You are on page 1of 13

‫کسی کی مسکراہٹ کو اظہار نہ سمجھو‬

‫یہ تبسم یہ تکلم کہیں اس کی عادت ہی نہ ہو‬


‫وہ ایک چلبلی سی لڑکی تھی مگر اس کی اس عادت کو ہر کوئی محبت سمجھ لیتا اور ہر دفعہ اسے ہی صفائیاں دینی‬
‫پڑتیں۔وہ بے چاری اس غلط فہمی کو دور کرتے کرتے خود ہی غلط ثا بت ہو جاتی اور پھر سوچتی کہ کیا وہی غلط ہے؟؟؟؟‬
‫ان سوالوں کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے جانے کب اس کا بچپن جوانی میں بدل گیا اسے پتہ بھی نہ چال اور وہ اپنی غلطی‬
‫ڈھونڈتے ہوئے وقت کے بھنور میں گم ہو گئی۔ اگرکبھی راستے میں اوباش لڑکے اسے تنگ کرنے لگتے تو بھی وہ اپنی ہی‬
‫غلطی ڈھونڈنے لگتی۔اعتبار تو جیسے اس سے کوسوں دور تھا۔شک کا طو فان اس کے اعتبار کی کشتی کو سنبھلنے ہی نہیں‬
‫دیتا تھا۔‬
‫وہ آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھ رہی تھی اور سو چ رہی تھی کہ اتنے اچھے اچھے مواقع چھوڑ کے ایسے سکول میں‬
‫نوکری کرنی بھی چاہئے کہ نہیں؟؟؟پھر اسے خدا کی مرضی سمجھ کہ حجاب کرنے لگی۔جب سکول پہنچی تو دسویں جماعت‬
‫کے ‪ 9‬بچوں کو دیکھ کے اپنی ہی قسمت پر پشیمان ہونے لگی کہ اتنا پڑھ لکھ کے کسی اچھی جگہ کے خواب کیسے چکنا‬
‫چور ہو جاتے ہیں۔تب اسے یہ بات سمجھ آئی کہ انسان کی زندگی پر اس کی لگن سے زیادہ اس کی قسمت کا اختیار ہوتا‬
‫ہے۔آخر پھر حوصلہ جمع کر کے لیکچر دینے لگی۔اس کے دماغ میں یہ سکول اس کے خوابوں کی راہ میں ایک سیڑھی کی‬
‫مانند نظر آ رہا تھا۔ لیکن وہ طالب علم اسے اپنے خوابوں کی ملکہ سمجھ رہے تھے۔الغرض ہر پہلو سے بے خبر وہ لیکچر‬
‫دیتی رہی وہ تھی تو بہت خوبصورت ‪ 22‬سالہ ایم ایس سی پاس لیکن چہرے سے نو عمر لڑکی معلوم ہوتی تھی۔اور اس کی‬
‫یہی نوعمری اس کے خوابوں کی راہ میں رکاوٹ بھی تھی۔باآلخر وہ لیکچر دیتی اور کالس سے باہر چلی جاتی۔ابلے دن اسے‬
‫سکول کی پرنسپل نے حجاب اتار کر کالس میں جانے کا کہا اب جب وہ کالس میں گئی تو سب بچے اسے حیرت بھرے‬
‫انداز سے دیکھنے لگے۔ایک لڑکا تو جیسے سکتے میں ہی چال گیا ہو۔اس نے خود اس لڑکے کا نام لے کے مخاطب کیا تو وہ‬
‫ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے اس‬ ‫بوال ؛جی میم جی!لیکن اس کے الفاظ اس کے احساسات کا‬
‫کو سوچوں کے طوفان سے کسی نے زبردستی باہر نکاال ہو۔ پھر وہ اس کو لیکچر کی طرف متوجہ کر کے دوبارہ لیکچر دینے‬
‫لگی۔ لیکن وہ دوبارہ اپنی سوچوں میں مگن ہو گیا۔اب آئمہ بھی بار بار اسے مخاطب کر کے باقی سب کی توجہ اس طرف‬
‫نہیں دالنا چاہتی تھی۔اس لئے خاموشی سے لیکچر دے کے کالس سے باہر چلی گئی۔‬
‫جب وہ نویں جماعت میں گئی تو وہاں بھی خود کو بہت غیر محفوظ محسوس کرنے لگی مگر پھر نظریں جھکائے اپنا لیکچر‬
‫دینے لگی ۔وہاں بھی لڑکے ایسا سمجھنے لگے جیسے وہ ان کی ہم عمر ہو اور فضول باتیں کرنے لگے وہ بے چاری ان کا‬
‫بچپنا سمجھ کے اگنور کرتی رہی مگر وہ اس کو مزید تنگ کرنے لگے آئمہ تنگ آ کے بولی ؛کیا میں چلی جائوں کالس سے‬
‫باہر تو بولے نہیں نہیں میم آپ نہیں جائیں اب نہیں تنگ کریں گے۔پھر ٹیک لگا کر اس بے چاری کو عجیب نظروں سے‬
‫گھورنے لگے۔وہ اب اگنور نہ کرتی تو کیاکرتی؟؟؟لیکچر ختم ہوا تو وہ کالس سے باہر چلی گئی اور سوچنے لگی کہ کیا میرے‬
‫رویے میں خرابی تھی؟؟؟خیر ساری رات اس کی یہی سوچتے سوچتے گزر گئی پھر وہ اس نتیجے پہ پہنچی کہ مجھے ان‬
‫سے کرخت انداز میں بات کرنی ہو گی ورنہ پتہ نہیں یہ کیا سوچ رہے ہیں؟؟؟؟ میری زندگی میں پہلے ہی بہت مشکالت ہیں‬
‫اور تو میں ایفورڈ بھی نہیں کر سکتی۔‬
‫اگلے دن جب وہ کالس میں گئی تو بہت کرخت انداز میں بولی کہ مجھے سب بورڈ کی طرف متوجہ نظر آئیں اور کوئی‬
‫فضول بات سنائی نہ دےورنہ میں لحاظ نہیں کروں گی۔لیکن وہ کہاں سدھرنے والے تھے ۔ باآلخر اس نے لیکچر دینا شروع کر‬
‫دیا سب خاموشی سے سننے لگے تو اس کو لگا کہ سب سیدھے ہو گئے ہیں اے کے ساتھ اب یہی کرنا پڑے گا۔لیکچر ختم‬
‫ہوتے ہی اس نے کہا کہ کل سے میں آپ کا زیرو پیریڈ لگائوں گی اس لئے سب جلدی آ جانا۔اگلے ہی دن وہ سب جلدی آ‬
‫گئے مگر پھر اس کو تنگ کرنے لگے اور وہ ان کے بچپنے کو ہنس کے ٹالنے لگی آخر اس کے پاس اس کے عالوہ اور کوئی‬
‫چارہ جو نہ تھا۔‬
‫اب وہ روزانہ ‪ 9‬کالس کے ‪ 2‬پیریڈ لیتی تھی‪ 10،‬کا ‪ 1‬اور ‪ 8‬کا بھی ‪ 1‬پیریڈ۔ اب وہ سوچتی تھی کہ اگر میری پرفارمنس‬
‫اچھی رہی تو اگلے سال کسی اچھے سکول میں اپالئے کرنے کا چانس ملے گا لیکن ابھی اگر میں نے گھر والوں کو بتایا تو‬
‫وہ میرا سکول چھڑوا دیں گے یوں تو میرا کیریئر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے گا لحاظا اس نے سب باتوں کو‬
‫اگنور کرتے ہوئے سکول جانا شروع کر دیا۔‬
‫اگلے دن جب سکول پہنچی تو دیر سے آنے والے بچوں کو خوب ڈانٹ پالئی۔لیکن اس کی آواز بہت کم تھی اس لئے بچوں‬
‫کو شاید اس کی آواز میں بے عزتی محسوس نہیں ہوتی تھی۔وہ آگے سے مسلسل ہنستے رہے‪،‬آئمہ نے سوچا ان کو کوئی فرق‬
‫نہیں پڑنا اس لئے اس نے لیکچر دینا شروع کر دیا۔لیکچر دیتے ہی جب وہ کالس سے باہر نکلی تو ایک بچہ پیچھے دوڑتا‬
‫دوڑتا آیا کہ میم مجھے یہ سوال سمجھا دیں۔میں نے گھر میں کیا تھا مگر سمجھ نہیں آیا۔آئمہ بولی بیٹا! میرا اگال پیریڈ‬
‫شروع ہو گیا ہے اب یہ سوال کل کروا دوں گی۔احمد بوال میم جی! پلیز سمجھا دیں میں نے گھر جا کے آگے کے سوال‬
‫کرنے ہیں مجھے گھر میں سمجھانے واال کوئی نہیں۔یہ سن کے آئمہ کا دل نرم پڑ گیا اور بولی اچھا آپ میرے ساتھ میری‬
‫اگلی کالس میں چلیں میں آپ کو وہاں جا کے سمجھا دیتی ہوں وہ فورا بوال ٹھیک ہے میم جی!!!!!!!!!!!۔‬
‫اگلی کالس میں بچوں کو ٹیسٹ دینے کے بعد اس نے احمد کو سمجھانا شروع کر دیا۔ لیکن باقی ٹیچرز بھی اس کو ہی غلط‬
‫سمجھنے لگیں۔سوال سمجھنے کے بعد جب وہ بچہ اپنی کالس میں گیا تو آئمہ کی ایک دوست نے اس سے پوچھا کہ احمد‬
‫کیوں آیا تھا تو وہ بولی اس طرح مجھے بار بار سوال کروانے کا کہ رہا تھا تو میں ساتھ لے آئی۔سدرہ بولی کہ آئندہ اگر وہ‬
‫آپ سے ایسے کہے تو آپ منع کر دینا کیونکہ یہاں کی ٹیچرز اس بات کو غلط انداز سے دیکھتی ہیں اس لئے بہتر یہی ہے‬
‫کے آپ ان کو موقع ہی نہ دیں۔یہ سن کے آئمہ کو بہت دکھ ہوا کہ شک کی تنگ دیواروں نے اس کو یہاں بھی تنہا نہ‬
‫چھوڑا۔پورا دن اسی سوچ میں گزر گیا کہ کیا یہاں بھی میری ہی غلطی تھی؟؟؟وہ یہ سوچ کے رونے لگی کہ اصل بات کا پتہ‬
‫چالئے بغیر کیسے لوگ کسی کو شک کے طوفان میں دھکیل دیتے ہیں۔پھر اللہ سے دعا کرنے لگی کہ اگر میں ہی غلط ہوں‬
‫تو تو مجھے سیدھی راہ دکھا دے۔‬
‫اگلے دن وہ سکول ذرا دیر سے پہنچی تو سب بچے وہاں پہلے سے موجود پا کر شرمندہ ہو گئی۔وہ نکاب میں ہی کالس میں‬
‫چلی گئی۔بچے آگے سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھنے لگے تو وہ بولی کہ میں تو تیار تھی پاپا نے لیٹ کر دیا۔یہ سنتے ہی‬
‫وہ مزید ہنسنا شروع ہو گئے کہ میم آپ ابھی بھی اپنے ابو کو پاپا کہتی ہیں۔‬
‫آئمہ بولی میٹا مجھے تو عادت ہے نا!!!!!!!!!!!بچوں کو ہنستے دیکھ کے غصے سے بولی میرا مذاق بعد میں اڑا لینا‬
‫ابھی اپنی اپنی کاپیاں نکالو۔سب بچوں نے کام شروع کر دیا تو ایک بچہ بوال میم جی نکاب تو اتار دیں آپ کی آواز نہیں آ‬
‫رہی۔یہ سنتے ہی آئمہ ہنستے ہنستے بولی کہ میں بھول ہی گئی تھی۔لیکچر دینے کے بعد بولی میں کل آپ لوگوں سے اس‬
‫کا ٹیسٹ لوں گی‬
‫اگلی کالس میں گئی تو وہاں ایک نیا بچہ موجود تھا جو کافی چھٹیوں کے بعد آیا تھا۔سب بچے کہنے لگے کہ میم جی یہ‬
‫نیا بچہ آیا ہے اسے بھی ڈیمو دیں نا!اس پہ وہ مسکرانے لگی اور بولی کے مذاق بند کریں اور پڑھنا شروع کریں۔وہ بہت براڈ‬
‫مائنڈ لڑکی تھی مگر ہر کوئی اس کی اس عادت کو بھی غلط انداز سے دیکھتا تھا۔ کالس میں ٹیچر کی کوئی کرسی نہیں‬
‫تھی اس لئے وہ تھک کر بچوں کے ساتھ بینچ پہ بیٹھ گئی اس بات کا بھی ٹیچرز نے ایشو بنانا شروع کر دیا۔اور کہنے لگیں‬
‫کہ آپ نے بچوں کو اتنا فری کیا ہوا ہے کہ آپ ان کے ساتھ ہی بیٹھ جاتی ہیں یوں وہ آپ کو ٹیچر سمجھتے ہی نہیں ہیں‬
‫آپ نے استاد اور شاگرد کا فرق ہی ختم کر دیا ہے آپ ہمارے بچوں کو خراب کر رہی ہیں ۔یہ سن کے وہ اور پریشان ہو‬
‫گئی کہ ہر کوئی اس کو ہی غلط سمجھتا ہے پھر ایک لمحے کے لیے اس کے ذہن میں یہ سوچ آئی کے میں نے کون سا‬
‫ساری زندگی یہاں رہنا ہے ؟؟؟سمجھتے رہیں جو بھی ان کو سمجھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اگلے دن ٹیسٹ میں سب بچوں نے بہت اچھے نمبر لئے۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد سب بچے اس بے چاری کو بہت تنگ کرنے‬
‫لگے پہلے تو وہ ان کے بچپنے کو ہنس کے ٹالتی رہی پھر زیادہ تنگ کرنے پہ بولی بیٹا کل ذرا اپنی امی کو بال کے النا تو‬
‫وہ ذور ذور سے ہنسنے لگا کہ آپ خود اتنی چھوٹی ہیں اور مجھے بیٹا کہ رہی ہیں۔یہ سن کے آئمہ بولی کہ بیٹا میں ‪22‬‬
‫سال کی ہوں۔یہ سنتے ہی سب بولے میم جی ایسا جھوٹ بولیں جس پہ کم ازکم اعتبار تو آئے یہ تو صاف جھوٹ نظر آ رہا‬
‫ہے۔آیمہ بولی میں آپ لوگوں سے جھوٹ کیوں بولوں گی؟؟؟احمد بوال !آپ جان بوجھ کے کہ رہی ہیں۔وہ تنگ آ کے بولی !‬
‫اچھا معاف کریں مجھے اگر میں نے غلطی کر ہی دی ہے تو۔۔۔۔۔آگے سے احمد بوال ‪:‬جا تجھے معاف کیا!!!!!!اے دل کو‬
‫توڑنے والے۔۔۔۔۔۔آئمہ ہنستے ہوئے بولی آپ لوگوں نے نہیں سدھرنا!!!!جو بات کرتی ہوں الٹا مجھے ہی پھنسا دیتے ہیں۔‬
‫احمد دھیمی آواز میں اپنے دوست سعد کو بوال پھنسانا ہی تو چایتا ہوں‬
‫آیمہ نے سوال کروانے کے بعد احمد اور سعد سے پوچھا کے آپ دونوں کیوں نہیں کر رہے؟؟؟احمد بوال میم جی مجھے سمجھ‬
‫ہی نہیں آیا میں سعد سے یہی کہ رہا تھا کے مجھے سمجھا دو۔تو بیٹا جی آپ مجھے بتائیں نا میں آپ کو سمجھا دیتی‬
‫ہوں۔وہ اسے کاپی پہ سمجھانے لگی تو سعد اس سے مذاق کرنے لگا وہ ہنس کے ٹالتی رہی کہ بچے اس طرح مجھ سے ہر‬
‫سوال پوچھ لیں گے اگر میں نے ڈانٹا تو وہ ڈر جائیں گے اس لئے وہ ان کو اگنور کرتی رہی مگر ہمیشہ کی طرح اس عادت‬
‫پہ بھی وہ غلط ثابت ہی گئی ۔سب ٹیچرزکہنے لگیں کہ آپ بچوں کو بہت فری کر دیتی ہیں ان کے سامنے ایٹیٹیوڈ میں رہا‬
‫کریں ہر بچے کے قریب جا جا کے ان کے مسئلے ڈسکس نہ کیا کریں۔ وہ ٹیچرز کی ان باتوں کو اگنور کرنے لگی کیونکہ اس‬
‫کے نزدیک بچوں کو سوالوں کا سمجھ آنا زیادہ اہم تھا۔‬
‫اگلے دن سکول میں ‪ 14‬اگست کا فنکشن تھا تو سب ٹیچرز کے اصرار پہ ابایا اتار کے آئی تو لڑکے سیڑھیوں کے پاس کھڑے‬
‫ہو کے گنگنانے لگے۔اس نے جب غصہ کیا تو بولے ہم آپ کو دیکھ کے تھوڑا ہی گانا گا رہے ہیں آپ اب اتنی بھی‬
‫ہمیں ڈانٹ رہی ہیں۔یہ سن کے وہ خاموش ہو‬ ‫خوبصورت نہیں کہ آپ کو دیکھ کے گانا گائیں آپ ویسے ہی غلط فہمی میں ٰ‬
‫گئی اور بولی اچھا گائیں گائیں شوق سے گائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ایک اور ٹیچر نے جب ان لڑکوں کی بے عزتی کی تو بولے میم آیمہ نے کہا تھا اس پہ وہ آئمہ کو کہنے لگیں کہ آپ بچوں‬
‫کو کیا تربیت دیتی ہیں کہ وہ آپ کو دیکھ کے گانے گائیں۔۔۔اس پہ وہ غصے میں آگئی کہ کیا میں آپ کو ایسی لڑکی لگتی‬
‫ہوں؟؟؟جو خود لڑکوں کو کہے کہ مجھے چھیڑو؟؟؟؟اسـ پہ وہ ہنسنے لگیں اور فورا بولیں کے ہم تو مذاق کر رہی تھیں آپ‬
‫مائنڈ ہی کر گئیں۔۔۔۔۔وہ بولی مجھے ایسا مذاق بالکل پسند نہیں۔وہ ٹیچرز خود کو کلیئر کرنے لگیں۔ تو آئمہ غصے سے کالس‬
‫میں چلی گئی وہاں لڑکے پھر گنگنانے لگے اس نے غصے سے دیکھا تو خاموش ہوگئے۔جب وہ سوال کروانے لگی تو احمد نے‬
‫اس کو آنکھ ماری آئمہ کو لگا کے شاید غلطی سے ایسا ہوا ہے۔لیکن دوبارہ جب احمد سے پڑھانے کے دوران آئی کنٹیکٹ ہوا‬
