You are on page 1of 23

‫ماسی_کی_بیٹی_زرینہ‬

‫میرا نام عامر ہے یہ واقعہ اسوقت کا ہے جب میری عمر ‪25‬‬


‫سال تھی اور میں ماسٹرز کر رہا تھا‪ ،‬میرے گھر میں میرے‬
‫والد اور والدہ رہتے تھے ایک بڑی بہن تھی جسکی شادی‬
‫ہوچکی تھی۔ اور وہ امریکہ سیٹل ہوچکی تھی۔میری امی نے‬
‫ایک ماسی رکھی جو اچھی خاصی عمر کی تھی مگر وہ اپنے‬
‫ساتھ ایک اپنی نواسی کو التی تھی جسکی عمر تو پندرہ‬
‫سال تھی مگر اسکا جسم کسی اٹھارہ سال کی سیکی لڑکی‬
‫کی طرح تھا ۔ اس ماسی کی بیٹی فوت ہوچکی تھی جسکے‬
‫بعد اس نواسی کی پرورش کی ذمہ داری اس پر آپڑی تھی۔‬
‫خیر کچھ ہی مہینوں میں وہ ماسی اور اسکی نواسی ہمارے‬
‫گھر میں ایڈجسٹ ہوگئے‪ ،‬اور ہم نے ان دونوں پر اور ان‬
‫دونوں نے ہم پر بھروسہ کرنا شروع کردیا۔ میں ویسے تو‬
‫خاصہ شریف لڑکا تھا مگر سیکس کا ایسا بھوکا کہ جو بھی‬
‫مل جائے چھوڑتا نہیں تھا۔ میرے گھر اور دوستوں میں‬
‫کسی کو میری ان حرکتوں کا علم نہ تھا۔میرے والد ایک‬
‫بزنس مین تھے اور انکا بزنس پورے پاکستان میں پھیال ہوا‬
‫تھا جسکی وجہ سے وہ اکثر کسی نہ کسی شہر میں جاتے‬
‫رہتے تھے۔ میری امی کا گھر بھی دوسرے شہر میں تھا۔ ایک‬
‫بار ایسا ہوا کہ ابا کو اپنے بزنس کے لیے دوسرے شہر جانا‬
‫تھا اسی شہر میں امی کا میکہ بھی تھا ابا امی کو بھی‬
‫ساتھ لے گئے تاکہ وہ اپنے والدین اور بھائیوں سے مالقات کر‬
‫لیں۔ امی ابو کا یہ دورہ تقریبًا ایک ہفتہ کا تھا مجھ سے بھی‬
‫پوچھا گیا مگر اگلے دن میرا یونیورسٹی میں ٹیسٹ تھا تو‬
‫میں نے کہا آپ لوگ جائیں میں آپ لوگوں کے پیچھے آجاتا‬
‫ہوں۔میری بات سن کر امی اور ابا راضی ہوگئے۔امی ابا تو‬
‫اسی دن روانہ ہوگئے اور میں گھر میں اکیال رہ گیا۔ ابھی‬
‫صبح کا وقت تھا میں ناشتہ کر کے اپنے ٹیسٹ کی تیاری ہی‬
‫کر رہا تھا کہ ماسی اور اسکی نواسی کام کرنے آگئے۔ میں نے‬
‫ماسی سے کہا امی اور ابا گئے ہیں دوسرے شہر تم کو پتہ ہے‬
‫جو جو کام کرنا ہے وہ سب کرلو کوئی بتائے گا نہیں تمہیں‬
‫اس نے کہا آپ بے فکر رہو عامر بیٹا میں سب کر لونگی۔ یہ‬
‫کہہ کر وہ دونوں سب سے پہلے کچن میں برتن دھونے میں‬
‫مصروف ہوگئیں۔ذرا دیر بعد ماسی کی نواسی جسکا نام‬
‫زرینہ تھا وہ کام چھوڑ کر بیٹھ گئی‪ ،‬میں تھوڑی دیر دیکھتا‬
‫رہا پھر ماسی سے پوچھا "زرینہ کو کیا ہوا ماسی؟" "اسکو‬
‫بخار ہے صبح سے۔" ماسی نے جواب دیا۔ "تو تم اسکو کام پر‬
‫نہ التی نا یہ اور بیمار ہوجائے گی" میں نے ہمدردی سے جواب‬
‫دیا۔ جسکو سن کر زرینہ نے تشکر آمیز نظروں سے میری‬
‫جانب دیکھا۔ "میں اکیلے کیسے اتنا سارا کام کرتی‪ ،‬ابھی اور‬
‫بھی تو گھروں میں جا کر کام کرنا ہے" ماسی نے جواب دیا۔‬
‫"تم نے اسکو دوا دالئی؟" میں نے ماسی سے سوال کیا "نہیں‬
‫ابھی گھر جا کر دے دونگی دوا" ماسی نے جواب دیا۔ " گھر‬
‫تو تم شام تک جاو گی نا؟" میں نے ماسی سے پھر سوال‬
‫پوچھا۔ "جی شام تک ہی جانا ہوگا" ماسی نے جواب دیا‬
‫"ایسا کرو تم اپنا کام کرو میں زرینہ کو دوا دال کر التا ہوں۔"‬
‫میں نے ماسی سے کہا "رہنے دیں عامر صاحب آپ تکلیف نہ‬
‫کریں۔" ماسی نے منع کرنے کے انداز میں کہا "تکلیف کیسی تم‬
‫لوگ اتنی خدمت کرتی ہو ہماری سارے گھر کا کام کرتی ہو‬
‫یہ تو تمہارا حق بنتا ہے‪ ،‬بس تم اپنا کام کرو میں ابھی اسکو‬
‫دوا دال کر التا ہوں۔" یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو کہا" چلو‬
‫ایسا نہ ہو کلینک بند ہو جائے۔" زرینہ نے ماسی کی جانب‬
‫دیکھا ماسی نے اسے ہاں میں سر ہالیا اور زرینہ میرے ساتھ‬
‫چلی گئی کار میں بیٹھ کر میں نے زرینہ کی گردن پر اپنا‬
‫ہاتھ لگایا اور کہا " تم کو تو کافی تیز بخار ہے تم کو آرام‬
