وہ ایک چلبلی سی لڑکی تھی مگر اس کی اس عادت کو ہر کوئی محبت سمجھ لیتا اور ہر دفعہ اسے ہی صفائیاں دینی پڑتیں۔وہ بے چاری اس غلط فہمی کو دور کرتے کرتے خود ہی غلط ثا بت ہو جاتی اور پھر سوچتی کہ کیا وہی غلط ہے؟؟؟؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے جانے کب اس کا بچپن جوانی میں بدل گیا اسے پتہ بھی نہ چال اور وہ اپنی غلطی ڈھونڈتے ہوئے وقت کے بھنور میں گم ہو گئی۔ اگرکبھی راستے میں اوباش لڑکے اسے تنگ کرنے لگتے تو بھی وہ اپنی ہی غلطی ڈھونڈنے لگتی۔اعتبار تو جیسے اس سے کوسوں دور تھا۔شک کا طو فان اس کے اعتبار کی کشتی کو سنبھلنے ہی نہیں دیتا تھا۔ وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی اور سو چ رہی تھی کہ اتنے اچھے اچھے مواقع چھوڑ کے ایسے سکول میں نوکری کرنی بھی چاہئے کہ نہیں؟؟؟پھر اسے خدا کی مرضی سمجھ کہ حجاب کرنے لگی۔جب سکول پہنچی تو دسویں جماعت کے 9بچوں کو دیکھ کے اپنی ہی قسمت پر پشیمان ہونے لگی کہ اتنا پڑھ لکھ کے کسی اچھی جگہ کے خواب کیسے چکنا چور ہو جاتے ہیں۔تب اسے یہ بات سمجھ آئی کہ انسان کی زندگی پر اس کی لگن سے زیادہ اس کی قسمت کا اختیار ہوتا ہے۔آخر پھر حوصلہ جمع کر کے لیکچر دینے لگی۔اس کے دماغ میں یہ سکول اس کے خوابوں کی راہ میں ایک سیڑھی کی مانند نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ طالب علم اسے اپنے خوابوں کی ملکہ سمجھ رہے تھے۔الغرض ہر پہلو سے بے خبر وہ لیکچر دیتی رہی وہ تھی تو بہت خوبصورت 22سالہ ایم ایس سی پاس لیکن چہرے سے نو عمر لڑکی معلوم ہوتی تھی۔اور اس کی یہی نوعمری اس کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بھی تھی۔باآلخر وہ لیکچر دیتی اور کالس سے باہر چلی جاتی۔ابلے دن اسے سکول کی پرنسپل نے حجاب اتار کر کالس میں جانے کا کہا اب جب وہ کالس میں گئی تو سب بچے اسے حیرت بھرے انداز سے دیکھنے لگے۔ایک لڑکا تو جیسے سکتے میں ہی چال گیا ہو۔اس نے خود اس لڑکے کا نام لے کے مخاطب کیا تو وہ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس بوال ؛جی میم جی!لیکن اس کے الفاظ اس کے احساسات کا کو سوچوں کے طوفان سے کسی نے زبردستی باہر نکاال ہو۔ پھر وہ اس کو لیکچر کی طرف متوجہ کر کے دوبارہ لیکچر دینے لگی۔ لیکن وہ دوبارہ اپنی سوچوں میں مگن ہو گیا۔اب آئمہ بھی بار بار اسے مخاطب کر کے باقی سب کی توجہ اس طرف نہیں دالنا چاہتی تھی۔اس لئے خاموشی سے لیکچر دے کے کالس سے باہر چلی گئی۔ جب وہ نویں جماعت میں گئی تو وہاں بھی خود کو بہت غیر محفوظ محسوس کرنے لگی مگر پھر نظریں جھکائے اپنا لیکچر دینے لگی ۔وہاں بھی لڑکے ایسا سمجھنے لگے جیسے وہ ان کی ہم عمر ہو اور فضول باتیں کرنے لگے وہ بے چاری ان کا بچپنا سمجھ کے اگنور کرتی رہی مگر وہ اس کو مزید تنگ کرنے لگے آئمہ تنگ آ کے بولی ؛کیا میں چلی جائوں کالس سے باہر تو بولے نہیں نہیں میم آپ نہیں جائیں اب نہیں تنگ کریں گے۔پھر ٹیک لگا کر اس بے چاری کو عجیب نظروں سے گھورنے لگے۔وہ اب اگنور نہ کرتی تو کیاکرتی؟؟؟لیکچر ختم ہوا تو وہ کالس سے باہر چلی گئی اور سوچنے لگی کہ کیا میرے رویے میں خرابی تھی؟؟؟خیر ساری رات اس کی یہی سوچتے سوچتے گزر گئی پھر وہ اس نتیجے پہ پہنچی کہ مجھے ان سے کرخت انداز میں بات کرنی ہو گی ورنہ پتہ نہیں یہ کیا سوچ رہے ہیں؟؟؟؟ میری زندگی میں پہلے ہی بہت مشکالت ہیں اور تو میں ایفورڈ بھی نہیں کر سکتی۔ اگلے دن جب وہ کالس میں گئی تو بہت کرخت انداز میں بولی کہ مجھے سب بورڈ کی طرف متوجہ نظر آئیں اور کوئی فضول بات سنائی نہ دےورنہ میں لحاظ نہیں کروں گی۔لیکن وہ کہاں سدھرنے والے تھے ۔ باآلخر اس نے لیکچر دینا شروع کر دیا سب خاموشی سے سننے لگے تو اس کو لگا کہ سب سیدھے ہو گئے ہیں اے کے ساتھ اب یہی کرنا پڑے گا۔لیکچر ختم ہوتے ہی اس نے کہا کہ کل سے میں آپ کا زیرو پیریڈ لگائوں گی اس لئے سب جلدی آ جانا۔اگلے ہی دن وہ سب جلدی آ گئے مگر پھر اس کو تنگ کرنے لگے اور وہ ان کے بچپنے کو ہنس کے ٹالنے لگی آخر اس کے پاس اس کے عالوہ اور کوئی چارہ جو نہ تھا۔ اب وہ روزانہ 9کالس کے 2پیریڈ لیتی تھی 10،کا 1اور 8کا بھی 1پیریڈ۔ اب وہ سوچتی تھی کہ اگر میری پرفارمنس اچھی رہی تو اگلے سال کسی اچھے سکول میں اپالئے کرنے کا چانس ملے گا لیکن ابھی اگر میں نے گھر والوں کو بتایا تو وہ میرا سکول چھڑوا دیں گے یوں تو میرا کیریئر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا لحاظا اس نے سب باتوں کو اگنور کرتے ہوئے سکول جانا شروع کر دیا۔ اگلے دن جب سکول پہنچی تو دیر سے آنے والے بچوں کو خوب ڈانٹ پالئی۔لیکن اس کی آواز بہت کم تھی اس لئے بچوں کو شاید اس کی آواز میں بے عزتی محسوس نہیں ہوتی تھی۔وہ آگے سے مسلسل ہنستے رہے،آئمہ نے سوچا ان کو کوئی فرق نہیں پڑنا اس لئے اس نے لیکچر دینا شروع کر دیا۔لیکچر دیتے ہی جب وہ کالس سے باہر نکلی تو ایک بچہ پیچھے دوڑتا دوڑتا آیا کہ میم مجھے یہ سوال سمجھا دیں۔میں نے گھر میں کیا تھا مگر سمجھ نہیں آیا۔آئمہ بولی بیٹا! میرا اگال پیریڈ شروع ہو گیا ہے اب یہ سوال کل کروا دوں گی۔احمد بوال میم جی! پلیز سمجھا دیں میں نے گھر جا کے آگے کے سوال کرنے ہیں مجھے گھر میں سمجھانے واال کوئی نہیں۔یہ سن کے آئمہ کا دل نرم پڑ گیا اور بولی اچھا آپ میرے ساتھ میری اگلی کالس میں چلیں میں آپ کو وہاں جا کے سمجھا دیتی ہوں وہ فورا بوال ٹھیک ہے میم جی!!!!!!!!!!!۔ اگلی کالس میں بچوں کو ٹیسٹ دینے کے بعد اس نے احمد کو سمجھانا شروع کر دیا۔ لیکن باقی ٹیچرز بھی اس کو ہی غلط سمجھنے لگیں۔سوال سمجھنے کے بعد جب وہ بچہ اپنی کالس میں گیا تو آئمہ کی ایک دوست نے اس سے پوچھا کہ احمد کیوں آیا تھا تو وہ بولی اس طرح مجھے بار بار سوال کروانے کا کہ رہا تھا تو میں ساتھ لے آئی۔سدرہ بولی کہ آئندہ اگر وہ آپ سے ایسے کہے تو آپ منع کر دینا کیونکہ یہاں کی ٹیچرز اس بات کو غلط انداز سے دیکھتی ہیں اس لئے بہتر یہی ہے کے آپ ان کو موقع ہی نہ دیں۔یہ سن کے آئمہ کو بہت دکھ ہوا کہ شک کی تنگ دیواروں نے اس کو یہاں بھی تنہا نہ چھوڑا۔پورا دن اسی سوچ میں گزر گیا کہ کیا یہاں بھی میری ہی غلطی تھی؟؟؟وہ یہ سوچ کے رونے لگی کہ اصل بات کا پتہ چالئے بغیر کیسے لوگ کسی کو شک کے طوفان میں دھکیل دیتے ہیں۔پھر اللہ سے دعا کرنے لگی کہ اگر میں ہی غلط ہوں تو تو مجھے سیدھی راہ دکھا دے۔ اگلے دن وہ سکول ذرا دیر سے پہنچی تو سب بچے وہاں پہلے سے موجود پا کر شرمندہ ہو گئی۔وہ نکاب میں ہی کالس میں چلی گئی۔بچے آگے سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے لگے تو وہ بولی کہ میں تو تیار تھی پاپا نے لیٹ کر دیا۔یہ سنتے ہی وہ مزید ہنسنا شروع ہو گئے کہ میم آپ ابھی بھی اپنے ابو کو پاپا کہتی ہیں۔ آئمہ بولی میٹا مجھے تو عادت ہے نا!!!!!!!!!!!بچوں کو ہنستے دیکھ کے غصے سے بولی میرا مذاق بعد میں اڑا لینا ابھی اپنی اپنی کاپیاں نکالو۔سب بچوں نے کام شروع کر دیا تو ایک بچہ بوال میم جی نکاب تو اتار دیں آپ کی آواز نہیں آ رہی۔یہ سنتے ہی آئمہ ہنستے ہنستے بولی کہ میں بھول ہی گئی تھی۔لیکچر دینے کے بعد بولی میں کل آپ لوگوں سے اس کا ٹیسٹ لوں گی اگلی کالس میں گئی تو وہاں ایک نیا بچہ موجود تھا جو کافی چھٹیوں کے بعد آیا تھا۔سب بچے کہنے لگے کہ میم جی یہ نیا بچہ آیا ہے اسے بھی ڈیمو دیں نا!اس پہ وہ مسکرانے لگی اور بولی کے مذاق بند کریں اور پڑھنا شروع کریں۔وہ بہت براڈ مائنڈ لڑکی تھی مگر ہر کوئی اس کی اس عادت کو بھی غلط انداز سے دیکھتا تھا۔ کالس میں ٹیچر کی کوئی کرسی نہیں تھی اس لئے وہ تھک کر بچوں کے ساتھ بینچ پہ بیٹھ گئی اس بات کا بھی ٹیچرز نے ایشو بنانا شروع کر دیا۔اور کہنے لگیں کہ آپ نے بچوں کو اتنا فری کیا ہوا ہے کہ آپ ان کے ساتھ ہی بیٹھ جاتی ہیں یوں وہ آپ کو ٹیچر سمجھتے ہی نہیں ہیں آپ نے استاد اور شاگرد کا فرق ہی ختم کر دیا ہے آپ ہمارے بچوں کو خراب کر رہی ہیں ۔یہ سن کے وہ اور پریشان ہو گئی کہ ہر کوئی اس کو ہی غلط سمجھتا ہے پھر ایک لمحے کے لیے اس کے ذہن میں یہ سوچ آئی کے میں نے کون سا ساری زندگی یہاں رہنا ہے ؟؟؟سمجھتے رہیں جو بھی ان کو سمجھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے دن ٹیسٹ میں سب بچوں نے بہت اچھے نمبر لئے۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد سب بچے اس بے چاری کو بہت تنگ کرنے لگے پہلے تو وہ ان کے بچپنے کو ہنس کے ٹالتی رہی پھر زیادہ تنگ کرنے پہ بولی بیٹا کل ذرا اپنی امی کو بال کے النا تو وہ ذور ذور سے ہنسنے لگا کہ آپ خود اتنی چھوٹی ہیں اور مجھے بیٹا کہ رہی ہیں۔یہ سن کے آئمہ بولی کہ بیٹا میں 22 سال کی ہوں۔یہ سنتے ہی سب بولے میم جی ایسا جھوٹ بولیں جس پہ کم ازکم اعتبار تو آئے یہ تو صاف جھوٹ نظر آ رہا ہے۔آیمہ بولی میں آپ لوگوں سے جھوٹ کیوں بولوں گی؟؟؟احمد بوال !آپ جان بوجھ کے کہ رہی ہیں۔وہ تنگ آ کے بولی ! اچھا معاف کریں مجھے اگر میں نے غلطی کر ہی دی ہے تو۔۔۔۔۔آگے سے احمد بوال :جا تجھے معاف کیا!!!!!!اے دل کو توڑنے والے۔۔۔۔۔۔آئمہ ہنستے ہوئے بولی آپ لوگوں نے نہیں سدھرنا!!!!جو بات کرتی ہوں الٹا مجھے ہی پھنسا دیتے ہیں۔ احمد دھیمی آواز میں اپنے دوست سعد کو بوال پھنسانا ہی تو چایتا ہوں آیمہ نے سوال کروانے کے بعد احمد اور سعد سے پوچھا کے آپ دونوں کیوں نہیں کر رہے؟؟؟احمد بوال میم جی مجھے سمجھ ہی نہیں آیا میں سعد سے یہی کہ رہا تھا کے مجھے سمجھا دو۔تو بیٹا جی آپ مجھے بتائیں نا میں آپ کو سمجھا دیتی ہوں۔وہ اسے کاپی پہ سمجھانے لگی تو سعد اس سے مذاق کرنے لگا وہ ہنس کے ٹالتی رہی کہ بچے اس طرح مجھ سے ہر سوال پوچھ لیں گے اگر میں نے ڈانٹا تو وہ ڈر جائیں گے اس لئے وہ ان کو اگنور کرتی رہی مگر ہمیشہ کی طرح اس عادت پہ بھی وہ غلط ثابت ہی گئی ۔سب ٹیچرزکہنے لگیں کہ آپ بچوں کو بہت فری کر دیتی ہیں ان کے سامنے ایٹیٹیوڈ میں رہا کریں ہر بچے کے قریب جا جا کے ان کے مسئلے ڈسکس نہ کیا کریں۔ وہ ٹیچرز کی ان باتوں کو اگنور کرنے لگی کیونکہ اس کے نزدیک بچوں کو سوالوں کا سمجھ آنا زیادہ اہم تھا۔ اگلے دن سکول میں 14اگست کا فنکشن تھا تو سب ٹیچرز کے اصرار پہ ابایا اتار کے آئی تو لڑکے سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو کے گنگنانے لگے۔اس نے جب غصہ کیا تو بولے ہم آپ کو دیکھ کے تھوڑا ہی گانا گا رہے ہیں آپ اب اتنی بھی ہمیں ڈانٹ رہی ہیں۔یہ سن کے وہ خاموش ہو خوبصورت نہیں کہ آپ کو دیکھ کے گانا گائیں آپ ویسے ہی غلط فہمی میں ٰ گئی اور بولی اچھا گائیں گائیں شوق سے گائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور ٹیچر نے جب ان لڑکوں کی بے عزتی کی تو بولے میم آیمہ نے کہا تھا اس پہ وہ آئمہ کو کہنے لگیں کہ آپ بچوں کو کیا تربیت دیتی ہیں کہ وہ آپ کو دیکھ کے گانے گائیں۔۔۔اس پہ وہ غصے میں آگئی کہ کیا میں آپ کو ایسی لڑکی لگتی ہوں؟؟؟جو خود لڑکوں کو کہے کہ مجھے چھیڑو؟؟؟؟اسـ پہ وہ ہنسنے لگیں اور فورا بولیں کے ہم تو مذاق کر رہی تھیں آپ مائنڈ ہی کر گئیں۔۔۔۔۔وہ بولی مجھے ایسا مذاق بالکل پسند نہیں۔وہ ٹیچرز خود کو کلیئر کرنے لگیں۔ تو آئمہ غصے سے کالس میں چلی گئی وہاں لڑکے پھر گنگنانے لگے اس نے غصے سے دیکھا تو خاموش ہوگئے۔جب وہ سوال کروانے لگی تو احمد نے اس کو آنکھ ماری آئمہ کو لگا کے شاید غلطی سے ایسا ہوا ہے۔لیکن دوبارہ جب احمد سے پڑھانے کے دوران آئی کنٹیکٹ ہوا تو اس نے پھر وہی حرکت کی۔اب آیمہ کو لگنے لگا کہ واقعی میں کچھ گڑبڑ ہے۔اس نے احمد کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا۔سٹاف روم میں جانے کے بعد اپنی دوست مومنہ کواحمد کی اس حرکت کے بارے میں بتانے لگی۔وہ ذور زور سے ہنسنے لگی۔یار آپ کو ہنسی آ رہی ہے مجھے غصہ آ رہا ہے۔ ارے یار غصہ کیوں کر رہی ہیں بچہ ہی تو ہے۔۔۔ یار اسی بات پہ تو غصہ ہے نا کے یہی رہ گیا ہے میرے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔تو آپ کو کون پسند ہے مجھے بتا دیں میں اسے جا کے کہ دیتی ہوں کے وہ آپ کو آنکھ مار دے۔۔۔۔۔۔اڑا لیں آپ بھی میرا ہی مذاق۔۔۔۔اتنی دیر میں ایک ٹیچر آئیں کہ میم آئمہ آپ کو احمد باہر بال رہا ہے۔آئمہ بولی اچھا میں آتی ہوں ۔ مومنہ بولی جائیں اب دوسرا آیا ہے اپنی قسمت آزمانے۔۔۔۔۔آپ نے تو بس اب میری جان نہیں چھوڑنی۔۔۔۔۔ جی بیٹا بتائیں!!! میم جی کل آپ نے مجھے فیس بک پہ ریکوسٹ بھیجی تھی؟؟؟دماغ تو ٹھیک ہے نا آپ کا؟؟؟میں کیوں ایسا کرنے لگی؟؟؟احمد ہکالتے ہوئے بوال میم جی میم جی!! آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔اصل میں مجھے کبھی کسی لڑکی کی ریکوسٹ نہیں آئی سوائے آپ کے کبھی کسی لڑکی نے بات تک نہیں کی مجھ سے تو مجھے لگا کےآپ نے کی ہو گی ریکوسٹ سینڈ۔۔۔۔او ہیلو مجھ میں اور باقی لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں؟؟؟ٹیچر والدین کی طرح ہوتے ہیں۔کیا آپ کے والدین آپ سے اچھے سے بات کرتے ہیں تو اس کا الٹا مطلب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں میم جی آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔آئمہ اس کی بات سنے بغیر ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مومنہ کے پوچھنے پہ کہنے لگی کہ آج پھر میری زندگی میں ایک اور غلط فہمی نے جگہ بنا لی۔۔۔۔کیا مطلب؟؟؟؟کیا کہا احمد نے جو آپ اتنے غصے میں ہیں؟؟؟احمد کہ رہا تھا۔۔۔۔۔سب باتیں سن کے مومنہ ہنسنے لگی۔آپ بتائیں کیا اس میں بھی میرا ہی قصور ہے؟؟؟ارے نہیں آپ ٹینشن نہ لیں ان کے ذہن ہیں ہی گندے ان کو ایسے اگنور کریں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ آئمہ بے چاری بھی گھر میں بھی یہی سوچتی رہی کہ اس میں کیا میرا کوئی قصور ہے؟؟؟بہنـ کو بتایا تو اس نے اسے غصے میں رہنے کا مشورہ دیا۔آیمہ کو بھی یہی صحیح لگا۔ اگلے دن سوال کروانے کے بعد بولی سب مجھے کام کرتے نظر آئیں۔احمد روزانہ کی طرح بوال میم جی مجھے سمجھ نہیں آیا۔ آیمہ غصے سے بولی جب سب کو کروایا تھا تو آپ کہاں تھے؟؟؟میم جی غصہ تو نہ کریں نا!!! آپ کو کل والی بات پہ ابھی تک غصہ ہے؟؟؟جی تو کیا اب اس فضول حرکت پہ غصہ بھی نہیں آنا چاہئے؟؟؟اچھا میم جی آپ بتائیں میں آپ کو فلرٹ لگتا ہوں؟؟؟؟وہـ سب ایک غلط فہمی تھی آپ مجھے کسی غلط فہمی کی بنا پہ جج نہیں کر سکتیں۔اگر پھر بھی آپ کو میں ہی غلط لگتا ہوں تو سوری لیکن ناراض تو نہیں ہوں نا!!!اس کی معصوم شکل دیکھ کے آیمہ کا دل پگھل گیا اور بولی آئندہ میں ایسی باتیں نہ سنوں؟؟؟میم آپ راضی ہو جائیں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔اچھا بتائیں کون سا سوال سمجھنا ہے آپ کو؟؟؟؟ اگلی کالس میں بھی غصے سے بات کرنے لگی تو ایک بچہ بوال کہ آج میم تپی ہوئی ہیں اس لئے سارے سیریس ہو جائو ورنہ بہت بے عزت ہو گے۔آئمہ ان کی معصومانہ باتوں پہ مسکراتے ہوئے بولی :تنگ نہ کیا کرو نا کہ مجھے غصہ آئے۔میم جی آپ غصہ نہ کیا کریں ہمیں ڈر نہیں لگتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔وہ کیوں؟؟؟اس لئے۔۔۔۔۔آگے سب ہنسنے لگے۔۔۔۔کیوں ہنس رہے پوری بات تو بتایئں؟؟؟آپ رہنے دیں میم جی آپ کو سمجھ نہیں آنی۔۔۔۔کیوں؟؟؟دھیمی آواز میں ایک بچہ بوالآپ ابھی چھوٹی ہیں۔۔۔۔کیا کہا؟؟؟؟آپ کو سمجھ نہیں آنی۔پھر سب ہنسنے لگے۔۔۔ گھر پہنچتے ہی اس کے لئے ایک پرپوزل آیا ہوا تھا۔جس کا سنتے ہی وہ ٹینشن میں آگئی کہ کیسے انکار کروں؟؟؟؟اس نے امی کو منع کرنے کا کہا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔اس پہ وہ رونے لگی اس کو لگا کہ جیسے سب ختم ہو گیا ہے اس کی زندگی بے معنی ہو گئی ہےمگر پھر ان کے جانے کےبعداس کو لگا کے جیسے اس کو نئی زندگی مل گئی ہو جب اس کو پتہ چال کے ابھی ہاں نہیں ہوئی پھر اس کی خوشی کو غم کے طوفان نے ایسے گھیرا کہ خوشی تو جیسے اس تیز طوفان کی نظر ہو گئی۔جب اس کی ماں نے اپنے شک کا اظہار کیاکہ اس کے انکار کی وجہ کیا ہے؟؟؟شک کی تنگ دیواروں میں خود کو گھرا دیکھ کر وہ پھر رونے پڑی۔مگر کبھی کبھار انسان کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لےطوفان اس کو اپنی ہی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔یہی حال آئمہ کا بھی ہوااس کا دردبھی اس کے اپنوں نے شک کی نظر کر دیا اور وہ فقط یہی سوچتی رہ گئی کہ کیا شک رشتوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا؟؟؟؟اس کا جواب نہ پا کر وہ حسرت سے اپنے ہی سگے رشتوں کو دیکھنے لگی کہ میرے آنسووں کی بھی کوئی قیمت ہے یایہ بھی طوفان کی لپیٹ میں آنے والے اس لفافے کی مانند ہو گئے ہیں جس کوطوفانی ہوائوں میں اڑتا ہوا تو سب دیکھتے ہیں مگر کوئی ہاتھ بڑھا کے اس کو اس اذیت سے نکالنے کی کوشش نہیں کرتا۔مگر اس کے سگے رشتے ہی اس کو مزید الجھن میں ڈال گئے یہ کہتے ہوئے کہ ایسا کیا کر چکی ہو کہ اب شادی کی پوزیشن میں ہو؟؟؟نہ اس کا نام بتانے کی۔۔۔۔ سگے رشتوں کے طنزیہ جملے سن کے سگے رشتوں سے اس کا اعتبار ہی اٹھ گیا ہو جیسے۔۔۔۔یہ شک کا طوفان جانے کب تھم گیا اور وہ نیند کی سکون بھری گود میں چلی گئی اس کو پتہ بھی اچانک اس کی آنکھ کھلی تو نہ چال۔ سورج کی گرم گرم شعائیں ایسا منظر پیش کر رہی تھیں جیسے کبھی طوفان آیا ہی نہ ہو مگر طوفان گزرنے کے بعد اس کے اعصاب پر اپنے نقش چھوڑگیاتھا۔اوراس کی سوجھی ہوئی آنکھیں اس کا پتہ دے رہی تھیں۔سعد بوال آج میم کی طبیعت ٹھیک نہیں انہیں تنگ نہیں کرو۔احمد بوال میم جی آپ رو کے کیوں آئی ہیں؟؟؟؟اس پہ آئمہ نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی کہ کچھ جان بوجھ کر انجان بن جاتے ہیں اور جن کو انجان رکھنا چاہو وہ کیسے سب جان جاتے ہیں؟؟؟آیمہ کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے احمد سمجھ گیا کے وہ واقعی رو کے آئی ہے اور بوال میم جی کوئی پریشانی ہے تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں۔آئمہ گہری سوچ میں چلی گئی کہ وہ شک کا طوفان جو سگے رشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے گیا اس کےآگے تمہاری کیا اہمیت؟؟؟ احمد آئمہ کو گہری سوچ میں دیکھ کے سمجھ گیا کے وہ اپنی پریشانی اس کو نہیں بتانا چاہتی اس لئے اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیا۔ اب سکول میں پڑھاتے ہوئے آئمہ کو چار ماہ گزر گئے تھے وہ طوفان بھی تھم چکا تھا۔بچے بھی اس کے ساتھ بہت ہوگئے تھےattach لیکن احمد جذبات کی رو میں بہتے بہتے بہت آگے نکل چکا تھاوہ بچہ جو پہلے کبھی سکول ہی نہیں آتا تھا اب کبھی چھٹی نہیں کرتا تھایہاں تک کے پیپر ختم ہونے کے بعد بھی انتظار میں بیٹھا رہتا۔آئمہ کو لگا کے شاید اسے احساس ہو گیا ہے۔لیکن نیتوں کے حال تو خدا بہتر جانتا ہے۔۔۔ایک دن ایک بچہ آئمہ کو بوال کے مجھے بھی اپنا نمبر دے دیں۔۔۔۔۔۔۔بھی کا کیا مطلب؟؟؟آئمہ بولی۔۔۔مطلب آپ نے احمد کو بھی دیا ہوا ہے نا تو مجھے بھی دے دیں میں وہیں پہ آپ سے پوچھ لیا کروں گا اگر ہوم ورک میں کوئی مسئلہ ہوا تو۔۔۔ یہ سن کے اس کی خاموش سوچوں میں جیسے پھر طوفان آ گیا ہو۔غصے سے بولی تمہیں کس نے کہا کے میں احمد سے باتیں کرتی ہوں اور میں کیوں کرنے لگی اس سے بات؟؟؟؟میم جی آپ تو غصے میں ہی آ گئیں مجھے تو احمد نے کہا تھا کہ آپ اس سے کال پہ بات کرتی ہیں۔آیمہ غصے سے احمد کی کالس میں گئی اور بولی مسئلہ کیا ہے تمہارا؟؟؟کیا مطلب میم جی؟؟؟ مطلب یہ کہ کب کرتی ہوں میں تم سےکال پہ بات؟؟؟ میم جی۔۔۔۔میم جی۔۔۔۔وہ بولنے کی کوشش کرتا رہا لیکن آئمہ نے اس کی سنی ہی نہیں۔کیا چاہتے ہو سکول چھوڑ دوں؟؟؟ایسے بہانے بہانے سے کیوں تنگ کر رہے ہو سیدھا سیدھا کہ دو۔۔۔(یہ کہتے کہتے آئمہ کالس سے باہر چلی گئی)۔ اب احمد ساری بریک کے دوران سٹاف روم کے باہر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا کے شاید آئمہ باہر آئے اور وہ اپنی صفائی بیان کرے مگر اس کا یہ انتظارختم ہی نہ ہوا۔اور آئمہ گھر چلی گئی۔ اگلے دن احمد چھٹی پر تھاسعد بوال میم جی آپ کو پتا ہے احمد کیوں نہیں آیا؟؟؟آئمہ غصے سے بولی کہ نہ مجھے پتہ ہے اور نہ مجھے پتہ لگانے کی کوئی ضرورت ہے۔۔ اگلے دن احمد سکول آیا تو آئمہ نے اگنور کیا سب بچے ٹیسٹ کر رہے تھے تو احمد نے بھی ٹیسٹ کرنا شروع کر دیااور ٹیسٹ کے آخر میں لکھا میم جی آئی ایم سوری۔۔۔آپ ایک دفعہ میری بات سنیں تو سہی۔۔۔کیا میں آپ کو اتنا کرپٹ لڑکا لگتا ہوں؟؟؟؟جوـ ٹیچر کے بارے میں غلط خیاالت رکھے۔۔۔۔یا کسی کو بدنام کرے۔۔۔۔۔۔۔یہ سب پڑھنے کے بعد آئمہ کا غصہ تھوڑا کم ہو گیا۔وہ پیج پھاڑنے کے بعد خاموش ہو گئی۔احمد کو اس کے رویے سے ایسا لگا کے اس کا غصہ اب کم ہو گیا ہے۔۔۔۔وہ آئمہ کے کالس سے باہر جانے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے باہر چال گیا اور بوال میم جی اگر ابھی بھی میں ہی آپکو کرپٹ لگتا ہوں۔تو میں سوری کر لیتا ہوں۔لیکن آپ کم از کم ناراضگی تو ختم کر دیں۔۔۔۔آئمہ نرم لہجے سے بولی کہ بیٹا ایسے نہ کیا کریں نا کے مجھے غصہ آئے۔اچھا میم جی اس دفعہ مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔۔ آئمہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اچھا جائیں بیٹا میری اگلی کالس کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔ احمد فورا بوال میم جی ایک وعدہ کریں کے کبھی یہ سکول نہیں چھوڑیں گی۔۔۔۔میں آپ کو اچھا بچہ بن کے دکھائوں گا۔آئمہ بولی بیٹا جانی آپ کا کام ہے پڑھنا میں نہ سہی کوئی اور سہی لیکن آپ کو تو اچھا بچہ بننا ہے نا!!!نہیں نا میم جی مجھے صرف آپ سے ہی پڑھنا ہے۔ اب جائیں کالس میں نہ اپنا ٹائم ویسٹ کریں نہ ہی میرا۔۔۔۔ اگلے دن آئمہ کالس میں گئی تو احمد دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا آئمہ نے ایک دو دفعہ دیکھااور اگنور کیا۔جب وہ سب کا کام چیک کرنے لگی تو احمد نے کچھ بھی نہیں لکھا تھا(اندازہ تو اس کو تھا ہی) وہ غصے سے بولی کل ہی کہا تھا نا کے اچھے بچے بن کے دکھائو گے۔۔۔۔اگر کام نہیں کرنا تو کل سے میری کالس میں نہ آنا!!!یہ کہتے ہی وہ کالس سے باہر چلی گئی۔ اگلے دن احمد میتھ کی پوری یونٹ تیار کر آیااور بوال میم جی اس کا ٹیسٹ لے لیں آئمہ سن کے حیران رہ گئی کہ وہ بچہ جسے ایک دفعہ میں سوال سمجھ نہیں آتا اس نے پوری یونٹ کیسے تیار کر لی؟؟؟ٹیسٹ میں اچھے نمبر آنے کے بعد وہ آئمہ کے پاس گیا اور بوال اب تو آیا نا آپ کو مجھ پہ اعتبار؟؟؟آئمہ بولی گڈ آئندہ بھی ایسے ہی تیاری کر کے آنا۔سعد آئمہ کے پیچھے کالس سے باہر گیا اور بوال میم جی !آپ کا گھر کہاں ہے؟؟؟؟کیوں بیٹا؟؟؟میم جی میں نے آپ کے گھر ٹیوشن پڑھنے کے لئے آنا تھا۔بیٹا جی میں نہیں پڑھاتی ٹیوشن۔میم جی صرف مجھے پڑھا دیں۔بیٹا جی آپ کی بات نہیں میں فری نہیں ہوتی۔ بوال کیوں میم جی آپ نے کپڑے دھونے ہوتے ہیں؟؟؟ بیٹا ابھی کالس میں جائیں کل کالس میں بات ہو گی۔۔۔ اگلے دن وہ بوال میم جی آپ کیوں انکار کر رہی ہیں مجھے پڑھانے سے؟؟؟بیٹا مجھے گھر میں اپنا پڑھنا ہوتا ہے نا!!! میم جی آپ کیا پڑھ رہی ہیں؟؟؟بیٹا جی میں سی ایس ایس کر رہی ہوں۔میم جی وہ کیا ہوتا ہے؟؟؟بیٹا جی اس کے بعد 17 گڑیڈ کا افسر بھرتی ہوتا ہے۔سعد بوال میم جی احمد کے ابو بھی یہی ہیں۔آئمہ بورڈ پہ سوال لکھتے ہوئے بولی احمد!!!! یہ سعد صحیح کہ رہا ہے؟؟؟احمد سعد کو سرگوشی کرنے لگا کے آپ کے سسر جی ہیں اور آپ کو پتا ہی نہیں۔۔۔۔آئمہ کو آواز تو آ گئی تھی مگر وہ ایسا ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ بولی جی تو بیٹا! اس سوال میں کیا ہو گا کسی کو کچھ آئیڈیا ہے؟؟؟احمد بوال یار پتہ نہیں کب سمجھ آئے گی؟؟؟جیـ بیٹا کیا سمجھ نہیں آیا آپ کو؟؟؟