You are on page 1of 297

‫]‪ [22/05, 1:29 pm‬میل کرا دے‬

‫میل_کروا_دے_ربا‪Nawab Zada: #‬‬


‫صفحہ‪1‬‬
‫‪#‬نوابزادہ_شاہد‬

‫وہ بھاگتی ھوئ بولی يا ہللا کہاں چھپوں‬


‫اگر وہ کم بخت يہاں بھی پہنچ گۓ‬
‫تو۔۔۔" اور اس سے آگے وہ سوچ نہیں‬
‫سکی۔ وہ تو کتوں کی طرح اسکی بو‬
‫سونگھتے پھر رہے تھے اگر ہالہ‬
‫انکے ہاتھ لگ جاتی تو انہوں نے‬
‫واقعی اسے چیل کنوؤں کے آگے ڈال‬
‫دينا تھا۔‬
‫ہال روڈ کا بہت مصروف عالقہ تھا۔‬
‫خوبرو جوان ہالہ نے پاس کھڑی سفید‬
‫آلٹو کو حسرت سے ديکھا کہ اگلے‬
‫لمحے ہی وہ چونک گئ۔ اسے اسکے‬
‫الکس کھلے نظر آۓ۔ کیا قسمت ايسے‬
‫بھی مہربان ہو سکتی تھی۔ اس کے وہم‬
‫وگمان میں بھی نہیں تھا۔‬

‫اس نے ادھر ادھر ديکھتے جلدی سے‬


‫دروازہ کھوال اور پچھلی سیٹوں کے‬
‫بیچ خود کو چھپا کر اپنا کاال دوپٹہ‬
‫ايسے اوڑھا کہ کار کے کارپٹس کا ہی‬
‫گمان ہوتا تھا۔‬
‫"اے ہللا میں آپکا نام لے کر سب چھوڑ‬
‫آئ ہوں۔ آپ نے اس کار کا الک کھال‬
‫رکھ کر میرا اس بات پہ ايمان پختہ کر‬
‫ديا ہے کہ بے شک آپ سے بڑھ کر‬
‫کوئ آپکے بندے کی حفا ظت نہیں کر‬
‫سکتا تو اے ہللا مجھے محفوظ ہاتھوں‬
‫میں پہنچا دينا۔" ہالہ نے آنکھیں بند‬
‫کرکے بڑی شدت سے ہللا کو مخاطب کیا‬
‫تھا۔ صاحب خدا کے واسطے مجھے بچا‬
‫لو‬
‫___________________‬
‫نواب شاہد نے دروازاہ کھول کر بیٹھے‬
‫ديکھا نواب شاہد کا دوست اسفند بوال‬
‫کچھ خدا کا خوف کھا يار! کسی دن‬
‫تیری اس بھلکڑ نیچر کی وجہ سے‬
‫تجھے اپنی گاڑی سے ہاتھ دھونے پڑ‬
‫جائیں گے بیٹا" اسفند نے سفید آلٹو کی‬
‫فرنٹ سیٹ کا ڈور کھولتے ہوۓ نواب‬
‫شاہد کو لتاڑا۔" "پتہ نہیں يار مجھے‬
‫کیسے بھول گیا۔" ‪.‬نواب شاہد نے‬
‫حیرت سے ياد کرنے کی کوشش کی کہ‬
‫وہ کار کا لوک لگانا کیوں بھول گیا تھا۔‬
‫نواب شاہد اور اسفند ہال روڈ اپنا لیپ‬
‫ٹاپ ٹھیک کروانے آۓ تھے۔ آدھے‬
‫گھنٹے کا کام تھا دونوں دوست بھی‬
‫تھے۔ جیسے ہی وہ واپس آۓ تو گاڑی‬
‫کا الک کھال ديکھ کر اسفند کا میٹر گھوم‬
‫گیا۔‬
‫"دل کرتا ہے پورا باداموں کا گودام‬
‫تیرے نام کردوں۔ تجھے سیکرٹ‬
‫سروسز نے آخر کیسے لے لیا ہے۔ میں‬
‫آج تک اس بات پہ حیران ہوں۔ہللا ہی‬
‫پوچھے تجھے" اسفند کے طعنے وہ‬
‫ايک کان سے سن کر دوسرے کان سے‬
‫نکال رہا تھا۔ اپنی جان لیوا‬
‫مسکراہٹ سے مسکراتے ہوۓ اس نے‬
‫ايک ابرو اٹھا کر اسے ديکھا اور بے‬
‫اختیار قہقہہ بلند کیا ۔ "ہاہاہا! يہ بیويوں‬
‫والے طعنے دينے سے ذرا پرہیز کیا‬
‫کرو" نوابزادہ نے اسے کہا‬

‫نواب شاہدنے بمشکل اپنی مسکراہٹ‬


‫روکتے ہوۓ گھمبیر آواز میں کہا۔چھ‬
‫فٹ سے نکلتا قد‪،‬مضبوط چوڑے‬
‫شانے‪ ،‬گھنے سیاہ بال‪ ،‬گہری پرسوچ‬
‫آنکھیں‪ ،‬کھڑی ناک اور گندمی چمکدار‬
‫رنگت جس کو پیورايشین بیوٹی کہا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬کلین شیو‪ ،‬جہاں سے گزرتا تھا‬
‫لڑکیوں کے دل دھڑکا جاتا تھا۔ بقول‬
‫اسفند کے ہم اتنی توپ چیز ہیں نہیں‬
‫جتنا سیکرٹ سروسز نے ہمیں بنا ديا‬
‫ہے۔‬
‫نواب شاہد اور اسفند چائلڈ ہڈ بڈيز تھے۔‬
‫شروع سے آرمی جوائن کرنے کی‬
‫خواہش تھی دونوں کی۔ جو وقت کے‬
‫ساتھ ساتھ بدلی اور دونوں نے آرمی‬
‫کوجوائن کرنے کے ساتھ سیکرٹ‬
‫سروسز کو بھی جوائن کیا جس سے‬
‫بہت کم لوگ واقف تھے۔ ويسے تو‬
‫دونوں کی فیملیز اسالم آباد میں رہتی‬
‫تھیں۔ لیکن انکی پوسٹنگ مختلف جگہ‬
‫ہوتی تھی۔آجکل الہور میں بڑھتی ہوئ‬
‫دہشتگردی کے باعث يہ دونوں جوہر‬
‫ٹاؤن میں رينٹ پر فلیٹ لے کر رہ رہے‬
‫تھے۔‬
‫ہالہ دم سادھے پچھلی سیٹوں کے‬
‫درمیان لیٹی دونوں کی باتیں سن رہی‬
‫تھی۔ سیکرٹ سروسز کے نام پر‬
‫چونکی اور سوچا کہ ہللا نے صحیح‬
‫ہاتھوں میں پہنچايا ہے۔ يہ يقینا ّ ّّ میری‬
‫مدد کريں گے۔‬
‫جیسے ہی گاڑی فلیٹس کی بلڈنگ کی‬
‫کمپاؤنڈ میں انٹر ہوئ ہالہ آہستہ سے‬
‫اٹھنے لگی۔مگر پھر بھی پیچھے والی‬
‫سیٹس میں ارتعاش محسوس کرکے وہ‬
‫دونوں چونکے اور ہاتھ پینٹس میں‬
‫موجود موزر پر گئے۔‬
‫جیسے ہی ہالہ کا سر ابھرا تب تک‬
‫نواب شاہد گاڑی پارک کر چکا تھا۔‬
‫اسکے اٹھتے ہی دونوں نے برق‬
‫رفتاری سے پیچھے مڑتے ہینڈز اپ‬
‫کہا۔ ہالہ اپنے اتنے قريب دو گنز ديکھ‬
‫کر بے اختیار چیخنے لگی۔‬
‫ايک کے بعد جب دوسری چیخ بھی‬
‫ماری تو نواب شاہد نے جلدی سے آگے‬
‫بڑھ کر ايک ہاتھ اسکے منہ پر جمايا‬
‫مگر موذر واال ہاتھ بدستور وہیں‬
‫تھا۔اپنے اتنے قريب موذر ديکھ کر ہالہ‬
‫کی آنکھیں دھشت سے پھٹنے کے‬
‫قريب تھیں۔‬
‫"اگر ايک آواز بھی اور نکلی تو يہیں‬
‫پر بھون کر رکھ دوں گا۔" انتہائ سخت‬
‫لہجے میں کہتے ‪.‬نواب شاہد نے اسے‬
‫دھمکی دی۔ صبح سے وہ جس ذہنی‬
‫اور جسمانی مشقت برداشت کر چکی‬
‫تھی اب اس دھشت انگیز منظر کو‬
‫ديکھنے کی اس میں ہمت جواب دے گئ‬
‫تھی۔‬
‫وہیں پر وہ ڈھلک گئ۔"واٹ دا ہیل۔۔اٹھو‬
‫ڈرامے مت کرو ادروائز تم مجھے‬
‫جانتی نہیں۔" نواب شاہد نے غصے‬
‫سے اسے جھنجھوڑتے ہوۓ کہا۔‬
‫اسفند نے بھی پیچھے ہوتے اسکی‬
‫ڈھلکی کالئ پکڑ کر جونہی نبض چیک‬
‫کی تو وہ واقعی میں بہت مدہم چل رہی‬
‫تھی۔‬
‫"چھوڑ دے میرے بھائ وہ واقعی بے‬
‫ہوش ہوگئ ہے۔" اسفند نے اسکے بے‬
‫ہوش ہونے کی تصديق کرتے ہوۓ کہا۔‬
‫دونوں سیدھے ہے کر اپنی سیٹس پر‬
‫بیٹھے۔‬
‫"اب اس بال کا کیا کريں۔" نواب شاہد‬
‫نے کسی قدر جھنجھالہٹ سے کہا۔‬
‫"بال تو واقعی ہے" اسفند نے شرارت‬
‫۔سے ہالہ کو ديکھتے ہو ۓ کہا‬
‫میں نے ہزار مرتبہ کہا ہے کہ جب‬
‫میرے ساتھ ہو تو اپنی لڑکیوں سے‬
‫متعلق چیپ سوچ اپنے پاس رکھا‬
‫کرو۔"‬
‫نواب شاہد نے غصے سے اسے ڈانتے‬
‫ہوۓ جھاڑ پالئ۔ اتنی ٹینس سچويشن‬
‫میں اسے اسفندکی يہ بات ايک آنکھ‬
‫نہیں بھائ۔‬
‫"اب کیا کريں اسکا اگر کوئ کمپاؤنڈ‬
‫میں آگیا تو کیا ہوگا۔" ضامن نے‬
‫پريشانی سے سوچتے ہوۓ کہا۔ فوج‬
‫اور انٹیلیجنس میں ہوتے ہوۓ بے‬
‫شمار ٹینس سچويشنز سے وہ دونوں‬
‫گزرے تھے مگر يہاں بات ايک لڑکی‬
‫کی تھی جس کے ساتھ انکی موجودگی‬
‫ہر طرح سے مشکوک ہوسکتی تھی۔‬
‫"اسکا ايک ہی حل ہے کہ اسکو اٹھا کر‬
‫پچھلے خفیہ راستے سے اپنے فلیٹ‬
‫میں چلیں۔ کیونکہ فرنٹ سے اسکو لے‬
‫کر جانا ہماری پوزيشن کو آکورڈ کردے‬
‫گا۔"‬
‫"دماغ ٹھیک ہے تمہارا۔ سر کو اگر پتہ‬
‫چل گیا نہ تو بیٹا اس زمین اور آسمان‬
‫میں ہم کہیں نظر نہیں آئیں گے۔"‬
‫"تم بیٹھ کر سر کی پرمیشن کا ويٹ کرو‬
‫میں جا رہا ہوں"‬
‫نواب شاہد کی بات پہ اسفند غصے سے‬
‫گاڑی سے نکلنے لگا۔‬
‫"کیا ہوگیا ہے يار۔۔اچھا چل میں اسے‬
‫اٹھاتا ہوں تو پہلے نکل کر چیک کر‬
‫پچھلہ راستہ کلئیر ہے تو میں اسے اٹھا‬
‫کر آتا ہوں۔ مجھے مس بیل دے گا تو‬
‫میں سمجھ جاؤں گا کہ سب سیٹ ہے۔"‬
‫نواب شاہدنے باآلخر اسکے آيڈيا کو‬
‫قبولیت بخشتے ہوۓ کہا۔‬
‫اسفند لیپ ٹاپ ہاتھ میں لئیے گاڑی سے‬
‫نکل کر پچھلی سیڑھیوں کی طرف بڑھا‬
‫جو کہ ايمرجنسی کے لئیے لوگوں کے‬
‫لئیے اپنے بچاؤ کا ايک راستہ تھا۔‬
‫تھوڑی دير بعد اسفند کی مسڈ کال آئ۔‬
‫جس کا مطلب تھا کہ انکے فلیٹ تک‬
‫راستہ کلئیر ہے۔‬
‫نواب شاہد نے پھرتی سے ہالہ کو‬
‫کندھے پر ڈاال۔ گاڑی الک کی اور‬
‫پچھلے راستے کی جانب دبے قدموں‬
‫سے بڑھنے لگا۔‬
‫فلیٹ میں داخل ہو کر اسنے ايک کمرے‬
‫میں ہالہ کو بیڈ پر لٹايا۔ يہ دو کمروں کا‬
‫فلی فرنشڈ اور لگژری فلیٹ تھا۔ انٹر‬
‫ہوتے ہی ايک چھوٹا سا کاريڈور جس‬
‫کے اينڈ پر دائیں جانب دو بیڈ روم‬
‫سامنے بڑا سا الؤنج جس کے ساتھ‬
‫امريکن سٹال اوپن کچن اور اسکے‬
‫ساتھ سٹور اور النڈری تھی۔ الؤنج میں‬
‫بڑی سی گالس وال تھی جس میں سے‬
‫ايک دروازہ چھوٹے سے ٹیريس میں‬
‫کھلتا تھا جہاں چیرز رکھ کر ساتھ میں‬
‫مختلف پالنٹس سے ايک خوبصورت سا‬
‫سیٹنگ ايريا بنايا گیا تھا جہاں اکثر رات‬
‫يا شام میں اسفند اور ‪.‬نواب شاہد چاۓ‬
‫پیتے تھے۔‬
‫"سمیعہ کو کال کرکے ابھی اور اسی‬
‫وقت آنے کا کہو۔" نواب شاہد ہالہ کو‬
‫بیڈ پر لٹاکے باہر آتے ہی اسفند سے‬
‫بوال۔ سمیعہ نہ صرف اسفند کی منگیتر‬
‫تھی بلکہ انہی کے ساتھ انٹیلیجینس‬
‫میں آئ ٹی ڈيپارٹمنٹ سے منسلک تھی۔‬
‫"اسکو بالنے کا مقصد۔ ويسے بھی‬
‫شام ہوگئ ہے۔"‬
‫"رات تو نہیں ہوئ۔ اسکی چیکنگ میں‬
‫يا تم تو کر نہیں سکتے سو سمیعہ ہی‬
‫کرے گی۔ اور اسکو اپنا سسٹم النے کا‬
‫کہنا کیونکہ اس لڑکی کے ہوش میں‬
‫آتے ہوۓ اسکا سارا ڈيٹا سمیعہ چیک‬
‫کرے گی۔پتہ نہیں کون ہے اور کس‬
‫مقصد کے تحت ہماری کار میں تھی۔"‬
‫اوکے" نواب شاہد کی بات سمجھتے‬
‫ہوۓ اسفند نے کال کرکے سمیعہ کو‬
‫اپنے ہاں آنے کا کہا‬
‫"ہیلو گائز!" پندرہ منٹ بعد انکے فلیٹ‬
‫کی بیل ہوئ۔ اسفند ديکھنے گیا۔ اسکے‬
‫ساتھ سمیعہ الؤنج میں انٹر ہوئ۔‬
‫"کیا ہوا ہے اتنی ايمرجنسی میں مجھے‬
‫کیوں باليا" بلیک جینز پر حسب سابق‬
‫گرين اور بلیو چنری کا کرتا پہنے بلیو‬
‫سٹالر گلے میں ڈالے اونچی سی پونی‬
‫ٹیل اور نظر کے گالسز لگاۓ پا ؤں میں‬
‫جوگرز پہنے وہ اپنے ٹام بواۓ حلیے‬
‫لگتی تھی۔ تیکھے میں بھی بہت کیوٹ‬
‫نقوش۔ نڈر اور کانفیڈنٹ۔‬

‫نواب شاہدنے سارا واقعہ سنا کر لڑکی‬


‫کو چیک کرنے کا کہا۔‬
‫کیونکہ وہ خود لڑکیوں سے دو میل‬
‫دور ہی رہتا تھا۔‬
‫ساری بات سمیعہ نے خاموشی سے‬
‫سنی۔‬
‫"يہ بتاؤ کہ اسے گاڑی سے يہاں تک‬
‫اٹھا کر تم ہی الۓ تھے يا اسفند۔"‬
‫اسفند اور نواب شاہد کے مقابل صوفے‬
‫پر بیٹھی وہ مشکوک نظروں سے انہیں‬
‫ديکھ رہی تھی۔‬
‫"تم دونوں کا کوئ حال نہیں۔ اب کیا‬
‫لکھ کر دوں کے میں نے ہی اسے اٹھايا‬
‫تھا۔ تمہیں يہاں تفتیش کے لئیے نہیں‬
‫باليا جو کام کہا ہے وہ کرو۔"‬
‫نواب شاہد نے اسے جھاڑ پالتے کہا۔ ان‬
‫سب کو پتا تھا کہ وہ کام کے وقت کسی‬
‫قسم کی ادھر ادھر کی باتیں برداشت‬
‫نہیں کرتا۔‬
‫سمیعہ اسکا خراب موڈ ديکھ کر جلدی‬
‫سے اٹھی اور اس کمرے میں گئ جہاں‬
‫ہالہ موجود تھی۔‬
‫ايک عجیب سی کشش تھی اس میں جو‬
‫لوگوں کو اپنی جانب کھینچتی تھی۔‬
‫سمیعہ بھی اس بات کی معترف ہوئ۔‬
‫اسکو چیک کرنے کے ساتھ ساتھ وہ‬
‫اسے ہوش میں النے کی کوشش کرتی‬
‫رہی آخر پانچ دس منٹ کے بعد اسے‬
‫ہوش آگیا۔‬
‫سمیعہ کو اسکے پاس سے کوئ قابل‬
‫قدر چیز نہیں ملی۔‬
‫آنکھیں کھولتے ہی جو چہرہ ہالہ کو‬
‫نظر آيا وہ اسکے لئیے بالکل انجان‬
‫تھا۔‬
‫"ک۔۔ک۔۔کون ہو ‪........‬تم" ہالہ‪.........‬‬
‫ايک دم ‪........‬گھبرا کر اٹھی۔‬
‫سمیعہ ايک‪ ........‬دم پیچھے ہوئ‬
‫ہالہ نے گھبرا کر چاروں جانب‬
‫ديکھا۔"ڈئیر يہ تو میں تم سے پوچھنے‬
‫آئ ہوں کہ تم کون ہو" سمیعہ نے ديوار‬
‫کے پاس پڑی رائیٹنگ ٹیبل کی کرسی‬
‫پکڑ کے بیڈ کے قريب رکھتے ہوۓ کہا۔‬
‫"مم۔۔میں کہاں ہوں" اس نے سمیعہ کا‬
‫سوال نظر انداز کرتے ہوۓ ايک اور‬
‫سوال کیا۔‬
‫"ديکھو لڑکی ابھی تک تو تم زمین پر‬
‫ہی ہو۔ لیکن وہ جو باہر ايک بوگی مین‬
‫بیٹھا ہے نہ وہ تمہیں عالم باال میں‬
‫پہنچانے میں ايک سیکنڈ بھی نہیں‬
‫لگاۓ گا۔"‬
‫"ک۔۔ک۔۔کون" ہالہ کی آنکھیں دہشت‬
‫سے پھیل گئیں۔‬
‫پہال خیال يہی آيا کہ وہ ان لوگوں کے‬
‫ہتھے چڑھ گئ ہے اسے بھول گیا تھاکہ‬
‫اس نے کسی گاڑی میں پناہ لی تھی۔‬
‫"میڈم وہی جس کی گاڑی میں تم نے‬
‫پناہ لی تھی"‬
‫سمیعہ کے کہنے پے اسکے دماغ میں‬
‫بیہوش ہونے سے پہلے کے سب منظر‬
‫سپارک ہوۓ۔‬
‫"اوہ میں کیسے بھول گئ کے ہللا نے‬
‫مجھے بچانے کے لئیے ايک راہ نکالی‬
‫تھی" خود سے مخاطب ہوتے اس نے‬
‫سوچا۔‬
‫"شکر" بے اختیار مسکراتے اس نے‬
‫دل پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز میں کہا۔‬
‫"کیا مطلب" سمیعہ جو اسکی‬
‫مسکراہٹ سے ابھی صحیح سے متاثر‬
‫بھی نہیں ہو پائ تھی کسی قدر تعجب‬
‫سے بولی۔‬
‫"اس شکر کا مقصد۔۔۔" ابھی اسکا‬
‫جملہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ دروازے‬
‫پر دستک ہوئ۔سمیعہ نے اٹھ کر دروازہ‬
‫کھوال۔"کیا ہے" وہ پہلے ہی انہیں‬
‫مشکوک سمجھ رہی تھی۔ اور اب ہالہ‬
‫کی شکر کرنے والی بات سن کر اور‬
‫بھی کنفیوزڈ ہوگئ تھی۔‬

‫نواب شاہد پوچھ رہا ہے کہ کچھ بتايا‬


‫اس لڑکی نے۔"‬
‫میری تو بچپن کی رشتہ داری ہے نہ‬
‫جو ملتے ہی میرے گلے لگ کر سب بتا‬
‫دے گی۔" سمیعہ نے اپنا غصہ اسفند پر‬
‫نکاال۔‬
‫"میرا کیا قصور ہے يار۔ اچھا اسکو لے‬
‫کر باہر آؤ" اس نے مڑتے ہوۓ کہا۔‬
‫"چلو تمہاری پیشی آگئ ہے۔" سمیعہ‬
‫نے اسے اٹھنے اور اپنے پیچھے آنے‬
‫کا کہا۔‬
‫ہالہ کو اب تسلی ہوگئ تھی کہ وہ‬
‫محفوظ ہاتھوں میں ہے۔سمیعہ کے‬
‫پیچھے چلتے ہوۓ وہ سب الفاظ ترتیب‬
‫دے رہی تھی جو يقینا ّ ّّ اسے اس‬
‫شخص کے سامنے کہنے تھے جس‬
‫کے جارحانہ تیوروں سے وہ بے ہوش‬
‫ہوئ تھی۔‬
‫الؤنج میں آکر سمیعہ اسکے سامنے‬
‫سے ہٹی اور پھر نواب شاہد اور ہالہ‬
‫آمنے سامنے تھے۔‬
‫نواب شاہد کھڑا ہو کر اسکے سامنے‬
‫آيا اور جانچتی ہوئی نظروں سے اسے‬
‫ديکھا۔‬
‫ہالہ کو اپنا اعتماد برقرار رکھنا دنیا کا‬
‫سب سے مشکل کام لگ رہا تھا۔‬
‫"کیا نام ہے تمہارا کون ہو کہاں سے‬
‫آئ ہو اور ہماری ہی گاڑی میں کیوں‬
‫بیٹھیں۔ الف سے يہ تک شروع ہو جاؤ۔‬
‫اور اگر ايک لفظ بھی غلط ہوا تو میں يہ‬
‫نہیں ديکھتا کہ مجرم مرد ہے يا عورت‬
‫ايک جیسا سلوک کرتا ہوں"‬
‫نواب شاہدکے خشک اور بے لچک‬
‫لہجے نے اسکے حواس سلب ضرور‬
‫کئیے۔‬
‫"سمیعہ سب نوٹ کرو اور اسی وقت‬
‫اس کا سارا بائیو ڈيٹا نکالو۔"‬
‫اسفند اسے بتا چکا تھا کہ لڑکی کے‬
‫پاس سے کچھ نہیں نکال۔‬
‫"میرا نام ہالہ فرہاد ہے میرے‬
‫پیرنٹس کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔‬
‫ايس اوايس ولیج میں کون مجھے‬
‫چھوڑ کر گیا میں نہیں جانتی۔ انہوں نے‬
‫مجھے پڑھايا۔ پنجاب يونیورسٹی سے‬
‫میس کوم میں ماسٹرز کرکے ايک اخبار‬
‫میں رپورٹر ہوں۔ اقبال ٹاؤن میں کراۓ‬
‫کے فلیٹ میں رہتی ہوں۔ پچھلے دنوں‬
‫رحمان شاہ کے بارے میں کچھ چیزيں‬
‫میرے ہاتھ لگیں اور وہ میں نے شائع‬
‫کروا ديں۔‬

‫اسے میرا سچ ہضم نہیں ہوا۔ اس نے‬


‫مجھے کہا کہ میں باقاعدہ پريس‬
‫کانفرنس میں اس سے معافی مانگ کر‬
‫کہوں کہ میں نے اس کے بارے میں‬
‫غلط خبر دی تھی وہ اس ماڈل گرل کے‬
‫قتل کے کیس میں ملوث نہیں۔ جب میں‬
‫نہیں مانی تو پہلے اس نے مجھے جاب‬
‫سے نکلوايا اور پھر میرے فلیٹ پر‬
‫بھی دھمکانے آيا اور پھر حد يہ کی کہ‬
‫میرے پیچھے اس دن غنڈے پڑوا کر‬
‫مجھے کڈنیپ کرنے کی کوشش کی۔ہللا‬
‫نے میری جان بچانی تھی جو آپ کی‬
‫کار ان الک تھی اور پھر اب میں يہاں‬
‫ہوں" اسکے چپ کرتے ہی وہ تینوں‬
‫جیسے ہوش میں آۓ۔ میں وہ لڑکی کیا‬
‫نکلی۔‬
‫رحمان شاہ اور ايک مشہور ماڈل گرل‬
‫کا واقعہ گزرے اتنے دن نہیں ہوۓ‬
‫تھے۔‬
‫انکو بھی اطالع ملی تھی کہ رحمان شاہ‬
‫نے ہی اس ماڈل گرل کو قتل کروايا تھا‬
‫جس کی الش اسی کے اپنے فلیٹ سے‬
‫ملی تھی۔‬
‫مگر انہیں ثبوت نہیں ملے تھے۔‬
‫"سمیعہ سرچ ايچ اينڈ ايوری تھنگ"‬
‫نواب شاہد نے ہالہ کو بیٹھنے کا اشارہ‬
‫کرتے ہوۓ سمیعہ سے کہا اور خود‬
‫کافی بنابے چال گیا‬
‫آدھے گھنٹے میں سمیعہ نے اسکا سارا‬
‫ڈيٹا چیک کرکے نواب شاہد کو چیک‬
‫کروايا۔مگر جس ايک حقیقت نے اسے‬
‫چونکايا وہ اسکے فادر کی آئ ايس آئ‬
‫کی اسسٹنٹ ڈائريکٹر کی ڈيڑگنیشن‬
‫تھی۔‬
‫"تمہارے فادر آئ ايس آئ میں‬
‫تھے۔‪.‬نواب شاہدنے صوفے بیٹھے گود‬
‫میں پڑے لیپ ٹاپ سے نظر ہٹا کر کہا۔‬
‫"جی" مختصر جواب دے کر ہالہ‬
‫خاموش ہوگئ۔‬
‫"اب تم کیا چاہتی ہو۔ کہاں جانا ہے"‬
‫اسفند نے اس سے سوال کیا۔‬
‫"آئ نو يہ مشکل ہوگا۔ مگر مجھے يہ‬
‫اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ لوگ سیکرٹ‬
‫سروسز میں ہیں۔ اور آپکی جاب کا‬
‫مقصد ہی بے قصور کو بچانا ہے۔ میں‬
‫نہ صرف بے قصور ہوں بلکہ اکیلی‬
‫بھی ہوں۔ مجھے آپکی ہیلپ چاہئیے۔‬
‫میں کچھ عرصہ روپوش رہنا چاہتی‬
‫ہوں اور آپکے پاس میں سب سے زيادہ‬
‫محفوظ رہوں گی۔"‬
‫اسکی فرمائش نے ان سب کو مخمصے‬
‫میں ڈاال۔‬
‫"بی بی يہاں میں اور اسفند دو لڑکے‬
‫ہی رہتے ہیں۔ يہ تو ابھی چلی جاۓ گی۔‬
‫آگے تم خود بہتر سوچ سکتی ہو۔"‬

‫نواب شاہد کی بات پر ايک مسکراہٹ‬


‫ہالہ کے ہونٹوں تک آئ۔‬
‫"جو لوگ اپنے قوم کی ماؤں بیٹیوں کی‬
‫عزت کی خاطر اپنی جان تک کی پرواہ‬
‫نہیں کرتے انکی شرافت پر تو میں کوئ‬
‫کوئسچن مارک لگا ہی نہیں سکتی۔"‬
‫اسکی بات پر ان تینوں نے ايک‬
‫دوسرے کی طرف ديکھا۔‬
‫کیونکہ اس لڑکی کی سچائ نے انہیں‬
‫قائل تو کر لیا تھا۔‬
‫"کتنی دير تک" ‪.‬نواب شاہد نے پوچھا۔‬
‫"جب تک ہللا میرا ٹھکانہ کہیں اور نہیں‬
‫کر ديتا"‬
‫"يہ سب اتنا آسان نہیں ہے۔ ہم يہاں اس‬
‫بلڈنگ میں اکیلے نہیں رہتے۔ لوگوں کو‬
‫پتہ چل گیا۔ تو ابھی تو صرف تم بے‬
‫گھر ہو پھر ہم سب ہو جائیں گے۔‬
‫نواب شاہد نے جھنجھالتے ہوۓ کہا۔ وہ‬
‫تو کسی لڑکی کو ويسے ہی برداشت‬
‫نہیں کر سکتا تھا۔ سمیعہ تو اسفند کی‬
‫طرح اسکی بچپن کی دوست اور بہن‬
‫بنی ہوئ تھی۔‬

‫نواب شاہد آج کی تو رات گزارو صبح‬


‫سر سے مشورہ کريں گے۔ آئم شیور وہ‬
‫بہتر سولوشن بتائیں گے"‬
‫سمیعہ کے کہنے پر وہ دونوں متعفق‬
‫ہوۓ۔‬
‫"ٹھیک ہے" نواب شاہد کے مان جانے‬
‫پر تینوں نے سکھ کا سانس لیا۔‬
‫سمیعہ کچھ دير بعد اپنے گھر کی طرف‬
‫نکلی۔ ہالہ سے اتنی دير میں اچھی گپ‬
‫شپ ہو گئ تھی۔‬
‫نواب شاہد اور اسفند نے اسے اسی‬
‫کمرے میں ٹہرنے کا کہا جہاں اسے بے‬
‫ہوش حالت میں ال کر لٹايا تھا۔ دونوں‬
‫بیڈ رومز کے ساتھ اٹیچڈ باتھ تھے۔اسی‬
‫لئیے انہیں کوئ ايشو نہیں ہوا۔ رات‬
‫میں آنے والے حاالت کا سوچتے کب‬
‫اسکی آنکھ لگی وہ نہیں جانتی تھی‪....‬‬
‫جاری‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫صفحہ‪2‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬

‫اگلے دن صبح اسکی فجر کے ٹام پر‬


‫آنکھ کھلی۔وضو کرکے جاۓ نماز‬
‫ڈھونڈی جو کہ پاس ہی رائیٹنگ ٹیبل‬
‫کے نیچے والے خانے میں اسے پڑی‬
‫نظرآئ۔‬
‫نماز پڑھ کر وہ کشمکش میں تھی کہ‬
‫يہیں بیٹھے يا باہر جاۓ۔باہر سے کھٹر‬
‫پٹر کی آواز آئ تو وہ دل میں ہمت‬
‫مجتمع کرتی دروازہ کھول کر باہر نکل‬
‫آئ۔‬

‫‪#‬بنت_حوا‬

‫نوابزادہ_شاہد‬
‫ٹريک سوٹ پہنے جوسر میں جوس بنا‬
‫رہا تھا۔‬
‫دروازے کی آواز پر مڑ کر ديکھا اور‬
‫پھر بے تاثر چہرے کے ساتھ دوبارہ‬
‫اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔‬
‫"ھمم! کھڑوس کہیں کا" ہالہ کو اس‬
‫سے اتنی بے مروتی کی امید نہیں تھی۔‬
‫اور اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اس‬
‫سے کوئ امید بھی نہیں رکھنی۔‬
‫وہ صوفے پر خاموشی سی آکر بیٹھ گئ‬
‫کہ ‪.‬نواب شاہد گالس میں جوس لئیے‬
‫اپنی طرف آتا دکھائ ديا۔‬
‫"اب اتنا بھی بے مروت نہیں" اس نے‬
‫خود کو تسلی دی۔‬
‫مگر جیسے ہی اسے اپنے مقابل‬
‫صوفے پر بیٹھ کر غٹاغٹ جوس‬
‫چڑھاتے ديکھا۔ اپنی خوش فہمی پر‬
‫لعنت بھیجی۔‬
‫"يہاں جتنے بھی دن رہنا ہے اپنی‬
‫خدمت آپکو خود کرنی ہے ٹرے میں‬
‫کھانا سجا کر کوئ آپکو پیش نہیں کرے‬
‫گا اور نہ ہی آپ‬
‫ہماری مہمان ہیں کچن سامنے ہے‬
‫خود اٹھیں اور خود بنائیں۔"۔ گالس‬
‫خالی کرکے اٹھتے ہو ۓ وہ اچھی طرح‬
‫اسکو خوش فہمی کی دنیا سے باہر‬
‫نکال اليا‬
‫گالس کچن کاؤنٹر پہ رکھ کر غالبا ّ ّّ وہ‬
‫جوگنگ کے لئیے چال گیا تھا۔‬
‫مرتے کیا نہ کرتے وہ اٹھی اور اپنے‬
‫لئیے ناشتہ بنايا۔يہ کیا انکا احسان کم‬
‫تھا کہ انہوں نے اسے يہاں رہنے ديا‬
‫تھا۔‬
‫دماغ سے منفی سوچوں کو جھٹکتے‬
‫وہ ناشتہ بنانے لگی پھر کچھ سوچتے‬
‫ان دونوں کے لئیے بھی آملیٹ بنا ديا۔‬
‫فروزن پراٹھے پڑھے ہوۓ تھے۔ اسکا‬
‫مطلب ہے صبح پراٹھے کھاتے ہیں۔‬
‫سوچتے ہوۓ اس نے پراٹھے بھی گرم‬
‫کر لئیے۔‬
‫ابھی وہ يہ سب کرکے اور جوس کس‬
‫برتن دھو کر فارغ ہوئ تھی کہ وہ‬
‫دونوں واپس آگۓ۔ اسفند‪. ،‬نواب شاہد‬
‫سے پہلے جو گنگ کے لئیے چال گیا‬
‫تھا۔‬
‫ہالہ نے اندازہ لگايا۔‬
‫"واہ واہ کیا خوشبو آرہی ہے‪ ،‬بھائ‬
‫کسی اور کے فلیٹ میں تو نہیں آگۓ۔"‬
‫آملیٹ اور پراٹھوں کی خوشبو پورے‬
‫فلیٹ میں پھیلی ہوئ تھی۔‬
‫"مسخرہ پن چھوڑو ناشتہ کرو اور‬
‫جلدی نکلو۔ سر کی دوبارہ کال نہیں آنی‬
‫چاہئیۓ۔" انہیں جوگنگ کے دوران‬
‫اپنے باس کی کال آگئ کسی کیس کی‬
‫ارجنٹ میٹنگ تھی۔‬
‫"اسالم علیکم" ہالہ کو اسفند کی خوش‬
‫مزاجی سے تھوڑی سے تقويت ملی تو‬
‫اسے کچن کی جانب آتے ديکھ کر اس‬
‫نے جھٹ سالم کیا۔‬
‫"وعلیکم سالم ارے جیتی رہو سسٹر‬
‫صبح صبح ہمارے لئیے اتنی محنت‬
‫کرنے کا شکريہ آؤ ٹیبل پر رکھتے‬
‫ہیں"‬

‫نواب شاہدچینج کرنے اندر چال گیا اور‬


‫اسفند خوش اخالقی سے کہتا اسکے‬
‫ساتھ مل کر چیزيں ٹیبل پر لے آيا اور‬
‫اسے کھانے کا اشارہ کیا۔‬
‫"آجا يار" اسفند نے اسے آتے ديکھ‬
‫کر کہا۔‬
‫"نو تھینک يو اب تم بھی جلدی کرو"‬
‫‪.‬نواب شاہد بے مروتی سے کہتا کچن‬
‫کی جانب چال گیا اور سیب نکال کر‬
‫کھانے لگا۔‬
‫حاالنکہ ضامن خود پراٹھے التا تھا اور‬
‫شوق سے بھی کھاتا تھا۔‬
‫اسفند نے اسکی اس حرکت پر يکدم ہالہ‬
‫کو ديکھا جس کا چہرہ خفت سے سرخ‬
‫ہو گیا تھا۔ وہ بچی تو نہیں تھی کہ‬
‫‪.‬نواب شاہدکے اس انسلٹنگ ايٹی ٹیوڈ‬
‫کو نہ سمجھتی۔‬
‫"اوکے‪ ......‬سسٹر ٹائم شارٹ ہے سو‬
‫آئ ہیو ٹو گو۔ اتنے مزيدار ناشتے کے‬
‫لئیے تھینک يو" اسفند نے ‪.‬نواب‬
‫شاہدکے رويے کی تلخی کو کم کرنے‬
‫کی کوشش کی۔‬
‫"پلیزر بھائ" ہالہ نے بھی اسے‬
‫مسکراتے ہوۓ جواب ديا۔‬
‫‪.‬نواب شاہد نے بڑے غور سے بھائ‬
‫بہن کی محبت کا يہ نظارہ ديکھا۔‬
‫"سسٹر ہم باہر سے الک کرکے جا رہے‬
‫ہیں کیونکہ آپکی يہاں موجودگی کو ہم‬
‫ڈسکلوز نہیں کرنا چاہتے ابھی۔ دوپہر‬
‫میں سمیعہ آپکے پاس آجاۓ گی۔‬
‫اسکے پاس يہاں کی ڈپلیکیٹ چابی‬
‫ہوتی ہے۔لینڈ الئن ہے لیکن آپ نے‬
‫اٹینڈ نہین کرنا کوئ ايشو ہو تو مجھے‬
‫يا ضامن کو کال کر لینا يہ ہمارے نمبرز‬
‫ہیں۔" نکلنے سے پہلے اسفند اسکے‬
‫قريب آيا جو صوفے پہ بیٹھی تھی۔‬
‫اسے آتا ديکھ کر اٹھ کھڑی ہوئ۔‬
‫اسفند نے ضروری ہدايات ديتے ہوۓ‬
‫ايک پیپر ديا جس پر ان دونوں کے نمبر‬
‫لکھے تھے۔‬
‫نواب شاہد پاس کھڑا انہیں ديکھ رہا تھا۔‬
‫ہالہ نے سر ہالتے سب ہدايات سنیں‬
‫_______________________۔‬
‫کبھی کبھی يہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہم‬
‫لفظوں سے اپنی ناپسنديدگی کا اظہار‬
‫کريں۔ ہمارے رويے بہت کچھ سمجھا‬
‫ديتے ہیں" گاڑی چلتے ہی اسفند نے‬
‫کہا۔‬
‫اس لیکچر کا مقصد؟" ‪.‬نواب شاہد نے‬
‫حیرت سے اسفند کو ديکھتے ہوۓ کہا۔‬
‫"اتنے بچے نہیں ہو کہ سمجھ نہ آۓ"‬
‫"وہ لڑکی اگر کسی مجبوری میں‬
‫ہمارے پاس مدد کی امید لے کر آئ ہے‬
‫اور تمہیں اسے مجبورا ّ رکھنا بھی پڑھ‬
‫گیا ہے تو اسکا يہ مطلب نہیں کہ اپنے‬
‫ہر عمل سے جتايا جاۓ۔ پراٹھے آئ‬
‫تھنک تم ہی بہت شوق سے التے اور‬
‫کھاتے بھی ہو اگر تم صرف بیٹھ کر کھا‬
‫ہی لیتے تو کوئ فرق نہیں پڑھ جاتا‬
‫تمہاری شان میں۔ اگر آج کوئ مجبور‬
‫ہے اور ہم کسی کی مدد کرنے کے قابل‬
‫تو ہماری اس خوش قسمتی میں نہ‬
‫ہمارا کوئ کمال ہے اور اسکی بدقسمتی‬
‫میں نہ اسکاقصور۔ جینڈر‬
‫ڈسکريمینیشن سے باالتر ہو کر سوچو‬
‫کہ وہ ايک انسان بھی ہے اور ہللا نے‬
‫اسے ہمارے پاس اسی لئیے بھیجا ہے‬
‫کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اسکی مدد کريں۔‬
‫میرا خیال ہے اس سے زيادہ سمجھانے‬
‫کی تمہیں ضرورت نہیں ہے۔ میں يہ‬
‫نہیں کہتا کہ تم اسکے سامنے بچھ جاؤ۔‬
‫ريزرو رہو روڈ نہیں۔"‬
‫اسفند شايد سال میں ايک مرتبہ ہی اتنا‬
‫سنجیدہ ہوتا تھا اور جب وہ سنجیدہ ہوتا‬
‫تھا تو پھر ‪.‬نواب شاہد کو کسی خاطر‬
‫میں نہیں التا تھا۔‬
‫اب بھی ‪.‬نواب شاہد کو يہی بہتر لگا کہ‬
‫خاموشی میں ہی عافیت ہے۔ اور يقینا ّ ّّ‬
‫اسکی بات بھی ٹھیک تھی۔‬
‫نواب شاہد کی سب سے بڑی خوبی ہی‬
‫يہی تھی کہ وہ اپنی غلطی کو جلد مان‬
‫لیتا تھا اور عمالّ اسے ٹھیک کرنے کی‬
‫کوشش کرتا تھا۔‬
‫_________________________‬
‫‪1‬بجے کے قريب فلیٹ کا دروازہ کھال۔‬
‫ہالہ کچن میں کھڑی کچھ پکانے کا ابھی‬
‫سوچ ہی رہی تھی کہ سمیعہ آگئ۔‬
‫ہیلو کیوٹ لیڈی" سمیعہ کے دوستانہ‬
‫رويے نے اسے بہت ڈھارس دی۔نہیں‬
‫تو صبح والے‬
‫نواب شاہد کے رويے پر وہ بہت‬
‫دلبرداشتہ ہوئ تھی۔ اور اپنا ٹھکانہ‬
‫کہیں اور کرنے کا شدت سے سوچ رہی‬
‫تھی۔‬
‫"بالکل ٹھیک تم سناؤ۔ کیا کر رہی‬
‫تھیں" سمیعہ اس سے مل کر ادھر‬
‫ادھر ديکھتے ہوۓ بولی۔‬
‫"کچھ پکا لوں کیا میں" اس نے‬
‫جھجھکتے ہوۓ پوچھا‬
‫"ارے کیوں نہیں چلو مل کر کچھ‬
‫پکاتے ہیں۔" وہ سر ہالتی اسکے ساتھ‬
‫لگ گي۔‬
‫انہوں نے چکن نکاال‪ ،‬نوڈلز‪ ،‬چاول سب‬
‫موجود تھا‪،‬ہالہ نے سنگا پورئین رائس‬
‫کا آئیڈيا ديا دونوں نے جھٹ پٹ بنا لیا۔‬
‫سمیعہ کیا تم میرے لئیے کوئ جگہ‬
‫ارينج کر سکتی ہو۔آئ نو میں نے تم‬
‫سب کو بہت پريشان کیا ہے لیکن میرا‬
‫خیال ہے کہ میرا يہاں رہنا بھی ٹھیک‬
‫نہیں ہے۔"‬
‫اس نے ہچکچاتے ہوۓ سمیعہ کو کہا‬
‫جب وہ دونوں کھانا کھانے کے بعد‬
‫الؤنج میں بیٹھی چاۓ پی رہیں تھیں۔‬
‫کیوں کیا ہوا رات تک تو میں سب سیٹ‬
‫کرکے گئ تھي۔کیا اسفند نے کچھ کہا‬
‫ہے" سمیعہ اسکی شرارتی طبیعت سے‬
‫واقف تھی سو جھٹ سے پوچھا۔‬
‫"ارے نہیں اسفند بھائ تو بہت اچھے‬
‫ہیں" وہ جلدی سے کلئیر کرنے کے‬
‫لئیے بولی۔‬
‫"تو پھر نواب شاہد؟" اب کی بار ہالہ‬
‫نے خاموشی سے بس سر جھکا ديا۔‬
‫"ارے يار اسکی بات کو سیريس مت‬
‫لو۔ انفیکٹ وہ لڑکیوں سے الرجک ہے۔‬
‫میرے ساتھ بھی صرف اسی لئیے‬
‫فرينک ہے کیونکہ مجھ میں لڑکیوں‬
‫والے گٹس نہین۔ تم اسکی بات کو ايک‬
‫کان سے سن کر دوسرے سے نکال دو۔‬
‫اور ويسے بھی جیسے ہی سر کو پتہ‬
‫چلے گا وہ تمہارا خود بندوبست کر ديں‬
‫گے‪ ،‬ڈونٹ وری۔" سمیعہ کی بات وہ‬
‫کچھ مطمئن ہو گئ۔‬
‫‪_______________________-‬‬
‫میٹنگ ختم ہونے کے بعد اويس عالم‬
‫جو کہ انکے باس تھے۔ انہوں نے‬
‫اسفند اور ‪.‬نواب شاہد کو روک لیا۔‬
‫"ہاں بھئ کس لڑکی کو پروٹیکشن‬
‫پروائیڈ کی جارہی ہے۔" انہوں نے ايک‬
‫ہاتھ سے پیپر ويٹ گھماتے ہو ۓ‬
‫اور نظريں پوچھا اسفند سے تھا‬
‫‪.‬نواب شاہد پر تھیں۔‬
‫اسفند اور ‪.‬نواب شاہددونوں نے ايک‬
‫دوسرے کی جانب ديکھا اور پھر اسفند‬
‫نے ساری ڈيٹیل بتائ۔‬
‫"اسکے ڈيٹا سے متعلق انفارمیشن تم‬
‫نے سمیعہ سے لے کر اپنے پاس سیو‬
‫کی ہے۔"‬
‫"جی سر" اسفند تیزی سے بوال۔‬
‫"دين واٹ آر يو ويٹنگ فار شو اٹ ٹو‬
‫می" انکا ٹھنڈا دھیما لہجہ بھی کبھی‬
‫کبھار ان دونوں کے ہاتھ پاؤں پھوالديتا‬
‫تھا۔‬
‫اسفند نے جلدی سے ڈيٹا نکال کر‬
‫انکے سامنے رکھا۔‬
‫اسکے باپ کے نام اور پوزيشن نے‬
‫انہیں اچھا خاصاچونکايا تھا مگر انہوں‬
‫نے ان دونوں کو يہ محسوس نہیں‬
‫ہونے ديا۔‬
‫"اوکے ناؤ ‪....‬واٹ‪ ...‬يو‪ ...‬وانٹ"‬
‫انہوں نے براہ راست ‪.‬نواب شاہد سے‬
‫پوچھا۔‬
‫"واٹ ايور يو ول ڈسائڈ آئل پرسیو اٹ"‬
‫"آريو شیور" انہوں نے جانچتی نظروں‬
‫سے ‪.‬نواب شاہدکو ديکھا جو انکے‬
‫عزيز ترين دوست کی اوالد تھا اور‬
‫انہیں اپنی اوالد کی طرح عزيز تھا‬
‫انکے ہر حکم کو ماننے واال۔ اب بھی‬
‫ايسا ہی ہوا تھا۔‬
‫"اوکے دين اٹس بیٹر ٹو کیپ ہر ود يو‬
‫فار سم ٹائم"‬
‫اوکے سر" دونوں نے انکی ہاں میں‬
‫ہاں مالئ اور مصافحہ کرکے باہر نکل‬
‫آۓ۔‬
‫_________________________‬
‫ہیڈ کوارٹر سے نکل کر وہ سیدھا فلیٹ‬
‫پر آۓ۔ جہاں سمیعہ انکی منتظر تھی۔‬
‫منتظر تو ہالہ بھی تھی آخر انکا جو‬
‫کوئ بھی باس تھا ان دونوں نے آج اس‬
‫سے ہالہ کے متعلق بھی بات کرنی تھی۔‬
‫وہ دعا مانگ رہی تھی کہ کسی طرح‬
‫انکا وہ باس ہالہ کا کہیں اور بندوبست‬
‫کروا دے اور اس کھڑوس سے ‪.‬نواب‬
‫شاہد سے اسکی جان چھٹے۔‬
‫مگر قسمت ابھی اس پر اتنی بھی‬
‫مہربان نہیں ہوئ تھی۔‬
‫انکے اندر آتے ہی سالم دعا کے بعد‬
‫سمیعہ نے پوچھا"تو پھر بات ہوئ تم‬
‫لوگوں کی سر سے۔"‬
‫"کچھ کھانا کھانے کی اجازت ہے يا‬
‫پھر پہلے تمہاری عدالت میں حاضری‬
‫ديں۔"‬

‫نواب شاہدتو پہلے ہی تپہ ہوا تھا سمیعہ‬


‫کی بے صبری پر اس پہ چڑ دوڑا۔‬
‫پیچھے سے اسفند نے ہاتھ جوڑ کر‬
‫سمیعہ کو خاموش ہونے کا کہا۔‬
‫"يار تو فريش ہو کر آ۔سمیعہ کچھ پکايا‬
‫ہے تو جلدی سے رکھو۔"‬
‫اسفند نے فورا ّ ّّ دونوں کو ادھر ادھر‬
‫کیا نہیں جنگ چھڑ جانی تھی۔‬
‫نواب شاہدفورا ّ ّّ بیڈ روم کی طرف بڑھا۔‬
‫"تمہیں کیا ضرورت تھی بھڑوں کے‬
‫چھتے میں ہاتھ ڈالنے کی" اسکے‬
‫جاتے ہی اسفند نے سمیعہ کو ڈانٹا۔ وہ‬
‫تو شکر تھا کہ ہالہ دوسرے کمرے میں‬
‫نماز پڑھ رہی تھی نہیں تو وہ پھر سے‬
‫دلبرداشتہ ہو جاتی۔‬
‫"تو اب بتا بھی چکو کہ سر نے ہالہ‬
‫کے بارے میں کیا کہا۔‬
‫"انہوں نے فی الحال اسے يہیں رکھنے‬
‫کا کہا ہے۔ اسی لئیے اسکا موڈ آف‬
‫ہے" اسفند نے تفصیل بتاتے ہوۓ‬
‫‪.‬نواب شاہدکے خراب موڈ کی وجہ بتائ۔‬
‫"چلو جی ہالہ بے چاری کا نصیب۔۔وہ‬
‫‪.‬نواب شاہد کے ايٹی ٹیوڈ سے کافی‬
‫ٹینس تھی" "ہاں میں نے اسے‬
‫سمجھايا تھا صبح ہوپ فلی اب وہ‬
‫انسان بن کر رہے گا۔" دونوں کھانا‬
‫الؤنج کی سینٹر ٹیبل پر رکھتے باتیں‬
‫بھی کر رہے تھے۔‬
‫شکر کے‬
‫نواب شاہد نے خاموشی سے کھانا‬
‫کھايا۔‬
‫کچھ دير بعد سمیعہ چلی گئ اور اسکے‬
‫جاتے ہی ہالہ بھی اپنے روم میں چلی‬
‫گئ جہاں وہ رات میں ٹھری تھی۔‬
‫اسفند چاۓ بنا کر ناک کرکے اسے‬
‫کمرے میں دينے آيا۔‬
‫"بھائ آپ نے چاۓ کیوں بنائ مجھے‬
‫کہ ديتے"‬
‫ہالہ کو اسکے ہاتھ سے چاۓ لیتے بہت‬
‫عجیب لگا۔‬
‫"ارے کوئ بات نہیں ہم شروع سے ہی‬
‫ہوسٹلز میں رہے ہیں سو ہمیں اپنے کام‬
‫کرنے کی عادت ہے۔"‬
‫"لیکن جب تک اب میں يہاں ہوں آپ‬
‫لوگ ايسے کوئ کام نہیں کريں گے"‬
‫"اوکے‪ ........‬اوکے!" اس نے اتنے‬
‫مان سے کہا کہ اسے مانتے ہا بنی۔‬
‫اور پھر کچھ دنوں میں ہالہ نے انکے‬
‫سارے کام اپنے ذمے لے لئیے۔‬

‫نواب شاہد کو وہ براہ راست مخاطب‬


‫نہیں کرتی تھی۔ اسفند کے تھرو اس کی‬
‫چیزوں کا خیال رکھتی۔‬

‫نواب شاہد کو چونکہ اس میں کوئ‬


‫دلچسپی نہیں تھی سو اسے اس بات‬
‫سے کوئ فرق نہیں پڑھتا تھا۔ بلکہ وہ‬
‫شکر ہی کرتا کہ وہ اسے مخاطب نہیں‬
‫کرتی۔‬
‫جاری‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫صفحہ‪3‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬

‫يہ کچھ ہی دنوں بعد کی بات تھی۔ ہالہ‬


‫فلیٹ میں اکیلی تھی‪.‬نواب شاہد اور‬
‫اسفنر کسی کام کے سلسلے میں صبح‬
‫۔ کے نکلے ہو ۓ تھے‬
‫اب بھی اس بلڈنگ میں کسی کو ہالہ کی‬
‫انکی فلیٹ میں موجودگی کا نہیں پتہ‬
‫تھا۔ کیونکہ وہ جانے سے پہلے فلیٹ‬
‫کو الک کر جاتے تھے۔‬
‫سمیعہ کچھ شاپنگ کرکے اسکے کپڑے‬
‫اور ضرورت کی چیزيں دے گئ۔‬
‫ہالہ الؤنج میں بیٹھی تسبیح پڑھ رہی‬
‫تھی کہ دروازے پر کلک کی آواز سے‬
‫وہ يہی سمجھی کہ‬
‫نواب شاہد اور اسفند آگۓ ہیں۔‬
‫وہ کچن میں انکے لئیے جوس بنانے‬
‫گئ کیونکہ وہ آتے ہی جوس ضرور‬
‫پیتے تھے۔‬
‫جیسے ہی قدموں کی آواز آگے آئ تو‬
‫کسی کے بولنے کی آواز بھی آئ‬
‫جیسے کوئ فون پر بات کر رہا ہو۔ مگر‬
‫يہ آواز ہالہ کے لئیے اجنبی تھی۔‬
‫اسکے ہاتھ جوسر پر ڈھیلے ہوگۓ۔اور‬
‫آنے واال موبائل بند کرکے اب الؤنج‬
‫میں اپنا بیگ سائیڈ پر رکھ کر مڑ کر‬
‫صوفے پر بیٹھنے لگا اسکی نظر‬
‫سیدھی کچن میں پريشان کھڑی ہالہ پر‬
‫پڑھی۔‬
‫وہ جو کوئ بھی تھے انہیں بزرگ نہیں‬
‫کہا جا سکتا تھا۔‬
‫نواب شاہد جتنا ہی قد کھاٹ۔ کنپٹیوں‬
‫کے بال سفید تھے انکی جتنی بھی عمر‬
‫تھی۔‬
‫ہالہ کو وہ فورٹیز کے ہی لگے۔‬
‫وہ بھی اس فلیٹ میں ايک لڑکی کو‬
‫ديکھ کر ہالہ سے بھی کہیں زيادہ‬
‫حیران ہوۓ۔‬
‫"کیا انہوں نے کام والی رکھ لی ہے۔‬
‫مگر پھر خیال آيا کہ کام والی نہ تو‬
‫جینز پہنتی ہے اور نہ ہی اتنی صاف‬
‫ستھری اور خوبصورت ہوتی ہے۔‬
‫وہ وہاں بیٹھنے کی بجاۓ کچن کے‬
‫پاس آۓ اور ماتھے پہ تیوری ال کر‬
‫اسے ديکھا۔‬
‫"کون ہو تم اور ان دو لڑکوں کے فلیٹ‬
‫میں کیا کر رہی ہو" بارعب شخصیت‬
‫کے ساتھ انکی آواز بھی انہی کی طرح‬
‫بارعب تھی۔‬
‫"مم۔۔ میں۔۔" ابھی وہ کوئ کہانی‬
‫گڑھنے کا سوچ ہی رہی تھی کہ مین‬
‫ڈور پر کلک کی آواز کے ساتھ ہی کوئ‬
‫اندر آيا اور پھر دبے قدموں اندر آتے‬
‫ايک دم عاصم ملک پر پسٹل تانتے ہوۓ‬
‫بوال۔‬
‫"ڈيڈی" ايک دم پسٹل واال ہاتھ نیچے‬
‫گیا۔‬
‫واپس آکر ‪.‬نواب شاہد نے جیسے ہی‬
‫فلیٹ کے دروازے پر لگائ تو اسے‬
‫الک کھال ہوا مال وہ يہی سمبھا کہ‬
‫انکے فلیٹ پر کسی نے دھاوا بوالہے۔‬
‫پہلی مرتبہ اسے ہالہ کا خیال آيا کہ کہیں‬
‫اسے نہ کچھ ہوا ہو۔‬
‫وہ گن پاکٹ سے نکال کر دبے قدموں‬
‫آيا تاکہ اندر موجود شخص کو پکڑ‬
‫سکے مگر يہ وہم و گمان میں نہ تھا کہ‬
‫اسکے ڈيڈی بھی ہو سکتے ہیں۔‬
‫وہ خود بھی آئ ايس آئ کے ڈائريکٹرز‬
‫میں سے تھے۔ سو کسی نہ کسی کیس‬
‫کس سلسلے میں الہور آتے جاتے‬
‫تھے۔ جب سے ‪.‬نواب شاہد اور اسفند‬
‫کی پوسٹنگ يہاں ہوئ تھی وہ اب الہور‬
‫آکر انہی کے پاس ٹھرتے تھے۔‬
‫لہزا فلیٹ کی ايک چابی انکے پاس بھی‬
‫ہوتی تھی۔‬
‫"کون ہے يہ" جیسے ہی وہ ان سے‬
‫ملنے کے لئیے آگے ہوا انہوں نے ہاتھ‬
‫کے اشارے سے اسے وہیں رکنے کا‬
‫کہا۔‬
‫"پہلے جو پوچھا ہے اسکا جواب دو"‬
‫وہ بھی ‪.‬نواب شاہدکے ہی باپ تھے۔‬
‫"ڈيڈی آپ پہلے بیٹھ جائیں" اس نے‬
‫کھا جانے والی نظروں سے ہالہ کو‬
‫ايک نظر ديکھ کر عاصم صاحب سے‬
‫کہا۔‬
‫"میرے پیچھے تم لوگوں نے يہ کچھ‬
‫شروع کر ديا ہے۔ تبھی ڈور بھی الک‬
‫تھا۔ میں ابھی اويس سے بات کرتا ہوں۔‬
‫ہو کیا رہا ہے آخر يہاں" انہوں نے‬
‫ۓ ‪.‬نواب شاہد کو غصے سے کہتے ہو‬
‫گھورا۔ وہ کچھ اور ہی سمجھے تھے۔‬
‫"ڈيڈی سر کو پتہ ہے اس لڑکی کا اور‬
‫انکی پرمیشن سے ہی ہم نے اسے يہاں‬
‫رکھا ہے‪.‬نواب شاہد نے انہیں ٹھنڈا‬
‫کرنے کی کوشش کی جو فون نکال‬
‫رہے تھے۔‬
‫"صرف دو منٹ ہیں تمہارے پاس جلدی‬
‫سے سب بتاؤ اسکے بارے میں" ہالہ‬
‫کو اب سمجھ آئ کہ ‪.‬نواب شاہد کی‬
‫نیچر ايسی کیوں ہے۔ يقینا ّ ّّ اسکے‬
‫پیرينٹس نے اسکی تربیت بہت ٹف کی‬
‫تھی۔‬
‫ہالہ کچن میں ہی تھی اور وہ دونوں‬
‫الؤنج میں بیٹھے تھے۔‬
‫"ادھر آؤ بیٹا" ‪.‬نواب شاہدکی ساری‬
‫بات سننے کے بعد انہوں نے ہالہ کو‬
‫اپنے پاس باليا۔‬
‫وہ گھبراتی ہوئ انکے پاس آئ۔ انہوں‬
‫نے اسے اپنے برابر صوفے پر بیٹھنے‬
‫کا اشارہ کیا۔‬

‫نواب شاہدسامنے والے صوفے پر‬


‫دونوں گھٹوں پر کہنیاں ٹکاۓ اور‬
‫ہاتھوں کو آپس میں جوڑے سر ہلکا سا‬
‫جھکاۓ بیٹھا تھا۔‬
‫ہالہ کو تو اکثر کسی فلم کا ہیرو ہی لگتا‬
‫تھا۔‬
‫"بیٹا آئ ايم سوری جس طريقے سے‬
‫آپ اس گھر میں موجود تھیں۔ میں اس‬
‫سے پريشانی میں غلط نتیجہ اخذ کرگیا۔‬
‫بہرحال ہم آپکو پوری طرح پروٹیکٹ‬
‫کريں گے۔ رحمان شاہ آلريڈی ہماری ہٹ‬
‫لسٹ پہ ہے۔ اس کيس کے عالوہ ہم‬
‫نے اور بھی کیسز اسکے ڈھونڈے ہیں۔‬
‫خیر آپ ريلیکس ہو کر کچھ عرصہ يہاں‬
‫رہو پھر کچھ اور بندوبست کرتے ہیں‬
‫آپکا"‬
‫انہوں نے اسے تسلی ديتے آخر میں‬
‫‪.‬نواب شاہد کو ديکھتے کہا۔‬
‫"يہ اسفند کہاں ہے۔" انکے سوال پر‬
‫اس نے سر اٹھايا نظر سیدھی اپنی‬
‫جانب تکتی ہالہ پر پڑھی تو اسکے‬
‫ماتھے پر شکنیں ابھر آئیں۔‬
‫ہالہ نے فورا ّ سر نیچے جھکا لیا۔‬
‫"کچھ کام سے گیا ہے ابھی آ جاۓ‬
‫گا۔آپ فريش ہو جائیں تب تک۔"‬
‫اس نے اپنی جگہ سے اٹھتے کہا۔‬
‫آپ کچھ لیں گے انکل۔ جوس يا چاۓ"‬
‫ہالہ نے انکو اٹھتے ديکھ کر پوچھا۔‬
‫واۓ ناٹ بیٹا چاۓ" انہوں نے‬
‫مسکراتے ہوۓ کہا۔ ہالہ کو تھوڑی سی‬
‫تسلی ہوئ۔‬
‫________________________‬
‫ابھی وہ جوگنگ سے واپس آيا ہی تھا۔‬
‫کمپاؤنڈ سے آتے ہوۓ ہوکر جو اخبار‬
‫دے کر گیا تھا وہ ہاتھ میں لئیے اپنے‬
‫فلیٹ کی جانب گیا۔ آج ‪.‬نواب شاہد اکیال‬
‫ہی جوگنگ پہ گیا تھا۔‬
‫اسفند کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی سو وہ‬
‫سو رہا تھا۔‬
‫ہالہ نے جونہی اندر آتے ‪.‬نواب شاہد کو‬
‫ٹیکھا کچن میں اس لئیے ناشتہ بنانے‬
‫چلی گئ۔‬
‫ان دونوں میں اگر بہت خوشگوار بات‬
‫چیت کا تبادلہ نہیں ہوتا تھا تو سرد‬
‫مہری بھی نہیں تھی۔‬