‫کرنا چاہئے تھا۔" زرینہ نے کوئی جواب نہ دیا۔اور خاموشی‬
‫سے سر جھکا لیاخیر ذرا دیر بعد ہم دوا لے کر واپس آچکے‬
‫تھے۔ میں نے ماسی سے کہا " ڈاکٹر نے اسکو مکمل آرام کرنے‬
‫کو بوال ہے تم اسکو گھر چھوڑ کر پھر جانا اپنے دوسرے کام‬
‫پر" "صاحب گھر کیسے چھوڑ سکتی ہوں وہ تو کافی دور‬
‫ہےاسکو ہمت کر کے جانا ہوگا میرے ساتھ " ماسی نے جواب‬
‫دیا۔ "ڈاکٹر نے کہا ہے اگر آرام نہ کیا تو دوا اثر نہیں کرے گی‬
‫طبیعت اور خراب ہوگی۔ بہتر یہ ہی ہے کہ اسے آرام کرنے‬
‫دو۔" میں نے جواب دیا ماسی سوچ میں پڑ گئی پھر بولی‬
‫"صاحب میں اسکو گھر تو نہیں چھوڑ سکتی دوسرے کام پر‬
‫دیر ہو جائے گی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسکو شام تک‬
‫آپکے گھر چھوڑ دوں؟ میں باجی سے بات کر لونگی۔" ماسی‬
‫نے درخواست کی۔ ایک دم میرے دماغ میں منصوبہ بننے لگا۔‬
‫میں نے تھوڑا سوچا پھر کہا" باجی سے بات کرنے کی‬
‫ضرورت نہیں ویسے بھی وہ ایک ہفتے بعد آئینگی۔ تم اسکو‬
‫چھوڑ دو مگر شام میں ضرور واپس لے جانا ہوسکتا ہے میں‬
‫گھر سے باہر جائوں تو یہ اکیلی کیسے رہے گی گھر میں۔"‬
‫میں نے خوشی کو دباتے ہوئے کہا۔ "صاحب آپ فکر نہ کریں‬
‫میں شام میں آکر اسکو لے جائوں گی۔" ماسی نے بھی خوش‬
‫ہو کر کہا۔ ذرا دیر بعد ماسی اپنا کام ختم کر کے چلی گئی۔‬
‫میں اور میرے گھر والے زرینہ کو ایک چھوٹی بچی کی طرح‬
‫ہی ٹریٹ کرتے تھے وہ ذہنی طور پر اتنی بالغ تھی بھی نہیں۔‬
‫خیر ماسی کے جانے کے بعد میں ذہن میں منصوبہ بنانے لگا‬
‫کہ کس طرح جلدی اپنی خواہش پوری کروں مگر مجھے ڈر‬
‫بھی تھا یہ شور مچا دے گی۔ یا بعد میں کسی کو بتا دے‬
‫گی۔ "تم نے صبح سے کچھ کھایا ہے؟" میں نے زرینہ سے‬
‫سوال کیا۔ "جی تھوڑا سا کھایا تھا۔" زرینہ نے جواب دیا۔‬
‫"تم یہاں نہ بیٹھو یا تو صوفہ پر لیٹ جائو یا پھر اندر جا کر‬
‫بیڈ پر لیٹو ایسے بیٹھی رہوگی تو آرام نہیں ملے گا۔" میں نے‬
‫زرینہ کو کہا۔ " جی اچھا" یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور اٹھنے‬
‫میں لڑکھڑانے لگی تو میں نے بھاگ کر اسکو پکڑا اور سہارا‬
‫دیا ‪ ،‬سہارا دیتے وقت میں نے اسکو بازو سے پکڑا اور ساتھ‬
‫ہی جان کر اسکے ایک ممے سے اپنا ہاتھ نہ صرف چھوا بلکہ‬
‫رگڑا۔ مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی برا نہیں پہنا ہوا‬
‫تھا اسکے ممے زیادہ نہیں تو ‪ 32‬سائز کے تو ہونگے۔ "تم تو‬
‫کافی کمزور لگ رہی ہو‪ ،‬چلو میں تم کو لے جا کر بیڈ پر لٹاتا‬
‫ہوں۔" یہ کہہ کر میں اسکو پکڑ کر اپنے بیڈ روم میں لے گیا‬
‫اور اسکو بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر کچن میں جا کر اسکے لیے ایک‬
‫سیب کاٹا اور دودھ گرم کر کے کمرے میں لے گیا۔ "چلو یہ‬
‫کھائو اور پھر دوا بھی لینی ہے۔ شام تک تم کو ٹھیک ہونا‬
‫ہے" یہ کہتے ہوئے میں اسکی جانب دیکھ کر مسکرایا۔ جواب‬
‫میں وہ بھی مسکرائی۔وہ سیب کھانے لگی اور میں نے ٹی‬
‫وی آن کر لیا ۔ میں ایک کے بعد ایک چینل تبدیل کرتا رہا آخر‬
‫ایک چینل پر انگلش مووی آرہی تھی اور قسمت سے اسی‬
‫وقت کسنگ کا سین اسٹارٹ ہوا۔ میں اس طرح بیٹھا ہوا تھا‬
‫کہ ٹی وی اور میرے بیچ میں زرینہ تھی جو کہ ٹی وی پر‬
‫نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اسکو ہوش نہیں تھا کہ میں اسے‬
‫دیکھ رہا ہوں۔وہ بغور وہ سین دیکھتی رہی اور مجھے ایسا‬
‫لگا جیسے اسکا سانس تھوڑا تیز ہوا۔ خیر وہ سین ختم ہوا‬
‫تو میں نے چینل تبدیل کیا تو ایک نیوز چینل تھا جس پر‬
‫نیوز آرہی تھی کہ شہر کے حاالت خراب ہو گئے ہنگامے شروع‬
‫ہو گئے۔ میں نے زرینہ سے پوچھا کہ تمہاری نانی کس جگہ‬
