You are on page 1of 8

‫درزی کی بیوی‬

‫تحریر‪ :‬خطیب احمد‬

‫کر رہی تھی ہماری دوستی سماجی رابطے کی معروف ویب سائٹ فیس بک پر سنہ ‪ MBA‬کالج پنجاب یونیورسٹی الہور سے ‪ IBA‬وہ‬
‫ہاسٹل الئف فیس بک گروپ میں اپنی ٹوٹی پھوٹی تحریریں شئیر کیا کرتا تھا۔ جن پر دو چار ‪ 2015 PU‬میں ہوئی تھی۔ میں ان دنوں‬
‫کمنٹس آیا کرتے تھے۔ اسے میری کوئی تحریر اچھی لگی تھی۔ تو فرینڈ ریکوئسٹ بھیجی میں نے قبول کر لی۔‬

‫)پہلی بار یہ کہانی ‪ 2018‬میں فیس بک پر شئیر کی گئی تھی۔ چند ہی دنوں میں وائرل ہوگئی تھی(‬

‫ہماری کبھی بھی بات نہیں ہوئی تھی بس وہ میری فرینڈ لسٹ میں تھی۔ ہمارا پہلی بار فیس بک انباکس میں ہی رابطہ دسمبر ‪2018‬‬
‫میں ایک کلیدی عہدے پر سلیکٹ ہو چکی تھی۔ شادی بھی ہو چکی ہے۔ میں نے کہا کیا ‪ NAB‬میں ہوا۔ اسنے بتایا کہ وہ ‪ 2017‬میں‬
‫کرتے ہیں دولہے میاں تو پتا چال وہ درزی کا کام کرتے ہیں۔ اور بس میٹرک پاس ہیں۔‬

‫کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا کہ شادی کے معیارات پر میں کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔ اس سے ‪ mis match‬اب مجھے; اس بظاہر‬
‫کہا کہ میں تمہیں ملنا چاہوں گا۔ کہتی موسٹ ویلکم کبھی بھی گھر آجاو یا آفس آجاو۔ گذشتہ ہفتے میرا کسی کام سے الہور چکر لگنا‬
‫تھا تو میں اسے بھی ملنے کا پالن کیا اور طے شدہ وقت پر ٹھوکر نیاز بیگ پر واقع نیب کے دفتر پہنچ گیا۔‬

‫گیٹ پر میرا موبائل جمع کر لیا گیا اور اسکے آفس کا راستہ سمجھا; دیا گیا۔ کوئی ‪ 1‬بجے میں متعلقہ آفس کے باہر تھا۔ خیر میں‬
‫دستک دے کر دفتر میں داخل ہوا۔ ایک لڑکی دفتر میں ایک سائیڈ پر نماز پڑھ رہی تھی ایک عبایا ایک کرسی پر پڑا تھا۔ میری‬
‫طرف اسکی کمر تھی تو چپکے سے ایک طرف بیٹھ گیا۔‬

‫خیر اسنے نماز پڑھی میری طرف مڑی تو میں نے دیکھا وہ ایک شدید ترین خوبصورت لڑکی تھی بنا کسی بھی میک اپ کے ایک‬
‫پرنور چہرہ تھا جیسے رحمت برس رہی ہو اور اسکی ذات میں ایک عجیب سی روشنی و رعب تھا۔ سالم دعا کے بعد کہتی خطیب‬
‫صاحب آپکو کسی نے باہر روکا نہیں؟ میں نے کہا کوئی باہر تھا ہی نہیں۔ اتنے میں اسنے واش روم جا کر عبایا پہنا اور نقاب کر‬
‫دی تو ایک بھائی اندر آئے اور مجھے; یوں دیکھا جیسے میں کوئی خالئی ‪ Bell‬کے واپس آفس میں آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اور‬
‫مخلوق ہوں۔ میڈم نے اسے کچھ کہنے سے پہلے ہی اشارہ کر دیا کہ خاموش رہو اور چائے کے ساتھ پیزا منگواو۔‬

‫وہ باہر گیا تو پتا چال کہ میڈم مکمل پردہ کرتی ہیں۔ آج تک آفس میں کسی نے چہرہ نہیں دیکھا بلکہ ہر نامحرم سے پردہ ہے۔ وہ شاید‬
‫واش روم گیا ہوا تھا تو میں اسی لمحے اندر آگیا ورنہ نماز کے وقت تو کسی کو بھی اندر آنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں نے کہا‬
‫معذرت قبول کریں میں باہر رک جاتا یہ صاحب دروازے پر ہوتے تو۔ کہتی اٹس اوکے ایزی رہیں۔ معذرت کی ضرورت نہیں ہے۔‬

‫میں نے بال تاخیر سوال کیا کہ میڈم آپکی شادی پر حیران ہوں۔ کہتی پوچھیں کیا حیرانی ہے؟ میں نے کہا جاب میں آنے کے بعد‬
‫شادی ہوئی یا پہلے؟ کہتی جاب کے ایک سال بعد۔ میں نے کہا بچپن کا رشتہ طے تھا تو کہتی سر جس سے طے تھا اسنے ایک‬
‫کر رہی تھی۔ میں نے کہا یہ بھائی آپکے کزن ہیں؟ کہتی جی نہیں میں ‪ BBA‬وفاقی منسٹر کی بیٹی سے شادی کر لی جب میں‬
‫‪ SP‬یونیورسٹی الئف سے ان سے کپڑے سالئی کرا رہی تھی۔ میں نے کہا آپکے ابو کیا کرتے ہیں تو کہتی وہ پولیس سے ریٹارڈ‬
‫تھے اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔‬

‫میں نے پوچھا اچھا یہ شادی کیسے ہوئی؟ کہتیں یار میں ‪ 2013‬سے اسی دکان سے کپڑے سالئی کرا رہی تھی۔ یہ ان دنوں کی بات‬
‫ہے جب میرے گلے میں برائے نام بھی دوپٹہ نہیں ہوتا تھا۔ میں تقریبا ہر دوسرے دن اپنے منگیتر سے ملتی تھی ہم سینما بھی جایا‬
‫کرتے تھے۔ نہ کبھی بالوں میں کوئی پراندہ یا کیچر نہ لگایا تھا۔ بال کھلے ہی رکھتی تھی ہر ماہ کٹنگ کراتی تھی۔ ابو جی پولیس‬
‫آفیسر تھے سرکاری گھر تھا میں والدین کی اکلوتی اوالد ہونے کی بنا پر الڈلی بہت تھی خاص طور پر ابو جی مجھے شمو کہتے‬
‫تھے۔ پہلے ساتھ امی جاتی تھیں پھر میں کبھی اکیلی ہی جانے لگی۔ اندرون انار کلی بانو ساڑھی ہاوس کے پاس ہی دکان ہے۔ پھر‬
‫سلے سالئے کپڑے لینے لگی۔‬

‫میں میرے جس کزن سے شادی ہونی تھی اسنے ایک امیر کبیر گھرانے میں شادی کر لی اسکے مطابق اسکی اماں نے وہ ‪2014‬‬
‫‪ GPA‬کے چوتھے سمسٹر میں تھی۔ میں نے بات دل پر لے لی پانچویں اور چھٹے سمسٹر میں میرا ‪ BBA‬رشتہ پوچھے بنا کیا۔ میں‬
‫بہت نیچے آگیا۔ کھانا اور سونا چھ ماہ ڈسٹرب رہا۔‬
‫ابو جی ہرٹ اٹیک کی وجہ سے اچانک ہمارا ساتھ چھوڑ کر جنت میں چلے گئے۔‬

‫یہ دو حادثے مجھے; اندر سے توڑ گئے۔ میری اس دنیا میں دو ہی خوشیاں تھیں ابو اور منگیتر اب دونوں ہی نہیں تھے۔ میں نے‬
‫میں ایڈمشن لے لیا۔ اب میرے کپڑوں میں ‪ 2‬بدالو آئے۔ ‪ MBA‬کے بعد ‪BBA‬‬

‫۔ میری شرٹ تھوڑی لمبی ہوگئی۔‪1‬‬

‫۔ دوپٹہ بھی سر پر آگیا کبھی گلے میں بھی رہتا۔ میں نے جاب کے حصول کو بھی فالو کرنا شروع کیا۔ یونیورسٹی پیریڈ میں دو ‪2‬‬
‫ٹیچرز کو مال کر تقریبا ‪ 47‬لڑکوں نے مجھے بالواسطہ یا بال واسطہ یا فیس بک سے رابطہ کر کے پرپوز کیا۔ میں فیس بک پر اپنی‬
‫پر وڈیوز بھی بناتی تھی۔ مگر میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سب سے معذرت کرتی رہی ‪ musically‬ہی تصویر لگاتی تھی۔‬
‫کسی کو پیچھے نہیں لگایا۔ کچھ کو بالک کرنا پڑا۔‬

‫میری جاب ہوگئی میں اپریل ‪ 2018‬میں ایک سال بعد درزی کی دکان پر کچھ کپڑے دینے گئی درمیان میں اکثر برانڈز سے ہی لیتی‬
‫رہی۔ دکان بند تھی۔ ساتھ والے درزی سے معلوم ہوا کہ بھائی عمرے پر گئے ہوئے ہیں ‪ 10‬دن بعد آئیں گے۔ میں اسے اپنا نمبر دے‬
‫صاحب کی بیٹی آئی تھی۔ انہیں کال کر لیں۔ مجھے; کوئی ‪ 15‬دن بعد کال آئی کہ میڈم میں ‪ SP‬آئی کہ جب آجائیں تو انہیں کہنا فالں‬
‫آگیا ہوں آپ آجائیں۔‬

‫میں ایک ہفتے بعد دو سوٹ بھجوا دیے ناپ پہلے واال ہے ٹھیک ہے یہ کال پر کہہ دیا۔ جب کپڑے بن گئے تو میں لینے خود گئی۔‬
‫کپڑوں کے ساتھ مجھے ایک عدد عبایا اور ایک بڑا سا رومال دیا گیا جو عربی خواتین نماز کے وقت پہن لیتی ہیں بس چہرے کا‬
‫حصہ کھال ہوتا ہے۔ یہ وہ سپیشل میرے لیے مکہ سے الئے تھے۔ رومال دیتے ہوئے کہا گیا کہ نماز پڑھتے ہوئے یہ پہن لیا کروں‬
‫(وہ کہاں جانتے تھے میں نماز پڑھتی ہی نہیں)۔ میں زندگی میں کبھی عبایا نہیں پہنا تھا۔ نہ نماز پڑھی تھی نہ کوئی گھر نماز پڑھتا‬
‫تھا بس کبھی جمعہ کی نماز یا عید پر ابو جاتے تھے عیدگاہ۔ میں چاہ کر بھی انکار نہ کر سکی اور دونوں چیزیں ساتھ لے آئی۔‬
‫انکے مطابق وہ میرے لیے یہ دو چیزیں اور اپنے شاگرد کے لیے کچھ تحفے لے کر آئے تھے عمرہ کا ٹکٹ مارکیٹ میں میالد کے‬
‫ساالنہ جلسے سے نکال تھا۔‬
‫کہتی میں ناجانے کیوں اسی شام اپنی زندگی کی کوئی دوسری یا تیسری نماز پڑھی وہ رومال بھی لیا مجھے نماز کا کچھ حصہ‬
‫بھول رہا تھا جو نیٹ سے سرچ کیا۔ پھر عشا بھی پڑھی۔ رات کو عبایا بھی پہن کر دیکھا مجھے; بلکل پورا تھا۔‬

‫شاید میرے ناپ کے مطابق آلٹریشن کی گئی تھی۔ خیر میں نے غیر ارادی طور پر اگلے دن آفس جانے سے پہلے عبایا بھی پہن لیا۔‬
‫نہیں کیا۔ میں نے آفس میں ظہر کی نماز بھی پڑھی آفس میں بیٹھے کلرک و نائب قاصد کو ‪ Cover‬ایک دوپٹے کا حجاب بنا لیا چہرہ‬
‫کہا کہ آپ لوگ بھی نماز پڑھا کریں۔ وہ بھی آرڈر سمجھ; کر چلے گئے۔ اور خوش بھی تھے کہ میڈم کو پتا نہیں کیا ہوا تھا۔ عصر‬
‫کے وقت خود ہی چلے گئے کہ میڈم مسجد جا رہے ہیں۔‬

