You are on page 1of 753

‫‪Bahzad king‬‬

‫ناگن‬
‫‪Update_1‬‬

‫اس لڑکی کی کہانی جسے پانا میری‬


‫ضد تھی جسے پانا میر ی زندگی کا‬
‫مقصد تھا‬

‫موبائل کی بیل نے مجھے اٹھنےپر‬


‫مجبور کر دیا۔ راجو کے نام پر میں‬
‫نےیہ بیل محفوظ کی ہوئی تھی ۔‬

‫نہیں تو میرے موبائل پر صرف ایک‬


‫بیپ والی بیل لگی ہوئی تھی۔ جیسے‬
‫ہی میں نے کال اوکے کی ۔ نیلی‬
‫آنکھیں باس ۔ راجو نے بغیر تمہید کے‬
‫مخصوص سگنل دیا ۔ وہ ‪ 125‬پر‬
‫ہیں اور بائیک چالنے وال کوئی بازی‬
‫گر لگتا ہے میں اسے کھو بھی سکتا‬
‫ہوں ۔ بائیک کا نمبر نوٹ کر لو‪ ،‬میں‬
‫نے اسے ہدایت دی ۔ نمبر نہیں ہے‬
‫باس ‪ ،‬اپالئیڈ فار ہے ‪ ،‬آپ آجاؤ ‪،‬‬
‫میرے جسم میں جیسے بجلیاں دوڑ‬
‫گئ ۔ میں پاجامے کے اوپر ہی ٹی‬
‫شرٹ پہن کے والٹ ‪ ،‬چابیاں اور‬
‫موبائل ‪ ،‬موبائل تو میرے کان سے لگا‬
‫ہے۔ فلیٹ الک کر کے چار منٹ کے‬
‫اندر میں گاڑی اسٹارٹ کرچکا تھا۔‬
‫اس دوران راجو سے میں اس کی‬
‫لوکیشن پوچھ چکا تھا ۔ تین سال‬
‫پہلے میں نے راجو کو ایک مشن دیا‬
‫تھا ۔ نیلی آنکھوں والی کو ڈھونڈنے‬
‫کا ۔ تب سے اب تک یہ تالش جاری‬
‫تھی ۔ کچھ نیلی آنکھیں ملی پر اس‬
‫میں وہ نہیں تھی جس کی مجھے‬
‫تالش تھی ۔ اس وقت میں بڑی اوور‬
‫ڈرائیونگ کر رہا تھا ۔ صبح صبح‬
‫بیشتر سڑکیں خالی تھیں ‪ ،‬راجو سے‬
‫میرا مسلسل رابطہ تھا ۔ میں ان کی‬
‫مخالف سمت سے آرہا تھا ۔ کیا خیال‬
‫ہے راجو کہاں جا رہے ہیں وہ ؟۔ کسی‬
‫کالج یا یونیورسٹی کے لگتے ہیں ۔‬
‫راجو نے بات ختم بھی نہیں کی کہ‬
‫میں نے دوسرا سوال کر دیا‪ ،‬رستے‬
‫میں کون کون سے کالج یا یونیو‬
‫رسٹی آتے ہیں ۔ میں نے ایک سگنل‬
‫توڑتے ہوئے پوچھا ۔ جیسے ہی راجو‬
‫کا جواب آیا میں نے تیزی سے فیصلہ‬
‫کیا اور ایک شارت کٹ سے کینال‬
‫بینک روڈ کی طرف گاڑی موڑ دی ۔‬
‫کار سے زیادہ تیز میرا دماغ چل رہا‬
‫تھا ۔ باس وہ کینال روڈ کی طرف‬
‫مڑسکتے ہیں ۔۔۔۔ میں کینال بنک روڈ‬
‫پر پہنچ چکا ہوں میں نے راجو کی‬
‫بات ختم ہونے سے پہلے بتا دیا ۔‬
‫صبح صبح کینال روڈ پر بڑا رش ہوتا‬
‫ہے کئی کالج اسی طرف ہیں خاص‬
‫کر پنجاب یونیورسٹی اور دفتروں‬
‫کو جانے والے کچھ اس طرف سے‬
‫ائیر پورٹ جانے والے ۔ میری نظریں‬
‫بیک ِم رر پر تھی ۔ ایک ‪ 125‬بڑی‬
‫خطرناک ڈرائیونگ کرتا گاڑیوں کو‬
‫بائیں طرف سے اوور ٹیک کررہا تھا۔‬
‫میں بھی بائیں قطار میں آگیا ۔‬
‫جیسے ہی اس نے مجھے کراس کرنا‬
‫چاہا ۔ میں نے گاڑی تھوڑی نیچے اتار‬
‫دی ۔ اسے مجبورا بائیک آہستہ کرنی‬
‫پڑی ۔ گاڑی اس رش میں بائیک کے‬
‫سامنے کچھ بھی نہیں تھی ۔ اس‬
‫لیے میں اسے آگے نہیں نکلنے دیا ۔‬
‫باس میں نے آپ کی کار دیکھ لی ۔‬
‫راجو کی پرجوش آوازآئی ۔ راجو تم‬
‫آگے نکل جاؤ ۔ اوکے باس ‪ ،‬راجو‬
‫مجھے دیکھ کے پرجوش ہوگیا تھا ۔‬
‫اورکچھ لمحوں میں ُش وں کر کے‬
‫میری دائیں طرف سے گاڑیوں کے‬
‫درمیان سے خطرناک طریقے سے نکل‬
‫کےبائیں طرف سے کراسنگ کرنے لگ‬
‫گیا ۔ بائیں طرف اوور ٹیک خطرناک‬
‫ہوتا ہے پر کامیاب ہوتا ہے‬

‫میرے اندازے کے مطابق ‪ 125‬نے‬


‫بھی راجو کی طرح نکلنا چاہا جب‬
‫وہ میری کار کے درمیان میں آیا میں‬
‫نے کار کو ہلکا سا بائیں طرف کیا ۔‬
‫وہ پھنس گیا کچھ دیر بعد اسے‬
‫بائیں قطار میں جانا پڑا ۔ یہی میں‬
‫چاہتا تھا ۔اس کے آگے پیچھے گاڑیاں‬
‫تھیں‪ ،‬اس کے انتہائ بائیں طرف فٹ‬
‫پاتھ تھا اور فٹ پاتھ کے ساتھ نہر‬
‫تھی ۔ اور ادھر میری گاڑی‪ ،‬وہ بائیں‬
‫قطار میں پھنس چکے تھے ‪ ،‬نئی‬
‫بائیک کو اس نے ہوائی جہاز بنایا ہوا‬
‫تھا۔ اب میں نے لڑکی کی طرف‬
‫دیکھا ۔ وہ غصے سے میری طرف ہی‬
‫دیکھ رہی تھی ۔ اف خدایا اس کی‬
‫گہری نیلی آنکھیں اور ان آنکھوں‬
‫میں نیال سمندر اور اس نیلے سمندر‬
‫کے نیلگوں پانیوں میں دل کرتا تھا‬
‫ابھی چھالنگ لگا دوں۔ اس نے سفید‬
‫چادر سے نقاب کیا ہوا تھا ۔ بلکہ پورا‬
‫جسم پر چادر اس طرح تھی کہ اس‬
‫کے جسمانی خطوط کا کچھ اندازہ‬
‫نہیں ہو رہا تھا ۔ میرے اندازے کے‬
‫مطابق وہ ‪ 23‬سال کی لگتی تھی ۔‬
‫لڑکے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا ‪ ،‬اس‬
‫دوران لڑکے نے دو بارکٹ مار کے نکلنا‬
‫چاہا مگر میں نے اس کی چال ناکام‬
‫بنا دی ۔ اسے میری ُبھونڈی کا اندازہ‬
‫ہو چکا تھا ۔وہ تو پہلے ہی بڑاغصے‬
‫میں تھا‪ ،‬اسی کشمکش میں دو تین‬
‫کالج پیچھے رہ گئے ۔ مجھے ان کی‬
‫منزل کا اندازہ ہوگیا تو میں نے کار‬
‫آگے نکالنے میں دیر نہیں لگائی۔ راجو‬
‫تم باہر ہی رہنا ‪ ،‬کال بند کرنے سے‬
‫پہلے میں نے اسے ہدایت کی ۔ پھر‬
‫میں تانیہ کو کال کرنے لگا ۔ بڑے گھر‬
‫کی بگڑی ہوئی تانیہ اپنا کام بخوبی‬
‫سمجھتی تھی تانیہ پیڑنہیں گنتی‬
‫تھی اسے آم کھانے سے مطلب تھا ۔‬
‫کچھ ہی دیر میں ‪ ،‬میں تیز رفتاری‬
‫سے گاڑی پنجاب یونیورسٹی میں‬
‫لیتا گیا۔ گاڑی پارک کر کے میں‬
‫کینٹین کی طرف چل پڑ ا۔‬
‫‪125‬بائیک واال لڑکا سیدھا جمیعت‬
‫کے لڑکوں کے پاس گیا وہ انہیں‬
‫میرے بارے میں ہی بتا رہا ہو گا‪،‬۔‬
‫مگر جیسے ہی عرفان نے مجھے‬
‫دیکھا تو جھالہٹ میں اسے ہی ایک‬
‫جھانپڑ رسید کر دیا ۔ عرفان پہلے ہی‬
‫اوپر سے میری وجہ سے جھاڑیں کھا‬
‫چکا تھا ۔عرفان کی ملتجی آنکھیں‬
‫مجھے کچھ کہہ رہیں تھیں ‪،‬میں نے‬
‫سر ہال دیا ۔ میں نے بائیک والے لڑکے‬
‫کو واپس جاتے ہوئے دیکھا ‪ ،‬لگتا ہے‬
‫وہ نیلی آنکھوں کو صرف چھوڑنے‬
‫آیا تھا ‪ ،‬میں اس وقت نیلی آنکھوں‬
‫مے سحر میں کھویا ہوا تھا اور میرا‬
‫کسی سے بات کرنے کا بھی موڈ نہیں‬
‫تھا ۔ اسلیے کینٹین میں جا کے بیٹھ‬
‫گیا ۔ او شہزادہ ساڈے الہور دا ۔ ایک‬
‫خوشامدی آواز نے مجھے خیالوں سے‬
‫باہر کھنچ لیا ۔ وہ بشیر تھا ۔ میری‬
‫سرکار بڑے دنوں بعد درشن دیئے ہیں‬
‫آپ نے۔ اس کی خوشامد جاری تھی ۔‬
‫اور بشیر کیسے ہو ۔ مجھے اس سے‬
‫بات کرنی ہی پڑی ۔ میں ٹھیک جناب‬
‫‪ ،‬ایسے کرو دو کولڈ ڈرنک بھیج دو‬
‫مگرآج پہلے اچھا سا ناشتہ کراؤ ۔ او‬
‫میرے شہزادے ساری کینٹین ہی‬
‫تمھاری ہے ‪ ،‬ابھی میں ناشتہ بھیجتا‬
‫ہوں اپنے شہزادے کیلیے۔ بشیر چال‬
‫گیا اور میں پھر خیالوں میں کھو‬
‫گیا ۔ ‪ 4‬سال پہلے میرے اندر نیلی‬
‫آنکھوں کی طلب زیادہ زور مارنے‬
‫لگی ۔ لیکن صرف نام کے سہارے‬
‫اسے ڈھونڈنا بھوسے کے ڈھیر میں‬
‫سوئی ڈھونڈنے کے مترادف تھا۔ میں‬
‫نے اپنی سی کوشش کی مگر بات نہ‬
‫بنی ۔ مجھے کوئی ایسا چاہیے تھا‬
‫جس کا کام ہی آوارہ گردی ہو ‪ ،‬پھر‬
‫مجھے راجو مال ۔ آنٹیوں سے اپنے‬
‫خرچے نکالتا تھا ۔ میں اس سے ملتا‬
‫رہا اسے پرکھتا رہا ۔ مجھ سے بہت‬
‫متاثر تھا ۔ ایک دن پوچھنے لگا باس‬
‫‪،‬کوئی ایسی لڑکی بھی ہو جسے آپ‬
‫پا نہ سکیں ہوں ۔ ہاں ایک ہے ‪ ،‬کون‬
‫ہے وہ باس ؟ اس نے حیرانگی سے‬
‫پوچھا۔ اس کا نام دآلویز ہے ۔ کہاں‬
‫رہتی ہے وہ ‪،‬اس کا تجسس بڑھنے‬
‫لگا‪،‬پتہ نہیں کہاں ہو گی ۔اس نیلی‬
‫آنکھوں والی کو آخری بار دیکھا تھا‬
‫تو وہ ‪ 13‬سال کی تھی اور میں ‪16‬‬
‫سال کا تھا ۔اب تو وہ ‪ 23‬سال کی‬
‫ہوگئی ہوگی ۔اس کا باپ کا نام اور‬
‫کام ‪ ،‬راجو کے سوال جاری تھے‬
‫‪،‬سرور خان ‪ ،‬۔۔۔۔۔۔۔۔ کمپنی میں کام‬
‫کرتا تھا ۔ کچھ اور اس کے بارے میں‬
‫جانتے ہیں آپ ‪ ،‬راجو نے پھر سوال‬
‫کیا ۔ بس یہی کچھ جانتا ہوں ۔ ہاں‬
‫اس کی ماں کا نام نگینہ تھا ۔ نگینہ‬
‫کے نام سے ہی میرے منہ کا ذائقہ‬
‫جیسے کڑوا ہو گیا۔اور کچھ ان کے‬
‫بارے میں ۔ راجو نے پوچھا ۔ دونوں‬
‫میاں بیوی پیدائشی لہوری ہیں اور‬
‫پٹھان خاندان سے ہیں وہ آپ کو کہا‬
‫ملی تھی ؟۔وہ کرائے کے مکان میں‬
‫رہتے تھے اس کا پرانا ایڈریس بتا کہ‬
‫میں راجو کو پر خیال نظروں سے‬
‫دیکھنے لگا۔ اسی کام کیلیے میں اسے‬
‫اپنی مصروفیات سے وقت دیتا تھا‬
‫باس میں الہور کو اپنے ہاتھ کی‬
‫لکیروں کی طرح جانتا ہوں ہر گلی‬
‫سے میں گزرا ہوں ۔ہر گرلز کالج ‪ ،‬ہر‬
‫یونیورسٹی کا مجھے پتہ ہے ‪ ،‬باس‬
‫میں اسے ڈھونڈوں گا آپ کیلیے ‪،‬‬
‫راجو مجھے امپریس کرنا چاہتا تھا ۔‬
‫اچھا سوچ لو یہ کوئی آسان کام‬
‫نہیں ہے ۔ایک سال بھی لگ سکتا ہے‬
‫‪،‬میں نے سے پکا کیا ۔ دو سال بھی‬
‫لگ جائیں تو پرواہ نھیں ہے ۔اس نے‬
‫جوش سے کہا ‪ ،‬میں نے اسے ایک‬
‫پرانی ہنڈا ‪ 70‬لے دی ۔ جیب خرچ‬
‫بھی کبھی کبھار دے دیتا ۔ پھر جب‬
‫مجھے تسلی ہوگئی کہ وہ سنجیدگی‬
‫سے تالش کر رہا ہے تو اس کا جیب‬
‫خرچ مستقل کر دیا ۔ چھ سو‬
‫چوراسی میل پر پھیال ہوا الہور کئی‬
‫شہروں جیسا ایک شہر تھا ۔اسوقت‬
‫دوہزاردس میں اس کی آبادی دس‬
‫کڑوڑ کے لگ بھگ تھی ۔ بالشبہ راجو‬
‫کو ایک مشکل مشن دیا تھا لیکن وہ‬
‫اس کیلیے موزوں ترین تھا ‪،‬ڈھونڈتے‬
‫ڈھونڈتے دوہزار بارہ آگیا ۔ لیکن راجو‬
‫کا جوش کم نہیں تھا ۔ میں پرنس‬
‫جو تھا اس کے جوش کو تیز کرنے‬
‫کیلیے ۔ دوہزار گیارہ میں راجو نے‬
‫اپنی توجہ ہائیر سیکنڈری سکولوز ‪،‬‬
‫کالجز اور یونیورسٹیز پر مبذول‬
‫کردی تھی۔ یہ اس کا پسندیدہ کام‬
‫بھی تھا ۔ اس تالش سے اب پھر ایک‬
‫نیلی آنکھوں والی ملی تھی ۔ کافی‬
‫دیر ہوگئی تھی تانیہ ابھی تک نہیں‬
‫آئی تھی ۔ میں اس دوران ناشتہ کر‬
‫چکا تھا ۔ ِا دھر دو کولڈ ڈرنک آئی‬
‫ُا دھر تانیہ آگئی ‪،‬میں اس کی طرف‬
‫سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ بتاتی‬
‫ہوں پہلے کولڈ ڈرنک تو پینے دو ۔‬
‫بڑے دنوں بعد تم ہاتھ آئے ہو وہ بھی‬
‫صبح صبح ‪ ،‬جناب کی صبح تو ایک‬
‫دو بجے سے پہلے نہیں ہوتی ۔ تانیہ‬
‫یہی سمجھ رہی تھی کہ میں عام‬
‫حاالت کی طرح کسی کا پیچھا کرتا‬
‫ہوا آیا تھا ۔ اچھا اچھا بتاتی ہوں‬
‫میرے چہرے کہ بدلتے تاثرات طرف‬
‫دیکھ کہ وہ بے ساختہ بولی۔ اس کا‬
‫نام دآلویز ہے میرے خون کی گردش‬
‫یکدم تیز ہوگئی ۔ ایم اے انگلش کے‬
‫فائنل ایئر میں ہے ۔ پٹھان فیملی سے‬
‫ہے ۔ باپ کا نام سرور خان ہے ۔ یہ‬
‫اس کا ایڈریس اور فون نمبر ہے ۔‬
‫تانیہ نے نوٹس سے پھاڑا ہوا کاغذ کا‬
‫ٹکڑا میری طرف بڑھایا ۔ ہر وقت‬
‫نقاب میں رہتی ہے بلکہ چادر کو‬
‫ایسے لپیٹتی ہے کہ اسکا کچھ پتا‬
‫نہیں چلتا ۔ کافی نک چڑھی ہےکچھ‬
‫لڑکے اس کی طرف بڑھے مگر جب‬
‫سے اس نے ایک لڑکے کو تھپڑ‬
‫مارےہیں تب سے کوئی لڑکا اس کی‬
‫طرف نہیں بڑھتا ۔ پتہ نہیں خود کو‬
‫کیا سمجھتی ہے ۔ بڑی آئی ملکہ‬
‫حسن کہیں کی ۔ تانیہ نسوانی جالپے‬
‫سے بولی تو میں سمجھ گیا کہ‬
‫دآلویز کا حسن دیکھنے کی چیز ہو‬
‫گا ۔ اور ایک خاص بات اپنی مما سے‬
‫اس کی جان جاتی ہے بہت ڈرتی ہے‬
‫اس سے۔ اس کی مما کا نام کیا ہے ؟‬
‫میں نے بے ساختہ پوچھ لیا ۔ شاید‬
‫نگینہ بتا رہی تھی اس کی دوست ۔‬
‫تو نگینہ میں تم تک پہنچ ہی گیا‬
‫‪،‬میں نے دل میں کہا ۔ تانیہ میری‬
‫حالت سے بے خبر اپنی ہی کہی جا‬
‫رہی تھی‪ ،‬پتہ ہے ابھی وہ اپنی‬
‫دوستوں سے کیا بات کر ہی تھی ۔‬
‫کسی بگڑے ہوئے امیر زادے نے آج‬
‫اس کا پیچھا کیا اور انہیں بڑا تنگ‬
‫کیا۔ ہم دونوں مسکرانے لگے۔ آج جس‬
‫کے ساتھ دآلویز آئی تھی وہ کون تھا‬
‫اس کے پاس نئی ‪ 125‬بائیک ہے اور‬
‫اسے ہوائی جہاز سمجھتا ہے ‪ ،‬شاید‬
‫تم نے اسے دیکھا ہو ۔ ظاہر ہے پیچھے‬
‫لڑکی بیٹھی ہو اور بائیک نئی ہو تو‬
‫ہوا میں ہی اڑنا ہے ۔ ویسے اس کا‬
‫کوئی کزن ہے ۔ اپنی دوستوں سے‬
‫یہی باتیں کر رہی تھی کہ آج کزن‬
‫کے ساتھ آنے کی غلطی کر لی آئیندہ‬
‫یونیورسٹی کی بس میں ہی آئے گی۔‬
‫اس دوران میں راجو کو دآلویز کا‬
‫ایڈریس میسج کر چکا تھا ساتھ ہی‬
‫اسے ہدایت کی کہ ہوشیاری سے اس‬
‫کی پوری معلومات لے کے شام کو‬
‫فلیٹ پر آجائے ۔ تو اب آپ کا کام ہو‬
‫گیا اب چلیں فلیٹ پر ‪ ،‬تانیہ نے بڑے‬
‫ندیدے پن سے کہا ۔ تانیہ کو بالیا تھا‬
‫تو مجھے اندازہ تھا کہ پیڑ نہیں‬
‫گنتی پر آم ضرور کھائے گی جب‬
‫میں اپنی کار میں بیٹھا توتانیہ نے‬
‫فرنٹ ڈور کھولنے کا اشارہ کیا ۔ کیا‬
‫بات ہے لے آؤ اپنی کار میں نے شیشہ‬
‫نیچے کرتے ہوئے کہا ‪،‬نہیں نہیں میں‬
‫تمھارے ساتھ جاؤں گی تمھارا کوئی‬
‫اعتبار نہیں ہے ملنا تو دور کی بات‬
‫کال تک ریسیو نہیں کرتے جناب‬
‫پرنس صاحب ۔ میں تمھیں چھوڑنے‬
‫نہیں آسکتا ‪ ،‬کوئی بات نہیں میں‬
‫ٹیکسی سے آجاؤں گی‪،‬مجھے اسے‬
‫بٹھانا ہی پڑا ۔ آخری لمحے بھی تم‬
‫باز نہیں آئے ۔ تانیہ نے روٹھے انداز‬
‫میں کہا۔ نہیں یار میں تمھیں فیس‬
‫دیئے بغیر غائب نہیں ہونا تھا ‪،‬میری‬
‫فیس والی بات پر تانیہ کی ہنسی‬
‫نکل گئی۔ شکر کرو ندا اور صائمہ کو‬
‫نہیں بتایا میں نے ۔ نہیں تو فیس‬
‫تین گنا ہو جانی تھی ۔ باتیں کرتے ہم‬
‫فلیٹ پر پہنچ گئے ۔‬

‫فلیٹ میں داخل ہوتے ہی تانیہ‬


‫پاگلوں کی طرح مجھ سے لپٹ گئی‬
‫اور مجھ سے کسنگ کرنے لگی ۔ تانیہ‬
‫کا انداز ایسا تھا جیسے بھوکے کو‬
‫کئی دن بعد کھانا مال ہو۔ او پرنس‬
‫تم بہت ظالم ہو‪،‬کاش تمھیں کسی‬
‫طرح باندھ سکتی ۔ تانیہ شدت سے‬
‫پاگل ہورہی تھی ۔ ہماری زبان اور‬
‫ہونٹ بڑے مصروف تھے ‪،‬اور ہاتھوں‬
‫کو کہیں آرام نہیں تھا ۔ ہم کسنگ‬
‫کرتے رہے ۔ کسنگ کرتے ہوئے تانیہ نے‬
‫میری ٹی شرٹ اتار دی تو میں اس‬
‫کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگ گیا۔‬
‫میں نے اس کی شرٹ اتاری ہی تھی‬
‫کہ اسنے میرے پاجامے کی ڈوری پکڑ‬
‫کے کھولی اور ایک جھٹکے سے‬
‫پاجامہ نیچے بیٹھ کے اتار دیا ۔ میں‬
‫اپنا انڈرویئر اتارنے لگ گیا تو تانیہ‬
‫نے اپنی جینز اتار کر برا بھی کھول‬
‫دی ۔ تانیہ چوبیس سال کی مست‬
‫جوانی تھی خوبصورت گوالئی نما‬
‫چہرہ ۔ گوری رنگت‪ ،‬تنے ہوئےممے ۔‬
‫اسمارٹ جسم جو اب انگارا بنا ہوا‬
‫تھا ۔ تانیہ کی سسکاریاں تیز ہونے‬
‫لگی تھی اسے گرم کرنے کی ضرورت‬
‫نہں تھی وہ تو بڑی مشکل سے خود‬
‫کو سنبھالتی آئی تھی ۔ پرنس ڈال‬
‫دو اندر تانیہ نے شدت سے میرے گلے‬
‫لگتے ہوئے کہا اس کی چوت میرے‬
‫عضو کو چومنے لگی ۔ ہم فلیٹ کے‬
‫دروازے کے ساتھ ہی ابھی تک کھڑے‬
‫تھے میں نے اسے دیوار کے ساتھ لگا‬
‫کے اس کی دائیں ٹانگ تھوڑی سی‬
‫اٹھائی اور اپنا عضو اس کی چوت‬
‫میں ڈال دیا ۔ تانیہ نے اپنی بانہوں کا‬
‫ہار میرے گلے میں ڈاال ہوا تھا ۔ میں‬
‫تانیہ کو چودنے لگ گیا ۔ تیز چودو‬
‫پرنس تیز۔ تانیہ چیخی ۔ ایسی‬
‫چیخوں کیلیے ہی تو میرا فلیٹ‬
‫ساؤنڈ پروف تھا ۔ میرے دھکے کوئی‬
‫عام دھکے نہیں تھے ۔ میں پوری‬
‫شدت سے تانیہ کی چدائی کرنے لگا ۔‬
‫میرے ہر دھکے پر تانیہ مزے کی‬
‫شدت سے چیخنے لگی ۔ میرے دھکے‬
‫اور اس کی چیخیں جیسے موسیقی‬
‫کی ردھم پر تال میل مال رہے تھے ۔‬
‫مار دو پرنس مجھے چود چود کے‬
‫مار دو میں تمھاری بانہوں میں‬
‫چدتے ہوئے مرناچاہتی ہوں ۔ تانیہ‬
‫مجھے پاگل کر رہی تھی ۔ میں بھی‬
‫ایسے چدائی کر رہا تھا ۔جیسے اپنے‬
‫دھکوں سے اس انارکلی کو دیوار‬
‫میں گاڑ دوں گا ۔ تانیہ نے پانی چھوڑ‬
‫دیا تھا ‪ ،‬تو بھی میرے دھکوں میں‬
‫کمی نہ آئی ۔ تانیہ گہرے گہرے‬
‫سانس لینے لگی ۔ بیڈ پر لے چلو‬
‫پرنس مجھ سے اب کھڑا نہیں ہوا‬
‫جاتا ۔ پانی نکلتے ہی وہی دھکے اب‬
‫درد دینے لگے تھے ۔ میں نے اسے اسی‬
‫طرح اٹھایا اور بیڈ پر ال پٹخا۔ تانیہ‬
‫میری عادت سمجھتی تھی وہ کپڑے‬
‫سے اپنی چوت صاف کرنے لگی ۔‬
‫میں نے پھر اس کی چوت پر اپنے‬
‫ہتھیار سے حملہ کر دیا ۔ اس کی‬
‫ٹانگیں کھول کے میں ٹھکا ٹھک‬
‫کھدائی کرنے لگا ۔ پانی نکالنے کیلیے‬
‫گہری کھدائی کرنی ہی پڑتی ہے ۔‬
‫میرا عضو چوت کی گہرائیوں میں‬
‫گھسنے کےلیے بار بار حملے کرتا رہا ۔‬
‫تانیہ کی سسکاریاں پھر شروع‬
‫ہوچکی تھیں ۔ تانیہ انگلش میں (فک‬
‫می فک می) کی گردان کر رہی تھی‬
‫۔ اس کا شعلہ جسم بھڑک چکا تھا‬
‫اور اس کی آگ میں ہم جھلس کے‬
‫دیوانے ہو رہے تھے ۔ تانیہ بڑی بے تاب‬
‫تھی سو میں نیچے لیٹ گیا اور اسے‬
‫گھوڑے پر بٹھا کر بے تابی نکالنے کا‬
‫پورا موقع دیا ۔ ایسے موقع پر میں‬
‫آرام سے جوانی کی شدت کا مزہ لینا‬
‫چاہیئے ۔ اب اس کے شعلہ جسم اپنی‬
‫آگ کو بجھانے لگا ۔ لیکن عجیب بات‬
‫تھی جتنا بجھانے کی کوشش کر‬
‫رہی تھی اتنی آگ اور بھڑک رہی تھی‬
‫‪ ،‬ایسی شدت ہو تو فراغت کیسے دیر‬
‫کر سکتی تھی ۔ وہ آگئی اور ہمیں‬
‫ایسا لگا جیسے ٹانگوں سے جان نکل‬
‫رہی ہو۔ کچھ دیر تو گہرے سانس‬
‫لیتے رہے ۔ پھر ایکدوسرے کی طرف‬
‫دیکھا اور ہماری ہنسی نکل گئی ۔‬
‫اچھا تو میری بانہوں میں چدتے‬
‫ہوئے مرنا چاہتی ہو‪ ،‬کاش تم میری‬
‫یہ خواہش پوری کر دو ‪،‬تانیہ نے‬
‫حسرت سے کہا تو مجھے اس کے‬
‫لہجے کی سنجیدگی کی وجہ سے‬
‫محتاط ہونا پڑا ۔ چلو تمھیں‬
‫آسمانوں کی سیر کراتی ہوں ۔ تانیہ‬
‫نے میرا عضو پکڑ کے اپنا منہ اس کے‬
‫پاس لے جاتے ہوئے کہا ۔ جیسے ہی‬
‫اس نے میرا عضو کو چوما اور‬
‫چوسنا شروع کیا ۔ میرے جسم میں‬
‫کرنٹ سا دوڑنے لگ گیا۔ تانیہ مجھے‬
‫دوسرے راونڈ کیلیے تیار کرنے لگی‬
‫تھی ۔ اسے چوسنے میں مہارت تھی‬
‫۔ اور مجھے اس کا شوق تھا ‪،‬تانیہ‬
‫میری اس کمزوری سے واقف تھی‬
‫اس نے مجھے اتنا کرنٹ لگایا کہ‬
‫ٹرانسفر بنا دیا تا کہ یہی کرنٹ میں‬
‫اسے چودنے میں لگاؤں ۔۔ لیکن میرے‬
‫کچھ اور ہی ارادے تھے میں اس کی‬
‫آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلیے لیٹ گیا اور‬
‫اسے گھوڑے پر بٹھا دیا پہلے پہل تو‬
‫وہ جوش سے لگی رہی اور خوب‬
‫سواری کی پھر وہ آہستہ ہونے لگی‬
‫لڑکیوں کے لیے یہ کوئی آسان کام‬
‫نہیں ہے میں نے اسے آرام نہیں کرنے‬
‫دیے اور اسے جوش دالتا رہا اور تانیہ‬
‫سواری کرتی رہی ۔ تانیہ پھر مدہم‬
‫پڑنے لگی اسکی بس ہورہی تھی ۔اب‬
‫میں اس کی کمر سے پکڑ کے اسے‬
‫اوپر نیچے کروانے لگا پہلے وہ تھکی‬
‫تھی اب نڈھال ہونے لگی اور پھر‬
‫میرے اوپر گر پڑی ۔ اس کا سانس‬
‫دھونکنی جیسا چل رہا تھا اسے‬
‫کچھ مہلت دے کہ پھر میں شروع‬
‫ہوگیا اور اب کی بار میں نے اس کی‬
‫تسلی کروا دی ۔ آدھے گھنٹے بعد‬
‫جسم نارمل ہو گیا تو میں نہانے چال‬
‫گیا۔ میں نہا کے نکال تو تانیہ اٹھی وہ‬
‫کچھ تھکی تھکی لگ رہی تھی۔ میں‬
‫نے اسے ایک ٹھنڈی بیئر دی ایک خود‬
‫پینے لگا ۔اس سے وہ کچھ بہتر‬
‫محسوس کرنے لگی ۔ اور کپڑے پہن‬
‫کر چلی گئی۔ جب سے دآلویز کا پتہ‬
‫چال تھا میرے دل میں اتھل پتھل‬
‫ہورہی تھی ۔ اگر تانیہ کی جگہ کوئی‬
‫اور ہوتی تو میں نے بالکل دھیان‬
‫نہیں دینا تھا ‪،‬لیکن تانیہ میرے بہت‬
‫کام آتی تھی ۔ یونیورسٹی میں وہ‬
‫میری آنکھوں کا کام کرتی تھی ۔ سو‬
‫اسے غذا دینی ضروری تھا۔‬

‫اب میرے دل میں بہت سے خیاالت‬


‫آنے شروع ہوگئے ۔ ماضی کی یادیں‬
‫مجھے پوری شدت سے ستانے لگی۔‬
‫جو باتیں پہلے دھیمی آنچ پر ستاتی‬
‫تھیں آج وہ ایکدم شعلہ سی بننے‬
‫لگی ۔ دل تو یہی کر رہا تھا کہ ابھی‬
‫جاؤں اور نگینہ کے سامنے اس کی‬
‫دآلویز کو چیر پھاڑ دوں ۔ میں نے‬
‫ایک اوربیئر نکالی اور چسکیوں میں‬
‫پینے لگا ۔ برہم مزاج کو ٹھنڈا کرنے‬
‫لگا ۔ مگرماضی میرے سامنے کسی‬
‫فلم کی طرح چلتا رہا ۔‬

‫یہ لے اماں تیرا پوتا آگیا ‪،‬تو پوتا پوتا‬


‫کرتی تھی نہ اب اسے سنبھال ۔‬
‫میرے والد کے دوست سرور خان نے‬
‫مجھے اپنی ماں کو تھماتے ہوئے کہا ۔‬
‫سرور خان کی والدہ جیسے میرے‬
‫بارے میں سب جانتی تھی ۔ میں‬
‫اس وقت بارہ سال کا تھا اور غم سے‬
‫نڈھال تھا ابھی پرسوں ہی تو میرے‬
‫والد صاحب کی فیکڑی میں کام‬
‫کرتے ہوئے وفات ہوگئی تھی ‪،‬ماں تو‬
‫میرے پیدا ہوتے ہی اس دنیا سے‬
‫چلی گئی تھیں ۔ اب اس دنیا کے‬
‫صحرا میں اکیال تھا ‪،‬مگر نہیں کسی‬
‫نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ خدا نے پال‬
‫پالیا بیٹا دے دیا اس کا جتنا شکر‬
‫کرو کم ہے ۔ سرور خاں کی والدہ نے‬
‫مجھے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا ۔‬
‫لیکن جیسے ہی اس نے مجھے اپنے‬
‫ساتھ لگایا اسے جیسے جھٹکا لگا ۔‬
‫وہ مجھے غور سے دیکھنے لگی ۔ پھر‬
‫ان کے چہرے پر نورانیت ابھر آئی‬
‫اور انھوں میں مجھے اپنے ساتھ لگا‬
‫کے میرا سر چوم لیا۔ مجھے لگا‬
‫جیسے میں صحرا سے کسی‬
‫نخلستان میں آگیا ہوں ۔ کوئی قریبی‬
‫رشتہ دار تو تھا نہیں ‪ ،‬اور دور والے‬
‫پاس آنا نہیں چاہتے تھے ۔ مکان‬
‫کرائے کا تھا مالک مکان نے قل‬
‫خوانی ہوتے ہی سرور خاں سے بات‬
‫کی اور جو تھوڑا سامان تھا وہ لیا‬
‫اور یوں میں اس کا بیٹا بن کے اس‬
‫کے گھر آگیا ۔ یہ بات تو مجھے بعد‬
‫میں پتہ چلی کہ فیکٹری میں والد‬
‫صاحب کی حادثاتی وفات کی وجہ‬
‫سے سرور خان نے فیکڑی مالکان سے‬
‫مجھےآگے کر کے اچھا خاصا پیسا‬
‫بٹور لیا تھا۔ ایک بار تو اس نے مجھے‬
‫اپنے گھر النا ہی تھا ۔ مجھے سرور‬
‫خان کی والدہ کی شکل میں دادی‬
‫مل گئی ۔ دادی نے مجھے اتنا پیار دیا‬
‫کہ مجھے ماں کی کمی بھی بھول‬
‫گئی۔ گھر کا ایک اور فرد بھی تھا۔‬
‫وہ تھی دآلویز جس کی عمر اس‬
‫وقت نو سال تھی۔ سرخ وسپید‬
‫رنگت‪،‬نیلی آنکھیں با لکل کسی گڑیا‬
‫کی طرح تھی میں نے اس کے ساتھ‬
‫کئی بار کھیلنا چاہا مگر وہ مجھ سے‬
‫دور رہتی تھی شاید ابھی اس نے‬
‫مجھے قبول نہیں کیا تھا ‪ ،‬میں نے‬
‫اس کی ہر چیز جو آدھی بانٹ لی‬
‫تھی خاص کر دادی تو پوری ہی لے‬
‫لی تھی ۔ دادی آپ اپنی یہ الٹھی اب‬
‫رکھ دیں میں آپ کی الٹھی ہوں‬
‫‪،‬میں اکثر دادی سے نہ صرف کہتا‬
‫بلکہ ہر وقت ان کی خدمت میں‬
‫حاضر بھی رہتا ‪،‬دادی بھی اب ہر کام‬
‫کیلیے مجھے ہی کہتی تھی ‪ ،‬نگینہ‬
‫بھی پیار کر لیتی تھی ۔کسی وقت‬
‫باہر لڑکوں سے بھی کھیل لیا کر‬
‫سکول سے آتا ہے تو دادی کی جان‬
‫کو چمٹا رہتا ہے ‪ ،‬ایسی باتیں کر کے‬
‫نگینہ مجھے گود میں بٹھا لیتی ۔‬
‫مجھے چومتی مجھے اپنے ساتھ لپٹا‬
‫لیتی ‪ ،‬مجھے اتنی تو سمجھ نہیں‬
‫تھی مگر نگینہ کے پیار میں دادی‬
‫والی بات نہ تھی۔ یہ تو ویسے ہی‬
‫تھی جیسے میرے اپنے گھر میں‬
‫ہماری گلی کی خالہ او رباجیاں‬
‫مجھے لپٹاتی تھیں چومتی تھیں ۔ ہر‬
‫کوئی یہی جتاتا تھا کہ بن ماں کے‬
‫بچے کا بڑا خیال رکھتی ہیں ۔ کوئی‬
‫میرا نام نہیں لیتا تھا ۔ سب مجھے‬
‫شہزادہ کہتی تھیں پتا نہیں کیا بات‬
‫تھی جو کوئی مجھے دیکھتی تھی‬
‫مجھے اپنے ساتھ لپٹاتی تھی یا‬
‫کوئی کوئی ایسی بھی تھی جو‬
‫مجھ سے بدکتی تھی ۔ جیسے پہلی‬
‫دفعہ دادی مجھ سے بدکی تھیں ۔‬
‫یہاں بھی میں سب کیلیے شہزادہ‬
‫تھا ۔ باہر نکلتا توکوئی آواز آتی ‪،‬‬
‫ادھر آنا شہزادے بات سننا ۔ ہمسائی‬
‫خالہ نے آواز دی ‪ ،‬وہ مجھے اندر لے‬
‫گئی کتنا معصوم ہے اس نے مجھے‬
‫گود میں لے لیا۔بہت ہی پیارا بچہ ہے‬
‫دوسری نے میرے گال چوم لیا ۔یہ لے‬
‫یہ کھیر کھا لے۔ بن ماں باپ کا بچہ‬
‫ہے اسنے مجھے اپنے ساتھ لپٹا کے‬
‫بھینچ لیا ۔۔ایسا ہی ہوتا تھا۔ وہ بن‬
‫ماں باپ کے بچے کو پیار کر کے اپنے‬
‫دل کوسکون دیتی تھیں ۔ دادی نماز‬
‫روزے کا بہت خیال رکھتی تھیں ۔ ہر‬
‫وقت ان کی زبان تسبیح کرتی رہتی‬
‫تھی‪ ،‬ان کے چہرے ہر ایک نورانی‬
‫ہالہ سا محسوس ہوتا تھا‪،‬گلی محلے‬
‫کی عورتیں ان سے مشورے کرتی‬
‫تھیں ان کی بڑی عزت کرتی تھیں‬
‫بلکہ ان کی پوری برادری میں چھوٹے‬
‫بڑے سب ان کی مانتے تھے ۔ ۔ میرا‬
‫بیٹا‪ ،‬شہزادہ ادھر تو آ ‪ ،‬دادی کی بات‬
‫پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ میں‬
‫ان کے پاس تھا۔ جی دادی ۔ بیٹا تو‬
‫کھیلتا ہی رہتا ہے ادھر اپنی بوڑھی‬
‫دادی کے پاس بھی بیٹھ جایا کر ۔‬
‫ہمیشہ دادی ایسے ہی کہتی تھیں اور‬
‫پھر ان کی باتیں شروع ہو جاتیں‬
‫تھیں ۔پتہ نہیں کہاں کہاں کہ قصے‬
‫کہانیاں مجھے سناتی رہتیں ۔ دآلویز‬
‫بھی آکےبیٹھ جاتی لیکن پھر بیزار‬
‫ہو کے اٹھ جاتی تھی ۔ مجھے نہیں‬
‫پتہ تھا دادی میری تربیت کر رہی‬
‫تھیں۔ مجھے اچھائی برائی کا فرق‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪ ،‬رشتوں کا تقدس‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪ ،‬دنیا کی اونچ نیچ‬
‫سمجھا رہی ہیں ‪،‬ان کی بہت سی‬
‫باتیں میرے شعور میں اور کچھ‬
‫میرے الشعور میں محفوظ ہوتی‬
‫جاتی تھیں ۔ ماں باپ کے بغیر بچوں‬
‫کے ذہن ویسے بھی جلدی بالغ ہو‬
‫جاتے ہیں دادی نے مجھے پالش کر‬
‫کے بہت کچھ وقت سے پہلے ہی‬
‫سمجھا دیا ۔ دآلویزا۔ او ‪،‬۔دآلویزا چل‬
‫اپنی ماں کے ساتھ کام کروا ۔ جب‬
‫دیکھو کھیلتی رہتی ہے ۔ جب بھی‬
‫میں اور دآلویز کھیلتے دادی کی یہی‬
‫آواز سننے کو ملتی ۔ میں سوچتا‬
‫کوئی بات ضرور تھی جو دادی کو‬
‫مجھ میں ناپسند تھی۔ لیکن وہ بات‬
‫سنبھالنا دادی کی دانش سے باہر‬
‫تھی۔ تین سال پلک چھپکتے گزر گئے‬
‫۔ میں پندرھویں سال میں داخل‬
‫ہوگیا میٹرک کے پیپر دے ابھی فارغ‬
‫ہوا تھا ۔ کہ ایک رات دادی سوئی تو‬
‫پھر نہیں اٹھی ۔ دادی میں تمھارے‬
‫ساتھ جاؤں گا ‪ ،‬نہیں میری دادی کو‬
‫نہ لے جاؤ ۔ دادی تم کہاں ہو۔ دادی‬
‫میں مر جاؤں گا۔ دادی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‬
‫اتنا مجھے اپنے باپ کا دکھ نہیں ہوا‬
‫تھا جتنا دادی کے جانے کا ہوا تھا۔‬

‫چند دن میں ہی گھر کا ماحول بدل‬


‫گیا ‪،‬دادی کی جگہ نگینہ نے لے لی ۔‬
‫ایک دن میرے کانوں میں آواز پڑی ‪،‬‬
‫نگینہ اب بھگا اس کو اماں کی وجہ‬
‫سے بہت دن رہ لیا اسنے ۔ خبردار‬
‫سرورے اگر آئیندہ ایس بات کی تو‬
‫تیری جان نکال لوں گی ۔ نگینہ ایسے‬
‫بولی تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب‬
‫نگینہ کی خیر نہیں ہے مگر سانڈ‬
‫جیسا سرور خان چپ چاپ باہر نکل‬
‫گیا۔ اب نگینہ میرا خیال رکھنے لگی‬
‫۔مجھے چومنا چاٹنا ‪،‬خود سے لپٹانا ۔‬
‫مجھے اچھا کھانا پینا دینا۔ کیا ہوا‬
‫گیا ہے تجھے نگینے تو اس کا اتنا‬
‫خیال کیوں رکھتی ہے ۔سرور یہ سب‬
‫دیکھتا ہوا چپ نہ رہ سکا۔ رکھوں‬
‫گی تجھے کیا ہے لڑائی بڑھنے لگی۔ تو‬
‫نگینہ نے سرور خان کے ایک تھپڑ دے‬
‫مارا ۔ میں نے کانپنا شروع کر دیا ۔‬
‫مگر سرور سانڈ سمندر کے جھاگ کی‬
‫طرح بیٹھ گیا ۔ میں حیران رہ گیا یہ‬
‫کیا ہے بھئی ۔ دآلویز سےنگینہ بھی‬
‫نہیں کھلینے دیتی تھی ۔ اور نہ کسی‬
‫ہمسائی کو مجھے پیار کرنے دیتی‬
‫تھی ۔ میں اکثر دادی کی چارپائی پر‬
‫لیٹا رہتا ‪ ،‬تم کیوں گم سم رہتے ہو‬
‫شہزادے ۔ نگینہ نے میرے ساتھ‬
‫لیٹتے ہوئے مجھے خود سے لپٹا لیا ۔‬
‫کبھی کبھار میں ایسے دادی سے لپٹ‬
‫جاتا تھا ۔ ایسے ہی نگینہ میرے دل‬
‫بہال رہی تھی ۔ روز بروز اس کا لپٹنا‬
‫چپٹنا زیادہ ہوتا جا رہا تھا وہ بھی‬
‫تب جب سرور خاں کام پراور دآلویز‬
‫سکول گئی ہوتی تھی ۔ نگینہ کے‬
‫خیال رکھنے میں بہلنے لگا ۔ان دنوں‬
‫کبھی کبھار باہر نکلتا تھا ایک دن‬
‫کریانے کی دوکان سے کچھ سودا‬
‫لینے جا رہا تھا کہ کانوں میں آواز‬
‫پڑی ۔ ادھر آ شہزادے دوکان پر جا‬
‫رہا ہے نہ ‪،‬مجھے بھی کچھ منگوانا‬
‫ہے ‪،‬نکڑا والی باجی نے مجھے بالیا۔‬
‫جی باجی کیا منگوانا ہے میں اس کے‬
‫پیچھے اندر چالگیا ۔ باجی نے مجھے‬
‫خود سے لپٹا لیا ۔ اس کی سانسیں‬
‫تیز ہو رہی تھیں اس کے دوپٹے کا‬
‫کچھ پتا نہیں تھا۔ میرا منہ اس کے‬
‫سینے میں چھپا ہوا تھا ۔ اس کے‬
‫ہاتھ میرے پتہ نہیں کہاں کہاں‬
‫گھوم رہے تھے ۔ کیا کر رہی ہیں‬
‫باجی ۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو‪،‬میں اس‬
‫کی غیر ہوتی حالت سے گھبرانے لگا ۔‬
‫کب سمجھے گا تو شہزادے تیری ُع مر‬
‫کے لڑکے تو جانے کیا کچھ کرتے‬
‫پھرتے ہیں ۔ باجی نے مجھے بے‬
‫تحاشا چومتے ہوئے کہا ۔آج تجھے‬
‫سب سکھا دوں گی ۔ مجھے جانے دو‬
‫باجی ۔ میں بہت زیادہ گھبرا‬
‫گیا‪،‬مجھے کیا پتا تھا باجی گھر میں‬
‫اکیلی ہے ‪ ،‬جانے دوں گی پر پہلے‬
‫زندگی کا مزہ تو لینے دے ۔ باجی نے‬
‫میرے ہاتھ اپنے سینے پر رکھ دیے‪،‬‬
‫دیکھ میرا دل کیسے دھڑک رہا تیرے‬
‫لیے ‪ ،‬میں باجی سے خود کو چھڑا‬
‫کے بھاگا ۔ خود تو مر گئی پر تجھے‬
‫بگاڑ گئی وہ چنڈال۔ پیچھے سے‬
‫باجی چالئی ۔ دادی کا سوا مہینہ ہو‬
‫گیا تھا۔ اوردو دن بعد چالیسواں رکھ‬
‫دیا گیا ۔ دادی کی یاد سے کچھ دل‬
‫بہال تھا ۔ اب پھر غم کی لپیٹ میں‬
‫آگیا‪ ،‬کسی طرح دن گزر گیا ‪،‬ذہنی‬
‫حالت پہلے ہی ابتر تھی اوپر سے‬
‫سارا دن بھاگ بھاگ کے کام کرنے سے‬
‫تھکن کے ساتھ بخار ہوگیا۔‬
‫اتنےسارے مہمان تھے سب جا رہے‬
‫تھے دآلویز اپنی نانی اور نانا کے‬
‫ساتھ جانے کی ضد کرنے لگی ساتھ‬
‫میں اس کی خالہ بھی تھی اس‬
‫طرح وہ چار ہوگئے اور ایک‬
‫موٹرسائکل پر نہیں جاسکتے تھے‬
‫مجبوری میں سرور سانڈ اپنی‬
‫موٹرسائیکل نکال کے انہیں چھوڑنے‬
‫چال گیا ۔ میں دادی کے کمرے میں‬
‫جا کے لیٹ گیا۔ نگینہ میرے کمرے‬
‫میں آگئی کیا ہو گیا ہے میرے‬
‫شہزادے کو ۔ کچھ نہیں بس تھکن‬
‫اور بخار ہے ‪ ،‬تم آرام کرو یہ لو‬
‫پیناڈول کی گولی‪،‬مجھے اٹھا کے‬
‫نگینہ نےمیرا کندھا اپنے سینے پر‬
‫ٹکایا اور گولی کھال دی ۔ اپنی گود‬
‫میں میرا سر رکھ کے دبانے لگی ۔‬
‫میرے جسم پر اس نے رضائی ڈال‬
‫دی ‪ ،‬بخار کی وجہ سے نگینہ آج میرا‬
‫کچھ زیادہ ہی خیال رکھ رہی تھی ۔‬
‫اور میرے اوپر نچھاور ہو رہی تھی ۔‬
‫ُت و تو شہزادہ ہے میرا‪ ،‬وہ بڑے الڈ‬
‫سے میرا سر دبا رہی تھی تھکن کی‬
‫وجہ سے اس سے بیٹھا نہیں جا رہا‬
‫تھا میرے اوپر جھکی جا رہی تھی‬
‫پتہ نہیں کب اس کی گود اور سینے‬
‫کے گداز میں مجھے نیند آگئی۔ جانے‬
‫رات کو کس پہر میری آنکھ کھل‬
‫گئی حلق پیاس سے سوکھ رہا تھا ۔‬
‫بخار ابھی بھی تھا ‪ ،‬میں اٹھا اور‬
‫کچن میں پانی پینے چال گیا ۔ نگینہ‬
‫کے کمرے مجھے عجیب سی آوازیں‬
‫آئی جو میں نے کبھی پہلے نہیں‬
‫سنی تھی ‪ ،‬میں سمجھا شاید سرور‬
‫خان واپس آگیا ہےاور نگینہ اس سے‬
‫لڑ رہی ہے ۔ پرانے دروازے کی درز‬
‫سے جھانکا تو میرے تن بدن میں آگ‬
‫لگ گئی ‪،‬نگینہ زمین پراونی گدا‬
‫بچھائے ننگی لیٹی تھی اور ایک لڑکا‬
‫نگینہ کے اوپر جھکا ہو ا اسے چود‬
‫رہا تھا ۔ ان کی آوازوں سے میری‬
‫دماغ کی نسیں پھٹنے لگی ۔ میرے‬
‫اندر دادی اٹھ کے بیٹھ گئی تھی ۔‬
‫میرے دبلے پتلے جسم میں آتش‬
‫فشاں پھٹ پڑا ۔ میں نے پیچھے ہو‬
‫کہ پورے زور سے دروازے کو الت‬
‫ماری ‪ ،‬دھماکے سے دروازہ کھل گیا‬
‫اس کی کنڈی ٹوٹ گئی۔ اس سے‬
‫پہلے وہ دونوں کچھ سمجھتے میں‬
‫تیزی سے لڑکے پر جھپٹا اور اسے کی‬
‫پسلیوں میں زور سے ٹھڈا مارا لڑکا‬
‫اڑتا ہوا چارپائی سے ٹکرایا ۔ وہ بھی‬
‫پٹھان لڑکا تھا مجھ سے پانچ چھ‬
‫سال تو بڑا ہو گا لیکن جسامت‬
‫مردوں کی طرح تھی آج اسے‬
‫مہمانوں میں دیکھا تھا ۔ میں اس پر‬
‫پھر چھپٹا اور اس کو التوں ٹھڈوں‬
‫سے مارنے لگا ۔ مار دوںگا تجھے کتے۔‬
‫مار دوں گا۔ لڑکا میری وحشت سے‬
‫ڈر گیا تھا۔ اس نے لیٹے لیٹے ایک‬
‫پلٹنی کھائی اوراپنی شلوار اٹھا کے‬
‫بھاگا۔ مگر میں نے اسے جانے نہیں‬
‫دینا تھا ۔میں اس کی طرف لپکا‬
‫‪،،،،‬اوغ۔۔۔ میں نیچے گرا‪ ،‬نگینہ نے‬
‫مجھے بھاگتے ہوئے میرے پاؤں سے‬
‫پکڑ لیا تھا۔ میں نے لیٹے لیٹے اسے‬
‫ایک ٹھڈا مارا۔اور اٹھ کے پھر بھاگا ۔‬
‫اتنی دیر میں لڑکا صحن پار کرکے‬
‫دروازے کے پاس تھا میں تیزی سے‬
‫اس کی طرف لپکا ‪ ،‬او لعنت تیری‬
‫اوقات پہ مادر چود ‪ ،‬کتی کہ بچے نے‬
‫دروازے کو باہر سے کنڈی لگا دی‬
‫تھی۔ ایک پل میں نے بےبسی سے‬
‫اونچی دیواریں اورلوہے کا دروازہ‬
‫دیکھا دوسرے پل واپس پلٹا اور‬
‫جنونی انداز میں کمرے میں داخل‬
‫ہوا ۔ نگینہ ابھی تک میرے ٹھڈے سے‬
‫نہیں سنبھلی تھی ۔ میں نے اسے دو‬
‫تین ٹھڈے اور مارے پھر اس کے‬
‫سینے پر بیٹھ کے اسے مارنے لگا بتا‬
‫کون تھا وہ کنجر‪،‬بتا دے نہیں تو گال‬
‫گھونٹ دوں گا تیرا ۔ میں اس کا گال‬
‫دبانے لگا ۔ نگینہ چالیس کی تھی‬
‫صحت مند تھی ۔ مگر اس وقت‬
‫میری جنونیت اسے ہلنے نہیں دے‬
‫رہی تھی ‪،‬آخراس نے اپنا نچال دھڑ‬
‫اٹھا کے دونوں گھٹنے جوڑ کے پوری‬
‫طاقت سے پیچھے سے میری کمرمیں‬
‫دے مارے میری گرفت کچھ ڈھیلی‬
‫پڑی تو اس نے اوپر تلے دوتین گھٹنے‬
‫جڑ دیئے ۔ میں اس کے اوپر ہی گر‬
‫پڑا ۔ نگینہ نے میری گردن کو دونوں‬
‫بازوؤں سے کس لیا ‪ ،‬اور مجھے‬
‫نیچے کر کے اپنا وزن میرے اوپر ڈال‬
‫دیا اور اپنی ٹانگوں سے مجھے‬
‫قینچی ڈال لی ۔ میں نے دو تین دفعہ‬
‫نکلنے کی کوشش کی لیکن بےبسی‬
‫سے پھڑپھڑا کے رہ گیا۔ ہوش میں آ‬
‫شہزاے ہوش میں آ ۔ نگینہ جیسے‬
‫مجھے سوتے سے جگا رہی تھی ۔‬
‫میں اس کی پسلیوں میں مکے مارنے‬
‫لگا ‪،‬تو اس نے اسی حالت میں میں‬
‫اپنے دونوں بازو میری گردن سے‬
‫نکال کے میرا گال دبانے لگی ۔ کچھ‬
‫سیکنڈ میں میری سانسیں رکنے لگی‬
‫۔اگلے پل میری آنکھیں باہر آنے لگی ۔‬
‫چند سیکنڈ اور ایسے گزر جاتے تو‬
‫میں گیا تھا ‪ ،‬لیکن اچانک نگینہ نے‬
‫میرا گال چھوڑ دیا ۔ میری آنکھوں‬
‫میں پانی آگیا اور کھانسی کرنے لگ‬
‫گیا ۔ پھر لمبے لمبے سانس لینے لگا‬
‫کچھ دیر بعد میری حالت سنبھلنے‬
‫لگی لیکن نگینہ نے مجھے چھوڑا‬
‫نہیں ۔ میری جنونیت اب ختم ہو‬
‫چکی تھی اور یکدم کمزوری نے حملہ‬
‫کر دیا تھا ۔ بخار سے جسم تپ رہا‬
‫تھا ۔ جوش ختم ہوا تو پہال احساس‬
‫یہی ہوا کہ نگینہ ابھی تک ننگی ہے ۔‬
‫جاؤ اپنے کپڑے پہن لو۔ میں گھبرا‬
‫کے بوال ۔ کپڑے پہن لیے تو پھر کیا‬
‫ہو گا ‪،‬نگینہ نے عجیب سے لہجے میں‬
‫کہا۔ کیا مطلب ؟ میں حیران ہوا ۔ ُت و‬
‫آزاد ہو جائے گا اورمجھے مار دے گا ۔‬
‫نگینہ ڈری ہوئی تھی ۔ نہیں مارتا‬
‫تمھیں مہربانی کرو کپڑے پہن لو ۔‬
‫ُت و نہیں مارے گا تو سرورے کو بتا‬
‫دے گا ۔ سرور کچھ نہیں کرے گا وہ‬
‫تیرا حکم کا غالم ہے ۔ جتنا بھی‬
‫حکم کا غالم ہو لیکن اس معاملے‬
‫میں مجھے چھوڑے گا نہیں ۔ نگینہ‬
‫ہر طرف سے محتاط تھی۔ میں کسی‬
‫کو کچھ نہیں بتاؤں گا اگر تم کپڑے‬
‫پہن لو۔ میں تم پر اعتبار نہیں کر‬
‫سکتی شہزادے ۔ تیرے اندر کوئی‬
‫اور بولتا ہے ۔ یہ کیا کر رہی ہو میں‬
‫اچانک گھبرا گیا۔ نگینہ اپنی چوت‬
‫میرے عضو پر رگڑنے لگی۔ یہی ایک‬
‫رستہ بچا ہے ہم دونوں کیلیے ‪ ،‬نگینہ‬
‫کی فیصلہ کن لہجے میں بولی۔ مت‬
‫کرو ‪ ،‬یہ نہ کرو یہ غلط ہے ‪ ،‬ایکدم‬
‫میرا سوچیں جواب دے گئی ۔ تم‬
‫میری ماں ہو‪ ،‬میں تمہاری ماں نہیں‬
‫ہوں نہ میں نے تمھیں پیدا کیا ہے اور‬
‫نہ ہی تم نے میرا دودھ پیا ہے ۔ نگینہ‬
‫نے ایک ایک لفظ چبا چبا کے ادا کیا ۔‬
‫نگینہ اپنا کام کرتی رہی ۔ کمبخت‬
‫کس مٹی سے بنا ہے تو تیرا کھڑا‬
‫کیوں نہیں ہوتا ۔ کیا کھڑا نہیں ہوتا ۔‬
‫میں بے اختیار پوچھ بیٹھا ۔ تیرا‬
‫لوڑا ۔اتنا بھوال نہ بنا کر‪ ،‬ایک مہینہ‬
‫ہو گیا ہے تیرے آگے پیچھے گھومتے‬
‫ہوئے ‪ ،‬سب سمجھتی ہوں تو کتنا‬
‫ُگھنا ہے ۔ جب بھی تجھے ِرجھاتی‬
‫تھی تو میسنا بن جاتا تھا ‪ ،‬اتنی‬
‫بچی نہیں ہوں میں جتنا ُت و نے‬
‫سمجھ لیا ہے مجھے ‪ ،‬مجھے پتہ ہے‬
‫اس چڑیل نے تیرے ذہن کو جوان کر‬
‫دیا ہے ‪،‬وہ تیرے دل میں گھسی‬
‫بیٹھی ہے ۔ مجھے بخار ہے میری‬
‫طبعیت ٹھیک نہیں ہے ‪،‬ایک بار‬
‫مجھے ٹھیک ہونے دے پھر جو کہے‬
‫گی میں کروں گا ‪،‬میں نے اس سے‬
‫جان چھڑائی ‪ ،‬نہ شہزادے نہ اتنی‬
‫چاالکیاں اچھی نہیں ہوتی ‪ ،‬نگینہ‬
‫میرے داؤ میں نہیں آئی ۔ سرور خان‬
‫کسی بھی وقت آسکتا ہے میں نے‬
‫اسے ڈرایا ‪ ،‬نگینہ ہنسنے لگی وہ حکم‬
‫کا غالم ہے میں نے اسے کہا تھا ُا دھر‬
‫ہی رہنا اور صبح دآلویز کو ساتھ لے‬
‫کہ آنا ‪ ،‬اچھا کیوں نہ تمھارے اوپر‬
‫الزام لگا دوں کہ تم نے میری عزت پر‬
‫ہاتھ ڈاال ہے ۔ نگینہ نے مجھے رگڑا‬
‫دیا۔ ٹھیک ہے ایسا ہی کر لے میری‬
‫جان چھوڑ دے ۔ میں ُم صَم م ارادے‬
‫سے بوال ۔ مجھے پتہ تھا تم اس‬
‫کیلیے بھی راضی ہوجاؤ گے‪ ،‬پر پتہ‬
‫ہے اصل مسلہء کیا ہے ۔ پھر تو میرے‬
‫ہاتھ نہیں آئے گا‪،‬میں تم سے مایوس‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬اب تو ہاتھ آیا ہے تو یہ‬
‫موقع جانے نہیں دوں گی ۔ نگینہ‬
‫میری بے بسی کا لطف لیتے ہوئے‬
‫کمینگی سے بولی ۔ اچھااااااااااااااااااا‬
‫۔ تو کر لو پھر اسے کھڑا ۔ میں نے‬
‫اسے چیلنچ دیا ۔ یہ ہوئی نہ بات‬
‫مجھے پتہ تھا ُت و سب سمجھتا ہے ۔‬
‫دیکھ شہزادے مان لے ساری زندگی‬
‫عیش کراؤں گی ۔ نگینہ نے تھوڑا سا‬
‫اٹھ کے میری قمیض اتارتے ہوئے کہا ۔‬
‫میں نے مزاہمت کی مگر کچھ نہ کر‬
‫سکا ‪ ،‬تھوڑی دیر میں جسم کی‬
‫جتنی توانائی خرچ کی تھی اب اتنی‬
‫ہی نقاہت اور بخار زیادہ ہو رہا تھا۔‬
‫نگینہ تھوڑا پیچھے ہوئی اور اپنے‬
‫بھاری جسم کیساتھ میری پنڈلیوں‬
‫پر بیٹھ گئی پنڈلیاں درد کرنے لگی‬
‫اس دوران نگینہ نےمیرا ناڑا کھول‬
‫کے پھرتی سے میری شلوار اتنی‬
‫نیچے کر دی کہ میرا عضو نظر آنے‬
‫لگا ۔ میں تیزی سے اٹھا مگر اس نے‬
‫میرے دونوں ہاتھ پکڑ کہ انکار میں‬
‫اپنا سر ہالیا دیا ‪ ،‬اس کی آنکھوں‬
‫میں جنونیت تھی‪ ،‬نہ کرو میں نے‬
‫‪ ،‬اس کی ِم نت کی تم میری ماں ہو‬

‫میں تمہاری ماں نہیں ہوں نہ میں نے‬


‫تمھیں پیدا کیا ہے اور نہ ہی تم نے‬
‫میرا دودھ پیا ہے ۔ نگینہ نے ایک ایک‬
‫لفظ چبا چبا کرپھر وہی فقرہ بوال ‪،‬‬
‫میرے دل میں کچھ ٹوٹ سا گیا ۔‬
‫نگینہ نے ُج ھک کہ میرا عضو منہ‬
‫میں لے لیا ‪ ،‬اور چوسنے لگی ‪،‬کچھ‬
‫ہی دیر میں میرے جسم میں‬
‫سنسناہٹ سی ہونے لگی ۔ نگینہ مزے‬
‫سے عضو کو چوستی رہی ۔ میرے نہ‬
‫چاہتے ہوئے بھی آخر کار وہ ٹن کر‬
‫کے کھڑا ہو گیا ۔یہ تو میں نے سوچا‬
‫بھی نہ تھا کہ وہ عضو کو ایسے‬
‫کھڑا کر دے گی ‪ ،‬نگینہ پھر بھی نہ‬
‫رکی ‪ ،‬آہستہ آہستہ پنڈلیوں کا درد ‪،‬‬
‫بخار ‪ ،‬نقاہت سب پس منظر میں چال‬
‫گیا۔ مجھے نگینہ کی کمر اور کچھ‬
‫ُم مے نظر آنے لگے ‪ ،‬اس کا صحت مند‬
‫جسم نظر آنے لگا ‪ ،‬اس کی سرخ‬
‫سپید رنگت نظر آنے لگی اس کی‬
‫خوبصورتی محسوس ہونے لگی ‪،‬‬
‫اس کے لمبے بالوں میں انگلیاں‬
‫پھیرنے کیلیے ہاتھ ہالیا ‪،‬تو نگینہ نے‬
‫ہاتھ نہ چھوڑا ‪،‬چہرہ اٹھا کے مجھے‬
‫دیکھنے لگی ۔ میرے چہرے پر بدلتے‬
‫رنگ دیکھ کے نگینہ نے مجھے سینے‬
‫پر دباؤ ڈال کے نیچے بچھے اونی‬
‫گدے پر لٹا دیا اور خود میرے عضو‬
‫پر آگئی اپنے ایک ہاتھ سے میرے‬
‫دونوں ہاتھ پکڑے اور دوسرے ہاتھ‬
‫سے عضو پکڑ کے اپنی چوت میں‬
‫ڈال لیا ‪ ،‬پھرمیرے سینے پراپنے‬
‫ہاتھوں سےمیرے ہاتھ تھوڑا دبا کے‬
‫رکھ دیے ۔ اور کچھ آگے پیچھے کچھ‬
‫اوپر نیچے ہونے لگی ۔ اووووو تو‬
‫واقعی شہزادہ ہے مست ہے تو مست‬
‫‪ ،‬نگینہ سرور کی لہروں میں ڈوبتے‬
‫ہوئے بولی ۔ کیا چیز ہے تو صحیح‬
‫تڑپتی ہیں تیرے لیے عورتیں ۔ پتہ‬
‫نہیں کیا جادو ہے تجھ میں ۔ نگینہ‬
‫آپے سے باہر ہو رہی تھی ۔ جو کرنا‬
‫تھا نگینہ ہی نے کرنا تھا اور وہ کرتی‬
‫رہی ۔ کبھی تیز کبھی آہستہ ۔کبھی‬
‫بیٹھ کے کبھی میرے اوپر لیٹ کے ‪،‬‬
‫نگینہ کو سارے ڈھنگ آتے تھے اس‬
‫کے جسم میں بہت سے رنگ تھے ۔۔‬
‫اس کے جسم کو دیکھ کے لگتا تھا‬
‫جوانی بہت خاص ہوگی‪،‬اب بھی وہ‬
‫کم نہیں تھی ۔ اس کی خوبصورتی‬
‫میں اس کےاسمارٹ جسم کا کافی‬
‫حصہ تھا ۔ مجھے اپنی جان نکلتی‬
‫محسوس ہوئی ۔ ٹانگوں کی کیفیت‬
‫بھی یہی تھی پھر یہ کیفیت عضو‬
‫سے نکلنے لگی۔ ارے ٹھر تو جا ‪،‬میں‬
‫بھی آنے والی تھی ۔ میں خاموش‬
‫لیٹا رہا ۔ چلو کو ئی بات نہیں‬
‫تمھاری چوپا بھی تو زیادہ لگ گیا‬
‫تھا ۔ اب پھر مزا لیتے ہیں ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫کپڑے سے میرا عضو صاف کیا اور‬
‫جھک کہ پھر چوپا لگانے لگی ۔‬
‫تھوڑی دیر بعد اس نے میرے ہاتھ‬
‫چھوڑ دیے ۔ میرے جسم میں‬
‫سرسرایت سی پھر ہونے لگی ‪ ،‬میرا‬
‫جسم اک نئی تپش سے جلنے لگا ‪،‬‬
‫عضو پھر کھڑا ہو گیا ۔ نگینہ جلدی‬
‫سے پھر اپنے اندر لے کے اوپر نیچے‬
‫ہونے لگی۔ ویسے بھی میرا اٹھنے کا‬
‫کوئی ارادہ نہیں تھا ‪ ،‬دیکھا شہزادے‬
‫اس میں کتنا مزہ ہے ۔ نگینہ پھر بے‬
‫قابو ہونے لگی۔ شہزادے سچی بات‬
‫تو یہ ہے کہ اتنا مزہ کبھی پوری‬
‫زندگی میں نہیں آیا ‪،‬ہانپتی آواز میں‬
‫اسے بولنے میں بھی مزہ آرہا تھا ۔‬
‫جس کو بھی چودے گا وہ تیری‬
‫دیوانی بن جائے گی ‪ ،‬پر نہیں تو‬
‫صرف میرا ہے صرف میرا شہزادہ ۔‬
‫نگینہ رک گئی‪ ،‬شہزادددددددے ‪ -‬اس‬
‫کا جیسم معمولی سے جھٹکے لینے‬
‫لگا ‪ -‬نگینہ کچھ دیر میری طرف‬
‫دیکھتی رہی پھر میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی۔مجھے کچھ بے چینی ہونے لگی‬
‫‪ ،‬جیسے پیاس لگی ہو اور پانی پیتے‬
‫پیتے درمیان سے کوئی گالس چھین‬
‫لے ‪،‬نگینہ غور سے میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی ‪ ،‬ابھی تمھارا پانی نہیں‬
‫نکال تمھیں بے چینی ہو رہی ہو گی ‪،‬‬
‫میں تو تھک گئی ہوں ‪،‬ایسا کر میرے‬
‫ممے چوس تو میں تیار ہوجاؤں گی‬
‫اور پھر میں تمھارا پانی نکال دوں‬
‫گی ‪،‬نگینہ میرے ہاتھ اپنے ممے پر‬
‫رکھ دیا۔ مجھے وہ اچھے لگے ‪،‬میں‬
‫انہیں آہستہ آہستہ دبانے لگا‪ ،‬ایسے‬
‫نہیں ‪ ،‬انہیں اس طرح سہالؤ ‪،‬نگینہ‬
‫نے جیسے بتایا میں ویسے کرنے لگا ‪،‬‬
‫تھوڑا ُچ ما بھی لے لے نہ ان کا ‪،‬نگینہ‬
‫نے فرمائش کی‪،‬مجھے ممے اچھے لگ‬
‫رہے تھے میں انہیں چومنے لگا ‪،‬ایسے‬
‫نہیں شہزادے میرے اوپر لیٹ کے‬
‫چوس ان کو۔ نگینہ نے مجھے بازو‬
‫سے پکڑ کے اپنے اوپر کھنچا تو میں‬
‫بے اختیار اس کے اوپر لیٹ گیا‪ ،‬ایک‬
‫نپل منہ میں لیا تو اچھا لگا میں اسے‬
‫پکڑا کے چوسنے لگا ‪،‬نگینہ نے میرا‬
‫دوسرا ہاتھ اپنے دوسرے ممے پر رکھ‬
‫دیا ‪،‬اسے بھی دباتا رہ ‪،‬اپنی ہاتھ اور‬
‫انگلیاں سے ‪،‬ایسے‪ ،‬ہاں ایسے ‪ ،‬واہ‬
‫شہزادے تم تو کمال ہو‪ ،‬بہت مزا آرہا‬
‫ہے ۔ تمھیں اب بھی بے چینی تو ہو‬
‫گی بلکہ بڑھ گئی ہو گی ‪،‬ایسے کر‬
‫ساتھ ساتھ اپنا لوڑا میری چوت کے‬
‫اوپر رگڑ‪ ،‬ساتھ ہی میری کمر کو‬
‫دونوں طرف سے پکڑ کے مجھے اپنی‬
‫چوت پر ِک ھسنے لگی‪ ،‬مجھے اس سے‬
‫سکون بھی آیا اور تیز کرنے کو بھی‬
‫دل کرنے لگا ‪ ،‬چوت کے اوپر رگڑ ‪،‬‬
‫نگینہ نے بیچ میں ہاتھ گھسا کے‬
‫عضو صحیح رکھا ۔ اچھا لگ رہا ہے‬
‫نہ شہزادے ‪ ،‬اندر ڈال کے کرے گا‬
‫تواصلی مزا آئے گا تمھیں ‪ ،‬چوت نرم‬
‫ہوتی ہے نہ اس لیئے ۔ال میں ڈال‬
‫دیتی ہوں ‪ ،‬لے موری کے اوپر رکھ‬
‫دیا ہےاب ُت و تھوڑا تھکا لگا ‪ ،‬میں نے‬
‫آہست آہستہ اندر کیا تو چوت نے‬
‫میرے عضو کو گرفت میں لے لیا‪ ،‬آگے‬
‫پیچھےہو جیسے میں کرتی رہی ہوں‬
‫‪،‬ہاں یوں ‪ ،،‬شاباش شہزادے اب تم‬
‫چودائی کرنا سیکھ گئے ہو‪ ،‬چودو‬
‫مجھے ‪ ،‬تیز کر نہ ‪ ،‬کیا لڑکیوں کی‬
‫طرح لگا ہوا ہے ‪ ،‬ہاں ایسے ‪ ،‬آہ ۔ اور‬
‫‪،‬تیز ‪،‬اور تیز ‪ ،‬نگینہ کی آوازیں‬
‫مجھے ایسے ہی بھگانے لگی جیسے‬
‫چاُبک گھوڑے کو بھگاتا ہے ‪ ،‬میں‬
‫بھی تیز تیز کرتا رہا ‪،‬کرتا رہا اور پھر‬
‫پہلے کی طرح جان نکلتی ہوئی‬
‫محسوس ہونے لگی ‪،‬مجھے رکنا پڑا‬
‫میں نے نگیہ کو جپھا ڈال لیا‪ ،‬نگینہ‬
‫نے میری کمر کودونوں ہاتھوں سے‬
‫پکڑ کے اپنے اوپر کھسنے لگی اس‬
‫طرح میں آگے پیچھے ہونے لگا ‪،‬‬
‫عضو اندر ہی تھا اورکچھ جان باقی‬
‫تھی ‪ ،‬نگیینہ کرتی رہی ۔ عضو میں‬
‫جان ختم ہوگئی پھر بھی کرتی رہی‬
‫اور پھر اس نے بھی مجھے جپھا ڈال‬
‫لیا اور اپنی ٹانگوں سے مجھے کس‬
‫لیا ‪ ،‬شہزادے مجھے تو لگتا ہے‬
‫جیسے میں مر ہی جاؤں گی آج ‪،‬‬
‫نگینہ نے گھٹی گھٹی آواز میں کہا۔‬
‫کچھ دیر ہم ایسے ہی لیٹے رہے ‪،‬پھر‬
‫ایکدوسرے کیطرف منہ کر کے لیٹ‬
‫گئے‪ ،‬تھوڑی دیر ٹہر جا ‪ ،‬پھر کھیلیں‬
‫گے‪،‬نگینہ کا جی نہیں بھرا تھا‪،‬نگینہ‬
‫میرے جسم پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔‬
‫میں بہت تھک گیا ہوں ‪،‬میری ٹانگوں‬
‫میں بہت درد ہو رہا ہے ۔ کمزوری تو‬
‫بہت ہی ہے‪،‬نگینہ اٹھی اور نیم گرم‬
‫دودھ لے آئی‪،‬لے پی لے نگینہ نے‬
‫مجھے اٹھا کے گالس میرے منہ سے‬
‫لگا دیا‪ ،‬اونہہ یہ تو گرم ہے مجھے‬
‫ٹھنڈا چاہیے ‪ ،‬ایسی حالت میں ٹھنڈا‬
‫نہیں پیتے شہزادے ‪ ،‬اسے پی لے‬
‫تمھاری حالت بہتر ہو جائے گی ‪،‬‬
‫دودھ پینے کے بعد میں پھر لیٹنے‬
‫لگا‪،‬لیکن نگینہ نے مجھے اٹھا کے‬
‫چارپائی پر بٹھایا اور اونی گدا ساتھ‬
‫نیچے سےچٹائی لپیٹ کے رکھ دی ‪،‬‬
‫سرورے کو پتہ ہے ہم یہ کیوں‬
‫بچھاتے ہیں ‪ ،‬نگینہ بڑبڑائی ‪ ،‬دآلویز‬
‫انہی کے کمرے میں سوتی تھی‬
‫‪،‬شاید اسی لیے نیچے یہ طریقہ بنایا‬
‫ہوا تھا ‪ ،‬پھر نگینہ مجھے اپنے ساتھ‬
‫لگا کے دادی کے کمرے میں لے آئی‪،‬‬
‫بہت درد ہے میری ٹانگوں میں نگینے‬
‫‪،‬نگینہ مجھے لٹا کے میری ٹانگوں کو‬
‫دبانے لگی کافی دیر دباتی رہی ‪ ،‬پتہ‬
‫نہیں کب میں سو گیا‪ ،‬اگلے دن دوپہر‬
‫کواٹھا ‪،‬تو نگینہ نے میرے لیے‬
‫کچھڑی بنائی ہوئی تھی‪،‬اسی سے‬
‫ناشتہ کیا‪،‬نگینہ نے مجھے بخار کی‬
‫دوائی دی ۔شاید وہ صبح ہی لے کہ‬
‫آئی تھی ‪ ،‬طبعیت اب بہتر‬
‫تھی‪،‬سرور سانڈ فیکٹری گیا ہوا تھا ۔‬
‫اور دآلویز گھر میں ہی تھی ‪،‬وہ‬
‫سکول نہیں گئی تھی کیونکہ وہ‬
‫نانی کے گھر سے کچھ دیر سے آئے‬
‫تھے ‪ ،‬مجھے پھر نیند آگئی ‪،‬شام کو‬
‫اٹھا تو طبیعت کافی بہتر تھی‪ ،‬نگینہ‬
‫نے میرے لیے یخنی بنائی ہوئی تھی‬
‫‪،‬میں وہ دوپہر کی کچھڑی پہ ڈال کہ‬
‫کھا گیا‪ ،‬مجھے بھوک لگی ہے روٹی ال‬
‫کہ دو‪ ،‬روٹی ابھی نہ کھاؤ شہزادے‬
‫بخار کی وجہ سے معدہ کمزور ہے‬
‫روٹی ہضم نہیں ہو گی ‪ُ ،‬ا لٹی آجائے‬
‫گی‪ ،‬تھوڑا سا بخار ہے ابھی ‪،‬نگینہ نے‬
‫میرے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا‬
‫۔ صبح تمھیں تگڑا ناشتہ کرواؤں گی‬
‫‪،‬نگینہ نے ایک آنکھ دباتے ہوئے کہا‪،‬‬
‫میرا سر تو دبا دو نگینے‪ ،‬کسی کے‬
‫سامنے مجھے نگینے نہ کہنا ‪ ،‬میرے‬
‫شہزادے ‪ ،‬نگینہ میرا سر دبانے لگی ‪،‬‬
‫کچھ دیر بعد مجھے دوائی دے کے‬
‫چلی گئی ‪،‬رات کو پھر آئی میری سر‬
‫اور ٹانگیں دباتی رہی ۔ تو نے تو اسے‬
‫سگا بیٹا ہی بنا لیا نگینے ‪،‬سرور خان‬
‫یہ سب دیکھ کہ چپ نہ رہ سکا‬
‫‪،‬نگینہ نے اس کی طرف ایک ُگھوری‬
‫ڈالی تو وہ کھسک گیا‪ ،‬میں پھر سو‬
‫گیا‪،‬صبح اٹھا تو ہشاش بشاش تھا‪،‬‬
‫سرور خان کام پر گیا تھا اور دآلویز‬
‫سکول گئی تھی وہ ساتویں میں‬
‫تھی اور میرا میٹرک کا رزلٹ آنے‬
‫میں ابھی مہینہ تو پڑا تھا ‪ ،‬اٹھ گیا‬
‫میرا شہزادہ صبح سے کئی بار‬
‫تمھیں دیکھ چکی ہوں ‪ ،‬نگینہ کا‬
‫چہرہ سو واٹ کے بلب کیطرح ہو رہا‬
‫تھا ‪ ،‬میں باتھ ر وم سے ہو کے آیا تو‬
‫نگینہ میرے لیے ناشتہ لے کہ بیٹھی‬
‫تھی۔ یخنی میں روٹی ڈال کے اس‬
‫نے ُچ وری سی بنا لی تھی‪،‬میں یہ‬
‫نہیں کھاؤں گا ‪ ،‬بس ابھی یہ کھا لے‬
‫‪،‬دوپہر کو بھنا ہوا گوشت پکا کے‬
‫دوں گی اپنے شہزادے کو ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫بڑے الڈ سے کہا ‪،‬ناشتہ کروا کے وہ‬
‫برتن لے جانے لگی‪ ،‬تم ناشتہ ہضم کر‬
‫لو‪ ،‬اتنی دیر میں میں کچھ کام کر‬
‫لوں ‪،‬نگینہ نے جاتے ہوئے معنی خیز‬
‫لہجے میں کہا‪ ،‬ایسی باتوں کی اسے‬
‫بڑی سمجھ تھی‪ ،‬بعد میں بھی نگینہ‬
‫میری غذا کا خاص خیال رکھتی‬
‫تھی ۔ ایک گھنٹے بعد نگینہ میرے‬
‫پاس آکہ بیٹھ گئی میری ٹانگیں‬
‫دبانے لگی‪ ،‬ٹانگیں تو ایک بہانہ تھا‬
‫پھر وہی کھیل شروع ہو گیا ‪،‬ایک بار‬
‫‪ ،‬دو بار ‪ ،‬دل تو میرا اور کر رہا ہے پر‬
‫ابھی تم آرام کرو نگینہ نے کپڑے‬
‫پہنتے ہوئے کہا ‪ ،‬جا شہزادے لڑکوں‬
‫کے ساتھ کھیال کر شام کو نگینہ نے‬
‫مجھے نئے کام پر لگا دیا ‪،‬دادی ہوتی‬
‫تھی تو میں انہی کے پاس رہتا تھا‪،‬‬
‫میرے ہم جولیوں کی باتیں مجھے‬
‫بچکانہ لگتی تھی ‪ ،‬بہرحال کھیلنا‬
‫اچھا لگتا تھا‪ ،‬ہفتہ گزر گیا ‪ ،‬اب‬
‫میری نظر بھٹکنے لگی تھی ‪ ،‬لڑکیوں‬
‫کو غور سے دیکھنے لگا تھا‪،‬آس پاس‬
‫کے گھروں میں جانے لگا تھا‪ ،‬باہر کی‬
‫لڑکیاں گھورنے لگا تھا تو گھر کی‬
‫لڑکی کو کیسے نظر انداز کر سکتا تھا‬
‫‪ ،‬دآلویز کو دیکھنے والی نظر ہی بدل‬
‫گئی ‪،‬اس کی نیلی آنکھی مجھے‬
‫بہت اچھی لگتی تھی‪ ،‬میں بہانے‬
‫بہانے سے اس کے پاس بیٹھنے لگا ‪،‬آؤ‬
‫نگینہ تمھیں سکول کا کام کروا دوں‬
‫‪ ،‬کبھی کبھار اسے چھو بھی لیتا تھا‬
‫‪ ،‬دوسرا ہفتہ گزر گیا‪،‬میرا دھیان‬
‫دآلویز کی طرف زیادہ ہوگیا ‪ ،‬میں‬
‫دیکھ رہا تھا نگینہ مجھے روکنا بھی‬
‫نہیں چاہتی تھی‪ ،‬اوراسے یہ سب‬
‫اچھا بھی نہیں لگ رہا تھا ‪،‬اسی‬
‫طرح تیسرا ہفتہ گزر گیا ‪ ،‬چودائی‬
‫سے فارغ ہوئے تو نگینہ میرے ساتھ‬
‫لیٹ گئی‪،‬دو ہفتے ہو گئے تم چوپا‬
‫نہیں لگایا مجھے مزہ نہیں آ رہا میں‬
‫روٹھا ہوا بوال ‪ ،‬مجھے یہ اچھا نہیں‬
‫لگتا شہزادے ‪ ،‬کیا ؟ پہلے اسے‬
‫چوستی رہی ہو اور اب اچھا نہیں‬
‫لگتا‪ ،‬اور پتا نہیں سرور کا کب سے‬
‫چوس رہی ہو‪ ،‬نہیں شہزادے سرور‬
‫کا تو کبھی نہیں چوسا‪ ،‬زندگی میں‬
‫تمھارا پہلی بار چوسا ہے وہ بھی تم‬
‫نے چیلینچ دیا اس لیے مجھے ایسا‬
‫کرنا پڑا ‪،‬تو پھر تم ُا س کاچوپا لگاتی‬
‫ہو گی‪،‬میرا اشارہ ُا س لڑکے کی طرف‬
‫تھا جو اس رات نگینہ کی چودائی‬
‫کر رہا تھا ‪ ،‬میں نے تمھیں پہلے بھی‬
‫روکا تھا شہزادے کہ آئیندہ ُا س کی‬
‫بات نہ کرنا ‪ ،‬نگینہ غصے سے بولی‪،‬‬
‫میں تو کروں گا‪،‬میں ناراض ہوگیا‪،‬‬
‫اچھا تمھارا چوپا لگاتی ہوں مجھ‬
‫سے ناراض نہ ہوا کر ‪،‬نگینہ نے جیسے‬
‫ہی عضو منہ میں لیا میں وہ‬
‫موضوع پھر بھول گیا‪ ،‬ان دنوں‬
‫نگینہ نے مجھے بہت سر چڑھا رکھا‬
‫تھا دیکھنے والے یہی سمجھتے تھے‬
‫کہ دادی کے بعد نگینہ نے ماں بن‬
‫کرمیری ذمہ داری لے لی ہے بلکہ‬
‫دادی سے بھی بڑھ کے میرا خیال‬
‫رکھتی ہے ۔ اسلیے مجھے یقین ہو گیا‬
‫کہ میں دآلویز کو ضرور چود پاؤں‬
‫گااس خیال سے ہی مجھے سرور آنے‬
‫لگتا تھا ‪،‬نگینہ ہماری کھیلنے کودنے‬
‫پر خاموش تھی‪،‬اور میں اس‬
‫خامومشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے‬
‫دآلویز کے اور قریب ہو گیا ‪،‬چوتھا‬
‫ہفتہ بھی گزر گیا نگینہ سارا دن‬
‫پروانے کی طرح میرے ارد گرد رہتی‬
‫تھی ‪،‬ادھر میں اور دآلویز دوست بن‬
‫گئے تھے ‪ ،‬دآلویز مجھ سے کیسے دور‬
‫رہ سکتی تھی ‪ ،‬اسے نہیں پتہ تھا وہ‬
‫میرے پاس کیوں چلی آتی ہے ایک‬
‫دن کھیلتے ہوئے میں نے دالویز کو‬
‫گال پر چوم لیا ‪،‬وہ شرما کے سمٹ‬
‫گئی ۔مگر کچھ کہا نہیں ‪ ،‬دآلویزہ۔‬
‫او۔ دآلویزا ۔ ادھرآ‪ ،‬کیا ہر وقت‬
‫کھیلتی رہتی ہے ‪،‬میرے ساتھ کام‬
‫کروایا کر گھر کے‪ ،‬اب تم بڑی ہوگئی‬
‫ہو ‪،‬یکدم نگینہ کی غصیلی آواز آئی‪،‬‬
‫آخر نگینہ بول ہی پڑی ۔ اگلے دن‬
‫نگینہ میرے پاس آئی تو میں اس‬
‫سے ناراض تھا‪ ،‬میرے ساتھ لیٹ کہ‬
‫میرے عضو کو پکڑ کے مسلنے لگی ۔‬
‫میری چمیاں لینے لگی ‪ ،‬پر میں ٹس‬
‫سے مس نہ ہوا‪،‬کیا بات ہے شہزادہ‬
‫حضور‪ ،‬نصیِب دشمناں مزاج کیوں‬
‫برہم ہیں جناب کے‪،‬نگینہ نے ایک‬
‫فلمی ڈائیالگ بوال ‪ ،‬چھوڑ نگینے تم‬
‫مجھ سے پیار ہی نہیں کرتی ہو۔‬
‫ایسے نہ کہو شہزادے ‪،‬جتنا‬
‫تمھاراخیال رکھتی ہوں نہ‪ ،‬اتنا تو‬
‫سرورے سوچ بھی نہیں سکتا ۔ نگینہ‬
‫تو تمھاری دیوانی ہے شہزادے ‪ ،‬اگر‬
‫ایسی بات ہے تو دآلویز کو میرے‬
‫ساتھ کھیلنے کیوں نہیں دیتی‪ ،‬ارے‬
‫وہ بچی ہے اسے گھر کے کام کاج پہ‬
‫ابھی نہ لگایا تو کل کوگھر کیسے‬
‫سنبھالے گی‪ ،‬نگینے تم بھی جانتی ہو‬
‫اور میں بھی جانتا ہوں کہ ہم کیا‬
‫چھپارہے ہیں اورکیا بتا رہے ہیں ‪،‬بات‬
‫سیدھی کروں گا ‪،‬مجھے دآلویز‬
‫چاہیے ‪ ،‬مجھے یقین تھا کہ وہ میری‬
‫بات نہیں ٹالے گی ‪ ،‬سارا دن تونگینہ‬
‫میرے آگے بچھی رہتی تھی ۔ وہ‬
‫ابھی بچی ہے شہزادے کچھ سال‬
‫ٹھر جا ‪،‬میں بھی تو بچہ ہوں (میں‬
‫کہنا چاہتا تھا کہ میں بھی بچہ تھا‬
‫جب تم نے مجھ سے زبردستی کی‬
‫تھی) ‪ ،‬ضد نہ کر شہزادے ‪ ،‬تم صرف‬
‫میرے ہو ‪،‬میں تمھیں کسی سے نہیں‬
‫بانٹ سکتی چاہے وہ میری بیٹی ہی‬
‫کیوں نہ ہو‪ ،‬مجھے نہیں پتہ ‪ ،‬مجھے‬
‫دآلویز چاہییےنگینے‪،‬شہزادے میں بے‬
‫غیرت نہیں ہوں ‪،‬کہ جس لوڑے پہ‬
‫ماں چڑھتی ہے اسی لوڑے پر بیٹی‬
‫کو بھی چڑھا دوں ‪ ،‬اس کھیل میں‬
‫غیرت کا کیا کام نگینے‪ ،‬ادھر ادھر‬
‫کی باتیں نہ کر‪ ،‬مجھے بس دآلویز‬
‫چاہیے‪ ،‬ہم میں ایک رسم ہے کہ سہاگ‬
‫رات کو لڑکی کا خون نکلنا چاہیے‬
‫خون سے چادر خراب ہونی چاہیے ‪،‬‬
‫اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس لڑکی کی‬
‫ساری زندگی پھر کتوں سے بدتر‬
‫گزرتی ہے ‪،‬نگینہ نے ایک نئی بات‬
‫شروع کر دی ‪ ،‬اس بات کا ہماری بات‬
‫سے کیا تعلق ہے میں بےزاری سے بوال‪،‬‬
‫ہم نے دآلویزکی منگنی اس کے بچپن‬
‫میں کر دی تھی ‪ ،‬اب وہ کسی کی‬
‫امانت ہے ۔ نگینہ نے اپنی بات مکمل‬
‫کی ‪ ،‬کیا؟؟؟؟ تم نے نگینہ کی منگنی‬
‫کب کی؟ مجھے تو اس بات کا نہیں‬
‫پتا‪ ،‬میں حیران تھا ‪ ،‬یہ تمھارے آنے‬
‫سے پہلے کی بات ہے ‪ ،‬بعد میں کبھی‬
‫تمھارے ساتھ اس بات کا ذکر نہیں‬
‫ہوا ہو گا نگینہ نے وضاحت کی ‪،‬‬
‫اچھا نگینے اب یہ رسمیں کہاں ہوتی‬
‫ہیں تم توپیدائشی الہورن ہو‬
‫‪،‬تمھارے رشتے دار بھی الہوری ‪،‬‬
‫کہانیاں نہ ڈال ‪،‬میں چالیا ‪ ،‬ہمارے‬
‫کچھ رشتے دار ادھر مستقل آباد‬
‫ہوگئے ہیں ‪،‬لیکن کچھ ابھی بھی فاٹا‬
‫میں رہتے ہیں یہاں بس کام کاج‬
‫کرنے آتے ہیں ‪ ،‬دآلویز کی منگنی جن‬
‫سے کی ہے وہ فاٹا میں رہتے ہیں‪ ،‬تم‬
‫دآلویز کی شادی مجھ سے کر دینا‬
‫میں نے آخری بات کر دی ‪ ،‬ضد نہ کر‬
‫شہزادے ‪ ،‬ہاں یا نہ ؟ میں نے اس کی‬
‫آنکھوںمیں میں دیکھتے ہوئے پوچھا‬
‫مجھے یقین تھا وہ میری بات نہیں‬
‫ٹال سکتی تھی ‪ ،‬نہ شہزادے اپنے‬
‫پیاروں سے اتنا بڑا امتحان نہیں لیتے‬
‫نگینہ نے مجھے گلے لگا لیا ‪ ،‬ہاں یا‬
‫ناں ‪،‬میں نگینہ کو پیچھے ہٹا کے پھر‬
‫اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے‬
‫کہا‪،‬مجھے اب بھی یقین تھا کہ نگینہ‬
‫مجھے انکار نہیں کرسکتی‪ ،‬نہیں‬
‫شہزادے دآلویز تمھاری کسی طرح‬
‫نہیں ہو سکتی نگینہ اٹل ارادے سے‬
‫بولی ‪ ،‬چل پھر اب میرے پاس نہ آنا‬
‫‪،‬میں نے اسے تھکا دیا‪ ،‬نگینہ چارپائی‬
‫سے نیچے گر پڑی‪ ،‬وہ اٹھی اور‬
‫مجھے گھورنے لگی ‪،‬سرورے کو تھپڑ‬
‫مارنے والی رانی آج میرے ہر سلوک‬
‫خوشدلی سے سہہ رہی تھی‪ ،‬میں‬
‫بھی ناراض پڑا رہا ‪ ،‬مجھے یقین‬
‫نہیں آرہا تھا کہ نگینہ مجھے انکار کر‬
‫آرہی ہے ‪ ،‬شہزادے ضد نہ کر ‪،‬نگینہ‬
‫آپ بڑی ضدی ہے ‪ ،‬ضد تو تم کر رہی‬
‫ہو نگینے‪ ،‬مجھے پانا ہے تو دآلویز‬
‫مجھے دے دو‪ ،‬ایک ہی گھر میں رہتے‬
‫ہوئے نگینہ کی مرضی کے بغیر یہ‬
‫نہیں ہوسکتا تھا ۔ جبکہ نگینہ ہربات‬
‫سمجھتی بھی ہو ‪ ،‬نگینہ غصے سے‬
‫باہر نکل گئی‪ ،‬ہفتہ اسی کشمکش‬
‫میں پھر گزر گیا ‪،‬اس دوران ہم نے‬
‫صرف چوتھے دن چودائی کی باقی‬
‫دن نگینہ کو ترساتا رہا ‪ ،‬لیکن نگینہ‬
‫میرا خیال پہلے کی طرح رکھتی‬
‫تھی ‪ ،‬میں اسے عضو کو چوسنا تو‬
‫کیا ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا تھا‬
‫‪،‬چودائی سے دوری کی وجہ سے‬
‫نگینہ کی بری حالت تھی اور مجھے‬
‫منانے کی کوشش کرتی رہی ‪ ،‬اس کے‬
‫رویے سے مجھے اب بھی یقین تھا‬
‫کہ نگینہ کو میری بات ماننا پڑے گی‬
‫‪ ،‬لیکن ُا س ُع مر میں ابھی میں یہ‬
‫نہیں سمجھا تھا کہ سیکس کی‬
‫چاہت اور سچےپیار کی چاہت بظاہر‬
‫ایک جیسی ہوتی ہے‪،‬ان کے ہجر‬
‫وصال کی تڑپ پھڑک ایک جیسی‬
‫ہوتی ہے ‪ ،‬ان میں فرق صرف نیت کا‬
‫ہوتا ہے ‪ ،‬اور نیت کا یہ فرق کوئی‬
‫دیکھ کہ بھی اپنی آنکھیں بند‬
‫رکھتے ہیں اور کچھ کسی مشکل‬
‫ترین وقت میں یہ فرق سمجھتے ہیں‬
‫‪،‬بس آنکھوں والے ان جذبات کا فرق‬
‫سمجھتے ہیں۔ سرور اور دآلویز کے‬
‫جانے کے بعد روزانہ کی طرح نگینہ‬
‫میرے پاس آکہ بیٹھ گئی‪ ،‬نگینے کیا‬
‫فیصلہ کیا ہے تم نے ‪،‬ضد چوڑ دے‬
‫شہزادے وہ ابھی بچی ہے کچھ سال‬
‫گزر جانے دے ‪،‬پھر اپنی مرضی پوری‬
‫کر لینا ‪ ،‬نگینہ مجھے فریب دے رہی‬
‫تھی ‪ ،‬میری ضد جاری رہی ‪،‬آج میں‬
‫نے اسے منانے کیلیے بڑا دباؤ ڈاال ‪،‬‬
‫اس کے جذبات کو بڑا ہی بلیک میل‬
‫کیا تو نگینہ غصے میں آگئی ‪ُ ،‬ت و کیا‬
‫سمجھتا ہے میں تیرے دل کی بات‬
‫نہیں سمجھتی ‪ ،‬عقل مند ہونا اور‬
‫بات ہے تجربہ اور چیز ہے ۔ُت و نے عقل‬
‫کی باتیں چار کیا سیکھ لی نگینہ کو‬
‫ہی بیوقوف بنانے لگے ۔ تجھے ہر‬
‫لڑکی‪،‬عورت اپنا شہزادہ بنانا چاہتی‬
‫تھی میں تجھے اپنا شہزادہ بنانے‬
‫میں کامیاب ہوگئی اور اب تو اس‬
‫کے بدلے میں میری بیٹی کو شہزادی‬
‫بنانا چاہتے ہو‪ ،‬اپنا بدلہ لینے چاہتے‬
‫ہو ‪ ،‬نگینہ غصے میں وہ بول گئی جو‬
‫وہ جان گئی تھی جو میرے دل میں‬
‫تھا ‪ُ،‬ت و نے اس بات کو ضد بنا لیا ہے‬
‫شہزادے ‪ ،‬تم اپنی ہار سود سمیت‬
‫لوٹانا چاہتے ہو‪ ،‬لیکن میری بھی ضد‬
‫ہے یہ نہیں ہونے دوں گی ‪ ،‬ابھی تم‬
‫بچے ہو اور بچے ہی رہو اماں دادی نہ‬
‫بنو ‪ ،‬اس کے طنز میں بہت کچھ تھا‬
‫‪ ،‬کھیل ُکھل گیا تھا ‪ ،‬میں سکون سے‬
‫لیٹ گیا‪ ،‬کہنی ٹکا کہ اپنے ہاتھ پر‬
‫سر رکھ کہ اس کی طرف چہرہ کیا‬
‫اور بہت اعتماد سے بوال ‪ ،‬جس لڑکے‬
‫سے تم نے اس رات چودائی کی تھی‬
‫اس کا نام شہروز ہے ‪،‬مجھے اس کا‬
‫نام دوسرے روز ہی یاد آگیا تھا ‪،‬‬
‫میں سرور خان کو اس کا نام بتا‬
‫دوں یا تم مجھے دآلویز دیتی‬
‫ہو‪،‬ایسی باتیں صرف موقع پر ہی‬
‫ہوتی ہیں اب سانپ نکل گیا ہے لیکر‬
‫پیٹنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو ‪ ،‬نگینہ‬
‫بھی بڑے اعتماد میں تھی ۔اور تم‬
‫اسے کیا بتاؤ گے کہ اتنے دن کیوں‬
‫چپ رہے ہو ‪ ،‬تم کچھ ثابت نہیں کر‬
‫سکو گے ‪،‬الٹا پھنس جاؤ گے ‪ ،‬بہتر‬
‫یہی ہے کے اب یہاں رہنا ہے تو مجھے‬
‫خوش رکھا کر نہیں تو نکل جا یہاں‬
‫سے نگینہ چالئی ‪ ،‬دراصل نگینے‬
‫تمھیں پتہ لگ گیا کہ میں نے تمھیں‬
‫دیکھ لیا ہے تم اور شہروز مجھے‬
‫دھمکاتے رہے ہو دوسری طرف تم‬
‫میرا بہت خیال رکھتی رہی ہو‬
‫مجھے ہر طرح کا اللچ دیتی رہی‬
‫ہو‪،‬جب تم نے دیکھا کہ میرا ضمیر‬
‫بار بار جاگ اٹھتا ہے تو اپنے آپ کو‬
‫میرے سامنے کپڑے اتار کے پیش کر‬
‫دیا تب میں نے تمھارے جسم کا‬
‫ُح لیہ دیکھا کچھ نشانیاں نظر آئی یہ‬
‫مجھے اس وقت بھی نظر آئی تھی‬
‫جب میں نے تم دونوں کو ُچ دتے ہوئے‬
‫دیکھا اور اس طرح تمھارے جسم کا‬
‫حلیہ ایک خاص ِت ل اورنپلزاور کافی‬
‫کچھ بتاؤں گا ‪ ،‬تو پٹھان کی غیرت‬
‫کیلیے اتنا بہت ہو گا مسجد میں جا‬
‫کہ یا تمھارے بھائیوں اور شوہر کے‬
‫سامنے قسم بھی اٹھانی پڑی تو بھی‬
‫کوئی مسلہ نہیں ہے ‪ ،‬شہروز کو بھی‬
‫وہ جانتا ہو گا تمھارا اس سے کوئی‬
‫رابطے کا زریعہ بھی ہوگا جس سے‬
‫تم نے اسے ُا س رات کی اگلی صبح‬
‫سب ٹھیک ہونے کی اطالع دی ہوگی‬
‫‪ ،‬باقی ساری کہانی وہ تمھارے حلق‬
‫میں ہاتھ ڈال کہ خود نکال لے گا ‪،‬‬
‫بتاؤ کیا کہتی ہو ‪ ،‬شہزادے میں‬
‫دآلویز کی ماں ہوں ‪،‬میں اسے یہ‬
‫سب کرنے کو نہیں کہہ سکتی ۔ نگینہ‬
‫کا لہجے اور الفاظ میں پھر مٹھاس‬
‫آگئی ‪ ،‬تم اس کی فکر نہ کرو بس‬
‫دآلویز کو میرے ساتھ اسی کمرے‬
‫میں کھیلنے دیا کرو‪ ،‬باقی سب خود‬
‫بخود ہو جائے گا میں نے اسے ایک‬
‫آنکھ دبا کے کہا ‪،‬یہ بات بھی میں نے‬
‫نگینے سے ہی سیکھی تھی ‪ ،‬نگینہ‬
‫نیم رضامند نظر آنے لگی ‪ ،‬ہمارا تعلق‬
‫بھی دآلویز کے سامنے آجائے گا ‪ ،‬میں‬
‫اس کی نظروں سے گر جاؤں گی‬
‫نگینہ نے ایک اور اعتراض کیا ‪،‬نہیں‬
‫ُکھلتا ہمارا راز ‪ ،‬نہ تم اسے بتانا نہ‬
‫میں بتاؤں گا ‪ ،‬مجھے پتہ ہے تم اپنی‬
‫دل کی بھڑاس نکالنے کیلیے ہم‬
‫دونوں کو ایکدوسرے کے سامنے‬
‫چودو گے ‪ ،‬وہ میری ہر چال سے‬
‫واقف تھی ‪ ،‬میں ایسا نہیں کروں گا‬
‫‪،‬میں نے اسے فریب دیا ‪ ،‬ٹھیک ہے‬
‫شہزادے تمھاری ضد کے آگے میں ہار‬
‫گئی ہوں ‪ ،‬جیسا تم کہو گے ویسا ہی‬
‫ہو گا ‪ ،‬نگینہ میرے ساتھ لیٹ گئی ‪،،‬‬
‫کھیل شروع ہوگیا ‪،‬ایک بار ‪،‬دو بار ‪،‬‬
‫تین بار ‪،‬نگینے میں تھک گیا ہوں ‪،‬‬
‫چار بار ‪،‬نگینے میں ادھر ہی ہوں ‪،‬اب‬
‫بس کر‪ ،‬ایکبار جی بھر کے میری‬
‫خواہش پوری کر دے شہزادے ‪،‬‬
‫پانچویں بار ۔۔ دروازہ کھٹکنے لگا‬
‫‪،‬شکر ہے میری جان ُچ ھوٹی ‪ ،‬دآلویز‬
‫سکول سے آگئی تھی ‪،‬نگینہ نے چھ‬
‫دن کی کسر ایک دن میں نکال لی‬
‫تھی ‪ ،‬تھکن اور کمزوری نے مجھ پر‬
‫حملہ کردیا ‪،‬میں تھوڑی دیر میں‬
‫ُبھوکا ہی سو گیا‪ ،‬شام کو اٹھا تو‬
‫طبیعت میں ُس ستی تھی ‪،‬نگینہ نے‬
‫میرے لیے کھانا لے آئی ‪،‬ایسی حالت‬
‫میں نگینہ مجھے یخنی پالتی‬
‫تھی‪،‬مگر آج کسی وجہ سے نہیں بنا‬
‫سکی ‪ ،‬کھانا کھا میں پھر لیٹ گیا ‪،‬‬
‫کچھ دیر مجھے نگینے دباتی رہی‬
‫‪،‬رات کو پھر دبا دوں گی شہزادے‬
‫نگینہ نے مجھے ایک آنکھ دبا کے کہا‬
‫‪ ،‬میں سمجھ گیا آج رات کو نگینہ‬
‫اور مزہ لے گی ‪،‬اس رات کے بعد ہم‬
‫رات کو بالکل نہیں ملے تھے ‪ ،‬رات کو‬
‫کھانا کھال کے سب کچھ سمیٹ کر‬
‫نگینہ فارغ ہوئی ۔سوا ‪،‬نوہو گئے تھے‬
‫‪ ،‬کبھی اپنے بیٹے کا بھی حال چال‬
‫پوچھ لیا کر ‪،‬نگینہ سرور خان کو‬
‫کمرے میں گھسیٹ الئی ‪،‬سرور سانڈ‬
‫نے مجھے نفرت سے ُگھورا اور باہر‬
‫نکل گیا ‪ ،‬سرورے سونا نہ ‪،‬میں اس‬
‫کا سر دبا کے آتی ہوں ‪،‬نگینہ کی آواز‬
‫میں ممتا کی چاشنی تھی اور سرور‬
‫کیلیے سگنل تھا ‪ ،‬باہر بارش ہونے‬
‫لگی ‪ ،‬نگینہ میری رضائی میں آ گئی‬
‫اور میرا سر دبانے لگی ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫اپنی چادر اتار کے بے پروائی سے‬
‫پھینک دی ‪ ،‬پھر نگینہ نے اپنے بال‬
‫کھول دیے ‪،‬نگینے بڑی رومانٹک موڈ‬
‫میں تھی ‪،‬اس کا ُح سن کمرے کو‬
‫جگمگ کرنے لگا‪ ،‬بے شک وقت نے اس‬
‫کا کچھ نہیں بگاڑا تھا ‪ ،‬نگینے تم‬
‫کمال ہو ‪،‬میں اس کے ُح سن سے بے‬
‫خود ہو گیا ‪ ،‬نگینہ نے میرے ہونٹوں‬
‫پر اپنے ہونٹ رکھ دیے بیس پچیس‬
‫منٹ اس نے مجھے بڑی شدت سے‬
‫پیار کیا ‪(،‬الف اج دی رات سہاگ‬
‫والی ۔۔۔ بھلکے کی جانے کیہڑا رنگ‬
‫ہوسی) اسے سرورے کا ڈر بھی نہیں‬
‫تھا ‪،‬یا اسے یقین تھاکہ وہ نہیں آئے‬
‫گا ‪ ،‬کاش شہزادے تم مجھ سے ضد‬
‫نہ لگاتے تو ساری ُع مرتمھیں عیش‬
‫کراتی ‪،‬نگینہ کا موڈ بہت عجیب تھا‬
‫‪ ،‬کیا ؟ میں اس طرح موڈ بدلنے پر‬
‫حیران ہوا‪ ،‬بچاؤ ‪،‬بچاؤ نگینہ ُکھٹی‬
‫ُکھٹی آواز میں ایسے چیِخ ی جیسے‬
‫اس کے منہ پر کسی نے ہاتھ رکھا ہو‬
‫‪ ،‬ساتھ ہی اس نے اپنے گریبان پہ‬
‫ہاتھ ڈاال اور ایک جھٹکے سے پھاڑ‬
‫ڈاال ‪،‬اس کی برا نظر آنے لگی میں‬
‫سنبھل نہیں پایا تھا کہ اس نے میری‬
‫رضائی ایک طرف پھینک دی اور اور‬
‫خود چارپائی سے گر پڑی جیسے‬
‫جان چھڑا کہ بھاگی ہو اور گر پڑے ۔‬
‫دو پل میں یہ سین مکمل ہوا اور‬
‫سرور خاں کمرے میں داخل ہو گیا‪،‬‬
‫زمین پر گری ہوئی چادر ‪،‬بکھرے بال‬
‫‪ ،‬پھٹی ہوئی قمیض ‪،‬ایں ؟ریشمی‬
‫قمیض ایکدم کیسے پھٹ گئ ؟ اور‬
‫اس کی ننگے جسم پر ایک خراش‬
‫بڑی واضح نظر آرہی تھی جو کہ‬
‫دوپہر کو نہیں تھی ‪ ،‬ایک پل میں‬
‫ساری صورت حال میں سمجھ گیا ۔‬
‫ادھر میری جسمانی حالت اتنی‬
‫اچھی نہیں تھی ‪ ،‬کہ میں بھاگ‬
‫سکوں ‪ ،‬نگینہ نے بڑا مکمل حملہ کیا‬
‫تھا ‪ ،‬سرور خان نے کمرے میں داخل‬
‫ہوتے ہی نگینہ کو اٹھایا ‪،‬سرورے اس‬
‫نے میری عزت پر حملہ کیا ہے آج یہ‬
‫بچ کر نہ جائے ‪ ،‬نگینہ نے کمرے کا‬
‫دروازہ بند کرتے ہوئے کہا‪ 17.‬قسط‬
‫تک ماجود تے جس کو لینی ہے رابطہ‬
‫کریں‬
‫‪03147615013‬‬
‫ناگن‪03127840311‬‬ ‫🐍🐍‬
‫‪Update_2‬‬

