Professional Documents
Culture Documents
بالی عمر کی پیاس
بالی عمر کی پیاس
میں آج آٹھویں جماعت میں پہنچ گئی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک میں بِا لکل 'فلیٹ' تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اور
ِپ یچھے سے بھی۔ لیکن اسکول بس میں آتے جاتے ہوئے لڑکوں کے کندھوں کی رگڑ کھا کھا کر مجھے پتا ہی
نہیں چال کہ کب میرے کولہوں اور چھاتیوں پر گوشت چڑھ گیا۔۔ اتنی کم عمر میں ہی میرے چوتڑ بیچ سے
کٹے ہوئے اسپرنگ لگے ہوئے ایک گول تربوز کی طرح ابھر گئے۔ میری چھاتیاں بھی اب 'امرودوں' سے بڑی ہوکر
موٹے موٹے 'سنگتروں' جیسے ہو گئے تھے۔ میں کئِی بار باتھ روم میں ننگی ہوکر حیرت سے انہیں دیکھا کرتی
تھی۔۔ چھو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مجھے ایسا کرتے ہوئے عجیب سا مزہ آتا ۔۔ 'وہاں بھی۔۔ اور نیچے چوت میں
بھی۔
میرے گورے ِچ ٹ جسم پر اس چھوٹی سی چوت کو چھوڑکر کہیں بھی بالوں کا نام وِن شان تک نہیں تھا۔۔ ہلکے
ہلکے سے بال میری بغلوں میں بھی تھے۔ اسکے عالوہ گردن سے لیکر پیروں تک میں بالکل مکھن کی طرح
ِچ کنی تھی۔ کالس کے لڑکوں کو للچائی نظروں سے اپنی چھاتی لیکن جھولتے ہوئے 'سنگتروں' کو گھورتے
دیکھ کر میری رانوں کے بیچ چِھ پِی ہوئی ہلکے ہلکے بالوں والی ،مگر ِچ کناہٹ سے بھری ہوئی ِت تلی کے پر
پھڑپھڑنے لگتے اور مموں پر گالبی رنگت کے 'انار دانے' تن کر کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔
ہاں ،کبھی کبھار کچھ کچھ شرم آ جاتی تھی۔ یہ بھی نہیں آتی اگر ممی نے نہ بوال ہوتا"،اب تو بڑی ہو گئی ہے
"!انجو ۔۔ برا پہننی شروع کر دے اور شمیز بھی پہن ِل یا کر
سچ بتاؤں تو مجھے اپنے خوبصورت کسے ہوئے مموں کو برا میں قید کر کے رکھنا کبھی اچھا نہیں لگا اور نہ
ہی انکو شمیز کے پردے میں رکھنا۔ اسکول میں موقع ِم لتے ہی میں شمیز اور برا کو جان بوجھ کر اسکول کے
باتھ روم میں اتار آتی اور کالس میں منچلے لڑکوں کو اپنے مموں کے جلوے دیکھنے کے چکر میں ِا رد ِگ رد
منڈالتے ہوئے دیکھ کرخوب مزے لیتی۔۔ میں اکثر جان بوجھ کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر انگڑائیاں لیتی جس سے
میرے ممے تن کر جھولنے لگتے۔ اس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی۔۔ کچھ تو اپنے
ہونٹوں ایسے زبان پھیرنے لگتے جیسے موقع ِم لتے ہی مجھے نوچ ڈالیں گے۔ کالس کی ساری لڑِک یاں مجھ سے
جلنے لگی تھیں۔۔ حاالنکہ 'وہی' سب انکے پاس بھی تھا۔۔ لیکن میرے جیسا نہیں۔۔
میں پڑھائی میں ِب الکل بھی اچھِی نہیں تھی لیکن سارے مرد ٹیچروں کا 'پورا پیار' مجھے ِم لتا تھا۔ یہ انکا پیار
ہی تو تھا کہ ہوم-ورک نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسکراکر بغیر کچھ کہے چپ چاپ کاپی بند کرکے مجھے
پکڑا دیتے۔۔ باقی سب کی ِپ ٹائی ہوتی۔ لیکن ہاں ،وہ میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانہ وصول کرنا
کبھی نہیں بھولتے تھے۔ ِج س ِک سی کا بھی خالی پیِر یڈ ِن کل آتا۔ِک سی نا ِک سی بہانے سے مجھے اکیلے میں سٹاف
روم میں بال لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے مجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے ِچ پکا ہوا
انکا دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ پِھ سلتا ہوا میرے چوتڑوں پر آِٹ کتا۔ مجھے پڑھائی کی 'طرف زیادہ' دھیان دینے کو
کہتے ہوئے وہ میرے چوتڑوں پر ہلکی ہلکی چپت لگاتے ہوئے میرے چوتڑوں کے تِھ رکنے کا مزہ لوٹتے رہتے۔۔
مجھے پڑھائی کے فائدے ِگ نواتے ہوئے اکثر وہ 'کھو' جاتے تھے ،اور چپت لگانا بھول کر میرے چوتڑوں پر ہی
اپنے ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھار تو انکی انگلیاں سکرٹ کے اوپر سے ہی میری گانڈ کی دراڑ کی گہرائیوں کو
ناپنے کی کوِش ش کرنے لگتیں۔۔
انکا دھیان ہر وقت انکی تھپکیوں کی وجہ سے لگاتار تھرکتے ہوئے میرے مموں پر ہی ہوتا تھا۔۔ لیکن ِک سی نے
کبھی میرے مموں پر جھپٹا نہیں مارا۔ شاید وہ سب یہ سوچتے ہوں گے کہ کہیں میں ِب دک نہ جاوں۔۔ لیکن
میں انکو کبھی چاہ کر بھی یہ نہ بتا پائی کہ مجھے ایسا کرواتے ہوئی مجھے اپنی چوت میں میٹھا-میٹھا مزہ
آتا ہے۔۔
ہاں! ایک بات میں کبھی نہیں بھول پاؤنِگ ی۔۔ میرے ِہ سٹری کے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہوئے ایک ِد ن کمر
سے نہیں بلکہ میرے گھٹنوں سے چلنا شروع ہوا ۔۔ اور آہستہ آہستہ میری سکرٹ کے اندر گھس گیا۔ اپنی کیلے
کے تنے جیسی لمبی گوری اور ِچ کنی رانوں پر انکے 'کانپتے' ہوئے ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل اٹھی تھی۔۔
خوشی کے مارے میں نے آنکھیں بند کرکے اپنی رانیں کھول دیں اور انکے ہاتھ کواپنی رانوں کے بیچ میں اوپر
چڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ میری نازک سی چوت سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔
اچانک انہوں نے میری رانوں میں بری طرح پھنسی ہوئی 'ِن یکر' کے اندر انگلی گھسا دی۔۔ لیکن جلدبازی میں
غلطی سے انکی انگلی سیدھی میری ِچ کنی ہوکر ٹپکتی ہوئی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے بیچ میں گھسا دی۔۔
میں درد سے ِت لِم ال اٹھی۔۔ میں اس اچانک حملے کو برداشت نہ کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہوئے میں نے اپنے آپکو ان سے
چھڑایا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر کھڑی ہو گی۔۔ میری آنکھیں دبدبا گئی تھی۔۔
میں ِا س ساری پرکِر یا کے 'پیار سے' پِھ ر شروع ہونے کا ِا نتظار کر ہی رہی تھی کِہ 'وہ' ماسٹرصاحب میرے آگے
ہاتھ جوڑکر کھڑے ہو گئے"،پلیز انجِل ۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔ ِک سی سے کچھ مت کہنا۔۔
میری نوکری کا سوال ہے۔۔!" ِا س'سے پہلے میں کچھ بولنے کی ِہ مت کر پاتی; وہ بک بک کرتا ہوا سٹاف روم سے
بھاگ گیا۔۔ مجھے تڑپتا ہوِا چھوڑکر۔۔
اس کی انگلی نے میری چوت کی آگ کو ِا س قدر بھڑکایا کی میں ہر وقت اپنے جلووں سے لڑکوں کے ِد لوں میں
