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫"آ ہاں‪ .......‬وہ تو میں ہوں ہی۔ تمہیں نہیں لگتا؟"‬
‫شریر لہجے پہ وہ چڑھ سی گئی۔‬
‫"سوہنے لگو یا نہ مگر آپ ہو آپ کے لیے یہ ہی کافی‬
‫ہے۔مجھ سے ہر بات کیوں پوچھتے ہیں؟" وہ چڑ گئی‬
‫"تو کیا نہ پوچھوں؟" بےنیازی سے سوال کیا گیا۔‬

‫‪147‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ خاموش ہو گئی۔‬


‫کچھ دیر بعد سولنگ سے اتر کر وہ لوگ نہر کنارے‬
‫چل دیئے‬
‫وہ اس کے پیچھے پیچھے نہر کنارے چل رہی تھی۔‬
‫اس کے ہر اٹھتے قدم کی جگہ اپنے قدم رکھتے‬
‫ہوئے وہ مسکرا دیتی۔‬
‫"یہاں ہی بیٹھ جاتے ہیں۔"‬
‫وہ یکدم رکا اور سلومی بےدھیانی میں اس کی پشت‬
‫سے بری طرح ٹکرائی اس سے پہلے کہ وہ گرتی‬
‫ذیاج نے پھرتی سے پلٹ کر اسے تھام لیا۔‬
‫وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹی تھی۔‬
‫وہ سلومی کے چہرے پہ پھیلتے شرم کے رنگ دیکھ‬
‫مسکرا دیا۔‬
‫"اچھا تو بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھی؟‬
‫کہ میں بہت سوہنا ہوں؟ اور جب سے آیا ہوں گاؤں کی‬
‫لڑکیاں پیچھے پڑی ہوئی ہیں؟"‬

‫‪148‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ نہر کنارے اگی گھاس پہ بیٹھتے ہوئے دلچسپی‬


‫سے بوال۔‬
‫سلومی نے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا۔‬
‫گرے چیک واال پینٹ کوٹ‪ ،‬سفید شرٹ پر سرخ ٹائی‬
‫زیب تن کیے‪ ،‬بالوں کو فلو سٹائل دیئے‪.....‬شیو کی‬
‫ہریالی اس کے گول بےداغ چہرے پر بہت جچ رہی‬
‫تھی اور مسکراتے گالبی ہونٹ‪......‬وہ واقع ہی گاؤں‬
‫کی لڑکیوں کے لیے قیامت برپا کر رہا تھا۔‬
‫اور وہ قیامت سلومی پہ بھی گزر رہی تھی‪.....‬اس بات‬
‫سے وہ بےخبر تھی‪،‬بس جانتی تھی تو اتنا کہ وہ اگر‬
‫پہروں بھی چاہیے تو اسے بنا تھکے دیکھ سکتی ہے‬
‫سن سکتی ہے۔‬
‫"کیا ہو گیا اب ایسے کیوں دیکھ رہی ہو؟"‬
‫وہ کہنی زمین پہ ٹکا کر ہاتھ پہ سر رکھتے ہوئے نیم‬
‫دراز سا اس کی جانب دیکھنے لگا جو اس سے کچھ‬
‫ہی فاصلے پر بیٹھی تھی۔‬
‫سنہری گڑیا‪ ،‬نہ میک اپ نہ کوئی ہار شنگار سادی‬
‫سی اور سب سے بڑھ کر معصوم بھی۔‬

‫‪149‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کی لمبی پلکیں بار بار حیا کے زیر اثر رخساروں‬


‫کو چھو رہی تھیں۔‬
‫"ہوں‪.....‬ہاں نا‪....‬وہ جو لڑکی میرے ساتھ آئی تھی‬
‫جب آپ نے مجھے بالیا تھا چائے کے لیے وہ آپ کو‬
‫بہت گھورتی تھی۔"‬
‫اس نے منہ بسورے کہا اور گھٹنوں کے گرد بازو‬
‫لپیٹ کر سر ان پہ ٹکائے وہ اسے دیکھنے لگی۔‬
‫"تو تم نے پھر روکا نہیں؟" وہ خفگی سے استفسار‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫"جی بلکل روکا تھا‪....‬میں نے بھی ان سب سے کہہ‬
‫دیا کہ آپ صرف میرے ہیں مجھ سے بات کرتے ہیں‬
‫وہ آپ کو نہ دیکھیں۔اور آپ‪".......‬‬
‫وہ جذباتی انداز میں کیا کیا کہ رہی تھی اندازہ تب ہوا‬
‫جب وہ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنس‬
‫دیا۔‬
‫"تمہارا ہوں کیا؟" وہ سرگوشی میں استفسار کر رہا‬
‫تھا۔‬
‫سلومی جھجھکتے ہوئے سر جھکا گئی۔‬

‫‪150‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہے گولڈن بیوٹی‪....‬ذرا اپنا ہاتھ میرے سامنے کرو۔"‬


‫اس نے اپنی کالئی سے پٹی والی ریسٹ واچ اتارتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫سلومی نے کانپتی کالئی سر جھکائے ہی اس کے‬
‫چہرے کے سامنے کی۔‬
‫اس نےگھڑی کی سوئیاں اسی ٹائم یعنی ‪ ۷:۱۵‬پہ‬
‫روک دیں‪......‬پھر سکے نکال کر نہر میں پھینکے‬
‫اور گھڑی اس کی کالئی پر باندھ دی۔‬
‫"تم جب جب اس گھڑی کو دیکھو گی یہ وقت یاد آئے‬
‫گا۔اور یہ بھی کہ تم نے مجھے سے کہا کہ تم صرف‬
‫میرے ہو۔"‬
‫وہ شریر لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫"میرا وہ مطلب نہیں تھا۔" وہ جب اٹھ کر کوٹ‬
‫جھاڑتے ہوئے پلٹا تو سلومی تیزی سے بولی مگر‬
‫جب اس نے جھک کر اپنا ہاتھ اس کے سامنے کیا تو‬
‫وہ پھر سے دنیا کو بھولے اس میں ہی کھو‬
‫گئی‪....‬ہاتھ تھامے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"مطلب کچھ بھی ہو میں تو تمہارا ہی ہوں۔"‬

‫‪151‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ مبہم سا مسکرا کر اس کا ہاتھ چھوڑتا آگے بڑھ گیا‬


‫جبکہ وہ یہ سوچتی رہی کہ کیسا طلسم بکھرا تھا کہ‬
‫وہ دل کی بات زبان پہ لے آئی۔‬
‫"تمہارے پاس بالوں والی پن‪ ....‬میرا مطلب سوئی‬
‫ہے؟"‬
‫ذیاج نہر کنارے لگے سفیدے کے تلے کھڑے ہوتے‬
‫ہوئے بوال تو وہ چونکی اور پن اتار کر اس کی جانب‬
‫بڑھا دی۔‬
‫اس نے اپنے اور اس کے نام کا پہال حرف لکھا اور پم‬
‫نہر میں اچھال دی۔‬
‫"جب بھی میں آؤں گا تو ہم یہاں بیٹھ کر ڈھیروں باتیں‬
‫کیا کریں۔"‬
‫اس نے نرمی سے سلومی کو دیکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"تم نے اپنی پڑھائی چھوڑ کیوں دی؟"‬
‫وہ اسے گھبراہٹ کا شکار دیکھ کر بات بدل گیا۔‬

‫‪152‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"گاؤں کے اسکول میں صرف آٹھ تک ہی پڑھایا جاتا‬


‫ہے۔"‬
‫اس نے کہا تو وہ سر ہال کر رہ گیا۔‬
‫"آپ کو معلوم ہے جس درخت پہ آپ نے نام لکھا ہے‬
‫وہ میں نے لگایا تھا۔"‬
‫وہ سینے پہ ہاتھ باندھے اس کے ساتھ چلتے ہوئے‬
‫بولی۔‬
‫"ریلی‪.....‬؟"‬
‫پلٹ کر سفیدے کے درخت کو دیکھتے ہوئے وہ گویا‬
‫ہوا۔‬
‫"ہوں‪.....‬میں زیادہ تر اپنا وقت جانوروں اور درختوں‬
‫کے ساتھ گزارتی ہوں کیونکہ میری کوئی دوستیں ہی‬
‫نہیں ہیں۔"‬
‫وہ افسردہ سی مسکرائی تھی۔‬
‫"مگر طلحہ اور حاور تو تمہارے دوست ہیں نا؟"‬

‫‪153‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہوں‪......‬طلحہ مرضی کی مالک ہے جب جی چاہے‬


‫تو مجھے کھیل میں شامل کر لیتی ہے جب چاہیے‬
‫نکال دیتی ہے۔‬
‫حاور تو ویسے ہی یہاں نہیں ہوتا مگر جب آتا ہے تو‬
‫وہ صرف میرے ساتھ ہی کھیلتا ہے پھر طلحہ سے‬
‫بھی دوستی ہو جاتی ہے۔جب وہ نہیں ہوتا تو طلحہ‬
‫بھی گاؤں کی لڑکیوں کے ساتھ ہی کھیلتی ہے۔" وہ‬
‫افسردہ سی ہو گئی تھی۔‬
‫"تم پریشان کیوں ہو رہی ہو اب میں ہوں نا تمہارا‬
‫دوست ہر ہفتے بعد آیا کروں گا اور ہم مل کر جانوروں‬
‫کے ساتھ کھیال کریں گے۔"‬
‫وہ اسے ہنسانے کی کوشش میں کامیاب ہو چکا تھا۔‬
‫"آپ کو میں خرگوش کے بچے دکھاؤں‪.....‬اتنے‬
‫سوہنے ہیں نا کیا بتاؤں۔"‬
‫وہ چہک کر بولی تو ذیاج نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"چلیں۔"‬

‫‪154‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ سر ہال کر اس کا ہاتھ تھامتی پگڈنڈی پر دوڑ رہی‬


‫تھی وہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ تیز قدم اٹھا رہا‬
‫تھا۔‬
‫اور وہ جو ہر ہفتے آنے کا کہہ کر گیا تھا پھر مصباح‬
‫بھائی کی شادی پر ہی آیا اور کتنا بدل کر آیا تھا‪.....‬‬

‫”حال‪“......‬‬

‫"کم از کم ایک مرتبہ جاتے جاتے اسے دیکھ لوں۔کیا‬


‫معلوم کہ پھر کبھی مالقات ہو یا نہ ہو۔"‬
‫آنسوؤں کو رگڑ کر وہ ہمکالم تھی۔‬
‫"ماں! میں ابھی آتی ہوں۔"‬
‫صالحہ بیگم جو کچن میں پڑے مختصر سے برتنوں‬
‫میں سے چند ضرورت کے برتن کارٹون میں بےدلی‬
‫سے پیک کر رہی تھیں اس نے ان سے کہا اور گھر‬
‫سے نکل گئی۔‬
‫باقی کا سارا سامان پیک ہو چکا تھا۔‬

