You are on page 1of 359

‫روح کے ہمراہی‬

‫از قلم سعدیہ شاہ‬

‫پورے گھر سے آگ کے شعلے نکل رہے تھے۔ وہ‬


‫اپنے ماں باپ کے مردہ وجود کو بے حس و‬
‫حرکت زمین پہ پڑے دیکھ رہی تھی۔‬

‫اس کے وجود کو دیکھ کر کسی بت کا گمان ہوتا‬


‫تھا۔‬

‫وہ پتھر ہی تو بن چکی تھی۔‬

‫کچھ گھنٹے پہلے وہ اور اس کے ماں باپ کتنا‬


‫خوش تھے اب ایسے لگتا تھا جیسے پورے گھر‬
‫میں ویرانیوں نے اپنے ڈیرے جما لیے ہوں۔‬
‫وہ بھی مر جانا چاہتی تھی اپنے ماں باپ کے ساتھ‬
‫اس کا ان دونوں کے عالوہ تھا ہی کون اس دنیا‬
‫میں ماں باپ کے غم میں وہ یہ تک بھول گئ کے‬
‫آگ پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔‬

‫اچانک چھت پہ لگا فانوس تیزی سے اس کے اوپر‬


‫آ کے گرتا ہے پورے ویال میں اس کی‬
‫چیخےگونجتی ہیں۔‬

‫اس کی زندگی میں اس کی قسمت کی طرح ہی‬


‫اندھیرا چھا جاتا ہے۔‬
‫💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥‬
‫وہ اپنی ڈیوٹی پوری کر کے ابھی اپنے کیبن میں‬
‫کچھ دیر ریسٹ کرنے کیلئے بیٹھا تھا۔ کچھ دیر‬
‫بعد نرس آگئ۔‬
‫ڈاکٹر سیف ایمرجینسی میں ایک پیشنٹ بہت‬
‫سیریس حالت میں آئی ہیں آپ جلدی سے آ جائے‬
‫آپ جائو میں آرہا ہو۔‬

‫ڈاکٹر سیف جلدی سے ایمرجنسی وارڈ کی طرف‬


‫بڑھتا ہے نرس کو ڈاکڑ صبا کو بلوانے کے لیے‬
‫کہتا ہے۔‬

‫وہاں پہنچ کر سیف کی نظر سٹریچر پر لیٹی‬


‫جھلسی لڑکی کے وجود پر پڑتی ہے۔ مریض کا‬
‫جسم جگہ جگہ سے جھلسا ہوا ہوتا ہے۔‬

‫ڈاکڑ صبا کے انے کے بعد پیشنٹ کا عالج شروع‬


‫کیا جاتا ہے۔‬
‫ڈاکڑ صبا کو پیشنٹ پر کافی ترس آتا کیوں کہ وہ‬
‫کوئ چھوٹی سی بچی دکھائی دیتی تھی۔ کیسے اتنا‬
‫درد برداشت کیا ہو گا ڈاکڑ صبا بس سوچ ہی سکی۔‬

‫ڈاکڑ سیف اور ڈاکڑ صبا چند گھنٹوں بعد ایمرجنسی‬


‫وارڈ سے باہر نکلتے ہیں۔‬

‫سیف ڈاکڑ صبا کو پیشنٹ کا خیال رکھنے کا کہہ‬


‫کر خود نرس نتاشا سے ان کے لواحقین کے بارے‬
‫میں پوچھتا ہے تو نرس نفی میں سر ہال دیتی ہے۔‬

‫میں گھر جا رہا ہو آپ ہر وقت پیشنٹ کے ساتھ‬


‫رہے گی تاکہ جب بھی انھیں ہوش آئے یا ان کو‬
‫کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ ان کے پاس ہو‬
‫نرس نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫سیف گھر کے لیے نکل پڑتا ہے۔ ہسپتال سے‬
‫نکلتے ہی سیف کا فون بجنا شروع ہو جاتا ہے۔‬
‫سیف پینٹ کی جیب سے فون نکالتا ہے جہاں فون‬
‫پر موم کالنگ بلنک ہو رہا ہوتا ہے۔‬

‫سیف نے فون اٹھایا تو دوسری طرف سے آواذ آئ‬


‫‪Don’t worry mom, I am‬بیٹا کہاں ہو تم‬
‫یہ کہتے ‪coming ok.‬‬
‫ہی سیف گاڑی کی طرف بڑھتا ہے اور گاڑی‬
‫گھر کی طرف بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ذکا شاہ اور رخسانہ بیگم کا ایک ہی بیٹا تھا۔‬
‫ماں باپ کا الڈال فرما بردار بیٹا ثاقب شاہ جنہوں‬
‫نے ایم بی اے کیا تھا۔ اب اپنے باپ کا بزنس‬
‫سنبھال رہے تھے۔‬

‫ذکا شاہ نے اپنے بیٹے ثاقب شاہ کی شادی اپنے‬


‫دوست کی بیٹی عائشہ شاہ سے کروائی تھی۔‬

‫ثاقب شاہ اور عائشہ بیگم کا ایک ہی بیٹا تھا۔ سیف‬


‫شاہ عائشہ بیگم کو بیٹی کی بہت خواہش تھی۔ لیکن‬
‫ان کی خواہش پوری نہیں ہو سکی۔‬

‫سیف کی پیدائش کے وقت کچھ پیچیدگیوں کی وجہ‬


‫سے دوبارہ ماں نہ بن سکی۔‬

‫ثاقب شاہ نے عائشہ بیگم کو سمجھایا تھا۔ سیف کی‬


‫شادی ہو گی تو آنے والی لڑکی ہماری بہو نہیں‬
‫بیٹی ہو گی۔ جس پر عائشہ بیگم کافی سنبھل گئی‬
‫تھی۔‬
‫جب سیف چھ سال کا تھا۔ تب ذکا شاہ فوت ہوگئے‬
‫تھے اور رخسانہ بیگم شوہر کی جدائ برداشت نہ‬
‫کر سکی وہ بھی بیمار رہنے لگی تھی۔‬

‫اس وجہ سے ذکا شاہ کی وفات کہ بعد ان کی بھی‬


‫دو سال بعد وفات ہو گئ تھی۔‬

‫سیف دادا کی وفات پر پھر بھی سنبھل گیا تھا۔ لیکن‬


‫دادی کی وفات نے سیف کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔‬
‫ایسے میں عائشہ بیگم سیف کو دوبارہ زندگی کی‬
‫طرف واپس لے کر آئی۔‬

‫رخسانہ بیگم کی خواہش تھی کہ میرا پوتا ڈاکڑ‬


‫بنے۔‬
‫جس بنا پر سیف شاہ نے دادی کی خواہش کا احترام‬
‫کرتے ہوئے ڈاکڑ بنا وہ آج بھی اپنے دادا دادی کو‬
‫یاد کرتا تھا۔‬

‫کیوں کہ وہ چھوٹے ہوتے موم ڈیڈ سے زیادہ دادا‬


‫دادی سے مانوس تھا۔ جس وجہ سے سیف کو ان‬
‫کی بہت یاد آتی تھی۔‬
‫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫‬
‫سیف گھر پہنچا تو کافی رات ہو چکی تھی۔‬

‫گھر کیا تھا۔ پورا محل تھا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی‬
‫کی جہاں پہلے ہی تین گاڑیاں کھڑی ہوئی تھی۔‬
‫راہداری پر مضبوط قدم اٹھاتا اندر قدم رکھا جہاں‬
‫بڑے سے ہال نما ڈرائینگ روم میں بیش قیمتی‬
‫مختلف قسم کے صوفے پڑے ھوئے تھے۔‬

‫دیواروں پر سیف اور اس کی فیملی کی تصاویر‬


‫لگی ہوئی تھی۔‬

‫سیف نے اپنی موم کو دیکھا جو اس کے انتظار‬


‫میں چکر لگا رہی تھی۔ سیف نے پیچھے سے جا‬
‫کر اپنی موم کو ہگ کیا۔‬

‫عائشہ بیگم آگئے بیٹا یس موم بیٹا کھانا گرم کروں‬


‫نو موم میں ابھی تھکا ہوا ہو۔ ریسٹ کرو گا۔‬
‫اوکے بیٹا آپ ریسٹ کرو جا کے اوکے موم گڈ‬
‫نائٹ سیف عائشہ بیگم کے سر پر بوسا دیں کر‬
‫اپنے روم کی طرف چال جاتا ہے۔‬

‫سیف شاہ نے روم میں قدم رکھا چھ فٹ سے نکلتا‬


‫ہوا قد چوڑے شانے کشادہ سینا کالے سلکی بال جو‬
‫ماتھے پہ ہی پڑے رہتے سیف شاہ کو اپنے سلکی‬
‫بال بہت پسند تھے۔ اس لیے انھیں ماتھے پہ ہی اس‬
‫طرح ہی بکھرے رہنے دیتا تھا۔‬

‫کالی سیاہ ذہانت سے بھرپور آنکھیں ساتواں ناک‬


‫عنابی لب اور سرخ سفید رنگت غرض کے سیف‬
‫شاہ خوبصورتی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔‬

‫سیف شاہ کی طرح اس کا کمرہ بھی بہت‬


‫خوبصورت تھا بلیک اور سکن کلر کے امتزاج کا‬
‫روم اور اس کہ درمیان میں سکن کلر کا جہازی‬
‫سائز بیڈ اور روم کے دائیں طرف بہت بڑی‬
‫کھڑکی تھی جو سیدھا الن میں کھلتی تھی جس پر‬
‫بلیک اور سکن کلر کے پردے لگے ہوئے تھے‬
‫اور کمرے کہ سائڈ میں بلیک کلر کا صوفہ اور‬
‫بائیں طرف دیوار میں ایل ڈی فٹ تھی۔‬

‫روم کے ساتھ ہی پینٹنگ روم تھا جہاں سیف اپنے‬


‫فارغ وقت میں اپنا یہ شوق پورا کرتا تھا۔ سیف‬
‫بلیک شرٹ ٹراؤزر میں فریش ہو کر نکل کر بیڈ‬
‫پر لیٹ جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد سیف کا ذہن اس‬
‫پیشنٹ کی طرف چال جاتا ہے۔‬

‫سیف کو کافی ترس آیا اس پر وہ چھوٹی سی عمر‬


‫کی کوئی بچی معلوم ہوتی تھی۔ کچھ تو ایسےکیسز‬
‫میں درد برداشت نہیں کر پاتی تھیں اور وہ موقعے‬
‫پر ہی اپنی جان کی بازی ہار جاتی تھیں سیف لڑکی‬
‫کی ہمت پر داد دیے بغیر نہ رہا سکا۔‬
‫اس میں کوئ شک نہیں تھا کہ لڑکی میں کافی‬
‫ہمت تھی۔ تھوڑی دیر اس پیشنٹ کو سوچتے ہی‬
‫سیف کو کب نیند آ گئ سیف کو خود بھی پتا نہ چال۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫صبح کا وقت تھا اور ایسے میں سورج پوری آب و‬
‫تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔‬

‫شاہ ویال میں ناشتے کی تیاریاں ہو رہی تھی۔‬


‫عائشہ بیگم نے رشیدہ میڈ کو آواذ دی ریشدہ جی‬
‫بیگم صاحبہ آپ نے سیف کو اٹھایا جی بیگم صاحبہ‬
‫ہم تو دو دفعہ سیف بابا کا دروازہ بجا آئے ہیں۔‬

‫عائشہ بیگم نے آگے سے ہمم کہا اچھا آپ ناشتہ‬


‫میرے ساتھ میز پر لگایں ثاقب شاہ ڈائننگ ٹیبل کے‬
‫پاس چیئر پر بیٹھے اخبار کی ورک گردانی کر‬
‫رہے تھے۔‬
‫عائشہ یہ ہمارا بیٹا نظر نہیں آرہا یہ کہتے ہی ان‬
‫دونوں کو سیف کی آواذ سنائی دی۔‬

‫گڈ مورنینگ موم اینڈ ڈیڈ عائشہ بیگم نے اپنے‬


‫خوبرو بیٹے کو دیکھا وائڈ پینٹ بلیو شرٹ کالئی‬
‫میں رولیکس کی گھڑی پہنے اور پائوں میں‬
‫برائون شوز پہنے کافی سحر انگیز لگ رہا تھا۔‬

‫عائشہ بیگم نے اپنے بیٹے کو دیکھ کر ماشاہللا کہا‬


‫ثاقب شاہ آگئے بر خودار یس ڈیڈ یہ کہتے ہی سیف‬
‫اپنے ڈیڈ کے گلے لگتا ہے۔ عائشہ بیگم باپ بیٹے‬
‫کا پیار ختم ہوگیا ہو تو ناشتہ کر لیں۔‬

‫ثاقب شاہ جی ہاں کیوں نہیں بیگم ہم تو آپ کے‬


‫حکم کے غالم ہے عائشہ بیگم بیٹے کے سامنے تو‬
‫لحاظ کر لے ثاقب صاحب آہستہ آواذ میں جان‬
‫ہمارے بیٹے کو پتا ہے کہ ہم اپنی بیگم سے کتنا‬
‫پیار کرتے ہیں عائشہ بیگم چپ چاپ ناشتہ کرے۔‬

‫آپ کو تو بعد میں پوچھتی ہو۔ ثاقب صاحب کیوں‬


‫نہیں بیگم ضرور پوچھیں گا۔ عائشہ بیگم نے ثاقب‬
‫صاحب کو گھورا تو وہ ہنسی دباتے ہوئے ناشتے‬
‫کی طرف متوجہ ہو گئے۔‬

‫تینوں نے اچھے ماحول میں ناشتہ کیا۔‬

‫سیف اوکے موم میں چلتا ہوں عائشہ بیگم دھیان‬


‫سے بیٹا موم آپ فکر نہ کرے میں اپنا خیال رکھوں‬
‫گا عائشہ بیگم یہ ہوئ نہ بات اب جائوں اوکے ہللا‬
‫حافظ موم اینڈ ڈیڈ۔‬
‫سیف شاہ یہ کہتے ہی باہر کی طرف قدم بڑھا لیتا‬
‫ہے۔ اپنی لینڈ کروزر میں بیٹھ کر گاڑی ہسپتال کی‬
‫طرف بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ہسپتال میں افراتفری کا ساماں تھا۔‬

‫ایسے میں سیف ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اپنے‬


‫کیبن کی طرف چل پڑتا ہے۔ سیف جہاں جہاں سے‬
‫گزرتا ہے ہر کوئی سالم کرتا جس کا جواب سیف‬
‫سر ہال کر دیتا ہے۔‬

‫سیف کیبن کی طرف جاتے ہوئے وارڈ بوائے کو‬


‫ڈاکڑ صبا کو بلوانے کے لیے کہتا ہے اور خود‬
‫اپنے کیبن میں آ کے ڈاکڑ صبا کا انتظار کرنے‬
‫لگتا ہے۔ ڈاکڑ صبا مے آئ کمینگ سر سیف یس‬
‫آجائے کل جو پیشنٹ آئی تھی۔ اس کی کیا‬
‫پروگریس ہے ہوش آگیا اسے ڈاکڑ صبا یس ڈاکڑ‬
‫ہوش تو آگیا ہے لیکن جب اسے ہوش آیا تو وہ‬
‫تکلیف سے رونا اور چیخنا شروع ہو گئ تھی اور‬
‫اپنے ماں باپ کو پوکارتی ہے۔‬

‫سیف میں حیران ہوں اس کے گھر میں سے کوئی‬


‫بھی نہیں آیا۔ خیر آپ نے پیشنٹ سے اس کا نام اور‬
‫اس کےماں باپ کا نام پوچھا؟‬

‫ڈاکڑ صبا نو سر اس نے اپنے نام کے عالوہ کچھ‬


‫نہیں بتایا جب بھی وہ ہوش میں آتی ہے چیخنا‬
‫چالنا شروع کر دیتی ہے اس لیے میں اس سے اتنا‬
‫ہی پوچھ سکی ہو سر اس نے اپنا نام مایا بتایا ہے‪-‬‬

‫سیف اوکے آپ جائو میں تھوڑی دیر میں آتا ہو۔‬


‫ڈاکڑ صبا اوکے سر کہہ کر نکل جاتی ہے۔ صبا‬
‫کے جانے کے بعد سیف کسی کو فون مالتا ہے‬
‫خاور ایک پیشنٹ ہیں گھر والوں کے بارے میں پتا‬
‫کروانا ہے۔‬

‫لڑکی کا نام مایا ہے خاور اوکے سر میں پتا کر‬


‫کے آپ کو بتاتا ہوں۔‬

‫سیف ہمم کہہ کے فون بند کر دیتا ہے۔‬

‫خاور ایک خبری تھا جو سیف کے لیے کام کرتا‬


‫تھا۔ جب بھی سیف کو ضرروت ہوتی کسی کی‬
‫انفورمیشن نکلوانی ہوتی تو سیف خاور کی مدد لیتا‬
‫تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫یہ منظر تھا پارک کا جہاں چھوٹے بچے فٹ‬
‫بال کھیل رہے تھے۔‬
‫اچانک وہاں کوئی آتا ہے اور بچوں سے کہتا ہے‬
‫کہ آپ میں سے کسی‬
‫نے یہاں کسی لڑکی کو دیکھا ہے۔ سب بچے ایک‬
‫آواز میں نہیں آپی یہاں تو کوئی لڑکی نہیں آئی‬
‫اچانک اس لڑکی کی نظر درخت کے پیچھے سفید‬
‫لہراتے آنچل پر پڑتی ہے۔‬

‫وہ لڑکی خاموشی سے درخت کے پیچھے جاتی‬


‫ہے۔ درخت کہ پیچھے چھپے وجود کو لگتا ہے کہ‬
‫لڑکی چلی گئ کہ اچانک اسے اپنا دوپٹہ پیچھے‬
‫سے کھینچتا ہوا محسوس ہوتا اور وہ پیچھے مڑ کر‬
‫دیکھتی ہے۔‬

‫جہاں اس کی کزن اس کا دوپٹہ پکڑے کھینچ رہی‬


‫ہوتی ہے۔ وردا چیخ کر اپنی کزن کو کہتی ہے۔‬
‫چھوڑ بھی دو یا میرا گال گھونٹنا ہے۔‬
‫وردا کی کزن آمنہ برے برے منہ بناتے اس کا‬
‫دوپٹہ چھوڑتی ہے۔ وردا ہم یہاں پکنک منانے آئے‬
‫ہیں اور تم لوگوں کے بچے آکھٹے کر کے کھیل‬
‫رہی ہو اپنی خیر منائو کیونکہ سب کہ والدین نے‬
‫چچی جان کو شکایت لگائی ہیں کہ ہمارے بچوں‬
‫کو پکڑ پکڑ کر اپنے ساتھ کھیل رہی ہیں اور ان‬
‫میں سے کچھ کہہ رہے ہم نے گھر جانا ہیں لیکن‬
‫بچے جا نہیں رہے کہہ رہے ہم نے آپی کہ ساتھ‬
‫کیھلنا ہے۔‬

‫کوئ حد ہے وردا اتنا بچوں کا شوق ہیں تو خود‬


‫شادی کروں اور اپنے بچوں کہ ساتھ ایلفی لگا کہ‬
‫چپک جانا پر خدا کا واسطہ ہے لوگوں کے بچوں‬
‫کی جان چھوڑ دو وردا آمنہ کی باتیں بڑے ضبط‬
‫سے سنتی ہے اور کہتی ہے ہو گیا یا ابھی باقی‬
‫ہے۔‬
‫کب سے بکواس بولی جا رہی ہو پہلی بات یہ میں‬
‫خود لوگوں کہ بچوں کو پکڑ پکڑ کر نہیں التی‬
‫بچے خود ہی میری طرف کھینچے چلے آتے آفڑآل‬
‫میں اتنی کیوٹ اور حیسن جو ہو اور واقعے ہی‬
‫اس میں کوئ شک نہیں تھا۔‬

‫وردا پانچ فٹ اور چھ انچ کہ قدوقامت والی لڑکی‬


‫واقعے ہی خوبصورتی کا پیکر تھی۔ لمبے گھنے‬
‫کالے سیاہ بال بھوری آنکھیں ساتواں ناک باریک‬
‫ہونٹ جو اس کی خوبصورتی میں اور اضافہ‬
‫کرتے تھے اور اوپر سے دونوں گالوں میں پڑنے‬
‫والے ڈمپل وردا کو اور خوبصورت بناتے تھے۔‬
‫غرض کے وہ حسن کا منہ بولتا ثبوت تھی۔‬

‫آمنہ حیران ہو کر وردا کی باتیں سنتی ہے او بس‬


‫کر اتنا اپنے منہ میا مھٹوں بننے کی ضرروت نہیں‬
‫اپنے حسن کے قصیدے بعد میں سنانا پوری دنیا کو‬
‫شاید کوئی پاگل تمہارے چنگل میں پھس جائے۔‬

‫وردا تمہیں تو میں بعد میں دیکھ لوں گی آمنہ پہلے‬


‫چلوں میں کون سا بھاگی جا رہی ہو جی بھر کر‬
‫دیکھنا۔ آمنہ کی بچی ٹھہر جا تجھے بعد میں سیٹ‬
‫کرتی ہو۔‬

‫دونوں بھاگتی ہوئی اس جگہ پر آئ جہاں سب‬


‫فیملی کے لوگ بڑی ساری چادر بچھا کہ بیٹھے‬
‫ہوئے تھے۔ بچوں کہ والدین میں سے ایک کی آواذ‬
‫آئی دیکھے یہی ہے وہ ہم نے گھر جانا ہیں اور‬
‫بچے آنے کا نام نہیں لے رہے اب سارا دن ادر تو‬
‫نہیں رہنا نہ وردا آنٹی میں نے آپ کے ہاتھ تھوڑی‬
‫نہ پکڑے ہیں لے جاتی اپنے بچوں کو اور وردا‬
‫کی ماما کا بس نہیں چل رہا تھا ایسی مار لگائے ہر‬
‫جگہ ان کی بیٹی بے عزت کروا کے رکھ دیتی‬
‫تھی۔‬

‫جہاں جاتی لوگوں کے بچوں کو چمڑ جاتی اور ان‬


‫کی جان نہیں چھوڑتی جب تک ان کے ماں باپ‬
‫شکایت لے کر نہ آتے خیر وردا کی ماما نے‬
‫معاملہ رفع دفع کروایا۔ ان سب کے دوران وردا‬
‫مسلسل اپنی ماما کی گھوریوں کی زد میں تھی۔‬

‫وردا نے آمنہ کے کان میں کہا یہ ماما اتنا گھور‬


‫کیوں رہی ہے آمنہ کارنامے ہی ایسے ہے تمہارے‬
‫وردا کی ماما سب کو گھر چلنے کا کہتی ہے۔‬

‫آمنہ وردا کو کہتی ہے سب تمہاری وجہ سے ہوا‬


‫ہے وردا منہ بند کر لے اپنا ایک چمانٹ ماروں گی‬
‫چپ چاپ سے چل وردا کے کارنامے کے بعد سارا‬
‫قافلہ گھر کی جانب بڑھتا ہیں۔😆😆‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫صفدر بلوچ اور آصفہ بلوچ کے دو بیٹے تھے بڑا‬
‫بیٹا تیمور بلوچ اور چھوٹا بیٹا حیدر بلوچ جو گھر‬
‫بھر کا الڈال تھا۔‬

‫تیمور بلوچ سیاست سے منسلک تھے اور حیدر‬


‫بلوچ مشہور و معروف وکیل تھے۔‬

‫صفدر بلوچ نے تیمور کی شادی اپنی بہن کی بیٹی‬


‫ثانیہ سے کروائی تھی۔ ان کے چھوٹے بیٹے حیدر‬
‫نے اپنی پسند کی شادی ذالے اپنی کولیگ سے کی‬
‫تھی۔‬

‫صفدر بلوچ اور ثانیہ بیگم کی دو بیٹیاں تھی بڑی‬


‫عالیہ اور چھوٹی بیٹی آمنہ جو وردا کی بیسٹ فرینڈ‬
‫اور اس کے ساتھ ہی کالج پڑھتی تھی۔ عالیہ کی‬
‫شادی ہو چکی تھی اور وہ باہر کہ مالک اپنے بیٹے‬
‫اور شوہر کہ ساتھ رہتی تھی۔‬

‫آمنہ کو وردا کہ بچوں سے چپکنے والی عادت‬


‫سے سخت چڑ تھی۔ جس پر وہ وردا کو کافی‬
‫سناتی بھی تھی۔‬

‫حیدر بلوچ اور ذالے بیگم کہ دو بچے تھے۔ بڑی‬


‫بیٹی وردا جو فسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ تھی اور چھوٹا‬
‫بیٹا احان جو نویں کالس کا طالب علم تھا۔‬

‫پورا گھر وردا کے ہر وقت بچوں سے چپکنے‬


‫والی عادت سے کافی نالہ رہتا تھا لیکن وردا میڈم‬
‫کو اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‬
‫وردا کا کہنا تھا بندے نے ایک دفعہ جینا ہوتا وہ‬
‫بھی سب کی باتوں کو دل پہ لگا کر بیٹھ جائے اس‬
‫لیے ایک کان سے سنو اور دوسرے سے باہر نکال‬
‫دو۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫سیف وارڈ کی طرف بڑھتا ہے جہاں پیشنٹ کو‬
‫رکھا ہوتا ہے۔ ڈاکڑ صبا بھی ادر کھڑی مریض کا‬
‫چیک اپ کر رہی ہوتی ہے۔‬

‫سیف ڈاکڑ آپ پیشنٹ مایا کی فائل دیکھائے ڈاکڑ‬


‫صبا سیف کو پیشنٹ کی فائل پکڑاتی ہے سیف فائل‬
‫ریڈ کرتا ہے۔‬

‫مایا آہستہ آہستہ ریکوری کی طرف آ رہی ہے۔ ڈاکڑ‬


‫صبا سر یہ تو ہللا کا شکر ہے پیشنٹ کے چہرے‬
‫کی بچت ہو گئ۔ ڈاکڑ سیف میں بھی سرپرائز ہو‬
‫کہتے ہیں جس کو ہللا رکھے اس کو کون چکھے‬
‫بس ہللا نے بچا لیا کیوں کہ مایا کی آگے ساری‬
‫زندگی پڑی ہے کیسے وہ اس معاشرے میں جلے‬
‫چہرے کے ساتھ سروائو کر پاتی برحال آپ مایا کا‬
‫خیال رکھے۔‬

‫جیسے ہی اس کی کنڈیشن میں بہتری آئے آپ‬


‫مجھے انفوم کرے۔ ڈاکڑ صبا اثبات میں سر ہال‬
‫دیتی ہے۔ سیف ڈاکڑ صبا کو ہدایت دیتا وارڈ سے‬
‫باہر نکل جاتا ہے اور اپنے کیبن کی طرف بڑھتا‬
‫ہے کیبن میں جاتے ہی اس کی نظر چیئر پر بیٹھے‬
‫شخص پر پڑتی ہے۔‬

‫جس کی پشت سیف کی طرف ہوتی جس وجہ سے‬


‫سیف اس کا چہرہ نہیں دیکھ پاتا سیف آگے بڑھتا‬
‫ہے تو دیکھتا یہ تو اس کے پچپن کا یار بیٹھا ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫ارے ارش تو کب آیا ارش ابھی تھوڑی دیر پہلے‬
‫آیا ہو پر دونوں ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں۔‬

‫ارش اور بتا تو کیسا ہے سیف میں بلکل فٹ فاٹ‬


‫تیرے سامنے ہو۔ تیرے گھر میں سب ٹھیک ہیں‬
‫ارش سب ڈھیک ہے تو بتا شادی کب کرنے کا‬
‫ارادہ ہے۔‬

‫سیف تو یہ میرے شادی کے کیوں پیچھے پڑا رہتا‬


‫ہے۔ ارش سمجھا کر نہ یار تیری ہو گی تو میری‬
‫ہو گی نہ سیف یار جب کوئی اس دل کو لگی نہ‬
‫یقین مان فورا شادی کر لوں گا۔‬

‫ارش تیرا دل بھی تیری طرح نخرے باز ہے۔‬


‫ستائیس کا تو ہو گیا ہے اور اب بھی کوئی تیرے‬
‫دل کو نہیں لگی واہ جی واہ کوئی حال نہیں تیرا‬
‫یعنی تو نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خود تو بڑھاپے‬
‫میں شادی کرے گا ساتھ مجھے بھی بوڑھا کرے‬
‫گا۔‬

‫سیف ارش کی بات پر ہنستے ہوئے تجھے کس‬


‫نے کہا ہے شادی نہ کر ارش یار تیری طرح‬
‫مجھے بھی کوئی پسند آئے تو تب کی بات ہے نہ‬
‫سیف ہاہاہاہا یار مسخرے نہ مار ایک وقت میں‬
‫پندرہ پندرہ تیری گل فرینڈ ہوتی ہیں۔‬

‫جس سے تو چیٹنگ کرتا ہیں۔ اب بھی کوئی تیرے‬


‫دل کو نہیں بھائی واہ جوک اوف دا ڈے ارش یار‬
‫وہ تو ٹائم پاس ہیں نہ جس دن کوئ دل کو لگی ان‬
‫سب کا پتا صاف پھر وہ اکیلی ارش شہیر آفندی کے‬
‫دل پر حکومت کرے گی دیکھنا اسے رانی بنا کر‬
‫رکھوں گا۔‬
‫جو روح کی ہمراہی ہو گی۔ سیف واہ تو بڑا عاشق‬
‫نکال واقعے ہی جس کا روح کا تعلق ہو وہ نہ اس‬
‫دنیا میں جدا ہوتا ہے نہ مرنے کے بعد الگ ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫ارش چل ان باتوں کو چھوڑ جب تک ہمیں ہمارا‬


‫ہمسفر نہیں مل جاتا تب تک ہم اس جذبے کو دل‬
‫سے محسوس نہیں کر سکتے چل کہی باہر کوفی‬
‫پینے چلتے ہیں۔ ہاں چل یار یوں ارش اور سیف‬
‫کوفی پینے کے لیے نکل جاتے ہیں۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫دائود آفندی اور مہر بیگم کے دو بچے تھے۔ بڑی‬
‫بیٹی نور اور اس سے چھوٹا شہیر جو گھر بھر کا‬
‫الڈال تھا۔‬

‫شہیر کی بڑی بہن نور پچپن میں ہی فوت ہو گئ‬


‫تھی ہللا کی طرف سے قدرتی موت ہوئی جس کا‬
‫کسی کو کچھ پتا نہ چال کے وجہ کیا تھی۔ مہر بیگم‬
‫ہر وقت اپنی بیٹی کی جدائی میں روتی رہتی ایسے‬
‫میں ہللا کی طرف سے تحفے کی صورت میں شہیر‬
‫آیا جن کو پا کر مہر بیگم کہ دل میں چھپی ماں کی‬
‫مامتا کو سکون پہنچا۔‬

‫وہ ہللا کی اس نعمت کا بار بار شکر ادا کرتے نہیں‬


‫تھکتی تھی کہ ہللا نے اگر ان کی گھود خالی کی تو‬
‫دوبارہ بھر دی دائود صاحب بھی دوبارہ اوالد پا کر‬
‫بے حد خوش تھے۔‬

‫دائود صاحب اور مہر بیگم نے شہیر کی شادی اس‬


‫کی پسند سے ماموں کی بیٹی عائزہ سے کروا دی‬
‫گئی تھی۔ من پسند ہمسفر پا کے شہیر بہت خوش‬
‫تھا۔‬
‫شہیر آفندی اور عائزہ کی ایک ہی اوالد تھی۔ ارش‬
‫شہیر آفندی جو دادی کی آنکھوں کا تارا تھا۔ عائزہ‬
‫بیگم کے بکول شہیر کو خراب کرنے میں سارا‬
‫ہاتھ شہیر کی دادی کا تھا کیونکہ یہ حقیقت تھی‬
‫ارش شیطانی کر کے دادی کہ کمرے میں چال جاتا‬
‫تھا۔ پتا جو تھا یہاں میری بچت ہو جائے گی جس پہ‬
‫عائزہ بیگم کو سخت غصہ آتا تھا۔‬

‫ارش جب چودہ سال کا تھا تو دئواد صاحب کی‬


‫ہارٹ کی وجہ سے وفات ہو چکی تھی۔ مہر بیگم‬
‫بھی کینسر کی بیماری مبادلہ چند سال ہی جی پائی‬
‫اور خالق حقیقی سے جا ملی۔‬

‫ارش نے اپنے پاپا کی طرح بزنس پڑھا تھا اور‬


‫اب اپنے پاپا کا بزنس سنبھالتا تھا جو ارش کی دن‬
‫رات کی محنت کی بدولت کافی ترقی کر گیا تھا۔‬
‫ارش کا بس ایک ہی جگری دوست تھا۔ سیف شاہ‬
‫جن کی دوستی کی مثال فمیلی اور باہر لوگ بھی‬
‫دیتے تھے دونوں میں بھائیوں جیسا پیار تھا۔‬
‫💫💫💫💫💫💫💫💫💫💫‬
‫ماما جلدی ناشتہ دیں وردا چمچ سے ٹبیل بجاتے‬
‫ہوئے ذالے بیگم کو کہتی ہے۔‬

‫وردا کیا کررہی ہو بچی نہیں رہی ٹبیل بجانا بند‬


‫کروں ماما لیٹ ہو رہا کالج سے ذالے بیگم ہاں تو‬
‫کس نے کہا تھا کالج لگنے میں بیس منٹ رہ جائے‬
‫تو تب اٹھو وردا ماما اب نہیں دیر سے اٹھتی غلطی‬
‫ہو گئ بس اب جلدی کرے۔‬

‫ذالے بیگم یہ لوں ناشتہ کروں اور جلدی جائوں‬


‫تمہاری وجہ سے آمنہ بھی لیٹ ہو جاتی ہے پر‬
‫تمہیں جو پروا ہو اوکے ماما ہللا حافظ میں نے کر‬
‫لیا ہے ناشتہ وردا اپنی ماما کہ گلے مل کر بھاگتی‬
‫ہوئ باہر آئ جہاں آمنہ غصے والی شکل بنائے‬
‫گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی۔‬

‫آمنہ ہو گیا تمہارا ناشتہ ہمشیہ مجھے لیٹ کرواتی‬


‫ہو تمہاری وجہ سے مجھے بھی اتنی دیر کالس‬
‫سے باہر کھٹرا ہونا پڑتا ہے۔‬

‫یار تو میری بہن ہے نہ پلیز معاف کردیں آمنہ تم‬


‫روز یہی کرتی ہو معافی مانگنا فضول ہے جلدی‬
‫سے بیٹھوں وردا جیسے ہی گاڑی میں بیٹھتی ہے۔‬

‫آمنہ ڈرائیور سے کہتی ہے ڈرائیور انکل ذرا تیز‬


‫گاڑی چالئے تا کہ ہم جلدی کالج پہنچ سکے۔‬

‫گاڑی کالج کے سامنے آکر رکتی ہے اور وردا اور‬


‫آمنہ باہر نکل کر فٹافٹ کالج کی طرف بھاگتی کیوں‬
‫کے پہال لیکچر مس شائستہ کا ہوتا ہے جو وردا‬
‫کے بکول ہٹلر قسم کی ٹیچر ہے جو لیٹ آنے والے‬
‫بچے کو اپنے پورے لیکچر میں کالس کے باہر‬
‫کھڑا رکھتی تھی۔‬

‫ان کا کہنا تھا جو وقت کی قدر نہیں کرتا وہ کبھی‬


‫کامیاب نہیں ہو سکتا جلدی کرتے ہوئے بھی وردا‬
‫اور آمنہ پورے پانچ منٹ لیٹ تھی۔‬

‫دونوں کالس کے قریب جب پہنچتی ہیں تو دیکھتی‬


‫ہیں مس شائستہ بک کھول کر بچوں کو پڑھا رہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫وردا آمنہ کے کان میں کہتی ہیں یار دیر ہوگئی‬


‫جس پر آمنہ وردا کو خون خوار نظروں سے‬
‫گھورتی ہے۔‬
‫ایسے تو نہ دیکھوں مجھے شرم آتی ہے وردا‬
‫شیرمانے کی بھرپور ایکٹنگ کرتے ہوئے کہتی‬
‫ہے۔‬

‫آمنہ بند کروں ڈرامے بازی یار ہم پھر لیٹ ہو‬


‫گئے میم اب ہمیں باہر کھڑا کرے گی۔‬

‫وردا تو تمہیں کس نے کہا ہے باہر کھڑی ہو‬


‫آجاوں گرائونڈ میں جا کر بیٹھتے ہیں۔ میم کا‬
‫لیکچر جب ختم ہو جائے گا تب آجائے گے۔‬

‫آمنہ وردا کی بات مان لیتی اور دونوں گرائونڈ کی‬


‫طرف چل پڑتی ہیں۔‬

‫دونوں کالج یونیفارم میں کافی کیوٹ لگتی رہی‬


‫ہوتی ہے۔ آمنہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے نہ ہم‬
‫لیٹ آتے نہ ہمارا لیکچر مس ہوتا تمہیں ذرا احساس‬
‫بھی ہے نیکسٹ ویک سے ہمارے پیپر ہیں۔‬

‫ان کا آج کا لیکچر اتنا اہم تھا۔ وردا اچھا نہ کل‬


‫سے جلدی اٹھو گی۔ آمنہ بورا منہ بناتے تم ایسے‬
‫ہی کرتی وردا کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے سوری‬
‫معاف کر دو میری ماں چلوں اٹھوں آمنہ کہا یہاں‬
‫قریب ریسٹورنٹ ہے وہاں کوفی پینے چلتے ہیں۔‬

‫آمنہ تم پاگل تو نہیں ہو گئ کیسے جائے گے وردا‬


‫یہ تم مجھ پہ چھوڑ دو آمنہ کچھ الٹا نہ کری۔ وردا‬
‫ڈونٹ وری یار وردا آمنہ کو لے کر گیٹ کی طرف‬
‫بڑھتی ہے گیٹ پہ چوکیدار ڈیوٹی دیں رہا ہوتا ہے۔‬

‫وردا چوکیدار سے کہتی ہے انکل یہ پیسے‬


‫رکھوں اور ہمیں کچھ دیر کے لیے باہر جانے دو‬
‫چوکیدار بیٹا یہ پیسے رہنے دو اور جلدی آنا‬
‫چوکیدار وردا اور آمنہ کو اپنی بیٹیوں کی طرح‬
‫سمجھتا تھا۔‬

‫وردا کو کوفی کا بہت شوق تھا اور یہی شوق اس‬


‫نے آمنہ کو بھی لگا دیا تھا۔‬

‫گھر میں ثانیہ بیگم پینے نہیں دیتی تھی۔ اس لیے‬


‫وردا کالج کے پاس ریسٹورنٹ میں جا کر پیتی‬
‫تھی۔ دونوں چوکیدار کو ہللا حافظ کہتے ریسٹورنٹ‬
‫کی طرف بڑھتی ہیں۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ریسٹورنٹ کے باہر ہیلکس آکر روکی جس میں‬
‫سے پہلے سیف اپنی سحر انگیز پرسنالیٹی کے‬
‫ساتھ اترا اس کے بعد ارش اپنی سحر زدہ‬
‫خوبصورتی کہ ساتھ اترتا ہے۔‬
‫ارش سیف کی طرح ہی خوبصورتی کا منہ بولتا‬
‫ثبوت تھا۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد کالے بال بھوری‬
‫آنکھیں جو کسی کو بھی اپنی طرف کھینچنے کی‬
‫صالحیت رکھتی تھی۔‬

‫ساتواں ناک عنابی لب اور سرخ و سفید رنگت ارش‬


‫ہللا کی قدرت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔‬

‫سیف ارش سے چلے یار ہاں چل دونوں اندر کی‬


‫طرف بڑھ گئے ریسٹورنٹ میں ہر ذی روح ان‬
‫دونوں کو ہی دیکھنے لگ جاتے ہیں۔‬

‫ان کی سحر انگیز شخصیت کو دیکھ کر کافی‬


‫لڑکیاں مرعوب ہو رہی ہوتی ہیں۔ وہ دونوں اس‬
‫سب سے انجان نہیں تھے پر پھر بھی سب کو‬
‫اگنور کرتے اپنی ٹبیل کی طرف بڑھ جاتے ہے۔‬
‫ارش نے راستے میں ہی ٹبیل کی بکنگ کروا لی‬
‫تھی کیوں کہ یہ کافی مشہور ریسٹورنٹ تھا ہر‬
‫وقت یہاں لوگوں کا رش لگا رہتا تھا۔ اس لیے‬
‫بکنگ پہلے کروانی پڑتی تھی۔‬

‫ارش اور سیف نے ٹبیل پر بیٹھ کر کوفی آڈر کی‬


‫ساتھ ارش نے اپنے اور سیف کے لیے چکن‬
‫سینڈوچ آڈر کیے بکول ارش کے میں نے ناشتہ‬
‫نہیں کیا تو بھی مفت میں کھا لی سیف ہنستے ہوئے‬
‫تو بڑا کمینہ ہے۔‬

‫ارش وہ تو میں ہو کوئ شک سیف اس سے پہلے‬


‫کچھ کہتا ویڑر ان کا آڈر لیں کر آجاتا ہے۔‬

‫جس پر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں‬


‫اور کھانا کھانے لگتے ہیں۔‬
‫ادر وردا اور آمنہ ریسٹورنٹ پہنچتی ہیں تو وہاں‬
‫اتنا رش دیکھ کر آمنہ کو غصہ آتا ہے منع کیا تھا‬
‫نہ آئو دیکھوں کتنا رش ہیں۔‬

‫وردا یار گھبرا کیوں رہی ہو۔ تم ادر کھڑی ہو کر‬


‫میرا ویٹ کروں میں یوں گئ اور یوں آئ کوفی‬
‫لے کر۔ وردا آمنہ یہ کہہ کر اندر کی طرف بڑھتی‬
‫ہے۔‬

‫ارش اور سیف کھا پی کر ویڑر کو بال کر پیسے‬


‫دیں کر باہر کی جانب بڑھتے ہیں کہ اچانک بائیں‬
‫سائڈ سے کوفی التی وردا کا دائیں سائڈ سے آتے‬
‫ارش سے زور دار کا تصادم ہوتا اور ساری کوفی‬
‫ارش کی برینڈڈ شرٹ پر گر جاتی ہے۔‬
‫جس پر ارش اپنے اوپر ہونے والی حملے پر‬
‫حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔ جب اچانک اسے اپنی‬
‫شرٹ پرگرم چیز گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‬

‫ارش کو یہ دیکھ کر غصہ چڑ جاتا ہے۔ ارش کی‬


‫ابھی تک وردا پر نظر نہیں پڑتی وردا پریشان‬
‫کھڑی اپنے آپ کو کوسنے میں لگی ہوتی ہے۔‬

‫وردا کیا ضرورت تھی اندھوں کی طرح چلنے کی‬


‫اب یہ امیر زدہ پتہ نہیں کتنی باتیں سنائے گا ماما‬
‫ڈھیک کہتی ہے میں کسی کام کی نہیں اف کیا‬
‫کروں۔‬

‫ارش کے پورے تن بدن میں غصے شدید لہر‬


‫دوڑتی ہے اور وہ سر اٹھا کر مقابل کو سنانے کہ‬
‫لیے لگتا ہے کہ اپنے سامنے پری وش چہرہ دیکھ‬
‫کر ساکت ہو جاتا ہے۔‬
‫ارش سب کچھ فراموش کر کے وردا کو ہی بت‬
‫بنے دیکھی جاتا ہے۔ وردا اپنے آپ کو مقابل سے‬
‫سخت الفاظ سننے کے لیے خود کو تیار کر لیتی‬
‫ہے۔‬

‫جب کچھ سنائ نہیں دیتا تو حیران ہو کر مقابل کو‬


‫دیکھتی ہے۔ مقابل کو خود میں کھوئے دیکھتی‬
‫ہوئے غصہ دبا لیتی ہے کیونکہ وہ اس وقت خود‬
‫کو قصور وار سمجھ رہی ہوتی ہے۔‬

‫وردا کی اچھی عادت تھی جس چیز میں خود کی‬


‫کوئ غلطی ہو تو بے جھجک اگلے بندے سے‬
‫معافی مانگ لیتی تھی۔ یہاں بھی وردا کی غلطی ہی‬
‫تھی۔ اس لیے وردا ارش کو سوری کرتی ہے۔‬
‫جس پر ارش وردا کی سوری سے ہوش میں آتا‬
‫ہے۔ ارش کا دل اس بات ماننے پر مجبور ہو جاتا‬
‫ہے کہ اس ساحرہ کی خوبصورتی کے ساتھ آواز‬
‫بھی بہت پیاری ہے۔‬

‫ارش وردا کو اس اوکے آپ کو سوری کرنے کی‬


‫ضرروت نہیں میں ہی شاید اپنے دھیان میں آرہا‬
‫تھا۔‬
‫وردا میری بھی‬
‫غلطی ہے مجھے دیکھنا چاہیے تھا ارش ویڑر کو‬
‫کو اپنے پاس بولتا ہے۔ ان میڈم کا جو کھانے کا‬
‫نقصان ہوا ہے۔ آپ وہ ان کا پورا کر دیں۔ ارش‬
‫ویڑر کو پیسے دیتا ہے۔‬

‫وردا اس کی ضرروت نہیں ہے سر میں خودی بل‬


‫کر دوں گی۔‬
‫ارش ضرروت ہے میری وجہ سے آپ کا نقصان‬
‫ہوا اس لیے نو ایکسیوز وردا اس طرح تو آپ کی‬
‫شرٹ بھی خراب ہوئی ہے۔‬

‫ارش ہنستے ہوئے یہ میری خود کی وجہ سے‬


‫خراب ہوئی ہے۔‬

‫وردا ارش کو شکریہ کہتی ہے۔‬

‫آپ کا نام کیا ہے وردا کیوں آپ کیوں پوچھ رہے‬


‫ہے میں غیروں کو اپنا نام نہیں بتاتی ارش میں آپ‬
‫کو ویلکم بولنا چاہتا ہوں اس لیے نام پوچھا چلے‬
‫آپ کی مرضی آپ نہ بتائے نام اپنا وردا کچھ شش‬
‫و پنج کے بعد اپنا نام بتا دیتی ہے۔‬
‫"وردا حیدر بلوچ نام ہے" میرا ارش وردا کا نام سن‬
‫کر دل ہی دل میں وردا کہ نام کی تعریف کرتا ہے‬
‫کہ وردا کا نام بھی اس کی طرح خوبصورت ہے۔‬

‫نائس نیم ارش وردا کو ویلکم کرتا ہے۔ وردا اور‬


‫میرا نام ارش شہیر آفندی ہے۔ خیر آپ کا جو بھی‬
‫نقصان ہوا وہ پورا ہو جائے گا۔ میں چلتا ہو یہ‬
‫کہتے ہی ارش سیف کے ساتھ باہر کی طرف قدم‬
‫بڑھا دیتا ہے۔‬

‫ارش وردا سے کہتا زندگی رہی توپھر ملے گے۔‬


‫وردا ارش کہ اس جملے پہ حیران ہو جاتی ہے‬
‫عجیب پاگل میں کیوں اس سے دوبارہ ملوں گی۔‬

‫اب بھی مجھے ایسے گھور رہا تھا جیسے سالم‬


‫نگل لیں گا خیر وردا اپنی تمام سوچوں کو جٹکتی‬
‫ہوئ دوبارہ کافی لینے کے لیے آگے بڑھ جاتی‬
‫ہے۔‬

‫سیف باہر آکر مسلسل ارش کو گھور رہا ہوتا ہے۔‬


‫ارش کیا ہے یار اس طرح کیوں گھور رہا ہے۔‬
‫مارنے کا ارادہ ہے کیا سیف یہ اندر کیا کر کہ آیا‬
‫ہے۔‬