آگ لگانے اوراپنی چوت کی پیاس بجھانے کی جگاڑ میں رہنے لگی۔ ِا س کے ِل ئے میں نے اپنے جسم کی نمائش
کی مہم کو اور تیز کر ِد یا۔ انجان سی بن کر ،کھجلی کرنے کے بہانے میں بینچ پر بیٹھی ہوئی سکرٹ میں ہاتھ
ڈال کر اسکو رانوں تک اوپر کِھ سکا لیتی اور کالس میں لڑکوں کی سیِٹ یاں بجنے لگتیں۔ اب سارا سارا ِد ن اپنا
دھیان صرف لڑکوں کی باتوں کی طرف رکھنے لگی۔ آج احساس ہوتا ہے کہ دوبارہ کسی مردسے اپنی چوت
میں انگلی کروانے کے چکر میں میں ِک تنی بدنام ہو گئی تھی۔
خیر میرا 'کام' جلد ہی بن جاتا اگر وہ جو کوئی بھی تھا میرے بیگ میں ِن ہایت ہی غلیظ زبان میں لکھا ہوا
خط ڈالنے سے پہلے مجھے بتا دیتا۔ کاش وہ خط میرے بھیا سے پہلے مجھے ِم ل جاتا! ' میرے گدھے بھائی نے
وہ خط سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا ِد یا
:رات کو نشے میں دھت پاپا نے مجھے اپنے سامنے کھڑی کرکے وہ خط اونچی آواز میں پڑھنے لگے
!ہائے جان من "
کیا کھاتی ہو یار؟ ِا تنی مست ہوتی جا رہی ہو کِہ سارے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا کے رکھ ِد یا۔ تمہارے پپیتے
جیسے مموں نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا ،اب اپنی گوری ِچ کنی رانیں ِد کھا ِد کھا کر کیا ہماری جان لینے
کا ِا رادہ ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تم اپنے ساتھ 'ِا س' سال کے امتحانوں میں سب لڑکوں کو لے ڈوبوگی۔۔
لیکن مجھے تم سے کوئی ِگ ال یا شکوہ نہیں ہے۔ پہلے میں تمہارے زبردست مموں کو دیکھ دیکھ کر مست ہو
جاتا تھا; اب ننگی ِچ کنی رانیں دیکھ کر تو جیسے مر ہی گیا ہوں۔ پِھ ر پاس یا فیل ہونے کی پرواہ ِک سے ہے اگر
روز تمہارے جسم کا دیدار ہوتا رہے۔ ایک ِریکویسٹ ہے ،پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اور اوپر کر ِد یا کرو
تاِک میں تمہاری گیلی چڈی کا رنگ دیکھ سکوں۔ سکول کے باتھروم میں جاکر تمیں یاد کرتے ہوئے اپنے لنڈ پر
ہاتھ پھیرتے ہوئے تمہارے نام کی مٹھ لگاتا ہوں تو بار بار یہی سوال دل میں ابھرتا رہتا ہے کِہ تمہاری چڈی کا
رنگ کیا ہوگا۔۔ ِا س وجہ سے میرے لنڈ کا رس ِن کلنے میں دیر ہو جاتی ہے اور کالس میں ٹیچرس کی جھڑکیاں
سننِا پڑتی ہیں۔۔ پلیز،میری یہ بات یاد رکھنا
تمہاری قسم جان من ،اب تو میرے سپنوں میں بھی پِر یانکا چوپڑا کی جگہ ننگی ہوکر تم ہی آنے لگی ہو۔ 'وہ'
تو اب مجھے تمہارے سامنے کچھ بھی نہیں لگتی۔ سونے سے پہلے 2بار خیالوں میں تمہیں پورا ننگا کرکے
چودتے ہوئے اپنے لنڈ کا رس ِن کلتا ہوں ،پِھ ر بھی صبح میرا 'کچھ' گیال ِم لتا ہے۔ پِھ ر صبح ِب ستیر سے اٹھنے سے
پہلے تمہیں ایک بار ضرور یاد کر کے مٹھ لگاتا ہوں۔
میںنے سنا ہے کِہ لڑِک یوں میں چدائی کی بھوک لڑکوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تمہارے اندر بھی ہوگی ،ہے نا؟
ویسے تو تمہاری چدائی کرنے کے ِل ئے سبھی کالس کے لڑکے اپنے لوڑوں کو تیل لگائے پِھ رتے ہیں لیکن تمہاری
قسم جان من ،میں تمہیں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں ،اصلی واال۔ ِک سی اور کے بہکاوے میں مت آنا ،زیادہ تر
لڑکے چودتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ تمہاری کنواری چوت کو پھاڑ ڈالیں گے۔ لیکن میں سب کچھ پیار سے
کروں گا۔۔ تمہاری قسم۔ پہلے انگلی سے تمہاری چوت کو تھوڑا سا کھولوں گا اور چاٹ چاٹ کر اندر باہر سے
پوری طرح گیلی کر دوں گا۔۔ پِھ ر آہستہ آہستہ اپنا لنڈ اندر کرنے کی کوِش ش کروں گا ،تم نے خوشی خوشی لے
ِل یا تو ٹھیک ،ورنہ چھوڑ دوں گا۔۔ تمہاری قسم جان من۔
اگر تم نے اپنی چدائی کروانے کا موڈ بنا ِل یا ہو تو کل اپنا الل رومال لیکر آنا اور اسکو ِرسیس میں اپنے بینچ پر
!چھوڑ دینا۔ پِھ ر میں بتاؤنگا کِہ کب کہاں اور کیسے ِم لنا ہے
پلیز جان ،ایک بار اپنی چوت کی خدمت کا موقع ضرور دینا۔ تم ہمیشہ یاد رکھوگی اور روز روز مجھ سے ہی
چدائی کروانے کا سوچوگی ،میرا دعوٰی ہے۔
!تمہارا عاِش ق
لیٹر میں کھلی کھلی چدائی کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشہ کب کافور ہو گیا ،خیر ،خدا کا شکر ہے مجھے
انہوں نے یہ کہ کر ہی بخش ِد یا "،کِت یا! مجھے یقین ہے کہ تو میری اوالد نہیں ہے۔ تو بھی اپنی ماں کی طرح
رنڈی ہے۔ آج کے بعد تو سکول نہیں جائے گی" یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ شکر! میں بچ
گئی۔
خیر ،ہر روز کی طرح سکول کے ِل ئے تیار ہونے کا ٹائم ہوتے ہی میرے کسے ہوئے ممے پھڑکنے لگے; 'ِش کار' کی
تالش کا ٹائم ہوتے ہی ان میں عجیب سی گدگدی ہونے لگ جاتی تھی۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ روز کی طرح
رات کی وہ بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے ِس ر سے اتر گئی ہوگی۔ لیکن ہائے ری میری ِق سمت; ِا س بار ایسا
"!نہیں ہوا ِ "،ک س ِل ئے ِا تنا پھدک رہی ہے رنڈی کی اوالد؟ چل میرے ساتھ کھیت میں
پر پاپا! میرے امتحان سر پر ہیں!" بے شرم ہو کر میں نے رات والی بات بھول کر ان سے بحث کی۔"
پاپا نے مجھے اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے کہا "،یہ لے پکڑ! اٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکول! بس! تیری
حاِض ری لگ جائیگی اسکول میں! رؤف کے لڑکے سے بات کرلی ہے۔ آج سے کالج سے آنے کے بعد تجھے گھر پر ہی
پڑھا جایا کرے گا! تیاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اگلے سال تجھے گرلز سکول میں داخل کراؤںگا۔ وہاں ِد کھانا
تم اپنی چڈی کا رنگ" آِخ ری بات کہتے ہوئے پاپا نے میری طرف دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک ِد یا۔
کام کرنے کی میری عادت تو تھی ہی نہیں۔ پرانا سا لہنگا پہن کر کھیت سے لوٹی تو بدن کی پور پور دکھ رہی
تھی۔ ِد ل کر رہا تھا کہ کوئی مجھے اپنے پاس ِل ٹاکر آٹے کی طرح گوندھ ڈالے۔ میری اوپر کمرے میں جانے تک
کی ِہ مت نہ ہوئی اور نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اس پر پسری اور سو گئی۔
رؤف کے لڑکے نے گھر میں گھس کر آواز دی۔ مجھے پتا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ پِھ ر بھی میں کچھ نا
