Professional Documents
Culture Documents
رادھا (آخری حصہ دوم31-55)
رادھا (آخری حصہ دوم31-55)
( جاری ہے
رادھا
قسط۔ 32
مصنف۔ طارق خان
’’سپنا بہت بزلہ سنج واقع ہوئی ہیں‘‘ پھر بڑے الڈ
سے اسے دیکھا۔
’’تم کیول اتناکہہ دوکہ میں تمہیں آگیا دیتا ہوں کہ تم
میرے شریر میں پرویش کرلو‘‘ رادھا نے جلدی سے
کہا۔ وہ برابر سپنا اور اس کالے پر نظر رکھے ہوئے
تھی۔
وہ کچھ دیر کھڑا ہونٹ چباتا رہا پھر بوال ’’یہ وعدہ تو
میں کر سکتا ہوں کہ میرے دوست کے آنے تک یہ
دوبارہ اس گھرمیں نہیں آئے گی لیکن اس کے آنے
کے بعد یہ کیا کرتی ہے یا تم کیا کرتے ہو میرا اس
سے کوئی واسطہ نہیں
رادھا کی قہر بار آواز آئی۔ صرف مجھے اور کھیڈو کو
ہی اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اور یہ تو میں آپ
کو بتا چکا ہوں کہ جسے وہ چاہتی وہی اسکی آواز
سن پاتا۔ ناعمہ اور شرجیل پھٹی پھٹی آنکھوں سے
کھیڈو کی طرف دیکھ رہے تھے جو دونوں ہاتھوں
سے گال پکڑے بے سدھ پڑا تھا۔ رادھا نے میری
طرف دیکھا وہ میری مرضی معلوم کرنا چاہ رہی تھی۔
میں نے دل ہی دل میں اسے کہا اگر اسے مارنا ہی
تویہاں یہ کام نہ کرنا کہیں یہ لوگ کسی مصیبت میں
نہ پھنس جائیں۔
’’چنتا نہ کرو موہن! میں اس دھشٹ کا کریہ کرم کسی
اور استھان پر کروں گی‘‘ رادھا نے مجھے تسلی دی
پھر ہاتھ اس کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اچانک کھیڈو
چوہڑ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خون کی ایک لکیر اب بھی اس
کے ہونٹوں سے جاری تھی۔ وہ دائیں ہاتھ سے اپنا گال
سہال رہا تھا۔ اس کا چہرہ خوف سے پیال پڑ چکا تھا۔
سب غرورو تنتنا غائب ہوگیا۔ اس نے فریادی نظروں
سے رادھا کی طرف دیکھا اور کپکپاتے ہاتھ اس کے
سامنے جوڑ دیے۔
’’مجھے معاف کر دو۔۔۔آئندہ میں کبھی ایسی گستاخی
نہیں کروں گا۔ تم جانو اور یہ لڑکی۔ میری جان بخشی
کر دو۔ ۔۔۔میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں
گا‘‘ وہ باقاعدہ منتوں پر اتر آیا۔ چونکہ رادھا میرے
ساتھ کھڑی تھی اسلیے سب سمجھے کھیڈو مجھ سے
معاف مانگ رہا ہے۔ سپنا اور گوری کے رنگ لٹھے
کی طرح سفید ہو چکے تھے۔
’’یدی جیون چاہتا ہے تو ترنت بھاگ جا‘‘ رادھا نے
نفرت سے اس پر تھوک دیا اتنا سننا تھا کہ وہ سر
پرپاؤں پر گڑ گئیں۔ اچانک وہ لڑکھڑائی اور دونوں
ہاتھوں سے سرکو تھام لیا رادھا آہستہ سے چلتی
ہوئی اس کے پاس چلی گئی اور اپنا ہاتھ اس کے سر
پر پھیرا۔۔۔اس کے بعد وہ گوری کے پاس آئی اور اس
کے ساتھ بھی وہی حرکت دہرانے کے بعد آکر میرے
پاس کھڑی ہوگئی۔
(جاری ہے)
رادھا
قسط۔ 33
مصنف۔ طارق خان
’’میں نے کہا تھا جی ،وہ کہہ رہے ہیں فاروق صاحب
کو بالدو‘‘ چوکیدار نے بتایا۔
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’من تو میرا بھی نہیں کرتا مہاراج! پرنتو میرا جیا دہ
دیریہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں‘‘ اس نے دل کی بات کہہ
دی۔
(جاری ہے)
رادھا
قسط۔ 35
مصنف۔ طارق خان
تمہارا تعلق کس مخلوق سے ہے؟‘‘ باآلخر میں نے
بسنتی سے وہ سوال کر دیا جس کے جواب سے رادھا
نے ابھی تک مجھے محروم رکھا تھا۔ اس کی حسین
آنکھوں سے کشمکش کا اظہار ہو رہا تھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’تم باہر میرا انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ میں نے
