You are on page 1of 16

‫بالی عمر کی پیاس‬

‫کہانی ‪:‬بالی عمر کی پیاس‬

‫میں آج آٹھویں جماعت میں پہنچ گئی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک میں بِا لکل 'فلیٹ' تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اور‬
‫ِپ یچھے سے بھی۔ لیکن اسکول بس میں آتے جاتے ہوئے لڑکوں کے کندھوں کی رگڑ کھا کھا کر مجھے پتا ہی‬
‫نہیں چال کہ کب میرے کولہوں اور چھاتیوں پر گوشت چڑھ گیا۔۔ اتنی کم عمر میں ہی میرے چوتڑ بیچ سے‬
‫کٹے ہوئے اسپرنگ لگے ہوئے ایک گول تربوز کی طرح ابھر گئے۔ میری چھاتیاں بھی اب 'امرودوں' سے بڑی ہوکر‬
‫موٹے موٹے 'سنگتروں' جیسے ہو گئے تھے۔ میں کئِی بار باتھ روم میں ننگی ہوکر حیرت سے انہیں دیکھا کرتی‬
‫تھی۔۔ چھو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مجھے ایسا کرتے ہوئے عجیب سا مزہ آتا ۔۔ 'وہاں بھی۔۔ اور نیچے چوت میں‬
‫بھی۔‬
‫میرے گورے ِچ ٹ جسم پر اس چھوٹی سی چوت کو چھوڑکر کہیں بھی بالوں کا نام وِن شان تک نہیں تھا۔۔ ہلکے‬
‫ہلکے سے بال میری بغلوں میں بھی تھے۔ اسکے عالوہ گردن سے لیکر پیروں تک میں بالکل مکھن کی طرح‬
‫ِچ کنی تھی۔ کالس کے لڑکوں کو للچائی نظروں سے اپنی چھاتی لیکن جھولتے ہوئے 'سنگتروں' کو گھورتے‬
‫دیکھ کر میری رانوں کے بیچ چِھ پِی ہوئی ہلکے ہلکے بالوں والی‪ ،‬مگر ِچ کناہٹ سے بھری ہوئی ِت تلی کے پر‬
‫پھڑپھڑنے لگتے اور مموں پر گالبی رنگت کے 'انار دانے' تن کر کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔‬
‫ہاں‪ ،‬کبھی کبھار کچھ کچھ شرم آ جاتی تھی۔ یہ بھی نہیں آتی اگر ممی نے نہ بوال ہوتا‪"،‬اب تو بڑی ہو گئی ہے‬
‫"!انجو ۔۔ برا پہننی شروع کر دے اور شمیز بھی پہن ِل یا کر‬
‫سچ بتاؤں تو مجھے اپنے خوبصورت کسے ہوئے مموں کو برا میں قید کر کے رکھنا کبھی اچھا نہیں لگا اور نہ‬
‫ہی انکو شمیز کے پردے میں رکھنا۔ اسکول میں موقع ِم لتے ہی میں شمیز اور برا کو جان بوجھ کر اسکول کے‬
‫باتھ روم میں اتار آتی اور کالس میں منچلے لڑکوں کو اپنے مموں کے جلوے دیکھنے کے چکر میں ِا رد ِگ رد‬
‫منڈالتے ہوئے دیکھ کرخوب مزے لیتی۔۔ میں اکثر جان بوجھ کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر انگڑائیاں لیتی جس سے‬
‫میرے ممے تن کر جھولنے لگتے۔ اس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی۔۔ کچھ تو اپنے‬
‫ہونٹوں ایسے زبان پھیرنے لگتے جیسے موقع ِم لتے ہی مجھے نوچ ڈالیں گے۔ کالس کی ساری لڑِک یاں مجھ سے‬
‫جلنے لگی تھیں۔۔ حاالنکہ 'وہی' سب انکے پاس بھی تھا۔۔ لیکن میرے جیسا نہیں۔۔‬
‫میں پڑھائی میں ِب الکل بھی اچھِی نہیں تھی لیکن سارے مرد ٹیچروں کا 'پورا پیار' مجھے ِم لتا تھا۔ یہ انکا پیار‬
‫ہی تو تھا کہ ہوم‪-‬ورک نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسکراکر بغیر کچھ کہے چپ چاپ کاپی بند کرکے مجھے‬
‫پکڑا دیتے۔۔ باقی سب کی ِپ ٹائی ہوتی۔ لیکن ہاں‪ ،‬وہ میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانہ وصول کرنا‬
‫کبھی نہیں بھولتے تھے۔ ِج س ِک سی کا بھی خالی پیِر یڈ ِن کل آتا۔ِک سی نا ِک سی بہانے سے مجھے اکیلے میں سٹاف‬
‫روم میں بال لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے مجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے ِچ پکا ہوا‬
‫انکا دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ پِھ سلتا ہوا میرے چوتڑوں پر آِٹ کتا۔ مجھے پڑھائی کی 'طرف زیادہ' دھیان دینے کو‬
‫کہتے ہوئے وہ میرے چوتڑوں پر ہلکی ہلکی چپت لگاتے ہوئے میرے چوتڑوں کے تِھ رکنے کا مزہ لوٹتے رہتے۔۔‬
‫مجھے پڑھائی کے فائدے ِگ نواتے ہوئے اکثر وہ 'کھو' جاتے تھے‪ ،‬اور چپت لگانا بھول کر میرے چوتڑوں پر ہی‬
‫اپنے ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھار تو انکی انگلیاں سکرٹ کے اوپر سے ہی میری گانڈ کی دراڑ کی گہرائیوں کو‬
‫ناپنے کی کوِش ش کرنے لگتیں۔۔‬
‫انکا دھیان ہر وقت انکی تھپکیوں کی وجہ سے لگاتار تھرکتے ہوئے میرے مموں پر ہی ہوتا تھا۔۔ لیکن ِک سی نے‬
‫کبھی میرے مموں پر جھپٹا نہیں مارا۔ شاید وہ سب یہ سوچتے ہوں گے کہ کہیں میں ِب دک نہ جاوں۔۔ لیکن‬
‫میں انکو کبھی چاہ کر بھی یہ نہ بتا پائی کہ مجھے ایسا کرواتے ہوئی مجھے اپنی چوت میں میٹھا‪-‬میٹھا مزہ‬
‫آتا ہے۔۔‬
‫ہاں! ایک بات میں کبھی نہیں بھول پاؤنِگ ی۔۔ میرے ِہ سٹری کے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہوئے ایک ِد ن کمر‬
‫سے نہیں بلکہ میرے گھٹنوں سے چلنا شروع ہوا ۔۔ اور آہستہ آہستہ میری سکرٹ کے اندر گھس گیا۔ اپنی کیلے‬
‫کے تنے جیسی لمبی گوری اور ِچ کنی رانوں پر انکے 'کانپتے' ہوئے ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل اٹھی تھی۔۔‬
‫خوشی کے مارے میں نے آنکھیں بند کرکے اپنی رانیں کھول دیں اور انکے ہاتھ کواپنی رانوں کے بیچ میں اوپر‬
‫چڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ میری نازک سی چوت سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔‬
‫اچانک انہوں نے میری رانوں میں بری طرح پھنسی ہوئی 'ِن یکر' کے اندر انگلی گھسا دی۔۔ لیکن جلدبازی میں‬
‫غلطی سے انکی انگلی سیدھی میری ِچ کنی ہوکر ٹپکتی ہوئی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے بیچ میں گھسا دی۔۔‬
‫میں درد سے ِت لِم ال اٹھی۔۔ میں اس اچانک حملے کو برداشت نہ کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہوئے میں نے اپنے آپکو ان سے‬
‫چھڑایا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر کھڑی ہو گی۔۔ میری آنکھیں دبدبا گئی تھی۔۔‬
‫میں ِا س ساری پرکِر یا کے 'پیار سے' پِھ ر شروع ہونے کا ِا نتظار کر ہی رہی تھی کِہ 'وہ' ماسٹرصاحب میرے آگے‬
‫ہاتھ جوڑکر کھڑے ہو گئے‪"،‬پلیز انجِل ۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔ ِک سی سے کچھ مت کہنا۔۔‬
‫میری نوکری کا سوال ہے۔۔!" ِا س'سے پہلے میں کچھ بولنے کی ِہ مت کر پاتی; وہ بک بک کرتا ہوا سٹاف روم سے‬
‫بھاگ گیا۔۔ مجھے تڑپتا ہوِا چھوڑکر۔۔‬
‫اس کی انگلی نے میری چوت کی آگ کو ِا س قدر بھڑکایا کی میں ہر وقت اپنے جلووں سے لڑکوں کے ِد لوں میں‬
‫آگ لگانے اوراپنی چوت کی پیاس بجھانے کی جگاڑ میں رہنے لگی۔ ِا س کے ِل ئے میں نے اپنے جسم کی نمائش‬
‫کی مہم کو اور تیز کر ِد یا۔ انجان سی بن کر‪ ،‬کھجلی کرنے کے بہانے میں بینچ پر بیٹھی ہوئی سکرٹ میں ہاتھ‬
‫ڈال کر اسکو رانوں تک اوپر کِھ سکا لیتی اور کالس میں لڑکوں کی سیِٹ یاں بجنے لگتیں۔ اب سارا سارا ِد ن اپنا‬
‫دھیان صرف لڑکوں کی باتوں کی طرف رکھنے لگی۔ آج احساس ہوتا ہے کہ دوبارہ کسی مردسے اپنی چوت‬
‫میں انگلی کروانے کے چکر میں میں ِک تنی بدنام ہو گئی تھی۔‬
‫خیر میرا 'کام' جلد ہی بن جاتا اگر وہ جو کوئی بھی تھا میرے بیگ میں ِن ہایت ہی غلیظ زبان میں لکھا ہوا‬
‫خط ڈالنے سے پہلے مجھے بتا دیتا۔ کاش وہ خط میرے بھیا سے پہلے مجھے ِم ل جاتا! ' میرے گدھے بھائی نے‬
‫وہ خط سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا ِد یا‬

‫‪:‬رات کو نشے میں دھت پاپا نے مجھے اپنے سامنے کھڑی کرکے وہ خط اونچی آواز میں پڑھنے لگے‬
‫!ہائے جان من "‬
‫کیا کھاتی ہو یار؟ ِا تنی مست ہوتی جا رہی ہو کِہ سارے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا کے رکھ ِد یا۔ تمہارے پپیتے‬
