You are on page 1of 352

1

‫جلتی آنکھیں بجھتا دیا‬


‫از طیبہ چوہدری‬

‫پاکستان کے دو صوبوں‪.....‬‬
‫پنجاب اور خیبرپختونخوا کی دل موہ لینے والی الزوال‬
‫داستان‬

‫‪2‬‬
‫‪Part 5‬‬
‫"کہاں چلے؟ تم تو میرے ساتھ کہیں نہیں جا رہے‪ "......‬وہ‬
‫جب اس کے ساتھ آگے بڑھا تو حور نے تیکھے لہجے میں‬
‫کہا۔وہ لب بھینچے اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔‬
‫وہ ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر اچھال کر آگے بڑھ گئی‬
‫تھی۔‬
‫چند قدموں پر جا کر رکی اور واپس پلٹی۔‬
‫"کہتے ہیں ہم اپنی زندگی سے اور زندگی میں آنے والوں‬
‫سے سیکھتے ہیں‪.....‬اور تم نے مجھے سکھایا ہے کہ‬
‫پرائے پرائے ہی ہوتے ہیں۔"‬
‫وہ چند پل غصے سے اسے گھورتی رہی پھر پلٹ گئی۔‬
‫"تم طالق چاہتی ہو تو ٹھیک ہے‪.....‬مگر میری ایک شرط‬
‫ہے۔" وہ کچھ سوچتے ہوئے بوال۔‬
‫حور رک چکی تھی۔‬
‫"یہ طالق جب ہو گی تو ہم اسی طرح ساتھ بیٹھ کر پیپرز پر‬
‫سائن کریں گے جیسے نکاح کے کاغذات پر کیے تھے۔"‬
‫‪3‬‬
‫وہ آگے بڑھتے ہوئے اس کی جانب گہری نگاہوں سے‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"اوکے۔"وہ اس کو دیکھنے کے حق میں نہیں تھی سو‬
‫تیزی سے آگے بڑھ گئی۔‬
‫وہ کئی پل اسی جگہ کھڑا رہا تھا اور پھر پلٹ کر گاڑی میں‬
‫بیٹھا اور گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی تھی۔‬
‫نجانے کیوں اسے دیکھتے ہی‬
‫آج کل دھڑکنیں رک سی جاتی ہیں‪.....‬‬
‫کبھی یہ شدت سے دھڑکتے دھڑکتے‬
‫سینے میں پاگل سی ہو جاتی ہیں‪......‬‬

‫وہ ناشتہ میز پر لگا کر شاہزیب کو جگانے کے لیے کمرے‬


‫میں داخل ہوئی تھی‪.....‬شاہزیب دیر رات کو اسالم آباد سے‬
‫واپس آیا تھا تو ابھی تک سو رہا تھا۔‬

‫‪4‬‬
‫وہ محبت بھری مسکراہٹ لیے اس کے قریب بیٹھی‪....‬اور‬
‫دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی کو چھوتے بالوں‬
‫کو بہت ہی نرمی سے چھوا تھا۔‬
‫اس کی گھنی پلکیں چھونا چاہتی تھی مگر دل کی دھڑکنیں‬
‫اسے شرم و حیا کا دامن تھما رہی تھیں‪.....‬جسے اس نے‬
‫تھام لیا اور نیچلے لب کو دانتوں تلے دباتے ہوئے ہاتھ‬
‫واپس کھینچ لیا۔‬
‫"شاہزیب! اٹھ جائیں۔" جھک کر اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کرتے ہوئے وہ اٹھ کر آگے بڑھنے لگی تھی جب‬
‫شاہزیب نے اس کا دوپٹہ تھام لیا وہ جہاں تھی وہاں ہی رک‬
‫گئی۔‬
‫"صبح بخیر۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔‬
‫"صبح بخیر‪.....‬فریش ہو جائیں ناشتہ لگا دیا ہے۔"‬
‫وہ پلٹ کر اس کے ہاتھ میں سے دوپٹہ لیتی تیزی سے مڑ‬
‫چکی تھی۔‬
‫وہ اس کے چہرے کی اللی پر محضوظ ہوتا مسکراتے‬
‫ہوئے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔‬

‫‪5‬‬
‫دونوں ناشتے کی میز پر آ کر بیٹھے تھے کہ جب‬
‫سکیورٹی روم سے اسے کال موصول ہوئی۔‬
‫"سر! کوئی لڑکی ہے۔ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔" سامنے‬
‫سے کہا گیا تھا۔‬
‫"کون لڑکی؟ نام کیا ہے؟‪ ".....‬اس نے حیرانگی سے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"نام‪ ،‬حوریہ رائے ہے‪.....‬کہہ رہی ہیں کہ آپ کی کزن‬
‫ہیں۔"‬
‫"ہاں وہ میری کزن ہیں‪ ،‬انہیں فل پروٹوکول سے اندر لے‬
‫کر آؤ۔" نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہونٹوں کو جتانے‬
‫والی مسکراہٹ نے چھوا تھا۔‬
‫"حور آئی ہے؟‪.....‬سچ میں وہ آئی ہے؟" کائنات تو خوشی‬
‫سے پاگل ہو گئی تھی۔‬
‫شاہزیب نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہالیا۔‬
‫"چلیں نا پھر بیٹھے کیوں ہیں۔" وہ کرسی دھکیل کر اٹھی‬
‫تھی اور تیزی سے خارجی دروازے کی سمت بڑھی اسے‬
‫میں مجبوراً اٹھنا پڑا۔‬

‫‪6‬‬
‫وہ بنگلے کے مین گیٹ کی جانب جاتی راہداری پر ہی تھی‬
‫کہ حور بھی ادھر سے اندر داخل ہوئی۔‬
‫حور سر جھکائے سوچ رہی تھی کہ کیا کہہ گی کیا نہیں‬
‫مگر سامنے سے آتی کائنات کو دیکھ وہ سب بھول کر‬
‫تیزی سے آگے بڑھی‪.....‬دونوں بہنیں ایک دوسرے کے‬
‫بغلگیر ہوئیں پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں‪.......‬‬
‫اندرونی دروازے کی سیڑھیوں پر کھڑے شاہزیب نے ایک‬
‫گہری سانس بھرتے ہوئے قدم ان کی جانب بڑھائے۔‬
‫"ریلکس کائنات!‪.....‬وہ سفر سے آئی ہے آرام کرنے دو‬
‫پہلے۔" اس نے کائنات کے شانے پر پیار سے تھپکی دیتے‬
‫ہوئے کہا تھا۔‬
‫"چلو اندر چلو۔ نسیم بابا! میڈم کا بیگ اٹھا الؤ۔" وہ کہہ کر‬
‫پلٹ گیا۔‬
‫کائنات نے حور کے آنسو پونچھے تھے روتے روتے‬
‫دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگی تھیں۔‬
‫نجانے کیوں جو بےچینی حور کے دل میں کہیں نا کہیں‬
‫تھی وہ سکون میں بدل گئی تھی۔‬

‫‪7‬‬
‫شاہزیب نے اسے مخاطب نہیں کیا تھا اور حور نے بھی‬
‫اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔‬
‫اس نے جب آنکھیں کھولیں تو کسی الگ جگہ کا احساس‬
‫ہوا‪......‬وہ ہسپتال میں تھی‪،‬اپنا دائیں ہاتھ کو اس نے‬
‫جیسے ہی اٹھانے کی کوشش کی محسوس ہوا‪....‬کسی کی‬
‫گرفت میں ہے۔‬
‫گردن گھما کر دیکھا تو حیرت سے اس کی آنکھیں یہاں‬
‫سے وہاں تک پھیلتی چلی گئیں۔‬
‫شکیل خان اس کا ہاتھ تھامے‪ ...‬آگے کو جھکا‪....‬سر اس‬
‫کے بازو کے قریب رکھے شاید سو رہا تھا۔‬
‫وہ اس کے ہلنے پر نیند سے بیدار ہوا اور تیزی سے‬
‫سیدھا ہو بیٹھا۔‬
‫"اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟" اس کے استفسار پر زری‬
‫بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی جس پر وہ نگاہیں چرا‬
‫گیا۔‬
‫"میں نے سوچا تھا کہ اگر ہوش میں آؤں تو منظر بدال ہوا‬
‫ہو‪ ".....‬وہ اپنا ہاتھ اس کے شعلے کی مانند دہکتے ہاتھ‬
‫سے بےرخی سے کھینچ چکی تھی۔‬

‫‪8‬‬
‫"کیا یہ منظر تمہیں پسند نہیں آیا؟" شکیل خان نے‬
‫استفسار کیا تو وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔‬
‫"نہیں ہرگز نہیں شکیل خان! اور پلیز تم میری زندگی میں‬
‫مزید کچھ بھی بدلنے کی کوشش مت کرنا‪......‬اور ہاں مجھ‬
‫سے نرمی سے پیش آنے کی تو کوشش بھی مت کرنا۔" وہ‬
‫تیکھے لہجے میں کہہ کر آنکھیں موند گئی تھی۔‬
‫شکیل خان میں معافی مانگنے کی ہمت ابھی نہیں تھی‪.....‬‬
‫مگر انسان ہمت پیدا کرنے کے چکروں میں وقت کو‬
‫گزرنے کی مہلت دے دیتا ہے اور معافی کا اچھا وقت گزر‬
‫جاتا ہے تو‪......‬تب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ ہم کچھ‬
‫کھو چکے ہیں۔‬
‫"مجھے گھر جانا ہے۔" وہ اس کو مسلسل اپنی جانب‬
‫دیکھتا پا کر اکتاہٹ بھرے انداز میں گویا ہوئی۔‬
‫"کون سے؟" کمال کی نرمی تھی اور شہد جیسا‬
‫لہجہ‪.......‬ایک پل کو تو زرمینہ کے اندر کچھ چھن سے‬
‫ٹوٹا تھا۔‬
‫"کسی بھی‪ ،‬مگر‪.....‬مجھ پر ایک احسان کرو گے؟" وہ‬
‫بجھے بجھے لہجے میں بولی۔‬

‫‪9‬‬
‫"مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا‪.....‬مجھے تنہا رہنا‬
‫ہے۔جہاں کوئی انسان نہ ہو‪......‬وہ اسی جگہ ہی جہاں‬
‫ہماری زندگی کی شروعات ہوئی۔"‬
‫کمال کا ضبط تھا‪.....‬اسے اس کے گناہ یاد دالتے ہوئے وہ‬
‫وحشت سے مسکرائی تھی۔‬
‫"مجھ سے اتنی رحم دلی کی امید مت کرو زرمینہ خان!‬
‫میرے ظلم کی انتہا سے اچھی طرح سے واقف ہو تم‪"......‬‬
‫شکیل خان نے کوشش کی تھی کہ لہجے میں غصہ بھر‬
‫سکے مگر ناکام رہا۔‬
‫اس کے سارے بل نکل چکے تھے‪......‬اور یہ لہجہ شکیل‬
‫خان کا ہرگز نہیں ہوتا تھا‪.......‬تو وہ واقع ہی بدل گیا؟‬
‫"زرمینہ خان نے زندگی سے ایک چیز سیکھی ہے‪".....‬‬
‫وہ کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫ّٰللا کی جانب سے بہت بڑی نعمت ہے۔" وہ پھر‬
‫"کہ تنہائی ہ‬
‫ایک جملہ بول کر خاموش ہوئی تھی‪....‬شاید اسے بولنے‬
‫میں دشواری ہو رہی تھی۔‬
‫"تنہائی میں رہ کر اپنے خوابوں میں اپنی مرضی کی‬
‫زندگی جیتے ہیں۔"‬

‫‪10‬‬
‫"تم کچھ اچھا نہیں سیکھتی زرمینہ خان! تمہاری یہ ہی‬
‫پرابلم ہے۔" وہ دھیمے لہجے میں بوال‬
‫"تم نے بھی کہاں کچھ اچھا سیکھا ہے‪ ،‬کاش تم بھی کچھ‬
‫اچھا سیکھا لیتے تو شاید آج مجھ پر ڈھیروں روپے خرچ‬
‫نہ کرنے پڑتے‪......‬خیر یہ تو میری سزا ہے جو تمہارے‬
‫ّٰللا نے مجھے دی۔ کہتے ہیں نا کہ کچھ گناہوں‬
‫روپ میں ہ‬
‫کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے‪.....‬سائیں کی محبت میں‬
‫اندھی ہو کر اتنے گناہ کیے‪....‬نجی کی دوستی کا بہت فایدہ‬
‫اٹھایا‪....‬باپ کی عزت رول دی۔ اتنے ڈھیر سارے گناہوں‬
‫ّٰللا نے تم جیسے حسین درندے کو میرے‬ ‫کے روپ میں ہ‬
‫اوپر عذاب کی مانند نازل کیا ہے۔" آج وہ اس سے ڈر نہیں‬
‫رہی تھی‪.....‬دوبارہ زندگی ملی تھی‪.....‬اور وہ جیسے‬
‫شیرنی بن گئی تھی۔ یا شکیل خان کی نرمی کی بدولت اس‬
‫کے دل کی بھڑاس باہر نکل رہی تھی۔‬
‫"زرمینہ خان!‪"......‬‬
‫"ارے اتنی محبت سے بار بار میرا نام مت پکارو‪.....‬محبت‬
‫کو ترسی ہوئی لڑکی ہوں کہیں تمہاری اس دکھاوے کی‬
‫محبت پر ایمان لے آئی تو۔" وہ ایک دم سے قہقہہ لگا کر‬

‫‪11‬‬
‫ہنسی تھی‪ ......‬شکیل خان اس کی جانب زخمی خور نگاہوں‬
‫سے دیکھتا رہا۔‬
‫"مگر سچ تو یہ ہے شکیل خان! کہ تم اگر سچ میں بھی‬
‫محبت کرو تو میں ایمان نہیں الؤں گی۔" ایک دم سے اس‬
‫کا لہجہ بدال تھا۔‬
‫تلخی سے کہتے ہوئے اس نے رخ پھیر لیا۔‬
‫"تم جو فیصلہ کرو گی زرمینہ خان!‪....‬مجھے منظور ہو‬
‫گا۔" وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا‪ ،‬زرمینہ کی بند‬
‫پلکیں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھیں۔‬
‫"تم نے ٹھیک کہا تھا شکیل خان! اب شاید میں تمہاری ہی‬
‫تسبیح کروں گی۔ کیونکہ آنکھیں بند کرتے ہی تمہارا‬
‫مکروہ چہرہ دکھائی دیتا ہے اور مجھ پر ڈھایا گیا تمہارا‬
‫ظلم و ستم‪ .....‬سائیں کی سائیلنٹ تو تمہارے وائلنس کے‬
‫پیچھے ایک دم سے چھپ گئی ہے۔" پٹ سے آنکھیں‬
‫کھولتے ہوئے وہ چھت کو گھورنے لگی تھی۔‬
‫شکیل خان سے مزید وہاں بیٹھ نہیں ہوا تھا۔‬
‫تیزی سے اٹھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور وہ پیچھے ہنستی‬
‫چلی گئی۔‬

‫‪12‬‬
‫رات کا دوسرا پہر تھا اور وہ ابھی تک باتیں کر رہی تھیں۔‬
‫پہلے ماں کے متعلق‪.....‬پھر اتنے دن کیسے گزرے‪.....‬حور‬
‫کو ایک جانب سے تو تسلی ہوئی تھی کہ شاہزیب کائنات کا‬
‫بہت خیال رکھتا ہے‪......‬پھر تایا لوگوں کی کارستانیوں کی‬
‫باتیں شروع ہوئیں۔‬
‫"شاہزیب تایا لوگوں کے خالف ایکشن لینا چاہتے ہیں مگر‬
‫اس کے لیے ہمیں ایف آئی آر درج کروانی ہو گی‪ .....‬تاکہ‬
‫وہ لوگ آگے کسی بڑے آفیسر کے پاس جا کر اس کی‬
‫کاروائی رکوا نہ سکیں۔"‬
‫وہ دونوں کچن میں گھسی کافی بناتے ہوئے بھی باتیں کر‬
‫رہی تھیں۔‬
‫"تمہارے ہسبینڈ کے آدمی اگر وہاں ہیں تو کچھ نہ کچھ تو‬
‫ان کے پاس ہو گا ثبوت کے طور پر؟" اس سوال پر حور‬
‫کے زخموں پر مزید جلن ہوئی تھی۔‬
‫"ان سب کو شاہزیب دیکھ لے گا‪......‬اور اب مجھے ان کا‬
‫ڈر ہرگز نہیں ہے‪ .....‬پہلے تھا کہ میرے پاس کوئی ثبوت‬
‫نہیں تھا وہ لوگ صاف مکر جاتے اور تمہیں نقصان‬
‫پہنچانے کی کوشش کرتے‪.....‬میں الکھ کچھ کہتی رہتی ماما‬

‫‪13‬‬
‫نے یقین نہیں کرنا تھا کیونکہ تایا لوگوں نے اپنی ایمج ان‬
‫کے سامنے بتہ اچھا بنایا ہوا تھا ۔" وہ بوجھل دل کے ساتھ‬
‫کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫بلیک نائٹ ٹراؤزر اور ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ میں بالوں کے‬
‫ڈھیلے ڈھالے جوڑے کے ساتھ وہ کافی تھکی ہوئی لگ‬
‫رہی تھی۔‬
‫زندگی نے حوریہ رائے کو لڑکپن میں ہی اتنے بڑے بڑے‬
‫سبق سکھا دیئے تھے کہ اب وہ ذرا تھکنے تو لگی تھی‬
‫مگر ہمت نہیں ہاری۔‬
‫"اب تم سیو ہو مجھے ان کا اب کوئی ڈر نہیں‪......‬اب‬
‫دیکھنا انہیں میں کیسے سبق سکھاؤں گی۔"‬
‫جبڑے بھینچے وہ غصے سے بولی۔‬
‫"میں تمہارے ساتھ ہوں۔" شاہزیب گال کھنکھارتے ہوئے‬
‫کچن میں داخل ہوتے بوال۔‬
‫حور چند پل اسے دیکھتی رہی پھر رخ پھیر لیا۔‬
‫"حور! مجھے نہیں معلوم کہ تمہیں مجھ سے کیا ناراضگی‬
‫ہے؟‪....‬جیسا بھی رہا ہے مگر میں نے ہمیشہ تمہاری‬

‫‪14‬‬
‫حفاظت کے متعلق ہی سوچا ہے۔ صرف کائنات کو ہی نہیں‬
‫تمہیں بھی پروٹیکٹ کرتا تھا۔" اس نے نرمی سے کہا تھا۔‬
‫"مجھے نیند آ رہی ہے۔" وہ تیزی سے اٹھ کر کچن سے‬
‫نکل گئی۔‬
‫چند پل ان دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھا گئی تھی۔‬
‫"آپ اٹھ کیوں گئے؟" کائنات نے تیزی سے خوشگوار‬
‫لہجے میں استفسار کیا۔‬
‫"کیونکہ آپ کا رتجگے کا پالن ہے سوچا اب میں بھی‬
‫جاگ لوں تھوڑا۔" وہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑھا‬
‫تھا۔‬
‫"ہوں تو یہ بات ہے؟" وہ شرمیلی سی مسکراہٹ لیے ایک‬
‫قدم پیچھے ہٹی۔‬
‫"ہوں‪.....‬ہوں۔" وہ اثبات میں سر ہالنے لگا۔شاہزیب کی‬
‫آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔‬
‫"خانزادے! حور آئی ہوئی ہے گھر پر؟ آپ سو رہے‬
‫تھے‪....‬؟ اور میں آج حور کے ساتھ سونے والی تھی؟ یاد‬
‫کرنے کی کوشش کریں۔یاد آیا کچھ‪.....‬؟" وہ جب بلکل اس‬

‫‪15‬‬
‫سے ایک قدم کے فاصلے پر آ رکا تو کائنات نے ہڑبڑا کر‬
‫دھڑکنوں کو سنبھالتے سرخ ہوتے کہا۔‬
‫"نہیں‪ ،‬بلکل بھی نہیں‪ .....‬کچھ یاد نہیں آ رہا۔" وہ اس کی‬
‫جانب جیسے ہی جھکا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ سختی سے‬
‫آنکھیں میچ گئی۔‬
‫جبکہ وہ اس کی اس ادا پر فدا ہوتا مسکراہٹ لیے ہاتھ بڑھا‬
‫کر دائیں جانب ٹرے میں پڑا کافی کا مگ اٹھا چکا تھا۔‬
‫تھوڑی ابھی بھی کائنات کے شانے کو چھو رہی تھی۔ وہ‬
‫جیسے ہی پیچھے ہٹا کائنات نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کی‬
‫جانب دیکھا۔اس کا دھان پان سا سراپا شاہزیب کے سامنے‬
‫بہت ہی چھوٹا سا لگ رہا تھا‪ .....‬حاالنکہ وہ بیس سال کی‬
‫تھی مگر اس وقت وہ کوئی‬
‫سولہ سترہ سالہ لڑکی لگ رہی تھی۔‬
‫شاید یہ ولی خان کی اور انیلہ کی باتوں کا اثر تھا کہ وہ اپنا‬
‫اور شاہزیب کی عمر پر تو نہیں مگر قد کاٹھ پر غور کرنے‬
‫لگی تھی۔‬
‫ّٰللا اتنا چھوٹا قد بھی نہیں دینا چاہیے تھا۔اور تھوڑا‬
‫"یا ہ‬
‫سی چربی مجھے بھی دی ہوتی تو شاہزیب کے سامنے‬

‫‪16‬‬
‫چونٹی تو نہ لگ رہی ہوتی۔" وہ سوچ رہی تھی مگر اسے‬
‫معلوم نہیں ہوا کہ وہ بول بھی رہی ہے۔‬
‫"بڑی ہائٹ کا کیا کرو گی؟" شاہزیب اس کے ساتھ آ کھڑا‬
‫ہوا۔وہ ہڑبڑا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"ن نہیں میں تو ویسے ہی سوچ رہی تھی۔"‬
‫"ہوں‪ ،‬اور ہاں چربی بھی چڑھ جائے گی‪ .....‬مزید ایک‬
‫سال انتظار کرو۔" وہ آنکھ دبا کر کہتے ہوئے کافی کے‬
‫سیپ بھی بھر رہا تھا۔‬
‫"مطلب؟"‬
‫"ابھی سمجھنا ہے مطلب؟" وہ سنجیدگی سے اسے‬
‫دیکھتے ہوئے‪ .....‬بوال تو شریر لہجے میں ہی تھا۔‬
‫"ہوں۔"‬
‫"اچھا اس کے لیے پہلے ایک سوال کا جواب دو۔"‬
‫"پوچھیں؟"‬
‫"تم اس شادی سے خوش ہو نا؟"‬
‫"جی۔"‬

‫‪17‬‬
‫"تو بس پھر شادی شدہ لوگ خوشی سے ہی تو موٹے‬
‫ہوتے ہیں۔" وہ شانے آچکا کر ہنستے ہوئے بوال۔‬
‫"ٹائم پاس کرنے کے لیے یہ ہی وقت مال تھا؟" وہ اسے‬
‫خفگی سے دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"بس اب بہن آ گئی ہے شوہر تو بھول ہی جاؤ گی نا۔" وہ‬
‫معصومیت سے کہتے ہوئے منہ پھال گیا۔‬
‫"اب اوؤر ایکٹنگ بند کریں اور جا کر سو جائیں۔" اس نے‬
‫بیویوں واال رعب جھاڑا۔‬
‫"گڈ نائٹ ڈیئر وائف۔" وہ اس کی ناک دبا کر کہتے ہوئے‬
‫پلٹ گیا اور کائنات ہنستے ہوئے ایک مگ جو بچ گیا تھا وہ‬
‫اٹھا کر کمرے کی جانب بڑھی۔‬
‫نجانے دل میں کیسا طوفان برپا ہوا تھا‪.....‬‬
‫دل ہی نہیں محض‪....‬‬
‫ہماری پوری دنیا ہی تہس نہس کر گیا‬

‫‪18‬‬
‫حور بستر پر کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی‪ ،‬اتنا نرم بستر‬
‫بھی اسے کانٹوں کی سیج لگ رہا تھا۔‬
‫آنکھیں بند کرتے ہی دالور خان جھپک سے سامنے آ جاتا‬
‫تو وہ ایک دم سے آنکھیں کھول دیتی۔‬
‫بلینکڈ اوڑھتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے اس ظالم کی‬
‫خوشبوئیں اس کی سانسوں میں اترنے لگی ہوں۔‬
‫یہ نہیں تھا کہ وہ اکیلی ہی بےچین تھی‪......‬دوسری‬
‫جانب‪ ....‬اسالم آباد میں‪....‬وہ نیلی آنکھوں واال مغرور سا‬
‫شہزادہ بھی اسی حال میں تھا‪.....‬اپنی خوشبوئیں‪،‬اپنے‬
‫ہونے کا احساس وہ دالور خان کے پاس چھوڑ آئی تھی۔‬
‫وہ بھی اسی کی مانند بستر پر کروٹ پہ کروٹ بدل رہا‬
‫تھا۔اس نے بلینکڈ کو خود پر سے ہٹاتے ہوئے وہ‬
‫دوسرے ہی لمحے بےقرار سا ہو کر اٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"نہیں اتنی آسانی سے تو میں تمہیں نہیں کھو سکتا‬
‫حور!" اس نے نفی میں سر جھٹکا۔‬
‫"مگر کیا کروں‪.....‬؟ کیسے اسے مناؤں؟‪.....‬میں جانتا ہوں‬
‫کہ وہ بھی مجھے چاہتی ہے‪ ،‬مگر جو میں نے کیا اس کے‬

‫‪19‬‬
‫بدلے میں وہ معافی کیوں دے گی بھال۔" وہ بےچینی سے‬
‫اٹھا تھا اور سگار سلگاتے ہوئے ٹیرس پر چال گیا۔‬
‫"کچھ سوچو دالور خان! تم اسے کھو نہیں سکتے‪......‬وہ‬
‫تمہاری پہلی اور آخری محبت ہے۔" اس کے دل نے دہائی‬
‫دی۔‬
‫"دل سے نہیں دماغ سے سوچو‪.....‬سردار دالور خان کی‬
‫طرح سوچو۔" اس نے سگار کا کش بھرتے ہوئے دھواں‬
‫ہوا میں اڑیا۔‬
‫کچھ اس کے دماغ میں آیا تھا تبھی ہونٹوں کی جانب جاتا‬
‫سگار واال ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔‬
‫"نہیں‪.....‬نہیں‪....‬یہ ٹھیک نہیں رہے گا۔تم ایک مزید غلطی‬
‫نہیں کر سکتے‪.....‬نہیں دالور خان! بلکل بھی نہیں۔" وہ‬
‫سختی سے خود کو ڈپٹ کر اس آئیڈیا پر مزید سوچنے‬
‫سے دماغ کو روکنے لگا‬
‫"مگر وہ بھی مجھے چاہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔"‬
‫اس نے شانے آچکائے۔‬
‫"چاہتی ہے مگر‪.....‬تم اسے دھوکا ہرگز نہیں دے‬
‫سکتے‪ .....‬پہلے اتنا کچھ بگڑ چکا ہے تم مزید بگاڑ دو‬

‫‪20‬‬
‫گے۔" اندر سے کوئی چال چال کر اسے روکنے کی کوشش‬
‫کر رہا تھا مگر وہ سننے کے حق میں نہیں تھا۔‬
‫"یہ غلط نہیں ہے۔ابھی جب وہ مجھ سے دور جائے گی تو‬
‫اسے احساس ہو گا کہ وہ میرے بغیر رہ نہیں سکتی‪....‬پھر‬
‫لوٹ آئے گی تو‪......‬اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں جو سوچ‬
‫رہا ہوں میں وہ ہی کروں گا۔" اس نے اپنی سوچ پر اپنے‬
‫عمل کو سرانجام دینے کی مہر لگا دی تھی اندر بیٹھا ڈر‬
‫بس روتا تڑپتا رہ گیا تھا۔‬
‫"چلو نجی! ان سوالوں کے جواب دو۔" نیسی نے پینسل‬
‫واپس رکھی اور نوٹ بک اٹھا کر اس کے سامنے جا کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫"یہ تمہاری پسند اور ناپسند کے متعلق سوال ہیں‪......‬ہم‬
‫دیکھیں گے کہ تمہیں کون سی پسند فرحان کی پسند سے‬
‫بدلنی چاہیے اور کون سی نہیں۔" نیسی نے کہا‬
‫"پسند کیسے بدلی جا سکتی ہے؟" اس نے حیرانگی سے‬
‫استفسار کیا۔‬

‫‪21‬‬
‫"وہ بھی سکھا دوں گی‪....‬خیر چلو اب ٹائم ہو چال ہے‬
‫سواالت و جوابات کا۔ ایکٹیو ہو کر بیٹھو‪ ".....‬نیسی نے کہا‬
‫اور نوٹ بک پر ایک نگاہ ڈالی۔‬
‫پھر جب اسے دیکھا تو وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔‬
‫"میرا مطلب ہے سیدھی ہو کر بیٹھو اور دماغ کو جگاؤ۔"‬
‫آگے بڑھ کر اس کے ڈھیلے ڈھالے چھوڑے شانوں کو تھام‬
‫کر اسے سٹریٹ بیٹھا دیا۔‬
‫دونوں شانوں پر بکھرے گھنے اور سلکی بالوں کو کمر پر‬
‫گرایا اور ٹی شرٹ کی بےترتیبی بھی درست کی۔‬
‫"ہم جب کہیں جاتے ہیں تو اس طرح بیٹھتے ہیں۔ نہ کہ‬
‫کمر پیچھے کو نکال کر تھکے ہارے اور بوڑھے لوگوں‬
‫کی طرح‪ ،‬آئی سمجھ میں بات؟" وہ اپنے مخصوص سخت‬
‫اور تیز لہجے میں گویا ہوئی تھی۔‬
‫"اوکھا (اوکے)"‬
‫"کیا؟"‬
‫"میرا مطلب اچھا‪ ،‬ٹھیک ہے۔"‬

‫‪22‬‬
‫"اچھا کو اوکھا نہیں‪ .......‬اوکے کہتے ہیں۔سارا لکھ کر دیا‬
‫تھا نا پھر بھی کچھ پلے نہیں پڑتا تمہارے؟ ذہن کہاں ہوتا‬
‫ہے تمہارا؟" وہ ڈانٹتے ہوئے بولی۔‬
‫"فرحان کی طرف۔" کھوئے کھوئے لہجے میں کہتے ہوئے‬
‫ٹھنڈی آہ بھر کے اس نے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔‬
‫نیسی کو اس پر ترس آیا تھا کہ وہ کتنا کچھ کر رہی تھی‬
‫فرحان کی خاطر مگر وہ تو ٹھیک سے اسے دیکھتا بھی‬
‫نہیں تھا‪......‬نیسی صبح آتے ہی اسے بہترین ڈریس پہنا کر‬
‫ریڈی کر دیتی تھی۔‬
‫پھر اسے ناشتہ سرو کرنا سکھاتی اور کرنا بھی۔‬
‫تب تک فرحان بھی اٹھ جاتا تھا فریش ہو کر نیچے آتا اور‬
‫خاموشی سے ناشتہ کر کے نکل جاتا۔‬
‫"دیکھو نجی!‪....‬یہ الس ویگاس ہے۔ یہاں زندگی گزارنا‬
‫جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہی یہاں کی برائیوں سے بچنا مشکل‬
‫ہے‪ ،‬تمہیں فرحان کی لگامیں کسنی پڑیں گیں‪.....‬اگر تم یہ‬
‫رشتہ نبھانا چاہتی ہو تو اس پر کچھ دائرے عائد کرو‪"....‬‬
‫وہ اس کے ساتھ جھولے پر ہی بیٹھ گئی تھی۔‬

‫‪23‬‬
‫نجی اس کی بات نہیں سمجھی مگر محض سر ہال کر رہ‬
‫گئی تھی۔‬
‫"اور ہاں‪،‬میں تمہاری ٹیچر ہوں‪.....‬تمہیں صرف زندگی کے‬
‫ساتھ اٹیچ چیزیں ہی نہیں بلکہ زندگی کس طرح گزارتے‬
‫ہیں وہ بھی سکھانے آتی ہوں‪ ".....‬اس نے سامنے‬
‫دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا تھا۔‬
‫"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا نجی!‪ ....‬زندگی میں کسی سے‬
‫اتنی امیدیں وابستہ مت کر لینا کہ پھر بعد میں امیدیں‬
‫ٹوٹنے پر تکلیف ہو۔‬
‫دوسری بات محبت عورت کی فطرت ہے مگر اس محبت کو‬
‫اپنی زندگی تباہ مت کرنے دینا‪......‬‬
‫تیسری بات فرحان تمہارا شوہر ہے اس کے متعلق تمہیں‬
‫وہ سب کچھ معلوم ہونا چاہیے جو وہ تمہیں نہیں بتاتا‪....‬تم‬
‫اس سے وہ سب پوچھو۔ اس سے اتنی دیر باہر سے آنے‬
‫کی وجہ پوچھو۔" نیسی نے آخری بات اس کی آنکھوں میں‬
‫برا ِہ راست جھانکتے ہوئے کہی تھی۔‬
‫نجی کئی پل ساکت بیٹھی رہی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے؟‬

‫‪24‬‬
‫"خیر یہ سب چھوڑو‪.....‬ساتھ ساتھ چلتا رہے گا اب سوالوں‬
‫کے جواب دو۔" اس نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا تو‬
‫نجی نے بھی پلکیں جھپک لیں۔‬
‫"کھانے میں کیا پسند ہے؟"‬
‫"بڑا گوشت اور بریانی۔"‬
‫"بریانی ٹھیک ہے مٹن فرحان کو پسند نہیں۔"‬
‫نیسی کی بات پر وہ اسے دیکھے چلی گئی کہ مٹن ہو یا‬
‫بیف نجی کو بےحد پسند تھا اور حویلی میں تو ہم وقت‬
‫ایک ڈش ساتھ میں بیف مٹن وغیرہ کی ہوتی تھی۔‬
‫"تحفے میں کیا لو گی اگر کبھی فرحان دے تو؟" اس سوال‬
‫پر نجی کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی‬
‫تھی۔ کمرے کے اونچی اور لمبی کھڑکی کے پاس سے گزر‬
‫کر اندر آتے فرحان کے قدم رک گئے تھے وہ اب نجی کے‬
‫جواب کا منتظر تھا۔‬
‫"کانچ کی چوڑیاں‪ ،‬مہندی‪ ،‬گالب اور کلیاں‪.....‬ان کی محبت‬
‫‪،‬ان کے وقت میں سے چند پل‪ "....‬وہ سر جھکائے کہہ‬
‫رہی تھی فرحان نے ہاتھ بڑھا کر پردے کو پیچھے کیا تھا‬
‫اور اسے دیکھنے لگا۔‬

‫‪25‬‬
‫سلیو لیس ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور نیلی جینز میں کھلے‬
‫لمبے بالوں کے ساتھ اس کا سا سراپا کتنا دلکش لگ رہا‬
‫تھا۔‬
‫"یہ سب تو پینڈو گرلز لیتی ہیں نا‪ .....‬تمہیں اس سے‬
‫تحفے میں ایم بی ڈبلیو یا پھر کوئی مہنگا بنگلہ وغیرہ لینا‬
‫چاہیے۔کیا خیال ہے؟"‬
‫"کیا کروں گی میں ان سب کا؟ یہ سب تو میرے شوہر کے‬
‫پاس ہیں نا تو مجھے کیا ضرورت لینے کی؟‬
‫جو میرے پاس نہیں ہے وہ ہی مانگوں گی نا۔" اس کی‬
‫آواز میں درد سا اترا تھا۔‬
‫"اففف پھر سے وہی چھوٹے لوگوں واال جواب۔"نیسی‬
‫آنکھیں گھما کر رہ گئی۔‬
‫"کیا ضرورت تھی اس کے اتنا نزدیک جانے کی‪......‬اور‬
‫اسے یہ امید دالنے کی کہ وہ تنہا نہیں ہے میں اس کے‬
‫ساتھ ہوں۔" فرحان مایوسی کے عالم میں سوچتے ہوئے‬
‫کھڑکی سے ہٹ گیا تھا۔‬
‫****‬

‫‪26‬‬
‫صبح صبح وہ دونوں کچن میں گھسیں‪ ،‬خوش گپیوں کے‬
‫ساتھ ساتھ ناشتہ بنا رہی تھیں جب شاہزیب گال کھنکھارتے‬
‫ہوئے کچن میں داخل ہوا۔‬
‫"مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے تم دونوں سے۔ذرا‬
‫آئیں باہر۔"‬
‫"تم جاؤ۔" حور نے کائنات سے کہتے ہوئے پلیٹیں ٹوکری‬
‫میں سیٹ کرنے لگی۔‬
‫کائنات شاہزیب کی جانب دیکھنے لگی جو لب بھینچے‬
‫بےحد سرد نگاہوں سے حور کو دیکھ رہا تھا۔‬
‫"تم چلو میں التا ہوں۔" کائنات سے کہہ کر وہ آگے بڑھا۔وہ‬
‫اثبات میں سر ہالتی وہاں سے چلی گئی۔‬
‫"میں آج جاننا چاہوں گا کہ تم مجھ سے اتنی نفرت کیوں‬
‫کرتی ہو؟" وہ اس سے استفسار کر رہا تھا۔‬
‫"نفرت؟‪ "......‬وہ اس کی بات پر حیران ہی تو رہ گئی تھی۔‬
‫ہاں وہ اسے پسند نہیں کرتی تھی اس کی کئی وجوہات تھیں‬
‫مگر نفرت‪.....‬‬

‫‪27‬‬
‫" نہیں نفرت نہیں کرتی مگر تم مجھے اچھے نہیں لگتے۔‬
‫اور وہ ساگر کی شادی کی رات واال حادثہ‪ ".........‬کہتے‬
‫کہتے اس کی زبان ایک دم سے بند ہوئی۔‬
‫شاہزیب نے بےحد چونک کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"کیا مطلب؟ ساگر کی شادی؟‪ ".....‬اسے لگا شاید اس نے‬
‫کائنات پر حملہ کرنے والے کو دیکھ لیا تھا‪....‬یا پھر اسے‬
‫اٹھا کر کمرے میں لے جاتے ہوئے؟‪....‬‬
‫"اتنے بھولے مت بنو۔" وہ تمسخرانہ ہنسی۔‬
‫"مجھے بس تم سے لڑنا اچھا لگتا تھا کہ جہاں سب میرا‬
‫ساتھ دیتے تھے تم مخالفت کرتے تھے‪.....‬اور اس دن کے‬
‫بعد تو مجھے واقع ہی تم زہر لگنے لگے تھے‪......‬میں نے‬
‫بہت کوشش کی کہ کائنات کو تمہارے سحر میں جکڑنے نہ‬
‫دوں مگر میں ناکام رہی‪.....‬خیر وہ پرانی باتیں تھیں‪"....‬‬
‫اس نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھا۔‬
‫"اب میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی۔ چند دنوں بعد میں‬
‫فرانس جا رہی ہوں‪......‬اور پھر شاید کبھی واپس نہ آؤں‬
‫مگر تم یہ مت سمجھنا کہ کائنات تنہا ہے۔" آخر پر اس نے‬