‫تو اس نے پھر وہی حرکت کی۔اب آیمہ کو لگنے لگا کہ واقعی میں کچھ گڑبڑ ہے۔اس نے احمد کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ‬
‫دیا۔سٹاف روم میں جانے کے بعد اپنی دوست مومنہ کواحمد کی اس حرکت کے بارے میں بتانے لگی۔وہ ذور زور سے ہنسنے‬
‫لگی۔یار آپ کو ہنسی آ رہی ہے مجھے غصہ آ رہا ہے۔ ارے یار غصہ کیوں کر رہی ہیں بچہ ہی تو ہے۔۔۔‬
‫یار اسی بات پہ تو غصہ ہے نا کے یہی رہ گیا ہے میرے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔تو آپ کو کون پسند ہے مجھے بتا دیں میں اسے جا‬
‫کے کہ دیتی ہوں کے وہ‬
‫آپ کو آنکھ مار دے۔۔۔۔۔۔اڑا لیں آپ بھی میرا ہی مذاق۔۔۔۔اتنی دیر میں ایک ٹیچر آئیں کہ میم آئمہ آپ کو احمد باہر بال‬
‫رہا ہے۔آئمہ بولی اچھا میں آتی ہوں ۔ مومنہ بولی جائیں اب دوسرا آیا ہے اپنی قسمت آزمانے۔۔۔۔۔آپ نے تو بس اب میری‬
‫جان نہیں چھوڑنی۔۔۔۔۔‬
‫جی بیٹا بتائیں!!! میم جی کل آپ نے مجھے فیس بک پہ ریکوسٹ بھیجی تھی؟؟؟دماغ تو ٹھیک ہے نا آپ کا؟؟؟میں کیوں‬
‫ایسا کرنے لگی؟؟؟احمد ہکالتے ہوئے بوال میم جی میم جی!! آپ مجھے غلط سمجھ رہی ہیں۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔اصل‬
‫میں مجھے کبھی کسی لڑکی کی ریکوسٹ نہیں آئی سوائے آپ کے کبھی کسی لڑکی نے بات تک نہیں کی مجھ سے تو‬
‫مجھے لگا کےآپ نے کی ہو گی ریکوسٹ سینڈ۔۔۔۔او ہیلو مجھ میں اور باقی لڑکیوں میں کوئی فرق نہیں؟؟؟ٹیچر والدین کی‬
‫طرح ہوتے ہیں۔کیا آپ کے والدین آپ سے اچھے سے بات کرتے ہیں تو اس کا الٹا مطلب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں میم‬
‫جی آپ غلط سمجھ رہی ہیں۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔آئمہ اس کی بات سنے بغیر ہی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مومنہ کے پوچھنے پہ کہنے لگی کہ آج پھر میری زندگی میں ایک اور غلط فہمی نے جگہ بنا لی۔۔۔۔کیا مطلب؟؟؟؟کیا کہا‬
‫احمد نے جو آپ اتنے غصے میں ہیں؟؟؟احمد کہ رہا تھا۔۔۔۔۔سب باتیں سن کے مومنہ ہنسنے لگی۔آپ بتائیں کیا اس میں‬
‫بھی میرا ہی قصور ہے؟؟؟ارے نہیں آپ ٹینشن نہ لیں ان کے ذہن ہیں ہی گندے ان کو ایسے اگنور کریں جیسے کچھ ہوا ہی‬
‫نہیں۔‬
‫آئمہ بے چاری بھی گھر میں بھی یہی سوچتی رہی کہ اس میں کیا میرا کوئی قصور ہے؟؟؟بہنـ کو بتایا تو اس نے اسے غصے‬
‫میں رہنے کا مشورہ دیا۔آیمہ کو بھی یہی صحیح لگا۔‬
‫اگلے دن سوال کروانے کے بعد بولی سب مجھے کام کرتے نظر آئیں۔احمد روزانہ کی طرح بوال میم جی مجھے سمجھ نہیں آیا۔‬
‫آیمہ غصے سے بولی جب سب کو کروایا تھا تو آپ کہاں تھے؟؟؟میم جی غصہ تو نہ کریں نا!!! آپ کو کل والی بات پہ‬
‫ابھی تک غصہ ہے؟؟؟جی تو کیا اب اس فضول حرکت پہ غصہ بھی نہیں آنا چاہئے؟؟؟اچھا میم جی آپ بتائیں میں آپ کو‬
‫فلرٹ لگتا ہوں؟؟؟؟وہـ سب ایک غلط فہمی تھی آپ مجھے کسی غلط فہمی کی بنا پہ جج نہیں کر سکتیں۔اگر پھر بھی آپ‬
‫کو میں ہی غلط لگتا ہوں تو سوری لیکن ناراض تو نہیں ہوں نا!!!اس کی معصوم شکل دیکھ کے آیمہ کا دل پگھل گیا اور‬
‫بولی آئندہ میں ایسی باتیں نہ سنوں؟؟؟میم آپ راضی ہو جائیں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔۔۔۔۔۔اچھا بتائیں کون سا سوال‬
‫سمجھنا ہے آپ کو؟؟؟؟‬
‫اگلی کالس میں بھی غصے سے بات کرنے لگی تو ایک بچہ بوال کہ آج میم تپی ہوئی ہیں اس لئے سارے سیریس ہو جائو‬
‫ورنہ بہت بے عزت ہو گے۔آئمہ ان کی معصومانہ باتوں پہ مسکراتے ہوئے بولی ‪:‬تنگ نہ کیا کرو نا کہ مجھے غصہ آئے۔میم‬
‫جی آپ غصہ نہ کیا کریں ہمیں ڈر نہیں لگتا بلکہ ہنسی آتی ہے۔وہ کیوں؟؟؟اس لئے۔۔۔۔۔آگے سب ہنسنے لگے۔۔۔۔کیوں ہنس‬
‫رہے پوری بات تو بتایئں؟؟؟آپ رہنے دیں میم جی آپ کو سمجھ نہیں آنی۔۔۔۔کیوں؟؟؟دھیمی آواز میں ایک بچہ بوالآپ ابھی‬
‫چھوٹی ہیں۔۔۔۔کیا کہا؟؟؟؟آپ کو سمجھ نہیں آنی۔پھر سب ہنسنے لگے۔۔۔‬
‫گھر پہنچتے ہی اس کے لئے ایک پرپوزل آیا ہوا تھا۔جس کا سنتے ہی وہ ٹینشن میں آگئی کہ کیسے انکار کروں؟؟؟؟اس نے‬
‫امی کو منع کرنے کا کہا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا۔اس پہ وہ رونے لگی اس کو لگا کہ جیسے سب ختم ہو گیا ہے‬
‫اس کی زندگی بے معنی ہو گئی ہےمگر پھر ان کے جانے کےبعداس کو لگا کے جیسے اس کو نئی زندگی مل گئی ہو جب‬
‫اس کو پتہ چال کے ابھی ہاں نہیں ہوئی پھر اس کی خوشی کو غم کے طوفان نے ایسے گھیرا کہ خوشی تو جیسے اس تیز‬
‫طوفان کی نظر ہو گئی۔جب اس کی ماں نے اپنے شک کا اظہار کیاکہ اس کے انکار کی وجہ کیا ہے؟؟؟شک کی تنگ دیواروں‬
‫میں خود کو گھرا دیکھ کر وہ پھر رونے پڑی۔مگر کبھی کبھار انسان کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لےطوفان اس کو اپنی ہی‬
‫لپیٹ میں لے لیتا ہے۔یہی حال آئمہ کا بھی ہوااس کا دردبھی اس کے اپنوں نے شک کی نظر کر دیا اور وہ فقط یہی سوچتی‬
‫رہ گئی کہ کیا شک رشتوں کی پرواہ بھی نہیں کرتا؟؟؟؟اس کا جواب نہ پا کر وہ حسرت سے اپنے ہی سگے رشتوں کو‬
‫دیکھنے لگی کہ میرے آنسووں کی بھی کوئی قیمت ہے یایہ بھی طوفان کی لپیٹ میں آنے والے اس لفافے کی مانند ہو گئے‬
‫ہیں جس کوطوفانی ہوائوں میں اڑتا ہوا تو سب دیکھتے ہیں مگر کوئی ہاتھ بڑھا کے اس کو اس اذیت سے نکالنے کی کوشش‬
‫نہیں کرتا۔مگر اس کے سگے رشتے ہی اس کو مزید الجھن میں ڈال گئے یہ کہتے ہوئے کہ ایسا کیا کر چکی ہو کہ اب شادی‬
‫کی پوزیشن میں ہو؟؟؟نہ اس کا نام بتانے کی۔۔۔۔ سگے رشتوں کے طنزیہ جملے سن کے سگے رشتوں سے اس کا اعتبار ہی‬
‫اٹھ گیا ہو جیسے۔۔۔۔یہ شک کا طوفان جانے کب تھم گیا اور وہ نیند کی سکون بھری گود میں چلی گئی اس کو پتہ بھی‬
‫اچانک اس کی آنکھ کھلی تو‬ ‫نہ چال۔‬
‫سورج کی گرم گرم شعائیں ایسا منظر پیش کر رہی تھیں جیسے‬
‫کبھی طوفان آیا ہی نہ ہو مگر طوفان گزرنے کے بعد اس کے اعصاب پر اپنے نقش چھوڑگیاتھا۔اوراس کی سوجھی ہوئی‬
‫آنکھیں اس کا پتہ دے رہی تھیں۔سعد بوال آج میم کی طبیعت ٹھیک نہیں انہیں تنگ نہیں کرو۔احمد بوال میم جی آپ رو کے‬
‫کیوں آئی ہیں؟؟؟؟اس پہ آئمہ نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اور سوچنے لگی کہ کچھ جان بوجھ کر انجان بن جاتے‬
‫ہیں اور جن کو انجان رکھنا چاہو وہ کیسے سب جان جاتے ہیں؟؟؟آیمہ کی خاموشی کو دیکھتے ہوئے احمد سمجھ گیا کے وہ‬
‫واقعی رو کے آئی ہے اور بوال میم جی کوئی پریشانی ہے تو آپ مجھ سے شیئر کر سکتی ہیں۔آئمہ گہری سوچ میں چلی گئی‬
‫کہ وہ شک کا طوفان جو سگے رشتوں کو اپنی لپیٹ میں لے گیا اس کےآگے تمہاری کیا اہمیت؟؟؟ احمد آئمہ کو گہری سوچ‬
‫میں دیکھ کے سمجھ گیا کے وہ اپنی پریشانی اس کو نہیں بتانا چاہتی اس لئے اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیا۔‬
‫اب سکول میں پڑھاتے ہوئے آئمہ کو چار ماہ گزر گئے تھے وہ طوفان بھی تھم چکا تھا۔بچے بھی اس کے ساتھ بہت‬
‫ہوگئے تھے‪attach‬‬
‫لیکن احمد جذبات کی رو میں بہتے بہتے بہت آگے نکل چکا تھاوہ بچہ جو پہلے کبھی سکول ہی نہیں آتا تھا اب کبھی‬
‫چھٹی نہیں کرتا تھایہاں تک کے پیپر ختم ہونے کے بعد بھی انتظار میں بیٹھا رہتا۔آئمہ کو لگا کے شاید اسے احساس ہو گیا‬
‫ہے۔لیکن نیتوں کے حال تو خدا بہتر جانتا ہے۔۔۔ایک دن ایک بچہ آئمہ کو بوال کے مجھے بھی اپنا نمبر دے دیں۔۔۔۔۔۔۔بھی‬
‫کا کیا مطلب؟؟؟آئمہ بولی۔۔۔مطلب آپ نے احمد کو بھی دیا ہوا ہے نا تو مجھے بھی دے دیں میں وہیں پہ آپ سے پوچھ لیا‬
‫کروں گا اگر ہوم ورک میں کوئی مسئلہ ہوا تو۔۔۔ یہ سن کے اس کی خاموش سوچوں میں جیسے پھر طوفان آ گیا ہو۔غصے‬
‫سے بولی تمہیں کس نے کہا کے میں احمد سے باتیں کرتی ہوں اور میں کیوں کرنے لگی اس سے بات؟؟؟؟میم جی آپ تو‬
‫غصے میں ہی آ گئیں مجھے تو احمد نے کہا تھا کہ آپ اس سے کال پہ بات کرتی ہیں۔آیمہ غصے سے احمد کی کالس میں‬
‫گئی اور بولی مسئلہ کیا ہے تمہارا؟؟؟کیا مطلب میم جی؟؟؟ مطلب یہ کہ کب کرتی ہوں میں تم سےکال پہ بات؟؟؟ میم‬
‫جی۔۔۔۔میم جی۔۔۔۔وہ بولنے کی کوشش کرتا رہا لیکن آئمہ نے اس کی سنی ہی نہیں۔کیا چاہتے ہو سکول چھوڑ دوں؟؟؟ایسے‬
‫بہانے بہانے سے کیوں تنگ کر رہے ہو سیدھا سیدھا کہ دو۔۔۔(یہ کہتے کہتے آئمہ کالس سے باہر چلی گئی)۔‬
‫اب احمد ساری بریک کے دوران سٹاف روم کے باہر بیٹھا اس کا انتظار کرتا رہا کے شاید آئمہ باہر آئے اور وہ اپنی‬
‫صفائی بیان کرے مگر اس کا یہ انتظارختم ہی نہ ہوا۔اور آئمہ گھر چلی گئی۔‬
‫اگلے دن احمد چھٹی پر تھاسعد بوال میم جی آپ کو پتا ہے احمد کیوں نہیں آیا؟؟؟آئمہ غصے سے بولی کہ نہ مجھے پتہ ہے‬
‫اور نہ مجھے پتہ لگانے کی کوئی ضرورت ہے۔۔‬
‫اگلے دن احمد سکول آیا تو آئمہ نے اگنور کیا سب بچے ٹیسٹ کر رہے تھے تو احمد نے بھی ٹیسٹ کرنا شروع کر دیااور‬
‫ٹیسٹ کے آخر میں لکھا میم جی آئی ایم سوری۔۔۔آپ ایک دفعہ میری بات سنیں تو سہی۔۔۔کیا میں آپ کو اتنا کرپٹ لڑکا‬
‫لگتا ہوں؟؟؟؟جوـ ٹیچر کے بارے میں غلط خیاالت رکھے۔۔۔۔یا کسی کو بدنام کرے۔۔۔۔۔۔۔یہ سب پڑھنے کے بعد آئمہ کا غصہ‬
‫تھوڑا کم ہو گیا۔وہ پیج پھاڑنے کے بعد خاموش ہو گئی۔احمد کو اس کے رویے سے ایسا لگا کے اس کا غصہ اب کم ہو گیا‬
‫ہے۔۔۔۔وہ آئمہ کے کالس سے باہر جانے کے بعد اس کے پیچھے پیچھے باہر چال گیا اور بوال میم جی اگر ابھی بھی میں ہی‬
‫آپکو کرپٹ لگتا ہوں۔تو میں سوری کر لیتا ہوں۔لیکن آپ کم از کم ناراضگی تو ختم کر دیں۔۔۔۔آئمہ نرم لہجے سے بولی کہ‬
‫بیٹا ایسے نہ کیا کریں نا کے مجھے غصہ آئے۔اچھا میم جی اس دفعہ مجھے معاف کر دیں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں‬
‫گا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫آئمہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی اچھا جائیں بیٹا میری اگلی کالس کا ٹائم ہو گیا ہے۔۔۔۔‬
‫احمد فورا بوال میم جی ایک وعدہ کریں کے کبھی یہ سکول نہیں چھوڑیں گی۔۔۔۔میں آپ کو اچھا بچہ بن کے دکھائوں گا۔آئمہ‬
‫بولی بیٹا جانی آپ کا کام ہے پڑھنا میں نہ سہی کوئی اور سہی لیکن آپ کو تو اچھا بچہ بننا ہے نا!!!نہیں نا میم جی‬
‫مجھے صرف آپ سے ہی پڑھنا ہے۔‬
‫اب جائیں کالس میں نہ اپنا ٹائم ویسٹ کریں نہ ہی میرا۔۔۔۔‬
‫اگلے دن آئمہ کالس میں گئی تو احمد دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے مسلسل اس کی طرف دیکھ رہا تھا آئمہ نے ایک دو دفعہ‬
‫دیکھااور اگنور کیا۔جب وہ سب کا کام چیک کرنے لگی تو احمد نے کچھ بھی نہیں لکھا تھا(اندازہ تو اس کو تھا ہی) وہ‬
‫غصے سے بولی کل ہی کہا تھا نا کے اچھے بچے بن کے دکھائو گے۔۔۔۔اگر کام نہیں کرنا تو کل سے میری کالس میں نہ‬
‫آنا!!!یہ کہتے ہی وہ کالس سے باہر چلی گئی۔‬
‫اگلے دن احمد میتھ کی پوری یونٹ تیار کر آیااور بوال میم جی اس کا ٹیسٹ لے لیں آئمہ سن کے حیران رہ گئی کہ وہ بچہ‬
‫جسے ایک دفعہ میں سوال سمجھ نہیں آتا اس نے پوری یونٹ کیسے تیار کر لی؟؟؟ٹیسٹ میں اچھے نمبر آنے کے بعد وہ‬
‫آئمہ کے پاس گیا اور بوال اب تو آیا نا آپ کو مجھ پہ اعتبار؟؟؟آئمہ بولی گڈ آئندہ بھی ایسے ہی تیاری کر کے آنا۔سعد آئمہ‬
‫کے پیچھے کالس سے باہر گیا اور بوال میم جی !آپ کا گھر کہاں ہے؟؟؟؟کیوں بیٹا؟؟؟میم جی میں نے آپ کے گھر ٹیوشن‬
‫پڑھنے کے لئے آنا تھا۔بیٹا جی میں نہیں پڑھاتی ٹیوشن۔میم جی صرف مجھے پڑھا دیں۔بیٹا جی آپ کی بات نہیں میں فری‬
‫نہیں ہوتی۔ بوال کیوں میم جی آپ نے کپڑے دھونے ہوتے ہیں؟؟؟ بیٹا ابھی کالس میں جائیں کل کالس میں بات ہو گی۔۔۔‬
‫اگلے دن وہ بوال میم جی آپ کیوں انکار کر رہی ہیں مجھے پڑھانے سے؟؟؟بیٹا مجھے گھر میں اپنا پڑھنا ہوتا ہے نا!!! میم‬
‫جی آپ کیا پڑھ رہی ہیں؟؟؟بیٹا جی میں سی ایس ایس کر رہی ہوں۔میم جی وہ کیا ہوتا ہے؟؟؟بیٹا جی اس کے بعد ‪17‬‬