‫جیسے مموں نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا‪ ،‬اب اپنی گوری ِچ کنی رانیں ِد کھا ِد کھا کر کیا ہماری جان لینے‬
‫کا ِا رادہ ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تم اپنے ساتھ 'ِا س' سال کے امتحانوں میں سب لڑکوں کو لے ڈوبوگی۔۔‬
‫لیکن مجھے تم سے کوئی ِگ ال یا شکوہ نہیں ہے۔ پہلے میں تمہارے زبردست مموں کو دیکھ دیکھ کر مست ہو‬
‫جاتا تھا; اب ننگی ِچ کنی رانیں دیکھ کر تو جیسے مر ہی گیا ہوں۔ پِھ ر پاس یا فیل ہونے کی پرواہ ِک سے ہے اگر‬
‫روز تمہارے جسم کا دیدار ہوتا رہے۔ ایک ِریکویسٹ ہے‪ ،‬پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اور اوپر کر ِد یا کرو‬
‫تاِک میں تمہاری گیلی چڈی کا رنگ دیکھ سکوں۔ سکول کے باتھروم میں جاکر تمیں یاد کرتے ہوئے اپنے لنڈ پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے تمہارے نام کی مٹھ لگاتا ہوں تو بار بار یہی سوال دل میں ابھرتا رہتا ہے کِہ تمہاری چڈی کا‬
‫رنگ کیا ہوگا۔۔ ِا س وجہ سے میرے لنڈ کا رس ِن کلنے میں دیر ہو جاتی ہے اور کالس میں ٹیچرس کی جھڑکیاں‬
‫سننِا پڑتی ہیں۔۔ پلیز‪،‬میری یہ بات یاد رکھنا‬
‫تمہاری قسم جان من‪ ،‬اب تو میرے سپنوں میں بھی پِر یانکا چوپڑا کی جگہ ننگی ہوکر تم ہی آنے لگی ہو۔ 'وہ'‬
‫تو اب مجھے تمہارے سامنے کچھ بھی نہیں لگتی۔ سونے سے پہلے ‪ 2‬بار خیالوں میں تمہیں پورا ننگا کرکے‬
‫چودتے ہوئے اپنے لنڈ کا رس ِن کلتا ہوں‪ ،‬پِھ ر بھی صبح میرا 'کچھ' گیال ِم لتا ہے۔ پِھ ر صبح ِب ستیر سے اٹھنے سے‬
‫پہلے تمہیں ایک بار ضرور یاد کر کے مٹھ لگاتا ہوں۔‬
‫میںنے سنا ہے کِہ لڑِک یوں میں چدائی کی بھوک لڑکوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تمہارے اندر بھی ہوگی‪ ،‬ہے نا؟‬
‫ویسے تو تمہاری چدائی کرنے کے ِل ئے سبھی کالس کے لڑکے اپنے لوڑوں کو تیل لگائے پِھ رتے ہیں لیکن تمہاری‬
‫قسم جان من‪ ،‬میں تمہیں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں‪ ،‬اصلی واال۔ ِک سی اور کے بہکاوے میں مت آنا‪ ،‬زیادہ تر‬
‫لڑکے چودتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ تمہاری کنواری چوت کو پھاڑ ڈالیں گے۔ لیکن میں سب کچھ پیار سے‬
‫کروں گا۔۔ تمہاری قسم۔ پہلے انگلی سے تمہاری چوت کو تھوڑا سا کھولوں گا اور چاٹ چاٹ کر اندر باہر سے‬
‫پوری طرح گیلی کر دوں گا۔۔ پِھ ر آہستہ آہستہ اپنا لنڈ اندر کرنے کی کوِش ش کروں گا‪ ،‬تم نے خوشی خوشی لے‬
‫ِل یا تو ٹھیک‪ ،‬ورنہ چھوڑ دوں گا۔۔ تمہاری قسم جان من۔‬
‫اگر تم نے اپنی چدائی کروانے کا موڈ بنا ِل یا ہو تو کل اپنا الل رومال لیکر آنا اور اسکو ِرسیس میں اپنے بینچ پر‬
‫!چھوڑ دینا۔ پِھ ر میں بتاؤنگا کِہ کب کہاں اور کیسے ِم لنا ہے‬
‫پلیز جان‪ ،‬ایک بار اپنی چوت کی خدمت کا موقع ضرور دینا۔ تم ہمیشہ یاد رکھوگی اور روز روز مجھ سے ہی‬
‫چدائی کروانے کا سوچوگی‪ ،‬میرا دعوٰی ہے۔‬
‫!تمہارا عاِش ق‬
‫لیٹر میں کھلی کھلی چدائی کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشہ کب کافور ہو گیا‪ ،‬خیر‪ ،‬خدا کا شکر ہے مجھے‬
‫انہوں نے یہ کہ کر ہی بخش ِد یا‪ "،‬کِت یا! مجھے یقین ہے کہ تو میری اوالد نہیں ہے۔ تو بھی اپنی ماں کی طرح‬
‫رنڈی ہے۔ آج کے بعد تو سکول نہیں جائے گی" یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ شکر! میں بچ‬
‫گئی۔‬

‫خیر‪ ،‬ہر روز کی طرح سکول کے ِل ئے تیار ہونے کا ٹائم ہوتے ہی میرے کسے ہوئے ممے پھڑکنے لگے; 'ِش کار' کی‬
‫تالش کا ٹائم ہوتے ہی ان میں عجیب سی گدگدی ہونے لگ جاتی تھی۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ روز کی طرح‬
‫رات کی وہ بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے ِس ر سے اتر گئی ہوگی۔ لیکن ہائے ری میری ِق سمت; ِا س بار ایسا‬
‫"!نہیں ہوا ‪ِ "،‬ک س ِل ئے ِا تنا پھدک رہی ہے رنڈی کی اوالد؟ چل میرے ساتھ کھیت میں‬
‫پر پاپا! میرے امتحان سر پر ہیں!" بے شرم ہو کر میں نے رات والی بات بھول کر ان سے بحث کی۔"‬
‫پاپا نے مجھے اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے کہا‪ "،‬یہ لے پکڑ! اٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکول! بس! تیری‬
‫حاِض ری لگ جائیگی اسکول میں! رؤف کے لڑکے سے بات کرلی ہے۔ آج سے کالج سے آنے کے بعد تجھے گھر پر ہی‬
‫پڑھا جایا کرے گا! تیاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اگلے سال تجھے گرلز سکول میں داخل کراؤںگا۔ وہاں ِد کھانا‬
‫تم اپنی چڈی کا رنگ" آِخ ری بات کہتے ہوئے پاپا نے میری طرف دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک ِد یا۔‬
‫کام کرنے کی میری عادت تو تھی ہی نہیں۔ پرانا سا لہنگا پہن کر کھیت سے لوٹی تو بدن کی پور پور دکھ رہی‬
‫تھی۔ ِد ل کر رہا تھا کہ کوئی مجھے اپنے پاس ِل ٹاکر آٹے کی طرح گوندھ ڈالے۔ میری اوپر کمرے میں جانے تک‬
‫کی ِہ مت نہ ہوئی اور نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اس پر پسری اور سو گئی۔‬
‫رؤف کے لڑکے نے گھر میں گھس کر آواز دی۔ مجھے پتا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ پِھ ر بھی میں کچھ نا‬
‫بولی۔ دراصل پڑھنے کا میرا دل تھا ہی نہیں‪ِ ،‬ا سی ِل ئے میں سونے کی ایٹنگ کرتے ہوئے وہیں پڑی رہی۔ میرے‬

‫"!پاس آتے ہی وہ پِھ ر بوال‪"،‬انجِل‬


‫اسنے ‪ 3-2‬بار مجھکو آواز دی۔ لیکن مجھے نہیں اٹھنا تھا سو نہیں اٹھی۔ ہائے یہ کیا! وہ تو اگلے ہی لمحے‬
‫"لڑکوں والے حرامی پن پر اتر آیا۔ سیدھا میرے چوتڑوں پر ہاتھ لگاکر ِہ الیا‪"،‬انجِل ۔۔ اٹھو نا! پڑھنا نہیں ہے کیا؟‬
‫ِا س حرکت نے تو دوسری ہی پڑھائی کرنے کی خواہش مجھ میں جگا دی۔ اسکے ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے‬
‫چوتڑ خود بخود بھنچے اور ِس کڑ سے گئے۔ میرا پورا بدن اسکے چھونے سے تِھ رک اٹھا تھا۔ اسکو میرے جاگ‬
‫جانے کی غلط فہمی نا ہو جائے ِا سیِل ئے نیند میں ہی بڑبڑانے کا ناٹک کرتی ہوئی میں الٹی ہو گئی; اپنے گداز‬
‫چوتڑوں کی کساوٹ سے اسکو للچانے کے ِل ئے۔‬
‫سارا گاںؤں اس چشملی کو شریف کہتا تھا‪ ،‬لیکن وہ تو بڑا ہی حرامی ِن کال۔ ایک بار باہر نظر مار کر آیا اور‬
‫میرے چوتڑوں سے تھوڑا نیچے مجھ سے چپک کر چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔ میرا منہ دوسری طرف تھا لیکن‬
‫!مجھے یقین تھا کہ وہ چوری چوری میرے بدن کی دلکش بناوٹ کا ہی لطف اٹھا رہا ہوگا‬
‫انجِل !" ِا س بار تھوڑی تیز بولتے ہوئے اس نے میرے گھٹنوں تک کے لہنگے سے نیچے میری ننگی گداز ِپ نڈِل یوں"‬
‫پر اپنے ہاتھ رکھ کر مجھے ِہ الیا اور سرکتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے گھٹنوں تک لے گیا۔ اب اسکا ہاتھ نیچے اور‬
‫لہنگا اوپر تھا۔‬
‫مجھ سے اب برداشت کرنا مشِک ل ہو رہا تھا۔ لیکن ِش کار ہاتھ سے ِن کلنے کا ڈر تھا۔ میں چپ سادھے رہی اور اس‬
‫حرامی کو جلد سے جلد اپنے چکنے ِپ نجرے میں قید کرنے کے ِل ئے دوسری ٹانگ گھٹنوں سے موڑی اور اپنے پیٹ‬
‫سے ِچ پکا لی۔ ِا سکے ساتھ ہی میرا لہنگا اور اوپر سرک گیا اور میری ایک ران کافی اوپر تک ننگی ہو گئی۔ میں‬
‫نے دیکھا نہیں‪ ،‬لیکن میری چڈی تک آ نے والی ٹھنڈی ہوا سے مجھے لگ رہا تھا کہ اس حرامی کو میری چڈی کا‬
‫رنگ ِد کھنے لگا ہے۔‬
‫آ۔آننجِل " ِا س بار اسکی آواز میں کپکپاہٹ سی تھی۔۔ ِس سک اٹھا تھا وہ شاید! ایک بار کھڑا ہوا اور پِھ ر بیٹھ"‬