‫‪28‬‬
‫دھمکی دی تھی وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے ادھر ادھر‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"رشتوں میں غلط فہمیوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی‬
‫حور!‪....‬میں چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان میں بھی کوئی‬
‫غلط فہمی نہ رہے اسی لیے جو بھی ہے کلیئر کر لو۔"‬
‫اس نے کہا تھا اور حور بھی پوچھنا چاہتی تھی مگر الج‬
‫آڑے آ رہی تھی۔وہ رخ پھیر گئی‪.....‬اس سے نگاہیں مال کر‬
‫وہ بھال اتنی بڑی بات کیسے پوچھ سکتی تھی‪.....‬خواہ‬
‫جتنی بھی بولڈ سعی مگر کچھ شرم وحیاء کی حدیں ہوتیں‬
‫ہیں‪.....‬جسے عورت کبھی پار نہ کرے تو ہی بہتر ہوتا ہے‬
‫اس کے لیے بھی اور اس سے جڑے باقی کے رشتوں کے‬
‫لیے بھی۔‬
‫"اس دن میں اپنے کمرے سے نکلی تھی‪.....‬سیڑھیوں پر‬
‫پہنچی تو تائی کے خاندان کی ایک لڑکی کی دہائیاں سنائی‬
‫دیں‪.....‬پھر وہ جس حالت میں‪....‬میرے سامنے آئی اور‪......‬‬
‫پیچھے تم بھی‪ ".....‬ہچکچاتے ہوئے وہ بات اُدھوری‬
‫چھوڑ گئی۔‬
‫شاہزیب کی نگاہوں کے سامنے وہ رات گھوم گئی تھی۔‬

‫‪29‬‬
‫جب وہ کافی کی طلب سے کمرے میں سے نکال تھا کہ‬
‫سیڑھیوں کے نیچلے گھپ اندھیرے والی جگہ پر کاشی کو‬
‫ایک لڑکی کے ساتھ زور زبردستی کرتے دیکھ غصے میں‬
‫آ گیا۔‬
‫آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر ایک دو تھپڑ جڑتے ہوئے پرے‬
‫کیا تھا۔‬
‫اور لڑکی کا دوپٹہ زمین پر سے اٹھا کر اس کی جانب‬
‫بڑھایا‪....‬وہ لڑکی اس کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے بھاگ‬
‫کھڑی ہوئی تھی۔‬
‫"یہ سب ہوا تھا حور!‪......‬کیا میں تمہیں اتنا گھٹیا‪ ،‬اتنا گرا‬
‫ہوا انسان لگتا تھا جو تم نے اتنا برا سوچ لیا‪....‬میرے‬
‫متعلق؟" اس نے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔‬
‫حور ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹی تھی۔‬
‫"ا ایم سوری۔" آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ وہ واقع ہی‬
‫شرمندہ تھی۔‬
‫"اٹس اوکے‪ "....‬شاہزیب نے کسی بڑے بوڑھے کی مانند‬
‫اس کا سر تھپکا تو وہ بےاختیار ہی ہنس دی۔‬

‫‪30‬‬
‫"اوکے اب چلو بہن‪.....‬وکیل آیا ہوا ہے وہ بھی کہہ گا کہاں‬
‫غائب ہو گئے سب کے سب۔" وہ کہتے ہوئے پلٹ گیا۔‬
‫"وکیل؟" وہ حیران سی اس کے پیچھے بڑھی۔‬
‫"یہ رائے مینشن والوں کی ساری جائیداد کے کاغذات‬
‫ہیں‪ ...‬جن پر پوری پالننگ کے تحت ان کے سائن لیے جا‬
‫چکے ہیں اب تم دونوں سائن کرو پھر میں جانوں اور میرا‬
‫کام جانے۔"‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے پیپرز ان دونوں کے‬
‫سامنے رکھے تھے۔‬
‫وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔‬
‫"نہیں شاہزیب! ہم صرف اپنا حصہ ہی چاہتے ہیں۔ پراپرٹی‬
‫میں سے ان کا حصہ انہیں دیا جائے گا۔" حور نے کہا تو‬
‫کائنات نے بھی اس کی تائید میں سر ہالیا۔‬
‫"اس میں بچوں کی اور چاچی کی تو غلطی نہیں ہے‪.....‬تایا‬
‫تائی‪ ،‬عاصف ان تینوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے مگر اس‬
‫طرح نہیں‪.....‬اس طرح تو ہم بھی ان جیسے ہو جائیں گے‬
‫نا پھر‪....‬ہمیں ان کی صف سے نکل کر انہیں سزا دینی‬
‫ہے۔" حور کی بات پر وہ چند پل کچھ سوچتا رہا۔‬

‫‪31‬‬
‫"اوکے پھر ایسا کرو سب کو برابر وراثت دو اور ساتھ میں‬
‫ایک وصیت بناؤ۔" شاہزیب نے سنجیدگی سے کہا تھا۔‬
‫"کیسی وصیت؟" حور نے استفسار کیا۔‬
‫"رکو بتاتا ہوں۔وکیل صاحب! وصیت کے لیے پیپرز‬
‫نکالیں۔" اس نے اپنی جیب میں سے پین برآمد کرتے‬
‫ہوئے حور کی جانب بڑھایا۔‬
‫"لکھو حور!" اس نے گال کھنکھارتے ہوئے کہنا شروع‬
‫کیا۔‬
‫"یہ لکھو کہ اگر رائے مینشن میں سے کسی بھی شخص‬
‫نے جائداد کے لیے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی‬
‫کوشش کی تو اس شخص کے حصے کی وراثت یتیم خانوں‬
‫میں تقسیم کر دی جائے گی۔" وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔‬
‫حور نے اس کی بات مانتے ہوئے‬
‫لکھنا شروع کیا تھا۔‬
‫ساری کاروائی کے بعد شاہزیب وکیل کو جب گاڑی تک‬
‫چھوڑنے گیا تو اس کے فون پر دالور خان کی کال موصول‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫"اسالم علیکم!" اس نے ہاش بشاش لہجے میں سالم کیا۔‬
‫‪32‬‬
‫"و علیکم السالم! تمہیں کچھ واٹس ایپ کر رہا ہوں امید‬
‫کرتا ہوں تمہارے کام آئے گا۔" دالور نے بجھے بجھے‬
‫لہجے میں کہا۔‬
‫"اوکے۔اور سناؤ کیسے ہو تم؟" وہ ہلکے پھلکے انداز‬
‫میں بوال‪....‬مگر دالور خان سنجیدہ تھا‪.....‬‬
‫"شاہزیب! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم نے حور کے‬
‫پیچھے رائے مینشن والوں کو کیوں لگایا؟" اس کے‬
‫استفسار پر شاہزیب دھیرے سے مسکرا دیا۔‬
‫"اس کی حفاظت کے لیے تم تھے نا اسی لیے۔" اس نے‬
‫کمال اطمینان بھرے انداز میں کہا تھا۔‬
‫"تمہیں کیسے پتہ؟" دالور خان چونکا۔‬
‫"ڈی سی پی شاہزیب خانزادہ ہیں ہم‪ ".....‬وہ اترانے والے‬
‫انداز میں بوال۔‬
‫"سیدھی طرح بکو؟ اور تم نے اس سب کے متعلق شازار‬
‫کو تو نہیں بنایا؟" دالور خان تیزی سے بوال۔‬
‫"نہیں کچھ نہیں بتایا اسے۔"‬
‫"دراصل جب ہم نکاح کے بعد رائے مینشن سے یہاں آ‬
‫گئے تو میں حور کو ڈھونڈ رہا تھا‪.....‬اسے کا پرانا نمبر بند‬
‫‪33‬‬
‫تھا اور جس نمبر سے اس نے مجھے واٹس ایپ کیا وہ‬
‫نمبر مجھے یاد نہیں تھا‪.....‬اگر میرا فون رائے مینشن میں‬
‫نہ گرتا تو میں اس سیل میں سے حور کا نیا نمبر لے سکتا‬
‫تھا مگر مجھے وہ سیل فون اور سیم بند کروانا پڑا۔‬
‫مجھے اس کے کاغذاتی شوہر پر ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ‬
‫وہ کیسا شخص ہو گا‪.....‬میں اس شخص سے ملنا چاہتی‬
‫اتھا‪....‬اور حور کی سکیورٹی کا بھی ڈر تھا‪ .....‬سوچا‬
‫یونیورسٹی مالقات ہو جائے گی مگر وہ ان دنوں‬
‫یونیورسٹی نہیں جا رہی تھی۔پھر ایک دن میرا کیس کے‬
‫سلسلے میں اسالم آباد چکر لگا تھا اور تم دونوں کو ساتھ‬
‫دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس نے تم سے ہی پیپر میرج‬
‫کی ہے۔اسی کیے میں مطمیئن ہو گیا تھا۔" اس کی بت پر‬
‫دالور خان کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک حیرت سے پھیل‬
‫گئیں‪.....‬یہ تو چار قدم اس سے آگے نکل گیا تھا۔‬
‫"اور میں نے اسے وارث بنایا‪ .....‬تاکہ ماموں لوگوں کا‬
‫دھیان مجھ پر نہ رہے اور میں اپنا کام آسانی سے کر‬
‫سکوں۔" شاہزیب نے ساری بات بتاتے ہوئے اس کی سننی‬
‫چاہی جو بلکل خاموش ہو گیا تھا۔‬

‫‪34‬‬
‫"ہوں۔ٹھیک ہے‪.....‬اچھا میں ایک دو دنوں تک ڈیورس کے‬
‫لیے آ رہا ہوں‪.....‬مگر حور کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم کزنز‬
‫ہیں۔" اس نے کہا تو شاہزیب کی پیشانی پر حیرت کے بل‬
‫نمایاں ہوئے۔‬
‫"کیا مطلب؟ تم کرنا کیا چاہتے ہو؟" اس نے اچھنبے سے‬
‫استفسار کیا۔‬
‫"وہ سب بعد میں بتاؤں گا ابھی کے لیے بس اتنا ہی‬
‫کرنا۔"‬
‫"دیکھو دالور!‪....‬تم نے پہلے بھی اتنی بڑی غلطی کی ہے‪،‬‬
‫اس کی والدہ کی وفات کے متعلق جانتے ہوئے بھی اسے‬
‫ممانی کا آخری دیدار نہیں کرنے دیا‪.....‬‬
‫خیر مزید اسٹوپڈ بن کر غلطیاں مت کرنا‪.....‬تم خود‬
‫سمجھدار ہو اچھے برے کی پہچان ہے تمہیں۔حیرانی تو‬
‫مجھے اس بات کی ہے کہ رشتوں کے ساتھ فیئر بندہ اس‬
‫طرح‪.....‬کسی کو کیسے تکلیف پہنچا سکتا ہے؟ آخر تم نے‬
‫ایسا کیوں کیا؟" شاہزیب کے سوال پر سامنے سے رابطہ‬
‫کٹ چکا تھا۔‬

‫‪35‬‬
‫وہ خالی خالی نگاہوں سے فون کی روشن کر بجھ چکی‬
‫سکرین کو دیکھتا رہا۔پھر ٹھنڈی آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫اگلے ہی دن شاہزیب ریڈی ہو کر جیسے ہی ٹی وی الونج‬
‫میں داخل ہوا تھا۔‬
‫وہ رائے مینشن جا رہا تھا‪....‬‬
‫"تم اکیلے نہیں جاؤ گے‪......‬میں تمہارے ساتھ جاؤں گی۔"‬
‫حور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے تیزی سے گوی‬
‫"تمہارا وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے حور!‪.....‬وہ لوگ اس‬
‫وقت پاگل کتے جیسے ہوں گے‪.....‬جو بنا سوچے سمجھے‬
‫کاٹنے کو دوڑیں گے۔" اس نے سمجھداری سے اسے‬
‫سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ حور ہی کیا جو مان‬
‫جائے‪.....‬پر سامنے واال بھی شاہزیب تھا۔‬
‫"میں نے کہہ دیا نا کہ تم ہرگز نہیں جاؤ گی میرے ساتھ۔ تو‬
‫قدر غصے سے بوال تھا۔‬
‫واویال کیسا۔" اس مرتبہ وہ ِ‬
‫حور لب بھینچ کر اسے گھورنے لگی۔‬
‫"دیکھو حور! تم یہاں کائنات کے پاس ہی رکو کیونکہ مجھ‬
‫سے زیادہ اسے تمہاری ضرورت ہے۔حاالنکہ میں نے‬
‫سکیورٹی بڑھا دی ہے تم دونوں کی حفاظت کی خاطر‬
‫‪36‬‬
‫مگر‪.....‬پھر بھی جب تک وہ لوگ گرفتار نہیں ہو جاتے تب‬
‫تک تو تم دونوں کی حفاظت بےحد ضروری ہے۔" شاہزیب‬
‫کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں تھا اسے روکنے کا تبھی‬
‫کائنات کو لے کر ایموشنل بلیک میل کر ڈاال۔‬
‫وہ گہری سانس بھر کر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫"شکل گم کرو اب۔" حور منہ بسورے بولی تو وہ دونوں‬
‫مسکرا دیئے۔‬
‫شاہزیب جیسے ہی دروازے کی سمت بڑھا کائنات بھاگ کر‬
‫اس تک پہنچی تھی۔‬
‫وہ بھی اس کے قدموں کی آہٹ سن کر آنکھوں پر گالسز‬
‫چڑھاتے ہوئے مسکرایا اور کمرے سے نکلتے ہی دائیں‬
‫جانب ہو گیا۔‬
‫وہ جیسے ہی کمرے میں سے نکلی شاہزیب نے اس کا ہاتھ‬
‫تھام کر اپنی جانب کھینچ لیا تھا‪ ،‬حور نے آنکھیں سکوڑے‬
‫یہ منظر دیکھا تھا‪ .....‬نگاہوں کے پردے پر غیر متوقع‬
‫صورتحال میں دالور خان کی برتھڈے والی رات گھوم گئی‬
‫تھی‪....‬جب وہ اس کے سینے میں چھپ کر کتنی ہی دیر‬
‫آنسو بہاتی رہی تھی‪.....‬اور وہ اسے اپنے احصار میں لیے‬

‫‪37‬‬
‫دیوار سے ٹیک لگائے کتنے ہی پل ساکت و جامد بیٹھا رہا‬
‫تھا۔اس کی محبت جھلکاتی آنکھوں کا عکس دل کے‬
‫شیشے میں نمایاں نظر آ رہا تھا مگر وہ یہ سب جھٹالنا‬
‫چاہتی تھی‪....‬ایمان نہیں النا چاہتی تھی۔‬
‫دل میں ایک درد سا اٹھا تھا‪ ،‬چہرہ سفید پڑتا گیا‪ ،‬سختی‬
‫سے لب بھینچے وہ سر صوفے کی پشت پر گرا کے نم‬
‫ہوئی پلکوں کی جھالر رخساروں پر گرا چکی تھی۔‬
‫"مجھے تم سے محبت ہے حور! اس دن سے جس دن پہلی‬
‫مرتبہ تمہیں دیکھا‪......‬میں سچ کہہ رہا ہوں باخدا اس دل‬
‫میں تم سے پہلے کوئی نہیں تھا‪ ،‬اس دل کے در تم نے وا‬
‫کیے ہیں۔"‬
‫سماعتوں سے دالور خان کی گھمبیر آواز ٹکرائی تھی۔‬
‫"میرے دل میں محض تم ہو حور! نہ کوئی پہلے تھی‪ ،‬نہ‬
‫کوئی اب ہو گی۔"‬
‫"تم تنہا نہیں ہو حور! میں تمہارے ساتھ ہوں‪......‬ہر مرتبہ‬
‫تمہیں اپنے عمل سے بتاتا رہوں گا کہ تمہارا دوست ہے‬
‫جو تمہاری بہت کیئر کرتا ہے‪.....‬تم اس سے اپنی ہر بات‬
‫شیئر کر سکتی ہو‪......‬چلو اب یہ گنگا جمنا مت بہاؤ۔"‬

‫‪38‬‬
‫"تمہارے شوہر کی دوسری شادی ہے اور تم خوش ہو رہی‬
‫ہو‪"....‬‬
‫ایک بعد ایک کر کے کئی یادیں بند آنکھوں کے پردے پر‬
‫تیزی سے کسی فلم کی مانند چل رہی تھیں۔‬
‫اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔‬
‫"تم تو اچھے دوست نہ بن سکے محبوب کیا خاک بنو‬
‫گے‪....‬اور میں چلی تھی تمہیں شوہر بنانے۔"‬
‫"چیٹر‪......‬دھوکے باز‪......‬بےوفا‪ "....‬مزید بھی بہت سے‬
‫لفظ تھے اس کے پاس دالور کو کوسنے کے لیے مگر اس‬
‫وقت وہ بلکل بھی اسے سوچنا نہیں چاہا رہی تھی‪....‬مگر‬
‫اسی چاہا میں وہ سے ہی سوچے جا رہی تھی۔‬
‫ہر ایک بات میں اس کی بات یاد آ رہی تھی۔‬
‫ہر ایک خیال میں اس کا خیال تھا۔‬
‫وہ سلگ کر اٹھی اور پیر پٹختی سیڑھیاں چڑھ گئی۔‬
‫زری کو پرائیویٹ روم میں شیفٹ کر دیا گیا تھا‪.....‬وہ‬
‫ہسپتال میں ایک پل بھی مزید نہیں رہنا چاہتی تھی مگر‬
‫ابھی اسے ڈسچارج نہیں مال تھا سو مجبوراً اسے یہاں رکنا‬
‫پڑ رہا تھا۔‬
‫‪39‬‬
‫شکیل خان کی خاموشی اور اس کی نگاہوں میں موجود‬
‫شرمندگی زری کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔‬
‫اوپر سے اس کا اتنا خیال رکھ رہا تھا۔‬
‫زری کو تو اس کا یہ شفقت بھرا روپ دیکھ کر غش پڑ‬
‫جاتے تھے۔‬
‫"شکیل خان!‪ "....‬اس نے بہت مدھم سی آواز میں اسے‬
‫پکارا تھا۔‬
‫وہ جو اس کے چہرے کے زخموں پر مرہم لگا رہا تھا سر‬
‫اٹھا کر اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔‬
‫"تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ اگر معافی کے لیے کر رہے‬
‫ہو تو وہ تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔" وہ بہت غور سے‬
‫جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫شکیل خان نے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔‬
‫"مجھے معافی نہیں چاہیے‪.....‬تم ٹھیک ہو جاؤ‪ ،‬پھر جو‬
‫فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہو گا۔" اس کی بات پر زری‬
‫زور سے ہنسی تھی۔‬
‫"لگتا ہے چوٹ میرے سر پر نہیں بلکہ تمہارے سر پر‬
‫لگی ہے جس نے تمہارے دماغ کو کافی متاثر کیا ہے‪.....‬‬
‫‪40‬‬
‫کہیں تم اپنی یاداشت تو نہیں کھو بیٹھے؟" وہ مصنوعی‬
‫فکرمندی اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے بول رہی‬
‫تھی اور اس کے لہجے سے جھلکتا طنز وہ خوب سمجھ‬
‫رہا تھا۔‬
‫"شکیل خان! یہ میں ہوں۔ زرمینہ خان‪......‬جسے تم دردناک‬
‫موت دینا چاہتے ہو۔ یاد کرو ہماری شادی ہوئی تھی‪ ،‬اور تم‬
‫مجھے گلگت بلتستان کے ایک اونچے پہاڑ پر لے گئے‬
‫تھے۔تم نے مجھے‪.....‬مجھے ہر طرح کی چوٹ‪".....‬‬
‫بولتے بولتے اس کی آواز آنسوؤں سے بھر گئی تھی۔‬
‫وہ خاموش ہوئی پھر تیزی سے آنسو رگڑے اور اٹھ کر‬
‫بیٹھ گئی۔‬
‫"دیکھو میری طرف شکیل خان! میں ہی وہ بھگوڑی ہوں‬
‫میں ہی وہ بے غیرت ہوں جو اپنا سب کچھ قدموں میں‬
‫روندے بےسود ایک ساحر کے پیچھے بھاگتی رہی۔مجھے‬
‫سزا دو شکیل خان! مجھے میری محبت کی سزا دو۔" وہ‬
‫کہتے کہتے ایک دم سے چنخنے لگی تھی۔‬
‫وہ جو کبھی ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی تھی اس وقت اس‬
‫کا رنگ زری جیسا تھا‪ ،‬بال شانوں پہ بکھرے تھے اور سر‬
‫پر بندھی پٹی چہرے پر آئے جابجا زخم اور نیل‪.....‬شکیل‬
‫‪41‬‬
‫خان گھبرا کر اٹھا تھا اس کی جانب بڑھنے کی بجائے‬
‫کانپتے وجود کے ساتھ دو قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫ت غیر سے وحشت ہو رہی‬
‫اس وقت اسے زری کی اس حال ِ‬
‫تھی‪.....‬وہ واپس پلٹا اور تیز قدموں سے کمرے میں سے‬
‫نکل گیا۔‬
‫زری ہاتھوں میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔‬
‫"اپنا خیال رکھیے گا۔" کائنات اس کے سینے پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے فاصلہ بڑھا کر پیچھے ہٹی تھی۔‬
‫وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے اسے اپنی گرفت سے آزاد کر‬
‫چکا تھا۔‬
‫"اب تو خیال رکھنا ہی پڑے گا۔" اپنی پیشانی پر اس کے‬
‫ہاتھ کے سلگتے لمس کو چھوتے ہوئے وہ شرارت سے‬
‫گویا ہوا تو کائنات جھنپ کر سر جھکا گئی۔‬
‫"تم میری جانب سے بےفکر رہنا‪......‬اپنا خیال رکھنا اور‬
‫گھر سے باہر بلکل بھی نہیں نکلنا۔اگر کوئی بھی مسئلہ ہو‬
‫فوراً مجھے کال کرنا اوکے۔" اس کی رخسار تھپکتے‬
‫ہوئے نرم اور مدھم آواز میں بوال۔‬

‫‪42‬‬
‫"اوکے۔" وہ اس کے کوٹ کا کالر درست کرتے ہوئے‬
‫اثبات میں سر ہالنے لگی۔‬
‫"تو مجھے اجازت ہے؟" اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام‬
‫کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے وہ اجازت مانگ رہا تھا۔‬
‫کائنات نے اثبات میں سر ہالتے ہوئے ایک نگاہ اس پر‬
‫ڈالی اور رخ پھیر لیا۔‬
‫وہ اس کے بہت قریب سے گزرا تھا اور تیزی سے چلتا بنا‬
‫رکے اندرونی دروازے کو پار کر گیا‪....‬کہ رکتا تو کائنات‬
‫کی نم آنکھوں میں جکڑا جاتا۔‬
‫کائنات نے نم آنکھوں سے پلٹ کر اس کی چوڑی پشت کو‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫"ّٰللا میرے شوہر کی حفاظت کرنا۔" اس نے ہونٹوں پر ہاتھ‬
‫ہ‬
‫رکھتے ہوئے دعا کی تھی پھر پلٹ کر الونج میں جا بیٹھی۔‬
‫چند منٹوں بعد حور جب نیچے آئی تو اسے یوں ساکت‬
‫بیٹھی دیکھ پریشان ہو گئی تھی۔‬
‫"کائنات! تم ٹھیک ہو؟" وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے‬
‫بولی۔‬

‫‪43‬‬
‫"ہوں ٹھیک ہوں۔" چونکتے ہوئے اس نے اثبات میں سر‬
‫ہالیا۔‬
‫"نہیں‪ .....‬ٹھیک نہیں لگ رہی‪ ،‬کیا ہوا؟" اس نے فکرمندی‬
‫سے پوچھا تھا۔‬
‫وہ گردن گھما کر حور کی جانب دیکھنے لگی‪....‬اس فکر‬
‫بہت اچھی لگ رہی تھی۔‬
‫"فوجی ہو یا پولیس آفیسر‪.....‬ان کی بیویوں کی جان ہمیشہ‬
‫ہی ڈر کی سولی پر لٹکی رہتی ہے کہ نجانے کب کیا ہو‬
‫جائے۔" اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹتے ہوئے نم آواز‬
‫میں بولی تھی‪......‬حور نے دھیرے سے اس کے بالوں میں‬
‫انگلیاں چالتے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کا شانا سہالیا۔‬
‫"اور شاہزیب جیسے ایمان دار آفیسرز تو پھر ہر وقت موت‬
‫سے کھیلتے ہیں‪......‬ان پر پیچھلے مہینوں میں دو تین‬
‫مرتبہ جان لیوا حملے ہو چکے ہیں اب تو مجھے ڈر ہی لگا‬
‫رہتا ہے‪ "...‬اس کے لہجے میں جو محبت تھی شاہزیب کے‬
‫لیے اس پر حور مسکرا دی۔‬

‫‪44‬‬
‫"تم اس کی فکر کر رہی ہو اچھی بات ہے مگر رونے سے‬
‫کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں نا‪.....‬تو ایسا کرو وضو کر کے‬
‫نوافل ادا کرو دعا مانگو۔" وہ نرمی سے بولی۔‬
‫"آج مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے تمہاری جگہ ماما کی‬
‫گود میں سر رکھا ہو۔" وہ اس کی جانب کروٹ بدلتے ہوئے‬
‫اس کے گرد بازو حائل کر گئی۔‬
‫ماں کے ذکر پر لمحوں میں حور کی آنکھیں جھلکی تھیں۔‬
‫"پہلے میں تمہیں شاہزیب سے دور رہنے کو اس لیے‬
‫کہتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا وہ اچھا انسان نہیں‬
‫ہے‪.....‬مگر تم کائنات! تم انسانوں کو پڑھنے کا ہنر رکھتی‬
‫ہو۔تمہارے فیصلے پر مجھے بہت خوشی ہے۔" وہ اس کے‬
‫بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے مطمئن انداز میں بولی تو‬
‫کائنات اس کا ہاتھ تھام کر گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے‬
‫آنکھیں موند گئی۔‬
‫"گھر میں سب کیسے ہیں؟ طیبہ کی ماما کا دل لگ گیا‬
‫وہاں؟"‬
‫"سب ٹھیک ٹھاک ہیں‪ ،‬الحمدہلل‪.......‬ماں بھی ٹھیک ہیں۔‬
‫کبھی کبھی وہ کہتی ہیں کہ انہیں الہور جانا ہے مگر میں‬

‫‪45‬‬
‫ہمیشہ روک لیتا ہوں۔کہ وہ تنہا نہیں رہ سکیں گیں۔" شازار‬
‫نے بتایا تھا۔‬
‫میرب نے مسکراتے ہوئے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور سر‬
‫اثبات میں ہال دیا تھا۔‬
‫"حویلی میں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے میرب!‪....‬‬
‫وہاں دن ہوتا ہے اور پھر رات ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا‬
‫اور یہاں دیکھو جب سے آیا ہوں‪.....‬دن سست روی سے‬
‫گزر رہے ہیں۔" شازار نے کہتے ہوئے ڈوبتے سورج پر‬
‫نگاہیں ٹکا دیں۔‬
‫"ٹھیک کہہ رہے ہو شازار! الہور میں وقت بہت دھیمی‬
‫رفتار سے گزرتا ہے۔"‬
‫وہ چند پل خاموشی سے اس کے پہلوؤں میں کھڑی رہی‬
‫پھر وہاں سے ہٹ گئی کہ دل اس کی نگاہوں کو بدستور ہی‬
‫شازار کی جانب متوجہ کر رہا تھا۔‬
‫"پہلی محبت کو بھالنا آسان تھوڑی نہ ہے۔" ٹھنڈی آہ‬
‫بھرتے ہوئے اس نے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی۔‬
‫"ّٰللا میں نکاح شفاف دل سے کرنا چاہتی ہوں کچھ ایسا کر‬
‫ہ‬
‫دے کہ شازار میرے سامنے ہو اور میں اسے محض ایک‬

‫‪46‬‬
‫دوست کی نگاہ سے دیکھوں۔" وہ لب کچلتے ہوئے سوچ‬
‫رہی تھی۔‬
‫شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔‬
‫کمبائنڈ فنکشن تھے تو سب میرب لوگوں کے فارم ہاؤس پر‬
‫اکٹھے تھے۔‬
‫ماسوائے دولہا دلہن کے‪....‬دونوں فیملیاں بہت خوش‬
‫تھیں۔‬
‫یوسف ٹیرس پر کھڑا گارڈن میں ہو رہی مایوں کی‬
‫ڈیکوریشن کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جب‬
‫شازار اس کے قریب آ رکا۔‬
‫"مجھے لگتا ہے تمہیں میرب کو ایک رومانٹک سے ڈنر‬
‫پر لے جانا چاہیے اور اپنے دل کی بات اس کے سامنے‬
‫بیاں کرنی چاہیے۔" وہ یوسف کی جانب دیکھتے ہوئے‬
‫گویا ہوا۔‬
‫"میں نے ہی پہلے بھی شادی کے لیے پرپوز کیا تھا۔"‬
‫یوسف نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔‬
‫"تو پھر اب محبت کا اظہار بھی تو ضروری ہے‪.....‬تم یہاں‬
‫پریشان ہو کہ وہ وہاں پریشان ہے‪ ،‬درمیان میں میں خواہ‬

‫‪47‬‬
‫مخواہ پریشان ہوا پڑا ہوں۔" وہ جس مزاحیہ خیز انداز میں‬
‫بوال تھا یوسف کو ہنسی آ گئی۔‬
‫"ہوں‪ ،‬چلو پھر آج محترمہ میرب کو کینڈل_الئٹ ڈنر‬
‫کرواتے ہیں۔کچھ رومانٹک ماحول بناتے ہیں۔ ایک عدد تین‬
‫رنگ کے ساتھ مکمل انداز میں پرپوز کرتے ہیں۔" یوسف‬
‫نے کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا شازار بھی اثبات‬
‫میں سر ہال کر مسکرا دیا۔‬
‫وہ دل سے چاہا رہا تھا کہ ان دونوں کے درمیان یہ نکاح‬
‫جیسا پاک بندھن کسی بھی غلط فہمی یا پھر سمجھوتے کے‬
‫تحت قائم نہ ہو دونوں ایک دوسرے کو سچے دل سے قبول‬
‫کریں۔‬
‫اور اس کی ترکیب کام کر گئی تھی۔‬
‫یوسف کی محبتوں کے اظہار نے میرب پر بہت گہرا اثر کیا‬
‫تھا‪......‬وہ ہنس رہی تھی‪ ،‬مسکرا رہی تھی اور دل سے‬
‫شکر ادا کر رہی تھی کہ اس کا ہمسفر اس سے محبت کرتا‬
‫ہے۔‬
‫یوسف نے یقین دالیا تھا کہ وہ ہر حال میں اس کے ساتھ‬
‫رہے گا۔‬

‫‪48‬‬
‫اور اب اسے پل کا انتظار تھا جب دل یوسف کی جانب‬
‫جھکنا تھا‪ .....‬جس کا دل میرب کی جانب یونیورسٹی کے‬
‫دنوں میں ہی جھک گیا تھا۔‬
‫****‬
‫اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل‬
‫میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے‬

‫رائے مینشن کے باہر دالور خان کے آدمی سیاہ یونیفارم‬


‫میں ملبوس ہاتھ میں گنز تھامے کھڑے تھے۔‬
‫دو پولیس کی گاڑیاں بھی موجود تھیں‪...‬وہ دونوں اس وقت‬
‫رائے مینشن میں موجود تھے۔‬
‫"تم دونوں بہت غلط کر رہے ہو۔" بڑے ماموں پھنکارتے‬
‫ہوئے بولے۔‬
‫انہیں جب معلوم ہوا کہ ان کے مالزمین دالور خان کے آدمی‬
‫تھے جو کہ ان کے خالف ثبوت کی ایک لسٹ جمع کر‬
‫چکے ہیں‪....‬وہ غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔‬

‫‪49‬‬
‫"جو کرنا تھا وہ تو ہم کر چکے ہیں‪ ،‬باقی اب آپ سب لوگ‬
‫ذرا سسرال چلیں خاطر داری وہ کر دیں گے۔" دالور خان‬
‫نے نہایت تحمل سے کہا۔‬
‫شاہزیب گالسز کے پیچھے سے ہی اس کی جانب دیکھتے‬
‫ہوئے اثبات میں سر ہال کر مسکرا دیا تھا۔‬
‫"چلو ثبوت تو ہوں گے سو ہوں گے‪.....‬وہ تو فیک بھی‬
‫بنائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے آریسٹ وارنٹ کہاں ہیں؟ ایف‬
‫آئی آر کہاں ہے۔" عاصف نے تمسخرانہ انداز میں ہنستے‬
‫ہوئے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫وہ دونوں اس کی ناسمجھی پر مسکرا دیئے۔‬
‫"اتنے مہینوں سے خاموش اس لیے نہیں تھے کہ یہاں‬
‫ٹافیاں بانٹنے آئیں گے‪ ،‬تم لوگ لو گے اور ہمیں بھگا دو‬
‫گے‪....‬ہم چپ چاپ چلے جائیں گے۔" شاہزیب نے کوٹ کی‬
‫اندرونی جیب میں سے پیپرز نکال کر ان کے سامنے کیے۔‬
‫"یہ رہا آریسٹ وارنٹ اور ایف آئی آر‪......‬ہو گئی تسلی؟"‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔‬
‫عاصف تلمال کر رہ گیا پھر کچھ سوچ کر پاؤں جلی بلی کی‬
‫مانند دالور خان کی جانب بڑھا۔‬

‫‪50‬‬
‫"تمہیں پتہ ہے کہ وہ لڑکی‪ ....‬حوریہ رائے‪.....‬کتنے دن‬
‫غائب رہی ہے؟ اور جن کے درمیان رہی ہے وہ کوئی‬
‫شریف لوگ نہیں تھے‪ .....‬نجانے ان لوگوں نے کیا کیا نہیں‬
‫کیا ہو گا‪.....‬؟ ایسی ناپاک لڑکی تو تمہارے گھر میں قدم‬
‫رکھنے کے قابل‪ ".....‬اس سے پہلے کہ عاصف مزید کچھ‬
‫کہتا دالور خان کا ہاتھ ہوا میں گھوم کر اس کے منہ پر آن‬
‫پڑا تھا‪....‬دوسرے ہی لمحے عاصف لڑکھڑا کر زمین بوس‬
‫ہو چکا تھا۔‬
‫"میری بیوی کے متعلق مزید کچھ بھی کہا تو تمہیں یہاں‬
‫ہی زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا سمجھے‪ "......‬وہ جھک کر‬
‫اسے گریبان سے تھامے اپنی جانب کھینچتے ہوئے چنخ‬
‫کر بوال تھا۔‬
‫اس وقت صحن میں چند افراد تھے۔‬
‫جب کہ باقی کے رائے مینشن والے ٹیرس پر کھڑے یہ‬
‫منظر دیکھ رہے تھے‪....‬اس کے غصے سے سرخ ہوئی‬
‫آنکھوں کو دیکھ کر سب سہم گئے تھے۔‬
‫چھوٹے واال ماموں بھی بےحد حیران تھا‪.....‬اسے تو یقین‬
‫ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ان کا بڑا بھائی اللچ کی حد پار کر‬
‫جائے گا۔‬
‫‪51‬‬
‫"ان چھٹانک بھر کی لڑکیوں کو تو ہم چھوڑیں گے نہیں۔"‬
‫ماموں دانتوں پر دانت جما کر حقارت سے بڑنڑائے۔‬
‫"ہاہاہا‪.....‬بڑے ماموں! آپ کو ابھی تک یہ ہی نہیں پتہ چال‬
‫کہ آخر آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے؟" شاہزیب ہنستے ہوئے‬
‫مزاحیہ خیز انداز میں بوال۔‬
‫" ان چھٹانک بھر کی لڑکیوں کے سامنے کھڑے یہ دو‬
‫ہٹے کٹے نوجوانوں نے تم لوگوں کو پوری طرح سے تباہ‬
‫و برباد کر دیا ہے۔" اس نے پہلے اپنی اور دالور خان کی‬
‫جانب اشارہ کرتے ہوئے رازداری سے بتالیا تھا۔‬
‫تائی کا سر چکرا سا گیا‪.....‬وہ سر تھام کر ہائے ہائے‬
‫کرتیں زمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔‬
‫رائے میشن والوں کے ہونٹوں پر تالے لگ چکے‬
‫تھے‪.....‬سب اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔‬
‫"آپ پر اور آپ کے اس بیٹے اور بیوی پر پتہ ہے کتنے‬
‫کیس فائل ہیں‪......‬؟" دالور خان نے آنکھوں پر سے گالسز‬
‫ہٹاتے ہوئے ان پر ایک نگاہ ڈالی۔‬
‫"حور کا ہسبینڈ کتنا ہی ہینڈسم ہے نا؟" صائمہ نے‬
‫ستائشی نگاہوں سے دالور خان کا جائزہ لیا تھا۔‬

‫‪52‬‬
‫وہ اپنے مضبوط کسرتی وجود کے ساتھ لمبا چوڑا قد‬
‫لیے‪.....‬خاکی پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا‪ ،‬نیلی آنکھیں‪....‬‬
‫سٹائل کٹ داڑھی اور عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے کشیدہ‬
‫پیشانی پر بل لیے وہ واقع ہی بےحد پرکشش لگ رہا تھا۔‬
‫"ہائے دونوں بہنیں اتنے سوہنے پٹھانوں کو لے‬
‫اڑیں‪....‬کتنا پسند تھا مجھے شاہزیب وہ بھی ہاتھ سے نکل‬
‫گیا‪ ".....‬صائمہ نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔‬
‫"وہاں باپ گرفتار ہو رہا ہے اور تجھے ان لڑکوں کی پڑی‬
‫ہے۔" چھوٹی بہن نے سرگوشی میں اسے ڈانٹ کر کہا تھا۔‬
‫اس نے تیکھی نگاہوں سے اسے گھورا اور منہ بسور کر‬
‫پیر پٹختی پلٹ کر کمرے میں چلی گئی۔‬
‫"اب سنیں جن جرائم میں آپ لوگ بہت لمبا اندر جانے‬
‫والے ہو‪.....‬گڈنیپ‪ ،‬تشدد‪ ،‬دھوکا دہی اور‪.....‬مسز عمران‬
‫رائے کے قتل کا۔" آخری بات پر رائے مینشن کی دیواریں‬
‫ہل گئی تھیں‪،‬وہاں کھڑے افراد کو لگا کوئی زلزلہ آیا ہے۔‬
‫"بھائی صاحب‪ !.....‬آ آپ‪ .....‬آپ اتنے کیسے گر گئے؟"‬
‫چاچا کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی‬
‫تھی۔‬

