Professional Documents
Culture Documents
اناڑی اناڑی ہی رہا
اناڑی اناڑی ہی رہا
ہمارے اوسان خطا ہو گے۔عالیہ بھی ڈر گئی اس نے اپنا ہاتھ مجھ سے چھڑوایا اور کھڑی ھو گئی۔میں نے کہا
تم رکو میں دیکھتا ھوں اگر امی ہوئی تو کہہ دینا کے چاول دینے آئی تھی۔ میں باہر نکال اور دیکھا دروازہ
کھال ھوا تھا لیکن کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ اتنے میں فقیر کی صدا آئی میں سمجھ گیا کہ فقیر نے ہی دروازہ
کھوال ھو گا ھلکا سا۔ میں دل میں فقیر کو کوسنے لگ گیا۔ اور عالیہ کو آواز دی کہ کوئی نہیں ہے وہ بھی باہر آ
گئی اور بولی کہ میں چلتی ھوں کہ اس سے پہلے کہ کوئی اور آ جائے۔ میں نے کہا کہ تھوڑی دیر رکو لیکن وہ
نہ رکی اور چلتی بنی میں فقیر کو کوستا رہا۔ اور پورا دن عالیہ کو چودنے کے خیالی پالو بناتا رہا۔
خیر اگلے دن سکول گیا تو میرے سر پہ سیکس سوار تھا میں نے حوصلہ کر کے ایک دوست کو کہا کہ مجھے
کیفے پہ لے جا کے سیکسی مووی دیکھأو۔ وہ کہتا یہ کونسی بات ہے ہم بریک ٹائم ٹلی مار جایں گے۔ بریک
ہوئی تو ہم کیفے پہ آگئے جو کہ سکول سے زیادہ دور نہیں تھا وہاں پہ رش تھا ہمیں تھوڑی دیر انتظار کرنا پڑا
پھر ایک کیبن خالی ھو گیا۔ ہم اس میں بیٹھ گیے۔ میں بہت گھبریا ھوا تھا۔ دوست نے جیسے ہی مووی چالئی
ایک گوری کچن کی صفائی کر رہی تھی اس نے پینٹی پہنی ہوئی تھی۔میرا شیر تو اسے دیکھ کہ ہی پینٹ سے
باہر آنے کو بیتاب ہو رہا تھا۔ایک مرد آتا ہے اور اس کے پیچھے سے ہاتھ لگاتا ہے اور رومینس (جس کا مجھے
بعد میں پتہ چال کہ اسے رومینس کہتے ہیں) سٹارٹ کر دیا اور سیکس کیا میں زندگی میں پہلی بار کسی
لڑکی کو اس طرح ننگا دیکھ رہا تھا اور سیکس میں اس طرح کھوگیا کہ جیسے میں ہی سیکس کر رہا تھا۔
میں بڑے غور سے نوٹ کر رھا تھا۔ 25منٹ گزرنے کا پتہ ہی نہ چال اور ہمارا بریک ٹائم بھی ختم ہو چکا تھا
وہاں سے ہم کالس میں آگئے اور میں کالس میں آنے کے باوجود نیٹ کیفے کی مووی میں ہی کھویا ہوا تھا۔
چھٹی ہو گئی اور میں گھر آگیا ۔
دن گزرتے رہے اور میں روزانہ سوچتا کہ کیفے جاونگا دوبارہ لیکن ٹائم ہی نہیں مال۔ اسی طرح ایک دن میں
گھر میں تھا کہ مجھے امی بولی کہ پنکھا نہیں چل رہا اسے ٹھیک کر دو میں نے امی کو کہا کے ٹیسٹر اور
پالس کدھر ہے پنکھے کا سوئچ خراب تھا۔ امی نے کہا وہ تو عالیہ لوگ لے کر گئے ہیں ان کے گھر سے لے آٔو۔ میں
نے کہا کہ رہنے دو وہ خود دے جایں گے اصل میں اب مجھے ان کے گھر جانے پہ کوفت ہوتی تھی کیونکہ عالیہ
کی امی پڑھائی کا پوچھ کے نصحیت کرنے لگ جاتی تھی۔ امی بولی ۔نہیں ابھی جأو اور پنکھا ٹھیک کرو۔میں
نا چاہتے ہوئے بھی ان کے گھر چال گیا اور گھر کے دروازہ پہ جا کے بیل دی ۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھال تو
سامنے عالیہ ہی تھی مجھے کہتی کہ تم کب سے شرمانے لگ گئے اور سیدھا اندر کیوں نہیں آئے اور یہ کہتی
ہوئی مجھے اندر آنے کے لے رستہ دیتے ہو ے سائیڈ پہ ہو گی۔ میں نے کہا کہ پالس وغیرہ لینا ھے وہ بولی
ٹھیک ہے اور بولی امی نے رکھا ہوگا میں دیکھتی ہو امی گھر میں نہیں ہے۔ میں نے کہا ھاں دیکھ لو پھر بولی
گھر میں کوئی نہیں ہے اور مجھے ملنا بھی نہیں ہے اب میں اس کا اشارہ سمجھ رہا تھا لیکن مجھ میں آگے
بڑھنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ اتنے میں وہ پالس لے آئی اور مجھے پکڑا دیا۔ میں پالس لے کے دروازے کی
طرف چل دیا وہ میرے پیچھے دروازہ بند کرنے آ رہی تھی اور بولی مجھے تو اکیلے ڈر بھی لگتا ہے میں کچھ
نہیں بوال اور گھر آ گیا۔ تھوڑی دیر گزری مجھ سے رہا نہیں جا رہا تھا میں دوبارہ ان کے گھر چال گیا اور
دروازے کو زور دیا دروازہ بند تھا۔ بیل دی عالیہ نے دروازہ کھوال اور مسکرائی پھر پوچھا اب کیا ھے میں نے
کہا کچھ نہیں تم کہ رہی تھی کہ ڈر لگ رہا ہے اس لیے آیا ھوں۔ وہ بولی اچھا۔ میں نے پوچھا گھر والے کدھر
گئے ہیں میں تسلی کر لینا چاہتا تھا تا کہ اس حساب سے آگے بڑھوں۔ وہ بولی۔ وہ فوتگی پہ گئے ہیں اور شام
کو جنازہ ہے میں نے اندازہ لگایا کہ 3گھنٹے ہیں آج زبردستی بھی کرنی پڑی تو کروں گا۔ میں نے کہا اب
بیٹھاو گی نہیں۔ وہ بولی بیٹھ جأو۔ لیکن اگر کوئی آگیا۔ میں نے کہا اگر تم کہتی ہو تو چال جاتا ہوں میں کسی
قسم کے شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا وہ بولی۔ نہیں نہیں تم رکو۔ میں دروازہ الک لگاتی ہوں۔ وہ الک لگا کے آ
گئی اور ہم ٹی وی دیکھنے لگے۔ ٹی وی پہ کچھ خاص نہیں تھا۔ میں نے کہا ٹی وی بور کر رہا ہے ٓأو باتیں کرتے
ہے۔ وہ بولی۔کرو باتیں میں سن رہی ہوں۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ سالی لفٹ بھی کروا رہی ھے اور نخرے بھی۔
میں اٹھ کے اس کے پاس چال گیا اور ادھر ادھر کی بونگھی مارنی شروع کر دی ۔ باتیں کرتے کرتے میں نے اس
کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔اور اس سے باتیں کرتا رہا ۔ پھر پتہ نہیں مجھ میں کہاں سے ہمت آئی
میں نے اچانک اس کے ہونٹوں پہ کس کی میں نے مووی میں دیکھا تھا۔ اس نے کوئی ریکشن نہیں دیا میں
شیر ہو گیا اب دوبارہ سے ایک ھاتھ اس کی گردن پہ رکھا اور ھونٹوں کو لگاتار کس کرتا رھا تھا ۔ عالیہ
تھوڑی دیر تو ویسے بیٹھی رہی پھر اس نے میرے ھونٹوں کو چوسنا سٹارٹ کر دیا۔ مجھے بہت اچھا لگ رھا
تھا۔ میں مزے کے ساتویں آسمان پہ پہنچا ہوا تھا میں نے کس کرتے کرتے اسے صوفے پہ لٹا لیا۔ پھر میں نے اس
کی گردن پہ کس سٹارٹ کی ۔میں اس کے اوپر تھا اور میرا لن کبھی اس کی چوت کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا
کبھی پیٹ کے ساتھ۔ میں گردن سے کس کرتا ھوا قمیض کے اوپر سے ہی اس کے بوبز پہ آیا چھوٹے چھوٹے اور
روئی کی طرح نرم و مالئم پستان کی تو کیا ہی بات تھی۔ مجھ سے رھا نہیں جا رہا تھا۔ میں نے اس کی
قمیض اوپر کی اور دودھ کی طرح سفید پیٹ دیکھ کہ پاگل ہو گیا اور اسے چومنا اور چاٹنا شروع کر دیا۔
میں پاگلوں کی طرح پیٹ کو پیار اور کس اور سک کر رہا تھا۔ عالیہ کبھی میرا سر پکڑ کے مجھے روکتی کبھی
خود پنا سر ادھر ادھر مارتی۔ میں نے اب ایک ھاتھ سے اس کی قمیض کو اوپر کرنا سٹارٹ کر دیا اب کی دفعہ
عالیہ نے مجھے نہیں روکا۔ اب میں نے تھوڑی سی قمیض اور اوپر کی تو عالیہ نے اپنی کمر کو اوپر کر کے
قمیض اتارنے کا اشارہ کر دیا۔ میں نے جلدی سے اس کی قمیض اتار دی۔ عالیہ نے بلیک رنگ کا براہ پہنا ہوا تھا۔