(سعد کو سرگوشی کرتے ہوئے بوال سب باتیں سنائی دے دیتی آپ کو سوائے اس کے جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔) بیٹا سرگوشیاں بند کریں اور کام پہ توجہ دیں۔ سوری میم جی!!!!۔ پیریڈ ختم ہوتے ہی وہ فورا اپنی دوست کے پاس گئی اور بولی میم جی آپ بتائیں اس میں میرا کوئی قصور ہے کیا؟؟؟مومنہ بولی اب کیا ہوا؟؟؟بتائیں تو سہی آپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟؟؟وہ۔۔۔۔احمد۔۔۔۔وہ۔۔۔۔اس نے۔۔۔۔کیا وہ وہ میم جی بتائیں نا کیا کہا احمد نے؟؟؟؟(پوری بات مومنہ کو بتا ہی دی) تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔۔آپ کو ہنسی آ رہی ہے اور میں نے پتہ نہیں کیسے اس کو اگنور کیا ہے۔تو بات ہے ہی ہنسنے والی میں کیا کروں؟؟؟یار آپ بتائیں کیا اس میں میرا کوئی قصور ہے؟؟؟کیا میری کوئی غلطی ہے جو اس کو ایٹریکشن محسوس ہو رہی؟؟؟ارے نہیں نہیں آپ تو سیریس ہی ہو رہی ہیں ان لڑکوں کا کام ہوتا ہے ٹائم پاس۔ اس نے ویسے ہی کہ دیا ہو گا اور آپ سیریس ہو رہی ہیں۔ اسے بس اگنور کریں۔ اس کے بچپنے کو ایسے بھول جائیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔۔ آئمہ پورا دن پریشان رہی کہ اب کیا کروں؟؟؟ایک تو گھر میں اتنا مسئلہ چل رہا اگر یہ بات کسی کو پتہ چلی تو میں کیسے کلیئر کروں گی اپنی پوزیشن؟؟؟؟اگلے دن جب آئمہ کالس میں گئی تو غصے سے ایک سوال سمجھانے کے بعد اگال ان کو خود کرنے کو کہااحمد نے حسب معمول کہا کے مجھے دوبارہ سمجھا دیں۔کیوں جب میں سمجھا رہی تھی تو کہاں تھے؟؟؟ احمد نے دھیمی آواز میں کہا کے آپ نے میری طرف دیکھ کے جو نہیں سمجھایا تو مجھے کیسے سمجھ آتا َ؟؟؟(اور غصے سے بولی)کالس میں صرف آپ تو نہیں ہیں نا!!!جو سارا وقت آپ کی طرف دیکھتی رہوں۔۔۔(سعد کو سرگوشی کرتے ہوئے بوال یہی تو مسئلہ ہے نا آپ سمجھ ہی نہیں رہی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں)۔آئندہ یہ حرکت نہ کرنا میرے سامنے۔۔۔سخت بری حرکت لگتی ہے مجھے سرگوشیاں کرنے والی۔۔۔۔سوری میم جی۔۔۔بس ایک کام آتا ہے آپ کو سرگوشیاں کرنے کا۔۔۔ پیریڈ ختم ہونے کے بعدجب آئمہ دوسری کالس میں گئی تو احمد نے دروازے پہ دستک دی۔(آیمہ دروازہ کھولتے ہوئے بولی)جی بیٹا !!!آپ کو دیکھے بغیر دل نہیں لگ رہا تھا نا اس لئے دیکھنے آگیا۔یہ سن کے آئمہ پہ تو جیسے سکتہ طاری ہو گیا ہو۔(حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کے سوچنے لگی کہ اس نے اتنی بڑی بات کیسے کہ دی)۔غصے سے بولی طبیعت تو ٹھیک ہے نا!!!سوچ سمجھ کے بات کیا کریں کے آگے کون موجود ہے؟؟؟ارے نہیں نہیں میم جی میں نے تو مذاق کیا تھا لیکن آپ تو سیریس ہی ہو گئیں۔اگر آپ کو برا لگا تو سوری۔میم جی میں تو میم شمائلہ سے بھی ایسا ہی مذاق کرتا تھا انہوں نے تو کبھی مائنڈ نہیں کیا۔ایسے مذاق کسی اور سے ہی کیا کریں میں برداشت نہیں کرتی۔اچھا سوری میم جی وہ اصل میں سر نے بھیجا تھا کے آپ سے بورڈ مارکر لے آئوں لیکن آپ سے تھوڑا سا مذاق کر لیا۔ایسی باتیں مجھے مذاق میں بھی پسند نہیں۔میرے سامنے اپنی حد میں رہ کے بات کیا کریں۔میم جی آپ نے زیادہ ہی مائنڈ کر لی میری بات۔۔۔ سوری۔۔۔۔میم جی آپ کو تو پتہ ہے نا میں اس ٹائپ کا لڑکا نہیں۔۔۔آپ کی ٹائپ نظر آ گئی ہے آج مجھے۔۔۔۔میم جی آپ کو مجھ پہ اعتبار نہیں؟؟؟بندے کی سوچ کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہی لگایا جاتا ہے اور آج مجھے اچھے سے ہو گیا ہے اندازہ۔۔۔۔۔میم جی آپ ایک جملے سے کسی کے کیریکٹر کا کیسے اندازہ لگا سکتی ہیں؟؟؟کبھی کبھی کچھ الفاظ ان سب پہ بھاری ہوتے ہیں جوشاید آپ ساری زندگی لگا کے کہے ہوں۔میم جی آپکے نزدیک مذاق میں کہے گئے الفاظ زیادہ اہمیت رکھتے ہیں؟؟؟ آئمہ نے جب یہ بات مومنہ کو بتائی تو وہ بولی ہممممہمممم۔۔یہ کچھ ٹیچرز کا قصور ہے نا جو ایسی باتیں سن کے برداشت کرتی ہیں اسی لئے بچوں کو اپنی غلطی محسوس نہیں ہوتی۔صحیح کہ رہی ہیں آپ۔۔۔اچھا کیا آپ نے جو آگے سے اسے باتیں سنائیں اب وہ کسی اور سے ایسے فری نہیں ہو گا۔آئمہ بعد میں یہی سوچتی رہی کہ ایسا تو نہیں ہے کہ وہ سنجیدہ ہو اور پھر بعد میں ڈر سے جھوٹ بول رہا ہو۔۔۔اسی سوچ میں جانے کب اگلی صبح کا سورج نکل آیا اسے پتہ ہی نہ چال۔ احمد چھٹی پہ تھا۔چھٹی کے بعد جب آئمہ گھر جانے لگی تو احمد سکول کے باہر کھڑا موبائل استعمال کر رہا تھا۔یار مومنہ یہ بدتمیز پتہ نہیں راستے میں کیوں کھڑا ہے؟؟؟ہاہاہاہاہـ آپ کے لئے اور کیوں؟؟؟آج سکول نہیں آیا نا تو یہاں آ گیا آپ کا دیدار کرنے۔۔۔۔تنگ نہ کریں نا یار!!!آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے اور مجھے ٹینشن ہو رہی ہے کہ آگے سے آپ تو چلی جائیں گی نا اس نے اگر میرا پیچھا کیا تو؟؟؟ آپ تو چلی جائیں گی نا میں اکیلی کیا کروگی۔راستے میں بہت سے جاننے والے بھی نظر آ جاتے ہیں تو وہ کیا کہیں گے میرے بارے میں۔۔۔۔ارے میم جی آپ ٹینشن نہ لیںاگر اس نے کوئی فضول حرکت کی تو آپ بھی صحیح بے عزتی کرنا۔یہ باتیں کرتے کرتے جب وہ دونوں اس کے قریب سے گزری تواس نے موبائل پہ گانا لگا دیا":معاف کریں وے موال معاف کریں"۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سنتے ہی آئمہ مزید غصے میں آ گئی اور مومنہ تو ہنس ہنس کے پاگل ہو گئی ہو جیسے۔آئمہ بولی چھیچھوڑا نہ ہو تو۔۔۔۔یہ امید نہیں تھی مجھے اس سے۔۔۔۔تو آپ نے اس سے امیدیں بھی وابستہ کر رکھی ہیں؟؟؟؟؟ اوہو!!!!!!!!!!!!!!!مطلب میں اسے شریف سمجھتی تھی۔۔۔۔ہاہاہاہا تو اس نے کون سی بدمعاشی دکھائی ہےآپ اسے معاف کر دیں نا تا کہ بے چارے کو اتنی مشکل ہی نہ ہو۔دیکھیں نا کیسے تیار ہو کے آیا ہے آپ کو راضی کرنے کے لئے آپ بھی مان جائیں نا اب۔۔۔۔ اور غصہ نہیں دالئیں آپ مجھے۔۔۔۔اچھا مڑ کے دیکھیں کہیں وہ پیچھا تو نہیں کر رہا؟؟؟؟نہیں آ رہا پیچھے آپ پریشان نہ ہوں آرام سے گھر جائیں۔اللہ حافظ کہتے ہی وہ دونوں اپنے اپنے راستوں پہ چل دی۔ گھر پہنچتے ہی اس نے فورا مڑ کے پیچھے دیکھا اور اسے نہ پا کر اسے اطمینان بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ پریشان بھی ہونے لگی کہ آخر یہ آیا کیوں تھا؟؟؟؟؟؟اسی کشمکش میں اگلے دن جب وہ سکول پہنچی تو اس کے سارے سوالوں کا جواب لئے احمد وہاں پہ موجود تھا۔کالس میں پہنچتے ہی بورڈ پہ اس کی نظر "آئی ایم سوری "پہ پڑی۔وہ سمجھ تو گئی تھی کہ یہ کس نے لکھا ہے مگر پھر بھی پوچھنے لگی۔جواب نہ پا کر غصے سے بولی کہ یہاں جو کام کرنے آتے ہیں نا صرف اسی پہ توجہ دیں۔کالس سے آخر میں سب بچوں کا کام چیک کرتے ہی کالس سے باہر چلی گئی تو احمد کاپی لئے اس کے پیچھے آیا کہ میم آپ نے میرا کام چیک نہیں کیا۔بیٹا احتیاط عالج سے بہتر ہے۔میم جی کام تو چیک کریں نا!!!!!آئمہ نے جان چھڑوانے کے لئے اس کی کاپی پکڑ لی۔کاپی پہ بھی لکھا تھا میم جی آخری دفعہ معاف کر دیں آئندہ نہیں کروں گا ایسے۔اچھا جائیں کالس میں۔۔۔۔میم جی مجھے ایک اور بات بھی کلیئر کرنی تھی۔جی کہیں کیا کہنا ہے اب۔۔۔۔ میم وہ کل میں آپ کا پیچھا کرنے کے لئے نہیں کھڑا تھا سکول کے باہر۔قسم سے میم طیبہ نے بالیا تھا۔بیٹا جی میں نے کب کہا کہ آپ کیوں کھڑے تھے پھر آپ مجھے وضاحت کیوں دے رہے ہیں؟؟؟؟میم جی اصل میں مجھے لگا کہ مجھے اپنی پوزیشن کلئیر کرنی چاہئے تا کہ غلط فہمی پیدا ہی نہ ہو۔کہ دیا جو کہنا تھا؟؟؟؟اب جائیں اپنی کالس میں۔۔۔۔میم جی آپ ناراض تو نہیں ہیں نا مجھ سے؟؟؟؟آئندہ ایسی حرکت کی امید نہیں رکھتی آپ سے۔۔۔۔میم جی اعتبار رکھیں مجھ پہ آئندہ آپ کو موقع نہیں دوں گا۔۔۔۔ آئمہ نے مومنہ کو بتایا تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔اور بولی بہت سمجھدار ہے آپ کا سٹوڈنٹ۔محبت کی پہلی سیڑھی اچھی طرح جانتا ہے۔کیا مطلب؟؟؟مطلب یہ کہ اعتبار ہی تو ہوتا ہے ہر رشتے کے لئے سب سے زیادہ اہم۔اور اس نے سب سے پہلے اسی پہ ہی کام شروع کیا ہے۔۔۔۔میم آپ بھی نا پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی ہیں۔وہ اتنا سمجھدار نہیں ہے۔چلیں ہی رہیں کیونکہ آپ شرط لگائیں ٹریٹ کھالنے کی اگر میری بات سچ نکلی تووووووووو۔۔۔۔۔۔اچھا !!!آپ اس انتظار میں ایسا تو کچھ ہونے واال نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ آئمہ کو اب احمد کی باتوں کی اتنی ٹینشن نہیں ہوتی تھی اب وہ اس کی سب باتوں کو بچپنا سمجھ کے اگنور کرتی تھی لیکن احمد بے چارہ سنجیدہ تھا وہ اب روزانہ گھر سے کام بھی کر کے التا تھا اور کوئی فضول بات بھی نہیں کرتا تھا۔اس کا لہجہ عجیب سا تھا مغروریت اس کے چلنے پھرنے 'بات کرنے میں صاف ظاہر ہوتی تھی۔مگر اب اس نے میتھ میں دلچسبی لینا شروع کر دی تھی۔ایک دن بوال میم جی اب میں نے آرکیٹیکچر بننے کا سوچا ہے۔وہ کیوں بیٹا؟؟؟اس کا تو کوئی سکوپ بھی نہیں۔کہنے لگا کہ اب مجھے میتھ جو اچھا لگنا شروع ہو گیا ہے اور اس میں میتھ استعمال ہوتا ہے نا اس لئے میں نے ایسا سوچا ہے۔تو بیٹا باقی سبجیکٹس بھی پڑھا کرو نا پھر باقی بھی اچھے لگنے لگیں گے۔میم جی باقیوں میں دل ہی نہیں لگتا نا!!!!بیٹا پڑھو گے تو اچھے لگیں گے نا۔۔۔۔اپنے دوست کو سرگوشی کرنے لگا کہ اپنی تو سب منوالیتی ہیں کسی کی بھی سمجھ لیا کریں نا!!!!۔ میں جو کہنا چاہتا ہوں آخر وہ کب سمجھیں گی؟؟؟سعد ہنستے ہنستے بوال لگتا ہے تو نے بے عزت ہونا ہے۔۔۔۔میری بات مان لے بھائی چھوڑ دے یہ کام اس میں سوائے بے عزت ہونے کے اور کچھ نہیں ملنے واال تجھے؛سکول سے الگ نکالے جائو گے۔۔۔۔بیٹا کیا امپورٹنٹ ڈسکشن چل رہی ہے؟؟؟کچھ نہیں میم جی یہ فیروز خان کچھ کہ کر رہا ہے۔۔۔کون فیروز خان؟؟؟میم جی یہ احمد ہے نا فیروز خان۔۔۔۔کیا مطلب میم جی اصل میں نا احمد کو بہت پسند ہے فیروز خان۔اس لئے یہ اس کی طرح ہی بالوں کا سٹائل بھی بنا کے آتا ہے اوراسی کی طرح ہی ایٹی ٹیوڈ میں بھی رہتا ہے نا اس لئے ہم سب دوستوں نے اس کانام ہی فیروز خان رکھ دیا ہے۔اچھا احمدکیوں پسند ہے آپ کو فیروز خان اتنا زیادہ کہ آپ اسے اتنا کاپی کرتے ہیں؟؟؟؟میم جی خانی ڈرامے کی وجہ سے۔۔۔۔یہ سب ڈرامے جھوٹ ہوتے ہیں آپ ان کو اتنا سیریئس لے رہے ہیں،اتنا کاپی کرتے ہیں ان کو کہ لوگوں کو آپ کی پرسنلٹی نظر ہی نہیں آ رہی۔آپ کی پرسنلٹی اس میں کہیں گم ہی ہو تی جا رہی ہے۔ارے نہیں میم جی بالکل سچی سٹوری ہے۔۔۔۔آپ نیٹ پہ سرچ کریں نا!!!بالکل رئیل ہے اس کی سٹوری۔۔۔کوئی نہیں کرتا کسی کے لئے اپنی الئف برباد۔۔۔افوہ نہیں نا میم جی آپ کو کیا پتہ کسی کے جذبات کی شدت کا۔۔۔آج کل کے دور میں کوئی سچائی نہیں ہوتی جذبات میں۔۔(منہ میں منمناتے ہوئے بوال:میم جی آپ کو بھی ایک دن یقین آئے گا)اسی وقت کا مجھے انتظار رہے گا۔۔۔۔آپ یہی فضول باتیں کرتے رہتے ہیں نا اس لئے ہی فیل ہوتے ہیں۔۔۔ایسے تو نہ کہیں نا میم جی میتھ میں تو پورے نمبر لیتا ہوں۔۔۔باقیوں میں جو فیل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔وہ تو میں پڑھتا ہی نہیں ہوں نا ورنہ جو پڑھتا ہوں اس میں نمبر دیکھیں نا۔۔۔بیٹا جانی جب میری عمر کے ہو گے نا تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ سب ڈرامے جھوٹے ہیں۔۔۔پھر پڑھنے کا دل کرے گا مگر تب موقع نہیں ملے گا۔۔۔۔میم جی آپ بات کہیں سے بھی شروع کریں ال کے ختم پڑھائی پہ ہی کرتی ہیں۔۔۔بیٹا جانی تو میرا یہاں آنے کا مقصد بھی تو یہی ہے نا۔۔۔۔ سب سمجھ ہے آپ کو لیکن پتہ نہیں میرا مقصد کب سمجھیں گی؟؟؟میم جی ایک بات تو بتائیں۔۔۔جی پوچھیں بیٹا۔۔۔اگر اس دفعہ میرے پورے نمبر آئے تو آپ کیا دیں گی مجھے؟؟؟؟کیا چاہئے آپ کو؟؟؟سوچ لیں میم جی جو بھی مانگوں گا؟؟؟ پہلے نمبر تو لے لو۔۔۔میم جی آپ وعدہ کریں پھر دیکھیں میں کیسے لیتا ہوں پورے نمبر۔۔۔اچھا۔ اگلے دن سکول میں پیرنٹس میٹنگ تھی سب بچوں کے گھر والے آئے ہوئے تھے۔