اس پیش نظر کہا کہ سٹاف کو معلوم نہ ہو سکے۔ وہ
مسکراتی ہوئی اٹھی اور باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد
میں نے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور باہرآگیا۔ وہ بینک
سے تھوڑی دور سڑک کے کنارے میرا انتظار کر رہی
تھی۔ میں نے گاڑی اس کے نزدیک روک کر اگال
دروازہ کھول دیا۔ وہ مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی۔میں
تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ دل زور زور
سے دھڑک رہا تھا۔ کچا چور تھا اس سے پہلے کبھی
ایسا کام نہ کیا تھا۔ میں اسے سیدھا بیڈ روم میں لے
آیا۔ وہ بغیر کسی اعتراض کے چلی آئی۔ اندر پہنچ کر
میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ کسی معمول
کی طرح میرا ہر حکم مان رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ
جلد از جلد اس مرحلے سے گزر جاؤں کیونکہ ضمیر
کی خلش بڑھتی جا رہی تھی۔
جب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا
جیسے وہ نیند سے جاگ گئی۔ پہلے تو اس نے حیرت
سے چاروں طرف دیکھا پھر جیسے ہی اسکی نظر
مجھ پر پڑی وہ بری طرح گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔
’’یہ۔۔۔یہ مم۔۔۔میں کہاں آگئی ہوں؟‘‘ ا س کا رنگ زرد
ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت جیسے منجمد ہوگئی۔
’’اب کیا ہوگا اگر اسنے گھر جا کر بتا دیا تو میں تو
کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤں گا؟‘‘ اس
سوچ نے مجھے لرزا دیا۔
میں برہنہ حالت میں قالین پر پڑا تھا۔ مجھ پر التوں کی
بارش شروع ہوگئی۔ بے اختیار میں نے اپنا چہرہ
ہاتھوں میں چھپا لیا۔ مارنے والے کئی تھے۔ ساجد ان
میں پیش پیش تھا۔ التوں اور گھونسوں کی ضربوں
نے مجھے بے حال کر دیا۔
’’اسے پولیس کے حوالے کر دیں۔‘‘ ایک آواز میرے
کانوں میں پڑی۔
’’پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔بس کرو۔۔۔کہیں بدبخت مر ہی نہ
جائے‘‘ یہ آواز ڈی ایس پی عمر حیات کی تھی۔
جاری ہے
رادھا
قسط۔ 36
مصنف طارق خان
سبین چیخی ضرور تھی لیکن بنگلہ اتنا بڑا تھا کہ
اسکی ایک دو چیخیں کسی طور باہر سڑک پر نہیں
سنی جا سکتی تھیں۔ یہ کار ستانی اس منحوس کالی
داس کی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پرتھی کہ بسنتی
میری مدد کرنے کیوں نہیں آئی؟ میں نے کئی بار
اسے پکارا تھا۔ ہو سکتا ہے کالی داس نے اسے کسی
طرح بے بس کر دیا ہو۔ ایک بار جب رادھا جاپ میں
مصروف تھی تو اس کمینے نے مجھے گھیر کر اپنا
بدلہ لینے کا بندوبست کر لیا تھا لیکن اس دن بھال ہو
ملنگ کا کہ اس نے میری مدد کی تھی۔ تب میں بے
قصور تھا جبکہ آج تو میں نے وہ جرم کیا تھا جس
کی دنیا اور آخرت میں بدترین سزا مقرر کی گئی ہے۔
کاش لوگ مجھے موقع پر ہی سنگسار کر دیتے۔ میں
اہل عالقہ کی نظروں سے گر گیا تھا۔ جب صائمہ کو
معلوم ہوگا تو وہ کیا سوچے گی؟ کیا وہ زندہ رہ پائے
گی؟ میں نے اس کے اعتماد کو دھوکہ دیاتھا۔
لیکن میں اسکی بات کیسے مان سکتا تھا؟ شدت سے
رادھا کا منتظر تھا۔ اب اس معاملے کو وہی سلجھا
سکتی تھی۔ کاش وہ آجائے اچانک مجھے رادھا کی
بات یاد آگئی اسنے کہا تھا۔