‫گڑیڈ کا افسر بھرتی ہوتا ہے۔سعد بوال میم جی احمد کے ابو بھی یہی ہیں۔آئمہ بورڈ پہ سوال لکھتے ہوئے بولی احمد!!!! یہ‬
‫سعد صحیح کہ رہا ہے؟؟؟احمد سعد کو سرگوشی کرنے لگا کے آپ کے سسر جی ہیں اور آپ کو پتا ہی نہیں۔۔۔۔آئمہ کو آواز‬
‫تو آ گئی تھی مگر وہ ایسا ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔وہ بولی جی تو بیٹا! اس سوال میں کیا ہو گا کسی کو کچھ آئیڈیا‬
‫ہے؟؟؟احمد بوال یار پتہ نہیں کب سمجھ آئے گی؟؟؟جیـ بیٹا کیا سمجھ نہیں آیا آپ کو؟؟؟(سعد کو سرگوشی کرتے ہوئے بوال‬
‫سب باتیں سنائی دے دیتی آپ کو سوائے اس کے جو میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں۔۔۔۔) بیٹا سرگوشیاں بند کریں اور کام پہ‬
‫توجہ دیں۔ سوری میم جی!!!!۔‬
‫پیریڈ ختم ہوتے ہی وہ فورا اپنی دوست کے پاس گئی اور بولی میم جی آپ بتائیں اس میں میرا کوئی قصور ہے کیا؟؟؟مومنہ‬
‫بولی اب کیا ہوا؟؟؟بتائیں تو سہی آپ اتنی پریشان کیوں لگ رہی ہیں؟؟؟وہ۔۔۔۔احمد۔۔۔۔وہ۔۔۔۔اس نے۔۔۔۔کیا وہ وہ میم جی‬
‫بتائیں نا کیا کہا احمد نے؟؟؟؟(پوری بات مومنہ کو بتا ہی دی) تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔۔۔۔آپ کو ہنسی آ رہی ہے‬
‫اور میں نے پتہ نہیں کیسے اس کو اگنور کیا ہے۔تو بات ہے ہی ہنسنے والی میں کیا کروں؟؟؟یار آپ بتائیں کیا اس میں میرا‬
‫کوئی قصور ہے؟؟؟کیا میری کوئی غلطی ہے جو اس کو ایٹریکشن محسوس ہو رہی؟؟؟ارے نہیں نہیں آپ تو سیریس ہی ہو رہی‬
‫ہیں ان لڑکوں کا کام ہوتا ہے ٹائم پاس۔ اس نے ویسے ہی کہ دیا ہو گا اور آپ سیریس ہو رہی ہیں۔ اسے بس اگنور کریں۔‬
‫اس کے بچپنے کو ایسے بھول جائیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔۔‬
‫آئمہ پورا دن پریشان رہی کہ اب کیا کروں؟؟؟ایک تو گھر میں اتنا مسئلہ چل رہا اگر یہ بات کسی کو پتہ چلی تو میں کیسے‬
‫کلیئر کروں گی اپنی پوزیشن؟؟؟؟اگلے دن جب آئمہ کالس میں گئی تو غصے سے ایک سوال سمجھانے کے بعد اگال ان کو‬
‫خود کرنے کو کہااحمد نے حسب معمول کہا کے مجھے دوبارہ سمجھا دیں۔کیوں جب میں سمجھا رہی تھی تو کہاں تھے؟؟؟‬
‫احمد نے دھیمی آواز میں کہا کے آپ نے میری طرف دیکھ کے جو نہیں سمجھایا تو مجھے کیسے سمجھ آتا َ؟؟؟(اور غصے‬
‫سے بولی)کالس میں صرف آپ تو نہیں ہیں نا!!!جو سارا وقت آپ کی طرف دیکھتی رہوں۔۔۔(سعد کو سرگوشی کرتے ہوئے‬
‫بوال یہی تو مسئلہ ہے نا آپ سمجھ ہی نہیں رہی کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں)۔آئندہ یہ حرکت نہ کرنا میرے سامنے۔۔۔سخت‬
‫بری حرکت لگتی ہے مجھے سرگوشیاں کرنے والی۔۔۔۔سوری میم جی۔۔۔بس ایک کام آتا ہے آپ کو سرگوشیاں کرنے کا۔۔۔‬
‫پیریڈ ختم ہونے کے بعدجب آئمہ دوسری کالس میں گئی تو احمد نے دروازے پہ دستک دی۔(آیمہ دروازہ کھولتے ہوئے‬
‫بولی)جی بیٹا !!!آپ کو دیکھے بغیر دل نہیں لگ رہا تھا نا اس لئے دیکھنے آگیا۔یہ سن کے آئمہ پہ تو جیسے سکتہ طاری‬
‫ہو گیا ہو۔(حیرانگی سے اس کی طرف دیکھ کے سوچنے لگی کہ اس نے اتنی بڑی بات کیسے کہ دی)۔غصے سے بولی‬
‫طبیعت تو ٹھیک ہے نا!!!سوچ سمجھ کے بات کیا کریں کے آگے کون موجود ہے؟؟؟ارے نہیں نہیں میم جی میں نے تو مذاق‬
‫کیا تھا لیکن آپ تو سیریس ہی ہو گئیں۔اگر آپ کو برا لگا تو سوری۔میم جی میں تو میم شمائلہ سے بھی ایسا ہی مذاق‬
‫کرتا تھا انہوں نے تو کبھی مائنڈ نہیں کیا۔ایسے مذاق کسی اور سے ہی کیا کریں میں برداشت نہیں کرتی۔اچھا سوری میم جی‬
‫وہ اصل میں سر نے بھیجا تھا کے آپ سے بورڈ مارکر لے آئوں لیکن آپ سے تھوڑا سا مذاق کر لیا۔ایسی باتیں مجھے مذاق‬
‫میں بھی پسند نہیں۔میرے سامنے اپنی حد میں رہ کے بات کیا کریں۔میم جی آپ نے زیادہ ہی مائنڈ کر لی میری بات۔۔۔‬
‫سوری۔۔۔۔میم جی آپ کو تو پتہ ہے نا میں اس ٹائپ کا لڑکا نہیں۔۔۔آپ کی ٹائپ نظر آ گئی ہے آج مجھے۔۔۔۔میم جی آپ‬
‫کو مجھ پہ اعتبار نہیں؟؟؟بندے کی سوچ کا اندازہ اس کی گفتگو سے ہی لگایا جاتا ہے اور آج مجھے اچھے سے ہو گیا ہے‬
‫اندازہ۔۔۔۔۔میم جی آپ ایک جملے سے کسی کے کیریکٹر کا کیسے اندازہ لگا سکتی ہیں؟؟؟کبھی کبھی کچھ الفاظ ان سب پہ‬
‫بھاری ہوتے ہیں جوشاید آپ ساری زندگی لگا کے کہے ہوں۔میم جی آپکے نزدیک مذاق میں کہے گئے الفاظ زیادہ اہمیت رکھتے‬
‫ہیں؟؟؟‬
‫آئمہ نے جب یہ بات مومنہ کو بتائی تو وہ بولی ہممممہمممم۔۔یہ کچھ ٹیچرز کا قصور ہے نا جو ایسی باتیں سن کے برداشت‬
‫کرتی ہیں اسی لئے بچوں کو اپنی غلطی محسوس نہیں ہوتی۔صحیح کہ رہی ہیں آپ۔۔۔اچھا کیا آپ نے جو آگے سے اسے‬
‫باتیں سنائیں اب وہ کسی اور سے ایسے فری نہیں ہو گا۔آئمہ بعد میں یہی سوچتی رہی کہ ایسا تو نہیں ہے کہ وہ سنجیدہ‬
‫ہو اور پھر بعد میں ڈر سے جھوٹ بول رہا ہو۔۔۔اسی سوچ میں جانے کب اگلی صبح کا سورج نکل آیا اسے پتہ ہی نہ چال۔‬
‫احمد چھٹی پہ تھا۔چھٹی کے بعد جب آئمہ گھر جانے لگی تو احمد سکول کے باہر کھڑا موبائل استعمال کر رہا تھا۔یار مومنہ‬
‫یہ بدتمیز پتہ نہیں راستے میں کیوں کھڑا ہے؟؟؟ہاہاہاہاہـ آپ کے لئے اور کیوں؟؟؟آج سکول نہیں آیا نا تو یہاں آ گیا آپ کا‬
‫دیدار کرنے۔۔۔۔تنگ نہ کریں نا یار!!!آپ کو مذاق سوجھ رہا ہے اور مجھے ٹینشن ہو رہی ہے کہ آگے سے آپ تو چلی‬
‫جائیں گی نا اس نے اگر میرا پیچھا کیا تو؟؟؟‬
‫آپ تو چلی جائیں گی نا میں اکیلی کیا کروگی۔راستے میں بہت سے جاننے والے بھی نظر آ جاتے ہیں تو وہ کیا کہیں گے‬
‫میرے بارے میں۔۔۔۔ارے میم جی آپ ٹینشن نہ لیںاگر اس نے کوئی فضول حرکت کی تو آپ بھی صحیح بے عزتی کرنا۔یہ‬
‫باتیں کرتے کرتے جب وہ دونوں اس کے قریب سے گزری تواس نے موبائل پہ گانا لگا دیا‪":‬معاف کریں وے موال معاف‬
‫کریں"۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سنتے ہی آئمہ مزید غصے میں آ گئی اور مومنہ تو ہنس ہنس کے پاگل ہو گئی ہو جیسے۔آئمہ بولی چھیچھوڑا‬
‫نہ ہو تو۔۔۔۔یہ امید نہیں تھی مجھے اس سے۔۔۔۔تو آپ نے اس سے امیدیں بھی وابستہ کر رکھی ہیں؟؟؟؟؟‬
‫اوہو!!!!!!!!!!!!!!!مطلب میں اسے شریف سمجھتی تھی۔۔۔۔ہاہاہاہا تو اس نے کون سی بدمعاشی دکھائی ہےآپ اسے‬
‫معاف کر دیں نا تا کہ بے چارے کو اتنی مشکل ہی نہ ہو۔دیکھیں نا کیسے تیار ہو کے آیا ہے آپ کو راضی کرنے کے لئے‬
‫آپ بھی مان جائیں نا اب۔۔۔۔‬
‫اور غصہ نہیں دالئیں آپ مجھے۔۔۔۔اچھا مڑ کے دیکھیں کہیں وہ پیچھا تو نہیں کر رہا؟؟؟؟نہیں آ رہا پیچھے آپ پریشان نہ‬
‫ہوں آرام سے گھر جائیں۔اللہ حافظ کہتے ہی وہ دونوں اپنے اپنے راستوں پہ چل دی۔‬
‫گھر پہنچتے ہی اس نے فورا مڑ کے پیچھے دیکھا اور اسے نہ پا کر اسے اطمینان بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ پریشان بھی‬
‫ہونے لگی کہ آخر یہ آیا کیوں تھا؟؟؟؟؟؟اسی کشمکش میں اگلے دن جب وہ سکول پہنچی تو اس کے سارے سوالوں کا‬
‫جواب لئے احمد وہاں پہ موجود تھا۔کالس میں پہنچتے ہی بورڈ پہ اس کی نظر "آئی ایم سوری "پہ پڑی۔وہ سمجھ تو گئی‬
‫تھی کہ یہ کس نے لکھا ہے مگر پھر بھی پوچھنے لگی۔جواب نہ پا کر غصے سے بولی کہ یہاں جو کام کرنے آتے ہیں نا‬
‫صرف اسی پہ توجہ دیں۔کالس سے آخر میں سب بچوں کا کام چیک کرتے ہی کالس سے باہر چلی گئی تو احمد کاپی لئے‬
‫اس کے پیچھے آیا کہ میم آپ نے میرا کام چیک نہیں کیا۔بیٹا احتیاط عالج سے بہتر ہے۔میم جی کام تو چیک کریں‬
‫نا!!!!!آئمہ نے جان چھڑوانے کے لئے اس کی کاپی پکڑ لی۔کاپی پہ بھی لکھا تھا میم جی آخری دفعہ معاف کر دیں آئندہ‬
‫نہیں کروں گا ایسے۔اچھا جائیں کالس میں۔۔۔۔میم جی مجھے ایک اور بات بھی کلیئر کرنی تھی۔جی کہیں کیا کہنا ہے اب۔۔۔۔‬
‫میم وہ کل میں آپ کا پیچھا کرنے کے لئے نہیں کھڑا تھا سکول کے باہر۔قسم سے میم طیبہ نے بالیا تھا۔بیٹا جی میں نے‬
‫کب کہا کہ آپ کیوں کھڑے تھے پھر آپ مجھے وضاحت کیوں دے رہے ہیں؟؟؟؟میم جی اصل میں مجھے لگا کہ مجھے اپنی‬
‫پوزیشن کلئیر کرنی چاہئے تا کہ غلط فہمی پیدا ہی نہ ہو۔کہ دیا جو کہنا تھا؟؟؟؟اب جائیں اپنی کالس میں۔۔۔۔میم جی آپ‬
‫ناراض تو نہیں ہیں نا مجھ سے؟؟؟؟آئندہ ایسی حرکت کی امید نہیں رکھتی آپ سے۔۔۔۔میم جی اعتبار رکھیں مجھ پہ آئندہ‬
‫آپ کو موقع نہیں دوں گا۔۔۔۔‬
‫آئمہ نے مومنہ کو بتایا تو وہ زور زور سے ہنسنے لگی۔اور بولی بہت سمجھدار ہے آپ کا سٹوڈنٹ۔محبت کی پہلی سیڑھی‬
‫اچھی طرح جانتا ہے۔کیا مطلب؟؟؟مطلب یہ کہ اعتبار ہی تو ہوتا ہے ہر رشتے کے لئے سب سے زیادہ اہم۔اور اس نے سب‬
‫سے پہلے اسی پہ ہی کام شروع کیا ہے۔۔۔۔میم آپ بھی نا پتہ نہیں کیا کیا سوچ رہی ہیں۔وہ اتنا سمجھدار نہیں ہے۔چلیں‬
‫ہی رہیں کیونکہ‬ ‫آپ شرط لگائیں ٹریٹ کھالنے کی اگر میری بات سچ نکلی تووووووووو۔۔۔۔۔۔اچھا !!!آپ اس انتظار میں‬
‫ایسا تو کچھ ہونے واال نہیں ہے۔۔۔۔۔۔‬
‫آئمہ کو اب احمد کی باتوں کی اتنی ٹینشن نہیں ہوتی تھی اب وہ اس کی سب باتوں کو بچپنا سمجھ کے اگنور کرتی تھی‬
‫لیکن احمد بے چارہ سنجیدہ تھا وہ اب روزانہ گھر سے کام بھی کر کے التا تھا اور کوئی فضول بات بھی نہیں کرتا تھا۔اس‬
‫کا لہجہ عجیب سا تھا مغروریت اس کے چلنے پھرنے 'بات کرنے میں صاف ظاہر ہوتی تھی۔مگر اب اس نے میتھ میں‬
‫دلچسبی لینا شروع کر دی تھی۔ایک دن بوال میم جی اب میں نے آرکیٹیکچر بننے کا سوچا ہے۔وہ کیوں بیٹا؟؟؟اس کا تو کوئی‬
‫سکوپ بھی نہیں۔کہنے لگا کہ اب مجھے میتھ جو اچھا لگنا شروع ہو گیا ہے اور اس میں میتھ استعمال ہوتا ہے نا اس لئے‬
‫میں نے ایسا سوچا ہے۔تو بیٹا باقی سبجیکٹس بھی پڑھا کرو نا پھر باقی بھی اچھے لگنے لگیں گے۔میم جی باقیوں میں دل‬
‫ہی نہیں لگتا نا!!!!بیٹا پڑھو گے تو اچھے لگیں گے نا۔۔۔۔اپنے دوست کو سرگوشی کرنے لگا کہ اپنی تو سب منوالیتی ہیں‬
‫کسی کی بھی سمجھ لیا کریں نا!!!!۔‬
‫میں جو کہنا چاہتا ہوں آخر وہ کب سمجھیں گی؟؟؟سعد ہنستے ہنستے بوال لگتا ہے تو نے بے عزت ہونا ہے۔۔۔۔میری بات‬
‫مان لے بھائی چھوڑ دے یہ کام اس میں سوائے بے عزت ہونے کے اور کچھ نہیں ملنے واال تجھے؛سکول سے الگ نکالے جائو‬
‫گے۔۔۔۔بیٹا کیا امپورٹنٹ ڈسکشن چل رہی ہے؟؟؟کچھ نہیں میم جی یہ فیروز خان کچھ کہ کر رہا ہے۔۔۔کون فیروز خان؟؟؟میم‬
‫جی یہ احمد ہے نا فیروز خان۔۔۔۔کیا مطلب میم جی اصل میں نا احمد کو بہت پسند ہے فیروز خان۔اس لئے یہ اس کی طرح‬
‫ہی بالوں کا سٹائل بھی بنا کے آتا ہے اوراسی کی طرح ہی ایٹی ٹیوڈ میں بھی رہتا ہے نا اس لئے ہم سب دوستوں نے اس‬
‫کانام ہی فیروز خان رکھ دیا ہے۔اچھا احمدکیوں پسند ہے آپ کو فیروز خان اتنا زیادہ کہ آپ اسے اتنا کاپی کرتے ہیں؟؟؟؟میم‬
‫جی خانی ڈرامے کی وجہ سے۔۔۔۔یہ سب ڈرامے جھوٹ ہوتے ہیں آپ ان کو اتنا سیریئس لے رہے ہیں‪،‬اتنا کاپی کرتے ہیں ان‬
‫کو کہ لوگوں کو آپ کی پرسنلٹی نظر ہی نہیں آ رہی۔آپ کی پرسنلٹی اس میں کہیں گم ہی ہو تی جا رہی ہے۔ارے نہیں میم‬
‫جی بالکل سچی سٹوری ہے۔۔۔۔آپ نیٹ پہ سرچ کریں نا!!!بالکل رئیل ہے اس کی سٹوری۔۔۔کوئی نہیں کرتا کسی کے لئے‬
‫اپنی الئف برباد۔۔۔افوہ نہیں نا میم جی آپ کو کیا پتہ کسی کے جذبات کی شدت کا۔۔۔آج کل کے دور میں کوئی سچائی نہیں‬
‫ہوتی جذبات میں۔۔(منہ میں منمناتے ہوئے بوال‪:‬میم جی آپ کو بھی ایک دن یقین آئے گا)اسی وقت کا مجھے انتظار رہے‬
‫گا۔۔۔۔آپ یہی فضول باتیں کرتے رہتے ہیں نا اس لئے ہی فیل ہوتے ہیں۔۔۔ایسے تو نہ کہیں نا میم جی میتھ میں تو پورے‬
‫نمبر لیتا ہوں۔۔۔باقیوں میں جو فیل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔وہ تو میں پڑھتا ہی نہیں ہوں نا ورنہ جو پڑھتا ہوں اس میں نمبر دیکھیں‬
‫نا۔۔۔بیٹا جانی جب میری عمر کے ہو گے نا تو سمجھ آ جائے گی کہ یہ سب ڈرامے جھوٹے ہیں۔۔۔پھر پڑھنے کا دل کرے گا‬
‫مگر تب موقع نہیں ملے گا۔۔۔۔میم جی آپ بات کہیں سے بھی شروع کریں ال کے ختم پڑھائی پہ ہی کرتی ہیں۔۔۔بیٹا جانی‬
‫تو میرا یہاں آنے کا مقصد بھی تو یہی ہے نا۔۔۔۔‬
