You are on page 1of 6

‫جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں‬

‫جوانی کی آگ میں جلتی شریف زادیاں‬


‫میرا نام عاشق ہے میری عمر‪ 30‬کے لگ بھگ ہے میں ذات کا مسلم شیخ ہوں ہم تین بھائی ہیں مجھ سے بڑا‬
‫صادق ‪ 35‬سال کا جبکہ مجھ سے چھوٹا عنصر ‪ 25‬سال کا ہے والدہ کا انتقال ہو چکا ہے مرا گزر بسر لوگوں کے‬
‫کام کاج کرکے ہی گزرتا ہے میرا والد بھی لوگوں کا کاما رہا ہے وہ اب بھی کاما ہی ہے میں نے جب سے ہوش‬
‫سنبھاال پہلے ایک گاؤں کے چوہدری پر کام کرنے لگے پھر ابے نے مجھے ایک گھر پر کاما رکھوا دیا میں وہاں‬
‫چند سال گزارے تو میری ان سے ان بن ہو گئی اس لیے میں واپس ابے کے پاس چال گیا اب کچھ دن سے ابے کا‬
‫ہاتھ ہی بڑا رہا تھا ابے کی عمر تو پچاس کے لگ بھگ تھی پر چوہدریوں کے ہاں اچھی خوراک اور اچھے رہن‬
‫سہن سے ابا ابھی بھی جوان اور صحت مند لگتا تھا ویسے بھی ہماری ہڈی کافی مضبوط تھی اس لیے میں‬
‫بھی ابے پر گیا تھا کافی لمبا چوڑا اور صحت مند کام کرنے سے جسم کافی مضبوط اور سڈول تھا تنا ہوا سینہ‬
‫اونچا قد آور مضبوط جسم سے کافی چوڑا اور بھرپور مردانی وجاہت میرے اندر بھر چکی تھی میں پورا‬
‫دہوش لگتا تھا ابے کا نام رحمت تھا جو سب لوگوں میں رحموں کے نام سے مشہور تھا میں اب ابے کے پاس ہی‬
‫تھا کچھ دن ابے کے پاس رہا تو پھر ایک دن ابے نے مجھے کام کا بتایا پاس والے گاؤں میں جو ہمارا اپنا گاؤں‬
‫بھی تھا وہاں کسی کو ایک بندے کی ضرورت تھی ابا مجھے لے کر وہاں چال گیا گاؤں کی ایک طرف ہٹ کر‬
‫ایک حویلی تھی جس میں گھر کے ساتھ ہی ڈنگروں کا باڑہ تھا ابا اور میں وہاں حویلی کے گیٹ پر پہنچے‬
‫میں بڑے عرصے بعد گاؤں آیا تھا جب سے ہوش سنبھاال تھا یہاں سے نکل گیا تھا آج بڑے عرصے بعد یہاں آیا‬
‫تھا جہاں تک مجھے یاد ہے یہ حویلی پہلے نہیں دیکھی تھی پہلی بار حویلی بنی تھی ابے نے دروازہ کھٹکھٹایا‬
‫تو دروازہ کھال تو سامنے ایک لمبے قد آور چوڑے جسم کی عورت کھڑی تھی اس عورت نے کسا ہو لباس ڈال‬
‫رکھا تھا جس سے اس کا جسم کسے لباس میں کسا ہوا صاف نظر آرہا تھا میں نے ایک نظر اس عورت کے جسم‬
‫پر گھمائی تو اس کا چوڑا جسم کافی خوبصورت اور سیکسی تھا اس نے اوپر مموں پر چھوٹا سا دوپٹہ رکھا‬
‫ہوا تھا جو اسکے مموں کو ڈھانپ رہا تھا لیکن چھپے ہوئے مموں بھی بال کے موٹے اور ابھرے ہوئے صاف نظر آ‬
‫رہے تھے میں نے اوپر اس کے چہرے کی طرف دیکھا تو اس نے دوپٹہ سر پر نہیں ہے رکھا تھا اس کی گت اور‬
‫بال نظر آرہے تھے اس کا پھوال ہوا گورا چہرا ہلکا سا مسکرا کر ابے کو دیکھ کر چہک کر بولی وے آ وے رحموں‬
‫آج تے بڑا دل کڈھیا ہئی آج تے ساڈے ویہڑے آ وڑیا ایں خیر تے ہے نا ابا اسے دیکھ کر ہنس دیا میں نے اس‬
‫عورت کے چہرے کو گھورا تو مجھے یہ چہرہ پہچانا سا لگا پر مجھے یاد نہیں آ رہا تھا میں نے اس کی نظروں‬