‫گئی ہے اب کام پر زرینہ کو اسکا اندازہ نہیں تھا وہ تو بس‬
‫اپنی نانی کے ساتھ چلی جاتی تھی۔ خیر میں سوچنے لگا کہ‬
‫ماسی کیسے آئے گی اور کیسے زرینہ کو لے کر جائے گی۔ابھی‬
‫میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک فون کی بیل بجی میں نے‬
‫بھاگ کر فون اٹھایا تو دوسری طرف ماسی ہی تھی وہ‬
‫کافی گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے پوچھا تم کہاں ہو تو اس‬
‫نے جو ایریا بتایا وہ میرے گھر سے کافی دور تھا اور وہاں‬
‫کے حاالت خراب تھے۔میں نے ماسی سے اسکا پروگرام پوچھا‬
‫کہ وہ کس طرح آئے گی میرے گھر زرینہ کو لینے تو اس نے‬
‫جواب دیا عامر بیٹا اس وقت تو گھر سے نکلنا جان کو‬
‫خطرے میں ڈالنا ہے۔میں نے ماسی سے کہا اگر میرے گھر تک‬
‫آسکو تو آجائو اور تم دونوں یہیں رکو جب تک حاالت ٹھیک‬
‫نہیں ہوتے ۔نہیں ہوتے ٹھیک تو رات میرے گھر پر ہی رکو۔‬
‫ماسی نے میرا بہت شکریہ ادا کیا۔ اور کہا وہ پوری کوشش‬
‫کرے گی کہ زرینہ کو لینے آجائے۔ میں نے کہا تم زرینہ کی فکر‬
‫نہ کرو وہ آرام سے ہے اور پھر میں نے اسکی زرینہ سے بھی‬
‫بات کروا دی۔ وہ خاصی مطمئن ہوگئی۔ زرینہ بھی پہلے سے‬
‫کچھ بہتر محسوس کر رہی تھی۔ ذرا دیر بعد میں نے زرینہ‬
‫کو دوا دے دی۔ اور کہا تم اب سو جائو تمہاری نانی آئے گی‬
‫تو میں تم کو جگا لونگا۔ اور یہ کہہ کر میں روم سے باہر نکل‬
‫گیا۔ مجھے کل یونیورسٹی جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ابھی‬
‫میں اپنے دماغ میں پالن کر ہی رہا تھا کہ دوست کا فون آیا‬
‫اور اس نے بتایا کہ کل یونیورسٹی بند ہے شہر کے خراب‬
‫حاالت کی وجہ سے۔ میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا اور‬
‫دعا کرنے لگا کہ ماسی نہ آسکے تو میں زرینہ کے ساتھ اپنی‬
‫رات رنگین کر لوں۔میں نے ٹی وی الئونج واال ٹی وی آن کیا‬
‫تو پتہ لگا شہر کے حاالت مزید خراب ہو گئے ہیں اور شہر‬
‫میں کرفیو لگ گیا ہے۔میں بہت خوش تھا کہ اب تو زرینہ کو‬
‫یہاں ہی رکنا پڑے گا۔خیر میں تھوڑی دیر ادھر ہی گھومتا رہا‬
‫گھر میں پھر بھوک لگنے لگی تو میں نے کچن میں جاکر کھانا‬
‫گرم کیا اور جا کر زرینہ کو دیکھا تو وہ جاگ چکی تھی۔‬
‫میں اسکے قریب گیا اور پوچھا کیسی طبیعت ہے اب اور‬
‫ساتھ ہی اسکی گردن کو ایک بار پھر اپنے ہاتھ سے چھوا‬
‫اس طرح کے میری انگلیاں اسکی قمیض کے گلے کے اندر‬
‫تھیں اور اسکے ممے کے اوپری حصے کو چھو رہی تھیں۔‬
‫اسکی جلد کافی چکنی تھی زرینہ کا بخار اتر چکا تھا۔میں‬
‫نے مسکرا کر اسکو دیکھا جواب میں وہ بھی مسکرائی۔ میں‬
‫نے اس سے کہا چلو میں نے کھانا گرم کر لیا ہے چل کر کھا‬
‫لو۔اس نے کہا میں پوری پسینے میں بھیگی ہوئی ہوں میں‬
‫شاور لینا چاہتی ہوں میں نے کہا ہاں جائو اندر باتھ میں گرم‬
‫پانی سے شاور لینا۔اس نے اثبات میں سر ہالیا اور باتھ میں‬
‫چلی گئی۔ذرا دیر بعد اسکی آواز آئی عامر بھائی تولیہ نہیں‬
‫ہے اندر میں نے جلدی سے تولیہ لیا اور اس سے کہا لے لو‬
‫تولیہ اور دروازہ سے ذرا دور ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا۔اس‬
‫نے ذرا سا دروازہ کھوال جب میں نظر نہ آیا تو مزید کھوال‬
‫بس میں اسی لمحے کے انتظار میں تھا میں ایک دم اسکے‬
‫سامنے تولیہ ہاتھ میں لیے آگیا۔وہ پوری ننگی میرے سامنے‬
‫تھی اسکا پورا بدن بھیگا ہوا سیکسی لگ رہا تھا۔وہ ایک دم‬
‫ہڑبڑا گئی اور میں نے بھی ہڑبڑانے کی ایکٹنگ کی اور ساتھ‬
‫ہی جلدی سے تولیہ اسکی جانب بڑھایا اور ایک سائیڈ پر‬
‫ہوگیا اور پھر روم سے باہر نکل گیا۔ذرا دیر بعد وہ شرماتی‬
‫ہوئی کھانے کی میز تک آئی۔ اور خاموشی سے چپ چاپ‬
‫بیٹھ کر کھانا کھانے لگی۔ میں نے پوچھا اب کچھ بہتر لگ‬