‫سب سمجھ ہے آپ کو لیکن پتہ نہیں میرا مقصد کب سمجھیں گی؟؟؟میم جی ایک بات تو بتائیں۔۔۔جی پوچھیں بیٹا۔۔۔اگر‬
‫اس دفعہ میرے پورے نمبر آئے تو آپ کیا دیں گی مجھے؟؟؟؟کیا چاہئے آپ کو؟؟؟سوچ لیں میم جی جو بھی مانگوں گا؟؟؟‬
‫پہلے نمبر تو لے لو۔۔۔میم جی آپ وعدہ کریں پھر دیکھیں میں کیسے لیتا ہوں پورے نمبر۔۔۔اچھا۔‬
‫اگلے دن سکول میں پیرنٹس میٹنگ تھی سب بچوں کے گھر والے آئے ہوئے تھے۔کچھ کے گھر والوں نے کہا کہ آپ ہمارے‬
‫بچوں کو ٹیوشن پڑھا دیں یہ آپ کے ساتھ بہت خوش رہتے ہیں۔سوری لیکن میرے پاس گھر میں ٹائم نہیں ہوتا۔۔۔۔‬
‫میم جی آپ جب بھی فری ہوں ایک گھنٹہ بس پڑھا دیا کریں۔ارے نہیں نا آپ ایسے‬
‫منتیں نہیں کریں نا مجھے برا لگتا ہے۔۔۔اچھا چلیں میں سکول میں ہی آدھا گھنٹہ فالتو ٹائم دے دیتی ہوں۔بہت بہت شکریہ‬
‫آپ کا۔۔۔۔بہت محنت کر رہی ہیں آپ ہمارے بچوں پہ۔۔۔اللہ آپ کو اجر دے۔۔۔آمین !!!بس دعا کر دیا کریں میرے لئے۔۔۔‬
‫اتنی دیر میں احمد کی امی بھی آ گئیں اور کہنے لگیں میم جی آپ کی وجہ سے احمد نے پڑھنا شروع کر دیا ہےپہلے پورا‬
‫سال کبھی اس کو کتاب اٹھائے نہیں دیکھا تھا اور اب سارا ٹائم میتھ ہی اٹھائے رکھتا ہےرات کو بھی دیر تک پڑھتا رہتا ہے۔‬
‫جی جی بہت‬
‫محنت کر رہا ہے۔۔۔۔مومنہ بولی!یہ نہ ہوبورڈ میں سب مضامین میں فیل ہو جائے اور میتھ میں پورے نمبر لے لے۔اس کو‬
‫کہیں کہ باقیوں پہ بھی تھوڑی توجہ دے دے۔جی بس سنتا کہاں ہے کسی کی؟؟؟آپ ہی کچھ ایسا کریں نا کہ وہ باقی بھی‬
‫اسی طرح پڑھنا شروع کر دے۔۔۔ہاہاہاآپ نے الٹا ہمیں ہی قصوروار بنا دیا۔نہیں نہیں قصور تو میرے ہی بیٹے کا ہے۔اس کے ابو‬
‫بھی بہت کوشش کرتے ہیں مگر یہ پڑھے تو ناااااا۔اپنی مرضی کا مالک ہے۔ہم زیادہ دبائو اس لئے نہیں ڈالتے کہ کہیں غصے‬
‫میں آکر پڑھنا چھوڑ ہی نہ دے۔ہم تو اسی پہ ہی شکر کرتے ہیں کہ چلو آہستہ آہستہ ہی سہی پڑھتا تو رہے نا۔۔۔چلیں اللہ‬
‫اس میں شوق ڈالے۔‬
‫اگلے دن احمد بوال میم جی آپ نے میرے گھر والوں کو کیا کیا شکایتیں لگائی ہیں؟؟؟؟‬
‫میں نے تو کچھ نہیں کہا۔۔۔امی کہ رہی تھیں کہ آپ نے کہا کہ احمد بالوں کے سٹائل‬
‫بنا کے آتا ہے اس لئے پڑھائی پہ توجہ نہیں دیتا۔نہیں میں نے تو ایسے نہیں کہا‪،‬وہ تو میم مومنہ نے کہا ہے۔اگر مجھے آپ‬
‫کو شکایتیں لگانی ہوئیں نا تو میں آپ کے سامنے ہی لگا دوں گی۔ڈرتی تھوڑا ہی ہوں میں آپ سے۔۔۔نہیں میم جی میں تو‬
‫ویسے ہی کہ رہا تھا۔‬
‫بیٹا جی آپ باقی سبجیکٹس بھی پڑھا کریں نا‪،‬آپ کے والدین کو کتنا شوق ہے آپ کو پڑھانے کا اور آپ پڑھتے نہیں۔۔۔۔میم‬
‫جی باقی ٹیچرز صحیح سے پڑھاتی نہیں ہیں نا۔۔۔۔تو بیٹا جانی جو سمجھ نہیں آتا مجھ سے پوچھ لیا کریں نا۔۔۔آپ کو آتے‬
‫ہیں باقی سبجیکٹس؟؟؟تو بیٹا جانی کیا میں نے صرف میتھ ہی پڑھا ہے؟؟؟نہیں وہ آپ پڑھاتی نہیں ہیں نا اور سبجیکٹس۔۔۔اس‬
‫لئے مجھے ایسا لگا۔۔۔بیٹا جانی باقی یاد کرنے والے ہوتے ہیں نا سبجیکٹس اب بچے یاد کرتے نہیں اور میرا رزلٹ خراب ہوتا‬
‫ہے نا اس لئےنہیں پڑھاتی میں اور سبجیکٹس؟؟؟آپ پڑھائیں تو سہی نا میں نے اگر نہ پڑھا تو آپ کہیے گا۔۔۔ایک بچے کو تو‬
‫صرف نہیں پڑھانا نا ۔۔۔۔پوری کالس کو پڑھانا ہوتا ہے نا!!!!سب بچے بولے میم جی لے لیں نا باقی ٹیچرز پیریڈ لیتی ہیں‬
‫تو ٹائم نہیں گزرتا‪،‬آپ کے پیریڈ میں نہ تو بور ہوتے ہیں اور پڑھ بھی اچھا لیتے ہیں۔۔۔آئمہ ہلکی سی مسکرائی اور بولی بیٹا‬
‫آپ ٹائم گزارنے کے لئے ایسا چاہتے ہیں؟؟؟؟نہیں میم جی اصل میں آپ سے ہم ہر بات پوچھ سکتے ہیں نا‪،‬باقی ٹیچرز سے‬
‫پوچھو تو وہ کہتی ہیں کہ آپ بد تمیزی کر رہے ہیں۔۔۔ہم ان سے کچھ پوچھتے ہی نہیں اس لئے گھر جا کے کچھ سمجھ‬
‫ہی نہیں آتا تب ہی تو گھر جا کے کچھ پڑھنے کا دل نہیں کر تا نا۔یہا ں ٹیچرز سر سے اتارتی ہیں اور گھر جا کے ہم بھی‬
‫سر سے اتارتے ہیں۔۔۔۔سعد بوال میم جی تو پھر کل سے آپ لے رہی ہیں ہمارے سب سبجیکٹس؟؟؟بیٹا جی میرے ہاتھ میں‬
‫تو نہیں ہے نا۔۔۔۔اگر میتھ کا رزلٹ اچھا ہوا تو میں بات کروں گی۔۔۔کہ مجھے اور بھی سبجیکٹ دے دیں۔۔۔چلیں ٹھیک ہے‬
‫آپ وعدہ کریں ہمارے رزلٹ کی فکر نہ کریں۔۔۔۔‬
‫اب وہ چھٹی کے بعد بھی فالتو ٹائم لگاتی اور صبح زیرو پیریڈ بھی۔۔۔۔اس کے عالوہ بریک میں بھی اگر کوئی پوچھتا تو‬
‫سمجھانے لگتی۔باقی ٹیچرز اس بات پہ مائنڈ بھی کرتی کہ کیا صرف میتھ میں ہی پاس ہونا ہے سب بچوں نے؟؟؟؟؟؟رزلٹ‬
‫آیا تو نہ صرف بچوں کے میتھ میں اچھے نمبر تھے بلکہ کافی زیادہ کے تو پورے نمبر بھی تھے۔۔۔رزلٹ دیکھتے ہی باقی‬
‫ٹیچرز بولیں‪،‬اتنا میتھ پڑھائیں گی تو بچے بھی صرف میتھ ہی پڑھیں گے نا۔۔احمد کے پورے نمبرآ ہی گئے‪،‬بوال میم جی آپ کو‬
‫وعدہ یاد ہے نا!!!!!!!!!!ہم م م م‬
‫آپ وعدہ کریں ناراض تو نہیں ہوں گی نا؟؟؟نہیں۔۔۔آپ نہ کریں نا ناراض کرنے والی بات۔۔۔میم جی آپ مجھ سے دوستی‬
‫کریں گی؟؟؟بیٹا طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟کبھی دیکھا ہے کسی سٹوڈنٹ کو کسی ٹیچر سے دوستی کرتے؟؟؟؟میم جی آپ نے‬
‫بھی کبھی دیکھا ہے کسی سٹوڈنٹ کو ٹیچر کی اتنی بات مانتے ہوئے۔۔۔۔اچھے بچے ٹیچرز کی بات مانتے ہیں اس میں کون‬
‫سی ان ہونی ہے؟؟؟؟میم جی آپ کو مجھ میں اور باقی سٹوڈنٹس میں کوئی فرق نہیں لگتا؟؟؟؟نہیں ں ں ں ں ں۔۔۔سعد کو‬
‫دھیمی آواز میں بوال آپ کے لئے میں نے میتھ سے محبت شروع کر دی۔۔۔اور آپ کو کوئی فرق ہی نظر نہیں آیا۔۔۔۔میم جی‬
‫مجھے غلط نہیں سمجھئے گا اصل میں میری کوئی بہن نہیں نا اس لئے آپ کو کی رہا تھا۔۔۔یہ سن کے آئمہ کا دل پگھل‬
‫گیا بولی اچھا بہن ہی سمجھیں مجھے۔۔۔کر لیا کریں شیئر جو بھی کہنا ہوتا ہے۔۔۔‬
‫آئمہ کی دوست اس کی ساری باتیں سن کے ہنس پڑی اور بولی بس ٹریٹ تیار رکھیں۔۔۔آپ پتہ نہیں کیا سوچ رہی ہیں وہ‬
‫مجھے بہن سمجھتا ہے۔۔۔ایک توآپ سیدھی بہت ہیں۔۔۔۔صحیح کہتا ہے نا بے چارہ کہ آپ کچھ سمجھتی ہی نہیں ہیں۔۔۔‬
‫اب احمد وزانہ اکیال ایک کرسی پہ سب سے آگے جا کے بیٹھ جاتا۔نہ کالس میں کسی سے بات کرتا۔۔۔۔بس آئمہ کی طرف‬
‫مسلسل دیکھتا رہتا۔آئمہ بچوں کو پڑھاتی رہی اسے پتہ ہی نہ چال کہ کب پیریڈ ختم ہو گیا۔گھنٹی بجتے ہی احمد سوچوں کے‬
‫طوفان سے باہر آ گیا اور بوالمیم جی آپ نے تو مجھے آج کچھ سمجھایا ہی نہیں۔۔۔نہ ہی آگے کام دیا۔بیٹا بال تے نا جہاں‬
‫سے سمجھ نہیں آیا تھا سوال۔۔۔میں آپ کی طرف اسی لئے تو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔سوری بیٹا میں نے دھیان نہیں دیا۔اچھا اب‬
‫کل سمجھا دوں گی۔‬
‫اگلے دن کالس میں آتے ہی احمد بوال میم جی آج پہلے مجھے کروائیں سوال کل بھی آپ نے مجھے نہیں کرایا تھا۔۔۔جی‬
‫بیٹا بتائیں۔۔۔میم جی آپ نے کوئی وعدہ کیا تھا یاد ہے آپ کو؟؟؟؟کیا؟؟؟کہ آپ میری ہر بات سنیں گی۔۔۔جی بیٹا پہلے کام‬
‫کریں۔۔۔پھر سوال سمجھانے لگی تو احمد پوال میم جی آپ کی آواز ایک ٹی وی ایکٹریس منال جیسی ہے۔۔۔بیٹا اس خیالی‬
‫دنیا سے باہر آ جائیں۔۔۔اصل الئف میں رہنا سیکھیں۔میم جی پتہ نہیں آپ کو سب جھوٹ کیوں لگتے ہیں۔۔۔آپ کسی پہ تو‬
‫اعتبار کریں نا۔۔۔بیٹا جانی یہاں سگے رشتے اپنے نہیں بنتے۔۔۔تو آپ ان خیاالت کی دنیا میں رہنے لگتے ہیں۔۔۔میم جی کیا‬
‫دوستی سگا رشتہ ہوتا ہے؟؟؟؟نہیں۔۔۔تو دیکھیں نا بنا کسی سگے رشتے کے کیسے غیر آپ کے اپنے بن جاتے ہیں۔۔۔صرف‬
‫اعتبار ہی وہ واحد رشتہ ہے جو ان خیاالت سے حقیقت تک کا سفر طے کر سکتا ہے۔۔۔۔بیٹا یہ ڈائیالگ ڈراموں میں ہی رہنے‬
‫دیں۔۔۔ان کو اصل زندگی سے ریلیٹ نہ ہی کریں تو اچھا ہے۔۔۔میم جی کبھی ایسا وقت بھی آئے گا جب آپ کو بھی یہی‬
‫خیالی دنیا ہی حقیقت لگنے لگے گی۔۔۔چھوڑیں یہ فضول باتیں اور کام کریں۔میم جی آپ میرے ساتھ اب باتیں ہی نہیں کرتی‬
‫سارا ٹائم بورڈ کے ساتھ چپکی رہتی ہیں۔بیٹا جی اتنی دیر سے کس کے ساتھ کر رہی ہوں باتیں؟؟؟اب اور بھی تو سٹوڈنٹس‬
‫ہیں نا!!!پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی احمد کی بات نا مکمل ہی رہ گئی اور آئمہ چلی گئی۔‬
‫اگلے دن بچوں کوشور کرتا دیکھ کر آئمہ تنگ آ کر بولی کیا آپ اپنے والدین کو بھی ایسے ہی تنگ کرتے ہیں؟؟؟سعد فورا‬
‫سے بوال نہیں میم جی ان کو اگر تنگ کریں نا تو مار پڑتی ہے۔۔۔تو بیٹا ٹیچرز بھی تو والدین کی طرح ہی ہوتے ہیں نا پھر‬
‫آپ مجھے کیوں تنگ کرتے ہیں؟؟؟ہاہاہاہـ میم جی آپ کو دیکھ کے ٹیچرز والی فیلنگ آتی ہی نہیں ہے نا۔۔۔کیوں بیٹا میں‬
‫کوئی ایلین ہوں؟؟؟؟نہیں میم جی آپ ہیں ہی اتنی چھوٹی لگتی ہی آپ ‪ 12‬سال کی ہیں تو کون بے وقوف آپ کو والدین‬
‫تصور کرے گا۔۔۔آپ لوگوں نے نہیں سدھرنا !!!!چاہے میں جو مرضی مثال دے دوں۔۔۔۔میں اس لئے یہ مثال دے رہی ہوں کہ‬
‫آپ پیرنٹس کی طرح عزت دیں مجھے بھی اور میری بات مانیں نہ کہ آگے سے بحث لگائیں۔۔۔میم جی عزت تو بہت کرتے‬
‫ہیں ہم آپ کی۔۔۔جی جی وہ تو نظر آ ہی رہا ہے۔۔۔احمد فورا سے بوال میم جی آپ پیرنٹس کی طرح ہیں نا ۔۔۔۔جی بیٹا‬
‫میں کہ رہی ہوں تو اس بات کو مانتی بھی ہوں دل سے آپ کو بچوں کی طرح سمجھتی بھی ہوں۔۔۔ویسے ہی تھوڑا کہ رہی‬
‫ہوں۔۔۔تو میم جی سوچ لیں میری ایک خواہش بھی پوری کریں گی۔۔۔جی بیٹا اگر میرے بس میں ہوئی تو ضرور۔۔۔میم جی‬
‫آپ ہی تو پوری کر سکتے ہیں وہ خواہش اسی لئے تو کہ رہا ہوں۔سعد نے ہنستے ہنستے بات کا رخ کسی اور سمت میں کر‬
‫دیا‪،‬میم جی احمد کو یہ نہ کہیں کہ آپ پیرنٹس کی طرح ہیں ورنہ یہ بریک میں چیز کھانے کے لئے پیسے بھی آپ سے‬
‫مانگ لے گا۔آئمہ مسکراتے ہوئے بولی ‪:‬کوئی حال نہیں آپ کا ‪،‬آپ نے نہیں سدھرنا۔آپ لوگ پتہ نہیں کب سیریس ہوں‬
‫گے۔۔۔۔میم جی سیریس ہم خود ہونا نہیں چاہتے۔وہ کیوں؟کیونکہ سیریس ہو گئے تو آپ کو یاد کیسے آئیں گے؟؟؟کیوں یاد کرنے‬
‫لگی میں آپ لوگوں کو؟؟؟میم جی جب ہم میٹرک کے بعد یہاں سے چلے جائیں گے تو کیا آپ کو یاد نہیں آئیں گے؟؟؟نہیں‬
‫بیٹا جی اچھے بچے صرف ٹیچرز کو یاد رہتے ہیں آپ کی طرح تنگ کرنے والے نہیں۔۔۔احمد فورا سے بوال میم کے کہنے کا‬
‫مطلب ہے میں یاد آئوں گا میم کو کیونکہ میں نے میم کے لئے خود کو اتنا بدال ہے ۔۔۔۔بیٹا جانی بس اب پڑھیں سب اب‬
‫اپنی تعریفوں کے خود ہی پل باندھنے شروع ہو جائیں گے۔۔۔‬
‫بچوں نے اس بات کو مذاق ہی بنا لیا تھا۔رجسٹر موجود نہ ہونے کی صورت میں آئمہ کے ڈانٹنے پہ فورا بوال ماما جی آپ‬
‫نے لے کے ہی نہیں دیا تھا۔موڈ اچھا کرنے کی بالکل کوشش نہ کریں غصے میں ہوں میں۔۔۔آگے سے سب بچے ہنسنے لگے‬
‫کہ پہلی ٹیچر ہیں جو خود بتا رہی ہیں کہ میں غصے میں ہوں۔آئمہ اپنی مسکراہٹ کو کنٹرول کرتے ہوئے بولی‪:‬غصے میں نہ‬
‫رہنے دیا کریں مجھے۔۔۔۔اتنی دیر میں ایک بچے کے رونے کی آواز آئی‪،‬آئمہ نے دیکھا تو ایک ٹیچر اپنے دو ماہ کے بیٹے‬
‫کولے کر آئی تھی‪،‬وہ فورا سے ان کے پاس گئی اور بولی اسے مجھے دے دیں آپ کو نہیں پتہ کے مجھے بچے اٹھانے کا کتنا‬
‫شوق ہے؟؟؟اچھا آپ کو اتنا شوق ہے تو پہلے بتانا تھا نا میں کب سے اس کو اٹھا اٹھا کے تھک گئی ہوں۔تو آپ اسے روز‬
‫مجھے دے دیا کریں نا۔۔۔وہ بچے کو اٹھائے ہوئے کالس میں چلی گئی‪،‬احمد بوال میم جی میرے بچوں کو بھی ایسے ہی اٹھایا‬
‫کریں گی؟؟؟بیٹا جانی آپ کے جب تک بچے ہونگے نا تو میں بوڑھی ہو چکی ہونگی۔۔۔سعد بوال میم جی احمد نے اتنا انتظار‬
‫نہیں کرنامیٹرک ہو یا نہ ہو احمد نے اگلے سال شادی کر لینی ہے‪،‬کیوں احمد صحیح کہا نا؟؟؟ہاں صحیح تو کہ رہے ہو اب‬
‫کیا میں میٹرک کے انتظار میں ساری زندگی شادی ہی نہ کروں؟؟؟ہاہاہاہاہ ابھی آپ کو بہت کریز ہو رہا ہے نا دو دن میں‬
‫سارا شوق اتر جانا ہے شادی کا۔۔۔نہیں میم جی شادی پڑھائی سے تو بہت آسان ہے۔۔۔بیٹا جانی یہ کوئی ڈرامہ یا فلم نہیں‬
‫جو بہت آسان ہے زیادہ سے زیادہ ‪ 30‬قسط ہونی اور کہانی ختم اصل الئف میں پوری زندگی پھر آپ کو اسی کے ساتھ ہی‬
