You are on page 1of 556

‫رادھا‬

‫حصہ دوم آخری‬


‫قسط ‪ 31‬سے ‪ 55‬تک‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’میں تمہاری گندی کمائی میں سے ایک پیسہ لینا حرام‬


‫سمجھتاہوں‘‘ میں نے نفرت سے کہا۔ اس کے چہرے‬
‫پر مایوسی چھا گئی۔ پھر وہ لجاجت سے بوال۔‬

‫’’جناب ! ایک گزارش ہے اگر آپ مان لیں؟‘‘’جلدی‬


‫بک‘‘ مجھے حقیقتا اس شخص سے نفرت ہوگئی تھی۔‬

‫’’اگر آپ مجھے اپنا شاگرد بنا لیں تو۔۔۔‘‘’اس سے‬


‫پہلے کہ میں اپنا وعدہ بھول جاؤں کہ میں نے تجھے‬
‫معاف کر دیا ہے یہاں سے دفع ہو جا۔۔۔میں تجھ جیسے‬
‫گندے شخص کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا اور تو یہ‬
‫بکواس کو رہا۔۔۔‘‘ اس نے میری پوری بات بھی نہیں‬
‫سنی تھی کہ الٹے قدموں بھاگ گیا۔ مجھے جاوید کے‬
‫ہنسنے کی آواز آئی جو نہ جانے کب میرے پیچھے‬
‫آکھڑا ہوا تھا۔‬

‫’’ہم نے ابھی شرجیل کے گھر جانا ہے لیکن میں‬


‫بچوں کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا کیا کیا جائے؟‘‘ میں‬
‫نے جاوید سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا۔’بچوں کو‬
‫گوری کے پاس چھوڑ جاتے ہیں‘‘ اس نے کہا۔‬

‫’’نہیں۔۔۔گوری نے بھی ہماری ساتھ جانا ہے ‘‘ وہ‬


‫چونک کر مجھے دیکھنے لگا ’’اس کی وجہ میں‬
‫تمہیں وہیں چل کر بتاؤں گا۔‘‘ میں نے اسے‬
‫سمجھایا۔ناعمہ باجی بھی ہمارے ساتھ ہوں گی؟‘‘‬

‫میں نے ابھی کوئی جواب نہ دیا تھا کہ رادھا نے میرے‬


‫کان میں سرگوشی کی کہ فی الحال ناعمہ کو لے جانا‬
‫مناسب نہیں۔’نہیں ناعمہ کو بعد میں بالئیں گے۔‘‘ میں‬
‫نے کہا۔‬

‫’’ٹھیک ہے ناعمہ باجی کو بچوں کے پاس چھوڑ‬


‫دیتے ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد ہم سب شرجیل کی طرف جا رہے تھے۔‬
‫گیٹ پر پہنچ کر جاوید نے بیل دی۔ بڑی بڑی مونچھوں‬
‫اور بھاری بھر کم چہرے والے چوکیدار نے کھڑکی‬
‫سے جھانک کر دیکھا۔ جاوید اور آنٹی پر نظر پڑتے ہی‬
‫اس نے سالم کیا اور گیٹ کھول دیا لیکن وہ بری طرح‬
‫بوکھالیا ہوا تھا۔ مجھے اس کی بوکھالہٹ کا انداز تھا۔‬
‫شرجیل نے سپنا کی موجودگی کی وجہ سے چوکیدار‬
‫کو ہدایت دی ہوگی کہ کسی کو اندر نہ آنے دے۔ پر آنٹی‬
‫کو تو وہ کسی طور نہ روک سکتا تھا۔ شرجیل کے‬
‫والدین آجکل جج پر گئے ہوئے تھے۔ ادھر صاحب جی‬
‫یہ گلچھرے اڑا رہے تھے چوکیدار نے گیٹ بند کرکے‬
‫تیزی سے ہمارے آگے چلتے ہوئے ڈرائنگ روم کا‬
‫دروازہ کھول دیا ’’بی بی صاحب! آپ ادھر بیٹھو ہم‬
‫صاحب کو بتانا ہے۔‘‘ اس نے اپنے تئیں بڑی‬
‫دانشمندی دکھائی۔‬

‫’’موہن! سپنا اس سمے شرجیل کے کمرے میں ہے ۔‘‘‬


‫رادھا نے مجھے بتایا۔‬
‫وہ کس حالت میں ہیں؟ ‘‘ میں نے احتیاطا پوچھ لیا۔‬
‫جس قسم کی وہ عورت تھی اس سے کسی اچھی بات‬
‫کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔‬

‫’’کیول پریم کی باتیں کر رہے ہیں‘‘ رادھا نے بتایا۔‬


‫میں مطمئن ہوگیا۔‬
‫’نہیں۔۔۔ہمیں سیدھا اپنے صاحب کے بیڈ روم میں لے‬
‫چلو۔‘‘ میں نے چوکیدار سے کہا۔ وہ مجھے نہ پہنچانتا‬
‫تھا اسلیے اس کے ماتھے پر بل پڑگئے۔ اس نے‬
‫ناخوشگوار نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن کوئی‬
‫سخت بات کہنے سے گریز کیا۔ اتنا تو جانتا تھا کہ آنٹی‬
‫کے ساتھ کوئی اجنبی آدمی نہیں ہو سکتا۔‬
‫’’تم لوگ ادھر بیٹھو۔۔۔ام صاحب کو بالتا ہے ‘‘ اس نے‬
‫آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے حتی االمکان نرمی سے‬
‫جواب دیا۔‬

‫’’جو تم سے کہا جا رہا ہے وہ کرو ‪ ،‬سمجھے۔۔۔؟‘‘‬


‫صائمہ نے اسے جھڑک دیا۔ اس کے گمان میں بھی نہ‬
‫تھا کہ وہ حرافہ شرجیل کے کمرے میں ہے فقط اسے‬
‫ہتک محسوس ہوئی تھی کہ مالزم ہونے کے باوجود وہ‬
‫اکڑ دکھا رہا ہے۔‬

‫رادھا اس وقت مجسم حالت میں ہمارے ساتھ تھی۔‬


‫چوکیدار نے کچھ کہنا چاہا لیکن رادھا نے اپنا کومل‬
‫ہاتھ اس کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ وہ یکدم فدوی بن‬
‫گیا اور ہماری راہنمائی شرجیل کے کمرے کی طرف‬
‫کرنے لگا۔‬

‫’’گوری کو ابھی باہر ہی بیٹھا رہنے دو‪ ،‬اسے بعد میں‬


‫بال لیں گے۔‘‘ رادھا نے کہا۔‬
‫’’تم ادھر ڈرائنگ روم میں بیٹھو‘‘ میں نے گوری سے‬
‫کہا۔ اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا لیکن بغیر‬
‫کچھ کہے چلی گئی۔‬

‫ہم سب چوکیدار کی معیت میں چلتے ہوئے اس کمرے‬


‫کے دروازے پر جا پہنچے جہاں دو پیار کے پنچھی‬
‫دنیا سے بے نیاز ہو کر ایک دوسرے میں گم تھے۔‬
‫میں نے آہستہ سے دروازہ کھوال اور ہم سب اندر داخل‬
‫ہوگئے۔ یہ ایک پر تعیش بیڈ روم تھا جسے ناعمہ نے‬
‫بڑے ارمانوں سے سجایا تھا۔ شرجیل صوفے پر بیٹھا‬
‫تھا جبکہ وہ قتالہ عالم بیڈ پر نیم دراز تھی۔ مختصر‬
‫لباس میں اس کا حسین جسم چھپائے نہ چھپتا تھا۔‬
‫واقعی رادھا کا کہنا درست تھا۔ وہ تھی ہی ایسی کہ‬
‫انسان اسے دیکھ کر ہوس و حواس کھو بیٹھے۔ ہمیں‬
‫دیکھ کر دونوں بری طرح اچھل پڑے۔ شرجیل کا رنگ‬
‫فق ہوگیا۔ سب سے آگے میں تھا پھر آنٹی اس کے بعد‬
‫صائمہ اور جاوید‪ ،‬سب حیرت سے منہ کھولے دیکھ‬
‫رہے تھے ان کے گمان میں بھی نہ تھا کہ شرجیل‬
‫ایسی حرکت کر سکتا ہے۔‬
‫شرجیل فورا صوفے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’آ۔۔۔آ۔۔۔آپ آنٹی‬
‫ی ی ی ۔‘‘ اس کے منہ سے بمشکل نکال۔ سپنا بڑی ادا‬
‫سے ہم سب کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی پوزیشن میں‬
‫کوئی فرق نہ آیا تھا۔ جس سے اس کے کردار کا پتا‬
‫چلتا تھا۔ وہ نیم باز آنکھوں سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔‬
‫سب کو دیکھ کر اس کی نظریں مجھ پر ٹک گئیں۔‬
‫شرجیل کی یہ حالت تھی کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔‬
‫وہ بری طرح بوکھال گیا تھا۔ سپنا بڑی ادا سے لہر ا کر‬
‫اٹھی اور اپنے جسم کو کچھ اور نمایاں کرکے بڑی‬
‫نخوت سے بولی۔‬

‫’’آپ کو کسی کی تنہائی میں آنے سے پہلے دروازے‬


‫پر دستک دینی چاہئے تھی۔ ‘‘ اس کی ڈھٹائی پر صائمہ‬
‫کا چہرہ غصے سے انگارہ بن گیا۔ قریب تھا کہ وہ کچھ‬
‫بولتی میں نے اسے اشارے سے خاموش رہنے کے‬
‫لئے کہا۔‬
‫’’معذرت چاہتے ہیں ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ تشریف‬
‫فرما ہیں ہم تو شرجیل سے ملنے آئے تھے۔‘‘‬

‫’’آ۔۔۔آئیے بیٹھئے فاروق بھائی!‘‘ شرجیل نے مجھ‬


‫سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ اس کے ہاتھ ٹھنڈے‬
‫برف ہو رہے تھے۔ اس کے بعد اس نے آنٹی کو آداب‬
‫کہا جس کا انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔ ان کی تیوریاں‬
‫چڑھی ہوئی تھیں۔ جاوید بھی غصے میں بھرا ایک‬
‫طرف کھڑا تھا۔ صائمہ قہر بھری نظروں سے سپنا کو‬
‫دیکھ رہی تھی۔ اس کا بس نہ چل رہا تا ورنہ اس کا منہ‬
‫نوچ لیتی۔ میں نے صوفے پر بیٹھے ہوئے بڑے اخالق‬
‫سے سپنا کو بیٹھنے کے لیے کہا۔‬

‫’’تشریف رکھئے آپ کھڑی کیوں ہوگئیں؟‘‘ اس نے‬


‫بڑی دلچسپی سے میری طرف دیکھا۔ پھر آگے بڑھ کر‬
‫اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ میں نے اٹھ کر تپاک سے‬
‫اس کے ساتھ مصافحہ کیا۔ صائمہ کا چہرہ مزید تپ گیا۔‬
‫لیکن وہ کچھ بولی نہیں قہرمیں بھری ایک طرف بیٹھ‬
‫گئی۔‬
‫’’آپ کی تعریف؟‘‘ سپنا نے خمارآلود نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا۔‬

‫’’خادم کو فاروق احمد خان کہتے ہیں‘‘ میں نے بڑی‬


‫نیاز مندی سے کہا۔ مجھے معلوم تھا میرا یہ عمل‬
‫صائمہ کو ایک آنکھ نہ بھایاہوگا۔ اس نے ابھی تک‬
‫میرا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ میں نرمی سے اس سے اپنا ہاتھ‬
‫چھڑاتے ہوئے ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔ وہ سبک‬
‫خرامی سے چلتی ہوئی دوبارہ بیڈ پر جا بیٹھی۔ باقی‬
‫لوگوں کی طرف اس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا تھا‬
‫شرجیل ابھی تک نظریں جھکائے کھڑا تھا۔‬

‫’’آنٹی آپ بھی بیٹھیں اور جاوید تم یہاں آجاؤ میرے‬


‫پاس ‘‘ وہ کسی حد تک اپنے اعصاب پر قابو پانے میں‬
‫کامیاب ہوگیا تھا۔ میری ساس منہ بنائے ایک طرف بیٹھ‬
‫گئیں۔‬
‫’’فاروق بھائی! کب آئے آپ؟‘‘ اس نے کھسیانے انداز‬
‫سے پوچھا۔‬

‫’’آج ہی آیا ہوں تم سے ملنے کو دل چاہا تو چال آیا پر‬


‫شاید میں مخل ہوا ہوں نا وقت‘‘ میں نے سپنا کی طرف‬
‫دیکھا۔ جو نیم باز آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی‬
‫تھی۔ اس کی آنکھوں میں واقعی شراب کی سی مستی‬
‫تھی۔ اس کے ُحسن کا جادو ہی کسی کو پاگل کرنے کے‬
‫لئے کافی تھا اس پر وہ جنتر منتر بھی جانتی تھی‪،‬‬

‫اعتماد اس کا قابل دید تھا۔ یوں اکڑی بیٹھی تھی جیسے‬


‫وہ اس گھر کی مالکن ہو اور ہم سب اس کے نوکر۔ ہاں‬
‫باقیوں کی بہ نسبت وہ میری ذات میں کچھ دلچسپی لے‬
‫رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔‬
‫وہ ُحسن کے سارے ہتھیاروں سے لیس تھی۔ رادھا‬
‫ایک کونے میں کھڑی دلچسپی سے میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی۔ پھر بادصبا کی طرح چلتی وہ میرے قریب آکر‬
‫بیٹھ گئی‬
‫’’کیا وچار ہیں ہے نا سندر؟‘‘ اس کی آنکھوں میں‬
‫شوخی تھی۔‬

‫’’اس کے حسن کو پھر کسی وقت دیکھ لیں گے ابھی‬


‫تو جس کام آئے ہیں اسے پورا کرنا ہے۔‘‘ میں نے دل‬
‫میں سوچ کر رادھا کو جواب دیا۔ پھر شرجیل کی طرف‬
‫متوجہ ہوا جو پاؤں کے انگوٹھے سے قالین کو کرید‬
‫رہا تھا۔‬

‫’’شرجیل مجھے تم سے کچھ ضروری بات کرنا ہے‘‘‬


‫میں نے اس کی طرف دیکھا۔‬

‫’’جی فرمائیے‘‘ وہ ابتدائی جھٹکے سے سنبھلنے کے‬


‫بعد اب کافی حد تک نارمل نظر آرہا تھا۔ میں نے ایک‬
‫نظر سپنا کی طرف دیکھا جس کے ہونٹوں پر بڑی‬
‫دآلویز مسکراہٹ تھی۔‬
‫’’فاروق بھائی! میں معذرت چاہتا ہوں آپ کا تعارف‬
‫کروانا بھول گیا۔ یہ سپنا ہیں۔۔۔جلد ہی ہم دونوں شادی‬
‫کرنے والے ہیں۔‘‘ شرجیل نے مجھے سپنا کی طرف‬
‫دیکھتے پا کر جلدی سے کہا۔‬

‫’’واقعی۔۔۔یہ اسم با مسمی ہیں ان کو سپنوں میں دیکھنا‬


‫تو ہر کسی کی خواہش ہو سکتی ہے۔ ‘‘ میں نے‬
‫ہونٹوں پر بڑی میٹھی مسکراہٹ التے ہوئے کہا۔ کمرے‬
‫میں سپنا کا مد ہر قہقہہ گونج اٹھا۔ اس کے موتیوں‬
‫جیسے دانتوں کی چمک بڑی ہی مسحور کن تھی۔‬
‫صائمہ جو پہلے ہی تپی بیٹھی تھی غصے سے اٹھ کر‬
‫کھڑی ہوگئی۔‬

‫’’جب آپ لوگ شعر و شاعری سے فارغ ہو جائیں تو‬


‫مجھے بال لیجئے گا۔‘‘ وہ تنتاتی ہوئی باہر نکل گئی۔‬
‫جاوید بھی اس کے پیچھے چال گیا۔ سپنا نے حقارت‬
‫سے صائمہ کی طرف دیکھا پھر کندھے اچکا کر‬
‫دوبارہ نیم دراز ہوگئی۔ خوب کھائی کھیلی ہوئی عورت‬
‫تھی۔ صائمہ نے نا وقت باہر جا کر غلطی کی تھی سپنا‬
‫کی تعریف سے میری وہ مرادنہ تھی۔ جو صائمہ سمجھ‬
‫رہی تھی میں اسے اچھی طرح گھسنا چاہتا تھا لیکن‬
‫صائمہ سے برداشت نہ ہو سکا۔ خیر اسے بعد میں بالیا‬
‫جا سکتا تھا۔ میں شرجیل کی طرف متوجہ ہوا۔‬

‫’’شرجیل تم نے ناعمہ کے متعلق کیا سوچا ہے؟‘‘ میں‬


‫نے سنجیدگی سے پوچھا۔‬

‫’فاروق بھائی! میں آنٹی کو بتا چکا ہوں۔ پہلے تو میں‬


‫نے کوشش کی کہ ناعمہ اس بات پر راضی ہو جائے کہ‬
‫میں سپنا سے دوسری شادی کر لوں لیکن اس کی ضد‬
‫تھی کہ میرے ہوتے تم سپنا تو کیا کسی سے بھی‬
‫شادی نہیں کر سکتے۔ ہر شخص کو دوسری شادی کا‬
‫حق حاصل ہے میں کوئی غیر قانونی یا غیر شرعی کام‬
‫تونہیں کر رہا نا؟‘‘ شرجیل نے کہا۔‬
‫’’تم نے بالکل صحیح کہا دوسری شادی کی قانون اور‬
‫شریعت میں اجازت ہے بلکہ دوسری کیا تیسری اور‬
‫چوتھی کی بھی ہے۔ لیکن میں نے تو سنا ہے کہ تم‬
‫ناعمہ کو طالق دے رہے ہو‘‘ میں نے مالئمت سے‬
‫پوچھا۔‬

‫’’پہلے تو میں ناعمہ کی منتیں کرتا رہا لیکن ایک دن‬


‫اس نے میری موجودگی میں سپنا کی بہت بے عزتی‬
‫کی۔ ہر کسی کی عزت ہوتی ہے فاروق بھائی! اب سپنا‬
‫بضد ہے اگرمیں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو پھر‬
‫مجھے ناعمہ کو طالق دینا ہوگی۔ اس میں بھی غلطی‬
‫ناعمہ کہ ہے سپنا نے پہلے اس قسم کی کوئی شرط‬
‫نہیں لگائی تھی بلکہ اس کی اعلی ظرفی ہے کہ اس‬
‫نے بڑے کھلے دل سے اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ‬
‫ٹھیک ہے میں ناعمہ کے ہوتے ہوئے تمہارے نکاح‬
‫میں آنے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن ناعمہ نے ایک دن‬
‫مالزموں کے سامنے سپناکو بہت برا بھال کہا بلکہ کچھ‬
‫الفاظ ایسے بھی کہے جو میں آنٹی کے سامنے دہرا‬
‫بھی نہیں سکتا۔‘‘ اس نے وضاحت سے ساری بات‬
‫بتائی۔‬

‫’’اب محترمہ سپنا صاحبہ کا کیا خیال ہے؟‘‘ میں نے‬


‫اس کی طرف دیکھا۔ وہ اب بھی حسین مسکراہٹ‬
‫ہونٹوں پر چپکائے یک ٹک میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬
‫اس کی آنکھوں میں میرے لئے پسندیدگی کے آثار‬
‫صاف نظر آرہے تھے بلکہ اتنے واضح تھے کہ‬
‫شرجیل نے بھی محسوس کیا اور اسکے ماتھے پر بل‬
‫پڑ گئے۔‬

‫’’اب سپنا اس بات پر راضی نہیں‘‘ شرجیل نے آہستہ‬


‫سے کہا۔‬
‫’’کیوں سپنا صاحبہ؟‘‘ میں نے مسکرا کر سپنا کی‬
‫طرف دیکھا۔‬

‫اس کے خوبصورت ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی‬


‫’’اگر آپ کا حکم ہو تو میں اب بھی اس بات پر‬
‫کمپرومائز کر سکتی ہوں لیکن صرف آپ کے لئے‘‘‬
‫اس نے اپنی مخروطی انگلی کا رخ میری طرف کیا۔‬
‫میں نے دیکھا شرجیل کے ماتھے کی تیوریاں گہری‬
‫ہوگئی تھیں لیکن وہ خاموش رہا۔‬

‫’’بہت شکریہ اس عزت افزائی کے لئے۔۔۔لیکن میں‬


‫چاہتا ہوں آپ اعلی ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے ناعمہ‬
‫کے لئے یہ گھر خالی کر دیں تو بہت ممنون ہوں گا۔‘‘‬
‫میں نے متانت سے کہا۔‬

‫’’یہ تو خیر ممکن نہیں۔۔۔ہم نے آپ کا اتنا ریگارڈکیا یہ‬


‫کیا کم ہے؟‘‘ اس نے بڑی ادا سے ماتھے پر آئی‬
‫زلفوں کی لٹ کو پیچھے جھٹکا۔ میں نے رادھا کی‬
‫طرف دیکھا۔‬

‫’’گوری کو اندر بال لو۔‘‘ رادھا نے کہا۔ میں نے جاوید‬


‫کو آواز دی وہ فورا ہی اندر آگیا ساتھ میں صائمہ بھی۔‬
‫شاید دونوں بہن بھائی دروازے کے باہر ہی کھڑے‬
‫تھے۔‬

‫’’باہر سے گوری کو بال الؤ‘‘ میں نے کہا۔ اس دوران‬


‫میری ساس بالکل خاموشی بیٹھی رہی تھیں۔ تھوڑی‬
‫دیر بعد جاوید گوری کو لے آیا۔ سپنا‪ ،‬گوری کو دیکھ‬
‫کر بری طرح چونک گئی بلکہ کہنا چاہئے چوکنی‬
‫ہوگئی۔ گوری نے حیرت سے سب کو دیکھا اور‬
‫پریشان سی ایک طرف کھڑی ہوگئی جیسے اسکی‬
‫چوری پکڑی گئی۔ اسکی سراسیمہ نظریں بار بار آنٹی‬
‫کی طرف اٹھتیں اورجھک جاتیں۔‬

‫’’بیٹھ جاؤ‘‘ میں نے ایک صوفے کی طرف اشارہ کیا۔‬


‫وہ صوفے کے کنارے پر ٹک گئی۔ سپنا تیزی سے‬
‫نارمل ہوگئی۔ اس کی نظریں ایک بار پھر مجھ پر ٹک‬
‫گئیں۔‬
‫’’یہ کلٹا بھی تمری سندرتا پر ریجھ گئی ہے۔۔۔معلوم‬
‫ہے اس سمے اسکے من میں کیا ہے؟‘‘ رادھا نے جل‬
‫کر کہا۔ صائمہ کے بعد اب رادھا بھی اس بات سے چڑ‬
‫گئی تھی۔ سپنا بڑی بے باکی میری طرف دیکھ کر‬
‫مسکرا رہی تھی۔‬

‫’’صائمہ کے بعد تم کہیں ناراض ہو کر باہر نہ چلی جانا‬


‫ورنہ میری خیر نہیں‘‘ میں نے چھیڑا جسے رادھا نے‬
‫سمجھ کر تیکھی نظروں سے میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے پوچھا۔‬
‫’’کہیں تمرے من کو بھا تو نہیں گئی؟‘‘‬

‫’’تم دو کیا کم ہو کر ایک اور بال اپنے سر منڈھ لوں‘‘‬


‫میں نے شوخ نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا۔ بظاہر‬
‫میں بظاہر اپنے دائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن میری‬
‫نظریں رادھا پر تھیں۔ رادھا کے گالب کی پنکھڑیوں‬
‫سے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ پھر اچانک میں نے اسے‬
‫بری طرح چونکتے دیکھا۔ کچھ دیر وہ خال میں دیکھتی‬
‫رہی پھرآنکھیں بند کرلی‬
‫۔ میں بھی چونک گیا۔ رادھا پوری طرح آنکھیں بند‬
‫کئے کھڑی تھی۔ سب میرے بولنے کے منتظر تھے‬
‫اور میں رادھا کے بولنے کا۔ تھوڑی دیر بعد رادھا نے‬
‫آنکھیں کھولیں۔۔۔جو انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔‬

‫’’کیا بات ہے رادھا ‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ کر‬


‫دل میں سوچا۔‬

‫( جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪32‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’کھیل شروع ہونے واال ہے۔ جاوید سے کہو وہ جا کر‬


‫ناعمہ بھیج دے اور کھد تمری سنتان کے پاس بیٹھ‬
‫جائے‪ ،‬اسکو سختی سے سمجھا دینا کہ وہ ان کو‬
‫کمرے سے باہر نہ نکلنے دے میں دو پل میں آتی ہوں‬
‫کچھ پر بند کرنا ہے‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ میری‬
‫نظروں سے اوجھل ہوگئی۔‬

‫میں نے جاوید کو اپنے پاس بال کر اسے سمجھایا کہ‬


‫میں کیا چاہتا ہوں۔ وہ اسی وقت چال گیا۔ کمرے میں‬
‫گہرا سکوت چھا گیا تھا۔ شرجیل میری طرف دیکھ رہا‬
‫تھا کہ میں کچھ کہوں لیکن جب تک رادھا نہ آجاتی‬
‫میں کچھ بھی نہ کہہ سکتا تھا نہ جانے اس نے کیا‬
‫خطرہ محسوس کیا تھا کہ چلی گئی تھی ۔اندر سے‬
‫میرا دل ڈر بھی رہا تھا کہیں پہلے کی طرح رادھا نہ‬
‫آسکی تو کیا ہوگا؟ لیکن دل کڑا کرکے بیٹھا رہا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد وہ واپس آگئی۔۔۔میری جان میں جان‬
‫آئی۔‬

‫’’موہن! کچھ سمے کیلئے سپنا کو اپنی باتوں میں‬


‫الجھائے رکھو۔‘‘ اس نے آتے ہی ہدایت دی۔ وہ کچھ‬
‫پریشان اورالجھی ہوئی دکھائی دی۔‬
‫ضرور پڑھیں‪ :‬الہورایئرپورٹ پرفائرنگ‪ 2،‬افرادجاں‬
‫بحق ‪،‬ملزم گرفتار‬
‫’’میں نے سنا ہے آپ کچھ جادو ٹونے میں بھی‬
‫دلچسپی رکھتی ہیں؟‘‘ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو‬
‫ایسے ہی میں نے سپنا سے ایک سوال کر دیا۔‬

‫’’فاروق بھائی! کیسی باتیں کر رہے ہیں‪ ،‬کہاں سپنا‬


‫جیسی تعلیم یافتہ خاتون اور کہاں جادو ٹونے۔۔۔؟ یہ تو‬
‫جاہلوں کے ڈھکوسلے ہوتے ہیں‘‘ شرجیل نے اس‬
‫طرح کہا جیسے میں نے نہایت احمقانہ بات کہہ دی‬
‫ہو۔‬

‫’’اگر یہی بات میں آپ سے پوچھوں تو؟‘‘ سپنا نے‬


‫بڑے تیکھے لہجے میں سوال کیا۔‬

‫’’چونکہ سوال پہلے میں نے کیا ہے اس لحاظ سے‬


‫اخالقا ً میں جواب سننے کا حقدار بھی پہلے ہوں‘‘ میں‬
‫نے مسکرا کر اسے دیکھا۔‬
‫’’میں نے کچھ عرصہ ہندوستان میں گزارا ہے اس‬
‫دوران ایک جوگی سے دو لفظ سیکھ لئے تھے‘‘ اس‬
‫نے بے پراہی سے کہا’’لیکن آپ پر میں جادو قطعا ً‬
‫نہیں کروں گی کیونکہ آپ کے لیے میرے حسن کا‬
‫جادو ہی کافی ہے‘‘ اس کی بات نے سب کو حیران کر‬
‫دیا۔۔۔اور تو اور شرجیل کا منہ بھی کھال کا کھال رہ گیا۔‬

‫اسے اندازہ ہی نہ تھا کہ سپنا اس قدر بے باکی سے‬


‫اس کے سامنے ایسی بات کہہ دے گی۔ پھر بھی اس‬
‫نے خجالت مٹانے کی خاطر کہا۔‬

‫’’سپنا بہت بزلہ سنج واقع ہوئی ہیں‘‘ پھر بڑے الڈ‬
‫سے اسے دیکھا۔‬

‫’’سپنا ہر کسی میں حس ظرافت اتنی نہیں ہوتی۔ خان‬


‫بھائی ایک سیدھے سادھے ینگ آفیسر ہیں جن کا‬
‫سارا وقت فائلوں کو دیکھتے اور ان پر دستخط کرتے‬
‫گزرتا ہے۔ کیوں فاروق بھائی؟‘‘ اس نے آخری فقری‬
‫میری طرف دیکھ کر کہا۔‬

‫میں نے کچھ کہنے سے پہلے صائمہ کو نظروں میں‬


‫تنبیہہ کی وہ بالکل خاموش رہے۔ اس سے پہلے کہ‬
‫میں شرجیل کی بات کا جواب دیتا سپنا نے شرارت‬
‫بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’خیر اتنے سیدھے بھی نہیں ہیں۔ بہت گہرے انسان‬


‫ہیں۔ کیا آپ مجھے اپنا ہاتھ دکھائیں گے؟ دراصل‬
‫مجھے تھورا بہت شغف پامسٹری سے بھی ہے‘‘ وہ‬
‫ایک ادا سے لہراتی ہوئی اٹھی اور میرے قریب آکر‬
‫صوفے پر بیٹھ گئی۔ بیٹھتے ہوئے اس نے اپنے اور‬
‫میرے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہ رکھا تھا۔ اگر میں‬
‫نے صائمہ کو اشارہ نہ کیا ہوتا تو شاید وہ اٹھ کر اس‬
‫کے منہ پر تھپڑ مار دیتی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی رہی‬
‫لیکن اس کا چہرہ کسی تنور کا منظر پیس کر رہا تھا۔‬
‫میں نے رادھا کی طرف دیکھا وہ آنکھیں بند کیے‬
‫کچھ پڑھ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لئے اس نے‬
‫آنکھیں کھول کر مجھے اشارے سے اسے ہاتھ‬
‫دکھانے کے لئے کہا پھر آنکھیں بند کرکے پڑھنے‬
‫لگی۔ معاملہ کچھ زیادہ ہی گھمبیر دکھائی دیتا ورنہ‬
‫رادھا نے تو کالی داس جیسے طاقتور انسان کو ایک‬
‫منٹ میں زمین چانٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ میں نے‬
‫اپنا ہاتھ سپنا کے سامنے کر دیا۔اس نے بڑے پیار‬
‫سے میرا ہاتھ اپنے نرم و نازک ہاتھ میں تھام لیا۔‬
‫میرے بدن میں بجلیاں سی دوڑنے لگیں اس کا ہاتھ‬
‫تپ رہا تھا وہ مخمور نگاہوں سے میری طرف دیکھ‬
‫کر مسکرائی اور میری ہتھیلی پر اپنی نظریں جما دیں۔‬
‫آہستہ آہستہ اس کے چہرے پر سنجیدگی چھا گئی۔ وہ‬
‫غور سے میرا ہاتھ دیکھ رہی تھی۔ کبھی کبھار وہ‬
‫نظریں اتھا کر اپنی بڑی بڑی حسین آنکھوں سے‬
‫مجھے دیکھ کر مسکراتی پھر آنکھیں ہتھیلی پر‬
‫مرکوز کر دیتی۔ صائمہ پیج و تاپ کھا رہی تھی سب‬
‫خاموش بیٹھے تھے۔ آنٹی کے چہرے پر بھی ناگواری‬
‫کے تاثرات تھے۔ اگر جاوید نے انہیں پیر کے ساتھ‬
‫میرے سلوک کے بارے میں بتا نہ دیا ہوتا تو شاید وہ‬
‫قطعا ً اس بات کوپسند نہ کرتیں۔ قریبا ً دس منٹ سپنا‬
‫میرے ہاتھ کو دیکھتی رہی پھر ایک گہری سانس لے‬
‫کر چھوڑ دیا۔‬

‫’’کچھ مجھے تو بتائیں آپ کو کیا پتا چال‪ ،‬میرے ہاتھ‬


‫کی لکیروں میں کیا لکھا ہے؟‘‘ میں نے بڑے اشتیاق‬
‫سے پوچھا۔‬
‫’خان صاحب! کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو سب کے‬
‫سامنے کرنے والی نہیں ہوتیں۔ مثالً ۔۔۔شکنتال‘‘ اس‬
‫نے معنی خیز نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اس کا‬
‫خیال تھا میں گھبرا جاؤں گا۔ بہرحال وہ کچھ نہ کچھ‬
‫جانتی ضرور تھی ورنہ اسے کیسے معلوم ہوتا کہ‬
‫شکنتال کا کیا معاملہ ہے۔ میں ابھی کچھ کہنے ہی واال‬
‫تھا کہ باہر شور سنائی دیا۔ کوئی زور زور سے بول‬
‫رہا تھا۔ چوکیدار شاید اسے آنے سے روک رہا تھا۔‬
‫ایک بھاری سی آواز آئی۔‬

‫’’مجھے جانے دے ۔۔۔سنتا ہے مجھے جانے‘‘‬


‫جوابا ً چوکیدار نے کچھ کہا لیکن اس کی آواز میں‬
‫التجا تھی۔ ابھی شرجیل اٹھنے کا ارادہ کر ہی رہا تھا‬
‫کہ دروازہ ایک دھماکے سے کھال اور ایک کاال‬
‫بھجنگ شخص اندر گھس آیا۔ وہ اس قدر سیاہ تھا‬
‫جیسے توا ۔ جسم پر اس نے کاال سیاہ لباس پہن رکھا‬
‫تھا جو ایک کرتے اور دھوتی پر مشتمل تھا۔ اس کی‬
‫شکل اس قدر مکروہ تھی کہ ایک بار دیکھ کر دوسری‬
‫بار اس پر نظر ڈالنے کو دل نہ کرتا تھا۔ اوپری ہونٹ‬
‫کٹا ہوا تھا اور سامنے کے اوپر والے دانت کافی بڑے‬
‫اور منہ سے باہر نکلے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں‬
‫کالئیوں میں کافی سارے لوہے کے کڑے پہن رکھے‬
‫تھے ہاتھ ہالنے کے ساتھ وہ بری طرح جھنجھنا‬
‫اٹھتے۔ سیاہ چہرے پر اس کی الل سرخ آنکھیں اسے‬
‫کافی ڈراؤنا بنا رہی تھیں۔ اس نے سب سے پہلے سپنا‬
‫پر نظر ڈالی اور پوچھا۔‬

‫’’تو ٹھیک تو ہے نا ۔۔۔کسی نے تجھے کچھ کہا تو‬


‫نہیں؟‘‘ سپنا کی آنکھوں میں اس کے لئے اجنبیت‬
‫تھی۔ لیکن وہ اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہی‬
‫تھی ’’میں تجھ سے پوچھ رہا ہوں تو ٹھیک تو ہے‬
‫نا؟‘‘ اس نے سپنا کو خاموش پا کر دوبارہ پوچھا۔‬
‫رادھا بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ رہی تھی۔‬
‫’’مجھے کیا ہونا ہے اور تم کون ہو؟‘‘ سپنا نے جواب‬
‫دے کر سوال کیا۔‬

‫’’مجھے میرے دوست نے تیری حفاظت کے لئے‬


‫بھیجا ہے‘‘ اس نے ہم سب پر نظرڈال کرکہا۔ اچانک‬
‫اسکی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ بڑی دلچسپی سے‬
‫اس طرف دیکھ رہا تھا جہان رادھا کھڑی تھی۔‬

‫’’اچھا تو یہ بات ہے‘‘ اسکے کٹے ہوئے ہونٹ مسکرا‬


‫کر اور بھیانک منظر پیش کرنے لگے۔ صائمہ منہ‬
‫دوسری طرف پھیر کر کھڑی ہوگئی تھی۔‬

‫’’آ۔۔۔چل‘‘ اس نے بے پرواہی سے ایک نظر رادھاپر‬


‫ڈال کر کہا۔ سب اس بات پر حیران تھے کہ سپنا نے‬
‫اسے دیکھ کر نہ تو نفرت کا اظہار کیا تھا نہ اس سے‬
‫زیادہ سوال و جواب کیے تھے۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ :‬ن لیگ کے رہنما احسن اقبال آج نیب‬


‫راولپنڈی میں پیش ہوں گے‬
‫’’کہاں؟‘‘ اس نے پوچھا۔‬

‫’’یہ نہ پوچھ۔۔۔تو نہیں جانتی تو اس وقت کس مصیبت‬


‫میں پھنسنے جا رہی تھی۔ یہ تو میں بروقت پہنچ‬
‫گیا۔۔۔نہیں تو تو برباد ہو جاتی‘‘ وہ ننگے پاؤں تھا۔‬
‫قیمتی قالین اس کے گندگی سے لتھڑے پاؤں سے‬
‫خراب ہو چکا تھا‬

‫’’کون ہو تم اور سپنا کو کہا لے جانا چاہتے ہو؟‘‘‬


‫شرجیل جو حیران و ششدر کھڑا تھا اسنے کالے‬
‫بھجنگ سے پوچھا۔ اس کی الل انگارہ آنکھیں شرجیل‬
‫پر ٹک گئیں۔‬
‫’’نادان چھوکرے ! تو نہیں جانتا۔۔۔تیرے آستین کے‬
‫سانپ ہی تجھے ڈسنا چاہتے تھے۔ میں اس وقت اس‬
‫سے زیادہ تجھے کچھ نہیں بتا سکتا۔ میرا دوست‬
‫واپس آجائے پھر دیکھ لوں گا‘‘ اس نے میری اور‬
‫رادھا کی طرف دیکھ کر بڑی حقارت سے کہا ’’چل‬
‫جلدی کو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے میں ایک‬
‫بہت ضروری کام چھوڑ کر تجھے لینے آیا ہوں‘‘ اس‬
‫بار وہ سپنا سے مخاطب ہوا۔‬

‫سپنا کچھ دیر گومگوکی کیفیت میں کھڑی رہی پھر‬


‫کسی فیصلے پر پہنچ کر بولی ’’شرجیل میں جا رہی‬
‫ہوں کل آؤں گی جب تک تم ان کے ساتھ اپنے معامالت‬
‫طے کر لو اب زیادہ دیر کرنا ٹھیک نہیں‘‘ اتنا کہہ کر‬
‫اس نے ایک نظر کالے بھجنگ پر ڈالی اور باہر کی‬
‫جانب قدم بڑھا دیے۔‬
‫’’موہن تم تھوڑی دیر کے لئے مجھے اپنے اندر آنے‬
‫دو۔ تمسے یہ معاملہ سنبھاال نہیں جائے گا ۔یہ پاپی‬
‫بہت کچھ جانتا ہے ۔کالی داس نے اس سے سہائتا کی‬
‫بنتی کی ہے‘‘ رادھا نے ایک عجیب سی فرمائش کی۔‬

‫’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا‘‘ میں نے سوچ کر‬


‫ذریعے کہا۔‬

‫’’تم کیول اتناکہہ دوکہ میں تمہیں آگیا دیتا ہوں کہ تم‬
‫میرے شریر میں پرویش کرلو‘‘ رادھا نے جلدی سے‬
‫کہا۔ وہ برابر سپنا اور اس کالے پر نظر رکھے ہوئے‬
‫تھی۔‬

‫’’لیکن سپنا! میرے منہ سے عورت کی آواز اور ہندی‬


‫کے الفاظ نکلیں گے تو یہ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘‬
‫’’میں دھیان رکھوں گی تم چنتانہ کرو۔‘‘ اس نے‬
‫مجھے تسلی دی۔‬

‫ٹھیک ہے تمہیں اجازت ہے‘‘ مجھے اور تو کچھ‬


‫سمجھ نہ آیا لیکن موقع کی نزاکت کے لحاظ سے میں‬
‫نے ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اچانک رادھا میری‬
‫نظروں سے اوجھل ہوگئی اس کے فوراً بعد مجھے‬
‫یوں محسوس ہوا جیسے گرم ہوا کا جھونکا میرے‬
‫جسم میں داخل ہوگیا ہو ‪،‬میرا جسم کپکپا اٹھا۔ اور بے‬
‫اختیار میرے منہ سے نکال۔‬

‫’’یہ اتنا آسان نہیں بے وقوف! تیرا کیا خیال ہے میں‬


‫یہاں جھک مارنے آیا ہوں؟‘‘ میں جیسے خود پر‬
‫اختیار رکھے بیٹھا تھا۔ میرے اندر رادھا بول رہی تھی۔‬
‫ایک نظارہ اس کا میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا جب‬
‫رادھا مومنہ کے جسم میں داخل ہو کر میرے ساتھ‬
‫ہمکالم ہوئی تھی۔ اتنا سننا تھا کہ کاال بھجنگ بجلی‬
‫کی سی تیزی سے مڑا۔ اس کے بدنما کٹے ہوئے‬
‫ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس کی نظریں‬
‫مجھ پرجمی ہوئی تھیں۔‬

‫’’تو مجھے روکے گا۔۔۔جانتا ہے میں کون ہوں؟ مجھے‬


‫کھیڈؤ چوہڑا کہتے ہیں‘‘ (چوہڑے جو پہلے زمانے‬
‫میں لوگوں کے گھروں سے غالظت اٹھایا کرتے) ۔ وہ‬
‫بڑی حقارت سے بوال اور سپنا کا ہاتھ پکڑکرباہر‬
‫جانے لگا۔ یک بیک میرا ہاتھ اٹھا اور سپنا ایک چیخ‬
‫مارکر نیچے گر گئی۔ اس کی آنکھیں چڑھ گئیں اور‬
‫ہاتھ پاؤں بری طرح مڑ گئے تھے۔ وہ اس مچھلی کی‬
‫طرح تڑپ رہی تھی جسے پانی سے نکال کر باہر‬
‫پھینک دیا گیاہو۔کالے کی آنکھوں کی سرخی مزید بڑھ‬
‫گئی۔‬

‫’تم سب کمرے سے باہر چلے جاؤ‘‘ اچانک میرے منہ‬


‫سے نکال۔ مخاطب صائمہ‪ ،‬آنٹی اور گوری وغیرہ‬
‫تھیں۔ صائمہ کے انداز میں ہچکچاہٹ تھی لیکن وہ‬
‫بغیر کچھ کہے سب کے ساتھ باہر جانے لگی تو میں‬
‫نے کہا۔‬
‫’’اگرجاوید ناعمہ کولے آیاہ و تو اسے اندربھیج دینا‘‘‬
‫اس نے سر ہالیا اور باہر چلی گئی۔ میں کیا میرے اندر‬
‫رادھا بول رہی تھی۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد‬
‫ناعمہ اندر آگئی۔ شرجیل حیرت سے منہ کھولے سب‬
‫کچھ دیکھ رہا تھا۔‬

‫’’آج میں تمہیں اس حسین بال کے کالے کرتوت‬


‫دکھاؤں گا جسے تم اپنا سب کچھ بنائے بیٹھے ہو۔اس‬
‫ناگن کی خاطر اپنی وفا شعار اور پیاری بیوی کو‬
‫ٹھکرا رہے ہو؟‘‘ میں نے سپنا کی طرف اشارہ کرکے‬
‫شرجیل کو مخاطب کیا۔ وہ تھوک نگل کر رہ گیا۔ سپنا‬
‫ابھی تک تڑپ رہی تھی کھیڈو چوہڑے کے چہرے پر‬
‫کشمکش کے آثار تھے وہ کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا‬
‫تھا۔ باآلخر اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔‬
‫’میرا تمہارا کوئی براہ راست جھگڑا نہیں ہے۔ میرے‬
‫دوست نے کچھ عرصے کے لئے اس چھوکری کو‬
‫بطور امانت میرے سپرد کیا ہے۔ اور جب تک وہ نہ‬
‫آجائے میں اس کی حفاظت کروں گا۔ میں تجھ سے‬
‫صرف اتنا کہتاہوں کہ اس کے آنے تک چھوکری کو‬
‫مجھے لے جانے دے۔۔۔بعد میں تو اس کے ساتھ کیا‬
‫کرتا ہے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں۔‘‘‬

‫میں نے بڑے تحمل سے اس کی بات سنی پھر میرے‬


‫منہ سے نکال۔‬

‫’’میں بھی تمہارے جیسے ذی علم کے ساتھ جنگ‬


‫کرنا نہیں چاہتا لیکن اس لڑکی کو جب تک اس کے‬
‫کیے کی سزا نہیں مل جاتی تم اسے نہیں لے جا‬
‫سکتے۔ دوسرے اسے یہ بھی وعدہ کرنا ہوگا کہ یہ‬
‫دوبارہ اس گھر کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں‬
‫دیکھے گی اور اپنے ناپاک عزائم لے کر ہمیشہ کے‬
‫لئے دفع ہو جائے گی‘‘ میں نے کالے سے کہا۔‬

‫وہ کچھ دیر کھڑا ہونٹ چباتا رہا پھر بوال ’’یہ وعدہ تو‬
‫میں کر سکتا ہوں کہ میرے دوست کے آنے تک یہ‬
‫دوبارہ اس گھرمیں نہیں آئے گی لیکن اس کے آنے‬
‫کے بعد یہ کیا کرتی ہے یا تم کیا کرتے ہو میرا اس‬
‫سے کوئی واسطہ نہیں‬

‫’’کیا دوست دوست کی رٹ لگا رکھی ہے۔ سیدھی طرح‬


‫اس منحوس کالی داس کا نام کیوں نہیں لیتا۔۔۔؟‘‘ میں‬
‫نے گرج کر کہا۔ وہ بری طرح چونک گیا۔‬

‫’’تمہارا کیا خیال تھا کہ وہ بدبخت مجھ سے چھپ‬


‫جائے گا میں تو شدت سے اس دن کا انتظار کر رہا‬
‫ہوں کہ وہ زنکا ‪ ،‬نامرد ‪ ،‬اپنے دائرے سے نکلے اور‬
‫میں اسے قبر میں اتاروں‘‘ میری دھاڑ کمرے میں‬
‫گونج اٹھی۔‬

‫’’اس کے آنے کے بعد تو اسے قبرمیں اتاریا وہ‬


‫تجھے ۔۔۔اس کی مجھے کوئی پرواہ نہیں‪ ،‬میں صرف‬
‫اس وقت تک اس لڑکی کو بچاؤں گا جب تک وہ آنہیں‬
‫جاتا۔‘‘ اسنے بڑے اٹل لہجے میں کہا۔‬
‫’’تم اس لعنتی کی مدد کیوں کررہے ہو‪ ،‬تم نہیں جانتے‬
‫وہ کتنا شیطان صفت ہے؟‘‘ میں نے غصے سے‬
‫کہا۔’اس نے ایک بار میری جان بچائی تھی۔ اس کا‬
‫بہت بڑا احسان ہے مجھ پر‪ ،‬میں کسی صورت اس‬
‫لڑکی کو نقصان نہیں پہنچنے دوں گا۔ میں ایک بار‬
‫پھر تجھ سے کہہ رہا ہوں باز آجا نہیں تو بعدمیں‬
‫معافی مانگتا رہے گا لیکن میں معاف نہیں کروں گا۔‘‘‬
‫اس نے قہر بار نظر مجھ پر ڈالی۔‬

‫ناعمہ تصویر حیرت بنی ایک طرف کھڑی تھی۔ سپنا‬


‫بے سدھ قالین پر پڑی تھی تڑپنا تو اس نے بند کردیا‬
‫تھا لیکن اس کے منہ سے کراہیں نکل رہی تھی۔‬

‫’’اٹھ چھوکری۔۔۔!‘‘کھیڈو نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے‬


‫اٹھایا ۔ جیسے ہی کھیڈو کا ہاتھ سپنا کے ہاتھ سے لگا‬
‫وہ بھلی چنگی ہوکر کھڑی ہوگئی۔ اب وہ نفرت بھری‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬
‫’’میں جا رہاہوں اگر اس بار تم نے کوئی حرکت کی تو‬
‫میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔‘‘‬

‫اس نے قدم باہر کی طرف بڑھائے لیکن رادھا اسے‬


‫جانے دیتی یہ کیسے ممکن تھا؟ میرا ہاتھ خود بخود‬
‫اٹھا اور اس کے پاؤں کی طرف کرکے جھٹک دیا۔‬
‫لوہے کا باریک کڑا کھیڈو کے دونوں پاؤں کے گردپڑ‬
‫گیا۔ وہ دھڑام سے قالین پر گر گیا۔ لیکن گرتے ہی وہ‬
‫بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اسکے‬
‫کٹے ہوئے ہونٹ حرکت کرنے لگے۔ اچانک مجھے‬
‫محسوس ہوا جیسے میرے بدن میں آگ بھڑک اٹھی‬
‫ہو۔ میرے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔ شرجیل‬
‫اور ناعمہ نے چونک کر مجھے دیکھا ا‬

‫’’کیول ایک پل کے لیے سہن کر لو میرے میت!‘‘‬


‫رادھا کی آواز میرے کان میں آئی۔ اذیت میری برداشت‬
‫سے باہر تھی۔ یوں محسوس ہو رہاتھا جیسے کسی‬
‫نے مجھے تپتے ہوئے تنور میں ڈال دیاہو۔ رادھا فوراً‬
‫میرے جسم سے نکل کر ایک طرف کھڑی ہوگئی۔ اس‬
‫کے نکلتے ہی میرا جسم پرسکون ہوگیا۔ رادھا کی‬
‫آنکھوں میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔‬

‫اس نے قہر بار نظروں سے کھیدو کی طرف دیکھا‬


‫پھر کسی بگولے کی طرف گھومتی ہوئی کھیڈو کی‬
‫طرف بڑھی اور اس کے اندر سما گئی۔ دوسرے ہی‬
‫لمحے وہ کسی ذبح کیے ہوئے بکرے کی طرح ڈکرایا‬
‫اور زمین پر گر کر بری طرح تڑپنے لگا۔ اس کے ہاتھ‬
‫پاؤں اینٹھ گئے دونوں ہاتھوں سے گال پکڑے وہ بری‬
‫طرح ڈکر ا رہا تھا جسیے کوئی اس کا گال کاٹ رہاہو۔‬
‫اس کے منہ سے خون کی دھار نکل کرقالین میں جذب‬
‫ہونے لگی۔ سپنا خوفزدہ ایک طرف کھڑی تھی اسکا‬
‫رنگ ہلدی کی طرح زرد ہوچکا تھا۔‬

‫’’مم۔۔۔مج۔۔۔مجھے۔۔۔معاف کر۔۔۔دو‘‘ کھیڈو کے منہ سے‬


‫الفاظ بمشکل نکلے۔ خون مسلسل اس کے منہ سے‬
‫جاری تھا۔ تھوڑی دیر بعد رادھا اس کے جسم سے‬
‫نکل آئی۔‬
‫’تو نے میرے موہن کو کشٹ دیا۔ تجھے شما کر دوں؟‬
‫یدی کوئی میرے پریتم کو بری نجر سے دیکھے تو‬
‫میں اسے سنسار سے پرلوک بھیج دیتی ہوں تونے‬
‫گھور پاپ کیا ہے تو شما کے یووک نہیں۔‘‘‬

‫رادھا کی قہر بار آواز آئی۔ صرف مجھے اور کھیڈو کو‬
‫ہی اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اور یہ تو میں آپ‬
‫کو بتا چکا ہوں کہ جسے وہ چاہتی وہی اسکی آواز‬
‫سن پاتا۔ ناعمہ اور شرجیل پھٹی پھٹی آنکھوں سے‬
‫کھیڈو کی طرف دیکھ رہے تھے جو دونوں ہاتھوں‬
‫سے گال پکڑے بے سدھ پڑا تھا۔ رادھا نے میری‬
‫طرف دیکھا وہ میری مرضی معلوم کرنا چاہ رہی تھی۔‬
‫میں نے دل ہی دل میں اسے کہا اگر اسے مارنا ہی‬
‫تویہاں یہ کام نہ کرنا کہیں یہ لوگ کسی مصیبت میں‬
‫نہ پھنس جائیں۔‬
‫’’چنتا نہ کرو موہن! میں اس دھشٹ کا کریہ کرم کسی‬
‫اور استھان پر کروں گی‘‘ رادھا نے مجھے تسلی دی‬
‫پھر ہاتھ اس کی طرف کرکے جھٹک دیا۔ اچانک کھیڈو‬
‫چوہڑ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خون کی ایک لکیر اب بھی اس‬
‫کے ہونٹوں سے جاری تھی۔ وہ دائیں ہاتھ سے اپنا گال‬
‫سہال رہا تھا۔ اس کا چہرہ خوف سے پیال پڑ چکا تھا۔‬
‫سب غرورو تنتنا غائب ہوگیا۔ اس نے فریادی نظروں‬
‫سے رادھا کی طرف دیکھا اور کپکپاتے ہاتھ اس کے‬
‫سامنے جوڑ دیے۔‬
‫’’مجھے معاف کر دو۔۔۔آئندہ میں کبھی ایسی گستاخی‬
‫نہیں کروں گا۔ تم جانو اور یہ لڑکی۔ میری جان بخشی‬
‫کر دو۔ ۔۔۔میں تمہارا احسان زندگی بھر نہیں بھولوں‬
‫گا‘‘ وہ باقاعدہ منتوں پر اتر آیا۔ چونکہ رادھا میرے‬
‫ساتھ کھڑی تھی اسلیے سب سمجھے کھیڈو مجھ سے‬
‫معاف مانگ رہا ہے۔ سپنا اور گوری کے رنگ لٹھے‬
‫کی طرح سفید ہو چکے تھے۔‬
‫’’یدی جیون چاہتا ہے تو ترنت بھاگ جا‘‘ رادھا نے‬
‫نفرت سے اس پر تھوک دیا اتنا سننا تھا کہ وہ سر‬
‫پرپاؤں پر گڑ گئیں۔ اچانک وہ لڑکھڑائی اور دونوں‬
‫ہاتھوں سے سرکو تھام لیا رادھا آہستہ سے چلتی‬
‫ہوئی اس کے پاس چلی گئی اور اپنا ہاتھ اس کے سر‬
‫پر پھیرا۔۔۔اس کے بعد وہ گوری کے پاس آئی اور اس‬
‫کے ساتھ بھی وہی حرکت دہرانے کے بعد آکر میرے‬
‫پاس کھڑی ہوگئی۔‬

‫’’موہن! گوری سے کہو وہ سب کچھ بتا دے نہیں تو‬


‫اس کا حال بھی کھیڈو جیسا ہی ہوگا۔‘‘‬

‫میں سمجھ گیا رادھا کیا چاہتی ہے؟ میں نے غصے‬


‫سے گوری کی طرف دیکھا جس کے چہرے پرموت‬
‫کی زردی چھائی ہوئی تھی۔‬

‫’’جو چکھ تو نے آج تک سپنا کے کہنے پرکیا ہے‬


‫سب کچھ سچ سچ بتا دے نہیں تو ۔۔۔جو حال میں نے‬
‫اس کالے بھجنگ کا کیا ہے اس سے بھی برا تیرا‬
‫کروں گا‘‘ وہ لرزنے لگی۔‬
‫’مم۔۔۔میں۔۔۔سب۔۔۔کچھ بتا دوں گی خدا کے واسطے‬
‫مجھے معاف کر دیں۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کر بولی ساتھ ہی‬
‫رونے لگی۔ میں نے رادھاکے کہنے پرصائمہ وغیرہ‬
‫کو بھی اندر بال لیا۔ گوری کسی بھرے ہوئے ٹیپ‬
‫ریکارڈ کی طرح بجنے لگی۔ کہ کس طرح سپنا بی بی‬
‫نے اسے تعویز ال کر دیئے جو وہ ناعمہ باجی کو‬
‫چائے اور دودھ وغیرہ میں پالتی رہی۔‬

‫’’سپنا بی بی نے کہا تھاجب ناعمہ باجی مرجائے گی‬


‫تو میں تمہیں اپنے رکھ لوں گی اور ۔۔۔اور۔۔۔‘‘ اتناکہہ‬
‫کر وہ خاموش ہوگئی۔‬

‫(جاری ہے)‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪33‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’بولتی ہے یا پھر‘‘ میری گرج دار آواز سن کر وہ‬


‫لرزرنے لگی۔‬
‫’’سپنا بی بی نے کہا تھا جب میں شرجیل بابو سے‬
‫شادی کر لوں گی تو کبھی کبھی رات کو مم۔۔۔میں‬
‫تمہیں بھی شرجیل بابو کے کمرے میں بھیج دیا کروں‬
‫گی‘‘ گوری نے جھجکتے ہوئے بتا دیا۔ شرجیل کا‬
‫چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔ ناعمہ اور صائمہ نے‬
‫جلدی سے دوپٹوں میں منہ چھپا لیے۔ سپنا کا رنگ‬
‫دھلے ہوئے لٹھے کی طرح سفید ہو چکا تھا۔ وہ پاس‬
‫پڑی کرسی پر ڈھیر ہوگئی۔‬

‫’’سن لیا تم نے ۔۔۔؟‘‘ میں نے حیرت سے منہ کھولے‬


‫شرجیل کو مخاطب کیا۔‬
‫’’فا۔۔۔فاروق۔۔۔بھائی میں کیا کہوں میری تو عقل خبط ہو‬
‫چکی ہے‘‘ پھر وہ سپنا سے مخاطب ہوا۔’’سپنا میں‬
‫نے تمہیں کیا سمجھا تھا اور تم کیا نکلیں؟ یہ سب‬
‫کچھ تم نے کیوں کیا؟‘‘ اس کے چہرے پر دکھ اور‬
‫تاسف کے گہرے بادل چھا گئے تھے۔‬
‫سپنا نظریں نیچی کیے بیٹھے تھی۔ اس کا سارا تنتنا‬
‫ختم ہو چکا تھا۔ اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو مسلتے‬
‫ہوئے وہ شرجیل کی طرح دیکھتی پھر منہ نیچے کر‬
‫لیتی۔‬
‫’’اس کلٹا کے کارن کئی گھر برباد ہوئے ہیں۔ نسیم‬
‫نامی ایک ناری کے پتی کو اسنے اپنے منتروں سے‬
‫ایسا بس میں کیا کہ وہ اپنا سارا دھن اس پر لٹابیٹھا‪،‬‬
‫کیول یہی نہیں اس ابھاگی نے اپنی پتنی کو بھی چھوڑ‬
‫دیا۔ اس دکھیاری نے اپنی کومل سپتری کی ہتھیا‬
‫کرکے آتم ہتھیا کر لی‘‘ رادھا نے مجھے معلومات‬
‫پہنچائیں۔‬

‫’’تمہاری وجہ سے کتنے گھر برباد ہوئے۔۔۔؟ کتنی‬


‫عورتوں نے خو دکشی کرلی؟ تم ایک ڈائن ہو‪ ،‬تمہیں‬
‫معاف کرنا انسانیت پر ظلم‘‘ میں نے نفرت بھری نظر‬
‫سپناپر ڈالی۔‬
‫’’نسیم نامی وہ عورت تو تمہیں یاد ہوگی جس کے‬
‫شوہر کو تم نے اپنے حسن کے جال میں پھنسا کر اس‬
‫سے سب کچھ لوٹنے کے بعد اس کی بیوی کو طالق‬
‫دلوا دی تھی۔ اس بے چاری نے اس غم میں اپنے‬
‫ہاتھوں سے اپنی ننھی سی بیٹی کو مار کر خود کشی‬
‫کر لی تھی۔ یاد ہے یا بھول گئیں۔۔۔؟ تمہارے گناہوں کی‬
‫فہرست خاصی طویل ہے میں نے تو صرف ایک واقعہ‬
‫بتایا ہے۔‘‘‬

‫وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی‬


‫تھی۔ اس سے زیادہ حیران شرجیل تھا۔‬

‫’’اس پاپن نے تمرے شریر کو اپنے پلید ہاتھوں سے‬


‫چھوا تھا اس کارن راپ تو اسے او ش ملے گا۔‘‘‬
‫رادھا کو اپنی جلن ستائے جا رہی تھی۔‬

‫ھر کیا ارادہ ہے؟‘‘ میں نے سوچ کے ذریعے رادھا‬


‫سے پوچھا۔‬
‫’’دیکھتے جاؤ۔‘‘ رادھا چلتی ہوئی سپنا کے پاس‬
‫کھڑی ہوگئی۔ میں سمجھ گیا تھا کہ وہ سپنا کو کچھ‬
‫سزا دینا چاہتی ہے۔ صائمہ کو خوش کرنے کا یہ ایک‬
‫اچھا موقع تھا۔‬
‫’تم نے اپنے گندے ہاتھوں سے میرا ہاتھ تھامنے کی‬
‫جرأت کی تھی۔۔۔کیا سمجھی تھیں میں بھی دوسرے‬
‫احمقوں کی طرح تم پر ریجھ گیا ہوں؟‘‘ میری بات سن‬
‫کر شرجیل کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ میں نے ڈائریکٹ اس‬
‫پر چوٹ کی تھی۔‬

‫’’تمہیں اس گناہ کی سزا تو ضرور ملے گی‘‘ میں نے‬


‫کنکھیوں سے صائمہ کی جانب دیکھا جس کا چہرہ‬
‫خوشی اور فخر سے چمک رہا تھا۔ رادھا میری چاالکی‬
‫سمجھ گئی تھی اس کے گالبی لبوں پر معنی خیز‬
‫مسکراہٹ آگئی۔ اس نے سپنا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ میری‬
‫باتوں سے پہلے ہی ڈری بیٹھی تھی بری طرح چونک‬
‫کر اپنے ہاتھ کو دیکھنے لگی جو کسی نادیدہ گرفت‬
‫میں آگیا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے تھانیدار واال‬
‫واقعہ گھوم گیا جب رادھا نے اس کا ہاتھ پکڑا تھا اور‬
‫ا س کا خوبصورت ہاتھ انگارے کی شکل اختیار کر گیا‬
‫تھا جس سے تھانیدار کے جسم کو آگ لگ گئی تھی۔‬
‫میں لرز گیا۔ رادھا کی آنکھوں سے قہر ٹپکنے لگا۔‬
‫میں نے جلدی سے رادھا کی طرف دیکھا۔‬
‫’رادھا! دھیان رکھنا صائمہ کے گھر والوں کے لئے‬
‫کوئی مصیبت نہ کھڑی نہ لینا۔‘‘ میں نے سوچ کے‬
‫ذریعے اسے مخاطب کیا۔ اس نے میری طرف دیکھ‬
‫کرمطمئن ہونے کا اشارہ کیا۔ اچانک سپنا اپنا ہاتھ‬
‫جھٹکنے لگی۔ وہ بری طرح چیخ رہی تھی سب کی‬
‫آنکھیں حیرت اور خوف سے پھٹ گئیں۔ سپنا کے ہاتھ‬
‫پر موٹے‪ ،‬موٹے آبلے پڑ چکے تھے۔ اس کے‬
‫خوبصورت شفاف ہاتھ پر بدنما داغدار آبلے نکل آئے۔‬
‫رادھا ایک طرف کھڑی دلچسپی سے سپناکو دیکھ رہی‬
‫تھی۔ اچانک سپنا میرے قدموں میں گر پڑی۔ میں بری‬
‫طرح بوکھال کر پیچھے ہٹ گیا۔‬

‫’’خداکے واسطے مجھے معاف کر دو۔۔۔تمہیں ہللا کا‬


‫واسطہ۔۔۔ہائے میں مر گئی مجھے معاف کر دومجھ‬
‫سے یہ تکلیف برداشت نہیں ہو رہی۔ اس کی آنکھوں‬
‫سے آنسو جاری تھے‘‘ رادھا کے ہونٹ ہلے اس نے‬
‫کچھ پڑھ سپنا پر پھونک دیا۔‬
‫میں نے دیکھا سپنا کسی معمول کی طرح اٹھی اور جا‬
‫کر ناعمہ کے قدموں میں گر گئی۔‬
‫’’مجھے معاف کر دو ناعمہ۔۔۔مجھ سے بڑی بھول‬
‫ہوئی کہ میں نے تمہارے خاوند پر جادو کرکے اسے‬
‫اپنے قبضے میں کرلیا تھا۔ میں مانتی ہوں کہ مجھ‬
‫سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے لیکن تم ایک شریف‬
‫خاندان سے تعلق رکھتی ہو مجھے یقین ہے تم مجھے‬
‫معاف کر دو گی‘‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری‬
‫تھے۔‬
‫ناعمہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئی۔ رادھا میری طرف‬
‫دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ سب سے زیادہ خوشی‬
‫صائمہ کو ہو رہی تھی۔ سپنا اٹھ کر دوبارہ میرے پاس‬
‫آگئی۔‬
‫’’خان صاحب! میں آپ سے بھی معافی مانگتی ہوں آپ‬
‫بہت علم والے ہیں‪ ،‬میں دو چار جنتر منتر سیکھ‬
‫کرسمجھ بیٹھی تھی کہ میں ہی سب کچھ ہوں لیکن‬
‫سچ کہتے ہیں ہر سیر کو سوا سیر ہوتا ہے۔ براہ کرم‬
‫مجھے معاف کر دیں۔‘‘ اس کا ہاتھ سوج کا کپا ہو گیا‬
‫تھا جس پر بڑے بڑے چھالے بن گئے تھے۔ اس کی‬
‫چہرے کی بے چارگی دیکھ کر میرا دل پسیج گیا۔ شاید‬
‫میں اسے معاف کر دیتا لیکن رادھانے میرے کان میں‬
‫سرگوشی کی۔‬

‫’’یہ کلٹا اس سمے کیول اپنی جان بچانے کے وچار‬


‫میں ہے۔ اس کے ہر دے میں کھوٹ ہے یہ اپنے اس‬
‫پاپی گرو کے انتجار میں ہے کہ وہ آکر تم سب کو‬
‫کشٹ دے سکے۔‘‘‬
‫’’تمہارے یہ مگر مچھ کے آنسو میرے اوپر اثر انداز‬
‫نہیں ہو سکتے۔ میں خوب جانتا ہوں تمہارے دل میں‬
‫کہا ہے؟ تم اس منحوس کالی داس کے انتظار میں جو‬
‫تمہارا انتقام لے سکے۔ اس بات کا تو مجھے ذرا بھر‬
‫خوف نہیں ہے کیونکہ تمہارا وہ مکروہ اور لعنتی‬
‫استادمجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ لیکن جو کچھ تم‬
‫نے بے گناہ لوگوں کے ساتھ کیا ہے اس کی سزا‬
‫تمہیں ضرور ملے گی‘‘ میرے کہنے پر اس کا چہرہ‬
‫ایک بار پھر سفید پڑ گیا۔ اس نے بے چارگی سے‬
‫میری طرف دیکھا‪ ،‬اس کی آنکھوں میں بے بسی کا‬
‫احساس بڑا واضح تھا۔‬
‫’آپ بے فکر ہو جائیں فاروق بھائی! میں اسے ابھی‬
‫پولیس کے حوالے کرتا ہوں وہ خود ہی اس سے سب‬
‫کچھ اگلوالیں گے اگر یہ قاتلہ ہے تو میں اسے پھانسی‬
‫کی سزا دلوا کر چھوڑوں گا‘‘ شرجیل نے اے سی‬
‫ہونے کے زعم میں کہا۔ غصہ تو مجھے بہت آیا لیکن‬
‫آنٹی اور ناعمہ وغیرہ کا لحاظ مانع تھا پھر بھی میں‬
‫نے کہا۔‬
‫’’بچو! یہ تمہارے بس کی نہیں اور یہ سارا کیا دھرا‬
‫تمہاری نادانی کی وجہ سے ہوا ہے اگر تمہیں کسی‬
‫فاحشہ سے شادی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پورا‬
‫کر لو۔‘‘ میری آواز خوبخود بلند ہوگئی تھی۔ شرجیل‬
‫کو توقع نہیں تھی کہ میں اس سے اس لہجے میں بات‬
‫کروں گا۔ شرمندگی سے اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ لیکن‬
‫کچھ تو میں اس سے بڑا تھا دوسرے وہ اپنی آنکھوں‬
‫سے کھیڈے چوہڑے اور پھر اپنی معشوقہ کا حال‬
‫دیکھ چکا تھا اس لئے کچھ نہ بول سکا‪ ،‬خاموشی‬
‫سے سر جھکا لیا۔ صائمہ فخر سے میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی۔ سپنا اپنی سزا سننے کے انتظار میں خوفزدہ‬
‫کھڑی تھی۔‬
‫’’موہن! اس کلٹا کو جانے کا کہہ دو۔ اس کا ماس کھا‬
‫کر میری سکھیوں کو بڑا سودا(مزہ) آئے گا‘‘ رادھا‬
‫نے کہا۔ میں سمجھ گیا تھا رادھا کیا چاہتی ہے؟ ہو‬
‫سکتا ہے میں اس کی سفارش کرتا لیکن جب رادھا‬
‫نے مجھے بتایا کہ یہ کینہ پرور عورت ہم سے بدلہ‬
‫لینے کا پروگرام بنا رہی ہے تو میں نے بھی یہی‬
‫مناسب سمجھا اسے اس کے انجام تک پہنچ جانا‬
‫چاہئے۔ کالی داس کے آنے کے بعد یہ ناعمہ کو ضرور‬
‫نقصان پہنچاتی۔‬

‫’’ٹھیک ہے تم جاؤ۔۔۔تمہارے بارے میں فیصلہ بعد میں‬


‫کیا جائے گا‘‘ میں نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔‬

‫’’مم ۔۔۔میرا ہاتھ‘‘ وہ خوفزدہ نظروں سے اپنے بدنما‬


‫ہاتھ کی طرف دیکھ کر گھگھیائی۔‬
‫’’یہ تمہیں یاد دالتا رہے گا کہ تم نے کتنے لوگوں پر‬
‫ظلم کیا ہے۔۔۔؟ اس کے عالوہ اس ہاتھ کے ساتھ تم‬
‫کسی کو اپنے حسن کا شکار نہ بنا سکو گی‘‘ میں نے‬
‫سنگدلی سے جواب دیا۔ وہ کچھ نہ بولی آہستہ قدموں‬
‫سے جانے لگی۔‬

‫’’اپنے استاد سے کہنا اگر اسے تم سے محبت ہے تو‬


‫دائرے سے باہر آکر تمہارا ہاتھ ٹھیک کر دے‘‘ میں‬
‫نے پیچھے سے آواز لگائی۔ اس نے مڑ کر زخمی‬
‫نظروں سے میری طرف اور باہر نکل گئی۔‬

‫’’چلو چلیں‘‘ میں نے صائمہ کی طرف دیکھ کر کہا۔‬


‫’’فاروق بھائی! بیٹھیں نا ابھی تو میں نے آپ کی‬
‫کوئی خاطر مدارت بھی نہیں کی۔‘‘ شرجیل کے سارے‬
‫کس بل نکل چکے تھے اب وہ بالکل فدوی بنا ہوا تھا۔‬
‫جب دیکھا کہ اس کی بات کا جواب بھی کسی نے نہیں‬
‫دیا تو بری طرح شرمندہ ہوگیا۔‬
‫ہم سب باہر نکل آئے۔ وہ کسی ہارے ہوئے جواری کی‬
‫طرح ہمارے پیچھے آرہا تھا۔ جب ہم گیٹ تک پہنچے‬
‫تو اس نے آہستہ سے مجھے پکارا۔‬
‫’فاروق بھائی۔۔۔! رات کو اگر تھوڑا سا ٹائم نکال سکیں‬
‫میرے لئے تو بہت مہربانی ہوگی‘‘ اس نے التجا کی۔‬

‫’’اچھا دیکھیں گے‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا اور‬


‫باہر نکل آیا۔ میں دراصل اسے اچھی طرح سبق دینا‬
‫چاہتا تھا کہ دوبارہ وہ ایسی حرکت نہ کرے۔ جب ہم‬
‫گھر پہنچے تو گوری جو کہ بالکل بھیگی بلی بنی‬
‫ہوئی تھی اچانک روتے ہوئے میری ساس کے قدموں‬
‫میں گر گئی۔‬
‫’’مجھے معاف کر دیں بیگم صاحبہ! مجھے معاف کر‬
‫دیں ‪ ،‬اگر دوبارہ مجھ سے کوئی غلطی ہو تو بے شک‬
‫مجھے جان سے مار دیں‘‘ وہ بری طرح رو رہی تھی۔‬
‫میں نے رادھا کی طرف دیکھا۔‬
‫’’اس پاپن کا اس گھر میں رہنا ٹھیک نہ ہے۔ یدی‬
‫اسے اوسر مال تو یہ کچھ بھی کر سکتی ہے یوں بھی‬
‫اس کے پریمی بہت ہیں اس شہر میں ’’ رادھا نے‬
‫مجھے سمجھایا۔‬

‫’’دفع ہو جاؤ یہاں سے‪ ،‬اگر میں نے تمہیں اس گھر‬


‫کے آس پاس پھٹکتے بھی دیکھ لیا تو تمہاری خیر‬
‫نہیں‘‘ میں نے گوری کو بری طرح لتاڑ دیا۔ اس نے‬
‫ایک نظر سب کو دیکھا اور باہر نکل گئی۔ سب‬
‫خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ صائمہ آج بہت خوش تھی‬
‫وہ بار بار میری طرف دیکھ کر مسکراتی۔‬

‫’’موہن! میں جا رہی ہوں یدی کسی کارن میری‬


‫جرورت ہو تو من میں میرا دھیان کر لینا میں آجاؤں‬
‫گی‘‘ رادھانے میرے کان میں کہا۔‬

‫’’دل میں تو ہر وقت تمہارا ہی خیال رہتا ہے‘‘ میں نے‬


‫اسے خوش کرنے کے لئے کہا۔ اسکا احسان کچھ کم‬
‫نہ تھا۔ بڑی دآلویز مسکراہٹ اس کے نازک لبوں پر‬
‫آگئی۔‬

‫’’یہ بات ہے تو میں رات کو آکرتم سے ڈھیر سارا پریم‬


‫کروں گی‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔‬

‫’’ناعمہ تم اپنے کمرے میں جاؤ‘‘ صائمہ نے اس سے‬


‫کہا‬
‫’’اچھا باجی‘‘ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔‬

‫’’فاروق ! شرجیل کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘‬


‫صائمہ نے میری رائے جانناچاہی۔‬

‫’’جو آپ لوگ مناسب سمجھیں‘‘ میں نے مختصر‬


‫ساجواب دیا۔‬
‫’’بیٹا! اگر مناسب ہو تو اسے معاف کرکے ناعمہ کو‬
‫اس کے گھر بھیج دیاجائے۔ بیٹیاں اپنے گھر میں ہی‬
‫اچھی لگتی ہیں‘‘ میری ساس کہنے لگیں۔‬

‫’’پہلے آپ ناعمہ سے پوچھ لیں وہ کیا چاہتی ہے ؟‬


‫اگر اس کا خیال بھی یہی ہے تو ٹھیک ہے‘‘ میں نے‬
‫کہا۔‬

‫بات ختم ہوگئی۔ رات کا کھانا کھا کر میں اور صائمہ‬


‫باہر الن میں آبیٹھے۔ بچوں کو جاوید کے حوالے‬
‫کرکے میں مطمئن تھا یوں بھی وہ دونوں سے بہت‬
‫پیار کرتا تھا۔ صائمہ نے چائے بنانے کی ذمہ داری‬
‫ناعمہ کے سپرد کی اور اسے کہا چائے وہ وہیں لے‬
‫آئے۔ہم دونوں الن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔‬
‫تھوڑی دیر بعد ناعمہ چائے لے آئی وہ بالکل خاموشی‬
‫تھی۔ مجھے اس پر ترس آیا کتنی شوخ ہوا کرتی‪ ،‬ہر‬
‫وقت ہنستی رہتی۔ گیٹ پر بیل ہوئی چوکیدار نے بتایا‬
‫شرجیل صاحب آئے ہیں۔ میں نے دیکھا ناعمہ کے‬
‫چہرے پر ایک رنگ سا آگیا۔ میں نے صائمہ کی طرف‬
‫دیکھا۔ اس نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’اسے اندر بھیج دو‘‘ میں نے چوکیدار سے کہا۔‬

‫’’میں نے کہا تھا جی‪ ،‬وہ کہہ رہے ہیں فاروق صاحب‬
‫کو بالدو‘‘ چوکیدار نے بتایا۔‬

‫’’صائمہ! تم جا کر اسے لے آؤ‘‘ تھوڑی دیر بعد‬


‫شرجیل سر جھکائے آگیا۔‬

‫’’اسالم علیکم!‘‘ اس نے آتے ہی سالم کیا۔‬

‫’’وعلیکم اسالم! آؤ شرجیل بیٹھو‘‘ میں نے ایک‬


‫کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چپ چاپ سر جھکا کر‬
‫بیٹھ گیا۔ شرمندگی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔‬
‫’’شرجیل! غلطی تو تم نے بہت بڑی کی ہے ۔۔۔اگر تم‬
‫اپنے کیے پر نادم ہو اور ناعمہ تمہیں معا ف کرتی ہے‬
‫تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔‬
‫اس نے ایک نظر ناعمہ کی طرف دیکھا جو چہرہ‬
‫جھکائے الن کی گھاس کو اپنے پاؤں کے انگوٹھے‬
‫سے کرید رہی تھی۔‬

‫’’ناعمہ! جو غلطی میں نے کی ہے اس کے لئے‬


‫اگرمیں سوبار بھی معافی مانگوں تو کم ہے ۔۔۔لیکن‬
‫غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے اور میں بھی ایک‬
‫انسان ہوں۔ اگر تم مجھے معاف کر دو تو میں وعدہ‬
‫کرتاہوں ساری زندگی دوبارہ ایسی غلطی نہیں کروں‬
‫گا‘‘ شرجیل نے کھلے دل سے اپنی غلطی تسلیم کرکے‬
‫ناعمہ سے معاف مانگلی۔‬
‫’’انکل اور آنٹی آجائیں پھر بیٹھ کر بات کر لیں گے‘‘‬
‫صائمہ نے شرجیل سے کہا ’’اگر وہ تمہاری ضمانت‬
‫دے دیں کہ تم دوبارہ ایسی حرکت نہ کرو گے تو ہمیں‬
‫ناعمہ کو بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں‘‘ صائمہ‬
‫بہت دانشمند تھی۔ اس نے یہ بات محض شرجیل کو‬
‫ڈرانے کے لئے کہی تھی۔ شرجیل کا رنگ اڑ گیا۔‬

‫’’باجی! خدا کے لئے مجھے مزید ذلیل نہ کریں‪ ،‬اگر‬


‫پایا اور مما کو معلوم ہوگیا تو مجھے ہمیشہ کے لئے‬
‫گھرسے نکال دیں گے۔ آپ تو جانتی ہی ہیں پایا کو وہ‬
‫کس قدر سخت اور اصولوں کے پابند ہیں‘‘ شرجیل نے‬
‫باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔ صائمہ نے میری طرف دیکھا‬
‫اور میں نے ناعمہ کی طرف وہ میرا اشارہ سمجھ کر‬
‫بولی۔‬

‫’’فاروق بھائی! آپ میرے بڑے ہیں جیسا آپ کا حکم‬


‫ہوگا میں ویسا ہی کروں گی۔‘‘‬
‫’’شرجیل اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کل کو تم‬
‫دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرو گے‘‘ صائمہ نے کہا۔‬
‫’’باجی! جس قدر شرمندگی مجھے ہو رہی ہے اگر میں‬
‫اس بات پر قادرہوتا کہ اپنا دل آپ کھول دکھا سکوں تو‬
‫یہ بھی کر دیتا لیکن اس وقت تو میں اتناہی کہہ‬
‫سکتاہوں کہ فاروق بھائی علم والے ہیں اگر یہ‬
‫سمجھتے ہیں کہ میں سچ کہہ رہاہوں تو مجھے معاف‬
‫کر دیا جائے‘‘ اس نے بڑی متانت سے کہا۔‬

‫دل تو تم اپنی ان محترمہ کو دکھاناہمیں تو تمہاری‬


‫باجی کا دل سنبھالنے میں ہی خاصی مشکل پیش آتی‬
‫ہے دوسرا دل کہاں سے دیکھتے پھریں‘‘ میں نے‬
‫ماحول کا تناؤ ختم کرنے کے لیے کہا۔ میری بات‬
‫پرصائمہ نے گھور کر مجھے دیکھا پھر ہنس پڑی۔‬
‫ماحول کچھ خوشگوا ر ہوگیا تھا۔ میں نے اٹھتے‬
‫ہوئے صائمہ کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا کچھ دور‬
‫جاکرمیں نے کہا’’تھوڑی دیر دونوں کو تنہا چھوڑ دو‬
‫اگر ان کا آپس میں کمپرومائز ہو جاتاہے تو بہتر ہے۔‘‘‬

‫’’آپ نے بالکل ٹھیک کہا ہے فاروق!‘‘ اس نے میری‬


‫تائید کی۔ تھوڑی دیر الن میں چہل قدمی کرنے کے‬
‫بعدہم دوبارہ کرسیوں پر آبیٹھے۔ ناعمہ بھیگی آنکھیں‬
‫لیے مسکرا رہی تھی۔‬
‫’’فاروق بھائی!آپ نے جتنا بڑا احسان کیا ہے میں‬
‫چاہوں بھی تو اس کا بدلہ ساری زندگی نہیں اتار‬
‫سکتا‘‘ شرجیل نے میرا ہاتھ پکڑ کر عقیدت سے کہا‬

‫’’اتار سکتے ہو اگر تم ناعمہ کوخوش رکھو تو‬


‫ٰ‬
‫گیا۔مں ناعمہ کی‬ ‫سمجھو میرے احسان کا بدلہ اتر‬
‫آنکھوں میں آئیندہ آنسو نہیں دیکھ سکوں گا‪ ،‬اورہاں‬
‫اس کے ساتھ ہی تمہیں جرمانہ بھی ہوگا۔‘‘ میں نے‬
‫کہا۔‬

‫’’جان حاضرہے خان صاحب!‘‘ وہ جذباتی ہو رہا تھا۔‬

‫’’جان تو تم سنبھال کر رکھو اپنی ناعمہ کے لیے ہمیں‬


‫تو بس آئس کریم کھال دو‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ ناعمہ‬
‫شرما کر اندر بھاگ گئی۔ بچے آئس کریم کا سن کر‬
‫بھاگتے ہوئے آگئے۔ میری ساس کا بس نہ چلتا تھا کہ‬
‫مجھے اپنی آنکھوں پر بٹھا لے۔ بہرحال مزید ایک دن‬
‫رک کر ہم واپس آگئے۔‬

‫گھر آکر صائمہ نے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔‬

‫’’فاروق! ایک بات کی سمجھ نہیں آئی‘‘ اس نے میری‬


‫طرف دیکھا۔ ایک چھٹی باقی ہونے کی وجہ سے میں‬
‫گھر پر تھا بچے سکول جاچکے تھے۔‬

‫’’کونسی بات؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھا۔‬


‫’’جب آپ اتنا کچھ جانتے تھے تو وہ منحوس پنڈت‬
‫اور اس کا استاد کیسے آپ پر حاوی ہوگئے‘‘ اس کی‬
‫بات بالکل ٹھیک تھی۔‬

‫’’اس وقت میرے وظائف ابھی مکمل نہیں ہوئے تھے۔‬


‫تمہیں یاد ہوگا کہ میں اکثر بیمار ہو جاتا تھا۔ یہ سب‬
‫کچھ اسی وجہ سے تھا۔ لیکن میں مجبور تھا کسی کو‬
‫کچھ بھی نہ بتا سکتاتھا۔ کیونکہ میرے استاد نے‬
‫مجھے سختی سے تاکید کی تھی اگرکسی کوکچھ بتاؤں‬
‫گا سب کچھ ختم ہو جائے گا اور تم جانتی ہو۔ جس‬
‫قسم کے حاالت ہمیں اس گھر میں پیش آرہے تھے‬
‫اس وجہ سے بہت ضروری تھا کہ میں کچھ علم سیکھ‬
‫لوں‘‘ میں نے اسے مطمئن کرنے کے لئے فوراً کہانی‬
‫گھڑ لی جس میں اب میں کافی ماہر ہوتا جا رہا تھا۔‬

‫’’لیکن رادھا نے جب ہمیں تکلیف دینا شروع کی تھی‬


‫اس وقت بھی آپ نے کچھ نہ کیا‘‘ وہ کسی طور‬
‫مطمئن ہونے میں نہ آرہی تھی۔ میں پہلے بھی آپ کو‬
‫بتا چکا ہوں کہ صائمہ حد درجہ ذہین ہے۔‬

‫’’کہا توہے اس وقت میرا وظیفہ مکمل نہیں ہوا تھا‬


‫اسی وجہ سے وہ ہمیں ستانے کے قابل ہوئے۔ اب‬
‫دیکھو اس کے بعد توکچھ بھی نہیں ہوانا‘‘ میں نے‬
‫دلیل دی۔‬
‫اس کے بعد صائمہ نے اس بارے میں کوئی سوال نہ‬
‫کیاتھا۔ میں حسب معمول بینک جانے لگا۔ ایک ہفتے‬
‫تک کوئی خاص بات نہ ہوئی صائمہ نے بتایا کہ ناعمہ‬
‫کا فون آیا تھا۔ وہ شرجیل کے ساتھ بہت خوش ہے‬
‫میں حیران تھا کہ کھیڈو چوہڑے اور سپنا کے ساتھ‬
‫جو کچھ ہوا تھا اس کے باوجود کالی داس منڈل سے‬
‫باہر نہ آیا۔ میں سمجھ رہا تھا شاید وہ بری طرح‬
‫خوفزدہ ہوگیا ہے لیکن یہ میری بھول تھی۔ وہ خیبث‬
‫اپنی طاقت بڑھانے کے لیے مزید جادو سیکھ رہا تھا۔‬
‫جس کا علم رادھا کو بھی نہ ہو سکا۔ ملنگ بھی غائب‬
‫تھا۔ رادھا ایک دو دن بعد رات کو آجاتی اور ہم دنیا و‬
‫مافیھا سے بے خبر ایک دوسرے میں کھو جاتے۔‬
‫میں۔۔۔جو کھبی ایک نماز قضا کرنا گناہ کبیرہ سمجھتا‬
‫تھا اب اکثر میری نمازیں قضا ہونے لگی تھیں۔ صبح‬
‫کی نماز تو اکثر نکل جاتی۔ جس رات رادھا آتی تو‬
‫صبح تک ہم ایک دوسرے کے ساتھ مصروف رہتے‬
‫ایسے میں صبح نماز کے لئے اٹھنا مشکل کام تھا۔‬
‫یوں بھی جب انسان برے اور بے حیائی کے کاموں‬
‫میں پڑ جائے تو اس کے دل سے نیکی کا خیال نکل‬
‫جاتا اور گناہ پر اس کے دل میں کوئی افسوس نہیں‬
‫ہوتا۔ میں جو کچھ رادھا کے ساتھ کر رہا تھا اس فعل‬
‫کے بارے میں اسالم میں اتنی سخت سزا ہے کہ‬
‫سنگسار کیے بنا چھوٹ نہیں۔ لیکن میں رادھا کے‬
‫عشق میں اندھا ہو چکاتھا۔ صائمہ ایک دو بار مجھ‬
‫سے اس بات پر ناراض ہوئی تھی کہ میں نمازوں کی‬
‫پابندی نہیں کرتا۔ میں ڈھٹائی سے سن لیتا لیکن کرتا‬
‫وہی جو میرا دل چاہتا۔‬
‫ایک دن میں بینک میں حسب معمول اپنے کام‬
‫مصروف تھا کہ رادھا آگئی۔ اسکا آنا کوئی غیر‬
‫معمولی بات نہ تھی بلکہ شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا‬
‫جب وہ نہ آتی۔ اس دن کے چہرے پر غیر معمولی‬
‫سنجیدگی تھی۔‬

‫’’کیا باتہے رادھا! آج تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی‬


‫ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬
‫’’موہن! مجھے کچھ دن کہیں جانا ہوگا۔ اور مجھے‬
‫تمری چنتا ہے کہ کہیں تمہیں کوئی کشٹ نہ‬
‫بھوگناپڑے‘‘ اس نے کہا۔‬

‫’’کون مجھے نقصان پہنچا سکتا ہے؟‘‘ میں حیران‬


‫ہوگیا۔‬

‫’’تم کالی داس کو بھول گئے ہو‘‘ اس نے کہا۔‬

‫’’ہاں۔۔۔رادھا! یاد آیا تم نے کھیڈو اور سپنا کے ساتھ‬


‫کیا سلوک کیا تھا؟‘‘ اکثر میرے ذہن میں یہ بات آتی‬
‫لیکن رادھا جب سامنے ہوتی تو سوائے عشق و‬
‫محبت کے اور کچھ نہ سوجھتا۔‬
‫’’میری سکھیوں کوبھوجن مل گیا تھا‘‘ اس نے بڑے‬
‫آرام سے کہا۔‬
‫’’اس بار میں دھیان رکھا تھا ان کے بن ماس(بغیر‬
‫گوش) کے شریر(ڈھانچے) کسی کو مل نہ جائیں اسی‬
‫کا رن ان کو ایک گپھا (غار) میں لے جایا گیا تھا۔‘‘‬

‫’’اچھا ٹھیک ہے لیکن تمہیں کتنے دنوں کے لئے جانا‬


‫ہوگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’ٹھیک چار دن بعد پور نماشی ہے مجھے اگلے پور‬


‫نماشی تک سوریہ دیوتا(سورج دیوتا) کا جاپ کرنا‬
‫ہوگا‘‘‬

‫’’یہ کیا ہوتا ہے؟‘‘ میں کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔‬

‫’’اپنی شکتی کو بڑھانے کے کارن مجھے ایسے جاپ‬


‫کرنا پڑتے ہیں‘‘ اس نے سمجھایا۔‬
‫’’کیا تم ہر سال یہ جاپ وغیرہ کرتی ہو؟‘‘ میں نے‬
‫پوچھا۔‬

‫’’ہاں۔۔۔ہر ورش کرنا جروری ہے‘‘ اس کے حسین‬


‫چہرے پر سوچ کی گہری لکیریں ظاہر کر رہی تھی کہ‬
‫وہ بہت فکر مند ہے۔‬

‫’’پھر کیا مسئلہ ہے؟ اس بار بھی کر لو‘‘ میں نے کہا۔‬

‫پچھلے ورش تو بات کچھ اور تھی میں نے کسی سے‬


‫مس نہیں لگایا تھا پرنتو اس بار میرا من نہیں کرتا کہ‬
‫جاؤں پرنتو نہ گئی تو ۔۔۔‘‘ وہ خاموش ہو کر کچھ‬
‫سوچنے لگی۔‬

‫’’یعنی کہ پوراایک ماہ تم مجھ سے دوررہو گی‘‘ میں‬


‫بھی اداس ہوگیا تھا۔‬
‫’’ہاں‘‘‬

‫’’لیکن تم جانتی ہو کہ دشمن میری تاک میں ہے ایسا‬


‫نہ ہو تمہاری غیر موجودگی میں وہ کوئی وار کر‬
‫جائے‘‘ میں نے خدشہ ظاہر کیا۔‬

‫’’اسی بات کی چنتا تو مجھے بیاکل کر رہی ہے‬


‫موہن!‘‘ وہ پر خیال انداز سے بولی۔ کافی دیر ہم‬
‫دونوں اپنی اپنی سوچوں میں غرق رہے۔ خاصا‬
‫سنجیدہ مسئلہ تھا۔ اور کسی کی طرف سے تو شادی‬
‫اتنی فکر نہ ہوتی لیکن کالی داس ابھی زندہ تھا اور‬
‫اس کمینے سے ہر قسم کی قبیح حرکت کی توقع کی‬
‫جا سکتی تھی۔‬

‫’’کیا یہ جاپ تمہارے لئے بہت ضروری ہے؟‘‘ میں‬


‫نے دوبارہ پوچھا۔‬
‫’’ہاں موہن!یدی میں ایسا نہ کروں تو میری شکتی کم‬
‫ہو جاتی ہے۔ جس طرح کھیڈو تیار ہو کر آیا تھا یدی‬
‫میں نے اپنا جاپ نہ کیا ہوتا تو تمرے واسطے کٹھنا‬
‫یاں بڑھ سکتی تھیں وہ دھشٹ پوری تیاری کرکے آیا‬
‫تھا۔ پرنتو وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی یدھ رادھا سے‬
‫ہے‘‘ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھی رہی پھر سر پرہاتھ‬
‫مارکربولی۔‬

‫’’دھت تیرے گی۔۔۔میں بھی کتنی مورکھ ہوں۔ اس‬


‫سمسیا کا سما دھان ہے‘‘ اس کا چہرہ خوشی سے‬
‫چمکنے لگا۔‬

‫’’وہ کیا؟‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔‬


‫’میری سکھیاں۔۔۔‘‘ اسکے لہجے سے اطمینان کا‬
‫اظہار ہو رہا تھا۔‬

‫’’کیا مطلب میں سمجھا نہیں‘‘‬


‫’’جب تک میں واپس نہ آجاؤں میری سکھیاں تمری‬
‫رکھشا کریں گی‘‘‬

‫’’کیا تمہاری سہلیاں بھی تمہاری طرح مجھے نظر آیا‬


‫کریں گی؟‘‘ میں نے کسی خیال کے تحت پوچھا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔پرنتو جب بھی تم اپنے من میں ان کا وچارکیا‬
‫کرو گے وہ تمری سہائتا کرنے آجائیں گی۔ پرنتو ایک‬
‫بات کا دھیان رکھنا‪ ،‬کہیں کسی سے من نہ لگا بیٹھنا‘‘‬
‫وہ آج حد سے زیادہ شوخ ہو رہی تھی۔‬

‫’’تمہیں دیکھنے کے بعد کسی اور طرف دیکھنے کا‬


‫ہوش ہی نہیں رہتا۔ کیا تمہاری سہلیاں تم سے بھی‬
‫خوبصورت ہیں؟‘‘ میں نے اسے چھیڑا‬
‫’’ہاں۔۔۔یوں تو ساری ہی سندرہیں پرنتو‬
‫بسنتی۔۔۔اپسراؤں سے بھی جیادہ سندر ہے‘‘ رادھا کے‬
‫لہجے میں کوئی ایسی بات تھی کہ میں چونک گیا۔‬
‫(جاری ہے )‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪34‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’موہن! میرے سنگ وشواش گھات نہ کرنا میں نے‬


‫تمہیں اپنا سب کچھ مان لیا ہے اب میرے من میں کسی‬
‫کی پرچھائیں بھی نہیں آسکتی۔ تمری پتنی کی بات دو‬
‫جی ہے پرنتو کسی اور کا دھیان بھی من مین نہ النا‪،‬‬
‫وہ از حد سنجیدہ تھی۔‬

