You are on page 1of 24

‫کیوں دل بچھڑے‬

‫نوابزادہ‬

‫جس روز میری ڈولی سسرال کے گھر کے صحن میں اتری‬


‫میری عمر اٹھارہ سال ساڑھے چار مہینے تھی والدین نے‬
‫مجھے ایف اے سے آگے پڑھنے نہ دیا کیونکہ میری منگنی ہو‬
‫چکی تھی اور لڑکے والے شادی جلدی کرنا چاہتے تھے پڑھنے‬
‫کا شوق مار دیا گیا اور میں کالج سے نکل کر سسرال کے گھر‬
‫آ گٸ میرا سسرال اور میکہ متوسط درجے کے گھرانے تھے‬
‫خاوند نے مجھے دل سے قبول کر لیا تھا ازدواجی زندگی‬
‫اچھی گزرنے لگی پورا ایک سال ہنستے کھیلتے گزر گیا ساس‬
‫ماوں کی طرح نندیں سگی بہنوں کی طرح پیار کرتی تھیں‬
‫گھر کا کوی کام نہیں کرنے دیتی تھیں دن کے وقت زیور کے‬
‫بغیر رہنے نہیں دیتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ دلہن بنی رہوں‬
‫میرا دولہا ان کا اکلوتا لڑکا تھا اس لیے وہ مجھے اس کی‬
‫الڈلی دلہن سمجھتی تھیں میں ایک سال دلہن بنی رہی‬
‫دوسرا سال شروع ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ساس‬
‫مجھے بڑی غور سے دیکھتی ہے ایک دن ایک ادھیڑ عمر عورت‬
‫آی تو ساس مجھے کمرے میں لے گٸ اور کہنے لگی یہ ہماری‬
‫دای ہے اس بیچاری کا یہی زریعہ معاش ہے اب آی ہے تو اور‬
‫کچھ نہیں تو اس سے پیٹ ہی ملوا لو کچھ پیسے دے دینا‬
‫بیچاری دعا دے گی مجھے پیٹ ملوانے کی ضرورت تو نہیں‬
‫تھی لیکن اسے بھی میں ساس کا الڈ اور پیار سمجھ کر‬
‫پلنگ پر لیٹ گٸ ساس کمرے سے نکل گٸ دای نے پہلے تو‬
‫میرے پیٹ کو ٹٹوال پھر پہلو سے دبانا شروع کیا ناف پر‬
‫ھاتھ رکھ کر دبایا اس طرح دس پندرہ منٹ تک پیٹ کو مل‬
‫کر اٹھ کھڑی ہوی وہ کمرے کے دروازے کی طرف گٸ تو میں‬
‫بھی اٹھ کر اس کے پیچھے ردوازے تک آی ساس باورچی‬
‫خانے میں تھی دای کو شاید معلوم نہ ہوا میں پیچھے کھڑی‬
‫ہوں ا س نے میری ساس کی طرف کر سر ہالیا جیسے اشارہ‬
‫کیا ہو کہ نہیں میں نے ساس کو دیکھا کہ اس کا چہرہ اداس‬
‫ہو گیا اور اس کا سر جھک گیا میں فورأ سمجھ گٸ کہ میرا‬
‫پیٹ کیوں ملوایا گیا ہے اور دای نے سر ہال کر ساس کو کیا‬
‫بتایا ہے میں نے دای کو پیسے دیے اور اپنے کمرے میں آ گٸ‬
‫میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ ایک سال گزر گیا ہے مجھے‬
‫تو اب تک ماں بن جانا چاہیے تھا مگر دای میری ساس کو‬
‫مایوس کر گٸ تھی ایک مہینہ اور گزرا تو دای ایک بار پھر‬
‫میرا پیٹ ملنے آ گٸ جاتے جاتے سر کے اشارے سے میری‬
‫ساس کو پہلے سے زیادہ مایوس کر گٸ دای کے اشاروں ہی‬
‫اشاروں میں ایک سال گزر گیا تیسرا سال شروع ہوا تو‬
‫ساس مجھے ایک شاہ صاحب کے پاس لے گٸ شاہ نے ایک‬
‫کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں ڈال کر کہا ایک لیکر زرا گڑ بڑ‬
‫کر رہی ہے اللہ نے چاہا تو یہ بھی اپنی جگہ پر بہت جلد آ‬
‫جاے گٸ اگلی جمعرات کو پھر آنا ساس نے میرےھاتھ سے‬
‫پانچ سو روپے شاہ کو دالے اگلی جمعرات آی تو شاہ کے‬
‫پانچ سو روپے اور کھرے ہو گیے مگر ساس خوش نہ ہوی‬
‫کیونکہ ان کے شاہ صاحب نے فرمایا کہ جس روح نے آنا ہے‬
‫وہ ابھی ستاروں کی گردش میں بھٹک رہی ہے آنے میں زرا‬
‫دیر لگے گی پر آ جاے گی دو مہینے بعد گلی میں آواز آی فال‬
‫رمل دلیل ساس دوڑ کر باہر گٸ اور رمل فال والے کو اندر لے‬
‫آی محلوں میں رہنے والوں کو معلوم ہو گا کہ قسمت کا حال‬
‫بتانے والے ایسے وقت گلیوں میں آ کر رمل فال دلیل کی صدا‬
‫لگاتے ہیں جب گھروں کے مرد اپنے کام کاج پر نکل جاتے ہیں‬
‫گھروں میں عورتیں ہوتی ہیں یہ ان کی زہنی مجبوریوں اور‬
‫نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں عورتوں سے ایسی‬
‫استادی سے باتیں کرتے ہیں جو بلکل سچ معلوم ہوتی ہیں‬
‫ساس بھی انھی عورتوں میں سے تھی ساس نے میرا ھاتھ‬
‫جوتشی کے ھاتھ میں دے کر کہا بابا جی اس کی گود کب‬
‫ہری ہو گی جوتشی نے میرے ھاتھ کی لکیریں دیکھیں پھر‬
‫ایک کتاب کھول کر مجھ سے کہا ان خانوں میں سے ایک‬
‫خانے پر داییں ھاتھ کی شہادت کی انگلی رکھو میں نے ایک‬
‫خانے پر انگلی رکھ دی خانے پر ایک جل پری کی تصویر بنی‬
‫ہوی تھی جوتشی نے تین چاکور ٹکڑے اس کتاب پر پھینکے‬
‫اور بوال پری جل سے نکل آی ہے چار چاند ڈوبیں گے فیر جل‬
‫میں چلی جاوے گی فیر تین چاند ڈوبیں گے فیر جل سے نکل‬
‫آوے گی تب جا کے من کی مراد پوری ہووے گی چنتا نہ کر‬
‫بی بی ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں نہ مار جل پری جل میں‬
‫رہتی ہے یہ بڑی بھاگوان ہے جل تھل کر دے گی سوا سو‬
‫روپیہ بابے کی ہتھیلی پر رکھ بابا کچھ اور بتاے گا بابے کے‬
‫من میں کبھی کھبی موج آتی ہے جوتشی من کی موج میں‬
‫پانچ سو لے کر چلتا بنا مگر باتیں ایسی بتا گیا کہ ساس اور‬
‫نندوں کی باچھیں کھل گییں پھر چار چاند ڈوب گیے پھر‬
‫تین چاند اور ڈوب گیے جل پری نی جل تھل تو نہ کیا بلکہ‬
‫اسی جل میں ڈوب گٸ دای نے پیٹ مال سر کا وہی پرانا‬
‫اشارہ کر کے چلی گٸ ساس کا چہرہ اتر گیا ازدواجی زندگی‬
‫کا ایک اور سال گزر گیا ساس اور نندوں کا الڈ پیار بھی گزر‬
‫گیا لیکن خاوند کے رویے میں کوی تبدیلی نہیں آی ایک روز‬
‫وہ مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا‬