‫‪155‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ایک کارٹون برتنوں واال اور ایک سوٹ کیس ان‬


‫دونوں کے کپڑوں کا۔‬
‫اس نے حویلی میں داخل ہوتے ہی ایک نوکر سے ٹائم‬
‫پوچھا جس نے اسے بتایا کہ آٹھ بج چکے ہیں۔‬
‫وہ بھاگتے ہوئے آگے بڑھی تھی۔‬
‫پوری حویلی دلہن کی مانند ایک ہی دن میں سج چکی‬
‫تھی یہ دیکھ کر اسے حیرانی ہرگز نہیں ہوئی تھی۔‬
‫وہ یہاں صرف اس دشمن جاں کے لیے آئی تھی۔‬
‫جو اسے کہیں نہیں مال۔‬
‫"تم شاید ذیاج کو ڈھونڈ رہی ہو؟"‬
‫حاور جو اسے یہاں وہاں چکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا‬
‫اس کے پاس آتے ہوئے بوال۔‬
‫"وہ تو ذمیم کے ساتھ گاؤں والی نہر پہ گھومنے گیا‬
‫ہوا ہے۔" وہ رازداری سے گویا ہوا۔‬
‫"شکریہ۔"‬
‫وہ بھاگتے ہوئے پیچھلے دروازے کی جانب بڑھی‬
‫تھی۔‬

‫‪156‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫پورا گاؤں روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔‬


‫اس نے سولنگ کی بجائے پگڈنڈی سنبھالی اور بال‬
‫آخر بھاگتے ہوئے وہ دس منٹ بعد نہر سے منسلک‬
‫کچی سڑک پہ پہنچتے ہی وہ لڑکھڑا کر گرنے ہی والی‬
‫تھی کہ خود ہی سنبھل گئی۔‬
‫وہ دونوں سیلفی لے رہے تھے اچانک سلومی کی آمد‬
‫پہ وہ دونوں بری طرح چونکے۔‬
‫"تم یہاں کیا کر رہی ہو سلومی؟"‬
‫وہ اپنا فون جینز کی جیب میں ڈال کر اس کو حیرت‬
‫سے دیکھنے لگا۔‬
‫"مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے اکیلے میں۔"‬
‫وہ بنا کچھ بولے نہر کنارے چڑھی اور ایک اچٹتی‬
‫نظر اس پہ اور دوسری ذمیم پہ ڈالتے ہوئے گویا‬
‫ہوئی۔‬
‫"تم جاؤ یہاں سے نظر نہیں آ رہا میں ذمیم کے ساتھ‬
‫کھڑا ہوں۔" وہ تیکھے لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫"سو واٹ؟ آئی ڈونٹ کئیر۔" وہ اونچی آواز میں چالئی‬
‫تھی۔‬
‫‪157‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کا انگلش میں لہجہ ایسا تھا کہ وہ دونوں حیران‬


‫رہ گئے۔وہ ایک قدم آگے بڑھی۔‬
‫"ڈونٹ سی می ان دس وے۔‬
‫آئی وانٹ ٹو ٹاک ٹو یو جسٹ فیو منٹس پلیز‪ "....‬وہ‬
‫تیزی سے کہہ رہی تھی۔‬
‫ذیاج نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"تم رکو میں آتا ہوں۔"‬
‫وہ ایک نظر ذمیم پہ ڈالتے ہوئے بوال۔‬
‫"تم چلو میرے آگے آگے۔میں جہاں کہوں وہاں تک‬
‫جانا۔"‬
‫کچھ یاد آتے ہی وہ نرمی سے کھوئے کھوئے انداز‬
‫میں بولی تو ذیاج نے اسے گھوری نوازی۔‬
‫"تم نے جو ڈرامہ کیا ہے اسے لے کر مجھے بھی‬
‫بات کرنی ہے۔" وہ غصے سے بوال مگر سلومی کو‬
‫اس کی نگاہوں میں وہ غصہ نظر نہیں آیا تھا جو‬
‫لہجے میں تھا‪.....‬‬
‫وہ رخ پھیر کر چل دیا۔‬

‫‪158‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سلومی نے وہی پچپن والی عادت دہرائی اس کے‬


‫قدموں کے نشانوں پہ اپنے پاؤں رکھتے ہوئے وہ چل‬
‫رہی تھی کہ اچانک ذیاج رکا اور اسی وقت پلٹا۔‬
‫وہ ایک پاؤں ہوا میں لیے کھڑی ہوئی تھی مگر اس‬
‫مرتبہ اس سے ٹکرانے کی سنگین غلطی نہیں کی۔‬
‫اس نے بھنویں آچکا کر اس کے پاؤں کو دیکھا اور‬
‫پھر اس کے چہرے کو جہاں گزے خوشگوار لمحوں‬
‫کی یاد میں زخمی سی مسکراہٹ رقم تھی۔‬
‫"ایک دم ٹھیک جگہ پہ رکے ہو ذیاج صاحب!"‬
‫اس نے اشارہ اس سفیدے کے درخت کی جانب کیا تھا‬
‫جو خود میں گزرا وقت سموئے کھڑا تھا۔‬
‫"ٹھیک اس کے سامنے ہی ہم بیٹھے تھے نا؟ یہاں ؟"‬
‫اس نے ذیاج کے چہرے پہ کچھ تالش کرنا چاہا۔‬
‫جہاں صرف خاموشی ہی تھی۔‬
‫"یہ سب تو بھول گئے۔ کم از کم یہ گھڑی تو یاد ہی ہو‬
‫گی؟"‬
‫اس نے گھڑی ذیاج کی نگاہوں کے سامنے لہرائی۔‬

‫‪159‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے کھوئے کھوئے انداز میں اسے دیکھتے‬


‫ہوئے گھڑی تھام لی۔‬
‫"ٹائم دیکھو۔"‬
‫اس نے تیزی سے جینز کی جیب سے فون نکال کر‬
‫ٹائم دیکھا۔‬
‫"‪"۷:۱۵‬‬
‫وہ زیر لب بڑبڑایا تو وہ زخمی سی مسکراہٹ لیے سر‬
‫جھکا گئی۔‬
‫"ہر روز یہ سات پندرہ یہاں تمہارے انتظار میں آٹھ‬
‫پندرہ ہوئے ہیں۔" کھوئے کھوئے انداز میں اسے‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"یہ وقت بھولنے واال نہیں تھا مگر تم بھول گئے۔"‬
‫اس کا لہجہ خشک سا ہو گیا تھا۔‬
‫"تم وعدہ خالفی کر گئے‪ ....‬مگر میں نے تمہارا‬
‫انتظار نہیں چھوڑا۔ہر روز یہاں‪".....‬اس کا ہاتھ تھامے‬
‫کھینچ کر سفیدے کی جانب بڑھی۔‬

‫‪160‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"یہاں بیٹھی تمہارا انتظار کرتی تھی‪ ،‬جب میں اکیلی‬


‫ہوتی تھی تو تمہارا وعدہ یاد کرتی تھی کہ تم ہر ہفتے‬
‫آنے کا بول کر گئے تھے مگر تم کبھی نہیں آئے‪".....‬‬
‫لہجہ مضبوط تھا مگر آنسو بہت کمزور جو اس کا‬
‫بھرم نہ رکھ سکے اور رخساروں کو تر کرنے لگے۔‬
‫"بچی تھی ناسمجھ نہیں تھی‪..........‬یو ناؤ واٹ‪".....‬‬
‫دونوں ہاتھوں سے چہرے کے گرد بکھرے بالوں کو‬
‫سمیٹ کر کانوں کے پیچھے اڑھستے ہوئے بولی۔‬
‫"مجھے تم سے کبھی ایسی امید رہی نہیں تھی‬
‫خیر‪......‬یہ آپ کی زندگی ہے۔"‬
‫"ویسے مجھے تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہیے مسٹر‬
‫ذیاج!"‬
‫وہ اس کے ہاتھ سے گھڑی لے چکی تھی۔‬
‫اسے ذیاج کی طرح اس گھڑی کو بھی کھو دینے کا ڈر‬
‫تھا شاید۔‬
‫"کس بات کا شکریہ؟" وہ رخ پھیر گیا۔‬

‫‪161‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"کہ مجھے اتنے خواب دکھائے کہ مزید کچھ دیکھنے‬


‫کی خواہش ہی آنکھیں چھوڑ چکی ہیں۔‬
‫اب تو آپ کو بھی نہیں دیکھنا چاہتیں۔تھک گئی ہوں نا‬
‫میدان وفا میں اکیلی کھڑی رہ رہ کر۔"‬
‫ِ‬
‫اس کا لہجہ خودبخود ہی زخمی اور آنسوؤں سے بھر‬
‫آیا تھا۔‬
‫"میں نے تو ہمیشہ یاد رکھا کہ آپ صرف میرے ہیں‬
‫مگر شاید آپ بھول گئے۔خیر چھوڑو یار میں کیا‬
‫گڑھے مردے نکال رہی ہوں‪"......‬‬
‫چہرے کو بےدری سے رگڑتے ہوئے اس نے لب‬
‫بھینچے۔‬
‫"م میں چلتی ہوں۔"‬
‫ایک نظر دور سے دیکھتی ذمیم پہ ڈالتے ہوئے وہ‬
‫جیسے ہی پلٹی ذیاج نے تیزی سے اس کا بازو تھام‬
‫لیا۔‬
‫"تم کہیں نہیں جا رہی۔"‬
‫اس کی آنکھوں میں ایک جنون سا تھا جسے دیکھتے‬
‫ہی وہ ہل گئی۔‬
‫‪162‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میرا ہاتھ چھوڑو ذیاج!"‬


‫"تو یہاں آئی کیوں تھی؟ کیوں آئی تھی یہاں؟‬
‫مجھے گزرا وقت یاد دلوانے؟"‬
‫وہ اسے شانوں سے تھامتے ہوئے اپنے نزدیک کر‬
‫کے چالیا تھا۔‬
‫"م مجھے درد ہو رہا ہے ذیاج! لیو می۔"‬
‫وہ رونے لگی تھی۔‬
‫"ہونے دو میں پھر کیا کروں۔محبت میں تو آگ پہ‬
‫بھی لوگ چل پڑتے ہیں اور تم‪"......‬‬
‫وہ دوسری ہی لمحے نرم پڑا تھا۔‬
‫شانوں سے تھامے اسے گھاس پہ بیٹھا کر خود بھی‬
‫اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔‬
‫"اور تم مجھے ہی چھوڑ کر بھاگ رہی ہو۔ آگ پہ چلنا‬
‫تو دور کی بات۔"‬
‫یہ بات کہتے ہوئے اس کے لہجے میں کتنا افسوس‬
‫تھا۔‬
‫سلومی نے چونکتے ہوئے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔‬

‫‪163‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫نہ تو وہاں کوئی بےرخی تھی نہ ہی کوئی غصہ‪ ،‬تھا‬


‫تو وہ صرف سراپا محبت۔‬
‫سیاہ آنکھوں کے تو آج رنگ ہی بدلے تھے‪....‬وہ‬
‫اسے جس طرح دیکھ رہا تھا محبت سے‪.....‬حق تو‬
‫بنتا تھا کہ وہ شرماتی مگر حاالت ہی ایسے تھے کہ‬
‫وہ شرمانا بھول کر یہ یقین کرنے کوشش کرنے لگی‬
‫کہ وہ سب سچ ہے۔‬
‫یہ بازی کیسے پلٹی وہ حیران رہ گئی۔‬
‫"مجھے تمہارے ساتھ گزارا ہر اک پل یاد ہے گولڈن‬
‫بیوٹی۔کبھی نہیں بھوال میں۔"‬
‫" دیکھو ذرا کیسے رومانٹک انداز میں ایک دوسرے‬
‫کو دیکھ رہے ہیں۔" اس سے پہلے کہ وہ چکرا کر‬
‫گرتی ذمیم کی کھنکھتی آواز نے ان دونوں کو چونکا‬
‫دیا۔‬
‫وہ بری طرح جھنپ کر سر جھکا گئی‪.....‬ذیاج ہنس‬
‫دیا۔‬
‫"باقی کی باتیں بعد میں کر لینا۔فلحال چلو وہاں سب‬
‫انتظار کر رہے ہوں گے ہمارا۔"‬

‫‪164‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ہمارا مطلب؟"‬
‫وہ چونک کر تیزی سے اٹھی۔‬
‫"مطلب نکاح نہیں کرنا کیا ذیاج سے؟"‬
‫وہ کیا کہہ رہی تھی سلومی کے سر کے اوپر سے گزر‬
‫گیا۔‬
‫"ذیاج سے نکاح؟"‬
‫پلٹ کر سینے پہ ہاتھ باندھے ذیاج کو دیکھتے ہوئے‬
‫وہ بڑبڑائی۔‬
‫"جی بلکل۔مجھ سے نکاح کرو گی سلومی!"‬
‫وہ گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا ہاتھ پھیالئے‬
‫کہہ رہا تھا۔‬
‫ذمیم نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے جیسے‬
‫اسے ہوش دالیا۔‬
‫"م میں یہاں تمہیں صرف خدا حافظ کہنے آئی ہوں‬
‫ذیاج! پلیز میرا مذاق مزید مت بناؤ۔ دوستی کر کے‬
‫چھوڑ دیا تو نقصان نہیں مگر ایسا مذاق برداشت‪.....‬‬
‫"‬

‫‪165‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میری آنکھوں میں دیکھو سلومی!"‬


‫اس نے سنجیدگی سے کہا تو اس نے ڈرتے ڈرتے‬
‫ذیاج کی آنکھوں میں جھانکا‪.....‬جہاں محبتوں کا جہاں‬
‫آباد تھا۔شرم سے سرخ ہوتی لمحے کے ہزاروں‬
‫حصے میں سر جھکا گئی۔‬
‫بےاختیار ہی اس کا نازک سا ہاتھ ذیاج کے ہاتھ میں‬
‫جا ٹھہرا تھا۔‬
‫اس نے بہت نرمی سے اس کے ہاتھ کو مضبوطی‬
‫سے تھام لیا۔‬
‫ذمیم دل سے مسکرا دی۔‬
‫وہ اس کا ہاتھ تھامے ہی اٹھا تھا اور یوں ہی ہاتھ‬
‫تھامے چل دیا۔‬
‫کتنی مرتبہ وہ گردن گھما کر ایک دوسرے کو دیکھ‬
‫چکے تھے اس کی گنتی ناممکن تھی۔‬
‫گاؤں کی سولنگ پہ پہنچتے ہی ذیاج نے اس کا ہاتھ‬
‫چھوڑ دیا تھا۔‬
‫سلومی نے ہاتھ پہ رہ گئے ذیاج کے نرم گرم لمس کو‬
‫مٹھی بند کیے قید کر لیا۔‬
‫‪166‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫***‬
‫وہ جب حویلی پہنچی تو وہاں سب کچھ ویسا ہی تھا۔‬
‫سجی دھجی خوشیوں سے بھری حویلی اسے حیرانی‬
‫میں مبتال کر چکی تھی۔‬
‫اگر ذیاج اور وہ ایک ہونے جا رہے تھے تو حویلی‬
‫میں اتنی خوشیاں کیوں؟‪......‬وہاں تو صف ماتم بچھی‬
‫ہونی چاہیے تھی؟‬
‫ایک چیز کا اضافہ تھا اور وہ یہ کہ وہاں صالحہ بیگم‬
‫بھی موجود تھیں۔گرے نفیس سا شلوار قمیض زیب تن‬
‫کیے الئٹ میک اپ کے ساتھ ہلکی پھلکی جیولری‬
‫پہنے اِدھر اُدھر جاتی ہوئیں بہت خوش لگ رہی تھیں۔‬
‫"ذ ذیاج! کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟"‬
‫وہ خوف زدہ سی اس کی جانب آنسوؤں سے بھری‬
‫نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"ہرگز نہیں۔یہ سب سچ ہے۔"‬
‫اس نے نظر بچاتے ہوئے اس کے ہاتھ پہ چٹکی کاٹی۔‬
‫"آؤچھ‪".....‬‬

‫‪167‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ پھدک کے پیچھے ہٹی تھی۔‬


‫"یقین ہوا ذیاج کی ہونے والی بیگم کو؟"‬
‫وہ جھک کر اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے‬
‫اسے شرمانے پہ مجبور کر گیا۔‬
‫سلومی نے جلدی سے ہاتھ دل پہ رکھتے ہوئے‬
‫آنکھیں پھیالئے اسے دیکھا تو وہ آنکھ دباتا آگے بڑھ‬
‫گیا۔‬
‫"تمہاری قسمت بہت اچھی ہے میری بچی۔ہللا ہمیشہ‬
‫تمہیں یوں ہی خوشیاں عطا کرتا رہے۔"‬
‫صالحہ بیگم نے آگے بڑھتے ہوئے اس کو سینے سے‬
‫لگا کر بھرائی آواز میں دعا دی۔‬
‫"ماں! یہ سب کیا ہے؟ کیسے‪ .....‬مطلب ہم تو گاؤں‬
‫چھوڑ رہے تھے نا؟"‬
‫ّٰللا کا کرم ہے۔اور تمہارے ہونے والے ہمسفر کا‬
‫"سب ہ‬
‫کمال۔ تمہاری پسند بےمثال ہے۔"‬
‫انہوں نے اس کی پیشانی چومی اس کی نگاہیں‬
‫سیڑھاں چڑھتے ذیاج پہ جا ٹھہری تھیں۔‬

‫‪168‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ایک جذبے کے تحت وہ بھی پلٹا تھا۔‬


‫محبت بھری مسکراہٹ اس کی جانب اچھالتے ہوئے‬
‫وہ اس کو کئی خوشیاں بخش گیا تھا۔‬
‫بےشمار خوشی کے آنسو آنکھوں سے جھلک کر‬
‫رخساروں پر بہہ گئے تھے۔ دوسروں کو خوشیاں دے‬
‫ّٰللا کو‬
‫کر وہ خود خالی دامن کیسے رہ سکتی تھی‪ ....‬ہ‬
‫بھی وہ بندے بہت پسند ہیں جو خود سے پہلے‬
‫دوسروں کا سوچتے ہیں۔‬
‫"تو مس سلومی!‪".....‬‬
‫حاور کی آواز پہ وہ چونکی نگاہوں کو اٹھا کر دیکھا‬
‫تو وہ سینے پہ ہاتھ لپیٹے منہ پھالئے کھڑا تھا۔‬
‫"تمہیں کیا لگا اتنی جلدی تم یہ گاؤں چھوڑ جاؤ گی‬
‫اور ہم بےخبر رہیں گے؟"‬
‫اس نے غصے سے استفسار کیا تو وہ خفگی سے‬
‫نفی میں سر ہال گئی۔‬
‫"چلو میرے ساتھ بتاتا ہوں یہ سب کیسے ہوا۔"‬
‫اس نے صالحہ بیگم کی جانب سوالیہ نظروں سے‬
‫دیکھا۔‬
‫‪169‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫انہوں نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬


‫"صالحہ باجی! چلیں ذرا بری کا سامان لوگوں کو دکھا‬
‫لیں۔" چاچی وہاں آئی تھیں‪.....‬اور جس نرمی اور‬
‫آداب سے صالحہ سے بولیں سلومی کو ایک مرتبہ‬
‫پھر سے غش پڑنے لگا تھا۔‬
‫*******‬
‫وہ عید والے دن منڈیر پر دونوں ہاتھ ٹکائے ذمیم کی‬
‫بات سن رہا تھا۔مگر اس کا دھیان صرف سلومی میں‬
‫ہی اٹکا تھا۔‬
‫"آج وہ حاور کے ساتھ نکاح کرنے جا رہی ہے۔ ذمیم!‬
‫میں بھی تو تم سے منسوب ہو چکا ہوں۔مگر نہیں‬
‫یار‪"......‬‬
‫زور کا مکا منڈیر پر برساتے ہوئے اس نے ضبط سے‬
‫آنکھیں میچے کہا۔‬
‫"میں چاہا کر بھی اس سے دور نہیں ہو پا رہا‪.....‬چاہا‬
‫کر بھی میں اسے بھول نہیں پا رہا۔وہ سامنے ہو تو‬
‫کچھ سوچ نہیں سکتا۔اس کی لمبی پلکوں میں میرا دل‬
‫پھنس سا جاتا ہے‪،‬ان گہری کالی نگاہوں میں میں‬

‫‪170‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ڈوب سا جاتا ہوں۔" وہ کھوئے کھوئے انداز میں گویا‬