‫گیا۔۔ شاید میرا لہنگا اسکی گانڈ کے نیچے پھنسا ہوا ہوگا۔ واپس بیٹھتے ہی اس نے لہنگے کو پلٹ کر میری کمر‬
‫پر ڈال ِد یا۔۔‬
‫اسکا کیا حال ہوا ہوگا یہ تو مجھے پتا نہیں۔ لیکن میری چوت میں بلبلے اٹھنے شروع ہو چکے تھے۔ جب‬
‫برداشت کرنے کی حد پار ہو گئی تو میں نیند میں ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی مڑی ہوئی ٹانگ کے‬
‫نیچے سے لے جاکر اپنی کچھی میں انگلیاں گھسا کر'وہاں' کھجلی کرنے کے بہانے سے اس کو کریدنے لگی۔ میرا‬
‫یہ حال تھا تو اسکا کیا ہو رہا ہوگا؟ سلگ گیا ہوگا‪ ،‬ہے نا؟‬
‫میں نے ہاتھ واپس کھینچا تو احساس ہوا جیسے میری چوت کی ایک پھانک چڈی سے باہر ہی رہ گئی ہے۔ اگلے‬
‫ہی پل اسکی ایک حرکت سے میں بوکھال اٹھی۔ اس نے جھٹ سے لہنگا نیچے سرکا ِد یا۔ کمبخت نے میری ساری‬
‫محنت کو ِم ٹی میں ِم ال ِد یا۔‬
‫لیکن میری سوچ غلط ثاِب ت ہوئی ۔ وہ حرامی تو میری امید سے بھی زیادہ شاِط ر ِن کال۔ ایک آِخ ری بار میرا نام‬
‫پکارتے ہوئے اس نے میری نیند کی گہرائی کو ناپنے کی کوِش ش کی اور اپنا ہاتھ لہنگے کے نیچے سرکاتے ہوئے‬
‫دوبارہ میری چوتڑوں پر لے گیا۔۔۔‬
‫چڈی کے اوپر تھرکتی ہوئی اسکی انگِل یوں نے تو میری جان ہی ِن کال دی۔ کسے ہوئے میرے ِچ کنے چوتڑوں پر‬
‫آہستہ آہستہ منڈالتا ہوا اسکا ہاتھ بار بار میری گانڈ کی گوالئیوں کودبا دبا کر دیکھتا رہا۔ میرے ممے چارپائی‬
‫میں دھنس کر میری شہوت کو اور زیادہ بھڑکانے لگے۔ میں نے بڑی مشِک ل سے اپنے آپ پر قابو رکھا ہوا تھا۔۔‬
‫اچانک اس نے میرے لہنگے کو دوبارہ اوپر اٹھایا اور دھیرے سے اپنی ایک انگلی میری چڈی کے اندر گھسا دی۔۔‬
‫آہستہ آہستہ وہ انگلی سرکتِی ہوئی پہلے چوتڑوں کی دراڑ میں گھومی اور پِھ ر نیچے آنے لگی۔۔ میں دم سادھ‬
‫کے ساکت پڑی ہوئی تھی۔۔ لیکن جیسے ہی انگلی میری چوت کے لبوں کے درمیان آئی میں اچھل پڑی۔۔ اور‬
‫اسی پل اسکا ہاتھ وہاں سے ہٹا اور چارپائی کا بوجھ کم ہو گیا۔۔‬
‫میری چوتِ تڑپ اٹھی۔ مجھے لگا کہ چوت میں انگلی کروانے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔۔ لیکن ِا تنی آسانی‬
‫سے میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔ اپنی ِس سِک یوں کو نیند کی بڑبڑاہٹ میں بدل کر میں سیدھی‬
‫ہو گئی اور آنکھیں بند ِک ئے ہوئے ہی میں نے اپنی رانیں گھٹنوں سے پوری طرح موڑ کر ایک دوسری سے الگ کر‬
‫کے پھیال دیں۔ اب لہنگا میرے گھٹنوں سے اوپر تھا اور مجھے یقین تھا کہ میری بھیگی ہوئی چڈی میں چھپی‬
‫ہوئی میری چوت اسکی آنکھوں کے سامنے ہوگی۔‬
‫تھوڑی دیر اور یونہی بڑبڑاتے ہوئے میں چپ ہو کر گہری نیند میں ہونے کا ڈرامہ کرنے لگی۔ اچانک مجھے کمرے‬
‫کے دروازے کی چٹخنِی بند ہونے کی آواز آئی۔ اگلے ہی پل وہ واپس چارپائی پر ہی آکر بیٹھ گیا۔۔ آہستہ آہستہ‬
‫پِھ ر سے رینگتا ہوا اسکا ہاتھ میری چوت تک پہنچ گیا۔ میری چوت کے اوپر سے اس نے چڈی کو کھسکاکر ایک‬
‫طرف کر ِد یا۔ میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولکر دیکھا۔ اس نے چشمہ نہیں پہنا ہوا تھے۔ شاید اتار کر ایک طرف‬
‫رکھ ِد یا ہو گا۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری پھڑکٹی ہوئی چوت کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر چھلکنے والی‬
‫ہوس دور سے ہی دکھائی دے رہی تھی۔۔‬
‫اچانک اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو میں نے اپنی آنکھیں پوری طرح بند کر لیں۔ اسکے بعد تو اس نے مجھے جنت‬
‫کی سیر کرادی۔ چوت کے دونوں لبوں پر مجھے اسکے دونوں ہاتھ محسوس ہوئے ۔ بہت ہی آرام سے اس نے‬
‫اپنے انگوٹھے اور انگِل یوں سے پکڑ کر میری چوت کے موٹے موٹے لبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر ِد یا۔ پتہ نہیں‬
‫کیا ڈھونڈھ رہا تھا وہ میری چوت کے اندر۔ لیکن جو کچھ بھی کر رہا تھا‪ ،‬مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں‬
‫نے مزے سے کانپتے ہوئے رانیں بھینچ کر جھڑ گئی اور میری چوت نے پہلی بار کسی مرد کی انگلیوں کے لمس‬
‫سے مجبور ہو کر اپنا پانی چھوڑ ِد یا۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ِا س بار اس نے میری چوت سے اپنے ہاتھ نہیں‬
‫ہٹائے۔۔‬
‫ِک سی کپڑے سے شاید میرے لہنگے سے ہی اس نے میری چوت کو صاف ِک یا اور پِھ ر سے میری چوت کے لبوں کو‬
‫چوڑا کر دیا۔ لیکن اب جھڑ جانے کی وجہ سے مجھے نارمل رہنے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫ہاں‪ ،‬مزہ اب بھی آ رہا تھا اور میں پورا مزہ لینا چاہتی تھی۔‬
‫اگلے ہی پل مجھے گرم سانسیں چوت میں گھستی ہوئی محسوس ہوئیں اور میں پاگل سی ہوکر میں نے وہاں‬
‫سے اپنے آپ کو اٹھا ِل یا۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اسکا چہرہ میری چوت پر جھکا ہوا تھا۔۔ میں‬
‫اندازہ لگا ہی رہی تھی کہ وہ کیا کرے گا کِہ مجھے پتا چل گیا کِہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اچانک اس نے میری‬
‫چوت کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔ میرے سارے بدن میں جھرجھری سی آ گئی۔ِا س مزے کو برداشت‬
‫نہ کر پائی اور میری ِس سکی ِن کل گئی اور میں اپنے چوتڑوں کو اٹھا اٹھا کر اس کے منہ پر اپنی چوت پٹخنے‬
‫لگی۔۔لیکن اب اس کو کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ میری رانوں کو اس نے کس کر ایک جگہ دبوچ ِل یا تھا اور میری چوت‬
‫کے اندر اپنی پوری زبان گھسا دی تھی۔۔‬
‫ایایا!" بہت مزہ آ رہا تھا اتنا کہ میری برداشت سے باہر تھا کہ میں اپنی سسکاریاں روک سکوں ۔۔ مجھے اور"‬
‫میری چوت کوِا تنا مزہ آ رہا تھا کہ میں کیا بتاؤں۔۔ جب بالکل میری برداشت سے باہر ہو گیا تو میں اپنا ہاتھ‬
‫اس کے سر پر لے گئی اور اس کو اپنی چوت پر سے ہٹانے کی کوِش ش کی تو اسنے میرا ہاتھ پکڑ ِل یا‪ "،‬کچھ نہیں‬
‫ہوتا انجِل ۔۔ بس دو ِم ِن ٹ اور!" یہ کہہ کر اس نے میری رانوں کو میرے چہرے کی طرف دھکیل کر وہیں دبوچ‬
‫ِل یا اور پِھ ر سے زبان کے ساتھ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دی۔۔‬
‫ہائے ِا سکا مطلب تھا کہ اس کو پتہ تھا کہ میں جاگ رہی ہوں۔۔ پہلے یہ بات بول دیتا تو میں کیوں گھٹ گھٹ‬
‫کر مزے لیتی‪ ،‬میں نے جھٹ سے اپنی کوہنی چارپائی پر ٹکائی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر ِس سکتے ہوئے بولی‪"،‬‬
‫"!انہہہہ۔۔جلدی کرو ناں۔۔ مجھے دوبارہ جھڑواؤ ورنہ ۔۔انہہہہ کوئی آ جائیگا افففف‬
‫پِھ ر کیا تھا۔۔ اس نے چہرہ اوپر کرکے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔۔ اسکی ناک پر اپنی چوت کا گاڑھا پانی‬
‫لگا دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔ ِا س ہنسی نے اسکی جِھ جھک بالکل ہی ختم کر دی۔۔ جھٹ سے مجھے‬
‫"پکڑ کر نیچے اتارا اور گھٹنے زمین پر ٹکا کر مجھے کمر سے اوپر چارپائی پر ِل ٹا ِد یا۔‪ "،‬یہ کیا کر رہے ہو؟‬
‫"ٹائم نہیں ہے ابھی بتانے کا۔۔ بعد میں سب بتا دوںگا۔۔ ِک تنی رسیلی ہے تو ہائے۔۔ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر لے۔۔"‬
‫"لیکن کیسے کروں؟۔۔ میرے تو گھٹنے زمین پر ٹیکے ہوئے ہیں۔؟"‬
‫تو بھی نا۔۔ !" اسکو غصہ سا آیا اور میری ایک ٹانگ چارپائی کے اوپر چڑھا دی۔۔ نیچے تِک یا رکھا اور مجھے اپنا"‬
‫پیٹ وہاں ٹکانے کو بوال۔۔ میں نے ویسا ہی ِک یا۔۔‬
‫اب اٹھاؤ اپنے چوتڑ اوپر۔۔ جلدی کرو۔۔" بولتے ہوئے اسنے اپنا موٹا جیسا ِل نڈ پینٹ میں سے باہر ِن کال ِل یا۔۔"‬