بولی۔ دراصل پڑھنے کا میرا دل تھا ہی نہیںِ ،ا سی ِل ئے میں سونے کی ایٹنگ کرتے ہوئے وہیں پڑی رہی۔ میرے
دو کام کیا کر لیےے; تیری تو جان ہی ِن کل گئی۔۔ چل کھڑی ہو جا اب! نہا دھو لے۔ 'وہ' آنے ہی واال ہوگا۔۔ پاپا نے"
"!کمرے میں گھس کر کہا اور باہر ِن کل گئے"،جا چھوٹو! ایک 'ادھا' لیکر آ
ہائے میری تو سانسیں ہی تھم گئی تھیں۔ غنیمت تھا کہ خواب دیکھتے ہوئے میں نے سچ مچ اپنا لہنگا اوپر
نہیں اٹھایا تھا۔ اپنے مموں کو دباکر میں نے 4-2لمبی لمبی سانسیں لیں اور لہنگے میں ہاتھ ڈال اپنی چڈی کو
!چیک ِک یا۔ چوت کے پانی سے وہ بالکل بھیگ چکی تھی۔ بچ گئی
رگڑ رگڑ کر نہاتے ہوئے میں نے کھیت کی ِم ٹی اپنے جسم سے اتاری اور نئی چڈی پہن لی جو ممی ِ 4-2د ن پہلے
ہی بازار سے الئی تھیں "،پتہ نہیں انجو ! تیری عمر میں تو میں چڈی پہنتی بھی نہیں تھی۔ تیری ِا تنی جلدی
کیسے خراب ہو جاتی ہے" ممی نے الکر دیتے ہوئے کہا تھا۔
مجھے پوری امید تھی ِک ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار ضرور کریگا۔ ِا سیِل ئے میں نے سکول والی سکرٹ ڈالی
اور ِب نا برا کے شرٹ پہنکر باتھ روم سے باہر آ گئی۔
جا وہ نیچے بیٹھے تیرا ِا نتظار کر رہے ہیں۔۔ ِک تنی بار کہا ہے برا ڈال ِل یا کر; ِن کمی! یہ تیرے ممے ِہ لتے ہیں تو"
تجھے شرم نہیں آتی؟" ممی کی ِا س بات کو میں نے نظرانداز ِک یا اور اپنا بیگ اٹھا کر سیڑِھ یوں سے نیچے
اترتی چلی گئی۔
نیچے جاکر میں نے اس چشملی کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی ِرنکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا ِک ممی نے
بیٹھا ہے کی بجائے بیٹھے ہیں کیوں کہا تھا" :تم ِک س ِل ئے آئی ہو؟" میں نے ِرنکی سے کہا اور چشمو کو ابِھ وادن
"کے روپ میں دانت ِد کھا ِد ئیے۔ الو کی دم ہنسا بھی نہیں مجھے دیکھ کر "،کرسی نہیں ہے کیا؟
میں بھی یہیں پڑھ ِل یا کروں گی۔۔ بھیا نے کہا ہے کِہ اب روز یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیا کے گھر جاتی تھی"
پڑھنے۔۔ " ِرنکی کی سریلی آواز نے بھی مجھے ڈنک سا مارا۔۔
!کون بھیا؟" میں نے منہ چڑھا کر پوچھا"
یے۔۔ ترن بھیا! اور کون؟ اور کیا ِا نکو سر کہیں گے؟ 5-4سال ہی تو بڑے ہیں۔۔" ِرنکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔"
ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں 'سیاں' بنکر میری چوت میں زبان گھما رہا تھا; اسکو کیا اب بھیا کہنا
!پڑیگا؟ نا! میں نے نہ کہا بھیا
"میں تو سر ہی کہوں گی! ٹھیک ہے نا ،ترن سر؟ "
بیشرمی سے میں چارپائی لیکن اسکے سامنے پسر گئی اور ایک ٹانگ سیدھی ِک ئے ہوئے دوسری گھٹنے سے موڑ
اپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹانگ والی ِچ کنی ران تو مجھے اوپر سے ہی ِد کھائی دے رہی تھی۔۔ اسکو کیا
کیا ِد کھ رہا ہوگا ،آپ خود ہی سوچ لو۔
ٹھیک سے بیٹھ جاؤ! اب پڑھنا شروع کریں گے۔۔ " حرامی نے میری جنت کی طرف تو دیکھا تک نہیں اور خود"
ایک طرف ہو کر رنکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سلگتی رہ گئی۔۔ میں نے آلتی پالتی مار کر
اپنا گھٹنا جلن کی وجہ سے رنکی کی گود میں پھنسا ِد یا اور آگے جھک کر معصوم شکل بناکر اپنی کاپی کی
طرف دیکھنے لگی۔۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جانے ِک تنے ہی سوال ِن کال ِد ئے اس نے ،میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔۔ کبھی
اس کے چہرے پر مسکراہٹ کو کبھی اسکی پینٹ کے مردانہ ابھار کو ڈھونڈتی رہی ،لیکن کچھ نہیں ِم ال۔۔
پڑھتے ہوئے اسکا دھیان ایک دو بار میرے مموں کی طرف ہوا تو مجھے لگا کہ وہ مموں کا دیوانہ ہے۔ میں نے
جھٹ سے اسکی باتیں سنتے سنتے اپنی شرٹ کا بیچ واال ایک بٹن کھول ِد یا۔ میرے گداز ممے ،جو شرٹ میں
گھٹن محسوس کر رہی تھے; راستہ ِم لتے ہی اس طرف سرک کر سانس لینے کے ِل ئے باہر جھانکنے لگ گیا اور
میرے مموں کے درمیان والی گہری گھاٹی اب اس کے بِا لکل سامنے تھی۔
ترن نے جیسے ہی ِا س بار مجھ سے پوچھنے کے ِل ئے میری طرف دیکھا تو اسکا چہرہ ایکدم الل ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے
ہوئے اسنے کہا "،بس! آج ِا تنا ہی۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔۔ کہتے ہوئے اس نے نظریں چراکر ایک بار اور میرے
گورے مموں کو دیکھا اور کھڑا ہو گیا۔۔۔
حد تو تب ہو گئی ،جب وہ میرے سوال کا جواب ِد ئے بغیر ہی باہر ِن کل گیا۔
"میں نے تو صرف ِا تنا ہی پوچھا تھا "،مزہ نہیں آیا کیا ،سر؟
سپنے میں ہی سہی ،لیکن بدن میں جو آگ لگی تھی ،اسکی دہک سے اگلے ِد ن بھی میرا انگ -انگ سلگ رہا تھا۔
جوانی کی تڑپ کی داستان سناتی تو سناتی ِک س کو! صبح اٹھی تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔۔ پاپا شاید آج ممی
کو کھیت میں لے گئے ہوں گے۔۔ ہفتے میں ِ 2د ن تو کم سے کم ایسا ہوتا ہی تھا جب پاپا ممی کے ساتھ ہی
کھیت میں جاتے تھے۔۔
ان دو دنوں میں ممی ِا س طرح سج دھج کر کھانا ساتھ لیکر جاتی تھیں جیسے کھیت میں نہیں بلکہ کہیں
بڈھے بڈِھ یوں کے مقابلہء حسن میں جا رہی ہوں۔۔ مزاق کر رہی ہوں۔۔ میری ممی تو اب تک بوڑھِی نہیں ہوئی
ہیں۔۔ 40کی عمر میں بھی وہ بڑی دیدی کی طرح رسیلی ہیں۔۔ میرا تو خیر ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
خیر; میں بھی ِک ن باتوں میں پڑ جاتی ہوں۔۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کِہ اگلے ِد ن صبح اٹھی تو کوئی بھی گھر
پر نہیں تھا۔۔ خالی گھر میں خود کو اکیلی پاکر میری رانوں کے بیچ سرسراہٹ سی مچنے لگی۔۔ میں نے دروازہ
اندر سے بند ِک یا اور چارپائی پر آکر اپنی رانوں کو پھیالکر سکرٹ پوری طرح اوپر اٹھا ِد یا۔۔
میں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی۔۔ میری چوت ِک سی ڈبل روٹی کی طرح پھول کر میری چڈی سے باہر ِن کلنے کو
بیتاب ہو رہی تھی۔۔ موٹی موٹی چوت کے ہونٹ پوری طرح ابھر کر چڈی کے باہر سے ہی ِد کھائی دے رہے تھے۔۔
میری چوت کی دراڑ میں میری چڈی ِا س طرح اندر گھسی ہوئی تھی جیسے چوت کا ِد ل چڈی پر ہی آ گیا ہو۔۔