‫نواب شاہد کو اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ‬


‫خود بھی اسے اگنور کرتی ہے اور‬
‫اسے يہ بات بہت اچھی لگی تھی۔‬
‫"میں نے ناشتہ بنا ديا ہے اگر آپ‬
‫کہتے ہیں تو ٹیبل پر لگا دوں۔" ہالہ نے‬
‫اسے فريش ہو کر آتے ديکھا۔ مگر وہ‬
‫ابھی بھی ٹراؤزر اور ٹی شرٹ میں تھا۔‬
‫يہ پہلی مرتبہ تھا کہ وہ اسے براہ‬
‫راست مخاطب کر رہی تھی۔‬
‫"نہیں ابھی بس چاۓ دے ديں‪ ،‬اسفند‬
‫اٹھے گا تو اکٹھے کر لیں گے۔" اس‬
‫نے مصروف سے انداز میں اخبار‬
‫پڑھتے بغیر اسکی طرف ديکھتے ہوۓ‬
‫کہا۔‬
‫ابھی اس نے دوسرا صفحہ کھوال ہی‬
‫تھا کہ پہلی خبر پر ہی وہ شاکڈ رہ گیا۔‬
‫بے يقینی سے اس نے کچن میں چاۓ‬
‫بناتی ہالہ کو ديکھا۔‬
‫"اؤے بڈی آگیا تو جوگنگ‬
‫کرکے"اسفند نے اسکے کندھے پر ہاتھ‬
‫مار کر کہا۔‬
‫نواب شاہد نے بے باثر چہرے کے ساتھ‬
‫اسے ديکھا۔ اسفند ايک دم چونکا۔‬
‫"کیا ہوا ہے" اسے ‪.‬نواب شاہد کے‬
‫چہرے پر کچھ غیر معمولی تاثرات‬
‫ديکھے۔‬
‫اس نے خاموشی سے اخبار کی اس‬
‫خبر کی طرف اشارہ کیا۔‬
‫اسفند اسکے پاس ہی صوفے پر بیٹھ‬
‫کر خبر پڑھنے لگا اور جیسے جیسے‬
‫پڑھتا جا رہا تھا اسکے چہرے کے‬
‫تاثرات بدلتے جا رہے تھے۔‬
‫جبکہ ‪.‬نواب شاہد کی کھوجتی اور کچھ‬
‫غصیلی نظريں اب تک ہالہ پر جمیں‬
‫تھیں۔‬
‫وہ جونہی چاۓ لے کر آئ تو ‪.‬نواب‬
‫شاہد کو اپنی طرف تکتا پا کر کچھ‬
‫حیران اور پريشان سی ہوئ۔‬
‫"کیا ہے يہ" ‪.‬نواب شاہد نے اسفند‬
‫سے اخبار لے کر ہالہ کی جانب بڑھايا۔‬
‫اس نے حیران ہو کر اخبار ديکھا جس‬
‫میں اسکی تصوير کے ساتھ ہیڈ الئن‬
‫تھی۔ "مفرور قاتلہ" اس نے پھٹی پھٹی‬
‫آنکھوں سے خبر کو پڑھنا شروع کیا۔‬
‫"ہالہ سرفراز جو کہ کسی گروہ کے‬
‫ساتھ ملوث ہے۔ جمعرات کی رات ايک‬
‫بے قصور کو ماڈل ٹاؤن کے بالک ايل‬
‫میں لوٹ کر اور پھر قتل کرکے بھاگ‬
‫گئ۔ جس کسی کو نظر آۓ يا اسکے‬
‫متعلق کچھ خبر ہو مندرجہ ذيل رابطے‬
‫پر اطالع دے۔ پولیس کو يہ مفرور قاتلہ‬
‫درکار ہے۔ براہ مہربانی ہمارے ساتھ‬
‫تعاون کريں۔"‬
‫اخبار اسکے ہاتھ سے چھوٹ کر گر‬
‫گیا‪.‬نواب شاہدکھڑاہو کر اسکے مفابل‬
‫آيا۔‬
‫"جمعہ کا دن تھا نہ جب تم مصیبت بن‬
‫کر ہمارے ساتھ يہاں آئ تھیں"‬
‫"نہ۔۔نہ۔۔۔نہیں يہ سب غلط ہے میں نے‬
‫کسی کا قتل نہیں کیا۔"‬
‫وہ روتے ہوۓ بے اختیار بولی۔‬
‫"يہ خبر جس نے چھپوائ ہے وہ ايس‬
‫ايچ او ہے۔ نام تو پڑھ چکی ہوگی۔ زمان‬
‫شاہ۔ اب يہ بھی بول دو کے وہ ايس ايچ‬
‫او نہیں۔ ہم جھوٹ بول رہے ہیں۔تم۔۔۔"‬
‫ابھی اس نے غصے سے کہتے اسکی‬
‫بازو پکڑی ہی تھی کہ اسکے موبائل پر‬
‫اويس عالم کی کال آنے لگی۔‬
‫اس نے اپنے غصے پر قابو پانے کی‬
‫کوشش کرتے ہوۓ کال اٹینڈ کرتے ہالہ‬
‫کی بازو کو ايک جھٹکے سے چھوڑا‬
‫اور ايک غصیلی نظر اسکے چہرے پر‬
‫ڈالی جو مجرموں کی طرح سر جھکاۓ‬
‫رو رہی تھی۔‬
‫"اسالم علیکم سر۔"‬
‫"وعلیکم سالم! تھوڑی دير میں میں‬
‫سمیعہ کو بھیج رہا ہوں وہ نقاب میں آ‬
‫ۓ گی۔ تم اور اسفند ہالہ کو لے کر‬
‫میرے کینٹ والے فلیٹ میں نقاب میں‬
‫ہی لے کر آؤ گے۔ سمیعہ کھڑکی کے‬
‫راستے سے تمہارے فلیٹ سے نکل آۓ‬
‫گ ی۔‬
‫تمہارے ڈيڈی بھی میرے پاس پہنچ‬
‫چکے ہیں۔ تمہارا اور ہالہ کا میرے‬
‫فلیٹ پر نکاح ہوگا۔ پھر وہ نقاب میں‬
‫تمہارے ڈيڈی کے ساتھ تمہارے فلیٹ پر‬
‫واپس آۓ گی۔"‬
‫انکے آخری جملے سن کر اسکا دماغ‬
‫بھک سے اڑ گیا۔‬
‫"ہالڈ آن سر۔۔۔يہ ۔۔يہ کیا کہا ہے آپ‬
‫نے" اس نے بے يقینی سے پوچھا کہ‬
‫شايد وہ جلدی میں کچھ غلط کہہ گۓ‬
‫ہیں۔‬
‫"اونچا سننے لگ گۓ ہو کیا۔ تمہیں پتہ‬
‫ہے کہ میں اپنی بات دہراتا نہیں۔ لیکن‬
‫تمہارے متوقعہ ہونے والے نکاح کی‬
‫خوشی میں‪ ،‬میں بتا ديتا ہوں کہ تمہارا‬
‫اور ہالہ کا نکاح ہو رہا نے کچھ دير‬
‫بعد۔ اينی آبجکشن" انہوں نے ٹھنڈے‬
‫اور سرد لہجے میں کہا۔‬
‫"جی بالکل بہت سارے آبجکشنز" وہ‬
‫موبائل سنتا اپنے روم میں آگیا۔‬
‫"آئ گیو آ ڈيم! میں نے کبھی تمہارے‬
‫باپ کی نہیں سنی تم کیا چیز ہو"‬
‫"وہ میرے ڈيڈی ہیں يہ میں ہوں"‬
‫‪.‬نواب شاہد ان سے کافی فرينک تھا سو‬
‫کبھی کبھی تو انکے ساتھ دوستوں کی‬
‫طرح بات کرتا تھا۔‬
‫"سر يہ کوئ ٹافی دينے کی بات نہیں‬
‫اور نہ میں اتنا بچہ ہوں آجکا اخبار آپ‬
‫نے شايد پڑھا نہیں‪ ،‬محترمہ عادی‬
‫مجرم اور قاتلہ ہیں۔"‬
‫اب میں ان اخبار والوں کی باتوں پے‬
‫اپنے فیصلے کروں گا۔اور ہم جانتے‬
‫تھے کیا خبر آنے والی ہے اسی لئیے‬
‫يہہ فیصلہ کیا ہے۔‬
‫"سر مجھے يقین نہین آرہا کہ اتنا کچھ‬
‫جاننے کے بعد بھی آپ يہ کچھ کہ رہے‬
‫ہیں"‬
‫"اور مجھے يقین نہیں آرہا کہ تم مجھ‬
‫سے آرگیو کر رہے ہو"‬
‫"مگر سر" وہ بے چارگی سے بوال‬
‫‪.‬نواب شاہد انف" انکی دھاڑ پر وہ ہکا‬
‫بکا رہ گیا۔‬
‫"تم يہ نہیں کر سکتے تو ٹھیک ہے‬
‫اسفند تو ہے نا"‬
‫سر۔۔" اس نے بے يقینی سے انکی بات‬
‫سنی۔‬
‫"جب تک سمیعہ نہیں آتی تم اچھی‬
‫طرح سوچ لو اور فون ہالہ کو دو"‬
‫اسنے لب بھینچتے انکی بات سنی پھر‬
‫باہر آکر کھا جانے والی نظروں سے‬
‫ہالہ کو ديکھ کر فون اسکی جانب‬
‫بڑھايا۔‬
‫اس نے حیران ہوتے ہاتھ بڑھا کر پکڑا۔‬
‫اور دوسری جانب کی بات سنتے‬
‫دوسرے کمرے میں چلی گئ۔‬
‫کیا ہوا ہے يار کس کی کال ہے میں تو‬
‫چکرا گیا ہوں" اسفند ابھی تک بے‬
‫يقینی کی کیفیت میں تھا۔‬
‫"بیٹا ابھی تو يہ کچھ بھی نہیں نیکسٹ‬
‫مشن کے لئیے تیار ہوجاؤاينڈ آئ بیٹ‬
‫اگر تمہارے چودہ طبق روشن نہ ہو ۓ‬
‫دينا تو میرا نام بدل‬
‫کیا مطلب" اسفند نے تعجب سے پوچھا‬
‫اور پھر جو کچھ ‪.‬نواب شاہد نے بتايا‬
‫اس سے اسکے چودہ کیا چودہ ہزار‬
‫طبق روشن ہوگۓ۔‬
‫"ہاؤ از بٹ پاسبل يار" اسفند کی‬
‫پريشان آواز پر وہ صرف تلخ مسکراہٹ‬
‫ہی دکھا سکا۔‬
‫"آپکا موبائل" ايک ہاتھ اسکی آنکھوں‬
‫کے آگے آيا۔ اس نے جھپٹنے والے‬
‫انداز میں اس سے موبائل لیا۔ اور‬
‫جونہی غصیلی نظر اسکی جانب کی تو‬
‫اسکی بھیگی روئ روئ پلکیں ديکھ کر‬
‫اسکا میٹر پھر سے گھوم گیا۔‬
‫"يہ ڈرامے کس بات کے کر رہی ہو‪،‬‬
‫تمہیں تو خوش ہونا چاہئیے‪ ،‬يہی گھٹیا‬
‫مشن لے کر آئیں تھیں نا اور کتنے‬
‫چہرے ہیں تمہارے آج وہ سب بھی دکھا‬
‫دو۔ کس مظلومیت کا رونا رويا ہے تم‬
‫نے کے میرے فادر اور باس دونوں کو‬
‫بے وقوف بنا لیا ہے۔" وہ دانت پیستے‬
‫ہوۓ اسکے مقابل کھڑا اس سے پوری‬
‫طرح سچ اگلوانے کے موڈ میں تھا۔‬
‫"میں آپکے منہ نہیں لگنا چاہتی" وہ‬
‫کسی بھی لڑائ سے بچنے کے لئیۓ‬
‫اتنا کہ کر اندر کمرے کی جانب مڑنے‬
‫لگی کہ کالئ ‪.‬نواب شاہد کے ہاتھ میں‬
‫آگئ۔‬
‫"سمجھا کیا ہوا ہے تم نے خود کو۔ میں‬
‫ايسے لہجے برداشت نہیں کرتا" ‪.‬نواب‬
‫شاہدنے اسکے بازو کو جھٹکا ديتے‬
‫اسکا رخ اپنی جانب کیا۔‬
‫"مجھے بھی کوئ شوق نہیں آپ‬
‫جیسے کھڑوس سے تعلق جوڑنے‬
‫کا۔اور میں کیا ہوں اور میری اصلیت کیا‬
‫ہے يہ ابھی کچھ دير میں آپکو واضح‬
‫ہو جاۓ گی۔" وہ غصے سے اپنا بازو‬
‫چھڑاتی اندر جا کر دروازہ بند کر گئ۔‬
‫"يہ۔۔۔‪.‬نواب شاہد کے پاس تو جیسے‬
‫الفاظ ہی ختم ہو گۓ تھے۔ کسی لڑکی‬
‫کی ہمت نہیں ہوئ تھی کہ اس سے‬
‫اسطرح بات کرتی۔‬
‫ابھی وہ اور اسفند اس حیرانگی سے‬
‫نہیں نکلے تھے کہ سمیعہ آگئ۔‬
‫اور پھر انہوں نے ويسے ہی کیا جیسے‬
‫اويس عالم نے انہیں حکم ديا تھا‬
‫جاری ھے‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫صفحہ‪4‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬

‫بھینچے ہونٹوں کے ساتھ گاڑی چالتے‬


‫وہ انتہائ سنجیدہ حدتک خاموش تھا۔‬
‫جیسے ہی وہ اويس عالم کے فلیٹ پر‬
‫پہنچے اسے اپنے تاثرات صحیح کرنے‬
‫پڑے۔ جو بھی تھا بہرحال وہ اويس عالم‬
‫کے کسی بھی فیصلے کی سرتابی کا‬
‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‬
‫ايک عجیب سا لگاؤ تھا اسے ان سے۔‬
‫فلیٹ میں انٹر ہوتے ہی اسے عاصم‬
‫ملک اور اويس شاہ کے کچھ اور‬
‫دوست نظر آ ۓ ساتھ میں مولوي بھی‬
‫۔ تھا‬
‫يعنی کہیں اب بچاؤ کی صورت نہیں‬
‫تھی۔‬
‫"ہاں تو کیا فیصلہ ہے تمہارا ‪.‬نواب‬
‫شاہد" ہالہ کو لئیے جب اويس عالم‬
‫دوسرے کمرے میں گۓ تو اپنے‬
‫پیچھے اسے بھی آنے کا اشارہ کیا۔‬
‫"میں نے کبھی بھی آپ کے کسی‬
‫فیصلے کی مخالفت نہیں کی‪ ،‬مگر کیا‬
‫میرا يہ جاننا حق نہیں بنتا کہ جو لڑکی‬
‫میری بیوی بننے والی ہے اسکا انفیکٹ‬
‫بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ وہ لڑکی جو صبح‬
‫تک ايک قاتلہ کے روپ میں میرے‬
‫سامنے تھی۔‬

‫اچانک اس میں ايسے کون سے‬


‫سرخاب کے پر نکل آۓ کہ آپ اور ڈيڈی‬
‫اسے میری تحويل میں دينے پر بضد‬
‫ہیں۔"‬
‫الچھے لہجے میں اپنے دل کی بات کہتا‬
‫وہ انہیں ہمیشہ سے زيادہ بہت پیارا‬
‫لگا۔ پومک کے ٹريک سوٹ میں اپنی‬
‫مردانہ وجاہت کے ساتھ وہ اور بھی‬
‫ڈيشنگ لگ رہا تھا۔‬
‫"يقینا ّ! يہ سب تمہارا حق ہے۔ کیا‬
‫تمہارے خیال میں میں ايک لڑکی کی‬
‫اس انفارمیشن سے مطمئن ہو جاتا جو‬
‫تم لوگوں نے مجھے پروائڈ کی تھی۔‬
‫بیٹا میں تمہارا استاد ہوں۔ سو يہ سمجھ‬
‫لو کو جو انفو تم لوگوں نے پروائڈ کی‬
‫وہ اس سب کا ايک چھوٹا سا حصہ‬
‫تھی‬
‫جو بعد میں میں نے اپنے رسورسز‬
‫سے حاصل کی۔ وہ غلط نہیں تھا جو‬
‫ہالہ نے تمہیں بتايا۔ مگر جو کچھ‬
‫مجھے پتہ يال وہ اس سے کہیں زيادہ‬
‫ہے۔ مگر وہ میں تمہیں ابھی نہیں بتا‬
‫سکتا‪ ،‬ہمارے پاس ٹائم اتنا نہیں۔ بس يہ‬
‫سمجھ لو کہ يہ قاتلہ نہیں ہے۔اور کیا‬
‫اگر میں تمہیں اپنی بیٹی سے نکاح کے‬
‫لئیۓ کہتا تو کیا تم تب بھی سوچنے کا‬
‫وقت لیتے؟"‬
‫"آف کورس ناٹ" انکی اتنی بڑی بات‬
‫کے بعد اب شک کی گنجائش نہیں تھی‬
‫کہ ہالہ بہرحال بے قصور ہی ہے۔‬
‫"تو پھر يہی سمجھو کہ میں تمہارا‬
‫نکاح اپنی بیٹی کے ساتھ کروا رہا‬
‫ہوں۔"‬
‫ہالہ جو کہ برقعہ اتار چکی تھی اور‬
‫نظريں نیچی کئیے انکی باتیں سن رہی‬
‫تھی۔ اويس عالم نے اسے محبت سے‬
‫اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا۔‬

‫نواب شاہد نے ايک نظر اسکی آنسو‬


‫برساتی نظروں کر کہا۔‬
‫"مجھے منظور ہے میں مطمئن ضرور‬
‫ہوگیا ہوں مگر الجھن ابھی بھی برقرار‬
‫ہے کہ میری ہونے والی کا بیک گراؤنڈ‬
‫کیا ہے"‬
‫"تصحیح کر لو بیوی نہیں ہونے والی‬
‫منکوحہ؟"‬
‫"کیا مطلب" اس نے الجھ کر انہیں‬
‫ديکھا۔‬
‫"ابھی صرف نکاح ہو رہا ہے اسکی‬
‫رخصتی نہیں‪ ،‬رہے گی وہ تمہارے ہی‬
‫فلیٹ میں لیکن تمہاری منکوحہ کے‬
‫روپ میں۔ اتنی آسانی سے میں اپنی‬
‫پیاری بیٹی کو تمہارے حوالے نہیں کر‬
‫سکتا جس کے ساتھ صرف نکاح پر ہی‬
‫جرح ختم نہیں ہو رہی۔"‬
‫يہ زيادتی ہے سر‪ ،‬ابھی تو گھنٹہ بھی‬
‫نہیں ہوا آپکو اپنی عزيزز جان بیٹی‬
‫سے ملے کہ آپ نے پارٹی بدل لی‬
‫ہے۔" اس نے انکی طوطا چشمی پر‬
‫اعتراض کیا۔‬

‫انہوں ‪.......‬نے ہنستے ہوۓ اسے گلے‬


‫لگايا‬

‫نواب شاہداگر تم میرے عزيز ترين‬


‫دوست کے بیٹے ہو تو ہالہ بھی ہمارے‬
‫ايک بہت عزيز دوست کی بیٹی ہے اور‬
‫ہماری ايک بہت ديرينہ خواہش پوری ہو‬
‫رہی ہے۔ ايسے حاالت کا تو سوچا نہیں‬
‫تھا مگر۔۔" اس کس کندھوں پر ہاتھ‬
‫جماۓ انہوں نے اسے ايک اور حقیقت‬
‫بتاتے ہوۓ مزيد الجھايا۔‬
‫"بیٹا تم ادھر ہی بیٹھو ابھی سميعہ بیٹی‬
‫آرہی ہے۔" انہوں نے حیران ‪.‬نواب‬
‫شاہد کے کندھوں سے ہاتھ ہٹاتے ہالہ‬
‫کو مخاطب کیا اور ‪.‬نواب شاہد کو لئیے‬
‫باہر چلے گۓ۔‬
‫__________________________‬
‫"کبھی سوچا نہیں تھا کہ تیرے نکاح کا‬
‫فنکشن میں ٹريک سوٹ میں اٹینڈ کروں‬
‫گا" اسفند کے شرارتی انداز پر ہلکی‬
‫سی مسکراتٹ اسکے چہرے پر آکر ختم‬
‫ہوگئ۔‬
‫نکاح کے پیپرز پر سائن کرتے ہی‬
‫نجانے کیسے بہت سا اطمینان اسکے‬
‫اندر آيا يہ وہ بھی نہیں جانتا تھا۔‬
‫"ارے نوشے میاں کہ چہرے پر تو آج‬
‫مسکراتٹ بھی آئ ہے" "شٹ‪ .....‬اپ"‬
‫اسفند کے چہکنے پر وہ بمشکل اپنی‬
‫مسکراہٹ روک سکا اور مصنوعی‬
‫خفگی سے اسے ديکھا۔‬
‫سب کے چلے جانے کی بعد اب صرف‬
‫فلیٹ میں اويس عالم‪ ،‬عاصم‬
‫ملک‪.،‬نواب شاہد‪ ،‬اسفند‪ ،‬ہالہ اور‬
‫سمیعہ رہ گۓ تھے جس کے آتے ہی‬
‫انہوں نے نکاح شروع کیا تھا۔‬
‫"اسفند جاؤ ہالہ اور سمیعہ کو باہر آنے‬
‫کا کہو" عاصم صاحب کے کہنے پر وہ‬
‫اس کمرے کی جانب بڑھا جہاں وہ‬
‫دونوں بیٹھی ہوئیں تھیں۔‬
‫ہالہ اور سمیعہ جیسے ہی الؤنح میں‬
‫آئیں ‪.‬نواب شاہدنے پہلی مرتبہ اسے‬
‫غور سے ديکھا۔ گندمی صاف رنگت‪،‬‬
‫پانچ فٹ آٹھ انچ قد‪ ،‬نازک سا سراپا‪،‬‬
‫سیدھے گھنے لئیرز میں کٹے بال جس‬
‫کی کچھ لٹیں اب بھی اسکے چہرے پر‬
‫تھیں۔ روشن چمکدار اک عزم لئیے‬
‫آنکھیں جو مقابل پر اٹھیں تو انہیں ايک‬
‫بار کے بعد دوسری مرتبہ ديکھنے پر‬
‫ضرور مجبور کر ديں۔اس وقت وہ لیمن‬
‫کلر کی سرٹ میں گرين کلر کا دوپٹہ‬
‫لئیے اور ساتھ میں بلیک جینز پہنے‬
‫ہوۓ تھی۔ دونوں اتنے غیر معمولی‬
‫حلیۓ میں تھے کہ شايد ہی کبھی کوئ‬
‫دلہن جینزکی پینٹ اور الن کی شرٹ‬
‫میں اور کوئ دلہا ٹريک سوٹ میں‬
‫اپنے نکاح کا فنکشن اٹینڈ کر رہاہو۔‬

‫نواب شاہد خود پر حیران تھا کہ وہ‬


‫کیوں اسکو اتنے غور سے ديکھ رہا‬
‫ہے۔‬
‫صوفے پر عاصم صاحب کے ساتھ‬
‫بیٹھنے سے پہلے اسکی نظر سامنے‬
‫اٹھی تو ‪.‬نواب شاہدکو ديکھا جو دائیں‬
‫ہاتھ کی مٹھی کو ہونٹوں اور تھوڑی پر‬
‫رکھے بڑی غور سےاسے ديکھ رہا‬
‫تھا۔‬
‫ہالہ کا دل زور سے دھڑکا۔ "جب اس کو‬
‫بتا ديا ہے کہ میں کوئ قاتل واتل نہیں‬
‫ہوں پھر بھی يہ کھڑوس مجھے ايسے‬
‫کیوں ديکھ رہا ہے۔ اسٹوپڈ اس ٹريک‬
‫سوٹ میں بھی کتنا ڈيشنگ لگ رہا‬
‫ہے۔" وہ خود سے الجھتی نظريں جھکا‬
‫کر بیٹھ گئ اور دوبارہ‪.‬نواب شاہد کو‬
‫ديکھنے کی غلطی نہیں کی۔‬
‫لوگ نکاح کے چھوارے کھاتے ہیں اور‬
‫ہم تمہارے نکاح کا ناشتہ کھا رہے ہیں۔‬
‫بھائ تیرا ہر کام ہی نراال ہے۔" اسفند‬
‫ناشتے کے لئیے چیزيں التا ہوا بوال۔‬
‫"شروع کرو بچو" اويس ملک کے‬
‫کہنے پر سب نے اپنی اپنی پسندکی‬
‫چیزيں لینا شروع کیں۔ بريڈ‪ ،‬آملیٹ‪،‬‬
‫جیم‪ ،‬بٹر سب موجود تھا۔‬
‫ہالہ نے جیسے ہی حیم لینے کے لئیے‬
‫بوٹل کو پکڑا‪. ،‬نواب شاہد نے بھی اسی‬
‫لمحے اسفند کی کسی بات پر اسے‬
‫جواب ديتے ہاتھ بڑھیايا اور بوٹل کی‬
‫جگہ ہالہ کا ہاتھ اسکے ہاتھ میں آيا۔‬
‫گو کہ اس نے ايک دم ہاتھ پیچھے کر ا‬
‫لیا اور ہالہ نے بھی خفت زدہ ہوتے ہو‬
‫ۓ ہاتھ پیچھے کر لي مگر اسفند کو جو‬
‫کھانسی سٹارٹ ہوئ تو پھر ‪.‬نواب شاہد‬
‫کا ايک ہاتھ کمر پر کھا کر ہی ختم ہوئ۔‬

‫نواب شاہد میں جانتا ہوں کہ تم اس سب‬


‫معاملے کو لے کر بہت کنفیوزڈ ہو سو‬
‫میں تمہیں کچھ حقیقتیں بتانا چاہتا‬
‫ہوں" ناشتے کے بعد اويس عالم نے‬
‫‪.‬نواب شاہد کی کنفیوژن کو ختم کرنے‬
‫کا سوچا۔‬
‫"میں‪ ،‬عاصم اور سرفراز بیسٹ فرينڈز‬
‫تھے۔تینوں کا پیشن بھی ايک جیسا تھا۔‬
‫سو ہم تینوں نے سیکرٹ سروسز‬
‫جوائن کی اور خوش قسمتی سے ہم‬
‫تینوں سلیکٹ ہو بھی گۓ۔ انہی دنوں‬
‫ہمیں رحمان شاہ کے متعلق کچھ کیسز‬
‫بھی پتہ چلے جو کہ سرفراز کا سوتیال‬
‫بھائ بھی تھا۔ مگر بہت چھوٹے سے‬
‫انکا ملنا جلنا بند تھا۔وہ بہت سے ملک‬
‫دشمن عناصر کے ساتھ بھی کام کرتا‬
‫تھا۔ ہم تینوں اپنی اپنی جگہ اسکے‬
‫خالف ثبوت اکٹھے کر رہے تھے۔ اور‬
‫وہ سب ثبوت ہم سرفراز کے پاس ہی‬
‫محفوظ کرواتے تھے۔نجانے اس شر‬
‫پسند انسان کر کہاں سے شک ہو گیا‬

‫سرفراز پر کہ پہلے تو اس نے انکے‬


‫گھر آنا جانا بحال کیا حاالنکہ سرفراز‬
‫اتنے اچھے طريقے سے اس سے ملتا‬
‫نہیں تھا۔ہالہ تب بہت چھوٹی تھی شايد‬
‫چار سال کی۔ ايک دن بھابھی اور‬
‫سرفراز کسی شادی سے آرہے تھے کہ‬
‫اس نے راستے میں آئل ٹینکر کو اس‬
‫طريقے سے کھڑا کروايا کہ دونوں کا‬
‫تصادم ہوا اور وہ دونوں موقع پر ہی‬
‫جاں بحق ہو گۓ۔ ہم يہی سمجھتے رہے‬
‫کہ ہالہ بھی انکے ساتھ تھی مگر ہللا‬
‫نے اسکی جان بچانی تھی سو سرفراز‬
‫کا ايک خاص آدمی تھا تنوير جس کو‬
‫ہمارے عالوہ کوئ نہیں جانتا تھا۔ہالہ‬
‫اس رات اسی کے پاس تھی۔‬

‫رحمان بھی يہی سمجھتا تھا کہ ہالہ بھی‬


‫انہی کے ساتھ زندہ نہیں۔مگر وہی بندہ‬
‫ہالہ کو ايس او ايس چھوڑ کر گیا اور‬
‫اب وہ رحمان کے خاص بندوں میں‬
‫سے ہے۔ کیونکہ وہ سرفراز کا بدلہ لینا‬
‫چاہتا ہے۔ گندگی کو ختم کرنے کے‬
‫لئیے اس میں اترنا پڑتا ہے۔تنوير نے‬
‫بھی بہت سال لگا کر اب رحمان کا‬
‫اعتماد اس حد تک جیت لیا ہے کہ وہ‬
‫بغیر کچھ سوچے اور ديکھے اسکی ہر‬
‫بات مانتا ہے۔جب تم نے مجھے ہالہ کا‬
‫بتايا اور میں نے اور عاصم نے اسکی‬
‫انفارمیشن پڑھی تو ہم تبھی جان گۓ‬
‫تھے کہ يہ ہمارے ديرينہ دوست کی‬
‫بیٹی ہے۔‬