‫میں اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی چوت کو اسکے سامنے پروسا ہی تھا کہ باہر پاپا کی آواز سنکر میرا‬
‫دم ِن کل گیا‪ "،‬پپاپا!" میں ِچ الئی۔۔۔‬

‫دو کام کیا کر لیےے; تیری تو جان ہی ِن کل گئی۔۔ چل کھڑی ہو جا اب! نہا دھو لے۔ 'وہ' آنے ہی واال ہوگا۔۔ پاپا نے"‬
‫"!کمرے میں گھس کر کہا اور باہر ِن کل گئے‪"،‬جا چھوٹو! ایک 'ادھا' لیکر آ‬
‫ہائے میری تو سانسیں ہی تھم گئی تھیں۔ غنیمت تھا کہ خواب دیکھتے ہوئے میں نے سچ مچ اپنا لہنگا اوپر‬
‫نہیں اٹھایا تھا۔ اپنے مموں کو دباکر میں نے ‪ 4-2‬لمبی لمبی سانسیں لیں اور لہنگے میں ہاتھ ڈال اپنی چڈی کو‬
‫!چیک ِک یا۔ چوت کے پانی سے وہ بالکل بھیگ چکی تھی۔ بچ گئی‬
‫رگڑ رگڑ کر نہاتے ہوئے میں نے کھیت کی ِم ٹی اپنے جسم سے اتاری اور نئی چڈی پہن لی جو ممی ‪ِ 4-2‬د ن پہلے‬
‫ہی بازار سے الئی تھیں‪ "،‬پتہ نہیں انجو ! تیری عمر میں تو میں چڈی پہنتی بھی نہیں تھی۔ تیری ِا تنی جلدی‬
‫کیسے خراب ہو جاتی ہے" ممی نے الکر دیتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫مجھے پوری امید تھی ِک ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار ضرور کریگا۔ ِا سیِل ئے میں نے سکول والی سکرٹ ڈالی‬
‫اور ِب نا برا کے شرٹ پہنکر باتھ روم سے باہر آ گئی۔‬
‫جا وہ نیچے بیٹھے تیرا ِا نتظار کر رہے ہیں۔۔ ِک تنی بار کہا ہے برا ڈال ِل یا کر; ِن کمی! یہ تیرے ممے ِہ لتے ہیں تو"‬
‫تجھے شرم نہیں آتی؟" ممی کی ِا س بات کو میں نے نظرانداز ِک یا اور اپنا بیگ اٹھا کر سیڑِھ یوں سے نیچے‬
‫اترتی چلی گئی۔‬
‫نیچے جاکر میں نے اس چشملی کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی ِرنکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا ِک ممی نے‬
‫بیٹھا ہے کی بجائے بیٹھے ہیں کیوں کہا تھا‪" :‬تم ِک س ِل ئے آئی ہو؟" میں نے ِرنکی سے کہا اور چشمو کو ابِھ وادن‬
‫"کے روپ میں دانت ِد کھا ِد ئیے۔ الو کی دم ہنسا بھی نہیں مجھے دیکھ کر‪ "،‬کرسی نہیں ہے کیا؟‬
‫میں بھی یہیں پڑھ ِل یا کروں گی۔۔ بھیا نے کہا ہے کِہ اب روز یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیا کے گھر جاتی تھی"‬
‫پڑھنے۔۔ " ِرنکی کی سریلی آواز نے بھی مجھے ڈنک سا مارا۔۔‬
‫!کون بھیا؟" میں نے منہ چڑھا کر پوچھا"‬
‫یے۔۔ ترن بھیا! اور کون؟ اور کیا ِا نکو سر کہیں گے؟ ‪ 5-4‬سال ہی تو بڑے ہیں۔۔" ِرنکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔"‬
‫ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں 'سیاں' بنکر میری چوت میں زبان گھما رہا تھا; اسکو کیا اب بھیا کہنا‬
‫!پڑیگا؟ نا! میں نے نہ کہا بھیا‬
‫"میں تو سر ہی کہوں گی! ٹھیک ہے نا‪ ،‬ترن سر؟ "‬
‫بیشرمی سے میں چارپائی لیکن اسکے سامنے پسر گئی اور ایک ٹانگ سیدھی ِک ئے ہوئے دوسری گھٹنے سے موڑ‬
‫اپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹانگ والی ِچ کنی ران تو مجھے اوپر سے ہی ِد کھائی دے رہی تھی۔۔ اسکو کیا‬
‫کیا ِد کھ رہا ہوگا‪ ،‬آپ خود ہی سوچ لو۔‬
‫ٹھیک سے بیٹھ جاؤ! اب پڑھنا شروع کریں گے۔۔ " حرامی نے میری جنت کی طرف تو دیکھا تک نہیں اور خود"‬
‫ایک طرف ہو کر رنکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سلگتی رہ گئی۔۔ میں نے آلتی پالتی مار کر‬
‫اپنا گھٹنا جلن کی وجہ سے رنکی کی گود میں پھنسا ِد یا اور آگے جھک کر معصوم شکل بناکر اپنی کاپی کی‬
‫طرف دیکھنے لگی۔۔‬
‫ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جانے ِک تنے ہی سوال ِن کال ِد ئے اس نے‪ ،‬میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔۔ کبھی‬
‫اس کے چہرے پر مسکراہٹ کو کبھی اسکی پینٹ کے مردانہ ابھار کو ڈھونڈتی رہی‪ ،‬لیکن کچھ نہیں ِم ال۔۔‬
‫پڑھتے ہوئے اسکا دھیان ایک دو بار میرے مموں کی طرف ہوا تو مجھے لگا کہ وہ مموں کا دیوانہ ہے۔ میں نے‬
‫جھٹ سے اسکی باتیں سنتے سنتے اپنی شرٹ کا بیچ واال ایک بٹن کھول ِد یا۔ میرے گداز ممے‪ ،‬جو شرٹ میں‬
‫گھٹن محسوس کر رہی تھے; راستہ ِم لتے ہی اس طرف سرک کر سانس لینے کے ِل ئے باہر جھانکنے لگ گیا اور‬
‫میرے مموں کے درمیان والی گہری گھاٹی اب اس کے بِا لکل سامنے تھی۔‬
‫ترن نے جیسے ہی ِا س بار مجھ سے پوچھنے کے ِل ئے میری طرف دیکھا تو اسکا چہرہ ایکدم الل ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے‬
‫ہوئے اسنے کہا‪ "،‬بس! آج ِا تنا ہی۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔۔ کہتے ہوئے اس نے نظریں چراکر ایک بار اور میرے‬
‫گورے مموں کو دیکھا اور کھڑا ہو گیا۔۔۔‬
‫حد تو تب ہو گئی‪ ،‬جب وہ میرے سوال کا جواب ِد ئے بغیر ہی باہر ِن کل گیا۔‬
‫"میں نے تو صرف ِا تنا ہی پوچھا تھا‪ "،‬مزہ نہیں آیا کیا‪ ،‬سر؟‬

‫سپنے میں ہی سہی‪ ،‬لیکن بدن میں جو آگ لگی تھی‪ ،‬اسکی دہک سے اگلے ِد ن بھی میرا انگ ‪ -‬انگ سلگ رہا تھا۔‬
‫جوانی کی تڑپ کی داستان سناتی تو سناتی ِک س کو! صبح اٹھی تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔۔ پاپا شاید آج ممی‬
‫کو کھیت میں لے گئے ہوں گے۔۔ ہفتے میں ‪ِ 2‬د ن تو کم سے کم ایسا ہوتا ہی تھا جب پاپا ممی کے ساتھ ہی‬
‫کھیت میں جاتے تھے۔۔‬
‫ان دو دنوں میں ممی ِا س طرح سج دھج کر کھانا ساتھ لیکر جاتی تھیں جیسے کھیت میں نہیں بلکہ کہیں‬
‫بڈھے بڈِھ یوں کے مقابلہء حسن میں جا رہی ہوں۔۔ مزاق کر رہی ہوں۔۔ میری ممی تو اب تک بوڑھِی نہیں ہوئی‬
‫ہیں۔۔ ‪ 40‬کی عمر میں بھی وہ بڑی دیدی کی طرح رسیلی ہیں۔۔ میرا تو خیر ان کے سامنے کچھ بھی نہیں۔‬
‫خیر; میں بھی ِک ن باتوں میں پڑ جاتی ہوں۔۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کِہ اگلے ِد ن صبح اٹھی تو کوئی بھی گھر‬
‫پر نہیں تھا۔۔ خالی گھر میں خود کو اکیلی پاکر میری رانوں کے بیچ سرسراہٹ سی مچنے لگی۔۔ میں نے دروازہ‬
‫اندر سے بند ِک یا اور چارپائی پر آکر اپنی رانوں کو پھیالکر سکرٹ پوری طرح اوپر اٹھا ِد یا۔۔‬
‫میں دیکھ کر حیرت میں پڑ گئی۔۔ میری چوت ِک سی ڈبل روٹی کی طرح پھول کر میری چڈی سے باہر ِن کلنے کو‬
‫بیتاب ہو رہی تھی۔۔ موٹی موٹی چوت کے ہونٹ پوری طرح ابھر کر چڈی کے باہر سے ہی ِد کھائی دے رہے تھے۔۔‬
‫میری چوت کی دراڑ میں میری چڈی ِا س طرح اندر گھسی ہوئی تھی جیسے چوت کا ِد ل چڈی پر ہی آ گیا ہو۔۔‬
‫ڈر تو ِک سی بات کا تھا ہی نہی۔۔ میں لیٹی اور چوتڑوں کو اکساتے ہوئے چڈی کو اتار پھینکا اور دوبارہ بیٹھ کر‬
‫رانوں کو پِھ ر الگ الگ کر ِد یا۔۔ ہائے! اپنی ہی چوت کے رسیلے پانی اور رانوں تک بہہ کر گرنے والی ِچ کناہٹ کو‬
‫دیکھتے ہی میں مدہوش سی ہو گئی۔۔‬
‫میں نے اپنا ایک ہاتھ نیچے لے جاکر اپنی انگِل یوں سے چوت کے لبوں کو سہال کر دیکھا۔۔ لبوں پر اگے ہوئے ہلکے‬
‫ہلکے بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے بال تک شہوت کے مارے کھڑے ہو گئے تھے۔۔ اپنی چوت کے لبوں پر ہاتھ‬
‫پھیرنے سے مجھے اپنی چوت کے اندر تک گدگدی اور مزے کا احساس ہو رہا تھا۔۔۔ چوت پر اوپر نیچے انگِل یوں‬
‫سے امڈتی ہوئی شہوت کی شدت سے میں بدحواس سی ہوتی جا رہی تھی۔۔ اپنی چوت کے لبوں کو پھیالکر‬
‫میں نے اندر جھانکنے کی کوِش ش کی; ِچ کنے ِچ کنے الل گوشت کے عالوہ مجھے اور کچھ ِد کھائی نہ ِد یا۔۔ لیکن‬
‫مجھے دیکھنا تھا۔۔۔۔‬
‫میں اٹھی اور بیڈ پر جاکر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔۔ ہاں۔۔ اب مجھے ٹھیک ٹھیک اپنی چوت کا‬