‫سرور سانڈ ‪ ،‬طیش میں مجھ پر‬


‫حملہ آور ہوا‪ ،‬میں صورِت حال‬
‫سمجھ کہ اٹھ ہی رہا تھا کہ سرور‬
‫سانڈ میرے اوپر گر پڑا اور مجھے‬
‫گالیاں دیتے ہوئے مکے مارنے لگا‪،‬‬
‫نگینہ کے دروازہ بند کرنے کا مطلب‬
‫تھا اسنے مجھے بھگانا نہیں ہے‬
‫مروانا ہے ‪ ،‬لمحوں میں یہ سب ہوگیا‬
‫‪ ،‬اب سستی کا مطلب موت تھا‪،‬‬
‫سرور خان وحشیوں کی طرح مجھے‬
‫مار رہا تھا ‪،‬میرے جسم میں بجلیاں‬
‫دوڑ گئی ‪،‬موت کے سامنے دیکھ کہ‬
‫توچڑیا بھی باز سے لڑ پڑتی ہے‪،‬میں‬
‫تو پھر انسان تھا ‪ ،‬میں بھی ہاتھ‬
‫چالنے لگا ‪ ،‬مگر وہ مجھ پر حاوی‬
‫تھا ‪ ،‬میرے اندھا دھند ہاتھ چالنے‬
‫سے بس اتنا ہوا کہ ُا س کے مکوں کی‬
‫رفتار کم ہوگئی ‪،‬میری نظر اس کی‬
‫جنونی آنکھوں پر تھی میں اپنی‬
‫انگلیاں اس کی آنکھوں میں مارنے‬
‫لگا ‪،‬آخر انگلیاں لگ گئی مگر پوری‬
‫نہیں لگی تھی لیکن اس نے میرا بازو‬
‫چھوڑ کر اپنے ہاتھ آنکھوں پر رکھ‬
‫لیے ‪ ،‬وہ ڈھیال ہوا تو میں اسے خود‬
‫پر سے دھکا دے کر چارپائی سے‬
‫کھڑا ہو گیا‪،‬میرا جسم ُبری طرح درد‬
‫کر رہا تھا ‪ ،‬نیچے سے نکلنا میری‬
‫کامیابی تھی پر موت اب بھی سامنے‬
‫کھڑی تھی‪ ،‬یعنی سرور سانڈ بھی‬
‫آنکھیں ملتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا تھا ‪،‬‬
‫میری جسمانی حالت ِد گرُد وں تھی‪،‬‬
‫نگینہ ابھی تک لڑائی میں شامل‬
‫نہیں ہوئی تھی وہ دروازے پر کھڑی‬
‫تھی‪ ،‬کہ میں بھاگ نہ سکوں یا اسے‬
‫یقین تھا کہ میں سرور کے سامنے‬
‫کچھ نہیں ہوں ‪،‬اور بات بھی سچ‬
‫تھی‪ ،‬سرور کے اٹھتے ہی میں نے‬
‫چارپائی کو ٹھوکر ماری جو اسکے‬
‫گھٹنوں پر لگی تھوڑی ُچ وک ہوگئی‬
‫نہیں تو یہی چارپائی اٹھتے ہوئے‬
‫اس کے منہ پر لگنی تھی‪،‬میں نے‬
‫ادھر ادھر دیکھا تو دادی کی الٹھی‬
‫نظر آئی ‪ ،‬میں نے وہ اٹھا لی ‪ ،‬سرور‬
‫ٹانگ کی تکلیف بھول کہ میری طرف‬
‫بڑھا ‪ ،‬سرور اندھا دھند میری طرف‬
‫بڑھا ‪،‬میں نے بے دریغ الٹھی گھما‬
‫دی‪ ،‬اس نے بے اختیار ہاتھ آگے کردیے‬
‫الٹھی ہاتھوں اور بازوؤں پر پڑی اور‬
‫اس نے فورًا ہاتھ پیچھے کیے ‪ ،‬میں‬
‫نے اسی پل الٹھی اسکے سر پر دے‬
‫ماری ۔ سرور ایک سانڈ تھا ایک بار‬
‫قسمت سے اس کے ہاتھ سے نکل آیا‬
‫تھا اب ہاتھ آجاتا تو موت نے ہی‬
‫مجھے آزادی دالنی تھی ‪ ،‬میں نے‬
‫سرور کو سنبھلنے نہ دیا میں‬
‫نےدوتین الٹھیاں اوپر تلے اس کے سر‬
‫پہ دے ماری ‪،‬سر پر الٹھیاں پڑنے سے‬
‫سرور بھی ڈگمگا گیا اور الٹھی بھی‬
‫چٹخ گئی‪ ،‬میں نے زور سے الت اس‬
‫کے پیٹ پر ماری ‪،‬وہ گر پڑا ‪ ،‬اسکے‬
‫سر سے خون نکل رہا تھا ‪ ،‬الٹھی‬
‫ہاتھ میں آتے ہی چند سیکنڈ میں‬
‫پانسہ پلٹ گیا ‪ ،‬آخر دادی ہی کام‬
‫آئی‪ ،‬میں دراوزے کی طرف بڑھا‬
‫‪،‬نگینہ پریشان ہو گئ ‪،‬اور جلدی سے‬
‫پرانی طرز کا پیتل کا گلدان ہاتھ‬
‫میں پکڑا اور آگے بڑھ کے میرا سر پر‬
‫مارنا چاہا‪،‬اب پھرتی میں تو وہ مجھ‬
‫سے زیادہ نہیں تھی‪،‬میں نے ایک‬
‫طرف ہو کہ نفرت میں پوری طاقت‬
‫سے اسے الٹھی دے ماری‪ ،‬الٹھی اس‬
‫کے بازو اور کندھوں پر پڑی اور ٹوٹ‬
‫گئی‪ ،‬اوپر سے میں نے اسے الت دے‬
‫ماری جو اس کے پیٹ پر لگی نگینہ‬
‫پیچھے جا گری‪ ،‬نگینہ نے بغیر کسی‬
‫دیر کے لیٹے لیٹے پھر گلدان اٹھا کہ‬
‫میری طرف چالیا جو میری پنڈلی‬
‫کی ہڈی پر لگا پنڈلی کی ہڈی نے تو‬
‫میری جان ہی نکال دی ۔ مگر موت‬
‫سامنے تھی میں نے سب نظر انداز کر‬
‫کے دروازہ کھول لیا‪،‬سرورسانڈ اٹھنے‬
‫کی کوشش کر رہا تھا اس کاجنون‬
‫کم ہونے کی بچائے بڑھ چکا تھا میں‬
‫نے جلدی سے بچی کچھی الٹھی اس‬
‫کی طرف چال دی ‪،‬جو سیدھی اس‬
‫کے چہرے کی طرف گئی‪ ،‬دروازہ بند‬
‫کر کے باہر سے کنڈی لگا دی‪ ،‬باہر کی‬
‫طرف لنگڑاتا ہوا بھاگا تو دآلویز اٹھ‬
‫کے دروازے میں پریشان کھڑی تھی‬
‫‪،‬میری حالت دیکھ کہ وہ چونکی ‪،‬‬
‫اور پریشانی سے میری طرف بڑھی ‪،‬‬
‫یقینًا ابھی اسے حاالت کاپتہ نہیں‬
‫تھا میں نے اسے زور سے دھکا دیا وہ‬
‫واپس کمرے میں گر پڑی ‪ ،‬اس‬
‫دروازے کو بھی باہر سے بند کر دیا ۔‬
‫اب دالویز مجھ سے نفرت کرے گی ‪،‬‬
‫کیونکہ میں نے اس کی ماں کی عزت‬
‫لوٹنے کی کوشش کی تھی ‪ ،‬نگینہ نے‬
‫بڑا مکمل وار کیا تھا ‪ ،‬میں تیزی سے‬
‫صحن پار کر کے باہر والے دروازے‬
‫کی طرف بڑھا ُکنڈی کھول کے‬
‫دروازہ کھوال اور کچھ سوچ کر تیزی‬
‫سے لنگڑاتا ہوا سیڑھیوں کی طرف‬
‫بڑھا ‪ ،‬میں چھت پر آگیا ‪ ،‬بڑی تیز‬
‫بارش ہو رہی تھی‪ ،‬ہر کوئی کمروں‬
‫میں ُد بکا ہوا تھا ‪ ،‬میں ایک چھت‬
‫سے دوسری چھت پر چال گیا‪ ،‬دروازہ‬
‫اور کنڈی سرور سانڈ کے سامنے کچھ‬
‫نہیں تھی ‪ ،‬اس کی نفرت بہت زیادہ‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬یقینًا اس نے مجھے‬
‫ڈھونڈنا تھا ‪ ،‬نگینہ نے پہلے بھی‬
‫گھٹی ہوئی آواز میں بچاؤ کہا تھا‬
‫اور پھر بعد میں بھی چیخ کے گلی‬
‫والوں کو اکھٹا نہیں کیا تھا یعنی‬
‫مجھے مار کے وہیں گاڑنا اس کا‬
‫واضح مقصد تھا ‪،‬ضد میں نگینہ نے‬
‫انتہائی فیصلہ کر لیا تھا ۔ مجھے‬
‫کس نے ڈھونڈنا تھا ‪ ،‬ان سے گلی واال‬
‫کوئی پوچھتا بھی تو کہدیتے کہ‬
‫میں گھر سے بھاگ گیا ہوں ‪ ،‬تیز‬
‫بارش ٹھنڈ میں جسم کو ُس ن کرنے‬
‫لگی ۔ میں چھتیں پھالنگتا نکڑوالی‬
‫باجی کی طرف جا رہا تھا‪ ،‬ایک گھر‬
‫کی چھت اونچی تھی مزید اس پر‬
‫پردے بھی بننے سے دیوا سی بن گئی‬
‫تھی ‪ ،‬مجھے اس پر چڑھنے میں‬
‫مشکل پیش آئی ‪،‬اوپر سے بارش نے‬
‫براحال کر رکھا تھا بہرحال چڑھ ہی‬
‫گیا ‪،‬کالئیاں ِچ ھل گئ ‪ ،‬سوچیں مجھ‬
‫بھی تیز رفتار تھیں ‪ ،‬نگینہ نے وقت‬
‫بھی رات کا ُچ نا تھا اور سرور سانڈ‬
‫کو جان بوجھ کے میرے کمرے میں‬
‫الئی تھی کہ بعد میں بتا سکے کہ وہ‬
‫تو میری خراب طبیعت کی وجہ سے‬
‫آئی تھی اس نے سرور سانڈ کو‬
‫جاگنے کا سگنل بھی دیا تھا وہ نہ‬
‫صرف جاگتا رہا بلکہ اس کا دھیان‬
‫بھی نگینہ کی طرف تھا اسی لیے وہ‬
‫نیچی آوز سن کے بھی آگیا ‪ ،‬نکڑ‬
‫والی باجی کی چھت پر آکے میں‬
‫چھت کے پردوں سے کمر ٹکا کے‬
‫بیٹھ گیا پنڈلی کا درد بارش میں‬
‫ُس ن ہو رہا تھا ‪ ،‬میری جسمانی حالت‬
‫بھی نگینہ کی کارستانی تھی اس نے‬
‫پانچ بار عضو چوس کہ محبت کے‬
‫ڈھونگ سے چدوا چدوا کے مجھے بے‬
‫حال کیا ‪،‬وہ تو دآلویز آگئی نہیں تو‬
‫نگینہ نے مجھے ادھ مواء کر دینا تھا‬
‫۔ نگینہ نے مجھے دوسری دفعہ‬
‫شکست دے دی تھی ‪ ،‬اس کا‬
‫منصوبہ ہر طرح سے مکمل تھا‪ ،‬یقینًا‬
‫اب وہ میرا پیچھا کروائے گی ‪ ،‬وہ‬
‫سرور اور اپنے بھائیوں کیساتھ‬
‫برادری کو بھی اس میں شامل کرے‬
‫گی عزت لوٹنے والی بات ان اکھڑ‬
‫لوگوں کیلیے تازیانہ تھی‪،‬موت کے‬
‫سائے میرے آس پاس منڈالنے لگے‬
‫تھے۔ اس کی مکاری کے سامنے میں‬
‫ابھی بچہ ہی تھا ‪ ،‬اور اب میری جان‬
‫خطرے میں تھی مجھے بھاگنے کی‬
‫بجائے کہیں چھپنے کی ضرورت تھی‬
‫میں بارش میں ننگے پاؤں اپنے‬
‫نڈھال جسم اور زخمی پنڈلی کے‬
‫ساتھ زیادہ بھاگ نہیں سکتا تھا ‪،‬نکڑ‬
‫والی باجی اس وقت مفید ترین‬
‫تھی‪ ،‬میں نیچے کی ُس ن ُگن لینے‬
‫لگا‪،‬نکڑ والی باجی کا بھائی‪ ،‬بھابی‪،‬‬
‫بچے ‪،‬اور باجی کے ماں باپ اپنے‬
‫کمروں میں رضائیوں میں ُگھسے‬
‫ہوں گے ‪،‬سردیوں کے دس بجے ہوں‬
‫اور بارش ہو رہی ہو تو اس وقت‬
‫کس نے میرا راستہ روکنا تھا‪،‬میرے‬
‫لیے یہ گھر اجنبی نہیں تھا ‪ ،‬اس لیے‬
‫سیدھا باجی کے کمرے کی طرف‬
‫بڑھا ۔ مناسب قد کی‪ ،‬تیکھے نین‬
‫نقش والی ‪ ،‬گوری چٹی‪ ،‬تیز وطرار‪،‬‬
‫دبلےپتلے جسم والی ‪، ،‬اور ہمشہ‬
‫چست (ٹائیٹ فٹنگ ) کپڑوں میں‬
‫ممے اور پتلی کمر دکھانے والی‬
‫چوبیس سال کی باجی سحرش کو‬
‫میری وجہ سے جوانی بڑی تنگ کرتی‬
‫تھی ‪ ،‬خوش قسمتی سے دروازہ‬
‫کھال تھا میں نے محتاط ہو کے‬
‫دروازہ سے جھانکا ‪،‬باجی کمرے میں‬
‫رضائی لپیٹ کہ کوئی رسالہ پڑھ‬
‫رہی تھی ‪،‬ساتھ مونگ پھلی اور‬
‫ریوڑیاں بھی چل رہی تھی ‪ ،‬میں‬
‫کمرے میں داخل ہو گیا‪ ،‬باجی نے‬
‫میری طرف دیکھا اور۔۔۔۔۔حیران‬
‫ہوگئی ‪،‬شہزادے تم ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫نے دروازہ بند کر دیا ‪،‬وہ میری حالت‬
‫دیکھ کے پریشان ہوگئی ‪ ،‬کیا ہوا‬
‫شہزادے تم اندر کیسے آئے ‪،‬باجی اٹھ‬
‫کہ میرے پاس آگئی‪ ،‬سرورے سے‬
‫میری لڑائی ہوگئی ‪،‬میں بھاگ آیا‬
‫میرا جواب مختصر تھا‪،‬سرورا نگینہ‬
‫کا غالم ہے اور ُت و اس کا شہزادہ ۔‬
‫مجھے گولی مت دے سیدھی بات‬
‫بتا‪،‬باجی سحرش میری بات میں نہ‬
‫آئی ‪ ،‬سرور نے مجھے اور نگینہ کو‬
‫اکٹھا دیکھ لیا اور مجھے ماررنا چاہا‬
‫‪،‬مگر مجھے وہاں سے بھاگنے کا موقع‬
‫مل گیا ‪ ،‬تفصیل سے بتا‪ ،‬باجی‬
‫سحرش کی تسلی نہ ہوئی ‪ ،‬پوری‬
‫بات بھی سن لینا ‪،‬پہلے میری حالت‬
‫کا کچھ کر‪،‬باجی نے میری حات کا‬
‫جائزہ لیا ‪،‬گیلے کپڑے اتار دے ‪ ،‬باجی‬
‫نے کھونٹی سے تولیا اتار لیا‪،‬لیکن‬
‫میں ویسے ہی کھڑا رہا ‪ ،‬کپڑے کیوں‬
‫نہیں اتارتا ‪ ،‬باجی حیران ہوئی ‪،‬‬
‫کوئی کپڑے پہننے کو تو دے ‪،‬اور تم‬
‫بھی ادھر منہ کر لو‪ ،‬زیادہ ڈرامے‬
‫بازی نہ کر شہزادے ‪ ،‬تیرے سائیز کا‬
‫کوئی سوٹ نہیں ہے ہمارے گھر میں‬
‫‪،‬کپڑے اتار کے رضائی میں ُگھس‬
‫جا‪،‬اب مجھ سے کیا شرمانا‪ ،‬باجی نے‬
‫موقع کا فائدہ اٹھانے میں ایک لمحے‬
‫کی دیر نہیں لگائی ‪ ،‬باجی سحرش‬
‫خود ہی آگے بڑھ کے میرے کپڑے‬
‫اتارنے لگی تو میں نے بھی قمیض‬
‫اور شلوار اتار دی سحرش کی‬
‫آنکھوں میں چمک آگئی ‪،‬وہ پیار سے‬
‫میرا جسم تولیے سے خشک کرنے‬
‫لگی ‪ ،‬میرے بال خشک کیے ‪،‬جسم‬
‫خشک کرتے کرتے وہ خود گیلی ہو‬
‫گئی ہوگی‪،‬میں رضائ میں ُگھس گیا‪،‬‬
‫تم اندر کیسے آئے ‪،‬میں چھت سے آیا‬
‫ہوں ۔ سحرش نے دروازہ کھول کہ‬
‫صحن میں دیکھا اور اپنی تسلی‬
‫کرکے دروزہ بند کر دیا ‪،‬بارش جاری‬
‫تھی‪،‬سحرش نے میرے کپڑے نچوڑ‬
‫کے پھیال دیے ‪ ،‬میں سردی سے کانپ‬
‫رہا تھا بلکہ اب ہی تو سردی لگنی‬
‫شروع ہوئی تھی ‪،‬پنڈلی کا درد بے‬
‫چین کرنے لگا ۔ سحرش نے دروازہ‬
‫کھوال اور باہر جانے لگی ‪،‬کہاں جا‬
‫رہی ہو‪،‬میں نے دھیمی آواز میں‬
‫پوچھا‪ ،‬کچھ تمھاری سردی کا کرتی‬
‫ہوں مجھے دیکھ کے سحرش نےگھر‬
‫اور باہر کے سب خطرے نظر انداز کر‬
‫دیے تھے ‪ ،‬اسی لیے تو میں سحرش‬
‫کے پاس آیا تھا ‪،‬میں اچھی طرح‬
‫رضائی لپیٹ کے بیٹھ گیا دس بارہ‬
‫منٹ بعد سحرش گرم دودھ اور تین‬
‫دیسی انڈے ابال کے لے آئی‪ ،‬پی لے‬
‫اس میں شہد بھی ڈاال ہے ‪،‬جو‬
‫سحرش کی سمجھ میں آیا وہ لے‬
‫آئی ‪،‬میرے ہاتھ کانپ رہے تھے ‪،‬‬
‫سحرش انڈوں کا چھلکا اتارنے لگی‪،‬‬
‫دودھ اور انڈے نگلتےہوئے میں نے‬
‫مناسب سی تفصیل سحرش کو بتا‬
‫دی کھال پال کہ وہ ڈیٹول اور روئی‬
‫لے آئی ‪ ،‬میری کالئیوں اور ماتھے پر‬
‫روئی سے صاف کرنے لگی‪،‬پھر روئی‬
‫اچھی طرح ڈیٹول سے بھگو کے‬
‫میری پنڈلی پر رکھ کے کپڑے سے‬
‫پٹی باندھ دی ‪ ،‬سحرش اس سب‬
‫سے فارغ ہو کہ دروازہ بند کر کے‬
‫میرے ساتھ رضائی میں ہی گھس‬
‫آئی ‪ ،‬پندرہ بیس منٹ میں میری‬
‫حالت کچھ نارمل ہو گئی اور‬
‫سحرش کی حالت خراب ہو گئی ‪،‬‬
‫جس کیلیے وہ اپنے دروازے میں‬
‫کھڑی انتظار کرتی رہتی تھی ‪ ،‬جس‬
‫کیلیے سحرش کی منہ زور جوانی بے‬
‫قابو ہو رہی تھی آج وہ اس ننگے‬
‫شہزادے سے جڑی بیٹھی تھی ‪،‬‬
‫سحرش نے مستی میں انگڑائی لی تو‬
‫اس کے ممے اور پتلی کمر نمایاں‬
‫ہوگئی اس کے چست کپڑوں سے‬
‫جسم باہر آنے کیلیے پھڑک رہا تھا‪،‬‬
‫ایکدم وہ مدہوشی میں مجھ سے‬
‫لپٹ گئی اور مجھ پر بوسوں کی‬
‫بارش کر دی‪ ،،‬اس نے میرےننگے‬
‫جسم کا کوئی حصہ نہ چھوڑا ‪ ،‬اس‬
‫کا طوفان بوسوں سے اور بڑھ گیا تو‬
‫سحرش نے اپنی قمیض اتار دی پھر‬
‫شلوار اور برا بھی اتار دی‪ ،‬نگینہ‬
‫جتنی بھی خوبصورت تھی لیکن‬
‫اس کچی جوانی کے آگے کچھ بھی‬
‫نہیں تھی‪ ،‬کیسا لگا ہے تمھیں میرا‬
‫جسم شہزداے‪،‬سحرش نے اپنی کمر‬
‫ہال ئی‪ ،‬زبردست ‪ ،‬میں نے دل سے‬
‫کہا‪ ،‬سحرش میرے ساتھ ہی لیٹ‬
‫گئی ‪ ،‬اور زبردست جپھا ڈال لیا ‪،‬ہم‬
‫کسنگ کرنے لگے ‪ ،‬منہ میں منہ ڈال‬
‫لیا۔ ہمارے ہاتھ آوارہ ہو گئے ‪،‬میں‬
‫اس کے َا ن چھوئے کچے ممے چھونے‬
‫لگا ‪ ،‬پتلے جسم کی جادوگری تو بہت‬
‫زیادہ تھی ‪ ،‬سحرش نے ہاتھ بڑھا کے‬
‫میرا عضو پکڑ لیا‪ ،‬بے شک سحرش‬
‫بہت ترسی ہوئی تھی‪ ،‬شہزادے اسے‬
‫ہاتھوں سے نہیں منہ سے پکڑ کے پی‬
‫‪ ،‬سحرش نے مجھے اپنے ممے کی‬
‫طرف کیا ‪،‬میں نے ایک نپل منہ میں‬
‫لے لیا اورچوسنے لگا‪ ،‬یہ میرے پہلے‬
‫کچے ممے تھے ‪،‬مجھے ان کے سواد‬
‫میں اپنی جسمانی تکلیفیں بھولنے‬
‫لگی ‪ ،‬جسم گرم ہو گیا ۔جو کہ میرے‬
‫لیے اچھا تھا ‪ ،‬پہال پھر دوسرا‬
‫‪،‬دوسرا اور پھر پہال‪،‬ممے چوسنے سے‬
‫دل نہیں بھر رہا تھا ‪ ،‬جسم ایک‬
‫دوسرے میں کُب ھے ہوئے تھے ‪،‬نگینہ‬
‫سے سیکھا ہوا سبق پورا کر کے اب‬
‫میں اندر ڈالنا چاہتا تھا ۔ سحرش کی‬
‫معلومات سننے تک تھی یا اس نے‬
‫کچھ دیکھا بھی ہو ‪ ،‬میں کر چکا تھا‬
‫مگر مجھے نہیں پتہ تھا کہ کنواری‬
‫چوت کے طریقے کچھ اور ہوتے ہیں ۔‬
‫آجا شہزادے سحرش خود بھی لینے‬
‫کیلیے بےچین تھی ۔ میں نے گھٹنوں‬
‫پر بیٹھا تو پنڈلی کا درد نے بتایا کہ‬
‫ابھی میں پوری طرح زندہ ہوں ‪ ،‬مگر‬
‫اس وقت اس کو بھول جانا ہی ہر‬
‫لحاظ سے وقت کا تقاضا تھا ‪،‬چوت‬
‫کے اوپر رکھ کے عضو تھوڑا اندر‬
‫ڈالنا چاہا زور لگایا تو بمشکل ٹوپی‬
‫چلی گئی ‪،‬یہ کیا نگینہ کے اندر تو‬
‫گھڑاپ کر کے چال جاتا تھا ‪،‬میں نے‬
‫اور دھکا لگایا تو سحرش کو درد ہوا‬
‫‪ ،‬ٹھر جا شہزادے سحرش کو عقل‬
‫آگئی ‪ ،‬وہ شیمپو کی بوتل الماری سے‬
‫لے آئی اس میں سرسوں کا تیل تھا‪،‬‬
‫سیانوں کی بات پر عمل کرنا چاہیے ‪،‬‬
‫سحرش نے تیل میرے عضو پر لگاتے‬
‫ہوئے کہا اور پھر اپنی چوت میں‬
‫لگایا ‪ ،‬آجا میرے شہزادے ‪ ،‬سحرش‬
‫نے لیٹتے ہوئے مجھے دعوِت چدائی‬
‫دی ‪،‬میں اس کی ٹانٰگں کھول کے‬
‫چوت کے سامنے آیا اور پھر موری پر‬
‫رکھ کے دھکا لگایا ۔ آہ سکون آگیا ‪،‬‬
‫عضو پھسلتا ہوا اندر چال گیا مگر‬
‫چوت اپنی تنگی پوری طرح‬
‫محسوس کروا رہی تھی‪ ،‬آگے جا کے‬
‫عضو کسی چیز سے ٹکرا کے پھر رک‬
‫گیا ‪ ،‬میرے حساب سے اسے اور آگے‬
‫جانا چاہیے تھا ابھی تو پورا ‪،‬اندر ہی‬
‫نہیں گیا تھا ‪ ،‬شہزادے تھوڑا پیچھے‬
‫ہو کہ پورے زور سے دھکا لگا‪ ،‬اس‬
‫دفعہ بھی سحرش ہی کام آئی ‪ ،‬یقینًا‬
‫اس نے اس کی پوری معلومات لی‬
‫ہوئی تھی ‪ ،‬نہیں تو انجان کا چودنا‬
‫چوت کا نقصان والی بات ہو جانی‬
‫تھی ‪ ،‬میں نےعضو تھوڑا باہر نکاال‬
‫‪،‬اور پوری طاقت سے اندر ڈاال ‪ ،‬میرا‬
‫عضو کسی چیز کو توڑتا ہوا اندر جا‬
‫گھسا ‪ ،‬اور سحرش کے جسم نے‬
‫جھٹکا لیا ‪ ،‬اس نے اپنے دانت پر‬
‫دانت جمائے ہوئے تھے ‪،‬اس کی‬
‫رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئی‬
‫تھی‪،‬بعد میں اس نے بتایا کے اسے‬
‫درد ہوا تھا اور وہ اپنی چیخ روک‬
‫رہی تھی ‪،‬اندر چال گیا تھا میں‬
‫سحرش کی حالت سے بے پرواہ‬
‫چودائی کرنے لگا ۔ شہزاے اب رکنا‬
‫نہ‪،‬کچھ دیر بعد سحرش نے جذبات‬
‫میں کہا‪ ،‬اس کے رخسار کی ہڈیاں‬
‫اب نارمل ہو گئ تھی ‪ ،‬مجھے اب‬
‫چوت میں تھوڑی روانی محسوس‬
‫ہوئی ‪ ،‬تھکا تھک ‪،‬پھٹا پھٹ ‪،‬تیز اور‬
‫تیز‪،‬اس کے بعد وہی سب جو نگینہ‬
‫کو کرتا تھا ‪،‬اب سارا کام میرا تھا‪،‬‬
‫میں نے اپنا کام بخوبی کیا ہم جوش‬
‫میں تھے جوش میں رفتار خودبخود‬
‫تیز ہوجاتی ہے ۔ میری رفتار بھی تیز‬
‫ہوگئی ‪ ،‬سحرش میری طوفانی رفتار‬
‫سے خوش تھی اسے مزہ آرہا تھا ‪،‬‬
‫شہزادے آج ساری کسریں نکال دے‬
‫‪،‬آج میری دلی تمنا پوری کر دے‬
‫‪،‬مجھے اتنا چود کہ میرے اندر جو‬
‫تمھاری طلب ہے اس کے تقاضےۓ‬
‫پورے ہوجائیں ۔ چود شہزادے چود ‪،‬‬
‫سحرش کو کافی معلومات تھیں اور‬
‫وہ ان معلومات کا پورا ستعمال کر‬
‫رہی تھی مجھے سرپٹ گھوڑے کی‬
‫طرح دوڑانے کیلیئے سحرش سیکسی‬
‫باتیں کرتی رہی ‪،‬شہزادے اپنی باجی‬
‫کو تیز چود‪ ،‬شہزادے آج مجھے چود‬
‫‪،‬چود کے ساری کسریں نکال دے ۔ اتنا‬
‫چود اپنی باجی کو کہ میرے دل کی‬
‫دھڑکنیں بس تیرا ہی نام لیں ۔آہ ‪،‬آہ‬
‫کیا مست چودائی ہے میرے شہزادے‬
‫کی ‪ ،‬میرے شہزادے سحرش تو کب‬
‫سے تمھاری ہے تم ہی اس سے دور‬
‫بھاگتے تھے ‪،‬میں تمھاری دلہن ہوں‬
‫شہزادے اور آج ہماری سہاگ رات ہے‬
‫۔اس سہاگ رات کو اپنی چودائی سے‬
‫مرادوں بھری رات کر دے ۔ایسی‬
‫باتوں سے میرا جوش جنوں میں‬
‫ڈھلتا گیا اور جنوں گرما گرم‬
‫چودائی کے بعد پانی بن کر نکلنے‬
‫واال تھا ‪،‬وہی ہوا جو نگینہ کے ساتھ‬
‫ہوتا تھا۔‪،‬جسمانی کیفیت بدلی تو‬
‫میں نے اور سحرش نے ِج ن جپھا ڈال‬
‫لیا ۔ جب جنوں پانی بن کے نکال تو‬
‫پھر ہمیں سکون آگیا ‪ ،‬میرے‬
‫شہزادے تو نے میری زندگی کی سب‬
‫سے بڑی خواہش پوری کر دی ‪،‬دن‬
‫رات تیرے سپنے دیکھ کے میں پاگل‬
‫ہو چکی تھی‪ ،‬آج سےسحرش تمھاری‬
‫کنیز ہے شہزادے ‪ ،‬سحرش مجھے‬
‫لپٹائے اپنے دل کی حالت بیان کر رہی‬
‫تھی ‪ ،‬ہم کچھ دیر لپٹے رہے ‪ ،‬پھر‬
‫جیسے سحرش کو کچھ یاد آیا ‪ ،‬اس‬
‫نے اٹھ کے بستر کو دیکھا ‪ ،‬اس کا تو‬
‫مجھے یاد ہی نہیں رہا ‪،‬سحرش‬
‫بڑبڑائی ‪ ،‬میں نے بھی دیکھا وہاں بڑا‬
‫سا خون کا نشان تھا خون اونی‬
‫گدے نے چوس لیا تھا ۔ اس نے خود‬
‫کو دیکھا اس کی کمر پر خون لگا‬
‫تھا ‪،‬سحرش نے اپنا جسم صاف کیا‬
‫اپنے کپڑے پہنے ‪،‬سحرش نے چادر‬
‫اور گدا لپیٹا اور باہر نکل گئ‪ ،‬اب‬
‫بارش ہلکی ہلکی ہو رہی تھی‪،‬میں‬
‫کمرے کا جائزہ لینےلگا ‪،‬کمرے کی‬
‫دیوار پر ایک انڈین اداکاراور اداکارہ‬
‫کی بڑی سی تصویر لگی تھی‬
‫‪،‬ڈریسنگ ٹیبل‪،‬دو سنگل صوفے اور‬
‫دو سنگل بیڈ تھے دونوں انگلش لفظ‬
‫ایل کی الٹی شکل میں دیوار سے‬
‫لگے تھے ۔دوسرا بیڈ یقینًا سحرش‬
‫کی بڑی بہن کا تھا جس کی شادی‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬ضرور وہ اب بھی ماں‬
‫باپ کے پاس آکہ اسی کمرے میں ر‬
‫ہتی ہو گی ‪ ،‬ہو سکتا ہے سحرش نے‬
‫سیکس کی ساری معلومات اپنی بڑی‬
‫بہن سے لی ہوں ‪ ،‬بیس پچیس منٹ‬
‫بعد سحرش آئی تو جہاں خون لگا‬
‫تھا وہاں سے چادر اور گدا دھال ہوا‬
‫تھا ‪،‬پھر سحرش استری لے آئی‪ ،‬اور‬
‫چادر اور گدے کو استری سے خشک‬
‫کیا‪ ،‬میں رضائی میں لپٹا بیٹھا یہ‬
‫سب دیکھ رہا تھا ‪ ،‬سحرش نے میرے‬
‫کپڑے بھی استری کر دیے ‪،‬پھر اپنے‬
‫کپڑے اتار کے میرے پاس آگئی‪،‬صبح‬
‫کسی نہ کسی نے یہ دیکھ لینا تھا‬
‫اور طوفان آجانا تھا ‪،‬سحرش میری‬
‫گود میں بیٹھتے ہوئے کہا ‪ ،‬نگینہ کی‬
‫مجھے طلب نہیں ہوتی تھی ‪ ،‬لیکن‬
‫آج سحرش کی مجھے طلب ہو رہی‬
‫تھی ‪ ،‬میں اس کے کندھے گردن‬
‫چومنے لگا اس کے ممے چوسنے لگا‬
‫‪،‬سحرش کو بھی میری طلب تھی‪،‬ہم‬
‫ُگتھم ُگتھا ہونے لگے‪ ،‬ایکدوسرے سے‬
‫مزہ کشیدتے ہوئے ہم گرما گرم ہو‬
‫گئے ‪،‬سحرش لیٹ گئی اور میں اس‬
‫کے اوپر تھا ‪ ،‬میں اند ڈالنے لگا تو‬
‫سحرش نے عضو پر تیل لگا دیا‬
‫‪،‬کچھ دن تو لگانا پڑے گا ‪ ،‬اس نے‬
‫مجھے دیکھتے ہوئے کہا ‪،‬پھر وہی‬
‫مزےدار مشقت ‪ ،‬پتہ نہیں کیا بات‬
‫تھی سحرش کی چودائی میں مزہ‬
‫بہت تھا‪ ،‬یہ تو جیسے ایک نئی دنیا‬
‫سامنے آگئی تھی ‪ ،‬میں اس کے اوپر‬
‫لیٹ کے آہستہ آہستہ کرنے لگا اور‬
‫ساتھ اس کے ممے چوسنے لگا ‪،‬‬
‫سحرش تو جیسے مزے میں ڈوب‬
‫گئی ‪،‬میں لگا رہا ‪،‬کبھی آہستہ کبھی‬
‫تیز ہو جاتا تھا ‪،‬شہزادے پھاڑ دے‬
‫میری چوت تیز اور زور دار دھکے لگا‬
‫‪ ،‬جیسے اس نے کہا تھا ویسے میں‬
‫چودائی کرنے لگا‪،‬شاید اس کا وقت‬
‫قریب تھا ‪،‬وقت تو میرا بھی قریب‬
‫تھا ‪،‬ہم زبردست طریقے سے لپٹ گئے‬
‫‪ ،‬اور پانی نکالنےلگے۔ جذبات کا دریا‬
‫کچھ مدہم ہوا تو آگے کی سوچنے‬
‫لگے ‪،‬سحرش کو میری فکر‬
‫تھی‪،‬شہزادے اب تم کہا جاؤ گے‬
‫‪،‬جب میں گدا دھونے گئی تو گلی‬
‫میں جھانکا تھا مجھے سرور کے‬
‫مکان کے سامنے تین چار موٹر‬
‫سائیکل نظر آئے ۔ مجھے لگتا ہے‬
‫سرور نے اپنے اور نگینہ کے بھائی بال‬
‫لیے ہیں ‪ ،‬وہ لوگ تمھیں ضرور‬
‫ڈھونڈیں گے ‪ ،‬میں پریشان ہو گیا‬
‫‪،‬مجھے اس کا اندازہ تھا کہ یہ ہو‬
‫سکتا ہے ۔ فی الحال تمھارا باہر نکلنا‬
‫ٹھیک نہیں ہے ‪ ،‬تم ان سے چھپ‬
‫نہیں سکو گے ‪،‬سحرش میرے لیے‬
‫پریشان تھی‪،‬تم اپنے کپڑے پہن‬
‫لو‪،‬سحرش نے کچھ سوچتے ہوئے‬
‫کہا‪ ،‬میرے کپڑے پہننے کے دروان‬
‫سحرش مجھے سمجھاتی رہی کہ کیا‬
‫کرنا ہے ‪ ،‬تھوڑی دیر بعد وہ اپنی امی‬
‫کو اٹھا کے لے آئی‪ ،‬شہزادے کیا ہوا‬
‫بیٹا ؟سحرش تمھیں اپنا چھوٹا‬
‫بھائی سمجھتی ہے بہت پریشان ہے‬
‫تمھارے لیے ‪ ،‬وہ آنٹی جی آپ کو پتہ‬
‫ہے کہ میرے والد کے مرنے پر سرور‬
‫خان نے میرے نام پر فیکٹری سے‬
‫کافی پیسے لے لیے تھے بلکہ اس نے‬
‫اپنے کسی بھتیجے کو میری جگہ‬
‫فیکٹری بھی لگوا دیا ہے ‪(،،‬اس بات‬
‫کا پتا مجھے سحرش سے چال تھا )‬
‫دادی کی وجہ سے سرور مجھے گھر‬
‫میں رکھنے پر مجبور تھا اب اس نے‬
‫مجھے چوری کا الزام لگا کے نکال دیا‬
‫ہے کہ میں نے سرور کے پیسے اور‬
‫نگینہ کا زیور چرایا ہے یہ مجھے‬
‫پولیس میں لے جانے والے تھے کہ‬
‫میں چھت سے بھاگتا ہوا باجی‬
‫سحرش کے پاس آگیا ‪،‬اسی بہانے وہ‬
‫مجھے پکڑ کے پولیس میں دینا‬
‫چاہتے ہیں جہاں سے میں شاید بچ‬
‫سکوں ‪ ،‬تا کہ بعد میں کبھی ان سے‬
‫اپنا حق نہ مانگ سکوں ‪ ،‬آنٹی اب تو‬
‫خدا کے بعد آپ ہی میرا سہا را ہیں ‪،‬‬
‫آنٹی نے ٹھنڈی سانس لی ‪،‬بیٹا کیا‬
‫زمانہ آگیا ہے ‪،‬دولت کیلیے لوگ کیا‬
‫کیا کر جاتے ہیں ‪ ،‬یہ تمھارے والد کے‬
‫پیسے لینے کا توساری گلی کو پتہ ہے‬
‫اسی پیسے سے اس نے موٹر سائیکل‬
‫لی تھی اور سنا ہے اس نے باقی‬
‫پیسے کسی بینک میں رکھوا دیے ہیں‬
‫‪،‬بہرحال بیٹا یہ تو بڑے اکھڑ لوگ‬
‫ہیں ہم ان کا مقابال نہیں کر سکتے‬
‫‪،‬آنٹی آپ بس کچھ دن مجھے چھپا‬
‫لیں میں اس سے زیادہ آپ پہ بوجھ‬
‫نہیں بنوں گا‪،‬نہیں بیٹا بوجھ کی‬
‫کوئی بات نہیں اگر ان لوگوں کا‬
‫مسلہ نہ ہوتا تو ہم تمھیں اپنے پاس‬
‫ہی رکھ لیتے‪ ،‬بیٹا ان کو پتا تو نہیں‬
‫چال کہ تم چھت سے بھاگے ہو‪،‬آنٹی‬
‫فکرمند تھی ۔ نہیں آنٹی وہ سمجھے‬
‫کہ میں باہر نکل گیا ہوں ‪،‬اچھا چلو‬
‫میں سحرش کے ابا سے بات کرتی‬
‫ہوں ‪،‬آنٹی باہر چلی گئی تو سحرش‬
‫مجھ سے لپٹ گئ‪،‬امی مان گئی تو‬
‫سمجھو ابو بھی مان گئے‪،‬اچھا‬
‫تمھیں یقین ہے نہ وہ نگینہ کی عزت‬
‫پر حملے والی بات کسی سے نہیں‬
‫کریں گے نہیں یار وہ اس بات میں‬
‫اپنی بے عزتی محسوس کریں گے‬
‫اسلیے کوئی اور الزام لگائیں گے ہو‬
‫سکتا ہے چوری والی بات سچی کر‬
‫دیں ‪،‬قصہ مختصر سحرش اوراس‬
‫کی امی کیوجہ سے مجھے کچھ دن‬
‫وہاں رہنے کی اجازت مل گئی‬
‫‪،‬سحرش بہت فکر مند تھی اپنے‬
‫چھوٹے بھائی کیلیے‪ ،‬اسلیئے اس نے‬
‫مجھے اپنے کمرے میں ہی رکھ لیا‪،‬‬
‫اس کےبھائی اور بھابی ‪،‬امی اور ابا‬
‫کے کمرے میں ویسے بھی میں کباب‬
‫میں ہڈی تھا ‪،‬بچوں کو کچھ نہیں‬
‫بتایا گیا تھا ‪،‬اس لیے سارا دن کمرے‬
‫کا دروازہ بند رہتا تھا ‪ ،‬سحرش کی‬
‫بڑی بہن کا بیڈ اب میرے قبضے میں‬
‫تھا‪ ،‬دو دن تک پنڈلی کا درد ٹھیک ہو‬
‫گیا‪ ،‬سحرش میری مخبر تھی ‪،‬نگینہ‬
‫کے گھر موٹر سائیکلوں پر آنے جانے‬
‫والے کافی ہوگئے تھے ‪،‬کچھ کے پاس‬
‫اسلحہ بھی دیکھا گیا‪،‬انہوں نے یہی‬
‫مشہور کیا کہ میں ان کی ساری جمع‬
‫پونجی لے کے بھاگ گیا ہوں ‪ ،‬جب‬
‫سرور نے مجھے پکڑنے کی کوشش‬
‫کی تو شہزادے نے اس پر قاتالنہ‬
‫حملہ کردیا ‪،‬اس طرح پولیس میں‬
‫بھی پرچہ ٹھوک کہ کٹوایا گیا اگر‬
‫میں ان کے ہاتھ آجاتا تو میری خیر‬
‫نہیں تھی ۔کالونی میں چہہ مگوئیاں‬
‫ہورہی تھیں ‪ ،‬سحرش کی امی فکر‬
‫مند رہتی تھی جب سحرش اور اس‬
‫کی بھابی گھر کے کام کاج میں لگی‬
‫ہوتی تھیں تو سحرش کی امی‬
‫میرے پاس کے آکہ بیٹھ جاتی تھی‪،‬‬
‫مجھے لپٹا لیتی ‪،‬سینے سے لگا لیتی‪،‬‬
‫ان کو میری بڑی فکر تھی ‪،‬دروازہ‬
‫بند ہوتا تھا ‪ ،‬میں سب سمجھ کے‬
‫بھی انجان بن رہا تھا ‪ ،‬رات کو‬
‫سحرش اور میرا جوڑ پڑتا تھا ‪،‬ہم‬
‫تھک کے گر پڑتے تو سو‬
‫جاتے‪،‬سحرش کی بھابی مجھ سے‬
‫دور رہنے کی کوشش کرتی تھی ‪،‬ہفتہ‬
‫گزر گیا ‪ ،‬سحرش میری دیوانی تھی‬
‫لیکن اب میری قربت نے اسے کچھ‬
‫زیادہ ہی دیوانہ کر دیا تھا ۔سرورے‬
‫کے خاندان کی تال ش مدہم پڑنے‬
‫لگی‪،‬بھائی اور ابو کہہ رہیں ہیں کے‬
‫اب تمھیں یہاں سے چال جانا چاہیے‬
‫‪،‬سحرش نے رات کو پریشانی سے‬
‫مجھے بتایا‪،‬میں کچھ کرتی ہوں ‪ ،‬ہم‬
‫کھیلنے لگےسحرش اب سیکس میں‬
‫بہت جذباتی ہو جاتی تھی ‪،‬اس‬
‫کاانداز بدلنے لگا تھا ‪،‬سحرش کے‬
‫جذبات مجھے بے چین کرنے لگے ۔‬
‫اگلے دن سحرش کی ماں موقع دیکھ‬
‫کے آگئی ‪ ،‬بیٹا سحرش کے ابا اب‬
‫تمھیں یہاں نہیں دیکھنا چاہتے ‪ ،‬میں‬
‫بہت مجبور ہوں ‪،‬مجھے تمھاری بہت‬
‫فکر ہے انہوں نے مجھے بیٹا سمجھا‬
‫کے ساتھ لپٹا لیا‪،‬میرا سر ان کے‬
‫مموں پر تھا ‪ ،‬میں ہفتے سے انجان‬
‫بن رہا تھا ‪،‬بڑے سے ممے ‪،‬موٹی گانڈ‬
‫بڑھا ہوا پیٹ ‪،‬چوڑی کمر۔ یہ سب‬
‫میرے جمالیاتی ذوق پر تازیانہ‬
‫تھا‪،‬مگر اب مطلب کے لیے دل سخت‬
‫کر لیا ‪،‬آنٹی آپ ہی تو میرا سہارا ہیں‬
‫میں نے ان کے گلے میں سامنے سے‬
‫اپنی بانہہ ڈال دی ‪،‬میرا بازو ان کے‬
‫مموں پر تھا ‪،‬ان کی آنکھوں میں‬
‫چمک آگئی ‪،‬بیٹا میں تو چاہتی ہوں‬
‫ابھی تم نہ جاؤ ان کی تالش ابھی‬
‫مدہم پڑی ہے رکی نہیں ‪،‬سحرش کی‬
‫امی نے مجھے کچھ سمجھایا‪،‬جی‬
‫آنٹی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں میں نے‬
‫اپنے بازو سے مموں پر دباؤ ڈاال ‪ ،‬آپ‬
‫کچھ کریں نہ پلیز ‪،‬میں ان سے زور‬
‫سے لپٹ گیا‪،‬شہزادے میں نے بڑی‬
‫مشکل سے ان کو مزید چند دن کیلیے‬
‫منایا ہے ‪،‬انہوں نے مجھے اپنی گود‬
‫میں بٹھا لیا‪ ،،‬اور مجھے چومنے لگی‬
‫‪،‬ماں بننے کا لبادہ ایک منٹ میں اتار‬
‫کے وہ میری عاشق بن گئی‪،‬دس منٹ‬
‫اس نے مجھ پر اپنی بھڑاس نکالنے‬
‫کی کوشش کی ‪،‬سحرش کسی بھی‬
‫کمرے میں آسکتی ہے میں نے‬
‫کسمساتے ہوئے کہا‪ ،،‬بادل ناخواستہ‬
‫سحرش کی امی کومجھے چھوڑنا‬
‫پڑا ‪ ،‬ان کو چدائی کیلیے موقع ملنا‬
‫بہت مشکل تھا ‪،‬اسی لیے میں نے دل‬
‫سخت کر کے اسے چوما چاٹی تک‬
‫آنے دیا تھا ۔ دن میں سحرش کی‬
‫امی موقع بنا کے آتی رہتی اور رات‬
‫کو سحرش سحرش ہوتی رہتی‬
‫‪،‬سحرش اب میرے نام کی مال‬
‫جپتی تھی ‪،‬ہرپل اسے میرا خیال رہتا‬
‫تھا ‪ ،‬اسے میری لگن لگ گئی تھی ۔‬
‫سحرش کو مجھ سے پیار ہوگیا تھا ۔‬
‫کچھ دن گزر گئے سرور کے گھر میں‬
‫برادری کا آنا جانا ختم ہو گیا ۔‬
‫سحرش بتا رہی تھی کہ وہ حیران‬
‫ہیں کہ مجھے زمیں کھا گئی کے‬
‫آسمان ؟ سحرش اور اس کی امی کے‬
‫پاس اب مجھے گھر میں رکھنے کا‬
‫کوئی بہانہ نہیں تھا ‪ ،‬دو دن اسی‬
‫کشمکش میں گزر گئے ‪ ،‬رات کو‬
‫سحرش کی امی اور ابا کی لڑائی ہو‬
‫گئی ‪ ،‬ہم نے اس کا ٹھیکہ نہیں اٹھایا‬
‫‪،‬اس جیسے ہزاروں پھرتے ہیں کیا ہم‬
‫سب کو گھر لے آئے‪،‬آپ نے جوان‬
‫بیٹی کے کمرے میں ایک آوارہ کو‬
‫رکھا ہوا ہے پتہ نہیں آپ کی سمجھ‬
‫کو کیا ہو گیا ہے امی جان ‪ ،‬یہ‬
‫سحرش کا بڑا بھائی تھا‪ ،‬باتیں میری‬
‫کانوں میں پڑ رہی تھیں‪،‬میں سمجھ‬
‫گیا اب سحرش اور اس کی امی کی‬
‫نہیں چلے گی ‪ ،‬میں اور سحرش‬
‫کمرے میں بیٹھے تھے‪،‬اچھا سحرش‬
‫اب میں چلتا ہوں ‪،‬میں اٹھ کھڑا ہوا‬
‫‪،‬کہاں ‪،‬رکو۔ سحرش بے چینی سے‬
‫اٹھ پڑی ‪ ،‬سحرش میری جان ‪،‬‬
‫تمھارے گھر میں جھگڑے بڑھ گئے‬
‫تو اس سے ہو سکتا ہے ہمسائیوں کو‬
‫کچھ ِب ھنک پڑ جائے‪،‬اس سے بات‬
‫پھیل جائے گی اور جو بھی ہوآخر‬
‫مجھے جانا توہے ہی ‪ ،‬سحرش بھی‬
‫یہ بات سمجھ گئی تھی‪،‬میں تمھیں‬
‫نہیں بھال سکتی شہزادے ‪،‬وعدہ کرو‬
‫تم مجھے ملو گے ‪،‬سحرش میرے گلے‬
‫لگ چکی تھی ‪،‬اس کی حالت ٹھیک‬
‫نہیں تھی‪ ،‬یہ کچھ پیسے رکھ لو‬
‫‪،‬کافی سارے پیسے اس نے میری‬
‫جیب میں ڈال دیا ‪،‬پتہ نہیں اس نے‬
‫کیسے اکٹھے کیے تھے ۔ سحرش پھر‬
‫میرے گلے لگ گئی‪ ،‬اس کا جسم‬
‫کانپ رہا تھا ‪،‬ہم نے ایک لمبی سی‬
‫آخری ِک س لی‪ ،‬میں نے اس کی دی‬
‫ہوئی گرم شال لپیٹی ‪،‬اس سے‬
‫منگوایا ہوا چاقو جیب میں ڈاال ‪،‬‬
‫لنڈے کے جوگرز کے تسمے بیڈ پر‬
‫بیٹھ کر کسے‪ ،‬یہ بھی اسی کے دئیے‬
‫ہوئے تھے‬
‫میں کمرے سے باہر نکال ‪،‬دو ہزار دو ‪،‬‬
‫شروع ہو گیا تھا ‪،‬پچھلی صدی کب‬
‫کی چلی گئی تھی ۔ماں باپ کا ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مر گیا اور شہزادہ زندہ ہو گیا تھا‬
‫‪،‬امی ابو سے نہیں ملو گے ‪،‬سحرش‬
‫نے مجھے باہر کی طرف جاتے ہوئے‬
‫پوچھا ‪ ،‬سحرش کی امی اور ابو کے‬
‫لڑنے کی آواز بلند ہو رہی تھی ‪ ،‬نہیں‬
‫یار تم ہی انھہیں بتا دینا ‪،‬میں‬
‫دروازے کے کے پاس رک گیا‪،‬سحرش‬
‫نے باہر گلی میں دیکھا‪ ،‬کوئی نہیں‬
‫ہے۔سحرش نے سسکتے ہوئے بتایا۔‬

‫مجھے اس پر پیار آگیا ‪ ،‬میں نے اس‬


‫کی آنکھیں چومی ‪ ،‬ہونٹوں پر ِک س‬
‫لی اور گلی میں نکل گیا ‪ ،‬سحرش‬
‫روتی رہی‪ ،‬گلی میں اندھیرا تھا ‪،‬بلکہ‬
‫اس دنیا میں ہی اندھیرا تھا ‪،‬میں نے‬
‫‪ ،‬ان اندھیروں میں خود کو گم کر لیا‬

‫آدمی خود بخود نہیں مرتا ۔۔۔۔۔(‬


‫) دوسرے لوگ مار دیتے ہیں‬

‫جاریمزیدار سیکس ی کہانیوں اور ہر‬


‫قسم کی سیکس ی ویڈ یو گروپ‬
‫میں شامل ہونے کےلیے رابطہ کریں ۔‬
‫‪03147615013‬‬
‫ایک گروپ ‪ 500‬روپے‬
‫دو گروپ ‪ 800‬روپے‬
‫تین گروپ ‪ 1000‬روپے‬
‫اپنی مرضی بتا دیا کرو ویڈیو گروپ‬
‫ہو یا سٹوری واال ہو۔‬
‫یہ فیس صرف آپکو ایک بار دینی‬
‫پڑے گی‬ ‫✅‬
‫گروپ میں ڈیلی کی ‪ 200‬سے زیادہ‬
‫ویڈیو اور سٹوری گروپ میں ‪200‬‬
‫سے زیادہ کہانیاں ملے گی۔‬
‫فری ٹرائل ایک منٹ بھی پہلے ایڈ‬
‫نہیں کرو گا۔‬
‫اس کے عالوہ جس کو گروپ میں‬
‫ایڈ نہیں ہونا اور پرسنل میں ویڈیو‬
‫لینے ہیں تو میگا ویڈیو لنکس مل‬
‫جائے گی۔ اور سٹوری بھی مل جائے‬
‫گی۔‬
‫نوٹ ‪ :‬فیس صرف اور صرف ایزی‬
‫پیسہ یا جیز کیش پر ادا کی جاتی‬
‫ہے‬ ‫✅✅‬
‫بیلس پر گروپ فیس‪ 500‬والے کی‬
‫‪ 550‬روپے فیس لگے گی۔‬
‫دو گروپ کی بیلس فیس ‪ 870‬روپے‬
‫لگے گی۔‬
‫تین گروپ کی ‪ 1100‬روپے فیس‬
‫لگے گی۔ناگن‬ ‫🐍🐍‬
‫‪Update_3‬‬

‫ماضی کی فلم خیالوں چلتی رہی‬


‫اور پتہ نہیں میں کب سو گیا تھا ‪،‬‬
‫ویسے بھی صبح جب راجو نے اٹھایا‬
‫تو مجھے سوتے ہوئے صرف دو‬
‫گھنٹے ہی ہوئے تھے ‪،‬دوپہرکو اٹھا تو‬
‫نہا دھو کے اپنے ہوٹل چال گیا ‪،‬دو‬
‫سال پہلے یہ ہوٹل میں نے خریدا تھا‬
‫۔ اپر کالس کا پسندیدہ ہوٹل تھا‪،‬اور‬
‫اسی لیے میں نے اسے خرید لیا تھا‬
‫‪،‬بہت سی شہزادیاں یہاں آتی جاتی‬
‫تھیں اور میرے جیسے شہزادوں کے‬
‫پیار کا کاروبار چلتا رہتا تھا ‪ ،‬منیجر‬
‫سے کچھ کاروباری معامالت ڈسکس‬
‫کرنے کے بعد میں وہاں سے نکال اور‬
‫کار کو فارم ہاؤس کی طرف موڑ دیا‪،‬‬
‫آٹھ بجے تک میں فلیٹ میں واپس‬
‫آگیا ‪ ،‬مجھے راجو کا انتطار تھا ‪،‬‬
‫نہیں تو اب فلیٹ میں صبح کے وقت‬
‫ہی آنا ہونا تھا ‪ ،‬راجو فلیٹ کی‬
‫سیڑھیوں پر بیٹھا میرا انتظار کر رہا‬
‫تھا ۔ میں نے کار اپنی جگہ پر پارک‬
‫کی ‪ ،‬مجھے فون کردیتے راجو ‪ ،‬میں‬
‫نے فلیٹ کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا‪،‬‬
‫باس میں ابھی آیا ہوں میں نے سوچا‬
‫کچھ انتظار کر لیتا ہوں ‪،‬مجھے امید‬
‫تھی آپ نے ملنے کو کہا ہے تو آپ‬
‫یہاں ضرور آئیں گے ‪ ،‬فریج سے اپنے‬
‫لیے کولڈڈرنک یا بیئر جومرضی لے‬
‫لو‪،‬آپ کچھ نہیں پیئں گے باس‪،‬راجو‬
‫نے ایک بیئر لیتے ہو ئے پوچھا ‪ ،‬نہیں‬
‫میں تھوڑی دیر تک کھانے کے موڈ‬
‫ہوں ‪ ،‬ہاں تو بال تمہید شروع ہو جاؤ‬
‫راجو‪ ،‬باس یہ سرور خان کی تصویر‬
‫ہے ‪،‬راجو نے اپنا موبائل میری طرف‬
‫بڑھایا ‪ ،‬سرور خان کسی جنرل سٹور‬
‫پر کھڑا تھا ‪،‬جیسے مڈل کالس میں‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬دس سال بعد بھی وہ‬
‫سانڈ ہی تھا ۔اب مونچھیں نارمل اور‬
‫بال مہندی سے رنگے ہوئے تھے ‪ ،‬یہ‬
‫اس کا اپنا جنرل سٹور ہے باس ‪،‬‬
‫اگلی تصویر دیکھیں باس ‪،‬میں نے‬
‫تصویر آگے کی تو دآلویز کے ساتھ‬
‫ایک عورت پٹھانی برقعے میں نظر‬
‫آئی ‪ ،‬یہ پنجاب میں ٹوپی واال برقع‬
‫بھی کہالتا ہے اس سے اچھا پردہ‬
‫کسی میں نہیں ہو سکتا‪،‬جسم تو دور‬
‫کی بات ہے‪ ،‬آنکھیں تک نظر نہیں آتی‬
‫‪ ،‬میرے اندازے کے مطابق یہ نگینہ‬
‫تھی ‪،‬تصویر سے صاف پتہ چل رہا‬
‫تھا کہ بازار میں اسے کھینچا گیا ہے ‪،‬‬
‫ایک تصویر اور بھی ہے باس ‪،‬وہ‬
‫تصویر کسی جوان کی تھی مجھ‬
‫سے پانچ چھ سال بڑا ہو گا‪،‬مجھے‬
‫وہ کچھ جانا پہچانا محسوس ہوا‬
‫‪،‬میں اس پر غور کرنے لگا کہاں‬
‫دیکھا ہے اسے‪،‬مونچھیں‪ ،‬بال ‪ ،‬رنگت‪،‬‬
‫چہرہ ‪،‬ناک ‪،‬آنکھیں ‪ ،‬ہونٹوں کی‬
‫بناوٹ ‪،‬اسکی تھوڈی ۔ ٹھوڈی اور‬
‫رخسار سے سخت گیر‪ ،‬اونچی ناک‬
‫سے مطلب پرست اندر ہوئی آنکھوں‬
‫سے ناقابل اعتبار تھا کپڑوں سے‬
‫آسودہ حال لگتا تھا ۔ کچھ یاد نہیں‬
‫آیا کہ کون تھا ‪،‬شاید ان کی برادری‬
‫کا ہو میں بس کچھ کو جانتا تھا‬
‫باقیوں کا چہرہ شناس تھا ‪،‬یہ ان کے‬
‫گھر آیا تھا اسی کے ساتھ ماں بیٹی‬
‫بازار گئی تھیں ‪ ،‬کام کی چیزیں یہی‬
‫تصویریں ہی تھی ‪،‬راجو نے مزید‬
‫کچھ معلومات دی‪ ،‬اوکے باس ۔ راجو‬
‫‪ ،‬جانے کیلیے پر تولنے لگا‬

‫رضوان عرف راجو تم نے تین سال‬


‫دن رات ایک کر دیئے اور میری‬
‫زندگی کی اہم ترین لڑکی تالش کر‬
‫دی ‪ ،‬تم نےکمال کر دیا ہے ‪ ،‬تم نے‬
‫بہت بڑا کام کیا ہے ‪،‬زبردست ‪،‬میں تم‬
‫سے بہت خوش ہوں ‪،‬میں نے کھل کے‬
‫راجو کی تعریف کی‪،‬شکریہ باس‬
‫‪،‬میری تعریف سے راجو کی باچھیں‬
‫کھلی ہوئی تھی ۔ میں چاہتا ہوں تم‬
‫مستقل میرے ساتھ کرو‪ ،‬تمھیں‬
‫اچھی تنخواہ‪،‬اچھی موٹرسائیکل ‪،‬‬
‫کھانا پینا ‪ ،‬موج مستی ملے گی‪ ،‬آپ‬
‫کے ساتھ کام کرنا میرے لیے فخر کی‬
‫بات ہے باس ‪ ،‬راجو نے میری آفر فورًا‬
‫قبول کرلی‪،‬میں اسے پرخیال نظروں‬
‫سے دیکھنے لگا ۔اگر اسے میرے ساتھ‬
‫کام کرنا تھا تو اپنا شخصیت کو‬
‫بدلنا پڑے گا ۔نہیں تو یہ میرے ساتھ‬
‫نہیں چل سکے گا ‪ ،‬اس کے الئف‬
‫اسٹائل کوتبدیل کرنا پرے گا ‪،‬میں نے‬
‫سوچتے ہوئے فورًا ایک پالن بنایا ‪،‬‬
‫راجو ‪،‬اب بھی آنٹیوں سے دوستی‬
‫رکھتے ہو یا چھوڑ دی ‪،‬ان کے بغیر‬
‫کیسے زندگی گزر سکتی ہے‬
‫باس‪،‬مجھے آنٹیاں پسند ہیں‪،‬باس ان‬
‫کے بڑے بڑے ممے بڑی بڑی گانڈ ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬بہت مزہ آتا ہے راجومسکرایا‬
‫‪،‬نہیں تمھیں آنٹیاں پسند نہیں‬
‫ہیں‪،‬میں نے اسے جھنجھوڑا‪ ،‬باس‬
‫؟‪،‬وہ حیران ہوا ۔‬

‫اچھا تمھارے پاس ُکھلے پیسے ہوں‬


‫اور ایک بائیک خریدنی ہو تو نئی لو‬
‫گے یا پرانی‪،‬میں نے اس سے سوال‬
‫کیا‪،‬ظاہر ہے باس نئی ہی لوں گا‪،‬اور‬
‫اگر کپڑے خریدنے ہوں تو ؟ وہ بھی‬
‫باس نئے اور بہترین لوں گا ‪،‬راجو‬
‫میری بات اب بھی نہیں سمجھا تھا‪،‬‬
‫اچھا اگر بھوک لگی ہو اور جیب میں‬
‫پیسے ہوں تو باسی کھانا کھا لو گے؟‬
‫میں نے اپنا گھیرا اور تنگ کیا‪،‬نہیں‬
‫باس ‪ ،‬باسی کھانا کون کھاتا ہے‬
‫‪،‬راجو حیران ہوا‪ ،‬یا فروٹ پلپال ہو‬
‫زیادہ پکا ہو ا ملے اور تازہ بھی پڑا‬
‫ہو تو کیا کرو گے‪،‬تازہ اور اچھا فروٹ‬
‫ہی لوں گا باس‪ ،‬راجو نے پھر میرے‬
‫‪،‬مطلب کا جواب دیا‬

‫تو تم آنٹیاں کیوں پسند کرتےہو ؟‬


‫جب زندگی میں سب کچھ تمھیں‬
‫نیا‪ ،‬تازہ ‪،‬بہترین چاہیے؟ میں نے‬
‫راجو سے اسی سوال کیلیے اتنے‬
‫سوال کیے تھے‪،‬سچی بات تو یہ ہے‬
‫باس کہ لڑکیاں ہاتھ آتی ہی‬
‫نہیں‪،‬راجو نے میری بات سمجھتے‬
‫ہوئے حقیقت بیان کی ‪،‬تو کیا آنٹیاں‬
‫ہاتھ آجاتی ہیں ‪ ،‬؟ میں نے فورًا‬
‫پوچھا‪،‬باس تھوڑا ان کے آگے پیچھے‬
‫پھرو تو وہ خود ہی پہل کر دیتی‬
‫ہیں ‪،‬یا کوئی واضح سگنل دے دیتی‬
‫ہیں ‪،‬اچھا جب تم کسی بھی آنٹی‬
‫سے ملتے ہو تو تازہ ‪،‬بہترین مال کسے‬
‫ملتا ہے ؟ تمھیں یا آنٹی کو‪،‬سوچ کے‬
‫جواب دینا‪،‬میں نے اسے صحیح‬
‫جواب تک پہنچنے کیلیے موقع دیا‪،‬‬
‫تازہ اور بہترین مال تو آنٹی کو ملتا‬
‫ہے ‪،‬ہمیں تو باسی کھانا پلپال فروٹ‬
‫ملتا ہے راجو نے سوچ کے جواب‬
‫دیا‪،‬اور اس باسی کھانے کی بڑی گانڈ‬
‫اور بڑے ممے کا مطلب ہے کہ اس کا‬
‫پیٹ بھی بڑھا ہو گا ‪ ،‬کمر نہیں کمرہ‬
‫ہو گا ۔ اس کی عمر پینتالیس سے‬
‫آگے پچاس ساٹھ تک ہو گی‪ ،‬اس‬
‫طرح اس کی شادی اگر تیس سال‬
‫میں ہوئی ہو تو پچیس تیس سال‬
‫اسے سیکس کرتے ہوئے ہو گئے ہیں‬
‫‪،‬اب اگر وہ پچاس ساٹھ کی ہے تو‬
‫اسکا شوہر ساٹھ یا پینسٹھ کا ہو‬
‫گا‪،‬یعنی وہ اسے اب سیکس کا وہ‬
‫مزہ نہیں دے سکتا جو ایک جوان‬
‫دے سکتا ہے ‪،‬اس کا شوہر خود‬
‫ٹھرکی بابا بن کے جوان لڑکیوں کو‬
‫تاڑتا ہو گا ‪،‬دونوں جوانی کا مزہ‬
‫چاہتے ہیں ‪،‬یہ بتاؤ راجو تم آنٹیوں‬
‫کو پھنساتے ہو یا آنٹیاں تازہ شکار‬
‫کی شکاری ہیں ‪ ،‬میں اسے اصل بات‬
‫پہ لے آیا ‪،‬اوہ باس ‪ ،‬یہ تو میں نے‬
‫کبھی سوچا بھی نہیں تھا‪،‬اسکا‬
‫مطلب ہے کہ جب میں انہیں‬
‫پھنسانے کی ٹرائی کرتا ہوں تو وہ‬
‫پہلے ہی میرے جیسوں کا انتظار‬
‫کرتی ہوتی ہیں ‪ ،‬راجو حقیقت تک‬
‫پہنچ گیا‬
‫یہی بات تمھیں سمجھانا چاہتا ہوں‬
‫کوئی بھی آنٹیوں کو نہیں پھنساتا‬
‫‪،‬آنٹیاں ہی اصل شکاری ہیں ‪ ،‬اور اب‬
‫تم باسی کھانا چھوڑ دو اگر میرے‬
‫ساتھ کام کرنا ہے ۔ ویسے بھی‬
‫میڈیکلی (طبی) لحاظ سے بڑی عمر‬
‫کی عورتیں نوجوانوں کی صحت‬
‫کیلیے انتہائی نقصان دہ ہیں ‪،‬سیدھا‬
‫سیدھا یہ تمھارا خون چوس رہی‬
‫ہیں ‪ ،‬لیکن باس بھوک بہت لگتی ہے‬
‫کیا کروں ‪،‬مجھے پتہ ہے تم یہ باسی‬
‫کھانا بھوک سے مجبور ہو کہ کھاتے‬
‫ہو‪ ،‬لیکن مجھ سے کوئی امید نہ‬
‫رکھنا‪،‬اپنا شکار خود کرنا پڑے گا‬
‫تمھیں ‪،‬میں بس رستہ بتا سکتا ہوں‬
‫‪،‬جی باس آپ بتائیں ‪،‬وہ سمجھا میں‬
‫کوئی دھانسو قسم کا طریقہ بتاؤں‬
‫گا جس سے لڑکیاں اس کی طرف‬
‫خود بخود کھچی چلی آئیں گی‪ ،‬راہ‬
‫چلتی لڑکیوں کو چھیڑنا ‪،‬آوازیں‬
‫کسنا‪،‬سیٹیاں مارنا‪،‬بائیک چالتے ہوئے‬
‫پیدل چلتی لڑکی کی گانڈ میں انگلی‬
‫دینا ‪،‬بازاروں میں ان کے ممے پر ہاتھ‬
‫پھیرنا ‪،‬جسم ساتھ لگانا ‪ ،‬کھسا‬
‫لگانا‪،‬کالجوں کے باہر بھونڈی کرنا‬
‫‪،‬موبائل سے تصویریں ویڈیو بنانا ‪،‬‬
‫بائیک پر پیچھا کرنا ۔تنگ کرنا‬
‫‪،‬موبائل نمبر مانگنا ‪،‬کہیں سے مل‬
‫جائے تو کالیں کر کے تنگ کرنا ‪،‬‬
‫عجیب عجیب میسجز کرنا ‪ ،‬یہ سب‬
‫چھوڑ دو اس سے لڑکیاں پھنستی‬
‫نہیں پیچھے ہٹتی ہیں‪،‬ہر لڑکی پر‬
‫الئین مارنا ‪ ،‬گھٹیا طور طریقے‬
‫‪،‬ڈرامے بازیاں لڑکیوں کو پسند نہیں‬
‫ہیں‪ ،‬اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو سڑک‬
‫چھاپ لفنگوں کے طور طریقے چھوڑ‬
‫دو ۔ویل مینرز (ادب و آداب)‪،‬ویل‬
‫ڈریس ‪(،‬خوش لباسی) یہ دو پہلے ُگر‬
‫ہیں ان کو یاد کر لو گے تو اگال رستہ‬
‫کھل جائے گا‪،‬میں نے اپنی طرف سے‬
‫اسے پہلے دو ُگر سکھا دیئے ۔‬
‫ٹھیک ہے اب تم ہوٹل جاؤ اور منیجر‬
‫بشارت سے مل لینا میں نے اسے‬
‫تمھارا بتا دیا تھا ‪ ،،‬تم ہوٹل میں‬
‫میری کان اور آنکھ بن کے رہو گے‪،‬‬
‫کسی کو ہمارے خصوصی تعلق کا‬
‫کچھ پتہ نہیں چلنا چاہیے ‪،‬نہ ہی‬
‫میرا کوئی راز کسی کے پاس جانا‬
‫چاہیے ‪،‬نہیں تو میرا موڈ بہت خراب‬
‫ہوجائے‪،‬بے فکر رہیں باس آپ کو‬
‫مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی‬
‫‪،‬راجو نے مکمل ارادے سے کہا ‪ ،‬ویل‬
‫مینرز ‪ ،‬ویل ڈریس اینڈ نو آنٹی ‪،‬یہ‬
‫تین باتیں یاد کرلو ‪،‬جیسے آپ کا‬
‫حکم باس‪،‬راجو چال گیا‪،‬دو تین اور‬
‫ایسی ڈوذ ملیں گی تو اس کا لیول‬
‫َا پ ہو جائے گا اور ذہن آگے خود ہی‬
‫چل پڑے گا ‪ ،‬ایک وقت آئے گا اسی‬
‫راجو کو ہوٹل سنبھالنا تھا ‪ ،‬یہی ِا س‬
‫کا انعام تھا ۔ تین سال اتنے بڑے شہر‬
‫میں میرے لیے ایک لڑکی کوڈھونڈنے‬
‫واسطے دن رات ایک کردینا کوئی‬
‫عام بات نہیں تھی۔ جنوں میرا تھا‬
‫‪،‬پورا اس نے کیا تھا ۔ ایسے کام‬
‫کےبندے کو ہاتھ سے کون جانے دے‬
‫گا۔‬
‫میں نے وقت دیکھا ابھی بس نو سے‬
‫کچھ اوپر ٹائم ہوا تھا آج وقت گزر‬
‫ہی نہیں رہا تھا ۔ مجھے بھوک لگی‬
‫تھی ۔میں نے اپنے ہوٹل فون کیا کہ‬
‫مجھے کھانا پہنچا دو‪ ،‬جب سے اٹھا‬
‫تھا ‪،‬دماغ ایک ہی بات پر لگا ہوا تھا‬
‫دآلویز کو کیسے پھنساؤں ‪،‬ہر طرف‬
‫سے سوچ سوچ کے تھک جاتا تھا اور‬
‫کوئی راستہ نہیں نظر آرہا تھا ۔یہ‬
‫بات صرف میں اور نگینہ جانتے تھے‬
‫کہ اس نے مجھے قتل اس لیے کروانا‬
‫چاہا تھا کہ میں نے اپنا بدلہ ضرور‬
‫لینا تھا ۔ نگینہ کا حملہ مکمل تھا‬
‫لیکن میں خوش قسمتی سے بچ گیا ‪،‬‬
‫پھر بھی نگینہ نے مجھے ڈھونڈنا‬
‫چاہا اور جب مجھے ڈھونڈنے میں‬
‫ناکام ہوگئی ہو گی اس نے سب سے‬
‫پہلے اپنی بیٹی کے دل میں میرے‬
‫خالف زہر بھرنا شروع کیا ہو‬
‫گا‪،‬دآلویز مجھ سے نفرت کرتی ہو‬
‫گی‪، ،،‬تانیہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ‬
‫دآلویز اپنی ماں سے بہت ڈرتی‬
‫ہے‪،‬اس کامطلب ہے نگینہ نے اس پر‬
‫کڑی نگرانی رکھی ہوئی ہے‪،‬اس کے‬
‫آنے جانے اور ہر معموالت پر اس کی‬
‫نظر ہو گی اس سے ملنا بہت مشکل‬
‫ہو گا ‪،‬اگر کسی طرح اس سے مل‬
‫بھی لیا ‪،‬وہ پہلی نظر میں نہیں پر‬
‫مجھے پہچان جائے گی اور پھر‬
‫میری کوئی بات نہیں سنے گی مکار‬
‫نگینہ دل میں جھانکنے میں ماہر‬
‫تھی اس نے اپنی بیٹی کو ہر طرح‬
‫سمجھ کے اس کے اندر اپنے خیاالت‬
‫ڈال دیئے ہوں گے۔ جو لڑکی آپ سے‬
‫نفرت کرتی ہو دیکھنا بھی گوارہ نہ‬
‫کرے اسے کیسے پٹایا جا سکتا ہے‬
‫‪،‬بس ایک ہی رستہ رہ گیا تھا ‪،‬اسے‬
‫بلیک میل کروں یا اس کے ساتھ‬
‫زبرستی کروں ‪،‬مگر یہ میرے مزاج‬
‫کے خالف تھا پھر میں پرنس کس‬
‫بات کا ہوں‪ ،‬میں زبردستی کا قائل‬
‫نہیں تھا‪،‬چاہے وہ نگینہ کی ہی بیٹی‬
‫کیوں نہ ہو۔ دوپہر سے ذہن بار بار‬
‫جائزے لیتا تھا اور یہیں آ کر رک‬
‫جاتا تھا ‪،‬کیا ستم ظریفی ہے میری‬
‫زندگی کی اہم ترین لڑکی ہے اور میں‬
‫اس پر کوئی ٹرائی نہیں کر سکتا‬
‫‪،‬ہوں‬

‫نہ مجھے دآلویز کے مزاج کا پتہ تھا‬


‫نہ اس کی عادات ‪،‬پسند نا پسند کا‬
‫پتہ تھا ‪ ،‬نہ اس کے گھر کے موجودہ‬
‫ماحول کا پتہ تھا‪،‬نہ اس کی‬
‫سوچوں کا کچھ اندازہ تھا ۔ یہ تو‬
‫اندھیرے میں تیر چالنا تھا ‪،‬تانیہ یاد‬
‫آگئی ‪،‬میں نے اسے میسج کیا کہ‬
‫مجھے دآلویز کی تصویر چاہیے ‪ ،‬یا‬
‫ویڈیو مل جائے تو کیا ہی بات ہے ‪،‬‬
‫مجھے پتہ تھا تانیہ ہر صورت میں‬
‫یہ کام کرے گی ‪،‬تصویر سے مجھے‬
‫دآلویز کی ذہنیت کا اندازہ ہو جانا‬
‫تھا‪ ،‬قیافہ شناسی (فیس ریڈنگ‬
‫‪،‬باڈی لینگویج) میرا پسندیدہ مشغلہ‬
‫تھا‪،‬یہ ایک فن ہے اور کسی نے مجھے‬
‫بڑی لگن سے باقاعدہ سکھایا تھا ‪،‬‬
‫اگر اس کی برتھ ڈیٹ کا پتہ چل‬
‫جاتا تو اس کے ُبرج سے اس کی بہت‬
‫سی معلومات مل جانی تھی‪،‬اور ہاتھ‬
‫دیکھ لیتا تو وہ ساری کی ساری‬
‫میرے سامنے عیاں ہوجاتی‪،‬اس کی‬
‫پیدائشی تاریخ بھی مجھے چاپیے‬
‫‪،‬تانیہ کو دوبارہ میسج کیا‪ ،‬اوکے اس‬
‫بار اس کا جواب آگیا‪،‬اس کامطلب‬
‫تھا کہ آج رات تو کچھ نہیں ہو‬
‫سکتاتھا اب کل تک انتظار کرنا پڑے‬
‫گا‪ ،‬کھانا پینا کرکے میں بور ہونے لگا ‪،‬‬
‫جب کوئی حل نظر نہ آئے تو ذہن کو‬
‫سوچ سوچ کے تھکانے کی بجائے اسے‬
‫فریش کرنا چاہیئے ‪،‬ڈاکٹر کنول پر‬
‫کام چل رہا تھا لیکن ابھی وہ بستر‬
‫کی زینت بننے والے مرحلے پر نہیں‬
‫آئی ‪،‬دو تین اور کو سوچا‪،‬نہیں کسی‬
‫پرانی دوست کا بال لیتا ہوں ‪،‬کون‬
‫اس وقت آسکے گی‪،‬میں سوچتا رہا‪،‬‬
‫کچھ نیا ہونا چاہیے ‪،‬یہ سوچنا ہی‬
‫‪ ،‬تھا کہ میں کمال کی طرف چل پڑا‬

‫کار چالتے ہوئے ذہن پھر سوچنے‬


‫لگا‪،‬میں اسے مصروف کر رہا تھا مگر‬
‫مجھے پتہ تھا کہ اب میرا ذہن ہر‬
‫وقت اس کا تجزیہ کرتا رہے گا جب‬
‫تک اس کا کوئی حل نہیں نکل آتا‬
‫‪،‬اگر میں نگینہ ہوتا تو ؟ پھر شہزادے‬
‫کے قتل میں ناکامی کے بعد مجھے‬
‫اس کی واپسی کے اندیشے تو ستاتے‬
‫ہوں گے‪،‬مجھے سو فیصد یقین ہو گا‬
‫کہ میں شہزادے کو سمجھ چکی‬
‫ہوں ‪ ،‬تو پھر میں یہ شہر چھوڑ کے‬
‫کیوں نہیں گئی؟ میں سرورکو اصل‬
‫بات تو بتا نہیں سکتی تھی ۔اسے‬
‫مجبور کیا مگر وہ کہتا ہو گا شہزادہ‬
‫ملے یہی تو میں چاہتا ہوں ‪ ،‬جب‬
‫نگینہ نے شہر چھوڑنے کی بات کی‬
‫ہو گی تو حکم کا غالم نہیں مانا ہو‬
‫گا کیوں کہ یہ بات اس کی غیرت پر‬
‫کوڑے کی طرح لگی ہو گی ‪،‬کہ وہ‬
‫کیوں شہر چھوڑیں ‪،‬بھاگے ان سے‬
‫شہزادہ ‪،‬جیسے پہلے بھاگا تھا ۔ سرور‬
‫نے نگینہ کے بھائیوں اور باپ کو بتایا‬
‫ہوگا سب غصے میں ہوں گے کہ‬
‫سرور یہ شہر چھوڑ کہ کیوں جائے‬
‫‪،‬یہ نگینہ کی ناکامی ہو گی‪،‬پھر اس‬
‫نے کسی طرح وہ مکان چھوڑ دیا ہو‬
‫گا ‪،‬بلکہ دو تین مکان بدلے ہوں گے‬
‫‪،‬سرور سے فیکٹری میں کام چھڑوا‬
‫دیا ہو گا ‪ ،‬ان باتوں کا سرور کو‬
‫سمجھ نہیں سکا ہو گا ‪ ،‬ساتھ ہی‬
‫نگینہ نے دآلویز کو ٹارگٹ بنا لیا ہو‬
‫گا‪،‬کیوں کہ حملہ تو دآلویز پہ ہونا‬
‫تھا ‪،‬نگینہ شہزادے کی کشش سے‬
‫بھی واقف تھی ‪ ،‬اس لیے دآلویز کے‬
‫دل میں شہزادے کے خالف زہر‬
‫بھرنے کیلیے نگینہ اسے مسلسل‬
‫بتاتی رہتی ہو گی کہ شہزادے نے‬
‫اس کی ماں کی عزت پر حملہ کیا‬
‫تھا‪،‬دوسری طرف وہ نگینہ کی کڑی‬
‫نگرانی کرتی ہو گی ‪،‬اس کے آنے‬
‫جانےے پر ‪،‬دوستوں پر ‪،‬اس کے‬
‫معموالت پر ‪،‬پابندیاں ہی پابندیاں ‪،‬‬
‫پہلے تین سال وہ بہت چوکنی رہی‬
‫ہو گی‪،‬پھر وقت گزرتے نگرانی تو‬
‫ہوتی رہے گی‪،‬پانچویں سال نگینہ‬
‫کچھ ڈھیلی پڑ جائے گی ۔اور‬
‫ساتویں آٹھویں سال نگینہ کو میرے‬
‫آنے کی امید بالکل نہیں رہے گی ۔‬
‫اسی لیے تو دالویز یونیورسٹی میں‬
‫نظر آئی ہے ‪،‬ضرور پہلے وہ غیر‬
‫معروف سکولز میں پڑھتی ہو پھر‬
‫ایف ۔بی اے اس کی ماں نے‬
‫پرائیویٹ کروایا ہو گا ۔اب دآلویز‬
‫یونیورسٹی میں ہے تو ضرور دآلویز‬
‫اس کی پابندیوں سے اکتا گئی ہو‬
‫گی اور یونیورسٹی میں آنے کی ضد‬
‫کی ہو گی‪ ،‬دو پوائینٹ ملے تھے‬
‫دالویز اس کی پابندیوں سے بے زار‬
‫ہو گی ‪،‬اور اسے غلط سمجھتی ہو‬
‫گی‪،‬دوسرا اب نگینہ کو میرے ملنے‬
‫کی کوئی امید نہیں تھی‪ ،‬سوچتے‬
‫سوچتے سر درد کرنے لگا‪ ،‬مگرمیں‬
‫اسے سوچنے سے روک نہیں سکتا تھا‬
‫میری ٹریننگ ہی ایسے ہوئی تھی‪،‬‬
‫جب تک کوئی حل نہیں مل جاتا میں‬
‫نے دن رات سوچنا تھا اور ساتھ‬
‫ساتھ خود کو ریفریش بھی کرتے‬
‫‪،‬رہنا تھا ‪ ،‬کمال کا بنگلو آگیا تھا‬

‫اس کے وسیع الن میں پارٹی شروع‬


‫تھی‪،‬لوگ آنے شروع ہوگئے تھے ۔‬
‫جیسے جیسے رات گزرے گی پارٹی‬
‫اپنے عروج پر جائے گی‪،‬پھر دو تین‬
‫بجے تک پتہ نہیں کس نے کس حالت‬
‫میں کس کے ساتھ جانا تھا‪،‬ایسی‬
‫مادر پدر آزاد پارٹیاں میں بہت کچھ‬
‫ملتا ہے ‪،‬میں نے خود ایسی پارٹیوں‬
‫کیلیے شہر کے ساتھ ہی فارم ہاؤس‬
‫لیا تھا‪،‬بلکہ اب وہ شہر میں ہی تھا‪،‬‬
‫استقبالیہ پر دونوں میاں بیوی‬
‫کھڑے تھے ۔ او ساڈا پرنس‪ ،‬کمال‬
‫بڑے جوش سے میرے گلے لگ گیا‪،‬‬
‫یار تم نے آکے دل خوش کر‬
‫دیا‪،‬پچھلی پارٹی تمھارے بغیر بڑی‬
‫پھیکی تھی ۔ بڑی زیادتی کی تم نے‬
‫میرے ساتھ ‪ ،‬کمال گلے شکوے کرنے‬
‫لگا‪،‬یار میں مصروف تھا ‪،‬میں اسے‬
‫نارمل کرنا چاہ‪،‬او ہاں ہاں ‪،‬میں جانتا‬
‫ہوں تمھاری مصروفیتیں ‪ ،‬تقریبًا‬
‫اڑتیس سال کا کمال ایک بڑا بزنس‬
‫میں تھا اور میرا اچھا دوست‬
‫تھا‪،‬بھابی آپ کیسی ہیں ‪،‬میں اس‬
‫کی بیوی سے علیک سلیک کرنے لگا ۔‬
‫میں تو ٹھیک ہوں آپ بتائیں آپ‬
‫کہاں ہیں آجکل‪،‬اس کی بیوی نے‬
‫معنی خیز انداز میں کہا تو میں ہنس‬
‫پڑا ۔‬
‫اگرچہ گوشہ ُگزیں ہوں میں شاعروں‬
‫میں میر۔۔۔‬
‫پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لی‬
‫۔۔۔‬

‫میں نے بے ساختہ شعر پڑھ ڈاال ‪،‬یار‬


‫کیا مشکل مشکل باتیں کر رہے ہو‬
‫کوئی آسان بات کرو نہ سلیس‬
‫انگلش میں ‪ ،‬واہ سلیس انگلش پر‬
‫میں نے اسے داد دی‪ ،‬اچھا تو آپ‬
‫گوشہ نشین ہیں پر آپ کی شہرت ہر‬
‫جگہ پہنچ گئی ہے‪،‬بھابی نےمشکل‬
‫شعر کا مطلب بتا کہ مجھے حیران‬
‫کردیا ۔۔ ارے بھابی جی‪ ،‬بدنام اگر‬
‫ہوں تو کیا نام نہ ہوگا ۔۔ میرے ساتھ‬
‫کمال نے میرا پسندیدہ مصرعہ مکمل‬
‫کیا ‪ ،‬آپ لوگ مہمانوں کا استقبال‬
‫کریں میں ذرا مل مال لوں‪ ،‬بدنامی‬
‫شہرت بن گئی تھی‪،‬اسلیے ہر کسی‬
‫سے ملنا مالنا ہو گیا تھا ۔ ویسے بھی‬
‫اس حمام میں سب ننگے تھے ‪،‬لیکن‬
‫شرافت کا لبادہ اوڑھ کے پھرتے‬
‫تھے‪،‬لیکن ان میں اور مجھ میں بس‬
‫یہی فرق تھا ‪،‬وہ چھپے رستم تھے‬
‫اور میں بدناِم زمانہ پرنس تھا‬
‫‪،‬کیونکہ یہ سب مل کے بھی اتنے‬
‫شکار نہیں کر سکے تھے جتنے میں‬
‫اکیال کر چکا تھا اپنی تو الئف ہی‬
‫یہی تھی ‪،‬غنیمت یہ تھا کہ کافی‬
‫مخلص دوست مل گئے تھے جن کی‬
‫فیملیوں کا میں حصہ تھا ‪،‬بس یہ‬
‫دوست ہی میری فیملی ہیں‪،‬کمال‬
‫بھی انہی میں سے ایک تھا‪ ،‬ہیلو‬
‫ایوری باڈی میں ملتا مالتا ایک ٹیبل‬
‫پہ بیٹھ گیا ‪ ،‬یہاں صرف اپنی گرل‬
‫فرینڈ کے ساتھ بیٹھنا االؤڈ ہے‪ ،‬سمیر‬
‫نے مزاق کیا ‪ ،‬یار سمیر اس کی کوئی‬
‫ایک گرل فرینڈ ہو گی تو اس کے‬
‫ساتھ بیٹھے گا ‪ ،‬رانیہ نے بھی اپنا‬
‫حصہ ڈاال ‪ ،‬باقی دو نے بھی جو بکنا‬
‫ہے وہ بھی بک لیں ‪ ،‬میں نےچاروں‬
‫کو ہی لتاڑتے ہوئے کہا‪،‬علوینہ اور‬
‫احتشام ہنسنے لگے ۔ میں صبح مما‬
‫کو چھوڑنے ائیرپورٹ جا رہی تھی ‪،‬‬
‫تو پرنس نے پتہ نہیں کس کے ساتھ‬
‫ریس لگائی ہوئی تھی ‪،‬علوینہ‬
‫شرارت سے میری طرف دیکھنے لگی‪،‬‬
‫پہلے تو یہ بتاؤ کہ تم ڈی ایچ اے‬
‫میں رنگ روڈ سے ایئرپورٹ جانے کی‬
‫جانے کی بجائے اتنا چکر کیوں کاٹا‬
‫‪،‬میں نےبات کا رخ بدل دیا‪،‬وہ میں‬
‫مما کی ایک دوست کو جوہر ٹاؤن‬
‫فیزٹوسے لینا تھا تو وہاں سے کینال‬
‫بینک روڈ سے پھر ایئرپورٹ کی‬
‫طرف چلے گئے ۔اوہ صبح صبح اتنی‬
‫ڈرائیونگ‪،‬میں نے ڈرامہ کیا ‪ ،‬یہ مما‬
‫کی اچھی بچی ہے نہ ‪،‬احتشام بے‬
‫اختیار بول پڑا ‪،‬ضرور احشتام کو تو‬
‫پتہ ہونا چاہیے میں نے معنی خیز‬
‫لہجے میں کہا ۔ یاد رکھنا احتشام‬
‫ڈرائیور کی بجائے صبح اٹھ کے خود‬
‫گئی ہے ‪،‬مما کی اچھی بچیاں بعد‬
‫میں تنگ بڑی کرتی ہیں میں نے‬
‫دونوں کو چھیڑا۔ بالکل تمھیں‬
‫بچیوں کا نہیں پتہ ہو گا تو کسے‬
‫ہوگا‪،‬علوینہ کب پیچھے رہنے والی‬
‫تھی‪ ،‬آہ ہا ۔۔۔ بدنام اگر ہوں گے تو کیا‬
‫نام نہ ہو گا‪ ،‬چاروں نے میرے ساتھ‬
‫مصرعہ مکمل کیا‪،‬اوکے گایئز انجوئے‬
‫یور سیلف‪(،‬مزے کرو ‪ ،‬دوستو)مجھے‬
‫ایک پٹاخہ نظر آگیا تھا ‪ ،‬یہ تمھارے‬
‫ہاتھ نہیں آئے گی ‪،‬علوینہ چپ نہ رہ‬
‫سکی‪ ،‬لگتا تھا علوینہ مجھے ٹائم دے‬
‫گی ‪ ،،‬میں ایسے ہی تو اس کے پاس‬
‫جا کہ نہیں بیٹھتا تھا ‪ ،‬جب بھی آئے‬
‫‪ ،‬گی خوش آمدید‬
‫کمال کون ہے وہ پٹاخہ ؟ کون سا‬
‫پٹاخہ کدھر ہے؟کمال نے ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ہوئے پوچھا وہ جو مسز‬
‫ریحان کے ساتھ بیٹھی ہے‪،‬اوہ وہ ‪،‬وہ‬
‫پٹاخہ نہیں ہے ‪ ،‬بم ہے ۔۔۔ بم ہے۔ کمال‬
‫نے مزہ لیتے ہوئے کہا‪ ،‬تو تمھارے‬
‫سامنے بم ڈسپوزل کھڑا ہے‪،‬اس کا‬
‫حدود اربعہ بتاؤ‪ ،‬یار وہ ۔۔۔۔۔ تمھارے‬
‫ہاتھ ۔۔۔۔۔۔ مشکل ہے ‪ ،‬جانے دو‪،‬کمال‬
‫کی بات پر میں بہت حیران ہوا‪،‬کیا‬
‫کہہ رہےہو تم ‪ ،‬ہاں یار کچھ ایسا ہی‬
‫ہے ‪ ،‬یو ں سمجھ لو کے تم پرنس ہو‬
‫تو وہ کنگ ہے‪،‬یار اب مجھے تجسس‬
‫سے ہی مار دیتے رہو گے یا کچھ منہ‬
‫سے پھوٹو گے بھی ۔ کراچی سے اپنے‬
‫شوہر کے ساتھ آئی ہے وڈیرے ہیں‬
‫بہت بڑے ‪،‬انتہائی مغرور ہے‪،‬دولت کا‬
‫خمار بہت ہی زیادہ ہے‪،‬ہم جیسے‬
‫بڑے کاروباری بھی ان کے سامنے‬
‫کچھ نہیں ہیں‪،‬یہاں کیا کرنے آئے ہیں‬
‫؟میں نے تجسس سے پوچھا کچھ‬
‫مہینے ہوئے ہیں شادی کو ‪،‬مسٹر اینڈ‬
‫مسسز ریحان کے مہمان ہیں ‪،‬انہوں‬
‫نے شادی کا کھانا دیا ہے ‪،‬ان کو ٹائم‬
‫نہیں مل رہا تھا ‪،‬اب چھ سات ماہ‬
‫بعد ٹائم مال ہے ان کو ‪،‬سمجھ لے اب‬
‫ان کی باری آئی ہے مسٹر اینڈ مسسز‬
‫ریحان کی‪،‬تو بڑی خبریں رکھتا ہے‬
‫لگتا ہے بھابی کو خبردار کرنا پڑے گا‪،‬‬
‫یار مسسز ریحان ابھی میری‬
‫مِس سزسے اس کا تعارف کروا رہی‬
‫تھی ‪،‬بڑی شو مار رہی تھی کہ کیسے‬
‫لوگ ہمارے مہمان ہیں ‪ ،‬ہاں تو ایسی‬
‫فیملی ان کی مہمان کیسے بن گئ‪،‬‬
‫یار تمھیں پتہ ہے نہ وہ ریحان شکار‬
‫کا شوقین ہے اور وڈیرے بھی ایسے‬
‫شوق پالتے ہیں ‪،‬تو ہو گئی ہو گی ان‬
‫کی کوئی واقفیت ۔ اب بھی دونوں‬
‫شکار پر گئے ہوئے ہیں کمال نے‬
‫مجھے آنکھ مارتے ہوئے کہا‪،‬اوووہ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب زارینہ صاحبہ بور ہورہی‬
‫تھیں تو مسز ریحان اسے یہاں لے‬
‫آئی‪،‬اچھا تو اس بم کا نام زارینہ ہے‬
‫‪،‬ہاں اب تمھاری تسلی ہوگئی ‪،‬اب‬
‫جاؤ علوینہ پے ڈورے ڈالو ‪،‬کمال کی‬
‫نظریں بڑی تیز تھی‪،‬علوینہ خود آئے‬
‫گی جب بھی آئے گی‪،‬ابھی اس بم‬
‫کی بات کرو‪،‬پرنس چھوڑو اسے‬
‫‪،‬کمال محتاط تھا‪،‬تمھارا کیا خیال ہے‬
‫ان وڈیروں کی بیویوں کو نہیں پتہ‬
‫ہوتا کہ ان کے شوہر کہاں ہیں اور کیا‬
‫کر رہے ہیں ؟ یہ خود بھی کسی کے‬
‫انتظار میں ہے‪،‬میں اتنی دیر سے‬
‫مسلسل اس کا تجزیہ کر رہا تھا ۔اوہ‬
‫نہیں یار ‪،‬کیا بات کرتے ہو ابھی کچھ‬
‫عرصہ ہوا ہے ان کی شادی کو‪،‬کمال‬
‫بے زاری سے بوال۔ جو تم سمجھ رہے‬
‫ہو وہ سب تو یہ شادی سے پہلے بھی‬
‫کر چکی ہےمیں کچھ اور کہ رہا ہوں‬
‫یہ وہ انتطار نہیں ہے جو عام طور پر‬
‫کیا جاتا ہے ‪،‬یہ چاہتی ہے کوئی آئے‬
‫اور اسے زبردستی اٹھا کے لے جائے ۔‬
‫اتنا کہنے کے بعد میں زارینہ کی‬
‫طرف قدم بڑھا چکا تھا‪ ،‬پرنس ۔۔۔‬
‫پرنس پیچھے سے کمال کی متفکر‬
‫آواز آئی مگر میں اب رکنے واال نہیں‬
‫‪،‬تھا‬
‫آج کی نیو لسٹ‬ ‫😍🥰‬
‫*‪* Bahzad king‬‬
‫ماں بیٹا کی سیک*سی کہانیاں ٹوٹل‬
‫😍😍‬
‫‪ 57‬کہانیاں‬
‫‪ 200‬روپے‬ ‫🥰😍قیمت‬
‫ناول ماں‪pdf.‬‬
‫ماں کی سہیلی کو حاملہ کیا‪pdf.‬‬
‫ماں‬
‫ماں بنی سہیلی مکمل‪pdf.‬‬
‫كرونا الک ڈاؤن میں ماں کی‪pdf.‬‬
‫چد ائی رومن‬
‫ماں اور دوست مکمل‪pdf.‬‬
‫بچوں کی بھوک اور مجبور ماں‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫ماں اور میرا شوہر مکمل‪pdf.‬‬
‫ماں کی جوانی مکمل‪pdf.‬‬
‫پٹھان اور ماں مکمل‪pdf.‬‬
‫ودھوا ماں مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫ماں اور بیٹی سے پیار‪pdf.‬‬
‫ماں بہن اور بھانجی‪pdf.‬‬
‫ماں کو ابو سے‪pdf.‬‬
‫ماں کیسے بنی مکمل(‪Pdf.)0‬‬
‫ابا اماں کی خدمت مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫بڑی ماں کا پیار میری ہوس(‪pdf.)0‬‬
‫دوست کی ماں کی چدا ئی‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫ماں بیٹے اور نوکرانی‪pdf.‬‬
‫ماں کی مالش مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫(ماں بیٹوں کا پیار‪pdf.‬‬
‫لڑکی کی ماں اور وہ مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫ماں اور خالہ گاؤں میں مکمل‪pdf.‬‬
‫کہانی ایک ماں اور بیٹے کی‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹا مکمل‪pdf.‬‬
‫ک_ماں_اور_بیٹے_کے_پیار_کی_کہای‬
‫نا‬
‫ماں اور بہن‪pdf.03147615013‬‬
‫دوست_کی_ماں_کی_پھد_‪Pdf.‬‬
‫ی_ماری‬
‫ماں بیٹی کتا اور میں‪Pdf.‬‬
‫ماں بیٹے کی داستان‪Pdf.‬‬
‫ماں کی چد ائی کا بدلہ‪Pdf.‬‬
‫ماں_اور_خالہ_کی_گاؤں_میں_‪Pdf.‬‬
‫چدائی‬
‫ماں_نے_دادا_سے_چد وایا‪Pdf.‬‬
‫مدر ڈے پر ماں کو چو دا‪pdf.‬‬
‫دوست کی ماں مکمل‪pdf.‬‬
‫لیڈی ڈاکٹر اور_‪...watermarke‬‬
‫ماں بیٹی مکمل‬
‫ماں کو اس کی سہیلی نے چود‪pdf.‬‬
‫وایا‬
‫ماں اور خالہ کی گاؤں میں‪pdf.‬‬
‫چدائی‬
‫ماں اور ‪ 4‬بیٹیاں ‪pdf.1-01‬‬
‫ماں اور بیٹی سے پیار مکمل‪pdf.‬‬
‫اسٹوری ریڈر سے ماں کو چد‪pdf.‬‬
‫وایا‬
‫ماں اور بیوی کی ایک ساتھ‪pdf.1-‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن‪pdf.‬‬
‫پجاری ‪ 1‬تا ‪2-7‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن پجاری‪....‬‬
‫‪ 14‬تا ‪1-18‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن‪pdf.‬‬
‫پجاری ‪ 8‬تا ‪1-13‬‬
‫پیر نے ماں کو چو دا‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹی کتا اور میں‪pdf.‬‬
‫بھابھی ماں نائیٹ سٹوریز‪pdf.‬‬
‫ماں کا الڈال_‪watermarked.pdf‬‬
‫کٹر مذہبی ماں مکمل ‪pdf.‬‬
‫ماں کا دیوانہ ‪pdf.‬‬
‫سبزی واال یاسر کی ماں‪pdf.‬‬
‫ماں بنی گرلفرینڈ تصویر‪pdf.‬‬
‫سٹوری‬
‫ماں بہن اور بھانجی کی ساتھ ‪pdf.‬‬
‫میرا پیار سوتیلی ماں اور بہنیں‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫شرابی ماں‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹے کا پیار‪ ،‬ڈھلے ممے ‪ndf‬‬
‫ماں اور بیٹا‬
‫لینے کے لیے رابطہ کریں‬