‫م نے یہ بات کرکے میرا دل دکھایا ہے رادھا! کیا میں‬


‫تمہیں اس قسم کا انسان نظر آتا ہوں کہ جسے دیکھا‬
‫اس پر مر مٹا۔ یاد ہے شروع شروع میں تم سے بھی‬
‫زیادہ لگاؤ نہیں رکھتا تھا یہ توپتا نہیں تمنے مجھ پر‬
‫کیا جادو کیا ہے کہ میں تمہارا ہی ہو کر رہ گیاہوں‘‘‬
‫میں نے خفگی سے کہا۔‬
‫’’بھگوان کی سوگندکھا کر کہتی ہوں ناراج ہو کر تم‬
‫اور سندر دکھتے ہو۔‘‘ وہ ہنسی’’مجھے تم پر پورا‬
‫وشواس ہے پر نتویہ جو بنستی ہے نا۔۔۔بہت نٹ کھٹ‬
‫ہے۔ اس پر سندربھی اتنی کہ میں تمہیں بتا نہیں‬
‫سکتی۔ اسی کارن ہم دونوں کے پیچھے سارے‬
‫سنسارکے سادھو‪ ،‬پنڈت ‪ ،‬پجاری پڑے ہیں۔ مجھے تو‬
‫اس کارن اپنی بندی بنانا چاہتے ہیں جو منش مجھے‬
‫پراپت کرنے میں سپھل ہوجائے گا وہ سنسار کا‬
‫سبسے بلوان منش بن جائے گا۔ پرنتو بسنتی کے‬
‫پیچھے کیول اسکی سندرتا کے کارن پڑے ہیں ‘‘‬
‫رادھانے تفصیل بتائی۔ میرے دلمیں یونہی خیال آیا کہ‬
‫رادھا خود بھی بہت حسین ہے جب یہ اس لڑکی‬
‫’’بنستی‘‘ کی تعریف کرہی ہے تو وہ کیا بال ہوگی؟‬

‫’’ابھی دیکھا نہیں اور یہ وچار ہیں دیکھنے کے بعد‬


‫کیا ہوگا؟‘‘ رادھا کے لہجے سے حسد کی بو آرہی‬
‫تھی۔ وہ حسب معمول میرے دل میں آئی بات جان گئی‬
‫تھی۔‬
‫’’ارے نہیں۔۔۔میں تو بس یونہی سوچ رہا تھا‘‘ میں‬
‫خجل ہوگیا۔‬

‫’’موہن! کل کیا ہوگا یہ توکیول دیوتا ہی جانتے ہیں‬


‫پرنتو اتنا دھیان رکھنا رادھا تم بن جی نہ پائے گی‘‘‬
‫اس نے بڑی حسرت سے کہا اور میری نظروں سے‬
‫اوجھل ہوگئی۔ میں نے اس کی حسین آنکھوں میں‬
‫موتی چمکتے ہوئے دیکھ لیے تھے۔ میں اسے تسلی‬
‫دینا چاہتاتھا لیکن اس نے موقع ہی نہیں دیا اور غائب‬
‫ہوگئی۔‬

‫ایک دن میں بینک سے آیا تو صائمہ کہنے لگی ’’کل‬


‫سے بچوں کو سکول سے چھٹیاں ہورہی ہیں اگر آپ‬
‫بھی دوچار چھٹیاں لے لیں تو ہم الہور ہو آئیں۔‘‘‬
‫’’آجکل کام کا بوجھ بہت زیادہ ہے تم لوگ چلے جاؤ‬
‫میں بھی ایک ہفتے بعد آجاؤں گاپھر اکٹھے واپس‬
‫آجائیں گے۔‘‘‬

‫’’ٹھیک ہے اس طرح بچے کچھ دن سیربھی کر لیں‬


‫گے۔‘‘ صائمہ نے کہا۔‬

‫میں نے دوسرے دن انہیں بائی ائر الہور بھیج دیا۔ میں‬


‫بینک پہنچا ہی تھا کہ کچھ دیر بعد رادھا آگئی۔ اسنے‬
‫بتایا سارا بندوبست ہوگیا ہے دو دن بعد اسے ایک ماہ‬
‫کے لئے جانا ہے۔‬

‫’’پریم! میں جانے سے پہلے ساری رینا تمری بانہوں‬


‫میں بتانا چاہتی ہوں۔‘‘ اسکی حسین آنکھوں میں نشہ‬
‫اتر آیا۔ میرا دل بھی دھڑکنے لگا۔ رات کے حسین‬
‫تصور نے میرے رگ و پے میں سرور کی لہریں دوڑا‬
‫دیں۔‬
‫’’ٹھیک ہے تم آجانا‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’موہن! میں جانے سے پہلے تمہیں بسنتی سے مالنا‬


‫چاہتی ہوں یدی کوئی کٹھن سمے آئے تو وہ تمہری‬
‫سہائتا کر سکے‘‘ وہ کہنے لگی۔ یک بارگی میرا دل‬
‫زور سے دھڑکا۔ میں نے جلدی سے خیاالت کی رو‬
‫دوسری طرف پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا۔‬
‫’تم کتنے بجے آؤ گی؟‘‘‬

‫’’کیوں۔۔۔؟‘‘‬

‫’’یونہی پوچھ رہاتھا۔‘‘‬

‫’’جس سمے ہر روج آیا کرتی ہوں اسی سمے ہی آؤں‬


‫گی‘‘ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے انوکھی‬
‫سی فرمائش کی۔‬
‫پریتم! جس کوٹھے میں تم سوتے ہو اسے بندکر دینا‬
‫اورکچھ سمے تم کسی استھان پر بتا لینا‘‘‬

‫’’کیوں۔۔۔؟‘‘ میں چونک گیا۔‬

‫’’اس پرشن کا اتر میں تمہیں سمے آنے پر دوں گی۔‘‘‬

‫’’تمہاری تو ہر بات ہی ایک معمہ ہوتی ہے۔‘‘میں ہنس‬


‫دیا۔ سفید رنگ کی ساڑھی میں وہ جنت کی حور لگ‬
‫رہی تھی۔ واقعی اس کا حسن بے مثال تھا۔ ابھی تک‬
‫میں نے اپنی زندگی میں اس قدر حسین عورت نہ‬
‫دیکھی تھی۔‬

‫’’ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس کی حسین آنکھوں‬


‫میں خمار اتر آیا۔‬
‫’’تم بہت حسین ہو‘‘ تعریف سن کر اس کا چہرہ گالب‬
‫کی پھول کی طرح کھل اٹھا۔‬

‫’’پریتم! اسی طرح سارا جیون پریم کرتے رہنا‘‘ اس‬


‫کی آواز بوجھل ہوگئی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد‬
‫کہنے لگی‬

‫’’اچھا پرتیم! جاتی ہوں اپنے سمے پر میں آجاؤں گی۔‬


‫میری اچھا کادھیان رکھنا۔ جہاں ہم نے آج کی رینا‬
‫بتانی ہے اسے کچھ سمے کے واسطے بند کردینا۔‬
‫بھولنا نہیں۔‘‘ جاتے ہوئے اس نے ہدایت کی۔‬

‫’’نہیں بھولوں گا‘‘ میں نے کہا لیکن مجھے حیرت‬


‫تھی کہ وہ ایسی فرمائش کیوں کر رہی ہے۔ خیر وقت‬
‫آنے پر معلوم ہو جائے گا میں نے زیادہ نہ سوچا اور‬
‫کام میں مصروف ہوگیا۔‬
‫شام کو عمران مجھے اپنے گھر لے گیا اور زبردستی‬
‫کھانا کھالیا۔ ساڑھے گیارہ بجے میں گھر آگیا۔ رادھا‬
‫تقریبا ً بارہ بجے آیا کرتی تھی میں اس سے پہلے پہنچ‬
‫گیا۔ میں شدت سے رادھا کا منتظر تھا اور خود اپنی‬
‫حالت پر حیران بھی۔ کچھ دیر الن میں ٹہلتا رہا پھر آکر‬
‫الؤنج میں بیٹھ گیا۔ بیڈم روم اسی طرح بند تھا جیسے‬
‫صائمہ اسے کر گئی تھی۔ وقت گزارنے کے لئے میں‬
‫نے ٹی وی آن کر لیا لیکن اس میں بھی دل نہ‬
‫لگا۔میری حالت اس لڑکے جیسے تھی جس سے پہلی‬
‫بار اس کی محبوبہ نے ملنے کا وعدہ کیا ہو۔ وقت‬
‫کاٹے نہ کٹ رہا تھا۔ ہر آہٹ پریوں محسوس‬
‫ہوتاجیسے وہ آگئی ہے۔ دو تین بار میں نے باہر‬
‫جاکربھی دیکھا پھر خود ہی اپنی حالت پر ہنسی آگئی۔‬
‫رادھا کوئی عام عورت تو تھی نہیں کہ اسے دروازے‬
‫سے آنا تھا۔ وہ تو جہاں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ جب‬
‫بے چینی حد سے بڑھی تو میں باہر نکل آیا۔ سردی‬
‫اب بھی تھی لیکن اس میں وہ شدت نہ رہی تھی۔ ہوا‬
‫رات کو خنک ہو جاتی جبکہ دھوپ کی وجہ دن گرم۔‬
‫بارہ بج گئے رادھا نہ آئی۔ نیند میری آنکھوں سے‬
‫کوسوں دور تھی۔ اب مجھ پر جھنجھالہٹ سوار ہوگئی‬
‫تھی۔’کہیں پھر توکوئی مسئلہ نہیں ہوگیا‘‘ میں اسی‬
‫سوچ میں الجھا رہا۔ دو بجے کے قریب تو میں تقریبا ً‬
‫مایوس ہونے کو تھا۔ میرا خیال تھا وہ اب نہیں آئے‬
‫گی۔ میں اس شش و پنج میں تھا کہ بیڈ روم میں جاؤں‬
‫یا نہ جاؤں۔ اچانک میرے کان میں رادھا کی آواز آئی‬
‫اور میں اچھل پڑا۔‬

‫’’پریم ! میں تمہرا انتجار کر رہی ہوں۔‘‘ اس کی آواز‬


‫سے خمار ٹپک رہا تھا۔‬
‫’’تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔‬
‫’’وہیں جہاں میں تمہرے آنے سے پہلے رہتی تھی۔‬
‫ترنت اسی کوٹھے میں چلے آؤ جہاں تم اپنی پتنی‬
‫سنگ سوتے ہو۔‘‘ میں جلدی سے اٹھا اور بیڈ روم کی‬
‫طر ف چل پڑا۔ جیسے ہی میں نے دروازہ کھوال میری‬
‫آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔‬

‫خوابگاہ حجلہ عروسی بنی ہوئی تھی۔ ہر طرف گالب‬


‫کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں جن کی خوشبو سے کمرہ‬
‫مہک رہا تھا۔ نہایت خوشنما اور خوشبودار پھولوں کی‬
‫لڑیاں بیڈ کے اردگرد لٹکی ہوئی تھی۔ کمرہ کسی دلہن‬
‫کی طرح سجاہوا تھا۔ یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں ہر‬
‫رات سویا کرتا لیکن آج اسکی حالت ہی بدلی ہوئی‬
‫تھی۔ میں دروازے میں کھڑا آنکھیں پھاڑے دیکھ رہا‬
‫تھا۔ کمرے کے بیچوں بیچ رادھا کھڑی تھی۔ آج وہ‬
‫پہلے سے کہیں زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ نرم نازک‬
‫پنکھڑیوں جیسے ہونٹوں پر ملکوتی مسکراہٹ رقصاں‬
‫تھی۔ سارے جہاں کا حسن اس کے اندر سمٹ آیا تھا۔‬
‫سرخ رنگ کی ساڑھی میں وہ شلعہ جوالہ بنی بانہیں‬
‫پھیالئے میری منتظر تھی۔‬
‫’آؤ پریم!۔۔۔میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ اسکی خمار‬
‫آلود آواز آئی تو میں یوں اس کی طرف کھنچا چال گیا‬
‫جیسے لوہامقناطیس کی طرف۔ میں نے اسے اپنی‬
‫بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اسکی سانسیں دہک رہی تھیں۔‬
‫نیم باز آنکھوں سے جیسے شراب بہہ رہی تھی۔ ہم‬
‫ایک دوسرے میں گم ہوگئے۔‬

‫’’پریم! آج کی رینا مجھے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل‬


‫آتما کو شانتی مل جائے۔‘‘ اس کی بہکی ہوئی‬
‫سرگوشی میرے کانوں میں گونجی۔ میرے پیروں کے‬
‫نیچے گالب کی نرم و نازک پتیاں بکھری ہوئی تھیں‬
‫اور بانہوں میں رادھا کا ریشمی وجود۔ میں جیسے‬
‫کوئی خواب دیکھ رہاتھا۔‬

‫ریم‘‘ وہ خود کومیرے اندر جذب کرتے ہوئے بولی۔‬

‫’’ہوں‘‘ میری آواز بھی بہکنے لگی تھی۔‬


‫’’پریم! من کرتاہے تمرے شریر میں سما جاؤں‘‘‬

‫’’روکا کس نے ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ اس کے بعدکیا‬


‫ہوا۔۔۔قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ لکھ سکے۔ میرے‬
‫پاس وہ الفاظ نہیں کہ اس رات کی روداد بیان کر‬
‫سکوں۔ بس یوں سمجھءئے ساری رات خوابوں کی‬
‫وادی میں سفر جاری رہا۔ صبح دم اس نے کہا۔‬

‫’’پریم ! میرا انتجار کرنا۔ اگلی پور نماشی کو میں‬


‫دوبارہ آؤں گی۔‘‘‬
‫’’اتنا طویل انتظار؟‘‘ میں نے تڑپ کر رہ گیا۔ میں اپنے‬
‫ہوش میں کب تھا؟‬

‫’’پریم! میں نے تمری رکھشا کا پربند کر دیا ہے۔‬


‫میری سکھیاں ہر پل تمرے سنگ رہیں گی۔ یدی کوئی‬
‫مشکل گھڑی آپڑے تو کیول بنستی کو پکارلینا وہ‬
‫تمری سہائتا کرنے آجائے گی‘‘ پھر میری طرف دیکھ‬
‫کر بولی۔‬

‫’’میں بنستی کو تم سے ملوانے کے کارن بالنے لگی‬


‫ہوں‘‘ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ رادھا نے‬
‫آنکھیں بند کرکے کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا‬
‫تھوڑی دیر بعد جیسے کمرے میں چاند نکل آیا۔ اچانک‬
‫میری نظروں کے سامنے ایک نہایت حسین بالؤز اور‬
‫گھاگر اپہنے نمودار ہوئی۔ لڑکی کیا تھی پرتی تھی۔ ہاں‬
‫وہ اتنی ہی حسین تھی کہ اس پر پریوں کا گمان ہوتا‬
‫تھا۔ اس کے سامنے رادھا کا حسن بھی مانند پڑ گیا۔‬
‫میں گنگ رہ گیا۔ پلک جھپکنے کا ہوش بھی نہ رہا‬
‫تھا۔ وہ دونوں ہاتھ باندھ کرپہلے رادھا کے آگے‬
‫جھکی پھر میرے آگے ہاتھ جوڑ دیے۔‬
‫’پرنام مہاراج!‘‘ جیسے کسی مندر میں گھنٹیاں بج‬
‫اٹھیں ہوں۔ اسکی بڑی بڑی حسین و سحر کار آنکھیں‬
‫مجھے اپنی طرف کھنچ رہی تھیں۔ میں ہر چیز سے‬
‫بے نیاز اسے دیکھا رہا تھا۔ اتنا خیال بھی نہ رہا کہ‬
‫رادھا مجھے دیکھ رہی ہے۔ بے اختیار میرے ہاتھ‬
‫بالکل اسی انداز سے اٹھ گئے اور میرے منہ سے‬
‫نکال ’’پرنام دیوی!‘‘‬
‫پیازی رنگ کی ساڑھی میں وہ کافر ادا رات سے بھی‬
‫کہیں زیادہ حسین نظر آرہی تھی۔ مجھے اس طرح اپنی‬
‫طرف دیکھتے پا کر اسکے ہونٹوں پر شرمیلی سی‬
‫مسکراہٹ آگئی۔‬
‫’پرنام مہاراج‘‘ اسنے دونوں ہاتھ جوڑ کر مجھے سالم‬
‫کیا۔میں جو اس کے حسن کے ضیا پاشیوں میں کھویا‬
‫ہوا تھا بے اختیار دونوں ہاتھ جوڑ دیئے۔ اس کی بڑی‬
‫بڑی حسین آنکھیں مجھ پر ٹکی تھیں۔ رادھا نے سچ‬
‫کہاتھا وہ حد درجہ حسین تھی۔ اسکی آنکھوں میں‬
‫جیسے ستارے کوٹ کوٹ کربھرے ہوئے تھے۔ بالوں‬
‫میں اس نے چمبیلی کے پھول گوندھ رکھے تھے۔‬
‫ہاتھوں میں گجر ے جھیل سی کاجل بھری آنکھیں‬
‫غضب ڈھا رہی تھیں۔ مختصر بالؤز اس کی جوانی‬
‫کواپنے اندر سمونے میں ناکام ہورہا تھا۔ میری‬
‫آنکھوں میں وارفتگی دیکھ کر وہ شرما گئی۔ مجھے‬
‫اسکی یہ ادا بہت بھلی لگی۔ وہ دھیرے سے مسکرائی۔‬
‫موتیوں جیسے دانت میرے دل پر بجلیاں گرا رہے‬
‫تھے۔ دنیا جیسے ختم ہو گئی تھی۔ اس کے سوا‬
‫مجھے کچھ نظر نہ آرہا تھا۔‬
‫’’آگیا(حکم) مہاراج!‘‘ اسنے میری دلچسپی کو‬
‫دیکھتے ہوئے مسکرا کر پوچھا۔‬
‫’میرے سامنے بیٹھ جاؤ‘‘ مجھے اپنی آواز کہیں دور‬
‫سے آتی محسوس ہوئی۔ شاخ گل کی طرح اسکاحسین‬
‫بدن بل کھا کر کرسی میں سما گیا۔ اس کی آنکھوں‬
‫میں اپنے لئے پسندیدگی دیکھ کرمیرا حوصلہ اور بڑھ‬
‫گیا۔‬
‫سنتی! تم ہر وقت میری آنکھوں کے سامے رہا کرو‬
‫جیسے رادھا رہتی تھی‘‘ وہ بری طرح شرما گئی۔‬

‫’’یدی ‪ ،‬یہ تمری آگیا ہے تو میں اس کا پالن کروں‬


‫گی‘‘ اسکے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا وہ خود بھی‬
‫یہی چاہتی ہے۔‬

‫’’بسنتی! میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں کیاتم‬


‫میرے سوالوں کا جواب دوگی؟‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’رادھا دیوی‪ ،‬نے مجھے تمری ہر آگیا کاپالن کرنے‬


‫کوکہا ہے پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تم کچھ کہو‬
‫اورمیں منع کر دوں؟‘‘ مسکراہٹ جیسے اس کی‬
‫شخصیت کا حصہ تھی۔‬

‫’’اگر رادھا نہ کہتی تو تم میری باتنہ مانتیں؟‘‘ میں نے‬


‫شوخی سے پوچھا۔‬
‫’’میرے بس میں ہو تو تم تمرے کارن اپنے پر ان بھی‬
‫دے دوں‘‘ اس کی آنکھوں میں حسرت تھی۔‬
‫ٹھیک ہے رات کو میں تمہیں بالؤں گا پھرہم باتیں‬
‫کریں گے‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’یدی مجھے آگیا ہو تو میں جاؤں؟‘‘ اسنے پوچھا۔‬

‫ل تونہیں چاہتا لیکن اگر تم جانا چاہتی ہو تو میں‬


‫تمہیں روکوں گا نہیں‘‘ میں نے بے دلی سے کہا۔‬

‫’’من تو میرا بھی نہیں کرتا مہاراج! پرنتو میرا جیا دہ‬
‫دیریہاں ٹھہرنا ٹھیک نہیں‘‘ اس نے دل کی بات کہہ‬
‫دی۔‬

‫’’کیوں۔۔۔کیوں ٹھیک نہیں؟‘‘‬


‫’’تمر بیری تم پرکوئی وار کرجائیں تو رادھا دیوی‬
‫مجھے کبھی شما نہیں کرے گی۔۔۔وہ تم سے ادھیک‬
‫پریم کرتی ہے ‘‘ اس نے کہا۔ میں اسکے دل کی حالت‬
‫جان رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پکار پکارکر کہہ رہی‬
‫تھی‘‘ کاش میں رادھا کی جگہ ہوتی۔‘‘‬

‫الی داس کسی ایسے اوسرکی تاک میں ہے کہ وہ پلید‬


‫تم پر وار کرسکے‘‘ اس نے انکشاف کیا۔‬

‫’’لیکن وہ تو خود رادھا کے خوف سے کسی دائرے‬


‫میں چھپا بیٹھا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’پرنتو اس سمے رادھا بھی منڈل میں بیٹھی ہے اور‬


‫وہ پاپی یہ بات جانتا ہے۔‘‘ بسنتی نے بتایا۔‬
‫’’لیکن رادھا نے تو کہا تھا کہ اسکی غیر موجودگی‬
‫میں تم میری حفاظت کرو گی۔۔۔کیاکالی داس تمہارے‬
‫ہوتے ہوئے مجھ پر وار کر سکتا ہے؟‘‘‬

‫’وہ پاپی ایسا نہیں کر سکتا پرنتو دھیان تو رکھنا ہی‬


‫پڑے گا۔‘‘ اسنے کہا۔‬

‫’’ٹھیک ہے اگر تمہارا جانا ضروری ہے تو چلی جاؤ۔‘‘‬


‫میں نے اس پیش نظر کہا کہیں کالی داس پھر کوئی‬
‫ایسی حرکت نہ کر بیٹھے۔ وہ بڑی میٹھی نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬
‫ٹھیک ہے تم جاؤ رات کومیں تمہیں باللوں گا۔۔۔۔آؤ گی‬
‫نا؟‘‘ میں نے اس کی جھیل سی آنکھوں میں جھونکا۔‬

‫’جب بھی پکارو گے داسی چرنوں میں آجائے گی‘‘‬


‫اس کے پنکھڑی سے لبوں پر بڑی دآلویز مسکراہٹ‬
‫آگئی۔ کھڑے ہو کر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سالم‬
‫کیا اور غائب ہوگئی۔ عمران کسی کام سے باہر گیا ہوا‬
‫تھا۔ محمد شریف اب میرے کمرے میں اشد ضروری‬
‫کام کے تحت آتا۔ وہ جیسے مجھ سے خفا تھا۔ میں نے‬
‫بھی زیادہ پرواہ نہ کی۔ میں بالکل ہی بدل گیا تھا۔ پانچ‬
‫بجے چھٹی کرکے میں حسب معمول عمران کے ساتھ‬
‫اس کے گھر چال گیا۔ کھانے کے بعد ہم کافی دیربیٹھے‬
‫باتیں کرتے رہے۔‬
‫’’اوہ بارہ بج گئے مجھے چلنا چاہئے۔‘‘ اچانک میری‬
‫نظر کالک پر پڑی تو میں بری طرح چونک گیا۔ آج‬
‫رات میرا پروگرام بسنتی کو اپنی خلوت میں بالنے کا‬
‫تھا۔ اس کے تصور سے ہی میرے بدن میں سرور کی‬
‫لہریں دوڑنے لگیں۔ گھر پہنچ کر میں نے لباس تبدیل‬
‫کیا اور خوبگاہ میں چالگیا۔ میرا دل زور زور سے‬
‫دھڑک رہا تھا۔ گزشتہ رات کا نشہ ابھی تک مجھ‬
‫پرطاری تھا۔ بسنتی تورادھا سے زیادہ حسین اور‬
‫جوان تھی۔ اس کا بدن ایک قیامت تھا۔ اس کے عالوہ‬
‫میں بسنتی سے وہ راز جاننا چاہتا تھا جن سے رادھا‬
‫نے آج تک پردہ نہ اٹھایا تھا۔ میں نے بیڈ پر درازہو‬
‫کر بسنتی کو آواز دی۔‬
‫’’جی مہاراج‘‘ دوسرے لمحے اس کی خمار آلود آواز‬
‫میرے کانوں میں آئی۔‬
‫’بسنتی سامنے آؤ۔‘‘ میں نے بے چینی سے کہا۔‬
‫’’وہ فوراً میرے سامنے ظاہر ہوگئی۔ پھولوں کے‬
‫زیورسے سجی بسنتی کے قیامت خیز بدن کی مسحور‬
‫کن خوشبو سے کمرہ مہک اٹھا۔‬
‫میں بے خود سا اسے دیکھا گیا۔ تراشیدہ لبوں پر بڑی‬
‫ہی دآلویز مسکراہٹ تھی۔ دعو ت آمیز مسکراہٹ جو‬
‫کسی کو بھی پاگل بنا دے۔ اوپری ہونٹ پر پسینے کے‬
‫قطرے ایسی شبنم کی مانندچمک رہے تھے جن پر‬
‫سورج کی رو پہلی کرنیں پڑی رہی ہوں۔ ماتھے پر لگا‬
‫تلک ہیرے کی طرح دمک رہا تھا۔ مجھے یوں‬
‫وارفتگی سے دیکھتے پاکر اسکی نیم باز آنکھیں‬
‫شراب کے پیالے بن گئے۔‬

‫’’بسنتی!‘‘ میں نے دھیرے سے کہا۔‬

‫’’جی مہاراج‘‘ اس کی سرگوشی نما آواز آئی۔‬


‫’’تم مجھے مہاراج نہ کہا کرو۔‘‘’’پھر کیا کہا کروں؟‘‘‬
‫وہ اٹھالئی۔‬
‫’’جیسے رادھا مجھے بالتی ہے تم بھی ایسے ہی بالیا‬
‫کرو۔‘‘ میں نے مسکرا کرکہا۔‬
‫’ہائے رام۔۔۔وہ تودیوی ہے۔ میری اتنی مجال کہاں کہ‬
‫تمہیں اس شبھ نام سے پکاروں جس سے رادھا دیوی‬
‫پکارتی ہے۔‘‘ اس کے انداز میں گھبراہٹ کے ساتھ‬
‫ساتھ حسرت بھی تھی۔‬

‫’’رادھا تمہاری کیا لگتی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬


‫’مہاراج ! شما کرنا کچھ ایسی باتیں ہیں جو میں رادھا‬
‫دیوی کی آگیا کے بنا نہیں بتا سکتی۔ میری آشا ہے تم‬
‫مجھے شما کر دو گے۔‘‘ اس نے منت بھرے لہجے‬
‫میں کہا۔‬
‫’’ایک طرف تو تم کہتی ہو کہ میراحکم ماننا تمہارا‬
‫فرض ہے پھر جب کوئی بات پوچھتا ہوں توکوئی نہ‬
‫کوئی بہانہ بنا دیتی ہو‘‘ میں نے کسی قدرخفگی سے‬
‫کہا۔‬

‫’’اچھا یہ بتاؤ کیا تم رادھا کی کنیز ہو؟‘‘ میں نے اپنا‬


‫سوال گھماکر دوسرے طریقے سے کیا۔ اس بار وہ‬
‫میرے داؤ میں آگئی۔‬

‫’’نہیں۔۔۔!‘‘ اس کالہجہ تیز ہوگیا۔‬

‫’’وہ کیول شکتی میں مجھ سے مہان ہے اور اس میں‬


‫بھی میری خطا ہے‘‘‬

‫’’وہ کیا۔۔۔تم نے کیا غلطی کی؟‘‘ میری دلچسپی بڑھ‬


‫گئی۔‬
‫’’جس طرح آج کل وہ سوریہ دیوتا کا جاپ کر رہی ہے‬
‫اسی طرح وہ ہر ورش ادھیک جاپ کرتی رہتی ہے‬
‫کبھی چندر ماکا جاپ‪ ،‬کبھی کسی دیوتاکا کبھی کسی‬
‫دیوتا کا۔ اسی کارن دیوتاؤں نے اسے ادھیک شکتی‬
‫دان کر دی ہے۔ یدی میں بھی یہ جاپ کرتی تو آج اتنی‬
‫ہی شکتی مان ہوتی جتنی کہ رادھا دیوی ہے۔‘‘ اس بار‬
‫بڑی تفصیل سے جواب مال۔‬

‫’’پھر تم اسے دیوی کیوں کہتی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬


‫‘‘اسی کارن کہ وہ مجھ سے جیادہ شکتی مان ہے‘‘‬
‫اسنے بڑے سادہ لہجے میں بتایا۔‬

‫(جاری ہے)‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪35‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫تمہارا تعلق کس مخلوق سے ہے؟‘‘ باآلخر میں نے‬
‫بسنتی سے وہ سوال کر دیا جس کے جواب سے رادھا‬
‫نے ابھی تک مجھے محروم رکھا تھا۔ اس کی حسین‬
‫آنکھوں سے کشمکش کا اظہار ہو رہا تھا۔‬

‫’’میں تو سمجھا تھا تم بھی رادھا کی طرح میری‬


‫دوست ہو لیکن۔۔۔خیر چھوڑو دراصل رادھا مجھ سے‬
‫بہت پیار کرتی ہے اگر یہی سوال میں اس سے پوچھتا‬
‫تو وہ ایک منٹ سوچے بغیر اس کا جواب دے دیتی۔‬
‫ہو سکتا ہے وہ تم سے زیادہ عقلمند ہو‘‘ میں نے لوہا‬
‫گرم دیکھ کر وار کیا ساتھ ہی اس کی دکھتی رگ پر‬
‫ہاتھ رکھ دیا۔‬

‫’’یہ بات نہیں مہاراج! میں تو کیول اس کارن نہ بتا‬


‫رہی تھی کہ رادھا دیوی ناراج نہ ہو جائے پرنتو میں‬
‫یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم مجھ سے ناراج ہو۔‘‘‬
‫’’پھر تو تمہیں میرے سوال کا جواب دینا چاہئے‘‘ میں‬
‫نے اسے اکسایا۔‬

‫اس کے چہرے سے کشمکش کا اظہار ہو رہا تھا۔‬

‫’بھگوان نے ہمیں اگنی سے بنایا ہے اور تمہیں ماٹی‬


‫سے ‘‘ باآلخر اس نے کہا۔‬

‫میرا انداز صحیح تھا۔ رادھا اور بسنتی کا تعلق قوم‬


‫جنات سے تھا۔ صائمہ کی پھوپھو جمیلہ اور محمد‬
‫شریف نے بھی یہی کہا تھا کہ ہمارے گھر میں جنات‬
‫بستے ہیں حاالنکہ مجھے پہلے سے اندازہ تھا لیکن‬
‫یہ جان کر کہ اس وقت ایک جن زادی میرے سامنے‬
‫کھڑے ہے میرے جسم میں سنسنی دوڑ گئی۔ کچھ بھی‬
‫تھا وہ چاہے جانے کے قابل تھی۔ اس کا حسن ایسا ہی‬
‫تھا کہ اس کے لیے ملکوں میں جنگ ہو سکتی تھی۔‬
‫’’اتنی دیر کیوں سے کھڑی ہو؟ یہاں آؤ میرے پاس‘‘‬

‫وہ لجاتی ہوئی میرے پاس آگئی۔ میں نے اس کا نرم‬


‫نازک ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ سرخ ہوگئی۔ آنکھوں میں گالبی‬
‫ڈورے تیرنے لگے۔ سانسوں کا زیرو بم اس کے اندر‬
‫کے ہیجان کا پتا دے رہا تھا۔ ہاتھ کی حدت سے اس‬
‫کے جذبات سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد میں نے‬
‫اس کے ہاتھ کو ذرا سا جھٹکا دیا وہ مجھ پر آن گری۔‬
‫اس کی گھٹاؤں جیسی زلفوں نے مجھے ڈھک دیا۔‬
‫نازک وجود سے اٹھتی بھینی بھینی مہک نے میرے‬
‫ہوش و حواس چھین لیے۔ میری بے تابی مزید بڑھ‬
‫گئی مجھے خود پر اختیار نہ رہا۔ اس کی سانسیں‬
‫اکھڑنے لگیں۔ جذبات کی حدت سے اس کا حسین بدن‬
‫تپ گیا۔ وہ مچل کر میری آغوش سے نکل گئی اور‬
‫مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہانپنے لگی۔ میں ایک‬
‫بار پھر اس کی طرف بڑھا۔‬

‫’’نن۔۔۔نہیں ۔۔۔مہاراج! یہ ۔۔۔تھیک نہیں‘‘ اس نے اپنی‬


‫سانسوں پر قابو پانے کی ناکام کوشش کی۔‬
‫’’کیوں۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’رادھا دیوی نے تمرے شریر کے گرد کڑا پھیر رکھا‬


‫ہے جس کارن تم سے شریر کا سمبندھ نہیں ہو سکتا‘‘‬
‫اس نے مجبوری ظاہر کی۔‬

‫’’کچھ بھی ہو میں تمہارے بنا رہ نہیں سکتا‘‘ میں‬


‫ضدی لہجے میں کہا۔‬

‫’’یدی ہم نے ایسا کیا تو میں بھسم ہو جاؤں گی۔‘‘‬

‫’’اس مشکل کا کوئی حل نکالو‘‘ میں بے قرار ہوگیا۔‬

‫’’اس سمسیا کا ایک ہی سمادھان ہے‘‘ اس نے کہا۔‬


‫وہ کیا‘‘ میں نے بے تابی سے پوچھا۔ وہ میری بے‬
‫چینی پر مسکرا دی۔‬

‫’’پہلے تم کسی ناری سے اپنے شریر کا سمبندھ جوڑ‬


‫لو اس کے بعد ہم ایک دوجے سے مل سکتے ہیں‘‘‬
‫اس نے حل بتایا جس سے پتا چلتا تھا ’’ہے دونوں‬
‫طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘اگر میں اس کے تیر‬
‫نظر کا شکار ہوا تھا تو وہ بھی میری دیوانی ہو چکی‬
‫تھی۔‬

‫’’یہ توکوئی مسئلہ ہی ہیں میں صائمہ کو بلوا لیتا‬


‫ہوں‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔‬

‫’’نہیں مہاراج! پتنی سنگ پریم کرنا تو پنے (ثواب) کا‬


‫کام ہے۔ اس کارن تو تمہیں کسی ایسی کنیا کا پربند‬
‫کرنا پڑے گا جس کے شریر کو پہلے کسی پرش(مرد)‬
‫نے نہ چھوا ہو‘‘ اسنے کہا۔‬
‫’’یعنی کوئی کنواری لڑکی۔۔۔؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’ہاں۔۔۔‘‘‬

‫’’ایسی لڑکی کہاں سے ڈھونڈی جائے؟‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’ایسی کنیا ہے تو سہی۔۔۔‘‘ وہ کچھ دیر سوچ کر بولی۔‬

‫’’کون ؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔‬

‫’’اس کا شبھ نام سبین ہے‘‘ وہ شوخ نظروں سے‬


‫مجھے دیکھنے لگی۔‬

‫’’۔۔۔لیکن کیا وہ مان جائے گی؟‘‘‬


‫’’مہاراج تم اتنے سندر ہو کہ کوئی بھی کنیا تمرے‬
‫کارن جیون دان کر سکتی ہے۔‘‘ اس نے بڑی اپنایت‬
‫سے کہا۔ آنکھوں سے مستی جھانک رہی تھی۔‬

‫’’کیا اس سلسلے میں تم میری مدد کر سکتی ہو؟‘‘‬


‫میں نے پوچھا۔‬

‫’’ہاں میں اسے یہاں تک ال سکتی ہوں پرنتو اس کے‬


‫بعد سب کچھ تمہی کو کرنا ہوگا۔‘‘ اس نے بتایا۔‬

‫’’ٹھیک ہے تم اسے لے آؤ باقی میں دیکھ لوں گا‘‘‬


‫میں بسنتی کے قرب کے لئے پاگل ہو رہا تھا۔‬

‫’’مہاراج اب مجھے آگیا دو کہیں تمرے بیری کوئی‬


‫وار نہ کر جائیں‘‘ اس نے اندیشہ ظاہر کیا۔‬
‫’’اس لڑکی سبین کو تم کس وقت میرے پاس الؤ گی؟‘‘‬
‫میں نے پوچھا۔‬

‫’’کل دن کو کسی سمے۔‘‘‬


‫ٹھیک ہے تم جاؤ کل یہ کام ضرور کر لینا اب مجھ‬
‫سے مزید صبر نہیں ہوتا۔‘‘میں نے اس کے پر شباب‬
‫بدن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ‬
‫غائب ہوگئی۔‬

‫میرا بس نہ چل رہا تھاکہ کس طرح رات گزر جائے‬


‫اور میں سبین کو اپنے بیڈ روم میں لے آؤں۔ ساری‬
‫رات میں جاگتا رہا۔ مجھے یقین تھا کہ سبین کو ایک‬
‫اشارہ ہی کافی ہوگا کیونکہ اس کی آنکھوں میں میں‬
‫اپنے لئے پسندیدگی دیکھ چکا تھا۔‬
‫دوسرے دن بینک پہنچ کر سب سے پہلے میں نے‬
‫عمران اور محمد شریف کو باہر کسی کام سے بھیج‬
‫دیا۔ یہ نہیں کہ وہ مجھے روکنے پر قادر تھے لیکن‬
‫میں نہیں چاہتا تھا کہ انہیں کسی بات کی خبر ہو۔ ایک‬
‫تعالی کا‬
‫ٰ‬ ‫بے ضمیر انسان ایسا ہی کرتا ہے اسے خدا‬
‫خوف تو نہیں ہوتا لیکن انسانوں سے وہ ڈرتاہے ۔ان‬
‫دونوں کے جانے کے بعد میں نے سبین کو بالیا اور‬
‫اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔ وہ بھی بہت‬
‫باتونی لڑکی تھی۔ اس سے بڑی بہن ماہین کی شادی‬
‫اس کے کزن سے ہو چکی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں‬
‫اس نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ‬
‫اسے کسی طرح گھر لے جاؤں؟ اچانک مجھے خیال‬
‫آیا کہ بسنتی نے کہا تھا وہ اس سلسلے میں میری مدد‬
‫کر سکتی ہے۔ میں نے یونہی کسی کام سے سبین کو‬
‫باہر بھیج کر بسنتی کو پکارا۔جی مہاراج‘‘ فوراً اس‬
‫کی آواز آئی۔‬

‫’’تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’ہاں مہاراج تم آگیا دو‘‘ اسنے کہا۔‬


‫’’ٹھیک ہے لیکن یہ سب کیسے ہوگا؟‘‘ میں نے‬
‫مطمئن ہوکر پوچھا۔‬

‫’’تم اسے اندر بال کر اپنے سنگ جانے کا کہو وہ منع‬


‫نہیں کرے گی‘‘ اس نے بتایا۔‬

‫’’ٹھیک ہے میں اسے ابھی کہتا ہوں‘‘ بسنتی کی یقین‬


‫دہانی کے باوجود مجھے خدشہ تھا کہ کہیں وہ انکار‬
‫نہ کر دے۔ میں نے چپراسی کے ذریعے اسے بلوایا‬
‫پھر دو ایک باتیں کرکے میں نے کہا۔‬

‫’’آؤ۔۔۔آج میں تمہیں اپناگھر دکھاؤں‘‘‬

‫’’چلیں سر‘‘ وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی۔‬

‫’’تم باہر میرا انتظار کرو میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ میں نے‬
‫اس پیش نظر کہا کہ سٹاف کو معلوم نہ ہو سکے۔ وہ‬
‫مسکراتی ہوئی اٹھی اور باہر نکل گئی۔ تھوڑی دیر بعد‬
‫میں نے گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور باہرآگیا۔ وہ بینک‬
‫سے تھوڑی دور سڑک کے کنارے میرا انتظار کر رہی‬
‫تھی۔ میں نے گاڑی اس کے نزدیک روک کر اگال‬
‫دروازہ کھول دیا۔ وہ مسکراتی ہوئی بیٹھ گئی۔میں‬
‫تیزی سے ڈرائیو کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ دل زور زور‬
‫سے دھڑک رہا تھا۔ کچا چور تھا اس سے پہلے کبھی‬
‫ایسا کام نہ کیا تھا۔ میں اسے سیدھا بیڈ روم میں لے‬
‫آیا۔ وہ بغیر کسی اعتراض کے چلی آئی۔ اندر پہنچ کر‬
‫میں نے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔ وہ کسی معمول‬
‫کی طرح میرا ہر حکم مان رہی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ‬
‫جلد از جلد اس مرحلے سے گزر جاؤں کیونکہ ضمیر‬
‫کی خلش بڑھتی جا رہی تھی۔‬
‫جب وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا‬
‫جیسے وہ نیند سے جاگ گئی۔ پہلے تو اس نے حیرت‬
‫سے چاروں طرف دیکھا پھر جیسے ہی اسکی نظر‬
‫مجھ پر پڑی وہ بری طرح گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔‬
‫’’یہ۔۔۔یہ مم۔۔۔میں کہاں آگئی ہوں؟‘‘ ا س کا رنگ زرد‬
‫ہوگیا۔ اس کی آنکھوں میں حیرت جیسے منجمد ہوگئی۔‬

‫’’مم۔۔۔میں تو بینک میں تھی پھر ۔۔۔یہ۔۔۔یہاں کیسے‬


‫آگئی۔‘‘ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلنے‬
‫لگے۔ اس کا نرم و نازک ہاتھ ابھی تک میرے ہاتھ‬
‫میں تھا۔ اچانک اسے احساس ہوا تو اس نے ایک‬
‫جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔‬

‫‘‘سس۔۔۔سر! یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟‘‘ وہ بدک کر‬


‫پیچھے ہٹ گئی۔ اس کی حالت اس ہرنی جیسی ہوگئی‬
‫تھی جسے شکاریوں نے چاروں طرف سے گھیر لیا‬
‫ہو۔ بڑی بڑی آنکھوں سے خوف جھانکنے لگا۔ اس‬
‫نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا اس بند پا کر‬
‫اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ مجھے اس کی طرف‬
‫سے اتنے شدید ردعمل کی توقع نہ تھی۔ میں تو‬
‫سمجھ رہا تھا کہ وہ مجھ پر ریجھ گئی ہے لیکن وہ‬
‫ایک شریف لڑکی تھی ہنس مکھ اور باتونی ضرور‬
‫تھی لیکن بدکردار نہ تھی۔ وہ سب کچھ سمجھ چکی‬
‫تھی۔‬

‫سر! مجھے جانے دیں۔۔۔آپ کو خدا کا واسطہ سر!‬


‫میری منگنی ہو چکی ہے سر۔۔۔!! اگلے ماہ میری‬
‫شادی ہے‘‘ وہ دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی۔‬

‫میرا دل اندر سے لرز گیا ۔ اسی لمحے بسنتی کی آواز‬


‫آئی۔‬

‫’’مہاراج! سمے برباد نہ کرو‘‘ میں جو سبین کی حالت‬


‫سے بری طرح گھبرا گیا تھا ہمت کرکے اٹھا اور‬
‫دوبارہ اسکا ہاتھ پکڑ لیا ‪،‬وہ رونے لگی۔‬

‫’’سبین! یہ کیا۔۔۔؟تم خود ہی تو اپنی مرضی سے میرے‬


‫ساتھ آئی ہو پھر ایسے کیوں کر رہی ہو؟‘‘‬
‫’’مم۔۔۔مجھے نہیں معلوم میں کیسے یہاں تک آگئی‬
‫ہوں سر ! پلیز آپ کو خدا کا واسطہ مجھے جانے‬
‫دیں‘‘ رو روکر اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ ابھی میں‬
‫سوچ ہی رہا تھا کہ اسے واپس چھوڑ آؤں بسنتی کی‬
‫بے چین آواز سنائی دی۔‬

‫’’اس سے اچھا اوسر پھر نہیں ملے گا۔ مہاراج !یدی‬


‫اسے تم نے ایسے ہی جانے دیا تب بھی یہ سب کچھ‬
‫اپنے گھر جا کر بتا دے گی‘‘ بسنتی کی بات سن‬
‫کرمیرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‬

‫’’اب کیا ہوگا اگر اسنے گھر جا کر بتا دیا تو میں تو‬
‫کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جاؤں گا؟‘‘ اس‬
‫سوچ نے مجھے لرزا دیا۔‬

‫’’میں اس کا پربند کر لوں گی کہ یہ کسی کو کچھ نہ‬


‫بتا پائے پرنتو اس کے لیے تمہیں اس کا بالت کار‬
‫کرناہوگا‘‘ بسنتی کی بے چین آواز سنائی دی۔‬
‫سبین ملتجی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬

‫’’سبین تم نے مجھے مایوس کیا میں تو سمجھ رہا تھا‬


‫تم مجھے پسند کرتی ہو تبھی میرے ساتھ چلی آئیں‘‘‬
‫میں نے منہ بنا کر کہا۔‬

‫سر ! میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں صرف آپ کے‬


‫ساتھ اس لئے ہنس بول لیتی ہوں کہ آپ کی شکل‬
‫میرے بہنوئی سے بہت ملتی ہے اور وہ مجھے اپنی‬
‫بہنوں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں‘‘ آنسو تواتر‬
‫سے اس کی آنکھوں بہہ رہے تھے۔‬

‫’’سمے برباد نہ کرو مہاراج! دوبارہ ایسا اوسر نہ‬


‫ملے گا۔‘‘ بسنتی نے ایک بار پھر دخل اندازی کی۔‬
‫میں نے دل میں فیصلہ کیا اور آگے بڑھ کر اسے اپنی‬
‫بانہوں میں بھر لیا۔ وہ بری طرح مچلی اور میری‬
‫گرفت سے نکلنے کے لیے زور لگانے لگی۔ وہ‬
‫سمجھ چکی تھی کہ اس جانور کی منت کرنا بیکار‬
‫ہے۔ اس نے شدت سے مزاحمت کی۔ اپنے بڑے بڑے‬
‫نوکیلے ناخنوں سے میرے چہرے کو نوچنا چاہا۔چہرہ‬
‫بچانے کی خاطر جیسے ہی میں پیچے ہٹا اس نے‬
‫مجھے دھکا دیا اور باہر کی طرف لپکی۔ میں نے کسی‬
‫بھپرے ہوئے درندے کی طرح زقند بھری اور اسے جا‬
‫لیا۔ اس کے نازک وجود کو اٹھائے میں بیڈ پر آگیا۔‬
‫اسنے ایک بار پھر میری منتیں کرنا شروع کر دیں۔ وہ‬
‫مجھے واسطے دے رہی تھی لیکن میں تو ایک جانور‬
‫تھا اور جانوروں کو کہاں اتنی تمیز کہ وہ کسی کی‬
‫منتوں پر کان دھریں۔ آج بھی جب مجھے وہ وقت یاد‬
‫آتاہے تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ میں اسے‬
‫کسی کتے کی طرح بھنبھوڑ رہا تھا۔ اب اس کے منہ‬
‫سے سسکیاں نکل رہی تھی بے بسی سے اس نے اپنا‬
‫چہرہ دونوں ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اسکا جسم ایک بے‬
‫جان مورت کی طرح میرے سامنے پڑا تھا جسے میں‬
‫اپنے ناپاک وجود سے گندا کر رہا تھا۔‬
‫وقت گزرتا رہا۔‬

‫وہ سسکتی رہی۔‬

‫میں اپنی ہوس پوری کرتا رہا۔‬

‫اچانک دروازہ ایک دھماکے سے کھال۔ میری بری‬


‫طرح اچھل پڑا۔ دروازے کے بیچوں بیچ میرا بدترین‬
‫دشمن کالی داس کھڑا تھا۔‬

‫میں بے اختیار نیم بے ہوش سبین کو چھوڑ کر کھڑا‬


‫ہوگیا۔ اسنے مضمحل سے انداز سے دروازے کی‬
‫طرف دیکھا پھر بے سدھ ہوگئی۔ اس کی دوشیزگی لٹ‬
‫چکی تھی۔ میں بیڈ کے پاس فطری لباس میں کھڑا تھا۔‬
‫کالی داس کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ‬
‫تھی۔ اچانک مجھے بسنتی کا خیال آیا۔‬
‫’’بسنتی۔۔۔!‘‘ میں نے زور سے آواز دی کوئی جواب‬
‫نہ آیا۔‬

‫’’بسنتی ی ی ی ی ی ۔۔۔!‘‘ میں نے وحشت سے اسے‬


‫دوبارہ پکارا۔‬
‫اس بار بھی کمرے میں خاموشی چھائی رہی۔ کالی‬
‫داس مسلمان دیہاتی کے روپ میں کھڑا یک ٹک میری‬
‫طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک اس کے پیچھے مجھے‬
‫کچھ لوگ نظر آئے۔‬

‫’’وہ کمرے میں گھس آئے تھے۔ میں بری طرح‬


‫بدحواس ہوگیا۔ ستر پوشی کے لئے میں نے اپنے‬
‫لباس کی طرف ہاتھ بڑھایا تو مجھ پر حقیقت کھلی کہ‬
‫میرا وجود حسب معمول بے حس و حرکت ہو چکا ہے۔‬
‫کوئی دس بارہ افراد کمرے میں گھس آئے تھے۔ سب‬
‫سے آگے کالی داس کھڑا تھا۔میرے حواس معطل ہو‬
‫چکے تھے۔ کسی بت کی طرح کھڑا آنے والوں کی‬
‫طرف دیکھ رہاتھا جن کی نظروں میں حیرت جیسے‬
‫منجمند ہوگئی تھی۔ وہ کبھی میری طرف دیکھتے‬
‫کبھی سبین کی طرف جس کا لباس تار تار ہو چکا تھا۔‬

‫’’میں نہ کہتا تھا یہاں ضرور کوئی گڑ بڑ ہے۔‘‘ میرے‬


‫کانوں میں کالی داس کی آواز آئی۔ اندر آنے والے‬
‫افراد میں زیادہ تر میرے ہمسائے تھے۔ سب سے آگے‬
‫سامنے والی کوٹھی میں رہائش پذیر ریٹائرڈ ڈی ایس‬
‫پی عمر حیات جس سے میری اچھی صاحب سالمت‬
‫تھی۔ اس کے ساتھ جمال صاحب جن کا زرعی آالت‬
‫بنانے کا کارخانہ تھا۔ ان کا چھوٹا بیٹا احد خان کا‬
‫کالس فیلو تھا۔ ان کے پیچھے توقیر صاحب اور ان کا‬
‫بیٹا ساجد تھا۔ دیگر افراد سے کچھ کو میں بائی فیس‬
‫پہچانتا تھا کیونکہ وہ بھی اس سڑک پر رہتے تھے‬
‫جہاں میرا بنگلہ تھا۔ باقی افراد اجنبی تھے۔ وہ سب گم‬
‫سم میری طرف دیکھ رہے تھے۔‬

‫’’میں نہ کہتا تھا کہ میں نے کسی لڑکی کی چیخوں کی‬


‫آواز سنی ہے‘‘ کالی داس مقامی زبان میں ان افراد‬
‫سے ہمکالم تھا۔ ایک بزرگ آدمی نے صوفے پر پڑے‬
‫بیڈ پوش سے سبین کے بے ہوش جسم کو ڈھک دیا۔‬
‫ساجد نے آگے بڑھ کر زور دار تھپڑ میرے منہ پر‬
‫مارا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے محسوس ہوا جیسے‬
‫میرا جسم جکڑن سے آزاد ہوگیا ہے۔ میں الٹ کر‬
‫پیچھے جا پڑا۔‬

‫’’بے غیرت انسان! ہم تو تجھے نیک اور شریف آدمی‬


‫سمجھتے تھے۔ تو تو بہت گھٹیا نکال۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی چند اور نوجوان آگے آئے اور مجھے مارنے‬
‫لگے۔‬

‫میں برہنہ حالت میں قالین پر پڑا تھا۔ مجھ پر التوں کی‬
‫بارش شروع ہوگئی۔ بے اختیار میں نے اپنا چہرہ‬
‫ہاتھوں میں چھپا لیا۔ مارنے والے کئی تھے۔ ساجد ان‬
‫میں پیش پیش تھا۔ التوں اور گھونسوں کی ضربوں‬
‫نے مجھے بے حال کر دیا۔‬
‫’’اسے پولیس کے حوالے کر دیں۔‘‘ ایک آواز میرے‬
‫کانوں میں پڑی۔‬
‫’’پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔بس کرو۔۔۔کہیں بدبخت مر ہی نہ‬
‫جائے‘‘ یہ آواز ڈی ایس پی عمر حیات کی تھی۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪36‬‬
‫مصنف طارق خان‬

‫’ایسے بے حیا انسان کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں‬


‫انکل!‘‘ ساجد نے نفرت سے کہا اور ایک زور دار‬
‫ٹھوکر میری کنپٹی پر رسید کی۔ اس کے ساتھ ہی میں‬
‫ہوش کی دنیا سے دور چال گیا۔ سر پر لگی ضرب نے‬
‫مجھے بے ہوش کر دیا تھا۔ جب مجھے ہوش آیا تو‬
‫میں سالخوں والے دروازے کے پاس ننگے فرش پر‬
‫پڑا تھا۔ سامنے ایک سنگین بردار سپاہی کی موجودگی‬
‫یہ ظاہر کر رہی تھی کہ میں تھانے کی حواالت میں‬
‫ہوں۔ شعورمیں آتے ہی میں نے اپنے جسم کی طرف‬
‫دیکھا۔ ایک دھوتی بندھی تھی اوپری جسم ننگا تھا۔‬
‫مجھے چکر آرہے تھے۔ دائیں آنکھ سوج کر کپا ہو‬
‫چکی تھی جس میں سوزش کے ساتھ درد ہو رہا تھا۔‬
‫میں نے واحد آنکھ سے دیکھا کمرے میں میرے‬
‫عالوہ کوئی نہ تھا۔ سب کچھ ایک بھیانک خواب کی‬
‫طرح لگ رہا تھا۔ میں سبین کو روندنے میں مصروف‬
‫تھا کہ کالی داس کچھ لوگوں کے ساتھ اندر آگیا۔‬
‫حاالنکہ بیڈ روم کا دروازہ اندر سے الک تھا لیکن اس‬
‫کے لئے اسے کھولنا کیا مشکل تھا؟ وہ موقع کی‬
‫تالش میں تھا اور آج اسے میں نے وہ موقع فراہم کر‬
‫دیا تھا۔ اسنے مجھ سے اچھا بدلہ لیا تھا۔‬
‫’کاش بے ہوشی ہی میں میں اس دنیا سے جہنم کی‬
‫طرف چال جاتا۔ کاش لوگوں نے مجھے موقع پر ہی‬
‫مار دیا ہوتا‘‘ میں نے چکراتے ذہن کے ساتھ سوچا۔‬
‫آنکھوں کے سامنے وہ بھیانک منظر دوبارہ ابھر آیا۔‬
‫آس پاس رہنے والے لوگوں کی آنکھوں میں شدید‬
‫حیرت تھی۔ اورکیوں نہ ہوتی وہ کبھی مرکر بھی یقین‬
‫نہ کر سکتے تھے کہ میرے جیسا انسان اس طرح کی‬
‫قبیح حرکت کر سکتا ہے۔ میری شہرت اپنے عالقے‬
‫میں بہت اچھی تھی۔ اس پرصائمہ گھر میں آنے والی‬
‫خواتین کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتی۔ ان کے ساتھ‬
‫نہایت اخالق سے پیش آتی‪ ،‬اس کے عالوہ بچیوں کو‬
‫وہ قرآن پاک بھی پڑھاتی تھی۔ صائمہ نے خود کبھی‬
‫اس معاملے پرمیرے ساتھ تفصیل سے بات نہ کی تھی‬
‫میں کچھ پوچھتا بھی تو کہتی۔‬

‫’’فاروق! ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملنے‬


‫جلنے والوں کو دین کی تبلیغ کرے۔ میں اس کام کی‬
‫تشہیر اس لئے نہیں کرتی کہ کہیں ریا کاری نہ ہو‬
‫جائے‘‘ کس قدر عظیم اور نیک تھی میری بیوی‬
‫اورمیں۔۔۔؟‬

‫مجھے اپنے وجود سے گھن آنے لگی۔ دل چاہا میں‬


‫خود کشی کرلوں۔ لوگوں نے اس شدت سے مجھے‬
‫مارا تھا کہ میرا جسم لہولہان ہوگیا تھا۔ اگر ڈی ایس‬
‫پی عمر حیات ان کو نہ روکتا تو وہ شاید مجھے مار‬
‫کر ہی دم لیتے۔ کاش وہ ان لوگوں میں شامل نہ ہوتا۔‬
‫ایک طرف پڑے پڑے میرا جسم شل ہو چکا تھا۔ میں‬
‫نے اپنے جسم کو ہالیا توبے اختیار میرے منہ سے‬
‫کراہ نکل گئی۔ سارا جسم زخموں سے چور تھا۔ آنکھ‬
‫کی تکلیف الگ مارے ڈال رہی تھی۔ منہ کا ذائقہ نمکین‬
‫ہو رہا تھا اور دائیں جبڑے میں سخت درد۔ کالی داس‬
‫نے مجھ سے کیا خواب انتقام کیا تھا‪ ،‬وہ تاک میں تھا۔‬
‫مجھے یقین تھا کہ لوگوں کو بھی وہی اکٹھا کرکے الیا‬
‫تھا۔‬

‫سبین چیخی ضرور تھی لیکن بنگلہ اتنا بڑا تھا کہ‬
‫اسکی ایک دو چیخیں کسی طور باہر سڑک پر نہیں‬
‫سنی جا سکتی تھیں۔ یہ کار ستانی اس منحوس کالی‬
‫داس کی تھی۔ مجھے حیرت اس بات پرتھی کہ بسنتی‬
‫میری مدد کرنے کیوں نہیں آئی؟ میں نے کئی بار‬
‫اسے پکارا تھا۔ ہو سکتا ہے کالی داس نے اسے کسی‬
‫طرح بے بس کر دیا ہو۔ ایک بار جب رادھا جاپ میں‬
‫مصروف تھی تو اس کمینے نے مجھے گھیر کر اپنا‬
‫بدلہ لینے کا بندوبست کر لیا تھا لیکن اس دن بھال ہو‬
‫ملنگ کا کہ اس نے میری مدد کی تھی۔ تب میں بے‬
‫قصور تھا جبکہ آج تو میں نے وہ جرم کیا تھا جس‬
‫کی دنیا اور آخرت میں بدترین سزا مقرر کی گئی ہے۔‬
‫کاش لوگ مجھے موقع پر ہی سنگسار کر دیتے۔ میں‬
‫اہل عالقہ کی نظروں سے گر گیا تھا۔ جب صائمہ کو‬
‫معلوم ہوگا تو وہ کیا سوچے گی؟ کیا وہ زندہ رہ پائے‬
‫گی؟ میں نے اس کے اعتماد کو دھوکہ دیاتھا۔‬

‫اونگھتا ہوا سپاہی اچانک کھڑا ہوگیا ۔مجھے کسی کے‬


‫قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے اکلوتی آنکھ کھول‬
‫کر دیکھا تو بری طرح لرز گیا۔ ایک سپاہی کے ساتھ‬
‫دو آدمی سالخوں والے دروازے کے قریب پہنچ گئے۔‬
‫ایک کے ہاتھ میں کیمرہ تھا دوسرے کے ہاتھ میں‬
‫چھوٹی سی ڈائری اور پین ۔وہ کسی اخبار کے رپورٹر‬
‫تھے۔ میں نے ان کو دیکھ کر چہرہ چھپا لیا۔ جانتا تھا‬
‫وہ میری تصویریں بنانے آئے ہیں انہیں اپنے اخبار‬
‫کے لئے ایک دلچسپ سٹوری مل گئی تھی۔‬
‫’ایک معروف بینک کے منیجر نے اپنی ماتحت لڑکی‬
‫کی عزت لوٹ لی‘‘‬
‫’’جو رہی سہی عزت رہ گئی تھی اس کا بھی جنازہ‬
‫نکلنے واال تھا۔ اگریہ خبر اخبار میں آجاتی تو کیا میں‬
‫معاشرے میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہ جاتا؟‬
‫جلدی سے میں تقریبا ً اوندھا ہوگیا۔کیمرے کی فلش‬
‫چمکی۔ میں جس حد تک خودکو کیمرے سے بچا سکتا‬
‫تھا میں نے کوشش کی۔ ان کے ساتھ آنے والے سپاہی‬
‫نے ایک گندی سی گالی دے کر مجھے منہ اوپر کرنے‬
‫کو کہا۔‬

‫’’حرامی! جس وقت اس معصوم کے ساتھ منہ کاال‬


‫کررہا تھا اس وقت تجھے شرم نہ آئی اب منہ چھپا رہا‬
‫ہے منہ اوپر اٹھا۔۔۔‘‘ وہ ایک اور گالی دے کر کڑک کر‬
‫بوال۔‬

‫لیکن میں اسکی بات کیسے مان سکتا تھا؟ شدت سے‬
‫رادھا کا منتظر تھا۔ اب اس معاملے کو وہی سلجھا‬
‫سکتی تھی۔ کاش وہ آجائے اچانک مجھے رادھا کی‬
‫بات یاد آگئی اسنے کہا تھا۔‬

‫’’اگر بات بسنتی کے بس سے باہر ہوجائے تو تم اس‬


‫طرح مجھے پکارنا میں آجاؤں گی۔ دیوتاؤں کے کارن‬
‫میری سہائتا کرو‘‘ حاالنکہ میں اچھی طرح جانتا تھا‬
‫کہ یہ صریح شرک ہے لیکن اس وقت عزت بچانے‬
‫کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ شیطان نے‬
‫مجھ پر اس قدر غلبہ پا لیا تھا کہ مجھے یہ خیال تک‬
‫تعالی کو پکارلوں جو‬
‫ٰ‬ ‫نہ آیا اگر میں سچے دل سے ہللا‬
‫شہہ رگ سے بھی قریب ہے تو وہ میری مدد ضرور‬
‫کرے گا۔ بے شک میں نے ایک کبیرہ گناہ کیا تھا‬
‫لیکن وہ تو غفور الرحیم ہے اپنے بندوں کی خطائیں‬
‫معاف کر دیتا ہے۔ اور یہی اس کی شان کریمی ہے‬
‫لیکن مجھ فاسق کو یہ خیال نہ آیا بلکہ میں شیطان کی‬
‫اس چیلی کو پکارنا چاہتا تھا جسکی وجہ سے مجھے‬
‫آج یہ دن دیکھنا پڑا تھا۔‬
‫’’دروازہ کھول ! میں ابھی اس بے شرم کی شرم اتارتا‬
‫ہوں کیسے چھپنے کی کوشش کر رہا ہے‬
‫حرامزدہ۔۔۔تمہارے کرتوت جان کرتوہمیں شرم آرہی‬
‫ہے‘‘ جو سپاہی صحافیوں کے ساتھ آیا تھا اسنے گرج‬
‫کر سامنے بیٹھے سپاہی سے کہا۔ اب لمحوں کی بات‬
‫رہ گئی تھی۔ اس کے بعد اگر میں چاہتا بھی تو دنیا‬
‫والوں کی زبان نہ روک سکتا تھا۔ صرف ایک دھوتی‬
‫میں حواالت کے فرش پر اوندھا پڑا تھا۔ کوئی لمحہ‬
‫جاتا تھا کہ وہ دروازہ کھول کر اندر آجاتے پھر میں‬
‫کسی طرح بھی ان کے سامنے مزاحمت نہ کر سکتا‬
‫تھا۔‬
‫’رادھا تمہیں دیوتاؤں کا واسطہ میرے پاس آجاؤ‘‘ بے‬
‫اختیار میرے منہ سے نکال۔ آنے والوں میں سے ایک‬
‫کی آواز میرے کانوں میں پڑی۔ یہ یقینا ً فوٹو گرافرتھا۔‬

‫’’چھوڑیں بھٹی صاحب! اگریہ تصویر نہیں بنوانا چاہتا‬


‫توکوئی بات نہیں آئیں چلتے ہیں‘‘‬
‫مجھے اپ کانوں پر یقین نہ آیا کہ واقعی اسنے وہی‬
‫کچھ کہا جو میں سن رہا ہوں۔‘‘‬

‫’’مراد۔۔۔! یہ تم کیا کہہ رہے ہو کہیں تم پاگل تو نہیں‬


‫ہوگئے؟‘‘ دوسرے کی حیرت زدہ آواز سنائی دی۔ ساتھ‬
‫ہی سپاہی جس نے دروازہ کھولنے کے لیے کہا تھا کہ‬
‫آواز آئی۔‬

‫’’اسکی کیا مجال کہ یہ تصویر نہ بنوائے میں اس کی‬


‫۔۔۔‘‘ اسنے ایک ناقابل اشاعت قسم کی گالی دے کر‬
‫کہا’’۔۔۔نہ کر دوں گا۔‘‘‬

‫’’جب میں کہہ رہا ہوں کہ اسکی ضرورت نہیں توبس‬


‫بات ختم‘‘ فوٹوگرافر جھنجھال گیا۔‬

‫’’جانتے ہو ایڈیٹر تمہارا کیاحال کرے گا؟‘‘ یہ اس کا‬


‫ساتھی تھا۔‬
‫میں ان کی شکلیں تو نہیں دیکھ سکتا تھا ہاں آوازوں‬
‫سے اندازہ لگا رہا تھا‬

‫’’تو میرا باپ نہ بن۔۔۔میں خود ایڈیٹر کو جواب دے‬


‫لوں گا‘‘ فوٹو گرافر نے اس بار تلخ لہجے میں جواب‬
‫دیا۔ ساتھ آنے واال سپاہی خاموش کھڑا ان کی بحث‬
‫سن رہاتھا۔‬

‫’’بچو! ایک منٹ میں ایڈیٹر تمہیں نوکری سے نکال‬


‫دے گا۔‘‘ ساتھی نے اسے ڈرایا۔‬

‫’’میں نے کہا ہے نا تومیرا باپ نہ بن سالے۔۔۔!میں‬


‫خود دیکھ لوں گا ایڈیٹر کو بھی‘‘فوٹوگرافر چیخ اٹھا۔‬

‫’’تو میرا ماتحت ہے میری بات کیسے نہیں مانے گا؟‘‘‬


‫اس کا ساتھی بھی غصے میں آگیا۔ اسکے فوراً بعد‬
‫دھماکے سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز‬
‫آئی۔‬

‫’’یہ لے ۔۔۔کھنچوا لے تصویر۔‘‘‬

‫میں نے چونک کر دیکھا فوٹوگرافر نے کیمرہ زمین‬


‫پر مار کر توڑ دیا تھا۔ سب ہکا بکا کھڑے اسے دیکھ‬
‫رہے تھے۔ اس نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ اپنے‬
‫ساتھی کے منہ پر ایک زور دار مکا جڑ دیا۔ سپاہی‬
‫آگے بڑھا تو اس نے اس کے ساتھ بھی وہی سلوک‬
‫کیا۔ مکا کھا کر سپاہی پیچھے کی طرف الٹ گیا۔‬
‫سنگین بردار سپاہی نے فوراً فوٹو گرافر پر گن تان لی‬
‫لیکن وہ تو جیسے پاگل ہو چکا تھا‬
‫بندوق کی پرواہ کیے بغیر وہ اس سپاہی کے ساتھ‬
‫الجھ پڑا۔ میں سب کچھ بھول کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ‬
‫کالے رنگ اور دہرے بدن کا پچیس چھبیس سالہ‬
‫شخص بڑا دلیر واقع ہوا تھا۔ مکا کھانے واال سپاہی‬
‫گالیاں بکتا ہوا اٹھا اور فوٹو گرافر سے لپٹ‬
‫گیا۔تھوڑی دیر میں اچھا خاصا ہنگامہ ہوگیا۔ فوٹو‬
‫گرافر بڑی بے جگری سے تینوں کے ساتھ لڑ رہا تھا۔‬
‫حیرت کی بات یہ تھی وہ اکیال ان پر بھاری تھا۔ اس‬
‫نے تھوڑی ہی دیر میں ان تینوں کو لہو لہان کر دیا۔‬
‫شور سن کر چند اور سپاہی بھاگے آئے اور آکر اسے‬
‫قابو کرکے لے گئے ۔‬

‫حیران تھا یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ لیکن وقتی طور پر‬


‫ہی سہی یہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ اگرمیری تصویر اخبار‬
‫میں چھپ جاتی تو۔۔۔؟ یہ خیال ہی میرے لیے سوہان‬
‫روح تھا۔ کچھ روز قبل شرجیل نے سپنا نامی لڑکی کو‬
‫اپنے بیڈ روم میں صرف بالیا تھا اس پر بھی ہم سب‬
‫نے اس کی کیا حالت کی تھی؟ کھیدو چوہڑے اور سپنا‬
‫کا حشر دیکھ کر آنٹی میرا بہت زیادہ احترام کرنے‬
‫لگی تھیں۔‬

‫اب پولیس سے جان چھڑانے کا مسئلہ تھا۔ انہیں کچھ‬


‫نہ کچھ دے دال کر جان چھڑائی جا سکتی تھی۔ میں‬
‫نے باہر کی طرف دیکھا سامنے کوئی بھی نہ تھا۔ میں‬
‫نے سالخوں کے ساتھ سر مال کر باہر دیکھنے کی‬
‫کوشش کی مجھے ایک سپاہی نظر آیا۔ میں چاہتا تھا‬
‫اس کے ذریعے عمران کو بلواؤں اور ان خبیثوں سے‬
‫جان چھڑا کر باہر نکلوں۔۔۔‬

‫جو کچھ کالی داس نے میرے ساتھ کیا تھا اگر وہ‬
‫میرے ہاتھ آجاتا تو ہو سکتا تھا میں انجام کی پرواہ‬
‫کیے بغیر اسے جان سے مار دیتا۔ لیکن کیا میں اس‬
‫کی پراسرار قوتوں کا مقابلہ کر سکتا تھا؟ میری اب‬
‫تک کی جیت سے رادھا اور ملنگ کی مدد شامل رہی‬
‫تھی لیکن میں خود کیا تھا؟ کیا میں اس شیطان کی‬
‫گندی جادوئی قوتوں کے باوجود اسے زیر کر‬
‫سکتاتھا؟ یہ سوال بار بار میرے ذہن میں چکرا رہا‬
‫تھا۔‬

‫چوٹیں ٹھنڈی ہونے کے بعد مزید اذیت کا باعث بن‬


‫گئی تھیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اس قسم کے‬
‫حاالت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب کچھ اس منحوس‬
‫بسنتی کی وجہ سے ہوا تھا۔ نہیں یوں کہنا چاہئے کہ‬
‫ان حاالت کے پیچھے میری ہوس کارفرما تھی۔ بسنتی‬
‫کے حسن نے میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی۔‬
‫میں برے بھلے کی تمیز کھو بیٹھا تھا۔ کاش میں نے‬
‫اس بدبخت کی بات نہ مانی ہوتی۔ لیکن۔۔۔بدبخت وہ‬
‫نہیں میں خود تھا۔ حسین اور وفا شعار بیوی کے‬
‫ہوتے ہوئے میں کن راستوں پر چل پڑا تھا؟‬

‫جسم کے ساتھ ساتھ میرا ذہن بھی دردکرنے لگا تھا۔‬


‫میں شدت سے کسی سپاہی کا منتظر تھا جس کے‬
‫ذریعے عمران کو بلوا سکوں۔ پیاس کی شدت سے‬
‫میرے حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے۔ گال خشک ہو‬
‫رہا تھا۔ دو گھونٹ پانی کے لئے میں ترس رہا تھا۔‬
‫کچھ دیر بعد ایک سپاہی ٹہلتا ہوا کمرے کی جانب آیا۔‬
‫’بھائی! دو گھونٹ پانی پال دو میرا دل ڈوب رہا‬
‫ہے‘‘میں نے اسے مخاطب کیا۔‬

‫’’بیٹا! ابھی صاحب تجھے ٹھنڈا شربت پالتا ہے فکر‬


‫نہ کر‘‘ اس کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔‬
‫’’بھ۔۔۔بھائی! تمہیں خدا کا واسطہ میری بات سن لو‘‘‬
‫اسے جاتا دیکھ کرمیں نے منت کی۔ وہ رک کر میری‬
‫طرف دیکھنے لگا۔‬

‫’’اگر تم ایک چھوٹا ساپیغام ایک شخص تک پہنچا دو‬


‫تو میں تمہیں ایک ہزار روپیہ دوں گا‘‘ میں نے اسے‬
‫اللچ دیا۔‬

‫’’کونسی جیب میں رکھے ہیں ایک ہزار روپے؟‘‘ وہ‬


‫میرے نیم برہنہ جسم کو دیکھتے ہوئے تمسخر سے‬
‫بوال۔‬

‫’’مم۔۔۔میں تمہیں جس شخص کے پاس بھیجنا چاہتا‬


‫ہوں وہ تمہیں ایک ہزار روپیہ دے دے گا ۔ میری بات‬
‫پریقین کرو‘‘ میں نے بے چارگی سے کہا۔‬
‫وہ سوچ میں پڑ گیا۔ اسکی مہینہ بھر کی سات آٹھ‬
‫سوسے زیادہ نہ ہوگی۔ ان دنوں ایک ہزار روپے کی‬
‫کافی اہمیت تھی۔‬

‫’’میں سچ کہہ رہا ہوں اگر تم میرا ایک پیغام اس تک‬


‫پہنچا دو تو وہ اسی وقت تمہیں پیسے دے دے گا‘‘‬
‫میں نے اپنی بات پر زور دے کر کہا۔‬

‫’’بتاکہاں جانا ہے لیکن ایک بات سن لے۔۔۔میں پہلے‬


‫اس سے پیسے لوں گاپھر تیرا پیغام دوں گا ‪ ،‬دوسرے‬
‫یہ کہ اس نے رقم نہ دی تو آج رات جن سپاہیوں نے‬
‫تیری ’’خدمت‘‘ کرنی ہے میں ان سب میں آگے ہوں‬
‫گا۔‘‘ اس نے کہا۔‬

‫’’نہیں۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہوگا وہ میرا بھائی ہے جب تم‬


‫اسے بتاؤ گے تو وہ فوراً تمہیں پیسے دے دے گا۔‘‘‬
‫میں نے اس کی منت کی۔‬
‫’شکل سے تو توپڑھا لکھا لگتا ہے پھر تو نے ایسی‬
‫حرکت کیوں کی؟‘‘ وہ مجھے گہری نظروں سے دیکھ‬
‫کربوال۔‬

‫’’میں نے کچھ نہیں کیایہ سب میرے دشمنوں کی‬


‫سازش ہے‘‘ میں نے جلدی سے کہا۔‬

‫’’ہاں تو اپوزیشن لیڈر ہے نا اسلئے تیرے خالف‬


‫سازش کی گئی ہے‘‘ اس نے طنزکیا۔ مجھے اس سے‬
‫کام تھا اس لئے اس کی بات صبر سے برداشت کرگیا۔‬

‫’’میں تمہارا یہ احسان ساری زندگی نہ بھولوں گا‬


‫میرے بھائی میرا اتنا سا کام کر دو‘‘ میری آواز بھرا‬
‫گئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا پھر ہنس کربوال۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ :‬اپوزیشن کی کل جماعتی رہبر کمیٹی کا‬


‫اجالس جمعہ کو طلب‪ ،‬اپوزیشن رہنماؤں کے خالف‬
‫حکومتی کارروائیوں اور سیاسی صورتحال پر غور کیا‬
‫جائے گا‬
‫’’اوئے۔۔۔تو تو زنانیوں کی طرح رونے لگا۔ ابھی سے‬
‫تیری یہ حالت ہے ابھی توکسی نے تجھے کچھ کہا ہی‬
‫نہیں۔ رات کو صاحب تیرا جو حشر کرنے واال ہے‬
‫اسکا تو تجھے پتا ہی نہیں جلدی سے بتاکہاں جانا ہے‬
‫اورکیا پیغام دینا چاہتا ہے تو اپنے اس بھائی کو؟‘‘ وہ‬
‫تیز لہجے میں بوال۔‬

‫’’میں نے اسے بینک کانام اور ایڈریس سمجھا کر‬


‫بتایا کہ وہاں ایک صاحب ہوں گے عمران محمود انہیں‬
‫باہر بال کرکہنا کہ وہ ابھی مجھے تھانے آکرملیں۔‬
‫علیحدگی میں بال کربات کرنا سب کے سامنے نہیں‘‘‬

‫’’ابے ماں کے خصم۔۔۔! تو کیا سمجھتا ہے کہ کسی کو‬


‫کچھ معلوم نہیں۔ سارے شہر میں تیرے کرتوتوں کا‬
‫چرچاہو رہا ہے اور تو مجھے راز و نیاز کا مشورہ‬
‫دے رہا ہے ۔۔۔‘‘ اس نے ایک اور گالی میری طرف‬
‫لڑھکائی۔‬

‫اس کی بات سن کر میں دنگ رہ گیا۔ اسکے جانے کے‬


‫بعد میں کافی دیر تک اسی الجھن میں مبتال رہا کہ اتنی‬
‫جلدی یہ خبر کیسے پھیل گئی؟ کیونکہ فوٹوگرافر جو‬
‫میری تصویریں بنانے آیا تھا اس نے کیمرہ زمین‬
‫پرمار کر توڑ دیا تھا۔ میرے ذہن میں کالی داس کا نام‬
‫ابھرآیا۔ یقینا ً یہ اسی حرام کے نطفے کی کارستانی‬
‫ہوگی۔ اپنی پراسرار قوتوں سے کام لے کر اسی نے‬
‫بات پھیالئی ہوگی۔ اب کیا ہوگا؟ میں سخت پریشان‬
‫ہوگیا۔ میرا خیال تھا عمران آئے گا تو میں اسے کہوں‬
‫گا تھانے والوں کو ان کی منہ مانگی قیمت دے کر‬
‫میری جان چھڑائے۔ میں نے سوچا تھا سب کچھ‬
‫کھیڈو چوہڑے اور سپنا پر ڈال دوں گا۔ مجھے یقین‬
‫تھا کہ میرے گھر والے مجھ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں‬
‫اور صائمہ تو کبھی مر کربھی یقین نہ کر سکتی تھی‬
‫کہ میں اتنی گری ہوئی حرکت کر سکتا ہوں۔ اس وقت‬
‫مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ باہر کیا کچھ ہو چکا ہے‬
‫سپاہی کی بات پر میں چونکاضرور تھا۔‬

‫’’تیرے کرتوتوں کا چرچا سارے شہر میں پھیال ہوا‬


‫ہے‘‘ اس کا فقرہ میرے ذہن میں گونجا۔ اس وقت میرا‬
‫خیال تھا وہ محض مجھے ڈرانے کی خاطر کہہ رہا‬
‫ہے۔ یہ تو مجھے بعد معلوم ہواکہ سب کچھ اتنا آسان‬
‫نہیں جتنامیں سمجھ رہاتھا۔ سپاہی کو گئے ایک گھنٹہ‬
‫سے زیادہ ہوگیا تھا ‪،‬ابھی تک عمران نہ آیا تھا۔ میں‬
‫سبین کو تقریبا ً بارہ بجے گھر لے کر گیا تھا۔ اس‬
‫حساب سے اب شام چار بجے کا وقت ہونا چاہئے تھا۔‬
‫مجھے خطرہ تھا اگر سپاہی وقت پر نہ گیا تو بینک‬
‫میں چھٹی ہو جائے گی پھر عمران کا ملنا ناممکن تھا۔‬
‫سپاہی کی بات کا مجھے اس لئے بھی یقین نہ تھا اگر‬
‫بات سارے شہرمیں پھیل چکی تھی تو عمران ابھی‬
‫تک کیوں بے خبر تھا؟ یہ تو ناممکن تھا کہ اسے‬
‫معلوم ہوتا اور وہ نہ آتا۔ اسکے ساتھ ہی ایک لرزہ‬
‫خیز خیال میرے ذہن میں آیا‬
‫’کیا انکل بیگ اور آنٹی کو بھی معلوم ہو چکا‬
‫ہوگا؟‘‘یہ سوچ بھڑکتی چنگاری جیسی تھی۔ چونکہ ان‬
‫کا گھر ہم سے زیادہ دور نہ تھا اور ایسی بات توجنگل‬
‫کی آگ کی طرح پھیلتی ہے۔ کیسے کیسے مہربان اور‬
‫شفیق لوگوں کا ساتھ مجھے میسر رہاتھا کہ مجھے‬
‫ایک دن بھی اجنبیت کا احساس نہ ہوا۔ اگربات ان کے‬
‫علم میں آگئی اور انہوں نے یہاں آکرمجھے اس حالت‬
‫میں دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے؟‬
‫سوچوں نے میرے حواس معطل کردیئے تھے۔ میں‬
‫دعا کر رہا تھا کہ کسی طرح عمران آجائے۔‬

‫اب میں رادھا کی آمد سے مایوس ہو چکا تھا۔ اسے‬


‫آنا ہوتا تو اب تک وہ آچکی ہوتی فاصلے اس کے لئے‬
‫کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے وہ پل بھر میں دنیا کے‬
‫جس کونے میں چاہتی پہنچ سکتی تھی۔ تو کیا اس نے‬
‫مجھ سے جھوٹ بوال تھا؟لیکن اسے کیا ضرورت تھی‬
‫ایسی بات کہنے کی؟ اسے مجھ سے کیا خوف تھا کہ‬
‫میرے ساتھ جھوٹا وعدہ کرتی؟ کیا اسے کالی داس‬
‫نے روک دیا تھا؟ کیاکالی داس سب پر حاوی ہوگیا‬
‫تھا؟ میں اپنی سوچوں میں اتنا گم تھا کہ عمران کونہ‬
‫دیکھ سکا جو سالخوں کے پاس غمگین حالت میں‬
‫کھڑا تھا۔‬

‫’خان بھائی!‘‘میں نے چونک کر دیکھا۔ اس کے‬


‫احساسات کا اظہار اس کے پرخلوص چہرے سے ہو‬
‫رہا تھا۔ مجھے اپی طرف دیکھتا پا کر اس نے آہستہ‬
‫سے کہا۔‬
‫’خان بھائی! یہ سب کیا ہوگیا میں تو سوچ بھی نہ‬
‫سکتا تھا کہ کبھی یوں بھی ہو سکتاہے؟‘‘‬

‫زمین پھٹ جاتی اور میں اس میں سما جاتا اگر میرے‬
‫بس میں ہوتا تو کہاں تومیں شدت سے عمران کامنتظر‬
‫تھا اورجب وہ آیا تو میں شرم کے مارے نظر نہ اٹھا‬
‫سکا۔ وہ میری کیفیت کو جان گیاتھا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط ۔‪37‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’خان بھائی! مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت‬


‫نہیں ہے اس میں ضرور کسی کی سازش ہے لیکن‬
‫باہر جو حاالت ہیں ان کو دیکھتے ہوئے میں بہت فکر‬
‫مند ہوں۔ مجھے جیسے ہی معلوم ہوا میں اسی وقت‬
‫تھانے آگیا تھا لیکن ڈی سی پی صاحب کی موجودگی‬
‫میں مجھے اندر نہیں آنے دیا گیا۔ یہ تو تھانہ محرر‬
‫میرا کالس فیلو اور دوست ہے اسی وجہ سے آپ سے‬
‫مالقات ممکن ہوسکی۔ بہرحال آپ فکر نہ کریں میں‬
‫کچھ کرتاہوں۔‘‘‬

‫’’عمران تم تو جانتے ہو میں کیسا انسان ہوں؟کیا تم‬


‫سوچ سکتے ہوکہ میں ایسی قبیح حرکت کر سکتا‬
‫ہوں؟‘‘ میں نے جھوٹ بول کراپنے صفائی پیش کی۔‬
‫’’خان بھائی! سب ٹھیک ہو جائے گا میں ابھی آتا‬
‫ہوں‘‘ کہہ کر وہ سامنے سے ہٹ گیا۔ جتنی شرمندگی‬
‫مجھے ہو سکتی تھی اس کا اندازہ بھی کوئی نہیں لگا‬
‫سکتا۔ لیکن یہ حقیقت تھی اور میں اپنے کرتوت کی‬
‫سزا بھگت رہا تھا ۔مجھے اپنے ایک ایک گناہ یاد آنے‬
‫لگے۔ اگر میں رادھاکے حسن کو دیکھ کر پاگل اور‬
‫اندھا نہ ہوا ہوتا تو آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب نہ‬
‫ہوتا۔‬

‫’’کہیں ایسا تو نہیں کہ بسنتی نے کالی داس سے مل‬


‫کر یہ سب کچھ کیاہو؟۔ ہوسکتاہے اسے رادھا کے‬
‫ساتھ کوئی پرخاش ہو‘‘ مختلف سوچوں نے میرے‬
‫دماغ کو گھیر رکھا تھا۔ کسی سوال کا جواب میرے‬
‫پاس نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد عمران دوبارہ نظر آیا اس‬
‫بار اس کے ساتھ سادہ لباس میں ایک شخص بھی تھا‬
‫جس نے کپڑوں کا ایک جوڑا ہاتھ میں تھاما ہوا تھا۔‬
‫جیسے کسی اندھے کو آنکھوں کی خواہش ہو سکتی‬
‫ہے اسی طرح مجھے اس وقت کپڑوں کی ضرورت‬
‫تھی۔ سادہ لباس والے نے کپڑے اندر پھینک دیئے۔‬
‫’انہیں پہن لو اگر کوئی پوچھے تو کہنا یہیں حواالت‬
‫کے کمرے میں پڑے تھے‘‘ اتناکہنے کے بعد وہ‬
‫دونوں سامنے سے ہٹ گئے۔‬
‫کپڑے میرے اوپر آگرے‪ ،‬ان سے پسینے کی بدبو‬
‫آرہی تھی۔ میں نے جلدی سے کپڑے پہن لیے۔ تھوڑی‬
‫دیر بعد وہی سادہ لباس واال آیا‪ ،‬اسکے ہاتھ میں جوس‬
‫کا ڈبہ تھا۔ وہ بھی اس نے کپڑوں کی طرح اندر پھینک‬
‫دیا۔ شاید وہ دروازہ کھولنے پر قادر نہ تھا۔ میں نے‬
‫جلدی سے ڈبہ کھول کر منہ سے لگا لیا۔ زندگی میں‬
‫سینکڑوں بار میں نے کئی قسم کے مشروبات پئے‬
‫ہوں گے لیکن اس وقت جوس کا ڈبہ میرے لئے آب‬
‫حیات سے کم نہ تھا۔ میرے حواس کچھ بحال‬
‫ہوئے۔عمران ایک بار پھر سامنے آیا۔‬

‫’’خان بھائی!معاملہ بہت بگڑ چکاہے۔سبین ہسپتال میں‬


‫ہے۔ ڈی ایس پی صاحب خود اسکابیان لینے گئے تھے‬
‫اس نے سب کچھ انہیں بتا دیا ہے۔ مجھے حیرت ہے‬
‫کہ وہ کس کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہی ہے؟‘‘‬
‫میں جیسے زمین میں گڑ گیا۔ جس حالت میں عمران‬
‫نے مجھے حواالت کے اس کمرے میں دیکھا تھا‬
‫اسے سو فیصد یقین ہونا چاہئے تھا کہ میں مجرم ہوں‬
‫لیکن وہ ہللا کابندہ مجھ پر اندھا اعتمادکرتا تھا‪،‬ابھی‬
‫تک وہ یہی سوچ رہاتھاکہ یہ سب کچھ میرے خالف‬
‫ایک سازش ہے۔‬
‫’ڈی ایس پی باقر حسین‪ ،‬سبین کے والد کا شاگرد ہے۔‬
‫اسنے انہیں یقین دالیا ہے کہ وہ آپ کوکیفرکردار تک‬
‫پہنچا کررہے گا۔ سبین کا منگیتر فوج میں میجر ہے‬
‫وہ بھی آپہنچا ہے۔ اسنے قسم کھائی ہے کہ آپکو‬
‫ساری زندگی جیل سے نکلنے نہیں دے گا ۔ان کے‬
‫عالوہ خواتین کی ایک تنظیم نے بھی اس معاملے کو‬
‫اچھالنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ جسکی صدر‬
‫میڈم ستارہ کا تعلق اپوزیشن پارٹی سے ہے اور اس‬
‫قسم کے کسی بھی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی‬
‫جس میں اسے حکومت کوبدنام کرنے میں مدد ملے۔‬
‫استادہونے کے ناطے سبین کے والد صاحب کی اس‬
‫شہر میں بہت عزت ہے ۔عالقے کے سرکردہ افراد کے‬
‫بچے ان کے پاس تعلیم حاصل کر چکے ہیں۔ طلباء نے‬
‫بھی تھوڑی دیرپہلے جلوس نکاال ہے۔ انہوں نے ٹائر‬
‫جالکر سڑک بند کر دی تھی۔ لوگ بری طرح بھپرے‬
‫ہوئے ہیں جگہ جگہ سے لوگوں کی ٹولیاں جلوس‬
‫میں شامل ہورہی ہیں۔ میڈم ستارہ کے اکسانے پر‬
‫خواتین مشتعل ہوکرگھروں سے باہرنکل آئی ہیں۔‘‘‬

‫عمران بتارہا تھا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے‬


‫میری رہائی کی ساری راہیں مسدورہو چکی ہیں۔‬

‫’’خان بھائی! میں یہ سب کچھ خدانخواستہ آپ کو‬


‫اسلئے نہیں بتا رہاکہ میں آپ کومجرم سمجھتاہوں‬
‫بلکہ میرا مقصد آپ کو حاالت کی سنگینی سے آگاہ‬
‫کرنا ہے۔ آپ فکر نہ کریں مجھ سے جو ہو سکا میں‬
‫کروں گا‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔ لیکن اس کا لہجہ‬
‫اعتماد سے خالی تھا ۔اتنا کہہ کر وہ چالگیا۔ میں جانتا‬
‫تھاکہ محض طفل تسلی ہے۔ میری بد نصیبی کادور‬
‫شروع ہو چکاتھا۔ میں سر جھکائے بیٹھا ان حاالت پر‬
‫غورکر رہاتھا جو سراسر میرے خالف تھے۔ مایوسی‬
‫بڑھ گئی تھی۔ جب اتنے سارے لوگ میرے خالف تھے‬
‫تو اکیال عمران کیا کر سکتاتھا؟‬

‫اس وقت مجھے یہ بھی خیال آیا کہ فوٹو گرافرکا رویہ‬


‫رادھا کی پراسرار طاقت کاکرشمہ ہوگ لیکن اس کی‬
‫غیرموجودگی اس بات کی نفی کر رہی تھی۔۔۔فوٹوگرافر‬
‫کے رویے کی وجہ کچھ بھی ہولیکن میرے سر سے‬
‫وقتی طور پروہ مصیبت ٹل گئی تھی۔ بقول عمران‬
‫میرے خالف پرچہ کٹ چکاتھاجسے سبین کے بیان‬
‫نے اورموثر بنادیاہے۔ اس نے کھل کرمیرے خالف‬
‫بیان دیاتھا لیکن وہ یہ نہ بتا سکی تھی کہ وہ میرے‬
‫ساتھ گھر کیوں گئی تھی؟ عمران کو یہ معلومات محرر‬
‫سے حاصل ہوئی تھیں۔ ابھی تک ایک دو سپاہیوں کے‬
‫عالوہ کوئی اس طرف سے نہ گزرا تھا۔ عمران سے‬
‫ملنے والی معلومات کے بعد صحیح معنوں میں مجھے‬
‫معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔میرے ہاتھ پر‬
‫خراش بھی آتی تو صائمہ تڑپ کررہ جاتی۔ اب میرا‬
‫جسم لہولہوتھالیکن ہمدردی کے دوبول کہنے واالبھی‬
‫کوئی نہ تھا۔ لیکن میں تو اس سے بھی بدتر سلوک‬
‫کامستحق تھا۔ بے بس وبے یارومددگار۔سبین نے کتنی‬
‫منتیں کی تھیں؟ لیکن میرے کان پر جوں نہ رینگی‬
‫تھی۔ اب۔۔۔میری فریادکون سنتا؟ اب تو شاید ساری‬
‫زندگی مجھے جیل میں گزارنا تھا۔ سب کچھ ختم ہوگیا‬
‫تھا۔‬

‫شام کا ملگجااندھیرا اب گہری تاریکی میں تبدیل ہورہا‬


‫تھا۔ اس حالت میں تو میں اپنے رب کے حضورجھک‬
‫بھی نہ سکتا تھا۔ جنابت کی حالت میں کوئی دعا بھی‬
‫نہیں مانگ سکتاتھا۔ کاش مجھے غسل کی سہولت‬
‫میسر آجاتی تو سر سجدے میں رکھ دیتا۔ آہ۔۔۔بدقسمت‬
‫اور بد بخت فاروق خان سوائے آہیں بھرنے کے کچھ‬
‫نہ کر سکتاتھا۔ میں سرجھکائے بیٹھا تھا کمرے میں‬
‫اچھا خاصا اندھیرا ہوگیا تھا۔ بیٹھے بیٹھے میری کمر‬
‫دہری ہو گئی تومیں وہیں فرش پر لیٹ گیا۔کہ اچانک‬
‫ایک منحوس آواز کانوں میں پڑی۔‬
‫یہ آواز کیا تھی سیسہ تھا پگال ہوا۔‬
‫’’بہت نراش دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔بالک!‘‘‬
‫میں اس بری طرح اچھالجیسے کسی بچھو نے ڈنک‬
‫ماردیا ہو۔ ساتھ ہی کمرے میں مدہم روشنی پھیل گئی‬
‫جسکا مخرج حسب معمول نظر نہ آرہا تھا۔ تیزی سے‬
‫اٹھ کر بیٹھنے سے میرے زخموں سے ٹیسیں نکلنے‬
‫لگیں۔ بے اختیار میرے منہ سے چیخ نکل گئی جسے‬
‫میں نے بمشکل ہونٹوں میں دبایا۔‬

‫کالی داس مجھ سے کچھ فاصلے پر دیوار سے ٹیک‬


‫لگائے بڑے اطمینان سے بیٹھاتھا۔ اس وقت اس کے‬
‫نحیف جسم پرایک دھوتی تھی۔ جب وہ لوگوں کو لے‬
‫کرمیرے بیڈ روم میں آیاتھا تو اس نے مقامی لوگوں‬
‫کی طرح دھوتی کرتہ پہن رکھا تھا۔ لمبے سفیدبال اس‬
‫کی پشت پر پھیلے ہوئے تھے۔ ایسا حلیہ ہمارے ہاں‬
‫اکثر درویش قسم کے لوگ اپناتے ہیں لیکن وہ اس کا‬
‫بہرروپ تھا۔ وہ توشیطان صفت آدمی تھا بلکہ اسے‬
‫آدمی کہنا آدمیت کی توہین تھی۔‬
‫’’اور تم کیا ہو۔۔۔؟‘‘ ضمیر کی مالمت سے میرا‬
‫سرجھک گیا۔‬

‫’’ابھی تیری پریمیکا آکر تجھے اس کشٹ سے‬


‫بچاکرلے جائے گی‘‘ اسنے میرا مضحکہ اڑایا۔‬
‫میری رگوں میں خون کی بجائے الوا دوڑنے لگا۔‬
‫زخمی جسم لے کر میں تیزی سے کھڑا ہوگیا۔ چاہتا‬
‫تھا زمین کو اس کے گندے وجودسے پاک کر دوں۔ وہ‬
‫بڑے اطمینان سے مجھے اپنی طرف بڑھتے دیکھتا‬
‫رہا آج اس نے میرے جسم کو بے حس و حرکت نہ کیا‬
‫تھا۔ میں تیزی سے اس پر جھپٹا۔ قریب تھا کہ اس‬
‫بوڑھے ڈھانچے کا گال دبا دیتا‪ ،‬کسی نے مجھے اٹھا‬
‫کر زمین پر پٹخ دیا۔ زخموں سے چور جسم جیسے‬
‫ہزاروں ٹکڑوں میں بٹ گیا۔ منہ سے بے ساختہ چیخ‬
‫نکل گئی۔‬

‫’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ کمرہ سادھو کے خوفناک قہقہے سے‬


‫گونج اٹھا۔ میں چاروں شانے چت پڑا تھا۔‬
‫’’تو نے پچھلی بارکہا تھا یدی میں تمرے شریرکو اپنی‬
‫شکتی سے نہ باندھتا تو مجھے نشٹ کر دیتا۔ اسی‬
‫کارن اس بارمیں نے تیرے شریر کو نہ باندھا کہ تو‬
‫اپنے من کی حسرت نکال لے آ۔۔۔آگے بڑھ اور میرا‬
‫کریہ کرم کر دے کس بات کی دیر ہے؟‘‘ اس نے میری‬
‫حالت دیکھتے ہوئے مضحکہ اڑایا۔‬