‫دیکھا تو ابے کو گہری نظروں سے دیکھتی اس کا چہرہ دمک سا رہا تھا جبکہ اس کی آنکھوں میں عجیب سی‬
‫چمک ا چکی تھی ابا ہنس کر بوال بس او بہزاد آکھیا ہا کہ کاما چاہی دا اس واسطے بندہ لئے کے آیا ہاں اور‬
‫میری طرف اشارہ کیا اس عورت نے مسکرا کر میری طرف دیکھا بہزاد کا نام سن کر میرے ذہن نے جھٹکا لیا‬
‫اور میں سمجھ گیا کہ یہ تو بہزاد کا گھر ہے سامنے کھڑی عورت کوئی اور نہیں بہزاد کی ماں رفعت تھی اتنے‬
‫سالوں میں اتنا کچھ بدل گیا مجھے تو یقین نہیں آیا جب چھوٹے تھے تو ابے کے ساتھ اس گھر میں آتے تھے‬
‫ابے کا ان کے ہاں بہت آنا جانا تھا آنٹی رفعت کے سسر اور خاوند سے ابے کا کافی یارانہ تھا ابا جب بھی وہال‬
‫ہوتا ان کے گھر ہی آتا تھا آنٹی رفعت بھی ابے کے ساتھ بہت فرینک تھی میری آنکھوں کے سامنے سب کچھ‬
‫فلم کی طرح چلنے لگا ابا اکثر اسوقت آنٹی رفعت کے گھر جاتا تھا جب گھر میں کوئی نا ہوتا تھا اسوقت ان کا‬
‫گھر گاؤں میں تھا آنٹی رفعت کا سسر اور خاوند باہر زمینوں پر ہتے تھے ابا اکثر مجھے بھی ساتھ التا تھا میں‬
‫اسوقت بہت چھوٹا بچہ تھا آنٹی جب گھر میں اکثر اکیلی ہوتی تو ابا اس کو اندر لے جا کر اندر سے دروازہ‬
‫بند کر لیتا تھا پھر کافی دیر بعد باہر نکلتا تھا میں وہیں گھر میں کھیلتا رہتا تھا آنٹی کی ایک چھوٹی بہن‬
‫بھی تھی جو اکثر آنٹی کے گھر ہوتی تھی اس کا نام نذیراں تھا نذیراں اسوقت فل جوان تھی اسکی بھی‬
‫شادی ہوئی تھی ابا جب آنٹی رفعت جو اندر لے جاتا تو نذیراں باہر ہی ہوتی جب آدھے گھنٹے بعد وہ نکلتے تو‬
‫آنٹی رفعت کمر پکڑ کر باہر نکلتی تھی ابا نذیراں کو لے کر اندر چال جاتا تھا جبکہ آنٹی رفعت چارپائی پر‬
‫دوہری ہو کر پڑی ہوتی تھی مجھے سمجھ تو تھی نہیں میں سوچتا کہ پتا نہیں کیا بات ہے پر نہیں اندر کیا‬
‫ہے۔ ایک دن جب نذیراں نہیں تھی ابا آٹنی رفعت کو اندر لے گیا تو مجھے تجسس ہوا میں کچھ دیر بعد اندر‬
‫چال گیا دروازہ ہو دھکا مارا تو دروازہ کھل گیا سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے بیڈ پر آنٹی‬
‫رفعت ننگی ہوکر لٹی تھی اس کی ٹانگیں کاندھوں سے لگی تھی جبکہ اوپر ابا پوری شدت سے گانڈ اٹھا اٹھا‬
‫کر مار رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ابا آٹنی کے اندر اپنا راڈ پھیر رہا تھا جس سے آنٹی تڑپ کر ارڑا کر بکاتی ہوئی‬
‫حال حال کر رہی تھی آنٹی کی حال حال سے کمرہ گونج رہا تھا میں رک سا گیا ابا مجھے اندر دیکھ کر چونک‬
‫گیا اور آنٹی کے اوپر گر کر مجھے چونک کر دیکھا آنٹی نے تڑپتے ہوئے ارڑا کر مجھے دیکھا تو اس کا منہ الل‬
‫سرخ تھا آنکھیں اس کی باہر کو آئی ہوئی تھیں ابا ڈر گیا تھا کہ کوئی آگیا ہے جس سے ابے نے مجھے تڑک گال‬
‫نکال میں آنٹی رفعت کی حالت سے سہم گیا تھا مجھے لگا کہ ابا آنٹی رفعت کو مار رہا ہے میں ڈر کر باہر بھاگ‬
‫گیا ابا کچھ دیر بعد نکال اور مجھے لے کر آگیا ڈر کے مارے میں ابے سے کچھ نا پوچھا پھر اسکے بعد ابا مجھے‬