‫ہوا۔‬
‫"تم اس سے محبت کرتے ہو ذیاج!"‬
‫ذمیم نے اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔‬
‫"جانتا ہوں یار‪ "!.....‬وہ ہارے ہوئے انداز میں گویا‬
‫ہوا۔‬
‫"مگر ڈیڈ اور بڑوں نے اسے حاور کے ساتھ منسوب‬
‫کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور مجھے تمہارے ساتھ۔اور‬
‫میں ڈیڈ کے حکم کو ٹال نہیں سکتا۔"‬
‫اس نے جیسے ہی رخ حویلی کی اندرونی جانب کیا‬
‫نگاہیں سلومی پہ پڑیں وہ جو شکست خور قدم اٹھاتے‬
‫حویلی سے نکل رہی تھی‪......‬‬
‫"میں ابھی آتا ہوں ذمیم!"‬
‫وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتا چال گیا۔‬
‫ذیاج اس کا تعاقب کرتے ہوئے اس کے گھر تک‬
‫پہنچ گیا۔‬

‫‪171‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مگر سامنے جب حاور کو دہلیز عبور کرتے دیکھا تو‬


‫وہاں سے ہی پلٹ گیا‪....‬اور جب حاور حویلی آیا تو‬
‫اس کے چہرے پر خوشیاں رقصاں تھیں ذیاج کو‬
‫حیرانی ہوئی۔‬
‫"وہ پریشان تھی تو یہ خوش کیوں؟‬
‫کچھ تو گڑبڑ ہے‪.....‬مجھے بات کرنی چاہیے سلومی‬
‫سے۔"‬
‫وہ پیچھلے دروازے سے حویلی سے نکال تھا۔‬
‫سلومی کے گھر کے سامنے پہنچ کر‬
‫دروازے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے اس نے گہری سانس‬
‫خارج کی۔‬
‫اس سے پہلے کہ وہ دروازہ دھکیل کر اندر داخل ہوتا‬
‫اندر سے آتی آواز نے اس کے قدم زمین میں دھنستے‬
‫چلے گئے۔‬
‫"ماں! میری بات غور سے سنیں ہمیں یہاں سے جانا‬
‫ہو گا۔"‬
‫وہ گھبرائے ہوئے لہجے میں کہہ رہی تھی۔‬

‫‪172‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"کیا کہہ رہی ہو؟ رات کو تمہارا نکاح ہے اور تم‪".....‬‬


‫"میرا نہیں صرف حاور کا‪.....‬وہ مریم سے محبت کرتا‬
‫ہے‪،‬ذیاج کی سالی سے‪".....‬‬
‫اس نے چنختے ہوئے کہا۔‬
‫"کیا؟"‬
‫"جی ہاں۔اور جب میں نے چاچی سے بات کی تو‬
‫انہوں نے پتہ ہے کیا کہا؟"وہ زخمی سا مسکرائی۔‬
‫صالحہ بیگم کے ساتھ ساتھ ذیاج کے دل کی دھڑکنیں‬
‫بھی تھم گئی تھیں۔‬
‫"وہ کہتی ہیں حاور اور مریم کی منگنی یا نکاح جو‬
‫بھی‪.....‬تب ہی ہو پائے گا‪ .....‬م میں ی یاور بھائی‬
‫سے شادی کر لوں۔ک کیونکہ بھابھی ماں نہیں بن‬
‫سکتیں۔"‬
‫ّٰللا۔" صالحہ بیگم چارپائی پر گرنے کے سے‬
‫"یا ہ‬
‫انداز میں بیٹھی تھیں۔‬
‫ذیاج کی آنکھیں غم و غصے سے پھیل گئی تھیں۔‬

‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬


‫‪173‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"میں ایسا کبھی نہیں کروں گی بھابھی کا گھر کیسے‬


‫برباد کر دوں؟ اور اب بس بہت ہو چکا‪"......‬‬
‫اس نے سر دونوں ہاتھوں میں گرا لیا تھا۔‬
‫ذیاج نے دروازے کے سوراخ سے اندر جھانکا۔‬
‫آج پہلی مرتبہ اس نے سلومی کو بغیر دوپٹے کے‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫کمر تک جاتے بال کچھ دائیں بائیں شانے پہ بکھرے‬
‫ہوئے تھے‪....‬آنکھوں میں نمی کے ساتھ ساتھ کئی‬
‫ٹوٹے خوابوں کی جھلک بھی تھی‬
‫وہ بےاختیار نگاہیں چرا گیا۔‬
‫"میں ذیاج کی محبت کے سہارے پوری زندگی گزار‬
‫سکتی ہوں ماں!‪....‬مزید نہیں برداشت کر سکتی اس‬
‫کی جگہ کسی اور کو۔پلیز ماں! آپ پیکنگ کریں۔"‬
‫وہ کمرے کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫وہ بھی پلٹنے ہی واال تھا کہ صالحہ بیگم کی گرج دار‬
‫آواز نے اسے پھر سے روک دیا۔‬

‫‪174‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"کیا بک رہی ہو؟ تم ذیاج سے کسی اچھے کی امید‬


‫مت رکھنا۔وہ اپنے ماں باپ کی بات ہی مانے گا اور‬
‫اس کا باپ‪".....‬‬
‫وہ کہتے کہتے خاموش ہو گئیں‪ ،‬سلومی بےاختیار‬
‫پلٹی تھی۔‬
‫"آج میں تمہیں جو بتانے جا رہی ہوں وہ کڑوا سچ‬
‫ہے۔"‬
‫انہوں نے اطمینان سے کہنا شروع کیا۔‬
‫وہ حیران سی آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی جامن کے درخت‬
‫کے نیچے آئی اور اس کے تنے سے ٹیک لگائے‬
‫کھڑی ہو گئی۔‬
‫"یزدانی ہی وہ شخص ہے جس سے میں محبت کرتی‬
‫تھی۔محبت نہیں بلکہ عشق‪.......‬ہم دونوں کالس فیلو‬
‫تھے۔پہلے پہلے تو زیادہ بات چیت بھی نہیں ہوتی تھی‬
‫مگر پھر رفتہ رفتہ بات چیت سے دوستی اور پھر‬
‫محبت تک کا سفر میں نے تہہ کر لیا۔‬
‫اس سے کہنے کی کبھی ہمت ہی نہیں ہوئی تھی۔‬

‫‪175‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مجھے لگتا تھا کہ وہ جانتا ہے کہ میں اسے چاہتی‬


‫ہوں مگر یہ محض غلط فہمی ہی تھی‪....‬اس نے میری‬
‫کزن یعنی تمہاری سوتیلی پھوپھو کے لیے رشتہ بھیج‬
‫دیا۔‬
‫ان کی شادی کے بعد میری شادی تمہارے پاپا سے ہو‬
‫گئی۔"‬
‫انہوں نے گہری سانس بھرتے ہوئے ایک نظر سلومی‬
‫پہ ڈالی جو سانس روکے کھڑی تھی۔‬
‫ذیاج کا چہرہ بادلوں کو چیر کے نکلتی دھوپ کی‬
‫بدولت پہلے ہی سرخ ہو رہا تھا ضبط سے مزید سرخ‬
‫ہوتا چال گیا۔‬
‫وہ مزید وہاں کھڑا نہیں رہ پایا تھا شکستہ خور‬
‫قدموں سے واپس لوٹ گیا۔‬
‫"خدا کی قسم ماں! میں نے ذیاج سے محبت کی نہیں‬
‫بس ہو گئی ہے جیسے آپ کو یزدانی انکل سے‬
‫ہوئی۔اور مجھے لگتا ہے اس سٹوری کا انجام بھی یہ‬
‫ہجر فراق‪".....‬‬
‫ہے صرف ِ‬

‫‪176‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کے کانوں میں سلومی کی بس یہ بات اور درد‬


‫سے چور چور لہجہ گونج رہا تھا۔‬
‫حویلی میں داخل ہوتے ہی اس نے یزدانی صاحب کی‬
‫تالش شروع کر دی۔‬
‫مگر آج تو اس کے سامنے سارے راز فاش ہونے‬
‫تھے۔‬
‫وہ برآمدے سے گزر کر سیڑھاں چڑھنے ہی واال تھا‬
‫کہ کھلی کھڑکی سے جو باتیں اس کو سنائی دیں وہ‬
‫اس کو بہت دکھ دے گئی تھیں‪.....‬دل کو چور چور کر‬
‫گئی تھیں کہ اس نے بہت مشکل سے خود کو سنبھاال۔‬
‫"ناز باجی! آپ نے جیسا کہا میں نے ویسا ہی کیا۔اب‬
‫تو سب معامالت حل ہو گئے۔‬
‫ذیاج بھی بچ گیا‪ ،‬اور حاور جو اس کے آگے پیچھے‬
‫پھرتا رہتا تھا ہاتھ آ گیا‪.......‬اور یاور کی بچے والی‬
‫خواہش بھی پوری ہو جائے گی۔"‬
‫چاچی بہت خوشی سے بتا رہی تھیں اور سب سے‬
‫زیادہ خوشی تو ناز بیگم کو ہو رہی تھی۔‬
‫"ہوں‪......‬بہت اچھا ہوا۔"‬

‫‪177‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ناز بیگم نے گال صاف کرتے ہوئے مسرت کے عالم‬


‫میں سر اثبات میں ہال کر کہا۔‬
‫"مجھے ذیاج کی جانب سے کوئی ڈر نہیں تھا۔‬
‫کیونکہ میرے بچے میری اور یزدانی صاحب کی ہر‬
‫بات مانتے ہیں مگر مجھے حاور کی فکر تھی جیسے‬
‫وہ ہر وقت اس کے پیچھے بھاگتا رہتا تھا۔مگر شکر‬
‫خدا کا اس نے بھی مریم کا انتخاب کیا۔منہ کے بل گری‬
‫ہو گی صالحہ تو۔"‬
‫اسے اپنے کانوں پہ یقین تھا مگر یہ جو سن رہا تھا‬
‫یہ زہر ہی ایسی تھی کہ کچھ پل تو دماغ کو شل کر‬
‫گئی‪.....‬‬
‫"م مجھے تو اب یاور کی بھی فکر ہو رہی ہے کہیں‬
‫وہ اپنی ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے یاور کو‬
‫مروا ہی نہ دے۔"‬
‫ناز بیگم نے مزید کہا تھا ذیاج نے سختی سے کھڑکی‬
‫کے پٹ کو تھام لیا۔‬
‫"ہائے ناز باجی‪ !.....‬مجھے وہ کام والی فری بھی بتا‬
‫رہی تھی مصباح کی شادی پہ وہ نکڑ والے بابا کی‬