اس میں اس کے بوبز باہر آنے کو تڑپ رہے تھے۔ میں نے ایک جھٹکے سے عالیہ کا بریزیر اوپر کیا اور دونوں
ہاتھوں سے دونوں بوبس کو دبانے لگا۔ اف اتنے نرم میں زور زور سے دبا رھا تھا عالیہ کہتی کہ آرام سے بابا ۔
پھر میں نے دائیں پستان کو اپنے منہ میں لے لیا اور بائیں کو ہاتھ سے دبا رہا تھا۔ اب عالیہ آہستہ آہستہ آواز
نکال رہی تھی جو سمجھ نہیں آرہی تھی۔میں کبھی دائیں پستان کو منہ میں لیتا کبھی بائیں کو 10منٹ تک
میں عالیہ کے پستان کو سک کرتا رہا ۔پھر اس کے پستان کو سک کرتا ھوا میں عالیہ کے منہ کی طرف گیا اور
اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔ عالیہ کسنگ کا فل رسپانس دے رہی تھی کبھی اپنی زبان میرے
منہ میں داخل کرتی اور کبھی میری زبان کو سک کرتی۔ میں اپنا ایک ھاتھ عالیہ کے پیٹ پہ پھیرتا ھوا نیچے
کی طرف لے آیا۔جب میرا ھاتھ پھدی کے اوپر آیا تو وہ جگہ گیلی تھی مجھے لگا کہ عالیہ کا پیشاب نکل گیا
ہے وہ تو مجھے بعد میں پتہ چال کہ عورت بھی مرد کی طرح فارغ ہوتی ہے۔ اب میں عالیہ کی ٹانگوں میں
بیٹھا ھوا تھا میں نے جیسے عالیہ کے ٹراوزر میں ھاتھ ڈال کے نیچے کرنے لگا تو عالیہ نے میرا ھاتھ پکڑ لیااور
بولی۔ نہ کرو ٹراوزر نہ اتارو۔ اور مجھے بازو سے پکڑ کے اپنے اوپر کر لیا۔ اور میری شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔
میں نے شرٹ اتارنے میں اس کی مدد کی اور پھر عالیہ کے اوپر لیٹ کے گردن پہ کسنگ کرنے لگ گیا ۔ میں نے
عالیہ کو الٹا لیٹنے کو کہا وہ الٹا لیٹنے لگی پھر بولی بیڈ پہ لیٹتی ہوں۔ ادھر جگہ کم ہے۔وہ بیڈ پہ الٹا لیٹ
گئی۔اب میں نے اس کی گردن پہ کسنگ سٹارٹ کر دی۔اور کسنگ کرتا ہوا کمر پہ ٓاگیا اور اسی طرح کسنگ کرتا
ہوا نیچے ٓاتا گیا۔پھر میں نے منہ سے ہی عالیہ کا ٹراوزر نیچے کیا تو اس نے کوئی منع نہیں کیا بلکہ ٹھوڑا سے
اوپر ہو کے سامنے سے بھی ٹراوزر نیچے کر دیا۔اب میں نے اس کی بٹک پہ کسنگ سٹارٹ کردی اور کبھی زبان
اس کی الئن میں پھیرتا۔ عالیہ مزے سے تلمال رہی تھی۔ میں اب اس کی پھدی دیکھنے کے لیے بیتاب ہو رہا
تھا۔ میں نے عالیہ کو سیدھا کیا ۔ لیکن وہ جیسے ہی سیدھا ہوئی اس نے ٹانگوں کو جوڑ لیا۔ میں نے اس کی
ٹانگوں کو کھوال تو وہ شرما رہی تھی میں نے ایک ہاتھ سے اپنا ٹراوزر نیچے کیا اور پأوں کی مدد سے اتار دیا
اب میں بالکل ننگا تھا اور میرا لن پھدی میں جانے کے لیے تڑپ رہا تھا۔ اب میں نے عالیہ کی شلوار اتار دی وہ
ننگی میرے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔عالیہ کی چوت گیلی تھی میں نے ایک ھاتھ سے لن کو پھدی پہ سیٹ کیا
اور پش کیا پھدی گیلی تھی جس کی وجہ سے لن آسانی سے اندر گیا جیسے لن اندر گیا تو عالیہ نے ہلکی سی
آوز نکالی میں نے اپنا منہ عالیہ کے منہ پہ رکھ دیا تاکہ عالیہ کی آواز نہ نکلے۔ پھر ایک اور جھٹکا مارا اور پورا
لن اندر چال گیا۔ اب میں نے زور زور سے جھٹکے مارنے شروع کر دیے اب میرے جھٹکوں کا عالیہ بھی جواب
دے رہی تھی۔پھر اچانک عالیہ نے میرے لن کو زور سے بھینچا اور 3سیکنڈ بعد چھوڑ دیا۔ میں لگاتار جھٹکے
مارتا رہا پھر میں جب فارغ ہونے پہ آیا تو میرا دل کیا کے اپنے ٹٹوں کو بھی اندر گھسا دوں۔ میں عالیہ کے اندر