‫کسی کی بھی غلطی پر معاف نہ کرنے واال ارش‬


‫شہیر آفندی آج ایک چھوٹی سی لڑکی کے آگے‬
‫فلیٹ ہوگیا۔ سو سڑینج ارش وہ صرف ایک لڑکی‬
‫نہیں تیری بھابی بھی ہے اس لیے عزت سے‬
‫مخاطب کر سیف واٹ ایک نظر دیکھا تو نے اسے‬
‫اور پیار بھی ہو گیا۔‬

‫سچ بتا پھر سے تو نہیں فلڈ کر رہا ارش نہیں یار‬


‫اس بار مجھے سچی واال پیار ہو گیا ہے۔ یار تو‬
‫اپنے خاور سے وردا کا پتا نکلوا۔ سیف یار تو اپنی‬
‫فلینگ کو لیں کر سیریس ہے نہ سچ بتا یار وہ‬
‫واقعے میں چھوٹی ہے۔ اس کا دل نہ دکھائی ارش‬
‫سیف کا بازوں پکڑتے ہوئے یار تجھے کیسے یقین‬
‫دلواؤں کے مجھے واقعے میں محبت ہو گئ ہے‬
‫اور یہ محبت دن بہ دن کم نہیں بلکے اور بڑے‬
‫گی۔ عشق کی منزل تک پہنچے گی۔‬

‫سیف تو اپنے دوست کو ایسے سیریس باتیں کرتے‬


‫دیکھ حیران و پریشان ہو رہا تھا۔ واقعے عشق‬
‫انسان کو کہی کا نہیں چھوڑتا۔ ارش سچ کہہ رہا تھا‬
‫کیونکہ سیف کو ارش کی آنکھوں میں محبت کے‬
‫جلتے دیپ اس کی وردا کہ لیے سچی محبت کی‬
‫گواہی دیں رہی تھی۔‬

‫ارش شہیر آفندی کو واقعے ہی وردا حیدر بلوچ‬


‫سے محبت ہوگئ ہے۔‬
‫سیف ارش کے گلے لگتے ہوئے مبارک ہو تجھے‬
‫محبت ہو گئ میں خاور سے کہہ کر بھابی کا پتا‬
‫لگواتا ہو ارش کب تک وہ انفورمیشن دیں گا۔‬

‫سیف اتنا بے صبرا نہ ہو انفورمیشن نکلوانے میں‬


‫بھی ٹائم لگتا ہے۔‬

‫ارش جو بھی اسے کہی جلدی کر دیں۔ یہ کام سیف‬


‫صبر رکھ یار ہو جائے گا یہ کام تو گھر چل پہلے‬
‫تجھے ڈراپ کروں گا۔ پھر اپنے گھر جائوں گا۔‬

‫دونوں گاڑی کی طرف بڑھے۔ دھول اڑتی ہیلکس‬


‫اپنی منزل کی طرف چل پڑی۔‬
‫💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘‬
‫وردا کوفی کے کپ لے کر باہر نکلی۔ آمنہ کہا رہ‬
‫گئ تھی کب سے انتظار کر رہی ہوں۔ وردا سوری‬
‫یار لمبی کہانی ہے۔‬

‫تم پکڑوں کوفی اپنی اور مزے سے پیو آمنہ وردا‬


‫کوفی پی کر کالج کی طرف بڑھتی ہے۔چوکیدار بیٹا‬
‫اتنی دیر کر دی وردا ہاں انکل وہ وہاں ریسٹورنٹ‬
‫میں رش بہت تھا۔ یہ کہتے ہی وردا اور آمنہ کالج‬
‫کہ اندر چلی جاتی ہیں۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش آفندی ویال میں داخل ہوتے ہوئے۔ عائزہ بیگم‬
‫کو دیکھتا ہے جو مالزمہ سے رات کا کھانا پکانے‬
‫کے لیے ہدایت دیں رہی ہوتی ہے۔‬

‫عائزہ بیگم کی ارش پر نظر پڑتی ہے آگئے بیٹا‬


‫ارش جی موم بیٹا تھکے ہوئے لگ رہے ہو جائوں‬
‫جا کر آرام کروں۔ ارش اپنے روم میں داخل ہوتا‬
‫ارش کو بلیو اور وائٹ کلر بہت پسند تھا۔‬
‫روم کی ہر چیز ہی بلیو اور وائٹ تھی روم کے‬
‫وسط میں جہازی سائز بیڈ بائیں سائڈ پر بڑی ساری‬
‫ونڈو جس پر بلیو اور وائٹ پردے لگے ہوئے تھے۔‬

‫ایل سی ڈی دیوار میں فٹ ہوئی تھی۔ دائیں سائڈ پر‬


‫بہت بڑھا شیشہ دیوار میں فکس ہوا تھا وائٹ کلر‬
‫کا ڈرائسنگ ٹیبل پڑا ہوا تھا۔ اس کے تھوڑے سے‬
‫فاصلے پر بلیو کلر کا صوفہ اس کے اوپر وائٹ‬
‫کلر کے کشنز پڑے ہوئے تھے۔‬

‫ارش فریش ہوکر صوفے پر لیپ ٹوپ لیں کر بیٹھ‬


‫جاتا کیونکہ کل اس کی بہت اہم میٹنگ ہوتی ہے۔‬
‫ارش اپنا دھیان کام پر لگانے کی کوشش کرتا پر‬
‫بار بار توجہ اس پری پیکر پر چلی جاتی ہے۔ ارش‬
‫کافی کوشش کرتا ہے کہ کام پر کنسنٹریٹ کر‬
‫سکے پر ہر دفعہ وردا کا چہرا نظروں کے سامنے‬
‫آجاتا ہے ارش اپنی بے اختیاری پر غصہ آنے کی‬
‫بجائے خوشی ہوتی ہے کیونکہ پہلی دفعہ کوئی‬
‫لڑکی اس دل کو اچھی لگتی تھی۔‬

‫ارش لیپ ٹوپ بند کر کے کام صبح کرنے کا ارادہ‬


‫کرتا بیڈ پر جا کر لیٹ کر سونے کی کوشش کرتا‬
‫پر جیسے ہی آنکھیں بند کرتا ہے اس پری پیکر کا‬
‫چہرا نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔‬

‫اس کا سوری کرنا اس کا نام بتانے سے انکار کر‬


‫دینا اور پھر نام بتانا وردا حیدر بلوچ تم ایک دن‬
‫میری ضرور ہو گی یہ میرا وعدہ ہے خود سے‬
‫مجھے پورا یقین ہے ہللا مجھے میری محبت سے‬
‫ضرور نوازیں گا۔‬

‫وردا تیار ہو جائوں ارش شہیر آفندی کی روح کی‬


‫ساتھی بننے کے لیے ارش یہ کہتے ہی مسکراتا‬
‫دیتا ہے۔ وردا کو سوچتے ہی ارش کو نیند آ جاتی‬
‫ہے۔‬
‫💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟‬
‫مایا کو ہوش آتا ہے تو خود کو ہسپتال میں دیکھتی‬
‫ہے تو کافی حیران ہوتی ہے۔ اچانک مایا کو اپنے‬
‫جسم میں تکلیف ہوتی محسوس ہوتی ہے۔‬

‫ڈاکڑ صبا مایا کو ہوش میں آتے دیکھ مایا کی‬


‫طرف بڑھتی ہے۔ مایا سر پر ہاتھ رکھتے میں یہاں‬
‫کیا کر رہی ہو۔‬
‫آپ کا جسم کافی جگہ سے جال ہوا آپ کو یاد ہے۔‬
‫ایسا کیا واقعہ پیش آیا آپ کے ساتھ جو آپ کی یہ‬
‫حالت ہوئی ہے۔‬

‫مایا ذہن پہ زور ڈالتی ہے پر اسے کچھ یاد نہیں‬


‫آرہا ہوتا ڈاکڑ صبا اچھا آپ اپنے ذہن پہ زور نہ‬
‫ڈالے مایا روتے ہوئے مجھے کچھ یاد کیوں نہیں‬
‫آرہا کہ کیا ہوا تھا۔‬

‫ڈاکڑ صبا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں آپ کو‬


‫کسی چیز کا شوک لگا ہے۔ جس وجہ سے آپ کو‬
‫کچھ یاد نہیں آرہا لیکن آہستہ آہستہ آپ کو اپنی‬
‫پچھلی باتیں یاد آنا شروع ہو جائے گی۔ ابھی آپ‬
‫ریسٹ کریں۔‬
‫مایا ڈاکڑ صبا کی بات پہ آنکھیں بند کر لیتی پھر‬
‫بھی اس کے ذہن میں ایک ہی سوال چل رہا ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫اس کی یہ حالت کیسے ہوئ کون الیا اسے یہاں‬


‫ایسے بہت سارے سواالت مایا کے ذہن میں گردش‬
‫کر رہے ہوتے ہے پر اس کا اس کے پاس کوئی‬
‫جواب نہیں ہوتا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ڈاکڑ صبا سیف کے کیبن میں نوک کرتی ہے۔ اندر‬
‫سے یس کی آواز پر اندر قدم بڑھاتی ہے۔‬

‫سیف مایا کی اب کیسی کنڈیشن ہے سر اب آہستہ‬


‫آہستہ پیشنٹ مایا ریکوری کی طرف آرہی ہے۔‬
‫سیف یہ تو اچھی بات آپ نے ان سے پوچھا کس‬
‫وجہ سے ان کی یہ حالت ہوئ سر مایا کو کچھ بھی‬
‫یاد نہیں ہے۔ ایسا ہوتا ہے انسان کی زندگی میں‬
‫کوئ ایسا واقعہ پیش آتا جس سے اسے گہرا‬
‫دھچکہ لگتا ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔‬

‫آپ ان کا خیال رکھے نرس سے کہہ کر ٹائم پر ان‬


‫کی دوا دیں اور ان سے اب کچھ پوچھیے گا مت‬
‫آہستہ آہستہ انھیں خودی یاد آتا آ جائے گا۔‬

‫اس طرح ان کا اپنے دماغ پر زور ڈالنا خطرے‬


‫والی بات ہے۔ اوکے سرسیف آپ مجھے چائلذ وارڈ‬
‫کے بچوں کی فائل بھجوا دیں وارڈ بوائے کے ہاتھ‬
‫میں ابھی بھجواتی ہو۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ذالے بیگم کچن میں کھڑی وردا کو آواذیں دیں رہی‬
‫ہوتی ہے۔ وردا جی ماما کیوں بوال رہی ہے بیٹا یہ‬
‫بتائو جو کام نہیں آتا اس میں کیوں گھستی پو ماما‬
‫اب میں نے کیا کر دیا یہ کیا کچن کی حالت بنائی‬
‫ہوئی ے۔‬
‫وردا ماما آپ کو پتا تو ہے۔ مجھے آپ کے عالوہ‬
‫کسی کے ہاتھ کا بنا ناشتہ پسند نہیں تو بیٹا مجھے‬
‫کہہ دیتی ماما آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔‬

‫اس لیے میں نے خودی ناشتہ بنانے کا سوچا تو یہ‬


‫سب کچھ ھو گیا ذرا حال دیکھوں پورے کچن کا‬
‫سلیب پورا انڈوں کے چھلکوں اور آٹے سے گندہ‬
‫کیا ہوا ہیں۔‬

‫پورا سنگ برتنوں سے ایسے بھرا ہوا ہے جیسے‬


‫پورے خاندان کا ناشتہ بنا ہو اور فرش پر اتنا آئل‬
‫گرا ہوا ہے۔‬

‫وردا بیٹا اب تم بچی نہیں رہی تھوڑا گھریلو کام‬


‫بھی سیکھو آگے تمہارے کام آئے گا۔‬
‫ماما جب سیکھنا ہو گا سیکھ لوں آپ یہ دعا مانگے‬
‫آپ کی بیٹی کو ایسا شوہر ملے جو اسے اپنی دل‬
‫کی ملکہ بنا کے رکھے بیٹا میں تو ہر وقت تمہارے‬
‫لیے دعا کرتی ماں باپ اپنی بیٹی کی ہر خواہش‬
‫پوری کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔‬

‫ان کے الڈ اٹھتے ہے۔ بس انھیں اپنی بیٹی کے‬


‫نصیبوں سے ڈر لگتا ہے کیونکہ ماں باپ اپنی بیٹی‬
‫کا نصیب نہیں بدل سکتے میری دعا ہے بیٹا ہللا‬
‫تمہارا نصیب اچھا کرے۔‬

‫تم باہر جا کر بیٹھوں میں بنا کر التی ہو ناشتہ اور‬


‫تمہارا یہ گند بھی تو صاف کرنا ہے۔ ماما سوری‬
‫آئندہ کوشش کروں گی ایسا نہ ہو کوئ بات نہیں بیٹا‬
‫تم باہر جائو میں ناشتہ التی ہو ۔‬
‫ذالے بیگم کچن کا گند صاف کرتے ہوئے ہللا میری‬
‫بیٹی کو عقل دیں۔😆😄‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫آج سیف کا ہاسپٹل سےآف تھا۔ اس لیے آج وہ لیٹ‬
‫اٹھا تھا۔ سیف ڈائننگ ڈیبل پر آکر بیٹھتا ہے۔ عائشہ‬
‫بیگم ٹی وی الوئنچ میں بیٹھی میگزین پڑھ رہی‬
‫تھی۔‬

‫عائشہ بیگم کی سیف پہ نظر پڑتی ہے۔ بیٹا ناشتہ‬


‫دو جی موم دیں۔ موم ڈیڈ آفس چلے گے۔ ہاں بیٹا‬
‫تمہارا پوچھ رہے تھے۔‬

‫بس موم تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھ لیٹ کھولی‬


‫اچھا میں تمہارے لیے ناشتہ التی عائشہ بیگم کے‬
‫جانے کے بعد سیف خاور کو فون کرتا ہے۔‬
‫خاور کچھ پتا چال مایا کے پرینٹس کے بارے میں‬
‫یس سر مایا کے پرینٹس کی ڈیتھ ہو گئ ہیں۔‬

‫ان کا پورا گھر جل چکا ہے اور آس پاس کے‬


‫لوگوں سے بھی پوچھا انھیں بھی کچھ نہیں پتا مایا‬
‫میڈم کی والدین کی تدفین ان لوگوں نے ہی کی ہے۔‬

‫ان کا کہنا ہم نے بہت انتظار کیا ان کے خاندان‬


‫والوں میں سے کوئ آجائے لیکن کوئی نہیں آیا تو‬
‫انھوں نے خودی تدفین کر دی تھی اور مایا میڈم کہ‬
‫بارے میں انھیں کچھ نہیں پتا اوکے ٹھیک ہے۔‬

‫خاور ایک اور لڑکی کا پتا کروانا ہے۔ وردا حیدر‬


‫بلوچ نام ہے۔ اوکے سر کل تک اس کی انفورمیشن‬
‫مل جائے گی۔ شکریہ خاور سر اس میں شکریہ‬
‫کرنے کی کیا بات ہے یہ تو میں اپنی خوشی سے‬
‫کرتا ہو آپ کے مجھ پر بہت احسان ہے۔‬
‫اس کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں سیف نے بورے‬
‫وقت میں خاور کی مدد کی خاور کی ماں بہت‬
‫بیمار تھی اور خاور کے پاس پیسے بھی نہیں تھے‬
‫خاور نے میٹرک کیا ہوا تھا۔‬

‫باپ پچپن میں ہی فوت ہو گیا تھا اس سے چھوٹی‬


‫اس کی تین بہنے تھی۔ جس کی ساری ذمہ داری‬
‫خاور کے ناروا وجود پر پڑھ گئ تھی۔‬

‫جس وجہ سے خاور آگے مزید پڑھ نہیں سکھا‬


‫حاالت نے اسے وقت سے پہلے جوان کر دیا تھا۔‬

‫اوپر سے ہر مہینے کافی پیسے ماں کی دوائیوں پر‬


‫خرچ ہو جاتے تھے خاور ویٹر کی جوب کرتا تھا‬
‫جس سے ماں کی دوائیوں کا خرچ بمشکل نکلتا تھا۔‬
‫خاور کی چھوٹی بہن سکلولر شپ پہ یونیورسٹی‬
‫پڑھتی تھی۔ شام میں اکیڈمی میں پڑھاتی تھی جس‬
‫سے گھر کا خرچا چلتا تھا باقی چھوٹی دو بہنیں‬
‫جوڑوا تھی جو آٹھویں کی طالبہ علم تھی۔‬

‫خاور کو ڈاکڑ نے اس کی ماں کا عالج کروانے‬


‫کے لیے کہہ تھا جس پر کافی پیسہ چاہیے تھا‬
‫ایسے حاالت میں خاور کی مالقات سیف سے ہوئ‬
‫خاور کی امی کا سیف نے مفت عالج کیا تھا اور‬
‫اسے نوکری بھی دلوائی تھی۔‬

‫تب سے خاور سیف کے لیے کام کر تا تھا کسی‬


‫بھی بندے کی انفورمیشن چاہیے ہوتی تو خاور یہ‬
‫کام سر انجام دیتا تھا۔‬
‫سیف فون بند کرتا ہے۔ مایا کہ ماں باپ کی ایسی‬
‫درد ناک خبر سن کر کافی شوک میں چال جاتا ہے۔‬
‫عائشہ بیگم ناشتہ ال کر ڈائننگ ڈیبل پر رکھتی ہے۔‬

‫سیف کو دیکھتی ہے جو کافی پریشان لگ رہا ہوتا‬


‫ہے۔ بیٹا کیا ہوا کافی ٹینس لگ رہے ہو کیا بات ہے‬
‫بیٹا سیف چہرے پر مسکراہٹ التے ہو کچھ نہیں‬
‫موم اوکے چلوں ناشتہ کروں۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫لینڈ کروزر بہت بڑی بلڈنگ کے آگے آ کر روکتی‬
‫ہے۔ سیف بلڈنگ کے اندر قدم رکھتا ہے ہر کوئی‬
‫سیف کو دیکھنا شروع کر دیتا۔‬

‫سیف وائڈ پینٹ اور اوپر چیک والی رڈ شرٹ پہنے‬


‫پاؤں میں وائڈ برینڈڈ شوز پہنے ہاتھ میں رولیکس‬
‫کی گھڑی پہنے کافی ہنڈسم لگ رہا ہوتا ہے۔‬
‫سیف ارش کے آفس میں قدم رکھتا جدید تراش‬
‫خراش پر بنا آفس کسی کو بھی مسمرائز کر سکتا‬
‫تھا۔‬

‫ارش لیپ ٹوپ سے پوینٹ دیکھ کر فائل پر نوٹ‬


‫کر رہا ہوتا ہے۔‬

‫سیف کو آتا دیکھ کر ارش اپنی چیئر سے اٹھتا‬


‫خوش ہوتا سیف کے گلے لگتا ہے۔ واٹ آ پریزنٹ‬
‫سرپرائز یار تو نے ہمارے غریب کھانے کو کیسے‬
‫اپنا دیدار بخش دیا۔‬

‫سیف دیکھ لوں بس کوفی پیو گے ضرور ارش فون‬


‫پر دو کوفی النے کو کہتا ہے۔ آنٹی انکل کیسے ہاں‬
‫سب ڈھیک ہے۔‬
‫میں تمہیں کچھ اور بتانے آیا ہو۔ ارش کچھ اور کیا۔‬
‫یار بھول گیا ارش نہیں بھوال تجھے کیسے پتا چال‬
‫ارش دل کو دل سے راہ ہوتی تو میری محبت کا‬
‫بایو ڈیٹا پتا کروا لیا ہے۔‬

‫ہاں یار کل میں نے خاور کو وردا کی انفورمیشن‬


‫نکلوانے کے لیے کہا ہے۔ آج صبح ہی فون کر کے‬
‫خاور نے سب کچھ بتایا ہے۔ دیر کس بات کی بتا نہ‬
‫اب اچھا یار صبر رکھ تو بھی ہوا کے گھوڑے پر‬
‫سوار رہتا ہے۔‬

‫وردا کے پاپا ایک مشہور وکیل ہے اور وردا فسٹ‬


‫ائیر کی سٹوڈنٹ ہے اور عمر سترہ سال ہے۔‬
‫ارش مجھ سے تو کافی چھوٹی ہے لیکن کوئ بات‬
‫نہیں جہاں پیار ہو وہاں عمروں کا فرق نہیں دیکھا‬
‫جاتا سیف او پاگل یہ یک طرفہ محبت ہے۔‬

‫تو اس سے کرتا وہ تو نہیں کرتی نہ ارش وہ بھی‬


‫کرے گی نہ بھی کرے تو میری محبت ہم دونوں‬
‫کے لیے کافی ہو گی۔ بس میں اسے اپنے آس پاس‬
‫دیکھنا چاہتا ہو۔ اسے محسوس کرنا چاہتا ہو کہ وہ‬
‫میری روح کہ ساتھ جڑ چکی ہے۔‬

‫سیف ارش کو اس کی محبت مل جانے کی دعا دیتا‬


‫ہے۔‬

‫یار سیف تو بھی اپنے لیے ہمسفر ڈھونڈ لے یار‬


‫میں نے کہا نہ جب کوئ اس دل کو پسند آئی فورا‬
‫شادی کر لوں گا۔‬
‫کوفی آجاتی ہے تو دونوں باتوں کے دوران کوفی‬
‫پیتے ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫وردا اپنے گالبی بیڈ پر سوئی ہوتی ہے پورا کمرا‬
‫اندھیرے میں ڈوبا ہوتا ایسے میں آمنہ اندر آتی ہے۔‬

‫وردا کو کاندھوں سے جھنجوڑ کر اٹھاتی وردا ہر‬


‫بڑا کے اٹھتی ہے اور اونچی آواز میں چیختی ہے‬
‫ماما بچائو حملہ ہوگیا کیا کر رہی ہو وردا یہ میں‬
‫آمنہ ہو کیا حماقت ہے جلدی اٹھو کالج لگنے میں‬
‫پندرہ منٹ رہ گئے کب سے تمہں اٹھا رہے ہے۔‬

‫میں نے کئ دفعہ میڈ کو تمہیں اٹھانے بھیجا ہے پر‬


‫تم اٹھنے کا نام ہی نہیں لے رہی وردا غصے سے‬
‫آمنہ کی طرف بڑھتی ہے۔ اس طرح کون اٹھتا ہے‬
‫میرا ہارٹ فیل کرنے والی تھی تم آمنہ شرافت سے‬
‫آجائو نیچے اور یہ ڈرامے بعد میں کرنا آگے ہم‬
‫لیٹ ہو رہے ہے کالج سے تمہیں تو میں آمنہ کی‬
‫بھی بعد میں پوچھوں گی۔ آمنہ نے حیران ہوتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫کہاں ہے میرے بچے مجھے تو نظر نہیں آرہے۔‬


‫وردا غصے سے آمنہ کو پلو اٹھا کہ مارتی ہے تو‬
‫وہ ہنستے ہوئے نیچے کی طرف قدم بڑھا دیتی‬
‫ہے۔‬

‫وردا فٹافٹ تیار ہو کر سیڑھیاں اتر کر نیچے کی‬


‫طرف آتی ہے۔ حیدر صاحب اپنے کیس کی کوئی‬
‫کی فائل ریٹ کر رہے ہوتے ہے۔‬

‫وردا اسالم و علیکم پاپا کہتے حیدر صاحب کے‬


‫گلے لگ جاتی ہے کیسی ہے میری پرنسس بلکل‬
‫ڈھیک پاپا آپ کب واپس آئے حیدر صاحب کیس‬
‫کی وجہ سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔‬
‫بیٹا رات کو ہی واپس آیا ہو تب آپ سو رہی تھی تو‬
‫آپ کو اٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔ پاپا اٹھا بھی لیتے‬
‫تو کچھ نہیں تھا۔ ذالے بیگم بیٹا باتیں آکر کرنا‬
‫ناشتہ کر لوں ماما بہت لیٹ ہو گیا وہاں سے کچھ‬
‫کھا لوں گی۔‬

‫وردا فٹافٹ کہتے باہر کی طرف تیزی سے دوڑ‬


‫لگاتی گاڑی میں بیٹھ آکر بیٹھتی جاتی ہے۔ تو‬
‫ڈرائیور گاڑی کالج کی طرف بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫سیف چائلڈ وارڈ کے آگے سے گزرتا ہے کہ‬
‫اچانک وارڈ میں سے کسی بچے کی رونے کی‬
‫آواز آرہی ہوتی ہے۔‬
‫سیف وارڈ میں داخل ہوتا ہے نرس سے پوچھتا ہے‬
‫یہ بچہ کیوں رو رہا ڈاکڑ سیف یہ بچہ انجیکشن‬
‫نہیں لگوا رہا سیف پیار سے بچے کو پچکارتا بیٹا‬
‫آپ کی صحت کے لیے یہ ضروری ہے لگوا لوں‬
‫اچھا آپ کا نام کیا ہے میرا نام افنان ہے۔‬

‫بہت پیارا نام ہے آپ کو کھانے میں کیا پسند ہے‬


‫سیف باتوں کے دوران نرس کو انجیکشن لگانے کو‬
‫کہتا اور افنان کو باتوں کرتے یہ پتا ہی نہیں چلتا‬
‫کہ جس وجہ سے وہ رو رہا ہے وہ کام اس سے‬
‫باتوں کہ دوران ہی کر لیا گیا ہے۔ مجھے ڈاکٹر‬
‫انکل کھانے میں برگر‪ ،‬بریانی‪ ،‬شورما اور اورنج‬
‫جوس بہت پسند ہے۔‬

‫سیف بیٹا آپ جلدی ڈھیک ہو جائوں میں آپ کو سب‬


‫چیزیں لے کر دو گا۔ ڈاکڑ انکل میں کب ڈھیک ہو‬
‫گا۔ مجھ سے نہیں کھائی جاتی کڑوی دوائیاں بیٹا‬
‫آپ دوائی نہیں کھائ گے تو ڈھیک کیسے ہو گے‬
‫آپ کو ڈیھک ہونا ہے نہ جس پر افنان اثبات میں‬
‫سر ہالتے ہے۔ تو پھر بیٹا آپ کو دوائی کھانے‬
‫پڑے گی تاکہ آپ جلدی ڈھیک ہو جائوں۔‬

‫سیف افنان کے سر پر پیار کر کے چائلڈ وارڈ سے‬


‫باہر نکل کر مایا کے روم کی طرف بڑھتا ہے۔‬
‫جہاں مایا آنکھیں بند کیے لیٹی ہوئ ہوتی ہے۔‬

‫سیف نرس سے ڈاکڑصبا کو بلوانے کے لیے کہتا‬


‫اور خود مایا کی طرف بڑھتا ہے۔‬

‫مایا کسی کی موجودگی سے اپنی آنکھیں کھولتی‬


‫ہے تو اپنے سامنے وائٹ پینٹ شرٹ پہنے ایک‬
‫لڑکے کو کھڑا ہوا دیکھتی ہے۔‬
‫سیف مایا کو ہوش میں آتے دیکھ مایا کی طرف‬
‫دیکھتا ہے جو اسی کی طرف دیکھ رہی ہوتی ہے۔‬

‫سیف ایک پل کے لیے مایا کی سنہری آنکھوں‬


‫میں کھو ہی جاتا ہے۔ پتا نہیں کون سی ایسی کشش‬
‫ہوتی ہے ان انکھوں میں جو سیف کو اندر تک‬
‫اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہے۔‬

‫سر سیف ڈاکڑ صبا کی آواز سے سیف ہوش میں آتا‬


‫اب ان کی کیسی پروگریس ہے سر اب یہ پہلے‬
‫سے بہتر ہے۔ ان کو کچھ ان کے پاسٹ کے بارے‬
‫میں یاد آیا نو سر ان کو کچھ یاد نہیں آیا۔ سیف مایا‬
‫سے پوچھتا اب آپ کی کیسی طبیعت ہے۔‬

‫مایا پہلے سے بہتر ہو پر اب بھی زخموں میں درد‬


‫ہو رہا ہے۔ سیف ہمم کہہ کر صبا کو مخاطب کرتا‬
‫صبا آپ ان کا خیال رکھے انھیں پین کلر دیں اور‬
‫باقاعدگی سے میڈیسن دیں۔‬

‫ڈاکڑ صبا جی سر میں ابھی انھیں پیں کلردیں دیتی‬


‫ہو۔سیف صبا کو ہدایت دیتا باہر نکل جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫وردا اور آمنہ کالج کہ گیٹ کہ باہر کھڑی آدھے‬
‫گھنٹے سے ڈرائیور انکل کا ویٹ کر رہی ہوتی پر‬
‫وہ آنے کا نام ہی نہیں لیں رہے ہوتے۔‬

‫آمنہ یار اتنی دیر ہوگئی ہے ڈرائیور انکل کو‬


‫چھوٹی کا ٹائم نہیں پتا کیا جو ابھی تک نہیں آئے۔‬

‫یار وردا صبر کروں شاید ٹریفک کی وجہ سے نہ‬


‫ابھی تک آئے ہو۔ یار مجھ سے اور گرمی برداشت‬
‫نہیں ہو رہی آجائو ہم خود ہی چلتے ہے۔ وردا پاگل‬
‫ہو گئ ہو۔‬

‫آمنہ یار چلوں گھر جا کر بحث کرنا آج میم شائستہ‬


‫کے لیکچر میں اتنی دیر باہر کھڑا ہونا پڑا میرا‬
‫پہلے ہی دماغ گرم ہوا پڑا ہے۔‬

‫وردا آمنہ کا ہاتھ پکڑ کر رکشے کی تالش میں فٹ‬


‫پاتھ پر چلنا شروع کر دیتی ہے۔‬

‫فٹ پاتھ کے کچھ آگے جا کے کھمبے کے پاس‬


‫چار لڑکیں کھڑے سیگرٹ کے سوٹے لگا رہے‬
‫ہوتے ہیں۔‬

‫اچانک ان میں سے ایک کی نظر وردا پر پڑھتی‬


‫ہے تو دوسرے لڑکے کہ کندیں پر ہاتھ رکھتے کہتا‬
‫ہے۔ استاد وہ دیکھ دو حسینائے ہماری طرف ہی ا‬
‫رہی ہے کیا کمال پیس ہے آج تو ہم سب کے مزے‬
‫لڑکا خباثت سے ہستے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫اس کے کہنے پر باقی لڑکے بھی وردا اور آمنہ‬


‫کی طرف متوجہ ہو جاتے ہے ان میں سے ایک‬
‫کہتا واہ آج تولگتا ہے اپنا جیک پوٹ نکل گیا۔‬

‫چاروں لڑکیں وردا اور آمنہ کی طرف بڑھتے ہے۔‬


‫وردا اور آمنہ چل رہی ہوتی ہے کہ اچانک اپنے‬
‫سامنے چار لڑکوں کو کھڑا ہوا دیکھتی ہے۔‬

‫آمنہ ڈر کے مارے وردا کا بازوں پکڑ لیتی ہے۔‬


‫وردا غصے سے ان کی طرف دیکھتی ہے کیا‬
‫مسئلہ ہے تم لوگوں کا راستہ چھوڑو ہمارا ان میں‬
‫سے ایک لڑکا وردا کو کہتا رانی تمہاری ادائیں‬
‫بھی تمہاری طرح حسین ہے۔‬
‫وردا ایسے الفاظ اپنے لیے سن کر آگ بگوال ہو‬
‫جاتی ہے اے کمینے اپنی اوقات نہ بھول اور پھوٹ‬
‫لے یہاں سے ورنہ جوتی اتار کر تم لوگوں کی‬
‫خاطر مدارت کروں گی کہ اپنے ہونے پر پچتھائو‬
‫گے۔‬

‫ان میں سے ایک لڑکا کہتا اے سالی چپ کر بہت‬


‫تیرے پر نکل آئے وہ لڑکا وردا کی طرف ہاتھ‬
‫بڑھتا ہے کہ اچانک کوئ مردانہ ہاتھ وردا تک‬
‫پہنچنے سے پہلے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر زور سے‬
‫مروڑ دیتا ہے۔‬

‫لڑکے کو اپنے ہاتھ کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس‬


‫ہوتی ہے وردا کی اچانک نظر ہاتھ سے ہوتے‬
‫ہوئے ارش پہ جا کر روک جاتی ہے جس کی‬
‫آنکھیں غصے اور ضبط سے الل ہو رہی ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫ارش اس لڑکے کو مارنا شروع کر دیتا باقی لڑکے‬


‫اپنے ساتھی کو پٹتا دیکھ کر جان بچا کر بھاگ‬
‫جاتے ہیں۔‬

‫ارش اس لڑکے کو بوری طرح مار رہا ہوتا ہے نہ‬


‫جانے کون سا جنون سر پر سوار ہو چکا ہوتا ہے‬
‫جو اترنیں کا نام ہی نہیں لیتا۔‬

‫وردا ارش کو اتنی بوری طرح مارتے دیکھ اس کی‬


‫طرف بڑھتی ہے بول کیسے تیری جرات ہوئی‬
‫اسے چھیرنے کی لڑکا مجھے معاف کر دو سر‬
‫مجھ سے غلطی ہو گئ۔‬
‫ارش چھوڑو اسے کیا پاگل پن ارش غصے سے‬
‫وردا کی طرف دیکھتا ہے پھر لڑکے کو کولر سے‬
‫پکڑ کر کھڑا کرتا لڑکے کا سر سے خون بہہ رہا‬
‫ہوتا ہے ۔‬

‫آتش چل معافی مانگ اس سے جلدی کر لڑکے کا‬


‫کلولر کھینچتے ہوئے وردا سے معافی مانگنے کو‬
‫کہتا ہے بہن مجھے معاف کر دوں مجھ سے بہت‬
‫بڑی غلطی ہو گئ۔‬

‫ارش اس لڑکے کے معافی مانگتے ہی اسے سٹرک‬


‫پر دھکا دیں دیتا ہے۔ آئندہ سے کسی کی بھی ماں‬
‫بہن کو تنگ کرنے سے پہلے تو میری مار یاد رکھ‬
‫لی چل نکل یہاں سے ورنہ جان لیں لوں گا تیری‬
‫لڑکا جلدی سے اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ارش لڑکے کے جانے کے بعد غصے سے وردا‬
‫کی طرف موڑتا ہے۔ کس نے کہا تھا یوں اکیلے‬
‫گھر جانے کو ارش اونچی آواز میں دھاڑا کے‬
‫وردا اور آمنہ اپنی جگہ سہم کر رہ گئ۔‬

‫وردا وہ ڈرائیو انکل کا ویٹ کر رہے تھے انھیں‬


‫لیٹ ہوگیا تو سوچا خودی گھر چلے جائے۔‬

‫ارش اگر میں نہ آتا پتا ہے کیا کرتے تمہارے ساتھ‬


‫یہ لوگ وردا آپ نے مدد کی بہت بہت شکریہ آپ‬
‫کا اب آپ جا سکتے ہے۔ ہم خودی گھر چلے جائے‬
‫گے۔‬

‫میں گھر چال جائو تاکہ پھر کوئ تمہیں تنگ کرے‬
‫چپ چاپ آکر گاڑی میں بیٹھو آکر میں انتظار کر‬
‫رہا ہو۔‬
‫ارش آمنہ کو مخاطب کرتا ہے گڑیا آپ بھی‬
‫آجائے ارش دونوں کو کہتا گاڑی کی طرف بڑھتا‬
‫ہے۔‬

‫آمنہ خوش ہو کر گاڑی کی طرف بڑھتی ہے وردا‬


‫تم کدر جارہی ہو آمنہ مجھے میرا بھائ بوال رہا تم‬
‫نے آنا ہے تو آجانا آمنہ یہ کہتے ہی گاڑی میں بیٹھ‬
‫جاتی ہے۔‬

‫وردا جلتی کڑھتی ہوئ گاڑی کی طرف بڑھتی ہے‬


‫کیوں کہ باہر شدید گرمی تھی اور اس میں مزید‬
‫گرمی میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں ہوتی اس‬
‫لیے وہ گاڑی کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔‬
‫وردا گاڑی کا پچھال دروازہ کھول کر بیٹھنے لگتی‬
‫ہے۔ میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہو آگے آکر بیھٹو‬
‫وردا اپنے غصے پر قابو پاتی آگے آکر گاڑی کا‬
‫دروازہ زور سے بند کرتی ہوئ بیٹھ جاتی ہے۔‬

‫جس پر ارش کے چہرے پر بہت خوبصورت‬


‫مسکراہٹ چھپ دھکال کر غائب ہو جاتی ہے۔‬

‫ارش گاڑی سٹاٹ کرتا ہے۔ گڑیا آپ اپنے گھر کا‬


‫پتا بتا دیں تھوڑا آگے آنے کہ بعد ارش آمنہ سے‬
‫پوچھتا ہے۔‬

‫بھائ یہاں سے رائٹ جا کے لیفٹ ہو جائے ارش‬


‫آمنہ کے بتائے ہوئے راستے پر گاڑی بڑھا دیتا‬
‫ہے۔ بس بھائ ادر ہی روک دیں۔‬
‫ایک بڑی سی کوھٹی کے سامنے گاڑی آ کر‬
‫روکتی ہے وردا غصے سے گاڑی سے نکل کر‬
‫اندر کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬

‫آمنہ کار سے اتر کر ارش کا شکریہ ادا کرتی ہے۔‬


‫بھائ وردا کی طرف سے میں سوری کرتی ہو۔‬

‫ارش کوئ بات نہیں گڑیا اب آپ بھی جائو کافی‬


‫لیٹ ہو گیا ہے آگے ہی جی بھائ آمنہ خدا حافظ‬
‫کہتے گھر کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬

‫ارش گاڑی ریورس کرتے گاڑی روڈ پہ ڈال دیتا‬


‫ہے اور آج کہ بارے میں سوچنا شروع کر دیتا ہے۔‬
‫ارش آفس سے وردا کی ایک جھلک دیکھنے کے‬
‫لیے نکلتا ہے۔ ارش نے سیف سے کالج کا ایڈریس‬
‫بھی پوچھ لیا تھا۔‬
‫جب ارش کو کالج کے روڈ سے پیچھے وردا کا‬
‫گمان ہوتا ہے۔ ارش گاڑی روک کے دیکھتا ہے تو‬
‫وہ واقعے ہی وردا ہی ہوتی ہے۔‬

‫جب ارش کی نظر وردا کو تنگ کرتے لڑکوں‬


‫پڑھتی ہے تو اس کو شدید غصہ آتا جس میں وہ‬
‫اس لڑکے کو مارنا شروع کر دیتا ہے۔‬

‫ارش کو دوبارہ یہ واقعہ یاد آتے ہی رگ تن جاتی‬


‫ہے۔ ارش کا بس نہیں چل رہا ہوتا ان سب لڑکوں‬
‫کی جان لے لیں۔‬

‫اچانک ارش کو وردا کی حرکتیں یاد آتی ہے۔ جس‬


‫پر ارش کہ چہرے پر مسکراہٹ کھل جاتی ہے۔‬
‫ارش کا سارا غصہ جاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔‬
‫وردا حیدر بلوچ بہت جلد تم میری ہو گی مسکراتے‬
‫ہوئے کہتے گاڑی گھر کی طرف گامزن کر دیتا‬
‫ہے۔‬
‫💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓💓‬
‫سیف رات کو سونے کے لیے لیٹتا ہے کہ اچانک‬
‫آنکھوں کہ سامنے سنہری آنکھوں کا عکس لہراتا‬
‫ہے۔‬

‫سیف اٹھ کر بیٹھ جاتا یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔‬


‫کیوں اس کا چہرہ بار بار آنکھوں کے سامنے آرہا‬
‫ہے۔‬

‫سیف کے دل سے آواذ آتی تمہیں اسے محبت ہو‬


‫گئ ہے۔‬
‫اچانک ذہن سے آواذ آتی یہ صرف وقتی اٹریکشن‬
‫ہے۔ اس کہ عالوہ کچھ نہیں سیف شش و پنج میں‬
‫پڑ جاتا ہے۔‬

‫سیف کل ہی اس بارے میں ارش سے بات کرنے کا‬


‫اردہ کرتا دوبارہ سونے کی کوشش کرتا ہے۔‬
‫بہت کوشش کہ بعد سیف کو نیند آ ہی جاتی ہے۔‬
‫💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘‬
‫ارش گھر میں اینڑ ہوتے ہی عائزہ بیگم کو آوازیں‬
‫دیتا ہے۔ عائزہ بیگم ارش کی آواز سن کر پریشان‬
‫ہوتی اپنے کمرے سے باہر نکلتی ہے۔‬

‫آہستہ بولو تمہارے پاپا تمہارا ہی پوچھ رہے تھے۔‬


‫اتنی لیٹ گھر آنے کی وجہ پوچھ سکتی ہو۔ ماما پاپا‬
‫سو گئے ہاں تمہارا انتظار کرتے ہی سو گئے۔ موم‬
‫سوری ڈیڈ اتنا انتظار کرتے رہے۔‬
‫آپ مجھے فون کر دیتی تھا۔ تم نے اٹھایا ہی نہیں‬
‫اچھا موم ڈیڈ سے صبح مل لوں گا ابھی آپ کو کچھ‬
‫بتانا ہے۔‬

‫عائزہ بیگم اپنے خوبرو بیٹے کی طرف دیکھتی‬


‫ہے۔ جس کا چہرا خوشی سے دمہک رہا ہوتا ہے۔‬

‫بتائوں بیٹا کیا بات ہے۔ ارش عائزہ بیگم کو صوفے‬


‫پر بیٹھتا ان کی گھود میں سر رکھ کر نیچے فرش‬
‫پر پائوں کے بل بیٹھ جاتا ہے۔‬

‫موم مجھے محبت ہو گئ ہے۔ عائزہ بیگم ارش کے‬


‫منہ سے محبت جیسے لفظ سن کر حیران رہ جاتی‬
‫ہے لیکن جب بات سمجھ میں آتی ہے تو ان کے‬
‫چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے۔‬
‫بیٹا میں تمہارے لیے بہت خوش ہو پھر کب رشتہ‬
‫لے کر جائے لڑکی کے گھر موم ابھی نہیں اس‬
‫کے ابھی پیپر ہونے والے ہیں فائنل بیٹا اس کی‬
‫پڑھائی کمپلیٹ نہیں ہوئ۔‬

‫موم ابھی اس کے پڑھائی ختم ہونے میں کافی ٹائم‬


‫ہے۔ کیا مطلب موم وہ ابھی فسٹ ائیر کی سٹوڈنٹ‬
‫ہے ۔‬

‫عائزہ بیگم بیٹا جی لڑکی پسند کرنے کو کہا تھا۔‬


‫بچی نہیں ارش دل میں موم سترہ سال کی لڑکی‬
‫کوئ بچی نہیں ہوتی بیٹا مجھے لگتا پاگل ہو گئے‬
‫ہو یا تو یہ وقتی اٹریکشن ہے ۔‬

‫موم یہ وقتی اٹریکشن نہیں ہے۔ میں اس سے محبت‬


‫کرتا ہو اب تو اس سے عشق ہونے لگا ہے۔‬
‫بیٹا تمہارے ڈیڈ نہیں مانے گے موم ڈیڈ کو منانا‬
‫میرا کام ہے۔ آپ بے فکر ہو جائے آپ کو آپ‬
‫بیٹی مل جائے گی۔‬

‫مجھے میرے روح کی ساتھی بیٹا میری دعا ہے۔‬


‫تمہیں تمہاری محبت مل جائے ارش عائزہ بیگم کی‬
‫دعا پر آمین کہتا ہے۔‬

‫عائزہ بیگم بیٹا کافی رات ہو گئ ہے جا کر آرام‬


‫کروں موم میرا کوفی پینے کو دل کر رہا وہ بنا دیں‬
‫پھر میں ریسٹ کروں گا۔‬

‫اچھا بیٹا بناتی ہو۔ عائزہ بیگم یہ کہہ کر کچن کی‬


‫طرف چلی جاتی ہے۔ ارش وردا کہ بارے میں‬
‫سوچتے ہوئے کہتا ہے۔‬
‫❤‪Warda very soon you will be mine.‬‬

‫ارش کیفے میں بیٹھا سیف کا انتظار کر رہا ہوتا‬


‫ہے۔ ارش وائٹ شرٹ بلیو پینٹ میں ایک ہاتھ پر‬
‫قیمتی گھڑی پہنے پائوں میں وائٹ شوز پہنے کافی‬
‫ہنڈسم لگ رہا تھا۔‬

‫لڑکیاں ارش کی پرسنیلیٹی سے امپریس ہوتی موڑ‬


‫موڑ کر ارش کو دیکھ رہی تھی۔ ارش اس سب سے‬
‫بیزار ہوتا سیف کی راہ تک رہا تھا۔ یار اتنی دیر‬
‫لگا دی ابھی تک نہیں آیا پتا نہیں کیا اتنی ضروری‬
‫بات کرنی تھی۔‬

‫جو میٹنگ کے دوران بلوا لیا۔ ارش کی اہم میٹنگ‬


‫چل رہی تھی۔ میٹنگ کہ دوران ہی سیف نے ارش‬
‫کو ارجنٹ فون کر کے کیفے میں ملنے کہ لیے‬
‫بلوا لیا تھا ۔ ارش پریشان سا سب کچھ منیجر پہ‬
‫چھوڑ کر وہاں سے نکل گیا تھا۔‬

‫ارش کا پارا ہائ ہونے سے پہلے سیف آجاتا ہے۔‬


‫سیف چیئر پر بیٹھ کر ارش کو سالم کرتا ارش‬
‫سالم کا جواب دیتے ہی کمینے کب سے تیرا انتظار‬
‫کر رہا ہو۔‬

‫سیف سوری یار ٹریفک اتنی تھی۔ اس لیے لیٹ ہو‬


‫گیا۔ ارش ویڑ کو دو کوفی النے کو کہتا ہے۔ ارش‬
‫خیر یہ بتا اتنا ارجنٹ کیوں بلوایا۔‬

‫یار میں نے تجھ سے ضروری بات کرنی ہے۔‬


‫کچھ سمجھ نہیں آرہا جو مجھے محسوس ہو رہا ہے‬
‫وہ وقتی اٹریکشن ہے یا کچھ اور سیف مایا کو‬
‫سوچتے ہوئے کہتا ہے۔‬
‫ارش کیا بہکی باتیں کر رہا یار مجھے کچھ سمجھ‬
‫نہیں آرہا کھل کے بتا۔ یار ہمارے ہسپتال میں ایک‬
‫پیشنٹ آئ ہے۔ مایا کافی کریٹکل کنڈیشن میں اور‬
‫ڈاکڑ صبا اس کا عالج کر رہے ہیں۔‬

‫ارش یہ باتیں تو مجھے کیوں بتا رہا ہے۔ سیف وہ‬


‫اس لیے یار کے کل اس کا چیک اپ کرنے گیا تو‬
‫اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اسی میں کھو گیا۔‬

‫ارش تو پھر میں کیا کروں اس سلسلے میں یار‬


‫مجھے ہر وقت وہی دکھائی دیتی ہے۔ تو بتا تو بھی‬
‫تو محبت کی راہوں کا مسافر تو بتا یہ کیسی فیلنگ‬
‫ہے۔ یار سیف تو مان نہ مان تجھے محبت ہو گئ‬
‫ہے۔‬
‫ارش یار میں ابھی خود بھی اپنی فیلنگ کو سمجھ‬
‫نہیں پا رہا یہ کیسا جذبہ ہے۔ یار تو اپنے آپ کو‬
‫ٹائم دیں کہ واقعے تجھے اس سے محبت ہے یا‬
‫وقتی اٹریکشن ہے ۔‬