‫’’میں بھی تو دیکھوں تو کتنابلوان ہے؟‘‘ اس کی ہرزہ‬


‫سرائی جاری رہی۔ میں ہمت کرکے دوبارہ اٹھا۔ اس بار‬
‫میں محتاط انداز میں اس کی طرف بڑھا۔ وہ معنی خیز‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا جیسے ہی میں‬
‫اس کے قریب پہنچا اس کے ہونٹ دائرے کی صورت‬
‫میں سکڑ گئے۔ میں بجلی کی سی تیزی سے ایک‬
‫طرف ہٹ گیا۔ اس کے منہ سے نکال ہوا تھوک مجھ‬
‫سے دوانچ کے فاصلے سے گزر کرفرش پر جا پڑا۔‬
‫اسکے گندے تھوک کی اذیت میں ابھی بھوالنہیں تھا۔‬
‫میرے اور اس کے درمیان چار پانچ قدموں کافاصلہ رہ‬
‫گیا تھا۔ میں ہوا میں اچھال اور اس پرچھالنگ لگا دی۔‬
‫لیکن کسی نادیدہ ہاتھ نے مجھے ہوا میں معلق کر دیا۔‬
‫چھت کے قریب جا کرمیں سرکر بل گرنے لگا۔ زمین‬
‫تیزی سے میری طرف بڑھ رہی تھی اس عالم میں اگر‬
‫میں زمین پر گرتا تومیرا سر پاش پاش ہو جاتا لیکن‬
‫اب جینے کی خواہش کسے تھی؟جس قدر ذلت میں‬
‫اٹھا چکاتھا اس کے بعدمیں خود بھی جینا نہیں چاہتا‬
‫تھا۔ لیکن موت بڑی ظالم چیز ہے انسان زندگی سے‬
‫جس قدر بھی تنگ ہومرنا نہیں چاہتا۔ قریب تھا کہ‬
‫زمین سے ٹکراکرہمیشہ کی نیندسو جاتا مجھے‬
‫محسوس جیسے میرا پاؤں کسی کی گرفت میں آگیا‬
‫ہے۔ خوفناک جھٹکے نے میرے اوسان خطا کردیے۔‬
‫دردکی شدید لہرنے احساس دالیا جیسے ٹانگ کولہے‬
‫کے جوڑسے نکل گیا ہو۔جیسے ہی میرے حواس بحال‬
‫ہوئے میں نے دیکھا میں بالکل کالی داس کے‬
‫اوپرمعلق تھا۔ میرے ہاتھ اس کے سر سے انچ دو انچ‬
‫کے فاصلے پر ہوا میں لہرا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا‬
‫اسکا گالدبوچ لوں تاکہ اسکے گندے جسم سے بدروح‬
‫پروازکرجائے۔ اس کے مکروہ ہونٹوں پرموجودہ‬
‫طنزیہ مسکراہٹ نے مجھے مزید مشتعل کردیا۔‬
‫’کاش میں بھی پراسرار قوتوں کاماہر ہوتا تو اس‬
‫خبیث کوابھی مزا چکھادیتا۔‘‘‬

‫’’کیوں بالک! اب کیا وچارہیں یدی اب بھی تومیرا‬


‫کہامان لے تومیں تجھے شماکر سکتا ہوں‘‘ اس بار‬
‫اس کا لہجہ بدلہ ہوا تھا۔ پھر چھت کی طرف دیکھ کر‬
‫اس نے اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میں آہستہ آہستہ‬
‫نیچے آنے لگا۔میری دائیں ٹانگ کسی نادیدہ گرفت‬
‫میں تھی۔ کسی نے مجھے آرام سے نیچے اتار‬
‫کرپشت کے بل لٹادیا۔‬

‫’’اٹھ کر بیٹھ جا‘‘ کالی داس کی آواز آئی۔ میں اٹھ کر‬
‫بیٹھ گیا۔‬

‫’’ابھی سمے گیانہیں۔۔۔مورکھ نہ بن میری آگیا کا پالن‬


‫کرکے تو ایک بارپھر عجت (عزت) سے سنسار میں‬
‫رہ سکتا ہے‘‘‬
‫میں اس کی بات سن کر چونک گیا۔ وہ گہری نظروں‬
‫سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس وقت میری سب‬
‫سے بڑی خواہش یہی تھی کہ میں ایک بار پھر‬
‫معاشرے میں عزت کی زندگی جینا شروع کر دوں۔‬

‫’’میرے بارے اپنے وچار ٹھیک کر‪ ،‬میں اتنا برا‬


‫نہیں۔۔۔متروں کا متر ہوں۔پرنتو بیریوں کے سنگ تو‬
‫کوئی منش اچھا برتاؤ نہیں کرتا۔ تیری پریمیکا اور تو‬
‫نے میرے سنگ کیا کیا تھا۔۔۔یاد ہے؟‘‘‬

‫’’کیا یہ اس خبیث کی کوئی نئی چال ہے؟‘‘ میں سوچ‬


‫میں پڑ گیا۔‬

‫’’تیرے وچار غلط ہیں۔۔۔میں نے کہا نا‪ ،‬میں تیری‬


‫سہائتاکر سکتا ہوں پرنتو تجھے میری آگیا کا پالن‬
‫کرناہوگا‘‘ اسنے ایک بار پھر مجھے یقین دالیا۔‬
‫’’توکیا چاہتاہے؟‘‘ میں نے کچھ سوچ کر پوچھا۔ اس‬
‫وقت اگر خبیث کی بات مان کرمیرا چھٹکارا ہو سکتا‬
‫تھا تو دانشمندی اسی میں تھی کہ اسکی بات مان لی‬
‫جائے۔‬

‫’’میں کالی ماتا کی آگیا کے انوسار رادھا کوحاصل‬


‫کرنا چاہتا ہوں‘‘ اسنے اپنا مطالبہ دہرایا۔‬

‫’’رادھا کو حاصل کرناچاہتا ہے؟ یاد ہے اسنے کس‬


‫طرح تجھے زمین چاٹنے پر مجبور کر دیاتھا؟‘‘ نہ‬
‫چاہتے ہوئے بھی میرا لہجہ طنزیہ ہوگیا۔ یکبارگی اس‬
‫کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔‬

‫’’ایسی باتیں نہ کر کہ ایک بار پھر تجھے کشٹ بھوگنا‬


‫پڑے۔‘‘‬
‫’لیکن اس سلسلے میں میں تمہاری کیا مددکرسکتا‬
‫ہوں؟‘‘ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا اس‬
‫لئے میں نے جلدی سے پوچھا۔‬
‫’’جیسا میں کہوں کرتا جا پھر دیکھ۔۔۔سنسار کو میں‬
‫تیرے واسطے سورگ(جنت) بنا دوں گا تیری ہرمنو کا‬
‫منا (خواہش) پوری ہوگی۔ تو جس اچھا کاوچاراپنے‬
‫من میں الئے گا اوش پوری ہوگی‘‘ وہ مجھے اللچ‬
‫دے رہاتھا۔‬

‫’’میں ابھی تک تمہاری بات نہیں سمجھا‘‘ اسکی‬


‫باتوں سے میں بری طرح الجھ گیاتھا۔‬

‫’’رادھا کا جاپ پورا ہونے میں ابھی کچھ سمے باقی‬


‫ہے ۔یدی مجھے وچن دے کہ تو سمے آنے پر میری‬
‫آگیا کاپالن کرے گا تو میں تیری سہائتاکرنے پرتیار‬
‫ہوں‘‘ اس نے بڑے اطمینان سے کہا۔‬

‫’’کھل کر بات کرو تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا۔‬


‫کچھ دیر وہ مجھے دیکھتا رہا پھر آہستہ سے بوال۔‬
‫’’رادھا تجھ سے پریم کرتی ہے میں جانتاہوں تم‬
‫دونوں کے بیچ کیسا سمبندھ ہے؟ تجھے کیول اتناکرنا‬
‫ہوگا کہ جب وہ تجھ سے ملنے آئے تومجھے کھبر‬
‫کردے۔‘‘‬
‫اس بار اس نے وضاحت کی۔ مجھے رادھا کی بات یاد‬
‫آئی۔‬

‫’’سنسارکے سارے پنڈت پجاری مجھے پراپت کرنے‬


‫کے کارن دھونی رمائے بیٹھے ہیں‘‘ میں اچھی طرح‬
‫سمجھ رہاتھاکہ یہ منحوس کیا چاہتاہے؟ اس سے قبل‬
‫اس کا چیال امر کماربھی اس قسم کامطالبہ کرچکاتھا‬
‫لیکن اسنے شرط رکھی تھی کہ میں اپنی بیوی کو‬
‫طالق دے دوں۔ میرے چہرے پرکشمکش دیکھ کروہ‬
‫بوال۔‬

‫’’تو اپنی پتنی کوچھوڑے بنا بھی میری سہائتاکر سکتا‬


‫ہے امرکمارمیرا چیال تھا اس نے ابھی اتنی شکتی‬
‫پراپت نہ کی تھی اسی کارن اس نے تجھ سے تیری‬
‫پتنی کوچھوڑنے کو کہا تھا پرنتو۔۔۔میں ایسی کوئی‬
‫اچھا تو کیول یہ ہے تو من سے‬‫بات نہ کہوں گا۔ میری ِ‬
‫میری بات مان لے۔ پرنتو اس بات کا اوش دھیان‬
‫رکھنا‬
‫ا یدی تونے میرے سنگ چھل کپٹ کیا توتوجانتا ہے‬
‫کالی داس کس شکتی کا نام ہے؟‘‘ کچھ دیر وہ میرے‬
‫چہرے کے تاثرات کاجائزہ لیتا رہا پھر کہنے لگا‘‘ میں‬
‫یہ بھی جانتاہوں رادھا کے آنے کے بعد تو ایک‬
‫بارپھر میرے آڑے آنے کی اوشکتا کرے گا۔ پرنتو اس‬
‫بار وہ مجھے کشٹ دینے میں سپھل نہ ہوپائے گی۔‘‘‬

‫’’لیکن اس دن تو ایسا ہی ہواتھا۔‘‘ میں نے کہا۔‬


‫’’میں تجھے بتا چکا ہوں اس دن کچھ اور شکتیاں‬
‫بھی تیری سہائتا کر رہی تھیں اسی کارن وہ‬
‫مکت(کامیاب) ہوگئی تھی۔ نہیں تو رادھا کالی داس کی‬
‫شکتی کوجانتی ہے۔‘‘ اس نے گردن اکڑا کرکہا۔‬
‫’’اگر میں ایسا کرنے کا وعدہ کربھی لوں تو اب تم‬
‫میرے لیے کیا کر سکتے ہو؟یہ معاملہ تو اتناالجھ چکا‬
‫ہے کہ اب تم چاہو بھی تو نہیں سلجھا سکتے‘‘ میں‬
‫مایوس ہو چکا تھا۔‬

‫’’تو نے ابھی کالی داس کی شکتی دیکھی ہی کہاں ہے‬


‫بالک! مجھے وچن دے پھر دیکھ میں کرتا ہوں؟‘‘ اس‬
‫کے لہجے سے اندازہ ہورہا تھا وہ سچ بول رہا ہے۔‬

‫’’لل ۔۔۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ سارے شہر میں‬


‫میرے خالف ہنگامے ہو رہے ہیں؟پرچہ کٹ چکا سبین‬
‫نے اپنا بیان بھی دے دیا ہے اب تو۔۔۔‘‘‬

‫’’تو یہ باتیں چھوڑ کیول اس بات پردھیان دے جو میں‬


‫کہہ رہا ہوں تجھے بچانا میرا کام ہے۔ پرنتو دھیان‬
‫رہے یدی۔۔۔تو وچن دے کر پھر گیا تو تجھے میرے‬
‫شراپ سے بچانے واال اس سنسارمیں کوئی نہ ہوگا۔‬
‫میں جانتا ہوں اس سمے من میں رادھا کے واسطے‬
‫کرودھ ہے پرنتو اس کے آنے کے بعد ہو سکتا ہے‬
‫تیرے من میں اس کا پریم پھر جاگ جائے اور تو اپنے‬
‫وچن سے پھر جائے۔ یدی ایسا دھیان بھی تو اپنے من‬
‫میں الیا تو اتنا یاد رکھنا کالی داس تجھے کبھی شما‬
‫نہ کرے گا۔‘‘‬
‫یہ ایساموقع نہ تھا کہ اس کی باتوں کا برا مانا جاتا۔‬
‫میں اس کی دھمکی کو زہرکے گھونٹ کی طرح پی‬
‫گیا۔ ضبط سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ میری کیفیت‬
‫دیکھ کر وہ نرمی سے بوال۔‬

‫’’کالی داس کا متربن کر دیکھ۔۔۔کالی داس تیرے‬


‫چرنوں میں سندرکنیاؤں کا ڈھیر لگا دے گا۔ رادھا سے‬
‫بھی سندر کنیائیں۔ یدی تجھے میری بات پروشواس نہ‬
‫ہو تومیں تجھے ابھی چمتکاردکھا سکتاہوں‘‘ مجھے‬
‫اپنی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے پاکر وہ معنی‬
‫خیز انداز سے مسکرایا۔‬
‫’’میں جانتاہوں تو کیول میرے کہے پر وشواس نہ‬
‫کرے گا اب دیکھ کالی داس کیاکرسکتاہے؟‘‘‬

‫وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنے لگا ۔اس کے ہونٹ‬


‫ہلے لیکن آواز نہ نکلی۔ دوسرے ہی لمحے حواالت‬
‫کے کمرے میں بسنتی ظاہر ہوگئی۔ وہی بسنتی جس‬
‫کی بات مان کر میں اس حال کوپہنچا تھا۔ میں آپ‬
‫کوپہلے بھی بتا چکاہوں کہ وہ اس قدر حسین تھی کہ‬
‫اس پر سے نظر ہٹانا مشکل ہو جاتا۔ میری اس حالت‬
‫کی ذمہ دار بسنتی ہی تھی پھر بھی اسے دیکھ کرایک‬
‫لمحے کے لیے میں ڈول گیا۔ اس نے نہایت مختصر‬
‫لباس پہن رکھا تھا جس سے اس کاکندن بدن دمک‬
‫رہاتھا۔‬

‫’’پرنام مہاراج‘‘ اس نے کالی داس کوہاتھ باندھ کر‬


‫سالم کیا۔ اس کے بعد وہ میری جانب مڑی اور ہاتھ‬
‫جوڑ دیئے اس کے ہونٹوں پر بڑی ہی شوخ مسکراہٹ‬
‫تھی۔‬
‫حسین آنکھوں میں شرارت ناچ رہی تھی۔ اچانک‬
‫مجھے اپنی تذلیل یاد آگئی جسکی ذمہ دار صرف اور‬
‫صرف بسنتی ہی تھی ۔میرا چہرہ تپ گیا۔ رگوں میں‬
‫خون کی گردش تیز ہوگئی ۔میرا خیال درست تھا کالی‬
‫داس کی اس سازش میں بسنتی پوری طرح شریک‬
‫تھی۔‬

‫’’مجھ ابھاگن پرکس کارن خفا ہو مہاراج؟ میں نے تو‬


‫کیول مہاراج کالی داس کی آگیا کاپالن کیا ہے‘‘ اسکی‬
‫مدہر آوازآئی۔ میرے چہرے سے دلی کیفیات عیاں‬
‫تھیں۔‬

‫’’بسنتی تم نے دھوکہ دیا ہے۔ رادھا تجھے کبھی‬


‫معاف نہیں کرے گی‘‘ میرا لہجہ خود بخود سرد ہوگیا۔‬
‫’’اب چھوڑو بھی پرانے جھگڑے فاروق خان! ہم متر‬
‫بن چکے ہیں اور متروں کے واسطے من میں کرودھ‬
‫رکھنا پاپ ہے‘‘ کالی داس کے ہونٹوں پردوستانہ‬
‫مسکراہٹ تھی۔ لیکن مجھے اس خبیث کی کسی بات‬
‫پر اعتبار نہ رہا تھا۔‬

‫’’یدی تمرا من صاف نہیں ہے تو میں جاتاہوں اسکے‬


‫بعد تیرے سنگ جوہوگا وہ تو بھگت نہ پائے گا‘‘ایک‬
‫بار پھر اس نے مجھے دھمکایا۔ دل تو چاہ رہا تھا ان‬
‫دونوں کو جان سے مار دوں لیکن یہ میرے اختیارمیں‬
‫نہ تھا۔‬

‫’’ٹھیک ہے وعدہ کرتا ہوں میں تمہاری بات مانوں‬


‫گالیکن تم بھی یہ وعدہ کرو کہ مجھے اس مصیبت‬
‫سے چھٹکارا دالؤ گے۔ اس کے عالوہ یہ بات بھی‬
‫واضح ہوناچاہئے کہ یہ سب کچھ کس طرح ممکن‬
‫ہوگا۔ اور رادھاکے سلسلے میں میں تمہاری کیامددکر‬
‫سکتاہوں؟‘‘ باآلخر میں نے کہا۔‬

‫’’تو بڑا بھاگی شالی ہے کالی داس نے تجھے‬


‫اپنامترمان لیا ہے۔ اب دیکھنا کالی داس تجھے اس‬
‫کشٹ سے کیسے نکالتاہے؟‘‘ اس کے لہجے میں‬
‫تکبر بول رہاتھا۔‬

‫’’رہی بات رادھا کی ‘‘ کچھ دیر وہ پُر خیال نظروں‬


‫سے میری طرف دیکھتا رہاپھر کہنے لگا’’جب‬
‫رادھاجاپ سے واپس آکر تجھ سے شریر کاسمبندھ‬
‫جوڑنے آئے تو تو کیول مجھے کھبر کردینا‘‘ اس نے‬
‫بڑے آرام سے مجھے سمجھایا۔‬

‫’’لیکن میں تمہیں کیسے بتاؤں گا؟‘‘ میں نے وضاحت‬


‫چاہی۔‬
‫’’سمے آنے پر میں تجھے سمجھا دوں گا۔ پرنتو اس‬
‫سمے کیول اتنا جان لے جب رادھا تجھ سے شریرکا‬
‫سمبندھ جوڑنے کو کہے تو تو کہنا آج نہیں کل۔ اس‬
‫کے بعد تو میری آگیاکاپالن کرتے ہوئے مجھے‬
‫کھبرکردینا۔ باقی میں کھد دیکھ لوں گا۔ ‘‘ اس نے‬
‫اپنامدعا واضح کیا۔ اسکی بات سے میں یہ سمجھا کہ‬
‫جب میں اور رادھا ملتے ہیں تو وہ کوئی ایسا‬
‫بندوبست کرلیتی ہے جس سے کالی داس کو ہمارے‬
‫ملنے کی خبر نہیں ہوسکتی۔‬
‫’ٹھیک ہے کالی داس! میں تمہاری بات ماننے پر تیار‬
‫ہوں‘‘ میں نے کہا۔ اس کے مکروہ ہونٹوں پر فاتحانہ‬
‫مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔ اس دوران بسنتی بالکل‬
‫خاموش کھڑی رہی ۔میری بات ختم ہونے پر اس نے‬
‫کالی داس سے کہا۔‬

‫’’مہاراج مجھے جانے کی آگیا دو ۔میرے بھوجن کا‬


‫سمے ہو رہا۔‘‘‬
‫’ہاں تو جا۔۔۔جب تیری جرورت ہوگی میں بال لوں گا‘‘‬
‫کالی داس نے لگاوٹ بھری نظروں سے بسنتی کو‬
‫دیکھا۔‬

‫’’مہاراج ! اپنا وچن یاد رکھنا۔ یدی تم بھول گئے تو‬


‫بسنتی بھی اپنے وچن سے پھر جائے گی‘‘ دوسرے‬
‫ہی لمحے وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اس کے‬
‫جانے کے بعد کالی داس میری طرف متوجہ ہوا۔‬
‫’’تجھے کس بات کی چنتا ہے؟ میں نے جو کہہ دیا کہ‬
‫اب ہم متر ہیں اور کالی داس کے متر کو کشٹ بھوگنا‬
‫پڑے یہ اسمبھو(ناممکن) ہے جانتا ہوں اتنی جلدی تو‬
‫مجھ پر وشواس نہ کرے گا۔ ٹھہر۔۔۔تجھے ایک اور‬
‫چمتکار دکھاتا ہوں۔ پرنتو دھیان رہے کسی کے‬
‫سامنے مجھے آواج نہ دینا۔‘‘‬

‫میں ابھی اس کی بات کا مطلب پوچھنے ہی واال تھا کہ‬


‫باہر سے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں نے‬
‫گھبرا کر کالی داس کی طرف دیکھا جو بڑے اطمینان‬
‫سے اپنی جگہ نیم دراز تھا۔ کمرے میں یکدم اندھیرا‬
‫چھا گیا۔‬
‫’کمرے میں اندھیرا کیوں ہے؟‘ دروازے کے باہر سے‬
‫آواز آئی۔‬

‫’’سر جی! شاید بلب فیوز ہوگیا ہے‘‘ جواب مال۔ اس‬
‫کے بعد تاال کھلنے کی آواز آئی۔‬
‫’’جا بھاگ کر ایمرجنسی الئٹ لے آ‘‘ پہلے والے نے‬
‫کہا۔ تیز قدموں سے کسی کے جانے کی آواز آئی۔‬
‫اندھیرا اتنا بھی گہرا نہ تھا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ‬
‫دیتا ہو۔ دروازے کے سامنے ایک درازقد شخص کا‬
‫ہیوال دکھائی دے رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہی آدمی‬
‫ہاتھ میں جلتی ہوئی ایمرجنسی الئٹ پکڑے آگیا۔ اس‬
‫نے دروازہ کھوال اور دونوں اندر آگئے۔ ایک نے‬
‫وردی پہنی ہوئی تھی جبکہ ایمرجنسی الئٹ پکڑے‬
‫ہوئے آدمی سادہ لباس میں تھا۔‬

‫’’سر جی! ذرا اسے پکڑیں میں بلب لگا دوں‘‘ سادہ‬
‫لباس نے وردی والے سے کہا پھر بلب لگا کر الئٹ‬
‫آن کر دی۔ کمرہ روشنی سے بھر گیا۔ وردی میں‬
‫ملبوس شخص کے کندھے پر لگے سٹارز اسے‬
‫انسپکٹر ظاہر کر رہے تھے جبکہ دوسرا شاید سپاہی‬
‫تھا۔ انسپکٹر نے مجھے غور سے دیکھا۔‬
‫’’کھڑے ہو جاؤ‘‘ اس نے کہا۔ میں بمشکل اٹھ کر کھڑا‬
‫ہوگیا۔ دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے کالی‬
‫داس کی طرف دیکھا وہ بڑے اطمینان سے نیم دراز‬
‫تھا۔ مجھے اس کی ہدایت یاد تھی کسی کے سامنے‬
‫میں اسے مخاطب نہ کروں۔ انسپکٹر میرا سر سے‬
‫پاؤں تک جائزہ لے رہا تھا۔‬
‫’’مجھے یقین ہے کہ تم بے گناہ ہو۔ میں تو شکل سے‬
‫مجرم کو پہچان لیتا ہوں‘‘ پھر سپاہی کی طرف مڑا۔‬
‫’’اسے کچھ کھانے کو بھی دیا ہے یا نہیں؟‘‘‬
‫’’سر جی! صاحب جی کا آرڈر تھا کہ اسے کچھ نہیں‬
‫دینا‘‘ سپاہی نے کہا۔‬
‫’’وہ تو پاگل ہے اس کی نظر میں ہر شخص مجرم ہے‬
‫۔۔۔جاؤ اس کے لئے کچھ کھانے پینے کو لے آؤ‘‘ اس‬
‫نے ’’صاحب جی‘‘ کو برا بھال کہتے ہوئے سپاہی کو‬
‫حکم دیا۔ وہ فوراً باہر چالگیا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪38‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫’’میرا نام انسپکٹر عادل ہے۔ میری پولیس سروس کو‬
‫پچیس سال ہوگئے ہیں۔ میں شکل سے ہی مجرم کو‬
‫پہچان لیتا ہوں۔ میں یقین سے کہہ سکتاہوں کہ تم‬
‫مجرم نہیں لیکن یہ بات بھی میری سمجھ سے باہر‬
‫ہے سب لوگ تمہارے خالف کیوں ہیں؟کیا تم مجھے‬
‫بتاؤ گے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟‘‘ اس نے بڑے مہذب‬
‫انداز میں سوال کیا۔‬
‫’اس سے کہہ تجھے کسی بات کی جانکاری نہیں۔ جی‬
‫اچھا نہ ہونے کے کارن تو گھر پر تھا کچھ منش آئے۔‬
‫انہوں نے تیرے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور تجھے مار‬
‫مار کر تیری یہ دشا بنا دی۔ اس کے بعد تجھے کچھ‬
‫کھبر نہ رہی۔ جب ہوش آیا تو یہاں حواالت کے کمرے‬
‫میں پڑا تھا‘‘ کالی داس نے کہا۔ میں نے چونک کر‬
‫پہلے کالی داس پھر انسپکٹر کی طرف دیکھا۔ وہ کالی‬
‫داس کے وجود سے بے خبر مجھے دیکھ رہا تھا ’’یہ‬
‫مجھے نہیں دیکھ سکتا‘‘ کالی داس میری پریشانی‬
‫بھانپ کر بوال۔ میں نے اس کی ہدایت کے مطابق‬
‫تھانیدار کو وہی کہانی سنا دی۔‬
‫’’کون لوگ تھے اور انہیں تم سے کیا دشمنی ہے؟‘‘‬
‫میں نے پھر کالی داس کی طرف دیکھا۔‬

‫’’کچھ اپنی بدھی سے کام لے لے ‘‘ اس کی بیزار آواز‬


‫آئی۔‬

‫’’یہ تم بار بار پیچھے کیوں دیکھنے لگتے ہو؟‘‘‬


‫تھانے دارنے نرمی سے پوچھا۔ وہ ایک سلجھا ہوا‬
‫شخص تھا۔‬

‫’’میرے گھر کے سامنے ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر‬


‫حیات رہتا ہے ۔وہ اس گھر کو خریدنا چاہتا تھا لیکن‬
‫پروفیسر صاحب جو اس مکان کے مالک ہیں انہوں‬
‫نے مجھے کرایہ پر دے دیا ۔اس بات کا اسے بہت رنج‬
‫ہے۔ اس نے مجھے دھمکی دی تھی کہ میں تمہیں‬
‫یہاں زیادہ دیر تک ٹکنے نہیں دوں گا‘‘ میری جو‬
‫سمجھ میں آیا میں نے کہہ دیا۔‬
‫’’ہوں۔۔۔یہ بات ہے جبھی وہ بڑھ بڑھ کربول رہا تھا‘‘‬
‫اس نے کہا۔‬

‫’’سامنے والی کوٹھی میں ساجد نامی ایک شخص رہتا‬


‫ہے ۔وہ عمر حیات کا گہرا دوست ہے۔ اس نے بھی‬
‫کئی بار مجھے دبی دبی زبان میں کہا تھا کہ میں یہ‬
‫گھر چھوڑ دوں نہیں تو پچھتاؤں گا‘‘ میں نے اپنی‬
‫بات میں اضافہ کیا۔ الشعوری طور پر میں نے ساجد‬
‫سے بدلہ لیا تھاکیونکہ مجھے مارنے والوں میں وہ‬
‫پیش پیش تھا۔‬

‫’’ٹھیک ہے میں دیکھ لوں گا تم بالکل بے فکر ہو جاؤ‬


‫۔ابھی کرم دین کھانا التا ہے وہ کھا لو۔ چارپائی اور‬
‫بسترمیں بجھوا دیتا ہوں آرام سے سو جاؤ کسی بات‬
‫کی فکر نہ کرنا صبح عدالت سے ضمانت ہو جائے گی۔‬
‫اگرمیرے اختیار میں ہوتا تو میں تمہیں ابھی گھر‬
‫جانے کی اجازت دے دیتا لیکن تمہارے خالف پرچہ‬
‫کٹ چکا ہے تمہیں صبح میں خود عدالت میں لے کر‬
‫جاؤں گا۔ کسی بات کی فکر نہ کرنا جس درندگی سے‬
‫انہوں نے تمہیں مارا ہے اس کا خمیازہ انہیں بھگتنا‬
‫پڑے گا۔ اسی وجہ سے میں نے تمہاری مرہم پٹی نہیں‬
‫کروائی کہ جج صاحب کے سامنے میں تمہیں اسی‬
‫حالت میں پیش کرنا چاہتا ہوں‘‘۔اس نے مالئمت سے‬
‫مجھے سمجھایا۔‬
‫’اچھا اب میں چلتا ہوں تم کسی بات کی فکر نہ کرنا‬
‫میں تمہارا دفاع بھرپور طریقے سے کروں گا‘‘ اتنا‬
‫کہہ کر وہ باہر نکل گیا لیکن اس باراس نے دروازہ بند‬
‫کرنے کی زحمت نہیں کی تھی۔ ابھی وہ گیا ہی تھا کہ‬
‫سپاہی کرم دین میرے لئے کھانا لے آیا۔ کھانے کی‬
‫اشتہا انگیز خوشبو نے مجھے بھوک کا احساس‬
‫دالیا۔صبح سے اب تک میں نے سوائے ایک جوس‬
‫کے ڈبے کے کچھ کھایا پیا نہ تھا۔‬

‫’’صاحب جی! پیٹ بھر کر کھاؤ اور کسی بات کی فکر‬


‫نہ کرو ہمارا صاحب بہت اچھا آدمی ہے۔ وہ تمہاری‬
‫مدد کرے گا‘‘ اس نے کھانا میرے سامنے رکھتے‬
‫ہوئے کہا اور باہر نکل گیا۔ جاتے ہوئے اس نے‬
‫دروازہ بند تو کر دیا لیکن اس میں تاال نہیں لگایا۔‬
‫’’بھوجن کر لو پھر باتیں کریں گے‘‘ کالی داس کی‬
‫آواز نے مجھے چونکا دیا۔ کھانا دیکھ کر میں اس کی‬
‫موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا۔‬

‫’’آجاؤ تم بھی کھا لو‘‘ میں نے اسے دعوت دی۔ اس‬


‫میں وقت اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی‬
‫خاطر اسکی ہر بات ماننے کے لئے تیار تھا اور اس‬
‫کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا اس نے گہری نظروں سے‬
‫دیکھا ۔‬

‫”تم کھاؤ‪....‬میں بھوجن کرکے آیا تھا“ اس نے کہا۔‬


‫جب میں کھانے سے فارغ ہوا تو اس نے کہا۔”دیکھا‬
‫مہاشے! کیسے ایک پل میں میں نے کایا پلٹ دی؟ یہی‬
‫منش آج کی رینا تمری ہڈیوں سے گودا نکالنے واال‬
‫تھا پرنتو اب کیسے تمرا داس بنا کھڑا تھا؟“ اس نے‬
‫بڑے فخر سے کہا۔‬
‫”کالی داس! میں تم سے اپنے پچھلے رویے کی‬
‫معذرت چاہتاہوں دراصل رادھا کی محبت میں میں اندھا‬
‫ہوگیا تھا“ میں نے کہا۔ اگر کالی داس مجھے اس‬
‫مصیبت سے چھٹکارہ دلوا دیتا تو اسکا بہت بڑا‬
‫احسان ہوتا۔ اس وقت اس کی جس قدر ہمدردی میں‬
‫حاصل کر سکتا میرے لئے بہتر تھا۔‬
‫”اب چھوڑ بھی پرانی باتیں جب ہم متر بن چکے ہیں‬
‫تو کاہے کی چنتا؟“ اس نے بے پرواہی سے کہا۔‬

‫”تو نے جو کتھا(کہانی) اس کو مورکھ کو سانئی ہے‬


‫میرا من بہت پرسن ہوا ہے آج کی رینا جوکشٹ تجھے‬
‫بھوگنا پڑے گا۔ اس کے لئے مجھے شما کرنا کل‬
‫ساری کٹھنائیوں سے تیری جان چھوٹ جائے گی“‬
‫اسنے معذرت بھرے لہجے میں کہا۔‬

‫معافی تو مجھے مانگنی چاہئے کہ میں نے رادھا کے‬


‫ساتھ مل کر تمہیں بہت دکھ دیا ہے ہاں ایک اور بات‬
‫بھی مجھے تم سے کہنا ہے جب تم ‪“....‬‬
‫جانتاہوں تو کیا کہنا چاہتا ہے کھیدو چوہڑے اور سپنا‬
‫کی ہتھیا کو میں بھول نہیں پایا۔ پرنتو وہ رادھا کا اپر‬
‫ادھ ہے تو نردوش ہے“ اس نے میری بات کاٹ کر‬
‫کہا۔ وہ بھی رادھا کی طرح دل کی بات جان لیتا تھا۔‬

‫”کیول اتنا جان لے ‪ ،‬یدی رادھا کے آنے پر تو نے‬


‫میرے سنگ چھل کیا تو ‪ “....‬اس کی ادھوری بات‬
‫میں دھمکی پوشیدہ تھی۔‬

‫”کیا تم اب بھی یہ سمجھتے ہو کہ میں رادھا کا ساتھ‬


‫دوں گا جس کی وجہ سے آج میں اس حالت میں‬
‫حواالت میں پڑا ہوں؟ یہ سب کچھ اس بدبخت کی وجہ‬
‫سے ہی تو ہوا ہے ورنہ میں تو ایک سیدھی سادھی‬
‫زندگی بسر کرنے واال انسان ہوں۔ نہ رادھا مجھے‬
‫ملتی نہ یہ دن دیکھنا پڑتے“ میں نے اس کا اعتماد‬
‫حاصل کرنے کی خاطر رادھا کو برا بھال کہنا شروع کر‬
‫دیا۔ بات تھی بھی سچ‪ ،‬ان حاالت کی ذمہ دار رادھا ہی‬
‫تھی۔‬

‫”تو بہت بدھی مان ہے۔ یدی تو ستیہ کہہ رہا ہے تو‬
‫سن اب کالی داس کی شکتی تجھے ان کٹھنائیوں سے‬
‫یوں نکال کر لے جائے گی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں‬
‫اور کالی داس کا متر بن کر توگھاٹے میں نہیں رہے‬
‫گا۔ رادھا تو کچھ بھی نہیں ایسی ایسی سندرکنیائیں‬
‫تیرے چرنوں میں بٹھا دوں گا کہ تو آکاش کی‬
‫اپسراؤں کو بھی بھول جائے گا“ اسنے مجھے اللچ‬
‫دیا۔ٹھیک ہے کالی داس! اگر تم نے اپنا وعدہ پورا کیا‬
‫تو مجھے ہمیشہ اپنا دوست پاؤ گے“میں نے اسے‬
‫یقین دالیا اور دل میں اسی بات کو دہرانے لگا۔وہ کچھ‬
‫دیر میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔‬
‫”دھن باد خان صاحب! تم ایک گھر سے منشہور جو‬
‫کچھ تمرے من میں ہے ۔وہ میں جانتا ہوں اب تو کسی‬
‫بات کی چنتا نہ کر دیکھ کالی داس کیا کرتا ہے۔ تجھے‬
‫ابھی کالی داس کی شکتی سے جانکاری نہیں کیول آج‬
‫کی رینا اس کوٹھڑی میں بتا لے پھر سب ٹھیک ہو‬
‫جائے گا“ اس نے مجھے تسلی دی۔ میں نے منہ سے‬
‫کچھ نہ کہا بس سر ہال کر اس کی بات کی تائید کی۔‬

‫تھوڑی دیر بعد سپاہی کرم دین چارپائی اور بسترلے‬


‫آیا۔ اس کے جانے کے بعد کالی داس بوال۔‬

‫”اب مجھے آگیا دے‪....‬ابھی جا کر بہت کچھ کرنا ہے‬


‫پرنتو تو چنتا نہ کرناسب ٹھیک ہو جائے گا۔“‬

‫میں نے ایک بار پھر اسکا شکریہ ادا کیا۔اچانک وہ‬


‫میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھا نے مجھے بتایا‬
‫تھا کہ کالی داس زبردست پراسرار قوتوں کا مالک‬
‫ہے۔ اس کے لئے نظروں سے اوجھل ہونا یا ہزاروں‬
‫کوس دور پہنچ جاتا کوئی مشکل بات نہیں۔‬

‫میری چوٹوں میں بہت درد ہو رہا تھا۔ کمبختوں نے‬


‫بری طرح میری دھنائی کی تھ۔‬
‫”کیا کالی داس واقعی میری مدد کرے گا؟“ لیکن اس‬
‫وقت اس پر اعتبار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔‬
‫عمران دوبارہ نہیں آیا تھا میں دکھتے جسم کے ساتھ‬
‫لیٹ گیا۔ سارے واقعات ایک بار پھر میرے ذہن میں‬
‫تازہ ہوگئے۔ مجھے خود سے شرم آرہی تھی۔ جو کچھ‬
‫میں نے اس مجبور اور بے بس لڑکی کے ساتھ کیا‬
‫تھا اور اس کی سزا تویہی تھی کہ مجھے پھانسی پر‬
‫لٹکا دیا جاتا۔ لیکن میں خود غرض ہوگیا تھا۔ میرے‬
‫سامنے صائمہ اور بچوں کے چہرے آگئے۔ مجھے‬
‫اپنی سزا کی اتنی فکر نہ تھی ‪،‬جو کچھ میں نے کیا‬
‫تھا میں واقعی سزا کا حقدار تھا۔ لیکن صائمہ اور‬
‫بچے‪....‬ان کا قصور کیا تھا؟ اگرمیں جیل چال جاتا تو‬
‫ان کا پرسان حال کون ہوتا؟ میں انہی سوچوں میں‬
‫غرق تھا کہ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا چھا گیا۔‬
‫شاید بلب پھر فیوز ہوگیا تھا۔ اچانک میرے نتھنوں‬
‫سے خوشبو کا جھونکا ٹکرایا۔ کمرے میں کسی اورکی‬
‫موجودگی کا احساس ہوا۔‬
‫”رادھا‪....‬؟“ میرے ذہن میں فوراً خیال آیا۔ میں اٹھ کر‬
‫بیٹھ گیا اور اندھیرے میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر‬
‫دیکھنے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن رادھا جب آتی تو‬
‫گالب کی مہک سے کمرہ بھر جاتا۔ خوشبو تو اب بھی‬
‫آرہی تھی اور بہت ہی مسحور کن مہک تھی لیکن یہ‬
‫گالب کی خوشبو نہ تھی۔‬
‫مہاراج ! مجھے شما کر دو۔“ کمرے میں بسنتی کی‬
‫مدہر آوازآئی۔‬

‫”بسنتی‪....‬؟“ بے اختیار میرے منہ سے نکال۔‬

‫ہاں مہاراج ! میں ابھاگن بسنتی ہی ہوں“ اس کی‬


‫مغموم آواز آئی۔‬

‫”مجھے شما کر دو۔ میں نے گھور پاپ کیا ہے پرنتو‬


‫میں تمرے پریم میں پاگل ہوگئی تھی۔ تم ہو ہی اتنے‬
‫سندر کہ کوئی بھی ناری تمہیں دیکھ کرکچھ بھی کر‬
‫سکتی ہے۔“‬
‫اچانک کمرے میں دودھیا روشنی پھیل گئی جیسے‬
‫چاند نکل آیا ہو۔ واقعی کمرے میں چاند نکل آیا تھا۔‬
‫بسنتی میری چارپائی کے بالکل پاس کھڑی تھی۔ اس‬
‫کے وجود سے اٹھتی مہک میرے مشام جان کو‬
‫معطرکیے دے رہی تھی۔ گہرے نیلے رنگکے مختصر‬
‫گھاگرے چولی میں اس کا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ پیار‬
‫سے میرے کندھوں پر ہاتھ رکھ کراس نے مجھے لٹا‬
‫دیا اور میرے اوپر جھک آئی۔ اس کی گرم سانسیں‬
‫میرے چہرے کو چھونے لگیں۔ میں ہوش و حواس‬
‫کھو بیٹھا۔ حدت سے اس کا پنڈا تنور بنا ہوا تھا۔‬

‫”آج کی رینا مجھ سے اتنا پریم کرو کہ میری بیاکل‬


‫آتما شانت ہو جائے“ اس کی خمار آلود سرگوشی‬
‫ابھری۔‬
‫ضرور پڑھیں‪’’ :‬سندھ کے الکھ اساتذہ تو یہ مضامین‬
‫ہی نہیں پڑھا سکتے اور ۔ ۔ ۔‘‘ صوبائی وزیرتعلیم نے‬
‫اعتراف کرلیا‬
‫”جس سمے میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھا میرا‬
‫من میرے بس میں نہیں ر ہاتھا۔ تم تو دیوتاؤں سے‬
‫بھی جیادہ سندرہو۔ میں نے آج تک تمرے جیسا سندر‬
‫منش نہیں دیکھا“ وہ میرے اوپر چھا گئی ۔ گھنے‬
‫سیاہ بالوں نے مجھے ڈھک دیا۔ میں یہ بھی بھول گیا‬
‫کہ اس وقت حواالت کے کمرے میں سزا کا منتظر ہوں‬
‫کل میرے ساتھ کیا ہوگا میں یہ نہیں جانتا تھا؟ بسنتی‬
‫کے قرب نے جیسے دنیا سے بیگانہ کر دیا تھا۔‬

‫”پریم“ وہ میرے اندر جذب ہونے لگی۔ اس کی خود‬


‫سپردگی دیکھ کر میں بھی زیادہ دیر بے حس نہ رہا‬
‫سکا۔ خود بخود میرے ہاتھ حرکت میں آگئے۔ اس کی‬
‫نرم و نازک انگلیاں میرے بالوں میں الجھ گئیں۔‬
‫ماتھے پر ہاتھ لگا تو زخم میں درد کے باعث میرے‬
‫منہ سے سسکاری سی نکل گئی۔‬
‫کیا ہوا میرے میت؟ مجھ سے پریم کرونا“ اس کے‬
‫چین آواز آئی۔‬

‫”تمہارا ہاتھ لگنے سے زخم میں درد شروع ہوگیا ہے‬


‫میرا سارا جسم زخموں سے چور ہے اس حالت میں‬
‫میں کیسے تمہاری”خواہش پوری کر سکتا ہوں؟“‬
‫میں نے کراہتے ہوئے کہا۔‬
‫”پریتم! ابھی تمرے سارے دکھ سکھ بدل دیتی ہوں‪،‬‬
‫یدی تم آگیا دو تو میں اس سمےان پاپیوں کے‬
‫گھربھسم کر دوں جنہوں نے تم پر انیائے کیا ہے“‬
‫اس کے لہجے میں اپنائیت تھی۔ شاید وہ میرے‬
‫زخموں کو ٹھیک کرنا چاہتی تھی کہ مجھے انسپکٹر‬
‫کی بات یاد آئی اس نے کہا تھا کہ وہ اسی حالت میں‬
‫مجھے جج صاحب کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہے۔ یہ‬
‫میرے حق میں بہتر تھا۔ جج کی ہمدردی میرے ساتھ‬
‫ہوتی۔ یہ خیال آتے ہی میں نے بسنتی کو روک دیا۔‬
‫”ٹھیک ہے پرتم! سب کچھ ایسے ہی رہے گا پرنتو‬
‫تمہیں درد نہیں ہوگا“ اس نے کہہ کر میرے جسم پر‬
‫اپنا کومل ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں اس‬
‫کے ہاتھ کا میرے جسم پر پھرنا تھا کہ یکدم درد سے‬
‫نجات مل گئی۔‬

‫”بسنتی ! میں جانتا ہوں کہ تم ان کے گھروں کو جال‬


‫کر راکھ کر سکتی ہو لیکن کالی داس چاہتا ہے کہ میں‬
‫باعزت طور پر بری ہو جاؤں‪ ،‬اگر تم نے ان کے گھر‬
‫جالئے تو ہو سکتا ہے میں ساری زندگی جیل کی‬
‫سالخوں سے نہ نکل سکوں“ میں نے وضاحت کی۔‬
‫مجھے خطرہ تھا کہ یہ جن زادی کہیں ان سب کے‬
‫گھروں کو نہ جال دے۔ اس کے لئے ایسا کرنا کیا‬
‫مشکل تھا؟‬

‫”پرنتو پاپیوں نے جو تمرے سنگ کیا ہے اس کا بدلہ‬


‫تو انہیں ملنا ہی چاہئے نا“ اس کے لہجے میں اپنایت‬
‫تھی۔‬
‫”لیکن یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے تو ہوا ہے جس‬
‫وقت وہ لوگ مجھے مار رہے تھے تو میں نے کئی‬
‫بار تمہیں پکارا تھا لیکن تم نہ آئیں“ میں نے گلہ کیا۔‬

‫”وہ سب میں نے کالی داس کی اچھا کے انوسار کیا‬


‫تھا وہ رادھا کو پراپت کرنا چاہتا ہے اس نے مجھے‬
‫وچن دیا ہے یدی میں اس سمے اس کی سہائتا کروں‬
‫تو وہ رادھا کو اپنے بس میں کر لے گا پھر ہمیں ایک‬
‫دو جے سے پریم کرنے میں کوئی روک نہ ہوگی“ وہ‬
‫میری بانہوں میں سما گئی۔ اس رات کی کہانی بھی‬
‫عجیب ہے۔ حواالت کے کمرے میں اس قسم کی رات‬
‫شاید ہی کسی نے بسر کی ہو۔ ٹھیک ہے میں اس وقت‬
‫مجبور تھا لیکن سچ پوچھیں تو بسنتی کے وصال کے‬
‫لئے میں خود بھی بے چین تھا۔ مجبوری اپنی جگہ‬
‫لیکن اس میں میری نفسانی خواہش کو بھی دخل تھا۔‬
‫صبح دم جب وہ جانے لگی تو بڑے پیار سے مجھے‬
‫تسلی دی۔‬
‫”چنتا نہ کرنا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا“ اس کے‬
‫جانے کے بعد الئٹ خود بخود آن ہوگئی۔ لیکن اب میں‬
‫ان باتوں کا عادی ہو چکا تھا۔ حیران ہونا میں نے‬
‫چھوڑ دیا تھا۔ روشنی میں میں نے اپنے زخموں کا‬
‫جائزہ لیا جن سے خون نکل کر جم گیا تھا۔ زخم‬
‫ویسے ہی تھے لیکن درد یا تکلیف کا نام و نشان نہ‬
‫تھا۔ یہ بھی ایک عجیب تجربہ تھا۔ تھکن سے میرا برا‬
‫حال تھا۔ بسنتی جو کچھ میرے لئے کر رہی تھی اس‬
‫کا اس نے پورا پورا ”معاوضہ “ وصول کیا تھا ۔ نہ‬
‫جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ کسی نے جھنجھوڑ کر‬
‫مجھے جگا دیا۔ نیند بھی کتنی مہربان شے ہے ہر دکھ‬
‫تکلیف خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی‪ ،‬اس سے نجات دال‬
‫دیتی ہے۔ میں آنکھیں کھول کر دیکھا سپاہی کرم دین‬
‫مجھے آوازیں دے رہا تھا۔‬

‫”بھئی سچ پوچھ تو میں نے کسی کو حواالت کے‬


‫کمرے میں اتنے آرام سے اور گہری نیند سوتے ہیں‬
‫دیکھا۔ مجھے بھی پولیس میں آئے ہوئے دس سال‬
‫سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے“ اس نے حیرت سے‬
‫کہا۔ دن کا اجاال ہر طرف پھیال ہوا تھا۔‬
‫”میں ناشتہ التاہوں“ وہ جانے لگ تو میں نے کہا‬
‫مجھے رفع حاجت کے لئے جانا ہے۔ کچھ دیر وہ‬
‫سوچتا رہا پھر بوال ”اچھا آؤ میرے ساتھ۔“ میں اس‬
‫کے پیچھے باہر نکل آیا۔ وہ مجھے لے کر ایک طرف‬
‫چل پڑا‬
‫ایک قطار میں بیت الخالء بنے ہوئے تھے۔‬

‫’’فٹا فٹ فارغ ہو جاؤ‘‘ اس نے ایک دروازے کی طرف‬


‫اشارہ کیا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ فارغ ہو کرمیں نے اس‬
‫سے کہا۔‬

‫’’کرم دین ایک اور احسان میرے اوپر کر دو‘‘ وہ‬


‫سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔‬
‫’’میں روزانہ غسل کرتا ہوں برسوں سے عادت ہے‬
‫اگر مہربانی کر سکو تو ۔۔۔‘‘ اسنے مشکوک نظروں‬
‫سے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’تم توکہتے تھے میں نے ’’کچھ نہیں کیا‘‘ پھر نہانے‬


‫کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔‘‘ میں شرم سے کٹ کر رہ‬
‫گیا۔‬

‫’’مم۔۔۔میں نے بتایا ہے ناکہ مجھے روزانہ نہانے کی‬


‫عادت ہے۔‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے کہا۔‬

‫’’اچھا آؤ تم بھی کیا یاد کرو گے کس سخی سے‬


‫واسطہ پڑا تھا‘‘ پھر میری جیب پر نظر ڈالی۔‬

‫’’جیب میں کچھ مال پانی بھی ہے یا خالی خولی ہو۔‘‘‬


‫’’تم تو جانتے ہو کہ مجھے کس حالت میں لوگ‬
‫تھانے الئے تھے میرے ۔۔۔‘‘ میں اسے بتانے ہی لگا‬
‫تھا کہ یہ کپڑے بھی مجھے تھانے میں ہی میسر آئے‬
‫ہیں لیکن فوراً ہی بات بدل لی۔ مجھے معلوم تھا کہ‬
‫محرر نے چھپ کر لباس فراہم کیا ہے۔ وہ جلدی میں‬
‫تھا اس لئے اس نے میری بات پر توجہ نہ دیا ور‬
‫مجھے ایک طرف لے چال۔ اسی طرح ایک قطارمیں‬
‫حمام بنے ہوئے تھے بنیان اور دھوتی پہنے کئی‬
‫سپاہی جا بجا مسواک کر رہے تھے کچھ ایک دوسرے‬
‫سے باتوں میں مصروف تھے۔ چار غسل خانے تھے‬
‫لیکن خالی کوئی بھی نہ تھا۔‬

‫’’اوئے کرم دین!‘‘ ایک سپاہی نے اسے آواز دی۔‬


‫’’ہاں بھئی افضل کیا بات ہے؟‘‘ کرم دین نے کہا۔‬
‫’’اوئے اس پھٹل (زخمی) بندے کو کدھر لیے پھر‬
‫رہے ہو؟ اسکی پٹی شٹی نہیں کرائی۔ یہ تو بہت زخمی‬
‫ہے‘‘ اس نے میری طرف دیکھ کرپوچھا۔ کرم دین‬
‫چونک گیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔‬
‫’اوئے سر جی!۔۔۔صاحب نے کہا تھاکہ تمہیں اسی‬
‫حالت میں جج صاحب کے سامنے پیش کرنا ہے اگر تم‬
‫نہا لو گے تو زخموں پرسے سارا خون شون تو صاف‬
‫ہو جائے گا نا‘‘ اس نے مجھے سمجھایا۔‬

‫’’چلو۔۔۔چلو پیشی بھگتنے کے بعد نہا لینا گھرجا کر‘‘‬


‫یہ کہہ کر وہ جلدی سے واپس چل پڑا۔ سپاہی مجھے‬
‫حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جو لباس میں نے پہنا ہوا‬
‫تھا شاید وہ کسی سپاہی کاتھا۔۔۔سفید رنگ کا کرتا‬
‫شلوار‪ ،‬جو میرے زخموں سے نکلنے والے خون سے‬
‫سرخ ہو رہا تھا۔ میں تیز تیز چل رہا تھا حاالنکہ جتنے‬
‫زخم میرے جسم پر لگے تھے انکی موجودگی میں ہلنا‬
‫جلنا بھی مشکل تھا۔ اور یہی بات ان کے لئے باعث‬
‫حیرت تھی لیکن وہ تونہیں جانتے تھے کہ یہ کرشمہ‬
‫بسنتی کا ہے۔ وہ مجھے بڑا جی دار سمجھ رہے تھے‬
‫جو اسقدر زخمی ہوکر بھی میں بالکل نارمل انداز میں‬
‫چل پھر رہا تھا۔ جب ہم واپس حواالت کے کمرے میں‬
‫پہنچے تو چارپائی اور بستر غائب تھے کرم دین‬
‫مجھے چھوڑ کرچال گیا اس بار اسنے باہر سے تاال‬
‫لگا دیا تھا۔ مجھے بیٹھے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی‬
‫تھی کہ باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ آنے والے‬
‫کئی تھے۔ کرم دین دروازہ کھول کر ایک طرف ہٹ گیا۔‬
‫سب سے پہلے وہی انسپکٹر اندر داخل ہوا جس نے‬
‫مجھے رات کھانا چارپائی اور بستر فراہم کیا اور اپنا‬
‫نام عادل بتایا تھا۔ اس کے پیچھے ڈی ایس پی تھا۔‬
‫اسکی نظریں برچھی کی طرح میرے جسم کے آر پار‬
‫ہو رہی تھی۔ شکل سے ہی وہ تند خو اور غصیال لگتا‬
‫تھا۔‬
‫’’سر! بہت بری طرح ان لوگوں نے اسے مارا ہے‘‘‬
‫انسپکٹر نے دبے دبے لہجے میں کہا۔‬

‫’’اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں اسے جان سے مار‬


‫دیتا۔ یہ سزا تو اسکے لئے کچھ بھی نہیں آج مجھے‬
‫اس کا ریمانڈ لینے دو پھر دیکھنا میں اسکا کیا حشر‬
‫کرتا ہوں۔‘‘ وہ زہریلے لہجے میں بوال۔‬
‫’سر! اس کے بقول یہ سب شرارت ریٹائرڈ ڈی ایس پی‬
‫عمر حیات کی ہے۔ رات میری پروفیسرصاحب کے‬
‫ساتھ بھی بات ہوئی تھی انہوں نے بڑے وثوق سے‬
‫کہا ہے کہ وہ اسے بڑی اچھی طرح جانتے ہیں یہ اس‬
‫قسم کا انسان نہیں۔۔۔پانچ وقت کا نمازی اور نیک آدمی‬
‫ہے۔‘‘‬

‫انسپکٹر بھرپور طریقے سے میرا دفاع کر رہا تھا۔ نہ‬


‫جانے یہ سب کچھ وہ اپنی فطرت کی باعث کہہ رہا تھا‬
‫یا اس میں کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔‬
‫’پروفیسر صاحب آج عدالت میں بھی آئیں گے‘‘‬
‫انسپکٹر نے بتایا۔‬

‫’’تمہاری تقریر ختم ہوگئی یا ابھی باقی ہے؟‘‘ ڈی ایس‬


‫پی کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔ انسپکٹر کا چہرہ‬
‫سرخ ہوگیا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪39‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫سر! میں تو آپ کو رپورٹ پیش کر رہاتھا کہ اب تک‬
‫میں نے کیا معلوم کیا ہے؟‘‘ وہ جز بزہو کر بوال۔‬
‫’’اس کی مرہم پٹی وغیرہ کیوں نہیں کرائی گئی‘‘ ڈی‬
‫ایس پی نے مجھے گھورتے ہوئے انسپکٹر سے‬
‫سوال کیا۔‬
‫’’سر !آپ نے خود ہی توکہا تھا کہ اسکے قریب بھی‬
‫کوئی نہ پھٹکے‘‘ انسپکٹر نے کہا۔‬
‫’’گدھے ہو تم سب‘‘ اسنے ایک قہر بھری نظر مجھ پر‬
‫ڈالی اور تیز تیز قدموں سے باہر نکل گیا۔ اس کے‬
‫جانے کے بعد کرم دین نے دروازے کو تاال لگادیا۔میں‬
‫دوبارہ فرش پر بیٹھ گیا۔‬

‫’’کیوں چنتا کرتا ہے؟‘‘ اچانک میرے پیچھے کالی‬


‫داس کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔ مڑ کر‬
‫دیکھا وہ بڑے اطمینان سے دیوار سے ٹیک لگائے‬
‫بیٹھا تھا۔ اسکے ہونٹوں پر دوستانہ مسکراہٹ تھی۔‬
‫’’ڈی ایس پی بہت غصے میں ہے‘‘ میں نے آہستہ‬
‫سے کہا۔‬
‫’یہ حرامی کیا شے ہے اس کے تو بڑے بھی تیری‬
‫سیوا کریں گے‘‘ کالی داس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔‬
‫پھر ایک طرف منہ کرکے آواز دی۔‬

‫’’بسنتی!‘‘‬
‫’’جی مہاراج‘‘ فورا بسنتی کی مدہر آواز کمرے میں‬
‫گونجی۔ وہ نظروں سے اوجھل تھی۔‬

‫’’ساراپربندہوگیا؟‘‘ کالی داس نے نرم لہجے میں‬


‫پوچھا۔‬

‫’ہاں مہاراج! تمری اچھا کے انوسار‪ ،‬سمے آنے پر‬


‫سب وہاں پہنچ جائیں گے‘‘ بسنتی نے جواب دیا۔‬
‫’’عدالت میں تو نے وہی کچھ کہنا ہے جو کل تھانے‬
‫دار سے کہہ چکا ہے‘‘ کالی داس نے مجھے خاطب‬
‫کیا۔‬

‫’’کیا تم عدالت میں موجود ہو گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’سب تیری اچھا کے انورسار ہوگا نشچنٹ رہ‘‘ اس‬


‫نے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے‬
‫تسلی دی۔ اس کے بعد وہ نظروں سے اوجھل ہوگیا۔‘‘‬
‫کاش میں بھی کالی داس کی طرح پراسرار قوتوں کا‬
‫ماہرہوتا ‘‘ میں دل میں خواہش جاگی۔‬

‫’’خان بھائی!‘‘ میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ عمران‬


‫کی آواز آئی۔ میں نے چونک کردیکھا۔ عمران سالخیں‬
‫پکڑے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے سے افسردگی‬
‫ظاہرہورہی تھی۔ میں جلدی سے اٹھ کر اسے پاس چال‬
‫آیا۔‬
‫’’پروفیسر صاحب نے ایک بہت قابل وکیل کا بندوبست‬
‫تعالی آپ باعزت‬
‫ٰ‬ ‫کیا ہے آپ فکر نہ کریں انشاء ہللا‬
‫بری ہو جایں گے‘‘ وہ آہستہ سے بوال۔‬

‫’’عمران!میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں؟ تم‬


‫نے دوست ہونے کا حق ادا کر دیا‘‘ میری آواز‬
‫بھراگئی۔ عمران کو دیکھ کر مجھے صائمہ اور بچے‬
‫یاد آگئے تھے۔ اسکی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔‬

‫’’خان بھائی! فکرنہ کریں انشاء ہللا فتح ہماری ہوگئی۔‬


‫میں نے اسے بھی وہی کہانی سنا دی جوانسپکٹر کو‬
‫کالی داس کے کہنے پر سنائی تھی۔ وہ حیرت سے منہ‬
‫کھولے سنتا رہا۔‬

‫’’لوگ دنیاوی مفادکے لئے اتنا بھی گر سکتے ہیں‬


‫مجھے گمان تک نہ تھا۔ خیر کوئی بات نہیں دشمنوں‬
‫کو شکست اور ہمیں فتح نصیب ہوگئی انشاء ہللا۔ دکھ‬
‫اس بات کاہے کہ آپ نے مجھے ہر بات سے بے خبر‬
‫رکھا۔ اگر اس حرامزادے نے آپ کودھمکی دی تھی تو‬
‫آپ مجھے بتاتے‘‘ اس نے مجھے یقین دالنے کے بعد‬
‫گلہ کیا۔‬

‫پھر کہنے لگا’’وکیل صاحب بہت قابل ہیں۔ ہو سکتاہے‬


‫پہلی پیشی پر ضمانت نہ ہو سکے لیکن آپ فکر نہ‬
‫کریں ہم سب آپ کے ساتھ ہیں‘‘ اس نے مجھے تسلی‬
‫دی۔‬

‫’’ایسی بات نہیں ہے عمران ! میں بے قصور ہوں‬


‫مجھے یقین ہے جب جج صاحب کو اصل حاالت کا علم‬
‫ہوگا تووہ مجھے باعزت بری کردیں گے‘‘ میں نے‬
‫یقین سے کہا۔‬

‫’’ہللا کرے ایسا ہی ہو‘‘ عمران نے کہا۔‬


‫’’اچھا میں چلتا ہوں بڑی مشکل سے محررکی جیب‬
‫گرم کرکے میں نے مالقات کا وقت لیا ہے ۔ عدالت میں‬
‫مالقات ہوگی۔‘‘‬
‫اسکے جانے کے تھوڑی دیر بعد انسپکٹر عادل کرم‬
‫دین کے ساتھ آیا۔ مجھے عدالت نے جانے کا وقت آگیا‬
‫تھا۔‬
‫’’جی تو نہیں چاہتا کہ میں تمہیں ہتھکڑی پہناؤں لیکن‬
‫مجبوری ہے ڈی ایس پی ساتھ جائے گا‘‘ اسنے‬
‫معذرت کی۔ میں نے ا س کی ہمدردی پر اسکا شکریہ‬
‫اداکیا۔ کرم دین نے میرے ہاتھوں میں آہنی زیورپہنا‬
‫دیا۔ باہر الکر مجھے بند گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ گاڑی‬
‫تھانے کی حدود سے نکل کر میری جانی پہچانی‬
‫سڑکوں پر دوڑنے لگی۔ گاڑی کی باڈی میں جالیاں‬
‫لگی ہوئی تھیں۔ میں یونہی باہر جھانکنے لگا میرے‬
‫ساتھ چار سپاہی تھے۔ پندرہ منٹ کے سفر کے بعدہم‬
‫عدالت پہنچ گئے۔ جیسے ہی گاڑی عدالت کے احاطے‬
‫میں داخل ہوئی میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔‬
‫لوگوں کا ایک جم غفیر عدالت میں موجود تھا۔ ان کے‬
‫ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پرمیرے خالف مختلف‬
‫عبارتیں درج تھیں۔ اس کے عالوہ لوگ نعرے لگا‬
‫رہے تھے ۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہ چیخ چیخ‬
‫کر میرے خالف نعرے لگا رہی تھیں۔‬

‫’’عزتوں کے لٹیرے کو پھانسی دو۔ ایسے درندوں کو‬


‫زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔‬

‫گاڑی پر نظر پڑتے ہی ان کے نعروں میں تیزی آگئی۔‬


‫کئی جو شیلے تو پولیس کا گھیرا توڑ کر گاڑی پر‬
‫حملہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن پولیس نے بڑے منظم‬
‫طریقے سے ان کو کنٹرول کر رکھا تھا۔ گاڑی کو‬
‫بالکل عدالت کے کمرے کے سامنے لے جایا گیا۔ جب‬
‫میں گاڑی سے اترا تو ایک بار پھر لوگوں کا جوش‬
‫بڑھ گیا۔ میرے چہرے کو ایک تولیے سے ڈھک دیا‬
‫گیا تھا۔ یہ کام انسپکٹر نے کیا تھا۔ جس کی وجہ اس‬
‫نے یہ بتائی تھی‬
‫کہ پریس فوٹو گرافرز میری تصویر بنانا چاہتے ہیں۔‬
‫کمرہ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کالی داس کے‬
‫یقین دالنے کے باوجود میرا دل زور زور سے دھڑک‬
‫رہا تھا۔ ان پراسرار قوتون کے مالک لوگوں کی‬
‫مجبوریاں بھی بعض اوقات آڑے آجاتی تھیں جیسا کہ‬
‫رادھا کسی جاپ کی وجہ سے نہ آسکتی تھی۔ میرے‬
‫سینے سے ایک آہ نکل گئی ۔اگر وہ ہوتی تو نوبت‬
‫یہاں تک کبھی نہ پہنچتی۔‬
‫سارامیڈیامنہ تکتا رہ گیا۔ کیونکہ صحافیوں کو اندر‬
‫داخل نہ ہونے دیا گیا تھا۔ کٹہرے میں کھڑا کرکے‬
‫میری ہتھکڑی کھول دی گئی۔ جج صاحب اپنی کرسی‬
‫پر تشریف فرما تھے۔ صبح تھانے میں پروفیسر‬
‫صاحب کا بھیجا ہوا وکیل مجھ سے وکالت نامے پر‬
‫دستخط کروا گیا تھا۔ وہ جنگلے کے ساتھ کھڑا تھا۔‬
‫جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی اس نے مسکرا کر‬
‫میری طرف دیکھا اور اشارے سے مجھے حوصلہ دیا۔‬
‫اسکے ساتھ ڈسکس کرنے کا موقع مجھے نہیں دیا‬
‫گیا تھا۔ اس کام میں رکاوٹ ڈی ایس پی نے ڈالی تھی‬
‫جو سبین کے والد صاحب کا شاگرد تھا اور سبین کو‬
‫اپنی بہنوں کی طرح چاہتا تھا۔ وہ بھی ایک طرف کھڑا‬
‫تھا۔ انسپکٹر عادل کی موجودگی سے مجھے کچھ‬
‫حوصلہ تھا۔ میری نظریں چاروں طرف کالی داس کو‬
‫تالش کر رہی تھیں۔ اس نے کہا تھا وہ بروقت عدالت‬
‫پہنچ جائے گا۔ اگر وہ نہ آسکا تو؟ میرے دل میں یہ‬
‫خدشہ بہرحال موجود تھا۔ کہیں وہ مجھے دھوکہ تو‬
‫نہیں دے دے گا؟ مختلف قسم کے دسو سے میرے دل‬
‫میں چکرا رہے تھے۔ کمرے میں لوگوں کی دبی دبی‬
‫سرگوشیں گونج رہی تھیں۔ جج صاحب نے ہتھوڑا میز‬
‫پر مارا۔‬
‫’آرڈر۔۔۔آرڈر مقدمے کی کارروائی کا آغاز کیا جائے‘‘‬
‫ایک پختہ عمر وکیل اٹھ کر جج کے آگے جھکا اور‬
‫اپنا تعارف سبین کے وکیل کی حیثیت سے کرواتے‬
‫ہوئے اجازت چاہی۔ کالی داس ابھی تک نہیں پہنچا تھا۔‬
‫اس نے مجھے کچھ خاص ہدایت نہیں تھی کہ مجھے‬
‫عدالت میں کیا بیان دینا ہے۔ اس سے پہلے زندگی میں‬
‫اس قسم کے حاالت کا سامنا نہ ہوا تھا مجھے کچھ‬
‫معلوم نہ تھاکہ کیا کہنا ہے؟ بس لے دے کر وہی ایک‬
‫کہانی تھی جو میں نے انسپکٹر عادل کو سنائی تھی۔‬
‫جج نے ایک سرسری نظر میرے اوپرڈالی پھر چونک‬
‫گیا۔ بغور میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’اسے کس نے اس بری طرح مارا ہے؟‘‘‬

‫میرا وکیل فوراً اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔’’جناب عالی! آپ‬


‫دیکھ رہے ہیں کہ کس بری طرح میری موکل کو‬
‫زدوکوب کیا گیا۔ ابھی تو اس کا جرم ثابت نہیں ہوا اس‬
‫کے باوجود اس اسے کس بری طرح تشدد کانشانہ‬
‫بنایا گیا ہے۔ یورآنر! درندگی کی انتہا ہے کہ میرے‬
‫موکل کو ادھوموا کرکے تھانے لے جا کر بند کر دیا‬
‫گیا‘‘ میرے وکیل نے بڑے مضبوط لہجے میں کہا۔‬

‫’’اس کا یہ حال کس نے کیا۔۔۔؟‘‘ جج نے ڈی ایس پی‬


‫کی طر ف دیکھ کر سوال کیا ۔‬

‫’’یور آنر! جس درندگی کا مظاہرہ اس شخص نے کیا‬


‫ہے جس طرح اس نے ایک معصوم کنواری لڑکی کی‬
‫عزت لوٹ کر اسے تباہ کر دیا‪ ،‬اس کے مقابلے میں‬
‫تو اسے کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ اگر میرے اختیار میں‬
‫ہوتا تو اس درندے کو موت کی سزا دیتا‘‘ اس کے‬
‫لہجے میں میرے لئے زہر بھرا ہوا تھا۔ اسکی بات سن‬
‫کرجج کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ وہ سخت نظروں‬
‫سے اسے گھورتے ہوئے بوال۔‬
‫میرا خیال ہے میں یہ کرسی چھوڑ کر اس پر آپ کو‬
‫بٹھا دوں کیونکہ آپ کے اندر مجھ سے بہتر فیصلہ‬
‫کرنے کی صالحیت ہے۔ کیا قانونا ً آپ کو اس بات کی‬
‫اجازت دیتا ہے کہ جرم ثابت ہوئے بغیر کسی بھی‬
‫شخص کو اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا جائے؟ کیا آپ‬
‫کو وردی اسلئے دی گئی ہے کہ انسانوں کی حفاظت‬
‫کرنے کے بجائے انہیں موت کے منہ میں پہنچا دیں؟‘‘‬
‫آہستہ آہستہ جج کا لہجہ تیز ہوتا گیا۔‬

‫’’میرا خیال تو یہ ہے کہ آپ اس عہدے کے الئق نہیں‬


‫ہیں۔ کیوں نہ آپ کو معطل کر دیا جائے یا آپ کی ترقی‬
‫معکوس کرکے آپ کو دوبارہ تھانے دار بنا دیا‬
‫جائے۔‘‘ ڈی ایس پی کے الفاظ نے جج کو چراغ‬
‫کردیاتھا۔‬
‫’جج۔۔۔جنا۔۔۔جناب! میں معافی چاہتا ہوں دراصل جس‬
‫لڑکی پر اس درندے نے ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں وہ‬
‫میری منہ بولی بہن ہے‘‘ وہ اپنی چوکڑی بھول گیا۔‬

‫’’جس وقت ملزم اس لڑکی کی عزت رہا تھا آپ وہاں‬


‫موجود تھے؟ کیا آپ نے اسے رنگے ہاتھوں گرفتار‬
‫کیا ہے؟‘‘ جج نے سخت لہجے میں پوچھا۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ :‬شہبازشریف کی نیب پیشی کے موقع پر‬


‫گرفتاری کا خدشہ لیکن کیا وہ ضمانت قبل از گرفتاری‬
‫کروائیں گے یا نہیں ؟ فیصلہ کرلیا گیا‬
‫’’نن۔۔۔نہیں جناب! لیکن میرا تجربہ کہتا ہے یہ واقعی‬
‫مجرم ہے‘‘ وہ بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔‬

‫’’اگر آپ کا تجربہ اتنا وسیع ہے تو آپ واقعی میری‬


‫اس سیٹ کے حقدار ہیں‘‘ جج کے طنزیہ لہجے سے‬
‫اس کا چہرہ خفت سے سرخ ہوگیا۔‬
‫’’آئندہ خیال رہے یہ عدالت ہے اس قسم کے الفاظ‬
‫بولنے سے پرہیز کریں درندے کی اصطالح آپ نے‬
‫ملزم کے لئے کیوں استعمال کی جبکہ آپ نے اسے‬
‫درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔‘‘ جج نے‬
‫اسے ایک بار پھر لتاڑا۔‬

‫’’کیسے کیسے نکمے اور جاہل لوگ پولیس میں‬


‫بھرتی ہو کر آجاتے ہیں‘‘ اس کی واضح بڑبڑاہٹ‬
‫سنائی دی۔ ڈی ایس پی پیچ و تاپ کھا رہا تھا لیکن‬
‫ظاہر ہے کچھ کر نہ سکتا تھا یہ عدالت تھی۔۔۔تھانہ‬
‫نہیں ایک منٹ میں اسکی وردی اتر سکتی تھی۔‬
‫اچانک جج کے پیچھے کالی داس نمودارہوا۔ اسے‬
‫دیکھ کر میں نے اطمینان کی سانس لی۔ ظاہر ہے وہ‬
‫لوگوں کی نظروں سے اوجھل تھا ورنہ اسے وہاں‬
‫کون ٹھہرنے دیتا۔ وہ جج کی کرسی کے پیچھے بالکل‬
‫خاموش کھڑا تھا۔ حسب معمول اس نے ایک دھوتی‬
‫لنگوٹی کی صورت میں باندھ رکھی تھی۔ سامنے والی‬
‫کرسیوں کی قطار میں ڈی ایس پی عمرحیات‪ ،‬ساجدا‬
‫ور میرے دیگر محلے دار بیٹھے تھے۔ میرے وکیل‬
‫نے جج سے گواہوں سے سوال پوچھنے کی اجازت‬
‫چاہی جج نے سر ہال کراجازت دے دی۔سب سے پہلے‬
‫اس نے میرے پہلے قریبی ہمسائے کوکٹہرے میں‬
‫بالیا۔ اس نے سچ بولنے کا حلف اٹھایا۔ اتنا عرصہ‬
‫گزرنے کے بعد میں یقین سے تونہیں کہہ سکتا۔ غالبا ً‬
‫میرے وکیل کانام امجدصدیقی تھا۔ وہ ایک معمر اور‬
‫تجربہ کاروکیل تھا۔ اس نے غور سے میرے ہمسائے‬
‫کودیکھا۔‬

‫’’آپ کانام؟‘‘ اس کی بھاری آواز کمرہ عدالت میں‬


‫گونجی جہاں سکوت مرگ طاری تھا۔‬

‫’’محمد اسلم‘‘ اس نے جواب دیا۔‬


‫کیاکام کرتے ہیں؟ میرا مطلب ہے آپ کاذریعہ معاش کیا‬
‫ہے؟‘‘ وکیل نے دوسرا سوال کیا۔‬

‫’’میں امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتاہوں؟‘‘‬


‫’’عدالت کو مختصر الفاظ میں بتائیے کہ آپ نے میرے‬
‫مؤکل فاروق خان کو کس حالت میں دیکھا جب آپ‬
‫وہاں پہنچے۔ ساتھ میں یہ بھی واضح کیجئے کہ آپ‬
‫کو کس طرح معلوم ہوا کہ میرا موکل اس وقت کسی‬
‫لڑکی کی عزت لوٹ رہا ہے؟‘‘‬
‫کالی داس نے اسلم کی طرف منہ کرکے پھونک ماری۔‬
‫’’جناب! میں نے سچ بولنے کی قسم کھائی ہے اس‬
‫لئے مزید جھوٹ نہیں بول سکتا۔‘‘ اسلم کی بات نے‬
‫سب کوچونکا دیا۔‬

‫میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔مجھے تو عمر حیات صاحب‬


‫نے کہا تھا کہ فاروق ایک لڑکی کی عزت لوٹ رہاتھاکہ‬
‫ہم نے اسے موقع پر پکڑ لیا۔ تم نے کل عدالت میں‬
‫گواہی دینا ہے کہ تم نے ایسا ہوتے خود اپنی آنکھوں‬
‫سے دیکھا تھا۔ جناب! میں نے تو اپنی آنکھوں سے‬
‫کچھ نہیں دیکھا ۔پھر میں کیسے کہہ سکتاہوں؟‘‘ اس‬
‫پرانہوں نے مجھے دھمکی دی اگر تم نے ایسا نہ کیا‬
‫تو میں تم پر کوئی الزام لگا کر تمہیں تھانے بند کروا‬
‫دوں گا ۔میری بڑی پہنچ ہے۔ عالقے کا ایس پی میرا‬
‫دوست ہے۔ جناب میں سیدھا سادہ بزنس مین ہوں ۔ان‬
‫الجھنوں میں نہیں پڑنا چاہتا لیکن چونکہ ہمارے‬
‫معاشرے میں پولیس کے اختیارات کوسبھی جانتے‬
‫ہیں اس لئے میں چال آیا۔ لیکن جب یہاں آکر میں نے‬
‫قسم کھائی تو میرے ضمیرنے مجھے اجازت نہ دی کہ‬
‫میں جھوٹ بولوں ‘‘ اتناکہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔‬

‫’’کیا بکواس کر رہے ہو اسلم؟ جب ہم فاروق کے بیڈ‬


‫روم میں داخل ہوئے تو کیا تم میرے ساتھ موجود نہ‬
‫تھے؟‘‘عمر حیات حلق کے بل چیخا۔ اسے گمان ہی نہ‬
‫تھا اسلم اس طرح جھوٹ بولے گا۔‬

‫’’آرڈر۔۔۔آرڈر۔۔۔مسٹر اس بات کو دھیان میں رکھو یہ‬


‫کمرہ عدالت ہے۔ اگر اب تم نے اخالق سے گری ہوئی‬
‫کوئی بات کہی تو میں تمہیں توہین عدالت کے جرم‬
‫میں سزا دوں گا‘‘ جج نے برہمی سے کہا۔‬
‫’سر! یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اس نے خود اپنی‬
‫آنکھوں سے سب کچھ ہوتے دیکھا تھا۔ اسکے عالوہ‬
‫یہ سب لوگ(اس نے اپنے دائیں بائیں بیٹھے افراد کی‬
‫طرف اشارہ کیا) بھی اس بات کے گواہ ہیں۔ اس نے‬
‫احتجاج جاری رکھا۔‬

‫’’ان کی باری آنے پر ان سے بھی پوچھا جائے گا۔ فی‬


‫الحال آپ خاموش رہیں‘‘ جج نے اس کو جھڑک دیا۔‬
‫حتی کہ‬
‫لوگوں کے منہ حیرت سے کھلے ہوئے تھے۔ ٰ‬
‫میرے وکیل کی آنکھوں میں بھی حیرت تھی۔ گواہ‬
‫منحرف ہونا اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی لیکن‬
‫جس اطمینان سے اسلم نے عمر حیات کی بات کو‬
‫جھٹالیا تھا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔‬

‫’’مجھے کچھ اورنہیں پوچھنا جناب عالی‘‘ میرے‬


‫وکیل نے سرکو خم کرکے کہا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ‬
‫گیا۔‬
‫’’آپ گواہ سے کوئی سوال کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ جج نے‬
‫سبین کے وکیل سے پوچھا۔‬

‫’’نہیں جناب‘‘ اس کالہجہ شکست خوردہ تھا۔‬

‫جج صاحب نے میرے وکیل کو باقی گواہان پر جرح‬


‫کرنے کی اجازت دے دی۔ وہ باری باری گواہان کو‬
‫بالتا گیا سب نے ہی ایک جیسا بیان دیا کہ ڈی ایس پی‬
‫نے انہیں دھمکایا تھا کہ اس کے کہنے پر گواہی نہ‬
‫دو گے تو تم لوگوں کو تھانے میں بند کروا دوں گا۔‬
‫عمرحیات کی حالت دیدنی تھی۔ حیرت‪ ،‬غصے اور بے‬
‫چارگی کی تصویر بنا وہ سیٹ پرپہلو بدل رہا تھا۔‬
‫وکیل مخالف نے اپنی فیس حالل کرنے کی خاطر کچھ‬
‫گواہان سے سواالت کئے بلکہ کافی بحث بھی کی لیکن‬
‫کسی بھی طرح انہیں اپنے پہلے بیان سے نہ ہٹا سکا۔‬
‫جج کی ہمدردی میری حالت دیکھ کر ہی مجھے سے‬
‫ہوگئی تھی۔ اس پرجب گواہان بھی مکرگئے تو اس نے‬
‫خشمگیں نظروں سے دونوں‪ ،‬آن ڈیوٹی اور ریٹائر ڈی‬
‫ایس پیز کو دیکھا۔ سب سے آخرمیں میرے وکیل نے‬
‫سبین کو کٹہرے میں بالنے کی اجازت چاہی جس پر‬
‫جج صاحب نے سبین کے وکیل کی طرف دیکھا اس‬
‫نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ سبین کو بالیا گیا۔ جب وہ‬
‫کٹہرے میں آئی تو اس کا چہرہ ترو تازہ گالب کی‬
‫طرح کھالہوا تھا۔ کسی طور وہ ایسی لڑکی نہ دکھائی‬
‫دے رہی تھی جس کے ساتھ ایک روز قبل ایسا‬
‫اندوہناک سانحہ گزارا ہوا۔ یہ بھی کالی داس کی‬
‫جادوئی قوت کا کرشمہ تھا۔ جج صاحب کی آنکھوں‬
‫میں حیرت تھی۔ کٹہرے میں آنے کے بعد میرا وکیل‬
‫اس کے سامنے پہنچ گیا۔‬

‫’’آپ کا نام؟‘‘‬

‫’’جی میرا نام سبین امجد ہے امجدمیرے والد ہیں‘‘‬


‫اس نے واضح کیا۔‬
‫’’کٹہرے میں کھڑے صاحب کو آپ جانتی ہیں؟‘‘ وکیل‬
‫نے میری طرف اشارہ کیا۔‬
‫جی ہاں جناب! یہ فاروق صاحب ہیں میرے باس‘‘ اس‬
‫نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔ جج بڑی گہری‬
‫نظروں سے سبین کی طرف دیکھ رہاتھا۔‬

‫’’کیاآپ عدالت کو بتانا پسندکریں گی کل آپ کے ساتھ‬


‫کیا واقعہ پیش آیا تھا؟‘‘ وکیل نے اس کے چہرے پر‬
‫نظر جما کر سوال کیا۔‬
‫’ڈی ایس پی جمال قریشی میرے منہ بولے بھائی ہیں‬
‫اور میرے ابوکے شاگرد بھی ۔ ان کا ہمارے گھر‬
‫آناجانا ہے۔ تین چار دن پہلے شام کے وقت آئے اور‬
‫کہنے لگے مجھے کچھ شاپنگ کرنا ہے میرے ساتھ‬
‫بازار چلو‘‘ اس نے ایک نظر جمال قریشی پر ڈالی جو‬
‫الجھی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھا رہا تھا‬
‫پھر سلسلہ کالم جوڑا۔‬

‫’’میں ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر بازار چلی گئی۔‬


‫انہوں نے کچھ شاپنگ اپنے لئے کی۔ ایک دو چھوٹی‬
‫چھوٹی چیزیں مجھے لے کر دیں ۔اس کے بعد ہم ایک‬
‫ہوٹل میں کھانا کھانے چلے گئے ۔ کھانے کے بعد‬
‫انہوں نے مجھ سے کہا۔ میرا ریٹائرڈ ڈی ایس پی عمر‬
‫حیات ایک بنگلہ خریدنا چاہتا ہے لیکن اس میں‬
‫تمہارے باس فاروق خان رہائش پذیر ہیں۔ہم نے ان‬
‫سے کئی بار درخواست کی ہے کہ اگر آپ کوئی دوسرا‬
‫مکان تالش کرلیں تو پروفیسرصاحب یہ بنگلہ ہمیں‬
‫فروخت کرنے پر تیار ہیں لیکن وہ نہیں مانتے۔ اگر تم‬
‫ہماری مدد کرو تویہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ میں نے‬
‫کہا بھائی ! اس سلسلے میں میں آپ کی کیا ہیلپ کر‬
‫سکتی ہوں؟ اس پر یہ کہنے لگے اگر تم ان سے کہو‬
‫تو وہ ضرور مان جائیں گے۔ میں نے کہا یہ مناسب‬
‫بات نہیں۔ ابھی مجھے بینک آئے دو روز ہوئے ہیں‬
‫پھر میں کیسے ان سے یہ بات کہہ سکتی ہوں؟انہوں‬
‫نے کہا اگر تمہارے کہنے پر بھی وہ نہ مانے تو میں‬
‫اپنے دوست کو سمجھا لوں گا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے‬
‫۔میں کل ان سے بات کرلوں گی۔ کہنے لگے کل ہم ان‬
‫کے گھر چلے جائیں گے وہاں بیٹھ کراطمینان سے‬
‫بات ہو جائے گی۔ مجھے حیرت تو ہوئی لیکن میں نے‬
‫زیادہ بحث نہ کی۔ کل دوپہرکے قریب انہوں نے مجھے‬
‫فون کیا کہ میں تھوڑی دیر کے لئے چھٹی لے کر‬
‫آجاؤں۔ جب میں گھرپہنچی تو یہ ابو کے پاس بیٹھے‬
‫تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے چلوتمہارے‬
‫افسر کے گھر چلیں۔ میں نے کہا لیکن وہ تو اس وقت‬
‫ڈیوٹی پر ہیں۔ کہنے لگے تھوڑی دیر پہلے وہ گھر‬
‫چلے گئے ہیں۔ میں ان کیساتھ چل پڑی پہلے ہم ان‬
‫صاحب کے گھر گئے۔ ‘‘ سبین نے عمر حیات کی‬
‫طرف اشارہ کیا جو حیرت سے منہ کھولے سن رہا تھا‬

‫’’ان کے ساتھ جو صاحب بیٹھے ہیں یہ بھی وہاں‬


‫موجود تھے‘‘ اس بار سبین نے ساجدکی طرف اشارہ‬
‫کیا۔‬

‫’’مجھ سے کہنے لگے تم فاروق سے بات کرنا کہ وہ‬


‫یہ بنگلہ خالی کر دیں تاکہ ہم اسے خرید سکیں۔‬
‫مجھے ان کی بات کی سمجھ تونہ آئی لیکن جمال‬
‫بھائی پر چونکہ مجھے اندھا اعتماد تھا اس لئے میں‬
‫نے حامی بھر لی۔ ہم سب فاروق صاحب کے گھر‬
‫پہنچے توانہوں نے کہا تم جاکربات کروہو سکتا ہے‬
‫ہمیں دیکھ کر وہ نہ مانیں‘‘ اسنے ایک بارپھر عمر‬
‫حیات کی طرف اشارہ کیا۔‬
‫’دودنوں کی سروس میں میں نے سر فاروق کو اچھا‬
‫اور سلجھا ہوا شخص پایاتھا اس لئے بے دھڑک اندر‬
‫چلی گئی اسکے عالوہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ‬
‫اس وقت گھرمیں تنہا ہیں۔ سر فاروق نے مجھے‬
‫حیرت سے دیکھا؟ میں ابھی انہیں بتانے ہی لگی تھی‬
‫کہ میں کس مقصد کے تحت آئی ہوں کہ اچانک جمال‬
‫بھائی اور یہ دونوں (اسنے عمر حیات اور ساجد کی‬
‫طرف اشارہ کیا) چند اور افرادکے ساتھ اندر آگئے۔‬
‫آتے ہی انہوں نے سر فاروق کو مارنا شروع کردیا‬
‫اور اس درندے نے‘‘ اس نے ڈی ایس پی جمال‬
‫قریشی کی طرف اشارہ کیا اسکی آواز بھرا گئی۔ کمرہ‬
‫عدالت میں گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ سبین کی‬
‫سسکیاں تیز ہوگئیں کچھ دیر بعد اسنے آنسوصاف‬
‫کیے۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪40‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’’جناب! اس درندے نے مجھے دوسرے کمرے میں‬


‫لے جاکرمیری عزت لوٹ لی۔ ایک بھائی نے بہن کی‬
‫عزت کو تارتار کر دیا۔‘‘ ایک بارپھر اسکی آواز رندھ‬
‫گئی۔‬
‫’میں نے منتیں کیں واسطے دیے لیکن یہ جانوربن‬
‫چکاتھا‘‘ دونوں ڈی ایس پیز کے ساتھ ساجدبھی‬
‫حواس باختہ نظر آرہا تھا۔ اتنا حیران وہ زندگی میں‬
‫کبھی نہ ہوئے ہوں گے جتنے اس وقت نظر آرہے‬
‫تھے۔‬
‫’’سبین! یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟‘‘ جمال قریشی نے چیخ‬
‫اٹھا۔ جج جو سبین کی باتوں سے آبدیدہ نظر آرہا تھا‬
‫اسنے قہربارنظروں سے جمال قریشی کی طرف دیکھا‬
‫اور انسپکٹر عادل کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کرلے۔‬
‫جمال قریشی بری طرح بوکھالگیا۔‬
‫’’سس۔۔۔سر۔۔۔یور آنر! یہ لڑکی جھوٹ بول رہی ہے‘‘‬
‫وہ گڑ بڑا کرچیخا۔‬
‫’’شٹ اپ۔۔۔تم نے اپنے مطلب کے لیے ایک شریف‬
‫لڑکی کو استعمال کرکے معاشرے کے ایک باعزت فرد‬
‫پرگھناؤنا الزام لگایا ۔ اس کے گھر میں گھس کر اسے‬
‫زدوکوب کیا اور سب سے اہم بات یہ کہ تم نے ایک‬
‫شریف لڑکی کی عزت لوٹی۔ ان الزامات کے تحت میں‬
‫تمہاری گرفتاری کا حکم دیتاہوں۔‘‘ انسپکٹر عادل نے‬
‫سپاہیوں کو حکم دیا ۔انہوں نے جلدی سے آگے بڑھ‬
‫کر جمال قریشی کو گرفتارکرلیا۔ اسکا حشر دیکھتے‬
‫ہوئے عمر حیات اور ساجد نے کھسکنے کی کوشش‬
‫کی جس پر انہیں بھی گرفتار کرلیا گیا۔ تھوڑی دیر‬
‫ہنگامہ رہا پھر جج صاحب کے کہنے پر لوگ پرسکون‬
‫ہوگئے۔ دبی دبی سرگوشیاں اب بھی ہو رہی تھیں۔‬
‫سبین اطمینان سے کٹہرے میں کھڑی تھی۔ اس کے‬
‫چہرے پر سکون تھا۔‬

‫کالی داس واقعی زبردست قوتوں کا مالک تھا۔ اس نے‬


‫سارا معاملہ ایسے سلجھا دیا تھا کہ حیرت سے میری‬
‫اپنی عقل گم تھی۔ ایک دوبارہ میرے ضمیر نے مجھے‬
‫مالمت کیا کہ میں نے بے گناہ لوگوں کو پھنسا دیا اور‬
‫خود بری ذمہ ہوگیا۔ لیکن یہ موقع ضمیر کی آواز پر‬
‫کان دھرنے کانہ تھا۔ مجھے باعزت بری کردیاگیا۔‬
‫کالی داس اپنا کام کرکے غائب ہو چکا تھا۔ جب میں‬
‫کمرہ عدالت سے باہر آیا تو صحافیوں نے مجھے اور‬
‫سبین کوگھیرلیا جومیرے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ جب‬
‫لوگوں کو اصل صورت حال معلوم ہوئی تو وہی لوگ‬
‫میرے حق میں نعرے لگانے لگے۔ تھوڑی ہی دیر‬
‫بعدمیں دوبارہ معاشرے کا باعزت فرد بن چکا تھا۔‬
‫جیسے ہی سپاہیوں نے ہمیں صحافیوں کے نرغے‬
‫سے نکاال عمران مجھ سے لپٹ گیا۔ پھر میرے‬
‫زخموں سے چور جسم پرنظر پڑتے ہی وہ الگ ہو‬
‫کربوال۔‬
‫’چلیں خان بھائی گھر چلیں‘‘ وہ بدوقت مجھے لوگوں‬
‫کے نرغے سے نکال کر ٹیکسی میں بٹھانے میں‬
‫کامیاب ہوا۔ جب ہم گھر پہنچے اورنازش مجھے اس‬
‫حالت میں دیکھ کر رونے لگیں۔ عمران نے جلدی سے‬
‫ڈاکٹر کوفون کیا جس نے آکرمیری مرہم پٹی کر دی۔‬
‫تھوڑی دیر بعد صائمہ اور بھائی صاحب پہنچ گئے۔‬
‫عمران کل ہی انہیں فون کرکے سارے حاالت بتا چکا‬
‫تھا۔ گھر آکرمیں نے اسکے کپڑے پہن لیے تھے‬
‫سوائے سر کی ایک پٹی کے باقی پٹیاں لباس میں‬
‫چھپ گئی تھی۔ آنکھ کی سوجن بھی کافی حد تک کم‬
‫ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود صائمہ کا رو رو کر برا‬
‫حال تھا۔ اگر وہ مجھے کل دیکھ لیتی تو نہ جانے اس‬
‫کا کیا حال ہوتا۔ بھائی صاحب میری حالت دیکھ کر‬
‫طیش میں آگئے اسی وقت انہوں نے فون پر حکام باال‬
‫سے بات کی۔ میرا خیال تھا ڈی ایس پی جمال قریشی ‪،‬‬
‫عمر حیات اور ساجد تولمبی مدت کے لئے گئے تھے۔‬
‫رات کا کھانا کھا کر ہم اپنے گھرآگئے۔ بھائی صاحب‬
‫اور بچوں کے سونے کے بعدصائمہ میرے ساتھ لپٹ‬
‫گئی۔‬
‫’اگر مجھے معلوم ہوتاکہ میرے جانے کے بعد یہ کچھ‬
‫ہونا ہے تومیں کہیں نہ جاتی‘‘وہ بلک پڑی۔‬

‫’’ارے۔۔۔تم تو بالکل بچوں جیسی باتیں کر رہی ہو۔ جو‬


‫مصیبت آنی ہوتی ہے وہ آکر رہتی ہے۔ میں تو خوش‬
‫ہوں اگر تم یہاں ہوتیں تو رو رو کر نہ جانے کیا حال‬
‫کرلیتیں؟‘‘ میں نے ہنس کرکہا۔ کافی دیر رونے کے‬
‫بعد جب اس کا جی کچھ ہلکا ہو اتوکہنے لگی۔‬
‫’’فاروق! کہیں یہ سب رادھاکی شرارت تو نہیں؟‘‘ اس‬
‫نے خدشہ ظاہر کیا۔‬

‫’’یہ خیال تمہیں کیسے آیا؟‘‘ اسکی بات پرمیں چونک‬


‫گیا۔‬

‫’’ہو سکتا ہے اپنے مکروہ عزائم میں ناکام ہو کر وہ‬


‫اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہو۔‘‘‬

‫’’کیا کہا جا سکتا ہے؟‘‘ میں نے مبہم سا جواب دیا۔‬


‫’’یہ بھی ہوسکتا ہے ساری شرارت کے پیچھے کھیدو‬
‫چوہڑے کا ہاتھ ہو۔‘‘‬

‫اس نے شرمندگی سے سرجھکا لیا۔’’فاروق !ہماری‬


‫وجہ سے آپ کو اس قدر تکلیف سہنا پڑی۔ آپ ٹھیک‬
‫کہتے ہیں یہ شرارت ضرور اس کالے بھجنگ ہوگی‬
‫کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد وہ سو گئی جس قدر‬
‫ذہنی اور جسمانی اذیت کا سامنا میں نے پچھلے‬
‫چوبیس گھنٹوں میں کیا تھا میرا دل ہی جانتا تھا۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی مجھے کالی داس اور بسنتی کا خیال آیا۔‬
‫دونوں نے رادھا کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے‬
‫ہوئے ایک مکروہ سازش کی اور مجھے پھنسا‬
‫دیا۔۔۔ہاں اس میں قصور وار میں بھی تھا جو بسنتی کو‬
‫حاصل کرنے کی خاطر انسانیت کی سطح سے نیچے‬
‫گر گیا۔‬
‫کچھ بھی ہو کالی داس نے بہرحال مجھے اس مشکل‬
‫صورتحال سے یوں نکال دیا تھا جیسے مکھن میں‬
‫سے بال۔ ہر چند کہ مجھے اس مصیبت میں پھنسانے‬
‫واال بھی وہی تھا لیکن اگر وہ میری مدد نہ کرتا تومیں‬
‫اس کا کیا بگاڑ لیتا۔ لیکن رادھانے میرے ساتھ اچھا‬
‫نہیں کیا تھا۔ اچانک مجھے رادھا کی یاد آئی کہ‬
‫اگرمیں نے کسی عورت سے جسمانی مراسم اختیار‬
‫کیے تو وہ میری مدد نہ کر پائے گی اورمیرے دشمن‬
‫ایسے ہی کسی موقع کے انتظار میں ہیں۔ اس نے‬
‫مجھے وقت سے پہلے ہی خبردار کردیا تھا لیکن‬
‫میری ہوس آہ۔۔۔‬