‫‪53‬‬
‫"وہ نہیں مرتی تو دونوں لڑکیاں کیسے تنہا ہوتیں؟ ہم نے‬
‫تو سوچا تھا حور کو مروا دیں گے اور کائنات کا نکاح‬
‫عاصف سے کروا دیں گے ساری جائیداد ہماری ہو جائے‬
‫گی مگر ان دونوں حرام زادوں نے ہمارے سارے کیے‬
‫کرائے پر پانی پھیر دیا۔" تایا جی نے پھنکارتے ہوئے‬
‫کہا‪ ....‬عاصف نے‪.....‬دالور خان کی گن جو اس نے آتے ہی‬
‫میز پر ڈال دی تھی اٹھا کر ان دونوں پر تان دی۔‬
‫بچے ایک دم سے چنخنے لگے تھے۔‬
‫"اندر جاؤ تم سب۔" چاچا نے بلند آواز میں کہا تو سب‬
‫عورتیں وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔‬
‫باقی مردوں کے تو قدم اور سر دونوں ہی شرم سے جھکے‬
‫ہوئے تھے۔‬
‫"اب تم دونوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔" وہ شاطرانہ انداز‬
‫میں ہنسا تھا۔‬
‫"اچھا ایسا ہے کیا؟" شاہزیب نے پھرتی سے اپنے بیلٹ‬
‫میں سے ریوالور نکاال اور دو قدم کا فاصلہ ختم کرتے‬
‫ہوئے عاصف کی کنپٹی پر نشانہ تان دیا۔‬

‫‪54‬‬
‫"تم گولی چالؤ گے تو جرم کہالئے گا اور اگر میں نے‬
‫گولی چالئی تو انکاؤنٹر کہالئے گا۔" شاہزیب نے ریوالور‬
‫کا گھوڑا چڑھا لیا تھا۔‬
‫"ن نہیں شاہزیب!‪....‬نمک حرام کہیں کے مت مارنا میرے‬
‫بیٹے کو۔" تائی نے بیٹھے بیٹھے ہی روتے ہوئے کہا۔‬
‫"میں نمک حرام ہرگز نہیں ہوں‪ ،‬میں نے اپنے نانا کا نمک‬
‫کھایا ہے جنہوں نے ساری جائیداد اپنے الئق بیٹے کے نام‬
‫کی کیونکہ وہ تم لوگوں کو جانتے تھے کہ کتنے قابل ہو تم‬
‫لوگ‪...‬میں نے عمران ماموں کا نمک کھایا ہے‪ .....‬جنہوں‬
‫نے تم لوگوں کو تم سب کا حصہ دیا مگر پھر بھی تم لوگوں‬
‫کی نگاہ ان کی جائیداد پر ہمیشہ رہی۔اور آج ہی تو مجھے‬
‫موقع مال ہے نمک حاللی کا۔" شاہزیب تح ّمل سے بول رہا‬
‫تھا۔‬
‫"تم لوگوں نے ایک غلطی کر دی‪......‬ہمیں ہلکے میں لے‬
‫لیا۔" دالور خان نے اپنا ریوالور جھپٹ کر ماموں پر تان‬
‫چکا تھا۔‬
‫وہ دونوں باپ بیٹا سہم چکے تھے۔‬
‫"تم لوگوں کی طبیعت فریش تو تھانے جا کر ہو گی۔‬

‫‪55‬‬
‫انسپیکٹر! آریسٹ کریں۔" شاہزیب خانزادہ نے آرڈر دیا تھا۔‬
‫لیڈی کانسٹیبل‪ ،‬انسپیکٹر اور میل پولیس آفیسرز حرکت میں‬
‫آئے تھے۔‬
‫اس نے اپنا ریوالور بیلٹ میں لٹکا لیا اور دالور خان کی‬
‫جانب متوجہ ہوا۔‬
‫رول ہے کہ‪....‬ہمیں کبھی بھی‬ ‫"جنگ کا ایک بہت اہم ُ‬
‫دشمنوں کے سامنے اپنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے۔" اس‬
‫نے کہا تو دالور خان مسکرا دیا۔‬
‫"مجھے لگا بازوؤں میں جب طاقت ہو تو ہتھیار کی کیا‬
‫ضرورت۔" وہ اس کی بات جھٹالتے ہوئے بوال۔‬
‫"بازوؤں میں تو سب کے طاقت ہوتی ہے مگر سمجھدار‬
‫سپاہی وہ جو ہتھیار کی قدر کرے۔" وہ بھی اسی کے انداز‬
‫میں گویا ہوا۔‬
‫"میں سپاہی نہیں ہوں‪.....‬تم مجھے ون مین آرمی کہہ‬
‫سکتے ہو۔" دالور خان نے پیاری سی مسکراہٹ لیے‬
‫مزاحیہ خیز انداز میں کہا تو شاہزیب سر ہالتے ہوئے ہنس‬
‫دیا۔‬

‫‪56‬‬
‫"آج میں نہ ہوتا تو اس ون مین آرمی کی کھوپڑی اڑ چکی‬
‫ہونی تھی اب تک‪".....‬‬
‫"ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا‪ ،‬کیونکہ اس نے جو میرا‬
‫ہی نہیں تھیں۔" وہ ‪Bullets‬ریوالور اٹھایا تھا اس میں‬
‫شانے آچکا کر کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھا چکا‬
‫تھا شاہزیب نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔‬
‫"مجھے تو لگتا تھا تم بہت سمجھدار ہو مگر کر دیا نا وہ‬
‫ہی سرداروں واال کام‪ .....‬یقینا ً سرداروں پر لطیفے لکھنے‬
‫واال تم سے مل چکا ہے۔" وہ خفگی سے بھنویں آچکا کر‬
‫کہتا آگے بڑھا۔‬
‫سردار دالور خان مسکرا دیا تھا۔‬
‫چند لمحوں میں رائے مینشن گہری خاموشی میں ڈوب چکا‬
‫تھا۔‬
‫ہر ایک فرد خاموش تھا اور شرمندہ بھی۔‬
‫شاہزیب نے سب کو ٹی وی الونج میں جمع کیا تھا۔‬
‫اس نے انسپیکٹر کو اشارے سے پیپرز النے کو کہا تو وہ‬
‫پھرتی سے باہر نکل گیا۔‬

‫‪57‬‬
‫"ہم اپنے قریبی اور خون کے رشتوں کو محض چند روپوں‬
‫کے اللچ میں کھو دیتے ہیں اور یہ ہی انسانیت کا خاتمہ‬
‫ہے‪"......‬‬
‫اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے کاغذات کو ایک نظر‬
‫دیکھا۔‬
‫"سب کا جائداد میں جو حصہ بنتا تھا حور نے تم لوگوں‬
‫کے نام کر دیا ہے‪ .....‬تاکہ آگے سے کوئی مسئلہ مسائل نہ‬
‫ہو‪ ،‬اب تم سب پر انحصار کرتا ہے کہ اپنا حصہ کس طرح‬
‫رکھنا ہے اور کیا کرنا ہے‪...‬اور ہاں وصیت سب ضرور پڑھ‬
‫لینا۔"‬
‫اس نے چھوٹے ماموں اور باقی کے لڑکوں میں پیپرز‬
‫تقسیم کیے اور اب بھی اس کے ہاتھ میں چند پیپرز موجود‬
‫تھے۔‬
‫"یہ تم سب لڑکیوں کا حصہ ہے۔" اس نے وہ پیپرز میز پر‬
‫ڈال دیئے۔‬
‫"سائن کر دو تم سب ‪ ،‬باقی کی کاروائی سٹارٹ کروانی ہے‬
‫تو مجھے آج ہی یہ پیپرز واپس لے جانے پڑیں گے۔کیونکہ‬
‫حور دو دن بعد فرانس جا رہی ہے وہ چاہتی ہے کہ یہاں‬

‫‪58‬‬
‫کے تمام معامالت سے فارغ ہو کر ہی جائے۔" اس نے‬
‫کہتے ہوئے ایک نگاہ دالور خان پر بھی ڈالی تھی جو‬
‫صوفے پر بیٹھا سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔‬
‫اس کی بات پر لب کچلتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"اوکے شاہزیب! میں نکلتا ہوں کل مالقات ہوگی۔" اس نے‬
‫کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھا لیے تھے۔‬
‫"بیٹا بیٹھو‪ .....‬پہلی مرتبہ داماد گھر آیا ہے تھوڑی خاطر‬
‫داری تو کرنے دیں۔" ماموں شرمندگی کے زی ِر اثر ان‬
‫دونوں سے نگاہیں نہیں مال پا رہا تھا۔‬
‫"پھر کبھی حور کے ساتھ آؤں گا تو ضرور خاطر داری‬
‫کرواؤں گا۔" دالور خان نے مسکرانے کی ناتواں سی‬
‫کوشش کی تھی۔‬
‫پھر پلٹ کر تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔‬
‫*****‬
‫دوپہر میں نرس اسے میڈیسن دینے آئی تھی۔‬
‫"بات سنو‪ ،‬ابھی دو منٹ بعد پولیس اندر آئے گی وہ تم‬
‫سے بیان لینا چاہتی ہے تمہارے شوہر کے‬

‫‪59‬‬
‫خالف‪.....‬تمہیں سردار دالور خان کی قسم ایک ایک لفظ سچ‬
‫بتانا انہیں۔" نرس روانی سے بول رہی تھی اور وہ حیران‬
‫کن نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"پولیس؟ مگر کیوں؟"‬
‫"جو کہا ہے وہ کرو۔مجھے معلوم ہے کہ تمہارا یہ حال‬
‫تمہارے شوہر نے کیا ہے اسی لیے میں نے پولیس کو آگاہ‬
‫کر دیا ہے۔" وہ کہہ کر اس کا شانا تھپکنے لگی۔‬
‫تبھی انسپیکٹر اور کانسٹیبل کمرے میں داخل ہوئے تھے۔‬
‫"بی بی ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہارا شوہر تم پر تشدد کرتا‬
‫ہے؟" انسپیکٹر نے جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے‬
‫ہوئے استفسار کیا تھا۔‬
‫زری کی نگاہ اسی پل بےاختیار ہی اندر داخل ہوتے شکیل‬
‫خان پر پڑی۔‬
‫"دیکھو تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬ایف آئی آر‬
‫درج کرواؤ ہم ضرور ایکشن لیں گے۔" انسپیکٹر نے کہا۔‬
‫"ہاں میرا شوہر مجھ پر تشدد کرتا ہے۔" چند پل وہ‬
‫خاموشی سے شکیل خان کو دیکھتی رہی پھر سپاٹ لہجے‬
‫میں گویا ہوئی۔‬

‫‪60‬‬
‫مرہون منت‬
‫ِ‬ ‫"یہ جو میں اتنی زخمی ہوں‪ ،‬یہ سب اس کے‬
‫ہیں‪......‬اپنی مردانگی دکھائی ہے اس نے مجھ پر۔" وہ‬
‫طنزیہ ہنسی تھی شکیل خان بےاختیار ہی سر جھکا گیا۔‬
‫"اور میں چاہتی ہوں کہ جتنا اس نے مجھے ٹارچر کیا ہے‪،‬‬
‫جتنی بری طرح مجھے اس نے پیٹا ہے آپ بھی اس کو‬
‫اتنی ہی اذیت ناک مار مارنا کہ یہ بھی میری طرح ہی‬
‫ہسپتال پہنچ جائے۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے حقارت سے‬
‫کہہ رہی تھی۔‬
‫شکیل خان کے ہونٹوں پر مردہ سی مسکراہٹ دوڑ گئی‬
‫تھی‪......‬وہ آگے بڑھا اور اس کے قریب جا رکا۔‬
‫"میں نے جو بھی کیا ہے اس کی معافی تو بلکل بھی نہیں‬
‫ملنی چاہیے‪......‬مگر پھر بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر‬
‫دینا۔میں ہر سزا پانے کے لیے تیار ہوں۔"‬
‫"جیل سے ہی طالق بھیج دینا۔" وہ کھردرے لہجے میں‬
‫گویا ہوئی‪ ،‬شکیل خان کے سر پر گویا آسمان آ گرا اور‬
‫قدموں سے زمین سرک گئی تھی۔‬

‫‪61‬‬
‫"طالق کی امید کبھی مت رکھنا‪......‬ہاں اگر کہو گی تو میں‬
‫ساری عمر تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گا۔" شکیل‬
‫خان نے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔‬
‫"بہتر رہے گا کہ تم جیسے درندے کی شکل میں کبھی نہ‬
‫ہی دیکھوں‪ ".....‬وہ اس کو دیکھنے کے حق میں نہیں تھی‬
‫سو رخ پھیرے ہی بولی۔‬
‫"لے جائیں انسپیکٹر صاحب!" وہ کہہ کر آنکھیں موند‬
‫چکی تھی۔‬
‫"اپنا خیال رکھنا‪.....‬اب آئندہ کی زندگی میں کوئی بھی‬
‫شکیل خان یا شکیل خان جیسا ظالم شخص تمہاری زندگی‬
‫میں نہیں آئے گا۔" وہ چند پل اس کو ساکت پلکوں سے‬
‫یوں دیکھتا رہا جیسے نگاہوں میں اسے سما کر لے جائے‬
‫گا‪.....‬آنکھیں نم ہوئیں تو وہ بےاختیار ہی پلٹ گیا۔‬
‫انسپیکٹر نے اسے ہتھکڑی لگائی تھی۔‬
‫قدموں کی چھاپ جب دروازے سے نکل گئی تو زری‬
‫آنکھیں کھول کر کتنے ہی پل بند ہوئے دروازے کو خالی‬
‫خالی نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی تھی۔‬
‫*****‬

‫‪62‬‬
‫وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری کو تنقیدی نگاہوں‬
‫سے دیکھ رہا تھا‪......‬نجی کا عکس جب آئینے میں نمایاں‬
‫ہوا تو وہ خود پر سے نگاہیں ہٹا کر اس کی جانب متوجہ‬
‫ہوا۔‬
‫"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" نجی نے اس کی‬
‫جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔‬
‫"سن رہا ہوں۔" بمشکل وہ اس سے نگاہیں چرا پایا تھا۔‬
‫"ہر عورت کا ایک خواب ہوتا ہے کہ اس کا اپنا خود کا گھر‬
‫ہو‪......‬جسے وہ سجائے سنوارے‪.....‬خواہ وہ گھر چھوٹا‬
‫ہی کیوں نہ ہو مگر اس میں رانیوں کی مانند راج کرے‬
‫اور‪......‬اور اس کا جو سر تاج ہو‪...‬اس کے تمام نخرے‬
‫ہنسی خوشی اٹھائے۔"‬
‫وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولتی ہوئی اس کے سامنے‬
‫جا کھڑی ہوئی تھی‪....‬اب ان کے درمیان فاصلہ دو فٹ کا‬
‫تھا۔ اس کی بات پر فرحان ایک نگاہ اسے دیکھ کر غیر‬
‫ارادہ طور پر ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔‬
‫"میری طرف دیکھیں فرحان!" وہ التجاء آمیز لہجے میں‬
‫کہتے ہوئے اس کے سینے پر اپنے ہاتھ رکھ چکی تھی۔‬

‫‪63‬‬
‫"خواہ جیسے بھی سعی مگر میں آپ وائف ہوں‪......‬آپ کو‬
‫مجھ سے نظریں نہیں چرانی چاہیے‪.....‬زیادہ نہیں تو کم از‬
‫کم تھوڑا سا تو اختیار دے دیں اپنی زندگی پر۔" دل میں ذرا‬
‫سا خوف بھی تھا کہ وہ پیش قدمی کر رہی ہے کہیں فرحان‬
‫غصے میں اسے جھٹال نہ دے‪ ،‬مگر آج وہ دل کی بات‬
‫کہنے پر تل چکی تھی۔‬
‫"واہ‪ ....‬نیسی نے بہت اچھا ٹرین کیا ہے تمہیں‪.....‬حاالنکہ‬
‫میں نے بس اسے تمہیں یہاں کے طور طریقے سکھانے‬
‫کے لیے بالیا تھا جبکہ وہ‪.....‬وہ تو تمہیں شوہر کو مٹھی‬
‫میں کرنے کے حربے سکھا رہی ہے۔" وہ اس کے ہاتھوں‬
‫کو تھام کر اپنے سینے پر سے جھٹکتے ہوئے دانتوں پر‬
‫دانت جمائے سختی سے بوال تھا۔‬
‫نجی نے بےاختیار ہی نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"میں آپ کو مٹھی میں ہرگز نہیں کرنا چاہتی بلکہ میں تو‬
‫خود آپ کی قیدی بنانا چاہتی ہوں۔" وہ ہمت کر کے پھر اس‬
‫کی جانب بڑھی تھی۔‬
‫یہ ہمت نیسی نے ہی اسے دی تھی کہ‪.....‬اگر فرحان نے‬
‫اس کی جانب قدم بڑھایا تھا تو اب وہ بڑھائے‪...‬اور وہ‬
‫خوف زدہ سی اس کی جانب اپنے قدم بڑھا رہی تھی۔‬
‫‪64‬‬
‫"اپنی‪.....‬اپنی حد میں رہو۔" فرحان گھبرا کر ایک دم سے‬
‫پیچھے ہٹا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کرتے‬
‫ہوئے تیزی سے پلٹ کر کمرے میں سے نکل گیا۔‬
‫وہ کئی پل ساکت پلکوں سے دروازے کی سمت دیکھتی‬
‫رہی پھر ٹھنڈی آہ بھر کر پلٹ کر بیڈ کے ایک کنارے ٹک‬
‫گئی۔‬
‫"پتہ نہیں کیا ہے یہ شخص‪......‬کبھی اتنی محبت کرتا ہے‬
‫کہ میں دنیا بھول جاتی ہوں۔اور کبھی اس طرح التعلقی‬
‫اختیار کر لیتا ہے کہ مجھے دنیا سے ڈر لگنے لگتا ہے۔کہا‬
‫چل رہا ہے فرحان کے دل و دماغ میں؟" پلکوں کی باڑ‬
‫پھیالنگ کر کئی آنسو موتیوں کی مانند اس کر رخساروں‬
‫کو تر کرتے ٹی پنک فل سلیوز والی شرٹ میں جذب ہونے‬
‫لگے تھے۔‬
‫"کیا کمی ہے مجھ میں؟"‬
‫خود سے سوال کرتی وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی‬
‫تھی۔‬
‫" تعلیم کی کمی ہے‪......‬مگر میں جاہل تو نہیں ہوں‪ ،‬کبھی‬
‫اونچی آواز میں بات نہیں کی‪ ،‬بےوجہ کی ضدی اور ہٹ‬

‫‪65‬‬
‫دھرم بھی نہیں ہوں۔ آپ سے بےپناہ محبت کرتی ہوں‬
‫اور‪.....‬اپنا گھر بسانے کی خواہش مند بھی ہوں۔ پھر کیا‬
‫چاہیے مزید آپ کو فرحان؟" وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے‬
‫اس سے نہیں خود سے سوال کر رہی تھی۔‬
‫اور جواب آئینے کے پاس تو کیا اس کے خود کے پاس‬
‫بھی نہیں تھا‪....‬کہ آخر اس میں کیا کمی ہے؟‬
‫فرحان آخر چاہتا کیا ہے؟‬
‫یہ دو سوال اس کے دماغ پر تازیانے بجاتے تھے۔‬
‫****‬
‫اگلے دن ہی وہ شاہزیب کے سیٹنگ روم میں اس کا انتظار‬
‫کرتے ہوئے کتنی مرتبہ اپنے دل کی بےچینی کو کم کرنے‬
‫کی خاطر سگار سلگا چکا تھا‪...‬اور اسی طرح ہی بنا منہ‬
‫سے لگائے ایش ٹرے میں مسل بھی دیتا تھا۔‬
‫دوسری جانب وہ تھی‪.....‬اوپر سے ایک دم نارمل اور اندر‬
‫کی حور چنخ چنخ کر یہ قدم اٹھانے سے روک رہی تھی۔‬
‫"ایک مرتبہ پھر سوچ لو حور!‪....‬وہ بھی تو لوگ ہیں جو‬
‫آؤٹ آف کنٹری ہوتے ہیں‪....‬والدین کی وفات پر نہیں آ‬
‫سکتے۔" کائنات نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔‬

‫‪66‬‬
‫"میں تو پاکستان میں تھی نا؟" وہ آئینے میں خود کو‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"حور! جس طرح تم نے بتایا ہے‪.......‬مجھے لگتا ہے‬
‫دالور بھائی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اور یار غلطی تو‬
‫انسانوں سے ہی ہوتی ہے نا۔وہ تمہیں پریشان نہیں کرنا‬
‫چاہتے تھے‪.....‬ہاں یہ ان کی غلطی ہے کہ ماما کی وفات‬
‫کے متعلق تمہیں آگاہ نہیں کیا مگر اس کے چلتے ہوئے تم‬
‫طالق تو نہیں لے سکتی نا‪.....‬معافی دو یا سزا دو‪ ،‬ناراض‬
‫ہو جاؤ ان سے مگر خدارا اپنے دل کی سنو۔" کائنات نے‬
‫مبہم سی کوشش کی۔‬
‫"یہ غلطی تھی؟ نہیں کائنات!‪......‬یہ گناہ تھا۔وہ میرا‬
‫گناہگار ہے اور تم ٹھیک کہ رہی ہو میں اسے سزا دوں‬
‫گی‪.....‬ساتھ اپنے آپ کو بھی دوں گی جس نے اس کٹھور‬
‫شخص سے محبت کی۔" وہ شرٹ کے کف فولڈ کرتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫نیوی بیلو جینز پر ڈھیلی ڈھالی فل سلیوز والی ٹی شرٹ‬
‫زیب تن کیے وہ بالوں کو جوڑی کی شکل دیئے ہوئے تھی‪،‬‬
‫الئٹ میک آپ کے ساتھ وہ بےحد خوبصورت اور ماڈرن‬
‫لگ رہی تھی۔‬
‫‪67‬‬
‫دالور خان کے سامنے آج تک اس نے مغربی لباس زیب تن‬
‫نہیں کیا تھا‪.....‬اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دالور خان‬
‫کی پسند اور ناپسند کے متعلق تبھی تو اس نے یہ لباس‬
‫پہنا تھا اسے چڑھانے کے لیے‪....‬‬
‫اور وہ کون سا کم تھا‪.....‬موصوف کرتہ پاجامہ زیب تن‬
‫کیے‪ ،‬صوفے پر شاہانہ انداز میں براجمان تھا۔‬
‫اگر اسے جھٹکا لگا تھا حور کو اس لباس میں دیکھ کر تو‬
‫وہ بھی اس سے ایکسپیکٹ کر رہی تھی کہ وہ اسے‬
‫ایمپریس کرنے کے لیے‪...‬ڈریس پینٹ کوٹ وغیرہ پہن کر‬
‫آئے گا‪....‬مگر نہیں‪....‬‬
‫"تم دونوں بیٹھو میں ذرا آتا ہوں۔" شاہزیب اسے اندر داخل‬
‫ہوتا دیکھ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔‬
‫"شاہزیب!‪.....‬پلیز وہ رقم ال دینا ذرا۔" اس نے شاہزیب کو‬
‫روکتے ہوئے سرگوشی کی تو وہ اثبات میں سر ہال کر وہاں‬
‫سے ہٹ گیا۔‬
‫"اسالم علیکم!" وہ اس کے سامنے صوفے پر ٹانگ پر‬
‫ٹانگ جمائے بیٹھ گئی تھی۔‬
‫دالور خان نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا۔‬

‫‪68‬‬
‫"و علیکم السالم!" اس نے سالم کا جواب دے کر سر‬
‫جھکا لیا تھا۔‬
‫مکمل خاموشی کی بدولت ماحول بہت خطرناک لگ رہا‬
‫تھا‪.....‬وہ سامنے بیٹھا تھا اور حور کا دل چاہا رہا تھا کہ‬
‫وہ وہاں سے بھاگ جائے۔‬
‫شاہزیب دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے کمرے‬
‫میں داخل ہوا۔‬
‫اس کی جانب خاکی رنگ کا لفافہ بڑھا کر وہ ایک نگاہ‬
‫دالور خان کی خاموشی پر ڈالتا پلٹ گیا تھا۔‬
‫حور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے پہلوؤں میں‬
‫بیٹھتے ہوئے وہ لفافہ سامنے والی میز پر رکھ چکی‬
‫تھی‪....‬‬
‫"یہ وہ ساری رقم ہے جو میں نے تمہاری خرچ کی تھی‬
‫اگر مزید رہ گئی ہو تو بتا دینا۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔‬
‫دالور خان نے ذرا سی گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر‬
‫نگاہیں جھکا نہیں سکا تھا۔‬

‫‪69‬‬
‫"حور! ایک موقع تو دو۔" دالور نے مبہم سی کوشش کے‬
‫تحت مدھم سی آواز میں کہا تو اس کا دل ایک دم سے شور‬
‫مچانے لگا جس اس نے ڈپٹ کر خاموش کروایا۔‬
‫"آج تم کو میں جوئے میں ہار بیٹھی ہوں۔" وہ اس کی‬
‫جانب دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی۔‬
‫"کیا مطلب؟" اس نے ناسمجھی سے سر ہالیا۔‬
‫"میں نے خود سے ہی شرط لگائی تھی کہ اگر آج تم کرتہ‬
‫پاجامہ زیب تن کر کے آئے تو ہماری طالق الزمی ہو گی۔"‬
‫وہ کہتے ہوئے مبہم سا مسکرائی تھی۔‬
‫دالور خان کے ہونٹوں پر بھی زخمی سی مسکراہٹ ابھری‬
‫تھی۔‬
‫"ڈیورس کے پیپرز؟" وہ ایک دم سنجیدگی سے بولی۔‬
‫"تو ایک چانس بھی نہیں ملے گا؟"‬
‫"گنجائش نہیں ہے۔" حور کی سفاکی عروج پر تھی‪......‬وہ‬
‫ساکت پلکوں سے اسے دیکھتا رہا۔‬
‫"مسٹر سردار دالور خان! مجھے ابھی شاپنگ پر بھی جانا‬
‫قدر‬
‫ہے‪ ،‬میرا ٹائم ویسٹ مت کریں پیپرز نکالیں۔" اس نے ِ‬
‫سختی سے کہا۔‬
‫‪70‬‬
‫"حور!‪.....‬میں کچھ نہیں کہوں گا۔ تم مجھے اگر موقع نہیں‬
‫دینا چاہتی تو ٹھیک ہے مگر‪.....‬مگر طالق‪ "......‬وہ کہتے‬
‫کہتے خاموش ہو گیا تھا۔‬
‫حور نے لب کچلتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"میں تو تم سے فیئر تھی نا؟‪.....‬تمہیں اپنے متعلق وہ ہر‬
‫بات بتائی‪.....‬ہر بات شیئر کی‪ ،‬جو میں کسی سے نہیں کہتی‬
‫تھی تم سے کہا‪.....‬میں تمہیں اپنا ایک حصہ ماننے لگی‬
‫تھی۔" نم آنکھوں سے وہ اس کے میں مزید گہرائی سے‬
‫اترتی جا رہی تھی۔‬
‫"مگر‪.....‬خیر چھوڑو۔" اس نے رخ پھیر لیا تھا۔‬
‫دالور خان کا دل چاہا رہا تھا کہ اس کو خود میں بھینچ لے‬
‫اور کہہ وہ اس کے بنا جی نہیں سکتا‪....‬مر جائے گا‬
‫تمہارے بغیر‪.....‬مگر وہ کہہ نہیں پایا تھا۔ خاموشی سے‬
‫اس کا ہاتھ تھام لیا‪....‬جسے حور نے بڑی بےرحمی سے‬
‫واپس چھین لیا تھا۔‬
‫"ایم سوری۔" وہ ذرا سا اس کی جانب سرکا تھا اور پھر‬
‫اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پیشانی جوڑے ہاتھوں پر ٹکا‬
‫دی۔‬

‫‪71‬‬
‫"مجھے معاف کر دو۔میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بہت بڑی‬
‫غلطی ہوئی ہے مگر میرا مقصد ہرگز غلط نہیں تھا۔" اس‬
‫نے مزید کہا۔‬
‫"اوکے کیا معاف‪.....‬اب پلیز ہاتھ کھول دو اور پیپرز‬
‫نکالو۔" وہ اس کو دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے بولی۔‬
‫بالآخر دالور نے اپنے دائیں جانب پڑے لیپ ٹاپ کے بیگ‬
‫میں سے پیپرز نکالے تھے۔‬
‫پھر کچھ بھی مزید بولے بنا اپنی جیب میں سے پین نکاال‬
‫تھا اور حور کی جانب بڑھایا‪.....‬‬
‫"حور! سوچ لو‪.....‬تم میری پہلی اور آخری محبت ہو‪ ،‬اور‬
‫مجھے یقین ہے کہ میں بھی تمہاری اولین محبت ہوں۔"‬
‫دالور خان نے پیپر کی جانب بڑھتے اس کے ہاتھ کو تھام‬
‫لیا تھا۔‬
‫"تم تو میرا سب کچھ بن گئے تھے دالور خان! مگر اب‬
‫مزید میں تمہارے ساتھ ایک لمحہ نہیں رہنا چاہتی‪.....‬‬
‫کیونکہ جب جب تمہیں دیکھوں گی مجھے یاد آئے گا کہ‬
‫تمہاری وجہ سے میں اپنی ماں کا آخری دیدار نہیں کر‬
‫پائی۔" سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ‬

‫‪72‬‬
‫پر سے ہٹا کر وہ پیپرز پر سائن کرنے لگی تھی کہ پین کا‬
‫سامنے واال سرا نکل کر کاغذات پر گر چکا تھا ساتھی ہی‬
‫ساری انک بھی اس جگہ گر کر پیپر تباہ کر چکی تھی‬
‫جہاں حور نے سائن کیے تھے۔‬
‫دالور خان نے سختی سے لب بھینچ کر اپنی مسکراہٹ کو‬
‫چھپایا تھا۔‬
‫"یہ سب تم نے جان بوجھ کر کیا نا؟" وہ پھنکاری تھی۔‬
‫"نہیں ہرگز نہیں۔ میں ایسا کیوں کروں گا؟" وہ تیزی سے‬
‫فیس ایکسپریشنز بدلتے ہوئے بوال۔‬
‫حور دانتوں پر دانت جمائے پینک کا جو سرا اس کے ہاتھ‬
‫میں تھا میز پر پٹختی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"دوبارہ سے پیپرز بنواؤ‪ ،‬اور سائین کر کے مجھے فرانس‬
‫بھجوا دینا۔" وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی بلکہ دندناتی‬
‫وہاں سے چلی گئی۔‬
‫دالور خان نے بےاختیار ہی سکھ کا سانس لیا۔‬

‫ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‬

‫‪73‬‬
‫بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‬
‫****‬
‫"اسالم علیکم! غفور کے بیٹے والے کیس متعلق کوئی‬
‫اپڈیٹ؟"‬
‫"و علیکم السالم‪.....‬یس سر! غفور کے بیٹے کا نام جبران‬
‫غفور ہے‪......‬بچپن سے ہی سکلپچرز بنانے کا شوقین‬
‫تھا‪......‬تبھی اس نے ایف ایس کے بعد آرٹ کی فیلڈ چنی۔"‬
‫"مجھے اس کی ہسٹری نہیں سننی اے سی پی شہزاد!‬
‫ہمارے کام کی انفارمیشن دو۔" شاہزیب نے ٹوکا۔‬
‫"یس سر!‪.....‬میں نے جبران کے کالج اور یونیورسٹی سے‬
‫کچھ انفارمیشنز کالیکٹ کی ہیں۔"‬
‫"ہوں۔" وہ الن میں پڑے سنگی بینچ پر بیٹھ گیا۔‬
‫"نام جبران غفور‬
‫عمر بتیس سال‪.....‬‬
‫ہائٹ چھ فٹ ایک انچ‪.....‬رنگ گورا‪"....‬‬

‫‪74‬‬
‫"شہزاد! میں تمہارا سنیئر ہوں اور ہم یہاں کیس کے متعلق‬
‫بات کر رہے ہیں نہ کہ‪ ....‬جبران کا رشتہ کروانے والے‬
‫ہیں۔" شاہزیب نے اسے ٹوکا۔‬
‫"سر! آگے تو سنیے‪ ،‬اس بندے میں جو چیز سب سے‬
‫مختلف ہے وہ ہے اس کی آنکھیں۔" اے سی پی شہزاد ایک‬
‫لمحے کو خاموش ہوا۔‬
‫"کیا مطلب؟ ایسا بھی کیا ہے موصوف کی آنکھوں میں؟"‬
‫اس کا لہجہ ذرا سا طنزیہ ہوا تھا۔‬
‫"بتاتا ہوں سر!‪.....‬اس کی آنکھوں کا رنگ بہت یونیک ہے‬
‫یعنی چار رنگ ہیں اس کی آنکھوں میں‪.....‬بلیک‪ ،‬ڈارک‬
‫بیلو‪ ،‬گرین اور نیوی بیلو‪...‬اپنی پہچان چھپا کر رکھتا ہے‪،‬‬
‫اس کے لیے وہ دوسروں کے نام اور پہچان کا استعمال‬
‫کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ‬
‫یونیورسٹی کے بعد ان سے کبھی نہیں مال‪ ،‬آس پاس کے‬
‫لوگوں کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے پاس آؤٹ‬
‫کے بعد سے جبران غفور کو الہور میں نہیں دیکھا‬
‫گیا‪......‬اور رشتے داروں سے بھی اس کے رابطے استوار‬
‫نہیں ہیں‪....‬کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ امریکہ رہتا‬

‫‪75‬‬
‫ہے‪.....‬کچھ لوگ کہتے ہیں اٹلی میں ہے۔ تو کچھ کا کہنا‬
‫ہے کہ ترکی ہوتا ہے۔"‬
‫"‪"This case is very interesting.‬‬
‫شاہزیب نے تھوڑی کھجائی۔‬
‫"مجرم اگر ٹکر کا ہو تو اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے اسے‬
‫پکڑنے میں۔" وہ سیدھا ہو نیٹھا۔‬
‫"تمہیں کیا لگتا ہے شہزاد! اس وقت وہ کہاں ہو سکتا‬
‫ہے؟‪......‬وہ مجسمہ ساز ہے تو اس حساب سے وہ کس‬
‫شہر میں ہو گا اس وقت؟" سوچتے ہوئے استفسار کیا گیا۔‬
‫"غفور کی گرفتاری کے بعد ڈیفنیٹلی انڈر گراؤنڈ ہو گیا ہو‬
‫گا۔" شہزاد نے اپنی رائے دی۔‬
‫"نہیں شہزاد! یہ جو آرٹیسٹ ہوتے ہیں نا یہ فری رہ ہی‬
‫نہیں سکتے‪.....‬وہ ہمیشہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں‬
‫جس کے لیے وہ انڈر گراؤنڈ ہو بھی گیا تو سامان تو باہر‬
‫سے ہی ملے گا نا۔اور ویسے بھی وہ خود کو بہت اسمارٹ‬
‫سمجھتا ہے‪.....‬اسی لیے ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ وہ انڈر‬
‫گراؤنڈ ہو گیا ہو گا‪ ".....‬اس نے نفی میں سر ہالتے ہوئے‬
‫پرسوچ نگاہوں کو سامنے فوارے پر ٹکا دیا۔‬

‫‪76‬‬
‫"ایسا کرو‪.....‬غفور کے نمبر پر آنے والی کالز لسٹ نکالو‬
‫میں آتا ہوں‪....‬اور دیکھتے ہیں کہ یہ جبران غفور چھپ کر‬
‫کہاں بیٹھا ہے۔"‬
‫ّٰللا حافظ کہہ کر کال کٹ‬
‫"اوکے سر!" شہزاد نے کہا تو وہ ہ‬
‫کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"‪"Let's get ready for action.‬‬
‫اس نے سوچتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی تھی‬
‫اور قدم ڈرائنگ روم کی جانب بڑھائے۔‬
‫دالور خان نے سر اٹھا کر جب ڈیوس کے پیپرز کو دیکھا‬
‫تو وہاں ان دونوں کے جو سائن تھے‪ .....‬غائب ہو چکے‬
‫تھے۔‬
‫"ایم سوری حور! مگر میں تمہیں ڈیورس دینے کے متعلق‬
‫سوچ بھی نہیں سکتا۔" اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور‬
‫تیزی سے ڈیورس پیپرز دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے‬
‫لیپ ٹاپ بیگ میں تیزی سے گھسا دیا۔‬
‫ایک نگاہ پیسوں کے لفافے پر ڈالی پھر لب بھینچے نفی‬
‫میں سر ہالتا بنا وہ لفافہ اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا۔‬

‫‪77‬‬
‫"کہاں چلے؟" وہ دروازہ دھکیل کر باہر نکال تو شاہزیب‬
‫کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئے۔‬
‫"میں چلتا ہوں یار۔ اگر وہ رضیہ سلطانہ پھر سے آ گئیں‬
‫اورمیری خوشی دیکھ لی تو اسے سارا ماجرہ سمجھ آ‬
‫جائے گا۔پھر وہ مجھ سے زبانی طالق لینے پر تل جائے‬
‫گی۔" دھیمی سی مسکراہٹ لیے کہہ کر وہ اس کے بغلگیر‬
‫ہوتے ہوئے وہاں سے چال گیا تھا۔‬
‫شاہزیب نے ٹھنڈی آہ بھری اور کمرے میں داخل ہو گیا۔‬
‫رقم واال لفافہ میز پر ہی پڑا تھا۔‬
‫وہ چند پل وہاں رکا رہا پھر پلٹا اور جیب میں سے فون‬
‫نکال کر کوئی نمبر ڈائل کرتے ہوئے دروازہ بند کر کے‬
‫کمرے میں سے نکل گیا۔‬
‫****‬
‫میٹنگ روم میں چار افراد تھے‪......‬انسپیکٹر مزمل‪ ،‬اے‬
‫سی پی شہزاد‪ ،‬شاہزیب کا ایک سسٹم ہیکر دوست‬
‫ضیاء‪......‬اور خود ڈی سی پی شاہزیب‪.....‬‬
‫"اس مشن کا نام ہو گا ست رنگا‪"......‬‬