‫سیف ارش کی بات پر ہمم کہہ دیتا ہے۔ سیف اور‬


‫بتا وردا بھابی کے گھر کب رشتہ لیں کر جانے کا‬
‫ارادہ ہے۔‬

‫یار ابھی اس کے پیپر ہو رہے ہے۔ ابھی میں چاہتا‬


‫ہو اسے کوئ ٹینشن نہ دو پیپر دیں لے پھر جائے‬
‫گے رشتہ لے کر میں نے موم کو بھی سب کچھ بتا‬
‫دیا ہے۔‬

‫موم بھی بہت خوش ہے کہ میں نے اپنی الئف کے‬


‫حوالے سے آکر کار کوئ سیریس فیصلہ لیں ہی لیا‬
‫ہے۔ یار سیف تو بھی اب شادی کر لے۔ جب اپنی‬
‫فیلنگ کے حوالے سے یقین ہو جائے تو دیر نہ‬
‫کری ۔‬

‫ہم دونوں کا شروع سے پلین تھا۔ اکھٹی شادی‬


‫کرنے کا میں تو تیار ہو تو بھی تیار ہو جا سیف‬
‫ارش کی بات پر مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہال‬
‫دیتا ہے۔‬
‫💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘💘‬
‫وردا اپنے کمرے میں بیٹھی سخت بوریت کا شکار‬
‫ہو رہی ہوتی ہے۔ کیونکہ آج سنڈے تھا اور ہر کوئ‬
‫اپنے کمروں میں نیند کے مزے لوٹ رہا تھا۔‬

‫اچانک وردا کے کمرے میں احان داخل ہوتا ہے۔‬


‫آپی میرا کل میتھ کا ٹیسٹ ہے۔ مجھے ایک ایقویشن‬
‫سمجھ نہیں آرہی آپ سمجھا دیں۔‬
‫او مینڈک اس وقت میں سخت بور ہو رہی ہوتو‬
‫مہربانی کر کے ہیاں سے نکل لوں بعد میں سمجھا‬
‫دو گی۔ آپی پلیز رات میرا دوستوں کے ساتھ میچ‬
‫کھیلنے کا پروگرام ہے۔ آپ ابھی سمجھا دیں۔ ڈھیک‬
‫ہے میری ایک شرط ہے۔‬

‫احان بولے کیا شرط ہے۔ احان کا کل ٹیسٹ نہ ہوتا‬


‫تو کبھی بھی شرط کے لیے نہ مانتا۔ تم مجھے آئس‬
‫کریم الکر دوں گے اور بائیک پر کل گھمانے لے‬
‫کر جائو گے۔‬

‫احان کو وردا کی شرط ماننی ہی پڑی ہے۔ وردا‬


‫اور کسی سبجیکٹ میں اچھی ہو نہ ہو میتھ وردا کا‬
‫فیورٹ سبجیکٹ تھا۔‬
‫ہمیشہ میتھ میں اے پلیس لیتی تھی۔ احان وردا کے‬
‫پاس سمجھنے کے لیے اس لیے آجاتا تھا کیونکہ‬
‫وردا بہت اچھا سمجھاتی تھی۔‬

‫وردا احان کو سمجھا دیتی ہے۔ احان وردا کو‬


‫تیھنکس بول کر جانے لگتا ہے۔ احان میری شرط‬
‫نہ بھولنا آپی مجھے یاد ہے۔‬

‫یہ چیزیں رکھ کر وہی لینے جا رہا ہو۔ احان یہ‬


‫کہتے ہی وردا کے کمرے سے نکل جاتا ہے۔ وردا‬
‫میڈم کو پھر بوریت ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اس‬
‫لیے وہ فون پر جیسٹن بیبیر کا سونگ‬
‫‪Let’s me love you‬‬
‫لگا کر ہلکے ہلکے ڈانس سٹیپ لینا شروع کر دیتی‬
‫ہے۔ وردا کا فیورٹ سنگر جیسٹن بیبیر تھا۔ وردا‬
‫اسی کہ زیادہ تر گانے سنتی تھی۔‬
‫😆😆😆😆😆😆😆😆😆😆😆‬
‫ہر طرف ہریالی ہی ہریالی ہوتی پھولوں کے‬
‫اوپر رنگ برنگی تتلیاں بیٹھی ہوتی ہے۔ مایا وائٹ‬
‫فراک پہنے بلیو تتلی کہ پیچھے بھاگ رہی ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫مایا کو اپنے ماما پاپا کی آواز آتی جو دور کھڑے‬


‫مایا کو اپنی طرف بوال رہے ہوتے ہے۔ مایا خوش‬
‫ہوتے اپنے ماما پاپا کی طرف بھاگتی ہے۔ مایا‬
‫محسوس کرتی ہے کہ وہ چلتی جا رہی ہے لیکن‬
‫راستہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہوتا۔‬

‫مایا کہ ماں باپ اپنی باہیں پھیالئے مایا کو اپنے‬


‫پاس بال رہے ہوتے ہے۔ بیٹا جلدی آئو اچانک مایا‬
‫کو اپنے ماں باپ کی چیخوں کی آواز آتی ہے۔‬
‫مایا روتی ہوئ راستہ طے کرتی وہاں پہنچتی ہے۔‬
‫اپنے ماما پاپا کو یوں خون میں لت پت زمین پر‬
‫گرے ہوئے دیکھتی ہے۔‬

‫مایا اپنے ماں باپ کی الش کے پاس روتی ہوئ‬


‫بیٹھ جاتی ہے۔ ماما پاپا مجھے چھوڑ کر مت جائو‬
‫مایا چیختے ہوئے کہتی ہے۔‬

‫مایا اچانک سوئے سے ہوئے اٹھ جاتی ہے۔ مایا کا‬


‫پورا چہرا پسینے سے بھر جاتا اور وہ کانپ رہی‬
‫ہوتی ہے۔ مایا کو سب کچھ یاد آجاتا ہے۔ کیسے اس‬
‫کے باپ کو بے دردی سے مارا گیا تھا۔ اس کی‬
‫ماں اس کے باپ کی جدائ برداشت نہیں کر سکی‬
‫اور موقعے پر ہی دم توڑ گی۔ کیسے اس کے گھر‬
‫کو آگ کی نظر کیا گیا تھا۔ مایا اونچی آواز میں‬
‫رونا شروع کر دیتی ہے۔‬
‫رات کا وقت تھا۔ ہسپتال میں سناٹا چھایا ہوتا ہے۔‬
‫مایا سٹریچر سے نیچے اترتی ہے ایسے کرنے‬
‫سے مایا کو جسم کے زخموں میں شدید درد ہوتی‬
‫ہوئی محسوس ہوتی ہے۔‬

‫مایا زخموں کی پروا کیے بغیر روم سے باہر نکل‬


‫جاتی مایا روتی ہوئی ہسپتال کے کوریڈور سے‬
‫اوپر سیڑھیاں جاتی دیکھتی ہے۔ مایا بغیر سوچے‬
‫سمجھے سیڑھیاں چھرتی جاتی ہے اور تیزی سے‬
‫سیڑھیاں چڑنے سے مایا کے جسم کے جھلسے‬
‫ہوئے زخموں سے خون نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔‬

‫مایا سیڑھیاں چرتے ہسپتال کی چھت پر پہنچ جاتی‬


‫ہے۔ ماما پاپا کیوں چلے گئے مجھے چھوڑ کر پاپا‬
‫ماما پلیز واپس آجائو۔ ڈھیک ہے آپ نہیں آرہے نہ‬
‫میرے پاس کوئ بات نہیں میں آپ کے پاس آجاتی‬
‫ہوں ۔‬
‫مایا روتے ہوئے چھت کے بلکل کنارے پہ کھڑی‬
‫ہو جاتی ماما پاپا آپ کے عالوہ میرا اس دنیا میں‬
‫کوئ نہیں دیکھے میں کتنی تکلیف میں ہوں۔‬

‫مجھے اور نہیں جینا آپ دونوں کے بغیر میں بھی‬


‫آپ لوگوں کے پاس آرہی ہوں۔ دس منزلہ ہسپتال کی‬
‫امارت کی چھت کے کنارے پہ کھڑی مایا روتے‬
‫ہوئے ایک قدم آگے بڑھاتی ہے۔‬

‫اچانک کوئ اس کو بازوں سے پکڑتے اپنی طرف‬


‫کھینچتا لیتا ہے۔ وہ بچانے واال کوئ اور نہیں سیف‬
‫ہوتا ہے۔ سیف اپنے کسی پیشنٹ کی فائل بھول جاتا‬
‫ہے تو وہ ایک نظر مایا کو دیکھنے اس کے روم‬
‫میں جاتا ہے پر وہاں مایا کو غائب پا کر سیف کا‬
‫اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔‬
‫مایا کے کھو جانے کا خوف سیف کہ رگ و پے‬
‫میں سرائیت کر جاتا ہے۔‬

‫سیف بھاگتا ہوا وہاں سے نکلتا ہے کہ اچانک اس‬


‫کی نظر زمین پر خون کے قطروں پڑتی ہے ۔‬
‫سیف خون کے قطروں کی نشاندہی کرتے ہوئے‬
‫سیڑھیوں کی طرف آتا جب سیڑھیوں پر خون‬
‫دیکھتا ہے تو بد حواس ہو کر اوپر کی طرف بھاگتا‬
‫ہے۔‬

‫اوپر پہنچ کر سیف کی نظر مایا پر پڑھتی ہے۔ جو‬


‫چھت کے کنارے پہ کھڑی رو رہی ہوتی ہے۔‬
‫اچانک مایا کو آگے بڑھتے دیکھ بھاگتا ہوا مایا کی‬
‫طرف بڑھتا ہے اور اسے کھینچ کر چھت کے‬
‫کنارے سے پیچھے لیں جاتا ہے۔ اس سب میں مایا‬
‫سیف کے سینے کہ ساتھ جانے کر لگتی ہے۔ سیف‬
‫کا دل بے لگام گھوڑے کی طرح دھڑکتا شروع کر‬
‫دیتا ہے۔‬

‫سیف کے سینے سے زور سے لگنے سے مایا کہ‬


‫پورے جسم میں تکلیف کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ مایا‬
‫کی تکلیف کی وجہ سے چیخ نکل جاتی ہے۔‬

‫سیف مایا کہ زخموں کا خیال کرتے ہوئے اپنے آپ‬


‫سے دور کرتا ہے اور مایا کو کندھوں پکڑ کر‬
‫جھنجھوڑتا ہے کیا حماقت ہے کیا کرنے لگی تھی‬
‫پاگل ہوگئی ہو مایا روتے چھوڑو مجھے میں مرنا‬
‫چاہتی ہو کیوں بچایا مجھے مایا چیختے ہوئے کہتی‬
‫ہے۔‬

‫میں نہیں جینا چاہتی میرا سب کچھ چھین گیا مایا‬


‫روتے ہوئے فرش پر بیٹھ جاتی ہے۔ سیف سمجھ‬
‫جاتا ہے۔ مایا کو سب کچھ یاد آ گیا ہے۔‬
‫مایا کی حالت دیکھ کر سیف کو دل میں ایک درد‬
‫سا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیف روتی ہوئ مایا‬
‫کو اٹھاتا ہے۔ مایا سیف کی باہوں میں بے ہوش‬
‫ہوجاتی ہے۔‬

‫مایا کی تکلیف دیکھتے ہوئے سیف کی آنکھوں‬


‫سے آنسو نکلنا شروع ہوجاتے ہے۔ جس کا سیف‬
‫کو خود بھی احساس نہیں ہوتا ہے۔‬

‫سیف بے ہوش مایا کے وجود کو باہوں میں اٹھا کر‬


‫سیڑھیاں اترتا مایا کو روم میں ال کر سڑیچر پر لیٹا‬
‫دیتا ہے۔‬

‫مایا کے جسم سے خون نکل رہا ہوتا ہے سیف‬


‫چیختے ہوئے سارے سٹاف کو بلواتا ہے۔ ڈاکڑ‬
‫صبا بھاگتی ہوئ آتی ہے سارا سٹاف اکھٹا ہو جاتا‬
‫ہے۔‬
‫ڈاکڑ صبا آپ جا کر مایا کو دیکھے جا کر اس کی‬
‫کنڈیشن ڈھیک نہیں ڈاکڑ صبا اندر چلی جاتی ہے۔‬
‫سیف سٹاف کی طرف متوجہ ہوتا آپ سب کو‬
‫سونے کے لیے میں نے یہاں رکھا ہے۔‬

‫ایک پیشنٹ چھت پہ پہنچ گیا۔ آپ کو اندازہ ہے اس‬


‫کی کنڈیشن کیا ہے۔ سیف پورے سٹاف پر چیخ رہا‬
‫ہوتا ہے۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا تھا۔‬

‫ورنہ سیف ہر کسی سے شائستہ اور نرم لہجے‬


‫میں بات کرتا تھا۔ کس نے اوپر کا دروازہ کھوال‬
‫چھوڑا تھا؟ میں کچھ پوچھ رہا ہو۔‬

‫اچانک ایک وارڈ بوائے بولتا ہے۔ سر میں چھت پہ‬


‫سیڑھی لینے گیا تھا۔ چلڈرن وارڈ کی ٹیوب الئٹ‬
‫خراب ہو گئ تھی۔ ٹیوب الئٹ بدلنی تھی اس لیے‬
‫سیڑھی چاہیے تھی۔‬
‫مجھے یاد نہیں رہا دروازہ بند کرنا وہ لڑکا سر‬
‫جھکائیے اپنی غلطی کا اطراف کر رہا ہوتا ہے۔‬
‫اتنی الپرواہی کی آپ سے امید نہیں تھی۔ سیف بہت‬
‫شدید غصہ میں ہوتا ہے۔‬

‫اگر اس لڑکے کہ گھر والوں کا خیال نہ ہوتا تو‬


‫سیف کب کا اس کو نکال چکا ہوتا۔‬

‫یہ سوچ آتے ہی اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ اگر‬


‫وہ وقت پہ نہ آتا تو وہ مایا کو ہمیشہ کہ لیے کھو‬
‫چکا ہوتا اس کہ آگے سیف کچھ سوچنا نہیں چاہتا‬
‫تھا۔ آپ کی الپرواہی کی وجہ آج ایک پیشنٹ کی‬
‫جان جا سکتی تھی۔‬

‫اس لیے آپ کی سزا ہے۔ آپ ایک ہفتے تک ہسپتال‬


‫نہیں آئے گے۔ سب سیف کے فیصلے پہ حیران‬
‫ہوتے ہیں۔ وارڈ بوائے سر جھکائے وہاں سے نکل‬
‫جاتا ہے۔ آپ سب لوگ آئندہ سے مجھے غیر زمہ‬
‫داری سے کام کرتے ہوئے نظر نہ ورنہ اس کے‬
‫ساتھ بھی ایسا ہی ہو گا۔ اب جائے سب اپنی ڈیوٹی‬
‫پر سب وہاں سے نکل جاتے ہے۔‬

‫سیف اندر روم کی طرف بڑھتا ہے۔ جہاں مایا ہوش‬


‫و خرد سے بیگانا لیٹی ہوئی ہوتی ہے۔‬

‫سیف کو مایا کی حالت دیکھ کر اپنی جسم و جاں‬


‫سے روح تک تکلیف ہوتی ہوئی محسوس ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫ڈاکڑ صبا سر ان کا بہت خون بہہ چکا ہے۔ ان کو‬


‫خون کی ضرورت ہے۔ کیا بلیڈ گروپ ہے؟ سر ان‬
‫کا او نیگیٹو بلیڈ گروپ ہے۔‬
‫میرا بھی یہی بلیڈ گروپ ہے۔ آپ میرا لگا دیں‬
‫اسے جی سر سیف خون دیتے ہوئے مایا کو دیکھتا‬
‫ہے۔ مایا کے آنکھوں کے نیچے رونے کی وجہ‬
‫سے وہاں آنسو کے نشان موجود ہوتے ہے۔‬

‫پورا چہرا کمزوری کی وجہ سے زردی مائل ہوا‬


‫ہوتا ہے۔ لمبے برائون بال کھولے ہوئے تکیے کہ‬
‫ایک طرف پڑے ہوتے ہے۔‬

‫سیف خون دیں کر اٹھ جاتا ہے ۔ ڈاکڑ صبا آپ‬


‫جائے میں ادر ہی ہو۔ ڈاکڑ صبا کافی حیران ہوتی‬
‫ہے۔ کیونکہ سیف جو مر ضی ہو جائے کبھی بھی‬
‫اتنی لیٹ نائٹ ہسپتال میں نہیں روکتا کوئ کیس ہو‬
‫تو آجائے ورنہ رات کبھی بھی ہسپتال میں نہیں‬
‫روکتا تھا۔‬
‫سر آپ گھر چلے جائے مایا اب بلکل ڈھیک ہے۔‬
‫میں نرس کلثوم کو بجھتی ہو۔ نرس نتاشا کہا ان‬
‫کے ابھی ڈیوڈی اورذ ختم نہیں ہوئے۔‬

‫سر ان کی طبیعت نہیں ڈھیک تھی۔ اس لیے میں‬


‫نے انھیں گھر بھیج دیا۔ اب کوئ الپرواہی نہیں‬
‫ہونے چاہیے ۔‬

‫سیف یہ کہتے ہی باہر نکل جاتا ہے۔ ڈاکڑ صبا آج‬


‫ڈاکڑ سیف کا برتاو دیکھ کر کافی حیران ہو جاتی‬
‫ہے۔ آج سے پہلے سر کو کسی پیشنٹ کو لیں کر‬
‫اتنا پریشان ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ڈاکڑ صبا یہ‬
‫سب سوچتے ہوئے باہر نکل جاتی ہے۔‬

‫کلثوم آپ پیشنٹ مایا کے روم میں جائے انھیں اکیال‬


‫مت چھوڑیئے گا۔ ڈاکڑ صبا یہ کہتےہی اپنے کیبن‬
‫کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬
‫روحوں کا جوڑ تو آسمان پہ ازل سے بن چکا تھا ۔‬
‫اب تو اس روئے زمین پر بننا باقی تھا۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫عائشہ بیگم پریشان سی صوفے پر بیھٹی ہوتی ہے۔‬
‫ثاقب صاحب سیف کو بار بار فون کر کہ تھک‬
‫جاتے ہے پر آگے سے کوئ فون نہیں اٹھا رہا ہوتا‬
‫ہے ۔‬

‫فون اٹھایا اس نے کہ نہیں کب سے فون مال رہا ہو‬


‫بیل جارہی پر کوئ رسپونس نہیں آرہا عائشہ بیگم‬
‫مجھے بہت پریشانی ہو رہی فائل لینے گیا تھا ۔‬
‫ابھی تک واپس نہیں آیا تین گھنٹے ہونے والے‬
‫ہے۔‬

‫ثاقب شاہ آپ پریشان نہ ہو آتا ہی ہو گا میں نے کئی‬


‫دفعہ فون کیا ہے نہیں اٹھا رہا ہللا کرے جیسا آپ‬
‫سوچ رہے ہے ویسا ہی ہو۔‬
‫عائشہ بیگم کافی پریشان ہوتی ہے ثاقب شاہ‬
‫کو بھی سیف کی فکر ہورہی ہوتی ہے پر وہ عائشہ‬
‫بیگم کہ سامنے شو نہیں کرتے۔‬

‫اچانک ان دونوں کی نظر سیف پر پڑھتی ہے۔‬


‫سیف کی سفید شرٹ پوری خون سے بڑھی ہوئ‬
‫ہوتی ہے۔ عائشہ بیگم سیف کی یہ حالت دیکھتے‬
‫روتی ہوئ سیف کی طرف بڑھتی ہے۔‬

‫ثاقب صاحب بھی پریشان سے اس کی طرف‬


‫بڑھتے ہے۔ بیٹا یہ کیا ہوا تمہیں عائشہ بیگم روتی‬
‫ہوئ پوچھتی ہے۔ ماما مجھے کچھ نہیں ہوا پیشنٹ‬
‫اینجرڈ حالت میں تھا۔ اس کو ریسکیو کرتے ہوئے‬
‫خون لگا ہے۔ ثاقب صاحب برخودار تم نے تو ہمیں‬
‫پریشان کر دیا تھا۔‬
‫بیٹا خیال رکھا کروں اپنا دیکھوں تمہاری وجہ سے‬
‫میری سویٹ سی وائف کے اتنے آنسو ویسٹ ہو‬
‫گئے۔‬

‫عائشہ بیگم نے ثاقب شاہ کو گھورا بیگم ذرا کم‬


‫گھورا کروں کہی ہم آپ کہ ادائو پر اپنی جان سے‬
‫ہاتھ نہ دھو بیھٹے ۔ عائشہ بیگم فضول نہ بوال‬
‫کرے اچھا بیگم سوری ثاقب صاحب کہ سوری‬
‫کہنے پر تینوں ہنستے لگتے ہیں۔‬

‫سیف کی مسکراہٹ کافی کھوکھلی ہوتی ہے پر وہ‬


‫اپنے اندر کا درد ظاہر کر کہ اپنے ماں باپ کو‬
‫پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔‬
‫عائشہ بیگم بیٹا ڈنر کروں گے نہیں موم مجھے‬
‫بھوک نہیں ابھی میں ریسٹ کرنا چاہتا ہو۔ اوکے‬
‫بیٹا جا کر ریسٹ کروں۔‬

‫سیف یہ کہتے ہی اپنے کمرے کی طرف چال جاتا‬


‫ہے۔ آپ بیٹے کہ سامنے بھی شروع ہوجاتے ہے۔‬
‫جان اس کو پتا ہے کہ اس کا باپ اس کی ماں سے‬
‫کتنا پیار کرتا ہے۔‬

‫عائشہ بیگم آپ کا کچھ نہیں ہو سکتا۔ سیف اپنے‬


‫روم میں آتا ہی بیڈ پراوندھے منہ گر جاتا ہے۔‬
‫سیف کو مایا کی تکلیف یاد آجاتی اس کا اپنے ماں‬
‫باپ کو یاد کر کے رونا اس کا خود کوشی کرنے‬
‫کی کوشش کرنا۔‬

‫سیف اچانک سے آنسووں کے ساتھ رونا شروع کر‬


‫دیتا ہے۔ اگر مایا تمہیں کچھ ہوجاتا میں بھی زندہ نہ‬
‫رہتا تم کب میرے لیے اتنی اہم بن گئ میں خود بھی‬
‫نہیں جانتا۔‬

‫میں تم سے عشق کرنے لگا ہوں اور میرے رگ‬


‫رگ میں یہ عشق سرائیت کر گیا ہے۔ تم صرف‬
‫میری ہو مایا صرف سیف شاہ کی ہے۔‬

‫تم میری روح کا حصہ ہو جس کو ازل سے خدا‬


‫نے میرے لیے بنایا ہے۔ جلد تمہیں اپنا بنا لوں گا‬
‫اور تمہارے سارے دکھ درد خود میں سمیٹ لوں‬
‫گا۔‬
‫سیف مایا کے بارے میں سوچتا ہی سو جاتا ہے۔‬
‫کیا سیف اور مایا ایک ہو پائے گے یا قسمت انھیں‬
‫مال کر جدا کر دیں گی۔‬
‫💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦‬
‫ارش آفس سے باہر نکلتا گھڑی پر وقت دیکھتا ہے‬
‫تو کافی ٹائم ہو چکا ہوتا ہے۔ رات کہ گیارہ بج‬
‫رہے ہوتے ہے۔ کل ارش کی بہت اہم میٹنگ تھی ۔‬

‫اس وجہ سے ارش کو آج کافی لیٹ ہو گیا تھا۔ ارش‬


‫گاڑی کی طرف بڑھتا فون نکال کر دیکھتا ہے تو‬
‫عائزہ بیگم کی کافی کالز آئ ہوئی ہوتی ہے۔‬

‫ارش ہیلکس میں بیھٹے گھر کی طرف گاڑی بڑھا‬


‫دیتا ہے۔ ارش کو پہلے ہی کافی لیٹ ہو چکا تھا‬
‫اس لیے وہ شورٹ روڈ سے جانے کا سوچتا ہے۔‬

‫ارش گاڑی چال رہا ہوتا ہے کہ اچانک اسے کوئ‬


‫سڑک کے درمیان میں کھڑا گاڑی روکنے کو کہتا‬
‫ہے۔‬
‫ارش بوکھال کر گاڑی روکتا ہے۔ گاڑی رکوانے‬
‫واال شکر ادا کرتا ہے کہ کس نے تو گاڑی روکی‬
‫یہ سوچتے ہوئے سائٹ پر کھڑا ہو جاتا ہے۔‬

‫ارش گاڑی سے اترتا ہے۔ سامنے سڑک پر چھوٹی‬


‫عمر کا لڑکا کھڑا ہوا ہوتا ہے۔ ارش لڑکے سے‬
‫کہتا ہے کیا ہوا وہ بھائ میری بائیک خراب ہو گئ‬
‫ہے۔‬

‫میں اور میری بہن کب سے یا کھڑے پر کوئ لیفٹ‬


‫ہی نہیں دیں رہا پہلی ہی بہت دیر ہوچکی گھر‬
‫والے پریشان ہو رہے ہو گے کیا آپ ہمیں لیفٹ دیں‬
‫سکتے ہے۔‬

‫ارش کو گھر سے لیٹ ہو رہا ہوتا ہے پر لڑکے کو‬


‫پریشان دیکھ کر اوپر سے اس سنسان روڈ پر جوان‬
‫بہن کے ساتھ یوں چھوڑ جانا اچھا نہیں لگتا۔‬
‫ارش لڑکے کی بہن کو دیکھ لیتا ہے جو کافی‬
‫فاصلے پر ارش کی طرف پشت کیے کھڑی ہوئی‬
‫ہوتی ہے۔ ڈھیک ہے آجائو میں گھر چھوڑ دیتا ہو۔‬
‫یہ کہتے ہی ارش گاڑی کی طرف قدم کی طرف‬
‫چلنے جاتا ہے۔‬

‫لڑکا اپنی بہن کو پکارتا ہے۔ وردا آپی آجائے لیفٹ‬


‫مل گئ۔ ارش وردا کے نام کی آواز سنتے ہی‬
‫دوبارہ موڑتا ہے۔‬

‫جب وردا بھی اسی وقت مڑتی ہے۔ دونوں کی‬


‫نظروں کا تصادم ہوتا ہے۔ ایک کی نظروں میں‬
‫غصہ ہوتا ہے اور دوسرے کی نظروں میں‬
‫حیرانگی۔‬
‫ارش کا بس نہیں چل رہا ہوتا وردا کو کیا کر دیں۔‬
‫سنسنان جگہ پر یوں رات کے وقت یہاں کھڑے‬
‫ہونا خطرے سے خالی نہیں تھا۔‬

‫وردا بھی ارش کو دیکھ کر حیران ہوتی اف یہ ہر‬


‫جگہ کیوں ٹپک پڑتا ہے۔ وردا بڑبڑاتے ہوئے احان‬
‫کی طرف قدم بڑھاتی ہے۔‬

‫احان اس کو جانے دو ہم کسی اور سے لیفٹ‬


‫مانگ لیں گے ۔ احان غصے سے آپی آپ ہی لے‬
‫دوسری لیفٹ میں تو چال احان یہ کہتے ہی گاڑی‬
‫کی طرف چال جاتا ہے۔‬

‫ارش وردا کی ساری باتیں سن رہا ہوتا ہے۔ محترمہ‬


‫یہاں اب لیفٹ مشکل سے ملے گی گیارہ سے اوپر‬
‫کا ٹائم ہو چکا ہے آگے سارا جنگل ہے آگے آپ‬
‫سمجھ دار ہے۔ جنگل میں کس طرح کے جنگلی‬
‫جانور ہوتے ہے۔‬

‫وردا ارش کی جنگل اور جانور والی باتیں سن کر‬


‫کافی ڈر جاتی ہے۔ اس لیے چپ چاپ گاڑی کی‬
‫طرف بڑھ جاتی ہے۔‬

‫ارش وردا کی حالت پتلی ہوتے دیکھ مسکراتے‬


‫ہوئے گاڑی کی طرف بڑھتا ہے۔ ارش گاڑی میں‬
‫بیٹھ کر گاڑی سٹارٹ کر کہ احان سے اس کہ گھر‬
‫اڈریس کا پوچھتا ہے۔‬

‫وردا ارش کو گھر کا اڈریس پوچھتا دیکھ پورا منہ‬


‫کھل جاتا ہے۔ ڈریکوال کہی کا گھر کا اڈریس پتا‬
‫ہے اور ڈرامے کر رہا ہے۔ وردا یہ سوچ ہی سکی‬
‫کہنے کی ہمت جو نہیں تھی۔ ارش گاڑی کہ میرر‬
‫سے وردا کہ اڈریس پوچھنے والی بات پر منہ کہ‬
‫بدلتے زاویے دیکھ اپنی ہنسی ضبط کر رہا ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫احان ارش کو گھر کا اڈریس بتاتا ہے۔ ارش احان‬


‫سے کہتا اپنا تعارف نہیں کروائو گے۔ کیوں نہیں‬
‫بھائ میں احان حیدر بلوچ یہ میری بہن وردا حیدر‬
‫بلوچ کافی اچھے نام ہے آپ دونوں کہ ارش یہ‬
‫کہتے ہی میرر سے وردا کو دیکھتا ہے۔‬

‫جس پر وردا ارش کو گھورتی ہے۔😆😅 ارش‬


‫احان کی طرف نظروں کا زاویہ کر لیتا ہے۔ کون‬
‫سی کالس میں پڑھتے ہو؟ بھائ میں ‪9‬کالس میں‬
‫پڑھتا ہو۔‬

‫اگے کیا بننے کی ارادے ہے۔ میں سفڈ ویئر انجینئر‬


‫بننا چاہتا ہوں۔ گٹ اچھی فیلڈ چوز کی ہے۔ یوہی‬
‫باتیں کرتے ہوئے گھر آجاتا ہے۔ احان شکریہ کرتا‬
‫گھر کہ اندر چال جاتا ہے۔‬

‫وردا گاڑی سے اترنے لگتی ہے تو اسے ارش کی‬


‫آواز سنائی دیتی آئندہ میں رات کہ ٹائم تمہیں گھر‬
‫سے یوں باہر گھمتے ہوئے نہ دیکھوں ملک کہ‬
‫اتنے حاالت خراب ہے۔‬

‫اکیلی لڑکی کو دیکھا نہیں اور ہراس اور تنگ کرنا‬


‫شروع کر دیتے ہے۔ آئندہ سے خیال رکھنا اس چیز‬
‫کا وردا بہت تحمل سے ارش کی باتیں سنتی ہے۔‬

‫ہو گیا یا کچھ اور بولنا ہے۔ پہلی بات تو یہ میں‬


‫اکیلی گھر سے نہیں نکلی رات کہ ٹائم میرا بھائ‬
‫میرے ساتھ تھا۔ دوسرا میں اپنی حفاظت خود کر‬
‫سکتی ہو سو اپنے مشورے اپنے پاس رکھوں۔‬
‫تم ہوتے کون ہو مجھے نصیحت کرنے والے‬
‫احان کی بائیک خراب نہ ہوتی تو کبھی تم سے‬
‫لیفٹ نہ لیتی۔‬

‫ارش تمہیں بہت جلد پتا چل جائے گا کہ کون ہوتا‬


‫ہو تمہارا ابھی گھر جائو کافی لیٹ ہو چکا ہے۔‬
‫تمہیں بھی اور مجھے بھی وردا ارش کی اس بات‬
‫پر زیادہ دھیان نہیں دیتی۔‬

‫گاڑی سے اتر کر قدم گھر کی طرف بڑھا دیتی‬


‫ہے۔ ارش وردا کو گھر میں داخل ہوتے دیکھ‬
‫گاڑی اپنی منزل کی طرف بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💕💕💕💕💕💕💕💕💕‬
‫وردا اور احان گھر کہ اندر قدم رکھتے ہے۔ اچانک‬
‫کوئ پیچھے سے دونوں کہ کان پکڑ لیتا ہے۔‬
‫دونوں پیچھے موڑ کر دیکھتے ہے۔‬
‫آمنہ دونوں کہ کان پکڑے کھڑی ہوئی ہوتی کہاں‬
‫سے آوارہ گھوم کر آ رہے ہو۔ شکر کروں کسی کو‬
‫پتا نہیں چال سب پوچھ رہے تھے۔‬

‫تم لوگوں کہ بارے میں نے بہانا بنا دیا کہ وردا کہ‬


‫سر میں درد ہے ٹیبلٹ لے کر سو رہی ہے۔ احان کا‬
‫ٹیسٹ ہے اس کی اپنے روم میں تیاری کر رہا ہے۔‬

‫کان تو چھوڑ دو آمنہ دونوں کہ کان چھوڑ دیتی‬


‫ہے۔ آپی کی فرمائش پر انھیں بائیک پر سیر‬
‫کروانے نکال تھا۔ راستے میں آپی کسی کہ بچے کہ‬
‫ساتھ چپک گئ۔‬

‫اس لیے دیر ہو گئ تو شارٹ روڈ سے گھر آنے کا‬


‫سوچا پر راستے میں بائیک دغا دیں گئ۔‬
‫آمنہ وردا کو گھورتی ہوئے وردا مجھے کیا گھور‬
‫رہی ہو سالم نگلنا ہے کیا وردا کی بچی کبھی کوئ‬
‫تمہاری حرکت درست ہو کیا بنے گا تمہارا کچھ‬
‫نہیں بنے گا۔ ابھی تم جا کہ سو اور مجھے بھی‬
‫سونے دو۔‬

‫وردا یہ کہتی اپنے روم کی طرف بڑھتی ہے۔ احان‬


‫اور آمنہ بھی اپنے اپنے کمرے کی طرف ہو لیتے‬
‫ہیں۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫صبح دھوپ کی کرنیں چھن سے اتی بیڈ پر سوئے‬
‫وجود پر پڑتی ہے۔ سیف کسامتا ہوا اپنی آنکھیں‬
‫ادھی بند اور ادھی کھولی ہوئی سے ٹائم دیکھتا ہے‬
‫تو دوپہر کہ بارہ بج رہے ہوتے ہے۔‬
‫سیف پٹ سے آنکھیں کھولتا پریشان ہوتا فٹافٹ‬
‫فریش ہو کرنیچے آیا ہے۔ موم آپ نے مجھے اٹھایا‬
‫کیوں نہیں عائشہ بیگم بیٹا تمہاری طبعیت نہیں‬
‫ڈھیک تھی۔‬

‫اس لیے میں نے اٹھانا مناسب نہیں سمجھا۔ موم آج‬


‫ہسپتال جلدی جانا تھا۔ بیٹا تمہاری صحت سے زیادہ‬
‫کچھ ضروری نہیں ہے۔‬

‫موم میں جلدی واپس آجائو گا۔ آپ مجھے جلدی‬


‫سے ناشتہ دیں۔ ہمیشہ اپنی مانیا کروں۔ میری پیاری‬
‫موم میں جلدی آجائو گا۔‬

‫اب آپ جلدی سے ناشتہ لیں آئے اچھا التی ہو‬


‫عائشہ بیگم یہ کہتے ہی کچن کی طرف بڑھ جاتی‬
‫ہے۔ سیف فٹافٹ ناشتہ کر کے ہسپتال کہ لیے نکل‬
‫جاتا ہے۔‬
‫سیف کی طبیعت نہیں ڈھیک ہوتی لیکن وہ صرف‬
‫مایا کو ایک نظر دیکھ کر مطمئن ہو جانا چاہتا تھا۔‬
‫جب سے سیف نے اپنے آپ سے مایا کہ لیے‬
‫محبت کا اطراف کیا تھا۔‬

‫تب سے ہی اسے کہ ہوش و حواس پر مایا چھائی‬


‫ہوئ تھی۔‬
‫قسمت انھیں مالتی ہے یا انھیں ملنے سے پہلے ہی‬
‫ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے یہ دیکھنا ابھی‬
‫باقی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش وردا کہ کالج کہ باہر کب سے کھڑا وردا کہ‬
‫باہر آنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ارش نے فیصلہ‬
‫کر لیا تھا کہ آج اسے اپنے دل کی بات بتا کر رہے‬
‫گا۔‬
‫اس پہلے دیر ہو جائے ارش یہی سب سوچ رہا ہوتا‬
‫ہے کہ سامنے سے وردا آتی دکھائ دیتی ہے۔ وردا‬
‫جنجھالئ ہوئ کالج سے باہر آتی ہے۔‬

‫آمنہ کی طبیعت خراب تھی۔ اس لیے وہ آئ نہیں‬


‫وردا اور آمنہ کہ فائنل پیپر سٹارٹ ہونے والے‬
‫تھے۔ اس لیے وردا کو مجبورا اپنی اور آمنہ کی‬
‫رول نمبر سلپ لینے آنا پڑی جس پر وردا کا موڈ‬
‫سخت اوف تھا۔‬

‫ارش وردا کو اکیال دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ اس‬


‫طرح وہ آسانی سے وردا سے بات کر سکے گا۔‬
‫وردا کو ابھی تک ڈرائیو لینے نہیں آیا ہوتا۔‬

‫ارش وردا کی طرف بڑھتا وردا کو بلواتا ہے۔ وردا‬


‫اپنے نام کی پکار پر سر اٹھا کر دیکھتی ہے۔‬
‫سامنے ارش ریٹ شرٹ اور بلیو پینٹ پر پائوں میں‬
‫وائٹ شوز پہنے آنکھوں پر گالسس لگائے اپنی‬
‫چھا جانے والی پرسنالیٹی کہ ساتھ وردا کو ہی‬
‫دیکھ رہا ہوتا ہے۔‬

‫تم ادر بھی پہنچ گئے۔ مجھے تم سے ضروری‬


‫بات کرنی ہے۔ تم مجھے تھوڑا سا وقت دیں سکتی‬
‫ہو اپنا نہیں ابھی ڈرائیو انکل آجائے گے۔‬

‫میری بات سن لوں ورنہ میں خود تمہیں ہاتھ پکڑ‬


‫کر لے جائو گا اپنے آس پاس دیکھوں ہر کوئ ہمیں‬
‫ہی دیکھ رہا ہے۔‬

‫ارش کہ کہنے پر وردا ارد گرد نگاہ دھراتی ہے۔‬


‫ہر کوئ انھیں ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔ وردا چپ چاپ‬
‫ارش کہ پیچھے چل پڑتی ہے۔‬
‫ارش وردا کہ لیے گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتا ہے۔‬
‫وردا ارش کو گھورتی ہوئ بیٹھ جاتی ہے۔ ارش‬
‫اپنی ہنسی ضبط کرتا اپنی جگہ پر آکر بیٹھتا ہے۔‬

‫گاڑی آگے بڑھا لیں جاتا ہے۔ مجھے تم سے اہم‬


‫بات کرنی کسی کوفی شوپ چلتے ہے۔ مجھے کہی‬
‫نہیں جانا گاڑی ادر ہی روک دوں اور جو بات‬
‫کرنی ہے ادر ہی کروں۔‬

‫ڈرائیو انکل آتے ہی ہو گے۔ جلدی بولوں کیا کہنا‬


‫ہے۔ ارش وردا کہ کالج سے تھوڑی دور ہی گاڑی‬
‫روک دیتا ہے۔‬

‫وہ مجھے تمہیں کہنا تھا۔ وردا اتنا سسپنس نہ‬


‫ڈالوں جو کہنا ہے جلدی کہو ورنہ میں چلی وردا یہ‬
‫کہتے ہی گاڑی کا دروازہ کھولنے لگتی ہے۔‬
‫میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم سے شادی کرنا‬
‫چاہتا ہوں۔ وردا کہ یہ الفاظ سنتے ہی گاڑی کھولنے‬
‫کے لیے ہاتھ ایک دم سکت ہو جاتے ہے۔‬

‫وردا کو ارش کی بات پر شدید غصہ چڑھ جاتا ہے۔‬


‫میرے خیال میں تم نے نہ کوئی سستا نشہ کر لیا‬
‫ہے تبی ایسی بہکی باتیں کر رہے ہو۔‬

‫ارش وردا کی نشیں والی بات سن کر حیران رہ‬


‫جاتا ہے۔ میں نے کوئ نشہ نہیں کیا میں سچ کہہ‬
‫رہا ہو۔‬
‫💕❤‪I fall in love with you.‬‬
‫جو بھی ہے میں تو تم سے محبت نہیں کرتی نہ تم‬
‫میں اور میرے مزاج میں بہت فرق ہے۔ تم اکڑو ہر‬
‫وقت غصہ کرنے والے شادی کہ بعد بھی غصہ‬
‫مجھ پر غصہ کروں گے۔‬
‫ارش سمجھ جاتا ہے۔ وردا کس وجہ سے اسے‬
‫غصے واال کہہ رہی ہوتی ہے۔ شاید وردا اس دن‬
‫لڑکے کو یوں مارتا دیکھ اور اس پر غصہ کرنے‬
‫والے لمحے کو ابھی تک نہیں بھولی تھی۔‬

‫وردا میں غصے واال نہیں اس دن وہ لڑکے تمہیں‬


‫چیڑ رہے تھے کوئ غیرت مند مرد اس طرح‬
‫کھڑے چراہے پر کسی لڑکی کی عزت کو پامال‬
‫ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔‬

‫تم تو پھر میری محبت ہو۔ تم بتائو میں کیسے‬


‫برداشت کرتا تم میری موم سے پوچھو میرا گھر‬
‫میں اپنے بھائ جیسے دوست کہ ساتھ کیسا بیہویر‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫کسی کو بھی پہلی دفعہ میں جج نہیں کرنا چاہیے۔‬


‫تم کہتی ہو تمہیں مجھ سے محبت نہیں نکاح جیسا‬
‫پاک بندھن بندھے گا تو خود بہ خود محبت پو‬
‫جائے گی۔ اگر نہ بھی ہوئ تو میری محبت بہت ہے‬
‫ہم دونوں کہ لیے ‪،‬مجھے یقین ہے ایک نہ ایک دن‬
‫تمہیں بھی مجھے سے محبت ہو جائے گی۔‬

‫میں تمہارے ساتھ کوئ فلیڈ نہیں کر رہا میری‬


‫محبت تمہارے لیے سچی ہے۔ سچی نہ ہوتی تو‬
‫کبھی تمہیں یہاں بیٹھا پرپوز نہ کر رہا ہوتا۔‬

‫وردا حیران ہو کر ارش کی باتیں سنتی کچھ کہے‬


‫بنا گاڑی سے نکل جاتی ہے۔ ارش بھی گاڑی سے‬
‫باہر نکلتا ہے۔ وردا ارش کی پکار پر وردا کہ قدم‬
‫روکتے ہے پر وہ پیچھے موڑ کر نہیں دیکھتی‬
‫ایسے ہی ارش کی طرف پشت کیے کھڑی ہوئی‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫میں تمہیں تمہارے پیپرز تک کا ٹائم دیتا ہو سوچ‬
‫لینا پھر مجھے سوچ سمجھ کر جواب دینا تا کہ میں‬
‫موم اور ڈیڈ کو رشتہ لینے بیھجو۔ مجھے پورا یقین‬
‫ہے اپنے ہللا پر وہ میرے حق میں ہی فیصلہ کرے‬
‫گا۔ ارش یہ کہتے ہی گاڑی میں بیٹھ جاتا ہے۔‬

‫وردا کالج کی طرف قدم بڑھا دہتی ہے جہاں‬


‫ڈرائیور اس کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ ارش وردا‬
‫کو گاڑی میں بیٹھنے تک دیکھتا ہے پھر گاڑی زن‬
‫سے آگے بڑھا لیں جاتا ہے۔‬
‫💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟‬
‫سیف ہسپتال میں قدم رکھتے سیدھا مایا کہ کمرے‬
‫میں جاتا ہے۔ جہاں مایا پر سکون نیند سوئی ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫نرس کلثوم مایا کی میڈیسن سڑیچر کہ پاس پڑے‬


‫ٹیبل پر رکھ رہی ہوتی ہے۔ سیف انھیں ہوش آیا‬
‫سیف مایا کی طرف دیکھتے پریشان ہوتے ہوئے‬
‫پوچھتا ہے۔‬

‫سر ہوش تو آیا ہے پر تھوڑی دیر بعد ہی انہوں نے‬


‫چیخنا چالنا شروع کر دیا تھا۔ انھیں نیند کا‬
‫انجیکشن دیں دیا ہے تا کہ تھوڑی دیر یہ پر‬
‫سکون سو سکے۔‬

‫نرس کلثوم پتا نہیں اس بچی کہ ساتھ کیا ہوا ہے۔‬


‫جو ہر وقت ویرانیاں ہی اس کی آنکھوں میں‬
‫دکھائی دیتی ہے۔‬

‫جب بھی اٹھتی ہے اونچی آواز میں کہتی ہے۔‬


‫میرے ماما پاپا کو مت ماروں اور ساتھ چیخنا چالنا‬
‫شروع کر دیتی ہے۔ سیف آپ جائے میں آتا ہو۔‬
‫نرس کہ نکل جانے کہ بعد سیف چیئر کھینچ کر‬
‫مایا کہ سٹریچر کہ قریب تھوڑا فیصلے پر رکھ کر‬
‫بیٹھ جاتا ہے۔‬

‫بہت دکھ دیکھ لیے تم نے اپنی زندگی میں اب بس‬


‫تم مسکرائو گی۔ یہ میرا تم سے وعدہ ہے۔ تمہارے‬
‫سارے غم میں خود میں سمیٹ لوں گا۔‬

‫جلدی سے ٹھیک ہو جائوں ہم دونوں تمہارے ماما‬


‫پاپا کو جس نے مارا اس کو سزا دلوائے گے۔‬
‫تمہیں روالنے والے کو میں اذیت ناک سزا دلواؤں‬
‫گا۔ یہ میرا میری محبت سے وعدہ ہے۔‬

‫سیف یہ کہتے ہی بہ آواذ رونے لگتا ہے۔ سیف‬


‫سے مایا کی حاالت نہیں دیکھی جاتی اس لیے‬
‫اپنے آنسو صاف کرتے مایا کہ روم کیا ہسپتال سے‬
‫ہی باہر نکل جاتا ہے۔‬
‫سب سیف کو یوں اچانک جاتا دیکھتے حیران ہو‬
‫جاتے ہے۔‬

‫سیف گاڑی میں بیٹھتے ہی آج ہی موم اور ڈیڈ‬


‫سے مایا کہ بارے میں بات کرنے کا سوچتا ہے۔‬
‫جو کئیر اس کی گھر میں ہو سکتی ہے وہ ہسپتال‬
‫میں نہیں ہو سکتی اس لیے سیف موم سے بات‬
‫کرنے کا سوچتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫رات کہ وقت اس ویران جگہ پر جہاں ایک کھنڈر‬
‫نماں بنگال کہ سوا کسی ذی روح کا نام و نشان‬
‫تک نہیں ہوتا‬

‫ایسے میں بنگلے کہ اندر جائو تو ہر طرف‬


‫افراتفری مچی ہوئی ہوتی ہے۔ یہ بنگلے کا وسیع‬
‫ہال تھا جہاں بہت بڑی پارٹی کی ارینجمنٹس کی‬
‫جارہی تھی۔‬
‫راجوں سب کام کرنے والوں کو ہدایت دیتا ہے‬
‫جلدی کروں بوس کہ آنے کا ٹائم ہو گیا ہے۔ وقت‬
‫پہ کام نہ ہوا تو ہم سب کی الشیں ہو گی ادر یہ‬
‫کہتے ہی راجوں باہر کی طرف قدم بڑھتا ہے۔‬