‫اس طرف نہیں ہے گیا پھر کچھ عرصہ بعد مجھے یہ بات بھول گئی تھی اسی لمحے آنٹی نے ابے کو اندر آنے کا‬
‫کہا ہم اندر کی طرف چل دئیے آنٹی ہمارے آگے چل رہی تھی جس سے آنٹی کے کسے ہوئے قمیض میں پتلی‬
‫قمر اور باہر کو نکلی چوڑی گانڈ ہل رہی تھی آنٹی کی چوڑی گانڈ پر لمبی گت جھول رہی تھی میری نظر آنٹی‬
‫کی گانڈ پر تھی آنٹی کی چوڑی کمر اور باہر کو نکلی گانڈ پر جھولتی گت کیا منظر پیش کر رہی تھی میرے تو‬
‫منہ میں پانی بھر آیا تھا میرا دل کیا ابھی پیچھے سے آنٹی کو دبوچ لوں پر ابے کا بھی لحاظ تھا ہم آگے گئے‬
‫اور آنٹی دروازہ کھول کر دوسرے گھر میں داخل ہو گئی باڑے کے ساتھ ہی بیٹھ تھی جس کا ایک دروازہ‬
‫باڑے کی طرف کھلتا تھا جب کہ دوسرا مین گیٹ باہر سڑک کی طرف تھا یہ حویلی گاؤں سے تھوڑا باہر تھی‬
‫آگے جا کر چارائیاں اور موڑھے رکھے تھے وہاں جا کر آنٹی بولی بہ جاؤ ایتھے ہم وہاں بیٹھ گئی آنٹی کے‬
‫بیٹھنے سے آنٹی کی موٹی گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی میری نظر وہیں پر تھی آنٹی بولی رحموں توں تے بہوں‬
‫بڑا آدمی ہو گیا ایں ابا مسکرا کر بوال کیوں کی بنیا آنٹی شکوے کے انداز میں بولی وے ہنڑ توں آندا ہی نہوں‬
‫کتنے دن ہو گئے ہینڑ تینوں آیا ہویاں آج آیا ہیں اور آنٹی ابے کو گہری آنکھوں ے دیکھ کر مسکرا دی ابا ہنس کر‬
‫بوال بس کجھ مصروف ہاس۔ آنٹی بولی جی نہیں اونج ہنڑ توں ساتھو رج گیا ایں آنٹی ہنس دی ابا بھی ہنس‬
‫دیا اور بوال نہیں ایسی کوئی گل نہیں ابا میری موجودگی میں جھجھک رہا تھا اس لیے ابے نے بات بدل دی اور‬
‫بوال تھواڈے واسطے کاما لئے آیا ہاں آنٹی مجھے دیکھ کر ہنس دی جیسے وہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ابا مجھ‬
‫سے جھجھک کر بات بدل گیا ہے آنٹی مسکرا کر بولی اے تے چنگا کم کیتا ہئی چھوار ہنڑ کم نہیں کردے اے تے‬
‫بڑا کم کیتا ہئی جہڑا کاما لئے آیا ہیں ابا ہنس پڑا اور بوال مینوں تے احساس ہے نا آنٹی بھی ابے کو گہری‬
‫آنکھوں سے دیکھ کر ہنس دی اور بولی توں ہی ہنڑ احساس کرنا اے پر ہنڑ توں احساس گھٹ کر گیا ایں میں‬
‫سمجھ گیا کہ آنٹی کے ہاں ابے کے چکر اب کم ہو گئے ہیں اس لیے آنٹی بھی شکوہ کر رہی ہے ابا ہنس کر بوال‬
‫کوئی نہیں ہنڑ تیرے اوالہمے کا دیساں آگے مصروف ہاس آنٹی کا چہرہ یہ سن کر چمک سا گیا اور مسکرا دی‬
‫ابا بوال چھوار ہنڑ تیرے آزاد ہو گئے ہینڑ کم نالو آوارہ گردی کرنا اوہنا نوں چنگا لگدا آنٹی بولی ہوں تیرے تے‬
‫گئے ہینڑ دوویں کم چور ابا ہنس کر بوال میں کہڑی کم چوری کیتی آنٹی نے گہری آنکھوں سے دیکھا کردا تے‬
‫ہیں اس بات پر دونوں ہنس دئیے میں بھی سب سمجھ گیا تھا آنٹی بولی اے ویسے ہے کون ابا بوال اے میرا‬
‫پتر اے آنٹی اس بات پر چونک گئی اور بولی اے تیرا پتر اے اے عاشق تے نہیں ابا بوال ہا اے عاشق اے آنٹی‬
‫مجھے دیکھ کر چہک کر بولی ہالنی میں مر جاواں وے عاشقو دسدا ہی نہوں پیا میں تاں ہی ویکھ رہی آں کہ‬