کچھ کے گھر والوں نے کہا کہ آپ ہمارے بچوں کو ٹیوشن پڑھا دیں یہ آپ کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔سوری لیکن میرے پاس گھر میں ٹائم نہیں ہوتا۔۔۔۔ میم جی آپ جب بھی فری ہوں ایک گھنٹہ بس پڑھا دیا کریں۔ارے نہیں نا آپ ایسے منتیں نہیں کریں نا مجھے برا لگتا ہے۔۔۔اچھا چلیں میں سکول میں ہی آدھا گھنٹہ فالتو ٹائم دے دیتی ہوں۔بہت بہت شکریہ آپ کا۔۔۔۔بہت محنت کر رہی ہیں آپ ہمارے بچوں پہ۔۔۔اللہ آپ کو اجر دے۔۔۔آمین !!!بس دعا کر دیا کریں میرے لئے۔۔۔ اتنی دیر میں احمد کی امی بھی آ گئیں اور کہنے لگیں میم جی آپ کی وجہ سے احمد نے پڑھنا شروع کر دیا ہےپہلے پورا سال کبھی اس کو کتاب اٹھائے نہیں دیکھا تھا اور اب سارا ٹائم میتھ ہی اٹھائے رکھتا ہےرات کو بھی دیر تک پڑھتا رہتا ہے۔ جی جی بہت محنت کر رہا ہے۔۔۔۔مومنہ بولی!یہ نہ ہوبورڈ میں سب مضامین میں فیل ہو جائے اور میتھ میں پورے نمبر لے لے۔اس کو کہیں کہ باقیوں پہ بھی تھوڑی توجہ دے دے۔جی بس سنتا کہاں ہے کسی کی؟؟؟آپ ہی کچھ ایسا کریں نا کہ وہ باقی بھی اسی طرح پڑھنا شروع کر دے۔۔۔ہاہاہاآپ نے الٹا ہمیں ہی قصوروار بنا دیا۔نہیں نہیں قصور تو میرے ہی بیٹے کا ہے۔اس کے ابو بھی بہت کوشش کرتے ہیں مگر یہ پڑھے تو ناااااا۔اپنی مرضی کا مالک ہے۔ہم زیادہ دبائو اس لئے نہیں ڈالتے کہ کہیں غصے میں آکر پڑھنا چھوڑ ہی نہ دے۔ہم تو اسی پہ ہی شکر کرتے ہیں کہ چلو آہستہ آہستہ ہی سہی پڑھتا تو رہے نا۔۔۔چلیں اللہ اس میں شوق ڈالے۔ اگلے دن احمد بوال میم جی آپ نے میرے گھر والوں کو کیا کیا شکایتیں لگائی ہیں؟؟؟؟ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔۔۔امی کہ رہی تھیں کہ آپ نے کہا کہ احمد بالوں کے سٹائل بنا کے آتا ہے اس لئے پڑھائی پہ توجہ نہیں دیتا۔نہیں میں نے تو ایسے نہیں کہا،وہ تو میم مومنہ نے کہا ہے۔اگر مجھے آپ کو شکایتیں لگانی ہوئیں نا تو میں آپ کے سامنے ہی لگا دوں گی۔ڈرتی تھوڑا ہی ہوں میں آپ سے۔۔۔نہیں میم جی میں تو ویسے ہی کہ رہا تھا۔ بیٹا جی آپ باقی سبجیکٹس بھی پڑھا کریں نا،آپ کے والدین کو کتنا شوق ہے آپ کو پڑھانے کا اور آپ پڑھتے نہیں۔۔۔۔میم جی باقی ٹیچرز صحیح سے پڑھاتی نہیں ہیں نا۔۔۔۔تو بیٹا جانی جو سمجھ نہیں آتا مجھ سے پوچھ لیا کریں نا۔۔۔آپ کو آتے ہیں باقی سبجیکٹس؟؟؟تو بیٹا جانی کیا میں نے صرف میتھ ہی پڑھا ہے؟؟؟نہیں وہ آپ پڑھاتی نہیں ہیں نا اور سبجیکٹس۔۔۔اس لئے مجھے ایسا لگا۔۔۔بیٹا جانی باقی یاد کرنے والے ہوتے ہیں نا سبجیکٹس اب بچے یاد کرتے نہیں اور میرا رزلٹ خراب ہوتا ہے نا اس لئےنہیں پڑھاتی میں اور سبجیکٹس؟؟؟آپ پڑھائیں تو سہی نا میں نے اگر نہ پڑھا تو آپ کہیے گا۔۔۔ایک بچے کو تو صرف نہیں پڑھانا نا ۔۔۔۔پوری کالس کو پڑھانا ہوتا ہے نا!!!!سب بچے بولے میم جی لے لیں نا باقی ٹیچرز پیریڈ لیتی ہیں تو ٹائم نہیں گزرتا،آپ کے پیریڈ میں نہ تو بور ہوتے ہیں اور پڑھ بھی اچھا لیتے ہیں۔۔۔آئمہ ہلکی سی مسکرائی اور بولی بیٹا آپ ٹائم گزارنے کے لئے ایسا چاہتے ہیں؟؟؟؟نہیں میم جی اصل میں آپ سے ہم ہر بات پوچھ سکتے ہیں نا،باقی ٹیچرز سے پوچھو تو وہ کہتی ہیں کہ آپ بد تمیزی کر رہے ہیں۔۔۔ہم ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں اس لئے گھر جا کے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا تب ہی تو گھر جا کے کچھ پڑھنے کا دل نہیں کر تا نا۔یہا ں ٹیچرز سر سے اتارتی ہیں اور گھر جا کے ہم بھی سر سے اتارتے ہیں۔۔۔۔سعد بوال میم جی تو پھر کل سے آپ لے رہی ہیں ہمارے سب سبجیکٹس؟؟؟بیٹا جی میرے ہاتھ میں تو نہیں ہے نا۔۔۔۔اگر میتھ کا رزلٹ اچھا ہوا تو میں بات کروں گی۔۔۔کہ مجھے اور بھی سبجیکٹ دے دیں۔۔۔چلیں ٹھیک ہے آپ وعدہ کریں ہمارے رزلٹ کی فکر نہ کریں۔۔۔۔ اب وہ چھٹی کے بعد بھی فالتو ٹائم لگاتی اور صبح زیرو پیریڈ بھی۔۔۔۔اس کے عالوہ بریک میں بھی اگر کوئی پوچھتا تو سمجھانے لگتی۔باقی ٹیچرز اس بات پہ مائنڈ بھی کرتی کہ کیا صرف میتھ میں ہی پاس ہونا ہے سب بچوں نے؟؟؟؟؟؟رزلٹ آیا تو نہ صرف بچوں کے میتھ میں اچھے نمبر تھے بلکہ کافی زیادہ کے تو پورے نمبر بھی تھے۔۔۔رزلٹ دیکھتے ہی باقی ٹیچرز بولیں،اتنا میتھ پڑھائیں گی تو بچے بھی صرف میتھ ہی پڑھیں گے نا۔۔احمد کے پورے نمبرآ ہی گئے،بوال میم جی آپ کو وعدہ یاد ہے نا!!!!!!!!!!ہم م م م آپ وعدہ کریں ناراض تو نہیں ہوں گی نا؟؟؟نہیں۔۔۔آپ نہ کریں نا ناراض کرنے والی بات۔۔۔میم جی آپ مجھ سے دوستی کریں گی؟؟؟بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟کبھی دیکھا ہے کسی سٹوڈنٹ کو کسی ٹیچر سے دوستی کرتے؟؟؟؟میم جی آپ نے بھی کبھی دیکھا ہے کسی سٹوڈنٹ کو ٹیچر کی اتنی بات مانتے ہوئے۔۔۔۔اچھے بچے ٹیچرز کی بات مانتے ہیں اس میں کون سی ان ہونی ہے؟؟؟؟میم جی آپ کو مجھ میں اور باقی سٹوڈنٹس میں کوئی فرق نہیں لگتا؟؟؟؟نہیں ں ں ں ں ں۔۔۔سعد کو دھیمی آواز میں بوال آپ کے لئے میں نے میتھ سے محبت شروع کر دی۔۔۔اور آپ کو کوئی فرق ہی نظر نہیں آیا۔۔۔۔میم جی مجھے غلط نہیں سمجھئے گا اصل میں میری کوئی بہن نہیں نا اس لئے آپ کو کی رہا تھا۔۔۔یہ سن کے آئمہ کا دل پگھل گیا بولی اچھا بہن ہی سمجھیں مجھے۔۔۔کر لیا کریں شیئر جو بھی کہنا ہوتا ہے۔۔۔ آئمہ کی دوست اس کی ساری باتیں سن کے ہنس پڑی اور بولی بس ٹریٹ تیار رکھیں۔۔۔آپ پتہ نہیں کیا سوچ رہی ہیں وہ مجھے بہن سمجھتا ہے۔۔۔ایک توآپ سیدھی بہت ہیں۔۔۔۔صحیح کہتا ہے نا بے چارہ کہ آپ کچھ سمجھتی ہی نہیں ہیں۔۔۔ اب احمد وزانہ اکیال ایک کرسی پہ سب سے آگے جا کے بیٹھ جاتا۔نہ کالس میں کسی سے بات کرتا۔۔۔۔بس آئمہ کی طرف مسلسل دیکھتا رہتا۔آئمہ بچوں کو پڑھاتی رہی اسے پتہ ہی نہ چال کہ کب پیریڈ ختم ہو گیا۔گھنٹی بجتے ہی احمد سوچوں کے طوفان سے باہر آ گیا اور بوالمیم جی آپ نے تو مجھے آج کچھ سمجھایا ہی نہیں۔۔۔نہ ہی آگے کام دیا۔بیٹا بال تے نا جہاں سے سمجھ نہیں آیا تھا سوال۔۔۔میں آپ کی طرف اسی لئے تو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔سوری بیٹا میں نے دھیان نہیں دیا۔اچھا اب کل سمجھا دوں گی۔ اگلے دن کالس میں آتے ہی احمد بوال میم جی آج پہلے مجھے کروائیں سوال کل بھی آپ نے مجھے نہیں کرایا تھا۔۔۔جی بیٹا بتائیں۔۔۔میم جی آپ نے کوئی وعدہ کیا تھا یاد ہے آپ کو؟؟؟؟کیا؟؟؟کہ آپ میری ہر بات سنیں گی۔۔۔جی بیٹا پہلے کام کریں۔۔۔پھر سوال سمجھانے لگی تو احمد پوال میم جی آپ کی آواز ایک ٹی وی ایکٹریس منال جیسی ہے۔۔۔بیٹا اس خیالی دنیا سے باہر آ جائیں۔۔۔اصل الئف میں رہنا سیکھیں۔میم جی پتہ نہیں آپ کو سب جھوٹ کیوں لگتے ہیں۔۔۔آپ کسی پہ تو اعتبار کریں نا۔۔۔بیٹا جانی یہاں سگے رشتے اپنے نہیں بنتے۔۔۔تو آپ ان خیاالت کی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔۔۔میم جی کیا دوستی سگا رشتہ ہوتا ہے؟؟؟؟نہیں۔۔۔تو دیکھیں نا بنا کسی سگے رشتے کے کیسے غیر آپ کے اپنے بن جاتے ہیں۔۔۔صرف اعتبار ہی وہ واحد رشتہ ہے جو ان خیاالت سے حقیقت تک کا سفر طے کر سکتا ہے۔۔۔۔بیٹا یہ ڈائیالگ ڈراموں میں ہی رہنے دیں۔۔۔ان کو اصل زندگی سے ریلیٹ نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔۔۔میم جی کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب آپ کو بھی یہی خیالی دنیا ہی حقیقت لگنے لگے گی۔۔۔چھوڑیں یہ فضول باتیں اور کام کریں۔میم جی آپ میرے ساتھ اب باتیں ہی نہیں کرتی سارا ٹائم بورڈ کے ساتھ چپکی رہتی ہیں۔بیٹا جی اتنی دیر سے کس کے ساتھ کر رہی ہوں باتیں؟؟؟اب اور بھی تو سٹوڈنٹس ہیں نا!!!پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی احمد کی بات نا مکمل ہی رہ گئی اور آئمہ چلی گئی۔ اگلے دن بچوں کوشور کرتا دیکھ کر آئمہ تنگ آ کر بولی کیا آپ اپنے والدین کو بھی ایسے ہی تنگ کرتے ہیں؟؟؟سعد فورا سے بوال نہیں میم جی ان کو اگر تنگ کریں نا تو مار پڑتی ہے۔۔۔تو بیٹا ٹیچرز بھی تو والدین کی طرح ہی ہوتے ہیں نا پھر آپ مجھے کیوں تنگ کرتے ہیں؟؟؟ہاہاہاہـ میم جی آپ کو دیکھ کے ٹیچرز والی فیلنگ آتی ہی نہیں ہے نا۔۔۔کیوں بیٹا میں کوئی ایلین ہوں؟؟؟؟نہیں میم جی آپ ہیں ہی اتنی چھوٹی لگتی ہی آپ 12سال کی ہیں تو کون بے وقوف آپ کو والدین تصور کرے گا۔۔۔آپ لوگوں نے نہیں سدھرنا !!!!چاہے میں جو مرضی مثال دے دوں۔۔۔۔میں اس لئے یہ مثال دے رہی ہوں کہ آپ پیرنٹس کی طرح عزت دیں مجھے بھی اور میری بات مانیں نہ کہ آگے سے بحث لگائیں۔۔۔میم جی عزت تو بہت کرتے ہیں ہم آپ کی۔۔۔جی جی وہ تو نظر آ ہی رہا ہے۔۔۔احمد فورا سے بوال میم جی آپ پیرنٹس کی طرح ہیں نا ۔۔۔۔جی بیٹا میں کہ رہی ہوں تو اس بات کو مانتی بھی ہوں دل سے آپ کو بچوں کی طرح سمجھتی بھی ہوں۔۔۔ویسے ہی تھوڑا کہ رہی ہوں۔۔۔تو میم جی سوچ لیں میری ایک خواہش بھی پوری کریں گی۔۔۔جی بیٹا اگر میرے بس میں ہوئی تو ضرور۔۔۔میم جی آپ ہی تو پوری کر سکتے ہیں وہ خواہش اسی لئے تو کہ رہا ہوں۔سعد نے ہنستے ہنستے بات کا رخ کسی اور سمت میں کر دیا،میم جی احمد کو یہ نہ کہیں کہ آپ پیرنٹس کی طرح ہیں ورنہ یہ بریک میں چیز کھانے کے لئے پیسے بھی آپ سے مانگ لے گا۔آئمہ مسکراتے ہوئے بولی :کوئی حال نہیں آپ کا ،آپ نے نہیں سدھرنا۔آپ لوگ پتہ نہیں کب سیریس ہوں گے۔۔۔۔میم جی سیریس ہم خود ہونا نہیں چاہتے۔وہ کیوں؟کیونکہ سیریس ہو گئے تو آپ کو یاد کیسے آئیں گے؟؟؟کیوں یاد کرنے لگی میں آپ لوگوں کو؟؟؟میم جی جب ہم میٹرک کے بعد یہاں سے چلے جائیں گے تو کیا آپ کو یاد نہیں آئیں گے؟؟؟نہیں بیٹا جی اچھے بچے صرف ٹیچرز کو یاد رہتے ہیں آپ کی طرح تنگ کرنے والے نہیں۔۔۔احمد فورا سے بوال میم کے کہنے کا مطلب ہے میں یاد آئوں گا میم کو کیونکہ میں نے میم کے لئے خود کو اتنا بدال ہے ۔۔۔۔بیٹا جانی بس اب پڑھیں سب اب اپنی تعریفوں کے خود ہی پل باندھنے شروع ہو جائیں گے۔۔۔ بچوں نے اس بات کو مذاق ہی بنا لیا تھا۔رجسٹر موجود نہ ہونے کی صورت میں آئمہ کے ڈانٹنے پہ فورا بوال ماما جی آپ نے لے کے ہی نہیں دیا تھا۔موڈ اچھا کرنے کی بالکل کوشش نہ کریں غصے میں ہوں میں۔۔۔آگے سے سب بچے ہنسنے لگے کہ پہلی ٹیچر ہیں جو خود بتا رہی ہیں کہ میں غصے میں ہوں۔آئمہ اپنی مسکراہٹ کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی:غصے میں نہ رہنے دیا کریں مجھے۔۔۔۔اتنی دیر میں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی،آئمہ نے دیکھا تو ایک ٹیچر اپنے دو ماہ کے بیٹے کولے کر آئی تھی،وہ فورا سے ان کے پاس گئی اور بولی اسے مجھے دے دیں آپ کو نہیں پتہ کے مجھے بچے اٹھانے کا کتنا شوق ہے؟؟؟اچھا آپ کو اتنا شوق ہے تو پہلے بتانا تھا نا میں کب سے اس کو اٹھا اٹھا کے تھک گئی ہوں۔تو آپ اسے روز مجھے دے دیا کریں نا۔۔۔وہ بچے کو اٹھائے ہوئے کالس میں چلی گئی،احمد بوال میم جی میرے بچوں کو بھی ایسے ہی اٹھایا کریں گی؟؟؟بیٹا جانی آپ کے جب تک بچے ہونگے نا تو میں بوڑھی ہو چکی ہونگی۔۔۔سعد بوال میم جی احمد نے اتنا انتظار نہیں کرنامیٹرک ہو یا نہ ہو احمد نے اگلے سال شادی کر لینی ہے،کیوں احمد صحیح کہا نا؟؟؟ہاں صحیح تو کہ رہے ہو اب کیا میں میٹرک کے انتظار میں ساری زندگی شادی ہی نہ کروں؟؟؟ہاہاہاہاہ ابھی آپ کو بہت کریز ہو رہا ہے نا دو دن میں سارا شوق اتر جانا ہے شادی کا۔۔۔نہیں میم جی شادی پڑھائی سے تو بہت آسان ہے۔۔۔بیٹا جانی یہ کوئی ڈرامہ یا فلم نہیں جو بہت آسان ہے زیادہ سے زیادہ 30قسط ہونی اور کہانی ختم اصل الئف میں پوری زندگی پھر آپ کو اسی کے ساتھ ہی گزارنی پڑتی ہے کچھ ٹائم بعد انسان تنگ آ جاتا ہے مگر پھر اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا،میم جی اس الئف میں محبت بھی تو ہوتی ہے نا جس کے سہارے انسان پوری الئف گزار دیتا ہے مگر کتابوں سے یہ محبت ہی تو نہیں ہوتی نا،اس لئے یہ الئف زیادہ مشکل لگتی ہے نا!!!