ڈر تو ِک سی بات کا تھا ہی نہی۔۔ میں لیٹی اور چوتڑوں کو اکساتے ہوئے چڈی کو اتار پھینکا اور دوبارہ بیٹھ کر
رانوں کو پِھ ر الگ الگ کر ِد یا۔۔ ہائے! اپنی ہی چوت کے رسیلے پانی اور رانوں تک بہہ کر گرنے والی ِچ کناہٹ کو
دیکھتے ہی میں مدہوش سی ہو گئی۔۔
میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جاکر اپنی انگِل یوں سے چوت کے لبوں کو سہال کر دیکھا۔۔ لبوں پر اگے ہوئے ہلکے
ہلکے بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تک شہوت کے مارے کھڑے ہو گئے تھے۔۔ اپنی چوت کے لبوں پر ہاتھ
پھیرنے سے مجھے اپنی چوت کے اندر تک گدگدی اور مزے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ چوت پر اوپر نیچے انگِل یوں
سے امڈتی ہوئی شہوت کی شدت سے میں بدحواس سی ہوتی جا رہی تھی۔۔ اپنی چوت کے لبوں کو پھیالکر
میں نے اندر جھانکنے کی کوِش ش کی; ِچ کنے ِچ کنے الل گوشت کے عالوہ مجھے اور کچھ ِد کھائی نہ ِد یا۔۔ لیکن
مجھے دیکھنا تھا۔۔۔۔
میں اٹھی اور بیڈ پر جاکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔۔ ہاں۔۔ اب مجھے ٹھیک ٹھیک اپنی چوت کا
دروازہ ِد کھائی دے رہا تھا۔۔ گہرے الل اور گالبی رنگ میں رنگا 'وو' کوئی آدھے ِا نچ گہرا ایک گڑھا سا تھا۔۔
مجھے پتا تھا کہ جب بھی میری چدائی ہوگی۔۔ یہیں سے ہوگی۔۔! جہاں سے چوت کے لب الگ ہونے شروع ہوتے
ہیں۔۔ وہاں لیکن ایک چھوٹا سا دانا ابھرا ہوا تھا۔۔ بالکل میرے مموں کے نپلوں کی طرح اکڑا ہوا۔۔ شہوت کی
شدت سے میں پاگل سی ہوگئی تو میں نے اس کو انگلی سے چھیڑنے لگی۔۔
ہمیشہ کی طرح وہاں ہاتھ لگاتے ہی میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ رانوں میں ہلکی ہلکی کپکپی سی شروع ہو
گئی۔۔ ویسے یہ سب میں پہلے بھی محسوس کر چکی تھی۔۔ لیکن سامنے شیشے میں دیکھتے ہوئے ایسا کرنے
کا مزہ ہی الگ ہے۔۔ سچ میں! بہت مزہ آرہا تھا۔۔
دھیرے دھیرے میری انگِل یوں کی رفتاِر بڑھتی گئی۔۔ اور میں جھڑنے لگی اور جھڑتے جھڑتے ِن ڈھال ہوکر ِب ستر
پر ِگ رگئی۔۔ انگلیاں اب چوت کے دانے کو سہال نہیں رہی تھیں۔۔ بلکہ بری طرح سے پوری چوت کو ہی لبوں
سمیت مسل رہی تھیں۔۔ اچانک میرے منہ سے نکلتی ہوئی عجیب سی ِس سِک اریاں میرے کانوں میں میٹھی سی
دھن میں بدل گئیں اور نہ جانے کب ایسا کرتے ہوئے میں سب کچھ بھال کر دوسری دنیا میں جا پہنچی۔۔۔
گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے میں نے اپنے جسم کو ڈھیال چھوڑدیا اور اپنی بانہوں کو ِب ستر پر پھیالئے ہوش
میں آنے ہی لگی تھی کِہ دروازے پر دستک سن کر میرے ہوش ہی اڑ گئے۔۔۔
میں نے فٹافٹ اٹھتے ہوئے سکرٹ کو اچِھ ی طرح نیچے ِک یا اور جاکر دروازہ کھول ِد یا۔
ِک تنی دیر سے نیچے سے آواز لگا رہا ہوں؟ میں تو واپس جانے ہی واال تھا۔۔اچھا ہوا جو اوپر آکر دیکھ ِل یا۔۔ ""
!سامنے زمیندار کا لڑکا کھڑا تھا; سندر
کیا بات ہے؟ آج سکول نہیں گئیں؟" سندر نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہی میرے گالوں سے لیکر گھٹنوں "
تک گھورتا ہوا بوال۔۔
گھر پر کوئی نہیں ہے!" میں نے صرف ِا تنا ہی کہا اور باہر آکر کھڑی ہو گئی۔۔"
"!کمینہ! اندر ہی جاکر بیٹھ گیا"،تم تو ہو نا
نہیں۔۔ مجھے بھی ابھی جانا ہے۔۔ کھیت میں۔۔!" میں نے باہر کھڑے کھڑے ہی کہاا۔۔"
"ِا تنے دنوں کے بعد آیا ہوں۔۔ چائے وائے تو پوچھ ِل یا کرو۔۔ ِا تنا بھی کنجوس نہیں ہونا چاِہ ئیے۔۔"
میں نے مڑکر دیکھا تو وہ میرے موٹے موٹے چوتڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پرزبان پھیر رہا تھا۔۔۔
دودھ نہیں ہے گھر میں۔۔!" میں چوتڑوں کا ابھار چھپانے کے ِل ئے جیسے ہی اسکی طرف پلٹی۔۔ اسکی نظریں"
میرے مموں پر جم گئیں۔
کمال ہے۔۔ ِا تنی موٹی تازی ہو اور دودھ ِب الکل نہیں ہے۔۔" وہ دانت ِن کال کر ہنسنے لگا۔۔"
آپ شاید سمجھ گئے ہوں گے کی وہ ِک ونسے 'دودھ' کی بات کر رہا تھا۔۔ لیکن میں ِب الکل نہیں سمجھی تھی اس
وقت۔۔ تمہاری قسم
"کیا کہہ رہے ہو؟ میرے موٹے تازے ہونے سے دودھ ہونے یا نا ہونے کا کیا تعلق ہے؟"
وہ یونہی میری سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والے مموں کو گھورتا رہاِ "،ا تنی بچی بھی نہیں ہو تم۔۔
سمجھ جایا کرو۔۔ ِج تنی موٹی تازی بھینس ہوگی۔۔ اتنا ہی تو زیادہ دودھ دے گی" اسکی نظریں میرے بدن
میں گڑی جا رہی تھیں۔۔
ہائے میری اب سمجھ میں آیا وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔ میں نے پورا زور لگاکر چہرے پر غصہ النے کی کوِش ش کی۔۔
لیکن میں اپنے گالوں پر آنے والی سرخی کو نہ چھپا سکی "،کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔؟ مجھے کہیں جانا ہے۔۔
"!اب جاؤ بھی یہاں سے۔۔
ارے۔۔ ِا س میں برا ماننے والی کونسی بات ہے۔؟ زیادہ دودھ پیتی ہوگی تب ھی تو ِا تنی موٹی تازی ہو۔۔ ورنہ"
اپنی دیدی کی طرح دبلی پتلی نا ہوتیں؟۔۔اور دودھ ہوگا تبھی تو پیتی ہوگی۔۔میں نے تو ِص رف اتنا ہی کہا
تھا۔۔ میں تمہیں کوئی بھینس تھوڑی بول رہا تھا۔۔ تم تو بے حد پیاری ہو۔۔ گوری ِچ ٹِی ۔۔ تمہارے جیسی تو اور
"کوئی نہیں دیکھی میں نے۔۔ آج تک! قسم جھنڈے والے بابا کی۔۔
آخری الئین کہتے کہتے اسکا لہجہ پر ہوس ہو گیا تھا۔۔ جب جب اس نے دودھ کا ذکر ِک یا۔۔ میرے کانوں کو یہی
لگا کِہ وہ میرے گداز مموں کی تعریف کر رہا ہے۔۔۔
ہاں! پیتی ہوں دودھ۔۔ تمہیں کیا ہے؟ پیتی ہوں تب ہی تو ختم ہو گیا۔۔" میں نے ِچ ڑ کر کہا۔۔۔"
"!ایک آدھ بار ہمیں بھی پال دو نا!۔۔۔ ۔۔ کبھی چکھ کر دیکھنے دو۔۔ اپنا دودھ۔۔"
اسکی باتوں کے ساتھ اسکا لہجہ بھی ِب لکل غلیظ ہو گیا تھا۔۔ کھڑے کھڑے ہی میری ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔۔۔
مجھے نہیں پتہ۔۔میں نے کہا نا۔۔ مجھے جانا ہے۔۔!" میں اور کچھ نا بول سکی اور نظریں جھکائے کھڑی رہی۔۔"
نہی پتہ تبھی تو بتا رہا ہوں انجو ! سیکھ لو ایک بار۔۔ پہلے پہل سبھی کو سیکھنا پڑتا ہے۔۔ ایک بار سیکھ ِل یا"
تو زندگی بھر نہیں بھولوگی۔۔" اسکی آنکھوں میں اب شہوت کے الل ڈورے تیر رہے تھے۔۔