‫‪78‬‬
‫اس نے کمرے کی الئٹس آف کرتے ہوئے دائیں دیوار کی‬
‫جانب اشارہ کیا۔‬
‫"اور اس مشن کی خبر کسی کو بھی نہیں ہونی‬
‫چاہیے‪.....‬تم سب ایمان دار لوگ ہو تبھی بھروسہ کیا ہے‪،‬‬
‫امید ہے تم سب میرا ساتھ ایمانداری سے دو گے؟"‬
‫"افکورس سر! ان شاءہللا۔" انسپیکٹر مزمل نے پّر اعتماد‬
‫انداز میں کہا۔‪.‬‬
‫"گڈ۔ہمیں اس شخص یعنی جبران غفور کو پکڑنا ہے۔جو‬
‫اس وقت کہاں ہے ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔"‬
‫اس نے شانے آچکاتے ہوئے کہا۔‬
‫"اور اب وہ کس گیٹ_اپ میں پھر رہا ہے یہ بھی کوئی‬
‫نہیں جانتا۔" ایک پل کو خاموش ہوا اور ان سب کی جانب‬
‫دیکھا جو بہت توجہ سے اسے سن رہے تھے۔‬
‫اس نے مزید کہتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا تھا کہ‪...‬‬
‫"جبران غفور اپنے والد کو جب بھی کال کرتا ہے وہ اپنے‬
‫نمبر سے نہیں بلکہ مختلف نمبروں سے اس سے رابطہ‬
‫کرتا ہے‪.......‬اور وہ نمبر ہوتے بھی اس ملک کے ہیں‬
‫جہاں وہ موجود نہیں ہوتا‪....‬ابھی کل ہی جیلر کے نمبر پر‬

‫‪79‬‬
‫اس نے کال کی تھی‪.....‬غفور سے بات کی اور وہ نمبر‬
‫جس کا تھا وہ اٹلی کا رہائشی تھا‪....‬ہم نے اس سے رابطہ‬
‫کیا تو معلوم ہوا کہ جس شخص نے اس اٹلین کے نمبر‬
‫سے کال کی تھی وہ اپنے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے‬
‫تھا۔" اس کے اس انکشاف پر ایک پل کو ان تینوں کی‬
‫پیشانی پر سوچ کے بل نمایاں ہوئے تھے۔‬
‫"سر! پھر ہم اسے ڈھونڈیں گے کیسے؟" انسپیکٹر مزمل‬
‫نے استفسار کیا۔‬
‫"ڈھونڈیں گے مزمل! ہم اسے ضرور ڈھونڈیں گے۔وہ خواہ‬
‫کتنا بھی شاطر کیوں نہ ہو مگر ایک پولیس آفیسر سے‬
‫زیادہ شاطرانہ دماغ نہیں رکھتا۔" اس نے کرسی سنبھلتے‬
‫ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔‬
‫"مگر اس وقت وہ ہم سب سے بڑھ کر شاطر ہے‪ "...‬ضیاء‬
‫نے اپنے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چالتے ہوئے کہا۔‬
‫"کیا مطلب؟" شاہزیب نے اچھنبے سےا س کی جانب‬
‫دیکھا۔‬
‫"ایک منٹ باس!‪ "....‬ایک منٹ کے بعد اس نے اپنا لیپ‬
‫ٹاپ شاہزیب کے سامنے کر دیا تھا۔‬

‫‪80‬‬
‫"باس اس وقت وہ پانچ ممالک میں گھس کر بیٹھا‬
‫ہے‪.....‬اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہے‪ ،‬اس کے ایک کلک‬
‫پر ان پانچوں ممالک کے فون‪.....‬لیپ ٹاپ‪......‬سی سی ٹی‬
‫ویز‪ .....‬کمپیوٹر سب وہ ہیک کر سکتا ہے‪.....‬اس کی ٹیم‬
‫بہت وسیع ہے‪.....‬بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنی‬
‫ایک آرمی تیار کر رکھی ہے۔" ضیاء کی بات پر وہ ایک دم‬
‫سے پیشانی پر بل لیے لیپ ٹاپ پر چل رہے گراف کو‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"اٹلی ‪،‬چاپان‪ ،‬امریکہ ‪ ،‬فرانس اور پاکستان‪......‬ان ممالک‬
‫میں اس کے آدمی پھیلے ہوئے ہیں۔‬
‫وہ اپنے آدمی کو کال کرتا ہے اور اس کے آدمی آگے غفور‬
‫سے اس کی بات پہنچاتے ہیں‪....‬اس کام کے لیے وہ اپنا‬
‫موبائل فون نہیں بلکہ لوگوں کے فون کا استعمال کرتے‬
‫ہیں‪....‬یعنی سیدھی بات کہ وہ جب چاہیے جس کا بھی‬
‫چاہیے موبائل فون استعمال کرنے کی صالحیت رکھتا‬
‫ہے‪......‬اس کے عالؤہ وہ جہاں کا بھی سی سی ٹی وی‬
‫کیمرہ چاہیے ہینگ کر سکتا ہے۔"‬
‫ضیاء نے جھک کر لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیاں چالتے‬
‫ہوئے کہا ایک پل کو رکا اور پھر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫‪81‬‬
‫اس کی بات مکمل ہوئی تو ادھر شاہزیب کا فون ِرنگ کیا۔‬
‫مزمل اور شہزاد چونکے۔‬
‫شاہزیب نے جینز کی جیب میں سے فون نکاال تو کائنات کی‬
‫کال تھی۔‬
‫" وائف کی کال ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫"کوئی شخص آئے گا اور کوئی بھی بہانا بنا کر آپ کا فون‬
‫یا لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرے گا‪....‬اپنا کام کرنے کے‬
‫لیے‪......‬پھر آپ کے لیپ ٹاپ یا فون میں وہ اپنا سسٹم‬
‫گھسا دیں گے اور اس طرح آپ کا لیپ ٹاپ وغیرہ اس کے‬
‫زیر استعمال بھی رہے گا۔" ضیاء نے ان دونوں کے نالج‬
‫میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"اس شخص کے پاس اتنا دماغ آیا کہاں سے‪.....‬؟مجھے تو‬
‫لگتا تھا یہ آرٹ کے اسٹوڈنٹس دماغی طور پر ذرا ہلے‬
‫ہوئے ہوتے ہیں‪....‬اور اس نے تو سب کو ہی ہال کر رکھ دیا‬
‫ہے۔" انسپیکٹر مزمل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫وہ تینوں مسکرا دیئے۔‬

‫‪82‬‬
‫"ڈونٹ وری گائز ہم لوگ فون پر اس مشن کے متعلق کوئی‬
‫بات ہی نہیں کریں گے‪....‬بلکہ اس کیس کو ہم سیو بھی‬
‫اپنے اپنے دماغوں میں کرتے ہوئے ان جدید ٹیکنالوجی کا‬
‫استعمال نہیں کریں گے۔بات کرنے کے لیے خط کا ذریعہ‬
‫استعمال کریں گے‪ ".....‬شاہزیب نے اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫"یعنی ہم سترہویں صدی میں جیئں گے‪.....‬انٹرسٹنگ سر!‬
‫مزہ آئے گا خط لکھنے میں ‪ ،‬چلو محبوبہ نے تو لکھا نہیں‬
‫آپ ہی لکھ دیجیے گا۔" انسپیکٹر مزمل کی بات پر شہزاد‬
‫خالف معمول ہنس دیا تھا۔‬
‫ِ‬ ‫نے اسے گھورا جبکہ شاہزیب‬
‫"میٹنگ کے لیے کوئی غیر آباد عالقے کا انتخاب کیا کریں‬
‫جائے‪...‬اور ہاں جہاں بھی ملنا ہو گا اس کا پیغام میں آپ‬
‫سب تک خط کی صورت ہی پہنچاؤں گا۔" وہ کہتے ہوئے‬
‫اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫وہ تینوں بھی اس کی تعائید میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔‬
‫"اوکے میں اب نکلتا ہوں تم لوگ بھی نکلو‪ .....‬ہم اکٹھے‬
‫کہیں بھی دکھائی نہیں دینے چاہیے خاص طور پر تم سب‬
‫میرے ساتھ تو بلکل بھی نہیں‪.....‬کیونکہ غفور سے اس کی‬
‫بات کل ہو چکی ہے اور غفور اسے سب بتا چکا ہو گا۔اسی‬
‫‪83‬‬
‫لیے بی کیئر فل وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔" اس نے‬
‫سنجیدگی سے کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھائے‪ ،‬لیپ‬
‫ٹاپ بیگ اور اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر وہاں سے نکل‬
‫گیا۔‬
‫"ہاں جی آ رہا ہوں‪.......‬تم لوگ ایئرپورٹ کے لیے نکلو۔"‬
‫وہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے فون پر کائنات سے بوال‬
‫تھا۔‬
‫کال کاٹ کر فون جینز کی جیب میں ڈالتے ہوئے اس نے‬
‫گاڑی میں چابی گھمائی تھی۔‬
‫آج حور فرانس جا رہی تھی‪.......‬اور دل یہاں ہی کہیں ایک‬
‫دالور خان نامی شخص کے پاس چھوڑ کر سینے میں‬
‫محض خالی پن لیے وہ کائنات سے بغلگیر ہوئی تھی۔‬
‫آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے وہ انٹرس کی جانب بار بار‬
‫دیکھ رہی تھی مگر وہ نہ آیا یہاں تک کہ فالئٹ کا عالن ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫"اپنا خیال رکھنا حور!‪......‬کوئی بھی پریشانی ہو مجھے‬
‫ایک فون کرنا بس۔" شاہزیب نے اس کے سر پر ہاتھ‬

‫‪84‬‬
‫رکھتے ہوئے کہا تھا وہ اس کے شانے سے لگ کر پھوٹ‬
‫پھوٹ کر رو دی۔‬
‫"ایم سوری شاہزیب! میں واقع ہی انسانوں کو پڑھنے کا‬
‫سلیقہ نہیں جانتی۔میں نے ہمیشہ تمہیں ہرٹ کیا‪.....‬کائنات‬
‫کو بھی بہت برا بھال کہا تمہیں لے کر۔" وہ شرمندگی سے‬
‫کہہ رہی تھی۔‬
‫شاہزیب نے اس کا سر تھپکا۔‬
‫"کوئی بات نہیں‪ ،‬مجھے پہلے برا لگتا تھا مگر اب سوچ‬
‫کر ہنسی آتی ہے کہ تم کتنی بچگانہ حرکتیں کرتی تھی۔"‬
‫وہ ماحول میں چھائی آسودگی کا اثر ختم کرنے کی خاطر‬
‫ہنستے ہوئے کہا۔‬
‫"اور ویسے بھی چھوٹی بہنوں کو حق ہوتا ہے اپنے بڑے‬
‫بھائیوں پر رعب جما کر رکھنے کا۔چلو اب خاموش ہو‬
‫جاؤ۔" اس نے حور کو شانوں سے تھام کر اپنے سامنے‬
‫کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"کائنات!‪.....‬تم واقع ہی سمجھدار ہو‪......‬تم معصوم ضرور‬
‫ہو مگر نادان نہیں۔ مجھے معاف کر دینا میں نے ناسمجھی‬
‫میں تمہیں بھی بہت مرتبہ ہرٹ کیا ہے‪ ،‬مگر تم ٹھیک تھی‬

‫‪85‬‬
‫کائنات! تمہیں اچھے برے کی پہچان ہے اور میں‪.....‬میں تو‬
‫ہوں ہی بیوقوف ہمیشہ غلط لوگوں پر بھروسہ کر کے‬
‫دھوکا کھاتی ہوں۔" حور پلٹ کر اس کے گرد بازو حائل‬
‫کرتے ہوئے رو دی تھی۔‬
‫"نہیں حور! تم سمجھدار ہو۔" کائنات نے رونے کے‬
‫درمیان کہا تھا۔‬
‫"اچھا اب بس کرو یار تم دونوں کی دیوانگی لوگ دیکھ‬
‫رہے ہیں۔" شاہزیب نے شرارت سے کہا تو وہ روتے‬
‫روتے ہنس دیں۔‬
‫ان پر ایک الوداعی نگاہ ڈال کر اپنے بیگز کی ٹرالی‬
‫دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔‬
‫جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی‬
‫کی نگاہوں کے احصار میں وہ مسلسل ہے اس نے پلٹ کر‬
‫ادھر اُدھر دیکھا مگر وہاں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس‬
‫کی جانب متوجہ ہو۔‬
‫اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک کے آگے بڑھ گئی۔‬
‫"وہ کیوں آئے گا حور!‪....‬دیکھا نہیں تھا کیسے ڈیورس‬
‫کے پیپرز خراب ہونے کا غم کر رہا تھا‪....‬میں نے نہیں کیا‬

‫‪86‬‬
‫یہ میں کیوں کرتا؟" سوچتے ہوئے آخری فقرہ اس نے‬
‫دالور خان کی نقل اتارتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫ہاں یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ جسے چاہیں‪....‬وہ بھی‬
‫آپ کو چاہیے اور پھر اس سے کسی غلط فہمی کی وجہ‬
‫سے بچھڑنا پڑے‪.....‬‬
‫بےخیالی میں چلتے ہوئے وہ اپنی سیٹ کی جانب بڑھ رہی‬
‫تھی کہ سامنے کھڑے شخص سے ٹکرا گئی۔‬
‫وہ پلٹ کر سیاہ گالسز کے پیچھے سے حور کو بری طرح‬
‫گھورنے لگا۔‬
‫"ایم سوری۔" وہ چونکتے ہوئے بولی۔‬
‫"محترمہ میرا سیل فون ابھی ٹوٹ جاتا‪.....‬جانتی ہو آئی‬
‫فون ہے یہ‪.....‬آئی فون ٹویلو ‪.....‬کبھی دیکھا بھی نہیں ہو‬
‫گا۔"‬
‫وہ جو کوئی بھی تھا بہت ہی منہ پھٹ اور بدتمیز تو تھا ہی‬
‫مگر شو آف کرنے کی بھی بیماری کا شکار تھا۔‬
‫حور اس وقت جسمانی طور پر تو وہاں موجود تھی مگر‬
‫دماغی و دلی طور پر وہ دالور خان کے پاس تھی تبھی اس‬
‫شخص کو کوفت بھرے انداز میں اگنور کرتی آگے بڑھی۔‬

‫‪87‬‬
‫"محترمہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ تم نے میرے گوچی‬
‫کے مہنگے ترین جوتوں کو بھی اپنے پیروں تلے کچلتے‬
‫ہوئے گندہ کر دیا ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے منہ اٹھا کر آ‬
‫جاتے ہیں تم جیسے جاہل لوگ‪......‬صاف کرو میرے‬
‫جوتے۔" وہ آگے بڑھا تھا اور حور کی کالئی مروڑتے‬
‫ہوئے اپنی جانب گھما چکا تھا۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہے ہو بیٹا۔ چھوڑو بچی کا ہاتھ۔" ایک ادھیڑ‬
‫عمر شخص نے سختی سے کہا۔‬
‫"اے بڈھے چپ چاپ بیٹھا رہے‪.......‬تو جانتا نہیں میں کون‬
‫ہوں‪.....‬ایک منٹ میں تمہاری جان نکال لوں گا اور یہاں‬
‫کوئی مجھے چھو بھی نہیں سکے گا اسی لیے رحم کر اپنی‬
‫حالت پر اور بیٹھ جا۔" وہ شخص نہایت بدتمیزی سے گویا‬
‫ہوا تھا۔‬
‫سب سہم کر اپنی اپنی جگہوں پر جم چکے تھے۔‬
‫"اور تم دیدے پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو‪ ،‬اپنے دوپٹے سے‬
‫میرا جوتا صاف کرو۔وگرنہ دوپٹہ لینے کے قابل نہیں‬
‫چھوڑوں گا۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے پھنکارا تھا۔‬

‫‪88‬‬
‫"یو ایڈیٹ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے‬
‫کی؟" حور کے دوسرے ہاتھ میں سے ہینڈ بیگ گر چکا تھا‬
‫اور دوسرے ہی لمحے ہاتھ پوری قوت سے اس شخص‬
‫کے منہ پر آن پڑا تھا‪.....‬‬
‫"تم نے‪....‬تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا یو‪ ".....‬اس شخص‬
‫نے ہاتھ اٹھایا تھا‪ ،‬حور خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی‬
‫تھی اور سختی سے آنکھیں میچ کر سر جھکا گئی۔‬
‫"کیا بھئی؟ غنڈہ راج ہے کیا تمہارا؟‬
‫یہ سب یہاں نہیں چلے گا‪.......‬یہ ایک آزاد ملک ہے اور‬
‫تمہارے جیسے گھٹیا لوگوں کی یہاں کوئی اوقات نہیں‬
‫ہے۔"‬
‫اس کے کانوں سے مانوس سی آواز ٹکرائی تھی‪....‬پٹ‬
‫سے آنکھیں کھول کر وہ سیدھی ہو کر اس کی جانب‬
‫دیکھنے لگی۔‬
‫ابھی وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔‬
‫پانچ فٹ چھ انچ ہائٹ ‪ ،‬کسرتی بدن پر چپکی ہوئی الئٹ بیلو‬
‫ڈریس شرٹ اور نیرو جینز زیب کر رکھی تھی اس شخص‬
‫نے۔‬

‫‪89‬‬
‫دنوں ہاتھ کمر پر ٹکائے وہ سامنے کھڑے شخص کی‬
‫بےعزتی کر رہا تھا۔‬
‫دو منٹ بعد سکیورٹی بھی آ چکی تھی۔‬
‫"لے جاؤ اسے اور امید کرتا ہوں کہ ایک عورت کے ساتھ‬
‫بدتمیزی کرنے کے جرم میں آپ اسے سخت سے سخت‬
‫سزا دیں گے۔" وہ سکیورٹی اہلکاروں سے مخاطب تھا۔‬
‫"دیکھ لوں گا تمہیں بھی اور اس لڑکی کو بھی‪......‬ویٹ‬
‫اینڈ واچ۔" اس نے پھنکارتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫سکیورٹی گارڈز اسے کھینچتے ہوئے جہاز سے اتر چکے‬
‫تھے۔‬
‫"افسوس ہوتا ہے مجھے تم جیسے لوگوں پر جو سب مل‬
‫کر بھی ایک عورت کی حفاظت نہیں کر سکتے‪ .....‬بھئی‬
‫عالمہ اقبال نے تم جیسے شاہینوں سے ہی کہا تھا کہ یہ‬
‫وطن تمہارا ہے‪.....‬مگر تم لوگ اس وطن میں رہنے کے‬
‫قابل ہرگز نہیں ہو۔" وہ مسافروں کو مخاطب تھا۔‬
‫ماحول میں چھائی بدمزگی ایک دم ختم ہو چکی تھی‪ ،‬وہ‬
‫جھک کر اپنے پیروں میں پڑا حور کا بیگ اور ڈاکومنٹس‬

‫‪90‬‬
‫اٹھائے اور اس کی جانب پلٹ چکا تھا اور حور کی آنکھیں‬
‫یہاں سے وہاں تک پھیلتی گئیں۔‬
‫زیادہ پرانا تو نہیں تھا وہ واقع‪.....‬محض چند مہینے‪....‬وہ‬
‫گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔‬
‫"پ پگال۔" اس کے ہونٹ پھڑپھڑائے تھے۔‬
‫"نہیں عوذر سومرو‪ "......‬وہ اس کو بیگ تھما کر رسمی‬
‫سی مسکراہٹ لیے کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔‬
‫حور کئی پل تو وہاں ساکت کھڑی رہ گئی تھی پھر سر‬
‫جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔‬
‫بزنس کالس میں اس نے جیسے ہی اپنی نشست سنبھالی‬
‫دائیں جانب گردن گھما کر دیکھا تو عوذر سومرو سر سیٹ‬
‫کی پشت سے ٹکائے اپنے فون پر مدھم آواز میں کسی‬
‫سے محو گفتگو تھا۔‬
‫اس نے جیسے ہی رخ اس کی جانب موڑا تو حور نے تیزی‬
‫سے رخ پھیر لیا۔‬
‫غفور اور اس کے گروہ کو عمر قید ہو چکی تھی‪......‬مگر‬
‫شاہزیب جانتا تھا کہ جبران اپنے باپ کو نکالنے کے لیے‬

‫‪91‬‬
‫کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا ایک ہفتہ ہو‬
‫چکا تھا اور ادھر مکمل خاموشی تھی۔‬
‫خان پور اور نادر پور میں سکونت پذیر ماحول چھا چکا‬
‫تھا‪.....‬جو دونوں گاؤں کے درمیان سرد ماحول تھا ختم ہوا‬
‫تو حامد خان نے نادر پور والوں کے لیے اپنے دروازے‬
‫کھول دیئے‪...‬لوگ آپس میں ملنے جلنے لگے‪....‬نادر پور‬
‫والوں کی حویلی پر بہت بڑا تاال لگا دیا گیا تھا‪.....‬یوں‬
‫محسوس ہوتا کہ اب یہ حویلی دوبارہ کبھی نہیں کھلے گی۔‬
‫زرمینہ خان دوبارہ سے گلگت بلتستان جا ہو چکی‬
‫تھی۔مگر اس مرتبہ زرمینہ نے اس گھر کی بجائے وہاں‬
‫سے نیچے جو چھوٹی سی بستی تھی س کا انتخاب کیا تھا۔‬
‫حکیم بابا اسے دیکھ کر پہچان گئے تھے اور اسے‬
‫خاموشی سے اپنے گھر رکنے کی اجازت دے دی۔‬
‫حکیم بابا اور ان کا بیٹا بہو بہت اچھے لوگ تھے‪.....‬وہ‬
‫یہاں آرام سے رہ سکتی تھی۔‬
‫فرحان اور نجی کے درمیان ایک دیوار سی آن کھڑی ہوئی‬
‫تھی جسے نجی توڑنا چاہا رہی تھی مگر فرحان کی جانب‬
‫سے مکمل سرد مہری عروج پر تھی۔‬

‫‪92‬‬
‫حامد خان نے شاہزیب کے ولیمے کی دعوت کا اہتمام بہت‬
‫بڑے پیمانے پر کیا تھا۔‬
‫اور وہ دونوں کل سے ہی خان پور آئے ہوئے تھے۔‬
‫ابھی شاہزیب ریڈی ہو رہا تھا جب شازار پریشان سا کمرے‬
‫میں داخل ہوا۔‬
‫"سردار سے رابطہ نہیں ہوا؟" شاہزیب کو تشویش ہوئی۔‬
‫"نہیں یار‪ ،‬کال ہی نہیں اٹھا رہے‪"....‬‬
‫"پتہ نہیں الال کہاں ہیں۔ پیچھلے ایک ہفتے سے رابطہ نہیں‬
‫ہو رہا‪....‬بابا سائیں اتنی مرتبہ میری کالس لے چکے ہیں۔"‬
‫شازار نے فون صوفے پر ڈال دیا تھا۔‬
‫"سپیشلی آج تو ماشاءہللا شفٹ پر شفٹ لگ رہی ہے۔" منہ‬
‫بسورے وہ کہہ رہا تھا۔‬
‫"کسی دوست کے پاس ہو گا۔اس کے دوستوں کو کال‬
‫کرو۔"‬
‫"ٹھیک ہے میں کرتا ہوں۔"‬
‫شازار نے اپنے فون میں موجود اس کے سارے دوستوں‬
‫سے رابطہ کر لیا تھا۔‬

‫‪93‬‬
‫"بس اب یہ آخری نوید بچ گیا ہے۔" اس نے بتایا تو وہ جو‬
‫آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا سر ہالنے لگا۔‬
‫نوید سے بات کر کے جب سامنے سے سردار دالور خان‬
‫کی حالت کے متعلق معلوم ہوا تو شاہزیب کی پیشانی شکن‬
‫آلودہ ہو گئی تھی۔‬
‫"تم چلو مردانے میں اس کے بل میں نکال کر التا ہوں۔"‬
‫شاہزیب نے کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔‬
‫"سب تمہارے بارے میں پوچھیں گے‪ ،‬پہلے کزنز محض‬
‫الال کا پوچھ پوچھ کر دماغ چاٹ رہے ہیں اب تمہارے متعلق‬
‫بھی‪.....‬تم یہاں ہی رکو میں لے آتا ہوں۔" شازار نے دہائی‬
‫دی۔‬
‫"وہ گھوڑا بےلگام ہو گیا ہے پیارے‪ ،‬تم اسے قابو میں‬
‫نہیں کر پاؤ گے۔ کوئی پوچھے تو کہنا کہ دالور خان شکار‬
‫پر گیا تھا لوٹ آیا ہے‪ ،‬اور‪......‬اب میں اور وہ سالون گئے‬
‫ہوئے ہیں۔" اس نے سوچتے ہوئے تیز لہجے میں کہا اور‬
‫اس کا شانا تھپک کر کھڑکی کی جانب بڑھا۔‬
‫"اِدھر سے کدھر؟"‬

‫‪94‬‬
‫"کھڑکی سے پورچ۔" وہ کہہ کر اپنا گرے کوٹ اتارتے‬
‫ہوئے اس کی جانب اچھال چکا تھا۔‬
‫" میں نیچے جیسے ہی اتروں کوٹ پھینک دینا۔"سیاہ‬
‫شرٹ کے کف فولڈ کرتے ہوئے اس نے کہا۔‬
‫"تم گیٹ سے بھی جا سکتے ہو‪ "....‬شازار نے اس کی‬
‫دماغی کیفیت پر افسوس کیا۔‬
‫"کمرے سے نکلتا بعد میں ہوں خواتین پکڑ پہلے لیتی‬
‫ہیں‪.....‬اسی لیے یہ را ِہ فرار بہتر ہے فراز۔" اس نے کہتے‬
‫ہوئے کھڑکی سے جھک کر نیچے دیکھا۔‬
‫پھر دیوار کے ساتھ والے پائپ کو دیکھا جو اوپر والے‬
‫فلور سے نیچے جا رہی تھی۔‬
‫ّٰللا کا نام لے کر وہ پائپ سے اتر تو گیا تھا مگر سیاہ شرٹ‬
‫ہ‬
‫کا کبڑا ہو چکا تھا۔‬
‫شازار نے جھک کر اسے دیکھتے ہوئے قہقہہ لگایا پھر‬
‫اس کا کوٹ بھی پھینک دیا۔‬
‫وہ شرٹ جھاڑ کر کوٹ پہنتا پورچ کی جانب بڑھ گیا تھا۔‬
‫شازار مسکراتے ہوئے پلٹ گیا۔‬

‫‪95‬‬
‫"شاہزیب الال کہاں ہیں؟" نازش نے کمرے میں داخل ہوتے‬
‫ہوئے پوچھا۔‬
‫"وہ‪.....‬پتہ نہیں۔" شازار شانے آچکا کر تیزی سے فرار ہو‬
‫گیا نازش اپنا سا منہ لے کر کھڑی رہ گئی۔‬
‫انٹرنیشنل فیشن اکیڈمی کے پارکنگ ایریا میں اس کی گاڑی‬
‫بہت تیز رفتار میں داخل ہوئی تھی۔‬
‫اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی روکتے ہوئے‪.....‬اس نے‬
‫گالسز کے پیچھے سے ہی ونڈ سکرین کے پار دیکھا پھر‬
‫گردن گھما کر شیشے سے باہر دیکھا‪.....‬جہاں بہت سارے‬
‫اسٹوڈنٹس کھڑے تھے اور وہ ان کے چہروں سے اندازہ‬
‫لگا چکی تھی کہ ایک دوسرے سے اس کے متعلق ہی بات‬
‫کر رہے تھے۔‬
‫مغرور سی مسکراہٹ لیے اسے نے دراز میں سے مرر اور‬
‫ہیئر برش نکال کر بالوں کو درست کیا۔‬
‫ہونٹوں پر نیچرل کلر کے شیڈ کی لپ اسٹک کو درست‬
‫کرتے ہوئے وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر گاڑی میں سے برآمد‬
‫ہوئی تھی۔‬

‫‪96‬‬
‫سنہری سلکی بالوں کو ٹھنڈی ہوا نے چھو کر رقص کرنے‬
‫پر مجبور کر دیا تھا۔‬
‫جنہیں اس نے سمیٹنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔‬
‫سیاہ جینز پر تھائی تک جاتی سیاہ ہی شرٹ اور اس پر‬
‫مہرون النگ کوٹ زیب تن کیے اونچے سول والے بند‬
‫جوتوں پر چلتی تیز رفتاری سے آگے بڑھتی وہ اپنے کان‬
‫میں ائیربرڈ لگا رہی تھی۔‬
‫یہاں وہ اپنے کام اور نخروں کی وجہ سے بہت کم دنوں‬
‫میں مشہور ہو چکی تھی۔‬
‫وہ ایٹیڈیوڈ کوئن کے نام سے بھی اپنے کیمپس ہی نہیں‬
‫بلکہ ملحقہ کیمپس میں بھی جانی جاتی تھی۔‬
‫روون جہاں اس کا ایپارٹمنٹ تھا‪ .....‬وہاں سے آئی ایف اے‬
‫پیرس جہاں وہ اپنا تین سال کا بیچلر کر رہی تھی کوئی‬
‫دوست نہیں تھا‪....‬اور اب آنے والی زندگی میں وہ کسی پر‬
‫بھی یقین کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔‬

‫****‬

‫‪97‬‬
‫وہ پیچھلے ایک ہفتے سے نوید کے ہاں تھا‪......‬ابھی بھی‬
‫زمینی بستر پر چیت لیٹے وہ چھت کو خالی خالی نگاہوں‬
‫سے گھور رہا تھا۔‬
‫دل میں بےسکونی یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔‬
‫پاس پڑا ایش ٹرے سگریٹوں کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا‪،‬‬
‫بہت سارے بچے ٹکڑے بالکنی تک بھی بکھرے ہوئے‬
‫تھے‪.......‬سردار دالور خان اس وقت دیوداس سے کم نہیں‬
‫لگ رہا تھا۔‬
‫نوید نے دروازہ کھوال تو اندر سے جو سگریٹوں کی بو آئی‬
‫شاہزیب نے بےاختیار ہی گدے پر چیت لیٹے سردار دالور‬
‫خان کو سخت نگاہوں سے گھورا۔‬
‫"سردار‪......‬یہ سب کیا ہے؟" وہ اس سے سنجیدگی سے‬
‫استفسار کر رہا تھا۔‬
‫نوید واپس پلٹ کر جا چکا تھا۔‬
‫"تم کہاں سمجھو گے‪.....‬تمہاری محبت تو تمہارے پہلوؤں‬
‫میں ہے نا۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا مگر زیادہ دیر تک‬
‫بیٹھا نہیں گیا تو پھر سے بستر پر گر گیا۔‬

‫‪98‬‬
‫"تم کس قسم کی حرکتیں کر رہے ہو نظر آ رہا ہے تمہیں؟‬
‫یہ جو کام تم کر رہے ہو نا یہ ایک سردار کو سوٹ نہیں‬
‫کرتا۔جس پر ڈھیروں زمہ داریاں ہوتی ہیں وہ ایسی‬
‫نہیں کرتے‪ "......‬وہ اس کی جانب جھک ‪effort‬حرکتیں‬
‫کر اس کا شانا جھنجھوڑتے ہوئے درشتی سے بوال۔‬
‫سردار دالور خان نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔‬
‫"بھاڑ میں گیا سردار۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے‬
‫اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔‬
‫دالور نے ہاتھ بڑھا کر سرہانے پڑی سگریٹ کی ڈبی‬
‫اٹھائی‪،‬ایک عدد سگریٹ نکالی اور جیسے ہی سلگانے لگا‬
‫تو شاہزیب نے بےاختیار آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے‬
‫گریٹ چھین لی۔‬
‫"تم خواہ بھاڑ میں چلے جاؤ مگر میری ایک بات کان‬
‫کھول کر سن لو۔" جھک کر اسے گریبان سے تھام کر ایک‬
‫جھٹکے سے اپنی جانب کھینچتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں‬
‫میں برا ِہ راست دیکھ رہا تھا۔‬

‫‪99‬‬
‫"پہلے شازار نے اپنے قبیلے اور اپنے گھر والوں سے‬
‫بغاوت کی‪.....‬باپ کی ساری امیدوں پر پانی پھیر‬
‫دیا‪.....‬انہیں دکھ سے دو چار کر دیا۔"‬
‫ایک لمحے کو چپ ہوا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے‬
‫بیٹھ کر پھر سے بوال۔‬
‫"اور اب تم وہ ہی کر رہے ہو‪ ".......‬اس نے سرد سی آہ‬
‫بھری۔‬
‫"محبت کرنا غلط نہیں ہے مگر اس کے چلتے‬
‫ہوئے‪......‬خود سے جڑے کئی رشتوں کو دکھ دینا غلط ہے‪،‬‬
‫باغی ہونا غلط ہے‪....‬محبت اگر حاصل ہو سکے تو ٹھیک۔"‬
‫وہ اس کا کالر چھوڑ چکا تھا۔‬
‫"نہیں ملی تو یوں خود سے جڑے سارے رشتوں کو‬
‫تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔"‬
‫سردار دالور خان کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے‪....‬‬
‫پیشانی سے غصے کے بل غائب ہونے لگے۔‬
‫"مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ‬
‫ہے‪.......‬ایک جانب تم حور سے غافل ہو دوسری جانب جب‬

‫‪100‬‬
‫سے وہ گئی ہے سوگ منا رہے ہو‪.....‬تیسرا اسے طالق‬
‫بھی نہیں دی۔ نجانے تم چاہتے کیا ہو۔"‬
‫"میں اسے چاہتا ہوں‪.....‬وہ پتہ نہیں کیا چاہتی ہے‪ .....‬وہ‬
‫مجھے نہیں چاہتی کتنی آسانی سے طالق کے کاغذات پر‬
‫دستخط کرنے چلی تھی‪ "......‬وہ منمنایا۔‬
‫"تو یوں سب کو پریشان کر کے تم کون سی محبت ظاہر کر‬
‫رہے ہو؟ وہ تو یہاں ہے بھی نہیں جو تمہاری حالت پر رحم‬
‫کرے‪ .....‬اگر اسے چاہتے ہو تو اس کے پیچھے جاؤ اور‬
‫مناؤ اسے۔"‬
‫"وہ نہیں مانے گی شاہزیب! بہت ضدی لڑکی ہے۔" وہ‬
‫اپنے ٹوٹے بکھرے لہجے کو سمیٹ نہیں پا رہا تھا۔‬
‫"تم منانے کی کوشش کرو دیکھنا مان جائے گی‪.....‬اوپر‬
‫سے وہ جتنی سخت ہے اندر سے اتنی ہی نرم ہے۔"‬
‫"وہ نہیں مانے گی‪......‬اس نے کہا تھا کہ جب اسے محبت‬
‫ہو گی ت تو قیامت ہو گی‪......‬اب وہ قیامت میرے اور اس‬
‫پر دونوں پر گزر رہی ہے۔"‬
‫" یہ صرف تمہارا مسئلہ ہے۔اپنے مسائل اپنے تک ہی‬
‫مت کرو۔" بنا ‪involve‬رکھو‪.....‬اس میں دوسروں کو‬

‫‪101‬‬
‫پلکیں جھپکائے وہ برا ِہ راست اس کی آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے سختی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫"اور جو ایسا کرتے ہیں وہ‪ ........‬بزدل ہوتے ہیں۔"‬
‫شاہزیب نے بات ختم کی۔‬
‫ایک لمحہ اس کو دیکھتا رہا پھر اس کا شانا تھپک کر‬
‫تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"مجھے امید ہے تم بزدل نہیں ہو گے۔" اس نے کہتے‬
‫ہوئے سوٹ کیس اس کی جانب بڑھایا۔‬
‫"اس میں سوٹ ہے یقینا ً تم پر سوٹ کرے گا۔میں باہر‬
‫انتظار کر رہا ہوں امید ہے تم بہتر فیصلہ لو گے۔یار خود‬
‫دولہا چل کر آیا ہے تمہیں لینے کچھ عقل سے کام لے‬
‫لینا۔"‬
‫وہ سنجیدگی سے کہتے کہتے آخری فقرے پر مسکرایا اور‬
‫پھر باہر نکل گیا۔‬
‫سردار دالور خان چند پل بند دروازے کو دیکھتا رہا پھر اس‬
‫نے شاہزیب کی باتوں پر غور کیا وہ ٹھیک کہہ رہا‬
‫تھا‪......‬یہ مسئلہ صرف اس کا تھا جسے وہ اپنے تک ہی‬
‫رکھتا تو بہتر تھا اس کے لیے بھی اور سب کے لیے‪.....‬‬

‫‪102‬‬
‫بالآخر وہ ہاتھ میں قید سگریٹ کی ڈبی پرے اچھال کر اٹھا‬
‫اور سوٹ کیس میں سے ولیمے کا جوڑا نکال کر واشروم‬
‫کی جانب بڑھ گیا تھا۔‬
‫کالس میں داخل ہوتے ہی اس نے سیاہ گالسز کے پیچھے‬
‫سے ایک نگاہ سب پر ڈالی پھر گالسز اتار کر بیگ میں‬
‫رکھے اور بنا کسی کو مخاطب کیے وارڈروب کی جانب‬
‫بڑھی۔‬
‫دائیں دیوار میں میزیں وارڈروب میں ‪ ۴۱‬نمبر والے خانے‬
‫کا پاسپورٹ ٹائپ کر کے کھوال اور اپنا بیگ اس میں‬
‫رکھتے ہوئے ڈرائنگ کا سامان نکال کر اپنے ورک سپیس‬
‫کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫”‪“Hey hooriya! How are you.‬‬
‫اس کی ایک انگریزن کالس فیلو نے مسکراتے ہوئے ہائے‬
‫کہا تھا۔‬
‫”‪“Assalamu alaikum…!Alhumdulilah.‬‬
‫سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ اپنے بورڈ پر شیٹ درست‬
‫کرنے لگی تھی۔‬

‫‪103‬‬
‫اس کے خشک رویّے کی بدولت اب کوئی کالس فیلو زیادہ‬
‫مخاطب نہیں ہوتا تھا اور اسے بھی کوئی فرق کہاں پڑتا‬
‫تھا۔‬