‫🐍‬
‫‪03127840311‬‬
‫ناگن‬
‫‪Update_4‬‬

‫ہیلو مسز ریحان ‪ ،‬میں ایسے رکا‬


‫جیسے اچانک اسے دیکھا ہو‪،‬‬
‫پرنس‪،‬آپ ۔۔ تم‪،،‬اوہ اوہ ‪،‬آو بیٹھو نہ‬
‫‪،‬مسز ریحان نے حسرت سے کہا ‪ ،‬لو‬
‫جی آج آپ کے پاس بیٹھ جاتے‬
‫ہیں‪،‬کیسی ہیں آپ ؟ میں ٹھیک ہوں‬
‫‪،‬مجھے یقین نہیں آرہا کے تم میرے‬
‫پاس بیٹھے ہو۔ آج تو جیسے جو‬
‫مانگتی مل جاتا ‪،‬مسز ریحان نے‬
‫شوخی سے کہا‪،‬اچھا آپ کو پتہ ہوتا‬
‫کہ آپ آج جو بھی مانگیں گی ملے‬
‫گا‪،‬تو پھر آج آپ کیا مانگتی ۔۔۔۔ سچ‬
‫بتاؤں‪،‬مسز ریحان کسی خوش فہمی‬
‫میں پڑ گئی تھی ‪،‬بلکہ یہاں بیٹھ کے‬
‫میں نے اسے خوش فہمی میں ڈال‬
‫دیا تھا ‪ ،‬جی بالکل سچ سچ بتائیں‬
‫میں نے اس کی آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے کہا‪ ،‬میں مانگتی کہ‬
‫پرنس ایک دفعہ ہمیں بھی اپنے‬
‫فلیٹ پر آنے کی دعوت دے مسز‬
‫ریحان نے بڑی ہی ذو معنی بات کر‬
‫دی‪،‬۔نہیں مسز ریحان آپ مجھے بنا‬
‫رہی ہیں ۔ بھال میں اس قابل کہاں‬
‫میں تو ایک عام سا بندہ ہوں ‪،‬اور یہ‬
‫عام سا بندہ کچھ لوگوں کا پرنس‬
‫چارمنگ ہے ‪ ،‬مسز ریحان آپے سے‬
‫باہرہو رہی تھی ‪ ،‬اور زارینہ کو یکسر‬
‫نظر انداز کر چکی تھی‪،‬یہی میں‬
‫چاہتا تھا‪،‬میں تو اس کی طرف‬
‫دیکھے بغیر بتا سکتا تھا ‪ ،‬کہ اس کی‬
‫انا کے غبارے میں ہوا بھرنی شروع‬
‫ہو چکی ہے ‪ ،‬مسز ریحان میری طرف‬
‫سے آپ کو آپ کے شوہر کو کھلی‬
‫دعوت ہے آپ جب چاہیں میرے‬
‫فلیٹ پر آسکتی ہیں میں مسز‬
‫ریحان کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا‬
‫اسے میری بات کی سمجھ آرہی تھی‬
‫کہ میں اسے کیا کہہ رہا تھا‪،‬اوہ ‪،‬اوہ‬
‫پرنس کہیں میں خواب تو نہیں‬
‫دیکھ رہی ‪ ،‬مجھے یقین نہیں آرہا‬
‫‪،‬مسز ریحان کا بس نہیں چل رہا تھا‬
‫وہ میرے اوپر گر جانا چاہتی تھی‪،‬‬
‫کمال ہے آپ نے چھوٹی سی سی بات‬
‫پہ بہت ری ایکٹ کر رہی ہیں‪،‬دوست‬
‫ہی دوستوں کو ملتے ہیں اور‬
‫ایکدوسرے کے کام آتے ہیں‪،‬میں نے‬
‫اس کی آنکھوں میں مسلسل دیکھ‬
‫رہا تھا ‪ ،‬اوہ ہاں وہ کچھ سمجھی‬
‫کچھ نہیں سمجھی‪،‬ابھی تک اسے‬
‫زارینہ کا کوئی خیال نہیں آیا‬
‫تھا‪،‬جب آپ دوسروں کی خوشیوں‬
‫کا خیال رکھتے ہیں تو آپ کو بھی‬
‫خوشیاں ملتی ہیں ‪ ،‬میں نے اسے پھر‬
‫کچھ سمجھایا ‪ ،‬اچھا میں چلتا ہوں‬
‫‪،‬میں اچانک اٹھنے لگا ‪ ،‬نہیں بیٹھو‬
‫نہ کچھ دیر اور بیٹھو پرنس ‪،‬مسز‬
‫ریحان نے میری توقع کے مطابق کہا‪،‬‬
‫وہ دراصل مسز کمال کو کوئی کام‬
‫تھا یا آپ ان سے مل لیں ‪،‬آپ سے‬
‫بہتر ایسی پارٹیوں کے انتظام کو‬
‫کون جانتا ہے ‪،‬میں نے اس کی‬
‫آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کچھ‬
‫سمجھایا ‪ ،‬ٹھیک میں مل لیتی ہوں‬
‫‪،‬میں ابھی آئی ‪،‬وہ اٹھتے ہوئے‬
‫بولی‪،‬اوہ سوری ‪ ،،،‬سوری میں آپ‬
‫لوگوں کا تعارف کروانا تو یاد ہی‬
‫نہیں رہا‪،‬اگین سوری‪ ،‬یہ مسسز کالپر‬
‫ہیں‪ ،‬بس یہ سمجھ لو کے کنگ میکر‬
‫فیملی ہے ان کی‪،‬مسزکالپر یہ پرنس‬
‫ہے بہت ہی سحر انگیز شخصیت کا‬
‫مالک ہے اور پتہ نہیں کیا کیا ہے‪،‬آپ‬
‫لوگ بیٹھے میں ابھی آئی ‪،‬بے چاری‬
‫مسسز ریحان ایک اور بھوکی آنٹی‪،‬‬
‫مگر اس کے پاس اچھا کھانا بہت تھا‬
‫بس پرنس نہیں تھا ‪ ،‬نہ پرنس نے‬
‫اس کے پاس آنا تھا ‪ ،‬نظر انداز کیے‬
‫جانے پرزارینہ کی انا اور غرور اس‬
‫وقت ایسے بن گیا تھا جیسے کوئی‬
‫شیر کی کچھار میں گھس کے اسے‬
‫شکار کرنا چاہے ‪ ،‬سیاست دان اور‬
‫بزنس مین اس فیملی سے ملنے‬
‫کیلیے انتظار کرتے تھے اور یہاں‬
‫زارینہ کو نظر انداز کیا جا رہا تھا‪،‬‬
‫زارینہ نے اس کا بدلہ یوں لیا کہ‬
‫مجھے یکسر نظرانداز کر دیا جیسے‬
‫میں موجود ہی نہیں ہوں‪،‬اس کی‬
‫نخوت کا عالم ایسا تھا جیسے کوئی‬
‫زمینی خدا ہو‪،‬میں اسے غور سے‬
‫دیکھ رہا تھا اس کے حسن کےلیے‬
‫بس ایک فقرہ کہوں گا کہ ملکہ‬
‫حسن کا عالمی اعزاز جیتنا اس کے‬
‫لیے انتہائ آسان تھا ‪ ،‬عمر کوئی‬
‫چھبیس سال‪ ،‬اسمارٹ جسم ‪،‬جسم‬
‫پر ملک کا مہنگا ترین لباس‪،‬نقوش‬
‫جیسے اجنتا الورہ کی مورتی ہو‪،‬‬
‫ملکوتی ُح سن ‪،‬اور ملکوتی ُح سن پر‬
‫بے انتہا دولت کی آسودگی اور‬
‫آسودگی پر طمانیت جیسے اس ملک‬
‫کے مالک ہو۔اور اس ملک کی مالک‬
‫کو میں نے چھیڑ دیا‪،‬چلو بھئ پرنس‬
‫چلتے ہیں نہیں تو لوگ اپنی حسد‬
‫کی آگ میں جل مریں گے‪ ،‬میں نے‬
‫اٹھتے ہوئے کہا‪ ،‬کیا تم نے ہم سے‬
‫کچھ کہا ہے مسٹر پرنس ؟ زارینہ کی‬
‫آنکھوں میں حیرانی اور غصے کی‬
‫تپش تھی ‪ ،‬اس کی تپش میں بھی‬
‫محسوس کر رہا تھا ‪،‬ہاں تم سے ہی‬
‫کہا ہے ‪،‬تھوڑی دیر مسسز ریحان نے‬
‫مجھے توجہ کیا کروا دی تم حسد‬
‫سے جل مری ہو اور پاس‬
‫بیٹھےانسان کوبالنا بھی گوارہ نہیں‬
‫کیا‪ ،‬میں نے اچانک ہی اسے تم کہ دیا‬
‫‪،‬حاسد اور جل مری کہہ دیا‪،‬اس کے‬
‫چہرے سے ایسے لگنے لگا جیسے میں‬
‫نے کوئی بہت بڑی گستاخی کر دی ہو‬
‫۔ ملکہ عالیہ ے چہرے پر جالل آگیا‬
‫تھا‪ ،‬تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے شدت‬
‫غصب سے کچھ بوال نہ گیا‪ ،‬تمھاری‬
‫یہ جرات ۔۔۔۔۔۔ ہم سے ایسے الفاظ‬
‫ایسے لہجے میں بات کرو ۔۔ اچھا تو‬
‫کیا ہو تم خدا ہو یہاں کی‪ ،‬اس سے‬
‫پہلے وہ کچھ کرتی میں نے اسے‬
‫چیلنچ کر دیا‪ ،‬ہم مالک ہیں اس ملک‬
‫کے اورتم جیسے کیڑے مکوڑے ہماری‬
‫رعایا ہو‪ ،‬تم ٹٹ پونجیے پرنس میری‬
‫جوتیاں سیدھی کرنے کے بھی قابل‬
‫نہیں ہو ‪،‬اس کا غرور ایسے اچھل رہا‬
‫تھا‪،‬جیسے سمندر کی طوفانی لہریں‬
‫شہر کوملیا میٹ کر دیتی ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫میں بڑے اطمینان سے بیٹھا تھا ‪،‬‬
‫جیسے وہ میرے لیے جوکر ہو‪،‬میرے‬
‫ہونٹوں پر تمسخرانہ مسکراہٹ تھی‬
‫جو اس کے غصے کو جلتی پر تیل‬
‫جیسا کام کر رہی تھی‪ ،‬میں نے‬
‫تمھاری تقریر نہیں سننی ‪،‬میں نے‬
‫اس کے الفاط اور لہجے کو ایک ہی‬
‫فقرے سے زیرو کر دیا ‪ ،‬میں نے‬
‫پوچھا کیا ہو تم ؟ مجھے اس بات کا‬
‫جواب دو ۔ اسے نہیں پتا تھا یہ‬
‫شطرنج کی گیم ہے اور وہ میری‬
‫مرضی کی چالیں چل رہی ہے‪ ،‬ہم‬
‫مالک ہیں تمھارے ‪ ،،،،،،‬تم نہیں ہو‪،‬‬
‫میں نے اس کی بات درمیان میں ہی‬
‫کاٹ دی ‪ ،‬وہ تمھارا باپ ہو گا‪ ،‬تم کیا‬
‫ہو؟ میں نے اسے جھنجھوڑا ۔ ہمارا‬
‫خاندان۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ میں نے تمھارے‬
‫خاندان کا نہیں پوچھا ۔۔۔۔۔ میں نے‬
‫پھر اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔‬
‫تم یہ بتاؤ تم کیا ہو۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫مسز کالپر ہوں میرے شوہروزیر۔۔۔۔۔‬
‫اس نے غرور سے کہنا شروع کیا کہ‬
‫میں نے پھر اس کی بات کاٹ دی ۔۔۔۔‬
‫اونہہ کتنی بدھو ہو تم ‪،‬میری بات‬
‫نہیں سمجھ نہیں رہی ۔ اس کے‬
‫غصے کی کوئی حد نہیں رہی تھی‬
‫اب۔ ایسے لہجے ایسے الفاظ اسنے‬
‫کب سنیں ہو گے ۔۔ تمھارا شوہر‬
‫تمھاے بھائی ‪،‬تمھارا باپ‪،‬تمھار‬
‫خاندان ‪،‬اسمبلی‪،‬حکوت ‪ ،‬کنگ میکری‬
‫‪ ،‬یہ سب بہت بورنگ ہے ‪،‬کچھ اپنا‬
‫بتاؤ ‪ ،‬کیا ہو تم ۔۔۔ وہ چپ ہو گئی‬
‫تھی اسے اب احساس ہوا تھا کہ میں‬
‫اس سے کیا پوچھ رہا تھا ‪ ،‬اب‬
‫تمھیں یہ ٹٹ پونجیا پرنس بتائے کہ‬
‫تم کیا ہو‪ ،‬تم اپنے ماں پاب کیلیے‬
‫ایک جائیداد ہو جسے خاندان میں‬
‫ہی کہیں سنبھال کے رکھنا ہے اور‬
‫اپنے شوہر کیلیے ایک سیاسی شادی‬
‫ہو‪،‬بس ۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے ایکدم خالی‬
‫کردیا ۔۔۔۔ میں آکسفورڈ میں پڑھی‬
‫ہوں ۔۔۔ بورنگ ۔۔۔ میں ہنسنے لگا‪ ،‬بہت‬
‫سی این جی اوز کی چیئرپرسن ہوں‬
‫‪ ،‬زارینہ عامیانہ باتیں کرنے لگی ۔۔‬
‫بورنگ یار ‪،‬اب تم کہیں یہ نہ کہہ‬
‫دینا کہ اتنی جیولری ہے تمھارے‬
‫پاس اور اتنا بینک بیلنس ہے ‪،‬اتنی‬
‫جائیداد ہےتمھارے نام‪ ،‬کوئی ڈھنگ‬
‫کی بات کرو یار ۔۔۔۔ میں نے اس کا‬
‫مزاق ُا ڑایا ۔۔۔۔۔۔۔ تم خود کیا ہو زارینہ‬
‫نے بےبسی سے کہا ۔۔۔ میں اپنی‬
‫مرضی کا مالک ہوں ۔۔۔ وہ تو میں‬
‫بھی ہوں زارینہ امید سے بولی ۔۔۔۔۔‬
‫نہں تم نہیں ہو ۔۔۔۔ تمھیں پتہ ہے اس‬
‫وقت تمھارا شوہر کہاں ہے اور کیا کر‬
‫رہا ہے ۔ میں نے اس پر ایک اور حملہ‬
‫کیا۔ نہ جانے کب وہ تمھیں شرِف‬
‫مالقت بخشے گا۔۔۔ میں نے اس پر‬
‫بھر پور طنز کیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسے‬
‫پھرخاموشی لگ گئی ۔۔وہ کہیں‬
‫شکار کر رہا ہو گا اور تم اس کی‬
‫وفاداری کا بھرم رکھ رہی ہو یا ہو‬
‫ہی بے بس ۔۔ بہت بورنگ لڑکی ہو یار‬
‫تم ۔۔۔۔۔۔ میں اٹھتے ہوئے بوال۔ دو قدم‬
‫چل کہ میں نے اسے دیکھا ۔۔۔ میرے‬
‫فلیٹ میں باون انچ کی ایچ ڈی ایل‬
‫ای ڈی لگی ہوئی ہے ۔۔۔۔۔ اور میرے‬
‫پاس اچھی فلموں کی زبردست‬
‫کولیکشن بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم اپنی‬
‫مرضی سے کچھ وقت گزارنا چاہتی‬
‫ہو تو میرے ساتھ آسکتی ہو ۔۔۔۔ میں‬
‫نے اسے خود کو ثابت کرنے کا ایک‬
‫موقع دیا ۔۔۔۔۔ میں باہر کار میں‬
‫تمھارا انتظار کر رہا ہوں ۔ کمال‬
‫مجھے ہی دیکھ رہا تھا مجھے ایسے‬
‫جاتے دیکھ وہ ہنسا جیسے کہہ رہا ہو‬
‫میں نہ کہتا تھا کہ یہ تمھارے بس‬
‫سے باہر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ مسز ریحان نے‬
‫مجھےخوب موقع دیا تھا ۔۔۔مجھے‬
‫پتہ تھا وہ ضرور آئے گی خود کو‬
‫ثابت کرنے کیلیئے مجھے ہرانے کیلیے‬
‫۔۔۔ میں اپنی کار میں انتظار کر رہا‬
‫تھا کہ وہ چلتی ہوئی نظر آئی۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کی چال بڑی دلربا تھی اور جسم‬
‫سحر انگیز تھا ‪،‬بالشبہ وہ ایٹم بم‬
‫تھی ۔۔۔۔۔ زارینہ نے کار کا دروازہ‬
‫کھوال اور میرے ساتھ بیٹھ گئی ۔(‬
‫چیک میٹ )۔۔ جس اعتماد سے وہ‬
‫بیٹھی تھی میں سمجھ گیا اسے‬
‫شوہر کے عالوہ بھی سیکس کا پتہ‬
‫ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کار فلیٹ کی طرف‬
‫چال دی ۔۔۔۔ شطرنج کے کا ایک طریقہ‬
‫یہ بھی ہے کہ اپنی چالوں سے حملے‬
‫پرحملہ کرتے جایئں ۔ مخالف کو‬
‫سوچنے کا موقعہ نہ دیں ۔ پھر وہ‬
‫دفاع پردفاع کرے گا اورآپ کی‬
‫مرضی کی پوزیشن پر آجائے‬
‫گا‪،‬جہاں اسے چیک میٹ کرسکیں‬
‫گے۔۔۔۔۔۔۔ بھال زارینہ کوکیا ضرورت‬
‫تھی میرے سامنے خود کو ثابت‬
‫کرنےکی ۔۔۔ لیکن اس کے غصے نے‬
‫اسے کچھ سوچنے نہ دیا اور اس کی‬
‫انا خود کو ثابت کرتی رہی اور ناکام‬
‫ہوتی رہی ۔ اب اس کے پاس ایک ہی‬
‫طریقہ رہ گیا تھا خود کو ثابت کرنے‬
‫کا ۔ خود کو آزاد ثابت کرنے کا کہ وہ‬
‫میری جھولی میں آگرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم‬
‫فلیٹ پہنچے راستے میں مکمل‬
‫خاموشی رہی ۔۔۔۔ کوئی بات کر کے‬
‫میں اس کا ردھم نہیں توڑنا چاہتا‬
‫تھا ۔۔۔۔ ہم فلیٹ میں داخل ہوئے ۔۔۔‬
‫میں اپنے بیڈروم میں آگیا ‪،‬وہ بھی‬
‫آہستہ آہستہ میرے ساتھ تھی ۔۔ فلم‬
‫کولیکشن کہاں پڑی ہے ۔۔۔۔ اس نے‬
‫بڑی ہی نرمی سے پوچھا ۔۔۔۔ میں نے‬
‫اپنی پینٹ کی زپ نیچے کی‬
‫انڈرویئر نیچے کیا اور عضو پکڑ کے‬
‫کہا یہ میری کولیکشن ہے ۔۔۔ بہت‬
‫بےہودہ انسان ہو تم وہ غصے میں‬
‫میری طرف لپکی اور میرے سامنے‬
‫کھڑی ہوگئی ‪ ،‬مجھے دیکھتی رہی‬
‫اب ایسا بھی نہیں تھا کہ اسے پتہ‬
‫ہی نہ ہو کہ فلیٹ میں کیا کرنے جا‬
‫رہی ہے ۔۔۔۔ ہم آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالے کھڑے رہے ضرور اس کی‬
‫آنکھوں سے آنکھیں مال کر بہت سی‬
‫آنکھیں جھک جاتی تھیں لیکن آج‬
‫اس کی شکست کا دن تھا میں نے‬
‫ایسے کھیل بہت کھیلے تھے آخر اسے‬
‫آنکھیں ُج ھکانی پڑی اس کی انا ‪،‬‬
‫ابھی بھی مجھے شکشت دینا چاہتی‬
‫تھی ۔ زارینہ اکڑوں نیچے بیٹھ کے‬
‫میرے عضو کو پکڑ کے سہالنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ میں نےاوپری لباس اتار دیا ۔‬
‫زارینہ نے عضو سہالتے ہوئے منہ میں‬
‫لے لیا ۔ میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور اسے‬
‫نیچے قالین پر بٹھایا ‪،‬میں نے پینٹ‬
‫اور نیچے کر دی اورسرور لینے لگا ۔۔۔‬
‫زارینہ بڑی مہارت سے اپنا کام کر‬
‫رہی تھی ۔ میں سمجھ رہا تھا یہ چھ‬
‫مہینے کی شادی والی مہارت نہیں‬
‫تھی ‪،‬ضرور اس کا کوئی بوائے فرینڈ‬
‫ہو گا شاید آکسفورڈ میں ہی ہو ۔‬
‫وہاں ملنا اور سیکس کرنا آسان بھی‬
‫ہو گا ۔ لیکن وہ بوائے فرینڈ اسکے‬
‫خاندان کا حصہ نہیں بن سکتا ہو گا‬
‫۔۔ کیا پتہ اب بھی اس سے ملتی ہو‬
‫۔۔۔ زارینہ کو عضو چوستے ہوئے دس‬
‫منٹ سے اوپر ہوگئے تھے ۔ اب وہ‬
‫بڑے جوش سے عضو کو چوس رہی‬
‫تھی ۔اس کی رفتار‪ ،‬پکڑ ‪ ،‬ہونٹ اور‬
‫زبان کسی کام میں شدید مصروف‬
‫تھے ۔۔۔ اس کی آنکھوں میں چمک‬
‫تھی ۔۔۔ کیا یاد کرو گے تم پرنس ۔‬
‫کوئی زارینہ تمھیں ملی تھی ۔۔۔ اس‬
‫کے چہرے پر جیت کے آثار نظر آنے‬
‫لگے ایسے جوش اور مہارت سے‬
‫عضو چوسا جائے تو مزے کی لہروں‬
‫میں ڈوب جانے کو جی چاہتا ہے ۔۔۔‬
‫نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے ۔۔۔۔۔۔‬
‫پنکھڑی اک گالب کی سی ہے ۔۔ اور‬
‫اتنے نازک ہونٹ مزے سے ماریں گے‬
‫نہ تواور کیا ہو گا ۔۔۔ بیس منٹ ہونے‬
‫والے تھے اب اس کے چہرے پر‬
‫حیرانی تھی اور آنکھوں میں‬
‫مایوسی تھی ۔۔۔ اس کا جوش مدہم‬
‫پڑنے لگا تھا ۔۔۔۔ بہت اسڑانگ ہو ابھی‬
‫تک تو تمھارا پانی نکل جانا چاہیے‬
‫تھا۔۔۔۔ زارینہ نے مایوس لہجے میں‬
‫کہا ۔ میں دل ہی دل میں ہنسنے لگا‬
‫جب میں کارمیں بیٹھا اس کا انتظار‬
‫کر رہا تھا تو میں ٹائمنگ کی آزمودہ‬
‫گولی کھا لی تھی ۔۔ میں یہ کبھی‬
‫کبھارکھاتا ہوں کیونکہ ان کا مستقل‬
‫استعمال نقصان دہ ہوتا ہے لیکن آج‬
‫یہ بہت ضروری تھا ۔چوس چوس کہ‬
‫اس نے میرا پانی نکالنے کے بعد یہاں‬
‫نہیں رکنا تھا ۔۔۔ اس نے مجھے‬
‫شکست دینے کی آخری کوشش کی‬
‫تھی ۔۔۔۔ میں نے اس ایٹم بم کو‬
‫بازووں سے پکڑا اور اپنی گود میں‬
‫بٹھا لیا ۔۔ اس کی قمیض اور برا اوپر‬
‫کر کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔۔‬
‫زارینہ میرے عضو پر بیٹھی تھی‬
‫عضو اسے نیچے سے پریشان کرنے لگا‬
‫‪،‬اور ممے اسے اوپر سے پریشان کرنے‬
‫لگے۔۔۔ ممے چھیڑنے سے ان کے‬
‫پیچھے پیٹھ میں اس کا پانی ابلنے‬
‫لگا ۔۔۔ اب اس کے جسم میں سرور‬
‫کی لہریں اٹھنے لگی۔۔ زارینہ بےچین‬
‫ہونے لگی ۔۔میں اسے جسمانی طور‬
‫پر انتہائی بے چین کرنا چاہتا تھا۔۔‬
‫اسے محسوس ہونےلگا کے مِد مقابل‬
‫کچھ بہت خاص ہے میری ہونٹوں نے‬
‫ہاتھوں نے اسے بےچینی کی لہروں‬
‫میں دکھیل دیا ۔ اب زارینہ ایسے ری‬
‫ایکٹ کر رہی تھی جیسے میں اسے‬
‫کھینچ کے گہرائی میں لے جا رہا ہوں‬
‫۔ ممے فور پلے کا ایک ایسا رستہ ہیں‬
‫جس سے انسانی جسم ہیجان میں‬
‫مبتال ہوجاتا ہے ‪،‬ساتھ ساتھ زارینہ‬
‫کی کمر پر مخصوص انداز میں‬
‫دائرے بنانے لگا ۔۔ زارینہ کو اب پتہ‬
‫چال کہ فور پلے کیا ہوتا ہے ۔ پرنس‬
‫تم بہت اچھا فورپلے کرتے ہو ۔ تم‬
‫کافی ماہر ہو زارینہ کو مزے نے‬
‫اعترف کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اب‬
‫میں اس کی قمیض اور برا اتار سکتا‬
‫تھا سو میں نے بڑی نرمی سے اس کا‬
‫اوپری حصہ ننگا کیا ۔۔۔ اسے بیڈ پر‬
‫لٹا دیا ۔۔۔ اپنا نچال حصہ پورا ننگا کیا‬
‫۔اوراس کی شلوار کھینچ کے اسے‬
‫بھی ننگا کر دیا ۔۔ بس لگائے اس میں‬
‫کچھ پل ہی تھے ۔۔ اس کے اوپر لیٹ‬
‫کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ اس‬
‫کی جسم کی شراب پیتے ہوئے میں‬
‫مدہوش ہونے لگا ۔۔۔ مست ہی مست‬
‫ہو تم ‪،‬میں نے اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کی ۔۔۔ تم بھی کچھ کم‬
‫نہیں ہو ۔۔ زارینہ اب باتیں کرنے لگی‬
‫۔۔ تمھیں دیکھ کے بہت سے شعر یاد‬
‫آرہے ہیں ۔ مگر تمھارے جسم کے‬
‫سامنے دوسرے لمحے وہ شعر کمتر‬
‫لگنے لگتے پیں ۔ اب میں نے دوستی‬
‫کیلیے ماحول ہموار کرنا شروع کر‬
‫دیا ۔ میرا عضو ضرور اسے بے چین‬
‫کر رہا ہو گا ۔ میں نے اسے اسی کام‬
‫پر لگایا ہوا تھا ‪،‬میرے ہاتھ زارینہ کو‬
‫سمجھا رہے ہوں گے کہ پیار کسے‬
‫کہتے ہیں ۔ اور میرے ہونٹ اس کے‬
‫گالب بدن کی پنکھڑیاں ُچ ننے میں‬
‫مصروف تھے ۔۔ اچھا میں بھی تو‬
‫ُس نوں کون سے شعر یاد آ رہے ہیں‬
‫‪،‬زارینہ شکشت کے بعد اپنی تعریف‬
‫سننا چاہتی تھی ۔۔ یہ عالم شوق کا‬
‫دیکھا نہ جائے ۔۔۔۔۔ وہ بت ہے یا خدا‬
‫دیکھا نہ جائے (احمد فراز) ۔ایک ہی‬
‫شعر میں اپنی کیفیت بھی بیان کر‬
‫دی اور اس کے ُح سن کی دل کھول‬
‫کر تعریف بھی کر دی ۔ پرنس تمھیں‬
‫گفتگو میں بھی کمال ہے ؟ بات بات‬
‫پر میری تعریف کا مطلب تھا کہ وہ‬
‫ذہنی طور پر میرے اثر میں آ چکی‬
‫ہے ۔ اتنی نرماہٹ سے اتنے پیار سے‬
‫اتنے احساس سے میں زارینہ کو پیار‬
‫کر رہا تھا جیسے وہ کانچ کا پیکر اور‬
‫میری ِش دتیں اسے کوئی ٹھیس نہ‬
‫پہنچا دے ۔۔۔ مجھے اندازہ تھا ایسی‬
‫چاہت سے اس کا کبھی واسطہ نہیں‬
‫پڑا ہو گا ۔۔ تمھیں اپنی بانہوں میں‬
‫پا کہ بھی میری وحشتوں کو سکوں‬
‫نہیں آرہا ۔۔ جانے کیا ہو تم ۔ زارینہ‬
‫کے دل میں میری سرگوشیاں ہلچل‬
‫پیدا کر رہی تھیں تو ہونٹ‪،‬ہاتھ اور‬
‫عضو اس میں میری طلب جگا رہے‬
‫تھے۔ میں نے پیار کے لمحات طویل‬
‫تر کر دیئے تھے مجھے کچھ خاص‬
‫چاہیئے تھا ۔ میرے جذبات میں خود‬
‫طوفان اٹھا ہوا تھا ۔ مگر میں نے‬
‫ضبط کا دامن نہیں چھوڑا تھا ۔ میں‬
‫چاہتا تو اسے چود دیتا ۔ وہ اپنی راہ‬
‫لیتی میں اپنے راہ چل پڑتا ۔ لیکن‬
‫میں کچھ اور چاہتا تھا مجھے وہ‬
‫مفتوح نہیں چاہیئے تھی ۔۔ مجھے وہ‬
‫ُا سی کی دلی مرضی سے چاہیئے‬
‫تھی ۔ میری حالت اس وقت کچھ‬
‫‪ ،‬اس شعر جیسی تھی‬
‫بے قراری سی بے قراری ہے ۔۔۔۔ وصل‬
‫ہے اور فراق طاری ہے ۔۔۔۔ (جون‬
‫ایلیا) مجھے پتہ تھا وہ اس وقت‬
‫میری نہیں تھی ۔ زارینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پرنس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تمھیں فتح‬
‫نہیں کرنا چاہتا تمھیں تمھاری‬
‫مرضی سے پانا چاہتا ہوں ۔۔۔ اگر‬
‫اجازت ہو تو تمھیں حاصل کر لوں ؟‬
‫زارینہ کے جسم میں ارتعاش سا ہوا ۔‬
‫اس کا ذہن اور جسم تو پہلے ہی میرا‬
‫ہوچکا تھا ۔۔ زارینہ نے اپنے بازوؤں کا‬
‫ہار میرے جسم کے گرد ڈال دیا ۔اور‬
‫پھر اس ہار کا گھیرا تنگ کردیا ۔۔‬
‫پرنس میں اب بھی تمھیں جیتنے آئے‬
‫تھی ۔ تمھیں اپنے پیچھے لگانے آئی‬
‫تھی ۔ تمھیں تڑپانے آئی تھی ترسانے‬
‫آئی تھی‪ ،‬لیکن تم نے مجھے جیت لیا‬
‫ہے میرے دل کو جیت لیا ہے ۔۔ اب‬
‫میں دل سے چاہتی ہوں کہ تم مجھے‬
‫پا لو ۔۔ میں نے اسکی ٹانگیں کھول‬
‫کے گھٹنوں کے بل مخصوص‬
‫پوزیشن بنائی اور ۔۔۔۔۔۔ زارینہ نے‬
‫میرا عضو اپنے ہاتھ سے اپنی چوت‬
‫پررکھا میں نے بڑی نرمی سے دھکا‬
‫لگایا اور عضو اس کی چوت میں‬
‫گھس گیا ۔ چوت ٹھیک تھی ۔ تنگ‬
‫تھی ۔ ہمیں محسوس ہوا کہ دو‬
‫جسم ایک جان ہو گئے ہیں ۔ میں‬
‫آہستہ آہستہ زارینہ کو چودنے لگا۔‬
‫زارینہ کی آنکھوں میں بے تحاشا‬
‫پیار تھا ۔ اور اس کے ہاتھ مجھے اس‬
‫طرح پکڑے ہوئے تھے جیسے کبھی‬
‫مجھے کھونا نہیں چاہتی ہو۔ جسم‬
‫کی ضرورتوں کے مطابق اب میں‬
‫تیزہونےلگا ۔اس کا جسم میرے‬
‫دھکوں سے ہلنے لگا ‪ ،‬ممے ارتعاشی‬
‫حالت میں آگئے۔ چہرہ وصال کی‬
‫گواہی دینے لگا تھا اور جسم مزے‬
‫کے سمندر میں ڈوب گیا تھا ۔ جیسے‬
‫جیسے میں چودتا گیا ویسے ویسے‬
‫زارینہ کی جذباتیت بڑھتی گئی۔‬
‫جسمانی ضرورتوں کے عالوہ ذہنی‬
‫اور دلی ضرورتیں بھی ہوتی ہیں‬
‫‪،‬جنہیں اس دوران خوراک دی جا‬
‫سکتی ہے ‪ ،‬بس فرق آپ کے انداز‬
‫میں ہوتا ہے ۔ چاہت سے چودنے اور‬
‫بھوک مٹانے کیلیے چودنے میں بہت‬
‫فرق ہوتا ہے ۔ میں نے جس کو بھی‬
‫آج تک چودا ہے وہ اپنی مرضی سے‬
‫میرے بستر پر آئی ہے ۔ کیونکہ نگینہ‬
‫اور میری پہلی رات نے پھر کبھی‬
‫مجھے کسی سے زبردستی نہیں کرنے‬
‫دی ۔ جو مزا باہم ملنے میں ہے وہ‬
‫کسی اور طریقے سے نہیں مل سکتا۔‬
‫اس وقت ہم اسی مزے کے سمندر‬
‫میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پرنس کچھ کرو‬
‫یہ وقت یہیں رک جائے ۔ ہم تمھارے‬
‫بازوؤں سے واپس اس دنیا میں نہیں‬
‫جانا چاہتے ۔زارینہ انتہائی جذباتی‬
‫ہو رہی تھی ۔ چودائی کے ساتھ‬
‫ساتھ میں اس کی آنکھوں کو گالوں‬
‫کو بھی چوم لیتا تھا ۔ سیکس اور‬
‫پیار کے حسین امتزاج نے زارینہ کو‬
‫بےحال کر دیا تھا ۔ میں نے جیسے‬
‫اس کی نبض پر انگلیاں رکھ دی‬
‫تھی ۔ اور اس کی بیماری کے مطابق‬
‫دوا دے رہا تھا ۔ اور یہ دوائی زارینہ‬
‫کے دل پر اثر کر گئی تھی ۔ میں نے‬
‫ٹائمنگ گولی کا حساب بھی ذہن میں‬
‫رکھا ہوا تھا ‪ ،‬بیس منٹ تو زارینہ نے‬
‫چوستے ہوئے گزار دیے تھے ‪،‬پھر میں‬
‫نے پیار کے لمحات بھی طویل‬
‫کردیئے تھے ۔ جس سے پانی ابلتا رہا‬
‫تھا اوراب بس باہر نکلنے واال تھا ۔‬
‫لگتا یہی تھا ہم اکھٹے مزل پر پہنچے‬
‫گے ۔۔ یہی میں چاہتا تھا ۔ اب دھکے‬
‫اضطراری تھے ۔ جسم کہتا تھا کچھ‬
‫ہونے واال ہے ۔ جب کچھ ہونےواال ہو‬
‫تو اپنے آپ دھکوں کی رفتار تیز‬
‫ہوجاتی ہے ۔ جیسے پانی پہاڑی نالوں‬
‫سے گرتا ہے ۔ اووو ۔ میں رک گیا ۔‬
‫جسم کوجھٹکا لگا ۔ مگر میں رکا‬
‫نہیں زارینہ کو دو جھٹکے اور‬
‫چاہیئے تھے ۔ اور پھر اس کے اوپر گر‬
‫گیا ہم نے ایکدوسرے کو جکڑ لیا۔‬
‫ہمارے جسم وائبریشن پر تھے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو باتیں ہوئی ایک تو‬
‫پانی بہت نکال ۔۔ دوسرا زارینہ نے‬
‫مجھے آئی لو یو(مجھے تم سے‬
‫محبت ہے) کہا ۔۔ برستے پانی میں‬
‫خوشبو سی میں نے کی محسوس‬
‫۔۔۔۔۔۔ مجھے یقیں ہے کہ وہ بھی‬
‫انہیں گھٹاؤں میں تھی ۔۔۔ (شاعر ۔‬
‫اعجازعبید) ۔‬

‫کسی نے کبھی ہم سےاجازت نہیں‬


‫مانگی ۔ والدین سے لیکر شوہر تک ہر‬
‫کسی نے ہمیں اپنی مرضی بتائی ہے‬
‫دنیا کیلیئے ہم ایک پرنسیس کی‬
‫طرح ہیں لیکن ہم جانتی ہیں کہ‬
‫ہمارے جیسے خاندانوں میں لڑکیاں‬
‫کتنی بے بس ہوتی ہیں ۔آج تم نے‬
‫ایسے طریقے سے ہمیں گھیرا ہے جو‬
‫ہمارے وہم و گماں میں بھی نہ تھا‬
‫‪،‬لیکن جب تم نے اجازت مانگی تب‬
‫ہم تمھاری ساری بات سمجھ گئے ۔ نہ‬
‫کبھی ایسی چاہت سے کسی نے پیار‬
‫کیا ہے نہ کبھی ہمیں زندگی میں‬
‫ایسا مزہ مال ہے آئی لو یو پرنس ۔۔‬
‫تمھارے بوائے فرینڈ کا کیا بنا ‪ ،‬میں‬
‫نے اسے چونکایا ۔ زارینہ حیرانی سے‬
‫میری طرف دیکھنے لگی ۔ تمھیں‬
‫کیسے پتہ چال ؟ کہیں دور سے اس‬
‫کی آوز آتی محسوس ہوئی ۔ میں نے‬
‫بس آئیڈیا لگایا ہے ۔ مجھے شوق ہے‬
‫لوگوں کو پڑھنے کا ان کے دل کے‬
‫حال جاننے کا ۔ اگر تم ہمیں بستر تک‬
‫ال سکتےہو تو بے شک ایسا پرفیکٹ‬
‫آئیڈیا بھی لگا سکتے ہو ۔ زارینہ تو‬
‫جیسے میری معتقد ہو گئی تھی۔‬
‫شاید تم لوگ آکسفورڈ میں ملے ہوگے‬
‫وہ بھی پاکستانی ہو گا ۔ اظہار کے‬
‫بعد جسمانی مالقات میں اس نے دیر‬
‫نہیں لگائی ہو گی۔ پھر اسے تمھاری‬
‫فیملی کا پتہ چال ہو گا تو پیچھے‬
‫ہٹ گیا ہو گا وہ بھی اس وقت جب‬
‫تم یا وہ پاکستان مستقل آگئے ہو ۔‬
‫تم نے دل پر پتھر رکھ لیا ہو گا اور‬
‫والدین کی مرضی کے سامنے سر‬
‫جھکا دیا ہو گا ۔ جلد ہی تمھاری‬
‫شادی کر دی گئی ہو گی شاید دو‬
‫سال کے اندر ۔ لیکن وہ جو کوئی‬
‫بھی تھا اس نے تمھیں جذباتی بلیک‬
‫میل کر کے بس تمھارا فائدہ ہی‬
‫اٹھانا تھا میری بات ختم ہوئی تو‬
‫زارینہ کی آنکھوں میں آنسو نکل رہے‬
‫تھے ۔ زارینہ نے مجھے زور سے جکڑ‬
‫لیا۔ ہاں ایسا ہی ہوا تھا ہمیں بھی‬
‫اس کی بے وفائی کا اندازہ ہوگیا تھا‬
‫۔ پرنس تمھیں چاہنے لگی ہوں ۔‬
‫تمھارے ساتھ مستقل دوستی چاہتی‬
‫ہوں ۔ میں ہمہشہ تمھارے ساتھ ہوں‬
‫۔ میں نے اسے اپنے بازوؤں کے‬
‫گھیرے میں کس لیا۔ یہاں زارینہ نے‬
‫کمال کا شعرسنا دیا ۔ تومال ہےتو اب‬
‫یہ غم ہے ۔۔۔ پیار زیادہ ہے زندگی کم‬
‫ہے ۔‬

‫کیا ستم ظریفی ہے ہم نے تمھارے‬


‫نام اپنی زندگی لکھ دی اور ہمیں‬
‫تمھارا نام تک نہیں معلوم ؟ زارینہ‬
‫اب مجھے جاننا چاہتی تھی ‪ ،‬میر ا‬
‫نام پرنس ہی ہے ۔ اب میرے ساتھ‬
‫ایسا سلوک کرو گے زارینہ نے خفگی‬
‫سے کہا ۔ کوئی میرا نام نہیں جاننا‬
‫چاہتا میں بس شہزادہ ہوں میں‬
‫نےاس کی آنکھوں میں جھانکتے‬
‫ہوئے کہا۔ بس وقت نے اتنا فرق ڈاال‬
‫ہے کسی نے مجھے شہزادے سے‬
‫پرنس بنا دیا ۔ میرے سرد لہجے نے‬
‫اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیا لیکن‬
‫زارینہ کے چہرے کے تاثرات بتا رہے‬
‫تھے وہ آسانی سے اس مو ضوع کا‬
‫پیچھا نہیں چھوڑے گی ۔ زارینہ‬
‫میرے بارے میں سب کچھ جاننا‬
‫چاہتی تھی ۔ میری پسند نا پسند‬
‫‪،‬میرے مشاغل ۔میری عادات ۔مزاج ۔‬
‫نظریات ۔ میرا کاوربار ۔ میری‬
‫سوچیں پڑھنا چاتی تھی ۔ میں اسے‬
‫ایک بار اور کرنا چاہتا تھا لیکن‬
‫زارینہ کا انداز اتنا دلربائی تھا کہ‬
‫میں نے زارینہ کو اپنے بارے میں‬
‫کافی کچھ بتا دیا ۔ ایکطرح سے‬
‫اچھا ہی ہوا میری آوارگی سے زارینہ‬
‫واقف ہوگئی نہیں تو کچھ گھنٹوں‬
‫کی مالقت میں جس طرح زارینہ‬
‫میری طرف بڑھی تھی مجھےاس کے‬
‫جذبات کی شدت سے ڈر لگنے لگا تھا‬
‫۔ دو گھنٹےسے اوپر گزر گئے ۔ زارینہ‬
‫کی باتیں ختم نہ ہوئی‪ ،‬اپنا بتاتی‬
‫رہی میرا حال سنتی رہی زارینہ گھما‬
‫پھرا کے میرا ماضی جاننا چاہتی‬
‫تھی ۔ اور میں اسے گھما پھرا کے‬
‫ماضی سے حال میں لے آتا تھا ۔ وہ‬
‫تو اچھا ہوا ‪ ،‬زارینہ کے موبائل پر‬
‫مسز ریحان کی کال آگئی ۔ مسز‬
‫کالپر بہتر یہی ہوتا کہ ہم اس وقت‬
‫گھر ہوتے ۔ مسز ریحان نے زارینہ کو‬
‫کچھ سمجھایا ۔ آواز میرے کانوں‬
‫میں بھی پڑ گئی تھی ۔ میں نے وقت‬
‫دیکھا تو تین بجنے والے تھے ۔میں نے‬
‫سر ہال کے اسے مسز ریحان کی بات‬
‫ماننے کا کہا ۔ پارٹی میں اسوقت‬
‫واپس جانا مشکوک بننے کے مترادف‬
‫تھا ۔ یقینًا مسز ریحان ہر بات سے‬
‫واقف تھی‪ ،‬میں نے موبائل پکڑ لیا ۔‬
‫مسز ریحان آپ میرے فلیٹ پر‬
‫آجائیں ‪ ،‬یہیں سے آپ لوگ گھر چلے‬
‫جانا ‪ ،‬اوکے پرنس یہی بہتر رہے گا ۔‬
‫مسز ریحان نے کال بند کر دی ۔ مسز‬
‫ریحان تمھارے کنٹرول میں اسے‬
‫سمجھا دینا ۔زارینہ میرے گلے لگ‬
‫گئی ۔ جب مسز ریحان آئی تو زارینہ‬
‫گاڑی میں بیٹھنے چلی گئ اور میں‬
‫مسز ریحان کو روک لیا ۔ میں نے‬
‫مسز ریحان کے کندھے پر ہاتھ رکھ‬
‫کے اسے اپنے قریب کر لیا ‪ ،‬مسز‬
‫ریحان کا جسم کانپنے لگا ۔ پرنس‬
‫‪،‬پرنس ۔۔ آئی لو یو پرنس ‪،‬وہ مجھ‬
‫سے لپٹ گئی ۔۔ دیکھئے مسز ریحان‬
‫یہ لوگ کسی اسکینڈل کو برداشت‬
‫نہیں کرسکتے ‪،‬اسکینڈل مٹانے کیلیے‬
‫اس سے منسلک ہر انسان مٹانا ان‬
‫کیلیےکچھ مشکل نہیں ہو گا ۔۔ میری‬
‫بات سمجھ رہی ہیں آپ ۔ ہاں سمجھ‬
‫رہی ہوں بلکہ ان لوگوں کو تم سے‬
‫بہتر جانتی ہوں ‪ ،‬بے فکر رہو یہ راز‬
‫میرے سینے میں دفن ہو گیا ہے ۔اسی‬
‫میں ہم سب کی بھالئی ہے ۔ ٹھیک‬
‫ہے اب آپ جائیں زارینہ آپ کا انتظار‬
‫کر رہی ہو گی ۔ اوکے پرنس میں‬
‫چلتی ہوں لیکن میں اس وقت کے‬
‫انتظار میں ہوں جب تم مجھے اس‬
‫فلیٹ میں بالؤ گے ۔ آپ اپنے ویٹ‬
‫کیلیے کچھ کریں ۔ جم جوائین کر‬
‫لیں ۔ میں نے اسے مشور ہ دیا ۔‬
‫تمھارا مشورہ میرے لیئے حکم ہے ۔‬
‫مسز ریحان میری بات سمجھ گئی۔‬
‫کار چل پڑی زارینہ مسلسل میری‬
‫طرف دیکتی رہی جب تک مجھے‬
‫دیکھ سکتی تھی ۔ دآلویز کو‬
‫سوچتے سوچتے اب درمیان میں‬
‫زارینہ آگئی ‪،‬جب میں زارینہ کی‬
‫طرف بڑھا تھا میں نے یہ سوچا بھی‬
‫نہیں تھا کہ یکدم میں اس کی چاہت‬
‫بن جاؤں گا ‪ ،‬اور صرف ایک اجازت‬
‫مانگنے سے اس کے جذبات میں‬
‫ایسی ہلچل آئی کے پھر سالوں کا‬
‫فاصلہ زارینہ نے لمحوں میں طے کر‬
‫لیا ۔ زارینہ ‪ ،‬دالویز ‪،‬زارینہ‪ ،‬دآلویز‬
‫‪،‬انہی خیالالت میں مجھے نیند‬
‫آگئی۔‬
‫اگلے دن ایک بجے تک اٹھا ۔ آنکھ‬
‫کھلی تو سب سے پہلے موبائل چیک‬
‫کیا ۔ کالز اور میسجز کا ڈھیر جمع ہو‬
‫گیا تھا ‪ ،‬میں تانیہ کا نمبر ڈھونڈتا‬
‫رہا ۔ اس کا میسج مل گیا ۔ کوشش‬
‫کے باوجود دآلویز کی تصویر یا‬
‫ویڈیو فی الحال نہیں مل سکی ۔ یہ‬
‫اس کی پیدائش کی تاریخ ہے ۔ میں‬
‫نے تاریخ دیکھی تو مجھے امید کی‬
‫کرن نظر آئی‪ ،‬بائیس جون سے‬
‫بائیس جوالئی ‪ ،‬دآلویز کا برج‬
‫سرطان بنتا تھا جو کہ انگلش میں‬
‫کینسر کہالتا ہے ‪،‬امید کی کرن اس‬
‫لیئے نظر آئی کے سرطان افراد کی‬
‫نمایاں بات یہ ہے کہ یہ بے حد‬
‫حساس اور جذباتی ہوتے ہیں محبت‬
‫میں ٹوٹ کر چاہتے ہیں ۔ ماضی کی‬
‫وابستگیوں اور اپنی خاموشی کے‬
‫ستائے ہوئے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ اپنے‬
‫جذبات کے سمندر میں تیرتے ہیں ۔آپ‬
‫کوئی بھی محبت بھرا گیت سنا کر‬
‫انہیں ُر ال سکتے ہیں ۔برج سرطان کا‬
‫حاکم سیارہ قمر ہےاور تمام قمری‬
‫حضرات کی مشترکہ خصوصیت بے‬
‫حد مضبوط اور جذباتی دماغ ہے ۔ ۔‬
‫اب مجھے محسوس ہونے لگا کہ میں‬
‫دآلویز کا جانتا ہوں اسے سمجھتا‬
‫ہوں ۔ دو پوائنٹ پہلے تھے کہ دآلویز‬
‫اپنی ماں کی پابندیوں سے بے زار‬
‫بلکہ مخالف ہو گی دوسرا اب نگینہ‬
‫پر بے خبری میں حملہ ہو گا اب ایک‬
‫پوائینٹ یہ تھا کہ یہ انتہائی جذباتی‬
‫اور حساس ہوتے ہیں خاص کر‬
‫محبت کے معاملے میں ان کی‬
‫جذباتیت کی کوئی حد نہیں ہوتی‬
‫آہستہ آہستہ میرے ذہن میں ایک‬
‫منصوبے کے خدوخال واضح ہونے‬
‫لگے ۔اب آج رات دآلویز سے رابطہ‬
‫کرنا تھا ۔ ۔۔ رات دو بجے تک رابطہ‬
‫کرنا چاہیئے دل ابھی سے انتظار کی‬
‫کیفیت میں مبتال ہونے لگا۔ یار ایسے‬
‫تو نہ کرو اس طرح تو رات تک برا‬
‫حال ہو جائے گا ‪،‬میں نے دل کو کہا‬
‫اور نہانے کیلیے باتھ روم میں چال‬
‫گیا ۔ نہا کے ناشتہ وغیرہ کرتے ہوئے‬
‫کچھ ضروری بیک کالز کیں ‪ ،‬دآلویز‬
‫دآلویز‪ ،‬دآلویز‪ ،‬دالویز‪ ،‬دل و دماغ‬
‫بس ایک ہی نام پکار رہے تھے یار‬
‫زارینہ نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں‬
‫کیا ۔ دل فورًا بہل گیا ‪،‬میں نے مسز‬
‫ریحان سے رابطہ کیا ‪،‬ہیلو پرنس‬
‫اچھا ہوا رات کو وقت پر پہنچ گئے ‪،‬‬
‫میں اس کی بات سمجھ گیا کہ‬
‫زارینہ کا شوہر آ گیا ہو گا ۔اچانک ان‬
‫کوواپس جاناپڑا۔ مسسز ریحان کی‬
‫آواز سنائی دی۔ مجھے جھٹکا سا لگا‬
‫ا بھی تو زارینہ سے مالقات شروع‬
‫ہوئی تھی ۔ مجھے یقین تھا زارینہ‬
‫ضرور رابطہ کرے گی ۔ دیکھو اب‬
‫کب ملناہوتا ہے آپ اپنا خیال رکھیئے‬
‫گا مسز ریحان ‪ ،‬میں کال بند کر دی‬
‫مسز ریحان کو اسمارٹ ہو نے کی‬
‫گولی دے دی تھی ۔امید تھی کچھ‬
‫مہینے تو اس سے نکل جائیں گے ‪،‬‬
‫کیوں کہ اب اس کا اسمارٹ ہونا تو‬
‫ناممکن تھا مسز ریحان اتنی محنت‬
‫نہیں کر سکتی تھی ۔ ویسے یہ بھی‬
‫تھا کہ اسنے میری بات کو اپنی ہتک‬
‫سمجھنے کی بجائے اس پر عمل کرنے‬
‫کی ٹھان لی تھی ۔ وقت بڑی ظالم‬
‫چیز ہے کبھی یہ رکنے کا نام نہیں‬
‫لیتا اور کبھی یہ گزرنے کا نام نہیں‬
‫لیتا آج بھی وقت گزرنے کا نام ہی‬
‫نہہیں لے رہا تھا ۔ دِل ناداں کو‬
‫سمجھانے کا وقت نہیں تھا ‪ ،‬اسے‬
‫بہالنے کا وقت تھا ۔ سو میں‬
‫دوستوں سے ملتا مالتا ‪،‬ہوٹل گیا‪،‬ایک‬
‫دو نئی فرینڈز سے مال ‪ ،‬بیوٹی پارلر‬
‫جا کے شبنم سے مال ۔ رات کا کھانا‬
‫بھی کھا لیا تھا مگر دو بجنےمیں تو‬
‫ابھی بھی کافی وقت پڑا تھا سوچ‬
‫سوچ کے میں تہمینہ کی طرف چال‬
‫گیا ۔ تہمینہ اپنی ایڈورٹائیزنگ کی‬
‫کمپنی چال تی ہے۔ مجھے امید تھی‬
‫اس وقت بھی وہ اپنے آفس میں ہو‬
‫گی ‪،‬اس کے سٹوڈیو میں کام چلتا‬
‫رہتا تھا ۔ تہمینہ اپنے اسٹوڈیو میں‬
‫ہی تھی اس نے مجھے دیکھ لیا تھا‬
‫‪،‬میں اس کے آفس میں جا کے بیٹھ‬
‫گیا ۔‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_5‬‬

‫کچھ لمحوں میں کام چھوڑ چھاڑ‬


‫کےتہمینہ آگئی ۔ جی فرمائیے ؟‬
‫تہمینہ نے سنجیدہ لہجے میں انجان‬
‫بن کے پوچھا ۔ میں مسکراتا رہا اور‬
‫میٹھی میٹھی نظروں سے تہمینہ کو‬
‫دیکھتا رہا ۔ مجھے پتہ تھا تہمینہ‬
‫مجھ سے ناراض ہے ۔ بتیس سالہ‬
‫تہمینہ میں وہ سب کچھ تھا‬
‫جوکسی بھی مرد کو پاگل کر سکتا‬
‫تھا ‪ ،‬کسی وقت میں بھی پاگل تھا‬
‫‪،‬اور پھر پاگل پن پانی کے ساتھ نکل‬
‫گیا‪،‬ہر بار یہی ہوتا تھا ۔پھر ملنا مالنا‬
‫کم ہو گیا ۔ آج کافی عرصے بعد‬
‫تہمینہ کی یاد آئی‪ ،‬میری مسکراہٹ‬
‫نے اسے پگھال دیا ۔ بہت ہی ظالم ہو‬
‫تم ‪ ،‬تہمینہ میرے گلے لگ چکی تھی‪،‬۔‬
‫ہر بار دل سے عہد لیتی ہوں کہ تم‬
‫جب ملو تو پتھر ہو جانا مگر پتہ‬
‫نہیں کیا بات ہے تم میں ‪ ،‬تمھیں‬
‫دیکھتے ہی دل تم سے لپٹنے کو‬
‫مچلنے لگتا ہے ۔ تہمینہ کچھ بیٹھی‬
‫کچھ میرے اوپر گری ہوئی تھی ۔‬
‫تہمینہ تمھارا حسن اور تمھاری‬
‫جسمانی کشش تمھاری ادائیں مجھے‬
‫اپنے پاس کھینچ کے لے آتی ہیں یقین‬
‫مانو میں تمھیں چاہتا ہوں تو‬
‫تمھارے پاس آتا ہوں جب بھی‬
‫مصروفیت سے فرصت ملتی ہے تو‬
‫تمھارے پاس آجاتا ہوں ۔۔میں جانتی‬
‫ہوں تمھاری مصروفیت‪ ،‬تہمینہ نے‬
‫ناراضگی سے کہا ۔ تو کیوں نہ اب‬
‫شکووں کی بجائے ہم بھی مصروف‬
‫ہوجائیں میں نےاسے پیار سے‬
‫سمجھایا ۔ تہمینہ اٹھی اور اس نے‬
‫انٹڑ کام سے کال کی‪ ،‬پیک کر دو‪،‬‬
‫باقی کل ۔ کوئی مجھے ڈسٹرب نہ‬
‫کرے اوکے۔ پھر میری گود میں گھس‬
‫آئی ۔ ہم کسنگ کرنے لگے ‪ ،‬تہمینہ‬
‫مجھ سے ایسے ترسی ہوئی تھی‬
‫جیسے پانی کے بناء مچھلی ترستی‬
‫ہو ۔ بےصبری سے تہمینہ نے میرے‬
‫کپڑے اتارے اور پھر خود بھی ننگی‬
‫ہوگئی ۔ اس کا چاندی کا جسم‬
‫چمکنے لگا ‪،‬اس جسم کی رعنائی نے‬
‫مجھے پاگل کر دیا تھا ‪ ،‬اب پھر اس‬
‫کے جسم کا جادو سر پر چڑھ گیا‬
‫مجھے بہکانے لگا ۔ تہمینہ کی طلب‬
‫اتنی زیادہ تھی کہ میں نے کچھ‬
‫کرنے کی بجائے خود کو اس کے‬
‫حولے کر دیا ۔ صوفہ تھوڑا چوڑا تھا‬
‫۔ میں کچھ بیٹھا کچھ لیٹا ہوا تھا۔‬
‫تہمینہ مجھے مجنونانہ انداز میں‬
‫چوم رہی تھی اس کے ہاتھ میں میرا‬
‫عضو تھا ۔ وہ مجھے چومتی ہوئی‬
‫چہرے سے سینے پر اور سینے سے‬
‫پیٹ پر اور پیٹ سے عضو تک کا‬
‫سفر بے تابی سے طے کرتی ہوئی‬
‫منزل پر پہنچی اور عضو منہ میں لے‬
‫کر چوسنے لگی ۔ پتہ نہیں تم اتنے بے‬
‫رحم کیوں ہو پرنس ‪،‬تہمینہ کو‬
‫سکون نہیں آرہا تھا وہ چوستی بھی‬
‫تھی اور شکوے بھی کر رہی تھی۔‬
‫اس کی بے چینی ایسے ہی ہوتی‬
‫تھی۔ تہمینہ بہت جوشیلی تھی ۔اس‬
‫کے ساتھ سیکس کرنے میں بہت مزہ‬
‫آتا تھا اب بھی وہی ہو رہا تھا تہمینہ‬
‫نے جوش میں مجھ پر چڑھائی کی‬
‫اپنی پوزیشن درست کی اور عضو‬
‫کو پکڑ کے چوت پر رکھا‪،‬چوت پر‬
‫اپنا وزن ڈال کہ عضو اند لینے لگی‬
‫پورا عضو اندر لے کے تہمینہ اپنے‬
‫جسم اور گھٹنوں کے بل اوپر نیچے‬
‫ہونے لگی۔ تہینہ کی رفتار سے اس‬
‫کے جوش کا پتا چل رہا تھا۔ اس کے‬
‫ممے ایک ردھم سے ہل رہے تھے بلکہ‬
‫مجھے ہال رہے تھے ۔اوہ تہمینہ تم‬
‫کمال ہو ‪،‬تم جیسی کوئی نہیں ‪،‬‬
‫تہمینہ پہلے ہی جوشیلی تھی میری‬
‫تعریف سے ہوائی گھوڑے پر بیٹھ‬
‫گئی ۔ جسم کے اندر طوفان تھا اور‬
‫طوفان میں میں لہریں اچھل اچھل‬
‫کے بندھے بند کو توڑنا چاہتی تھی ۔‬
‫جب تک جسم سے یہ طوفانی پانی‬
‫باہر نہیں نکلنا تھا لہریں اور سے اور‬
‫منہ زور ہوتی جانی تھیں ۔ تہمینہ‬
‫اس طوفان سے اکیلی ہی نبزد آزما‬
‫تھی مجھے اس پر ترس آیا اس کی‬
‫حالت بہت بری تھی مگر وہ جوشیلے‬
‫انداز میں چودائی کرتی جا رہی تھی‬
‫۔میں نے اسے روکا اور باہر نکالے بغیر‬
‫اسے صوفے پر لٹایا ‪،‬اس کی ایک‬
‫ٹانگ صوفےسے نیچے لٹکائی ‪،‬اور‬
‫میں نے وہیں سے طوفان اٹھا دیا‬
‫جہاں سے سلسہ ٹوٹا تھا ۔ تہمینہ کا‬
‫سرور سے برا حال تھا آہ پرنس یہی‬
‫تو میں چاہتی ہوں تم مجھے چودو ۔‬
‫میرے اوپر چڑھو ‪ ،‬میرے مالک بن‬
‫کے مجھے حاصل کرو ۔ تہمینہ کی‬
‫باتیں بتا رہی تھیں کہ وہ کب کی‬
‫ہوش کی دنیا سے آگے جا چکی تھی‬
‫۔ میں ایسی باتیں سننے کا عادی تھا‬
‫اب یہ باتیں مجھ پر کچھ بھی اثر‬
‫نہیں رکھتی تھیں ۔ آج مجھے اپنے‬
‫بچے کی ماں بنا ڈالو ۔ سیکس تہمینہ‬
‫کے دماغ کو چڑھ گیا تھا ۔ چودو‪،‬‬
‫چودو ‪،‬اور تیز کرو نہ ۔ تب میں نے‬
‫فورًا تہمینہ کو گھوڑی بنا کے عضو‬
‫چوت میں ڈاال ۔ اور اس کی گانڈ پر‬
‫تھپڑ مارنے لگا ۔تہمینہ کا یہی عالج‬
‫تھا ۔ کبھی کبھی اسے یہ دورہ پڑتا‬
‫تھا جب طوفانی چودائی سے اس کا‬
‫کچھ نہیں بنتا تھا تو تشدد کا سہارا‬
‫لینا پڑتا تھا ۔‬

‫ایک طرح سے یہ نفسیاتی مسلہ بھی‬


‫ہے گانڈ پر تھپڑ مار مار کے میں نے‬
‫الل کر دی ۔ ساتھ چودائی بھی‬
‫جاری رکھی ۔ تہمینہ کی کچھ تسلی‬
‫ہونے لگی ۔پانی کناروں پر آنے لگا ۔‬
‫تھوڑے کنٹرول کے ساتھ میں نے‬
‫بھی اپنا کام جاری رکھا ۔ پرنس رکنا‬
‫مت تہمینہ چالئی ۔۔میں کونسا رکنے‬
‫واال تھا ۔تہمینہ کی کشتی کو‬
‫طوفانوں سے نکال کر کنارے پر ہی‬
‫تو النا تھا ۔ اور تہمینہ کا جسم‬
‫جھٹکے کھانے لگا ۔ میں سمجھ گیا‬
‫پانی کی جگہ سیالب ہی آئے گا‪،‬میں‬
‫بھی اس کے ساتھ ہی کنٹڑول چھوڑ‬
‫دیا اور چند لمحوں میں تہمینہ کی‬
‫چوت اپنے پانی سے سیراب کرنے لگا‬
‫۔ پانی ہی اس کی آگ بجھا سکتا تھا‬
‫۔ ہم ایکدوسرے پر گرے پڑے تھے ۔‬
‫تہمینہ کو نارمل ہونے میں ‪ 10‬منٹ‬
‫تو لگ ہی گئے ۔ہوش میں آتے ہی‬
‫تہمینہ نے نیا مسلہ چھیڑ دیا۔پرنس‬
‫پچھلی بار مجھے حمل ہوگیا تھا ۔‬
‫ایک لیڈی ڈاکٹر کو اچھے خاصے‬
‫پیسے دے کے ابارشن کروانا پڑا‬
‫مجھے ۔ کیا میں مجھے تعجب کے‬
‫ساتھ تہمینہ پر غصہ بھی آنے لگا۔ تم‬
‫نے مجھے تو بتانا تھا ۔دو گولیاں ‪،‬‬
‫گائنی کوسڈ ‪ ،‬کھا لینی تھی چوبیس‬
‫گھنٹے میں مینسسز آجانے تھے ۔‬
‫جناب پرنس صاحب آپ ایک دفعہ‬
‫غائیب ہوجائیں تو پھر نہ پیچھے مڑ‬
‫کے دیکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی کال‬
‫ریسیو کرتے ہیں ۔ یار تم مجھے ایک‬
‫میسج ہی کردیتی ‪،‬مجھے خبر تو‬
‫ہوجاتی ‪،‬فلیٹ پر ہی آ جاتی ۔ کسی‬
‫طرح مجھ تک مسلہ پہنچا دیتی‬
‫باقی میں خود کرلیتا ۔ میں غصے‬
‫میں بوال تو تہمینہ کچھ ڈھیلی پڑ‬
‫گئی ‪،‬وہ مجھے بھی غصہ آگیا تھا ۔‬
‫میں نے تب ہی ارادہ کر لیا تھا کہ تم‬
‫سے اب بات بھی نہیں کرنی ‪،‬مگر‬
‫تمھیں دیکھتے ہی سب کچھ بھول‬
‫جاتی ہوں ۔اب کوئی مسلہ بنے تو‬
‫مجھے بس ایک میسج کر دینا ۔میرے‬
‫پاس اس کی بڑی میڈیسن پڑی ہیں ۔‬
‫ابارشن کرنا پڑا تو وہ بھی کر لوں گا‬
‫‪،‬ایک چھوٹے سے اوزار سے رحم کا‬
‫منہ کھولنے میں دیر ہی کتنی لگتی‬
‫ہے ۔ دوسرے مہنیے ابارشن کروایا‬
‫تھا تم نے ؟مجھے تسلی نہیں ہو رہی‬
‫تھی ‪،‬ہاں دوسرے مہنیے فورًا پتہ‬
‫چلتے ہی ابارشن کروا دیا تھا۔ چلو‬
‫پھر تو کوئی مسلہ نہیں بنا ہو گا ۔‬
‫زیادہ مسلہ تیسرے مہنیے کے بعد‬
‫بنتا ہے ۔ اچھا چھوڑو یہ بیکار کی‬
‫باتیں ‪،‬تہمینہ اب موضوع سے جان‬
‫چھڑانا چاہتی تھی میں سمجھ گیا‬
‫وہ ابھی اور کھیلنا چاہتی تھی ۔اس‬
‫بار میں دل سے جم کر اس کی‬
‫چودائی کی ‪،‬اور اس کی کسریں‬
‫نکال دی ۔ تہمینہ کو حمل کے دوران‬
‫ذہنی اذیت ہونے سے اب میں اس کا‬
‫ازالہ کر رہا تھا ۔ کیونکہ ایسے حاالت‬
‫میں کبھی بھی میں نے اپنی گرل‬
‫فرینڈ کو تنہا نہیں چھوڑتا تھا ۔ اسی‬
‫طرح دو بجنے والے ہو گئے ۔ ہم باہر‬
‫نکلے تو سارا اسٹوڈیو خالی تھا ۔‬
‫تہمینہ کی کاراسٹارٹ ہی نہیں ہو‬
‫رہی تھی سو اس کے گھر چھوڑتے‬
‫ہوئے میں فلیٹ پر آگیا‬

‫سوا دو ہونے والے تھے ۔ یہ وقت‬


‫پرفیکٹ (ہر لحاظ سے بہترین) تھا۔‬
‫امید تھی اس وقت نگینہ کی آنکھیں‬
‫دآلویز کی نگرانی نہیں کر رہی ہوں‬
‫گی‪ ،‬یہ بھی طے تھا نگینہ سرورے‬
‫کے ساتھ اپنے بیڈ روم میں ہو گی ۔‬
‫میں جانتا تھا نگینہ کوئی رات خالی‬
‫نہیں جانے دیتی ہوگی ۔اس وقت‬
‫دآلویز سے لمبی بات ہو سکتی تھی‬
‫اگر سب کچھ میرے طے شدہ‬
‫منصوبے کے مطابق ہوتا ‪ ،‬میں نے‬
‫دآلویز کا موبائل نمبر مالیا ‪ ،‬میرا دل‬
‫دھڑک رہا تھا ۔ بیل جانے لگی‬
‫‪،‬ساتویں بیل پر کال رسیو کر لی گئی‬
‫‪ ،‬ہیلو ایک نیند میں ڈوبی ہوئی آواز‬
‫آئی ‪،‬آواز سے لگتا تھا کسی نوجوان‬
‫لڑکی کی آواز ہے ۔ ہیلو کون ہے بھئ‬
‫کیا مسلہء ہے اس وقت ‪ ،‬غالبًا وقت‬
‫بھی دیکھا گیا ہو‪ ،‬ہیلو آپ نے مس‬
‫کال دی تھی تو میں نے آپ کو بیک‬
‫کال کی ہے ۔ آپ بتائیے ‪،‬کیا بات ہے ؟‬
‫کیوں کال کی آپ نے مجھے ؟ کیا‬
‫میں نے کال کی ہے ‪ ،‬میں ابھی‬
‫تمھاری کال سے سوتی ُا ٹھی ہوں اور‬
‫تم مجھے کہہ رہے ہو کہ میں نے کال‬
‫کی ہے ۔ کون ہو تم ؟ دآلویز غصے‬
‫میں آگئی ۔مجھے آپ کی مس کل‬
‫آئی تھی اس لیئے جواًبا کال کی ہے‬
‫‪،‬اور آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے کال‬
‫ہی نہیں کی ‪،‬عجیب بے ہودہ انسان‬
‫ہو تم بالوجہ ہی مان نہ مان میں‬
‫تمھارا مہمان ‪،‬دآلویز غصے میں‬
‫تھی‪،‬میں چاہتا تھا وہ اچھی طرح‬
‫جاگ جائے ‪،‬بات سنیئے اتنے غصے‬
‫میں نہ آئیے ‪،‬کال آپ نے نہیں کی‬
‫میں نے ہی کی ہے ۔میں بس آج کی‬
‫رات کا مہمان ہوں اور ادھر ادھر‬
‫بھٹک کے اپنی قسمت آزما رہا ہوں۔‬
‫اس وقت اپنی زندگی کی آخری کالز‬
‫کر رہا ہوں ‪ ،‬ابھی دس بارہ رانگ‬
‫کالیں کر چکا ہوں لیکن کسی کے‬
‫پاس میری زندگی کیلیے وقت نہیں‬
‫ہے ۔دوسروں کی طرح آپ بھی برا‬
‫مان گئی ہیں ۔ آپ کو سوتے میں‬
‫اٹھایا ۔ نہایت معذرت خواہ ہوں‬
‫‪،‬خدا حافظ ۔میں نے کال بند کر دی‬
‫اگر پانچ منٹ میں دالویز کی کال‬
‫آجاتی ہے تو اس کا مطلب تھا کہ‬
‫مچھلی نے چارہ نگل لیا‪ ،‬نہیں تو‬
‫کوئی اور حل سوچنا پڑے گا ۔ ایک‬
‫منٹ ‪،‬دو منٹ ‪،‬تین منٹ ‪،‬چار منٹ ۔‬
‫میں مایوس ہونے لگا ‪ ،‬موبائل پر ایک‬
‫بیپ ہوئی ‪ ،‬کال دآلویز کی تھی ۔‬
‫ہیلو جی فرمایئے میں نے کال رسیو‬
‫کی ‪ ،‬آپ زندگی کی آخری کالز کر رہے‬
‫ہیں کیا مطلب ہے اس بات کا ‪،‬دآلویز‬
‫کی آواز میں بے چینی تھی ۔ آخری‬
‫کالز کا مطلب ہے کہ میں نے پانچ‬
‫بجے خود کشی کر لینی ہے کل پانچ‬
‫بجے میری دوست مر گئی اور آج‬
‫میں اسی وقت اس کے پاس چال‬
‫جاؤں گا ۔ کیا آپ پاگل تو نہیں ہیں ‪،‬‬
‫میرا مطلب ہے کہ آپ کون ہیں ۔ ایسا‬
‫کیوں کر رہے ہیں ‪،‬میرا مطلب ہے کہ‬
‫آپ ایسا نہ کریں پلیز دآلویز کو‬
‫سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا‬
‫کہے ‪،‬آپ ایسا مت کریں ‪،‬زندگی‬
‫انمول ہے ۔یہ بار بار نہیں ملتی ‪،‬خود‬
‫کشی حرام ہے ۔ کسی کے ساتھ مرا‬
‫نہیں جاتا نہیں تو اس کی روح بے‬
‫چین ہوگی‪،‬دآلویز مجھے طرح طرح‬
‫سے سمجھا رہی تھی ۔ لیکن میں نے‬
‫کال بند کر دی ‪ ،‬پھر اس کی کال‬
‫آگئی ‪،‬پلیز میری بات سنیئے‪ ،‬کال بند‬
‫نہ کیجیئے گا ۔ کیا وہ آپ کی محبت‬
‫تھی ۔ کیا آپ اس لیئے مرنا چاہتے‬
‫ہیں کہ آپ کو کوئی چاہنے واال نہیں‬
‫ہے ۔پلیز آپ کچھ تو بولیں ‪ ،‬مجھے‬
‫صرف اتنا پتہ ہے کہ اب مجھ سے‬
‫جیا نہیں جاتا اتنا کہہ کر میں نے‬
‫کال پھر بند کر دی ۔پھر اس کی کال‬
‫آگئی۔ جونہی میں نے کال ریسیو کی‬
‫اس کے بے چین آواز آئی ۔ پلیز میں‬
‫آپ کو روکوں گی نہیں ایک بار میری‬
‫پوری بات ُس ن لیں ‪،‬ابھی تو آپ کہہ‬
‫رہے تھے کسی کے پاس آپ کی‬
‫زندگی کیلیے وقت نہیں ہے اور جب‬
‫میں آپ کی زندگی میں دلچسپی لے‬
‫رہی ہوں آپ بات ہی نہیں ُس ن رہے‬
‫دآلویزکی دلیل نے مجھے اس کا فون‬
‫سننے پر مجبور کر دیا ۔ ٹھیک ہے‬
‫میں آپ کی بات ُس ن رہا ہوں ۔لیکن‬
‫مجھے اب افسوس ہے کہ میں نے آپ‬
‫کو ڈسٹرب کر دیا ۔ اب میں سوچ رہا‬
‫ہوں مجھے کسی کو کال نہیں کرنی‬
‫چاہیے تھی ‪ ،‬میرا نام دآلویز ہے آپ‬
‫کا کیا نام ہے ‪،‬دالویز نےمیری بات ان‬
‫سنی کرتے ہوئے اپنی بات شروع کر‬
‫دی ۔ میرا نام ‪ ،‬جو مرضی کہہ لیں‬
‫مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اچھا‬
‫چلیں میں آپ کو ‪ ،،،،،،،،،‬ساحل کہہ‬
‫لیتی ہوں ‪،‬ٹھیک ہے ‪ ،‬دالویز نے‬
‫پوچھا ‪،‬ٹھیک ہے پر یہ ساحل ڈوبنے‬
‫واال ہے ۔ اس نے نام رکھ کے مجھے‬
‫امید دی اور میں نے وہ امید ڈبو دی‬
‫‪ ،‬دآلویز نے میری بات سنی ان سنی‬
‫کر دی اور اپنا سوال دہرایا ۔ اچھا آپ‬
‫یہ بتائیں آپ جس کیلیے حرام موت‬
‫مرنا چاہتے ہیں ‪،‬کیا وہ آپ کی‬
‫محبت تھی ؟ نہیں وہ میری دوست‬
‫تھی بس ‪،‬شوکت میموریل ہسپتال‬
‫میں کل وہ میرے سامنے مر گئی ۔‬
‫کینسر کی آخری اسٹیج پر تھی ۔‬
‫مجھ سے اس کی موت کا منظر‬
‫بھالیا نہیں جا رہا ‪،‬اس کا دکھ‬
‫مجھے تڑپا رہا ہےمیں کیا کروں میں‬
‫مرنا چاہتا ہوں ‪ ،‬آپ میری ایک بات‬
‫سنیں گے‪،‬دآلویز رندھی ہوئی آواز‬
‫میں بولی ‪ ،‬آپ رو رہی ہیں‪،‬آپ میرے‬
‫لیے رو رہی ہیں ‪،‬میں بے چین ہو گیا‬
‫‪،‬ہاں میں ایسی ہی ہوں مجھ سے‬
‫کسی کا دکھ دیکھا نہیں جاتا ۔ اوہ‬
‫میں بہت برا ہوں میں نے آپ کو دکھ‬
‫دیا ‪،‬میں ایسا نہیں چاہتا تھا بس‬
‫میں رانگ کالز کر رہا تھا کہ دل بہل‬
‫جائے اصل میں آج پانچ نہیں بج رہے‬
‫تھے ‪،‬اور اب میں نے آپ کو دکھی کر‬
‫دیا ۔ ویری سوری ۔ آپ مجھے بھول‬
‫جائیں ‪،‬خدا حافظ ۔ نہ نہ نہ آپ کال‬
‫بند نہ کریں ‪،‬آپ کو آپ کی دوست‬
‫کی قسم آپ مجھ سے پانچ بجے تک‬
‫بات کریں ۔ دآلویز نے روتے ہوئے‬
‫مجھے مجبور کیا ۔اور میں مجبور‬
‫ہوگیا ‪ ،‬آپ نے مجھے قسم ہی ایسی‬
‫دی ہے کہ اب آپ کی بات سننی پڑے‬
‫گی لیکن میرے ہاتھ میں پسٹل ہے‬
‫اور یہ آج پانچ بجے چل پڑے گا۔ میں‬
‫نے اسے تنبیہ کی۔ ٹھیک ہے آب ہم‬
‫پانج بجے تک بات کریں گے ۔اچھا‬
‫ساحل آپ ایک بات کا جوا ب دیں‬
‫گے ۔ ضرور پوچھیئے ‪،‬اگر آپ کا‬
‫کوئی بھی دوست آپ کی وجہ سے‬
‫مرنا چاہے تو آپ اسے روکیں گے یا‬
‫مرنے دیں گے ؟ دآلویز کے سوال نے‬
‫مجھے خاموش کر دیا ۔ بتائیں نہ آپ‬
‫مرنے دیں گے یا نہیں ۔ دآلویز نے اپنا‬
‫سوال دہرایا ۔ایک دوست اپنے‬
‫دوست کو کیسے مرنے دے سکتا ہے‬
‫‪،‬اس کی جگہ میں خود مر جاؤں گا‪،‬‬
‫میں نے صحیح جواب دیا ۔ اچھا تو‬
‫اگر آپ کی دوست زندہ ہوتی تو کیا‬
‫وہ آپ کو حرام موت مرنے دیتی ۔‬
‫نہیں وہ مجھے نہیں مرنے دیتی ۔‬
‫مجھے پھر صحیح جواب دینا پڑا ۔‬
‫آپ کو پتہ ہے آپ کی دوست مری‬
‫نہیں ہے وہ زندہ ہے بس ایک جگہ‬
‫سے دوسری جگہ منتقل ہوئی ہے اور‬
‫وہ نہیں چاہتی کہ آپ خود کشی‬
‫کریں ‪،‬وہ آپ کیلیے بے چین ہے ۔اگر‬
‫آپ نے خود کشی کی تواس کی روح‬
‫تڑپتی رہے گی ‪،‬اگر آپ حرام موت مر‬
‫گئے تو آپ کی دوست کو کبھی چین‬
‫نہیں آئے گا ۔ تو اب آپ سوچ کر‬
‫بتائیں ‪،‬کیا آپ اپنی دوست کو دکھی‬
‫کرنا چاہتے ہیں یا اس کی روح کو‬
‫سکون دینے کیلیے دعا کرنا چاہتے‬
‫ہیں ۔ مجھے جیسے خاموشی لگ‬
‫گئی ۔ مجھے کوئی جواب نہیں آیا ‪،‬‬
‫آپ کی خاموشی بتا رہی ہے کہ آپ‬
‫میری بات سمجھ گئے ہیں لیکن اقرار‬
‫نہیں کرنا چاہتے دآلویز نے درست‬
‫تجزیہ کیا ۔ لیکن مجھ سے اپنی‬
‫دوست کا دکھ برداشت نہیں ہوتا ‪،‬‬
‫میں پہلے ہی بہت تنہا ہوں ۔ کوئی‬
‫بھی تنہا نہیں ہوتا ‪،‬ہر کسی کے ماں‬
‫باپ ‪،‬بھائی بہن ‪،‬دوست احباب‬
‫‪،‬رشتے دار ہوتے ہیں ‪،‬آپ کمرے سے‬
‫نکلیں اور ان کے ساتھ اپنا دکھ‬
‫بانٹیں ۔ دآلویز نے مجھے سمجھایا ‪،‬‬
‫میرے پاس ایسا کوئی رشتہ نہیں ہے‬
‫‪ ،‬میرے ماں باپ پچھلے سال اتنقال‬
‫کر گئے تھے ‪،‬مطلب پرست رشتہ دار‬
‫وں سے میں دور رہتا ہوں ۔اور ایک‬
‫یہی دوست تھی ا سی نے مجھے اس‬
‫وقت بھی سنبھاال جب میرے والدین‬
‫کی وفات ہوئی تھی ۔ میں نے سچ‬
‫کو جھوٹ میں مال کر بتایا ۔ اوہ تو‬
‫اب میں آپ کا اصل مسلہ سمجھی‬
‫ہوں ‪،‬آپ تنہا ہیں اور آپ کا کوئی‬
‫دکھ بانٹنے واال نہیں ہے ۔ ویری سیڈ‬
‫۔ دالویز کی حساسیت عروج پو تھی‬
‫۔ اچھا تو ایسا کرتے ہیں آج سے میں‬
‫آپ کی دوست بن جاتی ہوں ۔اگر آپ‬
‫خود کشی کا خیال دل سے نکال دیں‬
‫‪،‬ہا ہا اہا ہاہا ۔ میں کرب سے ہنسنے لگا‬
‫‪ ،‬کیا ہوا آپ ہنس کیوں رہے ہیں؟‬
‫دآلویز نے حیرانی سے پوچھا ۔ آپ‬
‫صرف ترس کھا میری دوست بن رہی‬
‫ہیں ‪ ،‬اور کل کوہو سکتا ہے آپ مجھ‬
‫سے بات بھی نہ کریں ‪،‬نہیں نہیں‬
‫میں اپنے والدین کی قسم کھاتی ہوں‬
‫‪ ،‬میں آپ کی پکی اور سچی دوست‬
‫بنوں گی ہمیشہ کیلیے ۔۔ آپ نے‬
‫والدین کی قسم کھائی ہے میں آپ کا‬
‫اعتبار کر لیتا ہوں اگر آپ نے دوستی‬
‫سے منہ موڑا تو میں اسی دن تنہائی‬
‫کے ڈنگ سے مر جاؤں گا ‪ ،‬میں نے آج‬
‫تک کسی لڑکے سے دوستی نہیں کی‬
‫اب کر لی ہے تو کبھی پیچھے نہیں‬
‫ہٹوں گی ‪ ،‬دآلویز کی آواز اس کے دل‬
‫سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی ۔‬
‫ٹھیک ہے تو آج سے ہم دوست ہیں‬
‫مجھے اب اقرار کرنا پڑا۔اب آپ وعدہ‬
‫کریں آپ خود کشی نہیں کریں‬
‫گے‪،‬دآلویز آب بھی محتاط تھی ‪،‬میں‬
‫خود کشی نہیں کروں گا اگر آپ ہر‬
‫رات مجھ سے بات کیا کریں ‪،‬بس اور‬
‫میں اپنی دوست سے کچھ نہیں‬
‫چاہتا ۔ ہم ہر رات بات کیا کریں گے‬
‫ساحل ۔ اب آپ ساحل پر آ گئے ہیں‬
‫اب تو اپنا نام بتا دیں دالویز مجھے‬
‫جاننا اور سمجھنا چاہتی تھی ۔میں‬
‫نے اسے بتایا کہ ۔ آج سے میرا نام‬
‫ساحل ہی ہے‬

‫۔۔ اور دآلویز مجھے جانتی اور‬


‫سمجھتی رہی ۔اور اپنی ہر بات‬
‫مجھے بتاتی اور سمجھاتی رہی ۔‬
‫دنیا جہاں کی باتیں ہوئیں ۔دو ہفتے‬
‫میں ہم گہرے دوست بن گئے ۔اب‬
‫میں نے اس سے خاص باتیں شروع‬
‫کر دی۔ اس کی زندگی اس کے گھر‬
‫بار کی باتیں ۔ میں جان بوجھ کے‬
‫ایسی باتیں کر دیتا جو اکسانے والی‬
‫ہوتی تھیں اور دآلویز شروع ہو‬
‫جاتی ۔جیسے میں نے اس سے کہا کہ‬
‫تمھاری مّم ا تو بہت خیال رکھتی ہیں‬
‫تمھارا ۔ ہاں کچھ زیادہ ہی خیال‬
‫رکھتی ہیں دآلویز نے اکتائے ہوئے‬
‫لہجے میں کہا ۔کیا مطلب ُکھل کے‬
‫بات کرو نہ اب دوستوں سے بھی دل‬
‫کی بات نہ کرو گی تو کس سے کرو‬
‫گی۔ یار مّم ا نہ ‪ ،‬بہت ہی تنگ کرتی‬
‫ہیں پابندیاں ہی پابندیاں میں ان سے‬
‫تنگ آ چکی ہوں ۔میری دوستوں تک‬
‫کو نہیں چھوڑتی۔ہر وقت میرے آنے‬
‫جانے پر نگرانی‪،‬میرے موبائل کو‬
‫بھی چیک کرتی ہیں مجھے باہر تو‬
‫نکلنے ہی نہیں دیتی۔ میں نے بھی‬
‫اب بغاوت کر دی ہے۔اور پچھلےسال‬
‫یونیورسٹی میں داخلہ لے لیاتھا۔مّم ا‬
‫نے بہت شور کیا مگر ابا نے ُا ن کی‬
‫ایک بھی نہ چلنے دی۔ مّم ا کی اس‬
‫عادت سے اّبا بہت تنگ ہیں مگر مّم ا‬
‫کے سامنے بولتے نہیں ۔ اگر تمھارے‬
‫ابا ّم ما کے سامنے بولتے نہیں تو تم‬
‫یونیورسٹی کیسے چلی گئی میں نے‬
‫اس کی گفتگو میں لقمہ دیا ۔ میرے‬
‫لیئے ابا مّم ا سے ضرور بولتے ہیں۔‬
‫دآلویز فخریہ لہجے میں بولی ۔‬
‫ہماری باتیں چلتی رہی ۔ایک دن میں‬
‫نے دوستی اور پیار کی بات چھیڑ‬
‫دی ۔ ساحل میں یہ بات پسند نہیں‬
‫کرتی تھی لیکن اب تم میرے دوست‬
‫ہو ۔مما نے بچپن سے میرے ذہن میں‬
‫پتہ نہیں کیا کیا ٹھونسا ہوا تھا کہ‬
‫میں نے زندگی کی ہر خواہش سے‬
‫خود کو دور کر لیا تھا ۔ تمھاری باتیں‬
‫مجھے نئی دنیا سے آگاہ کر رہی ہیں‬
‫‪،‬مجھے مھسوس ہو رہا ہے کہ میں‬
‫زندگی سے بہت دور تھی ‪،‬اب میں‬
‫زندگی کا مزہ لے رہی ہوں ۔ ساحل تم‬
‫میری زندگی میں ٹھنڈی ہوا کا‬
‫جھونکا ہو ‪ ،‬دآلویز اپنے جذبات‬
‫مجھے بتاتی رہی ‪،‬جب تم سے‬
‫دوستی ہوئی تو میں صرف فون پر‬
‫رابظہ رکھنا چاہتی تھی‪ ،‬اور تم نے‬
‫بھیمجھ سے ملنے کی کبھی خواہش‬
‫نہیں کی ‪ ،‬تم بہت اچھے اور سچے‬
‫دوست ثابت ہوئے ہو ساحل ۔ میرے‬
‫دل میں بہت قدر ہے تمھاری ۔دآلویز‬
‫جذبات کا اظہار کرتی رہی ۔ نگینہ نے‬
‫بڑے پہرے بٹھا ئے تھے اپنی بیٹی پر‬
‫لیکن میں نہ صرف دآلویز تک پہنچ‬
‫چکا تھا بلکہ دآلویز پر نگینہ کی‬
‫گرفت کمزور کررہا تھا ۔جس‬
‫دآلویزکے ذہن میں نگینہ نے پتہ نہیں‬
‫کیاکیا بچپن سےگاڑا ہوا تھا نا معلوم‬
‫طریقے سے میں وہ ختم کر رہا تھا‬
‫لڑکوں سے بے رحم رویہ رکھنے والی‬
‫دآلویز اب میری دوست تھی ۔نہ‬
‫صرف دوست تھی بلکہ مجھ سے ہر‬
‫بات کا تبادلہ خیال کر لیتی تھی اور‬
‫اپنے راز مجھے دے رہی تھی ۔ نگینہ‬
‫کے ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے میں‬
‫دآلویز سے نائیٹ کالز کرتا رہا ‪،‬جب‬
‫میں نے دیکھا کہ دآلویز مجھ پر‬
‫مکمل اعتماد کرنے لگی ہے ۔ اور‬
‫ہماری دوستی بے تکلفی میں بے‬
‫تکلفی آگئی ہے تب میں نے اس سے‬
‫کھلی ڈھلی باتیں شروع کر دی ۔ اس‬
‫کے لیئے لطیفوں کا سہارا بھی لینے‬
‫لگا۔میں اسے سیکس کی طرف النے‬
‫لگا ۔پھر ایک دن میں نے یتیم بچوں‬
‫کا زکر چھیڑ دیا ۔کہ ہمارے ایک‬
‫جاننے والے تھے انہوں نے ایک یتیم‬
‫بچے کو سہارا دیا اس پر سب اعتماد‬
‫کرتے رہے ‪ ،‬لیکن وہ گھر کی جمع‬
‫پونجی لے کہ بھاگ گیا ۔اور بھی‬
‫ایسے دو چار باتیں کیں جن میں سے‬
‫ایک بچے نے گھر والوں کو قتل کر‬
‫کے زیور اور پیسہ لے کر بھاگ گیا۔‬
‫ایک اور بچے نے گھر والوں کی بڑی‬
‫بیٹی کی عزت لوٹی اور فرار ہو گیا ۔‬
‫ہمارے ساتھ بھی ایسا واقعہ ہو چکا‬
‫ہے دآلویز نےساختہ کہہ بیٹھی ۔اچھا‬
‫کیا واقعہ ہوا ہے میں نے تجسس‬
‫ظاہر کیا ۔چھوڑو دفعہ کرو ‪ ،‬دآلویز‬
‫نے بے زاری سے کہا ۔یار اب مجھ سے‬
‫بھی باتیں چھپاؤ گی ۔میں نے‬
‫ناراضگی کا اظہار کیا۔ نہیں یا رمیں‬
‫اسے یاد نہیں کرنا چاہتی اس واقع‬
‫نے تو ہمارے گھر کا سکون برباد کر‬
‫دیا ۔پھر تو میں ضرور سنوں گا‬
‫تمھاری زندگی کے اہم ترین واقعہ کا‬
‫مجھے پتہ ہی نہیں ۔یہ کیسی‬
‫دوستی ہے دآلویز ۔اچھا سنو دآلویز‬
‫نے میری ضد کے آگے ہتھیار ڈال دیئے‬
‫۔میرے ابا نے بھی ایک یتیم کو سہارا‬
‫دیا تھا وہ ابا کے دوست کا بیٹا تھا ۔‬
‫جب ابا کے دوست کا انتقال ہوگیا‬
‫اور ان کا کوئی قریبی رشتہ دار تو‬
‫تھا نہیں اور دور والے قل خوانی‬
‫کروا کے بھاگ گئے۔ ۔ تو ابا اسے گھر‬
‫لے آئے میں اس وقت نو سال کی‬
‫تھی ۔بڑا معصوم تھا میری داد ی کو‬
‫تو جیسے کھلونا مل گیا ‪،‬اس نے‬
‫مجھ سے میری دادی چھین لی۔‬
‫مجھے اس پہ بڑا غصہ آتا تھا اور پتہ‬
‫نہیں کیوں اس کے ساتھ کھیل بھی‬
‫لیتی تھی پھر دادی وفات پاگئی تو‬
‫مما نے اسے وہی توجہ دینی شروع‬
‫کر دی جو اسے دادی دیتی تھی بلکہ‬
‫دادی سے بھی بڑھ کے پیار دیا مما‬
‫نے اسے ۔ اس وقت میں تیرہ سال‬
‫کی تو ہوں گی‪،‬مجھے اس سے بڑی‬
‫جلن ہوتی تھی ۔پر اس کے ساتھ‬
‫کھیلتی بھی تھی۔اس بےغیرت نے‬
‫مما کے پیار کا غلط مطلب لیا جس‬
‫نے اسے بیٹا بنایا ‪ ،‬اسی ماں پر بری‬
‫نظر رکھنے لگا تھا اور ایک دن مما‬
‫کی عزت لوٹنے کی کوشش کی ۔ وہ‬
‫تو شکر ہے ابا اس وقت گھر تھے اور‬
‫وہ کچھ نہ کر سکا بلکہ اسے منہ‬
‫چھپا کے بھاگنا پڑا ۔ بس اس واقعہ‬
‫کے بعد ہماری زندگی بدل گئی ۔مما‬
‫نے مجھ پر بے جا پابندیاں لگانی‬
‫شروع کر دی ۔ ہر روز مما‬
‫مجھےبتاتی کہ شہزادے نے اس کی‬
‫عزت لوٹنے کی کوشش کی تھی ۔‬
‫میرے حساس دل کے لیئے وہ باتیں‬
‫بڑی تکلیف دہ تھیں مجھے مرد ذات‬
‫سے نفرت ہوتی گئی اور اپنی عزت‬
‫کا احساس بڑھتا گیا میرے ذہن میں‬
‫ساری باتیں بیٹھنے لگی اور میں‬
‫زندگی سے دور ہوتی گئی ‪،‬مجھ پر‬
‫پابندیوں سے ابا اور مما کی پر روز‬
‫لڑائی ہوتی تھی ۔ مما اس واقع سے‬
‫اتنی ڈر گئی تھی کہ انہوں نے ابا‬
‫سےمکان بدلنے کو کہا ۔انہیں نوکری‬
‫چھوڑنے کو کہا ۔ ہمارے گھر دن رات‬
‫لڑائیاں شروع ہوگئی مجبورًا ابا کو‬
‫مما کی بات ماننی پڑی ۔ تین چار‬
‫سال میں میری زندگی جہنم بن گئی‬
‫۔مما نے چار دفعہ مکان بدلے۔ابا کی‬
‫نوکریاں چھڑوائی ۔ ہمارے گھر کا‬
‫سکون برباد ہوگیا ۔کبھی کبھی‬
‫مجھے مما پر ترس بھی آتا ایک‬
‫واقعے نے ان کی زندگی تباہ کر دی‬
‫اور انجانا ڈر ان کے دل میں بیٹھ گیا‬
‫اور وہ کبھی نہ سنبھل سکیں ۔۔ کیا‬
‫اس شہزادے نے تھا اور بھگتنا ہمیں‬
‫پڑا ‪ ،‬خاص کر مجھے تو بہت عذاب‬
‫بھگتنا پڑا ۔ مما نے شہزادے کا ذکر نہ‬
‫چھوڑا مجھے اس سے نفرت ہوتی‬
‫گئی ‪،‬مجھے نہیں پتہ میں شہزادے‬
‫سے کتنی نفرت کرتی ہوں ۔ کبھی‬
‫کبھی دل کرنے لگتا ہے کہ شہزادہ‬
‫مجھے ملے تو میں اسے چیڑ پھاڑ‬
‫دوں دآلویز رونے لگی ۔۔ میں نے‬
‫خالف توقع اسے رونے دیا ۔ دل کا‬
‫غبار نکلنے دیا ۔ پھر اس سے پوچھا‬
‫اب بھی تمھارے گھر کے حاالت ایسے‬
‫ہی ہیں ؟ نہیں اس واقعہ کو چھ‬
‫سات سال گزر گئے تو کچھ سکون‬
‫ہوا ۔ ہم اس مکان میں آگئے ابا نے‬
‫کافی پیسے جوڑے ہوئے تھے انہوں‬
‫نے جنرل سٹور کھول لیا ۔لیکن مما‬
‫کی پابندیوں نے میری جان نہ‬
‫چھوڑی ان کاڈر میرے دل میں بیٹھ‬
‫گیا ‪ ،‬میں ضد کر کے یونیورسٹی‬
‫توچلی گئی لیکن مما نے میری جو‬
‫شخصیت بنا دی تھی اس سے مجھے‬
‫زندگی کی کوئی خوشی نہ ملی ۔‬
‫ساحل اگر تم نہ ملتے تو میں زندگی‬
‫کے احساس کو کبھی بھی نہیں پا‬
‫سکتی تھی ۔تم بہت اچھے دوست ہو‬
‫۔اب تم سے ملنے کو دل کرنے لگا ہے‬
‫اب تو اپنا نام بتا دو مجھے۔ دآلویز‬
‫اس رات میں نے اپنی زندگی کرختم‬
‫کر لینی تھی اب یہ تمھاری دی ہوئی‬
‫زندگی ہے اور نام بھی اب ساحل ہی‬
‫چلے گا ۔ وہ شہزادہ تو کافی عمر کا‬
‫ہو گا ۔میں نے نئی بات چھیڑ دی ۔‬
‫نہیں اس وقت صرف پندرہ سال کا‬
‫تھا وہ بےغیرت ۔ یار ایک پندرہ سال‬
‫کا لڑکا ایک بڑی عمر کی عورت پر‬
‫حملہ کیسے کر سکتا ہے ؟ پھر تم نے‬
‫بتایا کہ تمھار ا باپ بھی اس وقت‬
‫گھر تھا جس کا اس شہزادے کو‬
‫یقیًنا پتہ ہو گا‪ ،‬میں نے دآلویز کو‬
‫جھنجھوڑا‪،‬تم اسے نہیں جانتے‬
‫ساحل ‪،‬اس کی عمر دیکھو اس کی‬
‫معصومیت دیکھے تو کوئی یقین نہ‬
‫کرے ۔ دآلویز کے دل میں مجھ سے‬
‫نفرت کی جڑیں بڑی گہری تھی ۔‬
‫نگینہ نے پکا کام کیا تھا ۔دآلویز تو‬
‫سو گئی ہو گی کیونکہ اسے صبح‬
‫یونیورسٹی بھی جانا ہوتا ہے۔لیکن‬
‫مجھے یادوں اور خیالوں کے ہجوم‬
‫میں چھوڑ گئی تھی‪،‬ایسا پہلی بار‬
‫نہیں ہوا کئی بار ہو چکا تھا‪،‬اور اب‬
‫پھر وہ واقعات آنکھوں کے سامنے‬
‫آنے لگے‪،‬اور میں ان خیالوں میں کھو‬
‫گیا‪،‬مجھے وہ وقت یاد آیا جب نگینہ‬
‫نے مجھے زبردستی سیکس پر‬
‫مجبور کیا تھا پھر وہ مجھ پر‬
‫نچھاور ہوتی گئی‪،‬پھر اس کی میری‬
‫ٹھن گئی اور اس نے مجھ عزت‬
‫لوٹنے کا الزام لگا کر سرورے کو‬
‫میرے قتل پر مجبور کردیا ‪،‬اور میں‬
‫وہاں سے نکل بھاگا ۔نگینہ کہ چنگل‬
‫سے نکلنے کے بعد میں سحرش کے‬
‫پاس عارضی طور پر پناہ گزیں ہوا‬
‫تھا‪،‬حاالت نے کروٹ لی اور کچھ ہی‬
‫دنوں میں مجھے وہاں سے بھی نکلنا‬
‫پڑا ‪،‬مجھے آج بھی سحرش سے وہ‬
‫آخری مالقات یاد ہے ‪،‬جب اس‬
‫نےاپنے گھر سے باہر گلی میں جھانک‬
‫کرسسکتے ہوئے بتایا تھا کہ باہر‬
‫کوئی نہیں ہے ‪،‬اور میں اسے چوم کے‬
‫باہر نکل گیا تھا‪،‬گلی میں اندھیرا‬
‫تھا‪،‬بلکہ اس دنیا میں ہی اندھیرا تھا‬
‫اور میں نے ان اندھیروں میں خود‬
‫کو گم کر لیا تھا‪،‬سحرش کے گھر سے‬
‫نکل کر میں چھپتا چھپاتا پھرتا‬
‫تھا‪،‬پھر سحرش کے دئے پیسے ختم‬
‫ہونے لگے تو میں کوڑے کے ڈرموں‬
‫سے پالسٹک کی بوتلیں وغیرہ‬
‫‪،‬گتا‪،‬اور کانچ اکٹھا کر کے کباڑئے کو‬
‫بیچنے لگا‪،‬کچھ دنوں کی آوارہ گردی‬
‫میں یہ کام کئی لڑکوں کو کرتے‬
‫دیکھا تھا جو بھی لڑکے یہ کام کرتے‬
‫تھے‪،‬ان میں سے کچھ میرے دوست‬
‫بن گئے‪،‬ان کیساتھ میں ان کی‬
‫جھونپڑیوں میں بھی گیا‪،‬وہاں مرد‬
‫چرس پیتے تھے اور سارا دن تاش‬
‫کھلتے تھے‪ ،‬ان میں سے اکثریت کا‬
‫پیشہ بھیک مانگنا تھا ‪،‬عورتیں سارا‬
‫دن مانگ کر التی تھیں اور مرد وہ‬
‫کمائی جوئے اور نشے میں اڑا دیتے‬
‫تھےیا کچھ عورتیں کوڑا چنتی تھیں‬
‫‪،‬اور کچھ مردوں کی چھیڑ چھاڑ سے‬
‫جسم بیچنے کے شعبے میں چلی‬
‫جاتی تھیں ‪،‬ایک بار کی چدائی ‪100‬‬
‫روپے اور بعض اوقات ‪ 50‬میں بھی‬
‫کروا لیتی ےتھیں ان کے مردوں کو‬
‫بس پیسہ چاہیے جیسے مرضی‬
‫الئیں‪،‬کچھ دن ان کے ساتھ میں‬
‫رہالیکن ان کے ماحول کو دل سے‬
‫قبول نہ کرسکا اور وہاں سے واپس‬
‫ہو لیا‪،‬میں شہر بھر میں آوارہ گردی‬
‫کرنے لگا‪،‬اس آوارہ گردی میں میرے‬
‫دل سے سرور خان کا ڈر اترنے لگا‬
‫‪،‬رات کہیں بھی سو جاتا‪،‬میں اس‬
‫زندگی سے نکلنا چاہتا تھا سو میں‬
‫چوبرجی چال جاتا ‪،‬وہاں مزدوروں‬
‫کی لمبی الئنیں لگی ہوتی‪،‬ان میں‬
‫رنگساز بھی تھے‪،‬جو اپنے ڈبوں پر‬
‫برشوں کا ڈھیر لگائے کام کے منتظر‬
‫رہتے تھے‪،‬ان میں سے ایک بھال مانس‬
‫آدمی دیکھ کر میں اس کے پاس‬
‫بیٹھ جاتا ‪،‬اس سے باتیں کرتا‪،‬اسے‬
‫استاد کہتا‪،‬مسلسل اس سے کہتا رہا‬
‫کہ مجھے اپنا شاگرد کر لو مجھے‬
‫اپنے ساتھ کام پر لے جاؤ‪،‬آخر کار وہ‬
‫مان گیا مجھے اپنے ساتھ کام پر لے‬
‫جانے لگا‪،‬جلد ہی میں کام سمجھ‬
‫گیا‪،‬استاد کو اتنا فائدہ ہوا کہ اسے دو‬
‫آدمیوں کی مزدوری ملنے لگی‪،‬مجھے‬
‫بس وہ جیب خرچ دیتا تھا لیکن‬
‫میں اتنے سے ہی خوش تھا‪،‬استاد کو‬
‫میں نے اپنی باتوں سے پٹا لیا‪ ،‬اپنی‬
‫داستان میں مرچ مصالحے لگا کر‬
‫میں اپنے لیئے اس کے دل میں اپنے‬
‫لیئے ترس پیدا کیا تھاتو وہ مجھے‬
‫اپنے گھر لے گیا‪،‬میرا تو کوئی تھا‬
‫نہیں ‪ ،‬اسے مجھ پر ترس آگیا‪،‬بلکہ‬
‫اس کی بیوی بھی اس کی طرح‬
‫بھلی مانس تھی‪،‬مجھے اس نے بیٹا‬
‫بنا لیا‪،‬پہلے ہی اس کے دو بیٹے اور‬
‫ایک بیٹی تھی‪،‬ہماری عمروں میں‬
‫زیادہ فرق نہیں تھا‪،‬یہاں میری‬
‫کشش کام بھی کرتی تھی تو وہ‬
‫مجھے بیٹا اور بھائی کا پیار دیتے‬
‫تھے‪،‬سارا گھر ہی حالل روزی کی‬
‫برکت سے نیک اوالد واال اور‬
‫صبرشکر واال تھا۔ مجھے یہاں سکون‬
‫آنے لگا‪،‬عین ممکن تھا میں اس گھر‬
‫کے ماحول میں نگینہ کو بھول جاتا‬
‫اور ایک دن استاد کی بیٹی سے‬
‫میری شادی ہوجاتی‪ ،‬مگر ‪،،،،،،‬ایک دن‬
‫ہم مزدوری کیلیے بیٹھے کام کا‬
‫انتظار کر ہے تھے‪،‬کہ ایک کار آ کر‬
‫رکی ۔اس میں ایک طرح داراور رعب‬
‫دار لڑکی بیٹھی تھی۔عمر کوئی‬
‫بتیس سال تو ہو گی‪،‬نہایت حسین‬
‫تھی‪،‬میں یک ٹک اسے دیکھنے‬
‫لگا‪،‬مزدوروں نے اس کی کار کو‬
‫گھیرے میں لے لیا‪،،‬وہ انہیں جھڑکنے‬
‫لگی‪ ،‬تو سب تتر بتر ہوگئے‪،‬اچانک‬
‫اس نے میری طرف دیکھا ‪،‬شاید اس‬
‫کی چھٹی حس نے بتایا ہو گا کہ‬
‫میں اسے دزیدہ نظروں سے گھور رہا‬
‫ہوں‪،‬عورتیں اس بارے بڑی حساس‬
‫ہوتی ہیں انہیں فورًا پتہ چل جاتاہے‬
‫‪،‬پہلے تو وہ مجھے گھورتی رہی اور‬
‫میں آنکھیں چرانے لگا‪،‬پھر اس نے‬
‫اشارے سے استاد کو اپنے پاس بالیا‬
‫‪،‬میں بھی اس کے ساتھ چال گیا‪،‬وہ‬
‫بغور مجھے دیکھنے لگی‪،‬جیسے اس‬
‫کی نظریں ایکسرے تھیں اور مجھے‬
‫اندر باہر سے دیکھ رہی تھیں ‪،‬پتہ‬
‫نہیں اسے مجھ میں کیسی دلچسپی‬
‫ہوگئی تھی‪،،‬وہ کار میں بٹھا کر ہمیں‬
‫اپنے فلیٹ میں لے آئی‪،‬فلیٹ کی‬
‫لوکیشن ز بردست تھی ۔سب سے الگ‬
‫اور گنجان آباد عالقے میں تھا‪ ،‬فلیٹ‬
‫کے اندر جانے کیلیے کچھ سیڑھیاں‬
‫بنی تھیں‪،‬اندر تین کمرے اور ایک‬
‫ڈرائینگ روم بھی تھا جو کہ یقینًا‬
‫ٹی وی الؤنچ بھی تھا‪،‬کچن اور باتھ‬
‫روم تھے‪،‬ایک کمرے میں الئبریری‬
‫تھی‪ ،‬باقی دو کمروں میں بیڈروم‬
‫تھے ‪،‬الئبریری میں نفسیات‪،‬تاریخ‬
‫‪،‬شاعری ‪،‬ناولز‪،‬علم بروج ‪ ،‬دست‬
‫شناسی ‪،‬قیافہ شناسی‪،‬اور سیکس پر‬
‫کولیکشن موجود تھی ‪،‬میں کتابیں‬
‫دیکھ کر دنگ رہ گیا‪ ،‬کچھ دیر تو‬
‫میں مسحور ہی رہا‪ ،‬مجھے پڑھنے کا‬
‫بہت شوق تھا لیکن نگینہ کے گھر‬
‫سے نکلنے کے بعد ابھی تک پڑھائی کا‬
‫کوئی سبب نہیں بنا تھا‪،‬بلکہ میں نے‬
‫تو ابھی تک اپنے میٹرک کا رزلٹ‬
‫بھی معلوم نہیں کیا تھا ‪،‬میڈم اپنے‬
‫کمرے سے نکلی تو میں فورًا جا کر‬
‫استاد کے ساتھ صفے پر بیٹھ گیا‪،‬‬
‫فلیٹ ہر طرف سے بتا رہا تھا کہ یہ‬
‫کسی امیر ترین کی ملکیت ہے اس‬
‫کے اندر محلوں جیسا سامان اور‬
‫آرائش تھی‪،‬یعنی پیسہ پانی کی‬
‫طرح بہایا گیا تھا‪ ،‬پورے فلیٹ کے‬
‫نیچے ایک تہہ خانہ تھا‪،‬وہ تہہ خانے‬
‫کو پینٹ کروانا چاہتی تھی ‪ ،‬یہ ایک‬
‫جم جیسا لگتا تھا یا جوڈو کراٹے کے‬
‫ڈوجو جیسا تھا‪،‬سامان وغیرہ منگوا‬
‫کر ہم نے کام شروع کر دیا‪،‬استاد‬
‫بہترین کام کرنا چاہتا تھا ‪،‬یہ اس کا‬
‫مزاج تھا ‪،‬کام صاف ستھرا اور لگن‬
‫سے کرتا تھا‪،‬وہ عورت جسے اب ہم‬
‫میڈم کہنے لگےتھے‪،‬وہ کبھی کبھار‬
‫ہمارا کام دیکھ جاتی تھی اور استاد‬
‫کو ہدایات بھی دے جاتی تھی ‪،‬لیکن‬
‫اس کی نظریں مجھی پر ٹکی رہتی‬
‫تھی‪،‬جیسے میں مقناطیس ہوں اور‬
‫وہ لوہے کا بے جان ٹکرا ہے‪،‬شہزادے‬
‫‪ ،،،،‬جی استاد ۔۔۔لگتا ہے یہ بھی گئی‬
‫کام سے‪ ،،‬استاد نے شوخی سے‬
‫کہا‪،‬میں چپ رہا ‪،‬یار پتہ نہیں تم کیا‬
‫چیز ہو‪ ،‬ہماری طرف تو کوئی دیکھتا‬
‫بھی نہیں اور تمھاری طرف دیکھتی‬
‫ہیں تو نظریں ہٹانا بھول جاتی ہیں‬
‫‪،‬استاد مجھے چھیڑنے لگا‪،‬میں جانتا‬
‫تھا استاد ایسی باتیں بس چھیڑ‬
‫چھاڑ میں کرتا ہے ورنہ اپنی بیوی‬
‫کے سوا ساری دنیا کی عورتیں اس‬
‫کیلیے ماں بہنیں تھی‪،‬ایسی کوئی‬
‫بات نہیں استاد تم ہیرو ہو‪،‬بس ہو‬
‫اپنی بیگم کے‪،‬ایسی عورتیں تمھاری‬
‫قدر نہیں جانتی‪،‬میں بھی استاد کو‬
‫چھیڑنے لگا‪،‬چھوڑ یار ‪،‬آجکل بازار‬
‫میں اچھائی اور وفاداری نہیں بکتی‪،‬‬
‫اچھا یار میڈم تو تم فدا ہوگئی ہے‬
‫‪،‬کہیں یہ نہ ہو ہمیں یہاں سے بھی‬
‫کام مکمل کیئے بغیر جانا پڑے‪،‬استاد‬
‫سنجیدہ لہجے میں بوال‪،‬نہیں استاد‬
‫ایسا نہیں ہوگا‪،‬میڈم کافی سمجھدار‬
‫اور اونچے درجے کی چیز لگتی‬
‫ہے‪،‬میں نے اپنے محسوسات کے‬
‫مطابق جواب دیا‪،‬اچھا خدا کرے‬
‫ایسا ہی ہو‪،‬وہ بیگم چوہدری تو‬
‫تمھیں یاد ہی ہو گی ‪،‬استاد نے‬
‫خوشدلی سے کہا تو میرا منہ کڑوا ہو‬
‫گیا‪،‬میرے اندازے کی مطابق تین چار‬
‫دن کا کام تھا ‪،‬دوپہر کا کھانا ہم‬
‫وہیں کھاتے تھے‪،‬لگتا تھا کہ میڈم‬
‫اس فلیٹ میں اکیلی رہتی ہے یا اس‬
‫‪،‬کے گھر والے کہیں گئے ہوئے تھے‬

‫بہر حال میڈم کی باتوں سے پتہ لگا‬


‫کہ وہ کسی یونیورسٹی کی‬
‫پروفیسر ہیں ‪،‬استاد کا کہنا تھا کہ یہ‬
‫شہر کی مشہور پروفیسر ہیں ‪،‬سارے‬
‫شہر میں ان کی بڑی عزت ہے‪ ،‬ایسی‬
‫عزت اور مقبولیت کم ہی پروفیسرز‬
‫کو ملتی ہے‪،‬تیسرے دن ہم کام پر گئے‬
‫تو میڈم اپنی کار میں کچھ کارٹون‬
‫رکھ رہی تھی ان میں کتابیں‬
‫تھیں‪،‬ذرا میری مدد کرنا‪،‬میڈم ہمیں‬
‫دیکھ کر بولی‪،‬ہم نے فورًا اس‬
‫کیساتھ ڈبے رکھوا دیئے ‪،‬استاد اپنے‬
‫شاگرد کو میرے ساتھ یونیورسٹی‬
‫تک بھیج دو ‪،‬وہاں یہ ڈبے رکھنے ہیں‬
‫‪،‬تھوڑی دیر میں ہم واپس آجائیں‬
‫گے‪،‬میڈم نے کہا تو استاد اسے نہ‬
‫نہیں کر سکا‪،‬اور مجھے میڈم‬
‫کیساتھ جانا پڑا‪،‬پچھلی سیٹ پر‬
‫ڈبےپڑے تھے‪،‬میں اگلی سیٹ پر بیٹھ‬
‫گیا‪،‬کار چلتے ہی میڈم بھی شروع‬
‫ہوگئی‪،‬شہزادے تمھارا نام کیا ہے‪،‬یہی‬
‫میرا نام ہے میں نے تلخی سے کہا‬
‫‪،‬نہیں شہزادے یہ تمھارا اصل نام‬
‫نہیں ہے‪ ،‬تم نے یہ نام انتقامًا رکھا ہوا‬
‫ہے‪،‬تم اس دنیا میں اکیلیے ہو‪،‬استاد‬
‫تمھارا باپ نہیں ہے‪ ،‬میرے اندازے کے‬
‫مطابق تمھارے ماں باپ مر چکے ہیں‬
‫‪،‬اور تم تنہا دنیا کی ٹھوکروں پر‬
‫ہو‪،‬حال ہی میں تمھیں کوئی دکھ‬
‫مال ہے جس کے نقش اب بھی‬
‫تمھارے چہرے پر دیکھے جا سکتے‬
‫ہیں‪،‬لگتا ہے دنیا نے تمھارے ساتھ‬
‫اچھا سلوک نہیں کیا‪،‬تم بھٹک رہے‬
‫ہو‪،‬کسی نے تمھیں پالش کیا ہے اپنی‬
‫دانش تمھیں دی ہے‪،‬لیکن بس بنیادی‬
‫باتیں سمجھائی ہیں کیونکہ یہ دنیا‬
‫تمھیں پالش کرنے والے کی سمجھ‬
‫سے بہت آگے ہے‪،‬بہت کمینی ہے یہ‬
‫دنیا‪،‬میں حیران نظروں سے میڈم کی‬
‫طرف دیکھنے لگا‪،‬حیران نہ ہو میں‬
‫دو دن سے تمھاری سٹڈی کر رہی‬
‫ہوں‪،‬قیافہ شناسی کی میں ماہر‬
‫ہوں‪،‬اور میں نے ہاورڈ یونیورسٹی‬
‫سے نفسیات میں پی ایچ ڈی کی‬
‫ہوئی ہے ‪،‬یہی میں پڑھاتی ہوں‬
‫‪،‬انسانوں کو اندر جھانکنا میرا شوق‬
‫ہے‪،‬بے شمار پیسہ میرے پاس‬
‫ہے‪،‬میرے پاس وسیع جائیداد‬
‫ہے‪،‬عزت ہے شہرت ہے‪،‬لیکن سکون‬
‫نہیں ہے‪،‬تمھاری طرح میں بھی دنیا‬
‫میں تنہا ہوں‪،‬میرے والد امریکی تھے‬
‫انہیں پہاڑوں کو سر کرنے کا شوق‬
‫تھاوہ یہاں نانگا پربت کی چوٹیوں‬
‫کو فتح کرنے آئے تھے ‪،‬شاید تمھیں‬
‫پتہ ہو کی نانگا پربت دنیا کی‬
‫خطرناک چوٹیوں میں سے ایک ہے‬
‫‪،‬یہاں انہوں نے اپنا شوق پورا کیا اور‬
‫نانگا پربت کو فتح تو کر لیا لیکن‬
‫وہیں میری مما ان سے ملیں اور‬
‫انہوں پاپاکو فتح کرلیا‪،‬مما جب الہور‬
‫گھر آئی تو وہ شادی شدہ تھیں ان‬
‫کے ماں باپ نے باآلخر ان کی شادہی‬
‫کو قبول کر لیا۔ لیکن پاپا نے ان کا‬
‫زیادہ ساتھ نہ دیا میں ابھی مما کے‬
‫پیٹ میں ہی تھی کہ پاپا مما کو‬
‫پاکستان میں ہی چھوڑ کر امریکہ‬
‫چلے گئے‪،‬میری پیدائش کے بعد مما‬
‫مشکلوں میں پڑ گئی ‪،‬اور انہیں‬
‫اخراجات کیلیے نوکری کرنی پڑی‬
‫‪،‬پاپا کی وجہ سے بھی مما کو بڑی‬
‫باتیں سننی پڑی ‪،‬بھائی بہنوں نے تو‬
‫پہلے ہی منہ موڑ لیا تھا ‪،‬میرے نانا‬
‫اور نانی کے جانے کے بعد مما اور‬
‫میں بالکل تنہا رہ گئی‪ ،‬مما نے کئی‬
‫بار پاپا سے رابطہ کرنے کی کوشش‬
‫کی ‪،‬لیکن انہوں نے پیچھے مڑ کر نہ‬
‫دیکھا‪،،‬جیسے جیسے میں بڑھتی گئی‬
‫مما تنہائی سے تنگ زندگی سے منہ‬
‫موڑتی گئی‪ ،‬قسمت خدا کی جب‬
‫میں جوان ہوئی تو پپا کو ہماری یاد‬
‫آئی اور ہمیں امریکہ بلوا لیا وہاں جا‬
‫کر پتہ چال کہ پاپا بہت بیمار ہیں اور‬
‫اپنی اوالد سے ملنے کیلیے تڑپ رہے‬
‫ہیں یعنی مجھ سے ‪ ،‬کیونکہ ان کی‬
‫ایک بیٹا اور بیٹی ایک ایسیڈنٹ میں‬
‫فوت ہو گئے تھے ‪،‬شاید یہ بھی‬
‫قدرت کے ہونے کا کوئی ثبوت تھا کہ‬
‫جو باپ ہمیں تنہاچھوڑ گیا تھا ب‬
‫ہمیں بالنے ر مجبور ہو گیا تھا‪،‬لیکن‬
‫مجھے ان سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔‬
‫بہرحال پاپا نے ساری زندگی کے‬
‫دکھوں کا مداوا اسطرح کیا کہ جاتے‬
‫جاتے اپنی جائداد میرے نام کر گئے‬
‫امریکی قوانین نے ہمارا ساتھ دیا اور‬
‫ساری جائیداد مجھے مل گئی میں‬
‫سب کچھ بیچ باچ کر پاکستان آگئی‬
‫کیونکہ مما اپنی سرزمیں پر مرنا‬
‫چاہتی تھی‪،‬یہاں ہم نے اس پیسے‬
‫سے وسیع عریض جائیداد بنا لی‪،‬اب‬
‫زندگی میں کچھ سکھ مال تو مما کا‬
‫وقت پورا ہوچکا تھا میں نے ان کو‬
‫وصیت کے مطابق نانا اور نانی کے‬
‫پہلو میں دفن کر دیا۔ان کے جانے کے‬
‫بعد میرے رشتہ دار میرے پاس آنے‬
‫لگے‪،‬مجھے ان سب سے نفرت‬
‫تھی‪،‬لیکن سموئیل نے مجھے ایسی‬
‫ہمدردی دی کہ وہ چاہت میں بدل‬
‫گئی اور میں نے جذبات میں اس سے‬
‫شادی کر لی ‪،‬کچھ ہی عرصے میں‬
‫مجھ پر واضح ہوگیا کہ سموئیل کی‬
‫محبت مجھ سے نہیں بلکہ میری‬
‫دولت سے ہے تو میں نے اس سے‬
‫جھٹکارا پا لیا‪،‬اور تمام مطلبی رشتہ‬
‫داروں سے کنارا کر لیا‪،‬رشتہ داروں‬
‫سے دور میں نے یہ فلیٹ اپنے سکون‬
‫کیلیے بنوایا ہے‪،‬بڑی حویلیوں اور‬
‫بنگلوں میں میرا دم گھٹتا‬
‫ہے‪،‬شہزادے مجھے سکون چاہیئے‬
‫میں تم سے کچھ نہیں چھپاؤں‬
‫گی‪،‬میں نے اس سکون کیلیے کئی‬
‫دوستیاں کی‪،‬مگر دنیا کا کوئی مرد‬
‫مجھے وہ نہ دے سکا‪،‬جو میں چاہتی‬
‫ہوں‪،‬شہزادے وہ سکون مجھے بس‬
‫تمھی دے سکتے ہو‪،‬میں دے سکتا‬
‫ہوں ؟ میں شدید حیران تھا‪،‬ہاں تم‬
‫ہی دے سکتے ہو کیونکہ تمھارے‬
‫پاس وہ ہے جو دنیا میں کسی کسی‬
‫کے پاس ہوتا ہے‪،‬تمھارے پاس سیکس‬
‫کی جادوئی کشش ہے‪،‬یعنی بے پناہ‬
‫سیکس اپیل ہے تم میں ‪،‬جو تم سے‬
‫دور ہے وہ تمھارے پاس آنا چاہے گی‬
‫اور جو پاس آجائے گی وہ ہمیشہ‬
‫کیلیے تمھاری ہو جائے گی‪ ،‬اور‬
‫تمھارے چوڑے ماتھے سےتمھاری‬
‫خوش قسمتی کا پتہ لگتا ہے‪ ،‬تم بڑے‬
‫با صالحیت ہو‪،‬دنیا تمھارے قدموں‬
‫میں جھک سکتی ہے‪،‬میں میڈم کی‬
‫بات پر طنزیہ انداز میں ہنسنے‬
‫لگا‪،‬اس طرح مت ہنسو‪،‬کیونکہ خوش‬
‫قسمتی تمھارے دروازے پر کھڑی ہے‪،‬‬
‫تمھار ا کیا خیال ہے میں تمھیں اپنے‬
‫بارے میں سب کچھ کھل کے کیوں‬
‫بتا رہی ہوں ‪ ،‬کیونکہ میں تمھیں‬
‫ایک بہت بڑی آفر کرنے لگی ہوں‪،‬‬
‫تمھارے مزاج کے عین مطابق تمھاری‬
‫مرضی سے ‪،‬بغیر کسی زبردستی یا‬
‫چھل فریب کے ‪،‬تم مجھے کتنا‬
‫جانتی ہو؟میں نے الٹا اس سے سوال‬
‫کر دیا‪،‬تم اپنی مرضی کے مالک ہو‬
‫اپنی مرضی سے جینا چاہتے ہو‪،‬سب‬
‫ہی ایساچاہتے ہیں مگر تمھارے پاس‬
‫اپنی مرضی پوری کرنے کیلیے قدرت‬
‫نے تمھیں صالحیتیں بھی دی‬
‫ہیں‪،‬میں چاہوں تو تم میرے اشاروں‬
‫پر ناچو ‪،‬لیکن جلد ہی تم میرا کھیل‬
‫سمجھ جاؤ گے اور پھر میری طرف‬
‫پلٹو گے مجھے نقصان پہنچاؤ‬
‫گے‪،‬جب تک تمھارا بس چال‪،‬یہ ہو تم‬
‫‪،‬وہ سچ کہہ رہی تھی اسے نہیں پتہ‬
‫تھا وہ میری اور نگینہ کی کہانی‬
‫مجھے ہی سنا رہی تھی‪،‬شاید تم‬
‫ایسا کوئی تجربہ جھیل بھی چکے‬
‫ہو‪،‬مجھے سوچتا دیکھ کر میڈم نے‬
‫ایک اور اندازہ لگایا‪،‬بہت خطرناک‬
‫تھی یہ میڈم ‪،‬انسان اس کے سامنے‬
‫کھلی کتاب کی طرح تھا‪،‬چہرے سے‬
‫مزاج‪،‬عادات ‪،‬خیاالت ‪،‬کردار تک جان‬
‫لیتی تھی‪،‬ماضی پڑھ لیتی تھی‪،‬بعد‬
‫میں مجھے سمجھ آئی کے قیافہ‬
‫شناسی ایک زبردست علم ہے‪،‬اگر اس‬
‫کے ساتھ علِم بروج اور دست‬
‫شناسی مل جائے تو انسان کا کچھ‬
‫بھی چھپا نہیں رہتا‪ِ ،‬س ّر ی علوم پر‬
‫یورپ اور امریکہ میں تو آکلٹ‬
‫سائنس کے نام سے ایک علیحدہ‬
‫شعبہ بن چکا ہے ‪،‬اور اس پر بہت‬
‫تحقیقات ہو رہی ہیں‪،‬ہپناٹزم اور‬
‫ٹیلی پیتھی اب کوئی خواب کی بات‬
‫نہیں رہی ۔تمھاری آفر کیا ہے ‪،‬میں‬
‫ایک نتیجے پر پہنچ چکا تھا‪،‬میں‬
‫چاہتی ہوں تم ہمیشہ کیلیے مجھ‬
‫سے دوستی کر لو‪،‬میرے ساتھ رہو‬
‫ساری زندگی‪،‬اور مجھے اپنی گرل‬
‫فرینڈ بنا لو صرف میں اور تم ‪،‬اس‬
‫کے بدلے میرا سب کچھ تمھارا ہو‬
‫گا‪،‬میری دولت‪ ،‬میرا علم‪،‬میری‬
‫جائیداد ‪ ،‬اور میں سب کچھ تمھارا‬
‫ہوگا‪،‬میڈم آپ بہت بڑی آفر کر رہی‬
‫ہیں لیکن آپ کی آفر کی بنیاد یہ ہے‬
‫کہ میں آپ کو بذریعہ سیکس میں‬
‫وہ خوشی دے سکتا ہوں جو دنیا کا‬
‫کوئی اور مرد نہیں دے سکتا‪،‬کیونکہ‬
‫بقول آپ کہ میری پاس نیچرلی وہ‬
‫ہے جو دنیا میں کسی کسی کے پاس‬
‫ہوتا ہے‪،‬تو ہوسکتا ہے آپ کا اندازہ‬
‫غلط ہو یا یہ چیز مجھ میں ہو تو‬
‫کل کو ختم ہو جائے‪،‬پھر کیا ہو گا ؟‬
‫کار ایک سائیڈ میں رک چکی‬
‫تھی‪،‬میڈم بہت ہی سنجیدہ ہو چکی‬
‫تھی‪،‬شہزادے یا تم جو بھی ہو میرا‬
‫ندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا ‪،‬میں‬
‫نے جنسیات میں پی ایچ ڈی کی‬
‫ہوئی ہے‪،‬لیکن یہ بات کم لوگوں کو‬
‫معلوم ہے‪،‬میں ایک سیکس اسپیشلٹ‬
‫ہوں‪،‬تم چاہو تو میں تمھیں کتابوں‬
‫میں دکھا سکتی ہوں کہ تم میں جو‬
‫ہے وہ کیا ہے اور کتنا نایاب ہے اور یہ‬
‫کبھی ختم ہونے واال نہیں ہے‪،‬یہ‬
‫تمھارے ساتھ ایسے ہی ہے جیسے‬
‫تمھاری اندر تمھاری دوسری‬
‫صالحیتیں ہیں‪،‬یہ تمھاری سانسوں‬
‫کیساتھ ہی ختم ہوں گی‪،‬اور یہ‬
‫کوئی ڈیل نہیں ہے میں زندگی بھر‬
‫کیلیے تمھاری طرف ہاتھ بڑھا رہی‬
‫ہوں ‪،‬اس کیلیے اگر تم کہو تو میں‬
‫اپنی ساری جائیداد تمھارے نام لکھ‬
‫کر دے سکتی ہوں‪،‬میڈم نے بہت بڑی‬
‫آفر کر دی‪،‬تم مجھے وہ بناؤ گی جو‬
‫میں بننا چاہتا ہوں؟ میں نے جیسے‬
‫شرط رکھ دی‬
‫‪Offer offer offer‬‬ ‫🎈🎈🎈‬
‫‪Price: only 100 Rs.‬‬
‫دیور بھابھی کی کہانیاں‬
‫‪WHATSAPP:03061915013,0‬‬
‫‪3147615013‬‬ ‫🏻👈‬
‫میری بھابھی اور چار بہنیں ‪1.‬‬
‫میری بھابھی میری سہیلی مکّم ل ‪2.‬‬
‫نند بھابھی لیسبیئن مکّم ل ‪3.‬‬
‫میرا الڈال دیور مکّم ل ‪4.‬‬
‫میرا جوشیال دیور مکّم ل ‪5.‬‬
‫گرل فرینڈ کی بھابھی مکّم ل ‪6.‬‬
‫سیکسی بھابھی اور بہن مکّم ل ‪7.‬‬
‫سب سے پیاری بھابھی مکّم ل ‪8.‬‬
‫راجو اور بھابھی مکّم ل ‪9.‬‬
‫دیور راج مکّم ل ‪10.‬‬
‫دیور بھابھی کا پیار مکّم ل ‪11.‬‬
‫دو بھابھیاں دو دیور مکّم ل ‪12.‬‬
‫پیاری بھابھی مکّم ل کہانی ‪13.‬‬
‫پڑوس کی بھابھی مکّم ل ‪14.‬‬
‫بہن اور بھابھی نے سکھایا ‪15.‬‬
‫مکّم ل‬
‫میری حرامی بھابھی اور بہن ‪16.‬‬
‫مکّم ل‬
‫بھابھی نے میرا چوسا مکّم ل ‪17.‬‬
‫بھابھی کو گھوڑی بنایا مکّم ل ‪18.‬‬
‫بھابھی کی مشکل آسان کی ‪19.‬‬
‫بھابھی اور سالی مکّم ل ‪20.‬‬
‫بھابھی اور بھابھی کی امی ‪21.‬‬
‫مکّم ل‬
‫آشا بھابھی مکّم ل ‪22.‬‬
‫بھابھی کی مالش مکّم ل ‪23.‬‬

‫نوٹ ‪ :‬فری کے چکر میں رہنے والوں‬


‫❌❌‬
‫کو فورََا بالک کیا جائے گا‬
‫🚫‬ ‫‪...‬‬
‫جس کو کہانیاں خریدنی ہے وہ اوپر‬
‫دیے گئے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ‬
‫🏻👆🏻👆‬
‫کریں ۔‬

‫کہانیوں کی فیس صرف ایزی پیسہ‬


‫!!اور جیز کیش پر ادا کی جاتی ہے‬
‫✅‬
‫‪Admin‬‬ ‫🏻✍‬
‫‪Bahzad king‬‬
‫‪03147615013‬‬
‫‪03061915013‬‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_6‬‬

‫تم بہت علم حاصل کرنا چاہتے‬


‫ہو‪،‬میں نے اپنی الئیبریری میں‬
‫جاتےہوئے تمھیں دیکھا ہے ‪،‬اسوقت‬
‫تمھاری آنکھوں میں حریصانہ چمک‬
‫تھی‪ ،‬تم مارشل آرٹ سیکھنا چاہتے‬
‫ہو‪،‬جدید ٹریننگ لینا چاہتے ہو‪،‬تم‬
‫لڑکیوں کو عورتوں کو فتح کرنے‬
‫کیلیے وہ سب سیکھنا چاہتے ہو جو‬
‫اس کیلیے ضروری ہے‪،‬مائنڈڈ گیم‬
‫میں تم ماسٹر بننا چاہتے ہو‪،‬تم‬
‫لوگوں کو پڑھنا چاہتے ہو‪،‬تا کہ تم ان‬
‫سے کھیل سکو وہ نہ تم سے کھیل‬
‫سکیں‪،‬بس بس میڈم ‪،‬اتنا ہی بہت‬
‫ہے‪ ،‬پتہ نہیں کیسے وہ میرے دل کی‬
‫ہر بات جان لیتی تھی‪ ،‬بلکہ ہر کسی‬
‫کی جان لیتی تھی ‪،‬میرا نام میڈم‬
‫نہیں ‪،‬جوسلین ہے‪(،‬جوسلین‬
‫پاکستانی کرسچن تھی) جوسلین نے‬
‫میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا‪ ،‬اور‬
‫میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے میں نے اس سے‬
‫‪،‬ہاتھ مال لیا‬