‫سرد آہ میرے سینے سے خارج ہوگئی۔ میں نے ایک‬


‫نظر صائمہ پر ڈالی اس کا معصوم چہرہ دنیا جہاں کی‬
‫فکروں سے آزاد تھا۔ قصور وارکون تھا۔‬
‫میں خود۔۔۔‬

‫کالی داس اور بسنتی‬


‫یا پھر رادھا۔۔۔؟‬
‫سوچنے سے میرے سر میں درد ہونے لگا تو میں‬
‫نے سر جھٹک کر خیاالت سے چھٹکارہ حاصل کیا اور‬
‫سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مہربان نیند نے اپنی‬
‫آغوش وا کر دی۔ دوسرے دن سارا سٹاف سوائے‬
‫سبین کے میرے گھر آیا۔ مجھے باعزت طور پر بری‬
‫ہونے پر مبارکباد دی اور اس مصیبت پر افسوس کا‬
‫اظہار کیا جو بال وجہ مجھے پیش آئی تھی۔ اب میں کیا‬
‫کہتا؟ بھائی صاحب دو دن رہ کر واپس چلے گئے‬
‫جاتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اصرار کیا کہ ہم‬
‫لوگ ان کے ساتھ واپس چلے جائیں لیکن پروفیسر‬
‫صاحب جن کے ساتھ بھائی صاحب کی اچھی خاصی‬
‫دوستی ہوگئی تھی نے سمجھایا اس طرح چلے جانے‬
‫پر وہ شرمندگی محسوس کریں گے کہ میرے بنگلے‬
‫کی وجہ سے یہ سب کچھ ہوا۔ بچوں سے کہہ دیا گیا‬
‫تھا کہ بابا ایکسیڈنٹ کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔ یہ‬
‫بات انہیں صائمہ نے خود ہی سمجھا دی تھی۔ سبین‬
‫ایک ہفتے کی چھٹی پر تھی۔ اسی دوران ہی اس نے‬
‫اپنی ٹرانسفر کسی اور شہرکرالی۔ اس میں بھی یقینا ً‬
‫کالی داس کی پراسرار قوتوں کو دخل تھا۔‬
‫دن ایک بار پھر پرسکون انداز سے گزرنے لگے۔ میں‬
‫نے بینک جانا شروع کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو تقریبا ً‬
‫پندرہ دن گزرے تھے کہ ایک دن میں جب بینک سے‬
‫واپس آرہا تھا مجھے راستے میں کالی داس نظر آیا۔‬
‫وہ سڑک کے کنارے کھڑا تھا۔ میری گاڑی دیکھ کر‬
‫اس نے رکنے کا اشارہ کیا۔ میں خود بھی رکنے کا‬
‫ارادہ کر چکا تھا کچھ بھی ہو وہ میرا محسن تھا۔‬
‫’تم تو اپنے متر کو بھول ہی گئے‘‘ اس نے ساتھ والی‬
‫سیٹ پر بیٹھتے ہوئے شکوہ کیا۔‬

‫’’کالی داس! ایسی بات نہیں مجھے تمہاری کسی‬


‫ٹھکانے کا علم ہی نہیں پھر میں تم سے کیسے ملتا؟‘‘‬
‫میں نے کہا۔‬

‫’’اب ہم متربن چکے ہیں میرے سارے استھان اب‬


‫تمہرے ہیں‪ ،‬میں کچھ سمے بعد تمہیں کھد ہی اپنے‬
‫سنگ لے جاکردکھا دوں گا۔ اس سمے تو میں تمہیں‬
‫تمہرا وچن یاد دالنے آیا ہوں‘‘ اس نے بے پرواہی‬
‫سے کہا۔‬

‫’’کالی داس میں جب کسی سے وعدہ کر لوں تو اسے‬


‫بھولتا نہیں ہوں۔‘‘‬
‫’’وچن دے کر پھرنا بھلے مانسوں کا کام نہیں۔ رادھا‬
‫کا جاپ کھتم ہونے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ وہ‬
‫آتے ہی ضرور تم سے ملے گی تم کیول اتنا کرنا کہ‬
‫مجھے کھبر کر دینا‘‘ وہ مجھے بڑی گہری نظروں‬
‫سے دیکھ رہا تھا شاید اسے بھی یقین نہ تھا کہ میں‬
‫اپنا وعدہ پورا کروں گا۔‬

‫لیکن میں تمہیں بتاؤ ں گاکیسے؟مجھے توپتا ہی نہیں‬


‫تم کہاں رہتے ہو میرا مطلب ہے میں تم سے رابطہ‬
‫کیسے کروں گا؟‘‘‬

‫’’تم سچے من سے میرا وچارکرلینا میں کھد آجاؤں گا۔‬


‫پرنتو اتنا دھیان رہے کہ رادھا کو دیکھ کرہمیں بھول‬
‫نہ جانا‘‘ اسنے معنی خیز نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا۔‬
‫’’کالی داس میں نے تمہیں کہا تو ہے کہ جب میں کسی‬
‫سے وعدہ کر لیتا ہوں تو اسے نبھانامجھے آتا ہے۔‘‘‬
‫میں نے اسے یقین دالیا۔‬

‫’’دھن باد خان صاحب!‘‘ اسنے کہا۔ گاڑی کی رفتار‬


‫خودبخود آہستہ ہونا شروع ہوگئی۔ باآلخر وہ رک گئی۔‬
‫کالی داس نے اپنی قوت سے اسے روک دیا تھا مقصد‬
‫مجھ پر اپنی برتری ثابت کرنا تھا۔ اسنے دروازہ کھوال‬
‫اور باہر نکل کر ایک طرف چل پڑا۔ میں کچھ دیر اسے‬
‫دیکھتا رہا پھر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس واقعہ‬
‫کے بعد بسنتی نے بھی کوئی رابطہ نہ کیا تھا۔ مجھے‬
‫حواالت کی وہ رات بھولی نہ تھی جب بسنتی نے‬
‫مجھے عنائیتوں سے نوازا تھا۔ اس کا والہانہ پن‬
‫دیوانگی کی حد تک تھا۔ وہ بال شبہ آگ تھی۔ جوانی‬
‫کے جوبن سے بھرا جسم ایسا نہ تھا کہ اسے بھال‬
‫دیاجاتا۔ یہی سوچتا میں گھر میں داخل ہوا۔ بچے حسب‬
‫معمول اپنا ہوم ورک کر رہے تھے۔ کھانا کھانے کے‬
‫بعد ہم کچھ دیر کے لئے پروفیسر صاحب کی طرف‬
‫چلے گئے۔ واپس آکر رات دیر تک میں اور صائمہ‬
‫باتیں کرتے رہے پھر سو گئے۔‬

‫رات کو جانے کونسا پہر تھا کہ میری آنکھ کھل گئی۔‬


‫میں ابھی جاگنے کی وجہ سے سوچ ہی رہا تھا کہ‬
‫میرے کانوں میں بسنتی کی مدہر آواز آئی۔‬
‫’مہاراج! اپنی داسی کو اتنی جلدی بھول گئے؟ کچھ‬
‫جیادہ سمے تو نہیں ہوا کہ میں نے تمری سہائتاکی‬
‫تھی؟‘‘ اسکی شوخ آواز میرے کانوں میں پڑی۔ میرے‬
‫جسم میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ ایک نظر خوابیدہ‬
‫صائمہ کی طرف دیکھ کرمیں نے دبی دبی آواز میں‬
‫پوچھا۔‬

‫’’تم کہاں ہو بسنتی؟َ‘‘‬

‫’’اپنے من میں جھانک کر دیکھو۔۔۔بسنتی کا استھان‬


‫تمرے ہردے میں ہے‘‘ وہ کھکھال کر ہنسی۔‬
‫’’اپنی داسی کو درشن نہ دو گے مہاراج! اتنے کھٹور‬
‫کب سے ہوگئے؟‘‘ وہ حد سے زیادہ شوخ ہو رہی‬
‫تھی۔‬

‫’تم ہوکہاں؟‘‘میں نے بے چینی سے پوچھا۔‬

‫’’وہیں جہاں تمرا اور رادھا کا ملن ہوتا تھا‘‘ اسکی‬


‫خمار آلود سرگوشی میرے کان میں ابھری ۔ میں نے‬
‫آہستہ سے دراز کھول کر سگریٹ کاپیکٹ نکاال اور‬
‫دبے قوموں سے دروازہ کھول کر باہر نکل آیا۔ بہار کا‬
‫موسم شروع ہو چکا تھا۔ فضامیں بھینی بھینی خوشبو‬
‫رچی ہوئی تھی۔ الن میں آکر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔‬

‫’’میں یہاں ہوں‘‘ الن کے نیم تاریک گوشے سے‬


‫بسنتی کی آواز آئی۔ وہ چمبیلی کی بیل کے پاس کھڑی‬
‫تھی۔ قریب پہنچتے ہی وہ لپک کرمیرے گلے لگ گئی۔‬
‫اس کے وجود سے اٹھتی خوشبو مجھے مدہوش کر‬
‫دیا کرتی تھی۔ کافی دیر ہم ایک دوسرے سے لپٹے‬
‫رہے پھر وہ میرا چہرہ اپنے کومل ہاتھوں کے پیالے‬
‫میں تھام کر بولی۔‬

‫’’تم سے دور رہ کر میں کتنی بیاکل رہی ہوں تم‬


‫وچاربھی نہیں کر سکتے۔‘‘‬

‫’’تم سے کس نے کہا تھا کہ دور رہو۔تم تو خود ہی‬


‫چلی گئی تھیں۔ کہاں رہیں انتے دن؟‘‘ میں نے اس کے‬
‫نرم و مالئم ہاتھ تھام لئے۔‬

‫’’سمے کتنا سندر ہے ایسے میں کوئی دو جی بات نہ‬


‫کرو پریتم! کیول پریم کرو‘‘ اس کی آواز بوجھل ہو‬
‫چکی تھی۔‬
‫وہ میرا سوال بڑی خوبصورتی سے ٹال گئی تھی۔ اس‬
‫کے بعد محبت کی زبان میں باتیں ہونے لگیں۔ صبح دم‬
‫جب وہ واپس جانے لگی تو میرا ہاتھ تھام کر بولی۔‬
‫رادھا کے آنے میں تھوڑا سمے رہ گیا ہے۔ یدی تم‬
‫نے مہاراج کالی داس کی آگیا کا پالن نہ کیا توبڑی‬
‫کٹھن گھڑی آپڑے گی‘‘ مجھے لگا وہ اندر سے‬
‫خوفزدہ ہے۔‬
‫’’رادھا کب آئے گی؟‘‘ میرا دل دھڑک اٹھا۔‬

‫’کیول آٹھ دن رہ گئے ہیں اس کا جاپ پورا ہونے میں‬


‫مجھے وشواس ہے وہ سب سے پہلے تمرے درشن‬
‫کرنے آئے گی۔‘‘ بسنتی کے لہجے میں کوئی ایسی‬
‫بات تھی کہ میں چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ میں نے‬
‫اسکی طرف مستسفرانہ نظروں سے دیکھا وہ کسی‬
‫سوچ میں گم تھی۔‬

‫’’بسنتی! میں نے کالی داس کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ‬


‫میں اپنا قول نبھاؤں گا لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں‬
‫آتا کہ وہ خود اتنا طاقتور ہے پھربھی وہ رادھا کو قابو‬
‫نہیں کر سکتا جبکہ میں تو ایک عام سا انسان ہوں‬
‫میں اس سلسلے میں اس کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟ نہ‬
‫تو میں پراسرار قوتوں کا ماہر ہوں نہ اس کام کا‬
‫مجھے کوئی تجربہ ہے۔ پھر یہ سب کچھ کیسے ممکن‬
‫ہوگا؟‘‘ میں بری طرح الجھ کر رہ گیا تھا۔‬
‫’یدی تم اس کام کو کرنے میں سپھل نہ ہوئے تو ۔۔۔؟‘‘‬
‫اس کے حسین چہرے پر تفکرات کی پرچھائیاں رقص‬
‫کر رہی تھیں۔’’میرا کام توصرف اتنا ہے کہ جب رادھا‬
‫مجھ سے ملنے آئے میں کالی داس کو بتا دوں اس‬
‫کے بعد وہ کیا کرتا ہے یہ میرا نہیں اس کا درد سر‬
‫ہے۔‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔‬

‫’’یہ سب اتنا آسان نہیں جتنا تم وچار کر رہے ہو۔‬


‫تمہیں ابھی رادھا کی شکتی بارے جانکاری نہیں‘‘‬
‫بسنتی کی آواز کانپ رہی تھی۔‬
‫’تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘ میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھا۔‬

‫’’یہ بات نہیں‘‘ اس کالہجہ اسکی بات کی نفی کر رہا‬


‫تھا۔’’ یدی کالی داس اسے اپنے بس میں کرنے سے‬
‫ناکام رہا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے‘‘ اس کے‬
‫لہجے میں اندیشے لپک رہے تھے۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ ’’ :‬فرعون ‪ 3‬سے ‪ 4‬ماہ میرے گھر پر‬


‫رہا‪ ،‬میرا شوہر جیل میں ہے اور۔ ۔ ۔‘‘ کراچی سے‬
‫خطرناک ترین عورت پکڑی گئی‬
‫کسی بات کی فکر نہ کرو‘‘ میں نے اسے اپنے ساتھ‬
‫لگا لیا۔‬

‫’’مہاراج! مجھے وچن دو کہ تم کالی داس سنگ‬


‫وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ وہ ملتجی نگاہوں سے‬
‫میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬

‫خر تم لوگوں کو میری بات پر یقین کیوں نہیں آتا؟‘‘‬


‫اس کے بار بار کہنے سے میں چڑ گیا۔‬
‫’’وشواش تو ہے پرنتو ایسا نہ ہوا تو گجب ہو جائے‬
‫گا۔‘‘ اس کی ساری شوخی ختم ہوگئی تھی۔ میں نے‬
‫اس کی ریشمی زلفوں سے کھیلتے ہوئے تسلی دی۔‬
‫ایک بار پھر نشہ مجھ پر سوار ہونے لگا تھا۔ لیکن‬
‫جب بسنتی کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ مال تو‬
‫میں بھی خاموش ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعدمیں‬
‫دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ صائمہ محو خواب تھی۔ آٹھ‬
‫دن ۔۔۔صرف آٹھ دن رہ گئے تھے رادھا کے آنے میں۔‬
‫بسنتی کا کہنا تھا کہ وہ کسی طور رادھا سے کم نہیں‬
‫اس کے عالوہ کالی داس بھی اس کے ساتھ تھا پھر‬
‫۔۔۔پھر وہ کیوں خوفزدہ تھی۔۔۔‬

‫یہ گھورکھ دھندا میری سمجھ سے باہر تھا۔ بسنتی نے‬


‫رادھا کو دھوکہ دیا تھا۔ وہ اسے میرا نگہبان بناکرگئی‬
‫تھی لیکن اس نے دوست بن کر اس کی پیٹھ میں چھرا‬
‫گھونپا تھا۔ بسنتی کو شاید کالی داس کی پراسرار‬
‫قوتوں پر کچھ زیادہ بھروسہ نہ تھا۔ رادھا کے آنے‬
‫کے بعد اگر میں اپنے وعدے سے پھر جاؤں تو؟‬
‫اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن فوراً ہی میں نے‬
‫اسے رد کردیا۔ رادھا حسن میں بسنتی کے مقابل نہ‬
‫تھی البتہ طاقت میں وہ اس سے زیادہ تھی۔ رہی بات‬
‫محبت کی تو وہ دونوں مجھ سے کرتی تھیں۔ میں‬
‫دونوں میں موازنہ کرتا رہا۔ دماغ رادھا کی طرفداری‬
‫کرتا تھا لیکن کمبخت دل بسنتی کے راگ االپ رہاتھا۔‬
‫رادھا نے کئی مواقع پرمیری مدد کرکے مجھے موت‬
‫کے منہ سے نکاال تھا اور اب تو وہ صائمہ کے‬
‫سلسلے میں بھی مفاہمت اختیار کرچکی تھی۔ اگر‬
‫دیکھا جائے تو رادھا ہر لحاظ سے میرے لئے بہتر‬
‫تھی۔ لیکن بسنتی کا انداز محبت اتنا دلکش تھا کہ میرا‬
‫دل اسی کی جانب کھنچا جا رہا تھا۔ خیر رادھاکے آنے‬
‫کے بعد فیصلہ ہوگاکہ کیا کیا جائے؟ یہ سوچ کر میں‬
‫مطمئن ہوگیا۔‬

‫سات دن اور گزر گئے رات بارہ بجے کے قریب‬


‫مجھے بسنتی نے آواز دے کر باہر بالیا۔ سچ تو یہ ہے‬
‫کہ میں خود بھی اس کا منتظر تھا۔ تھوڑی دیر پہلے‬
‫میں اور صائمہ باتیں کر رہے تھے میں نے آہستہ‬
‫سے سر گھما کر اس کی طرف دیکھا وہ سو چکی‬
‫تھی پھر بھی میں نے ہلکے سے اسے آواز دی۔‬
‫جواب نہ پا کر میں مطمئن ہوکرباہر نکل آیا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط ‪41‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’بسنتی‘‘ میں نے الن میں آکر پکارا۔‬


‫’’جی مہاراج!‘‘ بسنتی کے آواز مجھے اپنے پیچھے‬
‫سے سنائی دی۔ میں جلدی سے مڑا۔ وہ فتنہ گربالکل‬
‫میرے پاس کھڑی تھی۔ گالبی رنگ کی مختصر سے‬
‫کھاگر یچولی میں وہ ہمیشہ سے زیادہ حیسن لگی۔‬
‫میں سحر زدہ سا اسے دیکھتا رہا گالب کی پنکھڑیاں‬
‫واہوئیں۔‬
‫’’پریم۔۔۔‘‘ وہ مجھ سے لپٹ گئی۔ ہم دونوں ایک‬
‫دوسرے میں جذب ہوگئے۔ اسکی چڑھتی سانسیں اس‬
‫کے اندر کے حال کاپتا دے رہی تھی۔ تپتے بدن کی آنچ‬
‫مجھے پگھالئے جا رہی تھی۔‬
‫’’پریم!‘‘ اسکی بوجھل سرگوشی میرے کانوں میں‬
‫رس گھول گئی۔‬

‫’’ہوں‘‘ مجھ پر خمار چھانے لگا۔‬

‫اس کے بعد باتیں ختم ہوگئیں وقت گزرنے کا احساس‬


‫ہی نہ ہوا۔‬

‫’’کیول ایک دن رہ گیا ہے رادھا کے واپس آنے میں‘‘‬


‫جب طوفان تھما تو بسنتی نے کہا۔‬

‫’’رادھا کے آنے کے بعد ہمرا ملن نہ ہو پائے گا‘‘ اس‬


‫کے لہجے میں حسرت تھی۔‬

‫’’کیا تم رادھا سے خوفزدہ ہو؟‘‘‬


‫’’نہیں۔۔۔پرنتو میں نے رادھا سے وشواس گھات کیا‬
‫ہے۔ یاد ہے اس نے جاتے سمے کیا کہا تھا؟‘‘‬

‫’’کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے ماتھے پر آئی شریر سی لٹ‬


‫کوانگلی پر لپیٹتے ہوئے پوچھا۔‬

‫’’مہاراج!کیا واقعی تم کالی داس کی آگیا کا پالن کرو‬


‫گے؟‘‘ اسکی آنکھوں سے بے یقینی کا اظہارہورہا‬
‫تھا۔‬

‫’’کہہ جو دیا کہ میں ہر صورت میں اپنا وعدہ پورا‬


‫کروں گا پھر باربار تم لوگ مجھ سے کیوں پوچھتے‬
‫ہو؟‘‘اسنے میرا ہاتھ تھام کر اپنے سر پر رکھا لیا۔‬

‫’’میرے سرکی سوگندکھاؤ کہ تم رادھا کے کارن میرے‬


‫سنگ وشواس گھات نہ کرو گے‘‘ اس کی آنکھوں میں‬
‫موتی چمکنے لگے۔ میں نے زور سے اسے بھینچ‬
‫لیا۔‬

‫’’میری جان! یقین کرو میں تمہارے اعتماد کو دھوکہ‬


‫نہ دوں گا‘‘ وہ میرے سینے سے لگ کر سسکنے‬
‫لگی۔’’پریم !یدی تم نے کالی داس کی سہائتانہ کی‬
‫تو۔۔۔‘‘ اسکی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں سوچتا تھا بسنتی‬
‫کیوں خوفزدہ ہے۔ اسنے رادھا کی محبت پر ڈاکا‬
‫ڈاالتھا۔ اس کا حق استعمال کیا تھا۔ رادھا کو یہ کسی‬
‫طورگوارا نہ تھاکہ مجھے اس کے عالوہ کوئی چاہے‬
‫اور بسنتی کو تو وہ میرا نگہبان مقرر کر کے گئی‬
‫تھی۔ جاپ پر جانے سے پہلے اس نے بسنتی کو بال‬
‫کر اسے میری حفاظت کرنے کا حکم دیا تھا۔ پہلی‬
‫مالقات میں میں نے بسنتی کی آنکھوں میں اپنے لئے‬
‫محبت چھلکتی دیکھ لی تھی۔ رادھا کے جانے کے بعد‬
‫بسنتی کی حوصلہ افزائی سے میرے قدم ڈگمگا گئے‬
‫تھے۔ وہ بھی مجھے حاصل کرنے کے لئے بے چین‬
‫تھی۔ اسی دوران شاید اسکی مالقات کالی داس سے‬
‫ہوئی جو خود بھی رادھا پر خار کھائے بیٹھا تھا۔‬
‫دونوں نے مل کر سازش سے میرے گرد رادھا کا‬
‫بندھا ہوا حصار ختم کروایا۔ جس کے لیے کسی‬
‫کنواری لڑکی سے جسمانی تعلقات قائم کرنا ضروری‬
‫تھا۔ اس سلسلے میں سبین کو قربانی کا بکرابنایا گیا۔‬
‫میں خود بھی بھی بسنتی کے قرب کے لئے مرا جا رہا‬
‫تھا بال سوچے سمجھے بسنتی کے اشاروں پر چل کر‬
‫اس معصوم کی عزت لوٹ لی۔ جسکا خمیازہ مجھے‬
‫بھگتناپڑا۔ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے‬
‫تحت کیا گیا تھا۔‬
‫رادھاکی غیر موجودگی نے اسے کالی داس اور بسنتی‬
‫کے لئے آسان بنا دیا۔ کالی داس تو شاید کسی طور پر‬
‫رادھا کا مقابلہ کر لیتا یا چھپ کر اسکے قہر سے بچ‬
‫جاتا لیکن بسنتی۔۔۔؟ اگر کالی داس اپنے مقصد کے‬
‫حصول میں ناکام رہتا تو بسنتی کی خیر نہ تھی۔ رادھا‬
‫اسے کسی طور پر معاف نہ کرتی۔‬

‫’’اگر میں سفارش کروں تب بھی وہ معاف نہ کرے‬


‫گی؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا جس کا جواب مجھے‬
‫فوراً ہی مل گیا ۔‬
‫’’نہیں قطعی نہیں‘‘ میرے بارے میں رادھا حد سے‬
‫زیادہ حساس تھی۔ وہ کسی طور گوارانہ کر سکتی تھی‬
‫کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی آئے۔ صائمہ اس کی‬
‫مجبوری تھی میں نے واضح میں کہہ دیا تھا اگر‬
‫صائمہ کو کچھ ہوا تومیں خود کشی کرلوں گا اسی‬
‫لیے وہ صائمہ کے معاملے میں مجبور تھی۔ لیکن‬
‫بسنتی کو وہ کبھی نہ چھوڑتی۔ خود میرے ضمیر کی‬
‫خلش مجھے کبھی کبھی اس بات پر بے چین کر دیتی‬
‫کہ میری وجہ سے بے گناہ لوگوں کو سزا ملی۔‬

‫’’کس وچارمیں گم ہو مہاراج!‘‘ سوچوں کے‬


‫بھنورمیں پھنس کر میں بسنتی کی موجودگی کو‬
‫فراموش کر بیٹھا تھا جومیری گود میں سر رکھے‬
‫اداس لیٹی تھی۔‬
‫’’بسنتی! کالی داس اور تم نے جس طرح میری مدد‬
‫کی ہے میں یہ احسان ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔‬
‫لیکن اس بات کا مجھے بہت دکھ ہے کہ میری وجہ‬
‫سے بے گناہ لوگ پھنس گئے۔ میرا مطلب ‪ ،‬عمرحیات‬
‫‪ ،‬ساجد اور جمال قریشی سے ہے۔‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’اس سمے ان کادھیان تمرے من میں کیسے آگیا؟‘‘‬


‫اس نے حیرت سے پوچھا۔‬

‫’’اکثر یہ خیال میرے دل میں آجاتا ہے۔‘‘ میں نے‬


‫آہستہ سے کہا۔‬

‫’’یدی تم ان کے کرموں کی کتھا(کارناموں کی کہانی)‬


‫سن لو تو پھر کبھی ایسی بات نہ کہو‘‘ وہ منہ بناکر‬
‫بولی۔‬

‫’’کیا مطلب؟‘‘ میں حیران رہ گیا۔‬

‫’’وہ تینوں منش راون سے بھی برے ہیں۔ نہ جانے‬


‫کتنی ہی ناریوں سنگ بالت کار کیا ہے ان لوگوں نے۔‬
‫اس پاپی عمر حیات کی بیٹھک میں ہر رات یہ تینوں‬
‫اکٹھے ہو کر مدھ پیتے اور مجبور ناریوں کی عجت‬
‫سنگ کھلواڑ کرتے۔‘‘ بسنتی کی بات سن کر میں‬
‫شششدر رہ گیا۔‬

‫’اور وہ پاپی ساجد۔۔۔اس نے تو ایک ہتھیا بھی کر‬


‫رکھی ہے۔ ایک کنیا اس کے پاس آئی جس کا باپو‬
‫(قیدی) تھا۔ یہ نردئی اس کی سہائتا کرنے کے بہانے‬
‫اسے عمر حیات کے پاس لے آیا۔ جب وہ آگئی تو ان‬
‫دونوں نے اس کا بالت کار کیا اور اس کی ہتھیا کردی۔‬
‫انہیں اس بات کی چنتا تھی یہ کسی سے کہہ نہ‬
‫دے‘‘بسنتی نے اپنی بات جاری رکھی میرے ضمیرپر‬
‫سے بوجھ ہٹ گیا تھا۔‬

‫’’اگر یہ بات ہے تو پھر تو ان کے ساتھ ٹھیک ہوا‘‘‬


‫اطمینان بھری سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔‬
‫’’پریم ! تم پاپ اورپن کے چکر کو چھوڑو کیول اس‬
‫بات پر دھیان دو کہ رادھا کے آنے پر تم کالی داس‬
‫سنگ کیا وچن پورا کرو گے‘‘ وہ دوبارہ اصل موضوع‬
‫پر آگئی۔‬

‫’’کیا رادھا کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم کیا کرتے رہے‬


‫ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ :‬صبح سویرے ڈالر مہنگا ہو گیا‬


‫’’ترنت اس نے جواب دیا۔‬

‫’’یہی چنتا تو مجھے بیاکل کر رہی ہے جیسے ہی وہ‬


‫منڈل سے باہر آئے گی۔ سب سے پہلے تمرے کارن‬
‫بیاکل ہوگی۔ جب اسے میرے بارے جانکاری ہوگئی وہ‬
‫ترنت اس کا پربند کر لے گی کہ کالی داس سپھل نہ ہو‬
‫پائے۔‘‘‬
‫اس کی پریشانی بجا تھی رادھا کی قوتوں کا مجھے‬
‫اندازہ تھا۔ کہیں رادھا مجھ سے بھی ناراض نہ ہو‬
‫جائے؟ میرے ذہن میں خیال آیا اگر ایسا ہوا تو میرے‬
‫لئے مشکالت بڑھ سکتی تھیں۔ پریشانی نے مجھے‬
‫بھی آگھیرا تھا۔‬

‫’’پریم! اس بات کا اوش دھیان رکھنا کہ کالی داس کے‬


‫سپھل ہونے میں ہم سب کا بھال ہے‘‘ بسنتی میرے دل‬
‫کی بات جان گئی تھی۔‬

‫’’اچھا پریتم! چلتی ہوں کل رادھا آجائے تو اس کے‬


‫آنے سے پہلے کالی داس تمہیں بتائے گا کیا کرنا‬
‫ہے؟‘‘ اس نے کہا اور حسرت بھری نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے غائب ہوگئی۔ میں اندر آگیا۔‬
‫صائمہ محو خواب تھی۔ بسنتی کی باتوں سے میں بھی‬
‫پریشان ہوگیا تھا۔ دوسری صبح جب میں جاگا تو‬
‫صائمہ ناشتہ تیار کر چکی تھی۔ اس کے چہرے سے‬
‫خفگی ظاہر ہو رہی تھی۔ میں نے حیرت سے دیکھا‬
‫رات کو تو اسکا موڈ بالکل ٹھیک تھا۔‬
‫’’کہیں میرے باہر جانے کے بعد صائمہ جاگ تو نہیں‬
‫گئی تھی؟‘‘ یہ خیال ہی میرے لئے سوہان روح تھا۔‬
‫میرے دل میں چورتھا اس لئے میں خاموشی سے‬
‫ناشتہ کرتا رہا۔ میں جانتا تھا اگر کوئی بات ہوگی تو‬
‫صائمہ ضرور کرے گی وہ دل میں بات رکھنے کی قائل‬
‫نہ تھی۔ اور ہوا بھی یہی۔‬
‫’’فاروق! آپ سے مجھے یہ امید نہ تھی ‘‘میرا دل‬
‫یکبارگی زور سے دھڑکا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے‬
‫اس کی طرف دیکھا۔ بچے ناشتہ کرکے سکول جانے‬
‫کی تیاری کر رہے تھے۔‬

‫’’آپ تو نماز پڑھنا یوں بھول گئے ہیں جیسے مسلمان‬


‫ہی نہ ہوں‘‘ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے‬
‫سے خارج ہوگئی ۔ جو کچھ میں سمجھ رہا تھا وہ بات‬
‫نہ تھی۔ اب میں اسے کیا بتاتا کہ میں کن راہوں پر چل‬
‫پڑا تھا۔ اگر اسے میری حرکتوں کا پتا چل جاتا تو زندہ‬
‫درگور ہو جاتی۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔‬
‫’’مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ تو اسالمی تعلیمات پر‬
‫سختی سے عمل کرنے والے تھے لیکن۔۔۔جب سے ہم‬
‫یہاں آئے ہیں میں آپ کے اندر خاصی تبدیلی دیکھ رہی‬
‫ہوں۔ خاص کر جب سے اس منحوس جن زادی واال‬
‫معاملہ شروع ہوا آپ کافی بدل گئے ہیں۔ کئی دن سے‬
‫آپ نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی‘‘ اس کی آواز دکھ‬
‫سے بھرا گئی۔ خفت سے میرا سر جھک گیا۔‬

‫’’کیا میں یقین رکھوں کہ آپ دوبارہ نماز شروع کر‬


‫دیں گے؟‘‘ وہ میرا ہاتھ تھامے پیار سے پوچھ رہی‬
‫تھی۔‬

‫ا‬
‫’’انشاء ہللا‘‘ میں نے مضبوط لہجے میں کہا۔ پیار سے‬
‫میرا ہاتھ تھپتھپا کر وہ بچوں کے پاس چلی گئی۔ اس‬
‫کے جانے کے بعد میں بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ مجھے‬
‫کیا ہوگیا ہے صائمہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔صراط مستقیم‬
‫سے بھٹکنے کے بعد مصائب نے مجھے گھیرلیا تھا۔‬
‫شریف کے مرحوم والد صاحب کے الفاظ مجھے یاد‬
‫تھے انہوں نے تاکید کی تھی کہ نماز سے غافل نہ‬
‫رہوں میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد‬
‫خرافات سے بچنے کی کوشش کروں گا اور باقاعدگی‬
‫سے نماز اور تالوت قرآن کا اہتمام کروں گا۔ یہ سوچ‬
‫کر دل کو کچھ سکون مال۔ بچوں کو سکول چھوڑ کر‬
‫میں بینک روانہ ہوگیا۔ آنے جانے کے لئے میں وہی‬
‫راستہ استعمال کرتا جس پر میری سادھو امر کمار اور‬
‫ملنگ سے مالقات ہوئی تھی۔ صائمہ کی باتیں ابھی‬
‫تک میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ ایسی نیک‬
‫بیویاں قسمت سے مال کرتی ہیں اور میں اس معاملے‬
‫میں خوش قسمت تھا۔‬

‫اچانک میری نظر ملنگ پر پڑی۔ وہ سڑک کے کنارے‬


‫بیٹھا زمین پر انگلی سے لکیریں بنا رہا تھا۔ میں نے‬
‫گاڑی اس کے پاس روک دی۔ وہ بدستور اپنے شغل‬
‫میں مصروف رہا۔ میں نیچے اترکر اس کے پاس بیٹھ‬
‫گیا۔‬
‫’’بابا جی!‘‘ میں نے بڑے ادب سے اسے پکارا۔ کچی‬
‫زمین پر آڑھی ترچھی لکیریں بنی ہوئی تھی۔‬

‫’’کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘ میں نے آہستہ سے‬


‫پوچھا۔ اس کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ہر طرف‬
‫سے بے نیاز اپنے کام میں مصروف تھا۔ میں نے اس‬
‫کا ہاتھ پکڑنا چاہا ‪،‬ابھی میری انگلیاں اس کے ہاتھ‬
‫سے مس ہوئی ہی تھیں کہ اس نے ایک زناٹے دار‬
‫تھپڑ میرے گال پر جڑ دیا۔ اس تھپڑ کی قوت مجھے‬
‫آج بھی یاد ہے۔ میں اچھل کر دو فٹ دور جا گرا تھا۔‬
‫آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ زمین پر گرنے کی‬
‫وجہ سے کپڑے مٹی سے بھر گئے۔ دکھ سے زیادہ‬
‫مجھے حیرت تھی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ قہر بار‬
‫نظروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کا پُر جالل چہرہ‬
‫غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ آنکھوں میں بجلیاں‬
‫کڑک رہی تھی۔ وہ ہمیشہ میرے ساتھ شفقت اور‬
‫مہابنی سے پیش آتا رہا تھا۔ بلکہ جب کالی داس نے‬
‫مجھے گھیر لیا تھا تو اسنے مجھے اس کی گرفت‬
‫سے نہ صرف آزاد کرایا تھا بلکہ میرے پیٹ کے زخم‬
‫کو اپنے لعاب سے ٹھیک بھی کر دیا تھا۔ لیکن آج وہ‬
‫سراپا قہر بنا مجھے گھور رہ اتھا۔‬
‫’غالظت میں لتھڑے حقیر کیڑے۔۔۔‘‘ تیری جرات کس‬
‫طرح ہوئی کہ مجھے ہاتھ لگائے‘‘ اس کی قہر بار‬
‫آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ بس کے حادثے سے‬
‫مجھے بچانے واال آج نہ جانے کس بات پر اتنا ناراض‬
‫تھا۔‬

‫’’جا۔۔۔جا کر اپنی راتیں رنگین بنا۔۔۔بدکاریاں کرتا پھر‬


‫۔۔۔جن زادیوں کے لئے عیش و عشرت کا سامان پیدا‬
‫کر۔۔۔اندھے گڑھے میں جا کر گرجا۔۔۔جہنم کا ایندھن بن‬
‫جا۔۔۔ناعاقبت اندیش۔۔۔گندگی کھا اور اپنی ہوس پوری‬
‫کر۔۔۔تجھے کیا مطلب ہے ہم فقیروں سے کیوں آجاتا‬
‫ہے بار بار میرے سامنے؟ اگر آئندہ میرے پاس آیا تو‬
‫یاد رکھ زمین پر چلنے کے قابل نہ رہ جائے گا‘‘ اس‬
‫کی آواز میں وہ گھن گرج تھی کہ میں سوکھے پتے‬
‫کی طرح کانپنے لگا۔ میرے گال پر جیسے کسی نے‬
‫مرچیں بھر دی تھیں۔ کان میں شدید درد ہو رہا تھا۔‬
‫ملنگ نے مجھے بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا تھا۔ صبح‬
‫صائمہ کی بات سے میں کافی شرمندگی محسوس کر‬
‫چکا تھا۔ لیکن اس کے اور ملنگ کے سمجھانے میں‬
‫بہت فرق تھا۔ میں ملنگ کی باتوں کا مطلب اچھی طرح‬
‫سمجھ رہا تھا۔ جن راہوں کا مسافر میں بن چکا تھا‬
‫ملنگ اس سے بے خبر نہ تھا۔ وہ بہت پہنچا ہوا‬
‫بزرگ تھا۔ اس کی کرامات کا مشاہدہ کئی بار مجھے‬
‫ہو چکا تھا۔‬

‫کالی داس پراسرارقوتوں کا مالک ہونے کے باوجود‬


‫اس سے خوفزدہ تھا۔ رادھا جب بلی کے روپ میں‬
‫تھی وہ بھی ملنگ کو دیکھ کر بھاگ گئی تھی۔ اچانک‬
‫میرے دماغ میں جیسے بجلی سی چمکی۔ جس رات‬
‫رادھا مومنہ کے جسم کا سہارا لے کر مجھ سے‬
‫مخاطب ہوئی تھی تو احد نیند سے جاگ گیا تھا ۔اس‬
‫کے منہ سے کسی مرد کی گرجدار آواز نکلی تھی۔۔۔ہاں‬
‫یہ وہی آواز تھی۔ اس سے پہلے بھی ملنگ کئی بار‬
‫میرے ساتھ مخاطب ہوا تھا لیکن ہمیشہ وہ بے معنی‬
‫باتیں کرکے قہقہے لگاتا رہا تھا۔ آج پہلی بار وہ مجھ‬
‫پر غضبناک ہوا تھا اس کی آواز بالکل بدلی ہوئی لگ‬
‫رہی تھی۔ عام حالت میں اسکی آواز کچھ باریک سی‬
‫ہوتی لیکن جب وہ غضب میں ہوتا تو اس کی آواز‬
‫گرجدار ہو جاتی۔ قہر میں ڈوبی نظریں مجھ پر جمی‬
‫ہوئی تھیں۔ میں زیادہ دیر تک اس کی پُر جالل نظروں‬
‫کی تاب نہ ال سکا خود بخود میری نظریں جھک گئیں۔‬
‫دل چاہ رہا تھا وہ مجھے اور برا بھال کہے۔ مجھے‬
‫ڈانٹے۔ میں سر جھکائے منتظر تھا کہ وہ کچھ اور‬
‫کہے لیکن آواز آنا بند ہو چکی تھی میری آنکھوں میں‬
‫نمی اتر آئی تھی۔ دل چاہا ملنگ سے معافی مانگوں۔‬
‫نظر اٹھا کر دیکھا لیکن اب وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ وہ‬
‫جا چکا تھا مجھے گردوپیش کا کوئی ہوش نہ رہا۔‬
‫آنکھیں پھاڑے اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں تھوڑی‬
‫دیر پہلے ملنگ موجود تھا۔‬
‫’’کیا بات ہے بھائی صاحب!‘‘ اچانک ایک مہربان سی‬
‫آواز میرے کانوں میں آئی۔ میں نے چونک کر دیکھا۔‬
‫ایک خوش پوش سا شخص میرے اوپر جھکا پوچھ‬
‫رہا تھا۔ میں زمین پر پڑا تھا۔ ملنگ نے اس زور سے‬
‫مجھے مارا تھا کہ میں اوندھے منہ زمین پر گر گیا‬
‫تھا اور ابھی تک اسی حالت میں تھا۔ وہ شخص‬
‫آنکھوں میں حیرت لیے مجھے دیکھ رہا تھا ۔ قریب‬
‫ہی میری گاڑی کھڑی تھی۔ میں نے شفیق سے چہرے‬
‫والے شخص کو دیکھا۔ میری آنکھوں میں آنسو دیکھ‬
‫کر وہ میرے پاس بیٹھ گیا۔‬
‫’کیا میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا ہوں؟ لگتا ہے آپ‬
‫کی طبیعت خراب ہوگئی ہے‘‘ اس نے ایک بار پھر‬
‫پوچھا۔ میں نے ہتھیلیوں سے آنکھوں کو پونچا اور‬
‫سر نفی میں ہال کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ حیرت بھری‬
‫آنکھوں سے میری طرف دیکھنے لگا۔ پھر کاندھے‬
‫اچکا کر چل پڑا۔ میں پژمردگی سے گاڑی چالنے لگا۔‬
‫دل بھر آیا تھا۔ زمین پر گرنے کی وجہ سے میرے‬
‫کپڑے مٹی سے خراب ہو چکے تھے گھٹنے کے پاس‬
‫پینٹ پر گوبر کا داغ لگ گیا تھا ۔اس حالت میں نہ تو‬
‫میں بینک جا سکتا تھا نہ گھر واپس۔ اگر چال بھی جاتا‬
‫تو صائمہ کا سامنا کرنے کی مجھ میں ہمت نہ تھی۔‬
‫میرا دل ہر شے سے اچاٹ ہوگیا اور میں نے گاڑی‬
‫یونہی ایک کچے راستے پر موڑ لی۔ موسم گرم ہونا‬
‫شروع ہو چکا تھا۔ دن کودھوپ میں خاصی گرمی ہو‬
‫جایا کرتی۔ ملتان اور اس کے گردونواح کی گرمی تو‬
‫ویسے بھی مشہور ہے۔ میں نے ایک درخت کے‬
‫سائے میں گاری روک لی اور باہر نکل کر کچی زمین‬
‫پر بیٹھ گیا۔‬

‫’’کس وچار میں گم ہے بالک! ‘‘ اچانک میرے پیچھے‬


‫سے کالی داس کی آواز آئی۔ میں اپنی سوچوں میں‬
‫غرق تھا۔ بری طرح اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫کالی داس ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ لیے گہری‬
‫نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔‬

‫’’کس بات کی چنتا بیاکل کر رہی ہے؟‘‘ اس نے ایک‬


‫بار پھر پوچھا۔ میں نے نفی میں سر ہالیا لیکن منہ‬
‫سے نہ بوال۔’’کیا اپنے متر کو بھی نہ بتائے گا؟‘‘ اس‬
‫نے اصرار کیا۔‬

‫’’ایک بہت مخلص دوست مجھ سے ناراض ہوگیا‬


‫ہے۔‘‘ نہ جانے کس طرح یہ الفاظ میرے منہ سے نکل‬
‫گئے۔ وہ کچھ میری آنکھوں میں دیکھتا رہا۔ پھر‬
‫اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری مسکراہٹ چھا گئی۔‬
‫’’اس مورکھ کی بات کا کیا برا منانا وہ تو ۔۔۔‘‘‬

‫’’بکواس بند کر کالی داس! تو کیا جانے وہ کون‬


‫ہے؟‘‘ میں اس کی بات کاٹ کر غرایا۔’’اگر ایک لفظ‬
‫بھی اس کے بارے میں کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ‬
‫ہوگا۔‘‘ میری بات سن کر کالی داس کی آنکھوں میں آغ‬
‫بھڑک اٹھی۔ غیض و غضب سے چہرہ تپ گیا۔ کچھ‬
‫دیر وہ مجھے قہر بھری نظروں سے دیکھتا رہا پھر‬
‫اس کی سرد آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔‬

‫’’شاید تو جانتا نہیں اس سمے کس سے بات کررہا‬


‫ہے؟ کیا اتنی جلدی سب کچھ بھول گیا۔ جیادہ سمے تو‬
‫نہیں بیتا ابھی۔۔۔کیا ایک بار پھر میں تجھے بتاؤں میں‬
‫کون ہوں؟‘‘‬
‫’’جانتا ہوں تو گندی قوتوں کا ماہر ہے۔ لیکن تو بھی‬
‫یہ بات یاد رکھ میں تیرا غالم نہیں ہوں کہ ہر وقت‬
‫تیرے آگے ہاتھ باندھے کھڑا رہوں۔‘‘ گناہ کا احساس‬
‫نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ پچھتاوے بری طرح‬
‫مجھے گھیر چکے تھے۔ انجام سے بے خبر میں کالی‬
‫داس کو بری طرح لتاڑ کر رکھ دیا۔ مجھے کالی طاقت‬
‫والے ان وحشیوں سے سخت نفرت محسوس ہوئی۔‬
‫انہی بدبختوں کی وجہ سے آج میں انسان سے جانور‬
‫بن چکا تھا۔ اب مجھے کسی بات کی پرواہ نہ رہی‬
‫تھی۔ ملنگ نے جیسے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔‬
‫میں اس غفور الرحیم ہللا سے ڈرنے کی بجائے ان‬
‫شیطانوں سے خوفزدہ ہوگیا تھا۔‬

‫کالی داس غضبناک نگاہوں سے مجھے گھور رہا تھا۔‬

‫’’تجھ جیسے مورکھ بڑی جلدی اپنی جاتی(ذات)بھول‬


‫جاتے ہیں۔ تجھے کوئی شکشا دینا ہی پڑے گی۔‘‘ وہ‬
‫گرج کر بوال۔‬
‫میرے دل سے کالی داس کا خوف نکل چکا تھا۔ ہللا‬
‫تعالی بڑا غور الرحیم ہے انسان ساری زندگی گناہ کرتا‬
‫ٰ‬
‫رہے پھر بھی اگر سچے دل اسے یاد کرلے تو وہ‬
‫معاف کرنے میں دیر نہیں کرتا۔ میں نے بڑی دلیری‬
‫سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا جن‬
‫میں شیطانی قوتوں کا رقص جاری ہو چکا تھا۔‬

‫’’اب تو دیا کی بھکشا بھی مانگے گا تو میں تجھے‬


‫شما نہیں کروں گا۔‘‘ وہ غرایا۔‬

‫’’تجھ جیسے بدکار سے بھیک مانگوں گا؟ جا چال جا‬


‫نہیں تو میرا تیرا گالدبا کر زمین کو تیرے گندے بوجھ‬
‫سے چھٹکارا دال دوں گا۔‘‘ میں نے بے خوفی سے‬
‫کہا۔ کچھ دیر وہ مجھے قہر آلود نظروں سے گھورتا‬
‫رہا پھر اس کے موٹے ہونٹ ہلنے لگے۔ میرے کان‬
‫کے پاس سرگوشی سی ہوئی۔‬
‫’’آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دو۔‘‘ اس کے ساتھ ہی‬
‫میرے ہونٹ خود بخود حرکت میں آگئے۔ کالی داس نے‬
‫آنکھیں کھول دیں۔ اس کے چہرے سے کشمکش‬
‫کااظہار ہو رہا تھا متحرک ہونٹ ساکت ہوگئے۔ میرا‬
‫حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ متذبذب سا مجھے دیکھ رہاتھا۔ ہم‬
‫دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے‬
‫کھڑے تھے۔ میرے ہونٹ مسلسل حرکت کر رہے تھے۔‬
‫کچھ دیر وہ غیض و غضب کی حالت میں کھڑا مجھے‬
‫دیکھتا رہا پھر بری طرح چونک اٹھا۔ وہ خوفزدہ‬
‫نظروں سے میرے پیچھے کسی کو دیکھ رہا تھا۔‬
‫اچانک وہ کسی چھالوے کی طرح نظروں سے اوجھل‬
‫ہوگیا۔ کسی نے میری پشت پر ہاتھ رکھ دیا۔ میں بجلی‬
‫کی سی تیزی سے مڑا اور ہاتھ رکھنے والے کو دیکھ‬
‫کر ششدر رہ گیا۔‬

‫میرے پیچھے ملنگ ہونٹوں پر شفیق مسکراہٹ لیے‬


‫مجھ دیکھ رہاتھا۔‬
‫’’آج وہ مجھ سے نہیں تجھ سے خوفزدہ ہو کر بھاگا‬
‫ہے۔ دیکھا ہللا پاک کی کالم کا کرشمہ‘‘ یہ کہہ کر اس‬
‫نے اپنی بانہیں وا کر دیں میں بے اختیار اس کے‬
‫مہربان سینے سے لگ گیا۔ میرے ضبط کا بندھن ٹوٹ‬
‫گیا۔ میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔‬
‫ہچکیاں بندھ گئیں۔ ملنگ میری پشت پر ہاتھ پھیرتا رہا۔‬
‫میں اسکے شانے پر سر رکھے روتا رہا۔ ملنگ کا‬
‫کندھا میرے آنسوؤں سے تر ہوگیا۔‬

‫’’بس کر میرے بچے! جب انسان سچے دل سے اس‬


‫غفور الرحیم سے معافی مانگے تو وہ معاف کرنے‬
‫میں ذرا دیر نہیں کرتا‘‘ اس نے نرم لہجے میں مجھے‬
‫سمجھایا۔ تھوڑی دیر پہلے وہ مجسم قہر لیکن اب اس‬
‫کی آنکھوں میں شفقت کا دریا موجزن تھا۔‬

‫’’شیطان ‪ ،‬انسان کا کھال دشمن ہے اس نے مالک‬


‫کائنات سے وعدہ کیا ہے کہ وہ قبر تک انسان کا‬
‫پیچھا کرے گا اور اسے ہر صورت بہکائے گا۔ وہ‬
‫اپنے کام میں مگن ہے افسوس تو یہ ہے کہ ہم اپنا‬
‫تعالی نے ہمیں کس مقصد‬‫ٰ‬ ‫فرض بھول چکے ہیں۔ ہللا‬
‫کے لئے زمین پر اپنا نائب مقرر کیا ہے؟ جو اس بات‬
‫کو سمجھ لیتا ہے وہی کامیاب انسان ہے۔ یہاں بھی‬
‫اور اگلے جہان میں بھی۔ جو ہللا سے ڈرتا ہے اسے‬
‫کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک اور بات‬
‫یاد رکھنا جب انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے تو‬
‫وہ رحمت خداوندی سے مایوس ہوتا ہے محروم نہیں۔‬
‫اس غفور الرحیم کا در تو ہر وقت کھال رہتا ہے وہ‬
‫پکارتا ہے ‪ ،‬ہے کوئی جو مجھ سے رحمت و مغفرت‬
‫طلب کرے؟ لیکن میرے بچے! سیدھے راستے پر‬
‫چلنے والوں کو کچھ آزمائشوں سے بھی گزرنا پڑتا‬
‫ہے جس سے ان کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور‬
‫درجات میں بلندی عطا ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے تمہارے‬
‫ساتھ بھی ایسا ہو۔ لیکن اس بار تم ثابت قدم رہنا۔‘‘اس‬
‫کی آواز نرم اور شفیق تھی۔‬
‫ہمیشہ قہقہے لگانے واال آج سنجیدگی سے مجھے‬
‫ایمان کی باتیں سمجھا رہا تھا۔ دیوانہ آج فرزانوں‬
‫جیسی باتیں کر رہا تھا۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا‬
‫تھا۔ وہ کافی دیر تک مجھے سمجھاتا رہا۔ پھر نماز کی‬
‫پابندی اور ذکر ٰالہی کی تاکید کی۔ میں خاموشی سے‬
‫سر جھکائے اس دانا کی باتیں سنتا رہا‪58‬‬

‫’’صراط مستقیم پر چلنا سیکھ‘‘‬

‫’’بابا جی! آپ تو مجھے وقت ہی نہیں دیتے۔ میں چاہتا‬


‫ہوں آپ میری انگلی پکڑ کر مجھے سیدھے راستے‬
‫پر چلنا سکھا دیں‘‘ میں نے رقت آمیز لہجے میں کہا۔‬

‫’’قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو خود بخود سیدھے‬


‫راستے کی نشاندہی ہو جائے گی‘‘ اتنا کہہ کر وہ چل‬
‫پڑا۔میں اس سے بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا لیکن‬
‫میری ہمت نہ پڑی کہ اسے آواز دوں اس کے جانے‬
‫کے بعد میں گاڑی میں بیٹھ کر واپس روانہ ہوگیا۔ ایک‬
‫جگہ رک کر میں نے کپڑے ٹشو پیپر سے اچھی طرح‬
‫صاف کیے۔ گھٹنے کے قریب لگا گوبر کا داغ پانی‬
‫سے دھویا اور بینک روانہ ہوگیا۔ کیبن میں بیٹھ کر‬
‫میں نے سب سے پہلے محمد شریف کو بلوایا۔ وہ‬
‫مسکراتا ہوا اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور سالم‬
‫کرکے کرسی پر بیٹھ گیا۔‬

‫’’محمد شریف میں۔۔۔‘‘‬

‫’’میں جانتا ہوں جناب! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں شکر‬


‫تعالی نے آپ کو اپنی رحمت سے‬
‫ٰ‬ ‫ہے کہ ہللا تبارک و‬
‫نواز دیا ہے۔‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بوال۔‬

‫’’محمد شریف میں چاہتا ہوں کہ تم دوبارہ میرے گھر‬


‫اور دفتر کا حصار کر دو‘‘ میں نے جھجکھتے ہوئے‬
‫کہا۔ اس کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ وہ سر‬
‫جھکائے خاموشی سے بیٹھا رہا۔‬

‫’’محمد شریف! تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔‘‘‬


‫میں نے اسے چپ دیکھ کر سوال کیا۔‬
‫’’جناب عالی! معذرت چاہتا ہوں اب یہ ممکن نہیں ‘‘‬
‫اس نے آہستہ سے کہا۔‬

‫’’تم شاید میرے رویے سے ناراض ہو‘‘‬

‫’’ایسی بات نہیں جناب! میں تو آپ سے خفا ہونے کا‬


‫تصور بھی نہیں کر سکتا۔ دراصل عملیات میں کچھ‬
‫اصول ہوتے ہیں اگر انہیں توڑ دیا جائے تو بہت‬
‫مشکل پیش آتی ہے۔ جب آپ نے حصار ختم کرنے کے‬
‫لیے کہا تھا تو میں نے انہی بزرگ شخصیت سے‬
‫گزارش تھی۔ وہ بہت برہم ہوئے تھے۔ لیکن میری‬
‫درخواست انہوں نے رد نہیں کی۔ دوبارہ میں ان سے‬
‫اس معاملے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ میری مجبور‬
‫کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ جناب!‘‘۔‬

‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط ‪42‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫محمد شریف کے چہرے سے اس کی سچائی کا اندازہ‬


‫ہو رہا تھا۔ میرا سر جھک گیا۔ اپنی نادانی سے میں‬
‫نے سب کچھ گنوا دیا تھا اب خود ہی کچھ کرنا تھا۔‬
‫میں نے دل میں تہیہ کر لیا مزید ان پُر اسرار قوت‬
‫رکھنے والوں کے حکم کے آگے سر نہیں جھکاؤں گا۔‬
‫میں خود کو بدال ہوا شخص پا رہا تھا۔ شریف کے‬
‫جانے کے بعد کافی دیر اسی معاملے پر سوچتا رہا‬
‫لیکن میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آخر کار میں نے‬
‫سوچا صائمہ کو سارے حاالت بتا کر اس سے مشورہ‬
‫کروں۔‬
‫’’لیکن کیا میں سب کچھ اسے بتا سکتا تھا؟ وہ مر کر‬
‫بھی گوارانہ کرتی کہ اس کی موجودگی میں کسی اور‬
‫کے ساتھ تعلقات رکھوں۔ کیا وہ رادھا یا بسنتی کے‬
‫ساتھ گزرے دنوں کے باوجود مجھے اسی طرح چاہتی‬
‫رہے گی؟‘‘‬
‫سوچوں نے میرے دماغ کو تھکا کر رکھ دیا۔ کالی‬
‫داس ایک بار پھر میرا دشمن بن چکا تھا۔ بسنتی نے‬
‫بار بار مجھ سے درخواست کی تھی کہ میں کالی داس‬
‫کی مدد ضرور کروں۔ شام پانچ بجے جب میں گھر‬
‫پہنچا تو تھکن سے برا حال تھا۔ ابھی تک میرے دائیں‬
‫جبڑے میں سخت درد ہو رہا تھا۔ ملنگ کے ایک تھپڑ‬
‫نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔‬
‫میں واقعی صراط مستقیم سے بھٹک گیا تھا۔ ’’رادھا‬
‫کے آنے کے بعد تم دوبارہ تو ان راہوں کے مسافر‬
‫نہیں بن جاؤ گے؟‘‘ میرے ضمیر نے سوال کیا؟میرا‬
‫یقین مضبوط تھا۔ اس لئے مجھے اپنے ضمیر کی تنقید‬
‫بری نہ لگی۔‬

‫رادھا کے واپس آنے میں ایک دن رہ گیا تھا۔ اس کے‬


‫تصور سے میرے دل کی دھڑکنیں ایک بار پھر اتھل‬
‫پتھل ہونے لگیں لیکن میں نے خود کو سختی سے‬
‫سمجھایا کہ اب کچھ بھی ہو میں کسی کا ناجائز مطالبہ‬
‫تسلیم نہ کروں گا۔ مغرب کی نماز با جماعت ادا کی‬
‫صائمہ بہت خوش تھی۔ اس دن میں نے زیادہ وقت‬
‫بچوں کے ساتھ کھیلتے گزارا۔ یوں محسوس ہوا‬
‫جیسے میں کافی عرصے بعد گھر واپس آیا ہوں۔ رات‬
‫دیر تک میں اور صائمہ باتیں کرتے رہے۔ دوسرے دن‬
‫میں علی الصبح جاگ گیا۔ فجر کی نماز کے لیے بھی‬
‫میں مسجد گیا۔ یہ سب کچھ بتانے سے میرا یہ مقصد‬
‫قعطا ً نہیں کہ میں خود کو نیک اور پرہیز گار ثابت کرنا‬
‫چاہتا ہوں۔ میری مراد فقط یہ ہے کہ میری داستان‬
‫پڑھنے والوں کو اصل حقائق کا علم ہو سکے کہ جب‬
‫ہم سدھے راستے پر چلنا شروع کرتے ہین تو کوئی‬
‫بھی شیطانی قوت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔‬

‫ان خرافات کی وجہ سے کام پر بھی کوئی خاص توجہ‬


‫نہ رہی تھی۔ میں فائلز کے ڈھیر سامنے رکھے اپنے‬
‫کام میں مصروف تھا۔ چاہتا تھا کافی سارا کام نپٹا لوں۔‬

‫’’کیسے ہو پریتم‘‘ رادھا کی آواز سن کر میں اچھل‬


‫پڑا۔ دیکھا تو وہ قتالہ عالم میرے سامنے والی کرسی‬
‫پر براجمان تھی۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا رہا۔ اس کا‬
‫حسن مزید نکھرآیا تھا۔ اسے دیکھ کر گالب کی نو‬
‫شگفتہ کلی کا احساس جاگ پڑتا تھا۔‬

‫’’کن و چاروں میں گم ہو پریم؟‘‘ اس کی مدھر آواز‬


‫آئی۔‬

‫’’کچھ بدلے بدلے سے جان پڑتے ہو‘‘ اس کی‬


‫کھوجتی نظریں میرے چہرے پر مرکوز تھیں۔‬
‫جواب آپ کے تمام اندازے غلط ثابت کردے گا‬
‫’’کیا اتنی جلدی اپنی داسی کو بھول گئے‪ ،‬میں کوئی‬
‫اور نہیں وہی رادھا ہوں‘‘ اس کے نرم و نازک لبوں‬
‫پر بڑی دآلویز مسکراہٹ رقصاں تھی۔ میں نے سر‬
‫جھٹک کر سفلی جذبات سے پیچھا چھڑایا۔‬

‫’’جانتا ہوں تم وہی رادھا ہو لیکن ۔۔۔اب وہ فاروق خان‬


‫نہیں رہا‘‘ میرا لہجہ مضبوط تھا۔‬
‫’’ہاں میں دیکھ رہی ہوں کچھ شکتیاں تمرے سنگ‬
‫ہیں۔ پرنتو پرائی شکتی پر کیا مان کرنا۔ اور ہم کونسے‬
‫بیری ہیں ہم تو ایک دوجے کے سجن ہیں۔‘‘‬

‫’’اسالم میں اس کی گنجائش نہیں کہ غیر محرم مرد و‬


‫عورت خواہ ان کا تعلق انسانوں سے ہو یا قوم جنات‬
‫سے ایک دوسرے کے دوست بنیں‘‘ میری دلیل سے‬
‫اس کے چہرے پر غصے اور حیرت کی ملی جلی‬
‫کیفیت نظر آئی۔ وہ کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر‬
‫بولی۔‬
‫’یہ تمہیں کیا ہوگیا ہے مومن!؟‘‘‬

‫’’میرا نام فاروق خان ہے‘‘ میرا لہجہ خشک تھا۔‬

‫’’اچھا۔۔۔؟‘‘ اس نے اچھا کو خاصا کھینچ کر ادا کیا۔‬


‫’’کیا تم سب کچھ بھول گئے؟ کیا تم نے اپنی رادھا کو‬
‫بھی بھال دیا۔ یا تم مجھ سے کسی بات پر ناراج ہو؟‬
‫مجھے یہ جانکاری مل چکی ہے میرے نہ ہونے سے‬
‫تم کشٹ میں پڑ گئے تھے۔ پرنتو میں تمہیں بتایا تو‬
‫تھا کہ جاپ کرتے سمے میں کسی دوجی اور (طرف)‬
‫دھیان نہیں دے سکتی۔ اور یہ بات تو تم اوش نہیں‬
‫بھولے ہوگے کہ میں نے تمہیں کیا اپدیش دیا تھا؟‬
‫یدی تم نے کسی ناری سے شریر کا سمندھ جوڑا تو‬
‫میں تمری سہائتا نہیں کر پاؤں گی اور تمرے بیری‬
‫ایسے ہی کسی اوسر کی تاک میں ہیں‘‘ اس نے‬
‫مجھے یاد دالیا۔‬

‫’’پرنتو اب میں آگئی ہوں جو کچھ بسنتی اور کالی‬


‫داس نے تمرے سنگ کیا ہے جانتی ہوں۔ دیکھنا رادھا‬
‫انہیں کیسی شکشا دیتی ہے؟‘‘ اس کا لہجہ نرم تھا۔‬

‫’’جس نے جو بھی کیا اچھا نہیں کیا لیکن میں کسی‬


‫کو قصور وار نہیں ٹھہراتا کیونکہ غلطی میری تھی۔‬
‫میں ہی اپنی راہ سے بھٹک گیا تھا۔ سب کچھ میری‬
‫نادانی کی وجہ سے ہوا۔ میں تمہیں بھی قصور وار‬
‫نہیں سمجھتا رادھا! تم نے کئی بار مشکل وقت میں‬
‫میری مدد کی ہے میں تمہارا احسان کبھی نہ بھول‬
‫پاؤں گا‘‘ وہ حیرت سے آنکھیں کھولے میری طرف‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬
‫اس کا حیران ہونا بجا تھا کہاں تو میں اسی کی قربت‬
‫کے لئے بے چین رہا کرتا اور آج خود ہی اجتناب برت‬
‫رہا تھا۔‬

‫’’جو ہو چکا وہی کافی ہے۔‘‘ میں نے بیزاری سے‬


‫کہا۔‬

‫’’موہ۔۔۔‘‘ وہ شاید موہن کہنے جا رہی تھی لیکن میرے‬


‫چہرے کے تاثرات دیکھ کر اس نے بات ادھوری‬
‫چھوڑ دی۔‬

‫’’یہ آج تم کیسی غیروں جیسی باتیں کر رہے ہو؟ کیا‬


‫تم اپنی داسی سے اتنے ناراج ہو؟ میں جانتی ہوں کالی‬
‫داس اور بسنتی نے بہت انیائے کیا ہے پرنتو میں‬
‫تمہیں اس کا کارن بتا چلی ہوں کہ اس سمے کیوں نہ‬
‫آپائی۔ بسنتی نے میرے سنگ و شواس گھات کیا ہے‬
‫۔یدی مجھے کھبر ہوتی کہ وہ کلٹا من میں کیا ٹھانے‬
‫بیٹھی ہے تو میں جاپ چھوڑ کر آجاتی۔ پرنتو۔۔۔‘‘اتنا‬
‫کہہ وہ سوچ میں کھو گئی۔‬

‫’’موہن! جب کوئی داسی اپنے دیوتاؤں کے چرنوں‬


‫میں جاتی ہے تو اسے سنسار سے واسطہ توڑنا پڑتا‬
‫ہے یدی وہ ایسا نہ کرے تو دیوتاؤں کے شراپ سے‬
‫اسے کوئی نہیں بچا سکتا۔ پھر بھی مجھے کھبر ہو‬
‫جاتی تو میں ترنت تمری سہائتا کرنے پہنچ جاتی‘‘ اس‬
‫کے لہجے میں تاسف تھا۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ‬
‫میں اس سے خفا ہوں۔‬
‫’’یہ سب فضول باتیں ہیں میں ایسی خرافات پر یقین‬
‫نہیں رکھتا۔ جہاں تک تعلق ہے بسنتی کے دھوکے‬
‫کا۔۔۔تو تم خود ہی اسے میرا نگہبان مقرر کر گئی تھیں۔‬
‫تمہیں کیا پتا اس بدبخت کی وجہ سے میں کتنی بڑی‬
‫مصیبت میں پھنس گیا تھا؟ اگر کالی داس میری مدد نہ‬
‫کرتا تو آج شاید میں زندہ نہ ہوتا۔‘‘‬

‫’’بھگوان نہ کرے تمہیں کچھ ہو۔‘‘ وہ تڑپ کر بولی۔‬

‫’’مجھے جانکاری مل گئی تھی تم کشٹ بھوگ رہے‬


‫ہو۔ پرنتو کالی داس نے مجھے پراپت کرنے کے کارن‬
‫یہ سارا سوانگ رچایا تھا۔ اس نے کھد ہی سب کچھ‬
‫کیا پھر تمرا متر بننے کے کارن تمری سہائتا کی۔ میں‬
‫سب جانتی ہوں پرنتو اس سمے میں جاپ چھوڑ کر‬
‫آتی تو دیوتا میری شکتی چھین لیتے اور وہ دھشٹ‬
‫کالی داس ایسے ہی کسی اوسرکی تاک میں تھا‪ ،‬اسی‬
‫کارن میں نے جاپ نہ چھوڑا‘‘ میرے چہرے پر‬
‫بیزاری کی کیفیت دیکھ کر وہ بولی۔‬
‫’یدی تمہیں وشواس نہیں تو یہ بتاؤ جو منش تمری‬
‫پھوٹو (تصویر) بنانے آیا تھا وہ ایسا کیے بنا کیوں‬
‫چال گیا؟ میں کھد تو نہ آسکی پرنتو اپنی شکتی کے‬
‫جور سے میں نے ایسا نہ ہونے دیا۔ یدی کالی داس‬
‫تمری سہائتا نہ کرتا تو میں اپنی شکتی سے سب کچھ‬
‫ٹھیک کر لیتی‘‘ اس نے مجھے یقین دالنے کے لیے‬
‫دالئل دینا شروع کر دیے۔‬

‫’’میں تمہاری کسی بات سے انکار نہیں کرتا لیکن اب‬


‫میں ان سب باتوں سے تنگ آچکا ہوں۔ تم لوگوں کے‬
‫آپس کے جھگڑوں نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ کالی‬
‫داس تمہیں حاصل کرنا چاہتا ہے اس لئے وہ میرے‬
‫پیچھے پڑا ہوا ہے۔ یہ بات تم نے ہی مجھے بتائی‬
‫تھی۔ اگر تم میرا پیچھا چھوڑ دو تو وہ بدبخت بھی‬
‫مجھ سے کوئی واسطہ نہ رکھے گا۔ اس لئے میری‬
‫گزارش ہے کہ تم اپنی دنیا میں واپس لوٹ جاؤ اور‬
‫مجھے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ خوش رہنے دو‘‘‬

‫حسین آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔‬

‫’’یدی مجھے وشواس ہوتا وہ دھشٹ میرے جانے‬


‫سے تمرا پیچھا چھوڑ دے گا تو میں تمرے پریم کی‬
‫کھاطر یہ بھی کر لیتی پرنتو میں جانتی ہوں وہ پاپی‬
‫تمہیں سکھی نہ رہنے دے گا۔ اسی کارن میرا تمرے‬
‫سنگ رہنا جروری ہے‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔ میرے‬
‫رویے سے وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔‬

‫ی‬
‫’’جب تم چلی جاؤ گی تب میرا پیچھا کیوں کرے گا؟‘‘‬
‫مجھے حیرت ہوئی۔‬

‫’’اس پاپی نے یہ سب کچھ اس کارن کیا تھاکہ تمہرے‬


‫من میں استھان بنا کر مجھے پراپت کر سکے پرنتو تم‬
‫نے اس کی بات نہ مان کر اسے بہت دکھ دیا ہے۔ اس‬
‫نے کالی کے مندرمیں سوگندکھائی ہے کہ جب تک وہ‬
‫تمرا بلیدان کالی کے چرنوں میں نہ کرے گا شانتی‬
‫سے نہ بیٹھے گا۔‘‘ اس نے بتایا۔‬

‫یا‬
‫’’یہ کونسی نئی بات ہے وہ تو کب سے اس بات کی‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫آس لگائے بیٹھا ہے لیکن زندگی دینا اور لینا ہللا‬
‫کا کام ہے ۔وہ شیطان میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ رہی‬
‫بات دیوی دیوتاؤں کی تو میں تمہیں پہلے ہی کہہ چکا‬
‫ہوں کہ میں ان خرافات پر یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ میں نے‬
‫بڑے ٹھوس لہجے میں کہا۔ اس کے چہرے پر غصے‬
‫کی ایک لہر آکر گزر گئی۔‬

‫’’میں تم سے دھرم پر کوئی بات نہ کروں گی؟ میرا‬


‫وشواس کرو میں کیول تم سے پریم کرتی ہوں تم ہی‬
‫میرا سب کچھ ہو۔ میرے مندر بھی تم اور دیوتا بھی‬
‫تم‘‘ اس نے بڑے میٹھے لہجے میں کہا۔ اس میں‬
‫کوئی شک نہیں کہ وہ واقعی مجھ سے پیار کرتی تھی‬
‫میری ذرا سی تکلیف پر وہ بے چین ہو جایا کرتی۔‬
‫میری خاطر اس نے کالی داس کو زمین چاٹنے پر‬
‫مجبور کر دیا تھا۔‬
‫’اگر رادھا کی مدد سے اس منحوس ڈھانچے کو قبر‬
‫میں اتار جا سکتا ہے تو مجھے سمجھداری سے کام‬
‫لینا چاہئے‘‘ میرے اندر سے آواز آئی۔ میں نہیں جانتا‬
‫یہ خیال خود ہی میرے دل میں آیا تھا یا رادھا کی‬
‫پراسرار قوت کا کرشمہ تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے‬
‫بعد اب مجھے خیال آتا ہے کہ شاید دوسری بات‬
‫صحیح ہو لیکن اس وقت یہ سوچ کرمیں نے اپنا رویہ‬
‫کچھ نرم کرلیا۔‬

‫’’لیکن میں تمہاری وجہ سے کیسی مصیبت میں مبتال‬


‫ہوگیا تھا تمہیں کچھ پتا بھی ہے؟‘‘‬

‫’’اس سمے میں تم سے شما مانگنے آئی تھی پرنتو‬


‫تم تو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی۔ بڑی اداس اور‬
‫ملول دکھائی دے رہی تھی۔ کافی دیر ہم دونوں خاموش‬
‫بیٹھے رہے۔‬

‫’’موہن! تم مجھ سے ناراج ہو اس بات کا دکھ نہیں۔‬


‫جو پریم کرتے ہیں وہ ایک دوجے پر ادھیکا رکھتے‪،‬‬
‫کیول میری ایک بنتی سوئکار کر لو‘‘ اسکے لہجے‬
‫میں التجا تھی۔‬
‫’’کیا۔۔۔؟‘‘‬

‫’’تھوڑا سا سمے نکال میرے سنگ ایک استھان پر‬


‫جانا ہوگا‘‘ میری آنکھوں میں شک دیکھ کر وہ جلدی‬
‫سے بولی’’مانتی ہوں تمہیں مجھ پرواش نہیں رہا۔‬
‫پرنتو تمہیں میری اور سے کوئی دکھ پہنچے یہ کبھی‬
‫نہیں ہو سکتا۔‘‘‬

‫ا‬
‫’’لیکن کس لئے اورکہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی۔ کل میں اسی سمے آؤں‬
‫گی‘‘ وہ میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی‬
‫تھی۔ اس سے پہلے جب بھی میں کوئی بات سوچتا وہ‬
‫مجھے بتا دیتی کہ میں کیا سوچ رہا ہوں بلکہ سپنا‬
‫کے معاملے میں تو میں بذریعہ سوچ اس سے باتیں‬
‫بھی کرتا رہا تھا لیکن آج وہ مجھے صرف ٹٹولنے‬
‫والی نظروں سے دیکھ رہی تھی جیسے میرے دل کا‬
‫حال اس پر ظاہر نہ ہو۔‬

‫’’یدی تمہیں مجھ پر اتنا بھی وشواس نہیں رہا تو میں‬


‫نہیں کہتی‘‘ وہ آبدیدہ ہوگئی۔‬

‫’’ایسی بات نہیں رادھا! میں تمہارے ساتھ ضرور‬


‫جاؤں گا بس یہ بتا دو کہاں جانا ہے اور وہاں کتنا‬
‫وقت لگے گا تاکہ میں اسی حساب سے چلوں‘‘ میں‬
‫نے جلدی سے کہا۔‬

‫’’کل اسی سمے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔‬

‫’’کتنا سمے لگے گا یہ تو میں بھی نہیں جانتی پرنتو‬


‫جس کارن میں تمہیں لے جا رہی ہوں وہ سب دیکھ کر‬
‫تمرا من جرور پرسن ہوگا‘‘ اس نے مبہم سے بات‬
‫کہی۔‬

‫’’ٹھیک ہے کل تم آجانا‪ ،‬اس کے احسانات بہرحال‬


‫مجھے پرتھے مجھ سے انکار نہ ہوسکا۔‬

‫’’جب تم تیار ہو جاؤ تو مجھے آواج دے دینا میں‬


‫آجاؤں گی‘‘ وہ خوش ہوگئی۔ ’’اچھا اب میں جاتی ہوں‬
‫کچھ پربند کرنا ہے۔‘‘ وہ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔‬
‫دوسرے دن بچوں کو سکول چھوڑ کر میں اسی‬
‫سنسان راستے پر پہنچا تو میں نے رادھا کو آواز دی۔‬
‫دوسرے ہی لمحے وہ میری ساتھ والی سیٹ پر ظاہر‬
‫ہوگئی۔ اس کے ہونٹوں پر بڑی میٹھی مسکان تھی۔‬

‫ا‬
‫’’کیسے ہو پریم؟‘‘ اس نے میری جانب دیکھا۔‬
‫’’تمہارے سامنے ہوں ‘‘ اس کی راہنمائی میں‬
‫ڈرائیونگ کرتے ہوئے میں نے کہا۔ تھوڑی دیر بعد ہم‬
‫ایک گاؤں میں پہنچ گئے۔ جگہ دیکھی بھالی سی لگ‬
‫رہی تھی غور کرنے پر میں ے پہچان لیا۔ یہ وہی گاؤں‬
‫تھا جس کے قریب میری گاڑی خراب ہوئی تھی اور‬
‫میں ایک شخص کی مدد سے کسی مکینک کی تالش‬
‫میں کالی داس کے چنگل میں پھنس گیا تھا۔ آج بھی‬
‫اس اذیت کو محسوس کرکے میرے رونگٹے کھڑے ہو‬
‫جاتے ہیں۔ اگر ملنگ اپنے لعاب سے میرا عالج نہ‬
‫کرتا تو نہ جانے میرا کیا حال ہوتا؟‘‘‬
‫’اس استھان کو جانتے ہو؟‘‘ میں اپنی سوچوں میں‬
‫غرق تھا کہ رادھا کی آواز سن کر چونک گیا۔‬

‫’’اس جگہ کو میں کیسے بھول سکتا ہوں؟‘‘ مجھے‬


‫جھرجھری سی آگئی۔ آج بھی گاؤں میں کوئی متنفس‬
‫دکھائی نہ دے رہا تھا۔ انسان تو کجا ایک جانور بھی‬
‫نہ تھا۔ عجیب سی وحشت ہر سو برس رہی تھی۔‬
‫’’کیا یہاں کوئی نہیں رہتا؟ اس دن بھی میں نے کسی‬
‫انسان کی صورت نہ دیکھی جب کالی داس مجھے‬
‫گھیر کر الیا تھا۔ آج بھی صورت حال ویسی ہی ہے‘‘‬
‫میں نے حیرت سے چاروں طرف دیکھ کر پوچھا۔‬

‫’’ تھوڑا سمے اور انتجار کر لو‘‘ رادھا مسکرا کر‬


‫بولی۔ رادھا کے کہنے پر میں نے اسی مکان کے‬
‫سامنے گاڑی روک لی۔ وہ یکدم میری نظروں سے‬
‫اوجھل ہوگئی۔‬
‫میں نے گاڑی سے نیچے اتر کر اسے الک کیا اور‬
‫ادھر ادھر دیکھنے لگا۔‬

‫’’اندر آجاؤ پریتم!‘‘ رادھا دروازہ کھولے کھڑی تھی۔‬


‫میں اس کے پیچھے اندر داخل ہوگیا۔ ہر شے اسی‬
‫طرح پڑی تھی۔ سامنے وہی کچا کمرہ تھا جہاں مجھے‬
‫کالی داس نے بے پناہ اذیت میں مبتال کر دیا تھا۔ میں‬
‫خاموش سے رادھا کے پیچھے چلتا کمرے میں داخل‬
‫ہوگیا۔ دن کے اجالے کے باوجود کمرے میں تاریکی‬
‫تھی۔ دھوپ سے آنے کی وجہ سے کچھ دکھائی نہیں‬
‫دے رہا تھا۔ میں کچھ دیر دروازے میں کھڑا آنکھوں‬
‫کو اندھیرے سے ہم آہنگ کرتا رہا۔ رادھا نے اپنا‬
‫خوبصورت ہاتھ ہالیا اس کے ساتھ ہی کمرے میں‬
‫روشنی پھیل گئی جو چاروں طرف سے آتی محسوس‬
‫ہو رہی تھی۔ کمرے کا ماحول آج بھی ویسا ہی تھا۔‬
‫رادھا بڑی تمکنت سے چلتی کمرے میں بچھی واحد‬
‫چارپائی پر بیٹھ گئی۔‬

‫’’یہاں آجاؤ میرے پاس‘‘ اس نے کہا۔ تنہائی میں اس‬


‫کا قرب مجھے پاگل بنا رہا تھا۔ میں نے بمشکل اس‬
‫کے سراپے سے نظریں ہٹا کر کمرے کا جائزہ لیا۔‬

‫’’پریم۔۔۔‘‘ اس نے بانہیں وا کر دیں۔‬

‫’’آؤ میری بانہوں میں سما جاؤ‘‘ آنکھوں میں پیار کی‬
‫جوت لیے وہ میری منتظر تھی۔‬
‫’’رادھا! میں تم سے کہہ چکا ہوں ہمارے مذہب میں‬
‫غیر محرم مرد عورت کا تعلق حرام ہے۔ اگر تم س‬
‫مقصد کے لیے مجھے الئی ہو تو میں واپس جا رہا‬
‫ہوں۔‘‘ میں نے بمشکل دل پر جبر کرکے کہا۔ میرے‬
‫انکار پر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ کچھ دیر وہ‬
‫غصے کی کیفیت میں مجھے دیکھتی رہی پھر ٹھنڈی‬
‫سانس اس کے منہ سے خارج ہوگئی۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪43‬‬
‫مصنف ۔طارق خان‬

‫’یدی !کوئی دوجا رادھا کی آگیا کا پالن کرنے سے منع‬


‫کرتا تو رادھا کا شراپ اسے نشٹ کر دیتا۔ پرنتو رادھا‬
‫اپنے پریمی کو کشٹ نہیں دے سکتی‘‘ اس کا لہجہ‬
‫شکست خوردہ ہوگیا۔ میرے انکار نے اسے دکھی کر‬
‫دیا تھا۔ میں جانتا تھا وہ ہر بات برداشت کر سکتی ہے‬
‫میری بے اعتنائی نہیں لیکن توبہ کرنے کے بعد ان‬
‫خرافات سے بچنا چاہتا تھا۔‬

‫ہم دونوں میں اپنی سوچوں میں گم تھے کہ باہر سے‬


‫کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ آنے واال ایک‬
‫تعالی نے مجھے بھی‬
‫ٰ‬ ‫نہایت خوبرو نوجوان تھا۔ ہللا‬
‫بہت وجاہت عطا فرمائی ہے لیکن وہ جوان بھی کچھ‬
‫کم نہ تھا۔ اسنے آتے ہی پہلے رادھا کے سامنے ہاتھ‬
‫جوڑ کر ماتھے سے لگائے پھر میری طرف مڑا۔‬
‫’پرنام مہاراج‘‘ اس نے گھمبیر آواز میں کہا۔ مجھے‬
‫اور توکچھ نہ سوجھا بس سر ہال کر اسکے سالم کا‬
‫جواب دے دیا۔‬

‫’’یہ پرتاب ہے جیسے میں تمرے بن بیاکل رہتی ہوں‬


‫ایسے ہی پرتاب بھی میرے نام کی ماال جپتا رہتا ہے‘‘‬
‫رادھا نے مسکرا کر کہا۔‬
‫میں نے حیرت سے دیکھا نوجوان کی بڑی بڑی سحر‬
‫انگیز آنکھوں میں اداسی تھی۔ رادھا کی بات سن کر‬
‫اس کا سرجھک گیا۔ مجھے حیرت ہوئی رادھا نے‬
‫پہلے اس کا ذکر کبھی نہ کیا تھا۔ وہ رادھا کے سامنے‬
‫اس طرح ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا تھا جیسے غالم‬
‫ملکہ کے سامنے۔ بسنتی بھی رادھا کی تابعدار تھی‬
‫لیکن اس نے کالی داس کے ساتھ مل کر اسے دھوکہ‬
‫دیا تھا۔ اگر وہ میری حوصلہ افزائی نہ کرتی تو شاید‬
‫میں اتنا آگے نہ بڑھتا۔ ہر چند کہ قصوروار میں بھی‬
‫تھا لیکن بسنتی کی نیت میں شروع دن سے فتور تھا۔‬
‫بقول اس کے وہ مجھے دیکھتے ہی بے اختیار ہوگئی‬
‫تھی۔ رادھا غور سے میری جانب دیکھ رہی تھی۔‬

‫’’کس و چار میں گم ہو پریمی!‘‘ اس نے بڑے پیار‬


‫سے پوچھا ۔ نوجوان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ ماتھے پر‬
‫پڑنے والے بل اس کی ناگواری کو ظاہر کر رہے تھے۔‬
‫جاپ پر جانے سے پہلے رادھا میرے دل کا حال جان‬
‫لیتی تھی لیکن اب شاید وہ اس پر قادر نہ رہی تھی۔‬
‫اس لئے وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ میں کیا سوچ‬
‫ہوں اس بات کو جانچنے کے لیے میں نے یونہی‬
‫رہا َ‬
‫کہا۔‬

‫’’میں کالی داس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔‘‘‬

‫’’اس دھشٹ کے نشٹ ہونے میں بہت تھوڑا سمے رہ‬


‫گیا ہے جس یدھ کی شروعات اس پاپی نے کی تھی‬
‫میں اس کا انت کردوں گی۔‘‘ اس کا حسین چہرہ یک‬
‫بیک قہر ناک ہوگیا۔ آنکھوں میں آگ کے االؤ روشن‬
‫ہوگئے۔ اس نے جوان کی طرف دیکھا‬

‫’’پرتاب ! جانتا ہے میں نے اس سمے تجھے کس‬


‫کارن بالیا ہے؟‘‘‬

‫’’نہیں دیوی جی! پرنتو تم جو آگیا بھی ہو گی پرتاب‬


‫اپنا جیون دان کرکے بھی اس کا پالن کرے گا۔‘‘ اس‬
‫کے لہجے میں رادھا کے لیے پیار کا سمندر موجزن‬
‫تھا۔‬
‫’میں اسی پل بسنتی کو یہاں دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ اس‬
‫نے حکم کے منتظر پرتاب سے کہا۔‬

‫’’جو آگیا دیوی جی‘‘ اس نے سر جھکایا اور غائب‬


‫ہوگیا۔‬
‫’یہ سب لوگ تمہیں دیوی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ میں نے‬
‫رادھا کی طرف دیکھا۔‬

‫’’میں ان کی دیوی جو ہوں‘‘ اس نے سادہ لہجے میں‬


‫کہا۔‬

‫’’میرے کہنے کا مطلب ہے کیا وہ تمہارے غالم ہیں؟‘‘‬

‫’’سنسار کے سارے منش رادھا کے داس ہیں اور‬


‫رادھا تمری داسی‘‘ ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں‬
‫نشہ چھا گیا۔ خود میرے دل کی حالت بھی عجیب ہو‬
‫رہی تھی۔ ساتھ بیتے لمحات کے تصور نے خون کی‬
‫گردش بڑھا دی۔ اس کی سحر کار آنکھوں سے بمشکل‬
‫اپنا دھیان ہٹا کر میں نے دوسری طرف دیکھا۔ رادھا‬
‫کے ہونٹوں پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔‬

‫’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’میں تو تمہیں ایسے ہی دیکھا کرتی ہوں کوئی نئی‬


‫بات ہے؟‘‘ اس کے ساتھ ہی وہ اٹھ کر میرے قریب‬
‫آگئی۔ دل کی دھڑکن اسی کا نام جپنے لگی۔ ایمان ڈونوا‬
‫ڈول ہونے لگا۔ بے اختیار میرا دل چاہا اسے اپنی‬
‫بانہوں میں سمیٹ لوں۔ وہ مجھ سے کچھ فاصلے پر‬
‫آکر بانہیں پھیال کر کھڑی ہوگئی۔ قریب تھا کہ میں اس‬
‫کی جانب کھچتا چال جاتا کہ پرتاب ظاہر ہوگیا۔ اس کے‬
‫چہرے پر ندامت تھی۔‬
‫’’بسنتی کہاں ہے؟‘‘ رادھا نے کڑی نظروں سے پرتاب‬
‫کو گھورا۔‬

‫’’دیوی اس کی رکھشا کالی داس کر رہا ہے‘‘ پرتاب‬


‫نے جھجکھتے ہوئے بتایا۔‬

‫’’کیا میں یہ سمجھوں تیرے پریم میں کھوٹ ہے؟‘‘‬


‫رادھا کی سرد آواز کمرے میں گونجی۔‬

‫’’ی۔۔۔یہ۔۔۔بات نہیں دیوی!‘‘ پرتاب بری طرح گڑ بڑا‬


‫گیا۔‬

‫’’میں نے اسے النے کی اوشکتا کی تو کالی داس کے‬


‫بیر میرے آڑے آگئے ۔مجھے تھوڑا سمے دو میں‬
‫اسے اوش یہاں کھینچ الؤں گا‘‘ اس نے بڑے یقین‬
‫سے کہا۔‬
‫’’ٹھیک ہے جاؤ۔۔۔پرنتو دھیان رہے یہ تیری‬
‫پریکشا(آزمائش) ہے یدی تو اس میں سپھل نہ ہوا تو‬
‫من میں میرے پریم کا دھیان بھی نہ النا‘‘ اس کی بے‬
‫اعتنائی سے پرتاب کا چہرہ دھلے ہوئے لٹھے کی‬
‫طرح سفید ہوگیا۔‬
‫’دیوی! ایسا انیائے نہ کر ‪ ،‬نہیں تو تیرا یہ داس جیوت‬
‫نہ رہے گا‘‘ پرتاب تڑپ کر بوال۔‬

‫’’میں کچھ نہیں جانتی مجھے کیول بسنتی چاہئے‬


‫ابھی‘‘ رادھا نے بڑی بے مروتی سے کہا۔‬

‫’’جو آگیا دیوی‘‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑے اور‬


‫دوبارہ غائب ہوگیا۔ اس کے آنے سے ایک فائدہ ہوا‬
‫تھا کہ رادھا پر جو محبت کا بھوت سوار ہوا تھا وہ‬
‫اتر گیا۔ اس کا موڈ بگڑ چکا تھا۔ دوبارہ چارپائی پر‬
‫بیٹھ کر وہ سوچوں میں گم ہوگئی۔‬
‫تقریبا ً دس منٹ ہم دونوں اسی حالت میں بیٹھے رہے۔‬
‫رادھا نے دوبارہ میری طرف بڑھنے کی کوشش نہ کی‬
‫تھی۔ خود سے کیا عہد بچ جانے پر میں نے شکر ادا‬
‫کیا۔ رادھا پرتاب کی ناکامی پر بری طرح جھالئی ہوئی‬
‫تھی۔ اچانک کمرے کا دروازہ ایک دھماکے سے کھال‬
‫اور پرتاب بسنتی کو کاندھے پرالدے لے آیا۔ اس کے‬
‫چہرے اور جسم پر لگے زخموں کے نشانات سے لگ‬
‫رہا تھا وہ کسی درندے سے نبرد آزما رہا ہے۔ کاندھے‬
‫پر لدی بے ہوش بسنتی کو اس نے کسی بوری کی‬
‫طرح کچی زمین پر پھینک دیا۔‬

‫وہ فتنہ گر ایک بار پھر میرے سامنے تھی۔ ساتھ‬


‫بتائے پل میری آنکھوں میں لہرا گئے۔ آج تک میرا‬
‫جتنی لڑکیوں سے تعلق رہا تھا۔ رادھا سمیت بسنتی ان‬
‫سب پر سبقت لے گئی تھی۔ رادھا کا چہرہ چمکنے‬
‫لگا۔ اس نے پرتاب کے زخموں پر سرسری نظر ڈالی۔‬

‫’’ٹھیک ہے پرتاب! تم جا کر سرسوتی دیوی کا وہ‬


‫جاپ کر لو جو میں نے تمہیں بتایا تھا اور‬
‫ہاں’’پرولنگی‘‘ بوٹی کا جل پی لینا‘‘ اس نے کسی‬
‫بوٹی کا نام لیا۔ پرتاب کی آنکھوں کی اداسی بڑھ گئی‬
‫۔وہ شاید رادھا کی نظر التفات کی توقع کر رہا تھا۔‬
‫مجھے اس پر ترس بھی آیا لیکن اس وقت تو خود‬
‫میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اگر بسنتی رادھا کو‬
‫سب کچھ بتا دیتی تو شاید وہ مجھے بھی سزا دیئے‬
‫بغیر نہ رہتی۔ ہر چند کہ اسے مجھ سے عشق تھا پر‬
‫کیا پتا اس جن زادی کا موڈ کب بدل جاتا؟ پرتاب‬
‫بوجھل قدموں سے باہر نکل گیا۔‬
‫رادھا کے ہونٹ متحرک ہوگئے اس نے کچھ پڑھ کر‬
‫بسنتی پر پھونک دیا۔ اس کے جسم نے حرکت کی اور‬
‫وہ اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پہلے تو وہ حیران سی چاروں‬
‫طرف دیکھتی رہی جیسے اس کی نظر رادھا پر پڑی‬
‫‪،‬اس کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے‬
‫اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ رادھا کی آنکھوں میں‬
‫فتح کا نشہ ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ‪ ،‬دونوں ہاتھوں‬
‫کو پہلوؤں پر رکھے بسنتی کے سر پر کھڑی تھی ۔‬
‫جیسے ہی بسنتی کی نگاہ اس پر پڑی وہ بری طرح‬
‫گڑ بڑا گئی۔‬
‫’’دو ۔۔۔دی۔۔۔دیوی جی تم؟‘‘ اس کے ہونٹ لرز کر رہ‬
‫گئے۔‬

‫’’ہاں میں۔۔۔تمری سکھی‘‘ رادھا زہر خند سے‬


‫بولی۔’’شما چاہتی ہوں تمرا سواگت ٹھیک طرح نہ کر‬
‫سکی‘‘ وہ مسلسل طنز کے تیر برسا رہی تھی‬

‫’’دیوی جی! شما کر دو مجھ سے بھول ہوگئی۔ میں‬


‫اس منش کو دیکھ کر سب کچھ بھول گئی تھی۔‬
‫بھگوان کے لیے مجھے شما کر دو‘‘ بسنتی نے‬
‫اچانک آگے بڑھ کر رادھا کے پاؤں پکڑ لئے۔ وہ خزاں‬
‫رسیدہ پتے کی طرح کانپ رہی تھی۔‬

‫’’چچ۔۔۔چچ۔۔۔چچ۔۔۔کالی داس جیسے مہان گرو کی چیلی‬


‫ہو کر بھی تو مجھ سے شما مانگ رہی ہے اٹھ۔۔۔مجھ‬
‫کشٹ دے۔۔۔میں نے تجھ سے تیرا پریمی چھین لیا ہے‬
‫کیا تو مجھے یونہی چھوڑ دیگی؟‘‘ رادھا اس کے سر‬
‫پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔ اس کا ایک ایک لفظ زہر‬
‫میں ڈوبا ہوا تھا۔ بسنتی نے بے بسی سے مجھے‬
‫دیکھا۔‬

‫’’رادھا دیوی! تجھے تیری پریمی کی سوگند مجھے‬


‫شما کر دے‘‘ اسکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔‬
‫پھر اس نے میری طرف دیکھ کر التجا کی۔‬

‫’’مہاراج! مجھے رادھا دیوی کے شراپ سے بچا لو‬


‫مجھ سے بھول ہوگئی میں وچن دیتی ہوں پھر کبھی‬
‫تمری اور نجرا اٹھا کر نہ دیکھوں گی۔‘‘‬