‫میں نے درزی کو کال کی اور دونوں چیزوں کے لیے دوبارہ بہت شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ عبایا پہن لیا ہے۔ اب ہر وقت میرے ذہن‬
‫میں وہی بندہ گردش کرنے لگا ناجانے کیوں میں اسکے بارے میں کچھ جاننا چاہتی تھی۔ میں دو ہفتوں بعد اسے کال کی اور کہا آپ‬
‫کسی دن میرے دفتر آسکتے ہیں؟ وہ کہتا جی آجاوں گا۔‬

‫تھی۔ ‪ look‬ایک جمعہ والے دن وہ میرے آفس میں آگیا۔ اسنے عمرے سے آکر داڑھی رکھ لی تھی اور سر پر ٹوپی تھی مولوی والی‬
‫عمر کوئی ‪ 33‬سے ‪ 35‬کے قریب ہوگی۔ مگر سمارٹ; آپکی طرح تھا اور ابھی بھی ہے۔ میں نے پوچھا آپکے ابو کیا کرتے ہیں؟ کہتا‬
‫وہ امام مسجد ہیں مگر نماز پڑھانے کی تنخواہ نہیں لیتے۔ ہم وادی سون سے ہیں یہاں کرائے پر رہتے ہیں۔ میرا کام اچھا ہے‬
‫الحمدہللا اچھا گزارہ ہو رہا ہے۔‬

‫میں نے ناچاہتے ہوئے پوچھ لیا آپ شادی شدہ ہیں؟ کہتا جی نہیں؟ میں نے پوچھا کوئی منگنی وغیرہ ہوئی؟ کہتا وہ بھی نہیں ہوئی۔‬
‫میں نے پوچھا اچھا کیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟ کہتا کعبہ پر پہلی نظر پڑھی تھی تو کچھ دیگر دعاوں کے ساتھ کہا تھا‬
‫آپ جیسی کسی لڑکی سے شادی کرا دینا میرے ہللا۔ آپکا نام بھی لیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ وہ لڑکی بس نمازی ہو اتنی پڑھی نہ‬
‫بھی ہو خیر ہے۔‬

‫اس ساری گفتگو میں اسنے ایک بار بھی میری طرف نہیں دیکھا۔ نظریں جھکا کر بیٹھا رہا۔ میں نے پوچھا اچھا میرے جیسی ہو؟‬
‫کہتا آپ سے تھوڑی کم بھی ہو جائے۔ میں نے بنا سوچے سمجھے; کہہ دیا اگر میں ہی ہوجاوں تو؟ کہتا مذاق نہ کریں میڈم۔ آپ میرے‬
‫لیے بہت محترم ہیں۔ میں نے کہا اچھا میں کوئی دیکھوں لڑکی؟ کہتا جی ابا کی مشکل آسان ہو جائے گی ہم دونوں ہی یہاں رہتے‬
‫ہیں۔ کئی رشتے آئے ہمیں سب پسند تھا وہ کرایہ کے گھر کا اعتراض کرتے ہیں۔۔ یہ پہلے بتا دیجئے گا۔‬

‫کہتی ادھر وہ گیا ادھر میں بھی گھر آگئی۔ امی سے بات کی کہ ایک لڑکا ہے میں شادی کرنا چاہتی ہوں۔ جب امی کو پتا چال انارکلی‬
‫واال درزی ہے تو غصہ ہوئی کہ تم پاگل ہو۔ ایک درزی سے تمہیں بیاہیں گے اب ہم؟ کیوں عزت کا جنازہ نکالنا ہے سارے خاندان‬
‫میں۔ عقل کے ناخن لو۔ میں نے کہا کونسا خاندان جس خاندان کے لڑکے نے مجھے; چھوڑ کر ایک امیر ذادی سے شادی کر لی؟‬
‫مجھے; اس خاندان میں بڑی گاڑی دے کر بیاہنے سے بہتر ہے مجھے; زہر ال دیں۔ میں نے کہا امی آپ ایک بار اس سے مل لیں‬
‫مجھے; وہ پسند ہے مجھے; اللچی لوگوں میں نہیں جانا۔ امی کہتی میں سو بار ملی ہوئی ہوں۔ چپ کر۔‬

‫میں نے اپنے ایک ماموں سے بات کی وہ میرے اچھے دوست ہیں آرمی سے ریٹارڈ ہیں۔ انہوں نے استخارہ کیا اور مجھے; کہا کہ‬
‫استخارہ اچھا ہے میں باجی سے بات کرتا ہوں۔ میں نے بھی امی پر کافی پریشر ڈاال کہ آج تک سب کچھ دیا یہ آخری خواہش بھی‬
‫پوری کر دیں۔‬
‫خیر دونوں خاندان ملے امی نے اسے گھر داماد بننے کا کہا اسنے انکار کر دیا اور میں بھی یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی مجھے اپنے‬
‫سسرال جانا تھا ‪ 3‬مرلے کے مکان میں وہ باپ بیٹا رہتے تھے۔ میں نے امی کو منا ہی لیا۔ ایک ماہ میں سادگی سے ہمارا نکاح ہوگیا۔‬
‫اسکے ابا ہماری شادی والے دن ہی مسجد میں امام والے کمرے میں شفٹ ہوگئے کہ ایک ہی تو کمرہ اور ایک واش روم تھا۔ خطیب‬
‫شادی کی پہلی رات گھر میں بس ہم دونوں ہی تھے۔ اسکے شاگرد نے موتیے اور گالب سے مسہری لگائی ہوئی تھی۔ اسکے گھر‬
‫والے اور رشتہ دار کسی عزیز کے ہاں چلے گئے تھے۔ اسکے ابا کا ماننا ہے کہ جوائنٹ فیملی سسٹم اسالم میں نہیں ہے پہلے دن‬
‫سے ہی بیٹا عالحدہ گھر میں رہے۔‬