‫اسکے پھول کو اب ہم کسی صورت‬


‫آندھیوں کے حوالے نہیں کر سکتے‬
‫تھے لہذا مجھے اسکے لئیے تم لوگوں‬
‫کے فلیٹ سے سیف جگہ کوئ نہیں‬
‫لگی۔" اويس عالم نے يہ سب بتاتے‬
‫روتی ہوئ ہالہ کو ديکھا جس کو اب‬
‫عاصم ملک اپنے ساتھ لگاۓ بیٹھے‬
‫تھے۔‬
‫"ہالہ کے بارے میں انفارمیشن لیتے ہو‬
‫مجھے تنوير کا پتہ چال میں نے ۓ‬
‫بہت خفیہ طريقے سے اسے کانٹیکٹ‬
‫کیا تھا۔ اس نے ساری بات ہمیں بتائ‬
‫اور يہ بھی کہ رحمان نے ہالہ کو اٹھوا‬
‫لیا تھا۔ اسی لئیے کہ ہالہ نے اسکے‬
‫خالف جو رپورٹنگ کی تھی۔ وہاں بھی‬
‫تنوير نے اسے نکلنے میں مدد دی۔‬
‫جس رات کو اشتہار بنا کر اسکے ايس‬
‫ايچ او بیٹے نے ہالہ کے خالف اخبار‬
‫میں آج قتل کا کیس چھپوايا ہے۔‬
‫انفیکٹ اسنے اپنے ايک کارندے کو‬
‫غلط نیت سے ہالہ کے کمرے میں بھیجا‬
‫تھا۔ جس جگہ ہالہ کو اسنے کڈنیپ کروا‬
‫کر رکھا تھا وہاں کا ہولڈ تنوير کے پاس‬
‫تھا اسنے ہالہ کو اپنی حفاظت کے لئیے‬
‫ايک خنجر ديا تھا۔ سو ہالہ نے اسی کے‬
‫ذريعے اپنی طرف سے اسے زخمی کیا‬
‫مگر قسمت سے وہ اسکی ايسی وين پہ‬
‫لگا جسکے ڈيمج ہوتے ہی وہ موقع پر‬
‫مرگیا اور ہالہ وہاں کی کھڑکی توڑ کر‬
‫بھاگ کھڑی ہو ئ اور صبح تک تم‬
‫لوگوں کی گاڑی میں اسنے پناہ لی‬
‫میں چونکہ ايک کیس کے سلسلے میں‬
‫وزيرستان جارہا ہوں اور کچھ پتہ نہیں‬
‫کہ کب تک آتا ہوں لہذا میں نے اور‬
‫عاصم نے تہ کیا کہ جانے سے پہلے‬
‫ہالہ کا کوئ بہتر انتظام کر جاؤں۔ کوئ‬
‫پتہ نہیں جو لوگ اس حد تک آگے جا‬
‫سکتے ہیں وہ کل کو تمہارے فلیٹ پر‬
‫بھی پہنچ سکتے ہیں سو ہمارے پاس‬
‫کوئ ايسا ويلڈ ثبوت ہو ہالہ کو ان سے‬
‫بچانے کا کہ دنیا کی کوئ عدالت ہمیں‬
‫جھٹال نہ سکے۔بس يہی وجہ تھی اس‬
‫جلدی کی"‬
‫انہوں نے بتاتے ہوۓ ہر وہ گرہ کھولی‬
‫جو ‪.‬نواب شاہد کو الجھاۓ ہوۓ‬
‫تھی۔‪.‬نواب شاہدکو اگر اب يہ سب جاننے‬
‫کے بعد ہالہ سے محبت نہیں ہوئ تھی‬
‫تو ناپسنديدگی بھی نہیں رہی تھی۔‬
‫__________________________‬
‫انکے نکاح سے اگلے دن ہی کال آگئ‬
‫ايک ضروی آپريشن کی جس کس لئیے‬
‫انہیں کوئٹہ جانا تھا۔ اسفند تو اسی دن‬
‫چال گیا جبکہ ‪.‬نواب شاہد نے اگلے دن‬
‫جوائن کرنا تھا اور واپسی جب تھی‬
‫کسی کو کچھ تبہ نہیں تھا۔‪.‬نواب شاہد‬
‫نے اسی دن ہالہ کے لئیے موبائل خريدا‬
‫کہ بہر حال اسکے ساتھ کانٹیکٹ کا‬
‫کوئ سورس ہونا چاہئیے۔ سمیعہ کو‬
‫اسنے اتنے دن ہالہ کے پاس رہنے کا‬
‫کہا اسکے عالوہ دو بندوں کو اپنے‬
‫فلیٹ کی نگرانی پر لگا ديا۔‬
‫"يہ میں آپکے لئیے اليا ہوں سم اس‬
‫میں میں نے ڈال دی ہے اور اپنا اور‬
‫اسفند کا نمبر بھی فیڈ کر ديا ہے۔" شام‬
‫میں جب وہ فلیٹ پر آيا تو ہالہ کو الؤنج‬
‫میں آنے کا کہا جو اپنے کمرے میں‬
‫بیٹھی کوئ کتاب پڑھنے میں مصروف‬
‫تھی۔‬
‫"بیٹھ جائیں آپکو سسٹم سمجھا ديتا‬
‫ہوں" اسے بدستور کھڑے ديکھ کر اس‬
‫نے ٹوکا اور اپنے ساتھ صوفے پر‬
‫بیٹھنے کا اشارہ کیا۔‬
‫"میں نے نہ تو پہلی مرتبہ موبائل‬
‫ديکھا ہے اور نہ ہی میں اتنی پینڈو ہوں‬
‫کہ مجھے آئ فون يوز کرنا نا آتا‬
‫ہو۔"اس نے‬
‫نواب شاہد کی آفر کو خاطر میں الۓ‬
‫بغیر فون پکڑا اور اسے الجواب کرتی‬
‫جانے لگی۔‬
‫"اسفند نہیں ہے تو کیا میں بھوک ہڑتال‬
‫کروں۔" اسنے ہالہ کو جتايا کہ اسنے‬
‫اسے کچھ نہیں پوچھا تھا۔‬
‫"يہ فلیٹ کس نے رينٹ پر لیا ہے"‬
‫"میں نے" اس نے حیران ہوتے اسکی‬
‫بات کا جواب ديا "تو جب فلیٹ آپکا‪،‬‬
‫کچن آپکا اور فريج بھی آپکا تو جو‬
‫مرضی بنائیں اور کھائیں‪ ،‬کوئ آپکو‬
‫يہاں ٹرے میں سجا کر پیش نہیں کرے‬
‫گا۔" طنزيہ انداز میں اسی کا طعنہ اسے‬
‫مارتے ہو ۓ وہ بولی۔‬
‫ہاہاہا! گڈ شوٹ۔۔۔آپکے منہ سے جھڑنے‬
‫والے ان پھولوں کی وڈيو بنا کر‪ ،‬وہ‬
‫بھی اپنے شوہر کے لئیے ڈيڈی اور سر‬
‫کو سینڈ کرنی چاہئیے جو آپکو بڑی بی‬
‫بی بچی سمجھتے ہیں۔"‬
‫قہقہہ لگاتے ہو ۓ وہ اسکے مقابل‬
‫سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوا۔ جان‬
‫لیوا مسکراہٹ بدستور ہونٹوں پر تھی۔‬
‫اس سے پہلے کہ ہالہ کو يہ مسکراہٹ‬
‫جکڑتی اس نے فورا ّ نظريں اس پر سے‬
‫ہٹائیں۔‬
‫مائنڈ اٹ ابھی صرف نکاح ہوا ہے‪ ،‬آپ‬
‫شوہر نہیں بن گۓ" اس نے اويس عالم‬
‫کی بات دھراتے کہا۔ اسے جتا کر وہ‬
‫کمرے میں چلی گئ۔‬
‫سر آپ نے صرف نکاح کرکے اچھا‬
‫نہیں کیا۔ میری بیوی تو میرے قابو میں‬
‫ہی نہیں" اسنے بالوں پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ہوۓ سوچا اور کچن میں جا کر اپنے‬
‫لئیے خود کافی بنانے لگا۔‬
‫رات میں دونوں نے اپنے اپنے کمرے‬
‫میں کھانا کھايا۔‬
‫آدھی رات گزر چکی تھی اور ہالہ کو‬
‫ابھی تک نیند نہیں آ رہی تھی۔ موبائل پر‬
‫اس نے ‪.‬نواب شاہد کا نمبرشاہد کو‬
‫ايڈيٹ کرکے کھڑوس ايجنٹ کے نام‬
‫سے سیو کر لیا پھر نجانے کیا دماغ‬
‫میں آئ۔‬
‫آخر تھی تو مسٹز ايجنٹ کی منکوحہ تو‬
‫پھر رسکی کیوں نہ ہوتی۔ دبے قدموں‬
‫ضامن کے روم میں گئ۔ آہستہ سے‬
‫دروازہ کھوال۔‬
‫نائٹ بلب کی روشنی میں اسے سامنے‬
‫بیڈ پر ‪.‬نواب شاہد لیٹانظر آيا جودوسری‬
‫جانب کروٹ لیئے سو رہا تھا۔ دبے‬
‫قدموں اس طرف گئ۔‬
‫نجانے کتنے دنوں بعد يہ چہرہ ديکھنا‬
‫پڑے بس دل کے مجبور کرنے پر اس‬
‫نے سوتے میں ‪.‬نواب شاہد کی پکچرز‬
‫لینے کا سوچا۔ وہ تو نجانے کب سے‬
‫اس کھڑوس ايجنٹ سے خاموش محبت‬
‫کر بیٹھی تھی۔‬
‫دو تین مختلف اينگز سے اسکی پکچرز‬
‫لے کر وہ اسی طرح دبے قدموں واپس‬
‫جا رہی تھی کہ اپنے پیچھے ابھرنے‬
‫والی آواز نے اسے فريز کر ديا۔‬
‫"کسی کی يوں رات کے وقت بغیر‬
‫پوچھے پکچرز لینا بہت ہی غیر اخالقی‬
‫حرکت ہو چاہے اس بندے سے آپکا‬
‫نکاح ہی ہوا ہو۔" ہالہ يہ بھول گئ تھی‬
‫کہ سیکرٹ سروسز والے سوتے میں‬
‫بھی جاگ رہے ہوتے ہیں۔‬
‫وہ شرمندگی کے مارے‪ ......‬جیسے ہی‬
‫آگے بڑھی تو يکدم گھبراہٹ میں اسکا‬
‫پاؤں مڑااور دھڑام سے نیچے گری۔‬
‫نواب شاہدايک جست میں اٹھ کر اسکے‬
‫پاس آيا۔ اسے بازو سے پکڑکر اٹھنے‬
‫میں مدد دی اور بیڈ پر بٹھايا۔‬
‫"آر يو ‪......‬آل‪ .....‬رائٹ" اس نے‬
‫پريشانی سے اسکے آنسوؤں کو ديکھا۔‬
‫بال پیچھے ہٹاتے اس نے نفی میں‬
‫جواب ديا جو گرنے کے باعث کیچر میں‬
‫سے نکل آۓ تھے۔‬
‫نواب شاہد نے جلدی سے الئٹ آن کی۔‬
‫"کہاں چوٹ لگی ہے" اس نے تشويش‬
‫سے اس سے پوچھا۔‬
‫نواب شاہداسکے قريب بیڈ پر بیٹھ گیا۔‬
‫"پاؤں میں بہت درد ہو رہا ہے۔ مڑ گیا‬
‫تھا۔آپکو کیا ضرورت تھی مجھے‬
‫اسطرح ڈرانے کی" اس نے اپنی چوٹ‬
‫کا بتاتے ہوۓ شرمندگی مٹانے کو سارا‬
‫الزام اسکے سر ڈاال۔‬

‫نواب شاہد تو ششدر اسکے الزام کو‬


‫سن رہاتھا۔ پھر يکدم ہنستے ہوۓ سر‬
‫کو نفی میں ہاليا اور اسکے قريب‬
‫نیچے بیٹھتے اسکے ٹراؤذر کا پائینچہ‬
‫اوپر کیا۔‬
‫اور اسکے پاؤں کا جائزہ لیا۔ موچ آگئ‬
‫تھی۔‬
‫"میں نے نہیں ڈرايا چوری کی سزا ملی‬
‫ہے۔" اس نے مسکراہٹ دباتے ہالہ کو‬
‫ديکھتے ہوۓ کہا۔‬
‫"جی نہیں ايسے کوئ شہزادہ گلفام‬
‫نہیں آپ وہ تو میں اسکے کیمرے کا‬
‫رزلٹ چیک کر رہی تھی" جتنا وہ خود‬
‫کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی اتنا‬
‫ہی عیاں ہو رہی تھی۔‬
‫"يعنی مجھ سے زيادہ حسین منظر‬
‫آپکو نظر نہیں آيا جس کو آپ کیپچر‬
‫کرتیں" نواب شاہد کی بات نے اسکی‬
‫بولتی بند کی۔‬
‫"آ آ۔۔۔کیا آپ باتیں لے کر بیٹھ گۓ ہیں‬
‫مجھے بہت درد ہو رہا ہے" نواب‬
‫شاہدکو جھڑکیاں دينے کی ہمت اسکی‬
‫جی دار منکوحہ ہی کر سکتی تھی۔‬
‫اس نے يکدم اسکے پاؤں کو ايک‬
‫جھٹکا ديا۔ اس سے پہلے کے ہالہ کی‬
‫چیخ بلند ہوتی ‪.‬نواب شاہد نے ايک ہاتھ‬
‫پھرتی سے اسکے منہ پرجمايا۔ہالہ نے‬
‫پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے ديکھا‬
‫نجانے کیا تھا اسکی آنکھوں میں کے‬
‫ہالہ کی پلکیں لرزيں اور اس نے نظريں‬
‫جھکا لیں۔‬
‫"آئ ايم سوری‪.‬نواب شاہد کی سرگوشی‬
‫نماں آواز نے اسکا دل دھڑکا ديا۔‬

‫نواب شاہد نے اسکے منہ سے ہاتھ‬


‫پٹايا۔ اور نجانے کیا ہوا کہ اسکے ہاتھ‬
‫سے موبائل لے کر کیمرہ نکاال ايک‬
‫بازو ہالہ کے گرد پھیاليا۔ہالہ نے حیرت‬
‫سے چہرہ اٹھا کر اسے ديکھا۔‪.‬نواب‬
‫شاہد نے دوسرے ہاتھ میں موبائل لے‬
‫کر اسکا فرنٹ کیمرہ آن کیا اور بوال"‬
‫ايسے لیتے ہیں پکیچر" اس نے ہالہ‬
‫کی حیرت زدہ نظروں میں ديکھا‬
‫مسکرايا اور اسکے ماتھے پر بوسہ لیا‬
‫اور ساتھ ہی کلک کا بٹن دبايا۔‬
‫اس سے پہلے کے رات کا سحر اسے‬
‫اپنی لپیٹ میں لیتا پیچھے ہوتے ‪.‬نواب‬
‫شاہد نے خود کو سنبھاال۔‬
‫"میں آپکے لئیے پین کلر اور دودھ التا‬
‫ہوں" کہتے ساتھ ہی موبائل اسکے‬
‫پاس رکھا اور باہر نکل گیا۔‬
‫ہالہ سے دھڑکنیں قابو کرنا مشکل ہو‬
‫گیا۔‬
‫کچھ دير بعد اسے پین کلر اور دودھ دے‬
‫کر اپنے ہی کمرے میں سونے کی تاکید‬
‫کرکے دوسرے کمرے میں سونے چال‬
‫گیا۔‬
‫اسکے پلو پر لیٹتے اور اسکے کمفرٹر‬
‫کو خود پر لے کر اسکی خوشبو‬
‫محسوس کرنا يہ سب اتنے خوش کن‬
‫احساس تھے کہ اسے کس وقت نیند‬
‫نے اپنی آغوش میں لیا وہ نہیں جانتی‬
‫تھی۔ جبکہ دوسری جانب ‪.‬نواب شاہد کو‬
‫تو لگ رہا تھا کہ آج کی رات نیند ہی‬
‫نہیں آنی۔‬
‫بہت مشکل سے اس نے کچھ دير کے‬
‫لئیے سونے کی کوشش کی‬
‫جاری ھے‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫صفحہ‪5‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬

‫صبح آٹھ بجے‪...‬نواب شاہد کی آنکھ‬


‫کھلی۔ دس بجے کی اسکی فالئٹ تھی۔‬
‫وہ جلدی سے اٹھا۔ فريش ہو کر کچن‬
‫میں آيا۔‬
‫يہ ہالہ کے انکے فلیٹ میں آنے کا بعد‬
‫پہلی صبح تھی کہ وہ خود ناشتہ بنا رہا‬
‫تھا۔‬
‫جلدی جلدی اس نے اپنے اور ہالہ کے‬
‫لئیے ناشتہ بنايا۔ اپنی رات والی بے‬
‫اختیاری پر وہ خود بھی حیران تھا۔ يہ‬
‫کیسا رشتہ تھا کہ وہ جو لڑکیوں سے‬
‫الرجک تھا اب ايک لڑکی کے آگے اپنے‬
‫دل کو جھکنے سے روک نہیں پا رہا‬
‫تھا۔‬
‫ناشتہ بنا کر وہ اپنے روم میں گیا۔ ہالہ‬
‫مزے سے سو رہی تھی۔اسے سوتے‬
‫ديکھ کر بے اختیار ايک مسکراتٹ‬
‫اسکے چہرے پر آئ۔‬
‫بہت آہستہ سے وہ اسکے قريب گیا۔‬
‫"اٹس رئیلی ڈيفیکلٹ ٹو لیو يو ناؤ۔"‬
‫وہی احساس اور بے اختیاری جو رات‬
‫سے اسے اپنی لپیٹ میں لئیے ہوئ‬
‫تھی وہ اسے اس سوۓ ہوۓ وجود کی‬
‫طرف کھینچ کر کچھ گستاخیاں کرنے پر‬
‫مجبور کر رہی تھی۔‬
‫اس نے خود پر کنٹرول کرتے‪ ،‬اپنا‬
‫موبائل نکاال اور اس خوابیدہ وجود‬
‫‪......‬کی کچھ ياديں اپنے موجائل میں‬
‫محفوظ کیں۔ اور پھر جھک کر اسکے‬
‫سر پر بوسہ ديا۔‬
‫"گیٹ اپ مائ لیڈی" بہت آہستہ سے‬
‫کہہ کر اسکو کندھے سے ہاليا جیسے‬
‫ہی وہ اس نے آنکھیں کھولیں وہ‬
‫پیچھے ہوا۔‬
‫اٹھ جاؤ يار‪ ،‬میری دس بجے فالئٹ‬
‫ہے۔"‬
‫ہالہ جھجھکتے ہوۓ اٹھ کر بیٹھی۔‬
‫"کین آئ سی يور فٹ؟"‬
‫نواب شاہد نے کمفرٹر ہٹانے سے پہلے‬
‫اس سے اجازت لی۔‬
‫ہالہ نے خود ہی پاؤں باہر نکاال۔‬
‫نواب شاہد نے اچھے سے چیک کیا‬
‫بس سويلنگ رہ گئ تھی۔‬
‫"آپ پہلے فريش ہو کر بريک فاسٹ‬
‫کرو پھر جانے سے پہلے میں مساج‬
‫کردوں گا۔" يہ کہتے ساتھ ہی اسے‬
‫ايک لمحے کا بھی کچھ سوچنے کا‬
‫موقع دئیے بغیر ‪..‬نواب شاہد نے جھک‬
‫کر اسے بازوؤں میں اٹھايا اور واش‬
‫روم کی جانب بڑھا۔‬
‫ہالہ تو نہ صرف ششدر رہ گئ بلکہ‬
‫اسکی قربت سے اسکی کیا حالت تھی‬
‫يہ صرف وہی جانتی تھی۔‬
‫"میں چل لیتی" اسکی گردن کے گرد‬
‫بازو باندھے اسکی شرٹ کے بٹنز کو‬
‫ديکھتے وہ جس گھبراہٹ اور خفت‬
‫سے بولی يہ وہی جانتی تھی۔‪.‬نواب‬
‫شاہد کے ہونٹوں پر اسکی يہ حرکت‬
‫مسکراہٹ لے آئ۔‬
‫"میرے پاس يہ چند منٹس ہی ہیں آپکی‬
‫تیمارداری کے لئیے‪ ،‬پھر پتہ نہیں ہم‬
‫کب ملتے ہیں‪ ،‬ملتے بھی ہیں يا نہیں۔۔"‬
‫اسے واش روم کے دروازے پر اتارتے‬
‫اس نے اپنی جان لیوا مسکراہٹ میں‬
‫اسے جکڑا۔ دروازے کی چوکھٹ پر‬
‫رکھا ہالہ کا ہاتھ لرزا۔ ابھی ابھی تو‬
‫انہوں نے محبت کرنا سیکھا تھا ابھی‬
‫تو اس رشتے کی ڈور کے کناروں پر‬
‫وہ کھڑے تھے۔ ابھی سے جدائ کا‬
‫خوف۔ ہالہ خاموشی سے لنگڑاتی ہوئ‬
‫اندر بڑھی۔‬
‫منہ ہاتھ دھو کر جیسے ہی وہ باہر آئ‬
‫‪.‬نواب شاہدنے دوبارہ اسے اٹھايا اور‬
‫بیڈ پر بٹھا کر ناشتہ رکھا ساتھ خود‬
‫بھی تیار ہونے لگا۔‬
‫ہالہ اداسی سے اس مکمل ماحول کو‬
‫ديکھ رہی تھی۔ کتنا خوبصورت احساس‬
‫تھا کہ وہ ‪.‬نواب شاہد کے روم میں ہے‬
‫پورے استحقاق کے ساتھ اسے اپنے‬
‫آس پاس چلتا ديکھ رہی ہے۔ شیشے‬
‫کے سامنے کھڑے ہو کر بالوں میں‬
‫برش کرتے ‪.‬نواب شاہد نے شرارتی‬
‫مسکراہٹ سے اسے ايک ٹک خود کو‬
‫تکتے ديکھا۔‬
‫"مسز ناشتہ بھی کیا میرے ہاتھوں سے‬
‫کرنا ہے۔۔آئ کین سی يو ان دا‬
‫مرر۔۔مجھے آج مسٹ اپنے مشن کے‬
‫لئیے نکلنا ہے۔ سو میں ابھی جب تک‬
‫يہاں ہوں مجھے ايسے ديکھنے سے‬
‫پرہیز کريں يہ نہ ہو کہ اپنے مشن پر‬
‫جانے کا ارادہ کینسل کرنے کے ساتھ‬
‫ساتھ مجھے ڈيڈی اور سر کو کال‬
‫کرکے يہ کہنا پڑے کے آپکی چہیتی کی‬
‫رخصتی آج ہی اس روم سے اس روم‬
‫میں ہو گئ ہے۔‪.‬نواب شاہدکے اتنے‬
‫بولڈ انداز نے اسکے ہاتھوں کے‬
‫طوطے اڑا دئیے تھے۔‬

‫نواب شاہدمسلسل اپنی نظروں کا فوکس‬


‫اس پر رکھے ہوۓ ريڈی ہو کر اسکے‬
‫سامنے بیڈ پر بیٹھ گیا۔‬
‫"اب آپ بھی مجھے ديکھنا بند کريں‬
‫نہیں تو يہ نہ ہو کہ اويس انکل کو میں‬
‫کال کرکے کہوں کے آپکا معصوم‬
‫سیکرٹ ايجنٹ آپکی شريف سی بیٹی کو‬
‫تنہا سمجھ کر الئن مار رہا ہے۔"‬
‫کمر ‪.‬نواب شاہدکے بیڈ سے ٹکاۓ‬
‫نیچے ديکھتے ہوۓ وہ بڑی ادا سے‬
‫بولی۔‬
‫"ہا ہا ہا! اسی لئيے میں نے ان دونوں‬
‫میں سے کسی کا نمبر اس میں سیو‬
‫نہیں کیا ہوا۔" اس نے ہالہ کے چڑاتے‬
‫ہوۓ قہقہہ لگايا۔‬
‫"يہ فاؤل ہے انکا بھی نمبر ايڈ کريں"‬
‫"سوری ڈئیر" اس نے اسے مزيد‬
‫چڑاتے گھڑی ديکھی اسی لمحے فلیٹ‬
‫کا مین ڈور کھلنے کی آواز آئ اور کچھ‬
‫دير بعد سمیعہ اندر آئ مگر ہالہ اور‬
‫‪.‬نواب شاہد کو شاہد ہی کے بیڈ روم میں‬
‫ديکھ کر حیرت سے اسکا منہ کھل گیا۔‬
‫"منہ بند کر لو اب‪ ،‬ہالہ کے پاؤں میں‬
‫موچ آگئ ہے دھیان رکھنا۔ اس ٹیوب کا‬
‫مساج کر دينا۔ کوئ گڑ بڑ لگے تو‬
‫مجھے فورا ّ ّّ انفارم کرنا۔ میں اب‬
‫نکلوں" سمیعہ کو ہدايت ديتا وہ اپنا‬
‫بیگ اٹھا کر ہالہ کی جانب مڑا اور‬
‫اسکی جانب ہاتھ بڑھايا۔‬
‫ہالہ نے آہستگی سے تھاما ‪.‬نواب‬
‫شاہدنے ہلکا سا دباتے چھوڑا‬
‫خداحافظ‪ ......‬کہا اور نکل گیا۔ جبکہ‬
‫سمیعہ پريشانی سے اسکے پاؤں کا‬
‫جائزہ لے رہی تھی۔‬
‫__________________________‬
‫رات میں وہ دونوں ‪.‬نواب شاہد اور‬
‫اسفند کے ہی روم میں سونے کے لئیے‬
‫لیٹی تھیں۔ سمیعہ کو بہت خوشی ہوئ‬
‫تھی ان دونوں کے خوشگوار تعلقات کا‬
‫سن کر۔‬
‫سمیعہ سو چکی تھی جبکہ ہالہ کو کل‬
‫رات کا ايک ايک منظر ياد آرہا تھا۔‬
‫اس نے موبائل اٹھائ اور وہی پکچر‬
‫نکالی جس میں ‪.‬نواب شاہد اسکے‬
‫ماتھے پر بوسہ دے رہا تھا۔ نجانے‬
‫صبح سے اب تک وہ کتنی مرتبہ يہ‬
‫تصوير ديکھ چکی تھی مگر دل ہی نہیں‬
‫بھر رہا تھا۔‬
‫ابھی وہ ‪.‬نواب شاہد کے خیالوں میں‬
‫کھوئ تھی کہ واٹس ايپ پہ کھڑوس‬
‫ايجنٹ کا میسج آيا جس میں کسی‬
‫سونگ کی اٹیچمنٹ تھی۔ ہالہ نے سمیعہ‬
‫کی پاس پڑی ہینڈ فری اپنے موبائل میں‬
‫لگائ۔‬
‫‪Phillip Laure‬‬
‫کی آواز نے سحر سا کھینچا‬
Faster than a shooting star
Baby you stole my heart
I never want it back
I never thought it'd be like this
believing in us
can feel so dangerous
when you're lost lost lost in
love
you never wanna find your
way out
when you're lost lost lost in
love
you never want to be
you never want to be found
I feel so strange because of
you
I have everything to lose
I wouldn't have it any other
way
If this turns out to be a dream
Please don't wake me
I don't want to leave this place
what a lovely mystery
all the ways two hearts can
meet
we were made to collide
you and i, you and i are lost
baby we're lost
what a lovely mystery
come on get lost with me
what a lovely mystery
come on get lost with me
get lost with me...
get lost with me...
‫‪get lost with me...‬‬
‫گانا سننے کے دوران ہی ايک ايک‬
‫پکچر میسج آيا۔‬
‫جس میں ہالہ کی سوتے ہوۓ کی پکچر‬
‫تھی اور اس پہ‪.‬نواب شاہد نے کیپشن‬
‫لکھی تھی "مائ سلیپنگ بیوٹی کوئین"‬
‫اس نے حیرت سے وہ تصوير ديکھتے‬
‫‪.‬نواب شاہد کو میسج کیا۔‬
‫"يہ آپ نے کب لی‪ ،‬مجھے چور کہا تھا‬
‫اب يہ کیا ہے" ساتھ ايک غصے واال‬
‫اموجی بھی بھیجا۔‬
‫‪.‬نواب شاہد کا الفنگ اموجی آيا۔‬
‫"جب میری منکوحہ ہو کر آپ پہ میرا‬
‫رنگ چڑ سکتا ہے اور آپ رات کی‬
‫تاريکی میں رسک لے کر میری تصوير‬
‫لے سکتی ہیں تو ايک چور کا شوہر ہو‬
‫کر میں دن کے اجالے میں يہ چوری‬
‫کیوں نہیں کر سکتا‬
‫"میں کہاں سے چور ہوں" اس نے‬
‫حیرت واال اموجی میسج کے ساتھ‬
‫بھیجا۔ "آپ نے نہ صرف میری تصوير‬
‫‪Baby you stole my‬چوری سے‬
‫لی بلکہ " ‪heart‬‬
‫اسکے اس اظہار پر اسے اپنے گال‬
‫۔دہکتے ہوۓ محسوس ہو ۓ‬
‫کین آئ کال يو" اسکے يہ جان لیوا‬
‫انداز ہالہ کو اسکے عشق میں مبتال کر‬
‫رہے تھے۔‬
‫"نو يو آر میکنگ می نروس" ہالہ کے‬
‫اتنے کیوٹ انداز پہ ضامن بے ساختہ‬
‫مسکرايا۔‬
‫"آر يو بلشنگ۔۔۔وانا سی يو مسز ڈونٹ‬
‫وانا مس دس چانس"‬
‫نواب شاہدکے میسج کے ساتھ ڈھیر‬
‫سارے کسنگ اور ہارٹس والے اموجی‬
‫آۓ۔‬
‫ہالہ نے مسکراتے ہوۓ آنکھیں بند‬
‫کیں۔ يہ اسکی زندگی میں پہال رشتہ تھا‬
‫جس کی محبت کو وہ پورے مان کے‬
‫ساتھ محسوس کر رہی تھی۔ اور يہ‬
‫رشتہ اسکے لئیے بہت قیمتی تھا۔‬
‫اچانک آنسو اسکی آنکھوں سے رواں‬
‫ہوۓ اسکی محروم زندگی میں ہللا نے‬
‫اچانک ‪.‬نواب شاہد کی محبت دے کر‬
‫سب محرومیاں جیسے ختم کر ديں‬
‫تھیں۔‬
‫"مسز؟؟؟؟" کچھ دير تک جب ہالہ کا‬
‫میسج نہیں آيا تو‪.‬نواب شاہد نے‬
‫تشويش سے میسج کیا۔‬
‫ہالہ نے اپنے آنسو صاف کرکے جواب‬
‫ٹائپ کیا۔‬
‫"میں نے سميعہ سے آپکے باس کا‬
‫نمبر لے لیا ہے ابھی انکو کال کرکے‬
‫بتاتی ہوں آپکا سعادت مند آفیسر اپنے‬
‫مشن کی فکر چھوڑ کر رات کے اس‬
‫وقت ايک خوبصورت لڑکی کو تنگ کر‬
‫رہا ہے۔"‬
‫اسکے ريپالئ پر وہ بمشکل اپنا قہقہہ‬
‫روک پايا۔ہللا نے واقعی میاں بیوی کا‬
‫رشتہ کتنا خوبصورت بنايا ہے کہ‬
‫سارے دن کی تھکن اور سٹريس لے کر‬
‫جب آدمی اپنی بیوی کے پاس آتا ہے تو‬
‫وہ اسکی سب تھکن اپنی محبت میں‬
‫سمیٹ لیتی ہے۔‬
‫آج کا اتنا ٹف دن گزار کر اس وقت دور‬
‫بیٹھی ہالہ نے جیسے اسکی ساری‬
‫تھکن اپنی باتوں سے سمیٹ لی تھی۔‬
‫"وہ خوبصورت لڑکی میری بیوی ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬سو سر کو میرے اس وقت آپکو‬
‫تنگ کرنے پر کوئ اعتراض نہیں‬
‫ہوگا"‬
‫"تصحیح کر لیں‪ ،‬بیوی نہیں منکوحہ"‬
‫ہالہ نے اسے جتاتے ہوۓ پھر سے‬
‫چڑايا۔‬
‫"ہنی انشاہللا واپس آکر سب سے پہلے‬
‫آپکی رخصتی ہی کروانی ہے۔تاکہ پھر‬
‫ہمارے درمیان دن اور رات کی کوئ قید‬
‫نہ آسکے۔ ناؤ ہیو سويٹ ڈريمز آف يور‬
‫کھڑوس ايجنٹ"‬
‫آخری جملہ پڑھ کر وہ شرم سے پانی‬
‫پانی ہوگئ۔ نجانے جانے سے پہلے‬
‫کب ضامن نے اسکا سیل چیک کر لیا‬
‫تھا۔اف سیکرٹ ايجنٹ کی بیوی ہونا‬
‫بھی خطرے سے خالی نہیں کچھ چھپا‬
‫نہیں رہتا اس نے خفت سے مسکراتے‬
‫ہوۓ سوچا۔اور ‪.‬نواب شاہد کو گڈ نائٹ‬
‫کہہ کر سونے کے لئیے لیٹ گئ۔‬
‫_______________________‬
‫بہت دنوں سے نہ تو ‪.‬نواب شاہدکا کوئ‬
‫فون آيا تھا اور نہ ہی میسج۔‬
‫صرف اسفند نے میسج کرکے اتنا بتا ديا‬
‫تھا کہ کچھ دہشتگردوں کے ايرياز کو‬
‫ٹريس آئٹ کر لیا ہے‬
‫اور ‪.‬نواب شاہد تو اپنے کام کے‬
‫سلسلے میں اتنا جنونی ہو جاتا ہے کہ‬
‫اسے تو اپنی بھی ہوش نہیں‬
‫ہوتی۔‪.‬نواب شاہدکے بارے میں مختلف‬
‫باتیں اسے سمیعہ سے پتہ چلتی تھیں۔‬
‫جیسا کہ اسکی فیملی میں اسکے ڈيڈی‬
‫کے عالوہ ممی تھیں‪ ،‬ايک بھائ اور‬
‫ايک چھوٹی بہن۔ بھائ پڑھائ کے‬
‫سلسے میں باہر ہوتا ہے جبکہ بہن‬
‫ڈاکٹر بن رہی ہے۔‬
‫عاصم ملک جو کہ اب اسکے سسر بھی‬
‫تھے روزانہ اسے کال کرتے‪ ،‬اسکے‬
‫عالوہ ‪.‬نواب شاہدکی مدر اور بہن سے‬
‫بھی اسکی اب بات چیت ہوتی رہتی تھی‬
‫وہ تو اس سے ملنے کو بے چین تھیں۔‬
‫"يار اتنے دنوں سے تم يہاں بند ہو‪ ،‬آؤ‬
‫آج میں تمہیں باہر لے کر چلتی ہوں۔"‬
‫سمیعہ اور وہ شام میں چاۓ پی رہیں‬
‫تھیں۔‬
‫نجانے سمیعہ کو کیا سوجھی۔کہ اس‬
‫نے جھٹ پٹ باہر نکلنے کا پلین بنا لیا۔‬
‫"نہیں يار میں کیسے نکل سکتی ہوں"‬
‫"ايسے ڈئیر کہ میرے پاس جرباب اور‬
‫نقاب دونوں ہیں تو تم وہ کیری کرو گی۔‬
‫اسکے عالوہ اسفند کے کچھ خاص‬
‫بندے ہیں انکو میں کال کرکے کہتی‬
‫ہوں وہ ہمیں فالو کريں گے۔ اور يہ‬
‫بندی موذر سے لے کر گرنیڈ سب چال‬
‫لیتی ہے۔ میں ويسے آئٹی ممیں ہوں‬
‫مگر ٹريننگ میں نے سب لی ہوئ ہے۔‬
‫اور کچھ مشنز میں تمہارے میاں کو‬
‫اسسٹ بھی کر چکی ہوں۔" ہالہ تو‬
‫حیرت سے منہ کھولے اس دھان پان‬
‫سی سمیعہ کو ديکھ رہی تھی۔‬
‫"چلو اب حیران بعد میں ہونا پہلے تیار‬
‫ہو جاؤ۔" اس نے ہالہ کو اٹھاتے ہوۓ‬
‫کہا۔اور خود کسی کو کال کرنے چل‬
‫پڑی۔‬
‫ۓ وہ دونوں نقاب اور جرباب پہنے ہو‬
‫تھیں۔‬
‫ہالہ تو اتنے دنوں بعد باہر کی دنیا ديکھ‬
‫رہی تھی۔حاالنکہ وہ نقاب میں تھی پھر‬
‫بھی پريشان تھی۔‬
‫کسی مشہور بوتیک کے آگے سمیعہ‬
‫نے گاڑی روکی۔ اندر جا کر وہ ہالہ کے‬
‫لئیے کپڑے سلیکٹ کرنے لگی۔‬
‫"تم میرے لئیے کیوں لے رہی ہو‪،‬‬
‫میرے پاس پیسے نہیں ہیں"‬
‫"وہ جو ايک عدد تمہارا شوہر ہوتا ہے‬
‫نہ اس نے مجھے تمہاری شاپنگ کے‬
‫لئیے جانے سے پہلے پیسے دئیے‬
‫تھے۔ تمہارے اتنے ‪.‬نواب شوہر کے‬
‫ہوتے ہوۓ میرا تم پہ اپنے پیسے ضائع‬
‫کرنے کا کوئ شوق نہیں ہے۔"‬
‫سمیعہ کے اس انداز پر ہنسنے کے‬
‫عالوہ نجانے کہاں سے ڈھیروں آنسو‬
‫بھی اسکی آنکھوں میں سمٹ آۓ۔ يہ‬
‫احساس ہی اسکے لئیے اتنا خوش کن‬
‫تھا کہ اسکا کوئ رشتہ اب ايسا ہے جو‬
‫اس کی فکر کرنے واال ہے‪ ،‬اسکی‬
‫ضرورتوں کو سوچنے واال ہے۔ اب‬
‫اسے پیسے کمانے کی فکر میں اور‬
‫اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئیۓ‬
‫در در کی ٹھوکريں رہیں کھانا پڑيں گی۔‬
‫جس وقت انکا پروگرام بنا ہالہ اتنی‬
‫جلدی میں نکلی کے اسے اپنا موبائل‬
‫رکھنا ياد نہیں رہا۔‬
‫بہت دنوں کے بعد ‪.‬نواب شاہد آج شام‬
‫تھوڑا فری تھا سب سے پہال خیال اسے‬
‫ہالہ کو کال کرنے کا آيا۔ ايک دو مرتبہ‬
‫جب اس نے کال کی اور ہالہ نے نہیں‬
‫اٹھائ تو اسکی پريشانی بڑھنا شروع‬
‫ہوگئ۔ اب تو اس کے ساتھ دل کا رشتہ‬
‫جڑ چکا تھا تو پريشانی کیوں کر نہ‬
‫ہوتی۔‬
‫اب اس نے سمیعہ کو کال کی۔‬
‫وہ دونوں شاپنگ کرکے اب واپسی کے‬
‫راستے پر تھیں۔ اسفند کے دو خاص‬
‫بندے سول ڈريس میں سارا ٹائم انکے‬
‫ساتھ رہے تھے۔‬
‫"لو جی آگیا تمہارے میاں کا فون‪ ،‬اب‬
‫میری شامت آجانی ہے‪ ،‬تمہارا موبائل‬
‫کہاں ہے" سمیعہ نے اسے بتاتے‬
‫موبائل کا پوچھا۔‬
‫"وہ تو الؤنج میں ہی پڑا رہ گیا۔ مجھے‬
‫ياد ہی نہیں رہا اٹھانا۔"‬
‫"بس ہوگئ اب ہماری آؤٹنگ‬
‫پوری‪.‬نواب شاہد سے ملنی والی متوقع‬
‫ڈانٹ کا سوچتے اس نے موبائل پہ‬
‫‪.‬نواب شاہدکی کال کو يس کیا۔‬
‫"کہاں ہو تم اور يہ ہالہ کہاں ہے فون‬
‫کیوں اٹینڈ نہیں کر رہی۔"‬