‫یاد رکھنا تم اپنی مرضی سے میرے‬


‫پاس آئے ہو اسلیے کبھی مجھے‬
‫چھوڑنے سے پہلے سوچ لینا کہ‬
‫اسوقت بھی تمھارے پاس واپسی کا‬
‫رستہ موجود تھا ۔استاد سے تم ہی‬
‫بات کر لینا اس کی بات کے جواب‬
‫میں ‪،‬میں نے استاد کی ذمہ داری اس‬
‫پر ڈال دی‪،‬میں ہی بات کروں گی‬
‫تمھاری بات کرنا بنتا بھی نہیں‬
‫ہے‪،‬ویسے اتنی عمر میں تم نے ڈبل‬
‫پی ایچ ڈی کیسے کر لی‪،‬میرے ذہن‬
‫میں کافی دیر سے ایک تجسس‬
‫تھا‪،‬کار چل پڑی تھی ‪،‬تمھارے خیال‬
‫میں میری کتنی عمر ہے‪،‬جوسلین نے‬
‫الٹا مجھ سے سوال کر دیا‪،‬تیس یا‬
‫بتیس کی لگتی ہو تم‪،‬میں نے اسے‬
‫‪،‬اپنا اندازہ بتایا‪،‬جوسلین ہنسنے لگی‬

‫میں چالیس سال کی ہوں‪،‬اور ڈبل‬


‫پی ایچ دی میری صالحیتوں کا ایک‬
‫نمونہ ہے‪،‬لیکن تم اتنی کم عمر کیسے‬
‫لگتی ہو‪،‬میں بہت حیران ہوا‪،‬تمھیں‬
‫بھی سکھا دوں گی‪،‬یہ سب‬
‫مخصوص غذاؤں اور یوگاسے ممکن‬
‫ہے کچھ مخصوص ورزشیں بھی اس‬
‫کیلیے ضروری ہیں‪،‬شام تک کام ختم‬
‫ہو گیا‪،‬جوسلین نے استاد سے پتہ‬
‫نہیں کیا کہا ‪،‬کہ وہ مجھے دعائیں‬
‫دے کر چلے گئے ‪،‬جوسلین نے اسے‬
‫پیسہ بھی دیا تھا‪،‬میں وہیں رہ گیا‪،‬‬
‫جوسلین نے تین کمروں میں سے‬
‫مجھے ایک کمرہ دے دیا تھا‪،‬میرا‬
‫خیال تھا کہ ہم آج رات ہی چدائی‬
‫کریں گے مگر نازیہ اور میں رات گئے‬
‫تک باتیں کرتے رہے‪،‬ایکدوسرے کا‬
‫ماضی کھنگالتے رہے‪،‬ایکدوسرے کو‬
‫بارے میں جانتے رہے‪،‬باتیں کر کر کے‬
‫ہم تھک گئے تو سو گئے‪،‬اگلی صبح ہم‬
‫کچھ دیر سے اٹھے‪،‬جوسلین نے ناشتہ‬
‫بنایا ‪،‬ناشتہ کر کے جوسلین نے مجھے‬
‫بازار چلنے کو کہا‪،‬جوسلین بہت ہی‬
‫اوپری درجے ( ہائی اسٹینڈرڈ )کی‬
‫زندگی گزارتی تھی‪،‬بازار وہ میرے‬
‫لیئے شاپنک کرنے لگی‪،‬میرے لیے‬
‫مہنگے ترین کپڑے خریدنے لگی‪،‬اور‬
‫پتہ نہیں اس نے کیا کچھ خرید ڈاال۔‬
‫اس نے دلہن کا ایک لہنگا بھی خریدا‬
‫جو میری سمجھ سے باہر‬
‫تھا‪،‬جوسلین نے لہنگا انہی کے ٹیلر‬
‫کے پاس سینے کے دے دیا‪،‬اور شام‬
‫کو یہ لہنگا اسے ملنا تھاہم نے ایک‬
‫رسٹورینٹ میں دوپہر کا کھنا چار‬
‫‪،‬بجے کھایا‬

‫پھر باقی کی خریداری کرنے کے بعد‬


‫ہم واپس ہو لیئے‪،‬اس دوران اس نے‬
‫عجیب فرمائش کر دی ‪،‬کہ میں اس‬
‫کیلیے کوئی تحفہ خریدوں ‪،‬میں نے‬
‫ایک جگہ اس کیلیے سونے کی چین‬
‫پسند کی اس میں ڈائمنڈ لگا ہوا تھا‬
‫۔ظاہر ہے اس کے پیسے بھی اسی نے‬
‫ادا کرنے تھے ‪،‬رستے میں ایک جگہ‬
‫اس نے پھولوں کا آڈر دیا‪،‬تقریبًا شام‬
‫کو ہی ہم گھر پہنچے ‪،‬ایک دن میں‬
‫اس نے الکھوں پانی کی طرح بہا دیا‬
‫تھا ۔ سامان وہیں رکھ دیا کچھ‬
‫سامان لیکر جوسلین اپنے کمرے میں‬
‫چلی گئی تو میں بھی اپنے کمرے‬
‫میں جا کہ لیٹ گیا ۔مجھے تو ہلکی‬
‫سی جھپکی آگئی ‪،‬آنکھ کھلی تو یہ‬
‫ہلکی سی جھپکی بھی کافی ہو گئی‬
‫تھی رات کے نو بج رہے تھے‪،‬کمرہ‬
‫دیکھ کر اندازہ ہوا کہ نازیہ یہاں آئی‬
‫تھی اور جو کچھ الئی تھی اس کی‬
‫سیٹنگ کر گئی تھی وارڈروب کھول‬
‫کہ دیکھا تو اس میں سارے کپڑے‬
‫‪ ،‬جڑے ہوئے تھے‬

‫جوسلین نے کھانا باہر سے منگوایا‬


‫تھا‪،‬کھانا وغیرہ کھاتے باتیں کرتے‬
‫دس بج گئے‪،‬چلو شہزادے تیار ہو‬
‫جاؤ تمھارا ایک سوٹ میں نے نکال‬
‫دیا ہے تمھارے کمرے میں ہی پڑا ہے‬
‫وہ پہن لو اور اچھی طرح تیار ہو‬
‫جاؤ‪،‬نازیہ نے مجھے کہا تو اس کے‬
‫لہجے میں کچھ خاص تھا لیکن میں‬
‫سمجھ نہ سکا‪،‬کیا ہم کہیں جا رہے‬
‫ہیں ؟ میں پوچھے بناء نہ رہ سکا‬
‫‪،‬ہاں تم تیار ہو جاؤ‪ ،‬میں کمرے میں‬
‫جا کر کپڑے بدلنے لگا‪،‬کمال ہے وہاں‬
‫ایک شیروانی بھی پڑی تھی میں نے‬
‫پہن لی بالکل میرے سائیز کی تھی‪،‬‬
‫سلیم شاہی جوتے پہن کے تیار ہو کے‬
‫میں نےخود کو آئینے میں دیکھا‬
‫‪،‬کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا‬
‫تھا‪،‬بلکہ اسوقت مجھے دولہا بھی‬
‫کہا جا سکتا تھا‪ ،‬مجھے نظر بھی لگ‬
‫سکتی تھی سو میں نے آئینے سے‬
‫نظریں ہٹا لیں ‪،‬جوسلین نے کہا تھا‬
‫کہ تیار ہو کہ وہیں ٹھہرو میں تمھیں‬
‫بال لوں گی۔میں اس کا انتظار کرنے‬
‫لگا‪،‬آدھا گھنٹا ہو گیا ‪،‬پتہ نہیں یہ‬
‫عورتیں تیار ہونے کیلیئے اتنی دیر‬
‫کیوں لگاتی ہیں ‪،‬خیر انٹر کام کی‬
‫بیل ہوئی تو میں لپک کہ ریسیور‬
‫اٹھا لیا‪،‬تیار ہوگئے شہزادے ؟‬
‫جوسلین نے پوچھا‪،‬میں تو پونے‬
‫گھنٹے سے تیار ہوں آپ کب تک تیار‬
‫ہوجائیں گی میں نے شوخی سے‬
‫پوچھا‪،‬میں بھی تیار ہوں ‪،‬تم میرے‬
‫کمرے میں آجاؤ اور میرا تحفہ النا نہ‬
‫بھولنا ‪،‬ریسیور رکھ کر میں جوسلین‬
‫کے کمرے کی طرف چل پڑا‪،‬اس کے‬
‫کمرے کا دروازہ بھڑا ہوا تھا میں نے‬
‫ہاتھ کا دباؤ ڈاال تو دروازہ کھلتا‬
‫‪،‬گیا‪،‬اور میرے قدم وہیں ٹھہر گئے‬

‫کمرے کے فرش پر پھولوں کی پتیوں‬


‫سے راہداری بنی ہوئی تھی‪،‬جو کہ‬
‫بیڈ تک جا رہی تھی ‪،‬بیڈ پر بھی‬
‫پتیاں ہی پتیاں تھی ۔اور اس بیڈ پر‬
‫جوسلین لہنگا اور کرتی پہنے دلہن‬
‫بنی بیٹھی تھی ‪،‬اس کے ارد گرد‬
‫لہنگا پھیا ہوا تھا ۔لہنگا گالبی رنگت‬
‫کا تھا ‪،‬جو کہ میرا پسندیدہ رنگ‬
‫تھا‪،‬جب یہ لہنگا میں نے دن کو‬
‫دیکھا تھا تو شاید میری آنکھوں یا‬
‫چہرے سے جوسلین نے میری‬
‫پسندیدگی کا اندازہ لگا لیا ہو گا‪،‬یہ‬
‫سب ایک زبردست سرپرائیز تھا ‪،‬اور‬
‫میں ابھی تک کمرے کی دہلیز پر‬
‫کھڑا تھا ‪،‬اندر آجاؤ میرے‬
‫پرنس(پہلی بار مجھے پرنس کہا‬
‫گیا)جوسلین پیار بھری آواز نے میرے‬
‫کانوں میں رس کھوال ‪،‬اور میں‬
‫مسحور انداز میں اس کی طرف چل‬
‫پڑا‪،‬ایک ہاتھ سے میں نے دروازہ‬
‫واپس پش کر دیا‪،‬جو کہ ٹھک سے‬
‫بند ہو گیا‪،‬میں بیڈ کہ پاس جا کہ‬
‫پھر رک گیا میں یک ٹک جوسلین کو‬
‫دیکھ رہا تھا‪ ،‬گویا اجنتا الورہ کی‬
‫کوئی دیوی میرے سامنے آ کہ بیٹھ‬
‫گئی تھی‪ 2،،‬دن سے میں اسے دیکھ‬
‫دیکھ کے تڑپ رہا تھا ‪ ،‬جوسلین کا بے‬
‫پناہ ُح سن میرے دل و دماغ پر چھا‬
‫چکا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ‬
‫اس کا ُح سن ایک ایسا مقناطیس تھا‬
‫جس کے سامنے ہر مرد خود کو ایک‬
‫بے جان لوہے کا ذّر ہ محسوس کرتا‬
‫تھا۔بیٹھ جاؤ میرے پرنس جوسلین‬
‫میری بے خودی محسوس کر چکی‬
‫‪،‬تھی‪،‬میں اس کے سامنے بیٹھ گیا‬

‫مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ‬


‫کیا کہوں اور کیا کروں ‪،‬میرے پرنس‬
‫میں نے برسوں چاہا تھا کہ وہ مرد‬
‫جس کا میں ذکرمیں نے بس سنا ہے‬
‫‪،‬وہ مرد مجھے مل جائے‪،‬پھر میں‬
‫سوچتی تھی ایسی (سیکس‬
‫اپیل)جنسی کشش واال دنیا میں ہو‬
‫گا بھی کہ نہیں ‪،‬پھر میں سوچتی‬
‫کہ ایسے مرد ہو گیں تو ضرور لیکن‬
‫میری قسمت میں شاید ہی ہو‪،‬آج‬
‫تمھیں اپنے سامنے پا کہ بھی مجھے‬
‫یقین نہیں آ رہا ‪،‬جوسلین جذباتی ہو‬
‫رہی تھی‪،‬مجھے موضوع بدلنا پڑا‪،‬یہ‬
‫سب کیا ہے جوسلین‪ -‬میں نے اس کے‬
‫دلہن بننے کی طرف اشارہ کیا‪،‬میرے‬
‫پرنس تم سے مالقات کا اس سے بہتر‬
‫آئیڈیا نہیں تھا‪،‬میں چاہتی ہوں‬
‫ہماری پہلی رات زندگی کی یاد گار‬
‫رات ہو‪،‬بڑی بڑی آنکھیں ‪،‬لمبی پلکیں‬
‫‪،‬ستواں ناک‪،‬تیکھا چہرہ‪،‬خوشنما‬
‫گال‪،‬رسیلے ہونٹ ‪،‬لمبے گھنے‬
‫بال‪،‬اسمارٹ جسم ‪،‬اور جھانکتے ہوئے‬
‫دل فریب ممے‪،‬گوری رنگت جس میں‬
‫سرخی شامل ہو‪،‬بار بار میں اس کے‬
‫ُح سن میں گویا نئے سرے سے کھو‬
‫‪،‬جاتا تھا‬
‫کیا یہ کوئی خواب تو نہیں میں ہاتھ‬
‫بڑھا کہ اسے چھوا‪،‬جوسلین بے تابی‬
‫سے میرے سینے پر آلگی‪،‬میں نے اس‬
‫کی آنکھوں کو چوم لیا پھر اس کے‬
‫گالوں سے چوما‪ ،‬پھر اس کے ہونٹوں‬
‫پر اپنے لب رکھ دیا‪،‬جیسے کوئی آِب‬
‫حیات کے پیالے کو منہ لگاتا ہے‪،‬اور‬
‫پھر میں اس کے ہونٹوں کی شراب‬
‫کو دھیرے دھیرے پینے لگا‪،‬میرے‬
‫ہاتھوں میں ایک انمول جینئس‬
‫عورت تھی‪،‬سیکس کے بارے میں‬
‫اس کی مہارت استاد کے درجے سے‬
‫آگے رہنما تک چلی گئی تھی‪،‬اس کی‬
‫گردن میرے ایک بازو پر تھی اور اس‬
‫کا چہرہ میری طرف تھا اس کی‬
‫گردن کیطرف دیکھتے ہوئے مجھے‬
‫سمجھ آئی کہ اس نے اپنے لیے تحفہ‬
‫‪،‬کیوں لینے کو کہا تھا‬
‫وہ آج کی رات کو یاد گار بنانا چاہتی‬
‫تھی‪،‬میں نے شیروانی کی جیب سے‬
‫چین نکالی تو جوسلین کی آنکھوں‬
‫میں چمک آگئی‪،‬اس کے گال الل رنگ‬
‫کے ہونے لگے‪،‬مجھے یقین نہیں آرہا‬
‫تھا کہ وہ شرما رہی ہے‪،‬بعد میں ایک‬
‫کتاب میں پڑھا کہ طوائف بھی ایسے‬
‫مرد کے پاس آ کہ شرما جاتی ہے‬
‫جسے دل سے اپنا مرد اپنا محبوب‬
‫مانتی ہے‪،‬میں نے ایک ہاتھ سے ہی‬
‫چین اس کے گلے میں ڈال دی‪،‬اور‬
‫ڈائمنڈ آگے کر دیا‪،‬وہ چھوٹے سے دل‬
‫کی شکل میں تھا‪،‬شکریہ میرے‬
‫پرنس ‪،‬میں ہمیشہ اس تحفے کو اپنے‬
‫دل سے لگا کر رکھوں گی‪،‬اب میں‬
‫بھی اپنےپرنس کو تحفہ دینا چاہتی‬
‫ہوں ‪،‬لیکن سوچ سوچ کے دماغ تھک‬
‫گیا ہے اور سمجھ پھر بھی نہیں آیا‬
‫کہ میں اپنے پرنس کے الئق کیا تحفہ‬
‫دوں ‪،‬بڑا سوچا تو ایک تحفہ سمجھ‬
‫میں آیا‪،‬اگر تم قبول کر لو تو میں‬
‫سمجھوں گی کہ میری زندگی کی ہر‬
‫مراد پوری ہوگئی‪،‬میں سوالیہ نظروں‬
‫سے اس کی طرف دیکھنے لگا‪،‬اپنا‬
‫ہاتھ آگے کرو ‪،‬جوسلین نے کہا تو‬
‫میں نے ہاتھ آگے کر دیا‪،‬جوسلین نے‬
‫میری آنکھوں میں دیکھا اور اپنا‬
‫‪،‬ہاتھ میرے ہاتھ میں دے دیا‬
‫آج سے میں مکمل رضا مندی سے اپنا‬
‫آپ اپنے پرنس کو سونپتی ہوں ‪،‬‬
‫میں اس کے الفاظ اور لہجے کی تاثیر‬
‫میں کھو گیا‪،‬جوسلین نے لہنگے کا‬
‫اوپری حصہ اتار دیا ‪،‬جیسے گفٹ کا‬
‫ریپر اتارا جاتا ہے‪،‬اس کا چاندی‬
‫جیسا جسم تھا یا دودھیا بدن تھا ‪،‬‬
‫یا شہد کا ذائقہ کھال ہواتھا یا اس کا‬
‫جسم ریشم جیسا تھا سلکی بدن‬
‫‪،‬بلکہ نہیں جسمانی تعریف میرے‬
‫لیئے تو لفظوں میں بیان کرنا مشکل‬
‫ہے اور کیفیات بیان کرنے کیلیے تو‬
‫الفاظ کی کم مائیگی کا شدید‬
‫احساس ہوتا ہے بس جو بھی تھا‬
‫بےحد تھا بے پناہ تھا میں نے اس کی‬
‫کمر اپنے سینے سے لگا لی اور اور‬
‫اس کا بریزیر اتارنے لگا‪ُ،‬ہک کھول کے‬
‫میں نے ہاتھ پیچھے سے اس کی برا‬
‫میں جانے دیئے اور ریشمی ممے پکڑ‬
‫لیا‪،‬دونوں ہاتھوں سے مموں کو‬
‫آہستہ آہستہ مسلنے لگا‪،‬اور ساتھ میں‬
‫اس کے کندھے اور گردن کو چومنے‬
‫لگا‪،‬تھوڑی دیر بعد جوسلین نے اپنا‬
‫چہرہ میری طرف کر لیا‪،‬اور میر‬
‫شیروانی کے بٹن کھولنے‬
‫لگی‪،‬شیروانی اتار کے اس نے میرا‬
‫کرتا اور بنیان بھی اتار دی‪،‬اور ساتھ‬
‫ہی میرے ناڑے پر ہاتھ ڈال‬
‫دیا‪،‬پاجامہ اتار کہ ہم ساتھ ساتھ‬
‫لیٹ گئے‪،‬اور میں اس کا چہرہ‬
‫چومنے لگا‪،‬چہرہ چومتے ہوئے میں‬
‫اس کے گردن چو متا ہوا اس کے‬
‫کندھے اور سینہ چومنے لگا‪،‬میرے‬
‫ہاتھ مسلسل اس کےممے کو سہال‬
‫رہے تھے‪،‬اسی طرح میں اس حسین‬
‫وادی کے پگڈنڈیوں پر ادھر ادھر‬
‫پھرتا ہوا اس کے پیٹ کو چومتا ہوا‬
‫اس کا لہنگا اتارنے لگا‪،‬لیکن جوسلین‬
‫نے میرا ہاتھ پکڑ لیا‪،‬آہ میرے پرنس‬
‫بہت اچھا کر رے ہو ‪،‬پر جو بھی کرنا‬
‫ہے اس لہنگے کے ساتھ ہی کرنا ہے تا‬
‫‪ ،‬کہ اس کی قیمت وصول ہو جائے‬

‫میں نے آہستگی سے اس کا لہنگا اوپر‬


‫اٹھا دیا‪،‬نیچے ۔۔۔۔ اس نے کچھ نہیں‬
‫پہنا ہوا تھا‪،‬میں براہِ راست اس کی‬
‫انہداِم دانی (چوت)کو دیکھنے لگا‪،‬بے‬
‫شک کپڑے اتار کے اس کا ُح سن‬
‫ُد گناِت گنا ہو گیا تھا ‪،‬میں اس کی‬
‫ٹانگیں چومتا ہوا واپس مموں پر‬
‫آگیا اور ممے چوسنے لگا‪،‬اسوقت میں‬
‫اتنا ماہر نہیں تھا‪،‬پھر مجھ پر‬
‫جوسلین کی شخصیت کا بھی رعب‬
‫تھا‪،‬کیونکہ ایک تو وہ حسین بہت‬
‫تھی اوپر سے سیکس میں استاد سے‬
‫بھی آگے تھی‪،‬میں اسے سیکس میں‬
‫کیا مزہ دے سکتا تھا‪،‬نازیہ نے میری‬
‫جھجک محسوس کر لی‪،‬میرے‬
‫پرنس‪،‬سیکس کے بارے میں دنیا کا‬
‫سار علم بھی کسی کو آجائے تو پھر‬
‫بھی چودائی کیلیے نہ کوئی نیا‬
‫سوراخ نکل آنا ہے اور نہ کوئی‬
‫چودنے کو عضو کےساتھ کچھ اور‬
‫نکل آنا ہے یہ موری ہے اور یہ عضو‬
‫ہے اور اسی طرح چوما چاٹی کیا‬
‫جاتا ہے‪،‬ویسے بھی تمھیں کسی‬
‫مہارت کی ضرورت نہیں ہے ‪ ،‬جو‬
‫کچھ تمھارے پاس ہے ‪،‬اسے کسی‬
‫مہارت کی ضرورت نہیں ‪،‬تم ہاتھ ہی‬
‫لگا دو تو جسم میں مزے کی لہریں‬
‫اٹھنے لگتی ہیں‪،‬اسلیے کھل کے پیار‬
‫کرو اپنی جوسلین کو‪،‬جوسلین کے‬
‫الفاظ سے مجھ میں بے باکی آگئی‬
‫اور میں عضو اس کی چوت پر‬
‫رگڑتے ہوئے ممے چوسنے لگا‪،‬جو‬
‫مجھے آتا تھا میں وہی کر رہا تھا اور‬
‫جوسلین کے تاثرات بتا رہے تھے وہ‬
‫ایک ایک پل سے محظوظ ہو رہی‬
‫ہے‪،‬یہ سیکس کے اثرات نہیں تھے‬
‫بلکہ چہرے پر جوش تھا جیسے‬
‫کوئی انمول خزانہ پانے کے تاثرات‬
‫تھے‪،‬آہستہ آہستہ ہم پر سیکس غالب‬
‫آنے لگا‪،‬میں کیا کر رہا تھا میں اس‬
‫کے جسم کو اوپر سے نیچے چوم رہا‬
‫‪ ،‬تھا ‪،‬اس کے ممے چوس رہا تھا‬
‫اس کے جسم سے میرا جسم رگڑ کھا‬
‫رہا تھا ‪،‬اس سے اسپارکنگ ہو رہی‬
‫تھی ‪،‬اور اس اسپارکنگ سے جسم‬
‫ہیجان میں مبتال ہو رہے تھے‪،‬بعد میں‬
‫جوسلین نے مجھے بتایا کہ اسے‬
‫فورپلے کہتے ہیں ‪،‬ہمارے دیسی‬
‫ماحول ماحول میں اسے گرم کرنا‬
‫کہتے ہیں ‪،‬لیکن گرم کرنے اور فور‬
‫پلے کی تھیوری اور پریکٹیکلی میں‬
‫بہت فرق ہے‪،‬گرمی تو چوت کے پہلے‬
‫حساس ترین مقام‬
‫المعروف چوت کا دانہ لیکن اس کا(‬
‫اردو میں صحیح نام بظرہے یہ مرغی‬
‫کی کلغی یا مٹر کے دانے جیسا ہوتا‬
‫ہے اور ‪ 1/5‬یا ‪ 1/4‬انچ ہوتا ہے یہ‬
‫چوت کے لبوں کے اندر سوراخ سے‬
‫ڈیڑھ انچ اوپر ہوتا ہے مگر کچھ‬
‫عورتیں چوت کے سوراخ والی جگہ‬
‫سے زیادہ گرم ہو جاتی ہیں بظر کو‬
‫چودائی کے دوران عضو چھو نہیں‬
‫سکتا اسے انگلیاں سے ہی چھیڑا جا‬
‫سکتا ہے یا عضو ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫اس کے ہیڈ کو اس پر رگڑا جا سکتا‬
‫) ہے‬
‫کو چھیڑنے سے بھی چڑھ جاتی ہے‬
‫‪،‬سچی بات تو یہ کہ جوسلین کے‬
‫جسم سے میرا دل نہیں بھر رہا‬
‫تھا‪،‬اورجوسلین اب چودائی کیلیے‬
‫ُا تاولی ہو رہی تھی ‪،‬میرے لیے یہ بڑی‬
‫بات تھی کہ جوسلین جیسی سیکس‬
‫جینئس کو میں سیکس کے ہیجان‬
‫میں مبتال کرچکاتھا۔آہ میرے پرنس‬
‫تمھارا جادو سر پر چڑھ گیا ہے‪،‬آج‬
‫تک مجھے چودائی کیلیے کوئی بھی‬
‫اتنا بے تاب نہیں کر سکا‪،‬یہ سب‬
‫تمھاری جنسی کشش کا کمال ہے‪،‬اب‬
‫اندر ڈال دو اور ہمیشہ کیلیے مجھے‬
‫اپنا بنا لو‪،‬بے شک تم وہی ہو جس کی‬
‫صرف آرزو کی جاسکتی‬
‫تھی‪،‬جوسلین کا ُح کم سرآنکھوں پر‬
‫مگر میرا دل اس کے جسم کی‬
‫رعنائیوں سے نہیں بھرا تھا‪،‬پھر بھی‬
‫میں نے اس کی ٹانگیں کھول کے‬
‫مخصوص پوزیشن بنائی ‪،‬جوسلین‬
‫مجھے گہری نظروں سے دیکھ رہی‬
‫تھی ‪،‬لہنگے کے پیچھے واال حصہ اس‬
‫کی گانڈ اور ٹانگوں کے نیچے پڑا تھا‬
‫۔میں اسے اوپر کرنا چاہا تو اس نے‬
‫سر ہال کہ مجھے منع کر دیا ‪،‬گویا‬
‫اس وقت بولنے کی بھی حالت نہیں‬
‫تھی‪،‬بہر حال میں نے اس کی ٹانگوں‬
‫کو موڑا اور گھٹنے اوپر کی طرف ہو‬
‫گئے اور میں آگے ہوا ‪،‬میرے گھٹنے‬
‫لہنگے کے اوپر آگئے‪،‬اچھے بھلے لہنگے‬
‫کا ستیاناس ہونے لگا تھا‬
‫کیونکہ ا سکا کپڑا بڑا ہی نازک تھا‬
‫لہنگا تقریبًا ڈیڑھ الکھ کا توتھا ہی ۔‬
‫شایدجوسلین اس کا ستنیا ناس ہی‬
‫چاہتی تھی‪،‬میں تھوڑا آگے ہوا اور‬
‫عضو اوپر رکھنے لگا تو جوسلین نے‬
‫اپنا ہاتھ بڑھا کے میرا عضو پکڑ لیا‬
‫اس کے لیے اسے تھوڑا اوپر ہونا پڑا‬
‫‪،‬میرا عضو اپنی چوت پر صحیح‬
‫رکھ کہ جوسلین نے میری طرف‬
‫دیکھاتو میں نے اندر ڈالنا شروع کر‬
‫دیا ‪،‬جوسلین کی آنکھیں اس منظر‬
‫پر ایسے چپکی ہوئی تھیں جیسے وہ‬
‫اس لمحے کو اپنی آنکھوں میں‬
‫ہمیشہ کیلیے محفوظ کرلینا چاہتی‬
‫ہو‪ ،‬عضو اندر جاتا ہوا کچھ حیران‬
‫تھا کیونکہ چوت کی دیواروں نے‬
‫اسے گرم جوشی میں لپٹ کر خوش‬
‫آمدید کہا ‪،‬جیسا جوسلین نے اپنے‬
‫بارے میں بتایا تھا‪،‬ایسے تو چوت‬
‫کھلی نہیں تو نارمل ہی ہونی چاہیئے‬
‫تھی‪،‬لیکن یہ تو تنگ تھی‪،‬شاید کم‬
‫عمر نظر آنے کی طرح ا سمیں بھی‬
‫‪ ،‬جوسلین کا کوئی کمال تھا‬
‫تھوڑی سے پھٹکری چوت پر ملنے(‬
‫سے وہ سوج جاتی ہے کیونکہ چوت‬
‫حساس ہوتی ہے اور پھٹکری تیز‬
‫ہوتی ہے اوراس سوجن سے چوت‬
‫ٹائیٹ ہو جاتی ہے اس طرح کچھ‬
‫کال گرلز یا شوقین لڑکیاں مزہ دینے‬
‫کیلیئے یا کنورا پن محسوس کروانے‬
‫کیلیے اور بھی کئی ٹوٹکےاستعمال‬
‫کرتی ہیں ‪،‬لیکن جوسلین کی چوت‬
‫میں بہت ُچ ن )اوریجنل ٹائیٹ تھی‬
‫کر سیکس پارٹنر بناتی ہوں ‪،‬اور‬
‫شادی صرف ڈیڑھ سال چلی تھی‬
‫شایدجوسلین نے میری حیرانگی‬
‫محسوس کر لی تھی اور بات کو‬
‫سمجھ گئی تھی‪ ،‬چودو پرنس اس‬
‫لمحے کے میں نے برسوں خواب‬
‫دیکھے ہیں‪،‬تمھیں پتہ ہونا چاہیئے‬
‫خواب صرف خوش قسمت لوگوں‬
‫کے پورے ہوتے ہیں اور تم سے ملنے‬
‫کے بعد مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں‬
‫خوش قسمت ہوں‪،‬میں حسِب عادت‬
‫آہستہ آہستہ چودنے لگا ‪،‬جوسلین نے‬
‫اپنی آنکھیں بند کر لی‪،‬وہ مزے کے‬
‫سمندر میں گہرا غوطہ لگانے کے لیئے‬
‫تیار تھی۔‬

‫میں بھی تیز ہونے لگا‪،‬میری تیزی‬


‫میں جوسلین کا جسم کا بڑا دخل‬
‫تھا ‪،‬اس وقت میں جسم کے مرکز پر‬
‫تھا اور وہاں پر سارے جسم کا نچوڑ‬
‫تھا‪،‬اس نچوڑ سے میں میں اپنے لیئے‬
‫مزہ نچوڑ رہا تھا‪،‬دھیرے دھیرے‬
‫میری رفتار اور تیز ہونے‬
‫لگی‪،‬جوسلین کا جسم ہلنے لگا‪،‬اگر‬
‫میں نے جوسلین پر سحر کر دیا تھا‬
‫اور اسے ہیجان میں مبتال کر دیا تھا‬
‫تو اس کے جسمانی ُح سن نے مجھے‬
‫بھی پاگل کر دیا تھا‪،‬اور اس پاگل پن‬
‫میں میری رفتار اور دھکوں میں‬
‫شدت آگئی تھی‪،‬اتنی شدت کے بیڈ‬
‫بھی چوں چوں کرنے لگا‬
‫تھا‪،‬جوسلین سسکاریاں بھرنے‬
‫لگی‪،‬کبھی کبھی اس کی آواز تیز‬
‫ہوجاتی ‪،‬جو کہ رات کے سناٹے میں‬
‫دور تک جا سکتی تھی ‪،‬میں کچھ‬
‫آہستہ ہوا ‪،‬چودو مجھے چودو ‪،‬پورا‬
‫فلیٹ ساؤنڈ پروف ہے‪،‬جوسلین ہر بار‬
‫کی طرح میری الجھن سمجھ‬
‫گئی‪،‬ایک پل کیلیے میں آہستہ ہوا تھا‬
‫اور دوسرے پل ہی میں وہیں سے‬
‫چودائی شروع کر دی‪،‬شکر ہے‬
‫چودائی کا ردھم ٹوٹا نہیں بلکہ‬
‫ماحول اور زیادہ جم گیا‪،‬کیونکہ میں‬
‫اب اور کھل گیا تھا اب میری بے‬
‫معنی آوازیں نکل رہی تھیں‬
‫‪،‬جوسلین مسلسل مجھے بڑھاوا دیئے‬
‫جا رہی تھی‪،‬خود اس کا بھی برا‬
‫حال تھا ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا‬
‫تھا کہ ہم اپناکنٹرول کھو بیٹھے‬
‫تھے‪،‬اور پتہ نہیں ایکدوسرے کو کیا‬
‫کیا کہہ رہے تھے‪ ،‬جوسلین کا جسم‬
‫میرے دھکوں سے تیز ہوا میں‬
‫سوکھے پتوں کی طرح اڑ رہا تھا۔‬
‫اتنی شدت سے میں نے نہ نگینہ کو‬
‫اور نہ ہی پھر سحرش کو چودسکا‬
‫تھا۔‬

‫یہ سارا کمال جوسلین کا تھا ‪،‬اور یہ‬


‫جس کی طلب تھی اسے ہی ملنا‬
‫تھا‪،‬جوش میں تھکن کا احساس تو‬
‫کیا ہونا ‪،‬بس میں بھرپور دھکے لگانے‬
‫کیلیے کچھ رفتا ر کم کر بیٹھا ‪،‬اور‬
‫جوسلین اٹھ کے بیٹھ گئی مجھے‬
‫اس نے کمر سے بانہوں کے گھیرے‬
‫میں لے لیا ‪،‬اور اسی حالت میں‬
‫مجھے پیچھے کیا تو میں بیڈ کی‬
‫دوسری طرف سیدھا لیٹ گیا اور‬
‫جوسلین میرے اوپر بیٹھ گئی ‪،‬ابھی‬
‫تک عضو اس کے اندر ہی تھا‪،‬س نے‬
‫لہنگا سائیڈوں پر پھیال لیا‪،‬اور اوپر‬
‫نیچے ہونے لگی‪ ،‬یقنًاجوسلین‬
‫چودائی کے جوش میں اوپر آگئی‬
‫تھی اور اسی جوشیلے انداز میں اب‬
‫چودائی کر رہی تھی‪،‬اب مجھے‬
‫احساس ہو رہا تھا کہ سیکس میں‬
‫استادی کسے کہتے ہیں ‪،‬اس اسٹائل‬
‫میں نگینہ نے بھی چودائی کی تھی‬
‫مگر اب سمجھ آرہا تھا کہ وہ تو بس‬
‫اندر ڈاال اور دھکم پیل شروع کر دی‬
‫‪،‬اصل چودائی تو یہ تھی‪،‬اسوقت سے‬
‫یہ میرا پسندیدہ اسٹائل بن گیا۔‬
‫یہ دوسرا آسان ترین اور چودائی‬
‫کیلیے بہترین اسٹائل ہے اس میں‬
‫عورت فاعلی کردار ادا کرتی ہے اس‬
‫میں رفتار اور دھکے کچھ نہیں کرتے‬
‫سب کچھ عورت یا لڑکی کا وزن کرتا‬
‫ہے‪،‬عورت نے جوش سے بس اوپر‬
‫جانا ہے اور پھر نیچے آتے ہوئے اس‬
‫کا جسمانی وزن عضو پر ایسی‬
‫چڑھائی کرتا ہے ایسا لپیٹتا ہے کہ‬
‫بس کچھ نہ پوچھو کتنا مزہ آتا ہے‬
‫‪،‬لگے ہاتھوں پہلے مفید ترین اسٹائل‬
‫کی بات بھی ہو جائے اور وہ یہ ہے‬
‫کہ عورت نیچے لیٹی ہو اور مرد اوپر‬
‫لیٹ کر یا بیٹھ کر یا کچھ بیٹھا‬
‫کچھ لیٹا ‪،‬چودائی کرے‪،‬یہ دنیا کا‬
‫سب سے بہترین ‪ ،‬آسان ترین اور‬
‫مقبول ترین اسٹائل ہے‪ ،‬چوت کی‬
‫ساخت کے اعتبار سے‪ ،‬اور پیار کو‬
‫سامنے رکھتے ہوئے‪،‬ممے اور چہرہ‬
‫بلکہ پورا جسم سا منے اور پہنچ میں‬
‫ہوتا ہے‪،‬انکھوں سے چودائی کو‬
‫دیکھتے ہوئے مزہ دوگنا ہوجاتا ہے‬
‫تیسرا مقبول ترین اور بہترین اسٹائل‬
‫گھوڑی بنانا ہے اسے عام طور پر‬
‫ڈوگی اسٹائل کہتے ہیں یعنی کہ‬
‫لڑکی کو ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل‬
‫ُکّت ی بنا کر چودنا لیکن میں اسے‬
‫گھوڑی اسٹائل کہنا زیادہ مناسب‬
‫سمجھتا ہو ں‪،‬اس میں مرد اگر اپنے‬
‫پاؤں پر کھڑا ہو تو زیادہ بہتر ہوتا‬
‫ہے‪،‬جی اسپاٹ یعنی دوسرے حساس‬
‫ترین جگہ کو اس اسٹائل میں بڑی‬
‫اچھی طرح عضو سے چھوا جاسکتا‬
‫ہے جس سے لڑکی جلدی انتہا پر‬
‫پہنچ جاتی ہے‪،‬اس اسٹائل میں کچھ‬
‫اور طریقے بھی ہیں جیسے لڑکی‬
‫ہاتھ دیوار سے ٹکا کر ‪،‬یا ہاتھ کسی‬
‫ٹیبل پر ٹکا کر یا کار کے دروازے کو‬
‫پکڑ کر یا ائیر پلین میں سیٹ کا‬
‫سہارا لیکر یا کسی شپ میں کسی‬
‫بھی چیز کا سہارا لیکر گانڈ پیچھے‬
‫نمایا ں کرے اسوقت لڑکی کو تھو ڑا‬
‫جھکا کہ یا کھڑے کر کے چوت میں‬
‫چدائی کی جا سکتی ہےمیرے تجربے‬
‫کیے مطابق یہ تین اسٹائل سیکس کا‬
‫نچوڑ ہیں۔‬

‫جوسلین کی ہر حرکت بتا رہی تھی‬


‫کہ مزہ اس طرح لیا اور دیا جاتا‬
‫ہے‪،‬جوسلین میری جان ‪،‬بہت مزہ آ‬
‫رہا ہے میں بے اختیار بول‬
‫پڑا‪،‬جوسلین چودائی کرتی کرتی‬
‫میرے اوپر لیٹ گئی اور میرے‬
‫چہرے کے سامنے اپنا چہرہ کر کے‬
‫کہنے لگی‪،‬ایکبار پھر کہنا ‪،‬کیا کہا‬
‫مجھے ؟ بہت مزہ آرہا ہے‪،‬میں نے اس‬
‫کی فرمائش پوری کی‪،‬نہیں جو اس‬
‫سے پہلے کہا تھا وہ مجھے‬
‫کہو‪،‬جوسلین تھوڑا آگے پیچھے بھی‬
‫ہورہی تھی جس سے چدائی کا مزہ‬
‫بھی آرہا تھا میں نے کہا جوسلین‬
‫میری جان میں نے اس کی آنکھوں‬
‫میں جھانکتے ہوئے پھر کہا‪ ،‬بہت‬
‫اچھا لگا مجھے ‪،‬سن کر دلی خوشی‬
‫ہوئی‪،‬اور جوسلین پھر بیٹھ کر‬
‫چدائی کرنے لگی‪،‬جوسلین میری جان‬
‫‪،‬جوسلین میری جان میں اونچی‬
‫اونچی چالنے لگا‪،‬جوسلین کھلکھال‬
‫کر ہنسنے لگی‪،‬اس کے انگ انگ سے‬
‫خوشی پھوٹ رہی تھی اور اس‬
‫خوشی میں ‪،‬جوسلین کی چدائی کا‬
‫فن کھل کے سامنے آ رہا تھا ‪،‬گو کہ‬
‫میں اس وقت میں سیکس کے باے‬
‫میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ کہ وہ جو‬
‫بھی کر رہی ہے بہترین کر رہی‬
‫ہے‪،‬ابھی اس نے کہا تھا کہ سیکس‬
‫ایکسپرٹ ہونے سے چدائی تو پھر‬
‫بھی ویسے ہی ہونی ہے جیسے ہوتی‬
‫ہے ۔‬

‫مگر حقیقت یہ تھا کہ ایک ہی کام‬


‫کو عام فرد کے کرنے سے اور استاد‬
‫کے کرنے میں بہت فرق ہے‪،‬میرے‬
‫پرنس کیسا لگا تمھیں یہ اسٹائل‬
‫‪،‬جوسلین نے مخصوص انداز میں‬
‫چودائی کرتے ہوئے مجھے مخاطب‬
‫کیا‪ ،‬میں تو اس وقت ہواؤں میں اڑ‬
‫رہا تھا ‪،‬ہر بات بوجھ لینے وا لی‬
‫جوسلین مجھ سے کچھ خاص سننا‬
‫چاہتی تھی ‪،‬زبردست اسٹائل ہے‪،‬مزہ‬
‫آگیا‪،‬میرا پہلے بھی اتفاق ہوچکا ہے‬
‫مگر جو آج ہو رہا ہے ِا س میں اور‬
‫ُا س میں زمیں اور آسماں کا فرق‬
‫ہے‪،‬زبردست جوسلین میری‬
‫جان‪،‬میری بات سے جوسلین پھر‬
‫کھلکھال کر ہنسنے لگی‪،‬چلو اوپر‬
‫آجاؤ اب تمھاری باری ہے ‪،‬جوسلین‬
‫میرے اوپر لیٹ گئی ‪،‬مگر یاد رکھنا‬
‫باہر نہ نکلے ‪،‬میں نے بیٹھ کر‬
‫جوسلین کو پیچھے کیا وہ بازوؤں‬
‫کے سہارے پیچھے لیٹ گئی اور پھر‬
‫جوسلین میرے نیچے آگئی اور میں‬
‫اس کے اوپر آگیا‪،‬عجیب بات تھی‬
‫اس نے اس دوران لہنگا پھر نیچے لے‬
‫لیا تھا۔میں اس کی چودائی کرنے لگا‬
‫تھا پہلے ہم بہت تیز تھے پھر دھکوں‬
‫میں شدت آتی گئی‪،‬پھر اس ہیجانی‬
‫حرکات بھی آئیں جب ہم خود پر‬
‫کنٹرول نہ رکھ سکے ‪،‬اور پھر‬
‫جوسلین کے اوپر آنے سے ماحول‬
‫بدل گیا ۔‬

‫میں اس کی چدائی کے سُر ور میں‬


‫ڈوب گیا‪،‬اور اب میں طاقت سے‬
‫دھکے لگا رہا تھا مگر رفتار نارمل‬
‫تھی‪،‬میں سوچنے لگا میری تو اتنی‬
‫ٹائمنگ نہیں ہے ‪،‬میں تو حد پندرہ‬
‫منٹ میں فارغ ہو جاتا ہوں‪،‬بلکہ ہر‬
‫انسان کی پانچ سے لیکر پندر ہ منٹ‬
‫تک ہی ٹائمنگ بنتی ہے ‪،‬اس سے کم‬
‫اور اس سے زیادہ یا تو میڈیسن سے‬
‫ممکن ہے یا پھر اس انسان کے ساتھ‬
‫کوئی مسلہ ہے‪،‬جیسے پانچ منٹ سے‬
‫کم والے وہ ہوں گے جو سگریٹ پیتے‬
‫ہوں گے یا ہینڈپریکٹس کرتے ہوں گے‬
‫اور بھی کئی وجوہات ہیں جیسے‬
‫کبھی کبھی ہیجان میں مبتال ہوں‬
‫جائیں یا عرصے بعد سیکس کر رہے‬
‫ہوں تو پانچ منٹ سے پہلے بھی فارغ‬
‫ہو جاتے ہیں ‪،‬اور زیادہ منٹ والے وہ‬
‫ہوں گے جو چرس ‪،‬افیم وغیرہ کے‬
‫عادی ہوتے ہیں‪،‬یا میڈیسن استعمال‬
‫کرتے ہیں ۔یا کچھ اور مسلہ ہو ‪،‬اگر‬
‫کوئی کہے کہ اس وقت آدھا یا پونا‬
‫گھنٹا قدرتی ہے تو پھر جھوٹ ہی ہو‬
‫گا۔ یا کوئی سپر مین ہو شاید ‪،‬زیادہ‬
‫تفصیل کی اسوقت گنجائش نہیں‬
‫ہے۔‬

‫میں جوسلین سے پوچھنا چاہتا تھا‬


‫کہ ہم ابھی تک فارغ کیوں نہیں‬
‫ہوئے‪،‬مگر میں لگا رہا ایسی باتوں کو‬
‫سمجھنے کیلیے بڑا وقت پڑا تھا۔ میں‬
‫اسی بارے میں سوچ رہا تھا کہ‬
‫جوسلین بول پڑی ‪،‬میرے پرنس ہم‬
‫آنے والے ہیں ‪،‬جوسلین نے مجھے‬
‫کچھ سمجھایا شاید اسے وقت کا‬
‫کچھ اندازہ تھا اسی لیئے وہ نیچے‬
‫آئی تھی ‪،‬نیچے آنے اور لہنگے میں‬
‫ضرور کوئی تعلق تھا‪،‬اب میں بھی‬
‫جوسلین کی طرح اندازہ لگانے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا اور میں پھر‬
‫جوش میں پہلے والے موڈ میں آگیا‬
‫تھا اور دھکا دھک چودائی رہا تھا‬
‫‪،‬چودائی سےجوسلین کے ممے‬
‫دلفریب انداز میں حرکت کر رہے تھے‬
‫‪،‬اور مجھے ان کو چھونے کی طلب‬
‫ہو رہی تھی‪،،‬میں اپنے گھٹنوں کے بل‬
‫اس کے اوپر لیٹ گیا ‪،‬تا کہ اس پر‬
‫میرا وزن نہ پڑے اور اس کے ممے‬
‫پکڑ کے چودائی کرنے لگا‪،‬میرے‬
‫پرنس تم جو بھی کرو جسم میں‬
‫مّد و جزر کی طرح ُا تھل پتھل ہو‬
‫جاتی ہے ۔میں سمجھتی تھی‬
‫سیکس میں مہارت سے چودائی کا‬
‫مزہ زیادہ سے زیادہ لیا جاسکتا ہے‬
‫مگر میرے اندازے کے مطابق تمھیں‬
‫اس کی ضرورت نہیں ہے اور اگر تم‬
‫سیکس ایکسپرٹ بن بھی گئے تو دو‬
‫آتشہ ہو جاؤ گے‪،‬تھوڑی دیر میں ہی‬
‫ہماری حالت بدلنےلگی مجھے‬
‫محسوس ہوا وقت قریب آ رہا ہے‬
‫‪،‬جوسلین بھی ایسے ہی لگ رہی تھی‬
‫‪،‬میرے پرنس سارا پانی اندر ڈال دینا‬
‫‪،‬میری چوت تمھارے پانی کا ذائقہ‬
‫چکھنا چاہتی ہے‪،‬اس پانی کی مہک‬
‫میں اپنے جسم میں سمونا چاہتی‬
‫ہوں‪،‬اس پانی سے میں اپنی چوت‬
‫کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں ‪،‬میں نے‬
‫سر ہال دیا اس وقت میں بولنا نہیں‬
‫چاہتا تھا نہیں تو اسے بتاتا کہ میں‬
‫نے نگینہ اور سحرش کے اندر ہی‬
‫پانی ڈالتا تھا ‪،‬نگینہ تجربے کار تھی‬
‫اسے حمل کا کوئی ڈر نہیں تھا اور‬
‫سحرش کے ساتھ اس کی بہن یا‬
‫کوئی دوست تھی جو اس کوسیکس‬
‫ٹریننگ دے چکی تھی ۔‬

‫آہ ہ ہ ہ ہ ‪،‬میرے پرنس‪،‬جسم میں‬


‫جان کھچ رہی ہے‪،‬میری بھی حالت‬
‫ایسے ہی تھی‪،‬منزل قریب ہی‬
‫تھی‪،‬میں نے اضطراری انداز میں‬
‫چدائی کرتے ہوئے کچھ دھکے اور‬
‫پورے اندر جا کہ گہرائی میں‬
‫مارے‪،‬اور میں اور جوسلین‬
‫سسکے‪،‬ہم نے ایکدوسرے کو بانہوں‬
‫میں جکڑ لیا‪،‬بلکہ میں نے تو اپنی‬
‫ٹانگوں سے اس کے جسم کو کس‬
‫لیا‪،‬جوسلین مجھے چمٹ چکی‬
‫تھی‪،‬ہمارے جسم چھوٹے چھوٹے‬
‫جھٹکے لیتے رہے‪،‬میرے پرنس میرا‬
‫کبھی اتنا پانی نہیں نکال‪،‬میرا بھی‪،‬‬
‫میں نے اسے کہا‪،‬پھر میں علیحدہ‬
‫ہونے لگا تو جوسلین نے مجھے‬
‫بانہوں سے جکڑے رکھا‪،‬نہیں ابھی‬
‫نہیں میرے پرنس ‪،‬فورًا علیحد ہ‬
‫نہیں ہوتے‪،‬کچھ دیر اسی حالت میں‬
‫پڑے رہتے ہیں‪،‬اور ہوسکے تو‬
‫ایکدوسرے کو چوم کر پیار بھی‬
‫کرتے ہیں ‪،‬جوسلین نے مسکراتے ہوئے‬
‫مجھے پہلی بار سیکس نالج دیتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬کبھی کبھی یہیں سے‬
‫دوبارہ موڈ بن جاتا ہے کیونکہ اندر‬
‫رکھنے سے عضو جلدی سست نہیں‬
‫ہوتا‪،‬ٹھیک ہے جوسلین میری جان‬
‫میں نے مسکراتے ہوئے کہا‪،‬اور ہم نے‬
‫لبوں کو لبوں سے جوڑ دیا‪،‬کچھ وقت‬
‫ہم نے ایسے گزارا اور پھر میں عضو‬
‫نکال کر جوسلین کے پہلو میں لیٹ‬
‫گیا‪،‬جوسلین اٹھ کے بیٹھ گئی اور‬
‫ہاتھ سے کچھ کرنے لگی‪،‬میں نے‬
‫دیکھا تو ہمارا پانی لہنگے پر گرا ہوا‬
‫تھا اور جوسلین چوت واال پانی‬
‫لہنگے پر گرا رہی تھی‪،‬لہنگے کا‬
‫ستیاناس ہو چکا تھا‪،‬جوسلین نے‬
‫لہنگا اتار کہ ایک سائیڈ میں احتیاط‬
‫سے رکھ دیا‪،‬اور میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی‪،‬اس نے ایک بازو میرے اوپر رکھ‬
‫لیا اور میری گردن سے نیچے سے‬
‫گزار کر مجھے نزدیک کر لیاہمارے‬
‫چہرے ایکدوسے کے سامنے‬
‫تھے‪،‬میرےپرنس یہ لہنگا پہلی‬
‫مالقات کی یادگار کے طور پر ہمیشہ‬
‫بغیر دھوئے اسی حالت میں سنبھال‬
‫کر رکھوں گی۔یہ ہمیں پہلی مالقات‬
‫کی یاد دالتا رہے گا۔‬
‫ہم ایکدوسرے سے لپٹے ہوئے پڑے‬
‫تھے ‪،‬جوسلین کا جسم مجھے پھر بال‬
‫رہا تھا میں اسے دوبارہ چودنا چاہتا‬
‫تھا۔جوسلین میرے عضو کو ہاتھ‬
‫میں پکڑ کر سہال رہی تھی‪،‬دل اس کا‬
‫بھی کر رہا تھا‪،‬میرے پرنس چلو‬
‫تمھیں جنت کی سیر‬
‫کرواؤں‪،‬جوسلین نے اٹھ کر میرے‬
‫عضو پر جھکتے ہوئے کہا‪،‬میں گہری‬
‫نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا‬
‫تھا‪،‬جوسلین عضو کو منہ میں لیتے‬
‫لیتے رک گئی ‪،‬کیا بات ہے میرے‬
‫پرنس‪ ،‬اس نے میرے چہرے کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا‪،‬جوسلین‬
‫میری جان اس میدان میں تم اکیلی‬
‫ہو گی ‪،‬میں ادھر نہیں آؤں گا‪،‬تم بے‬
‫شک پیچھے ہٹ سکتی ہو‪،‬میں نے‬
‫اسے واضح طور پر سمجھا دیا ‪،‬اور‬
‫وہ سمجھ گئی تمھیں میری چوت‬
‫نہیں چاٹنی تو نہ صحیح ‪،‬لیکن میں‬
‫اس عضو کو چوسے بغیر نہیں رہ‬
‫سکتی ‪،‬جوسلین نے جھک کر میرا‬
‫عضو پہال چوما پھر اس کو قلفی‬
‫کی طرح نیچے سے اوپر چاٹا اور پھر‬
‫اسے منہ میں لے لیا‪،‬جوسلین نے سچ‬
‫کہا تھا کچھ ہی دیر میں مزے کی‬
‫جنت میں پہنچ گیا ‪،‬بالشبہ جوسلین‬
‫اورل سیکس میں ماہر تھی‪،‬اور اس‬
‫نے مجھے اس سے بہت مزے‬
‫دیئے‪،‬اس رات ہم نے کئی باربھرپور‬
‫چودائی کی‪،‬اور صبح سو گئے۔‬
‫میرے پرنس اب اٹھ بھی جاؤ بہت‬
‫بھوک لگی ہےناشتہ تیار ہے‬
‫جناب‪،‬جوسلین کی پیار بھری آوز‬
‫مجھے نیند کی وادیوں سے باہر لے‬
‫آئی‪،‬میں نے وقت دیکھا توسہہ پہر‬
‫ہو رہی تھی‪،‬جوسلین نے پہلی رات‬
‫کو یادگار بنا دیا تھا مجھے ایسے لگ‬
‫رہا تھا جیسے میں خواب میں تھا‬
‫لیکن اب جوسلین کی موجودگی بتا‬
‫رہی تھی کہ گزری رات ایک حقیقت‬
‫تھی میں نے جوسلین کوخودسے لپٹا‬
‫لیا اور اس کے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ‬
‫دئے ‪،‬کچھ دیر ہم کسنگ کرتے رہے۔‬
‫پھر جوسلین نے مجھے اٹھا لیا اور‬
‫بڑے الڈ سے کھنچتے ہوئے باتھ روم‬
‫میں دھکا دیا اور باہر سے چٹخنی‬
‫لگا دی ‪،‬جلدی سے نہا لو میرے‬
‫پرنس‪،‬پھر مل کر ناشتہ کریں گے‬
‫میں نہا کر نکالاور کچن میں ہی‬
‫سیدھا چال گیا‪،‬وہاں جوسلین میرے‬
‫انتظار میں بیٹھی تھی‪،‬مجھے‬
‫دیکھتے ہی جوسلین نے ایک ڈبیہ‬
‫سے کچھ نکاال اسے ایک معجون کے‬
‫ساتھ ایک کپ میں ڈ اال اور اسے‬
‫پانی میں ڈال کر مکس کیا ‪،‬لو پرنس‬
‫اسے پی جاؤ ‪،‬میں اسے پی گیا( یہ‬
‫کشتہ مروارید تھااور اسے خمیرہ گاؤ‬
‫زبان میں ڈال کر مکس کیا تھا اگلے‬
‫پانچ سال تک میں اسے ہر روز نہار‬
‫منہ لیتا رہا‪ ،‬شروع شروع میں‬
‫جوسلین خود دیتی رہی پھر مجھے‬
‫اس کی عادت ہوتی گئی کبھی کبھار‬
‫خمیرہ گاؤزبان چھوڑ کر عرِق گالب‬
‫میں بھی لیتا رہتا کبھی صبح نہ لے‬
‫سکا تو دوپہر کو لے لیا کیونکہ اس‬
‫وقت بھی کھانا کھانے سے پہلے‬
‫معدہ خالی ہوتا ہے‪،‬صرف ایک‬
‫ماچس کی تیلی کی نوک پر جتنا آ تا‬
‫ا تنا ہی کشتہ مروارید میں استعمال‬
‫کرتا) پھر ہم ناشتہ کرنے لگے‪،‬یہ‬
‫ناشتہ اور دوپہر کا کھانا تھاکیونکہ‬
‫اب سہہ پہر ہو رہی تھی ۔بڑا‬
‫زبردست کھانا ہے یار ‪،‬کیا ذائقہ ہے‬
‫تمھارے ہاتھ میں ‪،‬میں نے جوسلین‬
‫کی کھل کے تعریف کی‪،‬جوسلین‬
‫دھیما دھیما مسکرانے لگی‪،‬میں نے‬
‫بڑے عرصے بعد اتنے اہتمام سے کھانا‬
‫بنایا ہے‪،‬پرنس مجھے کھانا بناناکچھ‬
‫خاص نہیں آتا تھا ‪،‬اور میری مما‬
‫کہتی تھی جوسلین جب تم دل سے‬
‫کسی کیلیے کھانا بناؤ گی تو کھانا‬
‫زبردست بن ہی جائے گا اور اس دن‬
‫تمھیں کھانے میں ذائقہ ڈالنا آجائے‬
‫گا‪،‬تو آج پرنس مجھے تمھاری بدولت‬
‫کھانا بنانا بھی آگیا‪،‬میں ہنسنے‬
‫لگا‪،‬بات بے بات ہنسنے کودل چاہ رہا‬
‫تھا‪،‬جوسلین کا چہرا بھی ایسا تھا‬
‫جیسے قمقمہ جل اٹھا ہو‪،‬ہم ڈرائنگ‬
‫روم میں آکر کافی پینے لگے‪،‬پھر‬
‫وہاں باتیں کرتے رہے ‪،‬اور پھر ہم‬
‫بیڈروم میں آگئے‪،‬میں نے جوسلین‬
‫کو بانہوں میں لے کر ہونٹوں سے‬
‫ہونٹ جوڑ دئے ‪،‬پھر وقت بیتنے کا‬
‫پتہ ہی نہیں چال ۔‬

‫اسی سر شاری میں ایک ہفتہ گزر‬


‫گیا‪،‬ہمیں کسی چیز کا ہوش نہیں‬
‫تھا‪،‬بس ہم تھے اور ہماری مستیاں‬
‫تھیں‪،‬اس دوران کچن ‪،‬باتھ روم‪،‬‬
‫ڈرائنگ روم‪،‬البریری ‪،‬بیسمنٹ ہرجگہ‬
‫ہم نے سیکس کیا ‪،‬گویا یہ ہمارا ہنی‬
‫مون کا پیریڈ تھا‪،‬لیکن ہم نے فلیٹ‬
‫سے اک لمحے کیلیے بھی قدم باہر‬
‫نہیں نکاال‪،‬جوسلین نے یونیورسٹی‬
‫سے ایک ہفتے کی چھٹیا ں لی ہوئی‬
‫تھیں‪،‬اب کل سے اس نے یونیورسٹی‬
‫جانا تھا‪،‬پرنس تم نے میٹرک کیاتھاتو‬
‫اس کا رزلٹ کیسا نکال‪،‬میں نے رزلٹ‬
‫کا پتہ ہی نہیں کیا‪،‬بلکہ سچ کہوں تو‬
‫جوسلین میرا اس طرف دھیان ہی‬
‫نہیں گیا‪،‬ٹھیک ہے تم اپنا رولنمبر‬
‫بتاؤ اگر تمھیں یاد ہے تومیں رزلٹ کا‬
‫پتہ کرواتی ہوں‪،‬میں نے اپنا رولنمبر‬
‫بتا دیا‪،‬اگلے دن جوسلین یونیورسٹی‬
‫چلی گئی ‪،‬اور میں فلیٹ میں تنہا رہ‬
‫گیا‪،‬اور کچھ نہیں تو میں بائیک لے‬
‫کراستاد کی طرف نکل گیااور گھر‬
‫والوں کیلیے کچھ چیزیں بھی لے‬
‫گیا‪،‬وہاں استاد کی بیوی بڑی چاہت‬
‫سے ملی‪،‬کیوں رے بڑا بے مّر وت نکال‬
‫تو‪،‬ایک لمحے کیلیے ماں سے ملنے‬
‫بھی نہ آیا‪،‬معافی چاہتا ہوں اّم اں‬
‫جی‪،‬فوری نہ آسکا‪،‬لیکن آپ لوگوں‬
‫کی یاد مجھے بھی آتی تھی‪،‬استاد‬
‫کے گھر والے میرے ساتھ بہت خوش‬
‫تھے وہ دن بڑی تیزی سے نکل گیا‪،‬اور‬
‫مجھے اداس بھی کر گیا‪،‬دوپہر کا‬
‫کھانا کھائے بناء اّم اں نے آنے نہ‬
‫دیا‪،‬پھر ان سے اجازت لیکر میں‬
‫فلیٹ میں پہنچ گیا‪،‬جوسلین آچکی‬
‫تھی میں وہاں ایک چٹ لکھ کر گیا‬
‫تھا اس لیئے وہ میرا ہی انتظار کر‬
‫ہی تھی ‪،‬اسے بڑی بھوک لگی تھی‬
‫‪،‬جس بے تابی اور محبت سے‬
‫جوسلین میرا نتظار کر رہی تھی‬
‫‪،‬میں اسے یہ نہ کہہ سکا کہ میں‬
‫کھانا کھا کر آیا ہوں ‪،‬اور اس کے‬
‫ساتھ کھانے میں شامل ہوگیا‪،،‬کچھ‬
‫زیادہ ہی کھانے میری حالت میں بے‬
‫زاری سی آگئی ‪،‬لیکن جیسے ہی‬
‫جوسلین کی بنائی کافی پی تو حالت‬
‫بہتر ہونے لگی‪،‬پرنس تم میٹر ک میں‬
‫اچھے نمبروں سے پاس ہوگئے ہو‪،‬اب‬
‫کیا ارادے ہیں تمھارے ؟ جوسلین‬
‫جانتے بوجھتے میرے ارادے پوچھنے‬
‫لگی‪،‬جوسلین تم جانتی ہو کہ میں‬
‫آگے پڑھنا چاہتا ہوں‪،‬ٹھیک ہے تو پھر‬
‫داخلہ کافی لیٹ ہونے کے باوجود‬
‫میں نے تمھیں ایچی سن میں داخل‬
‫کروا دیا ہے ‪،‬مجھے اس کیلیے کچھ‬
‫اثرورسوخ استعمال کرنا پڑا ‪،‬اور اب‬
‫میں چاہتی ہوں کہ کم وقت ہونے کے‬
‫باوجود تم فرسٹ ائیر میں کوئی‬
‫پوزیشن لے کر دکھاؤ‪،‬کل سے تم کالج‬
‫جاؤ گے اور شام کو تمھیں ایک ٹیچر‬
‫بھی پڑھانے آیا کرے گی‪،‬جوسلین‬
‫سب کچھ طے کر چکی تھی اور‬
‫اسی طرح ہوا اگلے دن میں کالج اور‬
‫جوسلین یونیورسٹی چلی گئی‪،‬کالج‬
‫کے بعد ہم آگے پیچھے ہی فلیٹ‬
‫واپس ہوئے ‪،‬کھانے اور کچھ دیر کے‬
‫آرام کے بعد سہہ پہر کو ہی ایک‬
‫ٹیچر مجھے پڑھانے آگئی‪ ،‬میں‬
‫حیران ہوا وہ ایک جوان لڑکی تھی۔‬
‫شاید اس کی عمر ‪ 26‬سال ہو‪،‬بعد‬
‫میں اندازہ ہوا وہ جوسلین کی‬
‫اسٹوڈنٹ رہ چکی تھی‪،‬اور اب‬
‫کوچنگ سنٹرمیں پڑھاتی تھی‪،‬اسے‬
‫کم وقت میں تیاری کروانے میں‬
‫مہارت تھی‪،،‬مجھے اسپیشل‬
‫جوسلین کی وجہ سے فلیٹ پر ہی‬
‫وقت دینے پر رضامند ہوگئی‬
‫تھی‪،‬پڑھانے بیٹھی تو پتہ چال کہ‬
‫اپنے شعبے میں بڑی ماہر ہے‪،،‬اچھی‬
‫بھلی خوبصورت لڑکی تھی‪،‬بڑی ہی‬
‫دلکش اور حسین تھی‪،‬اسے دیکھ کہ‬
‫مجھے خماری چڑھنے لگی۔وہ گئی تو‬
‫شام کو ایک اور استاد آگئے یہ میرے‬
‫مارشل آرٹ کے استاد تھے ۔شاید‬
‫جوسلین ایک ہی بار میں میری ہر‬
‫خوہش پوری کردینا چاہتی تھی‪،‬‬
‫رات کو ہم اکھٹے کھانا کھاتے اور‬
‫اس کے بعد دیر تک باتیں کرتے جب‬
‫کھانا اچھی طرح ہضم ہوجاتا تو ہم‬
‫بیڈ روم میں چلے جاتے اور ہماری‬
‫مستیاں شروع ہو جاتی‪،،‬دھیے‬
‫دھیرے وقت گزرنے لگا‪،‬اور میں‬
‫معموالت کا پابند ہوتا گیا‪،‬ٹیوشن‬
‫ٹیچر بڑی لے دے کہ رہتی تھی‪،‬شاید‬
‫اس کی وجہ یہ ہوگی کہ جوسلین‬
‫پڑھائی کے دوران اپنا آپ محسوس‬
‫کرواتی رہتی تھی‪،‬گو کہ ہم الئبریری‬
‫میں پڑھتے تھے‪،‬لیکن مجھے‬
‫محسوس ہوا کہ جوسلین ہمیں اکیال‬
‫چھوڑنے کو بالکل تیار نہیں تھی‪،‬میں‬
‫سمجھ گیا کہ جوسلین کبھی بھی‬
‫مجھے کسی کے ساتھ بانٹے گی نہیں‬
‫‪،‬بلکہ اپنے حِق ملکیت جتاتے ہوئے‬
‫کسی کو میرے پاس بھی نہیں آنے‬
‫دے گی‪،،‬بہر حال یہ ضرور تھا کہ‬
‫ٹیچر پر میری شخصیت اثر انداز‬
‫ہونے لگی تھی ‪،‬بھال وہ اس سے‬
‫کیسے بچ سکتی تھی۔۔ معموالت‬
‫چلتے رہے اور جلد ہی جوسلین نے‬
‫مجھے ناولز پڑھنے کیلیے دینے لگی‬
‫‪،‬پھر اس کے بار ے میں پوچھتی کے‬
‫پڑھا کہ نہیں ‪،‬اگر میں کہتا پڑھا ہے‬
‫تو وہ اس کے بارے میں بحث کرتی‬
‫‪،‬آہستہ آہستہ مجھے ناولز پڑھنے کی‬
‫عادت ہوگئی‪،‬شروع میں ہی جوسلین‬
‫نے مجھے ممتاز مفتی کا علی پور کا‬
‫یلی پڑھنے کو دیا‪،‬میں اس کی تحریر‬
‫میں کھو سا گیا‪،‬کیا کشش تھی‬
‫ممتاز مفتی کی تحریر میں ‪،‬ایسے‬
‫لکھاری کم ہی ہوتے ہیں جو لفظوں‬
‫سے سحرطاری کرد یتے ہیں اس میں‬
‫ممتازمفتی کے اینکر اینڈی ماباؤ نے‬
‫مجھے کافی محظوظ کیا‪،‬آخر میں‬
‫نے اس طویل ترین ناول کوختم کر‬
‫کے ہی دم لیا‪،‬اس طرح ابِن صفی‪/‬‬
‫مظہر کلیم ایم اے ‪،‬نسیم حجازی‬
‫‪،‬قمر اجنالوی ‪،‬اے حمید ‪،‬طارق‬
‫اسماعیل ساگر کے دلچسپ ترین‬
‫ناول پڑھنے لگا‪،‬اور مجھے ان کی لت‬
‫لگ گئی ‪،‬اس وقت مجھے نہیں پتہ‬
‫تھا کہ جوسلین مجھے کتابوں کے‬
‫مطالعہ کیلیے بک ریڈنگ کی عادت‬
‫ڈال رہی ہے ‪،‬ٹیچر سے میری آنکھ‬
‫مچولی چلتی رہی ‪،‬وہ ظاہر کرتی‬
‫رہی کہ اسے مجھ میں کوئی‬
‫دلچسپی نہیں تھی‪،‬لیکن میں سمجھ‬
‫رہا تھ اکہ اس کے دل میں پرنس کی‬
‫شبیہ آچکی تھی‪،‬میرے سامنے‬
‫بیٹھتے ہی اس کی آنکھیں بولنے‬
‫لگتی‪،‬لیکن وہ جوسلین سے بہت‬
‫محتاط تھی بلکہ ڈرتی تھی ‪،‬میں یہ‬
‫سب محسوس کر رہا تھا اور میں‬
‫بس کسی موقع کے انتظار میں‬
‫تھا‪،‬ایک طرح سے میں جوسلین کی‬
‫کڑی نگرانی میں تھا‪،‬ساتھ ہی ساتھ‬
‫جوسلین نے مجھے سیکس کی‬
‫تھیوری سمجھانی شروع کر‬
‫دی‪،‬پریکٹیکل تو ہم ہر رات کرتے‬
‫تھے۔‬

‫سب سے پہال سبق جو جوسلین نے‬


‫مجھے دیا وہ تھا کہ سیکس کیا ہے‬
‫‪،‬کیوں ہے ‪،‬اور اس کی کتنی قسمیں‬
‫ہیں ‪،‬پرنس آج کی میری بات یاد‬
‫رکھنا ‪،‬چودائی کی بھوک ہر انسان‬
‫میں ایسے ہی قدرتی طور پر ہے‬
‫جیسے پیٹ کو کھانا کھانے کی‬
‫بھوک لگتی ہے ‪،‬سیکس کے حوالے‬
‫سےنفسیات کے بابا آدم سگمنڈفرائڈ‬
‫کہتا ہے کہ ہر انسان کی افزائش نسل‬
‫کے ساتھ ساتھ سیکس کی بھوک‬
‫پروان چڑھتی ہے‪،‬فرائڈ اسے لبیڈو کا‬
‫نام دیتا ہے چودائی کی بھوک قدرت‬
‫نے اس لیئے انسان میں ڈالی ہے کہ‬
‫اس سے انسان کی نسل بڑھتی رہے‬
‫‪،‬اور اس میں بے مثال مزہ ڈال دیا ہے‬
‫کہ انسان اپنی بھوک مٹانے کیلیے یہ‬
‫کام کرتا رہے اور نسِل انسانی بڑھتی‬
‫رہے ‪،‬ظاہر سی بات ہے کہ اگر‬
‫انسانیت کی بڑھوتری کا کوئی‬
‫سامان نہیں ہوتا تو انسان کب کا‬
‫ختم ہو جانا تھا اس کیلیے تمام‬
‫مذاہب شادی کرنے کو کہتے ہیں‪،‬لیکن‬
‫کیونکہ یہ مذہبی بحث ہے اور ہم آزاد‬
‫سوسائٹی کے افراد ہیں ‪،‬تو ہمیں‬
‫اپنی بھوک مٹانے کیلیے جہاں موقع‬
‫ملتا ہے ‪،‬ہم اپنی بھوک کی تسکین‬
‫کرنے لگتے ہیں ‪،‬اس کی کچھ قسمیں‬
‫‪ ،‬بھی ہیں‬
‫نمبر ‪1‬۔لڑکے کا لڑکی سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪، 2‬لڑکے کا لڑکے سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪، 3‬لڑکی کا لڑکی سے سیکس ۔‬
‫نمبر ‪ ،4‬سیلف سیکس ‪ ،‬یعنی مشت‬
‫زنی ۔‬
‫نمبر‪،5‬جانوروں سے سیکس‬
‫بنیادی طور پر یہی سیکس ہیں ‪،‬ان‬
‫میں جنس کو جنس سے تقابل کیا‬
‫گیا ہے ‪،‬لیکن کچھ باتیں ایسی بھی‬
‫سامنے آئی ہیں جو سیکس میں نئی‬
‫روایات ڈال رہی ہیں ان میں جنس‬
‫سے جنس کا تقابل تو نہیں ہے ‪،‬لیکن‬
‫نئی جدت نے سرگھما کہ رکھ دیا ہے‪،‬‬
‫یہ ہے انسیسٹ سیکس ۔‬
‫نمبر ‪6‬خونی رشتوں کا آپس میں‬
‫سیکس ۔‬
‫نمبر ‪ ، 7‬وائف سویپنگ یعنی بیویوں‬
‫کی ادال بدلی‬
‫خونی رشتوں کا سیکس ہمارے ہاں‬
‫دیور بھابی اور سالی ‪،‬بہنوئی ‪،‬اور‬
‫سسر اور بہو کی شکل میں موجود‬
‫تھا لیکن اب یورپی وبا سے بہن‬
‫بھائی اور ماں بیٹے میں بھی شروع‬
‫ہو گیاہے‪،‬اس کی بنیاد تاریخ میں تو‬
‫بہت پرانی ہے‪،‬جیسے عظیم ایمپائیر‬
‫یونان میں کیلی گوال اور نیرو کا دور‬
‫میں یہ ہوتا تھا تھا‪،‬مغرب نے سیکس‬
‫کی تمام روایات یونان لی ہیں‪،‬یہ‬
‫سب یونانی ایمپائیر کے معاشرےسے‬
‫آئی ہیں‪،‬آگ پرست طبقہ جو کہ‬
‫پارسی کہالتا ہے اور ایران ان کا‬
‫مسکن رہا ہے ‪ ،‬یہ لوگ مزہبی‬
‫احکامات کے تحت بہنوں اور بیٹیوں‬
‫سے شادی کر لیتے تھے‪،‬ایک اور مثال‬
‫سندھ کے راجہ داہر کی ہے اس نے‬
‫اپنی بہن سے شادی کر لی‪،،‬کچھ‬
‫کہتے ہیں اس نے سیکس نہیں کیا‬
‫تھا ‪،‬لیکن جب شادی ہوگئی اور‬
‫کوئی روکنے واال بھی نہیں تو پٹرول‬
‫اور آگ ایک دوسرے سے دور کیسے‬
‫‪،‬رہ سکتے ہیں‬

‫پانچ اکتوبر ‪ 2014‬کو پاکستان (‬


‫اخبار میں تازہ نیوز آئی ہے جرمن‬
‫حکومت کی کونسل برائے اخالقیات‬
‫نے ایک تجویز دے دی ہےکو نسل کا‬
‫کہنا ہے کہ جرمن معاشرے میں بہن‬
‫اور بھائی کے آپس میں جنسی تعلق‬
‫کو قانونی اجازت ہونی چاہیے۔‬
‫کونسل کا کہنا ہے کہ یہ ہر انسان کا‬
‫بنیادی حق ہے کہ وہ کس کے ساتھ‬
‫زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اس وقت‬
‫کونسل پیٹرک سٹیوبنگ کا مقدمہ‬
‫سن رہی تھی‪ ،‬پیٹرک نے اپنی سگی‬
‫بہن سوسین کیرول سے شادی‬
‫کررکھی تھی اور دونوں کے چار بچے‬
‫بھی تھے۔جرمن حکومت کی اس‬
‫تجویز پر دیگر یورپی ممالک میں‬
‫)شدید تنقید بھی کی جارہی ہے۔‬

‫مرد کا مرد سے سیکس ہمارے‬


‫معاشرے میں بہت پرانا ہے مغل‬
‫بادشاہوں نے تو خاص طور پر اس‬
‫میں بڑا حصہ ڈاال ہے‪،‬عورت سے‬
‫عورت کا سیکس بھی ہمارے‬
‫معاشرے میں پہلے سے موجود تھا ‪،‬‬
‫اس راز سے پردہ عصمت چغتائی‬
‫اپنے مشہور افسانے لحاف میں کافی‬
‫پہلے اٹھا چکی ہے جانوروں سے‬
‫سیکس گو کہ ٹرپل ایکس موویز کے‬
‫ذریعے سامنے آیا ہے وہاں پیٹس‬
‫(پالتو جانور کتا بلی وغیرہ ) کا‬
‫رواج ہے اور ان کے معاشرے میں فرد‬
‫کی تنہائی بھی مو جود ہے لیکن‬
‫ہمارے ہاں بھی یہ موجود ہے ‪،‬اس‬
‫انداز سے نہیں لیکن ہے ضرورر‬
‫جیسے پالتو جانور گائے بھینس‬
‫وغیرہ کو باڑے میں ہی جنسی تلذذ‬
‫کیلیے چودنا ‪،‬اب رہ گیا سیلف‬
‫سیکس یعنی اپنے ہاتھ سے خود کے‬
‫ساتھ چودائی کا مزہ لینا ‪،‬جس میں‬
‫لڑکا اپنے ہاتھ سے چوت بنا کے اسے‬
‫چودتا ہے اور لڑکی اپنے انگلی کو‬
‫عضو بنا کے خود کو چودتی ہے‬
‫‪،‬یورپ میں تو اس کے لیئے کھلونے‬
‫بھی ملتے ہیں ‪،‬اور نرماہٹ کیلیے آئل‬
‫یا کریمیں بھی ملتی ہیں‪ ،‬وہاں یہ‬
‫سیکس کا ایک حصہ ہے اور اس پر‬
‫کسی کو شرمندگی نہیں ہے ‪،‬لیکن‬
‫ہمارے ہاں یہ ایک بیماری سمجھا‬
‫جاتا ہے ‪،‬ہمارے ڈاکٹروں اور حکیموں‬
‫نے اسے جنسی طاقت کا خاتمہ کہاہے‬
‫اور سارے پاکستان کی دیواریں اور‬
‫ہفتہ وار میگزین مردانہ کمزوری کے‬
‫عالض سے بھرے ہوتے ہیں ۔‬
‫لہذا ‪،‬ان نفسیاتی الجھنوں سے‬
‫پاکستان میں سیلف سیکس کرنے‬
‫والے لڑکے جلد منی نکل جانا یعنی‬
‫سرعِت انزال اور منی پتلی اور عضو‬
‫کا ٹیڑھا پن اور جریان وغیرہ کا‬
‫شکار ہوجاتے ہیں ‪،‬اور کثرت کے‬
‫ساتھ ہینڈ پریکٹس کرنے سے جسم‬
‫میں خون کی کمی بھی ہو جاتی ہے‬
‫ساتھ ہی ساتھ طبیعت میں شرمیال‬
‫پن اور تنہائی پسندی بڑھ جاتی ہے‬
‫‪،‬تم اسے احساس کمتری بھی کہہ‬
‫سکتے ہو ۔اصل میں نفسیاتی‬
‫الجھنوں سے بچا جائے تو اس سے‬
‫کسی لڑکے کو طبّی لحاظ سے کو ئی‬
‫نقصان نہیں ہو سکتا ایک طرف ایک‬
‫انسان دھڑا دھڑ چدائی کرتا ہے اور‬
‫ان مسائل سے بچا رہتا ہے اور‬
‫دوسری طرف ایک انسان مشت زنی‬
‫کرتا ہے تو کئی مسائل کا شکار‬
‫ہوجاتا ہے یہ نفسیاتی الجھنوں کے‬
‫سوا کچھ بھی نہیں ہے۔‬

‫ایک انگریزی کہاوت ہے کہ‪95 ٪‬‬


‫انسان مشت زنی کرتے ہیں اور جو‬
‫باقی ‪ ٪ 5‬ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں‬
‫لیکن لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیئے‬
‫یہ حقیقت ہے کہ میڈیکلی یہ ان‬
‫کیلیے کافی نقصان دہ ہے اور‬
‫معاشرتی طور پر تو بہت ہی‬
‫خطرناک ہے کیونکہ پاکستانی مرد‬
‫خود جو مرضی کرتا پھرے لیکن‬
‫اپنی عورتوں کے ساتھ ایسی کوئی‬
‫بات منسوب ہوتے ہی اس کی غیرت‬
‫ابھر آتی ہےلیکن دوسرے کی بیٹیوں‬
‫پر اس کی رال ٹپکتی ہے‪،‬تو ایسے‬
‫دوغلے معاشرے میں پاکستانی‬
‫لڑکیوں کو بے حد محتاط زندگی بسر‬
‫کرنی چاہیئے ‪( ،‬یاد رہے جوسلین‬
‫کرسچن ہے )اور پرنس یہ جو بتایا‬
‫جاتا ہے کہ یہ ہارڈ کور ہے یہ فیٹش‬
‫ہے ‪،‬اینل سیکس ہے ‪ ،‬گروپ سیکس‬
‫وغیرہ یہ سب سیکس کی قسمیں‬
‫نہیں ‪،‬بلکہ چودائی کے انداز ‪/‬طریقے‬
‫ہیں اور اوپر بیٹھ کر کرنا‪،‬نیچے لیٹ‬
‫کر کرنا ‪،‬کھڑے ہو کرنا ‪،‬بیٹھ کر کرنا‬
‫یہ سب سیکس کہ مختلف آسن ہیں‬
‫اسٹائل ہیں ہے یہ بنیادی باتیں ہیں‬
‫اور تمھیں وقتًا فوقتًا مزید معلومات‬
‫ملتی رہیں گی‪،‬جوسلین رسانیت سے‬
‫بات کرتے ہوئے اپنی بات ختم کر دی‬
‫۔‬
‫اسی طرح وقت گزرتا جا رہا تھا‪،‬ایک‬
‫دن جوسلین تھکی ہوئی تھی اور‬
‫اپنے کمرے میں لیٹی تھی ادھر ٹیچر‬
‫آگئی‪،‬ہم پڑھتے رہے جوسلین نے بس‬
‫ایک چکر لگایااور پھر لیٹ گئی‬
‫جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ وہ‬
‫ہمارے پاس الئبریری میں نہیں آتی‬
‫تھی بلکہ اپنے ہونے کا احساس دالتی‬
‫رہتی تھی‪ ،‬میں نے موقع غنیمت جان‬
‫کر ٹیچر کا ہاتھ پکڑ لیا‪،‬مجھے یقین‬
‫تھا ٹیچر میری کشش میں پھنس‬
‫چکی ہے ‪،‬جیسے ہی میں نے ہاتھ پکڑا‬
‫اس کی نظریں سب سے پہلے‬
‫دروازے کی طرف اٹھی‪،‬لیکن وہاں‬
‫کسی کو نہ دیکھ کر وہ خاموشی‬
‫سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگی‪،،‬میرے لیئے‬
‫اتنا ہی بہت تھا کہ نہ تو اس نے شور‬
‫مچایا تھا اور نہ ہی مجھ سے کسی‬
‫قسم کہ غصے کا اظہار کیا تھا‪،‬آخر‬
‫میں نے اس کا ہاتھ پشت سے چوم‬
‫کر چھوڑ دیا‪،‬ٹیچر میری طرف شاکی‬
‫نظروں سے دیکھنے لگی‪،‬کچھ لمحیں‬
‫بیتے ہوں گے کہ جوسلین دروازہ کے‬
‫سامنے سے گزری‪،‬ہم پڑھ رہے‬
‫تھے‪،‬جوسلین جیسی جیئنس کہ‬
‫ہوتے ہوئے ایک نیا کھیل شروع ہو‬
‫گیا تھا‪،‬جس کی ابھی اسے خبر نہیں‬
‫تھی‪،‬سال پورا ہونے واال تھا میرے‬
‫پیپرز آگئے تھے اس دوران میں دو‬
‫سو کہ لگ بھگ ناول پڑھ چکا تھا‬
‫اور میری پڑھنے کی رفتار کافی تیز‬
‫ہو گئی تھی‪،‬مارشل آرٹ میں بھی‬
‫میں بھی چل نکال تھا ‪،‬میں اچھے‬
‫نمبروں سے پاس ہوگیا لیکن‬
‫جوسلین اس سے خوش نہیں تھی‬
‫وہ چاہتی تھی میں کوئی پوزیشن‬
‫لوں‪،‬اس پر جوسلین ٹیچر سے غصے‬
‫بھی ہوئی‪،‬لیکن غنیمت تھا کہ اسے‬
‫نکاال نہیں ۔‬
‫🤩 🤩 😘 🥰‬
‫آفر آفر آفر‬
‫اج کی نیو لسٹ (لڑکوں کا آپس میں‬
‫سیک*س)‬
‫روپے میں تمام کہانیاں حاصل ‪100‬‬
‫کریں۔‬
‫ماڈرن بچے ایک بہت بگڑ ہوۓ بچوں‬
‫کا سیک س‬
‫تا ‪ 6‬قسط جاری ہے‪1‬‬
‫عجيب عدت (لڑکوں کا سیک س)‪.‬‬
‫کمرے کی کنڈی (لڑکوں کا سیک‪.‬‬
‫س)‬
‫لڑکوں کا سیک س)نازک لڑکا(‪.‬‬
‫میری تعلیم لڑکوں کا سک س‪.‬‬
‫جن پر تکیہ لڑکوں کا سیک س‪.‬‬
‫اسد کے ساتھ لڑکوں کا سیک س‪.‬‬
‫ایک اور گنڈ لڑکوں کا سیک س‪.‬‬
‫لڑکوں کے ساتھ پاکستانی سیک س‪.‬‬
‫گنڈ کی پیاس لڑکوں ک‪ ،‬سیک س‬
‫ایک لڑکی کو تین لڑکوں نے کمرے‪.‬‬
‫میں چودا‬
‫چھوٹا بچہ‬
‫واٹس ایپ نمبر‬

‫🐍‬
‫‪03147615013‬‬
‫ناگن‬
‫‪Update_7‬‬

‫میں سمجھ گیا جوسلین کو میری‬


‫ٹیچر پر بھروسہ ہے اور قابلیت پر‬
‫اعتماد ہے ‪،‬شاید اس کی نظر میں‬
‫ایسی ٹیچر کوئی اور نہ ہو‪،‬اسی لیے‬
‫جوسلین ایک لڑکی کو میرے ساتھ‬
‫برادشت کر رہی تھی‪،‬دوسرا سال‬
‫شروع ہوتے ہی میں ٹیچر سے کھل‬
‫گیا ‪،‬اور پہلے دن ہی موقع دیکھ کر‬
‫اس کے گال پر چوما لے لیا‪،‬اسے‬
‫جیسے جھٹکا لگا‪،‬اور گم سم سی ہو‬
‫گئی‪،‬مجھےاعتمادتھا وہ میری کشش‬
‫سے اب کہیں بھاگ نہیں سکتی‪،‬ٹیچر‬
‫نے کچھ نہیں کہا اور وہ مجھے‬
‫پڑھاتی رہی لیکن اس کے چہرے پر‬
‫غصہ تھااس نے جوسلین سے تو‬
‫کچھ نہیں کہا‪ ،‬لیکن مستقل میرے‬
‫ساتھ اپنا رویہ کافی سخت اپنا لیا‬
‫تھا‪ ،‬دوسرا سال شروع ہوتے ہی‬
‫جیسے جوسلین نے میرا سارا‬
‫پروگرام بدل دیا‪،‬اب مجھے ناولز کی‬
‫بجائے وہ افسانے اور خشک ادبی‬
‫کتابیں پڑھانے لگی‪،‬عصمت چغتائی‬
‫‪،‬منٹو ‪ ،‬انتظار حسین کا اداس نسلیں‬
‫‪،‬قرۃالعین کا آگ کا دریا ‪،‬اشفاق احمد‬
‫‪ ،‬کا سفر در سفر ‪،‬ایک محبت سو‬
‫افسانے احمد ندیم قاسمی کا گنڈاسہ‬
‫‪،‬بانو قدسیہ کا راجہ گدھ رحیم گل‬
‫کا جنت کی تالش جوسلین کے‬
‫اصرار پر مجھے پڑھنے پڑے آہستہ‬
‫آہستہ ناولز کی بجائے مجھے ان کا‬
‫چسکا پڑتا گیا‪،‬اب مارشل آرٹ کے‬
‫ساتھ جوسلین نے خودمجھے یوگا‬
‫کی تربیت دینی شروع کر دی ۔‬

‫میرے پاس اپنے لیئے وقت کم ہوتا‬


‫تھا‪،‬چھ مہینےمزید گزرنے کے بعد‬
‫میں نے بلیک بیلٹ حاصل کر لی۔اس‬
‫دن جوسلین کافی خوش تھی اور‬
‫اس نے مجھے ٹریٹ دی اور ہم دو‬
‫دنوں کیلیے اس کی وسیع جاگیر پر‬
‫پکنک منانے چلے گئے‪،‬وہاں ہر کوئی‬
‫اس کے سامنے جھکتا تھا جوسلین‬
‫وہاں کی ملکہ تھی تو میں وہاں کا‬
‫پرنس تھا‪،‬ہم نے وہاں جاگیر میں‬
‫خوب مزے کیئے اور پھر واپس ہو‬
‫لیئے ‪ ،‬لیکن پھر ہر مہینے وہاں ویک‬
‫اینڈ گزارنے لگے‪،‬ٹیچر سے آنکھ‬
‫مچولی جاری تھی اس دوران میں‬
‫نے کئی بار ٹیچر کی چومی لی اب‬
‫وہ غصے کی بجائے بے حس بیٹھی‬
‫رہتی ‪،‬جیسے وہ کوئی پتھر ہے میں‬
‫اندر ہی اندر تلمالنے لگا‪،‬اور اب میں‬
‫نے رسک لینے کا فیصلہ کر لیا ‪،‬میں‬
‫اگر کوئی موقع بناتا تو جوسلین سے‬
‫چھپنا نہیں تھا ‪،‬میں کسی موقع کے‬
‫انتظار میں رہنے لگا‪،‬باقی معموالت‬
‫جاری تھے ۔‬

‫میں ایک دن جان بوجھ کر بات‬


‫چھیڑ دی کے لڑکی کیسے پھنستی ہے‬
‫‪،‬تو جوسلین شروع ہو گئی ‪،‬میں اس‬
‫کی یہ عادت جان گیا تھا بس اسے‬
‫کوئی سوال دے دو اور وہ شروع ہو‬
‫جاتی تھی ایک تو وہ عورت تھی‬
‫دوسرا پروفیسر تھی اب بھی مجھے‬
‫تجربے کا نچوڑ سننے کا ملنے لگا ‪،‬‬
‫غور سے سنو پرنس ُکوک شاستروں‬
‫کا وقت چال گیا ہے اب اس دنیا میں‬
‫بس دو قسم کی لڑکیاں ہیں ‪ ،‬ایک وہ‬
‫جو سیکس کرنا چاہتی ہیں یا کر‬
‫چکی ہیں‪،‬اور دوسری وہ جو کچھ‬
‫اصولوں پر اپنی زندگی گزارتی ہیں‬
‫یعنی شادی وغیرہ‪،‬پہلی قسم کی‬
‫لڑکیوں کو پھنسایا تو کئی طریقوں‬
‫سے جاتا ہے ‪،‬لیکن ان سب کی بنیاد‬
‫دو اصول ہیں ایک لڑکی اپنی بھوک‬
‫مٹانے کیلیئےپھنستی ہے دوسرا پیسے‬
‫کیلییے پھنستی ہے‪ ،‬جسے چودائی‬
‫کی بھوک لگی ہے لیکن ابھی کچھ‬
‫کیا نہیں ہے تو وہ کچھ وقت لے گی‬
‫۔‬
‫لیکن جس نے چودائی کی ہوئی‬
‫ہےاور وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی‬
‫شدہ اس سے چودائی آسان ہے‬
‫‪،‬دوسرے نمبر پر پیسے کے بدلے‬
‫چودائی کروانا ہے اسے آپ کسی بھی‬
‫گفٹ سے شروع ہو کہ کہیں بھی لے‬
‫جاسکتے ہیں کوئی بھی نام دے‬
‫سکتے ہیں‪(،‬موبائل بیلنس کی وبا کا‬
‫اس وقت نام و نشان نہیں تھا )گر‬
‫کوئی ان دو بنیادی باتوں سے نہیں‬
‫پھنستی تو ایک ایک تیسرا طریقہ‬
‫بھی ہے جو کہ منفی ہے اور وہ‬
‫ہے‪،‬محبت کا فریب دینا‪ ،‬اس وقت‬
‫یہی طریقہ عام ہے ‪،‬لڑکی سے اظہاِر‬
‫محبت کرو اس کا اعتماد جیتو اور‬
‫جب وہ آپ کے پیار میں اپنا آپ بھال‬
‫دے تو اس سے سیکس کرو جب تک‬
‫اسے ہوش نہیں آجاتا ‪،‬جب ہوش‬
‫آجائے کسی بھی وجہ سے تو اسے‬
‫بھگا دو اور کوئی اور ڈھونڈ لو ‪،‬یا‬
‫اسی پر نئی کہانی ڈال کر اپنا کام‬
‫جاری رکھو جب تک ہو سکے ۔‬
‫اس سے بھی کوئی لڑکی تمھیں اپنے‬
‫قریب نہ آنے دے جو کہ بہت کم ہوں‬
‫گی تو اس سے شادی کا وعدہ‬
‫کرلو‪،‬شادی ہر لڑکی کا خواب ہے‪،‬سو‬
‫وہ شادی کے نام پر اپنا آپ اس کے‬
‫حوالے کر دیتی ہے‪،‬اس طریقہ سے‬
‫کوئی خا ص لڑکی ہی بچ سکتی‬
‫ہے‪،‬اور اگر یہ بھی نہ ہو‪،‬یعنی ملتی‬
‫تو ہےیا اس سے دوستی تو ہوگئی ہو‬
‫لیکن ہاتھ نہیں لگانے دیتی تو ایسی‬
‫میڈیسن آچکی ہیں‪،‬جوکسی جوس‬
‫وغیرہ میں پال دی جائیں تو آپ کے‬
‫پاس بیٹھی لڑکی گرم ہو جائے گی‬
‫اور اسے چھیڑنے سے وہ آپ کی‬
‫جھولی میں آگرے گی‪،‬لیکن یہ بھی‬
‫ایک زبردستی ہے‪،‬اس کے بعد جو‬
‫طریقہ بچ جاتا ہے وہ ہے زبردستی‬
‫بزوِر بازو عزت لوٹنا‪،‬یا کسی کمزوری‬
‫سے لڑکی کو بلیک میل کرنا‪،‬صرف‬
‫اسی سے آپ کہہ سکتے ہیں کہہ آپ‬
‫نے لڑکی کو اپنی مرضی سے حاصل‬
‫کیا ہے ‪،‬یاد رکھنا پرنس دنیا کا کوئی‬
‫مرد یہ دعوی نہیں کرسکتا کہ وہ‬
‫کسی بھی لڑکی کو پھنسا سکتا ہے‬
‫‪،‬لڑکی سیکس کی چاہت یا پیسے کی‬
‫ضرورت میں خود پاس آتی ہے‪ ،‬آپ‬
‫تو صرف اسے یہ بتاتے پیں کہ میں‬
‫تمھاری سیکس کی یا پیسے کی‬
‫ضرورت پوری کر سکتا ہوں۔‬

‫اس سلسلے میں اپنا بھی تجربہ‪((،‬‬


‫بیان کرتا چلوں‪،‬ڈرائیور طبقہ ایسا ہے‬
‫جو ہر قسم کے لوگوں سے ملتا‬
‫ہے‪،،‬اور مڈل کالس میں کہتے ہیں کہ‬
‫‪ 10‬کنجر ہوں تو ایک پولیس واال‬
‫بنتا ہے اور ‪ 10‬پولیس والے ہوں تو‬
‫ایک ڈرائیور بنتا ہے‪(،‬معذرت کے‬
‫ساتھ)میں ایک خرانٹ ڈرائیور سے‬
‫مالاس کا رینٹ اے کار کا کام تھا‬
‫اس کے پاس اپنی کار تھی ‪،،‬آگے بات‬
‫اسی کی زبانی اچھی لگے گی‪،‬باؤ‬
‫جی تسی کہندے او ُکڑی کیویں‬
‫پھسدی اے‪،‬میں تہانوں ایک آودا‬
‫واقعہ دسنا‪ ،،‬میرا کول سوزوکی‬
‫کلٹس ہے سی‪،،‬تو او خراب‬
‫ہوگئی‪ُ،،‬ا ُت وں شادیاں دا سیزن‬
‫آگیا‪،،‬اک شادی وچ میرا اک یار بنیا‬
‫سی‪،‬ساڈے شوق کٹھے سی۔‬

‫اوہندے کول ہنڈا گڈی سی نوا ‪،‬ماڈل‬


‫۔ ‪ 2012‬۔میں کہیا یار کجھ دن‬
‫مینوں دے تیرے کول اینی گڈیاں‬
‫کھڑیاں نے تینوں کی فرق پیندا‬
‫اے‪،،‬تے میں شادیاں دا سیزن کما ‪،‬الں‬
‫گا‪،،‬اوہنے کہیا ‪،‬لے جا یار‪،،‬لو جی فیر‬
‫جتھے لوگ ایکس ایل آئی دے ‪3000‬‬
‫لیندا سی اوتھے میں ‪ 6000‬لین لگیا‬
‫تے لوگ وی ہس تے دیندے سن‪،،‬کتھے‬
‫ساڈی سوزکی کلٹس‪،،‬تے کتھے ایکس‬
‫ایل آئی ‪ 12،‬الکھ دی تے کتھے ہنڈا‬
‫‪ 24‬الکھ دی‪،‬اک شادی میں ُچ کی تے‬
‫‪ 10000‬منگے‪،،‬الڑے نوں لے تے جانا‬
‫سی‪،،‬راہ ِو چ کجھ میری پرسنالٹی تے‬
‫باقی کڈی نے او کم کیتا کے ووہٹی‬
‫نظراں نظراں وچ میرے نال سیٹ‬
‫ہوگئی‪،،‬فیر بادشاہو ‪،،‬اوہندی سفارش‬
‫تےمکالوے آلے دن وی اوہندا خصم‬
‫مینوں ای لے تے گیا‪،،‬اوہنے آودے‬
‫خصم دئے موبائل ُت وں میرا نمبر لے‬
‫لیا‪،،‬تے فیر‪،،،‬بادشاہو‪،،،،‬اوس ُکڑی ُن وں‬
‫میں ایناہ ‪،‬وجایا کہ ایناہ ‪،‬اوہندے‬
‫خصم نے نہ وجایا ہوئے گا۔‬

‫صاحب جی اگے دوستی ہوندی سی‬


‫‪،‬جذبات دے سر ‪،‬تے‪،،‬ہن ہوندی اے‬
‫پیسے دے سر ‪،‬تے‪،،‬چنگے کپڑےۓ‬
‫‪،‬چنگی گڈی ‪،‬تے کڑی توہاڈی ‪،‬پر‬
‫اوہنوں مال کھوانا پیندا اے بھانویں‬
‫امیر گھر دی ہوے تے بھانویں غریب‬
‫گھر دی ہوے ‪)))،‬۔‬

‫جوسلین نے اپنے بات ختم کر چکی‬


‫تھی تو میں سوچنے لگا کی ٹیچر ان‬
‫میں سے کون سی ہے لیکن مجھے‬
‫اس کی سمجھ نہ آئی ‪،‬میں نے ٹیچر‬
‫سے کئی بار بات کرنی چاہی کئی بار‬
‫اسے نوٹ لکھ دیئے لیکن وہ ٹس سے‬
‫مس نہیں ہوئی‪،‬نہ وہ میری شکایت‬
‫لگاتی تھی نہ مجھے ہٹاتی تھی نہ‬
‫میرے ساتھ چودائی پر رضامند تھی‬
‫‪،،،‬ایں میں سوچنے لگا اگر اسے برا‬
‫لگتا ہے تو جوسلین کو بتا کیوں نہیں‬
‫دیتی ‪،‬اچھا بھال پڑھاتی ہے کافی‬
‫پیسے کما لیتی ہے یعنی اسے کوئی‬
‫مجبوری بھی نہیں تو پھر وہ اتنے‬
‫عرصے سے یہ سب کیوں برداشت کر‬
‫رہی ہے ‪،‬میرے اندر سےآواز آئی کہ‬
‫وہ راضی ہے لیکن جوسلین سے ڈرتی‬
‫ہے ‪،‬اور اس نے اپنے رویے کا نقاب‬
‫مجھے حد میں رکھنے کیلیے لگایا ہوا‬
‫ہے‪،‬مجھے ایک موقع چاہیے تھا ‪،‬جو‬
‫مجھے مل نہیں رہا تھا‪،‬میں ایک‬
‫دفعہ اس سے ملنے کوچنگ سنٹر‬
‫بھی پہنچ گیا تھالیکن اس نے ایسا‬
‫سخت رویہ اپنا یا کہ مجھے دوبارہ‬
‫جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔‬

‫پھر یہ سال بھی گزر گیا ‪،‬اس بار‬


‫میں نے کالج میں فرسٹ کالس‬
‫فرسٹ پوزیشن لی‪،‬مارشل آرٹ میں‬
‫اب میں ماہر ہوگیا تھا اور کنگفو‬
‫میرا پسندیدہ آرٹ بن گیا تھا‪،‬تیسرے‬
‫سال جوسلین نے پھر میرا پروگرام‬
‫بدل دیا اور اب مجھے سنجیدہ کتب‬
‫پر مائل کرنے لگی‪،‬تاریخ ‪،‬عمرانیات‬
‫‪،‬اور فلسفہ میرے مضمون بن گئے‬
‫‪،‬ساتھ ہی سرگزشت جیسا ڈائجسٹ‬
‫بھی میرے مطالعے میں رہنے لگا‪ ،‬اور‬
‫اب ممتاز مفتی ‪،‬اور علیم الحق حقی‬
‫کے بعد اب طاہر جاوید مغل بھی‬
‫میرا پسندیدہ لکھاریوں میں سے تھا‬
‫فلسفےسے تو میں نے جلد ہی جان‬
‫چھڑا لی ‪،‬لیکن تاریخ اور عمرانیات‬
‫سے مجھے لگاؤ ہوتا گیا کیونکہ اس‬
‫سے انسان کی تہذیبوں‪،‬انسان کی‬
‫نفسیات اور کردار کے بارے میں‬
‫جاننے کا موقع ملنے لگا‪،‬انسانوں کے‬
‫معاشرے کو سمجھنے کا موقع ملنے‬
‫لگا‪،‬یوگا میں بھی اب میں ماہر ہونے‬
‫لگا‪،‬سانسوں پر قابو پانے سے مجھے‬
‫پتہ چال کہ ہم تو سانس بھی صحیح‬
‫طرح سے نہیں لے رہے ‪،‬اس میں‬
‫سیکس کی طاقت کو برقرار رکھنے‬
‫اور جسم کو جوان رکھنے کے کئی‬
‫آسن تھے جن پر اب میں عبور‬
‫حاصل کرتا جا رہا تھا‪،‬ساتھ ہی ساتھ‬
‫اب کشتہ مروارید اب میرے جسم کا‬
‫حصہ بن گیا تھا۔‬

‫ذہنی تربیت کیلیے جوسلین نے اب‬


‫میرے ساتھ شطرنج کھیلنی شروع‬
‫کر دی‪،‬پرنس یہ کھیل کھیلوں کا‬
‫بادشاہ ہے جتنی کتابیں اس کھیل پر‬
‫لکھی گئی ہیں اتنی کسی اور پر‬
‫نہیں لکھی گئی‪،‬اس میں چونسٹھ‬
‫خانے ہوتے ہیں اور ہر کھالڑی کو ‪16‬‬
‫‪ 16،‬گوٹیاں ملتی ہیں‪،‬ان میں آٹھ‬
‫پیادے اور ‪ 2‬فیلے یعنی ہاتھی‪ 2،‬رخ‬
‫یعنی توپ ‪ 2‬گھوڑے اور ایک وزیر‬
‫ایک بادشاہ ہوتا ہے ‪،‬یورپ میں فیلے‬
‫کو بشپ اورتوپ کو قلعہ کہتے ہیں‬
‫‪،‬اور ان کے ہاں وزیر کی جگہ ملکہ‬
‫ہوتی ہے اور اس کے ساتھ بادشاہ‬
‫ہوتا ہے کھیلنے کا طریقہ ایک جیسا‬
‫ہے‪،‬گھوڑا ہمیشہ ڈھائی چال چلتا ہے‬
‫اور وزیر جہاں تک رستہ صاف ملے‬
‫چال چل سکتا ہے اسی طرح فیال اور‬
‫توپ بھی جہاں تک جہ صاف ملے‬
‫یعنی درمیان میں کوئی گوٹی نہ ہو‬
‫‪،‬فرق صرف یہ ہے کہ وزیر ترچھا اور‬
‫سیدھا دونوں چالیں چل سکتا ہے‬
‫جبکہ فیال ہمیشہ ترچھا چلتا ہے اور‬
‫توپ ہمیشہ سیدھی چلتی ہے ‪،‬اسی‬
‫لیے کہتے ہیں کہ ایک توپ اور ایک‬
‫فیال مل کہ ایک وزیر کے برابر ہوتے‬
‫ہیں ‪،‬کھیل کے قوانین تو تمھیں‬
‫آہستہ آہستہ سمجھ آجائیں گے لیکن‬
‫جو بات میں تمھیں ابتدء میں ہی‬
‫ایک بات سمجھانا چاہتی ہوں۔‬
‫شطرنج بنانے والے کے بارے میں ایک‬
‫کہاوت کچھ یوں ہے کہ جب شطرنج‬
‫بنانے والے نےشطرنج بنا لی تو اسے‬
‫وقت کے بادشاہ کے پاس لے گیا‬
‫‪،‬بادشاہ اور اس کے وزیر اور‬
‫درباریوں نے جب یہ کھیل دیکھا تو‬
‫دنگ رہ گئے اور بنانے والے کی عقل‬
‫کو خوب داد دی ‪،‬بادشاہ ترنگ میں‬
‫آگیا اور شطرنج کے موجد سے کہا کہ‬
‫مانگو جو مانگتے ہو ہم تمھیں عطا‬
‫کریں گے‪،‬تم نے ہمیں بےحدخوش کیا‬
‫ہے اور ایک بےمثال کھیل ایجاد کیا‬
‫ہے ‪،‬اس نے کہا بادشاہ حضور آپ کی‬
‫داد ہی میرے لیے سب کچھ ہے‬
‫‪،‬مجھے کچھ نہیں چاہیے لیکن‬
‫بادشاہ آخر بادشاہ تھا وہ یہ کیسے‬
‫برداشت کرسکتا تھا اس نے بڑا‬
‫اصرار کیا تو شطرنج کے موجد نے‬
‫کہا کے اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو‬
‫شطرنج کے چونسٹھ خانوں میں سے‬
‫پہلے خانے میں ایک چاول ر کھیں‬
‫اور اسے ہر خانے میں دوگنا کرتے‬
‫جائیں ‪،‬آخری خانے میں جتنے چاول‬
‫ہو جائیں وہ مجھے دے دیں ‪،‬بادشاہ‬
‫اس کی اس معصوم خواہش پر‬
‫ہنستا ہے اور وزیر کو کہتا ہے کہ اس‬
‫کی خوہش ابھی پوری کی‬
‫جائے‪،‬وزیر کچھ سنجیدگی کا‬
‫مظاہرہ کرتا ہے اور ریاضی دانوں کو‬
‫بلوا کر حساب لگواتا ہے کے آخری‬
‫خانے تک کل کتنے چاول بن جائیں‬
‫گے‪،‬پہلے ‪ 15‬خانوں تک تو سب آرام‬
‫سے گنتے ہیں لیکن جب ‪ 16‬خانے‬
‫میں پہنچتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے‬
‫کہ کسی خطرناک کام میں ہاتھ ڈال‬
‫دیا ہے اس سے آگے حیران کن حد تک‬
‫حساب مشکل سے نا ممکن کی طرف‬
‫چال جاتا ہے۔‬

‫وزیر بادشاہ کے حضور پیش ہوتا ہے‬


‫‪،‬حضورِ واال ہمارے ملک کے تما م‬
‫چاول اور ہمسایہ ملکوں کے چاول‬
‫بھی یہ شرط بمشکل پوری کرسکیں‬
‫گے‪،‬بادشاہ سن کر حیران ہوجات ہے‬
‫لیکن ریاضی دانوں کو بھی غلط‬
‫نہیں کہہ سکتا ‪،‬بادشاہ کو تب پتہ‬
‫چلتا ہے کہ یہ بھی ایک شطرنج کی‬
‫چال تھی‪،‬ہم تمھاری اس بات سے‬
‫بھی خوش ہوئے ‪،‬آخر بادشاہ شاہانہ‬
‫انداز میں کہتا ہے ‪،‬تمھیں اس سوال‬
‫پر بھی انعام دیا جائے گا‪،‬اور بادشاہ‬
‫اسے بھاری انعام اور جاگیر عطا کرتا‬
‫ہے ۔ تو پرنس شطرنج سیکھو مگر‬
‫کھیل نہیں بلکہ شطرنج کو اصلی‬
‫زندگی میں لے آؤ‪،‬جیسے ایک اداکار‬
‫عام زندگی میں بھی ایکٹنگ کرتا ہے‬
‫اور لوگ اسے سچائی سمجھتے ہیں ‪،‬‬
‫ایسے ہی عام زندگی میں بھی یہ‬
‫کھیل کھیلو‪،‬یاد رکھنا اس کھیل میں‬
‫تکے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‪،‬یہ‬
‫تمھاری ذہنی صالحیت پر ہے کے اس‬
‫میں کتنا کامیاب ہوتے ہو‪،‬ہم دن میں‬
‫میں ‪ 20، 15‬بار تو یہ کھیل‬
‫کھیلتے‪،‬اور میں ہارتا رہتا‪،‬ایک ہفتے‬
‫بعد میں جوسلین سے گیم جیت‬
‫گیا‪،‬پھر بازی پھنسنے لگی‪،‬کبھی وہ‬
‫کبھی میں جیت جاتا‪،،،‬پھر میں ہی‬
‫جیتنے لگا ‪،‬اب مجھے خواہش ہونے‬
‫لگی کہ کوئی کھالڑی ہو جس سے‬
‫بازی پھنسے ‪،‬میں نے کچھ کھالڑی‬
‫ڈھونڈ لیے اور بازیاں جمنے لگی‬
‫‪،‬جوسلین یہ سب دیکھ رہی تھی‪،‬پھر‬
‫اس نے ایک دن مجھے پکڑ لیا ‪،‬پرنس‬
‫میں نے تم سے کہا تھا اس کھیل‬
‫میں ماہر نہیں ہونا ‪،‬اس کھیل کے‬
‫ذریعے مائنڈڈ گیم ‪،‬ذہنی جنگ میں‬
‫ماہر ہوناہے ‪،‬بڑی مشکل سے شطرنج‬
‫کا نشہ ٹوٹا اور میں زندگی کی طرف‬
‫لوٹ آیا‪،‬ٹیچر سے میری آنکھ مچولی‬
‫بدستورجاری تھی اور وہ بھی اپنی‬
‫جگہ پر جمی ہوئی تھی ‪،‬مجھے اس‬
‫کے ساتھ تیسرا سال تھا۔لیکن ایک‬
‫قدم بھی آگے نہیں بڑھ پایا تھا‪،‬اب‬
‫تو میرے حوصلے بڑھ گئےتھے اور‬
‫میں اس کی چومیوں کے ساتھ اس‬
‫کی ممے بھی پکڑ کے مسل دیتا تھا‬
‫‪،‬لیکن پتہ نہیں ٹیچر کس مٹی کی‬
‫بنی تھی ‪،‬وہ ٹس سے مس نہیں‬
‫ہوتی تھی‪،‬یہ سال بھی گذر ہی گیا ۔‬

‫میں نے پھر فرسٹ کالس پوزیشن‬


‫لی ‪،‬اب چوتھا سال شروع ہو‬
‫گیا‪،‬پروگرام پھر بدل گیا‪،‬جیسے ہر‬
‫سال کیلیے علیحدی علیحدہ سلیبس‬
‫ہو‪،‬اب کی بار جوسلین نے نفسیات‬
‫پڑھانی شروع کر دی ‪،‬وہ اس‬
‫مضمون میں ڈاکٹر تھی اور سب سے‬
‫بہتر تھی ‪،‬مجھے بھی اس کا کب‬
‫سے انتظار تھا‪،‬اب نفسیات کی کتب‬
‫‪،‬انسانوں کو پڑھنا ‪،‬معاشرے کو‬
‫سمجھنا ‪ ،‬عورتوں کو سمجھنے‬
‫لگا‪،‬جوسلین نے مجھے قیافہ شانسی‬
‫پر لگا دیا ‪،‬میں پے درپے انسانوں کا‬
‫مطالعہ کرنے لگا علوم کوعملی طور‬
‫پر آزمانے لگا‪،‬میں ایک جہاِن حیرت‬
‫میں پہنچ گیا ‪،‬ارے یہ کیا اس حمام‬
‫میں تو سب ننگے ہیں‪،‬مارشل آرٹ‬
‫میں بلیک بیلٹ ‪ 1‬ڈان کی تیاری‬
‫کرنے لگا تھا‪،‬پڑھائی پھر یوگا‪،‬یہ سال‬
‫بہت ہی مصروف گزرا ‪،‬کسی بات کی‬
‫ہوش نہیں رہا تھا‪،‬ٹیچر سے بھی‬
‫چھیڑا چھاڑی کم ہو گئی‬
‫تھی‪،‬فرسٹ کالس پوزیشن کے بعد‬
‫مجھے ہوش آیا ‪،‬اس دوران میں‬
‫بلیک بیلٹ ‪ 2‬ڈان کر چکا تھا ‪،‬یوگا‬
‫فائنل ہوچکا تھا اور قیافہ شناسی‬
‫میں ماہر ہو چکا تھا ‪ (، ،‬فیس ریدنگ‬
‫اور باڈی لینگوج سے انسان کو پڑھنا‬
‫اور جاننا )‪،‬عورتوں کے بارے کافی‬
‫کچھ جان چکا تھا اب تک میں‬
‫سیکس کی تھیوری اور پریکٹیکل‬
‫میں ماہر ہوچکا تھا‪،‬رزلٹ آگیا اور‬
‫حسِب معمول میں فرسٹ کالس‬
‫پوزیشن میں تھا‪،‬مجھے جوسلین کے‬
‫پاس چار سال گزر گئے‪،‬اس وقت‬
‫میں ‪ 19‬سال کا ہوگیا تھا ۔اس‬
‫دوران میں کیا سے کیا بن گیا‪،‬کئی‬
‫علوم میں ماہر بن گیا‪،‬اس دوران‬
‫میں نگینہ کو ایک پل بھی نہ بھول‬
‫نہ سکا ‪،‬میں نے کئی بار کچھ وقت‬
‫نکال کر ان کو تالش کرنے کی‬
‫کوشش کی ‪،‬لیکن نگینہ وہ مکان کب‬
‫کا چھوڑ چکی تھی اور اب اس کا‬
‫کچھ پتہ نہیں تھا‪،‬جوسلین یہ کام‬
‫کرسکتی تھی لیکن پہلے پہل احتیاًط‬
‫اور پھر اس کا رویہ دیکھ کر میں نے‬
‫اسے اس راز میں شامل نہیں‬
‫کیا‪،‬مجھے یہ بھی خیال تھا کہ‬
‫دآلویز سے میرا تعلق دیکھ کر کہیں‬
‫جوسلین رقابت میں نہ پڑ جائے۔‬