‫پاس ‪ MBA‬میں نے کہا آپ کی شادی کو ایک سال ہوگیا ہے آپ خوش ہیں؟ یہ ایک ناقابل یقین شادی ہے میں ایسا کبھی نہیں سنا۔‬
‫لڑکی ‪ 17‬سکیل کی مالزمت اور ایک میٹرک پاس درزی سے جذباتی سی شادی آپکو بعد میں نہیں لگا یہ کہ فیصلہ غلط تھا؟ کہتی‬
‫خطیب میں تمہیں کہوں کہ میں جنت میں رہتی ہوں تو یہ لفظ "جنت" میرے جذبات کی عکاسی میں کم پڑ جائے گا۔‬

‫اتنی دیر میں آرڈر کیا ہوا پیزا آگیا۔ میں پیزا کھانے لگا اور ان سے کہا میڈم اب جلدی سے بتائیں آپ بظاہر اس ابنارمل شادی سے‬
‫واقعی خوش و مطمئن ہیں؟ کہتیں خطیب چیزیں خوشی نہیں دیتیں کہ فائز سیال کہتے ہیں ہللا سے خوشی مانگو ہللا کو یہ نہ بتاو کہ‬
‫مجھے جاب دو بڑا گھر دو گاڑی دو فالں شخص دو تو میں خوش ہونگا وہ بہتر جانتا ہے اسنے ہمارے لئے ہماری کہاں کس چیز‬
‫میں خوشی رکھی ہے۔‬

‫خطیب صاحب مجھے; امی نے ‪ 20‬الکھ کا چیک دیا کہ اتنی عجلت میں تمہارا جہیز کہاں بنائیں خود ہی لے لینا جو لینا ہوا۔ خاندان‬
‫والے لوگوں نے طوفان برپا کر دیا کہ درزی سے کوئی چکر چل رہا تھا جو اس سے یوں سب کی مرضی کے خالف شادی ہو رہی‬
‫میں نے انہیں کہیں کا نہیں چھوڑا وہ کبھی مجھ سے نہیں ملیں وغیرہ مگر میری امی اور ماموں میرے ساتھ تھے کوئی چاچو یا‬
‫پھوپھا لوگ نکاح میں نہ آئے۔ امی سے کہا کہ آپ پچھتائیں گی ایک دن۔‬

‫میرے اپنے پاس بھی کچھ سیونگ تھی وہ بھی کیش نکلوا لیا۔ تین الکھ کے قریب کیش اور ‪ 20‬الکھ کا چیک میں نے اپنے خاوند کو‬
‫منہ دکھائی کے وقت پیش کر دیا کہ میں اور میرا سب کچھ آپکا ہے۔ میں نے سنا تھا کہ حضرت خدیجہ نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کو شادی والے دن سسرال آکر ‪ 42‬ہزار درہم دیے تھے کہ میں اور میرا مال آپکا ہے۔ اور وہ رونے واال کیوٹ سا منہ بنا کر کہنے‬
‫لگے کہ جو انگوٹھی میرے لیے منہ دکھائی کی بنوائی تھی وہ جیب سے کہیں گر گئی ابھی ابھی دیکھا ہے اب کہیں سے ال بھی‬
‫نہیں سکتا۔ میں نے کہا چھوڑیں انگوٹھی کو عام سی بات ہے مجھے; نہیں لینی منہ دکھائی آپ پریشان نہ ہوں۔‬
‫انہوں نے پیسے اور چیک لینے سے انکار کر دیا کہ گھر کی کوئی چیز خریدنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ جگہ ہے آپ اپنے‬
‫پاس رکھیں یا اپنے لیے ایک گاڑی لے لیں۔ میں تو بائیک پر ہی ٹھیک ہوں۔ اور مجھے حق مہر کا ‪ 50‬ہزار کیش دے دیا۔ یہ حق‬
‫مہر انہوں نے خود لکھوایا تھا۔‬

‫میں نے زندگی میں پہلی بار اپنی شادی سے اگلی صبح سسرال میں فجر کی نماز پڑھی۔ اس سے پہلے دوسری نمازیں شروع کر‬
‫چکی تھی مگر فجر کے وقت اٹھا نہیں جاتا تھا۔ میں نے فجر پڑھنے کے بعد پارہ بھی پڑھا۔ میرے میاں بھی مسجد سے واپس آگئے۔‬
‫اور کہنے لگے آپ آفس کس ٹائم جائیں گی؟ میں نے کہا میں تو ایک ہفتے کی چھٹی پر ہوں۔ کہتے اچھا پھر تو آپ اکیلی بور‬
‫ہوجائیں گی جب میں ‪ 12‬بجے دکان پر چال جاوں گا۔‬

‫میں کہتے کہتے چپ کر گئی کہ آپ نہ جائیں ہاں آج۔ خیر مجھے; کہتے کہ نئی دلہن سے کام نہیں کروایا جاتا ابا جائنٹ فیملی کے‬
‫حق میں نہیں ہیں ورنہ چھوٹی بہن کو رکھ لیتے تو اب چند ماہ تک آپ کوئی کام نہیں کریں گی۔ کھانا پہلے میں بناتا تھا اب بھی‬
‫بناوں گا۔ میرا شاگرد پہلے بھی گھر کی صفائی کرتا تھا اب بھی کرے گا آپ اسے اپنا بیٹا سمجھنا; یتیم بچہ ہے ہمارے گاوں سے‬
‫ہے۔ وہی ابا جی کو مسجد کھانا دے کر آیا کرے گا گھر میں آتا جاتا رہے گا۔ (‪ 15‬سال کا بچہ تھا) کپڑے النڈری سے پہلے بھی‬
‫دھلتے تھے اب بھی دھلیں گے النڈری والی آنٹی ہفتے کی شام سب کپڑے لے جائیں گی اور اتوار شام کو گھر ہی دے جائیں گی۔‬