‫نواب شاہد کی پريشان آواز آئ۔‬


‫"وہ ايسا ہے کہ میں ہالہ کو تھوڑی دير‬
‫آئٹنگ کے لئيے الئ تھی۔"‬
‫سمیعہ نے ہمت کرکے سچ بتايا۔‬
‫"ہیو يو گون میڈ" ‪.‬نواب شاہد اسکی‬
‫بات پہ دھاڑا۔‬
‫"يار اسے پوری طرح نقاب میں لے کر‬
‫آئ ہوں ڈونٹ يو وری‪ ،‬اسفند کے دو‬
‫بندے بھی ہمیں فالو کر رہے ہیں"‬
‫"تو اتنی تمہیں اور ہالہ کو کیا مصیبت‬
‫تھی اتنے پروٹوکول کے ساتھ باہر‬
‫نکلنے کا رسک لینے کی‪ ،‬اسی لئیے‬
‫کیا میں اسے تمہارے پاس چھوڑ کر گیا‬
‫تھا"‬

‫نواب شاہد نے اچھی طرح اسکی کالس‬


‫ل ی۔‬
‫"توبہ ہے ‪.‬نواب شاہد تم تو پکے‬
‫عاشق بن گۓ ہو۔ وہ بچاری آخر اس‬
‫چار ديواری میں رہ کر تنگ پڑھ گئ‬
‫ہے۔ انسان ہے وہ"‬
‫"وہ چار ديواری اسکے لئیے بہت‬
‫امپورٹنٹ ہے۔ اور خبردار جو دوبارہ يہ‬
‫بے وقوفی کی۔ گھر پہنچ کر میری ہالہ‬
‫سے سکائیپ پر بات کرواؤ"‬
‫"يس باس" اس نے شکر کرتے فون‬
‫بند کیا۔‬
‫"لوجی میں نے تو ڈانٹ سن لی اب تم‬
‫تیار ہو جاؤ" اس نے ہالہ کو ڈرايا۔‬
‫فلیٹ پر پہنچتے ساتھ ہی سمیعہ نے‬
‫سکائیپ پر ‪.‬نواب شاہد کو وڈيو کال‬
‫مالئ۔‬
‫وہ دونوں ‪.‬نواب شاہد کے روم میں ہی‬
‫بیڈ پر بیٹھی تھیں۔‬
‫کال پک ہوتے ہی ‪.‬نواب شاہد کا چہرہ‬
‫نظر آتے ہی ہالہ کو لگا ہر منظر روشن‬
‫ہوگیا ہے۔ ہلکی سی شیو میں بلیک ٹی‬
‫شرٹ اور ٹرائزر میں اپنے کیزول حلیے‬
‫میں بھی ہالہ کو بے حد ڈيشنگ لگ رہا‬
‫تھا۔‬
‫"ہالہ کہاں ہے" سمیعہ کا چہرہ سکرين‬
‫پر ابھرتے ہی اس نے پوچھا۔‬
‫"اف شاہد کتنے بے مروت ہو بیوی‬
‫کی پڑی ہے‪ ،‬صحیح کہتے ہیں بھابھیاں‬
‫آتے ہی بھائ بہنوں سے بدل جاتے‬
‫ہیں" سمیعہ کے دہائ دينے پر ہالہ‬
‫اور‪.‬نواب شاہد دونوں کے چہروں پر‬
‫مسکراہٹ ابھری۔‬
‫"بک‪ ......‬بک نہیں کرو‪ ،‬ہالہ کو بالؤ‪،‬‬
‫آئ وانا سی ہر" ‪.‬نواب شاہدنے اپنا‬
‫لہجہ غصیال بناتے ہوۓ کہا‬
‫"مجھے کیا انعام ملے گا تمہاری بیوی‬
‫کی منہ دکھائ کا"سمیعہ اسے تنگ‬
‫کرنے پر بضد تھی۔‬
‫"اسفند اسے فون کرکے کسی کام پہ‬
‫لگا۔" اس نے زچ ہو کر ساتھ بیٹھے‬
‫اسفند کو کہا‬
‫"ہا ہا ہا! ‪.‬نواب شاہد تم کتنے کیوٹ لگ‬
‫رہے ہو اس عاشقوں والے گیٹ اپ‬
‫میں" سمیعہ کو آج پہلی مرتبہ اسک‬
‫ريکارڈ لگانے کا موقعہ مال تھا وہ‬
‫کیسے مس کرتی۔‬
‫ابھی وہ ہنس ہنس کے بے حال ہو رہی‬
‫تھی کہ اسفند کی موبائل پر کال آگئ۔‬
‫"کاش تم اتنی ہی سعادت مندی کا‬
‫مظاہرہ میرے لئیے بھی کر لیا کرو۔"‬
‫اس نے فون کان سے لگاتے ہی اسفند‬
‫کو لتاڑا۔اور اٹھ کر باہر چلی گئ۔‬
‫"ہالہ" وہ جو سمیعہ کو جاتا ديکھ رہی‬
‫تھی۔ ‪.‬نواب شاہد کی آواز پر لیپ ٹاپ کی‬
‫سکريرن کی جانب ديکھا۔ جہاں ابھی‬
‫بھی ہالہ منظر سے آؤٹ تھی۔‬
‫اس نے لیپ ٹاپ کا رخ اپنی جانب کیا۔‬
‫"اسالم علیکم" ہالہ کی تصوير آتے ہی‬
‫اسفند اسکے چہرے سے نظريں نہیں‬
‫ہٹا سکا۔ سکائ بلیو پرنٹڈ شرٹ اور‬
‫دوپٹہ کندھوں پر لئیے آدھے کھلے‬
‫آدھے بند بالوں میں وہ سیدھا‬
‫نواب شاہد کے دل میں اتر رہی تھی۔‬
‫"‬
‫نواب شاہد!" وہ اسکی نطروں سے‬
‫کنفیوز ہو رہی تھی۔‬
‫"آپ ٹھیک ہو نہ" ہالہ اسکی اتنی فکر‬
‫اور محبت پر يکدم رو پڑی۔‬
‫"واٹ ہیپنڈ يار‪ ،‬ٹھیک ہو نہ‪ ،‬ہالہ پلیز‬
‫مجھے پريشان نہیں کرو" وہ اسکے‬
‫رونے سے تڑپ اٹھا۔‬
‫"میں ٹھیک ہوں‪ ،‬آ۔۔آپ کیسے ہیں"‬
‫اس نے اپنے آنسو صاف کرکے بدقت‬
‫نظريں جھکا کر کہا اور ‪.‬نواب شاہد کی‬
‫نظريں اسکے عالوہ کہیں اور ديکھنے‬
‫سے انکاری تھیں۔‬
‫"ٹھیک ہوں روئیں کیوں" ‪.‬نواب‬
‫شاہدکی نظريں اب تک اسکی بھیگی‬
‫پلکوں میں اٹکی ہوئ تھیں۔‬
‫ہالہ نے نفی میں سر ہالتے جواب ديا۔‬
‫ايک مرتبہ پھر آنسوؤں کا گولہ اسکے‬
‫حلق میں اٹکا۔‬
‫اسکے اپنی طرف نہ ديکھنے اور‬
‫سنجیدہ چہرے نے اسکی ہالہ ايسے‬
‫پريشان کروگی تو کیا میں ابھی فالئٹ‬
‫۔" پريشانی بڑھائ۔ ا پکڑ کے آ ؤں‬
‫"کچھ نہیں بس ويسے ہی" اس نے‬
‫بمشکل آنسوؤں کو پیچھے دھکیل کر‬
‫يہ الفاظ ادا کئيے۔‬
‫"آر يو شیور‪.‬نواب شاہد نے بے يقینی‬
‫سے پوچھا۔‬
‫اس نے اثبات میں سر ہاليا۔‬
‫"اوکے دين لک ايٹ دا سکرين" ‪.‬نواب‬
‫شاہد نے اسے اپنی پکچر کی طرف‬
‫ديکھنے کو کہا۔‬
‫ہالہ نے بمشکل اسکرين پر نگاہ ڈالی‬
‫جہاں اسکی جگر جگر کرتی نظريں‬
‫اسی کو ديکھ رہیں تھیں۔‬

‫نواب شاہد نے کچھ ٹائپ کرکے اسے‬


‫سکائپ پر میسج کیا۔‬
‫ہالہ نے جیسے ہی میسج اوپن کیا تو‬
‫کس واال اموجی ديکھ کر وہ بلش کرگئ۔‬
‫ضامن دائیں ہاتھ کی مٹھی ہونٹوں پر‬
‫رکھے مسکراتی نظروں سے اسکے‬
‫ايکسپريشنز ديکھ رہا تھا۔‬
‫آئ وش آئ کڈ بی دير" اسے بلش‬
‫کرتے ديکھ کر ‪.‬نواب شاہد نے جزبوں‬
‫سے چور آواز میں کہا۔‬
‫"میں کال کاٹ رہی ہوں آپ مجھے تنگ‬
‫کر رہے ہیں۔" ہالہ نے خفگی سے‬
‫ۓ کہا۔‪.‬نواب شاہدنے اسے ديکھتے ہو‬
‫اسکی بات پر قہقہہ لگايا۔‬
‫"يہ تو الزام ہے میں تو اتنی دور بیٹھا‬
‫ہوں‪.‬نواب شاہد نے شرارتی نظروں‬
‫سے اسے ديکھا۔ اسکی بات کا مفہوم‬
‫سحبھتے ہی ہالہ نے اسے غصے سے‬
‫گھورا۔‬
‫اور ساتھ ہی کال کاٹ دی۔‬
‫سیکنڈ بعد ہی اسکے موبائل کے بجنے‬
‫کی آواز الؤنح سے آئ۔‬
‫ہالہ نے دھڑکتے دل کے ساتھ کال پک‬
‫ک ی۔‬
‫"ہیلو" اس کی خفگی بھری آواز فون‬
‫پر ابھری تو ‪.‬نواب شاہد کے چہرے پر‬
‫مسکراہٹ آئ۔‬
‫"کل جب آپکے پاس ہوں گا تو پھر‬
‫کہاں چھپیں گی۔"‬
‫"رئیلی"‪.‬نواب شاہدکی بات سمجھتے‬
‫وہ حیرت اور خوشی کے ملے جلے‬
‫تاثرات سمیت بولی۔‬
‫"جی کل رات میں اور اسفند واپس‬
‫آرہے ہیں"‬
‫"گريٹ"‬
‫"ہالہ"نواب شاہد کی پکار نے اسکا دل‬
‫دھڑکايا۔‬
‫"آپ روئ کیوں تھیں" اسکے آنسوؤں‬
‫نے ابھی تک اسے پريشان کیا ہوا تھا۔‬
‫وہ کیسے بتاتی کے اپنی محروم زندگی‬
‫میں ‪.‬نواب شاہدکی محبت اس کے لئیے‬
‫بہت قیمتی ہے۔‬
‫پھر سے آنسو اسکی آنکھوں میں‬
‫سمٹے۔‬
‫"آئم میسنگ يو" اس کی بھیگی آواز‬
‫کے اس مختصر سے اظہار کو ‪.‬نواب‬
‫شاہد نے پوری شدت سے محسوس کیا۔‬
‫"میسنگ يو ٹو سوئیٹ ہارٹ‪ ،‬ڈونٹ‬
‫وری آئل بی دير ٹومورو‪ ،‬جسٹ ون‬
‫نائٹ ہیز لیفٹ"‪.‬نواب شاہد کی محبت کو‬
‫اسکے لئیے سنبھالنا مشکل ہو گیا۔‬
‫خداحافظ کہہ کر اس نے فون بند کیا۔‬
‫مگر کبھی کبھی قسمت ويسا نہیں کرتی‬
‫جیسا ہم سوچتے ہیں۔‬
‫جاری ھے‪...‬‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫صفحہ‪6‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬

‫اگلے دن وہ درنوں کچن میں مختلف‬


‫ڈشز بنا رہیں تھیں‪.‬نواب شاہد اور اسفند‬
‫کے لئیے جنہوں نے رات میں آنا تھا۔‬
‫"سمیعہ اگزيٹ ٹائم کیا بتايا تھا اسفند‬
‫بھائ نے پہنچنے کا۔"‬
‫"يار دس بجے کہ کہا تھا۔"‬
‫سمیعہ نے مصروف سے انداز میں‬
‫چکن کڑاہی بناتے ہوۓ کہا۔‬
‫ہالہ نے الؤنج میں لگی گھڑی ديکھی‬
‫جس پر ابھی فقط پانچ بجے ہوۓ تھے۔‬
‫"اف ابھی پانچ گھنٹے بعد میں آپکو‬
‫ديکھ پاؤں گی"۔يہ سوچتے ہوۓ وہ يہ‬
‫نہیں جانتی تھی کہ پانچ سیکنڈ بعد ہی‬
‫وہ اتنی تکلیف دہ خبر سنے گی۔‬
‫سمیعہ کے موبائل پر کال آئ۔ اس نے‬
‫ايک ہاتھ سے ہنڈيا میں چمچ چالتے‬
‫دوسرے ہاتھ سے کال پک کی۔‬
‫"ہیلو" اسکے ہیلو کہتے ہی جو خبر‬
‫سنائ دی اس نے اسکے پاؤں کے‬
‫نیچے سے زمیں کھینچ لی۔‬
‫"کیا بکواس کر رہے ہو تم‪ ،‬منہ توڑ‬
‫دوں گی میں تمہارا" غصے اور تکلیف‬
‫کے ملے جلے احساسات سمیت وہ چال‬
‫اٹھی۔‬
‫ہالہ جو کہ فريج میں دودھ رکھ رہی‬
‫تھی۔ سمیعہ کی غصیلی آواز سن کر‬
‫وہیں سن ہو گئ۔‬
‫"کب ہوا يہ‪ ،‬کہاں ہیں وہ دونوں اوکے‬
‫میں آرہی ہوں"‬
‫سمیعہ کی بھیگی آواز نے اسے جو‬
‫کچھ باور کروايا تھا وہ سننا نہیں چاہتی‬
‫تھی۔‬
‫سمیعہ فون بند کرکے اسکی طرف پلٹی‬
‫جو فريج کے ساتھ شاکڈ کھڑی اسی کی‬
‫جانب ديکھ رہی تھی۔‬
‫سمیعہ اسی کی جانب بڑھی۔‬
‫"پلیز سميعہ‪. ،‬نواب شاہد کے بارے‬
‫میں کوئ۔۔۔۔۔" نفی میں سر ہالتے اس‬
‫نے سمیعہ کے آنسوؤں سے تر چہرے‬
‫کو خوف سے ديکھتے ہوۓ کہا اور‬
‫دونوں ہاتھوں میں چہرہ لئیے وہیں‬
‫بیٹھتی چلی گئ۔ وہ وہ سوچنا بھی نہیں‬
‫چاہتی تھی جو ہوگیا تھا۔‬
‫"ہالہ‪ ...‬وہ دونوں آئ ‪....‬سی‪ ...‬يو میں‬
‫ہیں‪ ،‬ان کی گاڑی پر آج کسی نے‬
‫فائرنگ کی تھی۔اسالم آباد شفٹ کیا ہے‬
‫انہیں۔ میں ارجنٹ ٹکٹس کروا رہی ہوں‬
‫ہم ابھی نکل رہے ہیں۔ اس وقت انہیں‬
‫ہماری دعا کی ضرورت ہے آنسوؤں کی‬
‫نہیں۔ اٹھو اور اپنی چیزيں پیک کرو۔"‬
‫سمیعہ نے خود کو کمپوز کرکے اسے‬
‫تسلی دی ساتھ ہی کسی کو دو پلین کی‬
‫ٹکٹس کا کہا۔‬
‫اگلے ڈھاؤ گھنٹے بعد وہ پنڈی سم ايم‬
‫ايچ میں تھیں۔ جہاں ان دونوں کی‬
‫فیملیز موجود تھیں۔‬
‫ہالہ نقاب میں ہی تھی۔ سميعہ اسکا ہاتھ‬
‫تھامے ہوۓ تھی۔‬
‫ہالہ سواۓ عاصم ملک کے اور کسی‬
‫کو باۓ فیس نہیں جانتی تھی۔‬
‫وہ سیدھا انکے پاس گئ انہوں نے بڑھ‬
‫کر اسکو اپنے ساتھ لگايا۔ کتنی محبت‬
‫سے انہوں نے اسے ‪.‬نواب شاہد کے‬
‫نکاح میں ديا تھا۔ کل ہی ابھی ‪.‬نواب‬
‫شاہد نے ان سے ريکوئیسٹ کی تھی کہ‬
‫الہور جاتے ہی وہ جلد ہالہ کی رخصتی‬
‫کروائیں۔‬
‫ہالہ کے لئیے اسکے لہجے میں چھپی‬
‫محبت کا سن کر وہ کتنے خوش ہوۓ‬
‫تھے اور آج۔‬
‫"کتنی خواہش تھی میری کے میں جلد‬
‫از جلد تم سے ملوں مگر کیا پتہ تھا کہ‬
‫ايسے حاالت میں ملنا پڑھے گا۔"‬
‫ہالہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ‪.‬نواب‬
‫شاہدکی ممی نے اسکا رخ اپنی طرف‬
‫کرکے اسے اپنے ساتھ لگايا۔‬
‫نواب شاہد کی بہن بھی اسکے گلے لگ‬
‫کر بے اختیار رو پڑی۔‬
‫اور ہالہ وہ تو اب تک بے يقینی کی‬
‫کیفیت میں تھی۔ پھر وہ اسفند کے گھر‬
‫والوں سے ملی۔‬
‫نواب شاہدکے سر پر چوٹیں آئ ہیں‬
‫جس کی وجہ سے کچھ بھی کہنا قبل از‬
‫وقت ہے۔ ہم اپنی پوری کوشش کر رہے‬
‫ہیں۔ دونوں کو بچانے کی لیکن بہرحال‬
‫اصل بچانے والی ذات وہی ہے آپ لوگ‬
‫بس دعا کريں۔ ہللا کرم کرے گا۔"‬
‫ڈاکٹرز آکر اپنے پروفیشنل انداز میں‬
‫تسلی دے گۓ۔ مگر يہ وہ دو فیملیز‬
‫جانتی تھیں کہ ان پر کیا گزر رہی ہے۔‬
‫ہالہ کے تو آنسو نہیں رک رہے تھے۔‬
‫اس کو ہللا نے اتنا قیمتی رشتہ دے کر‬
‫آج سولی پر چڑھا ديا تھا۔‬
‫"اے ہللا آپ تو جانتے ہیں نہ میرے‬
‫پاس اس ايک رشتے کے عالوہ اور‬
‫کوئ رشتہ نہیں۔ اپنے حبیب کے صدقے‬
‫میرے لئیے اسے نئ زندگی دے ديں۔‬
‫مجھے تو محبت کے معنی اب پتہ چلے‬
‫تھے۔ میں نے تو ابھی اسے محسوس‬
‫بھی نہیں کیا۔ آپ نے زندگی کے ہر قدم‬
‫پر مجھے تکلیف دہ حاالت سے بچايا۔‬
‫ہللا آج بھی مجھے میرے اس بہت اپنے‬
‫کے بچھڑنے کے دکھ سے بچا لیں۔ يہ‬
‫تکلیف میرے بس سے باہر ہو رہی‬
‫ہے۔پلیز ہللا جی‬
‫ساری رات سب کی آنکھوں میں کٹی‬
‫اور صبح کی روشنی انکے لئیے ايک‬
‫نئ زندگی لے کر آئ تھی۔جب ڈاکٹرز‬
‫نے بتايا کہ دونوں خطرے سے باہر‬
‫ہیں۔‬
‫کچھ گھنٹوں بعد انہیں رومز میں شفٹ‬
‫کر ديا گیا۔ ہالہ پہلے اسفند کو ديکھنے‬
‫گئ۔ بالکل بھائیوں کی طرح ہر لمحہ اس‬
‫نے ہالہ کا خیال رکھا تھا۔‬
‫اسفند اسے ديکھ کر بہت خوش ہوا۔ اب‬
‫وہ ہوش میں تھے۔ لیکن ڈاکٹرز نے‬
‫زيادہ بات چیت سے منع کیا تھا۔‬
‫اسفند سے مل کر وہ دھڑکتے دل کے‬
‫ساتھ ‪.‬نواب شاہد کے روم کی طرف‬
‫بڑھی۔‬
‫دروازہ کھول کر جیسے ہی وہ اندر‬
‫داخل ہوئ سیدھی نظر آنکھیں بند کئیے‬
‫‪.‬نواب شاہد پر پڑھی جس کے سر پر‬
‫پٹیاں لپٹی تھیں۔‬
‫وہاں پہلے سے ہی ‪.‬نواب شاہد کی ممی‬
‫اور بہن تھیں۔‬
‫"آؤ نہ ہالہ" اسے دروازے پر ہی کھڑا‬
‫ديکھ کر ‪.‬نواب شاہد کی ممی نے کہا۔‬
‫ہالہ کا نام سنتے ہی ‪.‬نواب شاہد نے‬
‫آنکھیں کھول کر گردن گھما کر اسے‬
‫ديکھا۔‬
‫حیرت‪ ،‬خوشی محجبت نہ جانے کون‬
‫کون سے جذبے ہالہ کو اسکی آنکھوں‬
‫ۓ۔ وہ آہستہ سے چلتی میں نظر آ‬
‫اسکی ممی کی چئیر کے پاس کھڑی‬
‫ہوئ جو ‪.‬نواب شاہد کے بیڈ کے قريب‬
‫رکھی ہوئ تھی۔‬
‫"رمشا آؤ ذرا اسفند کو ديکھ آئیں۔"‬
‫اسکی ممی نے ان دونوں کو اکیلے میں‬
‫ملنے کا موقع ديا اور روم سے باہر‬
‫چلی گئیں۔ ہالہ نظريں جھکاۓ ہوۓ‬
‫تھی۔ جبکہ‪.‬نواب شاہد کی نظريں اس پر‬
‫تھیں جو ابھی بھی نقاب میں تھی۔‬
‫"ہالہ" نواب شاہد نے اسے پکارا اس‬
‫نے چونک کے ‪.‬نواب شاہد کو ايسے‬
‫ديکھا جیسے ابھی تک اسکے زندہ‬
‫سالمت ہونے کا يقین ہی نہ ہو رہا ہو۔‬
‫نواب شاہدنے اسے اپنے پاس بیڈ پر‬
‫بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ آہستہ سے‬
‫چلتی اسکے بیڈ پر ٹک گئ۔‬
‫"آئ وانا سی يو‪......‬نواب شاہد کی بات‬
‫سمجھتے اس نے آہستہ سے نقاب‬
‫گرايا۔ نظريں اسکی چھکی ہوئیں تھیں‬
‫جن میں آہستہ آہستہ آنسو اکٹھے ہو‬
‫رہے تھے۔ اور بے اختیار پلکوں کی‬
‫باڑھ توڑ کر باہر آگۓ۔‬
‫"ہنی ايسے نہیں کريں۔" ‪.‬نواب شاہدنے‬
‫اسکے گود میں دھرے ہاتھوں پر ہاتھ‬
‫رکھ کر بمشکل کہا۔‬
‫ہالہ تو اس تسلی پر اور بھی بکھر گئ۔‬
‫اور بے اختیار اسکے سینے پر سر‬
‫رکھ کر روتی چلی گئ۔‬

