Professional Documents
Culture Documents
Dil Bichrey Nawaab Zaada
Dil Bichrey Nawaab Zaada
نوابزادہ
اپنی من پسند کہانیاں حاصل کرنے اور لکھوانے کے لیئے رابطہ کریں ہمارے پاس
تمام کہانیاں ہیں وٹس ایپ میسج کریں
03247700346
03067007824
طالق_کے_بعد جس نے مجھے چیک کیا اورتین دواییاں لکھ#
دیں پندرہ دنوں کا کورس تھا کورس پورا ہوا تو لیڈی ڈاکٹر
نے مجھے ایک بار پھر چیک کیا اس نے علحدگی میں مجھ
سے بہت سی باتیں پوچھیں میرے خاوند کے متعلق بھی کٸ
ایک سوال کیے پھر اس نے خاوند کو بال کر کہا وہ بھی کسی
اچھے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرا لے یہ قدرت کا بنایا ہوا
نظام ہے عجیب سا ہوتا ہے زرا سی خرابی کے نتایج بہت بڑے
ہوتے ہیں آپ کا عالج ہو جاے گا گھبرانے کی کوی بات نہیں
میں نے گھر آ کر خاوند سے کہا کہ وہ بھی کسی ڈاکٹر سے
مشورہ کر لے مگر وہ اس طرح بھڑک اٹھا جیسے میں نے
اسکی مردانگی پر کوی بڑی ہی توہین آمیز تمہت لگا دی ہو
نقص تجھ میں ہو گا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی
ضرورت نہیں میں نے کہا آپ اپنے متعلق خود کوی راے قایم
نہ کریں آپ کی راے غلط بھی ہو سکتی ہے میرا کہنے کا
کچھ اور مطلب تھا مگر وہ سمجھا کچھ اور تھا اس کی
آنکھیں ٹہر گیں چہرہ زرد ہو گیا میں نے اپنی شادی شدہ
سہیلیوں کو اپنے خاوند کے متعلق یہ بات بتای تو انھوں نے
کہا مرد کو ماں بہن کی گالی دے دو تو وہ برداشت کر لیتا
ہے لیکن یہ مشورہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کسی ڈاکٹر
سے چیک اپ کرواے انھوں نے بتایا کہ مرد کی نظر میں ہر
نقص عورت میں ہوتا ہے اپنے آپ کو گھوڑے جیسا سمجھتا
ہے میں نے دیکھا میرے خاوند کا موڈ خراب رہنے لگا تھا اس
کے ساتھ ہی ساس اور نندوں کا سلوک بھی بدل گیا خاوند
اور ساس کے کہنے پر سسر مجھے ایک بار پھر شھر کی دو
مشہور لیذی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا صبح ایک معاٸنہ
کروایا شام کو دوسری سے دونوں نے معاٸنہ کر کے اپنی اہنی
فیس وصول کی اور کہا یہ بلکل ٹھیک ہے کوی روکاٹ نہیں
اب ان کے خاوند کا بھی چیک اپ کسی اچھے ڈاکٹر سے کروا
لیں مگر سسر نے بیٹے کی وکالت کرتے ہوے کہا وہ تو بلکل
ٹھیک ٹھاک ہے اسے معاٸنہ کروانے کی کیا ضرورت ہے میں
نے واپس آ کر خاوند کو بتایا کہ لیڈی ڈاکٹروں نے کیا فیصلہ
دیا ہے وہ کچھ بھی نہ بوال مگر اس کے چہرے کا بدلتا ہوا
رنگ بول رہا تھا کہ اسے یہ فیصلہ سخت ناگوار گزرا ہے میں
پو ٹھو ھار کے عالقے کی رہنے والی ہوں جہاں تھوڑے
تھوڑے فاصلے ہر پہنچ والے پیروں کے مزارات اور گدیاں ہیں
مجھے تین چار مزارں اور خانقاہوں پر لے جایا گیا وہاں کی
خاک اور کنکریاں کھالی گییں اور کرتے کرتے میرے گلے میں
چار پانچ تعویز لٹکنے لگے ساس مجھے گولڑہ شریف بھی لے
گی دیول شریف بھی گیے نو گزے کی قبر پر بھی لے جایا گیا
زندہ پیر کے مزار پر بھی حاضری دی مگر میری قسمت میں
ایک ہی طعنہ تھا کہ یہ تو تھوہر کا پودا ہے جو زمین کا سارا
پانی پی جاتا ہے نہ پھل دیتا ہے اور نہ پھول مجھ پر ایسے
ایسے تیر برسنے لگے کہ شادی کی پہلی رات اور پہال سال
ایک حسین خواب کی طرح یاد رہ گیا پھر میں نے اس خواب