‫جس روز میری ڈولی سسرال کے گھر کے صحن میں اتری‬


‫میری عمر اٹھارہ سال ساڑھے چار مہینے تھی والدین نے‬
‫مجھے ایف اے سے آگے پڑھنے نہ دیا کیونکہ میری منگنی ہو‬
‫چکی تھی اور لڑکے والے شادی جلدی کرنا چاہتے تھے پڑھنے‬
‫کا شوق مار دیا گیا اور میں کالج سے نکل کر سسرال کے گھر‬
‫آ گٸ میرا سسرال اور میکہ متوسط درجے کے گھرانے تھے‬
‫خاوند نے مجھے دل سے قبول کر لیا تھا ازدواجی زندگی‬
‫اچھی گزرنے لگی پورا ایک سال ہنستے کھیلتے گزر گیا ساس‬
‫ماوں کی طرح نندیں سگی بہنوں کی طرح پیار کرتی تھیں‬
‫گھر کا کوی کام نہیں کرنے دیتی تھیں دن کے وقت زیور کے‬
‫بغیر رہنے نہیں دیتی تھیں اور چاہتی تھیں کہ دلہن بنی رہوں‬
‫میرا دولہا ان کا اکلوتا لڑکا تھا اس لیے وہ مجھے اس کی‬
‫الڈلی دلہن سمجھتی تھیں میں ایک سال دلہن بنی رہی‬
‫دوسرا سال شروع ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ ساس‬
‫مجھے بڑی غور سے دیکھتی ہے ایک دن ایک ادھیڑ عمر عورت‬
‫آی تو ساس مجھے کمرے میں لے گٸ اور کہنے لگی یہ ہماری‬
‫دای ہے اس بیچاری کا یہی زریعہ معاش ہے اب آی ہے تو اور‬
‫کچھ نہیں تو اس سے پیٹ ہی ملوا لو کچھ پیسے دے دینا‬
‫بیچاری دعا دے گی مجھے پیٹ ملوانے کی ضرورت تو نہیں‬
‫تھی لیکن اسے بھی میں ساس کا الڈ اور پیار سمجھ کر‬
‫پلنگ پر لیٹ گٸ ساس کمرے سے نکل گٸ دای نے پہلے تو‬
‫میرے پیٹ کو ٹٹوال پھر پہلو سے دبانا شروع کیا ناف پر‬
‫ھاتھ رکھ کر دبایا اس طرح دس پندرہ منٹ تک پیٹ کو مل‬
‫کر اٹھ کھڑی ہوی وہ کمرے کے دروازے کی طرف گٸ تو میں‬
‫بھی اٹھ کر اس کے پیچھے ردوازے تک آی ساس باورچی‬
‫خانے میں تھی دای کو شاید معلوم نہ ہوا میں پیچھے کھڑی‬
‫ہوں ا س نے میری ساس کی طرف کر سر ہالیا جیسے اشارہ‬
‫کیا ہو کہ نہیں میں نے ساس کو دیکھا کہ اس کا چہرہ اداس‬
‫ہو گیا اور اس کا سر جھک گیا میں فورأ سمجھ گٸ کہ میرا‬
‫پیٹ کیوں ملوایا گیا ہے اور دای نے سر ہال کر ساس کو کیا‬
‫بتایا ہے میں نے دای کو پیسے دیے اور اپنے کمرے میں آ گٸ‬
‫میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ ایک سال گزر گیا ہے مجھے‬
‫تو اب تک ماں بن جانا چاہیے تھا مگر دای میری ساس کو‬
‫مایوس کر گٸ تھی ایک مہینہ اور گزرا تو دای ایک بار پھر‬
‫میرا پیٹ ملنے آ گٸ جاتے جاتے سر کے اشارے سے میری‬
‫ساس کو پہلے سے زیادہ مایوس کر گٸ دای کے اشاروں ہی‬
‫اشاروں میں ایک سال گزر گیا تیسرا سال شروع ہوا تو‬
‫ساس مجھے ایک شاہ صاحب کے پاس لے گٸ شاہ نے ایک‬
‫کاغذ پر الٹی سیدھی لکیریں ڈال کر کہا ایک لیکر زرا گڑ بڑ‬
‫کر رہی ہے اللہ نے چاہا تو یہ بھی اپنی جگہ پر بہت جلد آ‬
‫جاے گٸ اگلی جمعرات کو پھر آنا ساس نے میرےھاتھ سے‬
‫پانچ سو روپے شاہ کو دالے اگلی جمعرات آی تو شاہ کے‬
‫پانچ سو روپے اور کھرے ہو گیے مگر ساس خوش نہ ہوی‬
‫کیونکہ ان کے شاہ صاحب نے فرمایا کہ جس روح نے آنا ہے‬
‫وہ ابھی ستاروں کی گردش میں بھٹک رہی ہے آنے میں زرا‬
‫دیر لگے گی پر آ جاے گی دو مہینے بعد گلی میں آواز آی فال‬
‫رمل دلیل ساس دوڑ کر باہر گٸ اور رمل فال والے کو اندر لے‬
‫آی محلوں میں رہنے والوں کو معلوم ہو گا کہ قسمت کا حال‬
‫بتانے والے ایسے وقت گلیوں میں آ کر رمل فال دلیل کی صدا‬
‫لگاتے ہیں جب گھروں کے مرد اپنے کام کاج پر نکل جاتے ہیں‬
‫گھروں میں عورتیں ہوتی ہیں یہ ان کی زہنی مجبوریوں اور‬
‫نفسیات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں عورتوں سے ایسی‬
‫استادی سے باتیں کرتے ہیں جو بلکل سچ معلوم ہوتی ہیں‬
‫ساس بھی انھی عورتوں میں سے تھی ساس نے میرا ھاتھ‬
‫جوتشی کے ھاتھ میں دے کر کہا بابا جی اس کی گود کب‬
‫ہری ہو گی جوتشی نے میرے ھاتھ کی لکیریں دیکھیں پھر‬
‫ایک کتاب کھول کر مجھ سے کہا ان خانوں میں سے ایک‬
‫خانے پر داییں ھاتھ کی شہادت کی انگلی رکھو میں نے ایک‬
‫خانے پر انگلی رکھ دی خانے پر ایک جل پری کی تصویر بنی‬
‫ہوی تھی جوتشی نے تین چاکور ٹکڑے اس کتاب پر پھینکے‬
‫اور بوال پری جل سے نکل آی ہے چار چاند ڈوبیں گے فیر جل‬
‫میں چلی جاوے گی فیر تین چاند ڈوبیں گے فیر جل سے نکل‬
‫آوے گی تب جا کے من کی مراد پوری ہووے گی چنتا نہ کر‬
‫بی بی ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں نہ مار جل پری جل میں‬
‫رہتی ہے یہ بڑی بھاگوان ہے جل تھل کر دے گی سوا سو‬
‫روپیہ بابے کی ہتھیلی پر رکھ بابا کچھ اور بتاے گا بابے کے‬
‫من میں کبھی کھبی موج آتی ہے جوتشی من کی موج میں‬
‫پانچ سو لے کر چلتا بنا مگر باتیں ایسی بتا گیا کہ ساس اور‬
‫نندوں کی باچھیں کھل گییں پھر چار چاند ڈوب گیے پھر‬
‫تین چاند اور ڈوب گیے جل پری نی جل تھل تو نہ کیا بلکہ‬
‫اسی جل میں ڈوب گٸ دای نے پیٹ مال سر کا وہی پرانا‬
‫اشارہ کر کے چلی گٸ ساس کا چہرہ اتر گیا ازدواجی زندگی‬
‫کا ایک اور سال گزر گیا ساس اور نندوں کا الڈ پیار بھی گزر‬
‫گیا لیکن خاوند کے رویے میں کوی تبدیلی نہیں آی ایک روز‬
‫وہ مجھے ایک لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا‬

‫اپنی من پسند کہانیاں حاصل کرنے اور لکھوانے کے لیئے رابطہ کریں ہمارے پاس‬
‫تمام کہانیاں ہیں وٹس ایپ میسج کریں‬