‫گزارنی پڑتی ہے کچھ ٹائم بعد انسان تنگ آ جاتا ہے مگر پھر اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا‪،‬میم جی اس الئف میں‬
‫محبت بھی تو ہوتی ہے نا جس کے سہارے انسان پوری الئف گزار دیتا ہے مگر کتابوں سے یہ محبت ہی تو نہیں ہوتی نا‪،‬اس‬
‫لئے یہ الئف زیادہ مشکل لگتی ہے نا!!!بیٹا جانی یہ سب کم عمری کا جنون ہوتا ہے محبت نہیں‪،‬جب میچوڑ ہو جائو گے‬
‫نا تو سمجھ آ جائے گی تو میم جی کیا آپ کے خیال میں میچوڑ ہونے کے لئے پہلے الئسنس بنوانا پڑتا ہے‪،‬آئمہ ہلکی سی‬
‫مسکراہٹ کے ساتھ بولی نہیں بیٹا میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آج کل کے مطلبی دور میں محبت نہیں ٹائم پاس ہوتا ہےاور‬
‫یہ حقیقت انسان جتنی جلدی سمجھ جائے اتنی جلدی میچوڑ ہو جاتا ہے۔احمد منہ میں منمناتے ہوئے بوال کیا پتہ آپ بھی‬
‫کبھی میری محبت کی قائل ہو ہی جائیں۔۔۔جی بیٹا !!!میم جی میرا مطلب تھا کہ میری محبت کے بارے میں جو خیاالت‬
‫ہیں ان کی۔۔۔سوچ ہے آپ کی۔۔۔سعد کی سرگوشی کرتے ہوئے بوال آپکو راضی ہی تو کرنا ہے نا میں نے میچوڑ ہونے سے‬
‫پہلے پہلے۔۔۔سعد یہ سن کے کھلکھال کے ہنس پڑا ‪،‬بیٹا جی جو بھی میرے خالف باتیں کرنی ہوتی ہیں نا وہ گھر جا کے کیا‬
‫کریں۔۔۔سعد منہ میں بڑبڑایا کہ گھر جا کے کونسا سعد آپ کی باتیں نہیں کرتا ‪،‬ہم بے چارے تو آپ کے نام کی ہی تسبیح‬
‫سن سن کے تھک جاتے ہیں‪،‬کیا سکول تو کیا گھر۔۔۔جی جی زرا اونچا بولیں۔۔۔نہیں کچھ خاص نہیں میں احمد کو کہ رہا تھا‬
‫کہ اب تسبیح شروع کر دو اب تو اجازت بھی مل گئی ہے‪،‬صحیح مشورہ دے رہا ہوں نا میں ؟؟؟جی بیٹایہ تو سچ ہے کہ‬
‫کسی ؑعالم سے اجازت کے بعد کوئی بھی وظیفہ زیادہ پر اثر ہو جاتا ہے لیکن آپ نے کون سا وظیفہ اور کیوں پڑھنا ہے؟؟؟سعد‬
‫احمد کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے بوال میچوڑ نہ ہونے کا۔۔۔۔جی!!!کیا کہا آپ نے ؟؟؟کچھ نہیں میم جی‪،‬چلیں پڑھیں ۔۔۔‬
‫وظیفہ۔۔۔۔نہیں سبق۔‬
‫اب ساالنہ امتحان آ گئے تھے۔پیپر کے آخر میں احمد نے اپنے دل کی ساری داستان لکھ دی اور پیپرز کی چیکنگ دوسرے‬
‫بالک کی ٹیچرز نے کرنی تھی مگر احمد ان سب باتوں سے بے خبر تھا اس نے آئمہ کے نام ساری تحریر لکھ دی۔اب پیپرز‬
‫چیک کرنے کے بعد سب ٹیچرز ہنس ہنس کے پاگل ہو گئی احمد کے اس بچپنے پہ۔۔۔وہ پیپر آئمہ کے پاس لے کر گئیں اور‬
‫بولی دیکھیں آپ کے فارمولے کیا رنگ الئے ہیں؟؟آئمہ اسے پڑھتے ہی حیران رہ گئی اور بولی یار وہ تو مجھے پیرنٹس کی‬
‫طرح سمجھتا تھا۔۔۔ہاہاہاہاہاہ اپنے بچوں کی امی۔۔۔یار آپ مذاق تو نہ کریں نا!!!آپ ٹینشن کیوں لے رہی ہیں ‪،‬آپ کو دو‬
‫سال یونیورسٹی میں کوئی نہیں مال اور ‪ 6‬مہینے میں سچا محبت کرنے واال مل گیا۔یار آپ تو بس کریں مذاق کرنا مطلب بچہ‬
‫ہے وہ۔۔۔۔اوووووووووووو اچھا تو اب سمجھ آئی کہ مسئلہ یہ ہے کہ وہ بچہ ہے۔۔۔نہیں نا یار بچہ ہی رہ گیا تھا میرے لئے۔۔۔‬
‫ہاہاہہاہ شکر ادا کریں نا کہ بچہ آپ کے لئے پرپوزل ال رہا ہمیں تو بچے اپنے چچا ‪،‬تایا کا پرپوزل ال کے دیتے ہیں۔۔۔۔آئمہ‬
‫کے چہرے پہ ہلکی سی مسکراہٹ آئی ‪،‬بولی‪:‬نہیں نا یار مجھے ٹینشن محسوس تو کرنے دیں نا!!!او یار انجوائے کریں۔اب‬
‫میں کیا کروں اس بدتمیز کا؟؟؟شادی کے لئے ہاں کر دیں اور اس کا یہ محبت بھرا فائنل پیپر سکول کے باہر چپکا دیں تا کہ‬
‫نئے محبت کرنے والوں کو اظہار کا نیا طریقہ پتہ چل سکے۔ساتھ ساتھ آپ کی داستان سوشل میڈیا پہ بھی مشہور ہو جائے‬
‫گی پھر سالمیاں بھی زیادہ ملیں گی۔۔۔آپ کو تو مزے آرہے ہیں‪،‬اللہ کرے مجھے بھی آپ کو ایسے ہی تنگ کرنے کا موقع‬
‫ملے۔۔۔میں تو چاہتی ہوں کے اللہ آپ کی زبان مبارک کرے اور ایسا کچھ میرے ساتھ بھی ہو۔۔۔یار تنگ نہیں کریں نا‬
‫صحیح ‪،‬صحیح بتائیں نا کیا کروں اب میں؟؟؟ارے یار ہمدردانہ مشورہ ہی تو دے رہی ہوں ‪،‬ہاں کریں فورا۔۔۔۔ابھی وہ پیار کا‬
‫مسلسل کرتا رہے گامیتھ کےفارمولوں کی طرح‬ ‫اظہار میتھ کے پیپر پہ لکھ کے کر رہا ہے تو وہ ساری زندگی محبت بھی‬
‫کبھی نہیں بدلے گا۔۔۔آئمہ وہ پیپر پھاڑتے ہوئے بولی‪:‬تھکی ہوں ایسی محبتوں سے۔۔۔کیا مطلب کتنے فارمولے ہضم کر چکی‬
‫ہیں؟؟؟تنگ نہیں کریں نا یار۔۔۔‬
‫سکول میں تو ٹیچرز کی باتوں پہ وہ ہنستی رہی مگر گھر جا کے سوچنے لگی کہ اب میں کیا کروں؟؟؟اس نے تو ساری‬
‫ٹیچرز کے سامنے مجھے بدنام کر دیا ہے۔۔۔اگر سکول چھوڑوں تو وجہ کیا بتائوں؟؟؟؟اور اگر جائوں تو کس منہ سے۔۔۔اب تو وہ‬
‫اظہار بھی کر چکا ہے اب تو وہ اور بے تکلفی سے بات کر لے گا سب کے سامنے۔۔۔یہ سوچتے سوچتے نیند جانے کب اسے‬
‫اپنی گود میں لے گئی اسے پتہ ہی نہ چال۔اگلے دن صبح دیر سے جاگنے کی وجہ سے سکول سے اس کی چھٹی ہو گئی۔‬
‫احمد سکول میں آئمہ کو نہ پا کر مومنہ کے پاس گیا اورآئمہ کا پوچھنے لگا۔۔۔بیٹا مجھے تو کوئی میسج نہیں آیا‪،‬شاید طبیعت‬
‫خراب ہو اس کی۔۔۔میم جی آج ہی تو ان کا آنا بہت ضروری تھا۔۔۔وہ کیوں بیٹا؟؟؟کوئیـ سوال سمجھنا ہے تو کسی اور ٹیچر‬
‫سے سمجھ لیں باقی سب آئی ہوئی ہیں۔۔۔نہیں نا میم جی مجھے ان سے ہی تو کام تھا نا۔۔۔۔تو پھر کل پوچھ لیں۔۔۔میم‬
‫جی!!!منہ میں بڑبڑانے لگا‪:‬پتہ نہیں آج کی رات کیسے گزاری ہے میں نے اب کل تک کہیں اللہ حافظ ہی نہ ہو جائوں۔۔۔‬
‫سعد بوال بیٹا تسبیح پڑھنا جلدی گزر جائے گی رات۔۔۔میم جی آپ کو میم آئمہ کے گھر کا نہیں پتہ؟؟؟؟نہیں ۔۔۔کیوں؟؟؟بس‬
‫ویسے ہی۔۔۔اگلے دن آئمہ نے سکول میں کال کی کہ مجھے کہیں اور اچھی نوکری مل گئی ہے اس لئے میں آپ کے سکول‬
‫سے ریزائن کرتی ہوں۔یہ سنتے ہی سب ٹیچرز بھی اچانک سے پریشان ہو گئیں۔احمد سنتے ہی بوال ‪:‬سعد یار یہ سب میری‬
‫وجہ سے ہوا ہے‪،‬پہلے کم از کم نظر تو آ جاتی تھی نا!!!اب تو وہ بھی چارا نہیں رہا۔۔۔سعد بوال تو ٹینشن نہ لے‪،‬ہم ان کے‬
‫گھر کا پتہ چال لیں گے‪،‬تو ان سے سوری کر لینا۔۔۔انہیں راضی بھی کر لینا۔۔۔مگر کیسے؟؟؟وہـ ایسے کہ ہم روزانہ اسی چوک‬
‫میں بیٹھ جایا کریں گے جہاں سے گزر کے وہ سکول آ تی تھیں‪،‬اب بھی تو وہیں سے گزر کے کسی اور سکول میں بھی‬
‫جاتی ہوں گی نا!!!چھٹی کا ٹائم ہو رہا ہے چل یار ابھی چلتے ہیں۔۔۔دونوں رات دیر تک وہیں انتظار کرتے رہے۔۔۔احمد بار‬
‫بار مایوسی سے ایک ہی بات دہراتا رہاکہ کاش!!میں نے اظہار ہی نہ کیا ہوتا‪،‬کم ازکم وہ چھوڑ کے تو نہ جاتی نا۔۔۔یار تو‬
‫ٹینشن نہ لے‪،‬وہ آ جائیں گی نظر۔۔۔تو اور کیا کروں یہ آئیڈیا بھی تو فالپ ہو گیا نا۔۔۔چل کچھ اور سوچ لیں گے‪،‬چل ابھی‬
‫گھر چل۔۔۔تم بس سوچتے ہی رہنا تمہیں میرے جذبات کا تو نہیں پتہ نا۔۔۔یار اب ایسے تو نہ کہ صبح سے تیرے ساتھ یہاں‬
‫کھڑا ہوں‪،‬تو چال جا یہاں سے میں کب بوال ہے کہ میرے ساتھ بیٹھ۔۔۔جانی تو ناراض تو نہ ہو۔۔۔میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔‬
‫اب وہ سڑک ہی اس کے لئے آخری امید تھی جہاں اس نے ایک دفعہ آئمہ کو جاتے دیکھا تھا۔سارا سارا دن وہیں اس کا‬
‫انتظار کرتا رہتا کہ کبھی تو وہ یہاں سے گزرے گی۔۔۔پڑھنا اس نے اب بالکل چھوڑ دیا تھا۔۔۔گھر والے بھی اسے کہ کہ کے‬
‫تھک چکے تھے‪،‬مگر نہ تو وہ گھر والوں کو وہاں بیٹھنے کا مقصد بتانے کو تیار تھا نہ وہاں سے اٹھنے کو۔۔۔اسی انتظار میں‬
‫دو سال گزر گئے سعد کا میٹرک بھی ہو گیا مگر احمد کا انتظار ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ایک دن سعد کو کہنے‬
‫لگا کہ میم نے صحیح کہا تھا کہ محبت آج کل کے دور میں نہیں ہوتی۔یار ایسا تو نہ کہ اب تو نے اس محبت کی خاطر‬
‫ہی اپنے ‪ 2‬سال ضائع کر دیئے۔۔۔لیکن مجھے کچھ حاصل بھی تو نہ ہوا ‪،‬دیکھ اگر میری محبت سچی ہوتی تو وہ نظر آ ہی‬
‫جاتی نا۔۔۔ان کو ذرا ترس نہیں آیا مجھ پہ۔۔۔یہ ٹائم پاس ہی تو تھا جو میں نے کیا۔۔(یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھی بھاری‬
‫ہو گئی اور آنکھیں بھی بھر آئیں)یار ایسے تو نہ کہ اب تو‪،‬اس کو گلے لگا کے بوال تو ‪،‬تو مرد ہے اور مرد روتے نہیں۔۔۔یار‬
‫میں رو نہیں رہا بس اپنے ٹائم پہ افسوس ہو رہاکہ میں نے کتنا وقت ضائع کر دیا نا اپنے اس بچپنے میں۔۔۔ایسا نہ کہ پاگل‬
‫تجھ سے سچی محبت تو کوئی کر ہی نہیں سکتا۔۔۔ارے یار تو کب سے اتنا کمزور ہونے لگا تو نے تو کتنی لڑکیوں کے ساتھ‬
‫فلرٹ کیا ہے اب کیا ہوا‪،‬یہی سمجھ ایک تیرے ساتھ کر گئی۔۔۔ہاں صحیح کہا تو نے شاید وہی بدلہ مل رہا ہے مجھے۔۔۔اب‬
‫مجھے ان لڑکیوں کے جذبات کی قدر ہونے لگی ہے۔۔۔کیا میں ان سے معافی مانگ لوں تو میرا انتظار ختم ہو جائے گا؟؟؟یار‬
‫توبالکل سوچنے سمجھنے کی صالحیت کھو بیٹھا ہے جیسے۔۔۔اچھا چل سکول چلتے ہیں شاید وہاں میم کی کوئی سی وی مل‬
‫جائے۔۔۔وہاں سے ایڈریس ڈھونڈ لیتے ہیں۔۔۔پوچھا تھا میں نے سر سے انہوں نے سی سی دی ہی نہیں تھی۔۔۔‬
‫ایک دن سعد کو کالج سے گھر جاتے ہوئے راستے میں آئمہ کا بھائی نظر آیا۔وہ خاموشی سے منہ چھپائے اس کا پیچھا‬
‫کرنے لگا۔گھر دیکھتے ہی فورا احمد کو کال کی اور اس جگہ پہنچنے کا کہا۔تجھے پتہ ہے نا اس وقت میں کہاں ہوتا ہوں؟؟؟؟‬
‫یار وہی مسئلہ حل کیا ہے نا تیرا۔۔۔کیا مطلب؟؟؟مطلب کہ میم آئمہ کے گھر کا پتہ چل گیا ہے۔۔۔کیا ؟؟؟کیسے؟؟؟کہاں؟؟؟یار‬
‫تو آتو سہی جہاں میں کہ رہا ہوں۔۔۔ہاں جلدی بتا مجھے۔احمد فورا اس جگہ پہنچا تو سعد گلی میں کھڑا تھا بوال وہ ہے میم‬
‫کا گھر‪،‬میں نے میم کے بھائی کا پیچھا کیا تھا تو مجھے پتہ چال احمد سنتے ہی فورا دروازہ کھٹکٹانے لگا تو سعد نے اسے‬
‫روک لیا۔پاگل ابھی کیا کہے گا؟؟؟یار ‪ 2‬سال انتظار کیا ہہے اب تو بات کرنے دے۔۔۔صبر مجھے کوئی آئیڈیا سوچنے دے۔۔۔‬
‫جلدی میں پہلے کی طرح کوئی غلطی نہ کر دینا۔۔۔پہلے والی کا غلطی کا یاد کرتے ہی احمد فورا رک گیا‪،‬پہلے والی غلطی‬
‫ہی میں دہرانا نہیں چاہتا۔چل اب یہاں سے کل صبح آئیں گے۔۔۔اگلے دن صبح منہ چھپائے دونوں اس کے گھر کے باہر موجود‬
‫تھے۔آئمہ حسب معمول سکول جانے کے لئے گزری تو وہ اس کا پیچھا کرنے لگے۔اس کے گاڑی سے اترتے ہی اس کو روک‬
‫کے بولے میم جی!اس نے مڑ کے دیکھا مگر پہچان نہ پائی اور سمجھی کہ شاید کسی اور کو بال رہے ہیں‪،‬وہ خاموشی سے‬
‫سکول کے اندر چلی گئی۔احمد کے بےانتہا انتظارکو اب منزل کی ایک جھلک نظر آنے لگی تھی۔اب صبح ہوتے ہی وہ اس‬
‫سکول کے باہر آ جاتا ‪،‬چوکیدار نے اس کو مسلسل آتے دیکھا تو وجہ پوچھی اس نے ٹال دیا مگر اب اس کو یہ ڈر تھا کہ‬
‫کہیں اس دفعہ بھی آئمہ اس کی اس حرکت سے ناراض نہ ہو جائے اس لئے اس نے ایک طرف منہ چھپا کے انتظار کرنا‬
‫‪،‬شروع کر دیا۔ایک دن چھٹی کے وقت آئمہ کو ایک بچی بال کے الئی کہ میم جی آپ کی گاڑی آ گئی ہے‬
‫اگلے دن احمد نے آئمہ کے نام خط لکھ کے ایک کتاب میں ڈالنے کے بعد اسی بچی کو دیا اور کہا کہ یہ میم آئمہ کو دے‬
‫دینا۔بچی نے وہ بک آئمہ کو دی اور کہا کہ میم جی ایک بھائی ملے تھے مجھے وہ کہ رہے تھے کہ اپنی میم کو کہنا کہ‬
‫مجھے یہ سوال سمجھا دیں۔آئمہ اس کی بات سن کے سوچ میں پڑ گئی کہ کس نے کہا ہو گا سوال سمجھانے کا؟؟؟کون ہے‬
‫یہ؟؟؟اسـ نے سوچا کتاب میں دیکھتی ہوں شاید آئیڈیا ہو جائے کہ یہ کون ہے۔۔۔اس خط پہ اپنا نام دیکھنے کے بعدآئمہ کی‬
‫پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا۔اس نے آگے پڑھنا شروع کیا کہ یہ کون ہے؟؟؟اسالم و علیکم میم آئمہ! لگتا ہے سب بھول‬
‫گئی ہیں۔آپ نے کہا تھا نا کہ میچوڑ ہو جائو دیکھیں میں کتنا میچوڑ ہو گیا ہوں۔۔۔کئی دن سے آپ کا پیچھا کر رہا ہوں مگر‬
‫آپ نے پہچانا بھی نہیں۔یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ وہ کم عمری کا جنون تھا مگر اب تو عمر بھی زیادہ ہو گئی ‪،‬لیکن جنون‬