جو کچھ کالی داس نے میرے ساتھ کیا تھا اگر وہ
میرے ہاتھ آجاتا تو ہو سکتا تھا میں انجام کی پرواہ
کیے بغیر اسے جان سے مار دیتا۔ لیکن کیا میں اس
کی پراسرار قوتوں کا مقابلہ کر سکتا تھا؟ میری اب
تک کی جیت سے رادھا اور ملنگ کی مدد شامل رہی
تھی لیکن میں خود کیا تھا؟ کیا میں اس شیطان کی
گندی جادوئی قوتوں کے باوجود اسے زیر کر
سکتاتھا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں چکرا رہا
تھا۔
زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا اگر میرے
بس میں ہوتا تو کہاں تومیں شدت سے عمران کامنتظر
تھا اورجب وہ آیا تو میں شرم کے مارے نظر نہ اٹھا
سکا۔ وہ میری کیفیت کو جان گیاتھا۔
جاری ہے
رادھا
قسط ۔37
مصنف۔ طارق خان
’’اٹھ کر بیٹھ جا‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔ میں اٹھ کر
بیٹھ گیا۔
’’سر جی! شاید بلب فیوز ہوگیا ہے‘‘ جواب مال۔ اس
کے بعد تاال کھلنے کی آواز آئی۔
’’جا بھاگ کر ایمرجنسی الئٹ لے آ‘‘ پہلے والے نے
کہا۔ تیز قدموں سے کسی کے جانے کی آواز آئی۔
اندھیرا اتنا بھی گہرا نہ تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ
دیتا ہو۔ دروازے کے سامنے ایک درازقد شخص کا
ہیوال دکھائی دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہی آدمی
ہاتھ میں جلتی ہوئی ایمرجنسی الئٹ پکڑے آگیا۔ اس
نے دروازہ کھوال اور دونوں اندر آگئے۔ ایک نے
وردی پہنی ہوئی تھی جبکہ ایمرجنسی الئٹ پکڑے
ہوئے آدمی سادہ لباس میں تھا۔
’’سر جی! ذرا اسے پکڑیں میں بلب لگا دوں‘‘ سادہ
لباس نے وردی والے سے کہا پھر بلب لگا کر الئٹ
آن کر دی۔ کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ وردی میں
ملبوس شخص کے کندھے پر لگے سٹارز اسے
انسپکٹر ظاہر کر رہے تھے جبکہ دوسرا شاید سپاہی
تھا۔ انسپکٹر نے مجھے غور سے دیکھا۔
’’کھڑے ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا۔ میں بمشکل اٹھ کر کھڑا
ہوگیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے کالی
داس کی طرف دیکھا وہ بڑے اطمینان سے نیم دراز
تھا۔ مجھے اس کی ہدایت یاد تھی کسی کے سامنے
میں اسے مخاطب نہ کروں۔ انسپکٹر میرا سر سے
پاؤں تک جائزہ لے رہا تھا۔
’’مجھے یقین ہے کہ تم بے گناہ ہو۔ میں تو شکل سے
مجرم کو پہچان لیتا ہوں‘‘ پھر سپاہی کی طرف مڑا۔
’’اسے کچھ کھانے کو بھی دیا ہے یا نہیں؟‘‘
’’سر جی! صاحب جی کا آرڈر تھا کہ اسے کچھ نہیں
دینا‘‘ سپاہی نے کہا۔
’’وہ تو پاگل ہے اس کی نظر میں ہر شخص مجرم ہے
۔۔۔جاؤ اس کے لئے کچھ کھانے پینے کو لے آؤ‘‘ اس
نے ’’صاحب جی‘‘ کو برا بھال کہتے ہوئے سپاہی کو
حکم دیا۔ وہ فوراً باہر چالگیا۔
جاری ہے
رادھا
قسط۔ 38
مصنف۔ طارق خان
’’میرا نام انسپکٹر عادل ہے۔ میری پولیس سروس کو
پچیس سال ہوگئے ہیں۔ میں شکل سے ہی مجرم کو
پہچان لیتا ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ تم
مجرم نہیں لیکن یہ بات بھی میری سمجھ سے باہر
ہے سب لوگ تمہارے خالف کیوں ہیں؟کیا تم مجھے
بتاؤ گے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘ اس نے بڑے مہذب
انداز میں سوال کیا۔
’اس سے کہہ تجھے کسی بات کی جانکاری نہیں۔ جی
اچھا نہ ہونے کے کارن تو گھر پر تھا کچھ منش آئے۔
انہوں نے تیرے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور تجھے مار