‫‪03247700346‬‬
‫‪03067007824‬‬
‫طالق_کے_بعد جس نے مجھے چیک کیا اورتین دواییاں لکھ‪#‬‬
‫دیں پندرہ دنوں کا کورس تھا کورس پورا ہوا تو لیڈی ڈاکٹر‬
‫نے مجھے ایک بار پھر چیک کیا اس نے علحدگی میں مجھ‬
‫سے بہت سی باتیں پوچھیں میرے خاوند کے متعلق بھی کٸ‬
‫ایک سوال کیے پھر اس نے خاوند کو بال کر کہا وہ بھی کسی‬
‫اچھے ڈاکٹر سے اپنا چیک اپ کرا لے یہ قدرت کا بنایا ہوا‬
‫نظام ہے عجیب سا ہوتا ہے زرا سی خرابی کے نتایج بہت بڑے‬
‫ہوتے ہیں آپ کا عالج ہو جاے گا گھبرانے کی کوی بات نہیں‬
‫میں نے گھر آ کر خاوند سے کہا کہ وہ بھی کسی ڈاکٹر سے‬
‫مشورہ کر لے مگر وہ اس طرح بھڑک اٹھا جیسے میں نے‬
‫اسکی مردانگی پر کوی بڑی ہی توہین آمیز تمہت لگا دی ہو‬
‫نقص تجھ میں ہو گا مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے کی‬
‫ضرورت نہیں میں نے کہا آپ اپنے متعلق خود کوی راے قایم‬
‫نہ کریں آپ کی راے غلط بھی ہو سکتی ہے میرا کہنے کا‬
‫کچھ اور مطلب تھا مگر وہ سمجھا کچھ اور تھا اس کی‬
‫آنکھیں ٹہر گیں چہرہ زرد ہو گیا میں نے اپنی شادی شدہ‬
‫سہیلیوں کو اپنے خاوند کے متعلق یہ بات بتای تو انھوں نے‬
‫کہا مرد کو ماں بہن کی گالی دے دو تو وہ برداشت کر لیتا‬
‫ہے لیکن یہ مشورہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کسی ڈاکٹر‬
‫سے چیک اپ کرواے انھوں نے بتایا کہ مرد کی نظر میں ہر‬
‫نقص عورت میں ہوتا ہے اپنے آپ کو گھوڑے جیسا سمجھتا‬
‫ہے میں نے دیکھا میرے خاوند کا موڈ خراب رہنے لگا تھا اس‬
‫کے ساتھ ہی ساس اور نندوں کا سلوک بھی بدل گیا خاوند‬
‫اور ساس کے کہنے پر سسر مجھے ایک بار پھر شھر کی دو‬
‫مشہور لیذی ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا صبح ایک معاٸنہ‬
‫کروایا شام کو دوسری سے دونوں نے معاٸنہ کر کے اپنی اہنی‬
‫فیس وصول کی اور کہا یہ بلکل ٹھیک ہے کوی روکاٹ نہیں‬
‫اب ان کے خاوند کا بھی چیک اپ کسی اچھے ڈاکٹر سے کروا‬
‫لیں مگر سسر نے بیٹے کی وکالت کرتے ہوے کہا وہ تو بلکل‬
‫ٹھیک ٹھاک ہے اسے معاٸنہ کروانے کی کیا ضرورت ہے میں‬
‫نے واپس آ کر خاوند کو بتایا کہ لیڈی ڈاکٹروں نے کیا فیصلہ‬
‫دیا ہے وہ کچھ بھی نہ بوال مگر اس کے چہرے کا بدلتا ہوا‬
‫رنگ بول رہا تھا کہ اسے یہ فیصلہ سخت ناگوار گزرا ہے میں‬
‫پو ٹھو ھار کے عالقے کی رہنے والی ہوں جہاں تھوڑے‬
‫تھوڑے فاصلے ہر پہنچ والے پیروں کے مزارات اور گدیاں ہیں‬
‫مجھے تین چار مزارں اور خانقاہوں پر لے جایا گیا وہاں کی‬
‫خاک اور کنکریاں کھالی گییں اور کرتے کرتے میرے گلے میں‬
‫چار پانچ تعویز لٹکنے لگے ساس مجھے گولڑہ شریف بھی لے‬
‫گی دیول شریف بھی گیے نو گزے کی قبر پر بھی لے جایا گیا‬
‫زندہ پیر کے مزار پر بھی حاضری دی مگر میری قسمت میں‬
‫ایک ہی طعنہ تھا کہ یہ تو تھوہر کا پودا ہے جو زمین کا سارا‬
‫پانی پی جاتا ہے نہ پھل دیتا ہے اور نہ پھول مجھ پر ایسے‬
‫ایسے تیر برسنے لگے کہ شادی کی پہلی رات اور پہال سال‬
‫ایک حسین خواب کی طرح یاد رہ گیا پھر میں نے اس خواب‬
‫کو بھی زہن سے اتار دیا مجھے در و دیوار سے نفرت ہونے‬
‫لگی خاوند بیگانہ ہو گیا نندیں منہ بسورنے گییں ساس‬