‫ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔۔۔۔اب آپ ہی بتا دیں میں کیا کروں آپ کو بھالنے کے لئے۔۔۔آپ کے لئے کوئی‬
‫مسئلہ نہیں پیدا کرنا چاہتا اس لئے نمبر لکھ رہا ہوں اس پہ کال کر دیں۔مجھے انتظار رہے گا۔۔۔آئمہ خط پڑھنے کے بعد ڈر‬
‫گئی کہ ‪ 2‬سال بعد یہ مصیبت کہاں سے ٹپک پڑی؟؟؟اب کیا کروں؟؟؟سکول کے باہر جھانک کر دیکھا تو وہ کھڑا سکول کی‬
‫طرف ہی دیکھ رہا تھا۔اس نے سوچا کہ اگر میں گاڑی میں ہی گھر گئی تو وہ پیچھا کرے گا ایسے سب کو پتہ چل جائے گا‬
‫اس لئے وہ سکول سے آدھی چھٹی لے کر گئی‪،‬اب آئمہ کو اکیلے دیکھ کر احمد اس کا پیچھا کرنے لگاکہ میم شاید مجھ سے‬
‫بات کرنے کے لئے آج اکیلی آئی ہیں۔گاڑی والے نے کہا باجی!میرا روٹ ختم ہو گیا ہے آپ کو آگے کہاں تک جانا ہے؟؟؟اس‬
‫پہ آئمہ گاڑی سے اتر گئی۔احمد بھی فورا بائیک سے اتر گیا اور آئمہ کو روکنے لگا‪،‬آئمہ نے سوچا "لگتا ہے اس کوسنانی ہی‬
‫پڑیں گی‪،‬ایسے اس نے باز نہیں آنا"۔وہ مڑی اور بولی مسئلہ کیا ہے تمھارا؟؟؟کبھی بہن ‪،‬کبھی دوست‪،‬اور کبھی۔۔۔شرم نام کی‬
‫کوئی چیز ہے؟؟؟جب سکول چھوڑ دیا تمہیں کوئی رسپونس نہیں دیا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ بات ختم ۔۔۔پھر پیچھے آنے‬
‫کا مطلب؟؟؟یہ فضول حرکتیں کرنے کا مقصد؟؟؟میم جی یہ تو نہ کہیں کہ آپ نے رسپونس نہیں کیا۔۔۔رسپونس تو کرتی تھیں‬
‫آپ۔۔۔مجھے سمائل پاس کرتی تھیں‪،‬پیار سے مجھ سے بات کرتی تھیں۔جب میں ایسی باتیں کرتا تھا تو آگے سے سمائل پاس‬
‫کرنے کا تو یہی مطلب ہوا نا کہ آپ بھی انٹرسٹڈ ہیں۔اب پیچھے کیوں ہٹ رہی ہیں مجھے اتنا آگے ال کے۔۔۔او ہیلو بات‬
‫سنو زرا میری کیا لڑکیاں اب ہنس بھی نہیں سکتے کہ تم جیسےکمزور ذہنیت کے مالک لوگ کچھ اور سمجھ لیتے ہیں‪،‬کسی‬
‫کے ہنسنے کا مطلب یہ کب سے ہونے لگا کہ وہ آپ میں انٹرسٹ لے رہی ہے؟؟؟؟میم جی اپنے مطلب کی ہر بات آپ کو‬
‫سمجھ آتی ہے آپ کو میرے رویے سے ایسا محسوس نہیں ہوا؟؟؟آپ نے آگے سے مجھے روکنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟؟؟‬
‫آپ کو روکنا چاہئے تھا نا اگر آپ ایسا نہیں چاہتی تھی‪،‬اتنا آگے ال کے مجھے‪ ،‬یوں آپ اجنبی ہو گئیں قصور اس میں آپ کا‬
‫بھی ہے۔۔۔اچھا چلیں مان لیتے ہیں آپ نے رسپونس نہیں کیا لیکن میرے جذبات کو تو جھوٹا نہ کہیں۔۔۔بیٹا پہلے بھی کئی‬
‫دفعہ آپ کو کہ چکی ہوں کہ یہ آپ کا بچپنا ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ ختم ہو جائے گا۔احمد ہنستے ہوئے بوال میم جی‬
‫آپ کو کیسے یقین آئے گا؟؟؟آئمہ منہ بسورتے ہوئے بولی‪:‬نہ مجھے یقین ہے اور نہ ہی مجھے کرنا ہے یقین۔۔۔۔کیوں میم جی‬
‫کہیں آپ کی منگنی تو نہیں ہو گئی؟؟؟او ہیلو مزید مطلب نہ نکالیں میری باتوں کا۔۔۔آپ کو سمجھانے کا کوئی فائدہ نہیں‬
‫جانے دیں مجھے۔چلیں میم جی آپ یہ بتا دیں مجھے آپ کب ملیں گی مجھ سے؟؟؟طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟؟؟ملنا مجھے‬
‫آپ سے آج بھی نہیں تھا وہ تو آپ کا دماغ درست کرنے آ گئی۔اب اس کا غلط مطلب نہ نکال لینا‪،‬ویسے بھی آپ کو غلط‬
‫فہمیاں پالنے کا بہت شوق ہے۔۔۔تو میم جی آپ میری غلط فہمی کو حقیقت میں بدل دیا کریں نا ‪،‬روزانہ میرا دماغ درست‬
‫کرنے آ جایا کریں نا۔۔۔۔بس کر دیں بہت سن لیں آپ کی فضول باتیں۔اب دوبارہ میرا راستہ روکنے یا میرا پیچھا کرنے کی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔۔۔میم جی راستہ تو تب تک روکتا رہوں گا جب تک آپ کاراستہ میری منزل نہ بن جائے۔تم نے لگتا ہے باز‬
‫نہیں آنا؟؟؟تو آپ ہی مان جائیں نا!!!نہ ممکن کی ضد نہ کرو۔یہی تو مسئلہ ہے نا میم جی دل لگتا ہی وہاں ہے جہاں دل‬
‫لگانے کی جگہ نہیں ہوتی۔آئمہ تیزی سے آگے چل دی کہ اس نے ماننی تو ہے نہیں‪،‬لوگ راستے میں دیکھ رہے ہیں۔احمد‬
‫پیچھے سے کہتا رہا میم جی نمبر پہ کال ضرور کر دیجیئے گا پھر آرام سے میچوڑٹی کی ڈیفینیشن پہ بات کریں گے۔۔۔‬
‫آئمہ کی زندگی میں اس بچپنے کی کوئی جگہ نہیں تھی نہ ہی اسے غلط فہمیاں پالنے کی کوئی عادت تھی۔اس لئے اس نے‬
‫احمد باتوں کو سنجیدگی سے ہی نہ لیا۔اس کے سامنے اس کا مستقبل زیادہ اہم تھا باقی سب کسی دھندلے خواب کی مانند‬
‫تھا جو صرف آنکھ کے بند رہنے تک برقرار رہتا ہےاور آنکھ کے کھلتے ہی وہ خواب ایسے منظر سے اوجھل ہو جاتا ہے‬
‫جیسے کبھی آیا ہی نہ ہو۔اسی طرح احمد کے جانے کے بعد وہ بھی اس کے کینوس سے ایسے غائب ہو جاتا جیسے کبھی‬
‫اس کی یادوں کے کینوس پہ کسی کا گزر ہوا ہی نہ ہو۔وہ گھر جاتے ہی سب بھول گئی۔مگر احمد بے چارے کی زندگی تو‬
‫اسی سے ہی شروع ہوتی تھی اور اسی پہ ہی ختم‪،‬وہ تو اسی کے ہی انتظار میں تھا کہ شاید اب ہی آئمہ کو اس کی‬
‫محبت پہ یقین آ گیا ہو۔لیکن ہمیشہ کی طرح وہ بے چارہ ہی وقت سے آگے نکلنے کی دوڑ میں مزید پیچھے رہ جاتا۔اس‬
‫دفعہ بھی وہ کچھ زیادہ ہی ایکسپیکٹ کر بیٹھا تھا۔‬
‫آئمہ نے تو اس بے چارے کو ایسے اگنور کر دیا جیسے وہ آیا ہی نہیں تھا۔لیکن احمد کا انتظار اسے پھر اگلے دن اسی سکول‬
‫کے باہر لے آیا۔اور آئمہ کسی ظالم محبوب کی طرح اس پہ نظر کرم ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتی تھی۔وہ بے چارہ سارا دن‬
‫سکول کے باہر انتظار میں بیٹھا رہا کہ شاید وہ اس کو کوئی جواب دےمگر ہمیشہ کی طرح شاید اب بھی وہ وقت کی رفتار‬
‫سے کچھ آگے تھا ۔شایدابھی اس کا انتظار ختم ہونے کا وقت آیا ہی نہیں تھا۔مگر آئمہ کو سامنے دیکھ کے اس کا صبر ضبط‬
‫میں آنے واال نہیں تھا‪،‬وہ اب روزانہ اس کی گاڑی کا پیچھا کرتا اسی معصومیت کے ساتھ کہ شاید اسے ترس آ جائے۔مگر آئمہ‬
‫شاید بہت خود غرض لڑکی تھی اس کے نزدیک کسی کے جذبات سے زیادہ اپنی خواہشات ‪،‬اپنے کیرئیر‪،‬اپنے گھر والوں کی‬
‫اہمیت تھی۔وہ بھی کسی پتھر دل محبوب کی طرح اس پہ نظر کرم ڈالنے کو تیار نہ تھی۔گاڑی کے پیچھے روزانہ احمد کو آتا‬
‫دیکھ کے باقی ٹیچرز نے بھی اس سے سوال کرنے شروع کر دیئےکہ کیا قصہ ہے آپ کے پیچھے ہی وہ کیوں آتا ہے؟؟؟سارا‬
‫قصہ سننے کے بعد انہوں نے بھی اس کو مشورہ دیا کہ آپ مان جائیں وہ سنجیدگی سے آپ کو چاہتا ہے ‪،‬اگر ٹائم پاس ہوتا‬
‫تو آپ کے جانے کے بعد کسی اور کے ساتھ شروع ہو جاتا مگر اس نے آپ کو ہی ڈھونڈا اور اب بھی آپ کو ہی راضی کر‬
‫رہا ہے ایسا سچا انسان ہر کسی کو نہیں ملتا‪،‬قدر کریں اسکی۔۔۔ایسا سچی محبت کرنے واال نہیں ملتا ہر جگہ۔۔۔آج کل تو‬
‫اپنے نہیں کرتے آپ سے سچا پیار اور وہ تو بغیر کسی مقصد کے ‪ 2‬سال سے آپ کے پیچھے یوں خوار ہو رہا ہے‪،‬قدر کریں‬
‫اسکی۔مگر آئمہ بھی دیکھنے میں تو پتھر دل لگ رہی تھی لیکن اصل میں وہ اپنی زندگی میں اعتبار کی ہلکی سی لہر‬
‫کو زیادہ اہمیت دے رہی تھی۔جو شاید اس کے خیال میں اس کے ماں باپ کے دل میں کہیں نہ کہیں اس کے لئے موجود‬
‫تھا۔مگر سچائی کو ٹھکرانے کا کچھ نہ کچھ نقصان تو اٹھانا پڑتا ہی ہے نا۔۔۔یہی ہوا آئمہ کے ساتھ بھی۔‬
‫آئمہ اس کو مزید بے عزت کرنے کے لئے گاڑی سے اتری اور بولی‪ :‬مسئلہ کیا ہے آخر تمھارا ؟؟؟کب جان چھوڑو گے تم‬
‫میری؟؟؟تمہیں کیسے سمجھائوں میں کہ میں نہیں چاہتی؟؟؟ایسا کچھ بھی۔۔۔کب سمجھ آئے گی تمہیں؟؟؟میم جی آپ اتنا تو‬
‫بتا دیں آخر مجھ میں برائی کیا ہے؟؟؟کیوں آپ مجھ پہ یقین کرنے کو تیار نہیں؟؟؟میں ایسا کیا کروں کہ آپ کو یقین آ‬
‫جائے؟؟؟اب میرے بس میں ہی تو نہیں ہے نا!!!کیا کسی سے سچی محبت کرنا اتنا بڑا جرم ہے کہ آپ اسکو محبت کا‬
‫جواب محبت سے نہ سہی لیکن نفرت سے دینے کے قابل بھی نہ سمجھیں؟؟؟آپ اس کو ایسے اگنور کریں۔۔۔کم ازکم آپ‬
‫مجھ سے نفرت ہی کر لیں تا کہ میرے پاس اس کو محبت میں بدلنے کا کوئی چانس تو ہو‪،‬یوں تو نہ کریں میرے ساتھ ۔۔۔کہ‬
‫جیسے میں آپ کی نفرت کے بھی قابل نہیں۔اس کی ان سب باتوں کے جواب میں آئمہ جیسے ال جواب ہو گئی۔خاموشی‬
‫سے اس کی طرف دیکھتی رہی‪،‬آخر میں اس کی آ نکھیں نمی سے بھر گئیں۔وہ نیچے دیکھنے لگی کیونکہ وہ خود کو اس کے‬
‫سامنے ایکسپوز نہیں کرنا چاہتی تھی۔الجواب ہو کے اس نے آ گے چلنا شروع کر دیا۔احمد بے چارہ ہمیشہ کی طرح جواب کا‬
‫ہی منتظر رہا۔تیز تیز اس کے پیچھے بھاگنے لگا بوال‪:‬کم از کم آج اتنا ہی یقین دال دیں کہ آج سے آپ کو مجھ سے نفرت‬
‫ہو گئی ہے۔آئمہ اس کی جذباتی بات سن کے رو پڑی۔آنسو کنٹرول کرتے کرتے بھی بے اختیار اس کی آ نکھوں سے گر ہی‬
‫پڑے۔مگر اعتبار کا طوفان اس کو آمادہ کرنے پر تیار ہی نہ تھا۔‬
‫پہ پڑے پتھر کی‬ ‫وہ بولی تم جیسا لفنگا‪،‬ٹائم پاس کرنے واال کسی کی نفرت کے بھی قابل نہیں۔میرے نزدیک تم اس سڑک‬
‫طرح ہو جو پڑا ہوانظر تو آتا ہے مگر اس کو ٹھوکر مارنے سے زیادہ اس کی نہ تو کوئی اہمیت ہوتی ہے نہ قدر۔ تم‬
‫بھی اس کی طرح بے فائدہ ہو جو کئی لوگوں کی منزل میں رکاوٹ بنتاہے مگرکسی کی منزل نہیں ہو سکتا۔اگر اتنی ہی‬
‫برائیاں ہیں مجھ میں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں؟؟؟؟؟‬
‫اس طرح روتے ہوئے کیوں مجھے میری غلطیاں بتا رہی ہیں؟؟؟آخر کچھ تو سافٹ کارنر ہے نا آپ کے دل میں میرے لئے۔۔۔‬
‫پہلے تم نے میرے ہنسنے کو غلط فہمی سمجھتے ہوئے نیا ڈرامہ شروع کیا اور اب رونے سے ایک اور خوش فہمی پال‬
‫رہے۔۔۔وہ ایک گانا بھی سے نا ‪،‬کہ آج تم اتنا جو مسکرا رہے ہو آ خر کیا غم ہے جو چھپا رہے ہو؟؟؟مطلب یہ ہے کہ‬
‫ضروری نہیں ہے جو نظر آ رہا ہے ویسا ہی ہو‪،‬جیسے شاعر نے مسکرانے کی وجہ غم ڈھونڈی اس طرح رونے کی وجہ بھی تو‬
‫خوشی ہو سکتی ہے نا!!!اچھا چلیں آج سے میں خود کو آپ کی نفرت کے قابل بنائوں گا۔۔۔۔دیکھتا ہوں کہ آپ کی نفرت‬
‫کا کیا کرائیٹیریا ہے میں اس پہ پورا اتر سکتا ہوں کہ نہیں۔۔۔آئمہ روتے روتے رکشے کو روک کے اس پہ سوار ہو گئی۔ احمد‬
‫نئے مقصد پہ کام کرنے کا سوچنے لگا۔۔۔‬
‫آئمہ گھر پہنچتے ہی بہت زور زور سے رونے لگی کہ کیا اتنا بھی اختیار نہیں میری الئف پہ میرا کہ میں اس کی محبت کو‬
‫کم از کم ایڈمائر تو کر سکوں۔۔۔اس کی بہن نے اس سے وجہ پوچھی تو بولی بس آج بہت تھک گئی ہوں اپنی قسمت کے‬
‫مشکل فیصلوں سے‪ ،‬اس لئے رونے کا دل چاہ رہا ہے۔کیوں ایسا کیا ہوا؟؟؟کچھ نہیں بس ویسے ہی۔۔۔کبھی کبھی رو لینے سے‬
‫کافی وقت سکون میں گذر جاتا ہے‪،‬اس لئے سکون کے لئے رو رہی تھی۔ ہاہاہاہہاہا اچھا رو لو رو لوسارا سکون حاصل کر لو‬
‫آج ہی۔۔۔۔‬
‫اگلے دن آئمہ اپنے جذبات کو گھر کے ایک گوشے میں بند کرکے سکول پہنچی تو احمد کو باہر کھڑے دیکھا۔ہمیشہ کی طرح‬
‫اس کو اگنور کر کے اندر چلی گئی مگر احمد اس کی نفرت پانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے لگا۔خط لکھ کے اس‬
‫کے چوکیدار کو دیا کہ میم آئمہ کو دے دیں‪،‬کبھی پھول بھیجوانے لگا ‪،‬کبھی پیزا‪،‬برگر۔اس کی محنت اب کام دکھانے ہی‬
‫کی ان حرکات پہ غصہ آنے لگا کہ سکول میں سب لوگوں کے سامنے بدنام کر رہا ہے ان چیزوں‬ ‫لگی‪،‬آئمہ کو غصہ اس‬
‫اس کی گاڑی کا پیچھا‬ ‫میں ‪ 3،4‬دوست لئے‪،‬اونچی آواز میں گانےلگائے‬ ‫سے یہ مجھے۔سکول سے چھٹی ہوتے ہی گاڑی‬
‫کرتا۔۔۔۔لیکن اس کی محبت حاصل کرنے کے لئے کی گئی کوششوں سے اس کوشش نے زیادہ جلدی اپنا کام کر دکھایا۔‬
‫آئمہ غصے میں گاڑی سے اتری اور اسکی گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کے اس کو رکنے کا اشارہ کیا۔وہ خوشی سے گاڑی سے‬
‫باہر اترا کہ آج آئمہ نے اس کو پہلی بار خود بالیا۔اس کے قریب آتے ہی آئمہ نے سڑک پہ کھڑے‪،‬اس کے چہرے پہ ایک زور‬
‫دار تھپڑ رسید کیا۔احمد حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے لگاکہ آج خوشی دیتے ساتھ ہی ۔۔۔لیکن اس کو یہ تسلی ہو گئی‬
‫کہ اس کا یہ آئیڈیا کام کر رہا ہے۔اب کم از کم وہ آئمہ کی زندگی میں جگہ تو بنا چکا ہے نا اپنی ‪،‬چاہے محبت کی صورت‬