میرا بھی برا حال ہو چکا تھا تب تک۔۔ لیکن کچھ بھی ہو جاتا۔۔ اس کے نیچے تو میں نے نا جانے کی قسم کھا
"!رکھی تھی۔۔ میں نے غصے سے کہا"،کیا ہے؟ کیا سیکھ لوں۔۔ بکواس مت کرو
ارے۔۔ ِا تنا اکھڑ کیوں رہی ہو بار بار۔۔ میں تو آئے گئے لوگوں کی مہمان-نوازی ِس کھانے کی بات کر رہا ہوں۔۔ آِخ ر"
چائے پانی تو پوچھنا ہی چاِہ ئے نا۔۔ ایک بار سیکھ گئی تو ہمیشہ یاد رکھوگی۔۔ لوگ ِک تنے خوش ہوکر واپس
جاتے ہیں۔۔ ہے ہے ہے!" وہ جھینپتا ہوا بوال۔۔ اور چارپائی کے سامنے پڑی میری چڈی کو اٹھا ِل یا۔۔
مجھے جھٹکا سا لگا۔۔ اس طرف تو میرا دھیان اب تک گیا ہی نہیں تھا۔۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے پاس
"!اندر جانا پڑا"،یہ مجھے دو۔۔
بڑی بے شرمی سے اس نے میری گیلی چڈی کو اپنی ناک سے لگا ِل یا"،اب ایک ِم ِن ٹ میں کیا ہو جائیگا۔۔ اب بھی
تو بیچاری فرش پر ہی پڑی تھی۔۔" میں نے ہاتھ بڑھایا تو وہ اپنا ہاتھ ِپ یچھے لے گیا۔۔ شاید ِا س غلط فہمی میں
تھا کہ اس'سے چھیننے کے ِل ئے میں اسکی گود میں چڑھ جاؤنگِی ۔۔۔
میں پاگل سی ہو گئی تھی۔۔ اس پل مجھے یہ خیال بھی نہیں آیا کی میں بول کیا رہی ہوں۔ "،دو نا مجھے۔۔
مجھے پہننِی ہے۔۔" اور اگلے ہی پل یہ احساس ہوتے ہی کِہ میں نے یہ کیا بک ِد یا۔۔ میں نے شرم کے مارے اپنی
آنکھیں بند کرکے اپنے چہرے کو ڈھک ِل یا۔۔۔
"!اوہ ہو ہو ہو۔۔ ِا سکا مطلب تم ننگی ہو۔۔! ذرا سوچو۔۔ کوئی تمہیں زبردستی ِل ٹا کر تمہاری 'دیکھ' لے تو"
اسکے بعد تو مجھ سے وہاں کھڑا ہی نہیں رہا گیا۔۔ پلٹ کر میں نیچے بھاگ آئی اور گھر کے دروازے پر کھڑی ہو
گئی۔۔ میرا ِد ل میرے اکڑے ہوئے مموں کے ساتھ تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔
کچھ ہی دیر میں وہ نیچے آیا اور میری برابر میں کھڑا ہوکر میری طرف دیکھے بغیربوال "،اسکول میں تمہارے
کرتوتوں کے کافی چرچے سنے ہیں میں نے۔۔ وہاں تو بڑی پھدکتِی ہے تو۔۔ یاد رکھنا لڑکِی ۔۔ تیری ماں کو بھی
چودا ہے میں نے۔۔ پتا ہے نا۔۔؟ آج نہیں تو کل۔۔ تجھے بھی اپنے لنڈ پر ِب ٹھا کر ہی رہوںگا۔۔" اور وہ ِن کل گیا۔۔
ڈر اور ہوس کی تمتماہٹ میرے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی۔۔ میں نے دروازہ جھٹ سے بند ِک یا اور
بدحواس سی بھاگتے بھاگتے اوپر آ گئی۔۔ مجھے میری چڈی کہیں بھی نہیں ِم لی۔۔ لیکن اس وقت مجھے چڈی
سے زیادہ مجھے چڈی والی کی ِف کر تھی۔۔ اوپر واال دروازہ بند ِک یا اور شیشے کے سامنے بیٹھ گئی اور دوبارہ
اپنی رانیں پھیالکر اپنی چوت کو اپنی انگلیوں سے مسلنے لگی۔
اسکے نام پر مت جانا۔۔ وہ کہتے ہیں نا! آنکھ کا اندھا اور نام نین سکھ۔۔ سندر ِب لکل ایسا ہی تھا۔۔ ایک دم کاال
کلوٹا۔۔ اور 6فٹ سے بھی لمبا تڑنگا سانڈ! مجھے اس'سے گِھ ن تو تھی ہی۔۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔۔ مجھے تو
دیکھتے ہی وہ ایسے گھورتا تھا جیسے اسکی آنکھوں میں ایکس رے لگا ہو اور مجھ کو وہ ننگا کرکے دیکھ رہا
ہو۔۔ اسکی جگہ اور کوئی بھی اس وقت اوپر آیا ہوتا تو میں اس کو پیار سے اندر ِب ٹھا کر چائے ِپ التی اور اپنے
جسم کی نمائش کرنا شروع کر دیتی۔۔ لیکن اس'سے تو مجھے ِا س دِن یا میں سب سے زیادہ نفرت تھی۔۔
اسکی بھی ایک وجہ تھی۔۔
تقریبًا 10سال پہلے کی بات ہے۔۔ میں 6-5سال کی ہی تھی۔ ممی کوئی 30کی ہونگی اور وہ حرمزادہ سندر
20کے آس پاس۔ لمبا تو وہ اس وقت بھی ِا تنا ہی تھا ،لیکن ِا تنا تگڑا نہیں تھا۔۔۔
سرِد یوں کی بات ہے یہ۔۔ میں اس وقت اپنی دادی کے پاس نیچے ہی سوتی تھی۔۔ نیچے تب تک کوئی الگ کمرا
نہیں تھا۔۔ 18بائی 30کی چھت کے نیچے ِص رف اوپر جانے کے ِل ئے زینہ بنا ہوا تھا۔۔رات کو ان سے روز راجا-
رانی کی کہاِن یاں سنتی اور پِھ ر ان کے ساتھ ہی دبک جاتی۔۔ جب بھی پاپا مار پیٹ کرتے تھے تو ممی نیچے ہی
آکر سو جاتی تھی۔۔ اس رات بھی ممی نے اپنی چارپائی نیچے ہی ڈال لی تھی۔۔
ہمارا دروازہ کھلتے وقت کافی آواز کرتا تھا۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز سے ہی شائد میری نیند کھل گئی ۔۔۔
مان بھی جا اب۔۔ ِ 15م ِن ٹ سے زیادہ نہیں لگاؤں گا۔۔" یہی آواز آئی تھی مجھے۔۔ میری نیند اب پوری طرح"
کھل گئی تھی۔۔ مردانہ آواز کی وجہ سے پہلے مجھے لگا کِہ پاپا ہیں۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اپنی رضائی میں
سے جھانکا; میرا بھرم ٹوٹ گیا۔۔ نیچے اندھیرا تھا۔۔ لیکن باہر سٹریٹ الئیٹ ہونے کی وجہ سے دھندال دھندال
ِد کھائی دے رہا تھا۔۔
پاپا تو ِا تنے لمبے ہیں ہی نہیں۔۔!" میں نے دل ہی دل میں سوچا۔۔"
وہ ممی کو دیوار سے ِچ پکائے ان'سے چپکا ہوا کھڑا تھا۔۔ ممی اپنی پوری طاقت سے اپنے ہاتھوں سے اسکو
ِپ یچھے دھکیلنے کی کوِش ش کر رہی تھیں۔۔
دیکھ چاچی۔۔ اس ِد ن بھی تونے مجھے ایسے ہی ٹرخا ِد یا تھا۔۔ میں آج بڑی امید کے ساتھ آیا ہوں۔۔ آج تو"
تجھے دینی ہی پڑیگی۔۔!" وہ بوال۔۔۔
تم پاگل ہو گئے ہو کیا سندر؟ یہ بھی کوئی ٹائم ہے۔۔تیرا چاچا مجھے جان سے مار دیگا۔۔۔ تم جلدی سے 'وہ' کام"
بولو ِج س کے ِل ئے تمہیں ِا س وقت آنا ضروری تھا۔۔ اور جاؤ یہاں سے۔۔!" ممی پھسپھسائی۔۔
کام بولنے کا نہیں۔۔ کرنے کا ہے چاچی۔۔ ِا ففففہ۔۔" ِس سکی سی لے کر وہ دوبارہ ممی سے ِچ پک گیا۔۔"
اس وقت میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ممی اور سندر میں یہ چھینا جھپٹی کیوں ہو رہی ہے۔۔میرا ِد ل
دھڑکنے لگا۔۔ لیکن میں ڈر کے مارے سانس روکے سب دیکھتی اور سنتی رہی۔۔
نہیں۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔ اپنے ساتھ مجھے بھی مرواؤگے۔۔" ممی کی پھسپھساہٹ بھی انکی سریلی آواز کی وجہ"
سے صاف سمجھ میں آ رہی تھی۔۔۔
وہ لوڑو میرا کیا ِب گاڑ لے گا۔۔ تم تو ویسے بھی مروگی اگر آج میرا کام نہیں کروایا تو۔۔ میں کل اسکو بتا دوں"
گا کی میں نے تمہیں باجرے والے کھیت میں اِن یل کے ساتھ پکڑا تھا۔۔۔" سندر اپنی گھِٹ یا سی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔
میں۔۔ میں منع تو نہیں کر رہی سندر۔۔ کر لوں گی تیرے ساتھ بھی۔۔ لیکن یہاں کیسے کروں۔۔ اس کی ماں"