‫منجھے اس طرح کام بتانے لگی تو ہماری اور تو کیا امید‬
‫پوری کرو گی چلو جھاڑو ہی لگا یا برتن ہی مانجھ دو اس‬
‫طرح کی نہ جانے کتنی دل برداشتہ باتیں لگا لگا کر کرنے لگی‬
‫سب سے زیادہ مجھے جس چوٹ نے ادھ موا کیا وہ یہ تھی‬
‫کہ مجھ سے میری سہلیاں چھوٹ گییں وہ آتی تھیں یا میں‬
‫ان کے پاس چلی جاتی تھی تو دل کا بوجھ زرا ہلکا ہو جاتا‬
‫تھا لیکن سبھی مجھ سے دور ہٹنے لگیں سب کو یہ کہہ کر‬
‫ڈرا دیا گیا کہ مجھ پر کسی چیز کا سایہ ہے میں کسی پیر‬
‫کی بد دعای ہوی ہوں جس سہاگن پر میرا سایہ پڑے گا اس‬
‫کی کوکھ بھی سوکھ جاے گی میرے تن بدن میں آگ لگ گٸ‬
‫دل میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھی مجھے ایک خیال یہ بھی‬
‫آیا اگر میں جوابی کاروای کے طور پر ساس اور نندوں کے‬
‫منہ لگی تو وہ میرے خاوند کو بھڑکا کر مجھے طالق دال دیں‬
‫گییں اگر طالق کا تعلق صرف میری ذات سے ہوتا تو میں‬
‫پرواہ نہ کرتی مجھے اپنے ماں باپ کا خیال آگیا وہ یہ صدمہ‬
‫کیسے برداشت کرتے میں نے دل کے شعلے دل میں ہی رکھے‬
‫اور دل جلتا رہا میکے کی ایک سہیلی نے میرا ساتھ نہ چھوڑا‬
‫وہ میری ہمراز تھی ہماری دوستی گہری تھی ازدواجی‬
‫زندگی کے چھٹے سال مجھے اشارہ مل گیا کہ اب طالق کے‬
‫سوا کوی چارہ نہپیں میں سوچنے لگی اگر مجھے طالق ہو‬
‫گٸ تو مجھ سے کوی بھی شادی نہیں کرے گا کیونکہ سب‬
‫کو سسرال والے یہی کہیں گے کہ میں بچے جننے کے قابل‬
‫نہیں ہوں ان حاالت میں جب طالق کی تلوار میرے سر پر‬
‫لٹکنے لگی تو میں ساس نندوں کی باتوں کو برداشت کرنے‬
‫لگی لیکن پھر بھی آے روز جھک جھک ہونے لگی مگر ھار‬
‫مجھے ہی ماننی پڑتی کیونکہ ماں باپ کی وجہ سے طالق‬
‫سے بہت ڈرتی تھی ایک روز کچھ زیادہ ہی تو تو میں میں ہو‬
‫گٸ اور میں میکے گھر آ گٸ کہ شام کو خاوند آے گا تو‬
‫واپس آ جاوں گی گھر آی تو وہاں تالہ لگا ہوا تھا مجھے‬
‫معلوم تھا کہ گھر والے اگر کہیں گیے ہو تو گھر کی چابی‬
‫ساتھ والے گھر میں ہوتی ہے میں ساتھ والے گٸ تو وہاں اس‬
‫گھر کا جواں سالہ آدمی اکیال تھا اس نے بتایا کہ میری ماں‬
‫اور اس کی ماں اسی کی خاطر کسی مزار پر منت ماننے‬
‫گییں ہیں یہ آدمی شادی شدہ تھا اس کی اپنی بیوی سے‬
‫نہیں بنتی تھی اس آدمی سے پڑوسی ہونے کے ناطے سے‬
‫اچھی جان پہچان تھی اس کی بیوی چھ سات مہینے سے‬
‫اپنے میکے میں تھی یہ آدمی اپنی بیوی کو واپس نہیں النا‬
‫چاہتا تھا اس نے مجھے بٹھا لیا اور اپنی بیوی کا رونا رونے‬
‫لگا میں نے بھی اسے اپنی مصیبت کی کہانی سنای میں نے‬
‫اسے بتایا میں طالق سے بہت ڈرتی ہوں کیونکہ اس سے‬
‫میرے ماں باپ کو بہت صدمہ پہنچے گا کہیں خدا مجھے‬
‫ایک بچہ دے دے تو سارا جھگڑا ختم اس مسلے پر باتیں‬
‫کرتے کرتے یہ آدمی کچھ زیادہ بے تکلفی پر اتر آیا اچانک‬
‫میرے انتقام اور بغاوت کا شعلہ اٹھا میں نے دل میں سوچا‬
‫مجھے ایک بچہ چاہیے میرے خاوند کو کیسے پتہ چلے گا کہ‬
‫یہ بچہ اس کا نپیں میرے قدم ڈگمگانے لگے میری جذباتی‬
‫حالت میرے قابو سے باہر ہو گٸ عین اسی وقت اس آدمی نے‬
‫میرا ھاتھ اپنے ھاتوں لے کر کہا تمہیں بچہ چاہیے مل جاے گا‬
‫تمہیں میرا ساتھ دینا ہو گا‬