‫رہی ہو تم ۔ وہ کہنے لگی جی اب کافی بہتر ہوں۔ میں نے اسے‬
‫بتایا کہ شہر کے حاالت خراب ہیں اور کرفیو لگ گیا ہے نجانے‬
‫تمہاری نانی کس طرح آئے گی تم کو لینے جس جگہ پر وہ ہے‬
‫ابھی وہاں تو بہت ہی حاالت خراب ہیں ورنہ میں تم کو خود‬
‫چھوڑ آتا نانی کے پاس اگر وہ نہ آسکی تو تم کو رات یہیں‬
‫رکنا ہوگا۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔ ابھی ہم‬
‫کھانے سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ماسی کا دوبارہ فون آیا۔‬
‫میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے تو اس نے بتایا کہ وہ‬
‫اسی گھر میں ہے اور اب نکل نہیں سکتی اور نہ وہ گھر والے‬
‫اسے جانے دے رہے ہیں کیونکہ شہر میں کرفیو لگا ہے۔ میں نے‬
‫پوچھا تو میں تمہارے پاس لے آئوں زرینہ کو وہ اب کافی‬
‫بہتر ہے۔ تو اس نے پھر درخواست کی کہ میں اسے کہیں نہ‬
‫جانے دوں اور رات رکنے کی اجازت دے دوں میں نے کہا‬
‫مجھے اعتراض نہیں مگر تمہاری نواسی پریشان ہے اسکو‬
‫تسلی دو یہ کہہ کر میں نے زرینہ کو فون دیا ماسی نے فون‬
‫پر زرینہ سے نجانے کیا کہا ۔ کہ وہ کافی مطمئن ہوگئی۔ میں‬
‫دل ہی دل میں بہت خوش تھا اور یہ موقع گنوانا نہیں چاہتا‬
‫تھا۔ خیر زرینہ نے ہمت کر کے سارے برتن دھوئے۔کچن کی‬
‫صفائی میں زرینہ کی مدد کرتا رہا۔ اور بار بار اسکے جسم کو‬
‫بہانے بہانے سے چھوتا رہا۔ اور اسکی خوبصورتی کی تعریف‬
‫کرتا رہا وہ کبھی خوش ہوتی کبھی شرماتی کیونکہ اسکو‬
‫ٹھیک سے اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا بال ہے۔خیر وہ کام سے‬
‫فارغ ہوئی تو میں نے اسکو کہا اب تم کو رات تو یہیں‬
‫گذارنی ہے تو اسکو اپنا ہی گھر سمجھو۔ کسی بات میں‬
‫شرمانے کی ضرورت نہیں ہے کچھ کھانے کا دل کر رہا ہے تو‬
‫کھائو کوئی منع نہیں کرے گا۔زرینہ کے چہرے سے خوشی‬
‫ظاہر ہو رہی تھی۔میں نے زرینہ سے کہا تمہاری دوا کا بھی‬
‫وقت ہو گیا ہے تم دوا کھائو پھر ہم دونوں بیٹھ کر فلم‬
‫دیکھتے ہیں۔میں نے اسے بتایا کہ کونسی دوا کھانی ہے اس‬
‫نے دوا کھائی پھر ہم دونوں میرے روم میں آگئے۔میں اس‬
‫سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا اسکو سیکس کے بارے میں‬
‫زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ پھر میں نے پوچھا کہ فلم‬
‫دیکھتی ہو تو اس نے جواب دیا کبھی کبھی دیکھتی ہے۔ تو‬
‫میں نے پوچھا کیا اچھا لگتا ہے فلم میں تو اس نے جواب دیا‬
‫گانے اور ڈانس۔ بس اب میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور ایک‬
‫ویب سائٹ پر جا کر ایک سیکسی مجرا لگا دیا۔ پھر اس سے‬
‫پوچھا ایسے ڈانس اچھے لگتے ہیں کیا۔ اس نے کہا ایسا تو‬
‫کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے کہا چلوآج دیکھو۔اس مجرے میں‬
‫وہ ڈانسر اپنے ممے ہال ہال کر دکھا رہی تھی اور کافی دفعہ‬
‫اس نے اپنی شرٹ اوپر کر کے اپنے ممے بھی دیکھا دیے میں‬
‫بغور زرینہ کے چہرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ وہ کیا محسوس‬
‫کر رہی ہے۔باآلخر وہ وقت آیا جب اسکی سانس تیز ہوئی اور‬
‫وہ بار بار اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرنے لگی۔ تو میں‬
‫نے پوچھا کیا ہوا اچھا نہیں لگا کیا ڈانس؟اس نے بچوں کی‬
‫طرح منہ بنا کر کہا نہیں اچھا نہیں لگا۔ میں نے پھر پوچھا‬
‫کیوں؟ اس نے کہا گندا ہے۔ میں ہنسنے لگا اور کہا کیوں گندا‬
‫ہے وہ یہ دکھا رہی تھی اس لیے گندا ہے یہ کہتے ہوئے میں نے‬
‫اسکے مموں کو چھوا اسکو ایک دم جیسے کرنٹ لگا۔ وہ‬
‫ہراساں ہو کر مجھے دیکھنے لگی۔میں نے کہا پریشان نہ ہو‬
‫میں تو مذاق کر رہا تھا۔ پھر کہا چلو فلم دیکھتے ہیں میں نے‬