‫میں نہ سہی‪،‬نفرت کی صورت میں ہی سہی۔۔۔۔بوال ‪:‬دیکھا ایک ہفتے میں ہی گلی کے پتھر نے راہگیروں کی توجہ حاصل‬
‫کرلی۔محبت سے نہ سہی نفرت سے ہی سہی منزل نظر تو آ رہی ہے نا۔۔۔۔تم بالکل پاگل ہو۔۔۔اور مزید پاگل پن دکھا کے‬
‫سوچ رہے ہو کہ میں بدل جائوں گی مگر ایسا کبھی نہیں ہونے واال۔۔۔۔ایسے کم عمر لفنگے بہت دیکھے ہیں میں نے‪،‬اچھی‬
‫طرح سے ان کا دماغ بھی درست کرنا جانتی ہوں۔۔۔لیکن پتھر کو ٹھوکریں مارتے مارتے کیا پتہ کبھی اس کی زخمی حالت‬
‫پہ ترس آ ہی جائے۔ایسا نہیں ہونا۔۔۔۔۔یہ تو وقت ہی بتائے گا۔خوش فہمی بھی اچھی چیز ہے۔۔۔انسان کو خوش رکھنے کے‬
‫لئے۔۔۔۔کیا پتہ میری یہ خوش فہمی کبھی ایسی تلخ حقیقت بن جائے جسے آپ چاہ کے بھی بھال نہ سکیں۔۔۔‬
‫آئمہ اس کو ہمیشہ کی طرح جواب کے انتظار میں چھوڑ کے چلی گئی۔اور وہ بالوں میں ہاتھ مارتے ہوئے بوال غلط طریقے سے‬
‫مقصد حاصل کرنے میں بھی اپنا ہی مزا ہے۔آج تھپڑ مارنے کے لئے روکا ہے کبھی وہ وقت بھی آئے گا جب اس تھپڑ کا‬
‫کفارا ادا کرنےکے لئے روکیں گی۔۔۔‬
‫آئمہ روتے ہوئے چلتی بھی جا رہی تھی اور یہ بھی سوچتی جا رہی تھی کہ اگر اس اعتبار کو برقرار رکھوں جس کی میری‬
‫زندگی میں سب سے زیادہ قدر ہے تو اس کے ساتھ زیادتی ہو جاتی ہے دوسری صورت میں اعتبار کی کشتی ڈولنے لگے گی‬
‫اور میری انا ‪،‬میری سچائی سب اس طوفان کی نظر ہو جائے گی۔‬
‫اب آئمہ کو اور بھی زیادہ فکر ہونے لگی‪،‬پہلے تو وہ سب کے سامنے ظاہر نہیں کرتا تھا مگر اب تو وہ ضد میں آ گیا تھا۔‬
‫اس نے سوچا کہ اب اس سے کیسے جان چھڑوائوں کیونکہ اب وہ میرے لئے زیادہ مسئلہ پیدا کر سکتا ہے۔مگر اس کی‬
‫پریشانیاں مزید بڑھتی ہی جا رہی تھیں۔اگلے دن احمد صبح صبح اس کے گھر کے باہر موجود تھا۔دیکھتے ہی وہ گھبرا گئی‬
‫مگر پھر اپنے ڈر پہ قابو پاتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گئی۔احمد نے بائیک پہ اس کا پیچھا کرنا شروع کر دیا۔آئمہ نے گاڑی‬
‫میں ٹیچرز سے باتیں شروع کر دیں۔احمد کو لگا کہ یہ مجھے اگنور کر رہی ہے اس نے بائیک تیزی سے چالتے ہوئے کبھی‬
‫گاڑی کے ایک طرف سے گزارنا شروع کر دیا‪ ،‬کبھی دوسری طرف سے ۔پھر اس نے بائیک تیزی سے گاڑی کےقریب سے‬
‫گزارتے ہوئے ایک خط کھڑکی کے ذریعے اندر پھینکا۔ایک ٹیچر نے اٹھایا تو اس پہ "آئی لو یو میم آئمہ" لکھا دیکھ کر اس‬
‫کے حوالے کیا کہ یہ آپ کے لئے ہے۔آئمہ نے پڑھتے ہی شرمندگی سے اس کاغذ کے ٹکڑے کو پھاڑ کے باہر پھینک دیا۔احمد‬
‫نے دیکھا تو اور خوش ہوا کہ اس کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔آئمہ اب پچھتانے لگی کہ پہلے کم از کم یوں‬
‫سب کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہوتی تھی نا مگر اب میں خود ہی اس کےساتھ بگاڑ کے اپنا ہی نقصان کر لیا ہے۔اسی‬
‫ٹینشن میں آئمہ کے سر میں درد ہونے لگا۔اس نے ہالف لیو لی اور بس سٹاپ پہ جانے لگی۔ احمد بائیک پہ ساتھ ساتھ‬
‫چلنے لگامیم جی!میم جی!میرے ساتھ بیٹھ جائیں‪،‬میں آپ کو گھر چھوڑ دیتا ہوں۔مسئلہ کیا ہے آپ کا ؟؟؟آپ کی مہر بانی‬
‫کی وجہ سے ہی تو اس ٹائم گھرجا رہی ہوں اب مزید مہربانی نہ کریں۔۔۔خوش کر دیا ہے میم جی آپ نے یہ کہ کے‪،‬کہ آپ‬
‫نے کوئی کام تو میری وجہ سے کرنا شروع کر دیا ہے۔آخر چاہئے کیا تمہیں مجھ سے؟؟؟کئیـ دفعہ تو سمجھا چکی ہوں کہ‬
‫آپ کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔اب نا ممکن چیز کے لئے کیوں برباد کر رہے ہو اپنا وقت بھی اور میری زندگی بھی؟؟؟‬
‫کیسے چھوڑو گے میری جان؟؟؟کیا تم میں اتنی سی بھی سیلف ریسپکٹ نہیں‪،‬کتنی دفعہ اپنی بے عزتی کروائی ہے مجھ‬
‫سے‪،‬پھر بھی باز نہیں آتے؟؟؟تمہیں بار بار بے عزتی کروا کے سکون ملتا ہے کیا؟؟؟میم جی!آپ مان جائیں نا آگے نہ ممکن‬
‫کو ممکن بنانا میرا کام ہے۔اور جہاں تک بات ہے سیلف ریسپکٹ کی تو یہ پیار ہے ہی ایسی بیماری جو سب سے پہلے‬
‫دیمک کی طرح سیلف ریسپیکٹ کو چاٹ جاتا ہے۔اس لئے بے عزتی کا تو اثر ہونا ہی نہیں مجھ پہ۔اف ف ف ف ف اب‬
‫میں کیا کروں؟؟؟بسـ مان جائیں نا۔۔۔جب ایک دفعہ انکار کر دیا تو پھر مقصد کیا بنتا ہے بار بار کہنے کا؟؟؟انکار کی وجہ‬
‫پوچھنا چاہتے ہو نا تو سنو آج۔۔۔مجھے کوئی اور پسند ہے۔تمہاری ایسی شکل ہے کہ کوئی تمہیں پسند کرے‪،‬تم کوئی اپنے‬
‫جیسی معمولی شکل والی لڑکی ڈھونڈو اپنے لئے۔۔۔۔یہ سن کے احمد بے چارا ال جواب رہ گیا اس کو لگا کہ اب راضی کرنے‬
‫کی ساری وجوہات ہی ختم ہو گئیں ہیں۔جب میری شکل ہی اس قابل نہیں تو آگے سے بحث کرنے کا کیا فائدہ۔۔۔وہ بے‬
‫چارہ بنا کوئی بات کہے تیزی سے موٹر سائیکل چال کے آگے چال گیا۔‬
‫آئمہ نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ اس طرح گیا ہے تو اب جان چھوٹ جائے گی اس سے۔۔۔اگلے دن نہ تو اس کے‬
‫گھر کے باہر احمد موجود تھا نہ ہی راستے میں۔سکول کے باہر بھی آئمہ اس کو کھڑا نہ پا کر خوش ہو گئی کہ جو کام پیار‬
‫سے نہ ہوا ایک بات سن کے ہو گیا۔احمد نے اب گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا۔وہ تو جیسے کمرے میں بند ہو کے رہ گیا‬
‫تھا۔سعد کو احمد کی اس کیفیت کے بارے میں اس کےماں باپ نے جب بتایا تو وہ فورا آیا۔اوےکیا ہوا ہے؟؟؟آنٹی بتا رہی‬
‫تھی کہ تو نے خود کو کمرے میں بند کیا ہوا ہے۔ایسا کیا ہوا ہے؟؟؟مجھے بتا کیا مسئلہ ہے؟؟؟نہیں کچھ نہیں۔۔۔ہوا کیا ہے‬
‫تو‪،‬تومیم کے پاس گیا تھا نا پھر کیا ہوا ایسا کہ تو نے خود کو کمرے میں بند کر لیا ہے؟؟؟احمد مایوسی سے بوال کہ وہ بات‬
‫تو کب کی ختم ہو گئی۔مجھے وجہ پتہ چل گئی‪،‬میم کے انکار کی۔بس اب کہانی ہی حتم ہو گئی۔کیا وجہ؟؟؟کچھ خاص نہیں۔‬
‫اچھا تو پھر تو اتنا اداس کیوں ہے؟؟؟اداس نہیں ہوں بس اتنا آگے جا کے واپس آنے میں وقت تو لگتا ہے نا۔۔۔وہی وقت گزار‬
‫رہا ابھی۔اس لئے سب کو ایسا محسوس ہو رہا۔۔۔اب تو بلکہ سب ٹھیک ہونے واال ہے۔چل یار تو نہیں بتانا چاہتا تو نہ بتا۔کم‬
‫ازکم موڈ تو اچھا کر لے۔اب گھر والوں کو اور کتنا پریشان کرے گا؟؟؟ہم م م مم م م۔۔۔۔‬
‫ایک ہفتہ گزرنے کے بعد آئمہ کو لگا کہ اب احمد کا قصہ تو ختم ہو گیا ہے۔اب اس کی نظریں احمد کو ہر اس جگہ تالش‬
‫کرتیں جہاں جہاں وہ اسے نظر آتا تھا۔اس کے خیال میں وہ خوف کی وجہ سے احمد کو تالش کرتیں مگراصل میں اسے خود‬
‫بھی نہیں پتا تھاکہ اسے احمد سے محبت ہو گئی ہے ‪،‬اسے اس کی عادت ہو گئی ہے‪،‬وہ اب اسے ان جگہوں پہ دیکھنا‬
‫چاہتی تھی جہاں وہ نظر آتا تھا مگر پھر اسے موجود نہ پا کر اپنے دل کو تسلی دیتی کہ اب سارا مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔اس‬
‫نے میری جان چھوڑ دی ہے۔‬
‫گھر آ کر بھی وہ یہی سوچتی رہی کہ آخر وہ اتنا برا بھی نہیں تھا‪،‬ہاں چھوٹا تو تھا۔پھر اپنے سوالوں کے خود ہی جواب‬
‫دیتی کہ رشتے کا بھی اس نے لحاظ نہ کیا۔اگلے ہی لمحے سوچتی کہ اگر میں اس سکول میں نہ جاتی تو وہ ٹیچر اور‬
‫سٹوڈنٹ کا رشتہ تو موجود نہیں تھا نا ہم میں۔مگر وہ اس کے لئے اپنے ان جذبات کو جھٹالتے ہوئے کہتی کہ ایسا کبھی سنا‬
‫ہے کیا کسی نے؟؟؟میں نے ‪ 16‬سال پڑھا مگر کبھی ایسا نہیں دیکھا ‪،‬شرم تھی ہی نہیں اس میں۔۔۔استاد جیسے با ادب‬
‫رشتے کا مذاق ہی بنا رہا تھا وہ۔۔۔پھر سوچنے لگی کہ الئف میں کوئی ٹینشن نہ ہو تو بھی مزہ نہیں آتا۔۔۔۔‬
‫سعد ‪،‬احمد کو لئےگھمانے پھرانے اسالم آباد لے گیا کہ شاید ماحول بدلنے سے اس کے رویے میں بھی کچھ تبدیلی آ جائے۔‬
‫مگر کوئی فائدہ نہ ہوااحمد اب بھی اپنے ان خیاالت سے باہر نہ آ سکا۔شاید انہوں نے صحیح ہی تو کہا مجھ میں اب ایسی‬
‫بھی کوئی خاص بات نہیں کہ کوئی ٹیچر مجھ سے محبت کرے۔وہ ان خیاالت سے باہر آنا ہی نہیں چاہتا تھا۔اس کے نزدیک‬
‫آئمہ کی سوچوں میں گم رہنا ہی بہترین ٹائم پاس تھا۔اس لئے وہ ان سوچوں میں ہی اپنی آگے کی زندگی بھی گزار دینا‬
‫چاہتا تھا۔‬
‫آئمہ کو بھی اب پچھتاوا ہونے لگا۔وہ سوچنے لگی کہ محبت کرنا اتنا بڑا جرم بھی نہ تھا جتنی بڑی میں نے اس کو سزا‬
‫دے دی۔اس کو ریگریٹ ہونے لگا کہ کم از کم مجھے اس کی خوبصورتی پہ کمنٹ نہیں کرنا چاہئے تھا۔جو بھی تھا مجھے اس‬
‫کو اس طرح نہیں کہنا چاہئے تھا۔مگر اب پچھتاوے کے سوا تو اس کے پاس کچھ نہ رہا۔اب وہ چاہتی تھی کہ اس سے‬
‫معافی مانگے مگر اب اس کی نظریں (ہر اس جگہ سے جہاں احمد ہوتا تھا)ٹکرا کے واپس آ جاتیں۔مگر اس کے پچھتاوے کا‬
‫کوئی عالج نہ ہو رہا تھا۔جب شدت ذرا زیادہ ہوئی تواس نے احمد کو فیس بک پہ سرچ کیا۔وہاں اس کی آئی ڈی تو مل‬
‫گئی۔اس کو میسج بھی کیا‪،‬ریکویسٹ بھی بھیجی مگر کوئی رسپونس نہیں آیا۔اب اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہو گیا کہ وہ‬
‫ٹھیک تو ہے نا؟؟؟میں نے بھی کچھ زیادہ ہی کہ دیا تھا۔۔۔اس کا ریگریٹ مزید بڑھ گیا۔اب اس کی ایک ہی خواہش تھی کہ‬
‫بس کسی طرح اتنا پتہ چل جائے کہ وہ ٹھیک تو ہے نا۔۔۔اپنی الئف میں ایڈجسٹ تو ہو گیا ہے نا۔۔۔مگر اب اس کی یہ‬
‫خواہش پوری ہو ہی نہیں رہی تھی۔اس کی وہی آنکھیں جو ہمیشہ احمد کو نظر انداز کرتی تھیں اب اس کی ایک جھلک‬
‫دیکھنے کو ترس رہی تھیں۔شاید اس نے صحیح کہا تھا کہ سڑک کے پتھر کو زخمی دیکھ کےاس پہ ترس آ جائے گا‪،‬اس وقت‬
‫تو میں نے اس کو جھٹالیا مگر اب سچ لگنے لگیں اس کی سب باتیں۔۔۔۔بس کسی طرح اس کی خیریت معلوم ہو جائے نا‬
‫تو تسلی ہو جائے کہ میری وجہ سے اسے کچھ نہیں ہوا۔۔۔ورنہ مجھے کیا لینا دینا اس سے آئے یا نہ آئے۔۔۔اچھا ہے نہیں‬
‫آتانا اب‪،‬جلد ہی سمجھ گیا ہے۔۔۔‬
‫احمد بہت ڈسٹرب تھا اس نے نہ تو فیس بک دیکھی نہ اس کا میسج۔۔۔شاید اب آئمہ کے تڑپنے کا وقت آ گیا تھا۔یہ دنیا‬
‫ہی تو مکافات عمل ہے نا!!!!ہر کسی کو اپنے کئے کا بدلہ دینا پڑتا ہے تو آئمہ کو کیسے نہ چکانا پڑتا ؟؟؟؟وہـ نہ تو اپنی‬
‫پریشانی کسی کو بتانے کی پوزیشن میں تھی ‪،‬نہ ہی اس کا ریگریٹ اسے نارمل زندگی گزارنے دے رہا تھا۔احمد کو ایپروچ‬
‫کرنے کی بہت کوششیں ناکام ہونے کے بعد اس کا پچھتاوا مزید بڑھنے لگا۔ان سوچوں کو اس نے اپنے سر پہ بہت زیادہ سوار‬
‫کر لیا تھا۔‬
‫اس کا یہ پچھتاوا اسے اندر ہی اندر مزید کھوکھال کرتا جا رہا تھا۔اب وہ ذہنی مریضہ بنتی جا رہی تھی۔کبھی خودسے ہی‬
‫سوال کرتی کہ اس کا کیا قصور تھا؟؟؟میں نے اسے بہت بڑی سزا دے دی مگر پھر خود ہی اپنے پیرنٹس‪،‬اپنے کیریئر کو زیادہ‬
‫اہم قرار دیتے ہوئے خود کو بے قور ثابت کرتی۔اسی کشمکش میں اس نے اپنے آئے ہوئے ہر رشتے کے لئے بھی انکار کر دیا‬
‫کہ میں کسی کی الئف برباد کر کے اپنی الئف کیسے شروع کر سکتی ہوں؟؟؟مگر اس کا پچھتاوا تو تب ختم ہوتا نا جب اس‬
‫کو یقین ہوتا کہ احمد کی الئف میں سب ٹھیک ہے مگر ایسی کوئی صورت اسے نظر آ نہیں رہی تھی۔دماغ پہ بہت زیادہ‬
‫ٹینشن ڈالنے کی وجہ سے اس کے دماغ نے کام کرنا بھی چھوڑ دیا تھا اب اسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا کہ کیا کر رہی ہے‬
‫وہ؟؟کیوں کر رہی ہے؟؟؟کیا ہو رہا ہے آگے پیچھے؟؟اسے کچھ پروا نہیں تھی بس ایک تمنا دماغ میں تھی کہ کہیں سے اس‬
‫کی خیریت معلوم ہو جائے۔۔۔اس نے ہر کسی سے بات کرنا چھوڑ دیا تھا‪،‬اکیلے خود کو کمرے میں بندرکھتی۔نہ گھر والوں سے‬
‫کچھ ڈسکس کرتی‪،‬بس اپنی غلطی پہ خود کو کوستی رہتی۔اس کے گھر والوں نے اس کی اس حالت کی وجہ سے ذہنی امراض‬
‫کے ماہر سے رابطہ کیا اور اس کی حالت بتائی تو ڈاکٹر نے کہا کہ اسے میرے پاس الیئے میں چیک کر کے بتائوں گا کہ‬
‫کوئی روحانی مسئلہ ہے یا فزیکل پرابلم۔۔۔ڈاکٹر کے پاس جانے کے بعد اس نے ساری کہانی ڈاکٹر کو بھی بتا دی۔مگر کہا کہ‬
‫گھر والوں کو نہیں بتانا چاہتی۔ڈاکٹر نے اس کا اعتماد بحال کرنے کے لئے حامی بھر دی۔پھر اس کا ریگریٹ کم کرنے کی‬