‫تھوڑی دیر بعد ہی باہر گاڑی کا ہارن بجتا ہے۔‬


‫راجوں پہلے سے باہر کھڑا ہوتا ہے۔ بھاگ کہ گیٹ‬
‫کا دروازہ کھولتا ہے۔‬

‫گاڑی میں سے ان کا بوس باہر نکلتا ہے۔ راجوں‬


‫سب تیاریاں ہو گئ۔ یس بوس جیسا آپ نے کہا تھا‬
‫ویسے ہی سب ارینجمنٹس کی ہے۔‬

‫بوس ہنکار بڑھتا اندر کی طرف قدم بڑھا دیتا ہے۔‬


‫بیش بہا قیمتی صوفے پر بوس ٹانگ پر ٹانگ‬
‫رکھے کر بیٹھ جاتا ہے۔‬
‫سامنے ڈیبل پر پڑی ویسکی کا گالس اٹھائے‬
‫راجوں کو بولنے کا اشارہ کرتا ہے۔ بوس مسڑ‬
‫جون آپ سے ڈیل کہ سلسلے میں ملنا چاہتے ہے۔‬

‫بوس کہ چہرے پر مکروں ہنسی آجاتی ہے۔ کس‬


‫بات کی دیر ہے بلوائو اسے وہ بھی یہاں کی‬
‫رنگینیاں دیکھ لے گا۔‬

‫آج میرے آنے پہ اس پارٹی کو رکھا گیا۔ وہ بھی‬


‫تھوڑا مزہ لیں لے گا اور ہاں شراب کہ ساتھ شباب‬
‫کا بھی انتظام کیا ہے کہ نہیں راجوں شیطانی‬
‫ہنسی ہنستے وہ تو سر آپ کہ کہنے سے پہلے ہی‬
‫ہم نے کر دیا۔‬
‫دونوں کہ مکروں قہقہے پورے بنگلے میں‬
‫گونجتے ہے۔ جہانگیر دادا جس کو سب بوس کہہ‬
‫کے بوالتے تھے۔ پاکستان کی جڑوں کو کھوکھال‬
‫کرنے والوں میں سے ایک سیاہ کار درندہ تھا۔ جو‬
‫ہر قسم کہ گناہ میں مولویس تھا چاہے پھر وہ‬
‫پاکستان اور بیرون ملک ڈرگز بیچنا ہو لڑکیوں کو‬
‫اغوا کر کہ ان کو باہر کہ ملک میں سپالئے کرنا‬
‫ہو یا اسلحہ فروخت کرنا ہو۔‬

‫غرض کہ جہانگیر دادا ہر گناہ میں آگے تھا۔ نہ‬


‫جانے کتنی لڑکیوں کی عصمت کو روندا تھا اس‬
‫نے نہ جانے کیوں لوگ بھول جاتا جب ہللا حساب‬
‫لینے پہ آتا ہے تو انسان روح تک بلبال جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫رات کہ وقت شاہ وال میں ہر سو اندھیرا چھایا ہوا‬
‫تھا۔ ایسے میں سیف گھر کہ الن میں چیئر پر بیھٹا‬
‫گہری سوچ میں مبتال سگریٹ پھونک رہا ہوتا ہے۔‬
‫عائشہ بیگم پانی لینے کچن میں جا رہی ہوتی ہے۔‬
‫سیف کو الن میں رات کہ دو بجے یوں بیھٹا دیکھ‬
‫پریشان ہوتے جگ ڈائننگ ڈیبل پر رکھ کر قدم الن‬
‫کی طرف بڑھاتی ہے۔‬

‫سیف بیٹا رات کہ اس وقت یہاں کر رہے ہو۔ سیف‬


‫عائشہ بیگم کی آواز سن کر فٹافٹ سگریٹ زمین پر‬
‫پھینک کر جوتی سے مسل دیتا ہے۔‬

‫بیٹا تمہاری طبیعت تو ڈھیک ہے نہ عائشہ بیگم‬


‫بیٹے کو رف سے حولیے میں دیکھ کر کافی‬
‫پریشان ہو کر پوچھتی ہے۔‬

‫موم میں ڈھیک ہو۔ بس نیند نہیں آرہی تھی۔ اس لیے‬


‫الن میں آگیا۔ عائشہ بیگم بیٹے کا چہرہ دیکھ رہی‬
‫تھی جو کافی پریشان سا لگ رہا تھا۔‬
‫بیٹا تمہارے چہرے سے صاف پتا لگ رہا ہے کہ‬
‫تم پریشان ہو۔ موم ایسا کچھ نہیں سیف عائشہ بیگم‬
‫کو اپنے ساتھ رکھی دوسری کرسی پر ہاتھ پکڑ کر‬
‫بیٹھاتے ہوئے کہتا ہے۔‬

‫بیٹا اپنی موم کو پریشانی کی وجہ نہیں بتائو گے۔‬


‫سیف آخر کار ہمت کر کہ مایا کہ بارے میں الف‬
‫سے لیں کر ی تک سب کچھ بتا دیتا ہے۔‬

‫بیٹا پھر اب کیا تم چاہتے ہو۔ موم میں چاہتا ہو میں‬


‫اسے اس گھر میں لیں آئو اس کا اس دنیا میں کوئی‬
‫نہیں وہ کہا جائے گی ایسی حالت میں عائشہ بیگم‬
‫اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھتی ہے۔‬

‫جو پہلی دفعہ کسی لڑکی فکر میں ہلکان ہو رہا ہوتا‬
‫ہے۔ بیٹا جی یہ بتائو یہ تم جذبہ ہمدردی کہ طور پر‬
‫ایسا کرنا چاہتے ہو یا کوئ اور جذبہ بھی شامل‬
‫ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ تم اپنی ‪ 27‬سالہ‬
‫زندگی میں یوں ایک لڑکی کہ لیے پریشان اور‬
‫اداس ہوتے نہیں دیکھا عائشہ بیگم اپنے بیٹے کہ‬
‫جذبات سمجھ رہی تھی۔‬

‫آخر کو ماں تھی کیوں نہ سمجھتی بس بیٹے کہ منہ‬


‫سے سننا چاہتی تھی۔ سیف اپنے جذبات کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے شش و پنج کا شکار ہو رہا تھا کہ‬
‫بتائے یا نہ بتائے پھر ہمت کر کہ سیف اپنے‬
‫جذبات کو اپنی ماں کہ گوشے گزار کرنے کا‬
‫فیصلہ کیا ہی لیتا ہے۔‬

‫موم میں بہت اسے چاہتا ہو۔ مجھے نہیں پتا یہ‬
‫جزبہ کب پروان چڑھا شاید تب جب میں نے اس‬
‫کی سنہری آنکھوں میں دیکھا یا تب جب اسے خود‬
‫کشی کرتے ہوئے دیکھا مجھے یوں محسوس ہوا‬
‫خود کشی وہ کر رہی ہے سانس میری رک رہی‬
‫ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ محبت نہیں شاید‬
‫اس سے بھی اوپر کوئ جذبہ اور جب اسے‬
‫تکلیف سے تڑپتا دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے‬
‫میری روح تک تڑپ رہی ہو۔ اس کو درد اور‬
‫تکلیف میں دیکھ کر مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں‬
‫مایا سے محبت نہیں عشق کرتا ہو۔‬

‫عائشہ بیگم اپنے بیٹے کی مایا کہ لیے دیوانگی‬


‫دیکھ کافی حیران ہوتی ہے۔ بھال کب انھوں نے یوں‬
‫سیف کو کسی چیز یا انسان کہ لیے دیوانا ہوتے‬
‫دیکھا تھا۔‬

‫یقینن مایا کافی خاص لڑکی تھی جس کہ لیے ان کا‬


‫بیٹا سیف شاہ جو ساری زندگی لڑکیوں کو ایک‬
‫نظر غلط نہ ڈالنے واال اب یوں دیوانے پن کی‬
‫حالت میں ایک لڑکی کہ لیے جوگی بنا بیھٹا تھا۔‬
‫بیٹا مجھے کوئ مسلہ نہیں تم کل ہی اسے لیے آئو‬
‫جو خیال اور عالج اس کا گھر میں ہو سکتا ہے۔ وہ‬
‫ہسپتال میں نہیں ہو سکتا۔‬

‫سیف عائشہ بیگم کی بات پر کافی خوش ہوتا ہے۔‬


‫شکریہ موم آپ ڈیڈ سے خود بات کر لیجیئے گا اس‬
‫بارے میں سیف عائشہ بیگم کو یہ کہتا اندر کی‬
‫طرف قدم بڑھا دیتا ہے۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫وردا اور آمنہ کا کل پہال پیپر تھا۔ دونوں زور و‬
‫شورو سے پڑھنے میں لگی ہوئی ہوتی ہے۔ آمنہ‬
‫تو کافی ریلکس ہوتی ہے۔‬

‫وردا میڈم کی وہی عادت امتحان سر پر ہو اور چل‬


‫بیٹا رٹے مارنے واال حساب بنا ہوا تھا۔😆😅 آمنہ‬
‫وردا کو اونچی آواز میں رٹہ لگاتے ہوئے دیکھ کر‬
‫ٹوکتی ہے۔‬
‫وردا یار آہستہ پڑھو میں بھی پڑھ رہی ہو۔ تو میں‬
‫کیا کروں پڑھ رہی ہو تمہاری تو ساری تیاری ہے۔‬
‫ہائے میرا تو سوچ کر بلیڈ پریشر ہائی ہو رہا ہے‬
‫کہ پیپر میں کیا کروں گی۔‬

‫آمنہ اور نہ پڑھو کتنا کہتی تھی ساتھ ساتھ جو مس‬


‫سبق دیتی ہے یاد کر لوں پر تم آئے بائے شائے کر‬
‫کہ ابھی کافی ٹائم ہے جب پیپر نزدیک ہو گے پڑھ‬
‫لوں گی کہہ کر جان چھڑوا لیتی تھی۔‬

‫اب بھگتوں اور رٹے لگائوں آمنہ یہ کہتے ہی وردا‬


‫کہ روم سے باہر نکل جاتی ہے۔ وردا کو تھوڑی‬
‫دیر اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے۔‬
‫پڑھ ہی لیتی تو آج یہ نوبت نہ آتی پر وہ وردا ہی‬
‫کیا جو غلطی کر کہ زیادہ دیر اس کا دکھ منائے‬
‫اور پھر رٹے لگانا شروع کر دیتی ہے۔‬

‫آخر کو پیپر تھا وردا میڈم کا تو کچھ نہ کچھ تو‬


‫پڑھنا تھا۔ وردا میڈم کہ لیے پاسنگ نمبر لینا بھی‬
‫ٹوپ کرنے کہ برابر تھا۔‬
‫😆😆😆😆😆😆😆😆😆😆😆‬
‫سیف صبح خوشی خوشی ہسپتال آتا ہے۔ سب سیف‬
‫کو ہشاش بشاش دیکھ کر کافی خوش ہوتے ہے‬
‫کیونکہ کافی دنوں سے سارا سٹاف سیف کہ عتاب‬
‫کا نشانہ بنے ہوئے تھا۔‬

‫سیف اپنے کیبن میں جاتے ہی ڈاکڑ صبا کو بلواتا‬


‫ہے۔ ڈاکڑ صبا نوک کر کہ کہ اندر آنے کی اجازت‬
‫مانگتی ہے۔ سیف کہ یس کہنے میں اندر قدم رکھتی‬
‫ہے۔‬
‫سر آپ نے بلوایا ہاں وہ پیشنٹ مایا کی کیا صورت‬
‫حال ہے۔ سیف ایک پروفیشن ڈاکڑ کی طرح پوچھ‬
‫رہا تھا۔ کیونکہ وہ زیادہ مایا کہ لیے فکر دکھا کر‬
‫اپنا اور مایا کا کردار مشکوک نہیں کرنا چاہتا تھا۔‬
‫شاید محبت ہوتی ہی ایسی جہاں آپ کو اپنے سے‬
‫زیادہ اپنے محبوب کی فکر ہوتی ہے اور یہاں بھی‬
‫سیف کا یہی حال تھا۔‬

‫ڈاکڑ صبا آپ مایا کو تیار کرے وہ میرے ساتھ‬


‫میرے گھر جا رہی ہے۔ صبا سیف کی بات پر کافی‬
‫حیران ہوتی ہے۔ آج تک تو سر نے کبھی کسی‬
‫پیشنٹ کو اپنے گھر نہیں لیں کر گئے۔‬

‫ڈاکڑ صبا یہ سوچتے ہوئے سوال کرتی ہے۔ سر‬


‫آپ مایا کو پہلے سے جانتے ہے۔ سیف نہیں میں‬
‫اسے پہلے سے نہیں جانتا اس کا اس دنیا میں کوئ‬
‫نہیں ہے۔ ماں باپ فوت ہو چکے ہے اس کہ اور‬
‫کوئ رشتہ دار بھی نہیں ہے جو اس کی اس حالت‬
‫میں خیال رکھ سکے۔‬

‫اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے ۔ جب تک وہ‬


‫ڈھیک نہیں ہو جاتی میرے گھر رہے گی۔ میں نے‬
‫موم سے بات بھی کر لی ہے انھیں کوئ اعتراض‬
‫نہیں ان کی تو دیرینہ خواہش پوری ہو رہی ہے‬
‫بیٹی کی اس لیے انھوں نے خوش اسلوبی سے‬
‫مجھے مایا کو گھر النے کی اجازت دیں دی ہے۔‬

‫سیف نے ڈاکڑ صبا کو مختصر مایا کہ لیے اپنی‬


‫فیلنگ کے عالوہ ساری بات بتا دیں تھی۔‬

‫ڈاکڑ صبا سیف کہ کیبن سے نکل جاتی ہے۔ مایا کو‬


‫تیار کر کہ ویل چیئر پر بیھٹا دیا جاتا کیوں کہ اس‬
‫کی ایسی حالت نہیں تھی کہ چل پائے مایا کہ ابھی‬
‫زخم تازہ تھے۔ جس کی وجہ سے چلتی تو زخموں‬
‫پر زور پڑتا جس سے دوبارہ خون نکلنے کا خدشہ‬
‫تھا۔‬

‫سیف مایا کہ روم میں آیا تو مایا کو ویل چیئر پر‬


‫بیٹھے ہوئے دیکھتا ہے۔ مایا کب سے ضبط سے‬
‫یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ سیف کو آتے دیکھ کر‬
‫پوچھتی ہے۔ کیا تماشا ہے؟‬

‫سیف مایا کہ مخاطب کرنے پر کافی حیران ہوتا‬


‫ہے اور نہ سمجھی سے مایا کی طرف دیکھتا ہے‬
‫کہ مجھے ہی مخاطب کیا ہے یا کسی اور سے‬
‫مخاطب ہو۔‬

‫مایا مسٹر تم سے ہی پوچھ رہی ہو مجھے ویل چیئر‬


‫پہ کیوں بیھٹایا ہے۔ میں کہاں جا رہی ہو۔ سیف تم‬
‫میرے گھر جا رہی ہو۔ مایا غصے کی حالت میں‬
‫اور میں کس خوشی میں تمہارے گھر جا رہی ہو‬
‫تمہیں کیئر کی ضرورت ہے۔‬

‫جو ادر نہیں ہو سکتی بس یا اور کچھ پوچھنا ہے۔‬


‫مایا تمہیں کیوں خوش فہمی ہے۔ میں تمہارے ساتھ‬
‫جائو گی۔ سیف حیران ہوتے اس چھوٹے پیکٹ کو‬
‫دیکھتا ہے۔‬

‫سترہ سال کی دان پان سی لڑکی اس سے ہر بات‬


‫کی پولیس والوں کی طرح تفتیش کر رہی ہوتی ہے۔‬
‫سیف دیکھوں میں نے سب پتا کروا لیا ہے تمہارے‬
‫بارے میں کوئ بھی نہیں ہے جس کہ پاس تم جا‬
‫سکوں۔‬

‫تمہیں میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں بس‬


‫میرے زخم بھر جائے میں یہاں سے بھی اپنا‬
‫بندوبست کر لوں گی۔ جو بھی میرے عالج پر اور‬
‫دوائیوں پر پیسے لگے ہے وہ بھی واپس کر دوں‬
‫گی۔‬

‫سیف حیران ہو کر مایا کی فضول گوئی سن رہا‬


‫ہوتا ہے۔ سیف کو ابھی سے اپنی فکر لگ گئ تھی۔‬
‫کیونکہ فیوچر میں مایا اسے کافی ڈف ٹائم دینے‬
‫والی تھی۔‬

‫سیف اچھا تم احسان اترنا چاہتی ہو تو میرے ساتھ‬


‫میرے گھر چلوں میں تم سے کوئ پیسے نہیں لوں‬
‫گا۔ جو تمہارے عالج پر لگے ہے۔‬

‫مایا ذہن میں سوچتی ہے۔ کہہ تو ڈھیک رہا میں کہا‬
‫سے اتنا پیسہ دو گی۔ اس کا احسان اتار دوں پھر‬
‫ہاسٹل میں اپنا بندوبست کر لوں گی۔‬
‫مایا کو سوچوں میں گم دیکھ کر سیف کہتا ہے۔‬
‫سوچ لیا ہو تو چلے مایا عجیب و غریب منہ بنا کہ‬
‫میں جب ڈھیک ہو جائوں گی مکمل تو وہاں سے‬
‫کہی اور شفٹ ہو جائو گی اور تم مجھے روک‬
‫نہیں سکوں گے۔‬

‫یہ نہ سمجھنا میں تمہاری بات مان کر جا رہی ہو۔‬


‫یہ تو بس احسان اتارنے کہ لیے جا رہی ہو۔ سیف‬
‫اگر احسان اتارنے والی بات نہ کرتا تو مایا کبھی‬
‫بھی اس کہ ساتھ اس کہ گھر نہ چلتی اسی وجہ‬
‫سے سیف کو یہ بہانا بنانا پڑتا ہے۔‬

‫سیف ڈھیک تو ہو جائو پھر دیکھے گے۔ مایا سیف‬


‫کو جواب دینے لگتی ہے۔ سیف مایا کو پھر بولنے‬
‫کے لیے پر تولتے دیکھ کر ویل چیئر پیچھے سے‬
‫پکڑ کر چل پڑتا ہے۔‬
‫گاڑی کہ پاس پہنچ کر سیف مایا کی طرف دیکھتا‬
‫ہے۔ کیا ایسے کیوں دیکھ رہے ہو۔ میڈم تمہیں‬
‫گاڑی میں ویل چیئر سمیت تو بیٹھنے سے رہی تو‬
‫ظاہر سی بات ہے گود میں اٹھنا پڑے گا۔‬

‫مایا خبر دار ہاتھ لگایا مجھے تو اور کیا اوڑ کر‬
‫بیھٹو گی۔ تم ایسا کروں میری ویل چیئر گاڑی کا‬
‫دروازہ کھول کر سیٹ کہ قریب کر دوں میں خود‬
‫کوشش کر کہ بیٹھتی ہوں۔‬

‫سیف مایا کہ فرمو داد سنتا ضبط کہ گھونٹ بڑھتا‬


‫مایا جیسے کہتی ہے ویسے کرتا ہے۔ مایا گاڑی‬
‫میں اٹھ کر بیھٹنے کی کوشش کرتی ہے تو کافی‬
‫تکلیف ہوتی پر برداشت کرتے ہوئے فرنٹ سیٹ پر‬
‫اپنی مدد آپ کہ تحت بیٹھ جاتی ہے۔‬
‫سیف مایا کا چہرا دیکھ رہا ہوتا جو ضبط سے الل‬
‫سرخ ہو رہا ہوتا ہے اور آنکھوں میں ہلکی سی‬
‫آنسو کی رقم معجود ہوتی ہے۔‬

‫سیف مایا کی حالت دیکھ کر لب بینچ کر مایا کی‬


‫حرکتیں مالحظہ کر رہا ہوتا ہے۔ پھر ویل چیئر اٹھا‬
‫کر گاڑی کی ڈگی میں رکھ کر اپنی جگہ آ کر بیٹھ‬
‫کر گاڑی ذن سے آگے بھگا لیتا ہے۔‬
‫💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖‬
‫عائشہ بیگم بے صبری سے سیف کے آنے کا‬
‫انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ اچانک باہر گاڑی کہ‬
‫ہارن کی آواز آتی ہے۔‬

‫عائشہ بیگم اپنے قدم باہر کی طرف بڑھا دیتی ہے۔‬


‫سیف گاڑی سے اتر کر ڈگی سے مایا کی ویل چیئر‬
‫نکال کر گاڑی کا فرنٹ ڈور کھولتا ہے۔‬
‫مایا تو اتنا بڑا محل دیکھ کر اس میں ہی کھو جاتی‬
‫ہے۔ مایا کا بھی اپنا گھر بھی بہت بڑا اور‬
‫خوبصورت تھا پر سیف کہ محل کے آگے کچھ‬
‫بھی نہیں تھا۔‬

‫سیف مایا کو کھویا ہوا دیکھ کر گال کھنکار کر اپنی‬


‫طرف متوجہ کرتا ہے۔ مایا ہربڑا کر ہوش میں آتی‬
‫ہے۔‬

‫مایا گاڑی سے اترنے کی کوشش کرتی ہے پر اس‬


‫سے اٹھا نہیں جاتا زخموں میں شدید درد ہو رہا ہوتا‬
‫ہے۔ سیف کی نظر مایا کی ٹانگ کی طرف پڑتی‬
‫ہے۔‬

‫جو خون سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ سیف کو شدید‬


‫غصہ آتا ہے۔ مایا کے ضد کرنے پر سیف عائشہ‬
‫بیگم کو اشارہ کرتا ہے اپنے پاس آنے کا کیونکہ‬
‫اسے پتا تھا کہ مایا اس کہ سہارے کبھی نہیں‬
‫اترے گی۔‬

‫اس کا اندازہ اسے ہسپتال کہ باہر ہوئے واقعے سے‬


‫ہی ہو گیا تھا۔ اس لیے وہ ایسا نہیں کرتا ہے۔ عائشہ‬
‫بیگم سیف کہ کہنے پر حیران ہوتی اس کہ پاس آتی‬
‫ہے۔‬

‫موم یہ مایا جس کا بتایا تھا نہ آپ کو عائشہ بیگم‬


‫سمجھ کر آگے بڑھتی مایا کی طرف دیکھتی جس‬
‫سے زخموں کی تکلیف کی وجہ سے سیٹ سے‬
‫اٹھا نہیں جا رہا ہوتا عائشہ بیگم صورت حال سمجھ‬
‫کر مایا کو سہارا دیں کر باہر نکالتی ویل چیئر پر‬
‫بیھٹاتی ہے۔‬
‫عائشہ بیگم مایا کہ ٹانگ سے نکلتا خون دیکھ کر‬
‫پریشان ہو جاتی ہے جو مایا کی سفید شلوار کو‬
‫خون آلود کر دیتا ہے۔‬

‫بیٹا میں سیف کی موم ہو۔ آج سے تمہاری بھی موم‬


‫ہو گھبرائو مت عائشہ بیگم مایا کا پریشان چہرا‬
‫دیکھ کر سمجھ جاتی ہے کہ مایا نئے لوگ اور نئی‬
‫جگہ دیکھ گھبرا رہی ہے۔ اس لیے وہ مایا کو‬
‫تسلی دیتی ہے تا کہ وہ پرسکون محسوس کرے۔‬

‫بیٹا اندر چلوں تمہارا کافی خون بہہ چکا ہے۔ عائشہ‬
‫بیگم یہ کہتے ہی مایا کی ویل چیئر پکڑ کر اندر‬
‫لیں جاتی ہے۔‬

‫پیچھے سیف سوچوں میں کھویا ہوا مایا کو جاتے‬


‫ہوئے دیکھتا ہے۔ مایا تم جو اپنے آپ کو تکلیف‬
‫دیکھ کر مجھے ڈبل تکلیف دیں رہی ہو۔‬
‫اس کا حساب تم سے میں ضرور لوں گا۔ تمہیں‬
‫اپنے آپ کو تکلیف دینے کا کوئ حق نہیں سیف‬
‫مایا سے خیالو میں مخاطب ہوتا کہتا ہے۔ پھر سر‬
‫جھٹک اندر کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬

‫سیف نے ایک نرس کا بندوبست مایا کہ آنے سے‬


‫پہلے ہی کر لیا تھا۔ اس لیے نرس نے بروقت مایا‬
‫کا زخم صاف کر دیا تھا۔‬

‫عائشہ بیگم راشدہ کو رات کا ڈنر لگوانے کو کہتی‬


‫ہے۔ بیٹا ائو ڈنر کرے نہیں انٹی مجھے بھوک نہیں‬
‫ہے۔ بیٹا میں نے باہر بھی کہا تھا۔‬

‫جس طرح میں سیف کی موم ہو۔ اس طرح آج سے‬


‫تمہاری بھی ہو۔ مایا کو اپنی ماما کی یاد آ جاتی‬
‫ہے۔ مایا پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی ہے۔‬
‫عائشہ بیگم مایا کو اپنی بات پر یوں روتا دیکھ کر‬
‫گھبرا کر مایا کی طرف بڑھتی ہے۔ سیف اندر‬
‫داخل ہوتا ہے لیکن مایا کو یوں روتے دیکھ اس‬
‫کی طرف بڑھتا ہے۔‬

‫سیف سمجھتا ہے کہ مایا کو زخموں میں تکلیف ہو‬


‫رہی ہے اس لیے رو رہی ہے۔‬

‫مایا کیا ہوا ہے تمہیں زخموں میں تکلیف ہو رہی‬


‫ہے۔ لیکن مایا کو اپنی بات پر کوئ رسپونس نہ‬
‫دیتے دیکھ اس کو شدید غصہ آتا ہے۔ ایک تو‬
‫روئی جا رہی ہے اور آگے سے کوئ جواب بھی‬
‫نہیں دیں رہی۔‬

‫ڈیم اٹ میں کچھ پوچھ رہا ہو مایا کو جواب نہ دیتے‬


‫دیکھ سیف کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے اور‬
‫وہ اونچی آواز میں بولتا ہے۔ مایا سیف کی اونچی‬
‫آواز سن کر ڈر کر رونا بھول جاتی ہے۔ عائشہ‬
‫بیگم جلدی سے آگے بڑھ کر بیٹا آرام سے بات‬
‫کروں۔‬

‫مایا بیٹا میں تم سے سوری کرتی ہو شاید تمہاری‬


‫مجھے موم کہنے والی بات اچھی نہیں لگی۔ مایا‬
‫جلدی سے بولتی نہیں انٹی آپ کیوں سوری کر رہی‬
‫مجھے آپ کی بات بلکل بھی بوری نہیں لگی۔‬

‫آپ کی موم کہنے والی بات سے مجھے اپنی ماما‬


‫کی یاد آگئ۔ مایا یہ کہتے ہی پھر سے رونا شروع‬
‫کر دیتی سیف مایا کو یوں تڑپتا دیکھ کر اپنے‬
‫آنکھوں سے نکلتے آنسو صاف کر کہ جلدی سے‬
‫سیڑھیاں چڑھتا اپنے کمرے میں جا کر دروازہ بند‬
‫کر لیتا ہے۔‬
‫عائشہ بیگم اپنے بیٹے کی تکلیف اچھی طرح‬
‫سمجھ رہی تھی پر وہ ابھی بے بس تھی سیف کو‬
‫تسلی اور صبر کرنے کہ عالوہ کچھ نہیں کہہ‬
‫سکتی تھی۔‬

‫عائشہ بیگم روتی ہوئ مایا کی جانب بڑھتی ہے۔‬


‫بیٹا چپ کر جائو کیا ہوا اگر ہللا نے تمہاری ماما‬
‫لیں لی تو ایک اور بھی تو دیں دی ہے نہ مایا‬
‫عائشہ بیگم کی بات پر روتے ہوئے سر اٹھا کر ان‬
‫کی جانب دیکھتی ہے۔‬

‫بیٹا آج سے تم مجھے ماما کہوں گی ڈھیک ہے۔ تم‬


‫میری بیٹی ہو نہ عائشہ بیگم مایا سے تصدیق‬
‫کرنے کے لیے پوچھتی ہے آیا کہ مایا ان کا یہ‬
‫فیصلہ پسند آیا کہ نہیں جس پر مایا صرف مسکرا‬
‫دیتی ہے۔ آئو بیٹا تمہیں تمہارے کمرے تک چھوڑ‬
‫دو۔‬
‫عائشہ بیگم مایا کو کمرے تک ویل چیئر پکڑ کر‬
‫چھوڑ دیتی ہے۔ بیٹا کسی بھی چیز کی ضرورت ہو‬
‫تو بال جھجک مجھ سے یا نرس سے کہہ دینا آج‬
‫سے تمہارا بھی یہ اتنا ہی گھر ہے جتنا سیف کا‬
‫ہے ۔‬

‫عائشہ بیگم مایا کے ماتھے پر بوسا دیتی کہتی‬


‫اپنے کمرے کی طرف بڑھ جاتی ہے۔ مایا عائشہ‬
‫بیگم کا خلوص دیکھ کر کافی حیران ہوتی ہے۔‬

‫کچھ دیر بعد نرس آکر مایا کو دوائ کھالتی ہے‬


‫اور نرس کا سہارا لے کر مایا بیڈ پر لیٹ جاتی‬
‫ہے۔‬
‫نرس کے جانے کہ بعد مایا سونے کی کوشش‬
‫کرتی ہے پر اسے نیند نہیں آتی اور پھر سے اپنے‬
‫ماما پاپا کی یاد آنا شروع ہو جاتی ہے۔‬

‫ماما پاپا آئ پرومیس میں آپ کی موت کا بدال‬


‫ضرور لوں گی جس نے یہ کیا ہے ۔ اب وہ اپنی‬
‫زندگی کے الٹے دن گنا شروع کر دیں۔ ایسی موت‬
‫دوں گی کہ وہ یاد رکھے گا کس سے اس کی کل‬
‫کائنات چھینو تو کتنی تکلیف ہوتی ہے۔‬

‫مایا دل میں بدلے کا پورا ارادہ کرتی نیند کی وادی‬


‫میں چلی جاتی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫آفندی ویال میں صبح کہ وقت ڈائنگ ڈیبل پر شہیر‬
‫آفندی اور عائزہ بیگم بیھٹے راز و نیاز میں لگے‬
‫ہوئے ہوتے ہے۔‬
‫ارش سیڑھیاں اترتا جلدی سے ڈائنگ ڈیبل پر آتا‬
‫ہے۔ اسالم و علیکم موم اینڈ ڈیڈ وعلیکم السالم بیٹا‬
‫دونوں ارش کہ سالم کا جواب دیتے ہے۔‬

‫ارش شہیر آفندی کہ گلے لگتا ہے۔ سوری ڈیڈ رات‬


‫کو میں لیٹ ہو گیا اور آپ سے مل نہیں سکا۔‬
‫دراصل شہیر صاحب بزنس میٹنگ کہ سلسلے میں‬
‫دبئی گئے ہوئے تھے۔ جس وجہ سے وہ رات کو‬
‫ارش کا انتظار کرتے ہے۔‬

‫بائ دا وے یہ آپ دونوں میرے آنے سے پہلے کیا‬


‫کھسع پھسر کر رہے تھے۔ ارش کی بات پر شہیر‬
‫صاحب قہقہ لگاتے ہے عائز بیگم بس مسکرانے پر‬
‫اکتفا کرتی ہے۔‬
‫شہیر صاحب بیٹا ہم کوئی کھسر پھسر نہیں کرے‬
‫تھے۔ ارش چیئر پر بیٹھتا ٹوسٹ پر مکھن لگاتے‬
‫ہوئے پھر کیا کر رہے تھے۔‬

‫بیٹا میں اور تمہاری ماما تمہاری نییا پار لگانے کا‬
‫سوچ رہے ہیں۔ ارش نہ سمجھی سے دونوں کی‬
‫طرف دیکھتا ہے۔ مطلب موم ڈیڈ میں سمجھا نہیں‬
‫عائزہ بیگم بیٹا وہی جس لڑکی کا تم نے بتایا تھا۔‬
‫اس کی تمہارے ڈیڈ سے بات کر رہی تھی۔ تمہارے‬
‫ڈیڈ کا بس نہیں چل رہا کل ہی بہو لے آئے۔‬

‫ارش میں نے بس لڑکی کا بتایا آگے کی ڈیٹیل تم‬


‫بتائو عائزہ بیگم آہستہ آواز میں کہتی ہے۔ شہیر‬
‫صاحب یہ کا آہستہ آواز میں بول رہے ہو اونچا‬
‫بولو مجھے بھی سنائی دیں۔‬
‫وہ ڈیڈ ابھی آپ بہو کو کل بیاہ کر النے والی‬
‫خواہش پر صبر رکھے آپ سے زیادہ تو مجھے‬
‫جلدی ہے پر مجبوری ہے۔ شہیر صاحب پریشان‬
‫ہوتے ہوئے پوچھتے ہے۔ کیا مجبوری ہے؟‬

‫ڈیڈ وہ دراصل وردا کہ پیپر ہو رہے ہے۔ شہیر‬


‫صاحب نہ سمجھی سے پوچھتے ہے۔ کون سے‬
‫پیپر اس کی پڑھائی نہیں کمپلیٹ ہوئ کیا۔‬

‫ارش ہنستے ہوئے ڈیڈ یوں سمجھ لے ابھی اس کی‬


‫آدھی پڑھائی رہتی ہے۔ وردا فسٹ ایئر کی سٹوڈنٹ‬
‫ہے۔‬

‫شہیر صاحب حیران ہوتے ہوئے بیٹا پھر تو کافی‬


‫چھوٹی ہو گی تم سے ڈیڈ آپ ہی تو کہتے ہےعشق‬
‫اور محبت کی کوئ عمر نہیں ہوتی اب آپ ہی ایسا‬
‫کہہ رہے ہے۔‬
‫بیٹا مجھے پتا میں ایسا ہی کہتا ہوں پر تمہاری اور‬
‫وردا بیٹی کی عمر میں کافی فرق ہے۔ ڈیڈ دس سال‬
‫کا فرق کوئی فرق نہیں ہوتا ویسے بھی آپ اس‬
‫وجہ سے پریشان ہو رہے ہو گے کہ وہ چھوٹی ہے‬
‫تو کیسے شادی کہ بعد ذمہ داریاں سنبھالے گی۔‬

‫اس کی آپ ٹینشن نہ لے میں اس پہ کوئی ذمہ داری‬


‫نہیں ڈالوں گا اور سے اپنے رانی بنا کر رکھوں گا‬
‫ارش یہ بات آنکھ مار کر کہتا ہے۔ جس پر عائزہ‬
‫بیگم ارش کو ایک گھوری سے نوازتی ہے۔ ڈیڈ‬
‫میں جلد ہی وردا کو اپنی زندگی میں شامل کرنا‬
‫چاہتا ہوں۔‬

‫میں اسے کسی بھی حالت میں کھونا نہیں چاہتا باقی‬
‫کی پڑھائ وہ شادی کہ بعد کر لے گی پر میں اب‬
‫اس کہ بغیر اور نہیں رہ سکتا۔‬
‫شہیر صاحب اور عائزہ بیگم اپنے بیٹے کی‬
‫دیوانگی اور سنجیدہ چہرا دیکھ کر سمجھ جاتے‬
‫ہے کہ ان کا بیٹا وردا سے کتنی محبت کرتا ہے۔‬

‫شہیر صاحب بیٹا جیسا تم کہو گے ویسا ہی ہو گا۔‬


‫عائزہ بیگم ہمارے لیے تمہاری خوشی اہم ہے۔‬
‫عائزہ بیگم یہ کہتے ارش کہ ماتھے پر بوسا دیتی‬
‫ہے۔‬

‫ارش خوش ہوتا ڈھیک ہے پھر جیسے ہی وردا کہ‬


‫پیپر ختم ہو گے۔ آپ لوگ میرا رشتہ لے کر ان کہ‬
‫گھر جائے گے۔ جس پر دونوں ہاں کرتے ہیں ۔‬

‫ارش میری امپورٹنٹ میٹنگ ہے یہ کہتے ہی‬


‫عائزہ بیگم کو سر پر پیار کرتا اور شہیر صاحب‬
‫کو دوبارہ گلے لگاتا باہر کہ طرف تیزی سے قدم‬
‫بڑھا دیتا ہے۔‬

‫شہیر صاحب دیکھ رہی ہے بیگم ہمارا بیٹا تو عشق‬


‫کرنے میں ہم سے بھی سو ہاتھ آگے نکال عائزہ‬
‫بیگم کچھ بھی بولتے رہتے ہے۔‬

‫عائزہ بیگم ہنستے ہوئے کچن کی طرف بڑھ جاتی‬


‫ہے اور شہیر صاحب اخبار پڑھنا شروع کر دیتے‬
‫ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫وقت کا کام تھا گزرنا اور وہ گزر رہا تھا۔ مایا‬
‫آہستہ آہستہ ریکوری کی طرف آرہی تھی۔ زخم بھی‬
‫کافی حد تک بھر چکے تھے۔‬
‫مایا اب ویل چیئر کہ بغیر آسانی سے چل لیتی تھی‬
‫اور نرس کو بھی مایا کہ کہنے پر واپس بھیج دیا‬
‫گیا تھا۔ مایا کا کہنا تھا اب میں ڈھیک ہو تو مجھے‬
‫اب نرس کی ضرورت نہیں میں خود چل سکتی ہو‬
‫اور اپنے کام خود کر سکتی ہو۔‬

‫عائشہ بیگم اور ثاقب صاحب تو بیٹیوں سے بھی‬


‫زیادہ خیال رکھتے تھے مایا کا جس کی وجہ سے‬
‫مایا اپنے اوپر بیتے دکھ و درد بھول رہی تھی پر‬
‫اپنا بدال نہیں بھولی تھی۔‬

‫مایا کا پورا ارداہ تھا اپنے ماں باپ کہ قاتل کو سزا‬


‫دینے کا سیف بھی مایا کا کافی خیال رکھتا تھا۔‬

‫لیکن ایسے کہ مایا کو پتا نہ چلے کبھی اس کی‬


‫فیورٹ چیزیں التا تو کبھی مایا کو کھانے میں کیا‬
‫پسند ہے عائشہ بیگم کہ ذریعے پوچھ کر اس کی‬
‫پسندیدہ کھانے بناتا پر عائشہ بیگم کو یہی کہتا کہ‬
‫میرا نام نہ لیں کہ میں نے بنایا ہے۔‬

‫سیف کو سارٹ سے ہی کوکنگ کا شوق تھا۔ ڈاکڑ‬


‫کی ڈگری باہر سے حاصل کی تو وہاں سیف اپنا‬
‫کھانا خود بناتا تھا۔ سیف نے خود ہی اپنے لیے کک‬
‫نہیں رکھا تھا۔‬

‫اس طرح سیف لیذیز کھانا بنا لیتا تھا۔ مایا خوب‬
‫چھٹخارے بھر کر کھاتی اور عائشہ بیگم کی‬
‫تعریف کرتی تھی۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫وردا اور آمنہ کہ پیپر بھی ہوں چکے تھے۔ ہماری‬
‫وردا میڈم نے پورے گھر کو سر پر اٹھایا ہوا تھا۔‬
‫روز گلی میں کھیلتے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر لیں‬
‫آتی تھی اور پورے گھر میں تھرتھلی مچھا دیتی‬
‫😆😂 تھی۔‬

‫جس پر ذالے بیگم سر پکڑ کر رہ جاتی اور آمنہ‬


‫کی دہائیاں اروج پر ہوتی تھی۔ آمنہ جی بھر کر‬
‫بدعائیں دیتی تھی۔‬

‫ہللا کرے وردا تمہارے گھر اتنے بچے شادی کہ‬


‫بعد ہو کہ تمہاری اور تمہارے شوہر کی رہنے کی‬
‫جگہ نہ بچے گھر میں جس پر وردا ہنس کر آمنہ‬
‫کو کہتی تھی اچھی بات ہے تم ان سب کی خالہ ہو‬
‫گی تو ان سب کو تمہارے پیچھے لگاوا دوں گی۔‬

‫جس پر آمنہ ہکا بکا ہو کر وردا کو دیکھتی تھی۔‬


‫😅😆‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫سیف رات کو تھکا ہوا ویال میں قدم رکھتا ڈائنگ‬
‫ڈیبل پر کار کی کیز رکھ کر سیدھا کچن کی طرف‬
‫بڑھتا ہے تا کہ اپنے لیے کوفی بنا سکے۔‬

‫سیف کی کچن میں قدم رکھتے ہی مایا پر نظر‬


‫پڑتی ہے جو پینے کہ لیے پانی میں جگ بھر رہی‬
‫ہوتی ہے۔ مایا کو دیکھ کر سیف کو اپنی ساری‬
‫تھکن اترتی ہوئ محسوس ہوتی ہے۔‬

‫مایا بلیو کرتے پاجامے کہ اوپر وائٹ دوپٹہ لیے‬


‫بالوں کی چوٹی بنائے جس کی آوارہ لٹے‬
‫رخساروں پر بوسا دیں رہی ہوتی ہے۔‬

‫کافی پیاری لگ رہی ہوتی ہے۔ سیف کچن کہ‬


‫کارنر میں دیوار سے ڈیک لگائے ٹرانس کی کیفیت‬
‫میں مایا دیکھے چال جاتا ہے۔‬
‫مایا کی سیف کی طرف پشت ہوتی اسے اپنے پشت‬
‫پر کسی کی شدید نظروں کی تپش محسوس ہوتی‬
‫ہے۔ مایا موڑ کر دیکھتی ہے تو سیف مایا کی‬
‫طرف ہی دیکھ رہا ہوتا ہے۔‬

‫مایا آپ کو کچھ چاہیے جب مایا کو لگتا ہے سیف‬


‫نے اس کی بات نہیں سنی تو وہ اونچی آواز میں‬
‫کہتی ہے آپ کچھ چاہیے۔‬

‫سیف مایا کی آواز سے ہوش میں آتا ہے۔ مجھ سے‬


‫کچھ کہا تم نے مایا جلتے ہوئے اور کیا آپ کہ‬
‫پیچے کھڑی دیوار سے کہہ رہی ہو میں کب سے‬
‫پوچھ رہی ہو کچھ چاہیے پر آپ ہے کہ سن ہی‬
‫نہیں رہے۔‬
‫سیف بالو میں ہاتھ پیھرتے نہیں چاہیے تو کچھ نہیں‬
‫میں کوفی بنانے آیا تھا۔ سر میں کافی درد ہو رہی‬
‫ہے۔ مایا میں بنا دیتی ہو۔‬

‫۔ تم رہنے دو ابھی تو تمہارے زخم بھرے ہے اور‬


‫میں کوئی رسک نہیں لیں چاہتا تم جا کر آرام‬
‫کروں میں خودی بنا لوں گا۔ مایا اوکے کہہ کر نکل‬
‫جاتی ہے۔‬

‫سیف مایا کو جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔ مایا اب تم‬


‫ڈھیک ہو گئ ہو میں کل ہی موم سے اپنی اور‬
‫تمہاری شادی کی بات کرو گا۔‬
‫سیف یہ کہتے ہی مسکراتا ہوا کوفی کہ لیے سامان‬
‫نکلتا کوفی بنانے لگتا ہے۔‬
‫😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍‬
‫وردا اور آمنہ احان کہ ساتھ شاپنگ کرنے باہر گئ‬
‫ہوتی ہے۔ ذالے بیگم کچن میں ثانیہ بیگم کہ ساتھ‬
‫باتیں کرتی ہوئ رات کہ کھانے کی تیاری کر رہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫تیمور بلوچ اور حیدر بلوچ ڈی وی الوئنچ میں‬


‫صوفے پر بیھٹے باتیں کرنے میں مصروف تھے۔‬
‫آج سنڈے تھا اس لی ان دونوں بھائیوں کو فراغت‬
‫ہی فراغت حاصل تھی۔‬

‫ورنہ بقول ان کی بیگمات کہ آپ لوگوں کا بس نہیں‬


‫چلے سنڈے والے دن بھی کوئی کام نکال کر گھر‬
‫سے غائب ہو جائے۔ دونوں بھائ سنڈے کو بھی‬
‫کبھی کبھار ہی فری ہوتے تھے کیونکہ دونوں اس‬
‫دن بھی کام نکل آتا تھا۔‬
‫دونوں باتیں کر رہے ہو تے ہیں کی واچ مین آکر‬
‫بتاتا ہے کہ باہر کچھ لوگ آئے ہے۔ حیدر بلوچ‬
‫شکور (واچ مین) کی بات سن کر کافی حیران ہو‬
‫کر سوچتے ہے کہ آخر کون ہو سکتا ہے۔‬

‫تیمور صاحب شکور انھیں ڈرائنگ روم میں‬


‫بیٹھوئو ہم آتے ہے۔ شکور جی اچھا کہہ کر چال‬
‫جاتا ہے۔ تیمور صاحب ڈرائنگ روم کی طرف قدم‬
‫بڑھاتے ہے۔‬

‫حیدر صاحب ذالے کو لوازمات ڈرائنگ روم میں‬


‫النے کی ہدایت کرتے خود بھی تیمور صاحب کہ‬
‫پیچھے چلے جاتے ہے۔‬

‫دونوں بھائ جب ڈرائنگ روم میں آتے ہے تو شہیر‬


‫آفندی کو دیکھ کر حیران ہو جاتے ہے۔ کیونکہ‬
‫شہیر آفندی کو کون نہیں جانتا تھا۔ جن کا بزنس‬
‫پاکستان اور بیرون ملک میں ٹوپ لیسٹ میں تھا۔‬

‫حیدر بلوچ اور تیمور بلوچ شہیر آفندی اور عائزہ‬


‫بیگم کو سالم کرتے ہیں۔ جن کا جواب وہ خوش‬
‫اسلوبی سے دیتے ہے۔‬

‫تھوڑی دیر بعد مالزم لوازمات ال کر ان کہ سامنے‬


‫رکھ دیتا ہے۔ عائزہ بیگم بھائ صاحب ان تکلفات‬
‫میں پڑھنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہم آپ کہ اپنے‬
‫ہے کوئی غیر نہیں جس پر حیدر صاحب نہ‬
‫سمجھی سے عائزہ بیگم کی طرف دیکھتے میں‬
‫سمجھا نہیں جس پر عائزہ شہیر صاحب کو بات‬
‫کرنے کا اشارہ کرتی ہے۔‬
‫شہیر آفندی حیدر بلوچ کو مخاطب کرتے حیدر یار‬
‫میں تجھ سے تیری بہت اہم چیز ماگنے آیا ہو پہلے‬
‫تو وعدہ کر تو انکار نہیں کرے گا۔‬

‫شہیر آفندی کی بات سے حیدر صاحب نہ سمجھی‬


‫سے ان کہ طرف دیکھنے لگتے ہے۔ میں سمجھا‬
‫نہیں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔‬

‫یار میں تجھ سے تیری بیٹی کو اپنے ارش کے‬


‫لیے مانگتا ہو پلیز انکار نہ کریں میرا بیٹا اسے‬
‫بہت خوش رکھے گا۔ ہم دونوں کی بہت خواہش ہے‬
‫کہ وردا ہماری بہو بنے۔‬

‫حیدر صاحب شہیر صاحب کی بات سن کر حیران‬


‫ہوتے ہے۔ پہلے ان کی طرف پھر اپنے بھائ کی‬
‫طرف دیکھتے ہے۔ تیمور صاحب حیدر کو‬
‫محاسبے میں جاتے دیکھ خودی بات کا آغاز کرتے‬
‫ہے۔‬

‫دیکھو شہیر میں جانتا ہو بھابھی کی اور تمہاری‬


‫نیچر کو دونوں بھائ پہلے سے شہیر آفندی کو‬
‫جانتے تھے باہر ان کا ملنا مالنا چلتا رہتا تھا۔‬

‫دونوں نے کبھی بھی گھر پر ذکر نہیں کیا تھا۔‬


‫جس کی وجہ سے کوئی بھی شہیر آفندی کو نہیں‬
‫جانتا تھا۔اس وجہ سے جب عائزہ بیگم نے جب‬
‫رشتے کا ذکر شہیر صاحب سے کیا تو انھوں نے‬
‫عائزہ کو بتایا تھا۔‬