مار کر تیری یہ دشا بنا دی۔ اس کے بعد تجھے کچھ
کھبر نہ رہی۔ جب ہوش آیا تو یہاں حواالت کے کمرے
میں پڑا تھا‘‘ کالی داس نے کہا۔ میں نے چونک کر
پہلے کالی داس پھر انسپکٹر کی طرف دیکھا۔ وہ کالی
داس کے وجود سے بے خبر مجھے دیکھ رہا تھا ’’یہ
مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘ کالی داس میری پریشانی
بھانپ کر بوال۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق
تھانیدار کو وہی کہانی سنا دی۔
’’کون لوگ تھے اور انہیں تم سے کیا دشمنی ہے؟‘‘
میں نے پھر کالی داس کی طرف دیکھا۔
”تو بہت بدھی مان ہے۔ یدی تو ستیہ کہہ رہا ہے تو
سن اب کالی داس کی شکتی تجھے ان کٹھنائیوں سے
یوں نکال کر لے جائے گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
اور کالی داس کا متر بن کر توگھاٹے میں نہیں رہے
گا۔ رادھا تو کچھ بھی نہیں ایسی ایسی سندرکنیائیں
تیرے چرنوں میں بٹھا دوں گا کہ تو آکاش کی
اپسراؤں کو بھی بھول جائے گا“ اسنے مجھے اللچ
دیا۔ٹھیک ہے کالی داس! اگر تم نے اپنا وعدہ پورا کیا
تو مجھے ہمیشہ اپنا دوست پاؤ گے“میں نے اسے
یقین دالیا اور دل میں اسی بات کو دہرانے لگا۔وہ کچھ
دیر میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔
”دھن باد خان صاحب! تم ایک گھر سے منشہور جو
کچھ تمرے من میں ہے ۔وہ میں جانتا ہوں اب تو کسی
بات کی چنتا نہ کر دیکھ کالی داس کیا کرتا ہے۔ تجھے
ابھی کالی داس کی شکتی سے جانکاری نہیں کیول آج
کی رینا اس کوٹھڑی میں بتا لے پھر سب ٹھیک ہو
جائے گا“ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں نے منہ سے
کچھ نہ کہا بس سر ہال کر اس کی بات کی تائید کی۔
’’بسنتی!‘‘
’’جی مہاراج‘‘ فورا بسنتی کی مدہر آواز کمرے میں
گونجی۔ وہ نظروں سے اوجھل تھی۔
’’آپ کا نام؟‘‘
ا
’’انشاء ہللا‘‘ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ پیار سے
میرا ہاتھ تھپتھپا کر وہ بچوں کے پاس چلی گئی۔ اس
کے جانے کے بعد میں بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ مجھے
کیا ہوگیا ہے صائمہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔صراط مستقیم
سے بھٹکنے کے بعد مصائب نے مجھے گھیرلیا تھا۔
شریف کے مرحوم والد صاحب کے الفاظ مجھے یاد
تھے انہوں نے تاکید کی تھی کہ نماز سے غافل نہ
رہوں میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد
خرافات سے بچنے کی کوشش کروں گا اور باقاعدگی
سے نماز اور تالوت قرآن کا اہتمام کروں گا۔ یہ سوچ
کر دل کو کچھ سکون مال۔ بچوں کو سکول چھوڑ کر
میں بینک روانہ ہوگیا۔ آنے جانے کے لئے میں وہی
راستہ استعمال کرتا جس پر میری سادھو امر کمار اور
ملنگ سے مالقات ہوئی تھی۔ صائمہ کی باتیں ابھی
تک میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ایسی نیک
بیویاں قسمت سے مال کرتی ہیں اور میں اس معاملے
میں خوش قسمت تھا۔
Continued
رادھا
قسط 42
مصنف۔ طارق خان
ی
’’جب تم چلی جاؤ گی تب میرا پیچھا کیوں کرے گا؟‘‘
مجھے حیرت ہوئی۔
یا
’’یہ کونسی نئی بات ہے وہ تو کب سے اس بات کی
تعالی
ٰ آس لگائے بیٹھا ہے لیکن زندگی دینا اور لینا ہللا
کا کام ہے ۔وہ شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ رہی