‫میں نے کہا کہ نہیں اچھا نہیں لگتا آپ کھانا بنائیں مجھے; کچھ کچھ آتا ہے باقی آپ سکھا دیں۔ کہتے کھائیں گی تو اچھا لگے گا‬
‫بنانے کی بات نہ کریں یہ رسم پوری کرنے دیں۔ ابھی ناشتہ بناتا ہوں بتائیں کیا کھاتی ہیں؟ میں نے کہا ناشتہ تو کم ہی کرتی ہوں۔‬
‫میں آپکے ساتھ آتی ہوں مل کر بناتے ہیں تو وہ مان گئے مگر مجھے; کچن میں برتن پکڑانے سے سوا کچھ کرنے نہیں دیا۔ تین ماہ‬
‫تک میں کھانا بنانے میں ماہر ہوگئی۔ اب کبھی وہ کبھی میں بناتی ہوں اکثر وہی بناتے ہیں۔ روٹی تو وہ ہی بناتے ہیں یا انکا شاگرد ہو‬
‫تو وہ بھی بنا لیتا۔ مجھ سے ابھی کچی رہ جاتی ہیں کہیں کہیں سے۔ جلد ہی سیکھ لوں گی۔‬

‫خیر وہ اس دن دکان پر خود ہی نہیں گئے اور اگلے دن لیٹ گئے جلدی واپس آگئے۔ میں شادی کے بعد پہلی بار ایک ہفتے بعد اپنی‬
‫امی سے ملنے انکے ساتھ انکی بائیک پر آئی میرا ناشتہ کوئی نہیں لے کر آیا نا مکالوا گیا ان سب رسموں سے انہوں نے منع کر‬
‫دیا تھا کہ فضول ہے یہ سب مجھے; بھی فضول ہی لگتا تھا تو امی کو منع کر دیا تھا۔ ہم ‪ 2‬گھنٹے امی پاس رہے امی مجھے خوش‬
‫دیکھ کر خوش تھیں میں نے تسلی دی کہ آپ میری طرف سے بے فکر رہیں ۔ امی نے انہیں بھی واپس آنے پر گلے لگایا اور ماتھا‬
‫بھی چوما۔ ہم واپس آگئے۔‬

‫وہ بھری ہوئی آنکھوں سے گویا ہوئیں یار جس دن مجھے آفس جانا تھا اس دن انہوں نے میرے کہنے سے پہلے ہی رکشہ لگوا دیا‬
‫ہوا تھا کہ وہ لے بھی جائے گا لے بھی آئے گا۔ مجھے; ناشتہ کرتے ہوئے ‪ 10‬ہزار روپے دیے کہ یہ آپکو ماہانہ مال کریں گے آپ‬
‫کی ذاتی ضروریات کے لیے اگر ختم ہوگئے تو اور مانگ لوں۔ رکشہ کا کرایہ میں دونگا آپ نہیں دیں گی۔ گھر کا سب خرچ بھی‬
‫انکے ذمے ہے۔ جاب کرنا آپکی مرضی ہے جب تک چاہیں کریں جب چاہیں چھوڑ دیں کہ میں الحمدہللا ‪ 70‬ہزار سے ‪ 1‬الکھ تک‬
‫ماہانہ کما لیتا ہوں عیدوں پر اسے تین گنا کر لیں۔ ‪ 20‬ہزار گاوں بھیجتا ہوں باقی ہمارے لیے کافی ہیں میں ایک اور کاریگر بٹھانے‬
‫واال ہوں آمدن بڑھ جائے گی مزید ‪ 10‬سے ‪ 20‬ہزار۔‬

‫خطیب وہ ‪ 10‬ہزار میرے لیے ‪ 10‬کروڑ سے قیمتی تھا کہ ان میں ‪ 1000‬اور کچھ ‪ 500‬اور کچھ ‪ 100‬کے نوٹ بھی تھے میں اتنی‬
‫کارڈ میرے خاوند کے ‪ ATM‬خوش تھی کہ بتا نہیں سکتی۔ اور مجھے; میری ایک کولیگ یاد آگئی جو مجھ سے پوچھ رہی تھی میرا‬
‫پاس ہے میں واپس کیسے لوں ان سے کوئی بہانا بتاو۔ اور خاوند ‪ 16‬سکیل میں اسسٹنٹ تھا۔ مجھے میرے انتخاب پر اس دن اور‬
‫فخر ہوا۔‬

‫کہتی لڑکی اور والدین کو شادی کرنے میں جو چیزیں دیکھنی چاہئیں وہ کم ہی لوگ دیکھتے ہیں‪ .‬ان میں سب سے بڑی غلطی شادی‬
‫کو ‪ 25‬سال عمر سے لیٹ کرنا ہے۔ کہ اسکے بعد معیار کی باتیں کرنے لگتی لڑکی اور لڑکا بھی۔ مجھے; ترس آتا ہے ان لڑکیوں‬
‫پر جو لڑکوں کی منتیں کرتی ہیں ہم سے شادی کر لو اپنے گھر بات کرو یا انکی جاب یا مزید اچھی جاب کے انتظار میں کئی سال‬
‫تباہ کر لیتی ہیں۔ لڑکی چاہے خود بات کر لے مگر نکاح کی بات کرے ڈائیریکٹلی۔ اسی اثنا میں عصر ہو گئی اور میں نے کہا باقی‬
‫بات نماز کے بعد کرتے ہیں میں مسجد چال گیا۔‬

‫میں عصر پڑھ کر آیا تو وہ بھی نماز پڑھ چکی تھیں۔ میں نے کہا میری تین باتیں ایک ہی بار سن لیں پھر کہانی ختم کریں۔ کہتیں جی‬
‫سر کہیں‬