‫ڈھونڈ کر ایک سوفٹ کور مووی نیٹ پر لگا دی۔ ذرا دیر میں‬
‫اس پر سیکسی سین اسٹارٹ ہوگئے جو کسنگ سے اسٹارٹ‬
‫ہوئے اور پھر گھوڑی اسٹائل پر ختم اور ایک کے بعد ایک‬
‫سین ذرا دیر میں شروع ہو جاتا تھا۔میں اسکا سرخ ہوتا‬
‫چہرے بغور دیکھ رہا تھا اسکی سانسیں بھی بے ترتیب‬
‫ہورہی تھیں۔ میں نے چپکے سے منہ اسکے کان کے پاس کیا‬
‫اور پوچھا کیسی ہے فلم؟ اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور‬
‫اپنے چہرے کے اتنے قریب دیکھ کر بدحواس ہو گئی۔میں نے‬
‫ہمت کر کے اسکا ہاتھ پکڑا جسکو اس نے چھڑایا نہیں اسکو‬
‫کیا معلوم تھا کہ میں نے اسکا ہاتھ کیوں پکڑا ہے۔دوسرے‬
‫ہاتھ سے میں نے اسکا چہرہ پکڑ کر اپنے مزید نزدیک کیا اور‬
‫ایک کس کی اسکے گال پر۔ اور آہستہ سے اسکے کان میں کہا‬
‫تم بہت خوبصورت ہو زرینہ۔ میری بات سن کر اسکا چہرہ‬
‫مزید سرخ ہوگیا مجھے اسکا جسم گرم لگنے لگا۔ مگر یہ‬
‫گرمی کسی اور بخار کی تھی جو دوا سے اترنے واال نہیں‬
‫تھا۔مجھے خوشی یہ تھی کہ وہ کسی قسم کی مزاحمت‬
‫نہیں کر رہی تھی۔میں نے مزید ہمت کی اور اپنا ایک ہاتھ‬
‫اسکے ایک ممے پر رکھ دیااور اسکو ہلکا سا دبایا مجھے‬
‫اسکے جسم میں کپکپاہٹ صاف محسوس ہو رہی تھی۔اسکی‬
‫سانس اب اتنی تیز تھی جیسے کافی دور سے دوڑ کر آرہی‬
‫ہو۔اسکا جسم کافی کم سن عمر کی لڑکی کا جسم تھا۔ مگر‬
‫اسکے ممے اور اسکی گانڈ اتنی زبردست تھی کہ دیکھنے واال‬
‫چودنے کی خواہش ضرور کرےگا۔ اب میں نے اسکے نازک‬
‫ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں دبا لیا اور چوسنے لگا میں نے‬
‫دیکھا کہ زرینہ نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور وہ مزہ لے رہی‬
‫تھی۔میری اور ہمت بڑھی اور میں نے اسکو اپنی بانہوں میں‬
‫جکڑ لیا اور اپنے سینے سے چمٹالیا۔ میری حیرت کی انتہا نہ‬
‫رہی جب اس نے بھی مجھے کسی فلمی ہیروئین کی طرح‬
‫جکڑ لیا۔بس اب کیا تھا اب تو میں نے بے تحاشہ اسکو کس‬
‫کرنا شروع کردیا۔وہ میری کسنگ سے ہی مدہوش ہونے لگی‬
‫تھی۔ ابھی تو بڑی منزلیں باقی تھیں ابھی تو میری اس رانی‬
‫کو انکا بھی مزہ چکھنا تھا۔اسکے ممے میرے سینے سے بری‬
‫طرح مسلے جا رہے تھے مگر اسکو پرواہ نہیں تھی۔ وہ‬
‫بھرپور مزہ لے رہی تھی۔اب میں نے کسنگ بند کی اور اسکا‬
‫ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھا ۔ وہ ادھ کھلی آنکھوں سے‬
‫مدہوش ہو کر کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ہاتھ کو‬
‫جو میرے لنڈ پر تھا میرا لنڈ میری جینز سے باہر آنے کو مچل‬
‫رہا تھا۔میں نے اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا‬
‫کبھی دیکھا ہے کسی کو ننگا ؟ اس نے جواب نفی میں صرف‬
‫سر ہال کر دیا۔ میں نے پوچھا یہ جس چیز پر تمہارا ہاتھ ہے‬
‫اسکو دیکھو گی ۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور نظر‬
‫میری لنڈ پر گاڑ دی۔ میں نے اس حرکت کو مثبت جواب‬
‫سمجھا اور گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنی جینز کی زپ کو‬
‫کھوال اور اس سے کہا اپنا ہاتھ ڈالو اندر۔ اس نے ذرا بھی‬
‫جنبش نہیں کی میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی جینز کی‬
‫کھلی ہوئی زپ پر رکھا تو اس نے خود کوشش کی ہاتھ کو‬
‫اندر ڈالنے کی وہ تھوڑا جھجھک رہی تھی ورنہ میرا یقین یہ‬
‫تھا کہ وہ بھی سب کچھ چاہ رہی ہے مگر اسکو کیا اندازہ‬
‫کہ سب کچھ کیا ہے۔خیر کسی طرح اس کا ہاتھ میری زپ‬
‫کے اندر چال گیا اب میرے لنڈ اوراسکے نازک ہاتھ کے درمیان‬
‫صرف انڈر وئیر تھی۔ میں نے پوچھا کیسا لگا تم کو یہ۔ تو‬
‫اس نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا۔بس اسی دم میں نے‬