‫‪“Has there been a handsome professor of‬‬


‫?‪sculpture‬‬
‫اس کے ایک کالس فیلو نے بلند آواز میں پوچھا تھا۔‬
‫”‪Yes. And he’s cool.‬‬
‫ایک انگریزن نے پرجوش انداز میں کہا تھا۔‬
‫”?‪“Have you seen him‬‬
‫اب سب اس لڑکی کی جانب متوجہ تھے۔‬
‫غیر ارادہ طور پر حور بھی ان کی باتیں سن رہی تھی‪....‬‬
‫حاالنکہ سکلپچر اس کا پسندیدہ سبجیکٹ نہیں تھا مگر‬
‫سکلپچر کا پروفیسر جو تھا وہ بہت اچھا شخص تھا۔‬
‫ادھیڑ عمر کے پروفیسر ایڈویٹ کی جگہ اب کوئی نیا‬
‫شخص آ رہا تھا تھوڑی دلچسپی تو تھی اسے۔‬
‫‪“Of course, not only seen but also talked.‬‬

‫‪104‬‬
He is such a sweet person….What a smile….
What a way to talk and….Uffff his
Attitude….”
‫انگریزن جھوم جھوم کر تعریفیں کر رہی تھی۔‬
“I can’t believe it…such a boring
subject…will be taught by such a hot
person…..”
‫دوسری انگریزن بھی اس قصیدے میں شامل ہوئی تھی۔‬
Listen to me girls…..Add another thing to
your knowledge that…….”
‫ایک لڑکے نے بلند آواز میں سب کو مشترکہ مخاطب کرتے‬
‫ہوئے سسپنس پھیالیا۔‬
“He is a very expert sculptor…..And and his
anger is very dangerous.so please be
careful.”
‫وہ لڑکا اپنی بات ختم کرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرتا کالس‬
‫روم سے نکل گیا تھا۔‬

105
‫‪“Let’s see what Mr. Ozar Soomro makes‬‬
‫”‪today.‬‬
‫پہلی انگریزن نے اپنی ماال کے ساتھ کھیلتے ہوئے کچھ‬
‫اس انداز میں کہا کہ کالس قہقہوں سے گونج اٹھی۔‬
‫"عوذر سومرو؟‪ "......‬حور بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے‬
‫دروازے کی سمت بڑھی مگر تب تک ڈرائنگ کا پروفیسر‬
‫دروازے سے اندر انٹر ہو چکا تھا۔‬
‫”!‪“Good morning Ms.Horiya‬‬
‫خوش اخالقی سے پروفیسر نے کہا تھا۔‬
‫”!‪“Good morning professor‬‬
‫سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ پلٹ کر اپنی ورک پلیس پر‬
‫جا کھڑی ہوئی۔‬
‫"ڈیئر اسٹوڈنٹس‪....‬آج آپ کو کالس اسائنمنٹ مل جائے گی‬
‫جو کل گھر سے کر کے الئیں گے۔ کیونکہ‪.....‬مسٹر سومرو‬
‫کے ساتھ آج آپ کو کام کرنا ہے۔"‬
‫پروفیسر نے مسکراتے ہوئے اطالع دی تھی۔‬
‫سب ہی بہت خوش ہو گئے تھے۔‬

‫‪106‬‬
‫حور نے سب لڑکیوں کے چہروں پر پھیلتی خوبصورت‬
‫مسکراہٹ دیکھتے ہوئے نفی میں سر جھٹکا تھا‬
‫‪“How many poisonous people are hidden‬‬
‫‪behind beautiful faces, these stupid girls will‬‬
‫”‪never understand.‬‬
‫(خوبصورت چہروں کے پیچھے کتنے زہریلے لوگ چھپے‬
‫ہوتے ہیں یہ بیوقوف لڑکیاں کبھی نہیں سمجھیں گیں۔)‬
‫وہ نخوت سے سوچتے ہوئے اپنا سامان واپس وارڈروب‬
‫میں رکھنے لگی تھی۔‬
‫"وہ پگال ہی ہے۔ کہیں پھر سے تو مجھے اغواء‪ ......‬نہیں‬
‫نہیں‪.....‬اب اتنی ہمت نہیں ہے‪....‬اس مرتبہ اگر اس نے‬
‫اغواء کیا تو جان سے مار ڈالوں گی اس پگلے اور کجلے‬
‫دونوں کو۔ویسے اس کا کجال کہاں ہے؟" وہ مسلسل‬
‫سوچتے ہوئے اپنی کالس کے ساتھ چل رہی تھی۔‬
‫پتہ بھی نہیں چال کہ سکلپچر کالس میں داخل ہو گئی اور‬
‫کب پروفیسر عوذر سومرو اندر داخل ہوا۔‬
‫وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا سوچ رہا تھا کہ نجانے‬
‫رسم سوگ جو ختم‬‫ِ‬ ‫دالور خان کیا فیصلہ کرے گا‪....‬؟اپنی‬

‫‪107‬‬
‫کرے گا یا نہیں‪......‬؟کیا وہ بھی شازار خان کی مانند بنتا جا‬
‫رہا ہے؟‬
‫وہ اضطرابی کیفیت میں ہاتھ مسلنے لگا‪...‬‬
‫تبھی مین گیٹ کا چھوٹا در کھول کر وہ نکال تھا‪ ،‬ہونٹوں‬
‫پر مسکراہٹ لیے اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"تم نے ٹھیک کہا ہے خانزادے!‪.....‬یہ میرا مسئلہ ہے اور‬
‫اس سے دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے خاص‬
‫طور پر اپنے والدین کو۔" وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"کاش جس طرح تم نے مجھے سمجھایا اسی طرح میں‬
‫بھی شازار کو سمجھا سکتا‪ "......‬دالور نے اس کے گرد‬
‫بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔‬
‫شاہزیب اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے مسکرا دیا۔‬
‫"ویسے تم نے میرا گریبان پکڑنے کی جرات کیسے کی تم‬
‫سے ایک دو سال تو تقریبا ً بڑا ہوں گا۔" پیچھے ہٹتے‬
‫ہوئے وہ مصنوعی غصے سے اس کا گریبان تھماتے‬
‫ہوئے بوال۔‬

‫‪108‬‬
‫"مت بھولو کہ میں تمہارا ساال ہوں اور سالے سے بنا کر‬
‫رکھنی چاہیے‪.....‬ویسے بھی مجھے تم جیسے بگڑے‬
‫ہوئے جاگیرداروں کو سدھارنے کا حق قانون نے دیا ہے۔"‬
‫وہ بھی اس کے انداز میں بولتے ہوئے اس کے ڈھیلے‬
‫ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑوا چکا تھا۔‬
‫دالور خان قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔‬
‫"تھینک یو بڈی۔" وہ اس کے شانے پر تھپکی دے کر اپنی‬
‫گاڑی کی جانب بڑھا۔‬
‫"ساتھ ساتھ چلیں؟ میری گاڑی میں؟" شاہزیب نے پیچھے‬
‫سے اسے مخاطب کیا وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا۔‬
‫"ہوں ٹھیک ہے۔" وہ پلٹا اور گاڑی کے فونٹ کے سامنے‬
‫سے گھوم کر لیفٹ سیٹ پر براجمان ہوا تھا۔‬
‫شاہزیب نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔‬
‫اس نے اپنے تعارف کے بعد سکلیچر کے متعلق کلیچر‬
‫شروع کر دیا تھا۔‬
‫"سکلپچر بنانا بہت آسان ہے مگر اس میں جان ڈالنا اتنا ہی‬
‫مشکل ہے جتنا کہ ایک لڑکی کو پٹانا۔" مزاحیہ خیز لہجے‬
‫میں کہتے ہوئے وہ سب کو ہنسنے پر مجبور کر چکا تھا۔‬
‫‪109‬‬
‫حور قہقہوں کی آواز پر خیاالت کی دنیا سے جاگتے ہوئے‬
‫سامنے دیکھنے لگی۔‬
‫عوذر سومرو آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے‪ ،‬ڈریس‬
‫پینٹ شرٹ زیب تن کیے وہ مدھم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر‬
‫سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔‬
‫"میں کوئی تھیوری نہیں بتاؤں گا‪.....‬بلکہ اپنے خیاالت اور‬
‫ایکسپیرنس اور سکلپچر کے حوالے سے جو تجربات‬
‫ہیں‪....‬ان کے مطابق آپ لوگوں کو گائیڈ کرنا چاہوں گا تاکہ‬
‫آپ سب کو آسانی ہو‪ ......‬سکلپچر سیکھنے اور سمجھے‬
‫میں۔"‬
‫حور پر سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے وہ پینٹ کی جیبوں میں‬
‫ہاتھ ڈالے سب کے چہروں کو دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫اس کی انگش زبان سن کر حور کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا‬
‫کہ یہ وہ ہی جاہل سا‪.....‬میال کچیال مجرم پگال ہے۔‬
‫‪“Sculpture ……. Is a feeling, it is not just‬‬
‫‪made …. But it is felt …… until we feel it our‬‬
‫”‪hands fail to make the sculpture Are.‬‬

‫‪110‬‬
‫(سکلپچر‪.......‬ایک احساس ہے‪ ،‬یہ صرف بنایا نہیں جاتا‪....‬‬
‫بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے‪......‬جب تک ہم اسے‬
‫محسوس نہیں کرتے تب تک ہمارے ہاتھ سکلپچر کو بنانے‬
‫میں ناکام رہتے ہیں)‬
‫اس کی بات پر سب نے متفقہ طور پر سر ہالیا تھا۔‬
‫"مس حور! آپ یہاں آئیں پلیز۔" اس کے مخاطب کرنے پر‬
‫حور نے سر اٹھا کر اس کی جانب حیران کن نگاہوں سے‬
‫دیکھا تھا‪...‬اور پوری کالس کی نگاہوں نے حور کو‪....‬کہ‬
‫پروفیسر عوذر سومرو اسے جانتے ہیں؟‬
‫"میں؟"‬
‫"جی جی یہاں حور آپ ہی ہیں۔" اس نے کچھ اس انداز‬
‫میں کہا تھا کہ وہ حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"میرا مطلب حوریہ نام آپ کا ہی ہے نا یہاں۔" وہ مصنوعی‬
‫سٹپٹا کر بوال تھا۔‬
‫حور اپنے غصے کو دباتی اس کی جانب بڑھی۔‬
‫"یہاں بیٹھیں پلیز۔" اس نے اپنی کرسی سیدھی کرتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫‪111‬‬
‫"میں؟"‬
‫"آپ سے ہی مخاطب ہوں تو‪....‬آپ ہی نا۔" عوذر نے‬
‫سنجیدگی سے کہا تو وہ مجبوراً کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫"ریلکس مس حور! ہم آپ کو بارڈر پر نہیں بھیج رہے۔"‬
‫وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال تو حور نے تیزی سے‬
‫چہرے کے ایکسپریشنز بدلے۔‬
‫"آئی ایم فائن پروفیسر!" اس نے بےتاثر لہجے میں کہتے‬
‫ہوئے سامنے دیوار کو گھورنا شروع کر دیا تھا۔‬
‫"اوکے۔‬
‫سو مائی ڈیئر اسٹوڈنٹس‪ ".......‬اس نے توجہ دوسری‬
‫کالس کی جانب کی۔‬
‫"آپ کے سامنے حور صاحبہ کو کیوں بیٹھایا آپ سب یہ ہی‬
‫سوچ رہے ہوں گے نا‪......‬؟" اس کے استفسار پر کئی سر‬
‫اثبات میں ہلے تھے۔‬
‫وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے حور کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"کیونکہ آج آپ حور کا سکلپچر بنائیں گے‪ ".....‬س کی‬
‫بات پر حور نے بری طرح چونک کر اس کی جانب دیکھا‬
‫اور ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫‪112‬‬
‫"وہاں تم میرا سکلپچر نہیں بنا سکے تھے تو اب یہاں بناؤ‬
‫گے؟ ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ تم یہ کر پاؤ گے؟" وہ‬
‫اس کی جانب بڑھتے ہوئے اردو زبان میں غصے سے چنخ‬
‫کر بولی تھی۔‬
‫عوذر ہڑبڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫"کیا کر رہی ہیں آپ حور! میری پوری بات تو سن لیں‪".....‬‬
‫وہ تیزی سے بوال۔‬
‫"تمہارے ساتھ کے جتنے بھی لوگ ہیں نا سب کو عمر قید‬
‫ہو چکی ہے‪.....‬ایک کال کروں گی اور شاہزیب تمہیں‬
‫آریسٹ کرنے کے لیے یہاں پہنچ جائے گا۔"‬
‫وہاں کسی کو ان کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔‬
‫بس سب حیران کن نگاہوں سے ان دنوں کے ایکسپریشنز‬
‫نوٹ کر رہے تھے۔‬
‫حور بےحد غصے میں تھی اور عوذر بےتاثر چہرہ لیے‬
‫اسے اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔‬
‫"میرے راستے سے ہٹو پگلے‪"....‬‬
‫"عوذر سومرو نام ہے میرا‪ "....‬وہ دائیں بھنویں کو آچکا‬
‫کر بوال۔‬
‫‪113‬‬
‫" میں نے کہا میرے راستے سے ہٹو۔"‬
‫"تم غلط سمجھ رہی ہو‪ ،‬میں کہنے لگا تھا کہ آپ کو حور‬
‫کا سکلپچر بنانا ہے میں یہ نہیں کہہ رہا پل بلکہ اس طرح‬
‫جس طرح تم ایک جیتی جاگتی انسان ہو سکلپچر بھی ایسا‬
‫ہی ہو۔" وہ اپنی صفائی میں بوال۔‬
‫حور مزید رکے بنا اسے سامنے سے دھکیل کر کالس روم‬
‫میں سے نکل گئی تھی۔‬
‫عوذر چند پل اضطرابی کیفیت میں گھیرا وہاں کھڑا رہا پھر‬
‫بےحد تیزی سے کالس روم میں سے نکال کر اس کے‬
‫پیچھے بڑھا۔‬
‫*****‬
‫وہ دونوں تو کالس روم سے نکل گئے جب کہ پیچھے کئی‬
‫سوال اٹھ رہے تھے۔‬
‫”?‪“Do they already……know each other‬‬
‫”?‪“What was….going on…..between them‬‬
‫”?‪“Why was she angry at…..him‬‬

‫‪114‬‬
‫"میری بات سنو حور!" وہ اس تک پہنچ چکا تھا‪....‬اس کی‬
‫کالئی تھام کر اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے نرم سے‬
‫لہجے میں بوال۔‬
‫"میں وہاں اپنی خوشی سے ہرگز نہیں تھا‪.....‬اور رہی بات‬
‫آریسٹ کی تو میں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا‬
‫تھا۔ مگر پولیس نے خود مجھے آزاد کیا کیونکہ مجھے‬
‫وہاں اغواء کر کے رکھا گیا تھا۔میرے والدین اس شخص‬
‫کے ٹارچر سہہ رہے تھے جس وجہ سے میں وہاں‬
‫تھا‪....‬زبردستی مجھ سے وہ کام کروایا جا رہا تھا‪".......‬‬
‫وہ افسردگی سے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔‬
‫"مجھے کیوں بتا رہے ہو؟ بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری یہ‬
‫کالس‪.....‬اور آئندہ اگر تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش‬
‫کی تو جان سے مار ڈالوں گی۔" اپنی کالئی اس کی گرفت‬
‫سے آزاد کرواتے ہوئے وہ چال کر کہتی وہاں رکے بنا آگے‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫"تم اس طرح مجھ پر چال نہیں سکتی۔" وہ تیزی سے آگے‬
‫بڑھا۔‬

‫‪115‬‬
‫"اگر تم چاہتے ہو کہ میں‪....‬تم پر‪.....‬نہ چالؤں تو‪......‬مجھ‬
‫سو ہزار فٹ دور رہنا۔" وہ پلٹ کر الٹے پاؤں چلتی کہتے‬
‫ہوئے رخ پھیر گئی۔‬
‫عوذر کے قدم تھم گئے تھے۔‬

‫پنڈال مردوں سے بھرا ہوا تھا۔‬


‫سس میں‬‫آج نئے سردار کی گدی نشینی تھی‪....‬سب تج ّ‬
‫گھیرے حامد خان کا انتظار کر رہے تھے جو مالزموں کے‬
‫ساتھ پگ لینے حویلی گئے ہوئے تھے۔‬
‫وہ تینوں ہی سفید کلف زادہ شلوار قمیض میں ملبوس ایک‬
‫جانب کھڑے کسی بات پر مسکرا رہے تھے جب حامد خان‬
‫مردان خانے میں داخل ہوئے۔‬
‫پیچھے چھ سات مالزم تھے جن کے ہاتھ میں بڑے بڑے‬
‫تھال تھے جو ریشمی کپڑوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔‬
‫ان کے وہاں آ کر رکنے پر سب کی نگاہیں اب منتظر تھیں‬
‫کہ اس سربراہی کرسی پر کون بیھٹے گا۔‬
‫کیونکہ کل ہی وہاں تخت پر پڑیں تین کرسیوں کو ہٹا کر‬
‫وہاں ایک بڑی‪....‬اور عالیشان نشست رکھ دی گئی‬
‫‪116‬‬
‫تھی‪.....‬جس کا صاف مطلب تھا کہ اب خان پور اور نادر‬
‫پور پر صرف ایک سردار حکومت کرے گا۔‬
‫حامد خان نے کل جمعہ والے دن عالن کر دیا تھا کہ‪....‬‬
‫"اب ہم اپنی باقی کی زندگی ایک عام انسان کی مانند گزارنا‬
‫چاہتے ہیں‪....‬اپنی زمہ داریوں کی پگ بھی اس سردار پر‬
‫رکھیں گے جو گدی نشین ہو گا۔"‬
‫مطلب کہ اب اس عالقے کی ساری بھاگ دوڑ محض ایک‬
‫سردار پر آنے والی تھی۔‬
‫اور وہ سردار کون ہو گا؟‪.....‬‬
‫حامد خان کے عالؤہ اور کوئی بھی انسان اس سؤال کا‬
‫جواب نہیں جانتا تھا۔‬
‫حامد خان نے ایک مسکراتی نگاہ اپنے تینوں بیٹوں پر‬
‫ڈالی۔‬
‫"جیسا کہ پچھلے کچھ برسوں سے تین سرداروں کی گدی‬
‫نشینی ہوتی آئی ہے۔ مگر اب سردار دالور خان کے حکم‬
‫اور باقی کے دونوں خانزادوں کی رائے کو مدنظر رکھتے‬
‫ہوئے سرداری کی پگ کسی ایک خانزادے کے سر پر‬
‫رکھی جائے گی۔" وہ چند پل خاموش ہوئے۔‬

‫‪117‬‬
‫"آج سے جو سردار اس گدی پر بیٹھے گا وہ ہی جمعہ‬
‫والے دن آپ کے فیصلے کرے گا‪.....‬وہ ہی آپ سب کی‬
‫سنے گا‪ ،‬بیشک ہم سب آپ سب کے ساتھ ہوں گے‪ ،‬ہمارا‬
‫گھرانہ آپ سب کی حفاظت کے لیے ہمیشہ موجود رہے‬
‫گا۔" انہوں نے قدم ایک مالزم کی جانب بڑھائے اور سردار‬
‫کی سفید پگ اور شیشیوں جڑی ٹوپی پر سے کپڑا ہٹا دیا۔‬
‫پھر آگے بڑھے اور دوسرے تھال پر سے کپڑا ہٹایا اس‬
‫میں تلوار تھی۔‬
‫"یہ ہماری خاندانی تلوار ہے‪.....‬ہمارے دادا پردادا کے دور‬
‫کی‪....‬جب وہ سردار تھے۔"‬
‫وہ اب پلٹ کر تخت کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔‬
‫انہوں نے دالور خان کو اوپر آنے کا اشارہ کیا تھا وہ ان‬
‫کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے آگے بڑھا۔‬
‫"سردار پتر!‪......‬مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا فیصلہ درست‬
‫ہے۔" انہوں نے اس کے کان میں گھس کر کہا تھا۔‬
‫"مجھ پر یقین رکھیں‪.....‬وہ سب سنبھال لے گا‪ ".....‬دالور‬
‫خان نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔‬

‫‪118‬‬
‫"ویسے بھی میں اسے تنہا نہیں چھوڑوں گا‪......‬اس کے‬
‫ساتھ ہمیشہ رہوں گا۔" اس نے انہیں یقین دالیا تھا۔‬
‫حامد خان محض اثبات میں سر ہال کر مبہم سا مسکرا‬
‫دیئے۔‬
‫دالور خان ہٹ کر کرسی کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا‬
‫تھا‪......‬‬
‫اب سب کی نگاہیں شازار اور شاہزیب پر تھیں کہ ان میں‬
‫سے کون سردار چنا جائے گا۔‬
‫حامد خان جانتے تھے کہ بہت ساری نگاہیں ہیں جو‬
‫شاہزیب کو سردار چن چکی ہیں مگر وہ کچھ نہیں کر‬
‫سکتے تھے۔‬
‫"سردار دالور خان آج اپنی نشست چھوڑ رہے ہیں‪.....‬مگر‬
‫اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم آپ سب سے آنکھیں میچ‬
‫لیں گے‪.....‬اور مطمئن رہیں آپ کا نیا سردار ہم سے زیادہ‬
‫رحم دل اور آپ کا نگہبان ہو گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا تھا۔‬
‫اس کے بعد جس شخص کا نام دالور خان نے لیا تھا سب‬
‫کے سب حیران رہ گئے۔‬

‫‪119‬‬
‫"خان! آئیں یہاں‪.....‬اپنی نشست سنبھالیں۔" اس نے پھر‬
‫سے کہا تھا۔‬
‫وہ جو حیراں و پریشاں سا کھڑا آنکھیں پھاڑے ان دونوں‬
‫کو دیکھ رہا تھا چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔‬
‫"میں؟ میں کیسے الال‪ ......‬سردار تو آپ ہیں‪ ".....‬اس نے‬
‫تیزی سے ہکالتے ہوئے کہا‬
‫"ہم تھے‪......‬خان! مگر اب آپ ہیں‪ .....‬آخر کب تک آپ زمہ‬
‫داریوں سے بھاگ سکتے ہیں؟" دالور خان مسکراتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"خانزادے!‪.....‬یہ الال کیا کہہ رہے ہیں؟ دیکھو مجھ سے‬
‫نہیں ہوتی سرداری ورداری۔" شازار اس کے کان میں‬
‫گھس کر خفگی سے بوال تو وہ محض مسکرا دیا۔‬
‫"سرداری کون سا مشکل ہے۔"‬
‫"یار مجھے بلی چڑھنے سے روک لو۔" وہ التجا پر اتر آیا‬
‫تھا۔‬
‫اسے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ سرکتے‬
‫دیکھ‪......‬دالور خان تخت سے اتر کر اس کی جانب بڑھا۔‬

‫‪120‬‬
‫"سائیں‪ !.....‬شازار خان سرداری کی پگ کیسے سنبھالے‬
‫گا؟" نادر پور کے ایک شخص نے استفسار کیا تھا۔‬
‫کہ پیچھے کئیں دبی دبی آواز میں سوال اٹھے۔‬
‫"بلکل میرا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ شازار خان سرداری کے‬
‫قابل نہیں ہے۔ اسے سردار مت بنایا جائے۔" شازار تیزی‬
‫سے بوال تھا۔‬
‫وہ پھرتی سے دالور خان کے عقب سے نکل کر عوام کی‬
‫قطار میں جا کھڑا ہوا۔‬
‫"میں تم سب کے ساتھ ہوں‪ ،‬ہم دھرنا دیں گے‪......‬ہمیں‬
‫شازار خان جیسا سردار ہرگز نہیں چاہیے۔" وہ اپنے ہی‬
‫خالف کھڑا تھا۔‬
‫سردار دالور خان نے پیشانی پیٹ لی جبکہ شاہزیب بمشکل‬
‫اپنی ہنسی دبا رہا تھا۔‬
‫"تمہیں سرداری سنبھالنی ہی پڑے گی۔حور کو منانے کے‬
‫ارادے سے جو تم لمبی چھٹی چاہتے تھے وہ پالن تو‬
‫کینسل ہو گیا‪....‬یہ تو دھرنے پر بیٹھنے کی باتیں کر رہا‬
‫ہے۔" وہ اپنی ہنسی پر کنٹرول کرتے ہوئے دالور خان کے‬
‫کان میں بوال۔‬

‫‪121‬‬
‫"سردار تو یہ بنے گا۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں بنتا۔" دالور‬
‫خان نے کہتے ہوئے رخ شازار کی جانب پھیرا۔‬
‫"تم زبردستی نہیں کر سکتے اس کے ساتھ۔" شاہزیب نے‬
‫کہا۔‬
‫"خان! چپ چاپ جا کر تخت پر بیٹھ جاؤ۔" اس نے دبے‬
‫دبے غصے میں کہا تو شازار منہ لٹکا کر شاہزیب کی جانب‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"آپ شاہزیب کو سردار بنا دیں نا۔" اس کی بات پر اب‬
‫شاہزیب کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔‬
‫"یار میں کیسے بن سکتا ہوں۔ میں تو تم سب کا محافظ‬
‫الریڈی ہوں۔" اس نے بات سنبھالی تھی۔‬
‫"بس بہت ہوا خانزادو‪ !.....‬ہم نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی‬
‫مخالفت ہم برداشت نہیں کریں گے۔" حامد خان نے سخت‬
‫لہجے میں کہا تو وہ تینوں خاموش ہو کر احتراما ً سر جھکا‬
‫گئے۔‬
‫"شازار خان! آپ جانتے ہیں نا کہ آٹھ نو سال سردار دالور‬
‫خان نے تنہا ہی اس قبیلے کو ‪،‬اس عالقے کو اور اپنے‬
‫بزنس کو سنبھاال ہے‪......‬اب دالور خان محض اپنے بزنس‬

‫‪122‬‬
‫کو وقت دینا چاہتا ہے‪....‬اور وہ چاہتا ہے کہ یہ قبیلہ ایک‬
‫محفوظ ہاتھوں میں دے دیا جائے‪.....‬رہی شاہزیب کو‬
‫سرداری کی نشست پر بیٹھانے کی بات تو‪....‬بیشک شاہزیب‬
‫بہت ہونہار ہے وہ سب سنبھال لے گا مگر وہ تو پہلے سے‬
‫ہی ہماری حفاظت کر رہا ہے۔" انہوں نے بات ختم کرتے‬
‫ہوئے ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی۔‬
‫"اور تم بھی کوئی ناسمجھ نہیں ہو شازار خان‪ !.....‬ہمارے‬
‫پشاور جانے پر جس طرح تم نے پیچھے سے سب سنبھاال‬
‫اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہم نے سردار دالور‬
‫خان کی بات مانی ہے اور تمہیں سرداری سونپنے والی بات‬
‫پر غور کیا ہے۔"‬
‫وہ اب نرمی سے کہہ رہے تھے۔ شازار نے سر اٹھا کر ان‬
‫کی جانب دیکھا۔‬
‫کچھ سوچ کر وہ آگے بڑھا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے بابا سائیں! ہم تیار ہیں مگر ہماری ایک شرط‬
‫ہے کہ اگر ایک سال تک ہم سے کوئی غلطی نہ ہوئی تو ہم‬
‫سرداری کی نشست سنبھالیں گے‪"....‬‬
‫اس کی بات سے سب ہی متفق نظر آ رہے تھے۔‬

‫‪123‬‬
‫حامد خان نے سردار دالور خان کی جانب دیکھا تو اس نے‬
‫اثبات میں سر ہال دیا۔‬
‫"ٹھیک ہے خان!" انہوں نے حامی بھر لی تھی۔‬
‫"فلحال ہمارا سردار دالور الال ہی ہیں۔" وہ کہتے ہوئے اس‬
‫کی جانب متوجہ ہوا۔‬
‫دالور خان بےدلی سے مسکرا دیا تھا کہ اب اس کا دل ان‬
‫کاموں سے اچٹ ہو چکا تھا‪.....‬مگر سب کی خوشی کو‬
‫مدنظر رکھتے ہوئے وہ سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔‬
‫گدی نشینی کے بعد جشن کا سا سماں باندھ گیا تھا۔‬
‫ڈھول کی تھاپ پر مرد رقص کرنے لگے تھے‪....‬حویلی‬
‫میں بھی سنگیت گونج رہے تھے۔‬
‫یہ جشن اب پورے سات دن چلنا تھا اور وہ جو یہاں سے‬
‫جانے واال تھا حور کو منانے‪.....‬ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا‬
‫کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کر سکتا تھا۔‬
‫زری نے سر اٹھا کر پہاڑی کو بہت غور سے دیکھا تھا۔‬
‫"کیا دیکھ رہی ہو باجی؟" اس کے پیچھے آ رہی گلنار‬
‫(حکم بابا کی بیٹی) نے حیرانگی سے سر اٹھا کر اس کی‬
‫نگاہوں کا پیچھا کیا تھا۔‬
‫‪124‬‬
‫"اس پہاڑی پر ایک بہت خوفناک داستان دفن ہے گلنار!"‬
‫وہ سر جھکا کر پھولوں والی ٹوکری اٹھا چکی تھی۔‬
‫زرمینہ گلگت بلتستان آ تو گئی تھی مگر اس کا دل نہیں کیا‬
‫تھا وہاں جانے کو جہاں اس کے ساتھ اس قدر ظالمانہ‬
‫سلوک روا رکھا گیا تھا‪......‬‬
‫وہ پہاڑی سے کوئی پانچ چھ سو کلومیٹر نیچے واقع بستی‬
‫میں رہ رہی تھی‪ ....‬حکیم بابا کے گھر جو اسے پہچان گیا‬
‫تھا مگر بابا نے کوئی بھی ذکر نہیں کیا تھا اس واقع کے‬
‫متعلق۔‬
‫"کیا مطلب باجی؟ کیسی کہانی‪....‬مجھے سنائیں نا۔" گلنار‬
‫سس آمیز لہجے میں گویا ہوئی۔‬‫تج ّ‬
‫"ٹھیک ہے سناتی ہوں۔" وہ دونوں چلتی ہوئیں ایک‬
‫جھرنے کے قریب صاف جگہ پر کپڑا بچھا کر زمین پر بیٹھ‬
‫گئی تھیں۔‬
‫گلنار نے ٹوکری میں سے گھر سے الئے میوہ جات اور‬
‫چند پکوان برآمد کیے اور دسترخوان پر سجا دیئے۔‬
‫وہ آج گھومنے پھرنے نکلی تھیں۔‬

‫‪125‬‬
‫"بہت صدیوں پہلے کی بات ہے‪.......‬یہ کہانی ہے ایک‬
‫شہزادی ‪ ،‬ایک شہزادے اور ایک‪ ".....‬وہ کہتے کہتے‬
‫لحاظہ بھر رکی۔‬
‫"ایک سپاہی کی۔" گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے‬
‫ساکت پلکیں سامنے جھرنے پر ٹکا چکی تھی۔‬
‫"شہزادی کا والد شہزادے کی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا‬
‫تھا‪.....‬جس وجہ سے دونوں ہی ریاستوں کے درمیان بہت‬
‫گہری دشمنی تھی‪ ......‬دونوں گاؤں‪....‬م میرا مطلب‬
‫ریاستوں کے لوگ ایک دوسرے سے بہت نفرت کرتے‬
‫تھے۔"‬
‫"شہزادہ بہت رحم دل اور بہادر تھا‪....‬شہزادی بھی‪....‬رحم‬
‫دل شہزادے کے قصے سنتی رہتی تھی‪ .....‬یہ سب سن کر‬
‫وہ نہت متاثر ہوتی تھی‪ ....‬اتنی کہ رفتہ رفتہ وہ اس‬
‫شہزادے کے عشق میں مبتال ہو گئی‪.....‬وہ اس سے ملنا‬
‫چاہتی تھی‪،‬اسے اپنے دل کا حال بتانا چاہتی تھی۔"‬
‫زری کے ہونٹوں کو ایک زخمی سی مسکراہٹ نے چھوا‬
‫تھا۔‬

‫‪126‬‬
‫جہاں سے سب شروع ہوا تھا‪...‬وہاں سے اس کی آنکھوں‬
‫کے پردے پر یہ سب ایک فلم کی مانند چلنے لگا تھا۔‬
‫"اور پھر ایک دن وہ ملے‪.....‬شہزادہ بہت خوبصورت تھا‪،‬‬
‫ہیرے کی مانند چمکتی اس کی آنکھیں شہزادی کو جکڑنے‬
‫لگیں‪ ".....‬وہ کہتے کہتے ایک دم سے اس وقت اپنی‬
‫دالور خان سے پہلی مالقات میں کھو سی گئی تھی‪.....‬‬
‫"پھر کیا ہوا باجی؟ کیا شہزادے کو شہزادی سے محبت‬
‫ہوئی؟"‬
‫اس کے استفسار پر زری نے مبہم سی مسکراہٹ لیے‬
‫اسے دیکھا اور بنا اس کے سوال کا جواب دیئے مزید‬
‫بولی۔‬
‫"شہزادی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے محل سے‬
‫در بدر ہو گئی‪ .....‬شہزادے کے محل میں نوکر بن کر کام‬
‫کرنے لگی‪....‬محض سردار کی ایک جھلک کی خاطر‪.....‬م‬
‫میرا مطلب شہزادے کو دیکھنے کے لیے۔‬
‫دن گزرتے گئے‪ ،‬شہزادی کا نام تک بدل چکا تھا‪....‬کیونکہ‬
‫اب وہ شہزادی نہیں کنیز تھی۔" یہ کہانی سناتے وقت اس‬

‫‪127‬‬
‫کے حلق میں کانٹے سے اٹک رہے تھے‪ .....‬کیونکہ یہ‬
‫کہانی اس پر گزری اک قیامت تھی۔‬
‫"پھر کیا ہوا باجی؟‪ ".....‬گلنار دلچسپی سے سن رہی تھی۔‬
‫"پھر شہزادی کا والد جو کہ سب کچھ جانتا تھا کہ ان کی‬
‫شہزادی دوسری سلطنت میں موجود ہے‪ ....‬مگر اپنے‬
‫منصوبے کو سر انجام دینے کے لیے وہ خاموش رہا‪....‬اور‬
‫یوں ظاہر کرتا رہا جیسے میں اغواء ہو گئی ہوں‪......‬م‬
‫میرا‪.....‬مطلب شہزادی اغواء ہو گئی ہو۔"‬
‫وہ ایک پل کو پھر سے ہڑبڑا کر خاموش ہوئی تھی۔‬
‫"وہ لوگ اپنے گھٹیا منصوبوں کو سرانجام دینے کے لیے‬
‫شہزادے کی سلطنت پہنچے‪ .....‬شہزادے پر الزامات لگائے‬
‫کہ انہوں نے شہزادی کو اغواء کر لیا ہے دشمنی میں‪.....‬‬
‫شہزادی دربار میں دیوار کی آؤٹ میں کھڑی سب سن رہی‬
‫تھی‪.....‬اس سے برداشت نہیں ہوا کہ کوئی اس کے محبوب‬
‫پر اتنے برے الزامات لگا رہا تھا۔‬
‫وہ سب کے سامنے آئی اور شہزادے کے پاکیزہ کردار کی‬
‫قسم اٹھاتے ہوئے‪ ....‬کہنے لگی کہ وہ خود یہاں آئی ہے‪،‬‬
‫اظہار محبت دنیا کے سامنے سرعام کیا تھا‪.....‬اس‬
‫ِ‬ ‫اس نے‬

‫‪128‬‬
‫سرکشی پر دونوں سلطنت کے لوگوں نے شہزادی پر پتھر‬
‫برسانے شروع کر دیئے تھے‪.....‬اور پھر‪"......‬‬
‫ایک آنسو پلکوں کی باڑ پھیالنگ کر رخسار پر پھسال تھا۔‬
‫"پھر کیا ہوا باجی؟ شہزادی کو شہزادے نے بچا لیا اور‬
‫پھر ان کی شادی ہو گئی‪.....‬کیونکہ شہزادہ بھی شہزادی کو‬
‫چاہتا تھا‪"....‬‬
‫اپنی جانب سے گلنار نے کہانی مکمل کی تھی جس پر‬
‫زرمینہ کے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی۔‬
‫ہونٹوں سے ایک سسکاری سی نکلی تھی۔‬
‫"ہر کہانی میں شہزادی کو اس کا شہزادہ نہیں ملتا گلنار!"‬
‫اس نے انگلی کی مدد سے رخسار پر سے آنسو کی لکیر‬
‫مٹائی۔‬
‫"شہزادی نے خود کو خود ہی بدنام کیا تھا‪.....‬اس نے‬
‫شہزادے تک پہنچنے کے لیے ہر اچھے اور کسی حد تک‬
‫بہت برے حربے آزمائے تھے۔اس کے چھوٹے موٹے‬
‫گناہوں کی یہ سزا تھی کہ اس کی شادی ایک‪.....‬س سپاہی‬
‫سے کرنے کا فیصلہ شہزادے نے خود کیا۔‬

‫‪129‬‬
‫اور شہزادی نے اپنے عزیز محبوب کی بات کو سر آنکھوں‬
‫پر رکھا تھا‪.....‬اور تمہیں پتہ ہے وہ جو سپاہی تھا نا وہ‬
‫خوبصورت انسانی روپ میں ایک خطرناک درندہ تھا۔" وہ‬
‫دھیمی آواز اور ڈرانے والے انداز میں بےحد بولی۔‬
‫گلنار کی آنکھیں خوف سے یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں۔‬
‫"وہ شہزادی کو لے کر غائب ہو گیا‪.....‬کہیں دور جنگلوں‬
‫اور پہاڑوں میں چال گیا‪"......‬‬
‫"وہ یہ پہاڑ تھے باجی؟" گلنار نے سر اٹھا کر اس پہاڑ کی‬
‫چوٹی کو دیکھا۔‬
‫"ہاں کہتے تو ہیں کہ وہ یہ ہی گلگت بلتستان کے پہاڑ‬
‫تھے۔"اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔‬
‫"شہزادی پر وہ بہت تشدد کرتا تھا۔اور شہزادی نے اپنے‬
‫گناہوں کی سزا سمجھتے ہوئے ہر ظلم قبول کر لیا تھا‪"....‬‬
‫"پھر کیا ہوا باجی؟ کیا شہزادہ آیا‪ .....‬شہزادی کو‬
‫بچانے؟"‬
‫"میں نے کہا ہے نا گلنار! ہر کہانی میں شہزادی کو اس کا‬
‫شہزادہ نہیں ملتا۔"‬
‫"پھر کیا ہوا؟ جلدی سنائیں نا۔" گلنار بےقراری سے بولی۔‬
‫‪130‬‬
‫"پھر ایک دن یہ ہوا کہ شہزادی اس خوبصورت درندے‬
‫کے تشدد کے سامنے ہار گئی‪.....‬زندگی اور موت کے‬
‫درمیان لٹک گئی۔تب اچانک نجانے وہ درندہ‪ ".....‬اس کی‬
‫آنکھوں کے سامنے شکیل خان آن ٹھہرا تھا۔اس سے ہوئی‬
‫آخری مالقات‪.....‬وہ کتنا ٹوٹا بکھرا سا لگ رہا تھا اس‬
‫دن‪.....‬‬
‫"وہ سپاہی انسان بننے لگا‪.....‬شہزادی کی فکر کرنے‬
‫لگا‪...‬اس کے لیے راتوں کو جاگنے لگا‪ ،‬اسے نرمی سے‬
‫چھونے لگا‪......‬مگر شہزادی اب اس سپاہی سے بےحد‬
‫نفرت کرنے لگی تھی۔‬
‫نجانے کیوں اس سپاہی نے شہزادی سے کہا کہ تم جو‬
‫فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہو گا‪ ،‬اور پھر شہزادی نے‬
‫اپنا فیصلہ سنا دیا۔"‬
‫"کیا فیصلہ سنایا؟" گلنار نے تیزی سے استفسار کیا۔‬
‫"اس نے کہا کہ وہ اس کی زندگی سے چال جائے‪ ،‬اس‬
‫وقت‪.....‬اس پل سپاہی کے چہرے پر ویرانی سی بکھر گئی‬
‫تھی‪ ،‬آنسو تھے کہ آنکھوں میں آن ٹھہرے۔اور پھر وہ‬
‫خاموشی سے چال گیا۔"‬