‫کر دیں۔ ‪ Conclude‬میں جانا ہے آپکو گھر جانا ہے تو بات کو ‪ EME‬میں نے کہا مجھے تو آپکے پاس ہی‬
‫دوسری بات مجھے; اجازت دیں کہ اس کہانی کو پبلک کر سکوں۔ کہ ہم اپنے تجربات سے کسی کو گائیڈ کر سکیں تو یہ کئی من کی‬
‫نیکی ہوگی انشاءہللا بڑے فرشتے اسے نیکیوں میں اٹھا کر رکھیں گے میرے جیسے سمارٹ فرشتے بھائی جان سے نہیں اٹھائی‬
‫جانی آپ دیکھ لینا۔‬
‫تیسرا آپکے خاوند سے ملنے کا شوق ہے کوئی وقت ان سے بھی لے دیں۔‬

‫کہتیں آپکو اجازت ہے پبلک کر لیں میرا نام نہ لکھیے گا۔ باقی آپ پہچان چھپا لیں گے وہ میں جانتی ہوں۔‬
‫دوسری بات آپ ‪ 5‬اکتوبر کی شام ہمارے گھر آ جائیں ان سے مل لیں آپکا تعارف کرا دیا تھا ایک بار آپکا سٹیٹس پڑھ کر انہیں بھی‬
‫سنایا تھا۔‬

‫‪ Done.‬انکی دکان پر وہ آپکو وقت نہیں دے سکیں گے نا وہاں اتنی جگہ ہے۔ میں نے کہا اوکے ‪ 5‬اکتوبر شام ‪ 7‬بجے‬

‫میں نے کہا اب آپ اپنے تجربے سے بتائیں کہ ایک لڑکی کو شادی سے پہال کیا دیکھنا چاہئیے۔‬
‫وہ بولیں خطیب صاحب لڑکی کی کون سنتا ہے والدین ہی رشتے طے کرتے ہیں۔ میں نے کہا آپ نے کیا دیکھا تھا اس فیصلے سے‬
‫پہلے؟‬
‫کہتیں سر میں کوئی جذباتی فیصلہ نہیں کیا تھا مجھے; ان سے محبت ہو گئی تھی یہ سچ ہے مگر میں ان کی آمدن کا تھرڈ پرسن سے‬
‫پتا کرایا تھا۔ مجھے ایک الکھ تک بتائی گئی تھی۔ مجھے جائیٹ فیملی ساس سسر نندوں و جٹھانیوں دیوانیوں کے جنجال پورے میں‬
‫تھی۔ لڑکے کے ابا ساتھ رہتے تھے انکے بارے میں معلوم ہوا کہ فی سبیل ہللا نماز پڑھاتے ہیں ‪ Situation‬نہیں رہنا تھا۔ یہاں آئیڈیل‬
‫مولوی نہیں ہیں۔ ‪ Typical‬تو‬

‫تیسرے نمبر پر میں نے انکا استخارہ کرایا کہ استخارہ ہللا سے ڈائیریکٹ مشورہ ہے آپکو ان باتوں کا علم ہوجاتا ہے جو کوئی بھی‬
‫آپکو نہیں بتا سکتا۔ ہللا تعالی آپکو وہ باتیں بھی بتا دیتے ہیں جو آپکو اگلی پارٹی کا قریبی دوست بھی نہ بتا سکے یا اسے بھی پتا نہ‬
‫ہو۔ میرے استخارے میں آیا کہ صاف پانی ہے اسمیں ایک بلکل سفید مچھلی ہے اسکے جسم پر کوئی داغ نہیں ہے۔ میں نے اپنے‬
‫سرکل میں ایک عالم دین سے پوچھا تو کہتے اسکا کردار پاک ہے صاف پانی ہی کافی تھا صاف پانی سفید مچھلی کردار کی‬
‫پاکیزگی ہے اور اسکی صحبت بھی اچھی ہے۔‬

‫کہتیں سر استخارہ ضرور کریں۔ رشتہ طے کرنے میں کوئی جلدی نہ کریں آس پاس سے اس لڑکے کے معامالت; کا پتہ کر لیں۔‬
‫اسکا لین دین یا برتاو رکھ رکھاو کیسا ہے۔ خاندان میں تو پتا ہوتا مگر خاندان سے باہر کسی کا کچھ پتا نہیں ہوتا تو اسکا بہتر حل‬
‫ہے کچھ وقت پراپر ہاں کرنے سے پہلے دونوں خاندان ایک دوسرے کو دیں۔‬

‫خاندان میں ان رشتہ داروں سے نیا رشتہ نہ جوڑیں جن سے آپکے والدین کی کبھی بن نہ آئی ہو کہ اوالد ساری عمر طعنے سنتی‬
‫رہتی ہے۔ لڑکا بہت ذیادہ نہ سہی آجکل کے دور میں ‪ 50‬ہزار کم۔سے کم کماتا ہو اسکے لڑکی کے لیے جو تھوڑا پڑھی لکھی ہے‬
‫گھریلو لڑکی اس سے ہاف پر بھی خوش ہوگی۔‬

‫سر ایک بات پکی دیکھیں لڑکا ہڈ حرام نہ ہو عام طور پر امیر لڑکا دیکھ کر رشتہ کر دیا جاتا ہے اور بعد میں ساس سسر سے پیسے‬
‫لینے پڑتے ساری عمر اس بے غیرت کو شرم نہیں آتی اگر بیوی کمانے والی مل جائے تو اسکی ساری مردانہ غیرت مر جاتی‬
‫اپنے پاس رکھتا ہے وہ بھی اس سے مانگ رہی ہوتی اور بچوں کو دیکھ کر زندگی گزار دیتی۔ ساری عمر وہ خاوند ‪ ATM‬بیوی کا‬
‫کی کمائی کی خوشی فیل کر ہی نہیں پاتی۔‬
‫ایک انتہائی اہم بات آجکل شادی سے پہلے بھی ہمیں کوئی پسند آجاتا یا ہم ہی کسی کو پسند آجاتے ہیں۔ مگر وہ تعلق اگر نکاح میں‬
‫نہیں آسکا تو اسے مکمل ختم کر دینا چاہئیے نہ کہ شادی کے بعد بھی چاہے لڑکی ہے یا لڑکا وہ اپنی محبوبہ یا لڑکی اپنے عاشق‬
‫سے رابطے میں رہے۔۔ بے شمار گھر اجڑنے میں ایک وجہ یہ خیانت ہے۔ ‪ 99‬فیصد لڑکیاں شادی کے بعد اسی مرد کو اپنی دنیا و‬
‫جہان سمجھ; لیتی ہیں جس سے جیسے بھی بیاہ دی جائیں۔ وہ بندہ چاہے تو ایک پودے کی طرح اپنی بیوی کو محبت سے جیسے جس‬
‫چاہے شکل میں تراش لے وہ اسی روپ و شکل میں ڈھل جائے گی۔ وہ اسے چھوٹے بڑے جیسے کپڑے کہے پہن لے گی بس اس‬
‫سے خیانت نہ کرے بس اسکا ہو کر رہے۔‬