بیٹا جانی یہ سب کم عمری کا جنون ہوتا ہے محبت نہیں،جب میچوڑ ہو جائو گے نا تو سمجھ آ جائے گی تو میم جی کیا آپ کے خیال میں میچوڑ ہونے کے لئے پہلے الئسنس بنوانا پڑتا ہے،آئمہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولی نہیں بیٹا میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کل کے مطلبی دور میں محبت نہیں ٹائم پاس ہوتا ہےاور یہ حقیقت انسان جتنی جلدی سمجھ جائے اتنی جلدی میچوڑ ہو جاتا ہے۔احمد منہ میں منمناتے ہوئے بوال کیا پتہ آپ بھی کبھی میری محبت کی قائل ہو ہی جائیں۔۔۔جی بیٹا !!!میم جی میرا مطلب تھا کہ میری محبت کے بارے میں جو خیاالت ہیں ان کی۔۔۔سوچ ہے آپ کی۔۔۔سعد کی سرگوشی کرتے ہوئے بوال آپکو راضی ہی تو کرنا ہے نا میں نے میچوڑ ہونے سے پہلے پہلے۔۔۔سعد یہ سن کے کھلکھال کے ہنس پڑا ،بیٹا جی جو بھی میرے خالف باتیں کرنی ہوتی ہیں نا وہ گھر جا کے کیا کریں۔۔۔سعد منہ میں بڑبڑایا کہ گھر جا کے کونسا سعد آپ کی باتیں نہیں کرتا ،ہم بے چارے تو آپ کے نام کی ہی تسبیح سن سن کے تھک جاتے ہیں،کیا سکول تو کیا گھر۔۔۔جی جی زرا اونچا بولیں۔۔۔نہیں کچھ خاص نہیں میں احمد کو کہ رہا تھا کہ اب تسبیح شروع کر دو اب تو اجازت بھی مل گئی ہے،صحیح مشورہ دے رہا ہوں نا میں ؟؟؟جی بیٹایہ تو سچ ہے کہ کسی ؑعالم سے اجازت کے بعد کوئی بھی وظیفہ زیادہ پر اثر ہو جاتا ہے لیکن آپ نے کون سا وظیفہ اور کیوں پڑھنا ہے؟؟؟سعد احمد کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بوال میچوڑ نہ ہونے کا۔۔۔۔جی!!!کیا کہا آپ نے ؟؟؟کچھ نہیں میم جی،چلیں پڑھیں ۔۔۔ وظیفہ۔۔۔۔نہیں سبق۔ اب ساالنہ امتحان آ گئے تھے۔پیپر کے آخر میں احمد نے اپنے دل کی ساری داستان لکھ دی اور پیپرز کی چیکنگ دوسرے بالک کی ٹیچرز نے کرنی تھی مگر احمد ان سب باتوں سے بے خبر تھا اس نے آئمہ کے نام ساری تحریر لکھ دی۔اب پیپرز چیک کرنے کے بعد سب ٹیچرز ہنس ہنس کے پاگل ہو گئی احمد کے اس بچپنے پہ۔۔۔وہ پیپر آئمہ کے پاس لے کر گئیں اور بولی دیکھیں آپ کے فارمولے کیا رنگ الئے ہیں؟؟آئمہ اسے پڑھتے ہی حیران رہ گئی اور بولی یار وہ تو مجھے پیرنٹس کی طرح سمجھتا تھا۔۔۔ہاہاہاہاہاہ اپنے بچوں کی امی۔۔۔یار آپ مذاق تو نہ کریں نا!!!آپ ٹینشن کیوں لے رہی ہیں ،آپ کو دو سال یونیورسٹی میں کوئی نہیں مال اور 6مہینے میں سچا محبت کرنے واال مل گیا۔یار آپ تو بس کریں مذاق کرنا مطلب بچہ ہے وہ۔۔۔۔اوووووووووووو اچھا تو اب سمجھ آئی کہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچہ ہے۔۔۔نہیں نا یار بچہ ہی رہ گیا تھا میرے لئے۔۔۔ ہاہاہہاہ شکر ادا کریں نا کہ بچہ آپ کے لئے پرپوزل ال رہا ہمیں تو بچے اپنے چچا ،تایا کا پرپوزل ال کے دیتے ہیں۔۔۔۔آئمہ کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی ،بولی:نہیں نا یار مجھے ٹینشن محسوس تو کرنے دیں نا!!!او یار انجوائے کریں۔اب میں کیا کروں اس بدتمیز کا؟؟؟شادی کے لئے ہاں کر دیں اور اس کا یہ محبت بھرا فائنل پیپر سکول کے باہر چپکا دیں تا کہ نئے محبت کرنے والوں کو اظہار کا نیا طریقہ پتہ چل سکے۔ساتھ ساتھ آپ کی داستان سوشل میڈیا پہ بھی مشہور ہو جائے گی پھر سالمیاں بھی زیادہ ملیں گی۔۔۔آپ کو تو مزے آرہے ہیں،اللہ کرے مجھے بھی آپ کو ایسے ہی تنگ کرنے کا موقع ملے۔۔۔میں تو چاہتی ہوں کے اللہ آپ کی زبان مبارک کرے اور ایسا کچھ میرے ساتھ بھی ہو۔۔۔یار تنگ نہیں کریں نا صحیح ،صحیح بتائیں نا کیا کروں اب میں؟؟؟ارے یار ہمدردانہ مشورہ ہی تو دے رہی ہوں ،ہاں کریں فورا۔۔۔۔ابھی وہ پیار کا مسلسل کرتا رہے گامیتھ کےفارمولوں کی طرح اظہار میتھ کے پیپر پہ لکھ کے کر رہا ہے تو وہ ساری زندگی محبت بھی کبھی نہیں بدلے گا۔۔۔آئمہ وہ پیپر پھاڑتے ہوئے بولی:تھکی ہوں ایسی محبتوں سے۔۔۔کیا مطلب کتنے فارمولے ہضم کر چکی ہیں؟؟؟تنگ نہیں کریں نا یار۔۔۔ سکول میں تو ٹیچرز کی باتوں پہ وہ ہنستی رہی مگر گھر جا کے سوچنے لگی کہ اب میں کیا کروں؟؟؟اس نے تو ساری ٹیچرز کے سامنے مجھے بدنام کر دیا ہے۔۔۔اگر سکول چھوڑوں تو وجہ کیا بتائوں؟؟؟؟اور اگر جائوں تو کس منہ سے۔۔۔اب تو وہ اظہار بھی کر چکا ہے اب تو وہ اور بے تکلفی سے بات کر لے گا سب کے سامنے۔۔۔یہ سوچتے سوچتے نیند جانے کب اسے اپنی گود میں لے گئی اسے پتہ ہی نہ چال۔اگلے دن صبح دیر سے جاگنے کی وجہ سے سکول سے اس کی چھٹی ہو گئی۔ احمد سکول میں آئمہ کو نہ پا کر مومنہ کے پاس گیا اورآئمہ کا پوچھنے لگا۔۔۔بیٹا مجھے تو کوئی میسج نہیں آیا،شاید طبیعت خراب ہو اس کی۔۔۔میم جی آج ہی تو ان کا آنا بہت ضروری تھا۔۔۔وہ کیوں بیٹا؟؟؟کوئیـ سوال سمجھنا ہے تو کسی اور ٹیچر سے سمجھ لیں باقی سب آئی ہوئی ہیں۔۔۔نہیں نا میم جی مجھے ان سے ہی تو کام تھا نا۔۔۔۔تو پھر کل پوچھ لیں۔۔۔میم جی!!!منہ میں بڑبڑانے لگا:پتہ نہیں آج کی رات کیسے گزاری ہے میں نے اب کل تک کہیں اللہ حافظ ہی نہ ہو جائوں۔۔۔ سعد بوال بیٹا تسبیح پڑھنا جلدی گزر جائے گی رات۔۔۔میم جی آپ کو میم آئمہ کے گھر کا نہیں پتہ؟؟؟؟نہیں ۔۔۔کیوں؟؟؟بس ویسے ہی۔۔۔اگلے دن آئمہ نے سکول میں کال کی کہ مجھے کہیں اور اچھی نوکری مل گئی ہے اس لئے میں آپ کے سکول سے ریزائن کرتی ہوں۔یہ سنتے ہی سب ٹیچرز بھی اچانک سے پریشان ہو گئیں۔احمد سنتے ہی بوال :سعد یار یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے،پہلے کم از کم نظر تو آ جاتی تھی نا!!!اب تو وہ بھی چارا نہیں رہا۔۔۔سعد بوال تو ٹینشن نہ لے،ہم ان کے گھر کا پتہ چال لیں گے،تو ان سے سوری کر لینا۔۔۔انہیں راضی بھی کر لینا۔۔۔مگر کیسے؟؟؟وہـ ایسے کہ ہم روزانہ اسی چوک میں بیٹھ جایا کریں گے جہاں سے گزر کے وہ سکول آ تی تھیں،اب بھی تو وہیں سے گزر کے کسی اور سکول میں بھی جاتی ہوں گی نا!!!چھٹی کا ٹائم ہو رہا ہے چل یار ابھی چلتے ہیں۔۔۔دونوں رات دیر تک وہیں انتظار کرتے رہے۔۔۔احمد بار بار مایوسی سے ایک ہی بات دہراتا رہاکہ کاش!!میں نے اظہار ہی نہ کیا ہوتا،کم ازکم وہ چھوڑ کے تو نہ جاتی نا۔۔۔یار تو ٹینشن نہ لے،وہ آ جائیں گی نظر۔۔۔تو اور کیا کروں یہ آئیڈیا بھی تو فالپ ہو گیا نا۔۔۔چل کچھ اور سوچ لیں گے،چل ابھی گھر چل۔۔۔تم بس سوچتے ہی رہنا تمہیں میرے جذبات کا تو نہیں پتہ نا۔۔۔یار اب ایسے تو نہ کہ صبح سے تیرے ساتھ یہاں کھڑا ہوں،تو چال جا یہاں سے میں کب بوال ہے کہ میرے ساتھ بیٹھ۔۔۔جانی تو ناراض تو نہ ہو۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ اب وہ سڑک ہی اس کے لئے آخری امید تھی جہاں اس نے ایک دفعہ آئمہ کو جاتے دیکھا تھا۔سارا سارا دن وہیں اس کا انتظار کرتا رہتا کہ کبھی تو وہ یہاں سے گزرے گی۔۔۔پڑھنا اس نے اب بالکل چھوڑ دیا تھا۔۔۔گھر والے بھی اسے کہ کہ کے تھک چکے تھے،مگر نہ تو وہ گھر والوں کو وہاں بیٹھنے کا مقصد بتانے کو تیار تھا نہ وہاں سے اٹھنے کو۔۔۔اسی انتظار میں دو سال گزر گئے سعد کا میٹرک بھی ہو گیا مگر احمد کا انتظار ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ایک دن سعد کو کہنے لگا کہ میم نے صحیح کہا تھا کہ محبت آج کل کے دور میں نہیں ہوتی۔یار ایسا تو نہ کہ اب تو نے اس محبت کی خاطر ہی اپنے 2سال ضائع کر دیئے۔۔۔لیکن مجھے کچھ حاصل بھی تو نہ ہوا ،دیکھ اگر میری محبت سچی ہوتی تو وہ نظر آ ہی جاتی نا۔۔۔ان کو ذرا ترس نہیں آیا مجھ پہ۔۔۔یہ ٹائم پاس ہی تو تھا جو میں نے کیا۔۔(یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھی بھاری ہو گئی اور آنکھیں بھی بھر آئیں)یار ایسے تو نہ کہ اب تو،اس کو گلے لگا کے بوال تو ،تو مرد ہے اور مرد روتے نہیں۔۔۔یار میں رو نہیں رہا بس اپنے ٹائم پہ افسوس ہو رہاکہ میں نے کتنا وقت ضائع کر دیا نا اپنے اس بچپنے میں۔۔۔ایسا نہ کہ پاگل تجھ سے سچی محبت تو کوئی کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ارے یار تو کب سے اتنا کمزور ہونے لگا تو نے تو کتنی لڑکیوں کے ساتھ فلرٹ کیا ہے اب کیا ہوا،یہی سمجھ ایک تیرے ساتھ کر گئی۔۔۔ہاں صحیح کہا تو نے شاید وہی بدلہ مل رہا ہے مجھے۔۔۔اب مجھے ان لڑکیوں کے جذبات کی قدر ہونے لگی ہے۔۔۔کیا میں ان سے معافی مانگ لوں تو میرا انتظار ختم ہو جائے گا؟؟؟یار توبالکل سوچنے سمجھنے کی صالحیت کھو بیٹھا ہے جیسے۔۔۔اچھا چل سکول چلتے ہیں شاید وہاں میم کی کوئی سی وی مل جائے۔۔۔وہاں سے ایڈریس ڈھونڈ لیتے ہیں۔۔۔پوچھا تھا میں نے سر سے انہوں نے سی سی دی ہی نہیں تھی۔۔۔ ایک دن سعد کو کالج سے گھر جاتے ہوئے راستے میں آئمہ کا بھائی نظر آیا۔وہ خاموشی سے منہ چھپائے اس کا پیچھا کرنے لگا۔گھر دیکھتے ہی فورا احمد کو کال کی اور اس جگہ پہنچنے کا کہا۔تجھے پتہ ہے نا اس وقت میں کہاں ہوتا ہوں؟؟؟؟ یار وہی مسئلہ حل کیا ہے نا تیرا۔۔۔کیا مطلب؟؟؟مطلب کہ میم آئمہ کے گھر کا پتہ چل گیا ہے۔۔۔کیا ؟؟؟کیسے؟؟؟کہاں؟؟؟یار تو آتو سہی جہاں میں کہ رہا ہوں۔۔۔ہاں جلدی بتا مجھے۔احمد فورا اس جگہ پہنچا تو سعد گلی میں کھڑا تھا بوال وہ ہے میم کا گھر،میں نے میم کے بھائی کا پیچھا کیا تھا تو مجھے پتہ چال احمد سنتے ہی فورا دروازہ کھٹکٹانے لگا تو سعد نے اسے روک لیا۔پاگل ابھی کیا کہے گا؟؟؟یار 2سال انتظار کیا ہہے اب تو بات کرنے دے۔۔۔صبر مجھے کوئی آئیڈیا سوچنے دے۔۔۔ جلدی میں پہلے کی طرح کوئی غلطی نہ کر دینا۔۔۔پہلے والی کا غلطی کا یاد کرتے ہی احمد فورا رک گیا،پہلے والی غلطی ہی میں دہرانا نہیں چاہتا۔چل اب یہاں سے کل صبح آئیں گے۔۔۔اگلے دن صبح منہ چھپائے دونوں اس کے گھر کے باہر موجود تھے۔آئمہ حسب معمول سکول جانے کے لئے گزری تو وہ اس کا پیچھا کرنے لگے۔اس کے گاڑی سے اترتے ہی اس کو روک کے بولے میم جی!اس نے مڑ کے دیکھا مگر پہچان نہ پائی اور سمجھی کہ شاید کسی اور کو بال رہے ہیں،وہ خاموشی سے سکول کے اندر چلی گئی۔احمد کے بےانتہا انتظارکو اب منزل کی ایک جھلک نظر آنے لگی تھی۔اب صبح ہوتے ہی وہ اس سکول کے باہر آ جاتا ،چوکیدار نے اس کو مسلسل آتے دیکھا تو وجہ پوچھی اس نے ٹال دیا مگر اب اس کو یہ ڈر تھا کہ کہیں اس دفعہ بھی آئمہ اس کی اس حرکت سے ناراض نہ ہو جائے اس لئے اس نے ایک طرف منہ چھپا کے انتظار کرنا ،شروع کر دیا۔ایک دن چھٹی کے وقت آئمہ کو ایک بچی بال کے الئی کہ میم جی آپ کی گاڑی آ گئی ہے اگلے دن احمد نے آئمہ کے نام خط لکھ کے ایک کتاب میں ڈالنے کے بعد اسی بچی کو دیا اور کہا کہ یہ میم آئمہ کو دے دینا۔بچی نے وہ بک آئمہ کو دی اور کہا کہ میم جی ایک بھائی ملے تھے مجھے وہ کہ رہے تھے کہ اپنی میم کو کہنا کہ مجھے یہ سوال سمجھا دیں۔آئمہ اس کی بات سن کے سوچ میں پڑ گئی کہ کس نے کہا ہو گا سوال سمجھانے کا؟؟؟کون ہے یہ؟؟؟اسـ نے سوچا کتاب میں دیکھتی ہوں شاید آئیڈیا ہو جائے کہ یہ کون ہے۔۔۔اس خط پہ اپنا نام دیکھنے کے بعدآئمہ کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔اس نے آگے پڑھنا شروع کیا کہ یہ کون ہے؟؟؟اسالم و علیکم میم آئمہ! لگتا ہے سب بھول گئی ہیں۔آپ نے کہا تھا نا کہ میچوڑ ہو جائو دیکھیں میں کتنا میچوڑ ہو گیا ہوں۔۔۔کئی دن سے آپ کا پیچھا کر رہا ہوں مگر آپ نے پہچانا بھی نہیں۔یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ وہ کم عمری کا جنون تھا مگر اب تو عمر بھی زیادہ ہو گئی ،لیکن جنون ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔۔اب آپ ہی بتا دیں میں کیا کروں آپ کو بھالنے کے لئے۔۔۔آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرنا چاہتا اس لئے نمبر لکھ رہا ہوں اس پہ کال کر دیں۔مجھے انتظار رہے گا۔۔۔آئمہ خط پڑھنے کے بعد ڈر گئی کہ 2سال بعد یہ مصیبت کہاں سے ٹپک پڑی؟؟؟اب کیا کروں؟؟؟سکول کے باہر جھانک کر دیکھا تو وہ کھڑا سکول کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔اس نے سوچا کہ اگر میں گاڑی میں ہی گھر گئی تو وہ پیچھا کرے گا ایسے سب کو پتہ چل جائے گا اس لئے وہ سکول سے آدھی چھٹی لے کر گئی،اب آئمہ کو اکیلے دیکھ کر احمد اس کا پیچھا کرنے لگاکہ میم شاید مجھ سے بات کرنے کے لئے آج اکیلی آئی ہیں۔