کو بھی زہن سے اتار دیا مجھے در و دیوار سے نفرت ہونے
لگی خاوند بیگانہ ہو گیا نندیں منہ بسورنے گییں ساس
منجھے اس طرح کام بتانے لگی تو ہماری اور تو کیا امید
پوری کرو گی چلو جھاڑو ہی لگا یا برتن ہی مانجھ دو اس
طرح کی نہ جانے کتنی دل برداشتہ باتیں لگا لگا کر کرنے لگی
سب سے زیادہ مجھے جس چوٹ نے ادھ موا کیا وہ یہ تھی
کہ مجھ سے میری سہلیاں چھوٹ گییں وہ آتی تھیں یا میں
ان کے پاس چلی جاتی تھی تو دل کا بوجھ زرا ہلکا ہو جاتا
تھا لیکن سبھی مجھ سے دور ہٹنے لگیں سب کو یہ کہہ کر
ڈرا دیا گیا کہ مجھ پر کسی چیز کا سایہ ہے میں کسی پیر
کی بد دعای ہوی ہوں جس سہاگن پر میرا سایہ پڑے گا اس
کی کوکھ بھی سوکھ جاے گی میرے تن بدن میں آگ لگ گٸ
دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی مجھے ایک خیال یہ بھی
آیا اگر میں جوابی کاروای کے طور پر ساس اور نندوں کے
منہ لگی تو وہ میرے خاوند کو بھڑکا کر مجھے طالق دال دیں
گییں اگر طالق کا تعلق صرف میری ذات سے ہوتا تو میں
پرواہ نہ کرتی مجھے اپنے ماں باپ کا خیال آگیا وہ یہ صدمہ
کیسے برداشت کرتے میں نے دل کے شعلے دل میں ہی رکھے
اور دل جلتا رہا میکے کی ایک سہیلی نے میرا ساتھ نہ چھوڑا
وہ میری ہمراز تھی ہماری دوستی گہری تھی ازدواجی
زندگی کے چھٹے سال مجھے اشارہ مل گیا کہ اب طالق کے
سوا کوی چارہ نہپیں میں سوچنے لگی اگر مجھے طالق ہو
گٸ تو مجھ سے کوی بھی شادی نہیں کرے گا کیونکہ سب
کو سسرال والے یہی کہیں گے کہ میں بچے جننے کے قابل
نہیں ہوں ان حاالت میں جب طالق کی تلوار میرے سر پر
لٹکنے لگی تو میں ساس نندوں کی باتوں کو برداشت کرنے
لگی لیکن پھر بھی آے روز جھک جھک ہونے لگی مگر ھار
مجھے ہی ماننی پڑتی کیونکہ ماں باپ کی وجہ سے طالق
سے بہت ڈرتی تھی ایک روز کچھ زیادہ ہی تو تو میں میں ہو
گٸ اور میں میکے گھر آ گٸ کہ شام کو خاوند آے گا تو
واپس آ جاوں گی گھر آی تو وہاں تالہ لگا ہوا تھا مجھے
معلوم تھا کہ گھر والے اگر کہیں گیے ہو تو گھر کی چابی
ساتھ والے گھر میں ہوتی ہے میں ساتھ والے گٸ تو وہاں اس
گھر کا جواں سالہ آدمی اکیال تھا اس نے بتایا کہ میری ماں
اور اس کی ماں اسی کی خاطر کسی مزار پر منت ماننے
گییں ہیں یہ آدمی شادی شدہ تھا اس کی اپنی بیوی سے
نہیں بنتی تھی اس آدمی سے پڑوسی ہونے کے ناطے سے
اچھی جان پہچان تھی اس کی بیوی چھ سات مہینے سے
اپنے میکے میں تھی یہ آدمی اپنی بیوی کو واپس نہیں النا
چاہتا تھا اس نے مجھے بٹھا لیا اور اپنی بیوی کا رونا رونے
لگا میں نے بھی اسے اپنی مصیبت کی کہانی سنای میں نے
اسے بتایا میں طالق سے بہت ڈرتی ہوں کیونکہ اس سے
میرے ماں باپ کو بہت صدمہ پہنچے گا کہیں خدا مجھے
ایک بچہ دے دے تو سارا جھگڑا ختم اس مسلے پر باتیں
کرتے کرتے یہ آدمی کچھ زیادہ بے تکلفی پر اتر آیا اچانک
میرے انتقام اور بغاوت کا شعلہ اٹھا میں نے دل میں سوچا
مجھے ایک بچہ چاہیے میرے خاوند کو کیسے پتہ چلے گا کہ
یہ بچہ اس کا نپیں میرے قدم ڈگمگانے لگے میری جذباتی
حالت میرے قابو سے باہر ہو گٸ عین اسی وقت اس آدمی نے
میرا ھاتھ اپنے ھاتوں لے کر کہا تمہیں بچہ چاہیے مل جاے گا
تمہیں میرا ساتھ دینا ہو گا
03247700346
طالق_کے_بعد#