‫اے سگواں تیرے آر لگ رہیا اے آنٹی اٹھ کر کھڑی ہوئی اور بولی وے کملیا آٹھ کے مینوں مل توں تے اپنے گھر‬
‫دا چھور نکلیا ہیں نی میں صدقے جاواں آنٹی کے کھڑے ہونے پر میں بھی کھڑا ہوگیا اور آنٹی کے آگے جھک‬
‫گیا آنٹی نے مجھے ہاتھ پھیرا اور بولی وے عاشقا تینوں نہیں پتا تیرا پیو تے ساڈا بھرا بنیا ہویا اے توں تے اپنا‬
‫پتر ہیں میں یہ سن کر ہنس دیا اور دل میں بوال کہ میں جنتا ہوں جو یہ بھرا ہے تیرا آنٹی مجھ سے مل کر‬
‫کافی خوش لگ رہی تھی امی بولی رحموں اے تے چنگا کیتا ہئی جہڑا اپنا پتر رکھیا ہئی ساڈے کول گھر دا‬
‫چھور ہے تینوں پتا گھر اچ جوان چھوریں پینٹ اے اپنا بندہ اے گھر آندا جاندا رہیا تے کوئی مسئلہ نہیں آنٹی‬
‫کا گھر گاؤں میں ہی تھا حویلی یہاں تھی آنٹی نے ابے سے بات فائنل کی اور مجھے وہاں چھوڑ کر ابا گھر کی‬
‫طرف چل دیا آنٹی مجھے دیکھ کر مسکرا دی اور بولی وے توں تے گھر دا بندہ ایں ہنڑ توں سارا کجھ سنبھال‬
‫لئے تیرے بھرا تے گھر آندے ہی نہیں توں ہی سنبھالنا اے سارا کجھ آنٹی نے مجھے سارا کچھ سمجھایا میں‬
‫کام کرنے لگا شام سے پہلے بہزاد بھی آگیا بہزاد مجھ سے مال میں بہزاد کو دیکھ کر حیران بھی ہو رہا تھا‬
‫بہزاد سے ابے کی ہلکی ہلکی جھلک نظر آرہی تھی میں سمجھ گیا کہ یہ بھی ابے کی پیداوار ہے میرا دل یہ‬
‫سوچ کر نا جانے کیوں خوش سا ہو گیا بہزاد نے ابے جیسا ہونا ہی تھا اس کی ماں کا میرے ابے سے چکر جو‬
‫تھا اس کی شکل ابے پر ہی جانی تھی بہزاد مجھ سے مال اور مجھے کام سمجھانے لگا کچھ دیر ہی بعد بہزاد‬
‫کا دوسرا بھائی بھی آگیا وہ جیسے ہی اندر داخل ہوا میں اسے دیکھ کر چونک گیا وہ تو ہو بہو ابے کی طرح‬
‫تھا وہ آنٹی کا بڑا بیٹا تھا نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ہنٹر کے نام سے جانتے تھے ہنٹر بھی ہو بہو‬
‫ابے کی شکل کا تھا میں سمجھ گیا کہ یہ ان دنوں کی ابے کی محنت کا نتیجہ ہے جب ابا اور میں آنٹی کے گھر‬
‫جاتے تھے ہنٹر جتنا حرامی تھا اس کی چلتی پھرتی تصویر بھی تھا ہر برا کام اس کا تھا عالقے کے اوباشوں‬
‫سے اس کی دوستیاں تھیں غلط کاموں میں پڑا ہوا تھا ہر وقت آوارہ گردی کرتا تھا بہزاد بھی کچھ کم نا تھا‬
‫وہ بھی آوارہ گرد ہی تھا دونوں گھر سے غائب ہی رہتے تھے آنٹی رفعت کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں تھیں بڑا‬
‫بیٹا ہنٹر تھا جو میرا ہم عمر ہی ہے اس چھوٹی کا نام نصرت تھا نصرت کی عمر ‪ 28‬سال تھی نصرت سے‬
‫چھوٹی سونیا کی عمر ‪ 26‬سال ہے اس سے چھوٹی سعدیہ ہے سعدیہ کی عمر ‪ 24‬سال ہے اس سے چھوٹا بہزاد‬
‫‪ 22‬سال کا جبکہ اس سے چھوٹی صدف کی عمر ‪ 18‬سال ہے آنٹی رفعت کے دونوں بیٹے تو آوارہ تھے پر اس‬
‫کی بیٹیاں اچھی شہرت رکھتی تھیں کبھی ان کے بارے غلط بات نہیں سنی نصرت اور سونیا دونوں ماسٹر کر‬