بات دیوی دیوتاؤں کی تو میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا
ہوں کہ میں ان خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ میں نے
بڑے ٹھوس لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر غصے
کی ایک لہر آکر گزر گئی۔
ا
’’لیکن کس لئے اورکہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی۔ کل میں اسی سمے آؤں
گی‘‘ وہ میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی
تھی۔ اس سے پہلے جب بھی میں کوئی بات سوچتا وہ
مجھے بتا دیتی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں بلکہ سپنا
کے معاملے میں تو میں بذریعہ سوچ اس سے باتیں
بھی کرتا رہا تھا لیکن آج وہ مجھے صرف ٹٹولنے
والی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میرے دل کا
حال اس پر ظاہر نہ ہو۔
ا
’’کیسے ہو پریم؟‘‘ اس نے میری جانب دیکھا۔
’’تمہارے سامنے ہوں ‘‘ اس کی راہنمائی میں
ڈرائیونگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم
ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ جگہ دیکھی بھالی سی لگ
رہی تھی غور کرنے پر میں ے پہچان لیا۔ یہ وہی گاؤں
تھا جس کے قریب میری گاڑی خراب ہوئی تھی اور
میں ایک شخص کی مدد سے کسی مکینک کی تالش
میں کالی داس کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ آج بھی
اس اذیت کو محسوس کرکے میرے رونگٹے کھڑے ہو
جاتے ہیں۔ اگر ملنگ اپنے لعاب سے میرا عالج نہ
کرتا تو نہ جانے میرا کیا حال ہوتا؟‘‘
’اس استھان کو جانتے ہو؟‘‘ میں اپنی سوچوں میں
غرق تھا کہ رادھا کی آواز سن کر چونک گیا۔
’’آؤ میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ آنکھوں میں پیار کی
جوت لیے وہ میری منتظر تھی۔
’’رادھا! میں تم سے کہہ چکا ہوں ہمارے مذہب میں
غیر محرم مرد عورت کا تعلق حرام ہے۔ اگر تم س
مقصد کے لیے مجھے الئی ہو تو میں واپس جا رہا
ہوں۔‘‘ میں نے بمشکل دل پر جبر کرکے کہا۔ میرے
انکار پر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ کچھ دیر وہ
غصے کی کیفیت میں مجھے دیکھتی رہی پھر ٹھنڈی
سانس اس کے منہ سے خارج ہوگئی۔
Continued
رادھا
قسط۔ 43
مصنف ۔طارق خان
’’تم فکر نہ کرو میں آج رات وظیفہ کروں گا‘‘ میں نے
اسے تسلی دی اس کے بعد میں گھر پر ہی رہا۔ رات
کو تقریبا بارہ بجے جب میں نے دیکھا صائمہ سو گئی
ہے تو دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر باہر آگیا۔
دن کی تپش کے بعد رات خوشگوار محسوس ہو رہی
تھی۔ میں نے الن میں آکر آہستہ سے رادھا کو پکارا۔
’’پھر کیا ہوا اپنے متروں کو بال لینا پہلے بھی تو
انہوں نے تمری سہائتا کی تھی‘‘ اس نے بھی جوابی
وار کیا میں خاموش ہوگیا۔
تعالی نے
ٰ ’’کیا حال ہیں فاورق صاحب!؟ شکر کریں ہللا
کرم کیا ہے ورنہ جس قدر شدید ضرب آپ کو آئی تھی
اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بینائی بھی متاثر ہو
سکتی تھی‘‘ وہ میری نبض چیک کرتے ہوئے بوال۔
تعالی کا الکھ الکھ شکر ہے ڈاکٹر
ٰ ’’جی ہاں ہللا
صاحب‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔
میں کافی دیر بیٹھا یہی سوچتا رہا پھر باہر نکل آیا۔
سوچا صائمہ سے دوچار باتیں کرکے معلوم کروں کہ
آیا میرا خیال صحیح ہے یا کوئی اور بات ہے؟ میرا