‫اب میں فلیٹ میں تنہا ہی ہوتا تھا ‪،‬‬


‫اسلیے نگینہ کو دھونڈنے نکل جاتا‬
‫‪،‬سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا‪،‬‬
‫کالونیوں میں تانک جھانک کرتا‬
‫‪،‬لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا‪،‬جب جوسلین‬
‫یونیورسٹی سے آجاتی تو میں بھی‬
‫فلیٹ پر پہنچ جاتا‪،‬اور پھر سارا‬
‫وقت اکٹھے ہی گزرتا‪،‬ٹیچر بھی ان‬
‫دنوں آنا بند کر چکی تھی اپنی تماتر‬
‫کوشش اور کشش کے باوجود میں‬
‫اسے چود نہ سکا‪،‬میں جو جوسلین‬
‫سے سیکھتا وہ ٹیچر پر آزماتا لیکن‬
‫وہ ہاتھ نہ آنی تھی اور نہ ہی آئی‬
‫‪،‬میں اس نتیجے پر پہنچا تھا ک‬
‫ٹیچر پر میری کشش جتنی بھی اثر‬
‫انداز ہو لیکن اس پر جوسلین کا اثر‬
‫مجھ سے زیادہ تھا ‪،،‬یہ بھی طے‬
‫ہوچکا تھا کہ میں پھنسا تو ٹیچر کو‬
‫رہا تھا لیکن حقیقت یہ تھی کہ میرا‬
‫مقابلہ جوسلین سے تھا ‪،‬اور جوسلین‬
‫میری استاد تھی ‪،‬جب تک اس کی‬
‫مرضی نہیں تھی میں ٹیچر کو‬
‫حاصل نہیں کر سکتا تھا ۔‬

‫بلکہ کسی کو بھی حاصل نہیں‬


‫کرسکتا تھا ‪ ،‬اب ٹریننگ اور پڑھائی‬
‫رک سی گئی تھی اور میں اگلے‬
‫پروگرام کا منتظر تھا ‪،‬لیکن جوسلین‬
‫کے ارادے کچھ اور ہی تھے‪،‬وہ چپ‬
‫چاپ تھی ‪،‬جوسلین میری جان آگے‬
‫کا کیا پروگرام ہے ‪،،،‬یہ تو تم بتاؤ گے‬
‫پرنس کہ تمھارا آگے کا کیا پروگرام‬
‫ہے‪،‬جوسلین میں جو چاہتا تھا وہ تم‬
‫نے مجھے بنا دیا ‪،‬لیکن میں اس مقام‬
‫پر خود کو ادھورا محسوس کرتا ہوں‬
‫کیونکہ میرے سامنے تمھاری مثال ہے‬
‫میں تم جیسا جینئس بننا چاہتا ہوں‬
‫‪،‬استاد سے آگے کا درجہ چاہتا‬
‫ہوں‪،‬مجھے پتہ نہیں ہے لیکن مجھے‬
‫کچھ اور چاہیئے ‪،،‬میں تمھارے اگلے‬
‫پروگرام کا منتظر ہوں ‪،‬میں نے‬
‫جوسلین کے ہاتھ پکڑ لیا تھے ‪،‬اور‬
‫میری محبت کی گرم جوشی میں وہ‬
‫ہمیشہ کی طرح پگھل گئی‬
‫تھی‪،‬پرنس تمھیں وہ سب سکھا‬
‫دوں گی جو تم چاہتے ہوں ‪،‬لیکن اب‬
‫تک تم نے جو سیکھا ہے تمھیں اس‬
‫کا ٹیسٹ دینا پڑے گا‪،‬تمھیں ثابت‬
‫کرنا پڑے گا کہ تم اب استاد ہو‪،‬اس‬
‫سے تمھیں تجربے کا حصول ہو گا‬
‫‪،‬یوں سمجھ لو کہ اس ٹیسٹ سے تم‬
‫تجربہ حاصل کرنے کا سفر شروع‬
‫کرو گے‪،‬تم نے بہت کچھ سیکھ لیا ہے‬
‫لیکن تم باہر کی دنیا میں یہ آزمایا‬
‫نہیں ہے ‪،‬کیونکہ میں نے تمھیں اپنے‬
‫ساتھ ہی رکھا ہے ‪،‬اور اب وقت آگیا‬
‫ہے کہ تم باہر دنیا کے سامنے اپنا آپ‬
‫آزماؤ تا کہ تم جان سکو کہ تم کیا بن‬
‫چکے ہو‪،‬یاد رکھانا پرنس‪،‬ہر تھیوری‬
‫پریکٹیکل کے بغیر ہے ‪،‬دنیا میں‬
‫تجربے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے‬
‫‪،‬اور تمھیں اب تھیوری سے تجربے‬
‫کی طرف قدم بڑھانا ہے ‪،‬اب تم‬
‫ٹیسٹ کیلیے تیار ہو جاؤ‪،‬میں کسی‬
‫بھی وقت تم سےٹیسٹ لے سکتی‬
‫‪،‬ہوں‬

‫میں ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے‬


‫لگا ‪،‬جوسلین نےٹیسٹ لینا تھا تو‬
‫یقینًا کوئی انتہائی ٹیسٹ ہی ہونا‬
‫تھا‪،‬میں نے بہت سے موضوعات پر‬
‫سوچا ‪،‬کئی باتوں کی طرف دھیان‬
‫دیا ‪،‬یہ بھی طے تھا کہ عملی ٹیسٹ‬
‫ہی لے گی ‪،‬سو میں نے کئی ممکنہ‬
‫ٹیسٹ سوچے اور ان کو جواب تیار‬
‫کیا‪،‬اور میرا ذہن کچھ اطمینان‬
‫حاصل کرنے لگا‪،‬اسی ادھیڑ بن میں‬
‫دو دن گزر گئے تھے ‪،‬تیسرے دن کافی‬
‫جلدی مجھے جوسلین نے اٹھا‬
‫دیا‪،‬سردیوں کے دن تھے ابھی صبح‬
‫بھی رات کا حصہ ہی لگ رہی تھی‬
‫اس وقت تو بستر سے نکلنے کو با‬
‫لکل دل نہیں کرتا ‪،‬لیکن جوسلین‬
‫سنجیدہ تھی‪،‬مجھے اٹھنا ہی پڑا‬
‫‪،‬میں عادت کے مطابق نہانے لگا تو‬
‫جوسلین نے منع کر دیا‪،‬میں پاس‬
‫پڑے کپڑےپہننے لگا جو رات کو‬
‫اتارے تھے اور جوسلین نے مجھے‬
‫ایک چٹ پکڑا دی اس پر ایک‬
‫ایڈریس لکھا تھا ‪ ،‬پرنس یہاں ایک‬
‫ہی گھر میں چار لڑکیاں رہتی ہیں‬
‫‪،‬چاروں آپس میں سگی بہنیں ہیں‬
‫‪،‬تمھیں ان چاروں کو ان کی مرضی‬
‫سے چودنا ہے ‪،‬تمھارے پاس صرف‬
‫دو دن اور دو راتیں ہیں ‪،‬تیسرے دن‬
‫اسی وقت تمھیں میرے پاس ہونا‬
‫چاہیئے ‪ ،‬جوسلین کی بات سے مجھے‬
‫‪.‬اچھا بھال جھٹکا لگا‬
‫ہمارے پاس ہر طرح کی ویڈ*یو میگا‬
‫لنک ماجود ہیں ‪ .‬انڈین‪ ،‬لڑکوں کی‪،‬‬
‫ماں بیٹا اور چھو*ٹے بچو*ں کی‬
‫ویڈ*یو ماجود ہیں‬
‫ایک سو کی ‪300‬‬
‫دو سو کی ‪700‬‬
‫تین سو کی ‪1200‬‬
‫پانچ سو کی ‪2000‬‬
‫ایک ہزار کی ‪5000‬‬
‫پندرہ سو کی ‪13000‬‬
‫دوہزار کی ‪ 18000‬ویڈیو‬
‫نوٹ۔ ویڈ*یو میگا لکس میں ملے‬
‫گی۔‬
‫ثبوت کی طور پر ویڈ*یو کا سکرین‬
‫شوٹ مل جائے گا۔ فری والے دور‬
‫رہیں۔‬
‫‪http://wa.me/+9231476150‬‬
‫‪13‬‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_8‬‬

‫میں نے ابھی پینٹ پہنی تھی کہ‬


‫میرے ہاتھ وہیں رک گئے‪،‬پھر‬
‫سوچوں میں ڈوبا شرٹ پہننے‬
‫لگا‪،‬میں نے اپنی تربیت کی تمام تر‬
‫صالحیت کو استعمال کرتے ہوئے ہر‬
‫اندازہ لگا لیا تھا ‪،‬سوائے اس ایک‬
‫بات کے کیونکہ میرے اندازے کے‬
‫مطابق جوسلین یہ کبھی نہیں کرے‬
‫گی‪،‬استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے اس‬
‫نے بھی وہ بات کی جو میں سوچ‬
‫بھی نہ سکتا تھا‪،‬بلکہ اس نے خود کو‬
‫بھی امتحان میں ڈال لیا تھا ‪ ،‬کیا ہوا‬
‫کیا تم یہ نہیں کرسکتے ؟ مجھے‬
‫سوچا دیکھ کر جوسلین نے‬
‫پوچھا‪،‬نہیں میں کچھ اور سوچ رہا‬
‫تھا ‪ ،‬میں نے اپنے جوگر کے تسمے‬
‫باندھتے ہوئے کہا میں جانتا تھا‬
‫جوسلین کو پتہ ہے کہ میں کیا سوچ‬
‫رہا ہوں ‪،‬اب تم ابھی نکل جاؤ‬
‫‪،‬جوسلین ایک سخت گیر استاد کی‬
‫طرح بولی تو میں نے اپنی جیکٹ‬
‫اٹھائی اور ایک لمحے کی دیر لگائے‬
‫بغیر فلیٹ سے باہر نکل آیا ‪،‬باہر کہیں‬
‫دور سے اذانوں کی آواز آرہی‬
‫تھی‪،‬میں تو ایسی صبح سے انجان‬
‫تھا ایڈریس ایک مڈل کالس کالونی‬
‫کا تھا۔‬
‫میرے پاس صرف دو دن تھے اور‬
‫چار لڑکیوں کو چودنا تھا ‪،‬میں‬
‫بھاگنے لگا ‪،‬اور جلد ہی میں روڈ پر‬
‫پہنچ گیا جوسلین نے بائیک بھی‬
‫نہیں لینے دی ‪،‬میں بھا گنے لگا‬
‫‪،‬مجھے پیچھے سے ایک موٹر سائکل‬
‫کی آواز آئی ‪،‬میں نے مڑ کے دیکھا تو‬
‫یہ ایک دودھی تھا جو شاید کہیں‬
‫سے دودھ لینے جا رہا تھا ‪،‬میں نے‬
‫ہاتھ دے کر اسے روکا بلکہ اس کے‬
‫رستے میں کھڑا ہوگیا ‪،‬کی گل اے‬
‫صاحب ‪،‬سویرے سویرے پیتی تا‬
‫نہیں ہوئی‪ ،‬یار ساڈے رشتے دار بڑے‬
‫بیمار نیں تے ایس ٹائم کوئی سواری‬
‫وی نہیں ملنی تے جانا وی الزمی اے‬
‫میں ‪،‬اوہنا ُن وں آودا خون دینا اے ‪،‬‬
‫اتوں یار میری گھڈی خراب ہو گئی‬
‫اے‪،،‬تیری بڑی مہربانی مینوں بس‬
‫اسٹاپ تے ال دے‪ ،‬اگے میں آپے چال‬
‫جاواں گا‪،،،،‬شخصیت کے اعتبار سے‬
‫میں کسی بڑے گھر کا امیر زادہ ِد کھ‬
‫رہا تھا ‪ ،‬دودھی میری کہانی میں‬
‫آگیا اور مجھے پیچھے بٹھا‬
‫لیا‪،‬موٹرسائیکل بھاگنے لگی ساتھ ہی‬
‫سوچیں بھی بھاگنے لگی ‪،‬جوسلین‬
‫نے بڑا ہی غیر متوقع امتحان میں‬
‫ڈال دیا تھا ‪،‬دو دن میں چار بہنوں‬
‫کو چودنا ناممکن تھا ‪،‬وہ باہر نکلیں‬
‫‪،‬ان سے شناسائی ‪،‬ان کو پھنسانا ان‬
‫کا اعتماد حاصل کرنا‪،‬پھر ان کو‬
‫چودنا ‪،‬اس کیلیے بھی کوئی ایسی‬
‫جگہ جہاں وہ اطمینان سے آسکیں ۔‬
‫یہ ایک وقت طلب طریقہ کار تھا‬
‫‪،‬اور وہ بھی ایک لڑکی کیلے نہ کہ‬
‫چار لڑکیوں کیلیے ‪ ،‬اور چاروں ہوں‬
‫بھی آپس میں بہنیں ‪،‬میں نے فیصلہ‬
‫کیا کہ ان کے گھر میں گھسناپڑے‬
‫گا‪،‬اور دو دن وہیں رہنا پڑے گا‪ ،‬پتہ‬
‫نہیں وہ کیسے لوگ تھے ‪،‬مگر مڈل‬
‫کالس کی کالونی کی وجہ سے میں‬
‫کچھ آئیڈیے لگا چکا تھا ۔ میرے‬
‫مطلوبہ بس اسٹاپ پر دودھی نے‬
‫مجھے اتارا تو میں نے اس کا شکری‬
‫ادا کیا ‪،‬او کوئی گل نئی یار بند ای‬
‫بندے دا دارو اے ‪ ،،‬اللہ کرے توہاڈا‬
‫‪،‬رشتے دار ٹھیک ہوجاوے ‪،‬وہ چال‬
‫گیا تو تھوڑی دیر میں بس آگئی ۔‬
‫گو کہ میں نے بسوں میں کبھی سفر‬
‫نہیں کیا تھا لیکن یہ ایک مشہور‬
‫بس اسٹاپ تھا اور یہاں بس ضرور‬
‫آنی تھی‪،‬بس آگئی اور میں اس میں‬
‫بیٹھ گیا‪،‬اس میں بس چند ہی‬
‫سواریاں تھی‪ ،‬کرایہ ‪،،،‬کنڈیکٹر میرے‬
‫سامنے تھا‪،‬میں نے بے اختیار جیب‬
‫میں نے ہاتھ ڈاال لیکن وہاں کچھ‬
‫نہیں تھا ‪،‬جوسلین نے بٹوہ اور‬
‫موبائل بھی رکھ لیا تھا ‪،‬موبائل کی‬
‫تو مجھے ابھی عادت نہیں ہوئی‬
‫تھی ‪،‬بٹوہ نہ ہونے سے میں ایک‬
‫لمحے کیلیے بھی فکرمند نہیں‬
‫ہوا‪،‬اسٹوڈنٹ ‪،،،‬میں نے بڑے اعتماد‬
‫سے کہا‪ ،‬۔اس وقت اسٹودنٹ کا کیا‬
‫کام تھا‪ ،‬لیکن میری پرسنالٹی کسی‬
‫امیر زادے کی تھی اور اس معاشرے‬
‫میں پیسے کو سالم تھا ‪،‬کنڈیکٹر‬
‫مجھے گھورتا ہوا آگے چال گیا۔‬
‫میرے ذہن میں لڑکیوں کو پھنسانے‬
‫کی ساری باتیں تازہ ہونے‬
‫لگی‪،‬چودائی کے شوق میں یا پیسے‬
‫کیلیے ‪،‬پیسے کی ایک شکل دوستانہ‬
‫بھی تھی جیسےتحفے تحائف اور‬
‫ضرورتیں پوری کرنا‪ ،‬پتہ نہیں کون‬
‫کون سی باتیں مجھے یاد آرہی تھیں‬
‫‪،‬اپنے مطلوبہ بس اسٹاپ پراتر کر‬
‫میں بھاگنے لگا‪ ،‬میری رفتار اچھی‬
‫خاصی تھی میں اگر منہ اندھیرے‬
‫نکال تھا تو اب صبح نظر آنی شروع‬
‫ہوگئی تھی ‪،‬بھاگنا اس وقت ضروری‬
‫تھا ‪،‬ویسے تو میرا سٹیمنا کمال کا‬
‫ہوچکا تھا ‪ 15‬منٹ بعد میں اپنی‬
‫مطلوبہ کالونی کی مطلوبہ گلی میں‬
‫داخل ہوچکا تھا ‪،‬ایڈریس اتنا واضح‬
‫اور نشانیوں سے لکھا تھا کہ مجھے‬
‫اسے ڈھونڈنے میں کوئی مشکل پیش‬
‫نہیں آئی‪،‬جس مکان کا ایڈریس تھا‬
‫وہ بھی میری نظروں پر چڑھ گیا‬
‫اس میں ایک باریش آدمی داخل‬
‫ہورہا تھا ‪ ،‬میں پھر فورًا بھاگا ‪،‬میرے‬
‫لیے تو یہ الٹری سے کم نہ تھا مجھے‬
‫اس کی توقع نہیں تھی ‪،‬میں تو‬
‫کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھا‪،‬باریش‬
‫آدمی اندر داخل ہوا اور اب مڑ کہ‬
‫دروازہ بند کرنے لگا ہو گا کہ میں‬
‫بھّر ا مار کے اندر داخل ہوگیا۔‬

‫باریش آدمی میری طرف غصے سے‬


‫بڑھا ‪،‬میں نے کچھ کہنے کی کوشش‬
‫کی ‪ ،‬لیکن میں بڑی تیزی سے ہانپ‬
‫رہا تھا میرا سانس اکھڑ رہا تھا اور‬
‫میرے چہرے پر ڈر تھا‪ ،‬جیسے ہی وہ‬
‫میری طرف بڑھا اور اس نے مجھے‬
‫پکڑنا چاہا میں نیچے گر گیا ‪،‬میرا‬
‫سانس اکھڑ گیا تھا ‪،‬باریش آدمی‬
‫گھبرا گیا‪،‬اس نے کسی کو آواز دی‬
‫‪،‬پانی الؤ ‪،،‬ایک لڑکی جلدی سے پانی‬
‫لیکر آگئی وہ حیرانگی سے مجھے‬
‫دیکھ رہی تھی‪ ،‬آنکھوں کی معمولی‬
‫سی جھری سے میں سب دیکھ رہا‬
‫تھا ‪،‬باریش آدمی نے پانی کے چھینٹے‬
‫میرے چہرے پر مارے ‪،‬پھر چھینٹے‬
‫مارے ‪،‬میں سانس روکے پڑا رہا‪،‬اتنے‬
‫میں میرے ارد گرد تین لڑکیاں اور‬
‫ایک عورت جمع ہوچکی تھیں ‪،‬اوہ‬
‫میرے خدا اسے کیا ہوگیا ہے ‪،‬باریش‬
‫آدمی گھبرا گیا‪ ،‬اس نے گھبراہٹ میں‬
‫مجھ پر بقیہ گالس کا سرد پانی‬
‫پھنکا تو میں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا ‪،‬میں‬
‫گہرے سانس لے رہا تھا ‪،‬بیٹھتے ہی‬
‫میں پھر لیٹ گیا اور میرا سانس‬
‫تیزی سے چل رہا تھا ‪،‬آرام سے بیٹا‬
‫آرام سے سانس لو ‪،‬آہستہ آہستہ‬
‫میرے سانس نارمل ہوتے گئے ‪،‬لیکن‬
‫میرے چہرے پر اب بھی ڈر تھا اور‬
‫میں گھبرایا ہوا تھا ‪،‬پلیز دروازہ بند‬
‫کر دیں ‪،‬وہ مجھے مار دیں گے میں‬
‫گھگیایا‪،‬عورت اور لڑکیوں کے چہرے‬
‫پر میرے لیے ہمدردی تھی جبکہ‬
‫باریش آدمی محتاط تھا ‪،‬ایک لڑکی‬
‫نے جلدی سے دروازہ بند کر دیا ‪ ،‬کیا‬
‫بات ہے بیٹا اور کون ہو تم ؟ میرے‬
‫گھر میں ایسے کیوں آئے ہو اور تم‬
‫اتنے ڈرے ہوئے کیوں ہو‪،‬کون تمھیں‬
‫مار دےگا‪ ،‬باریش آدمی نے ایکدم‬
‫اتنے سواالت کر دیئے ‪ ،‬اور میں سوچ‬
‫رہا تھا کہیں یہ کسی مولوی کا گھر‬
‫تو نہیں ‪،‬کیونکہ باریش آدمی کا‬
‫حلیہ بالکل کسی مولوی جیسا تھا‬
‫‪،‬اور تمام گھر والے اس وقت جاگ‬
‫رہے تھے ‪ ،‬مجھے میرا چاچا مار دے‬
‫گا‪،‬پچھلے دنوں میرے والدین کا ایک‬
‫ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا ہے ‪،‬تب‬
‫سے میرے چاچا نے مجھے اپنی‬
‫حویلی کے تہہ خانے میں قید کر‬
‫رکھا ہے ‪،‬میرے ابا کے ایک وفادار‬
‫مالزم کی وجہ سے آج میں بھاگنے‬
‫میں کامیاب ہوگیا تھا‪،‬رات کو بھاگا‬
‫تھا ‪،‬میں سیدھا شہر کی طرف‬
‫آگیا‪،‬مجھے ایک بائیک بھی مل گئی‬
‫تھی ۔لیکن شہر تک پہنچنے کے بعد‬
‫جانے کیسے وہ خراب ہوگئی ‪،‬اس‬
‫دوران مجھے اندازہ ہوا کہ میرے‬
‫چچا کو میرے بھاگنے کا پتہ چل گیا‬
‫ہے ‪،‬کیونکہ کچھ لوگ میرے پیچھے‬
‫تھے ‪،،‬انہوں نے میرا پیچھا تو کیا‬
‫‪،‬لیکن جب بائیک خراب ہونے کے بعد‬
‫میں گلیوں میں بھاگا تو وہ مجھے‬
‫نہ پا سکے ‪،‬میں تقریبًا ایک گھنٹے‬
‫سے بھاگ رہا ہوں‪،‬پلیز بزرگوار میری‬
‫مدد کریں ‪،‬میری جان کو خطرہ ہے‬
‫‪،‬میں بہت ڈرا ہوا تھا ‪ ،‬باریش آدمی‬
‫‪،‬عورت اور لڑکیاں میرے ارد گرد‬
‫بیٹھی تھیں ‪،‬اور میں فرش پر بیٹھا‬
‫تھا‪،‬باہر سردی بھی تھی اور اب‬
‫میری طبیعت نارمل بھی ہوگئی‬
‫تھی‪،‬اسے میری باتوں سے میری‬
‫کہانی کا بھی کچھ اندازہ ہوگیا تھا‬
‫‪،‬باریش آدمی نے لمبا سا سانس لیا‪،‬‬
‫جیسے کوئی خود سے سمجھوتہ کر‬
‫رہا ہو ۔‬

‫تمھارا نام کیا ہے بیٹا ‪،‬باریش آدمی‬


‫نے پوچھا ‪،‬شہزادہ میں نے بے اختیار‬
‫جواب دیا‪،‬پھر وہ مجھے لے کر ایک‬
‫کمرے میں لے آیا ‪ ،‬میں مکان کا‬
‫جائزہ لے چکا تھا گھر میں بس دو‬
‫ہی کمرے تھے ‪،‬اور ایک باتھ روم‬
‫جس پر ٹاٹ کا پردہ لگا ہوا تھا ‪،‬اور‬
‫ایک جھونپڑی نما برآمدہ تھا جو بتا‬
‫رہا تھا کہ یہاں کچن ہے‪،‬غربت صاف‬
‫دکھ رہی تھی‪ ،‬عورت جو یقینًا اس‬
‫کی بیوی تھی اور چاروں لڑکیاں‬
‫بھی ہمارے ساتھ ہی کمرے میں‬
‫آگئی‪،‬اچھا تو کون ہے تمھارا چاچا‬
‫اور کہاں کے رہنے والے ہو تم ‪،‬میرے‬
‫چچا کا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے ‪،‬میں نے‬
‫جوسلین کی وسیع و عریض جائیداد‬
‫کے ساتھ والی جاگیر کے موجودہ‬
‫مالک کا نام بتاتے ہوئے کہا‪،‬ان کی‬
‫آپس میں دشمنی چل رہی تھی‪،‬اور‬
‫پانچ قتل بھی ہوچکے تھے حاالت ان‬
‫کے خراب تھے‪ ،‬میں نے تفصیل سے‬
‫ان کے بارے میں بتایا ‪،‬لیکن تم تو‬
‫کسی گاؤں کے نہیں لگتے‪،‬باریش‬
‫آدمی نے شک زدہ لہجے میں کہا‪،‬جی‬
‫میں تو بچپن سے ہی بورڈنگ سکولز‬
‫میں پڑھتا آرہا ہوں ‪،‬اب بھی ایچی‬
‫سن میں فورتھ ایئر کے پیپر دے کر‬
‫فارغ ہوا تھا کہ یہ مصیبت ٹوٹ پڑی‬
‫‪،‬میرے پاپا مجھے اس ماحول سے‬
‫دور رکھتے تھے ‪،‬اسی لیے مجھے‬
‫یہاں کی اتنی معلومات نہیں تھی‬
‫اور میرے مما ‪،‬پاپا کے جانے کے بعد‬
‫میں ان کے چنگل میں پھنس گیا‪،‬‬
‫میرے ایک چچا جو کہ لندن میں‬
‫رہتے ہیں بس میں نے ان سے رابطہ‬
‫کرنا ہے اور پھر اس چچا کی خیریت‬
‫نہیں ہے ‪،‬لیکن تمھارے یہ چاچا بھی‬
‫تمھارے ساتھ ایسا سلوک کر سکتے‬
‫ہیں باریش آدمی مشکوک تھا یا‬
‫محتاط تھا لیکن لگتا تھا وہ کچھ‬
‫دن مجھے اپنے گھر رکھنے پر‬
‫رضامند ہوگیا ہے ‪،‬میرے لندن والے‬
‫چچا میرے سگے چچا ہیں اور پھر‬
‫ان کی بیٹی سے میری منگنی‬
‫ہوچکی ہے ‪،‬اور اصل میں یہی بات‬
‫تو میرے سوتیلے چچا کو بری لگی‬
‫تھی‪،‬وہ اوباش فطرت ہیں ہوسکتا‬
‫ہیں انہوں نے ہی میرے ماں باپ کو‬
‫قتل کروایا ہو‪،‬ایکبار میں نے اپنے‬
‫لندن والے چچا سے رابطہ کرلیا تو‬
‫پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔‬

‫ہمارے پاس بے شمار دولت ہے لیکن‬


‫اس وقت میں مشکل میں ہوں ‪ ،‬پر‬
‫میں آپ کو یاد رکھوں گا ‪،‬اچھا بیٹا‬
‫میں تمھیں کچھ دن رکھ بھی لیتا‬
‫ہوں تو تم اپنے چچا سے کیسے رابطہ‬
‫کرو گے‪ ،‬وہ لندن میں ہے اور تم یہاں‬
‫‪،‬کوئی ٹیل فون نمبر یا کوئی اور‬
‫رابطے کا ذریعہ ہے تمھارے پاس ؟‬
‫انکل ٹیلی فون نمبر تومیرے موبائل‬
‫میں تھے وہ بھی وہیں رہ گیا ہے‬
‫‪،‬میرا ایک دوست ہے جو ایچی سن‬
‫کالج میں میرا کالس فیلو رہا ہے‬
‫‪،‬بہت اچھا دوست ہپے ‪ ،‬دراصل میں‬
‫چچا کی قید سے فرار ہو کے آیا ہی‬
‫اسی کا پاس تھا ‪،‬اس کے ذریعے میں‬
‫اپنے چچا سے رابطہ کر لوں گا‪،‬لیکن‬
‫ابھی اس کے پاس نہیں جا سکتا‬
‫‪،‬کیونکہ میرا چچا بھی جانتا ہے کہ‬
‫وہ میرا اچھا دوست ہے اور میں اس‬
‫کے پاس جانے کی کوشش کروں گا‪،‬‬
‫تو وہ لوگ میرے اس دوست کے‬
‫پاس ضرور جائیں گے یا اس کی‬
‫نگرانی کریں گے‪،‬میں کچھ دن بس‬
‫چھپنا چاہتا ہوں ‪،‬پھر میں اپنے‬
‫دوست سے رابطہ کر لوں گا اور اسی‬
‫کے پاس چل جاؤں گا‪،‬باریش آدمی‬
‫نیم رضا مند تو پہلے ہی تھا ا ب‬
‫اطمینان کر چکا تھا ‪،‬اسلیے اس نے‬
‫مجھے وہیں رہنے کی اجازت دے‬
‫دی‪،‬جاؤ تم لوگ ناشتہ وغیرہ تیار‬
‫کرو‪،‬باریش آدمی نے لڑکیوں اور‬
‫عورت سے کہا‪،‬جب وہ کمرے سے‬
‫چلی گئی تو وہ مجھے مخاطب‬
‫ہوا‪،‬دیکھو شہزادے بیٹا ۔ میں ایک‬
‫مسجد کا پیش امام ہوں ‪ ،‬یہ چاروں‬
‫میری بیٹیا ں ہیں اور ساتھ ان کی‬
‫ماں ہے ‪،‬میرے گھر میں سخت پردہ‬
‫ہے اور ہماری بچیاں غیر مردوں سے‬
‫پردہ کرتی ہیں ‪،‬اسی لیے میں نے ان‬
‫کومڈل سے آگے نہیں پڑھنے دیا‪،‬باقی‬
‫تعلیم میں نے گھر میں ہی دینے کا‬
‫فیصلہ کیا ہے ‪،‬تم اس گھر میں‬
‫اچانک آئے ہو اور تم سے پردہ نہیں‬
‫ہو سکا ‪،‬دوسرا میرے گھر میں اتنی‬
‫جگہ نہیں ہے کہ تمھیں علیحدہ رکھ‬
‫سکوں ‪،‬اسلیے تم یہاں رہو گے مگر ہم‬
‫لوگ غیرت کے معاملے میں بہت‬
‫سخت ہیں ‪ ،‬بس اس بات کا خیال‬
‫رکھنا ‪،‬انکل آپ میری طرف سے بے‬
‫فکر رہیں ‪،‬میں اپنے حاالت کا مارا ہوا‬
‫ہوں اور آپ کا احسان یاد رکھوں گا‬
‫‪،‬جب حاالت بہتر ہوئے تو میں آپ کا‬
‫حسان ضرور چکاؤں گا‪،‬میں ڈھکے‬
‫چھپے لفظوں میں پہلے بھی مولوی‬
‫کو ال لچ دے چکا تھا۔مولوی کی‬
‫خاموشی بتا رہی تھی کہ وہ اس‬
‫بات کی امید رکھتا ہے ۔‬

‫اگر میں امیر گھرانے کا فرد نہ لگتا‬


‫اور جاگیر کی باتیں نہ کرتا تو آج‬
‫اس گھر میں مشکل سے ہی جگہ بنا‬
‫پاتا‪ ،‬اس معاشرے میں پیسے کو‬
‫سالم تھا اور غریب کو دھکے تھے‬
‫‪،‬گو کہ میں نے فلمی کہانی سنائی‬
‫تھی ‪،‬اور میں نے سنائی بھی اسلیے‬
‫تھی کہ ہمارا معاشرہ اس کہانی‬
‫کوقبول کرتا ہے ‪،‬ناشتہ ہم سب نے‬
‫اکٹھے کیا ‪،‬میں نظریں جھکائے ناشتہ‬
‫کرتا رہا‪،‬پھر مولوی تو سو گیا اور‬
‫لڑکیاں کام کاج میں لگ گئی‪،‬گھر کے‬
‫ماحول سے اور کچھ مولوی کی‬
‫باتوں سے لگ رہا تھا کہ یہاں پابند‬
‫یاں زیادہ ہیں‪،‬گھر میں غربت ہے اور‬
‫سہولتوں آسائشوں تو کیا ہونی عام‬
‫ضرورتیں ہی بمشکل پوری ہوتی‬
‫ہیں‪،‬میں بھی ایک چارپائی پر لیٹ‬
‫گیا اور سوچنے لگا کہ اب کیا کروں‬
‫‪،‬مولوی کی بیٹیاں تو انتہائی‬
‫خوبصورت تھیں ‪،‬گدڑی میں لعل‬
‫چھپے ہوئے تھےٍ ‪،‬جوسلین نے یہ گھر‬
‫بھی جان بوجھ کر ہی چنا تھا‬
‫‪،‬کیونکہ اس نے مجھے ہر طبقے کی‬
‫پہچان کروائی تھی ‪،‬ان کی عادات‬
‫مزاج ‪،‬اور رہن سہن ‪،‬ان کی‬
‫ضروریات ‪،‬خوہشات اور نفسیات کے‬
‫بارے میں بتایا تھا‪،‬لیکن اس مولوی‬
‫طبقے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا‬
‫تھا‪،‬بلکہ اسے بھی ان کے بارے میں‬
‫کچھ پتا نہیں تھا ‪،‬وہ تو تھی ہی‬
‫کرسچئن ‪،‬اور میں بچپن کا تو پتہ‬
‫نہیں لیکن اب تو کبھی اس طبقے کے‬
‫نزدیک بھی نہیں گزرا تھا‪،‬لہذا یہ طے‬
‫تھا کہ جوسلین نے جان بوجھ کر یہ‬
‫امتحان در امتحان والی بات کی‬
‫تھی۔ میں نے کچھ باتیں ذہن میں‬
‫دہرائی اور باہر صحن میں نکل‬
‫آیا‪،‬آرام سے لیٹے رہنے سے تو کچھ‬
‫نہیں ہونا تھا‪،‬میں مولوی کی بیوی‬
‫کے پاس جا کر بیٹھ گیا‪،‬بڑے مہذب‬
‫انداز میں آنٹی آنٹی کرتے میں نے‬
‫اس سے بات شروع کی‪،‬وہ جھجک‬
‫رہی تھی‪،‬لیکن مجھے گفتگو میں‬
‫ملکہ حاصل تھی ‪،‬یہ ہونہیں سکتا‬
‫تھا کہ کوئی میری باتوں کے جال سے‬
‫بچ سکے‪،‬یہ بھی ایک فن تھا‪،‬جیسے‬
‫کہ سامنے والے کی بات کرو ‪،‬اپنی نہ‬
‫کرو‪،‬میں نے غربت اور شوہروں کے‬
‫حوالے سے کچھ باتیں کی تو وہ‬
‫مجھ سے کھلنے لگی‪،‬آنٹی مجھے تو‬
‫لگتا ہے یہ گھر چلتا ہی آپ کے دم‬
‫سے ہے‪،‬آنٹی اتنے مشکل حاالت میں‬
‫آپ یہ سب کیسے کر لیتی ہیں‪،‬آنٹی‬
‫میری مما بھی با لکل آپ جیسی‬
‫تھیں‪،‬آنٹی لگتا ہے مولوی صاحب نے‬
‫آپ کی قدر نہیں کی ہے ‪ ،‬بس آنٹی‬
‫پگھل چکی تھی۔‬

‫آنٹی میں جب اپنے چچا کے پا س‬


‫پہنچ جاؤں گا توآپ کیلیے بہت سے‬
‫اچھے سوٹ اور گفٹ بھیجوں‬
‫گا‪،‬میرے لیے کوئی گولڈوغیرہ کوئی‬
‫مسلہ نہیں ہے‪،‬نہیں شہزادے بیٹا‬
‫ہمیں کچھ نہیں چاہیے‪،‬بس خدا کرے‬
‫تم ان مشکلوں سے نکل جاؤ‪،‬مولوی‬
‫کی بیوی نے اوپری دل سے کہا تو‬
‫مجھے یقین ہو گیا کہ مچھلی نے‬
‫چارہ نگل لیا ہے‪،‬آنٹی آپ کی بیٹیاں‬
‫تو میری بہنیں ہوئی لیکن مجھےتو‬
‫ان کے نام بھی نہیں معلوم‪،‬آنٹی نے‬
‫اپنی بیٹیاں کو بالیا‪،‬یہ تمھارا بھائی‬
‫ہے ‪،‬سمجھی‪ ،،،‬اسے گھر میں کوئی‬
‫تکلیف نہیں ہونی چاہیے‪،‬شہزادے‬
‫بیٹا‪ ،‬یہ شازیہ ہے ‪،‬یہ میری بڑی بیٹی‬
‫ہے ‪،‬یہ نازیہ ہے اس سے چھوٹی‪،‬اور‬
‫اس کےبعد یہ سعدیہ اور یہ رافعہ‬
‫سب سے چھوٹی ہے‪،‬وہ مجھے سالم‬
‫کرنے لگی‪،‬میں ان سے ان کی پڑھائی‬
‫کی باتیں کرنے لگا‪،‬وہ شرماتی لجاتی‬
‫تھوڑا بہت جواب دینے لگی‪،‬رافعہ‬
‫میٹرک کی تیاری کر رہی تھی جبکہ‬
‫شازیہ اور سعدیہ ایف کر کے آگے‬
‫پڑھائی چھوڑ چکی تھیں‪،،‬لیکن نازیہ‬
‫آگے پڑھنا چاہتی تھی‪،‬اور اس وقت‬
‫تھرڈ ائیر میں تھی‪،‬سب سے‬
‫خوبصورت بھی ان میں سے نازیہ ہی‬
‫تھی ان کو مولوی خود پڑھاتا‬
‫تھا‪،‬مڈل کرنے کے بعدسب ہی اوپن‬
‫یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر ہی‬
‫تھیں اور گھر میں دینی تعلیم اور‬
‫اس کے ساتھ گھر کے کام‬
‫کاج‪،‬لڑکیوں کی بس یہی زندگی‬
‫تھی‪ ،‬کوئی زندگی میں رنگینی نہیں‬
‫تھی ‪،‬میں نےباتوں میں ان کے اچھے‬
‫انداز اور تربیت کی تعریف کی‪،‬اور‬
‫لچھےدار باتوں میں ان کو لپیٹنے لگا‪،‬‬
‫‪،‬اپنے کالج کی باتیں‪،‬دولت کے قصے‬
‫‪،‬میرا باتوں کا مرکز دولت تھا جس‬
‫کا ان کو اللچ دے رہا تھا۔‬

‫جب کچھ ماحول بن گیا اور اجنبی‬


‫پن دور ہوتا گیا تووہ بے جھجک‬
‫باتیں کرنے لگی‪،‬وہ مجھ سے میرے‬
‫بارے میں سواالت کرتی رہیں‪،‬میں‬
‫اپنی امارت کے قصے سناتے ہوئے‬
‫انہیں مرعوب کرتا رہا‪،‬مزید کچھ‬
‫ماحول بن گیا تو میں بے تکلفی‬
‫طرف بڑھا اور کچھ لطیفے اپنے‬
‫گاؤں کا نام لیکر سنا ڈالے‪،‬وہ ہنسنے‬
‫لگی‪،‬میں نے ان کی ماں کو بھی‬
‫گفتگو میں شامل رکھا‪،‬اور گاہے بگاہے‬
‫کہہ دیتا کہ میں اپنی ماں بہت کچھ‬
‫بھیجوں گا‪،‬اور تو اور میں نے لمبی‬
‫ہی چھوڑ دی کی میں اپنی ماں کو‬
‫لندن ہی بلوا لوں گا‪،‬لیکن یہ بات بھی‬
‫چل گئی‪،‬سچی بات ہے دولت میں‬
‫بڑی کشش ہے‪ ،‬غربت بھرے ماحول‬
‫میں لڑکیوں کی خواہشیں کیا پوری‬
‫ہونی تھی اب تو بس حسرتیں‬
‫تھیں‪،‬اور میں ان خواہشوں کو‬
‫جگانے لگا‪،‬اچھا پہننا لڑکیوں کی‬
‫کمزوری ہے‪،‬اسی طرح سراہا جانا‬
‫‪،‬کوئی ان کی تعریف کرے ان کو‬
‫چاہے‪،‬تقریبًا تین گھنٹے تو ہمیں گپیں‬
‫مارتے ہو گیا تھے‪،‬لڑکیاں کچھ بے‬
‫تکلف تو ہوگئی تھیں اب مجھے لگا‬
‫کہ منزل پاس ہی ہے‪،‬لڑکیاں میرا بڑھا‬
‫ہاتھ نہیں روکیں گی‪،‬خاص کر نازیہ‬
‫پر میری نظر ٹک گئی تھی‪،‬بال کی‬
‫خوبصورت اور جوانی تھی اس پر‬
‫‪،،،‬مولوی صاحب اٹھ گئے ‪،‬لڑکیاں‬
‫فورًا کام کاج میں لگ گئیں‪،‬اور تو‬
‫اور مولوی کی بیوی ایسے بیٹھی‬
‫تھی جیسے ابھی اس کی میری‬
‫علیک سلیک ہوئی ہے‪،‬مجھے ایسے لگا‬
‫جیسے بنا بنایا ماحول خراب ہو‬
‫گیا‪،‬اور یکدم مجھے اندازہ ہوا کہ یہ‬
‫اتنا آسان بھی نہیں ہے‪،‬ماحول پر‬
‫مولوی چھایا ہوا ہے اور اس کی‬
‫پابندیاں ذہنوں میں گھسی ہوئی‬
‫ہیں‪،،‬بیٹا کہیں باہر نہیں جانا‬
‫تم‪،‬مولوی نے مجھے ہدایت کی اور‬
‫خود منہ ہاتھ دھو کر باہر نکل‬
‫گیا‪،‬اب یہ دوپہر کی نماز پڑھا کر‬
‫آئیں گے‪،‬مولوی کی بیوی نے‬
‫ہنستےہوئے کہا‪،‬اس کا ہنسنا عجیب‬
‫تھا‪،‬شاید ابھی وہ جو انجان بن گئی‬
‫تھی اس کا ازاال کر رہی تھی‪،‬تو‬
‫مولوی صاحب اب کیا کریں گے‪،‬اب‬
‫وہ حفظ والے بچوں کو پڑھائیں‬
‫گے‪،‬ان کے ساتھ ایک بڑے قاری ہیں‪،‬‬
‫ان کو مدرسہ انتظامیہ نے وہیں‬
‫مکان دیا ہوا ہے‪،‬کاش ہمیں بھی وہیں‬
‫مکان مل جاتا تو ان کرایوں سے تو‬
‫جان چھوٹتی‪ ،‬مولوی کی بیوی نے‬
‫حسرت سے کہا۔‬

‫کہاں کی بات تھی وہ کہاں لے گئی‪،‬یا‬


‫وہ مجھے اپنا دکھڑا سنا رہی‬
‫تھی‪،‬بیماری ظاہر کرنا‪ ،‬گھر کے کام‬
‫کاجوں میں خود مصروف ظاہر کرنا‬
‫جیسے ان کے بغیر گھر ہی نہیں‬
‫چلتا‪،‬غربت کو رونا اور دوسروں کو‬
‫ڈسکس کرنا‪،‬یہ عورتوں کی خاص‬
‫عادتیں تھیں‪،‬خیر مولوی چال گیا تھا‬
‫اور ایک بار پھر میرے لیے میدان‬
‫خالی تھا‪ ،‬لڑکیوں میں سے ایک‬
‫صفائی کررہی تھی‪،‬ایک برتن دھو‬
‫رہی تھی‪ ،‬دوسری کمروں میں کچھ‬
‫بستر وغیرہ سمیٹ رہی تھی‪،‬آج تو‬
‫میری وجہ سے ان کو دوپہر ہی‬
‫ہوگئی تھی‪،‬شازیہ جو سب سے بڑی‬
‫تھی وہ ہمارے پاس آ کر بیٹھ‬
‫گئی‪،‬میں نے اس سے باتیں شروع کر‬
‫دیں‪،‬اب میں اسے نظروں سے ٹٹول‬
‫رہا تھا کہ وہ سیکس میں دلچسپی‬
‫رکھتی ہے کہ نہیں‪،،‬دولت کی کشش‬
‫تو میں دکھا چکا تھا‪،‬میری پرسنالٹی‬
‫ان کو نظر آرہی تھی‪،‬اور کشش تو ان‬
‫پر اثر انداز ہو ہی رہی تھی‪،‬لیکن‬
‫شازیہ کے چہرے پر معصومیت‬
‫تھی‪،‬میں نے یہ اندازہ لگانا تھا کہ وہ‬
‫سیکس میں دلچسپی رکھتی ہے کہ‬
‫نہیں‪،‬اور مجھے لگ رہا تھاکہ نہیں‬
‫وہ ایسی کوئی بات نہیں سمجھتی‬
‫تھی‪،‬ان کے گھر میں کیبل وغیرہ تو‬
‫کیا ہونی ‪،‬ٹی وی ہی نہیں تھا‪،‬بلکہ‬
‫گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی‬
‫جس سے باہر کی دنیا کا کچھ‬
‫آسکے‪،‬باتوں میں باتوں میں ان کی‬
‫دوستوں کے بارے میں پوچھا تو پتہ‬
‫چال ‪،‬مولوی ایسی باتیں پسند نہیں‬
‫کرتا اور کہیں آنے جانے پر پابندی‬
‫ہے‪،‬شروع شروع میں کچھ کالس‬
‫فیلو آئی تو مولوی کے رویے نے ان‬
‫کو دوبارہ نہ آنے پر مجبور کر‬
‫دیا‪،‬ہمسائیاں بھی آتی ہوئی گھبراتی‬
‫تھیں ‪،‬مولوی کی تقریریں شروع ہو‬
‫جاتی تھیں‪،‬شاید مولوی یہ جان‬
‫بوجھ کرکرتا تھا‪،‬وہ یہاں کا ڈکٹیٹر‬
‫(آمر)تھا‪،‬۔‬

‫شازیہ کھلتی جا رہی تھی‪،‬کسی‬


‫غلطی پر ابا بہت مارتے ہیں‪ ،،،‬مجھے‬
‫تو بہت ڈر لگتا ہے ان سے‪،‬میں نے‬
‫مولوی کی بیوی کی طرف دیکھا تو‬
‫اس کے چہرے سے اندازہ ہوا کے‬
‫معافی اسے بھی نہیں ہے‪(،‬بڑا شّد ت‬
‫پسند مولوی تھا)اب مجھے اندازہ ہو‬
‫رہا تھا کہ یہ ایک نہات مشکل ٹارگٹ‬
‫ہے باہر کی دنیا سے اگر یہاں کچھ آتا‬
‫نہیں تو لڑکیوں کو سیکس کا کیا پتہ‬
‫ہو گا‪،‬محبت اور پیار کے بارے میں‬
‫کیا جانتی ہوں گی‪،‬الیکڑانک میڈیا‬
‫‪،‬سکولز‪،‬کالج‪،‬اور دوستیاں یہی تو وہ‬
‫سب دروازے تھے جن سے سیکس کا‬
‫پتہ چلتا ہے۔خربوزے کو دیکھ کر‬
‫خربوزہ رنگ پکڑتا ہے‪،‬اور مولوی نے‬
‫یہ سب دروازے بند کیئے ہوئے تھے۔‬
‫اب دیکھنا یہ تھا کہ لڑکیاں پابندیوں‬
‫بھری زندگی سے اکتائی ہوئی ہیں‪،‬یا‬
‫ان کے ذہنوں میں بھی مولوی کے‬
‫خیاالت ٹھنسے ہوئے ہیں‪،‬میں چاہتا‬
‫تھا کہ ان کی ماں کہیں آس پاس ہو‬
‫اور میں کچھ اگلی باتیں‬
‫چھیڑوں‪،‬آنٹی آپ کھانا دوپہر کو‬
‫بناتی ہیں یا شام کو‪،،‬بیٹا ہمارے گھر‬
‫میں کھانا نہیں پکتا‪،‬مدرسے میں‬
‫طالبعلموں کیلیے کھانا پکتا ہے تو وہ‬
‫بڑے قاری اور ہمیں بھی ملتا ہے‪،‬بات‬
‫بات میں بڑے قاری سے تقابل شاید‬
‫ان کی عادت تھی‪،‬یا ان کےاسٹیٹس‬
‫کا معیار ہی بڑے قاری تھے‪،‬اور آج تو‬
‫ویسے ہی جمعرات ہے دیکھنا کتنا‬
‫کھانا آتا ہے شام کو‪،‬شازو نادر ہی ہم‬
‫لوگ کھانا پکاتے ہیں‪،‬میں سواالت کر‬
‫رہا تھا کہ ان کے گھر شام کو کھانا‬
‫کیوں آنا ہے کہاں سے آنا ہے‪،،‬اس‬
‫طبقے سے میری واقفیت ہو رہی‬
‫تھی‪،‬باقی بہنیں بھی ہمارے پاس آ‬
‫کہ بیٹھ گئی تھیں‪،‬ان کا رویہ ایسے‬
‫ہی تھا جیسے ہماری احساس کمتری‬
‫کی ماری قوم کا کسی گوری چمڑی‬
‫والے کے ساتھ ہوتا ہے‪،‬یا کسی دیسی‬
‫انگلش بولنے والے کے ساتھ ہوتا‬
‫ہے‪،‬لوگ ہمیں ختم پڑھنے کیلے کھانا‬
‫دے جاتے ہیں ‪،‬شازیہ ہی باتیں کرتی‬
‫تھی مجھ سے‪،‬اور یہ ختم کیا‬
‫ہے‪،‬میں نے پوچھا ‪،‬وہ اپنے علم کے‬
‫مطابق مجھے سمجھانے لگی‪،‬ہم نہ‬
‫ان سب کھانوں کو اکٹھا کردیتے‬
‫ہیں‪ ،‬پھر ایسا ذائقہ بنتا ہے تم دیکھنا‬
‫انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ گے‪،‬نازیہ نے‬
‫بڑے فخر سے کہا‪،‬عجیب زندگی تھی‬
‫ان کی‪،‬ہر طبقے کی اپنی نفسیات‬
‫‪،‬ہوتی ہے ‪،‬ان کا رہن سہن‪،‬ان کی‬
‫ضرورتین‪،‬خواہشات ‪،‬ان کا‬
‫اسٹیٹس‪،‬جیسےڈاکٹروں کا ماحول‬
‫ہے‪،‬حجاموں کا ماحول ہے‪،‬اسی طرح‬
‫مولویوں کا ماحول سب سے علیحدہ‬
‫ہے‪ ،‬بعد میں اس طبقے کابھی میں نے‬
‫مطالعہ کیا‪،‬انہوں نے نظریات کی‬
‫بنیاد کو سمجھے بناء لکیر کے فقیر‬
‫بننا ہوتا ہے‪،‬اکثریت ان میں پابندیاں‬
‫اور سختیاں ہیں ۔‬

‫میرا واسطہ بھی ایسے لوگوں سے پڑ‬


‫چکا تھا‪،‬صحن میں خوب دھوپ آ‬
‫گئی تھی ‪،‬اور کسی کا اٹھنے کا کوئی‬
‫موڈ نہیں تھا‪،‬سردیوں میں بھرپور‬
‫دھوپ کا مزہ لیا جا جا رہا تھا‬
‫سستی سی ہو رہی تھی‪،‬وہیں شازیہ‬
‫گّنے لے آئی یہ بھی کوئی دے گیا‬
‫تھا‪،‬گنے کو ایک طرف سے پکڑ کر منہ‬
‫سے چھلکا پکڑا ‪،‬اور اسے چھیال‬
‫‪،‬کچھ چوسا پھر پھینک دیا‪،‬اس‬
‫طرح گنے کی ایک پوری چھیلی اور‬
‫دانتوں سے ہی گنڈیری کاٹ کر‬
‫چوسی پھر دوسری ‪،‬وہ گنا کھانے‬
‫میں ماہر تھی اور میں اناڑی تھی‪،‬وہ‬
‫مجھے دیکھ کر ہنسنے لگی‪،‬بہرحال‬
‫میں بھی گزارا کر ہی گیا‪،‬ماحول بے‬
‫تکلفانہ اور گھریلو سا ہوگیا تھا‪،‬ابھی‬
‫تک سیکس کی کوئی بات نہیں ہوئی‬
‫تھی‪،‬جبکہ مجھے چاروں کوچودنا‬
‫تھا۔اتنا ہو گیا تھا کہ میں ان کے گھر‬
‫میں تھا اور اب اس سخت موحول‬
‫والے لوگوں میں بے تکلفی سے باتیں‬
‫کر رہا تھا‪،‬مولوی کی بیوی سایہ بنی‬
‫ہوئی تھی‪،‬اسے کسی طرح آگے‬
‫پیچھے کرنا تھا لیکن اس دھوپ میں‬
‫اس کا ہلنے کا کوئی موڈ نہیں تھا‪،‬اتنا‬
‫ہوا کہ وہ چارپائی پر لیٹ گئی ‪،‬پھر‬
‫اونگھنے لگی‪،‬ہم دو چارپائیوں پر‬
‫بیٹھے تھے ‪،‬خود بخود ہماری آوازیں‬
‫دھیمی ہوگئی‪،‬اب میں کچھ کھلنے‬
‫لگا‪،‬بے تکلفی کے ماحول میں ان سے‬
‫لطیفوں کا سہارا لیکر کچھ باتیں‬
‫کی‪،‬لیکن جیسے وہ لفظ سیکس سے‬
‫ہی نا آشنا تھی‪،‬چھچھورا پن‪،‬اور‬
‫گھٹیا انداز لڑکیاں ویسے بھی پسند‬
‫نہیں کرتی تھیں‪،‬لیکن اگر میں کرتا‬
‫بھی تو پھر یہاں رہنا مشکل ہوجانا‬
‫تھا‪،‬دھیرے دھیرے میں اپنی بات‬
‫اشاروں کنایوں میں کہتا رہا ‪،‬میں‬
‫انہیں پرکھتا رہا‪،‬سمجھتا رہا ‪،‬لیکن‬
‫وہاں سیکس سے دلچسپی کے کوئی‬
‫آثار نہیں تھے‪،‬دلچسپی کیا‪،‬وہ تو‬
‫جیسے لفظ سیکس سے ہی ناآشنا‬
‫تھیں‪ ،،‬میں نے جیکٹ اتار دی‬
‫تھی‪،‬دھوپ میں اچھا لگ رہا تھا‪ ،‬اب‬
‫میں نے ان کے جسموں کو گھورنا‬
‫شروع کر دیا میں ان کا رّد عمل‬
‫دیکھنا چاہتا تھا‪،‬لڑکیوں کا ریڈار اس‬
‫معاملے میں بہت حساس اور تیز ہے‬
‫‪،‬کچھ ہی لمحوں میں وہ یہ‬
‫محسوس کر کے بے چین ہونے‬
‫لگی‪،‬شازیہ تو کام کے بہانے فورًا اٹھ‬
‫گئی‪،‬میں بھی باتھ روم میں چال‬
‫گیا‪،‬باتھ روم کے ٹاٹ کے پردے سے‬
‫میں ان کو دیکھتا رہا‪،‬وہ کافی‬
‫سخت تھیں کیونکہ اب وہ آنکھوں‬
‫سے ایکدوسرے سے بات کر رہیں‬
‫تھیں اور پھر سب سے چھوٹی رافعہ‬
‫کے سوا سب اٹھ گئی‪،‬بڑا ہی سخت‬
‫رد عمل دیا تھا انہوں نے ‪،‬مجھے بنا‬
‫بنایا ماحول خراب ہوتا محسوس‬
‫ہوا‪،‬میں باتھ روم سے نکال تو رافعہ‬
‫سے دلچسپ باتیں کرنے لگا‪،‬میں نے‬
‫لندن کی باتیں چھیڑ دیں‪،‬ایک قصہ‬
‫گو کی طرح مجھے یہ فن بھی آتا‬
‫تھا‪،‬کچھ ہی دیر میں باقی بہنوں کے‬
‫کان بھی کھڑے ہوگئے تھے وہ میری‬
‫کہانی نما باتوں میں دلچسپی لے رہی‬
‫تھیں۔‬

‫میرے چہرے کے تاثرات ایسے تھے‬


‫جیسے کوئی بہت معصوم ہو‪،‬اور‬
‫میری آنکھیں جھکی ہوئی تھی‪،‬نازیہ‬
‫میرے پاس آکہ بیٹھ گئی‪،‬لیکن میں‬
‫نے آنکھیں نہ اٹھائی‪،‬اور باتیں گھما‬
‫پھرا کہ کہیں سے کہیں لے گیا وہ‬
‫جیسے یہیں بیٹھی دنیا گھوم رہی‬
‫تھیں‪،‬یہ سب ان سفر ناموں کا کمال‬
‫تھا جو میں نے پڑھے تھے‪،‬خاص‬
‫کرمستنصر حسین تارڑ کو سفر‬
‫ناموں میں ملکہ حاصل تھی‪،‬اس کے‬
‫سفر نامے پڑھ کے دل کرتا تھا کہ‬
‫میں بھی شمالی عالقوں میں نکل‬
‫جاؤں‪،‬ان کا پیرس کے سفر سے‬
‫ماخوذ ناول ‪،‬پیار کا پہال شہر ‪،،‬جب‬
‫میں نے پڑھا تو میں اس ناول کا‬
‫گرویدہ ہو گیا‪،‬پاسکل اور سنان کی‬
‫دوستی اور علیحدگی ناول کا مرکزی‬
‫خیال ہے۔ اور ناول پڑھ کے مجھے‬
‫بھی ناول کی ہیروئین پاسکل سے‬
‫پیار ہوگیا اس ناول نے چند سالوں‬
‫میں چھپنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔‬
‫ایک منفرد اور یادگار ناول کے طور‬
‫پر یہ ماسکو یونیورسٹی کے شعبہ‬
‫اردو میں بطور سلیبس شامل ہے۔آج‬
‫بھی پیار کا پہال شہر میرے یادوں‬
‫میں نقش ہے‪،‬بعد میں ایسی تحریری‬
‫جادو میں نے علیم الحق حقی کی‬
‫حج اکبر میں دیکھا اور میرے‬
‫پسندیدہ لکھاریوں علیم الحق حقی‬
‫بھی شامل ہوگئے ‪،‬کبھی یہ علیم‬
‫شام کے نام سے جانے جاتے تھےاور‬
‫شاعری بھی کرتے تھے مشہور ترین‬
‫شعر ‪،،،،،‬کسی کو اتنا نہ چاہو کہ پھر‬
‫بھال نہ سکو ‪،،،،،،،‬یہاں مزاج بدلتے‬
‫ہیں موسموں کی طرح ‪ ،،،،‬علیم الحق‬
‫حقی کا ہی ہے ‪،،‬یادیں ایسی ہی‬
‫ہوتی ہیں ‪،‬میں بھی ان میں بہتا‬
‫کہاں سے کہاں پہنچ گیا‪،‬سچی بات‬
‫تو یہ کہ اتنی یادوں میں یہ کہانی‬
‫‪،‬لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے‬

‫چلو اک نظم لکھتے ہیں‬


‫کسی کے نام کرتے ہیں‬
‫‪،‬مگر اب سوچنا یہ ہے‬
‫کہ اس میں ذکر کس کا ہو‬
‫اس میں بات کس کی ہو‬
‫‪،‬اس میں ذات کس کی ہو‬
‫‪،‬اور یہ بھی فرض کرتے ہیں‬
‫کہ جس پہ نظم لکھتے ہیں‬
‫اس سے محبت کرتے ہیں‬
‫ہمارے سارے جذبوں کو‬
‫بس اسکی ہی ضرورت ہے‬
‫اظہار کی خاطر‬
‫‪،‬اک نظم کی حاجت ہے‬
‫چلو اک کام کرتے ہیں‬
‫کہ ہم جو نظم لکھتے ہیں‬
‫تمھارے نام کرتے ہیں‬
‫تمھی عنوان ہو اسکا‬
‫تمھارا ذکر ہے اس میں‬
‫تمھاری بات ہے اس میں‬
‫تمھاری ذات ہے اس میں‬

‫پھر کہانی کی طرف آتے ہیں‪،‬آہستہ‬


‫آہستہ سعدیہ اور پھر شازیہ بھی‬
‫میرے پاس آکر بیٹھ گئی‪ ،‬میں‬
‫آنکھیں نیچی کیے لگا رہا اور جب‬
‫ماحول میں وہی اعتماد واپس آگیا‬
‫تو میں نے بات ختم کر دی‪،‬اور ان کو‬
‫بولنے کا موقع دیا‪،‬وہ سوالت کرتی‬
‫رہیں‪،‬اور میں ایسے ہی بتاتارہا جیسے‬
‫میں خود ساری دنیا گھوما ہوں‪،‬میں‬
‫نے یہی محسوس کروایا کہ جو ابھی‬
‫میں ان کے جسموں سے حظ اٹھا رہا‬
‫تھا وہ بس ان کا واہمہ تھی‪،‬باتیں ان‬
‫سے کر رہا تھا اور ذہن سوچوں کے‬
‫ادھیڑ بن میں تھا کہ کیسے ان کو‬
‫چدائی کی طرف الؤں‪،‬یہ طے تھا کہ‬
‫وہ سیکس سے انجان تھیں‪،‬اور‬
‫نسوانی غیرت سے بھری ہوئی‬
‫تھی‪،‬اس ماحول اور مولوی نے ان کے‬
‫ذہنوں کو جکڑا ہوا تھا وہ ایک حصار‬
‫میں رہتی تھیں ‪،‬جس میں داخلہ‬
‫مشکل نظر آرہا تھا‪،‬سارا دن ہی باتوں‬
‫میں گزر گی اتھا دوپہر ہوگئی تھی‬
‫اور اذانیں ہونے لگی‪،‬مولوی کی بیوی‬
‫اٹھ بیٹھی اور سب وضو کر کے نماز‬
‫پڑھنے لگی‪ ،‬میرے لیے یہ ماحول‬
‫ایساتھاجیسے بچپن کی کوئی یاد‬
‫ہو۔۔۔ مجھے بے چینی ہونے لگی‪،‬میں‬
‫جوسلین کے ساتھ یہ سب بھول گیا‬
‫تھا‪،‬میں جتنا بھی برا تھا مجھے‬
‫اپنی بنیاد نہیں بھولنی چاہیئے تھی‪،‬‬
‫میں نے خود سے عہد کیا کہ کم از‬
‫کم اپنی بنیادیں ضرور قائم رکھوں‬
‫گا‪،‬میں نگینہ کا ڈسا ہوا تھا اور میں‬
‫نے عہد کیا تھا کہ اس دنیا کو‬
‫شہزادہ چاہیے تو اسے شہزادہ ہی‬
‫ملے گا‪،‬لیکن اب سوچ رہا تھا کہ ایک‬
‫انسان کا بدلہ سب سے نہیں لینا‬
‫چاہیئے ‪،‬سیکس اسی سے کروں گا‬
‫جو اپنی مرضی سے آئے‬
‫گی‪،‬زبردستی مجھے اچھی نہیں لگی‬
‫تو کسی کے ساتھ زبردستی کیوں‬
‫کروں‪ ،،،‬بدلہ صرف نگینہ سے ہی لینا‬
‫ہے‪،،‬۔ چاہے جو مرضی ہو جائے جتنی‬
‫عمر بھی بیت جائے‪،‬میں نے فیصلہ‬
‫کیا کہ اب جوسلین کوساری بات بتا‬
‫کر اس کی مدد چاہوں گا ‪،‬مجھے‬
‫نگینہ چاہیے ہر صورت میں چاہیئے ‪،،‬‬
‫آدھے گھنٹے تک مولوی آگیا ۔‬
‫مولوی کے آنے سے ماحول بدل‬
‫گیا‪،‬سب اپنے اپنے دھیان‬
‫ہوگئے‪،‬مولوی اپنے ساتھ کھانا بھی‬
‫الیا تھا‪،‬کھانا کھا کر مولوی تو قیلولہ‬
‫کرنے کیلیے لیٹ گیا‪،‬اس کی بیوی‬
‫بھی وہیں کمرے میں تھی‪،‬لڑکیاں‬
‫صحن میں تھیں‪،‬یا دوسرے کمرے‬
‫میں‪،‬میں نے محسوس کیا لڑکیاں اب‬
‫والدین کے کمرے میں نہیں جا رہی‬
‫بلکہ اس طرف ان کا دھیان ہی نہیں‬
‫تھا‪،‬شاید یہ مولوی کا روزمّر ہ کا‬
‫معمول تھا‪،‬نازیہ میرے ساتھ‬
‫دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ بے‬
‫تکلف ہوگئی تھی ‪،‬اگر ماحول کا دباؤ‬
‫نہ ہوتا تو اس نے چلبلی اور شوخ و‬
‫چنچل ہونا تھا‪،‬باپ نہیں تو ہوتا‬
‫تھاتو وہ کچھ نٹ کھٹ حسینہ بن‬
‫جاتی تھی‪،‬نازیہ دوسرا کمرہ شاید تم‬
‫بہنوں کا ہے ‪،‬مجھے اپنا کمرہ نہیں‬
‫دکھاؤ گی‪،‬ضرور آؤ نہ کمرہ دکھاؤ‬
‫‪،‬ویسے ہمارے کمرے میں دیکھنے کو‬
‫ہے ہی کیا‪،‬نازیہ افسردگی سے‬
‫بولی‪،‬شاید میری باتوں کا اس پر اثر‬
‫ہوگیا تھا‪،‬اور اسے اپنے ماحول سے‬
‫بے زاری ہورہی تھی‪،‬میں یہی چاہتا‬
‫تھا کہ وہ اس ماحول کے اثر سے‬
‫نکلے‪،‬کمرے میں داخل ہوتے ہی میں‬
‫نازیہ سے ٹکرایا جیسے مجھے کمرے‬
‫میں داخل ہوتے ہی ٹھوکر لگی‬
‫ہو‪،‬میں نازیہ کی کمر سے ٹچ ہوا ‪،،‬‬
‫نازیہ کو جیسے کرنٹ لگا‪،‬اب وہ‬
‫مجھ سے فاصلے پر کھڑی تھی اس‬
‫کے چہرے پر شرماہٹ تھی تو‬
‫آنکھوں میں شکوک کی‬
‫پرچھائیاں‪،‬کچھ ہی دیر بعد وہ‬
‫کمرے سے باہر نکل گئی اور اب‬
‫میرے ساتھ رافعہ تھی‪ ،‬کمرہ لمبائی‬
‫پر مشتمل تھا اور پیچھے کی طرف‬
‫جستی پیٹیاں تھیں‪،‬ان میں بستر‬
‫وغیرہ پڑے ہوتے ہیں‪،‬وہاں ‪4‬‬
‫چارپائیاں پڑی تھی‪،‬دو ایک طرف‬
‫کی دیوار سے لگی تھیں اور دو‬
‫دوسری طرف کی دیوار سے لگی‬
‫تھیں‪ ،‬دو کرسیاں اور ایک میز‬
‫تھا‪،‬دیوار پر چھوٹے فریم کا شیشہ‬
‫لگا ہوا تھا‪،‬جو کہ ایک لکڑی کی میخ‬
‫سے ٹنگا ہوا تھا‪،‬بس اور کچھ نہیں‬
‫تھا‪،‬میں وہیں ایک چارپائی پر لیٹ‬
‫گیا‪،‬رافعہ میرا موڈ دیکھ کر باہر چلی‬
‫گئی‪،،‬میں سوچنے لگا کہ اب کیا‬
‫کروں ‪،،،‬لڑکیاں کسی بھی طرح‬
‫مجھے سیکس کی طرف مائل نہیں‬
‫لگتی تھِی ‪،‬پھر وقت کم تھا اتنے کم‬
‫وقت میں ایک لڑکی تیار نہیں ہو‬
‫سکتی او ر یہاں ‪ 4‬لڑکیاں تھیں۔‬

‫بفرِض محال اگر میں تین کو بھی‬


‫چود لوں اور ایک کو نہ چود سکوں‬
‫تو میں اس ٹیسٹ میں فیل تھا‬
‫‪،‬یہاں تو ایک بھی تیار نہیں‬
‫تھی‪،‬کوئی ایسی لڑکی ہوتی جو‬
‫چودائی کر چکی ہو‪،‬یا شادی شدہ ہو‬
‫تو اس کو پھنسانا آسان تھا بنسبت‬
‫ان کنواری لڑکیوں کے‪،‬سب سے بڑی‬
‫رکاوٹ مجھے ان کا ماحول لگ رہا‬
‫تھا‪،‬ان کی تربیت لگ رہی تھی‪،‬جس‬
‫نے ان کے ذہنوں کو جکڑا ہوا تھا‪،‬وہ‬
‫لکیر کی فقیر ادھر سے ادھر نہیں‬
‫سوچ سکتی تھی‪،‬اور مولوی کا ڈر ان‬
‫کے دلوں میں بیٹھا ہوا تھا۔سوچ‬
‫سوچ کے دماغ درد کرنے لگا‪،‬لیکن‬
‫کوئی حل سمجھ نہ آیا‪،‬کتنی دیر گزر‬
‫گئی کوئی لڑکی بھی کمرے میں نہ‬
‫آئی‪،،‬میں نے نازیہ کی باتوں سے اسے‬
‫تھوڑا آگے کرنے کیلیے بہانے سے‬
‫چھوا تھا ‪،‬اور اب اس بات کا الٹا اثر‬
‫ہوا تھا ‪،‬وہ بدک کر دور ہو گئی‬
‫تھی‪،‬اسی ادھیڑ بن میں سہہ پہر‬
‫ہوگئی مجھے محسوس ہوا کہ‬
‫مولوی باہر چال گیا ہے تو میں پھر‬
‫صحن میں آگیا‪،‬لڑکیاں مجھے التعلق‬
‫سی محسوس ہوئیں‪ ،،،‬یقینًا نازیہ نے‬
‫باقی بہنوں کو بھی بات بتا دی‬
‫تھی‪،‬جو ذرا سا حادثًا چھوئے جانے‬
‫سے اتنا رِّد عمل دے رہی تھیں تو وہ‬
‫چودائی پر کیسے راضی ہوتیں‪،‬‬
‫حاالنکہ میری اداکاری کمال کی تھی‬
‫اور شک کی کوئی گنجائش نہیں‬
‫تھی‪،،‬میں دوبارہ ہمت کر کے ان کی‬
‫ماں کے پاس ہی بیٹھ گیا‪،‬ان کی‬
‫ماحول کا توکوئی توڑ نظر نہیں آرہا‬
‫تھا ‪،‬میں نے پھر غربت کو نشانہ بنایا‬
‫اور ایسی باتیں کرنے لگا کہ وہ بھی‬
‫گھر بیٹھے پیسے کما سکتی‬
‫ہیں‪،‬میری باتوں کا مقصد بس‬
‫لڑکیوں کو متوجہ کرنا تھامیں ِا دھر‬
‫ُا دھر کے منصوبے بتانے لگا‪،‬کوئی‬
‫منصوبہ کام کا نہیں تھا لیکن دلکش‬
‫لگتا تھا‪،‬نہیں بیٹا سب کر کے دیکھ‬
‫لیا‪،،‬مولوی صاحب نہیں مانتے‪،‬وہ‬
‫کہتے ہیں‪،‬عورت گھر کی عزت ہے اور‬
‫گھر سنبھالنے کیلیے ہے اسے کام نہیں‬
‫کرنا چاہیئے‪،‬نہیں تو سالئی کا کام تو‬
‫میں بہت اچھی طرح جانتی ہوں‬
‫‪،‬اور بڑے قاری صاحب کی بیوی‬
‫مجھ سے ہی کپڑے سلواتی ہے‪،‬لیکن‬
‫مولوی صاحب مجھے کسی اور کے‬
‫کپڑے نہیں سینے دیتے‪،،‬امّی آپ گھر‬
‫میں ٹیوشن اکیڈمی کھول لیں‪،،،‬لو‬
‫بیٹا میں انپڑھ اب کسی کو کیا‬
‫پڑھاؤں گی‪،‬آپ نہیں امّی جان‪،،‬یہ‬
‫پڑھائیں گی بچوں کو ٹیوشن ‪،‬سب‬
‫ہی پڑھی لکھی ہیں‪،‬پھر کالونی والے‬
‫آپ پر اعتماد کرتے ہیں‪،‬آپ کے پاس‬
‫اپنے بچوں کو ضرور بھیجیں‬
‫گے‪،‬لڑکیوں میری طرف متوجہ ہوگئی‬
‫تھیں۔‬

‫لیکن بیٹا مولوی صاحب نہیں مانیں‬


‫گے‪ ،‬امّی جان متفکر تھیں۔ آپ لوگ‬
‫گھر میں سیپارے وغیرہ پڑھائیں‪،‬اور‬
‫پھر آہستہ آہستہ جب مولوی صاحب‬
‫کو اعتماد ہوجائے تو یہ ٹیوش‬
‫پڑھانے لگ جائیں‪،‬شازیہ اور سعدیہ‬
‫بھی میرے پاس آ کر بیٹھ‬
‫گئیں‪،‬رافعہ تو جیسے پہلے ہی انتظار‬
‫میں تھی‪،‬لیکن نازیہ میرے پاس‬
‫نہیں آئی‪،‬فورًا تجویزیں شروع ہو‬
‫گئیں‪،‬پر ابا کو کیسے منائیں‪،‬وہ اس‬
‫پر بھی راضی نہیں ہوں گے‪،‬بھئ‬
‫کوئی دلیل دو نہ ان کو‪،‬جو انہوں نے‬
‫ہی تم کو بتائی ہو‪ ،‬یہ بات تو ٹھیک‬
‫ہے وہ اکثر علم حاصل کرنے پر کئی‬
‫باتیں بتاتے ہیں‪،‬جو انہی کو بتائی جا‬
‫سکتی ہیں‪ ،‬شازیہ نے گفتگو میں اپنا‬
‫حصہ ڈاال ‪،،‬میری بال سے مولوی مانے‬
‫یا نہ مانے‪،‬گپ شپ پھر شروع ہوگئی‬
‫تھی‪،‬آپ سب مولوی صاحب سے‬
‫کہیں کے علم کی شمع سے ہی شمع‬
‫جلتی ہے اور اس کام کو روکنا تو‬
‫ظلم ہے ‪،،‬یہ بالکل ٹھیک ہے سعدیہ‬
‫اور شازیہ پرجوش ہوگئی‪،‬لیکن‬
‫مجال ہے جو نازیہ نے تھوڑی سی‬
‫توجہ دی ہو‪ ،‬لڑکیاں پرجوش‬
‫ہوگئی‪،‬دولت آتی کسے اچھی نہیں‬
‫لگتی تھی‪،‬شام ہو رہی تھی‪،‬چھوٹے‬
‫چھوٹے بچے گھر میں آنے شروع‬
‫ہوگئے ‪ ،‬کوئی کچھ دے رہا تھا کوئی‬
‫کچھ ال رہا تھا ‪،‬میں کمرے میں جا‬
‫کر بیٹھ گیا‪،‬سورج ڈوبنے کے بعد‬
‫مولوی پھر آگیا ‪،‬اب سارا آیا ہوا سالن‬
‫ایک ہی جگہ اکٹھا کیا گیا اور کھانا‬
‫شروع کیا گیا ‪،‬عجیب سواد تھا اس‬
‫میں لیکن تھا مزیدار ‪،‬ایسا سواد پھر‬
‫کبھی کہیں نہیں مال‪،‬کھانا پینا کھا‬
‫پی کے مولوی لیٹ گیا‪،‬کچھ باتیں‬
‫ہوئیں ‪،‬مولوی کو اذان نے پھر بال‬
‫لیا‪،‬سردیوں کی شامیں تھیں اور‬
‫محسوس ہو رہا تھا کہ مولوی کے‬
‫گھر میں رات ویسے بھی جلدی‬
‫ہوجاتی ہے‪،‬میں سوچ رہا تھا کہ اب‬
‫کہاں سوؤں گا‪،‬مولوی کے کمرے میں‬
‫یا لڑکیوں کے کمرے میں‪،‬دن گزر گیا‬
‫تھا اور اب میں ناامید ہو رہا تھا‬
‫‪،‬لیکن اگر لڑکیوں کے کمرے میں‬
‫سونے کا موقع مل جائے تو کچھ‬
‫مزید کوشش ہوسکتی تھی‪،‬نازیہ‬
‫مجھ سے کچھی کچھی سی تھی ہم‬
‫سب مولوی کے کمرے میں بیٹھے‬
‫تھے اورباتیں کر رہے تھے‪،‬باتیں ہی وہ‬
‫دستک ہیں جودلوں کا دروازہ‬
‫کھٹکھٹاتی ہیں‪،‬ان کی ماں کے ہوتے‬
‫ہوئے میں انہیں کی باتیں کرتا تھا‬
‫لیکن غیر محسوس طور پر انہیں‬
‫اپنی طرف متوجہ کرتا تھا‪ ،‬آٹھ بجے‬
‫مولوی آگیا‪،‬اب وہ کہیں جانے واال‬
‫نہیں تھا لڑکیاں کچھ دیر میں اٹھ‬
‫کر اپنے کمرے میں چلی گئی‪،‬میں‬
‫وہیں بیٹھا رہا‪،‬کچھ لمحوں بعد‬
‫شازیہ دروازے پر آئی اور اس نے‬
‫مجھے اشارے سے بالیا ‪،،‬میں باہر گیا‬
‫تو وہ مجھے کمرے میں لے گئی‪،‬وہاں‬
‫ایک اضافی چارپائی آگئی تھی جو‬
‫کہ یقینًا میرے لیے تھی‪،‬شہزادے وہ‬
‫آپ کا بستر ہے‪،‬آپ یہیں سویا کریں‬
‫گے‪،‬شازیہ نے اپنے بستر میں گھستے‬
‫‪،‬ہوئے کہا‬
‫میں چپ چاپ بستر پر لیٹا اور‬
‫رضائی اوپر لے لی‪،‬مجھے سمجھ‬
‫نہیں آئی کٹر مولوی مجھے اپنی‬
‫بیٹیوں کے کمرے میں سالنے پر‬
‫کیسے رضامند ہو گیا‪،‬یا تو اسے مجھ‬
‫پر اعتماد ہو گیا تھا ‪،‬یا کوئی اور بات‬
‫تھی‪،‬لڑکیاں خاموش اپنے بستر پر‬
‫لیٹی تھیں‪ ،،‬ان کے پاس ٹی وی نہیں‬
‫تھا لیکن‪،‬میں تو انہیں کچھ کہہ‬
‫سکتا تھا‪ ،‬ویسے جتنی باتیں آج کی‬
‫تھیں اتنا تو میں کبھی نہیں بوال تھا‬
‫‪،،‬کیا بات ہے بھئی سب چپ چپ‬
‫ہو‪،‬؟ کیا ایسے ہی سو جاتی ہو اتنی‬
‫جلدی ‪،‬آپ کب سوتے ہیں‪،‬شازیہ نے‬
‫پوچھا ‪،‬بھئی مجھے تو ایک بج ہی‬
‫جاتا ہے‪،‬اتنی دیر آپ کیا کرتے ہیں‬
‫‪،‬بس ٹی وی فلمیں ‪،‬کمپیوٹر ‪،‬یا‬
‫دوستوں سے گپ شپ‪،‬میں نے وہ‬
‫بتایا جو انہیں سمجھانا چاہتا تھا‪،‬ہم‬
‫جلدی نہ سوئیں تو ابا غصے ہوتے‬
‫ہیں‪،‬مارتے بھی ہیں‪،‬پھر صبح جلدی‬
‫اٹھنا ہوتا ہے نہ‪ ،‬اسلیے نیند پوری‬
‫کرنے کیلیے جلدی سو جاتی ہیں‬
‫ہم‪،‬سعدیہ بولی‪،‬آپ فلمیں بھی‬
‫دیکھتے ہیں ‪،‬شازیہ نے حسرت سے‬
‫کہا‪،‬ہاں بھئی تم لوگوں نے کبھی‬
‫کوئی فلم نہیں دیکھی ؟ ایک دفعہ‬
‫شازیہ باجی ہمسایوں کے گھر ٹی وی‬
‫دیکھنے چلی گئی تھی ‪،‬ابا کو پتہ‬
‫چل گیا‪،‬پھر ابا نے باجی کو اتنا مارا‬
‫کے باجی بے ہوش ہوگئیں‪،‬سعدیہ ہی‬
‫اب بات کر رہی تھی‪،‬نازیہ تو جیسے‬
‫روٹھ ہی گئی تھی‪،‬اچھا اگر میں تم‬
‫لوگوں کو ابھی کوئی فلم دکھاؤں تو‬
‫‪،،‬ابھی شازیہ اور سعدیہ اکٹھی بولی‬
‫‪،‬ابھی کیسے ‪،‬بھئی میں نے جو فلم‬
‫دیکھی ہے میں تمھیں اس کہانی سنا‬
‫دیتا ہوں سمجھ لینا تم نے بھی فلم‬
‫دیکھ لی ہے ‪،‬اچھا تو سناؤ نہ ‪،‬شازیہ‬
‫جوش سے مگر دھیمی آوز میں‬
‫بولی‪،‬میں نے سوچ سمجھ کے ایک‬
‫فلم کی کہانی شروع کر دی‪،‬اس میں‬
‫کچھ باتیں تھیں جو گرم کر سکتی‬
‫تھیں ‪،،‬شروع شروع میں تو وہ سب‬
‫ہی پرجوش تھیں لیکن جیسے ہی‬
‫میں نے ہیرو ہیروئین کی کسنگ کی‬
‫بات کی‪،‬سب بہنیں ایکدوسرے کی‬
‫طرف دیکھنے لگی‪،‬پھر انہوں نے بے‬
‫توجہی برتنی شروع کی ‪،‬میں ان کی‬
‫طرف دیکھنے لگا اور انہوں نے‬
‫رضائیاں منہ پر لے لیں‪،‬دھت تیرے‬
‫کی۔‬

‫اب تو وہ میرے بارے میں سمجھ‬


‫گئی ہوں گی‪،‬بھئی کیا بات ہے میں‬
‫تو جدید ماحول میں رہتا ہوں‬
‫‪،‬مجھے نہیں پتہ تم لوگوں کو کیا برا‬
‫اور کیا اچھا لگتا ہے ‪،‬پلیز مجھے بتاؤ‬
‫‪،‬تا کہ مجھ سے کوئی غلطی نہ‬
‫ہو‪،‬میں ے سب کو مخاطب کر کے‬
‫کہا‪،‬لیکن کسی نے کوئی جواب نہ‬
‫دیا‪،‬اکٹھی بھی کوشش کر کے دیکھ‬
‫لی ‪،‬اکیلی نازیہ پر بھی کوشش کر‬
‫کے دیکھ لی‪،‬کچھ نہ بنا‪،‬اکٹھے تو ہو‬
‫ہی نہیں سکتا تھا‪،،‬کیوں کہ ایک بہن‬
‫اگر چاہے تو بھی وہ دوسروں کے‬
‫سامنے اظہار نہیں کرے گی‪،‬کہاں‬
‫پھنسا دیا یار جوسلین نے ‪،‬اسنے‬
‫واقعی مجھے امتحان میں ڈال دیا‬
‫تھا‪،‬سوچوں میں غلطاں میں بے‬
‫چینی سے بستر پر پہلو بدلتا رہا‪،‬پتہ‬
‫نہیں کتنے آئیڈیئے ذہن میں آئے اور‬
‫رد کر دیئے ‪،‬کیا کچھ نہیں سوچا اس‬
‫رات میں نے‪،‬ہر ممکن بات کی طرف‬
‫ہر طریقے کی طرف ‪،‬اپنی سیکھی‬
‫ہوئی ہر بات دہرائی‪،‬ہر بات سوچی‬
‫لیکن نتیجہ وہی ٹھاک کے تین پات‬
‫‪،‬کہ یہ کام اتنے وقت میں نہیں‬
‫ہوسکتا ‪ ،‬بلکہ ایسے ذہنوں کو تو‬
‫پھنسایا ہی نہیں جا سکتا‪،‬اب میں‬
‫مایوس ہونے لگا تھا‪ 3، 2 ،‬بجے تک‬
‫میں بے چینی سے پہلو بدلتا رہا‪،‬اور‬
‫مجھے بے چین کرنیوالیاں آرام سے‬
‫سو رہی تھیں‪،‬دل تو کرتا تھاکہ ابھی‬
‫ان پر ٹوٹ پڑوں ‪،‬لیکن جوسلین کا‬
‫خیال آتے ہی سلگتی آگ بجھنے‬
‫لگی‪،‬ایسے ہی خیاالت میں جانے کب‬
‫مجھے نیند آگئی۔‬
‫نیو بڑی کہانیاں کی لیٹ‬
‫جوان بیٹوں کا رس مکمل ٹوٹل پیج‬
‫‪907‬‬
‫۔ خوف مکمل پیج ‪2354‬‬
‫نادان لڑکی مکمل ‪3.1096‬‬
‫خریدا ہوا داماد ‪4.1298‬‬
‫شناسہ مکمل ‪5.1194‬‬
‫سو سال بعد ‪6.1778‬‬
‫ہوس کا پچاری مکمل ‪7.881‬‬
‫میری بہن میری زندگی مکمل‪8.‬‬
‫‪1102‬‬
‫دشمن زندہ ضرب ادھار مکمل‪9.‬‬
‫‪1516‬‬
‫۔ جنون اور دیوانہ پن مکمل‪10‬‬
‫‪1172‬‬
‫قرض ایک انوکھی داستان مکمل‪11.‬‬
‫‪3141‬‬
‫ڈاکٹر ہما مکمل ‪12.1033‬‬
‫کالو کا پیار سیزن ون‪13.‬‬
‫مکمل‪1042‬‬
‫چھوٹا وارث ‪14.1295‬‬
‫حویلی مکمل ‪15.445‬‬
‫میری محبت مکمل ‪16.2470‬‬
‫یہ تمام کہانیاں ‪ 400‬روپے میں‬
‫حاصل کریں‬
‫‪http://wa.me/+9231476150‬‬

‫🐍‬
‫‪13‬‬
‫ناگن‬
‫‪Update_9‬‬

‫صبح مجھے کسی نے نہیں اٹھایا لہذا‬


‫میں سوتا رہا اور تقریبًادس بجے اٹھا‬
‫‪،‬باہر نکال تو سب کچھ حسِب معمول‬
‫تھا‪،‬مولوی آرام کررہا تھا اور باقی‬
‫اپنا کام کاج‪،‬باتھ روم سے ہوکر منہ‬
‫ہاتھ دھویا تو شازیہ نے چپ چاپ‬
‫ناشتہ میرے آگے ال کر رکھ دیا‪،‬نازیہ‬
‫مجھے سے برگشتہ ہوچکی تھی‬
‫صاف دکھ رہا تھا ‪،‬پراگندا خیاالت‬
‫کے ساتھ ناشتہ تو کر لیا‪،‬لیکن ذہن‬
‫جیسے ایک ہی نکتے پر رک گیا تھا‬
‫کہ یہ لڑکیاں چودائی کیلیے راضی‬
‫نہیں ہیں‪،‬بلکہ ان کو سیکس کاہی‬
‫کچھ پتہ نہیں ہے‪،‬اوپر سے ان کا‬
‫اسٹوپڈ ماحول ایسا پتھر تھا جس‬
‫سے سر پٹک پٹک کر مرجائیں لیکن‬
‫یہ ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہو‪،‬‬
‫مجھے ان کے ماحول پر غصہ بھی‬
‫تھا اور مایوسی میں جھالہٹ بھی‬
‫تھی‪،‬اب میں نے پھر ان کے جسموں‬
‫کو گھورنا شروع کر دیا اب میں بے‬
‫باک تھا ‪،‬میں نے ان کو ذومعنی باتیں‬
‫بھی کیں‪،،‬کچھ فحش اشارے بھی‬
‫کر دیئے ‪،‬جو کہ میری سرشت میں‬
‫نہیں تھا‪،‬لیکن ان میں سے کسی نے‬
‫کوئی ایسی بات نہ کی جس سے‬
‫مجھے تھوڑی سی بھی امید ہوتی‪،‬‬
‫دوپہر تک میں ان کی ماں سے گپیں‬
‫مار تا پھر مولوی آیا ‪،،‬آج جمعہ تھا‬
‫وہ جلدی نکل گیا تھا اور اب بھی‬
‫دیر سے آیا تھا تو کھانا کھاکرمولوی‬
‫اپنے کمرے میں لیٹ گیا اور میں‬
‫بھی دوسرے کمرے میں آکر لیٹ‬
‫گیا‪،‬میں مایوس ہوچکا تھا‪،،‬مایوسی‬
‫میں عجیب عجیب خیاالت آرہے‬
‫تھے‪،‬جوسلین نے مجھ پر کتنا پیسہ‬
‫لگایا ‪،‬کتنی مجھ پر محنت کی ‪،‬اور‬
‫مجھے کیا سے کیا بنا دیا‪،‬لیکن میں‬
‫نے فیل ہو کر اس کی ساری محنت‬
‫پر پانی پھیر دیا‪ ،‬ایسے ہی سہہ پہر‬
‫ہوگئی ‪،‬شاید مولوی پھر آگیا تھا‬
‫‪،،‬لیکن میں باہر نہ نکال ‪،‬میں کبھی‬
‫مایوس نہیں ہوا تھا نہ کبھی ہارا تھا‬
‫‪،،‬لیکن آج میں ہار رہا تھا جیسے‬
‫جیسے دن ڈھل رہا تھ ااور شام‬
‫قریب آرہی تھی‪،‬میری دل کی‬
‫دھڑکنیں تیز ہو رہی تھیں میرے‬
‫چہرے پر ناکامی لکھی جا رہی تھی‬
‫۔پتہ نہیں کون کون سے خیاالت‬
‫میرے ذہن میں آتے گئے‪،‬ایسے میں‬
‫ایک سوچ یہ بھی آئی ‪،‬کہ اگر یہ‬
‫سیکس نہیں کرنا چاہتی تو مجھے‬
‫جوسلین نے یہاں کیوں بھیجا ؟ کیا‬
‫اس نے مجھے ایسے لوگوں میں‬
‫پھنسایا ہے جو میری ہار کا سبب بنے‬
‫یا اس نے مجھے مشکل ٹارگٹ دیا‬
‫ہے؟ ذہن نے جواب دیا کہ اگر ان‬
‫لڑکیوں نے سیکس کرنا ہی نہ ہوتا تو‬
‫وہ مجھے یہاں بھیجتی ہی نہ‪،‬میں‬
‫جوش میں اٹھ بیٹھا۔‬

‫اس خیال نے مجھ میں نئی امنگ‬


‫پیدا کر دی‪،،‬میں پھر سے ترتیب سے‬
‫سوچنے لگا‪،‬مفروضے بنانے لگا‪،‬اگر‬
‫لڑکیاں سیکس کو جانتی ہیں یا کرنا‬
‫چاہتی ہیں‪،‬تو پھر وہ سیکس سے‬
‫کسی طرح متاثر ہو رہی ہیں‪،،،‬تو وہ‬
‫سیکس سے کہاں سے متاثر ہو رہی‬
‫ہیں ‪،‬ذہن نے سوال کیا‪،‬؟ الیکٹرانک‬
‫میڈیا کا کوئی ذریعہ تو گھر میں ہے‬
‫نہیں جس سے باہر کی دنیا سے گھر‬
‫میں کچھ آئے‪،‬پرنٹ میڈیا ہو شاید‬
‫‪،‬میں نے ان کے بستروں اورسرہانوں‬
‫کو اچھی طرح دیکھا‪،‬جستی پیٹی‬
‫اور اس پر پڑے ٹرنکوں کو‬
‫دیکھا‪،‬لیکن وہ سب الک تھے‪،‬نہیں‬
‫پرنٹ میڈیا بھی نہیں ہو‬
‫سکتا‪،‬مولوی کی سختی اور ان کا ڈر‬
‫میرے سامنے آگیا‪،‬تو پھر ان کی‬
‫کوئی دوست اور ہمسائی بھی نہیں‬
‫ہوگی‪،‬ان کے ماحول میں اور مولوی‬
‫کی بادشاہت میں سب ناممکن تھا‪،‬ہو‬
‫نہ ہو اگر وہ سیکس سے متاثر ہیں‪،‬تو‬
‫وہ چیز ان کو گھر میں ہی مل رہی‬
‫ہے‪،‬میرے ذہن میں جھماکا ہوا‪،‬کہیں‬
‫یہ مولوی اور اس کی بیوی کا‬
‫سیکس تو نہیں دیکھتیں‪،‬یہ ممکن‬
‫تھا ‪،‬اور اس سے مولوی ال علم بھی‬
‫ہو گا‪،‬کل رات مجھے مولوی کے‬
‫کمرے میں کیوں نہیں سالیا گیا‪،‬؟ یہ‬
‫حکم مولوی نے دیا ہو گا‪،‬اس کی‬
‫مرضی کے عالوہ گھر میں ایسا‬
‫کوئی نہیں تھا جو مجھے اس کمرے‬
‫میں سونے کی اجازت دیتا‪،‬اب مجھے‬
‫سمجھ آنے لگی کہ مولوی بیوی سے‬
‫چودائی کرنے کیلیے مجھے لڑکیوں‬
‫کے کمرے میں سونے دیا‪،‬یہیں ایک‬
‫بات ہے جو اس کے خیاالت کو روک‬
‫سکتی تھی‪،‬اس کامطلب ہے مو لوی‬
‫ناغہ نہیں کرتا ہو گا‪ ،‬ویسے بھی‬
‫مولوی کا کوئی بیٹا نہیں تھا ‪،‬تو‬
‫الزمًا وہ چار بیٹیوں کے بعد مزید‬
‫کوشش تو کرتا ہو گا‪،‬جو کہ اب تک‬
‫بارآور نہیں ہوئی تھی ‪،‬کیونکہ‬
‫چوتھی لڑکی کے بعد سے مولوی کی‬
‫بیوی کو بریک لگے ہوئے تھے ‪ ،،‬تو یہ‬
‫بھی ممکن ہے کہ لڑکیاں کو مولوی‬
‫کی چودائی کی بھنک پڑ گئی ہو۔‬

‫دن میں بھی مولوی قیلولہ کرتا ہے‬


‫اور مولوی کی بیوی اس کے ساتھ‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬لڑکیاں اس معمول کی‬
‫عادی تھیں ‪،‬یعنی یہ کتنے عرصے سے‬
‫جاری ہے ‪،‬دن میں کچھ دیکھ لیا‬
‫ہو‪،‬اسی مفروضے کو بڑھا کر میں‬
‫مختلف آپشن پر غور کرتا رہا‪،،‬اگر‬
‫لڑکیاں سیکس پر مائل ہیں تو‪،،،،،‬‬
‫مولوی کے عالوہ لڑکیوں کو اور کہیں‬
‫سے انسپائریشن(متاثرہونا ) نہیں مل‬
‫رہی یہ میں طے کرچکا تھا‪،،،‬وہ کہاں‬
‫سے دیکھتی ہیں‪،‬؟ ذہن نے سوال‬
‫کیا‪،،‬میں باہر کا منظر ذہن میں ال کے‬
‫دیکھنے لگا‪،،‬باہر سے یہ ممکن نہیں‬
‫تھا‪،‬مولوی نے اس بات کا خیال رکھا‬
‫ہوا تھا‪ ،‬ونڈو اور دروازے کے اندر کی‬
‫طرف پردے لگے ہوئے تھے ‪،‬جس کا‬
‫مولوی جیسا شخص خیال رکھتا ہو‬
‫گا‪،،‬پھر وہ جو کرتی ہیں وہ اسی‬
‫کمرے میں کرتی ہیں‪،‬میں اچھل کر‬
‫کھڑا ہو گیا‪،‬سامنے وہ دیوار تھی جو‬
‫مولوی اور لڑکیوں کے کمرے کی‬
‫مشترکہ دیوار تھی‪،‬اسمیں کوئی‬
‫اینٹ نکلتی ہوگی‪،‬میں پرخیال‬
‫نظروں سے بغیر پلستر کی دیوار کو‬
‫دیکھنے لگا‪ ،‬لڑکیوں نے کمرے میں‬
‫کیا آنا تھاوہ تو مجھ سے دور رہنا‬
‫چاہتی تھیں ‪،،،‬میں نے لڑکیوں کے قد‬
‫کو مِّد نظر رکھتے ہوئے کئی اینٹوں‬
‫کو دبایا لیکن مجھےکوئی سرکتی‬
‫اینٹ نہ ملی‪،‬پھر میں نے نچلی الئین‬
‫سے شروع ہو کر ایک ایک اینٹ‬
‫دیکھنے لگا‪ 21،‬الئینوں تک میں نے‬
‫ایک ایک اینٹ دبا کر دیکھی ‪،‬لیکن‬
‫کچھ نہ مال‪،‬پھر میں نے احتیاًط ہاتھ‬
‫اونچے کر کے کچھ اوپری الئنیں بھی‬
‫دیکھ ہی لیں ‪،‬مجھے سارا مفروضہ‬
‫ریت کی دیوار محسوس ہوا‪،‬پھر‬
‫میں آخری کوشش کے طور پر دیوار‬
‫پر لگے شیشے کے پیچھے دیکھا‬
‫‪،‬لیکن وہاں بھی کچھ نہیں تھا۔‬
‫پھر میں پیچھے پٹا اور ساری دیوار‬
‫کودیکھنے لگا‪،‬اور میری نظریں لکڑی‬
‫کی میخ پر آٹکی‪،‬وہ کوئی باقاعدہ‬
‫میخ نہیں تھی‪،‬بلکہ جالنے والی لکڑی‬
‫سے علیحدہ کی گئی تھی‪،‬اور کافی‬
‫موٹی میخ تھی جبکہ یہاں ایک‬
‫معمولی سے کیل سے بھی کام چل‬
‫سکتا تھا ‪ ،‬لیکن غربت کے ماحول‬
‫میں وہ چل رہا تھا ‪،‬میں نے دروازے‬
‫کی طرف دیکھا اور جو کہ ا س‬
‫دیوار کے ساتھ ہی تھا‪،‬پھر میں نے‬
‫میخ کو کھینچا‪ ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،‬میخ‬
‫آرام سے میرے ہاتھ میں آگئی‪،‬اور‬
‫دیوار میں اینٹوں کی درز کے درمیان‬
‫ایک بڑا سا سوراخ موجود تھا میں‬
‫نے جلدی سے اس میں سے‬
‫جھانکا‪،‬سامنے ہی مولوی کا بستر‬
‫تھاجس پر وہ سوتا تھا بلکہ تقریبًا‬
‫اس طرف کا پورا منظر واضح تھا‬
‫مولوی کے ساتھ ہی اس کی بیوی‬
‫کی چارپائی تھی‪،‬میں نے جلدی سے‬
‫میخ واپس لگا دی اور شیشہ بھی‬
‫میخ پر لٹکا دیا‪،‬اس پرکنگھی اور‬
‫سرسوں کے تیل کی شیشی تھی وہ‬
‫بھی دوبارہ رکھ دی‪،‬اور آرام سے آکر‬
‫بستر پر لیٹ گیا‪،‬لڑکیاں کبھی بھی‬
‫میرے ہاتھ نہیں آنی تھی‪،،‬اور سب‬
‫سے بڑی رکاوٹ ان کے خیاالت‬
‫تھے‪،‬گھر کا ماحول تھا‪،‬اور مولوی‬
‫تھا‪،‬لیکن مولوی کو نہیں پتہ تھا کہ‬
‫وہ خود ہی اپنی ہر بات کی کاٹ کر‬
‫رہا ہے ‪،،‬اب مجھے رات کا انتظار‬
‫تھا‪،،،‬شام تو ہو ہی گئی تھی‪،‬رات کو‬
‫کھانے کا وقت ہوا تو میں ے کم‬
‫کھانا کھایا ‪،‬اور بہانہ کیا کہ میری‬
‫طبعیت کچھ سست ہو رہی ہے ‪،‬میں‬
‫بس آرام کرنا چاہتا ہوں‪،،‬مجھے بہت‬
‫نیند آئی ہے‪ ،‬میں نے ایک ہاتھ منہ‬
‫پررکھ کر لمبی سی جمائی لی‪،‬میں‬
‫جا کر اپنے بستر پر لیٹ گیا اور‬
‫اچھی طرح رضائی لپیٹ لی‪،‬کچھ‬
‫ہی دیر میں مجھے نیند آگئی ‪،‬اور‬
‫پھر میں گہری نیند میں چال‬
‫گیا‪،،‬سردیاں ویسے بھی بڑی پڑ رہی‬
‫تھی‪،،‬شاید دس بجے ہوں گے اور‬
‫ابھی سے لگ رہا تھا کہ جانے رات‬
‫کتنی ہوگئی ہے ‪،،‬پھر عائشہ اپنے‬
‫بستر سے نکلی اور میری طرف‬
‫محتاط نظروں سے دیکھا‪،‬میں تو‬
‫ہلکے ہلکے خراٹے لے رہا تھا‪،،،‬اورکب‬
‫سے گہر ی نیند میں تھا‪،،‬شازیہ نے‬
‫دیوار سے شیشہ اتارا اور آرام سے‬
‫نیچے زمین پر دیوار سے ٹکا کر رکھ‬
‫دیا‪،‬پھر میخ نکالی اور اس موری سے‬
‫مولوی کے کمرے میں دیکھنے لگی۔‬

‫میخ اس کے ہاتھ میں ہی تھی‪،‬اس‬


‫نے میخ آرام سے نیچے رکھ دی‪،‬اتنے‬
‫میں نازیہ پھر سعدیہ اور رافعہ بھی‬
‫اٹھ بیٹھی ‪،،،‬میں آنکھ کی معمولی‬
‫سے جھری میں سب دیکھ رہا‬
‫تھا‪،‬کتنی دیر سے میں مورچہ جمائے‬
‫بیٹھا تھا‪،‬اور اب شکار کو سامنے‬
‫دیکھ کر میرا دل بلیوں اچھلنے لگا‬
‫تھا‪،‬چاروں لڑکیاں باری باری اس‬
‫موری سے دیکھنے لگی‪،،‬پھر شازیہ نے‬
‫نازیہ کے ممے پر ہاتھ رکھ دیا اور‬
‫اسے کسنگ کرنے لگی‪،‬اور سعدیہ‬
‫بھی رافعہ کے ساتھ کسنگ کرنے‬
‫لگی‪،،‬وہ باری باری سوراخ سے‬
‫دیکھتی تھیں اور ایکدوسرے کو‬
‫چھیڑتی تھیں‪،،‬پھر انہوں نے اپنی‬
‫قمیضیں اتار دی اور برا اتار کر ممے‬
‫چوسنے لگی‪،،،‬جو ممے چوستی اس‬
‫سے دوسری سوراخ سے‬
‫دیکھتی‪،،،‬چار جوانیاں میرے سامنے‬
‫ننگی تھیں ‪،‬میری آنکھیں پوری کھل‬
‫گئی تھیں لیکن اب لڑکیوں کو میرا‬
‫کوئی خیال نہیں تھا‪ ،‬میں بے آواز‬
‫چارپائی سے اترا ‪،‬لڑکیوں کا دھیان‬
‫سوراخ اور ایکدوسرے کی طرف تھا‬
‫ان کی پشت ہی میری طرف‬
‫تھی‪،‬میں نے اپنے کپڑے اتارے اور‬
‫ننگا ان کے پیچھے جا کھڑا ہوا‪،‬اچانک‬
‫جیسے انہیں میری موجودگی کا‬
‫احساس ہوا‪،‬اور سب سے پہلے شازیہ‬
‫ہی مڑی ‪،،،‬مجھے دیکھ کر انہیں‬
‫جیسے سکتہ ہوگیا‪،‬جبکہ نازیہ نے‬
‫اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا‪،‬شاید وہ‬
‫چیخنے لگی تھی‪،،‬وہ انتہائی‬
‫حیرانگی سے مجھے دیکھ رہی‬
‫تھی‪،‬اور اب اچانک انہیں میرے ننگے‬
‫ہونے کا احساس ہوا‪،،‬تو انہیں بڑا زور‬
‫کا جھٹکا لگا‪ ،‬میں نے آگے بڑھ کے‬
‫سوراخ سے دیکھا مولوی جوش و‬
‫خروش سے لگا ہوا تھا ‪ ،،‬بڑی بہن‬
‫ہونے کے ناطے ان کی لیڈر شازیہ‬
‫تھی‪،‬میں نے شازیہ کے کندھے پر ہاتھ‬
‫رکھا اور اسے خود سے لپٹا لیا‪،‬میرا‬
‫عضو اسے چھو رہا تھا ‪،،‬وہ کچھ کہہ‬
‫نہیں سکتی تھی‪،‬نہ چال سکتی تھیں‬
‫‪،‬وہ اپنی پوزیشن سمجھتی تھیں‬
‫‪،،،‬شازیہ جو دیکھ دیکھ کر تم ترس‬
‫رہی ہو وہ میں تمھیں دے سکتا ہوں‬
‫‪،،‬اگر تم نے یہ موقع ضائع کرد یا تو‬
‫ساری عمر ترستی رہو گی جانے کب‬
‫تمھاری شادی ہو۔‬

‫اپنے اور اپنی بہنوں پر رحم‬


‫کھاؤمیں نے اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کی‪،،،‬میرا جسم اس سے‬
‫لگا ہوا تھا اور میرے ہاتھ اس کے‬
‫مموں پر تھے جو اس دوران چھیڑ‬
‫خانی شروع کر چکے تھے‪،،‬کچھ کہنے‬
‫سننے کی گنجائش نہیں تھی‪،،،‬شازیہ‬
‫تو پہلے ہی بھڑکی ہوئی تھی‪،،‬اب‬
‫اس کے سامنے ایک مضبوط عضو‬
‫اور جوان لڑکا تھا جو کہ اس کا ہم‬
‫عمر ہی تھا‪،‬وہ ابا کو پتہ چلے گا تو‬
‫بہت مارے گا‪،‬شاید قتل ہی کر دے‬
‫‪،‬شازیہ نے کچھ تو کہنا ہی‬
‫تھا‪،،،‬شازیہ ابا اپنے کام لگا ہوا ہے او‬
‫ر پھر وہ مدہوش ہو کر سو جائے‬
‫گا‪،‬اگر اسے اب تک سوراخ کا پتہ‬
‫نہیں چال تو ہمارا بھی پتہ نہیں چلے‬
‫گا‪،‬دنیا سوئی ہوئی ہے اور ہم کمرے‬
‫میں بند ہیں ‪،‬کسی کو کیا پتہ کے‬
‫اندر کیا ہورہا ہے‪،‬میں نے شازیہ کے‬
‫کان میں سرگوشی کی‪،‬میرے ہاتھ‬
‫اس دوران اس کے مموں کو مسل‬
‫رہے تھے ‪،،،‬اور عضو اسے بے چین کر‬
‫رہا تھا‪،‬اس دوران دوسری بہنیں‬
‫ہماری طرف ہی متوجہ تھیں کہ کیا‬
‫فیصلہ ہوتا ہے‪،،،‬میں نے شازیہ کے‬
‫چہرے کے سامنے اپنا چہرہ کیا‪،،،‬اس‬
‫کے ہونٹ کپکپائے اور پھر ہم نے‬
‫ہونٹوں کو ہونٹوں سے جوڑ‬
‫دیا‪،،،‬شازیہ کو سیکس کا کچھ پتہ‬
‫نہیں تھا وہ اناڑی تھی ‪ ،،‬بلکہ ساری‬
‫بہنیں ہی اناڑی تھی ابھی جب وہ‬
‫آپس میں چوماچاٹی کر رہی تھیں تو‬
‫یہ بھی لیسبن نہیں تھا بلکہ وہ‬
‫صرف مولوی کی نقل اتار رہی‬
‫تھیں‪،‬میں نے شازیہ کو ساتھ لگا‬
‫لیا‪،‬میرا عضو اس کی چوت سے لگ‬
‫رہا تھا اور میرے ہاتھ اس کے ممے‬
‫کو مسل رہے تھے اور ایک ہاتھ میرا‬
‫اس کی گانڈ پر تھا‪،‬نازیہ پیچھے سے‬
‫مجھے لپٹ گئی تھی‪،،‬او رمیری کمر‬
‫چوم رہی تھی‪،‬اس کی دیکھا دیکھی‬
‫سعدیہ اور رافعہ بھی مجھے چوما‬
‫چاٹی کرنے لگی‪،،،،‬میں نے تو کبھی‬
‫دو لڑکیوں سے اکٹھی چودائی نہیں‬
‫کی تھی یہاں تو دو نہ ُش دچار ُش د ہو‬
‫گئیں تھیں‪ ،‬میں نے سوچا ان کے‬
‫درمیان ُچ وں ُچ وں کا مرّبہ بننے سے‬
‫بہتر ہے ایک ایک سے آرام سے نپٹا‬
‫جائے‪،‬اس دوران دوسری جو کرتی ہے‬
‫وہ کرتی رہے۔‬