‫‪178‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دکان پہ کسی چھوکرے کے ساتھ تھی۔وہ اسے گاڑی‬


‫پہ چھوڑ بھی گیا تھا۔وہ رات گئے تک کسی کے ساتھ‬
‫گاڑیوں پہ گھومتی ہے کہیں ہم نے یاور کے لیے غلط‬
‫فیصلہ تو نہیں کیا؟" چاچی نے تو دل ہی تھام لیا تھا۔‬
‫"خیر میں یاور سے بات کر لوں گی کہ وہ اس پہ نظر‬
‫رکھے۔تم بھی اسے حویلی سے باہر قدم نہ رکھنے‬
‫دینا۔"‬
‫ناز بیگم نے مشورہ دیا۔‬
‫"میں تو کبھی‪".......‬‬
‫ان کی زبان اور نفی میں ہلتے سر کو تو تب بریک‬
‫لگی جب ذیاج دروازے دھکیل کر اندر داخل ہوا۔‬
‫"ذیاج! یہ کون سا طریقہ ہے اندر آنے کا؟"‬
‫ناز بیگم نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے سختی سے‬
‫کہا۔‬
‫"طریقے تو آپ سب کو آتے ہیں۔ویسے مجھے لگتا‬
‫نہیں تھا کہ آپ سب کے دماغ اتنے ماسٹر ہوں گے۔"‬
‫باظاہر تو وہ مسکراتے ہوئے کہہ رہا تھا مگر لہجے‬
‫اور مسکراہٹ کے طنز کو وہ سمجھ پا رہی تھیں۔‬
‫‪179‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ک کیا مطلب تمہارا؟"‬


‫انہیں اس کے چہرے سے انداز ہو چکا تھا کہ وہ کچھ‬
‫سن چکا ہے۔‬
‫"چلیں چھوڑیں میں آپ لوگوں کو بتانے آیا ہوں‬
‫کچھ‪"......‬‬
‫کچھ کو لمبا کھینچتے ہوئے اس نے تجسس پیدا کیا۔‬
‫ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر‬
‫سر ہال کر پوچھا کیا بات ہے۔‬
‫"سلومی جس کے ساتھ گاڑیوں پہ گھومتی ہے میں‬
‫اس شخص کو جانتا ہوں۔"‬
‫اب اس کا لہجہ ہموار اور اپنائیت سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫ان دونوں نے سمجھا بندہ تو کمال کا ہے‪....‬اور‬
‫ہمارے کام کا بھی۔‬
‫"کون ہے وہ بتاؤ مجھے؟"چاچی کی بےتابی عروج‬
‫پر تھی۔‬
‫"وہ‪......‬میں ہوں ذیاج یزدانی۔"‬

‫‪180‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫دونوں ہاتھوں کو اپنے سینے پہ رکھتے ہوئے وہ‬


‫تھوڑا سا سر جھکا کر گویا ہوا۔‬
‫وہ ان دونوں کو حقا بقا چھوڑے جس طوفان کی طرح‬
‫آیا تھا اسی کی طرح چال گیا ناز بیگم اٹھ کر اس کے‬
‫پیچھے بھاگی تھیں۔‬
‫"عماد بھائی! آپ نے ڈیڈ کو دیکھا ہے؟"‬
‫ہال میں پہنچتے ہی اسے صرف عماد ہی نظر آیا تھا۔‬
‫"ہاں وہ تو بیٹھک میں ہیں۔خیریت؟"‬
‫صے کے‬
‫اس نے ذیاج کے چہرے پر کچھ غم و غ ّ‬
‫تاثرات ضرور محسوس کیے تھے۔‬
‫وہ اس کی بات کا جواب دیئے بغیر بیٹھک کی جانب‬
‫بڑھ گیا۔‬
‫دروازے پہ دستک دے کر وہ خود کو نارمل کرتا‬
‫بیٹھک میں داخل ہوا۔‬
‫"ارے ذیاج! آؤ بیٹا بیٹھو۔"‬

‫‪181‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫انہوں نے فون اور نظر کا چشمہ میز پر رکھتے ہوئے‬


‫کہا تو وہ زبردستی کی مبہم سی مسکراہٹ لیے ان کے‬
‫پیروں کی جانب بیٹھ گیا۔‬
‫"الئیں آپ کے پاؤں دبا دوں۔"‬
‫اس نے ان کے پیروں کو اپنی گود میں رکھتے ہوئے‬
‫کہا اور نرمی سے تھامے دبانے لگا۔‬
‫"سچ میں یار تمہارے ہاتھوں میں جادو ہے۔سارا درد‬
‫ختم ہو جاتا ہے‪.....‬تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔"‬
‫وہ آنکھیں موندے‪ ،‬دونوں ہاتھوں کو سر تلے ٹکائے‬
‫گویا ہوئے۔‬
‫"ایک بات پوچھوں ڈیڈ؟"‬
‫اس نے جھجھکتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"ہوں ہوں‪".....‬‬
‫"کیا آپ جانتے تھے کہ‪"......‬‬
‫وہ کبھی بھی یزدانی صاحب کے ساتھ اتنا فرینک نہیں‬
‫رہا تھا کہ ایسا سوال بنا رکے پوچھ لے۔‬
‫"کہ صالحہ آنٹی آپ سے محبت کرتی ہیں؟"‬

‫‪182‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سوال تھا کہ چار سو چالیس ووٹ کا جھٹکا جو یزدانی‬


‫صاحب کو لگا تھا اور وہ سیدھے ہو بیٹھے۔‬
‫"ڈیڈ! پلیز سچ بتائیے گا۔"‬
‫اس نے التجاء کرتے ہوئے ان کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا‬
‫تھا۔‬
‫ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں وہ الٹے ہاتھ کی مار نہ‬
‫دیں مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔‬
‫انہوں نے گردن جھکائے مجرموں کی مانند اثبات میں‬
‫سر ہال دیا۔‬
‫"واٹ‪......‬تو کیا آپ نے حماد چاچو کو مار‪".....‬‬
‫"نہیں۔"‬
‫اس کی بات کاٹتے ہوئے وہ بری طرح سے دبی دبی‬
‫آواز چالئے تھے۔‬
‫"وہ محض ایک ایکسیڈنٹ تھا‪.....‬حماد کی گاڑی ٹرک‬
‫سے ٹکرائی تھی مگر لوگوں نے صالحہ پہ الزامات‬
‫لگانے شروع کر دیئے۔‬

‫‪183‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کی ساس اسے جوتے کی نوک پہ رکھنے لگی‬


‫تھیں۔‬
‫حماد کی ڈیتھ کے بعد اس کی زندگی بہت مشکل ہو‬
‫چکی تھی کوئی بھی اسے چین سے جینے نہیں دے‬
‫رہا تھا تبھی اس نے حویلی چھوڑ دی جس پر کسی‬
‫کو اعتراض بھی نہیں تھا۔"‬
‫وہ اس سے نظریں مالتے ہوئے بول رہے تھے کہ اگر‬
‫آج نگاہیں چرا لیتے تو اس کی نظروں سے گر جاتے۔‬
‫"مجھے معلوم تھا کہ صالحہ مجھ سے محبت کرتی‬
‫ہے۔"‬
‫"ڈیڈ! پھر آپ نے ماما سے شادی کیوں کی؟‪....‬کیا آپ‬
‫ماما سے محبت کرتے تھے؟"‬
‫اس نے حیرت سے اپنے باپ کو دیکھا۔‬
‫"نہیں۔ میں بھی صالحہ کو پسند کرتا تھا۔مگر تمہارے‬
‫دادا دادی کو ناز پسند آ گئی۔ میں بڑوں کے سامنے‬
‫کچھ بھی نہیں کہہ سکا۔ میری پرورش اس بات کی‬
‫اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں اپنے باپ کے سامنے‬
‫کچھ کہوں۔"‬

‫‪184‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫انہوں نے تھکی ہوئی سانس فضا کے سپرد کی۔‬


‫"آپ نے کیوں خاموشی اختیار کر لی تھی ڈیڈ؟ کم از‬
‫کم ایک مرتبہ تو آپ اپنے والد سے بات کرتے اگر نہ‬
‫مانتے تو آپ کو اپنا جی جان لگا کر محبت حاصل‬
‫کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔"‬
‫اس نے افسردگی سے کہا۔‬
‫وہ بس لب بھینچ کر ہنس دیئے۔‬
‫"میرے لیے محبت سے بڑھ کر اپنے والدین کی عزت‬
‫اہم تھی۔میں نہیں چاہتا تھا کہ میری الئی گئی عورت کا‬
‫ان کے ساتھ نبھا نہ ہو اور ساری زندگی والدین کی‬
‫نگاہوں میں گر جاتا‪ ....‬خاندان میں اپنا مقام کھو دیتا۔"‬
‫کسی حد تک تو ان کی سوچ بھی درست تھی۔‬
‫"ایک عورت کی زندگی تباہ کرنا ٹھیک تھا ڈیڈ؟‪....‬ہاں‬
‫مانتا ہوں کہ والدین کی عزت و آبرو سب سے بڑھ کر‬
‫ہوتی ہے مگر والدین کو کیوں اپنے بچوں کی‬
‫خوشیوں کا احساس نہیں ہوتا؟"‬

‫‪185‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مجھے احساس تھا‪ ،‬مجھے صالحہ کے خوابوں کا‬


‫اندازہ تھا۔" وہ افسردگی سے بولے تھے‪ ،‬لہجے میں‬
‫برسوں کی تھکاوٹ اتر آئی تھی۔‬
‫"آپ کو اگر اتنی ہی عزت پیاری تھی تو شادی کے بعد‬
‫بھی آپ نے پھر صالحہ آنٹی کو چھوڑا کیوں نہیں؟‬
‫کیوں ان کے پاس چوری آتے تھے؟"‬
‫اسے یزدانی صاحب پہ یقین تھا مگر آج وہ سب کچھ‬
‫کلیئر کر کے‪،‬اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ کر کے‬
‫اٹھنا چاہتا تھا۔‬
‫"میں کہہ چکا ہوں نا کہ میں نے نہیں مارا۔ نہ ہی میں‬
‫نے اس کی عزت خراب کی نہ اس نے میری۔‬
‫ہماری خاموش محبت تھی اور وہ خاموشی سے ہی‬
‫ختم ہو گئی۔‬
‫نہ میں کبھی صالحہ سے ملنے آیا نہ میں نے حماد کو‬
‫مارا۔یہ سب لوگوں نے افواہیں پھیال رکھی ہیں۔"‬
‫دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وہ پھر سے لیٹ چکے‬
‫تھے اور آنکھیں مند لیں۔‬
‫"اور کچھ پوچھنا چاہتے ہو؟"‬