‫دروازہ ِد کھائی دے رہا تھا۔۔ گہرے الل اور گالبی رنگ میں رنگا 'وو' کوئی آدھے ِا نچ گہرا ایک گڑھا سا تھا۔۔‬
‫مجھے پتا تھا کہ جب بھی میری چدائی ہوگی۔۔ یہیں سے ہوگی۔۔! جہاں سے چوت کے لب الگ ہونے شروع ہوتے‬
‫ہیں۔۔ وہاں لیکن ایک چھوٹا سا دانا ابھرا ہوا تھا۔۔ بالکل میرے مموں کے نپلوں کی طرح اکڑا ہوا۔۔ شہوت کی‬
‫شدت سے میں پاگل سی ہوگئی تو میں نے اس کو انگلی سے چھیڑنے لگی۔۔‬
‫ہمیشہ کی طرح وہاں ہاتھ لگاتے ہی میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔۔ رانوں میں ہلکی ہلکی کپکپی سی شروع ہو‬
‫گئی۔۔ ویسے یہ سب میں پہلے بھی محسوس کر چکی تھی۔۔ لیکن سامنے شیشے میں دیکھتے ہوئے ایسا کرنے‬
‫کا مزہ ہی الگ ہے۔۔ سچ میں! بہت مزہ آرہا تھا۔۔‬
‫دھیرے دھیرے میری انگِل یوں کی رفتاِر بڑھتی گئی۔۔ اور میں جھڑنے لگی اور جھڑتے جھڑتے ِن ڈھال ہوکر ِب ستر‬
‫پر ِگ رگئی۔۔ انگلیاں اب چوت کے دانے کو سہال نہیں رہی تھیں۔۔ بلکہ بری طرح سے پوری چوت کو ہی لبوں‬
‫سمیت مسل رہی تھیں۔۔ اچانک میرے منہ سے نکلتی ہوئی عجیب سی ِس سِک اریاں میرے کانوں میں میٹھی سی‬
‫دھن میں بدل گئیں اور نہ جانے کب ایسا کرتے ہوئے میں سب کچھ بھال کر دوسری دنیا میں جا پہنچی۔۔۔‬
‫گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے میں نے اپنے جسم کو ڈھیال چھوڑدیا اور اپنی بانہوں کو ِب ستر پر پھیالئے ہوش‬
‫میں آنے ہی لگی تھی کِہ دروازے پر دستک سن کر میرے ہوش ہی اڑ گئے۔۔۔‬
‫میں نے فٹافٹ اٹھتے ہوئے سکرٹ کو اچِھ ی طرح نیچے ِک یا اور جاکر دروازہ کھول ِد یا۔‬
‫ِک تنی دیر سے نیچے سے آواز لگا رہا ہوں؟ میں تو واپس جانے ہی واال تھا۔۔اچھا ہوا جو اوپر آکر دیکھ ِل یا۔۔ ""‬
‫!سامنے زمیندار کا لڑکا کھڑا تھا; سندر‬
‫کیا بات ہے؟ آج سکول نہیں گئیں؟" سندر نے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں ہی میرے گالوں سے لیکر گھٹنوں "‬
‫تک گھورتا ہوا بوال۔۔‬
‫گھر پر کوئی نہیں ہے!" میں نے صرف ِا تنا ہی کہا اور باہر آکر کھڑی ہو گئی۔۔"‬
‫"!کمینہ! اندر ہی جاکر بیٹھ گیا‪"،‬تم تو ہو نا‬
‫نہیں۔۔ مجھے بھی ابھی جانا ہے۔۔ کھیت میں۔۔!" میں نے باہر کھڑے کھڑے ہی کہاا۔۔"‬
‫"ِا تنے دنوں کے بعد آیا ہوں۔۔ چائے وائے تو پوچھ ِل یا کرو۔۔ ِا تنا بھی کنجوس نہیں ہونا چاِہ ئیے۔۔"‬
‫میں نے مڑکر دیکھا تو وہ میرے موٹے موٹے چوتڑوں کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پرزبان پھیر رہا تھا۔۔۔‬
‫دودھ نہیں ہے گھر میں۔۔!" میں چوتڑوں کا ابھار چھپانے کے ِل ئے جیسے ہی اسکی طرف پلٹی۔۔ اسکی نظریں"‬
‫میرے مموں پر جم گئیں۔‬
‫کمال ہے۔۔ ِا تنی موٹی تازی ہو اور دودھ ِب الکل نہیں ہے۔۔" وہ دانت ِن کال کر ہنسنے لگا۔۔"‬
‫آپ شاید سمجھ گئے ہوں گے کی وہ ِک ونسے 'دودھ' کی بات کر رہا تھا۔۔ لیکن میں ِب الکل نہیں سمجھی تھی اس‬
‫وقت۔۔ تمہاری قسم‬
‫"کیا کہہ رہے ہو؟ میرے موٹے تازے ہونے سے دودھ ہونے یا نا ہونے کا کیا تعلق ہے؟"‬
‫وہ یونہی میری سانسوں کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والے مموں کو گھورتا رہا‪ِ "،‬ا تنی بچی بھی نہیں ہو تم۔۔‬
‫سمجھ جایا کرو۔۔ ِج تنی موٹی تازی بھینس ہوگی۔۔ اتنا ہی تو زیادہ دودھ دے گی" اسکی نظریں میرے بدن‬
‫میں گڑی جا رہی تھیں۔۔‬
‫ہائے میری اب سمجھ میں آیا وہ کیا کہہ رہا تھا۔۔ میں نے پورا زور لگاکر چہرے پر غصہ النے کی کوِش ش کی۔۔‬
‫لیکن میں اپنے گالوں پر آنے والی سرخی کو نہ چھپا سکی‪ "،‬کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔؟ مجھے کہیں جانا ہے۔۔‬
‫"!اب جاؤ بھی یہاں سے۔۔‬
‫ارے۔۔ ِا س میں برا ماننے والی کونسی بات ہے۔؟ زیادہ دودھ پیتی ہوگی تب ھی تو ِا تنی موٹی تازی ہو۔۔ ورنہ"‬
‫اپنی دیدی کی طرح دبلی پتلی نا ہوتیں؟۔۔اور دودھ ہوگا تبھی تو پیتی ہوگی۔۔میں نے تو ِص رف اتنا ہی کہا‬
‫تھا۔۔ میں تمہیں کوئی بھینس تھوڑی بول رہا تھا۔۔ تم تو بے حد پیاری ہو۔۔ گوری ِچ ٹِی ۔۔ تمہارے جیسی تو اور‬
‫"کوئی نہیں دیکھی میں نے۔۔ آج تک! قسم جھنڈے والے بابا کی۔۔‬
‫آخری الئین کہتے کہتے اسکا لہجہ پر ہوس ہو گیا تھا۔۔ جب جب اس نے دودھ کا ذکر ِک یا۔۔ میرے کانوں کو یہی‬
‫لگا کِہ وہ میرے گداز مموں کی تعریف کر رہا ہے۔۔۔‬
‫ہاں! پیتی ہوں دودھ۔۔ تمہیں کیا ہے؟ پیتی ہوں تب ہی تو ختم ہو گیا۔۔" میں نے ِچ ڑ کر کہا۔۔۔"‬
‫"!ایک آدھ بار ہمیں بھی پال دو نا!۔۔۔ ۔۔ کبھی چکھ کر دیکھنے دو۔۔ اپنا دودھ۔۔"‬
‫اسکی باتوں کے ساتھ اسکا لہجہ بھی ِب لکل غلیظ ہو گیا تھا۔۔ کھڑے کھڑے ہی میری ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔۔۔‬
‫مجھے نہیں پتہ۔۔میں نے کہا نا۔۔ مجھے جانا ہے۔۔!" میں اور کچھ نا بول سکی اور نظریں جھکائے کھڑی رہی۔۔"‬
‫نہی پتہ تبھی تو بتا رہا ہوں انجو ! سیکھ لو ایک بار۔۔ پہلے پہل سبھی کو سیکھنا پڑتا ہے۔۔ ایک بار سیکھ ِل یا"‬
‫تو زندگی بھر نہیں بھولوگی۔۔" اسکی آنکھوں میں اب شہوت کے الل ڈورے تیر رہے تھے۔۔‬
‫میرا بھی برا حال ہو چکا تھا تب تک۔۔ لیکن کچھ بھی ہو جاتا۔۔ اس کے نیچے تو میں نے نا جانے کی قسم کھا‬
‫"!رکھی تھی۔۔ میں نے غصے سے کہا‪"،‬کیا ہے؟ کیا سیکھ لوں۔۔ بکواس مت کرو‬
‫ارے۔۔ ِا تنا اکھڑ کیوں رہی ہو بار بار۔۔ میں تو آئے گئے لوگوں کی مہمان‪-‬نوازی ِس کھانے کی بات کر رہا ہوں۔۔ آِخ ر"‬
‫چائے پانی تو پوچھنا ہی چاِہ ئے نا۔۔ ایک بار سیکھ گئی تو ہمیشہ یاد رکھوگی۔۔ لوگ ِک تنے خوش ہوکر واپس‬
‫جاتے ہیں۔۔ ہے ہے ہے!" وہ جھینپتا ہوا بوال۔۔ اور چارپائی کے سامنے پڑی میری چڈی کو اٹھا ِل یا۔۔‬
‫مجھے جھٹکا سا لگا۔۔ اس طرف تو میرا دھیان اب تک گیا ہی نہیں تھا۔۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے پاس‬
‫"!اندر جانا پڑا‪"،‬یہ مجھے دو۔۔‬
‫بڑی بے شرمی سے اس نے میری گیلی چڈی کو اپنی ناک سے لگا ِل یا‪"،‬اب ایک ِم ِن ٹ میں کیا ہو جائیگا۔۔ اب بھی‬
‫تو بیچاری فرش پر ہی پڑی تھی۔۔" میں نے ہاتھ بڑھایا تو وہ اپنا ہاتھ ِپ یچھے لے گیا۔۔ شاید ِا س غلط فہمی میں‬
‫تھا کہ اس'سے چھیننے کے ِل ئے میں اسکی گود میں چڑھ جاؤنگِی ۔۔۔‬
‫میں پاگل سی ہو گئی تھی۔۔ اس پل مجھے یہ خیال بھی نہیں آیا کی میں بول کیا رہی ہوں۔‪ "،‬دو نا مجھے۔۔‬
‫مجھے پہننِی ہے۔۔" اور اگلے ہی پل یہ احساس ہوتے ہی کِہ میں نے یہ کیا بک ِد یا۔۔ میں نے شرم کے مارے اپنی‬
‫آنکھیں بند کرکے اپنے چہرے کو ڈھک ِل یا۔۔۔‬
‫"!اوہ ہو ہو ہو۔۔ ِا سکا مطلب تم ننگی ہو۔۔! ذرا سوچو۔۔ کوئی تمہیں زبردستی ِل ٹا کر تمہاری 'دیکھ' لے تو"‬
‫اسکے بعد تو مجھ سے وہاں کھڑا ہی نہیں رہا گیا۔۔ پلٹ کر میں نیچے بھاگ آئی اور گھر کے دروازے پر کھڑی ہو‬
‫گئی۔۔ میرا ِد ل میرے اکڑے ہوئے مموں کے ساتھ تیزی سے دھک دھک کر رہا تھا۔۔‬
‫کچھ ہی دیر میں وہ نیچے آیا اور میری برابر میں کھڑا ہوکر میری طرف دیکھے بغیربوال‪ "،‬اسکول میں تمہارے‬
‫کرتوتوں کے کافی چرچے سنے ہیں میں نے۔۔ وہاں تو بڑی پھدکتِی ہے تو۔۔ یاد رکھنا لڑکِی ۔۔ تیری ماں کو بھی‬
‫چودا ہے میں نے۔۔ پتا ہے نا۔۔؟ آج نہیں تو کل۔۔ تجھے بھی اپنے لنڈ پر ِب ٹھا کر ہی رہوںگا۔۔" اور وہ ِن کل گیا۔۔‬
‫ڈر اور ہوس کی تمتماہٹ میرے چہرے پر صاف جھلک رہی تھی۔۔ میں نے دروازہ جھٹ سے بند ِک یا اور‬
‫بدحواس سی بھاگتے بھاگتے اوپر آ گئی۔۔ مجھے میری چڈی کہیں بھی نہیں ِم لی۔۔ لیکن اس وقت مجھے چڈی‬
‫سے زیادہ مجھے چڈی والی کی ِف کر تھی۔۔ اوپر واال دروازہ بند ِک یا اور شیشے کے سامنے بیٹھ گئی اور دوبارہ‬