‫اپنی من پسند کہانیاں حاصل کرنے اور لکھوانے کے لیئے‬


‫رابطہ کریں ہمارے پاس تمام کہانیاں ہیں وٹس ایپ میسج‬
‫کریں‬

‫‪03247700346‬‬
‫طالق_کے_بعد‪#‬‬

‫قسط نمبر‪( 3 :‬سیکنڈ السٹ) ۔ وہ اٹھا اور اس نے کمرے کا‬


‫دروازہ بند کر دیا کواڑ جب ایک دوسرے سے ٹکراے تو یہ زرا‬
‫سا کھٹکا میرے سینے میں توپ کے دھماکے کی طرح گرجا‬
‫اچانک میری غیرت بیدار ہو گٸ میرا جسم اتنی زور سے کانپا‬
‫جیسے کسی غیبی قوت نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا ہو آبرو‬
‫کی خاطر مسلمان بیٹیاں جان پر کھیل جاتی ہیں تم اتنی‬
‫جلدی ھار گٸ خدا کی ذات سے مایوس نہ ہو ہوش میں آو‬
‫وہ دروازہ بند کر کے میری طرف آیا اور میں اٹھ کھڑی ہوی‬
‫میں نے اسے کہا مجھے معاف کر دینا اور میں اس سے چابی‬
‫لیے بغیر باہر آ گٸ میں نے گناہ نہیں کیا تھا لیکن گناہ کا‬
‫ارادہ ضرور کر لیا تھا اب یہی ارادہ مجھے سانپوں کی طرح‬
‫ڈس رہا تھا گلی میں آی تو ایسے گبھراہٹ ہونے لگی جیسے‬
‫دیواریں مجھ پرلعنت بھیج رہی ہوں جسیے پاس سے گزرنے‬
‫والے لوگ مجھے نفرت سے گھور رہے ہوں میں کوی ایسی پناہ‬
‫ڈھونڈنے لگی جو مجھے گناہ کے اس احساس سے نجات دال‬
‫دے مجھے اپنی ہمراز سہیلی یاد آگٸ میں بہت تیز چلتے ہوے‬
‫اس کے گھر پہنچی میری سہیلی میرے دکھ سے واقف تھی‬
‫اس نے جب میری طالق کے متعلق بات شروع کی تو میں نے‬
‫اس سے کہا آج میرے آنسو اپنے سہاگ کے غم میں نہیں ہیں‬
‫کسی اور وجہ سے بہہ رہے ہیں اس نے پوچھا تو میں زرا نہ‬
‫جھجکی اور اسے ساری بات بتا دی میں اپنے ضمیر سے اس‬
‫گناہ کا بوجھ اتار پھنکنا چاہتی تھی وہ گناہ جو میں نے کیا‬
‫ہی نہیں تھا صرف سوچا تھا میری سہیلی سب سن کر‬
‫افسردہ ہو گٸ میں سمجھی وہ میری ایسی نازیبا حرکت سے‬
‫ناراض ہو گٸ ہے میں نےاس کا چہرہ اپنے ھاتھوں میں لے کر‬
‫کہا اللہ کی قسم میں وہاں سے بھاگ آی ہوں کوی گناہ نہیں‬
‫کیا اس نے کہا یہی تم نے غلطی کی ہے کہ تم نے گناہ نہیں‬
‫کیا اب گناہ نہ کرنے کی سزا بھگتو طالق لے کر ماں باپ کے‬
‫گھر آ بیٹھو کوی مای کا الل ایسا نہیں جو تم کو بیاہ لے‬
‫جاے گا تمہاری ساس کی طرح تمہیں ہر کوی کہے گا یہ‬
‫تھوہر کا پودا ہے سن میری بہن اس نے کہا اوالد کی خاطر‬
‫پیروں کے پاس جانے والی عورتوں کی گود تعویز دھاگے‬
‫نہیں بلکہ پیر خود ہری کیا کرتے ہیں ہمارے گھرانوں میں ایک‬
‫فریب کی حکمرانی ہے یہ فریب ہم دوسروں کو بھی دیتے‬
‫ہیں اور اپنے آپ کو بھی تمہیں اپنی آبرو اتنی پیاری ہے تو‬
‫طالق لے لو اور گھر بیٹھو اور باقی عمر اس گھر میں گزار‬
‫دو مگر میں اپنے آپ کو اس فریب کے لیے تیار نہ کر سکی‬
‫جب میں نے محسوس کیا کہ میری نجات ایک گناہ میں ہے‬