‫میں انھیں پہلے سے جانتا ہو فکر نہ کروں تھوڑی‬


‫کوشش کرنے پر مان جائے گے۔‬
‫ابھی وردا بہت چھوٹی ہے ابھی تو وہ پڑھ رہی‬
‫ہے۔ ارش اور وردا کی عمروں میں بہت فرق ہے۔‬

‫شہیر آفندی نے تیمور صاحب کو کہتے ہوئے سنا‬


‫میں جانتا ہو لیکن پڑھائ شادی کہ بعد بھی تو ہو‬
‫سکتی ہے۔‬

‫ارش دس سال ہی تو بڑھا ہے وردا سے میرے‬


‫نزدیک لڑکے کا شادی کہ لیے میچور ہونا‬
‫ضروری ہے۔ جو ارش ہے وہ وردا کا بہت خیال‬
‫رکھے گا۔‬

‫عائزہ بیگم حیدر صاحب سے مخاطب ہوتے ہوئے‬


‫بھائ صاحب ہم بہت خلوص اور امید کہ ساتھ رشتہ‬
‫لے کر آئے ہے۔ ہمیں انکار مت کیجئے گا۔‬
‫حیدر صاحب تذبذب کا شکار ہوتے ہے۔ عائزہ بہن‬
‫میں آپ کی خلوص کی قدر کرتا ہو۔ آپ مجھے‬
‫تھوڑا وقت دیں۔‬

‫میں وردا کی اجازت کہ بغیر کوئی قدم نہیں اٹھانا‬


‫چاہتا پہلے اپنی بیٹی سے پوچھو گا۔ اگر اس کی‬
‫طرف سے رضامندی ہوئی تو میری طرف سے‬
‫بھی ہاں ہے۔‬

‫یہ بات سنتے ہی عائزہ بیگم اور شہیر صاحب‬


‫خوش ہو جاتے ہیں۔ عائزہ بیگم ہمیں آپ سے یہی‬
‫امید تھی۔ آپ وردا بیٹی کا فیصلہ جان کر جلد ہمیں‬
‫آگاہ کر دیجئے گا۔‬
‫حیدر صاحب کیوں نہیں بھابھی میں ایسا ہی کروں‬
‫گا۔ تھوڑی دیر اور بیٹھ کر دونوں چلے جاتے ہیں۔‬
‫تیمور صاحب حیدر تم نے رشتے کہ لیے ہامی‬
‫کیوں دیں۔‬

‫بھائ جان یاد ہے امی کیا کہتی تھی۔ جب ہللا آپ کو‬


‫کسی نعمت سے نواز رہا ہو تو اس کو قبول کر کہ‬
‫اس کا ہللا کی بارگاہ میں شکر ادا کرنا چاہیے۔‬

‫میری بیٹی کہ لیے اتنا اچھا رشتہ آیا ہے تو میں‬


‫بھی بغیر کسی جواز کہ کیوں انکار کروں میں‬
‫وردا سے پوچھو گا۔ اگر اس کی ہاں ہوئ تو‬
‫مجھے کوئی اعتراض نہیں حیدر صاحب یہ کہتے‬
‫ہی ڈرائنگ روم سے نکل کر اپنے روم کی طرف‬
‫بڑھ جاتے ہے۔‬
‫تیمور صاحب بھی پیچھے سوچوں میں ڈوبے ہوتے‬
‫ہے کہہ تو ویسے ڈھیک رہا ہے مجھے بھی کوئی‬
‫خامی نظر نہیں آتی اس رشتے میں یہ رشتہ ہر‬
‫لحاظ سے اچھا ہے وردا بیٹی کہ لیے مجھے یقین‬
‫ہے وہ ارش کہ ساتھ خوش رہے گی یہ کہتے ہی‬
‫تیمور صاحب فون میں بیزی ہو جاتے ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫سیف نے آج ہسپتال سے اوف کیا تھا۔ تو وہ مزے‬
‫سے اپنی نیند پوری کر رہا تھا۔ عائشہ بیگم نیچے‬
‫مایا کہ ساتھ ناشتہ لگوا رہی تھی۔‬

‫مایا بیٹا بس کروں بیٹھ جائوں بیٹا آپ ابھی مکمل‬


‫ڈھیک نہیں ہوئی اب چپ چاپ جا کر بیٹھے ہم آپ‬
‫کہ لیے ناشتہ التے ہے۔‬

‫مایا مسکرا کر جی ماما کہتی ڈائنگ ڈیبل کہ‬


‫نزدیک چیئر کھسکا کر بیٹھ جاتی ہے۔ عائشہ بیگم‬
‫یہ سیف ابھی تک نہیں اٹھا۔ میں ذرا اسے اٹھا کر‬
‫آتی ہوں۔‬

‫موم آپ رہنے دیں میں اٹھا دیتی ہو۔ اوکے بیٹا جائو‬
‫دھیان سے جانا جی موم مایا کہتی ساتھ سیڑھیاں‬
‫چڑھتی اوپر کی جانب بڑھ جاتی ہے۔‬

‫سیف کہ کمرے کا دروازہ آہستہ آواز میں کھول کر‬


‫آہستہ آہستہ قدم اند کی جانب بڑھاتی ہے۔ ہللا انھوں‬
‫نے تو پورے کمرے میں اندھیرا کیا جیسے روشنی‬
‫سے کوئی دشمنی ہو۔‬

‫مایا سب سے پہلے کھڑکی کہ پاس جا کر پردے‬


‫پیچھے کرتی ہے پھر سیف کی طرف قدم بڑھاتی‬
‫ہے۔ سیف کمرے میں روشنی سے ہی اٹھ جاتا ہے‬
‫پر مایا کو تنگ کرنے کے لیے اس طرح ہی‬
‫آنکھیں بند کیے پڑھا رہا ہے۔‬
‫مایا بیڈ سے تھوڑا دوڑ کھڑی سیف کو آواز دیتی‬
‫ہے۔ سیف جی اٹھ جائے سیف کو مایا کی زبان سے‬
‫اپنا لیا نام بہت خوبصورت لگتا جتنا پہلے کبھی نہ‬
‫لگا ہو۔ سیف جان پوچھ کر مایا کی آواز سن کر‬
‫بھی نہیں اٹھتا اف کون سے گدھے گھوڑے بیچ کر‬
‫سوئے ہوئے ہے جو اٹھنے کا نام ہی نہیں لے‬
‫رہے۔‬

‫مایا کی بڑابڑاہٹ سے سیف بخوبی فیض یاب ہو‬


‫رہا ہوتا ہے اور بڑی مشکل سے اپنی ہنسی ضبط‬
‫کر کہ لیٹا ہوا ہوتا ہے۔‬

‫مایا تھوڑا اور قریب جاتی ہے کہ اچانک مایا کی‬


‫نظر سائڈ ڈیبل پر رکھی کار کی کیز پر پڑتی ہے۔‬
‫سیف مایا کہ اگلے اقدام کا انتظار کر رہا ہوتا ہے‬
‫کہ اب کیا کرتی ہے۔‬
‫مایا کار کی کیز پکڑے کچھ سوچتی ہے اور‬
‫شیطانی مسکراہٹ چہرے پہ التی ذہن میں سوچتی‬
‫ہے ایسے نہیں تو ایسے ہی صیح اور چابی کی‬
‫نوک سیف کہ ہاف آستین سے نظر آتے باذو پر‬
‫زور سے مارتی ہے کہ سیف اگلے پل بلبال کہ اٹھ‬
‫جاتا ہے۔ مایا اپنے کارنامے پر مسکراتے ہوئے بیڈ‬
‫سے دور ہوتی چابی رکھتی ہنستے ہوئے سیف کی‬
‫طرف دیکھتی ہے۔‬

‫مجھے بے قوف بنا رہے تھے۔ بے شک عمر میں‬


‫چھوٹی ہو لیکن دماغ چھوٹا نہیں میرا مایا کی نظر‬
‫پردے ہٹاتے ہوئے ہی سیف کی آنکھیں کھول کر‬
‫دوبارہ بند کرنے پہ پڑ گئ تھی۔‬

‫تبی مایا نے سیف کو ایسے جگانے کہ بارے میں‬


‫سوچ لیتی ہے۔ سیف خفگی سے مایا کی طرف‬
‫دیکھتا ہے۔ ایسے کون جگاتا ہے۔ آپ کا مطلب ہے‬
‫کہ میں آپ کو الڈ کر کہ اٹھاتی جلدی سے اٹھے‬
‫ماما نیچے ویٹ کر رہی مایا کہتے ہی روم سے‬
‫نکل جاتی ہے۔‬

‫ہللا تو دیکھ رہا ہے نہ عشق نے مجھے بچہ بنا دیا‬


‫سیف اپنی جان پوچھ کر نہ اٹھنے والی بچگانہ‬
‫حرکت پر ہنستا ہوا فریش ہونے باتھ کی طرف بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝‬
‫دوپہر کا وقت تھا۔ عائشہ بیگم اپنے کمرے میں آرام‬
‫کر رہی تھی۔ ان کہ سر میں درد ہو رہا تھا۔ ثاقب‬
‫شاہ بزنس میٹنگ کہ سلسلے میں شہر سے باہر‬
‫گئے ہوئے تھے۔‬
‫مایا ماما کو پکارتے ہوئے عائشہ بیگم کہ روم میں‬
‫داخل ہوتی ہے۔ عائشہ بیگم کو یوں اپنا سر دباتے‬
‫دیکھ پریشانی سے ان کی جانب بڑھتی ہے۔‬

‫ماما آپ کی طبیعت ڈھیک مایا پریشان ہوتی‬


‫پوچھتی ہے۔ ہاں میرا بچہ جائو تم مجھے ڈیبلٹ اور‬
‫ساتھ پانی ال دوں جی ماما ابھی الئی مایا یہ کہتے‬
‫ہی نکل جاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد سیف روم میں‬
‫داخل ہوتا ہے اور عائشہ بیگم کو یوں اپنا سر دباتا‬
‫دیکھ پریشان ہوتا ان کی جانب بڑھتا ہے موم یوں‬
‫آر اول رائٹ ہاں بیٹا بس سر میں ہلکا سا درد ہے۔‬

‫سیف عائشہ بیگم کا سر سے ہاتھ ہٹا کر سر دبانا‬


‫شروع کر دیتا ہے۔ عائشہ بیگم آنکھیں کھول کر‬
‫سیف کی طرف دیکھتی ہے۔‬
‫سیف عائشہ بیگم سے اپنی اور مایا کی شادی کی‬
‫بات کرنے آیا ہوتا پر عائشہ بیگم کو یوں بیمار‬
‫دیکھ بعد میں کہنے کا فیصلہ کرتا ہے۔‬

‫عائشہ بیگم سیف کو کچھ سوچتا دیکھ پوچھتی ہے۔‬


‫کیا بات ہے بیٹا کچھ کہنا چاہتے ہوں؟ کچھ نہیں‬
‫موم بعد میں ابھی آپ کی طبیعت ڈھیک نہیں بیٹا‬
‫بلکل ڈھیک ہو تم کروں جو بات کرنی ہے۔‬

‫موم بعد میں ابھی آپ بس ریسٹ کروں بیٹا جو تم‬


‫بات کرنا چاہتے ہو کہہ دوں میں بکل تندرست ہوں‬
‫تم پریشان نہ ہوں۔ سیف عائشہ بیگم کہ اتنے اسرار‬
‫پر بات کہنا شروع کرتا ہے۔‬

‫موم مایا اب ڈھیک ہو رہی ہے اب تو وہ پہلے سے‬


‫بہتر ہے تو میں چاہتا ہو آپ میری اور اس کی‬
‫شادی کر دیں۔ عائشہ بیگم اپنے بیٹے کو اتنا بے‬
‫صبرا ہوتے دیکھ مسکرا دیتی ہے۔‬

‫مایا دوائی اور پانی لیں کر عائشہ بیگم کہ کمرے‬


‫کی طرف قدم بڑھاتی ہے پر اندر سے سیف کی‬
‫آواز سن کر رک جاتی ہے۔ مایا سیف کی شادی‬
‫والی بات سن کر حیران رہ جاتی ہے۔‬

‫مایا جلدی سے اپنے آپ کو کمپوز کرتے اندر قدم‬


‫رکھتی ہے۔ سیف مایا کو دیکھتا جو آج بھی یلو‬
‫شرٹ اور وائٹ پالزو میں گلے میں وائٹ دوپٹہ‬
‫لیے بالوں کی ہائی پونی ٹیل بنائے بہت‬
‫خوبصورت لگ رہی ہوتی ہے۔‬

‫عائشہ بیگم سیف کو مایا میں کھویا دیکھ کر مایا‬


‫کو اونچی آواز میں مخاطب کرتی ہے آگی بیٹا‬
‫عائشہ بیگم کی آواز سن کر سیف ہوش میں آتا ہے۔‬
‫مایا جی ماما اب آپ جلدی سے دوائی لیں اس سے‬
‫آپ کو آرام آئے گا مایا عائشہ بیگم کی ہتھیلی پر‬
‫دوائ رکھتی پانی کا گالس پکڑائی ہے۔‬

‫اس سب میں سیف کی نظر مایا پر ہی ہوتی ہے‬


‫مایا سیف کی نظر کی تپش محسوس کرتی بس‬
‫فٹافٹ اس کمرے سے نکل جانا چاہتی تھی۔‬

‫عائشہ بیگم دوائ کھا کر لیٹ جاتی ہے۔ مایا عائشہ‬


‫بیگم کوچاپنا خیال رکھنے کا کہہ کر باہر نکل جاتی‬
‫ہے۔‬

‫عائشہ بیگم بیٹا جی بس کر دوں وہ چلی گئ ہے‬


‫عائشہ بیگم سیف کو یوں کھویا ہوا دیکھ کہتی ہے۔‬
‫سیف خجھل سا ہوکر ادر ادر دیکھنا شروع کر دیتا‬
‫ہے۔ جس پر عائشہ بیگم بھی مسکرا دیتی ہے۔‬

‫بیٹا تم فکر نا کروں تمہاری شادی مایا بیٹی سے ہی‬


‫ہو گی مجھے شروع سے بیٹی کی خواہش تھی۔ جو‬
‫ہللا نے پوری کر دی جس پر میں ہللا کی بہت شکر‬
‫گزار ہو میری خواہش ہے کہ مایا مجھے کبھی‬
‫چھوڑ کر نہ جائے ساری زندگی ہمارے پاس رہے۔‬

‫سیف پھر آپ کو تو خوش ہونا چاہیے آپ کو آپ‬


‫کی بیٹی سے مالنے کا میں سبب بن گیا عائشہ بیگم‬
‫سیف کی بات پر مسکرا دیتی ہے۔‬

‫سیف عائشہ بیگم کہ ماتھے پر بوسا دیتا انھیں آرام‬


‫کرنے کی ہدایت کرتا نکل جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫رات کا وقت تھا آمنہ اور وردا اپنے روم میں بیھٹی‬
‫اپنی آج کی شاپنگ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اچانک‬
‫روم نوک ہوتا ہے۔ وردا اندر آنے کی اجازت دیتی‬
‫ہے۔‬

‫وردا حیدر صاحب کو آتے دیکھ صوفے سے اٹھتی‬


‫بابا آپ مجھے بلوا لیا ہوتا آپ خود کیوں آگئے‬
‫حیدر صاحب کچھ نہیں ہوتا بیٹا میری بیٹی شاپنگ‬
‫دیکھ رہی تھی۔‬

‫آمنہ چاچو اس کا تو بس نہ چلے پورا مال خرید لیں‬


‫جس پر حیدر صاحب قہقہ لگاتے دیتے ہے۔ میری‬
‫پرینسس جو ہے میری بیٹی پورا مال بھی خرید لیں‬
‫تو میں اپنی بیٹی کو خرید دوں۔‬

‫وردا خوش ہوتی حیدر صاحب کہ گلے لگ جاتی‬


‫ہے۔ بیٹا آمنہ آپ ذرا تھوڑی دیر کے لیے باہر‬
‫جائے گی ۔ میں نے وردا بیٹی سے اہم بات کرنی‬
‫ہے۔ آمنہ سر اثبات میں ہالتے مسکراتے ہوئے باہر‬
‫کی طرف قدم بڑھا دیتی ہے۔‬

‫حیدر صاحب وردا کو ہاتھ پکڑ کر صوفے پر‬


‫بیٹھاتے خود بھی بیٹھ جاتے ہے۔ بیٹا میں تم سے‬
‫اہم بات کرنے آیا ہوں پہلے میری پوری بات سننا‬
‫جس پر وردا ہاں میں سر ہال دیتی ہے۔‬

‫بیٹا تمہارا رشتہ آیا جس پر وردا بولنے لگتی ہے۔‬


‫بیٹا پہلے میری بات پوری تحمل سے سنو ہمارے‬
‫جاننے والے ہاں مجھے بھی اچھا اور بہترین رشتہ‬
‫لگا ہے تمہارے لیے لڑکا بھی پڑھا لکھا اور قابل‬
‫ہے۔‬

‫میں جانتا ہو تم یہ سوچ رہی ہو گی تمہاری عمر‬


‫ابھی چھوٹی ہے اور پڑھ رہی ہو انھوں کو تمہارے‬
‫شادی کہ بعد پڑھنے پہ کوئی اعتراض نہیں اگلے‬
‫مہینے تم اٹھارہ کی ہو جائو گی۔‬

‫اچھا رشتہ ہے میں اس کو یوں ہاتھ سے جانے نہیں‬


‫دیں سکتا تو اس پہ سوچنا ضرور بیٹا میں تم پر‬
‫کوئی دباؤ نہیں ڈال رہا کہ تم ہاں ہی کروں پر‬
‫سوچنا ضرور اس بارے میں مجھے پورا یقین ہے‬
‫میری بیٹی مجھے نہ امید نہیں کرے گی۔‬

‫حیدر صاحب وردا کی پیشانی پر بوسا دیتے وردا‬


‫کو سوچا میں ڈوبا چھوڑ کمرے سے چلے جاتے‬
‫ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مایا سیف کی شادی کی بات سن کر بھاگتی ہوئی‬
‫اپنے کمرے کہ دروازہ بند کرتے اس کہ ساتھ ٹیک‬
‫لگائے روتے ہوئے ذمین پر بیھٹتی چلی جاتی ہے۔‬
‫میں آپ کہ قابل نہیں سمجھتے کیوں نہیں جس کی‬
‫زندگی دکھوں سے بڑھی ہو۔ وہ دوسرے کو کیا‬
‫دیں گا سوائے اذیت کہ میرا یہ جھلسا ہوا وجود آپ‬
‫کہ قابل نہیں جس کہ زخم بھر تو چکے ہے پر اس‬
‫کہ نشان جو میرے جسم پر نقش چھوڑ چکے وہ‬
‫کبھی ختم نہیں کر سکتی میں اور ویسے بھی میری‬
‫زندگی کا مقصد صرف اپنے ماما پاپا کے قاتل سے‬
‫بدال لینا ہے میری نصیب میں شادی لکھی ہی نہیں‬
‫مجھے کب آپ سے محبت ہوئی یہ میں خود بھی‬
‫نہیں جانتی۔‬

‫محبت نے کب میرے اندر پنجھے گاڑے اور میں‬


‫بے بس ہو کر رہ گئ۔ ویسے بھی ضروری نہیں‬
‫جس سے انسان محبت کرے اسے پا لینا ہی سب‬
‫کچھ ہوتا ہے۔‬
‫آپ ہمیشہ میرے ساتھ یادوں کی صورت میں رہے‬
‫گے۔ آپ کا جو میری زندگی میں مقام ہے وہ کسی‬
‫کو نہیں دوں گی یہ میرا وعدہ ہے خود سے آپ‬
‫بہت اچھی لڑکی ڈیزرو کرتے ہے۔‬

‫میرے جیسی داغی نہیں مایا روتے ہوئے خود سے‬


‫کہتی ہے۔ میرا یہاں سے چلے جانا ہی بہتر میں‬
‫ہیاں پہ نہ ہو گی نہ آپ کی مجھ سے شادی ہو گی۔‬

‫میں ماما سے بہت پیارکرتی ہوں۔ ان کا آپ سے‬


‫شادی کہ لیے کہا ڈال نہیں سکتی اس لیے ان کہ یہ‬
‫بات کہنے سے پہلے ہی میں یہاں سے چلی جائو‬
‫گی۔ ویسے بھی اب میں ڈھیک ہو چکی ہو۔‬

‫مایا آج رات اس گھر سے جانے کا سوچتی اٹھ کر‬


‫الماری سے اپنے تین چار جوڑے ایک بیگ میں‬
‫ڈال کر بیگ بیڈ کہ نیچے رکھ دیتی ہے۔‬
‫💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔‬
‫سیف خوش ہوتا ارش کو فون کرتا ہے۔ ارش اج‬
‫مجھے کیسے یاد کر لیا۔ سیف بکواس نہ کر مجھے‬
‫میرا عشق تجھے تیری بھابھی مل گئ۔‬

‫ارش وہی جس کا تو نے ذکر کیا تھا ہاں وہی اب‬


‫تیری بھابھی ہے تو تمیز سے سیف ارش کہ وہ‬
‫کہنے پہ پڑ بولتا ہے۔ وا بھابھی کہ آتے ہی تیور‬
‫بدل لیے واہ دوست دوست نہ رہا یار یار نہ رہا‬
‫ارش کی دہائیاں اروج پر تھی۔‬
‫سیف اپنے ڈرامے بند کر تو مایا کا الگ مقام اور‬
‫تیرا الگ جانتا ہو یار میں مذاق کر رہا تھا۔‬

‫سیف اچھا تو نے کہا تھا نہ کہ اکٹھے شادی کرے‬


‫گے تو تیری بات بن گئ ہے۔ یار بن بھی گئ اور‬
‫نہیں بھی بنی موم ڈیڈ گئے تھے میرا رشتہ لیں کر‬
‫وردا کہ گھر انھوں نے وقت مانگا ہے تو دعا‬
‫مانگ میرے حق میں ہی فیصلہ ہو۔‬

‫سیف انشاءہللا سب اچھا ہو گا۔ تو ٹینشن نہ لے چل‬


‫تیرا رشتہ پکا ہو جائے تو مجھے بھی بتا دیں‬
‫دونوں ایک ہی وینیو پر شادی کرے گے۔‬

‫ارش خوش ہوتے ہوئے ہاں ہاں کیوں نہیں چل‬


‫رکھتا ہو ارش خدا حافظ ۔ سیف فون بند کر کہ مایا‬
‫اور اپنے نئی شروع ہونے والی زندگی کہ بارے‬
‫میں حسین خواب شروع کر دیتا ہے۔‬

‫اس بات سے انجان کہ اس کی زندگی میں بہت‬


‫بڑھا طوفان آنے واال ہے۔‬
‫💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥‬
‫مایا رات کہ وقت سب کا سونے کا یقین کرتی بیگ‬
‫لے کر آہستہ قدموں سے چلتے اپنے کمرے سے‬
‫باہر نکلتی عائشہ بیگم کہ کمرے میں آتی ہے ان کہ‬
‫ماتھے پر عقیدت سے بوسا دیتی انھیں آنسو بہاتی‬
‫ہوئ دیکھتی ہے ۔ کچھ ہی عرصے میں مایا کو‬
‫عائشہ بیگم سے اپنی ماما جیسی انسیت ہو جاتی‬
‫ہے۔‬

‫مایا کو عائشہ بیگم کو یوں چھوڑ کر جانا محال ہو‬


‫رہا تھا پر وہ کیا کرتی وہ مجبور تھی۔ مایا ایک‬
‫نظر عائشہ بیگم کو دیکھتی روم سے نکل کر باہر‬
‫کی طرف قدم بڑھا دیتی ہے۔‬

‫گیٹ پر کوئی گارڈ نہ دیکھتے مایا خدا کا شکر ادا‬


‫کرتی بیرونی دروازہ عبور کر جاتی ہے۔‬
‫مایا روتی ہوئ اس محل کو دیکھتی ہے۔ جس میں‬
‫صدا رہنا شاید اس کہ نصیب میں ہی نہیں تھا اور‬
‫روتی ہوئ آگے بڑھ جاتی ہے۔‬
‫💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦‬
‫وردا کافی سوچتی ہے رشتے کہ بارے میں پھر‬
‫اپنے باپ کا اس سے اتنے مان سے کہنا کہ میری‬
‫بیٹی مجھے مایوس نہیں کرے گی۔ یہ سوچ کر مان‬
‫جاتی ہے۔ وہ کیسے اپنے باپ کی نافرمان بیٹی بن‬
‫سکتی تھی۔ جس نے ہر خواہش پوری کی ہو۔‬

‫وردا میں الکھ پچپنا صیح پر وہ اپنے رشتو کو لیں‬


‫کر بہت حساس تھی۔ ویسے بھی وہ شادی کہ بعد‬
‫پڑھائی کمپلیٹ کروانے کی ہامی بھر رہے تھے تو‬
‫وردا کو اور کیا چاہیے تھا۔ وردا کو بکل بھی نہیں‬
‫پتا تھا کہ اس کا رشتہ ارش شہیر آفندی سے ہو رہا‬
‫ہے۔‬
‫وردا اپنے بابا کو رشتے کہ لیے ہاں کر دیتی ہے۔‬
‫ذالے بیگم بھی اپنی بیٹی کہ عقلمندی والے فیصلے‬
‫پر خوش ہو جاتی ہے۔ ذالے بیگم کا کہنا تھا میری‬
‫بیٹی نے پہلی دفعہ زندگی میں کوئی اچھا کام کیا‬
‫ہے۔‬

‫وردا کہ اقرار سے شہیر صاحب کو بھی فون کر‬


‫کہ رشتے کہ لیے ہامی دے دیں جاتی ہے۔ دونوں‬
‫گھرانوں میں خوشی کی لہر پیھل جاتیں ہیں۔‬

‫شہیر صاحب عائزہ بیگم کو ارش کو رشتے کہ‬


‫لیے ہاں ہو گئ ہے یہ بات بتانے سے منا کرتے‬
‫ہے۔ بیگم سمجھا کروں ہم اپنے بیٹے کو سپرائز‬
‫دیں گے۔ جس پر عائزہ بیگم مسکرا دیتی ہے۔‬
‫😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊‬
‫صبح سیف کی لیٹ آنکھ کھولتی ہے۔ نہ جانے‬
‫کیوں سیف کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہو رہا‬
‫ہوتا ہے۔ سیف کو اپنا آپ خالی سا لگ رہا ہوتا ہے‬
‫جیسے اس سے کوئ قیمتی متاع چیھن لیں ہو۔‬

‫سیف گھبراتا ہوا بنا فریش ہوئے نیچے کی جانب‬


‫بڑھتا ہے۔ سیف کی نظر چیئر پر بیھٹی روتی ہوئی‬
‫عائشہ بیگم پر پڑتی ہے۔ سیف پریشان ہوتا ان کی‬
‫طرف بڑھتا ہے۔‬

‫موم کیا ہوا آپ اس طرح کیوں رو رہی ہے۔ سیف‬


‫بیٹا سب کچھ ختم ہو گیا۔ موم آپ کیا پہلیاں بوجھا‬
‫رہی ہے صاف صاف بتائے بیٹا مایا ہمیں چھوڑ کر‬
‫چلی گئ۔‬

‫عائشہ بیگم روتے ہوئے یہ کہتی ہے۔ موم کیا کہہ‬


‫رہی ہے ہوش میں تو ہے ہاں بیٹا یہ حقیقت ہے۔‬
‫مایا یہ گھر چھوڑ کر چلی گئ ہے۔‬
‫سیف کو اب اپنی گھبراہٹ کا پتا چلتا ہے کہ کیوں‬
‫ہو رہی تھی۔ سیف کی آنکھوں سے آنسو نکلنا‬
‫شروع ہو جاتے جس کا اسے احساس تک نہیں ہوتا۔‬

‫لوگ کہتے ہے۔ مرد نہیں روتا جو مرد روتا ہے‬


‫بزدل ہوتا ہے مرد بھی انسان ہو تا اس کہ اندر‬
‫بھی دل ہوتا جو اپنوں کہ لیے دھڑکتا بھی ہے اور‬
‫روتا بھی ہے۔‬

‫سیف بھی اپنے عشق کی جدائی میں رو رہا تھا۔‬


‫عائشہ بیگم سیف کو روتے دیکھ گلے لگا لیتی وہ‬
‫انجان تھوڑی نہ تھی اپنے بیٹے کی مایا کہ لیے‬
‫دیوانگی دیکھ کر سیف عائشہ بیگم کہ گلے لگتے‬
‫بچوں کی طرح رو پڑتا ہے۔‬
‫موم اس نے کیوں ایسا کیا موم کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سیف روتا ہوا کہتا ہے۔ بیٹا صبر رکھوں موم اسے‬
‫میری زندگی میں واپس آنا ہو گا میں واپس لے کر‬
‫ائو گا۔‬

‫سیف عائشہ بیگم سے الگ ہوتے باہر کی طرف‬


‫قدم بڑھا دیتا ہے۔ بیٹا اپنے ساتھ کچھ غلط مت کرنا‬
‫موم فکر نہ کریں کچھ غلط کروں گا اپنے ساتھ‬
‫سیف یہ کہتے ہی ویال سے نکلتا پیدل چلنا شروع‬
‫کر دیتا ہے۔‬

‫سیف مایا کو تالش کرتا پیدل کافی آگے نکل جاتا‬


‫لیکن مایا کا کوئی نام و نشان نہیں ہوتا سیف مایوس‬
‫ہوکر فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتا ہے۔ ہللا اس کی حفاظت‬
‫کریں۔ وہ معصوم ہے۔ اسے باہر کی دنیا کا کچھ پتا‬
‫نہیں سیف روتے ہوئے ہاتھ جوڑتا ہللا سے دعا‬
‫مانگتا ہے۔ سیف مایا کے یوں گھر سے چلے جانے‬
‫کی وجہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اچانک سیف کہ ذہن‬
‫میں اپنی کل والی عائشہ بیگم سے کی ہوئی شادی‬
‫کی بات یاد آجاتی ہے کہی مایا وہ بات سن کر تو‬
‫نہیں گھر سے چلی گئی۔‬

‫سیف کو یقین ہوجاتی مایا اسی وجہ سے گئ ہے۔‬


‫مایا تم نے کیوں ایسا کیا شادی نہیں کرنی تھی تو‬
‫نہ کرتی گھر چھوڑ کر تو نہ جاتی تم میرے آس‬
‫پاس رہتی یہی میرے لیے کافی تھا۔ میں کبھی اپنی‬
‫مرضی تم پہ نہ ڈالتا سیف روتا ہوا اپنے آپ سے‬
‫کہتا ہے۔‬

‫اچانک سیف کو اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ‬


‫محسوس ہوتا ہے۔ سیف موڑ کر دیکھتا ہے وہاں‬
‫ایک شفیق پور نور بابا تسبیح لیے کھڑے ہوئے‬
‫ہوتے ہے۔‬
‫کیا بات ہے بیٹا اس طرح کیوں رو رہے ہو کوئی‬
‫قیمتی چیز کھو گئ ہے کیا؟ یہی سمجھ لے بابا میں‬
‫نے اپنی روح کھو دی اب میں ایک زندہ الش بن‬
‫چکا ہوں۔ بیٹا بہت مایوس نظر آتے ہو۔ مایوسی‬
‫ایک کفر ہے۔‬

‫بابا تو کیا کروں عشق کر بیٹھے ہو کسی سے سیف‬


‫حیران ہوتا بابا کی طرف دیکھتا ہے۔ ایسے کیا‬
‫دیکھ رہے ہو تمہارا پور پور تمہارے عشق کی‬
‫گواہی دیں رہا ہے۔‬

‫سیف روتے بابا آپ ہی بتائے میں کیا کروں بیٹا ہللا‬


‫سے مانگو جو تمام جہانوں کا ملک ہے۔ وہ تمہاری‬
‫ضرور سنے گا یہ کہتے ہی وہ ضعیف آگے بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫سیف اپنے آنسو صاف کرتا مسجد کی طرف بڑھ‬
‫جاتا ہے۔ ظہر کی نماز پڑھ کر سیف روتے ہوئے‬
‫دعا مانگتا ہے۔" اے ہللا مجھے میری محبت سے‬
‫ملوا دیں اس کی حفاظت فرما موال کریم وہ جہاں‬
‫بھی ہو بلکل محفوظ ہو"۔ سیف روتے ہوئے دعا‬
‫مانگتا مسجد سے گھر کی طرف قدم بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔‬
‫ارش کو جب شہیر صاحب رشتہ پکا ہونے کی‬
‫خوشخبری سناتے ہے تو ارش بہت خوش ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫ایک ہفتے بعد شہیر صاحب اور عائزہ بیگم شادی‬


‫کی ڈیٹ فکس کرنے وردا کہ گھر آتے ہے۔ شادی‬
‫کی ڈیٹ وردا کی اگلے مہینے اٹھارویں سالگرہ کی‬
‫طے پائ تھی۔‬
‫ارش رشتہ پکا ہونے کی خوشی کی بات سیف کو‬
‫بتانا چاہتا تھا۔ ارش کافی دفعہ سیف کو فون کرتا‬
‫ہے پر سیف کا فون بند جا رہا ہوتا ہے۔‬

‫جس پر ارش پریشان ہوتا ہے پر یہ سوچ کر کہ‬


‫مصروف ہو گا اپنی سوچ جھٹک دیتا ہے کہ میرا‬
‫وہم ہو گا۔‬

‫شادی کی ڈیٹ فکس ہوتی ہے۔ تب بھی ارش سیف‬


‫کا نمبر ملتا پر وہ بند جا رہا ہوتا تب ارش پریشان‬
‫ہوتا سیف کہ گھر جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ایک ہفتہ گزر چکا تھا۔ مایا کو یہاں سے گئے ہر‬
‫طرف ویرانی اور اداسی سی چھائی ہوئی تھی۔‬
‫سیف ہفتے سے اپنے کمرے میں بند تھا۔‬
‫سیف اپنے آپ پر دھیان دینا ہی بھول گیا تھا ہر‬
‫وقت روتا ہوا ہللا کی بارگاہ میں مایا کو مانگتا رہتا‬
‫تھا۔ عائشہ بیگم اپنے بیٹے کی حالت دیکھ الگ‬
‫پریشان تھی۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش سیف کہ گھر میں آتا ہے تو عائشہ بیگم کو‬
‫یوں پریشان حال چکر لگاتے ہوئے دیکھتا ہے۔‬
‫آنٹی کیا ہوا آپ مجھے کافی پریشان لگ رہی ہے‬
‫اور یہ سیف میرا فون کیوں نہیں اٹھا رہا۔‬

‫عائشہ بیگم ارش کو دیکھتے ہوئے اچھا کیا بیٹا تم آ‬


‫گئے سیف اتنے دنوں سے کچھ کھا پی نہیں رہا ہر‬
‫وقت اپنے کمرے میں بند رہتا ہے۔‬

‫ارش انٹی اس کہ پیچے کی وجہ بتا سکتی ہے کہ‬


‫سیف ایسا کیوں کر رہا تب عائشہ بیگم روتی ہوئی‬
‫مایا کہ بارے میں الف سے لے کر یہ تک سب کچھ‬
‫بتا دیتی ہے۔‬
‫ارش مجھے سیف سے اس قدر بے وقوفی کی امید‬
‫نہیں تھی۔ آپ کو بھی پریشان کیا ہوا ہے اور خود‬
‫بھی اپنے آپ کو ہلکان کیا ہوا ہے۔ میں اسے‬
‫سمجھتا ہو آپ ڈینشن نہ لیں۔‬

‫ارش سیف کہ روم کا دروازہ کھول کر اندر آ جاتا‬


‫ہے۔ موم پھر آگئی میں نے کہا بھی ہے مجھے‬
‫بھوک نہیں لگی جائے یہاں سے ارش اپنے یار کا‬
‫حال دیکھ کر حیران و پریشان ہو جاتا ہے۔‬

‫ارش کو مایا پر شدید ترین غصہ آتا ہے۔ جس کہ‬


‫وجہ سے اس کہ یار کی یہ حالت ہوئی ہے۔ سیف‬
‫یہ کیا حماقت ہے۔ سیف ارش کی آواز سنتے بیڈ‬
‫سے اترتے ارش کی طرف بڑھتا ہے۔‬
‫تو کب آیا؟ ابھی آیا ہو جب تو مایا کی جدائی کا‬
‫غم منا رہا تھا۔ یار تو اس بے وفا کہ لیے اپنی‬
‫ماں کو کیوں دکھ دیں رہا ہے۔ سیف غصے‬
‫میں ارش کو اونچی آواز میں کہتا ہے نہیں ہے‬
‫وہ بے وفا آئی سمجھ تجھے کوئی حق نہیں‬
‫اسے اس طرح کچھ کہنے کا وہ ایسی نہیں‬
‫ویسے بھی اس نے مجھ سے کوئی عہد و پیمان‬
‫نہیں کیے تھے۔ جو اس نے پورے نہ کیے ہو‬
‫اور میں اسے بے وفا کہتا رہوں آئی سمجھ تو‬
‫پلیز اس کہ لیے تمیز اور احترام کہ دائرے میں‬
‫رہ کر بات کر ارش سیف کوغصہ کرتے دیکھ‬
‫ٹھنڈا ہونے کو کہتا ہے۔‬

‫ایم سوری یار مجھے بھابھی کو اس طرح نہیں‬


‫کہنا چاہیے تھا۔ سیف کوئی بات نہیں پر یہ‬
‫غلطی دوبارہ نہ ہو سیف یہ کہتا ہی بیڈ پر بیٹھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫یار تو اپنے ساتھ عائشہ انٹی کو بھی سزا دے‬
‫رہا ہے ان کا ان سب میں کیا قصور ذرا دیکھ‬
‫جا کر نیچے کتنی تیرے لیے پریشان ہے۔‬

‫تو اپنا نہیں تو اپنی ماں کا خیال کر لے انکل‬


‫بھی کام کہ سلسلے میں شہر سے باہر ہے اور‬
‫تو انھیں پریشان کرنے میں لگا ہوا ہے۔‬

‫سیف ارش کی باتیں سن کر شرمندہ ہو جاتا‬


‫واقعے وہ مایا کہ غم میں عائشہ بیگم کو تو‬
‫فراموش ہی کر چکا تھا۔ وہ کتنی پریشان ہوتی‬
‫ہو گی میری حالت دیکھ کر ارش اب کن‬
‫سوچوں میں چال گیا تو ہللا پر یقین رکھ مایا‬
‫بھابھی مل جائے گی۔‬
‫اب اٹھ فریش ہو اور نیچے آ میں تجھے‬
‫سپرائز دینے آیا تھا تو نے مجھے سپرائز کر‬
‫دیا۔‬

‫سیف نہ سمجھی سے ارش کی طرف دیکھتا‬


‫ہے۔ یار وردا نے رشتے کے لیے ہاں کر دی‬
‫ہے۔ اگلے مہینے وردا کی سالگرہ والے دن‬
‫نکاح کہ ساتھ رخصتی ہے۔‬

‫سیف غصہ ہوتے تو اب مجھے بتا رہا ہے ۔‬


‫یار میں نے کافی دفعہ تیرا فون کیا پر تو فون‬
‫ہی نہیں اٹھا رہا تھا سیف تو نے کہا تھا ہم‬
‫اکھٹے شادی کرے گے۔‬

‫تم نے خودی بتایا تھا۔ گھر میں شادی کی بات‬


‫کی ہاں تو نے اپنی تو اس لیے تو فون کر رہا‬
‫تھا کہ تجھ سے پوچھ کر ڈیٹ رکھوں پر تو‬
‫فون اٹھائے تو تب نہ میں ایسا کرتا ابھی نکاح‬
‫کر لیتا ہو وردا سے رخصتی جب مایا بھابھی‬
‫آجائے گی تو تب کر لیں گے۔‬

‫تب سارے فنکشن شادی کی ہم اکٹھے رکھ لیں‬


‫گے۔ سیف نہیں تو میری وجہ سے اپنا ایونٹ‬
‫سپوئل نہ کر نکاح کہ ساتھ رخصتی کروا لی‬
‫پتا نہیں مایا کو ملنے میں کتنا عرصہ لگے۔‬

‫یہ مجھے خود کو بھی نہیں معلوم تو ایسا کر‬


‫تو رخصتی کروا لیں۔ جب مایا واپس آجائے گی‬
‫تب اکھٹا ولیمہ کر لے گے‬

‫ارش کو سیف کی بات بلکل ڈھیک لگی۔ شیور‬


‫نہ ایسا کر لوں ہاں یار تو نے ابھی تو سمجھایا‬
‫اس کا اثر ہے۔‬
‫ارش سیف کی بات پر ہنس دیتا ہے۔ سیف‬
‫مسکرا دیتا پر اس کی مسکراہٹ میں بھی دکھ‬
‫چھپا ہوتا جو ارش دیکھ کر دل میں کافی دکھی‬
‫ہوتا ہے اور مایا کی واپس آنے کی دعا کرتا‬
‫ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مایا وہاں شاہ ویال کو الوداع کہتی دوسرے شہر‬
‫جانے والی بس میں بیٹھ جاتی ہے۔ عائشہ بیگم‬
‫مایا کو پوکٹ منیں دیتی تھی مایا نے روز وہ‬
‫پیسے جمع کرتی تھی جو آج کام آئے تھے۔‬

‫مایا عائشہ بیگم کو منع کرتی تھی کہ سب کچھ‬


‫تو اسے مل جاتا تو یہ پیسے دینے کی کیا‬
‫ضرورت ہے۔ جس پر عائشہ بیگم کہتی تھی‬
‫تمہاری ایسی خواہش ہو جو تم کسی سے کہہ‬
‫نہ سکوں تم وہ ان پیسوں سے پوری کر لینا‬
‫ویسے بھی میں اپنی بیٹی کو یہ خوشی سے‬
‫دیتی ہو۔‬

‫مایا بس میں عائشہ بیگم کی باتیں یاد کرتی‬


‫رونے لگتی ہے۔ مایا الہور سے کراچی آجاتی‬
‫ہے۔ بس اڈے پہ اتر کر اپنے آپ کو چادر میں‬
‫چھپائے فٹ پاتھ پر چلنا شروع کر دیتی ہے۔‬

‫میں کہا جائو مایا روتے ہوئے سوچتی ہے۔ مایا‬


‫کہ پورے جسم میں زیادہ چلنے سے تکلیف ہونا‬
‫شروع ہو جاتی کیونکہ مایا کہ زخم ڈھیک تو‬
‫ہو گئے تھے پر اب بھی ان میں زیادہ چلنے‬
‫سے شدید درد ہوتی تھی۔‬

‫مایا درد کی تاب نہ التے ہوئے سٹرک کہ بیچ‬


‫و بیچ بے ہوش ہو کر گر جاتی ہے۔ کچھ دیر‬
‫بعد وہاں سے گاڑی کا گزر ہوتا اس میں سے‬
‫شفیق سی خاتون باہر نکلتی ہے۔‬

‫ہللا یہ بچی کب کی یوں سڑک پر بے ہوش‬


‫گری ہوئی ہے۔ خاتون ڈرائیور کی مدد سے مایا‬
‫کو کار میں ڈالتی ہسپتال کی طرف بڑھ جاتی‬
‫ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مایا کو یہاں سے گئے ایک مہینہ ہو جاتا سیف‬
‫نے اپنے آپ کو ہسپتال میں مصروف کر لیا‬
‫تھا۔‬

‫ثاقب شاہ بھی اپنے بیٹے کی حالت دیکھ بہت‬


‫پریشان تھے۔ بیٹی جیسی مایا کی جدائی میں‬
‫دکھ اور پریشان بھی کیونکہ وہ جانتے تھے۔‬
‫مایا کا ان کہ عالوہ اس دنیا میں کوئی نہیں‬
‫عائشہ بیگم بھی مایا کی سالمتی کی دعائیں‬
‫مانگتی رہتی تھی۔‬

‫کل ارش کا نکاح تھا۔ سیف ہر حال میں اپنے‬


‫دوست کی شادی میں خوش رہنا چاہتا تھا پر‬
‫اس کو ہر وقت مایا کی یاد آتی تھی۔ اس کہ‬
‫جذبات اس کہ بس میں نہیں تھے۔ سیف اپنے‬
‫جذبات کہ ہاتھوں مجبور تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش آج بہت خوش تھا۔ کیونکہ آج اسے اس‬
‫کی محبت ملنے جا رہی تھی پر ساتھ سیف کہ‬
‫لیے بھی دکھی تھا۔‬

‫ارش سفید کرتے پاجامے کہ اوپر بلیو واسکٹ‬


‫پہنے کافی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔ عائزہ بیگم‬
‫برائون نفیس سی ساری پہنے ارش کہ روم میں‬
‫آتی ہے۔‬
‫ماشاءہللا میرا بیٹا تو بہت پیارا لگ رہا موم‬
‫پیاری تو آپ بھی بہت لگ رہی کیا آج پھر ڈیڈ‬
‫کہ دل لے لینے کا ارداہ ہے۔‬

‫شہیر آفندی بیٹا آپ کی موم وہ دل تو کئی سال‬


‫پہلے ہی اپنی مٹھی میں لیں چکی ہے۔ عائزہ‬
‫بیگم شہیر صاحب کو گھورتے شرم کرے بیٹے‬
‫کہ سامنے نہ شروع ہو جایا کرے۔‬

‫اب بیٹے کی شادی ہونے والی ہے اپنے ٹھرکی‬


‫پن سے باز آجائے بیگم ہمارے پوتے پوتیاں‬
‫بھی ہوگئے پھر بھی میں ایسا ہی رہو گا۔ وہ‬
‫اردو کا محاورہ نہیں‬
‫جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم‬
‫ارش اپنے ماں باپ کی نوک جوک دیکھ کر‬
‫ہنس دیتا ہے۔‬

‫عائزہ بیگم چلے اب بس کرے ہمیں لیٹ ہو رہا‬


‫عائزہ بیگم ارش بیٹا آپ جلدی آجائو ہم نیچے‬
‫ویٹ کر رہے ہے آپ کا جی موم میں آرہا ہو‬
‫آپ جائے۔‬

‫شہیر صاحب بھی ارش کو مسکراتے ہوئے دیکھ‬


‫باہر چلے جاتے ہے۔ ارش جل سے اپنے بال سیٹ‬
‫کرتا نیچے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬

‫ارش اپنے یار کی وجہ سے سادگی سے نکاح سے‬


‫اور رخصتی کرنے کو کہتا ہے۔ ارش کا کہنا تھا۔‬
‫میرا یار دکھی ہے تو میں دھوم دھڑکے سے شادی‬
‫نہیں کروا گا۔‬
‫وردا کہ گھر والے سادگی سے سب کچھ کرنے کہ‬
‫لیے نہیں مانتے پر ارش کی اپنے یار کہ لیے‬
‫محبت دیکھ ارش کی زبانی سیف کہ دکھ کہ بارے‬
‫سن کر وہ بھی مان جاتے ہے۔ ارش انھیں شاندار‬
‫ولیمہ کرنے کا کہہ کر منا لیتا ہے۔‬

‫یوں مختصر سا قافلہ وردا کہ گھر روانہ ہو جاتا‬


‫ہے۔‬
‫💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟💟‬
‫❤😍 ‪Warda and Arsh Nikkah special‬‬
‫بلوچ ویال میں افراتفری کا ساماں تھا۔ آج احان بھی‬
‫اپنے بہن کہ نکاح میں بڑھ چڑھ کر کام میں حصہ‬
‫لیں رہا تھا۔‬
‫نکاح کا انتظام باہر الن میں کیا گیا تھا۔ ذالے بیگم‬
‫آمنہ بیٹا تم جائو دیکھو وردا تیار ہو گئ ہے۔ عائزہ‬
‫بہن کا فون آیا ہے وہ نکل گئے ہے اپنے گھر سے‬
‫وردا کو کہوں جلدی تیاری مکمل کرے اپنی اچھا‬
‫چچی میں دیکھتی ہو جا کر آپ پریشان نہ ہو۔‬