‫’’پاپن! ‘‘ رادھا غضبناک ہو کر دھاڑی۔ اس کے آواز‬


‫کی گھن گرج آج بھی مجھے یاد ہے۔‬

‫’’تجھے شما کر دوں۔۔۔؟ تو نے میری بیری‪ ،‬کالی داس‬


‫کے کہے پر میرے سنگ وشواس گھات کیا۔ جانتی ہے‬
‫تیرے کارن میں نے کتنا کٹھن سمے بتایا ہے؟ تو نہیں‬
‫جانتی تھی۔ رادھا کے پریمی کو چھو کر تو کتنا بڑا‬
‫پاپ کر رہی ہے؟ بال اپنے گرو کو وہ تجھے اس سمے‬
‫میرے شراپ سے بچائے‘‘ اس کی غضبانک آواز آئی۔‬
‫سچ پوچھیں تو میں بھیا س وقت خوفزدہ ہوگیا تھا۔‬
‫کالی داس اور کھیدو چوہڑے کا حشر مجھے یاد تھا۔‬
‫رادھا اس وقت سخت غصے میں تھی۔ کالی داس تو‬
‫اس کے ہاتھ نہ آیا تھا۔ سارا قہر اب بسنتی پر نکلنے‬
‫واال تھا جو مسلسل رادھا سے گڑ گڑا کر معافیاں‬
‫مانگ رہی تھی۔ اس کی حالت غیر ہو چکی تھی۔ رادھا‬
‫کے پاؤں پکڑے وہ منتیں کر رہی تھی۔ یک بیک رادھا‬
‫کی آنکھیں سرخ انگارہ ہوگئیں۔ بسنتی جو رادھا کی‬
‫طرف فریادی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی کانپ گئی۔‬
‫’’دو۔۔۔دیو۔۔۔دیوی! مجھے شما کر دے۔ دیوی! تجھے‬
‫بھگوان کی سوگند اپنی داسی کو شما کر دے۔ مجھ‬
‫ابھاگن پر دیا کر دیوی میں تجھ سے جیون بھکشا‬
‫مانگتی ہوں۔ تیرا یہ اپکار میں جیون بھر نہ بھال پاؤں‬
‫گی سدا تیری آگیا کا پالن کروں گی۔‘‘ روتے ہوئے وہ‬
‫فریاد کر رہی تھی۔‬
‫غیض و غضب میں بھری رادھا پر اس کا کوئی اثر نہ‬
‫ہوا۔ اس نے چھت کی طرف دیکھا۔ اچانک چھت سے‬
‫گاڑھا گاڑھا بدبو دار مادہ نکل کر بسنتی پر گرا۔ اس‬
‫کی کربناک چیخ فضا کو مرتعش کرگئی۔ نالی سے‬
‫نکلنے والے گارے جیسا وہ مواد جس میں سے آگ‬
‫کی چنگاریاں نکل رہی تھیں نے بسنتی کو ڈھک دیا۔‬
‫اس کی کربناک چیخیں کمرے کے درو دیوار ہال رہی‬
‫تھی۔ وہ کیچڑ نما مواد میں لت پت ہاتھ پاؤں مار رہی‬
‫تھی۔ خوف سے میری ٹانگیں لرزنے لگیں۔ کافی دیر‬
‫گزر گئی۔ رادھا کے غیض و غضب میں کمی نہیں آئی‬
‫تھی۔ وہ قہر بار نظروں سے بسنتی کودیکھ رہی تھی۔‬
‫آہستہ آہستہ اس کی چیخیں مدہم پڑنے لگیں۔ رادھا نے‬
‫دوبارہ چھت کی طرف دیکھا اس بار چھت سے صاف‬
‫شفاف پانی کسی آبشار کی طرح بسنتی کے اوپر گرنے‬
‫لگا جس نے اسے اچھی طرح دھو دیا۔ لیکن یہ‬
‫کیا۔۔۔کیا یہ وہی بسنتی تھی؟ میری آنکھیں حیرت سے‬
‫پھٹ گئیں۔ گنجے سر کی کالی سیاہ عورت زمین پر‬
‫پڑی تھی۔ اس کا حال دیکھ کر میں لرز گیا۔ حسین و‬
‫جوان بسنتی کی جگہ ایک مکروہ صورت بڑھیا نظر‬
‫آرہی تھی۔ گالب کے پھول سے زیادہ شگفتہ چہرہ‪،‬‬
‫جھریوں بھرے سیاہ چہرے میں تبدیل ہو چکا تھا۔‬
‫کھال لٹک کر بدوضع ہوگئی تھی۔ سیاہ رنگت پر بڑی‬
‫بڑی سفید آنکھیں عجیب خوفناک منظر پیش کر رہی‬
‫تھیں۔ ہونٹ غائب ہونے سے دانت جھانکنے لگے‬
‫تھے۔ ناک کی صرف ہڈی رہ گئی تھی یوں لگ رہا تھا‬
‫جیسے اس کی ناک کاٹ دی گئی ہو۔ لباس جل کر راکھ‬
‫بدوضع اور بدصورت بوڑھی‬ ‫ہو چکا تھا۔ ایک نہایت ٖ‬
‫عورت اس کی جگہ لے چکی تھی۔ میں زیادہ دیر تک‬
‫یہ خوفناک منظر نہ دیکھ سکا اور منہ پھیر لیا۔‬

‫’’چمارو‘‘ رادھا نے کسی نادیدہ وجود کو پکارا۔‬


‫جی دیوی جی!‘‘ ایک کھرکھراتی ہوئی مردانہ آواز‬
‫آئی۔‬

‫’’بسنتی کو اسی شریر میں رہنا ہے۔ دھیان رہے یہ‬


‫کلٹا اس شریر کو چھوڑنے نہ پائے۔‘‘ رادھا نے نفرت‬
‫بھری نظر بسنتی پر ڈال کر کسی نادیدہ وجود کو حکم‬
‫دیا۔‬
‫’’اوش تمری آگیا کا پالن ہوگا دیوی!‘‘ وہی آواز دوبارہ‬
‫آئی۔ بسنتی کے منہ سے دبی دبی کراہیں نکل رہی‬
‫تھیں۔‬

‫’’اپنی سندرتا پر بڑا مان تھا نا تجھے۔۔۔؟ اسی کارن تو‬


‫نے میرے پریمی کی اور دیکھا تھا۔ میں نے تیری اس‬
‫سندرتاکو رہنے ہی نہ دیا۔ اب دیکھتی ہوں کون تجھ‬
‫سے پریم کرتاہے؟‘‘ رادھا زہریلے لہجے میں بولی۔‬

‫’’جا اپنے گرو سے کہہ وہ تیری سندرتا لوٹا دے جس‬


‫کی سہائتا کرتے سمے تو رادھا کی شکتی کو بھول‬
‫گئی تھی۔‘‘ بسنتی اپنے بدوضع وجود کو گھسیٹتی باہر‬
‫نکل گئی۔ میرا دل زور زورسے دھڑک رہا تھا۔‬
‫گھبرائی ہوئی نظروں سے رادھا کی طرف دیکھا جس‬
‫کا چہرہ آہستہ آہستہ معمول پر آرہا تھا۔ تھوڑی دیر وہ‬
‫آنکھیں بند کیے لمبے لمبے سانس لیتی رہی پھر‬
‫تھکے ہوئے لہجے میں بولی۔‬
‫’’پریم۔۔۔!چلو چلیں‘‘ میں کسی معمول کی طرح اس کے‬
‫پیچھے چل پڑا ‪،‬سچ پوچھیں تو میں ڈر گیا تھا۔ کیا پتا‬
‫اس جن زادی کا موڈ بدل جاتا اور میں مارا جاتا۔ باہر‬
‫نکل کر ہم گاڑی میں بیٹھ گئے۔ رادھا نے چپ سادھ‬
‫رکھی تھی۔ میں بھی اس کے موڈ کے پیش نظر‬
‫خاموشی سے ڈرائیونگ کر رہا تھا۔‬

‫ریم! دوشی تم بھی تھے پرنتو میرا من نہیں کرتا کہ‬


‫میں تمہیں کوئی کشٹ دوں‪ ،‬کیول اتنا یاد رکھنا رادھا‬
‫تم سے ادھیک پریم کرتی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نظروں‬
‫سے اوجھل ہوگئی۔‬

‫میں سکول کے پاس پہنچ چکاتھا۔ چھٹی ہونے میں‬


‫تھوڑا وقت باقی تھا میں گاڑی میں بیٹھا رہا۔ رادھا کی‬
‫بات کا مطلب میں اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ اس نے‬
‫دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے معاف کر دیا تھا۔‬
‫ایک بار پھر میں انہی چکروں میں پھنسنے جا رہا‬
‫تھاجن سے پیچھا چھڑانے کا خواہش مند تھا۔ اگر‬
‫تھوڑی دیر اور پرتاب نامی نوجوان نہ آتا تو شایدمیں‬
‫ایک بار پھر پھسل جاتا۔ کیا میں ساری زندگی ان‬
‫پراسرار قوتوں کے حامل انسانوں اور جنات میں گھرا‬
‫رہوں گا؟ میرے ذہن میں خیاالت کا ہجوم تھا۔ محمد‬
‫شریف نے مجبوری ظاہر کی تھی کہ اب وہ میری مدد‬
‫نہیں کر سکتا۔ میرا ارادہ تھا کہ صائمہ سے اس‬
‫سلسلے میں مشورہ کروں۔ لیکن اس کے لیے اسے‬
‫سب کچھ بتانا پڑتا جبکہ میں ایسا نہیں چاہتا تھا۔ وہ‬
‫کسی طور پر گوارا نہ کرتی کہ میرا تعلق کسی اور‬
‫سے ہو۔ بڑی مشکل سے اس کا ذہن صاف ہوا تھا۔‬
‫رادھا کے سلسلے میں وہ بہت دکھی ہوگئی تھی۔ میں‬
‫نہیں چاہتا تھا دوبارہ وہ پریشان ہو۔‬

‫’’کیا کیا جائے؟‘‘ رادھا کے ساتھ تعلقات بحال رکھنا‬


‫میری مجبوری سہی لیکن میرا دل ان خرافات سے‬
‫اچاٹ ہو چاک تھا۔ شیطان کے جال بہت حسین ہوتے‬
‫ہیں۔ انسان کو اپنے‬
‫شکنجے میں جکڑنے کی خاطر وہ ہر داؤ آزماتا ہے۔‬
‫بار بار رادھا کے سامنے آنے سے میرا ایمان متزلزل‬
‫ہوسکتا تھا۔ میں چاہتا تھا وہ اپنی دنیا میں لوٹ جائے‬
‫لیکن وہ کسی طور اس بات پر آمادہ نہ تھی۔ نہ چاہتے‬
‫ہوئے بھی میں اس کی بات ماننے پر مجبور تھا۔‬
‫بچوں کو سکول سے لے کرگھر پہنچا۔‬

‫ہارن دیا تو گیٹ فوراً ہی کھل گیا۔ مجھے حیرت تو‬


‫ہوئی پھر میں نے سوچا چونکہ چھٹی کا وقت تھا‬
‫اسلئے صائمہ گیٹ کے پاس ہی انتظار کررہی ہوگی۔‬
‫میں گاڑی سے نیچے اترا تو آنکھوں میں حیرت لیے‬
‫وہ میرے پاس آگئی۔‬
‫’آپ ملتان نہیں گئے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔‬

‫’’ملتان۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ اب حیران ہونے کی‬


‫باری میری تھی‘‘ تم سے کس نے کہا میں نے ملتان‬
‫جانا ہے؟‘‘‬
‫’’ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ ہی نے تو کہا تھا‘‘ اس‬
‫کے چہرے پر الجھن تھی۔‬

‫’’ابھی کب؟ میں تو صبح سے کہیں گیا ہوا تھاآج بینک‬


‫سے بھی چھٹی لی تھی۔‘‘‬

‫’’وہ تو آپ نے صبح بتایا تھا جب آپ بچوں کو سکول‬


‫چھوڑ کر واپس آئے تو کہا نہیں تھا کہ میں کسی کام‬
‫کے سلسلے میں ملتان جا رہا ہوں‘‘ وہ بے یقینی سے‬
‫پوچھ رہی تھی۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی‬
‫طرف دیکھا کہیں وہ مذاق تونہیں کر رہی لیکن وہ‬
‫بالکل سنجیدہ تھی۔‬

‫’’فاروق! کیا بات ہے ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘ اس‬


‫نے پوچھا۔ ہم ابھی تک گیراج میں ہی کھڑے تھے بات‬
‫میری سمجھ سے باہر تھی میں بچوں کو سکول چھوڑ‬
‫کر رادھا کے ساتھ چال گیا تھا۔ ابھی تو میرا ذہن‬
‫بسنتی کا حشر دیکھ کر الجھا ہوا تھا کہ یہ نئی الجھن‬
‫سامنے آگئی۔‬

‫’اچھا چھوڑیں اندر آئیں‘‘ صائمہ کہتی ہوئی اندر چلی‬


‫گئی۔ لیکن اس کے چہرے پر فکر کے سائے منڈال‬
‫رہے تھے۔ میں خود بھی حیران تھا یہ کیا معاملہ ہے؟‬
‫کھانا کھانے کے بعد بچے سو گئے تو میں نے صائمہ‬
‫کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔ ہم دونوں الؤنج میں آکر بیٹھ‬
‫گئے۔‬

‫’’اب بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے‬


‫پوچھا۔‬

‫’’جب آپ بچوں کو سکول چھوڑ کر واپس آئے تو۔۔۔تو‬


‫آ۔۔۔آپ۔‘‘‬
‫’’بتاتی کیوں نہیں میں نے کیا کہا تھا؟‘‘ خون کی‬
‫گردش میری رگوں میں تیز ہوگئی چہرہ تپ گیا۔ وہ‬
‫کون تھا جو میری شکل بناکر صائمہ کے ساتھ۔۔۔؟ وہ‬
‫میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر گھبرا گئی۔‬

‫’’پہلے یہ بتاؤ تم کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘ میں نے‬


‫جھنجھال گیا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا پھر‬
‫کہنے لگی۔‬

‫’’آپ مجھے حق زوجیت ادا کرنے کے لیے کہہ رہے‬


‫تھے جس پرمیں نے کہا میں مخصوص ایام میں ہوں‬
‫لیکن شاید آپ بہت بے تاب تھے کہنے کوئی بات نہیں۔‬
‫مجھے حیرت تو بہت ہوئی لیکن میں نے آپ کو‬
‫سمجھایا کہ یہ بہت بڑا گناہ ہوگا۔ اسوقت بھی آپ اسی‬
‫طرح جھنجھال گئے تھے اور بار بار مجھ سے اصرار‬
‫کر رہے تھے کہ میں اپنی خوشی سے اجازت دے‬
‫دوں لیکن۔۔۔‘‘‬
‫’’یہ بتاؤ میں نے تمہیں چھوا تھا میرا مطلب ہے میں‬
‫نے تمہیں ہاتھ لگایا تھا؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹ‬
‫کر پوچھا۔‬

‫’’نہیں اسی بات پر تو مجھے حیرت ہوئی تھی کہ جب‬


‫میں آپ کے پاس آکر بیٹھنے لگی تو آپ کہنے لگے‬
‫نہیں ابھی مجھے مت چھونا جب تک تم منہ سے یہ نہ‬
‫کہہ دو کہ میں تمہیں اجازت دیتی ہوں‘‘ اس کا چہرہ‬
‫گلنار ہوگیا۔ اطمینان بھری ایک سانس میرے سینے‬
‫سے خارج ہوگئی۔‬

‫’’فاروق! یہ۔۔۔یہ سب کیا ہے؟ آپ کہہ رہے ہیں آپ اس‬


‫کے بعد واپس گھر آئے ہی نہیں تو پھر۔۔۔؟‘‘ وہ سوالیہ‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔‬

‫’دراصل بیماری کی وجہ سے میری یادداشت کچھ‬


‫کمزور ہوگئی ہے مجھے کچھ یاد نہیں رہتا ۔وہ مطمئن‬
‫تو نہ ہوئی ہاں اس سلسلے میں مزید کچھ نہ پوچھا۔‬
‫میں بری طرح الجھ گیا تھا۔ میں تو صبح سے رادھا‬
‫کے ساتھ تھا پھر وہ کون تھا جو میری شکل میں‬
‫صائمہ کے پاس آیا۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪44‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫خون میری رگوں میں ٹھوکریں مارنے لگا۔ سوچ سوچ‬


‫کر دماغ شل ہوگیا۔ اچانک مجھے خیال آیا‬

‫’’کیوں نہ رادھا سے اس مسئلے پر بات کی جائے‘‘‬


‫لیکن صائمہ کے ہوتے ہوئے اس سے ملنا ممکن نہ‬
‫تھا۔ اور صائمہ کو تنہا چھوڑکرباہر جانا بھی نہ چاہتا‬
‫تھا کیا خبر وہ حرامزادہ پھر آجاتا۔‬
‫’’کالی داس‘‘ میرے ذہن میں بجلی سے چمکی۔ ہو‬
‫سکتا ہے وہ بدبخت اپنا بدلہ لینے کے یے میرا‬
‫ہمشکل بن کر آگیا ہو‪،‬صائمہ کے سونے کے بعد‬
‫ضرور رادھا کو بالؤں گا وہی اس گتھی کو سلجھا‬
‫سکتی ہے۔‘‘ یہ سوچ کر مجھے کچھ اطمینان ہوا۔‬

‫’’فاروق ! ما شاہللا آپ خود بھی بہت کچھ جانتے ہیں‬


‫پھر کیوں معلوم نہیں کر لیتے؟‘‘ تھوڑی دیر بعد‬
‫صائمہ نے آکر کہا۔‬

‫’’تم فکر نہ کرو میں آج رات وظیفہ کروں گا‘‘ میں نے‬
‫اسے تسلی دی اس کے بعد میں گھر پر ہی رہا۔ رات‬
‫کو تقریبا بارہ بجے جب میں نے دیکھا صائمہ سو گئی‬
‫ہے تو دراز سے سگریٹ کا پیکٹ نکال کر باہر آگیا۔‬
‫دن کی تپش کے بعد رات خوشگوار محسوس ہو رہی‬
‫تھی۔ میں نے الن میں آکر آہستہ سے رادھا کو پکارا۔‬

‫’’میں یہاں ہوں پریم‘‘میرے پیچھے سے اس کی‬


‫سریلی آواز سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔‬
‫آج رادھا نے بالکل بسنتی کی طرح پھولوں کا زیور‬
‫پہن رکھاتھا۔ دراز گیسوؤں میں موتیا کے پھول‬
‫گندھے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں بھی نہایت خوشنما‬
‫اور خوشبودارپھولوں کے گجرے پہنے وہ ایسی پری‬
‫دکھائی دے رہی تھی جو پرستان سے راستہ بھول کر‬
‫ادھر آنکلی ہو۔چاندنی نے اس کے حسن میں اضافہ کر‬
‫دیا تھا۔ میں یک ٹک اسے دیکھتا گیا۔‬

‫’’پریم‘‘ اس کی جانی پہچانی خمار آلود سرگوشی فضا‬


‫میں بکھر گئی۔ باد صباکی طرح چلتی وہ میرے قریب‬
‫آگئی۔‬

‫’’کس کارن داسی کو یاد کیا ہے؟‘‘ حسین آنکھوں میں‬


‫پیار کی جوت جل رہی تھی۔‬

‫’’کاش میں شاعر ہوتا تو تمہارے حسن میں کوئی‬


‫قصیدہ لکھتا‘‘ مجھے خود اپنی آواز اجنبی لگی۔‬
‫’’تم توکھد ایک کویتا ہو‘‘ وہ میرے سینے سے لگ‬
‫کر بولی۔ سب وعدے و عید بھول گئے۔ میں ایک بار‬
‫پھر بہکنے لگا تھا۔ میری بانہوں کا حلقہ اس کے گرد‬
‫تنگ ہوگیا۔ میری پشت پر اسکی مخروطی انگلیاں‬
‫ہوگئیں‬
‫َ‬ ‫گردش کرنے لگیں۔ دل کی دھڑکنیں ہم آہنگ‬
‫سب سے بے نیاز ہم ایک دوسرے میں کھو گئے۔‬
‫’پریم ! تم اتنے کھٹور نہ بنا کرو۔ تمری یہ داسی‬
‫تمرے بن رہ نہیں پاتی۔ سنسار میں اب میرے واسطے‬
‫تمرے بن کچھ نہیں۔ یدی تم اس بار مجھ دے دور‬
‫ہوئے تو بھگوان کی سوگندکھا کر کہتی ہوں آتم ہتھیا‬
‫کر لوں گی‘‘ وہ میرے سینے سے اپنا چہرہ‬
‫رگڑکربولی۔ اسکی ادائیں بے تابیوں کا پتا دے رہی‬
‫تھیں۔ بوجھل پلکیں اٹھا کر اسنے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’پریم! آج میرے من کو جو شانتی ملی ہے میں تمہیں‬


‫بتانہیں سکتی۔‘‘ وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ہوئے بولی۔ میرا حوصلہ ختم ہوتا جارہاتھا۔ میں چاہتا‬
‫تھا کہ اسے اصل موضوع کی طرف الؤں لیکن وہ تھی‬
‫کہ اپنی بیتابیوں کی داستان سنا رہی تھی۔‬
‫’’اونہوں۔۔۔‘‘ وہ کسی طور علیحدہ ہونے پر تیار نہ‬
‫تھی۔‬

‫’’میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنا ہے‘‘ میں‬


‫نے اسے ہاتھ سے پکڑکر گھاس پربٹھا لیا۔‬
‫’’پریم سے جیادہ جروری تو سنسار میں کچھ بھی‬
‫نہیں‘‘ اس پر محبت کا بھوت سوار تھا۔ خودمیری‬
‫حالت بھی غیر ہوتی جارہی تھی۔‬

‫’’ہاں۔۔۔ٹھیک کہتی ہو لیکن اس وقت اس سے بھی‬


‫زیادہ ضروری مسئلہ درپیش ہے‘‘ میں نے کہا۔‬

‫میرے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر وہ سیدھی ہو کر‬


‫بیٹھ گئی۔‬

‫’’کیا بات ہے پریم؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔ میں‬


‫نے اسے ساری بات بتا دی۔ وہ حیرت سے سنتی رہی۔‬
‫’’مجھے لگتا ہے یہ شرارت کالی داس کی ہے‘‘ میں‬
‫نے اپنا خیال ظاہر کیا۔‬

‫’’پرنتو یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایک منش کیسے‬


‫دوجے منش کا روپ دھارن کر سکتا ہے؟ نہیں یہ‬
‫کوئی اور ہے‘‘ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔‬

‫’’میں نے تمہیں اسی لئے تکلیف دی ہے کہ تم پتا‬


‫لگاؤ وہ حرامزدہ کون ہے؟‘‘‬

‫کچھ دیر وہ آنکھیں بند کیے بیٹھی رہی پھر آنکھیں‬


‫کھول کر کہنے لگی۔‬

‫’’یہ کوئی بڑی شکتی ہے۔ مجھے اس کارن جاپ کرنا‬


‫ہوگا‘‘ اسکی بات سن کر میں دہل گیا۔ پچھلی بار بھی‬
‫جب وہ جاپ کرنے گئی تھی مجھ پر مصیبتوں کے‬
‫پہاڑ ٹوٹ پڑے تھے۔‬

‫’’کتنے دنوں کاجاپ کرنا ہوگا؟‘‘ میں نے بے چینی‬


‫سے پوچھا۔‬
‫’’کیوالیک دن سوریہ دیوتا کا جاپ کرناہوگا؟‘‘‬
‫’’پھرٹھیک ہے لیکن دھیان رکھنا پہلے کی طرح کہیں‬
‫اس بار بھی تمہیں کوئی مجبوری آڑے آگئی تومیں‬
‫غریب مفت میں مارا جاؤں گا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا۔‬

‫’’پھر کیا ہوا اپنے متروں کو بال لینا پہلے بھی تو‬
‫انہوں نے تمری سہائتا کی تھی‘‘ اس نے بھی جوابی‬
‫وار کیا میں خاموش ہوگیا۔‬

‫’’ناراج ہوگئے مہاراج؟‘‘ وہ شوخ ہوگئی۔‬


‫’تم سچ کہتی ہو میری غلطی تھی جس پر میں نادم‬
‫ہوں‘‘میں نے آہستہ سے کہا۔‬
‫’’ارے تم توجراسی بات پر ناراج ہوجاتے ہو میں‬
‫تویونہی تمہیں چھیڑ رہی تھی‘‘ اس نے ایک جھٹکے‬
‫سے مجھے اپنی گود میں گرا لیا حسین چہرہ میرے‬
‫قریب آنے لگا۔ سانسوں کی تپش نے مجھے بے حال‬
‫کر دیا۔ قریب تھا کہ میں بے خود ہوجاتا۔‬

‫’’صائمہ جاگ رہی ہے‘‘ میں نے بمشکل کہا۔ اس نے‬


‫ایک آہ بھر کر مجھے چھوڑ دیا۔‬

‫’’اچھا چلتی ہوں‘‘ وہ ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولی۔‬

‫’’ناراض ہوگئیں؟‘‘ میں نے اسکا ہاتھ تھام لیا۔‬

‫’’نہیں پریتم تم سے ناراج ہونے کا وچار میں من میں‬


‫ال ہی نہیں سکتی۔ نہ جانے تم نے کیا کر دیا ہے۔ ہرپل‬
‫تمرا دھیان من کو بیاکل رکھتا ہے‘‘ اسکی آنکھوں‬
‫میں آنسو آگئے۔‬

‫’’تم یہ جاپ کر لو اس کے بعدہم ملیں گے‘‘ میں نے‬


‫اس کا دل رکھنے کی خاطر کہا۔ وہ مجھے گہری‬
‫نظروں سے دیکھتی رہی۔‬

‫’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬


‫’’ایک پرشن پوچھنا ہے پرنتو ڈرتی ہوں یدی تم نے‬
‫اتر نہ دیا تو میرا مان ٹوٹ جائے گا‘‘ اس نے آہستہ‬
‫سے کہا۔‬

‫’’ایساکیا پوچھنا چاہتی ہو کہ تمہیں اس بات کا خوف‬


‫ہے میں جواب نہیں دوں گا‘‘ اسکی بات سن کر میں‬
‫حیران رہ گیا۔‬
‫’جاپ پرجانے سے پہلے میں تمرے من میں آئی ہر‬
‫بات کوپڑھنے کی شکتی رکھتی تھی۔ پرنتوواپس آنے‬
‫کے بعد ایسا کرنا میرے بس میں نہیں رہا ‪،‬اسکا کیا‬
‫کارن ہے؟‘‘ وہ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔‬

‫’’رادھا! میرا یقین کرو میں اس کی وجہ خود بھی نہیں‬


‫جانتا؟‘‘ میں نے صاف گوئی سے کہا۔‬

‫’’ستیہ(سچ) کہہ رہے ہو؟‘‘ اس نے بے یقینی سے‬


‫پوچھا۔‬

‫’’تمہارے سر کی قسم سچ کہہ رہا ہوں میں واقعی‬


‫نہیں جانتا‘‘ میں نے اسے یقین دالیا۔‬

‫’’تم تو بہت طاقتور ہو‪،‬تم بھی نہیں جان سکتیں کہ یہ‬


‫سب کس وجہ سے ہے؟‘‘میں نے پوچھا۔‬

‫’’میں نے اوشکتا کی تھی پرنتو کوئی اتر نہیں‬


‫مال‘‘اس کے لہجے میں مایوسی تھی۔‬
‫’’موہن! یدی اس بار کسی نے تمہیں مجھ سے جدا‬
‫کرنے کی اوشکتا کی تو اسکا حال بسنتی سے برا بھی‬
‫ہوگا‘‘ اسکے لہجے میں سختی تھی۔‬

‫’’اچھا پہلے تو تم میری مشکل حل کرو اسکے بعد‬


‫دیکھتے ہیں یہ کس کی شرارت ہے؟‘‘ میں نے اس کا‬
‫دھیان ہٹایا۔‬

‫’’چلتی ہوں۔۔۔کل میں اسی سمے آؤں گی تو تمرے‬


‫پرشن کا اتر میرے پاس اوش ہوگا‘‘ اس نے بڑے‬
‫یقین سے کہا۔‬

‫’’رادھا! میں اس مسئلے پر بہت پریشان ہوں اگر پتا‬


‫نہ چل سکا توکیا ہوگا؟‘‘ میں نے سنجیدگی سے‬
‫پوچھا۔‬
‫’’ارے ایسا کیوں کہہ رہے ہو کیا تمہیں رادھا کی‬
‫شکتی پروشواس نہیں؟‘‘ اس نے میرے بالوں میں‬
‫اپنی مخروطی انگلیاں پھنساکر پوچھا۔‬

‫’’اعتبارہے تو تمہیں اس مسئلے کے لیے بالیا ہے‘‘‬

‫’’تمری ہر سمسیا میری ہے نشچنٹ رہو۔۔۔اس سمسیا‬


‫کا سمدھان اوش ہوگا‘‘اس نے مجھے تسلی دی اور‬
‫کھڑی ہوگئی۔‬

‫’’اچھا پریتم! کل آؤں گی اسی سمے‘‘ اتنا کہہ کر وہ‬


‫نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ جیسے ہی میں اندر داخل‬
‫ہوا میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ صائمہ نہ‬
‫صرف جاگ رہی تھی بلکہ اس کا چہرہ غصے سے‬
‫سرخ انگارہ بنا ہوا تھا۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھوں‬
‫سے مجھے گھور رہی تھی۔ چورکی داڑھی میں‬
‫تنکا۔۔۔میں بری طرح بدحواس ہوگیا۔‬
‫’’کیا بات ہے صائمہ تم سوئی نہیں؟‘‘ میں نے اس کے‬
‫پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا۔‬

‫’’فاروق! کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ اس کا لہجہ سپاٹ تھا۔‬


‫میں دنگ رہ گیا۔ اس انداز سے اس نے کبھی میرے‬
‫ساتھ بات نہ کی تھی۔‬

‫’’صص۔۔۔صائمہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو ۔میں نے تمہیں‬


‫بتایا تو تھا کہ میں آج رات وظیفہ کروں گا تاکہ پتا چل‬
‫سکے وہ منحوس کون تھا‘‘ میں نے کہا۔ اس کی‬
‫گھورتی نظریں مجھ پر جمی ہوئی تھی۔ میں نے اس کا‬
‫ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ‬
‫چھڑایا اور دوسری طرف منہ پھیر کر لیٹ گئی۔‬

‫’’کہیں صائمہ نے مجھے رادھا کے ساتھ دیکھ تو‬


‫نہیں لیا؟‘‘ میرے ذہن میں خیال آیا۔ میں نے اس کے‬
‫بازو پرآہستہ سے ہاتھ رکھا۔ وہ بے حس و حرکت‬
‫لیٹی رہی۔‬
‫’’صائمہ!‘‘ میں نے آہستہ سے پکارا۔ کوئی جواب نہ‬
‫مال۔‬

‫’’صائمہ! میں نے اسکا کندھا بالیا۔ اس نے کسمسا‬


‫کرکروٹ بدلی اور آنکھیں کھول دیں۔ جیسے ابھی نیند‬
‫سے جاگی ہو۔‬

‫’’آپ آگئے۔۔۔؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ اب‬


‫اس کے چہرے پر غصے کا نام و نشان نہ تھا۔ میں‬
‫حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔‬

‫’’چائے بنا دوں؟‘‘ اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔‬

‫’’نن۔۔۔نہیں چائے پی لی تو نیند اڑ جائے گی‘‘ میں نے‬


‫کہا۔ حیرت مجھے اس بات پرتھی کہ یہ سب کیا ہے؟‬
‫کہیں صائمہ نیند میں تو نہ تھی؟ میرے ذہن میں خیال‬
‫آیا۔‬
‫’’فاروق !کیا بات ہے‪ ،‬آپ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟‘‘‬
‫اس نے حیران ہوکر پوچھا۔‬

‫’’کچھ پتا چال وظیفے سے؟‘‘ وہ بیٹھ کر اپنے لمبے‬


‫بالوں کو جوڑے کی صورت لپیٹنے لگی۔‬

‫’’وظیفہ تو کرلیا ہے امید ہے چوبیس گھنٹوں کے اندر‬


‫پتا چل جائے گا‘‘ میں صائمہ کے رویے پر حیرت زدہ‬
‫تھا۔ اسکی حالت بتا رہی تھی وہ میرے جگانے سے‬
‫اٹھی ہے لیکن جب میں کمرے میں داخل ہوا تھا تو وہ‬
‫بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھیں غصے سے سرخ‬
‫تھی۔ لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا کہ معاملہ‬
‫ہے؟ نیند سے اس کی آنکھیں بوجھل ہو رہی تھیں اس‬
‫لئے میرے کہنے پر وہ فوراً ہی سوگئی۔ دوسرے دن‬
‫میں بچوں کو سکول چھوڑتا ہوا بینک پہنچ گیا۔ ابھی‬
‫مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ عمران اندر‬
‫آگیا۔ سالم دعا کے بعد وہ کہنے لگا۔‬
‫’’خان بھائی! وہ فائل مکمل ہوگئی جو آپ کل گھر لے‬
‫گئے تھے؟‘‘ بینک سے واپس آتے ہوئے میں ایک‬
‫نامکمل فائل گھر لے آیا تھا جو واپس النا یاد نہ رہی۔‬

‫’’تم بیٹھو میں ابھی لے کر آتا ہوں دراصل آتے ہوئے‬


‫مجھے یاد ہی نہ رہا‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔ فائل‬
‫بہت اہم تھی اس لئے اسے النا ضروری تھا۔ میں نے‬
‫گھر پہنچ کر ہارن دیا۔ صائمہ کی عادت تھی وہ دو تین‬
‫منٹ میں گیٹ کھول دیا کرتی۔ لیکن پانچ منٹ گزرنے‬
‫کے بعد بھی گیٹ نہ کھال تو میں نے دوبارہ ہارن‬
‫بجایا۔ اس بار بھی کافی دیر انتظار کرتا رہا۔ تیسری بار‬
‫زیادہ دیر تک ہارن بجاتا رہا۔اس بار بھی گیٹ نہ کھال‬
‫تو میں فکر مند ہوگیا۔ بیل بجانے پر بھی نتیجہ حسب‬
‫سابق رہا۔ اب ایسا بھی نہ تھا کہ اتنی زور سے ہارن‬
‫اور بیل کی آواز اسے سنائی نہ دی ہو۔‬
‫۔میں نے گیٹ کے پاس جا کر اندر جھانکا مکمل‬
‫خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ دل میں طرح طرح کے‬
‫خدشات جنم لینے لگے۔ زور سے گیٹ بجانے پر بھی‬
‫صورت حال وہی رہی تو میری پریشانی بڑھ گئی۔ سبین‬
‫والے واقعے کے بعد لوگوں نے مجھے بے قصور تو‬
‫تسلیم کر لیا تھا پھر بھی پہلے والے تعلقات نہ رہ‬
‫پائے تھے۔ صرف رسمی سالم دعا باقی رہ گئی تھی۔‬
‫دن کا وقت تھا ۔اکا دکا لوگ آجا رہے تھے‪ ،‬اس لئے‬
‫میں نے مناسب نہ سمجھا کہ گیٹ پھالنگ کر اندر‬
‫داخل ہوں۔ میں ابھی کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ گیٹ کی‬
‫چھوٹی کھڑی خود بخود کھل گئی۔ میں جلدی سے اندر‬
‫داخل ہوا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں‬
‫بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا کاریڈور کراس کرنا میرے لئے‬
‫مشکل ہو رہا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا مجھے پر لگ‬
‫جائیں اور میں اڑکر اندر پہنچ جاؤں‪ ،‬جیسے ہی میں‬
‫بیڈ روم کے قریب پہنچا میرے قدم جیسے زمین نے‬
‫جکڑ لئے۔ مجھے اپنی سماعت پریقین نہ آیا۔ بیڈ روم‬
‫سے میری آواز آرہی تھی۔ جی ہاں میری آواز اندر‬
‫سے آرہی تھی۔ ساتھ ہی صائمہ کی ہنسی کی مدہر‬
‫جھنکار بھی۔ میں تیزی سے آگے بڑھا لیکن جلدی‬
‫میں فون کی تار کو بھول گیا جو کاریڈور میں پھیلی‬
‫ہوئی تھی۔ یہ تارمیں نے کچھ دن قبل بڑھائی تھی کہ‬
‫فون کو بیڈ روم تک الیا جا سکے۔ تار سے میرا پیر‬
‫الجھا اور میں منہ کے بل جاگرا۔ ایک دھماکے سے‬
‫میرا سر دیوار سے ٹکرایا اور ہر سو اندھیرا چھا گیا۔‬
‫پھر جگنو سا چمکا اور میرے کانوں مدہم مدہم آوازیں‬
‫آنے لگیں۔ بمشکل میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا‬
‫سفید اور آل پہنے ایک ڈاکٹر میرے اوپر جھکا ہوا تھا۔‬
‫سر بری طرح چکرا رہا تھا اور شدت کا درد تھا۔‬
‫آنکھیں کھلتے دیکھ کر ڈاکٹر نے کچھ کہا جسے میں‬
‫پوری طرح نہ سمجھ سکا۔ آہستہ آہستہ سے مجھے‬
‫سب کچھ یاد آتا گیا۔‬
‫’’پین کلر انجکشن لگا دو‘‘ مجھے ایک مردانہ آواز‬
‫سنائی دی۔ اس کے بعد بازو میں سوئی کی چبھن‬
‫محسوس ہوئی اور میں ایک بار پھر ہوش کی دنیا‬
‫سے دور چال گیا۔ دوبارہ ہوش آنے کے بعد جب میری‬
‫آنکھ کھلی تو کمرے میں ہلکاہلکا اندھیرا تھا۔ حلق‬
‫میں پیاس کے مارے کانٹے چبھ رہے تھے۔ میں نے‬
‫ادھر ادھر نظر دوڑائی بیڈ کے ساتھ کرسی پر صائمہ‬
‫بے خبر سو رہی تھی۔‬
‫’’صائمہ‘‘ بمشکل میری آواز نکل سکی۔ بولنے سے‬
‫میرے سر میں شدید درد اٹھا میں کراہ کر رہ گیا۔‬
‫صائمہ بدستور غافل تھا۔ سربھاری بھاری سا محسوس‬
‫ہو رہا تھا میں ے ہاتھ لگایا۔ سارا سر پیٹوں سے‬
‫جکڑا ہوا تھا۔ شاید دیوار سے ٹکرانے سے سر پھٹ‬
‫گیا تھا میں نے کمرے میں چاروں طرف نظر دوڑائی‬
‫یہ کسی ہسپتال کا کمرہ تھا۔ سر بری طرح چکرانے‬
‫لگا بمشکل ہمت کرکے دوبارہ صائمہ کو پکارا۔ اس‬
‫بار وہ چونک کر اٹھ گئی لپک کر قریب آئی اورمیرے‬
‫اوپر جھک گئی۔‬

‫’’فاروق!‘‘ اس کی رندھی ہوئی آواز میرے کان میں‬


‫تعالی کا شکر ہے آپ کو ہوش آگیا۔ پتا ہے‬
‫ٰ‬ ‫پڑی۔ ’’ہللا‬
‫آپ کے سر پر تیرہ ٹانکے لگے ہیں‘‘ اس نے مجھے‬
‫بتایا۔‬
‫’ڈاکٹرز کہہ رہے تھے اگر آپ کو ہوش آگیا تو ٹھیک‬
‫ہے ورنہ آپ کے سر کا آپریشن کرنا پڑے گا‘‘ وہ‬
‫مجھے بتا رہی تھی۔‬
‫’’مم۔۔۔مجھے پپ۔۔۔پانی پال دو۔‘‘ بمشکل چند الفاظ ادا‬
‫ہوئے۔ اس نے جلدی سے پاس پڑے جگ سے پانی‬
‫گالس میں انڈیال اور میرے ہونٹوں سے لگا دیا۔ میں‬
‫نے بدقت چند گھونٹ حلق سے اتارے ۔اتنا کرنے سے‬
‫میرے سر میں دھماکے ہونے لگے میں کراہ کر رہ‬
‫گیا۔ صائمہ جلدی سے ڈاکٹر کو بال الئی اس نے میرا‬
‫معائنہ کیا اور تسلی دی کہ اب میری حالت خطرے‬
‫سے باہر ہے۔‬

‫’’میں کہاں ہوں؟‘‘ خود مجھے اپنی آواز مشکل سے‬


‫سنائی دی۔ صائمہ نے جھک کر اپنا کان میرے منہ‬
‫سے لگا دیا۔ میں نے اپنا سوال دہرایا۔‬

‫’’آپ کاریڈور میں گر گئے تھے۔ جلدی میں آپ فون کا‬


‫تار نہ دیکھ سکے جس سے آپ کا پیر الجھ گیا تھا۔‬
‫میں سو رہی تھی‪ ،‬دھماکے کی آواز سے میری آنکھ‬
‫کھلی جب میں نے باہر آکر دیکھا تو آپ کاریڈور میں‬
‫بے ہوش پڑے تھے۔ آپ کے سر سے بھل بھل خون‬
‫بہہ رہا تھا۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ سمجھ نہ‬
‫آرہا تھا کیا کروں۔ آخر کار ہمت کرکے آپ کے سر پر‬
‫دوپٹا باندھا اور بمشکل آپ کو گھسیٹ کر گیراج تک‬
‫الئی گاڑی بھی باہر کھڑی تھی اسے اندر ال کر آپ کو‬
‫اس میں ڈاال اور ہسپتال لے آئی۔راستوں سے واقفیت‬
‫تو تھی نہیں بس ایسے ہی باہر نکل آئی تھی۔ ایک‬
‫جگہ یہ پرائیویٹ ہسپتال کا بورڈ نظر آیا تو فوراً آپ‬
‫کو یہاں لے آئی۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے تھے‬
‫تعالی کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اتنی‬ ‫ٰ‬ ‫یہ تو ہللا‬
‫تعالی آپ‬
‫ٰ‬ ‫قوت دی اور میں یہ سب کرگزری۔ انشاء ہللا‬
‫ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ اس نے میر اہاتھ تھپتھپا کر‬
‫مجھے تسلی دی۔ صائمہ کا کہنا تھا کہ وہ سو رہی‬
‫تھی جبکہ میں نے خود اس کی ہنسی کی آواز سنی‬
‫تھی یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا میری سماعت نے‬
‫مجھے دھوکہ دیا تھا؟ اگر اسے سچ سمجھ لیا جائے‬
‫تو گیٹ کس نے کھوال تھا؟ کیونکہ اچھی طرح ہالنے‬
‫پر گیٹ بند مال تھا۔ یا خدا۔۔۔! یہ کیا ماجرا ہے؟ سوچ‬
‫سوچ کر میرا سر مزید دکھنے لگا۔‬
‫’فاروق‘‘ صائمہ کی مدہم سے آواز میرے کان میں‬
‫پڑی۔ میں نے آنکھیں کھول دیں۔‬

‫’’آپ پریشان نہ ہوں ہللا کا شکر ہے خطرے والی‬


‫کوئی بات نہیں میری ابھی ڈاکٹر سے بات ہوئی ہے وہ‬
‫کہہ رہا تھا احتیاط کریں باقی سب خیریت ہے‘‘ اس نے‬
‫کہا۔ میں زبردستی ہونٹوں پر مسکراہٹ لے آیا۔ صائمہ‬
‫کا پریشان چہرہ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ باربار میرے‬
‫ذہن میں گزرا ہوا واقعہ آرہا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ سب‬
‫اسی حرامزادے کی شرارت ہو۔ میں نے سوچا لیکن‬
‫صائمہ کیوں جھوٹ بولتی؟ میرے ذہن نے فوراً اس‬
‫خیال کو رد کر دیا اگر اس کے پاس کوئی موجود تھا‬
‫تو وہ کیوں کہتی کہ میں سو رہی تھی؟ مجھ پر ایک‬
‫بار پھر ہلکی ہلکی غنودگی طاری ہونے لگی۔ تھوڑی‬
‫دیر کے بعد ساری پریشانیوں سے چھٹکارہ مل گیا‬
‫اور میں گہری نیند سوگیا۔ دوبارہ جب میری آنکھ کھلی‬
‫تو دن کا اجاال پھیال ہوا تھا۔ سر کے درد میں کچھ کمی‬
‫تھی۔ میں نے آہستہ سے سر اٹھا کر دیکھا۔ صائمہ‬
‫جائے نماز پر بیٹھی کچھ پڑھ رہی تھی۔‬
‫’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے آہستہ سے آواز دی۔ وہ لپک کر‬
‫میرے پاس آگئی۔‬

‫’’کیسی طبیعت ہے‘‘ اس نے پیار سے میرا ہاتھ تھام‬


‫لیا۔‬
‫’کافی بہتر محسوس کر رہاہوں۔‘‘‬

‫’’آپ کلی کر لیں میں آپ کے لیے ناشتہ التی ہوں‘‘‬


‫اس نے کہا اور پانی کی بوتل میری طرف بڑھائی۔ میں‬
‫نے پاس پڑی باسکٹ میں کلیاں کیں۔ صائمہ چائے اور‬
‫بسکٹ لے آئی اور چائے میں ڈبو ڈبو کر مجھے‬
‫کھالنے لگی۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے میں نے‬
‫کچھ بھی نہ کھایا تھا۔ پورا بسکٹوں کاڈبہ کھا گیا۔ کچھ‬
‫توانائی محسوس ہوئی میں دوبارہ لیٹ گیا۔ گزرا ہوا‬
‫واقعہ ایک بار پھر میرے ذہن میں تازہ ہوگیا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪45‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’عمران بھائی بتا رہے تھے کہ آپ کوئی فائل لینے‬


‫گھر آئے تھے؟‘‘ صائمہ نے میرے پاس بیٹھ کر‬
‫پوچھا۔‬

‫’’ہاں ایک ضروری فائل گھر رہ گئی تھی‘‘میں نے اس‬


‫کی طرف بغور دیکھا۔‬
‫’لیکن تم گیٹ کیوں نہیں کھول رہی تھیں۔ میں نے‬
‫گاڑی کا ہارن بجایا بیل بجائی لیکن۔۔۔‘‘‬

‫’’میں سو گئی تھی۔۔۔رات نہ جانے کیوں ٹھیک سے‬


‫نیند نہیں آئی ذرا لیٹی تو آنکھ لگ گئی۔ نہ میں سوتی‬
‫نہ آپ کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔‘‘ وہ تاسف سے‬
‫بولی۔‬
‫’’یوں نہیں کہتے ‪،‬گناہ ہوتا ہے جو کچھ تقدیر میں‬
‫لکھا ہو پوراہو کر ہی رہتا ہے‘‘ میں نے اسے‬
‫سمجھایا۔‬

‫’’سارے دکھ آپ ہی کی قسمت میں لکھے ہیں‘‘ وہ آب‬


‫دیدہ ہوگئی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔‬
‫’’شکر کرو ہر بار بچ جاتا ہوں‘‘ میں نے مسکرا کر‬
‫کہا۔ دروازہ کھال اور ڈاکٹر بمعہ نرس اندر آگیا۔ مجھے‬
‫جاگتا دیکھ کر خوش اخالقی سے بوال۔‬

‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫’’کیا حال ہیں فاورق صاحب!؟ شکر کریں ہللا‬
‫کرم کیا ہے ورنہ جس قدر شدید ضرب آپ کو آئی تھی‬
‫اس میں کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ بینائی بھی متاثر ہو‬
‫سکتی تھی‘‘ وہ میری نبض چیک کرتے ہوئے بوال۔‬
‫تعالی کا الکھ الکھ شکر ہے ڈاکٹر‬
‫ٰ‬ ‫’’جی ہاں ہللا‬
‫صاحب‘‘ صائمہ نے جواب دیا۔‬

‫’’اگر گھر جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں لیکن احتیاط‬


‫کی ضرورت ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے نرس کو پٹی چینج کرنے‬
‫کی ہدایت دیتے ہوئے مجھ سے کہا۔‬

‫’’اگر آپ کی اجازت ہو تو میں چال جاتا ہوں‘‘ میں نے‬


‫آہستہ سے کہا۔‬

‫’’اوکے۔۔۔ابھی آپ کی ڈسچارج سلب تیار ہو جاتی ہے۔‬


‫پھرآپ چلے جائیے گا۔ ایمبولینس کی ضرورت ہو تو‬
‫بتائیں۔‘‘ اس نے آخری فقرہ صائمہ کی طرف دیکھ‬
‫کرکہا۔‬
‫’’شکریہ ڈاکٹر صاحب! ہمارے پاس گاڑی ہے‘‘ صائمہ‬
‫نے کہا۔ آدھے گھنٹے بعد ہم گھر جا رہے تھے۔ گاری‬
‫صائمہ ڈرائیور کر رہی تھی۔ میں تکیہ سرکے نیچے‬
‫رکھے پچھلی سیٹ پر دراز تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم گھر‬
‫پہنچ گئے۔ بچے مجھے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ اتنے‬
‫دنوں سے نازش اور عمران ہی ہمارے گھر پر بچوں‬
‫کو سنبھال رہے تھے‬

‫گھر پہنچ کرمیں نے اطمینان کا سانس لیا ‪،‬چھوٹی سی‬


‫غلطی بعض اوقات کتنے بھیانک نتائج التی ہے۔ اسی‬
‫بیڈ روم کے باہر میں نے خود اپنی آواز سنی تھی۔ کیا‬
‫وہ سب کچھ میرا وہم تھا؟ہوسکتا ہے صائمہ کے گیٹ‬
‫نہ کھولنے کی پریشانی سے میرے تخیل نے کچھ گھڑ‬
‫کر میرے سامنے پیش کر دیا ہو۔ میں نے خود کو‬
‫مطمئن کیا لیکن دماغ مسلسل اس دلیل کی نفی کر رہا‬
‫تھا آواز بڑی واضح تھی جتنا سوچتا اتناہی الجھ جاتا۔‬
‫صائمہ سمجھ رہی تھی کہ میں نے اپنی چابی سے‬
‫گیٹ کھوال تھا جبکہ اس دن میں چابی گھر بھول گیا‬
‫تھا۔ گیٹ میں خود کار قفل لگا ہوا تھا جو باہر سے‬
‫چابی اور اندر سے ہاتھ سے کھل جاتا تھا مکمل‬
‫صحتیابی میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ اسکے بعد میں نے‬
‫بینک جانا شروع کیا۔‬
‫سارے سٹاف نے فرداً فرداً میرا حال پوچھا۔ وہ میرے‬
‫گھر آکر بھی بیمار پرسی کرچکے تھے۔ خاص کر‬
‫محمد شریف نے تو بہت تپاک سے پوچھا تھا ساتھ‬
‫میں یہ بھی کہا کہ میں کچھ صدقہ اداکر دوں کہ ردبال‬
‫ہے۔ میں نے سب کا شکریہ ادا کیا۔ میں سر پر رومال‬
‫باندھے رکھتا کیونکہ ڈاکٹر نے ٹانکے لگانے سے‬
‫قبل سر کے بال اس جگہ سے مونڈھ دیے تھے۔ ایک‬
‫ہفتے کے دوران پھر کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔‬
‫رادھا بھی مسلسل غائب تھی ۔جو دوا ڈاکٹر نے دی‬
‫تھی اس میں خواب آوار دوا بھی تھی رات کو کھا کر‬
‫سوتا تو کچھ ہوش نہ رہتا۔ ہر روز میں سوچتا کہ‬
‫رادھا کو بالؤں لیکن سونے کے بعد دن چڑھے آنکھ‬
‫کھلتی۔ آج ٹانکے کھلنے تھے جب ڈاکٹر نے کہا اب‬
‫دواکھانے کی ضرورت نہیں تو میں نے شکر کیا۔ رات‬
‫کو ہم گھر واپس آئے تو صائمہ بہت خوش تھی۔ بات‬
‫بات پر وہ مسکرا دیتی۔‬
‫کیا بات ہے آج بہت خوش ہو؟‘‘ میں نے ہنس کر‬
‫پوچھا۔‬
‫’’آپ کو اچھا نہیں لگا کہ میں خوش ہوں‘‘ اس نے‬
‫عجیب سا جواب دیا۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔‬
‫’’صائمہ مجھے تمہاری خوشی دنیا میں ہر شے سے‬
‫زیادہ عزیز ہے۔‘‘ میں نے اس کاہاتھ تھام لیا۔‬

‫’’اچھا۔۔۔؟ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘ اس نے‬


‫اچھا کو کھینچتے ہوئے کہا۔ میں سمجھا وہ مذاق کر‬
‫رہی ہے لیکن اس کے چہرے کے تاثرات اس بات کی‬
‫نفی کر رہے تھے۔‬
‫’’کیا بات ہے مجھ سے ناراض ہو؟‘‘‬
‫’’نہیں۔۔۔میں کیوں ناراض ہونے لگی؟‘‘ اس کے‬
‫چہرے سے بیزاری عیاں تھی ‪،‬جیسے اسے میری‬
‫باتیں اچھی نہ لگ رہی ہوں۔ حاالنکہ ہسپتال سے گھر‬
‫آتے ہوئے وہ بہت خوش تھی۔ لیکن گھر میں داخل‬
‫ہونے کے بعد اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔‬
‫اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور باہر چلی گئی۔‬
‫میں حیرت سے اسے جاتا دیکھتا رہا۔یقیناًصائمہ‬
‫میرے اور رادھا کے بارے میں جانتی ہے۔ اس رات‬
‫جب میں رادھا سے مل کر آیا تو صائمہ نہ صرف‬
‫بیٹھی تھی بلکہ اس نے بڑے سخت لہجے میں مجھ‬
‫سے پوچھا تھا کہ میں کہاں سے آرہا ہوں؟ اگر صائمہ‬
‫ہمارے تعلقات سے باخبر ہے تو ۔۔۔؟ پریشانی سے‬
‫میرا برا حال ہوگیا۔ کیا اسے معلوم ہو چکا ہے ہم‬
‫دونوں کے درمیان کیسا رشتہ استوارہو چکا ہے؟ میں‬
‫نے گھبرا کر سوچا۔ یقیناًیہی بات ہے ورنہ یہ تو ہو ہی‬
‫نہیں سکتا۔ صائمہ میرے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنائے‬
‫ہے۔‬

‫میں کافی دیر بیٹھا یہی سوچتا رہا پھر باہر نکل آیا۔‬
‫سوچا صائمہ سے دوچار باتیں کرکے معلوم کروں کہ‬
‫آیا میرا خیال صحیح ہے یا کوئی اور بات ہے؟ میرا‬
‫خیال تھا وہ الؤنج میں ٹی وی دیکھ رہی ہوگی لیکن‬
‫صائمہ وہاں نہیں تھی۔ ڈرائنگ روم بھی اس کے وجود‬
‫سے خالی تھا میں نے باہردیکھا۔ وہ الن میں بچھی‬
‫کرسی پربیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔ میں دبے‬
‫قدموں اس کے پیچھے پہنچا تو بری طرح چونک اٹھا‬
‫۔ وہ کچھ گنگنا رہی تھی۔ صائمہ کی آواز بہت اچھی‬
‫ہے کبھی کبھی وہ میری فرمائش پر کچھ سنا دیتی۔‬
‫لیکن ایسا وہ صرف میرے کہنے پر اس وقت کرتی‬
‫جب ہم دونوں کے سوا کوئی نہ ہوتا۔ وہ جھولنے والی‬
‫کرسی پر بیٹھی بڑے جذب کے عالم میں گنگنا رہی‬
‫تھی۔ اسے اردگرد کی کچھ خبر نہ تھی۔ میں نے آہستہ‬
‫سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا وہ بری طرح اچھل‬
‫پڑی۔‬
‫’’آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ کیا بات ہے کیا نیند‬
‫نہیں آرہی؟‘‘ بیزاری اس کے لہجے سے عیاں تھی۔‬
‫میں سامنے والی کرسی پربیٹھ گیا۔‬
‫صائمہ! مجھے بتاؤ کیا بات ہے تم کس بات پر مجھ‬
‫سے ناراض ہو؟‘‘ وہ خاموشی سے بیٹھی گود میں‬
‫رکھے ہاتھوں کو گھورتی رہی۔‬

‫’’صائمہ میں نے کچھ پوچھا ہے؟‘‘ میں نے اس کا‬


‫ہاتھ پکڑ لیا۔‬
‫’’کوئی بات ہو تو بتاؤں بھی۔۔۔میں نے کچھ کہا ہے آپ‬
‫سے ؟‘‘ اسنے اپنا ہاتھ چھڑا لیا اورکھڑی ہوگئی۔‬
‫لہجے میں بیزاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ میں‬
‫نے کھڑے ہو کر اسے اپنی بانہوں میں لینے کی‬
‫کوشش کی۔‬

‫’’فاروق! کیا ضروری ہے کہ ہر وقت انسان یہی سب‬


‫کچھ کرتا رہے ۔۔۔؟ بیوی ہونے کا مطلب یہ تونہیں کہ‬
‫میں ہر وقت آپ کی ’’خواہش‘‘ کی غالم بنی رہوں‘‘‬
‫اس نے سختی سے کہا اور پیر پٹختی ہوئی اندر چلی‬
‫گئی۔ میں کافی دیر بیٹھا اسکے رویے کے بارے میں‬
‫سوچتا اور پریشانی میں سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا‬
‫ہرا۔ میرا خیال تھا وہ ابھی آکر اپنے رویے کی معافی‬
‫مانگے گی اور ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے میرے‬
‫سینے سے لگ جائے گی۔ لیکن وہ نہ آئی۔ آخر تھک‬
‫ہار کر میں نے بیڈ روم کا رخ کیا۔ جب میں اندر داخل‬
‫ہوا تو حیران رہ گیا۔ صائمہ بستر پر نہ تھی۔ باتھ روم‬
‫کا دروازہ کھال ہوا تھا پھر بھی میں نے اندر جھانک‬
‫کر دیکھا وہ بھی خالی۔ میں جلدی سے دوسرے‬
‫کمرے میں گیا وہ وہاں بھی نہ تھی میں الؤنج کی‬
‫طرف بھاگا۔ ڈرائنگ روم کا دروازہ بندتھا میرے ہاتھ‬
‫لگانے سے بھی نہ کھال۔ یا خدا ! یہ کیامعاملہ ہے؟‬
‫میں نے دروازے پر دستک دی۔۔۔آوازیں دیں۔ کافی دیر‬
‫بعد دروازہ کھال اور صائمہ سرخ آنکھیں لیے نمودار‬
‫ہوئی۔ اس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔‬

‫’’صائمہ!‘‘ میں نے اسے جھنجھوڑا۔‬

‫’’آں۔۔۔‘‘ وہ اس طرح چونکی جیسے نیند سے جاگی‬


‫ہو۔ پہلے اس نے اردگرد دیکھا پھر مجھے اس کی‬
‫آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔‬
‫فف۔۔۔فاروق! یہ کیا؟ میں تو بیڈ روم میں سو رہی تھی۔‬
‫کیا آپ مجھے یہاں الئے ہیں؟ ‘‘ وہ آنکھیں پھاڑے‬
‫چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کی بات پر‬
‫حیران رہ گیا۔‬
‫’’بتائیے نا میں یہاں کیسے۔۔۔؟ کیا میں ڈرائنگ روم‬
‫میں سو گئی تھی؟‘‘ حیرت اس کے چہرے پر ثبت‬
‫تھی۔‬

‫’’ہاں۔۔۔ہاں کیا بھول گئیں؟ تھوڑی دیر پہلے ہی تم ہم‬


‫دونوں ڈرائنگ روم میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔‬
‫میں تھوڑی دیر کے لئے باہر الن میں چہل قدمی کے‬
‫لئے چال گیا تھا واپس آیا تو تم یہیں صوفے پر سو‬
‫رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہتم شاید گہری نیند میں‬
‫تھیں اسلئے میں تمہیں چال کربیڈ روم میں لے جا رہا‬
‫تھا کہ تمہاری آنکھ کھل گئی‘‘ میں نے فوراً کہانی‬
‫گھڑ کر سنادی۔‬

‫’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ جاگ رہے ہوں اورمیں‬


‫سو جاؤں؟‘‘ اس نے میرے ساتھ چلتے ہوئے کہا۔‬
‫’’انسان تھکا ہوا ہو تو ایسا ہو جاتا ہے اس میں‬
‫پریشانی والی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔‬
‫وہ چپ رہی لیکن ابھی تک حیرت زدہ تھی۔ بیڈ پر لیٹ‬
‫کر وہ میری جانب مڑی۔‬

‫’’سوری فاروق! نہ جانے کیسے مجھے نیند آگئی؟‘‘‬


‫اسنے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کرکہا میں نے‬
‫مسکرا کر اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔‬
‫جب وہ سو گئی تو میں ایک بارپھر اسی گورکھ‬
‫دھندے میں کھو گیا۔ نہ سمجھ آنے والی کیفیت تھی‬
‫اس کی۔ کہیں واقعی صائمہ کو نیند میں چلنے کی‬
‫بیماری تو نہیں ہوگئی؟ میرے ذہن میں خیال آیا۔ لیکن‬
‫یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ میرے ساتھ اچھی بھلی‬
‫باتیں کر رہی تھی نہ جانے میری کس بات سے چڑ کر‬
‫باہر چلی گئی تھی۔ اس کے بعد وہاں بھی اس نے الٹی‬
‫سیدھی باتیں کیں اور اٹھ کر اندر آگئی لیکن بیڈ روم‬
‫میں آنے کے بجائے ڈرائنگ روم میں جا کر سو گئی۔‬
‫زیادہ دیر میں نہ سوچ سکا نیند کی مہربان دیوی نے‬
‫مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ صبح حسب معمول‬
‫صائمہ نے مجھے جگایا تو وہ ہشاش بشاش تھی۔‬
‫چہرے پر بڑی پیاری مسکان لیے اس نے مجھے‬
‫سالم کیا۔ وہ کسی طرح رات والی صائمہ نہ لگ رہی‬
‫تھی۔ ناشتے کے بعد اسنے روزانہ کی طرح مجھے‬
‫مسکراتے ہوئے اپنے روایتی انداز میں رخصت کیا۔‬
‫بینک میں کام کی مصروفیت ذرا کم ہوئی تو میں نے‬
‫سوچا فون کرکے صائمہ کی خیریت دریافت کروں اور‬
‫اس سے رات کے رویے پر بھی بات کروں‪ ،‬دراصل‬
‫مجھے دھڑکا لگا ہوا تھا کہیں صائمہ ہمارے تعلقات‬
‫سے آگاہ نہ ہوگئی ہو۔ ہو سکتاہے اسنے صرف‬
‫کمپرومائز کیا ہو۔ طرح طرح کے خیاالت میرے ذہن‬
‫کوپریشان کرتے رہے۔ میں چاہتا تھا کہ فون پر اس‬
‫سے پوچھوں سامنے شاید میں اتنا واضح جھوٹ نہ‬
‫بول سکتا۔ فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ صائمہ تیسری‬
‫چوتھی بیل پر فون اٹھا لیا کرتی۔ بیل جاتی رہی لیکن‬
‫کسی نے فون اٹینڈ نہ کیا۔ پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔‬
‫میں نے فون بندکیا اور چابیاں اٹھا کر باہر نکل آیا۔‬
‫آندھی اور طوفان کی طرح گاڑی بھگاتا میں گھر پہنچا۔‬
‫باہر کے تالے کی چابی میرے پاس تھی۔ میں جلدی‬
‫سے اندر داخل ہوااور بھاگتا ہوا بیڈ روم میں پہنچا‬
‫اندر جھانکا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔‬
‫سامنے بیڈ پر صائمہ سو رہی تھی۔ حیرت کی بات اس‬
‫کی نیند نہیں بلکہ گہرا میک اپ تھا۔ حیرت کا دوسرا‬
‫جھٹکا مجھے اس وقت لگا جب میں نے دیکھا اس‬
‫کے بالوں میں بیلے کی کلیاں گندھی ہوئی ہیں جبکہ‬
‫ہمارے الن میں بیلے کے پھول توکیا پودے بھی نہ‬
‫تھے۔ اس نے نہ صرف گہرا میک اپ کیا ہوا تھا بلکہ‬
‫اپنی پسندیدہ گالبی رنگ کی ساڑھی بھی باندھی ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫وہ سر تاپا قیامت بنی محو خواب تھی۔ خوابیدہ حسن‬


‫غضب ڈھا رہا تھا مدھرسی مسکان اس کے نرم و‬
‫نازک ہونٹوں پر تھی جیسے سوتے میں وہ حسین‬
‫خواب دیکھ رہی ہو۔ میں حیرت سے کنگ کھڑا اسے‬
‫دیکھتا رہا۔ وہ اکثڑ کہاکرتی عورت کو صروف اپنے‬
‫خاوندکے لئے بننا سنورنا چاہئے پھر۔۔۔؟ پھر وہ میرے‬
‫جانے کے بعد کس کے لئے سج سنور کر بیٹھی ہوئی‬
‫تھی؟ شک کا ناگ میرے اندر پھن پھیال کر کھڑا ہوگیا۔‬
‫لباس کی بے ترتیبی ایسی کہانی سنا رہی تھی جس‬
‫پریقین کرنا مشکل تھا۔ صائمہ کی شرافت مسلم تھی‬
‫میں کسی طور ماننے کو تیارنہ تھا کہ کوئی ’’ایسی‬
‫ویسی‘‘ بات ہو سکتی ہے۔ آج کل اسے نیند بھی بہت‬
‫آتی۔ ایک بارپہلے بھی فون اٹینڈ نہ کرنے پر میں‬
‫پریشانی میں گھر آیا تھا۔ تو بیڈ روم سے خود اپنی‬
‫آواز اور صائمہ کی ہنسی سن کر میں لپک کر بیڈ روم‬
‫میں داخل ہونے لگا تھا کہ وہ سنگین حادثہ رونما ہوا‬
‫تھا جس کے نتیجے میں میں بری طرح زخمی ہو کر‬
‫ہسپتال پہنچ گیا تھا۔ آج بھی میں نے پریشانی کی حالت‬
‫گھر کا رخ کیا لیکن یہاں آکر میری پریشانی اور بڑھ‬
‫گئی تھی۔ آہستہ سے چلتاہوا میں بیڈکے پاس بچھی‬
‫کرسی پر بیٹھ گیا۔‬

‫’صائمہ‘‘ میں نے آہستہ سے اسے آواز دی وہ اسی‬


‫طرح سوتی رہی۔‬

‫’’صائمہ‘‘ اس بارمیں نے ذرا بلند آوااز سے اسے‬


‫پکارا اور بازو سے پکڑ کر بالیا۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھ‬
‫بیٹھی۔ اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہو رہی تھیں۔‬
‫کھوئے کھوئے انداز میں اسنے میری طر ف دیکھا۔‬
‫’’صائمہ‘‘ میں نے بڑے پیار سے کہا۔‬

‫’’جی۔۔۔‘‘ اسکی آواز نیند سے بوجھل تھی۔‬


‫’’صائمہ! کیا کہیں جانے کی تیاری تھی؟‘‘ میں نے‬
‫اس کی توجہ لباس کی طرف دالئی۔‬

‫’’اس نے تو کہاتھا وہ یہیں آئے گا؟‘‘ وہ جیسے خود‬


‫سے ہمکالم تھی۔ میں بری طرح چونک گیا۔‬
‫’وہ کون؟‘‘ میں نے تیزلہجے میں پوچھا۔‬
‫’’تم کس کی بات کر رہی ہو؟ کس نے کہا تھا وہ یہاں‬
‫آئے گا؟‘‘‬
‫اس بار وہ جیسے نیند سے جاگ گئی۔ اسنے میری‬
‫جانب دیکھا پھر جیسے اس کی نظر اپنے لباس پر‬
‫پڑی وہ گھبرا کر کھڑی ہوگئی۔ حیرت سے اس کی‬
‫آنکھیں ممکن حد تک پھیل گئیں ۔ وہ کبھی اپنے لباس‬
‫کی طرف دیکھتی کبھی میری طرف پھر تحیر زدہ‬
‫اپنے سراپے پر نظر ڈالنے لگی۔‬
‫’’یی۔۔۔یہ۔۔۔کک۔۔۔کیا؟‘‘ حیرت سے اس کی آواز بند‬
‫ہوگئی۔‬

‫’’فاروق! یہ لباس میں نے کب بدال؟‘‘ وہ لباس پر نظر‬


‫ڈال کر پوچھ رہی تھی اسی وقت اس کی نظر آئینے پر‬
‫پڑی جس میں اس کا چہرہ نظر آرہا تھا وہ بھاگ کر‬
‫ڈریسنگ ٹیبل کی طرف گئی اور اپنے چہرے پر ہاتھ‬
‫لگا کر دیکھنے لگی۔ میں غور سے اس کی حرکات‬
‫دیکھ رہا تھا درحقیقت وہ حیران تھی یہ ادکاری نہ‬
‫تھی۔ حیرت سے اس کے چہرے کے نقوش بگڑ گئے‬
‫تھے۔‬

‫’’فاروق! یہ سب ۔۔۔یہ سب کیا ہے؟‘‘ وہ اس قدر حیران‬


‫تھی جتنا بھی نہ ہوا تھا۔‬

‫’’میں تو صفائی کر رہی تھی کہ اچانک مجھے چکر‬


‫آیا اور میں بیڈ پر لیٹ گئی۔ کئی دن سے مجھے‬
‫کمزوری سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے بعد اب‬
‫آنکھ کھلی ہے لیکن فاروق! کیا آپ نے ۔۔۔؟ نہیں یہ‬
‫کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ میرا لباس تبدیل کریں اور‬
‫میں سوتی رہوں۔ بتائیں نا یہ سب کیا ہے؟ ‘‘ وہ‬
‫روہانسی ہوگئی۔ ٹپ ٹپ آنسو اس کی آنکھوں سے‬
‫بہنے لگے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔‬

‫’’شاید تمہیں نیند میں چلنے اور کام کرنے کا مرض‬


‫الحق ہوگیا ہے‘‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔‬

‫’’نیند میں چلنے کا مرض؟‘‘ اس نے بے یقینی سے‬


‫میری طرف دیکھا۔‬

‫‘‘ہان اور یہ ناممکن نہیں۔ بڑے بڑے نامور لوگ نیند‬


‫میں چلنے اور کام کرنے کے مرض میں مبتال رہے‬
‫ہیں کئی معروف سائنسدانوں نے نیند کی حالت میں‬
‫کامیاب تجربات کیے بلکہ ایسے کارنامے سر انجام‬
‫دیئے جو وہ جاگتی حالت میں کبھی نہ کر پاتے۔‘‘ میں‬
‫نے سنجیدگی سے کہا‬

‫’’لیکن فاروق! یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے کچھ پتا‬


‫ہی نہ چلے اور سب کچھ کر لوں۔ مثالً میک اپ وہ‬
‫بھی ایسا‘‘ اس نے اپنے چہرے کی طرف اشارہ کیا۔‬

‫’’یہی تو اس مرض کی خصوصیت ہے کہ انسان کو پتا‬


‫ہی نہیں چلتا وہ ایسا کام کر گزرتا ہے جسے وہ شعور‬
‫کی حالت میں کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ مثالً تم عام‬
‫حالت میں کبھی اتنا اچھا میک اپ نہیں کر سکتیں‬
‫جیسا کہ تم نے کیا ہے۔‘‘ میں نے دلیل دی۔‬
‫’میری تو عقل گم ہوگئی ہے اگر یہ سب کچھ میرے‬
‫ساتھ نہ ہوا ہوتا تو میں کبھی یقین نہ کرتی‘‘ وہ کچھ‬
‫مطمئن ہوگئی تھی۔ اسے اطمینان دالکر میں خود بے‬
‫سکون ہو گیا تھا۔ اس کاجملہ ابھی تک میرے کانوں‬
‫میں گونج رہا تھا۔‬
‫’’اس نے تو کہا تھا وہ یہیں آئے گا‘‘ وہ کس کے‬
‫بارے میں کہہ رہی تھی۔ وہ کون تھا جس کا صائمہ کو‬
‫انتظار تھا؟ کسی بات کی سمجھ نہ آرہی تھی۔‬
‫’’کیا سوچ رہے ہیں؟‘‘ اس نے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’کچھ نہیں میں سوچ رہا تھا کہ تمہیں کسی اچھے‬


‫سے ڈاکٹر کو دکھا دوں‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’ڈاکٹر کیا کرے گا؟‘‘ وہ حیران رہ گئی۔‬

‫’’تمہارا عالج کرے گا اور کونسا ایسا العالج مرض‬


‫ہے؟ تم فکر نہ کرو میں آج ہی عمران سے کسی‬
‫اچھے سے سائیکٹرسٹ کے بارے مییں پوچھتاہوں‘]‬
‫میں نے اسے تسلی دی۔‬
‫’’نہیں فاروق ! پلیز عمران بھائی کونہ بتائیے گا وہ‬
‫کیا سوچیں گے آپ خود ہی کسی ڈاکٹر کا پتا کریں‘‘ وہ‬
‫جلدی سے بولی۔‬

‫’’اچھا ٹھیک ہے تم جاؤ چینج کر لو پھر اچھی سی‬


‫چائے بنا کر الؤ دونوں ساتھ پیتے ہیں‘‘ میں نے‬
‫مسکرا کر کہا۔‬

‫’’فاروق آپ کتنے اچھے ہیں میرا کتنا خیال رکھتے‬


‫ہیں۔ ارے۔۔۔میں تو پوچھنا ہی بھول گئی آپ اس وقت‬
‫گھرکس لئے آئے تھے؟‘‘‬

‫’’تمہاری یاد آئی تو اٹھ کر چال آیا کہ تمہیں سے تھوڑا‬


‫سا پیار کر لوں‘‘ میں نے شرارت سے اسے دیکھا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ایسا نہیں کرنا‘‘ میری بات سنتے ہی اس کا‬
‫رنگ زرد ہوگیا۔ وہ بری طرح گھبرا گئی۔ میں نے‬
‫حیرت سے اسے دیکھا۔‬
‫’’کیا مطلب؟ کیا کہہ رہی ہو تم‘‘۔‬
‫’’کک۔۔۔کچھ نہیں‘‘ وہ بری طرح گھبرائی ہوئی لگ‬
‫رہی تھی۔‬
‫’’نہیں بتاؤ کیا کہہ رہی تھیں تم؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔‬
‫’وہ۔۔۔وہ میری طبیعت خراب ہے نا اس لئے میں کہہ‬
‫رہی تھی آ۔۔۔آج نہیں پھر کسی دن‘‘ وہ اٹھ کر کھڑی‬
‫ہوگئی۔‬

‫’’میں چینج کرکے ابھی آتی ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ باہر‬


‫نکل گئی۔ میں سوچوں کی بھنور میں ڈوبتا ابھرتا رہا۔‬
‫قرین قیاس بات یہی نظر آتی تھی کہ واقعی اسے نیند‬
‫میں چلنے اور کام کرنے کی عادت پڑ گئی ہو۔ تو کیا‬
‫وہ صائمہ ہی تھی جو رات کو میرے پاس آکر دوسرے‬
‫دن انکاری ہو جاتی۔ لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ‬
‫رادھا نے خود تسلیم کیا تھا۔ صائمہ کا صرف جسم‬
‫استعمال ہوتا تھا لیکن اصل میں وہ رادھا ہی تھی۔ اس‬
‫کا ذکر آتے ہی میں چونک گیا۔ کتنا احمق ہوں میں‬
‫بھی خود سر کھپانے کے بجائے رادھا سے کیوں نہیں‬
‫پوچھ لیتا۔ میں نے سوچا اس کے ساتھ ہی مجھے یاد‬
‫آیا کہ کافی دن ہوگئے ہیں رادھا نہ تو مجھ سے ملنے‬
‫ہی نہ آئی کوئی رابطہ کیا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی‬
‫ہے؟ آج رات کو ہی رادھا کو بالؤں گا۔ یہ سوچ کر‬
‫مجھے کچھ اطمینان ہوا۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ چائے‬
‫کی ٹرے اٹھائے آگئی۔ چائے پینے کے بعد میں نے‬
‫کہا۔‬
‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪46‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫’چلو بچوں کو سکول سے لے آئیں۔‘‘‬
‫’’ہاں یہ ٹھیک ہے دونوں چلتے ہیں‘‘ وہ چادر اٹھاتے‬
‫ہوئے بولی۔ جب ہم سکول پہنچے تو چھٹی ہو چکی‬
‫تھی۔ بچے ہم دونوں کودیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں‬
‫نے عمران کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ میرے سر میں‬
‫درد ہے میں واپس نہیں آؤں گا۔ صائمہ کچھ کھوئی‬
‫کھوئی سی تھی۔ وہ بات کرتے کرتے چپ ہو جاتی۔‬
‫بیٹھے بیٹھے چونک جاتی۔ کبھی گھبرا کر ادھر ادھر‬
‫دیکھنے لگتی میرے پوچھنے پر کوئی بہانہ کر دیتی۔‬
‫اس کا دمکتا ہوا رنگ ماند پڑ چکا تھا۔ چہرے کی‬
‫تازگی اور شادابی کہیں کھو سی گئی تھی۔ میں عشاء‬
‫کی نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو صائمہ بیڈ پر لیٹی ہوئی‬
‫تھی۔ بچوں کو ہوم ورک کروا کر اس نے سال دیا تھا۔‬
‫’نماز پڑھ لی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ اس نے جیسے میری‬
‫بات سنی ہی نہیں۔‬

‫’’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے دوبارہ اسے آواز دی۔‬


‫’آں۔۔۔مجھ سے کچھ کہہ رہے ہیں؟‘‘ اس نے چونک‬
‫کر پوچھا۔‬

‫’’کیا سوچ رہی ہو؟‘‘ میں نے مسکرا کر اسے دیکھ۔ا‬


‫’’کچھ نہیں۔۔۔آپ کیا پوچھ رہے تھے؟‘‘ اس کی سوالیہ‬
‫نظریں میری طرف اٹھی ہوئی تھیں۔‬

‫’’میں پوچھ رہا تھا عشاء کی نماز پڑھ لی؟‘‘ اس کا‬


‫جواب مجھے حیرت کے سمندر میں غرق کر گیا۔‬

‫’’ہر روز تو پڑھتی ہوں ایک دن نہیں پڑھی تو کیا‬


‫قیامت آگئی۔‘‘ اس نے بڑی بیزاری سے کہا اور کروٹ‬
‫بدل کر منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ میں نے اس پیش‬
‫نظر کچھ نہ کہا کہ کہیں وہ کوئی ایسی بات نہ کہہ دے‬
‫جو کفر کا باعث بن جائے۔‬

‫’’کل انشاء ہللا ڈاکٹر کے پاس چلیں گے میں نے پتا کیا‬


‫ہے ایک بہت اچھا سائیکٹرسٹ ہے میں نے فون پر‬
‫وقت لے لیا ہے کل شام پانچ بجے چلیں۔۔۔‘‘‬
‫’’یہ کیا ڈاکٹر ڈاکٹر لگا رکھی مجھے کوئی بیماری‬
‫نہیں سنا تم نے؟ اگر اب ایسی بات کی تو تمہاری خیر‬
‫نہیں‘‘ اس کی دھاڑ نے مجھے لرزا دیا۔ بچے بھی‬
‫گھبرا کر جاگ گئے میں اس کے جواب سے ششدر رہ‬
‫گیا۔ جلدی سے آگے بڑھ کر بچوں کو تھپک کر دوبارہ‬
‫سال دیا۔‬

‫’’صص۔۔۔صائمہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو کیا تم ہوش میں‬


‫ہو؟‘‘ میں نے سخت لہجے میں کہا۔ وہ اپنی بڑی بڑی‬
‫سرخ انگارہ آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی پھر قہر‬
‫میں بھری تکیہ اٹھا کر کارپٹ پر لیٹ گئی۔ میں کچھ‬
‫دیر اسے دیکھتا رہا پھر خاموشی سے لیٹ گیا۔‬
‫یقیناًاس کی طبیعت خراب تھی ورنہ اس طرح تو وہ‬
‫کبھی بات نہ کرتی تھی میں نے اس وقت اسے چھیڑنا‬
‫مناسب نہ سمجھا اور اس کے سونے کا انتظا کرنے‬
‫لگا۔ رادھا سے بات کرنے کے بعد میں کوئی قدم اٹھانا‬
‫چاہتا تھا۔ بارہ بجے کے قریب دیکھا صائمہ سو چکی‬
‫تھی۔ میں دبے پاؤں کمرے سے باہر نکال۔ الن میں آکر‬
‫میں نے رادھا کو آواز دی۔‬
‫’’پریم! تم نے بالنے میں کتنا سمے لگا دیا۔ میں ہر‬
‫روز اس آشا میں آتی تھی تم مجھے بالؤ گے پرنتو تم‬
‫تو شاید اپنی داسی کو بھول ہی گئے۔‘‘ وہ جھٹ میرے‬
‫سامنے حاضر ہوگئی۔ نیلی ساڑھی میں اس کا تراشا‬
‫ہوا بدن کچھ اور دلکش نظر آرہا تھا۔‬

‫’’میں نے تمہیں ایک کام کہا تھا اس کا کیا ہوا؟‘‘ میں‬


‫نے پوچھا۔‬

‫’’شما چاہتی ہوں موہن! ابھی تک میں اس شکتی‬


‫بارے جانکاری پراپت کرنے میں سپھل نہ ہو سکی‘‘‬
‫اسنے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔‬

‫’’کیا مطلب۔۔۔؟ یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں حیران رہ‬


‫گیا۔‬
‫’موہن! میں نے بڑی اوشکتا کی پرنتو نہ جان سکی‬
‫کہ وہ پاپی کون ہے؟ کوئی دوجی شکتی اس کی سہائتا‬
‫کر رہی ہے۔ جس نے اس کے گرد کڑا پھیر لیا ہے تم‬
‫جانتے ہو کڑا توڑنا میرے بس میں نہیں۔ پونتو میں‬
‫اتنا جان گئی ہوں تمری پتنی کسی شکتی کے گھیرے‬
‫میں ہے۔‘‘ اس نے کہا۔‬
‫’’میں سمجھا نہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬
‫’’تمرے وچار کے انوسار(تمہارے خیال کے مطابق)‬
‫تمری پتنی کو کوئی روگ (بیماری) لگ گیا ہے۔ پرنتو‬
‫یہ روگ نہیں۔۔۔کسی شکتی نے اسے اپنے بس میں‬
‫کرنے کے کارن سب کچھ کیا ہے‘‘‬

‫’’تمہارے کہنے کا مطلب ہے صائمہ کو نیند میں چلنے‬


‫کی بیماری نہیں ہے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔‬

‫’’ہاں موہن! یہی بات ہے‘‘ اس نے کچھ سوچتے‬


‫ہوئے کہا۔’’وہ کون ہے؟ یہ میں ابھی نہیں بتا سکتی‘‘‬
‫شرمندگی سے اس نے سر جھکا لیا۔‬
‫’’اب کیا ہوگا رادھا! میں تو سخت پریشان ہوں‘‘ میں‬
‫نے ہاتھ ملتے ہوئے کہا۔ مجھے یقین تھا رادھا اس‬
‫مشکل کا حل ضرور تالش کر لے گی لیکن اس نے‬
‫بھی فی الحال مجبوری ظاہر کر دی تھی۔‬

‫’تم چنتا نہ کرو موہن! میں ایک جاپ کر رہی ہوں‬


‫زیادہ سمے نہیں لگے گا‘‘ اس نے مجھے تسلی دی۔‬

‫’’رادھا! صائمہ کی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی‬


‫ہے آج تو حد۔۔۔‘‘‬

‫’’میں جانتی ہوں تم اپنی پتنی کے کارن بہت دکھی ہو۔‬


‫میرا وشواس کرو میں جلد ہی اس پاپی کو ڈھونڈ‬
‫نکالوں گی۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تمری پتنی کس‬
‫کارن ہارسنگھار کرکے بیٹھتی ہے۔ وہ یہاں آتا ہے‬
‫پرنتو میں اسے دیکھنے میں سپھل نہ ہو سکی۔ کوئی‬
‫شکتی میرے آڑے آجاتی ہے۔‘‘‬
‫’’کیا صائمہ مجھ سے جھوٹ بول رہی ہے؟‘‘ میں نے‬
‫بے یقینی سے پوچھا۔‬

‫’’نہیں وہ کھد نہیں جانتی سب کچھ کیوں کرتی ہے؟‬


‫اس کے شریر کو کسی نے اپنے بس میں کر لیا ہے۔‬
‫پرنتو وہ اسے چھو نہیں سکتا اس کارن یہ ہے کہ‬
‫تمری پتنی ہر سمے پوجا پاٹ(عبادت) میں مگن رہتی‬
‫ہے جس کارن وہ پاپی اسے چھونے میں سپھل نہیں‬
‫ہو پا رہا۔ پرنتو اس نے اس کاپربند کر لیا ہے۔ وہ‬
‫تمری پتنی کو پوجا سے روکنے کے کارن جیادہ سمے‬
‫اس کے شریر میں رہنے کا وچار کر رہا ہے۔‘‘ رادھا‬
‫نے مجھے تفصیل بتائی۔‬

‫’’رادھا جلدی سے اس کا مشکل کا کوئی حل بتاؤ میں‬


‫بہت پریشان ہوں‘‘ میں نے بے بسی سے ہاتھ ملتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫’’پریم! تم چنتا مت کرو جب تک رادھا جیوت ہے‬
‫تمری پتنی کو کوئی کشٹ نہیں دے سکتا‘‘ اس نے‬
‫میرا ہاتھ تھپتھپایا۔ بے اختیار میرا دل بھر آیا۔‬

‫’’رادھا میں صائمہ کے بغیر جی نہ پاؤں گا۔‘‘ میری‬


‫آواز بھرا گئی۔‬

‫’’کیا رادھا تمرے بن نہ جی پائے گی؟ تھوڑا سمے‬


‫انتجار کر لو میں جس جاپ میں لگی ہوں مجھے‬
‫وشواس ہے کہ میں اس میں سپھل ہو جاؤں گا پھر‬
‫دیکھنا اس پاپی کا حشر بنستی سے بھی برا ہوگا۔‬
‫سنسار میں اسے میرے شراپ سے بچانے واال کوئی‬
‫نہ ہوگا‘‘ وہ چکھ دیر خاموش رہی پھر جیسے اسے‬
‫کچھ یاد آیا۔‬

‫’’موہن یدی وہ منش جس نے تمہیں کالی داس کے‬


‫شراپ سے بچایا تھا تمری سہائتا کرنے پر مان جائے‬
‫تو تمری پتنی کی سمسیا کھتم ہو جائے گی‘‘‬
‫’’کون۔۔۔ملنگ؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔‬

‫’’ہاں وہ بہت شکتی مان ہے کالی داس کی شکتی بھی‬


‫اسکے آگے کچھ نہیں۔‘‘ رادھا نے مجھے بتایا۔‬

‫’’لیکن میں اسے کہاں تالش کروں‘‘ میں نے بے بسی‬


‫سے پوچھا تو اسکا جواب سن کر پھر چونک جانا پڑا۔‬
‫’’یہ تو میں نہیں جانتی وہ کہاں ملے گا؟ پرنتو اس‬
‫کٹھن سمے میں وہی تمری سہائتا کر سکتا ہے۔‘‘‬

‫’’ٹھیک ہے میں اسے تالش کرنے کی کوشش کرتا‬


‫ہوں لیکن صائمہ کو اب میں اکیال نہیں چھوڑ سکتا کیا‬
‫پتا کب وہ حرام کا نطفہ دوبارہ آجائے؟‘‘ غصے سے‬
‫میرا برا حال تھا‬
‫’’تم اس کی چنتا نہ کرو‪ ،‬جب وہ تمری پتنی کے پاس‬
‫آئے گا میں تمہیں کھبر کر دوں گی‘‘ رادھا نے مجھے‬
‫تسلی دی۔‬

‫’’ٹھیک ہے میں کل ہی اسے تالش کرتا ہوں‘‘ رادھا‬


‫کی بات سے مجھے اطمینان ہوگیا۔ میں نے اس کا‬
‫شکریہ ادا کیا۔ ہم کافی دیر تک پروگرام بناتے رہے‬
‫اس کے بعد رادھا نے جانے کی اجازت چاہی۔‬

‫’’میرے جاپ کا سمے ہوگیا ہے موہن! میں جاتی ہوں‬


‫کل اسی سمے آؤں گی‘‘ اس کے بعد وہ نظروں سے‬
‫اوجھل ہوگئی۔ میں واپس کمرے میں آیا تو صائمہ‬
‫سوئی ہوئی تھی۔ میں کافی دیر اس کے حسین چہرے‬
‫کو دیکھتا رہا یہ سب کچھ میری نادانیوں کی وجہ سے‬
‫ہوا تھا۔ نہ میں رادھا کے ساتھ تعلقات رکھتا نہ یہ سب‬
‫کچھ ہوتا۔ میں دیر تک سوچتا رہا ‪،‬سر میں شدید درد‬
‫ہونے لگا۔ سگریٹ سلگا کر میں بیڈ سے ٹیک لگائے‬
‫بیٹھا تھا۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ کیا ملنگ‬
‫اس سلسلے میں میری مدد کرے گا۔۔۔؟ رادھا کے بقول‬
‫صائمہ کے جسم پر کسی اور نے قبضہ جما لیا تھا۔‬
‫لیکن صائمہ تو نہایت پاکباز عورت ہے پھر۔۔۔؟ کسی‬
‫بات کی سمجھ تو نہ آئی البتہ سرکار درد بہت بڑھ گیا۔‬
‫میں نے دراز سے خواب آور دوا نکال کر کھائی‪،‬‬
‫تھوڑی دیر بعد مجھے نیند آگئی۔ کسی کے‬
‫جھنجھوڑنے سے میری آنکھ کھلی۔‬
‫’بابا اٹھیں سکول کا ٹائم ہوگیا ہے ۔ میں نے ماما کو‬
‫جگایا لیکن وہ بھی نہیں جاگیں‘‘ احد مجھے جھنجھوڑ‬
‫رہا تھا‬

‫میں نے کالک پر نظر ڈالی آٹھ بج رہے تھے ۔‬


‫’’اوہو۔۔۔اٹھ بج گئے آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ میں آپ‬
‫کے لئے ناشتہ بناتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔‬

‫’’ماما کو کیا ہوا ہے؟‘‘ احد کو حیرت تھی کہ آج مایا‬


‫کیو سو رہی ہیں؟‬
‫’’رات ماما کو ٹمپریچر ہوگیا تھا اسی وجہ سے ابھی‬
‫تک سو رہی ہیں۔ آپ جلدی سے تیار ہو جاؤ‘‘ میں نے‬
‫اسے سمجھایا۔‬

‫’’مومنہ کو جگا دوں‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔‬

‫’’ہاں اسے بھی جگا دو میں ناشتہ تیار کرتا ہوں‘‘ میں‬
‫نے کچن کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ واپس آیا تو مومنہ‬
‫صائمہ کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے ایک نظر سوئی‬
‫ہوئی صائمہ کو دیکھا۔ میرا دل دکھ سے بھر گیا۔ اس‬
‫کا گالب جیسا شگفتہ چہرہ کمال گیا تھا۔ چہرے پر‬
‫زردی کھنڈ گئی تھی۔ مومنہ پیار سے اپنی ماں کے‬
‫چہرے پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ مجھے دیکھا تو بھاگ‬
‫کر میرے پاس آگئی۔’’ماما کیوں سو رہی ہیں؟‘‘ اس‬
‫نے پوچھا۔‬
‫’’رات ماما کو بخار ہوگیا تھا اس لئے سو رہی ہیں آپ‬
‫جلدی سے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کر لو سکول کا ٹائم‬
‫ہوگیا ہے‘‘ میں نے اسے اٹھا کر باتھ روم کا رخ کیا۔‬
‫’’میں نہیں جاؤں گی‘‘ اس نے ضد کی۔‬

‫’’اچھا ٹھیک ہے ناشتہ کرلو پھر کھیلنا‘‘ میں نے یہی‬


‫بہتر سمجھا کہ آج بچوں کو چھٹی کروا دی جائے۔ اس‬
‫طرح صائمہ کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا۔ ناشتہ کرنے‬
‫کے بعد بچے تو الن میں جا کر کھیلنے لگے جبکہ‬
‫میں بیڈ پر بیٹھ کر سوچوں میں غرق ہوگیا۔‬
‫’’ارے۔۔۔آٹھ بج گئے۔۔۔فاروق! آپ نے مجھے جگایا‬
‫کیوں نہیں دیکھیں بچوں کے سکول کا حرج‬
‫ہوگیا‘‘صائمہ کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ وہ میرے‬
‫پاس کھڑی پوچھ رہی تھی۔‬

‫’’تم جاگ گئیں؟ میں نے اس لئے نہیں جگایا کہ‬


‫تمہاری طبیعت خراب تھی‘‘ میں نے مسکراکر اس کی‬
‫طرف دیکھا۔‬
‫’’میری طبیعت کو کیا ہوا میں تو بالکل ٹھیک ہوں‘‘‬
‫اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’رات تمہیں ٹھیک سے نیند نہیں آئی ورنہ تو تم علی‬


‫الصبح جاگنے کی عادی ہو‘‘ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر اپنے پاس بٹھا لیا۔‬
‫’بچوں کی سکول سے بال وجہ چھٹی ہوگئی‘‘ اس نے‬
‫افسوس کیا۔‬

‫’’پھر کیا ہوا ایک دن نہ جانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ آج‬


‫میں نے بھی چھٹی لی ہوئی ہے جلدی سے ناشتہ تیار‬
‫کر لو پھر پروفیسر انکل کی طرف چلیں گے‘‘ میں نے‬
‫پیار سے اس کی طرف دیکھ۔‬

‫’’آپ نے کیوں چھٹی لی ہے؟‘‘ اسنے مجھے ٹٹولنے‬


‫والی نظروں سے دیکھا۔‬
‫’’دل تمہارے بنا اداس ہو جاتا ہے اس لئے سوچ رہا‬
‫ہوں گھر میں ہی بینک کھول لوں تاکہ تم سارا وقت‬
‫میری آنکھوں کے سامنے رہ سکو۔‘‘ میں نے جان‬
‫بوجھ کر ایسی بات کہی تاکہ معلوم ہو سکے اس وقت‬
‫صائمہ کی کیفیت کیا ہے؟‬

‫’’آپ دن بدن نکمے ہوتے جا رہے ہیں چلیں ناشتہ‬


‫کرکے جائیں اپنے کام پر‘‘ اس کے چہرے پر وہی دل‬
‫موہ لینے والی مسکراہٹ تھی جو اس کی فطرت کا‬
‫حصہ ہے۔ میں اس کی حالت سے مطمئن ہوگیا۔‬

‫’’محترمہ ! آپ کے اس خادم نے بچوں کو ناشتہ کروا‬


‫دیا ہے اور خود بھی چائے پی لی اگر آپ کا حکم ہو‬
‫تو آپ کے لیے بھی ناشتہ تیار کردیا جائے‘‘ میرے‬
‫مزاحیہ انداز پر اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔ مجھے‬
‫اسکی طرف سے اطمینان ہوا تو میں نے سوچا ملنگ‬
‫کو کہاں تالش کیا جائے؟ اس درویش کا کوئی ٹھکانہ‬
‫تو تھا نہیں کہ میں سیدھا وہیں چال جاتا۔ گھر سے‬
‫نکل کر گاڑی بے مقصد سڑکوں پر گھماتا رہا۔ دو‬
‫ڈھائی گھنٹے کی شدید محنت کے بعد بھی ملنگ کو نہ‬
‫پا سکا۔ سوچا بینک جا کر عمران سے بات کروں یا‬
‫محمد شریف سے پوچھوں‪ ،‬یہی سوچ کر میں نے‬
‫گاڑی بینک جانے والے راستے پر ڈال دی۔ اچانک‬
‫ایک سڑک پرمجھے ملنگ بیٹھا نظر آیا۔وہ سڑک کی‬
‫دوسری طرف تھا۔ خدشہ تھا کہ جب تک میں موڑکاٹ‬
‫کر اس تک پہنچوں گا کہیں چال نہ جائے۔ اسی غرض‬
‫سے میں نے گاڑی اسی طرف روک کر اسے آواز دی۔‬
‫اسنے چونک کر میری طرف دیکھا اورمسکرا دیا۔ میں‬
‫نے اسے وہیں بیٹھا رہنے کا اشارہ کیا اورجلدی سے‬
‫گاڑی موڑ کر اسکے پاس پہنچ گیا۔ وہ خاموشی سے‬
‫اٹھا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔‬
‫’چل۔۔۔‘‘ اسنے بیٹھتے ہی حکم دیا۔ میں اس کے کہنے‬
‫کے مطابق چل پڑا۔ بار بار اسکی طرف دیکھتا لیکن‬
‫وہ تو شاید میری موجودگی کو فراموش کر بیٹھا تھا۔‬
‫آخر کار میں نے گاڑی کھیتوں کی طرف جانے والی‬
‫سڑک پر ڈالی دی۔ کچھ اور آگے جا کر میں نے ایک‬
‫درخت کے نیچے گاڑی کو روکا۔‬
‫’’بابا جی! میں بہت پریشان ہوں صائمہ۔‘‘‬
‫’’مجھے کیا بتاتا ہے سب پتا ہے مجھے‘‘ اس نے‬
‫مجھے بری طرح جھڑک دیا۔ میں سہم کر خاموش‬
‫ہوگیا۔ اس کا تھپڑ میں بھوال نہیں تھا۔ کچھ دیر وہ‬
‫سرجھکائے بیٹھا رہا پھر میری طرف دیکھنے لگا اس‬
‫کی سرخ آنکھیں میرے چہرے پر جمی تھیں۔ میں کچھ‬
‫دیر اس کی پر جالل آنکھوں کو دیکھتا رہا پھر رعب‬
‫درویشی سے میری نظریں جھک گئیں۔‬