‫اپنی جینز کا بٹن کھول دیا اور اسکا ہاتھ باہر نکاال۔ اور‬
‫فرش پر کھڑے ہو کر اپنی جینز اتار دی اب میں صرف‬
‫انڈروئیر اور شرٹ میں تھا۔لنڈ بری طرح سخت ہو رہا‬
‫تھاانڈروئیر میں جسکی وجہ سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی۔‬
‫اس نے جیسے ہی مجھے ننگا دیکھا دونوں ہاتھوں سے اپنا‬
‫چہرہ چھپا لیا۔مجھے اسکی اس ادا پر بہت پیار آیا۔میں‬
‫اسکے قریب آیا اور اسکا ایک ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر پھر سے‬
‫رکھا اور کہا انکھیں کھولو۔ اس نے آنکھیں کھولی اور میری‬
‫چھپے ہوئے لنڈ کو دیکھا۔ میں نے کہا چلو میری انڈر وئیر‬
‫اتارو اس کے منہ سے بے اختیار نہیں نکال۔ میں نے کہا یار کیا‬
‫شرما رہی ہو تم ابھی میں نے بھی تو تم کو ننگا دیکھا تھا‬
‫جب تم باتھ روم میں تھی ۔ وہ سین یاد آتے ہی اسکا چہرہ‬
‫پھر سے سرخ ہونے لگا۔خیر میں نے اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر‬
‫اپنی انڈر وئیر ان میں دی اور اس سے کہا چلو زرینہ اتارو‬
‫اسے اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے میری انڈروئیر کو نیچے کیا‬
‫جیسے ہی انڈروئیر نیچے ہوئی میرا لمبا موٹا پھنپھناتا ہوا‬
‫لنڈ ایک جھٹکے سے باہر نکال اور اوپر نیچے ہو کر زرینہ کو‬
‫سالمی دینے لگا۔ مگر زرینہ ایک دم اچھل کر ایسے پیچھے‬
‫ہوئی جیسے سانپ دیکھ لیا ہو۔باقی انڈروئیر میں نے خود‬
‫اتاری پھر ساتھ ہی شرٹ بھی اتار کر میں کپڑوں سے آزاد ہو‬
‫گیا۔ اب زرینہ کے اور قریب ہوا تو وہ پیچھے ہٹنے لگی۔ میں‬
‫نے کہا اسکو ہاتھ میں لو۔ تو وہ نہ مانی تو میں نے زبردستی‬
‫اسکے ہاتھ پکڑ کر اپنے لنڈ پر رکھ دیئے پہلے تو وہ ڈری مگر‬
‫پھر کچھ سیکنڈ میں اس نے میرا لنڈ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔‬
‫اسکے نازک ہاتھ کا لمس ملتے ہی میرا لنڈ مزید لمبا اور‬
‫سخت ہونے لگا۔میرا لمبالنڈ اسکے ہاتھ میں پورا بھی نہیں‬
‫آرہا تھا۔میں نے اس سے کہا چلو اس پر پیار کرو۔ وہ نہ مانی‬
‫مگر بار بار کہتا رہا آخر اس نے ہمت کی اور میرے لنڈ کے‬
‫ٹوپے پر ایک ہلکی سی کس کی۔ پھر میں نے اس سے کہا‬
‫اسکو منہ میں لو اور لولی پوپ کی طرح چوسو۔ اس نے‬
‫صاف منع کردیا تو میں نے کہا ابھی جو فلم میں سب دیکھا‬
‫تھا نا ویسا کرنا ہے تم کو۔ خیر بڑی دیر تک منایا تو اس نے‬
‫میرا لنڈ اپنے منہ میں لیا۔ اتنی دیر بحث کرنے میں لنڈ تھوڑا‬
‫ڈھیال ہوگیا تھا مگر جیسے ہی زرینہ کہ منہ کا گیال پن اور‬
‫گرمی اسکو ملی اس میں واپس سے کرنٹ دوڑ گیا اور وہ‬
‫زرینہ کے منہ میں رہتے رہتے ہیں پورا تن کر کھڑ اہوگیا۔اب‬
‫میرا لنڈ پورا تیار تھا اب زرینہ کی چوت کو تیار کرنا تھا جو‬
‫ذرا مشکل کام تھا‪ ،‬میں نے زرینہ کا تعارف اپنے لنڈ سے‬
‫سرسری طور پر تو کروا دیا تھا مگر اب اصل تعارف کی‬
‫باری تھی۔میں نے زرینہ سے کہا اپنی شرٹ اتارو مجھے‬
‫تمہارے سینے پر پپی کرنی ہے وہ بہت شرمائی اور منع کرتی‬
‫رہی مگر میں نے اسکو بہت سمجھایا کہ کوئی بھی نہیں‬
‫دیکھ رہا میرے سوا اور نہ کسی کو پتہ لگے گا۔ تو آخر کار‬
‫وہ مان گئی اور جیسے ہی اسکی شرٹ اتری اسکے ‪ 32‬سائز‬
‫کے ممے اچھل کر سامنے آئے۔ ایک دم ٹینس بال کی طرح‬
‫گول اسکے نپلز گالبی اور نوکیلے تھے۔سو فیصد سیل آئٹم‬
‫تھی وہ میری رانی۔اسکا بدن اتنا گورا تو نہیں مگر اسکی‬
‫جلد میں بہت کشش تھی۔ایک دم نمکین۔ میں نے جلدی سے‬
‫پہال حملہ کیا اور اسکا ایک مما اپنے منہ میں لے کر بے تحاشہ‬
‫چوسنا شروع کیا اسکے منہ سے آہیں نکلنے لگیں۔ جیسے ہی‬
‫میں اسکے نپلز کو چوستا اسکا پورا بدن اکڑ جاتا تھا۔ میں‬
‫کافی دیر اسکو اسی طرح مست کرتا رہا۔وہ بے حال ہو رہی‬