‫نوابزادہ شاہد نے آنکھیں بند کرکے‬


‫اسکے گرد اپنا داياں بازو پھیاليا۔‬
‫" ہنی پلیز سٹاپ کرائینگ يور ٹیرز آر‬
‫ہرٹنگ می۔ آئم نوٹ ان ديٹ پوزيشن ٹو‬
‫وائیپ ديم پراپرلی۔"‬
‫اسکی کمر سہالتے وہ آہستہ آہستہ کہہ‬
‫رہا تھا۔‬
‫ہالہ کو يکدم اپنی بے اختیاری کا‬
‫احساس ہوا تو فورا ّ ّّ سیدھی ہوئ اور‬
‫ذرا سا رخ موڑ کر اپنے آنسو صاف‬
‫کرنے لگی۔‬
‫اچانک ‪.‬نواب شاہد نے اسے ديکھتے‬
‫اسکا ہاتھ پکڑا ہالہ نے اسکی جانب‬
‫ديکھا تو وہی دل کھینچ لینے والی‬
‫مسکراہٹ اسکے چہرے پر تھی جو ہالہ‬
‫کا دل اتھل پتھل کر ديتی تھی۔‬
‫"تھینکس فار دس ان کنڈيشنل‬
‫لو‪...‬نواب شاہد اسکا ہاتھ ہونٹوں تک‬
‫لے جا کر بوال۔‬
‫"کوئ ايسے بھی کسی کی جان نکالتا‬
‫ہے۔" ہالہ نے خفگی سے کہا۔اور‬
‫اسکے پاس سے اٹھ کر بیڈ کے پاس‬
‫رکھی کرسی کو اسکے بیڈ کے اور‬
‫پاس کرکے بیٹھ گئ۔‬
‫"اور کوئ ايسے بھی اپنی جان کو تنگ‬
‫کرتا ہے‪..‬نواب شاہد نے اسی کے انداز‬
‫میں کہتے اسکی بھیگی پلکوں پر ہاتھ‬
‫اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا پھیرا۔‬
‫"آيم سوری" ہالہ نے آنکھیں نیچے‬
‫کرتے ہوۓ کہا۔‬
‫"آہاں۔۔۔ ان آنسوؤں نے ہی تو مجھے‬
‫بتايا ہے کہ میرے لئیے کوئ بہت‬
‫فکرمند تھا۔"‬
‫اچھا اب آپ زيادہ باتیں نہیں کريں۔"‬
‫ہالہ نے اسے ٹوکتے ہوۓ کہا۔‬
‫__________________________‬
‫__‬
‫اگال پورا ہفتہ‪.........‬نواب شاہداور اسفند‬
‫نے ہاسپٹل میں گزارا پھر انہیں‬
‫ڈسچارج کر ديا گیا اور دونوں کچھ‬
‫عرصہ ريسٹ کے لئیے اپنے اپنے گھر‬
‫چلے گۓ۔ ہالہ بھی‪..‬نواب شاہد کے گھر‬
‫آچکی تھی اور‪.‬نواب شاہد کی بہن کے‬
‫گھر اسکا قیام تھا۔ ايک کنال پر بنا ہوا‬
‫يہ خوبصورت سا گھر مارگلہ ہلز کے‬
‫سامنے تھا جہاں سے پہاڑوں کا‬
‫خوبصورت منظر اس گھر کی‬
‫خوبصورتی میں اضافہ کرتا تھا۔‬
‫خاص طور پر ‪..‬نواب شاہد کا روم اوپر‬
‫کی سٹوری پر تھا اور اسکے ٹیرس‬
‫کے بالکل سامنے ہلز نظر آتی تھیں۔‬
‫گھر آکر ‪.‬نواب شاہد کے بہت سے کام‬
‫نواب شاہدکی ممی نے ہالہ کو سونپ‬
‫دئیے انہیں اپنی يہ کیوٹ سی بہو بہت‬
‫پسند تھی اور اسکے پیرنٹس کے ساتھ‬
‫بھی جو لگاؤ تھا اس سے ہالہ انکو اور‬
‫بھی عزيز تھی۔‬

‫نواب شاہد تیزی سے ری کور کر رہا‬


‫تھا اور اب تو چلنے بھی لگ گیا تھا۔‬
‫"میں سوچ رہا ہوں کہ پرسوں سے‬
‫جوائنگ دوں" ناشتے پر سب کے ساتھ‬
‫بیٹھے ہوۓ ‪..‬نواب شاہد نے کہا۔‬
‫"ہاں ٹھیک ہے مگر میں چا رہا تھا کہ‬
‫اب رخصتی کرکے تمہارے ولیمے کا‬
‫فنکشن اناؤنس کريں۔" عاصم صاحب‬
‫کے کہنے پر اسکی نظر سامنے بیٹھی‬
‫ہالہ کی طرف اٹھی اس نے بھی اسی‬
‫لمحے ‪.‬نواب شاہد کو ديکھا۔ اسکی‬
‫لرزتی پلکوں کو ديکھ کر ايک‬
‫مسکراہٹ ‪.‬نواب شاہد کے ہونٹوں پر آئ‬
‫جس کو اس نے جوس کا گالس پیتے‬
‫ہوۓ چھپايا۔‬
‫ئ تھنگ ولیمہ ابھی رہنے ديں "ڈيڈی آ‬
‫کیونکہ‪ .......‬گیدرنگ میں کوئ بھی‬
‫پکچر ہالہ کی لیک ہو سکتی ہے اور‬
‫ابھی کوئ رسک لینا ٹھیک نہیں۔"‬

‫نواب شاہد کی بات انکے دل کو لگی۔‬


‫چلو تم الہور سے چھٹیاں لے کر‬
‫نیکسٹ ويک تک آجاؤ تو گھر میں ہی‬
‫چھوٹا سا کوئ گیٹ ٹوگیدر کر لیتے‬
‫ہیں۔ ہالہ يہیں رہے گی۔"‬
‫"ٹھیک ہے‪ ،‬آپ ارلی مورننگ کی‬
‫میری فالئٹ بک کروا ديں"‬
‫رات میں ‪.‬نواب شاہد کی ممی نے اسے‬
‫‪.‬نواب شاہد کی پیکنگ کرنے کے لئیے‬
‫کہا۔‬

‫نواب شاہد کہیں باہر گیا ہوا تھا ہالہ نے‬


‫شکر کرتے جلدی سے جا کر اسکی‬
‫پیکنگ شروع کی۔ ابھی وہ واش روم‬
‫سے اسکی شیونگ کٹ لینے گئ ہی‬
‫تھی کہ اسکے روم کا ڈور کھلنے کی‬
‫آواز آئ۔‬
‫اب ہالہ پريشان تھی کہ اندر ہی رہے يا‬
‫باہر جاۓ۔‬
‫نواب شاہدحیسے ہی اندر آيا تو سامنے‬
‫بیڈ پر اپنا بیگ ديکھ کر يہی سمجھا کہ‬
‫ممی اسکی چیزيں رکھ رہی ہیں۔‬
‫"ممی میری وہ بلیک شرٹ ضرور‬
‫رکھئیے گا" واش روم کا کھال دروازہ‬
‫ديکھ کر وہ يہی سمجھا کہ ممی اندر‬
‫ہیں بیڈ کے بائیں جانب لگے شیشے‬
‫میں اپنے بالوں میں برش کرکے‬
‫جیسے ہی وہ پلٹا ہالہ کو اپنی چیزيں‬
‫رکھتا ديکھ کر خوشگوار حیرت ہوئ۔‬
‫"اوہو! شوہر کی خدمتیں ہو رہی ہیں۔‬
‫صبح سے کہاں چھپی ہوئیں تھیں آپ۔‬
‫رخصتی کی بات اس لئیے نہیں کی تھی‬
‫کہ آپ پردہ سٹارٹ کر ديں‪.‬نواب شاہد‬
‫اسکی جانب آتے ہوۓ بوال۔‬
‫"آپ چپ کرکے ابھی باہر چلے جائیں‬
‫تاکہ میں سکون سے آپکی پیکنگ‬
‫کردوں۔ کچھ مس ہوگیا تو بعد میں‬
‫مجھے مت ڈانٹئیے گا۔"‬
‫"نا تو آج میں اس روم سے جاؤں گا‬
‫اور نہ آپکو جانے دوں گا‪.‬نواب شاہد کی‬
‫بات پر اسکا منہ اور آنکھیں دونوں‬
‫کھل گئیں۔‬
‫"لگتا ہے ابھی تک دماغ سے چوٹ کا‬
‫اثر نہیں گیا" ہالہ نے چڑ کر اس پر‬
‫طنز کیا جو بیڈ پہ بیگ کے پاس بیٹھا‬
‫دونوں ہاتھ پیچھے بیڈ پر رکھے اسے‬
‫شرارتی مسکراہٹ سے ديکھ رہا تھا۔‬
‫"میرا خیال ہے میں ممی کو ہی باقی کی‬
‫پیکنگ کے لئیے بھیجتی ہوں" اس نے‬
‫خفگی سے منہ پھال کر کمرے سے‬
‫جانے کے لئیے قدم بڑھاۓ کے ہاتھ‬
‫‪.‬نواب شاہد کی گرفت میں آگیا۔‬
‫"اچھا نہ يار اپنی کیوٹو سی بیوی کو‬
‫تنگ نہ کروں تو کس کو کروں" اس‬
‫نے کھڑے ہوتے ہالہ کے گال کو پیار‬
‫سے کھینچتے ہوۓ کہا اور پھر بیڈ کے‬
‫بالکل سامنے لگے سی ڈی پلئیر کے‬
‫سامنے جا کر سی ڈيز چیک کرنے لگا۔‬
‫ہالہ نے سکھ کا سانس لیا۔‬
‫کچھ دير بعد ايک سونگ سلیکٹ کرکے‬
‫اس نے ہالہ کو پکارا۔‬
‫"ايک وش پوری کر سکتی ہیں‬
‫میری‪.‬نواب شاہد نے بہت آس سے‬
‫پوچھا۔‬
‫"وہ کیا" ہالہ نے بیگ کی زپ بند‬
‫کرتے ہوۓ کہا وہ يہی سمجھی کہ کافی‬
‫يا چاے کی فرمائش ہوگی۔‬

‫نواب شاہد نے پلے کا بٹن آن کیا اور‬


‫ہالہ کے پاس آکر اسکی جانب ہاتھ‬
‫بڑھايا۔ "مے آئ ہالڈ يور ہینڈ لیڈی"‬
‫اسکی مسکراہٹ نے ہالہ کو مسمرائز‬
‫کیا اس نے کچھ کنفیوڑ ہو کر اسکے‬
‫ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔‬
‫نواب شاہد نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر‬
‫اسکے بالوں سے کیچر اتارا اور بیڈ پر‬
‫اچھاال۔‬
‫شولڈر پر رکھا اسکا ايک ہاتھ اپنے‬
‫اور اپنا باياں ہاتھ اسکی کمر کے گرد‬
‫باندھا۔‬
‫ہالہ حیرت سے يہ سب ديکھ رہی تھی۔‬
‫اب اسٹیريو پر‬
‫‪Norah Jones‬‬
‫کی آواز ابھری۔‬
Come away with me in the
night
Come away with me
And I will write you a song
Come away with me on a bus
Come away where they can't
tempt us
With their lies
I want to walk with you
On a cloudy day
In fields where the yellow
grass grows knee-high
So won't you try to come
Come away with me and we'll
kiss
On a mountaintop
Come away with me
And I'll never stop loving you
And I want to wake up with
the rain
Falling on a tin roof
While I'm safe there in your
arms
So all I ask is for you
‫‪To come away with me in the‬‬
‫‪night‬‬
‫‪Come away with me‬‬
‫"لٹس جوائن مائ اسٹیپس" آگے‬
‫پیچھے اپنے پاؤں کو لے جاتے وہ‬
‫اسے الئٹ رومانٹک کپل ڈانس کروا رہا‬
‫تھا۔‬
‫"آئ کانٹ ڈو دس ‪.‬نواب شاہد" ہنستے‬
‫ۓ ہالہ بولی۔ہو‬
‫"واۓ آر يو ڈونگ دس" آہستہ آہستہ‬
‫اسکے ساتھ فدم مالتے ہالہ نے اسکی‬
‫مسکراتی نظروں میں ديکھا۔‬
‫کتنا ڈفرنٹ شخص ہللا نے اسے ديا تھا‬
‫جو اسکے ہر نئے دن میں اسے‬
‫سرپرائز کرتا تھا۔‬
‫"يہ میری بچپن کی وش تھی کہ میں‬
‫اپنی وائف کے ساتھ کپل ڈانس‬
‫کروں‪...‬نواب شاہد کے غیر سنجیدہ‬
‫جواب نے ہالہ کو قہقہہ لگانے پر‬
‫مجبور کیا۔‬

‫نواب شاہدنے محبت پاش نظروں سے‬


‫اسکے ہنستے چہرے کو ديکھا۔‬
‫پچھلے کچھ دن وہ ہالہ کو اپنے لئیے‬
‫اتنا روتا ديکھ چکا تھا کہ اب اسکی‬
‫ہنستی مسکراتی ياد اپنے ساتھ لے کر‬
‫جانا جاتا تھا۔‬
‫بے اختیار ‪.‬نواب شاہد نے اسکے‬
‫ماتھے پر بوسہ دے کر اسے نطر بد‬
‫سے محفوظ رہنے کی دعا کی۔‬
‫"آئ وانٹ ٹو میک ايوری نائٹ اينڈ ڈے‬
‫ممبريبل ديٹ وی سپینڈ ٹوگیدر۔" اسکی‬
‫گمبھیر جذبوں سے چور آواز پر ہالہ‬
‫نے اسکے سینے پر سر رکھ کر خود‬
‫کو اسکی جذبے لٹاتی نظروں سے‬
‫چھپايا‪.‬نواب شاہد اسکی معصوم سی ادا‬
‫پر اپنی مسکراہٹ نہیں روک پاي۔‬
‫____________‬
‫اگلے دن صبح اسکی فالئٹ تھی۔ سب‬
‫اسے چھوڑنے جا رہے تھے۔ ہالہ بھی‬
‫ساتھ تھی نقاب میں۔‬

‫نواب شاہد سب سے مل کر جانے لگا تو‬


‫ہالہ آنسو صاف کرنے لگی کہ نجانے‬
‫کیسے ہالہ کا نقاب نیچے گر گیا۔ اس‬
‫نے گھبرا کر جلدی سے نقاب اوپر کرنا‬
‫چاہا کہ تب تک دير ہو چکی تھی اور‬
‫اويس شاہ جس کی نظر غیر اختیاری‬
‫طور پر ہالہ پر پڑھی تھی اسکے بغیر‬
‫نقاب کے چہرے کو ششدر کھڑا ديکھتا‬
‫رہا۔وہ بھی اسی فالئٹ سے الہور جا رہا‬
‫تھا۔يہ وہی ايس ايچ او تھا جس نے ہالہ‬
‫کے قاتلہ ہونے کی خبر اخبار میں‬
‫چھپوائ تھی اور يہ رحمان شاہ کا بیٹا‬
‫بھی تھا‬
‫"ڈيڈی آئ ہیو فاؤنڈ ديٹ بچ" زمان شاہ‬
‫نے اپنے باپ کو میسج ٹائپ کیا۔‬
‫ساتھ ہی باپ کی کال آگئ۔ اس نے‬
‫ساری تفصیل اسے بتائ۔‬
‫عاصم ملک کو وہ اچھی طرح جانتے‬
‫تھے۔ مگر يہ نہیں جانتے تھے کے وہ‬
‫سرفراز کے بیسٹ فرينڈ بھی تھے۔اور‬
‫نہ ہی يہ جانتے تھے کے ‪.‬نواب شاہد‬
‫ان کا بیٹا ہے۔‬
‫اتفاق سے دونوں جہاز میں بزنس‬
‫کالس میں تھے‪.‬نواب شاہد آگے بیٹھا‬
‫تھا اور زمان شاہ کو پچھلی سیٹس پر‬
‫جانا تھا۔ جاتے جاتے اس نے بہت‬
‫طريقے سے ‪.‬نواب شاہد کی پکچرز‬
‫اپنے موبائل میں لیں۔اپنے کارندوں کو‬
‫سینڈ کي۔‬
‫"آئ نیڈ آل دا انفارمیشن ريگارڈنگ‬
‫دس گاۓ ارجنٹلی"‬
‫اور ساتھ ہی ايک اور بندے کو کال کی‬
‫جو کہ اسالم آباد میں تھا اسے عاصم‬
‫ملک کے گھر کی نگرانی پر لگايا۔‬
‫نواب شاہد ہالہ کو سوچتے ہوۓ بے حد‬
‫اداس تھا مگر خوشی بھی تھی کہ اب‬
‫ان کے ايک ہونے میں صرف ايک‬
‫ہفتے کی دوری تھی۔‬
‫ہالہ کا کل کی ہنسی اور آج کی اداسی ہر‬
‫ہر روپ اسکی آنکھوں کے سامنے آرہا‬
‫تھا۔ کانوں میں ہینڈ فری لگاۓ سے‬
‫سیٹ کی پشت سے ٹکاۓ وہ دشمن‬
‫جاں اسے بے حد ياد آرہی تھی۔‬
‫پھر اس نے آنکھیں کھول کرہالہ کے‬
‫نمبر پر‬
‫‪Bryan Rice‬‬
‫کا سونگ شئیر کیا‬
‫ہالہ نے حیسے ہی واٹس ايپ میسج‬
‫اوپن کیا ‪.‬نواب شاہد کے شئیرڈ سانگ‬
‫کو ديکھا۔ اس نے ہینڈ فری بیگ سے‬
‫نکال کر کانوں میں لگائ۔وہ لوگ گھر‬
‫واپس جارہے تھے۔ سب اپنی اپنی جگہ‬
‫‪.‬نواب شاہد کے لئیے اداس تھے۔‬
‫ہالہ کو بہت اچھا لگتا تھا جب نواب‬
‫شاہد اپنی فیلرگز کے اظہار کے لئیے‬
‫ہالہ سے سونگز شئیر کرتا تھا۔‬
‫اب بھی‬
‫‪Bryan Rice‬‬
‫کی آواز نے ہالہ کا دل کھینچ لیا‬
Hey baby, when we are
together, doing things that we
love
Every time you're near I feel
like I'm in heaven, feeling high
I don't want to let go, girl
I just need you to know girl
I don't wanna run away, baby
you're the one I need tonight
No promises
Baby, now I need to hold you
tight, I just wanna die in your
arms
Here tonight
Hey baby, when we are
together, doing things that we
love
Every time you're near I feel
like I'm in heaven, feeling high
I don't want to let go, girl
I just need you to know girl
I don't wanna run away, baby
you're the one I need tonight
No promises
Baby, now I need to hold you
tight, I just wanna die in your
arms…
I don't want to run away, I
want to stay forever, thru time
and time
No promises
I don't wanna run away, I don't
wanna be alone
‫‪No Promises‬‬
‫‪Baby, now I need to hold you‬‬
‫‪tight, now and forever my love‬‬
‫‪No promises‬‬
‫ہالہ نے سونگ سنتے ‪.......‬نواب شاہد‬
‫کا ايک اور میسج ريسیو کیا۔‬
‫مسنگ دا السٹ نائٹ وائل لسنگ ٹو‬
‫دس سانگ‬
‫"مسنگ يو ٹو ہبی"ہالہ نے بمشکل‬
‫اپنے آنسو روکتے ہوۓ کہا۔ اسے ايسا‬
‫لگ رہا تھا جیسے وہ پھر سے تپتی‬
‫دھوپ میں کھڑی ہوگئ ہو۔‬
‫نواب شاہد کی موجودگی کسی ٹھنڈی‬
‫چھاؤں سے کم نہیں تھی۔ مگر يہ سوچ‬
‫کر خود کو تسلی دی کہ ايک ہفتے کی‬
‫ہو تو بات ہے۔ پھر کوئ دوری انکے‬
‫درمیاں نہیں آۓ گی۔‬
‫___________________‬
‫الہور سے آگے ايک گاؤں میں رحمان‬
‫شاہ نے اپنا اڈا بنايا ہوا تھاجہاں سب‬
‫غلط کام وہ کرتا تھا۔ آج بھی وہ وہیں‬
‫موجود تھا۔ زمان شاہ سیدھا اس اڈے‬
‫پر پہنچا۔‬
‫جہاں رحمان بے چینی سے اسکا انتظار‬
‫کر رہا تھا۔ زمان شاہ الؤنج میں داخل‬
‫ہوا۔ باپ سے بغلگیر ہونے کے بعد اس‬
‫نے ساری تفصیل پھر سے بتائ اور يہ‬
‫بھی کہ اس نے عاصم کے گھر کی‬
‫نگرانی شروع کروا دی ہے۔ پھر اس‬
‫نے ‪.‬نواب شاہد کی تصوير بھی انہیں‬
‫دکھائ۔‬
‫رحمان شاہ نے اسکے کندھے پر خوش‬
‫ہو کر تھپکی دی۔ ہالہ کی طرف تو بہت‬
‫سے بدلے نکلتے تھے۔ ناصرف وہ‬
‫ثبوت جو ہالہ کے پاس تھے وہ‬
‫نکلوانے تھے بلکہ وہ تمام ثبوت بھی‬
‫انہیں چاہئیے تھے جن کا علم صرف‬
‫ہالہ کو تھا۔‬
‫کیونکہ سرفراز کی موت کے بعد اس‬
‫نے بہت کوشش کی کہ اسے وہ ثبوت‬
‫مل جائیں جو کہ اگر آئ ايس آئ کے‬
‫ہاتھ لگ جاتے تو اسے پھانسی کے‬
‫پھندے سے کوئ نہیں بچا سکتا تھا۔‬
‫ہالہ سے يہ غلطی ہوئ کہ جب رحمان‬
‫شاہ نے اسے کڈنیپ کیا تو وہ اس نے‬
‫غصے میں کہہ ديا کہ وہ سرفراز کی‬
‫بیٹی ہے اور اسکے پاس وہ تمام ثبوت‬
‫ہیں جو وہ پولیے کو دکھا کر انہیں جیل‬
‫کرواۓ گی۔‬
‫ان ثبوتوں کا علم صرف تنوير کو تھا‬
‫اور اس نے ہالہ کے بڑے ہونے کے‬
‫بعد اسے بھی بتاديا تھا۔‬
‫مگر يہ نہیں پتہ تھا کہ وہ اتنی بڑی بے‬
‫وقوفی کر جاۓ گی اسی لئیے اس نے‬
‫ہالہ کو وہاں سے اس رات بھگا ديا تھا۔‬
‫اور انہی ثبوتوں کی وجہ سے رحمان‬
‫شاہ اس کے خون کا پیاسا ہوگیا تھا۔‬
‫شام تک‪......‬نواب شاہدکے بارے میں‬
‫زمان شاہ کو ساری انفارمیشن مل چکی‬
‫تھی سواۓ اس کے کہ ہالہ اسکے‬
‫نکاح میں ہے۔‬
‫"زمان اب اس لڑکی پر ہاتھ ڈالنا اتنا‬
‫آسان نہیں۔ عاصم ملک جن ہے آئ ايس‬
‫آئ کا۔" رحمان شاہ نے فکر مندی سے‬
‫کہا۔‬
‫"آپ فکر نہ کريں ايسا جال پھینکوں گا‬
‫کہ مچھلی باآسانی میرے قابو میں‬
‫آجاۓ گی۔اس کمینی کا وہ بیگ ديں جو‬
‫اس رات يہیں رہ گیا تھا" اپنی شاطر‬
‫مسکراہٹ سے اس نے باپ کو تسلی‬
‫دی۔‬
‫دو دن بعد زمان شاہ ‪......‬نواب شاہد کے‬
‫آفس میں پہنچ چکا تھا جہاں وہ اپنے‬
‫آرمی کے يونیفارم میں تھا۔‬
‫"سر ايس ايچ او زمان شاہ آپ سے ملنا‬
‫چاہتے ہیں"‬
‫نواب شاہد اسکا نام سن کر ٹھٹھکا۔‬
‫"اندر بھیج دو" اس نے لمحے کے‬
‫توقف کے بعد کہا۔‬
‫تھوڑی دير بعد زمان شاہ اندر داخل ہوا۔‬
‫دونوں نے مصافحہ کیا۔‬
‫"جی فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ہوں‬
‫آپکی‪.‬نواب شاہد نے اس سے اپنے‬
‫پروفیشنل انداز میں پوچھا۔‬
‫"خدمت تو نہیں بس ايک ہماری قیمتی‬
‫چیز آپکی تحويل میں ہے وہ چاہئیے"‬
‫زمان شاہ نے اپنی کرخت مسکراہٹ‬
‫سے‬
‫نواب شاہدسے کہا۔‪..‬نواب شاہديکدم‬
‫الرٹ ہوا۔‬
‫"میں سمجھا نہیں"‬
‫"میری کزن ہالہ اسے کچھ دن پہلے‬
‫میں نے اسالم آباد ائیر پورٹ پر آپکی‬
‫فیملی کے ساتھ ديکھا ہے۔"‬
‫"تو‪..‬نواب شاہد نے اپنی بے تاثر‬
‫آنکھوں سے اسے ديکھا۔‬
‫"تو يہ کہ آپ اسے ہمیں واپس کريں‬
‫اور يہ بھی کے ايک معصوم کی وہ جان‬
‫لے کر وہ بھاگی ہے۔ میں چونکہ ايک‬
‫ذمہ دار آفیسر ہوں اور میں رشتہ‬
‫داروں کو بھی سزا دينے سے گريز‬
‫نہیں کرتا اور آپ کیسے آرمی آفیسر‬
‫ہیں جس نے ايک قاتلہ کو پناہ دی ہوئ‬
‫ہے۔"‬
‫"ہاہاہا!ذمہ دار جو اپنی ہی کزن کی‬
‫عزت پر اپنے ماتحتوں سے ڈاکہ‬
‫ڈلواۓ‪.‬نواب شاہد کے کہنے پر اس نے‬
‫قہقہہ لگايا۔‬
‫"وہ میری منکوحہ ہے سر‪ ،‬میں مر کر‬
‫بھی ايسا نہیں کرسکتا"‬
‫يہ کیا بکواس ہے" زمان کی بات نے‬
‫اسکا دماغ بھک سے اڑا ديا‬
‫بکواس نہیں سچ ہے" زمان کی بات پر‬
‫اس نے مٹھیاں بھینچی۔‬
‫"ثبوت؟؟؟"‬
‫نواب شاہدنے چیلینجنگ نظروں سے‬
‫اسے ديکھا۔‬
‫ضرور" خباثت سے مسکراتے اس نے‬
‫اپنی جیب سے ايک پیپر نکال کر اسکی‬
‫جانب بڑھايا۔‬

‫نواب شاہد نے غصے سے وہ پیپر‬


‫اسکے ہاتھ سے لیا اور اسے پڑھ کر‬
‫اسے لگا اسکے آفس کی چھت اس پر‬
‫گرگئ ہو۔‬
‫"اتنا بڑا دھوکہ۔" وہ ‪......‬نکاح نامہ تھا‬
‫جس پر ہالہ کے ہی سائن تھے۔ وہ ان‬
‫سگنیچرز کو کیسے بھول سکتا تھا۔‬
‫"امید کرتا ہوں جلد ہی اسے ہمارے‬
‫حوالے کروگے نہیں تو بندہ نکلوانے‬
‫کے اور بھی بہت سے طريقے مجھے‬
‫آتے ہیں" زمان شاہ اپنی جگہ سے‬
‫کھڑا ہوتا دھمکی دے کر اسے حیران‬
‫پريشان چھوڑ کر چال گیا۔‬
‫_____________________‬
‫زمان شاہ کے چلے جانے کے بعد‬
‫‪.‬نواب شاہد نے اپنا نکاح نامہ نکاال۔ وہ‬
‫گرنے کے سے انداز سے اس پر بیٹھا‬
‫اور سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ يہ‬
‫قسمت نے کیسا مذاق کیا تھا۔جسے وہ‬
‫اپنا سب کچھ مان چکا تھا وہ اس طرح‬
‫اسکے جذبوں کا استحصال کرے گی وہ‬
‫سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔‬
‫اس نے فون اٹھا کر کوئ نمبر ماليا۔‬
‫"اسالم آباد کی ويری نیکسٹ فالئٹ کب‬
‫کی ہے اور اس میں ايک سیٹ اويلیبل‬
‫ہو گی۔ نہیں بھی ہے تو کسی طرح‬
‫ارينج کروا کر مجھے کال کرو۔"‬
‫پانچ منٹ بعد ہی اسکے ماتحت کی کال‬
‫آئ۔‬
‫"ہیلو‪ ،‬اوکے چار بجے ٹھیک ہے۔"‬
‫اس نے گھڑی پر ٹائم ديکھا تو تین بج‬
‫رہے تھے۔ وہ اپنے آفس میں بنی‬
‫الماری کی جانب بڑھا۔ وہاں سے جینز‬
‫اور ٹی شرٹ نکالی۔ وہ آفس میں کچھ‬
‫کپڑے ضرور رکھتا تھا کہ کبھی کبھار‬
‫اسے وہیں سے آؤٹ آف سٹی جانا پڑھ‬
‫جاتا تھا۔‬
‫وہ تیزی سے واش روم کی جانب بڑھا۔‬
‫__________________‬
‫شام چھ بجے کا وقت تھا ہالہ اس وقت‬
‫گھر میں اکیلی تھی۔ رمشا اور‪.‬نواب‬
‫شاہد کی ممی اسی کے لئیے شاپنگ‬
‫کرنے گئیں تھیں۔ جبکہ عاصم صاحب‬
‫بھی کسی دوست سے ملنے گۓ ہوۓ‬
‫تھے۔‬
‫وہ الن میں رکھی کرسیوں پر بیٹھی شام‬
‫کا منظر انجواۓ کر رہی تھا کہ مین گیٹ‬
‫سے ‪...‬نواب شاہد کو آتے ديکھ کر وہ‬
‫حیرت اور خوشی سے يکدم اپنی جگہ‬
‫سے اٹھی۔‬
‫نواب شاہد سیدھا اسی کی جانب آيا۔‬
‫"ممی کہاں ہیں"‬
‫نہ سالم دعا نہ کوئ گرم جوشی۔ہالہ‬
‫يکدم ٹھٹکی۔‬
‫"اسالم علیکم کیسے ہیں آپ‪ ،‬آپ نے‬
‫بتايا ہی نہیں اپنے آنے کا" ہالہ نے‬
‫خفگی سے کہا۔‬
‫"جتنا پوچھا ہے اتنا جواب دو‪..‬نواب‬
‫شاہد کے سخت لہجے پر وہ ہکا بکا رہ‬
‫گئ۔‬
‫"ممی اور رمشا شاپنگ کے لئیے گئ‬
‫ہیں اور ڈيڈی بھی نہیں ہیں" وہ بھی‬
‫اب ان دونوں کو ممی اور ڈيڈی ہی کہتی‬
‫تھی کہ يہ تاکید انہوں نے ہی کی تھی۔‬
‫"پانی کا گالس لے کر میرے روم میں‬
‫آؤ‪.‬نواب شاہد غصے سے اسے حکم‬
‫ديتا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اندر چال گیا۔‬
‫ہالہ پريشان ہوتی پانی کا گالس لے کر‬
‫زينہ طے کرنے لگی۔‬
‫اسے تو ضامن کا اجنبی لہجہ پريشان‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫ناک کر کے وہ کمرے میں آئ تو نظر‬
‫سامنے بیڈ پر ٹانگین لٹکا کر‬
‫بیٹھے‪.‬نواب شاہد پر پڑی۔‬
‫وہ ڈرتے ہوۓ اسکے پاس آئ اور پانی‬
‫کا گالس ديا جسے وہ ايک سانس میں‬
‫خالی کر گیا۔ پھر غصے سے پاس‬
‫کھڑی ہالہ کو ديکھا جو اسکی کے‬
‫غصے کو سمجھنے سے قاصر تھی۔‬