‫ورنہ میں ہمیشہ کے لیے دھتکار دی جاوں گی تو میرے اندر‬
‫اک ایسی بے چینی اور تلخی پیدا ہو گٸ کہ بیٹھے چین نہ‬
‫لیٹے چین اک پاگل پن سا سوار ہو گیا دل میں یہی ارادہ آتا‬
‫کہ خودکشی کر لوں ریل گاڑی ے نیچے سر رکھ دوں ڈوب‬
‫مروں یا زھر کھا لوں دو تین دنوں کے بعد خاوند نے مجھے‬
‫صاف کہہ دیا کہ وہ اب دوسری شادی کرے گا میں نے اس‬
‫کی منت سماجت کی محبت کے واسطے دیے پھر میں نے اپنے‬
‫آپ کو یہاں تک گرا لیا کہ اس کے پاوں پر سر رکھ دیا لیکن‬
‫وہ پتھر بن چکا تھا پھر بھی میری منت سماجت اور‬
‫واسطوں نے اسے تھوڑا نرم کر دیا اس نے کہا میری ماں ایک‬
‫اور پیر کا نام بتا رہیں ہیں میں ان سے کہوں گا تمہیں وہاں‬
‫لے جاے اگر وہاں سے بھی مراد پوری نہ ہوی تو پھر میں‬
‫تمہیں طالق دینے پر مجبور ہو جاوں گا میں کسی پیر کے‬
‫پاس نہیں جانا چاہتی تھی میں نے خاوند سے کہا میں پیر‬
‫کے پاس نہیں جاوں گی خاوند نے کہا پھر طالق لے لو یہ‬
‫تمہارا نہیں تمہاری تعلیم کا قصور ہے تم ایف اے کر کے پتہ‬
‫نہیں اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہو اصل میں تم پیروں اور‬
‫بزرگوں کی توہین کی سزا پا رہی ہو میں تو بھول ہی چکی‬
‫تھی کہ میں بھی تعلیم یافتہ ہوں خاوند نے یاد دالیا تو اس‬
‫کے ساتھ مجھے یہ بھی یاد آیا کہ میں تو قرأن بھی پڑھا ہوا‬
‫ہے اس مقدس کتاب کو میں خدا کا پیغام مانا کرتی ہوں‬
‫قرأن کا زہہن میں آتے ہی جیسے میری آنکھوں کے سامنے ایک‬
‫روشنی چمکی مجھے عقل نے راہ دکھای میں نے خاوند سے‬
‫فورأ کہا میں اس پیر کے اس جاوں گی دو تین دنوں بعد‬
‫میں اپنی ساس کے ساتھ ریل گاڑی سے اس اسٹیشن پر اتری‬
‫جس کے قریب اس پیر کا آستانہ تھا اسٹیشن سے پیدل ہی‬
‫پیر کے آستانے پر پہنچے جناب پیر صاحب مریدوں کی محفل‬
‫میں بیٹھے ہوے تھے مجھے دیکھ کر اس پر وجد طاری ہو‬
‫گیا ساس نے آگے ہو کر اس کے پاوں چھوے پھر مجھے بھی‬
‫آگے کر کے اس کے پاوں چھونے کو کہا ساس اپنی مراد‬
‫سنانے ہی لگی تھی کہ پیچھے سے ایک آدمی نی مییری ساس‬
‫سے کہا یہاں نہیں اس وقت حضور کسی اور حالت میں ہیں‬
‫لڑکی کو اندر بھیج دو حضور مرادیں وہییں سنتے ہیں اس‬
‫کے ساتھ ہی اس آدمی نے میرے کندھے پر ھاتھ رکھ کر ایک‬
‫دروازے کی طرف اشارہ کہا اور کہا کاکی ادھر اندر چلی جا‬
‫حضور کرم کریں گے اس آستانے سے کوی خالی ھاتھ نہیں‬
‫گیا میرا جسم بڑی زور سے کپکپایا ساس نے مجھے اٹھا دیا‬
‫اور دھیمی آواز میں کہا جا اندر چلی جا حضور آییں تو ان‬
‫کے پاوں چھو کر بات کرنا وہ جو عمل کرنے کو کہیں وہ‬
‫دھیان سے اور دل سے کرنا یہ تمارے پاس بھی اور ہمارے‬
‫پاس بھی آخری موقع ہے میں چپ چاپ اندر چلی گٸ‬
‫طالق_کے_بعد‪#‬‬