‫اپنی رانیں پھیالکر اپنی چوت کو اپنی انگلیوں سے مسلنے لگی۔‬
‫اسکے نام پر مت جانا۔۔ وہ کہتے ہیں نا! آنکھ کا اندھا اور نام نین سکھ۔۔ سندر ِب لکل ایسا ہی تھا۔۔ ایک دم کاال‬
‫کلوٹا۔۔ اور ‪ 6‬فٹ سے بھی لمبا تڑنگا سانڈ! مجھے اس'سے گِھ ن تو تھی ہی۔۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔۔ مجھے تو‬
‫دیکھتے ہی وہ ایسے گھورتا تھا جیسے اسکی آنکھوں میں ایکس رے لگا ہو اور مجھ کو وہ ننگا کرکے دیکھ رہا‬
‫ہو۔۔ اسکی جگہ اور کوئی بھی اس وقت اوپر آیا ہوتا تو میں اس کو پیار سے اندر ِب ٹھا کر چائے ِپ التی اور اپنے‬
‫جسم کی نمائش کرنا شروع کر دیتی۔۔ لیکن اس'سے تو مجھے ِا س دِن یا میں سب سے زیادہ نفرت تھی۔۔‬
‫اسکی بھی ایک وجہ تھی۔۔‬
‫تقریبًا ‪ 10‬سال پہلے کی بات ہے۔۔ میں ‪ 6-5‬سال کی ہی تھی۔ ممی کوئی ‪ 30‬کی ہونگی اور وہ حرمزادہ سندر‬
‫‪ 20‬کے آس پاس۔ لمبا تو وہ اس وقت بھی ِا تنا ہی تھا‪ ،‬لیکن ِا تنا تگڑا نہیں تھا۔۔۔‬
‫سرِد یوں کی بات ہے یہ۔۔ میں اس وقت اپنی دادی کے پاس نیچے ہی سوتی تھی۔۔ نیچے تب تک کوئی الگ کمرا‬
‫نہیں تھا۔۔ ‪ 18‬بائی ‪ 30‬کی چھت کے نیچے ِص رف اوپر جانے کے ِل ئے زینہ بنا ہوا تھا۔۔رات کو ان سے روز راجا‪-‬‬
‫رانی کی کہاِن یاں سنتی اور پِھ ر ان کے ساتھ ہی دبک جاتی۔۔ جب بھی پاپا مار پیٹ کرتے تھے تو ممی نیچے ہی‬
‫آکر سو جاتی تھی۔۔ اس رات بھی ممی نے اپنی چارپائی نیچے ہی ڈال لی تھی۔۔‬
‫ہمارا دروازہ کھلتے وقت کافی آواز کرتا تھا۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز سے ہی شائد میری نیند کھل گئی ۔۔۔‬
‫مان بھی جا اب۔۔ ‪ِ 15‬م ِن ٹ سے زیادہ نہیں لگاؤں گا۔۔" یہی آواز آئی تھی مجھے۔۔ میری نیند اب پوری طرح"‬
‫کھل گئی تھی۔۔ مردانہ آواز کی وجہ سے پہلے مجھے لگا کِہ پاپا ہیں۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اپنی رضائی میں‬
‫سے جھانکا; میرا بھرم ٹوٹ گیا۔۔ نیچے اندھیرا تھا۔۔ لیکن باہر سٹریٹ الئیٹ ہونے کی وجہ سے دھندال دھندال‬
‫ِد کھائی دے رہا تھا۔۔‬
‫پاپا تو ِا تنے لمبے ہیں ہی نہیں۔۔!" میں نے دل ہی دل میں سوچا۔۔"‬
‫وہ ممی کو دیوار سے ِچ پکائے ان'سے چپکا ہوا کھڑا تھا۔۔ ممی اپنی پوری طاقت سے اپنے ہاتھوں سے اسکو‬
‫ِپ یچھے دھکیلنے کی کوِش ش کر رہی تھیں۔۔‬
‫دیکھ چاچی۔۔ اس ِد ن بھی تونے مجھے ایسے ہی ٹرخا ِد یا تھا۔۔ میں آج بڑی امید کے ساتھ آیا ہوں۔۔ آج تو"‬
‫تجھے دینی ہی پڑیگی۔۔!" وہ بوال۔۔۔‬
‫تم پاگل ہو گئے ہو کیا سندر؟ یہ بھی کوئی ٹائم ہے۔۔تیرا چاچا مجھے جان سے مار دیگا۔۔۔ تم جلدی سے 'وہ' کام"‬
‫بولو ِج س کے ِل ئے تمہیں ِا س وقت آنا ضروری تھا۔۔ اور جاؤ یہاں سے۔۔!" ممی پھسپھسائی۔۔‬
‫کام بولنے کا نہیں۔۔ کرنے کا ہے چاچی۔۔ ِا ففففہ۔۔" ِس سکی سی لے کر وہ دوبارہ ممی سے ِچ پک گیا۔۔"‬
‫اس وقت میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ممی اور سندر میں یہ چھینا جھپٹی کیوں ہو رہی ہے۔۔میرا ِد ل‬
‫دھڑکنے لگا۔۔ لیکن میں ڈر کے مارے سانس روکے سب دیکھتی اور سنتی رہی۔۔‬
‫نہیں۔۔ جاؤ یہاں سے۔۔ اپنے ساتھ مجھے بھی مرواؤگے۔۔" ممی کی پھسپھساہٹ بھی انکی سریلی آواز کی وجہ"‬
‫سے صاف سمجھ میں آ رہی تھی۔۔۔‬
‫وہ لوڑو میرا کیا ِب گاڑ لے گا۔۔ تم تو ویسے بھی مروگی اگر آج میرا کام نہیں کروایا تو۔۔ میں کل اسکو بتا دوں"‬
‫گا کی میں نے تمہیں باجرے والے کھیت میں اِن یل کے ساتھ پکڑا تھا۔۔۔" سندر اپنی گھِٹ یا سی ہنسی ہنسنے لگا۔۔۔‬
‫میں۔۔ میں منع تو نہیں کر رہی سندر۔۔ کر لوں گی تیرے ساتھ بھی۔۔ لیکن یہاں کیسے کروں۔۔ اس کی ماں"‬
‫میری ساس لیٹی ہوئی ہے۔۔ اٹھ گئی تو؟" ممی نے گِھ گِھ یاتے ہوئے کہا۔ اب ممی نے بہانے بنانا چھوڑ دیا تھا۔‬
‫کیا بات کر رہی ہو چاچی؟ ِا س بڑِھ یا کو تو ِد ن میں بھی ِد کھائی سنائی نہیں دیتا کچھ۔۔ اب اندھیرے میں"‬
‫ِا سکو کیا پتا لگے گا۔۔" سندر سچ کہہ رہا تھا۔۔۔‬
‫پر چھوٹی بھی تو یہیں ہے۔۔ میں تیرے ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔" ممی ِگ ڑِگ ڈائی۔۔"‬
‫وہ تو بچی ہے۔۔ اٹھ بھی گئی تو ِا سکی سمجھ میں کیا آئیگا؟ ویسے بھی وہ تمہاری الڈلی ہے۔۔ بول دینا ِک سی"‬
‫کو نہیں بتائیگی۔۔ اب دیر مت کرو۔۔ ِج تنی دیر کروگی۔۔ تمہارا ہی نقصان ہوگا۔۔ میرے لنڈ کا پانی تو کھڑے‬
‫کھڑے ہی ِن کلنے واال ہے۔۔ اگر ایک بار ِن کل گیا تو آدھے پونے گھنٹے سے پہلے نہیں چھوٹے گا پھر۔۔ پہلے سے بتا‬
‫"رہا ہوں۔۔‬
‫میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ 'ِن کلنا' چھوٹنا' کیا ہوتا ہے۔۔ پِھ ر بھی میں ِد لچسپی سے انکی باتیں سن‬
‫رہی تھی۔۔۔۔‬
‫تم پرسوں کھیت میں آ جانا ناں۔۔ تیرے چاچا کو شہر جانا ہے۔۔ میں اس دن اکیلی ہی ہونگی۔۔ سمجھنے کی"‬
‫کوِش ش کر سندر۔۔ میں کہیں بھاگی تو نہیں جا رہی۔۔۔" ممی نے پِھ ر اس کو سمجھانے کی کوِش ش کی۔۔۔‬
‫تمہے میں ہی ِم ال ہوں چوِت یا بنانے کے ِل ئے؟۔۔ اِن یل بتا رہا تھا کہ اس نے تمہاری چوت اس کے بعد بھی دو بار "‬
‫ماری ہے۔۔ اور مجھے ہر بار ٹرخا دیتی ہو۔۔ پرسوں کی پرسوں دیکھیں گے۔۔۔ اب تو میرے ِل ئے تو ایک ایک پل‬
‫کاٹنا مشِک ل ہو رہا ہے۔۔ تمہیں نہیں پتا چاچی۔۔ تمہاری گول گول گانڈ دیکھ کر ہی جوان ہوا ہوں۔۔ ہمیشہ سے‬
‫خیالوں میں سوچتا تھا کہ ِک سی ِد ن تمہاری ِچ کنی رانوں کو سہالتے ہوئے تمہاری رسیلی چوت چاٹنے کا موقع‬
‫ِم لے۔۔ اور تمہارے موٹے موٹے چوتڑوں کی کساوٹ کو مسلتا ہوا تمہاری گانڈ میں انگلی ڈال کر دیکھوں۔۔ سچ‬
‫کہتا ہوں‪ ،‬آج اگر تم نے مجھے اپنی چوت مارنے سے روکا تو یا تو میں نہیں رہوں گا۔۔ یا تم نہیں رہوگی۔۔ لو‬
‫"!پکڑو ِا سکو۔۔ پکڑ ناں میرے لنڈ کو‬
‫اب جاکر مجھے سمجھ میں آیا کِہ وہ میری خوبصورت ممی کو 'گندی' بات کرنے کے ِل ئے کہہ رہا ہے۔۔ انکی‬
‫حرکتیں ِا تنی صاف ِد کھائی نہیں دے رہی تھیں مجھے۔۔ لیکن اتنا ضرور دکھائی دے رہا تھا کہ دونوں آپس میں‬
‫گتھم گتھا ہیں۔۔ میں آنکھیں پھاڑے زیادہ سے زیادہ دیکھنے کی کوِش ش کرتی رہی۔۔۔‬
‫تیرا لنڈ ہے یا گدھے کا لوڑا۔۔ تیرا لنڈ تو بہت بڑا ہے۔۔ میں نے تو آج تک ِک سی آدمی کا اتنا بڑا لنڈ نہیں دیکھا۔۔۔""‬
‫ممی نے کہا۔۔۔‬
‫بڑا ہے چاچی تب ہی تو تمہیں زیادہ مزہ آئیگا۔۔ فکر نہ کرو۔۔ میں ِا س طرح کروں گا کِہ تمہیں ساری عمر یاد"‬
‫رہے گی اپنی چدائی۔۔ ویسے چاچا کا لنڈ ِک تنا بڑا ہے؟" سندر نے خوش ہوکر کہا۔۔اب وہ پلٹ کر خود دیوار سے‬
‫لگ گیا تھا اور ممی کی کمر میری طرف کر دی تھی۔۔ممی نے شاید اسکا کہنا مان ِل یا تھا۔۔۔‬
‫آہستہ بول نہ حرامی۔۔۔۔" ممی اسکے آگے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔۔ اور کچھ دیر بعد بولی‪ "،‬ان کا تو پورا کھڑا"‬
‫ہونے پر بھی ِا س'سے چھوٹا ہی رہتا ہے۔۔ سچ بتاؤں؟ ان کا لنڈ آج تک میری چوت کے اندر نہیں جھڑا۔۔" ممی‬
‫بھی اسکی طرح گندی گندی باتیں کرنے لگی تھیں۔۔ میں حیران تھی۔۔ لیکن مجھے مزہ بھی آ رہا تھا۔۔ میں‬
‫مزے لیتی رہی۔۔۔‬
‫واہ چاچی۔۔ پِھ ر یہ گوری ِچ کنی دو لونِڈ یاں اور وہ لٹو کہاں سے پیدا کر ِد ئے۔۔" سندر نے پوچھا۔۔ لیکن میری"‬
‫سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔۔۔‬
‫سب ہی تم جیسوں کی اوالدیں ہیں۔۔ میری مجبوری تھی۔۔میں کیا یونہی بیوفا ہو گئی۔۔؟" کہنے کے بعد ممی"‬
‫نے کچھ ایسا ِک یا کہ سندر اچھل پڑا۔۔۔‬
‫آہہہ آہہہہ۔۔ یہ کیا کر رہی ہو چاچیییی۔۔ مارنے کا ِا رادہ ہے کیا؟" سندر تھوڑی تیز آواز میں بوال۔۔۔"‬