‫نواب شاہد کیا بات ہےکیا ہوا ہے" اس‬


‫نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا اور‬
‫يہی پوچھناغضب ہو گیا۔‬
‫نواب شاہد نے پوری قوت سے گالس‬
‫سامنے ديوار پر دے مارا جو چناکے‬
‫سے ٹوٹ کر گرا اور ہالہ کے حلق سے‬
‫چیخ نکل گئ۔‬
‫"کیا ہوا ہے۔۔۔۔کیا ہوا ہے مجھے۔۔۔يہ‬
‫پوچھو کیا قیامت گزری ہے مجھ‬
‫پر‪.‬نواب شاہد بیڈ سے اٹھتے زور سے‬
‫چاليا۔‬
‫"يہ ديکھو۔۔۔ديکھو اسے کیا ہے‬
‫يہ‪.‬نواب شاہدنے غصے سے اسکے‬
‫سامنے وہ نکاح نامہ لہرايا جو زمان‬
‫شاہ اسے ديکھ کر گیا تھا۔‬
‫ہالہ نے لرزتے ہاتھوں سے اسے پکڑا‬
‫اور اسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ‬
‫گئیں۔‬
‫"يہ يہ۔۔۔۔جھوٹ ہے" بے اختیار آنسو‬
‫اس کے گالوں پر پھسلے روتی ہوئ‬
‫آواز میں اس نے اپنی بے گناہی کا‬
‫ثبوت دينا چاہا کہ ‪.‬نواب شاہد کے زور‬
‫دار تھپڑ سے وہ الٹ کر نیچے گری۔‬

‫نواب شاہد نے کوئ پرواہ نہ کرتے‬


‫اسکے پاس بیٹھتے بالوں سے پکڑ کر‬
‫اسکا چہرہ اونچا کیا اور اپنا نکاح نامہ‬
‫اسکے آگے کیا۔‬
‫اب اسکو اور اسکو ديکھو مجھےا‬
‫کہاں کوئ فرق ہے بتاؤ ۔"‬

‫نواب شاہد نے غصے سے دانت پیستے‬


‫اسکے آگے زمین پر دونوں نکاح نامے‬
‫رکھے اور اسکے بال جھٹکے سے‬
‫چھوڑے۔‬
‫ہالہ دونوں کو ديکھ کر سر پکڑ کر بیٹھ‬
‫گئ۔‬
‫اسے نہیں ياد پڑتا تھا کہ اس رات ايسا‬
‫کچھ ہوا تھا۔تو پھر کیسے اسکے سائن‬
‫انہیں پتہ چلے۔‬
‫پھر سپارک ہوا کہ اس رات اسکا بیگ‬
‫وہیں رہ گیا تھا اور اسکی چیک بک۔۔۔‬
‫بس پھر وہ سب سمجھ گئ۔‬
‫مگر اس نے ‪.‬نواب شاہد کو کوئ‬
‫وضاحت نہ دينے کا فیصلہ کر لیا۔‬
‫"يہ سب جھوٹ ہے مگر پھر بھی میں‬
‫اب آپکو کوئ وضاح نہیں دوں گی۔"‬
‫ايک عزم سے اٹھتے وہ ‪.‬نواب شاہد‬
‫کے مقابل آکر کھڑی ہوئ۔‬
‫"کسی خوش فہمی میں مت رہنا تم اگر‬
‫میری نہیں ہوئیں تو کسی کی بھی نہیں‬
‫ہوگی میں زندہ تمہیں زمین میں گاڑھ‬
‫دوں گا مگر کسی اور کے حوالے نہیں‬
‫کروں گا۔"‬
‫نواب شاہد نے اسکے بازو کو سختی‬
‫سے پکڑتے ہوۓ کہا اور جھٹکے سے‬
‫چھوڑ کر چال گیا۔‬
‫جبکہ وہ قسمت کی اس ستم ظريفی پر‬
‫سواۓ ماتم کے اور کچھ نہیں کر سکتی‬
‫تھی۔‬
‫‪___________________-‬‬
‫ابھی وہ گھر سے باہر ہی نکال تھا کہ‬
‫اسے اويس عالم کی کال آگئ۔‬
‫"کہاں ہو فورا ّ ّّ میرے پاس پی سی‬
‫میں پہنچو" اويس عالم کسی کیس کے‬
‫سلسلے میں راولپنڈی ہی آۓ ہوۓ‬
‫تھے۔ اور پی سی میں ٹہرے تھے۔‬
‫انہیں تنوير کے تھرو اس نقلی نکاح‬
‫نامے کا پتہ چال تھا۔انہوں نے ‪.‬نواب‬
‫شاہدکے آفس کال کی وہاں سے پتہ چال‬
‫کہ وہ اسالم آباد آيا ہوا ہے۔ انہوں نے‬
‫کال کر کے اسے فورا ّ ّّ باليا۔‬
‫نواب شاہد کا دماغ اس وقت کھول رہا‬
‫تھا۔‬
‫اس نے گاڑی کا رخ ہوٹل کی جانب کیا۔‬
‫پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے اس نے‬
‫دوبارہ انہیں کال کی اور کمرہ نمبر‬
‫پوچھا۔پھر سیدھا انکے کمرے کی جانب‬
‫بڑھا۔‬
‫"زمان آج تمہارے پاس آيا تھا" اس‬
‫نے انہیں ساری کہانی کہہ سنائ۔‬
‫"تمہارے خیال میں يہ صحیح ہے يا‬
‫غلط" انہوں نے اسے جانچتی نظروں‬
‫سے ديکھا۔‬
‫"سر وہ سائنز ہالہ کے ہی ہیں۔ اور‬
‫بالفرض نہیں ہیں تو انکے پاس کہاں‬
‫سے اسکے اتنے اگزٹ سائنز آۓ‪.‬نواب‬
‫شاہد کی بات پر وہ مسکراۓ اور پھر‬
‫اسکی تنوير سے بات کروائ جس نے‬
‫اس چیک بک کا راز کھوال اور انکے‬
‫ايک ماہر بندے کا بتايا جس نے ہالہ‬
‫کے سائن کی کاپی کی تھی۔‬
‫نواب شاہد تو ششدر رہ گیا۔۔يہ کیا ہوگیا۔‬
‫اس نے کال بند کرکے فون اويس‬
‫صاحب کو پکڑايا۔‬
‫اسکی حالت ديکھ کر انہیں يہ اندازہ‬
‫لگانے میں دير نہیں لگی کہ وہ ہالہ کے‬
‫ساتھ کچھ غلط کر بیٹھا ہے۔‬
‫‪.‬نواب شاہد غلط فہمی میں کس حد تک‬
‫نقصان کر چکے ہو‪ ،‬کیا واپسی کا کوئ‬
‫راستہ کھال چھوڑ کر آۓ ہو" انہیں سب‬
‫سے پہلے شک يہی ہوا کہ کہیں ‪.‬نواب‬
‫شاہد ہالہ کو طالق نہ دے آيا ہو۔‬
‫"بہت برا کیا ہے پھر بھی شکر ہے کہ‬
‫انتہائ حد تک نہیں پہنچا‪.‬نواب شاہد‬
‫ۓ بوال۔انکی بات کا مفہوم سمجھتے ہو‬
‫"‬
‫نواب شاہد جذبات کو عقل پر کبھی بھی‬
‫حاوی مت آنے دينا آئندہ اور ياد رکھنا‬
‫غلطیاں ہر کوئ کرتا ہے مگر ان سے‬
‫ہمیشہ سبق سیکھنا دوہرانا مت۔ ہللا تم‬
‫دونوں کے لئیے بہتر کرے۔وہ سب راز‬
‫جو ہم نے سرفراز کو دئیے تھے اس‬
‫نے بینک کے الکر میں رکھواۓ تھے‬
‫اور اب تنوير مجھے وہ سب دے چکا‬
‫ہے۔ ہالہ کو بھی پتہ تھا اور اس نے‬
‫غلطی سے انکو بتا کر اپنے لئیے مزيد‬
‫خطرہ مول لے لیا۔ اب اس کی اور بھی‬
‫زيادہ پروٹیکشن کی ضرورت‬
‫ہے۔کیونکہ رحمان کسی بھی وقت اب‬
‫کچھ بھی کر سکتا ہے۔‬
‫اسکے اريسٹ وارنٹ میں بنوا رہا ہوں‬
‫اور چیف آف آرمی سٹاف کو انوالو کر‬
‫رہا ہوں تاکہ اسکی بچنے کی کوئ‬
‫صورت نہ ہو۔ امید ہے کل تک کام‬
‫ہوجاۓ گا اور پھر ہی ہم اس پہ ہاتھ ڈال‬
‫سکیں گے۔ تب تک تمہیں بہت الرٹ رہنا‬
‫ہے۔"‬
‫ابھی وہ بات کر ہی رہے تھے کہ ضامن‬
‫کے موبائل پر انجان نمبر سے کال آئ۔‬
‫"ہیلو" "میں نے کہا تھا نہ سیدھی‬
‫طرح اسے میرے حوالے کردو مگر‬
‫تمہیں شايد بات سمجھ نہیں آئ۔ اپنی‬
‫چڑيا میں تمہاری قید سے نکال اليا ہوں‬
‫مگر تم نے اسے جو پروٹیکشن پروائیڈ‬
‫کرنے کی غلطی کی اسکی سزا جلد ہی‬
‫تمہیں ملے گی۔"‬
‫"کیا بکواس کر رہے ہو تم۔۔ہیلو ہیلو۔۔"‬
‫صحیح معنوں میں تو قیامت اب ٹوٹی‬
‫نواب شاہد زمان شاہ کی آواز نے گويا‬
‫صور پھونکا تھا اسکے کانوں میں۔‬
‫"کیا ہوا ہے" اويس عالم نے سر‬
‫پکڑے ‪.‬نواب شاہدکو جھنجھوڑا۔‬
‫"اس باسٹرڈ نے ہالہ کو کڈنیپ کر لیا‬
‫ہے۔" اسکے منہ سے بمشکل يہ الفاظ‬
‫نکلے۔‬
‫"فورا ّ گھر چلو" وہ دونوں تیزی سے‬
‫‪.‬نواب شاہد کے گھر کے‬
‫جاری ھے‪......‬‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬
‫‪#‬قسط_نمبر_‪7‬‬
‫)‪(Second last epi‬‬
‫نوابزادہ شاہد کے چلے جانے کے بعد‬
‫اسے لگا اس گھر میں اسکا دم گھٹ‬
‫جاۓ گا۔وہ کچھ دير کے لئیے يہاں سے‬
‫نکل جانا چاہتی تھی۔ اس نے آنسو‬
‫صاف کئیے‪.‬نوابزادہ شاہد کے کمرے‬
‫سے نکل کر وہ رمشا کے کمرے میں‬
‫آئ چادر اچھے سے لی منہ چھپايا‬
‫نیچے آئ اور باہر کے گیٹ کی جانب‬
‫بڑھی۔‬
‫ايک غلطی ‪.‬نوابزادہ شاہد نے کی تھی‬
‫اس پہ اعتبار نہ کرکے اب ايک غلطی‬
‫ہالہ کر رہی تھی اس چار ديواری سے‬
‫اکیلے نکلنے کی۔ اور پھر غلطیوں کا‬
‫تاوان تو بھرنا پڑتا ہے۔‬
‫"چاچا پلیز دروازہ کھول ديں میں بس‬
‫يہاں قريبی پارک تک جا رہی ہوں" اس‬
‫نے چوکیدار کو کہا۔‬
‫"مگر بیٹا آپ کو اکیلے جانے کی‬
‫اجازت نہیں"‬
‫انہیں عاصم صاحب نے سختی سے منع‬
‫کیا تھا کہ ہالہ کو اکیلے نہ نکلنے ديں۔‬
‫"باہر انکل کے گارڈز ہیں نہ آپ انکو‬
‫کہیں مجھے فالو کر لیں۔"‬
‫چاچا نے انہیں فون کیا اور يوں ہالہ‬
‫قريبی پارک تک آگئ۔‬
‫اس وقت وہ کہیں بھاگ جانا چاہتی تھی۔‬
‫وہ گال ابھی بھی سنسنا رہا تھا جہاں‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد نے تھپڑ مارا تھا۔ اس‬
‫تھپڑ سے بڑھ کر ‪.‬نوابزادہ شاہد کی بے‬
‫اعتباری اسے مار ڈال رہی تھی۔‬
‫کیا وہ اس قابل بھی نہیں تھی کہ اسے‬
‫ايک موقع بھی ‪.‬نوابزادہ شاہد ديتا۔‬
‫انہی سوچوں میں وہ آگے بڑھتی جا‬
‫رہی تھی۔ پارک میں اس وقت اکا دکا‬
‫لوگ موجود تھے۔‬
‫ہالہ يہ نہیں جانتی تھی کہ عاصم صاحب‬
‫کے کارندوں کے عالوہ زمان کے بندے‬
‫بھی اسے فالو کر رہے ہیں۔‬
‫زمان کے بندے ايک درخت کی اوٹ‬
‫میں عاصم صاحب کے بندوں کا نشانہ‬
‫لئیے ہوۓ تھے۔ انہوں نے ايسی گولیاں‬
‫انکی جانب پھینکی جن کی پسٹل سے‬
‫نکلنے کی کوئ آواز نہیں تھی اور‬
‫انکے آگے ايسا لیکوڈ لگا تھا جو انسان‬
‫کے جسم میں گولی کے تھرو جاتے ہی‬
‫اسے کچھ دير کے لئیے بے ہوش کر‬
‫ديتا ہے۔‬
‫جیسے ہی عاصم صاحب کے کارندے‬
‫بے ہوش ہوۓ زمان کے ايک شخص‬
‫ہالہ کے پاس آيا۔‬
‫جو بینچ پر اردگرد سے بے گانہ بیٹھی‬
‫تھی۔ اس نے پیچھے سے ايک رومال‬
‫ہالہ کے چہرے پر رکھا اور آہستگی‬
‫سے ہالہ کو اٹھا کر پارک کے پچھلے‬
‫راستے سے نکل گیا جہاں زمان شاہ‬
‫گاڑی میں بیٹھا تھا۔‬
‫_________________________‬

‫نوابزادہ شاہداويس عالم جیسے ہی گھر‬


‫پہنچے وہاں رمشا‪.،‬نوابزادہ شاہدممی‬
‫اور عاصم صاحب پہلے ہی موجود تھے‬
‫جنہیں چوکیدار نے ہالہ کے گھر سے‬
‫باہر پارک میں جانے کا بتا دياتھا۔‬
‫انہوں نے اپنے مزيد بندے پارک کی‬
‫جانب بھیج دئیے تھے۔‬
‫"کیا بکواس کر رہے ہو۔ ٹھیک ہے‬
‫انہیں ہاسپٹل پہنچاؤ"‬
‫"کیا ہوا" اويس صاحب نے عاصم ملک‬
‫سے پوچھا۔‬
‫"وہ دو لڑکے جو ہالہ کو فالو کر رہے‬
‫تھے وہ پارک میں بے ہوش ملے ہیں"‬
‫انہوں نے تفصیل بتائ۔‬
‫"مجھے سر باقر کو کال کرنی پڑے گی‬
‫اب انہیں کھال چھوڑنا خطرے سے خالی‬
‫نہیں"‬
‫اويس عالم نے چیف آف آرمی سٹاف کا‬
‫ذکر کرتے انہیں کال کی۔‬
‫کچھ دير بعد انکے پی اے نے الئن‬
‫تھرو کروائ۔‬
‫"ہیلو سر! کیسے ہیں آپ۔ سر آپ کو کل‬
‫ايک فائل بھیجوائ تھی۔ جی۔۔جی رحمان‬
‫شاہ کی۔ سر اسکے اڈوں پہ ريڈ کرنا‬
‫مسٹ ہوگیا ہے کیونکہ اس نے ہمیں‬
‫پرسنل اٹیک کیا ہے اور عاصم ملک کی‬
‫بہو کو کچھ دير پہلے کڈنیپ کیا ہے۔ سر‬
‫وہ بس ابھی تو نکاح کیا تھا۔ سر آپ کی‬
‫پرمیشن ہو تو آج رات ہی۔۔۔تھینک يو‬
‫سر‪ ،‬ہللا جافظ"‬
‫انکی گفتگو سے اتنا تو اندازہ ہو گیا‬
‫تھا کہ سر باقر نے انہیں پرمیشن دے‬
‫دی ہے۔‬
‫"سر نے کہا ہے آپ ريڈ کی تیاری کريں‬
‫انکا ايک بندہ ابھی اسکے وارنٹ‬
‫گرقتاری لے کر يہاں پہنچ رہا ہے۔"‬
‫انہوں نے‪.‬نوابزادہ شاہد کو ديکھتے‬
‫ہوۓ کہا کہ اسی وقت تنوير کی کال‬
‫آگئ۔‬
‫"ہاں تنوير کیا رپورٹ ہے۔" اويس‬
‫صاحب نے پوچھا۔‬
‫"سر وہ ہالہ کو لے کر اپنے اڈے پر ہی‬
‫ہیں۔ جلد آپ لوگ پہنچیں میں يہاں کے‬
‫کچھ راستے کلئیر کرواتا ہوں۔ اب بے‬
‫فکر ہو کر آئیں۔ میں نے اپنی ايک الگ‬
‫ٹیم اسکے خالف بنائ ہوئ ہے۔ ہم آپکو‬
‫اپ ڈيٹس ديتے رہیں گے۔"‬
‫يہ کہتے ساتھ ہی اس نے کال کاٹ دی۔‬
‫"الہور کال کرکے سب کو الرٹ کرو‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد۔" انہوں نے ‪.‬نوابزادہ‬
‫شاہد کو ہدايت دے کر سمیعہ کو کال‬
‫ک ی۔‬
‫"ہاں بیٹا میں تمہیں نمبر سینڈ کر رہا‬
‫ہوں يہ تنوير کا ہے تم اپنے سوفٹ وئیر‬
‫پر اسکی لوکیشن ابھی سرچ آؤٹ کرو‪،‬‬
‫ہم آج رات ہی ريڈ کر رہے ہیں۔"‬
‫ۓ سمیعہ کو ہدايت دے کر وہ فارغ ہو‬
‫ہی تھے کہ باقر صاحب کا بندہ وارنٹ‬
‫گرفتاری لے کر آگیا۔‬
‫انہوں نے پیپرز پکڑے۔ اور سیدھا آرمی‬
‫ائیر بیس پہنچے راستے میں ہیلی کاپٹر‬
‫ريڈی کرنے کا کہا۔‬
‫انکے پہنچتے ہی تمام انتظامات پورے‬
‫تھے۔‬
‫وہ اور ‪.‬نوابزادہ شاہد ہیلی کاپٹر میں‬
‫الہور کی جانب روانہ ہوۓ۔‬
‫__________________________‬
‫‪___-‬‬
‫"يو بلڈی بچ‪ ،‬ہمارے خالف ثبوت دينے‬
‫لگی تھی۔ بتا کدھر ہیں وہ پیپرز۔" زمان‬
‫شاہ کچھ دير پہلے ہی اسے لے کر‬
‫اپنے اڈے پر پہنچا تھا۔ اوپر والی‬
‫سٹوری میں ايک بیڈ روم میں اسے لے‬
‫کر پہنچا۔‬
‫اسکے منہ پر ايک زور دار تھپڑ مارتے‬
‫ہوۓ غصے سے بوال۔‬
‫"مر جاؤں گی مگر کوئ ثبوت تمہارے‬
‫حوالے نہیں کروں گی۔"‬
‫اتنا بھاری تھپڑ کھانے کے باوجود وہ‬
‫نڈر لہجے میں اسکی آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر بولی۔‬
‫تنوير بھی پاس کھڑا بمشکل خود پر‬
‫قابو رکھے کھڑا تھا۔‬
‫بہر حال وہ انکے ريڈ سے پہلے زمان‬
‫شاہ يا رحمان شاہ کو کسی قسم کا شک‬
‫نہیں ہونے دينا چاہتا تھا کہ وہ ان کا‬
‫بندہ نہیں۔‬
‫"کیا بکواس کی ہے" زمان شاہ تو‬
‫بپھر گیا اور پھر تھپڑوں کی بارش اس‬
‫نے ہالہ کے منہ پر کردی۔‬
‫اسکا ہونٹ پھٹ گیا اور منہ پر نیل پڑ‬
‫گۓ۔‬
‫"باندھو اس بچ کو کل تک ايک دو اور‬
‫اس سے بھی خطرناک خوراکیں ملیں‬
‫گین نہ تو سیدھی ہو جاۓ گی۔ اکڑتی‬
‫ہے زمان شاہ کے آگے جس سے ايک‬
‫زمانہ پناہ مانگتا ہے۔" زمان شاہ منہ‬
‫سے کف اڑاتا تنوير کو کہا کر چال گیا۔‬
‫وہ آہستہ سے اسکے قريب آيا۔ آہستہ‬
‫سے اسے سیدھا کیا تو اسکا دل کٹ گیا‬
‫ہالہ کا سوجا چہرہ ديکھ کر۔‬
‫اپنے جس دوست نما بھائ اور اسکی‬
‫اوالد کے لئیے اس نے عمر تیاگ دی‬
‫آج اسکے سامنے اسکا کیا حال ہوا۔‬
‫اس نے بمشکل اپنے آنسو روکے‬
‫کیونکہ اس وقت جذبات سے نہیں عقل‬
‫سے کام لینے کا وقت تھا۔ ذرا سی بھی‬
‫چوک ہوتی تو ہالہ ان سب کے ہاتھ سے‬
‫نکل جاتی۔ لہذا اس نے اپنے جذ بات کو‬
‫قابو کیا۔‬
‫__________________________‬
‫‪_--‬‬
‫ہیلی کاپٹر سے اتر کر وہ دونوں ہیڈ‬
‫کوارٹر پہنچے جہاں انکی پوری ٹیم‬
‫پہلے سے ہی تیار تھی۔‬
‫سمیعہ نے جگہ ٹريس آؤٹ کرکے پورا‬
‫میپ انکے سامنے کھوال۔ ساتھ ساتھ‬
‫تنوير کے میسجز بھی آرہے تھے کہ‬
‫کون کون سا ايريا انہوں نے خالی کروا‬
‫لیا ہے۔‬
‫سواۓ سمیعہ اور اسفند کے اور کسی‬
‫کو نہیں پتہ تھا کہ اس ريڈ میں‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد کی بیوی کو بھی بازياب‬
‫کروانا ہے۔‬
‫وہ سب ہللا کا نام لے کر گاڑيوں میں‬
‫نکلے۔ سميعہ بھی ساتھ تھی اور وقتا ّ ّّ‬
‫فوقتا ّ میپ سے وہی سارا راستہ بتا رہی‬
‫تھی۔‬
‫اس ايريا سے کوئ سو گز کی زمیں پر‬
‫صرف اونچی اونچی گھاس اور درخت‬
‫تھے۔ دور سے ديکھنے پر کوئ يہ‬
‫اندازہ نہیں کر سکتا تھا کہ يہاں کچھ‬
‫دور کوئ رہائش بھی ہو سکتی ہے۔‬
‫نوابزادہ شاہد گاڑيوں سے اترتا اپنی ٹیم‬
‫کو لیڈ کرتا زمین پر لیٹ کر آگے بڑھ‬
‫رہا تھا۔‬
‫يہاں تک کہ وہ رہائشی ايريا کے پاس‬
‫آگۓ۔‬

‫نوابزادہ شاہد نے سب کو مختلف‬


‫راستوں سے اندر جانے کو کہا۔‬
‫تنوير بتا چکا تھا کہ ہالہ کو اوپر کے‬
‫پورشن میں رکھا گیا ہے۔‬

‫نوابزادہ شاہد اسفند کو اپنی ڈيوٹی‬


‫ٹرانسفر کرکے خود اوپر کے پورشن‬
‫کی طرف پانی کی پائپ سے چڑھا۔ کسی‬
‫سانپ کی طرح وہ اس کمرے کی کھڑکی‬
‫کے پاس پہنچا جہاں ہالہ تھی۔‬

‫نوابزادہ شاہد نے کھڑکی سے ذرا سا‬


‫جھانک کر ديکھا تو اسے زمان شاہ‬
‫ۓ۔اور رحمان شاہ نظر آ‬
‫"کچھ منہ کھوال ہے اس نے يا نہیں"‬
‫رحمان شاہ غصے سے اسے گھورتا‬
‫ہوا بوال۔‬
‫"نہیں بہت ڈھیٹ ہے۔" زمان شاہ کی‬
‫الل انگارہ آنکھین اس پر جمیں تھیں۔‬
‫"بس پھر آج کی رات تم اس کمرے میں‬
‫رہ کر اسے اپنی زبان میں سمجھاؤ"‬
‫ابھی رحمان شاہ کی بات پوری نہیں‬
‫ہوئ تھی کہ نیچے سے فائرنگ کی‬
‫آواز آئ۔‬
‫"يہ کیا ہوا ہے۔ تم اسکو نہیں چھوڑنا"‬
‫رحمان شاہ گھبرا کر بھاگا۔‬
‫اسی لمحے ‪.‬نوابزادہ شاہد شیشے کو‬
‫توڑتا ہوا کمرے میں آيا۔‬
‫"تم" زمان شاہ تو اسے ديکھ کر‬
‫ششدر رہ گیا۔‬
‫اسکے وہم وگان میں نہیں تھا کہ اتنی‬
‫جلدی يہ لوگ کوئ ايکشن لے لیں گے۔‬
‫وہ اس وقت خالی ہاتھ تھا۔‬
‫نوابزادہ شاہد نے گن کا رخ اسکی جانب‬
‫کرکے اسے ہاتھ اٹھانے کا کہا۔‬
‫ہالہ کو جس کرسی سے باندھا گیا تھا‬
‫اسکی پشت ‪.‬نوابزادہ شاہد کی جانب‬
‫تھی۔ اس نے ابھی ہالہ کو نہیں ديکھا‬
‫تھا اور نہ ہالہ نے اسے۔ مگر اسے پتہ‬
‫چل گیا تھا کہ اسکا نجات دہندہ آگیا ہے۔‬
‫ں میں تمہارا باپ‪.‬نوابزادہ شاہد نے "ہا‬
‫دانت پیستے اسے کہا۔ اب نیچے سے‬
‫فائرنگ کی آواز آنی بند ہو گئ تھی۔‬
‫اس نے ہاتھ بڑھا کر ہالہ کی کرسی کا‬
‫رخ اپنی جانب کیا اور جو چہرہ اسکے‬
‫سامنے تھا اس نے اسکے اندر غصے‬
‫کی شديد لہر پیدا کی۔‬
‫جگہ جگہ نیل اور پھٹا ہونٹ جس پر اب‬
‫خون جم چکا تھا۔‬

‫نوابزادہ شاہد کو ہالہ کی جانب متوجہ‬


‫ديکھ کر زمان نے بھاگنے کی کوشش‬
‫کی مگر ‪.‬نوابزادہ شاہد کی گن سے‬
‫نکلنے والی گولی نے اسکی ٹانگ‬
‫زخمی کرکے اسکی کوشش ناکام بنا دی‬
‫تھی۔‬
‫زمان يہ بھول گیا تھا کہ سیکرٹ‬
‫ايجنٹس کی دو نہیں دس آنکھیں ہوتی‬
‫ہیں۔‬
‫اسی وفت تنوير اندر آيا۔‬