‫آمنہ وردا کہ کمرے میں قدم رکھتی ہے تو وردا کو‬


‫ہونٹوں پہ گلوس لگا تے ہوئے دیکھتی ہے۔ وردا ہو‬
‫گئ تیار ہماری وردا میڈم کو چڑ تھی دوسروں‬
‫سے میک کپ کراونے کی اس لیے وردا ہر فنکشن‬
‫پر خودی اپنا کرتی تھی۔‬

‫آج بھی وردا نے اپنا میک کپ خودی کیا تھا اور‬


‫سٹائل کچھ خاص پسند نہیں تھے اس لیے بال‬
‫سٹریٹ کیے ایک سائڈ پر ڈالے سائڈ پر نفیس سا‬
‫جھومر لگائے نازک سی جیولری وائٹ گھوٹے‬
‫والی شرٹ کی ساتھ وائٹ غرارہ پہنا ہوا تھا سر پر‬
‫الل چونری والی دوپٹہ لیے آسمان سے اتری کوئی‬
‫حور لگ رہی تھی۔‬

‫آمنہ ماشاءہللا سے میری بہن بہت پیاری لگ رہی‬


‫ہے۔ آج میری بہن اپنے دولہے راجا پر خوب‬
‫بجلیاں گرانے کا اردہ رکھتی ہے۔‬

‫جس پر وردا مسکرا دیتی ہے۔ خوبصورت تو تم‬


‫بھی بہت لگ رہی ہو۔ آج واقعے میں ہی آمنہ بھی‬
‫وائٹ گوٹے والے فراک کہ ساتھ چوڑی دار پاجامہ‬
‫پہنے بال کھولے چھوڑے ہلکا پھلکا میک کپ کیے‬
‫ایک سائڈ پر دوپٹہ لیے کسی سے بھی کم نہیں لگ‬
‫رہی تھی۔‬

‫وردا تیار ہو گئ۔ ذالے بیگم یہ کہتے ہی روم میں‬


‫آتی وردا کو سر پر بوسا دیتی ہے۔ ماشاءہللا میری‬
‫بیٹی تو حور لگ رہی ہے ذالے بیگم روتی ہوئی‬
‫کہتی ہے اپنی اکلوتی بیٹی کی جدائی ان کے لیے‬
‫سہانے روح تھی۔‬

‫لیکن یہی دوستور دنیا تھا۔ بیٹیاں اپنے گھر چڑیا‬


‫کی ماند چہچہاتی ہے اور جب ماں باپ کہ گھر‬
‫سے دانہ پانی آٹھ جاتا ہے تو اپنے پیا دیس سدھار‬
‫جاتی ہے۔‬

‫نیچے ارش اپنی فیملی کہ ساتھ آ چکا تھا۔ حیدر‬


‫صاحب اور احان ان کا باقی گھر کہ افراد کہ ساتھ‬
‫مل کر بھر پور استقبال کرتے ہے۔‬

‫حیدر صاحب احان کو آواز دیتے اپنے پاس بلواتے‬


‫ہے جو ارش کہ ساتھ شاندار سجے سٹیج پر بیھٹا‬
‫ہنستے ہوئے باتیں کر رہا ہوتا ہے۔‬
‫احان کی تھوڑی ہی دیر میں ارش سے دوستی ہو‬
‫جاتی ارش بھی احان کی کمپنی کافی انجوائے کر‬
‫رہا ہوتا ہے۔‬

‫احان حیدر صاحب کی آواز سنتا ارش سے معذرت‬


‫کرتا اپنے پاپا کی طرف بڑھتا ہے۔ جی پاپا آپ نے‬
‫بالیا ہے۔ بیٹا تمہاری ماما اوپر گئ تھی وردا کو‬
‫النے ابھی تک نہیں تم جا کر دیکھو انھیں کہوں‬
‫وردا بیٹا کو نیچے لیں کر آ جائے ارش اور اس کی‬
‫فیملی آگئی ہے۔‬

‫جی پاپا آپ پریشان نہ ہو میں جاتا ہوں۔ احان وردا‬


‫کہ روم میں آتا ہے تو وردا اور ذالے بیگم کو گلے‬
‫لگے روتے ہوئے دیکھتا ہے۔‬

‫ماما آپ آپی کو بجائے سمجھانے کہ خود بھی رو‬


‫رہی ہے۔ آپی آپ بھی چپ کرے دیکھے روئے نہ‬
‫ورنہ بھوتنی لگے گی اور ہمارے دولہے بھائ آپ‬
‫کو دیکھ کر ڈر جائے گے۔‬

‫وردا احان کو گھورتے ہوئے ذالے بیگم سے‬


‫علیحدہ ہوتی ہے۔ نیچے لڑکے والوں کی فیملی‬
‫آچکی ہے ماما تو جلدی سے آپی کو لیں کر نیچے‬
‫ائے۔‬

‫ذالے بیگم تم جائو ہم آتے ہے۔ احان ڈھیک ہے کہہ‬


‫کر نکل جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش سیف کا انتظار کر رہا ہوتا یار کیا ہے میں‬
‫نے کہا بھی تھا پاگل کو میرے ساتھ چل نہیں میں‬
‫سیدھا وردا کے گھر ائو گا۔‬
‫ارش اسی سوچ میں ڈوبا ہوتا ہے کہ سامنے سے‬
‫آتے سیف پر نظر پڑتی ہے۔ سیف کرتے پاجامے‬
‫میں جل سے بال سیٹ کیے کالئ میں رولیکس کی‬
‫گھڑی اور پائوں میں برائون جوتے پہنے کافی‬
‫ڈیشنگ لگ رہا ہوتا ہے۔‬

‫سیف ارش سے گلے لگتا ملتا ہے۔ یار تو نے اتنی‬


‫دیر لگا دی۔ سیف دیر کہا ہوئی مجھے نکاح ہو گیا‬
‫نہیں نہ نکاح ہوتا اور اس کہ بعد آتا تو تو پھر دیر‬
‫ہوتی ۔‬

‫ارش سیف کی بات پر گھورنے لگتا ہے کہ اچانک‬


‫دولہن آگی کا شور بلند ہوجاتا ہے۔ جس پر ارش‬
‫وردا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ وردا سج دھج‬
‫کر حیدر بلوچ اور ذالے بیگم کہ ساتھ آتی ارش کو‬
‫کوئ جنت کی حور ہی لگی۔‬
‫ارش نے ہمیشہ وردا کو سادہ سے حلیے میں دیکھا‬
‫تھا تو وہ دل کی مسند پر براجمان ہو گئ اب تو وہ‬
‫تمام ہتھیار سے لیس ہو کر ارش کہ اوپر بجلیاں‬
‫گرانے کا پورا اردہ رکھتی تھی۔‬

‫ارش وردا کو سٹیج کہ قریب آتے ہی اٹھ جاتا ہے۔‬


‫وردا ذالے بیگم کے ساتھ سٹیج پر چڑھتی ہے۔‬
‫سٹیج پر دو کرسیاں رکھے درمیان میں پردے کی‬
‫دیوار ہائل کی گئ تھی۔‬

‫وردا نے ابھی تک ارش کو نہیں دیکھا تھا۔ وردا‬


‫اس نئے بننے والے رشتے کو لیں کر کافی‬
‫کنفیوزن اور در کا شکار تھی۔‬

‫مولوی صاحب وردا کے آتے ہی نکاح کراونے کی‬


‫اجازت حیدر صاحب سے لیتے ہے۔ جس پر حیدر‬
‫صاحب اثبات میں سر ہالتے ہوئے نکاح کی‬
‫کارروائی شروع کرنے کو کہتے ہے۔‬

‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬


‫وردا حیدر بلوچ ولد حیدر بلوچ آپ کا نکاح ارش‬
‫شہیر آفندی ولد شہیر آفندی کہ ساتھ حق مہر دس‬
‫الکھ کہ کیا جاتا ہے کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔‬

‫ارش پردے سے جھانکتا ہوا وردا کو دیکھتا ہے۔‬


‫وردا کہ نہ بولنے پر ارش بے چین سا ہو جاتا ہے۔‬
‫حیدر صاحب وردا کہ سر پر ہاتھ رکھتے ہے تو‬
‫وردا کو کچھ ڈھارس ملتی ہے۔ جس پر وردا قبول‬
‫ہے کہتی ہے۔ مولوی صاحب کہ مزید دو دفعہ اور‬
‫پوچھنے پر قبول ہے کہتی ہے اور نکاح نامے پر‬
‫سائن کر دیتی ہے۔‬
‫ارش وردا کے اقرار سننے ہی روح تک سکون‬
‫سرائیت کر جاتا ہے۔ مولوی صاحب اس طرح ارش‬
‫سے نکاح کا پوچھتے ہے۔‬

‫ارش شہیر آفندی ولد شہیر آفندی آپ کا نکاح وردا‬


‫حیدر بلوچ ولد حیدر بلوچ سے کیا جاتا آپ کو یہ‬
‫نکاح قبول ہے ارش ہمیشہ وردا کو خوش رکھنے‬
‫کا ارادہ کرتے تینوں بار قبول ہے کہتا ہے۔‬

‫وردا ارش کا نام سن کہ کافی کنفیوز ہوتی ہے پر‬


‫یہ سوچ ضروری نہیں یہ وہی ہو اپنی سوچوں کو‬
‫جھٹک دیتی ہے۔‬

‫نکاح کہ بعد ہر کوئی ارش کہ گلے لگ کر مبارک‬


‫باد دیتا ہے۔ حیدر صاحب وردا کہ سر پر بوسا‬
‫دیتے گلے لگا لیتے ہے ان کی آنکھوں میں ہلکی‬
‫سی نمی آجاتی جسے وہ کسی کہ دیکھنے سے‬
‫پہلے ہی صاف کر لیتے ہے۔‬

‫سیف ارش کہ گلے لگتے مبارک باد دیتا ہے۔ ارش‬


‫اور وردا کہ درمیان سے پردہ ہٹا دیا جاتا جس پر‬
‫ارش ہللا کا دل میں شکر ادا کرتا ہے۔‬

‫سب سٹیج سے نیچے اتر جاتے ہے۔ ارش گردن‬


‫جھکائے اپنی کیوٹ سی بیوی کو دیکھتا ہنسی‬
‫صبط کرتا ہے۔ جان نکاح بہت بہت مبارک ہو وردا‬
‫ارش کی آواز سنتی حیران ہوتی سر اوپر اٹھائے‬
‫ارش کو دیکھتی ہے۔ جو وردا کہ ذہن میں سوچ آ‬
‫رہی ہوتی ہے اسے جھٹک دینا چاہتی تھی پر‬
‫سامنے ارش کو اپنے شوہر کی صورت میں بیھٹے‬
‫دیکھ شوک میں چلی جاتی ہے۔‬
‫ارش وردا کے چہرے کہ اتار چڑھائو سے اندازہ‬
‫لگا لیتا ہے کہ وردا کیوں شوک میں ہے ارش جان‬
‫کن محاسبو میں چلی گئ۔‬

‫وردا ارش کو جان کہتے سنتی غصے سے‬


‫گھورنے لگتی ہے۔ مجھے یوں غصے سے تو نہ‬
‫دیکھوں اب تو میرے پاس پورا حق ہے تمہیں اس‬
‫نام سے بوالنے کا ارش یہ کہتے ہی وردا کا ہاتھ‬
‫پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے لگا لیتا ہے۔‬

‫وردا کیا حماقت ہے۔ ہم سٹیج پر بیھٹے ہوئے کوئی‬


‫دیکھ لیں گا۔ ارش تو دیکھ لے مجھے کوئ پروا‬
‫نہیں تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ ارش وردا کا‬
‫ہاتھ سہالتے کہتا ہے۔ وردا ارش کی ہاتھ سہالتے‬
‫دیکھ گھبرا جاتی ہے۔‬
‫ارش وردا کو گھبراتے دیکھ وردا کا ہاتھ ہلکا سا‬
‫دباتے چھوڑ دیتا ہے۔ جس پر وردا شکر کا سانس‬
‫لیتی ہے۔‬

‫جان ابھی تو ہاتھ پکڑا ہے تو گھبرا رہی ہو میری‬


‫شدتیں کیسے برداشت کروں گی۔ وردا کے ماتھے‬
‫پر ارش کی یہ بات سنتے ننھے ننھے پسینے کہ‬
‫قطرے نمودار ہو جاتے ہے۔‬

‫ارش وردا کے ماتھے سے اپنے جیب سے ٹیشو‬


‫نکال کر پیسنا صاف کرتا ہے۔‬

‫ارش وردا کی حالت پتلی ہوتے دیکھ سیدھا ہوکر‬


‫بیٹھ جاتا ہے۔ وردا بھی ارش کو سیدھا ہو کر‬
‫بیٹھتے دیکھ ادر ادر دیکھتی ہے کہ کوئی ان کی‬
‫طرف تو متوجہ تو نہیں لیکن سب کو اپنی خوش‬
‫گپیوں میں مصروف دیکھ شکر کا سانس لیتی ہے۔‬
‫کچھ دیر بعد فوٹو گرافر آتا وردا اور ارش کی کپل‬
‫فوٹو لیتا ہے۔ ارش فوٹو گرافی کی بات مانتے‬
‫ہوئے کبھی وردا کو کمر سے پکڑتا ہے تو کبھی‬
‫کندھوں سے پکڑ کر قریب کرتا ہے۔ جس پر وردا‬
‫صرف گھورنے پر ہی اکتفاد کرتی ہے۔‬

‫تھوڑی دیر بعد رخصتی کا شور اٹھتا ہے۔ وردا‬


‫قرآن کہ سائے میں اپنی ماں باپ کی دعائیں لیے‬
‫آمنہ اور احان سے گلے ملتی ہے۔ حیدر صاحب‬
‫ارش بیٹا میری بیٹی کا بہت خیال رکھنا ارش بابا‬
‫آپ فکر نہ کرے میں دعوے نہیں کروں گا میں‬
‫عمل سے بتائو گا انشاءہللا یہ میرا وعدہ ہے آپ‬
‫سے ارش حیدر صاحب کہ گلے لگتا کہتا ہے۔‬

‫تیمور صاحب اور ثانیہ بیگم بھی وردا کو خوش‬


‫رہنے کی دعا دیتے ہے۔ یوں وردا قرآن کی سائے‬
‫میں سب کی دعائیں لیے اپنے پیا گھر سدھار جاتی‬
‫ہے۔‬
‫💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕💕‬
‫مایا کو ہوش آتا ہے تو اپنے آپ کو انجان جگہ پر‬
‫دیکھ کر گھبرا کر اٹھ جاتی مایا اپنے اوپر سے‬
‫کمفرڈ اٹھا کر بیڈ سے نیچے اترتی ہے۔‬

‫اچانک کوئ کمرے میں آتا ہے۔ مایا سر اٹھا کر‬


‫آنے والے کی طرف دیکھتی ہے۔ جو کوئ خاتون‬
‫ہوتی ہے۔ ارے بیٹا تم بیڈ سے کیوں آٹھ رہی ہو۔‬

‫تمہاری طبیعت نہیں ڈھیک ریسٹ کروں۔ مایا آپ‬


‫کون ہے؟ بیٹا تم مجھے سڑک پر بے ہوش پڑی‬
‫ہوئی ملی تھی۔ میں تمہیں ڈاکڑ سے چیک کروا کر‬
‫گھر لیں آئی اپنے مایا آپ کو بہت شکریہ آپ نے‬
‫میری جان بچائی۔‬
‫بیٹا شکریہ کی کیا بات میری اپنی بیٹی زندہ ہوتی‬
‫تو بلکل تمہاری جتنی ہوتی وہ خاتون اداسی سے‬
‫مایا سے کہتی ہے۔ مایا خاتون کو اداس دیکھ کر‬
‫پوچھتی ہے۔‬

‫کیا ہوا تھا آپ کی بیٹی کو بیٹا میرا شوہر اور میری‬


‫بیٹی کا بہت بورا کار ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ جس پر‬
‫میری بیٹی موقعے پر ہی دم توڑ گئ تھی۔ میرے‬
‫شوہر اپنی بیٹی کی جدائی کا غم برادشت نہیں کر‬
‫سکے وہ بھی خالق حقیقی سے جا ملے۔ وہ خاتون‬
‫روتے ہوئے اپنے اوپر بیتی آب بیتی بتاتی ہے۔‬

‫مایا اٹھ کر خاتون کو کندھے پر ہاتھ رکھ کر دالسا‬


‫دیتی ہے۔ آپ اس گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ ہاں بیٹا‬
‫سب مجھے کہتے تھے دوسری شادی کر لوں پر‬
‫میں نہیں مانی میرے لیے میری بیٹی اور شوہر کی‬
‫یادیں ہی کافی ہے۔‬

‫تب سے میں اس گھر میں جو میرا شوہر اپنی‬


‫زندگی میں ہی میرے نام کر گئے تھے۔ اس میں‬
‫اکیلی رہتی ہو اور ایک گورنمنٹ کالج میں جوب‬
‫کرتی ہو۔‬

‫مایا کو اس خاتون کا دکھ اپنے سے بھی بڑا لگا‬


‫تھا۔ اس لیے انھیں دالسا دینے کو گلے لگا لیا۔ آپ‬
‫روتی کیوں ہے آپ مجھے اپنی بیٹی بنا لیں۔ خاتون‬
‫خوش ہو کر مایا کی طرف دیکھتی ہے۔ جس پر‬
‫مایا خوش ہو کر اثبات میں سر ہالتی ہے۔‬

‫مایا آپ کا نام کیا ہے۔ میرا نام سائمہ ہے۔ بیٹا پھر‬
‫تم اپنے آپ کو میری بیٹی کہتی ہو تو آج سے ادر‬
‫ہی میرے پاس رہوں گی پر مایا کچھ کہنے لگتی‬
‫ہے پر سائمہ اسے بیچ میں ہی ٹوک دیتی ہے۔‬

‫سائمہ پر ور کچھ نہیں تمہاری انکھوں میں جو دکھ‬


‫ہے اور تم جو پریشان حال سڑک پر چل رہی تھی۔‬
‫اس سے ہی پتا چل گیا تھا تمہارا اس دنیا میں کوئی‬
‫نہیں مایا روتے ہوئے کہتی ہے۔‬

‫آپ نے بلکل صیح کہا میرا اس دنیا کوئی نہیں مایا‬


‫روتے ہوئے کہتی ہے میرے بابا کو کسی نے قتل‬
‫کر دیا تھا اور میری ماما میرے پاپا سے بہت‬
‫محبت کرتی تھی ان کی جدائی برداشت نہیں کر‬
‫سکی اور موقعے پر ہی دم توڑ گئ۔ مایا روتے‬
‫ہوئے بتاتی ہے۔‬
‫سائمہ بیٹا جو تمہارے اندر درد اور غبار ہے۔ سب‬
‫مجھے بتا کر نکال دو سائمہ خاتون مایا کو صوفے‬
‫پر بٹھاتے ہوئے کہتی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ماضی‪:‬‬
‫مریم لغاری کا آج یونی میں پہال دن تھا۔ وہ بہت‬
‫گھبرائ ہوئی تھی۔ مریم اس طرح ہی چھوٹی‬
‫چھوٹی باتوں پر گھبرا جاتی تھی۔ یونی میں لڑکے‬
‫لڑکیوں کو جدید ملبوسات میں دیکھ کر مریم کو اپنا‬
‫آپ یہاں مس فٹ لگا۔‬

‫مریم خود بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔ درمیانہ قد‬


‫سنہری آنکھیں لمبے بال جس کی ہائی پونی ڈیلی‬
‫کی ہوئی تھی ستواں ناک اور گالبی بھرے بھرے‬
‫ہونٹ گالبی شرٹ کہ نیچے پالذو پہنے سر پر‬
‫سلیقے سے وائٹ دوپٹہ لیے مریم خوبصورتی کا‬
‫منہ بولتا ثبوت لگ رہی تھی۔‬
‫اچانک مریم کو اپنے عقب سے آواز آتی ہے۔ مریم‬
‫پیچھے مڑ کر دیکھتی ہے تو کوئی لڑکا کھڑا اسے‬
‫بوال رہا ہوتا ہے۔ بہروز خان مریم کو گھبراتے‬
‫دیکھ کہتا ہے۔ ہائے لیٹل گرل ایف یو ڈونٹ مائنڈ‬
‫آئی کین ہیلپ یو مریم ہکالتے ہوئے مجھے اپنا‬
‫ڈیپارٹمنٹ نہیں مل رہا۔‬

‫بہروز کون سا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ مریم انگلش کا‬


‫بہروز رائٹ جا کر لیفٹ ہو جائے سامنے ہی‬
‫انگلش کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ مریم خوش ہوتے سوچتی‬
‫ہے شکر ہے زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑی لڑکے‬
‫کو شکریہ ادا کرتے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف قدم‬
‫بڑھا دیتی ہے۔‬

‫پیچھے سے بہروز کا دوست علی کہتا ہے۔ یار‬


‫اسے تو بخش دیتا تو نے اس کی بھی ریکنگ کر‬
‫ڈالی۔ بہروز ہاں تو مصعوم لوگ نہ کسی کی باتوں‬
‫پہ یقین کرے۔‬

‫بہروز سر جھٹک کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ علی‬


‫حیران ہوتا اسے جاتے ہوئے دیکھتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مریم لغاری کی ماما مریم کہ پچپن میں ہی فوت‬
‫ہوگئے تھی۔ مریم کہ پاپا نے مریم کو اس کی دادی‬
‫کہ حوالے کر خود سال بعد ہی دوسری شادی کر‬
‫کہ لندن شفٹ ہو گئے تھے۔‬

‫چھوٹے ہوتے سے ہی مریم کی پرورش مریم کی‬


‫دادی نے کی تھی۔ لغاری صاحب ہر مہینے مریم‬
‫کو مخصوص رقم بھجوا دیتے تھے۔ لیکن کبھی‬
‫خود ملنے نہیں آتے تھے۔‬
‫مریم ایک معصوم اور حساس سی لڑکی تھی۔ جس‬
‫نے تعلیم کہ عالوہ کبھی گھر سے باہر قدم نہیں‬
‫نکاال۔‬

‫مریم کی دادی نے مریم کی طبیعت اعلی کی تھی۔‬


‫جس پر مریم نے کبھی اپنی دادی کا ماں کا نہیں‬
‫توڑا جس پر مریم کی دادی مریم پر فخر کرتی‬
‫تھی۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫بہروز خان کہ والدین کی جب بہروز پندرہ سال کا‬
‫تھا تب ہی اس کہ والدین کی گاڑی کھائی میں‬
‫گرنے سے ڈیتھ ہو گئ۔‬
‫تب سے بہروز اندر سے ٹوٹ کر رہ گیا تھا۔‬
‫بہروز نے اپنے آپ کو مضبوط بنایا اپنے بابا کا‬
‫بزنس اور پڑھائی کو ساتھ ساتھ ٹائم دیا تھا اور‬
‫اس سب میں بہروز کے جگری دوست علی نے‬
‫بہت ساتھ دیا تھا۔‬
‫بہروز کالج میں ٹوم بوائے کہ نام سے مشہور تھا۔‬
‫بہروز چھ فٹ سے نکلتا قد کالی گہری ذہانت سے‬
‫بھرپور آنکھیں سرخ و سفید رنگت ستواں ناک‬
‫عنابی لب بہروز خان اپنی پرسنیلٹی سے کسی کو‬
‫بھی ذیر کرنے کی پوری طاقت رکھتا تھا۔‬

‫یونی کی کتنی ہی لڑکیاں بہروز کی طرف دوستی‬


‫کا ہاتھ بڑھا چکی تھی پر بہروز کو اس چیز میں‬
‫کوئ انٹرسٹ نہیں تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مریم خوشی خوشی بہروز کہ بتائے ہوئے راستے‬
‫سے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہی ہوتی ہے‬
‫کہ منزل پر پہنچ کر مریم کو اپنا ڈیپارٹمنٹ تو نہ‬
‫مال ہاں وہ بوائز کہ کومن روم میں ضرور پہنچ گئ‬
‫تھی ۔ سب لڑکے مریم کو دیکھنے لگتے ہے۔ مریم‬
‫روتی ہوئ وہاں سے یہ سوچ کر نکتی ہے کہ وہ‬
‫ایک لڑکے ہاتھوں بے وقوف بن چکی تھی۔‬

‫مریم روتے ہوئے یونی سے نکلنے لگتی ہے کہ‬


‫مریم کی ڈکر کسی لڑکے سے ہو جاتی ہے۔ آر یوں‬
‫اوکے مس مریم نظر اٹھا کر دیکھتی ہے تو وہ‬
‫کوئ غنڈے والے حولیے میں لڑکا اس سے کچھ‬
‫بول رہا ہوتا ہے۔‬

‫مریم ہمم کہہ کر اپنا آپ اس لڑکے سے چڑوا کر‬


‫دو قدم دور ہو کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ لڑکا ہائے‬
‫آئ ایم جہانگیر اینڈ یوں مریم ہچکچاتے ہوئے اپنا‬
‫نام بتاتی ہے۔‬

‫میرا نام مریم لغاری ہے۔ جہانگیر کو مریم پہلی ہی‬


‫نظر میں پسند آجاتی ہے۔ جہانگیر یونی میں‬
‫بدمعاش کہ نام سے مشہور تھا۔ یونی کی ہر‬
‫دوسری تیسری لڑکی کہ ساتھ افئیر اور تعلقات‬
‫تھے۔‬

‫لیکن جہانگیر کو یہ لڑکی یوں گھبرائی ہوئی‬


‫معصوم سی یونی کی ہر لڑکی سے الگ لگی۔‬
‫جہانگیر آپ اتنی پریشان کیوں ہو۔ مجھے میرا‬
‫ڈیپارٹمنٹ نہیں مل رہا ایک لڑکے نے جھوٹ بول‬
‫کر مجھے بوائز کی کومن روم میں بھیج دیا۔‬

‫جہانگیر ہنستے ہوئے پھر تو آپ کو سو فیصد یقین‬


‫سے کہہ سکتا ہو کہ آپ کی ریگنگ ہوئی ہے۔‬
‫مریم روتے ہوئے یونی سے باہر نکل جاتی ہے۔‬
‫ارے روکے میں آپ کو آپ کا ڈیپارٹمنٹ دکھا دیتا‬
‫ہو۔‬

‫مریم آپ بھی ریگنگ کرے گے نہیں میں نہیں‬


‫کرتا آپ میرے ساتھ چلے میں آپ کو دکھا دیتا ہو‬
‫آپ کا ڈیپارٹمنٹ مریم جہانگیر پر یقین کر کہ‬
‫جہانگیر کی ساتھ ہو لیتی ہے۔‬

‫جہانگیر مریم کو اس کہ ڈیپارٹمنٹ کہ باہر چھوڑ‬


‫دیتا ہے۔ مریم شکریہ کر کہ آگے بڑھ جاتی ہے۔‬
‫جہانگیر کو مسکراتا ہوا اسے جاتے ہوئے دیکھتا‬
‫ہے۔‬

‫تم صرف میری ہو مریم صرف میری یہ کہتے ہی‬


‫جہانگیر اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫بہروز کو گھر آ کر نہ جانے کیوں مریم کا معصوم‬
‫چہرا بار بار نظروں کہ سامنے آ رہا ہوتا ہے۔ ہللا‬
‫یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔ مجھے اس سے جھوٹ‬
‫نہیں بولنا چاہیے تھا۔‬
‫بہروز اپنی غلطی پر شرمندہ ہو رہا ہوتا ہے۔ ہاں‬
‫اکل اس سے سوری کر لوں گا۔ بہروز یہ سوچتے‬
‫ہی اپنے روم کی طرف بڑھ جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫مریم تھکی ہوئی یونی سے گھر آتی ہے۔ دادی آ‬
‫گئی میری بچی جی دادی میں آگئی ہو۔ آج مجھے‬
‫یونی میں بہت خواری ہوئی ایک لڑکے نے جھوٹ‬
‫بول کر مجھے غلط جگہ بھیج دیا تھا۔‬

‫دادی کیڑے پڑے ایسے کو میری مصعوم سی بچی‬


‫کو تنگ کیا۔ مریم دادوں کو گلے لگاتے ہوئے دادو‬
‫چھوڑے آپ مجھے کھانا ال دیں بہت بھوک لگی‬
‫ہوئ ہے۔‬

‫دادی مریم کو سر پر بوسا دیتے ہوئے میرا بچہ تو‬


‫ادر بیٹھ میں کھانا لگواتی ہو۔‬
‫مریم دادوں کہ جانے کہ بعد آج یونی مہیں بہروز‬
‫کہ بارے میں سوچنے لگتی ہے کیسے وہ اس کہ‬
‫ہاتھوں بے وقوف بنی تھی۔ مریم اپنی سوچوں کو‬
‫جھٹکتی دادی کا انتظار کرنے لگتی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫اگلے دن مریم اپنی کالس میں جا رہی ہوتی ہے۔‬
‫بہروز کو اپنا راستہ روکتے دیکھ غصے سے اس‬
‫کی طرف دیکھتی ہے۔ میرا راستہ چھوڑے کیا‬
‫مسئلہ ہے آپ کہ ساتھ کل جھوٹ بول کہ مجھے‬
‫پھنسانے میں مزا نہیں آیا جو اب پھر آگئے ہے۔‬

‫ایم سوری میں بہت شرمندہ ہو۔ میں نے تو مذاق کیا‬


‫تھا۔ جسے تم سریس لے گئ۔ مریم غصے سے آپ‬
‫کہ لیے مذاق تھا۔ پتا ہے میں کتنا ڈر گئ تھی۔‬
‫پھر جہانگیر بھائی نے میری مدد کی بہروز‬
‫جہانگیر کا نام سنتے غصے میں آجاتا ہے۔‬
‫بہروز اور جہانگیر کا چھتیس کا اکڑا تھا۔ دونوں‬
‫ایک دوسرے کہ شدید دشمن تھے۔ بہروز کو‬
‫جہانگیر کی سب مشکوک حرکتوں کہ بارے میں‬
‫پتا تھا۔ جس پر وہ اسے شروع میں منع کرتا تھا۔‬
‫لیکن جہانگیر نہیں مانا تو بہروز نے اس سے کنارہ‬
‫کشی کر لی تھی۔‬

‫تب سے ہی بہروز جہانگیر سے سخت نفرت کرتا‬


‫تھا۔ آج سے تم مجھے جہانگیر کہ ساتھ نظر نہ آئو‬
‫وہ اچھا لڑکا نہیں ہے۔ مریم آپ اپنے کام سے کام‬
‫رکھے یہ میری الئف ہے۔ میری مرضی کہ کس کہ‬
‫ساتھ بات کرنی ہے اور کس کہ ساتھ نہیں۔‬

‫بہروز مریم کو غصہ ہوتے دیکھ اس بات کو بعد‬


‫میں کرنے کے لیے رکھ دیتا ہے۔ اچھا کول ڈائون‬
‫سوری بہروز کان پکڑ کہ سوری کرتا ہے ایسا‬
‫کرتے ہوئے وہ مریم کو کوئی بچہ ہی لگا۔‬
‫مریم ہنسنے لگتی ہے۔ اس اوکے بہروز ہاتھ آگے‬
‫بڑھتا ہے۔ فرینڈس مریم بہروز کا ہاتھ نہیں پکڑتی‬
‫منہ سے دوستی کا اقرار کرتی ہے۔‬

‫بہروز مریم کی احتیاط پر محفوظ ہوتا مسکراتا ہے۔‬


‫بہروز جس نے کتنی لڑکیوں کی دوستی کو منع‬
‫کر چکا تھا۔ آج خود ہی مریم کی طرف دوستی کا‬
‫ہاتھ بڑھتا ہے۔‬

‫یوں مریم اور بہروز کی پکی دوستی ہو جاتی ہے۔‬


‫جو وقت کہ ساتھ کب محبت میں بدلی دونوں کو ہی‬
‫پتا نہیں چال۔‬

‫جہانگیر مریم کو بہروز کہ ساتھ دیکھتا جلتا رہتا‬


‫تھا۔ لیکن وہ مخصوص وقت کا انتظار کر رہا تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫بہروز آج مریم کا یونی میں بے صبری سے انتظار‬
‫کر رہا ہوتا ہے پر مریم آنے کا نام ہی نہیں لے‬
‫رہی ہوتی جس وجہ سے بہروز مریم کو کافی فون‬
‫کولز کرتا ہے لیکن مریم فون اٹھا ہی نہیں رہی‬
‫تھی۔ بہروز پریشان ہو جاتا ہے اور مریم کہ گھر‬
‫جانے کا فیصلہ کرتے یونی سے مریم کہ گھر کہ‬
‫لیے نکل جاتا ہے۔ بہروز مریم کہ گھر آتا جاتا رہتا‬
‫تھا۔‬

‫دادی بھی بہروز سے بہت شفقت سے ملتی تھی۔‬


‫اسے مریم کی طرح ہی بہت پیار کرتی تھی۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫بہروز مریم کہ گھر آتا ہے۔ مریم کو الئونج میں‬
‫پریشان سا چلتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی طرف‬
‫بڑھتا ہے۔‬
‫مریم کیا ہوا تم اتنی پریشان کیوں ہو۔ شکر ہے تم آ‬
‫گئے۔ دادی کا دل بہت گھبرا رہا میں نے انھیں‬
‫ہاسپٹل چلنے کو بھی کہا ہے پر وہ مان نہیں رہی‬
‫بہروز مریم کو لے کر دادی کہ کمرے کی طرف‬
‫بڑھتا ہے۔‬

‫دادی بہروز کو آتے دیکھ خوش ہو جاتی ہے۔ بیٹا تم‬


‫آ گئے۔ دادی مریم کیا کہہ رہی ہے۔ آپ کی طبیعت‬
‫نہیں ڈھیک اور آپ چیک کپ کروانے نہیں جا رہی‬
‫ہے۔‬

‫دادی مسکراتے ہوئے بیٹا یہ جھلی اس طرح ہی‬


‫پریشان ہوتی ہے۔ بیٹا ایک خواہش ہے وہ پوری کر‬
‫دوں دادی بہروز کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہتی ہے۔‬

‫جی دادی کہے آپ جو کہے گی میں کروں گا پر‬


‫آپ ہاسپٹل چلے بیٹا نہیں پہلے میری بات سنوں‬
‫مجھ سے وعدہ کروں میرے جانے کہ بعد مریم‬
‫سے نکاح کر لوں گے اور اس کا بہت دھیان‬
‫رکھوں گے۔‬

‫مریم روتے ہوئے دادی یہ کیا کہہ رہی ہے آپ اس‬


‫طرح جانے کی باتیں کیوں کر رہی ہے؟ دادی مریم‬
‫کی بات کو نظر انداز کرتے آس بھری نظروں سے‬
‫بہروز کی طرف دیکھتی ہے۔ جس پر بہروز سر‬
‫ہال کر ہامی دیں دیتا ہے۔‬

‫جس پر دادی مسکراتے ہوئے مریم کو اپنے پاس‬


‫بوالتی ہے۔ مریم دادی کہ گلے لگ جاتی ہے۔‬
‫تھوڑی دیر بعد مریم کو اپنے ارد گرد دادی کی‬
‫گرفت محسوس نہیں ہوتی ہے۔‬

‫مریم پریشان ہوتے دادی سے علیحدہ ہوتے ان کی‬


‫طرف دیکھتی ہے۔ دادی آنکھیں بند کیے ایک‬
‫طرف لڑھک جاتی ہے۔ مریم چیختے ہوئے نہیں‬
‫دادی آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتی مریم‬
‫دادی کا ہاتھ پکڑ آنکھوں سے لگاتے روتے ہوئے‬
‫کہتی ہے۔‬

‫بہروز دادی کو ایسے دیکھ کر ایک آنسو آنکھ سے‬


‫نکل کہ داڑھی میں جذب ہو جاتا ہے۔‬

‫بہروز مریم کے پاس جاکر سر پر ہاتھ رکھ کر‬


‫دالسا دیتا ہے۔ مریم روتے ہوئے دیکھوں بہروز‬
‫دادی ہمیں چھوڑ کر چلی گئ۔‬

‫مریم یہ کہتے پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی ہے۔‬


‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫جہانگیر مافیا گینگ کا ایک اہم رکن ہوتا تھا۔ ان کہ‬
‫گینگ کی دوسرے گینگ کہ ساتھ ان بھن چل رہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫پولیس بھی انھیں تالش کر رہی ہوتی ہے۔اس لیے‬


‫ان کا بوس انھیں منظر عام سے غائب ہونے کا کہہ‬
‫دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے جہانگیر اپنے اندر مریم‬
‫کو پانے کی خواہش لیے لندن چال جاتا ہے۔ یہ ارداہ‬
‫کر کہ جب یہ معمال ڈھنڈا ہوجائے گا تو وہ پاکستان‬
‫آکر مریم سے شادی ضرور کرے گا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫بہروز اور اس کہ کچھ دوست مل کر مریم کی‬
‫دادی کی تدفین کر دیتے ہے۔ بہروز دادی کی تدفین‬
‫کہ ایک ہفتے بعد ہی مریم سے تمام گواہوں کی‬
‫موجودگی میں نکاح کر لیتا ہے۔‬
‫مریم اپنی دادی کا غم بھال نہیں پا رہی ہوتی اس‬
‫لیے بہروز مریم کو لے کر الہور شفٹ ہو جاتا ہے‬
‫تاکہ وہ اس دکھ سے باہر نکل سکے۔‬

‫آہستہ آہستہ بہروز اپنی محبت سے مریم کو زندگی‬


‫کی طرف النے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شادی کہ‬
‫ایک سال بعد مریم اور بہروز کی گھر ننھی پری‬
‫پیدا ہوتی ہے۔‬

‫جس سے مریم اپنی پچھلی زندگی کہ سارے غم‬


‫بھول جاتی ہے۔ بہروز اپنی پری کا نام مایا رکھتا‬
‫ہے۔‬

‫دونوں میاں بیوی کی مایا میں جان بستی تھی۔ اس‬


‫طرح ہی سترہ سال کا وقت گزر جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫آج مایا کی سالگرہ تھی۔ مایا پورے گھر میں‬
‫کھکھالتی پھر رہی تھی۔ آج رات بہروز اور مریم‬
‫نے اپنی جان سے پیاری بیٹی کہ لیے سپرائز پالن‬
‫کیا تھا۔‬

‫مایا کو اپنے ماما پاپا کہ سپرائز کا معلوم تھا۔‬


‫کیونکہ مایا میڈم نے رات کو غلطی سے ان کی‬
‫باتیں جو سن لیں تھی۔‬

‫سالگرہ تو ویسے ہر سال ہی بہروز اور مریم اپنی‬


‫بیٹی کی دھوم دھام سے مناتے تھے پر یہ سالگرہ‬
‫مایا کہ لیے بہت خاص تھی۔ کیونکہ ڈیڈ نے اس‬
‫سے دسویں میں اچھے نمبر سے پاس ہونے پر‬
‫سالگرہ پر گاڑی دینے کا وعدہ کیا تھا۔‬
‫مایا کو کارذ کا بہت کریز تھا۔ اس لیے بہروز‬
‫صاحب نے مایا سے اس کی سالگرہ پر کار دینے‬
‫کا فیصلہ کیا تھا۔‬
‫😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊‬
‫رات کہ وقت دونوں اپنی پری کہ لیے پورا الئونج‬
‫سجاتے ہے۔ مریم مالزمہ کو مایا کو بلوانے کا‬
‫کہتی ہے۔‬

‫مالزمہ مایا کو مریم کا پیغام دیں کر خود اجازت‬


‫لیتی اپنے گھر چلی جاتی ہے۔‬
‫مریم کچن میں چلی جاتی کھانا لگانے کے لیے کہ‬
‫اچانک الئٹ چلی جاتی ہے۔ بہروز بھی حیران ہوتا‬
‫ہے کہ الئٹ کو کیا ہوا۔‬

‫بہروز کو اپنے پیچھے قدموں کی چھاپ سنائی‬


‫دیتی ہے۔ بہروز پیچھے موڑ کر دیکھتا ہے تو وہ‬
‫جہانگیر ہوتا ہے۔ جہانگیر نے چہرے پر ماسک‬
‫پہنا ہوتا ہے۔ بہروز اس کہ حولیے اور آواز سے‬
‫ہی پہچان لیتا ہے۔‬

‫تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ جہانگیر ہنستے ہوئے یار‬


‫تجھ سے اپنی بلبل کو لینے آیا ہو۔ بہروز غصے‬
‫سے کیا بکواس کر رہے ہو۔ جہانگیر قہقہ لگاتے‬
‫ہوئے بکواس نہیں کر رہا میں اپنی بلبل مریم کو‬
‫لینے آیا ہو۔‬

‫تو نے بہت عیاشی کر لی اب میری باری بہروز‬


‫جہانگیر کی بات سن کر تیش میں آ کر جہانگیر کا‬
‫گریبان پکڑ لیتا ہے۔‬

‫مریم باہر آوازیں سنتے اور الئٹ بند ہونے کی وجہ‬


‫سے گھبراتی ہوئی کچن سے باہر آجاتی ہے۔ بہروز‬
‫کیا ہوا الئٹ کو اور یہ آوازیں کیسی ہے۔ مریم کی‬
‫نظر ابھی جہانگیر پر نہیں گئ ہوتی جہانگیر مریم‬
‫کی آواز سنتے مریم کی طرف دیکھنے لگ جاتا‬
‫ہے۔‬

‫جہانگیر کو مریم اتنے سال گزد جانے کہ بعد اور‬


‫بھی حسین اور سوبر سی لگتی ہے۔ بہروز غصے‬
‫سے مریم تم اندر جائو مریم پریشان ہوتے ہوئے‬
‫بہروز کیا ہوا کوئی پریشانی ہے۔‬

‫جہانگیر زور لگتا اپنے آپ کو بہروز سے چھڑواتا‬


‫مریم کی طرف بڑھتا مریم کسی اجنبی کو اپنی‬
‫جانب آتے دیکھ گھبرا جاتی ہے۔ بلبل تم تو اور بھی‬
‫خوبصورت ہو گئ ہو چلوں میں تمہیں لینے آیا ہو۔‬
‫تم کون ہو؟ بلبل میں جہانگیر یونی واال یاد آیا مریم‬
‫کو غنڈوں والے حولیے میں یونی کا جہانگیر یاد‬
‫آجاتا ہے۔‬
‫تم ہیاں کیا کر رہے ہو بلبل بہت رہ لی تم اس کہ‬
‫ساتھ تب میں مجبور تھا۔ پولیس والے میرے گینگ‬
‫کہ پیچھے پڑیں ہوئے تھے۔ اس لیے مجھے یہاں‬
‫سے فرار ہونا پڑا ورنہ میں تمہیں تب ہی اپنی‬
‫زندگی میں شامل کر لیتا۔‬

‫بہروز جہانگیر کی یہ بات سن کر غصے سے‬


‫جہانگیر کی طرف بڑھتا ہے کہ جہانگیر کہ‬
‫اشارے پر دو آدمی بہروز کو پکڑ لیتے ہے۔‬

‫اب جبکہ سب ڈھیک ہو چکا تھا تو تم میرے ساتھ‬


‫چل رہی ہو۔ جہانگیر مریم کا ہاتھ پکڑنے لگتا ہے‬
‫کہ مریم دو قدم پیچھے ہو جاتی ہے۔ جس پر‬
‫جہانگیر کو غصہ آجاتا ہے۔‬

‫مریم گھبراتے ہوئے میں تمہارے ساتھ نہیں جانا‬


‫چاہتی میں بہروز کہ ساتھ بہت خوش ہو۔ میں نے‬
‫ہمیشہ سے بہروز سے محبت کی ہے تمہیں تو میں‬
‫نے جس دن تم نے میری مدد کی تھی تب ہی ب‬
‫ھائی ماننے لگ گئ تھی۔‬

‫جہانگیر غصے کی حالت میں بس بہت ہو گیا۔ اگر‬


‫تم میرے ساتھ نہ گئ تو میں تمہارے شوہر کو مار‬
‫دوں گا۔ مریم روتے ہوئے نہیں ایسا نہ کرنا میں‬
‫تمہارے آگے ہاتھ جوڑتی ہو۔‬

‫خدا کہ لیے چلے جائو ہماری زندگی سے جہانگیر‬


‫ایسے کیسے تمہیں ساتھ لے کر جائو گا۔ بہروز‬
‫مریم کو یوں جہانگیر کہ سامنے ہاتھ جوڑتا دیکھ‬
‫برداشت نہیں کر پاتا ایک غصے کی شدید لہر‬
‫بہروز کہ اندر سرائیت کرتی ہے۔‬
‫بہروز پوری طاقت لگا کر دونوں آدمیوں کہ‬
‫شکنجے سے اپنے آپ کو چھڑواتا جہانگیر کی‬
‫جانب بڑھتا ہے۔‬

‫بہروز جہانگیر کو پیچھے سے کولر سے پکڑتا‬


‫زمین پر دھکا دے دیتا ہے۔ کمینے انسان تیری‬
‫جرات کیسے ہوئی میری بیوی سے اس طرح گھٹیا‬
‫لہجے میں بات کرنے کی چال جا یہاں سے ورنہ‬
‫پولیس کو بلوا لوں گا۔‬

‫جہانگیر کو ایسے دھکا دیکھ جہانگیر کہ آدمی‬


‫بہروز کی جانب بڑھتے ہے کہ جہانگیر ہاتھ سے‬
‫انھیں روک دیتا ہے۔ مریم یہ سب روتے ہوئے‬
‫دیکھتی ہے اور دل میں ہللا سے اس درندے سے‬
‫بچ جانے کی دعا کرتی ہے۔‬
‫جہانگیر زمین سے آٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ مریم میں‬
‫آخری دفعہ پوچھ رہا چلوں گی میرے ساتھ یا نہیں‬
‫مریم چیختے ہوئے نہیں جانا میں نے تمہارے ساتھ‬
‫تمہیں ایک بات سمجھ کیوں نہیں آتی ہے۔‬

‫میں بہروز سے محبت کرتی ہو۔ تمہارے لیے‬


‫میرے دل میں رتی برابر بھی کوئی فیلنگ نہیں‬
‫میں تو تمہیں شریف انسان سمجھتی تھی اور تم کیا‬
‫نکلے چلے جائو یہاں سے اس پہلے سے میں‬
‫پولیس کو بلوائو۔‬

‫جہانگیر ایسے ہے تو ایسے ہی صیح جہانگیر‬


‫چالکی سے بہروز کہ قریب ہوتا اپنے پینٹ سے‬
‫خنجر نکالتا بہروز کہ پیٹ میں گھونپ دیتا ہے۔‬
‫بہروز اس سے پہلے اپنے آپ کو بچانے کی کے‬
‫لیے کوئ کوشش کرتا جہانگیر اس کہ پیٹ میں‬
‫خنجر مار دیتا ہے۔‬

‫مریم چیخنے ہوئے کمینے انسان یہ تم نہ کیا کیا۔‬


‫مایا مسکراتی ہوئی اوپر تیار ہو رہی ہوتی ہے۔ جب‬
‫اچانک الئٹ چلی جانے پر ڈر جاتی ہے۔‬

‫مایا ہاتھ سے ٹٹولتی ہوئی چیزوں کا سہارا لیتے‬


‫روم سے نکلتی ہے۔ اندازے سے سیڑھیوں کی‬
‫طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے کہ کہی گر نہ جائے‬
‫کہ اچانک نیچے سے مایا کو ماما کی چیخنے کی‬
‫اوازیں آتی ہے۔‬

