Professional Documents
Culture Documents
Rooh Ka Humrahi Written by Sadia Shah
Rooh Ka Humrahi Written by Sadia Shah
گھر کیا تھا۔ پورا محل تھا۔ گاڑی پورچ میں کھڑی
کی جہاں پہلے ہی تین گاڑیاں کھڑی ہوئی تھی۔
راہداری پر مضبوط قدم اٹھاتا اندر قدم رکھا جہاں
بڑے سے ہال نما ڈرائینگ روم میں بیش قیمتی
مختلف قسم کے صوفے پڑے ھوئے تھے۔
میں گھر چال جائو تاکہ پھر کوئ تمہیں تنگ کرے
چپ چاپ آکر گاڑی میں بیٹھو آکر میں انتظار کر
رہا ہو۔
ارش آمنہ کو مخاطب کرتا ہے گڑیا آپ بھی
آجائے ارش دونوں کو کہتا گاڑی کی طرف بڑھتا
ہے۔
جو پہلی دفعہ کسی لڑکی فکر میں ہلکان ہو رہا ہوتا
ہے۔ بیٹا جی یہ بتائو یہ تم جذبہ ہمدردی کہ طور پر
ایسا کرنا چاہتے ہو یا کوئ اور جذبہ بھی شامل
ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے۔ تم اپنی 27سالہ
زندگی میں یوں ایک لڑکی کہ لیے پریشان اور
اداس ہوتے نہیں دیکھا عائشہ بیگم اپنے بیٹے کہ
جذبات سمجھ رہی تھی۔
موم میں بہت اسے چاہتا ہو۔ مجھے نہیں پتا یہ
جزبہ کب پروان چڑھا شاید تب جب میں نے اس
کی سنہری آنکھوں میں دیکھا یا تب جب اسے خود
کشی کرتے ہوئے دیکھا مجھے یوں محسوس ہوا
خود کشی وہ کر رہی ہے سانس میری رک رہی
ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ محبت نہیں شاید
اس سے بھی اوپر کوئ جذبہ اور جب اسے
تکلیف سے تڑپتا دیکھا تو مجھے یوں لگا جیسے
میری روح تک تڑپ رہی ہو۔ اس کو درد اور
تکلیف میں دیکھ کر مجھ پر انکشاف ہوا کہ میں
مایا سے محبت نہیں عشق کرتا ہو۔
مایا ذہن میں سوچتی ہے۔ کہہ تو ڈھیک رہا میں کہا
سے اتنا پیسہ دو گی۔ اس کا احسان اتار دوں پھر
ہاسٹل میں اپنا بندوبست کر لوں گی۔
مایا کو سوچوں میں گم دیکھ کر سیف کہتا ہے۔
سوچ لیا ہو تو چلے مایا عجیب و غریب منہ بنا کہ
میں جب ڈھیک ہو جائوں گی مکمل تو وہاں سے
کہی اور شفٹ ہو جائو گی اور تم مجھے روک
نہیں سکوں گے۔
مایا خبر دار ہاتھ لگایا مجھے تو اور کیا اوڑ کر
بیھٹو گی۔ تم ایسا کروں میری ویل چیئر گاڑی کا
دروازہ کھول کر سیٹ کہ قریب کر دوں میں خود
کوشش کر کہ بیٹھتی ہوں۔
بیٹا اندر چلوں تمہارا کافی خون بہہ چکا ہے۔ عائشہ
بیگم یہ کہتے ہی مایا کی ویل چیئر پکڑ کر اندر
لیں جاتی ہے۔
بیٹا میں اور تمہاری ماما تمہاری نییا پار لگانے کا
سوچ رہے ہیں۔ ارش نہ سمجھی سے دونوں کی
طرف دیکھتا ہے۔ مطلب موم ڈیڈ میں سمجھا نہیں
عائزہ بیگم بیٹا وہی جس لڑکی کا تم نے بتایا تھا۔
اس کی تمہارے ڈیڈ سے بات کر رہی تھی۔ تمہارے
ڈیڈ کا بس نہیں چل رہا کل ہی بہو لے آئے۔
میں اسے کسی بھی حالت میں کھونا نہیں چاہتا باقی
کی پڑھائ وہ شادی کہ بعد کر لے گی پر میں اب
اس کہ بغیر اور نہیں رہ سکتا۔
شہیر صاحب اور عائزہ بیگم اپنے بیٹے کی
دیوانگی اور سنجیدہ چہرا دیکھ کر سمجھ جاتے
ہے کہ ان کا بیٹا وردا سے کتنی محبت کرتا ہے۔
اس طرح سیف لیذیز کھانا بنا لیتا تھا۔ مایا خوب
چھٹخارے بھر کر کھاتی اور عائشہ بیگم کی
تعریف کرتی تھی۔
❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤❤
وردا اور آمنہ کہ پیپر بھی ہوں چکے تھے۔ ہماری
وردا میڈم نے پورے گھر کو سر پر اٹھایا ہوا تھا۔
روز گلی میں کھیلتے چھوٹے بچوں کو اٹھا کر لیں
آتی تھی اور پورے گھر میں تھرتھلی مچھا دیتی
😆😂 تھی۔
موم آپ رہنے دیں میں اٹھا دیتی ہو۔ اوکے بیٹا جائو
دھیان سے جانا جی موم مایا کہتی ساتھ سیڑھیاں
چڑھتی اوپر کی جانب بڑھ جاتی ہے۔
مایا آپ کا نام کیا ہے۔ میرا نام سائمہ ہے۔ بیٹا پھر
تم اپنے آپ کو میری بیٹی کہتی ہو تو آج سے ادر
ہی میرے پاس رہوں گی پر مایا کچھ کہنے لگتی
ہے پر سائمہ اسے بیچ میں ہی ٹوک دیتی ہے۔
ابھی کچھ دیر پہلے ہی مایا اور ماما پاپا کتنا خوش
تھے اور اب پورا گھر ویران ہو چکا تھا۔ مایا اپنے
ماں باپ کو بے حس و حرکت پڑے دیکھ سکتے
کی حالت میں دیکھی جاتی ہے۔
ارش واہ پھر تو الزم کھانا پڑے گا۔ ہماری جان نے
اپنے نازک ہاتھوں سے جو ہمارے لیے بنایا ہے۔
ارش کینڈل بجھاتا ہے۔ وردا کمرے کی الئٹ اون
کرتی ہے ارش کیک کاٹ کر وردا کو کھالتا ہے۔
پھر وردا ارش کو کھالتی ہے۔ کیسا ہے کیک بہت
مزے کا ارش یہ کہتے ہی وردا کو گلے لگا لیتا
ہے ۔ جس پر وردا کی ایک بیٹ مس ہوتی ہے۔
روح کہ ہمراہی
اے ساتھی میرے
چاہیں گے تجھے
جب تک ہے دم
ختم شد
اسالم علیکم!
یہ میری پہلی کوشش ہے ہوپ فولی آپ کو پسند
آئے گی۔ اگر ناول میں کہی بھی کوئی غلطی ہو تو
انسان سمجھ کر معاف کر دیجئے گا۔ دعائوں میں
یاد رکھے پھر ملے گے انشاءہللا ایک نئی کہانی
اور نئے کرداروں کہ ساتھ تب تک کہ لیے اجازت
دیں۔ آپ کی رائٹر:
سعدیہ شاہ۔