‫’’اگر کام ہماری بیٹیا کا نہ ہوتا تو توقیامت تک ہمیں‬


‫تالش نہ کرپاتا‘‘ باالخر اسنے سکوت توڑا۔‬

‫’’لیکن اب بات ہمارے بس سے بھی باہر ہوگئی ہے۔‬


‫شیطانی قوتوں نے الحاق کر لیا ہے اور یہ سب کچھ‬
‫تیری نادانی کی وجہ سے ہوا‘‘ اس کی تیز نظریں مجھ‬
‫پر جمی تھیں۔ میں نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔‬
‫’’تجھے ایک مرد قلندر نے بہت سمجھایا تھا لیکن تو‬
‫نے اس کے تحفے کی قدر نہ کی اور ذلت کی‬
‫گہرائیوں میں دھنستا چال گیا۔‘‘‬

‫کچھ دیر وہ سخت نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔‬


‫’’شاید قسمت میں یہ کچھ لکھا تھا۔ شاید قدرت تجھ‬
‫سے کوئی خاص کام لینا چاہتی ہے‘‘ میں نے چونک‬
‫کر اسے دیکھا۔‬
‫’’بابا جی! میں آپ کی بات سمجھا نہیں۔‘‘‬
‫’’ابھی میں خود کچھ نہیں جانتا۔۔۔رب ذوالجالل جس‬
‫قدر چاہتا ہے اپنے بندوں کو بتا دیتا ہے اس کی‬
‫مرضی و منشا کے خالف ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس‬
‫نے سب کے ذمے کام لگائے ہوئے ہیں ہر کوئی اپنا‬
‫فرض ادا کر رہا ہے۔ تو قسمت کا دھنی ہے کہ تجھے‬
‫پاک پروردگار نے کسی نیک کام کے لیے چن لیا ہے۔‬
‫اگر تونے اپنے دامن کو گندگیوں سے آلودہ نہ کیا تو‬
‫بہت جلد کوئی فریضہ تجھے سونپا جائے گا ۔اگر‬
‫نفسانی خواہشات سے بچا رہا تو کامیابی تیرا مقدر بن‬
‫جائے گی۔ ورنہ ذلت کے گہرے سمندرمیں ڈوب جائے‬
‫گا۔ شیاطین تیرے گردجال کس رہے ہیں خود کو ان‬
‫کے چنگل سے بچا۔ عورت شیطان کابڑا ہتھیار ہے وہ‬
‫اس داؤ سے بڑے بڑوں کو چت کر دیتا ہے۔ غیبت‬
‫جھوٹ اور فحش گوئی سے زبان ناپاک ہو جاتی ہے۔‬
‫کوشش کیا کر کہ ہر وقت تیری زبان سے ذکر ٰالہی‬
‫جاری رہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو توجس وقت یاد آئے‬
‫ہللا پاک کے ذکر میں لگ جایا کر ۔ تیری بیوی اس‬
‫وقت ایک خبیث جن کے چنگل میں پھنس چکی ہے‬
‫لیکن وہ چونکہ پاکباز عورت ہے اس لئے وہ اس پر‬
‫قابو پانے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکا۔ جادو‬
‫کے ماہر کچھ لوگ اس جن کی پشت پناہی کر رہے‬
‫ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جن زادی بھی اس کے بارے‬
‫تعالی کے حکم سے‬‫ٰ‬ ‫میں جاننے سے قاصر ہے۔ ہللا‬
‫اگر کوئی تمہاری مدد کر سکتا ہے تو وہ ایک ہی‬
‫شخصیت ہے جس کو تم نے اپنی حماقت سے ناراض‬
‫کر دیا ہے‘‘ میں جو بڑے دھیان سے ملنگ کی باتیں‬
‫سن رہا تھا چونک گیا۔‬

‫’’کسے بابا جی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔‬


‫’ان کا نام حضرت ابولحان ہے یہ وہی بزرگ ہیں جو‬
‫محمد شریف کی درخواست پر تمہارے گھر کا حصار‬
‫کرنے آئے تھے‘‘ میرا سر جھک گیا۔ میں رادھا کی‬
‫محبت میں اندھا ہو کر خود اپنی تباہی کا سامان‬
‫کربیٹھا تھا۔ آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ملنگ نے شفقت‬
‫سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔‬

‫’’میرے بچے! اگر رونا ہے تو اس غفورالرحیم کے‬


‫آگے سر سجدے میں رکھ کر رو جو سب کے گناہ‬
‫معاف کر دیتا ہے‘‘ اس نے سمجھایا۔‬
‫’’بابا جی اب کیا ہوگا؟‘‘ میں نے پریشانی سے پوچھا۔‬
‫وہ کچھ دیر میری طرف دیکھتا رہا۔‬

‫’’ایک وظیفہ بتا رہا ہوں رات کو اسے پڑھنا مقررہ‬


‫تعداد مکمل کرنے کے بعد سو جانا جو خواب نظر آئے‬
‫وہ محمد شریف کو بتانا اور اس سے درخواست کرنا‬
‫کہ وہ حضرت صاحب کے گوش گزار کر دے۔ اگر‬
‫محمد شریف اس بزرگ کو راضی کرنے میں کامیاب‬
‫ہوگیا تو تیرا مقصد حل ہو جائے گا۔‘‘‬

‫’’بابا جی! میں اپنی شریک حیات کی طرف سے بہت‬


‫پریشان ہوں۔ وہ جو کوئی بھی ہے کمبخت میری بیوی‬
‫کے جسم کوحاصل کرنا چاہتا ہے میرے لئے نہ دن کو‬
‫سکون ہے نہ رات کوچین۔ اگر خدانخواستہ اس نے‬
‫صائمہ کے ساتھ۔۔۔‘‘‬

‫’’اپنا دامن جال ہے تو چیخ اٹھا ہے کمبخت۔۔۔! اس‬


‫وقت تجھے ہوش نہ تھا جب تو نا محرم عورتوں کے‬
‫ساتھ بدکاری میں ملوث تھا۔۔۔‘‘ ملنگ میری بات کاٹ‬
‫کر دھاڑا۔ میں لرز گیا کچھ دیر وہ الل انگارہ آنکھوں‬
‫سے مجھے گھورتا رہا پھر آہستہ آہستہ اس کا چہرہ‬
‫معمول پر آگیا۔‬
‫’’حضرت صاحب بہت جاللی بزرگ ہیں‪ ،‬خیال رکھنا ان‬
‫کی شان میں کوئی گستاخی نہ کر بیٹھنا ورنہ ساری‬
‫زندگی گلیوں میں رلتا پھرے گا‘‘ اس بار اس نے ذرا‬
‫نرمی سے سمجھایا۔‬

‫’’تیری اہلیہ پر کچھ دن بہت سخت گزریں گے بڑی‬


‫حکمت سے یہ دن گزارنا ہوں گے بچوں کی طرف‬
‫تعالی ان کی‬
‫ٰ‬ ‫سے بے فکر رہنا ہو معصوم ہیں ہللا‬
‫حفاظت کرے گا اس لئے ان کی کسی دھمکی میں آکر‬
‫کوئی غیر شرعی کام نہ کر بیٹھنا ورنہ سارے کیے‬
‫کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ فی الحال میں تجھے اتنا‬
‫ہی بتا سکتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگیا۔‬

‫’’بابا جی! اگر آپ سے ملنا ہو تو کہاں آپ سے مل‬


‫سکتاہوں؟‘‘ میں نے جلدی سے پوچھا۔‬

‫’’بے کار ہے ۔۔۔سب بے کار ہے ۔ ہمیں تالش کرنے‬


‫تعالی سے مدد ماگنا ور حضرت صاحب‬
‫ٰ‬ ‫کی بجائے ہللا‬
‫کو منانے کی کوشش ۔۔۔حق ہللا‘‘ اسنے ایک فلک‬
‫شگاف نعرہ لگایا اور بیٹھے بیٹھے نظروں سے‬
‫اوجھل ہوگیا۔ اب ان باتوں کا میں عادی ہوگیا تھا۔ میں‬
‫مطمئن ہو کر بینک چال گیا۔ ملنگ سے ملنے کے بعد‬
‫میرے دماغ سے بہت بڑا بوجھ ہٹ گیا تھا اور خود کو‬
‫ہلکاپھلکا محسوس کر رہاتھا۔ میں نے چپراسی کے‬
‫ذریعے محمد شریف کو بلوایا۔‬

‫’’اسالم علیکم جناب!کیا حکم ہے؟‘‘ اس نے اندر داخل‬


‫ہو کربڑی خوش اخالقی سے پوچھا۔‬
‫’’بیٹھو محمد شریف!‘‘ میں نے سامنے والی کرسی‬
‫کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے بیٹھنے کے بعد میں نے‬
‫ساری صورتحال اسے بتا دی۔ وہ خاموشی سے‬
‫سرجھکائے میری بات سنتا رہا۔ میں پر امید نظروں‬
‫سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔‬

‫’’ٹھیک ہے جناب! ہے تو یہ بہت مشکل کام لیکن میں‬


‫اپنی بہن صائمہ کے لئے ضرور کوشش کروں گا‘‘‬
‫باآلخر وہ بوال۔‬
‫’’تمہاری بہت مہربانی ہوگی محمد شریف! اس مشکل‬
‫وقت میں تمہارا یہ احسان میں ساری زندگی نہیں‬
‫بھولوں گا‘‘ میں نے شکریہ ادا کیا۔‬
‫’’جناب!کیوں شرمندہ کرتے ہیں۔۔۔میں حتی االمکان‬
‫کوشش کروں گا کہ آپ کا کام ہو جائے‘‘ اس نے عجز‬
‫سے کہا۔ محمد شریف کے جانے کے بعد میں اپنے‬
‫کام میں مصروف ہوگیا۔ شام کو ہم عمران کے گھر‬
‫چلے گئے العرض وہ دن جتنااچھا گزرا تھا رات اتنی‬
‫ہی بھیانک آئی۔ رات کا کھانا عمران کے گھر کھا کر‬
‫ہم تقریبا گیارہ بجے کے قریب گھر آئے۔ میں نے‬
‫وضو کرکے نماز پڑھی چونکہ میں نے وظیفہ کرنا تھا‬
‫اس لئے چاہتا تھا صائمہ سو جائے تومیں ملنگ کا‬
‫بتایا ہوا وظیفہ پڑھنے بیٹھوں۔ صائمہ نے آج سارے‬
‫دن میں کوئی نماز نہ پڑھی تھی۔ ایک دوبار میں نے‬
‫آہستہ سے اسے یاد دالیا کہ نماز کا وقت ہوگیاہے‬
‫لیکن اس کے کان پرجون تک نہ رینگی۔ عشاء کو‬
‫بھی وہ بغیر نماز پڑھے سونے کے لئے لیٹ گئی۔ میں‬
‫نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا کہیں خدانخواستہ پھر‬
‫اسکی طبیعت نہ بگڑ جائے یا وہ کوئی ایسا لفظ نہ منہ‬
‫سے نکال بیٹھے جو کفر کا باعث بن جائے تھوڑی‬
‫دیر بعد وہ سو گئی‬
‫میں نے وضو کیا اور مطلوبہ سامان جو میں نے دن‬
‫میں ہی خریدلیا تھا لے کر باہر آگیا۔ وظیفہ کھلے‬
‫آسمان تلے پڑھناتھا۔ میں ہللا کا نام لے کر پڑھائی میں‬
‫مگن ہوگیا۔ وظیفہ ختم کرتے کرتے دو بج گئے۔ میں‬
‫کمرے میں تو صائمہ بیڈ پر بیٹھی تھی۔‬

‫’’کہاں چلے گئے تھے ؟‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے‬


‫پوچھا۔‬

‫’’نیند نہیں آرہی تھی اور تم جانتی ہو کہ میں سگریٹ‬


‫پینے باہر چال جاتا ہوں‘‘ میں نے کہا۔’’لیکن تم کیوں‬
‫جاگ رہی ہو؟‘‘‬

‫’’ابھی آنکھ کھلی ہے میں تو بے خبر سو رہی تھی‘‘‬


‫اس نے جمائی لیتے ہوئے بتایا۔میں چاہتا تھا سونے‬
‫سے پہلے شاور لے لوں اس لئے میں باتھ روم جانے‬
‫لگا۔‬

‫’’جلدی سے نہا کر سو جائیں صبح آپ نے آفس بھی‬


‫جانا ہے‘‘ وہ انگڑائی لیتے ہوئے بولی۔‬
‫’’بس دو منٹ میں آیا‘‘ ابھی میں باتھ روم کے دروزے‬
‫تک بھی نہ پہنچا تاکہ پیچھے سے صائمہ کی آواز‬
‫آئی۔‬

‫’’موہن!‘‘‬
‫اگر ساتوں آسمان ایک ساتھ میرے سر پر گر پڑتے تو‬
‫بھی میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا صائمہ کی آواز سن‬
‫کر ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی تیزی سے مڑا۔ صائمہ‬
‫اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے میری طرف دیکھ رہی‬
‫تھی۔‬
‫’’پی۔۔۔تت۔۔۔یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ میں ہکال کر رہ‬
‫گیا۔وہ چونک کرمیری طرف دیکھنے لگی۔‬
‫’’آپ نے مجھ سے کچھ کہا‘‘ وہ جما ہی لیتے ہوئے‬
‫بولی۔‬

‫’’ابھی تم نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے دوبارہ پوچھا۔‬


‫’’میں کہہ رہی تھی جلدی سے نہا کر سوجائیں آپ نے‬
‫صبح آفس جاناہے۔‘‘ اس نے وہی بات دہرائی جو‬
‫تھوڑی دیر پہلے کہہ چکی تھی۔ میں نے غور سے‬
‫اس کی طرف دیکھا وہ یوں بے نیاز نظر آرہی تھی‬
‫جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔میں کچھ دیر اسے‬
‫دیکھتا رہا۔ اس نے دوبارہ آنکھیں بند کرلی تھیں۔ جب‬
‫میں باتھ روم سے فارغ ہو کر باہر آیا تو وہ گہری نیند‬
‫میں تھی۔ کہیں یہ سب کچھ جان بوجھ کر تو نہیں‬
‫کررہی؟ میں نے سوچا۔ لیکن رادھانے بھی کہا تھا کہ‬
‫صائمہ پر کوئی طاقتور جن قابض ہوگیاہے ہوسکتا ہے‬
‫رادھا اپنے مقصد کے لئے کہہ رہی ہو کہ اس طرح‬
‫میں اسکا محتاج بنا رہوں۔میرے دل میں خیال آیا۔‬
‫لیکن ملنگ توجھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر یہ سب کیا‬
‫ہے؟ میرا دماغ چکرا رہا تھا۔ صائمہ کا مجھے موہن‬
‫کہنا نہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔‬

‫’’یا خدا میں کن مصائب میں پھنس گیا ہوں؟‘‘ میں نے‬
‫دکھتے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام لیا۔ صائمہ بے‬
‫خبر سو رہی تھیا ورنیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔‬
‫ملنگ نے کہا تھا کہ وظیفہ مکمل کرنے کے بعد‬
‫سوجاؤں اورجو کچھ خواب میں نظر آئے وہ محمد‬
‫شریف کو بتا دوں لیکن نیند پرکسے اختیار ہے؟ میں‬
‫جاگتا رہا۔ آخر کار نیند مجھ پرمہربان ہوگئی۔ خواب‬
‫میں دیکھا ایک ویران سی جگہ ہے جہاں میں صائمہ‬
‫کو ڈھونڈتا پھر رہا ہوں۔ میں اسے آوازیں دیتا ہوں‬
‫لیکن اس کا کہیں پتا نہیں۔ اتنے میں ایک بزرگ نظر‬
‫آتا ہے جوایک گٹھڑی اٹھائے جا رہا ہے۔ میں اسے‬
‫آواز دیتاہوں وہ مڑ کرمیری طرف دیکھتا ہے میں اس‬
‫کے نزدیک جا کر اسے سالم کرتاہوں۔ وہ گٹھڑی زمین‬
‫پر پھینک دیتا ہے۔ میرے سالم کا جواب دے کر وہ‬
‫میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہے۔ میں اسے‬
‫بتاتا ہوں میں اور میری بیوی کسی کام سے ادھر آئے‬
‫تھے اب وہ کہیں نظر آرہی۔ کیا آپ نے اسے دیکھا‬
‫ہے؟ وہ مسکراتاہے۔‬

‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪47‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’’یہ گٹھڑی اٹھا کر میرے گھر پہنچا دو تو میں تمہیں‬


‫تمہاری بیوی کا پتا بتا دوں گا‘‘ وہ گٹھڑی کی طرف‬
‫اشارہ کرتا ہے۔ میں گٹھڑی اٹھانے کی کوشش کرتا‬
‫ہوں لیکن وہ بہت بھاری ہوتی ہے۔ باوجود کوشش‬
‫کے میں کامیاب نہیں ہوتا بے بسی سے اس بزرگ کی‬
‫طرف دیکھتاہوں۔‬
‫بابا جی! میرے بچے گھر میں اکیلے ہیں شام ہو رہی‬
‫ہے اگرمیں جلدی گھر نہ پہنچا تو وہ پریشان ہوں گے۔‬
‫مہربانی کرکے آپ مجھے صائمہ کا پتا بتا دیں‘‘ آخر‬
‫کار ناکام ہو کرمیں اس بزرگ سے درخواست کرتا‬
‫ہوں۔‬

‫’’جو کچھ میں نے کہا ہے اگر کر سکتے ہو تو کہو‬


‫نہیں تو میں جاتا ہوں‘‘ یہ کہہ کر وہ گٹھڑی اٹھانے‬
‫لگتا ہے۔ میں جلدی سے جھک کر دوبارہ کوشش‬
‫کرنے لگتاہوں۔ لیکن گٹھری بہت وزنی ہوتی ہے۔‬
‫میری کوشش کو ناکام ہوتے دیکھ کر وہ کہتا ہے۔‬
‫’آیۃ الکرسی پڑھ کر اٹھاؤ‘‘ میں اس کی ہدایت پر عمل‬
‫کرتا ہوں اس بار وہ گٹھڑی مجھے بہت ہلکی‬
‫محسوس ہوتی ہے وہ مسکرا کر چل پڑتا ہے میں‬
‫جلدی سے اسکا پیچھا کرتا ہوں۔ کافی فاصلہ طے‬
‫کرنے کے بعد ایک کوٹھڑی آجاتی ہے بوڑھا اسکے‬
‫سامنے رک کر کہتا ہے۔‬

‫’’اس کے اندر لے جا کر رکھ دو‘‘ میں جلدی سے‬


‫اندر داخل ہوتا ہوں اور گٹھڑی زمین پر پھینک کر باہر‬
‫نکلتاہوں تو وہاں کوئی نہیں ہوتا۔ لیکن چاروں طرف‬
‫دیکھتا ہوں لق دوق میدان ہے کوئی بندہ نا پرندہ۔میں‬
‫اس بزرگ کو آوازیں دیتا ہوں لیکن کوئی ہو تو سنے۔‬
‫آخر کار تھک ہارکرمیں وہیں بیٹھ جاتا ہوں میرا دل‬
‫اپنی بے بسی کے احساس سے بھر آتا ہے اورمیری‬
‫آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ میں جی بھرکر‬
‫روتا ہوں۔ اتنے میں کیا دیکھتاہوں سفید لباس اور‬
‫بڑی سی چادرمیں ملبوس ایک نہایت حسین لڑکی آتی‬
‫ہے اس کے پاکیزہ چہرے پرملکوتی مسکراہٹ ہے۔‬
‫’کیا بات ہے کیوں پریشان ہو؟ ‘‘ وہ مجھ سے پوچھتی‬
‫ہے۔‬

‫’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سے سوال کرتا ہوں۔‬

‫’’میں رادھا ہوں‘‘ وہ کہتی ہے۔‬

‫’’رادھا۔۔۔؟ تم رادھا کیسے ہو سکتی ہو؟‘‘ میں حیرت‬


‫بھرے لہجے میں سوال کرتا ہوں۔‬
‫’’میں رادھا ہی ہوں۔۔۔تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘ وہ‬
‫پوچھتی ہے۔‬
‫’’میری بیوی کہیں چلی گئی ہے مجھے گھر جانا ہے‬
‫شام ہو رہی ہے بچے گھرمیں اکیلے ہیں۔ ایک بزرگ‬
‫مجھے یہاں یہ کہہ کر الیا تھاکہ وہ مجے میری بیوی‬
‫کے بارے میں بتا دے گا لیکن وہ کہیں چال گیا۔ اسنے‬
‫اپنا کام نکلوا لیا اب غائب ہوگیا ہے میری بیوی کاپتا‬
‫بھی نہیں بتایا‘‘ میں اسے بتاتا ہوں۔‬

‫’’یوں نہیں کہتے وہ بزرگ بڑا نیک انسان ہے جھوٹ‬


‫نہیں بولتا۔ اگر اس نے کہا ہے کہ وہ تمہیں بتا دے گا‬
‫تو ضرور بتائے گا اور ہاں میں بھی تمہاری مدد کروں‬
‫گی۔ کیونکہ تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے‘‘‬

‫’’میں نے تم پر کیا احسان کیا ہے‘‘ میں حیران ہو کر‬


‫پوچھتا ہوں۔‬
‫’’وقت آنے پر بتا دوں گی۔ چلو اٹھو۔‘‘‬

‫وہ کہتی ہے اور واپس مڑ کر روانہ ہو جاتی ہے۔ میں‬


‫اس کے پیچھے چل پڑتاہوں ۔ کسی نے جھنجھوڑ کر‬
‫مجھے جگا دیا۔‬

‫’’فاروق‘‘ اٹھیں دیکھیں ساڑھے سات بج گئے ہیں‬


‫بچوں نے سکول جانا ہے‘‘ صائمہ میرے اوپر جھکی‬
‫کہہ رہی تھی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔‬

‫’’جلدی سے تیار ہو جائیں میں ناشتہ لگاتی ہوں‘‘‬


‫اسنے کہا اور کچن کی طرچ چلی گئی۔ میری فجر کی‬
‫نماز قضا ہو گئی تھی۔ بچے تیار ہو کر ناشتے کی میز‬
‫پر پہنچ چکے تھے۔ میں نے جلدی سے وضو کیا اور‬
‫قضا نماز ادا کی پھر تیار ہو کر ناشتہ کرکے بینک‬
‫روانہ ہوگیا۔ میں جلد از جلد محمد شریف کو اپنا خواب‬
‫سنانا چاہتا تھا۔ جس کی مجھے قطعا ً سمجھ نہ آئی‬
‫تھی۔ بینک پہنچ کر میں نے سب سے پہلے محمد‬
‫شریف کو بلوایا۔ اسے ساری بات بتائی اس کا چہرہ‬
‫خوشی سے چمکنے لگا۔‬

‫تعالی بڑا مہربان اور زبردست قدرت واال ہے۔‘‘‬


‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫اس نے کہا۔‬

‫’’محمد شریف میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آیا۔ اس‬


‫خواب کی کیا تعبیر ہے؟‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھ۔‬
‫’آج را ت میں حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی‬
‫کوشش کروں گا مجھے ہللا پاک سے امید ہے کہ بہت‬
‫جلد آپ کی مشکالت حل ہو جائیں گی۔‘‘ اس نے کہا‬
‫اور جانے کی اجازت چاہی۔‬

‫’’محمد شریف کچھ مجھے بھی تو بتاؤ۔ اس خواب کی‬


‫کیا تعبیرہے؟‘‘ میں نے اسے اٹھتے دیکھ کر جلدی‬
‫سے پوچھا۔‬
‫’’آپ یقین کریں جناب عالی! مجھے بھی کچھ معلوم‬
‫نہیں میں آج رات حضرت صاحب سے رابطہ کرنے کی‬
‫کوشش کروں گا اگر ہللا کے حکم سے کامیاب ہوگیا تو‬
‫انہیں سب کچھ بتا دوں گا پھر وہ جیسا حکم کریں گے‬
‫اس پر عمل کرنا ہوگا۔‘‘‬

‫’’اچھا ٹھیک ہے لیکن یاد سے رابطہ کرلینا۔ میں اس‬


‫معاملے میں سخت پریشان ہوں‘ میں نے اسے تاکید‬
‫کی۔‬
‫تعالی کرم کرے گا۔‘‘ مجھے‬
‫ٰ‬ ‫’’آپ بے فکر ہو جائیں ہللا‬
‫تسلی دے کر وہ باہر چال گیا۔ اس کے جانے کے بعد‬
‫میں کام میں مصروف ہوگیا۔ لیکن دل کسی شے میں‬
‫نہ لگ رہا تھا۔ بار بار صائمہ کا خیال آرہا تھا۔ صبح‬
‫اس کی طبیعت ٹھیک تھی لینک ۔۔۔خدانخواستہ پھر‬
‫خراب نہ ہوگئی ہو میں نے سوچا اور گھر کا نمبر ڈائل‬
‫کیا۔ حسب معمول گھنٹی بجتی رہی لیکن اسنے فون‬
‫نہیں اٹھایا۔ کئی بار کوشش کرنے پر نتیجہ وہی رہا تو‬
‫میں گاڑی کی چابی اٹھا کر جلدی سے باہر نکل آیا‬
‫تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کرتا ہوا گھر پہنچ گیا۔ چابی‬
‫سے گیٹ کھوال اور اندر داخل ہوگیا۔ اس بارمیں بیڈ‬
‫روم کی طرف جانے کے بجائے میں پچھلے صحن کی‬
‫طرف آگیا۔ بیڈ روم کی ایک کھڑی اس طرف کھلتی‬
‫تھی۔ کھڑکی کے نیچے کیاریوں میں گالب کے پھول‬
‫مہک رہے تھے۔ میں دبے قدموں چلتا ہوا کھڑکی کے‬
‫قریب پہنچا تو بری طرح ٹھٹک گیا۔ اندر سے خود‬
‫میری آواز آرہی تھی۔ میں جلدی سے آگے بڑھا اور‬
‫گالب کے پودوں سے بچتا ہوا کھڑکی سے جھانکا۔‬

‫اندر کا منظر دیکھ میری آنکھیں حیرت سے پھٹی کی‬


‫پھٹی رہ گئیں۔ صائمہ اس دن کی طرح ہار سنگھار‬
‫کرکے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی۔ آج بھی بیلے کی‬
‫کلیاں اس کے بالوں میں لٹک رہی تھیں۔ جس چیز کو‬
‫دیکھ کر مجھے حیرت سے زیادہ صدمہ ہوا تھا وہ‬
‫صائمہ کے ماتھے پر لگا ہوا تلک تھا۔ جیسے ہندو‬
‫عورتیں ماتھے پر لگاتی ہیں۔ اس کا چہرہ خوشی سے‬
‫گالب کی طرح کھال ہوا تھا۔ بڑی ہی پیاری مسکراہٹ‬
‫اسکے ہونٹوں پر تھی۔ بالکل اس کے سامنے بیڈ پر‬
‫میری طرف پشت کیے ایک شخص نیم دراز تھا۔ میں‬
‫ابھی اسے پوری طرح دیکھنے بھی نہ پایا تھا کہ‬
‫مجھے اپنے بالکل قریب زور دار پھنکار سنائی دی۔‬
‫میں اچھل پڑا۔ نیچے دیکھا تو سانس اوپر کی اوپر رہ‬
‫گئی۔ ایک سیاہ کاال ناگ پھن پھیالئے میرے پیروں‬
‫سے دو فٹ کے فاصلے پر لہرا رہا تھا۔ میں سن ہوگیا۔‬
‫اسکی سرخ زبان لپ لپ باہر اندر ہو رہی تھی۔ چھوٹی‬
‫چھوٹی نہایت چمکیلی آنکھیں مجھ پر جمعی تھیں۔ وہ‬
‫زور زور سے پھنکار رہاتھا۔ میں سب کچھ بھول کر‬
‫جان بچانے کی فکر میں پڑ گیا۔ اگر میں ہلتا تو ممکن‬
‫تھا وہ مجھے ڈس لیتا۔ بڑی احتیاط سے میں نے پیر‬
‫پیچھے کھسکایا۔ وہ چوکناہو کر پھنکارنے لگا۔ میں‬
‫نے ہللا کا نام لے کر پیچھے کی طرف چھالنگ لگائی‬
‫اور پشت کے بل اس موذی سے چار پانچ فٹ دور الن‬
‫میں جاگرا۔ اس نے بجلی کی سی تیزی سے اپنا پھن‬
‫اس جگہ پر مارا جہاں ایک لمحے قبل میرا پیرتھا۔‬
‫میں نے الٹ بازی لگائی اور اس سے کچھ اور دور‬
‫ہوگیا اور چاروں طرف نظر دوڑائی کہ کوئی ایسی چیز‬
‫مل جائے جس سے میں اس موذی کا سر کچل سکوں۔‬
‫الن کے آخری کنارے پر بیلچہ پڑا تھا۔ میں نے بھاگ‬
‫کر اسے اٹھایا اور اس جگہ کی طرف بڑھا دیا جہاں‬
‫کچھ دیر قبل میں نے اس خطرناک ناگ کو دیکھا تھا۔‬
‫لیکن اب وہاں اس کا نام و نشان نہ تھا۔ میں نے‬
‫احتیاط سے بیلچے کے ڈنڈے سے پودوں کو ادھر‬
‫ادھر کرکے دیکھا لیکن وہ نکل چکا تھا۔ بچوں واال‬
‫گھر تھا اور شام کو وہ الن میں کھیلتے رہتے تھے۔‬
‫اس کام میں پڑ کرمیں سب کچھ بھول گیا تھا۔ بہت‬
‫تالش کیا لیکن وہ کمبخت تویوں غائب ہوگیا تھا‬
‫جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو۔ کافی دیر تالش کرنے پر‬
‫بھی ناکامی ہوئی تو مجھے صائمہ اور اس شخص کا‬
‫خیال آیا۔ میں لپک کر اندر کی طرف بڑھا تاکہ بیڈ روم‬
‫میں جا کر اس حرامزادے کا سر کچل دوں۔ اس سارے‬
‫مسئے کی جڑ وہی نابکار تھا۔ میں بھاگتا ہوا کاریڈور‬
‫سے گزر کر بیڈ روم میں پہنچا تو حیرت سے میری‬
‫عقل گم ہوگئی۔ صائمہ انہی کپڑوں میں ملبوس سو رہی‬
‫تھی جو اسنے صبح پہن رکھے تھے۔ اسکا میک اپ‬
‫سے عاری چہرہ تھکا تھکا سا دکھائی دے رہا تھا۔‬
‫اتنی جلدی لباس تبدیل کرکے میک اپ ختم کرنا‬
‫ناممکن نہ تھا۔ میں آنکھیں پھاڑے اس کے چہرے کی‬
‫طرف دیکھ رہا تھا۔ صائمہ کا چہرہ جو تھوڑی دیر‬
‫پہلے گالب کے پھول جیسا دکھائی دے رہا تھا‬
‫خطرناک حد تک زرد تھا۔ میں لپک کر اس کے پاس‬
‫پہنچا۔‬

‫’صائمہ‘‘ میں نے اسے بری طرح جھنجھوڑ دیا۔ وہ‬


‫ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ حیرت سے مجھے دیکھا۔‬
‫’’کیا بات ہے فاروق؟‘‘ اسنے نیند سے بوجھل پلکیں‬
‫اٹھا کر پوچھا۔‬

‫’’خیریت تو ہے؟ آپ اتنے گھبرائے ہوئے کیوں لگ‬


‫رہے ہیں؟‘‘‬
‫میں دھم سے بیڈ پر گر گیا۔‬
‫’’یہ سب کیا ہے؟ کیا میری نظروں کو دھوکہ ہوا تھا۔‬
‫کیا میرے تخیل نے سب کچھ گھڑ کر میرے سامنے‬
‫پیش کر دیا تھا؟‘‘ مختلف سواالت میرے ذہن میں‬
‫چکرا رہے تھے۔‬
‫’’فاروق! آپ بتاتے کیوں نہیں کیا ہوا؟‘‘ وہ مجھے‬
‫بازو سے پکڑ کر ہال رہی تھی۔ میں نے خالی خالی‬
‫نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔‬

‫‪ ،‬تفصیالت طلب مگر مقدمہ کیا ہے؟ جان کر بڑے‬


‫بڑوں کی نیندیں اڑ جائیں گی‬
‫’’صائمہ! میری تو خود سمجھ میں نہیں آتا کیا بات‬
‫ہے؟‘‘ میں نے بے بسی سے کہا۔اس کی حسین‬
‫آنکھوں میں آنسو آگئے۔‬

‫’’اگر آپ مجھے نہیں بتانا چاہتے تو میں مجبور نہیں‬


‫کروں گی‘‘ وہ روہانسی ہوگئی۔‬

‫میں نے اسے سینے سے لگا کربھینچ لیا ۔‬


‫’’یہ بات نہیں میری جان! میں بھال تم سے کوئی بات‬
‫چھپا سکتا ہوں‘‘ میں نے اس کا حسین چہرہ اپنے‬
‫ہاتھوں میں تھام لیا۔‬
‫’’آپ کے چہرے سے لگ رہا ہے کوئی خاص بات ہے‬
‫لیکن میں پوچھتی ہوں تو کہتے ہیں کوئی بات نہیں‘‘‬
‫اس نے میرا ہاتھ تھام لیا۔‬

‫’’صائمہ! ابھی جب میں گھر آیا تو تم۔۔۔‘‘ میں سوچنے‬


‫لگا اسے یہ سب بتانا ٹھیک رہے گا یا نہیں۔‬
‫’آپ رک کیوں گئے؟ جب آپ گھر آئے تو میں کیا؟‘‘‬
‫اس نے بے چینی سے پوچھا۔‬

‫’’تمہیں کچھ یاد ہے رات جب میں باہر سے آیا تو تم‬


‫نے کیا کہا تھا؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’رات۔۔۔رات کب؟ مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ آپ‬


‫باہر گئے تھے یا نہیں آپ نے بتایا ہی نہیں کہ آپ کو‬
‫کہیں جانا ہے؟‘‘ اس کی آنکھوں میں حیرت تھی۔‬
‫’’باہر سے میری مراد الن میں چہل قدمی سے ہے۔‬
‫جب میں اندر آیا تو تم جاگ رہی تھیں یاد ہے؟‘‘ میں‬
‫نے پوچھا۔‬

‫’’نہیں۔۔۔رات تو آپ سے پہلے ہی میں سو گئی تھی۔ پتا‬


‫نہیں فاروق! کیا بات ہے آج کل مجھے نیند بہت آنے‬
‫لگی ہے۔ دن کو بھی میں اکثر سو جاتی ہوں کئی دن‬
‫سے گھر کی اچھی طرح صفائی بھی نہیں کی۔ جب‬
‫سے کام کرنے والی گئی ہے سارا گھر گندا پڑا ہے‬
‫لیکن میں سچ کہہ رہی ہوں مجھ میں ہمت ہی نہیں کہ‬
‫میں صفائی ستھرائی کر سکوں حاالنکہ آپ جانتے ہیں‬
‫اس معاملے میں کتنی ٹچی ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔‬
‫’’ہاں جانتا ہوں وہی تو کہنے جا رہا تھا کہ جب میں‬
‫گھر آیا تو تم سو رہی تھیں۔ مجھے حیرت ہوئی اس‬
‫لئے میں نے تمہیں جگا دیا‘‘ میں نے بات بنائی۔‬
‫دراصل محمد شریف کی طرف سے جب تک کوئی‬
‫مثبت جواب نہیں مل جاتا میں صائمہ سے اس سلسلے‬
‫میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا۔‬
‫’ارے اتنی سی بات سے آپ پریشان ہوگئے۔‘‘‬
‫میں نے مسکراکر اس کی طرف دیکھا۔‬
‫’’تمہاری ذرا سی پریشانی مجھے بے چین کر دیتی‬
‫ہے لیکن تم سوتے ہوئے لگ بہت پیاری رہی تھیں۔۔۔‘‘‬
‫میری آنکھوں میں شوخی دیکھ کر وہ پھر گھبرا گئی۔‬
‫حاالنکہ میں نے اس سے کوئی بات نہ کی تھی لیکن‬
‫کہتے ہیں نا عورت کی حس اس معاملے میں بہت‬
‫تیزہوتی ہے۔ اس نے میری آنکھوں میں پڑھ لیا تھا کہ‬
‫میں کیا چاہتاہوں؟۔‬

‫’’مم ۔۔۔میں واش روم جا رہی ہوں‘‘ وہ بری طرح‬


‫گھبرا گئی۔ میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ کیا یہ‬
‫وہی صائمہ ہے جو میرے قرب کے لیے بے چین رہا‬
‫کرتی۔ ہر چند کہ وہ اس معاملے میں بہت شرمیلی ہے‬
‫لیکن ایسا تو کبھی نہ ہوا تھا کہ وہ مجھ سے گریزاں‬
‫رہے۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس‬
‫بٹھانا چاہا۔ یکدم اس کی آنکھوں میں سختی اتر آئی۔‬
‫اس نے ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر غصے سے‬
‫میری طرف دیکھا۔ اورپیر پٹختے ہوئے باتھ روم میں‬
‫گھس گئی۔ میں ہکا بکا وہیں بیٹھا رہ گیا۔‬
‫’’اسے کیا ہوگیا ہے؟ یہ تو مجھے معلوم ہو چکا تھا‬
‫کہ وہ کسی نادیدہ پراسرار ہستی کے زیر اثر ہے لیکن‬
‫اس وقت تو وہ بالکل نارمل حالت میں میرے ساتھ‬
‫باتیں کر رہی تھی۔ اس دن بھی جب میں نے مذاقا ً اس‬
‫کے قرب کی خواہش کا اظہار کیا تھا وہ اسی طرح‬
‫گھبرا گئی تھی۔ آج جب میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو‬
‫طیش میں آگئی۔‬

‫’’اگر آپ نے آفس نہیں جانا تو ڈریس چینج کرلیں‘‘‬


‫میں اپنی سوچوں میں اس قدر غرق تھا کہ صائمہ کی‬
‫آمد سے بے خبر رہا۔ مجھ پر بھی ضد سوار ہوگئی۔‬
‫’میری جان! تھوری دیر میرے پاس تو بیٹھو۔ تمہارے‬
‫حسن کی تپش نے مجھے بے حال کر دیا ہے۔‘‘ میں‬
‫نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یک بیک اس کی کیفیت بدل‬
‫گئی۔ آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے۔‬
‫’’میرا ہاتھ چھوڑ دو۔‘‘ اس کی سرد آواز آئی۔‬
‫’’کیوں؟ کیوں چھوڑ دوں تمہارا ہاتھ۔۔۔تم میری بیوی‬
‫ہو جب چاہے میں تمہارا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں یہ حق‬
‫مجھے شرعی طور پر مال ہوا ہے۔‘‘ میں نے ہاتھ کو‬
‫اور مضبوطی سے تھام لیا۔‬

‫’’تو ایسے نہیں مانے گا‘‘ اس کا چہرہ انگارے کی‬


‫طرح سرخ ہوگیا۔ ایک جھٹکے سے اس نے میرے‬
‫ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ نزم و نازک صائمہ میں‬
‫یکدم کسی پہلوان جیسی طاقت عود کر آئی تھی۔ میری‬
‫رگوں میں خون کے بجائے الوا گردش کرنے لگا۔ میں‬
‫نے جھپٹ کر اسے پشت کی طرف سے اپنی بانہوں‬
‫میں لے لیا۔ اس نے میری کالئیوں کو پکڑکر میرے‬
‫ہاتھ یوں کھول دیئے جیسے کوئی بڑا آدمی کسی بچے‬
‫کے شکنجے کو کھول دے۔ پھر پیچھے مڑی اور‬
‫مجھے زور سے دھکا دیا۔ میں اڑتا ہوا بیڈ پر جا گرا۔‬
‫یہ بھی اچھا ہوا۔۔۔اگر میں زمین پر گرتا تو شاید میری‬
‫ہڈیاں سرمہ بن جاتیں۔ ہوا میں اڑتا ہوا بیڈ پر گرا اور‬
‫سپرنگوں والے میٹرس کی وجہ سے ایک بار پھر کئی‬
‫فٹ اوپر اچھال۔ دوبارہ گرنے تک میں کچھ نہ کچھ‬
‫سنبھل چکا تھا۔ غصے سے میرا چہرہ تپ گیا۔ صائمہ‬
‫مجسم قہر بنی مجھے گھور رہی تھی۔ جب وہ بولی تو‬
‫میں ششدر رہ گیا۔‬
‫’’جیون سے پریم ہے تو پھر میرے شریر کو چھونے‬
‫کی اوشکتا نہ کرنا۔‘‘ اس کے منہ سے مردانہ آواز‬
‫نکلی۔ وہ بپھری ہوئی ناگن کی طرح بل کھا رہی تھی۔‬
‫ایک سرد لہر میرے سارے جسم میں دوڑ گئی۔‬
‫اس کی آنکھیں کبوتر کے خون کی طرح سرخ ہوگئیں۔‬
‫کچھ دیر تو میں بوکھالیا ہوا اسے دیکھتا رہا پھر‬
‫اچانک میرے جسم میں آگ سی بھر گئی۔‬

‫’’کون ہو تم۔۔۔میری بیوی کے جسم پر قبضہ کرنے کی‬


‫تمہاری جرات کیسے ہوئی؟‘‘ میں نے دبنگ لہجے‬
‫میں پوچھا۔‬

‫’’تم ایک ملیچھ مسلے ہو کر ہمرے دھرم کی ناریوں‬


‫سنگ بالت کار کر سکتے ہو تو میں تمری پتنی سنگ‬
‫کیوں نہیں؟‘‘‬
‫صائمہ کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ چھا گئی۔ اس‬
‫کے منہ سے نکلنے والی آواز سنی ہوئی سی‬
‫محسوس ہوئی لیکن باوجود کوشش کے میں پہچان نہ‬
‫سکا۔‬

‫’’کالی داس! تم چاہے جتنے روپ بدل لو میں نے‬


‫تمہیں پہچان لیا‘‘ میں نے اندھیرے میں تیر چھوڑا۔‬
‫’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ صائمہ کے منہ سے خوفناک قہقہہ بلند‬
‫ہوا۔‬

‫’’منش جاتی کو تو بہت بدھی مان کہا جاتا ہے پرنتو‬


‫جان پڑتا ہے تیری بدھی میں بھس بھرا ہوا ہے ۔ سن‬
‫یدی تو نے اب اپنی پتنی کے شریر کو چھونے کی‬
‫اوشکتا کی تو اپنی مرتیو کاپر بند تو کھد کرے گا ‪،‬سن‬
‫لیا نا پلید مسلے۔۔۔یدی میرا بس چلے تو میں ایک پل‬
‫میں تجھے نرکھ میں بھیج دوں۔ وہ سمے دور نہیں‬
‫جب میرا ادھیکار تیری پتنی کے شریر پر ہوگا۔ میں‬
‫اس کے کومل شریر سنگ اسی طرح کھلواڑ کروں گا‬
‫جیسے تو ہمرے دھرم کی ناریوں سے کرتا رہا ہے‘‘‬
‫کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ میں یک ٹک صائمہ کو‬
‫دیکھ رہا تھا جس کا چہرہ غصے سے آگ کی طرح‬
‫تپ رہا تھا۔‬

‫’’ تو نے میری بیوی کو ہاتھ بھی لگایا تو میں تجھے‬


‫جہنم میں جھونک دوں گا‘‘ طیش سے میرے جسم‬
‫میں انگارے بھر گئے۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫ِِقسط۔ ‪48‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫یدی تو اتنا ہی شکتی مان ہے تو مجھے اپنی پتنی کے‬


‫شریر سے نکال کر دیکھا‘‘ اس نے مضحکہ اڑایا۔‬
‫وہ جو کوئی بھی تھا اس وقت میرے مقابلے میں‬
‫زیادہ بہتر پوزیشن پر تھا۔‬
‫حس و چار میں کھو گیا؟ اپنے دھرم کے کسی مہا‬
‫شکتی مان کو بال وہ مجھے تیری پتنی کے شریر سے‬
‫نکالے۔ تو تو بڑا بلوان ہے۔۔۔کالی داس جیسا مہا پرش‬
‫بھی تیرے آگے کچھ نہیں پھر کس کارن چپ ہے؟‘‘ وہ‬
‫مسلسل میرا مضحکہ اڑا رہا تھا۔‬
‫’’میری بات دھیان سے سن۔۔۔یدی تو نے کوئی چھل‬
‫کپٹ کیا تو تیری پتنی جیوت نہ رہے گی۔ اس بات کو‬
‫من میں اچھی طرح بٹھا لے‘‘ اس نے مجھے دھمکی‬
‫دی۔ میں نے بے بسی کی حالت میں پیچ و تاب کھا رہا‬
‫تھا۔ اگر وہ کوئی مجسم شخص ہوتا تو میں اسے ایک‬
‫منٹ میں مزا چھکا دیتا۔ لیکن نادیدہ وجود کے خالف‬
‫میں کیا کر سکتا تھا؟‬
‫’’میں جا رہا ہوں ‪ ،‬پرنتو اس بات کا دھیان رہے یدی‬
‫تو نے کوئی چال چلی تو میں تیری پتنی کو جیوت نہ‬
‫چھوڑوں گا‘‘ اس کے ساتھ ہی صائمہ نے ایک‬
‫جھرجھری لی اور چونک کر میری طرف دیکھنے‬
‫لگی۔ اس کی آنکھوں میں الجھن تھی۔‬
‫’’کیا میں پھر سو گئی تھی؟‘‘ اس نے ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’تمہاری طبعیت ٹھیک نہیں ہے اس لئے تم پر بار بار‬
‫غنودگی چھا جاتی ہے۔ جلدی سے نہا کر فریش ہو‬
‫جاؤ پھر ہم بچوں کو سکول سے لے کر نازش کے‬
‫گھر جائیں گے کہہ رہی تھی رات کا کھانا ہم ان کے‬
‫ہاں کھائیں‘‘ وہ چپ چاپ باتھ روم میں گھس گئی۔‬
‫تھوری دیر بعد ہم بچوں کے سکول سے لے کر‬
‫عمران کے گھر جا رہے تھے۔ میں چاہتا تھا صائمہ کو‬
‫وہاں چھوڑ کر میں محمد شریف کو ساری صورتحال‬
‫بتاؤں اس کے عالوہ رادھا کے ساتھ بات کرنا بھی‬
‫ضروری تھا۔ اتنا تو میں جان چکا تھا کہ کوئی خبیث‬
‫جن صائم پر قابض ہوگیا ہے۔ اس کا یہ کہنا ’’تو‬
‫ہمارے دھرم کی ناریوں سے بالت کار کر سکتا ہے تو‬
‫میں کیوں نہیں کر سکتا۔‘‘‬

‫’’کہیں یہ بسنتی کا کوئی دوست تو نہیں؟ ہو سکتا ہے‬


‫وہ مجھ سے بدلہ لے رہا ہو’‘‘ کچھ بھی ہو سب میری‬
‫کوتاہیوں کی وجہ سے ہو رہا تھا۔ میں سوچوں میں‬
‫غرق گاڑی چال رہا تھا۔ صائمہ بھی خاموشی سے سر‬
‫جھکائے بیٹھی تھی۔ بچے ہمیں دیکھ کر بہت خوش‬
‫ہوئے جب انہوں نے سنا کہ ہم عمران انکل کے گھر‬
‫جا رہے ہیں تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد ہم عمران کے گھر پہنچ گئے۔ نازش‬
‫ہمیں دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ میں نے علیحدگی میں‬
‫انہیں سمجھایا کہ صائمہ ذہنی خلفشار کا شکار ہو گئی‬
‫ہے اس لئے میں اسے تنہائی سے نکالنا چاہتا‬
‫ہوں۔انہوں نے مسکرا کر کہا’’خان بھائی! بے فکر ہو‬
‫کر جائیں مجھے بھی ایک ساتھی کی ضرورت ہے جو‬
‫میری باتیں سن سکے‘‘ میں ہنستا ہوا باہر نکل آیا۔‬

‫مجھے یہ خطرہ بھی تھا کہ نازش پر حقیقت نہ کھل‬


‫جائے لیکن اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا۔ یہ‬
‫بھی سوچا خاموشی سے الہور چلے جائیں لیکن اگر‬
‫وہاں اس خبیث جن نے امی جان اور بھائی صاحب کے‬
‫سامنے میرا پول کھول دیا تو کیا ہوگا؟ اس پیش نظر‬
‫ابھی میرا یہاں سے جانا ناممکن تھا۔ محمد شریف نے‬
‫بھی کہا تھا وہ حضرت صاحب سے رابطہ کرے گا۔‬
‫بینک جا کر میں نے محمد شریف کو صورت حال سے‬
‫آگاہ کیا۔‬

‫عالی میں انشاء ہللا آج رات حضرت صاحب‬‫ٰ‬ ‫’’جناب‬


‫سے رابطہ کروں گا انہیں ساری صورتحال بتا کر ان‬
‫کے مشورے سے کچھ کرنا بہتر ہوگا۔‘‘ اس نے بڑی‬
‫اپنایت سے کہا۔‬

‫’’محمدشریف میں صائمہ کی حالت سے سخت پریشان‬


‫ہوں۔ یہ تو شکر ہے بچوں کے سامنے اس کی حالت‬
‫ٹھیک رہی ورنہ میرے لئے اور زیادہ مصیبت بن‬
‫جاتی۔ لیکن ڈرتا ہوں کسی وقت اس حالت میں وہ‬
‫بچوں کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔‘‘‬
‫تعالی اسے شرمسار کرے گا۔‬
‫ٰ‬ ‫’’جناب خان صاحب ! ہللا‬
‫اور وہی معصوم بچوں کی حفاظت بھی کرے گا۔ آپ‬
‫فکر نہ کریں انشاء ہللا سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘‬
‫اس کا خیال بھی یہی تھا کہ یہ کسی سرکش جن کی‬
‫کارستانی ہے۔ محمد شریف سے بات کرکے مجھے‬
‫کچھ تسلی ہوئی۔ رادھا کے سلسلے میں میں محتاط ہو‬
‫چکا تھا۔ مجھے شک تھا صائمہ نے ہمیں ملتے دیکھ‬
‫لیا ہے لیکن کسی وجہ سے خاموش ہے۔ رادھا سے‬
‫ملنا بھی ضروری تھا اس لیے میں نے صائمہ سے‬
‫بہانہ بنایا کہ مجھے وظیفے کے لیے خالی مکان‬
‫چاہئے اس لیے تم بچوں کے ساتھ عمران کے ہاں‬
‫ٹھہر جاؤ۔ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا۔ رات کے‬
‫کھانے کے بعد میں واپس اپنے گھر آگیا۔ جب میں اندر‬
‫داخل ہوا تو سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جیسے ہی میں بیڈ‬
‫روم میں داخل ہوا۔ عجیب سی ناگوار بومیرے نتھنوں‬
‫سے ٹکرائی جیسے کوئی مردار کمرے میں پڑا ہو۔‬
‫ابھی میں سو ہی رہا تھا کہ کمرہ دھویں سے بھرنے‬
‫لگا۔ مجھے کھانسی چھڑ گئی۔ میں الٹے قدموں کمرے‬
‫سے باہر آنے لگا۔ اچانک کسی نے پشت سے مجھے‬
‫دھکا دیا اور میں ہوا میں اڑتا ہوا کمرے کے درمیان‬
‫جا گرا۔ ساری ہڈیاں کڑکڑا کر رہ گئیں۔ فرش پر دبیز‬
‫قالین بچھا ہوا تھا اس کے باوجود خاصی چوٹ آئی۔‬
‫اگر ننگا فرش ہوتا تو شاید میں زندگی بھر کے لیے‬
‫معذور ہو سکتا تھا۔‬
‫’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی۔۔۔‘‘ کمرے میں مکروہ نسوانی ہنسی‬
‫گونج اٹھی۔ میں نے گھبرا کر چاروں طرف دیکھا۔ دم‬
‫بدم بدبو میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ سانس لینا دوبھر‬
‫ہوگیا کمرے میں اندھیرا تھا مجھے الئٹ جالنے کی‬
‫مہلت ہی نہ مل سکی تھی۔ ابھی میں اس افتاد کے‬
‫بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ میرے ہاتھ سے کوئی‬
‫سرد چیز ٹکرائی۔ میں نے گھبرا کر ہاتھ جھٹک دیا۔‬
‫تھوڑی دیر پھر اس شے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجھے‬
‫کراہیت محسوس ہوئی۔ اسکی گرفت میرے ہاتھ پر‬
‫سخت ہوگئی۔ میں نے دوسرے ہاتھ سے اسے ہٹانے‬
‫کی کوشش کی لیکن وہ آہستہ آہستہ میرے ہاتھ کے‬
‫گرد لپٹنا شروع ہوگئی۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے‬
‫دیکھنا تو ممکن نہ تھا لیکن محسوس ہو رہا تھا‬
‫جیسے سانپ میرے ہاتھ کے گرد لپٹ گیا ہو۔ اچانک‬
‫کمرے میں روشنی پھیل گئی۔ اب دھویں کانام و نشان‬
‫نہ تھا۔ یکدم روشنی ہونے کی وجہ سے میری آنکھیں‬
‫خیرہ ہوگئیں۔میں نے چندھی آنکھوں سے دیکھا اور‬
‫میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔‬
‫بسنتی میرا ہاتھ پکڑے کھڑی تھی۔ وہی بسنتی جس‬
‫کے حسن کے پیچھے کئی سادھو اور پنڈت بچاری‬
‫پاگل تھے۔ اب وہ خوفناک حد تک کریہہ المنظر ہو‬
‫چکی تھی۔ بدبو کے بھبھکے اس کے بدن سے اٹھ‬
‫رہے تھے جگہ جگہ سے پیپ رس رہی تھی۔ کھال‬
‫اترنے کے باعث اندر سے گوشت اور پیپ جھانکنے‬
‫لگی تھی۔ گھٹاؤں جیسی زلفوں کے بجائے گنجا سر‬
‫اور گالب کی نوشگفتہ کلی جیسی جلد کی بجائے‬
‫جھریوں بھرا چہرہ۔ دلوں پر بجلیاں گرانے والے‬
‫موتیوں جیسے دانت۔۔۔اب منہ سے باہر نکل کر بھیانک‬
‫منظر پیش کر رہے تھے۔ سڈول جسم اب بد وضع ہو‬
‫کر ڈھلک چکا تھا۔ وہ سو سالہ بڑھیا جیسی دکھائی‬
‫دے رہی تھی۔ ایک نظر ڈال کر میں نے منہ دوسری‬
‫طرف پھیرلیا۔ اس کا ہاتھ لمبا ہو کر میرے ہاتھ کے‬
‫گرد لپٹا ہوا تھا۔ بغیر ہڈی کا ہاتھ جس میں مکمل‬
‫انگلیاں موجود تھیں لیکن ہڈی کے بغیر۔‬

‫’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی۔۔۔‘‘ اس کی مکروہ ہنسی کمرے میں‬


‫گونج اتھی۔‬
‫’مہاراج! کس کارن ناراج ہو اپنی داسی سے‘‘ اور‬
‫کوئی کہتا کہ کچھ عرصہ قبل یہ حور شمائل تھی تو‬
‫سننے واال اسے پاگل قرار دیتا۔‬
‫’’تمہیں تو ادھیک پریم تھا میرے سنگ؟ کیا بھول‬
‫گئے۔۔۔میں وہی بسنتی ہوں جسے اپنی بانہوں میں‬
‫لینے کے کارن تم بیاکل رہا کرتے۔ دوشی تو تم بھی‬
‫تھے موہن! پرنتو۔۔۔شراپ اس کلٹانے کیول مجھے دیا۔‬
‫تم پر اسنے دیا کی اور میری سندرتا کی کیا دشا بنا‬
‫دی؟ یہ سب کچھ تمرے کارن ہی تو ہوا ہے۔ یدی میں‬
‫بیاکل ہوں تو تم کیوں شانت پھرو؟‘‘ اس کی آواز تیز‬
‫ہوتی جارہی تھی۔‬

‫’’یاد ہے میں نے اس سمے کتنی بنتی کی تھی تجھ‬


‫سے۔۔۔رادھا کے شراپ سے مجھے بچا لے۔ پرنتو‬
‫تونے میری ایک نہ سنی۔ میرے شریر سے کھلواڑ‬
‫کرکے تو یوں ہوگیا جیسے مجھے جانتا ہی نہیں ۔یدی‬
‫تو ایک بار اس پاپن سے کہہ دیتا وہ اوش مجھے شما‬
‫کردیتی۔ پرنتو تیرے نینوں پر تو ایک بارپھر رادھا کے‬
‫پریم کی پٹی بندھ چکی تھی۔ سب یاد ہے یا بھول گیا؟‘‘‬
‫میں گنگ کھڑا سب کچھ سن رہا تھا۔‬

‫’’کہاں گئی پریم کے بول بولنے والی تیری‬


‫جیب(زبان)؟ کیا میں نے کچھ گلط کہا۔۔۔بولتا کیوں نہیں‬
‫پاپی‘‘ وہ مجھے خاموش پا کر دھاڑی۔ میں نے کچھ‬
‫کہنے کے بجائے ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی لیکن‬
‫جتنا میں اس سے ہاتھ چھڑاتا اتنا ہی اس کا ہاتھ لمبا‬
‫ہو کر میرے بازو سے لپٹنے لگتا۔ بدبو کے مارے‬
‫ابکائیاں آرہی تھیں۔ جیسے ابھی قے ہو جائے گی۔‬

‫’’یہ بسنتی کی پکڑ ہے۔ اس سے جان چھڑانا بالکوں‬


‫کا کھیل نہیں۔ کہاں ہے تیری پریمیکا جس نے تیرے‬
‫کارن اپنی سکھی پر دیا نہ کی۔ یدی وہ تجھے بھی‬
‫شراپ دیتی تو مجھے دیکھ نہ ہوتا۔ پرنتو اس نے‬
‫مجھے توکہیں کا نہ رکھا اور تجھے اسی طرح سندر‬
‫رہنے دیا۔ یہ بات مجھے بھلی نہ لگی۔ بال اس کلٹا کو‬
‫جس نے میری یہ دشا بنا دی ہے۔‘‘ وہ گرجی۔‬
‫’’دیکھو بسنتی! اس میں میرا کیا قصور ہے؟ تمہارے‬
‫ساتھ جوکچھ ہوا وہ رادھا نے کیا ہے میں تو خود اس‬
‫وقت بہت ڈر گیا تھا کہیں وہ مجھے بھی سزا نہ دے‬
‫دے۔ میں قطعی طور پر نہیں چاہتا تھا کہ وہ تمہارے‬
‫ساتھ ایسا ظلم کرے لیکن میں کر بھی کیا سکتا تھا؟‬
‫وہ بہت طاقتور ہے۔ میں جانتا تھا وہ میرے کہنے پر‬
‫بھی تمہیں نہیں چھوڑے گی اس لئے میں خاموش‬
‫رہا‘‘ میں نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش ترک کرتے‬
‫ہوئے اسے بڑے رسان سے سمجھایا۔‬

‫’’اگر تم نے بدلہ لینا ہے تو رادھا سے لو۔۔۔اسی نے‬


‫تمہاری یہ حالت بنائی ہے مجھ بے قصور پر کس لئے‬
‫ظلم کرتی ہو؟‘‘‬

‫’’بند کر اپنی گندی جیب۔۔۔یدی تو نے کالی داس کی آگیا‬


‫کا پالن کرتے ہوئے اس کی سہائتا کی ہوتی تو اس کلٹا‬
‫کو کچھ کرنے کا اوسر ہی نہ ملتا۔ تو دوشی ہے۔۔۔اب‬
‫میرے شراپ سے تجھے بچانے واال کوئی نہ ہوگا۔‘‘‬
‫وہ طیش کے عالم میں گرجی۔ اس کی گرفت میرے‬
‫ہاتھ پر سخت ہونے لگی۔ مجھے اپنے ہاتھ کی ہڈیاں‬
‫کڑکڑاتی محسوس ہوئی۔ بے اختیار میرے منہ سے‬
‫چیخ نکل گئی۔‬
‫اسی قت بسنتی مجھ سے دور چلی گئی۔ اسکا ہاتھ ربر‬
‫کی طرح لمباہوگیا تھا دور جانے کے باوجود میرے‬
‫ہاتھ پر اس کی گرفت اسی طرح سخت تھی۔ اس نے‬
‫اپنا منہ کھوال۔ خوف سے میرے رونگٹے کھڑے‬
‫ہوگئے۔ آج بھی جب مجھے وہ منظر یاد آتاہے تو‬
‫جھرجھری آجاتی ہے۔ اس کی سرخ زبان لمبی ہو کر‬
‫میری طرف بڑھنے لگی۔ میرے چہرے کے سامنے‬
‫پہنچ کر وہ سانپ کے پھن کی طرح لہرانے لگی۔ میں‬
‫نے حتی االمکان چہرے کو پیچھے کر لیا۔ کوئی لمحہ‬
‫جاتا تھا کہ اس کی کریہہ زبان میرے چہرے کو چھو‬
‫لیتی۔ میں نے خوف کے مارے آنکھیں بند کرلیں۔‬
‫اچانک کمرے میں گالب کی خوشبو پھیلنے لگی۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی میرا ہاتھ اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا۔‬
‫میں نے چونک کر آنکھیں کھولیں تو کمرے میں‬
‫بسنتی کا نام و نشان نہ تھا۔‬

‫’’چنتا نہ کرو پریم! میں آگئی ہوں‘‘ رادھاکی پیار‬


‫بھری سرگوشی سنائی دی۔ جیسے کسی اندھے کو‬
‫آنکھیں مل جائیں۔میں نے چاروں طرف دیکھا۔‬

‫ضرور پڑھیں‪ :‬تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا‬


‫استعمال روکا جائے‪:‬سینیٹر سراج الحق‬
‫’’رادھا تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے اسے آواز دی۔‬

‫’’میں اس سمے تم سے جیادہ دور نہیں ہوں پریم!‬


‫پرنتو۔۔۔تم مجھے دیکھنے میں سپھل نہ ہو پاؤ گے اس‬
‫کا کارن کیا ہے یہ میں تمہیں پھر بتاؤں گی۔ وہ کلٹا‬
‫بھاگ گئی ہے تم چنتا مت کرو اب وہ نہیں آئے گی‬
‫نشچنٹ ہو کر سو جاؤ۔ میں نے تمری رکھشا کا پربند‬
‫کر دیا ہے‘‘ یہ کہہ کر اس نے کسی کو آواز‬
‫دی۔’’چمارو۔۔۔!‘‘‬
‫’’جی دیوی جی‘‘ سہمی ہوئی کھرکھراتی آواز سنائی‬
‫دی۔‬

‫’’تجھے میں نے موہن کی رکھشا کرنے کو کہا تھا‬


‫پھر وہ کلٹا کیسے اپنے داؤ میں سپھل ہوگئی؟‘‘ رادھا‬
‫کی سرد آواز آئی۔‬

‫’’دو۔۔۔دیو۔۔۔دیوی جی ! شما چاہتا ہوں بھول ہوگئی۔‬


‫مجھ پر دیا کرو دیوی جی! شما کردو پھر ایسا نہ‬
‫ہوگا‘‘ کانپتی ہوئی آواز میں کہا گیا۔‬

‫’’یدی اب ایسا ہوا تو تجھے نرکھ میں بھیج دوں گی‬


‫تیری اس بھول پر تجھے شراپ تو اوش ملے گا پرنتو‬
‫اس سمے میں کسی جاپ میں لگی ہوں یدی اب اس‬
‫پاپن نے میرے پریمی کو ستایا تو۔۔۔‘‘ رادھا کی قہر بار‬
‫آواز اائی۔‬
‫’’دیوی جی! اس بار شما کر دوپھر ایسی بھول نہ‬
‫ہوگی‘‘ چمارو کی آواز خوف سے کانپ رہی تھی۔‬

‫’’پریم ! چنتا نہ کرنا چمارو تمری رکھشا کرے گا۔۔۔میں‬


‫کل آؤں گی۔‘‘ رادھا نے مجھے مخاطب کیا۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی چھا گئی۔ گالب کی خوشبو بھی ختم ہوگئی۔‬
‫مجھے حیرت تھی کہ رادھامجھے مشکل میں دیکھ کر‬
‫کیوں نہیں آئی؟ ہاں اس نے بر وقت میری مدد کردی‬
‫تھی ورنہ پتا نہیں وہ منحوس بسنتی میرا کیا حشر‬
‫کرتی؟ اگر رادھا خود نہ آئی تھی تو گالب کی خوشبو‬
‫کہاں سے آگئی؟ ہو سکتا ہے وہ مجھے نظر نہ آنا‬
‫چاہتی ہو۔ کوئی مجبور ہوگی سر جھٹک کر ان خیاالت‬
‫سے پیچھا چھڑایا۔میں یہاں رادھا سے ملنے کی خاطر‬
‫ہی آیا تھا لیکن اس کے بقول وہ کسی ضروری کام‬
‫میں مصروف ہونے کی وجہ سے نہ آسکتی تھی۔ دل‬
‫چاہا واپس عمران کے گھر چال جاؤں لیکن صائمہ کو‬
‫کیا جواب دیتا یہ سوچ کر میں نہ چاہتے ہوئے بھی‬
‫بستر پر لیٹ گیا۔ ذرا سی آہٹ پر چونک اٹھتا ہر چند‬
‫کہ رادھا نے کہا تھا چمارو میری حفاظت کرے گا‬
‫لیکن ان پراسرار قوت کے مالک لوگوں پر مجھے‬
‫کچھ زیادہ یقین نہ رہا تھا۔ کافی دیر بعد نیند آئی۔ جب‬
‫میری آنکھ کھلی تو دس بج رہے تھے۔ جلدی سے‬
‫تیار ہو کر بینک پہنچ گیا۔ چپراسی سے کہہ کر چائے‬
‫اور بسکٹ منگوا کرمیں نے ناشتہ کیا اور محمد‬
‫شریف کو بلوا لیا۔‬

‫’’اسالم علیکم جناب عالی‘‘ اس کا مسکراتا ہوا شفیق‬


‫چہرہ سامنے تھے۔‬
‫’’وعلیکم اسالم! آؤ محمد شریف بیٹھو‘‘ میں نے‬
‫کرسی کی طرف اشارہ کیا۔‬

‫’حضرت صاحب نے ہماری مدد کرنے کی حامی بھر لی‬


‫ہے۔۔۔بدبخت شیطان کو شکست فاش ہوگی۔ انشاء ہللا‘‘‬
‫’’انشاء ہللا‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکال۔ اس نے‬
‫جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک تعویز نکاال اور میرے ہاتھ‬
‫پر رکھتے ہوئے بوال۔‬

‫’’یہ حضرت صاحب نے دیا ہے۔ فرما رہے تھے اسے‬


‫صائمہ بیٹا کے گلے میں پہنچا دینا لیکن اس وقت اس‬
‫کی طبیعت ٹھیک ہو۔ آپ سمجھ گئے نا؟‘‘ میں نے‬
‫اثبات میں سر ہالیا۔‬

‫’’ہللا کریم کے حکم سے وہ بدکار دوبارہ خاتون محترم‬


‫کے جسم پر قبضہ نہ کر سکے گا۔‘‘ اس کے الفاظ‬
‫سے میرے دل کو تسلی ہوئی۔‬
‫’بہت شکریہ محمد شریف۔ میں تمہارا احسان کبھی نہ‬
‫بھولوں گا‘‘ میں نے عقیدت سے چوم کر تعویذسامنے‬
‫والی جیب میں رکھ لیا۔‬

‫’’اس کے عالوہ حضرت صاحب نے ایک پیغام بھی دیا‬


‫ہے‘‘‬
‫’’وہ کیا؟‘‘ میرا دل دھڑکنے لگا۔‬

‫’’فرما رہے تھے آپ کو مبارک باد دے دوں کہ بہت‬


‫جلد آپ سے کوئی نیک کام لیا جائے گا‘‘‬

‫میں نے حیرت سے اسے دیکھا۔اپنی بدکاری اور دین‬


‫سے دوری کا سوچ کر میری آنکھوں میں آنسو‬
‫آگئے۔‘‘ میں کہاں اس قابل کہ مجھ سے کسی نیک کام‬
‫کی توقع کی جائے۔‘‘ آنسو چھپانے کی خاطر میں نے‬
‫منہ دوسری طرف پھیر لیا۔‬

‫’’ہللا کے نزدیک کون کتنا اچھا ہے؟ یہ وہ مالک دو‬


‫جہاں خود بہتر جانتا ہے ہم تو سب اس کے حکم کے‬
‫بندے ہیں۔ حضرت صاحب کا فرمان میرے پاس آپ کی‬
‫امانت تھا میں نے پہنچا دیا۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔‬
‫میرے آنے کے بعد عمران کھانا کھانے گھر چال گیا‬
‫تھا۔ جب وہ واپس آیا تو اس نے بتایا۔‬
‫’’بھابی بچوں کو لے کر گھر چلی گئی ہیں کہہ رہی‬
‫تھیں آپ سیدھے گھر آجائیں‘‘ اسکی بات سن کر‬
‫میری کان کھڑے ہوگئے۔‬

‫’’لیکن وہ گھر کیوں چلی گئی؟ میں نے کہا تو تھا کہ‬


‫شام کو میں خود لے جاؤں گا۔‘‘ میں نے الجھ کر‬
‫پوچھا۔‬

‫’’کہہ رہی تھیں میرے سرمیں درد ہے گھر جا کر کچھ‬


‫دیر آرام کروں گی۔‘‘ عمران نے کہا۔‬

‫’’اچھا ٹھیک ہے‘‘ میں نے کہا لیکن میرے دل میں‬


‫طرح طرح کے خدشات آرہے تھے۔ بچوں کا صائمہ‬
‫کے ساتھ اکیال گھر میں ہونا اچھا نہیں تھا۔ کیا خبر کب‬
‫اس کی طبیعت پھر خراب ہو جائے۔ یہ سوچ کر میں‬
‫نے عمران سے کہا‬
‫’’میں ذرا گھر کا ایک چکر لگا آؤں صبح صائمہ کی‬
‫طبیعت خراب تھی۔‘‘ یہ کہہ کر میں آندھی اور طوفان‬
‫کی طرح گھر پہنچا۔ گیٹ کھول کر میں ے گاڑی گیراج‬
‫میں کھڑی کی۔ گھر میں سنانا چھایا ہوا تھا۔ ابھی میں‬
‫گاڑی سے اترنے بھی نہ پایا تھا کہ مومنہ کی دل‬
‫خراش چیخ نے فضا کا سینہ چیر دیا۔ میں بھاگتا ہوا‬
‫بیڈا روم میں پہنچا۔ صائمہ دونوں ہاتھ پہلوؤں پر‬
‫رکھے کمرے کے درمیان کھڑی تھی۔ دونوں بچے‬
‫سہم کو کرنے میں دبکے ہوئے تھے۔ خوف سے ان‬
‫کی آنکھیں پھٹی اور چہرے زرد تھے۔ احد نے مومنہ‬
‫کو اپنے بازوؤں میں لے رکھا تھا۔وہ حد درجہ خوفزدہ‬
‫تھے اور سہمی ہوئی نظروں سے صائمہ کی طرف‬
‫دیکھ رہے تھے۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں‬
‫صائمہ کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ا ُ ف میرے خدا۔۔۔اسکا‬
‫چہرہ اس قدر بھیانک ہو چکا تھا کوئی بڑا بھی دیکھتا‬
‫تو خوف سے اس گھگی بندھ جاتی۔ صائمہ کی زبان‬
‫گز بھر لمبی ہو کر باہر نکل آئی تھی۔ آنکھیں بڑی ہو‬
‫کر گوالئی اختیار کر چکی تھیں۔ چہرہ اس قدر ڈراؤنا‬
‫ہو چکا تھا کہ نظر بھر دیکھنا مشکل تھا۔ اسی وقت‬
‫صائمہ کی نظر مجھ پر پڑی۔ کھڑے کھڑے اس کی‬
‫گردن گھوم گئی۔ اس کا صرف چہرہ میری طرف ہوا‬
‫تھا ورنہ وہ اسی طرح میری طرف پشت کیے کھڑی‬
‫تھی۔ بچوں نے مجھے دیکھا تو چیخیں مارنے لگے۔‬
‫میرا بدن غصے سے کانپنے لگا۔ اپنے ننھے منے‬
‫معصوم بچوں کو اس حالت میں دیکھ کر میں غصے‬
‫سے پاگل ہوگیا۔ جنون کی حالت میں میں صائمہ کی‬
‫طرف بڑھا اور ہللا کا نام لے کر پوری قوت سے اس‬
‫کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ مجھے یقین ہے اگر وہ‬
‫تھپڑ کسی آدمی کو بھی پڑتا تو وہ کئی فٹ دور جا‬
‫گرتا لیکن صائمہ صرف لہرا کر رہ گئی۔‬

‫’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ اس کے منہ سے خوفناک قہقہہ بلند ہوا۔‬

‫’توآگیا۔۔۔ٹھیک کیا۔۔۔آج میں تیرے سامنے تیری سنتان‬


‫کے شریرسے رت پی کر ان کاماس(جسم کا خون پی‬
‫کر ان کا گوشت) کھاؤں گا۔‘‘ اس نے سرخ انگارہ‬
‫آنکھوں سے مجھے گھورا۔‬
‫’’آج تجھے میں بتاؤں گا بلو ان کون ہے؟ دیکھ کیسا‬
‫کومل شریر ہے ان بالکوں کا ۔۔۔ان کا ماس بڑا سوادش‬
‫(مزے دار) ہوگا۔‘‘ اسنے اپنی لمبی زبان کو سکوڑ کر‬
‫ہونٹوں پرپھیرا۔ گردن دوبارہ بچوں کی طرف گھوم‬
‫گئی۔ جنہوں نے سہم کر آنکھیں بند کر لی تھی۔ احد‬
‫خان کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے۔ صائمہ نے‬
‫اسے سمجھا رکھا تھا جب کبھی ڈر لگے کلمہ پڑھا‬
‫کرو‪ ،‬اس کے اثر سے چڑیلیں ڈرکر بھاگ جاتی ہیں۔‬
‫مومنہ بھائی کی بغل میں گھسی ہوئی تھی۔ اس کا ننھا‬
‫وجود خوف سے کانپ رہا تھا۔ ان کا حال دیکھ کر میں‬
‫پاگل ہوگیا۔ صائمہ کا ہاتھ درازہوکر بچوں کی طرف‬
‫بڑھنے لگا۔ بچے اس قدرسہم گئے تھے کہ وہ میری‬
‫طرف بڑھنا بھول گئے۔ حاالنکہ احد مجھے دیکھ چکا‬
‫تھا۔‬

‫میں سپرنگ کی طرح اپنی جگہ سے اچھال اور پورے‬


‫زور سے صائمہ کے ساتھ ٹکرا گیا۔ ساتھ ہی میں نے‬
‫بالوں سے پکڑکراسے اچھال دیا۔ وہ ہوا میں اڑتی‬
‫ہوئی بیڈ پر جاگری۔ لیکن فوراً اٹھ کر کھڑی ہوگئی۔‬
‫اس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔ زبان‬
‫سانپ کی طرح بار بار اندر باہر ہونے لگی۔ اسنے‬
‫اپنے ہاتھوں کا رخ میری طرف کیا۔ اچانک اس کے‬
‫ہاتھ لمبے ہو کر میری گردن کی طرف بڑھنے لگے۔‬
‫سادھو امر کمار نے بھی اس طرح کا مظاہرہ کیا تھا‬
‫اس وقت رادھا میری مدگار تھی جبکہ آج میں اکیال‬
‫تھا۔ مجھے اپنی نہیں بچوں کی فکر تھی۔ صائمہ کے‬
‫خوبصورت ہاتھ یک بیک سیاہ اور بد وضع ہوگئے۔ ان‬
‫پر بال نکلنے لگے‪ ،‬تھوڑی دیر میں وہ جانور کے‬
‫پنجے کی شکل اختیار کر گئے۔ تیزی سے اسکے ہاتھ‬
‫میری گردن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ میں آہستہ آہستہ‬
‫پیچھے ہٹنے لگا۔ میں چاہتا تھا کسی طرح بچوں کے‬
‫پاس پہنچ جاؤں لیکن وہ خبیث میرا عند یہ بھانپ چکا‬
‫تھا۔‬

‫قریب تھاکہ میری گردن اس کے شکنجے میں ہوتی‬


‫بے اختیار میری زبان پر آیتہ الکرسی کا ورد جاری‬
‫ہوگیا۔۔۔ہاتھ وہیں رک گئے۔ میں بلند آواز سے آیتہ‬
‫الکرسی کا ورد کرنے لگا ۔دونوں بچے آہستہ آہستہ‬
‫رو رہے تھے۔ مومنہ کی ہچکیاں بندھ چکی تھیں۔‬
‫صائمہ کے ہاتھ مجھ سے کچھ فاصلے پر رک گئے‬
‫تھے۔‬
‫’آگے بڑھ پھر دیکھ میں تیرا کریہ کرم کیسے کرتا‬
‫ہوں؟‘‘ میں نے اسکی طرف کوئی دھیان نہ دیا بلکہ‬
‫آہستہ سے کھسکتا ہوا بچوں کی طرف بڑھنے لگا۔‬

‫’’یہیں رک جا۔۔۔نہیں تومیں اس بالک کو نرکھ میں‬


‫پہنچا دوں گا‘‘ صائمہ کے منہ سے دھاڑ نکلی اور اس‬
‫نے ہاتھ کا رخ بچوں کی طرف کردیا۔ میں ٹھٹھک کر‬
‫رک گیا۔ آیتہ الکرسی کی برکت اور بزرگ کے دیے‬
‫ہوئے تعویذ کی وجہ سے وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‬
‫تھا۔‬

‫’’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا۔۔۔‘‘ فتح کے نشے سے سرشار اس نے‬


‫قہقہہ لگایا۔‬
‫’’بہت پریم ہے نا تجھے اپنی سنتانسے۔۔۔آج تو کھد‬
‫دیکھے گا میں ان کا ماس کیسے کھاتاہوں؟‘‘ ہاتھ‬
‫ایک بار پھر بچوں کی طرف بڑھنے لگا۔ احد نے‬
‫آنکھیں کھول کر دیکھا۔۔۔فلک شگاف چیخ اسکے منہ‬
‫سے نکلی۔ اس کے ساتھ ہی مومنہ نے بھی آنکھیں‬
‫کھول دیں۔ جانور کے پنجے نما ہاتھ کو اپنی طرف‬
‫بڑھتے دیکھ کر وہ بے ہوش ہو کر ایک طرف لڑھک‬
‫گئی۔ احد مسلسل چیخ رہا تھا۔ اب دیر کرنا درست نہ‬
‫تھا۔ میں نے ہللا اکبر کا نعرہ لگایا اور بھاگتا ہوا‬
‫صائمہ سے ٹکرا گیا۔ میری زور دار ٹکر سے اس کے‬
‫پاؤں اکھڑ گئے۔ میں سینے کے بل اس سے ٹکرایا‬
‫تھا۔ دراصل میں اسے دبوچنا چاہتا تھا۔ دل دہال دینے‬
‫والی چیخ صائمہ کے منہ سے نکلی‪ ،‬وہ سینہ پکڑے‬
‫نیچے گرکر بے ہوش ہوگئی۔ اس کا ہاتھ اور چہرہ یک‬
‫دم اپنی اصلی حالت میں آگئے۔ میں بھاگ کر بچوں‬
‫کے پاس پہنچا ۔مومنہ کو اٹھایا اور باتھ روم میں جا‬
‫کر اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ تھوڑی‬
‫دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں۔ میرے چہرے پر‬
‫نظر پڑتے ہی وہ میرے ساتھ لپٹ کر رونے لگی۔ احد‬
‫بھی میری ٹانگوں سے لپٹا ہوا تھا۔ دونوں بچے اس‬
‫قدر سہم چکے تھے کہ ان سے ٹھیک طرح سے رویا‬
‫بھی نہ جا رہا تھا۔ میں نے مومنہ کو کندھے سے‬
‫لگاکر دوسرے ہاتھ سے احدکو اٹھالیا۔ دونوں میرے‬
‫سینے سے چپک گئے۔ میں باتھ روم سے باہر آیا تو‬
‫دیکھا صائمہ بال کھولے بیڈ پر بیٹھی جھوم رہی ہے۔‬
‫اس نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔‬
‫کیسے ہو رادھا کے موہن؟‘‘ میں بری طرح چونک‬
‫گیا۔ صائمہ کی سرخ آنکھیں تمسخر سے بھری ہوئی‬
‫تھیں۔‬
‫تم کون ہو؟‘‘ میں نے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے‬
‫پوچھا۔۔‬

‫جاری ہے‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪49‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫’’تمیری پتنی کا پریمی‘‘ اس نے مضحکہ خیز لہجے‬
‫میں جواب دیا۔ بچے ایک بارپھر سہم کرمیرے ساتھ‬
‫چپک گئے۔ میں نے بہتر یہی سمجھا کہ اس وقت‬
‫بچوں کو لے کر گھر سے نکل جاؤں اور انکو عمران‬
‫کے گھر چھوڑ کر دوبارہ واپس آکر اس خبیث سے‬
‫نبٹوں۔ اتنا میں جان چکا تھا کہ وہ مجھے نقصان نہیں‬
‫پہنچا سکتا۔ یہ سوچ کر میں نے قدم باہر کی طرف‬
‫بڑھائے۔‬

‫’’کہاں جا رہا ہے پلید؟‘‘ مجھے جاتے دیکھ کر صائمہ‬


‫کھڑی ہوگئی۔ میں نے دل ہی دل میں کلمہ طیبہ کا ورد‬
‫جاری رکھا اور بیڈ روم سے باہر نکل گیا۔‬
‫’’کہاں بھاگ رہا ہے قائر اپنی پتنی کو کس پر چھوڑے‬
‫جا رہا ہے؟ کیا میں یہ سمجھوں کہ تو نے اپنی پتنی‬
‫مجھے دان کردی؟‘‘‬

‫اس نے بلند آواز سے کہا۔ میرا دل چاہابچوں کو اتارکر‬


‫اس حرامی کا منہ توڑ دوں۔ لیکن میں جانتا تھا اس‬
‫طرح تکلیف صرف صائمہ کو ہوگی دل پر پتھر رکھے‬
‫زہر کے گھونٹ پیتاباہر نکل آیا۔ اس کے بلند آہنگ‬
‫قہقہے میرا پیچھا کرتے رہے۔‬
‫میں ہر طرف سے بے نیاز ہو کر بھاگتا ہوا گاڑی کے‬
‫پاس پہنچا اور درواز کھول کر بچوں کوبٹھا دیا جو‬
‫کسی طور مجھ سے جدا ہونے کے لئے تیار نہ تھے۔‬
‫میں نے بمشکل بچوں کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا‬
‫اوردروازہ بند کرکے آگے بیٹھنے لگا تھا کہ پیچھے‬
‫سے آواز آئی۔‬

‫”کہاں جا رہا ہے میلچھ؟آ‪....‬مجھے نشٹ کر‪....‬قائر!‬


‫ڈر کر بھاگ رہا ہے۔ ہا‪....‬ہا‪....‬ہا‪“....‬اس کے قہقہے‬
‫کی باز گشت میری رگونمیں ابل لے آئی۔ دل تو چاہا‬
‫اسی وقت اس حرامزادے کو قبرمیں اتار دوں۔ اگر وہ‬
‫مجسم حالت میں میرے سامنے آتا تومیں اپنے انجام‬
‫کی پرواہ کیے بغیر اس سے بھڑ جاتا۔ لیکن مجبوری‬
‫یہ تھی کہ وہ بزدل صائمہ کے جسم کی پناہ لے کر‬
‫مجھے للکار رہا تھا۔ میں نے جلدی سے گاڑی کا‬
‫دروازہ کھوال اور گاڑی سٹارٹ کرکے اسے ریورس‬
‫کرتا باہر نکل آیا۔صائمہ کو اس حالت میں چھوڑنے پر‬
‫میرا خون کے آنسو رو رہا تھا۔ مومنہ کی ہچکیاں اب‬
‫بھی جاری تھیں۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے اپنی گود‬
‫میں بٹھا لیا۔ احد بھی فوراً اگلی سیٹ پر آگیا۔ وہ‬
‫خوفزدہ نظروں سے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے‬
‫ایک ہاتھ سے سٹیرنگ سنبھال کر اس کے سر پرہاتھ‬
‫پھیرا۔‬

‫”احد بیٹا! آپ تو بہت بہادر ہو کسی سے نہیں ڈرتے۔“‬


‫میں نے اسکا سر تھپتھپایا۔‬

‫”بب‪....‬بابا! ماما کو کیا ہوا ہے ان کی شکل کیسی‬


‫ہوگئی تھی؟ وہ اس طرح کیوں بول رہی تھیں؟“ اس‬
‫نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔‬

‫”بیٹا! ماما بیمار ہیں اس لئے ان کی ایسی حالت ہوگئی‬


‫ہے۔“ میں نے اس کی تسلی کے لیے کہا۔‬
‫”لل‪....‬لیکن ماما کی شکل تو بہت بری ہوگئی تھی وہ‬
‫ہمیں کیوں مارنا چاہتی تھیں؟“ بے ساختہ آہ میرے‬
‫منہ سے نکل گئی۔‬

‫”بیٹا! وہ آپ کو مارنا نہیں چاہتیں جب وہ بیمار ہو‬


‫جاتی ہیں تو ان کو سمجھ نہیں آتی کہ کہ وہ کیا کہہ‬
‫رہی ہیں؟ آپ فکر نہ کرو میں ااپ لوگوں کو آنٹی‬
‫نازش کے گھر چھوڑ کر ماما کو ہاسپٹل لے جاؤں گا‬
‫ڈاکٹر ان کا عالج کرے گا تو وہ ٹھیک ہو جائیں گی؟“‬

‫اس کے بعد اسنے کوئی سوال نہ کیا۔ میرے لیے یہ‬


‫خیال ہی سوہان روح تھا کہ میں صائمہ کو اس بدبخت‬
‫کے رحم و کرم چھوڑ آیا تھا۔ عمران کے گھر پہنچ کر‬
‫میں نے بچوں کو نازش کے حوالے کیا اور اسے بتایا‬
‫کہ صائمہ کی طبیعت خراب ہے میں اسے ڈاکٹر کے‬
‫پاس لے جا رہا ہوں اور بچوں کو وہاں داخلہ ممنوع‬
‫ہے۔‬
‫فاروق بھائی! کیا ہوا بھابی کو؟“ وہ فکر مند ہوگئیں۔‬
‫”معمولی سا بخار ہے۔“ میں نے جلدی سے کہا اور‬
‫مومنہ کو ان کی گودمیں دے دیا۔‬

‫”ارے‪....‬اسے کیا ہوا یہ تو بہت بری طرح ڈری ہوئی‬


‫ہے؟“ نازش نے اسے اپنے سینے سے لگاکر پوچھا۔‬

‫”صائمہ نے بخار میں اسے ڈانٹ دیا تھا اسلئے یہ بے‬


‫چاری سہم گئی ہے۔“ میں نے کہا۔ پھر احدکو ایک‬
‫طرف لے جاکر سمجھایا کہ وہ آنٹی سے کوئی ایسی‬
‫ویسی بات نہ کرے۔ اسنے اپنا ننھا سا سرہال دیا۔‬
‫مجھے یقین تھا وہ میری بات پر عمل کرے گی۔ ان کو‬
‫وہاں چھوڑ کر میں سیدھا بینک چال گیا۔ جلدی سے‬
‫محمد شریف کوبلوا کر میں نے ساری صورتحال بتائی‬
‫وہ اسی وقت میرے ساتھ جانے پر تیار ہوگیا۔‬

‫”خان صاحب! وہ تعویذ کہاں ہے جو میں نے آپ کو‬


‫دیا تھا؟“ اسنے پوچھا۔‬
‫”میری جیب میں ہے کیوں؟“‬

‫”اسے اپنے سے جدا مت کیجئے گا وہ خبیث مجھے‬


‫تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن آپ کے اوپر وارکرنے‬
‫سے نہیں چوکے گا۔“‬
‫ہم دس منٹ میں دوبارہ گھرپہنچ گئے گیٹ ابھی تک‬
‫کھالہوا تھا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی کرکے میں جلدی‬
‫سے اندرکی طرف بھاگا۔ محمد شریف میرے پیچھے‬
‫تھا۔ بیڈ روم میں پہنچے تو وہ خالی تھا۔‬
‫’صائمہ۔۔۔!‘‘ میں نے زور سے آواز دی۔ خالی گھر‬
‫بھائیں بھائیں کر رہا تھا۔ ہم دونوں نے سارا گھر دیکھ‬
‫لیا لیکن صائمہ وہاں نہیں تھی۔ پریشانی سے مریا برا‬
‫حال تھا۔ میں پاگلوں کی طرح اسے ایک ایک کمرے‬
‫میں تالش کر رہا تھا۔ محمد شریف اوپر کی منزل پر‬
‫دیکھنے چال گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آکر اس نے‬
‫نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’محمد شریف ! اب کیا ہوگا‪ ،‬وہ خبیث صائمہ کو کہاں‬
‫لے گیا؟‘‘‬

‫’’آپ فکر نہ کریں مجھے جائے نماز دے دیں میں‬


‫ایک چھوٹا سا وظیفہ کرنا چاہتا ہوں‘‘ اس نے کہا۔‬

‫میں نے بیڈ روم میں ہی جائے نماز بچھا دی۔ وہ‬


‫آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے لگا۔ میں سارے گھر‬
‫میں چکراتا رہا۔ میرا دل بھر آیا۔ وہیں سیڑھیوں پر‬
‫بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ بار بار صائمہ کا‬
‫چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا۔ بچوں‬
‫کی وجہ سے میں اسے اکیال اس لعنتی کے رحم و کرم‬
‫پر چھوڑ تو گیا تھا اب پچھتاوے مجھے گھیر رہے‬
‫تھے۔ لیکن میں کیا کرتا اگر بچوں کو اس وقت لے کر‬
‫نہ جاتا تو ہو سکتا تھا مومنہ کو خدانخواستہ کچھ ہو‬
‫جاتا۔ وہ بری طرح خوفزدہ ہوگئی تھی۔‬
‫’خان بھائی!‘‘ محمد شریف میرے سامنے کھڑا تھا۔‬
‫میں نے آنسوؤں سے تر آنکھوں سے اسے دیکھا۔‬
‫’’وہ صائمہ کو لے کر ایک ہندو پنڈت کی پناہ میں چال‬
‫گیا ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔‬
‫’’وہ بدبخت ضرور صائمہ کو کالی داس کے پاس لے‬
‫گیا ہوگا‘‘ میں نے خیال ظاہر کیا۔‬

‫’’ہاں وہ وہیں گیا ہے۔‘‘ محمد شریف نے تصدیق کی۔‬

‫’’اب کیا ہوگا محمد شریف؟‘‘ میں نے پریشانی سے‬


‫پوچھا۔‬

‫تعالی بہتر کرے گا۔ آپ‬


‫ٰ‬ ‫’’آپ فکر نہ کریں جناب! ہللا‬
‫کسی طرح ملنگ کو تالش کرکے اس سے اس جگہ کا‬
‫پتا پوچھیں میں جب تک گھر سے کچھ ضروری‬
‫سامان لے آؤں اس کے بعد اس خبیث سے نبٹ لیتے‬
‫ہیں‘‘ محمد شریف نے مجھے تسلی دی۔ میں خاموشی‬
‫سے اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اسے بینک چھوڑ کر‬
‫میں ملنگ کی تالش میں نکل گیا۔ اسے تالش کرنا بھی‬
‫جوئے شیر النے کے مترادف تھا۔ میں اسی سڑک پر‬
‫جا رہا تھا جہاں ایک دوبارہ میری ملنگ سے مالقات‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫’’پریم! کہاں جا رہے ہو؟‘‘ پیچھیسے رادھا کی آواز‬
‫آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا‪ ،‬جلدی سے پیچھے مڑ‬
‫کر دیکھا۔ رادھا پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ میں نے‬
‫گاڑی ایک طرف کرکے روک دی۔ رادھا کے چہرے پر‬
‫گہری سنجیدگی طاری تھی۔‬

‫’’رادھا وہ خبیث صائمہ۔۔۔‘‘‬

‫’’جانتی ہوں پریم! میں یہ بھی جانتی ہوں وہ تمری‬


‫پتنی کہاں لے گیا ہے؟‘‘ وہ میری بات کاٹ کر بولی۔‬
‫’’تم جانتی ہو تو مجھے بتاؤ۔۔۔میں اس حرامزادے کو‬
‫جان سے مار دوں گا‘‘ طیش سے میرا برا حال ہوگیا۔‬

‫’’شانت رہو پریم! میں اوش تمہیں وہاں لے جاؤں گی‬


‫پرنتو اس سے پہلے کچھ پربند کرنا ہوگا۔ کالی داس‬
‫نے میری شکتی بارے غلط و چار کیا ہے وہ بھول گیا‬
‫ہے کہ میں نے اس کی کیا دشا بنا دی تھی؟‘‘ وہ دانت‬
‫پیس کر بولی۔‬

‫’’پریم ! اس نے تمہیں نہیں ۔۔۔مجھے دکھ دیا۔ اس پاپی‬


‫نے کشٹ تمہاری پتنی کو نہیں مجھے دیا ہے اور جو‬
‫کوئی رادھا کو کشٹ دیتا ہے رادھا کا شراپ اسے‬
‫سنسار میں سکھی نہیں رہنے دیتا۔ یدی تم اس سمے‬
‫اس دھشٹ کو شما نہ کرتے تو آج یہ دن دیکھنا نہ‬
‫پڑتا‘‘ اس نے کہا۔‬
‫’’لیکن تم کہاں چلی گئی تھیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬
‫’’میں اس کارن اپنی شکتی بڑھا رہی تھی‪ ،‬جانتی تھی‬
‫کالی داس چپ نہ بیٹھے گا۔ مجھے کشٹ دینے کا‬
‫وچار تو وہ اپنے من میں نہیں ال سکتا اور وہ پاپی یہ‬
‫بھی جانتا ہے کہ میں تمری رکھشا کر رہی ہوں۔ کیول‬
‫تمری پتنی رہ جاتی ہے۔ مجھے پوراوشواس تھا کہ وہ‬
‫جرور تمری پنتی کو کشٹ دے گا۔ اسی کارن میں سات‬
‫دن کا ایک جاپ کر ہی تھی۔ جیسے وہ کھتم ہوا میں‬
‫آگئی ہوں‘‘ اسنے تفصیل سے بتایا۔‬
‫’’رادھا! جلدی سے اس جگہ چلو جہاں وہ خبیث‬
‫صائمہ کو لے کر گیا ہے‘‘ مجھے وہاں پہنچنے کی‬
‫جلدی تھی۔‬