‫مایا گھبراتی ہوئی رفتار میں تیزی التی ہے کہ‬


‫اچانک مایا کی فراک کسی چیز میں اٹھک جاتا ہے‬
‫اور مایا نیچے گر جاتی ہے۔‬
‫مایا کو اپنے پیر میں شدید درد محسوس ہوتا ہے پر‬
‫وہ برداشت کرتے پھر اٹھتی ہے۔ مایا کو جلدی‬
‫سے اپنے ماما پاپا کی پاس پہنچنا تھا۔ مایا کا دل‬
‫انجانے خوف سے گھبرا رہا ہوتا ہے۔‬

‫جہانگیر بہروز کے پیٹ میں خنجر مارتا پیچھے‬


‫ہوتا ہے اور اونچی آواز میں ہنسنا شروع کر دیتا‬
‫ہے۔ بلبل اگر تم میری نہیں تو اس بہروز کی بھی‬
‫نہیں ہاہاہاہا مریم غصے سے جہانگیر کا گریبان‬
‫پکڑتی ہے۔‬

‫کمینے انسان خدا کا قہر نازل ہو تجھ پر تجھ پر‬


‫کوئ تھوکے بھی نہ دیکھنا تجھے کتے کی موت‬
‫اس دنیا میں ملے گی تجھے پھانسی ہو گی۔ بار بار‬
‫ہو گئ انشاءہللا مریم روتے ہوئے کہتی ہے۔‬
‫جہانگیر مریم کو دھکا دیتے پیچھے کرتا ہے اور‬
‫اپنے بندوں کو پورے گھر میں آگ لگانے کو کہتا‬
‫ہے۔‬

‫مریم روتے ہوئے بہروز کی طرف بڑھتی ہے جو‬


‫اپنی آخری سانسیں لے رہا ہوتا ہے۔ مریم بہروز کا‬
‫سر اپنے گھود میں رکھتی ہے۔ بہروز آنکھیں‬
‫کھولو مجھے اس طرح چھوڑ کر نہ جائو مریم‬
‫روتے ہوئے بہروز کہ سینے پر اپنا سر رکھتی‬
‫ہے۔‬

‫بہروز مریم کہ چہرا دونوں ہاتھوں سے پکڑتا اوپر‬


‫کرتا ہے۔ میری جان ہمت نہ ہاروں ہماری مایا کو‬
‫تمہاری ضرورت ہے۔ بہروز آنسوؤں کہ ساتھ‬
‫روتے ہوئے کہتا ہے۔‬
‫جہانگیر ان کو یوں قریب دیکھ کر غصے میں چال‬
‫کر اپنے بندوں کو پورے گھر میں آگ لگانے کو‬
‫کہتا ہے۔‬

‫جہانگیر کہ بندے ہر جگہ پٹرول پھینک کر ماچس‬


‫کی تیلی نکال کر جالتے ہوئے زمین پہ گرے‬
‫پٹرول پر پھینک دیتے ہے۔‬

‫سر یہ آگ ابھی تھوڑی دیر میں پورے گھر کو اپنی‬


‫لپیٹ میں لیں لے گی۔ آپ نکلے یہاں سے جہانگیر‬
‫تم جائو میں آتا ہو۔‬

‫جہانگیر کہ آدمی باہر چلے جاتے ہے۔ جہانگیر‬


‫چلتا ہوا مریم کہ پاس آتا ہے۔ بلبل تم نے میری بات‬
‫نہیں مانی تمہاری سزا ہے کہ تم بھی اب اس کہ‬
‫ساتھ جلوں گی جہانگیر بہروز کی طرف اشارہ‬
‫کرتے کہتا ہے۔‬
‫مایا سیڑھیوں سے نیچے آ رہی ہوتی ہے تو اسے‬
‫جلنے کی شدید بو آرہی ہوتی ہے۔ مایا نیچے‬
‫دیکھتی ہے تو اس کہ پاپا خونم خون زمین پر گرے‬
‫ہوتے ہے اور مریم بہروز کہ سینے سے لگی ہوئی‬
‫رو رہی ہوتی ہے۔‬

‫مایا روتی ہو اپنے منہ پر ہاتھ رکھتے اپنی چیخ کا‬


‫گال گھونٹتی ہے۔ اچانک مایا کی نظر ماسک پہنے‬
‫آدمی پر پڑھتی ہے جو مریم سے کچھ کہہ رہا ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫بائے بائے مریم بلبل میں نے کہہ تھا نہ تم میری‬


‫نہیں ہو سکتی تو اس کمینے کی بھی نہیں ہو سکتی‬
‫پر تم نے میری بات کو سریس نہیں لیا۔ جہانگیر‬
‫یہ کہتا ہوا وہاں سے نکل جاتا ہے۔‬
‫پورے گھر میں آگ آہستہ آہستہ کر کہ پھیل رہی‬
‫ہے۔ مریم روتے ہوئے بہروز کو ہالتی پر وہ دم‬
‫توڑ چکا ہوتا ہے نہیں بہروز آپ مجھے چھوڑ کر‬
‫نہیں جا سکتے آپ کو تو ابھی جینا ہے میرے لیے‬
‫ہماری پری کہ لیے مریم روتے ہوئے بہروز کو‬
‫کندھوں سے جنجھورتی ہے پر بے سود بہروز کب‬
‫کا اپنی آنکھیں بند کیے اس دنیا کو الوداع کیے‬
‫اپنے آخری سفر پر نکل چکا ہوتا ہے۔‬

‫مریم کا اچانک شدید دل گھبراتا ہے اور وہ دل پہ‬


‫ہاتھ رکھے بہروز کہ پاس ہی زمین پر گر جاتی‬
‫ہے۔ مریم بہروز کا ہاتھ پکڑتی روتے ہوئے کہتی‬
‫بہروز میں بھی آپ کہ پاس ارہی ہو یہ کہتے ہی‬
‫مریم دل پر ہاتھ رکھے وہی دم توڑ دیتی ہے۔‬
‫مایا یہ سارا منظر اوپر سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔‬
‫اس میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ چل کہ اپنے‬
‫ماں باپ کہ پاس جا سکے۔‬

‫ابھی کچھ دیر پہلے ہی مایا اور ماما پاپا کتنا خوش‬
‫تھے اور اب پورا گھر ویران ہو چکا تھا۔ مایا اپنے‬
‫ماں باپ کو بے حس و حرکت پڑے دیکھ سکتے‬
‫کی حالت میں دیکھی جاتی ہے۔‬

‫مایا اپنے منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کہ اونچی آواز‬


‫میں رونا شروع کر دیتی ہے روتے ہوئے اسے‬
‫چیز کا احساس ہی نہیں ہوتا کے پورے گھر کو آگ‬
‫اپنی لپیٹ پیں لے چکی ہے۔ اچانک چھت پر لگا‬
‫فانوس اپنی جگہ سے ہلتا ہے اور تیزی سے مایا‬
‫کہ اوپر آ کر گرتا ہے۔‬
‫مایا فانوس کو اپنے اوپر گرتے دیکھ اپنے منہ پر‬
‫ہاتھوں کہ ذریعے حفاظتی حصار بندھ لیتی ہے۔‬
‫جس سے فانوس زمین پہ گرتا ہے اور اس کہ‬
‫شیشے مایا کہ ہاتھوں پر گردن اور سینے پر چب‬
‫جاتے ہے۔‬

‫مایا اتنے زخم کی تاب نہ التے ہوئے سیڑھیوں‬


‫سے لڑکھتی ہوئی نیچے گر کہ بے ہوش جاتی ہے۔‬
‫آگ بھڑکتی ہوئ زور پکڑتی سجاوٹ کہ لیے‬
‫لگائے گئے کلر فل چھوٹے پردوں سے مایا کہ‬
‫باربی فراک میں پھیل جاتی ہے۔‬

‫مایا کہ فراک میں لگی آگ پورے فراک میں پھیل‬


‫جاتی ہے اچانک ہیاں پر کام کرنے والی مالزمہ‬
‫بھاگتی ہوئ آتی ہے۔‬
‫مالزمہ اپنا بٹوا ادر ہی بھول گئ تھی۔ وہ آدھے‬
‫راستے سے واپس آجاتی ہے اور گھر میں داخل‬
‫ہوتی ہے پر گھر سے اس شدید جلنے کی بو‬
‫سوھنگ کر بھاگتی ہوئی الئونج میں آجاتی ہے۔‬

‫اپنے ملک اور بی بی جی کو یوں بے حس و‬


‫حرکت پڑے دیکھ مالزمہ (عالیہ) کی آنکھوں سے‬
‫آنسو نکل آتے ہے۔ اچانک عالیہ کی نظر بے چینی‬
‫سے مایا کو تالش کرتی ہے ایک جگہ جا کر رک‬
‫جاتی ہے۔ جہاں مایا کہ فراک کو آگ لگی ہوتی ہے‬
‫اور مایا کا پورا وجود خون سے لت پت ہوا ہوتا‬
‫ہے۔‬

‫عالیہ بھاگتی ہوئی اپنی شال اتار کر مایا کہ وجود‬


‫پر ڈالتی ہے اور ہاتھ مار کر آگ کو بجھانے کی‬
‫کوشش کرتی ہے تھوڑی تگ و دود کہ بعد وہ آگ‬
‫بجھانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔‬
‫وہ مایا کو آرام سے اٹھا کر سارا وزن مایا کا خود‬
‫پر ڈالے سہارا دیتی ہوئی باہر آ جاتی ہے۔ آگ‬
‫پورے گھر کو اپنی لپیٹ میں لے کر جال کر‬
‫خاکستر کر رہی ہوتی ہے۔‬

‫وہاں پہ رہنے والے لوگ پہلے سے ہی آگ‬


‫بھڑکتے دیکھ کر فائر بریگیڈ اور ایمبولینس کو فون‬
‫کر کہ بلوالیتے ہے۔‬

‫ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کچھ دیر میں وہاں پر‬


‫پہنچ جاتے ہے لیکن تب تک گھر تقریبا ً سارا جل‬
‫چکا ہوتا ہے۔‬
‫عالیہ فٹافٹ ایک ایمبولینس کی کار کھولی ہوئی‬
‫دیکھ ہے۔‬
‫اس میں سب سے چھوپتے چھاپتے ہوئے مایا کو‬
‫سڑیچر پر لیٹا کر وہاں سے فرار ہو جاتی ہے۔‬
‫عالیہ کو ڈر ہوتا ہے کہ لوگ اس کو دیکھ کر‬
‫مجرم سمجھ کر پولیس کہ حوالے نہ کر دیں اس‬
‫لیے وہ بغیر کسی کی نظروں میں آئے وہاں سے‬
‫بھاگ جاتی ہے۔‬

‫ریسکیو کہ ایک اہلکار کی جب ایمبولینس کہ‬


‫کھولے دروازے سے نظر اندر جلسے ہوئے وجود‬
‫پر پڑتی ہے تو وہ ہڑبڑا کر اپنے ساتھی کو اس‬
‫طرف متوجہ کرتا ہے۔‬

‫دونوں بھاگتے ہوئے ایمبولینس کی طرف بڑھتے‬


‫پیچھے کا دروازہ بند کرتے ہوئے ایمبولینس قریبی‬
‫ہاسپٹل کی طرف بڑھا دیتے ہے۔‬
‫💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥💥‬
‫حال‪:‬‬
‫مایا روتی ہوئی اپنے پہ گزری درد بڑھی داستان‬
‫سنا کر ہچکیوں کہ ساتھ رونا شروع کر دیتی ہے۔‬
‫سائمہ کہ بھی مایا کی ماں باپ کی اتنی درد ناک‬
‫موت پر آنسو نکل آتے ہے اور وہ مایا کو اپنے‬
‫گلے لگا کر دالسا دیتی ہے۔‬

‫بس بیٹا ہمت کروں ۔ تم مجھے اپنی ماما سمجھو کیا‬


‫ہوا اگر میں تمہاری سگی ماں نہیں پر اپنوں سے‬
‫پچھڑنے کا درد سمجھتی ہو۔‬

‫سائمہ مایا کو اپنے سے علیحدہ کرتی مایا کہ آنسو‬


‫صاف کرتے مایا کی پیشانی پر بوسا دیتی ہے۔ میں‬
‫اپنے ماں باپ کہ قاتل سے بدلہ لوں گی۔‬

‫میرے پاپا کو اس خبیث انسان نے مار دیا۔ پاپا کی‬


‫خون میں لت پت الش دیکھ ماما بھی وہی دم توڑ‬
‫گی۔ میری ماما بھی اس انسان کی وجہ سے میری‬
‫ہے۔‬

‫اس نے اپنے چہرے پر ماسک پہنا ہوا تھا۔ جس‬


‫سے میں اس کا چہرا نہیں دیکھ سکی۔ لیکن اس‬
‫نے گلے میں چاقوں کی شکل کی چین پہنی ہوئی‬
‫تھی اور ہاتھ میں کالئی کی سائڈ پر سانپ کی شکل‬
‫کا ڈیٹو بنا ہوا تھا۔ جس سے میں اس کو پہچان‬
‫سکتی ہو۔ سائمہ بیٹا تم قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ‬
‫لوں ہللا تمہاری مدد کرے گا۔‬

‫ویسے بھی ایسے مجرموں کو سزا اس دنیا میں ہی‬


‫مل جاتی ہے۔ تم اپنا فیصلہ ہللا پر چھوڑ دو تمہیں‬
‫ہللا پر یقین ہے نہ جی مجھے ہللا پر پورا یقین ہے۔‬
‫میں اپنا فیصلہ ہللا پر چھوڑتی ہو مایا اپنے آنسو‬
‫صاف کرتی سائمہ کی بات سمجھتی مسکراتے‬
‫ہوئے کہتی ہے۔‬

‫سائمہ بھی مسکرا دیتی ہے یہ ہوئی نہ میری بیٹی‬


‫والی بات دیکھنا بیٹا ہللا کی الٹھی بے آواز جب یہ‬
‫پڑتی ہے نہ تو انسان بلبال جاتا ے۔‬

‫بیٹا تم کون سی کالس میں ہو۔ مایا انٹی میں نے‬


‫کالج میں ایڈمیشن لینا تھا تو یہ سب کچھ ہو گیا مایا‬
‫اداس ہوتے ہوئے کہتی ہے۔‬

‫سائمہ مایا کو دوبارہ اداس ہوتے دیکھ بات بدل دیتی‬


‫ہے۔ اچھا بیٹا تم ابھی کچھ دن ریسٹ کروں میں‬
‫تمہارا داخلہ جس کالج میں جوب کرتی ہو وہاں‬
‫کروا دوں گی۔‬
‫سائمہ مایا کو آرام کرنے کی ہدایت کرتی روم سے‬
‫نکل جاتی ہے۔ مایا سیف کو سوچنا شروع کردیتی‬
‫ہے۔ سیف شاید آپ میرے نصیب میں نہیں مایا‬
‫روتے ہوئے وہی صوفے پہ ہی سو جاتی ہے۔‬
‫💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦‬
‫وردا نروس سی ارش کہ کمرے میں بیھٹی ارش کا‬
‫انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ پورے کمرے سے گالب‬
‫کی سوندھی سوندھی خوشبو ارہی ہوتی ہے۔ بیڈ پر‬
‫گالب کی پتیاں بکھری ہوئی ہوتی ہے ۔‬

‫پورے کمرے میں جگہ جگہ پھولوں کہ بکے‬


‫پڑے ہوئے ہوتے ہے۔ کمرے میں جلتی کنڈل‬
‫کمرے میں خواب ناک سا ماحول بنا رہی ہوتی ہے۔‬
‫جس سے وردا کہ ہاتھوں سے پسینے چھوٹ جاتے‬
‫ہے۔‬
‫اچانک قلیق کی آواز سے وردا کو دروازے کا‬
‫لوک لگاتے ارش پر پڑتی ہے۔ جس پر وردا‬
‫گھبراتی ہوئی اپنی نظریں جھکا لیتی ہے۔ وردا نے‬
‫یہاں آ کر عائز بیگم کی فرمائش پر سرخ جوڑا پہن‬
‫لیا تھا۔‬

‫جس پر وردا نے روم میں آکر میک کپ کو سوٹ‬


‫کہ مطابق ڈچ دیں کر عائزہ بیگم کی ہدایت پر ہلکی‬
‫پھلکی جیولری بھی پہن لی تھی۔‬

‫ارش وردا کو سرخ لباس میں دیکھ کر بہت خوش‬


‫ہوتا ہے اور اپنی موم کو دل ہی دل میں شاباشی‬
‫دیتا ہے۔ کیونکہ ارش ہی وردا کہ لیے یہ ڈریس لیا‬
‫تھا۔ اس کو پتا تھا اس کہ دینے پر وردا ڈریس‬
‫کھبی نہیں پہنے گی اس لیے عائزہ بیگم کو کہہ دیا‬
‫تھا۔‬
‫ارش قدم چلتا وردا کی طرف بڑھتا ہے۔ بیڈ کی‬
‫قریب پہنچ کر اپنا ہاتھ وردا کہ آگے پھیالتا ہے۔‬
‫وردا اپنے سامنے پھیلے مردانہ ہاتھ کو دیکھ شش‬
‫و پنج میں مبتال کچھ پل کی بعد جھجکتی ہوئی اپنا‬
‫ہاتھ رکھ دیتی ہے۔‬

‫ارش وردا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دیکھ مسکراتا ہوا‬


‫وردا کا دوسرا ہاتھ پکڑتا وردا کو سہارا دیں کر بیڈ‬
‫سے اتارتا ہوا شیشے کہ سامنے لے جا کر کھڑا‬
‫کر دیتا ہے۔‬

‫وردا گھبراتی ہوئی ارش کی حرکتیں دیکھ رہی‬


‫ہوتی ہے۔ ارش وردا کہ پیچھے کھڑا ہو کر وردا‬
‫کہ کندھوں پکڑ کر بہت خوبصورت لگ رہی ہو‬
‫بلکل چاند کی طرح ارش ہلکی آواز میں وردا کہ‬
‫کان میں کہتا ہے۔‬
‫وردا ارش کی سر گوشی سے خود میں سمٹ جاتی‬
‫ہے۔ شکریہ میرا پسندیدہ ڈریس پہنے کہ لیے وردا‬
‫نہ سمجھی سے ارش کی طرف دیکھتی ہے۔ ارش‬
‫وردا کی آنکھوں میں سوال پڑھ کر مسکرا دیتا ہے۔‬

‫میری جان یہ ڈریس میں نے تمہارے لیے لیا تھا تم‬


‫نے میرے کہنے پر پہننا نہیں تھا اس لیے میں نے‬
‫موم کا سہارا لیا۔‬

‫ارش یہ کہتے ہی وردا کہ کندھے پر بوسا دیتا ہے۔‬


‫جس پر وردا گھبراتی ہوئی مزاحمت کرتی ارش کہ‬
‫ہاتھوں سے اپنے کندھے چڑھانے کی کوشش‬
‫کرتی ہے نہ میری جان یہ کوشش بے قار ہے۔‬

‫تم میری محبت بڑھی گرفت سے کبھی بھی اپنے‬


‫آپ کو چھڑوا نہیں سکتی۔ ارش مسکراتا ہوا وردا‬
‫کی گال پر بوسا دیتا ہے اپنے حصار سے آزاد کر‬
‫دیتا۔‬

‫وردا ارش کی جسارت پر سرخ ٹماٹر ہوتی فٹافٹ‬


‫واٹروب سے ڈریس نکال کر واشروم میں بھاگ‬
‫جاتی ہے۔ وردا کی تیزی دیکھ پورے کمرے میں‬
‫ارش کا قہقہ گونجتا ہے۔‬

‫جس کی آواز وردا کو واشروم کہ اندر تک آرہی‬


‫ہوتی ہے۔ وردا دروازے سے ڈیک لگائے ارش کو‬
‫بورے بورے القاب سے نوازتی ہے۔‬

‫ارش اپنا نائٹ ڈریس لے کر ڈریسنگ روم میں چال‬


‫جاتا ہے۔ وردا ڈریس چینج کر کہ آتی ہے اور ارش‬
‫کو کمرے میں نہ دیکھ خوش ہوتی بیڈ سے تکیہ‬
‫پکڑتی صوفے پہ لیٹ کہ سو جاتی ہے۔‬
‫وردا صبح کی اٹھی ہوتی ہے اس لیے جلد ہی وہ‬
‫نیند کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ ارش چینج کر‬
‫کہ ڈریسنگ سے نکلتا ہے تو سیدھا نظر صوفے‬
‫سوئی وردا پر پڑھتی ہے۔‬

‫یہ صوفے پر کیا کر رہی ہے۔ صوفے پہ تو ایسے‬


‫سوئی ہے۔ جیسے بیڈ پر میں اسے کھا جائو گا۔‬
‫ارش جلتا کڑتا وردا کی طرف بڑھتا ہے اور وردا‬
‫کو اپنی باہوں میں اٹھا کر بیڈ پر لٹا کر خود بھی‬
‫وردا کہ قریب لیٹ کر وردا کو اپنے حصار میں‬
‫لے کر سو جاتا ہے۔‬

‫ارش ابھی وردا پر اس رشتے کی کوئی ذمہ داری‬


‫نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ جب تک وہ خود اس رشتے کو‬
‫دل و جان سے قبول نہ کر لے ارش چاہتا تھا وردا‬
‫خود اپنے آپ کو اس کہ سپرد کریں۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫سیف ارش کہ فنکشن سے فارغ ہو کر بے سبب‬
‫گاڑی سڑک پر چال رہا ہوتا ہے۔ گاڑی سڑک پر‬
‫روک کر سیف گاڑی کہ بونٹ پر لیٹ کر آسمان‬
‫کی جانب نظریں کیے چاند کو دیکھ رہا ہوتا ے۔‬

‫مایا تم تو میرے لیے چاند کہ طرح ہو گئ ہو۔ جس‬


‫کی انسان خواہش تو کر سکتا ہے پر کبھی پا نہیں‬
‫سکتا سیف کہ یہ کہتے ہی آنسو نکلنا شروع ہو‬
‫جاتے ہے۔ مایا‪-------------------‬‬
‫سیف اونچی آواز میں مایا کا نام لیے انکھیں موند‬
‫کر مایا کو یاد کرنے لگتا ہے۔‬

‫کچھ دیر بعد سیف چاند کو دیکھ کر بائے بائے مایا‬


‫اپنا بہت خیال رکھنا عجیب جملے بول گاڑی میں‬
‫بیٹھ کر گاڑی گھر کی طرف بڑھا دیتا ہے۔‬
‫💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔💔‬
‫وردا کی صبح آنکھ کھولتی ہے تو خود کو کسی‬
‫کی چٹانی گرفت میں محسوس کرتی نہ سمجھی‬
‫سے ماحول سے مانوس ہونے کی کوشش کرتی‬
‫ہے۔‬

‫اچانک وردا کی انکھیں اپنے پاس ارش کو سوتے‬


‫دیکھ پوری کھل جاتی ہے۔ وردا مزاحمت کرتی‬
‫اپنے آپ کو ارش کی گرفت سے چھڑواتی ارش‬
‫کی طرف دیکھتی ہے۔‬

‫سرخ و سفید رنگت آنکھو پر سایہ فگن لمبی گھنی‬


‫پلکے ستواں ناک اور عنابی لب آپس میں بینچے‬
‫ہوئے وردا کو ارش اس وقت کافی خوبصورت لگا۔‬
‫جان مجھے مکمل دیکھ لیا ہو تو انکھیں کھول دوں۔‬
‫وردا ارش کی آواز سن کر ہڑبڑاتی ہوئ ارش سے‬
‫دور ہو کر بیٹھ جاتی ہے۔ ارش وردا کو خود سے‬
‫چھڑواتے ہوئے ہی دیکھ کر اٹھ گیا تھا۔‬

‫بس وردا کا ریکشن چیک کرنے کہ لیے آنکھیں بند‬


‫کیے پڑا رہتا ہے۔ مجھے آپ صوفے سے بیڈ الئے‬
‫ہے ظاہر سی بات ہے جان میرے عالوہ کون ایسی‬
‫جرات کر سکتا ہے۔‬

‫وردا ارش کو گھورتے ہوئے الماری سے ڈریس‬


‫نکالتی واشروم میں بند ہوجاتی ہے۔ ارش لگتا ہے‬
‫جان ناراض ہوگئی کوئی نہیں منا لوں گا۔ ارش‬
‫کہتے ہوئے وردا کہ باہر آنے کا انتظار کرتا ہے۔‬

‫کچھ دیر بعد ارش کو وردا باہر آتی دکھائی دیتی‬


‫ہے۔ وردا یلو کڑھائی والی شرٹ پہنے جس پر‬
‫وائٹ دھاگے سے کڑھائی کی گئ تھی نیچے وائٹ‬
‫پالزو پہنے یلو دوپٹہ ایک سائڈ پہ لیے بہت پیاری‬
‫لگ رہی ہوتی ہے۔‬

‫وردا ڈرائر سے شیشے کہ سامنے کھڑی اپنے بال‬


‫سکھا رہی تھی کہ اچانک وردا کو اپنے اوپر کسی‬
‫کہ نظروں کی تاپش محسوس ہوتی ہے۔‬

‫وردا پیچھے موڑ کر دیکھتی ہے ارش ڈھٹکی‬


‫بندھے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ ارش دیر ہو رہی ہے سب‬
‫کیا سوچتے ہو گے جائے جاکر فریش ہو ارش‬
‫وردا کی آواز سنتا ہوش میں آتا وردا کو ایک‬
‫مسکراہٹ پاس کرتا واشروم میں گھس جاتا ہے۔‬

‫وردا فٹا فٹ ہلکا پھلکا میک اپ کیے کانوں میں‬


‫وائٹ جھمکے پہنے پائوں میں وائٹ موتیوں واال‬
‫کھوسا پہنے ہاتھوں میں یلو چوڑیاں پہنے تیار‬
‫کھڑی ارش کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔‬

‫ذالے بیگم نے ہی وردا کو سمجھایا تھا کہ شادی‬


‫کی بعد لڑکیاں تیار ہی اچھی لگتی ہے۔ جس پر‬
‫عمل کرتی وردا نے یہ سب تیاری کی تھی۔ ارش‬
‫یلو کرتے کہ نیچے وائٹ پاجامہ پہنے باہر نکلتا‬
‫ہے۔‬

‫وردا آپ نے میری میچنگ کی ہاں جان میری بیگم‬


‫کہ ساتھ میچنگ کر کہ پہن نے کا سوچا تو پہن لیا۔‬
‫ارش وردا کہ قریب آتے وردا کو شیشے کہ سامنے‬
‫لیں جا کر کھڑا کر دیتا ہے۔‬

‫سائڈ دراز سے ایک بڑا بوکس اور ایک چھوٹی‬


‫ڈبی نکلتا ہے۔‬
‫وردا نہ سمجھی سے بوکس کی طرف دیکھتی ہے۔‬
‫جان یہ تمہاری منہ دکھائی رات کو نہیں دیں سکا‬
‫کیونکہ میری بیگم خواب خرگوش کہ مزے لوٹ‬
‫رہی تھی۔‬

‫وردا شرمندہ ہوتے سر نیچے جھکا لیتی ہے۔ وہ‬


‫میں صبح کی اٹھی ہوئی تھی۔ اس لیے تھکاوٹ‬
‫سے خودی نیند آگئ۔ ارش کوئ بات نہیں اس میں‬
‫شرمندہ ہونے والی کیا بات ہے میں نے تو مذاق کیا‬
‫ہے۔‬

‫ارش چھوٹی ڈبی کھول کر اس میں سے ڈائمنڈ‬


‫رینگ نکال کر وردا کہ ہاتھ پکڑ وردا کی انگلی‬
‫میں پہناتا ہے اور اسی کی انگلی پر بوسا دیں دیتا‬
‫ہے۔ جس سے وردا اپنے آپ میں سمٹ جاتی ہے‬
‫اور اپنا ہاتھ ارش کہ ہاتھ سے چھڑوا لیتی ہے۔‬
‫ارش وردا کی حالت سمجھتا ہوا مسکرا دیتا ہے۔‬
‫ارش بڑھا بوکس کھول کر اس میں سے ہللا کہ نام‬
‫کا گولٹ کا بنا خوبصورت الکٹ وردا کہ گلے میں‬
‫پہنا دیتا ہے۔‬

‫وردا شیشے میں دیکھتی ہللا کہ لوکٹ پر ہاتھ‬


‫پیھرتی مسکراتے ہوئے ارش کی طرف دیکھتی‬
‫ہے۔ تھینکس یہ میری زندگی کا سب سے حسین‬
‫اور انمول تحفہ ہے جو ہمیشہ رہے گا وردا‬
‫مسکراتے ہوئے ارش سے کہتی ہے۔‬

‫جس پر ارش وردا کا رخ اپنی طرف کر کہ وردا‬


‫کی پیشانی پر بوسا دیتا ہے اور وردا کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر کمرے سے باہر نکل جاتا ہے۔‬
‫💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖‬
‫عائزہ بیگم ڈیبل پر ناشتہ لگوا رہی ہوتی ہے۔ شہیر‬
‫صاحب بیگم دیکھوں ابھی تک آئے نہیں یہ دونوں‬
‫آپ کیوں بے صبرے ہو رہے ہے آتے ہو گے۔‬

‫اچانک عائزہ بیگم کی نظر سیڑھیوں سے‬


‫مسکراتے ہوئے اترتے ارش اور وردا پر پڑھتی‬
‫ہے۔ عائزہ بیگم دل ہی دل میں دونوں کی نظر‬
‫اترتے ماشاءہللا کہتی ہے۔‬

‫لوں آگئے آپ کی بہو اور بیٹا عائزہ بیگم کہ کہنے‬


‫پر شہیر صاحب دونوں کو موڑ کر دیکھتے ہے۔‬
‫دونوں کی آنکھوں سے نظر اتارتے سدا اپنے بیٹے‬
‫اور بہو کو اس طرح ہی مسکرانے کی دل ہی دل‬
‫میں ہللا سے دعا کرتے ہے۔‬

‫ڈیبل کہ قریب پہنچ کر ارش اپنے ڈیڈ کہ گلے لگتا‬


‫ہے وردا بھی شہیر صاحب کو سالم کرتی ہے جس‬
‫کا جواب دیتے وہ وردا کہ سر پر ہاتھ رکھ کر سالم‬
‫کا جواب دیتے ہے۔‬

‫عائزہ بیگم آگے بڑھ کر وردا کو گلے لگاتی وردا‬


‫کی پیشانی پر بوسا دیتی ہے۔ موم سارا پیار بہو کہ‬
‫لیے ہی مجھے بھول گئ۔ چل بدمعاش تمہیں بھول‬
‫سکتی ہو میں عائزہ بیگم ارش کی پیشانی پر بوسا‬
‫دیتی ارش کو گلے لگا لیتی ہے۔‬

‫شہیر صاحب وردا ہماری بیٹی نہیں بہو ہے۔ جس‬


‫پر وردا مسکرا دیتی ہے اپنی خوش قسمتی پر اور‬
‫ہللا کا دل میں شکر ادا کرتی ہے۔‬

‫عائزہ بیگم نے کل ہی ذالے بیگم کو ناشتہ النے‬


‫سے منا کر دیا تھا کی ان کا کہنا تھا ہماری بیٹی‬
‫جیسی ہے وردا میں خود اسے اپنے ہاتھوں سے‬
‫ناشتہ بنا کر کھالئو گی۔ جس پر ذالے بیگم بھی‬
‫اپنی بیٹی کی قسمت پر رشک کرتی مسکرا دیں‬
‫تھی ۔‬

‫سب نے خوشگوار ماحول میں ناشتہ کیا۔‬


‫😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊‬
‫سیف کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جا رہی تھی‬
‫اپنے موم ڈیڈ کہ سامنے خوش رہنے کی کوشش‬
‫کرتا پر اکیلے میں مایا کی یادیں اسے کاٹ کھانے‬
‫کو دوڑتی تھی۔‬

‫سیف تہجد میں رو رو کہ مایا کی مل جانے کی‬


‫دعائیں مانگتا تھا۔ ثاقب شاہ بیٹے کی ایسی حالت‬
‫دیکھ سخت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ عائشہ‬
‫بیگم بھی بیٹے کی حالت پر نڈھال ہو کر رہ گئ‬
‫تھی۔‬
‫💦💦💦💦💦💦💦💦💦💦‬
‫دو سال کی بعد‪:‬‬
‫ماما کہا ہے آپ سائمہ آئی بیٹا تم تو ہوا کہ دوش پر‬
‫سوار رہتی ہو۔ ماما بات ہی خوشی والی ہے۔ میں‬
‫نے سکینڈ ائیر میں پورے بورڈ میں ٹوپ کیا ہے۔‬

‫سائمہ خوش ہوتے ہوئے سچ بیٹا جی ماما سچی مایا‬


‫خوش ہوتے سائمہ کو بتاتی ہے۔ آپ کو پتا آگے‬
‫میں یونی میں سکالرشپ پر پڑھو گی۔‬

‫کالج میں کل اینول فنکشن ہے۔ سائمہ خوش ہوتے‬


‫ہوئے مبارک ہو بیٹا تمہیں بہت سائمہ مایا کو گلے‬
‫لگاتے ہوئے کہتی ہے۔‬

‫ماما اب جلدی کھانا ال دیں۔ بہت بھوک لگی ہے۔‬


‫اچھا بیٹا بیٹھو میں التی ہو۔ مایا سر اوپر کرتے‬
‫ماما پاپا دیکھ رہے ہو نہ آپ اوپر سے آپ کی بیٹی‬
‫نے ٹوپ کیا۔ پاپا ماما آپ کی بیٹی نے آپ کی‬
‫خواہش پوری کردی۔ مایا یہ کہتی ہی اپنے آنکھوں‬
‫سے نکلتا آنسو صاف کرتی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ان دو سالوں میں بہت کچھ بدل گیا تھا۔ سیف نے‬
‫اپنے آپ کو روبوٹ بنا لیا تھا ۔ سیف جو رات کو‬
‫ہسپتال میں ڈیوٹی نہیں کرتا تھا۔ اب دن رات‬
‫ہسپتال میں گزار کر اپنے کو مکمل کام میں‬
‫مصروف کر لیا تھا۔‬

‫ارش بھی اپنے دوست کی حالت دیکھ بہت دکھی‬


‫محسوس کرتا پر مجبور تھا اپنے جگری یار کہ‬
‫لیے کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔‬

‫عائشہ بیگم بھی سیف کو کافی دفعہ سمجھا چکی‬


‫تھی کہ وہ تھوڑا آرام کر لیا کرے اس طرح وہ بہت‬
‫بیمار پڑ جائے گا پر سیف بھی کیا کرے وہ یہ سب‬
‫کچھ کرنے پر مجبور تھا۔ جب بھی فری ہوتا مایا‬
‫کی شدید ترین یاد آتی جو سیف کو کسی پل چین‬
‫سے بیٹھنے نہ دیتی جس بنا پر سیف نے اپنے آپ‬
‫کو کام میں مصروف کر لیا تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫وردا نے اپنا ایف اے کمپلیٹ کر لیا تھا۔ اب وہ تھرڈ‬
‫ائیر کی سٹوڈنٹ تھی۔ وردا بھی ان دو سال کہ‬
‫عرصے میں ارش سے شدید محبت کرنے لگی‬
‫تھی۔‬

‫ارش بھی وردا کہ جذبات سے با خوبی واقف تھا‬


‫لیکن ارش چاہتا تھا وردا اپنے جذبات کا اس سے‬
‫خود اظہار کرے جس کا ارش کو بے صبری سے‬
‫انتظار تھا۔‬
‫وردا نے بھی ارش سے اپنی محبت کا اظہار‬
‫کرنے کا سوچ لیا تھا۔ وردا ارش کو اس کی سالگرہ‬
‫پر اظہار محبت کر کے سپرائز دینا چاہتی تھی۔‬
‫💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗‬
‫کالج میں آج ہر طرف افراتفری مچی ہوئی تھی۔ آج‬
‫کالج میں اینول ڈے کی تیاریاں ہو رہی تھی۔ جس‬
‫میں مایا اپنی دوستوں کہ ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ‬
‫لیں رہی تھی۔‬

‫کالج میں آج مہمان خصوصی کو بالیا گیا تھا۔ جس‬


‫کا ایک کو انتظار تھا۔ مایا نے ڈیبیٹ کرنی تھی۔‬
‫اس لیے وہ بیک سٹیج اس کی تیاری کر رہی تھی۔‬

‫جلد ہی مہمان خصوصی کہ آنے کا شور مچ گیا۔‬


‫مایا کہ کانوں میں بھی آواز پڑی پر وہ اپنے کام‬
‫میں مصروف رہی مہمان خصوصی کا انتظار کیا‬
‫جا رہا تھا کہ وہ آئے تو تقریب کو شروع کیا‬
‫جائے۔‬

‫سب سے پہلے قرات اور نعت کا انعقاد کیا گیا ہے۔‬


‫اس کہ بعد تقریر کہ لیے مایا کا نام الیا جاتا ہے۔‬
‫جس کا نام سن کر سامعین میں بیھٹے ایک شخص‬
‫کا دل زور و شور و سے دھڑکتا ہے۔‬

‫مایا پنک باربی فراک میں سر پر سلیقے سے ڈوپٹہ‬


‫لیے سٹیج پہ چڑتی اپنی تقریر سٹارٹ کرتی ہے۔‬
‫ہجوم میں بیٹھے ایک شخص سکت ہو کر یک ڈک‬
‫مایا کی جانب دیکھتا ہے۔‬

‫اس شخص کو کسی کا ہوش نہیں ہوتا اسے ایسا‬


‫محسوس ہوتا جیسے وقت اس کہ لیے رک گیا ہو۔‬
‫مایا کو تقریر کرتے ہوئے بار بار اپنے اوپر‬
‫نظروں کی تاپش محسوس ہوتی ہے پر وہ اگنور‬
‫کرتی اپنی تقریر جاری رکھتی ہے۔ اس طرح تقریر‬
‫کہ ختم ہوتے ہی ہر سو تالیوں کی گونج سنائی دیتی‬
‫ہے۔‬

‫مایا مسکراتے ہوئے سٹیج سے اترتی ہے۔ مایا کے‬


‫جاتے ہے اس شخص کا دل ہر چیز سے اچاٹ ہو‬
‫جاتا ہے۔‬

‫پھر کچھ ٹیبلو کہ بعد تقریب کا اختتام ہوتا ہے تو‬


‫کالج کی پرنسپل سٹیج پر آتی مہمان خصوصی کو‬
‫سٹیج پر آنے کی دعوت دیتی ہے۔‬

‫مایا کہ دوبٹے پر اس کی دوست کہ ہاتھ سے چائے‬


‫گر جاتی ہے جو مایا واشروم میں آتی صاف کر‬
‫رہی ہوتی ہے۔ اس لیے مایا کو کچھ آواز نہیں ارہی‬
‫ہوتی کہ کس کا نام لیا ہے کس کا نہیں‪----‬‬
‫مایا دوبٹہ صاف کر کہ واپس آجاتی ہے۔ کچھ دیر‬
‫بعد مایا کا نام لیا جاتا جس پر مایا مسکراتی ہوئی‬
‫سٹیج پر جاتی ہے۔‬

‫پرنسپل اناؤنس کرتے ہوئے ہماری کالج کی قابل‬


‫اور ہونہار بچی مایا بہروز خان جھنوں نے پورے‬
‫بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی آپ کی بھر پور‬
‫تالیوں میں بالتے ہے۔‬

‫مایا بہروز خان مایا سٹیج پر پرنسپل کی طرف‬


‫مسکراتے ہوئے دیکھ کر اپنی شیٹ اور انعام لینے‬
‫مہمان خصوصی کی طرف بڑھتی ہے۔ مایا سر اٹھا‬
‫کر دیکھتی ہے تو سیف کو مہمان خصوصی کہ‬
‫طور پر دیکھ حیران ہو کر رہ جاتی ہے۔‬
‫سیف مایا کی طرف ہی دیکھی جاتا جیسے اس سے‬
‫زیادہ کوئی ضروری کام نہ ہو۔ سیف کو مایا پہلے‬
‫سے زیادہ خوبصورت اور میچور لگی۔ مایا اور‬
‫سیف جلدی سے اپنی حالت پر قابو پاتے ہے۔ سیف‬
‫مایا کو شیٹ اور انعام پکڑاتا ہے جسے مایا تھام‬
‫لیتی ہے۔‬

‫مایا اپنا انعام اور شیٹ لے کر جلدی سے سٹیج سے‬


‫نیچے اتر کر سیف کہ اس تک پہنچنے سے پہلے‬
‫یہاں سے جانا چاہتی تھی۔‬

‫سیف مایا کو پھر سے خود سے دور ہوتا دیکھ نہیں‬


‫دیکھ سکتا تھا۔ اس لیے وہ پرنسپل سے ضروری‬
‫کام کا کہہ کر معذرت کرتے سٹیج سے اتر کر‬
‫تیزی سے باہر کی جانب بڑھتا ہے۔‬
‫سیف مایا کو کالج سے نکلتے دیکھ لیتا اور غصے‬
‫کی شدید لہر سیف کہ اندر اٹھتی ہے۔ سیف تیزی‬
‫مایا کہ پاس پہنچ کر مایا کو ہاتھ سے پکڑ کھینچتا‬
‫ہوا اپنی طرف موڑتا ہے۔‬

‫کہا جا رہی تھی یوں اب بھی تمہارا دل نہیں بھرا‬


‫جدائی کی تکلیف دیں کر جو اور دینا جاتی بولوں‬
‫سیف مایا کو بازوں سے جھنجھوڑتا ہوا کہتا ہے۔‬

‫مایا چھوڑے مجھے یہ کیا حماقت ہے۔ سیف نہ مایا‬


‫میڈم یہ حماقت نہیں عشق ہے آئی سمجھ سیف مایا‬
‫کہ بازوں کو زور سے دباتا کہتا ہے۔ سیف‬
‫چھوڑے مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔ سیف مایا کی‬
‫تکلیف کا سن فورا سے مایا کہ بازوں چھوڑ دیتا‬
‫ہے۔‬
‫مایا جائے یہاں سے اپنی زندگی جیے اور مجھے‬
‫بھی جینے دیں۔ سیف زندگی تو تمہارے ساتھ جینی‬
‫ہے تم چلوں میرے ساتھ تمہیں پتا ہے۔ موم ڈیڈ‬
‫تمہیں کتنا یاد کرتے ہے۔‬

‫پھر گھر جا کر اپنے یار کا بھی تو شکریہ کہنا‬


‫ہے۔ جس کہ بدولت آج میں تم سے مل پایا ہو۔‬
‫دراصل ارش اور سیف دونوں کو مہمان خصوصی‬
‫بالیا گیا تھا۔‬

‫سیف بھی اپنے سماجی کاموں کی وجہ سے عوام‬


‫میں مشہور تھا۔ اس لیے سیف کو بھی بالیا گیا تھا۔‬
‫وردا کی طبیعت خراب تھی اس وجہ سے ارش نے‬
‫جانے سے انکار کر دیا تھا۔‬
‫سیف بھی نہیں جانا چاہتا تھا پر ارش کے کہنے پر‬
‫بہت مشکل سے جانے کہ لیے آمدہ ہو جاتا ہے۔‬

‫سیف مایا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے چلوں ہم گھر چلتے‬


‫ہے۔ میں تم سے کچھ نہیں پوچھو گا تم کہا تھی کس‬
‫وجہ سے گھر چھوڑ کر گئ۔ موم اور ڈیڈ بہت‬
‫خوش ہو گے تمہیں دیکھ کر سیف مسکراتے ہوئے‬
‫مایا سے کہتا ہے۔ مایا سیف کو دیکھتی ہے جو اس‬
‫وقت وائٹ کلر کی کرتے پاجامے میں کافی ڈیشنگ‬
‫رہا ہوتا ہے۔‬

‫مایا عائشہ بیگم سے ملنا چاہتی تھی۔ اس لیے سیف‬


‫کا کہا مان جاتی ہے۔ سیف مایا کا ہاتھ پکڑ کرآگے‬
‫بڑھتا ہے۔‬

‫مایا سائمہ کا سوچتے روک جاتی ہے۔ سیف مایا کو‬


‫روکتے دیکھ نہ سمجھی سے مایا کی طرف دیکھتا‬
‫ہے۔ سیف وہ مایا کافی ججھک کر سیف کا نام لیتی‬
‫ہے جس پر سیف مایا کی ججھک پر مسکرا دیتا‬
‫ہے۔‬

‫کہوں کیا کہنا ہے۔ مایا سیف کو سائمہ کہ بارے‬


‫میں بتاتی ہے۔ انھوں کا اس کو پڑھنا اور اپنے گھر‬
‫رکھنا ماں جیسا پیار دینا اور ان کا اس دنیا میں‬
‫کوئی نہیں سب بتا دیتی ہے۔‬

‫سیف نو پرابلم تم انھیں بھی ساتھ لیں لوں ۔ مایا‬


‫حیران ہو کر سیف کی طرف دیکھتی ہے۔ آپ سچ‬
‫کہہ رہے ہے۔ ہاں بلکل سچ سیف مسکراتا ہوا کہتا‬
‫گاری کا فرنٹ ڈور مایا کہ لیے کھولتا ہے مایا‬
‫گھبراتی ہوئ بیٹھ جاتی ہے۔‬

‫سیف مایا کہ بیٹھتے ہی خود بھی بیٹھ کر زن سے‬


‫گاڑی آگے بڑھا لیں جاتا ہے۔‬
‫💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖💖‬

‫وردا کو تیز بخار ہوا ہوتا ہے۔ ارش پریشان سا‬


‫وردا کہ پاس بیٹھے اس کا سر دبا رہا ہوتا ہے۔ کچھ‬
‫دیر پہلے ہی ڈاکڑ چیک کر کہ گیا تھا۔‬

‫وردا یار تمہیں کس نے کہا تھا۔ آئس کریم کھا کر‬


‫رات کو بارش میں نہانے کا میں سویا ہوا تھا ورنہ‬
‫تمہیں بتاتا یار میں کتنا پریشان ہو جلدی سے ڈھیک‬
‫ہو جائو مجھ سے تمہاری حالت نہیں دیکھی جا‬
‫رہی وردا غنودگی کی حالت میں ارش کی باتیں سن‬
‫رہی ہوتی ہے۔ ارش وردا کہ ماتھے بوسا دیتا ہے۔‬

‫جس سے وردا کہ روح تک سکون کی لہر دوڑ‬


‫جاتی ہے۔ ارش ساری رات جاگتے ہوئے وردا کا‬
‫خیال رکھتا گزار دیتا صبح جا کر وردا کہ بخار کا‬
‫زور ٹوٹتا ہے۔‬

‫جس پر ارش خدا کا شکر ادا کرتا وردا کو باہوں‬


‫میں لیے سو جاتا ہے۔‬
‫😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍‬
‫سیف مایا اور سائمہ بیگم کو لیں کر الہور کہ لیے‬
‫نکل جا تا ہے۔ مایا سائمہ کو سیف اور اس کہ گھر‬
‫والوں کہ بارے میں بتا دیتی ہے۔‬

‫جس پر سائمہ خوشی سے مایا کہ ساتھ جانے کو‬


‫تیار ہو جاتی ہے۔ ان کا مایا کہ سوا تھا ہی کون اور‬
‫اس گھر میں دوبارہ سے اکیلی رہنا نہیں چاہتی‬
‫تھی۔ وہ خدا کا بار بار شکر کرتے نہیں تھکتی‬
‫تھی جس نے انھیں اتنی پیاری بیٹی دیں۔‬
‫سیف گھر کہ پورچ میں گاڑی کھڑی کر کہ پہلے‬
‫مایا کہ لیے گاڑی کا ڈور کھولتا ہے پھر سائمہ کہ‬
‫لیے ڈور کھولتا ہے سائمہ سیف کہ لیے احترام کہ‬
‫قابل تھیں۔ جھنوں نے مایا کو معاشرے کہ سرد و‬
‫گرم سے بچایا اسے اپنے گھر جگہ دیں پڑھیا‬
‫لکھایا۔‬