‫بہت کوشش کی کہ آپ کا اس میں کوئی قصور نہیں مگر آئمہ کی سوچیں شاید اسے بہت آگے تک لے گئیں تھیں۔وہ ان‬
‫سب باتوں کو قبول کرنے پہ رضامند ہی نہ تھی۔ڈاکٹر نے اپنی حد درجہ کوشش کے بعد اس کے پیرنٹس کو انکار کر دیا کہ‬
‫اس کا بالکل ٹھیک ہونا نہ ممکن ہے۔ اب نہ تو احمد کا پتہ تھا اس کے پاس جو ڈاکٹر بھی مسئلہ حل کروا پاتا اس لئے‬
‫اس نے کہا کہ اس کی ذہنی حالت بہت خراب ہو چکی ہے میں دوائیاں دے دیتا ہوں مگر مکمل ٹھیک ہونے کی گارنٹی نہیں‬
‫دے سکتا‪،‬شاید وقت ہی ایسا کوئی معجزہ کر دے تو میں کچھ نہیں کہ سکتا۔‬
‫آئمہ دوائیاں تو لے رہی تھی مگر وہ کشمکش اسے واپس زندگی کی طرف مکمل طور پہ ال ہی نہیں پا رہی تھی۔دوسری طرف‬
‫احمد بھی مکمل طور پہ صحت یاب نہیں تھا وہ بے چارا بھی اپنی محبت میں ناکامی کی وجہ اپنی بد صورتی کو ہی‬
‫سمجھ رہا تھا۔شاید دونوں کسی اچھے وقت کے انتظار میں تھے۔‬
‫مگر اچھا وقت بار بار ہر کسی کے دروازے پہ دستک نہیں دیتا۔پہلے آئمہ کے دروازے پہ احمد کی صورت میں اچھے وقت کے‬
‫دستک دی تھی مگر آئمہ کی قدر نہ کرنے کی صورت میں اب ساری زندگی وہ اس دستک کے انتظار میں ہی تھی۔اور احمد‬
‫بے چارے کو تو کہیں اور دستک دینے کے قابل ہی نہ چھوڑا اس نے۔۔۔۔اس بے چارے پہ تو سب دروازے ہی بند کر دیئے‬
‫تھے۔تین ماہ بعد آئمہ کی حالت زیادہ خراب ہوئی تو اس کے گھر والے اسے دوبارہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے۔ڈاکٹر نے چیک‬
‫کرنے کے بعد انہیں کہا؛"میں تو پوری کوشش کر ریا ہوں کہ یہ ریکور ہو جائیں مگر ان کی حالت زیادہ ہی خراب ہو رہی ہے‬
‫‪"،‬میں کسی اور ڈاکٹر سے کنسلٹ کر کے آپ کو بتاتا ہوںکہ اب یہ اپنی نارمل الئف میں آ بھی سکتی ہیں کہ نہیں۔۔۔ابھی‬
‫ڈاکٹر نے کنسلٹ کیا ہی نہیں تھا کہ آئمہ حالت مزید خراب ہونے لگی۔اسے فٹس پرنے لگے۔گھر والے پریشانی کے عالم میں‬
‫اسے فورا ہاسپٹل لے کر گئے مگر ڈاکٹروں کو سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔۔۔کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔؟؟؟انہوں نے اس کے‬
‫پیرنٹس سے پوچھا کہ کیا اسے پہلے بھی کوئی بیماری تھی؟؟؟تو پتہ چال کہ اس کو تو ذہنی مسئلہ بھی تھا۔ڈاکٹرز نے فورا‬
‫اس ذہنی امراض کے ڈاکٹر کو بالنے کو کہاجو اس کا پہلے عالج کر رہا تھا۔تب انہیں فٹس پڑنے کی وجہ سامنے آئی۔مگر‬
‫ذہنی مرض کا عالج تو ان سے بات کر کے ہی حل ہو سکتا ہے مگر وہ بے ہوش تھی۔اب سب ڈاکٹرز اس کے ہوش میں‬
‫آنے کے انتظار میں تھے کہ اچانک اس کی سانس زور زور سے چلنے لگی۔پریشانی مزید بڑھتے ہی اس کے ہوش میں آتے ختم‬
‫ہو گئی۔ڈاکٹرز نے آہستہ آہستہ اس سے باتیں شروع کیں کہ کیا ٹینشن لے رہی ہیں آپ ہم سے ڈسکس کریں۔۔۔آئمہ نے روتے‬
‫روتے بتانا شروع کیاکہ اس طرح میں نے کسی کا بہت دل دکھایا‪،‬کسی مجبوری کی وجہ سے مگر اب مجھے پچھتاوا ہو رہا۔بس‬
‫ایک ٹینشن ہے کہ کسی طرح اس سے معافی مانگ لوں ۔روتے روتے اچانک سے وہ بے ہوش ہو گئی ڈاکٹرز نے چیک کیا تو‬
‫پتہ چال کہ اسے برین ہیمبرج ہو گیا ہے۔اس کے گھر والوں کو کہا کہ آئمہ کی دماغی کنڈیشن بہت خراب ہوتی جا رہی‬
‫ہے آپ دعا کریں کہ ریکور ہو جائے۔اب گھر والوں کو تو وجہ بھی نہیں پتہ تھی وہ بے چارے اس لئے بھی پریشان تھے کہ‬
‫اس کو آخر ٹینشن کیا ہے؟؟؟مگر وجہ سوائے اس ذہنی امراض کے ڈاکٹر کے اور کسی کو بھی پتہ نہیں تھی۔۔۔سب دعائوں‬
‫میں مصروف تھے مگر شاید اسے تو احمد کی دعائوں کی ضرورت تھی نا!!!اور احمد نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا کہ راستے‬
‫کا پتھر بھی کبھی کبھی چاہئے ہوتا ہے اس کے بغیر تو انسان (سڑک پہ پانی کھڑا ہونے کی صورت میں)سڑک پار بھی نہیں‬
‫کر سکتا۔۔۔مگر آئمہ کو یہ بات تب سمجھ آئی جب بہت دیر ہو چکی تھی۔اور اس نے خود ہی تو یہ راستہ اپنے لئے‬
‫منتخب کیا تھا۔۔۔۔اب آئمہ کی حالت مزید خراب ہونے لگی سب ڈاکٹر اپنی اپنی کوشش میں مصروف تھے مگر کوئی صورت‬
‫نظر نہیں آ رہی تھی۔۔۔وہ سائیکالوجسٹ جو اس کی ساری داستان جانتا تھا وہ مسلسل اسے بال رہا تھا کہ احمد آ گیا ہے‬
‫کہو نا جو تم نے اس سے کہنا تھا۔۔۔۔مانگ لو نا اب اس سے معافی۔۔۔۔جس کے لئے تم نے اتنا انتظار کیا۔۔۔آئمہ اپنی ذہنی‬
‫حالت پہ قابو پانا چاہتی تھی۔۔۔وہ آنکھیں کھولنا چاہتی تھی ‪،‬احمد سے بات کرنا چاہتی تھی مگر اب وقت اس کا ساتھ نہیں‬
‫دے رہا تھا۔ویسے بھی احمد تو وہاں موجود نہیں تھا وہ تو ڈاکٹر اس کو اس صدمے سے باہر نکالنے کے لئے ایسا کہ رہا تھا‬
‫کہ وہ کسی طرح آنکھیں کھولے شاید کہ اس کی حالت ریکور ہو جائے۔مگر دماغ ہیمرج بھی اتنا سخت تھا کہ اس کو‬
‫بولنے‪،‬دیکھنے۔ہلنے کے قابل ہی نہ چھوڑا۔۔۔کبھی ایسا ہوتا ہے نا کہ انسان بہت کچھ بولنا چاہتا ہے مگر الفاظ نہیں مل رہے‬
‫ہوتے مگر یہاں آیمہ کے کیس میں تو الفاظ بھی تھے پر وقت نہیں تھا ‪،‬ان الفاظ نے زبان پہ آتے آتے شاید بہت ہی دیر لگا‬
‫دی۔۔۔اور اب جب وہ ان کو زبان پہ النا چاہ وہی تھی تو وقت نے ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔اس سایئکالوجسٹ کی آنکھوں میں بھی‬
‫آنسو آگئے کہ کبھی کوئی اتنا بے بس نہ ہو۔۔۔باہر جا کےاس کے گھر والوں کو کہا کہ اللہ آپ کو حوصلہ دے مگر خود اس‬
‫کو حوصلے کی ضرورت تھی۔۔۔۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ ڈاکٹر جیسا حوصلہ مند انسان بھی کسی حوصلے کی تالش میں‬
‫تھا۔۔۔۔اور سوچ رہا تھا کہ کاش میں بھی کچھ کر سکتا ان دونوں کے لئے۔۔۔۔مگر اب تو وہ دونوں نہیں ایک رہ گیا تھا۔۔۔۔‬
‫اب وہ چاہتا تھا کہ کم ازکم آئمہ کی آخری خواہش جو وہ پوری نہ کر سکی اور اس دنیا سے چلی گئی اس کو پورا ہی کر‬
‫دے۔۔۔۔مگر۔۔۔۔نہ تو اس کو احمد کا اتا پتہ معلوم تھا‪،‬نہ وہ کسی سے پوچھ سکتا تھا کیونکہ اس نے آئمہ سے وعدہ لیا تھاکہ‬
‫وہ اس کے اس سچ کو راز رکھے گا۔۔۔۔باآلخر سعد نے ایک دن اپنی فیس بک آئی ڈی دیکھی تو آئمہ کا میسج پڑھ کر بہت‬
‫خوش ہوا کہ احمد کو کہو ایک بار مجھ سے ملے‪،‬میں اس سے ملنا چاہتی ہوں۔۔۔۔اس نے فورا سعد کو بتایا اور سعد کے‬
‫مردہ دل میں زندگی کی لہر پھر سے دوڑ گئی وہ سب بھول گیا کہ آئمہ نے اسے کتنا بے عزت کیا تھا۔۔۔سب چھوڑ کے‬
‫خوشی جیسے حیرت میں بدل گئی۔‬ ‫فورا واپس آیا اور آئمہ کے گھر پہنچا تو وہاں منظر دیکھتے ہی حیران ہو گیا اس کی‬
‫کہ یہاں کیا ہوا ہے؟؟؟پوچھنے پہ معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی انتقال کر گئی ہے۔۔۔۔یہ سنتے ہی وہ اپنی جگہ سے سڑکا مگر‬
‫سعد نے اس کو پکڑ لیا بوال کیا پتہ یہ کس کا بول رہے ہیں چل میم کو ڈھونڈتے ہیں۔۔۔احمد زبردستی اپنے قدم اٹھاتے ہوئے‬
‫آگے کو بڑھا اور جنازے کے قریب جا کے اسے دیکھنے کی ضد کرنے لگا۔ان لوگوں نے منع کیا کہ اب جنازہ اٹھانے کا ٹائم ہو‬
‫گیا ہے۔مگر اس کی تڑپ دیکھتے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ اس کو دکھا دہ چہرہ۔۔۔۔احمد تو چہرہ دیکھتے ہی وہیں گر پڑا‬
‫وہ تو جیسے بالکل اپنے ہوش حواس کھو بیٹھا ہو۔سعد اس کو وہاں سے اٹھا کے لے گیا۔وہ سایئکالوجسٹ بھی وہاں موجود تھا‬
‫احمد کی حالت دیکھ کے وہ سمجھ گیا۔اس کی گاڑی کا پیچھا کیا ۔گھر پہنچتے ہی سعد اسے ہوش میں النے کی کوشش‬
‫کرنے لگا۔۔۔احمد ‪،‬احمد ۔۔۔احمد۔۔۔مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا سعد بھی رونے لگا اور بوال۔یار تو ہمت کر وہ میم نہیں ہو‬
‫سکتی۔۔۔مگر احمد پھر مایوسی کی لہروں کی نظر ہو گیا۔اتنی دیر میں دروازے پہ دستک ہوئی اور وہی سائیکالوجسٹ کھڑا نظر‬
‫آیا۔جی آپ کون؟؟؟اور آپ کو کیا کام ہے؟؟؟مجھے احمد کو آئمہ کے بارے میں کچھ بتانا ہے۔۔۔یہ سنتے ہی سعد فورا اس کو‬
‫اندر لے گیا۔۔۔احمد دیکھ یہ تجھے میم کے بارے میں کچھ بتانا چاہتے ہیں۔۔۔احمد اچانک چونک کر ان کی طرف متوجہ‬
‫ہوا ۔۔۔میں آئمہ کا سایئکالوجسٹ ہوں‪،‬کچھ عرصہ پہلے وہ میرے پاس ذہنی عالج کے لئے آئی تھی۔مجھے اس نے آپ کی‬
‫ساری سٹوری اس شرط پہ بتائی کہ میں کسی کو نہین بتائوں گا۔میں نے اس کا راز آج تک کسی کو نہیں بتایا ‪،‬آج آپ کو‬
‫وہاں دیکھا تو اس کی آخری خواہش پوری کرنے آیا ہوں۔۔۔کیسی خواہش ؟؟؟کیساـ راز؟؟؟؟احمد فورابوال ۔اس نے آپ کو یہ تو‬
‫کہا تھا کہ آپ خوبصورت نہیں اور اس کے سٹینڈرڈ کے نہیں مگر اس کے بعد وہ خود بہت پریشان ہو گئی تھی اس نے آپ‬
‫کو ایپروچ کرنے کی بہت کوشش کی مگر آپ نے اسے ریپالئے ہی نہ کیا۔پھر اس کا پچھتاوا اسے دن بدن اندر سے مزید‬
‫کمزور کرتا گیا۔۔۔اس کی اندر ہی اندر ٹینشن لینے کی وجہ سے ذہنی حالت بہت خراب ہو گئی۔اس کو فٹس بھی پڑنا شروع‬
‫ہو گئے اور آخری وقت بھی وہ اپنے اس رویے کی آپ سے معافی مانگنا چاہتی تھی۔مگر آپ وہاں موجود نہ تھے۔بہت‬
‫سٹریس کی وجہ سے اس کو برین ہیمبرج ہو گیا۔اور وہ ریکور نہ کر پائی ۔میں بس آپ کو یہی بتانا چاہتا تھا آپ بس اب‬
‫اسے معاف کر دیں۔۔۔اس کی کوئی غلطی نہیں تھی۔ وہ اپنے اردگرد موجود لڑکیوں کی طرح اپنے ماں باپ کا اعتبار نہیں‬
‫توڑنا چاہتی تھی دوسرا وہ معاشرے کی وجہ سے بھی خود کو روک رہی تھی کہ اس طرح فی میل ٹیچرز کا امیج خراب‬
‫ہوتا۔اس نے آپ کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر آپ باز نہ آئے تو مجبورا اس نے آپ کو وہ تلخ الفاظ کہے۔۔۔۔تاکہ آپ‬
‫بھی اپنی الئف میں مصروف ہو جائیں اور اسے بھول جائیں مگر وہ بہت سینسٹو تھی وہ برداشت نہ کر پائی اور اس کا‬
‫پچھتاوا اس کی جان لے گیا۔یہ سن کے احمد کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گر پڑےکہ اس دفعہ بھی میری ہی غلطی تھی‬
‫میں نہ جاتا میم کو یوں اکیال چھوڑ کے تو ایسا نہ ہوتا۔سعد اس کو گلے لگا کے بوال نہیں یار تو ایسا نہ سوچ۔۔۔تو نے تو‬
‫کچھ نہیں کیا نا!!!ڈاکٹر نے بھی اس کو حوصلہ دینا چاہا کہ نہیں یار تمہاری تو غلطی نہیں جب کسی کی اتنی بے عزتی‬
‫کی جائے تو وہ بھی ایسا ہی کرے گا جیسا تم نے کیا۔شاید غلطی کسی کی بھی نہ تھی۔۔۔۔غلط حاالت تھے یا غلط وہ وقت‬
‫تھا ۔۔۔اب آئمہ تو دو کشتیوں میں پستی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔اب وہ معاشرے کو دیکھتی رہی۔۔۔کہ یوں سب لڑکیاں غلط‬
‫ثابت ہو جائیں گی۔۔۔کہ وہ اس پیغمبروں کے پیشے کا غلط استعمال کرتی ہیں ۔۔۔مگر احمد کے نہ ماننے کی وجہ سے الٹا‬
‫وہ خود ہی اس پچھتاوے کا شکار ہو گئی۔۔۔۔دوسری طرف احمد بھی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا۔اب آپ بتائیں کہ کیا غلطی‬
‫آئمہ کی تھی؟؟؟احمد کی؟؟؟یا معاشرے کی؟؟؟شاید غلظی کسی کی بھی نہیں ہوتی کبھی کبھی وقت ہی آپ کو غلط ثابت کر‬
‫دیتا۔۔۔ہے۔۔۔۔۔یا شاید قسمت۔۔۔۔۔۔‬
‫اس ناول کے آخر میں ایک سوال چھوڑے جا رہی ہوں کہ‪:‬۔‬
‫جس اعتبار کے لئے اس نے سب کچھ کھو دیا یہاں تک کے اپنی زندگی بھی۔مگر کیا وہ اعتبار حاصل کر پائی؟؟؟؟‬
‫‪A disclaimer from writer.....‬‬
‫مجھے پتہ ہے آپ کو اس کا اینڈ اچھا نہیں لگا ہو گا مگر میں یہ چاہتی تھی کہ سب یہ ریئالیز کریں کہ ہر جگہ قصور‬
‫لڑکی کا نہیں ہوتا۔۔۔۔اب اس نے اعتبار کے لئے کیا کچھ نہیں کر دیا۔۔۔۔مگر ۔۔۔۔۔اس ناول کو پڑھنے کے بعد بھی بہت لوگ‬
‫اس کو ہی قصور وار سمجھیں گے۔۔۔۔کہ اس نے احمد کے ساتھ برا کیا۔۔۔۔اس نے احمد کو آدھے راستے میں اکیال چھوڑ‬
‫دیا ۔۔۔۔شاید اس ناول کے عنوان کی طرح اس کی بالوجہ کی مسکراہٹ اس کا قصور تھی۔۔۔۔یا پھر اس کا بچپنا اس کا قصور‬
‫تھا کہ وہ پہلے سمجھ نہیں پائی۔۔۔۔اب قصور کیا تھا یہ میں آپ سب پہ چھوڑتی ہوں آپ بتائیں۔۔۔کس کی غلطی تھی؟؟؟؟‬
‫اس کو کیا کرنا چاہئے تھا۔۔۔۔اس کا اینڈ مجھے چینج کرنا چاہئے کہ نہیں؟؟؟؟میرا سوال ہے کہ کیا لڑکیوں کی مسکراہٹ اتنا‬
‫بڑا قصور ہے؟؟؟؟‬

You might also like