‫میں کیا کروں؟ میرے منہ میں تو گھس ہی نہیں رہا تیرا لنڈ۔۔ باہر سے ہی کھا لوں تھوڑا سا!" اسکے ساتھ ہی"‬
‫ممی بھدے سے طریقے سے ہنسی۔۔۔‬
‫ارے تو ِا تنا زور سے کیوں چوس رہی ہے رنڈی۔۔ زبان ِن کال کر میرے لنڈ کو نیچے سے اوپر تک چاٹ لے نا۔۔!""‬
‫سندر نے کہا۔۔۔‬
‫ٹھیک ہے۔۔ لیکن ابھی جھڑنا نہیں اپنی منی ِن کلنے مت دینا۔۔ مجھے اتنا گرم کرکے بھاگ مت جانا۔۔" ممی نے ِس ر"‬
‫اوپر اٹھاکر کہا اور پِھ ر اسکی رانوں کی طرف منہ گھما ِل یا۔۔۔‬
‫مجھے آدھی ادھوری باتیں سمجھ آ رہی تھی۔۔ لیکن ان میں بھی مزہ ِا تنا آ رہا تھا کہ میں نے اپنا ہاتھ اپنی‬
‫رانوں کے بیچ دبا ِل یا تھا۔۔۔ اور اپنی رانوں کو ایک دوسری سے رگڑنے لگی۔۔ اس وقت مجھے نہیں پتا تھا کہ‬
‫مجھے یہ کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔‬
‫اچانک ہمارے گھر کے سامنے سے ایک ٹریکٹر گذرا۔۔ اسکی روشنی کچھ پل کے ِل ئے گھر میں پھیل گی۔۔ ممی ڈر‬
‫کر ایک دم الگ ہٹ گئی۔۔ لیکن میں نے جو کچھ دیکھا‪ ،‬میرا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔۔‬
‫سندر کا ِل نڈ گدھے کے 'لنڈ' کی طرح بھاری بھرکم‪ ،‬بھیانک اور اسکے چہرے کے رنگ سے بھی زیادہ کاال کلوٹا‬
‫تھا۔۔وہ سانپ کی طرح سامنے کی طرف اپنا پھن سا پھیالئے سیدھا تناکھڑا تھا۔۔ اس کے لنڈ کا اگال حصہ ٹماٹر‬
‫کی طرح الگ ہی ِد کھ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لئے تو میں ڈر ہی گئی تھی۔۔ میں نے اس'سے پہلے کئی بار چھوٹو‬
‫بھیا کی 'للی' دیکھی تھی۔۔ لیکن وہ تو مشِک ل سے ‪ِ 2‬ا نچ کی تھی۔۔ دوبارہ اندھیرا چھا جانے کے باوجود اس‬
‫حرامی کا اکڑا ہوا لنڈ میری آنکھوں کے سامنے ناچتا رہا۔۔‬
‫کیا ہوا ؟ ہٹ کیوں گئی چاچی۔۔ ِک تنا مزہ آ رہا ہے۔۔ تم تو کمال کا چاٹتی ہو۔۔!" یہ کہہ کر سندر نے ممی کے"‬
‫بالوں کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ ِل یا۔۔۔‬
‫کچھ نہیں ناں۔۔رکو ایک ِم ِن ٹ۔۔۔ الئیٹ آن کر لوں؟ تمہارا لنڈ دیکھے بغیرمجھے اتنا مزہ نہیں آ رہا۔۔ " ممی نے"‬
‫کھڑا ہوکر کہا۔۔‬
‫مجھے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔۔ تم اپنی دیکھ لو چاچی۔۔!" سنڈر نے کہا۔۔۔"‬
‫ایک ِم ِن ٹ۔۔!" کہکر ممی میری طرف آئی۔۔ میں نے گھبراکر اپنی آنکھیں بند کر لی۔۔ ممی نے میرے پاس آکر"‬
‫جھک کر دیکھا اور مجھے تھپکی سی دیکر رضائی میرے منہ پر ڈال دی۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد رضائی میں سے چھن چھن کر روشنی مجھ تک پہنچنے لگی۔۔ میں بے چین سی ہو گئی۔۔‬
‫میرے کانوں میں 'سپڑ سپڑ لپڑ لپڑ' اور خوبصورت کی ہلکی ہلکی آہیں سنائی دے رہی تھیں۔۔ منہ ڈھک کر‬
‫سونے کی تو مجھے ویسے بھی عادت نہیں تھی۔۔ پِھ ر مجھے سارا 'تماشا' دیکھنے کی طلب بھی ہو رہی تھی۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد میں نے ِب ستر اور رضائی کے بیچ تھوڑی سی جھری بنائی اور ان دونوں کو دیکھنے لگی۔۔‬
‫میرے حیرت کا کوئی ٹِھ کانا نہ رہا۔۔ "یہ ممی کیا کر رہی ہیں؟" میری سمجھ میں بالکل بھی نہیں آیا۔۔۔‬
‫گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ممی نے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سندر کا بھیانک لنڈ اوپر اٹھا رکھا تھا اور‬
‫سندر کے لوڑے کے نیچے لٹکنے والے موٹے موٹے گولوں کو باری باری سے اپنے منہ میں لیکر چوسنا شروع‬
‫کردیا۔۔‬
‫میری گِھ گھی بندھتی جا رہی تھی۔۔ سب کچھ میرے ِل ئے ایک بھیانک خواب جیسا تھا۔۔ میں تو اپنی پلکیں تک‬
‫جھپکنا بھول چکی تھی۔۔۔‬
‫سندر کھڑا کھڑا ممی کا ِس ر پکڑے ِس سک رہا تھا۔۔ اور ممی بار بار اوپر دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔ اس حرامی‬
‫سندر کی آنکھیں پوری طرح بند تھی۔۔ ِا سی ِل ئے میں نے رضائی کو تھوڑا سا اور اوپر اٹھا ِل یا۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد ممی نے اس کے ٹٹوں کو چھوڑ کر اپنی پوری زبان باہر ِن کالی اور سندرکے ِل نڈ کو نیچے سے اوپر‬
‫تک چاٹنا شروع کردیا۔۔ جیسے وہ کوئی آئیسکریم ہو۔‬
‫اوہہہہ اوہ! اوہ!۔۔ رک جا چاچی افہہ۔۔ میری رنڈی چاچی میرا پانی ِن کل جائیگا۔۔!" سندر کی ٹانگیں کانپ رہی"‬
‫تھیں۔۔ لیکن ممی بار بار اوپر نیچے نیچے اوپر چاٹتی رہی۔۔ سندر کا پورا ِل نڈ ممی کے تھوک سے گیال ہوکر‬
‫چمکنے لگا تھا۔۔‬
‫تیرے پاس ِک تنا ٹائم ہے؟" ممی نے بہت پیار سے اس کے لوڑے کو ہاتھ سے سہالتے ہوئے پوچھا۔۔۔"‬
‫میرے پاس تو پوری رات ہے چاچی۔۔ تمہاراکیا ِا رادہ ہے؟" سندر نے سانس بھر کر کہا۔۔"‬
‫تو ِن کل جانے دے بھڑوے نکال اپنا پانی میرے منہ میں۔۔ جھڑ جا۔۔" ممی نے کہا اور ِل نڈ کے سپارے کو منہ سے"‬
‫لگا کر اپنے ہاتھ کو اس کے پورے لنڈ پر۔۔تیزی سے آگے ِپ یچھے کرنے لگی۔۔‬
‫اچانک سندر نے اپنے گھٹنوں کو تھوڑا سا موڑا اور دیوار سے چپک کر ممی کے بالوں کو کھینچتے ہوئے اپنے‬
‫لوڑے کو ان کے منہ میں ٹھونسنے کی کوِش ش کرنے لگا۔۔ 'ٹماٹر' واال حصہ تو ممی کے منہ میں گھس بھی گیا‬
‫تھا۔۔ لیکن شاید ممی کا دم گھٹنے لگا اور انہوں نے ِک سی طرح اسکو اپنے منہ سے باہر ِن کال ِد یا۔۔‬
‫سندر کے لنڈ نے اچانک ہی ممی کے چہرے پر گاڑھی گاڑھی منی کی ِپ چکاِریاں چھوڑنا شروع کر دیں تھیں۔۔ ۔۔‬
‫ممی نے دوبارہ اس کے لوڑے کے سپارے کو اپنا منہ کھول کرسندر کی منی کو مزے لے لے کر گھونٹ بھرنے‬
‫"شروع کردئے۔۔ جب کھیل ختم ہو گیا تو ممی نے ہنستے ہوئے کہا‪ "،‬سارا چہرہ گندہ کر ِد یا۔۔‬
‫میں تو تیرے منہ کے اندر ہی جھڑنا چاہتا تھا چاچی۔۔ تم نے ہی منہ ہٹا ِل یا۔۔" سندر کے چہرے سے سکون کِی "‬
‫جھلک آ رہی تھی۔۔۔‬
‫کمال کا لوڑا ہے تیرا۔۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا تو میں کبھی تمہیں نہ تڑپاتِی ۔۔" ممی نے ِص رف ِا تنا ہی کہا اور"‬
‫سندر کی شرٹ سے اپنے چہرے کو صاف کرنے لگی۔۔۔‬
‫مجھے تو تب تک ِا تنا ہی پتا تھا کہ 'للی' موتنے کے کام آتی ہے۔۔ آج پہلی بار پتا چال ِک 'یہ' اور کچھ بھی‬
‫چھوڑتا ہے۔۔ جو بہت میٹھا ہوتا ہوگا۔۔ تبھی تو ممی نے چٹخارے لے لے کر اس کو پہلے تو پیا اور پھر بعد میں‬
‫بھی چاٹتی رہی۔۔‬
‫اب میری باری ہے۔۔ کپڑے اتار چاچی جی۔۔" سندر نے ممی کو کھڑا کرکے انکے چوتڑ اپنے ہاتھوں میں پکڑ ِل ئے۔۔۔"‬
‫تم پاگل ہو کیا؟ پرسوں میں تیرے سارے شکوے ختم کردوں گی۔۔ آجِ صرف میری شلوار نیچے کرکے 'چود'"‬
‫لو۔۔" ممی نے اپنا ناڑا ڈھیال کرتے ہوئے کہا۔۔‬
‫انکی باتوں کی وجہ سے میرا گندے الفاظ کا ذخیرہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔‬
‫دل تو کر رہا ہے چاچی کِہ تمہیں ابھی ننگی کرکے کھا جاؤں! لیکن خیر اپنا وعدہ یاد رکھنا۔۔ پرسوں کھیت"‬
‫واال۔۔" سندر نے کہا اور ممی کو اپنے سامنے کتیا بنا کرجھکانے لگا۔۔ لیکن ممی تو جانتی تھی۔۔ ہلکا سا ِا شارا‬
‫ِم لتے ہی ممی نے الٹی ہوکر جھکتے ہوئے اپنی کہِن یاں فرش پر ٹکالیں اور گھٹنوں کے بل ہوکر رانوں کو کھولتے‬
‫ہوئے اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھا ِل یا۔‬
‫سندر ممی کا دیوانا یوں ہی نہیں تھا۔۔ نہ ہی اس نے ممی کی جھوٹی تعریف کی تھی۔۔ آج بھی ممی جب‬
‫چلتی ہیں تو دیکھنے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔۔ چلتے ہوئے ممی کے چوتڑ ایسے تِھ رکتے ہیں جیسے چوتڑ نہ‬
‫ہوں کوئی طبلہ ہو جو ہلکی سی تھاپ سے ہی پورا کانپنے لگتا ہے۔۔ کٹورے کی سی گوالئی رکھنے والے دونوں‬