‫سیف ویال میں داخل ہوتے ہوئے موم ڈیڈ دیکھے‬


‫کون آیا ہے۔ عائشہ بیگم اندر ثاقب شاہ کہ ساتھ‬
‫صوفے پر بیٹھی باتیں کر رہی ہوتی ہے۔‬

‫سیف کی چہکتی آواز سن ثاقب شاہ اور عائشہ بیگم‬


‫خوش ہوتے سیف کی طرف دیکھتے ہے پر سیف‬
‫کہ ساتھ مایا کو کھڑے دیکھ سلتے میں چلے‬
‫جاتے ہے۔‬
‫سیف دوبارہ بالتا جس سے دونوں ہوش میں آتے‬
‫سیف کی طرف بڑھتے ہے۔ عائشہ بیگم خوش ہوتی‬
‫مایا کہ گلے لگتی ہے مایا بھی عائشہ بیگم کہ گلے‬
‫لگ کہ پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیتی ہے۔‬

‫ثاقب شاہ بیٹا آپ اس طرح کیوں ہمیں چھوڑ کر‬


‫چلی گئ تھی۔ اس سوال کا مایا کہ پاس کوئی جواب‬
‫نہیں ہوتا ثاقب شاہ بھی کریدنے کی بجائے بات بدل‬
‫دیتے ہے۔‬

‫بیٹا اور بتائو کیسی ہو ثاقب شاہ مایا کی سر پر ہاتھ‬


‫رکھ کر پوچھتے ہے۔ پاپا میں بلکل ڈھیک ہو۔ موم‬
‫ان سے ملے یہ بھی میری ماما ہے۔ مایا مسکراتے‬
‫ہوئے سائمہ کا تعارف کرواتی ہے جس پر سائمہ‬
‫خوش اسلوبی سے سب سے ملتی ہے۔‬
‫سیف سائمہ کہ بارے میں اپنے موم ڈیڈ کو الف‬
‫سے لیں کر یہ تک سب کچھ بتا دیتا ہے۔ عائشہ‬
‫بیگم جائو مایا بیٹا تم آرام کروں۔‬

‫عائشہ بیگم سائمہ بہن چلے آپ کو آپ کا کمرہ دکھا‬


‫دوں جس پر سائمہ مایا کو اپنا خیال رکھنے کا کہہ‬
‫کر ماتھے پر بوسا دیتی عائشہ بیگم کہ پیچھے ہو‬
‫لیتی ہے۔‬

‫مایا بھی مسکراتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف‬


‫چلی جاتی ہے۔ بیٹا جی اب تو خوش ہو نہ جی ڈیڈ‬
‫بہت خوش سیف مسکراتا ہوا اپنے کمرے کی‬
‫طرف بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ثاقب شاہ بھی اپنے بیٹے کو مسکراتے دیکھ سدا‬
‫خوش رہنے کی دعا کرتے ہے۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫سیف رات کو عائشہ بیگم اور ثاقب شاہ سے کل ہی‬
‫مایا سے نکاح کرنے کا کہتا ہے۔ ثاقب شاہ بیٹا ہم‬
‫مایا بیٹی سے بات کرے گے ۔ اگر وہ مان گئ تو‬
‫ڈھیک ورنہ ہم اس پہ کوئی زبردستی نہیں کرے‬
‫گے۔‬

‫سیف انشاءہللا پاپا مان جائے گی۔ سیف مسکراتا ہوا‬


‫کہتا ہوا چال جاتا ہے۔‬

‫عائشہ بیگم میری یہی دعا ہے کہ مایا مان جائے‬


‫ثاقب شاہ آمین کہتے ہے۔‬
‫😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊‬
‫صبح ڈائنگ ڈیبل پر مایا ہنستی ہوئی اپنی دونوں‬
‫مائوں کہ ساتھ بیٹھی ناشتہ کر رہی ہوتی ہے۔ سیف‬
‫بھی مایا کو خوش ہوتا دیکھ خود بھی خوش ہو جاتا‬
‫ہے۔‬
‫عائشہ بیگم مایا بیٹا میں نے تم سے ضروری بات‬
‫کرنی ناشتہ کر کہ میرے کمرے میں آنا۔ عائشہ‬
‫بیگم یہ کہتی اپنے روم کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬

‫مایا بھی ناشتہ کر کہ عائشہ بیگم کہ روم کا ڈور‬


‫نوک کر کہ اندر آتی ہے۔ عائشہ بیگم تمہیں اندر‬
‫آنے کہ لیے ڈور نوک کرنے کی ضرورت نہیں تم‬
‫تو میرے لیے بیٹی سے بھی بڑھ کر ہو۔ عائشہ‬
‫بیگم پیار سے کہتی مایا کو بیڈ پر بیٹھاتی ہوئ خود‬
‫بھی بیٹھ جاتی ہے۔‬

‫آج میں بیٹا کچھ مانگوں تو تم دو گی۔ موم میرے‬


‫بس میں ہوا تو ضرور دوگی۔ بیٹا میں اور تمہارے‬
‫بابا چاہتے ہے تماہر اور سیف کا نکاح کر دیں آج‬
‫بولوں تمہیں منظور ہے۔‬
‫مایا کو جس بات کا ڈر تھا۔ عائشہ بیگم نے وہ بات‬
‫کہہ کر مہر لگا دیں تھی۔ موم میں سیف سے شادی‬
‫نہیں کرنا چاہتی۔ بیٹا کیا تم کسی اور کو پسند کرتی‬
‫ہو۔‬

‫موم میں کسی کو پسند نہیں کرتی بس میں ابھی‬


‫شادی نہیں کرنا چاہتی مایا یا اس کا رب جانتا تھا‬
‫کہ وہ یہ کس ضبط سے کہہ رہی ہے۔‬

‫مایا یہ کہتے ہی روم سے نکل کہ اپنے روم میں‬


‫چلی جاتی ہے۔ سیف بھی مایا کہ عائشہ بیگم کہ‬
‫کمرے کی طرف جاتے خود بھی بہانا بنا کر‬
‫ناشتے کی ڈیبل سے آٹھ جاتا ہے۔‬
‫سیف کو یقین ہوتا ہے کی مایا ہاں ہی کرے گی اس‬
‫رشتے کہ لیے پر مایا کا انکار سنے سیف کو بہت‬
‫دکھ ہوتا ہے۔‬
‫سیف رات کو مایا سے بات کرنے کا اردہ کرتے‬
‫ویال سے نکل جاتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫آج ارش کی سالگرہ تھی۔ وردا ارش کو سپرائز‬
‫دینا چاہتی تھی۔ باہر عائزہ بیگم اور شہیر صاحب‬
‫کے ساتھ ارش نے کیک کاٹ لیا تھا۔‬

‫وردا نے آج اپنے ہاتھوں سے ارش کہ لیے کیک‬


‫بیک کیا تھا۔ وردا الل ساری پہنے سرخ لیپ سٹک‬
‫لگائے پائوں میں ہائ ہیل پہنے بہت پیاری لگ رہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫ارش جب کمرے میں قدم رکھتا ہے تو اندھیرا دیکھ‬


‫وردا کو آواز دیتا ہے۔ اچانک ارش کی نظر کیک‬
‫کہ اوپر جگمگاتی ہوئ کینڈل میں وردا کہ دھمکتے‬
‫ہوئے چہرے پر پڑتی ہے۔‬
‫‪Happy Birthday to you Happy Birthday‬‬
‫🎂 ‪Dear Hubby Happy Birthday to you‬‬
‫ارش وردا کہ اتنی خوبصورت آواز میں وش کرنے‬
‫پر خوش ہوتا وردا کو پیچھے سے کمر سے پکڑتا‬
‫اپنے سینے سے لگا لیتا۔ جان آج کیا جان لینے کا‬
‫ارداہ ہے۔‬

‫وردا ارش کی بات پر ہنس دیتی ہے۔ ان باتوں کو‬


‫چھوڑے کیک کاٹے اور ٹیسٹ کر کہ بتائے کیسا‬
‫بنا میں نے بنایا کیا ہے۔‬

‫ارش واہ پھر تو الزم کھانا پڑے گا۔ ہماری جان نے‬
‫اپنے نازک ہاتھوں سے جو ہمارے لیے بنایا ہے۔‬
‫ارش کینڈل بجھاتا ہے۔ وردا کمرے کی الئٹ اون‬
‫کرتی ہے ارش کیک کاٹ کر وردا کو کھالتا ہے۔‬
‫پھر وردا ارش کو کھالتی ہے۔ کیسا ہے کیک بہت‬
‫مزے کا ارش یہ کہتے ہی وردا کو گلے لگا لیتا‬
‫ہے ۔ جس پر وردا کی ایک بیٹ مس ہوتی ہے۔‬

‫وردا ارش سے الگ ہوتے مجھے آپ سے کچھ‬


‫کہنا ہے۔ ارش مسکراتے ہوئے کہوں کیا کہنا ہے۔‬
‫وردا جھجھکتے ہوئے وہ میں بھی آپ سے محبت‬
‫کرتی ہوں ۔‬

‫ارش وردا کہ مصعوم سے اظہار پر سرشار ہوتا‬


‫وردا کو باہوں میں بیھنچ لیتا ہے۔ وردا بھی‬
‫مسکراتی ہوئی ارش کہ گرد اپنا نازک سا حصار‬
‫بناتی ہے جس پر ارش مسکرا دیتا ہے۔‬
‫یوں ایک خوبصورت رات ان کہ درمیان ڈھر جاتی‬
‫ہے۔ دونوں کو آج اپنے رشتے کی تکمیل پوری‬
‫ہوتی محسوس ہوتی ہے۔‬

‫جس پر چاند بھی مسکراتا بدلوں میں چھپ جاتا‬


‫ہے۔‬
‫💙💚💝💖💗💕💝❣💟❤‬
‫سیف رات کو جب سب کہ سونے یقین کا کر لیتا‬
‫ہے تو مایا کے کمرے کی طرف بڑھتا ہے۔ آہستہ‬
‫سے روم کا دروازہ کھول اندر قدم رکھتا ہے۔‬

‫سیف مایا کو بستر پر موجود نہ دیکھ بے چین ہو‬


‫جاتا پر مایا کو باتھ سے نکلتا دیکھ پر سکون ہو‬
‫جاتا کہ مایا کہی نہیں گئ۔‬
‫مایا سیف کو رات کہ اس وقت اپنے کمرے میں‬
‫دیکھ پریشان ہو جاتی ہے۔ آپ اس وقت میرے‬
‫کمرے میں کیا کر رہے ہے۔ میں تم سے اپنے‬
‫سوالوں کا جواب لینے آیا ہو۔‬

‫کون سے سوالوں کا جواب تم نے موم کو مجھ‬


‫سے نکاح کرنے سے انکار کیوں کیا بتائو اگر تم‬
‫کسی کو پسند بھی نہیں کرتی تو پھر کیا وجہ ایسی‬
‫میں آپ کو بتانا ضروری نہیں سمجھتی۔‬

‫سیف غصے سے ڈیبل پر پڑھی فروٹ باسکٹ سے‬


‫چاقو اٹھا لیتا ہے جو سائمہ نے مایا اپنا کھانے میں‬
‫دھیان نہیں رکھتی مایا کہ کھانے کے لیے فروٹ‬
‫مایا کہ کمرے میں نائف سمیت رکھ دیا تھا۔‬
‫مایا یہ کیا کر رہے ہے آپ پاگل ہو گئے ہے۔ ہاں‬
‫پاگل ہو چکا ہو مایا تم کیوں میری فیلنگ نہیں‬
‫سمجھتی میں تم سے محبت نہیں عشق کرتا ہو۔‬

‫مجھے وجہ بتائو اس رشتے سے انکار کی ورنہ‬


‫میں اس چاقوں سے اپنا گال کاٹ لوں گا۔ مایا سیف‬
‫کو چاقوں اپنی گردن پہ رکھے دیکھ ڈر جاتی ہے‬
‫اور روتے ہوئے کہتی ہے پلیز ہٹائے اسے پہلے تم‬
‫انکار کی وجہ بتائو۔‬

‫مایا چیختے ہوئے میں آپ کہ قابل نہیں آپ کو‬


‫کوئی بھی لڑکی مل سکتی آپ ایک داغی لڑکی‬
‫ڈیزرو نہیں کرتے جس کہ زخم مندمل تو ہوچکے‬
‫لکین وہ اپنے گہرے داغ میرے جسم پر چھوڑ‬
‫چکے۔‬
‫مایا روتے ہوئے کہتی ہے سیف مایا کہ انکشاف‬
‫پر حیران ہوتا چھوڑی ڈیبل پر رکھ دیتا ہے۔ سیف‬
‫نے ایسا کرنے کا قدم اس لیے اٹھایا تھا تاکہ مایا‬
‫سچ سچ بتائے۔‬

‫اگر کل کو شادی کہ بعد مجھے چھوڑ دیں گے تو‬


‫میں کہا جائو گی۔ سیف کو اس پاگل لڑکی پر شدید‬
‫غصہ آتا ہے جو بے فضول بات جس کی سیف کی‬
‫نظر میں کوئی اہمیت نہیں اس وجہ سے انکار کر‬
‫رہی تھی۔‬

‫تو تم نے دو سال پہلے میری اور موم کی باتیں‬


‫سن لیں تھی نہ اور تم اس فضول وجہ کی بنا پر‬
‫یہاں سے گئے تھی۔ سیف غصے سے پوچھتا ہے۔‬
‫مایا روتے ہوئے ہاں میں سر ہال دیتی ہے۔‬

‫سیف ہللا بے وقوف لڑکی میں تمہارا کیا کروں۔‬


‫سیف شاہ نے مایا بہروز خان سے جسمانی نہیں‬
‫روحی محبت کی ہے۔ میں نے گہری سے تمہاری‬
‫روح سے عشق کیا ہے۔‬

‫اپنا دماغ فضول چیزوں پر سوچنے پر کم لگایا‬


‫کروں۔ مایا سیف کی بات پر سیف کو گھورتے‬
‫ہوئے دیکھتی ہے۔‬

‫تم نے دو سال اس بے وقوفی میں اپنے بھی برباد‬


‫کیے اور میرے بھی ورنہ اب تک ہماری شادی کہ‬
‫بعد ایک بچہ بھی ہو چکا ہوتا مایا شرم سے الل‬
‫ہوتی یہ آپ کیا باتیں کر رہے ہے۔‬

‫نکلے میرے کمرے سے سیف ہنستے ہوئے میری‬


‫عشق پر کبھی شک مت کرنا مجھے تم ہر ہال میں‬
‫قبول ہو۔‬
‫سیف یہ کہتے ہوئے نکل جاتا ہے۔ ہاں ایک بات رہ‬
‫گئ کہنی مایا دروازہ بند کرنے لگتی ہے۔ سیف کو‬
‫دوبارہ کمرے میں داخل ہوتے دیکھ اب کیا مسئلہ‬
‫ہے۔‬

‫ہار کوئ مسلہ نہیں بس کل نکاح ہے۔ ہمارا اب میں‬


‫تمہارے کوئ بہانے نہ سنو۔ سیف یہ کہتا چال جاتا‬
‫ہے۔ مایا دروازہ بند کر کہ مسکراتی ہوئی سونے‬
‫کہ لیے بیڈ کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬

‫آج مایا کو پر سکون نیند آنی تھی۔‬


‫😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍‬
‫سیف صبح عائشہ بیگم اور ثاقب شاہ کو مایا کہ‬
‫نکاح کہ لیے ہامی بھرنے کا بتا دیتا جس پر عائشہ‬
‫بیگم پریشان ہوتی ہے کہ مایا نے کیسے ہاں کر‬
‫دیں۔‬
‫سیف بس آپ کی بیٹی کو مجھ پر ترس آ گیا جس‬
‫پر عائشہ بیگم اور ثاقب شاہ دونوں مسکرا دیتے‬
‫ہے۔‬

‫سیف ارش کو مایا کہ گھر آنے کا پہلے ہی بتا چکا‬


‫تھا۔ آج نکاح پر بھی فون کر کہ انوائٹ کرتا ہے۔‬
‫ارش اپنے یار کو دوبارہ ہنستا چہکتا دیکھ دل سے‬
‫اپنے دوست کی صدا خوش رہنے کی دعا دیتا‬
‫ہے۔‬
‫😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊😊‬
‫❤💘💛💖 ‪Maya and Saif Nikkah special‬‬
‫سائمہ بیگم اپنی بیٹی کہ نکاح کا سن کر بہت خوش‬
‫ہوتی ہر چیز میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔‬
‫نکاح کی رسم سادگی سے ادا کی جانی تھی۔ اس‬
‫لیے اتنے ارینجمنٹ نہیں کیے گئے تھے۔‬
‫ابھی تھوڑی دیر پہلے بیوٹیشن مایا کو تیار کر کہ‬
‫جا چکی تھی۔ مایا پیچ کلر کی میکسی جس پر‬
‫سلور کام ہوا تھا ہائ ہیل پہنے الئٹ سے میک کپ‬
‫میں ماتھے کہ سائڈ پر جھومر لگائے کانوں میں‬
‫پیچ ائررینگز پہنے ہاتھوں میں پیچ چوڑیاں پہنے‬
‫حوروں کو بھی مات دیں رہی تھی۔‬

‫مولوی صاحب اور سب آچکے تھے۔ ارش بھی‬


‫اپنی تمام فیملی کی ساتھ وردا کا ہاتھ پکڑے الئنج‬
‫میں داخل ہوتا ہے۔‬

‫نکاح کہ انتظامات الؤنج میں ہی کیے گئے تھے۔‬


‫سیف پیچ کلر کے کرتے شلوار کہ اوپر سلور کلر‬
‫کی واسکٹ پہنے کافی ڈیشنگ لگ رہا تھا۔‬
‫ارش سیف کہ گلے ملتے ہوئے واہ یار آج تو‬
‫ماشاءہللا سے شہزادہ لگ رہا ہے۔ سیف جس پر‬
‫مسکراتے دیتا ہے۔‬

‫تھوڑی دیر بعد سائمہ اور عائشہ کہ سنگ مایا سج‬


‫دھج کر الؤنج میں قدم رکھتی ہے۔ عائشہ بیگم مایا‬
‫کو سیف کہ سامنے دوسرے صوفے پر بیٹھا دیتی‬
‫ہے۔‬

‫مولوی صاحب ثاقب شاہ کی اجازت لیں کر نکاح‬


‫پڑھانا شروع کر دیتے ہے۔‬
‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم‬
‫مایا بہروز خان ولد بہروز خان آپ کا نکاح سیف‬
‫شاہ ولد ثاقب شاہ کہ ساتھ حق مہر پچاس الکھ کہ‬
‫عوض کیا جاتا کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے۔ مایا کو‬
‫اس وقت اپنے ماما پاپا کی شدت سے یاد ارہی ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫ثاقب شاہ آگے بڑھ کر مایا کہ سر پر ہاتھ رکھتے‬
‫ہے سائمہ مایا کہ پاس بیٹھی مایا کا ہاتھ تھام لیتی‬
‫ہے۔ جس سے مایا سکون میں آجاتی ہے۔‬

‫مایا تین دفعہ مولوی صاحب کہ پوچھنے پر تینوں‬


‫دفعہ اقرار میں جواب دیتی نکاح نامے پر دستخط‬
‫کر دیتی ہے۔‬

‫مایا کہ نکاح کہ لیے اقرار سیف کو روح تک پر‬


‫سکون کر دیتا ہے۔ مولوی صاحب سیف سے نکاح‬
‫کا پوچھتے ہے۔‬
‫سیف شاہ ولد ثاقب شاہ آپ کا نکاح مایا بہروز خان‬
‫ولد بہروز خان کہ ساتھ کیا جا رہا ہے کیا آپ کو یہ‬
‫نکاح قبول ہے۔‬
‫سیف مایا کی طرف دیکھتے ایک عزم کہ ساتھ‬
‫مایا کی آنکھوں میں کبھی انسو نہیں آنے دیں گا‬
‫اس کہ سارے دکھ درد خود میں سمیٹ لیں گا ان‬
‫سب باتوں کا اپنے آپ سے وعدہ کرتے تینوں دفعہ‬
‫مولوی صاحب کہ پوچھنے پر اقرار کرتا نکاح‬
‫نامے پر سائن کرتا ہے۔‬

‫دونوں طرف سے نکاح ہو جانے پر سب ایک‬


‫دوسرے کو گلے ملتے ہے۔ ارش بھی سیف کہ‬
‫گلے ملتے مبارک باد دیتا ہے۔‬

‫سیف اور مایا کو اکھٹے صوفے پر بیٹھا دیا جاتا‬


‫ہے۔ سیف مایا کہ پیچھے صوفے پر ہاتھ رکھ کہ‬
‫مایا کو ایک طرف سے اپنے حصار میں لیں لیتا‬
‫ہے۔‬
‫ارش سیف اور مایا کی سیف کہ فون میں دونوں‬
‫کی مختلف پوز میں پکس کھنچتا ہے۔‬

‫کچھ دیر بعد سب مہمان گھر کو چلے جاتے ہیں۔‬


‫بس ارش کی فیملی موجود ہوتی ہے۔ وردا کی بھی‬
‫اس دوران مایا سے کافی اچھی دوستی ہو جاتی‬
‫ہے۔‬

‫سیف مایا کہ کان میں سرگوشی کرتے ہوئے میرے‬


‫روم میں جا کر کپڑے مت بدلنا تمہیں کہی لیں کر‬
‫جانا ہے۔‬

‫تھوڑی دیر بعد سائمہ مایا کو سیف کیہ کمرے میں‬


‫لے جاتی ہے۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫مایا سیف کے کمرے میں بیٹھی سیف کا انتظار کر‬
‫رہی ہوتی ہے۔ پورا کمرا پھولو کی خوشبو سے‬
‫مہک رہا ہوتا ہے۔‬

‫ارش سیف کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا ہوتا آجا یار‬


‫باہر کوفی پینے چلتے ہے۔ سیف ارش کو گھورتا‬
‫ہوا۔ میرا پیچھا چھوڑ نکل لیں ہیاں سے ورنہ بہت‬
‫مار کھائے گا۔‬

‫ارش ہائے ہللا یہ وقت بھی آنا تھا۔ جب دوست‬


‫دوست کو مارے گا ارش کی دہائیاں اروج پر تھی۔‬
‫سیف اپنی نوٹنکی بند کر جا بھابی کے پاس ارش‬
‫نے وردا کو عائزہ بیگم اور شہیر صاحب کہ ساتھ‬
‫پہلے ہی گھر بھیج دیا تھا اور خود سیف کو تنگ‬
‫کرنے کے لیے روک گیا تھا۔‬
‫ارش سیف کہ اوپر ترس کھاتے سیف کی جان‬
‫چھوڑ دیتا ہے چل جا تو بھی کیا یاد کرے گا کس‬
‫سخی سے پاال پڑا ہے۔‬

‫سیف شکر کرتے ارش کو باہر تک چھوڑتا خود‬


‫اپنے کمرے کی طرف قدم بڑھتا ہے۔ سیف کی چال‬
‫کہ اندر سب کچھ پا لینے کی سرشاری سی تھی۔‬
‫💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛💛‬
‫سیف کمرے میں داخل ہوتا ہے تو مایا کو اپنا‬
‫انتظار کرتا دیکھ مسکراتا ہوا مایا کی طرف بڑھتا‬
‫ہے۔ سیف بیڈ پر مایا کہ قریب بیٹھ جاتا ہے۔‬

‫سیف تھوڑی سے پکڑ کر مایا کا چہرا اوپر کرتا‬


‫ہے۔ مایا سیف کی طرف دیکھتی ہے۔ ڈول بہت‬
‫خوبصورت لگ رہی ہو بلکل کانچ کی گڑیا کی‬
‫طرح مایا سیف کی تعریف پر شرما کر اپنا چہرا‬
‫جھکا دیتی ہے۔‬
‫سیف مایا کہ کان میں سرگوشی کرتا ہے۔ میرے‬
‫ساتھ چلوں گی۔ مایا ہلکی آواز میں کہا۔ تم چلو تو‬
‫سیف مایا کو سہارا دیتا بیڈ سے اٹھاتا ہے۔‬

‫سیف مایا کا ہاتھ پکڑ کر پورچ میں التا گاڑی کا‬


‫فرنٹ ڈور کھولے مایا کو بیٹھتا خود بھی اپنی جگہ‬
‫پر آکر بیٹھتا ہے۔‬

‫سیف جیب سے الل پیٹی نکال کر مایا کہ آنکھوں‬


‫پر بندھ دیتا ہے۔ مایا یہ کیوں بندھ رہے ہے۔ ڈول‬
‫سپرائز ہے پہلے پتا لگ گیا تو سپرائز کا مزا ختم‬
‫ہوجائے گا۔‬

‫سیف کہتے ہی گاڑی آگے بڑھا لے جاتا ہے۔‬


‫💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗💗‬
‫ارش منہ کہ عجیب سٹائل بنائے اپنے روم میں آتا‬
‫ہے جہاں وردا بیڈ خواب خرگوش کہ مزے لوٹ‬
‫رہی ہوتی ہے۔‬

‫ارش کا وردا کو دیکھ کر سیف کی وجہ سے‬


‫خراب موڈ ڈھیک ہو جاتا ہے۔ ارش مسکراتا ہوا‬
‫ڈریس جینج کرنے چال جاتا ہے۔‬

‫کچھ دیر بعد کپڑے بدل کر ارش باہر نکلتا ہے بیڈ‬


‫پر لیٹ کر وردا کو مسکراتے ہوئے ہگ کر کہ‬
‫سو جاتا ہے۔‬
‫😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍😍‬
‫سیف کی گاڑی ایک خوبصورت بنگلے کہ آگے‬
‫آکر روکتی ہے۔ سیف مایا کا ہاتھ پکڑ کر نکلتا‬
‫بنگلے کہ اندر داخل ہوتا ہے۔‬
‫مایا نہ سمجھی کی کیفیت میں سیف کہ ساتھ کھنچی‬
‫چلی جاتی ہے۔ سیف بنگلے کہ اندر آکر مایا کی‬
‫آنکھوں سے پٹی اتار دیتا ہے۔‬

‫مایا آہستہ سے انکھیں کھولتی پورے بنگلے کو‬


‫دیکھتی ہے جو مایا کو سمجھ آتا اس کی مسکراتے‬
‫ہوئے سیف سے تصدیق کرنے کے لیے اس کی‬
‫طرف دیکھتی ہے۔‬

‫سیف بھی مایا کی آنکھوں کی تحریر پڑھتا ہاں میں‬


‫سر ہالتا ہے۔ مایا خوش ہوئے سیف کو گلے لگا‬
‫لیتی ہے۔ سیف بھی مایا کہ گرد حصار ڈالتے اپنے‬
‫سینے سے لگا لیتا ہے۔‬

‫ڈول میں نے تمہارا گھر جب تم دو سال پہلے‬


‫میرے گھر کو چھوڑ کر گئ۔ تب ہی دوبارہ‬
‫کنسڑرکٹ کروانا شروع کر دیا تھا۔‬
‫میں چاہتا تھا تم جب بھی واپس آئو تمہیں اس کا‬
‫سپرائز دو۔ آج سے ہم اسی گھر میں رہے گے رہی‬
‫موم اور ڈیڈ کی بات انھیں سب پتا ہے۔ انھوں نے‬
‫خود یہاں رہنے کی اجازت دیں ہے۔‬

‫سائمہ ماما کو بھی کل جا کر لیں آئے گے۔ ہم‬


‫زندگی کہ نئے سفر کا آغاز یہاں سے کرے گے۔‬
‫مایا سیف کہ سینے سے لگی رونا شروع کر دیتی‬
‫ہے۔‬

‫یار تمہیں رونے کو تو نہیں کہا تھا کہاں سے اتنے‬


‫آنسو التی ہو ان آنسوئو کا ایک ڈیم تو با آسانی بن‬
‫سکتا ہے۔ مایا سیف کہ مذاق پر مسکراتی ہوئی‬
‫سیف سے علیحدہ ہوتی ہے۔‬
‫مایا سیف کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انکھوں سے لگاتی‬
‫ہے۔ آپ کا بہت شکریہ آپ نے یہ گھر مجھے گفٹ‬
‫کر کہ مجھے زندگی کی حقیقی خوشی دیں ہے۔‬

‫سیف مایا کی ادا پر قربان ہوتا مایا کا ہاتھ پکڑتا‬


‫باری باری دونوں ہاتھوں پر بوسا دیتا ہے۔‬

‫سیف چلے مایا اب کہا جانا ہے۔ سیف مایا کہ اس‬


‫طرح پوچھنے پر قہقہ لگاتا ہے۔ ڈول ادر ہی کھڑے‬
‫رہنا ہے روم میں نہیں جانا کیا؟ سیف یہ کہتے ہی‬
‫مایا کو گود میں اٹھا کہ ماسڑ بیڈ روم میں لیں جاتا‬
‫ہے۔‬

‫مایا شرماتی ہوئ سیف کہ گلے کے گرد بازو حائل‬


‫کیے سیف کہ سینے میں اپنا چہرا چھپا لیتی ہے۔‬
‫سیف مایا کی ادا پر مسکراتا ہوا روم میں انٹر ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫سیف مایا کو روم میں پہنچ کر نیچے اتارتا ہے۔‬
‫پورے روم کو الل گالب سے سجایا گیا تھا اور بیڈ‬
‫پر پھولوں سے ایس اور ایم کہ درمیان میں دل بنا‬
‫ہوا تھا۔‬

‫سیف روم کا ڈور لوک کرتا مایا کو بیڈ پر بٹھائے‬


‫اپنی جیب سے ایک بڑی اور چھوٹی ڈبی اور‬
‫خاکی لفافہ نکلتا ہے۔‬

‫سیف خاکی لفافہ نکالے اس میں سے ٹکٹ نکالے‬


‫مایا کو دیتا ہے۔ مایا عمرے کی ٹکٹ دیکھ کر‬
‫خوش ہوتی ہے۔ شکریہ سیف یہ میرے لیے منہ‬
‫دکھائی کا انمول تحفہ ہے۔‬

‫سیف مایا کہ ماتھے پہ مسکراتے ہوئے بوسا دیتا‬


‫ہے۔ ڈول انشاءہللا ہم اگلے مہینے عمرے پر جا‬
‫رہے ہے۔ سیف مایا سے علیحدہ ہوتا چھوٹی ڈبی‬
‫کھول اس میں سے ڈائمنڈ کی رنگ نکال کر مایا‬
‫کو پہنتا ہے اور بڑی ڈبی کھول کر بریسلیٹ مایا‬
‫کی کالئ میں پہنتا ہے۔ بریسلیٹ پر ننھے ننھے‬
‫ڈائمنڈ لگے ہوتے ہے بریسلیٹ کی خوبصورتی‬
‫میں چار چاند لگا دیتے ہے۔‬

‫مایا سیف کہ گلے لگتے شکریہ ان سب کا آج میں‬


‫بہت خوش ہو۔ مجھے ایسا لگ رہا جیسے میں تپتے‬
‫ہوئے صحرا سے ڈھنڈی چھائوں میں آگئی ہو۔‬

‫سیف مایا کی بات پر مسکرا دیتا ہے اور مایا کو‬


‫خود سے علیحدہ کرتے مایا کہ گال پہ بوسا دیتا‬
‫جس پر مایا کے گال الل ٹماٹر ہو جاتے ہے۔‬

‫یوں ایک حسین رات ان کہ درمیان ٹھر جاتی ہے۔‬


‫دونوں کو صبر آزما وقت کہ بعد یہ قربت نصیب‬
‫ہوتی ہے۔ "بے شک ہللا نے محرم رشتوں میں ہی‬
‫سکون رکھا ہے"۔‬
‫💟❤💟❤💟❤💟❤💟❤💟❤💟❤‬
‫صبح کا وقت ہوتا ہے۔ سیف کی آنکھ کھول جاتی‬
‫ہے۔ سیف مسکراتے ہوئے اپنی ڈول کو دیکھتا ہے‬
‫جو سیف کہ رنگ میں رنگی سیف کہ سینے پر سر‬
‫رکھے سو رہی تھی۔‬

‫سیف مایا کہ پیشانی پر بوسا دیتا ہے۔ ڈول آٹھ‬


‫جائوں صبح ہو گئ۔ مایا کسماتے ہوئے سونے دیں‬
‫ڈول تم نے موم ڈیڈ سے نہیں ملنا اور سائمہ ماما‬
‫کو ادر نہیں النا کیا۔‬

‫وہ سب ہمارا انتظار کر رہے ہے۔ مایا سیف کی‬


‫بات سنتی فٹافٹ اٹھتی الماری سے کپڑے لیتی‬
‫واشروم میں بند ہو جاتی ہے۔‬
‫کافی لیٹ ہو چکا تھا۔ اس لیے سیف اپنے کپڑے‬
‫لیے دوسرے روم میں فریش ہونے کے لیے چال‬
‫جاتا ہے۔‬

‫مایا فریش ہوتی باتھ سے باہر نکلتی ہے۔ یلو اور‬


‫پنک کلر کہ کمبینیشن کا فراک جس پر یلو اور‬
‫پنک کلر کہ بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے‬
‫کندھے کہ ایک سائڈ پر پنک اینڈ یلو کلر کہ‬
‫کمبینیشن کا دوپٹہ ٹکائے مایا بہت خوبصورت لگ‬
‫رہی تھی۔‬

‫مایا نے فٹافٹ ہلکا سا میک کپ کیا ساتھ سوٹ کی‬


‫ساتھ میچنگ جیولری پہنے پائوں میں کھوسا پہنے‬
‫سیف کا انتظار کر رہی تھی۔‬
‫سیف نے مایا کی ضرورت کی پہلے ہی پر چیز ال‬
‫کر رکھ دی تھی۔‬
‫سیف پنک شرٹ اور وائٹ پینٹ میں خوشبوؤں میں‬
‫بسا روم میں داخل ہوتا مایا سیف کو دیکھ کر‬
‫ماشاءہللا کہتی ہے۔ سیف فٹافٹ بال جل سے سیٹ‬
‫کر کہ مایا کہ سر پر بوسا دیتا مایا کا ہاتھ پکڑ کر‬
‫باہر نکل جاتا ہے۔ مایا شرماتی ہوئ سیف کہ‬
‫پیچھے چل پڑتی ہے۔‬
‫💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝💝‬
‫شاہ ویال میں ثاقب شاہ عائشہ بیگم سائمہ مایا اور‬
‫سیف کا بے صبری سے ناشتے پر انتظار کر رہے‬
‫ہوتے ہے۔‬

‫گاڑی کا ہارن سنتے ہی تینوں باہر کی طرف‬


‫بڑھتے ہے۔ مایا اور سیف کو مسکراتے ہوئے‬
‫گاڑی سے اترتے دیکھ دونوں دل میں خدا کا شکر‬
‫ادا کرتے ان کو ہمیشہ خوش رہنے کی دعا دیتے‬
‫ہے۔‬

‫عائشہ بیگم آگے بڑھتی مایا اور سیف کہ ماتھے پر‬


‫بوسا دیتی ہے ثاقب شاہ سیف کہ گلے ملتے ہے۔ م‬
‫سائمہ مایا کہ گلے لگاتی مایا کی پیشانی پر بوسا‬
‫دیتی ہے۔‬

‫سب اندر کی طرف بڑھتے ہے اور خوشگوار‬


‫ماحول میں ناشتہ کیا جاتا ہے۔ سیف اور مایا عائشہ‬
‫بیگم اور ثاقب شاہ سے ملتے سائمہ بیگم کو ساتھ‬
‫لیتے اپنے بنگلے کی طرف نکل جاتے ہے جو‬
‫مایا اور سیف کی جنت ہوتی ہے۔‬
‫❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤‬
‫سیف اور مایا کی شادی کو دو ہفتے گزر چکے ان‬
‫کا ارش اور وردا کہ ساتھ دھوم دھام سے ولیمہ‬
‫بھی ہو چکا تھا۔ معمول کی طرح مایا کچن میں‬
‫سیف کی من پسند بریانی بنا رہی ہوتی اور سائمہ‬
‫مایا کہ ساتھ ہلپ کروا رہی ہوتی ہے۔‬

‫تب سیف گھر میں پریشان سا داخل ہوتا ہے۔ مایا‬


‫سیف مایا کو اوازیں دیتے پریشان سا کچن میں‬
‫داخل ہوتا ہے۔ مایا سیف کی آواز سن کر بریانی کو‬
‫دم پر رکھتے سیف کی طرف موڑتی ہے۔‬

‫جی سیف کیا ہوا آپ کافی پریشان لگ رہے ہے۔‬


‫مایا سیف کی پریشانی اس کا چہرا دیکھ کر ہی‬
‫بھانپ لیتی ہے۔ تم چلوں میرے ساتھ سیف مایا کو‬
‫لیں کر کچن سے باہر نکلتا ہے۔‬

‫سائمہ ماما ہم تھوڑی دیر میں آتے ہے۔ سیف یہ‬


‫کہتے ہی مایا کو لیں کر گاڑی میں نکل جاتا ہے۔‬
‫سیف کی گاڑی جیل کہ سامنے آکر روکتی ہے۔‬
‫جس پر مایا پریشان ہو کر سیف کی طرف دیکھتی‬
‫ہے۔ سیف مایا کو پریشان دیکھ کر مایا کہ ہاتھ پر‬
‫اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دیتا ہے۔‬
‫سیف مایا کا ہاتھ پکڑتے تھانے میں داخل ہوتا ہے۔‬
‫دونوں لوک کپ کی طرف بڑھتے ہے۔ جہاں ایک‬
‫آدمی بوری حالت میں بیٹھا ہوتا ہے۔‬

‫مایا یہی مجرم ہے تمہارے ماں اور باپ کی موت‬


‫کا مایا حیران ہوتی آگے بڑھتی ہے۔ مایا کی نظر‬
‫اس آدمی کی کالئ پر بنے ٹیٹو پر پڑھتی ہے۔‬

‫مایا اپنے مجرم کو پہچان جاتی ہے اور روتے‬


‫ہوئے سالخوں کو پکڑتی ہے کیا مال تمہیں ذلیل‬
‫انسان مجھ سے میرے ماں باپ چھین کر جہانگیر‬
‫مایا کی آواز سنتا مایا کی طرف دیکھتا ہے اس میں‬
‫اسے مریم کا عکس نظر آتا ہے۔‬
‫تم مریم کی بیٹی ہو۔ مایا ہاں میں اس کی بیٹی جس‬
‫کہ شوہر کو تم نے خنجر کہ ساتھ بے دردی سے‬
‫مار دیا اور پورے گھر میں آگ لگا دیں تھی۔‬
‫سیف مایا کو کندھے سے پکڑتا دالسا دیتا ہے۔‬
‫جہانگیر ہنستے ہوئے ہاہاہاہاہاہاہا تجھے بھی تیرے‬
‫ماں باپ کہ ساتھ مار دینا چاہیے تھا پر افسوس‬
‫مجھے نہیں پتا تھا کہ بہروز کی بیٹی بھی ہے۔‬

‫سیف جہانگیر کی اس بات پر تیش میں آتا جہانگیر‬


‫کو گریبان سے پکڑ کمینے انسان تیری ہمت کیسے‬
‫ہوئ مایا کہ بارے اس طرح کہنے کی مایا سیف کو‬
‫کندھوں سے پکڑتی ہے۔‬

‫سیف چھوڑ دیں اس کو ہللا سزا دیں گا۔ سیف مایا‬


‫کی بات مان کر چھوڑ دیتا ہے اور مایا کا ہاتھ‬
‫پکڑتے تھانے سے نکل جاتا ہے۔‬
‫جہانگیر پیچھے چیختے ہوئے نکالو مجھے یہاں‬
‫سے اچانک کانسٹیبل زور سے بولتا ہوا جہانگیر‬
‫کو چپ رہنے کو کہتا ہے۔ جس پر جہانگیر چپ کر‬
‫کہ بیٹھ جاتا ہے۔ سیف ایک سال سے مایا کہ ماں‬
‫باپ کہ قاتلوں کو اپنے ایک دوست پولیس آفیسر کہ‬
‫ساتھ ڈوھنڈ رہا تھا۔‬

‫جس پر مایا کی تصدیق کہ لیے کہ یہی قاتل ہے‬


‫اس کہ ماں باپ کا تھانے الیا تھا ورنہ سیف ایسی‬
‫جگہ پر مایا کو کبھی نہ التا ۔‬

‫سیف کے دوست نے جہانگیر کہ ہر اڈھے پر چھاپا‬


‫مار کر جہانگیر کہ سب آدمیوں کر ہراست میں‬
‫لیتے اس کہ آدمیوں سے جہانگیر کہ بارے میں‬
‫پوچھ کرجہانگیر کو بھی اس کہ فارم ہاؤس سے‬
‫پکڑ لیا تھا۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫سیف اور مایا ایک مہینے بعد عمرہ کرنے چلے‬
‫جاتے ہیں۔ سائمہ تب تک شاہ ویال چلی جاتی ہے۔‬
‫ارش اور وردا ممی پاپا بننے والے ہوتے ہیں۔ جس‬
‫پر ارش نے وردا کو اپنے ہاتھ کا چھال بنا کر رکھا‬
‫ہوا تھا۔ ارش کی بہت خواہش تھی اس کہ گھر بیٹی‬
‫ہو۔‬

‫جہانگیر کو بہروز اور مریم کہ قتل اور سنگین‬


‫جرم کی پاداش میں عدالت جہانگیر کو تین دفعہ‬
‫پھانسی دینے کا آڈر جاری کرتی ہے۔‬

‫مریم کی دیں گئ آہ جہانگیر کو لگ جاتی ہے۔ بے‬


‫شک انسان جیسا کرتا ہے ویسا بھرتا ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫پانچ سال بعد‪:‬‬
‫شہریار بیٹا کہا پر ہو۔ مایا پریشان سی ہوتی اپنے‬
‫نمونے بیٹے کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔ چار سالہ‬
‫شہریار شاہ ڈیبل کہ نیچے چھپا دانت نکال رہا ہوتا‬
‫ہے۔ شہریار کو دودھ سخت نہ پسند تھا اور اس کی‬
‫ممی اسے روز جیسے تیسے کر کہ پالتی تھی۔‬

‫مایا پریشان ہوتی شہریار کو آواز دیتی ہے۔ سیف‬


‫گھر داخل ہوتا مایا کو یوں پریشان دیکھ کر سمجھ‬
‫جاتا آج پھر اس کہ صاحبزادے نے اس کی بیوی‬
‫کو تگنی کا ناچ نچایا ہے۔‬

‫سیف مایا کو خاموش رہنے کا کہہ کر آہستہ سے‬


‫ڈائنگ ڈیبل کی طرف بڑھتا ہے اور نیچے جھک‬
‫کر شہریار کو کان پکڑ کر باہر نکلتا ہے۔‬
‫آ پاپا چھوڑ دو۔ شہریار اپنا ننھا سا کان سیف سے‬
‫چھڑوانے کی کوشش کرتا ہے۔ چھوٹے پیکٹ کیوں‬
‫اپنی ممی کو تنگ کرتے ہو۔‬

‫سوری پاپا اب نہیں کرتا سیف شہریار کا سوری‬


‫سن کر اس کا کان چھوڑ دیتا ہے۔‬

‫مایا بھی جلدی سے شہریار کی طرف بڑھتی سیف‬


‫کو گھود میں اٹھا کر پیار کرتی ہے۔ سیف ماں‬
‫بیٹے کا پیار دیکھتے ہوئے۔‬

‫آج ارش نے اپنے گھر دعوت رکھی ہے۔ توماں‬


‫بیٹے کا پیار ختم ہو جائے تو تیار ہوجانا سیف‬
‫جلتے کڑتے کہتا ہے۔ شہریار ممی پاپا ہم دونوں‬
‫سے جیلس ہو رہے ہے آپ پاپا کو بھی گال پر کس‬
‫کر دوں۔‬
‫مایا فٹافٹ سیف کی گال پر کس کرتی ہوئی الگ‬
‫ہوجاتی سیف مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے کو گھود‬
‫میں لیں کر مایا کو اپنے سینے سے لگا لیتا ہے۔‬
‫💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞💞‬
‫وردا عائزہ بیگم کہ ساتھ کچن میں موجود رات کی‬
‫دعوت کی تیاریاں کر رہی تھی۔ ماما آپ یہ ذرا‬
‫بریانی دیکھے میں آپ کی الڈلی کو دیکھ کر آئی‬
‫پھر کہی باہر مٹی نہ کھا رہی ہو۔‬

‫وردا ہر جگہ چیک کرتی ہے پر نور کہی نہیں‬


‫ہوتی وردا باہر جاتی تو چار سالہ نور دونوں‬
‫ہاتھوں میں مٹی بھرے کھا رہی ہوتی ہے۔ ہللا میں‬
‫اس لڑکی کیا کروں یہ تو مجھ سے بھی سو ہاتھ‬
‫آگے ہے۔ آمنہ تیری بچوں والی بدعا لگ گئ۔‬
‫وردا یہ کہتی نور کو گھود میں اٹھاتی نور کہ‬
‫ہاتھوں سے مٹی نیچے گراتی ہے۔ نور بیٹا آپ کو‬
‫مانا کیا تھا نہ مٹی گندی ہوتی ہے نہیں کھاتے نور‬
‫چھوٹے سے وائٹ فراک میں کیوٹ سی لگ رہی‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫ماما میں نے جان پوچھ کہ نہیں کھائی میں یہاں‬


‫ڈول سے کھیلنے آئ تھی مٹی دیکھ کر کنٹرول‬
‫نہیں ہوا۔ وردا نور کی چالکی اچھی طرح سمجھ‬
‫رہی ہوتی ہے۔‬

‫وردا چلوں تمہیں تیار کروں تم باپ بیٹی نے فرض‬


‫سمجھا ہوا ہے مجھے تنگ کرنے کا وردا یہ کہتی‬
‫نور کو لیں کر اندر کی طرف بڑھ جاتی ہے۔‬
‫💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢💢‬
‫ارش کہ گھر دعوت پر وردا اور ان کی فیملی کو‬
‫بھی بالیا ہوتا ہے۔ آمنہ کی شادی اس کی پسند سے‬
‫اس کہ یونی فیلو اذان سے کر دیں جاتی ہے۔ آمنہ‬
‫کی بھی ایک بیٹی آمنہ تھی۔‬

‫سیف اور مایا بھی اپنی تمام فیملی کی ساتھ ارش‬


‫کی گھر آگئے تھے۔ یوں خوشگوار ماحول میں‬
‫کھانا کھایا جاتا ہے۔‬
‫کھانا کھا کر بچے باہر الن میں کھیلنے چلے جاتے‬
‫ہے۔ سیف مایا اور ارش وردا الئونج کی بڑھی سی‬
‫ونڈو سے اپنے بچوں کو مسکراتے ہوئے دیکھتے‬
‫ہے۔ دونوں بیویوں کہ کان میں سرگوشی میں کہتے‬
‫ہے۔‬

‫روح کہ ہمراہی‬
‫اے ساتھی میرے‬
‫چاہیں گے تجھے‬
‫جب تک ہے دم‬
‫ختم شد‬

‫اسالم علیکم!‬
‫یہ میری پہلی کوشش ہے ہوپ فولی آپ کو پسند‬
‫آئے گی۔ اگر ناول میں کہی بھی کوئی غلطی ہو تو‬
‫انسان سمجھ کر معاف کر دیجئے گا۔ دعائوں میں‬
‫یاد رکھے پھر ملے گے انشاءہللا ایک نئی کہانی‬
‫اور نئے کرداروں کہ ساتھ تب تک کہ لیے اجازت‬
‫دیں۔ آپ کی رائٹر‪:‬‬
‫سعدیہ شاہ۔‬

You might also like