‫جیسے اپنی محبوبہ کی تعریفوں کے قالبے مالتے ہیں نا مرد اسے کسی مافوق العقل مخلوق سے مال۔دیتے پریاں بھی حیران ہوتی‬
‫ہونگی کہ یہ چولیں کہاں سے سیکھی ہیں پاکستانی عاشقوں نے۔‬
‫اس سے ‪ 50‬فیصد کم اپنی بیوی کی تعریف و تحسین کر دیں تو یقین مانو وہ اسکے سانس میں سانس لے۔ میں اپنے خاوند سے عشق‬
‫کرتی ہوں خطیب اسکی وجوہات اور بھی ہیں مگر سب سے بڑی کہ وہ بس میرے ہیں شادی سے پہلے بھی انکا کوئی سین نہیں تھا‬
‫اب تو وہ مجھے; کہتے ہیں کہ ہللا کو آپکی مثال دی تھی شاید کوئی آپ جیسی تھی نہیں تو آپکو ہی دے دیا میں اس قابل نہیں تھا۔ وہ‬
‫اپنی نفی کرتے ہیں اور میں اپنی کہ میرا دامن بہت چھوٹا تھا جتنی خوشیاں ہللا نے دی ہیں۔‬

‫کہتی سر آپ نے "رب نے بنا دی جوڑی" فلم دیکھی ہے ؟ میں نے کہا کوئی ‪ 8‬سے بار۔ کہتی اس میں دو کردار ہیں ایک "ماچو"‬
‫ٹائپ بندہ ہے جو لڑکی کو ڈانسنگ کلب میں ملتا ہے اور دوسرا "جنٹل مین" ہے جس سے اسکی حادثاتی شادی ہوتی ہے۔ سر شادی‬
‫جنٹل مین سے ہی کرنی چاہئیے نہ کہ ماچو سے۔ ماچو ٹائپ لڑکے رئیل الئف میں بہت بھیانک چہرہ دکھاتے ہیں انکا ماچو پن کبھی‬
‫نہیں جاتا۔ اور جنٹل مین بیوی کے ڈانسنگ کلب کی فیس ناشتے کی میز پر رکھ کر چلے جاتے ہیں۔‬

‫وہ رکی اور بولی سر آخری دو باتیں۔ جو میں آپکو کہنا چاہوں گی کہ شادیاں خاندان سے باہر کا رواج عام ہونا چاہیے کہ دوسرے‬
‫آپکو پتا لگتا ہے۔ جیسے ہم جنجال پورے میں بڑے ہوئے امی اور دادی کی کبھی نہیں بنی یہ انہیں وہ انہیں ‪ Manners‬خاندان کے‬
‫گالیاں دیتی رہیں۔ مجھے; آج بھی یاد ہے جب امی زرا پیاری تیار ہوتی تھیں تو دادی انکا جی جالنے والی باتیں کرنے لگ جاتی تھیں‬
‫اور ایسا ہی اکثر ساس کرتی ہیں بہو کو بیٹی نہیں سمجھتیں۔‬

‫لڑکی کو شادی کے بعد بس چند دن سسرال میں رہنا چاہئیے پھر اسے عالحدہ چایے ایک ہی کمرے کے فلیٹ یا کواٹر میں شفٹ کر‬
‫دیا جائے جہاں اسے کچھ وقت مل سکے اپنے خاوند سے جڑنے کا۔ اسمیں کچھ خامیاں بھی ہیں تو وہ خاوند برداشت کر لے گا مگر‬
‫سسرال والے انکا تماشا لگائیں گے اسکا جی جالئیں گے کہ اسے روٹی پکانی کھانا بنانا بھی ماں نے نہیں سکھایا جیسی ماں ویسی‬
‫بیٹی وغیرہ کا سین آن ہوجاتا ہے۔ میں یہ کہانیاں اپنی بہت اچھی دوستوں کی سن چکی تھی کہ جو ساس شادی سے پہلے بڑے‬
‫دعوے کرتی تھی اسنے ہی بیٹے کو ایسا بھڑکایا کہ اسکی طالق کرا دی بس انا کا مسئلہ بنا کر۔ ہاں لڑکی ہر وقت ڈرتی رہے ہر‬
‫جائز ناجائز بات پر جی جی کرتی رہے میکے سے کچھ نہ کچھ لیجاتی رہے تو ساس بڑی ہیپی رہے گی۔‬