‫’’موہن! وہ پاپی جان بوجھ کر تمری پتنی کو وہاں لے‬


‫کر گیا ہے ۔ کالی داس نے اپنے متروں سے بنتی کی‬
‫ہے کہ وہ اس کی سہائتا کریں۔ سات بچاری اس کی‬
‫بنتی کو سوئیکار کرکے اس کی سہائتا کرنے پہنچ‬
‫چکے ہیں۔ باقی سب تو ایسے ہی میں کیول مجھے‬
‫چنتا ایک پچاری کی ہے۔ اس کا نام وشنوداس‬
‫ہے۔۔۔جس نے اپنا سمے کڑی تپسیا میں بتایا ہے۔ وہ‬
‫ادیھک شاستر اور وید(جادوگری) جانتا ہے اس سے‬
‫یدھ کرنے کے کارن ہمیں بھی کچھ پربند کرنا ہوگا۔‘‘‬
‫رادھا نے مجھے سمجھایا۔‬

‫’’تم مجھے صرف تسلیاں دے رہی ہو تم نہیں جانتیں‬


‫میرے دل پر کیا بیت رہی ہے؟ میری بیوی ان‬
‫حرامزادوں کے چنگل میں پھنسی ہوئی ہے اور میں‬
‫آرام سے یہاں بیٹھا رہوں‘‘ رادھا کی کی بات سن کر‬
‫میں پھٹ پڑا۔‬
‫’’موہن! جانتی تمرے من کا حال۔۔۔پرنتو مجھے‬
‫واشوس ہے وشنو داس جیادہ سمے کالی داس کیا‬
‫ستھان پر نہیں ٹک سکتا۔ اسے پوجا پاٹ کے کارن‬
‫بہت سارے استھانوں پر جانا ہوتا ہے۔ کیول دو دن‬
‫انتجار کر لو جیسے ہی وشنو داس گیا میں تمہیں کھبر‬
‫کر دوں گی‘‘ اس نے ناراض ہونے کے بجائے مجھے‬
‫سمجھایا۔‬

‫بازیاب کرانے میں میری مدد نہیں کر سکتیں تو‬


‫مہربانی کرکے مجھے وہ جگہ بتا دو میں خود ہی چال‬
‫جاتا ہوں‘‘ میرے جومنہ میں آیا کہتا چال گیا۔ صائمہ‬
‫کی جدائی نے میرے ہوش و حواس چھین لیے تھے۔‬

‫’’موہن! اس سمے تمرے من کی جو دشا ہے اس کی‬


‫جانکاری ہے مجھے پرنتو میں یہ بھی جانتی ہوں اس‬
‫سمے وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے۔ کالی داس جانتا ہے‬
‫تم تر نت وہاں آؤ گے اور اس پاپی کی اچھا بھی یہی‬
‫ہے کہ تم اس کے جال میں آجاؤ۔ پرنتو اس سمے‬
‫وہاں جانے سے تم اپنی پتنی کو اور جیادہ کشٹ میں‬
‫ڈال دو گے‘‘ اس نے رسان سے مجھے سمجھایا۔‬
‫’پھر۔۔۔پھر کیا کروں‪ ،‬کیا صائمہ کو ان حرامیوں کے‬
‫رحم و کرم پر چھوڑ دوں؟‘‘ غصے سے میرا برا حال‬
‫ہوگیا۔‬
‫’’یہ میں نے کب کہا؟ پرنتو اس سمے بدھی سے کام‬
‫لینا ہوگا۔ کالی داس نے یہ سب کچھ اسی کارن کیا ہے‬
‫کہ تم اپنی پتنی کے کارن بیاکل ہو کر وہاں پہنچ جاؤ‬
‫اور وہ اپنی شکتی کے جور سے تمرا بلیدان کالی ماتا‬
‫کے چرنوں میں کر دے‘‘ میں بل کھا کر رہ گیا۔‬

‫’’کیول دو دن اور انتجار کر لو اس کے بعد یکھنا میں‬


‫ان پاپیوں کا کیسے سروناش کرتی ہوں؟‘‘ اس نے‬
‫ایک بار پھر مجھے نرمی سے سمجھایا۔ میں نے اس‬
‫کی بات کو کئی جواب نہ دیا۔ مجھے خاموش پا کر وہ‬
‫بولی۔‬
‫’’من تو نہیں کرتا اس کڑے سمے تمہیں اکیال چھوڑ‬
‫کر جاؤں پرنتو میرا جانا بہت جروری ہے مجھے کچھ‬
‫پربند کرنا ہے‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔‬

‫’’جاؤ۔۔۔جاؤ۔۔۔تم بھی چلی جاؤ میری بربادی میں اب‬


‫کوئی کسر نہیں رہ گئی‘‘ میری آواز بھرا گئی۔ اس نے‬
‫اداسی سے میری طرف دیکھا اورنظروں سے اوجھل‬
‫ہوگئی۔ میں دوبارہ بینک چال گیا۔ ہر چیز مجھے کاٹنے‬
‫کو دوڑ رہی تھی۔ محمد شریف ابھی نہیں آیا تھا۔‬
‫عمران اندر آگیا۔ میری حالت دیکھ کر اس نے دروازہ‬
‫بند کیا اورمیرے سامنے کرسی پربیٹھ گیا۔‬
‫’’کیا بات ہے خان بھائی؟خیریت توہے؟‘‘ اس نے‬
‫آہستہ سے پوچھا۔ اسے دیکھ کر میرا دل بھرآیا۔ میں‬
‫نے جلدی سے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ لیکن اس‬
‫نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھ لیے تھے۔جلدی‬
‫سے اٹھ کر میرے پاس آگیا۔‬
‫’’خان بھائی! آپ بتاتے کیوں نہیں؟ سب خیریت ہے‬
‫نا؟‘‘ کچھ دیر خود کو سنبھالنے کے بعد میں نے اسے‬
‫اب تک پیش آنے والے سارے واقعات بتا دیئے۔ وہ‬
‫حیرت سے منہ کھولے سنتا رہا۔‬

‫’’خان بھائی! اتنا کچھ ہوگیا اور آپ نے مجھ کچھ بھی‬


‫نہ بتایا۔ کیا میں اتنا غیر ہوں آپ کے لئے؟‘ اس نے‬
‫دکھ سے کہا۔‬
‫’میری تو کچھ سمجھ نہیں آتا۔۔۔اتنے مصائب پڑے کہ‬
‫میری عقل گم ہوگئی‘‘ میں نے سب کچھ اس لئے‬
‫عمران کے بتا دیا تھا کہ اگر میں دل کا بوجھ ہلکا نہ‬
‫کرتا توہو سکتا تھا میری دماغ کی شریان پھٹ جاتی۔‬
‫وہ سر جھکائے کچھ دیر بیٹھا رہا۔‬

‫’’اب کیا ہوگا خان بھائی؟‘‘ اسنے فکر مندی سے‬


‫پوچھا۔‬
‫’’محمد شریف کا انتظار کر رہا ہوں وہ آئے تو کچھ پتا‬
‫چلے۔ ملنگ تو نہیں مال ہاں رادھا نے مجھے بتایا ہے‬
‫کہ وہ خبیث جن صائمہ کو کالی داس کے ٹھکانے پر‬
‫لے گیا ہے‘‘ میں نے کہا۔ ایک بات یہاں واضح کر‬
‫دوں کہ میں عمران سے کافی ساری باتیں چھپا گیا‬
‫تھا۔ ورنہ وہ کیا سوچتا میں کتنا بدکار ہوں؟ رادھا کے‬
‫بارے میں میں نے اسے بتایا تھا کہ وہ اسی گھر میں‬
‫میری دوست بنی ہے وہ ایسا بھلے مانس تھا کہ زیادہ‬
‫کریدنا اس کی عادت نہ تھی۔ ہم دونوں خاموشی سے‬
‫سرجھکائے بیٹھے ہوئے تھے۔ چھٹی ہونے میں‬
‫تھوڑی دیر رہ گئی تھی۔ مجھے بچوں کی فکر بھی‬
‫تھی۔ خاص کر مومنہ بہت بری طرح اپ سیٹ تھی۔‬
‫محمد شریف چھٹی ہونے کے تھوڑی دیر بعد آیا۔ اس‬
‫کے ہاتھ میں ایک تھیال تھا۔‬

‫’’چلیں۔۔۔؟‘‘ میں اسے دیکھ کر کھڑا ہوگیا۔‬

‫’’خان بھائی! آج رات میں آپ کے گھر گزاروں گا‬


‫مجھے ایک وظیفہ کرنا ہے۔ مراقبے سے معلوم ہوا‬
‫ہے کہ ان شیطانوں نے اکٹھے ہو کرمقابلہ کرنے کی‬
‫ٹھان رکھی ہے۔ باقیوں کی تومجھے اتنی فکر نہیں‬
‫لیکن ان میں سے ایک شخص جادوکا ماہر ہے اس‬
‫سے نبٹنا ذرا مشکل ہے۔ اسکے لئے دو راتیں مسلسل‬
‫پڑھائی کرنا ہوگی‘‘ اسنے کہا۔‬
‫رادھا نے بھی یہی کہاتھا کہ وشنو داس نام کاایک‬
‫پجاری ہے جو اپنے کام میں ماہر ہے۔ وہ چال جائے‬
‫تو باقی لوگوں کووہ دیکھ لے گی۔ محمد شریف بھی‬
‫وہی کچھ کہہ رہا تھا۔‬
‫میں نے بے بسی سے اسکی طرف دیکھا۔‬

‫’’اور دو دن تک کیا صائمہ انہی حرامزدوں کے چنگل‬


‫میں پھنسی رہے گی؟‘‘میرا لہجہ خود بخود تلخ‬
‫ہوگیاتھا۔‬
‫’’جناب عالی! اگرمیرے بس میں ہوتا تو میں ایک‬
‫لمحہ تاخیر نہ کرتا‘‘ محمد شریف نے سر جھکا لیا۔‬
‫میں اس کی مجبوری سمجھ رہا تھا لیکن اپنی جگہ‬
‫میں بھی ٹھیک تھا۔ صائمہ کی جدائی کا ایک ایک‬
‫لمحہ میرے اوپر بھاری تھا۔‬
‫تعالی بھابی محفوظ‬
‫ٰ‬ ‫’’خان بھائی! صبر کریں انشاء ہللا‬
‫رہیں گی وہ بہت نیک اور پاکباز خاتون ہیں‘‘ محمد‬
‫شریف نے میری پریشانی کو دیکھتے ہوئے مجھے‬
‫تسلی دی۔‬
‫’’ٹھیک ہے‪ ،‬آؤ چلیں‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ ہم سب‬
‫گاڑی میں بیٹھ کر بنگلے پرچلے گئے۔ محمد شریف‬
‫نے کچھ انتظامات کیے اور مجھ سے کہا۔‬
‫’’آپ عمران صاحب کے ساتھ ان کے گھر چلے جائیں۔‬
‫صبح انشاء ہللا میں آپ کو خوشخبری سناؤں گا‘‘ ہم‬
‫دونوں وہاں سے عمران کے گھر چلے گئے۔ بچوں‬
‫نے مجھے دیکھا تو بھاگ کر میرے پاس آگئے۔‬
‫’’ماما کہاں ہیں؟‘‘ مومنہ میری گود میں چڑھ کر بولی۔‬
‫رو روکر اس کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ میرا دل‬
‫بھر آیا قریب تھا کہ میری آنکھوں سے آنسو نکل‬
‫پڑتے۔ میں نے خود پر قابو پایا۔‬
‫’بیٹا! ماما ہاسپٹل میں ہیں۔ وہ بیمار ہیں نا اس لئے۔‬
‫دو دن بعد آجائیں گی‘‘ میں نے اس کے گال پر پیار‬
‫کرکے کہا۔‬

‫’’میں نے ماما کے پاس جانا ہے‘‘ وہ مچلنے لگی۔‬


‫عمران کے بچے اسے بہال کر باہر لے گئے۔ دونوں‬
‫میاں بیوی دیر تک میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے‬
‫رہے بھابی نے سب بچوں کو کھانا کھال دیا تھا ان کے‬
‫بہت اصرار پرمیں نے بھی دو چار لقمے زہر مارکر‬
‫لیے۔ کھانے کے بعد بچے سو گئے میں بھی بیڈ روم‬
‫میں آگیا۔ ہم جب بھی عمران کے گھر قیام کرتے یہی‬
‫کمرہ زیر استعمال رہتا۔ صائمہ مجھے کس قدر عزیز‬
‫تھی اس کا پتا مجھے اب چال تھا۔ میرا دل بھر آیا۔ میں‬
‫نے وضو کیا نماز پڑھ کر میں دیر تک مصلے پر بیٹھا‬
‫صائمہ کی سالمتی کی دعائیں مانگتا رہا۔ آنسو میری‬
‫آنکھوں سے لگاتار جاری تھے۔ ملنگ نے کہا تھا اگر‬
‫رونا ہے تو اس غفور الرحیم کے آگے سر سجدے‬
‫میں رکھ کر روؤں۔ میں بے اختیار سجدے میں چال‬
‫گیا۔ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔‬
‫’’اے دو جہاں کے مالک ! میری سیاہ کاریوں کی سزا‬
‫میری معصوم بیوی کو نہ دینا‘‘ رونیا ور دعا مانگنے‬
‫سے میرے دل کو سکون مال۔ رات آدھی سے زیادہ‬
‫بیت چکی تھی۔ میں نے نماز تہجد ادا کی۔ کہیں پڑھا‬
‫تھا اس وقت ہللا پاک پکارتاہے۔‬

‫’’ہے کوئی جو میری رحمت کا طلبگارہو؟‘‘‬

‫دیر تک میں پاک رب ذولجالل کے سامنے گڑ گڑاتا‬


‫رہا۔ دل کو سکون مال تو مجھے نیند آگئی کسی قدر‬
‫مہربان شے ہے نیند بھی۔۔۔انسان کو غموں سے‬
‫چھٹکارا دال دیتی ہے۔ صبح مومنہ کے رونے پر میری‬
‫آنکھ کھلی۔ جاگتے ہی صائمہ کو یاد کرکے بے اختیار‬
‫میرے منہ سے آہ نکل گئی۔ مومنہ کا رو رو کا براحال‬
‫تھا۔ وہ صائمہ سے بہت اٹیچ تھی۔ صبح اسی کے ہاتھ‬
‫سے ناشتہ کرتی۔ آج اسے نہ پراکر وہ مچل گئی تھی۔‬
‫احد خان بھی جاگ گیا تھا اور چپکے چپکے رو رہا‬
‫تھا۔‬

‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪50‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’بابا۔۔۔میری ماما کو لے آئیں پلیز میں۔۔۔‘‘ احد بھی‬


‫رونے لگا۔‬

‫دونوں بچوں کو چپ کراتے کراتے میری آنکھیں بھی‬


‫آنسوؤں سے بھر گئیں۔‬

‫’’صائمہ تم کہاں ہو خدا کے لئے آجاؤ میں دوبارہ‬


‫کوئی غلطی نہیں کروں گا۔۔۔میرے خدا! مجھے صائمہ‬
‫سے مال دے۔۔۔معصوم بچوں پر رحم کر میرے‬
‫معبود۔۔۔! ان کو ان کی ماں سے مال دے یا ہللا! تم ہر‬
‫چیز پر قادر ہے میری کوتاہیوں کی سزا ان معصوموں‬
‫کو نہ دینا میرے مالک‘‘‬

‫میرا دل رو رہا تھا۔‬

‫آنکھیں رو رہی تھیں۔‬

‫ہم تینوں رو رہے تھے۔‬

‫نازش جاگ گئی تھیں انہوں نے جب بچوں کے رونے‬


‫کی آواز سنی تو اندر آگئیں۔ پیار سے انہیں گلے لگایا‬
‫اور چپ کرانے لگیں۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔‬
‫تھوڑی دیر وہ انہیں ساتھ لگائے بیٹھی رہیں پھر پیار‬
‫سے انہیں سمجھاکر ساتھ لے گئیں۔ چونکہ ہم اکثر‬
‫عمران کے گھر آیا کرتے اس لئے بھی بچے نازش‬
‫سے مانوس تھے۔ ناشتہ ہم سب نے اکھٹے کیا۔‬
‫’’خان بھائی! آج آپ چھٹی کر لیں۔ بھابی کے نہ ہونے‬
‫سے بچے اداس ہو جائیں گے‘‘ عمران نے مجھے‬
‫مشورہ دیا۔ میں نے اس سے اتفاق کیا۔ عمران کے‬
‫جانے کے بعد میں بچوں کو گاڑی میں گھمانے لے‬
‫گیا۔ ایک سٹور سے بسکٹ ‪ ،‬چپس‪ ،‬کولڈ ڈرنک وغیرہ‬
‫لے کر ہم ایک چھوٹے سے پارک میں آگئے۔ وہاں‬
‫جھولے لگے ہوئے تھے۔ دونوں بچے کھیل میں مگن‬
‫ہوگئے اور میں ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔‬

‫’’نہ جانے صائمہ کس حال میں ہوگی۔ اگر خدا‬


‫نخواستہ اسے کچھ ہوگیا تو ۔۔۔ہللا نہ کرے‘‘ بے اختیار‬
‫میرے منہ سے نکال۔ میں بار بار اپنے ذہن کو جھٹک‬
‫کر ان خیالت سے چھٹکارہ حاصل کرتا لیکن دوسرے‬
‫لمحے وہ میرے پھر میرے ذہن پر حملہ کر دیتے۔‬
‫کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا بری طرح‬
‫اچھل پڑا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ ملنگ‬
‫چہرے پر معنی خیز مسکراہٹ لیے میرے پیچھے‬
‫کھڑا تھا۔ میں جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔‬
‫’’باباجی۔۔۔!‘‘ میری آواز رندھ گئی۔ وہ میرے کندھے‬
‫پر ہاتھ رکھے خال میں نظریں جمائے خاموش کھڑا‬
‫تھا۔‬

‫’’بابا جی! صائمہ۔۔۔‘‘ میری ہچکیاں بندھ گئیں۔‬

‫’’مرد بن۔۔۔مرد کیا عورتوں کی طرح ٹسوے بہا رہا‬


‫ہے؟‘‘ اس نے مجھے جھڑک دیا۔‬

‫حتی کہ‬
‫’’تو تو بہت بہادر ہے‪ ،‬کسی سے نہیں ڈرتا۔ ٰ‬
‫۔۔۔خدائے بزرگ و برتر سے بھی نہیں‘‘ اس کی غیض‬
‫و غضب میں ڈوبی آواز آئی۔‬

‫’’لوگ جنات کا نام سن کر کانپ جاتے ہیں جبکہ تو‬


‫اتنا دلیر ہے کہ ان کے ساتھ شب بسری کرتا ہے ۔‬
‫اپنی گھر والی پر کسی کی نظر پڑی ہے تو بلبال اٹھا‬
‫ہے؟‘‘ اس نے طنز کیا۔ میرا خیال تھا وہ میری دلجوئی‬
‫کرے گا اور مجھے صائمہ تک پہنچنے میں مدد دے‬
‫گا لیکن وہ تو میرا مذاق اڑا رہا تھا۔ کچھ دیر میں‬
‫حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔‬
‫’بابا جی! اگر آپ میری مدد نہیں کرنا چاہتے تو کوئی‬
‫بات نہیں لیکن براہ کرم میرے زخموں پر نمک پاشی‬
‫نہ کریں‘‘ اس کے رویے سے میرا دل دکھ گیا۔‬

‫’’نمک حرام ۔۔۔تو کیا کرے گا؟ تو تو اس کا بھی وفادار‬


‫نہیں جو تیری وجہ سے یہ مصیبت جھیل رہی ہے‘‘‬
‫اس کا لہجہ زہریال تھا۔‬

‫’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔میں نے بہت گناہ کیے ہیں میں جہنمی‬


‫ہوں۔۔۔مجھے مر جانا چاہئے۔۔۔زندہ رہنے کا کوئی حق‬
‫نہیں ہے مجھے‘‘ میں بری طرح جھنجھال گیا۔ وہ کچھ‬
‫دیر قہر نظروں سے مجھے دیکھتا رہا۔ بچے جھوال‬
‫جھول رہے تھے۔ جب ایک مجہول اور پھٹے پرانے‬
‫کپڑے پہنے میلے کچیلے شخص کو میرے پاس‬
‫کھڑے دیکھا تو حیرت سے میرے پاس چلے آئے۔‬

‫’’ادھر آؤ میرے پاس‘‘ ملنگ نے مسکرا کر انہیں‬


‫دیکھا۔ مومنہ فوراً اس کے پاس چلی گئی۔ وہ زمین پر‬
‫بیٹھ گیا اور مومنہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا۔ ملنگ کے‬
‫منہ سے رال بہہ رہی تھی۔ خوراک کے ذرے اس کے‬
‫داڑھی سے چپکے ہوئے تھے۔ میرے بچے صفائی‬
‫ستھرائی کے معاملے میں اپنی ماں کی طرح حساس‬
‫ہیں لیکن مجھے حیرت ہوئی مومنہ نے ملنگ کی‬
‫داڑھی پکڑ لی اور اس سے کسی شیر خوار بچے کی‬
‫طرح کھیلنے لگی۔ احد بھی اس کے گٹھنے سے لگ‬
‫کر بیٹھ گیا۔ ملنگ نے پھٹے ہوئے کرتے کی جیب میں‬
‫ہاتھ ڈاال اور تسبیح کے دانوں جیسے سفید موتی نکال‬
‫کر اپنے منہ میں ڈال لیے۔ کچھ دیر انہیں منہ میں‬
‫گھماتا رہا پھر انہیں ہتھیلی پر تھوک سمیت نکال لیا۔‬
‫سفید دانے سبز رنگ اختیار کر گئے تھے۔‬
‫اس نے دائیں ہاتھ کی دو انگلیوں سے ایک دانے کو‬
‫پکڑا اور مومنہ سے منہ کھولنے کے کہا۔ اس نے‬
‫جھٹ منہ کھول دیا۔ ملنگ نے دانہ مومنہ کے منہ میں‬
‫ڈال دیا۔ مومنہ اسے بڑے مزے سے چباگئی۔ اس کے‬
‫بعد اس نے احد کو دوسرا دانہ کھال دیا۔ وہ بھی مزے‬
‫سے کھا گیا۔ ملنگ کے ہونٹ تیزی سے ہل رہے تھے‬
‫کچھ دیر وہ پڑھتا رہا پھر دونوں بچوں پرپھونک دیا‬
‫اور ان کے سر پر ہاتھ پھیرا۔‬

‫’’تمہاری ماں بہت جلد آجائے گی‘‘ اس نے بڑی شفقت‬


‫سے ان سے کہا۔ مومنہ تو کچھ نہ سمجھی لیکن احد‬
‫نے اسے طرح سر ہالیا جیسے وہ ملنگ کی بات‬
‫سمجھ گیا ہو۔‬
‫’جاؤ جا کرکھیلو‘‘ اس نے بچوں سے کہا وہ اس کی‬
‫بات مان کر دوبارہ جھولوں کی طرف دوڑ گئے۔‬

‫’’جا تو بھی کھیل۔۔۔تیرے ابھی کھیلنے کے دن‬


‫ہیں۔۔۔۔جامن پسند کھیل کھیلنے میں لگ جا‘‘ اس نے‬
‫پھر مجھ پر طنز کیا۔ میں جلدی سے اس کے پاس بیٹھ‬
‫گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس نے ایک جھٹکے سے‬
‫ہاتھ چھڑا لیا اور بے نیازی سے ایک طرف چل پڑا۔‬
‫میں اس کے پیچھے بھاگا لیکن وہ بال کی تیز رفتاری‬
‫سے چلتا ہوا پارک سے نکل گیا۔ میں سر جھکائے‬
‫بچوں کے پاس واپس آگیا۔ ملنگ کا آنا بے مقصد نہ‬
‫تھا وہ ایک پہنچا ہوا بزرگ تھا۔ میں سر جھکائے‬
‫بیٹھا تھا۔ کافی دیر کھیل کر بچے تھک گئے۔ میرے‬
‫پاس آکر انہوں نے واپس چلنے کوکہا۔‬

‫’’ماما کے پاس جانا ہے‘‘ مومنہ پھر رونے لگی۔ میں‬


‫نے جلدی سے اسے اٹھایا اور احد کی انگلی پکڑ کر‬
‫پارک سے نکل آیا۔ مومنہ کسی طور چپ ہونے میں نہ‬
‫آرہی تھی۔ وہ بار بار ماں کے پاس جانے کی ضد‬
‫کرتی۔ میں نے کسی نہ کسی طرح بہال پھسال کر اسے‬
‫چپ کرایا۔ اس کے من پسندکھلونے لے کر دیے۔ احد‬
‫جو ہمیشہ کھلونے پا کر خوش ہوتا آج اس نے بڑی‬
‫بے دلی سے کھلونے لے کر پچھلی سیٹ پر رکھ دیے۔‬
‫اس کی معصوم آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر‬
‫جاتیں۔ ان کی حالت دیکھ کرمیرا دل خون کے آنسو رو‬
‫رہا تھا۔‬

‫کافی دیر انہیں مختلف جگہوں پر گھما پھر اکر ہم شام‬


‫کے قریب واپس گھر گئے۔ گھر آکر ایک بار پھر‬
‫مومنہ نے ماں کو یاد کرکے رونا شروع کر دیا۔ نازش‬
‫نے بچوں کو اشارہ کیا وہ اسے پیار کرکے کھیلنے‬
‫کے بہانے لے گئے۔ وقت کاٹے نہ کٹتا تھا۔ میں جلے‬
‫پاؤں کی بلی کی طرح کبھی اندر کبھی باہر پھرتا رہا۔‬
‫بار بار صائمہ کا معصوم چہرہ میرے سامنے آجاتا۔‬
‫اس کی معصوم نظریں مجھ سے سوال کرتیں۔‬

‫’’فاروق! مجھے کس کے سہارے اکیال چھوڑ آئے‬


‫ہو؟‘‘ میں سرجھٹک کر ان خیاالت سے پیچھا چھڑاتا‬
‫لیکن دوسرے ہی لمحے وہ میرے سامنے آجاتی۔‬
‫فاروق! خدا کے لئے مجھے ان ظالموں کے چنگل‬
‫سے چھڑاؤ میں بہت اکیلی ہوں‘‘ میں گھبرا کر باہر‬
‫آگیا۔‬
‫’فاروق! تم تو کہتے تھے مجھے تم سے عشق ہے‬
‫پھر مجھے کیوں اکیال چھوڑ دیا‘‘ وہ بار بار مجھ سے‬
‫سوال کرتی۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ میں‬
‫گھبرا کر اندر آگیا۔ ڈرائینگ روم میں بچھے صوفے پر‬
‫بیٹھ کر میں نے آنکھیں بند کر لیں۔‬

‫’’فاروق! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے پلیز میری مدد‬


‫کرو مجھے یہاں سے لے جاؤ‘‘ صائمہ کا چہرہ‬
‫بندآنکھوں کے سامنے ابھر آیا۔‬

‫’’میں آرہا ہوں صائمہ۔۔۔!میں آرہا ہوں‘‘ میں چیخ اٹھا۔‬


‫نازش بھاگ کر اندر آئیں۔‬

‫’’کیا ہوا فاروق بھائی؟‘‘ وہ میرے پاس کھڑی پوچھ‬


‫رہی تھی۔‬
‫’’کک۔۔۔کچھ نہیں‘‘ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔‬

‫تعالی اپنا فضل کرے گا فاروق بھائی! آپ تو بڑے‬


‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫حوصلے والے ہیں۔ صائمہ بھی بہت نیک ہیں ہللا پاک‬
‫ان کی حفاظت کرے گا‘‘ انہوں نے مجھے تسلی دی۔‬
‫میں نے پھر آنکھیں بند کر لیں۔ مجھے اندیشہ تھا کہ‬
‫میرا حوصلہ جواب دے جائے گا اور میں پھوٹ پھوٹ‬
‫کر رونے لگوں گا۔ نازش باہر چلی گئیں۔ عمران نے‬
‫انہیں ساری بات بتا دی تھی۔‬

‫’’فاروق بھائی!‘‘ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ وہ‬


‫ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے کھڑی تھیں۔ صبح سے‬
‫اب تک ایک کھیل بھی اڑ کر میرے منہ میں نہ گئی‬
‫تھی۔ بچوں کو تو میں نے بازار سے کچھ چیزیں لے‬
‫کر کھال دی تھیں لیکن خود پانی تک نہ پیا تھا۔‬
‫’’ صائمہ نہ جانے کس حال میں ہوگی؟اس نے کچھ‬
‫کھایا بھی نہ ہوگا‘‘ اس خیال نے مجھے کھانے سے‬
‫باز رکھا۔ رات ہوگئی مومنہ تھوڑی دیر بعد رونے اور‬
‫ماں کو یاد کرنے لگتی۔ شام تک اسے بخار ہوگیا۔‬
‫عمران اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ مجھے تو اپنا‬
‫ہوش نہ تھا۔‬
‫احد بار بار میرے پاس آتا۔ معصوم آنسو بھری آنکھوں‬
‫سے دیکھتا اور باہر چال جاتا۔ ڈاکٹر نے عمران کے‬
‫کہنے پر مومنہ کو نیند کی دوا بھی کھال دی تھی۔ وہ‬
‫سو رہی تھی۔ عمران کافی دیر میرے پاس بیٹھا تسلی‬
‫دیتا رہا۔ لیکن میرا حال تو یہ تھا جیسے دنیا اندھیرا‬
‫ہوگئی ہو۔ کچھ اچھا نہ لگ رہا تھا۔ بار بار اپنی بزدلی‬
‫پر مجھے غصہ آتا کہ میں کیوں اسے وہاں چھوڑ کر‬
‫چال آیا؟ رات ہوگئی۔ میں نے عشاء کی نماز پڑھ کر‬
‫ایک بار پھر اپنے معبود کے سامنے سر سجدے میں‬
‫رکھ دیا۔ رو رو کر مصلی گیال ہوگیا۔ رونے سے کچھ‬
‫سکون مال۔ عمران کے اصرار پر چند لقمے زہر‬
‫مارکیے اور خاموشی سے کمرے میں آگیا۔ بچے سو‬
‫چکے تھے۔‬
‫’’پریم‘‘ رادھا کی آواز آئی۔ میں بری طرح اچھل پڑا۔‬
‫پریم! ترنت اپنے گھر پہنچو‘‘ آواز دوبارہ آئی۔ میں نے‬
‫چاروں طرف دیکھا رادھا کہیں نہ تھی۔ میں سوچ ہی‬
‫رہا تھا کیا واقعی رادھا نے آواز دی تھی یا یہ سب‬
‫کچھ میرا وہم تھا۔‬

‫’’سمے برباد نہ کرو ترنت اپنے گھر جاؤ‘‘ آواز اس‬


‫بار واضح طور پر سنائی دی۔‬

‫’’رادھا تم کہاں ہو؟‘‘ میں نے ایک بار پھر چاروں‬


‫طرف نظر دوڑائی۔‬
‫’میں بھی ایک جروری کام سے جارہی ہوں تم اپنے‬
‫گھر چلے جاؤ۔ اپنے متر کی پتنی سے کہو وہ تمری‬
‫سنتان کی رکھشا کرے۔ گھر میں کوئی تمرا انتجار کر‬
‫رہا ہے‘‘ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ میں نے‬
‫عمران کو ساری صورتحال بتائی اور تاکید کی کہ‬
‫نازش بچوں کے پاس سو جائیں۔ وہ ساتھ جانے پر‬
‫بضد تھا لیکن میرے سمجھانے پر مان گیا۔ میں گاڑی‬
‫آندھی اور طوفان کی طرح بھگاتا گھر پہنچا۔ گیٹ بند‬
‫تھا۔ میں نے بیل بجائی کافی دیر انتظار کرنے کے بعد‬
‫بھی دروازہ نہ کھال تو میں نے چابی سے دروازہ‬
‫کھوال اور اندر داخل ہوگیا۔ الن اور برآمدے کی الئٹس‬
‫جل رہی تھیں۔ الن کے بیچوں بیچ اوپلوں کی راکھ‬
‫سے ایک بہت بڑا دائرہ بنا ہوا تھا۔ دائرے کے درمیان‬
‫ایک پیتل کا تھال جس میں باریک باریک رائی جیسے‬
‫سیاہ دانے بھرے ہوئے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے‬
‫پر زمین میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے کلے گڑھے‬
‫ہوئے تھے۔ یہ بالکل ویسے تھے جیسے لوگ‬
‫مویشیوں کو باندھنے کے لئے زمین میں گاڑ دیتے‬
‫ہیں لیکن سائز میں اس سے کافی چھوٹے تھے۔‬
‫برآمدے کے فرش پر کوئلے سے عجیب و غریب نقش‬
‫و نگار بنے ہوئے تھے۔ میں حیرت سے سب کچھ‬
‫دیکھتا اندر داخل ہوگیا۔ سارا گھر خالی تھا۔ میرا خیال‬
‫تھا محمد شریف موجود ہوگا لیکن وہ بھی نہ تھا۔ یہ‬
‫سب کچھ شاید اسی نے کیا تھا۔ رادھا کے بقول کوئی‬
‫میرا انتظار کر رہا ہے۔ لیکن یہاں تو بندہ نہ بندے کی‬
‫ذات گھربھائیں بھائیں کر رہا تھا۔میں سارے گھر کا‬
‫چکر لگا کر ڈرائنگ روم میں آگیا۔ ابھی مجھے بیٹھے‬
‫تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ بیل بجی۔ میں چونک گیا۔‬

‫’’کون ہوسکتا ہے اس وقت؟‘‘ میں نے سوچا اور اٹھ‬


‫کر باہر آگیا۔ گیٹ کھوال تو سامنے محمد شریف کھڑا‬
‫تھا‬

‫’’اسالم علیکم جناب عالی!‘‘ اس نے مسکرا کر مجھے‬


‫سالم کیا۔‬

‫’’وعلیکم اسالم! محمد شریف گیٹ تو کھالہوا تھا پھر‬


‫تم نے بیل کیوں بجائی؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔‬

‫’’میں نے آپ کی گاڑی کھڑی دیکھ لی تھی اس پیش‬


‫نظر بیل دی ہو سکتا ہے آپ کے ساتھ خواتین بھی‬
‫ہوں‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔‬
‫’’آؤ ۔۔۔اندر آجاؤ‘‘ میں نے ایک طرف ہٹ کر اسے‬
‫راستہ دیا۔ وہ اندر آگیا۔ میں نے گیٹ بند کر دیا۔‬

‫’’محمدشریف یہ سب کیا ہے؟‘‘ میں نے الن کی طرف‬


‫اشارہ کیا۔‬

‫تعالی کی مہربانی ہے جناب ! کل رات‬


‫ٰ‬ ‫’’سب ہللا‬
‫حضرت صاحب تشریف الئے تھے لیکن آپ اس وقت‬
‫یہاں کیسے؟‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔ میں شش و‬
‫پنج میں پڑ گیا کہ اسے رادھا کے بارے میں بتایا‬
‫جائے یا نہیں۔‬
‫’ایسے ہی بس دل بہت افسردہ تھا اس لئے یہاں چال‬
‫آیا۔‘‘ میں نے بات بنائی۔‬

‫’’اچھا ہوا آپ آگئے میں تو خود آپ کو بالنے کا ارادہ‬


‫کر رہا تھا‘‘ اس نے مسکرا کر کہا۔‬
‫’’کیوں خیریت؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬

‫’’کسی کو آپ سے مالنا ہے۔‘‘ وہ مسکرایا۔‬

‫’’کسے۔۔۔؟‘‘ میں نے چونک کر پوچھا۔‬

‫’’آئیے اندر چل کر بیٹھتے ہیں‘‘ وہ اندر کی طرف‬


‫بڑھتے ہوئے بوال۔ ہم دونوں ڈرائنگ روم میں آکر بیٹھ‬
‫گئے۔ میں منتظر تھا کہ محمد شریف کس سے مجھے‬
‫ملوانا چاہتا ہے۔ ساتھ میں حیران بھی تھا کہ گھر میں‬
‫ہم دونوں کے سوا کوئی نہ تھا۔‬
‫’’عبدالودود! اندر تشریف لے آئیے‘‘ محمد شریف نے‬
‫باہر کی طرف منہ کرکے آواز دی۔ میں نے چونک کر‬
‫دروازے کی طرف دیکھا۔ ایک نہایت خوش روباریش‬
‫نوجوان اندر داخل ہوا۔ دراز قد‪ ،‬سرخ سفید رنگت ‪،‬‬
‫بڑی بڑی سحر کار آنکھیں۔ شانے تک بڑھے ہوئے‬
‫سیاہ کالے بال۔ اس کی سفید رنگت پر کالی داڑھی بہت‬
‫بھلی لگ رہی تھی۔ اس نے پرانے زمانے کے‬
‫شہزادوں جیسا قیمتی لباس پہن رکھا تھا۔ اندر داخل ہو‬
‫کر اس نے بڑے باوقار انداز سے سالم کیا۔‬

‫’’وعلیکم اسالم‘‘ محمد شریف نے جواب دیا۔‬

‫میں حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھا۔ پہلی بات تو‬


‫یہ کہ گیٹ بند تھا۔ اور شریف کے آنے سے پہلے میں‬
‫سارے گھر میں چکر لگا کر دیکھ چکا تھا میرے‬
‫عالوہ کوئی نہ تھا۔ پھر یہ جوان کہاں سے آگیا۔ میں‬
‫بے اختیار اس کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔ وہ باوقار‬
‫چال چلتا ہوا میرے پاس آگیا۔ اتنا خوبصورت جوان‬
‫میں نے کم ہی دیکھا تھا۔ حاالنکہ پرتاب بھی بہت‬
‫وجیہہ تھا لیکن اس نوجوان جسے محمد شریف نے‬
‫عبدالودود کے نام سے پکارا تھا وجاہت اور شاندار‬
‫شخصیت میں نمبر لے گیا تھا۔ اس کے چہرے پر نہ‬
‫جانے ایسی کیا بات تھی کہ نظر ہٹانا مشکل تھا۔ میں‬
‫یک ٹک اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں‬
‫میں بھی دلچسپی تھی۔‬
‫’’ماشاء ہللا ! اس نے میری طرف دیکھ کر بڑے‬
‫نستعلیق عربی انداز سے کہا۔ اس کی آواز بھی اس کی‬
‫طرح خوبصورت تھی۔ میرے قریب آکر اس نے اپناہاتھ‬
‫بڑھایا۔ میں نے جلدی سے اس سے مصافحہ کیا۔‬
‫محمد شریف مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو دیکھ رہا‬
‫تھا۔ اس کے نام ہاتھ پر روئی کے گالے کا گمان ہوتا‬
‫تھا۔‬
‫’یہ شیخ عبدالودود ہیں۔ حضرت صاحب کے مرید‬
‫خاص‘‘محمد شریف نے میری الجھن دور کی۔ میں‬
‫سمجھ گیاکہ اس نوجوان کا تعلق قوم جنات سے ہے۔‬
‫وہ مسکراتا ہوا مجھے دیکھ رہا تھا۔‬

‫تعالی نے آپ کو دل کھول کر وجاہت عطا فرمائی‬


‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫ہے۔ سبحان تیری قدرت ‘‘ میں اسکی گھمبیر آواز کے‬
‫سحر میں کھو گیا‬
‫’’آپ بھی کچھ کم نہیں۔۔۔ہللا پاک نے آپ کے بھی بے‬
‫مثال پیدا فرمایا ہے‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکال۔‬
‫’’تشریف رکھیئے‘‘ محمد شریف نے صوفے کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لیے کہا۔‬
‫’’خان صاحب! کل رات حضرت سے میری با تفصیل‬
‫بات چیت ہوئی ہے۔ انہوں نے کمال شفقت فرماتے‬
‫ہوئے بھائی عبدالودود کو بھیجا ہے یہ ہماری رہنمائی‬
‫فرمائیں گے‘‘ محمد شریف نے کہا۔‬

‫’’بھائی فاروق! آپ فکر نہ کریں انسان پر جو بھی‬


‫مصیبت آتی ہے ہللا پاک نے اس کا تدارک بھی اسی‬
‫تعالی اپنے پیاروں کو آزماتا‬
‫ٰ‬ ‫دنیا میں رکھا ہے۔ ہللا‬
‫تعالی ہے‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ ارشاد باری‬

‫’’ہم جس کو آزماتے ہیں اسے بھی بھوک اور خوف‬


‫سے آزماتے ہیں اور جس کو سزا دیتے ہیں اسے بھی‬
‫بھوک اور خوف ہے‘‘ عبدالودود نے بڑے مدبرانہ‬
‫انداز میں سمجھایا۔ جنات سے ہم کالم ہونے کا یہ میرا‬
‫پہال موقع نہ تھا کہ میں جھجھکتا۔‬
‫’’بھائی عبدالودود! ہم کہاں اس قابل کہ ہللا کے پیاروں‬
‫میں خود کو شمار کرنے کی جرات کر سکیں۔ میں تو‬
‫اپنے گناہوں پر اتنا شرمندہ ہوں کہ بتا نہیں سکتا۔‬
‫لیکن میری بیوی تو معصوم اورپاکباز ہے‪ ،‬اتنی باوفا‬
‫اور با حیا کہ میں اس کی پاکیزگی کی قسم کھانے کے‬
‫لیے تیار ہوں۔ پھر۔۔۔پھر اس پر یہ مصیبت۔۔۔میری‬
‫سمجھ میں تو کچھ نہیں آتا‘‘ میں نے ہاتھ ملتے ہوئے‬
‫کہا۔‬

‫تعالی آپ پر رحم فرمائے۔ یہ مصائب اور‬


‫ٰ‬ ‫’’بھائی! ہللا‬
‫مشکالت انسان کے گناہوں کی بخشش اور درجات کی‬
‫بلندی کا باعث ہوتے ہیں کسی کے گناہ جھڑ جاتے ہیں‬
‫اور کسی کو درجات میں بلندی عطا ہوئی ہے۔ آپ فکر‬
‫نہ کریں شیطان جتناچاہے قوی جائے ہللا پاک کی‬
‫قدرت کے آگے بے بس ہے۔ ہو سکتا ہے یہ مشکل‬
‫وقت کسی نیک کام کی سعاددت کا باعث بن جائے‘‘‬
‫عبدالودود نے کہا۔ میں سر جھکا لیا۔‬
‫’’بھائی محمد شریف! حضرت صاحب کا حکم تھاتاخیر‬
‫کام کیا جائے اس لئے مجھے ایک جائے نماز عطا‬
‫فرما دیں تو مشکور ہوں گا میں کچھ دیر مراقبہ کرنا‬
‫چاہتا ہوں‘‘ وہ محمد شریف سے مخاطب ہوا۔ میں نے‬
‫جلدی سے اٹھ کر جائے نماز دے دی۔‬
‫معذرت خواہ ہوں آپ لوگوں کو کچھ دیر مجھے تنہائی‬
‫میں کام کرنے کی اجازت دینا ہوگی۔‘‘ اس نے ہم‬
‫دونوں کی طرف دیکھ کر کہا۔‬

‫’’ہاں۔۔۔ہاں ضرور میں اور خان بھائی باہر انتظار‬


‫کرتے ہیں جب آپ فارغ ہو جائیں توبتا دیجئے گا‘‘ ہم‬
‫دونوں باہر آکر برآمدے میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ‬
‫گئے‬

‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪51‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬
‫محمد شریف یہ سب کیا ہے؟ یہ نوجوان۔۔۔‘‘‬
‫’’خان صاحب! بھائی عبدالودود حضرت صاحب کے‬
‫بہت ہونہار شاگرد اور مرید ہیں۔ اس عمر میں ہللا کی‬
‫رحمت اور ریاضت و عبادت کے باعث انہوں نے وہ‬
‫مقام حاصل کر لیا ہے جو کسی کسی خوش نصیب‬
‫کوملتا ہے۔ زبردست روحانی قوتوں کے مالک ہیں یہ‬
‫تعالی بہت جلد ہماری مشکالت کا‬
‫ٰ‬ ‫صاحب۔ انشاء ہللا‬
‫خاتمہ ہو جائے گا‘‘ اسنے بڑے خلیق لہجے میں کہا۔‬
‫’’کیا صائمہ کی شکل دوبارہ اپنی اصلی حالت میں‬
‫آجائے گی‘‘ جو فکر مجھے کل سے کھائے جا رہی‬
‫تھی میں نے اس کا ذکر محمد شریف سے کیا۔‬
‫’’جناب! معذرت چاہتا ہوں میں آپ کی بات کا مطلب‬
‫نہیں سمجھ سکا۔‘‘‬

‫’’میں نے کل تمہیں بتایا تھا نا ‪ ،‬جب میں گھر پہنچا تو‬


‫وہ بدبخت صائمہ کے جسم پر قابض تھا۔ اور صائمہ‬
‫کی شکل بہت خوفناک ہو چکی تھی‘‘ میں نے اسے‬
‫یاد دالیا۔‬
‫’ہاں جی بتایا تھا۔ لیکن خان بھائی آپ اس بارے میں‬
‫بالکل فکر مند نہ ہوں یہ سب بصری دھوکہ ہوتا تھا۔‬
‫جنات کی یہ مجال نہیں کہ وہ انسان کی شکل و شباہت‬
‫میں تبدیلی پیدا کرنے کی قدرت رکھتے ہوں۔ وہ محض‬
‫ہم انسانوں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر ہماری نظر کو‬
‫دھوکہ دیتے ہیں۔ جو کچھ ہمیں نظر آرہا ہوتا ہے ایسا‬
‫قطعا ً نہیں ہوتا جنات کو کچھ معامالت میں انسان پر‬
‫فوقیت حاصل ہے وہ اس سے کام لے کر خوفزدہ‬
‫کرتے ہیں۔‘‘‬

‫میرے سر پر سے جیسے پہاڑ ہٹ گیا۔ شکر ہے ہللا‬


‫تعالی کا کہ یہ سب نظری دھوکہ ہوتا ہے اورہللا پاک‬
‫ٰ‬
‫نے ان کو اس ظلم کی طاقت نہیں دی ورنہ تو انسان‬
‫بہت نقصان میں رہتا۔ میں نے ایک طویل سانس لی۔‬

‫’’توکیا وہ سب دھوکہ تھا؟‘‘‬


‫’’ہاں جناب وہ محض نظر بندی ہوتی ہے وہ جو کچھ‬
‫چاہتے ہیں ہمیں وہی نظر آتا ہے۔ جیسا کہ بعض‬
‫شعبدہ باز ہماری نظر بندی کرکے ہمیں وہ کچھ‬
‫دکھاتے ہیں جس پر عقل اعتبار نہیں کرتی۔ مثالً وہ‬
‫کاغذ کو نوٹ کی شکل میں لے آتے ہیں۔ خشک ٹہنیوں‬
‫کی ایک جھڑی بنا کر اس میں سے آم پید اکرکے ہمیں‬
‫دکھا دیتے ہیں۔‘‘اسنے تفصیل سے بتایا۔‬

‫ہم کافی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ اس معاملے میں‬


‫محمد شریف کی معلومات کافی زیادہ تھیں۔ حاالنکہ‬
‫میرا واسطہ ایک عرصے سے جنات سے تھا لیکن‬
‫میں ان کے بارے میں کچھ نہ جانتا تھا۔ سچ کہتے ہیں‬
‫ہللا والے وسیع علم کے مالک ہوتے ہیں جو انہیں ان‬
‫تعالی عطا فرماتا‬
‫ٰ‬ ‫کی نیکی اور پاکبازی کے باعث ہللا‬
‫ہے۔ میں نے محمد شریف کو ملنگ کے بارے میں‬
‫بتایا جسے سن کر اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ‬
‫بچوں کی حفاظت کی خاطر ملنگ نے یہ سب کچھ کیا‬
‫تھا۔‬
‫’’بھائی محمد شریف! اگر زحمت نہ ہو تو اندر تشریف‬
‫لے آئیے لیکن بصد معذرت آپ اکیلے ہی آئیے گا‘‘‬
‫اندر سے عبدالودودکی آواز آئی۔ محمد شریف نے‬
‫معذرت خواہانہ انداز سے میری طرف دیکھا۔‬

‫’’کوئی بات نہیں محمد شریف تم چلے جاؤ‘‘ میں نے‬


‫مسکرا کر اجازت دی۔ شکر یہ کہہ کر وہ اندر چال گیا۔‬
‫میں ٹہلتا ہوا گیٹ کے پاس آگیا۔‬
‫’پریم!‘‘ اچانک میرے کان میں رادھا کی سرگوشی‬
‫ابھری۔ میں نے چونک کر دیکھا۔‬
‫’’پریم ! میں کالی داس کے استھان پر جارہی ہوں تم‬
‫اپنے متروں کو لے کر ترنت وہاں پہنچو۔ سارے‬
‫پجاری کسی جاپ میں مگن ہیں اور وشنو داس کہیں‬
‫جا چکا ہے۔‘‘ رادھا نے جلدی سے کہا۔‬

‫’’لیکن رادھا! مجھے تو اس جگہ کے بارے میں‬


‫معلوم ہی نہیں میں کیسے آؤں گا۔‘‘ میں نے کہا۔‬
‫’’تمرے متر جانتے ہیں‘‘ آواز آئی۔‬

‫’’میں جا رہی ہوں ترنت وہاں پہنچو‘‘ اس کے ساتھ‬


‫ہی آواز آنا بند ہوگئی۔ اتنے میں محمد شریف باہر آیا۔‬

‫’’خان بھائی! جلدی سے چلیے ہمیں ایک جگہ جانا‬


‫ہے‘‘ وہ گیٹ کی طرف جاتے ہوئے بوال۔ لیکن وہ‬
‫بھائی جو اندر۔۔۔‘‘‬

‫’’وہ جا چکے ہیں اور ہمارے لئے کہا ہے کہ ہم بھی‬


‫وہاں پہنچ جائیں‘‘ محمد شریف میری بات کاٹ کر بوال۔‬
‫میں نے گیٹ کو تاال لگایا اور ہم گاڑی میں بیٹھ کر‬
‫روانہ ہوگئے۔‬

‫’’کس طرف جانا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ محمد شریف‬


‫آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔‬
‫’’دائیں طرف موڑ لیجئے اور اب آپ نے انہیں پوچھنا‬
‫میں خود ہی بتاتا چلوں گا‘‘ وہ بغیر آنکھیں کھولے‬
‫بوال۔ میں اس کے کہنے کے مطابق چلتا رہا۔ وہ گاہے‬
‫بگاہے مجھے بتا دیتا کہ گاڑی کس طرف موڑنا ہے۔‬
‫تھوڑی دیر بعد شہر پیچھے رہ گیا اور ہم بڑی سڑک‬
‫پر آگئے۔تقریبا ً ایک گھنٹے کی ڈرائیور کے بعد ہم ایک‬
‫گاؤں پہنچ گئے۔ گاؤں کیا تھا چند کچے گھر بنے‬
‫ہوئے تھے رات کی تاریکی میں گاڑی میں ہیڈ الئٹ‬
‫میں جو کچھ نظر آتا میں اس کی روشنی میں دیکھتا‬
‫جا رہا تھا۔ اس کے بعد اچانک کھنڈرات شروع ہوگئے۔‬
‫شاید کبھی یہاں شہر آباد ہوگا کیونکہ کھنڈرات کافی‬
‫وسیع رقبے پر پھیلے ہوئے تھے۔ ہم کھنڈرات کے‬
‫درمیان کچے راستوں پر چلتے رہے۔ محمد شریف‬
‫مجھے باقاعدہ راستہ سمجھا رہا تھا۔ اسکی آنکھیں‬
‫مسلسل بندتھیں۔‬

‫’’بس یہاں گاڑی روک دیجئے‘‘ ایک بڑی عمارت کے‬


‫کھنڈر کے پاس پہنچ کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔‬
‫میں نے بریک پر پاؤں رکھ دیا۔ گاڑی ایک بلند و باال‬
‫عمارت کے کھنڈر کے پاس رک گئی۔ کبھی یہ عمارت‬
‫واقعی شاندارہوگی لیکن رات کے اندھیرے میں اس‬
‫کے مہیب کھنڈر بے حد ڈرؤانے لگ رہے تھے۔‬
‫عمارت کا بیرونی گیٹ سالخوردہ لکڑی کا تھا جو‬
‫امتداد زمانہ کے ہاتھوں بری طرح ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔‬
‫میں نے گاڑی کی الئٹ جلتی رہنے دی۔ محمد شریف‬
‫نے اپنے تھیلے سے وہ چھوٹی االئچی کے دانے‬
‫نکال کرایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے منہ میں رکھ‬
‫لیا۔‬
‫’خان بھائی! اسے منہ میں رکھ لیجئے چبائے گا‬
‫نہیں‘‘ اس نے مجھے ہدایت کی اور نیچے اترنے کے‬
‫لیے کہا اور تھیلے سے ایک طاقتور اور بہت بڑی‬
‫ٹارچ نکال کر جاللی۔‬
‫’’اسے مضبوطی سے تھام لیجئے کسی صورت یہ آپ‬
‫کے ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔‘‘ اس نے ٹارچ میری‬
‫طرف بڑھائی۔ میں نے اسے پکڑلیا۔ ہم گاڑی سے نکل‬
‫آئے۔ میں نے اسے الک کر دیا۔ محمد شریف نے بسم‬
‫ہللا الرحمن الرحیم پڑھ کر اندر کی طرف قدم بڑھاتے‬
‫ہوئے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔‬
‫’’خان بھائی! کیا آپ کو سورۃ الناس زبانی یاد ہے؟‘‘‬
‫اس نے پوچھا۔‬
‫’’ہاں مجھے آخری سپارے کی کافی سارے صورتیں‬
‫یاد ہیں‘‘ میں نے بتایا۔‬

‫’’الحمد ہللا۔ اس کا ورد شروع کر دیئے اور بولیئے گا‬


‫نہیں‘‘ اس نے دوسری ہدایت دی۔ میں نے اس کی‬
‫ہدایت کے مطابق عمل کیا۔ دل زور زور سے دھڑک‬
‫رہا تھا۔ میں دل ہی دل میں اپنے معبود برحق سے‬
‫صائمہ کی خیریت اور اپنی کامیابی کی دعا مانگ رہا‬
‫تھا ۔ جیسے ہی ہم ٹوٹا ہوا پھاٹک پار کرکے اندر‬
‫پہنچے۔ تیز آندھی چلنا شروع ہوگئی مٹی اور‬
‫گردوغبار سے کچھ نظر آنا مشکل ہوگیا۔ ہماری‬
‫آنکھوں میں مٹی گھس گئی تھی۔ میں نے جلدی سے‬
‫آنکھیں بند کر لیں۔ ہوا کے تیز جھکڑ ہمیں ساتھ‬
‫اڑانے کی کوشش میں تھے۔ آندھی اس قدر تیز تھی‬
‫کہ قدم اکھڑتے محسوس ہو رہے تھے۔ محمد شریف‬
‫نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔‬
‫ہمارے کپڑے ہوا میں اڑنے لگے۔ جیسے ہی پڑھنے‬
‫کے لیے منہ کھولتا اس میں مٹی بھر جاتی۔ آخرمیں‬
‫نے ہونٹ سختی سے بھینچ کر دل ہی دل میں پڑھنا‬
‫شروع کر دیا۔ہوا کی شور سے کان پڑی آواز نہ سنائی‬
‫دے رہی تھی۔ پھر یکدم جیسے آندھی شروع ہوئی‬
‫تھی ختم ہوگئی۔ گردوغبار بیٹھ گیا اور فضا صاف‬
‫ہوگئی۔ میں نے تھوک کر منہ میں آئی مٹی کو نکاال‬
‫اور قمیص کے دامن سے منہ کو اچھی طرح صاف‬
‫کرلیا۔ محمد شریف نے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھاما‬
‫ہو اتھا۔ اچانک سارا کھنڈر تیز سرخ روشنی میں نہا‬
‫گیا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے قریب ہی کہیں آگ لگی‬
‫ہو۔ہم ایک وسیع دالن میں کھڑے تھے۔ سامنے کی‬
‫طرف ملبے کے بڑے بڑے ڈھیر تھے۔ آدھی آدھی‬
‫دیواریں نظر آرہی تھیں۔ کبھی یہ کمرے رہے ہوں گے‬
‫اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے تھے۔ میں ابھی‬
‫گردوپیش کا منظر دیکھ ہی رہا تھاکہ محمد شریف نے‬
‫میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف دوڑ لگا دی۔ میں اپنے‬
‫خیال میں تھا جھٹکاکھا کر اسکے پیچھے گھسٹتا چال‬
‫گیا۔ اچانک میری نظر مٹی کے ان تو دوں پر پڑی جو‬
‫سامنے کسی ٹیلے کی طرح نظر آرہے تھے۔ تودے‬
‫تیزی سے ہماری طرف لڑھک رہے تھے۔ اگر ایک‬
‫لمحے کی تاخیر ہو جاتی تو ہم دونوں ان تودوں کے‬
‫نیچے کچلے جاتے۔ خوفناک آوازیں نکالتے تو دے ہم‬
‫سے چند گز کے فاصلے پر گزر گئے۔ محمد شریف‬
‫مسلسل کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں نے بھی سورۃ الناس کا‬
‫وردجاری رکھا۔‬
‫’بھاگ جاؤ۔۔۔اسی وقت یہاں سے بھاگ جاؤ ورنہ‬
‫تمہاری جان کی خیر نہیں‘‘ اچانک ایک گرجدار آواز‬
‫گونجی۔اس کی گرج سے کانوں کے پردے پھٹتے‬
‫محسوس ہوئے۔ آواز اتنی بلندا ور خوفناک تھی کہ دل‬
‫دہل رہا تھا۔ محمد شریف کسی بات کی پرواہ کیے بغیر‬
‫میرا ہاتھ پکڑے مجھے اپنے پیچھے گھسیٹ رہا تھا۔‬
‫اگر وہ میرے ساتھ نہ ہوتا تو میرے لئے آگے بڑھنا‬
‫ممکن نہ تھا۔ وسیع داالن پار کرکے ہم ایک ٹوٹے‬
‫ہوئے کمرے میں داخل ہوگئے۔ اس کمرے کی چھت‬
‫سالمت تھی۔ اندر ملگجا اندھیرا تھا۔ اچانک بہت سے‬
‫چمگاڈریں ہم پر حملہ آور ہوئیں۔اندھیرے میں ان کی‬
‫آنکھیں ننھے ننھے جگنوؤں کی طرح چمک رہی‬
‫تھیں۔ ان کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ اتنی زور دار تھی‬
‫کہ میں لرز گیا۔‬

‫محمد شریف نے کچھ پڑھ کر انکی طرف پھونک دیا۔‬


‫وہ ہمارے سروں پر منڈالنے لگیں۔ بال شبہ ان کی‬
‫تعداد سینکڑوں میں تھی۔ کمرے کا فرش ان کی بیٹوں‬
‫سے بھرا ہوا تھا۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ فرش ہی بیٹوں‬
‫کا بنا ہوا تھا تو بے جا نہ ہوگا۔ کمرے میں ایسی بو‬
‫پھیلی ہوئی تھی جو پرانی عمارتوں میں ہوتی ہے۔ ہر‬
‫طرف دھول جمی ہوئی تھی۔‬

‫محمد شریف نے کچھ پڑھ کر پھونکا کمرے میں‬


‫دودھیا روشنی پھیل گئی۔ سامنے والی دیوار میں ایک‬
‫دروازہ بنا ہوا تھا جس کاایک پٹ بند تھا جبکہ دوسرا‬
‫ٹوٹ کر جھول رہا تھا۔ محمد شریف میرا ہاتھ تھامے‬
‫اس کے نزدیک پہنچ گیا۔کمرے کے دروازے پر مکڑی‬
‫نے اتنے جالے بن رکھے تھے کہ گمان ہوتا جیسے‬
‫دروازے پر مہین ململ کا پردہ پڑا ہو اہے۔‬
‫شریف ایک ہاتھ سے جالے ہٹاتا میرا ہاتھ تھامے اندر‬
‫داخل ہوگیا۔ دوسری جانب ایک طویل راہداری تھی۔‬
‫یہاں بھی جا بجا چھت سے جالے لٹک رہے تھے جو‬
‫چلنے سے ہمارے چہرے پر لگتے ہم ایک دوسرے کا‬
‫ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے جالے ہٹاتے اندر‬
‫بڑھتے گئے۔ شیطان کی آنت کی طرح طویل راہداری‬
‫ختم ہو نے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔‬

‫یہاں سکوت مرگ طاری تھا۔ اس گرجدار آواز کے بعد‬


‫ہر طرف خاموشی چھا گئی تھی۔ بلکہ اب تو ایسی‬
‫خاموشی طاری تھی جیسے دنیا ختم ہوگئی ہو۔ آگے جا‬
‫کر اندھیرا گہرا ہوگیا۔ محمد شریف نے دوبارہ وہی‬
‫عمل دہرایا جس سے ایک بار پھر دودھیا روشنی پھیل‬
‫گئی۔ وہ میرا تھامے آگے بڑھتا رہا۔ زمین پرگرد کی‬
‫تہیں اور پرندوں کی بیٹیں جمی ہوئی تھیں۔ہمارے‬
‫چلنے سے مٹی اڑ کر منہ میں آرہی تھی۔ راہداری گرد‬
‫سے بھر گئی۔ اچانک مجھے کھانسی محسوس ہوئی‬
‫کھانسنے کی وجہ سے میرا دم ٹوٹ گیا۔‬
‫اچانک میرے پیر جلنا شروع ہوگئے جیسے میں تپتے‬
‫ہوئے توے پر چل رہا ہوں۔ اذیت کے باعث میرے منہ‬
‫سے چیخ نکل گئی۔ میں تڑپ کر رہ گیا۔ پاؤں زمین پر‬
‫رکھنا محال تھا۔ ایک پاؤں اٹھاتا تو دوسرا جلنے لگتا‬
‫پہال پاؤں رکھ کر دوسرا اٹھاتا تو وہ جلنے لگتا۔‬
‫تکلیف سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔‬
‫محمد ۔۔۔شریف‘‘ میں نے اذیت سے پکارا۔ اس نے‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھا اور جلدی سے تھیلے میں ہاتھ‬
‫ڈال کر ایک بوتل نکالی اور اس کا ڈھکن کھول کر‬
‫کوئی سیال سی شے کے چند قطرے زمین پر گرا دیے۔‬
‫اچانک زمین ٹھنڈی ہوگئی۔ لیکن اتنی دیر میں میرے‬
‫تلوے بری طرح جل چکے تھے۔ میں لنگڑاتا ہوا اس‬
‫کے پیچھے چل پڑا۔‬

‫بڑی مشکل سے اپنا ورد جاری رکھے ہوئے تھا۔‬


‫تکلیف سے میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں۔‬
‫آکر کار راہداری کا اختتام ایک دروازہ پر ہوا۔ یہ پہال‬
‫دروازہ تھا جو صحیح سالمت اور بند تھا۔ محمد شریف‬
‫نے اس کے سامنے پہنچ کر میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور‬
‫تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک تسبیح نکالی اور میرے‬
‫گلے میں ڈال دی۔ پھر ایک اور تسبیح نکال کر‬
‫دروازے پر بنے ایک کیل پر ٹانگ دی۔ یہ پرانے‬
‫زمانے کا دروازہ تھا جس پر نقش و نگار کے ساتھ‬
‫کچھ موٹے موٹے ابھرے ہوئے کیل بھی تھے۔ اس‬
‫کے بعد اس نے وہی بوتل نکالی اور اشارے سے‬
‫مجھے بوتل منہ سے لگا کر پینے کو کہا۔ میں نے‬
‫ڈھکن کھول کر ایک گھونٹ برا اور بوتل اسے پکڑا‬
‫دی۔ اس نے دائیں ہاتھ کا چلو بنا کر اس میں چند‬
‫قطرے ڈالے اور انہیں دروازے پر چھڑک دیا۔‬

‫’چز ززززززز‘‘ کی آواز اائی جیسے پانی جلتے توے‬


‫پر پڑا ہو۔‬
‫’’ہا ۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ دل دہال دینے والے خوفناک قہقہے لگنے‬
‫شروع ہوگئے ۔ آواز اتنی بلند تھی کہ گھبرا کر میں‬
‫نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ دیے۔ کافی دیر‬
‫قہقہے جاری رہے۔ لگتا تھا کانوں کے پردے پھٹ‬
‫جائیں گے۔ میں نے پورے زور سے اپنی دونوں‬
‫شہادت کی انگلیاں کانوں میں ٹھونس لیں۔ محمد‬
‫شریف ہر چیز سے بے نیاز کچھ پڑھنے میں مصروف‬
‫تھا۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اسے بھی‬
‫قہقہوں کی بازگشت سانئی دے رہی تھی یا نہیں۔ لیکن‬
‫وہ اطمینان سے اپنے عمل میں مصروف تھا۔ اچانک‬
‫قہقہے لگنے بند ہوگئے اور ایک بار پھر سکوت چھا‬
‫گیا۔ اتنی گہری خاموشی تھی اگر سوئی بھی زمین پر‬
‫گرتی تو اس کی آواز واضح سنائی دیتی۔ اچانک‬
‫دلخراش چیخ نے سکوت کو درہم برہم کر دیا۔ چیخ‬
‫صائمہ کی تھی۔۔۔کرب و اذیت سے بھری چیخ سن کر‬
‫میں میرا کلیجہ حلق میں آگیا۔‬

‫’’فاروق! مجھے بچاؤ۔۔۔ان درندوں سے مجھے بچاؤ‘‘‬


‫صائمہ کی اذیت بھری چیخیں سن کر میں لرز گیا۔‬
‫قریب تھا کہ دیوانہ وار آواز کی سمت بھاگ اٹھتا محمد‬
‫شریف نے اشارے سے مجھے منع کیا۔ چیخیں مسلسل‬
‫آرہی تھیں۔ میں نے بے چینی سے محمد شریف کی‬
‫طرف دیکھا۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے‬
‫خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔‬
‫’’فاروق! مجھے ان ظالم‪،‬وں سے بچاؤ۔۔۔فاروق!‬
‫مجھے ان درندوں سے بچاؤ یہ میری عزت لوٹنا‬
‫چاہتے ہیں اگر تم نے میری مدد نہ کی تو میں‬
‫خودکشی کر لوں گی‘‘ صائمہ مسلسل چیخ چیخ کر‬
‫مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔‬

‫میں بار بار محمد شریف کی طرف دیکھتا لیکن اس‬


‫نے مسلسل انگلی ہونٹوں پر رکھی ہوئی تھی۔ وہ کچھ‬
‫پڑھ رہا تھا۔ صائمہ کی چیخیں میرے صبر کا امتحان‬
‫لے رہی تھیں۔ میرا دل چاہا سب کچھ چھوڑ کر اس کی‬
‫مدد کے لیے بھاگ پڑوں۔ دل پر پتھر رکھے کھڑا رہا۔‬
‫صائمہ مسلسل میری منتیں کر رہی تھی۔‬

‫’’فاروق ! اگر تم میری مدد کے لیے نہ آئے تو سچ‬


‫کہہ رہی ہوں میں اپنی جان دے دوں گی۔ ان بدبختوں‬
‫نے میرے کپڑے اتار دیے ہیں اگر تم نے مجھے ان‬
‫سے نہ بچایا تو مرنے کے بعد بھی میں تمہیں معاف‬
‫نہ کروں گی۔‘‘ صائمہ چیخ رہی تھی۔فریاد کر رہی تھی۔‬
‫آخر کار میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ محمد شریف‬
‫میری کیفیت بھانپ گیا اس نے مضبوطی سے میرا‬
‫ہاتھ تھام لیا۔ میں نے جھٹکا دے کر ہاتھ چھڑانے کی‬
‫کوشش کی۔ اس نے آنکھیں نکال کر مجھے تنبیہہ کی‬
‫کہ میں اس حرکت سے باز رہوں لیکن صائمہ کی‬
‫پکارنے مجھے دیوانہ کر دیا تھامیں مسلسل زور لگاتا‬
‫رہا۔ محمد شریف نے میری طرف دیکھا اور دروازے‬
‫پر پھونک مار دی۔ اس کے ساتھ ہی چیخیں بند‬
‫ہوگئیں۔‬
‫’’خان بھائی! یہ سب دھوکہ ہے‪ ،‬یہ آواز صائمہ بہن‬
‫کی نہیں ان کم بختوں کی چال ہے۔ وہ میرا وظیفہ‬
‫خراب کرنا چاہتے تھے تاکہ یہ دروازہ نہ کھل سکے۔‬
‫اگر آپ جانے لگتے تو میں ضرور وظیفہ توڑ کر آپ‬
‫کو روکتا اور یہی وہ بدبخت چاہتے تھے۔ وہ جانتے‬
‫ہیں اگر میں نے پڑھائی مکمل کر لی تو دروازہ کھل‬
‫جائے گا۔یہ دیکھیں‘‘ اس نے دروازے کو دھکیال۔ وہ‬
‫زبردست چرچراہٹ سے کھل گیا۔ محمد شریف نے میرا‬
‫ہاتھ تھاما اور بسم ہللا پڑھ کر اندر قدم رکھ دیا۔ میں‬
‫نے بھی اس کی تقلید کی۔ دروازے کے آگے نہایت‬
‫پیش قیمت حریریں پردہ پڑا ہوا تھا جیسے ہی محمد‬
‫شریف نے پردہ ہٹایا میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ‬
‫گئیں۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ کمرہ‬
‫تھا یا کسی بادشاہ کی پرتعیش خوابگاہ۔ قصے کہانیوں‬
‫میں اس قسم کی خوابگاہوں کا تذکرہ پڑھا تھا۔‬
‫وسیع و عریض خوابگاہ کے بیچوں بیچ ایک بیش‬
‫قیمت لکڑی کی جہازی سائز کی مسہری موجود تھی‬
‫جس کے گرد باریک پردے لٹکے ہوئے تھے۔ نہایت‬
‫مسحور کن خوشبو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ کمرہ‬
‫پوری طرح روشن تھا لیکن روشنی کا مخرج نگاہوں‬
‫سے پوشیدہ تھا۔ میں چاروں طرف آنکھیں پھاڑے‬
‫دیکھ رہا تھا۔ حیرت سے میری زبان گنگ تھی۔ میں‬
‫نے قدم بڑھایا تو جیسے ریشم میں دھنس گیا۔ فرش‬
‫پر نہایت مالئم اور دبیز قالین بچھا ہوا تھا۔ محمدشریف‬
‫نے ہاتھ سے پکڑکر مجھے روک دیا۔ میں نے مسہری‬
‫پر نظر ڈالی۔ ریشمی باریک پردوں کے پیچھے کسی‬
‫کی موجودگی ظاہر ہو رہی تھی۔ محمد شریف نے‬
‫تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک چھڑی نکالی اور اسے‬
‫دائیں ہاتھ میں پکڑ کر چاروں طرف گھمایا۔ وہ مسلسل‬
‫کچھ پڑھ رہا تھا۔ اچانک پردے ایک طرف سرکنا‬
‫شروع ہوگئے۔ اندر کا منظر سامنے آتے ہی میرے‬
‫آنکھیں پھٹ گئیں۔ مسہری پر شہزادوں جیسا لباس‬
‫پہنے سر پر ہیروں کا تاج رکھے پرتاب نیم دراز تھا۔‬
‫وہی پرتاب جسے رادھا نے بسنتی کو النے کا حکم دیا‬
‫تھا اور وہ اپنی جان پر کھیل کر اسے لے آیا تھا۔ اس‬
‫کے ہونٹوں پر بڑی معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ ساتھ‬
‫سونے والی شخصیت پر نظر پڑتے ہی میرے خون‬
‫میں ابال آگیا۔ رگوں میں خون کے بجائے الوا دوڑنے‬
‫لگا۔ اس بدبخت کے پہلو میں صائمہ دراز تھی۔‬
‫اس کے جسم پر بیش قیمت لباس اتنا مہین تھا کہ اس‬
‫کا کندن بدن جھلک رہا تھا۔ محمد شریف نے یکدم‬
‫آنکھیں جھکا لیں۔ قریب تھا کہ میں انجام سے بے‬
‫خبر آگے بڑھ کر اس ملعون کو جان سے مار دیتا۔ اس‬
‫کی آواز آئی۔‬
‫’آہا۔۔۔مہاراج موہن آئے ہیں۔ پدھارئیے‬
‫مہاراج۔۔۔پدھارئیے۔ ہمرے بھاگ‪ ،‬آج تو چیونٹی کے‬
‫گھر نارائن آئے ہیں۔‘‘ وہ چہک کر بوال۔ میرے جسم‬
‫میں چنگاریاں دوڑنے لگیں۔‬

‫’’تو۔۔۔؟ اچھا تو یہ تو تھا حرامزادے۔۔۔! میں سوچتا تھا‬


‫کہ آواز جانی پہچانی لگتی ہے ۔ حرام کے جنے تیری‬
‫اگرکوئی دشمنی تھی بھی تو مجھ سے ۔پھر تو نے‬
‫میری معصوم بیوی کو کیوں اپنے ظلم کا نشانہ بنایا؟‘‘‬
‫میرے منہ سے جھاگ اڑنے لگا۔‬
‫’کل یگ ہے ۔۔۔کل یگ (اندھیر ہے۔۔۔اندھیر) مہاراج!‬
‫میں نے تو کوئی انیائے نہیں کیا۔ تم نے میری پریمیکا‬
‫سے پریم کیا میں نے تمری پتنی سے اس میں انیائے‬
‫کی کیا بات ہے؟ یہ تو سیدھا سادہ سودا ہے۔ تمہیں‬
‫جس شے کی چاہ تھی تم نے لے لی۔ مجھے جس کی‬
‫چاہ تھی میں نے۔ اب تم ہی کہو مہاراج! اس میں کوئی‬
‫انیائے والی بات ہے؟‘‘ اس نے آخری فقرہ محمد‬
‫شریف کی طرف دیکھ کر کہا۔جو آنکھیں جھکائے‬
‫خاموش کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اس نے صائمہ کی‬
‫طرف دوبارہ نگاہ نہ ڈالی تھی۔‬
‫’’تم جو کوئی بھی ہو۔۔۔تم نے غیر شرعی فعل کیا ہے۔‬
‫اگر سالمتی چاہتے ہو تو صائمہ بن کر اس کے خاوند‬
‫تعالی سے اپنے گناہ کی‬
‫ٰ‬ ‫کے حوالے کر دو اور ہللا‬
‫معافی مانگو وہ بڑا غفور الرحیم ہے سب کو معاف کر‬
‫دیتا ہے جن وانس سب کو۔۔۔اب تک جو گناہ تم سے‬
‫سر زد ہوئے ہیں ان کی بخشش کے لئے اس کے‬
‫سامنے جھک جاؤ۔ اسالم قبول کرلو اور ایک ہللا کی‬
‫وحدانیت پر ایمان لے آؤ کہ وہی سب کا معبود برحق‬
‫ہے اور کائنات کا مالک بھی۔ شرک کے اس راستے‬
‫کو جس پر تم شیطان کے حکم کی اطاعت میں چل‬
‫رہے ہو سیدھا تمہیں جہنم میں لے جائے گا۔ کیونکہ‬
‫تعالی جن و انس سے ان کے گناہوں‬ ‫ٰ‬ ‫قیامت کے دن ہللا‬
‫پر باز پرس کرے گا اور جس نے اطاعت قبول کرکے‬
‫تعالی کو اپنا معبود مان لیا۔ حضرت محمد‬
‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک و‬
‫صلی ہللا وسلم کو آخری نبی مان لیا قیامت پر ایمان‬
‫لے آیا وہ نجات پا گیا۔ ورنہ تو انسان و جن سے روز‬
‫محشر ان کے اعمال کا حساب ہونا ہی ہے۔‘‘ محمد‬
‫شریف نے نہایت تحمل سے اسے اسالم کی دعوت دی۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪52‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’بند کر اپنا یہ اپدیش۔۔۔تو نہیں جانتا اس سمے تو کسی‬


‫شکتی کے سامنے کھڑا ہے؟یدی ایک پل میں تو یہاں‬
‫سے باہر نہ گیا تو بھسم ہو جائے گا‘‘پرتاب حلق کے‬
‫بل دھاڑا۔‬
‫ایک لمحے کے لئے محمد شریف کے چہرے پر جالل‬
‫چھا گیا پھر وہ معمول پر آگیا۔ اس نے ایک بار پھر‬
‫اس ملعون کو اسالم کی دعوت دی لیکن جواب میں وہ‬
‫بکواس کرتا ہرا۔ اس نے اسالم کی تعلیمات کا مذاق‬
‫اڑانا شروع کر دیا۔ میں نے دیکھا غصے سے محمد‬
‫شریف کا چہرہ سرخ ہوگیا۔‬

‫’’تو نادان ہے۔۔۔میں نے بہت کوشش کی کہ تو راہ‬


‫راست پر آجائے لیکن تیرے دل پر قفل لگاہوا ہے تو‬
‫ہدایت پانے والوں میں سے نہیں ہے۔‘‘ محمد شریف‬
‫کی قہر بار آواز آئی۔‬

‫’’بڑھ بڑھ کر باتیں نہ کر میں جانتا ہوں تو عام منشوں‬


‫سے ہٹ کر ہے۔ میں تجھے شما کرکے جانے کا اوسر‬
‫دیتا ہوں پرنتو اس ملیچھ کو ساتھ لے جانے کا نہ‬
‫کہنا۔ میں نے مہاراج کالی داس کو وچن دیا ہے کہ اس‬
‫کا بلیدان اوش کالی ماتا کے چرنوں میں ہوگا۔‘‘ پرتاب‬
‫نے حقارت سے کہا۔‬

‫’’تو ایسے نہیں مانے گا‘‘ محمدشریف نے کہا۔‬


‫’’بھائی عبدالودود! میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ لیکن‬
‫اس کی قسمت میں ایمان کی دولت نہیں لکھی۔ اب آپ‬
‫جیسا حکم کریں‘‘ محمد شریف نے پرتاب کو جھڑک‬
‫کر ایک طرف منہ کرکے کہا۔ اچانک عبدالودود ظاہر‬
‫ہوگیا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی‬
‫تھی۔ پرتاب نے چونک کر عبدالودود کو دیکھا اور‬
‫جلدی سے سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ وہ چوکنا دکھائی دے‬
‫رہا تھا حاالنکہ اس سے پہلے وہ بڑی بے پرواہی‬
‫سے نیم دراز تھا۔‬

‫’’بھائی محمد شریف نے آپ کو اسالم کی دعوت دی‬


‫میں بھی آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ شیطان‬
‫کی پیروکاری چھوڑ کر ایک ہللا پر ایمان لے آئیں تاکہ‬
‫آخرت میں آپ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں۔ یہ دنیا‬
‫محض چند روزہ کھیل تماشہ ہے دھوکہ ہے۔ا صل‬
‫زندگی تو آخرت کے بعد شروع ہوگی۔ جہاں ہم سب‬
‫ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ اس لئے میں آپ‬
‫سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ ہماری دعوت پر غور‬
‫فرمائیں۔ اگر آپ کو کچھ مہلت چاہیے تو ہم دینے کے‬
‫لئے تیار ہیں۔اس خاتون کو آزاد دیجئے اور ہماری‬
‫ساتھ ایک نشست اختیار کیجئے۔ امید ہے ہللا کے حکم‬
‫سے ہماری بات آپ کی سمجھ میں آجائے گی‘‘‬
‫عبدالودود نے نہایت تحمل سے اس خبیث کو سمجھایا۔‬
‫پرتاب کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ چھا گئی۔‬
‫’تم مجھے شکتی پورک(طاقتور) جان پڑتے ہو۔ پرنتو‬
‫تمرا یہ بھاشن میری بدھی میں نہیں سماتا۔ منش جاتی‬
‫سے ہمیں کچھ پراپت ہونے واال نہیں۔ ان کی سنگت‬
‫چھوڑ کر میرے متر بن جاؤ پھر دیکھو یہ سنسار‬
‫تمرے واسطے سورگ بن جائے گا۔ ایک سے ایک‬
‫سندر کنیا ہے کالی داس کے آشرم میں۔۔۔دیکھو گے تو‬
‫اپسراؤں(پریوں) کو بھول جاؤ گے۔ میں تمہیں وچن‬
‫دیتا ہوں کہ کچھ سمے بعد یہ سندرنازی بھی تمہیں‬
‫دان کر دوں گا‘‘ پرتاب نے اوباشوں کے سے انداز‬
‫میں صائمہ کی طرف اشارہ کیا۔ اس کے ہونٹوں پر‬
‫خباثت بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔ اس کی بات سن‬
‫کر عبدالودود کا چہرہ طیش سے قندھاری انار جیسا‬
‫ہوگیا۔ اسنے قہر ناک نظروں سے پرتاب کو دیکھا‬
‫جس کے ہونٹوں پر تاؤ دالنے والی مسکراہٹ تھی۔‬
‫’’محمد شریف! آپ گواہ ہیں کہ میں نے بھی اپنا فرض‬
‫ادا کردیا‘‘ اس نے محمد شریف کو مخاطب کیا۔‬
‫’سن مورکھ! تو مجھے ان سے الگ جان پڑتا ہے اس‬
‫کارن میں نے تجھ سے یہ بات کہی۔ پرنتو اس سے‬
‫من میں یہ وچار نہ النا کہ پرتاب تیری شکتی سے ڈر‬
‫گیا ہے‘‘ وہ دوبارہ نیم دراز ہوتے ہوئے بوال۔‬
‫اس خبیث کو صائمہ کے ساتھ دیکھ کر میرے خون‬
‫میں ابال گیا۔ میں مسہری کی پائنتنی کی طرف میرے‬
‫ساتھ محمد شریف جبکہ مسہری کی دوسری جانب‬
‫عبدالودود کھڑا تھا۔ ہم جس دروازے سے اندر داخل‬
‫ہوئے تھے وہ میرے بائیں جانب تھا۔‬

‫’’پریم! میں آگئی ہوں چنتا مت کرنا‘‘ اچانک دروازے‬


‫سے رادھا اندر داخل ہوئی۔ سب نے چونک کر دیکھا۔‬
‫رادھا کی نظر عبدالودود پر پڑی۔ اس نے چونک کر‬
‫اسے دیکھا اور جلدی سے ساڑھی کا آنچل اپنے سرپر‬
‫ڈال لیا۔ جیسا کہ ہماری خواتین کسی بزرگ کو دیکھ‬
‫ہیں ۔آج اس نے لباس بھی اس قسم کا پہن‬
‫کر کرتی َ‬
‫رکھا تھا جس نے اس کے سارے جسم کو ڈھک دیا‬
‫تھا جبکہ اس سے پہلے اس کی ساڑھی مہین اور‬
‫بالوز اتنا مختصر ہوا کرتا جو اس کے جسم کو‬
‫ڈھکنے سے قاصرہوتا۔ ململ کی سارڑھی میں وہ بہت‬
‫مقدس دکھائی دے رہی تھی۔ چہرہ سنگھار سے عاری‬
‫اور گھنی زلفیں چٹیا کی صورت میں بندھی نظر آرہی‬
‫تھی۔پھولوں کا زیور بھی غائب تھا جو اس کی‬
‫حتی کہ اس کے ماتھے‬
‫شخصیت کا الزمی جز ہوا کرتا ٰ‬
‫پر وہ تلک بھی نہ تھا جو ہمیشہ اسکی صبیح پیشانی‬
‫پر چپکا ہوتا۔ وہ بڑے غور سے عبدالودود کو دیکھ‬
‫رہی تھی۔ میں نے دیکھا عبدالودود کی آنکھوں میں‬
‫عجیب سی چمک تھی۔ وہ بھی دلچسپی سے رادھا کی‬
‫جانب دیکھ رہا تھا لیکن اس کی شفاف آنکھوں میں‬
‫کسی قسم کی آلودگی نہیں فقط دلچسپی تھی‬
‫’آہا۔۔۔رادھا دیوی آئی ہیں۔ پدھارئیے دیوی‬
‫جی۔۔۔پدھارئیے آج کیسے داس کی یاد آگئی۔ ہمرے‬
‫بھاگ آپ ہمری کٹیا میں پدھاریں۔ ہم تو بڑے بھاگیہ‬
‫شالی ہیں دیوی جی! آپ نے کیوں کشٹ اٹھایا؟ داس‬
‫کو آگیا دی ہوتی آپ کے چرنوں میں آجاتا۔‘‘ پرتاب‬
‫چہکا۔ کچھ دیر عبدالودودکو دیکھ کر رادھا نے اپنی‬
‫نظریں پرتاب پر مرکوز کر دیں۔ اب دونوں ایک‬
‫دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ یک بیک‬
‫رادھا کا چہرہ تپ گیا۔‬

‫’’مورکھ! تو نے بڑی بھول کی جو رادھا کو کشٹ دیا۔‬


‫کیا تو بھول گیا تھا کہ رادھا کس شکتی کا نام ہے؟‘‘‬
‫اس کی غضبناک آواز کمرے میں گونجی۔ عبدالودود‬
‫آرام سے چلتا ہوا ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس‬
‫کی ہر ادا سے وقار جھلکتا تھا۔ وہ بڑی دلچسپی سے‬
‫دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔‬
‫’’آج تیری سندر تاکا کوئی داؤ پر تاب پر نہ چلے گا۔ ہم‬
‫تجھ سے نراش ہوئے اور اپنا من اس سندرنار کو‬
‫ارپن(دے دیا) کر دیا ہے۔ دیکھو تو یہ سندرتا میں تم‬
‫سے کم نہیں‘‘ پرتاب نے محو خواب صائمہ کی طرف‬
‫اشارہ کیا۔ میری کن پٹیاں تپ گئیں۔ قریب تھا کہ میں‬
‫اس کتے پر جھپٹ پڑتا رادھا کی آواز آئی۔‬

‫’پرتاب ! میں اب بھی تجھے شما کر سکتی ہوں‪ ،‬کیول‬


‫تجھے اتنا کرنا ہوگا کہ اس سندرناری کو اس کے پتی‬
‫کے حوالے کر دے اور دیا کی بھکشا مانگ‪ ،‬مجھے‬
‫وشواس ہے موہن تیرے اپرادھ کو بھول کر تجھے‬
‫شما کر دے گا‪ ،‬یدی سے سمے تیرے ہاتھ سے نکل‬
‫گیا تو تو جیون بھکشا مانگے گا بھی تو نہ ملے گی۔‬
‫میں تجھے ایک اور سر دیتی ہوں کہ میری بات مان‬
‫لے اور وہ بھی اس کارن کے تونے میری بڑی سیوا‬
‫کی ہے‘‘ رادھا کا لہجہ اتنا سرد تھا کہ پرتاب کے‬
‫چہرے پر ایک رنگ آکر گزر گیا۔ کچھ دیر بعد وہ‬
‫سنبھل کر بوال۔‬

‫’’سمے تو کب کا بیت گیا رادھا۔۔۔! یاد ہے میں نے‬


‫تیرے چرنوں میں سر رکھ کر تجھ سے پریم کی‬
‫بھکشا مانگی تھی۔ پرنتو تو نے اس پلید مسلے کے‬
‫کارن میری بنتی کو سوئیکار نہ کیا۔۔۔یاد ہے نا؟‘‘‬
‫پرتاب غصے سے بل کھا کر رہ گیا۔ اس کے انداز میں‬
‫چوکنا پن تھا وہ کبھی رادھا کو دیکھتا کبھی عبدالودود‬
‫کو۔‬

‫’’ٹھیک ہے۔۔۔اب اپنے مہاگرو اس دھشٹ کالی داس کو‬


‫بال کہ وہ تجھے میرے شراپ سے بچائے۔ آواج دے‬
‫کسی اور شکتی کو۔۔۔رادھا تجھے اس سنسار سے‬
‫پرلوک بھیجنے کے کارن آئی ہے۔ میں نے تیری تپسیا‬
‫کے کارن تجھے ایک اور سردیا تھا پرنتو تو مورکھ‬
‫ہے‘‘ رادھا غضبناک ہوگئی۔‬
‫اس کے ساتھ ہی اس نے چھت کی طرف دیکھ کر‬
‫کسی اجنبی زبان میں کچھ کہا۔ میرا خیال تھا کہ ابھی‬
‫چھت سے آگ کا گولہ گرے گا اور پرتاب کو جال کر‬
‫خاکستر کر دے گا۔ فکر مجھے صائمہ تھی کہیں وہ‬
‫بھی آگ کی زد میں نہ آجائے۔ اس سے پہلے کہ میں‬
‫کچھ کہتا کمرے کے ایک کونے سے بسنتی کی مکروہ‬
‫ہنسی سنائی دی۔‬
‫’’کھی۔۔۔کھی۔۔۔کھی‪ ،‬دیوی جی! ہم بھی کسی کارن یہاں‬
‫بیٹھک لگائے بیٹھے ہیں کیا تیری شکتی نے تجھے‬
‫ہمرے بارے جانکاری نہیں دی؟‘‘ اس کی کھرکھراتی‬
‫آواز آئی۔ ساتھ ہی اس کا گندہ وجود ظاہر ہوگیا۔ رادھا‬
‫نے چونک کراسکی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں‬
‫شعلے بھڑک اٹھے۔‬

‫بسنتی اپنے گندے وجود کو گھسیٹتی مسہری کے‬


‫قریب آگئی جس سے بدبو کے بھبھکے اٹھ رہے تھے۔‬
‫’’تو۔۔۔؟ تو رادھا کی شکتی کے آڑے آئے گی؟‘‘ رادھا‬
‫نے زہر خند سے کہا ۔ اسکے ہونٹوں پر حقارت بھری‬
‫مسکراہٹ چھا گئی تھی۔ اس نے ایک بار پھر منہ ہی‬
‫منہ کچھ پڑھا اور چھت کی طرف دیکھ کر کسی کو‬
‫پکارا۔ اس سے پہلے کہ گوال چھت سے بسنتی پر گرتا‬
‫بسنتی چالئی۔‬

‫’’مہاراج! یہ کلنکی آگئی ہے اپنے وچن کے انوسار‬


‫میری سہائتا کرو‘‘ اچانک کمرے کے ایک کونے سے‬
‫چنگھاڑ سنائی دی۔‬

‫میں اور محمد شریف بری طرح اچھل پڑے۔ دیکھا تو‬
‫ایک دیونما شخص جس کا سر چھت سے لگ رہا تھا‬
‫اور جسم کسی پہاڑ کی طرح تھا ایک طرف سے‬
‫نمودار ہوا اور چنگھاڑتا ہوا رادھا کی طرف بڑھا۔ اس‬
‫کے جسم پر ریچھ کی طرح بال تھے۔ یوں لگ رہا‬
‫جیسے بالوں سے بھرا ہوا گوشت کا پہاڑ لڑھک رہا‬
‫ہو۔ا س نے اپنا پاؤں اٹھا کر دھم سے زمین پر رکھا‬
‫جس سے بڑی بھیانک آواز خارج ہوئی۔ اس کے جسم‬
‫پر فقط ایک لنگوٹی تھی۔ کمرے کی چھت لگ بھگ‬
‫پچاس فٹ بلند ہوگئی۔ وہ پہاڑ اس میں سر جھکائے‬
‫چل رہا تھا۔ رادھا نے ایک نگاہ غلط اس پر ڈالی اس‬
‫کے ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ دوڑ گئی۔ اس نے‬
‫گوشت کے اس پہاڑکو دیکھا‪ ،‬اچانک اسکی آنکھوں‬
‫سے سرخ روشنی کی دھار نکل کر اس پر دیو پر پڑی‬
‫اور ایک لمحے میں اسے جال کر دھویں میں تبدیل‬
‫کردیا۔ دھواں چکراتا ہوا چھت کے پاس جا کر غائب‬
‫ہوگیا۔ میں جو اس دیو کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا رادھا‬
‫نے بڑی آسانی سے اسے ختم کر دیا۔ عبدالودود جو‬
‫بڑی دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اسکے چہرے‬
‫پر رادھا کے لئے تحسین کے تاثرات ابھر آئے۔ بسنتی‬
‫نے اپنے مددگار کا یہ حشر دیکھا تو فوراً غائب‬
‫ہوگئی۔‬
‫’چمارو‘‘ رادھا غضبناک ہو کر گرجی۔‬

‫’’جی دیوی جی!‘‘فورا! چمارو کی آواز آئی۔‬


‫’بسنتی کو الؤ‘‘ رادھا نے اسے حکم دیا۔ تھوڑی دیر‬
‫بعد ایک دھماکے کے آواز آئی اور کسی نے بسنتی کو‬
‫زمین پر پھینک دیا۔ وہ درد سے بلبال اٹھی۔ ابھی وہ‬
‫کھڑی بھی نہ ہو پائی تھی کہ رادھا نے چھت کی طرف‬
‫دیکھا۔ آگ کا گولہ نمودار ہو کر بسنتی کے سر پر گرا۔‬
‫اس کے منہ سے ایسی دلخراش چیخ برآمد ہوئی جس‬
‫سے دل دہل جائیں۔ پل کے پل آگ کے گولے نے اسے‬
‫جال کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔‬
‫’’پاپن۔۔۔رادھا کی شکتی کو نشٹ کرنے چلی تھی‘‘‬
‫رادھا نے نیچے تھوک دیا۔’اب کیا وچارہیں تیرے؟‘‘‬
‫غیض و غضب میں بھری رادھا نے پرتاب سے کہا‬
‫جسکے چہرے سے پریشانی جھلک رہی تھی۔بسنتی کا‬
‫حشر دیکھ کر وہ خوفزدہ نظر آنے لگا۔‬

‫’’کالی داس کا شراپ تجھے بھسم کر دے گا‘‘ اس نے‬


‫ڈرے ڈرے لہجے میں کہا۔ اچانک کمرے میں گھپ‬
‫اندھیرا چھا گیا لیکن سکینڈ کے ہزاویں حصے میں‬
‫دوبارہ روشنی ہوگئی۔‬
‫’’کیا بالکوں جیسے چمتکار دکھا رہا ہے؟ کوئی ایسا‬
‫کام دکھا کر رادھا کو تجھے اپنا سیوک کہنے پر الج‬
‫نہ آئے۔‘‘ رادھا نے اس کا تمسخر اڑایا۔‬

‫’’رادھا! ہمرادھرم ایک ہے۔ ہمرے بیچ یدھ اچھی نہیں۔‬


‫تو ان مسلوں کے کارن اپنے ہی دھرم کے ایک بچاری‬
‫کو نشٹ کرنے کا وچار من میں ال رہی ہے ‪ ،‬کیا‬
‫تجھے الج نہیں آتی؟ تو نے ایک مسلے سنگ اپنے‬
‫شریر کا سمبندھ جوڑا‪ ،‬میں نے کتنا کہا تجھے یہ‬
‫شوبھا(زیب) نہیں دیتا تو دوجے دھرم کے منش سنگ‬
‫ایسا سمبندھ رکھے۔ پرنتو تو نے میری ایک نہ مانی۔‬
‫یدی تو منش جاتی سنگ ایسا سمبندھ رکھ سکتی ہے‬
‫تو میں کیوں نہیں؟‘‘ پرتاب نے بڑی ڈھٹائی سے کہا۔‬
‫میرا سر بے اختیار شرم سے جھک گیا۔ محمد شریف‬
‫کیا سوچتاہوگا کہ میں کیسا آدمی ہوں؟ میں نے دیکھا‬
‫رادھا بھی شرمساردکھائی دے رہی تھی۔ اسنے بڑے‬
‫ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔‬
‫’ہاں۔۔۔مجھ سے بھول ہوئی۔ میں نے پوتر پریم کوپلید‬
‫کیا۔پرنتو اب میری آنکھیں کھل چکی ہیں اس مہاپرش‬
‫نے‘‘ اسنے میری طرف اشارہ کیا۔‬