میری ساس لیٹی ہوئی ہے۔۔ اٹھ گئی تو؟" ممی نے گِھ گِھ یاتے ہوئے کہا۔ اب ممی نے بہانے بنانا چھوڑ دیا تھا۔
کیا بات کر رہی ہو چاچی؟ ِا س بڑِھ یا کو تو ِد ن میں بھی ِد کھائی سنائی نہیں دیتا کچھ۔۔ اب اندھیرے میں"
ِا سکو کیا پتا لگے گا۔۔" سندر سچ کہہ رہا تھا۔۔۔
پر چھوٹی بھی تو یہیں ہے۔۔ میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔" ممی ِگ ڑِگ ڈائی۔۔"
وہ تو بچی ہے۔۔ اٹھ بھی گئی تو ِا سکی سمجھ میں کیا آئیگا؟ ویسے بھی وہ تمہاری الڈلی ہے۔۔ بول دینا ِک سی"
کو نہیں بتائیگی۔۔ اب دیر مت کرو۔۔ ِج تنی دیر کروگی۔۔ تمہارا ہی نقصان ہوگا۔۔ میرے لنڈ کا پانی تو کھڑے
کھڑے ہی ِن کلنے واال ہے۔۔ اگر ایک بار ِن کل گیا تو آدھے پونے گھنٹے سے پہلے نہیں چھوٹے گا پھر۔۔ پہلے سے بتا
"رہا ہوں۔۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ 'ِن کلنا' چھوٹنا' کیا ہوتا ہے۔۔ پِھ ر بھی میں ِد لچسپی سے انکی باتیں سن
رہی تھی۔۔۔۔
تم پرسوں کھیت میں آ جانا ناں۔۔ تیرے چاچا کو شہر جانا ہے۔۔ میں اس دن اکیلی ہی ہونگی۔۔ سمجھنے کی"
کوِش ش کر سندر۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی۔۔۔" ممی نے پِھ ر اس کو سمجھانے کی کوِش ش کی۔۔۔
تمہے میں ہی ِم ال ہوں چوِت یا بنانے کے ِل ئے؟۔۔ اِن یل بتا رہا تھا کہ اس نے تمہاری چوت اس کے بعد بھی دو بار "
ماری ہے۔۔ اور مجھے ہر بار ٹرخا دیتی ہو۔۔ پرسوں کی پرسوں دیکھیں گے۔۔۔ اب تو میرے ِل ئے تو ایک ایک پل
کاٹنا مشِک ل ہو رہا ہے۔۔ تمہیں نہیں پتا چاچی۔۔ تمہاری گول گول گانڈ دیکھ کر ہی جوان ہوا ہوں۔۔ ہمیشہ سے
خیالوں میں سوچتا تھا کہ ِک سی ِد ن تمہاری ِچ کنی رانوں کو سہالتے ہوئے تمہاری رسیلی چوت چاٹنے کا موقع
ِم لے۔۔ اور تمہارے موٹے موٹے چوتڑوں کی کساوٹ کو مسلتا ہوا تمہاری گانڈ میں انگلی ڈال کر دیکھوں۔۔ سچ
کہتا ہوں ،آج اگر تم نے مجھے اپنی چوت مارنے سے روکا تو یا تو میں نہیں رہوں گا۔۔ یا تم نہیں رہوگی۔۔ لو
"!پکڑو ِا سکو۔۔ پکڑ ناں میرے لنڈ کو
اب جاکر مجھے سمجھ میں آیا کِہ وہ میری خوبصورت ممی کو 'گندی' بات کرنے کے ِل ئے کہہ رہا ہے۔۔ انکی
حرکتیں ِا تنی صاف ِد کھائی نہیں دے رہی تھیں مجھے۔۔ لیکن اتنا ضرور دکھائی دے رہا تھا کہ دونوں آپس میں
گتھم گتھا ہیں۔۔ میں آنکھیں پھاڑے زیادہ سے زیادہ دیکھنے کی کوِش ش کرتی رہی۔۔۔
تیرا لنڈ ہے یا گدھے کا لوڑا۔۔ تیرا لنڈ تو بہت بڑا ہے۔۔ میں نے تو آج تک ِک سی آدمی کا اتنا بڑا لنڈ نہیں دیکھا۔۔۔""
ممی نے کہا۔۔۔
بڑا ہے چاچی تب ہی تو تمہیں زیادہ مزہ آئیگا۔۔ فکر نہ کرو۔۔ میں ِا س طرح کروں گا کِہ تمہیں ساری عمر یاد"
رہے گی اپنی چدائی۔۔ ویسے چاچا کا لنڈ ِک تنا بڑا ہے؟" سندر نے خوش ہوکر کہا۔۔اب وہ پلٹ کر خود دیوار سے
لگ گیا تھا اور ممی کی کمر میری طرف کر دی تھی۔۔ممی نے شاید اسکا کہنا مان ِل یا تھا۔۔۔
آہستہ بول نہ حرامی۔۔۔۔" ممی اسکے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔ اور کچھ دیر بعد بولی "،ان کا تو پورا کھڑا"
ہونے پر بھی ِا س'سے چھوٹا ہی رہتا ہے۔۔ سچ بتاؤں؟ ان کا لنڈ آج تک میری چوت کے اندر نہیں جھڑا۔۔" ممی
بھی اسکی طرح گندی گندی باتیں کرنے لگی تھیں۔۔ میں حیران تھی۔۔ لیکن مجھے مزہ بھی آ رہا تھا۔۔ میں
مزے لیتی رہی۔۔۔
واہ چاچی۔۔ پِھ ر یہ گوری ِچ کنی دو لونِڈ یاں اور وہ لٹو کہاں سے پیدا کر ِد ئے۔۔" سندر نے پوچھا۔۔ لیکن میری"
سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔۔۔
سب ہی تم جیسوں کی اوالدیں ہیں۔۔ میری مجبوری تھی۔۔میں کیا یونہی بیوفا ہو گئی۔۔؟" کہنے کے بعد ممی"
نے کچھ ایسا ِک یا کہ سندر اچھل پڑا۔۔۔
آہہہ آہہہہ۔۔ یہ کیا کر رہی ہو چاچیییی۔۔ مارنے کا ِا رادہ ہے کیا؟" سندر تھوڑی تیز آواز میں بوال۔۔۔"
میں کیا کروں؟ میرے منہ میں تو گھس ہی نہیں رہا تیرا لنڈ۔۔ باہر سے ہی کھا لوں تھوڑا سا!" اسکے ساتھ ہی"
ممی بھدے سے طریقے سے ہنسی۔۔۔
ارے تو ِا تنا زور سے کیوں چوس رہی ہے رنڈی۔۔ زبان ِن کال کر میرے لنڈ کو نیچے سے اوپر تک چاٹ لے نا۔۔!""
سندر نے کہا۔۔۔
ٹھیک ہے۔۔ لیکن ابھی جھڑنا نہیں اپنی منی ِن کلنے مت دینا۔۔ مجھے اتنا گرم کرکے بھاگ مت جانا۔۔" ممی نے ِس ر"
اوپر اٹھاکر کہا اور پِھ ر اسکی رانوں کی طرف منہ گھما ِل یا۔۔۔
مجھے آدھی ادھوری باتیں سمجھ آ رہی تھی۔۔ لیکن ان میں بھی مزہ ِا تنا آ رہا تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اپنی
رانوں کے بیچ دبا ِل یا تھا۔۔۔ اور اپنی رانوں کو ایک دوسری سے رگڑنے لگی۔۔ اس وقت مجھے نہیں پتا تھا کہ
مجھے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔
اچانک ہمارے گھر کے سامنے سے ایک ٹریکٹر گذرا۔۔ اسکی روشنی کچھ پل کے ِل ئے گھر میں پھیل گی۔۔ ممی ڈر
کر ایک دم الگ ہٹ گئی۔۔ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا ،میرا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔۔
سندر کا ِل نڈ گدھے کے 'لنڈ' کی طرح بھاری بھرکم ،بھیانک اور اسکے چہرے کے رنگ سے بھی زیادہ کاال کلوٹا
تھا۔۔وہ سانپ کی طرح سامنے کی طرف اپنا پھن سا پھیالئے سیدھا تناکھڑا تھا۔۔ اس کے لنڈ کا اگال حصہ ٹماٹر
کی طرح الگ ہی ِد کھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو میں ڈر ہی گئی تھی۔۔ میں نے اس'سے پہلے کئی بار چھوٹو
بھیا کی 'للی' دیکھی تھی۔۔ لیکن وہ تو مشِک ل سے ِ 2ا نچ کی تھی۔۔ دوبارہ اندھیرا چھا جانے کے باوجود اس
حرامی کا اکڑا ہوا لنڈ میری آنکھوں کے سامنے ناچتا رہا۔۔
کیا ہوا ؟ ہٹ کیوں گئی چاچی۔۔ ِک تنا مزہ آ رہا ہے۔۔ تم تو کمال کا چاٹتی ہو۔۔!" یہ کہہ کر سندر نے ممی کے"
بالوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ ِل یا۔۔۔
کچھ نہیں ناں۔۔رکو ایک ِم ِن ٹ۔۔۔ الئیٹ آن کر لوں؟ تمہارا لنڈ دیکھے بغیرمجھے اتنا مزہ نہیں آ رہا۔۔ " ممی نے"
کھڑا ہوکر کہا۔۔
مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ تم اپنی دیکھ لو چاچی۔۔!" سنڈر نے کہا۔۔۔"
ایک ِم ِن ٹ۔۔!" کہکر ممی میری طرف آئی۔۔ میں نے گھبراکر اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔ ممی نے میرے پاس آکر"