‫‪131‬‬
‫"کہاں؟"‬
‫"پتہ نہیں۔" زرمینہ نے آہ بھر کر شانے آچکائے۔‬
‫"اور شہزادی؟"‬
‫"وہ‪.....‬اپنی منزل کی تالش میں یہاں وہاں بھٹک گئی۔"‬
‫زرمینہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"کیا وہ دونوں دوبارہ ملے؟ یا پھر شہزادی شہزادے کے‬
‫پاس چلی گئی؟"‬
‫"نہیں‪.....‬نہ وہ دونوں ملے اور نہ ہی شہزادی شہزادے‬
‫کے پاس واپس گئی‪ .....‬کیونکہ وہ واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔‬
‫جو سب ختم ہو چکا تھا اسے دوبارہ سے شروع نہیں کرنا‬
‫چاہتی تھی۔"‬
‫"پھر؟ پھر کیا ہوا؟ یہ کہانی تو ادھوری ہے؟" گلنار نے‬
‫افسردگی سے کہا۔‬
‫"کچھ کہانیاں ادھوری ہی ہوتی ہیں۔" زرمینہ نے جھرنے‬
‫کا پانی مٹھیوں میں بھر کر چہرے پر چھینٹیں ماریں۔‬
‫"کیا وہ سپاہی شہزادی سے محبت کرتا تھا؟ ہاں وہ کرتا‬
‫تھا اگر محبت نہ کرتا تو بچھڑتے وقت روتا کیوں؟‬

‫‪132‬‬
‫باجی میں سناؤں آگے کی کہانی؟" گلنار سوچتے ہوئے‬
‫بےحد تیزی اور پرجوش انداز میں بولی۔‬
‫"ہوں سناؤ؟" وہ بےدلی سے مسکرائی‪...‬کہ اس کی قسمت‬
‫میں بھال اور کیا کہانی تھی یہ ہی ادھوری کہانیاں ہی‬
‫تھیں‪.....‬‬
‫"اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد سپاہی شہزادی کو‬
‫ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پہنچتا ہے جہاں شہزادی ہوتی‬
‫ہے‪......‬پھر وہ اس سے معافی مانگتا ہے مگر شہزادی اس‬
‫کے سامنے جان لیوا شرط رکھتی ہے‪.....‬کہ وہ اسے‬
‫خطرناک آدم خور کے غار سے چمکنے واال تاج ال کر‬
‫دے‪.....‬اس تاج تک پہنچنا جان سے ہاتھ دھونے‬
‫جیسا‪....‬کام تھا مگر سپاہی اپنی جان پر کھیل کر اس کی‬
‫شرط پوری کرتا ہے‪ ،‬اور وہ چمکتا ہوا تاج ال کر شہزادی‬
‫اظہار محبت کرتے ہوئے‬ ‫ِ‬ ‫کے سر پر رکھتا ہے۔اس سے‬
‫بتاتا ہے کہ وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے۔ شہزادی بھی‬
‫اس سے بچھڑنے کے بعد اسی کے متعلق سوچتی رہتی‬
‫تھی اور وہ بھی سپاہی سے محبت کرنے لگی ہے‪ .....‬پھر‬
‫دونوں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ختم ہو گئی کہانی۔"‬
‫گلنار نے اپنی طرف سے کہانی کا اختتام کر دیا تھا۔‬

‫‪133‬‬
‫جبکہ زرمینہ محض کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے سر ہال کر‬
‫رہ گئی۔‬
‫"محبت تو دوبارہ ہو سکتی ہے‪....‬مگر جو آپ کی روح تک‬
‫کو زخمی کر دے اس سے بھال کہاں ہوتی ہے محبت‪،‬اس‬
‫شخص کے ساتھ ہم کبھی نہیں رہ سکتے جو آپ پر ظلم‬
‫کرتا ہو‪ "....‬وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔‬
‫یہ ضیاء کی لیب تھی جہاں اس وقت وہ لیپ ٹاپ پر نگاہیں‬
‫جمائے بیٹھا تھا جبکہ کچھ فاصلے پر ہی شاہزیب بھی‬
‫صوفے پر نیم دراز تھا اور مبہم سی مسکراہٹ لیے کائنات‬
‫سے چیٹ کر رہا تھا۔‬
‫"باس! وائف سے ہی بات کر رہے ہو نا؟" ضیاء نے اس‬
‫کی جانب دیکھتے ہوئے تجسس آمیز لہجے میں استفسار‬
‫کیا تو وہ گردن گھما کر اسے گھورنے لگا۔‬
‫"نہیں میرا مطلب ہے کہ‪......‬ایسی کون سی باتیں جو‬
‫تمہاری ختم ہی نہیں ہوتیں؟ میں تو بیوی سے دو پل بھی‬
‫میسج پر بات نہیں کر سکتا۔" ضیاء نے آخر میں خفگی‬
‫سے کہا۔‬

‫‪134‬‬
‫"گرلفرینڈ سے تو گھنٹوں باتیں کرتے تھے‪ .......‬بیوی‬
‫سے کیوں نہیں کر سکتے؟ میں بتاؤں‪".....‬‬
‫وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔‬
‫"کیونکہ تم اور تمہارے جیسے کئی مرد بیوی کو محض‬
‫تمہارا گھر سنبھالنے والی مشین سمجھتے ہو۔"‬
‫وہ ہاتھ جھال کر بوال اور کشن کمر کے نیچے درست کیا۔‬
‫"تنہائی کے لمحات میں محبت لٹاتے ہو کہ یہ بھی تمہاری‬
‫اپنی ضرورت ہے‪......‬بچے پیدا کرتے ہو کیونکہ یہ بھی‬
‫کہیں نا کہیں تمہاری عزت کا سوال ہوتا کہ‪....‬لوگ کیا کہیں‬
‫گئے۔"وہ بےحد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫"گرلفرینڈ پر ڈھیروں روپیہ اڑا دیں گے جبکہ بیوی کا‬
‫میک اپ ہی بہت بڑا بوجھ لگتا ہے۔‬
‫گرلفرینڈ گاڑی مانگے گی تو بینک لوٹ کر بھی لے دیں‬
‫گے‪....‬بیوی اگر مانگے گی تو‪ .....‬تم نے کیا کرنی‬
‫ہے‪.....‬گھر سنبھالو گی یا ڈرائیونگ کرو گی‪....‬یہ کہہ کر‬
‫ٹال دیں گے۔" اس کی باتوں میں واقع ہی سچائی تھی مگر‬
‫ضیاء کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا اس کی ان باتوں پر۔‬

‫‪135‬‬
‫"اظہار محبت کے طور پر اگر تم بیوی کو ایک عدد گالب کا‬
‫ِ‬
‫پھول‪ ،‬کانچ کی چوڑیاں‪ ،‬مہندی ‪....‬اور اپنا قیمتی وقت دو‬
‫گے نا تب بھی وہ خوش ہو جائے گی۔گرلفرینڈ ذرا سی‬
‫ناراض کیا ہوئی یہ مجنوں‪ ،‬دیوداس ‪ ،‬رانجھا بن بیٹھیں گے‬
‫اور بیوی خفا ہوئی تو فرق ہی نہیں پڑتا۔"‬
‫"یار بیویاں بھی بہت ظالم ہوتی ہیں‪ ،‬ہم کام سے تھکے‬
‫ہارے باہر سے آتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں‪ ،‬چھوٹو کو‬
‫سنبھالو‪ ،‬موٹو کو فیڈر دو‪ ،‬میرے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹا‬
‫دو‪.....‬بھال یہ کام بھی مردوں کا ہے کیا؟ ہم رن مرید نہیں‬
‫ان کے شوہر ہیں یہ بیویوں کو بھی سوچنا چاہیے نا۔"‬
‫ضیاء نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫"جب باہر رہ کر پڑھتے ہیں یا جاب کرتے ہیں تو اپنا کام‬
‫خود ہی کرتے ہوتے ہیں نا۔اور گھر میں بیوی کا ہاتھ‬
‫بٹانے سے تم رن مرید بن جاؤ گے‪....‬یہ سوچ کر اس کو‬
‫بیماری میں بھی آرام کرنے کی مہلت نہیں دی جاتی۔یہ‬
‫ساری جو منفی سوچیں اور عمل ہیں نا یہ ہی انسان کی‬
‫زندگی بےرنگ کرتی ہیں‪...‬میرے بھائی! بیوی کو اپنی‬
‫زندگی سمجھو گے تو زندگی حسین ہو گی۔‬
‫اور وہ صرف محبت اور عزت چاہتی ہے۔"‬
‫‪136‬‬
‫بیوی نامے پر وہ اچھی خاصی تقریر جھاڑ کر خاموش ہو‬
‫چکا تھا۔‬
‫ضیاء جو سانس روکے‪ ،‬آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا‬
‫سر ہال کر رہ گیا۔‬
‫"باس تو پکا رن مرید بن چکے ہیں بھئی۔" وہ سوچتے‬
‫ہوئے آنکھیں گھمانے لگا۔‬
‫شاہزیب پھر سے فون پر مصروف ہو چکا تھا۔‬
‫"باس! غفور کے لیے جیلر کے فون پر کال آئی ہے۔"‬
‫ضیاء نے کچھ دیر بعد کہا تو وہ تیزی سے اٹھ کر اس کی‬
‫میز تک پہنچا۔‬
‫"نمبر کون سا ہے؟"‬
‫"پاکستان کا ہے۔"‬
‫"جلدی سے کال ٹریس کرو‪.....‬اس کا آدمی ہاتھ آ گیا تو‬
‫کچھ نہ کچھ تو اس کے متعلق معلومات حاصل ہو ہی جائے‬
‫گی۔" اس نے ہیڈفون لگاتے ہوئے کہا تو ضیاء اثبات میں‬
‫سر ہالتے ہوئے پھرتی سے کرسی سے اٹھ کر ساتھ والی‬
‫کرسی پر جا بیٹھا۔‬
‫"اسالم علیکم!‪......‬کیسے ہیں آپ ڈیڈ!"‬
‫‪137‬‬
‫"و علیکم السالم! میں ٹھیک ہوں بیٹا! تم کیسے ہو۔"‬
‫"ٹھیک ہوں۔ آپ کی صحت ٹھیک رہتی ہے نا؟"‬
‫"ہاں بیٹا بس ٹھیک ہوں۔تم نے کچھ کیا نہیں میری رہائی‬
‫کے سلسلے میں؟ اور کتنا وقت رہوں یہاں؟" غفور نے دل‬
‫گرفتگی سے سوال کیا تھا۔‬
‫"بس کچھ وقت اور ڈیڈ! پھر سب ٹھیک ہو جائے گا‪.....‬اس‬
‫کے بعد آپ کو کبھی جیل میں نہیں جانا پڑے گا اور کوئی‬
‫نہیں ہو گا جو آپ کو ہاتھ بھی لگانے کی کوشش کرے گا۔"‬
‫سامنے سے اس کے بیٹے نے کہا تھا۔‬
‫"بس جلدی سے کچھ کر لو بیٹا!‪......‬میرا دم گھٹتا ہے‬
‫یہاں۔" غفور رونے لگا تھا۔‬
‫"آپ فکر نہیں کریں ڈیڈ! آپ کی یہ حالت جس نے کی ہے‬
‫میں اسے کبھی نہیں بخشوں گا۔اس سے بدتر حالت نہ کی‬
‫تو میرا نام جبران غفور نہیں۔" وہ سامنے سے بےحد‬
‫غصے میں بوال تھا۔‬
‫کال ٹریس ہو چکی تھی وہ دونوں بےحد تیزی سے اپنی‬
‫گاڑی تک پہنچے تھے۔‬

‫‪138‬‬
‫"جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کو ابھی بھی‬
‫بہت ساری چیزوں کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا‬
‫ہے‪....‬جیسے کہ ہمیں اگر شہر جانا ہو تو گاڑی پکڑنے کے‬
‫لیے ایک پہاڑی سے دوسری تک کا سفر کرنا پڑتا‬
‫ہے‪.......‬جو کہ بزرگوں کے لیے بہت ہی تھکا دینے واال‬
‫سفر ثابت ہوتا ہے۔"‬
‫وہ بہت سنجیدگی سے بات کر رہا تھا اور مردوں کے‬
‫مجمعے میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی‪.....‬سب اسے‬
‫غور سے سن رہے تھے۔‬
‫"اور نادر پور والوں کو تقریبا ً دو سو کلومیٹر پہاڑ کی‬
‫بلندی کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے‪...‬وہ بھی پگڈنڈی‬
‫سے‪....‬ہم گڈا(بیل گاڑی) سے سفر کر سکتے ہیں کیونکہ‬
‫ہماری چھوٹی سڑک ہے‪....‬مگر نادر پور سے سڑک نہیں‬
‫جاتی وہ لوگ پیدل سفر کرتے ہیں بس اسٹینڈ تک‪....‬اسی‬
‫لیے میں نے ایک آسان سا حل نکاال ہے۔" اس نے کہتے‬
‫ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی اور مالزم کے ہاتھ سے‬
‫چارٹ لے کر درمیان میں پڑی میز پر بچھا دیا۔‬
‫وہ بہت سنجیدگی سے ایک ایک‪ .....‬پوائنٹ سمجھا رہا تھا۔‬

‫‪139‬‬
‫سردار دالور خان اپنی سربراہی کرسی پر بیٹھا مسکراتے‬
‫ہوئے اسے منہماک سا سن رہا تھا‪....‬اسے خوشی تھی کہ‬
‫شازار گاؤں کے کاموں میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔‬
‫اس نے جو پروجیکٹ پیش کیا تھا اس پر الکھوں کے‬
‫حساب سے خرچ ہونے واال تھا۔‬
‫پانچ سو کلومیٹر بلندی تک سڑک بچھانی تھی‪....‬‬
‫وہ پیکنگ کر رہا تھا جب شازار کمرے میں داخل ہوا۔‬
‫"آپ کہیں جا رہے ہیں؟"‬
‫"ہاں بس پیرس‪.....‬کیونکہ یہاں تم سب سنبھال لو گے میں‬
‫جانتا ہوں۔" وہ پلٹ کر اس کا شانا تھپکتے ہوئے بوال۔‬
‫"مگر میں روڈ کا پروجیکٹ اکیلے کیسے سنبھالوں گا؟"‬
‫شازار کو فکر ہوئی۔‬
‫"تم سنبھال لو گے‪ ،‬ایک سردار سب کچھ کر سکتا ہے ‪"...‬‬
‫وہ اب وارڈروب کے دراز میں سے کچھ تالش رہا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے الال! اپنا خیال رکھیے گا۔میں کوشش کروں گا‬
‫کہ آپ کی ہولیڈیز ٹرپ خراب نہ ہو۔" شازار نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا۔‬

‫‪140‬‬
‫"ان شاءہللا۔چلو سب کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں۔"‬
‫اس نے ایک کرسٹل کا چھوٹا سا جار نکاال تھا جس پر‬
‫ڈریم جار لکھا ہوا تھا اور نیچے ہی نیلی روشنائی سے‬
‫حور کا نام درج تھا۔‬
‫"یہ حور کون ہے وہ ہی جو ہمارے گھر پر رہ رہی تھیں؟‬
‫آپ کے دوست کی وائف؟" اس نے استفسار کیا تو دالور‬
‫خان نے اثبات میں سر ہال دیا۔‬
‫"یہ اس کا ڈریم جار میرے اسالم آباد والے گھر ہی رہ گیا‬
‫تھا‪ ....‬اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ‪...‬وہ اپنے شوہر کے‬
‫ساتھ فرانس ہے تو‪....‬تو میں اسے وہاں ہی واپس کر دوں‬
‫گا۔" اتنی سی بات کہتے ہوئے وہ کئی بار اٹکا تھا ‪ ،‬نگاہیں‬
‫بھی بار بار چرا رہا تھا۔‬
‫"الال! کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟" شازار نے اس‬
‫کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے استفسار کیا۔‬
‫"میں جانتا ہوں کہ آپ گل پنار سے شادی کرتے وقت‬
‫خوش نہیں تھے مگر مجبوراً کر رہے تھے‪.....‬پھر بابا‬
‫سائیں نے جب زرمینہ خان سے شادی کا فیصلہ سنایا تو‬
‫آپ نے ان کا فیصلہ زندگی میں پہلی مرتبہ رد کر‬

‫‪141‬‬
‫دیا‪.......‬اور مجھے اس بات کی بہت حیرانگی ہوئی تھی پھر‬
‫آپ پیچھلے کچھ دنوں پریشان تھے کیونکہ وہ اپنے شوہر‬
‫کے ساتھ فرانس چلی گئی تھی‪....‬اور مجھے یقین ہو گیا کہ‬
‫آپ حور کو پسند‪ ".....‬وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔‬
‫دالور خان ہارے ہوئے انداز میں بیڈ کے ایک کنارے پر‬
‫ٹک گیا تھا۔‬
‫"کبھی کبھی انسان کچھ ٹھیک کرنے کے چکروں میں سب‬
‫کچھ خراب کر دیتا ہے اور میں نے بھی وہ ہی نا سمجھوں‬
‫والی حرکت کی ہے۔"‬
‫اس نے تھکن سے چور چور لہجے میں کہا تھا۔‬
‫"شازار! ح‪.....‬حور میری وائف ہے۔ ہم نے پیپر میرج کی‬
‫تھی۔" اس کی بات پر جہاں شازار خان کو شاکڈ لگا تھا‬
‫وہاں ہی اندر داخل ہوتے حامد خان کے قدم بھی زمین نے‬
‫جکڑ لیے تھے۔‬
‫"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں الال؟"‬
‫"ہاں یہ سچ ہے‪".....‬‬
‫"تم تو شازار سے بھی دو قدم آگے کے نکلے دالور‬
‫خان!" حامد چنخ کر کہا تھا۔‬

‫‪142‬‬
‫وہ دونوں ہڑبڑا کر ان کی جانب متوجہ ہوئے۔‬
‫دوسرے ہی پل سب وہاں جمع تھے اور وہ کٹہرے میں‬
‫کھڑا تھا۔‬
‫اس نے سر جھکائے سب کچھ ان کی گوش گزار کر دیا۔‬
‫"تو کائنات اور حوریہ بہنیں ہیں‪.....‬مجھے تو پہلے ہی‬
‫کائنات کو دیکھ کر وہ کچھ جانی پہنچانی سی لگی تھی۔"‬
‫وہ جیسے ہی خاموش ہوا نازش بولی‬
‫"واہ تمہیں اس سارے معاملے میں بس یہ ہی بات سمجھ‬
‫آئی ہے۔" سیرت نے خفگی سے کہا اور ایک نگاہ دالور‬
‫خان پر ڈالی۔‬
‫"الال! بہنوں کے بھی کچھ ارمان ہوتے ہیں‪ ،‬کہ وہ اپنے‬
‫بھائیوں کی شادی پر کیا کیا کریں گیں‪.....‬مگر آپ تینوں‬
‫بھائیوں نے ہی ہمارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے۔"‬
‫"واہ اب تمہیں بس یہ ہی دلچسپ بات ملی ہے؟" شازار نے‬
‫تپ کر کہا۔‬
‫دالور خان نے شرمندگی سے لب کچلے۔‬
‫"چلو نازش! یہاں سے چلتے ہیں۔" وہ تیزی سے اٹھی‬
‫تھی اور مجبوراً نازش کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔‬
‫‪143‬‬
‫حامد خان چند پل بیٹھے رہے پھر اٹھ کر کمرے میں سے‬
‫نکل گئے۔‬
‫"تم نے ہمیں شرمندہ کر دیا دالور خان!‪....‬کتنا مان تھا‬
‫ہمیں تم پر اور تمہاری تابعداری پر۔" امو جان نے زندگی‬
‫میں پہلی مرتبہ اسے سردار پتر کے بنا مخاطب کیا تھا۔‬
‫وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا۔‬
‫وہ اس کی بنا ایک بھی سنے وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔‬
‫کمرے میں اب دادی سائیں اور وہ دونوں بھائی ہی رہ گئے‬
‫تھے۔‬
‫ّٰللا کا میرے دل کی مردا پوری ہو گئی۔بچی تو‬
‫"شکر ہے ہ‬
‫بہت پیاری ہے۔ مگر تم نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا‬
‫سردار پتر!‪.....‬ایک بچی کو اس کی ماں کے جنازے میں‬
‫شریک نہیں ہونے دیا۔" وہ خوشی سے کہتے کہتے آخر پر‬
‫افسردہ ہو گئیں۔‬
‫"میں بہت برا ہوں نا دادی سائیں‪...‬سب کو بہت دکھ دیا میں‬
‫نے۔" وہ ان کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے سر ان کے‬
‫گھٹنوں پر ٹکا گیا۔‬

‫‪144‬‬
‫"سردار پتر! تم نے محبت میں خود غرضی اپنائی‪....‬تمہیں‬
‫لگا کہ حور کو جب یہ معلوم ہو گا کہ اس کی والدہ وفات پا‬
‫گئی ہیں اور بہن اپنے شوہر کے گھر ہے تو وہ تم سے‬
‫طالق لے لیتی‪.....‬مگر اس سب میں تم نے حور کے‬
‫احساسات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔" دادی سائیں‬
‫نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"عورت بہت نازک ہوتی ہے سردار پتر! وہ ذرا سی بات پر‬
‫بھی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ یہ تو پھر اس کی ماں کا‬
‫معاملہ تھا‪"......‬‬
‫ّٰللا مجھے‬
‫"کیا وہ اب مجھے کبھی نہیں ملے گی؟ کیا ہ‬
‫معاف کرے گا؟" وہ سر اٹھا کر ان کی جانب نم آنکھوں‬
‫سے دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫ّٰللا راضی‬
‫"یہ دونوں ہی ایک باتیں ہیں پتر سائیں‪.....‬جب ہ‬
‫ہو گا تو وہ خودبخود اس کو تمہاری طرف موڑ دے گا۔"‬
‫"میں کیا کروں دادی سائیں!‪......‬میں نے سچ میں انجانے‬
‫میں ہی سعی کئی گناہ کیے ہیں‪....‬مگر میں ان کی سزا میں‬
‫حور کو نہیں کھونا چاہتا۔" چند آنسو نیلے چمکتے ہیروں‬
‫کو چھوڑ کر رخساروں پر پھسلے تھے۔‬

‫‪145‬‬
‫ّٰللا سے‬
‫" اپنی غلطی پر پہلے اس سے معافی مانگو پھر ہ‬
‫ّٰللا راضی ہو جائے گا تو دیکھنا سب ٹھیک ہو‬‫اور جب ہ‬
‫جائے گا۔اور ہمیں لگتا ہے تمہیں اپنی امو جان اور بابا‬
‫سائیں سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔"‬
‫"الال! پرفیکٹ کوئی بھی نہیں ہوتا سب سے غلطیاں ہوتی‬
‫ہیں‪ ،‬انجانے میں گناہ بھی سرزد ہو جاتے ہیں مگر مومن‬
‫وہ ہی جو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو۔" شازار نے آگے بڑھ‬
‫کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ سر ہال کر رہ گیا۔‬
‫اب اسے سب سے پہلے اپنے والدین کو منانا تھا‪ ،‬پھر حور‬
‫ّٰللا کو۔‬
‫کو اور پھر ہ‬
‫ّٰللا بھی کہتا ہے کہ میرے جن بندوں کا تم نے دل‬ ‫کیونکہ ہ‬
‫دکھایا پہلے ان سے معافی مانگو پھر میں بھی تمہیں معاف‬
‫کر دوں گا۔‬
‫****‬
‫"نیسی! وہ کیا کام کرتے ہیں؟"‬
‫کئی دنوں سے جو سوال اس کے دماغ میں گھوم رہا تھا‬
‫بالآخر اس نے نیسی سے پوچھ ہی لیا۔‬
‫نیسی نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔‬

‫‪146‬‬
‫"میں جاننا چاہتی ہوں کہ ایسی کون سی نوکری ہے جو‬
‫پورا دن اور رات ختم نہیں ہوتی‪.....‬تم بھی تو رات کو گھر‬
‫جاتی ہو حاالنکہ تمہاری نوکری بھی اتنی ٹف ہے۔"‬
‫وہ جیسے جیسے سب سیکھ رہی تھی اس کا دماغ بھی‬
‫کھلتا جا رہا تھا‪ ،‬اوپر سے وہ فرحان پر اتنی توجہ دیتی‬
‫تھی کہ اسے لگنے لگا تھا کہ فرحان کچھ عجیب سی‬
‫سرگرمیوں میں مشغول ہے۔‬
‫"وہ ایک جوہری ہے۔" نیسی نے جتنے اطمینان سے بتایا‬
‫تھا اتنا ہی اچھنبا منہاج کو ہوا تھا۔‬
‫"یعنی وہ جوا کھیلتا ہے؟"‬
‫"ہاں۔ الس ویگاس میں جوا ہی تو روزگار ہے‪ ......‬تمہیں‬
‫نہیں پتہ کہ کتنے بڑے بڑے بزنس مین اپنے کاروبار کو‬
‫فروغ دینے کے لیے یہاں سے جوا جیت کر الکھوں کما‬
‫چکے ہیں اور ان بزنس مین میں سے فرحان کے پاپا بھی‬
‫ایک ہیں۔انہوں نے ہی فرحان کو اس پیشے میں لگایا‬
‫ہے۔"‬
‫"ت تم کیسے جانتی ہو یہ سب؟ م میرا مطلب فرحان کو کب‬
‫سے جانتی ہو؟"‬

‫‪147‬‬
‫"جب وہ پندرہ سال کا تھا اور میں بیس سال کی‪......‬ان‬
‫دنوں میرا بابا مجھے اور میری ماما کو چھوڑ کر اپنی‬
‫انگریزن بیوی کے ساتھ واشنگٹن شفٹ ہو گیا تھا‪.....‬میں‬
‫نے بہت جگہ اچھی جاب کے لیے ٹرائے کیا مگر ناکام رہی۔‬
‫پھر مجھے کیسینو میں ویٹرس کی جاب ملی جہاں میری‬
‫مالقات فرحان کے والد سے ہوئی وہ تیس سالہ صوبر سا‬
‫شخص مجھے بھا گیا تھا‪....‬میں اپنا دل اسے دے بیٹھی‬
‫تھی‪ ".....‬ایک لمحے کو وہ خاموش ہوئی اور نجی کو‬
‫دیکھنے لگی جو سانسیں روکے اسے سن رہی تھی۔‬
‫"بہت ٹوٹ کر محبت کرنے لگی تھی اس سے‪ ،‬بنا اس کے‬
‫متعلق کچھ بھی جانے۔ اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتا‬
‫تھا‪......‬حاالنکہ میں انگریزن نہیں تھی مگر میں نے اپنی‬
‫شرم و حیا کا دامن چھوڑ کر‪ ".......‬بات اُدھوری چھوڑ کر‬
‫وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔‬
‫"میں نے اپنا تن من سب اس شخص کے نام کر دیا تھا‪،‬‬
‫شاید اس لیے کہ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کچھ نہیں‬
‫تھا‪....‬یا شاید میں اس کی محبت میں اس قدر اندھی ہو گئی‬
‫تھی کہ سعی غلط کا فرق بھول گئی‪.....‬اور تم جانتی ہو نا‬

‫‪148‬‬
‫کہ سب کو ان کے گناہوں کی سزا اس دنیا میں یا اُس دنیا‬
‫میں ضرور ملتی ہی ہے۔‬
‫مجھے بھی میرے گناہ کی سزا ملی‪ ".....‬وہ زخمی خور‬
‫مسکراہٹ لیے سر جھکا چکی تھی۔‬
‫"ک کیا مطلب؟" نجی نے چونک کر اس کی نم آنکھوں‬
‫میں دیکھا۔‬
‫"میری ماما کی ڈیتھ ہو گئی تھی‪ ،‬میری طبیعت بھی کافی‬
‫ناساز رہنے لگی‪...‬جب ریپورٹس کروائیں تو معلوم ہوا کہ‬
‫میں پریگننٹ ہوں‪......‬میں ان دنوں فرحان کے پاپا سے‬
‫رابطہ نہیں کر پا رہی تھی۔ بہت پریشان رہنے لگی‬
‫تھی‪.......‬اچانک ایک دن وہ آیا اور مجھ سے شادی کی بات‬
‫کرنے لگا‪ ،‬میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی‬
‫تھی‪.....‬مگر شادی کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے یہ سب‬
‫نیشنلٹی کے لیے کیا‪.....‬میرا استعمال اس نے اپنے روشن‬
‫مستقبل کے لیے کیا۔میرا دل چاہا کہ اسے تباہ و برباد کر‬
‫دوں مگر جب پندرہ سالہ معصوم سے فرحان کو دیکھا تو‬
‫میرے قدم زمیں نے جکڑ لیے۔"‬
‫ان بہت سارے عجیب و غریب انکشافات پر نجی گنگ رہ‬
‫گئی تھی‪....‬دنیا میں کیا کیا ہوتا ہے۔‬
‫‪149‬‬
‫"آپ فرحان کی ماما ہیں؟ اتنی بڑی لگتی تو نہیں‬
‫ہیں‪.....‬اور آپ کا بچہ جو پیدا ہونے واال تھا‪.....‬کہاں ہے؟"‬
‫وہ ساکت پلکوں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔‬
‫"وہ بورڈنگ اسکول میں ہے‪ ....‬ماشاءہللا پندرہ سال کا‬
‫ہے۔فرحان اس سے ملتا رہتا ہے۔اگر فرحان نہ ہوتا تو شاید‬
‫اس وقت ہم روڈ پر پڑے ہوتے۔"‬
‫نیسی اپنی زندگی میں ہوئے اتنے بڑے حادثوں کو کتنے‬
‫اطمینان سے کہہ کر خاموش ہو گئی تھی۔‬
‫"آپ کا اصل نام کیا ہے؟"‬
‫"کیا فرق پڑتا ہے۔ مسلم تو اب بس نام کی ہی ہوں۔"‬
‫"ایسی بات نہیں ہے آپ ایک مسلمان خاتون ہیں‪.....‬اور آپ‬
‫کو اسی طرح ہی رہنا چاہیے جیسے ایک مسلم خاتون رہتی‬
‫ّٰللا ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا‪،‬‬
‫ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہ‬
‫ّٰللا نے آپ کو تنہا‬
‫آپ نے راہ راست کو چھوڑا پھر بھی ہ‬
‫نہیں چھوڑا۔ فرحان کی صورت میں گھنا سایہ آپ کے‬
‫ّٰللا کی جانب متوجہ ہوتیں تو‬
‫سروں پر رکھا سوچیں اگر آپ ہ‬
‫وہ کتنا نوازتا۔" وہ کتنی سمجھدار تھی نیسی مسکرا دی۔‬

‫‪150‬‬
‫"تمہیں نہیں بلکہ مجھے تمہاری زیادہ ضرورت ہے‬
‫نجی!" نیسی نے اس کے ساتھ جھولے پر بیٹھتے ہوئے‬
‫اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔‬
‫"میں آپ کے ساتھ ہوں۔"‬
‫"مگر مجھے بتائیں میں فرحان ہو کیسے روکوں جوا‬
‫کھیلنے سے؟" وہ بوجھل سانس بھر کر بولی۔‬
‫"محبت سے۔ اسے اپنی جانب کھینچو‪.....‬میں جانتی ہوں کہ‬
‫وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے مگر ڈرتا ہے کہ تم اس کے‬
‫ساتھ چل پاؤ گی کے نہیں‪.....‬کبھی وہ سوچتا ہے کہ دنیا کو‬
‫بھاڑ میں جھونکے اور تمہاری جانب قدم بڑھائے۔ اس کی‬
‫یہ کنفیوژن دور کرو‪.....‬کہ تمہارے ساتھ وہ دنیا دیکھ سکتا‬
‫ہے‪ ،‬تم ایک مضبوط عورت ہو۔"‬
‫نیسی کی بات پر وہ اثبات میں سر ہالنے لگی۔‬
‫"اور آپ کا اصلی نام کیا ہے؟"‬
‫"نسرین۔" نیسی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مبہم‬
‫سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا گئی۔‬
‫جبران کا آدمی پکڑا گیا تھا اور اس وقت شاہزیب کے ٹارچر‬
‫پر بھی وہ اپنی زبان نہیں کھول رہا تھا۔‬
‫‪151‬‬
‫"تو تم کچھ نہیں بتاؤ گے؟"‬
‫"نہیں کچھ نہیں بتاؤں گا‪.....‬خواہ مجھے مار ہی کیوں نہ‬
‫ڈالو مگر منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالوں گا۔" وہ‬
‫شخص کراہتے ہوئے بوال۔‬
‫شاہزیب نے ایک زور کا تھپڑ اس کی رخسار پر جڑ دیا تھا۔‬
‫"ضیاء! اس کے فون کا آپریشن کرو‪ ،‬کچھ نہ کچھ تو‬
‫ضرور ملے گا۔" وہ تہ خانے سے نکل کر لیب میں داخل‬
‫ہوتے ہوئے بوال۔‬
‫"کر چکا ہوں باس!‪.....‬کوئی نمبر نہیں ہے‪،‬سم بھی نئی‬
‫ہے جس سے بس جیلر کو ہی کال کی گئی ہے۔"‬
‫"ساال یہ کرنا کیا چاہتا ہے؟ ضیاء! مجھے کچھ بہت بڑے‬
‫خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دے رہی ہیں۔" " مجھے‬
‫بھی لگ رہا ہے باس! بس اب ایک ہی امید رکھی جا سکتی‬
‫ہے کہ جبران خود کال کرے اور ہم اس تک پہنچیں۔" ضیاء‬
‫نے کہا۔‬
‫تبھی اس کے فون پر کسی نمبر پر سے کال آئی تھی۔‬
‫وہ دونوں الرٹ ہو گئے۔‬

‫‪152‬‬
‫"تم آواز بدل کر اس آدمی کی آواز میں بولو۔" اس نے‬
‫ضیاء سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہال کر چکا کھنکھارتے‬
‫ہوئے کال اٹینڈ کر چکا تھا۔‬
‫"اوئے صدیق! کہاں غائب ہے؟ جلدی سے اڈے پر پہنچ‬
‫باس نے آن الئن میٹنگ کرنی ہے۔"‬
‫"ہاں میں پہنچتا ہوں تم لوگ کہاں ہو؟" ضیاء نے پوچھا۔‬
‫"ہم لوگ ادھر ہی ہیں۔ تو پہنچ جلدی۔"‬
‫"ادھر کدھر؟"‬
‫"ابے سالے اڈے پر‪......‬جنگل میں۔ اب جلدی پہنچ۔" کہتے‬
‫ہی کال کٹ چکی تھی۔‬
‫"آن الئن میٹنگ یعنی جبران ویڈیو کال پر میٹنگ کرنے واال‬
‫ہے۔ مگر ہم جنگل تک پہنچیں کیسے؟ اور پتہ نہیں وہ کون‬
‫سے جنگل میں ہوں گے۔" شاہزیب نے پرسوچ انداز میں‬
‫کہا۔‬
‫"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے‪ ".....‬ضیاء کے دماغ میں کچھ‬
‫آیا تھا۔‬
‫"کیا؟"‬

‫‪153‬‬
‫"اسے شراب پالتے ہیں‪".....‬‬
‫غفرہلل کیسے غلط آئیڈیا آتے ہیں تمہیں‪ "....‬شاہزیب‬
‫"است ُ‬
‫نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔‬
‫"یار ایسے لوگ پہلے ہی پیتے ہوتے ہیں‪ ،‬ایک دفعہ بوتل‬
‫تو سامنے رکھو دیکھنا خود ہی گٹک جائے گا۔" ضیاء نے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا اور شہزاد کو میسج کر دیا کہ ایک‬
‫عدد شراب کی بوتل لیتا آئے۔‬
‫"پالن سنیں اب باس‪ !.....‬جبران آپ کو جانتا ہے مجھے‬
‫نہیں۔ میں اس شخص کا دوست بن کر اس کے ساتھ جاؤں‬
‫گا۔" ضیاء نے کہتے ہوئے میز پر سے ایک منی کیمرہ‬
‫اٹھایا تھا اور اپنی شرٹ کے بٹن میں لگانے لگا۔‬
‫"اس کیمرہ کے زریعے آپ وہاں جو بھی ہو رہا ہو گا دیکھ‬
‫پائیں گے۔"‬
‫"ہوں پالن اچھا ہے‪ ،‬اگر پکڑے گئے نا تو تمہاری ہڈیاں‬
‫بھی ہم تک نہیں پہنچیں گیں‪.....‬جانتے ہو نا؟" شاہزیب نے‬
‫اس کی جانب ایئربرڈ بڑھاتے ہوئے کہا۔‬
‫"شہید ہونے سے ڈر نہیں لگتا باس!" ضیاء نے پرجوش‬
‫انداز میں کہا تو وہ مسکرا دیا۔‬

‫‪154‬‬
‫"وہ تمہیں گن وغیرہ شاید اندر نہ النے دیں اسی لیے تم‬
‫اپنی گن وغیرہ اس شخص کے پاس رکھنا‪.....‬اور یہ‬
‫ایمرجنسی بٹن ہے۔ اگر تم پکڑے جاؤ اور تم سے ائیر برڈ‬
‫وغیرہ چھین جائیں تو اسے پریس کرنا تاکہ مجھے خبر مل‬
‫جائے۔" شاہزیب نے ایک گھڑی نما بٹن اس کی کالئی پر‬
‫باندھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫وہ اثبات میں سر ہالنے لگا اتنے میں شہزاد بھی آ گیا۔‬
‫"تم ہی یہ غالظت لے جاؤ۔" شاہزیب نے بھنویں آچکاتے‬
‫ہوئے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔‬
‫ضیاء قہقہہ لگا کر شراب کی بوتل اٹھاتا تہ خانے میں اتر‬
‫گیا۔‬