خیال تھا وہ الؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی ہوگی لیکن
صائمہ وہاں نہیں تھی۔ ڈرائنگ روم بھی اس کے وجود
سے خالی تھا میں نے باہردیکھا۔ وہ الن میں بچھی
کرسی پربیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔ میں دبے
قدموں اس کے پیچھے پہنچا تو بری طرح چونک اٹھا
۔ وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔ صائمہ کی آواز بہت اچھی
ہے کبھی کبھی وہ میری فرمائش پر کچھ سنا دیتی۔
لیکن ایسا وہ صرف میرے کہنے پر اس وقت کرتی
جب ہم دونوں کے سوا کوئی نہ ہوتا۔ وہ جھولنے والی
کرسی پر بیٹھی بڑے جذب کے عالم میں گنگنا رہی
تھی۔ اسے اردگرد کی کچھ خبر نہ تھی۔ میں نے آہستہ
سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بری طرح اچھل
پڑی۔
’’آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کیا بات ہے کیا نیند
نہیں آرہی؟‘‘ بیزاری اس کے لہجے سے عیاں تھی۔
میں سامنے والی کرسی پربیٹھ گیا۔
صائمہ! مجھے بتاؤ کیا بات ہے تم کس بات پر مجھ
سے ناراض ہو؟‘‘ وہ خاموشی سے بیٹھی گود میں
رکھے ہاتھوں کو گھورتی رہی۔
’’ہاں اسے بھی جگا دو میں ناشتہ تیار کرتا ہوں‘‘ میں
نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ واپس آیا تو مومنہ
صائمہ کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے ایک نظر سوئی
ہوئی صائمہ کو دیکھا۔ میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس
کا گالب جیسا شگفتہ چہرہ کمال گیا تھا۔ چہرے پر
زردی کھنڈ گئی تھی۔ مومنہ پیار سے اپنی ماں کے
چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بھاگ
کر میرے پاس آگئی۔’’ماما کیوں سو رہی ہیں؟‘‘ اس
نے پوچھا۔
’’رات ماما کو بخار ہوگیا تھا اس لئے سو رہی ہیں آپ
جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو سکول کا ٹائم
ہوگیا ہے‘‘ میں نے اسے اٹھا کر باتھ روم کا رخ کیا۔
’’میں نہیں جاؤں گی‘‘ اس نے ضد کی۔
’’موہن!‘‘
اگر ساتوں آسمان ایک ساتھ میرے سر پر گر پڑتے تو
بھی میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا صائمہ کی آواز سن
کر ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ صائمہ
اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی
تھی۔
’’پی۔۔۔تت۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں ہکال کر رہ
گیا۔وہ چونک کرمیری طرف دیکھنے لگی۔
’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا‘‘ وہ جما ہی لیتے ہوئے
بولی۔
’’یا خدا میں کن مصائب میں پھنس گیا ہوں؟‘‘ میں نے
دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ صائمہ بے
خبر سو رہی تھیا ورنیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔
ملنگ نے کہا تھا کہ وظیفہ مکمل کرنے کے بعد
سوجاؤں اورجو کچھ خواب میں نظر آئے وہ محمد
شریف کو بتا دوں لیکن نیند پرکسے اختیار ہے؟ میں
جاگتا رہا۔ آخر کار نیند مجھ پرمہربان ہوگئی۔ خواب
میں دیکھا ایک ویران سی جگہ ہے جہاں میں صائمہ
کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ میں اسے آوازیں دیتا ہوں
لیکن اس کا کہیں پتا نہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نظر
آتا ہے جوایک گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے۔ میں اسے