‫نوابزادہ شاہد ہالہ کو لے کر چلو۔ سب‬


‫کو ہم نے قابو کر لیا ہے۔"‬
‫زمان تو تنوير کے منہ سے نکلنے‬
‫والے الفاظ سن کر ششدر رہ گیا۔ اب‬
‫اسے سمجھ آگیا کہ‪.‬نوابزادہ شاہد لوگ‬
‫کیسے اتنی جلدی حرکت میں آگۓ۔‬
‫"آستین کے سانپ" زمان تنوير پر‬
‫پھنکارا مگر زخمی ٹانگ کی وجہ سے‬
‫کچھ کرنے کی پوزيشن میں نہین تھا۔‬
‫"آپ ہالہ کو لے کر جائیں۔ اس کمینے‬
‫کو میں اسکے انجام تک پہنچا کر آؤں‬
‫گا۔جس نے میری زندگی کو ختم کرنے‬
‫کی کوشش کی اسے میں اتنی آسانی‬
‫سے معاف نہیں کرسکتا۔ڈرل مشین‬
‫کہاں ہے" اس نے اپنی نظريں زمان پر‬
‫جماتے ہوۓ کہا جن میں سے چنگارياں‬
‫نکل رہیں تھیں۔‬
‫ا۔تنوير نے اس کمرے کی ايک الماری‬
‫سے ڈرل مشین نکال کر‪.‬نوابزادہ شاہد‬
‫کو دی۔‬
‫نوابزادہ شاہد" ہالہ نے پريشان ہو کر‬
‫اسے ديکھا۔‬
‫"انکل اسے لے جائیں‬
‫نوابزادہ شاہد تو جیسے ہالہ کی آواز‬
‫سن ہی نہیں رہا تھا‬
‫تنوير ہالہ کے ہاتھ پاؤں کھول کر اسے‬
‫لے کر باہر نکل گي‬
‫"انکل ‪.‬نوابزادہ شاہدکیا کرنے لگے ہیں‬
‫اسکے ساتھ" ہالہ نے باہر آکردھشت‬
‫سے تنوير کو ديکھتے ہوۓ کہا۔‬
‫ساتھ ہی اندر سے ڈرل کی اور کسی کی‬
‫دلدوز چیخوں کی آواز آئ۔‬
‫"يہ ۔۔۔۔۔يہ۔۔۔ ہالہ تو دھشت سے کچھ‬
‫بول بھی نہیں پائ۔‬
‫"اس نے میری جس پیاری بیٹی کا يہ‬
‫حال کیا ہے تو ايک گولی اسکا بدلہ‬
‫لینے کے لئیے کافی نہیں تھی۔ بس اب‬
‫تم چلو يہاں سے" يہ کہتے ساتھ ہی وہ‬
‫ششدر کھڑی ہالہ کو لے کر باہر آگۓ‪..‬‬
‫جاری ہے‬
‫‪[22/05, 1:29 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫‪Last Episode one‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬
‫اگلے کچھ دنوں میں رحمان کا سارا نہ‬
‫صرف گینگ پکڑا جاچکا تھا اور ان‬
‫کے توسط سے بہت سے اور شرپسند‬
‫گروہوں کو پکڑا جاچکا تھا۔ جو پاکستان‬
‫میں مختلف جگہوں پر دہشتگردی کے‬
‫واقعات میں انوالو تھے۔‬
‫رحمان سے انہوں نے يہ بھی کنفیس‬
‫کروا لیا تھا کہ سرےراز کو اس رات‬
‫اسی نے مروايا تھا اور اس جرم میں‬
‫اسے پھانسی کی سزا سنائ گئ تھی۔‬
‫اسفند اور سمیعہ کی شادی طے ہوگئ‬
‫تھی۔ ہالہ کو عاصم صاحب اپنے گھر‬
‫لے آۓ تھے۔ جبکہ ‪.‬نوابزادہ شاہد کا‬
‫سب نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ہالہ نے‬
‫سب کو اس شام کی تھپڑ والی بات بتا‬
‫کر رخصتی سے انکار کر ديا تھاجو ہالہ‬
‫کے چہرے کے زخم ٹھیک ہونے کے‬
‫ہفتے بعد رکھی تھی۔‬
‫مگر وہ سب جاننے کے بعد سب نے‬
‫اسکا ساتھ ديا تھا اور اسکا اپنے ہی‬
‫گھر میں داخلہ ممنوں کر ديا تھا۔‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد کو دو ہفتے سے ڑيادہ‬
‫ہوگۓ تھے۔ روز وہ ہالہ کو کالز کرتا‬
‫اور ڈھیروں میسجز مگر وہ کسی کا‬
‫ريپالئ نہیں کر رہی تھی۔‬
‫ايک دن تنگ آکر اس نے بہن کو فون‬
‫کیا۔‬
‫"کیوں فون کیا ہے آپ نے مجھے" وہ‬
‫غصے سے بولی۔‬
‫"يار کیا ہوگیا ہے تم سب کو بس کردو‬
‫اب۔ بھابھی بھائ سے زيادہ پیاری ہوگئ‬
‫ہے۔ ياد کرو وہ دن جب میں تمہاری‬
‫ايک بک ڈھونڈنے کے لئیے ٹريننگ‬
‫سے تھکا ہوا آيا تھا اور پھر بھی سارا‬
‫دن سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔ وہ‬
‫دن بھی ياد کرو جب بارش میں گاڑی‬
‫خراب ہوئ تھی اور سرديوں کی بارش‬
‫میں تمہیں بھیگنے سے بچانے کے‬
‫لئیے میں ورکشاپ تک گاڑی کو دھکا‬
‫لگا کر لے گیا تھا۔ اور آج میری ايک‬
‫غلط فہمی کی تم سب اتنی کڑی سزا دے‬
‫رہے ہو۔ میں اپنی فیملی ہوتے ہوۓ تنہا‬
‫ہوگیا ہوں"‬
‫نوابزادہ شاہد نے پوری طرح پلینگ‬
‫کرکے رمشا کو گھیرا تھا اور اپنی‬
‫جذباتی ايکٹنگ پر اسکا دل کیا خود کو‬
‫آسکر دے دے۔‬
‫"اچھا بھائ بس کرو میں تو کب کا‬
‫تمہیں معاف کر چکی ہوں مگر بھابھی‬
‫کچھ سننے کو تیار ہی نہیں"۔ آخر رمشا‬
‫اسکی جذباتی باتوں کے زير اثر آ ہی‬
‫گئ۔‬
‫"تمہاری بھابھی کی تو ايسی کی تیسی‬
‫اب وہ میری پلینرگ ديکھے" يہ سب‬
‫وہ صرف وہ دل میں ہی سوچ سکا۔‬
‫"تم بس میری تھوڑی ہیلپ کردو‬
‫جیسے جیسے میں کہوں ويسے ہی‬
‫کرنا اور ہاں پلیز اسکی کوئ پکچر ہی‬
‫سینڈ کردو۔وانا سی ہر" رمشا کو اپنے‬
‫ساتھ مالتے ہوۓ آخر میں دل کے‬
‫ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کہا۔‬
‫"اوکے وہ تو میں ابھی کر ديتی ہوں۔‬
‫ؤ" رمشا خود بھی اپنے اوکے باۓ نا‬
‫بھائ بھابھی کو اب اکٹھے ديکھنا‬
‫چاہتی تھی۔‬
‫"بھابھی واو کتنی کیوٹ لگ رہی ہیں‬
‫آپ اس کلر میں چلیں ايک سیلفی ہو‬
‫جاۓ" وہ جو الؤنج میں بیٹھی سمیعہ‬
‫کی شادی میں پہننے کے لئیے کپڑوں‬
‫کے ڈيزائن ديکھ رہی تھی رمشا کی اس‬
‫معصوم سی فرمائش پر بے اختیار اس‬
‫پر اسے بہت پیار آيا۔‬
‫"اگر بھابھی کو پتہ چل جاۓ کے کس‬
‫مقصد سے يہ پکچر لے رہی ہوں تو يہ‬
‫ہاتھ جو میرے گرد پیار سے لپٹا ہے‬
‫میری گردن دبانے میں ايک سیکنڈ کی‬
‫دير نہ لگاۓ۔‬
‫نوابزادہ شاہد بے چینی سے انتظار کر‬
‫رہا تھا رمشا کے میسج کا۔ کتنے دن ہو‬
‫گۓ تھے اس دشمن جاں کو ديکھے‬
‫ہوۓ۔‬
‫کچھ دير بعد اسے واٹس ايپ میسج کی‬
‫ٹون سنائ دی اس نے تیزی سے میسج‬
‫اوپن کیا تو رمشا اور ہالہ کی تصوير‬
‫نظر آئ۔ الئٹ لیمن اور فیروزی ڈريس‬
‫میں وہ ہمیشہ کی طرح اسکے دل کی‬
‫دنیا تہہ و باال کر گئ تھی۔‬
‫"میسنگ يو سوئیٹ ہارٹ ٹیربلی۔"‬
‫کتنے ہی اسکی سنگت میں گزرے‬
‫يادگار لمحے اسکی نظروں کے آگے‬
‫سے گزرے۔‬
‫_________________________‬
‫"يار تجھ سے زيادہ بے مروت دوست‬
‫نہ ديکھ نہ سنا" نوابزادہ شاہد نے‬
‫اسفند کو کال کی جو اپنی شادی کی‬
‫چھٹیاں لے کر گھر گیا ہوا تھا۔ ايک دن‬
‫بعد مہندی تھی۔‬
‫"اگلی بکواس کر" اسفند کا دماغ بھی‬
‫ہالہ والی بات پر تپا ہوا تھا۔‬
‫"يار بس کر اب کیا سب کے ساتھ ساتھ‬
‫تجھ سے بھی معافی مانگوں۔وہ سب‬
‫شديد محبت میں ہو گیا تھا"‬
‫نوابزادہ شاہد نے اپنا دفاع کرنے کی‬
‫کوشش کی۔‬
‫"بیٹا اگر محبت میں ايسا کیا تھا تو پھر‬
‫رخصتی کے بعد ہم ہالہ کو نیل و نیل ہی‬
‫ديکھیں گے۔" اسفند کے طنز پر وہ‬
‫بمشکل اپنا قہقہہ روک سکا۔‬
‫"اچھا يار تو بس میرا اپنی شادی میں‬
‫آنے واال معاملہ بحال کروا ڈيڈی نے تو‬
‫سختی سے مجھے منع کیا ہے کہ میں‬
‫تیری شادی میں نظر نہ آؤں"‬
‫"خیر تجھ سے پھڈے اپنی جگہ مگر‬
‫تیرے بغیر تو میں نکاح کے پیپرز پر‬
‫سائن نہیں کروں گا۔" اسفند کی محبت‬
‫پر اسے فخر ہوا۔‬
‫"تھینکس بڈی‪ ،‬مگر عالقہ غیر میں يہ‬
‫خبر نہ پہنچے"‬
‫نوابزادہ شاہد تو کتنا ڈرتا ہے ہالہ‬
‫سے۔۔۔ہاہاہاہا" اسفند کی ہنسی نے اسے‬
‫تپايا۔‬
‫"بیٹا کچھ دن بعد تجھ سے پوچھوں‬
‫گا"‬
‫__________________________‬
‫‪_-‬‬
‫"ہیلو يار میں ايک ڈريس بھیج رہا ہوں‬
‫پلیز کسی بھی طرح ہالہ نے مہندی کی‬
‫رات يہی پہنا ہو۔يہ تم پر ڈيپینڈ کرتا ہے‬
‫کہ تم نے اسے کیسے منانا ہے"۔‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد کے میسج نے سمیعہ کو‬
‫اچھا خاصا پريشان کیا۔‬
‫"بھائ خور تو مجنوں بنے ہو مجھے‬
‫کس بات کی سزا دے رہے ہو" رمشا‬
‫نے بے چارگی سے سوچا۔‬
‫شام میں رمشا نے ايک پارسل موصول‬
‫کیا۔‬
‫"بھابھی آپ سے ايک ريکوئیسٹ کرنی‬
‫ہے پلیز مانیں گی"‬
‫سمیعہ پارسل لے کر ہالہ کے پاس آئ۔‬
‫"ہاں سوئیٹی کیوں نہیں" ہالہ نے پیار‬
‫سے اسے کہا۔ دونوں اس وقت رمشا‬
‫کے ہی روم میں تھیں۔‬
‫میں نے نیٹ پر ايک ڈريس ديکھا تھا۔‬
‫مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے آپکے‬
‫لئیے آرڈر دے ديا میری وش ہے کہ آج‬
‫آپ يہی پہنیں۔" رمشا نے محبت سے‬
‫اسے کہا۔‬
‫" اوہ ڈئیر تھینک يو۔ مگر اب اسک کیا‬
‫کروں جو کل ہم لے کر آۓ تھے۔" اس‬
‫نے بے چارگی سے کہا۔‬
‫"اچھا چلو دکھاؤ يہی پہنوں گی۔‬
‫خوش" اس نے محبت سے اسے کہا۔‬
‫"اوہ تھینک يو۔"‬
‫ہالہ نے پیکنگ کھولی تو اس میں بہت‬
‫ہی سٹالش‪ ،‬اولیو گرين اور اوننح اور‬
‫ريڈ کے رنگوں کے امتزاج کا غرارہ‬
‫اور النگ شرٹ پر نفیس مگر ہیوی کام‬
‫ہوا تھا۔‬
‫"يہ تو برايڈل ڈريس لگ رہا ہے" ہالہ‬
‫نے الجھتے ہوۓ کہا۔‬
‫"پلیز بھابھی"‬
‫"اوکے اوکے"‬
‫ہالہ کے مان جانے پر اس نے محبت‬
‫سے اسے گلے لگايا۔ اور‬
‫نوابزادہ شاہد کو ڈن کے ساتھ وکٹری کا‬
‫نشان بھیجا۔‬
‫_____________________‬
‫يہ اسفند کی مہندی کے فنکشن کی بات‬
‫تھی۔ ہر جانب رنگ و بو کا سیالب تھا۔‬
‫سواۓ ہالہ کے سب کو بتايا جاچکا تھا‬
‫‪.‬نوابزادہ شاہد آرہا ہے اس فنکشن‬
‫میں۔‬
‫اسفند نے بڑی پس و پیش کے بعد‬
‫باالخر سب کو منا لیا تھا۔‬
‫ۓ ہالہ ‪.‬نوابزادہ شاہد کے بھیجے ہو‬
‫سوٹ میں کسی رياست کی شہزادی‬
‫سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ لمبے گھنے‬
‫بال کھلے ہوۓ‪ ،‬خوبصورتی سے کئیے‬
‫گۓ میک اپ میں‪ ،‬نازک سی جیولری‬
‫پہنے‪ ،‬ماتھے پر ايک سائیڈ پر جھومر‬
‫لگاۓ يہاں سے وہاں پھر رہی تھی۔‬
‫سارا فنکشن اسفند کی گھر کے الن میں‬
‫ارينج کیا گیا تھا۔‬
‫پہلے لڑکی والوں نے مہندی النی تھی‬
‫پھر لڑکی والوں نے چونکہ کمبائن‬
‫فنکشن تھا سو دونوں سائیڈز نے باری‬
‫باری آنا ڈيسائیڈ کیا۔‬
‫عاصم صاحب اور نوابزادہ شاہد کی مدر‬
‫بڑے فخر سے ہالہ کا تعارف اپنی بہو‬
‫کی حیثیت سے سب میں کروا چکے‬
‫تھے۔‬
‫ہالہ سمیعہ کی بہن کے فرائض انجام‬
‫دے رہی تھی۔ سو جب لڑکے والے تھال‬
‫اٹھاۓ مہندی لے کر آۓ تو ہالہ انکو‬
‫ريسیو کرنے میں انٹرنس کے اينڈ پر‬
‫سميعہ کے گھر والوں کے ساتھ کھڑی‬
‫تھی۔ اسفند کی بہنیں اور کزنز مہدی‬
‫کے تھال پکڑے آگے تھیں جبکہ لڑکے‬
‫کو اسکے دوستوں نے النا تھا۔‬
‫ہالہ پھولوں کے تھال پکڑے کھڑی‬
‫تھی۔ جیسے ہی اسفند کی کزنز مہندی‬
‫لے کر اندر آگئیں تو انکے پیچھے دس‬
‫ہیوی بائیکس پہ اسفند کے کزنز نے‬
‫پہلے انٹری دی۔‬
‫سب لڑکے وائٹ شلوار قمیض پر ڈفرنٹ‬
‫کلرز کی واسکٹس پہنے گاگلز لگاۓ‬
‫ہوۓ تھے۔‬
‫سب نے اس منظر کو انجواۓ کیا اور‬
‫چیخیں اور تالیاں بجا کر لڑکے والوں‬
‫کی ايسی انٹری کو ايپريشیٹ کیا۔‬
‫آخر میں دو ہیوی بائکس تھیں جن میں‬
‫ايک پہ اسفند اور دوسری ہیوی بائیک‬
‫پر بیٹھے شخص کو ديکھ کر ہالہ کو‬
‫لگا اسکے چاروں جانب روشنیاں بھر‬
‫ں۔گئیں ہو‬
‫دل کے کسی کونے میں بہت شديد‬
‫خواہش تھی اس ستم گر کو آج ديکھنے‬
‫ک ی۔‬
‫وائٹ شلوار قمیض پر الیو گرين‬
‫واسکٹ پہنے گاگلز لگاۓ وہ بھی کسی‬
‫رياست کے شہزادے سے کم نہیں لگ‬
‫رہاتھا۔‬
‫اس نے اپنی بائیک بالکل ہالہ کے پاس‬
‫روکی اور پھر اس سے اتر کر اسے‬
‫نظر بھر کر ديکھا۔‬
‫ۓ مائ لیڈی" ہلکے سے اسکے "ہا‬
‫ۓ وہ بوال۔پاس سے گزرتے ہو‬
‫جبکہ ہالہ تو ابھی تک اس ساحر کی‬
‫مسکراہٹ کے سحر سے نہیں نکل پائ‬
‫تھی۔‬
‫جس قدر وہ ہرٹ ہوئ تھی ابھی اتنی‬
‫جلدی وہ اسکو معاف کرنے کے حق‬
‫میں نہیں تھی۔‬
‫وہ اسٹیج کے پاس کھڑی مٹھائ کی‬
‫چیزيں ارينج کرتی اسٹیج پر پہنچا رہی‬
‫تھی کہ اسکے واٹس ايپ میسج کی ٹون‬
‫آئ۔ اس نے میسج اوپن کیا تو‪.‬نوابزادہ‬
‫شاہد کا میسج تھا۔‬
‫" وانا ٹیک يو ٹو نائٹ ٹو آ پلیس وير‬
‫نو ون کڈ سی اس اينڈ آئ کڈ ٹیل يو ہاؤ‬
‫مچ آؤ لو يو " اور ساتھ ڈھیر سارے‬
‫ہارٹس اور کسنگ اموجی تھے۔ ہالہ‬
‫کے گال دہک اٹھے اس نے غیر‬
‫اختیاری طور پر جونہی نظر اٹھا کر‬
‫سامنے ديکھا۔ تو اسٹیج پر اسفند کے‬
‫ساتھ بیٹھے ‪.‬نوابزادہ شاہد سے نظر‬
‫ملی جو اسکے بلشنگ فیس کو ديکھ‬
‫رہا تھا۔ اسے اپنی طرف ديکھتے پايا تو‬
‫اپنی شرارتی مسکراہٹ سمیت اسے‬
‫آنکھ ماری۔ ہالہ نے بے اختیار رخ پھیر‬
‫کر اپنے دھڑ دھڑ کرتے دل کو سنبھاال۔‬
‫‪Keep enjoying and‬‬
‫‪commenting....‬‬
‫‪[22/05, 1:30 pm] Nawab Zada:‬‬
‫میل_کروا_دے_ربا‪#‬‬
‫‪Final seen‬‬
‫‪Last Episode‬‬

‫‪#‬رائیٹر_نوابزادہ‬
‫مہندی کی رسم کے بعد جیسے ہی‬
‫گروپ فوٹوز کا سلسلہ شروع ہوا اسفند‬
‫نے عاصم صاحب اور انکی فیملی کو‬
‫آنے کو کہا۔‬
‫عاصم صاحب اور انکی بیگم سميعہ اور‬
‫اسفند کے ساتھ صوفوں پر بیٹھ گۓ۔‬
‫جبکہ ہالہ اور رمشا صوفے کے پیچھے‬
‫چلي گئیں۔ ہاال نے شکر کیا کہ نواب‬
‫شاہد نہیں تھا وہاں۔ مگر يہ شکر‬
‫تھوڑی دير کا تھا۔‬
‫جیسے ہی فوٹو گرافر پکچر لینے لگا‬
‫اسفند نے اسے روک کر ادھر ادھر‬
‫ديکھا کہ دائیں طرف سے ‪.‬نواب شاہد‬
‫آتا دکھائ ديا۔‬
‫ہالہ جز بز ہوئ جب ‪.‬نواب شاہد اسکے‬
‫دائیں طرف آيا کیونکہ اسکے بائیں‬
‫طرف رمشا کھڑی تھی۔‬
‫ابھی فوٹوگرافر تصوير لینے ہی واال تھا‬
‫کہ ہالہ کو اپنی کمر پر‪.‬نواب شاہدکا ہاتھ‬
‫سرسراتا محسوس ہوا۔ اسکی تو سانس‬
‫سینے میں اٹک گئ۔‬
‫"بھابھی پلیز تھوڑا سا سمائل کريں۔"‬
‫فوٹوگرافر بھی انکا جاننے واال تھا جس‬
‫کو پتہ تھا کہ ہالہ ‪.‬نواب شاہد کی‬
‫منکوحہ ہے۔‬
‫"ہالہ نے ايک غصیلی نظر‪.‬نواب شاہد‬
‫پر ڈالی جو سامنے ديکھتا شرارتی انداز‬
‫میں مسکرا رہا تھا۔‬
‫ہالہ نے ايک سیکنڈ میں کچھ سوچا اور‬
‫اپنا پاؤں اندازے سے آگے کرکے اپنی‬
‫ہیل کے نیچے ‪.‬نواب شاہد کا پاؤں زور‬
‫سے دبايا۔‬

‫نواب شاہديکدم چیخا اور ہالہ نے فورا ّ ّّ‬


‫پاؤں کھینچ کر منہ نیچے کرکے اپنی‬
‫ہنسی کنٹرول کی۔‬
‫"کیا ہوا" سب نے يکدم پريشانی سے‬
‫پوچھا۔‬
‫"نہیں وہ پاؤں پہ کچھ کاٹا ہے"‬
‫" اسفند پريشانی سے کھڑا ہوا دکھا ؤ‬
‫"ارے کچھ نہیں ہوا بیٹھ تو"‬
‫اسے بٹھا کر اب کی مرتبہ ‪.‬نواب شاہد‬
‫نے تمیز سے فیملی پکچر لی۔‬
‫________________‬
‫کھانے کے بعد رمشا ہالہ کے پاس آئ۔‬
‫"بھابھی وہ ‪.‬نواب شاہد انکل باہر گاڑی‬
‫میں بیٹھے ہیں کہ رہے ہیں آپ سے‬
‫کچھ بات کرنی ہے"‬
‫"تو کیا وہ جا رہے ہیں" ہالہ نے‬
‫حیران ہو کر پوچھا۔‬
‫"شايد‪ ،‬آپ جلدی سے جائیں" ہالہ‬
‫تیزی سے اپنا لہنگا اٹھاۓ باہر آئ۔‬
‫ابھی وہ گلی میں نکل کر انکی گاڑی‬
‫ڈھونڈ رہی تھی کہ ايک ہاتھ نے اسکا‬
‫ہاتھ تھاما اس نے ڈر کر ديکھا تو وہ‬
‫‪.‬نواب شاہد تھا۔ جو اسے لئیے اپنی‬
‫گاڑی کی جانب بڑھ رہا تھا۔‬
‫"کیا کر رہے ہیں کہاں لے جا رہے ہیں‬
‫چھوڑيں میرا ہاتھ۔" وہ اسکے ہاتھ‬
‫سے اپنا ہاتھ چھڑاتے ہوۓ بولی۔‬
‫جو خاموشی سے اسے لئیۓ گاڑی میں‬
‫بٹھا کر تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ کی‬
‫جانب آيا مبادا کہ وہ الک کھول کر‬
‫اترتی۔‬
‫بیٹھتے سا تھ ہی وہ زن سے گاڑی‬
‫بڑھا لے گیا۔‬
‫"آپ الک کھول رہے ہیں يامیں شور‬
‫مچاؤں۔" ہالہ کو سمجھ آگئ تھی کہ جب‬
‫تک ‪.‬نواب شاہد الک نہیں کھولے گا‬
‫اسکی سائیڈ کا دروازہ نہیں کھلے گا۔‬
‫وہ تھک ہار کر بیٹھ گئ۔ ‪.‬نواب شاہد‬
‫خاموشی سے کوئ نمبر مال رہا تھا۔‬
‫"ہیلو! میرے اماں ابا کو بتا دينا کہ ہالہ‬
‫کی رخصتی ہوگئ ہے۔ اس وقت وہ‬
‫اپنے میاں کے ساتھ اپنے گھر جا رہی‬
‫ہے اور وہاں سے ڈائريکٹ اسکے بیڈ‬
‫روم" ‪.‬نواب شاہد کی بات سن کر‬
‫اسکے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوۓ۔‬
‫"ہاہاہا‪ .......‬آفکورس میں کیسے‬
‫برداشت کر سکتا ہوں کے مجھ سے‬
‫پہلے تو پیور شادی شدہ کہالۓ۔ ايويں‬
‫تو آج کا ڈريس نہیں بھجوايا تھا۔ دلہن‬
‫بنا کر ہی اسے اپنے روم میں لے کر‬
‫جانا تھا نا" نواب شاہد تو آج اسے‬
‫شاکس پہ شاکس دينے پہ تال ہوا تھا‬
‫اس نے کن اکھیوں سے ہالہ کے حیران‬
‫چہرے کو ديکھا۔‬
‫"چل اب باقی سب کو تم سنبھال لینا۔"‬
‫کہتے ساتھ ہی اس نے فون بند کرکے‬
‫ايک نظر ہالہ کے غصیلے چہرے پر‬
‫ڈالی۔‬
‫پھر ہاتھ بڑھا کر اسکا جھومر ٹھیک کیا‬
‫جو اسے گاڑی میں زبردستی بٹھانے‬
‫کے چکر میں اپنی جگہ سے ہٹ گیا‬
‫تھا۔‬
‫ہالہ نے غصے سے اسکا ہاتھ جھٹکا۔‬
‫"دھیان سے گاڑی چالئیں جس گولڈن‬
‫نائٹ کے چکر میں يہ ساری پلینگ کی‬
‫ہے نہ ايکسیڈنٹ کرا کر کہیں اس سے‬
‫محروم نہ ہوجائیں۔"‬
‫ہاہاہا! اسکی جلی کٹی بات نے ‪.‬نواب‬
‫شاہد کو قہقہے لگانے پہ مجبور کیا۔‬
‫"کسی بھول میں مت رہئیے گا۔میں اتنی‬
‫آسانی سے آپکو اپنے ارادوں میں‬
‫کامیاب نہیں ہونے دوں گی۔" اس نے‬
‫غصے سے ‪.‬نواب شاہد کو گھورا۔‬
‫"آہاں۔۔۔۔دشمنی کا کھلم کھال اعالن‪.‬نواب‬
‫شاہد اسکے لہجے سے محظوظ ہوا۔‬
‫گھر آتے ہی گاڑی اندر لے جا کر اس‬
‫نے ہالہ کی سائیڈ کا دروازہ کھوال اور‬
‫ايک مرتبہ پھر آج اسے کوئ موقع‬
‫دئیے بغیر اپنے بازؤں میں اٹھايا۔‬
‫ؤں ‪.‬نواب شاہد چھوڑيں میں چلی جا‬
‫گی" وہ اسکے سینے پر مکے مارتے‬
‫ہوۓ چالئ۔‬
‫نواب شاہدنے جھک کر اسکی غصے‬
‫سے الل ہوتی پیاری سی ناک کی ٹپ پر‬
‫کس کیا۔ اور بس يہیں اسکی بولتی بند‬
‫ہوگئ۔‬
‫کمرے میں ال کر اسے بیڈ پر بٹھاتے‬
‫‪.‬نواب شاہد نے پلٹ کر کمرے کے‬
‫دروازے کو الک کیا۔‬
‫ہالہ کی تو حالت غیر ہو رہی تھی۔‬
‫وہ اسکے سامنے دوزانو بیڈ کے پاس‬
‫بیٹھا اور اسکی گود میں سر رکھ ديا۔‬
‫"آيم ايکسٹريملی سوری فار ايج اينڈ‬
‫ايونی تھنگ۔ میں نے آپ پے ہاتھ اپنی‬
‫محبت کی انتہا میں اٹھاياتھا۔ میرے‬
‫لئیے يہ تصور ہی اتنا جان لیوا تھا کہ‬
‫کوئ آپکا دعوے دار بن کر میرے پاس‬
‫آۓ اور وہ کہتے ہین نہ کہ محبت اندھی‬
‫ہوتی ہے اور آپکو پتہ ہے عشق انسان‬
‫کو اندھا کر ديتا ہے۔ اور آپ سے میں‬
‫نے عشق کیا تھا۔ پھر بھی میں اس سب‬
‫کے لئیے معافی مانگتا ہوں جتنا مارنا‬
‫ہے مجھے مار لیں مگر مجھ سے يہ‬
‫دوری والی بات مت کريں میں نے يہ‬
‫دن بہت تکلیف میں گزارے ہیں پلیز‬
‫ہالہ۔۔۔" ‪.‬نواب شاہدابھی بات کر ہی‬
‫رہاتھا کہ ايک آنسو کا قطرہ اسکے‬
‫بالوں پر گرا۔‬
‫يکدم اس نے سر اٹھايا تو دوسری‬
‫طرف برسات شروع ہو چکی تھی۔‬
‫"ہالہ میری جان" وہ بے اختیار اسکے‬
‫پاس بیڈ پر بیٹھا اور اسے بانہوں میں‬
‫لینا چاہا کہ اس نے روتے ہوۓ غصے‬
‫سے اسکے ہاتھ جھٹکے۔‬
‫"مت ہاتھ لگائیں مجھے۔" وہ روتے ہو‬
‫ۓ بولی۔‬
‫نواب شاہد نے زبردستی اسے کھینچ کر‬
‫اپنے بازوؤں میں بھینچا اور اسکے‬
‫بالوں پر‪ ،‬ماتھے پر بوسے دئیے۔‬
‫"اتنی تکلیف آپکے تھپڑ سے نہیں ہوئ‬
‫تھی جتنی آپکی بے اعتباری نے دی‬
‫تھی۔" اسکے سینے پر سر رکھے وہ‬
‫روتے ہوۓ شکوے کر رہی تھی۔‬
‫"ويری سوری" "مجھے لگا میں تپتی‬
‫دھوپ میں کھڑی ہو گئی ہوں۔ آپ تو‬
‫میری چھاؤں ہیں۔ میرا سب سے قیمتی‬
‫رشتہ اگر آپ ايسے کريں گے تو میں‬
‫کہاں جاؤں گی۔" رو رو کر وہ دل کی‬
‫بھڑاس نکال رہی تھی اور ‪.‬نواب‬
‫شاہدکے لئیے اسے سمیٹنا مشکل ہو‬
‫رہا تھا۔‬
‫"آئندہ ايسے نہیں ہوگا‪..‬نواب شاہد کے‬
‫لفظوں پر وہ يفین لے آئ۔‬
‫پھر يکدم کچھ ياد آنے پر پیچھے‬
‫ہوئ۔‪.‬نواب شاہد نے حیرت سے اسے‬
‫ديکھا۔‬
‫"آپ نے اس رات زما ن کے ساتھ ڈرل‬
‫سے کیا کیا تھا"‬
‫"ہالہ پلیز ڈونٹ ٹاک اباؤٹ اينی ون‬
‫ايلس۔" ‪.‬نواب شاہدنے اسکے بالوں‬
‫میں ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔‬
‫"پلیز بتائیں نہ۔نہیں تو میں ناراض ہو‬
‫جاؤں گی۔" اس نے‬
‫نواب شاہدکو دھمکی دی۔‬
‫"يہ فرسٹ اور السٹ ٹائم بتا رہاہوں‬
‫ادروائز ہم اپنے مشن اور پروفیشنل‬
‫الئف سے متعلق باتیں اپنے گھر والوں‬
‫کو بھی نہیں بتاتے۔"‬
‫"وہ مشن پرسنل بھی تھا اور اس سے‬
‫بدلہ آپ نے اپنے پرسنل کنسرن کی‬
‫وجہ سے لیا تھا۔"‬
‫"ہاں يہ صحیح ہے‪ ،‬جب میں نے آپکا‬
‫چہرہ ديکھا تو آئ کانٹ ٹیل يو مجھ پر‬
‫کیا قیامت ٹوٹی تھی لہزا میں نے ان‬
‫ہاتھوں میں اتنے سوراخ کئے تھے کہ‬
‫وہ ہاتھ آئندہ اٹھنے کے قابل نہ رہیں"‬
‫اف ‪.......‬نواب شاہد آپ کتنے خوفناک‬
‫ہیں" وہ حیرت سے پھٹی آنکھوں سے‬
‫اسکی بات سنتی اس سے پیچھے‬
‫سرکی۔‬
‫"میں اس سے بھی دہشتناک ہوجاؤں گا‬
‫اگر اب آپ مجھ سے دور ہوئ۔اسی‬
‫لئیے نہیں بتا رہا تھا۔" اس نے ہالہ کو‬
‫دھمکی دی۔‬
‫"اسکے تو مجھ پر اٹھنے والے‬
‫ہاتھوں کے ساتھ تو يہ سلوک کیا اور‬
‫آپ نے جو مجھ پر ہاتھ اٹھايا تھا اسکا‬
‫کیا" ہالہ نے اسے جتايا۔‬
‫نواب شاہدنے اسکے آگے اپنا وہی ہاتھ‬
‫پھیاليا۔‬
‫"آپکی مرضی جو سلوک کرنا چاہیں‬
‫کريں میں اف تک نہیں کروں گا۔"‬
‫اپنی اسی جان لیوا مسکراہٹ سے اس‬
‫نے ہالہ کو ديکھا۔‬
‫ہالہ نے ايک نظر اسکی آنکھوں میں‬
‫جھانکا جہاں ہر طرف بس وہی تھی۔‬
‫اس نے دھیرے سے اسکے ہاتھ کو‬
‫تھام کر اس پہ اپنے لب رکھے پھر‬
‫اپنے گال سے مس کرتے ہوۓ بولی‪/‬‬
‫" يہ ہاتھ تو میرے نجات دہندہ‬
‫ہیں‪....‬نواب شاہد نے مسکراتے ہو ۓ‬
‫اپنے ساتھ لگايا اور پھر اسے اپنی‬
‫محبت کی بارش میں بھگونے لگا‬
‫ختم شد‬

You might also like