‫"امو جان!‪.....‬بابا سائیں! آپ دونوں جانتے ہیں نا کہ آپ کا‬


‫سردار پتر کبھی کچھ غلط نہیں کرتا۔مگر حور کے معاملے‬
‫میں مجھ سے خود بخود ہی سب غلط ہوتا گیا۔" وہ ان‬
‫دونوں کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔‬
‫"شازار نے ایک عورت کے لیے بغاوت کی مگر اس نے یہ‬
‫نیک کام کیا کہ ایک لڑکی کو اپنے نکاح میں لیا‪.....‬شاہزیب‬

‫‪155‬‬
‫نے بھی جو کیا سب ٹھیک کیا‪ ،‬ایک عورت کو اپنایا تو‬
‫نکاح کیا‪....‬کہ یہ ہی سب سے زیادہ مضبوط رشتہ ہے دو‬
‫اجنبیوں کا اور تم‪ "......‬حامد خان کی آواز غصے سے‬
‫کانپ گئی تھی۔‬
‫"تم تو بنا نکاح کے‪...‬ایک عورت کے ساتھ ایک چھت تلے‬
‫رہے ہو دالور خان!‪".....‬‬
‫" ہمیں لگتا تھا ہمارا یہ بیٹا بہت نیک ہے‪ ،‬سمجھدار‬
‫ہے‪....‬مگر ت م تو اپنے دین ایمان سے فارغ ہو دالور خان!‬
‫شرم آتی ہے ہمیں تمہیں سردار کہتے ہوئے۔" ان کی باتیں‬
‫دالور خان کے دل و دماغ پر تازیانے بجا رہی تھیں۔‬
‫"میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بابا سائیں!‪......‬میں نے کبھی‬
‫حور کو‪ ".....‬وہ کہتے کہتے خاموش ہوا اور لب بھینچ گیا۔‬
‫" ہاں مجھے اس سے محبت پہلے سے ہی تھی مگر وہ‬
‫مجھے اپنا بہترین دوست سمجھتی تھی اسی لیے‪....‬بابا‬
‫سائیں! یقین کریں‪.....‬میں نے حور سے کاغذی شادی‬
‫صرف اسے محفوظ رکھنے کے لیے کی تھی۔"‬
‫"تم نے اسے محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی‬
‫محبت کی تسکین کے لیے کی تھی یہ کاغذی شادی‪.....‬اگر‬

‫‪156‬‬
‫تم نے اس کا ساتھ دینا ہوتا تو تم اسی دن ہی‪ ،‬اسی پل ہی‬
‫رائے مینشن والوں کی دھجیاں اڑا سکتے تھے جس دن‬
‫اس نے تم سے مدد مانگی‪......‬مگر تم خاموش رہے‬
‫کیونکہ تم چاہتے تھے کہ وہ لڑکی تمہارے اردگرد رہے‪،‬‬
‫تمہاری مردانگی کو تسکین ملتی رہے کہ تم اس کی مدد کر‬
‫رہے ہو‪....‬تم اسے احسانات تلے دبانا چاہتے تھے‪....‬ایک‬
‫مجبور عورت کی مجبوریوں کا فایدہ اٹھایا ہے تم‬
‫نے‪ ".......‬بابا سائیں چنخ کر کہتے ہوئے بنا رکے بولے‬
‫جا رہے تھے۔‬
‫وہ یہ سب سن کر اندر سے ٹوٹ گیا تھا اور سر شرمندگی‬
‫سے مزید جھک گیا۔‬
‫"یہ سچ نہیں ہے بابا سائیں! حور چاہتی تھی کہ اس کے‬
‫پاس سارے ثبوت ہوں‪......‬جن کی بنا پر وہ اپنے خاندان‬
‫والوں کو قانونی سزا دلوانا چاہتی تھی۔" اس نے مردہ سی‬
‫آواز میں کہا۔‬
‫"تم نے ایک لڑکی ہی نہیں بلکہ ہم سب کو دھوکا دیا‬
‫ہے‪.....‬اب کیسے تم غلط سعی کے فیصلے کرو گے؟ کیا‬
‫تمہیں شرم نہیں آئے گی تخت پر بیٹھتے ہوئے؟ قبیلے کے‬
‫سردار بننے کے الئق نہیں ہو تم‪.....‬دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"‬
‫‪157‬‬
‫وہ اپنی بات پر ہی اٹکے تھے کہ دالور خان غلط ہے‪ ،‬تبھی‬
‫حقارت سے کہتے ہوئے رخ پھیر گئے۔‬
‫دالور خان نے تڑپ کر ان کی جانب دیکھا۔‬
‫"میں نے سچ میں کوئی گناہ نہیں کیا بابا سائیں!"‬
‫"ہمارے قبیلے میں دھوکا دینا سب سے بڑا گناہ تصور کیا‬
‫جاتا ہے۔" وہ اس کی کوئی دہائی بھی سننے کو راضی‬
‫نہیں تھے۔‬
‫"آئندہ اپنی شکل مت دکھانا‪ .....‬دھوکے باز کہیں کے۔پوری‬
‫برداری کو جب تمہارے گھٹیا کارناموں کے متعلق علم ہو گا‬
‫تو ہماری آج تک کی بنائی عزت پر پانی پھر جائے‬
‫گا‪.....‬نکل جاؤ اس حویلی سے اور اس خان پور سے‪،‬‬
‫کیونکہ تمہارا دانا پانی اب یہاں سے ختم ہو چکا ہے۔" وہ‬
‫سفاکی کی حد پار کر چکے تھے۔‬
‫"سائیں‪ "!....‬امو جان کا دل کانپ گیا تھا وہ چنخ کر بولیں۔‬
‫"ایک مرتبہ آپ نے پہلے بھی مجھے میرے ایک بیٹے‬
‫سے دور کر دیا تھا‪ ،‬اور اب پھر سے وہی عمل دوہرا رہے‬
‫ہیں‪.....‬جب سردار پتر‪".....‬‬

‫‪158‬‬
‫"مت کہو اسے سردار‪.....‬یہ اس الئق نہیں ہے کہ اسے‬
‫سردار کہا بھی جائے۔" حامد خان نے تیکھے لہجے میں‬
‫اپنی بیوی کی بات کاٹی۔‬
‫"ٹھیک ہے پھر اگر سردار دالور خان یہاں نہیں رہے گا تو‬
‫ہم بھی یہاں نہیں رہیں گے۔" امو جان نے دالور خان کی‬
‫جانب قدم بڑھائے تھے۔‬
‫"نہیں امو جان! اگر بابا سائیں مجھے سزا دینا چاہتے ہیں‬
‫تو مجھے منظور ہے۔ میں ہر سزا پانے کے لیے تیار‬
‫ہوں۔آپ کو میری قسم آپ یہاں ہی رہیں گیں‪ .....‬یہاں سب‬
‫کو آپ کی ضرورت ہے۔" وہ تھکے ہوئے انداز میں کہتا‬
‫ایک نگاہ بابا سائیں کی پشت پر ڈال کر کمرے میں سے‬
‫نکل گیا۔‬
‫امو جان زمین پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی‬
‫تھیں۔‬
‫"ہمیشہ آپ نے‪.....‬آپ نے میرے بیٹوں کو دکھ دیا ہے‬
‫سائیں!‪.....‬کبھی انہیں انسان ہونے کا احساس نہیں‬
‫دالیا۔کبھی برادری کی باتوں تو کبھی قبیلے کی عزت کے‬
‫نام پر میرے بیٹوں کی خوشیاں تباہ کی ہیں آپ نے‪"....‬وہ‬
‫رونے کے درمیان چنخ چنخ کر کہہ رہی تھیں۔‬
‫‪159‬‬
‫سب لوگ نیچے ہال میں ہی بیٹھے تھے ایک دم گھبرا کر‬
‫اٹھے اور سیڑھیاں چڑھنے لگے۔‬
‫"اگر آپ شازار خان کی خواہش کا احترام کرتے تو آج‬
‫میرے بیٹے کی زندگی ویران نہ ہوتی‪.....‬طیبہ زندہ ہوتی‬
‫اور آج وہ اس حالت میں نہ ہوتا۔ آپ نے میرے بیٹے کو‬
‫بےرحمی سے جانوروں کی طرح مارا پیٹا مگر میں نے‬
‫افف تک نہ کی۔" وہ ہنوز رونے کے درمیان بول رہی تھیں۔‬
‫شازار نے ایک نگاہ باپ پر ڈالی جو پشت پر ہاتھ باندھے‬
‫ان سب سے رخ پھیرے اکڑ کر کھڑے تھے۔‬
‫"اور اب آپ میرے سردار پتر کو نکال رہے ہیں‪ ،‬ارے یہ‬
‫حویلی اسی کے بل بوتے چلتی ہے‪.....‬جس برداری کی‬
‫باتوں کا آپ کو خوف ہے ان میں سے آدھوں کے چولہے‬
‫میرا سردار پتر چالتا ہے۔ اور اس گاؤں اور عالقے والوں‬
‫کی اتنی ہمت کہاں میرے سردار پتر کو کچھ کہنے‬
‫کی‪....‬اپنے حا کم کو کچھ کہنے کی‪......‬اس کی اپنی ذاتی‬
‫زندگی سے کسی کو کیا لینا دینا‪".....‬‬
‫شازار نے انہیں سنبھالنا چاہا مگر وہ اس کے قابو سے‬
‫باہر تھیں۔‬

‫‪160‬‬
‫دالور خان نے ماں کی بڑھتی چنخوں سے بےچین ہو کر‬
‫اپنے کمرے میں سے بھاگ کر وہاں پہنچا تھا۔‬
‫"امو جان!‪.....‬میری بات سنیں‪ .....‬اٹھیں نیچے سے پلیز۔"‬
‫دالور خان نے آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے تھام کر اپنے‬
‫ساتھ لگاتے ہوئے اٹھایا تھا۔‬
‫وہ انہیں ساتھ لیے باہر نکل گیا تھا۔‬
‫سب ہی اس کے پیچھے بڑھ گئے سوائے شازار کے جو‬
‫حامد خان کی جانب بڑھ رہا تھا۔‬
‫"بابا سائیں!‪.....‬الال نے کچھ بھی غلط نہیں کیا جس سے‬
‫ان کی سرداری کی پگ داغ دار ہو‪......‬ہاں وہ حوریہ کے‬
‫معاملے میں مطلبی ہو گئے تھے مگر یہ ان کا اپنا پرسنل‬
‫معاملہ‪"....‬‬
‫وہ ان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"خان! ہمیں کچھ دیر کے لیے اکیال چھوڑ دو اور جاؤ یہاں‬
‫سے۔" وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں اس کی بات کاٹتے آگے‬
‫بڑھے اور کروٹ بدل کر بیڈ پر لیٹ گئے تھے۔‬
‫شازار چند پل انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا پھر‬
‫کمرے سے نکل گیا۔‬

‫‪161‬‬
‫جیب میں سے فون نکال کر شاہزیب کو کال کی اور سارے‬
‫حاالت سے اسے آگاہ کرتے ہوئے وہ دالور خان کے کمرے‬
‫کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫"آپ سب پریشان نہیں ہوں‪ ،‬میں آپ سب سے ملتا رہوں‬
‫گا۔" دالور خان نے چند کتابیں رکھتے ہوئے سوٹ کیس بند‬
‫کیا تھا۔‬
‫پھر امو جان کی جانب بڑھا جو اس کے بیڈ پر آنکھیں‬
‫موندے لیٹی ہوئی تھیں۔ نازش اور سیرت ان کے دونوں‬
‫جانب بیٹھی تھیں۔‬
‫"آپ فکر کیوں کر رہی ہیں امو جان!‪.....‬میں دس بارہ سال‬
‫آپ سے پہلے بھی تو دور رہا ہوں نا۔اور اب تو زیادہ دور‬
‫بھی نہیں جا رہا‪.....‬خان یا شاہزیب کے ساتھ کبھی بھی آپ‬
‫آ سکتی ہیں۔" وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بوال پھر‬
‫جھک کر ان کی پیشانی چوم لی۔‬
‫"مجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنا مقام تم سب کی نگاہوں‬
‫میں کھو دیا ہے۔" اس نے بہنوں کو دیکھا۔‬
‫جو رونے کے ساتھ نفی میں سر ہالنے لگی تھیں۔‬

‫‪162‬‬
‫شاہزیب دروازے سے ٹیک لگائے سر جھکائے کھڑا رہا‬
‫تھا‪،‬آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔‬
‫"الال آپ بابا سائیں کو منا لیں۔"‬
‫"وہ ٹھیک کر رہے ہیں سیرت!‪......‬میں نے ان کا بھروسہ‬
‫کھویا ہے اس کی سزا بھی تو مجھے ملنی چاہیے‪.....‬ماما‬
‫کا خیال رکھنا۔"‬
‫وہ امو جان کے ہاتھ چوم کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫سوٹ کیس اٹھاتے وقت اس کے بازوؤں میں جان نہیں تھی‬
‫تبھی ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔‬
‫وہ فرانس جانے کے لیے جتنا خوش تھا اب اتنا ہی دکھی‬
‫بھی ہو گیا تھا‪......‬‬
‫شازار نے آگے بڑھ کر بریف کیس اٹھایا تو وہ سب سے‬
‫مل کر اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکل آیا۔‬
‫"الال!‪.....‬شاہزیب آ رہا ہے کل تک‪.....‬میں اور وہ بابا‬
‫سائیں سے بات کریں گے۔ آپ دلبردشتہ نہیں ہونا‪....‬ہم بابا‬
‫سائیں کو منا لیں گے۔"‬
‫وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال تو دالور خان‬
‫محض خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔‬
‫‪163‬‬
‫"اور فکر نہیں کریں یہ معاملہ حویلی سے باہر نہیں جائے‬
‫گا۔ سب کو یہ ہی معلوم ہو گا کہ آپ فرانس گئے ہوئے‬
‫ہیں۔" شازار نے کہا تو وہ محض سر ہال سکا تھا۔‬
‫"امو جان اور بابا سائیں کا خیال رکھنا خان!‪".....‬‬
‫"فکر نہیں کریں۔ آپ جا کر حور کو منائیں۔"‬
‫"نہیں خان! اب تب تک اسے نہیں مناؤں گا جب تک بابا‬
‫سائیں نہیں کہیں گے۔"‬
‫وہ اٹل لہجے میں کہتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گیا تھا۔‬
‫شازار کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔‬

‫ضیاء اس شخص کا دوست بن کر وہاں پہنچ تو گیا تھا مگر‬


‫اس نشے میں دھت بندے کا کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا بول‬
‫دیتا‪.....‬اسی لیے جیسے ہی اڈے کے دروازے پر‬
‫پہنچے‪.....‬شاہزیب کے آرڈر پر اس نے جیب میں رکھا‬
‫سلیپنگ انجیکشن لگا کر سال دیا تھا۔‬
‫جبران کے آدمیوں نے اس کی اچھے سے تالشی لی پھر‬
‫انکوائری کی‪.....‬ایک گھنٹے تک اسے روکے رکھا اس‬
‫وقت میں وہ شاہزیب سے رابطے میں نہیں تھا کیونکہ‬
‫‪164‬‬
‫ایئربرڈ وہ کان سے نکال چکا تھا اور فون جبران کے‬
‫آدمیوں نے لے لیا تھا۔‬
‫یہ تو شکر ہوا کہ وہ کلین موبائل الیا تھا جس میں کوئی‬
‫چیٹ وغیرہ نہیں تھی‪.....‬بڑی چاالکی سے اس نے شاہزیب‬
‫کا نمبر بھی ڈیلیٹ کر دیا تھا۔‬
‫خیر یہ تو شکر ہوا کہ ان آدمیوں نے فون کا الک نہیں‬
‫کھوال مگر جتنے چاالک وہ لگ رہے تھے کچھ بھی ممکن‬
‫تھا۔‬
‫"چلو ٹھیک ہے‪ ،‬اب تم نکل لو یہاں سے۔" انہوں نے اپنے‬
‫آدمی کو اندر لیا اور ضیاء کو پیچھے دھکیل کر اس کا فون‬
‫اس کی جانب اچھالتے ہوئے کہا۔‬
‫"مگر میرے کو بھائی نے کہا تھا کہ آج میں اس کے ساتھ‬
‫رہوں گا میرے کو یہ کام کرنا ہے تو میری بڑے ڈون سے‬
‫بات کروئے گا۔" اس نے تیزی سے کہا۔‬
‫"دیکھ چھوٹو‪.....‬وہ پی کر کچھ بھی کہہ تو مت ماننا اب‬
‫نکل۔" ایک دوسرے ہٹے کٹے آدمی نے کہا تو اس نے سر‬
‫ہالتے ہوئے وہاں سے ہٹ جانا ضروری سمجھا جب اس‬

‫‪165‬‬
‫کی گاڑی وہاں سے نکلی تو وہ لوگ اندر کی جانب بڑھ‬
‫گئے۔‬
‫کچھ فاصلے پر جا کر اس نے گاڑی روکی تھی۔‬
‫"باس! انہوں نے مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ آپ ایسا‬
‫کریں شہزاد لوگوں کو سیول میں یہاں بھیج دیں۔ کیونکہ‬
‫مجھے لگتا ہے کہ ان کی ٹیم کے جتنے بھی لوگ پاکستان‬
‫میں ہیں وہ سب یہاں جمع ہیں۔ اور وہ الئیو آنے واال ہے۔‬
‫ہم اس کے آدمیوں کو پکڑ لیتے ہیں پھر اسے ڈھونڈ لیں‬
‫گے‪....‬ٹینشن نہیں لیں میں نے کیمر‪".....‬‬
‫"چھوڑو ضیاء تم واپس آ جاؤ وہ لوگ تو بس معمولی‬
‫غنڈے ہیں یہ ہمارا کام نہیں کر پائیں گے۔" شاہزیب نے‬
‫تیزی سے اس کی بات کاٹی۔‬
‫"کیا؟ آپ کس کام‪ ".....‬اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا‬
‫اس کے فون پر میسج کی ٹیون ہوئی۔‬
‫"تمہیں جو کہا ہے وہ کرو۔" شاہزیب نے اسے سختی سے‬
‫خاموش کروایا۔‬
‫"تمہاری چیکنگ کے وقت انہوں نے تمہارے شانے پر بگ‬
‫لگا دیا تھا‪.....‬وہ ہماری باتیں سن رہے ہیں جیسا کہتا ہوں‬

‫‪166‬‬
‫ویسا ہی کرو۔" اس نے شاہزیب کا میسج پڑھتے ہی اپنے‬
‫شانے کو چھوا۔‬
‫"ٹھیک ہے باس میں آ رہا ہوں۔" وہ کچھ پریشان ہو گیا تھا‬
‫پھر گہری سانس بھر کر بوال اور گاڑی اسٹارٹ کر لی۔‬
‫شاہزیب فون ایک جانب رکھ کر لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ‬
‫ہوا جس پر وہاں کی فوٹیج الئیو آ رہی تھی۔‬
‫بڑی سی سکرین پر نظر آتا شخص جبران تھا‪.....‬جس نے‬
‫اپنے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔‬
‫"یہ کتنا چاالک ہے کمینہ۔" وہ تلمال کر رہ گیا تھا۔‬
‫"اور صدقے جاؤں اس ضیاء کے جس نے اس صدیق پر‬
‫صرف کیمرہ ہی لگایا ہے آواز تو سنائی نہیں دے رہی۔" وہ‬
‫لیپ ٹاپ پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"اگر اس کے منہ پر ماسک نہ ہوتا تو آپ اس کی لپسنگ‬
‫پڑھ لیتے۔" شہزاد نے افسردگی سے کہا۔‬
‫"سارا کچھ بیکار‪ ".....‬وہ کہتے ہوئے پلٹا اور ایک دم‬
‫سے خاموش ہوا‪ ....‬دوسرے ہی پل وہ بھاگ کر لیپ ٹاپ‬
‫تک پہنچا تھا۔‬
‫"کیا ہوا سر؟"‬
‫‪167‬‬
‫"میں نے کچھ دیکھا۔" وہ تیزی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ‬
‫پر انگلیاں چالتے ہوئے بوال۔‬
‫"کیا؟" شہزاد بھی اٹھ کر اس تک آیا تھا۔‬
‫شاہزیب نے فوٹیج سٹاپ کرتے ہوئے جبران کے بیک‬
‫گراؤنڈ پر زوم کی تھی‪...‬‬
‫"یہ تو کوئی کالک ٹاور ہے‪ "......‬شہزاد نے غور سے‬
‫سکرین کو دیکھا۔‬
‫"یہ گروس ہارلوج‪.......‬روؤن میں ہے۔اور حور‪......‬اوہ‬
‫نو‪ "......‬وہ تیزی سے بےربط بوال پھر جینز کی جیب میں‬
‫سے فون نکاال اور حور کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔‬

‫سکلپچر کے عالؤہ عوذر نے ڈیزائن کی کالس بھی لے لی‬


‫تھی‪.....‬تاکہ وہ ہر وقت اس کے آس پاس رہے۔‬
‫روؤن میں وہ جس ڈیپارٹمنٹ میں رہتی تھی عوذر بھی‬
‫اس کے ساتھ والے ڈیپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔‬
‫وہ ناشتے سے فارغ ہو کر ابھی یونیورسٹی کے لیے ریڈی‬
‫ہو رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔‬

‫‪168‬‬
‫اتنے میں اس کا فون بھی رنگ کیا تھا وہ دروازے کی‬
‫سمت بڑھتے بڑھتے رکی اور پلٹی۔‬
‫"شاہزیب کالنگ‪ "....‬فون کی سکرین پر جگمگا رہا تھا۔‬
‫"اسالم علیکم!‪".....‬‬
‫"و علیکم السالم! اچھا حور!‪.....‬میری بات غور سے‬
‫سنو‪ .....‬تمہارے ٹاؤن میں جبران غفور چھپا ہوا‬
‫ہے‪....‬مگر ہم اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے‪".....‬‬
‫"ک کیا؟ ج جبران کون؟" وہ بری طرح سے گھبرا گئی‬
‫تھی۔‬
‫"ڈرو نہیں‪.....‬پلیز ریلیکس‪.....‬جبران غفور ایک مجرم‬
‫ہے‪....‬جو نجانے کیا مگر کچھ بہت بڑا پالن کر رہا ہے‪،‬‬
‫خیر یہ سمجھانے کا وقت نہیں ہے۔‬
‫مجھے نہیں معلوم کہ وہ وہاں کیوں ہے پر تم سنبھل کر‬
‫رہنا‪.....‬کل تک دالور خان تمہارے پاس پہنچ جائے گا تب‬
‫تک گھر سے باہر مت نکلنا اور نہ ہی کسی کو گھر کے‬
‫اندر آنے دینا۔ پرسوں تک میں بھی وہاں آ جاؤں گا اور ہم‬
‫اس جبران کو ڈھونڈ لیں گے۔"‬

‫‪169‬‬
‫"ا اوکے‪.......‬ت تم میرے ٹچ میں رہنا شاہزیب!" وہ واپس‬
‫اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی‪ .....‬عوذر سومرو ڈور‬
‫بیل بجا کر تھک گیا تو واپس پلٹ گیا۔‬
‫"ڈرو نہیں۔ میں یہاں ہی ہوں۔" وہ اپنائیت سے بوال تو وہ‬
‫سر ہال کر کال کٹ کر گئی۔‬
‫ابھی فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ عوذر کی کال آنے‬
‫لگی۔‬
‫وہ اکتا کر کال کاٹ چکی تھی۔‬
‫"دالور خان!‪.....‬تم میری حفاظت کرنے کیوں آ رہے ہو؟"‬
‫آنکھوں میں ڈھیروں پانی بھر گیا تھا۔‬
‫دوسری جانب وہ ابھی اسالم آباد پہنچنے واال تھا کہ‬
‫شاہزیب کی کال موصول ہوئی۔‬
‫اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ فرانس نہیں جائے گا۔‬
‫"میری بات غور سے سنو دالور! حویلی میں جو بھی ہوا‬
‫مجھے معلوم ہے‪....‬اور تم نے جو قسم کھائی ہے حور کو‬
‫نہ منانے کی وہ بھی ٹھیک ہے کہ تم پہلے تایا لوگوں کو‬
‫منانا چاہتے ہو مگر اس وقت تمہیں حور کے پاس ہونا‬
‫چاہیے اس کی جان کو خطرہ ہے۔"‬

‫‪170‬‬
‫"ک کیا؟ کیا بکواس‪"......‬‬
‫"ہاں یہ سچ ہے‪ .....‬جبران غفور وہاں ہے‪.....‬اس کے ٹاؤن‬
‫میں‪....‬اور یہ اتفاق نہیں ہو سکتا‪ ،‬یہ اس کا پالن‬
‫ہے‪.....‬مگر ابھی مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کیا‪....‬؟ مگر‬
‫شاید وہ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے حور کا استعمال کرنا‬
‫چاہتا ہے‪....‬یا پھر کسی اور معاملے کے لیے؟ مگر وہ حور‬
‫کو ضرور درمیان میں الئے گا۔" شاہزیب نے سختی سے‬
‫اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔‬
‫"اوکے‪.....‬م میں دیکھتا ہوں۔" وہ کال کاٹتے ہوئے آنکھیں‬
‫موند کر سر سیٹ کی پشت پر گرا گیا تھا۔‬
‫"چلو ڈرائیور بابو‪.....‬ایئرپورٹ کی جانب گاڑی موڑ لو۔"‬
‫اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا تھا۔‬
‫"جی صاحب۔" ڈرائیور نے گاڑی ایئرپورٹ کی جانب ڈال‬
‫دی تھی۔‬
‫*****‬
‫ضیاء واپس آیا تو شاہزیب نے خاموشی سے پہلے اس کی‬
‫چیکنگ کی کہ کہیں انہوں نے کوئی ہیڈن کیمرہ وغیرہ تو‬
‫نہیں چھپایا مگر کچھ نہیں مال تھا۔‬

‫‪171‬‬
‫بگ اتار کر میز پر رکھا اور وہ تینوں کرسیاں کھینچ کر‬
‫بیٹھ گئے تھے۔‬
‫شاہزیب نے اپنا سیل فون لہرا کر اشارہ کیا کہ اپنے اپنے‬
‫سیل فون نکالو۔‬
‫اس نے واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں ان دونوں کو ایڈ‬
‫کیا۔‬
‫"مجھے لگتا ہے وہ ہمارے پالن کے متعلق کچھ جان گئے‬
‫تھے‪ .....‬تبھی ان کا آدمی وہاں آیا اور ہم اسے پکڑ پائے‬
‫یعنی ہم نے انہیں ٹریک نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمیں‬
‫بیوقوف سمجھا۔اب ہم ان لوگوں کو ان کے ہی جال میں‬
‫پھنسائیں گے۔" میسج ٹائپ کر کے گروپ میں سینڈ کر دیا۔‬
‫"میں تو سوچ رہا ہوں کہ کہیں گھوم پھیر آتے ہیں۔ ویسے‬
‫بھی یار حکومت نے ہمارے لیے آج تک کیا کیا ہے۔"‬
‫شاہزیب نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہا۔‬
‫"ہوں بات تو ٹھیک ہے باس! آپ تو ابھی ہنی مون بھی‬
‫نہیں گئے تو آپ ہنی مون‪"....‬‬
‫اس کے گھورنے پر ضیاء کی زبان کو بریک لگی۔‬

‫‪172‬‬
‫"ہوں ٹھیک ہے تو میں سوچ رہا ہوں میں اٹلی چال‬
‫جاؤں‪......‬خبر ملی ہے کہ جبران وہاں چھپا ہوا ہے۔"‬
‫"ٹھیک ہے باس جیسے آپ ٹھیک سمجھیں‪....‬میں بھی‬
‫کچھ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزار لیتا ہوں۔" ضیاء‬
‫نے چہک کر کہا۔‬
‫"یہ بھی ٹھیک ہے چلو حکومت نے تو چھٹیاں دینی نہیں‬
‫تھی ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ کہہ دیں گے نا کہ ہم لوگ‬
‫جبران کو پکڑنے کے سیکریٹ مشن پر ہیں‪....‬کون سا‬
‫کسی نے ہم سے تفتیش کرنی ہے۔" شہزاد نے قہقہہ‬
‫لگاتے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دیئے۔‬
‫اس کے آدمیوں نے ایل ای ڈی کی جانب دیکھا۔‬
‫"یہ لوگ تو چھٹیاں پالن کر رہے ہیں باس؟"‬
‫"ہوں۔ ان پر کڑی نظر رکھو‪......‬مجھے بلکل بھی ان کی‬
‫باتوں پر یقین نہیں ہوا۔اور کام جلد از جلد مکمل‬
‫کرو‪......‬میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔" اس نے اپنی‬
‫بھاری بھرکم آواز میں کہتے ہوئے کال کاٹ دی تھی۔‬
‫"اسے ہوش دالؤ‪.....‬اور اپنے اپنے کام پر جا کر لگ جاؤ۔‬
‫دیکھو ذرا تہہ خانے میں جا کر کہاں تک پہنچا کام‪.....‬یہ‬

‫‪173‬‬
‫سب لوگ بڑے ہی کوئی سست اور کاہل ہیں۔" ان میں سے‬
‫جو ان سب کا لیڈر تھا غصے سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔‬
‫یہ جگہ بہت ہی عالیشان تھی‪....‬بڑا سا بنگال جو کہ صاف‬
‫ستھرا تھا‪.....‬ان آدمیوں میں محض چند لوگ تھے جو کہ‬
‫تھرڈ کالس غنڈے تھے باقی سب کے سب ہیکر اور‬
‫پروفیشنل لیول کے لوگ تھے۔‬
‫شاہزیب نے انہیں اٹھ کر ادھر اُدھر جاتے دیکھ لیپ ٹاپ پر‬
‫سے نگاہیں ہٹا لیں۔‬
‫"اوکے گائز‪.....‬میں اب چلتا ہوں۔" وہ کچھ سوچ کر اٹھ‬
‫کھڑا ہوا۔‬
‫اٹھتے اٹھتے اس کی نگاہ شہزاد کی ریسٹ واچ سے‬
‫ٹکرائی تھی۔‬
‫"نائس واچ شہزاد!‪....‬کافی مہنگی لگ رہی ہے۔"‬
‫"تھینک یو سر‪ ،‬میرے سالے نے مجھے تحفے میں دی‬
‫تھی۔" وہ مسکراتے ہوئے ایک نگاہ گھڑی پر ڈال کر بوال۔‬
‫"ساال کافی امیر لگتا ہے؟" اس نے داد دینے والے انداز‬
‫میں کہا۔‬

‫‪174‬‬
‫"جی‪....‬ایمپورٹ ایکسپرٹ کا کاروبار ہے اس کا۔" شہزاد‬
‫نے مختصر سا کہا۔‬
‫"اوکے۔" وہ کچھ جانچتی نگاہوں سے شہزاد کو دیکھتے‬
‫ہوئے پلٹ گیا۔‬
‫شہزاد اس کے فیس ایکسپریشنز نوٹ کرتے ہوئے‬
‫دلبردشتہ سا ہو گیا تھا۔‬
‫"سر مجھ پر شک‪....‬کر رہے ہیں؟ پر کیوں؟" اس نے‬
‫حیرانگی سے سوچا۔‬
‫"نہیں وہ ایسا کیوں کریں گے۔ مجھے وہم ہوا پے۔" اس‬
‫نے خود کو تسلی دی اور مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫ّٰللا حافظ کہتے‬
‫ّٰللا حافظ۔" وہ ضیاء کو ہ‬
‫"اوکے دوست‪ .....‬ہ‬
‫ہوئے باہر نکل گیا۔‬
‫فرحان دیر رات کو لوٹا تھا‪ ،‬کوٹ بازو پر لٹکائے‪....‬ٹائی کی‬
‫نٹ ڈھیلی کرتے ہوئے وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوا‬
‫سیڑھیوں پر بیٹھی نجی کو دیکھ ایک دم سے رک گیا۔‬
‫وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ان پر تھوڑی ٹکائے رونے‬
‫کا شغل منا رہی تھی۔‬

‫‪175‬‬
‫الل رنگ کی شفون والی کرتی پر ہلکا پھلکا ایمبرائیڈری‬
‫ورک ہوا تھا‪ ،‬ریشمی کھلے بال دونوں شانوں پہ بکھرے‬
‫تھے‪ ،‬ریشمی سرخ آنچل پیروں کو چھوتا ایک دو سیڑھیاں‬
‫نیچے تک سرکا ہوا تھا۔‬
‫وہ ہال میں پڑے صوفے پر کوٹ ڈال کر اس کی جانب بڑھا۔‬
‫بنا آواز کیے وہ اس کے قریب جا بیٹھا تھا۔‬
‫نجی کو جب اس کی موجودگی کا احساس ہوا تو آنکھیں‬
‫کھول کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔‬
‫"میں‪ .....‬بہت برا ہوں نا نجی؟" وہ اس کی جانب مزید‬
‫سرکتے ہوئے درمیانی فاصلہ مٹا چکا تھا۔‬
‫"نہیں‪ ،‬آپ برے نہیں ہیں‪ .....‬آپ کی حرکتیں بری ہیں۔" وہ‬
‫آنسوؤں سے بوجھل آواز میں بولی تھی۔‬
‫"ایم سوری‪ ،‬دوستوں نے روک لیا تھا۔" وہ شرمندہ ہوا۔‬
‫"مجھے فون پر پھر کیوں کہا کہ میں انتظار کروں جب آپ‬
‫کو رکنا ہی تھا؟" وہ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گئی۔‬
‫"نجی! مجھے معلوم ہے کہ تم ایک بہت ہی سمجھدار اور‬
‫اچھی لڑکی ہو۔ مگر‪ "....‬وہ فاصلے بڑھاتے ہوئے بوال اور‬
‫پھر اٹکا۔‬
‫‪176‬‬
‫"مگر آپ کو ایسی لڑکی چاہیے جو آپ کے ساتھ کیسینوز‬
‫میں جوا کھیل سکے؟" طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ‬
‫کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے اس کی جانب دیکھنے لگی‬
‫تھی جو اچھنبے سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔‬
‫"فرحان! ہم مشرقی اور خاص طور پر پختون قبائل کی‬
‫لڑکیوں کی شادی محض ایک مرتبہ ہوتی ہے اور وہ ساری‬
‫زندگی اس شخص کے نام کر دیتی ہیں‪"......‬‬
‫وہ آنسو پونچھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگی۔‬
‫"ہم چھوٹے قبیلوں کی لڑکیاں اپنا چہرہ بس اپنے شوہر کو‬
‫دکھاتی ہیں اپنا گھونگھٹ بس شوہر کے سامنے ہی پلٹتی‬
‫ہیں‪....‬ہماری بڑی بڑی خواہشات نہیں ہوتیں۔ میرے قبیلے‬
‫میں عورتوں کی تو یہ بھی خواہش نہیں ہوتی کہ ان کا‬
‫شوہر ان سے محبت کرے مگر میں یہ خواہش کر رہی‬
‫ہوں‪......‬مجھے میرے حصے کی محبت چاہیے۔" وہ اٹل‬
‫لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"مجھے معلوم ہے مگر میں کنفیوژ ہوں نجی! مجھے‬
‫سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں؟‪.....‬تم جانتی ہو کہ یہ‬
‫فیصلہ بہت مشکل ہے۔" وہ الجھا ہوا تھا۔‬

‫‪177‬‬
‫"نہیں فرحان! مشکل کچھ بھی نہیں ہوتا‪ ،‬ہم ہر چیز خود‬
‫مشکل بنا دیتے ہیں۔" وہ ایک ایک سیڑھی چڑھتی آگے‬
‫بڑھ گئی مجبوراً فرحان کو بھی اس کے پیچھے بڑھنا پڑا۔‬
‫ان کچھ ہی ہفتوں میں نجی کے برتاؤ میں نمایاں فرق آیا‬
‫تھا۔‬
‫کہاں وہ اس کے سامنے سر جھکا کر اٹکنے والی نجی اور‬
‫کہاں اب یہ ٹھہر ٹھہر کر بےجھجک بولنے والی‪ .....‬فرحان‬
‫کو خوشی ہوئی تھی اس کی تبدیلی سے۔‬
‫"فیصلہ بہت آسان ہے۔ یا میں یا کلب اور کیسینوز‪ .....‬یا‬
‫حالل چن لو یا پھر ساری زندگی حرام پر گزارو۔"‬
‫وہ اپنے اور اس کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے‬
‫الئیٹس آن کر چکی تھی۔‬
‫کمرہ پورا دلہن کی مانند سجا ہوا تھا۔‬
‫وہ زخم خور نگاہوں سے پھولوں کی سرخ پتیوں سے لدے‬
‫بیڈ کو دیکھتا رہا۔‬
‫"یہ آسان نہیں ہے‪ .....‬میں ایک جوہری ہوں نجی! اور جوا‬
‫میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔" اس نے قدم آگے بڑھائے۔‬
‫نجی بیڈ تک پہنچ چکی تھی۔‬
‫‪178‬‬
‫"تو میں کیا ہوں فرحان؟ میں کوئی گوشت پوست کی گڑیا‬
‫نہیں ہوں‪ "....‬تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے ایک‬
‫جھٹکے سے بیڈ کی چادر کھینچی تھی۔‬
‫ساری پتیاں ہوا میں اڑ کر کچھ اس پر اور کچھ فرحان پر‬
‫جا گریں۔‬
‫"میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں‪....‬جس کے سینے میں‬
‫دل ہے‪ ،‬میرے بھی کچھ جذبات ہیں‪ ".....‬وہ بیڈ شیٹ‬
‫درست کرتے ہوئے سرہانے زمین سے اٹھا اٹھا کر بیڈ پر‬
‫پٹخ رہی تھی۔‬
‫فرحان سینے پر بازوں لپیٹے دروازے سے ٹیک لگائے‬
‫اسے بہت نرم نگاہوں سے تک رہا تھا‪....‬اس کی بےچینی‬
‫‪،‬غصہ سب ہی فرحان کو بھا رہے تھے۔‬
‫"آپ ایک فیصلہ کر لیں‪.....‬یا مجھے چھوڑ دیں یا جوا‬
‫چھوڑ دیں۔"‬
‫"ک کیا؟" وہ اپنی جگہ اچھل پڑا۔‬
‫"ہاں جی۔"‬
‫"تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں جوا چھوڑ دوں؟‪....‬یہ میں نہیں‬
‫چھوڑ سکتا۔"‬