جھک کر دیکھا اور مجھے تھپکی سی دیکر رضائی میرے منہ پر ڈال دی۔۔
کچھ ہی دیر بعد رضائی میں سے چھن چھن کر روشنی مجھ تک پہنچنے لگی۔۔ میں بے چین سی ہو گئی۔۔
میرے کانوں میں 'سپڑ سپڑ لپڑ لپڑ' اور خوبصورت کی ہلکی ہلکی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔۔ منہ ڈھک کر
سونے کی تو مجھے ویسے بھی عادت نہیں تھی۔۔ پِھ ر مجھے سارا 'تماشا' دیکھنے کی طلب بھی ہو رہی تھی۔۔
کچھ ہی دیر بعد میں نے ِب ستر اور رضائی کے بیچ تھوڑی سی جھری بنائی اور ان دونوں کو دیکھنے لگی۔۔
میرے حیرت کا کوئی ٹِھ کانا نہ رہا۔۔ "یہ ممی کیا کر رہی ہیں؟" میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آیا۔۔۔
گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ممی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سندر کا بھیانک لنڈ اوپر اٹھا رکھا تھا اور
سندر کے لوڑے کے نیچے لٹکنے والے موٹے موٹے گولوں کو باری باری سے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع
کردیا۔۔
میری گِھ گھی بندھتی جا رہی تھی۔۔ سب کچھ میرے ِل ئے ایک بھیانک خواب جیسا تھا۔۔ میں تو اپنی پلکیں تک
جھپکنا بھول چکی تھی۔۔۔
سندر کھڑا کھڑا ممی کا ِس ر پکڑے ِس سک رہا تھا۔۔ اور ممی بار بار اوپر دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔ اس حرامی
سندر کی آنکھیں پوری طرح بند تھی۔۔ ِا سی ِل ئے میں نے رضائی کو تھوڑا سا اور اوپر اٹھا ِل یا۔۔۔
کچھ دیر بعد ممی نے اس کے ٹٹوں کو چھوڑ کر اپنی پوری زبان باہر ِن کالی اور سندرکے ِل نڈ کو نیچے سے اوپر
تک چاٹنا شروع کردیا۔۔ جیسے وہ کوئی آئیسکریم ہو۔
اوہہہہ اوہ! اوہ!۔۔ رک جا چاچی افہہ۔۔ میری رنڈی چاچی میرا پانی ِن کل جائیگا۔۔!" سندر کی ٹانگیں کانپ رہی"
تھیں۔۔ لیکن ممی بار بار اوپر نیچے نیچے اوپر چاٹتی رہی۔۔ سندر کا پورا ِل نڈ ممی کے تھوک سے گیال ہوکر
چمکنے لگا تھا۔۔
تیرے پاس ِک تنا ٹائم ہے؟" ممی نے بہت پیار سے اس کے لوڑے کو ہاتھ سے سہالتے ہوئے پوچھا۔۔۔"
میرے پاس تو پوری رات ہے چاچی۔۔ تمہاراکیا ِا رادہ ہے؟" سندر نے سانس بھر کر کہا۔۔"
تو ِن کل جانے دے بھڑوے نکال اپنا پانی میرے منہ میں۔۔ جھڑ جا۔۔" ممی نے کہا اور ِل نڈ کے سپارے کو منہ سے"
لگا کر اپنے ہاتھ کو اس کے پورے لنڈ پر۔۔تیزی سے آگے ِپ یچھے کرنے لگی۔۔
اچانک سندر نے اپنے گھٹنوں کو تھوڑا سا موڑا اور دیوار سے چپک کر ممی کے بالوں کو کھینچتے ہوئے اپنے
لوڑے کو ان کے منہ میں ٹھونسنے کی کوِش ش کرنے لگا۔۔ 'ٹماٹر' واال حصہ تو ممی کے منہ میں گھس بھی گیا
تھا۔۔ لیکن شاید ممی کا دم گھٹنے لگا اور انہوں نے ِک سی طرح اسکو اپنے منہ سے باہر ِن کال ِد یا۔۔
سندر کے لنڈ نے اچانک ہی ممی کے چہرے پر گاڑھی گاڑھی منی کی ِپ چکاِریاں چھوڑنا شروع کر دیں تھیں۔۔ ۔۔
ممی نے دوبارہ اس کے لوڑے کے سپارے کو اپنا منہ کھول کرسندر کی منی کو مزے لے لے کر گھونٹ بھرنے
"شروع کردئے۔۔ جب کھیل ختم ہو گیا تو ممی نے ہنستے ہوئے کہا "،سارا چہرہ گندہ کر ِد یا۔۔
میں تو تیرے منہ کے اندر ہی جھڑنا چاہتا تھا چاچی۔۔ تم نے ہی منہ ہٹا ِل یا۔۔" سندر کے چہرے سے سکون کِی "
جھلک آ رہی تھی۔۔۔
کمال کا لوڑا ہے تیرا۔۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں نہ تڑپاتِی ۔۔" ممی نے ِص رف ِا تنا ہی کہا اور"
سندر کی شرٹ سے اپنے چہرے کو صاف کرنے لگی۔۔۔
مجھے تو تب تک ِا تنا ہی پتا تھا کہ 'للی' موتنے کے کام آتی ہے۔۔ آج پہلی بار پتا چال ِک 'یہ' اور کچھ بھی
چھوڑتا ہے۔۔ جو بہت میٹھا ہوتا ہوگا۔۔ تبھی تو ممی نے چٹخارے لے لے کر اس کو پہلے تو پیا اور پھر بعد میں
بھی چاٹتی رہی۔۔
اب میری باری ہے۔۔ کپڑے اتار چاچی جی۔۔" سندر نے ممی کو کھڑا کرکے انکے چوتڑ اپنے ہاتھوں میں پکڑ ِل ئے۔۔۔"
تم پاگل ہو کیا؟ پرسوں میں تیرے سارے شکوے ختم کردوں گی۔۔ آجِ صرف میری شلوار نیچے کرکے 'چود'"
لو۔۔" ممی نے اپنا ناڑا ڈھیال کرتے ہوئے کہا۔۔
انکی باتوں کی وجہ سے میرا گندے الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔
دل تو کر رہا ہے چاچی کِہ تمہیں ابھی ننگی کرکے کھا جاؤں! لیکن خیر اپنا وعدہ یاد رکھنا۔۔ پرسوں کھیت"
واال۔۔" سندر نے کہا اور ممی کو اپنے سامنے کتیا بنا کرجھکانے لگا۔۔ لیکن ممی تو جانتی تھی۔۔ ہلکا سا ِا شارا
ِم لتے ہی ممی نے الٹی ہوکر جھکتے ہوئے اپنی کہِن یاں فرش پر ٹکالیں اور گھٹنوں کے بل ہوکر رانوں کو کھولتے
ہوئے اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا ِل یا۔
سندر ممی کا دیوانا یوں ہی نہیں تھا۔۔ نہ ہی اس نے ممی کی جھوٹی تعریف کی تھی۔۔ آج بھی ممی جب
چلتی ہیں تو دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔ چلتے ہوئے ممی کے چوتڑ ایسے تِھ رکتے ہیں جیسے چوتڑ نہ
ہوں کوئی طبلہ ہو جو ہلکی سی تھاپ سے ہی پورا کانپنے لگتا ہے۔۔ کٹورے کی سی گوالئی رکھنے والے دونوں
چوتڑوں کی غضب کی اٹھان اور انکے بیچ کی دراڑ; سب پر ہی غضب ڈھاتے تھے۔۔
!ممی کے کسے ہوئے جسم کی دودِھ یا رنگت اور اس پر انکی قاِت ل ادائیں; کیوں نہ مر ِم ٹیں لوگ
خیر ،ممی کے کہِن یوں اور گھٹنوں کے بل جھکتے ہی سندر انکی گانڈ کے ِپ یچھے بیٹھ گیا۔۔ اگلے ہی پل اس نے
ممی کے چوتڑوں پر تھپکی مار کر شلوار اور پینٹی کو نیچے کھینچ ِد یا۔ ِا سکے ساتھ ہی سندر کے منہ سے رال
ٹپکنے لگی "،کیا غضب کے گورے کسے ہوئے چوتڑ ہیں چاچی تیرے۔۔!" یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ
ممی کے چوتڑوں سے ِچ پکا کر انہیں سہالنا شروع کر ِد یا۔۔
ممی مجھ سے ِ 90ڈ گری کے اینگل پر جھکی ہوئی تھیںِ ،ا سی ِل ئے مجھے ان کے اونچے اٹھے ہوئے چوتڑوں کے
عالوہ کچھ ِد کھائی نہیں دے رہا تھا۔۔ لیکن میں ٹکٹکی لگائے تماشا دیکھتی رہی۔۔۔
ہائے چاچی! تیری چوت ِک تنی رسیلی ہے ابھی تک۔۔ ِا سکو تو بڑے پیار سے ٹھوکنا پڑے گا۔۔ پہلے تھوڑی چوس"
لوں۔۔" اس نے اتنا کہا اور ممی کے چوتڑوں کے درمیان اپنا چہرہ گھسا ِد یا۔۔۔ ممی ِس سکتے ہوئے اپنے چوتڑوں
کو گال گول دائرے میں گھمانے کی کوِش ش کرنے لگی۔۔