‫چکی تھیں سعدیہ یونیورسٹی پڑھ رہی تھی جبکہ صدف ابھی کالج میں تھی چاروں بہت ہی شریف اور‬
‫باپردہ لڑکیاں تھیں شام کو کام کرنے کے بعد میں نے دودھ دوہا اور دودھ لے کر گھر کی طرف چل دیا آنٹی نے‬
‫کہا تھا کہ کھانا گھر ہی آکر کھانا ہے میں گھر گیا میں نے دروازہ کھٹکایا تو آنٹی نے دروازہ کھوال سامنے‬
‫مجھے دیکھ کر آنٹی مسکرا دی آنٹی دوپٹے کے بغیر تھی جس سے آنٹی کے تنے ہوئے ہوا میں اکڑے موٹے ممے‬
‫صاف نظر آرہے تھے میری نظر سیدھی مموں سے ہوتی آنٹی رفعت سے ملی آنٹی نے مسکرا کر مجھ سے دودھ‬
‫کے لیا اور اندر چلی گئی کچھ دیر بعد بہزاد نے بیٹھک کا دروازہ کھوال اور مجھے اندر چال لیا کھانا کھا کر میں‬
‫ڈیرے پر آکر سو گیا صبح اٹھا اور دودھ نکاال میں نے دیکھا تو گدھا کھڑا کچھ جانوروں کو تنگ کر رہا تھا میں‬
‫نے اسے باڑے کی پچھلی طرف کے درخت سے باندھ دیا بہزاد آیا اور دودھ لے گیا اور مجھے کھانا دے گیا میں‬
‫نے کھانا کھایا اور کچھ کام کرنے لگا میری عادت تھی میں کام کرتے وقت قمیض اتار دیتا تھا میں قمیض اتار‬
‫کر کام کر رہا تھا کام ختم کیا تو بدن ہلکا سا پسینے سے گیال ہو رہا تھا مجھے اب چارہ لینے جانا تھا میں‬
‫پچھلی طرف بندھے گدھے کو لینے گیا میں جیسے ہی نکال سامنے کا منظر دیکھ کر میں چونک گیا سامنے‬
‫کھوتا فل ہوشیار کھڑا تھا کھوتے کا بازو جتنا لن فل تیار تھا وہ ہلکے ہلکے جھٹکے مار رہا تھا کھوتے کا لمبا‬
‫موٹا کاال لن اتنا لمبا تھا کہ زمین کو چھو رہا تھا اتنے میں میری نظر دوسری طرف گئی تو سامنے دو عورتیں‬
‫نظر آئیں جو چادر میں لپٹی ایک درخت کے نیچے کھڑی تھیں دونوں میں ایک تھوڑی بڑی عمر کی لڑکی لگ‬
‫رہی تھی جیسے اس کی عمر ‪ 35‬سال کے قریب تھی جبکہ دوسری کی عمر ‪ 30‬کے قریب پگ رہی تھی دونوں‬
‫بھرپور جوان تھی۔ اور دونوں گدھے کے لن ے موٹے کالے پن کو گہری آنکھوں سے دیکھ کر ہنس کر ایک‬
‫دوسرے سے بات کر رہی تھی دونوں بڑی دلچسپی سے گدھے کو دیکھ رہی تھی دونوں کی آنکھوں کی اللی‬
‫سب بتا رہی تھی میں ان کو یوں گدھے کو دیکھتا چونک گیا وہ بھی مجھے دیکھ کر چونک گئیں میری نظر‬
‫سامنے کی طرف وہ مجھے دیکھ کر سنبھل سی گئی تھی ایک لڑکی تو یوں گدھے کو دیکھنے پر شرمندہ سی‬
‫ہو کر منہ دوسری طرف کر گئی جبکہ دوسری جو ذرا بڑی تھی وہ مجھے دیکھ کر چونک گئی میں قمیض کے‬
‫بغیر تھا جس سے میرا چوڑا بھرا ہوا سخت جسم وہ آنکھوں سے ٹٹول رہی تھی میں نے اسے نظر بھر کر دیکھا‬
‫تو میں اسے پہچان گیا وہ آنٹی رفعت کی بہن نذیراں تھی میں نے اسے پہچان تو گیا پر میں بھی تھوڑا‬
‫شرمندہ تھا اس لیے میری اس سے بات کرنے کی ہمت نا ہوئی وہ بدستور مجھے ہی دیکھ رہی تھی میں مڑا اور‬
‫سوچا کہ جلدی سے گدھا کھول کر اندر کے جاؤں ان کو مزید شرمندہ نا کروں میں گدھے کی طرف بڑھ رہا تھا‬
‫کہ اسی لمحے نذیراں بولی وے توں ہیں نواں کاما میں چونک کر مڑ گیا اور بوال ہاں جی نذیراں بولی اچھا جی‬