گاڑی والے نے کہا باجی!میرا روٹ ختم ہو گیا ہے آپ کو آگے کہاں تک جانا ہے؟؟؟اس پہ آئمہ گاڑی سے اتر گئی۔احمد بھی فورا بائیک سے اتر گیا اور آئمہ کو روکنے لگا،آئمہ نے سوچا "لگتا ہے اس کوسنانی ہی پڑیں گی،ایسے اس نے باز نہیں آنا"۔وہ مڑی اور بولی مسئلہ کیا ہے تمھارا؟؟؟کبھی بہن ،کبھی دوست،اور کبھی۔۔۔شرم نام کی کوئی چیز ہے؟؟؟جب سکول چھوڑ دیا تمہیں کوئی رسپونس نہیں دیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ بات ختم ۔۔۔پھر پیچھے آنے کا مطلب؟؟؟یہ فضول حرکتیں کرنے کا مقصد؟؟؟میم جی یہ تو نہ کہیں کہ آپ نے رسپونس نہیں کیا۔۔۔رسپونس تو کرتی تھیں آپ۔۔۔مجھے سمائل پاس کرتی تھیں،پیار سے مجھ سے بات کرتی تھیں۔جب میں ایسی باتیں کرتا تھا تو آگے سے سمائل پاس کرنے کا تو یہی مطلب ہوا نا کہ آپ بھی انٹرسٹڈ ہیں۔اب پیچھے کیوں ہٹ رہی ہیں مجھے اتنا آگے ال کے۔۔۔او ہیلو بات سنو زرا میری کیا لڑکیاں اب ہنس بھی نہیں سکتے کہ تم جیسےکمزور ذہنیت کے مالک لوگ کچھ اور سمجھ لیتے ہیں،کسی کے ہنسنے کا مطلب یہ کب سے ہونے لگا کہ وہ آپ میں انٹرسٹ لے رہی ہے؟؟؟؟میم جی اپنے مطلب کی ہر بات آپ کو سمجھ آتی ہے آپ کو میرے رویے سے ایسا محسوس نہیں ہوا؟؟؟آپ نے آگے سے مجھے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟؟؟ آپ کو روکنا چاہئے تھا نا اگر آپ ایسا نہیں چاہتی تھی،اتنا آگے ال کے مجھے ،یوں آپ اجنبی ہو گئیں قصور اس میں آپ کا بھی ہے۔۔۔اچھا چلیں مان لیتے ہیں آپ نے رسپونس نہیں کیا لیکن میرے جذبات کو تو جھوٹا نہ کہیں۔۔۔بیٹا پہلے بھی کئی دفعہ آپ کو کہ چکی ہوں کہ یہ آپ کا بچپنا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا۔احمد ہنستے ہوئے بوال میم جی آپ کو کیسے یقین آئے گا؟؟؟آئمہ منہ بسورتے ہوئے بولی:نہ مجھے یقین ہے اور نہ ہی مجھے کرنا ہے یقین۔۔۔۔کیوں میم جی کہیں آپ کی منگنی تو نہیں ہو گئی؟؟؟او ہیلو مزید مطلب نہ نکالیں میری باتوں کا۔۔۔آپ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں جانے دیں مجھے۔چلیں میم جی آپ یہ بتا دیں مجھے آپ کب ملیں گی مجھ سے؟؟؟طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟ملنا مجھے آپ سے آج بھی نہیں تھا وہ تو آپ کا دماغ درست کرنے آ گئی۔اب اس کا غلط مطلب نہ نکال لینا،ویسے بھی آپ کو غلط فہمیاں پالنے کا بہت شوق ہے۔۔۔تو میم جی آپ میری غلط فہمی کو حقیقت میں بدل دیا کریں نا ،روزانہ میرا دماغ درست کرنے آ جایا کریں نا۔۔۔۔بس کر دیں بہت سن لیں آپ کی فضول باتیں۔اب دوبارہ میرا راستہ روکنے یا میرا پیچھا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔میم جی راستہ تو تب تک روکتا رہوں گا جب تک آپ کاراستہ میری منزل نہ بن جائے۔تم نے لگتا ہے باز نہیں آنا؟؟؟تو آپ ہی مان جائیں نا!!!نہ ممکن کی ضد نہ کرو۔یہی تو مسئلہ ہے نا میم جی دل لگتا ہی وہاں ہے جہاں دل لگانے کی جگہ نہیں ہوتی۔آئمہ تیزی سے آگے چل دی کہ اس نے ماننی تو ہے نہیں،لوگ راستے میں دیکھ رہے ہیں۔احمد پیچھے سے کہتا رہا میم جی نمبر پہ کال ضرور کر دیجیئے گا پھر آرام سے میچوڑٹی کی ڈیفینیشن پہ بات کریں گے۔۔۔ آئمہ کی زندگی میں اس بچپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی نہ ہی اسے غلط فہمیاں پالنے کی کوئی عادت تھی۔اس لئے اس نے احمد باتوں کو سنجیدگی سے ہی نہ لیا۔اس کے سامنے اس کا مستقبل زیادہ اہم تھا باقی سب کسی دھندلے خواب کی مانند تھا جو صرف آنکھ کے بند رہنے تک برقرار رہتا ہےاور آنکھ کے کھلتے ہی وہ خواب ایسے منظر سے اوجھل ہو جاتا ہے جیسے کبھی آیا ہی نہ ہو۔اسی طرح احمد کے جانے کے بعد وہ بھی اس کے کینوس سے ایسے غائب ہو جاتا جیسے کبھی اس کی یادوں کے کینوس پہ کسی کا گزر ہوا ہی نہ ہو۔وہ گھر جاتے ہی سب بھول گئی۔مگر احمد بے چارے کی زندگی تو اسی سے ہی شروع ہوتی تھی اور اسی پہ ہی ختم،وہ تو اسی کے ہی انتظار میں تھا کہ شاید اب ہی آئمہ کو اس کی محبت پہ یقین آ گیا ہو۔لیکن ہمیشہ کی طرح وہ بے چارہ ہی وقت سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جاتا۔اس دفعہ بھی وہ کچھ زیادہ ہی ایکسپیکٹ کر بیٹھا تھا۔ آئمہ نے تو اس بے چارے کو ایسے اگنور کر دیا جیسے وہ آیا ہی نہیں تھا۔لیکن احمد کا انتظار اسے پھر اگلے دن اسی سکول کے باہر لے آیا۔اور آئمہ کسی ظالم محبوب کی طرح اس پہ نظر کرم ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتی تھی۔وہ بے چارہ سارا دن سکول کے باہر انتظار میں بیٹھا رہا کہ شاید وہ اس کو کوئی جواب دےمگر ہمیشہ کی طرح شاید اب بھی وہ وقت کی رفتار سے کچھ آگے تھا ۔شایدابھی اس کا انتظار ختم ہونے کا وقت آیا ہی نہیں تھا۔مگر آئمہ کو سامنے دیکھ کے اس کا صبر ضبط میں آنے واال نہیں تھا،وہ اب روزانہ اس کی گاڑی کا پیچھا کرتا اسی معصومیت کے ساتھ کہ شاید اسے ترس آ جائے۔مگر آئمہ شاید بہت خود غرض لڑکی تھی اس کے نزدیک کسی کے جذبات سے زیادہ اپنی خواہشات ،اپنے کیرئیر،اپنے گھر والوں کی اہمیت تھی۔وہ بھی کسی پتھر دل محبوب کی طرح اس پہ نظر کرم ڈالنے کو تیار نہ تھی۔گاڑی کے پیچھے روزانہ احمد کو آتا دیکھ کے باقی ٹیچرز نے بھی اس سے سوال کرنے شروع کر دیئےکہ کیا قصہ ہے آپ کے پیچھے ہی وہ کیوں آتا ہے؟؟؟سارا قصہ سننے کے بعد انہوں نے بھی اس کو مشورہ دیا کہ آپ مان جائیں وہ سنجیدگی سے آپ کو چاہتا ہے ،اگر ٹائم پاس ہوتا تو آپ کے جانے کے بعد کسی اور کے ساتھ شروع ہو جاتا مگر اس نے آپ کو ہی ڈھونڈا اور اب بھی آپ کو ہی راضی کر رہا ہے ایسا سچا انسان ہر کسی کو نہیں ملتا،قدر کریں اسکی۔۔۔ایسا سچی محبت کرنے واال نہیں ملتا ہر جگہ۔۔۔آج کل تو اپنے نہیں کرتے آپ سے سچا پیار اور وہ تو بغیر کسی مقصد کے 2سال سے آپ کے پیچھے یوں خوار ہو رہا ہے،قدر کریں اسکی۔مگر آئمہ بھی دیکھنے میں تو پتھر دل لگ رہی تھی لیکن اصل میں وہ اپنی زندگی میں اعتبار کی ہلکی سی لہر کو زیادہ اہمیت دے رہی تھی۔جو شاید اس کے خیال میں اس کے ماں باپ کے دل میں کہیں نہ کہیں اس کے لئے موجود تھا۔مگر سچائی کو ٹھکرانے کا کچھ نہ کچھ نقصان تو اٹھانا پڑتا ہی ہے نا۔۔۔یہی ہوا آئمہ کے ساتھ بھی۔ آئمہ اس کو مزید بے عزت کرنے کے لئے گاڑی سے اتری اور بولی :مسئلہ کیا ہے آخر تمھارا ؟؟؟کب جان چھوڑو گے تم میری؟؟؟تمہیں کیسے سمجھائوں میں کہ میں نہیں چاہتی؟؟؟ایسا کچھ بھی۔۔۔کب سمجھ آئے گی تمہیں؟؟؟میم جی آپ اتنا تو بتا دیں آخر مجھ میں برائی کیا ہے؟؟؟کیوں آپ مجھ پہ یقین کرنے کو تیار نہیں؟؟؟میں ایسا کیا کروں کہ آپ کو یقین آ جائے؟؟؟اب میرے بس میں ہی تو نہیں ہے نا!!!کیا کسی سے سچی محبت کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ آپ اسکو محبت کا جواب محبت سے نہ سہی لیکن نفرت سے دینے کے قابل بھی نہ سمجھیں؟؟؟آپ اس کو ایسے اگنور کریں۔۔۔کم ازکم آپ مجھ سے نفرت ہی کر لیں تا کہ میرے پاس اس کو محبت میں بدلنے کا کوئی چانس تو ہو،یوں تو نہ کریں میرے ساتھ ۔۔۔کہ جیسے میں آپ کی نفرت کے بھی قابل نہیں۔اس کی ان سب باتوں کے جواب میں آئمہ جیسے ال جواب ہو گئی۔خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی،آخر میں اس کی آ نکھیں نمی سے بھر گئیں۔وہ نیچے دیکھنے لگی کیونکہ وہ خود کو اس کے سامنے ایکسپوز نہیں کرنا چاہتی تھی۔الجواب ہو کے اس نے آ گے چلنا شروع کر دیا۔احمد بے چارہ ہمیشہ کی طرح جواب کا ہی منتظر رہا۔تیز تیز اس کے پیچھے بھاگنے لگا بوال:کم از کم آج اتنا ہی یقین دال دیں کہ آج سے آپ کو مجھ سے نفرت ہو گئی ہے۔آئمہ اس کی جذباتی بات سن کے رو پڑی۔آنسو کنٹرول کرتے کرتے بھی بے اختیار اس کی آ نکھوں سے گر ہی پڑے۔مگر اعتبار کا طوفان اس کو آمادہ کرنے پر تیار ہی نہ تھا۔ پہ پڑے پتھر کی وہ بولی تم جیسا لفنگا،ٹائم پاس کرنے واال کسی کی نفرت کے بھی قابل نہیں۔میرے نزدیک تم اس سڑک طرح ہو جو پڑا ہوانظر تو آتا ہے مگر اس کو ٹھوکر مارنے سے زیادہ اس کی نہ تو کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ قدر۔ تم بھی اس کی طرح بے فائدہ ہو جو کئی لوگوں کی منزل میں رکاوٹ بنتاہے مگرکسی کی منزل نہیں ہو سکتا۔اگر اتنی ہی برائیاں ہیں مجھ میں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟؟؟؟؟ اس طرح روتے ہوئے کیوں مجھے میری غلطیاں بتا رہی ہیں؟؟؟آخر کچھ تو سافٹ کارنر ہے نا آپ کے دل میں میرے لئے۔۔۔ پہلے تم نے میرے ہنسنے کو غلط فہمی سمجھتے ہوئے نیا ڈرامہ شروع کیا اور اب رونے سے ایک اور خوش فہمی پال رہے۔۔۔وہ ایک گانا بھی سے نا ،کہ آج تم اتنا جو مسکرا رہے ہو آ خر کیا غم ہے جو چھپا رہے ہو؟؟؟مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں ہے جو نظر آ رہا ہے ویسا ہی ہو،جیسے شاعر نے مسکرانے کی وجہ غم ڈھونڈی اس طرح رونے کی وجہ بھی تو خوشی ہو سکتی ہے نا!!!اچھا چلیں آج سے میں خود کو آپ کی نفرت کے قابل بنائوں گا۔۔۔۔دیکھتا ہوں کہ آپ کی نفرت کا کیا کرائیٹیریا ہے میں اس پہ پورا اتر سکتا ہوں کہ نہیں۔۔۔آئمہ روتے روتے رکشے کو روک کے اس پہ سوار ہو گئی۔ احمد نئے مقصد پہ کام کرنے کا سوچنے لگا۔۔۔ آئمہ گھر پہنچتے ہی بہت زور زور سے رونے لگی کہ کیا اتنا بھی اختیار نہیں میری الئف پہ میرا کہ میں اس کی محبت کو کم از کم ایڈمائر تو کر سکوں۔۔۔اس کی بہن نے اس سے وجہ پوچھی تو بولی بس آج بہت تھک گئی ہوں اپنی قسمت کے مشکل فیصلوں سے ،اس لئے رونے کا دل چاہ رہا ہے۔کیوں ایسا کیا ہوا؟؟؟کچھ نہیں بس ویسے ہی۔۔۔کبھی کبھی رو لینے سے کافی وقت سکون میں گذر جاتا ہے،اس لئے سکون کے لئے رو رہی تھی۔ ہاہاہاہہاہا اچھا رو لو رو لوسارا سکون حاصل کر لو آج ہی۔۔۔۔ اگلے دن آئمہ اپنے جذبات کو گھر کے ایک گوشے میں بند کرکے سکول پہنچی تو احمد کو باہر کھڑے دیکھا۔ہمیشہ کی طرح اس کو اگنور کر کے اندر چلی گئی مگر احمد اس کی نفرت پانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگا۔خط لکھ کے اس کے چوکیدار کو دیا کہ میم آئمہ کو دے دیں،کبھی پھول بھیجوانے لگا ،کبھی پیزا،برگر۔اس کی محنت اب کام دکھانے ہی کی ان حرکات پہ غصہ آنے لگا کہ سکول میں سب لوگوں کے سامنے بدنام کر رہا ہے ان چیزوں لگی،آئمہ کو غصہ اس اس کی گاڑی کا پیچھا میں 3،4دوست لئے،اونچی آواز میں گانےلگائے سے یہ مجھے۔سکول سے چھٹی ہوتے ہی گاڑی کرتا۔۔۔۔لیکن اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے کی گئی کوششوں سے اس کوشش نے زیادہ جلدی اپنا کام کر دکھایا۔ آئمہ غصے میں گاڑی سے اتری اور اسکی گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کے اس کو رکنے کا اشارہ کیا۔وہ خوشی سے گاڑی سے باہر اترا کہ آج آئمہ نے اس کو پہلی بار خود بالیا۔اس کے قریب آتے ہی آئمہ نے سڑک پہ کھڑے،اس کے چہرے پہ ایک زور دار تھپڑ رسید کیا۔احمد حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگاکہ آج خوشی دیتے ساتھ ہی ۔۔۔لیکن اس کو یہ تسلی ہو گئی کہ اس کا یہ آئیڈیا کام کر رہا ہے۔اب کم از کم وہ آئمہ کی زندگی میں جگہ تو بنا چکا ہے نا اپنی ،چاہے محبت کی صورت میں نہ سہی،نفرت کی صورت میں ہی سہی۔۔۔۔بوال :دیکھا ایک ہفتے میں ہی گلی کے پتھر نے راہگیروں کی توجہ حاصل کرلی۔محبت سے نہ سہی نفرت سے ہی سہی منزل نظر تو آ رہی ہے نا۔۔۔۔تم بالکل پاگل ہو۔۔۔اور مزید پاگل پن دکھا کے سوچ رہے ہو کہ میں بدل جائوں گی مگر ایسا کبھی نہیں ہونے واال۔۔۔۔ایسے کم عمر لفنگے بہت دیکھے ہیں میں نے،اچھی طرح سے ان کا دماغ بھی درست کرنا جانتی ہوں۔۔۔لیکن پتھر کو ٹھوکریں مارتے مارتے کیا پتہ کبھی اس کی زخمی حالت پہ ترس آ ہی جائے۔ایسا نہیں ہونا۔۔۔۔۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔خوش فہمی بھی اچھی چیز ہے۔۔۔انسان کو خوش رکھنے کے لئے۔۔۔۔کیا پتہ میری یہ خوش فہمی کبھی ایسی تلخ حقیقت بن جائے جسے آپ چاہ کے بھی بھال نہ سکیں۔۔۔ آئمہ اس کو ہمیشہ کی طرح جواب کے انتظار میں چھوڑ کے چلی گئی۔