‫شازیہ گرما گرم تھی‪،‬اسے تیاری کی‬


‫ضرورت نہیں تھی میں نے سوچا‬
‫اسےچودا جائے‪،‬ویسے بھی کل سے‬
‫ان کے بارے میں سوچ سوچ کے اب‬
‫میرے اند آگ جل رہی تھی‪،‬میں‬
‫چارپائیوں کی طرف دیکھا وہاں‬
‫چودائی مناسب نہیں تھی اور مزہ‬
‫بھی نہیں آنا تھا‪،‬نازیہ ‪،،،‬جی‪،،،،‬نیچے‬
‫چٹائی بچھا دو اور اس پر گدے‬
‫بچھا دو ‪،‬ساتھ رضائی بھی رکھ دو‬
‫ہم چاروں کا یک ہی بستر بنا لو‪،‬صبح‬
‫اٹھا لیں گے‪،،‬نازیہ میری بات سمجھ‬
‫گئی‪،،‬میں نےسعدیہ کو اشارہ کیا تو‬
‫اس نے میخ واپس لگا دی اور شیشہ‬
‫لٹکا دیا‪،‬کنگھی رکھنے کے بعد‬
‫سرسوں کے تیل کی شیشی میں نے‬
‫نیچے ہی رکھنے کا اشارہ کیا‪،‬شازیہ‬
‫مجھے چومتی جارہی تھی‪،،،‬میں نے‬
‫اس کے ہاتھ میں اپنا عضو دے‬
‫دیا‪،‬اسے جھٹکا سا لگا مگر اسے پتہ‬
‫لگ گیا کہ اس کے ہاتھ میں کیا‬
‫ہےعضو پکڑے شازیہ مجھے چومنے‬
‫لگی‪،،‬میں نے اس کاہاتھ پکڑ کر مٹھ‬
‫مارنے کا طریقہ بتایا اور اسے کام پر‬
‫لگا دیا‪،،‬اس سے شازیہ کا درجہ‬
‫حرارت بڑھتا گیا‪،‬نازیہ نے بستر بہت‬
‫اچھا بنایا تھا اس نے دوگدے‪/‬سرہانے‬
‫ساتھ ساتھ ڈال دیئے تھے اور اس پر‬
‫دو رضائیاں رکھ دی تھیں لیکن‬
‫سردی کے باوجود ہمیں سردی کا‬
‫احساس تک نہ تھا سعدیہ ایک کپڑا‬
‫النا جس سے کچھ صاف کیا جاسکے‬
‫میں نے شازیہ کو لیکر بستر کے‬
‫درمیان میں بیٹھتے ہوئے کہا‪،‬اور‬
‫شازیہ کو لٹا دیا‪،‬میرے اندر تو آگ‬
‫بھڑکی ہوئی تھی ‪،‬جیسے ہی شازیہ‬
‫لیٹی میں نے اس کی شلوار پکڑ کر‬
‫کھینچی اور نیچے کر دی‪،،،‬شازیہ‬
‫اس کیلیے تیار نہیں اس نے ٹانگیں‬
‫اکٹھی کر لیں‪،‬میں اس کے ساتھ لیٹ‬
‫گیا‪،‬شازیہ شرماؤ مت‪،‬یہ تو پیار کی‬
‫ابتداء ہے‪،‬ہم نے ابھی یک جان ہونا‬
‫ہے‪،‬میرے سامنے حسین جوانی ننگی‬
‫پڑی تھی ا سکے کچے ممے مجھے بال‬
‫رہے تھے ‪ ،‬میں نے اس کے اوپر لیٹ‬
‫کر اس کے ممے چوسنے شروع کر‬
‫دیئے‪،،‬اور عضو اور اس کی چوت پر‬
‫رگڑنے لگا۔‬
‫شازیہ حسین تھی‪،‬بلکہ چاروں بہنیں‬
‫ہی حسین تھیں گدڑی میں لعل چھپا‬
‫ہوا تھا‪،‬ان میں نازیہ تو کمال تھی‬
‫‪،،‬چاروں بہنیں دبلی پتلی تھیں بس‬
‫سعدیہ کا جسم تھوڑا فربہی مائل‬
‫تھا ‪،‬لیکن وہ اس میں بھی‬
‫خوبصورت لگتی تھی‪،، ،‬چاروں کی‬
‫رنگت گوری تھی‪،‬اور یہ حسن انہیں‬
‫اپنے والدین سے مال تھا ‪،،‬شازیہ اور‬
‫نازیہ کے نین نقش ذراتیکھے تھے‬
‫‪،‬جبکہ سعدیہ کا چہرہ گوالئی نما اور‬
‫رافعہ الھڑ جوانی ‪،‬اٹھتا طوفان‬
‫تھوڑا لمبوترا چہرا تھا جس کا اپنا‬
‫ہی حسن تھا‪،‬ہوسکتا تھا کل کو‬
‫رافعہ نازیہ سے بھی آگے نکل‬
‫جائے‪،‬ان کی عمر بھی ایسی تھی کہ‬
‫اس عمر میں توکھتی کا بچہ بھی‬
‫حسین لگتا ہے ‪،‬ایسی عمر جیسے‬
‫کچے عام جو تھوڑے سے پکے ہیں‪،‬یا‬
‫کھلتی ہوئی کلیاں جو ابھی بند بند‬
‫سی ہیں‪،،‬یا وہ شبنم کے قطرے جو‬
‫ہرے پتوں پر پڑے ہیں یا ہوا کا وہ‬
‫جھونکا جو چھو کر گزرتا ہے تو‬
‫محسوسات جگا دیتا ہے۔جیسے‬
‫موسیقی کی لے ہو‪،‬جو دل کو چھو‬
‫جائے‪،،‬بس شازیہ اور ا سکی بہنیں‬
‫کچھ ایسی ہی تھیں‪،،،‬میرے ذوق کے‬
‫عین مطابق‪،‬جوسلین کو میرے ذوق‬
‫کا پتہ تھا ‪،‬اس نے شکار بھی ایساہی‬
‫ڈھونڈا تھا جنہیں دیکھ دیکھ کر‬
‫میں تڑپوں‪،،،،‬اور میں کل سے تڑپ‬
‫پھڑک رہا تھا‪،‬اب میری بس ہوگئی‬
‫تھی‪،‬جاؤ سرسوں کے تیل کی شیشی‬
‫اٹھا الؤ میں نے رافعہ کے کان میں‬
‫کہا‪،‬جو مجھے کمر سے چوم رہی‬
‫تھی اور باقی کو بھی یہی کام‬
‫تھا‪،‬ان کا اناڑی پن مجھے موقع دے‬
‫رہا تھا کہ میں باری باری ان کو چود‬
‫ڈالوں‪،‬کبھی چودائی کی ہوتی تو ان‬
‫بہنوں نے مجھے سانس تک نہیں لینے‬
‫دینا تھا‪،،‬میں نے تیل عضو پر لگایا‬
‫اور کچھ شازیہ کی چوت میں لگا‬
‫دیا‪،‬کنواری چوت کو چودنے کا ایسا‬
‫طریقہ جس سے اسے بالکل درد نہ‬
‫ہو‪،‬نہ کوئی آواز نکلے ۔‬
‫سوکھا عضو کنواری لڑکی کیلیے‬
‫عذاب بن جاتا ہے اسے مزہ بھول کر‬
‫اپنی پڑ جاتی ہے‪،‬یہ جو کہتے ہیں کہ‬
‫سوکھا عضو اندر ڈاال اور پھر آہستہ‬
‫آہستہ روانی ہونے لگی اور لڑکی بھی‬
‫مزہ لینے لگی تو یہ جھوٹ ہے پہلی‬
‫بار میں ایسا نہیں ہوتا ‪،‬اور نہ ہی‬
‫روانی ہوتی ہے‪،‬بلکہ اندر ہی نہیں‬
‫جاتا‪،‬اگر زبردستی چال جائے اور‬
‫چودائی کر لی جائے تو لڑکی کا سوا‬
‫ستیا ناس ہو جاتا ہے‪،‬میں تو کہتا‬
‫ہوں لڑکی کی چوت ایک سال تک‬
‫تنگ رہتی ہے اور مزہ دیتی رہتی‬
‫ہے‪،‬بلکہ عرصے بعد کھلی چوت میں‬
‫بھی ڈاال جائےتو اسے بھی احساس‬
‫ہوتا ہے کہ اندر کچھ آیا ہے‪،،‬شازیہ کے‬
‫چہرے پر جوش تھا اسے پتہ تھا کہ‬
‫اب کیا ہونے واال ہے‪،‬وہ ہر روز یہ‬
‫دیکھتی تھی‪،،،‬باپ کا عضو ماں کی‬
‫چوت میں جاتے ہوئے‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ‬
‫اور رافعہ ‪ ،‬چوما چاٹی چھوڑ کر دم‬
‫سادھے عضو کی طرف دیکھ رہی‬
‫تھیں‪،‬جیسے کوئی عجوبہ ہو‪،‬شاید‬
‫انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ‬
‫ایک دن یہ عضو ان کے پاس ہو‬
‫گا‪،‬اور پرنس ان کی چودائی کررہا ہو‬
‫گا‪،‬میں نے شازیہ کی ٹانگیں کھولی‬
‫اور اس کی گانڈ کے نیچے کپڑا بچھا‬
‫دیا یہ سعدیہ کی چادر تھی اس‬
‫وقت یہی ملی تھی‪،‬اسے نہیں پتہ‬
‫تھا اس چادر پر کیا گرنا ہے‪،‬اور ان‬
‫ٹانگوں میں گھٹنوں بل بیٹھ کر‬
‫تھوڑا آگے ہو کہ جھک کے عضو کو‬
‫شازیہ کی چوت پر رکھا ‪،،‬انگلیوں‬
‫سے اس کی چوت کی پنکھڑیاں‬
‫کھولی اور عضو کو چوت کے سوراخ‬
‫میں داخل کیا‪،،‬پھر میں نے ہاتھ‬
‫پیچھے کیااور عضو کو آگے‬
‫دھکیال‪،،‬عضو نرمی سے کچھ آگے‬
‫چال ‪،‬چاروں بہنوں کے چہرے پر‬
‫ہیجانی کیفیت تھی‪،‬شازیہ کے تو‬
‫اندر جا رہا تھا لیکن باقی بھی اسی‬
‫کیفیت میں تھی‪،‬عضو کو تھوڑا‬
‫دھکا چاہیئے تھا لیکن شازیہ کوچوت‬
‫بڑی ہی تنگ تھی‪،‬پہلی بار جا رہا تھا‬
‫میں نے تیل بھی لگایا تھا لیکن شاید‬
‫شازیہ نے ہیجانی کیفیت میں چوت‬
‫کو بھینچا ہوا تھا‪،‬میں نے جھک کر ا‬
‫سکے ممے چوسنے شروع کر‬
‫دیے‪،،‬شازیہ کا دھیان بٹ گیا‪،‬چوت‬
‫کی اضافی تنگی ختم ہوئی ‪،‬میں‬
‫اسی کے انتظار میں تھا میں نے عضو‬
‫چوت میں دھکیل دیا‪،‬محسوس کرتے‬
‫ہوئے میں نے عضو کو پردہ بکارت کے‬
‫پاس روک دیا۔‬
‫شازیہ کے چہرے پر میری نظر تھی‬
‫‪،‬اس سے ا سکی دلی کیفیت کا پتہ‬
‫لگ رہا تھا‪،‬وہ اب بھی ہیجان میں‬
‫تھی‪،‬اور اس سے پردہ بکارت کے‬
‫ٹوٹتے وقت اس کی حساسیت بڑھ‬
‫جانی تھی اور زیادہ محسوس ہونا‬
‫تھا‪،‬میں اس پر جھکا اور اس کے‬
‫ممے پھر چوسنے شروع کر دیے‪،،‬ممے‬
‫ایک ایسا راستہ ہے جو چودائی‬
‫کےدروازے تک لے جاتا ہے‪،،‬وہی ہوا‬
‫شازیہ کی چوت عضو کا وصال‬
‫مانگنے لگی‪،‬شازیہ کی بے چینی نہیں‬
‫سمجھتی تھی کہ اسے کیا چاہیے‬
‫‪،‬لیکن میں جانتا تھا کہ ایسی حالت‬
‫میں چوت قدرتی طور پر عضو لینے‬
‫کیلیے تڑپتی ہے اور اس چاہت میں‬
‫عضو کو اپنے اندر سمو سکتی‬
‫ہے‪،،،‬مجھے ہر حال میں شازیہ کی‬
‫چوت کا بغیر درد کے پردہ توڑنا تھا‬
‫‪،،‬تا کہ اس کی بہنیں ڈریں نہ ‪،،،‬ان کا‬
‫ڈر ان کو چودنے میں رکاوٹ بن‬
‫سکتا تھا‪،‬جب شازیہ مسلسل بے‬
‫چینی محسوس کر نے لگی ‪،‬تو میں‬
‫نے وہیں اندر باہر کرنا شروع کر دیا‬
‫‪،‬شازیہ کا دھیان پہلے ہی بٹ چکا تھا‬
‫اب وہ کچھ مزے میں اور اس کی‬
‫چوت پورا اندر لینا چاہتی تھی ‪،‬میں‬
‫نے احتیاًط ہاتھ اس کے ہونٹوں پر‬
‫رکھا جیسے ان کوچھو رہا ہوں‬
‫‪،‬ویسے میرا رادہ ان کو دبانے کا تھا‬
‫اگر چیخ نکلتی‪،،‬اور پھر زور کا دھکا‬
‫لگایا‪،‬اب تیل کام کر رہا تھا اور عضو‬
‫چوت کی وادیوں میں گھستا‬
‫گیا‪،،‬پردہ ٹوٹتے وقت شازیہ نے‬
‫جھٹکا تو لیا‪،‬لیکن یہ ایسے ہی تھا‬
‫جیسے ارتھ لگتا ہے اور بس‪ ،‬کرنٹ‬
‫لگتا تو اس نے چیخنا ہی تھا‪،،‬میں‬
‫وہاں کچھ دیر ٹھہرا‪،‬ممے چوسنے‬
‫جاری رکھے اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫چودائی شروع کر دی‪،‬شازیہ چودائی‬
‫کی لہروں تیرنے لگی‪،‬نازیہ ۔سعدیہ‬
‫اور رافعہ کی حالت ٹھیک نہیں تھی‬
‫ان کو چودائی کی شدید بھوک لگ‬
‫چکی تھی‪،‬ان کا ایک ہاتھ چوت پر‬
‫اور دوسرا مموں پر تھا‪ ،‬آہستہ آہستہ‬
‫میں تیز ہونے لگا۔۔شازیہ اب تیر نہیں‬
‫رہی تھی بلکہ ڈوب رہی‬
‫تھی‪،‬شہزادے دیکھ دیکھ کے لگتا‬
‫نہیں تھا کے اس میں اتنا مزہ ہے‬
‫‪،‬تڑپ تھی لیکن اسے سکوں کیسے‬
‫دینا ہے یہ نہیں پتہ تھا‪،‬تم نے مجھ‬
‫پر احسان کیا ‪،‬میں کل سے تم سے‬
‫ناراض تھی‪،‬لیکن آج مجھے تم سے‬
‫پیارا کوئی نہیں ہے‪،‬شازیہ ابھی سے‬
‫جذباتی ہوچکی تھی‪،‬میں ‪ 4‬سال سے‬
‫جوسلین کو چود رہا تھا ‪،‬بے شک وہ‬
‫حسین ترین تھی‪،‬اسے چودائی کا فن‬
‫آتا تھا‪،‬مزے دینا وہ جانتی‬
‫تھی‪،‬چوت بھی اس کی ٹھیک‬
‫تھی‪،‬لیکن مجھے شازیہ جو دے رہی‬
‫تھی‪،‬جو ا سکا کچا پن میں مزہ تھا‬
‫وہ بالکل ایک نئئ چیز تھی بڑے‬
‫عرصے بعد سحرش یاد آئی ‪،‬کنواری‬
‫چوت کو چودتے ہوئے تب یہ مزہ آیا‬
‫تا‪،‬تب نگینہ کی چدائی مجھے بھولنے‬
‫لگی تھی اور سحرش کا جادو سر‬
‫چڑھ کے بولنے لگا تھا‪،‬سحرش اور‬
‫شازیہ میں مشترکہ چیز جوانی‬
‫‪،‬کنواری چوت ‪،‬اناڑی پن اور‬
‫خوبصورتی تھی جو آدھی کھلی‬
‫آدھی بند کلی کی طرح تھی‪،‬اب یہ‬
‫ذائقہ دل میں بیٹھنے لگا‪،‬اور‬
‫جوسلین بھی اس سے کم محسوس‬
‫ہونے لگی‪،‬ایں ‪،‬یہ مجھے کیا ہو گیا‬
‫ہے‪،‬کیا میں جوسلین کی محبت‬
‫اوراحسانات کو بھول کر ایک لڑکی‬
‫کے جسم میں کھو رہا ہوں‪ ،‬میں سر‬
‫جھٹکا اور شازیہ کی چودائی کی‬
‫طرف دھیان لگایا‪،‬اندر اور باہر کرتے‬
‫ہوئے بہت مزہ آرہا تھا کیونکہ چوت‬
‫نے عضو کو پوری طرح گرفت میں‬
‫لیا ہوا تھا‪،‬رگڑ تو انتہائی لگ رہی‬
‫تھی اسی رگڑ کا ہی تو سار مزہ‬
‫ہے‪،‬تیز تیزشازیہ کو چودتے ہوئے میں‬
‫پھر اس کے حسن میں کھونے‬
‫لگا‪،‬لیکن خود کو کنٹرول کر کے میں‬
‫نے ا سکے مموں کو پکڑ لیا ‪،‬اور‬
‫چدائی کرنے لگا۔‬
‫آہ شہزادے جہاں ہاتھ لگاتے ہو وہیں‬
‫کچھ ہونے لگتا ہے ‪،‬کیا ہے یہ‪،‬شازیہ‬
‫سسکی‪،،‬پلیز مجھے کبھی مت‬
‫چھوڑنا‪،‬شازیہ کی باتوں سے‬
‫محسوس ہوا کہ یہ ایک جذباتی‬
‫لڑکی ہے ‪،‬تھوڑا سا اثر پڑتے ہی ڈوبنے‬
‫لگتی ہے‪،‬ایسی لڑکیاں سیکس میں‬
‫اچھی ہوتی ہیں کہ جب چل پڑتی‬
‫ہیں تو بہت مزہ دیتی ہیں‪،‬لیکن‬
‫خطرناک بھی ہوتی ہیں کہ چودائی‬
‫کے کھیل کھیل میں دل ہی لگا لیتی‬
‫ہیں‪،‬شازیہ بھی کچھ ایسی ہی لگ‬
‫رہی تھی‪،‬ممے چھوڑ کر میں نے دل‬
‫سے جما کر چودائی شروع کر دی‪،‬اب‬
‫مجھے اس کی چوت کی اتنی پرواہ‬
‫نہیں تھی‪،‬اس کی چوت نے میرے‬
‫عضو کو گرم جوشی سے قبول کرلیا‬
‫تھا‪،‬اور میں پرجوش انداز میں‬
‫چودائی کرنے لگا‪،‬ویسے اتنابے درد‬
‫بھی نہیں کہ اتنی کومل اور نازک‬
‫لڑکی کاخیال ہی چھوڑ دوں ‪،‬شازیہ‬
‫رومانوی طبیعت کی تھی‪،،‬اور ایسی‬
‫لڑکیاں بڑی اچھی ساتھی ثابت ہوتی‬
‫ہیں‪،،‬شہزادے ذرا تیز چودو نہ‬
‫مجھے‪،‬شازیہ کی طلب بڑھتی جا‬
‫رہی تھی‪،‬میں بھی دھکادھک چدائی‬
‫کر رہا تھا‪،‬اوہ شازیہ نے لذت سے‬
‫آنکھیں بند کر لیں ‪،،،‬شہزاداہ ‪،‬میرا‬
‫شہزادہ‪،‬شازیہ جذباتی ہو چکی‬
‫تھی‪،،‬شازیہ ‪،‬میری جان‪،،‬تمھیں کیسا‬
‫لگ رہا ہے ‪،‬میں نے اس کی جذباتی‬
‫کیفیت میں جان بوجھ کر چودتے‬
‫ہوئے پوچھا‪،‬شہزادے لگتا ہے‪،‬زندگی‬
‫کا حاصل یہی ہے‪،،‬یہ نہیں تو کچھ‬
‫نہیں۔‬

‫اب میری زندگی کی کہا نی کچھ‬


‫ایسے ہو گی کہ‪،‬سیکس کرنے سے‬
‫پہلے اور سیکس کرنے کے بعد‪،،‬واہ‬
‫شازیہ نے سیکس کے مزے کو بڑی‬
‫اچھی طرح بیان کر دیا تھا ‪،‬شازیہ‬
‫دل کرتا ہے سارے کا سارا تمھاری‬
‫چوت میں چال جاؤں‪،،‬کیا لذت ہے‬
‫تمھارے جسم کی‪،،،‬میں بھی اپنی‬
‫بھوک کا اظہار کیے بناء نہ رہ سکا‬
‫‪،‬تو گھس نہ سارے کے سارے‪،،‬تمھیں‬
‫روکا کس نے ‪،‬شازیہ سسکی‪ ،،‬لیکن‬
‫ہمارا کیا ہو گا‪،،‬نازیہ مسخری سے‬
‫بولی تو مجھے اس مسخری میں‬
‫چھپی بھوک کا احساس ہوا‪،،‬لیکن‬
‫نازیہ کی چودائی سب سے آخر میں‬
‫ہونی تھی ‪،‬میں اس سے بھر پور مزہ‬
‫لینا چہتا تھا‪،‬مجھے لگ رہا تھا کہ‬
‫منزل بس قریب ہے اورہم پانی‬
‫چھوڑنےوالے ہیں‪،،،‬میں نے شازیہ کی‬
‫طرف دیکھا وہاں کی کیفیت بھی‬
‫تبدیل تھی جیسے طوفان آنے واال‬
‫ہو‪،‬اب رکنا تو تھا ہی نہیں چلتے رہنا‬
‫تھا اور میں نے چودائی میں دھکے‬
‫مارے تو شازیہ نے پانی چھوڑ‬
‫دیا‪،،،‬میں اس سے لپٹ گیا اس وقت‬
‫اسے کسی سہارے کی ضرورت‬
‫تھی‪،،،‬ہم کچھ دیر لپٹے رہے پھر میں‬
‫اس کے ساتھ لیٹ گیا‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ‬
‫اور رافیہ سمجھ رہی تھیں کہ ایک‬
‫مرحلہ طے ہوگیا ہے‪،‬یقینًا ان کے ماں‬
‫باپ بھی ایک وقت میں چدائی‬
‫چھوڑ کے علیحدہ ہو جاتے ہوں‬
‫گے‪،‬مجھے نہیں لگتا لڑکیاں سمجھتی‬
‫ہوں کہ اب چدائی بند کیوں ہو گئی‬
‫ہے‪،‬بس ان کے اندازے ہی تھے‪،‬یا ہو‬
‫سکتا ہے‪،‬کیا ہوا ‪،‬رک کیوں گئے نازیہ‬
‫نے بےچینی سے پوچھا‪،‬وہی ہوا نازیہ‬
‫کا پوچھنا بتا رہا تھا کہ جو کچھ ہے‬
‫وہ دیکھا ہوا ہے ‪،‬کسی نے بتایا نہیں‬
‫کہ یہ چدائی ہے اوریہ فراغت‬
‫ہے‪،‬نازیہ جب کسی کے ساتھ چدائی‬
‫کرتے ہیں نہ تو پھر اس چدائی کی‬
‫وجہ سے جسم میں آگ لگتی ہے ‪،‬جو‬
‫کہ مزہ دیتی ہے‪،‬اس آگ سے جسم‬
‫میں ایک جگہ پانی ہے وہ پگھلتا ہے‬
‫اور جب بہت گرمی چڑھ جاتی ہے تو‬
‫وہ پانی باہر نکل آتا ہے جیسے‬
‫پیشاب نکلتا ہے‪،‬ساری چدائی کی‬
‫لذت اسی وقت ملتی ہے‪،‬اس کے بعد‬
‫چدائی ختم ہوجاتی ہے اور دوبارہ‬
‫نئے سرے سے شروع کیجاتی ہے‪،‬تو‬
‫اب میری باری ہے‪،‬نازیہ نے اشتیاق‬
‫سے کہا‪،‬براِہ راست چدائی دیکھ کے‬
‫ان کا کیا حال ہوگا میں محسوس کر‬
‫سکتا تھا ‪،‬نازیہ ان سب سے حسین‬
‫تھی ‪،‬اناروں جیسے اس کے گال تھے‬
‫اور ریشم جیسا اس کا جسم تھا‪،‬بعد‬
‫میں تو ایسا جسم ہی میرا مستقل‬
‫شوق بن گئے ‪،‬کنواری ‪،‬کم عمر ‪،‬اور‬
‫ریشمی جسم کی نازک اندام حسینہ‬
‫میرا ذوق بنتا گیا‪،‬توابھی میرا نازیہ‬
‫کو چودنے کا کوئی ارادہ نہیں‬
‫تھا‪،‬اتنے میں شازیہ نارمل ہوچکی‬
‫تھی‪،‬اس کے چہرے پر وصال کا‬
‫اطمینان تھا‪،‬جیسے بھوکے کو بڑے‬
‫عرصے بعد کھانا مال ہو‪،‬کمال کامزہ‬
‫ہے ‪،،‬ہم تو اصل مزے سے محروم ہی‬
‫تھے شازیہ نے اپنی بہنوں سے‬
‫کہا‪،،،‬دیکھ دیکھ کہ برا حال ہوگیا‬
‫تھا ۔‬

‫لیکن پتہ نہیں تھا کہ اس میں اتنا‬


‫مزہ ہے ‪،‬نازی اب تو مزہ لے اس کا‬
‫تمھیں ایسے لگے گا جیسے جنت مل‬
‫گئی ہو‪،‬شازیہ نے اپنی سمجھ کے‬
‫مطابق اسے بتایا تو نازی کے لبوں پر‬
‫میٹھی مسکان آگئی‪،‬وہ آنے والے‬
‫وقت کے تصور میں سرشار‬
‫تھی‪،‬شازیہ اٹھی تو وہ چادر جو‬
‫نازیہ نے دی تھی وہ خون سے بھیگی‬
‫ہوئی تھی‪،،‬ارے یہ کیا‪،‬نازیہ کی‬
‫گھبرائی ہوئی آواز آئی ‪،،‬یہ خون ہے‬
‫‪،،‬جب کسی لڑکی کو پہلی دفعہ‬
‫چودا جاتا ہے تو اس کے اندر سے‬
‫خون نکلتا ہے‪،،‬اوہ مجھے محسوس‬
‫تو ہوا تھا لیکن اس وقت میں اور ہی‬
‫ہواؤں میں تھی‪،،‬ویسے یہ خون‬
‫کیوں نکال تھااور کیا یہ سب کے نکلے‬
‫گا‪ ،‬خون اسلیے نکال تھا کہ ہر لڑکی‬
‫کی سیل ہوتی ہے جو پہلی بار کی‬
‫چدائی سے ٹوٹ جاتی ہے‪،،‬اور خون‬
‫نکل آتا ہے‪،‬لیکن تم فکر نہ کرو کچھ‬
‫نہیں ہوگا جیسے شازیہ کو کچھ‬
‫نہیں ہوا اور اس نے مزہ ہی مزہ لیا‬
‫ہے ایسے ہی تم سب بھی بس مزہ لو‬
‫گی‪،‬میں نے باقی کو تّس لی دینی‬
‫ضروری سمجھی‪،،‬اچھا یار یہ تو بتاؤ‬
‫کہ یہ سوراخ تم نے دیوار میں بنایا‬
‫تھا کہ اچانک نظر آیا تھا‪،،،‬میں ان‬
‫سے مخاطب ہوا ‪،،‬ساتھ ہی میں نے‬
‫رافعہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور سہالنے‬
‫لگا‪،،،‬اچانک سامنے آیا تھا شازیہ نے‬
‫جواب دیا‪،‬پہلے اس میں کیل لگا تھا‬
‫کیونکہ دیوار کی چنائی مٹی کے‬
‫گارے سے ہوئی ہے پھر وہ کیل تھا‬
‫بھی چھوٹا تو شیشے کے وزن سے‬
‫کچھ ڈھیال ہو گیا‪،‬نازیہ نے وہ نکاال‬
‫اور اس کی جگہ ایک پرانا برش کا‬
‫سرا تورڑکہ وہ ٹھونک دیا ‪،‬اس نے‬
‫اسے اینٹ سے ڈھونکا تھا ضرب‬
‫کچھ زیادہ ہی لگ گئی وہ مٹی میں‬
‫گھستا ہوا دوسری طرف نکل گیا‪،‬ہم‬
‫نے نکاال تو دیوار میں سوراخ ہوگیا‬
‫تھا‪،‬اور اس میں ابا کے کمرے کا‬
‫منظر کچھ نظر آرہا تھا۔‬

‫یہ پچھلے سال کی بات ہے ایک دن‪،‬‬


‫نازیہ نے بات چھیڑ دی کے ابا دوپہر‬
‫کوکمرے میں بند کیوں ہوجاتے ہیں‬
‫‪،‬ساتھ میں امی بھی ہوتی ہے‪،‬بعض‬
‫دفعہ ہم کچھ بے معنی آوازیں بھی‬
‫سنتے ہیں‪،‬اشتیاق میں ایک دن نازیہ‬
‫نے وہ برش ہٹا کر اندر کمرے کا‬
‫منظر دیکھ لیا‪،‬بس پھر وہ منظر‬
‫دیکھنے کا ایسا چسکا لگا ‪،‬کہ ہم خود‬
‫کو روک نہ سکی‪،‬پھر ہم نے رات کو‬
‫بھی نگرانی کی‪،‬اور دن کو تو کبھی‬
‫کبھی ہوتا تھا لیکن رات کو تو مزے‬
‫آگئے ‪،‬ہر رات یہ کام ابا اور امی دو‬
‫تین بار کرتے تھے‪،‬ہماری عمر کی ایک‬
‫رشتہ دار ہے اس کی شادی ہوگئی‬
‫تھی ‪،‬ہم نے اس کچھ معلومات بھی‬
‫لے لی ‪،،‬اپنی سکول کے دور میں بھی‬
‫چدائی کا سنا تھا لیکن تفصیل کا پتہ‬
‫نہیں تھا ‪،‬بس چوت اور عضو کا پتہ‬
‫تھا‪،‬یا یہ کہ شادی کے بعد بچہ ہو‬
‫جاتا ہے اور وہ پتہ لگا کہ چدائی سے‬
‫ہوتا ہے ‪،‬اسی طرح بے ترتیب‬
‫معلومات ملتی رہی‪،‬بعد میں ہم نے‬
‫بڑی ہوشیاری سے اینٹ کے کنارے‬
‫توڑ کر اس میں لکڑی کی موٹی میخ‬
‫لگا دی اس سے موری تھوڑی بڑی‬
‫ہوگئی اور مزہ آنے لگا‪ ،‬اور کل یہ مزہ‬
‫تم میری وجہ سے پا نہیں سکی‬
‫تھی۔‬

‫کیونکہ میں کافی دیر جاگ کر پہلو‬


‫بدلتا رہا تھا ‪،،،،‬اسی لیے تم آج اتنی‬
‫گرم ہو‪،،،‬ہم رضائیاں لے چکے تھے اور‬
‫اس دوران میں رافعہ کا ہاتھ سہالتے‬
‫سہالتے اس کو گود میں بٹھا چکا‬
‫تھا اور اس کے ممے چوس رہا‬
‫تھا‪،‬رافعہ کا منہ میری طرف تھا اور‬
‫‪ 16‬برس کی جوانی کا رس چوسنے‬
‫کوبےتاب تھا‪،‬ممے چوستے ہوئے‬
‫میرے ہاتھ اس کی کمر پر بے تابانہ‬
‫گردش کر رہے تھے‪،‬میں رافعہ کو گود‬
‫میں بٹھائے ممے چوستا رہا میرا‬
‫عضو رافعہ کوبے چین کر ہا تھا تھا‬
‫یہ رافعہ پہلے سے ہی بے چین تھی‬
‫اس نے تھوڑا اٹھ کہ اپنی شلوار‬
‫کھسکائی اور میں کھینچ کر نیچے‬
‫کر دی وہ سیدھا میرے عضو پر بیٹھ‬
‫گئی‪،‬اور عضو پر گانڈ کو رگڑنے‬
‫لگی‪،‬رافعہ سب سے چھوٹی تھی مگر‬
‫سب سے تیکھی لگ رہی تھی‪،‬اس نے‬
‫ٹانگیں میری پہلوؤں میں سیدھی کر‬
‫لی تو میں سمجھ گیا اور ا سکی‬
‫شلوار ایک ٹانگ سے نکالی اور پھر‬
‫دوسری سے اس نے خود نکالی مگر‬
‫گود سے نہیں نکلی‪،‬شاید وہ سمجھ‬
‫گئی تھی کہ نازیہ کی جگہ وہ آئی‬
‫ہے اور اب جگہ خالی نہیں‬
‫کرنی‪،،‬جبکہ کے سب سمجھ رہے تھے‬
‫کہ اتفاقًا رافعہ گود میں آگئی ہے‪،‬میں‬
‫نے ارادتًا باتیں چھیڑ کر یہ کام کیا‬
‫ہے‪،‬میں نازیہ کو آخر میں چودنا‬
‫چاہتا تھا‪،‬اس کا بھرپور مزہ لینا‬
‫چاہتا تھا۔‬

‫کیونکہ چار دفعہ چودائی کے بعد‬


‫میرا دل بھر جانا تھا اور دوبارہ کی‬
‫نوبت نہیں آنی تھی‪،‬یا شاید‪،،،،،،،،‬اب‬
‫تو میں اتنا ماہر ہوگیا تھا کہ ایک ہی‬
‫بار میں اتنا اچھا سیکس کرتا تھا کے‬
‫جی بھر جاتا تھا ‪،‬جیسے پیٹ بھر کے‬
‫کھانا کھا لیا جائے‪،‬رافعہ ایک تیکھی‬
‫مر چ جیسی تھی‪،،‬اس میں چودائی‬
‫کی چاہت باقی بہنوں سے زیادہ‬
‫تھی‪،‬اور اب یہ چاہت ابھر کر باہر‬
‫آگئی تھی ‪،‬رافعہ گانڈ کو عضو پر‬
‫رگڑتے ہوئے سسک بھی رہی تھی‬
‫جبکہ اس کے ممے اسے بہت بے چین‬
‫کر رہے تھے‪،،،‬اور سب بے چینی چوت‬
‫میں جمع ہو رہی تھی‪،،‬رافعہ لگتا ہے‬
‫تمھاری آگ تو ٹھنڈی کرنے کیلیے‬
‫ابھی چوت میں ڈالنا پڑے گا‪،‬تو پھر‬
‫دیر کس بات کی ہے ڈال نہ چوت‬
‫میں اور میری آگ بھی ٹھنڈی کر‬
‫دو‪،‬اسے نہیں پتہ تھا لیکن وہ ٹھیک‬
‫کہہ رہی تھی‪،‬چدائی کی آگ مرد کے‬
‫پانی سے ہی بجھتی ہے‪،،‬میں نے تیل‬
‫کی شیشی اٹھا ئی تونازیہ نے پہلے‬
‫ہی اٹھا لی‪،‬اور ڈھکنا کھول کر میرے‬
‫عضو پر تیل لگا دیا‪،‬شاید اس طرح‬
‫وہ اپنی شہوت کو تسکین دے رہی‬
‫تھی‪،‬میں نے رافعہ کی ٹانگیں اپنے‬
‫کندھوں پر ٹکائی ‪ ،‬اس کی ٹانگیں‬
‫سیدھی اوپر کو تھیں اور چوت‬
‫خوب نمایاں ہوگئی تھی‪،‬جیسی‬
‫لڑکی ویسی چدائی‪ ،‬رافعہ اگر گرما‬
‫گرم تھی اور اس میں شدت تھی تو‬
‫چدائی بھی ٹھوکا ٹھکائی جیسی‬
‫ہونی چایئے ‪ ،‬تھوڑا سا آگے کھسکا‬
‫اور عضو اس کی چوت پر رکھ کر‬
‫نشانہ باندھا اور میزائل چھوڑ‬
‫دیا‪،،‬عضو اس کی چوت میں گھس‬
‫گیا اور لذت سے رافعہ کی سسکاریاں‬
‫نکل گئی‪،،‬شہزادے سارا ڈال دو ‪ ،‬رکو‬
‫مت‪،،،‬مجھے کچھ نہیں ہوگا‪،،‬رافعہ‬
‫نے مجھے حوصلہ دیا اور میں جو‬
‫پردہ بکارت پر رک گیا تھا اور کچھ‬
‫آگے پیچھے کرنے کا ارادہ کیا تھا‬
‫رافعیہ کے الفاظ سنتے ہی پیچھے ہو‬
‫کر ایک تیز جھٹکا مارا اور رافعہ کی‬
‫چوت کا پردہ پھاڑتا ہوا اس کی‬
‫گہرائیوں میں جا گھسا‪،‬رافعہ نے‬
‫دانت بھینچے ہوئے تھے ‪،،‬اور واقعی‬
‫اس کی کوئی آواز نہیں نکلی‪،‬میں نے‬
‫دیکھ لیا اس کی چوت سے خون‬
‫نکل رہا تھا‪،،‬میں نے چدائی جاری‬
‫رکھی اور ٹانگیں اٹھائے اسے چودنا‬
‫شروع کیا‪،،‬یہ ایسا اسٹائل ہے کہ اس‬
‫میں عضو چوت کی گہرائیوں میں‬
‫جا کہ لگتا ہے ‪،‬جیسے پسٹن تیزی سے‬
‫حرکت کرتا ہے ایسے ہی میں تیزی‬
‫سے اس کی موٹر میں دھکم پیل کر‬
‫رہا تھا‪،‬میں عضو اس کے اندر بھیجتا‬
‫اور پھر اسے واپس بلوا لیتا ‪،‬میری‬
‫اس ادا سے اس کی چوت خوش‬
‫تھی کیونکہ رافعہ مزے میں ڈوبی‬
‫لگ رہی تھی‪ ،‬پرنس اور تیز کرو نہ‬
‫‪،‬رافعہ سسکی‪ ،‬میں نے رفتار بڑھا‬
‫دی‪،،‬رات کے سناٹے میں جھپاک‬
‫جھپاک کی آواز گونجی ‪،‬میرا جسم‬
‫اس کی رانوں سے ٹکرا رہا تھا‪،‬میں‬
‫پھر تیز چودنے لگا ‪،‬لیکن کوئی آواز‬
‫نہیں نکلنی چاہیے‪،‬میں نے سوچا۔۔‬
‫ایسی آوازیہ بھال مولوی جیسا‬
‫شخص انجان کیسے ہو سکتا ہے‪،‬اس‬
‫لیے رات کا َس ّناٹا احتیاط کا متقاضی‬
‫تھا‪،‬رافعہ ان لڑکیوں میں سے تھی‬
‫جو بھرپوار وحشیانہ چودائی پر‬
‫خوش ہوتی ہیں‪،‬لیکن ابھی اس کی‬
‫چوت یہ سب برداشت نہیں کرسکتی‬
‫تھی‪،،،‬نہیں تو اس کی چوت کا دھڑن‬
‫تختہ ہوجانا تھا‬

‫اس پر ایک واقعہ یاد آگیا ‪،‬سہاگ‬


‫رات منانے سے پہلے دوستوں نے‬
‫دولہے کو اچھی طرح سمجھایا کہ‬
‫یہی رات ہے جس میں آنے والی‬
‫زندگی فیصلہ ہو جاتا ہے اس‬
‫لیےاپنی بیوی کو آج ہی اپنے قابو‬
‫میں کرلو ‪،‬ساری عمر تمھارے حکم‬
‫بغیر ہلے گی بھی نہیں‪،،،‬تو پھر اسکے‬
‫لیے مجھے کیا کرنا ہوگا‪،،‬دولہے نے‬
‫دوستوں سے پوچھا ‪،،،،‬یار اسے‬
‫اچھی طرح چودنا‪،،‬نخرے تو کرے‬
‫گی مگر درد وغیرہ کا کہے تو پرواہ‬
‫نہ کرنا۔تین چار بار چودنا اسے‪،،‬دھاک‬
‫جما دینا اپنی اس پر‪،‬سارا کمال ہی‬
‫اسی کا بات ہے ‪،،،،‬دولہا صاحب‬
‫کمرے میں چلے گئے ‪،‬پہلے تو اس کا‬
‫ذہن تھا کہ کچھ باتیں کریں گا کچھ‬
‫روما نوی موڈ بنائے گا‪ ،‬اسے سہاگ‬
‫رات کا تحفہ دے گا ‪،‬کچھ اپنا بتائے‬
‫گا ‪،‬کچھ اس کا پوچھے گا‪،‬پھر آدھی‬
‫رات کے بعد اسے جی بھر کے پیار‬
‫کرے گا‪،‬اس کا انگ انگ چومے گا پھر‬
‫دو دفعہ چودائی کرے گا‪،،،‬لیکن اب‬
‫اس کا ذہن خراب ہوچکا تھا‪،،‬اس نے‬
‫کچھ دیر باتیں کی‪،‬تحفہ بھی اجلت‬
‫میں دیا‪،‬اور پھر دولہن کو لٹا دیا‬
‫‪،،‬جیسے جیسے دولہا آگے بڑھتا گیا‬
‫‪،‬دولہن کے خواب چکنا چور ہوتے‬
‫گئے‪،،‬وہ کیا کیا سوچ کہ نئی زندگی‬
‫شروع کرنے آئی تھی اور یہاں تو‬
‫جذبات کی پرواہ کیے بغیر کچھ اور‬
‫ہی شروع ہوگیا تھا‪،‬دولہے نے نہ آئل‬
‫استعمال کیا‪،‬نہ چوما چاٹی کی‬
‫‪،‬یعنی فورپلےیا گرم کرنا اور دھڑاک‬
‫عضو اندر زبردستی داخل‬
‫کردیا‪،‬دولہن نےبمشکل چیخیں روکی‬
‫مگر دولہا صاحب نے کچھ نہ خیال‬
‫کیا‪،‬اس کے بعد وہ تو کرتا رہااور‬
‫دلہن انتہائی اذیت کے باوجود عزت‬
‫بچانے کیلے بمشکل اپنی چیخیں‬
‫روکنے کی کوشش کرتی رہی ایک بار‬
‫تک تو دولہن برداشت کر گئی لیکن‬
‫دولہے نے فورًا پھر چودناشروع کو‬
‫دیا اور جب اس نے تیسری دفعہ‬
‫چودا تو دولہن بے ہوش ہوچکی‬
‫تھی‪،‬سارا بیڈ لہو لہان ہوچکا تھا‬
‫‪،‬جب دولہا فارغ ہوا تو اسے دولہن‬
‫کاخیا ل آیا اس نے ہالیا جالیا مگر‬
‫وہ تو کب کی بے ہوش ہو چکی تھی‬

‫دولہا فورًا باہر نکال اور والدین کو‬


‫بالیا‪،،‬دولہن کو ہسپتال لے‬
‫گئے‪،،،‬بمشکل اگلے دن خون رکا‪،‬پتہ‬
‫چال اس کے رحم کا ستیاناس‬
‫ہوگیاہے اور اب کبھی ماں نہیں بن‬
‫سکے گی‪،‬دولہن کے والدین وغیرہ‬
‫بھی آگئے تھے‪،‬بڑی لڑائی ہوئی ‪،،‬اور‬
‫وہیں طالق ہوگئی ‪،‬اسی طرح ایک‬
‫دولہا صاحب نے پہلی رات ہی‬
‫ٹائمنگ گولی لے لی‪،‬اب وہ چھوٹے نہ‬
‫اور دولہن برداشت نہ کرسکی‪،‬اتنی‬
‫بلیڈنگ ہوئی کہ ہسپتال لے جانا پڑا‬
‫‪،‬بہر حال بچ بچاؤ ہو گیا‪،،،،،‬تو نئی‬
‫نویلی چوت کو آرام سے سہج سہج‬
‫کے چودنا چاہیئے اور اس وقت میری‬
‫رفتار تو تھی لیکن اتنی ہی تھی‬
‫جتنی رافعہ کی چوت برداشت‬
‫کرسکتی تھی‪،،‬ویسے بھی میں نے‬
‫رافعہ کی ٹانگیں کندھوں سے ٹکائی‬
‫ہوئی تھیں اس میں تو دھکا لگتا ہی‬
‫بہت ہے‪،،‬شہزادے تیز کرو نہ‪،،،‬رافعہ‬
‫نے پھر کہا تو میں نے ٹانگیں چھوڑ‬
‫دی اور ااسے دھکڑ دھکڑ چودنے‬
‫لگا‪،‬ایک تو اس سے آواز کم آتی تھی‬
‫دوسرا جھٹکا اندر کم جا رہا‬
‫تھا‪،،،،‬نفسیاتی طور پر اسے بہالنے‬
‫کیلے میں نے اس ہونٹوں پر ہونٹ‬
‫رکھ دیا اور چومنے لگا‪،‬ابھی تک میں‬
‫نے اس سے کسنگ تو کی ہی نہیں‬
‫تھی‪،‬نہ ہی وہ کسنگ کی لّذ ت سے‬
‫واقف تھی‪،،‬اس کا دھیان بٹ گیا اور‬
‫اوپر جاتا گراف نیچے آگیا‪،‬میں اسے‬
‫چودتا رہا اور کسنگ کرتا رہا ‪،‬اگر اس‬
‫وقت ممے پکڑتا تو پھر اس نے اور‬
‫گرم ہوجاناتھا‪،‬اب دھیان بٹتے ہی‬
‫میں پھر بیٹھ گیا‪،‬اب ایسا بھی نہیں‬
‫تھا کہ اس کی آرزو پوری نہیں‬
‫کرسکتا تھا‪،،‬میں نے اس کے پہلوؤں‬
‫سے پکڑا اور عضو باہر نکال کر چوت‬
‫کے سوراخ پر رکھا اور ایک دھکا‬
‫لگایا‪،‬دھکا اس کی چوت کے حساب‬
‫سے تھا‪،‬ویسے وہ سب سے چھوٹی‬
‫اس کی عمر کے حساب سے اس کی‬
‫چوت باقی بہنوں سے زیادہ ٹائیٹ‬
‫ہونی چاہیےتھی ‪،‬اور مجھے ایسا ہی‬
‫لگ رہا تھا‪،‬پہلے دھکا پھر عضو باہر‬
‫نکاال لیکن پورا نہیں نکالتا تھا پھر‬
‫اندر دھکے سے ڈاال ‪،،،‬اسی طرح‬
‫ردھم سے میں باہر نکالتا اور دھکے‬
‫سے اندر ڈالتا اس میں رفتار اتنی‬
‫نہیں تھی لیکن ہر دھکاا س کی‬
‫ضرورتوں کو پورا کر رہا تھا ‪،،،‬ہاں‬
‫شہزادے یہ ٹھیک ہے‪،،‬رافعہ نے‬
‫سرگوشی کی‪،،،‬شازیہ ‪،‬نازیہ ‪،‬سعدی‬
‫اپنی چھوٹی بہن کو آنکھیں پھاڑ کے‬
‫دیکھ رہی تھی‪،،‬ان کے حساب سے وہ‬
‫بچی تھی ‪،‬لیکن بچی تیکھی مرچی‬
‫تھی‪،،،‬ہر دھکا اس کے جسم کی‬
‫بنیادوں کو ہال دیتا تھا اور عضو اس‬
‫کے رحم کو چوم کر آجاتا تھا‪،،‬آخر‬
‫میں ایک تیسرا اور آخری حساس‬
‫مقام ہوتا ہے میرا عضو اسے جا کے‬
‫چھوتا تھا تو رافعہ کی مزے سے‬
‫سسکاریاں نکلتی تھیں‪،،،‬تھوڑا اور‬
‫دھکا لگاؤ نہ‪،‬رافعہ پھر شّد ت میں‬
‫آگئی تھی ‪،،‬پتہ نہیں رافعہ کیسے اب‬
‫تک ضبط کرتی آئی تھی ۔‬
‫میں پیچھے ہو کر ایک زور دار دھکا‬
‫لگایا تو رافعہ کی ہلکی سی چیخ‬
‫نکل گئی‪،‬اور ساری بہنوں کے چہرے‬
‫یکدم زرد ہو گئے‪،،‬مولوی کا ڈر بہت‬
‫گہرا اور زبردست تھا‪،،،‬یقینًا مولوی‬
‫سو گیا تھا‪،،،‬ایک بار تو مجھے بھی‬
‫خطرہ محسوس ہوا تھا لیکن بس‬
‫اتنا کہ کہیں مشن ادھورا نہ رہ‬
‫جائے‪،،،‬کچھ لمحیں خیریت سے‬
‫گزرے اور میں نے پھر دھکم پیلنا‬
‫شروع کر دیا ۔۔۔ تجھے بڑی گرمی‬
‫چڑھی ہے ‪،،‬تیری ساری گرمی ابایک‬
‫منٹ میں نکال دے گا‪،‬شازیہ دھیمی‬
‫آواز میں رافعہ پرغّر ائی ‪،،‬ماحول سے‬
‫ایکدم چودائی کی گرمی غائب‬
‫ہوگئی تھی‪،،،‬مجھے ماحول بنانے‬
‫کیلیے رافعہ کے مموں پر جھکنا‬
‫پڑا‪،،،‬کچھ ہی دیر میں رافعہ پھر گرم‬
‫تھی‪،‬اس میں ایک طوفان چھپا‬
‫تھا‪،‬جوسمجھا رہا تھا کہ اب سیل‬
‫کھلنے کے بعد مشکل ہی رکے گا‪،،،‬میں‬
‫دیکھ رہا تھا مستقل میں مولوی کو‬
‫ایک باغی لڑکی کا سامنا کرنا پڑے‬
‫گا‪،،‬رافعہ اب پھر بے پرواہ نظر آرہی‬
‫تھی ‪،‬اور شازیہ ایسے چوکنی بیٹھی‬
‫تھی جیسے اب اگر رافعہ نے کوئی‬
‫بات کی تو اسے دبوچ لے گی‪،،‬رافعہ‬
‫اس سب سے بے پرواہ مزہ لے رہی‬
‫تھی‪،‬اور میں دھکے پہ دھکے لگا رہا‬
‫تھا‪،،‬حاالت کے مطابق رافعہ میرا‬
‫طریقہ سمجھ گئی تھی اور اس سے‬
‫بھرپور لطف اندوز ہورہی تھی‪،،‬رگڑ‬
‫مسلسل نہ لگےتو پانی کا آنالیٹ‬
‫ہوجاتا ہے‪،،،‬ہم بھی پندرہ منٹ تو‬
‫گزار چکے تھے اس کا مطلب تھا‬
‫ابھی مجھے پانی نکالنے کیلیے اور‬
‫کھدائی کرنی پڑے گی‪،،،‬اور میں‬
‫شوق سے کھدائی کرنے لگا‪،،،‬نازیہ اور‬
‫رافعہ نے گرمی سے گھبرا کے‬
‫ایکدوسرے کو پکڑ لیا‪،،‬اور‬
‫ایکدوسرے سے لپٹی ہوئی تھی‪،،‬اور‬
‫منہ میں منہ ڈالے ایکدوسرے کا رس‬
‫پی رہی تھی‪،،‬میں نے پہلے بھی‬
‫دیکھا تھا کہہ یہ ایکدوسرے کی‬
‫چوت سے کچھ نہیں کرتی‪،‬میں بھی‬
‫انگلی واال کام بتانا مناسب نہ‬
‫سمجھا‪،،‬رافعہ کو پھر گرمی چڑھ‬
‫رہی تھی ۔‬
‫وہ کیا کرتی رکنا اس کے بس سے‬
‫باہر تھا ‪،‬وہ ملتجی آنکھوں سے‬
‫مجھے دیکھنے لگی‪،،،‬کچھ کہ تو‬
‫نہیں سکتی تھی شازیہ اب بھی اس‬
‫کے سر پر تھی‪،،،‬میں نے اس کی‬
‫ٹانگیں پھر کندھوں پر ٹکائی اور اس‬
‫کی چوت کو تھوڑا انچا کیا‪،‬دھکوں‬
‫کیلیے سیٹنگ کی‪،،‬لیکن باہر نہیں‬
‫نکلنے دیا تھا ‪،،‬اور پھر میں نے‬
‫پیچھے کر کے ایک کم طاقت کا دھکا‬
‫لگا کر اسٹارٹ کیا‪،،،‬رافعہ کے چہرے‬
‫پر کچھ اطمینان آیا تو میں نے اگلی‬
‫بار زیادہ طاقت کا دھکا لگایا‪،،‬رافعہ‬
‫کےچہرے پر خوشی کے آثار‬
‫آگئے‪،،،‬مجھے تسلی ہوگئی‪،،،‬میرے‬
‫ہتھیار کام کرگیا تھا‪،،‬میرے پاس‬
‫موقع محل کے لحاظ سے طریقوں‬
‫کی کمی نہ تھی‪،،‬میں نے پھر جوش‬
‫میں اور طاقت کا دھکا مارا ‪،،،‬اس بار‬
‫رافعہ کے ہونٹ بھنچے گئے ‪،،،‬میں‬
‫سمجھ گیا اسے کچھ درد تو ہوا‬
‫ہے‪،‬لیکن مزہ لینے والے درد سے کب‬
‫گھبراتے ہیں‪ ،‬شازیہ نے مجھے نظروں‬
‫ہی نظروں میں تنبیہ کی‪،،‬میں اسی‬
‫طاقت کے دھکے لگانے لگا‪،،،‬رافعہ منہ‬
‫کو بھنچے مزے لیتی رہی‪،،،‬اب اس‬
‫کی خوہش پوری ہورہی تھی‪،،،،‬اسی‬
‫ردھم میں چودائی کرتے ہوئے رافعہ‬
‫منزل پر پہنچنے والی ہو گئی‪،،،‬اور‬
‫اس کے چہرے پر بے اختیاری کی‬
‫کیفیت تھی‪ ،،‬ٹانگیں چھوڑ کرمیں نے‬
‫اسے بانہوں میں لے کر کس لیا‪،،،‬اس‬
‫کا جسم ارتعاشی حالت میں‬
‫تھا‪،،،‬رافعہ نے کچھ دیر لگائی اور‬
‫پھر وہ آرام کی حالت میں‬
‫آگئی‪،،،‬میں نے اسی حالت میں اس کا‬
‫جسم کستے ہوئے رفتار تیز کر دی اب‬
‫میں فارغ ہونا چاہتا تھا‪،،‬ابھی میرے‬
‫سامنے دو مست جوانیاں پڑی‬
‫تھی‪،،،‬دو تین منٹ کی رفتار نے‬
‫مجھے بھی منزل پر پہنچا دیا اور‬
‫میں نے سارا پانی رافعہ کی چوت‬
‫میں ڈال دیا‪،،،‬اس سے رافعہ کی آگ‬
‫ٹھنڈی ہونے میں کافی مدد ملے‬
‫گی‪،،‬جیسا کے مشہور کلیہ ہے کہ آگ‬
‫ہمیشہ پانی سے ہی بجھتی ہے۔‬
‫ہم کیونکہ رک گئے تھے اور اب نازیہ‬
‫اور رافعہ کو بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ‬
‫پانی نکل گیا ہے اور اب اگلی کی‬
‫باری ہے‪،،،‬وہ ا پنا کام چھوڑ کر میری‬
‫طرف متوجہ ہوگئی تھیں‪،،‬میں بستر‬
‫پر لیٹ گیا‪،،،‬اور آرام کے موڈ میں تھا‬
‫‪،،‬شازیہ نے ایک لمحے کیلیے دیر نہیں‬
‫لگائی اور مجھے گلے لگا لیا‬
‫تھا‪،،،‬شہزادے کچھ دیر مجھے بھی‬
‫دے دو‪،‬شازیہ بڑی بہن ہونے کے ناطے‬
‫اپنا حق استعمال کر ر ہی تھی‪،،‬میں‬
‫نے ا سکے ہونٹو سے ہونٹ لگا دیے‬
‫اور اسے ایک لمبی کس دی‪،،،‬دوسری‬
‫طرف نازیہ میرے ساتھ لیٹ گئی‬
‫‪،،،‬اور میرا سینہ چومنے لگی‪،،،‬شازیہ‬
‫اسے دیکھ کر پیچھے ہٹ گئی کہ اب‬
‫اس کی باری ہے تو سعدیہ اس کی‬
‫جگہ میرے ساتھ لیٹ گئی اب‬
‫ایکطرف نازیہ تھی تو دوسری طرف‬
‫سعدیہ لیٹی ہوئی تھی‪،،،‬اور میں‬
‫درمیان میں سینڈوچ بنا ہوا‬
‫تھا‪،،،‬دونوں مجھ پر چڑھی جارہی‬
‫تھی‪،،،‬جتنا صبر کرنا تھا کر لیاکے‬
‫مصداق دونوں ایک دوسرے کا لحاظ‬
‫کیے بغیر مجھے چوماچاٹی میں لگی‬
‫ہوئی تھیں‪،‬شازیہ نے سعدیہ کی کمر‬
‫پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ میں اس کا‬
‫ارادہ سمجھ گیا کہ وہ سعدیہ کو‬
‫پیچھے کرنے لگی ہے‪،،‬میں نے اسے‬
‫اشارے سے روک دیا‪،‬شازیہ خود‬
‫بمشکل بیٹھی تھی ‪،،،‬پہلے پہل جب‬
‫اس کی سیل توڑی تھی تواسے یہ‬
‫نہیں پتہ تھاکہ وہ کس دنیا میں جا‬
‫رہی ہے‪،‬پھر شازیہ کو مزہ آیا‪،،‬لیکن‬
‫رافعہ کو دیکھ کر اسے احساس ہو‬
‫اتھا کہ چدائی میں کیا کچھ ہوسکتا‬
‫ہے‪،،،‬اب وہ اور مزے لینا چاہتی تھی‬
‫‪،،‬وہ نہیں جانتی تھی اب مزے‬
‫کیلیےتو ساری عمر جستجو کرتی‬
‫رہے گی‪،،‬نازیہ وہ لڑکی تھی جو میرا‬
‫ذوق بن گئی تھی‪،‬اس لیے نازیہ‬
‫مجھے کبھی نہیں بھولی‪،،،‬ابھی وہ‬
‫کچھ جھجکی ہوئی تھی ‪،‬یہ ٹھیک‬
‫تھا کہ جیسے جیسے چدائی ہوتی‬
‫جاتی ہے ویسے ویسے بندہ بے شرم‬
‫ہوتا جاتا ہے‪ ،،،‬تب وہ کھل کے مزے‬
‫لیتا ہے‪،،،‬لیکن اتنی بے شرمی بھی‬
‫نہیں ہونی چاہیئے ‪ ،،،‬کہ اپنی عزت کا‬
‫بھی خیال ہی نہ رہے‪،،‬بے دھڑک‬
‫ہونا‪،‬جرات واال ہونا اور بات ہے بے‬
‫شرم ہونا اور بات ہے‪(،،،،،،،‬میں نے‬
‫بھری مارکیٹ کے باتھ روم میں ایک‬
‫لڑکی کوچود ڈاال تھا جبکہ باہر چینچ‬
‫کرنیوالیاں دوسرا باتھ روم استعمال‬
‫کر رہی تھیں اور میں دس منٹ میں‬
‫چودائی کر کے باہر نکال آیا تھا‪،،‬اور‬
‫کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی‬
‫تھی اور آفس میں رش کے باوجود‬
‫کھلے دروازے کے پیچھے کسی کی‬
‫سیکٹری کو چود ڈاال تھا تب بھی‬
‫دس منٹ ہی لگائے تھے‪،،‬لیکن موقع‬
‫کی کیکولیشن کرکے میں نے اندازہ‬
‫کرلیا تھا کہ میں یہ میں کر لوں گا‬
‫مجھے اعتماد تھا آپ بتائیں کیا یہ‬
‫بے شرمی تھی یا جرات تھی؟‬
‫‪Offer offer offer‬‬ ‫💟🎈🎈🎈‬
‫بہن بھائی کی مزیدار کہانیاں‬
‫قیمت صرف‪ 150‬روپے ٹوٹل پیچاس‬
‫کہانیاں۔‬

‫‪Whatsapp:‬‬
‫‪http://wa.me/+9231278403‬‬

‫👆🏻👆🏽👆🏽👆‬
‫‪11‬‬

‫لیسبیئن بہنوں کا سیکس ‪1.‬‬


‫چھوٹی بہن بڑا بھائی ‪2.‬‬
‫تین بہنیں تین کہانیاں ‪3.‬‬
‫ہم تین بہنوں کا اکلوتا بھائی ‪4.‬‬
‫دوست رضوان کی بہن چندہ ‪5.‬‬
‫سلمان کا اپنی بہنوں سے پیار ‪6.‬‬
‫بہنوں کا دودھ پیا کزن کے ‪7.‬‬
‫سہارے‬
‫ساگر کی دنیا اسکی بہنیں ‪8.‬‬
‫گونگی بہناں ‪9.‬‬
‫کلثوم کی بہنیں ۔۔۔۔ نوابزادہ ‪10.‬‬
‫‪..‬شاہد‬
‫دو بہنوں کے دو دیور ‪11.‬‬
‫میری سوتیلی ماں اور بہن ‪12.‬‬
‫مکّم ل‬
‫ماں بہن اور بھانجی کے ‪13.‬‬
‫ساتھ‬
‫میری معصوم بہن اور گشتوڑی ‪14.‬‬
‫بھابھی‬
‫شرارتی بہن۔۔۔ پی کے ساقی ‪15.‬‬
‫جب بہن کی چوڑیاں ٹوٹیں ‪16.‬‬
‫بہن بھائی کی رومانوی ‪17.‬‬
‫سیکس داستان‬
‫میری بہن فروا مکّم ل کہانی ‪18.‬‬
‫پدوما ماوتی اور اسکی بہن ‪19.‬‬
‫میری بہنیں اتھری گھوڑیاں ‪20.‬‬
‫روبینہ اور اسکی بہن کی ‪21.‬‬
‫چدائی‬
‫چدکڑ بہناں اور بھابھی نے ‪22.‬‬
‫چودنا سکھایا‬
‫میں ‪ ،‬میرا بھائی اور کنواری ‪23.‬‬
‫بہناں‬
‫بہن کے ساتھ یادگار سفر ‪24.‬‬
‫چھوٹی بہنوں کو چودا بڑی ‪25.‬‬
‫بہن کی مدد سے‬
‫بہن ‪ ،‬بھائی اور بھابھی ( پنک ‪26.‬‬
‫بے بی)‬
‫بہن بیوی سے زیادہ وفادار‪27.‬‬
‫میری ڈاکٹر بہن مکّم ل ‪28.‬‬
‫چار گشتوڑیاں چار بہنیں ‪29.‬‬
‫بہن کی کنواری سیل آخرکار ‪30.‬‬
‫توڑنی پڑی‬
‫بہن بھائی بن گئے میاں بیوی ‪31.‬‬
‫میری بہناں میری رکھیل ‪32.‬‬
‫بہن سے امی تک ‪33.‬‬
‫بھائی بہن کا انوکھا پیار ‪34.‬‬
‫بھائی بنا اپنی بہنوں کا دالل ‪35.‬‬
‫میں اور میرا بڑا بھائی ‪36.‬‬
‫میری جوان بہن فاخرہ ‪37.‬‬
‫بہن کی الزوال محبت حّص ہ اول ‪38.‬‬
‫اور حّص ہ دوم‬
‫ارم میری بہن ‪39.‬‬
‫تین بہنوں کے ساتھ سیکس ‪40.‬‬
‫بہنوں نے شوہروں کا تبادلہ کیا ‪41.‬‬
‫بہنوں سے مزے مکّم ل کہانی ‪42.‬‬
‫میری رنڈی بھابھی اور چار ‪43.‬‬
‫بہنیں‬
‫بہن کے نخرے‪44.‬‬
‫یاسمین بہن مکمل‪45.‬‬
‫۔ ایک بہن اور بھائی فاہد اور‪46‬‬
‫مہرین‬
‫سعدیہ میری بہن‪47.‬‬
‫سیک*سی بہن مکمل‪48.‬‬
‫۔ بہن بھائی اسپیشل‪49‬‬
‫بہن نے چدو*ایا‪50.‬‬

‫نوٹ ‪ :‬فری کے چکر میں رہنے والوں‬


‫❌❌‬
‫کو فورََا بالک کیا جائے گا‬
‫🚫‬ ‫‪...‬‬
‫جس کو کہانیاں خریدنی ہے وہ اوپر‬
‫دیے گئے واٹس ایپ نمبر پر رابطہ‬
‫🏻👆🏻👆‬
‫کریں ۔‬

‫کہانیوں کی فیس صرف ایزی پیسہ‬


‫!!اور جیز کیش پر ادا کی جاتی ہے‬
‫✅‬
‫‪Admin‬‬ ‫🏻✍‬
‫🐍 ناگن‬
‫‪Update_10‬‬

‫میں نے لیٹے لیٹے ہاتھ بڑھا کرسعدیہ‬


‫کا ہاتھ پکڑا او ر اور اس کا ہاتھ اپنے‬
‫عضو پر رکھ دیا‪،،‬سعدیہ نے ایک‬
‫لمحے کی دیر نہیں لگائی اور اسے‬
‫گرفت میں لے لیا‪،‬سعدیہ کو سمجھنے‬
‫میں ذرا بھی مشکل پیش نہ آئی کہ‬
‫اب میں اسے ہی چودنا چاہتا ہوں ۔۔۔‬
‫سعدیہ ‪،‬شازیہ کو دیکھ چکی تھی‬
‫کہ جب میں نے اسے عضو کو گرفت‬
‫میں لیکر عضو کو مسلنے کو کہا‬
‫‪،‬ٹھیک اب سعدیہ بھی ویسے ہی‬
‫عضو کو مٹھی میں لیکر پیار کر رہی‬
‫تھی‪،،،‬اور عضو اس کے ہاتھوں کی‬
‫گرم جوشی سے انگڑائیاں لینے لگا‬
‫تھا‪،،‬عضو نے کہا یار چار چار الھڑ‬
‫‪،‬مست ‪،‬کچی جوانیاں ہوں توکون‬
‫کمبخت سو سکتا ہے‪،،،‬میں سعدی‬
‫کی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگا‪،،،‬میرا ‪،‬ا‬
‫لتفات سعدیہ کی طرف دیکھ کر‬
‫نازیہ رکی ‪،‬کیا مجھ سے ناراض‬
‫ہو‪،،،‬نازیہ سمجھی کل کی بات کو دل‬
‫پے لے چکا ہوں‪،،،‬میں نے اسے ساتھ‬
‫لگایا اور گالوں کو چومتاہوا کان میں‬
‫کہا‪،،‬سب سے بہترین کو آخر میں‬
‫بہترین وقت دوں گا‪،‬بس کچھ دیر‬
‫اور‪،،،،،‬میری سرگوشی کو پاس‬
‫بیٹھی بہنیں بھی نہ سمجھ سکیں‬
‫‪،،‬لیکن نازیہ کی آنکھوں کی چمک‬
‫بڑھ گئیں بمشکل کہی ہوئی بات اس‬
‫کے کانوں کے ذریعے دل میں چلی‬
‫گئی تھی‪،،،‬سعدیہ عضو کو ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر مست کر چکی تھی ‪،،‬میں نے‬
‫اسے نیچے لٹایا اور خود اس کے اوپر‬
‫آگیا‪،،،‬رافعہ کی طرح کسی اور انداز‬
‫میں ڈالو نہ اس کی چوت‬
‫میں‪،‬شازیہ الئیو چودائی کا مزہ لینا‬
‫چاہتی تھی یا کچھ سیکھا یا جاننا‬
‫چاہتی تھی‪،،،‬میں نے سر ہالیا اور‬
‫سعدیہ کے ممے چوسنے لگا‪،،،‬ممے نہ‬
‫چوسے تو پھر مزہ ہی کیا‪،،،‬ان کے‬
‫ممے ان چھوئے تھے نرم و نازک‬
‫‪،،‬بتیس سائیز کے صرف رافعہ کے‬
‫تیس کے تھے‪،،،،‬با لکل نئے نویلی تازہ‬
‫تازہ جوانی کے رس میں بھرے ہوئے‬
‫‪،،‬اپنی طرف بالتے ہوئے‪،،،‬للچاتے‬
‫ہوئے‪،،،‬ممے ہی تو جسم میں سب سے‬
‫پہلے نظروں کا نشانہ بنتے ہیں‪،‬جیسے‬
‫شطرنج کا مہرہ گھوڑا اوپر سے چل‬
‫چلتا ہے ‪،‬ایسے ہی یہ کپڑوںکے‬
‫اوپرسے بھی جلوے دکھا تے‬
‫ہیں‪،،،‬ویسے یہ سائیز کی وبا بھی‬
‫مغرب سے آئی ہوئی ہے اور میں اس‬
‫کو اپنے تجربے سے لڑکی کے جسم کو‬
‫پرکھتا ہوں ۔۔خود مغرب فگرز کے‬
‫مقبول ترین ماڈل باربی ڈول پر کتنے‬
‫اعتراض کرچکا ہے اور اسے حقیقی‬
‫زندگی میں غلط ثابت کرنے کیلیے‬
‫کئی آرٹیکل آچکے ہیں‪ ،،،‬جبکہ یہ‬
‫اسی کا بنایا ہوا پیمانہ ہے اور‬
‫اکثریت اس کو رول ماڈل سمجھتے‬
‫ہیں‪،،،،‬اصل مزہ سائیز میں نہیں ان‬
‫چھوئی جوانی میں ہے‪،،،‬ایسے جوانی‬
‫میں جس میں جسمانی حسن ہو نہ‬
‫کہ کپڑے اترنے کےبعد بندہ سر پکر‬
‫کر رہ جائے‪،،‬ایسے ہی اصل حسن‬
‫چہرے کی بناوٹ میں ہے نہ کہ گوری‬
‫رنگت میں ہے‪،،‬ایسی ہی کالی‬
‫حسینائیں ہیں‪،‬ماڈلز ہیں جن کو‬
‫دیکھ کر بندہ دل تھام کر رہ جائے‬
‫بس ان کے چہرے کے نقوش ہی تو‬
‫پاگل کر دینے والے ہوتے ہیں‪،،،‬اوہ ہو‬
‫بات کہاں سے کہاں جا پہنچی‪،،،‬تو‬
‫بات ہورہی تھی شازیہ ‪،‬نازیہ ‪،‬سعدیہ‬
‫‪،‬اور رافعہ کی‪،،‬سعدیہ کے ممے‬
‫چوستے ہوئے مجھے اندازہ ہوا‪ ،‬کہ‬
‫اس کا جسم رسیال ہے‪،،،‬اس کا حسن‬
‫نراال ہے‪،،،‬اس کے چہرے سے نہیں‬
‫لگتا تھاکہ اس کے جسم کا سواد اتنا‬
‫مزہ دار ہو گا‪،‬یقینًا اسے چود کر مزہ‬
‫آئےگا‪،،،‬گرم تو سب بہنیں ہی تھیں ان‬
‫کو گرم کیا کرنا لیکن جوانی کا رس‬
‫پیئے بغیر میں آگے کیسے جا سکتا‬
‫تھا ‪،،،‬جب میں نے جی بھر کہ اس‬
‫کے ممے چوس لیے تو سعدیہ کو‬
‫ڈوگی اسٹائل میں کیا اور خود اس‬
‫کے پیچھے آگیا‪ ،،،‬کیا کرنے لگے‬
‫ہو‪،،،‬شازیہ گھبرائی‪،،،‬خود ہی تو کہا‬
‫تھا کہ کچھ نئے طریقے سے کرو تو‬
‫وہیں کرنے لگا ہوں‪ ،،،،‬یہ دیکھو یہ‬
‫چوت ہے اور اس میں اس کو ڈالوں‬
‫گا میں نے عضو ہاتھ میں پکڑ کے آگے‬
‫اس کی گانڈ کے نیچے چوت کی‬
‫موری پر رکھتے ہوئے کہا‪،،،،‬اوہ میں‬
‫سمجھی گانڈ میں چودائی کرنے لگے‬
‫ہو یہ نہ کرنا یہ گناہ ہے ‪،،،‬آخر مولوی‬
‫کی بیٹی تھی۔‬
‫میں دل ہی دل میں ہنسا اور اسے‬
‫کہا نہیں کہ اب ہم جو کررہے ہیں یا‬
‫جو تم اپنے والدین کو دیکھتی تھی‬
‫وہ کیا تھا‪،،،،‬چلو آجاؤ اپنی ڈیوٹی پر‬
‫میں نے شازیہ کو اشارہ کیا‪،‬تو اس‬
‫نے میری بات سمجھتے ہوئے تیل کی‬
‫شیشی لی اور اس کو میرے عضو پر‬
‫ملنے لگی‪،،،‬تھوڑا یار یہ رافعہ نہیں‬
‫ہے اس کی چوت عمر کے حساب سے‬
‫تنگ تھی اسلیے کچھ زیادہ لگایا‬
‫تھا‪،،‬تو یہ کونسی بڑی عمر کی اس‬
‫میں اور رافعہ میں بس ایک سال کا‬
‫ہی تو فرق ہے‪،،‬میری بہن کو ذرا بھی‬
‫درد نہیں ہونا چاہیئے ‪،،‬شازیہ نے الڈ‬
‫سے کہا‪،،،‬ابتک وہ سمجھ چکی تھی‬
‫کہ تیل اسلیے لگایا جاتا ہے کہ پہلی‬
‫دفعہ چوت میں درد نہ ہو‪،،،‬کچھ‬
‫نہیں ہوگا تمھاری بہن کو‪ ،‬اسے پتہ‬
‫ہونا چاہیے کہ مزے کا رستہ آسان‬
‫نہیں ہے ‪،‬میں نے شرارت سے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا‪،،،،‬چلو اب ڈال بھی‬
‫دو شہزادے ‪،،‬باتیں بعد میں کرلینا‬
‫‪،،،‬سعدیہ بے تابی سے بولی تو میں نے‬
‫چوت پر عضو رکھا تھوڑا موری میں‬
‫داخل کیا اور پھر اس کے پہلوؤں‬
‫سے پکڑ کر اندر دھکیال ‪،،،‬جیسے‬
‫جیسے اندر جاتا گیا‪،،،‬سعدیہ کی‬
‫سسکاری نکلتی گئی‪،،،‬شازیہ نے‬
‫جلدی سے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ‬
‫دیا ‪،،‬بڑی بہن ہونے کے ناطے وہ کافی‬
‫ِذ ّم ہ داریاں نبھا رہی تھی‪،،،،‬میں جو‬
‫پردے کے پاس جا کر رک گیا تھا اور‬
‫کچھ نرمی سے آگے پیچھے کر رہا تھا‬
‫‪،‬موقع غنیمت جان کر عضو پیچھے‬
‫کر کے ایک زور دار دھکا مارا اور‬
‫چوت کا پردہ پھاڑتا ہو اچوت کی‬
‫گہرائیوں میں جا پہنچا ‪،،،‬سعدیہ کے‬
‫جسم نے اچھا بھال جھٹکا لیا اور‬
‫میں وہیں رک گیا‪،‬اسکی چوت سے‬
‫خون نکل کر چاد پر گر رہا تھا ‪،،‬جس‬
‫پر پہلے سے شازیہ اور رافعہ کا خون‬
‫جما ہوا تھا‪،،‬لیکن وہ گرتے وقت نظر‬
‫نہیں آیا تھا کیونکہ ان کی پوزیشن‬
‫اور تھی۔‬
‫شازیہ پریشانی سے میری طرف‬
‫دیکھے لگی‪،،‬میں نے اسے ہاتھ کے‬
‫اشارے سے تسلی دی کچھ نہیں ہوگا‬
‫‪،،‬مجھے اسے کہنا ہی پڑے گا‪،،،‬شازیہ‬
‫نے ہاتھ کے اشارے سے سعدیہ کے‬
‫چہرے کی طرف کی طرف متوجہ‬
‫کیا‪،،،،‬کیا ہوا ؟ میں نے پوچھا ‪،،‬رو‬
‫رہی ہے شازیہ نے سعدیہ کے آنسو‬
‫پونچھتے ہوئے سرگوشی کی‪،،،‬میں‬
‫نے اسی حالت میں اس کی کمر سے‬
‫لپٹ کر اس کے ممے پکڑ لیئے او ر ان‬
‫کو مسلنے لگا‪،،،‬سعدیہ ‪،،،،‬میں نے اسے‬
‫بالیا‪،،،‬جی شہزادے‪،،،،‬کچھ نہیں ہوگا‬
‫یار درد بس ایک دفعہ ہوتا ہے ‪ ،،،‬جو‬
‫ہونا تھا ہو گیا دیکھو خون نکلنا بھی‬
‫بند ہوگیا ہے‪،،‬پریشان نہ ہونا‪،،،‬ٹھیک‬
‫ہے شہزاے اب کچھ آرام ہے‪،،،‬ممے‬
‫مسلتے رہو اچھا لگ رہاہے‪،،،‬تمھارا‬
‫جسم رسیال ہے ‪،‬مزہ دینے واال ہے‬
‫اسلیے نازک بھی ہے‪،،‬میں سمجھ تو‬
‫گیا تھا لیکن شاید تمھارا پردہ کچھ‬
‫سخت تھا اس لیے درد ہوا‪،،،‬آہ اب‬
‫چودو شہزادے باتیں تو پھر کرتے ہی‬
‫رہیں گے‪،،،،‬ٹھہرو ‪،،‬میں نے عضو باہر‬
‫نکاال اور چادر سے اسے صاف کیا اور‬
‫سعدیہ کی چوت کو بھی صاف‬
‫کیا‪،،،‬دوبارہ تیل لگا دوں ؟ شازیہ نے‬
‫فکر مندی سے پوچھا ‪،،،‬ہاں لگا دو‬
‫ابھی تو ا سکی بڑی ضرورت ہے‪،،‬میں‬
‫نے کہا‪،‬شازیہ نے تیل لگایا اور میں‬
‫نےسعدیہ کی چوت میں ڈال کر آرام‬
‫سے آگے کرنے لگا‪،،‬اب مزہ آیا ہے‬
‫سعدیہ نے کہا۔‬
‫تو میں آرام آرام سے سعدیہ کی‬
‫چدائی کرنے لگا ‪،،،،‬سعدیہ واقعی‬
‫مزے دار تھی ابتک کا تجربہ بتا رہا‬
‫تھا کہ سعدیہ مزے دار ہے‪،،‬رافعہ‬
‫گرما گرم ہے اور شازیہ رومانوی‬
‫طبیعت کی ساتھی کو سمجھنے‬
‫والی حسینہ ہے جیسے جیسے اس نے‬
‫آگے بڑھنا تھا اس نے بڑے مزے دینے‬
‫تھے‪،‬ایسے سیکس پاٹنر ہر بات میں‬
‫ساتھ ہوتے ہیں‪،‬اور الجواب سیکس‬
‫کرواتے ہیں ‪،،‬کمر سے پکڑے میں نے‬
‫اچھی طرح سعدیہ کی چودائی کرتے‬
‫ہوئے محظوظ ہونے لگا‪،،،‬بڑا مزہ آرہا‬
‫تھا ‪،،‬مجھے سرور آنے لگا‪ ،،،،،،‬اور میں‬
‫اس سرور میں بہنے لگا‪ ،،،،،،‬جیسے‬
‫جیسے سرور بڑھتا گیا‪،،‬سعدیہ کا‬
‫جسم مزہ دیتا گیا میری رفتار تیز‬
‫ہوتی گئی‪،،‬بڑا آسان اسٹال ہے مگر‬
‫اس میں کچھ قباحتیں بھی ہیں‪،‬اگر‬
‫میں گھڑا ہوتا تو بڑا اچھا تھا‪،‬اس‬
‫میں بھر پور اور پوری رفتار سے‬
‫دھکے لگتے ہیں‪،‬لیکن میں بھی مزے‬
‫میں اتنا ہی آگے پہنچ گیا تھا کہ‬
‫ہوش تب آیا جب جھپاک جھپاک کی‬
‫آواز آئی ‪،،،‬کیا کرہے ہو شہزادے‬
‫‪،،‬شازیہ کی نے گُھ رکی دی‪،،‬اوہ ‪،،‬‬
‫مجھے خیال ہی نہیں رہا اور میری‬
‫رفتار تیز ہونے سے جسموں کے‬
‫ٹکرانے کی آواز آنے لگی تھی‬
‫‪،،،،،،‬کچھ ہوش میں آکر پھر چودائی‬
‫شروع کی اور مزہ لینے لگا‪،،،‬سعدیہ‬
‫کمال کی تھی ‪،‬کہہ نہیں سکتا تھا‬
‫اسے کس چیز سے تشبیہ دوں ‪،‬اس‬
‫کے جسم میں لذت چھپی ہوئی‬
‫تھی‪،،‬ایسی لذت جو مدہوش کر‬
‫دیتی ہے‪،‬ہر جسم کااپنا ذائقہ ہوتا ہے‬
‫جیسے چہروں میں انفرادیت ہوتی‬
‫ہے‪،‬ایسے ہر جسم میں بھی اندرونی‬
‫طور پر مزے کی تقسیم ہوتی ہے‪،‬‬
‫‪،‬ممکن ہے میں مزے میں ڈوبا اسی‬
‫طرح پانی نکال دیتا ‪،،‬میں تو مزے‬
‫میں کہاں سے کہاں پہنچ گیا کہ‬
‫سعدیہ مجھے واپس کھینچ‬
‫الئی‪،،،،،،،‬شہزادے کیا بات ہے اچھی‬
‫طرح چودو نہ ‪،،،‬لو بھئی کر لو بات‬
‫‪،،،‬اتنی دیر سے کیا جھک مار رہا ہوں‬
‫‪،،،،،‬کیا مطلب تمھیں مزہ نہیں‬
‫آرہا‪،،‬نہیں جتنا باجی اور رافعہ کو‬
‫مزہ لیتے نظر آیا تھا اتنا مجھے‬
‫محسوس نہیں ہو رہا‪،،،‬سعدیہ پہلی‬
‫بار کروا رہی تھی اسے کیا پتہ کہ‬
‫مزہ اتنا تھا اوراب کم ہوگیا ہے لیکن‬
‫میں اسکی الجھن سمجھ گیا ‪ ،‬عضو‬
‫باہر نکاال اور اسے سیدھا لٹا کر‬
‫ٹانگیں کھولی اور چوت کے پاس‬
‫بیٹھ کراندر ڈاال اور چدائی کرنے‬
‫لگا‪،،‬اب ٹھیک ہے سعدیہ‪،،،‬میں نے اس‬
‫کے ممے پکڑ کے چودتے ہوئے‬
‫پوچھا‪،،‬بہت اچھا لگ رہا ہے سعدیہ‬
‫نے مجھے گہری نظروں سے دیکھتے‬
‫ہوئے کہا‪،،،‬ڈوگی اسٹائل میں یہی‬
‫مسلہ ہے اس میں محسوس تو ہوتا‬
‫ہے لیکن نظر نہیں آتا‪،،‬اب سعدیہ‬
‫دیکھ کر بھی مزہ لے رہی تھی اس‬
‫طرح مزہ دوگنا ہو جاتا ہے ۔۔۔یہ طے‬
‫تھا کہ سعدیہ کا جسم دوسری بہنوں‬
‫سے زیادہ سیکسی تھا ا س میں تڑپ‬
‫پھڑک تھی ‪،،،‬اس میں مزہ زیادہ تھا‬
‫‪،،،‬مجے یہ مزہ چاہیئے تھا‪،،،‬اور میرا‬
‫دل نہیں کر رہا تھا کہ میرا پانی‬
‫نکلے۔‬

‫سعدیہ کو تو ٹائمنگ گولی کھا کر‬


‫آرام سے چودنا چاہیے ۔فرصت سے‬
‫اس کی چوت سے ملنا چاہیے‪،،،‬بلکہ‬
‫ساری رات ملتے رہنا چاہیے‪،،،،‬انہی‬
‫خیالوں میں چدوائی کرتے ہوئے میں‬
‫نے باہر نکاال اور سعدیہ کے ساتھ جا‬
‫کر لیٹ گیا‪،،‬وہ حیرانگی سے میری‬
‫طرف دیکھ رہی تھی کہ میں اسے‬
‫پہلو کے بل لیٹنے کوکہا‪،،‬اور اسکی‬
‫کمر سے اپنا سینہ لگا کر اسے‬
‫بانہوںمیں جکڑ لیا‪،،،‬اسے دبوچا‬
‫‪،‬چمیاں شمیاں لیں‪،‬اور پھر اس کی‬
‫ایک ٹانگ اٹھا کے تھوڑا نیچے کو‬
‫کھسک کے اسکی چوت میں عضو‬
‫ڈال دیا‪،،‬ادھر میں نے بازو ا س کی‬
‫کمر کے گرد سے اس کے ممے پکڑ لیے‬
‫‪،،،‬اور اس کی چدائی کرنے لگا‪،،،‬بڑا‬
‫کمال کا سین تھا‪،،‬میں تقریبًا سعدیہ‬
‫پر چڑھا ہوا تھا اور مجھے اس کا‬
‫جسم اپنے جسم میں لپیٹ کر بڑا‬
‫مزہ آرہا تھا‪،،،‬سعدیہ بھی اس اسٹائل‬
‫میں مزہ لینے لگی‪،،،‬اسے مجھ پر‬
‫جیسے پیار آگیا‪،،،‬اور چہرہ میری‬
‫طرف کیا میں نے جھک کر اس کے‬
‫ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے‪،،‬اب ایک‬
‫طرف کسنگ تھی دوسری طرف ممے‬
‫پکڑے ہوئے تھے تیسری طرف چدائی‬
‫ہورہی تھی‪،،،‬لیکن چدائی اس میں‬
‫تھی مشکل‪ ،،‬اسلیے رفتار آہستہ‬
‫تھی‪،،‬کچھ دیر تو میں مزے لیتا رہا ‪،‬‬
‫اور اس مزے میں سعدیہ کی‬
‫چودائی کرتا رہا ‪،،‬اور پھر میں نے‬
‫اسٹائل تبدیل کر لیا ‪،،‬اور اسے الٹا لٹا‬
‫دیا اور اس کے اوپر لیٹ کر اس کی‬
‫چوت میں چودنے لگا‪،‬اس کے‬
‫چوتڑوں کو جسم کی دھکے لگنے سے‬
‫اسے اور طرح کا مزہ آ رہا تھا ‪،‬اس‬
‫طرح شہوت بڑھتی ہے اور مزہ دوگنا‬
‫ہو جاتا ہے ‪،‬کچھ لوگ اس مزے کی‬
‫چاہت میں گانڈ مارنے لگتے ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫میرا گانڈ مارنے کا کبھی کوئی ارادہ‬
‫نہیں رہا‪،‬جسے چوت سے فرصت ملے‪،‬‬
‫وہ گانڈ مارنے کا سوچے ‪ ،‬۔‬

‫ویسے بھی گانڈ کی ساخت اور‬


‫بناوٹ ایسی ہے کہ اسے مارنے کا‬
‫اصلی سیکس سے کوئی تعلق نہیں ‪،‬‬
‫یہ تو وحشتوں کی تسکین ہے‪،‬اور‬
‫کیونکہ یہ لڑکیوں کی گانڈ مارنے کی‬
‫وبا یورپ و امریکہ سےننگی فلموں‬
‫کے ذریعے آئی ہے اس لیئے جدید‬
‫سیکس میں یہ ِس ّکہ رائج الوقت ہے‬
‫وہاں کے لوگوں نے عام سیکس سے‬
‫اکتا کر ایسی ایسی باتیں نکال لی‬
‫ہیں کہ طبیعت پر بوجھ بن گئی ہیں‬
‫‪،‬فیٹش ‪،‬ہارڈ کور اور اینل سیکس تو‬
‫عام سی باتی ہیں ‪ ،‬پیشاب کو ہاٹ‬
‫کافی کا نام دینا اور پاخانے کو کھانا‬
‫وغیرہ اور فیملی سیکس‪،‬وائف‬
‫سوپینگ یعنی بیویوں کی ادال بدلی‬
‫اور جانوروں کے ساتھ سیکس‬
‫جیسی قبیح ترین حرکتیں سیکس‬
‫نہیں ہے مگر سیکس بن گیا ہے اور‬
‫جو ان کے خالف بات کرے پورن‬
‫میڈیا کے مارے ذہن فورًا اس کے‬
‫خالف ہو جاتے ہیں ‪،‬ہم سب من‬
‫حیث القوم یورپ و امریکہ کے‬
‫سامنے احساِس کمتری کے مارے ہوئے‬
‫ہیں‪،‬اور جو وہاں سے ملے ہمارے لیئے‬
‫مقدس بن جاتا ہے ‪،‬خیر میں کوئی‬
‫ناصح نہیں ہوں ‪،‬ہر کسی کی اپنی‬
‫اپنی الئف ہے ‪،‬میں خود سیکس میں‬
‫ڈوبا ہوا ہوں ‪،‬پر میں اپنی مرضی کی‬
‫زندگی جیتاہوں ‪،‬میں پورن میڈیا کے‬
‫ہاتھوں اپنا ذہن یرغمال نہیں بنا‬
‫سکتا کیونکہ پورن فلموں کا مطلب‬
‫ہے دیکھ کر لّذ ت لینا ‪،‬اور موویز کو‬
‫بنایا ہی اس طرح جاتا ہے کہ دیکھ‬
‫کر مزہ آئے ‪،‬اس کے تمام اسٹائل بہت‬
‫مشکل یا ناممکن ہیں ‪،‬سوائے چند‬
‫ایک کہ ‪ ،‬اور یہ کہ پونا گھنٹا بغیر‬
‫میڈیسن کے کوئی بھی اتنی دیر‬
‫سیکس نہیں کر سکتا‪،‬پھر ان موویز‬
‫میں اکثریت مرد کا پانی نکالنے پر‬
‫ساری توجہ ہوتی ہے‪،،‬عورت جیسے‬
‫مزہ لینے کا کوئی سیکسی ٹوائے‬
‫ہو‪،‬یعنی ان موویز کاحقیقت سے‬
‫کوئی تعلق نہیں ‪،‬ان کو فالو نہیں‬
‫کرنا چاہیئے‪،‬بس ان کو دیکھ کر مزہ‬
‫لیں ۔‬

‫بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی ‪،‬میں‬


‫نے سعدیہ کو سیدھا لٹا کر میں نے‬
‫پھر اس کے اندر ڈاال اور چودائی‬
‫شروع کردی‪،‬میں سعدیہ کے جسم کا‬
‫مزہ مختلف طریقوں سے لے رہا‬
‫تھا‪،،‬سعدیہ تم سے دل نہیں بھرے گا‬
‫اور رات بڑی تھوڑی ہے‪،،،‬سعدیہ اتنے‬
‫میں پورا مزہ لے چکی تھی اور وقت‬
‫اس کا آنے واال تھا‪،،،‬میں نے رفتار تیز‬
‫کی اور ایک منٹ میں اس کا پانی‬
‫نکل آیا‪،‬اچھی طرح تسلی سے پانی‬
‫کے قطرے نکلنے کے بعد میں نے تیز‬
‫جھٹکے مارنے شروع کیے اور نہ‬
‫چاہنے کے باوجود میرا بھی پانی نکل‬
‫آیا ‪،،،‬میری کوشش ہوتی ہے کے لڑکی‬
‫کا پانی پہلے نکلے اور میرا بعد میں‪،‬‬
‫اس میں آج تک میں ناکام نہیں‬
‫ہوا‪،،،‬میں لیٹ گیا‪،،،‬میں تھک بھی گیا‬
‫تھا‪،،،‬چہرے پر تھکن کے آثار‬
‫تھے‪،،،‬نازیہ کو اپنی پڑی تھی ‪،،‬کیا‬
‫ہوا شہزادے تھک گئے ہو ‪،،،‬اس نے‬
‫بڑے الڈ سے ہوچھا‪،،‬ہاں یار کچھ دیر‬
‫آرام کرتے ہیں پھراپنی جان نازیہ کو‬
‫چودوں گا‪،،،‬کیا میں دبا دوں‬
‫شہزادے ‪،‬نازیہ مجھ نچھاور ہو رہی‬
‫تھی دبا تو بڑی مہربانی ہوگی‪،،‬میں‬
‫نے کہا ‪،،‬لو اس میں مہربانی کی کیا‬
‫بات ہے تم اتنے خاص ہو نہ ہمارے‬
‫لیے کہ تمھیں بتا نہیں سکتے‪،،‬نازیہ‬
‫تو میری ٹانگیں دبانے لگی‪،،‬اسے‬
‫چودائی کروانی تھی اور میں نے‬
‫اسے انتظار بھی خوب‬
‫کروایاتھا‪،،،‬لیکن شازیہ کو کیا ہوگیا‬
‫وہ اٹھی اوردوسری ٹانگ دبانے‬
‫لگی‪،،،‬ایسے جذباتی ماحول میں میرا‬
‫گزارا مشکل ہوجاتا تھا ‪،‬انہیں نہیں‬
‫پتہ تھا کہ کہ میں نے آج صبح سے‬
‫پہلے جوسلین کے پاس چلے‬
‫جاناہے‪،،‬لیکن رافعہ ان سب سے‬
‫علیحدہ تھی وہ چودائی کےبعد سے‬
‫چپ چاپ بیٹھی تھی اور پتہ نہیں‬
‫کس سوچ میں‪ ،‬اب جو اس نے دیکھا‬
‫کہ سعدیہ تو سکون میں ہے اور نازیہ‬
‫اور شازیہ اپنے محبوب کو آرام دے‬
‫رہی ہیں‪،‬تو وہ جھٹ سے میرے پاس‬
‫آگئی اورمجھے چومنا شروع کردیا‬
‫‪،،‬شازیہ اور نازیہ دونوں کے چہرے پر‬
‫ناگواری آگئی‪،‬لیکن میں نے انہیں‬
‫ہاتھ کے اشارے سے نارمل کیا‪،‬میں‬
‫کسی لوچے میں نہیں پڑنا چاہتا‬
‫تھا‪،،‬رافعہ جس موڈ میں تھی‪،‬اس‬
‫میں کچھ بھی کرسکتی تھی‪،،‬میں‬
‫نے پرانے سے کالک کی طرف دیکھا‬
‫سوا ‪ ،‬ایک ہو گیا تھا‪،،،،‬اگر چودائی کا‬
‫حساب لگاؤں تو ایک گھنٹہ ہی لگا‬
‫تھا ااور چوما چاٹی کا حساب لگاؤں‬
‫باتوں کا وقت جمع کروں تو دو‬
‫گھنٹے تو لگ ہی گئے تھے‪،،،،‬چار‬
‫گھنٹےتھے میرے پاس ‪،،‬میں نے پانچ‬
‫بجے یہاں سے نکل جانا تھا۔‬
‫رافعہ نے عجیب کام کیا تھا وہ‬
‫میرے نپل چوسنے لگ گئی تھی‪،‬یہ‬
‫ایک عجیب سیکسی چال تھی‬
‫‪،،‬شاید رافعہ نے جوابی کام کیاتھا‬
‫میں نے اس کے چوسے اور وہ میرے‬
‫چوس رہی تھی‪،،‬اس نے سمجھا‬
‫شاید مجھے بھی اتنا مزہ آئے گا‪،،،‬اور‬
‫مجھے مزہ آ رہا تھا‪،،،‬میرا دل کر رہا‬
‫تھا کہ رافعہ چوستی رہی‪،‬پہلی بار‬
‫یہ میرے ساتھ ہورہا تھا‪،،‬جوسلین نے‬
‫بتایا تھا کہ ہر انسان کا یک سیکسی‬
‫بٹن ہوتا ہے‪،‬جس کو دبانے سے وہ‬
‫انسان دل سے گرم ہوجاتا ہے‪،‬جیسے‬
‫کسی کےکان کی لو‪،،‬یا کسی کی‬
‫گردن پر کسنگ‪،،‬یا کسی کے پشت پر‬
‫کسنگ‪ ،،،‬یا پیٹ پر یا کہیں اور‬
‫جوسلین نے کئی بار میرا بھی بٹن‬
‫تالش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ‬
‫بٹن آج ملنا تھا۔اور آج مجھے گرمی‬
‫چڑھ رہی تھی‪،،،‬شہزادے اور کیا کیا‬
‫کرتے ہیں اس میں ‪،‬رافعہ نے نپل‬
‫چوستے چھوڑ کر پوچھا‪ ،،‬مزہ کرکرہ‬
‫ہونے کی وجہ سے میں جھال گیا تھا‬
‫میں نے بے اختیار کہا لن کوچوستے‬
‫ہیں ‪،،،‬کیا ؟؟؟؟؟؟؟؟ چاروں بہنیں‬
‫چال اٹھی لیکن ظاہر ہے آواز دھیمی‬
‫ہی تھی‪،‬ہاں یہ بھی کام کرتےہیں‬
‫میں نے شرارت سے کہا‪،،‬ہم نے تو‬
‫کبھی نہیں دیکھا کہ ابا کا لن امی نے‬
‫چوسا ہو‪،،‬شازیہ شکی انداز میں‬
‫بولی‪،،‬تم لوگو ں نے ابھی دیکھا ہی‬
‫کیاہے میں جھالیا ہوا تھا‪،‬اور کچھ‬
‫بھی ہوتا ہے اس میں‪ ،‬رافعہ نے‬
‫سنجیدگی سے پوچھا‪،‬ہاں گانڈ مارتے‬
‫ہیں لوگ ‪،،‬اور ؟رافعہ نے پوچھا‪ ،‬اور‬
‫بس یہی مختلف طریقوں سے‬
‫چودتے ہ جیسے میں سعدیہ کو چودا‬
‫‪،‬جیسے شازیہ کو اور پھر جیسے‬
‫تمھیں یہ سب مختلف طریقے‬
‫استعمال کرتے ہیں کچھ اور ‪،‬کوئی‬
‫نئی بات بتاؤ‪،‬ہاں ہے ایک نئی بات‬
‫لڑکی لڑکے کو چودتی ہے‪،‬وہ کیسے‬
‫سب بہنیں پھر حیران ہوئی‪،،‬وہ‬
‫ایسے کہ لڑکا سیدھا لیٹا ہو اور لڑکی‬
‫اس کے عضو پر بیٹھ کر اسے اپنی‬
‫چوت میں لے اور پھر اوپر نیچےہو‬
‫کر چودائی کرے‪،‬اگر میں پہلے لن‬
‫چوسوں تواور پھر لن اندر لے کر اوپر‬
‫نیچے ہوؤں تو مجھے چودائی کا‬
‫موقع ابھی ملے گا‪،‬رافعہ سیکسی‬
‫انداز یں بولی‪،،،‬دوسری بہنیں جیسے‬
‫سکتے میں آگئی‪،،،‬پھر شازیہ کوغصہ‬
‫آگیا‪،،‬اس سے پہلے وہ کچھ کہتی‬
‫میں نے اسے روک دیا ‪،‬رافعہ سے‬
‫مخاطب ہوا‪،،‬بات یہ ہے کہ رافعہ میں‬
‫تین بار چودائی کرچکا ہوں اب میں‬
‫بس ایکبار اور کر سکتاہوں وہ بھی‬
‫تقریبًا ایک گھنٹہ آرام کرنے کے بعد‪،،‬‬
‫تو ابھی نہیں لیکن کل جو تم چاہو‬
‫گی ویسے کرلینا ‪،،‬اوکے‪،،‬ٹھیک ہے‬
‫لیکن کل میں دو دفعہ کروں گی‬
‫‪،،،‬رافعہ نے جیسے باقی بہنوں‬
‫کودھمکی دی‪،،‬اوکے اوکے ٹھیک ہے‬
‫کل جیسے تم چاہے کرنا ‪،،،‬لیکن اب‬
‫میں آرام کروں گا ‪،،‬میں نے جیسے‬
‫اعالن کیا‪،‬تو شازیہ اور سعدیہ اٹھی‬
‫اور اپنے بستروں پر جا کرلیٹ‬
‫گئی‪،‬اس سے پہلے وہ اپنے کپڑے‬
‫پہننا نہیں بھولی تھیں ‪،‬رافعہ کا بھی‬
‫سونا ضروری تھا‪،‬نہیں تو اسے گرمی‬
‫چڑھتی رہنی تھی‪،،‬سو میں نے نیچے‬
‫بنایا بستر اٹھانے کا کہا‪،‬رافعہ اپنا‬
‫بستر اور رضائی لیکر اپنی چارپائی‬
‫پربچھا کر لیٹ گئی‪،‬کپڑے پہن‬
‫لورافعہ ‪،‬میں نے اسے آواز دی تو‬
‫رافعہ نے چپ چاپ کپڑے پہن لیے‬
‫اور لیٹ گئی‪ ،‬نازیہ نے میرے اشارے‬
‫پر اپنا بستر بھی اپنی چارپائی پر‬
‫بچھا دیا‪،،،‬میں جا کر اپنے بستر پر‬
‫لیٹ گیا۔‬
‫میرے کپڑے جستی پیٹی پر رکھ‬
‫دیئے گئے‪،،‬نازیہ ‪،،،‬کیا بات ہے شہزادے‬
‫‪،‬نازیہ نے پوچھا‪،‬اس کے چہرے پر‬
‫مایوسی تھی ‪،،‬ادھر آؤ یار میری‬
‫ٹانگیں تو دبا دو‪،،‬نازیہ میرے بستر‬
‫میں رضائی میں داخل ہوگئی اور‬
‫میری ٹانگیں دبانے لگی‪،،‬اب صرف‬
‫میں اور نازیہ ننگے تھے‪،‬شازیہ میری‬
‫بات سمجھ گئی تھی‪،،‬میں نے اسے‬
‫آنکھوں سے کہا تھا اور سر کا ہلکا سا‬
‫اشارہ کیاتھا‪،‬وہ سمجھ گئی کہ اب‬
‫سب کاسونا ضروری ہے نہیں تو‬
‫رافعہ کوئی جھگڑا کرے گی‪،،‬کچھ‬
‫دیر نازیہ میری ٹانگیں دباتی‬
‫رہی‪،‬لیکن اسے سردی لگ رہی‬
‫تھی‪،،،‬کتنی دیر سے ہم سب دو‬
‫رضائیوں میں گزارا کر رہے تھے بلکہ‬
‫ہمیں تو سردی لگ ہی نہیں رہی‬
‫تھی‪،‬میں نے نازیہ کو اپنے ساتھ‬
‫رضائی میں لٹا لیا اور اسے گلے لگا‬
‫لیا‪،،،‬اب تو خوش ہو اب صرف میں‬
‫اور تم‪،،،‬اور ساری رات‪ ،‬جتنا کہو گی‬
‫چودوں گا ‪،‬میں نے نازیہ کے کان میں‬
‫سرگوشی کی‪،‬اوہ میں تو سمجھی‬
‫تھی کہ اب مجھے تم نہیں چودو گے‬
‫اور مجھ سے ابھی تک ناراض‬
‫ہو‪،،‬نازیہ نے مجھ سے لپٹتے ہوئے‬
‫کہا‪،‬اس طرح اس کی سردی کم ہو‬
‫رہی تھی‪،‬تمھیں کیسے نہ چودتا‪،،‬میں‬
‫تمھاری بہنوں کو چھوڑ سکتاہوں‬
‫لیکن تمھیں نہیں چھوڑ سکتا۔۔اچھا‬
‫۔۔۔۔۔ایسی کیا بات ہے مجھ میں نازیہ‬
‫اٹھالئی‪،‬اپنی تعریف کسے بری لگتی‬
‫تھی‪،‬کیونکہ تم ان سب سے حسین‬
‫ہو‪،،‬اونہہ میں نہیں مانتی‪،،،‬چودائی‬
‫تو تم سعدیہ کی مزے لے لے کررہے‬
‫تھے‪،‬سعدیہ کاجسم سیکسی تھا اس‬
‫میں مزہ تھا ‪،‬اچھا تو میرا جسم‬
‫مزے واالنہیں ہے‪،‬نازو اب سارے‬
‫انتظار کا غصہ اتار رہی تھی‪،،‬نازو‬
‫میری جان تمھارا جسم بھی حسین‬
‫ہے‪،،،‬تمھارا چہرہ بھی حسین ہے‪،‬اور‬
‫ایسا حسین امتزاج کم ہی دیکھنے‬
‫کو ملتاہےسونے پہ سہاگہ ‪،‬تمھاری‬
‫طبیعت شوخ وچنچل ہے‪،‬تم میں‬
‫ادائیں بھی ہیں‪،‬میں تو کل سے‬
‫تمھیں دیکھ دیکھ کر ترس رہا تھا‬
‫‪،‬کرو‪،،،‬کوئی کام بھی کیا کرو‪،،‬نازیہ‬
‫شوخی سے بولی‪،،‬میں اس کا مطلب‬
‫سمجھ گیا تھا ‪،،، ،،‬ٹھیک ہے جناب‬
‫نوکر کیا اور نخرہ کیا‪ ،‬ہم ابھی اپنا‬
‫کام شروع کردیتے ہیں۔۔۔اچھا ایسے‬
‫مالز م ہوتے ہوں تو مالک تو گئے کام‬
‫سے‪،،‬نازیہ کب پیچھے رہنے والی‬
‫تھی‪،‬اچھا میرے ساتھ چلو‬
‫گی‪،،،‬کہاں‪،،‬نازیہ نے پوچھا‪،،‬جہاں‬
‫میں کہوں ‪،،‬کہیں مجھے بھگانے کا‬
‫تو ارادہ نہیں ہے‪،،‬نازیہ نے ہنس کے‬
‫پوچھا‪،،،‬اب وہ میرے ساتھ کل والی‬
‫مولوی کی بیٹی تو لگ ہی نہیں رہی‬
‫تھی۔۔یہ تو کوئی چنچل حسینہ‬
‫تھی‪ ،،،‬تم کل سے لگےتھے میرے‬
‫پیچھے ‪ ،،‬آخر مجھے پھنسا کر ہی‬
‫چھوڑا ‪،‬نازیہ نے پھلجھڑی‬
‫چھوڑی‪،،‬تو تم کل ہی پھنس جاتی‬
‫نہ‪،،،‬کیوں مجھے اتنا تڑپایا ‪،،‬کیوں اتنا‬
‫انتظار کروایا‪،،‬کیا تم بہنوں کا دل‬
‫پتھر کا ہے‪،،،‬شہزادے اگر ہم اس‬
‫طرح پکڑی نہ جاتی تو قیامت تک تم‬
‫ہمیں نہیں پا سکتے تھے‪،،،‬نازیہ‬
‫انتہائی سنجیدگی سے بولی‪،،‬لیکن‬
‫آخرایسی کیا بات ہے جو تم سیکس‬
‫کی چاہت میں ڈوب کر بھی سیکس‬
‫کرنا نہیں چاہتی تھی‪،،،‬شہزادے‬
‫ہمارے ذہن اسطرح سے بنے ہوئے ہیں‬
‫کہ ہم ایسے کام کا سوچ بھی نہیں‬
‫سکتے‪،،،‬اور پھر ابا کا ڈر اتناہے کہ ہم‬
‫میں کسی کام کی جرات نہیں ہے‪،،‬تم‬
‫نے ابا کی ماریں کھائی ہوتی نہ تو‬
‫پھر تمھیں پتہ چلتا کہ ڈر کیا ہوتا‬
‫ہے‪،،‬اتنی حسین لڑکی کومارنےوالے‬
‫کوئی جالد ہی ہوسکتاہے۔‬

‫چھوڑو اتنی حسین رات خراب نہ‬


‫کرو‪،،،‬تمھیں کچھ کرنابھی آتا ہے کہ‬
‫بس باتیں بنانا جانتے ہو‪،،‬نازیہ نے‬
‫پھر مجھے چھیڑا‪،،‬لگتا ہے تمھیں بڑی‬
‫جلدی ہے میں نےنازیہ کے ہونٹوں پر‬
‫ہونٹ رکھ دیے‪،‬باتیں کرتے آدھے‬
‫گھنٹے سے اوپر ہوگیا تھا‪،،،‬لگتا تھا‬
‫لڑکیاں سو گئیں ہیں‪،‬میں یہی چاہتا‬
‫تھا ‪،،‬میں نازیہ کی طرف متوجہ‬
‫ہوا‪،،،‬میرا ایک بازو اس کی گرن کے‬
‫نیچے تھااور دوسرا اس کے اوپر‬
‫میری ایک ٹانگ بھی اس کے کولہوں‬
‫پر تھی‪،،‬اور عضو اس کو چھو رہا‬
‫تھا ‪،،،‬جوں ہی ہونٹوں نے ہونٹوں کو‬
‫چھوا‪،‬نازیہ بے تابی سے ہونٹ‬
‫چوسنے لگی‪،،‬نازیہ‬
‫‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ‪،،‬نازیہ نے میرے‬
‫ہونٹ چوسے ‪،‬میرے گال چومے‬
‫‪،،،‬میری گرن‪ ،‬میرے سینے پر پیار‬
‫کیا‪،‬آہستہ آہستہ نازیہ نیچے کھسکنے‬
‫لگی‪،،‬اس کے ہاتھ میں میرا عضو‬
‫تھا‪،،‬اور ہونٹوں کی زد میں میرا‬
‫جسم تھا‪،،‬میرے پیٹ سے ہوتی ہوئی‬
‫اس نے میری ٹانگیں چومی‪،‬بستر‬
‫میں رضائی کے اندر ‪ ،،‬لہریں کھا تی‬
‫ہوئی ندی بہہ رہی تھی ‪،‬ایک بھپرتی‬
‫اور بل کھاتی ندی‪ ،،‬جو ندی ہوتے‬
‫ہوئے بھی سب کچھ بہا لے جانا‬
‫چاہتی تھی‪،‬مجھے الٹا کر میرے اوپر‬
‫لیٹ کر نازیہ میری کمر چوم رہی‬
‫تھی‪،،‬نازیہ کہاں سے سیکھا یہ سب‬
‫تم نے‪،،‬میں پوچھے بناء نہ رہ‬
‫سکا‪،،‬کبھی ابا اور امی بہت موڈ میں‬
‫ہوں تو امی ایسا کرتی تھی‪،،،‬میں‬
‫جب بھی یہ دیکھتی تو بہت مزہ آتا‬
‫تھا‪،،‬اور دل کرتا تھا کہ میں بھی‬
‫کسی کو اتنا پیار کروں‪،،‬کوئی مجھے‬
‫بھی اتنا پیار کرے‪،،‬ابھی سے شادی‬
‫کی خوہش ہونے لگی تھی‪،،،‬اچھا تو‬
‫شادی کے خواب تو جانے کب پورے‬
‫ہوں‪ ،،‬میں ا بھی اپنی نازیہ کی یہ‬
‫خواہش پوری کردیتاہوں‪،،‬میں نے‬
‫نازیہ کو نیچے لٹایا اور اسکے چہرے‬
‫سے شروع کیا‪،‬اس کے ہونٹوں کو‬
‫پیار کیا‪،‬اس کی گالوں سے اپنا حصہ‬
‫وصول کیا‪،‬اس کی گردن پر سیکسی‬
‫چمیاں لیں ‪،‬اس کے سینے کو ہونٹوں‬
‫سے چھوا ‪،،‬اور ممے ہاتھوں سے‬
‫مسلے ‪،‬پیٹ کو چوما‪،‬اور رانوں پر‬
‫ہاتھ پھیرے ‪،،‬اس کی کمر کواو پر‬
‫لیٹ کر کمر کو چوما‪،،‬اور پھر سیدھا‬
‫کر کے اس کے ممے چوسنے شروع‬
‫کردیئے‪،‬شہزادے تم نے میری آرزو‬
‫پوری کردی‪ ،،‬کیاہم یونہی ملتے‬
‫رہیں‪،‬گے ہمیشہ‪،،،‬نازیہ کی بات سن‬
‫کے میرا دل کو سنسناہٹ سی ہونے‬
‫لگی ‪،،‬میں نے تو صبح سے پہلے چلے‬
‫جانا تھا ‪،‬میں نے ممے چوستے ہوئے‬
‫عضو کو اس کی چوت کے بظر‬
‫(دانہ)پر رگڑنا شروع کر دیا‪،،‬نازیہ کو‬
‫جذبات سے نکال کر ہیجانی کیفیت‬
‫کے حوالے کردیا‪،،‬نازیہ کا چہرہ شدت‬
‫سے تمتمانے لگا‪،،‬ممے اور بظر کو‬
‫اکٹھا چھیڑا جائے تو لڑکی نے تو بے‬
‫حال ہونا ہی تھا‪،،‬نازیہ بھی اب بے‬
‫چین تھی اور اس کا جسم تپا ہواتھا‬
‫جیسے بخار ہو‪،،‬رضائی ہم اتار چکے‬
‫تھے‪،‬لیکن ہمیں سردی ہمارے پاس‬
‫بھی نہیں تھی‪،،،‬شہزادے اب ڈال دو‬
‫اپنا لن‪،،‬میرابہت برا حال ہے‪،،،‬مجھ‬
‫سے اب اور انتظارنہیں ہوتا‪،،‬جب سے‬
‫تم نے ہمیں چودنا شروع کیا ہے تب‬
‫سے مجھے انتظار کروا رہے ہو‪،،،‬بلکہ‬
‫میں تو پتہ نہیں کب سے انتظار کر‬
‫رہی ہوں۔‬

‫آج میری پیاس بجھا دو‪،،،‬شہزادے‬


‫‪،،‬شہزادے‪،،،،‬آجاؤ‪،،،‬نازو میں تم سے‬
‫دور کب ہوں ‪،،‬میں نے چارپائی کے‬
‫پائے ساتھ پہلے سے رکھی تیل کی‬
‫شیشی اٹھا اور اسے اپنے عضو پر‬
‫لگایا‪،،،‬نازیہ کی چادر سے ہاتھ صاف‬
‫کیا اور وہی چادر دوہری تہری کر کے‬
‫نازیہ کی چوت کیلیے بچھا‬
‫دی‪،،‬نازویہ تیار ہو‪،،‬ہاں شہزادے ‪،،‬تیار‬
‫ہوں ‪،،‬میں تو جانے کب سے تیار‬
‫ہوں‪،،‬ایسی باتوں کا مقصد گرمی‬
‫بڑھانا ہوتا ہے‪،،‬میں نازیہ کی ٹانگیں‬
‫کھولی ‪،‬ان میں بیٹھا اور عضو چوت‬
‫کے اوپر رکھا‪،،‬چارپائی کی وجہ سے‬
‫تھوڑی مشکل تھی کیونکہ چارپائی‬
‫درمیان میں وزن پڑنے سے بیڈ کی‬
‫طرح سیدھی نہیں رہتی تھی‪،‬بلکہ‬
‫ُکھب سی جاتی تھی‪،،،‬بہر حال میں‬
‫نے عضو کو دھکا لگایا وہ نرمی سے‬
‫کچھ اندر چال گیا‪،،‬ابھی پردے کی‬
‫منزل نہیں آئی تھی‪،،‬میں نے تھوڑا‬
‫اور زور لگایااور اسےاندر ڈاال ‪،،‬عضو‬
‫کھسکا اور چوت میں آگے چال‬
‫گیا‪،،‬نازیہ پر جوش تھی ‪،،،‬میں نے‬
‫پوری طرح دھکیال اور عضو کی‬
‫دیواروں کو کھولتا ہوا‪ ،‬اندر پردے پر‬
‫جا کر رک گیا‪،،،‬یہی میرا طریقہ‬
‫تھاتب بھی اور آج بھی میں نئی‬
‫چوت کو سہج سہج کر محبت اور‬
‫نرمی سے کھولتا ہوں جیسے کوئی‬
‫گالب کی پتیاں ایک ایک کر کے‬
‫کھلتی ہیں اور پھول بن جاتا‬
‫ہے‪،،،‬تھوڑا سا عضو کو پیچھے‬
‫کیا‪،‬آگے کیا کچھ چوت کو بتیا کہ‬
‫کوئی آیا ہے اور پھر‪،،،،،‬نازو ‪،،،،‬جی‬
‫شہزادے ‪،‬نازیہ نے جذباتی انداز میں‬
‫کہا‪،،‬اندر پردہ توڑنے لگا ہوں‪،،‬تیار ہو‬
‫جاؤ ‪،،‬تیار تو کب سے ہوں شہزادے‬
‫رکو نہ بس چوت کا مالک اس میں‬
‫داخل کردو‪،،‬اور میں نے مخصوص‬
‫جھٹکا مارا جو چوت کو چیرتاہوا‬
‫ندر جا پہنچا۔‬

‫اوئی شزادے ‪،،،،،،،،‬نازیہ سے میرا‬


‫صحیح ا نام بھی نہ لیا گیا‪،،،‬مار دیا‬
‫رے ظالم ‪،،،‬نازیہ درد سے پر مدہم‬
‫آواز میں بولی‪،،‬کب سے تیرا انتظار‬
‫تھا ‪،،‬اور تو تڑپا تڑپا کے آیا میرے‬
‫پاس‪،،،‬اب تجھے کہیں جانے نہیں‬
‫دوں گی‪،،،‬میں نے اس کے ہونٹوں پر‬
‫ہونٹ رکھ دیے اس پر اپنا کچھ وزن‬
‫ڈال دیا‪،‬اور بڑی ہی آہستگی سے باہر‬
‫کیا‪،‬پھر اندر کیا‪،‬پھر باہر کیا‪،‬اور پھر‬
‫اندر باہر کرنے لگا‪،،،‬ہونٹ چومنے سے‬
‫نازیہ کی جذباتی باتیں رک گئی ‪،‬پتہ‬
‫نہیں ایسی جذباتی باتوں سے میرا‬
‫دل کیوں بے چین ہونے لگتا‬
‫تھا‪،،،‬میرے دل میں کہیں نگینہ کا‬
‫سراپا آجاتا تھا اور دل کچھ اور‬
‫کہنے لگتا تھا‪،،‬میں نے اندر باہر کرنے‬
‫کا کام جاری رکھا اور پھر بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬میری چودائی میں روانی نہیں‬
‫آئی تھی‪،،‬اس لیے میں نے اس کے‬
‫پہلوؤں پر ہاتھ رکھے اور تھوڑا‬
‫جھک کر مشق جاری رکھی‪،،‬ویسے‬
‫دیکھا جائے تو یہ مشِق ستم نہیں‬
‫تھی ‪،،‬لیکن پہلے پہلے یہ مشِق ستم‬
‫ہی بن جاتی تھی‪،،‬اور بعد میں مشِق‬
‫سخن بن جاتی تھی ‪،،‬اب یہ مشِق‬
‫سخن جاری تھی‪،،‬شہزادے آج سے یہ‬
‫جسم تمھارا ہے‪،،‬نازیہ پھر بولی‪،‬نازیہ‬
‫کو چودتے ہوئے میرے خیاالت‬
‫بھٹکنے لگےتھے‪،،،‬اس کی باتیں‬
‫مجھے بہکانے لگی تھیں‪،،،‬اس میں‬
‫اس کے جسم کا بڑا عمل دخل‬
‫تھا‪،،،‬کسی وقت میں نے اس سے پہلے‬
‫صرف ایک کنواری لڑکی چودی تھی‬
‫اور وہ سحرش تھی ‪،،‬سحرش کو‬
‫چودتے ہوئے اس وقت میرے دل و‬
‫دماغ سے نگینہ کا خمار اتر گیا‬
‫تھا‪،،،‬اور میں سحرش کی جوانی‬
‫کاشکار ہو گیا تھا‪،،‬اس کے بعد آج‬
‫رات جب سے میں نے ان بہنوں کو‬
‫چودنا شروع کیا تھا میرے دل و‬
‫دماغ سے جوسلین کا خمار اترنا‬
‫شروع ہوا تھا لیکن میں خیاالت کو‬
‫کنٹرول کرتا رہا‪،،‬اور اب نازیہ نے پھر‬
‫مجھ پر حملہ کر دیا تھا‪،،‬کسی کی‬
‫دنیا تہس نہس ہوئی ہوتو وہ میری‬
‫سمجھے گا ‪،،‬میں نے سر جھٹک کر‬
‫خیاالت کو دفع کیا‪،،‬اور چودائی کی‬
‫طرف دھیان لگایا‪،،،‬میری نظریں‬
‫نازیہ کے بے مثال جسم پر تھیں اور‬
‫اس وقت عضو اندر تھا جیسے یک‬
‫جان ہوگئے تھے‪،،،‬سرور کی انتہا تھی‬
‫‪،،،‬ایساجسم تو جوسلین کا تو نہیں‬
‫ہے‪،،،‬کیا یہ عمروں کا فرق ہے‬
‫یا‪،،،،،‬نازیہ ہے ہی حسین ترین‪،،‬یا یہ‬
‫کنوارے جسم کی مقناطیسیت ہے‪،،،‬یا‬
‫اس میں کچھ اور بات ہے۔‬