‫باجی دس رہی ہا توں رحموں دا پتر ہیں میں مسکرا کر سر ہالیا تو نذیراں ہنس دی اور میرے بدن پر ایک نظر‬
‫گھما کر بولی توں عاشق ہیں میں بوال جیا وہ بولی اچھا مینوں پہچانیاں ہئی میں مسکرا کر بوال توں نذیراں‬
‫ہیں آنٹی دی بھین یہ سن کر نذیراں ہنس کر بولی واہ جی واہ توں تے بڑی پہچان رکھی ہوئی ہے نکا جیا ہائیں‬
‫جدو آندا ہائیں ہنڑ تے وڈا سارا ہو گیا ایں اور میری طرف چلتی ہوئی قریب آکر بولی ہتھ تے پھرا میں نچے‬
‫جھکا تو نذیراں نے میرے ننگے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبا کر پھیرا نذیراں کا مالئم ہاتھ مجھے سرور سا دے گیا‬
‫نذیراں مسکرا دی اور بولی وے چنگا کیتا ہئی جہڑا رہ پیا ایں سادے کول ساڈا وی دل لگ جاسی میں چونک‬
‫گیا جبکہ نذیراں اس لڑکی کو دیکھ کر مسکرا دی جو کن اکھیوں سے میرے ہی بدن کو ٹٹول رہی تھی وہ بھی‬
‫مسکرا دی میں نے اسے دیکھا تو وہ مستی سے مجھے دیکھ رہی تھی مجھ سے نظریں ملتے ہی وہ نظریں چرا‬
‫گئی میں مسکرا دیا نذیراں اس لڑکی طرف اشارہ کرکے بولی اس نوں جانڑردا ایں میں نے مسکرا کر سر ہالیا‬
‫تو وہ ہنس کر بولی چلو ہنڑ توں آگیا ہیں نا ہنڑ توں جانڑ جاسیں اے نصرت ہئی تیری آنٹی دی دھی میں یہ سن‬
‫کر چونک گیا اور ایک نظر نصرت کو گہری نظروں سے دیکھا نصرت بھی ٹھیک ٹھاک چوڑے جسم کی لمبے قد‬
‫والی لڑکی تھی اس کا چادر میں لپٹا جسم اپنا جلوہ دکھا رہا تھا میں نے اسے دیکھا تو وہ مسکراتی آنکھوں‬
‫سے مجھے غور رہی تھی میں اسے دیکھ کر مسکرا دیا نذیراں بولی اے وی تیری مالکن سے اس دا حکم وی‬
‫منی رکھیں اور مسکرا کر نصرت کو دیکھا نصرت نذیراں کو غورا اور منہ پھیر گئی میں ہنس دیا اتنے میں‬
‫دوسری طرف بائیک کے آنے کی آواز آئی نذیراں بولی لگدا بہزاد آگیا اے آجا نصرت چلیے یہ کہ کر دونوں چکی‬
‫گئیں میں گدھا کے کر۔ آرہ لینے چال گیا میں سمجھ گیا تھا کہ یہاں صرف ڈیرے کا کام نہیں گھر کی عورتوں‬
‫کا کام بھی کرنا پڑے گا میرا دل تو باغ باغ ہو رہا تھا پر میں جھجھک بھی رہا تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں‬
‫کیونکہ اکثر لڑکیاں صرف اشارہ دیتی ہیں ان کے ساتھ تو بات خود ہی بڑھانی پڑتی ہے میرے اندر جھجھک‬
‫بہت تھی جس کی وجہ سے میں اکثر عورتوں کو گھیر نہیں پاتا تھا جو خود بخود نیچے آجاتیں وہ چد جاتی‬
‫تھیں جو کہ بہت کم تھی اور میں اکثر ان کو پسند بھی نہیں کرتا جس کی وجہ سے میں ان کے قریب بھی‬
‫نہیں جاتا تھا یہاں بھی یہی مسئلہ درپیش تھا کہ بات کیسے بڑھاؤں سب کی سب ہی مجھے پسند تھیں یہ‬
‫سوچ کر میرا بازو جتنا لن تن کر فل کھڑا تھا میرے چوڑے جسم کے ساتھ میرے اندر مردانی وجاہت بھی‬
‫کوٹ کوٹ کر بھری تھی جہاں پہلے ہوتا تھا وہاں میں کثر گدھی کو چودتا رہتا تھا کیونکہ عورت تو ملتی‬
‫نہیں تھی اس لیے گدھی سے کام چال لیتا تھا گدھی کی تنگ پھدی کے کھینچاؤ اور پکڑ نے میرے لن کو بازو‬