آواز دیتاہوں وہ مڑ کرمیری طرف دیکھتا ہے میں اس
کے نزدیک جا کر اسے سالم کرتاہوں۔ وہ گٹھڑی زمین
پر پھینک دیتا ہے۔ میرے سالم کا جواب دے کر وہ
میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں اسے
بتاتا ہوں میں اور میری بیوی کسی کام سے ادھر آئے
تھے اب وہ کہیں نظر آرہی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا
ہے؟ وہ مسکراتاہے۔
Continued
رادھا
قسط۔ 47
مصنف۔ طارق خان
جاری ہے
رادھا
قسط۔ 49
مصنف۔ طارق خان
’’تمیری پتنی کا پریمی‘‘ اس نے مضحکہ خیز لہجے
میں جواب دیا۔ بچے ایک بارپھر سہم کرمیرے ساتھ
چپک گئے۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ اس وقت
بچوں کو لے کر گھر سے نکل جاؤں اور انکو عمران
کے گھر چھوڑ کر دوبارہ واپس آکر اس خبیث سے
نبٹوں۔ اتنا میں جان چکا تھا کہ وہ مجھے نقصان نہیں
پہنچا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے قدم باہر کی طرف
بڑھائے۔
Continued
رادھا
قسط۔ 50
مصنف۔ طارق خان
حتی کہ
’’تو تو بہت بہادر ہے ،کسی سے نہیں ڈرتا۔ ٰ
۔۔۔خدائے بزرگ و برتر سے بھی نہیں‘‘ اس کی غیض
و غضب میں ڈوبی آواز آئی۔
Continued
رادھا
قسط۔ 51
مصنف۔ طارق خان
محمد شریف یہ سب کیا ہے؟ یہ نوجوان۔۔۔‘‘
’’خان صاحب! بھائی عبدالودود حضرت صاحب کے
بہت ہونہار شاگرد اور مرید ہیں۔ اس عمر میں ہللا کی
رحمت اور ریاضت و عبادت کے باعث انہوں نے وہ
مقام حاصل کر لیا ہے جو کسی کسی خوش نصیب
کوملتا ہے۔ زبردست روحانی قوتوں کے مالک ہیں یہ
تعالی بہت جلد ہماری مشکالت کا
ٰ صاحب۔ انشاء ہللا
خاتمہ ہو جائے گا‘‘ اسنے بڑے خلیق لہجے میں کہا۔
’’کیا صائمہ کی شکل دوبارہ اپنی اصلی حالت میں
آجائے گی‘‘ جو فکر مجھے کل سے کھائے جا رہی
تھی میں نے اس کا ذکر محمد شریف سے کیا۔
’’جناب! معذرت چاہتا ہوں میں آپ کی بات کا مطلب
نہیں سمجھ سکا۔‘‘
میں اور محمد شریف بری طرح اچھل پڑے۔ دیکھا تو
ایک دیونما شخص جس کا سر چھت سے لگ رہا تھا
اور جسم کسی پہاڑ کی طرح تھا ایک طرف سے
نمودار ہوا اور چنگھاڑتا ہوا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس
کے جسم پر ریچھ کی طرح بال تھے۔ یوں لگ رہا
جیسے بالوں سے بھرا ہوا گوشت کا پہاڑ لڑھک رہا
ہو۔ا س نے اپنا پاؤں اٹھا کر دھم سے زمین پر رکھا
جس سے بڑی بھیانک آواز خارج ہوئی۔ اس کے جسم
پر فقط ایک لنگوٹی تھی۔ کمرے کی چھت لگ بھگ
پچاس فٹ بلند ہوگئی۔ وہ پہاڑ اس میں سر جھکائے
چل رہا تھا۔ رادھا نے ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی اس
کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے
گوشت کے اس پہاڑکو دیکھا ،اچانک اسکی آنکھوں
سے سرخ روشنی کی دھار نکل کر اس پر دیو پر پڑی
اور ایک لمحے میں اسے جال کر دھویں میں تبدیل
کردیا۔ دھواں چکراتا ہوا چھت کے پاس جا کر غائب
ہوگیا۔ میں جو اس دیو کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا رادھا
نے بڑی آسانی سے اسے ختم کر دیا۔ عبدالودود جو
بڑی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اسکے چہرے
پر رادھا کے لئے تحسین کے تاثرات ابھر آئے۔ بسنتی
نے اپنے مددگار کا یہ حشر دیکھا تو فوراً غائب
ہوگئی۔
’چمارو‘‘ رادھا غضبناک ہو کر گرجی۔