‫‪186‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"جی۔ اگر آپ کا بیٹا ایسی ہی بھول بھلیوں میں پھنس‬


‫جائے کہ ایک جانب محبت اور دوسری جانب والدین کا‬
‫فیصلہ تو آپ کیا کریں گے؟‬
‫عزت کی خاطر بیٹے کے جذبات کو اس کی ہنسی کو‬
‫کھو دیں گے؟ یا پھر اس کی جھولی میں اس کی‬
‫محبت ڈال دیں گے؟"‬
‫اس سوال پہ انہوں نے آنکھیں کھول کر اس کے‬
‫جھکے سر کو دیکھا اور سوچنے لگے۔‬
‫"جانتا ہوں کہ آپ کی طرح میں بھی اسے دل کے‬
‫کسی بند کمرے میں قید کر کے بھول جاؤں گا‬
‫اسے‪.....‬اور صالحہ آنٹی کی طرح وہ بھی آگے بڑھے‬
‫گی‪......‬ہنسے گی مسکرائے گی‪.....‬مگر ہمیشہ اپنے‬
‫دل کے اجڑے ہوئے خالی مکان میں مجھے بسائے‬
‫رکھے گی۔ایسی آگ جس میں ہم دونوں جل کر راکھ ہو‬
‫جائیں گے۔جس آگ نے آپ دونوں کو بھی چھوا تھا‬
‫فراق کی آگ‪" ......‬‬
‫اس کا لہجہ اٹل اور مضبوط کچھ کچھ کھویا سا تھا۔‬
‫"تاریخ بدلتی رہتی ہے مائی سن۔"‬

‫‪187‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫انہوں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد اس کے ہاتھ پہ‬


‫اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔‬
‫"مجھ میں تمہارے جتنی ہمت نہ تھی کہ اپنے والد‬
‫سے بات کرتا‪.....‬اور میرے والد کو اپنے بیٹے کی‬
‫آنکھوں کی خاموشی نظر نہ آئی مگر مجھے سب‬
‫دکھائی دے چکا ہے۔ تمہاری خوشی سے بڑھ کر کچھ‬
‫نہیں ہے میرے لیے۔"‬
‫"اوہ‪.....‬تھینک یو سو مچ ڈیڈ! آئی لو یو یار۔"‬
‫وہ ان کی بات سمجھتے ہوئے ان کے گلے لگے‬
‫خوشی سے چہک اٹھا‬
‫"ویسے ذرا بتاؤ کون ہے وہ جو ہماری بہو بنے۔"‬
‫"سلومی۔" اس نے سرگوشی میں کہا۔‬
‫اس نے پھر سلومی کے ساتھ کیے گئے چاچی کے‬
‫معاہدے سے لے کر ان دونوں کا گاؤں چھوڑ جانے‬
‫تک بتا دیا‪.......‬‬
‫"تم فکر مت کرو وہ کہیں نہیں جائیں گی۔مگر بیٹا‬
‫ذمیم‪".....‬‬

‫‪188‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"ڈیڈ! میں اسے سب بتا چکا ہوں اسے کوئی اعتراض‬


‫نہیں‪ ،‬آپ پلیز چاچو لوگوں کو منائیں اور پلیز صالحہ‬
‫آنٹی اور سلومی کو حویلی میں ان کا مقام دلوائیں جس‬
‫کی وہ حق دار ہیں۔یہ آپ پہ محبت کا قرض ہے کہ‬
‫صالحہ آنٹی کو عزت دلوائیں۔"‬
‫اس نے ان کو راضی کر لیا تھا۔‬
‫بیٹھک کی کھڑکی پر کھڑی ناز بیگم چکرا کر رہ گئی‬
‫تھیں۔‬
‫انہوں نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ شخص ان‬
‫کا خود کا شوہر ہو گا جس کے ساتھ صالحہ کو بدنام‬
‫کرنے میں انہوں نے بھی کافی حصہ لیا تھا‪......‬‬
‫پھر یزدانی صاحب نے برسوں بعد ہمت کر کے سب کو‬
‫سب کچھ بتا دیا تھا‪.......‬‬
‫جس طرح صالحہ نے خاموش رہ کر سارے الزامات‬
‫سہہ کر بھی ساری زندگی ان کا نام نہیں لیا تھا‪....‬آج‬
‫انہوں نے محبت کا قرض اپنی خاموشی توڑ کر اتارا‬
‫تھا۔‬

‫‪189‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اوہ مائی گاڈ‪ ......‬ذیاج‪ !.....‬آپ نے اتنی ہمت کر‬


‫کیسے لی؟"‬
‫یہ سب سنتے ہی اس نے گردن گھما کر ذیاج کو دیکھا‬
‫جو اس کے ساتھ پڑی کرسی پہ ٹانگ ٹانگ بیٹھا‬
‫مسکرا رہا تھا۔‬
‫"شاید میری محبت میرے ڈیڈ جیسی نہیں تھی۔وہ کھو‬
‫دینے کی ہمت رکھتے تھے مجھ میں وہ ہمت نہیں‬
‫ہجر فراق کو جھیل کر بھول جانے‬
‫تھی‪ .....‬نہ ہی میں ِ‬
‫کی صالحیت رکھتا ہوں۔ بھئی بہت نازک مزاج بندہ‬
‫ہوں۔" آخر پر وہ شرارت سے گویا ہوا۔‬
‫اظہار محبت کیا تھا۔‬
‫ِ‬ ‫اس نے سرعام‬
‫وہاں موجود نوجوان پارٹی نے ہوٹینگ کی تو وہ‬
‫شرما کمو حیا سے خود میں ہی سمٹ گئی جبکہ ذیاج‬
‫نے اس کے رخسار کو چھو کر گھونگھٹ بناتے‬
‫ریشمی بالوں کے پیچھے مسکراتے چہرے کو‬
‫دیکھتے ہوئے سکون کا سانس بھرا۔‬

‫‪190‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"مگر مجھے ڈیڈ اور صالحہ آنٹی کی محبت پہ بھی‬


‫فخر ہے۔ہاں یہ قسمت ہی تھی اگر وہ دونوں ایک ہو‬
‫جاتے تو شاید یہ حاالت نہ ہوتے‪....‬؟‬
‫شاید پھر صالحہ آنٹی انیس سال اس دو کمروں والے‬
‫مکانات میں نہ گزارتیں۔‬
‫اور پھر ہم دونوں نے بھی کہاں ملنا تھا‪"...‬‬
‫وہ ان سب کو ہنستے مسکراتے دیکھتے ہوئے سوچ‬
‫رہا تھا۔‬
‫"قسمت کے کھیل کے سامنے انسان کے کھیل ایک دم‬
‫کچے ہیں۔ماما اور شناز چاچی نے کتنی کوشش کی‬
‫مجھے سلومی سے دور کرنے کی مگر ہماری قسمت‬
‫میں فراق کی تپتی دھوپ نہیں تھی بلکہ محبت کی‬
‫ٹھنڈی چھاؤں تھی۔"‬
‫آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہ کھڑکی کے پاس جا کھڑا‬
‫ہوا۔‬
‫پردہ ہٹاتے ہی ہوا کا ٹھنڈا جھونکا کمرے میں آیا تھا‬
‫اس نے سکون کا سانس اس جھونکے کے سپرد کیا‬
‫اور سینے پہ ہاتھ باندھے چاند کو دیکھنے لگا۔‬

‫‪191‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫سلومی‪ ،‬طلحہ کی کسی بات پر ہنستے ہوئے اس کی‬


‫جانب پلٹی تو اسے تنہائی میں مسکراتا دیکھ خود بھی‬
‫مسکرا دی۔‬
‫***‬
‫بیوٹیشنل نے جب اسے ریڈی کیا تو وہ کئی پل خود کو‬
‫آئینے میں دیکھتی رہی۔‬
‫عروسی لباس اور سولہ شنگار نے کیا جادو کیا تھا۔‬
‫"خواب ایسے بھی حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں؟‬
‫اتنی جلدی‪......‬؟"‬
‫ہاتھ بڑھا کر اس نے مرر میں خود کو محسوس کیا‬
‫تھا۔‬
‫"ہاں اگر ہمسفر ذیاج جیسا ہو تو ہر خواب حقیقت ہو‬
‫جاتا ہے۔"‬
‫اس کا تصور ہی سلومی کے دل کے تار چھیڑ گیا۔‬
‫اسی پل دروازہ دھکیل کر ریشمی پردہ ہاتھ سے پرے‬
‫کرتے ہوئے ذیاج نے قدم کمرے کی دہلیز پہ رکھا۔‬

‫‪192‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫چوروں کی طرح دبا دبا کر پاؤں رکھتے ہوئے وہ اس‬


‫کے پیچھے جا رکا۔‬
‫"ذیاج‪"!.....‬‬
‫اس کا عکس شیشے میں دیکھتے ہوئے وہ حیران‬
‫ہوتی صوفے سے اٹھ کر پوری طرح اس کی جانب‬
‫گھوم گئی۔‬
‫وہ اسے پاؤں کے ناخن سے سر کے بال تک سجا‬
‫دیکھ مسکرا دیا۔‬
‫"اففف میری دلہن‪"......‬‬
‫"آ‪ .....‬آپ یہاں کیا کر رہے ہیں جائیں نیچے‪ ،‬کچھ دیر‬
‫بعد نکاح ہے ہمارا۔"‬
‫وہ شرمانے اور مسکرانے کے درمیان بولی۔‬
‫"جلدی سے میری ہو جاؤ سلومی! پھر ہم بنا کسی کے‬
‫ڈر کے کہیں بھی گھوم پھر سکیں گے‪".......‬اس سے‬
‫پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتا ذمیم اور طلحہ اندر داخل‬
‫ہوئیں۔‬
‫"ذیاج بھائی! آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"‬

‫‪193‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫طلحہ نے لڑاکا عورتوں کی طرح کمر پہ ہاتھ ٹکائے‬


‫استفسار کیا۔‬
‫"وہ میں سلومی کو‪......‬دیکھنے آیا تھا۔"نگاہیں ہنوز‬
‫اس کے دلکش سراپے پہ ٹکائے ہوئے تھا۔‬
‫"دیکھ لیا؟ اب جائیں یہاں سے۔اتنی بھی کیا جلدی‬
‫تھی؟ وہاں سب آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں۔"‬
‫طلحہ نے خفگی سے کہتے ہوئے سلومی کا رخ‬
‫دوسری جانب پھیر دیا۔‬
‫"چلیں محترم باہر چلیں۔ ہم اسے بھی ال رہے ہیں‬
‫نکاح ہو تو جائے پہلے۔"‬
‫ذمیم نے اسے بازو سے تھام کر باہر نکال دیا۔‬
‫وہ ہنستے ہوئے تیزی سے وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫"ذمیم‪ ....‬آپی!"‬
‫سلومی نے اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے پکارا۔‬
‫"مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو میرا آپی کہنا اچھا لگا یا‬
‫نہیں مگر آپ میری بڑی بہن ہیں تو‪"......‬‬