‫جتنا لمبا اور موٹا کر دیا تھا میرے کالے پن کی کھردری چمڑی عورت کو دوہرا کر دیتی تھی آج تک کسی‬
‫عورت نے میرا پورا لن نہیں لیا تھا میرا لن فل تن کر کھڑا تھا میں شام تک کام کرتا رہا اور پالن بناتا رہا کہ‬
‫نذیراں اور آنٹی کو کیسے گھیروں پر کوئی پالن نا بنا جو بھی بنتا پسند نہیں آیا خیر شام کو میں دودھ لے کر‬
‫گھر آیا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو سامنے ایک نئی لڑکی نے دروازہ کھوال جو دوپٹے کے بغیر ہی تھی میں‬
‫اسے دیکھ کر چونک گیا وہ بھی کسے ہوئے قمیض میں تھی تنے ہوئے اکڑ کر ہوا میں کھڑے موٹے ممے قیامت‬
‫ڈھا رہے تھے پتلی کمر باہر کو نکلی موٹی گانڈ مست لگ رہی تھی وہ یقینًا نصرت سے چھوٹی سونیا تھی‬
‫مجھے دیکھ کر چونک گئی میں بھی چونک گیا وہ بولی کون پھر خود ہی میرے ہاتھ میں ڈرمی دیکھ کر‬
‫سمجھ گئی اور بولی دودھ مینوں دے چا میں نے ڈرمی اسے پکڑا دی گورے ہاتھوں نے ڈرمی مجھ سے لے لی‬
‫اس نے مجھے گہری آنکھوں ے دیکھا اور دروازہ گھما کر اندر چلی گئی میں بیٹھک کھلنے کا انتظار کرنے لگا‬
‫کہ اتنے میں دروازہ پھر کھال اور سامنے آنٹی رفعت سفید شلوار قمیض میں کھڑی تھی آنٹی کے موٹے ہوا میں‬
‫اکڑے ہوئے تھن مجھے سالمی دے رہے تھے آنٹی نے گت کرے آگے مموں پر ڈالی ہوئی تھی آنٹی کا قمیض آنٹی‬
‫کے جسم سے چپک کر جسم واضح کر رہا تھا آنٹی مجھے دیکھ مسکرا دی اور بولی عاشقو اپنا ہی گھر ہے اندر‬
‫ہی آجا آنٹی کے یوں اندر گھر میں بالنے پر میں جھجھک سا گیا میں نے آنٹی کے مموں سے نظر ہٹا کر آنٹی کو‬
‫دیکھا تو آنٹی مسکرا دی میں بوال مٹی اندر کیویں آنٹی بولی وے اے اپنا ہی گھر سمجھ اور میرے بازو سے‬
‫پکڑ کر اندر کھینچ لیا میں بے اختیار کھٹکا کھا کر اندر چال گیا جیسے ہی اندر گیا تو میرا دل دھک دھک کرنے‬
‫لگا آنٹی مجھے دیکھ کر بولی وے اے اپنا گھر ہی سمجھ ہنڑ توں سادے گھر دا حصہ ایں میں نے مڑ کر آنٹی‬
‫کو دیکھا تو آنٹی ہانپ رہا ہوئی مجھے مستی سے دیکھ رہی تھی میں سمجھ گیا کہ آج میں گیا آنٹی کے تنے‬
‫ہوئے ممے قیامت ڈھا رہے تھے آنٹی کا انگ انگ نظر آرہا تھا میں جھجھک بھی رہا تھا کبھی کسی کے گھر گیا‬
‫نہیں تھا آنٹی آگے چل پڑی آنٹی کی پھدکتی گانڈ کو میں کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا آنٹی آگے صحن میں‬
‫پڑی چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی اور بولی عاشق ایتھے بہ جا میں روٹی بنا رہی آں تینوں وی دیندی آں میں‬
‫وہیں بیٹھ گیا اسی لمحے سامنے میری نظر پڑی تو نصرت ٹوٹی سے برتن اٹھا کر ا رہی تھی میری نظر اس سے‬
‫ملی تو وہ مسکرا کر مجھے گہری آنکھوں سے غور رہی تھی نصرت بغیر دوپٹے ہے تھی نصرت نے بھی ایک کسا‬
‫ہوا لباس ڈال رکھا تھا جس سے نصرت کا کسا پھول کی طرح کا گداز ہوا بدن قمیض سے جھانک رہا تھا‬
‫نصرت کا جسم ہلکا سا بھرا ہوا تھا نصرت کا چوڑا اٹھا ہوا سینہ قیامت ڈھا رہا تھا نصرت نصرت کے تن کر ہوا‬