‫قسط نمبر‪( 4 :‬السٹ) ۔ اندر پلنگ بچھا ہوا تھا اس پر قیمتی‬


‫تکیے اور پلنگ پوش تھا کمرہ کافی سجا ہوا تھا جلدی پیر‬
‫اندر آ گیا اور دروازہ بند کر دیا پیر کی صحت قابل رشک‬
‫تھی چہرہ خوب صورت اور الل سرخ تھا جسم توانا اس‬
‫شخص کے چہرے اور جسم میں بڑی کشش تھی اس نے آتے‬
‫ہی مخمور آواز میں کہا بچہ نہیں ہوتا اور خود ہی جواب‬
‫دے دیا ہو جاے گا اس نے مجھے پلنگ پر لیٹ جانے کو کہا‬
‫میں نے کھڑے کھڑے جواب دیا مجھے تعویز چاہیے میں یہاں‬
‫لیٹنے کے لیے نہیں آی وہ ہنس پڑا اگر شیطان میرے سامنے‬
‫ہنسے تو قسم کھا کر کہوں گی کہ شیطان اس پیر کی طرح‬
‫ہی ہنستا ہے وہ میرے قریب آیا کہنے لگا تعویز بھی دوں گا‬
‫اور بچہ بھی دوں گا اس نے ایک بازو میری کمر کے گرد لپیٹ‬
‫کر مجھے پلنگ پر گرا لیا وہ ایک خوبصورت بھینسا تھا اسے‬
‫دیکھ کر میں سمجھ گٸ کہ جاھل عورتیں کیوں اس کی‬
‫مریدنیاں ہیں وہ مجھے بھی انھی عورتوں میں سے سمجھ‬
‫رہا تھا اس کے منہ سے سخت بد بو آ رہی تھی مجھے نہیں‬
‫معلوم یہ شراب کی بو تھی یا چرس کی مجھے پلنگ پر گرا‬
‫کر وہ پلنگ پر چڑھ آیا میں اچھل کر پلنگ سے اٹھی اور اس‬
‫سے تین چار قدم دور ہٹ آی اس نے پیار سے مجھے اپنے‬
‫پاس بالیا اس نے کہا میں تجھے ایسا تعویز دوں گا پھر‬
‫معلوم نہیں وہ تعویز کی کونسی کرامات بیان کرنے لگا میں‬
‫نے اسے بولنے نہ دیا اور غصے سے کہا میں تھوکتی ہوں تیری‬
‫صورت اور تیرے تعویزوں پر میں اب اپنا تعویز آزماوں گٸ‬
‫میں گمراہ ہو گٸ تھی جو تمارے پاس آی اس نے زور سے‬
‫قہقہہ لگایا اور کہا او پاگل لڑکی اور ساتھ ہی پلنگ سے‬
‫اٹھنے لگا میں تیزی سے کمرے سے نکلی اور مریدوں کے کے‬
‫بیچ سے تیز تیز چلتے ہوے آستانے سے باہر آگی مجھے دیکھ‬
‫کر میری ساس بھی باہر آگٸ اور پوچھنے لگی حضور نے کیا‬
‫کہا ہے میں نے اسے کوی جواب نہیں دیا میرے ہونٹ سل گیے‬
‫زبان میں بولنے کی طاقت نہ رہی میں شاید خود بھی وہ نہ‬
‫رہی تھی جو اس گناہ خانے میں داخل ہونے سے پہلے تھی‬
‫ساس کچھ نہ کچھ بولتی رہی لیکن میں چپ رہی شام کے‬
‫وقت ہم گھر پہنچیں میں نے ساس سے کہا میں اپنے میکے‬
‫جا رہی ہوں اور میں انی ماں کے گھر آ گٸ میری ماں مجھے‬
‫دیکھ کر پریشان ہو گٸ میں نے اسے تسلی دی کہ اللہ کرم‬
‫کرے گا جو ہو گاانشا اللہ بہتر ہو گا میں رات ماں کے گھر‬
‫رہی آدھی رات کاوقت تھا میں اس وقت تک سو نہیں سکی‬
‫تھی دماغ میں عجیب عیجب خیال آ رہے تھے میں سوچ رہی‬
‫تھی کہ گھروں کے اندر عورتوں کے ساتھ کیسی کیسی‬
‫دھاندلیاں ہوتی ہیں جن سے مجبور ہو کر عورتیں اپنی نجات‬
‫کے راستے خود ڈھونڈنے لگتی ہیں ان کی در پردہ حرکیتں اک‬
‫ایسا بھید ہیں جو ان کے عالوہ صرف خدا ہی جانتا ہے ان‬
‫عورتوں کے خاوند فخر سے گردنیں اکڑاے پھرتے ہیں گھر کے‬
‫سب افراد اس وقت گہری نیند میں تھے میں نے وضو کیا اور‬
‫الماری سے قرآن مجید نکاال اور چھت پر چلی گٸ ٹھنڈی یخ‬
‫ہوا چل رہی تھی میں قرآن فصیل پر رکھا چھت کے ٹھنڈے‬
‫فرش پر دو نفل پڑھے اس دوران میں اتنی زیادہ روی میں‬
‫اچھی طرح پڑھ بھی نہ سکی نفل پڑھ کر میں قرآن ھاتھ‬
‫میں لے کر کھڑی ہو گٸ (اللہ مجھے معاف کرے ) میں خدا‬
‫سے مخاطب ہو کر بولی اگر تیری ذات کا وجود ہے اگر تیری‬
‫کتاب برحق ہے تو مجھے اپنا آپ دکھا مجھے اپنی کتاب کا‬
‫کرشمہ دکھا ورنہ میں اس کتاب کو لفظوں کا پلندہ‬
‫سمجھوں گی اور ساری عمر تیرا نام نہیں لوں گی پھر میں‬
‫کھڑے کھڑے اتنا روی کہ اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو گیا میں‬
‫نے قرآن کو اپنے سینے سے لگا لیا اور روتی رہی مجھے نہیں‬
‫معلوم میں کتنی دیر روتی رہی کب نیچے آ کر سوی جب امی‬
‫نے جگایا تو سورج نکل آیا تھا اٹھی تو ایسے لگا میرے اندر‬