وہ کیا کہہ رہی تھی؟ ہمیشہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے
گن گانے والی کا یہ کہنا مجھے حیران کر گیا۔ اگر میں
بھی ان کے بارے میں کچھ کہتا تو وہ برامان جاتی
لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔ لیکن اس کے
چہرے پر ہر بار غصہ چھا جاتا جبکہ آج وہ خود اپنے
دیوتاؤں کے بارے میں ایسی بات کہہ رہی تھی۔ حیرت
سے میری عقل گم تھی۔
اچانک کمرہ ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔ لیکن
ایک منٹ کے بعد دوبارہ روشن ہوگیا۔ سامنے نظر
پڑی تو میں ششدر رہ گیا۔ دیوار کے پاس ایک قطار
میں سات آدمی لنگوٹیاں پہنے کھڑے تھے۔ سب سے
آگے ایک ہٹا کٹا طویل القامت شخص تھا۔ اس کے
سارے جسم پر بال ہی بال تھے۔ سر انڈے کے چھلکے
کی طرح صاف درمیان میں موٹی سی چوٹی لٹک رہی
تھی۔ اس نے جسم پر زرد کا کوئی سفوف مل رکھا
تھا۔ قد اس کا تقریبا ساڑھے چھ فٹ ہوگا۔ گلے میں
کئے موٹے دانوں کی ماال لٹک رہی تھیں۔ اس کی
آنکھیں بڑی بڑی اور سرخ انگارے جیسی تھیں۔
ماتھے پر تین مختلف رنگوں کی لکیریں کچھی ہوئی
تھیں۔ اس کے پیچھے ایک قطار میں کندھے سے
کندھا مالئے دوسرے بچاری کھڑے تھے۔ سب کے
حیلے ایک جیسے تھے۔ صرف کالی داس کے بڑے
بڑے جھاڑ جھنکار سفید بال اور بے ہنگم داڑھی
مونچھیں تھیں۔ باقی سب گنجے اور درمیان میں موٹی
موٹی چوٹیاں لٹک رہی تھیں۔ جنہیں انہوں نے اپنے
سینوں پر ڈال رکھا تھا۔ سب سے آگے والے بچاری
کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ
حتی کہ پلک بھی
بتوں کی مانند ساکت کھڑے تھے ٰ
نہیں جھپک رہے تھے۔ سب سے آگے کھڑا بچاری
یک ٹک رادھا کو گھور رہا تھا۔
’’مہاراج! یہی وہ پاپن‘‘ کالی داس نے رادھا کی طرف
انگلی سے اشارہ کیا۔
مجھے کیا بتاتا ہے مورکھ! سب جانتا ہوں‘‘ اس کی
آواز خاصی گرجدار تھی۔
’’جیون لینا اور دینا اوپر والے کا کام ہے ،یدی تو
چاہے تو ایک چیٹی کو بھی اس کی آگیا کے بنا کچھ
نہیں کہہ سکتا۔ میں مرتیو سویکار کر لوں گی پرنتو
دھرم جو میں ے چن لیا ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی۔
تجھے جو کرنا ہے کر لے‘‘ رادھا نے بڑے مضبوط
لہجے میں کہا۔ وشنو داس انکار سن کر مشتعل ہوگیا۔
’’پاپن! کیا تو نے نہیں دیکھا میں نے ان
بھاشن(تقریر) دینے والوں کی کیا دشا بنا دی؟‘‘ اس
نے ملنگ اور عبدالودودکی طرف اشارہ کیا۔ جن کے
چہرے کرب و اذیت سے مسخ ہو چکے تھے۔ شدید
تکلیف کے باوجود صبر و ضبط ایک مثال تھا۔ وشنو
داس پر ایک نظر مجھ پر ڈال کر رادھا کی طرف مڑا۔
ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن صرف ایک پل
کے لئے۔ دوسرے ہی لمحے کمرہ پھر روشن ہوگیا۔
پجاری جاچکے تھے۔ وشنو داس اور کالی داس کی
راکھ بھی موجود نہ تھی۔ شاید پجاری اسے ساتھ لے
گئے تھے۔ حضرت صاحب نے کچھ دیر کے لئے
آنکھیں بند کرلیں۔ سب سر جھکائے خاموش کھڑے
تھے۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ
کی طرف دالؤں وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ انہوں نے
مشفقانہ نگاہ مجھ پر ڈالی۔
’ادھر آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے مجھے بالیا۔ میں
ایسے ان کی طرف کھینچتا چال گیا جیسے لوہا
مقناطیس کی طرف۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام
لیا۔
(ختم شد)