ہی فارغ ہو گیا اور بے سدھ ہو کے عالیہ کے اوپر ڈھے گیا۔ میں عالیہ کے اوپر ہی لیٹا تھا ایسے لگ رہاتھا جیسے
بندہ کوئی کام کر کے ھٹا ھو۔اور تھکاوٹ کے بعد اب سانس لے رہا ہو۔ پھر میرا لن آہستہ آہستہ سکٹر کے باہر
نکل آیا۔میں اس کے اوپر سے ہٹ کے ایک طرف ہو گیا۔ عالیہ مجھے کہتی چپ کیوں کر گیے۔میں نے کہا چپ تو
نہیں کیا ۔ میں نے اب لیٹے لیٹے ایک ٹانگ عالیہ کے اوپر رکھی اور اس کے بوبس سے کھیلنے لگ گیا۔ دودھیا
رنگ کے ممے مجھے بہت پیارے لگ رہے تھے ان کا سائز بھی یہی کوئی 32 30ہو گا۔ میں نے بوبس کو مسلنا
شروع کر دیا اور ادھر سے میرا لن دوبارہ کھڑا ھو گیا۔ عالیہ مجھے کہتی واہ جی شیر تو پھر تیار ہو گیا ہے
میں نے کہا تم ہو ہی اتنی پیاری اس میں شیر کا کوئی قصور نہیں۔ میں نے اس کے مموں کو منہ میں لے کے
سکنگ شروع کر دی عالیہ دوبارہ گرم ہو گیی۔میں عالیہ کے اوپر لیٹ کے مموں کو منہ میں لے رہا تھا اور پورا
مما منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہا تھا جس میں کسی نہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو رہا تھا۔ عالیہ نے
میرے سر پہ ہاتھ رکھ کے نیچے کودبا رہی تھی۔ اور نیچے سے اوپر ہو کے اپنی پھودی کو لن کے ساتھ مسل کے
اندر لینے کی کوشس کر رہی تھی۔ میں جان بوجھ کے اندر نہیں کر رہا تھا اور اسے تٹرپا رہا تھا۔ پھر عالیہ
مجھے کہتی سائیڈ پہ ہو میں نے کہا اسے پتہ نہیں کیا ھوا۔ مجھے سائیڈ پہ کر کے عالیہ میرے اوپر آ گیی۔ اب
پوزیشن یہ تھی کے عالیہ میرے لن کے اوپربیٹھی تھی۔اور اس نے میرے سینے پہ کسنگ سٹارٹ کر دی۔ میرے
سینے پہ ابھی اتنے بال نہیں تھے۔ عالیہ تھوڑا سا اوپر ہوئی اور لن کو سیدھا کر کے اوپر بیٹھ گیئ۔ لن کڑچ کر
کے اندر گیا اور اس کے منہ سے ہلکا سا اوئی نکال اوپر عالیہ اوپر نیچے ہونا شروع ہوگیی۔ میں دونوں ہاتھوں
سے اس کے ممے دبا رہا تھا۔ اچانک عالیہ نے اپنی سپیڈ تیز کی اور پھر روک گیی مجھے ایسا لگا کہ اس کے
اندر سے کو چیز نکل کہ بہہ رہی ہو۔ میں نے عالیہ کو سائیڈ پہ کیا اور اس کی ٹانگوں کے درمیان آگیا۔ اس کی
ٹانگیں اوپر اٹھای اور لن کو پھودی پہ رکھ کے پش کر دیا۔ میں 10منٹ تک چدائی کرتا رہا عالیہ اتنے میں دو
بار فارغ ہو چکی تھی میں فارغ ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ پھر مجھےایسا لگا کہ مجھ میں بہت سا جوش آگیا۔ میں
نے اور زور سے بھٹکے شروع کردیا۔ میں پھر فارغ ہونے لگا تو لن کو باہر نکالنے لگا عالیہ کہتی کہ اندر ہی فارغ
ہو جاو۔ میں اس کے اندر ہی فارغ ہو گیا۔ پھر اٹھا کپٹرے پہنے اور گھر آگیا میں گھر میں آ کے شاور لیا اور سو
گیا کافی دیر تک سویا رہا(یہ مجھے بعد میں پتہ چال تھا کہ عالیہ کنواری نہیں تھی بلکہ اسکی پھدی پہلے ہی
لن لے چکی تھی)۔اگلے دن سکول گیا میں اب اپنے آپ کو بڑا بڑا محسوس کر رھا تھا۔سکول سکول سے ٹیوشن
اور ٹیوشن سے گھر دن گزر رہے تھے اور دماغ پہ بھی پھودی کا نشہ سوار تھا یہ نشہ بھی عجیب نشہ ہے۔ جب
پھودی سر پہ زیارہ سوار ہوتی تو مٹھ مار لیتا۔ ابھی کافی دن ھو گئے تھے عالیہ ہاتھ نہیں آ رہی تھی۔ کچھ
دنوں بعد میرے ابو کے کزن کی شادی تھی۔ ایک تو یہ کے خاندان میں میرے ابو سب سے بڑے تھے اور دوسرا