‫میں کھڑے ممے میرا دل چیر رہے تھے نصرت کی پتلی کمر چپٹا پیٹ باہر کو نکلی موٹی گانڈ موٹے شلوار میں‬
‫کسے ہوئے پٹ قیامت ڈھا رہے تھے نصرت کے کپڑے جسم کے ساتھ چپک کر نصرت کا بھی انگ انگ دکھا رہے‬
‫تھے نصرت نے چلتے ہوئے مجھے دیکھتی ہوئی کیچن کی طرف مڑ گئی نصرت کی لمبی گت نصرت کی‬
‫پھڑکتی گانڈ پر کھیل رہی تھی میں تو اس منظر میں کھو سا گیا تھا نصرت نے کیچن میں داخل ہوتے ہوئے‬
‫مجھے دیکھا میں اس کی گانڈ کو غور رہا تھا وہ مجھے اپنی گانڈ دکھاتی ہوئی مسکرا دی میں چونک کر نظر‬
‫چرا گیا میری نظر کیچن کے دروازے پر ہی تھی کہ اسی لمحے اندر سے ایک اور لڑکی نکلی اور اندر کمرے میں‬
‫جانے لگی وہ بھی دوپٹے کے بغیر ایک کسے ہوئے لباس میں تھی میں اسے دیکھ کر چونک گیا اور سمجھ گیا‬
‫کہ یہ سعدیہ ہے سعدیہ نے ایک گہری نظر مجھے دیکھا اور آگے چلتی ہوئی اندر جانے لگی سعدیہ کا قد تھوڑا‬
‫لمبا تھا لیکن اس کا جسم تھوڑا پتال تھا لیکن اتنا بھی نہیں تھا اس کے جسم کے خدو خال باقی بہنوں سے کم‬
‫نہیں تھے سعدیہ کے ممے بھی کافی اٹھے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سب اپنے مموں کا خاص خیال رکھتی‬
‫تھیں میں تھوڑا جھجھک بھی رہا تھا پر ان میں کوئی جھجھک نہیں تھی وہ بے دھڑک میرے سامنے چل پھر‬
‫کر اپنا جسم مجھے دکھا رہی تھیں مجھے لگ رہا تھا کہ میں کسی رنڈی خانے میں آگیا ہوں تینوں بہنیں آگے‬
‫پیچھے مجھے اپنے بدن کا نظرانہ کروا رہی تھیں میں بھی خوش تھا اتنے میں آنٹی کھانا الئی اور مجھے دیا‬
‫آنٹی پاس ہی بیٹھ گئی میں کھانا کھانے لگا آنٹی بولی عاشق توں اپنا بندہ ہیں ہنڑ اے تیرا اپنا گھر بے فکر‬
‫ہوکر گھر آیا گیا کر گھبراون دی ضرورت نہیں جو مرضی کردا کر کھا پی اپنا گھر اے میرے تو کان کھڑے ہو‬
‫گئے میں سمجھ گیا کہ آنٹی سب کچھ کھانے کی آفر کر رہی ہے میں نے بھی ہاں میں سر ہال دیا آنٹی پاس ہی‬
‫بیٹھی رہی اس دوران نصرت سونیا اور سعدیہ بھی میرے اوپر نیچے ہوکر مجھے اپنا آپ دکھاتی رہتی۔ میں‬
‫حیران بھی ہو رہا تھا کہ کیسے یہ گاؤں میں شریف آر باپردہ مشہور ہیں پر یہاں مجھے سب کچھ دکھا رہیں‬
‫میں اتنے خوبصورت نظارے کرکے خوش بھی ہو رہا تھا آنٹی کی بیٹیاں اچھی تک کنواری بیٹھی تھیں شاید‬
‫انہیں بھی کسی ایسے مرد کی تالش تھی جو ان کا راز بھی رکھے اور ان کی خواہش بھی پوری کرے یں‬
‫خوش بھی تھا اور ایک دھڑکا بھی تھا کہ میں ان کو کیسے سنبھال پاؤں گا یہ تو ایک سے بڑھ کر ایک جوانی‬
‫تھی میں کھانا کھا کر ڈیرے پر آگیا میرے ذہن پر نصرت اور اس کی بہنیں سوار تھیں آنٹی نے مجھے کھلی‬
‫چھٹی دے تو دی تھی پر میں بھی اتنی جلدی میں گرم دودھ کو منہ نہیں لگانے والے تھا ٹھنڈا کرکے پینا تھا‬
‫میں ڈیرے پر آکر کچھ کام کیا اور پھر آنٹی اور نصرت لوگوں کا سوچتا ہوا جلد ہی سو گیا۔‬

‫‪© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved‬‬

You might also like