‫چوتڑوں کی غضب کی اٹھان اور انکے بیچ کی دراڑ; سب پر ہی غضب ڈھاتے تھے۔۔‬
‫!ممی کے کسے ہوئے جسم کی دودِھ یا رنگت اور اس پر انکی قاِت ل ادائیں; کیوں نہ مر ِم ٹیں لوگ‬
‫خیر‪ ،‬ممی کے کہِن یوں اور گھٹنوں کے بل جھکتے ہی سندر انکی گانڈ کے ِپ یچھے بیٹھ گیا۔۔ اگلے ہی پل اس نے‬
‫ممی کے چوتڑوں پر تھپکی مار کر شلوار اور پینٹی کو نیچے کھینچ ِد یا۔ ِا سکے ساتھ ہی سندر کے منہ سے رال‬
‫ٹپکنے لگی‪ "،‬کیا غضب کے گورے کسے ہوئے چوتڑ ہیں چاچی تیرے۔۔!" یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ‬
‫ممی کے چوتڑوں سے ِچ پکا کر انہیں سہالنا شروع کر ِد یا۔۔‬
‫ممی مجھ سے ‪ِ 90‬ڈ گری کے اینگل پر جھکی ہوئی تھیں‪ِ ،‬ا سی ِل ئے مجھے ان کے اونچے اٹھے ہوئے چوتڑوں کے‬
‫عالوہ کچھ ِد کھائی نہیں دے رہا تھا۔۔ لیکن میں ٹکٹکی لگائے تماشا دیکھتی رہی۔۔۔‬
‫ہائے چاچی! تیری چوت ِک تنی رسیلی ہے ابھی تک۔۔ ِا سکو تو بڑے پیار سے ٹھوکنا پڑے گا۔۔ پہلے تھوڑی چوس"‬
‫لوں۔۔" اس نے اتنا کہا اور ممی کے چوتڑوں کے درمیان اپنا چہرہ گھسا ِد یا۔۔۔ ممی ِس سکتے ہوئے اپنے چوتڑوں‬
‫کو گال گول دائرے میں گھمانے کی کوِش ش کرنے لگی۔۔‬
‫آاییشہہ۔۔اب اور مت تڑپا سندر۔آنہہہہ۔۔۔ میری چوت بالکل تیار ہے چدنے کے لئے ماں کے خصم۔۔ گھسیڑ دے اپنا"‬
‫"!لنڈ میری چوت کے اندر‬
‫ایسے کیسے ٹھوک دوں اندر چاچی۔۔؟ ابھی تو پوری رات پڑی ہے۔۔۔" سندر نے چہرہ اٹھاکر کہا اور پِھ ر سے زبان"‬
‫ِن کال کر چہرہ ممی کی رانوں میں گھسا ِد یا۔۔‬
‫سمجھا کرو سندر۔۔ آآہ۔۔فرش مجھے چبھ رہا ہے۔۔ تھوڑی جلدی کر مادرچود۔۔!" ممی نے اپنا چہرہ ِب لکل فرش"‬
‫"!سے ہٹا ِل یا۔۔ انکے 'دودھ' فرش پر ِٹ ک گئے۔۔‪ "،‬اچھا رک۔۔ ایک ِم ِن ٹ رک ناں۔۔ مجھے کھڑی تو ہونے دے۔۔‬
‫ممی کے کہتے ہی سندر نے کسی اچھے بچے کی طرح انہیں چھوڑ ِد یا۔۔ اور ممی نے کھڑا ہوکر میری طرف منہ‬
‫کر ِل یا۔۔‬
‫جیسے ہی سندر نے انکی قمیض اوپر اٹھائی۔۔ ممی کی پوری رانیں اور ان کے درمیان چھپی چھوٹے چھوٹے‬
‫کالے بالوں والی موٹی چوت کی پھانکیں میرے سامنے آ گئیں۔۔ ایک بار تو خود میں ہی شرما گئی۔۔ گرِم یوں‬
‫میں جب میں کئِی بار چھوٹو کے سامنے ننگی ہی باتھ روم سے ِن کل آتی تو ممی مجھے 'شیم شیم' کہہ کر‬
‫ِچ ڑھاتی تھیں۔۔ پِھ ر آج کیوں اپنی شیم شیم کو اس حرامی لڑکے کے سامنے ننگا کر ِد یا; اس وقت یہ سب کچھ‬
‫میری سمجھ سے باہر تھا۔۔۔‬
‫سندر گھٹنے ٹیک کر ممی کے سامنے میری طرف پیٹھ کرکے بیٹھ گیا اور ممی کی چوت میری نظروں سے‬
‫چھپ گئی۔۔ اگلے ہی پل ممی آنکھیں بند کرکے ِس سکنے لگی۔۔ انکے منہ سے عجیب سی آوازیں آ رہی تھی۔۔‬
‫میں حیرت سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔‬
‫بس‪-‬بس۔۔ مجھ سے کھڑا نہیں رہا جا رہا سندر۔۔ دیوار کا سہارا لینے دے۔۔"‪ ،‬ممی نے کہا اور سائیڈ میں ہوکر"‬
‫دیوار سے پیٹھ چپکا کر کھڑی ہو گئیں۔۔ انہوں نے اپنے ایک پیر سے شلوار بِا لکل اتار دی تھی اور سندر جیسے‬
‫ہی انکے سامنے بیٹھا ویسے ہی اپنی ننگی ٹانگ اٹھاکر سندر کے کندھے پر رکھ دی۔۔‬
‫اب سندر کا چہرہ اور ممی کی چوت مجھے بالکل صاف ِد کھائی دے رہے تھے۔۔ ہائے! سندر نے اپنی زبان باہر‬
‫ِن کالی اور ممی کی چوت میں گھسیڑ دی۔۔ ممی دوبارہ سے ِس سکنے لگی۔۔ ممی نے سندر کا ِس ر کس کر پکڑ رکھا‬
‫تھا اور سندر اپنی زبان کو کبھی اندر باہر اور کبھی اوپر نیچے کر رہا تھا۔۔‬

‫خود بخود میرے ہاتھ اپنی شلوار میں چلے گئے۔۔ میں نے دیکھا کہ میری چوت بھی ِچ پِچ پی سی ہو رھی ہے۔۔‬
‫میں نے اس کو صاف کرنے کی کوِش ش کی تو مجھے بہت مزہ آیا۔۔‬
‫لیکن اصل مزہ تو ممی سندر سے لے رہی تھیں جو ان کی چکنی چوت کو مزے لے لے کر چاٹ رہا تھا ممی نے‬
‫سندر کے سر کو کس کر پکڑا ہوا تھا جیسے وہ ان کی چوت چھوڑ کر پیچھے ہٹ جائے گا لیکن سندر نے ان کو‬
‫اس وقت نہ چھوڑا جب تک ان کی ٹانگیں کپکپا نہ گئیں اور وہ سسک سسک کر بے سدھ نہ ہوگئیں اب سندر‬
‫نے ممی کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور اپنا ناگ جیسا تنا لنڈ ایک ہی جھٹکے میں ممی کی‬
‫چوت میں چڑھا دیا ممی کی چیخ نکل گئی اور وہ غصے سے بولیں‬
‫بہن چود کہیں بھاگی جارہی ہوں کیا چوت پھاڑے گا میری‬
‫لیکن سندر نے تیز جھٹکے مارنے جاری رکھے ممی کی چوت واقعی پھٹ چکی تھی لیکن تھوڑی دیر چیخ وپکار‬
‫کے بعد ان کی لذت آمیز سسکیاں کمرے میں گونجنے لگیں‬
‫آہ سندر رگڑ دے میری چوت کو آج لگا ہے کہ کسی مرد نے مجھے چودا ہے‬
‫سندر کے زوردار جھٹکوں سے دھپ دھپ پچ پچ کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ممی کی سسکاریاں اور ان کی‬
‫ننگی گالیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ حاالنکہ سندر ممی کو چودنے میں کوئی رعایت نہیں کررہا تھا مگر‬
‫ممی مسلسل اس کو اکسا رہی تھیں‬
‫تیرا لنڈ تو سندر بہت جاندار ہے میرے شوہر کا لنڈ تو لنڈ ہی نہیں بلکہ للی ہے جو میری چوت کی پیاس نہیں‬
‫بجھا سکتی‬
‫سندر بوال‪ :‬اور انیل کا؟‬
‫تو ممی بولیں‪ :‬ہاں گزارہ ہے لیکن تیرے لنڈ جیسا پھر بھی نہیں مجھے پہلے پتہ ہوتا تو تجھ سے کب کی چد‬
‫جاتی‬
‫تو پھر لے مزے۔ سندر نے یہ بول کر ممی کو گھوڑی بنا کر چودنا شروع کردیا‬
‫گھوڑی بناکر چودنے سے اب مجھے ممی کے خوبصورت بھاری چوتڑ ہلتے ہوئے اور سندر کا لنڈ اندر باہر ہوتا نظر‬
‫آرہا تھا سندر تھوڑی تھوڑی دیر میں ان ہلتے ہوئے چوتڑوں پر تھپڑ بھی رسید کررہا تھا جس سے ممی کے‬
‫گورے چوتڑ الل ہوگئے تھے تھپڑ کھا کر ممی سسکتی ضرور تھیں لیکن سندر کو منع نہیں کررہی تھیں شاید‬
‫ان کو اس میں کوئی مزہ مل رہا ہو؟ کچھ دیر بعد سندر نے لنڈ کو چوت سے باہر نکال لیا اور ممی کے چوتڑ‬
‫کھول کر ان کی گانڈ پر تھوک دیا اور پھر ان کو چودنے لگا لیکن اس نے جو کیا اس وقت سمجھ نہ آیا بعد‬
‫میں پتہ چال کہ وہ ممی کی گانڈ مار رہا تھا ممی پہلے بلبالئیں اور بولیں‬
‫نہیں سندر یہاں نہیں‬
‫مگر سندر نے ان کی ایک نہ سنی اور جھٹکے مارنے شروع کردیے ممی کی گھٹی گھٹی چیخیں نکل رہی تھیں‬
‫ساتھ میں وہ سندر کو ننگی گالیاں بھی دے رہی تھیں‬
‫‪.....‬مادر چود کیا گانڈ بھی پھاڑے گا میری‪ ..‬بھڑوے آہ آہ‬
‫سندر ممی کے چوتڑ پکڑ کر جھٹکے مارتا رہا کچھ دیر میں سندر نے غرانا شروع کردیا اور جھٹکے مارنا تیز‬
‫کردیے ممی بھی اب چیخنے لگی تھیں‬
‫بہن چوددددد‪ ....‬آہ آہ آہ‬
‫اب سندر کی آہ آہ کی آواز نکلی اور اس نے ممی کو کس کر پکڑ لیا اور پھر کچھ دیر بعد پیچھے ہٹ کر گہری‬
‫گہری سانسیں لینے لگا‬
‫ممی نے فٹافٹ اپنی شلوار قمیض کو ٹھیک کیا اور بولیں‬
‫مادر چود کرلی نہ اپنی من مانی‬
‫سندر بوال‬
‫چاچی تیری ننگی گانڈ دیکھ کر کیا ایسے ہی چھوڑ دیتا۔ چل اب چلتا ہوں پرسوں کھیت واال وعدہ یاد ہے نہ؟‬
‫ہاں یاد ہے چل اب نکل۔ ممی بولیں‬
‫پھر دو دن کھیت میں کیا کچھ ہوا مجھے پتہ نہیں چال یقینًا سندر نے ممی کی مست جوانی کو خوب لوٹا‬
‫ہوگا اب دس سال گزرنے کے بعد بھی سندر ہمارے ہاں آتا رہتا ہے اس عرصے میں اس نے ممی کے نشیب و فراز‬
‫کی اچھی طرح سیر کرلی تھی اور اب میرے چپے چپے کو کھوجنا چاہتا تھا لیکن میں نے بھی سوچ لیا تھا‬
‫اپنی جوانی کسی صورت سندر کے حوالے نہیں کروں گی لیکن یہ تو آنے واال وقت ہی فیصلہ کرے گا۔۔ لیکن‬
‫جو بھی ہوگا آپ سے ضرور شئیر کروں گی۔‬
‫ختم شد‬

‫‪© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved‬‬

You might also like