ان کی شادی تھوڑی لیٹ ہو رہی تھی اس لیے میں 15سال کی عمر ہونے کے باوجود اپنے ابو کے کزن کی ہی
شادی اٹینڈ کر رہا تھا۔ان کا گھر ھمارے گأوں میں ہی تھا میں پلیننگ کررہا تھا کے امی لوگ مایوں مہندی میں
جائیں گی اور میں اپنی دلربا کو بال کر چودوں گا۔ مہندی والے دن امی لوگ دوپہر کو ہی چلے گے اور مجھے
کہتے کے شام کو کھانا کھانے آ جانا۔ اور گھر کا دھیان بھی رکھنا۔ میں نے عالیہ کے گھر کی طرف دو تین چکر
لگائے اس سے سامنا تو ھوا لیکن بات نہیں ہو سکی۔ یاد رہے یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل نہیں آئے تھے
موبائل دو تین سال بعد عام ہوے تھے۔ میں شام تک انتظار کرتا رہا لیکن کچھ نہیں ہوا ۔ رات 9بجے میں نے
گھر میں ہی کچھ کھایا اور لیٹ گیا نیند آ نہیں رہی تھی میں نے سوچا چلو ادھر چلتے ہیں کھسرے آئے ہو نگے
ان کا ڈانس دیکھتے ہیں۔ادھر آیا تو پتہ چال کے کھسروں کا پروگرام لیٹ ہے۔ میں مہندی والے گھر جانے کا
سوچا لیکن دروازہ بند پوچھنے پہ پتہ چال کے اندر لیڈیز کا فنکشن ھے اس لیے مرد حضرات باہر نکال دے گئے
ہیں۔ ان کے گھر کے ساتھ ہی دوسرا گھر بھی ابو کے چچا کا ہی تھا میں ادھر گیا وہ خالی تھا۔ سارے ساتھ
والے گھر شادی میں تھے۔ میں نے سوچا کیوں نہ چھت پہ سے ادھر جایا جاے۔ چھت پہ گیا بچے پہلے ہی
چھپ کے بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ سب رشتہ داروں کی نظر میں میں بھی بچہ ہی تھا۔ میں بھی بیٹھ گیا اور
دیکھنے لگ گیا۔ لڈی چل رہی تھی پھر کچھ دیر بعد امی چاچیں سبھی ایک لڑکی کو ڈانس کا کہہ رہی تھی وہ
نخرے کر رہی تھی کہ بعد میں لوگ باتیں بناتے ہیں سبھی نے یقیں دالیا کہ کوئی نہیں بنائے گا۔ اس نے ناگن
ڈانس لگانے کا کہا اور اس پہ ڈانس سٹارٹ کیا۔ شروع میں تو آرام سے کر رہی تھی آہستہ آہستہ جوش میں آ
رہی تھی۔ اس نے اپنے دوپٹہ کو رایٹ کندھے پہ ڈال کے اپنے بریسٹ کے درمیان سے ال کےاور دوسری سائیڈ
بیک سے ال کے لیفٹ کمر پہ گانٹھ دی۔ ریڈ کلر کا سوٹ پہنا ہوا تھا وہ بہت کمال کی لگ رہی تھی۔ اگر یہ کہا
جائے کے اس وقت موجود سب سے زیادہ حسین تھی تو غلط نہیں ھو گا۔ لمبا قد بھرا ہوا جسم اور جب اس
نے ناگن کا مخصوص سٹیپ کیا ھاتھ اوپر کر کے تو اس کے پستان چھلک رہے تھے اور میرا اوپر کا سانس اوپر
اور نیچے کا نیچے وہ جس طرح ڈانس کر رہی تھی وہ سچ کہی رہی تھی کے لوگوں نے بعد میں باتیں کرنی
ہے۔ وہ بالکل پروفیشنل لگ رہی تھی۔ جب اس نے منہ موڑا اور اس کی بیک ھپ بھی ایسے ہی ہل رہی تھی
جیسے پہلے پستان۔ اور ادھر نیچے سے میرا لن فل اکڑ چکا تھا اور مجھے لگ رھا تھا کے میں اس دیوار میں
ہی سوراخ کر دو نگا۔ حاالنکہ یہ خام خیالی ہی ہے۔ میں اتنا محو تھا کہ مجھے یہ بھی نہیں پتہ کے آس پاس
کیا ہو رہا ہے۔ اتنے میں میرے کندھے پہ کسی نے ہاتھ رکھا تو میں چونکا اور دیکھا وہ کوئی لڑکی تھی
اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں سکا غور کیا تو وہ باجی صائمہ تھی جو کے ھماری رشتہ دار ہی تھی ۔ میں
نے کہا آپ کدھر۔ میں سمجھا وہ اوپر چیک کرنے آئی ہے کسی نے بھیجا ہو گا۔ وہ کہتی میں کام سے گھر گئی
تھی واپس آئی تو دروازہ نہیں کھوال تو میں بھی ادھر آگئی ۔ بولی۔ہائے اس بیچاری کو نہیں پتہ ادھر تو پورا