‫ساس کا یہ گھٹیا روپ ہماری سوسائٹی کے ‪ 50‬فیصد سے ذیادہ گھروں میں موجود ہے۔ اور للو ٹائپ نام نہاد مرد باہر بڑی باتیں‬
‫کرنے والے گھر اپنی امی کو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ ذیادتی نہ کیا کریں کہتے میں امی کو جھوٹا کیسے کروں تم ہی‬
‫برداشت کرو یہ تمہاری ماں جیسی ہے۔ خطیب کونسی ماں اپنی اوالد کی خامیاں تالش کرتی ہے؟ کونسی ماں اوالد کا دل دکھاتی‬
‫ہے؟ کونسی ماں ہے جو اوالد سے جنگی محاذ قائم کر لیتی؟ کسی جانور کی ماں بھی ایسا نہیں کرتی جیسا ہمارے معاشرے کی‬
‫ساس کرتی ہے اور لڑکیاں یا خود کشی کر لیتی یا ڈپریشن میں چلی جاتیں۔ اسی لعن طعن میں ابنارمل بچے پیدا کرتی ہیں اور ساری‬
‫عمر ایک قید میں گزار دیتی ہیں۔‬
‫لڑکی کی ماں دیکھتے ہیں لوگ خطیب مگر اس سے ذیادہ ضروری ہے لڑکے کی ماں کے لچھن بھی دیکھے جائیں جو جتنی مٹھی‬
‫ہوگی وہ اتنا ہی تیز چھرا پھیرے گی۔ میرا خون کھولنے لگتا ہے کہ معصوم لڑکیاں ہسنا تو کیا رونا بھی بھول جاتی ہیں ایسے ایسے‬
‫ظلم ساس کرتی ہے کہ وہ نہ سہہ سکتی ہیں نا بتا سکتی ہیں۔ کہ اب ماں باپ کی عزت کو دن پورے کئے جائیں۔ اور خبردار آپ نے‬
‫میری بات میں کوئی بھی کمی بیشی کی تو میں نے کمنٹ بھی کر دینا کہ جناب خیانت کر گئے ہیں۔ میں نے کہا فکر نہ کریں لفظ‬
‫بلفظ سچ لکھوں گا۔‬

‫میں نے کہا میڈم ساری ساس ایک جیسی نہیں ہوتیں کچھ اچھی بھی ہوتی ہیں۔ وہ بولیں جی جتنے اچھے پولیس مالزمین یا اکاونٹ‬
‫آفس والے یا سنیارے ہوتے ناں اسی ریشو کو ساس میں بھی الگو کر لیں۔ بے شک اچھی ہونگی مگر گھر کے دو پورشن کر لیے‬
‫جائیں اوپر آپ رہیں نیچے سسرال مگر ایک ہی گھر میں رہنا خطرے سے خالی نہیں وہ دور گئے اب عدم برداشت ہے لڑکیوں میں‬
‫اور ساسوں نے منہ بھی ذیادہ کھول لیے ہیں جہیز لینے کے لیے تو طالق خطرناک حد تک بڑھ چکی۔ مگر وہی بات کہ کچھ اچھے‬
‫جیسے پولیس والے ویسے ہی اچھی ساس بھی پائی جا سکتی ہیں۔‬

‫خطیب صاحب یہ باتیں کسی ڈسکشن میں نہیں آتیں آپ ویسے ہی بڑے مشہور ہیں ابنارمل ٹاپک ڈسکس کرنے میں یہ بھی کریے گا‬
‫اسکی بہت ضرورت ہے۔‬
‫جسکے ساتھ بیتے یا جسکی بہن بیٹی پر ظلم ہو پتا اسے ہی ہوتا ہے۔ میں تو اپنے سرکل میں لوگوں کو گائیڈ کرتی ہوں کہ درزی‬
‫لے کر جانا تھا تو بھی چچی کا منہ سیدھا نہیں ‪ GLI‬سے شادی کوئی جذباتی فیصلہ نہ خدا ترسی تھی۔ اپنے چاچو کے گھر کروال‬
‫ہونا تھا کہ مجھے; سونے کے کڑے نہیں ڈلے میری بیٹیوں کو کیا ڈاال ہے مکلواوے کے کپڑے کس برانڈ کے ہیں۔ اور چچا کا بیٹا‬
‫نکھٹو دو دکانوں کے کرایہ پر بڑا رئیس بنا ہوا۔ کوئی کام نہیں کرتا۔ نہ کبھی کرے گا غصہ اتنا ہے جیسے سانپ اس سے زہر لیتے‬
‫ہوں۔‬

‫بڑے شہروں میں اپنے گھر کی شرط ہوتی یہ بکواس ترین شرط ہے الہور میں اپنا گھر بنانا اتنا آسان نہیں ہے۔ لڑکا اچھا ہے لوگ‬
‫اچھے ہیں تو کر دیں رشتہ ہللا پر توکل کریں بن جائے گا گھر۔ میں اب گھر کے لیے ہی پیسے جمع کر رہی ہوں ‪ 29‬الکھ ہوگیا ہے۔‬
‫دو سے ‪ 4‬سال میں میری تنخواہ جمع ہوتی گئی تو انشاء ہللا گھر لے لیں گے۔ میں نے کہا آپ تنخواہ لگاتی نہیں ہیں ؟ کہتیں قسم کرا‬
‫پر گئی ہوں جاز سوپر ڈوپر پلس پیکج کا لوڈ بھی وہ ماہانہ ‪ 10‬ہزار کے عالوہ ‪ ATM‬لو جس دن سے شادی ہوئی ایک بار بھی‬
‫کرواتے ہیں۔ ‪ 83‬ہزار تنخواہ ہے ایک سال سے بنک میں ہی پڑے سب پیسے۔ اس درویش آدمی نے آج تک پوچھا ہی نہیں تنخواہ‬
‫کتنی ہے مجھے; ہی پوچھتا رہتا کہ پیسے تو نہیں چاہئیں اور؟ اور میں بھی اسے گھر کا سرپرائز ہی دوں گی۔‬

‫خطیب ایک بات بس سنو اور چلتے ہیں۔ کہ شادی کے بعد ایک سال تک بچہ پالن نہیں کرنا چاہیئے۔ کہ ایک سال میں کافی حد تک‬
‫کلئیر ہوجاتا کہ کیسے لوگ ہیں کیسا بندہ ہے۔ بے شمار طالقیں شادی کے چند ماہ بعد ہو جاتیں یا تو بچہ والدین میں سے ایک کی تا‬
‫چھوڑ ‪ EME‬حیات محرومی میں زندگی گزارتا۔ کبھی بھی ایک سال تک بچے کی طرف نہ آئیں۔ چلو میں کسی سے کہتی ہوں آپکو‬
‫کے گیٹ ‪ EME‬آتے ہیں میں نے کہا اٹس اوکے میں کریم منگوا لیتا ہوں کہتیں نہیں آو تو سہی باہر اور پھر انکا ایک کولیگ مجھے‬
‫پر اتار گیا۔‬

You might also like