‫’’اپدیش دے کر میری آنکھیں کھول دیں۔ اس نے کہا‬


‫تھا ہم دونوں کے بیچ جو سمبندھ ہے وہ اس کے‬
‫دھرم کی شکشا(مذہب کی تعلیمات) کے انوسار ٹھیک‬
‫نہ ہے۔ اس دن سے میں نے من میں ٹھان لیا میں‬
‫دوبارہ اس سے ایسا سمبندھ نہیں رکھوں گی۔ ہاں میں‬
‫اس سے پریم کرتی رہوں گی۔ پرنتو پریم آتما سنگ‬
‫ہوگا شریر سنگ نہیں۔ جب اسنے مجھے اپدیش‬
‫دیامجھے بڑی الج آئی۔ میں واقعی اس کے پریم میں‬
‫پاگل ہوگئی تھی۔ یدی پریم تو دو آتماؤں(روحوں) کا‬
‫بندھن ہے‪ ،‬شریرکا نہیں۔‘‘ رادھا نے یہ کہہ کر ہم سب‬
‫کو حیران کردیا۔ اسکی نظریں زمین میں گڑی ہوئی‬
‫تھیں۔ چہرے سے شرمندگی کا اظہارہو رہا تھا‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪53‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫’رادھا۔۔۔میں تجھے اب بھی شما کر سکتا ہوں پرنتو‬


‫تجھے وچن دینا ہوگاکہ تو اس مسلے سنگ کوئی‬
‫سمبندھ نہ رکھے گی‘‘ پرتاب نے اپنی سی کوشش کی۔‬
‫اسکا چہرہ اس کے قول کا ساتھ نہ دے رہا تھا۔‬
‫’پاپی! تو مجھے شکشا دے گا؟‘‘ رادھا اس پر قہر‬
‫بھری نگاہ ڈال کر گر جی۔ پھر اسکے ہونٹ تیزی سے‬
‫ہلنے لگے۔ عبدالودود اطمینان سے کرسی پر بیٹھا‬
‫جھول رہاتھا۔ اسکے پرکشش چہرے پر سکون تھا۔‬
‫رادھا نے کچھ پڑھا اور بیڈ کی طرف منہ کرکے‬
‫پھونک دیا۔ اچانک پرتاب ہوا میں معلق ہوگیا۔ اس کے‬
‫منہ سے ڈری ڈری آوازیں نکل رہی تھیں۔‬

‫’’را۔۔۔را۔۔۔رادھا۔۔۔دو۔۔۔دیوی جی! مجھے شماکردے‘‘‬


‫چھت کے پاس جا کر اسکا جسم رک گیا۔ میں جانتا تھا‬
‫اب کیا ہوگا۔ اسی طرح رادھانے سادھو امرکمار کے‬
‫سانڈنما چیلے رام داس کو چھت تک پہنچا کر زمین پر‬
‫پٹخ دیا تھا۔ رادھا کی نظریں پرتاب کے جسم کا احاطہ‬
‫کیے ہوئے تھیں۔ اس کمینے کا انجام قریب تھا۔ کوئی‬
‫لمحہ جاتا تھاکہ وہ ایک دھماکے سے فرش سے ٹکرا‬
‫کر ہمیشہ کے لئے جہنم واصل ہوجاتا۔ اچانک‬
‫عبدالودودبرق کے کوندے کی طرح رادھا کی طرف‬
‫بڑھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے دھکا دیا۔ رادھا کی‬
‫پوری توجہ پرتاب پر تھی اس دھکے سے اڑتی ہوئی‬
‫دیوار سے جا ٹکرائی۔ میری اور محمد شریف کی‬
‫آنکھیں پھٹ گئیں۔ عبدالودودنے یہ کیا کیا؟ لیکن‬
‫دوسرے ہی لمحے حقیقت ہم پر واضح ہوگئی۔اگر‬
‫عبدالودود ایک لمحے کی تاخیر کرتا تو رادھا جل کر‬
‫راکھ ہو جاتی۔ عین اسی جگہ جہاں رادھا ایک لمحے‬
‫پہلے موجود تھی۔ آگ کاایک شلعہ بلند ہوا اور چھت‬
‫پر جا کر غائب ہوگیا۔‬
‫عبدالودود نے بڑی سرعت سے رادھا کو دھکا دے کر‬
‫اس کی جان بچائی تھی۔ رادھا دیوار سے ٹکراکر فوراً‬
‫اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے ایک نظر چھت کی طرف‬
‫جاتے آگ کے گولے کو دیکھا پھر عبدالودود کو‪،‬‬
‫اسکی آنکھوں میں تشکرتھا۔ پلکیں جھکا کر اس کا‬
‫شکریہ ادا کیا۔ یک بیک اس کی آنکھوں میں شعلے‬
‫بھڑک اٹھے۔ اس نے چھت سے معلق پرتاب پر نظر‬
‫ڈالی اور ہونٹ سکوڑ کر اجنبی آواز میں کچھ کہا۔‬
‫پرتاب توپ سے نکلے گولے کی طرح سر کے بل‬
‫زمین سے ٹکرایا اور اس کا سرپاش پاش ہوگیا۔‬
‫حاالنکہ فرش پر دبیز قالین بچھا ہوا تھا لیکن پرتاب‬
‫کو اس قوت سے پٹخا گیا تھا کہ اسکا سر ایک‬
‫دھماکے سے پھٹ گیا۔‬

‫رادھا کی آنکھوں سے پھر سرخ شعاع نکلی اور‬


‫پرتاب کے جسم نے آگی پکڑ لی۔ دو تین منٹ میں وہاں‬
‫راکھ کے سوا کچھ نہ تھا۔‬

‫’’سبحان ہللا‘‘ بے اختیار عبدالودودکے منہ سے نکال۔‬


‫رادھا نے ایک نظر عبدالودودکو دیکھا پھر اس کی‬
‫تعریف پر شرما کر نگاہیں جھکا لیں۔ بے باک رادھا‬
‫آج ایک گھریلو لڑکی کی طرح شرما رہی تھی۔ دیوار‬
‫سے ٹکرانے سے یقینا ً رادھا کو تکلیف ہوئی ہوگی‬
‫لیکن اس نے ظاہر نہ ہونے دیا۔ پرتاب کے جہنم واصل‬
‫ہونے کے بعد میں تیزی سے صائمہ کی طرف بڑھا۔‬

‫’’رک جاؤ پریم!‘‘ رادھاکی آواز آئی۔ میں نے حیرت‬


‫سے دیکھا۔‬
‫’’ابھی تمرا اسے چھونا ٹھیک نہ ہے۔ کالی داس نے‬
‫جرور کوئی پربند کر رکھا ہوگا۔ کویل ایک پل رک‬
‫جاؤ۔‘‘ اسنے مجھے سمجھایا۔ میں بادل نخواستہ رک‬
‫گیا۔ محمد شریف نظریں جھکائے کسی بت کی مانند‬
‫کھڑا تھا۔ پہلی نظر کے بعد اسنے رادھا کی طرف نہ‬
‫دیکھا تھا۔ حاالنکہ رادھا کا حسن کسی کو بھی اس کی‬
‫طرف متوجہ کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن محمد‬
‫شریف عجب درویش انسان تھا۔ اس عمر میں ایسا‬
‫تقوی میں حیران رہ گیا۔ اچانک باہر کا دروازہ ایک‬
‫ٰ‬
‫دھماکے سے بند ہوگیا۔‬
‫’ہا۔۔۔ہا۔۔۔ہا‘‘ کمرے میں کالی داس کا بھیانک قہقہہ‬
‫گونج اٹھا۔ رادھا نے ایک لمحے کے لیے آنکھیں بند‬
‫کیں۔ اس کے چہرے پر فکر و ترددکے آثار ابھر آئے۔‬
‫عبدالودود بھی چوکنا دکھائی دینے لگا۔‬
‫’’اس منش کو اپنی پتنی کی اور (طرف) جانے سے‬
‫کیوں روک دیا تو نے؟ دیکھ کتنا بیاکل ہورہا ہے؟‘‘‬
‫کالی داس کی مضحکہ خیز آوازآئی۔‬

‫اچانک عبدالودود نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ رادھانے‬


‫چونک کر دیکھا پھر آنکھیں بند کرکے کچھ پڑھنے‬
‫میں مصروف ہوگئی۔ کمرے میں ایک بار پھر اندھیرا‬
‫چھا گیا۔ مجھے صائمہ کی فکر تھی۔ کسی نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑ لیا۔ قریب تھا کہ میں جھٹکے سے اپنا ہاتھ‬
‫چھڑاتا ۔ محمد شریف کی آواز آئی۔‬

‫’’فکر نہ کریں خان بھائی ذکر کریں۔ ذکر کرنے سے‬


‫ہللا کی مدد ہمارے شامل حال ہوگی انشاء ہللا۔‘‘‬

‫میں نے ایک بار پھر آیۃ الکرسی کا ورد شروع کر دیا‬


‫اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر صائمہ کو دیکھنے کی‬
‫کوشش کرنے لگا۔ لیکن اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ ہاتھ‬
‫کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ میرا ہاتھ ابھی تک محمد‬
‫شریف کی گرفت میں تھا۔ پتا نہیں رادھا بھی کمرے‬
‫میں تھی یا چلی گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا اگر وہ ان‬
‫بدبختوں سے شکست کھا گئی تو صائمہ کا کیا بنے‬
‫گا؟‬

‫’’قائر! یہ کیا بالکوں جیسا کھیل کھیل رہا ہے سامنے‬


‫آتو جانوں تو کتنا شکتی مان ہے؟‘‘ رادھا کی آواز‬
‫کمرے میں گونجی۔ رادھاکے بولتے ہی کمرہ روشن‬
‫ہوگیا۔ وہ اپنی جگہ کھڑی چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔‬
‫’وہ سمے دور نہیں جب تو میرے چرنوں میں ہوگی‘‘‬
‫کالی داس کی آواز آئی۔‬

‫’’ایسی آشائیں من میں رکھے جانے کتنے پنڈت‬


‫پجاری پرلوک سدھار گئے۔۔۔تو کیا شے ہے؟‘‘ رادھا‬
‫نے دبنگ لہجے میں کہا۔‬
‫’یدی تو اتنی شکتی مان ہے پھر ان منشوں کو لے کر‬
‫یہاں سے چلی کیوں نہیں جاتی؟‘‘ کالی داس نے ایک‬
‫بار پھر اس کا مضحکہ اڑایا۔‬

‫’’تیرا بلیدان کیے بنا ہی چلی جاؤں؟‘‘ رادھا نے کہا۔‬

‫’’ارے میں تو کب سے ایسے اوسر کی تاک میں تھی‬


‫کہ تو خود میرے چرنوں میں آئے۔ پرنتو تو ہیجڑا بنا‬
‫مجھ سے چھپا پھر رہا تھا۔ ایک ناری سے ڈراڈرا پھر‬
‫رہا تھا۔ تھو ہے تیری قائرتا پر‘‘ رادھا نے حقارت‬
‫سے نیچے تھوک کر دیا۔‬

‫’’جو من میں آئے کہہ ڈال۔۔۔تیرا انتم سنسکار(خاتمہ)‬


‫میں اپنے ہاتھوں سے کروں گا۔ اس ملیچھ سنگ تیرا‬
‫بلیدان بھی کالی کے چرنوں میں ہوگا‘‘ کالی داس‬
‫بھڑک گیا۔‬
‫’’رادھا تیری کالی ماتا اسے اپنا سمبندھ توڑ بیٹھی‬
‫ہے۔ کیول کالی ماتا کیا؟ کوئی دیوی دیوتا اب رادھا کو‬
‫شراپ نہ دے پائے گا۔‘‘ میں رادھا کی بات سن کر‬
‫بری چونک گیا۔‬

‫وہ کیا کہہ رہی تھی؟ ہمیشہ اپنے دیوی دیوتاؤں کے‬
‫گن گانے والی کا یہ کہنا مجھے حیران کر گیا۔ اگر میں‬
‫بھی ان کے بارے میں کچھ کہتا تو وہ برامان جاتی‬
‫لیکن محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔ لیکن اس کے‬
‫چہرے پر ہر بار غصہ چھا جاتا جبکہ آج وہ خود اپنے‬
‫دیوتاؤں کے بارے میں ایسی بات کہہ رہی تھی۔ حیرت‬
‫سے میری عقل گم تھی۔‬

‫’’ہللا اکبر‘‘ کمرے میں عبدالودود کا فلک شگاف نعرہ‬


‫گونجا۔ وہ کمرے میں موجود تھا فقط نظروں سے‬
‫اوجھل ہوا تھا۔ اس کی آواز سن کرمیرا حوصلہ بڑھ‬
‫گیا۔ کمرے میں نور برسنے لگا۔ میں سمجھ رہا تھا وہ‬
‫چال گیا ہے۔ میں نے دیکھا رادھا کے چہرے سے‬
‫الجھن کا اظہار ہو رہا تھا۔ عبدالودود کا چہرہ جوش‬
‫سے تمتما رہا تھا۔ محمد شریف کے ہونٹوں پر خوشی‬
‫سے بھرپور مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔ میں حیرت‬
‫سے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ روشنی کے نورانی ہالے‬
‫نے کمرے کو منور کر دیا۔ کمرہ پہلے بھی روشن تھا‬
‫لیکن اس روشنی میں اور مقدس روشنی میں بڑا فرق‬
‫تھا۔‬
‫’’تو بدھی کھو بیٹھی ہے مورکھ! دیوی دیوتاؤں کا‬
‫اپمان کرکے تو نے اپنے دھرم کو نشٹ کر دیا ہے۔ اب‬
‫تیرا بلیدان کرنا میرا ادھارمک کر یہ (مذہبی فریضہ)‬
‫ہے‘‘ کالی داس حلق کے بل دھاڑا۔‬

‫’کلنکنی ! اس ملیچھ مسلے کے پریم میں تو اپنی‬


‫بدھی کھو بیٹھی ہے۔ تجھے یہ دھیان بھی نہ رہا کہ تو‬
‫کیا اناپ شناپ بکے جارہی ہے۔ اب تجھے دیوتاؤں‬
‫کے شراپ سے کوئی نہ بچا پائے گا۔ ان ملیچھ مسلوں‬
‫سے کہہ یہ اپنے دھرم کے کسی مہاشکتی مان کر‬
‫بالئیں جو تیری رکھشا کا پربند کرے۔ کالی ماتا تجھے‬
‫ایسا شراپ دے گی کہ تو مرتیو مانگے گی پرنتو وہ‬
‫بھی تجھے نہ ملے گی پاپن!‘‘ غیض و غضب میں‬
‫گرجاتا کالی داس ہمیں بھی رگڑ گیا‬
‫میں نے دیکھا عبدالودود کا چہرہ غصے سے سرخ‬
‫ہوگیا۔ لیکن جب وہ بوال تو اس کی آواز میں ٹھہراؤ‬
‫تھا۔‬
‫’کالی داس! مذہب کوئی بھی ہو اسکے پیروکاروں کو‬
‫یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے مذہب یا اس‬
‫مذہب کے ماننے والوں کی شان میں گستاخی کریں۔ تم‬
‫نے ایک طویل عرصہ اپنے مذہب کی عبادت و ریاضت‬
‫میں گزارا ہے۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ‬
‫تمہیں عقل نہ آئی۔ علم تو انسان کی فراست کو بڑھاتا‬
‫ہے لیکن تم نے اس قسم کی باتیں کرکے یہ ثابت کیا‬
‫ہے کہ تمہارا علم ادھورا اورناقص ہے۔ شاید تم نے‬
‫اپنے مذہب کی تعلیمات کا صحیح طور پر مطالعہ نہیں‬
‫کیا۔ کوئی بھی مذہب انسان کو بدکاری اور ظلم و ستم‬
‫نہیں سکھاتا۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نے ایک‬
‫معمولی جن زاد ے سے ایک نہایت قبیح فعل‬
‫کروایا۔۔۔تم نے ایک نامحرم بے قصور کو بالوجہ‬
‫پریشن کیا۔ ہمارے مذہب میں اس کی باقاعدہ سزا مقرر‬
‫ہے۔ لیکن میں چاہتاہوں کہ تم کچھ دیر ہم سے نشست‬
‫اختیار کرو تاکہ ہم بیٹھ کر شریفانہ انداز سے گفتگو‬
‫کر سکیں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ اس‬
‫محترم خاتون کو اپنے جادو سے آزاد کرکے عظمت کا‬
‫ثبوت دو۔ میں تمہیں اسالم کی دعوت دیتا ہوں کہ یہی‬
‫ایک سچا مذہب ہے۔ ایک ہللا کی عبادت کرو۔ کسی کو‬
‫اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ اسکے بھیجے ہوئے‬
‫پیغمبروں اور قیامت پر ایمان لے آؤ تاکہ شیطان کے‬
‫دھوکے سے بچ کر صراط مستقیم پر چل سکو جو‬
‫سیدھا اور سچا راستہ ہے۔ بھالئی کا یہ راستہ جن و‬
‫انس کو ہمیشہ کے لئے جنت میں لے جائے گا۔ ورنہ‬
‫تو اس جبار وقہار ہللا نے بڑا ہی دردناک عذاب تیار کر‬
‫رکھا ہے جس میں ان سرکشوں کو ڈاال جائے گا جو‬
‫اسکی نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘ عبدالودود کی گھمبیر آواز‬
‫براہ راست دل پر اثر کر رہی تھی۔ میں تو خیر الحمد‬
‫ہلل مسلمان ہوں لیکن میں نے دیکھا رادھا کی حسین‬
‫آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ بڑے بڑے جذب‬
‫کے عالم میں آنکھیں بند کیے عبدالودود کے ذریعے‬
‫ہللا کا پیغام سن رہی تھی۔‬
‫ندامت اور شرمندگی نے اس کے چہرے کو وہ تقدس‬
‫بخشا جس کا اظہار الفاظ میں ممکن نہیں۔‬
‫’’تیرا اپدیش کھتم ہوگیا یا ابھی باقی ہے؟‘‘ کالی داس‬
‫کا لہجہ طنزیہ تھا۔‬

‫’’میں نے ہللا کا پیغام تم تک پہنچا دیا ہے جو میرے‬


‫ذمے فرض تھا‘‘ عبدالودود نے تحمل جواب دیا۔‬

‫’’میں پوچھ رہا ہوں تیرا بھاشن کھتم ہوگیا یا ابھی‬


‫باقی ہے؟‘‘ کالی داس کی بیزارسی آواز آئی۔‬

‫’’تو نہیں جانتا کہ تو اس سمے کس شکتی سنگ بات‬


‫کر رہا ہے۔ یدی تو جان لے تو ابھی میرے چرنوں میں‬
‫سر رکھ کے دیا کی بھکشا مانگے گا۔‘‘ وہ متکبر بڑی‬
‫حقات سے بوال۔’’رہی بات اس کلٹا کی تو میں اسی‬
‫سمے اسے نرکھ میں پہنچا سکتا ہوں پرتنو میں نے‬
‫کالی ماتاکو وچن دیا ہے کہ اس کا اور اس کے پریمی‬
‫کا بلیدان اس کے چرنوں میں اوش ہوگا‘‘ کالی داس‬
‫نے اپنی بکواس جاری رکھی۔‬
‫’’تھوڑا سمے اور جاتا ہے کہ تم سب جان جاؤ گے کہ‬
‫کالی داس سے یدھ کرنا بالکو کا کھیل نہیں۔ میرے‬
‫چیلے پرتاب نے تجھے ایک اوسر دیا تھا کہ تو اس کا‬
‫متر بن جا پرنتو جان پڑتاہے تیرے سر میں بدھی نہیں‬
‫بھوسا بھرا ہے۔اس ملیچھ کے کارن تمنے کالی داس‬
‫کے آشرم میں پگ دھرا ہے۔ یہ تیرے جیون کی سب‬
‫سے بڑی بھول ہے۔ جانتاہوں کچھ شکتیاں تیری‬
‫سہائتاکر رہی ہیں پرنتو۔۔۔مہاراج وشنو داس نے‬
‫مجھے وچن دیا ہے اسکا جاپ پورا ہوتے ہی میں تم‬
‫سب کا بلیدان کالی ماتاکر چرنوں میں کروں گا۔ اس‬
‫سمے تک تم اسی کوٹھے میں بندی بنے پڑے رہو‬
‫گے۔ میں وچن دیتا ہوں اسے تمرے واسطے نرکھ بنا‬
‫دوں گا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آواز آنا بند ہوگئی۔‬
‫سب خاموش تھے میں اس انتظارمیں تھا کہ رادھا یا‬
‫عبدالودود کیا کرتے ہیں؟ صائمہ بدستور بے ہوش‬
‫تھی۔ صرف اسکے سینے کے زیر بم سے محسوس‬
‫ہو رہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ مجھے بچوں کی فکر‬
‫ستائے جا رہی تھی۔ نامعلوم کتنا وقت گزرا تھا؟ کیوں‬
‫کہ اس کمرے سے باہر بھی تاریکی تھی۔ نہ ہی میرے‬
‫پاس گھڑی تھی کہ میں وقت کے بارے میں معلوم کر‬
‫سکتا۔ اس جادونگری میں کتنا وقت گزرا احساس ہی‬
‫نہ تھا۔ جی میں آئی کہ محمد شریف سے پوچھوں‬
‫لیکن سب کو خاموش پاکر میں بھی چپکا کھڑا رہا۔‬

‫’’فاروق!‘‘ رادھا نے مجھے پہلی بار میرے اصلی نام‬


‫سے پکارا۔ میں بری طرح چونک گیا۔ وہ گہری نظروں‬
‫سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ عبدالودود اور محمد‬
‫شریف بھی چونک گئے۔ سب کو متوجہ پا کر وہ کہنے‬
‫لگی۔‬

‫’’میں تمہرا دھرم سویکارکرنا چاہتی ہوں‘‘ حیرت سے‬


‫میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مجھے لگا‬
‫جیسے میری سماعت نے دھوکہ دیا ہو۔‬
‫’’کک۔۔۔کیا۔۔۔کیا کہہ رہی ہو رادھا‘‘ میں بری طرح‬
‫بوکھال گیا۔‬
‫’’کیا تم نہیں چاہتے کہ میں وہ دھرم اپناؤں جو اس‬
‫سنار سے جانے کے بعد بھی میری سہائتا کرے؟‘‘‬
‫اس نے نظریں جھکا کر کہا۔‬

‫’’سبحان ہللا‘‘ محمد شریف نے کہا۔‬


‫’’ہللا اکبر‘‘ عبدالودود نے نعرہ بلند کیا۔ دونوں کے‬
‫چہرے جوش سے چمکنے لگے۔‬
‫’’مجھے ابھی اور اسی سمے اپنے دھرم میں لے آؤ۔‘‘‬
‫اس نے دوبارہ کہا۔‬

‫’’رادھا یہ تو بہت خوشی کی بات ہے۔ لیکن یہ ۔۔۔یہ‬


‫سب کیسے میرا مطلب ہے تم نے اچھی طرح سوچ لیا‬
‫ہے نا؟‘‘مجھے ابھی تک یقین نہ آرہا تھا کہ رادھا نے‬
‫وہی کچھ کہا ہے جو میرے کانوں نے سنا ہے۔‬
‫’’کیوں نہیں بہن! یہ تو ہماری خوش بختی ہے کہ‬
‫ہمیں یہ سعادت حاصل ہو رہی ہے‘‘ محمد شریف نے‬
‫مسکرا کر کہا۔ اس کے چہرے سے خوشیوں کا آبشار‬
‫بہنے لگا تھا۔ عبدالودود کی آنکھوں کی چمک بڑھ‬
‫گئی‬
‫یہ ایک عجیب سا منظر تھا۔شیطان کی آماجگاہ میں‬
‫نورحق کی شمع روشن ہونے جاری تھی۔‬
‫’’اگر آپ چاہتی ہیں ہمیشہ کے لیے نجات پاجائیں تو‬
‫اس نیک کام میں دیر کیسی۔ لیکن۔۔۔‘‘ اس بار‬
‫عبدالودود نے رادھا کو مخاطب کیا۔‬
‫’’پرنتو کیا۔۔۔تم رک کیوں گے؟‘‘ رادھا پہلی بار براہ‬
‫راست عبدالودود سے مخاطب ہوئی۔‬
‫’اسالم النے سے پہلے غسل کرنا ضروری ہوتا ہے‘‘‬
‫اس نے کہا۔‬
‫’’یہاں آنے سے پہلے اشنان کرکے آئی تھی۔‘‘ رادھا‬
‫نے سر جھکا کر کہا‬
‫’بھائی محمد شریف آپ انہیں کلمہ پڑھا کر یہ سعادت‬
‫حاصل کریں‘‘ عبدالودود نے محمد شریف سے کہا۔‬
‫’’یہ حق بھائی فاروق خان کا ہے۔ کیوں کہ انہی کی‬
‫تعالی نے اس بہن کو قبول‬
‫ٰ‬ ‫کوششوں سے ہللا تبارک و‬
‫کیا‘‘ محمد شریف نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔‬
‫’مم۔۔۔میں اس قابل کہاں؟‘‘ میری آنکھوں میں آنسو‬
‫آگئے۔‬
‫’بھائی عبدالودود! یہ کام آپ کو ہی کرنا ہوگا یوں بھی‬
‫آپ ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘‬

‫’’اگر آپ بھائیوں کی یہی خواہش ہے کہ یہ سعادت‬


‫مجھے نصیب ہو تو میں سب سے پہلے اس پرودگار‬
‫کا شکر ادا کرتاہوں جس سے قبضے میں سب مخلوق‬
‫کی جان ہے۔ پھر آپ لوگوں کا شکریہ‘‘یہ کہہ کر وہ‬
‫بڑے وقار سے آگے بڑھا اور اپنا صافہ جو اس کے‬
‫کندھے پر تھا آگے بڑھاتے ہوئے بوال۔‬
‫’اسے تھام لیجئے اور جو کچھ میں پڑھوں اسے‬
‫دہراتی جائیے گا‘‘ اس نے نظریں جھکا کر رادھا سے‬
‫کہا۔ اس کے بعد وہ مقدس فریضہ ادا کیا جانے لگا‬
‫جس کے لئے جن وانس کو اس دنیا میں بھیجا گیا ہے‬
‫کلمہ پڑھا کر ہم سب نے دعا کی۔ مجھے اب تک جتنی‬
‫کوفت ہوئی تھی سب دھل گئی۔ محمد شریف کے والد‬
‫صاحب کے الفاظ یاد آئے جنہوں نے اشارتا ً مجھے‬
‫تعالی نے مجھ نا چیز سے کوئی نیک‬
‫ٰ‬ ‫بتایا تھا کہ ہللا‬
‫کام لینا ہے۔ اس کے بعد محمد شریف ہی کے ذریعے‬
‫حضرت ابولحان صاحب نے بھی مجھے مبارکباد دی‬
‫تھی۔ رادھا کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ معلوم‬
‫نہیں ندامت کے تھے یا خوشی کے۔‬
‫’’بھائی فاروق! آپ انہیں اسالم کے بارے میں کچھ‬
‫بتائیے‘‘ محمد شریف نے مجھے مخاطب کیا۔‬
‫’محمد شریف میں تو خود ابھی طفل مکتب ہوں یہ‬
‫فریضہ تو آپ کوہی سر انجام دیناہوگا۔ رادھا‬
‫سرجھکائے کھڑی تھی۔‬
‫محمد شریف اسے چیدہ چیدہ باتیں سمجھانے لگا۔‬
‫’ہللا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہی تمام‬
‫جہانوں کا مالک ‪ ،‬خالق‪ ،‬رازق ہے۔ اسی کے قبضے‬
‫میں سب مخلوق کی جان ہے۔ وہی زندگی دیتا ہے اور‬
‫موت بھی۔ اس نے ہر ایک کا وقت مقرر کر رکھا ہے۔‬
‫ہم سب کولوٹ کراسی کے پاس جانا ہے۔ ہللا کے آخری‬
‫نبی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔ ان کے بعد‬
‫کوئی نبی نہیں آئے گا۔۔۔‘‘محمد شریف اپنی خوبصورت‬
‫آواز میں اسالمی تعلیمات کا درس دے رہا تھا۔ رادھا‬
‫سر جھکائے آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے سن‬
‫رہی تھی۔ ہللا پاک بڑا رحیم ہے جس کو چاہتا ہے‬
‫ہدایت عطا فرما دیتا ہے۔ ایک ہندو جن زادی جو ہر دم‬
‫‪ ،‬دیوی ‪ ،‬دیوتاؤں کی پوجا پاٹ میں لگی رہتی اب‬
‫مشرف بہ اسالم ہوگئی تھی مجھے اس بات کی بہت‬
‫خوشی تھی۔‬
‫’’یہ تھیں ابتدائی تعلیمات‪ ،‬باقی میں حضرت صاحب‬
‫سے گزارش کروں گا کہ وہ آپ کو باقاعدہ اسالمی‬
‫تعلیمات سے روشناس کرائیں۔‘‘ محمد شریف نے کہا۔‬
‫’فاروق! میں نے تمہیں بہت کشٹ دیا ہے پرنتو میں‬
‫گلط راہ پر چل رہی تھی۔ مجھ سے جو بھی ہوا انجانے‬
‫میں ہوا۔ تمری سندرپتنی بھی میرے کارن کشٹ بھوگ‬
‫رہی ہے۔ مجھے شما کر دو‘‘ رادھا کی آنکھوں میں‬
‫آنسو آگئے۔ ہللا کے پسندیدہ دین کا اعجاز ہے کہ اس‬
‫پر چلنے واال خود کی نفی کرکے ہللا کی خوشنودی کی‬
‫خاطر ہر دم معافی اور مغفرت کا طلبگار رہتا ہے۔‬

‫’’رادھا! وقت گمراہی میں تم سے جو کچھ بھی ہو اس‬


‫میں تمہارا کوئی قصور نہیں کیونکہ جن انس شیطان‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫کے بہکاوے میں آکر گناہ کرتے ہیں۔تمہیں ہللا‬
‫نے اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل کرلیا ہے۔ تم بہت‬
‫خوش نصیب ہو۔‘‘میں آبدیدہ ہوگیا۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪54‬‬
‫مصنف۔ طارق خان‬

‫اچانک کمرہ ایک بار پھر تاریکی میں ڈوب گیا۔ لیکن‬
‫ایک منٹ کے بعد دوبارہ روشن ہوگیا۔ سامنے نظر‬
‫پڑی تو میں ششدر رہ گیا۔ دیوار کے پاس ایک قطار‬
‫میں سات آدمی لنگوٹیاں پہنے کھڑے تھے۔ سب سے‬
‫آگے ایک ہٹا کٹا طویل القامت شخص تھا۔ اس کے‬
‫سارے جسم پر بال ہی بال تھے۔ سر انڈے کے چھلکے‬
‫کی طرح صاف درمیان میں موٹی سی چوٹی لٹک رہی‬
‫تھی۔ اس نے جسم پر زرد کا کوئی سفوف مل رکھا‬
‫تھا۔ قد اس کا تقریبا ساڑھے چھ فٹ ہوگا۔ گلے میں‬
‫کئے موٹے دانوں کی ماال لٹک رہی تھیں۔ اس کی‬
‫آنکھیں بڑی بڑی اور سرخ انگارے جیسی تھیں۔‬
‫ماتھے پر تین مختلف رنگوں کی لکیریں کچھی ہوئی‬
‫تھیں۔ اس کے پیچھے ایک قطار میں کندھے سے‬
‫کندھا مالئے دوسرے بچاری کھڑے تھے۔ سب کے‬
‫حیلے ایک جیسے تھے۔ صرف کالی داس کے بڑے‬
‫بڑے جھاڑ جھنکار سفید بال اور بے ہنگم داڑھی‬
‫مونچھیں تھیں۔ باقی سب گنجے اور درمیان میں موٹی‬
‫موٹی چوٹیاں لٹک رہی تھیں۔ جنہیں انہوں نے اپنے‬
‫سینوں پر ڈال رکھا تھا۔ سب سے آگے والے بچاری‬
‫کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ وہ‬
‫حتی کہ پلک بھی‬
‫بتوں کی مانند ساکت کھڑے تھے ٰ‬
‫نہیں جھپک رہے تھے۔ سب سے آگے کھڑا بچاری‬
‫یک ٹک رادھا کو گھور رہا تھا۔‬
‫’’مہاراج! یہی وہ پاپن‘‘ کالی داس نے رادھا کی طرف‬
‫انگلی سے اشارہ کیا۔‬
‫مجھے کیا بتاتا ہے مورکھ! سب جانتا ہوں‘‘ اس کی‬
‫آواز خاصی گرجدار تھی۔‬

‫’’کنیا! کیا کالی داس ستیہ کہہ رہا ہے؟‘‘ اس نے کچھ‬


‫دیر کی خاموشی کے بعد رادھا سے سوال کیا۔‬
‫ہاں اس نے جو کہا ہے ستیہ ہے‘‘ رادھا نے بڑے‬
‫اطمینان سے جواب دیا۔‬

‫’’میں تجھے ایک اوسر دیتا ہوں تو دیوتاؤں سے شما‬


‫مانگ لے۔ مجھے وشواس ہے دیوتا تجھے شما کر‬
‫دیں گے‘‘ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔‬
‫’میں تمہیں اپدیش دیتی ہوں کہ تو بھی اس راہ کو‬
‫چھوڑ کر دھرم اسالم سویکار کر لے۔ مجھے وشواس‬
‫ہے سنسار بنانے واال تجھے شما کر دے گا‘‘ رادھا‬
‫نے اسی انداز سے جواب دیا۔‬

‫’’مہاراج وشنو داس! تمری آگیا ہوتو میں اس پاپن کو‬


‫چٹیا سے پکڑ کر کالی ماتا کے چرنوں میں لے‬
‫جاؤں؟‘‘ کالی داس بھڑک کر بوال۔ وشنوداس نے اس‬
‫اشارے سے خاموش کیا اور عبدالودود سے مخاطب‬
‫ہوا۔‬
‫’کیا تو نہیں جانتا تھا کالی داس کے آشرم میں آنے کی‬
‫راہ ہے پرنتو جانے کی نہیں؟‘‘‬
‫’’میں کیا جانتا ہوں اورکیا نہیں تم اس میں اپنا وقت‬
‫برباد نہ کرو اور جو کچھ اس محترم خاتون نے تم‬
‫سے کہاہے اسے مان کر صراط مستقیم پر آجاؤ۔ ہللا‬
‫پاک بڑا غفور الرحیم ہے تمہارے سارے گناہ معاف کر‬
‫دے گا‘‘ عبدالودود نے کمال اطمینان سے جواب دیا۔‬
‫’ہوں۔۔۔‘‘ اس نے ہنکارہ بھرا۔‬

‫’’تو جو کچھ میرے چیلے کالی داس نے کہا ہے وہ‬


‫ٹھیک ہے۔ میں نے تجھے اوسر دیا تھا پرنتو‬
‫تومورکھ ہے۔۔۔ٹھیک ہے کالی داس تو اپنے من کے‬
‫ارمان نکال لے‘‘ اس نے کالی داس کا اشارہ کیا‬
‫کالی داس آگے بڑھا اور وشنو داس کے سامنے جھک‬
‫کر دونوں ہاتھ جوڑے پھر رادھا کی طرف دیکھا۔ اس‬
‫کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ اس کے‬
‫موٹے اور بھدے ہونٹ متحرک ہوگئے۔ وہ آنکھیں بند‬
‫کیے کچھ پڑھ رہا تھا۔ رادھا کے سکون و اطمینان میں‬
‫ذرا فرق نہ آیا۔ اچانک کالی داس بھیانک چیخ مار کر‬
‫زمین پر گر گیا۔ عبدالودود کا چہرہ سرخ انگارہ بن‬
‫چکا تھا۔ وشنو داس جو دو قدم پیچھے ہٹ کر اطمینان‬
‫سے کھڑا تھا بری طرح چونک گیا۔ اس کی آنکھوں‬
‫میں اچانک شعلوں کا رقص شروع ہوگیا۔ چہرہ بری‬
‫طرح پھڑکنے لگا۔‬

‫’’پاپی! تیری یہ مجال۔۔۔؟ تو وشنو داس کے چیلے پر‬


‫وار کرے‘‘ وہ غیض و غضب میں دھاڑا۔ پھر گلے‬
‫سے ماال اتار کر عبدالودود کی طرف پھینکی۔‬
‫عبدالودود نے زقند بھری اور ایک طر ف ہٹنے لگا۔‬
‫لیکن ماال کسی برق کی طرح اس کے گلے میں پھندے‬
‫کی طرح پڑ چکی تھی۔ وہ دھڑام سے نیچے گر گیا۔‬
‫اس کا خوبصورت چہرہ اذیت کے باعث بگڑ چکا تھا۔‬
‫آنکھیں باہر کو ابل آئیں۔ وہ دونوں ہاتھ گلے پر رکھے‬
‫پھڑک رہا تھا۔ محمد شریف نے دیکھا تو جلدی سے‬
‫آگے بڑھا لیکن دوسری ماال نے اس کا بھی یہی حشر‬
‫کیا۔ میں بری طرح بوکھال گیا۔‬
‫’اب کیا وچارہیں؟ تیری سہائتا کرنے والے تو گئے اب‬
‫کیا کہتی ہے؟‘‘ اس نے قہر ناک نظروں سے رادھا کی‬
‫طرف دیکھا ۔ ماال جیسے ہی عبدالودود کی گلے میں‬
‫پڑی کالی داس خود بخود ٹھیک ہرکر کھڑا ہوگیا تھا۔‬
‫’’تم کیول اتنا کر سکتے ہو کہ میرے پران لے‬
‫لو۔۔۔پرنتو جو راہ میں چنی ہے اس پر سے نہ ہٹوں‬
‫گی‘‘ رادھا کے اطمینان میں ذرا فرق نہ آیا۔ البتہ وہ‬
‫محمد شریف اور عبدالودود کو تکلیف پر بے چین‬
‫ضرور تھی۔‬
‫’چل آگے بڑھ اور ان ملیچھوں کو کالی ماتا کے‬
‫چرنوں میں پھینک آ۔۔۔میں آتا ہوں‘‘ وشنوداس نے‬
‫ایک بچاری سے کہا۔‬

‫’’مہاراج اس ملیچھ کا کریہ کرم بھی کر دو جس کے‬


‫کارن یہ سب کچھ ہوا‘‘ کالی داس نے جھجکھتے‬
‫ہوئے کہا میں پوری جان سے لرز گیا۔ وشنو داس نے‬
‫ایک بال اپنے سینے سے توڑا اور میری طرف‬
‫پھینکنے ہی واال تھا کہ بیرونی دروازہ ایک دھماکے‬
‫سے کھال۔ سب نے چونک کر دیکھا۔ کھلے دروازے‬
‫میں ملنگ کھڑا تھا‬
‫اسکی بڑی بڑی روشن آنکھوں میں قہر تھا۔‬
‫وشنوداس نے اس کی طرف دیکھا اور چوکنا ہوگیا۔‬
‫دونوں ایک دوسرے کو آنکھوں میں تول رہے تھے۔‬
‫اچانک ملنگ نے فلک شگاف نعرہ لگایا۔‬
‫’حق ہلل۔۔۔حق‘‘ اور آگے بڑھ کر پاؤں کی ایک ایک‬
‫ہلکی سی ٹھوکر محمد شریف اور عبدالودود کو رسید‬
‫کی۔ ماالئیں ان کے گلے سے ٹوٹ کر بکھر گئیں۔‬
‫دونوں بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔‬
‫ان کے چہرے جو اذیت سے سیاہ پڑ چکے تھے تیزی‬
‫سے اصلی حالت میں آگئے۔‬
‫مہاراج! یہ بہت بڑا دھشٹ ہے اس کے شریر میں‬
‫راونڑ کی شکتی ہے‘‘ کالی داس خوفزدہ ہو کر وشنو‬
‫داس کے پیچھے دبک گیا۔‬
‫’قائر! میرے سامنے ایسے شبد منہ سے نکالتے‬
‫ہوئے تجھے الج نہ آئی؟ مہاراج وشنو داس کے‬
‫سامنے اس پاپی کی مہانتا کے گن گا رہا ہے‘‘ وشنو‬
‫داس غضبناک ہوگیا۔‬
‫’’مم۔۔۔مہار۔۔۔ا۔۔۔ج۔۔۔م۔۔۔یں تو۔۔۔میں تو‘‘ کالی داس کا‬
‫رنگ خوف سے مزید زردہوگیا۔‬
‫’میں تجھے آگیا دیتاہوں کہ دیوتاؤں کے نام پر آگے‬
‫بڑھ اور دھرم کونشٹ کرنے والے ان پاپیوں کا‬
‫سروناش (تباہ) کر دے‘‘ وشنو داس نے کالی داس کو‬
‫گدی سے پکڑ کر آگے کر دیا۔‬
‫’مہاراج دیا کرو۔۔۔یہ منش نہیں پلید آتما ہے مہاراج! یہ‬
‫پاپی پہلے بھی مجھے کشٹ دے چکا ہے‘‘ کالی داس‬
‫ہاتھ باندھ کر وشنوداس کے آگے جھک گیا۔ وہ بار بار‬
‫مڑ کر ملنگ کی طرف خوفزدہ نظروں سے دیکھتا پھر‬
‫وشنوداس کی منتیں کرنے لگتا۔‬

‫’’گرو جی! یدی آگیا ہو تو میں اس دھشٹ کرکریہ کرم‬


‫کر دوں؟‘‘ وشنوداس کے پیچھے کھڑے ایک معمر‬
‫پجاری نے جھک کر وشنوداس سے پوچھا۔‬
‫’نہیں۔۔۔کالی داس ہی اس دھشٹ کو کھتم کرے گا۔ آگے‬
‫بڑھ کالی داس! اور اس پاپی کو نرکھ میں جھونک‬
‫دے۔ یدی اس یدھ میں تیرے پر ان بھی چلے گئے تو‬
‫بھاگیہ شالی ہوگا‘‘ وشنوداس نے غصے سے کہا۔ نہ‬
‫جائے مانند نہ پائے رفتن کے بمصداق کالی داس‬
‫عجب مصیبت میں پھنس چکاتھا۔ آگے بڑھ کر ملنگ‬
‫کے ساتھ مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہ تھی اگر‬
‫انکار کرتا تو وشنوداس اسے جیتا نہ چھوڑتا۔ آگے‬
‫کنواں پیچھے کھائی۔دونوں طرف اسے موت نظر آ‬
‫رہی تھی۔‬
‫’’کس وچار میں ہے کیا تو میری آگیا کا پالن نہ کرے‬
‫گا؟‘‘ وشنوداس کا لہجہ برف سے زیادہ سرد تھا۔‬
‫’’چاروناچار کالی داس آگے بڑھا لیکن اس کی ٹانگیں‬
‫کانپ رہی تھیں۔ ملنگ بڑی دلچسپی سے اسے دیکھ‬
‫رہا تھا۔‬

‫’’جے بجرنگ بلی!‘‘ کالی داس نے ایک فلک شگاف‬


‫نعرہ لگایا اور جم کر ملنگ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔‬
‫ملنگ کے چہرے پر ذرا فکروتردونہ تھا۔کالی داس نے‬
‫ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھا اور گلے میں پڑی ہوئی‬
‫ماال کو توڑ کر ملنگ کی طرف اچھال دیا۔ ماال کسی‬
‫سانپ کی طرح لہراتی ہوئی ملنگ کی طرف بڑھی۔‬
‫دھاگا ٹوٹ جانے کے باوجود اس کے دانے نہ بکھرے‬
‫تھے۔ ماال برق کی سی سرعت کے ساتھ ملنگ کی‬
‫طرف آئی لیکن اس کے چہرے سے کچھ فاصلے پر‬
‫ٹھہر گئی۔ملنگ نے معنی خیز مسکراہٹ سے کالی‬
‫داس کی طرف دیکھا لیکن خاموش رہا۔ کالی داس نے‬
‫اپنا وار خالی جاتا دیکھا تو غضبناک ہوگیا۔ اس نے‬
‫اپنے سینے سے ایک بال توڑ کر ملنگ کی طرف‬
‫اچھال دیا۔ بال کا حشر بھی ماال سے مختلف نہ ہوا۔‬
‫کالی داس ایک سے ایک داؤ آزماتا رہا لیکن ملنگ کی‬
‫تیوری پر بل نہ ڈاال سکا۔ تھک ہار کر اس نے وشنو‬
‫داس کی طرف دیکھا اس کی آنکھوں سے بیچارگی‬
‫جھلک رہی تھی۔‬
‫’گرو جی! آگیا ہو تو میں اس پاپی کو نرکھ میں پہنچا‬
‫دوں؟‘‘اس بچاری نے دوبارہ وشنو داس سے پوچھا۔‬
‫وشنوداس بری طرح پیچ و تاب کھا رہا تھا۔‬

‫’’پہلے اس پاپی کو نرکھ میں پہنچانے کا پربند کرنے‬


‫دے۔‘‘ وہ کالی داس کی طرف دیکھ کر دھاڑا۔‬
‫’مم۔۔۔مہا۔۔۔را۔۔۔ج شما کر دو مہاراج‘‘ کالی داس اس‬
‫کے قدموں میں گر گیا۔ وشنو داس نے ایک نظر ملنگ‬
‫کو دیکھا اور کالی داس کے سر پر تھوک دیا۔ تھوک‬
‫کا کالی داس کے سر پر گرنا تھا کہ اس نے آگ پکڑ‬
‫لی۔ دل دہال دینے والی چیخ کالی داس کے منہ سے‬
‫نکلی۔ وہ چیختا ہوا کمرے میں بھاگنے لگا۔ آگ آہستہ‬
‫آہستہ اس کے چہرے کو جال رہی تھی۔ وہ دونوں‬
‫ہاتھوں سے آگ بجھانے کی سر توڑ کوشش کر رہا‬
‫تھا۔ اس کے جھاڑ جھنکار بال دھڑا دھڑ جل رہے‬
‫تھے۔ تھوری ہی دیر میں آگ نے اسے بری طرح گھیر‬
‫لیا اور وہ زمین پر گر گیا۔ آخر وہ موذی اپنے انجام‬
‫کو پہنچ گیا۔ آگ نے صرف کالی داس کو جالیا تھا‬
‫قالین کو نہیں۔ وشنو داس نے فاتحانہ نظروں سے‬
‫ملنگ کی طرف دیکھا۔ کالی داس کو مرتے دیکھ کر‬
‫ملنگ نے افسوس سے سر ہالیا۔‬
‫’یہ تم نے برا کیا۔ میں سمجھا تھا تم اپنے مذہب کے‬
‫سچے پیروکار ہو۔ مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کی‬
‫حفاظت کا درس دیتا ہے نہ کہ انسانوں کو ایذارسانی‬
‫کا پیغام۔ تم نے اس بے قصور شخص کو ناحق قتل کر‬
‫دیا۔ مجھے تمہارے رتبے اور علم پر افسوس ہوا۔‘‘‬
‫ملنگ نے افسوس سے سر ہالیا۔‬
‫’رام چندر! آگے بڑھ اور اس اپرادھی کو نشٹ کر‬
‫دے۔‘‘ وشنو داس نے اپنے پیچھے کھڑے پجاری کو‬
‫حکم دیا جو دو مرتبہ اپنی خدمات پیش کر چکا تھا۔ وہ‬
‫دونوں ہاتھ باندھ کر پہلے وشنو داس کے آگے جھکا‬
‫پھر اس کے پیروں کو ہاتھ لگا کر اپنے ماتھے پر‬
‫لگایا۔ اس کے بعد اس نے بالکل پہلوانوں کے سے‬
‫انداز میں اپنی ران پر ہاتھ مارا اور اکڑوں بیٹھ کر‬
‫ملنگ کی طرف تھوک دیا۔ تھوک ہوا میں اڑتا ہوا‬
‫ملنگ کے چہرے کی طرف بڑھا۔ میں ان لوگوں کی‬
‫تھوک کی کارستانیاں دیکھ چکا تھا۔ ملنگ کے سکون‬
‫میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ ساکت کھڑا پجاری کی طرف‬
‫دیکھ رہا تھا۔ تھوک ملنگ کے چہرے کے قریب آیا تو‬
‫نہ جانے کس طرف سے ایک شعلہ لپکا۔ چزززززز کی‬
‫آواز آئی اور تھوک غائب ہوگیا۔‬
‫تمہارا نام کیا ہے بھلے مانس‘‘ ملنگ نے بڑی شفقت‬
‫سے پجاری سے پوچھا۔ اس نے نفرت بھری نگاہ‬
‫ملنگ پر ڈالی لیکن کچھ نہ بوال اور زمین پر ہاتھ مار‬
‫کر اس کا رخ ملنگ کی طرف کر دیا۔ اس کی ہتھیلی‬
‫سے ایک شعلہ نکال اور ملنگ کی طرف بڑھا لیکن ا‬
‫س تک پہنچنے سے پہلے ہی غائب ہوگیا۔‬
‫قصہ مختصر بچاری وار پر وار کرتا رہا لیکن ملنگ کا‬
‫کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔ ملنگ نے اپنا سوال ایک بار‬
‫پھر دہرایا۔ پجاری کی سب اکڑفوں نکل چکی تھی۔ کالی‬
‫داس کا انجام اس کے سامنے تھا۔ اسنے خوفزدہ‬
‫نظروں سے وشنوداس کی طرف دیکھا۔ جس کی‬
‫آنکھوں میں شعلوں کا رقص شروع ہو چکا تھا۔ اس‬
‫نے اس پجاری کو کچھ نہ کہا اور دوسرے پجاری کو‬
‫اشارہ کیا۔ وہ جھجھکتا ہوا آگے بڑھا اور پہلے پجاری‬
‫جیسے داؤ آزمانے لگا۔ نتیجہ حسب سابق نکال۔ وشنو‬
‫داس کسی سانپ کی طرح بل کھا کر رہ گیا۔ وہ ایک‬
‫کے بعد ایک پجاری کو اشارہ کرتا گیا۔ چھ کے چھ‬
‫پجاری ناکام ہو کر پیچھے ہٹ گئے۔ ان کے چہروں پر‬
‫ندامت ثبت تھی۔ وشنو داس نے ایک نظر ان پر ڈالی‬
‫اور نفرت سے تھوک دیا۔‬
‫’بھلے مانسو! میں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ‬
‫شیطانی راستے کو چھوڑ کرصراط مستقیم پر چل پڑو‬
‫‪،‬اسی میں کامیابی ہے۔ یہ دنیا چند روزہ کھیل تماشہ‬
‫ہے۔ آخر کار ہم سب نے مر کر اپنے اعمال کا حساب‬
‫دینا ہے۔ توبہ کا دروازہ کھال ہے۔ وہ غفوالرحیم ہللا‬
‫پاک سچی توبہ کرنے والے کو فوراً معاف فرما کر اس‬
‫کے گناہ بخش دیتا ہے اور۔۔۔‘‘‬
‫’’بند کر اپنا بھاشن‘‘ وشنو داس گرجا۔ یہ بالک سپھل‬
‫نہ ہوئے تو یہ وچار کرنے لگاکہ تو مکت(کامیاب) ہو‬
‫گیا؟‘‘ وہ حقارت سے بوال۔ اس کے لہجے میں غرور‬
‫اور تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ سب پجاری ہاتھ‬
‫باندھے ایک بار پھر وشنو داس کے پیچھے صف بنا‬
‫کر کھڑے ہوگئے۔ وشنو داس نے ایک نظر رادھا پر‬
‫ڈالی۔‬
‫’پاپن تیرے کارن ایک مہاپرش اور کالی کا سیوک اس‬
‫سنسار سے چال گیا۔ اس دھشٹ سے پہلے میں تیرا‬
‫کریہ کرم کروں گا۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ رادھا کی طرف‬
‫کیا۔‬
‫’’وشنو داس! مردوں کے ہوتے ہوئے ایک عورت پر‬
‫ہاتھ اٹھانا کسی بھی مرد کے لئے باعث شرم ہے۔ اگر‬
‫تو اپنی ناکامی کا اعالن کر دے تو میں تجھے معاف‬
‫کرکے ان سب کو لے کر یہاں سے چال جاتا ہوں‘‘‬
‫ملنگ نے اسے ایک بار پھر سمجھایا۔‬
‫’یہاں سے تم سب اب نرکھ میں جاؤ گے‘‘ وہ دانت‬
‫پیس کر بوال۔ ساتھ ہی اس نے اپنا ہاتھ جھٹک دیا۔‬
‫ایک شعلہ اس کے ہاتھ سے نکال اور سرعت سے‬
‫رادھا کی طرف بڑھا۔ لیکن آفرین ہو عبدالودود پر برق‬
‫کے کوندے کی طرح لپکا اور شعلے کی راہ میں حائل‬
‫ہوگیا۔ شعلہ اس کے بائیں بازو پر پڑا اس کے ساتھ‬
‫ہی اس کے منہ سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔ وہ‬
‫اپنا بازو پکڑے وہیں بیٹھ گیا۔ اس کا بازو جل کر سیاہ‬
‫ہوگیا۔ وہ بری طرح اپنا بازو جھٹک رہا تھا۔ اذیت سے‬
‫اس کا چہرہ بگڑ گیا۔‬

‫’’نامراد! اپنی حرکتوں سے باز آجا نہیں تو مجھے‬


‫تیرا بندوبست کرنا پڑے گا‘‘ ملنگ کی دھاڑ کمرے میں‬
‫گونج اٹھی۔ وشنو داس نے قہر ناک نظروں سے ملنگ‬
‫کی طرف دیکھا اور اپنے ہاتھ کا رخ اس کی طرف کر‬
‫دیا۔‬
‫’سب کو بھسم کر دوں گا۔۔۔سب کو نرکھ میں جھونک‬
‫دوں گا‘‘ وہ غضبناک ہو کر دھاڑا۔ ملنگ عبدالودود کی‬
‫طرف متوجہ ہوا اور وشنو داس کو موقع مل گیا۔ اس‬
‫سے پہلے کہ ملنگ سنبھلتا وشنو داس نے ہاتھ‬
‫جھٹک دیا۔ میری آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ ہر چند‬
‫کہ میں ایک عرسے سے جنات اور جادو کے کارنامے‬
‫دیکھتا چال آرہا تھا بلکہ کئی بار ان بدبختوں نے‬
‫مجھے بھی جادو سے قریب المرگ کر دیا تھا۔ زندگی‬
‫اور موت ہللا کے ہاتھ میں ہے ورنہ ان خبیثوں نے تو‬
‫کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ہاں تو میں بتا رہا تھا‬
‫وشنوداس کی انگلیوں سے باریک تار جیسی ڈور‬
‫نکلی اور لمبی ہو کر ملنگ کے جسم سے لپٹنے لگی۔‬
‫ملنگ نے بہت کوشش کی کہ وہ اس وار سے بچ‬
‫سکے لیکن وہ موذی وار کر چکا تھا۔ تھوڑی ہی دیر‬
‫میں ملنگ کا جسم ڈوری سے بندھ گیا۔ وہ کھڑے‬
‫کھڑے دھڑام سے نیچے گر گیا۔ اس کا صرف چہرہ‬
‫آزاد تھا ہاتھ‪ ،‬پاؤں اور جسم بندھ چکا تھا۔‬

‫’’پاپی! وشنو داس کو اپدیش دے رہا تھا۔ بالکوں کے‬


‫کھیل سے یہ مورکھ یہ وچار کر بیٹھا تھا کہ‬
‫وشنوداس بھی انہی جیسا ہوگا‘‘ اس نے حقارت سے‬
‫تھوک دیا۔ عبدالودود جلدی سے آگے بڑھا۔‬
‫’اے نابکار! اس مجذوب پر اپنی گندی شیطانی طاقت‬
‫آزما کر تو نے ہللا کے غضب کو آواز دی ہے۔ اس‬
‫جبار کا قہر تجھے درد ناک عذاب سے دو چار کرے‬
‫گا‘‘ عبدالودود طیش کے عالم میں وشنو داس کی‬
‫طرف جھپٹا۔ وشنو داس نے اس کی طرف ہاتھ کرکے‬
‫پھر وہی عمل دہرایا جس سے عبدالودود کی حالت بھی‬
‫ملنگ جیسی ہوئی۔ وہ بھی اسی طرح ڈوریوں میں‬
‫جکڑا گیا۔ وشنو داس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکل‬
‫رہی تھی۔ سخت غیض و غضب کے عالم میں وہ رادھا‬
‫کی طرف مڑا۔‬
‫’کلکنی! تجھے تو میرے شراپ سے اب دیوتا بھی نہ‬
‫بچا پائیں گے۔ تیرے کارن مجھے میرے چیلے کی یہ‬
‫دشا بنانا پڑی‘‘ اس نے کالی داس کے جسم سے بننے‬
‫والے راکھ کے ڈھیر کی طرف اشارہ کیا۔ رادھا کے‬
‫چہرے پر ایسا سکون طاری تھا جیسے وہ بدبخت اس‬
‫کے بجائے کسی اور سے مخاطب ہوا۔ اور یہ سب‬
‫اعجاز دین اسالم کا تھا۔ جس کو قبول کرنے والے‬
‫صرف ایک ہللا وحدہ ال شریک سے ڈرتے ہیں۔ ملنگک‬
‫کا حشر دیکھنے کے باوجود وہ بڑے سکون سے‬
‫بولی۔‬
‫’وشنو داس! میں نے جیون بھر کوئی پن نہیں کمایا۔‬
‫نہ جانے کتنے منشوں اور اپنی جاتی کے سندر‬
‫جوانوں کو اپنی اچھا پوری کرنے کے بعد پرلوک‬
‫بھیج دیا۔ پرنتو اس منش‘‘ اس نے میری جانب اشارہ‬
‫کیا‬
‫’’اس نے مجھے ایسے دھرم کی راہ دکھائی جس پر‬
‫چل کر سب کو مکتی ملی جاتی ہے۔ میں پھر کہتی ہوں‬
‫ان راہوں سے باز آجا اور سنسار بنانے والے کو مان‬
‫کر مکتی پالے نہیں تو ۔۔۔‘‘‬

‫’’پاپن! تو وشنو داس مہاراج کو اپدیش دے گی۔۔۔جس‬


‫نے سارا جیون دیوی دیوتاؤں کے چرنوں میں تپسیا‬
‫کرتے بتا دیا۔ میری تیوری کابل دیوتاؤں کے‬
‫وچار(فیصلے) بدل دیتا ہے۔‘‘ وشنو داس ‪ ،‬رادھا کے‬
‫بات کاٹ کر دھاڑا۔۔‬
‫‪Continued‬‬
‫رادھا‬
‫قسط۔ ‪ 55‬آخری‬
‫مصنف طارق خان‬
‫۔‬
‫’’یدی میں چاہتا تو ایک پل میں ان سب کو نرکھ میں‬
‫پہنچا دیتا۔ پرنتو میں ان پاپیوں کا بلیدان کالی ماتا کے‬
‫چرنوں میں کروں گا۔ اسی کارن یہ دھشٹ جیوت ہیں۔‬
‫سن۔۔۔یدی اب بھی تو اپنے وچار بدل کر دھرم کو اپنا‬
‫لے تو میں وچن دیتا ہوں تیرے واسطے دیوتاؤں کے‬
‫آگے بنتی کرکے شما مانگ لوں گا‘‘ اس بار وہ نرم‬
‫لہجے میں رادھا سے بوال۔‬

‫’’جیون لینا اور دینا اوپر والے کا کام ہے‪ ،‬یدی تو‬
‫چاہے تو ایک چیٹی کو بھی اس کی آگیا کے بنا کچھ‬
‫نہیں کہہ سکتا۔ میں مرتیو سویکار کر لوں گی پرنتو‬
‫دھرم جو میں ے چن لیا ہے اس پر سے نہ ہٹوں گی۔‬
‫تجھے جو کرنا ہے کر لے‘‘ رادھا نے بڑے مضبوط‬
‫لہجے میں کہا۔ وشنو داس انکار سن کر مشتعل ہوگیا۔‬
‫’’پاپن! کیا تو نے نہیں دیکھا میں نے ان‬
‫بھاشن(تقریر) دینے والوں کی کیا دشا بنا دی؟‘‘ اس‬
‫نے ملنگ اور عبدالودودکی طرف اشارہ کیا۔ جن کے‬
‫چہرے کرب و اذیت سے مسخ ہو چکے تھے۔ شدید‬
‫تکلیف کے باوجود صبر و ضبط ایک مثال تھا۔ وشنو‬
‫داس پر ایک نظر مجھ پر ڈال کر رادھا کی طرف مڑا۔‬

‫’’اب تیرے اس پریمی کی باری ہے جس کے کارن تو‬


‫نے اپنا دھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ‬
‫میری طرف کر دیا۔‬
‫’وشنو داس! جس نے جیون دان کیا ہے یدی اس کے‬
‫نام پر ایسے ہجاروں جیوان بلیدان کرنا پڑیں تو میں نا‬
‫نہیں کہوں گی‘‘ اس کی با سن کر وشنو داس کو‬
‫پتنگے لڑ گئے۔‬

‫’’پان! اب تو دیا کہ بھکشا بھی مانگ گی تو نہ ملے‬


‫گی‘‘ اس نے اپنے ہاتھ کا رخ میری طرف موڑا۔ میرا‬
‫دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ لیکن رادھا کی بات‬
‫سن کر میرا سینہ فخر سے پھول گیا۔ واقعی پاک ہللا‬
‫کے لئے ایک زندگی تو کیا ہزاروں زندگیاں قربان کی‬
‫جا سکتی ہیں بلکہ ہم مسلمان تو اسے سعادت‬
‫سمجھتے ہیں کہ جان ‪ ،‬جان آفرین کے نام پر قربان ہو‬
‫جائے۔ وشنو داس مجھے غور سے دیکھ رہا تھا۔‬
‫شاید وہ توقع کر رہا تھا کہ میں اسے معافی مانگوں‬
‫گا۔‬
‫’’وشنو داس! تیرے جیسے شیطان سے معافی مانگ‬
‫کر میں اپنا ایمان خراب کرنا نہیں چاہتا۔ مجھے یقین‬
‫تعالی نے ہم سب کی موت تیرے ہاتھوں‬ ‫ٰ‬ ‫ہے اگر ہللا‬
‫لکھی ہے تو کوئی ہمیں بچا نہیں سکتا۔۔۔اگر اسے‬
‫ہمیں بچانا مقصود ہوگا تو تو کیا دنیا کی کوئی طاقت‬
‫ہمیں نہیں مار سکتی‘‘ میرا عزم دیکھ کر وہ بھڑک‬
‫گیا۔ کچھ دیر وہ غضبناک نگاہوں سے مجھے دیکھتا‬
‫رہا۔‬

‫پھربری طرح چونک اٹھا۔ وہ سکتے کے عالم میں‬


‫میرے پیچھے دیکھ رہا تھا۔ اس کا ہاتھ اٹھا کا اٹھارہ‬
‫گیا۔ اچانک اس کے چہرے پر شکست خوردگی کے‬
‫آثار چھا گئے۔ چہرے سے الجھن کا اظہار ہو رہا تھا‬
‫جیسے اسے کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری ہو۔ میں‬
‫نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا اور اپنے پیچھے‬
‫کھڑی شخصیت کو دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔ میرے‬
‫پیچھے حضرت صاحب کھڑے تھے۔ وہی حضرت‬
‫صاحب جو محمد شریف کی درخواست پر میرے گھر‬
‫کا حصار کرنے تشریف الئے تھے وہ قوم جنات میں‬
‫ولی کامل تھے۔ ان کا پر جالل چہرہ غیض و غضب کا‬
‫نمونہ بنا ہوا تھا۔ محمد شریف نے بھی حضرت صاحب‬
‫کو دیکھ لیا تھا۔ خوشی سے اس کا چہرہ چمکنے لگا۔‬
‫وشنو داس کچھ دیر حضرت صاحب کو دیکھتا رہا۔‬
‫’کیا تو بھی ان کی سہائتا کرنے آیا ہے؟‘‘ اس کے‬
‫چہرے پر سنجیدگی چھا گئی تھی۔ حضرت صاحب نے‬
‫اسے کوئی جواب دینے کے بجائے ایک نظر ملنگ‬
‫اور عبدالودود پر ڈالی اس کے ساتھ ہی وہ بندشوں‬
‫سے آزاد ہوگئے۔ حضرت صاحب کی ایک نگاہ ان پر‬
‫پڑی تھی۔ مجھے یاد آیا میں نے کہیں پڑھا تھا۔‬
‫’’مومن کی نگاہ سے ڈرو وہ ہللا کی عطا کی ہوئی‬
‫فراست سے دیکھتا ہے‘‘ حضرت صاحب کی نگاہ میں‬
‫وہ تاثیر تھی جس نے وشنو داس کی بندشوں کو کاٹ‬
‫دیا تھا۔ ہللا والے عبادت و ریاضت اور ہللا کی رحمت‬
‫سے وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جسے شیطان کے‬
‫پیروکار سمجھ نہیں پاتے۔ وشنو داس کے پیچھے‬
‫کھڑے پجاریوں میں کھلبلی مچ گئی۔ وہ بے چین‬
‫دکھائی دینے لگے۔ بندشوں سے آزاد ہوتے ہی ملنگ‬
‫اور عبدالودود کھڑے ہوگئے۔ عبدالودود کے چہرے پر‬
‫شرمندگی تھی۔‬

‫’’مرشد ! معافی کا خوستگار ہوں بے خبری میں مار‬


‫کھا گیا۔ ‘‘ اس کی نظریں جھک گئیں۔ حضرت صاحب‬
‫نے شفقت سے اسے دیکھا۔ ان کا نورانی چہرہ‬
‫مسکراہٹ سے مزید روشن ہوگیا۔ اس کے بعد انہوں‬
‫نے رادھا کی طرف دیکھا جو نظریں جھکائے کھڑی‬
‫تھی۔‬
‫’’میری بچی ! ادھر آؤ‘‘ انہوں نے اسے اپنے پاس‬
‫بالیا۔ رادھا سارھی کا پلو سر پر درست کرتی ان کے‬
‫قریب چلی گئی۔ انہوں نے شفقت سے اس کے سر پر‬
‫ہاتھ رکھا۔‬
‫’تم نجات پا گئیں جس کے لئے میں تمہیں مبارک باد‬
‫پیش کرتا ہوں۔ برائی کے راستے کو چھوڑ کر تم‬
‫سچے دین پر آگئی ہو یہی راہ نجات ہے۔ ہللا تبارک و‬
‫تعالی تمہارے درجات بلند کرے‘‘ بے اختیار سب کے‬ ‫ٰ‬
‫منہ سے نکال’’آمین‘‘ اس کے بعد حضرت صاحب‬
‫وشنو داس کی طرف متوجہ ہوئے۔‬

‫’’میں تمہیں بھی اسالم کی دعوت دیتا ہوں۔ ان سب‬


‫کھیل تماشوں میں کچھ نہیں رکھا۔ دنیا چند روزہ کھیل‬
‫تماشہ ہے۔ شیطان ہم سب کا کھال دشمن ہے۔ اس کا‬
‫کام بہکانہ ہے جس کا اس نے رب کائنات سے وعدہ‬
‫کیا ہے۔ جو کوئی دنیا میں شیطان کے بتائے ہوئے‬
‫راستے پر چلتا ہے جہنم میں بھی اس کا ساتھی بنے‬
‫گا۔ تم نے علم حاصل کیا لیکن اس پر عمل نہ کیا۔‬
‫مذہب کوئی بھی ہو وہ انسانیت کا درس دیتا ہے لیکن‬
‫تم نے اس کے برخالف عمل کرے اپنی ساری ریاضت‬
‫کو مٹی میں مال دیا۔ میں ایک بار پھر تمہیں سمجھاتا‬
‫ہوں کہ شیطان کی اطاعت سے باز آکر راہ راست پر‬
‫چلو۔‘‘ بڑے ہی شفیق لہجے میں حضرت صاحب نے‬
‫اسے سمجھایا۔’بند کر اپنا یہ ناٹک‘‘ وشنو داس دھڑا۔‬

‫’’ان بالکوں کو تو اس نوٹنکی سے اپنے بس میں کر‬


‫سکتا ہے پرنتو اس سمے تو وشنو داس مہاراج کے‬
‫سامنے کھڑا جس نے ورشوں کالی ماتا اور دیوی‬
‫دیوتاؤں کی تپسیا میں سمے بتایا ہے۔ تو نہیں جانتا‬
‫میری شکتی اپرم پار(بے پناہ) ہے‘‘ وہ حقارت سے‬
‫بوال‬
‫’’یہی تو میں تمہیں سمجھا رہا ہوں کہ جو وقت تم نے‬
‫اپنے مذہب کی تعلیمات حاصل کرنے میں گزارا ہے۔‬
‫اس کے مطابق انسانوں کے لئے باعث سکون بنو نہ‬
‫کہ ان کو ایذا دو‘‘ حضرت صاحب کی مہربان آواز آئی۔‬
‫’’جیادہ جیب نہ چال۔ میں تجھے اوسر (موقع) دیتا ہوں‬
‫کہ تو اپنے من کے ارمان نکال لے کہیں ایسا نہ ہو‬
‫بعد میں تجھے دکھ ہو۔۔۔وشنو داس مہاراج نے تجھے‬
‫اوسر نہ دیا۔‘‘ وہ مسلسل تکبر اور غرور کا مظاہرہ کر‬
‫رہا تھا۔‬

‫’’میں فقط یہ چاہتا ہوں کہ تم ان بے قصور انسانوں‬


‫کو یہاں سے جانے دو انہوں نے تمہارا کیا بگاڑا‬
‫ہے؟‘‘ حضرت صاحب نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔‬
‫’’ان پاپیوں کو جانے دوں‪ ،‬اس پاپن کو بھی جانے‬
‫دوں۔۔۔؟‘‘ اس نے رادھا کی طرف اشارہ کیا۔‬
‫’جس نے ہمرادھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ وشنو داس پیچ و‬
‫تاب کھا کر بوال۔‬
‫’’میں ان کو ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں‬
‫نہیں چاہتا کہ ایک ذی علم شخص کو میرے ہاتھوں‬
‫نقصان پہنچے۔ یوں بھی ہمارے مذہب میں بے وجہ‬
‫لڑائی جھگڑے اور زمین پر فساد پھیالنے سے منع کیا‬
‫گیا ہے۔‘‘ حضرت صاحب ابھی تک اسے سمجھا رہے‬
‫تھے۔ وشنو داس کی بد تمیزی کو انہوں نے بڑے‬
‫صبر سے برداشت کیا تھا۔‬
‫’جس نے ہمرادھرم نشٹ کر دیا۔‘‘ وشنو داس پیچ و‬
‫تاب کھا کر بوال۔‬

‫’’میں ان کو ساتھ لے جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں‬


‫نہیں چاہتا کہ ایک ذی علم شخص کو میرے ہاتھوں‬
‫نقصان پہنچے۔ یوں بھی ہمارے مذہب میں بے وجہ‬
‫لڑائی جھگڑے اور زمین پر فساد پھیالنے سے منع کیا‬
‫گیا ہے۔‘‘ حضرت صاحب ابھی تک اسے سمجھا رہے‬
‫تھے۔ وشنو داس کی بد تمیزی کو انہوں نے بڑے‬
‫صبر سے برداشت کیا تھا۔‬
‫’’پرنتو ہمرے دھرم میں ایسا کرنے کی آگیا دی گئی‬
‫ہے‘‘ وشنوداس نے تمسخر سے کہا۔‬

‫’’یدی تو ڈر گیا ہے تو میں تجھے آگیا دیتا ہوں کہ‬


‫یہاں سے چال جا۔ پرنتو جانے سے پہلے میرے چرن‬
‫چھو کر مجھے مہا شکتی مان سویکار کر‘‘وہ غرور‬
‫و تکبر کا پتال مسلسل ہر زہ سرائی کر رہا تھا۔‬
‫’’میں تمہارے قدموں کو ہاتھ لگانے پر بھی تیار ہوں‬
‫اگر تم ہللا کاپیغام سن کر اس پر غور کرنے کا وعدہ‬
‫کرو۔‘‘ یہ برداشت کی انتہا تھی۔ عجز کی انتہا تھی خود‬
‫تعالی کی خوشنودی کے لئے‬‫ٰ‬ ‫کی نفی کرکے ہللا‬
‫عاجزی اختیار کرنا کوئی ولی کامل ہی ایسے ضبط کا‬
‫مظاہرہ کر سکتا ہے۔‬

‫’’جان پڑتا ہے تو کچھ لے کر ہی جائے گا‘‘ وشنو‬


‫داس دانت پیس کر بوال۔ ساتھ ہی اس کے ہونٹ‬
‫متحرک ہوگئے۔ حضرت صاحب اطمینان سے کھڑے‬
‫رہے۔ وشنو داس نے اپنا ہاتھ بلند کیا۔ اس کے ہاتھ‬
‫میں ایک سانپ آگیا۔ کاال سیاہ سانپ جس کے منہ سے‬
‫شعلے نکل رہے تھے۔ اس کی شکل اتنی خوفناک تھی‬
‫کہ دل دہل جائیں۔ معنی خیز نظروں سے گھورتے‬
‫ہوئے اس نے وہ سانپ حضرت صاحب کی طرف‬
‫اچھال دیا۔ سانپ تیر کی طرف ان کی طرف بڑھا۔‬
‫اچانک حضرت صاحب کی آنکھوں سے بجلی کوندی‬
‫اور سانپ جل کر راکھ ہوگیا۔ جالل سے ان کا چہرہ‬
‫سرخ ہوگیا تھا۔ انہوں نے ایک قہر بار نگاہ وشنو‬
‫داس پر ڈالی۔‬
‫’’میرے بچو! چلو چلیں‘‘ وہ باہر جانے والے راستے‬
‫کی طرف مڑے۔‬

‫’’کیا تو نے مجھے مورکھ سمجھ رکھا۔۔۔میں تجھے‬


‫جانے کی آگیا دے دوں گا؟‘‘ وشنو داس پہلو بدل کر‬
‫بوال۔ اس کے بعد اس نے مختلف شعبدے دکھانے‬
‫شروع کر دیے۔ کچھ دیر تو حضرت صاحب برداشت‬
‫کرتے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے آخری بار اسے‬
‫سمجھایا لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔ حضرت صاحب‬
‫نے ایک بار پھر باہر کی جانب قدم بڑھائے۔ وشنو‬
‫داس اپنے وار خالی جاتے دیکھ کر پاگل ہوگیا۔ اس‬
‫نے کسی اجنبی زبان میں فلک شگاف نعرہ لگایا اور‬
‫اپنے گندے جسم سے میل کی ایک تہہ اتار کر ان کی‬
‫طرف اچھال دی۔ حضرت صاحب جو دروازے کی طرف‬
‫رخ کیے کھڑے تھے یکدم مڑے۔۔۔ان کی نگاہ‬
‫اتھی۔۔۔ایک عجیب نظارہ دیکھنے کو مال۔ ان کی‬
‫آنکھوں سے برق نکلی جیسے آسمانی بجلی زمین پر‬
‫گرتی ہے۔ وشنو داس ایک دلدوز چیخ کے ساتھ زمین‬
‫پر گر گیا۔ اس کے سارے جسم نے آگ پکڑ لی تھی۔‬
‫وہ زمین پر پڑا بری طرح ڈکرارہا تھا۔ آگ نے آنا فانا ً‬
‫اسے راکھ کے ڈھیر میں بدل دیا۔ اپنے گرو کی یہ‬
‫حالت دیکھ کر سب پجاری تھرتھرا اٹھے اچانک وہ‬
‫زمین پر گر گئے۔‬
‫’گرو جی! ہمیں شما کر دو۔۔۔دیا کرو ہم پر۔۔۔تم بلوان‬
‫ہو۔۔۔تمری شکتی اپرم پار(تمہاری طاقت بے پناہ )‬
‫ہے۔۔۔ہمیں شما کر دو۔۔۔ہم وچن دیتے ہیں کہ پھر کبھی‬
‫تمری راہ میں نہ آئیں گے‘‘ وہ یک زبان ہو کر چیخ‬
‫رہے تھے اور اپنے ماتھے زمین پر رگڑ رہے تھے۔‬

‫’’اٹھ کر کھڑے ہو جاؤ‘‘ حضرت صاحب نے مہربان‬


‫آواز میں انہیں حکم دیا۔‬
‫’’وہ تھرتھر کانپتے کھڑے ہوگئے۔ خوف سے ان کے‬
‫چہرے پیلے پڑ چکے تھے۔ ہاتھ جوڑے وہ حضرت‬
‫صاحب کے اگلے حکم کے منتظر تھے۔‬
‫’’اگر جھکنا ہے تو ایک ہللا وحدہ الشریک کے آگے‬
‫جھکو۔ وہی سب کائنات کا ملک ہے۔ سب تعریف ہللا ہی‬
‫کے لیے ہے ۔ میرا کام تم لوگوں کو ہللا کا پیغام دینا‬
‫تھا سو میں نے دے دیا۔ میرا تعلق قوم جنات سے ہے۔‬
‫ہمیں بعض کاموں میں انسانوں پر فضیلت دی گئی ہے۔‬
‫لیکن انسان کو تو ہللا پاک نے اشرف المخلوقات بنایا‬
‫ہے۔ ہماری قوم انسان پر رشک کرتی ہے جسے ہللا‬
‫تعالی نے اپنا نائب بنا کر زمین کی خالفت عطا فرمائی‬‫ٰ‬
‫ہے۔ لیکن مجھے تم لوگوں کے سلوک پر افسوس ہوا‬
‫ہے کہ تم انسان ہو کر انسانوں کو ناحق قتل کر رہے‬
‫ہو اور زمین پر دنگا فساد پھیالتے ہو۔‘‘ حضرت‬
‫صاحب نے تاسف سے سر ہالیا۔‬
‫’’جاؤ اپنے مقام پر واپس چلے جاؤ اور عہد کرو کہ‬
‫آج سے تم انسان کی فالح و بہبود کے لیے کام کرو‬
‫گے نہ کہ اسے ستانے کے لیے۔‘‘‬

‫ایک بار پھر گھپ اندھیرا چھا گیا لیکن صرف ایک پل‬
‫کے لئے۔ دوسرے ہی لمحے کمرہ پھر روشن ہوگیا۔‬
‫پجاری جاچکے تھے۔ وشنو داس اور کالی داس کی‬
‫راکھ بھی موجود نہ تھی۔ شاید پجاری اسے ساتھ لے‬
‫گئے تھے۔ حضرت صاحب نے کچھ دیر کے لئے‬
‫آنکھیں بند کرلیں۔ سب سر جھکائے خاموش کھڑے‬
‫تھے۔ میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ‬
‫کی طرف دالؤں وہ ابھی تک بے ہوش تھی۔ انہوں نے‬
‫مشفقانہ نگاہ مجھ پر ڈالی۔‬
‫’ادھر آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے مجھے بالیا۔ میں‬
‫ایسے ان کی طرف کھینچتا چال گیا جیسے لوہا‬
‫مقناطیس کی طرف۔ انہوں نے میرے دونوں ہاتھ تھام‬
‫لیا۔‬

‫’’تم بھی مبارک باد کے مستحق ہو۔ تم گناہوں کی دلدل‬


‫میں دھنس چکے تھے لیکن تمہاری نیک بیوی نے‬
‫تمہارے ضمیر کو جھنجھوڑا تم شرمسار ہوئے اور‬
‫گناہ کا راستہ چھوڑ کر اس معبود برحق کے آگے سر‬
‫بسجود ہوگئے اور اس پر قائم رہے۔ جس کا نتیجہ یہ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫نکال کہ ہماری یہ بچی تم سے متاثرہوگئی۔ ہللا‬
‫نے اسے ہدایت سے نوازا اور یہ مسلمان ہوگئی۔ تم‬
‫کافی مشقفت اور مصیبت اٹھا چکے ہو۔ ہللا تبارک و‬
‫تعالی رحیم و کریم ہے۔ وہ اس بندے کے گناہ معاف‬ ‫ٰ‬
‫فرما دیتا ہے جو سچے دل سے توبہ کر لے اور اس‬
‫پر قائم رہے۔ تم نے جو راستہ اختیار کیا تھا وہ سیدھا‬
‫جہنم کو جاتاتھا لیکن اس رحمن الرحیم کی مہربانی‬
‫دیکھو اس نے تمہاری دل سے کی ہوئی توبہ نہ‬
‫صرف قبول فرمائی بلکہ تمہیں انعام کے طور پر‬
‫سعادت بھی عطا فرمائی کہ تم ایک کافرہ کے قبول‬
‫اسالم کی سعادت کے لئے چن لئے گئے۔‘‘حضرت‬
‫صاحب کی گھمبیر آواز گونج رہی تھی۔ میری ہچکیاں‬
‫بندھ گئیں۔ اپنے گناہوں پر شرمندگی کے احساس نے‬
‫مجھے سر جھکانے پر مجبور کر دیا۔’’ میرے بچے!‬
‫تعالی پاک ہے اور پاکی کو پسند فرماتا‬
‫ٰ‬ ‫یاد رکھنا ہللا‬
‫ہے۔ کوشش کرو کہ تم کبھی نماز سے غافل نہ رہو۔‬
‫وضو اور نماز ‪ ،‬شیطان کے خالف ڈھال کا کام دیتے‬
‫ہیں۔ ہمیشہ باوضو رہنے والے پر اس معلون ابلیس کا‬
‫داؤ نہیں چلتا‘‘ میرا ہاتھ اپنے نرم و نازک پاکیزہ‬
‫ہاتھوں میں تھامے وہ درس دے رہے تھے۔ ان کا‬
‫ایک ایک لفظ میرے دل میں اتر رہا تھا۔‬
‫’’میرے پاس آؤ میرے بچے!‘‘ انہوں نے عبدالودود‬
‫کو اپنے پاس بالیا۔ اس کے بعد وہ رادھا کی طرف‬
‫متوجہ ہوئے جس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز‬
‫تھیں۔‬

‫’’میری بچی! میں چاہتا ہوں تمہارا نکاح عبدالودود‬


‫سے کر دوں اگر تمہیں اعتراض نہ ہو؟‘‘ سب حیران‬
‫رہ گئے۔ رادھا بری طرح شرما گئی۔ اب سے کچھ‬
‫عرصہ قبل وہ بڑی بے باکی سے باتیں کرتی تھیں‪،‬‬
‫بعض مرتبہ میں بھی شرما جاتا لیکن اسالم کو قبول‬
‫کرتے ہی اس اس کے اندر حیا خود بخود آگئی تھی۔‬
‫رادھا نے زبان سے تو کچھ نہ کہا البتہ سر ہال کر اس‬
‫کی منظوری دے دی اور ساڑھی کے پلو کو کچھ اور‬
‫آگے کھینچ کر اپنا چہرہ چھپا لیا۔‬
‫’مشورہ کرنا سنت نبوی ﷺ ہے۔ چونکہ عبدالودود‬
‫مجھے یہ حق تفویض کر چکا ہے کہ میں جہاں چاہوں‬
‫اس کا نکاح کر سکتا ہوں اس لئے میں نے اپنے‬
‫بچے سے نہ پوچھا۔ لیکن آپ ہمارے بھائی ہیں۔۔۔یہ‬
‫سعادت انجام دینے سے پہلے میں آپ بھائیوں سے‬
‫مشاورت کرنا ضروری سمجھا ہوں۔ کیوں برخودار؟‘‘‬
‫انہوں نے محمد شریف کی طرف دیکھا۔‬

‫’’مرشد! ہللا آپ کے درجات بلند کرے اس نیک کام‬


‫میں دیر کرنا مناسب نہیں۔ میں آپ سے متفق ہوں‘‘ وہ‬
‫نہایت ادب سے بوال۔ حضرت صاحب نے ابھی تک‬
‫کمال مہربانی سے میرا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔‬
‫’’برخوردار فاروق احمد! آپ کا کیا مشورہ ہے؟‘‘‬
‫انہوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔‬
‫’’حضرت صاحب! آپ ذی علم ہیں۔ میں نا چیز آپ کے‬
‫اس حکم سے اتفاق کرتا ہوں‘‘ میں نے ادب سے کہا۔‬
‫’الحمد ہلل‘‘ انہوں نے چھت کی طرف نگاہ دوڑائی۔‬
‫میں چاہتا تھا کہ حضرت صاحب کی توجہ صائمہ کی‬
‫طرف دالؤں۔میں نے بیڈ کی طرف دیکھا تو میرا دل‬
‫دھک رہ گیا۔ بیڈ پر دھند سی چھائی ہوئی تھی۔ کچھ‬
‫نظر نہ آرہا تھا جبکہ کچھ دیر قبل صائمہ باریک‬
‫پردوں کے پیچھے صاف دکھائی دے رہی تھی۔ میری‬
‫آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ جلدی سے بیڈ کی‬
‫طرف بڑھا۔‬
‫’برخوردار!‘‘ حضرت صاحب کی آواز آئی۔ میں نے مڑ‬
‫کر ان کی طرف دیکھا۔‬

‫’’فکر نہ کرو ہم نے صائمہ بٹیا کو سب کی نگاہوں‬


‫سے وقتی طور پر اوجھل کرنے کے لیے یہ سب کیا‬
‫ہے۔ یہاں آپ کے عالوہ کچھ نامحرم بھی موجود ہیں۔‬
‫اور بٹیا کالباس جوان کافروں نے انہیں زیب تن کروایا‬
‫تھا نامناسب ہے اس لئے ہمیں اس پردے کا بندوبست‬
‫کرنا پڑا‘‘ وہ میری پریشانی بھانپ چکے تھے اطمینان‬
‫بھری ایک سانس میرے سینے سے خارج ہوگئی۔‬
‫تقوی سے میرا دل بہت متاثر ہوا۔‬‫ٰ‬ ‫حضرت صاحب کے‬
‫’’بیٹی! اگر تمہیں منظور ہو تو اہم تمہارا اسالمی نام‬
‫تجویز کرنا چاہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے رادھا سے کہا۔‬
‫’اب تو آپ ہی ہمرے بڑے ہیں جو آپ کوبھال دکھے ہم‬
‫سے پوچھے بنا آگیا دیں ہم منع نہیں کریں گے‘‘ رادھا‬
‫نے نہایت ادب سے جواب دیا۔‬
‫تعالی تمہیں شاد آباد رکھے آمین‘‘ انہوں نے‬
‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫رادھا کے تابعداری سے خوش ہوکر اسے دعا دی۔‬
‫ہمارا خیال ہے ان کا نام عابدہ ہونا چاہئے۔‘‘ سب نے‬
‫ان کی با کی تائید کی۔‬
‫’’عابدہ بیٹی! آپ جا کر صائمہ بیٹا کا لباس تبدیل کر‬
‫دیں۔ الحمد ہللا وہ ہوش میں آچکی ہیں۔ لباس ان کے‬
‫پاس رکھا مل جائے گا۔‘‘ انہوں نے عابدہ کو حکم دیا۔‬

‫’’جو آگیا مہاراج مم۔۔۔حجرت جی‘‘ اس کے اس طرح‬


‫کہنے سے سب کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫لیکن پاس ادب سے خاموش رہے۔ رادھا بیڈ کے پاس‬
‫جا کر دھند میں غائب ہوگئی۔ میرا دل زور زور سے‬
‫دھڑک رہا تھا۔ صائمہ کے ہوش میں آنے کی خبر سن‬
‫کر میری آنکھیں خوشی کے آنسوؤں سے لبریز‬
‫ہوگئیں۔ اور دل بے اختیار ہللا کا شکر اا کرنے لگا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد دھند چھٹنی شروع ہوگئی۔‬
‫بیڈ کے پاس ہی صائمہ اور عابدہ کھڑی تھی۔ صائمہ‬
‫نے نہایت قرینے کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ محمد‬
‫شریف اور عبدالودود نے نظریں جھکا لیں۔ صائمہ کو‬
‫بھال چنگا دیکھ کر میں نے سکون کی سانس لی۔‬
‫’’حضرت صاحب! میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں‘‘ میں‬
‫نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔‬
‫’میری بچی! ادھر آؤ۔ انہوں نے صائمہ اور عابدہ کو‬
‫بالیا۔ دونوں چلتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔ بڑی سی‬
‫چادروں سے ان کے چہرے اور جسم اچھی طرح‬
‫ڈھکے ہوئے تھے۔ حضرت صاحب نے صائمہ کے سر‬
‫پر ہاتھ رکھا۔‬

‫’’جو بھی مصیبت یا تکلیف۔۔۔جن وانس کو آتی ہے ہللا‬


‫کے اذن سے آتی ہے۔ جس سے اس ذات کریم کا‬
‫مقصد اپنی مخلوق کے گناہ معاف فرمانا اور درجات‬
‫کو بلند کرنا ہوتا ہے۔ تم نیک ماں باپ کی اوالد ہو۔ ہللا‬
‫تعالی نے تمہیں شرم و حیا کے زیور سے آراستہ کیا‬ ‫ٰ‬
‫ہے۔ جو کچھ ہوا اسے بھول کر اپنی زندگی اسالم کی‬
‫تبلیغ میں صرف کرو۔ ہر دم ہللا کا شکر اداکرو۔ صرف‬
‫عبادت کر لینا کوئی کمال نہیں۔ اگر ہللا کے رسول‬
‫حضرت محمد ﷺ اور ان کے صحابہ بھی اپنی عبادت‬
‫کرتے تو سوچو ہم لوگ آج کیا مسلمان ہوتے؟‬
‫انسان۔۔۔خاص کرامت محمد ﷺ پر الزم ہے کہ وہ اسالم‬
‫کی تبلیغ کو اپنے روزہ مرہ کے کاموں کا حصہ بنا‬
‫لے۔ اسی میں نجات ہے۔‘‘ سب سرجھکائے ان کی‬
‫ایمان افروز باتیں سن رہے تھے۔ اس کے بعد انہوں‬
‫نے میری اور محمد شریف کی موجودگی میں‬
‫عبدالودود اور عابدہ کا نکاح پڑھایا۔ ان کی خوش‬
‫الحانی سے پڑھی گئی قرات مجھے آج بھی یاد ہے۔‬
‫گواہ ہم دونوں یعنی محمد شریف اور میں تھے۔ سب‬
‫نے عبدالودود کو مبارک باد دی۔ حضرت صاحب نے‬
‫مٹھائی تقسیم کی جو عبدالودود ایک لمحے میں لے آیا‬
‫تھا۔ لیکن اس کے لئے رقم محمد شریف نے بہم‬
‫پہنچائی کہ حضرت صاحب کا فرمان تھا بال قیمت کسی‬
‫سے چیز لے آنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے۔ صائمہ‬
‫میرے ساتھ کھڑی تھی۔ دہ بار بار میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی۔ میں اسکی بے چینی کی وجہ سے آگاہ تھا۔‬
‫وہ بچوں کے لئے فکر مند تھی۔ نکاح کے بعد حضرت‬
‫صاحب نے دونوں کے حق میں دعا فرمائی اور انہیں‬
‫قوم جنات کے دوسرے افراد کی تبلیغ کے لیے‬
‫دوسرے پر بھیج دیا۔ ان کے جانے کے بعد حضرت‬
‫صاحب نے ہمیں حکم دیا کہ اپنی آنکھیں بند کر لیں‬
‫اور ان کی اجازت کے بغیر ہرگز نہ کھولیں۔ آنکھیں بند‬
‫کرتے ہی مجھے اپناجسم ہلکا پھلکا محسوس ہوا۔‬
‫بعدمیں صائمہ اور محمد شریف نے میرے پوچھنے پر‬
‫بتایا تھا کہ انہیں بھی ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔‬
‫’میرے بچو! اانکھیں کھول دو۔‘‘ ان کہ مہربان آواز‬
‫آئی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو ہم اپنی گاڑی‬
‫کے پاس کھڑے تھے۔ آسمان پر صبح کی روشنی‬
‫نمودار ہونے لگی تھی۔ صبح کاذب کا وقت تھا۔‬

‫بچو ! جاؤ ہللا تماہرا حامی ہو ناصر ہو۔ میری‬


‫درخواست پر غور کرنا اور اپنی مصروفیات میں سے‬
‫تھوڑا بہت وقت نکال کر ہللا کا پیغام لوگوں تک‬
‫پہنچانے کے لئے اسالم کی تبلیغ کرتے رہنا۔ حضرت‬
‫صاحب کی آواز سنائی دی لیکن وہ نظروں سے اوجھل‬
‫تھے۔’’یا حضرت! کیا وہ دوبارہ آپ کی صحبت سے‬
‫شرف یابی ممکن ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔‬
‫’’اگر ہللا کا حکم ہوا تو کیونکہ ہم سے اس کے حکم‬
‫کے پابند ہے جس کے حکم کے بغیر پتا نہیں ہل‬
‫سکتا۔ اچھا میرے بچو! ہللا حافظ‘‘ اس کے ساتھ ہی‬
‫آواز آنا بند ہوگئی۔ ہم جس جگہ کھڑے تھے وہاں دور‬
‫دور تک کسی متنفس کا وجود نہ تھا۔ صائمہ نے چادر‬
‫کا پلو سر سے کھسکا کر پیار بھری نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا۔ میں نے بے اختیار اسے اپنے‬
‫بازؤں میں بھر لیا۔ وہ میرے شانے سے لگ کر‬
‫سسکنے لگی۔ میری آنکھوں میں بھی پانی اتر آیا۔‬
‫کافی دیر ہم یوں ہی کھڑے رہے۔ اس کے بعد میں نے‬
‫اس کا کندھا تھپتھپایا۔‬
‫’’حوصلہ کرو میری جان دیکھو ہللا پاک کے کرم سے‬
‫ہم ایک بار پھر اپنی کھوئی ہوئی جنت میں واپس جا‬
‫رہے ہیں‘‘ میں نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے‬
‫اسے تسلی دی۔ جب ہم واپس عمران کے گھر پہنچے‬
‫تو صبح کی نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ نازش نے صائمہ‬
‫کو لپٹا لیا۔ عمران میرے گلے لگ گیا۔ اس کی آنکھوں‬
‫میں خوشی کے آنسو تھے۔ عمران اور میں مسجد میں‬
‫نماز ادا کرنے چلے گئے۔ نازش چائے بنا الئیں۔ ہم‬
‫سب باتیں کرنے لگے۔ بچوں نے ماں کی آواز سنی تو‬
‫جاگ گئے اور بھاگے ہوئے آکر اس سے لپٹ گئے۔ وہ‬
‫بار بار اس کا منہ چومتے اور ننھے منے ہاتھوں میں‬
‫اس کا چہرہ تھام کر اسے دیکھنے لگتے۔ صائمہ نے‬
‫انہیں اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ اسی دن شام کو ہم سب‬
‫پروفیسر صاحب سے ملنے ان کے گھر گئے۔ رات کو‬
‫ہم دونوں نے ہللا کے حضور شکرانے کے نقل ادا‬
‫کئے۔ جس نے ہمیں بہت بری مصیبت سے بچایا تھا۔‬
‫اس واقعے کو گزرے آج اٹھارہ برس ہو چکے ہیں۔‬
‫اس کے بعد ہم چھ سال مزید اس شہر میں رہے پھر‬
‫میری تبدیلی واپس الہور ہوگئی۔ بیٹی کی شادی ہو‬
‫چکی ہے۔ احد ڈاکٹر بن چکا ہے۔ میں اور صائمہ اکثر‬
‫دعوت تبلیغ کے لے جایا کرتے ہیں۔ ہاں یاد آیا۔ اس‬
‫واقعہ کے کچھ عرصہ بعد ایک دن عبدالودود اور‬
‫عابدہ ہم سے ملنے آئے تھے۔ دونوں بہت خوش تھے۔‬
‫رادھا بلکہ عابدہ کہنا چاہیے صائمہ سے مل کر بہت‬
‫خوش ہوئی۔ آج بھی جب مجھے وہ وقت یاد آتا ہے تو‬
‫بے اختیار میرے منہ سے نکلتا ہے۔‬
‫اے ہللا! سب کی حفاظت فرما۔‬
‫آمین‪ ،‬ثم آمین۔‬

‫(ختم شد)‬

You might also like