گاوں ہی دیکھ رہا ہے اسے۔ میں نے دیکھا کافی رش تھا چھت پہ۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ کہتی میرے ساتھ
نیچے چلو میں نے کچن سے پانی پینا ھے اور گھر میں کوئی نہیں ھے مجھے ڈر لگتا ہے۔ میں نے کہا آپ اتنی
بڑی ہو کے ڈر رہی ہے۔ اصل میں میں نیچے اس لیے نہیں جا رہا تھا کے میرا لن کھڑا تھا اور تمبو بنا ہوا تھا۔
میرا لن اس کا گانڈ ہال کے ڈانس کرنے کی وجہ سے کھڑا ہوا تھا۔ اور صائمہ بار بار اصرار کر رہی تھی کے نیچے
چلو۔ خیر میں نے اس کی ضد کے سامنے ہار مان لی اور اسے کہا تم چلو میں آتا ہوں ۔ وہ کہتی نہیں ساتھ ہی
چلو۔ میں نے کہا اچھا ٹھیک ہے بابا چلتا ہوں تم تو ڈانس بھی دیکھنے نہیں دے رہی ہو۔ میں کھڑا ہوا اور اسے
کہا چلو آگے لگو وہ چلنے لگی میں نے بڑی احتیاط سے لن کو شلوار کے نیفے میں پھنسا دیا تاکہ صائمہ کو
کچھ فیل نہ ہو۔ نیچے گھر میں کوئی نہیں تھا سبھی دوسری طرف شادی پہ تھے اور ڈھول بجنے کی آواز
بھی آرہی تھی شائد کھسرے بھی پہنچ گئے ہو گے۔ ہم نے برٓامدے کا دروازہ کھوال اور کیچن میں چلے گے۔
صائمہ نے خود بھی پانی پیا اور مجھے بھی پالیا۔ ھم نکلنے لگے تو صائمہ کہتی وہ شیلف پہ مٹھائی کا ڈبہ پڑا
ھے۔ میں نے کہا چلو اتار کے کھاتے ہیں شیلف اونچی تھی اور میں چھالنگ نہیں لگا رھا تھا کہ کہیں میرا لن
نیفے میں سے نکل نہ جائے اور خامخواہ کی بے عزتی ۔ صائمہ کہتی دیکھ کیا رہے ہو چھالنگ مار کے اتارو۔
میں نے چھالنگ مار کے ڈبہ تو نیچے گرا لیا اب وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ صائمہ کا دھیان میری طرف نہیں تھا
میں نے جلدی سے لن کو دوبارہ ایڈجسٹ کرنے لگا لیکن نہیں ہوا لیکن مجھے ایسا لگا کہ جیسے صائمہ کن
انکھیوں سے میری ہی طرف دیکھ رہی تھی۔صائمہ نے منہ دوسری طرف کر کے مٹھائی کھانا سٹارٹ کی پھر
کہتی چلو چلیں میں نے اسے رستہ دیا اور دل ہی دل میں شرمندہ ہو رہا تھا کہ یہ پتہ نہیں اب کیا سوچے گی
میرے بارے میں سیڑھیوں پہ آکے صائمہ کہتی دیکھو پہلے کون چڑھتا ہے میں نے بھی جلدی جلدی چڑھنا
شروع کیا اچانک صائمہ رکی اس کے رکنے کی وجہ سے میں صائمہ سے ٹکڑایا اور میرالن صائمہ کی گانڈ کے سا
تھ لگ گیا۔ اس کی گانڈ بڑی ہی نرم و گداز تھی۔ لیکن میں صائمہ کے بارے میں ایسا ویسا کچھ سوچ بھی
نہیں سکتا تھا ایک تو وہ عمر میں مجھ سے بڑھی تھی ۔میں جلدی سے کھڑا ہوا اور اسے کہا کھڑی ہو جأو
چوٹ تو نہیں لگی۔ اس نے میری طرف دیکھ کے مسکرایا اور دوبارہ چل پڑی۔ ہم چھت پہ پہنچ گئے اور نیچے
ڈانس دیکھنے لگ گئے۔ اب میرا سارہ دھیان اسی سین کی طرف تھا۔صائمہ بالکل میرے ساتھ جڑ کے بیٹھی
تھی۔ میں نے صائمہ کی طرف غور سے دیکھا تو میں حیران تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی میرے پہلو میں
بیٹھی ہوئی ھے اور میں ادھر ادھر جک مار رہا ھوں اس نے ھلکی سی لپ سٹک لگائی ہوئی تھی اور ھلکا سا
میک اپ کیا ہوا تھا۔ رات کے اندھیر ے میں اپسرا لگ رہی تھی یا میرے دماغ پہ شہوت سوار تھی۔ میں نے
ھلکا سا اپنی ٹانگ کو ھٹایا تو اس نے دوبارہ ٹانگ ساتھ جوڑ لی۔ اب میں سمجھ گیا کہ یہ اب چسکے لے رہی
ھے لیکن اب پہل کون کرے گا۔اس وقت زرد (پیلے) رنگ کی سلک کی قمیض شلوار پہنے ہوئے تھی جبکہ دوپٹہ