آاییشہہ۔۔اب اور مت تڑپا سندر۔آنہہہہ۔۔۔ میری چوت بالکل تیار ہے چدنے کے لئے ماں کے خصم۔۔ گھسیڑ دے اپنا"
"!لنڈ میری چوت کے اندر
ایسے کیسے ٹھوک دوں اندر چاچی۔۔؟ ابھی تو پوری رات پڑی ہے۔۔۔" سندر نے چہرہ اٹھاکر کہا اور پِھ ر سے زبان"
ِن کال کر چہرہ ممی کی رانوں میں گھسا ِد یا۔۔
سمجھا کرو سندر۔۔ آآہ۔۔فرش مجھے چبھ رہا ہے۔۔ تھوڑی جلدی کر مادرچود۔۔!" ممی نے اپنا چہرہ ِب لکل فرش"
"!سے ہٹا ِل یا۔۔ انکے 'دودھ' فرش پر ِٹ ک گئے۔۔ "،اچھا رک۔۔ ایک ِم ِن ٹ رک ناں۔۔ مجھے کھڑی تو ہونے دے۔۔
ممی کے کہتے ہی سندر نے کسی اچھے بچے کی طرح انہیں چھوڑ ِد یا۔۔ اور ممی نے کھڑا ہوکر میری طرف منہ
کر ِل یا۔۔
جیسے ہی سندر نے انکی قمیض اوپر اٹھائی۔۔ ممی کی پوری رانیں اور ان کے درمیان چھپی چھوٹے چھوٹے
کالے بالوں والی موٹی چوت کی پھانکیں میرے سامنے آ گئیں۔۔ ایک بار تو خود میں ہی شرما گئی۔۔ گرِم یوں
میں جب میں کئِی بار چھوٹو کے سامنے ننگی ہی باتھ روم سے ِن کل آتی تو ممی مجھے 'شیم شیم' کہہ کر
ِچ ڑھاتی تھیں۔۔ پِھ ر آج کیوں اپنی شیم شیم کو اس حرامی لڑکے کے سامنے ننگا کر ِد یا; اس وقت یہ سب کچھ
میری سمجھ سے باہر تھا۔۔۔
سندر گھٹنے ٹیک کر ممی کے سامنے میری طرف پیٹھ کرکے بیٹھ گیا اور ممی کی چوت میری نظروں سے
چھپ گئی۔۔ اگلے ہی پل ممی آنکھیں بند کرکے ِس سکنے لگی۔۔ انکے منہ سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھی۔۔
میں حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔
بس-بس۔۔ مجھ سے کھڑا نہیں رہا جا رہا سندر۔۔ دیوار کا سہارا لینے دے۔۔" ،ممی نے کہا اور سائیڈ میں ہوکر"
دیوار سے پیٹھ چپکا کر کھڑی ہو گئیں۔۔ انہوں نے اپنے ایک پیر سے شلوار بِا لکل اتار دی تھی اور سندر جیسے
ہی انکے سامنے بیٹھا ویسے ہی اپنی ننگی ٹانگ اٹھاکر سندر کے کندھے پر رکھ دی۔۔
اب سندر کا چہرہ اور ممی کی چوت مجھے بالکل صاف ِد کھائی دے رہے تھے۔۔ ہائے! سندر نے اپنی زبان باہر
ِن کالی اور ممی کی چوت میں گھسیڑ دی۔۔ ممی دوبارہ سے ِس سکنے لگی۔۔ ممی نے سندر کا ِس ر کس کر پکڑ رکھا
تھا اور سندر اپنی زبان کو کبھی اندر باہر اور کبھی اوپر نیچے کر رہا تھا۔۔
خود بخود میرے ہاتھ اپنی شلوار میں چلے گئے۔۔ میں نے دیکھا کہ میری چوت بھی ِچ پِچ پی سی ہو رھی ہے۔۔
میں نے اس کو صاف کرنے کی کوِش ش کی تو مجھے بہت مزہ آیا۔۔
لیکن اصل مزہ تو ممی سندر سے لے رہی تھیں جو ان کی چکنی چوت کو مزے لے لے کر چاٹ رہا تھا ممی نے
سندر کے سر کو کس کر پکڑا ہوا تھا جیسے وہ ان کی چوت چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے گا لیکن سندر نے ان کو
اس وقت نہ چھوڑا جب تک ان کی ٹانگیں کپکپا نہ گئیں اور وہ سسک سسک کر بے سدھ نہ ہوگئیں اب سندر
نے ممی کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور اپنا ناگ جیسا تنا لنڈ ایک ہی جھٹکے میں ممی کی
چوت میں چڑھا دیا ممی کی چیخ نکل گئی اور وہ غصے سے بولیں
بہن چود کہیں بھاگی جارہی ہوں کیا چوت پھاڑے گا میری
لیکن سندر نے تیز جھٹکے مارنے جاری رکھے ممی کی چوت واقعی پھٹ چکی تھی لیکن تھوڑی دیر چیخ وپکار
کے بعد ان کی لذت آمیز سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں
آہ سندر رگڑ دے میری چوت کو آج لگا ہے کہ کسی مرد نے مجھے چودا ہے
سندر کے زوردار جھٹکوں سے دھپ دھپ پچ پچ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ممی کی سسکاریاں اور ان کی
ننگی گالیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ حاالنکہ سندر ممی کو چودنے میں کوئی رعایت نہیں کررہا تھا مگر
ممی مسلسل اس کو اکسا رہی تھیں
تیرا لنڈ تو سندر بہت جاندار ہے میرے شوہر کا لنڈ تو لنڈ ہی نہیں بلکہ للی ہے جو میری چوت کی پیاس نہیں
بجھا سکتی
سندر بوال :اور انیل کا؟
تو ممی بولیں :ہاں گزارہ ہے لیکن تیرے لنڈ جیسا پھر بھی نہیں مجھے پہلے پتہ ہوتا تو تجھ سے کب کی چد
جاتی
تو پھر لے مزے۔ سندر نے یہ بول کر ممی کو گھوڑی بنا کر چودنا شروع کردیا
گھوڑی بناکر چودنے سے اب مجھے ممی کے خوبصورت بھاری چوتڑ ہلتے ہوئے اور سندر کا لنڈ اندر باہر ہوتا نظر
آرہا تھا سندر تھوڑی تھوڑی دیر میں ان ہلتے ہوئے چوتڑوں پر تھپڑ بھی رسید کررہا تھا جس سے ممی کے
گورے چوتڑ الل ہوگئے تھے تھپڑ کھا کر ممی سسکتی ضرور تھیں لیکن سندر کو منع نہیں کررہی تھیں شاید
ان کو اس میں کوئی مزہ مل رہا ہو؟ کچھ دیر بعد سندر نے لنڈ کو چوت سے باہر نکال لیا اور ممی کے چوتڑ
کھول کر ان کی گانڈ پر تھوک دیا اور پھر ان کو چودنے لگا لیکن اس نے جو کیا اس وقت سمجھ نہ آیا بعد
میں پتہ چال کہ وہ ممی کی گانڈ مار رہا تھا ممی پہلے بلبالئیں اور بولیں
نہیں سندر یہاں نہیں
مگر سندر نے ان کی ایک نہ سنی اور جھٹکے مارنے شروع کردیے ممی کی گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں
ساتھ میں وہ سندر کو ننگی گالیاں بھی دے رہی تھیں
.....مادر چود کیا گانڈ بھی پھاڑے گا میری ..بھڑوے آہ آہ
سندر ممی کے چوتڑ پکڑ کر جھٹکے مارتا رہا کچھ دیر میں سندر نے غرانا شروع کردیا اور جھٹکے مارنا تیز
کردیے ممی بھی اب چیخنے لگی تھیں
بہن چوددددد ....آہ آہ آہ
اب سندر کی آہ آہ کی آواز نکلی اور اس نے ممی کو کس کر پکڑ لیا اور پھر کچھ دیر بعد پیچھے ہٹ کر گہری
گہری سانسیں لینے لگا
ممی نے فٹافٹ اپنی شلوار قمیض کو ٹھیک کیا اور بولیں
مادر چود کرلی نہ اپنی من مانی
سندر بوال
چاچی تیری ننگی گانڈ دیکھ کر کیا ایسے ہی چھوڑ دیتا۔ چل اب چلتا ہوں پرسوں کھیت واال وعدہ یاد ہے نہ؟
ہاں یاد ہے چل اب نکل۔ ممی بولیں
پھر دو دن کھیت میں کیا کچھ ہوا مجھے پتہ نہیں چال یقینًا سندر نے ممی کی مست جوانی کو خوب لوٹا
ہوگا اب دس سال گزرنے کے بعد بھی سندر ہمارے ہاں آتا رہتا ہے اس عرصے میں اس نے ممی کے نشیب و فراز
کی اچھی طرح سیر کرلی تھی اور اب میرے چپے چپے کو کھوجنا چاہتا تھا لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا
اپنی جوانی کسی صورت سندر کے حوالے نہیں کروں گی لیکن یہ تو آنے واال وقت ہی فیصلہ کرے گا۔۔ لیکن
جو بھی ہوگا آپ سے ضرور شئیر کروں گی۔
ختم شد