‫ذہن نےباغیانہ خیاالت کو جنم دیا تو‬


‫میں سوچنے لگا یہ میرئے ساتھ کیا‬
‫ہو رہا ہے‪،،‬اس بار میں جوسلین کے‬
‫احسانا ت یاد کرنے لگا ‪،،‬اور دل کو‬
‫کچھ شرم آئی میں نازیہ کے جسم‬
‫سے حظ لینے لگا‪،،،‬کانچ کے جسم‬
‫ایسے ہی تو ہوتے ہوں گے‪،،‬خیا الت کا‬
‫کیا ہے یہ روکے سے کب رکتے‬
‫ہیں‪،،‬نازیہ کی چودائی کسی اور ہی‬
‫ڈھنگ سے ستا رہی تھی‪،،‬مجھے‬
‫اندازہ نہیں تھا کہ میرے خیا الت‬
‫میرے ساتھ ایسے باغیانہ رویہ‬
‫اختیار کریں گے‪،،،‬میں نے نازیہ کے‬
‫ممے چوسنے شروع کردیئے‪،،،‬اور‬
‫چودائی تیز کر دی‪،،،‬عجیب بات تھی‬
‫جس جسم سے کی وجہ سے خیاالت‬
‫آتے تھے ‪،،‬اور پھر اسی کی پناہ میں‬
‫چال جاتا تھا‪،‬ظاہر ہے اس نے تو پھر‬
‫ستانا ہی تھا بہکانا ہی تھا‪،،،‬ممے‬
‫چوستے ہوئے مجھے بڑا سرور آتا ہے‬
‫اور نازیہ بھی سرور میں آگئی‬
‫تھی‪،،‬شہزادے تمھاری یہ ادا مجھے‬
‫بہت اچھی لگتی ہے‪،،،‬میں پھر بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬اب بتانے میں تو کچھ باتیں‬
‫بنانی ہی پڑتی ہیں‪ ،،‬نثری ادب میں‬
‫ہر لکھی ہوئی چیز ‪ ،‬فیکٹ ‪،‬ہوتی ہے‬
‫یعنی حقیقت‪ ،‬یا وہ فکش ہوتی ہے‬
‫یعنی فرضیت ‪،،،‬لیکن کافی عرسے‬
‫سے ایک اور ِص نف بھی وجود میں‬
‫آچکی ہے اور وہ ہے فیکٹ اور فکشن‬
‫کا مالپ‪،،‬یعنی حقیقت اور فرضیت‬
‫کا حسین امتزاج ‪،‬آج کے دور میں‬
‫اسے فیکشن کہتے ہیں‪،،،‬یعنی ایسی‬
‫سچائی جسے نمک مرچ لگا کہ پیش‬
‫کیا گیا ہے‪،،،‬میں بتا تو نہیں سکتا کہ‬
‫چودائی میں کتنا مزہ آیا لیکن‬
‫کوشش کرسکتا ہوں کہ میرے‬
‫خیاالت میں ہلچل سی مچ گئی‬
‫تھی‪،،،‬نازیہ میں تمھیں دوبارہ ضرور‬
‫ملنے آؤں گا‪،،،‬کیا یہ بھی تو کوئی‬
‫امتحان نہیں ہے؟ میرے اندر سے ایک‬
‫آواز آئی‪،،‬جوسلین جیسی جینئس‬
‫عورت کسی نکتے کو فراموش نہیں‬
‫کر سکتی‪،،،‬اسے پتہ ہو گا کہ کھیل‬
‫کیسے کھیال جائے گا‪،،‬نازیہ تم اوپر‬
‫بیٹھ کر چودائی کر لو گی میں نے‬
‫اس سے پوچھا‪،،‬کیا میں؟ نازیہ‬
‫حیران ہوئی ‪،،‬ہاں تم جیسے میں نے‬
‫بتایا تھا کہ لڑکی لڑکے کی چودائی‬
‫کرتی ہے‪،، ،،‬پاگل‪،،،‬چھری خربوزے پر‬
‫گرے یا خربوزہ چھری پر بات ایک‬
‫ہی‪،،‬نازیہ نے اوپر آتے ہوئے کہا‪ ،‬تو‬
‫میں مسکرانے لگا‪،،‬میں سیدھا لیٹا تو‬
‫وہ میرے عضو پر بیٹھ گئی‪ ،،‬نازو‬
‫اب جیسے بتایا تھا عضو ہاتھ میں‬
‫پکڑو‪،،‬نازیہ نے ہاتھ میں پکڑ کر اپنی‬
‫چوت اس پر رکھی اور اس پر اپنا‬
‫وزن ڈاال‪،،‬عضو پھسلتا ہوا ا سکی‬
‫چوت میں چال گیا‪،،،‬واہ‪،،‬تم نے بڑی‬
‫خوبصورتی سے کام کیا‪،‬اب اوپر‬
‫نیچے ہو نا شروع کرو‪،،‬نازیہ اوپر‬
‫نیچے ہونا شروع ہوگئی‪،،‬مگر ایک تو‬
‫نیچے چارپائی تھی ‪،‬دوسرا وہ نئی‬
‫نئی اس کام میں آئی تھی‪،،‬پھر وہ‬
‫بھی اوپر نیچے ہونے لگی اور میرے‬
‫خیاالت کا سلسلہ رک گیا‪،،‬اس کا‬
‫جسم اس کے ہلتے ممے ‪،،‬اسکی چوت‬
‫کی تنگی‪،،،‬اس کی نین نقس‪،‬میرے‬
‫ذہن میں کھبنے لگے‪،،،‬مجھے مزہ آنے‬
‫لگا‪،،،‬یہ اسٹائل بڑا ہی پرلطف اور‬
‫مزے دار ہے ‪،،‬اس میں عضو پر چوت‬
‫کی گرفت اور تہیں ایسے چڑھتی‬
‫ہیں جیسے‪،،‬کوئی بانہوں میں بھنچ‬
‫کے مار ڈالے گا اور ہم خوشی سے‬
‫مرجائیں گے‪،،،‬میں کچھ دیرا سی‬
‫حالت میں مزہ لیتا رہا اور نازیہ کو‬
‫دیکھتا رہا ‪،،‬نازیہ کچھ ِد ّق ت سے‬
‫دھیرے دھیرے کر رہی تھی ‪،،‬جب‬
‫میں نے دیکھا کہ وہ اتنے سے ہی‬
‫تھک گئی ہے تو میں نے اٹھ کے بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬اسی حالت میں نازیہ کے بازو‬
‫پکڑکے میں بیٹھا تو اب نازیہ میری‬
‫ٹانگوں پر تھی اور اسے پہلے تو گلے‬
‫سے لگا لیا اور سے کمر سے کس لیا‬
‫‪،،‬پھر اسے تھوڑا نیچے کر کے اپنی‬
‫کھلی گود بنا کر اس میں بٹھا‬
‫لیا‪،،‬اور تھورا آگے پیچھے ہونے لگا‪،،‬یہ‬
‫ایک رومانوی اسٹائل ہے اور پرجوش‬
‫بھی ہے‪،،‬مزہ بھی آتا ہے اگر مہارت‬
‫سے کیا جائے تو عضو پورا اندر جاتا‬
‫ہے نہیں تو درمیاں سے ہی ہار مان کر‬
‫واپس آجاتا ہے۔‬

‫اس میں چوت عضو کے سامنے ہونے‬


‫کی بجائے تھوڑی اوپرہو‪،،‬جبکہ لڑکی‬
‫کا جسمانی وزن چوت نیچے کرتا ہے‬
‫بازوؤں کے سہارے میں تھوڑا اونچا‬
‫کیے چودائی کرنے لگا تو نازیہ نے‬
‫اپنے بانہیں میرے گلے میں گردن کے‬
‫گرد ڈال لی‪،،‬واؤ شہزادے کمال کا‬
‫طریقہ ہے میری جان بڑا مزہ آرہاہے ۔۔‬
‫بس اب اسی طرح کرتے رہنا جب تک‬
‫سفید پانی نکل آئے‪،،‬حسن کا حکم‬
‫سرانکھوں پر ‪،‬میں نے سر کو تھوڑا‬
‫جھکاتے ہوئے کہا‪،،‬میں اپنے تئیں خود‬
‫کو بہالنے میں کامیاب ہوچکا‬
‫تھا‪،‬لیکن خیاالت ہٹانے کی یہ طریقہ‬
‫بالکل غلط ہے الٹا خیاالت بڑی طاقت‬
‫سےحملہ کرتے ہیں‪،‬ان سے لڑو مت‬
‫‪،،‬ان کونظر انداز کرو‪،‬میرے اندر سے‬
‫مارشل آرٹ کے استاد کی آواز‬
‫گونجی‪،،‬اور میں نظر انداز ہی تو کر‬
‫رہا تھا‪،،،‬شہزادے ‪،،،‬ہوں کیا‪،،،‬کہاں گم‬
‫ہو‪،،‬نازیہ نے حیرانگی سے پوچھا‬
‫‪،‬میں مزے میں ڈوبا ہواتھا‪،،‬اوہ تو‬
‫مجھے ساتھ لے کہ ڈوبو نہ‪،،‬اکٹھے‬
‫مرتے ہیں ‪،،‬نازیہ انجانے میں پھر دل‬
‫کے تار چھیڑ گئی‪،،‬اسے نہیں پتا تھا‬
‫کہ میرے اندر تو پہلے ہی جنگ‬
‫چھڑی ہوئی ہے‪،،،‬ایسا نہیں کہ میں‬
‫اس سے محبت کرنےلگا تھا بس یہ‬
‫تھا کہ جوسلین کا جسمانی سحر اتر‬
‫رہا تھااور نازیہ کاجسم مجھے قابو‬
‫میں کررہا تھا‪،‬نازیہ میں تم سے‬
‫ضرور ضرور ملنے آؤں گا آخر مجھے‬
‫خود سے عہد کرنا پڑا‪،،‬جوسلین کی‬
‫اہمیت اپنی جگہ لیکن نازیہ کمال‬
‫تھی اور جوانی ‪،‬کنوارہ پن‪،‬جسمانی‬
‫خوبصورتی‪،‬کشش کا کوئی نعم البدل‬
‫نہیں تھااب کچھ دل کو سکون‬
‫تھا‪،‬میں نے پھر چدائی کی طرف‬
‫دھیان دیا‪،،‬مجھے پتہ ہی نہیں چال‬
‫اور ہم اکٹھے چدائی کررہے تھے یعنی‬
‫اگر میں باہر نکالتا تو وہ بھی کمر کے‬
‫زور پر پیچھے ہوتی اور میں اندر‬
‫داخل کرتا تو وہ بھی آگے ہوتی‪،،‬اس‬
‫طرح ایک ردھم بن گیا‪ ،،‬جیسے ساز‬
‫کی لے پر گا نے کے بول جمنے لگتے‬
‫ہیں‪،‬شہزادے ‪،‬بڑا مزہ آرہاہے نازیہ کی‬
‫آنکھیں بند تھیں‪،،‬اس کاایک دفعہ‬
‫پانی نکل چکا تھا اور میں تو‬
‫چوتھی دفعہ کررہا تھا اسلیے مجھے‬
‫کچھ وقت تو لگناہی تھا‪،،‬اب ٹھیک‬
‫تھا ‪،‬اب ہم دونوں کاپانی اکٹھا نکلنا‬
‫تھا‪،‬اور پہلے نازیہ کا نکلنا چاہیئے‬
‫تھا‪،،،‬میں نے اپنی کوشش جاری‬
‫رکھی‪،،‬تو نازیہ نے پہلے سے کسے‬
‫بازوؤں کا گھیرا اور تنگ کردیا‪،‬اور‬
‫میرے سینے میں اس کا سینہ کھب‬
‫گیا ‪،‬اس طرح گود میں کچھ آگے‬
‫بھی ہوگئی اور چوت عضو پر اچھی‬
‫طرح چڑھ گئی ‪،‬یہ وقت ہی ایسا‬
‫ہوتا ہے ‪،،‬ہمیشہ محسوسات میں‬
‫کچھ ایسا ہوتا ہےکہ دل کرتا ہے‬
‫بازووں میں کس لیاجائے اتنا کس لیا‬
‫جائے کہ مار ہی دیا جائے‪(،‬وصی شاہ‬
‫کا شعر ہے یہ)کچھ دیر ایسے ہی‬
‫بیٹھے رہنے کے بعد میں پیچھے کو‬
‫لیٹ گیا اور نازیہ میرے اوپر‬
‫آگی‪،،‬پھر میں نے اسے ساتھ لٹا لیا‪،‬ہم‬
‫کافی دیر ایکدوسرے کو محسوس‬
‫کرتے رہے‪،،‬پھر نازیہ اٹھی اس نے‬
‫نیچے سے چادر نکالی‪،،‬اسی ایک‬
‫چادر پر اب چاروں بہنوں کا خون لگا‬
‫ہوا تھا‪،،‬اس نے کناروں سے اپنا جسم‬
‫صاف کیااور پھرمیرا جسم بھی‬
‫صاف کیا‪،‬چادر کو ایک طرف رکھنے‬
‫کے بعد وہ پھر میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی‪،‬ہم کافی دیر باتیں کرتے رہے‬
‫‪،‬میرا دھیان گھڑی کی سوئیوں کی‬
‫طرف تھا‪،،‬تین بجنے والے تھے‪،،‬نازیہ‬
‫اب سونا چایئے ‪،‬کیا خیال ہے‪،،‬ٹھیک‬
‫ہے شہزادے جیسے تم کہو‪،،،‬نازیہ اٹھ‬
‫کر کپڑے پہننے لگی‪،،،‬کپڑے پہن کے‬
‫اس کا دھیان چادر کی طرف گیا‬
‫‪،،‬شہزادے پہلے میں اسے دھؤں‬
‫گی‪،،‬پھر سوؤں گی‪،،‬صبح امی کے‬
‫سامنے تو اسے دھونا بہت مشکل‬
‫ہوجائے گا‪،،‬ٹھیک ہے تم اسے دھو‬
‫لو‪،،‬میں نے اس کی مشکل سمجھتے‬
‫ہوئےکہا۔‬

‫وہ گئی ہی تھی‪،‬کہ رافعہ کے بستر‬


‫میں میں ہلچل ہوئی اور وہ اٹھ کے‬
‫میرے پاس آگئی‪،،‬شہزادے مجھے‬
‫نیند نہیں آرہی‪،،،‬رافعہ نے کہااور‬
‫میری رضائی اتار کے ایک طرف‬
‫کردی میں نے ابھی کپڑے نہیں پہنے‬
‫تھے‪،،‬میرا عضو دیکھ کر جیسے اس‬
‫کی آنکھیں چمکنے لگی‪،،‬میں سمجھ‬
‫گیا وہ کب سے ہمارے اٹھنے کی‬
‫منتظر تھی‪،،،‬رافعہ نے بدمست‬
‫جوانی میں آؤ دیکھا نہ تاؤاور میرے‬
‫عضو پر ایسے جھپٹی جیسے چیل‬
‫گوشت پر جھپٹتی ہے‪،،،‬کچھ ہی‬
‫لمحوں میں میرا عضو رافعہ کے منہ‬
‫میں تھا ‪،،‬اور رافعہ اسے چھچھوری‬
‫بلی کی طرح چاٹنے لگی‪،،،‬میں تھوڑا‬
‫اٹھ کے بیٹھ گیا‪،،‬کرنٹ لگے تو پھر‬
‫اٹھنا تو پڑتا ہے‪،‬رافعہ ااب اسے منہ‬
‫میں لو اور چوسو‪،،‬رافعہ کو رستہ‬
‫مل گیااور وہ قلفی کی طرح چوسنے‬
‫لگی‪،،،‬ایک دفعہ تو اس نے پورا منہ‬
‫میں لے لیا‪،،،‬رافعہ بدمست جوانی‬
‫تھی‪،،‬اور میں پہلے بھی اندازہ لگا‬
‫چکا تھا کہ اب اس کی اور مولوی‬
‫کی جنگ ہو ہی ہو‪،،‬اچھی طرح‬
‫چوسنے میں تو رافعہ کو مہارت‬
‫نہیں تھی لیکن اس کے اناڑی پن میں‬
‫کافی مزہ تھا کیونکہ اناڑی پن کی‬
‫کمی اس کا جوش پورا کر رہا تھا۔۔‬
‫کچھ ہی لمحوں میں عضو صاحب‬
‫بدمست ہوگئے اور پوچھا کہاں ہے‬
‫چوت‪،،،‬میں نے کہا یہ رافعہ آئی‬
‫ہے‪،،،‬اوہ‪،‬اسکو چودوں گا چودوں‬
‫گا‪،،،‬چلو اس کو چودتے ہیں میں نے‬
‫سوچ لیا کہ اس کےساتھ کیا کرنا‬
‫ہے‪،،،‬میں اٹھا ننگے جسم میں گرمی‬
‫بھری ہوئی تھی‪،،‬رافعہ کوپکڑا اور‬
‫اسے دیوارکے پاس جاکر ہاتھ اس کے‬
‫دیوار پر ٹکائےتھوڑی ٹانگیں پیچھے‬
‫کی اور گانڈ کو باہر نکاالاور چوت کو‬
‫پھانکیں کھول کے اس میں عضو ڈاال‬
‫اور دے دھکے پہ دھکا۔‬
‫میں اسے کہہ چکا تھا کہ رافعہ اگر‬
‫تمھاری چیخ نکلی تو ہم سب مارے‬
‫جائیں گے‪،،‬یقینًا رافعہ کے ہونٹ‬
‫بھنچے ہوئے تھے ‪،،‬کیونکہ اس وقت‬
‫میں غصے میں تھا ‪،،‬غصہ اندر تھا‬
‫اور نکال باہر رہا تھا‪،،،‬رافعہ کو ابھی‬
‫پتہ نہیں تھا کہ چوت کا ستنانا‬
‫سبھی ہوجاتا ہے ایسے شوق میں‪،،‬بہر‬
‫حال ا سکے پہلو سے پکڑے میں نے‬
‫شدت سے دھکے لگانے جاری‬
‫رکھے‪،،،‬چند بار تو وہ دیوار سے جا‬
‫لگی‪،،،‬میرے خیال میں کم از کم‬
‫پندرہ منٹ تونازیہ کو چادر دھونے‬
‫میں لگ ہی جانے تھے کیونکہ ا س پر‬
‫کافی خون لگا تھا اورکافی دیر سے‬
‫لگا تھا ‪ ،‬اتنے میں رافعہ کوفارغ کر‬
‫دینا تھا‪،‬اوہ ‪،،،‬اوہ مزہ آ گیا رافعہ نے‬
‫بمشکل کہا‪،،،‬مگر مجھے پتہ تھا وہ‬
‫خود کو چودکڑ ثابت کر رہی ہے‬
‫‪،‬جبکہ اس کی ہوا نکل رہی تھی‪،،‬اور‬
‫ساری شدت چوت سے نکل رہی‬
‫تھی‪،،،‬رافعہ ‪،‬کل کا دن ذرا چلنے‬
‫پھرنے میں مشکل ہوگی بس‪ ،‬لیکن‬
‫تمھیں ایسا مزہ آئے گا کہ پھر اس‬
‫مزے کیلیے تڑپو گی ۔رفتار اور اور‬
‫طاقتور دھکا ‪،،‬تال میل سے ہوتی‬
‫چودائی‪،،،‬اب رافعہ نے ایک ہاتھ‬
‫دیوار سے ہٹا کر منہ پر رکھ لیا اس‬
‫سے ایک تو یہ ثابت ہو گیا کہ اس‬
‫سے چیخیں روکی نہیں جارہی تھیں‬
‫اور دوسرا اس کے دیوار کا سہارا‬
‫کمزور ہوگیا تھا‪،،،‬جو میرا ہاتھ اس‬
‫کے پہلو پر تھا وہ میں نےآگے کر کے‬
‫اس کے پیٹ کے گرد رکھ دیااور اسے‬
‫سہارا دیا ‪،،‬کیونکہ اس دوران وہ دو‬
‫بار دیوار کی طرف پریس ہوچکی‬
‫تھی اور بمشکل بچی تھی‪،،‬کیوں‬
‫کیسا لگا رافعہ ڈارلنگ ‪،، ،‬مزہ آرہا ہیے‬
‫نہ ؟‬

‫رافعہ نے سر ہال کر بتایا کے اسے‪،،‬‬


‫مزہ آرہا ہے‪،،،‬درد بھرا مزہ‪،،‬میں نے‬
‫رفتاربڑھا دی‪،،‬مجھے پتہ تھا اس‬
‫میں زبردست رگڑ لگ رہی ہے‪،،،‬اور‬
‫جلد پانی آنا متوقع ہے‪،،‬رافعہ درد تو‬
‫سہہ رہی تھی لیکن اس سے درد‬
‫بھری آہیں نہیں روکی جارہی‬
‫تھی‪،،‬اچانک اس نے مجھے روکے بناء‬
‫دوسرا ہاتھ بھی اپنے منہ پر رکھ‬
‫لیا‪،‬جیسے چیخیں زبردستی باہر‬
‫نکلنے کوبے تاب ہیں‪،،‬ادھر میرا دھکا‬
‫لگا اور اس کا پیٹ دیوار کی طرف‬
‫گیا ‪،‬لیکن میں نے اسے روک لیا نہیں‬
‫تو اس نےدیوار کےساتھ پریس‬
‫ہوجانا تھا‪،،‬تم کہو تو میں روک دوں‬
‫میں نے شرارت سے پوچھا‪،،‬ڈھیٹ‬
‫رافعہ نے نہ میں سر ہالیا میں نے‬
‫بھی کب رکنا تھا اور چڑھائی جاری‬
‫رکھی‪،،،‬اب اس کی روکنے کے باوجود‬
‫چیخیں نکلنے لگی لیکن بس اتنی‬
‫جیسے کوئی کراہ رہا ہو‪،‬رافعہ ڈارلنگ‬
‫چیخ نہ نکلے نہیں توا با آجائے گا‬
‫میں نے پھر سرگوشی کی‪،،،‬اور رافعہ‬
‫نے سر ہال دیا‪،،،‬میرے حساب سے اس‬
‫کا پانی نکلنے ہی واال تھا‪،،‬تقریبًا‬
‫پندرہ منٹ میں اس کا بھرتا بن گیا‬
‫تھا‪،،‬اسے اگر یہ پتہ ہوتا کہ میں کون‬
‫ہوں اور میری استاد کیا ہے تو وہ‬
‫مجھے چدائی کا اتنا اشتیاق کبھی‬
‫نہ دکھاتی‪،،،‬دے تیرے‬
‫کی‪،،،‬اور‪،،،،،،،،‬رافعہ کی بس ہوگئی‬
‫‪،،‬میں تو پہلے ہی ہوشیار تھا‪،،،‬اور‬
‫اس کی کمر اپنے سینے سے لگا لی‬
‫تھی‪،،‬جیسے ہی وہ گھٹی گھٹی آواز‬
‫میں چیخی میں سمجھ گیا کہ اب‬
‫اس سے چیخ روکی نہیں جائے گی‬
‫اور میں نے بروقت اس کے منہ پر‬
‫ہاتھ رکھ دیا کیونکہ درد کے جھٹکے‬
‫نے اس کے ہاتھ گرا دیئے‬
‫تھے‪،،،‬خیریت گزری اور ایک سیکنڈ‬
‫کے فرق سے ہم بچ گئے ‪،‬میں نے تو‬
‫نکل جاناتھا‪،،‬مگر لڑکیاں قتل ہوجانی‬
‫تھی‪،،‬میں نے اب بھی دھکے لگانے‬
‫جاری رکھے اب اس کی کمر میرے‬
‫سینے سے لگی تھی اس لیے اسٹائل‬
‫ذرا تبدیل ہوگیا تھا کیونکہ دھکا اندر‬
‫پورا نہیں جارہا تھا۔۔۔‬

‫لیکن ‪،،،،،،،،،،،‬رافعہ ناں میں بمشکل‬


‫سر ہال رہی تھی‪،،‬اس کا منہ تو میری‬
‫پکڑ میں تھا‪،،‬اس کی بس ہوگئی‬
‫تھی ‪،،‬اور اسکا پانی بھی نکل گیا تھا‬
‫لیکن میں نے دھکا زور سے لگایا ‪،،‬اور‬
‫پھر لگایا ‪،،‬پھر لگایا ‪،،،‬اور لگاتا‬
‫گیا‪،،‬میرے ہاتھوں پر نمی سی‬
‫محسوس ہوئی‪،،‬رافعہ رو رہی‬
‫تھی‪،،،‬بس میرا کام بھی ہونے واال‬
‫تھا‪،،‬مجھے سنسناہٹ سی محسوس‬
‫ہوئی تو میں نے آخری دھکا لگایااور‬
‫رافعہ کی چوت میں پانی چھوڑ‬
‫دیا‪،،،،‬آخری دھکے کچھ کم تھے‬
‫کیونکہ اس کے پانی رگڑکم ہوگئی‬
‫تھی‪،،،‬کچھ دیرمیں اسی طرح اندر‬
‫ڈالے کھڑا رہا ‪،،‬رافعہ کاجسم کانپ‬
‫رہاتھا ‪،،‬پھر میں علیحدہ ہوگیا اور‬
‫اس کے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے اس‬
‫کے سامنے آگیا‪،،‬اور رافعہ کوگلے‬
‫لگالیا‪،،،‬کچھ دیر اسے ہاتھ وغیرہ‬
‫پھیرا‪،،،،‬جب مجھے یقین ہوگیا کہ‬
‫اب چیخیں نہیں نکلیں گی ‪،‬میں نے‬
‫ہاتھ ہٹا لیا‪،،،‬اب خوش ہو رافعہ ‪،‬میں‬
‫نے اس کے کان میں پوچھا‪،،،،،‬ڈھیٹ‬
‫رافعہ نے سرہال دیا‪،،‬ہاں بہت خوش‬
‫ہوں بڑی مشکل سے اس کی آواز‬
‫نکلی‪،،‬میں دل ہی دل میں ہنس‬
‫پڑا‪،،‬اب تم آرام کرو‪،،‬میں نے اس کے‬
‫پہلو سے پکڑ کر ساتھ لگایااور‬
‫چالتاہوا اس کے بستر تک الیااور‬
‫اورآہستگی سے اسے لٹا دیا‪،،‬اس کے‬
‫ہونٹوں پر آخری چومی لی‪،،‬بہت‬
‫ظالم ہو‪،،‬رافعہ کہے بناءرہ نہ‬
‫سکی‪،،‬آرام کرو باقی مزہ کل لیں‬
‫گے‪،،‬میں نے اسے دہالیا‪،‬چودائی کی‬
‫پہلی عمر کو سالم ‪ 16،،،،،،‬برس کی‬
‫بالی عمر کو سالم‪،،‬اب بالی عمر‬
‫سنجیدہ ہوجائے گی اور اپنی چوت‬
‫کا خیال رکھے گی‪،‬کل رات تک اسے‬
‫آرام آجائے گا‪،،،‬یہ تھا وہ ہنر جو میں‬
‫نے سیکھا تھا‪،‬اور جانے کیا کچھ‬
‫سیکھا تھا‪،،،،،،‬اب میں بھی کپڑے‬
‫پہننے لگا‪،،،‬اتنے میں نازیہ آگئی‪،،‬چادر‬
‫اسکے ہاتھ میں تھی اور اس سے‬
‫پانی ٹپک رہا تھا‪،،،‬سردی کی وجہ‬
‫سے چادر اس سے نچوڑی نہیں گئی‬
‫تھی‪،،،‬میں نے اس کے ہاتھ سے چادر‬
‫لیکر کمرے میں پیچھے گیا‪،،‬اور چادر‬
‫کو مڑوڑ ا دے کر نچوڑنے لگا‪ ،،،‬اچھی‬
‫طرھ نچوڑنے کے بعد میں نے چادر‬
‫نازیہ کوتھما دی‪،،،‬اس نے اسے جستی‬
‫پیٹی پر پھیال دیا‪،،،‬نازیہ نے کپڑوں‬
‫پر سردی سے بچنے کیلی کچھ نہیں‬
‫پہنا تھا‪،،‬اسے سردی لگ رہی‬
‫تھی‪،،‬بلکہ وہ کپکپا رہی تھی‪،‬میں تو‬
‫کپڑے پہن چکا تھا‪،‬میں نے اسے‬
‫ساتھ ہی لپٹا لیا‪،،‬اور رضائی اوپر لے‬
‫لی‪،،‬نازیہ کی سردی کم ہونے‬
‫لگی‪،،‬اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے‬
‫پیچھے کیاطوفان گزر چکا تھا ‪،‬میں‬
‫نازیہ کے بالوں میں انگلیاں پھرنے‬
‫لگا‪،‬اسکا سینہ میرے سینے پر پڑا تھا‬
‫اور میں دیوار کی طرف ٹیک لگا کر‬
‫لیٹا تھااور میرے اوپرلیٹی تھی‬
‫ہمارے چہرے آمنے سامنے تھے‪،،‬ہم‬
‫دھیمے دھیمے پیار بھری باتیں کرنے‬
‫لگے‪،،‬ساڑھے چار بج گئے‪،،،‬نازیہ تم‬
‫سے ایک ضروری بات کرنی ہے‪،،‬میں‬
‫سنجیدہ ہوگیا۔‬

‫کیا بات کرنی ہے نازیہ میرے لہجے‬


‫پر چونکتے ہوئےپوچھا‪،‬میں نے تمھیں‬
‫بتایا تھا کہ میرا ایک دوست ہے یہاں‬
‫الہور میں ‪،‬جو میرا کالس فیلو بھی‬
‫رہا ہے‪،،‬ہاں تم اس سے ملنے کیلیے ہی‬
‫تو الہور آئے تھے‪،‬نازیہ کویاد تھا‪،،،‬ہاں‬
‫وہی دوست ‪،،‬وہ صبح صبح جوکنگ‬
‫کرنے کا شوقین ہے‪،،،‬میں سوچ رہا‬
‫ہوں کی اس وقت اس کی کیا‬
‫نگرانی ہوگی‪،،‬ایک موقع لے لینا‬
‫چاہیئے اور جوکنگ کرتے وقت اس‬
‫سے ملنے کی کوشش کرلینی چاہیے‪،،‬‬
‫کیا خیال ہے تمھارا ؟ہاں ٹھیک ہے تم‬
‫اس سے ملو اسوقت‪،‬کوئی پتہ نہیں‬
‫مالقات ہو ہی جائے‪،‬تو ٹھیک ہے میں‬
‫ابھی کچھ دیر بعد نکل جاتاہوں‪،‬اگر‬
‫تو وہ مجھے مل گیا تو میں اس کے‬
‫پاس ہی ٹھہر جاؤں گا‪،‬اور اپنے چچا‬
‫سے لندن میں رابطہ کرنے کی‬
‫کوشش کروں‪،‬اور اگر وہ نہ مال تو‬
‫میں واپس آجاؤں گا‪،‬ہاں ٹھیک‬
‫ہے‪،‬نازیہ آہستگی سے کہا‪،،،‬مجھے پتہ‬
‫تھا اس نے اداس ہونا ہی تھا‪،،‬پر نہ‬
‫بتا کرجانے سے اچھا تھاکہ میں بتا‬
‫کرجاؤں‪،‬نازیہ چچاسے ملنے کے بعد‬
‫جب یہاں حاالت ٹھیک ہوجائیں گے‬
‫میں تم لوگوں سے رابطہ کروں گا‪،‬یا‬
‫ہوسکتا ہے پہلے ہی رابطہ کر‬
‫لوں‪،،‬شہزادے کیا ایسے نہیں ہوسکتا‬
‫کہ تم کل تک رک جاؤ‪،،‬نازیہ نے میرے‬
‫سینے پر سر رکھتے ہوئے‬
‫کہا‪،،،‬اسطرح وہ اپنے آنسو چھپارہی‬
‫تھی‪،،‬نازو میری جان‪،،‬دشمنوں کا‬
‫کوئی پتہ نہیں وہ بہت طاقتور ہیں‬
‫‪،‬اور ان کے پاس بہت سے بندے بھی‬
‫ہیں‪،‬وہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے یہاں‬
‫بھی پہنچ سکتے ہیں‪،،،‬مجھے اپنی‬
‫فکر نہیں لیکن تمھارے ابا اور‬
‫امی‪،،‬اور خاص کر تم بہنوں سے‬
‫انہوں نے اچھا سلوک نہیں کرنا‪،،‬اب‬
‫تم جیسے کہو میں کر لوں گا‪،،‬کل تک‬
‫رکنا ہے خطرناک‪،،‬بلکہ ایک ایک لمحہ‬
‫خطرناک ہے‪،،‬ٹھیک ہے تم آج ہی چلے‬
‫جاؤ۔وقت ضائع نہیں کرنا‬
‫چاہیئے‪،،‬نازیہ نے اداسی اور بےچارگی‬
‫سے کہا‪،‬مجھے اندازہ ہوگیا کہ وہ‬
‫مجبورًا جانےکو کہہ رہی ہے‪،،‬لیکن تم‬
‫ایک وعدہ کرو اگر تمھارے دوست‬
‫سے مالقات نہ ہوسکی تو واپس‬
‫یہیں آجانا‪،،‬لو کرلو بات ‪،،‬یہ بھی‬
‫کوئی کہنےکی بات ہے‪،،‬ٹھیک ہے‬
‫شہزادے ‪،،‬خداکرے تمھاری مشکل‬
‫آسان ہوجائے‪،،‬نازیہ نے پھر اپنا چہرہ‬
‫میرے سینے میں چھپا لیا‪ ،،‬ہم کچھ‬
‫دیر بعد اٹھے میں نے جوگرز‬
‫پہنے‪،،‬جیکٹ پہنی‪،،‬اور جانے کیلیے‬
‫تیار ہوگیا‪،،‬ایک بات اور نازیہ‪،،،‬اگر‬
‫تمھیں یا تمھاری کسی بہن کو اس‬
‫دفعہ ماہواری نہ آئے تو پریشان نہ‬
‫ہونا‪،،‬اور فوری طور پر مجھ سے‬
‫رابطہ کرنا‪،،‬رابطہ کیسے کرنا‬
‫ہے‪،،‬نازیہ میری بات سمجھتے ہوئے‬
‫پریشانی سے کہا‪،،،‬میں تمھیں ایک‬
‫فون نمبر لکھ دیتا ہوں ‪،،‬اس پر تم‬
‫مجھ سےرابطہ کرسکو گی‪،،‬باقی‬
‫میں سنبھال لوں گا‪،،‬لیکن اگر تم‬
‫لندن چلےگئےتو کیاہو گا ہمارا؟ نازیہ‬
‫پریشان ہوگئی تھی‪،،‬نہیں میں لندن‬
‫نہیں جاؤں گا۔‬

‫میں نے ایک کاغذ پر نمبر لکھتے ہوئے‬


‫کہا جو ابھی نازیہ نے مجھے پکڑایا‬
‫تھا ‪،،،،‬میں چچا کو یہیں بلواؤں‬
‫گا‪،،‬اور آدمی اکٹھے کر کےاپنے‬
‫سوتیلے چچا سے اپنی جائیداد لوں‬
‫گا‪،‬تم بےفکر ہوجاؤ بس رابطہ کرنے‬
‫کی دیر ہے پھردیکھنا میں کیسے‬
‫پہنچتاہوں۔۔ٹھیک ہے نازیہ نے اداسی‬
‫اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت‬
‫میں کہا‪،‬میں نے نازیہ کو گلےلگایا اور‬
‫اس کیاایک طویل کس لی‪،،‬اور‬
‫دروازے سے باہر نکال‪،،‬ایسا منظر ایک‬
‫دفعہ میری زندگی سے پہلے بھی‬
‫گزرچکا تھا جب میں سحرش سے‬
‫رخصت ہوا تھا لیکن پھر میں پلٹ‬
‫کر اس کے پاس نہیں گیا‪،،‬ہاں جب‬
‫میں نگینہ کا پتہ کرنے وہاں گیا تو‬
‫سحرش کے گھربھی گیاتھا تو پتہ‬
‫چال تھا اس کی اس کی شادی‬
‫ہوگئی تھی اور میں نے اندازہ لگایا‬
‫کہ چودائی ملنے کے بعد بہت خوش‬
‫ہوگی‪،‬لیکن اب میں نازیہ سے ملنے‬
‫کیلیے واپس آناچاہتاتھا‪،‬باہر نکال تو‬
‫نازیہ دروازے میں کھڑی‬
‫ہوگئی‪،،،‬شہزادے اس نے مجھے آواز‬
‫دی‪،،‬میں نے مڑ کردیکھا تو بھاگتی‬
‫ہوئی آئی اور میرے سینے سے لگ‬
‫گئی‪،،‬سنسان گلی میں اندھیرا‬
‫تھا‪،‬لیکن اس کی تڑپ اور گلی میں‬
‫آنا کوئی عام بات نہیں تھی‪،،‬پھر‬
‫بھی میں نے اسے علیحدہ کیا‪،‬نازیہ‬
‫ایسے مت کرو نہیں تو میں جانہیں‬
‫سکوں گا‪،،‬نازیہ نے چپ چاپ میری‬
‫ایک ُچ می لے کے دروازے میں جاکر‬
‫کھڑی ہوگئی اور میں چلتا ہوا گلی‬
‫سے نکل گیا‪،،‬مجھے یقین تھا جب‬
‫تک میں مڑ نہیں گیا تھاوہ مجھے‬
‫دیکھتی رہی تھی‪،‬میں روڈ پر آکر‬
‫میں جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ‬
‫دیکر پیدل ہی چلنے لگا‪،،‬کسی سواری‬
‫کاانتطار فضول تھا‪،،‬دس منٹ بعد‬
‫مجھےایک آٹو رکشہ نظر آیا ‪،،‬میں نے‬
‫اسے ہاتھ دیا تو وہ رک گیا‪،،‬فلیٹ کا‬
‫ایڈریس بتا کہ میں اس میں بیٹھ‬
‫گیا‪،،‬اب مجھے پیسوں کی پرواہ‬
‫نہیں تھی‪،‬کرایہ گھر پہنچ کے‬
‫جوسلین دے دی گی‪،،‬میں نے آنکھیں‬
‫بند کر کے پیچھے ٹکا لی‪،،‬اور نازیہ‬
‫کاسراپا میری آنکھوں کے سامنے‬
‫آگیا‪،،‬گھبرا کے میں نے آنکھیں کھول‬
‫‪،‬دی‬
‫سبب جو ڈھونڈو گے‪--‬تو عمریں بیت‬
‫جائیں گی‬
‫کہا نہ ‪---‬یاد آتے ہو ‪--‬تو بس یاد آتے‬
‫ہو‬
‫مزیدار سیکس ی کہانیوں اور ہر‬
‫قسم کی سیکس ی ویڈ یو گروپ‬
‫میں شامل ہونے کےلیے رابطہ کریں ۔‬
‫‪03147615013‬‬
‫ایک گروپ ‪ 500‬روپے‬
‫دو گروپ ‪ 800‬روپے‬
‫تین گروپ ‪ 1000‬روپے‬
‫اپنی مرضی بتا دیا کرو ویڈیو گروپ‬
‫ہو یا سٹوری واال ہو۔‬
‫یہ فیس صرف آپکو ایک بار دینی‬
‫پڑے گی‬ ‫✅‬
‫گروپ میں ڈیلی کی ‪ 200‬سے زیادہ‬
‫ویڈیو اور سٹوری گروپ میں ‪200‬‬
‫سے زیادہ کہانیاں ملے گی۔‬
‫فری ٹرائل ایک منٹ بھی پہلے ایڈ‬
‫نہیں کرو گا۔‬
‫اس کے عالوہ جس کو گروپ میں‬
‫ایڈ نہیں ہونا اور پرسنل میں ویڈیو‬
‫لینے ہیں تو میگا ویڈیو لنکس مل‬
‫جائے گی۔ اور سٹوری بھی مل جائے‬
‫گی۔‬
‫نوٹ ‪ :‬فیس صرف اور صرف ایزی‬
‫پیسہ یا جیز کیش پر ادا کی جاتی‬
‫ہے‬ ‫✅✅‬
‫بیلس پر گروپ فیس‪ 500‬والے کی‬
‫‪ 550‬روپے فیس لگے گی۔‬
‫دو گروپ کی بیلس فیس ‪ 870‬روپے‬
‫لگے گی۔‬
‫تین گروپ کی ‪ 1100‬روپے فیس‬
‫لگے گی۔‬
‫‪Bahzad king‬‬
‫‪03061915013‬‬
‫‪03127840311‬‬

‫🐍‬
‫‪03147615013‬‬
‫ناگن‬
‫‪Update_11‬‬

‫میں خود کو جوسلین کے خیالوں‬


‫سے بہالنے لگا‪،،‬جوسلین میرا نتظار‬
‫کررہی ہوگی‪،‬ہوسکتا ہے جیسے ہی‬
‫آٹورکشہ فلیٹ کے دروازے پر رکے وہ‬
‫باہر نکل آئے‪،،‬وہ مجھے پوچھے گی‬
‫سوراخ کب اور کیسے مال‪،،‬یقنًا ا سے‬
‫دیوار کے سوراخ کاپتہ ہوگا‪،،،‬اور اس‬
‫سوراخ میں ہی وہ سبق لکھا ہےجو‬
‫مجھے ساری عمر یاد رہے گا‪،،،،‬وہی‬
‫‪،،‬ہوا‬
‫جیسے ہی آٹو رکشہ فلیٹ کے سامنے‬
‫رکا‪،،‬فلیٹ کادروازہ کھالاور جوسلین‬
‫باہر نظر آئی‪،،‬اسنے چپ چاپ رکشے‬
‫والے کوکرایہ ادا کیا‪،،‬اور میرا ہاتھ‬
‫پکڑ کر مجھے اندر لے آئی‪،،‬اندر آتے‬
‫ہی اس نے دروازہ بند کیااور میرے‬
‫گلے لگ گئی‪،،‬میں نے بھی اس کے‬
‫گرد بازوؤں کا گھیراڈال دیا‪،‬ہم نے‬
‫ایک طویل کس لی‪،،‬اور پھر بیڈروم‬
‫میں آگئے‪،،‬نہالو‪،‬اس نے کہااور میں‬
‫باتھ روم میں جاگھسا‪،،‬گرم پانی‬
‫سےاچھی طرح جی بھر کے نہایا‬
‫‪،،‬میں روز نہانےکا عادی تھا لیکن‬
‫ایکدن نہیں نہایا تھا ‪،‬اب طبیعت‬
‫کوسکون آگیا‪،‬نہاکے نکال تو جوسلین‬
‫نے میرے پاجامہ اور ٹی شرٹ نکال‬
‫دی تھی‪،،‬وہ پہن کر میں ایزی فیل‬
‫ہوگیا‪،‬جوسلین میرے ساتھ لیٹ‬
‫گئی‪،،‬دودھ دھی واال مل گیا تھا‪،،‬ایں‬
‫‪،،‬میں نے کہا کہ دودھ دھی واال مل‬
‫گیا تھا ‪،‬جوسلین نے دوبارہ پوچھا‬
‫‪،،،‬ہاں مل گیا تھا‪،،‬اور بس میں کرائے‬
‫کیلیے کیاکہا تھا ؟اسٹوڈنٹ ؟‬
‫جوسلین نے اگال سوال کیا‪،،‬ہاں یہی‬
‫کہا تھا میں نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا‪،،،‬اور اگر تم بھاگ کے نہ جاتےتو‬
‫مولوی دروازے میں داخل ہوتے ہوئے‬
‫نہیں ملنا تھا اس طرح سنہری موقع‬
‫تم نےضائع کردیناتھاجو کہ تم نے‬
‫نہیں کیا‪،،،‬تو‪،‬جوسلین رک گئی‪،،،،،‬تو‬
‫کیا ؟ میں نے پوچھا‪،،،،‬تو پھر سارے‬
‫حربے آزما کہ کب پتہ چال کہ یہ‬
‫لڑکیاں نہیں پھنسے گی‪،،،‬اسی دن‬
‫رات کو‪،،،،‬جب ان کے ساتھ کمرے‬
‫میں سوئے تھے‪،،‬جوسلین شرارت سے‬
‫مسکرائی‪،،‬ہاں میں نے مختصر جواب‬
‫دیا‪،،،‬اور ۔۔۔۔۔دیوار میں سوراخ کا کب‬
‫پتہ چال‪،،‬اگلے دن شام کو‪،،،‬میں نے‬
‫اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے‬
‫بتایا‪،،،‬میرے پرنس تم کامیاب‬
‫ہوگئے‪،،‬اب تمھاری خوہش کے مطابق‬
‫کل سے اگال پروگرام شروع ہو جائے‬
‫گا‪،،‬تو تم سمجھ گئے ہوگے کہ ہر‬
‫شخص ساری دنیا سے بچا کہ بلکہ‬
‫اپنے آپ سے بھی بچا کے اپنی دھلی‬
‫دھالئی زندگی میں ایک سوراخ بناتا‬
‫ہے ‪،،،‬جس سے وہ سیکس کا مزہ‬
‫حاصل کرتا ہے ‪،،،‬بڑے بڑے شریف‬
‫لوگ ‪،،،،،،‬بڑی بڑی پگڑیوں والے ‪،،،،‬‬
‫بڑی بڑی ڈگریوں والے ‪،‬امیر اور‬
‫غریب لوگوں کو تم انہیں اس‬
‫سوراخ کے بغیر کبھی بھی جان نہیں‬
‫سکو گے‪،،،،‬ہاں یہ بات میں آج صبح‬
‫تمھاری طرف آتے ہوئے سمجھ گیا‬
‫تھا‪ (،،،‬پھر ساری زندگی میرا یہ‬
‫اصول بن گیا کہ سب سے پہلے اس‬
‫کی زندگی میں وہ سوراخ ڈھونڈا‬
‫جائے جو اس نے ساری دنیا سے چھپا‬
‫کربنایا ہوا ہے‪،‬ٹھیک ایسے ہی جیسے‬
‫کمرے میں رکھا کمپیوٹر بذریعہ‬
‫انٹرنیٹ اور موبائل آج کے دو بڑے‬
‫سوراخ ہیں‪)،،‬پرنس ایک بات اور‬
‫ہوجائے‪،،،‬جوسلین کچھ سنجیدہ‬
‫تھی‪،،،،‬کیا‪،‬میں اس کی سنجیدگی‬
‫دیکھ کر سمجھ گیا کوئی بہت‬
‫خاص بات ہے‪،،‬تم نےاپنی ٹیچر پر‬
‫بڑی ٹرائی کی‪،،،،،‬جو مجھ سے‬
‫سیکھا وہ اس پر آزمایا‪،،‬لیکن اسے‬
‫حاصل نہ کرسکے‪،،‬میری دل کی‬
‫دھڑکن تیز ہوگئی‪،،‬آج یہ بات بھی‬
‫دل پرلکھ لو کہ کسی بھی لڑکی کو‬
‫اس کی مرضی کے بغیر تم کبھی‬
‫حاصل نہیں کرسکتے‪،،،‬چاہے وہ‬
‫تمھاری کشش کی شکار تمھیں چاہنے‬
‫لگے‪،،‬چاہے تم اس کو اعضاءکو جتنا‬
‫مرضی چھیڑو‪،،‬چاہے وہ دل سے کرنا‬
‫بھی چاہتی ہو‪،،‬چاہے وہ تمھارے‬
‫ساتھ تنہا بھی ہو‪،،‬تم اسے کبھی‬
‫نہیں پاسکتے جب تک وہ خود نہ‬
‫چاہے‪،،،‬تم ‪،،،،،‬کسی ‪،،،،،‬لڑکی ‪،،،،‬کو‬
‫‪،،،،،،،‬اس ‪،،،،‬کی‪،،،،،،‬مرضی‪،،،،‬کے‬
‫‪،،،،،‬بغیر‬
‫‪،،،،،‬کبھی‪،،،،،‬حاصل‪،،،،،،‬نہیں‪،،،،،‬کر‪،،،‬س‪،‬‬
‫یریکتے‪،،،‬م رچیٹ ہو‪،،،‬ےئگ ھج مس‪،،،‬سم جھ گئے‪،،،‬وہ ٹیچر م‬
‫شاگرد تھی اور ذہین شاگرد‬
‫تھی‪،،،‬مجھے پتہ تھا تمھارے منہ‬
‫کوسیکس کا ذائقہ لگاہے اس کی‬
‫جوانی اور حسن دیکھ کر تم اس‬
‫سے چودائی کرنا چاہوگے مگر چار‬
‫‪،،،،‬سال‪،،،‬میں تم اسے حاصل نہ‬
‫کرسکے‪،،،‬چار سال کافی ہوتے ہیں‬
‫میں نے جوسلین کی بات سمجھتے‬
‫ہوئے کہا‪،،،‬یہ بھی غنیمت ہے کہ تم‬
‫نے کبھی ادھر ادھر ٹرائی نہیں‬
‫کی‪،،‬ویسے بھی ان چار سالوں میں‬
‫تمھارے پاس اتنا وقت نہیں‬
‫تھا‪،،‬لیکن اب تمھارا داخلہ میں نے‬
‫‪،،،،،،‬یونیورسٹی میں کروا دیا‬
‫ہے‪،،،‬سمجھانے کی ضرورت نہیں ‪،‬تم‬
‫سمجھتے ہوگے‪،،،‬میرے جذبات کا‬
‫خیال رکھنا‪،،،،‬تمھارا جو ٹیسٹ میں‬
‫نے لیا ہے وہ بھی کچھ سوچ کر لیاہے‬
‫ایک تو تم نے اس طرف کبھی‬
‫سوچنا نہیں تھا دوسری طرف تمھیں‬
‫ان کے بارے کچھ جانتے نہیں تھے‬
‫‪،،،‬اور تیسری طرف وہ سوراخ کے‬
‫بغیر حاصل نہیں ہوسکتی تھیں‬
‫‪،،،‬اور میں چاہتی تھی کہ تم یہ‬
‫سوراخ ڈھونڈو ‪،،،‬لیکن وہ صرف ایک‬
‫ٹیسٹ تھا ‪،،،‬اور اب نازیہ کا خیال‬
‫دل سے نکال دینا‪،،،‬مجھے جھٹکے پر‬
‫جھٹکے لگ رہے تھے‪،،،‬تم نے کہا تھا‬
‫تمھیں لڑکیوں کو سمجھنے اور‬
‫گھیرنے میں ماسٹر بنا دوں اور میں‬
‫نے تمھیں چار سالوں میں دو کلیے‬
‫بتا دیئے ہیں(اس سلسلے میں سب‬
‫کچھ سکھا کہ پھر یہ دو کلیے‬
‫بتائے‪،،‬شاید ہی کوئی ہو جو وہ سب‬
‫سیکھے بغیر ان دو کلیوں کی اہمیت‬
‫سمجھ سکے‪،،،)،،‬اب تم اس میں‬
‫استاد ہو‪،،‬تم ساری رات کے جاگے‬
‫ہوئے ہو‪،،‬بہتر ہے اب تم آرام کرو‪،،،‬تم‬
‫نے کشتہ مروارید بھی نہیں لیا‪،‬چار‬
‫سالوں میں یہ تمھارا پہال ناغہ‬
‫ہے‪،،‬آئندہ خیال رکھنا‪،،،‬میں ناشتہ‬
‫بنانے لگی ہوں ‪،،،‬ناشتہ کر کے‬
‫سونا‪،،‬اوکے جوسلین میری‬
‫جان‪،،،،،‬جوسلین مسکراتے ہوئے ‪،‬کچن‬
‫میں چلی گئی‪،،،‬اسے تو ٹیچر کا بھی‬
‫پتہ تھا‪،،،‬نازیہ کا بھی پتہ ہے‪،،‬یہ بھی‬
‫نہیں پوچھ سکا کے اسے اس دیوار‬
‫کے سوراخ کاکیسے پتہ چال‪،،،‬اور میں‬
‫نے تو ارادہ کیا تھا کہ اب اس سے‬
‫نگینہ والی بات کروں گا اور جوسلین‬
‫کی دولت اور اختیارات کے ذریعے‬
‫نگینہ کوڈھونڈ کر دآلویز کوپھنسا کر‬
‫چودوں گا ‪،،‬اور اپنا انتقام پورا کروں‬
‫گا‪،،‬لیکن یہاں تو یہ بھی ہوتا نظر‬
‫نہیں آرہا‪،،،‬ظاہر ہے وہ دآلویز کو‬
‫کیسے برداشت کرے گی‪،،‬ٹیسٹ میں‬
‫تو کرلیا تھا‪،،‬دل نے سوال‬
‫کیا‪،،،‬استادی شاگردی میں وہ ایک‬
‫امتحان تھا‪،،‬جو بات اس نے‬
‫سمجھائی ہے وہ میں ساری زندگی‬
‫نہیں سمجھ سکتا تھا‪،،‬تمھاری‬
‫نگرانی بھی تو کرواتی ہے‪،،‬خود ہی‬
‫تو کہ رہی تھی کہ چار سالوں میں‬
‫ادھر ادھر کہیں منہ نہیں مارا‪،،،‬فی‬
‫الحال خاموشی ہی بہتر تھی‪،،‬کیونکہ‬
‫وہ میری استاد تھی۔انہیں خیالوں‬
‫میں تھا کہ جوسلین ناشتہ لے آئی ۔‬
‫ناشتہ کر کے میں سو گیا‪،،‬اگلے دن‬
‫سہہ پہر کا اٹھا ‪،،،‬جوسلین آچکی‬
‫تھی‪،،‬اور کھانا بنا رہی تھی‪،،‬میں نے‬
‫جا کر اسے پیچھے سے ہی گلے لگا‬
‫لیا‪،،،‬اور اسے چومنے لگا‪،،،‬جوسلین نے‬
‫میری محبت کا بھرپور جواب‬
‫دیا‪،،‬میں نے پاجامہ نیچے کیا‪،،‬تو‬
‫جوسلین نے مسکراتے ہوئے چولہا‬
‫بندکیا‪،،‬ا س نے پروقار میکسی پہنی‬
‫ہوئی تھی ‪،،‬میں نے اسے اوپر‬
‫کیا‪،‬میں جانتا تھا جوسلین گھر میں‬
‫ہو تو نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی‬
‫‪،،،‬جوسلین نے کمر ٹکا کر ایک ٹانگ‬
‫کھول لی اور میں نے اس کی چوت‬
‫میں عضو داخل کر دیا‪ ،،‬دو دن تم‬
‫نہیں ملے تو براحال ہوگیا تھا‪،،،‬میرا‬
‫تو دل کرتا تھا کہ جیسے ہی تم آئے‬
‫ہم چودائی کریں گے‪،،‬لیکن تم کافی‬
‫تھکے ہوئے تھے‪،،‬اسلیے میں نے دل‬
‫پرپتھر رکھ لیا‪،‬جوسلین فراق کی‬
‫باتیں کرہی تھی جبکہ اب وصال تھا‬
‫اور میں نے اس کا دھیان وصال کی‬
‫طرف لگایا تو وہ سب بھول‬
‫گئی‪،،،‬پندرہ منٹ بعد ہم فارغ‬
‫ہوگئے‪،،،‬اب جوسلین نے نہانا ضرور‬
‫تھا ‪،،‬بلکہ مجھے بھی نہانا پڑنا‬
‫تھا‪،،،‬بڑی نفیس طیعت تھی اس‬
‫کی‪،،‬نہا کہ کھانا کھا کہ کافی لیکر ہم‬
‫ڈرائنگ روم میں آبیٹھے ‪،،،‬اب بتا‬
‫بھی دو‪،‬کیا‪،،‬جوسلین نے پوچھا‬
‫‪،،‬میں نے اس کی طرف دیکھنا جاری‬
‫رکھا‪،،،‬تمھارا مطلب ہے کہ مجھے‬
‫دیوار کے سوراخ بارے کیسے پتہ‬
‫چال‪،،‬تو میں ان کے گھر گئی تھی‬
‫ایک دفعہ ‪،،،،،‬نازیہ اوپن یونیورسٹی‬
‫سے تھرڈ ایئر کر رہی ہے‪ ،،،‬جس‬
‫یونیورسٹی میں پڑھاتی ہوں وہاں‬
‫نازیہ اپنی اسائنمنٹ دینے آئی‬
‫تھی‪،،‬جب اس نے اپنی ٹیوٹر کو‬
‫اسائنمنٹ دی تواس وقت میں بھی‬
‫وہیں تھی ۔میں اسے دیکھ کہ دنگ‬
‫رہ گئی ‪،‬کیالڑکی تھی‪،،‬ویسے اس نے‬
‫پورا پردہ کیاہوا تھا‪،‬لیکن اس وقت‬
‫بس اس کا چہرہ دیکھا تھا ‪،،،‬ساتھ‬
‫اس کا باپ تھا۔میں باتوں باتوں میں‬
‫اس سے نتھی ہوگئی ‪،،،‬اور باتیں‬
‫کرتے ہم باہر آئے تو میں نے ان کو آفر‬
‫کی میں بھی نکل رہی ہوں ان کو‬
‫بھی چھوڑ دیتی ہوں اسطرح میں‬
‫ان کوچھوڑنے ان کے گھر بھی گئی‬
‫‪،،‬وہیں انہوں نے مجھے چائے کی آفر‬
‫کی ‪،‬میں تو یہی چاہتی تھی‪،،‬مولوی‬
‫تو ہمیں چھوڑ کر مسجد چال گیا اور‬
‫میں دو گھنٹے ان کے پاس رہی‪،،‬بس‬
‫وہیں ان کا مزاج‪،‬عادات‪،،‬نفسیات‪،،‬اور‬
‫خیاالت کا پتہ چال‪ ،،،‬نازیہ اپنے کمرے‬
‫میں لے گئی وہاں میخ اور شیشہ‬
‫بھی دیکھا میخ مجھے کچھ بڑی‬
‫لگی‪،،‬اور دوسرے کمرے میں چائے‬
‫پینے بیٹھے وہاں میخ کی نکلتی نوک‬
‫بھی دیکھی ‪،،‬نازیہ ‪،‬رافعہ‬
‫‪،‬سعدیہ‪،‬اور شازیہ کی آنکھوں میں‬
‫چودائی کی پیاس بھی دیکھی تو‬
‫میں ساری بات سمجھ گئی‪،،‬آپ نازیہ‬
‫کےساتھ کیوں گئی‪،،،‬میں پوچھے بناء‬
‫نہ رہ سکا‪،،،‬میں کبھی لیسبن بھی‬
‫کرتی تھی‪ ،‬اب کرنا ورنہ تو کچھ‬
‫نہیں تھا بس ٹھرکا ٹھرکی میں چلی‬
‫گئی ‪،،،‬جب سے تم ملے ہو‪،،‬سب کچھ‬
‫چھوٹ گیا اور اب زندگی میں سکون‬
‫ہی سکون ہے‪،،‬وہاں ان کاماحول‬
‫دیکھ کر اور ساری بات سمجھ کر‬
‫میں نے اس بات کو استعمال کرنے‬
‫کافیصلہ کیا‪،،،‬اور تمھیں وہاں بھیج‬
‫دیا‪،،‬یہ ہے کل کہانی‪،،‬جوسلین نے‬
‫مجھے تفصیل سے بتاتے ہوئے کہا‬
‫‪،،،،‬جوسلین رافعہ کو دیکھ کر مجھے‬
‫کچھ افسوس ہوا ہے کہ میں نے ان‬
‫لڑکیوں کو سیکس کی راہ پرلگا کر‬
‫اچھا نہیں کیا ہے ‪،،،‬رات سے کھٹکتی‬
‫بات کو زبان پر النے سے روک نہ‬
‫سکا‪،،‬پرنس‪،،‬میری بات سنو‪،،‬یہ‬
‫لڑکیوں تم سے پہلے سیکس کی راہ‬
‫پر لگ چکی تھی‪،،،‬اور رافعہ نے آج‬
‫نہیں تو کل اس رستے میں آنا ہی‬
‫تھا‪،‬اس لڑکی کوروکنا مشکل‬
‫تھا‪،،،‬اور تم ایک بات بتاؤ ‪،،‬کہ جب‬
‫وہ سوراخ میں دیکھ رہی تھی تو تم‬
‫نے ان سے کیا کہا‪،،‬میں نے کہا تھا جو‬
‫تم دیکھ دیکھ کہ ترس رہی ہو وہ‬
‫میں تمھیں ابھی دے‬
‫سکتاہوں‪،،‬جوانی ضائع کرلو گی مگر‬
‫ہاتھ کچھ نہیں آئے گا‪،،،‬ساتھ ہی میں‬
‫ننگا ہو کر ان کے پاس گیا تھا‪،‬اس‬
‫سے جب میراعضو لگا اور میں نے‬
‫مموں کوچھوا تو وہ کچھ کہہ ہی نہ‬
‫سکیں اور چودائی شروع ہو‬
‫گئی‪،،‬میرے ننگے جانے پر جوسلین‬
‫کافی محظوظ ہوئی ‪،،،،‬پرنس تم اگر‬
‫یہ کہتے کہ اگر تم سب نے چودائی‬
‫نہ کروائی تو تمھارے ابا کو بتا دوں‬
‫گا تو پھر یہ غلط ہونا تھا یہ بلیک‬
‫میلنگ ہو جانی تھی لیکن تم نے ایسا‬
‫نہ کیا‪،،،،،‬تم نے ان کی مرضی سے کیا‬
‫ہے ‪،،‬اسلیے یہ کوئی غلط کام نہیں‬
‫ہوا‪،،‬یہ ایک نہ ایک دن ہونا ہی تھا‪،،‬‬
‫کوئی ایسا جو ‪،‬ان کا راز جان جاتا۔۔‬
‫اس نے یہ کر دینا تھا ۔یہ ہونا ہی تھا‬
‫‪،،‬اور ایک بات سمجھ لو کہ اگر تم ان‬
‫کوبلیک میل کرتے تو تم نے اس‬
‫ٹیسٹ میں فیل ہوجانا تھا ‪،،،‬لیکن‬
‫مجھے یقین تھا کہ تم ایسا نہیں کرو‬
‫گے‪،،‬کیونکہ یہ تمھاری فطرت میں‬
‫نہیں ہے‪،،،‬شاید تمھیں زندگی میں‬
‫بہترین سبق مل چکا ہے جس کی‬
‫وجہ سے تم کسی سے اب زندگی بھر‬
‫زبردستی نہیں کرسکتے۔۔میری‬
‫آنکھوں کے سامنے نگینہ کاچہرہ آگیا‬
‫‪،،‬لیکن میں نے اس کے تاثرات چہرے‬
‫پر نہیں آنے دیئے‪،،،‬جب میں نے اسے‬
‫رافعہ کی چودائی کابتایا تو جوسلین‬
‫خوب ہنسی‪،،،‬واہ تم نے رافعہ کو مزہ‬
‫چکھادیا‪،،‬ایک بات کہنا چاہتا ہوں‬
‫‪،،‬ہاں کہو‪ ،،‬اس طرح اٹکنا کب سے‬
‫‪ ،،،‬شروع ہوگئے تم‬

‫میں چاہتاہوں تم ایک چکر مولوی‬


‫کے گھر لگاؤ‪،،،‬اور ان لڑکیوں کو‬
‫پریگنٹ ختم کرنے کیلیے کسی‬
‫طریقہ سے ٹیبلٹ دے آؤ‪،،،،‬جوسلین‬
‫نے غور سے میری طرف‬
‫دیکھا‪،،،‬ٹھیک ہے میں یہ کام کر دوں‬
‫گی ‪،،‬وہ بھی صرف اسلیے کہ تم ان‬
‫کے خیاالت ذہن سے نکال‬
‫دو‪،،‬جوسلین نے مجھے جتایا‪،،،‬رقابت‬
‫میں عورت اپنا سارا جینئس پن ختم‬
‫کردیتی ہے‪،،‬عورت آخر عورت ہی‬
‫ہوتی ہے‪،‬میں نے دل میں سوچا‪،،،‬‬
‫ٹھیک ہے کل سے کام شروع‬
‫‪،،‬جوسلین نے جیسے اعالن کیا‪،،،‬میں‬
‫پہلے دن یونیورسٹی گیا‪ ،،،‬جوسلین‬
‫یہاں شروع سے پڑھا رہی تھی‪،،‬یہاں‬
‫میں نے جوسلین کی علمی لحاظ سے‬
‫عزت اور قدردانی دیکھی‪،،،‬بلکہ یہیں‬
‫کیا پورے شہر میں ایک بہترین‬
‫پروفیسر کے لحاظ سے اس کو مانا‬
‫جاتا تھا‪،،‬پہلے دن ہی یونیورسٹی‬
‫میں مشہور ہوگیا کہ جوسلین کے لے‬
‫پالک بیٹے نے یہاں داخلہ لے لیاہے‬
‫‪،‬لیکن میں نے اسے کبھی زندگی میں‬
‫ماں نہیں کہا نہ لوگوں کے سامنے اور‬
‫تنہائی میں تو ممکن ہی نہیں‬
‫تھا‪،،‬میں یہاں جوسلین کی ہی کالس‬
‫میں تھا‪،،‬اس سے بہتر شہر بھر میں‬
‫نفسیات دان اور کون ہونا تھا‪،،‬دن‬
‫گزرنے لگے‪،،‬گھر میں بھی جوسلین‬
‫مجھے ٹیوشن پڑھانے لگی‪ ،‬نفسیات‬
‫تو میں نے پچھلے سال ہی شروع‬
‫کردی تھی۔اب اس سے ماسٹرز کرنے‬
‫کا ارداہ تھا۔۔دوسری طرف اب‬
‫سنجیدہ موضوعاتی کتابیں پڑھنے پر‬
‫لگا دیا ‪،،،،،‬جیسےمختار مسعود کی‬
‫آواِز دوست ‪،‬قدرت اللہ کا شہابنامہ‬
‫اور اشفاق احمد کی زاویہ سے میری‬
‫ابتداء ہوئی اور پھر پیچھے مڑ کے نہ‬
‫دیکھا‪----‬اور ساتھ ہی جوسلین نے‬
‫مجھے شاعری پڑھنے کی طرف‬
‫لگایا‪،،‬اس سے پہلے نثری اوردو ادب‬
‫کا خالصہ تو وہ مجھے کھول کے پال‬
‫چکی تھی‪،،‬اور یہ خالصہ بھی اچھا‬
‫خاصہ تھا‪،،‬میں اس سے ٹیوشن پڑھ‬
‫رہا تھا کہ جوسلین اپنے مخصوص‬
‫انداز میں لیکچر دینے‬
‫لگی‪،‬پرنس‪،،‬اظہار کیلیے انسان نے‬
‫سب سے پہلے اشاروں سے باتیں کرنا‬
‫شروع کیا‪ ،،‬پھر اس میں تصویری‬
‫زبانیں آگئی‪،،،،‬پھر اسے زبان کا شعور‬
‫ہوا تو بول کرباتیں ہونے‬
‫لگی‪،،‬مجسمہ سازی ‪،،‬مصوری ‪،،‬بھی‬
‫اظہار کیلیے ہی اختیار کی گئی‪،،‬‬
‫انسان جب شعور کی منزلیں طے کرتا‬
‫ہوا لکھنے لگا تب نثری ادب آگیا‪،،‬اور‬
‫شاعری آگئی‪،‬موجودہ دور میں‬
‫الیکٹرونک میڈیا آیا تو اس میں‬
‫فلمیں اور ڈرامے بھی اظہار کا ایک‬
‫ذریعے ہی بنے‪،،‬کیونکہ یہ زبان فی‬
‫زمانہ سب سے زیادہ سمجھی اور‬
‫بولی جاتی ہے‪،،،،‬لیکن معلوم تاریخ‬
‫سے لیکر آج تک اپنے جذبات کے‬
‫اظہار کیلیے اپنے مدعا بیان کرنے‬
‫کیلے شاعری سے بہتر ذریعہ سامنے‬
‫نہیں آیا‪،،‬جو بات تم ایک پوری کتاب‬
‫میں کہتے ہو وہی ایک شعر میں کہی‬
‫جا سکتی ہے ‪،،‬اس سے تم شعر کی‬
‫معنویت اور گہرائی کا اندازہ‬
‫کرسکتے ہو‪،‬کہ کہاں ایک کتاب اور‬
‫کہاں ایک شعر‪،‬۔لیکن بدقسمتی سے‬
‫ہمارے ہاں شاعری صرف محبت پر‬
‫ہی کی جاتی ہے بلکہ محبت کو ہی‬
‫شاعری سمجھا جاتا ہے‪،،‬اگر ہمارے‬
‫شاعر ہجر وصال سے آگے کی‬
‫سوچتے تو آج یہ قوم بھی عاشقی‬
‫معشوقی ایک شوق کے طو پر کرتی‬
‫ہوتی نہ کہ ُکل وقتی کرتی ہوتی‪،،‬غو‬
‫ر کرو ‪،،‬کیا مغربی اقوام سیکس نہیں‬
‫کرتی ہم سے زیادہ سیکس کرتی‬
‫ہے‪،،‬کیا وہ جواء نہیں کھیلتے کیا وہ‬
‫شراب نہیں پیتے ‪،‬ہم سے زیادہ پیتے‬
‫ہیں‪،‬لیکن وہ ترقی یافتہ اور ہم پس‬
‫ماندہ ہیں‪،،‬اس لیے کے جو جزوقتی‬
‫ہونا تھاوہ کل وقتی ہوگیا اور جوکل‬
‫وقتی ہونا تھا وہ جز وقتی ہوگیا‪،‬‬
‫عشقیہ شاعری کیلیے تو یہ ایک شعر‬
‫ہی کافی ہے‬
‫یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ‬
‫لیجیئے‬
‫اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے‬
‫یا‬
‫‪ ،‬شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ‬
‫اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی‬
‫ہوئی‬
‫لیکن جب ہم زمانے کی گہرائیوں کو‬
‫سمجھتے ہیں تو فیض احمد فیض‬
‫ہمیں بتاتا ہے کہ‬
‫مجھے سے پہلی سی محبت میرے‬
‫محبوب نہ مانگ‬
‫اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت‬
‫کے سوا‬
‫راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے‬
‫سوا‬
‫دونوں قسم کی شاعر ی میں فرق تم‬
‫نے دیکھ لیا ہے اب‬
‫شاعری پڑھنا مگر ایک دائرے میں‬
‫بند مت ہوجانا‪،،‬یہ نہ ہو کہ وہیں‬
‫گھومتے رہو‪،،،‬یہ جو کتابیں ہیں نہ‬
‫‪،‬یہ ہی سوچ کو بالغ کرتی‬
‫ہیں‪،،‬جیسے جسم کی عمر ہوتی ہے‬
‫نہ‪،،‬ایسے ہی ذہن کی بھی عمر ہوتی‬
‫ہے‪،،‬بہت سے لوگ چالیس سال کے ہو‬
‫جاتے ہیں‪،،‬لیکن وہ ذہنی طور پر بچے‬
‫ہی ہوتے ہیں‪،،‬جب تم مجھے ملے تھے‬
‫تم تب بھی ذہنی طور پر اچھے تھے‬
‫لیکن اب توبلوغت سے بہت آگے نکل‬
‫چکے ہو‪،،‬باقی کا کام شاعری کرے‬
‫گی‪،،،،‬اب تم نفسیات میں ماسٹر کر‬
‫رہے ہو‪،،‬لیکن درحقیقت تمھارا یہ‬
‫وقت ماسٹرز سے آگے کا ہے پی ایچ‬
‫ڈی کا ہے اب تم اپنے سیکھے ہوئے ہر‬
‫فن میں ڈاکٹر بنو گے‪،،،‬ٹھیک ہے یہی‬
‫تم چاہتے تھے نہ‪،،،‬میں نے سنجیدگی‬
‫سے سر ہال دیا‪،،‬اس طرح میرا یہ‬
‫سفر شروع ہوچکا تھا۔۔سب سے‬
‫زیادہ مجھے خوشی مجھے اسو قت‬
‫ہوئی جب میرا مارشل آرٹ کا استاد‬
‫آیا‪،،‬یہ ایک چائنیز تھا‪،‬میں اپنے‬
‫استاد کا یہاں نام عظیم ترین استاد‬
‫لکھوں گا۔ عظیم استاد بڑھاپے کی‬
‫طرف مائل تھا اور درمیانے قد کا‬
‫تھا‪،،‬پہلے پہل میں بس اتنا خوش ہوا‬
‫کہ وہ چائنیز ہے اور کچھ اچھا‬
‫ہوگا‪،،‬لیکن جب اس نے مجھے اپنا آپ‬
‫ظاہر کیا‪ ،‬تو میں حیران رہ گیا‪،،،‬وہ‬
‫ان استا دوں میں تھا جو خاص‬
‫الخاص ہوتے ہیں‪،‬پہلے پہل میں یہی‬
‫سمجھا کہ یہ جوسلین کی دولت کا‬
‫کرشمہ تھا کہ ایسا استاد میری‬
‫قسمت میں آیا‪ ،‬جوسلین کے بینک‬
‫بیلنس کا خود اسے نہیں پتہ تھا‬
‫وسیع و عریض جائیداد سے ملنا واال‬
‫منافع جمع ہوتا جا رہا تھا ‪،‬اور‬
‫جوسلین کو دولت اڑانے کا کوئی‬
‫شوق نہیں تھا‪،‬اس نے میرا شوق‬
‫پورا کرنے کیلے انٹرنیٹ پر دنیا کے‬
‫جانے مانے ماشل آرٹ استاد ڈھونڈے‬
‫‪ 2004،‬میں پاکستان میں انٹر نیٹ‬
‫اتنا عام نہیں تھا بلکہ موبائل نیا نیا‬
‫شروع ہوچکا تھا ‪،‬پھر وہ فون‬
‫پررابطے کرنے لگی‪ ،،‬وہ یہ کام پچھلے‬
‫چھ مہینے سےکر ر ہی تھی ان گنت‬
‫دولت کی وجہ سے وہ چاہتی تھی‬
‫کہ دنیا کا بہترین استاد حاصل کرے‬
‫‪،‬اس لیے وہ بڑے ناموں سے رابطہ‬
‫کرتی رہی‪،،‬لیکن وہ سب یہاں آ کر‬
‫ٹریننگ دینے سے انکاری تھے اور جو‬
‫سلین مجھے کہیں بھیجنا نہیں‬
‫چاہتی تھی ‪،،،‬بے شک جوسلین کی‬
‫آفر ناقابل یقین تھی ‪،‬لیکن کوئی‬
‫بھی اپنا بنا بنایا سیٹ اپ ‪،‬برسوں‬
‫کی محنت چھوڑ کر آنے کیلے تیار‬
‫نہیں تھا‪،‬چوٹی کے ماسٹرز سے جب‬
‫بار بار رابطہ کیا جانے لگا اور اپنی‬
‫واقفیت سے ان پر دباؤ ڈالنے کی‬
‫کوشش کی تو وہ جان چھڑانے لگے‬
‫‪،‬اور انہوں نے واضح انکار کی‬
‫بجائے۔۔زونگینگ کوانلی ۔۔ کا نام لے‬
‫دیاﺍﯾﺴﯽاپنی مرضی کی ‪ 10‬بڑی سے‬
‫بڑی کہانیاں حاصل کریں ‪ 750‬روپے‬
‫فیس میں۔ اور ‪ 20‬بڑی کہانیاں‬
‫حاصل کریں ‪ 1300‬میں۔ اور یہ‬
‫ساری ‪ 3000‬میں حاصل کریں۔‬
‫‪Offer offer offer‬‬ ‫🎀🎈🎈‬
‫قسطوں والی لمبی کہانیاں ‪ ،‬انکی‬
‫️📽️🎞 سیریز پلس سیزنز‬
‫مزیدار سیکسی انسیسٹ اور‬
‫معاشرتی حقائق پر مبنی کہانیاں‬
‫🏾👇🏻👇👇‬
‫👆🏻👆🏽👆‬
‫‪Whatsapp:03061915013‬‬

‫منحوس سے معصوم تک ‪1. 461‬‬


‫قسط تک جاری قیمت = ‪ 200‬روپے‬
‫( فل ڈرائیو لنک)‬
‫بھولی داستان ‪ 225‬قسط تک ‪2.‬‬
‫جاری قیمت = ‪ ( 150‬فل ڈرائیو لنک‬
‫)‬
‫چدکڑ قاریہ جاری ‪ 60‬قسط ( ‪3.‬‬
‫ایک سچی کہانی ) قیمت = ‪100‬‬
‫روپے‬
‫بازیگر یا بازگشت ‪ 131‬قسط تک ‪4.‬‬
‫جاری قیمت = ‪ 120‬روپے‬
‫ہوس سیزن ون مکمل قیمت = ‪5.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫بچہ لڑکا آدمی سیزن ‪ 2+1‬مکّم ل ‪6.‬‬
‫قیمت = ‪ 150‬روپے‬
‫بچپن سے اب تک سیزن ‪ 1‬اور ‪7. 2‬‬
‫کی ‪ 25‬قسط تک قیمت = ‪100‬‬
‫روپے‬
‫پردیس ‪1‬تا ‪ 5‬حصہ قیمت = ‪8.‬‬
‫‪ 150‬روپے‪/‬پردیس ‪ 70‬قسط تک۔‬
‫چھوٹا بچہ سمجھ کے مجھ کو ‪9.‬‬
‫‪ 99‬قسط تک جاری قیمت = ‪100‬‬
‫روپے‬
‫گھر کا رازدار مکمل قیمت ‪10.‬‬
‫=‪ 100‬روپے‬
‫پیاسی زندگی ‪ 158‬قسط تک ‪11.‬‬
‫جاری قیمت = ‪ 150‬روپے‬
‫بدلتے رشتے رومن ‪ 1470‬قسط ‪12.‬‬
‫تک جاری قیمت = ‪ 150‬روپے‬
‫سپاہی یا گینگسٹر ‪ 1‬تا ‪13. 37‬‬
‫جاری قیمت = ‪ 150‬روپے‬
‫غرور اور ہوس مکّم ل قیمت = ‪14.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫وقت نے بدال مکّم ل قیمت = ‪15.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫وفاؤں کا امتحان ‪ 70‬قسط تک ‪16.‬‬
‫جاری قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫وطن کا سپاہی سزن ون مکمل ‪17.‬‬
‫قیمت = ‪ 80‬روپے‬
‫مس ہیرا خان مکمل قیمت = ‪18.‬‬
‫‪ 70‬روپے‬
‫ہمزاد ایک آپ بیتی ‪ 51‬قسط ‪19.‬‬
‫تک جاری قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫میں بنی رکھیل مکمل قیمت ‪20.‬‬
‫‪ 50‬روپے‬
‫میری دکھ بھری زندگی قیمت = ‪21.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫مرشد ‪ 90‬قسط تک جاری قیمت ‪22.‬‬
‫= ‪ 100‬روپے‬
‫مداری قیمت = ‪ 40‬روپے ‪23.‬‬
‫محبت کے بعد قیمت = ‪24. 100‬‬
‫روپے‬
‫گنگو نوکر مکمل قیمت ‪25. 150‬‬
‫روپے‬
‫گھر کا رازدار مکمل قیمت ‪26.‬‬
‫=‪ 100‬روپے‬
‫گھر سے بازار تک مکمل قیمت ‪27.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫گاؤں کا رواج مکمل قیمت = ‪28.‬‬
‫‪ 70‬روپے‬
‫گمشدہ مکمل قیمت = ‪ 50‬روپے ‪29.‬‬
‫گاؤں کی محبت جاری قیمت = ‪30.‬‬
‫‪ 140‬روپے‬
‫گاؤں سے شہر تک ‪ 229‬قسط ‪31.‬‬
‫تک جاری قیمت = ‪ 170‬روپے‬
‫فقیر سے بادشاہ ‪ 59‬قسط تک ‪32.‬‬
‫جاری تک قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫فرینڈز باجی مکّم ل قیمت = ‪33. 50‬‬
‫روپے‬
‫شیطان سیزن ‪ 1‬مکمل قیمت ‪34.‬‬
‫=‪ 100‬روپے‬
‫شیر دل‪ 11‬قسط تک جاری ‪35.‬‬
‫قیمت = ‪ 50‬روپے‬
‫شکاری مکمل ٹوٹل ‪ 125‬قسط ‪36.‬‬
‫قیمت = ‪ 80‬روپے‬
‫شاہ زور مکمل قیمت= ‪ 50‬روپے ‪37.‬‬
‫سیکس کا مزہ مکّم ل قیمت = ‪38.‬‬
‫‪ 80‬روپے‬
‫سراب مکّم ل قیمت = ‪ 70‬روپے ‪39.‬‬
‫ڈاکٹر ہما مکمل قیمت = ‪40. 60‬‬
‫روپے‬
‫دھندا ہے پر گندا ہے ‪ 43‬قسط ‪41.‬‬
‫تک جاری قیمت = ‪ 50‬روپے‬
‫دالل مکّم ل قیمت = ‪ 50‬روپے ‪42.‬‬
‫دل کی۔حسرتیں ‪ 158‬قسط تک ‪43.‬‬
‫جاری قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫جعلی پیر ‪ 26‬قسط تک جاری ‪44.‬‬
‫قیمت =‪ 50‬روپے‬
‫بھونچال ‪11‬قسط جاری قیمت ‪45.‬‬
‫= ‪ 30‬روپے‬
‫بلو کی کہانی مکّم ل قیمت = ‪46.‬‬
‫‪ 90‬روپے‬
‫باغی جاری ‪ 76‬قسط تک قیمت ‪47.‬‬
‫= ‪ 100‬روپے‬
‫بادشاہ اور چار ملکہ مکمل ‪48.‬‬
‫قیمت = ‪ 50‬روپے‬
‫ایک ماہ کی درد بھری کہانی ‪49.‬‬
‫مکمل قیمت = ‪ 80‬روپے‬
‫انجانی منزل مکمل قیمت = ‪50.‬‬
‫‪ 100‬روپے‬
‫انوکھا الڈال ‪ 26‬قسط تک جاری ‪51.‬‬
‫قیمت = ‪ 40‬روپے‬
‫اناڑی دولہا کھالڑی بہن مکّم ل = ‪52.‬‬
‫‪ 40‬روپے‬
‫امی کی۔مستیاں‪ 39‬قسط قیمت ‪53.‬‬
‫=‪ 100‬روپے‬
‫اچھی خالہ مکمل قیمت = ‪54. 50‬‬
‫روپے‬
‫اجنبی ہمرا مکّم ل قیمت = ‪55. 100‬‬
‫روپے‬
‫وقت نے بدلے رشتے مکّم ل قیمت ‪56.‬‬
‫= ‪ 100‬روپے‬
‫کہاں کہاں سے گزر گیا ‪57.129‬‬
‫قسط تک مکّم ل قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫کزنوں سے کزن تک ‪ 92‬قسط ‪58.‬‬
‫تک قیمت = ‪ 100‬روپے‬
‫چاندیمال حلوائی مکّم ل قیمت ‪59.‬‬
‫=‪ 100‬روپے‬
‫عمران سیریز مکّم ل قیمت = ‪60.‬‬
‫‪ 150‬روپے‬
‫وقت نے بدال مکّم ل قیمت = ‪61.‬‬
‫‪ 120‬روپے‬
‫پیاسی لڑکی ‪ 45‬قسط تک جاری‪62.‬‬
‫قیمت۔ ‪ 80‬روپے‬
‫بے درد زمانہ ‪ 23‬قسط تک جاری‪63.‬‬
‫قیمت ‪ 60‬روپے‬
‫زی شان ‪ 44‬قسط تک جاری ہے‪64.‬‬
‫قیمت ‪ 100‬روپے‬
‫قیمت سٹوری جاری قیمت ‪65.90‬‬
‫روپے سیزن ون مکمل سیزن ٹو ‪3‬‬
‫قسط تک‬
‫مونا چاچی ‪ 31‬قسط تک جاری‪66.‬‬
‫قیمت ‪ 80‬روپے‬
‫وقت کی پکار ‪ 1‬تا ‪ 20‬قسط‪67.‬‬
‫جاری قیمت ‪ 50‬روپے‬
‫درندہ ‪ 40‬قسط تک جاری ہے‪68.50‬‬
‫روپے‬
‫ضروری نوٹس ‪ :‬کہانیوں کی فیس‬
‫صرف ایزی پیسہ یا جیز کیش پر ادا‬
‫‪ ،،‬ایزی پیسہ اور جیز‬ ‫کی جاتی ہے✅‬
‫کیش کا نمبر آپکو وآٹس اپ پر بتایا‬
‫۔‬‫✅✅‬ ‫جائے گا‬
‫یہ لمبی مزیدار سیکس سے بھرپور‬
‫کہانیاں خریدنے کےلیے اوپر دیے گئے‬
‫واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کریں ۔‬
‫فری کے چکر میں رہنے والے بالکل‬
‫❌‬ ‫بھی میسج کرنے زحمت نہ کریں‬
‫۔‬ ‫🚫🚫🚫‬
‫ترجیح انہی لوگوں کو دی۔جائے گی‬
‫️‼جو سنجیدہ ہیں‬
‫آج کی نیو لسٹ‬ ‫😍🥰‬
‫*‪* Bahzad king‬‬
‫ماں بیٹا کی سیک*سی کہانیاں ٹوٹل‬
‫‪ 57‬کہانیاں‬ ‫😍😍‬
‫قیمت ‪ 200‬روپے‬ ‫🥰😍‬
‫ناول ماں‪pdf.‬‬
‫ماں کی سہیلی کو حاملہ کیا‪pdf.‬‬
‫ماں‬
‫ماں بنی سہیلی مکمل‪pdf.‬‬
‫كرونا الک ڈاؤن میں ماں کی‪pdf.‬‬
‫چد ائی رومن‬
‫ماں اور دوست مکمل‪pdf.‬‬
‫بچوں کی بھوک اور مجبور ماں‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫ماں اور میرا شوہر مکمل‪pdf.‬‬
‫ماں کی جوانی مکمل‪pdf.‬‬
‫پٹھان اور ماں مکمل‪pdf.‬‬
‫ودھوا ماں مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫ماں اور بیٹی سے پیار‪pdf.‬‬
‫ماں بہن اور بھانجی‪pdf.‬‬
‫ماں کو ابو سے‪pdf.‬‬
‫ماں کیسے بنی مکمل(‪Pdf.)0‬‬
‫ابا اماں کی خدمت مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫بڑی ماں کا پیار میری ہوس(‪pdf.)0‬‬
‫دوست کی ماں کی چدا ئی‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫ماں بیٹے اور نوکرانی‪pdf.‬‬
‫ماں کی مالش مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫(ماں بیٹوں کا پیار‪pdf.‬‬
‫لڑکی کی ماں اور وہ مکمل(‪pdf.)0‬‬
‫ماں اور خالہ گاؤں میں مکمل‪pdf.‬‬
‫کہانی ایک ماں اور بیٹے کی‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹا مکمل‪pdf.‬‬
‫ک_ماں_اور_بیٹے_کے_پیار_کی_کہای‬
‫نا‬
‫ماں اور بہن‪pdf.03147615013‬‬
‫دوست_کی_ماں_کی_پھد_‪Pdf.‬‬
‫ی_ماری‬
‫ماں بیٹی کتا اور میں‪Pdf.‬‬
‫ماں بیٹے کی داستان‪Pdf.‬‬
‫ماں کی چد ائی کا بدلہ‪Pdf.‬‬
‫ماں_اور_خالہ_کی_گاؤں_میں_‪Pdf.‬‬
‫چدائی‬
‫ماں_نے_دادا_سے_چد وایا‪Pdf.‬‬
‫مدر ڈے پر ماں کو چو دا‪pdf.‬‬
‫دوست کی ماں مکمل‪pdf.‬‬
‫لیڈی ڈاکٹر اور_‪...watermarke‬‬
‫ماں بیٹی مکمل‬
‫ماں کو اس کی سہیلی نے چود‪pdf.‬‬
‫وایا‬
‫ماں اور خالہ کی گاؤں میں‪pdf.‬‬
‫چدائی‬
‫ماں اور ‪ 4‬بیٹیاں ‪pdf.1-01‬‬
‫ماں اور بیٹی سے پیار مکمل‪pdf.‬‬
‫اسٹوری ریڈر سے ماں کو چد‪pdf.‬‬
‫وایا‬
‫ماں اور بیوی کی ایک ساتھ‪pdf.1-‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن‪pdf.‬‬
‫پجاری ‪ 1‬تا ‪2-7‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن پجاری‪....‬‬
‫‪ 14‬تا ‪1-18‬‬
‫ریحان بنا ماں کا لیسبیئن‪pdf.‬‬
‫پجاری ‪ 8‬تا ‪1-13‬‬
‫پیر نے ماں کو چو دا‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹی کتا اور میں‪pdf.‬‬
‫بھابھی ماں نائیٹ سٹوریز‪pdf.‬‬
‫ماں کا الڈال_‪watermarked.pdf‬‬
‫کٹر مذہبی ماں مکمل ‪pdf.‬‬
‫ماں کا دیوانہ ‪pdf.‬‬
‫سبزی واال یاسر کی ماں‪pdf.‬‬
‫ماں بنی گرلفرینڈ تصویر‪pdf.‬‬
‫سٹوری‬
‫ماں بہن اور بھانجی کی ساتھ ‪pdf.‬‬
‫میرا پیار سوتیلی ماں اور بہنیں‪pdf.‬‬
‫مکمل‬
‫شرابی ماں‪pdf.‬‬
‫ماں بیٹے کا پیار‪ ،‬ڈھلے ممے ‪ndf‬‬
‫ماں اور بیٹا‬
‫لینے کے لیے رابطہ کریں‬
‫‪03127840311‬‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_12‬‬

‫اس نام کا مطلب ہے سنٹرل پاور‬


‫یعنی مرکزی طاقت یہ نام اپنے‬
‫عظیم ترین استاد کی شخصیت کے‬
‫اظہار کیلیے لکھا ہےکیونکہ وہ اپنے‬
‫دور میں کنگفو کی سنٹرل پاورتھے‬
‫اور ان کے پاس وہ تھا جو کسی کے‬
‫پاس نہیں تھا‪،،‬یہ سنہری دور کی‬
‫آخری یادگار تھااور آئندہ ان کو اسی‬
‫نام زونگ ینگ کوان لی سے یا کوان‬
‫لی کے نام سےیاد کیا جائے گا)کوان‬
‫لی نک چڑھے تے اور کسی کوخاطر‬
‫میں نہیں التے تھے‪ ،،،،‬جب جوسلین‬
‫نے اس سے رابطہ کیا تو کوان لی نے‬
‫ترنت انکار کر دیا‪،‬وہ اپنے حال میں‬
‫مست تھا ‪ ،‬جوسلین اس پر دباؤ‬
‫ڈالنے لگی‪،،‬جیسے جیسے کوان لی‬
‫انکار کرتےگئے جوسلین اس کیلے‬
‫بضد ہوتی گئی‪،،‬کیونکہ ایک گرینڈ‬
‫ماسٹر نے اسے یقین دال دیا تھا کہ‬
‫اس دنیا میں زونگ ینگ کوان لی سے‬
‫بہتر کوئی نہیں ہے ‪،،‬لیکن خود کوان‬
‫لی گوشہ نشین تھے‪،،‬کسی کو بھی‬
‫گھاس نہیں ڈالتے تھے ‪، ،‬پھر آخر کار‬
‫جوسلین نے مجھے ہی وہاں بھیج‬
‫دیا‪،،،‬یعنی میری فائیٹ کی ویڈیو‬
‫جو اس کے اصرار پر میں نے بنوائی‬
‫تھی ‪،،‬بس اس ویڈیو کو دیکھ کر‬
‫کوان لی مان گئے ‪،،‬آخر وہ عظیم‬
‫استاد تھے ‪ ،،‬انسانوں کوپڑھنے میں‬
‫جوسلین جیسے کئی جینئس بھی ان‬
‫کے سامنے کچھ نہیں تھے‪، ،‬جانے اس‬
‫نے مجھ میں کیا دیکھاہو گا کہ کوان‬
‫لی میرے پاس آگیا‪،‬اور جوسلین کا‬
‫ان گنت بینک بیلنس ختم‬
‫ہوگیا‪،،‬لیکن اسے کوئی فکر نہیں‬
‫تھی‪ ،،‬اصل جائیداد تو پڑی ہوئی‬
‫تھی بینک بیلنس پھر جمع ہوجانا‬
‫تھا‪،،،،‬پہلے دن ہی کوان لی نے لیکچر‬
‫شروع کیا‪،،‬پرنس‪،،‬یا جو بھی تم‬
‫ہو‪،،‬میں شاگردنہیں بناتا ‪،،‬تمھاری یہ‬
‫میڈم یا یہ جو بھی تمھاری ہے‪(،،‬‬
‫دلوں کوپڑھنے واال عظیم ترین استاد‬
‫)اس نے مجھے تمھاری ویڈیو‬
‫بھیجی تھی اس میں تم فائیٹ کر‬
‫رہے تھے ‪،،‬دوسرا شاید تمھارا ستاد‬
‫تھا اور تم اس کا لحاظ کررہے تھے‬
‫نہیں تو وہ اس وقت تمھارے سامنے‬
‫کچھ بھی نہیں تھا‪،،‬میرا خیال ہے‬
‫اس فائیٹ کے بعد تمھارے استاد نے‬
‫تمھیں سکھانا چھوڑ دیا ہوگا‪ (،‬کوان‬
‫لی سچ کہہ رہا تھا )‪،،‬بس تمھاری یہ‬
‫ادا دیکھ کر میں اتنی دور سے‬
‫تمھارے پاس آیا ہوں ہمارا ایک سال‬
‫کامعا ہدہ ہوا ہےاور میں نے اس سے‬
‫بہت بڑی رقم لی ہے بہت۔۔ بڑی ۔۔رقم‬
‫۔ سمجھ گئے ‪،‬میں چاہتا ہوں کہ تم‬
‫مجھے اور اپنے آپ کوشرمندہ نہ‬
‫کرنا‪،،‬تم جو سیکھنے جا رہے ہو اس‬
‫فن کا نام ہے کنگفو‪،،‬اس کے تقریبًا‬
‫نّو ے سٹائل ہیں لیکن سب کاکام ایک‬
‫ہی ہے‪ ،،‬اسی طرح امریکن مارشل‬
‫آرٹ ‪،‬چائنیز مارشل آرٹ‪،‬کورین‬
‫مارشل آرٹ‪،‬یورپین مارشل‬
‫آرٹ‪،‬جاپانی مارشل آرٹ ہیں ‪،،،،،‬اور‬
‫ان سب میں خطرناک فنون کے نام‬
‫ہیں‪ -‬کراٹے(جاپان)‪، ،،،‬موئے‬
‫تھائی(تھائی لینڈ)‪،،،،،‬ایم ایم اے‬
‫یعنی مکس مارشل آرٹ‪،،،،‬‬
‫تائیکوانڈو(کوریا)‪، ،،،‬برازیلین جیو‬
‫جتسو ‪،،،‬کریو ماگا‬
‫(اسرائیل)‪،،،،،‬کائپوئریا‬
‫(برازیل)‪،،،،،‬جوڈو(جاپان)‬
‫‪،،‬کنگفو(چائنہ)‪،،،‬ایکیڈو(جاپان)‪،،‬نن‪)،،،‬ناپاج(وڈیکیا‪)،،،‬ہنئاچ(وفگنک‪،،،‬‬
‫ پ ان)جِسٹو(جا‬
‫‪،،،‬جوجسٹو(جاپان)‪،،،،‬ان میں سے‬
‫جوجسٹو ‪،‬جوڈو‪،‬اور ننجسٹو‪،،‬ایک‬
‫ہی خفیہ اور خطرناک اور مشکل‬
‫ترین فن تھا‪،‬اس کو سیکھنے میں‬
‫بہت جانیں جاتی تھیں اسے عام‬
‫کرنے کیلیے اس کے تین حصے کردیئے‬
‫‪،‬جس میں سب سے خطرناک‬
‫ننجسٹو(ننجا) کو علیحدہ کردیا ا‬
‫سکے بعد جیوجسٹو اور جوڈو بنایا‬
‫گیا‪،،‬لیکن اب یہ تینوں علیحدہ‬
‫علیحدہ بھی اپنی جگہ خطرناک‬
‫ہیں‪ ،،‬اب غور سے سنو تمام مارشل‬
‫آرٹ کی تھیوری اور پریکٹیکل‬
‫مختلف ہے لیکن ان کی بنیاد ایک ہی‬
‫ہے ‪،،‬اور وہ ہے اپنے جسم کو ہی‬
‫ہتھیار بنانا۔کنگفو ان تمام مارشل‬
‫آرٹ میں بہترین ہے ‪،،‬جومیں تمھیں‬
‫سکھاؤں گے ‪،‬آج سے تمھاری تربیت‬
‫شروع ہوتی ہےاب یہ ‪ 2‬ڈان اور ‪3‬‬
‫ڈان وغیرہ بھول جاؤ‪، ،‬بیلٹ کے چکر‬
‫سے نکل آؤ یہ نوسیکھیوں کیلیے‬
‫ہوتی ہیں‪،،،،،‬یوگا بندہوگیا تھا اور اب‬
‫سب زونگ ینگ کوان لی کے حوالے‬
‫تھا‪،،‬جوسلین نے علم بروج اور دست‬
‫شناسی بھی سکھانی شروع کر‬
‫دی‪،،‬نفسیات ‪،‬علم قیافہ ‪،‬دست‬
‫شناسی اور علم بروج‪ ،‬یہ ہوئی نہ‪،،‬‬
‫بات‪،،‬جوسلین تم کمال ہو‪،‬اب یہ سب‬
‫تھا اور میں تھا‪،،،‬یونیورسٹی میں‬
‫میرا آنا جانا شروع ہوگیا تھا‪،،‬اس‬
‫کاماحول اور طرح کاتھا کھال ڈال‬
‫ماحول تھا‪،،‬رنگ برنگ لباسوں میں‬
‫چلتے پھرتے جسم مجھے بہت تنگ‬
‫کرتے تھے‪،،‬شروع شروع میں مجھے‬
‫بڑی بے چینی ہوتی تھی‪،،‬میری حالت‬
‫ایسی تھی جیسے کسی بھوکے کو‬
‫ڈھیر سارے کھانے میں چھوڑدیا‬
‫ہو‪،،‬یہاں خودبخود گود میں گرنے‬
‫والیاں بھی تھی‪،،‬محبت پر مرنے‬
‫والیاں تھیں‪،‬اور معصوم لڑکیاں بھی‬
‫تھیں جن پر کوئی بات اثر نہیں‬
‫کرتی‪،،‬دھیرے دھیرے میری کشش‬
‫یونیورسٹی میں محسوس کی جانے‬
‫لگی‪،،‬میرے دوست بننے لگے‪،،‬ویسے‬
‫بھی جوسلین کے نام کی وجہ سے‬
‫میرے کئی دوست بن گئے‬
‫تھے‪،،‬لڑکیوں کی طرف تو میں نہیں‬
‫جاتا تھا لیکن لڑکیوں پر تو پابندی‬
‫نہیں تھی لہذا چودائی کی بھوکی‬
‫اور محبت پر مرنے والیاں میری‬
‫طرف بڑھنے لگی‪،،‬میں اس ماحول‬
‫سے گھبرانے لگا‪،،‬اور فلیٹ کے‬
‫بیسمنٹ میں اپنے جسم پر مشِق‬
‫ستم ڈھاتا‪ ،،،‬میرا زیادہ وقت کوان‬
‫لی لیتا تھا ‪،،‬روز پانچ گھنٹے اس کے‬
‫تھے‪،‬اس کے عالوہ بھی اس کا کوئی‬
‫وقت نہیں تھا‪،،‬وہ کسی بھی وقت‬
‫مجھ سے کچھ بھی کہہ سکتا تھا‬
‫‪،‬کوان لی ‪،‬جوسلین کو بھی خاطر‬
‫میں نہیں التا تھااور جوسلین بھی‬
‫کوان لی کے سامنے بولتی نہیں‬
‫تھی‪،‬بمشکل میری نیند پور ی ہوتی‬
‫تھی ‪،،‬پھر کوان لی کی وجہ سے‬
‫میری مشکل آسان ہونے لگی کیونکہ‬
‫اس نے مجھے سونے کاا یک طریقہ‬
‫بتایا جس میں ایک گھنٹے میں سو‬
‫کر اپنی نیند پور کرلیتا تھا‪،‬اب‬
‫دوسرے مہینے ہی شام سے لیکر رات‬
‫گئے تک کوان لی ہوتا تھا اور میں‬
‫ہوتا تھا‪،‬یونیورسٹی جانے سے میں‬
‫گھبراتا تھا اور بس ضروری پیریڈ لے‬
‫کر فلیٹ میں آجاتا تھا ‪،‬کوان لی‬
‫میرے انتظار میں ہوتا تھا ‪،‬اور مشِق‬
‫ستم شروع ہوجاتی تھی‪،،‬جوسلین‬
‫کو بھی اتنا وقت نہیں ملتا تھا‪،،‬‬
‫کوان لی اب ‪ 10‬گھنٹے لےجاتا‬
‫تھا‪،،‬رات کو جوسلین مختلف علوم‬
‫پڑھاتی‪،،‬اب میرا حافظہ بہترین‬
‫ہوگیا تھا اور صرف ایک بار پڑھنے‬
‫سے ہربات یاد ہوجاتی تھی ‪،،‬یہ بھی‬
‫کوان لی کی مہربانی تھی ‪،،،‬لہذا‬
‫یہاں بھی میرا کام آسان ہوگیا تھا۔‬
‫کوان لی انسانی جسم میں چھپی‬
‫صالحیتوں سے کام لینا جانتا‬
‫تھا‪،،‬تیسرے مہینے ہی میں جسم سے‬
‫نکل کر ‪،‬چی ‪،‬میں داخل ہوگیا‬
‫تھا‪،‬واقعی کوان لی نے صحیح کہا‬
‫تھا بیلٹ کا یہاں کیا کام یہ تو بہت‬
‫آگے کی چیز تھی‪،،‬میں نے بلیک بیلٹ‬
‫‪ 10‬ڈان تک جانے کا رادہ کیا تھا‬
‫‪،،‬اس سے آگے ریڈبیلٹ تھی جو کہ‬
‫میں بس سوچ ہی سکتا تھا اور آخر‬
‫میں گولڈن بیلٹ تھی ‪،‬جو دنیا میں‬
‫چند استادوں کےاستاد کو ملتی تھی‬
‫(چائنیز مارشل آرٹ میں آخری گریڈ‬
‫کو گولڈن ڈریگن کہتے ہیں)‪،‬ہر‬
‫اسٹائل کی اپنی گولڈن بیلٹ‬
‫ایسوسی ایشن تھی‪،،،،‬لیکن کوان لی‬
‫کے سامنے بیلٹ کوئی چیز ہی نہیں‬
‫تھی‪،،‬آخر اس کے پاس کیا تھا جو وہ‬
‫کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا‬
‫کسی کو یہ فن دینا نہیں چاہتا‬
‫تھا‪،،،‬اور کیا وہ واقعی اپنے سارے‬
‫کام چھوڑ کر جمی جمائی زندگی کو‬
‫چھوڑ کر اپنی فیملی چھوڑ کر‬
‫دوست احباب چھوڑ کر صرف پیسے‬
‫کیلیے میرے پاس آیا تھا؟ایسے‬
‫باکمال شخص کو پیسے کی کیا فکر‬
‫تھی‪،،‬وہ جب چاہے دنیا اس کے‬
‫سامنے جھک جائے لیکن وہ گوشہ‬
‫نشینی کی زندگی گزار رہا تھا‪،،،‬کئی‬
‫سوالت مجھے ستاتے تھے جن کا‬
‫کوئی جواب میرے پاس نہیں‬
‫تھا‪،،،،‬اب وہ میرے ساتھ کھلتا جا رہا‬
‫تھا‪،،،‬میرے دل میں اس کی قدر‬
‫بڑھتی جارہی تھی ‪،‬اگر میں یہ کہوں‬
‫توجھوٹ نہ ہوگا کہ اسوقت اگر وہ‬
‫کہتا کہ جوسلین کوچھوڑدو تو میں‬
‫جوسلین کیا سب کچھ چھوڑ کر اس‬
‫کے ساتھ ہوجانا تھا‪،،‬چوتھے مہینے‬
‫سب کام بس کچھ وقت لیتے تھے‬
‫یونیورسٹی جو میں نے بڑے ارادوں‬
‫سے شروع کی تھی اسے سب سے کم‬
‫وقت ملتا تھا‪،،‬بس جوسلین کی وجہ‬
‫سے میرا داخلہ چل رہا تھا اور دوسرا‬
‫میری کارکردگی اچھی تھی‪،،‬اب سارا‬
‫وقت کوان لی کا تھا‪،،‬اس سے آگے‬
‫جو کچھ کوان لی نے مجھے دیا وہ‬
‫بتاؤں تو مبالغہ آرائی کہالئے‬
‫گی‪،،‬لیکن جو مجھے مال اس نے‬
‫میری زندگی بدل دی‪،‬مجھے اندازہ‬
‫ہی نہیں تھا کہ ایسی بلند نعمت‬
‫میری قسمت میں لکھی ہوئی ہے‬
‫‪،،،‬جوسلین کو وقت سب سے کم مل‬
‫رہا تھا‪،،‬کیونکہ اب میں کوان لی کو‬
‫میں فلیٹ میں لے آیا تھا پہلےبھی‬
‫وہ زیادہ وقت یہیں گزارتا تھا ‪،‬اس‬
‫نے نیچے بیسمنٹ اپنے لیئے پسند‬
‫کی‪،‬وہ شاید نہیں چاہتا تھاکہ میرے‬
‫اور جوسلین کے درمیان آئے‪،،‬پہلے‬
‫بھی اس کی ضروریات اور زندگی‬
‫بڑی محدود تھی ۔کیونکہ وہ کم‬
‫کھاتا تھا ‪،،‬کم سوتا تھا‪،،‬اور کم بولتا‬
‫تھا سوائے مارشل آرٹ تھیوری‬
‫کہ‪،،‬فارغ وقت میں آنکھیں بند کیے‬
‫کسی دھیان میں ڈوبا رہتا تھا ‪،،،‬چھ‬
‫مہینے میں دست شناسی‪،،‬بروج‪،‬اور‬
‫نفسیات کا میں ماہر بن گیا تھا‪،‬گو کہ‬
‫میں نے اسے کم وقت دیا تھا لیکن‬
‫مجھے نہیں پتہ کیسے ‪،‬میری‬
‫صالحیتیں‪ 10‬گنا ہو گئی تھیں‪،‬کوان‬
‫لی سے میں ُکھل مل گیا میں نے اسے‬
‫اپنی ساری کہانی بتائی‪،،‬نگینہ کی‬
‫بھی‪،‬جوسلین سے ملنے کی ‪،‬اس نے‬
‫مجھے اپنی بتائی‪،،‬ہمارے راز و نیاز‬
‫ہو گئے‪،،‬اور تب مجھے احساس ہوا‬
‫کہ اس دنیا میں میرا استاد ہی میرا‬
‫سب سے بہترین رشتہ ہے‪،‬میرے اندر‬
‫جو ایک خال تھا وہ جیسے پر ہوگیا‬
‫‪،‬مجھے ایسے لگا جیسے باپ کی‬
‫شفقت کا سایہ پھر مجھ پر آگیا ہے‬
‫‪،‬آخر سال ختم ہونے واال ہوگیا‪،،‬وقت‬
‫کبھی نہیں رکا ‪،،‬سال گزر گیا‪،،‬اور‬
‫کوان لی نے میری تکمیل کردی‪،،‬ایک‬
‫ایسی تکمیل جو میرے وہم وگماں‬
‫میں بھی نہیں تھی‪،،‬بلکہ میں تو‬
‫ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا‬
‫تھا‪،،‬اب مجھے دنیا اپنے سامنے ہیچ‬
‫لگتی تھی‪،،‬مجھ میں وہ اعتماد تھا‬
‫کہ ہر چیز مفتوح لگتی تھی‪،،‬مگر‬
‫ساتھ ہی کوان لی نے مجھے کنٹرول‬
‫کرنا سکھا دیا ‪،،‬اس نے بتایا تھا کہ‬
‫مجھ میں ظرف ہے اور یہ وہ میر ی‬
‫ویڈیو دیکھتے ہی سمجھ گیا‬
‫تھا‪،،‬اسے یقن ہوگیا تھا کہ میں‬
‫چھلکنے کی بجائے اس کی امانت کو‬
‫سنبھال کر رکھوں گا ااور اس کا‬
‫صحیح استعمال کروں گا ‪،‬اسی لیے‬
‫وہ اپنا فن مجھے دینے آیا تھا ‪،‬بقول‬
‫اس کے میں اس امانت کا اہل تھا‬
‫‪،‬آخرکوان لی چال گیا‪،،‬لیکن ہمارا‬
‫رابطہ کبھی نہیں ٹوٹا۔۔نہ‬
‫مجھےکبھی احسا س ہوا کہ کوان لی‬
‫مجھ سے دور ہے‪،‬کہانی کا یہ حصہ‬
‫شاید میری طرِز زندگی سے میل‬
‫نہیں کاکھاتا یا اسے یہاں نہیں ہونا‬
‫چاہیے ‪،‬لیکن یہی حصہ میرا اہم ترین‬
‫حصہ ہے اس کے بغیر میں ادھورا‬
‫ہوں ‪،‬نا مکمل ہوں‪،،‬اب میری زندگی‬
‫ہی بدل گئی تھی‪،،‬کوان لی کے جانے‬
‫کے بعد جوسلین کو میرے قریب آنے‬
‫کا موقع مال‪،،‬کیونکہ آخر ی تین‬
‫مہینے میں ‪،‬میں بھی بیسمنٹ میں‬
‫ہی رہنے لگا تھا ‪،‬بلکہ سیکس تو ہم‬
‫نے ‪ 4‬مہینے سے نہیں کی ‪،‬کوان لی‬
‫کے جانے کے تیسرے دن میں الئبریری‬
‫میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا ‪،‬شا م کا‬
‫وقت تھا‪،،‬جب جوسلین دروازے میں‬
‫نمودار ہوئی‪،،‬اس ایک چادر لی ہوئی‬
‫تھی میں ا سکی طرف دیکھ کر‬
‫مسکرایا‪،،‬آپ کا تحفہ حاضر ہے‬
‫حضور‬
‫ہماری سب سے پہلی رات جوسلین (‪،‬‬
‫نے خود کو میرے لیے تحفہ کہا تھا‬
‫جوسلین نے ایک ادا سے کہا‪)،،،‬‬
‫‪،،‬جوسلین نے چادر گرا دی ‪،،‬اور‬
‫خراماں خراماں چلتی ہوئی میرے‬
‫پاس آئی‪،،‬میں کھڑا ہوگیا‪،،‬اور اسے‬
‫گلے سےلگالیا‪ ،،‬وہ ہجرِ یار کی ماری‬
‫ہوئی تھی‪،،‬اور اب اپنے محبوب کے‬
‫وصال سے مخمور ہونے آئی‬
‫تھی‪،،‬ایک لمبی سی کسنگ کے بعد‬
‫میں نے اسے رائٹنگ ٹیبل پر اس کے‬
‫چوتڑ ٹکا کر اس کی ایک ٹانگ کرسی‬
‫پر رکھی‪،،‬جوسلین نے میری پینٹ‬
‫کی بیلٹ کھول کر نیچے کر دی‬
‫اورانڈرویئر بھی نیچے کردیا‪،،‬میں نے‬
‫اس کے اندر ڈاال اور چودائی شروع‬
‫کر دی ‪،،‬جوسلین میری چودائی سے‬
‫ہمیشہ محظوظ ہوتی تھی‪،،‬بھرپور‬
‫مزہ لیتی تھی‪،،‬اسے نشہ چڑھ جاتا‬
‫تھا‪ ،،‬لیکن آج میرے پہلے جھٹکے سے‬
‫پتہ نہیں اس نے کیا محسوس کیا‬
‫تھا کہ وہ گہری نظروں سے مجھے‬
‫دیکھ رہی تھی‪،،،‬میں چودائی کرتا‬
‫رہا اور جوسلین مجھےگہری نظروں‬
‫سے دیکھتی رہی‪،،‬آخرہمارا پانی نکل‬
‫گیا‪ ،،‬فارغ ہونے کے بعد میں وہیں‬
‫ایک کرسی پر بیٹھ گیا‪،،‬جوسلین‬
‫ٹیبل پربیٹھ گئی‪،،‬جوسلین اب بھی‬
‫مجھے گہری نظروں سے دیکھ جا‬
‫رہی تھی‪،،‬جیسے مجھے پڑھنا چاہتی‬
‫‪،‬یا میرے اندر کچھ کھوجنا چاہتی‬
‫ہو‪،،‬لیکن اسے ناکامی ہورہی‬
‫تھی‪،،‬پرنس تم نے یہ انداِز چودائی‬
‫کہاں سے سیکھا؟ با آلخر جوسلین‬
‫نے بات شروع کی‪،،‬آج سے پہلے میں‬
‫ہی سوال کرتا تھا اور اس نے کچھ‬
‫پوچھنا ہو تو یا کہنا ہو تو میں اس‬
‫کے تاثرات سمجھ کر خود ہی بول‬
‫پڑتا تھا‪،‬لیکن آج اتنا گہرائی میں‬
‫دیکھنے کے بعد بھی مجھ پر اس کی‬
‫شخصیت کا جادو ویسا نہیں‬
‫چال‪،،‬کہیں سے نہیں سیکھا‬
‫جوسلین‪،،‬سچ بولو پرنس ‪،،‬کیا یہ‬
‫سب کوان لی نے سکھایا‬
‫تمھیں‪،،‬جوسلین کوان لی نے مجھے‬
‫ایسا کچھ نہیں سکھایا‪،،‬لیکن اس نے‬
‫مجھے جو بھی سکھایا ہے اب اس‬
‫سے میں ہر وہ کام بہترین کر سکتا‬
‫ہوں جس میں جسم شامل‬
‫ہو‪،،‬جوسلین کسی گہری سوچ میں‬
‫ڈوبی ہوئی تھی‪،،‬پرنس تم ہمیشہ‬
‫میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی‬
‫طرح رہے ہو‪،،‬میں تمھارے دل کی‬
‫ہربات جان لیتی تھی‪،،‬اور تم میرے‬
‫سامنے ایک بچے جیسے تھے‪،،‬ایک‬
‫ایسا بچہ جس کی ہر خواہش پوری‬
‫کرنا میرے لیے ضروری تھا‪،،‬تم تب‬
‫بھی میرے سامنے بچے تھے جب تم‬
‫نے چار سال میرے ساتھ گزار لیے‬
‫تھے اور میں نےتمھیں یونیورسٹی‬
‫میں داخل کروایا تھا‪،،‬جو تم نے‬
‫سیکھنا چاہا وہ سیکھ کہ بھی تم‬
‫میرے سامنے بچے تھے‪،،‬لیکن آج‬
‫مجھے لگ رہا ہے جیسے وہ بچہ یکدم‬
‫بڑا بزرگ بن گیا ہے‪،،،‬اور میں چھوٹی‬
‫سی بچی بن گئی ہوں‪،،‬تم مجھے‬
‫جیئنس سمجھتے ہو ‪،،،‬اور یہ‬
‫جیئنس آج تمھارے سامنے کچھ‬
‫نہیں ہے‪،،‬تمھارا اعتماد‪،‬تمھارا‬
‫سکون‪،،‬تمھارا انداز‪،،‬جیسے ہر چیز‬
‫تمھارے لیے مفتوح ہے‪،،‬اور جیسا‬
‫سیکس تم نے کیا ہے ‪،،‬ایسا تو میں‬
‫کبھی سوچ بھی نہیں سکتی‪،،‬یہ تو‬
‫کسی کتاب میں بھی نہیں ہے‪،،‬ایسا‬
‫مزہ مجھے پچھلے چار سال میں‬
‫نہیں مال‪،،‬شاگرد ہمیشہ استاد سے‬
‫بڑھ جاتے ہیں‪،،،‬لیکن میرا اندازہ تھا‬
‫کہ تم مجھ سے آگے جاتے جاتے بھی‬
‫اتنا وقت لے جاؤ گے کہ میری کہانی‬
‫تمام ہوجائے گی‪ ،‬لیکن آج یہ شاگرد‬
‫مجھ سے بہت آگے چال گیا‬
‫ہے‪،،‬کیونکہ یہ میرے بس میں نہیں‬
‫ہے‪،،‬میری سمجھ میں نہیں آرہا‪،،،‬پلیز‬
‫مجھے بتاؤکوان لی نے تمھیں ایسا‬
‫کیا دیا ہے کہ تم اس درجے تک پہنچ‬
‫گئے ہو‪،،‬یقینًا جوسلین کو زبردست‬
‫جھٹکا لگا تھا‪ ،،‬اسے اچانک آگاہی‬
‫ہوئی تھی‪،،‬جو ا سے خود پر کنٹرول‬
‫نہیں رہا تھا اور کھل کھال کے میری‬
‫برتری اور اور اپنی کمتری کا اعالن‬
‫کر رہی تھی‪،‬جوسلین یہ تو تم جانتی‬
‫ہی ہوگی کہ عام آدی کسی علم کو‬
‫کسی فن کو دس سال سیکھنے میں‬
‫لگا دیتے ہیں۔‪،‬اور وہی علم خاص آدی‬
‫ایک سال میں سیکھ جاتا ہے‪،،‬ہاں‬
‫میں جانتی ہوں‪،،‬جوسلین نے سعادت‬
‫مندی سے کہا‪،‬کبھی اس طرح میں‬
‫اس کے سامنے شاگردانہ انداز میں‬
‫کہتا تھا‪،،‬اب تو میرا بات کرنے کا‬
‫انداز ہی بدل گیا تھا اور اپنے‬
‫موجودہ علم کو بہترین انداز میں‬
‫استداللی طریقہ سے استعمال کرتا‬
‫تھا۔میرے پاس تھوڑا بھی بہت ہوگیا‬
‫تھا‪ ،،‬تو جوسلین میری جان اسی‬
‫طرح کچھ علوم اور فنون ایسے ہوتے‬
‫ہیں جو باقی علوم و فنون پر حاوی‬
‫ہوتے ہیں ۔ان میں اتنا کچھ ہوتا ہے‬
‫جو باقی سب کچھ اپنے اندر سمو‬
‫لیتا ہے‪،،‬جیسے ِس ّر ی علوم باقی علوم‬
‫پر حاوی ہوتے ہیں‪،،‬کوان لی کا فن‬
‫ایسا ہی تھا جو بہت کچھ پر حاوی‬
‫ہے‪،‬کوان لی اپنے فن میں اتنا آگے ہے‬
‫کہ دنیا اس کے فن کے سامنے کچھ‬
‫نہیں ہے‪ ،‬تم نے میری خواہش پوری‬
‫کرنے کیلیےاس فن میں دنیا کا‬
‫انتہائی آدمی تالش کیا‪،،‬تم سمجھتی‬
‫تھی کہ یہ بس لڑنے بھڑنے کیلیے‬
‫ہے‪،،‬لیکن یہ فن جسم سے آگے نکل‬
‫جاتا ہے ‪،،،‬اندر کی باتیں شروع‬
‫ہوجاتی ہیں‪ِ،،‬س ّر ی علوم میں یہ انتہا‬
‫پر ہے‪،،‬اگر تم ا سکے بارے میں مزید‬
‫کچھ جاننا چاہتی ہو تو کراٹے کی‬
‫بجائے( کراٹے ُڈ و )پر کچھ پڑھنا‬
‫‪،‬تمھیں سمجھ آجائے گی کہ مجھے‬
‫کون سا خزانہ مل گیا ہے‪،‬تم اپنے‬
‫تجربے اور علم اور صالحیتوں سے‬
‫انسان کو پڑھنے اور انکو استعمال‬
‫کرنے کی قدرت پر تھی‪،،‬یعنی انسان‬
‫کے اندر قبضہ کرلیتی تھی‪،‬بات کرتے‬
‫کرتے میں رک گیا‪،‬کیونکہ جوسلین‬
‫بولنے لگ گئی تھی‪،،،‬اور اب تمھارا‬
‫اندر میرے بس سے باہر ہے‪،،‬کیونکہ‬
‫تمھارے اندر کوان لی کا فن آگیاہے‬
‫جوسلین خاموش ہوگئی‪،،‬کوان لی‬
‫میرے باپ کی جگہ پر ہے‪،‬میں نے دل‬
‫کی گہرائیوں سے کہا‪،،،‬میں نے‬
‫جوسلین کا جتانا ضروری‬
‫سمجھا‪،،‬جوسلین نے مجھے چونک کر‬
‫دیکھا‪،،،‬اسے پتہ ہی نہیں چال اور‬
‫میرا اور کوان لی کا رشتہ کتنا گہرا‬
‫بن گیا تھا اور اس باپ نے مجھے‬
‫اپنی ساری عمر کی محنت مجھے‬
‫وراثت میں دے دی تھی ‪،،‬گڈلک ۔۔۔۔۔‬
‫جو تم بننا چاہتے تھے وہ تم بن‬
‫گئے‪،،‬اتنا کہہ کر جوسلین آہستگی‬
‫سے چلتی ہوئی الئیبریری سے باہر‬
‫نکل گئی‪،،‬واہ استاد ‪ ،‬پہلے ہلّے میں‬
‫ہی پہاڑ گرا دیا ‪،‬میں نےکوان لی کا‬
‫تصور کرکے کہا‪،،‬مجھے ایسا لگا‬
‫جیسے اسنے مسکرا کر میرے سر پر‬
‫چپت ماری ہوآج وہ بہت خوش تھا‬
‫‪،،،‬ادھر آج بہت عرصے بعدجوسلین‬
‫نے میرا اصل نام لیا تھا‪،،‬میں اس کے‬
‫احساسات سمجھ رہا تھا اور یہ بھی‬
‫سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا سوچ رہی‬
‫ہے‪،،‬وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ اب‬
‫مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی‪،،‬‬
‫میں اسکے پیچھے چال گیا‪،،‬وہ بیڈ پر‬
‫آنکھیں بند کیے لیٹی تھی‪،،‬میں چپ‬
‫لیٹ گیا اور اسے بانہوں میں لے‬
‫لیا‪،،،‬مجھے پتہ ہی نہیں چال کہ تم‬
‫آئے ہو‪،،‬جوسلین آہستگی سے‬
‫بولی‪،،‬اب یہ توہو نہیں سکتاتھا اسے‬
‫میرے آنے کا پتہ چلتا۔ دشمن کے‬
‫پاس جاؤ اور اسےتب پتہ چلے جب‬
‫اس کی جان نکل رہی ہو میرے ذہن‬
‫میں کوان لی کا فقرہ گونجا ‪،،،،‬تو‬
‫جوسلین کو میرے آنے کا احساس‬
‫کیسے ہوسکتا تھا‪ ،،‬میں نے سوچا اب‬
‫جوسلین کو میری بہت سی باتوں‬
‫سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا‪،،‬میری‬
‫جان جوسلین‪،،‬میں جوبھی آج‬
‫ہوں‪،،‬تمھاری بدولت ہوں‪،،‬اسلیے‬
‫میرے لیے تم سب سے اہم ہو اور میں‬
‫ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں‪،،‬جوسلین‬
‫نے چونک کر میری طرف گردن موڑ‬
‫کر دیکھا‪ ،،‬وہ سمجھ گئی کہ میں‬
‫اس کے دل کی بات جان گیا ہوں‪ ،،‬یہ‬
‫اس کیلیے جھٹکا تھا‪ ،‬کہ میں اس‬
‫کی دل کی باتیں سمجھنے لگا‬
‫ہوں‪،،‬وہ دسروں کی دلی باتیں‬
‫سمجھنے اور اپنی چھپانے میں ماہر‬
‫ترین تھی ‪،‬مجھے پتہ تھا کہ میں‬
‫اسے کچھ وقت میں نارمل کر لوں گا‬
‫‪،،،‬ہم لیٹے رہے ‪،،‬پھر کھانے کا وقت ہو‬
‫گیا‪،،‬تو میں کھانا لے کر بیڈ پر ہی‬
‫آگیا‪،،‬ہمیشہ کھانا جوسلین ہی بناتی‬
‫تھی وہی التی تھی‪،‬وہی میرے کپڑے‬
‫دھوتی ‪،،‬انہیں استری کرتی‪،،‬میرے‬
‫جوتے پالش کرتی تھی‪،،‬غرضیکہ‬
‫جوسلین میرا ہر کام کرتی تھی ۔۔‬
‫جیسے میں اس کا مجازی خدا ہوں‬
‫اور و ہ میری کنیز ہو‪،،‬گھر میں‬
‫صفائی کیلیے ایک جز وقتی ماسی‬
‫آتی تھی‪،،‬اور جوسلین کے کپڑے اور‬
‫برتن وغیرہ وہ دھوتی تھی‪ ،‬جوسلین‬
‫نے کروڑوں پتی ہونے کے باوجود‬
‫میرا ہر کام اپنے ہاتھ سے کیا تھا‪،،‬اور‬
‫میری ہر خواہش پوری کرنے کیلے‬
‫پیسہ پانی کی طرح بہایا‪،،‬اور مجھے‬
‫بھرپور محبت دی‪،،‬جب میرے پاس‬
‫کچھ نہیں تھا اس نے مجھے سہارا‬
‫دیا‪،،‬میں جوسلین کو کیسے چھوڑ‬
‫سکتا تھا‪،،‬اگلے دن سے میں باقاعدگی‬
‫سے یونیورسٹی جانے لگا‪،،‬میں شاید‬
‫آج چار ماہ بعد آیا تھا‪ ،،‬یہ میرا فائنل‬
‫ائیر تھا‪،،‬لیکن جتنی نفسیات‬
‫سیکھنی چاہیے تھی اتنی سے زیادہ‬
‫نفسیات کو مکمل کرچکا تھا‪،،‬میں‬
‫بس جوسلین کو دکھانے آیا تھا کہ‬
‫سب کچھ پہلے کی طرح نارمل‬
‫ہے‪،،‬پرنس ‪،‬پرنس ‪،،‬دوستوں کے حلقے‬
‫میں نام گونجا‪،‬وہ میرے گرد جمع‬
‫ہونے لگے‪،،‬کیا بات ہے یار ‪،‬کہاں گم‬
‫ہوگئے تھے ‪،‬بس کچھ مصروف‬
‫تھا‪،،‬تم لوگ سناؤ‪،،‬ہم ٹھیک‬
‫ہیں‪،،‬جوسلین کا پیریڈ آ گیا تھا ہم‬
‫کالس کی طرف چل دیئے‪،‬میں اپنی‬
‫جگہ پر جا کر بیٹھ گیا‪،‬اور میرے‬
‫ساتھ ایک لڑکی آ کر بیٹھ‬
‫گئی‪،،‬جیسے خوشبو کا جھونکا آتا‬
‫ہے‪،،‬ویسے مجھے اس کے جسم کی‬
‫خوشبو محسوس ہوئی‪،،‬انسان‬
‫مجھے پہلے ایسے محسوس نہیں‬
‫ہوتے تھے‪،‬آس پاس بیٹھے لڑکوں کی‬
‫توجہ اس کی طرف تھی اور فضا‬
‫میں شہوت کی مالوٹ ہو گئی‬
‫تھی‪،،‬یہ سب اس کی لڑکی وجہ سے‬
‫ہورہا تھا اور مجھے کسی کی طرف‬
‫دیکھے بغیر سب محسوس ہو رہا تھا‬
‫کوئی اور وقت ہوتا تو میں اس لڑکی‬
‫کی طرف ضرور دیکھتا‪،،‬لیکن سامنے‬
‫جوسلین کھڑی تھی‪،‬اور اس کی‬
‫نگاہیں مجھ پر ہی تھی‪،‬یقینًا یہ‬
‫لڑکی کالس روم میں نئی آئی تھی‬
‫اور یہ واقعہ میرے بعد ان پچھلے‬
‫تین مہینوں میں ہوا تھا‪،‬لڑکی میں‬
‫کشش تھی‪،،‬اس کے سامنے رکھے‬
‫ہاتھوں سے اندازہ ہوا کہ اس کی‬
‫رنگت سفید گالبی ہے اور انگلیاں‬
‫لمبی مخروطی تھیں ‪،‬جن سے نازک‬
‫مزاجی اور آرٹسٹک خیاالت کا ندازہ‬
‫ہوتا تھا‪،،‬جسم اس کا سمارٹ لگ رہا‬
‫تھا‪،‬بال لمبے تھے اس کالباس‬
‫موجودہ فیشن کے مطابق تھا‪،،‬پاس‬
‫بیٹھے ہوئے اس کے اثرات مجھ پر‬
‫اثر کر ہے تھے ‪،‬یقینًا یہ کوئی عا م‬
‫لڑکی نہیں تھی‪،،‬میں پھر مشکل میں‬
‫پڑ گیا‪،،‬کیونکہ جوسلین کا دھیان‬
‫میری ہی طرف تھا لیکن وہ پڑھا رہی‬
‫تھی‪،،‬اب اس مصیبت کا کیا حل‬
‫تھا‪،،‬کیا میں پھر یونیورسٹی سے‬
‫بھاگ جاؤں‪،،‬جیسے تیسے پیریڈ‬
‫گزرا‪،،‬جوسلین اپنا دوسرا پیریڈ لینے‬
‫چلی گئی‪،،‬میں نے لڑکی کی اور اس‬
‫نے میری طرف دیکھا‪،،‬پروفیسر کی‬
‫توجہ مسلسل تمھاری طرف‬
‫تھی‪،،‬اس نے مجھے سرگوشی‬
‫کی‪،‬جیسے ہم پرانے کال س فیلو‬
‫ہوں‪،،‬ہاں کیوں کہ میں اس کا ‪،‬لے‬
‫پالک ہوں‪(،‬میں نے کبھی اسے اپنی‬
‫ماں نہیں کہا‪،،)،‬لڑکی نے یکدم میری‬
‫طرف دیکھا‪،،،‬میں اس کی طرف‬
‫دیکھ رہا تھا‪،‬اسکے چہرے پر‬
‫شرمندگی تھی‪،‬سوری مجھے معلوم‬
‫نہ تھا ‪،‬میں اس کالس میں نئی‬
‫ہوں‪،‬دو مہینے پہلے آئی ہوں‪،‬اور میں‬
‫تقریبًا چار ماہ بعد آیا ہوں‪،‬اس طرح‬
‫دیکھا جائے تو آپ کا کوئی قصور‬
‫نہیں ہے‪،،‬میرا نام پرنس ہے ‪،‬اور میرا‬
‫نام غزل ہے‪،،،‬کس شاعر کی غزل ہیں‬
‫آپ ؟ میں نے ازراِہ مزاق کہا‪،‬ابھی تک‬
‫اس بال(محبت) سے بچی ہوئی‬
‫ہوں‪،،،‬غزل نے شگفتگی سے کہا‪،،‬نئے‬
‫پروفیسر اپنا پیریڈ شروع کرچکے‬
‫تھے‪،‬ہم نے ان کی طرف توجہ‬
‫کی‪،‬نہیں تو وہ ہماری طرف توجہ‬
‫کرلیتے‪،،‬غزل انتہائی خوبصورت‬
‫تھی‪،،‬جوسلین کیا نازیہ بھی اس کے‬
‫سامنے کچھ نہیں تھی‪،‬ابھی تک‬
‫یونیورسٹی میں اتنی حسین لڑکی‬
‫میں نے نہیں دیکھی تھی‪،‬میرا اندازہ‬
‫تھا کہ چہرے کے ساتھ ساتھ اس کا‬
‫جسم بھی خطرناک حد تک حسین‬
‫ہے‪،،‬یہ تو چلتا پھرتا ایٹم بم تھی‪،،‬پتہ‬
‫نہیں وہ میرے بارے میں سوچ رہی‬
‫تھی کہ نہیں مگر میں اسے‬
‫محسوس کیے جا رہا تھا بلکہ اس‬
‫کی سانسوں کی مہک بھی محسوس‬
‫کر رہا تھا و ہ پورا دن میں‬
‫یونیورسٹی میں رہا‪،‬اور غزل میرے‬
‫ساتھ رہی‪،،‬ہم جیسے ایکدوسرے کے‬
‫ہی منتظر تھے اسی دن ہم میں‬
‫دوستی ہوگئی‪،‬اور بےتکلفی پاس آنے‬
‫لگی‪،،‬ہم بڑی تیزی سے قریب‬
‫آئے‪،،‬سہہ پہر کو جب میں فلیٹ پر‬
‫پہنچا تو جوسلین کھانا بنائے میرا‬
‫انتظار کر رہی تھی‪،‬جاتے ہی میں‬
‫کھانا شروع کردیا‪ ،‬بڑی خوبصورت‬
‫لڑکی ہے غزل ‪،،‬جوسلین نے نوالہ لیتے‬
‫ہوئے کہا‪،،‬میں نے جوسلین کی طرف‬
‫دیکھا اور خاموشی سے کھانا کھاتا‬
‫رہا ‪،‬بڑی تیزی سے تم دونوں قریب‬
‫آئے ہو‪،،‬جوسلین جیسے کافی دیر سے‬
‫ضبط کر رہی تھی اور اب پھٹ رہی‬
‫تھی‪،،‬جوسلیں میری جان‪،،‬وہ اچھی‬
‫لڑکی ہے‪،،‬اور میں اسے اچھی دوست‬
‫مانتا ہوں ‪،،‬بس اور کچھ نہیں ہے۔‬
‫اچھا یک ہی دن میں دوستی ہوگئی‬
‫ہے‪،‬جوسلین نے طنزیہ لہجے میں‬
‫کہا‪،‬دوستی کیلیے کوئی وقت تو‬
‫مقرر نہیں ہے کہ اتنی دیر میں ہونی‬
‫ہے اور اتنی دیر میں نہیں ہونی‬
‫‪،،‬جوسلین کاانداز برقرار تھا‪،،‬وہ ایک‬
‫شکی بیوی کا کردار ادا کر رہی‬
‫تھی‪،‬میری طرف سے تحمل کا مظاہر‬
‫بڑا ضروری تھا‪،‬لیکن جب جوسلین‬
‫گنوار عورتوں کی طرح طرح جلی‬
‫کٹی سنا تی گئی تو میں کھانا چھوڑ‬
‫کر الئبریری میں چال گیا اور کرسی‬
‫پر بیٹھ کر سر ٹیبل پر ٹکا دیا‪،‬اور‬
‫دھیان لگا دیا‪،،‬میں ایسی باتوں کا‬
‫عادی نہیں تھا‪،،‬کچھ ہی دیر میں‬
‫میرے سر پر انگلیاں پھرتی‬
‫محسوس ہوئیں‪،‬میرے پرنس ‪،‬کیا‬
‫ناراض ہوگئے تم‪،‬تمھاری دل آزاری تو‬
‫میرا مقصد نہیں تھی‪،،‬سوری ‪،،‬پلیز‬
‫‪،‬سوری‪،،‬جوسلین میرے پاس فرش‬
‫پر بیٹھ گئی‪،‬اب جانے بھی نہ‪،،‬معاف‬
‫کر دو اب آئیندہ ایسا نہیں ہو‬
‫گا‪،،‬جوسلین نے اپنے کان پکڑتے ہو ئے‬
‫مزاحیہ انداز میں کہا‪،،‬اس کے انداز‬
‫سے میں بھی ہنسنے لگا‪،،‬جوسلین نے‬
‫معافی مانگ کر مجھے منا لیا‪،،‬لیکن‬
‫اس نے پینترا بدل لیا اور غزل کی‬
‫دشمن ہوگئی‪،‬اپنی پیریڈ میں وہ‬
‫طرح طرح سے غزل کوِزچ کرنے‬
‫لگی‪،،‬ادھر ہماری قربت بڑھتی‬
‫گئی‪،،‬میں بس اس کے حسن کا‬
‫دیوانہ ضرور تھا لیکن غزل کو اچھی‬
‫دوست ہی سمجھتا تھا ‪،‬کیونکہ پہلی‬
‫مالقات میں ہی میں جان گیا تھا کہ‬
‫وہ میرے ٹائپ کی لڑکی نہیں ہے‬
‫یعنی وہ چودائی کی شوقین نہیں‬
‫ہے بلکہ ایسی باتوں سے دور بھاگتی‬
‫ہے‪،‬وہ ایک اچھی اور معصوم لڑکی‬
‫تھی‪،،‬اور میں نے پہلے دن سے ہی‬
‫اس کی طرف خلوِص دل سے ایک‬
‫اچھے دوست کے طور پر ہاتھ بڑھایا‬
‫تھا‪،،‬ہماری دوستی تو بڑھتی گئی اور‬
‫مالقاتیں بھی ہوتی تھیں‪،‬لیکن‬
‫جوسلین اس کا مطلب اور لیتی‬
‫گئی‪،،‬جوسلین نے اس دن کے بعد‬
‫مجھ سے تو کچھ کہا نہیں لیکن‬
‫غزل کو ہر طرح سے تنگ کیا‪،‬غزل‬
‫سمجھ نہیں رہی تھی کہ یہ کیوں ہو‬
‫رہا ہے‪،‬ادھر یہ مسلہ بن گیا کہ غزل‬
‫مجھ سے منسلک جذبات کو کوئی‬
‫اور ہی رخ دے بیٹھی‪،،‬مجھے‬
‫احساس ہو گیا لیکن اب دیر ہوچکی‬
‫تھی‪،،‬ویسے بھی میں اسے اپنے بارے‬
‫میں تقریبًا ہر بات بتا چکا تھا ‪،‬بلکہ‬
‫جوسلین کا رویہ دیکھ کہ میں نے‬
‫اسے جوسلین اورا پنا تعلق بھی بتا‬
‫دیا تھا‪،،‬میں غزل پر ہر طرح سے‬
‫اعتما دکرنے لگا تھا‪،‬نگینہ کی کہانی‬
‫تو اسے میں پہلے ہی بتا چکا تھا‪،‬‬
‫جانے کب کیسے غزل میری ساتھ‬
‫محبت کر بیٹھی ‪،‬یا یہ میری غفلت‬
‫تھی کہ میں نے اس سے آنکھیں بند‬
‫کر لیں‪،‬ایسی ہی کچھ بات تھی‪،‬دن‬
‫پر دن گزرتے گئےغزل تو میرا اور‬
‫جوسلین کا تعلق سمجھنے کے بعد‬
‫جوسلین کا رویہ نظر انداز کرنے لگ‬
‫‪.‬گئی‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_13‬‬