اور وہ بالوں میں ہاتھ مارتے ہوئے بوال غلط طریقے سے مقصد حاصل کرنے میں بھی اپنا ہی مزا ہے۔آج تھپڑ مارنے کے لئے روکا ہے کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب اس تھپڑ کا کفارا ادا کرنےکے لئے روکیں گی۔۔۔ آئمہ روتے ہوئے چلتی بھی جا رہی تھی اور یہ بھی سوچتی جا رہی تھی کہ اگر اس اعتبار کو برقرار رکھوں جس کی میری زندگی میں سب سے زیادہ قدر ہے تو اس کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے دوسری صورت میں اعتبار کی کشتی ڈولنے لگے گی اور میری انا ،میری سچائی سب اس طوفان کی نظر ہو جائے گی۔ اب آئمہ کو اور بھی زیادہ فکر ہونے لگی،پہلے تو وہ سب کے سامنے ظاہر نہیں کرتا تھا مگر اب تو وہ ضد میں آ گیا تھا۔ اس نے سوچا کہ اب اس سے کیسے جان چھڑوائوں کیونکہ اب وہ میرے لئے زیادہ مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔مگر اس کی پریشانیاں مزید بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔اگلے دن احمد صبح صبح اس کے گھر کے باہر موجود تھا۔دیکھتے ہی وہ گھبرا گئی مگر پھر اپنے ڈر پہ قابو پاتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گئی۔احمد نے بائیک پہ اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔آئمہ نے گاڑی میں ٹیچرز سے باتیں شروع کر دیں۔احمد کو لگا کہ یہ مجھے اگنور کر رہی ہے اس نے بائیک تیزی سے چالتے ہوئے کبھی گاڑی کے ایک طرف سے گزارنا شروع کر دیا ،کبھی دوسری طرف سے ۔پھر اس نے بائیک تیزی سے گاڑی کےقریب سے گزارتے ہوئے ایک خط کھڑکی کے ذریعے اندر پھینکا۔ایک ٹیچر نے اٹھایا تو اس پہ "آئی لو یو میم آئمہ" لکھا دیکھ کر اس کے حوالے کیا کہ یہ آپ کے لئے ہے۔آئمہ نے پڑھتے ہی شرمندگی سے اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ کے باہر پھینک دیا۔احمد نے دیکھا تو اور خوش ہوا کہ اس کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔آئمہ اب پچھتانے لگی کہ پہلے کم از کم یوں سب کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہوتی تھی نا مگر اب میں خود ہی اس کےساتھ بگاڑ کے اپنا ہی نقصان کر لیا ہے۔اسی ٹینشن میں آئمہ کے سر میں درد ہونے لگا۔اس نے ہالف لیو لی اور بس سٹاپ پہ جانے لگی۔ احمد بائیک پہ ساتھ ساتھ چلنے لگامیم جی!میم جی!میرے ساتھ بیٹھ جائیں،میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔مسئلہ کیا ہے آپ کا ؟؟؟آپ کی مہر بانی کی وجہ سے ہی تو اس ٹائم گھرجا رہی ہوں اب مزید مہربانی نہ کریں۔۔۔خوش کر دیا ہے میم جی آپ نے یہ کہ کے،کہ آپ نے کوئی کام تو میری وجہ سے کرنا شروع کر دیا ہے۔آخر چاہئے کیا تمہیں مجھ سے؟؟؟کئیـ دفعہ تو سمجھا چکی ہوں کہ آپ کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔اب نا ممکن چیز کے لئے کیوں برباد کر رہے ہو اپنا وقت بھی اور میری زندگی بھی؟؟؟ کیسے چھوڑو گے میری جان؟؟؟کیا تم میں اتنی سی بھی سیلف ریسپکٹ نہیں،کتنی دفعہ اپنی بے عزتی کروائی ہے مجھ سے،پھر بھی باز نہیں آتے؟؟؟تمہیں بار بار بے عزتی کروا کے سکون ملتا ہے کیا؟؟؟میم جی!آپ مان جائیں نا آگے نہ ممکن کو ممکن بنانا میرا کام ہے۔اور جہاں تک بات ہے سیلف ریسپکٹ کی تو یہ پیار ہے ہی ایسی بیماری جو سب سے پہلے دیمک کی طرح سیلف ریسپیکٹ کو چاٹ جاتا ہے۔اس لئے بے عزتی کا تو اثر ہونا ہی نہیں مجھ پہ۔اف ف ف ف ف اب میں کیا کروں؟؟؟بسـ مان جائیں نا۔۔۔جب ایک دفعہ انکار کر دیا تو پھر مقصد کیا بنتا ہے بار بار کہنے کا؟؟؟انکار کی وجہ پوچھنا چاہتے ہو نا تو سنو آج۔۔۔مجھے کوئی اور پسند ہے۔تمہاری ایسی شکل ہے کہ کوئی تمہیں پسند کرے،تم کوئی اپنے جیسی معمولی شکل والی لڑکی ڈھونڈو اپنے لئے۔۔۔۔یہ سن کے احمد بے چارا ال جواب رہ گیا اس کو لگا کہ اب راضی کرنے کی ساری وجوہات ہی ختم ہو گئیں ہیں۔جب میری شکل ہی اس قابل نہیں تو آگے سے بحث کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔وہ بے چارہ بنا کوئی بات کہے تیزی سے موٹر سائیکل چال کے آگے چال گیا۔ آئمہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس طرح گیا ہے تو اب جان چھوٹ جائے گی اس سے۔۔۔اگلے دن نہ تو اس کے گھر کے باہر احمد موجود تھا نہ ہی راستے میں۔سکول کے باہر بھی آئمہ اس کو کھڑا نہ پا کر خوش ہو گئی کہ جو کام پیار سے نہ ہوا ایک بات سن کے ہو گیا۔احمد نے اب گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا۔وہ تو جیسے کمرے میں بند ہو کے رہ گیا تھا۔سعد کو احمد کی اس کیفیت کے بارے میں اس کےماں باپ نے جب بتایا تو وہ فورا آیا۔اوےکیا ہوا ہے؟؟؟آنٹی بتا رہی تھی کہ تو نے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا ہے۔ایسا کیا ہوا ہے؟؟؟مجھے بتا کیا مسئلہ ہے؟؟؟نہیں کچھ نہیں۔۔۔ہوا کیا ہے تو،تومیم کے پاس گیا تھا نا پھر کیا ہوا ایسا کہ تو نے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے؟؟؟احمد مایوسی سے بوال کہ وہ بات تو کب کی ختم ہو گئی۔مجھے وجہ پتہ چل گئی،میم کے انکار کی۔بس اب کہانی ہی حتم ہو گئی۔کیا وجہ؟؟؟کچھ خاص نہیں۔ اچھا تو پھر تو اتنا اداس کیوں ہے؟؟؟اداس نہیں ہوں بس اتنا آگے جا کے واپس آنے میں وقت تو لگتا ہے نا۔۔۔وہی وقت گزار رہا ابھی۔اس لئے سب کو ایسا محسوس ہو رہا۔۔۔اب تو بلکہ سب ٹھیک ہونے واال ہے۔چل یار تو نہیں بتانا چاہتا تو نہ بتا۔کم ازکم موڈ تو اچھا کر لے۔اب گھر والوں کو اور کتنا پریشان کرے گا؟؟؟ہم م م مم م م۔۔۔۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد آئمہ کو لگا کہ اب احمد کا قصہ تو ختم ہو گیا ہے۔اب اس کی نظریں احمد کو ہر اس جگہ تالش کرتیں جہاں جہاں وہ اسے نظر آتا تھا۔اس کے خیال میں وہ خوف کی وجہ سے احمد کو تالش کرتیں مگراصل میں اسے خود بھی نہیں پتا تھاکہ اسے احمد سے محبت ہو گئی ہے ،اسے اس کی عادت ہو گئی ہے،وہ اب اسے ان جگہوں پہ دیکھنا چاہتی تھی جہاں وہ نظر آتا تھا مگر پھر اسے موجود نہ پا کر اپنے دل کو تسلی دیتی کہ اب سارا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔اس نے میری جان چھوڑ دی ہے۔ گھر آ کر بھی وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر وہ اتنا برا بھی نہیں تھا،ہاں چھوٹا تو تھا۔پھر اپنے سوالوں کے خود ہی جواب دیتی کہ رشتے کا بھی اس نے لحاظ نہ کیا۔اگلے ہی لمحے سوچتی کہ اگر میں اس سکول میں نہ جاتی تو وہ ٹیچر اور سٹوڈنٹ کا رشتہ تو موجود نہیں تھا نا ہم میں۔مگر وہ اس کے لئے اپنے ان جذبات کو جھٹالتے ہوئے کہتی کہ ایسا کبھی سنا ہے کیا کسی نے؟؟؟میں نے 16سال پڑھا مگر کبھی ایسا نہیں دیکھا ،شرم تھی ہی نہیں اس میں۔۔۔استاد جیسے با ادب رشتے کا مذاق ہی بنا رہا تھا وہ۔۔۔پھر سوچنے لگی کہ الئف میں کوئی ٹینشن نہ ہو تو بھی مزہ نہیں آتا۔۔۔۔ سعد ،احمد کو لئےگھمانے پھرانے اسالم آباد لے گیا کہ شاید ماحول بدلنے سے اس کے رویے میں بھی کچھ تبدیلی آ جائے۔ مگر کوئی فائدہ نہ ہوااحمد اب بھی اپنے ان خیاالت سے باہر نہ آ سکا۔شاید انہوں نے صحیح ہی تو کہا مجھ میں اب ایسی بھی کوئی خاص بات نہیں کہ کوئی ٹیچر مجھ سے محبت کرے۔وہ ان خیاالت سے باہر آنا ہی نہیں چاہتا تھا۔اس کے نزدیک آئمہ کی سوچوں میں گم رہنا ہی بہترین ٹائم پاس تھا۔اس لئے وہ ان سوچوں میں ہی اپنی آگے کی زندگی بھی گزار دینا چاہتا تھا۔ آئمہ کو بھی اب پچھتاوا ہونے لگا۔وہ سوچنے لگی کہ محبت کرنا اتنا بڑا جرم بھی نہ تھا جتنی بڑی میں نے اس کو سزا دے دی۔اس کو ریگریٹ ہونے لگا کہ کم از کم مجھے اس کی خوبصورتی پہ کمنٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔جو بھی تھا مجھے اس کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے تھا۔مگر اب پچھتاوے کے سوا تو اس کے پاس کچھ نہ رہا۔اب وہ چاہتی تھی کہ اس سے معافی مانگے مگر اب اس کی نظریں (ہر اس جگہ سے جہاں احمد ہوتا تھا)ٹکرا کے واپس آ جاتیں۔مگر اس کے پچھتاوے کا کوئی عالج نہ ہو رہا تھا۔جب شدت ذرا زیادہ ہوئی تواس نے احمد کو فیس بک پہ سرچ کیا۔وہاں اس کی آئی ڈی تو مل گئی۔اس کو میسج بھی کیا،ریکویسٹ بھی بھیجی مگر کوئی رسپونس نہیں آیا۔اب اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا کہ وہ ٹھیک تو ہے نا؟؟؟میں نے بھی کچھ زیادہ ہی کہ دیا تھا۔۔۔اس کا ریگریٹ مزید بڑھ گیا۔اب اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ بس کسی طرح اتنا پتہ چل جائے کہ وہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔اپنی الئف میں ایڈجسٹ تو ہو گیا ہے نا۔۔۔مگر اب اس کی یہ خواہش پوری ہو ہی نہیں رہی تھی۔اس کی وہی آنکھیں جو ہمیشہ احمد کو نظر انداز کرتی تھیں اب اس کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔شاید اس نے صحیح کہا تھا کہ سڑک کے پتھر کو زخمی دیکھ کےاس پہ ترس آ جائے گا،اس وقت تو میں نے اس کو جھٹالیا مگر اب سچ لگنے لگیں اس کی سب باتیں۔۔۔۔بس کسی طرح اس کی خیریت معلوم ہو جائے نا تو تسلی ہو جائے کہ میری وجہ سے اسے کچھ نہیں ہوا۔۔۔ورنہ مجھے کیا لینا دینا اس سے آئے یا نہ آئے۔۔۔اچھا ہے نہیں آتانا اب،جلد ہی سمجھ گیا ہے۔۔۔ احمد بہت ڈسٹرب تھا اس نے نہ تو فیس بک دیکھی نہ اس کا میسج۔۔۔شاید اب آئمہ کے تڑپنے کا وقت آ گیا تھا۔یہ دنیا ہی تو مکافات عمل ہے نا!!!!ہر کسی کو اپنے کئے کا بدلہ دینا پڑتا ہے تو آئمہ کو کیسے نہ چکانا پڑتا ؟؟؟؟وہـ نہ تو اپنی پریشانی کسی کو بتانے کی پوزیشن میں تھی ،نہ ہی اس کا ریگریٹ اسے نارمل زندگی گزارنے دے رہا تھا۔احمد کو ایپروچ کرنے کی بہت کوششیں ناکام ہونے کے بعد اس کا پچھتاوا مزید بڑھنے لگا۔ان سوچوں کو اس نے اپنے سر پہ بہت زیادہ سوار کر لیا تھا۔ اس کا یہ پچھتاوا اسے اندر ہی اندر مزید کھوکھال کرتا جا رہا تھا۔اب وہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔کبھی خودسے ہی سوال کرتی کہ اس کا کیا قصور تھا؟؟؟میں نے اسے بہت بڑی سزا دے دی مگر پھر خود ہی اپنے پیرنٹس،اپنے کیریئر کو زیادہ اہم قرار دیتے ہوئے خود کو بے قور ثابت کرتی۔اسی کشمکش میں اس نے اپنے آئے ہوئے ہر رشتے کے لئے بھی انکار کر دیا کہ میں کسی کی الئف برباد کر کے اپنی الئف کیسے شروع کر سکتی ہوں؟؟؟مگر اس کا پچھتاوا تو تب ختم ہوتا نا جب اس کو یقین ہوتا کہ احمد کی الئف میں سب ٹھیک ہے مگر ایسی کوئی صورت اسے نظر آ نہیں رہی تھی۔دماغ پہ بہت زیادہ ٹینشن ڈالنے کی وجہ سے اس کے دماغ نے کام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا اب اسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا کہ کیا کر رہی ہے وہ؟؟کیوں کر رہی ہے؟؟؟کیا ہو رہا ہے آگے پیچھے؟؟اسے کچھ پروا نہیں تھی بس ایک تمنا دماغ میں تھی کہ کہیں سے اس کی خیریت معلوم ہو جائے۔۔۔اس نے ہر کسی سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا،اکیلے خود کو کمرے میں بندرکھتی۔نہ گھر والوں سے کچھ ڈسکس کرتی،بس اپنی غلطی پہ خود کو کوستی رہتی۔اس کے گھر والوں نے اس کی اس حالت کی وجہ سے ذہنی امراض کے ماہر سے رابطہ کیا اور اس کی حالت بتائی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اسے میرے پاس الیئے میں چیک کر کے بتائوں گا کہ کوئی روحانی مسئلہ ہے یا فزیکل پرابلم۔۔۔ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد اس نے ساری کہانی ڈاکٹر کو بھی بتا دی۔مگر کہا کہ گھر والوں کو نہیں بتانا چاہتی۔ڈاکٹر نے اس کا اعتماد بحال کرنے کے لئے حامی بھر دی۔پھر اس کا ریگریٹ کم کرنے کی بہت کوشش کی کہ آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں مگر آئمہ کی سوچیں شاید اسے بہت آگے تک لے گئیں تھیں۔وہ ان سب باتوں کو قبول کرنے پہ رضامند ہی نہ تھی۔ڈاکٹر نے اپنی حد درجہ کوشش کے بعد اس کے پیرنٹس کو انکار کر دیا کہ اس کا بالکل ٹھیک ہونا نہ ممکن ہے۔ اب نہ تو احمد کا پتہ تھا اس کے پاس جو ڈاکٹر بھی مسئلہ حل کروا پاتا اس لئے اس نے کہا کہ اس کی ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی ہے میں دوائیاں دے دیتا ہوں مگر مکمل ٹھیک ہونے کی گارنٹی نہیں دے سکتا،شاید وقت ہی ایسا کوئی معجزہ کر دے تو میں کچھ نہیں کہ سکتا۔ آئمہ دوائیاں تو لے رہی تھی مگر وہ کشمکش اسے واپس زندگی کی طرف مکمل طور پہ ال ہی نہیں پا رہی تھی۔دوسری طرف احمد بھی مکمل طور پہ صحت یاب نہیں تھا وہ بے چارا بھی اپنی محبت میں ناکامی کی وجہ اپنی بد صورتی کو ہی سمجھ رہا تھا۔شاید دونوں کسی اچھے وقت کے انتظار میں تھے۔ مگر اچھا وقت بار بار ہر کسی کے دروازے پہ دستک نہیں دیتا۔پہلے آئمہ کے دروازے پہ احمد کی صورت میں اچھے وقت کے دستک دی تھی مگر آئمہ کی قدر نہ کرنے کی صورت میں اب ساری زندگی وہ اس دستک کے انتظار میں ہی تھی۔اور احمد بے چارے کو تو کہیں اور دستک دینے کے قابل ہی نہ چھوڑا اس نے۔۔۔۔اس بے چارے پہ تو سب دروازے ہی بند کر دیئے تھے۔تین ماہ بعد آئمہ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو اس کے گھر والے اسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ڈاکٹر نے چیک کرنے کے بعد انہیں کہا؛"میں تو پوری کوشش کر ریا ہوں کہ یہ ریکور ہو جائیں مگر ان کی حالت زیادہ ہی خراب ہو رہی ہے "،میں کسی اور ڈاکٹر سے کنسلٹ کر کے آپ کو بتاتا ہوںکہ اب یہ اپنی نارمل الئف میں آ بھی سکتی ہیں کہ نہیں۔۔۔ابھی ڈاکٹر نے کنسلٹ کیا ہی نہیں تھا کہ آئمہ حالت مزید خراب ہونے لگی۔اسے فٹس پرنے لگے۔گھر والے پریشانی کے عالم میں اسے فورا ہاسپٹل لے کر گئے مگر ڈاکٹروں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟؟؟انہوں نے اس کے پیرنٹس سے پوچھا کہ کیا اسے پہلے بھی کوئی بیماری تھی؟؟؟تو پتہ چال کہ اس کو تو ذہنی مسئلہ بھی تھا۔ڈاکٹرز نے فورا اس ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو بالنے کو کہاجو اس کا پہلے عالج کر رہا تھا۔تب انہیں فٹس پڑنے کی وجہ سامنے آئی۔مگر ذہنی مرض کا عالج تو ان سے بات کر کے ہی حل ہو سکتا ہے مگر وہ بے ہوش تھی۔اب سب ڈاکٹرز اس کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھے کہ اچانک اس کی سانس زور زور سے چلنے لگی۔پریشانی مزید بڑھتے ہی اس کے ہوش میں آتے ختم ہو گئی۔ڈاکٹرز نے آہستہ آہستہ اس سے باتیں شروع کیں کہ کیا ٹینشن لے رہی ہیں آپ ہم سے ڈسکس کریں۔۔۔آئمہ نے روتے روتے بتانا شروع کیاکہ اس طرح میں نے کسی کا بہت دل دکھایا،کسی مجبوری کی وجہ سے مگر اب مجھے پچھتاوا ہو رہا۔بس ایک ٹینشن ہے کہ کسی طرح اس سے معافی مانگ لوں ۔روتے روتے اچانک سے وہ بے ہوش ہو گئی ڈاکٹرز نے چیک کیا تو پتہ چال کہ اسے برین ہیمبرج ہو گیا ہے۔اس کے گھر والوں کو کہا کہ آئمہ کی دماغی کنڈیشن بہت خراب ہوتی جا رہی ہے آپ دعا کریں کہ ریکور ہو جائے۔اب گھر والوں کو تو وجہ بھی نہیں پتہ تھی وہ بے چارے اس لئے بھی پریشان تھے کہ اس کو آخر ٹینشن کیا ہے؟؟؟مگر وجہ سوائے اس ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے اور کسی کو بھی پتہ نہیں تھی۔۔۔سب دعائوں میں مصروف تھے مگر شاید اسے تو احمد کی دعائوں کی ضرورت تھی نا!!!اور احمد نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا کہ راستے کا پتھر بھی کبھی کبھی چاہئے ہوتا ہے اس کے بغیر تو انسان (سڑک پہ پانی کھڑا ہونے کی صورت میں)سڑک پار بھی نہیں کر سکتا۔۔۔مگر آئمہ کو یہ بات تب سمجھ آئی جب بہت دیر ہو چکی تھی۔اور اس نے خود ہی تو یہ راستہ اپنے لئے منتخب کیا تھا۔۔۔۔اب آئمہ کی حالت مزید خراب ہونے لگی سب ڈاکٹر اپنی اپنی کوشش میں مصروف تھے مگر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔۔۔وہ سائیکالوجسٹ جو اس کی ساری داستان جانتا تھا وہ مسلسل اسے بال رہا تھا کہ احمد آ گیا ہے کہو نا جو تم نے اس سے کہنا تھا۔۔۔۔مانگ لو نا اب اس سے معافی۔۔۔۔جس کے لئے تم نے اتنا انتظار کیا۔۔۔آئمہ اپنی ذہنی حالت پہ قابو پانا چاہتی تھی۔۔۔وہ آنکھیں کھولنا چاہتی تھی ،احمد سے بات کرنا چاہتی تھی مگر اب وقت اس کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ویسے بھی احمد تو وہاں موجود نہیں تھا وہ تو ڈاکٹر اس کو اس صدمے سے باہر نکالنے کے لئے ایسا کہ رہا تھا کہ وہ کسی طرح آنکھیں کھولے شاید کہ اس کی حالت ریکور ہو جائے۔مگر دماغ ہیمرج بھی اتنا سخت تھا کہ اس کو بولنے،دیکھنے۔ہلنے کے قابل ہی نہ چھوڑا۔۔۔کبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ انسان بہت کچھ بولنا چاہتا ہے مگر الفاظ نہیں مل رہے ہوتے مگر یہاں آیمہ کے کیس میں تو الفاظ بھی تھے پر وقت نہیں تھا ،ان الفاظ نے زبان پہ آتے آتے شاید بہت ہی دیر لگا دی۔۔۔اور اب جب وہ ان کو زبان پہ النا چاہ وہی تھی تو وقت نے ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔اس سایئکالوجسٹ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے کہ کبھی کوئی اتنا بے بس نہ ہو۔۔۔باہر جا کےاس کے گھر والوں کو کہا کہ اللہ آپ کو حوصلہ دے مگر خود اس کو حوصلے کی ضرورت تھی۔۔۔۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ ڈاکٹر جیسا حوصلہ مند انسان بھی کسی حوصلے کی تالش میں تھا۔۔۔۔اور سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی کچھ کر سکتا ان دونوں کے لئے۔۔۔۔مگر اب تو وہ دونوں نہیں ایک رہ گیا تھا۔۔۔۔ اب وہ چاہتا تھا کہ کم ازکم آئمہ کی آخری خواہش جو وہ پوری نہ کر سکی اور اس دنیا سے چلی گئی اس کو پورا ہی کر دے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔نہ تو اس کو احمد کا اتا پتہ معلوم تھا،نہ وہ کسی سے پوچھ سکتا تھا کیونکہ اس نے آئمہ سے وعدہ لیا تھاکہ وہ اس کے اس سچ کو راز رکھے گا۔۔۔۔باآلخر سعد نے ایک دن اپنی فیس بک آئی ڈی دیکھی تو آئمہ کا میسج پڑھ کر بہت خوش ہوا کہ احمد کو کہو ایک بار مجھ سے ملے،میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔اس نے فورا سعد کو بتایا اور سعد کے مردہ دل میں زندگی کی لہر پھر سے دوڑ گئی وہ سب بھول گیا کہ آئمہ نے اسے کتنا بے عزت کیا تھا۔۔۔سب چھوڑ کے خوشی جیسے حیرت میں بدل گئی۔ فورا واپس آیا اور آئمہ کے گھر پہنچا تو وہاں منظر دیکھتے ہی حیران ہو گیا اس کی کہ یہاں کیا ہوا ہے؟؟؟پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی انتقال کر گئی ہے۔۔۔۔یہ سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے سڑکا مگر سعد نے اس کو پکڑ لیا بوال کیا پتہ یہ کس کا بول رہے ہیں چل میم کو ڈھونڈتے ہیں۔۔۔احمد زبردستی اپنے قدم اٹھاتے ہوئے آگے کو بڑھا اور جنازے کے قریب جا کے اسے دیکھنے کی ضد کرنے لگا۔ان لوگوں نے منع کیا کہ اب جنازہ اٹھانے کا ٹائم ہو گیا ہے۔مگر اس کی تڑپ دیکھتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس کو دکھا دہ چہرہ۔۔۔۔احمد تو چہرہ دیکھتے ہی وہیں گر پڑا وہ تو جیسے بالکل اپنے ہوش حواس کھو بیٹھا ہو۔سعد اس کو وہاں سے اٹھا کے لے گیا۔وہ سایئکالوجسٹ بھی وہاں موجود تھا احمد کی حالت دیکھ کے وہ سمجھ گیا۔اس کی گاڑی کا پیچھا کیا ۔گھر پہنچتے ہی سعد اسے ہوش میں النے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔احمد ،احمد ۔۔۔احمد۔۔۔مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا سعد بھی رونے لگا اور بوال۔یار تو ہمت کر وہ میم نہیں ہو سکتی۔۔۔مگر احمد پھر مایوسی کی لہروں کی نظر ہو گیا۔اتنی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی اور وہی سائیکالوجسٹ کھڑا نظر آیا۔جی آپ کون؟؟؟اور آپ کو کیا کام ہے؟؟؟مجھے احمد کو آئمہ کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔۔۔یہ سنتے ہی سعد فورا اس کو اندر لے گیا۔۔۔احمد دیکھ یہ تجھے میم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔۔۔احمد اچانک چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔میں آئمہ کا سایئکالوجسٹ ہوں،کچھ عرصہ پہلے وہ میرے پاس ذہنی عالج کے لئے آئی تھی۔مجھے اس نے آپ کی ساری سٹوری اس شرط پہ بتائی کہ میں کسی کو نہین بتائوں گا۔میں نے اس کا راز آج تک کسی کو نہیں بتایا ،آج آپ کو وہاں دیکھا تو اس کی آخری خواہش پوری کرنے آیا ہوں۔۔۔کیسی خواہش ؟؟؟کیساـ راز؟؟؟؟احمد فورابوال ۔اس نے آپ کو یہ تو کہا تھا کہ آپ خوبصورت نہیں اور اس کے سٹینڈرڈ کے نہیں مگر اس کے بعد وہ خود بہت پریشان ہو گئی تھی اس نے آپ کو ایپروچ کرنے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے اسے ریپالئے ہی نہ کیا۔پھر اس کا پچھتاوا اسے دن بدن اندر سے مزید کمزور کرتا گیا۔۔۔اس کی اندر ہی اندر ٹینشن لینے کی وجہ سے ذہنی حالت بہت خراب ہو گئی۔اس کو فٹس بھی پڑنا شروع ہو گئے اور آخری وقت بھی وہ اپنے اس رویے کی آپ سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔مگر آپ وہاں موجود نہ تھے۔بہت سٹریس کی وجہ سے اس کو برین ہیمبرج ہو گیا۔اور وہ ریکور نہ کر پائی ۔میں بس آپ کو یہی بتانا چاہتا تھا آپ بس اب اسے معاف کر دیں۔۔۔اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ اپنے اردگرد موجود لڑکیوں کی طرح اپنے ماں باپ کا اعتبار نہیں توڑنا چاہتی تھی دوسرا وہ معاشرے کی وجہ سے بھی خود کو روک رہی تھی کہ اس طرح فی میل ٹیچرز کا امیج خراب ہوتا۔اس نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر آپ باز نہ آئے تو مجبورا اس نے آپ کو وہ تلخ الفاظ کہے۔۔۔۔تاکہ آپ بھی اپنی الئف میں مصروف ہو جائیں اور اسے بھول جائیں مگر وہ بہت سینسٹو تھی وہ برداشت نہ کر پائی اور اس کا پچھتاوا اس کی جان لے گیا۔یہ سن کے احمد کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر پڑےکہ اس دفعہ بھی میری ہی غلطی تھی میں نہ جاتا میم کو یوں اکیال چھوڑ کے تو ایسا نہ ہوتا۔سعد اس کو گلے لگا کے بوال نہیں یار تو ایسا نہ سوچ۔۔۔تو نے تو کچھ نہیں کیا نا!!!ڈاکٹر نے بھی اس کو حوصلہ دینا چاہا کہ نہیں یار تمہاری تو غلطی نہیں جب کسی کی اتنی بے عزتی کی جائے تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا جیسا تم نے کیا۔شاید غلطی کسی کی بھی نہ تھی۔۔۔۔غلط حاالت تھے یا غلط وہ وقت تھا ۔۔۔اب آئمہ تو دو کشتیوں میں پستی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔اب وہ معاشرے کو دیکھتی رہی۔۔۔کہ یوں سب لڑکیاں غلط ثابت ہو جائیں گی۔۔۔کہ وہ اس پیغمبروں کے پیشے کا غلط استعمال کرتی ہیں ۔۔۔مگر احمد کے نہ ماننے کی وجہ سے الٹا وہ خود ہی اس پچھتاوے کا شکار ہو گئی۔۔۔۔دوسری طرف احمد بھی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔اب آپ بتائیں کہ کیا غلطی آئمہ کی تھی؟؟؟احمد کی؟؟؟یا معاشرے کی؟؟؟شاید غلظی کسی کی بھی نہیں ہوتی کبھی کبھی وقت ہی آپ کو غلط ثابت کر دیتا۔۔۔ہے۔۔۔۔۔یا شاید قسمت۔۔۔۔۔۔ اس ناول کے آخر میں ایک سوال چھوڑے جا رہی ہوں کہ:۔ جس اعتبار کے لئے اس نے سب کچھ کھو دیا یہاں تک کے اپنی زندگی بھی۔مگر کیا وہ اعتبار حاصل کر پائی؟؟؟؟ A disclaimer from writer..... مجھے پتہ ہے آپ کو اس کا اینڈ اچھا نہیں لگا ہو گا مگر میں یہ چاہتی تھی کہ سب یہ ریئالیز کریں کہ ہر جگہ قصور لڑکی کا نہیں ہوتا۔۔۔۔اب اس نے اعتبار کے لئے کیا کچھ نہیں کر دیا۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔اس ناول کو پڑھنے کے بعد بھی بہت لوگ اس کو ہی قصور وار سمجھیں گے۔۔۔۔کہ اس نے احمد کے ساتھ برا کیا۔۔۔۔اس نے احمد کو آدھے راستے میں اکیال چھوڑ دیا ۔۔۔۔شاید اس ناول کے عنوان کی طرح اس کی بالوجہ کی مسکراہٹ اس کا قصور تھی۔۔۔۔یا پھر اس کا بچپنا اس کا قصور تھا کہ وہ پہلے سمجھ نہیں پائی۔۔۔۔اب قصور کیا تھا یہ میں آپ سب پہ چھوڑتی ہوں آپ بتائیں۔۔۔کس کی غلطی تھی؟؟؟؟ اس کو کیا کرنا چاہئے تھا۔۔۔۔اس کا اینڈ مجھے چینج کرنا چاہئے کہ نہیں؟؟؟؟میرا سوال ہے کہ کیا لڑکیوں کی مسکراہٹ اتنا بڑا قصور ہے؟؟؟؟