‫‪194‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"اٹس اوکے سلومی! میں تمہاری آپی ہی ہوں۔چھ سال‬


‫بڑی ہوں تم سے۔"‬
‫وہ اس کی گھبراہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ہلکے‬
‫پھلکے انداز میں بولی۔‬
‫"کہیں آپ کو ایسا تو نہیں لگتا کہ میں نے آپ سے‬
‫ذیاج کو چھین لیا؟‬
‫باخدا آپی! میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا میں تو جا‬
‫رہی تھی مگر‪".....‬‬
‫"تمہیں صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے‬
‫سلومی! تم نے اسے مجھ سے نہیں چھینا۔"‬
‫اس کی بات درمیان میں ہی کاٹتے ہوئے ذمیم نے‬
‫محبت سے کہا۔‬
‫طلحہ انہماک سی سلومی کو دیکھتے ہوئے اس کی‬
‫طرح کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔‬
‫"وہ ہمیشہ سے ہی تمہارا تھا۔ذیاج نے مجھ سے کچھ‬
‫بھی نہیں چھپایا تھا اور میں یہ سب جان کر بھی اس‬
‫سے محبت کرتی یہ میری بیوقوفی ہونی تھی۔‬

‫‪195‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ہم اچھے کزن اور دوست ضرور ہیں مگر سلومی!‬


‫محبت وہ تم سے ہی کرتا ہے۔"‬
‫اس کی رخسار کو چھوتے ہوئے اس نے مالئمت سے‬
‫کہا۔‬
‫"ذمیم آپی! مجھے کچھ پوچھنا ہے۔"‬
‫طلحہ نے مداخلت کی۔‬
‫"ذیاج بھائی تو سلومی سے قد و قامت میں بڑے ہیں‬
‫اور عمر کے لحاظ سے بھی پھر ان دونوں کو محبت‬
‫کیسے ہو گئی؟"‬
‫اس کے سوال پر وہ دونوں ہنس دیں۔‬
‫"تم اسے سمجھاؤ میں ذرا ٹچ اپ کر لوں۔"‬
‫ذمیم مسکرا کر اس کے شانے پہ ہاتھ رکھتی ڈریسنگ‬
‫کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔‬
‫طلحہ اسے تھام کر بیڈ کی جانب بڑھی اور لہنگا پکڑ‬
‫کر اسے بیڈ پہ بیٹھاتے ہوئے خود بھی اس کے ساتھ‬
‫بیٹھ گئی۔‬

‫‪196‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"پاگل لڑکی وہ مجھ سے صرف چھ سال ہی تو بڑے‬


‫ہیں کوئی ستر اسی سال کے بوڑھے تو ہیں نہیں۔‬
‫اتنا فرق ہونا چاہیے لڑکی اور لڑکے کی عمر میں‬
‫ازدواجی زندگی اچھی گزرتی ہے۔سمجھی؟"‬
‫"ہاں وہ تو سمجھ گئی‪.....‬ایک بات تو بتاؤ۔"‬
‫وہ مزید پھیل گئی تھی۔‬
‫"ذیاج بھائی تم سے چھ سال بڑے ہیں تو کیا وہ جلدی‬
‫بوڑھے نہیں ہو جائیں گے؟"‬
‫"ہاہاہا‪.....‬نہیں یار! وہ مرد ہے اور مرد سے پہلے‬
‫عورت بوڑھی ہوتی ہے۔‬
‫دیکھنا ایک دو سال بعد تمہیں ہم دونوں ہم عمر لگیں‬
‫گے۔"‬
‫اس نے اسے شانا مارتے ہوئے کہا۔‬
‫"سلومی بیٹا! نکاح کی منظوری ہے؟"‬
‫چاچا نے آ کر اس سے اجازت لی تھی اس نے ان کے‬
‫عقب سے آتی ماما کو دیکھتے ہوئے اثبات میں سر‬
‫ہال دیا۔‬

‫‪197‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫***‬
‫نکاح کے بعد جب اسے ذیاج کے پہلوؤں میں بیٹھایا‬
‫گیا تو وہ خود کو ہواؤں میں اڑتا محسوس کرنے لگی۔‬
‫جب من چاہا ہمسفر‪....‬جو صرف خوابوں میں مال ہو‬
‫حقیقت میں مل جائے تو خوشی تو ہوتی ہے نا۔‬
‫سلومی نے گردن گھما کر اسے دیکھا تو پھر دیکھتی‬
‫ہی چلی گئی۔‬
‫گولڈن شیروانی نے اس کے سراپے کو مزید نمایاں‬
‫کیا ہوا تھا۔‬
‫وہ مسکراتے ہوئے سب سے بات کر رہا تھا۔‬
‫ّٰللا کا شکر ادا کیا کہ اسکا‬
‫سلومی نے آنکھیں موندے ہ‬
‫ہمسفر شکل سے ہی اچھا نہیں ہے‪......‬بلکہ اخالق‬
‫اور وعدوں کا بھی پکا ہے‪.....‬جو بڑوں کی عزت کرتا‬
‫ہے‪ ،‬چھوٹو سے محبت کرتا ہے۔‬
‫"سنیں‪"......‬‬
‫اس نے مدھم آواز میں اسے پکارا۔‬
‫"جی سنائیں؟"‬

‫‪198‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫ذیاج نے گردن اسکی جانب جھکا کر نظریں سامنے‬


‫کھڑے تصویریں بناتے عماد کی جانب ہی رکھی تھیں۔‬
‫"کیا کر رہے ہو یار‪ ".....‬وہ کوفت سے کہتا سٹیج پہ‬
‫آ گیا۔‬
‫"یار ذیاج! وہاں دیکھو حاور اور مریم کو‪ ،‬کتنے‬
‫اچھے پوز دے رہے ہیں۔تم دونوں اتنے فاصلے پر‬
‫بیٹھے ہو کہ فریم ہی نہیں بن رہا۔ساتھ ہو جاؤ۔"عماد‬
‫نے ان دونوں کی توجہ حاور اور مریم کی جانب کی۔‬
‫حاور نے کوئی سرگوشی کی تھی کہ مریم شرم و حیا‬
‫سے سرخ ہوتی سر جھکائے مسکرا دی۔‬
‫"بیگم ناک مت کٹوائیں۔"‬
‫ذیاج نے اسے دیکھتے ہوئے مضحکہ خیز انداز میں‬
‫کہا اور اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گیا۔‬
‫عماد پھر سے پلٹ کر سامنے جا کھڑا ہوا۔‬
‫"اچھا تم کیا کہ رہی تھی؟"‬
‫اس نے سلومی کو گھبراتے ہوئے دیکھ ہلکے پھلکے‬
‫انداز میں گفتگو کا آغاز کیا‬

‫‪199‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"وہ‪.....‬م میری ہارٹ بیٹ بہت تیز تیز چل رہی ہے‪،‬آپ‬


‫ت تھوڑا پرے ہو کر بیٹھیں نا۔"‬
‫وہ لرزتی آواز میں بولی تو ذیاج نے اس کے پاگل پن‬
‫پہ گردن گھما کر اسے دیکھا۔‬
‫"اے لڑکی‪......‬حوصلہ رکھو۔ابھی تمہاری بہت‬
‫ضرورت ہے مجھے۔"‬
‫اس نے سلومی کے کان میں گھس کر گھمبیر‬
‫سرگوشی کی تھی۔‬
‫"ذیاج! پ پانی چاہیے مجھے۔"‬
‫وہ گھبرائے ہوئے انداز میں اس قدر مدھم آواز میں‬
‫بولی تھی کہ ذیاج مشکل سے سن پایا۔‬
‫"ہاہاہا‪......‬سلومی ذیاج! آپ پاگل ہو گئی ہیں۔‬
‫لگتا ہے اچانک ہی خوشی ملنے پہ آپ کا دماغ خراب‬
‫ہو گیا ہے۔"‬
‫"سچی؟ میں پاگل ہو گئی ہوں کیا؟"‬
‫اس نے خفگی سے آنکھیں دکھائیں۔‬

‫‪200‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ ہنس کر اثبات میں سر ہال گیا‪.....‬سلومی نے منہ‬


‫سکوڑے پھیر لیا۔‬
‫"ایسا کبھی مت کرنا سلومی! تمہارے رخ پھیرنے‬
‫سے مجھے کس قدر تکلیف ہوتی ہے تم نہیں جانتی۔"‬
‫وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے بوال۔‬
‫عماد ہر ایک سین کو کیمرے میں محفوظ کر رہا تھا۔‬
‫"کیا کر رہے ہیں آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔"‬
‫اس نے اپنا ہاتھ کھینچتے ہوئے کہا۔‬
‫"تو کیا ہوا‪ ،‬لوگوں کو اور کوئی کام جو نہیں ہے۔"‬
‫وہ بےنیاز تھا‪،‬ساری دنیا سے بےخبر‪.....‬‬
‫"ریلکس سلومی! اتنا گھبرا کیوں رہی ہو۔"‬
‫وہ بہت ہی گھبرائی ہوئی تھی تبھی ذیاج بھی سریس‬
‫ہوا کہ کہیں کچھ ہو نہ جائے اس پاگل سی لڑکی کو۔‬
‫"پتہ نہیں مجھے آپ کی والدہ دل سے قبول کریں گی‬
‫بھی یا نہیں۔ کہیں میری قسمت بھی ماما جیسی‬
‫ّٰللا جی میری قسمت میں خوشیاں لکھ‬
‫‪........‬نہیں ہ‬
‫دینا۔میرے ذیاج کو لمبی عمر عطا کرنا۔"‬

‫‪201‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫وہ اس کے ہاتھوں پہ نگاہیں جمائے دل ہی دل میں‬