‫لیکن میں جوسلین کو سمجھانے کے‬


‫بعد اب تپنے لگا تھا‪،،‬اور اسی غصے‬
‫میں‪،،‬ایک دن میں مولوی کہ گھر‬
‫جاپہنچا‪،،‬میں کار میں تھا یہ‬
‫جوسلین نےلیکر دی تھی‪،،‬اور میرے‬
‫پاس کافی تحائف تھے‪،،‬یونیورسٹی‬
‫کے بعد میں سیدھا ادھر گیا تھا‬
‫‪،،‬مولوی گھر میں ہی تھا‪،،‬مجھے‬
‫دیکھ کر حیران رہ گیا‪،،‬مجھے گھر‬
‫میں لے گیا‪،،‬شہزادے میں تو سمجھا‬
‫تھا کہ تم ہمیں بھول گئے‪،،‬مولوی‬
‫جوش میں تھا ‪،،‬مولوی صاحب بس‬
‫معامالت حل ہونے میں کافی دیر لگ‬
‫گئی ۔ چچا مجھے لندن لے گئے اور‬
‫پھر وہیں سے سارے معامالت‬
‫کنٹرول کیے۔مولوی کی بیوی اور اس‬
‫کی بیٹیاں بھی آگئی وہ بھی مجھے‬
‫دیکھ کر حیران ہوگئی‪،،‬میں ان کے‬
‫شکوے شکائیتوں کے محبت سے‬
‫جواب دیتا رہا‪،‬اور ان کو الئے ہوئے‬
‫تحائف دینے لگا‪،،‬مولوی اور اس کی‬
‫بیوی تحائف پا کر خوش ہو‬
‫گئے‪،،‬مجھے دعائیں دینے لگے‪ ،،‬البتہ‬
‫شازیہ ‪،‬نازیہ‪،‬سعدیہ‪،‬اور رافعہ مجھ‬
‫سے خوش نہیں تھیں‪،‬وہ کچھ نہیں‬
‫کافی روٹھی روٹھی تھیں‪،،‬گھنٹے‬
‫بعد مولوی تو اٹھ کر چال گیا‪،،‬اور‬
‫میں وہیں بیٹھا رہا۔مکان کا ماحول‬
‫بدال ہوا تھا‪ ،‬کچن اینٹوں کا اچھا بن‬
‫گیا تھا ‪،‬اور اس میں سہولتیں بھی‬
‫لگ رہی تھیں‪،‬جبکہ اندر داخل ہوتے‬
‫میں غسل خانے کو بھی دیکھ چکا‬
‫تھا جو کہ اب واش روم بن چکا‬
‫تھا‪،،‬لڑکیوں کے کپڑوں سے بھی‬
‫آسودگی کا پتہ چل رہا تھا‪،‬غرضیکہ‬
‫کافی تبدیلی آچکی تھی‪،،‬لڑکیوں کے‬
‫رویے سمیت بہت کچھ بدل چکا‬
‫تھا‪ ،،‬باتیں چلتی رہی کچھ ہی دیر‬
‫میں وہاں مختلف عمروں کے بچے‬
‫آنے لگے ان کے ساتھ بستے تھے‪،،‬میں‬
‫سمجھ گیا وہ ٹیوشن پڑھنے آئے‬
‫تھے‪،‬کچھ ہی دیر میں اچھی خاصی‬
‫تعداد ہوگئی‪،،‬وہاں تو ٹیوشن اکیڈمی‬
‫کھلی ہوئی تھی‪،‬اب مجھے آسودگی‬
‫کی وجہ سمجھ آنےلگی‪،،‬تینوں بہنیں‬
‫پڑھانے لگی جبکہ نازیہ اور اس کی‬
‫ماں میرے پاس ہی بیٹھی رہی‪،،‬نازیہ‬
‫کیا تم نہیں پڑھاتی بچوں کو‪،،‬میں‬
‫تو صبح پڑھا کے تھک جاتی ہوں‬
‫اسوقت آرام کرتی ہوں‪،‬صبح تم‬
‫ٹیوشن پڑھاتی ہو‪،‬میں نے‬
‫پوچھا‪،‬نہیں بیٹا یہ ایک سکول میں‬
‫ٹیچر لگ گئی ہے وہاں پڑھاتی ہے‬
‫‪،‬میں حیران ہوگیا‪،،‬مولوی کے گھر یہ‬
‫کیسی کایا پلٹ آگئی ہے‪،‬ہاں میں‬
‫ساتھ میں ایم ‪،‬اے بھی کر رہی ہوں‬
‫اس کے بعد بی ایڈکا رادہ ہے‪،‬نازیہ نے‬
‫بتایا ‪،‬کیا کسی پرائیویٹ سکول میں‬
‫پڑھا رہی ہو‪،‬میں نے وضاحت سے پو‬
‫چھا‪،‬ہاں لیکن سیلری اچھی ہے اور‬
‫سکول ٹاپ کا ہے‪،،‬میں سوچنے لگا‬
‫ایسے سکول میں نازیہ کونوکری‬
‫کیسے ملی‪،،‬بہرحال قصہ مختصر‬
‫شام کو میں جانے لگا تو مولوی نے‬
‫مجھے روک لیا کہ اتنے عرصے بعد آیا‬
‫ہوں ‪،‬اب ایک رات ان کے ساتھ‬
‫رہوں‪،‬اس نے مجھ سے کوئی توقع تو‬
‫لگائی ہوئی تھی ‪،‬اب اتنے عرصے بعد‬
‫پھر صحیح ‪،‬میں بھی یہی چاہتا تھا‬
‫اس لیے تھوڑی پس وپیش کے بعد‬
‫رک گیا‪،‬رات گئے تک باتیں ہوتی رہیں‪،‬‬
‫‪،،‬میں تقریبًا ایک سال اور کچھ‬
‫مہینے بعد لوٹا تھا‪،‬اسوقت بھی‬
‫سردیاں جا چکی تھیں‪،‬موسم نارمل‬
‫تھا ‪ ،‬پھر بھی میرا بسترکمرے میں‬
‫لگا دیا گیا اور وہ بھی لڑکیوں کے‬
‫کمرے میں‪،‬ویسے بھی مجھے موسم‬
‫کی کوئی پرواہ نہیں تھی ‪،‬اب میں‬
‫ہر موسم میں اپنے جسم کا درجہ‬
‫حرارت اسی کے مطاق کرلیتا‬
‫تھا‪،‬کافی رات ہوئی تو میں تو سونے‬
‫‪،‬چال گیا‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_14‬‬

‫مولوی اور اس کی بیوی بھی سو‬


‫گئی‪،،‬لڑکیاں میرے ساتھ ہی اپنے‬
‫کمرے میں آگئی‪،‬کمرہ بدلہ ہوا‬
‫تھا‪،‬جستی پیٹیوں کی جگہ بڑی سی‬
‫دیوار گیر الماری بن چکی تھی‪،‬ایک‬
‫سٹڈی ٹیبل‪،‬اور کچھ سامان بھی‬
‫آچکا تھا‪ ،‬دیوار پر شیشہ ابھی بھی‬
‫لگاہوا تھا ‪،‬لیکن میخ کی جگہ لوہے کا‬
‫بڑا کیل لگا ہوا تھا جو کہ میرے‬
‫خیال دیوار کی دوسری طرف ضرور‬
‫گیا ہوا تھا‪ ،‬چارپائیوں کی جگہ چا ر‬
‫سنگل بیڈ آگئے تھے ‪،‬نازیہ نے کمرے‬
‫کادورازہ بند کردیا‪،‬اور میں نے اسے‬
‫پیچھے سے بانہوںمیں لے لیا‪،،‬شازیہ‬
‫‪،‬سعدیہ اور رافعہ میری طرف دیکھ‬
‫رہی تھی‪،‬میں نازیہ کے پاس واپس‬
‫آنا چاہتا تھا اور اب آ پہنچا تھا‪،‬لیکن‬
‫وہ ناراض تھیں ‪،‬میں نے ان کو منا‬
‫لیامیرے پاس لندن جانے کا حوالہ‬
‫تھا‪،،،‬وہ کچھ نہ کہہ سکیں‪،،‬اور پھر‬
‫شازیہ ‪،‬نازیہ‪،‬سعدیہ‪،‬اور رافعہ میرے‬
‫اوپر گر سی پڑیں‪ ،‬بہت ظالم ہو تم‬
‫‪،‬اور بہت یاد آئی اس ظالم کی‪،‬رافعہ‬
‫نے کہا‪،،‬شازیہ ‪،‬سعدیہ اور نازیہ‬
‫خاموش تھیں لیکن ان کے جسم بو‬
‫ل رہے تھے‪،،‬جلد ہی ہم کپڑوں کی‬
‫قید سے آزاد ہوگئے ‪،‬رافعہ بال جھجک‬
‫میرے عضو کو چوسنے لگی‪،،‬میں نے‬
‫باقی بہنوں کی طرف دیکھا تو وہاں‬
‫کوئی خاص بات نہ تھی‪،‬حیرانگی‬
‫تب ہوئی جب سعدیہ بھی رافعیہ کے‬
‫ساتھ عضو کو چوسنے لگی‪،،‬چاروں‬
‫بہنوں کے انداز میں چدکڑ پن نمایاں‬
‫تھا‪،‬میں سمجھ گیا میرے بعد انہوں‬
‫نےکوئی اور ڈھونڈلیا تھا‪،‬سعدیہ اور‬
‫رافعہ بڑی مہارت سے عضو کو‬
‫چوس رہی تھیں‪،،‬مجھے بڑا سواد‬
‫آیا‪، ،،‬واہ مزہ آگیا ‪،‬میں نے سعدیہ کے‬
‫منہ پر آتے بال ایک طرف کرتے ہوئے‬
‫کہا‪،،‬چاروں بہنوں کے بال‬
‫کھلےہوئےتھے ‪ ،‬میں نے دیکھا وہ کٹے‬
‫ہوئے تھے‪،‬مجھے دھچکا لگا ‪،‬ان کے‬
‫بال لمبے اور خوبصورت تھے خاص‬
‫کر نازیہ کے بالوں میں ا س رات میں‬
‫باتیں کرتے ہوئے انگلیاں پھیرتا رہا‬
‫تھا‪،‬شازیہ اور نازیہ مجھے چومنے‬
‫لگی‪،،‬شازیہ میرے ساتھ کسنگ کرنے‬
‫لگی‪،،‬جبکہ نازیہ اپنی چوت کو‬
‫چھیڑنے لگی‪،،‬نازیہ کیلیے ہی تو آیا‬
‫تھا‪،،‬پر یہ کیا‪،‬ایسی لڑکیاں تو‬
‫یونیورسٹی میں بہت تھیں‪،‬بس ہاتھ‬
‫بڑھانے کی دیر تھی‪،‬سعدیہ اور‬
‫رافعیہ نےعضو چوس چوس کر‬
‫مجھے پاگل کردیا ‪،‬اورمزید پاگل میں‬
‫اس وقت ہوا جب ان کی جگہ نازیہ‬
‫اور شازیہ نے لے لی‪،‬نازیہ میرا عضو‬
‫چوس رہی تھی‪،،‬یہ میرے لیے جھٹکا‬
‫تھا‪،‬نازیہ کے بعد میں شازیہ کو پیار‬
‫کرتا تھا‪،‬اور وہ بھی میرے عضو کو‬
‫بڑی مہارت سے چوس رہی‬
‫تھی‪،،‬رومانوی طبعیت کی شازیہ اب‬
‫عضو سے رومان لڑا رہی تھی‪،‬سعدیہ‬
‫اور رافعہ میری طرف کسنگ کرنے‬
‫آئی تھیں ‪،‬لیکن میں نے ہاتھ کے‬
‫اشارے سے روک دیا‪،‬وہ ہنسنے‬
‫لگی‪،،‬ارے تم تو لندن سے آئے ہو‪،‬پھر‬
‫یہ کیا‪،‬میں کوئی جواب دیئے بناء‬
‫آنکھیں بند کر کے سرور لینے‬
‫لگا‪،،‬چاروں بہنیں ایک جیسے مہارت‬
‫اور طریقے سے عضو چوستی‬
‫تھیں‪،‬مجھےبڑا مزہ آیا‪،،‬رافعہ اور‬
‫سعدیہ کسنگ کرنے لگی‪،،‬اور بڑا اچھا‬
‫لیسبن کرر ہی تھیں‪،‬وہ چار تھیں تو‬
‫میں بھی تیاری کر کے آیا تھا‪،‬میں‬
‫آدھا گھنٹا پہلے جب واش روم میں‬
‫‪،‬گیا تھا تو ٹائمنگ گولی کھا چکا تھا‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_15‬‬

‫اور اب میں نے جوش سے بھرپور‬


‫سب سے پہلے نازیہ کو ہی پکڑا اور‬
‫اسے بیڈ پر لٹا کر اس کی ٹانگیں‬
‫اٹھائی اور اندر ڈال کر چودائی کرنے‬
‫لگا‪،،‬میں اس وقت کسی رحم کے موڈ‬
‫میں نہیں تھا‪،‬پیار کے موڈ میں آیا‬
‫تھا لیکن اب ان بہنوں کی چدکڑی‬
‫دیکھ کے میرا موڈبدل گیا تھا‪،‬میری‬
‫رفتار اور طاقت کا فی تھی لیکن‬
‫نازیہ مزہ لے رہی تھی‪،،‬میں اور‬
‫طاقت سے دھکے لگاے لگا‪،‬لیکن نازیہ‬
‫مزہ ہی لے رہی تھی‪،،‬میں نے جی‬
‫بھرکے چودا اور نازیہ کا پانی نکل‬
‫آیا‪،،‬اس کے بعد سعدیہ بیڈ پر ڈوگی‬
‫اسٹائل میں آگئی اورمیں نے اندر ڈا‬
‫ل کے خوب رگڑائی کی‪،‬یہ وہی‬
‫سعدیہ تھی جسے ڈوگی اسٹائل میں‬
‫مزہ نہیں آیا تھا‪،،‬سعدیہ کا جسم‬
‫سیکسی تھا میں اس کا سیکسی‬
‫جسم کو چود چود کر تھکا دیا لیکن‬
‫وہ بھی مزے ہی لیتی رہی‪،،‬بلکہ‬
‫مجھے لگا اسے یہی چاہیے تھا‪،،‬اس‬
‫سے زیادہ میں طاقت لگانا نہیں‬
‫چاہتا تھا ورنہ چوت کا بھرکس نکل‬
‫جانا تھا‪،‬سعدیہ نے بھی مزے لیکر‬
‫پانی نکال دیا‪،،‬شازیہ سٹڈی ٹیبل پہ‬
‫بیٹھ گئی‪،،‬شاید وہ کچھ منفرد‬
‫چاہتی تھی‪،،‬میں نے اس کی ٹانگیں‬
‫کھولی اور ان میں کھڑا ہو کر چوت‬
‫میں عضو ڈال دیا‪،،‬اب شازیہ بیٹھی‬
‫تھی ٹانگیں کھول کر‪،‬اور میں کھڑا‬
‫چود رہا تھا‪،‬شازیہ نے بازوپیچھے‬
‫ٹکائے ہوئے تھے‪،،‬اس کے ممے ہل رہے‬
‫تھے اور جسم چودائی میں خوش‬
‫تھا‪،‬مولوی سے سب سے زیادہ شازیہ‬
‫ہی ڈرتی تھی‪،‬لیکن اسوقت شازیہ‬
‫ہی سب سے زیادہ بے دھڑک لگ رہی‬
‫تھی ‪،‬شازیہ چودائی سے مسرور‬
‫سسکاریاں لینے لگی‪،‬میں نے اس کی‬
‫طرف پریشان نظروں سے دیکھا تو‬
‫اس نے مسکراتے ہوئے کہا ‪،،‬پاپا اور‬
‫مما اس وقت گہری نیند میں ہیں‬
‫میں نے انہیں لیکسوٹانل گولی کھال‬
‫دی ہے بلکہ اس گولی پر لگا‬
‫دیاہے‪،‬میں وحشیانہ انداز میں‬
‫چودنے لگا‪،‬ٹیبل جیسے گرنے لگی‬
‫ہو‪،‬لیکن شازیہ سکوں سے مزے لیتی‬
‫رہی‪،،‬اب مزید حیرانگی میرے لیے‬
‫ٹھیک نہیں تھی‪،‬اور میں نے وہ تصور‬
‫توڑ دیا جس میں ان کے پاس آیا‬
‫تھا‪،‬اوہ مزہ آگیا شہزادے‪،،‬تم اسوقت‬
‫سے بہترین بہتر چودائی کرنے لگے‬
‫ہو‪،‬ایسا مزہ تو کبھی آیا ہی نہیں‬
‫‪،‬عجیب مدہوش کرتا مزہ ہے‪،‬بالکل‬
‫منفرد انداز ہے تمھارا ‪،‬شازیہ ایسے کہ‬
‫رہی تھی جیسے بڑی چودکڑ ہو‪،‬لگتا‬
‫ہے لندن میں گوریوں کوچودتے رہے‬
‫ہو‪،‬میں بھی ہنسنے لگا‪،‬اور شازیہ‬
‫کوچود چود کر مزہ لینے لگا‪،‬توقعات‬
‫ختم کردیں تو پھر کوئی دکھ نہیں‬
‫ہوتا‪،‬اور اب میں مزہ لے رہا‬
‫تھا‪،،‬شازیہ نے کچھ وقت لیا اور پھر‬
‫اس کا بھی پانی نکل گیا‪،،،‬اب مجھے‬
‫تو چودائی میں رکنا اچھانہیں لگ‬
‫رہا تھا اسلیےرافعہ کی طرف بڑھا‬
‫لیکن وہ دیوار کے ساتھ جا لگی اور‬
‫گانڈ میری طرف نمایاں کر لی‪،،‬آؤ نہ‬
‫کچھ یادیں تازہ ہو جائیں‪،‬رافعہ نے‬
‫معنی خیز لہجے میں کہا‪،‬میں نے‬
‫کچھ کہے بغیر اس کی چوت میں‬
‫عضو ڈاال اور دھکے لگانے لگا‪،،‬تھوڑا‬
‫تیز کرو نہ‪،‬رافعہ نے طنز کیا‪،‬تو میں‬
‫سمجھ گیا وہ اس دن کا بدلہ آج‬
‫مجھے ِزچ کر کے لینا چاہتی ہے‪،‬میں‬
‫نے اتنی رفتار اور طاوقت کر دی‬
‫جتنی اس رات کی تھی‪،‬لیکن رافعہ‬
‫مزے لیتی رہی ‪،‬بلکہ لہر میں‬
‫آگئی‪،،‬اسی لہر میں اس نے مجھے‬
‫کہا‪،،،،‬بس شہزادے‪،،،،‬اور میں پھر‬
‫شروع ہوگیا‪،‬اسے اندازہ نہیں تھا کہ‬
‫میں اس دوران کیا سے کیا بن چکا‬
‫ہوں‪،‬اگر میں پہلے واال پرنس ہوتا تو‬
‫شاید رافعہ کامیاب ہی ہو جاتی‪،‬اس‬
‫کی برداشت کا اندازہ میں کرچکا تھا‬
‫اب میں نے اس کے پہلوؤں پر ہاتھ‬
‫رکھا اور پہال درد ناک جھٹکا دیا‪،‬آہ‬
‫رافعہ کراہی‪،‬میں نہ رکا‪،‬اور دے‬
‫دھکے پہ دھکا‪،‬رافعہ پہلے تو کراہتی‬
‫رہی‪،‬لیکن پھر آہستہ آہستہ چیخنے‬
‫لگی‪،‬بہنیں اس کے پاس جمع ہوگئی‬
‫‪،‬ان کے چہرے پر حیرت تھی ‪،‬شاید‬
‫ان کے خیال میں رافعہ ہر قسم کی‬
‫چودائی کروا سکتی تھی۔ہلکی ہلکی‬
‫چیخیں روکنے کیلے رافعہ اپنے منہ‬
‫پر ہاتھ رکھ چکی تھی لیکن میں‬
‫نہیں رکا‪،‬پھر رافعہ کی آنکھوں میں‬
‫آنسو آگئے‪،‬روک دو پلز روک دو وہ‬
‫روتے ہوئے بولی لیکن میں اس کے‬
‫پیٹ پر ہاتھ رکھے اسے چودتا رہا‬
‫رافعہ نے میرے ہاتھ سے نکلنا چاہا‬
‫لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ کس کا‬
‫ہاتھ ہے‪،،‬میں اسے چودتا رہا ویسے‬
‫بھی میرا وقت پورا ہونے واال‬
‫تھا‪،‬اسلیے مجھے پانی نکالنا‬
‫تھا‪،‬رافعہ میرے ہاتھوں میں دوہری‬
‫ہو رہی تھی‪،،‬شازیہ آگے بڑھی اور‬
‫اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا تو‬
‫میں پیچھے ہوگیا‪،‬لیکن رافعہ بے‬
‫ہوش ہوچکی تھی‪ ،‬میں نے اسے بیڈ‬
‫پر لٹا دیا‪،‬سعدیہ میری طرف‬
‫غصےسے دیکھ رہی تھی‪،‬اس نے خود‬
‫مصیبت کو دعوت دی تھی شازیہ نے‬
‫اسے کہا‪،‬اسے کچھ نہیں ہوگا ‪،،‬یہ‬
‫آدھے گھنٹے میں ہوش میں آجائے‬
‫گی‪،،‬میں نے اس کی نبض دیکھتے‬
‫ہوئے کہا‪،‬میں ایسی حالت سے واقف‬
‫ہوں ‪،‬پریشانی کی کوئی بات نہیں‬
‫‪،‬بس درد برداشت نہ کرسکنے کی‬
‫وجہ سے بے ہوش گئی ہے‪،‬کچھ دیر‬
‫میں ہوش میں آجائے گی‪،‬اب میرا‬
‫کچھ کرو‪،،‬میں کھڑا تھا اور‬
‫میراعضو بھی کھڑا تھا‪،‬شازیہ اور‬
‫نازیہ نے یہ ڈیوٹی سنبھال لی اور‬
‫نیچے بیٹھ کر میرا عضو چوسنے‬
‫لگی‪،،‬میں نے آنکھیں بند کر لیں‪،‬کچھ‬
‫ہی دیر میں میرے جسم میں‬
‫کپکپاہٹ ہوئی اور میرا پانی نکل‬
‫آیا‪،‬شازیہ اور نازیہ نے اپنے سینے آگے‬
‫کر دیے‪،،‬میں نے ان پر سارا پانی گرا‬
‫دیا‪،‬کبھی یہ ریشمی ممے میرے لیے‬
‫ایک خواب تھے اور اس خواب کے‬
‫تصور میں مجھے یہاں آنا پڑا ‪،‬‬
‫بہرحال بالکل ننگی فلم جیسا منظر‬
‫تھا‪،‬ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رافعہ‬
‫ہوش میں آگئی بہنوں کے چہرے پر‬
‫بھی اطمینان آگیا‪،‬اور وہ سونے کی‬
‫تیاری کرنے لگی‪،،‬جبکہ میں سو بھی‬
‫چکا تھا‪،‬صبح ناشتہ کرکے پھر ملنےکا‬
‫وعدہ کر کے میں مولوی سے اجازت‬
‫لیکر وہیں سے سیدھا یونیورسٹی‬
‫چال گیا‪،‬یہ پہلی رات تھی جو‬
‫ساڑھےپانچ سال بعد میں نے اپنی‬
‫مرضی سے جوسلین کے عالوہ کسی‬
‫اور کے ساتھ گزاری تھی‪،‬یونیورسٹی‬
‫میں ہی ناشتہ کیا‪،‬اور موبائل آن‬
‫کیا‪،‬کچھ ہی دیر میں جوسلین کی‬
‫کال آگئی‪،،‬ہیلو‪،،‬کہاں تھےتم‪،،‬جوسلین‬
‫نے بے اختیار پوچھا‪،‬میں یونیورسٹی‬
‫میں ہوں تم کہاںہو‪،،‬آئی نہیں‬
‫یونیورسٹی میں‪،،‬میں نے اس کے‬
‫سوال کا جواب دینے کی بجائے نیا‬
‫سوال کردیا‪،‬وہیں رہنا میں آرہی‬
‫ہوں‪،‬میں غزل سے مال ‪،،‬کہاں تھے یار‬
‫‪،،‬تمھارا موبائل کیوں بند تھا‪،،‬میں‬
‫مصروف تھا‪،‬اچھاکیا مصروفیت‬
‫تھی‪،‬مصروفیت تمھارے طرح‬
‫خوبصورت نہ تھی‪،‬لیکن غزل اسے‬
‫مذاق سمجھی‪،‬ہم پیریڈلینے چلے‬
‫گئے‪،‬جوسلین نے پیریڈ لینا تھا اور وہ‬
‫دیر سے آئی‪،‬میں غزل کے ساتھ اپنی‬
‫جگہ پر بیٹھا تھا‪،‬مجھے دیکھ کر‬
‫جوسلین کو جیسے قرار آ گیا‪،‬پیریڈ‬
‫ختم ہوتے ہی مجھے جوسلین نے‬
‫بالیا‪،‬اور مجھے ایک سائیڈ میں لے‬
‫گئی‪،‬پرنس تم مجھے سے ناراض رہنے‬
‫لگے ہو‪،‬اگر اس کی وجہ میرا غزل‬
‫سے رویہ ہے تو میں تمھیں یقین‬
‫دالتی ہوں کہ آج سے میں اسے کچھ‬
‫نہیں کہوں گی‪،‬جوسلین نے جیسے‬
‫ہار مانتے ہوئے کہا‪،‬میں سمجھ گئی‬
‫ہوں کہ غزل تم سے کبھی چودائی‬
‫نہیں کروائے گی‪،‬یہ ان عورتوں میں‬
‫سے ہے جو خالص نسوانی مزاج کی‬
‫رومانوی طبیعت کی ہوتی ہیں‪،‬ایسی‬
‫لڑکیاں اپنے محبوب کو اپنا دل دے‬
‫دیتی ہیں‪،‬لیکن اپنا جسم تبھی دیتی‬
‫ہیں جب ان سے شادی کرتی‬
‫ہیں‪،‬پرنس میں نے تم پراپنا سب‬
‫کچھ نچھاور کر دیا‪،‬اور‬
‫تمھارےلیے‪،‬اپنی زندگی تبدیل کر‬
‫لی‪،‬اور تمھارے سوا دنیا سے کنارا کر‬
‫لیا‪،‬میرے لیے تم ہی زندگی ہو‪،‬مجھے‬
‫تنہا نہ چھوڑنا ‪،‬نہیں تو میں خود‬
‫کشی کر لوں گی۔جوسلین انتہائی‬
‫جذباتی ہو رہی تھی‪،‬میں اسے فلیٹ‬
‫پر لے گیا‪،‬لیکن جوسلین پر جذبات کا‬
‫دورہ پڑ چکا تھا‪،‬بس مجھ سے اظہاِر‬
‫محبت اور اپنی چاہت کا مختلف‬
‫انداز میں بیان ہی آجکل اس کی‬
‫گفتگو کا مرکز تھا‪،‬اسے جیسے ڈر ہو‬
‫گیا تھا کہ میں اسے چھوڑ رہا‬
‫ہوں‪،‬اس کا دھیان بٹانے کیلے میں‬
‫کچھ دن کی چھٹی لے کر میں اسے‬
‫جاگیر پر لے گیا‪ ،‬وہ وہاں کے‬
‫معامالت میں مصروف ہوگئی‪،‬اور‬
‫رات کو میں اس کو چودتا‪،‬تو اس‬
‫طرح اس کا دل بہل گیا‪،‬ایک ہفتہ ہم‬
‫وہاں رہ کر واپس ہو لیے‪،‬واپسی پر‬
‫رستے میں ایک جگہ گاڑی روکنی‬
‫پڑی‪ ،‬کیونکہ سامنے ایک بڑا سا‬
‫درخت گرا ہوا تھا اور اس نے سارا‬
‫رستہ روک رکھا تھا‪،‬مجھے فضا میں‬
‫خون کی ُبو محسوس ہوئی میں‬
‫چوکنا ہوچکا تھا‪ ،‬پرنس باہر نہیں‬
‫نکلنا‪،‬اندر ہی بیٹھے رہو‪،‬جوسلین ڈر‬
‫گئی تھی ‪،‬شاید وہ چوکنی رہتی‬
‫تھی‪،‬ہماری گاڑی بلٹ پروف تھی ‪ ،‬یہ‬
‫عام گاڑی نہیں تھی ‪،‬بڑی مہنگی‬
‫گاڑی تھی‪،‬میں نے گاڑی اسی حالت‬
‫میں پیچھے کی طرف بھگانی چاہی‬
‫اور پیچھے دیکھا تو وہاں ایک اور‬
‫درخت کا تنا پڑا تھا ‪،‬اب کھیتوں‬
‫میں گاڑی اتارنا بھی خطرناک لگ رہا‬
‫تھا‪،‬جوسلین اپنی جاگیر میں کال‬
‫کرنے لگی‪،‬اس کا ارادہ گاڑی کے اندر‬
‫ہی وقت گزارنے کا تھاجب تک مدد‬
‫نہیں آجاتی‪،‬اس وقت تک اندر ہی‬
‫بیٹھے رہنا چاہتی تھی ہم اندر ہی‬
‫بیٹھے رہے‪،‬کچھ منٹ اسی طرح گزر‬
‫گئے‪،‬جب ہم باہر نہیں نکلے تو اطراف‬
‫کے کھیتوں دونوں طرف سے چار ‪4،‬‬
‫آدمی نکلے‪،‬ان کے ہاتھوں میں‬
‫کالشنکوف تھیں‪،‬ایک کے ہاتھ میں‬
‫بڑا سا ہتھوڑا تھا‪،‬میں ان کا منصوبہ‬
‫سمجھ گیا‪،‬وہ ہتھوڑے سے شیشہ‬
‫توڑنا چاہتے تھے تا کہ پھر ہمیں قتل‬
‫کر سکیں‪،‬ان کو معلوم تھا کہ گاڑی‬
‫بلٹ پروف ہے‪،‬اور ہم یہاں سے‬
‫اسوقت گزریں گے‪،‬یہ صرف چند پل‬
‫کا منظر ہے‪،‬اور گاڑی میں رکنا موت‬
‫کے مترادف تھا‪،‬میں اسی پل فیصلہ‬
‫کرچکا تھا کہ مجھے کیاکرنا‪،‬دروازہ‬
‫بند کرلینا میں نے جوسلین سے‬
‫کہا‪،‬میرے الفاظ ختم نہیں ہوئے تھے‬
‫کہ کوان لی کی آواز میرے ذہن میں‬
‫گونجی‪،‬میرے بچے کسی کے خون‬
‫سے اپنے ہاتھ مت رنگنا‪،،‬جیسے ہی‬
‫ہتھوڑے واال نزدیک آیا اور اس نے‬
‫ہتھوڑا بلند کیا‪،‬میں نے دروازہ‬
‫جھٹکے سے کھوال دروازہ اسے لگا وہ‬
‫دوہرا ہوا‪،‬اور میں باہر نکال‪،‬مجھ پر‬
‫فائرنگ ہوئی‪،‬لیکن میں ہتھوڑے والے‬
‫کی آڑ میں آچکا تھا‪،‬اس سے پہلے وہ‬
‫کچھ سوچتے ہتھوڑے واال اڑتا ہوا‬
‫کسی میزائل کی طرح اسطرف کے‬
‫باقی تینوں آدمیوں پر جا گرا‪،‬کسی‬
‫نے فائرنگ کر دی تھی اور ہتھوڑے‬
‫والے کی الش ہی ان پر جا گری‪،‬اس‬
‫سے پہلے وہ کہ سنبھلتے میں ان کے‬
‫سر پر پہنچ چکا تھا‪،‬مجھے محسوس‬
‫ہوا کہ درمیان میں گاڑی ہونے کی‬
‫وجہ سے دوسری طرف کے چار‬
‫آدمی‪،‬میری طرف بھاگ چکے ہیں‪،‬یہ‬
‫سارا لمحوں کا کھیل تھا‪،‬میں نے‬
‫اپنی طرف کے گرے آدمیوں میں سے‬
‫ایک کے بازو پر ٹھوکر ماری اس‬
‫کابازو ٹوٹ گیا‪،‬دوسرا اٹھنے کی‬
‫کوشش کرہا تھا کہ میں نے اس کی‬
‫تھوڑی کے نیچے مکا مارا وہ وہ زمیں‬
‫کی طرف ایسے گیا جیسے ‪،‬کشِش‬
‫ثقل نے اسے پوری طاقت سے کھینچ‬
‫لیا ہو‪،‬جب اس کا سر زمین پر لگاتو‬
‫اس کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا اور وہ بے‬
‫ہوش ہوچکا تھا‪،‬تیسرا اٹھ بیٹھا‬
‫تھااور بیٹھے بیٹھے مجھ پر فائرنگ‬
‫کی‪،‬لیکن میں تو وہاں نہیں تھا‪،‬میں‬
‫کہاں ہوں‪،‬اس بات کا پتہ اسے‬
‫اسوقت چال جب جب اس کی کنپٹی‬
‫پر مکا پڑ چکا تھا‪،‬اور مردہ مکھی‬
‫کی طرح زمیں پر گر گیا وہ بھی بے‬
‫ہوش ہوگیا تھا‪،‬ابھی دوسری طرف‬
‫کے چار آدمی گاڑی کے پاس پہنچے‬
‫تھے وہ میری رفتار کا مقابلہ نہیں کر‬
‫سکتے تھے‪ ،‬میں مڑا ایک طرف سے‬
‫دو آدمیوں کی طرف بھاگا‪،‬انہوں نے‬
‫مجھ پر فائرنگ کی‪،‬لیکن میں زمیں‬
‫پر نہیں تھا‪،‬انہوں نے کبھی کسی‬
‫انسان کو اسے اڑتے ہوئے نہیں دیکھا‬
‫تھا۔لیکن حیرانگی کی بجائے انہوں‬
‫نے پھر فائرنگ کی لیکن انہیں دیر‬
‫ہوچکی تھی‪،‬جب میں ان پر گرا تو‬
‫میرے گھٹنے سے ایک کی ہنسلی کی‬
‫ہڈی ٹوٹ گئی اور دوسرا میرے‬
‫کھڑی ہتھیلی سے اپنا بازو کٹوا چکا‬
‫تھا‪،‬دوسری طرف کہ ایک آدمی میری‬
‫طرف بھاگا اور ایک نیچے لیٹ گیا‬
‫‪،‬اور نیچے سے میرے پاؤں پر فائرنگ‬
‫کرنی چاہی‪،‬گاڑی کی رکاوٹ کی وجہ‬
‫سے مجھے سارا موقع مال تھا‪،‬دوسرا‬
‫میری طرف بھاگا‪،‬لیکن اسے مجھ‬
‫سے ملنے کی حسرت ہی رہ گئی‬
‫کیونکہ میں گاڑی کے اوپر سے اس‬
‫آدمی پر جا گرا‪،‬جو نیچے لیٹ کر‬
‫فائرنگ کرچکا تھا‪،‬میری کہنی اس‬
‫کی کمر پر لگی‪،‬اور نیچے لیٹے آدمی‬
‫کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی تھی‬
‫اب وہ کبھی بھی اٹھ کے بیٹھ بھی‬
‫نہیں سکتا تھا‪،‬جو میری طرف جا رہا‬
‫تھا وہ پلٹا اور میری طرف آیا ‪،‬لیکن‬
‫میں تو اس کے پیچھے تھا‪،‬میری َلو‬
‫ِک ک اس کے رانوں پر پڑی اور ہڈی‬
‫ٹوٹنے کی آواز اس نے بھی سنی‬
‫ہوگی تب اسے پتہ چال ہو گاکہ میں‬
‫کہاں ہوں‪،،‬وہ ریت کی بوری کی‬
‫طرح نیچے گرا لیکن اس پہلے اپنی‬
‫بازو کی ہڈی بھی تڑوا بیٹھا‪،‬جس کا‬
‫سب سے پہلے ہاتھ توڑا تھا وہ‬
‫دوسرے ہاتھ سے کال شنکوف‬
‫سنبھال چکا تھا تکلیف کہ باوجود‬
‫اس نے میری طرف فائرنگ کی‪،‬لیکن‬
‫میں وہاں نہیں تھا ‪،‬اس نے اپنی‬
‫سمجھ کے مطابق میرے ہیولے پر‬
‫فائرنگ کی‪،‬لیکن میں تو وہاں بھی‬
‫نہیں تھا ‪،‬میں فضا سے نیچے آیا اور‬
‫سیدھا اس کے اسی ہاتھ پر آیا اس‬
‫کا ہاتھ گن سمیت میرے دونوں‬
‫جوتوں کے درمیان تھا میں تیزی سے‬
‫گھوما تو اس کا دوسرا ہاتھ بھی‬
‫کالئی سے ٹوٹ چکا تھا‪،‬کچھ لمحوں‬
‫کا ہی تو سارا کھیل تھا جس کا ہاتھ‬
‫کٹا تھا اس کی فلک شگاف چیخیں‬
‫باقی سب سے اونچی تھیں‪،‬شاید‬
‫اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میرے‬
‫ہاتھ میں کوئی تلوار وغیرہ نہیں‬
‫تھی تو اس کا ہاتھ کیسےکٹ‬
‫گیا‪،‬جس کی ہنسلی کی ہڈی ٹوٹی‬
‫تھی اور جس کا ہاتھ کٹا تھا اسے‬
‫پکڑ کر ایک سائیڈ میں کیا ان میں‬
‫سے کٹے بازو واال بے ہوش ہوچکا تھا‬
‫اور ہنسلی کی ہڈی ٹوٹنے والے کا سر‬
‫عجیب سے انداز میں دھنسا ہوا تھا‬
‫‪،‬پھر میں گاڑی میں بیٹھا اور‬
‫کھیتوں میں گاڑی کھسا دی ‪،،‬مکئی‬
‫کے کھیتوں میں کچھ نظر نہیں آرہا‬
‫تھا اس لیے میں نے گاڑی جتنی‬
‫ریورس کر سکتا تھاکی اور ذرا لمبا‬
‫چکر کاٹ کر پھر سولنگ لگی سڑک‬
‫کی طرف آگیا‪،‬جوسلین میری طرف‬
‫زبردست حیرانگی سے دیکھے جا‬
‫رہی تھی‪،،‬کیا بات ہے ‪،‬میں نے اس‬
‫سے پوچھا‪،،‬تو یہ سیکھا ہے تم نے‬
‫کوان لی سے‪،‬وہ ابھی تک حیران‬
‫تھی‪،،،‬ہاں تم کہہ سکتی ہو‪،،‬کہہ‬
‫سکتی ہو کا کیا مطلب ہے‪،،‬آٹھ ہتھیار‬
‫بند آدمی اور تمھارے پاس کچھ‬
‫نہیں تھا‪،،‬لیکن وہ سب تمھارا کچھ‬
‫نہ بگاڑ سکے‪،،‬ہاں یہ کنگفو کا اسٹائل‬
‫پاکوا تھا‪،،‬اس میں آٹھ سمتوں کا‬
‫دھیان رکھا جا تا ہے‪،،‬لیکن کوئی‬
‫آدمی یہ کیسے کر سکتا ہے‪،،‬اتنی‬
‫تیزی تو انسانی جسم سے ممکن ہی‬
‫نہیں‪،‬جوسلین کا سوال جائز‬
‫تھا‪،،‬مارشل آرٹ میں رفتار ہی تو‬
‫سب کچھ ہے‪،،‬جو جتنا تیز ہے وہ اتنا‬
‫ہی بڑا ماسٹر ہے‪،،‬تو کیا تم کوئی‬
‫ماسٹر ہو‪،،‬جوسلین کے چہرے سے‬
‫حیرانگی نہیں جا رہی تھی‪،‬میرے‬
‫عظیم ترین استاد زونگ ینگ کوان‬
‫لی کا یہ کمال ہے میں تو کچھ بھی‬
‫نہیں ہوں‪،،‬میں سمجھتی تھی کہ اب‬
‫تک ایسا فلموں میں ہوتا آیا ہے اور‬
‫اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‬
‫ہے‪،،‬ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔عام طور‬
‫پر یہی سمجھا جاتا ہے ‪،‬لیکن اگر‬
‫مارشل آرٹ کی اساطیری داستانیں‬
‫پڑھیں تو حقیقت سمجھ میں آجاتی‬
‫ہے ‪،‬کہ یہ حقیقت تھا‪،،‬لیکن جس‬
‫طرح بہت سے فنون جدت کی نظر‬
‫ہو گئے ہیں‪،‬اسی طرح جدید آتشی‬
‫ہتھیاروں کے سامنے یہ فن بھی مٹ‬
‫رہے ہیں‪،‬کیونکہ برسوں کی تپسیا‬
‫سے ایک ماسٹر بننے واال شخص‬
‫کسی اسٹریٹ فائٹر کی ایک گولی‬
‫سے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا‬
‫ہے‪،،‬تب اس فن کی طرف کون دھیان‬
‫دے گا‪،‬دوسرا اس فن کو غلط‬
‫استعمال کرنے والے بھی تھے اسلیے‬
‫استاد حضرات اہل لوگوں کے حوالے‬
‫اپنا فن کرتے تھے‪،‬اور فی زمانہ آپا‬
‫دھاپی کے دور میں کسی انسان کے‬
‫حوالے ایسا خطرناک فن سونپ جانا‬
‫کہ وہ قاتل مشین بن جائے اور کوئی‬
‫اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے بڑا‬
‫خطرناک ہے‪،،‬اس لیے اس لیے کوان‬
‫لی کے پائے کے استاد اپنے ساتھ ہی‬
‫اپنا فن لے جانے لگے‪،،‬اب تو بس‬
‫باقیات ہی رہ گئی ہیں‪،‬اس لیے‬
‫ماسٹرز اب وہ نہیں رہے نہ وہ‬
‫حقیقتیں رہیں‪،‬اچھا تو اب سمجھی‬
‫کہ کوان لی کسی کو اپنا شاگرد‬
‫کیوں نہیں بناتا تھا‪،،‬ہاں وہ کسی کی‬
‫تالش میں تھا جسے اپنی وراثت دے‬
‫کر جا سکے‪،‬اور اس نے اپنی وراثت‬
‫کیلیےتمھیں چن لیے‪،،‬آخر اس نے تم‬
‫میں ایساکیا دیکھا کہ وہ راضی‬
‫ہوگیا تھا‪،،‬میں یہ بات سمجھ نہیں‬
‫سکی‪،،‬میرے خیال میں وہ گوشہ‬
‫نشیں شخص ہے اور اسے دولت کی‬
‫کوئی پرواہ نہیں ہے‪،،‬اب یہ تو تم ہی‬
‫بتاؤ گی کہ اس نے مجھ میں کیا‬
‫دیکھا ‪،‬کیونکہ تم بھی میری استاد‬
‫ہو‪،،‬میں تمھاری استاد تھی‪،،‬اب تو‬
‫لگ رہا ہے کہ میں کوئی نادان بچی‬
‫ہوں‪،،‬پتہ نہیں کوان لی نے تمھیں کیا‬
‫بنا دیا ہے‪،،‬تم ہر جگہ آگے ہو جبکہ یہ‬
‫ایک لڑنے بھڑنے کا فن ہے اور‬
‫بس‪،،‬میں ہنسنے لگا‪،،‬یہ بات تم نہیں‬
‫سمجھو گی‪،،‬کہ جب ایسے فن میں‬
‫انتہا تک پہنچا جائے تو اس سے‬
‫اختیار حاصل ہوجاتا ہے‪،،‬اور پھر وہ‬
‫شخص اپنا اختیار کو جہاں چاہے‬
‫استعمال کر لے‪،،‬ویسے کیا تم ان‬
‫لوگوں کو جانتی ہو‪،،‬نہی میں نہیں‬
‫جانتی‪،،‬میں نے دھیان لگایا تو اک‬
‫شبیہ ابھری‪،،‬لیکن کوان لی کی آوز‬
‫پھر ابھری‪،،‬ایسا مت کرو میرے‬
‫بچے‪،‬اسے نہ بتانا ‪،‬اس طرح تم اس‬
‫کے سامنے اپنا آپ ظاہر کر رہے‬
‫ہو‪،،‬ویسے میں جاتے ہی آئی جی سے‬
‫ملنے کا ارداہ رکھتی ہوں‪،‬اس دوران‬
‫وہ اپنی جاگیر میں بھی دوبارہ بات‬
‫کر چکی تھی اور تفصیالت بتا کر‬
‫وہاں پڑے لوگوں سے اصل مجرم‬
‫کےمعلوم کرنے کا کہہ چکی تھی‪،‬یہ‬
‫لوگ چھپے نہیں رہیں گے‪،،‬جوسلین‬
‫کی آواز مجھے خیالوں سے کھینچ‬
‫الئی‪،‬لیکن مجھے اب کوئی ڈر بھی‬
‫نہیں ہے میرے ساتھ میرا سپر مین‬
‫ہے‪،‬جوسلین کافی مضبوط اعصاب‬
‫کی تھی نہیں تو اتنی جلدی نہ‬
‫سنبھلتی‪،،‬ہم باتیں کرتے رہے اور‬
‫فلیٹ تک کے راستےکا پتہ ہی نہیں‬
‫چال‪،،‬اگلے دن یونیورسٹی گئے تو غزل‬
‫کے شکوے شکائتیں شروع ہو گئی‬
‫لیکن میں نے اسے رام کر لیا‪،‬میرا‬
‫خیال تھا کہ جوسلین اب غزل سے‬
‫کنارہ کر لگی۔۔لیکن یہ میری خام‬
‫خیالی تھی‪،،‬جوسلین نے بس اپنا‬
‫انداز بدال تھا ‪،‬میں نے اس چک چک‬
‫سے جان چھڑانا چاہتا تھا‪،،‬مجھے‬
‫اس کیلیے یہی مناسب لگا کہ میں‬
‫یونیورسٹی چھوڑ دوں‪،‬لیکن اصل‬
‫بات یہ تھی کہ غزل بہت تیزی سے‬
‫آگے بڑھ رہی تھی‪،،‬وہ اتنا آگے بڑھ‬
‫گئی تھی کہ اس کیلیے واپسی ممکن‬
‫نہیں تھی‪،‬حاالنکہ میں نے اپنے بارے‬
‫میں کھل کے سب کچھ بتا دیا کہ‬
‫میں کیا ہوں خاص کر میں نے اس‬
‫کے سامنے اپنا سیکسی روپ بھی‬
‫کھول دیا تھا کہ مجھے چودائی میں‬
‫‪،‬دلچسپی ہے‬
‫‪,‬جوسلین‬
‫‪،‬نگیہ‬
‫‪،‬سحرش‬
‫‪،‬شازیہ‬
‫‪,‬رافیہ‬
‫‪,‬نازیہ‬
‫سعدیہ‪ ،‬اسے سب کا پتہ تھا‪ ،‬لیکن‬
‫‪.‬غالب نے سچ کہا ہے‬
‫‪Tody offer‬‬
‫‪,, 30 ,,‬‬
‫***‪Stories Ka sath ***1‬‬
‫اب مین لنڈ سے نفرت کرتی ‪1‬‬
‫اسٹوری ریڈر سے ماں کوچدوایا ‪2‬‬
‫انسیسٹ بہن بھائی ‪3‬‬
‫باپ بنا دلہا مکمل ‪4‬‬
‫باس کی بیوی مکمل ‪5‬‬
‫بڑی کزن کی شاندار چدائی ‪6‬‬
‫بلڈنگ میں سکس مکمل ‪7‬‬
‫بلڈی ویمپائر مکمل ‪8‬‬
‫بھائی بنا اپنی بہن کا دالل ‪9‬‬
‫بھائی سے پہلی بار مکمل ‪10‬‬
‫بھائی کا خیال مکمل ‪11‬‬
‫بھائی کی جوانی مکمل ‪12‬‬
‫بھائی اور بہن مکمل ‪13‬‬
‫بھابھی اور چاچی مکمل ‪14‬‬
‫بھابھی اور سالی مکمل ‪15‬‬
‫بھابھی بنی بیوی مکمل ‪16‬‬
‫بھابھی جان مکمل ‪17‬‬
‫بھابھی جی مکمل ‪18‬‬
‫بھابھی کا بخارا دور ہو گیا ‪19‬‬
‫بھابھی کا گاؤں مکمل ‪20‬‬
‫بھابھی کی مشکل آسان کی ‪21‬‬
‫بھابھی کیساتھ مکمل ‪22‬‬
‫بھابھی گرم مزاج ‪23‬‬
‫بھابھی نے چوسا مکمل ‪24‬‬
‫جزیرہ اور سکس ‪25‬‬
‫چھوٹی بہن کو چودا بڑی بہن ‪26‬‬
‫کی مدد سے‬
‫گینگ ریپ مکمل ‪27‬‬
‫بہنوں کے ساتھ سکس ‪28‬‬
‫امی کی چدا ئی محلے والوں کے ‪29‬‬
‫ساتھ‬
‫امی اور میں مکمل ‪30‬‬
‫‪03147615013‬‬
‫مکمل کہانیاں‬
‫روپے میں حاصل کریں ‪200‬‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_16‬‬

‫عشق نے غالب نکما کر دیا‬


‫‪،‬ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے‬
‫غزل کی حالت دیکھتے ہوئے میں نے‬
‫یونیورسٹی چھوڑ دی ‪،،‬پرنس تم اب‬
‫یونیورسٹی کیوں نہیں آرہے‪،‬جوسلین‬
‫نے تین دن بعد مجھ سے پوچھا‪،،‬میں‬
‫نے یونیورسٹی چھوڑ دی ہے۔۔کیا یہ‬
‫تمھارا فائنل ائیر ہے اور ابھی تم نے‬
‫پی ایچ ڈی بھی کرنی ہے‪،،،‬کیا اپنی‬
‫بات ہی بھول گئے ‪،‬تم ماسٹر سے‬
‫اگلے درجے تک جانا چاہتے تھے‪ ،‬اب‬
‫میرا پڑھنے کو دل نہیں کرتا‪،،‬اسلیے‬
‫میں آگے نہیں پڑھوں گا‪،،‬میں نے‬
‫جوسلین کو صاف جواب دے‬
‫دیا‪،‬جوسلین خاموشی سے میری‬
‫طرف دیکھنے لگی‪،،‬دیکھو میں‬
‫نےتمھیں بنایا ہے اور میں اپنے‬
‫شاہکار کو مکمل دیکھنا چاہتی‬
‫ہوں‪،،‬میں خاموشی سے الئبریری گیا‬
‫اور وہاں سے ایک فائل ال کر جوسلین‬
‫کو پکڑا دی‪،،‬کیا ہے یہ‪،،‬جوسلین نے‬
‫فائل کھولتے ہوئے پوچھا‪،،‬یہ میں نے‬
‫نفسیات پر ایک مقالہ لکھا ہے اس‬
‫میں سیکس اورایک فرد کی انسانی‬
‫نفسیات اور مجموعی طور پر پورے‬
‫معاشرے کی نفسیات تینوں کو‬
‫موضو ع بنایا گیا ہے‪،‬تم یہ دیکھ لینا‬
‫‪،‬مجھے نہیں لگتا کہ مجھے آگے‬
‫پڑھنے میں وقت ضائع کرنا‬
‫چاہیے‪،،‬لوگ ڈگریوں کو دیکھتے‬
‫ہیں‪،‬لیکن ایک کالس میں زیادہ سے‬
‫زیادہ آٹھ کتابیں ہوتی ہیں‪،،‬اگر ہم‬
‫ون کو بھی اور ایم اے کو بھی آٹھ‬
‫آٹھ مضمون دےدیں تو یہ‪ 16‬ضرب‬
‫‪ 8‬ہوا ‪،، 126‬یعنی ‪ 126‬کتابیں‬
‫پڑھنے واال عالم فاضل ہے اور جس‬
‫کے پاس اپنی الئبریری میں‪ 1000‬یا‬
‫‪ 10000‬کتابیں ہیں جو ا سنے پڑھی‬
‫ہیں تو وہ اس ڈگری کے سامنے کچھ‬
‫بھی نہیں‪،‬کیونکہ اس کے پاس ڈگری‬
‫نہیں ہے‪،‬ایسی ڈگری جس کے‬
‫سلیبس کا کوئی معیار نہیں‬
‫ہے‪،،،‬مجھے یہ دوغال معیار اچھا نہیں‬
‫لگا‪،‬اب میں نے پڑھنا ہے اپنے لیے‪،،‬آج‬
‫سے میں یونیورسٹی کے کنویں سے‬
‫نکل کر اپنے آپ کو الئبریریوں کے‬
‫سمندر کے حوالے کر دیا ہے‪،‬ہاں‬
‫پروفیشنل ایجوکیشن میں کچھ مزہ‬
‫ہے اس سے کچھ علوم میں مہارت‬
‫حاصل ہوجاتی ہے لیکن مجھے کون‬
‫سا روزگار کمانا ہے ‪،‬تم ہو نہ‪،‬جوسلین‬
‫میری طرف آنکھیں پھاڑیں دیکھ‬
‫رہی تھی‪،‬کچھ لمحیں چپ رہنے کے‬
‫بعد جوسلین نے ٹھنڈا سانس بھرا‬
‫جیسے میرے استدالل کے سامنے اس‬
‫کو کوئی جواب نہ مال ہو‪،‬پھر بھی‬
‫پرنس زندگی میں کچھ نہ کچھ تو‬
‫کرنا ہی پرتا ہے‪،‬کوئی مصروفیت تو‬
‫پالنی چاہیے ‪،‬اپنی صالحیتوں کو‬
‫استعمال کرنا چاہیے‪،،‬اگر تم‬
‫محسوس کرتے ہو کہ تم کسی بھی‬
‫پروفیشنل میں بہترین ہو تو اسے‬
‫دنیا کے سامنے الؤ‪ ،‬کیوں نہ تم بین‬
‫االقوامی طرز پر مارشل آرٹ کا کلب‬
‫کھول لو‪،،،‬یہ ممکن نہیں ہے‬
‫جوسلین‪،،‬اگر زندگی میں کوئی اہل‬
‫مل گیا تو اسے اپنی وراثت دے‬
‫جاؤں گا‪ ،‬نہیں تو کوئی شاگرد کبھی‬
‫نہیں بناؤں گا‪ ،‬اور کیونکہ تم صحیح‬
‫کہتی ہو کہ کسی شعبے میں اپنی‬
‫صالحیتیں دنیا کے سامنے النی‬
‫چاہیے تا کہ جو آپ کہ پاس ہے اس‬
‫سے دنیا مستفید ہو سکے ‪،‬یہ بھی‬
‫ایک امانت ہے جو حقدار کے پاس‬
‫پہنچا دینی چاہیے‪،،‬اسلیے میں نے‬
‫اپنے لیے ایک کام چن لیا ہے‪،‬اور وہ‬
‫ہے ‪،‬لکھنا‪،،‬میں سمجھتا ہوں مجھے‬
‫لکھنے کی طرف جانا چاہیے‪،‬کیا‬
‫لکھوں گے ناولز‪،‬کہانیاں‪،‬جوسلین نے‬
‫بےاختیار پوچھا ‪،،‬دیکھوں گا ابھی‬
‫میں آرٹیکلز کی طرف مائل ہوں۔میں‬
‫سمجھتا ہوں کہ کچھ سنجیدہ‬
‫لکھوں‪ ،،‬اگر ناولز وغیرہ کی طرف آیا‬
‫تو زندگی برائے ادب ہی لکھوں گا‪،‬‬
‫کیونکہ مجھے ادب برائے ادب کی‬
‫بجائے زندگی برائے ادب اچھا لگتا‬
‫ہےاور کوئی بامقصد ادب تخلیق‬
‫کروں گا ‪،‬تو پھر تم اردو ‪ -‬ادب میں‬
‫کیوں نہیں کالسیں لے لیتے ‪،‬مجھے‬
‫یقین ہے ‪،‬کم وقت ہونے کے باوجود‬
‫تم اس میں اچھی پوزیشن لے لو‬
‫گے‪،‬ہاں وہ ماسٹر کورس کی چند‬
‫کتابیں میں پڑھ چکاہوں تم چاہو تو‬
‫میرا ٹیسٹ لے لو‪،،‬اس سے کسی نے‬
‫ادیب تو کیا بننا ڈھنگ سے منشی‬
‫بھی نہیں بن سکتا‪،‬بہر حال تمھارا‬
‫اصرار ہےتو جب فائنل کے ایگزام ہوں‬
‫تو میں پیپرز دے دوں گا‪،‬جس میں‬
‫تم کہو گی‪،‬پرنس مجھے بہت خوشی‬
‫ہوگی کہ اگر تم لکھنے کی طرف آؤ‬
‫‪،‬کیونکہ اوردو ادب پر بھی تمھیں‬
‫میں نے ہی لگایا ہے اور میں‬
‫محسوس کر رہی ہوں کہ میرا لگایا‬
‫ہوا پودا آج تناور درخت بن گیا ہے‬
‫‪،‬تم نے میری الئبریری دیکھی اس‬
‫میں تقریبًا ‪ 10000‬کتابیں تو ہوں‬
‫گی‪،‬کسی بھی موضوع پر پوری‬
‫پوری کولیکشن پڑی ہے‪،‬کئی علوم‬
‫میں مجھے مہارت بھی ہے‪،،،،‬اور‬
‫مجھے لکھنےکا شوق تھا‪ ،‬لیکن میں‬
‫پھر بھی کچھ لکھ نہ سکی‪،‬کیونکہ‬
‫یہ ایک قدرتی صالحیت ہے ‪،‬او ر اگر‬
‫تم محسوس کرتے ہو کہ یہ صالحیت‬
‫تم میں موجود ہے تو تم لکھو‬
‫‪،،‬مجھے بہت خوشی ہو گی‪،،‬بلکہ‬
‫میں ہر طرح سے ہمیشہ کی طرح‬
‫تمھارے ساتھ ہوں۔جوسلین کو‬
‫اطمینان ہوگیا اور میں تو اپنے‬
‫راستے پہلے ہی چن چکا تھا‪ ،‬میں اب‬
‫کنویں کا مینڈک بننے کی بجائے‬
‫سمندر میں چھالنگ لگانے کا اراد کر‬
‫چکا تھا‪،‬غزل مجھے کالز کرتی رہتی‬
‫‪،‬لیکن میں نے جواب دینا ہی چھوڑ‬
‫دیا‪،‬مگر اس کے میسجز آتے رہے‪،،‬جن‬
‫سے مجھے پتہ چال کہ ا سنے وہ‬
‫یونیورسٹی چھوڑ دی اور کہیں اور‬
‫داخلہ لے لیا تھا‪،‬مجھے پتہ تھا‬
‫وعدے کے باوجود جوسلین غزل کا‬
‫کبھی بھی پیچھا نہیں چھوڑے گی‪،‬‬
‫یونیورسٹی چھوڑ کر غزل نے اچھا‬
‫کیا تھا‪ ،‬غزل کی طرف سے میں بہت‬
‫پریشان تھا ‪،‬اس نے یکطرفہ محبت‬
‫میں قدم رکھ دیا تھا‪،،‬اور محبت اگر‬
‫یکطرفہ ہو تو عذاب بن جاتی‬
‫ہے‪،،‬میں اس کی طرف اس کے بے‬
‫مثل حسن کی وجہ سے بڑھا تھا‬
‫لیکن اس کی معصومیت دیکھ کر‬
‫اس سے دوستی کر لی ‪،‬مخلص‬
‫دوستی‪،،‬اور اب وہی دوستی گلے کا‬
‫پھندا بنتی جا رہی تھی‪،‬غزل مجھ‬
‫سے ملنا چاہتی تھی‪،‬اس کا اصرار‬
‫بڑھتا جا رہا تھا ‪،،‬مجبورًا مجھے اس‬
‫سے ملنا پڑا جب وہ فلیٹ پر‬
‫آگئی‪،‬اس وقت جوسلین یونیورسٹی‬
‫گئی ہوئی تھی‪،‬اگر جوسلین کو پتہ‬
‫چل جاتا کہ غزل اسی کے فلیٹ میں‬
‫مجھے ملنے ہی آگئی تھی تو اس پر‬
‫تو قیامت ٹوٹ پڑنی تھی‪،،‬اور اسنے‬
‫غزل کا بھی حشر نشر کردینا‬
‫تھا‪،،‬لیکن غزل نے مجھ سے ملنے‬
‫کیلیے بہترین ٹائمنگ چنی تھی۔میں‬
‫اس وقت ناشتہ کر رہا تھا اور سامنے‬
‫لگےٹی وی پر نیوز چینل لگا ہوا‬
‫تھا‪،‬ناشتہ کرو گی‪،،‬نہیں میں ناشتہ‬
‫کر کے آئی ہوں‪،،‬تو پھر کافی پی‬
‫لو‪،،‬ہاں کافی پی لوں گی‪،‬تو پھر‬
‫اچھی بچی بن جاؤ اور اپنے اور‬
‫میرے لیے کافی بنا الؤ۔اتنے میں‬
‫ناشتہ ختم ہوجائے گا‪،‬غزل چپ چاپ‬
‫کچن میں کافی بنانے چلی گئی۔‬
‫ناشتہ ختم ہوا تو ہم کافی پینے‬
‫لگے‪،،‬غزل خاموش تھی اور یہ گھنبیر‬
‫خاموشی مجھے بتا رہی تھی‪،‬کہ‬
‫ضرور کچھ خاص بات ہے‪،،‬پرنس‬
‫میں تم سے کچھ کہنا چاہتی‬
‫ہوں‪،،‬کیا کہنا چاہتی ہو تم‪،،‬جوسلین‬
‫جو ِد کھتی ہے وہ ویسی نہیں‬
‫ہے‪،،‬میں گہری نظروں سے غزل کو‬
‫دیکھنے لگا‪،،‬جس گفتگو سے میں‬
‫بچنا چاہتا تھا‪،‬آج وہی شروع ہو گئی‬
‫تھی‪،‬پہلی بار غزل نے جوسلین کے‬
‫خالف بات کی تھی‪،‬پرنس میری‬
‫طرف ایسے مت دیکھو‪،‬میں اسلیے‬
‫تمھارے پاس نہیں آئی ہوں کہ‬
‫تمھیں جوسلین سے برگشتہ کر اپنی‬
‫طرف مائل کر لوں‪،،‬میں تم سے‬
‫محبت کرتی ہوں اور بے پناہ محبت‬
‫کرتی ہوں‪،،‬لیکن اس کا یہ مطلب‬
‫نہیں کہ میں تم پر قبضہ کرنا چاہتی‬
‫ہوں‪،‬تمھاری محبت میرے جسم جاں‬
‫میں کھل مل گئی ہے اب تمھاری‬
‫محبت اور میری جان ایک ہی بات‬
‫ہے‪،،‬تم نے مجھے اس محبت سے‬
‫ہٹانے کیلیے بڑا کچھ کیا‪،‬خود کو برا‬
‫بھی ثابت کیا جبکہ لوگ خود کو‬
‫اچھا ثابت کرتے ہیں‪،،‬لیکن میں کیا‬
‫کرتی‪،‬تمھاری محبت میں تو میں‬
‫اسی وقت گرفتار ہوگئی تھی جب‬
‫تمھیں پہلی بار دیکھا تھا‪،‬اسی وقت‬
‫میں تمھاری تیِر نظر کی گھائل ہوگئی‬
‫تھی‪،‬تم اگر باتوں کی گہرائی تک‬
‫جاتے ہو‪،‬ہر چیز کی الگ الگ تقسیم‬
‫کر کہ اس کی پہچان کرتے ہو تو میں‬
‫بھی تمھیں بتانا چاہتی ہوں‪،‬کہ تم‬
‫میری پسند نہیں ہو‪،‬نہ یہ سیکس ہے‬
‫‪،‬کیونکہ میں تم سے کبھی سیکس‬
‫نہیں کروں گی اور شادی سے میں نے‬
‫تمھیں خود آزاد کررہی ہوں ‪،‬نہ تم‬
‫میری تمنا ہو نہ آرزو ہو‪ ،‬نہ خواہش‬
‫ہوکہ میں تمھیں اپنی زندگی میں‬
‫کسی چیز کی طرح حاصل کرنا‬
‫چاہوں‪،،‬نہ یہ دل لگی ہے‪،،‬یہ عشق‬
‫بھی نہیں ہے کہ میں حواس ہی کھو‬
‫بیٹھوں‪،،‬یہ ہے محبت ‪،‬جیسے چاہے‬
‫اسے پرکھ لو‪،،‬اگر ا پنے لفظوں میں‬
‫کھوٹی نکلوں تو میرا خون تم پر‬
‫حالل ہو گا‪(،‬اظہار کی ادائیگی میں‬
‫کمال کردیا)لیکن میرا تم سے محبت‬
‫کرنے کا حق تم مجھ سے چھین نہیں‬
‫سکتے‪،‬اور میں ہر سانس کے ساتھ‬
‫تمھارے نام کی ماال جپتی رہوں‬
‫گی(عزِم صمیم تھا اس کا چہرہ)‪،‬اب‬
‫ایسا بھی نہیں کے مجھے وصال کی‬
‫چاہت ہی نہیں ہے اور میں کوئی‬
‫آفاقی محبت کر رہی ہوں (شرم سے‬
‫گلنار اور سر جھکا ہوا)‪ ،‬لیکن یہ‬
‫شاید میری قسمت میں ہی نہیں ہے‬
‫اور میں خدا کی رضا پر راضی ہوں‪،‬‬
‫(انتہائی پرسکون تھا اس کا چہرہ )‬
‫یہ میری نسوانیت کے خالف ہے کہ‬
‫میں تم سے اظہاِر محبت کروں ‪،‬لیکن‬
‫بہت سوچ کر میں یہ اس لیے کہہ‬
‫رہی ہوں کہ تم مجھ سے نہ‬
‫بھاگو‪،‬میری طرف سے تم آزاد ہو‬
‫تمھیں اپنی زندگی گزارنے کا حق ہے‪،‬‬
‫(واقعی وہ میری محبت میں راضی‬
‫ہو چکی تھی‪،‬اس نے محبت کی‬
‫معراج پا لی تھی)لیکن اگر مجھ سے‬
‫دوستی رکھو تو مجھے خوشی ہوگی‬
‫کہ تم نے مجھے اس قابل سمجھا‪،‬اب‬
‫تم کہو تو میں جوسلین کے بارے‬
‫میں کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں‪،‬غزل‬
‫نے آج وہ سب کہہ دیا جو وہ مجھ‬
‫سے سننا چاہتی تھی‪،‬سچی بات ہے‬
‫میں گم سم تھا‪،،‬ٹھیک ہے غزل تم‬
‫جوسلین کے بارے میں جو کہنا‬
‫چاہتی ہو‪،‬کہو ‪،‬میں غور سے سنوں‬
‫گا‪،‬پرنس نگینہ نے تمھارے ساتھ‬
‫زبردستی کی تھی‪،،‬اور تمھیں ایسے‬
‫رستے پر لگا دیا تھا ‪،‬جس سے شاید‬
‫واپسی ممکن نہیں تھی‪،،‬یا اس نے‬
‫جو گھاؤ لگایا تھا اس کا بھرنا ممکن‬
‫نہیں تھا‪،،‬اسلیے تم نے اس سے اسی‬
‫وقت اپنی عقل کے مطاق بدلہ لینا‬
‫چاہا اور نہ لے سکے‪،،‬بالکل ا سی‬
‫طرح ہی جوسلین ہے ‪،‬اس کے انداز‬
‫میں فرق ہے ‪،‬اس نے تمھاری فطرت‬
‫دیکھ کر مزاج سمجھ کر تمھیں‬
‫ایسی کہانی ڈالی جس سے تم بچ نہ‬
‫پائے‪،‬وہ سمجھ گئی تھی کہ تمھاری‬
‫کشش کی وجہ سے کوئی تمھارے‬
‫ساتھ زبردستی سیکس کروا چکا ہے‬
‫اس لیے اس نے میٹھا بن کے حاصل‬
‫کرنے کا منصوبہ بنایا‪،‬جب اس نے کہا‬
‫کہ وہ تمھیں تمھاری مرضی سے‬
‫حاصل کرنا چاہتی ہے ‪،‬تو یہ ایک‬
‫شطرنج کی چال تھی جس کو تم‬
‫سمجھ نہ سکے اور اس کے ساتھ‬
‫رہنے لگے‪،،‬اگر تم نہ کہتے تو اس نے‬
‫کئی طریقے اور استعمال کرنے‬
‫تھے‪،،‬لیکن اس کا پہال وار ہی اتنا‬
‫خطرناک تھا کہ کوئی بھی اس سے‬
‫بچ نہیں سکتا تھا‪،،‬رکو رکو رکو‪،،‬غزل‬
‫تمھارا مطلب ہے کہ جب اس نے کہا‬
‫کہ وہ مجھے میری مرضی سے‬
‫حاصل کرنا چاہتی ہے تو وہ حقیقت‬
‫میں مجھے دانہ ڈال رہی تھی اور‬
‫میری نظر دانے پر تھی اس کے‬
‫پیچھے جو پھندا تھا میں اسے دیکھ‬
‫نہ سکا‪،،‬ہاں میں یہی کہنا چاہتی‬
‫ہوں۔مجھے ایکدم چپ لگ گئی اور‬
‫پھر جوسلین کے احسانات یاد آنے‬
‫لگے‪،،‬نہیں غزل ایسا نہیں ہوسکتا‬
‫‪،‬اس نے مجھے چاہا ہے اور میرا ہاتھ‬
‫اس وقت پکڑا تھا جب میرے پاس‬
‫کچھ بھی نہیں تھا‪،‬اس نے میرے لیے‬
‫سب کچھ چھوڑ دیا‪،‬یہ بھی تمھاری‬
‫خام خیالی ہے پرنس‪،،‬اس نے کبھی‬
‫بھی تمھارے لیے کچھ نہیں چھوڑا‬
‫‪،،‬وہ پہلے کی طرح مردوں سے‬
‫دوستیاں کرتی رہتی ہے اور بھی‬
‫کافی کچھ کرتی ہے‪،‬تم سمجھتے ہو‬
‫کہ وہ تمھارے ساتھ ہر پل رہتی تھی‬
‫تو یونیورسٹی کے وقت یا جب وہ‬
‫بازار جاتی تھی‪،‬یا اپنی کولیگ کے‬
‫پاس ‪،‬یا کسی اور کام کے بہانے‪،‬اس‬
‫کی جاگیر اور آخر وہ ایک مشہور‬
‫پروفیسر تھی اس کی کافی‬
‫مصروفیات تھی ‪،‬بس یہ تمھیں‬
‫سمجھایا گیا تھا ‪،‬اور تم نے مان لیا‬
‫کیونکہ اسنے تمھاری آنکھوں اپنی‬
‫مکاری سے پٹی باندھ دی تھی‪،‬اعتماد‬
‫اور محبت کی پٹی۔دوستی کی‬
‫پٹی‪،‬دیکھو پرنس تم جو کہتے ہو کہ‬
‫اس نے تم پر احسانات کیے‬
‫درحقیقت وہ اس نے تمھاری قیمت‬
‫بھری تھی۔۔قسطوں میں ۔۔میں یہ‬
‫نہیں چاہتی کہ تم اس سے برگشتہ‬
‫ہو کرمیری طرف آجاؤ ‪،‬لیکن میں یہ‬
‫ضرور چاہتی ہوں کہ تم اس کی‬
‫ذہنی غالمی سے آزاد ہو جاؤ‪،‬غزل نے‬
‫اعتماد سے کہا۔چودائی کی زبان میں‬
‫غزل کہہ رہی تھی کہ آنٹی‬
‫(جوسلین)نے گھر میں بچہ رکھا ہوا‬
‫ہے جس کی قیمت بس کچھ زیادہ‬
‫تھی‪،،،‬ٹھیک ہے غزل تم نے مجھے‬
‫بہت کچھ بتایا ہے‪،‬اب تم ایسا کرو‬
‫مجھے تنہا چھوڑ دو‪،،‬ہم پھر ضرور‬
‫ملیں گے‪،،‬میں نے پژمردگی سے کہا۔‬
‫غزل میری کیفیت سمجھ چکی تھی‬
‫کہ میں اس وقت تنہائی چاہتا‬
‫ہوں‪،،‬اسلیے وہ چپ چاپ اٹھ کے‬
‫چلی گئی‪،‬وہ جاتے جاتے رکی۔واپس‬
‫مڑی ۔میرے پاس آئی۔جھک کے میرا‬
‫ماتھا چوما ۔ اور کہا اپنا خیال‬
‫رکھنا۔۔پھر وہ چلی گئی۔اگر وہ کوان‬
‫لی کے ملنے سے پہلے مجھ سے یہ‬
‫سب باتیں کہتی تو آج اتنی آسانی‬
‫سے یہاں سے جا نہیں سکتی‬
‫تھی‪،‬اور نہیں تو کم از کم اس کی‬
‫ریکارڈ بےعزتی ہونی تھی‪،‬لیکن‬
‫میرے عظیم استاد کی بدولت میں‬
‫جوسلین کے سحر سے آزاد ہوچکا‬
‫تھا‪،‬اور یہ بات جوسلین بھی‬
‫محسوس کر چکی تھی‪،‬میں تو بس‬
‫جوسلین کے احسانات تلے دبا اس‬
‫کی پرستش کرر ہا تھا‪،‬میں وہیں‬
‫صوفے پر لیٹ گیا‪،‬اور سوچنے لگا اگر‬
‫جوسلین بھی ایسی نکلی تو میں تو‬
‫دنیا میں تنہا رہ جاؤں گا‪،‬بالکل تم‬
‫تنہا ہی تو ہو اّلوکے پٹھے ‪،‬کیونکہ‬
‫تمھار اباپ تو مر گیا ہے نہ‪،‬کوان لی‬
‫کی آواز میرے دل میں آئی‪،،‬آپ پٹھہ‬
‫مجھے کہہ رہے ہیں تو اّلو کسے کہہ‬
‫رہے ہیں‪،،‬خود کو الو کہہ رہاہ ہوں‬
‫‪،‬کیونکہ مجھے تم جیسا ناالئق‬
‫شاگرد مال‪،‬جو ایک عورت کی وجہ‬
‫سے رونے لگ گیاہے‪،‬کوان لی شگفتگی‬
‫سے بات کرتے ہوئے طنز بھی کرتا‬
‫گیا‪،،‬اس سے اتنا ہوا کہ میرے اندر‬
‫اترتے اندھیرے چھٹنے لگے اور میں‬
‫پھر سے وہی بن گیا‪ ،‬یعنی عظیم‬
‫کوان لی کا ناالئق شاگرد۔پھر کوان‬
‫لی کی آوز نہ آئی‪،‬غزل نے جو کچھ‬
‫بتایا تھا اگر وہ سچ تھا تو جوسلین‬
‫تو بہت بڑی مکار تھی‪،‬عورت کی تریا‬
‫چلتر میں آخری چوٹی پر نظر‬
‫آئی‪،‬غزل کو نہیں پتہ تھا کہ مجھے‬
‫جوسلین کو جاننے کیلیے اس کا‬
‫پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں‬
‫ہے‪،‬مجھے صرف آنکھیں بند کرکے‬
‫دھیان لگانا تھا اور دودھ کا دودھ‬
‫اور پانی کا پانی ہوجانا تھا‪،‬لیکن میں‬
‫اس کیلیے اپنے اندر ہمت نہیں کر پا‬
‫رہا تھا‪،‬میں ڈر رہا تھا کہ اگر‬
‫جوسلین دغاباز نکلی تو کیا کروں‬
‫گا‪،،‬کیا اس سے بھی بدلہ لوں گا‪،‬جو‬
‫بھی تھا میں آج جو بھی ہوں‬
‫جوسلین کی وجہ سے ہوں۔ان دنوں‬
‫میں بکھرا بکھرا سا تھا انگلش میں‬
‫کہوں تو ڈبل مائنڈڈ تھاحقیقت‬
‫جاننے کی ہمت نہیں ہو رہی‬
‫تھی‪،‬جوسلین ان دنوں میری حالت‬
‫دیکھ رہی تھی ‪،‬پرنس امریکہ میں‬
‫رائیٹنگ پر ایک اونچے درجے کی‬
‫ورکشاپ ہو رہی ہے‪،‬چوٹی کے‬
‫لکھاریاس ورکشاپ کے انسٹرکٹر‬
‫ہیں‪،‬میں چاہتی ہوں تم اس میں‬
‫شامل ہوجاؤ‪،‬اگر تم نے لکھنا ہے تو یہ‬
‫ورکشاپ میں شامل نہ ہونا بڑی‬
‫بدقسمتی ہوگی‪،‬نہیں جوسلین میرا‬
‫ابھی کسی چیز کو دل نہیں چاہ‬
‫رہا‪،‬نہیں تم جاؤ‪،‬پلیز میری بات مان‬
‫لو‪،‬تم نے مجھے کہا تھا کہ میں‬
‫تمھیں بناؤں اور میں تمھاری تکمیل‬
‫دیکھنا چاہتی ہوں‪،‬تم واپس آؤ اور‬
‫ماسٹرز کے پیپرز دو اور پھر ادب‬
‫میں پی ایچ ڈی کیلیےآکسفورڈ‬
‫یونیورسٹی میں میں تمھیں خود لے‬
‫کہ جاؤں گی‪،،‬ساتھ ساتھ دنیا بھر‬
‫میں رائٹنگ پر ہونے والی ورکشاپ‬
‫میں حصہ لو یا رائیٹنگ پر کسی‬
‫انسٹیٹیوٹ میں چلے جاؤ دنیا میں‬
‫بڑے کمال کے لکھنے والے ہیں‪،‬اور وہ‬
‫یہ سکھانے کو بھی تیار ہیں‪،‬پاکستان‬
‫میں اس قسم کے کاموں کیلیے کوئی‬
‫انسٹیٹیوٹ نہیں ہیں۔جبکہ امریکہ‬
‫اور یورپ میں باقاعدہ کالج اور‬
‫‪،‬یونیورسٹیز ہیں ان شعبوں پر‬
‫نیو ناول لیسٹ‬
‫‪03147615013‬‬
‫نگائیں‪1.‬‬
‫‪20 rupee‬‬ ‫👇👇👇‬
‫نمکین محبت‪2.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫ہم تم پہ مرتے ہیں‪3.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫ہوس کی سرگوشی‪4.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫وجود‪5.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫وصل کی گڑریاں‪6.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫وفادر جانور‪7.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫یادوں کی بارات‪8.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫یک نہ شد دو شد‪9.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫۔ یہ کیسا عالج ہے‪10‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫کنواری چاہت‪11.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫میرا کل اور میرا آج رومن‪12.‬‬
‫‪100‬‬
‫رکھیل‪13.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫آنکھوں ہی آنکھوں میں‪14.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫اتنا بڑا‪15.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫اٹوٹ رشتہ‪16.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫آندھی محبت‪17.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫ای لو یو‪18.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫بڑی آپا‪19.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫بھائی دھیرے سے‪20.‬‬
‫‪40 rs‬‬

‫بھوک کی سزا‪21.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫بہن کے ساتھ یاد گار سفر‪22.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫بینڈ باجا بارات‪23.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫بے بس محبت‪24.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫بے زبان‪25.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫بے نقاب‪26.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫پٹھان لڑکی‪27.‬‬
‫‪40 Rs‬‬
‫پچکاریاں‪28.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫پچھتاوا‪29.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫پل پل دل کے پاس‪30.‬‬
‫‪50 ra‬‬
‫پھر کیا ہوا‪31.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫پینڈو سسر‪32.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫جوانی ہے دیوانی‪33.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫چسکیاں‪34.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫حیرانگی گناہ ہے باپ سے ہوا‪35.‬‬
‫گناہ‬
‫‪40 rs‬‬
‫خدمت گار‪36.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫خواجہ سرا‪37.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫خوبصورت‪38.‬‬
‫‪100 Rs‬‬
‫خیال سے حقیقت تک‪39.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫دل کا رشتہ‪40.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫دل کی دنیاں‪41.‬‬
‫‪60 rs‬‬
‫راز محبت‪42.‬‬
‫‪60 rs‬‬
‫رکاوٹ‪43.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫زمانہ بڑا خراب ہے‪44.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫سہاک رات‪45.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫سوری سسٹر‪46.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫صبر‪47.‬‬
‫‪20 rs‬‬
‫صنف نازک‪48.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫صنم ‪49.18+‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫۔ طلب سچی ہو تو سیزن ون‪50‬‬
‫مکمل‬
‫‪100 Rs‬‬
‫ظلم‪51.‬‬
‫‪20 rs‬‬
‫عمران سریز‪52.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫عہد وفا‪53.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫قصور کس کا‪54.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫کاشی جی مکمل‪55.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫کبھی ہاں کبھی ناں‪56.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫کشتی باجی‪57.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫کھال کھاتا‪58.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫گشت سے گشتی تک‪59.‬‬
‫‪20‬‬
‫گفت ٹو‪60.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫گفٹ‪61.‬‬
‫‪40rs‬‬
‫گھر کا دودھ‪62.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫گھنٹی‪63.‬‬
‫‪20 rs‬‬
‫گہری ناف‪64.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫لگی شرط‪65.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫مال روڑ مری کی سیر کو آئی‪66.‬‬
‫چال لڑکیاں‬
‫‪40 rs‬‬
‫ماں کا الڈال‪67.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫محنت جب بولتی ہے‪68.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫محبت ہے یا درد‪69.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫منزل مل ہی گی‪70.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫مہدی والے ہاتھ‪71.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫میٹھا درد‪72.‬‬
‫‪40 rs‬‬
‫میرے رشک قمر‪73.‬‬
‫‪100‬‬
‫نشیلی آنکھیں‪74.‬‬
‫‪40rs‬‬
‫نگاہ الفت ‪75.‬‬
‫‪40rs‬‬
‫اہ ممی جی رومن ‪76.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫کاشی کی کہانی مکمل رومن‪77.‬‬
‫‪100 rs‬‬
‫آپی زرا ٹانگیں تو اٹھاؤ‪78.‬‬
‫‪50rs‬‬
‫بے غیرت بے شرم‪79.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫گھر کی مرغی‪80.‬‬
‫‪50rs‬‬
‫اغوا‪81.‬‬
‫‪20 rs‬‬
‫اجنبی مسافر‪82.‬‬
‫‪20rs‬‬
‫مسکان‪83.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫یس باس‪84.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫مریض محبت‪85.‬‬
‫‪50 rs‬‬
‫محبت سوچ کر کرنا‪86.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫ڈیٹ پر ڈہٹ‪87.‬‬
‫‪30 rs‬‬
‫دل مجبور‪88.‬‬
‫‪40 rupee‬‬
‫تمام پیڈ ناول ‪ 1500‬روپے میں‬
‫حاصل کریں‬
‫جس کو ناول چاہیے۔ اپنی مرضی کا‬
‫حاصل کر سکتا ہے رابطہ نمبر‬
‫‪03147615013‬‬
‫ناگن‬ ‫🐍‬
‫‪Update_17‬‬

‫جوسلین پاکستان میں بہت اچھا‬


‫لکھنے والے ہیں‪،‬جو دلوں کو چھو‬
‫لیتا ہے‪،‬یہاں باقاعدہ انسٹیٹیوٹ نہ‬
‫صحیح لیکن ہنر کمال کا ہے اور وہ‬
‫یہ فن اہل آدمی کو دے بھی دیں‬
‫گے‪،‬ٹھیک ہے تم یہاں کسی کی‬
‫شاگردی کرنا چاہو تو وہ بھی ہوسکتا‬
‫ہے لیکن اس ورکشاپ ضرور میں‬
‫حصہ لو‪،‬اوکے جوسلین میں سوچوں‬
‫گا‪،‬سوچنے کا وقت نہیں ہے‪،‬میں‬
‫تمھارے ڈاکومنٹ تیارکرو رہی ہوں‬
‫‪،‬وہ یونیورسٹی چلی جاتی تو مجھے‬
‫سوچیں گھیر لیتی‪،‬یا مجھےغصہ آنے‬
‫لگتا‪،‬اسی ادھیڑ بن میں ایک چہرہ‬
‫میری آنکھوں کے سامنے آگیا‪،‬میں نے‬
‫گاڑی نکالی اور اس کے کوچنگ سنٹر‬
‫پہنچ گیا‪،‬وہ ابھی بھی وہیں تھی‬
‫‪،‬بلکہ اب تو اس کوچنگ سنٹر کی‬
‫مالک تھی‪،‬مجھے دیکھ کر حیران ہو‬
‫گئی‪،‬کیا مما سے پوچھ کرآئے ہو‪،‬اسنے‬
‫طنز کیا۔جس سے تمھار ی جان‬
‫نکلتی تھی‪،‬میں نے بھی جوابی طنز‬
‫کیا‪،‬آج تمھیں کیسے یاد آگئی‪،‬اس نے‬
‫پھر طنز کیا‪،‬تم ایسی تو نہیں ہو کہ‬
‫جس کی یاد دل سے آسانی سے چلی‬
‫جائے‪،‬اچھا اسوقت تو بچے کو اتنی‬
‫باتیں نہیں آتی تھیں‪،‬وہ مسلسل‬
‫طنزیہ باتیں کر رہی تھی‪،‬بچے نے تو‬
‫بڑی کوشش کی تھی تم نے کبھی‬
‫کوئی اشارہ ہی نہیں دیا‪،‬میں اسے‬
‫رام کر رہا تھا‪،،‬بچہ اسوقت بچہ ہی‬
‫تھا ‪،‬کیا اسے کسی اشارے کی‬
‫ضرورت تھی‪،‬اس نے پھر طنز‬
‫کیا‪،‬بکواس بند کرو اس وقت تمھاری‬
‫جوسلین کے ڈر سے ہوا نکلی ہوئی‬
‫تھی اور اب سارا غصہ مجھ پر نکال‬
‫رہی ہو‪،،‬مجھے غصہ آگیا‪،‬اب کیا لینے‬
‫آئے ہو‪،‬اس نے موضوع بدل دیا‪ ،‬بچہ‬
‫بڑا ہوگیاہے‪،،‬تو پھر میں کیاکروں‬
‫‪،‬اس نے بے اعتنائی برتی۔۔۔۔چلو‬
‫میرے ساتھ میں نے اعتماد سے‬
‫کہا‪،‬وہ مجھے گہری نظروں سے‬
‫دیکھنے لگی۔۔ میں چل پڑا اور‬
‫پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ‪،‬گاڑی میں‬
‫بیٹھا تو وہ دوسرا دروازہ کھول کہ‬
‫میرے ساتھ بیٹھ گئی‪،‬بہت دیر کر‬
‫دی مہرباں آتے آتے وہ گنگنائی۔۔مّد ت‬
‫ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے میں‬
‫نے جوابی مصرعہ پڑھا۔اس کے‬
‫چہرے پر شفق کے رنگ بکھرنے‬
‫لگے‪،،‬وہ میری ٹیوشن ٹیچر تھی‪،‬میں‬
‫اس کے پاس چار سال پڑھا تھا‪،‬اور‬
‫ان چار سالوں میں اسے پھنسانے کی‬
‫کوئی کسر نہ چھوڑی تھی‪،‬وہ مجھے‬
‫چاہتی تھی‪،‬لیکن جوسلین کے ڈر کی‬
‫وجہ سے ہمارا کچھ نہ ہوسکا۔اس کا‬
‫نام ثمینہ تھا ‪ُ،‬ا س وقت وہ ‪ 26‬سال‬
‫کی تھی اور میں پندرہ سال کا تھا‬
‫آج وہ تقریبًا ‪32‬کی ہو گئی تھی‪،‬اس‬
‫وقت اس کی جوانی اٹھتی ہوئی‬
‫لہریں تھی ‪،‬اب وہ پرانی شراب کی‬
‫طرح ہوچکی تھی۔جس کا مزہ وقت‬
‫کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔ درمیانہ قد‬
‫سانولی رنگت لیکن جسم تباہی تھا‬
‫اس کے جسم کی بھینی بھینی‬
‫خوشبو نے مجھے چار سال ستایا تھا‬
‫‪،‬اس کے چہرہ تھوڑا لمبوترا تھا لیکن‬
‫نقش اس کے بھلے بھلے سے‬
‫تھے‪،‬جسم نہ اسمارٹ تھا نہ دبال پتال‬
‫نہ موٹاپا ‪،‬جب چلتی تو اس کے‬
‫جسم کی اتھل پتھل سے بڑے لوگوں‬
‫کے دل مچلتے ہوں گے‪،‬ثمینہ کی‬
‫آنکھیں بڑی بڑی اور ماتھا چوڑا تھا ۔‬
‫اور جسم کے اعضاء سیکسی تھے‬
‫‪،،‬اپنے شعبے میں چلنے کیلیے ا وہ‬
‫ایک بڑی سی چادر لیتی تھی‪،‬لیکن‬
‫واقفاِن حال جانتے تھے کہ اندر کیا‬
‫خزانہ چھپا ہوا ہے ‪،‬ہم ایک دوسرے‬
‫میں گم تھے۔اسے ہوش تب آیا جب‬
‫فلیٹ آگیا‪،‬یہاں کیوں آئے‪،،‬اس نے‬
‫اچھنبے سے پوچھا۔۔تمھیں کہا نہ‬
‫بچہ بڑا ہو گیا ہے‪،‬میں نے اترکر اس‬
‫کی طرف کا دروازہ کھوال اور اسے‬
‫فلیٹ میں لے آیا‪،‬وہ کچھ شاکنگ‬
‫تھی اسے یہاں آنے کی قطعی امید‬
‫نہیں تھی‪،‬میں بھی اسے اسی بیڈ پر‬
‫لے گیا جس بیڈ پر میں اور جوسلین‬
‫سیکس کرتے تھے‪،‬وہ میرا ارادہ‬
‫سمجھ گئی‪،‬بچہ واقعی بڑا ہوگیاہے‬
‫اسنے مسکرا کے کہا‪،‬اور میرے گلے‬
‫لگ گئی‪،‬اور بے صبری کے ساتھ‬
‫ہونٹوں کیساتھ ہونٹ جوڑ‬
‫دیے‪،‬مجھے بھی اس کے ہونٹوں کو‬
‫چوسنےکا بہت شوق تھا۔ چار سال‬
‫وہ میرے سامنے بیٹھی رہی تھی اور‬
‫اس کے رسیلے ہونٹ مجھےتڑپاتے‬
‫رہے تھے۔کئی بار میں نے مختصر‬
‫لمحوں کیلیے ا سکے ہونٹوں سے رس‬
‫پینے کی کوشش کی تھی‪،‬لیکن وہ‬
‫ایسے بیٹھی رہتی تھی۔جیسے وہ‬
‫پتھر ہے۔اور آج اس کے اشتیاق نے‬
‫بتادیا کہ آگ دونوں طرف ہے برابر‬
‫لگی ہوئی۔میرے ہاتھ اسکی کمر پر‬
‫کوہ پیمائی کر رہے تھے‪،‬پھر مشکل‬
‫حصوں میں چلے گئے‪،‬یعنی اس کی‬
‫گانڈ کو چھونے لگے۔میں نے اس کی‬
‫گانڈ جوش میں آگے دبائی ‪،‬آگے میرا‬
‫عضو تھا وہ اسے مست کرنے لگا۔‬
‫ادھر ہونٹوں نے اس پر قیامت‬
‫مچائی ہوئی تھی‪،‬ظالم اس وقت‬
‫زبردستی چود بھی دیتے تو ُا ف بھی‬
‫نہ کرتی‪،‬ثمینہ نے ہونٹ پیچھے کر کے‬
‫کہا اور پھر لپٹ گئی‪،‬مجھے اندازہ‬
‫تھا اسے میری کشش نے مجھے‬
‫بھولنے نہیں‬
‫اردو سٹوری ورلڈ کی پیڈ کہانیاں‬
‫ماجود ہیں جس کو لینی ہے رابطہ‬
‫کریں۔‬
‫چال در چال مکمل‬
‫قیمت ‪ 50‬روپے‬
‫نسرین آنٹی مکمل‬
‫روپے ‪50‬‬
‫چھوٹی امی پہال حصہ مکمل‬
‫روپے ‪50‬‬
‫جوان محبت‬
‫روپے ‪70‬‬
‫امتحان‬
‫روپے ‪40‬‬
‫انجانے راستے‬
‫روپے ‪30‬‬
‫اندھا دھند‬
‫روپے ‪50‬‬
‫پچتاوا‬
‫روپے ‪40‬‬
‫پچھال دروازہ‬
‫روپے ‪30‬‬
‫دوسرا سورخ‬
‫روپے ‪50‬‬
‫کاال بازار‬
‫روپے ‪50‬‬
‫میری زندگی کی رنگینیاں‬
‫روپے ‪100‬‬
‫یہ بھی محبت ہے‬
‫روپے ‪50‬‬
‫اس کے عالوہ بھی بہت سی کہانیاں‬
‫ماجود ہیں جس کو لینی ہے رابطہ‬
‫کریں‬
‫‪03147615013‬‬
‫‪http://wa.me/+9231476150‬‬
‫‪13‬‬

You might also like