‫تھی۔پھر اسکو ہوش نہ رہا اور میں نے خاموشی سے اپنا ایک‬
‫ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کردیا اسکی شلوار میں االسٹک‬
‫تھی۔میں سیدھا اپنا ہاتھ اسکی شلوار میں گھسیڑتا ہوا‬
‫اسکی چوت تک لے گیا اور اسپر اپنی ایک انگلی رکھ کر ہلکا‬
‫سا دبایا تو ایک دم زرینہ کو جیسے ہوش آگیا۔مگر مجھ پر‬
‫بھی یہ انکشاف ہوا کہ اسکی چوت پوری طرح گیلی تھی۔‬
‫اسنے خود کو کنٹرول کرنے کے لئے اور کچھ سمجھ نہ آیا تو‬
‫میرا ہاتھ اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ دبا لیا۔مگر اس سے کیا‬
‫ہوتا میری انگلی تو اسکی چوت پر دستک دے رہی تھی۔ میں‬
‫نے صرف انگلی سے ہی اسکی چوت کو سہالنا شروع کردیا۔‬
‫وہ کسمساتی رہی مگر میں باز نہ آیا ‪ ،‬آج میں اسے جنگلیوں‬
‫کی طرح چودنا چاہتا تھا سو میں اس پر ذرا بھی رحم کرنے‬
‫کو تیار نہ تھا۔کافی دن کے بعد تو ایک کنواری لڑکی ہاتھ آئی‬
‫تھی ورنہ تو آنٹیاں ہی کثرت سے مال کرتی تھیں۔ خیر ذرا‬
‫دیر بعد اس نے یہ معمولی سی مزاحمت بھی چھوڑ دی اور‬
‫اپنی ٹانگیں کھول دیں اور مموں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی‬
‫چوت کو سہالئے جانے کا بھی مزہ لے رہی تھی۔بخار کی وجہ‬
‫سے اسکو تھوڑی کمزوری تو پہلے ہی تھی اسی لیے وہ جلدی‬
‫مدہوش بھی ہوئی اور نشے سے چور۔اب میں نے ذرا دیر مزید‬
‫اسکی چوت کو سہالیا اور پھر اس سے پوچھے بنا اسکی‬
‫شلوار بھی اتار دی۔ اب ہم دونوں کپڑوں سے بالکل آزاد تھے۔‬
‫میں نے چاٹ چاٹ کر اسکا جسم گیال کردیا تھا اسکا بدن‬
‫بہت چکنا تھا بس مالئی تھی وہ پوری۔میرا لنڈ جو ڈھیال‬
‫ہوچکا تھا وہ واپس سے پورا تن چکا تھا‪ ،‬اور زرینہ کی‬
‫چوت میں انٹری مانگ رہا تھا۔میں زرینہ کو چومتے چومتے‬
‫اس پوزیشن میں آگیا کہ میں زرینہ کے اوپر پورا لیٹ چکا‬
‫تھا اور میرا لنڈ اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ تھا زرینہ کو‬
‫نہیں معلوم تھا کہ میرا لنڈ اسکی چوت میں جائے گا اور وہ‬
‫اس طرح حاملہ ہو سکتی ہے ۔ اگر یہ سب اسے علم ہوتا تو‬
‫وہ کب کی میرے گھر سے بھاگ چکی ہوتی۔وہ تو بس اپنے‬
‫جسم کو سہالئے جانے سے جو مزہ مل رہا تھا اسکو انجوائے‬
‫کر رہی تھی۔زرینہ کی چوت سے کافی پانی نکل چکا تھا اور‬
‫وہ پوری گیلی تھی میں نے اپنا لنڈ اسکی چوت پر ذرا دیر‬
‫رگڑا اور اسکا ٹوپا پوری طرح زرینہ کی چوت کے پانی سے‬
‫گیال کیا۔پھر زرینہ سے کہا تھوڑی سی ٹانگیں کھولو۔اس نے‬
‫فورًا میری بات مان لی بس اب مجھے جلدی اپنا لنڈ اسکی‬
‫چوت میں ڈالنا تھا اگر اسکو ذرا بھی سنبھلنے کا موقع ملتا‬
‫تو تکلیف کی وجہ سے وہ مجھے کبھی اپنی چوت میں داخل‬
‫نہ ہونے دیتی۔میں نے بھی وقت ضائع نہ کیا اور لنڈ کو‬
‫سیدھا کر کے اسکی چوت کے منہ پر سیٹ کیا اور ایک ہی‬
‫جھٹکے میں پورا ٹوپا اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ زرینہ کے‬
‫منہ سے ایک چیخ نکلی اور ساتھ ہی آنکھوں سے آنسو وہ‬
‫میری منتیں کرنے لگی کے میں اپنا لنڈ واپس نکال لوں میں‬
‫اسکو تسلیاں دینے لگا اور اسی بحث میں ذرا دیر گذری تو‬
‫زرینہ کا درد ختم ہو گیا میں نے اس سے پوچھا اب بھی درد‬
‫ہے کیا اس نے کہا نہیں مگر اسکو باہر نکالو۔میں نے اسے پھر‬
‫بہالیا بس ذرا دیر اندر رہنے دو پھر نکال لونگا۔ یہ کہہ کر‬
‫میں اسکے ہونٹ چوسنے لگا۔ وہ بھی چوت کو بھول کر‬
‫ہونٹ چوسنے میں ساتھ دینے لگی۔بس یہ موقع کافی تھا‬
‫ویسے ہی لیٹے لیٹے میں نے ایک زور کا جھٹکا مارا اور آدھے‬
‫سے زیادہ لنڈ اسکی چوت میں گھسیڑ دیا۔ایک بار پھر وہ‬
‫درد سے بلبالنے لگی مگر اس بار اسکا منہ میں نے اپنے منہ‬
‫سے بند کیا ہوا تھا۔وہ میری کمر پر اپنے ناخنوں سے بری‬