سفید رنگ کا کر رکھا تھا۔ گلے میں ہار موجود تھا ۔ کانوں میں سونے کے کانٹے ،ناک میں چمکتی ہوئی سونے
کی لونگ ،ماتھے پر ٹکا ،ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی۔۔۔ بازووں میں تین تین سونے کی چوڑیاں باجی کو کسی
سہاگن سے کم لگنے نہیں دے رہا تھا۔ باجی بولی کیا دیکھ رہے ہو غور سے نظر لگانی ہے۔ میں نے کہا آ پ پیاری
ہی اتنی لگ رہی ھیں کےآج نظر تو لگنی ہی ھے پہلے ہم بیٹھ کےپردوں کی جالی سے نیچے دیکھ رہے تھے اب
تھک گئے تھے بیٹھ کہ تو کھٹرے ہو گئے۔۔ میں نے جان بوجھ کے اپنا ھاتھ صائمہ کے ھاتھ پہ رکھا اس نے
کوئی ریکشن نہیں دکھایا۔ ایسے کھڑے کھڑے کافی ٹائم گزر گیا صائمہ نے جب میری طرف سے پہل نہ دیکھی
تو اپنی ٹانگ کو میری ٹانگ کے بیک پہ لے آئی اور معمولی سا رب کیا پھر ٹانگ ہٹا لی۔ میں تھوڑا سا ٹیڑ ھا ہوا
تو جہا ں پہ میری ٹانگ تھی دیوار کے ساتھ وہاں اس نے اپنی ٹانگ رکھ لی۔ میں اس کا مطلب سمجھ گیا اور
بہت حوصلے کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اپنی ٹانگ اس کی ٹانگ پہ رکھی وہ تھوڑا سا اور میرے طرف کھسکی
جیسے وہ میرے سامنے انا چاہتی ہو۔ اب میرا لن اس کی ٹانگ کے ساتھ ٹچ ہو ریا تھا۔ اور میں مزے کی فل لہر
میں تھا۔ صائمہ کہتی نیچے چلیں پانی پیںنے میں نے کہا چلو جیسے ہی ہم نیچے پہنچے میں نے برامدے کی
کنڈی لگا دی حاالنکہ کسی کے آنے کا ڈر نہیں تھا پھر بھی احتیاط کے طور پہ۔ صائمہ کہتی کنڈی کیوں لگا رہے
ہو۔ میں مسکرا دیا اور اس کے جسم کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا جسم بہت سمارٹ تھا۔ پرفیکٹ جسم۔ ابھی
اٹھارہ سال عمر ہوئی تھی اس کی۔ اور اس عمر میں کوئی بھی لڑکی اپنی خوبصورتی کے سب سے سنہرے
دور سے گزر رہی ہوتی ہے میں اس کی طرف بڑھا اور اسے ذور سے ہگ کیا۔ میں نے اسے گلے لگا کر اس کی
گردن پر ہونٹ رکھ دیے اور ٓاہستہ ٓاہستہ چومنا شروع کیا۔ اس کا نیم گرم جسم میری پیاس بھڑکا رہا تھا۔ اس
کی کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے۔۔۔ اور اپنے ساتھ گھونٹتے ہوئے میں اسے چومتا ہوا اس کے چہرے تک ٓا گیا اور
اس کے گالوں کو چومنے لگا۔ پھر اس کے کانوں کی لو پر زبان لگائی۔ وہ مست ہوتی جا رہی تھی۔ اس نے خود
کو بالکل ڈھیال چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اس کی ٓانکھیں چومیں ،اس کی پیشانی اور بہوئیں چومیں۔ پھر ناک سے
ہوتا ہوا اس کے ہونٹوں پر ٓا گیا۔ پہلی بار کسی لڑکی کو میں اتنے اطمینان سے ِک س کرنے جا رہا تھا۔ ہونٹ
چومتے ہوئے میں نے اس کے ہونٹ ہونٹوں میں بھرنا شروع کیے اور پھر فرنچ ِک س سٹارٹ ہو گئی۔ دیر تک
ہماری سانسوں کے ِس وا کوئی ٓاواز نہیں تھی جو ہمیں سنائی دیتی۔ یوں کھڑے کھڑے رومانس کرنا کچھ اچھا
نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے میں نے اس کے ہونٹوں پر سے ہونٹ ہٹائے۔ میں نے اسے دھکا دے کے بیڈ پہ گرایا۔اور
اس کے اوپر بیٹھ گیا۔ اور کسنگ سٹارٹ کر دی۔میں مزے کی دنیا میں ڈوبتا جا رہا تھا میں نے ایک ہاتھ اس
کی گردن کے نیچے رکھا جبکہ دوسرا ہاتھ اس کی قمیض کے اندر ڈال کر صائمہ کے مموں اور نپلز کو سہالنا
شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر ایسے ہی مزے کرنے کے بعد میں نے صائمہ کو پیچھے ہٹایا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے
صائمہ کی قمیض پکڑ کر اتار دی۔ واہ کیا شاندار ممے میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ لیکن بلیک کلر کے برا میں
چھپے ہوئے تھے۔ وہ پوری اپسرا لگ رہی تھی۔ دودھیا رنگ کے ممے بلیک کلر میں چھپے ہوئے تھے۔ ایسے جیسے
کوئلہ کی کان میں ہیرا۔ میں نے زور سے اس کا برا اتارہ اور مموں پہ ٹوٹ پڑا۔وہ اتنے زیادہ بڑے نہیں تھےمیں
پورے کا پورا مما منہ میں لینے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور صائمہ لک رہی تھی کہ بس کرو میں مر گئی اور
دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو بھی ہٹانے نہیں دے رہی تھی۔ صائمہ کا جسم دودھ جیسا سفید تھا۔ میں نے
ایک ھاتھ نیچے کر کے اس کی شلوار بھی اتار دی اور بلکل سفید اور ہلکے ہلکے براون رنگ کے بال تھے۔ میں نے
اس کی پھودی کو مسلنا شروع کر دیا۔ اف بہت تنگ پھودی تھی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور لوشن نظر آیا
میں نے وہ اس کی پھودی پہ مسلہ اور اس کے دانے کو مسلنے لگا۔ میں نے اپنی شلوار نیچے کی جب اس نے
میرا لن دیکھا تو آنکھیں بند کر لی جیسے شرما گئی ہو۔ میں نے لن اس کی پھودی پہ رکھا اور لیٹ کے رب
کرنے لگ گیا۔ اور ساتھ ساتھ کبھی کسنگ اور کبھی اس ک مموں کو مسل رھا تھا۔ صائمہ نیچے مچل رہی تھی
اور لن کو اندر لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں اوپر سے اٹھا اور لن کو اس کی پھودی پہ سیٹ کیا اور پش
کیا لن اندر نہیں جا رھا تھا۔ میں نے لوشن اپنے لن پہ لگا اور لن کو سیٹ کر کے پش کیا تو صائمہ کی چیخ
نکلی میں ڈر گیا میں نے کہا پتہ نہیں کیا ہوا۔ میں رک گیا صائمہ کی آنکھ سے پانی نکل رہا تھا دماغ پہ پھودی
سوار تھی کبھی دل کرتا لن نکال لوں لیکن پھر دل کہتا کچھ نہیں ہوتا بیس تیس سیکنڈ بعد تھوڑا سا لن کو
پش کیا اور اپنا منہ صائمہ کے منہ پہ رکھ لیا۔ کیا غضب کی پھودی تھی۔ اس طرح لگ رہا تھا جیسے اندر آگ
جل رہی ہو۔ میں نے تھوڑا ھلنا شروع کیا اگر زور سے ھلتا تو صائمہ مجھے بازو سے پکڑ کر اپنے اوپر لٹا لیتی۔
تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے صائمہ میرے لن کو اندر بھینچ رہی ہو۔ اور پھر وہ ریلکس ھو
گی۔ تھوڑی دیر بعد میں بھی ڈسچارچ ہو گیا۔ اور اس ک پہلو میں لیٹ گیا۔ صائمہ میری طرف دیکھ کہ کہتی
تم تو بہت چھپے رستم نکلے۔ میں نے اسے جپھی ڈالی اور ،ور سے کھینچا۔ صائمہ کہتی اٹھو چلے کو ئی ا جاے
گا میں نے کہا نہیں تھوڑی دیر رکو میرا دل ایک بار اور سیکس کرنے کا تھا لیکن وہ نہیں مانی اور ہم نے ایک
دوسرے کی صفائی کی اور کپڑے پہن کے اوپر آگئے۔ میں پھر گھر آگیا اور سو گیا۔اگلے دن بارات تھی ہم
چاچی لینے گئے اور شام کو واپس آے پورا دن میں لڑکیوں کو تاکتا رہا۔ شادی گزر گئی اور اسی طرح دن
گزرتے گئے۔روزانہ رات کو سوتے ہوئے کبھی کسی کو خیالوں میں چودتا اور کبھی کسی کو۔ میں نے کئی بار
صائمہ کے گھر بھی چکر لگاے لیکن ایک دوسرے کو کس کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
© 2018-2020 dndsofthub All Rights Reserved