‫دعا گو تھی۔‬
‫"یہ الئٹ کو کیا ہوا؟"‬
‫اچانک ہی جانے والی الئٹ کی بدولت وہاں بھونچال آ‬
‫گیا تھا۔‬
‫وہ دونوں بھی بری طرح چونکے تھے۔‬
‫"ارے بھئی کوئی جرنیٹر تو دیکھو۔"‬
‫چاچا نے کہا تھا۔‬
‫"ذیاج‪ !......‬م مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہیں؟‪...‬پلیز‬
‫میرے ساتھ رہیں۔"‬
‫اسے اپنے پہلوؤں سے نکلتا محسوس کر تیزی سے‬
‫اٹھی اور اس کا بازو تھامتے ہوئے ڈری ہوئی ہرنی‬
‫کی مانند اس کے شانے سے جا لگی۔‬
‫اس نے کتنی دعاؤں اور دکھوں کے بعد خوشی کو پایا‬
‫تھا‪ ،‬اپنی محبت کو حاصل کیا تھا کہ اب وہ ایک پل‬
‫بھی اس شخص سے جدا نہیں ہونا چاہتی تھی۔‬
‫ذیاج اس کا ڈر سمجھ سکتا تھا۔‬

‫‪202‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس کے عشق کی معصومیت سے واقف تھا۔‬


‫سلومی کا ہاتھ اپنے گرم ہاتھ میں دباتے ہوئے وہ بوال۔‬
‫"ڈرو نہیں یار! اب میں تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں‬
‫جاؤں گا۔پہلے بھی خواہ کچھ وقت کے لیے جدا ہوا‬
‫تھا مگر چھوڑا نہیں تھا۔"‬
‫اس نے مبہم سی مسکان لیے اس کے ہاتھ پہ ہونٹ‬
‫رکھے تھے۔‬
‫اسی وقت ہی الئٹ بھی آ گئی۔‬
‫وہ دونوں جلدی سے ایک دوسرے سے جدا ہوئے‬
‫تھے مگر عماد نے ان کے ہاتھ چومنے والے سین کو‬
‫کیمرے میں محفوظ یوں کیا جیسے وہ اسی پوز کے‬
‫انتظار میں کھڑا ہو۔‬
‫"اس الئٹ نے جا کر ذیاج کو یہ دکھا دیا ہے کہ جو‬
‫اسے ہمسفر ملی ہے وہ ابنارمل ہے۔"‬
‫وہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے شریر لہجے میں بوال۔‬
‫"ہاں واقع ہی میں نارمل نہیں ہوں۔محبت جو کرتی ہوں‬
‫آپ سے۔اور اس محبت کی آگ نے مجھے کتنے سال‬
‫جالیا ہے۔"‬
‫‪203‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے بھڑک کر کہا۔‬


‫"ایم سوری۔" کچھ دیر وہ ندامت سے سر جھکائے‬
‫بیٹھا رہا پھر نرمی سے بوال۔‬
‫"اٹس اوکے۔ بٹ نیکسٹ ٹائم بی کیئر فل۔"‬
‫اس نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تو وہ ہنس دیا اس‬
‫کی ہنسی میں کچھ دیر بعد ہی سلومی کی ہنسی بھی‬
‫شامل ہو گئی تھی۔‬
‫"ویسے تمہاری انگلش کافی اچھی ہے۔حاور کے ہاتھ‬
‫جو میں نے فون بھیجا تھا اسکا فایدہ بہت ہوا ہے۔"‬
‫"واٹ آپ نے بھیجا تھا؟"‬
‫اس نے چونکتے ہوئے پہلے اسے دیکھا اور پھر‬
‫دوسرے اسٹیج پہ بیٹھے حاور اور مریم کی جانب۔‬
‫"جی ہاں‪.....‬میں چاہتا تھا کہ تم کبھی کسی قسم کے‬
‫کمپلیکس کا شکار نہ ہو‪.....‬اسی لیے میں چاہتا تھا تم‬
‫انگلش بھی بولنا سیکھ جاؤ‪ ......‬اور وہ سب کچھ جو‬
‫ایک شہری لڑکی کو آتا ہے۔"‬

‫‪204‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"تو کیا تمہیں میں دیسی روپ میں ‪،‬ان پڑھ جاہل قبول‬
‫نہیں تھی؟" سلومی نے بجھے دل کے ساتھ استفسار‬
‫کیا۔‬
‫"تم مجھے ہر روپ میں پسند ہو۔ باخدا یہ سب میں‬
‫نے تمہاری خاطر کیا ہے۔‬
‫اب جب تم میرے ساتھ باہر جایا کرو گی تو لوگوں کے‬
‫منہ نہیں دیکھا کرو گی۔‬
‫ان کی بات کا جواب پُراعتماد انداز میں دو گی۔‬
‫کوئی تم سے اس زبان میں بات کرے گا تو تمہیں‬
‫جواب کے لیے میرا منہ نہیں دیکھنا پڑے گا۔‬
‫بس میرا یہ ہی مقصد تھا کہ تم ہمیشہ سب کے سامنے‬
‫سر اٹھائے جیؤ سر جھکا کر نہیں۔"‬
‫وہ صفائی پیش کر رہا تھا اور وہ شرارتی سی مسکان‬
‫لیے سر جھکا گئی۔‬
‫"اچھا وہ پھول کو نوچ نوچ کر کسی کی محبت کا‬
‫امتحان لے رہی تھی؟"‬
‫وہ شریر لہجے میں گویا ہوا۔‬

‫‪205‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫"آپ کی محبت کا۔ اور معلوم ہے آپ اس امتحان میں‬


‫پاس ہو گئے تھے۔"‬
‫اس نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔‬
‫ذیاج کی نظر جیسے ہی اس کی لمبی پلکوں اور‬
‫ستون کھڑی پیاری سی ناک سے پھسل کر اس کے‬
‫باریک ہونٹوں پر گئیں جن کو الئٹ ریڈ لپ اسٹک سے‬
‫سجایا گیا تھا۔‬
‫"آج اگر لپ اسٹک نہ لگاتی تو دلہن بنی اچھی نہ‬
‫لگتی۔میں تو آپ کی وجہ سے عید والے دن بھی ریڈی‬
‫نہیں ہو پائی تھی۔"وہ اس کے دیکھنے پر صفائی پیش‬
‫کر رہی تھی وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬
‫"آنے والی باقی کی ساری عیدوں پر تم سولہ شنگار‬
‫کرو گی اور ہاں‪......‬سولہ شنگار کرنے والی لڑکیوں‬
‫کے دل ویران نہیں ہوتے اور میں کبھی بھی اپنی‬
‫وائف کا دل ویران نہیں ہونے دوں گا۔" وہ اس کا ہاتھ‬
‫تھامتے ہوئے وعدہ کر رہا تھا اور وہ دیوانی پھر سے‬
‫اس کے لہجے‪،‬اس کی ہنسی اور گہری سیاہ آنکھوں‬
‫میں ڈوب کر دنیا بھال چکی تھی۔‬

‫‪206‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے جب سلومی کو کہنی ماری تو وہ ہوش میں‬


‫آئی۔‬
‫ذیاج نے آنکھوں اور سر کے اشارے سے ہی اسے‬
‫سیڑھاں اترتے ایک جوڑے کی جانب متوجہ کیا۔‬
‫سلومی نے چونک کر پہلے یاور بھائی اور بھابھی کو‬
‫دیکھا۔یاور کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی محبت بھری‬
‫مسکراہٹ جو‪......‬بھابھی کو آنے والی زندگی کی‬
‫خوشیوں اور اطمینان سے گزرانے کا پیغام دے رہی‬
‫تھی۔‬
‫"بھابھی نے اپنے بھائیوں کی جا کر منت سماجت کی‬
‫تھی کہ وہ لوگ یاور بھائی کا پیچھا چھوڑ دیں نہیں تو‬
‫وہ زہر کھا کر مر جائے گیں۔"‬
‫ّٰللا داد کی گاڑی‬
‫"یاور بھائی کی گاڑی پرسوں جب ہ‬
‫سے ٹکرائی تو انہوں نے کوئی لڑائی نہیں کی تو‬
‫انہیں جب معلوم ہوا کہ انہوں نے جا کر منتیں کیں ہیں‬
‫پہلے تو غصے میں آئے پھر جب بھابھی کی محبت کا‬
‫اندازہ ہوا تو سینٹی ہو گئے اور پھر اب رزلٹ تمہارے‬
‫سامنے ہے۔"‬

‫‪207‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫اس نے ہنستے ہوئے کہا۔‬


‫وہ پرسکون سی مسکرا دی۔‬
‫آج وہاں سب ہی پُرسکون تھے۔‬
‫شناز اور ناز بیگم کے درمیان کھڑی صالحہ نے گردن‬
‫گھما کر ان دونوں کی جانب دیکھا اور پھر بےاختیار‬
‫ہی یزدانی صاحب کی جانب متوجہ ہوئیں۔‬
‫وہ جو مصباح کو کھانا لگانے کا کہہ کر پلٹ رہے‬
‫تھے اسے دیکھتے پا کر رک گئے۔‬
‫صالحہ کی شفاف آنکھوں نے مسکراتے ہوئے ان کی‬
‫فراخ دلی کا شکریہ ادا کیا تھا اور وہ بھی ایک نظر ان‬
‫پہ ڈال کر مسکرا کر وہاں سے ہٹ گئے۔‬
‫ان کی محبت خاموشی سے شروع ہو کر ہی خاموشی‬
‫پہ ختم ہو چکی تھی۔‬
‫یزدانی صاحب اپنے معاملے میں تو بےبس تھے‬
‫کیونکہ وہ بھی اپنی اوالد کی طرح اپنے والدین کے‬
‫فیصلے کے سامنے‪ ،‬ان کی عزت و آبرو کے سامنے‬
‫خود کو اور اپنی خاموش محبت کو ہار چکے تھے۔‬

‫‪208‬‬
‫از طیبہ چوہدری‬ ‫میدان وفا‬
‫ِ‬

‫مگر اپنے بیٹے کے معاملے میں وہ خودمختار تھے‬


‫اور وہ ایک اور صالحہ اور یزدانی کو جنم نہیں دینا‬
‫چاہتے تھے۔‬
‫انہوں یہ فرض سرانجام دیتے ہوئے صرف اپنے بچوں‬
‫کی خوشی کو مدنظر رکھا تھا۔‬
‫اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ اس فیصلے سے ذیاج‬
‫کے دل میں ان کے لیے عزت بہت زیادہ بڑھ چکی‬
‫ہے۔‬
‫بس ایک فیصلہ ہی تو انہوں نے کیا تھا‬
‫اپنے بچوں کی خوشی کا‪....‬بلکہ نہیں پورے خاندان‬
‫کی خوشیوں کا۔‬

‫***‬

‫ختم شد‬

‫‪PDF LIBRARY 0333-7412793‬‬

‫‪209‬‬

You might also like