‫طرح نوچنے لگی۔مگر میں اب کہاں اسکو چھوڑنے واال تھا۔‬
‫کونسا ایسا لنڈ ہوگا جسکے سامنے گیلی چوت ہو اور وہ اس‬
‫میں نہ جانا چاہے خاص طور پر وہ چوت جس میں کوئی لنڈ‬
‫کبھی گیا ہی نہ ہو۔خیر تھوڑی دیر میری کمر نوچنے کے بعد‬
‫وہ ٹھنڈی ہونے لگی اور نڈھال بھی۔اب اس نے خود کو میرے‬
‫حوالے کردیا تھا۔میں نے اسکے ہونٹوں سے ہٹ کر اسکا چہرہ‬
‫دیکھا وہ آنسو سے بھیگا ہوا تھا مجھے ایک لمحے کو اس پر‬
‫ترس تو آیا مگر اگلے لمحے اسکی نرم گرم گیلی چوت کا لمس‬
‫اپنے لنڈ پر محسوس کرتے ہی میں نے اس کی کوئی پرواہ نہ‬
‫کی۔اب میں سیدھا ہو کر اسکی دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھا‬
‫تو دیکھا میرا لنڈ اسکی چوت سے نکلنے والے خون سے سرخ‬
‫ہو رہا تھا میں نے سوچا اگر ابھی صفائی کا سوچا تو اس‬
‫رانی کا دماغ بدل جائے گا۔ سو بس تھوڑا سا لنڈ باہر نکاال‬
‫اور پھر آہستہ سے اندر کیا ایک بار پھر اسکی منہ سے‬
‫سسکاری نکلی۔ مگر شاید اسکو تکلیف نہ تھی۔ تو اب فیصلہ‬
‫کیا فورًا ہی پورا لنڈ اندر ڈالو اور بس شروع کرو چدائی۔‬
‫بس دو چار بار اسی طرح میں نے لنڈ اندر باہر کیا اور ایک‬
‫بار بھرپور جھٹکا مارا تو میرا پورا لنڈ اسکی چوت میں‬
‫گھس گیا۔ وہ ایک بار پھر سے پھڑپھڑائی۔ مگر جلد ہی خود‬
‫ہی سنبھل گئی۔اب میں نے لنڈ کو اندر ہی رکھ کر ذرا اور‬
‫دبایا تو اسکے چہرے پر تکلیف کے آثار نہ دیکھ کر میں‬
‫سمجھ گیا چوت تیار ہے زبردست چدائی کے لئے۔بس اب میں‬
‫نے لنڈ کو پہلے آہستہ آہستہ اندر باہر کیا اور ذرا دیر بعد اپنی‬
‫رفتار بڑھا دی۔اب میرے ہر جھٹکے پر اسکے منہ سے آہ تو‬
‫نکلتی تھی مگر چہرے پر تکلیف کے آثار نہیں بلکہ ہونٹوں پر‬
‫ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔ ذرا دیر بعد وہ مزے کی بلندیوں‬
‫کو چھونے لگی۔ اور اپنا سر کبھی دائیں کبھی بائیں کرتی‬
‫کبھی ہاتھ سے اپنے ممے دباتی کبھی ہونٹ دانتوں سے‬
‫دباتی۔اچانک اسکے منہ سے تیز تیز آہیں نکلیں اور ایک دم‬
‫اسکا جسم اکڑا اور جھٹکے لے کر کپکپانے لگا۔میں سمجھ گیا‬
‫اسکی چوت اپنا پانی اگل رہی ہے۔ مجھے ابھی فارغ ہونے‬
‫میں وقت تھا۔جیسے ہی اسکی چوت نے پانی اگال میں نے‬
‫جلدی سے لنڈ باہر نکاال وہ نڈھال ہو کر چاروں شانے چت بیڈ‬
‫پر پڑی دعوت دے رہی تھی کے آئو اور چود ڈالو۔ میں جلدی‬
‫سے اپنی الماری کی طرف بڑھااور وہاں سے ایک کونڈم نکال‬
‫کر اپنے لنڈ پر چڑھایا اور دوبارہ سے پورا لنڈ اسکی چوت‬
‫میں ڈال دیا۔ ایک بار پھر وہ ہی جھٹکوں کے سلسلے۔ ذرا دیر‬
‫میں وہ دوبارہ چارج ہوئی اور پھر اسکی منہ سے آہیں نکلنے‬
‫لگیں مگر اس بار وہ اپنی چوت کو اچھال کر میرا پورا پورا‬
‫لنڈ وصول کر رہی تھی۔تھوڑی دیر اسی طرح چدائی کے بعد‬
‫میرے لنڈ نے بھی الوا اگلنا شروع کیا اور اسی وقت اسکی‬
‫چوت نے بھی دوبارہ پانی چھوڑا۔ میں نے اپنی منی کا آخری‬
‫قطرہ بھی کونڈم میں اسکی چوت کے اندر ہی نکال دیا۔‬
‫تھوڑی دیر اسی طرح نڈھال پڑے رہے ہم دونوں پھر پہلے‬
‫میں اسکو لے کر باتھ گیا وہاں اسکو اچھی طرح دھویا اس‬
‫سے اب ٹھیک سے کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔پھر میں نے‬
‫باتھ لیا اور کپڑے تبدیل کئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی رات ایک بار‬
‫پھر میں نے اور زرینہ نے بھرپور چدائی کی مگر اس بار زرینہ‬
‫ایک پوری پوری رنڈی کی طرح مجھے ملی ۔‬

‫‪what's app‬‬
‫‪03067007824‬‬
‫میرے پاس اردو اور رومن اردو میں ہر قسم کی تمام طرز کے‬
‫لکھاریوں کی پی ڈی ایف بک دستیاب ہیں وٹس ایپ پر ملیں‬
‫گی فری والے دور رہیں اپنی پسندیدہ کہانی کا نام بتادیں‬
‫اور پیمنٹ دے کے حاصل کریں‬

You might also like