‫کوی طاقت آ گٸ ہے دل کو عجیب سا سکون ہو گیا تھا ایسے‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میرا دماغ روشن ہو گیا ہو کل‬
‫تک طالق کا جو خوف میری رگ رگ میں اترا ہوا تھا اس‬
‫خوف کا اثر بھی بھی زاٸل ہو چکا تھا میں نے خاوند کے نام‬
‫خط لکھا جس میں لکھا کہ مجھے فورأ طالق چاہیے پورا‬
‫حق مہر وصول کروں گی ماہوار خرچہ تمہیں معاف کرتی‬
‫ہوں کیونکہ میں تمہاری محتاج نہیں رہنا چاہتی اب تمہارے‬
‫گھر نہیں آوں گی میری جو چیزیں تمہارے گھر ہیں بھیج دو‬
‫تو اچھا ہے ورنہ اپنی دوسری بیوی کو دے دینا بھای سکول‬
‫سے آیا تو میں نے خط اسے دے کر کہا کہ میرے سسرال‬
‫والوں کے گھر دے آو جب ماں باپ کو بتایا کہ خط میں کیا‬
‫لکھاہے تو ان پر سکتہ طاری ہو گیا میں نے انھیں تسلی دی‬
‫جو ہو گا بہتر ہو گا میں نے کہا اگر میرا خدا سچا ہو گا تو‬
‫ہماری مدد ضرور کرے گا یہ الفاظ کہتے ہوے میں نے‬
‫محسوس کیا جس طرح پہلے طالق کا نامسن کر میں کانپ‬
‫جایا کرتی تھی اب مجھ میں دلیری آ گٸ تھی اور کوی‬
‫غیبی قوت تھی جو مجھے اندر ہی اندر یقین دال رہی تھی‬
‫اللہ سب ٹھیک کرے گا دس بارہ دنوں بعد میرا طالق نامہ‬
‫بمعہ حق مہر مجھے مل گیا میرے کپڑوں کا ٹرنک بھی آ گیا‬
‫البتہ زیور کی کچھ چیزیں وہ لوگ ہضم کر گیے سامان کے‬
‫ساتھ ساس کا پیغام بھی مال کہ اب دیکھیں گے اس سوکھے‬
‫پیڑ سے کون پھل حاصل کرتا ہے یہ تو تھوہر کا پودا ہے جو‬
‫زمین کا سارا پانی پی جاتا ہے پھل دیتا ہے نہ پھول لیکن‬
‫مجھے اب کوی پروا نہیں تھی دل کو سکون تھا پانچ چھ‬
‫مہینے گزرے ہمارا وہی پڑوسی جس کے ساتھ میں بھٹک‬
‫چلی تھی اس کی بیوی کے ساتھ جھگڑا اتنا زیادہ بڑھ گیا‬
‫کہ اس نے بیوی کو طالق دے دی پھر وہی پڑوسی میری‬
‫نجات کا سبب بن گیا میں ایک دن گھر کی چھت پر گٸ تو‬
‫وہ بھی اپنی چھت پر موجود تھا اس دن کے بعد میں اسے‬
‫آج دیکھ رہی تھی اسے دیکھتے ہی میں نیچے آنے لگی تو‬
‫اسنے مجھے آواز دی اور کہا میری بات سنو اگر تم چاہو تو‬
‫میں تم سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں میں نے کہا آپ کو‬
‫معلوم ہے نہ لوگ مجھے تھوہر کا پودا کہتے ہیں کیا آپ کو‬
‫پھول اچھے نہیں لگتے اس نے کہا مالی کا کام ہے محنت کرنا‬
‫پھل پھول لگانا مالک کا کام ہے میں نے کہا جاو موج کرو‬
‫اس نے کہا اکیلے اکیلے کیا خاک موج ہو گی میں نے اس کی‬
‫آنکھوں کی زبان سمجھی لی اور اسی روز امی سے کہا اس‬
‫آدمی سے رشتے کی بات کریں امی ابا نے بات کی دو چار‬
‫پھیروں میں بات پکی ہو گٸ نہایت خاموشی اور سادگی سے‬
‫ہمارا نکاح پڑھا دیا گیا میری ماں کو ابھی تک ڈر تھاکہ اب‬
‫کیا ہو گا اگر بچہ نہ ہوا تو کہیں پھر بیٹی گھر نہ آ جاے‬
‫لیکن خدا نےاپنے نام اور کالم کو سچا کر دکھایا شادی کے‬
‫دوسرے مہینے میں نے ماں کی پریشانی دھو ڈالی اور انھیں‬
‫خوشخبری بتای پھر خدا نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا‬
‫جو پیر عورتوں کو اوالد عطا کیا کرتا تھا وہ ایک روز اپنے‬
‫کچھ مریدوں کے ساتھ ایک بس میں سفر کر رہا تھا بس بے‬
‫قابو ہو کر سڑک سے ہٹ گٸ اور اسی رفتار سے جا کر ایک‬
‫مضبوط درخت سے ٹکرای اس میں چھبیس سواریاں مر‬
‫گییں جن میں یہ پر اور اس کے مرید بھی تھے لوگ بتاتے ہیں‬
‫کہ ٹکر اتنی شدید تھی کہ بس کا انجن اندر تک بس میں‬
‫دھنس گیا تھا پوٹھوہاریوں کو یہ پرانا حادثہ ضرور یاد ہو‬
‫ھا بہتوں کو تو سراغ بھی مل گیا ہو گاکہ وہ پیر کون تھا‬
‫میرے پہلے خاوند نے دوسری اور پھر تیسری شادی کی لیکن‬
‫آج تک بےاوالد ہے اللہ نے مجھے تین بیٹے دیے میرا سب سے‬
‫چھوٹا بیٹا اس وقت چودہ سال کا ہے ختم شد۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like