‫‪179‬‬
‫"تو مجھے چھوڑ دیں۔" وہ رخ پھیر کر اسے دیکھنے‬
‫لگی۔‬
‫"تمہیں؟" وہ بڑبڑایا۔‬
‫"مجھے تو بہت آسانی سے چھوڑ سکتے ہیں‬
‫نا‪.......‬الکھوں لڑکیاں روز ملتی ہوں گی کیسینو میں۔"‬
‫وہ بلواسطہ اپنا دل جال رہی تھی۔‬
‫"کیا کیا بولے جا رہی ہو نجی؟ ہوش میں تو ہو تم؟ میں‬
‫جوہری ہوں‪.....‬کوئی بدکردار یا اپنے نفس کا غالم نہیں۔"‬
‫وہ تیزی سے چلتا ہوا اس تک پہنچا تھا اور اس کی کالئی‬
‫تھام کر اپنی جانب کھینچا۔‬
‫"جوا کھیلنا کون سا ثواب کا کام ہے‪ ،‬شاید جب مجھ سے‬
‫دل بھر جاتا ہو گا تو آپ باہر جا کر ان بار ڈانسروں یا پھر‬
‫ان شراب سرو کرتی ویٹریس‪".......‬‬
‫اس کی اگلی بات وہ اچھے سے سمجھ چکا تھا‪.....‬تبھی‬
‫اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی کیونکہ فرحان کا الٹے‬
‫ہاتھ کا تمانچہ اس کے چودہ طبق روشن کر چکا تھا۔‬
‫"آئندہ سے تم مجھے اسی حلیے میں‪ ،‬اسی انداز میں نظر‬
‫آؤ جس میں تمہیں‪ ،‬میں نادر پور سے الیا تھا۔تم تو اپنے‬

‫‪180‬‬
‫رنگ ڈھنگ بدلنے کے ساتھ ساتھ‪ ،‬تہذیب بھی بھول چکی‬
‫ہو۔"‬
‫وہ اس کے دونوں شانوں کو سختی سے دبوچ کر دانتوں‬
‫پر دانت جمائے کرختگی سے بوال اور پھر پیچھے دھکیل‬
‫کر پلٹ گیا۔‬
‫نجی لڑکھڑا کر بیڈ پر گری تھی۔‬
‫اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی‬
‫فرحان اس پر ہاتھ بھی اٹھائے گا‪....‬اس وقت اسے محض‬
‫فرحان کی غلطی نظر آ رہی تھی مگر وہ خود بھی کسی حد‬
‫تک غلط ضرور تھی‪.....‬ایک باکردار مرد یا پھر عورت کو‬
‫بدکردار کہا جائے تو بھڑکے گا ہی نا۔‬
‫"مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے‪ ،‬نہ ہی حرام کھانا‬
‫ہے۔"‬
‫آنسو پونچھتے ہوئے وہ اپنے چکراتے سر کو تھام کر‬
‫وہاں ہی دوہری ہو کر لیٹ کے آنکھیں موندے پھر سے‬
‫گھٹ گھٹ کر روتی چلی گئی۔‬
‫اگلی ساری رات فرحان نے الس ویگاس کی کشیدہ سڑکوں‬
‫پر محض گاڑی بھگاتے اور سگریٹ پھونکتے گزاری تھی۔‬

‫‪181‬‬
‫وہ کمرے میں داخل ہوئی‪ ،‬دروازہ مقفل کیا اور اس کی‬
‫جانب پلٹی۔ وہ بیڈ کرواؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے‬
‫ہوئے تھا۔‬
‫کائنات کے ہونٹوں کو دھیمی سی مسکراہٹ نے چھو لیا۔‬
‫وہ دھیرے سے اس کے پیروں کے قریب بیٹھی اور اپنے‬
‫نرم و مالئم ہاتھوں سے جیسے ہی اس کے پیروں کو‬
‫دبانے لگی وہ چونک کر کچی نیند سے بیدار ہوا تھا۔‬
‫"یہ کیا کر رہو ہو یار!" وہ پاؤں واپس کھینچنے لگا جب‬
‫کائنات نے اس کے پیروں پر گرفت مضبوط کی۔‬
‫"اگر ایک عورت اپنے شوہر کے پاؤں اپنی دلی خوشی‬
‫سے دبائے تو وہ جنتی ہوتی ہے۔"‬
‫"ہاہاہاہاہاہا‪......‬کس زمانے کی بات کرتی ہو۔ آج کے دور‬
‫میں یہ سب نہیں ہوتا اور ویسے بھی مجھے اچھا نہیں لگتا‬
‫یہ سب کروانا۔"‬
‫"ہاں مانتی ہوں کہ زمانہ بدل گیا ہے‪ ،‬شوہر کی خدمت میں‬
‫آج کل بیویاں اپنی شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔مگر کچھ‬
‫مجھ جیسی بھی تو ہیں نا۔"‬

‫‪182‬‬
‫"نہیں تم جیسی اور کوئی نہیں ہے‪ ،‬تم واحد پیس ہو۔" وہ‬
‫اس کا ہاتھ تھام کر پرے کو سرکا اور اپنے نزدیک خالی‬
‫جگہ پر اسے بیٹھایا۔‬
‫کائنات نے پاؤں اوپر رکھتے ہوئے اس کے سینے پر سر‬
‫ٹکا دیا تھا۔‬
‫کمرے کی خاموشی کو کائنات کی دھڑکنوں کی آواز توڑ‬
‫رہی تھی۔‬
‫"کائنات! میں کچھ دن کے لیے فرانس جا رہا ہوں‪ ،‬جبران‬
‫کے کیس کے سلسلے میں‪......‬میں چاہتا تھا تمہیں خان پور‬
‫چھوڑ دوں مگر ایسا ممکن نہیں ہے کہ تمہارے فائنل‬
‫نزدیک ہیں۔اسی لیے تم تابندہ کے پاس رکو گی‪ ،‬اس طرح‬
‫تمہیں بھی یونیورسٹی آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو‬
‫گا۔"‬
‫"میم تابندہ؟ م مگر کیوں؟ میں نہیں جاؤں گی اس کے‬
‫گھر‪....‬میں اپنے گھر ہی رکوں گی۔" وہ کرنٹ کھا کر‬
‫سیدھی ہوئی تھی۔‬

‫‪183‬‬
‫"تابندہ کے نام پر تم غصے سے الل پیلی کیوں ہو جاتی‬
‫ہو؟" وہ حیران کن نگاہوں سے اس کے بدلتے رنگوں کو‬
‫دیکھنے لگا۔‬
‫"ن نہیں تو‪ ".....‬وہ بےاختیار ہی سر جھکا گئی۔‬
‫"اچھا پکا؟"‬
‫"بلکل۔"‬
‫"تو پھر اس کے پاس نہ رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"‬
‫"ہوتا ہے سوال پیدا۔ میں اس کے پاس ہی کیوں رکوں؟"‬
‫"کیونکہ مجھے اس پر بھروسہ ہے۔" شاہزیب نے نارمل‬
‫سے انداز میں کہا تھا جبکہ کائنات کا خون کھول اٹھا۔‬
‫"اس پر یقین ہے مجھ پر نہیں ہے؟ میں تنہا رہ سکتی‬
‫ہوں‪ .....‬آخر کون سی بےاعتباری ہے آپ کو مجھ پر؟" وہ‬
‫اس کا ہاتھ اپنے شانوں پر سے جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی‬
‫تھی۔‬
‫"یہ تم بات کو کس جانب لے جا رہی ہو؟" وہ اچھنبے‬
‫سے اس کے اکھڑے اکھڑے انداز کو دیکھنے لگا۔‬

‫‪184‬‬
‫"پتہ نہیں۔سو جائیں آپ۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتی بیڈ‬
‫کے دوسرے کنارے ٹک گئی۔‬
‫"مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ تمہیں تابندہ سے کیا‬
‫مسئلہ ہے؟ تم نہ تو اس کے ساتھ برتاؤ اچھا کرتی ہو الٹا‬
‫جب بھی وہ آتی ہے اس کے سامنے میری بھی انسلٹ کر‬
‫دیتی ہو۔پتہ ہے تمہارا ایسا کرنے سے مجھے کتنی‬
‫شرمندگی ہوتی ہے۔" وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫"شاہزیب! پلیز مجھے سونے دیں۔ الئٹ آف کر دیں پلیز۔"‬
‫وہ ہنوز بدتمیزی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔‬
‫شاہزیب محض اس کی پشت دیکھتا رہ گیا۔‬
‫"شاہزیب! کیا آپ واقع ہی مجھ سے محبت نہیں کرتے؟"‬
‫وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی تھی۔‬
‫دل میں نجانے کیوں ہمیشہ ہی تابندہ کو لے کر ایک ڈر سا‬
‫رہتا تھا‪.....‬کیونکہ اس نے محسوس کیا تھا کہ تابندہ کہیں‬
‫نہ کہیں شاہزیب کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔‬
‫مگر شاہزیب؟‪...‬‬

‫‪185‬‬
‫"نہیں کائنات! تم اپنے شوہر پر شک کر رہی ہو‪ ،‬اس‬
‫محبوب شوہر پر جس نے ہمیشہ تمہاری حفاظت کی۔" اس‬
‫کے ضمیر نے مالمت کی۔‬
‫"وہ بس میری حفاظت کرتا ہے محبت نہیں کرتا‪ .....‬اگر‬
‫کرتا تو اب میں خفا تھی تو مجھے مناتا اتنے آرام سے سو‬
‫نہ جاتا۔" وہ ہونٹوں پر سختی سے ہاتھ جمائے اپنی‬
‫سسکیاں روکتی رہی۔‬
‫ایک بات تو تہہ ہے شادی شدہ زندگی میں کسی تیسرے کا‬
‫تصور بھی ایک خوشحال جوڑے کا سکون برباد کر سکتا‬
‫ہے‪....‬‬
‫میرج الئف میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔‬
‫روؤن میں بارش کا سماں تھا‪ ......‬پیچھلی رات سے مینہ‬
‫برس رہی تھی اور وہ اپنے ڈر کو خاطر میں الئے بغیر‬
‫کانوں پر ہیڈ فونز لگائے کچن میں گھسی چیز سینڈوچز اور‬
‫ساتھ ہی نیٹ سے ریسپی دیکھتے ہوئے کیک بیک کر رہی‬
‫تھی۔‬
‫ان سب سے جب فری ہو کر وہ کچن سے نکلی تو دن کا‬
‫ایک بج رہا تھا۔‬

‫‪186‬‬
‫وہ غیر ارادہ طور پر دالور خان کی منتظر تھی جسے صبح‬
‫ہی آ جانا چاہیے تھا مگر اب تو دوپہر بھی ہو چکی تھی۔‬
‫"گھر میں بیٹھے بور ہو رہی ہوں‪ ،‬باہر جا نہیں سکتی۔"‬
‫وہ بڑبڑاتے ہوئے بوجھل سی سانس بھر کر صوفے پر‬
‫گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔‬
‫تبھی ڈور بیل بجی‪ .....‬ادھر اس کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔‬
‫"د دالور خان آ گیا‪".....‬‬
‫"ریلیکس حور!‪"......‬‬
‫"کول ڈاؤن‪.....‬وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا۔" وہ سختی سے‬
‫خود کو ڈپٹنے لگی۔‬
‫"وہ ہی تو سب کچھ ہے‪.....‬تم دل کو ہرگز روک نہیں‬
‫سکتی۔" کوئی اندر سے بوال تھا۔‬
‫"ایسے جذبات جب شازار خان کے لیے پیدا ہوئے تھے تو‬
‫میں نے دل کو لگامیں ڈالی تھیں۔اب بھی ڈال لوں گی۔" اس‬
‫قدر غصے سے کہا۔‬‫نے ِ‬
‫"ہاہاہاہاہاہا‪.....‬وہ محبت نہیں پسندیدگی تھی‪ ،‬دلچسپی تھی۔‬
‫جو شازار کے پاکیزہ کردار کو دیکھتے ہوئے تمہارے دل‬

‫‪187‬‬
‫میں پیدا ہوئی‪.....‬اسے محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔"‬
‫سامنے سے ہنستے ہوئے جواب وصول ہوا تھا۔‬
‫" وہ محبت تھی‪.....‬میں نے کئی راتیں رو کر گزاریں تھیں‬
‫اس کی خاطر‪.....‬اس کرپٹ انسان کی خاطر میں کتنا تڑپی‬
‫تھی‪......‬اب میں اس کے سو کول بھائی کے لیے تو تڑپنے‬
‫والی نہیں بلکہ شازار خان سے بدلہ لوں گی‪ ....‬میری جگہ‬
‫اب دالور خان تڑپے گا۔" وہ نجانے کیا کیا بڑبڑا رہی تھی۔‬
‫"اپنے شوہر سے بدلہ لو گی وہ بھی کسی غیر مرد کے‬
‫اگنور کیے جانے کا؟ دماغ چل گیا ہے کیا تمہارا‪....‬؟‬
‫تم روئی تھی کہ پہلی مرتبہ تمہاری انا کو کسی نے چوٹ‬
‫پہنچائی تھی تمہیں ٹھکرا کر‪....‬مگر شازار نے جو بھی کیا‬
‫کچھ غلط نہیں کیا‪....‬وہ ایک ناسمجھی سے کھوال گیا چیپٹر‬
‫تھا جو کہ کلوز ہو چکا ہے دوبارہ سے مت کھولو‬
‫اسے۔تمہارا مستقبل دالور خان ہے۔" اندر بیٹھے سمجھدار‬
‫انسان نے اسے بہت سختی سے ڈپٹا تھا وہ لب بھینچ گئی۔‬
‫"دیکھو حور‪ !...‬جو گزر جاتا ہے وہ ہمارا پاسٹ ہوتا ہے‪،‬‬
‫مگر جو آج ہے وہ ہم اگر چاہیں تو ہمارا مستقبل بھی بن‬
‫سکتا ہے‪.....‬دالور خان ایک بہترین مستقبل ہے‪ ،‬ہاں اس‬
‫نے غلط کیا تمہیں ماں کے آخری دیدار سے محروم‬
‫‪188‬‬
‫رکھا‪....‬مگر اس کا اٹینشن غلط نہیں تھا۔ اس سے ہمت‬
‫نہیں ہوئی تمہیں دکھ دینے کی‪......‬سوچو وہ تم سے کس‬
‫قدر محبت کرتا ہے۔اور اب ماں تو لوٹ کر نہیں آئے گی‬
‫نا‪.....‬اور جو ہیں ان کو مت کھونا اب۔" اندر کی سمجھدار‬
‫حور اسے نرمی سے سمجھا رہی تھی۔‬
‫ضمیر‪ ،‬دماغ‪ ،‬دل اور سمجھداری تمام ہی دالور خان کے‬
‫حق میں کھڑے تھے تو اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔‬
‫تبھی پھر سے بیل ہوئی تھی وہ چونک کر دروازے کی‬
‫سمت متوجہ ہوئی۔‬
‫"اوہ شیٹ وہ تو بھیگ گیا ہو گا۔" وہ بھاگتی ہوئی‬
‫دروازے تک پہنچی تھی۔‬
‫دروازہ کھولتے ہی جس شخص کو اس نے سامنے دیکھا‬
‫اس کا اندازہ اس نے نہیں لگایا تھا۔‬
‫" ش شازار خان‪ ".......‬اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔‬
‫وہ دروازے کا ہینڈل تھامے ساکت نگاہوں سے اس کی‬
‫جانب دیکھ رہی تھی۔‬
‫"اسالم علیکم بھابھی!" وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر سر‬
‫جھکا گیا۔‬

‫‪189‬‬
‫"و‪....‬و علیکم السالم!" وہ بھی تذبذب سی تھی۔‬
‫اسے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے وہ خود وہاں سے ہٹ‬
‫چکی تھی۔‬
‫ہال میں پہنچتے ہی اپنا فون اٹھایا اور تیز قدموں سے چلتی‬
‫ہوئی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫شازار لب بھینچے سوچتا رہا کہ اب کس طرف جائے‪،‬‬
‫چھتری کو کارنر میں رکھتے ہوئے وہ ہال میں ہی صوفے‬
‫پر بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"شاہزیب! شازار خان یہاں کیا کر رہا ہے؟‪ ....‬دالور خان‬
‫کیوں نہیں آیا؟" وہ اس کے کال اٹھانے پر برس پڑی تھی۔‬
‫"تائی‪ "...‬وہ کہتے کہتے خاموش ہوا کہ دالور خان نے کہا‬
‫تھا حور کو پتہ نہ چلے کہ وہ کزنز ہیں۔‬
‫" دالور خان کی والدہ کی طبیعت کافی ناساز تھی اور وہ‬
‫دالور خان کو بہت یاد کر رہی تھیں‪.....‬اسی لیے اسے‬
‫ایئرپورٹ سے واپس جانا پڑا‪....‬ڈونٹ وری میں مال ہوں‬
‫شازار خان سے بہت اچھا لڑکا ہے۔"‬
‫"یہ ہی تو مسئلہ ہے کہ سب بہت اچھے ہیں‪.....‬بس میں ہی‬
‫بری ہوں۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے غرائی۔‬

‫‪190‬‬
‫"کیا ہو گیا ہے حور! وہ تمہارے بھائیوں جیسا ہے‪...‬بلکہ‬
‫وہ تمہارا بھائی ہی‪"....‬‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس کی بات تیزی سے کاٹتے‬
‫"اوکے ٹھیک ہے ہ‬
‫ہوئے وہ رابطہ منسوخ کر چکی تھی۔‬
‫"بھائی اور یہ‪ ".......‬خفگی سے سوچتے ہوئے اس نے‬
‫سر ہاتھوں میں گرا لیا۔‬
‫"جس شخص کے لیے کبھی‪....‬کسی دور میں ہمارے دل‬
‫میں کچھ خاص قسم کی فیلنگز رہ چکی ہوں‪....‬اسے بھائی‬
‫ماننا بےحد مشکل ترین کام ہے‪.....‬پھر اس کے ساتھ ایک‬
‫چھت شیئر کرنا یہ تو بہت غلط بات ہے‪.....‬افف خدایا کیوں‬
‫آج میرا پاسٹ مجھے یاد آ رہا ہے۔" وہ بہت زیادہ پریشان‬
‫ہو چکی تھی۔‬
‫ہاں انسان اس شخص کو کبھی نہیں بھولتا جو پہلی مرتبہ‬
‫آپ کے دل کو بھایا ہو‪......‬اور شازار خان وہ پہال شخص‬
‫تھا۔‬
‫"کیا اول فول سوچ رہی ہو حور! وہ تمہارا چھوٹا دیور ہے‬
‫اب‪......‬تم سردار دالور خان کی بیوی ہو۔" اس نے اپنی‬
‫سوچ کی لگامیں کھینچیں۔‬

‫‪191‬‬
‫ّٰللا میری مدد کر میں کس جگہ پھنس گئی‬
‫"اففف ہ‬
‫ہوں‪.....‬دل میں اب دالور خان کے سوا کسی کی جگہ‬
‫نہیں‪.....‬پھر کیوں میں اس ٹائم پیریڈ کو سوچ رہی ہوں جب‬
‫میں شازار نامی سحر میں گرفتار رہی۔" بےبسی سے وہ‬
‫رونے لگی تھی۔‬
‫"ّٰللا میں گناہگار نہیں ہونا چاہتی‪ ،‬مجھے دالور خان کا ہی‬
‫ہ‬
‫رہنا ہے اس کے بنا کسی کو نہیں سوچنا‪ .....‬مجھے نہیں‬
‫معلوم کہ وہ محبت تھی یا شازار خان کی اچھائی اور پختہ‬
‫کردار کی بدولت وہ مجھے اچھا لگا مگر اب‪.....‬اب میں‬
‫سب نارمل چاہتی ہوں۔" وہ ہاتھوں کو آپس میں جوڑے‬
‫ّٰللا سے ہمکالم تھی۔‬
‫پیشانی پر ٹکائے دل ہی دل میں ہ‬
‫"میں نے ہمیشہ جلدبازی میں فیصلے کیے ہیں‪ ،‬بنا‬
‫سوچے سمجھے فیصلے کیے ہیں مگر اب میں مزید‬
‫بیوقوفی نہیں کرنا چاہتی‪.....‬م میں دالور خان کو کھونا نہیں‬
‫چاہتی۔" وہ روتے ہوئے نفی میں سر ہالنے لگی تھی۔‬
‫انسان جب بھول بھلیوں میں گم ہوتا ہے تو اس کی حالت‬
‫بلکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی اس وقت حور کی تھی۔‬
‫بےبس‬

‫‪192‬‬
‫الچار اور بےحد پریشان۔‬
‫دالور خان آئی سی یو کے سامنے دیوار سے ٹیک لگائے‬
‫کھڑا تھا۔‬
‫حامد خان کچھ فاصلے پر کرسی پر بیٹھے تھے۔‬
‫مسلسل سفر‪ ،‬پیچھلے ایک دن سے کچھ نہ کھانے‪ ،‬اور‬
‫نیند نہ لینے کی وجہ سے وہ اس وقت اپنا آپ بہت کمزور‬
‫محسوس کر رہا تھا۔‬
‫اوپر سے امو جان کی طبیعت کی خرابی کی ٹینشن۔‬
‫ساتھ ہی ساتھ دل میں ایک بہت گہرا دکھ تھا کہ اپنی ماں‬
‫کے وہ طبیعیت خراب ہونے کی وجہ سے اتنا پریشان‬
‫ہے‪......‬حور کی والدہ تو پھر دنیا سے رخصت ہوئی‬
‫تھیں‪.....‬‬
‫مزید اس سے کچھ نہ سوچا گیا‪ .....‬خاموشی سے دو آنسو‬
‫ویران آنکھوں میں سے نکلتے ہوئے رخساریں تر کرتے‬
‫چلے گئے۔‬
‫اس نے ہاتھ اٹھا کر چہرہ صاف کیا تھا۔‬

‫‪193‬‬
‫حامد خان نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور بےبسی سے رخ‬
‫پھیر لیا۔‬
‫"کائنات!‪.....‬پیکنگ کر لی تم نے؟" وہ خاموشی سے ٹی‬
‫وی پر چینل سرچ کر رہی تھی جب شاہزیب تیزی سے‬
‫سیڑھیاں اترتے ہوئے بوال۔‬
‫"نہیں‪ ،‬میں اپنے گھر ہی رہوں گی۔" وہ سنجیدگی سے‬
‫بولی۔‬
‫"یہ کیا ضد پکڑی ہوئی ہے تم نے؟ ناسمجھی والی باتیں‬
‫در‬
‫مت کرو اور چپ چاپ اٹھ کر تیاری کرو‪ "......‬وہ ق ِ‬
‫سختی سے پیش آیا۔‬
‫"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اگر آپ کو تابندہ مجھ سے‬
‫زیادہ بھروسہ مند لگتی ہے‪ ،‬سمجھدار لگتی ہے تو‪....‬‬
‫تو‪.....‬اسی سے شادی کرتے نا۔" وہ سوچتے ہوئے آنسو‬
‫دل پر گراتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔‬
‫اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے آنکھوں میں نمی‬
‫لیے کچھ اس انداز میں دیکھا تھا کہ شاہزیب حیران ہی رہ‬
‫گیا۔‬

‫‪194‬‬
‫وہ سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں بند ہو گئی تو وہ ہوش میں‬
‫آیا۔‬
‫"کیا سوچ رہی ہے کائنات؟ " وہ الجھا الجھا سا اس کے‬
‫پیچھے بڑھا۔‬
‫دروازہ کھٹکھٹایا مگر سامنے سے نہیں کھوال گیا۔‬
‫وہ گہری سانس بھر کر تابندہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔‬
‫"اسالم علیکم! "‬
‫"و علیکم السالم شیری! تم لوگ آئے نہیں ابھی تک میں‬
‫انتظار کر رہی ہوں۔" تابندہ نے سامنے سے کہا۔‬
‫"دراصل کائنات چاہتی ہے کہ وہ یہاں ہی رہے‪ .....‬اس کا‬
‫آئیڈیا ٹھیک ہی ہے یہاں سکیورٹی بھی موجود ہے تو میں‬
‫پرسکون رہوں گا۔تم کیوں نہیں ادھر ہی آ جاؤ؟"‬
‫اس نے آخر پر سوال کیا تھا۔‬
‫"میں؟ اوکے نو ایشو‪ "......‬وہ کچھ سوچتے ہوئے مسکرا‬
‫کر بولی۔‬
‫"اوہ تھینک یو سو مچ‪ ،‬تم نے میری مشکل آسان کر دی۔"‬
‫وہ پرسکون سا ہو کر مسکرا دیا تھا۔‬

‫‪195‬‬
‫کال کاٹ کر فون جینز کی جیب میں ڈالتے ہوئے وہ دوبارہ‬
‫سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔‬
‫"کائنات! پلیز دروازہ کھولو‪ ،‬مجھے تم سے بات کرنی ہے‪،‬‬
‫میں جا رہا ہوں۔" وہ نرمی سے بوال تھا۔‬
‫وہ جو بیڈ پر اوندھے منہ پڑی رونے کا شغل منا رہی تھی‬
‫اس کے جانے کی بات سن کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی۔‬
‫بھاگ کر واشروم گئی‪ ،‬منہ دھویا مگر آنکھوں اور ناک کی‬
‫لو کی سرخی نہ مٹا پائی۔‬
‫دروازہ کھلتے ہی شاہزیب نے اس کی روئی روئی سی‬
‫آنکھوں میں جھانکا اور دوسرے ہی پل آگے بڑھ کر اس کو‬
‫خود سے لگا لیا۔ وہ اس کی قربت پا کر مزید رونے لگی۔‬
‫"رو کیوں رہی ہو یار؟"وہ پریشان ہو گیا۔‬
‫"پ پتہ نہیں‪....‬خودبخود ہی رونا آ رہا ہے۔" وہ ہچکیوں‬
‫کے درمیان بولی۔‬
‫کیا بتاتی کہ اسے کس قسم کی سوچیں اور خیاالت پاگل کر‬
‫رہے ہیں۔‬
‫"کوئی تو وجہ ہو گی نا؟"‬

‫‪196‬‬
‫"کوئی وجہ نہیں ہے۔" وہ افسردہ لہجے میں کہتے ہوئے‬
‫سر جھکا کر لب کچلنے لگی۔‬
‫"اچھا سنو!‪.....‬تم یہاں ہی رہو گی تابندہ آ جائے گی‬
‫تمہارے پاس‪ ......‬اوکے۔"‬
‫"وہ کیوں آئے گی؟ میں رکھ سکتی ہوں اپنا خیال وہ میری‬
‫کیئر ٹیکر نہیں ہے۔" کائنات نے اس سے اپنا آپ چھڑوانے‬
‫کے درمیان کہا۔‬
‫"کیا بےتکی باتیں کرنے لگتی ہو‪ ،‬بڑی ہے وہ تم سے‬
‫یار‪.....‬تمیز سے پیش آیا کرو‪ ،‬وہ مجھے جب کہتی ہے‬
‫تمہاری بیوی بہت بدتمیزی سے پیش آتی ہے تو پتہ ہے‬
‫مجھے کتنی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔" وہ الجھی‬
‫نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے بول رہا تھا۔‬
‫کائنات نے سختی سے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔ آنسو بہت‬
‫خاموشی سے اس کی رخساروں کو تر کر رہے تھے۔‬
‫"یا وحشت‪.....‬کیوں رو رہی ہو؟" وہ اسے مسلسل روتا‬
‫دیکھ سٹپٹا کر رہ گیا تھا۔‬
‫تبھی ذرا سختی سے بول پڑا تھا جس پر کائنات ڈر کر دو‬
‫قدم پیچھے ہٹی۔‬

‫‪197‬‬
‫"کائنات!‪".....‬‬
‫شاہزیب اس کے اس ردعمل پر اپنی جگہ جم سا گیا تھا۔‬
‫"پاگل لڑکی ادھر آؤ‪ "......‬وہ دوسرے ہی لمحے اپنی‬
‫آغوش میں سمیٹ چکا تھا۔‬
‫"تمہیں کیا بات پریشان کر رہی ہے کائنات! مجھے بتاؤ‬
‫پلیز‪ ".....‬وہ اس کا سر سہالتے ہوئے دھیمی آواز میں‬
‫بوال۔‬
‫"آپ نہ جائیں۔" وہ اس کی شرٹ مٹھیوں میں بھینچے‬
‫ہچکیوں میں غوطہ زن آواز میں بولی تو مسکرا دیا۔‬
‫"اگر میرا جانا ضروری نہ ہوتا تو میں کبھی نہ جاتا۔"‬
‫اس کی پیشانی پر بوسا دیتے ہوئے بوال۔‬
‫"میرے پاس تمہیں سمجھانے کا وقت نہیں ہے‪ ،‬مگر اتنا‬
‫بتاؤں گا کہ میں فرانس جا رہا ہوں‪ ،‬جبران غفور کی وہاں‬
‫موجودگی پائی گئی ہے۔" اس نے مختصر سا کہا وہ ہنوز‬
‫روتی رہی۔‬
‫"میں جلد ہی لوٹ آؤں گا۔اور ہاں کچھ باتیں میں ابھی نہیں‬
‫بتا رہا مگر جب لوٹوں گا تو تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔ اپنے‬

‫‪198‬‬
‫ایگزامز پر دھیان دینا۔" وہ کہہ کر اسے شانوں سے تھام‬
‫کر خود سے جدا کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫"آپ پلیز مجھے ساتھ لے جائیں نا۔ میرا دل بہت ڈر رہا‬
‫ہے‪....‬پلیز شاہزیب! مت جائیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر‬
‫اسے پھر سے روک چکی تھی۔‬
‫"تم اپنے فائنلز کی تیاری کرو‪....‬میں بس سات کچھ دنوں‬
‫میں لوٹ آؤں گا‪....‬پرامیس۔" وہ اس کے ہاتھ پر بوسا‬
‫دیتے ہوئے لو دیتی آواز میں کہتا پلٹ گیا تھا۔‬
‫پھر بنا رکے اور مڑ کر دیکھے‪.....‬تیز قدموں سے چلتا اس‬
‫سے دور ہوتا گیا۔‬
‫وہ بیڈ پر ڈھے سی گئی تھی۔‬
‫اکثر وہ جب اسے یونیورسٹی سے لینے آتا تو تابندہ سے‬
‫ضرور ملتا تھا‪.....‬جس پر نبیلہ کو اکثر شک ہوتا‪....‬وہ‬
‫اپنے شک کو چھپا نہیں پائی تھی۔‬
‫نبیلہ نے کائنات سے کہا‪....‬پھر کئی مرتبہ ایسا ہوا اور‬
‫کائنات کے معصوم سے دل میں یہ بات سرعت سے بیٹھتی‬
‫چلی گئی‪.....‬‬

‫‪199‬‬
‫یہ جو محبت و الفت کا رشتہ ہوتا ہے نا یہ کچے دھاگے‬
‫کی مانند ہوتا ہے‪ ،‬شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی‬
‫نہیں تو سارے دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں۔‬
‫اس کے ننھے سے دل میں گہرا سوراخ ہو گیا تھا جس کی‬
‫تکلیف روح کو تڑپا دینے والی تھی۔‬
‫وہ درد کی شدت برداشت کرتے ہوئے چنخ چنخ کر رو دی‬
‫تھی۔‬
‫قدموں کی آہٹ پر شازار نے سر اٹھا کر اس کی جانب‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫جہاں پہلے وہ دوپٹے سے بھی بےخبر تھی اب شال‬
‫شانوں پر پھیالئے رکھی تھی۔‬
‫"تم آرام کرو گے یا کھانا کھاؤ گے؟" اس نے سنجیدگی‬
‫سے استفسار کیا تھا۔‬
‫"آپ مجھے میرا کمرہ بتا دیں پلیز میں آرام کرنا چاہوں‬
‫گا۔" وہ تابعداری سے بوال تھا۔‬
‫"چلو دکھاتی ہوں۔" وہ رکھائی سے کہتی ایک تیکھی نگاہ‬
‫اس پر ڈال کر پلٹ گئی۔‬

‫‪200‬‬
‫سیدھا جا کر آخر پر ایک کمرے کا دروازہ دھکیل کر وہ‬
‫پیچھے ہٹی۔‬
‫"کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو الیگزرا سے پوچھ‬
‫لینا۔" اس نے دائیں جانب چارج پر لگی ایک الیگزرا کی‬
‫جانب اشارہ کرتے ہوئے حکمیہ انداز میں کہا تھا۔‬
‫"جی بھابھی!" وہ سر ہالتے ہوئے دھیمی سی آواز میں‬
‫بوال اور اپنا بریف کیس کھینچتے ہوئے کمرے میں داخل ہو‬
‫گیا۔‬
‫"ہوں‪.....‬اچھا لگ رہا ہے بھابھی سننا۔" وہ سوچتے ہوئے‬
‫مسکرائی تھی۔‬
‫"بات سنیں بھابھی!‪ ".....‬پیچھے سے شازار کی آواز سن‬
‫کر وہ پلٹی تھی۔‬
‫"یہ آپ کا۔" شازار نے اس کی جانب ڈریم جار بڑھایا تھا۔‬
‫وہ جو اس جار کو مکمل فراموش کر چکی تھی‪....‬اس کے‬
‫پیروں تلے سے زمین سر گئی تھی۔‬
‫"الال نے کہا تھا آپ کو دے دوں۔" وہ ایک نگاہ اس پر‬
‫ڈالتے ہوئے پھر سے سر جھکا گیا تھا۔‬

‫‪201‬‬
‫حور نے کانپتے ہاتھوں کو بڑھا کر جار تھام تو لیا تھا مگر‬
‫جیسے ہی شازار نے چھوڑا کرسٹل کا جار زمین بوس ہو‬
‫کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا چال گیا۔‬
‫"رکیں‪....‬میں اٹھاتا ہوں۔" شازار نے اسے جھکتے دیکھ‬
‫تیزی سے کہا تھا اور احتیاط سے رنگ برنگے چھوٹے‬
‫چھوٹے رول کیے اس کے خوابوں کو سمیٹنے لگا۔‬
‫"پلیز انہیں آگ میں جھونک دینا۔" وہ سنجیدگی سے کہتے‬
‫ہوئے پلٹ گئی۔‬
‫شازار الجھے الجھے انداز میں سے جاتا دیکھتے رہا تھا۔‬
‫"ک کہیں دالور خان نے‪ "....‬اس کی جان خفا ہونے لگی‬
‫تھی۔‬
‫سانسیں سینے میں دم توڑنے لگیں۔‬
‫دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔‬
‫"نہیں وہ یہ نہیں دیکھ سکتا‪ ".....‬حور نے سختی سے‬
‫نفی میں سر جھٹکا اور تیزی سے دالور خان کا نمبر ڈائل‬
‫کیا۔‬
‫"اس نے دیکھ لیا ہے حور! تبھی تو وہ آیا نہیں‪ .....‬تبھی‬
‫تو اس نے تم سے بات نہیں کی‪ .....‬تمہیں جب ایک ایسا‬
‫‪202‬‬
‫شخص چاہیے جو صرف تمہارا ہو بھال پھر دالور خان‬
‫کیوں نہیں چاہیے گا کہ اس کی بیوی کا دل صاف‬
‫ہو‪....‬شفاف آئینہ جس میں صرف اس کا چہرہ نظر‬
‫آئے۔مگر تمہارا دل داغ دار ہے‪ ،‬تمہارے دل کے آئینے میں‬
‫کہیں نہ کہیں شازار خان کی جھلک نظر آئے گی۔" وہ جتنا‬
‫سوچ رہی تھی سانسیں اتنی ہی تیزی سے اکھڑ رہی تھیں۔‬
‫"دالور خان اب میرا نہیں رہے گا؟"‬
‫"وہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا؟"‬
‫نجانے کتنے ہی خوفناک خیاالت آ کر اس کو تڑپا رہے‬
‫تھے۔‬
‫وہ لڑکھڑا کر رہ گئی‪ ،‬گرنے سے بچنے کی خاطر اس نے‬
‫دیوار کا سہارا لیا تھا۔‬
‫"میں صرف دالور خان سے محبت کرتی ہوں۔وہ صرف‬
‫میرا ہے۔"‬
‫آج اس پر پیچھلی کئی راتوں والی کیفیت طاری تھی جب‬
‫اسے اپنے آپ میں سے دالور خان کی خوشبو محسوس‬
‫ہوتی اور وہ تڑپ تڑپ کر رو دیتی۔‬

‫‪203‬‬
‫یہاں آ کر ایک رات بھی ایسی نہیں گزری تھی جب اس کی‬
‫یاد میں وہ روئی نہ تھی۔‬
‫مگر آج‪ ......‬آج تو اس کو کھو دینے کا ڈر روال رہا تھا۔‬
‫شازار نے بہت احتیاط سے کانچ کے ٹکڑے اکٹھے کیے‬
‫اور باسکٹ میں ڈال کر کمرے کی جانب بڑھا۔‬
‫دیوار کے ساتھ پڑی میز پر سے کرسٹل کا باؤل اٹھایا جس‬
‫میں حور کے خواب جمع تھے۔‬
‫"وہ انہیں جالنا کیوں چاہتی ہیں؟" وہ متجسس ہوکر ان‬
‫میں سے ایک عدد رول شدہ کاغذ اٹھا چکا تھا۔‬
‫"نہیں شازار! یہ غلط ہے‪....‬کسی کی پرنسپل چیزوں کو‬
‫اجازت کے بغیر چھونا بری بات۔" وہ رول واپس رکھ کر‬
‫تیزی سے پلٹا اور بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ کر سونے کی‬
‫کوشش کرنے لگا۔‬
‫*****‬
‫فرحان الن میں بیڈ سائز جھولے پر لیٹا ہوا تھا۔‬
‫دونوں باہیں دائیں بائیں پھیال رکھی تھیں‪.....‬پاؤں زمین کو‬
‫چھو رہے تھے۔‬

‫‪204‬‬
‫"فرحان!‪ "....‬نجی کے ہاتھوں کی گرفت ریلنگ پر سخت‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫نم آنکھوں کے ساتھ وہ پلٹ کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اتر‬
‫کر اس تک پہنچی تھی۔‬
‫اس کے بکھرے بال اور دو انگلیوں کے درمیان دبی‬
‫سگریٹ دیکھ وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے برستی آنکھوں‬
‫سے اسے دیکھتی رہی۔‬
‫رات کو وہ اسے محبت و نرمی سے سمجھانا چاہتی تھی‪،‬‬
‫اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتی تھی مگر سلگتے دل نے‬
‫زبان کو طنز کے تیر چالنے پر مجبور کر دیا تھا۔‬
‫"تم بھی ایک عام سے پٹھان نکلے فرحان!‪....‬بیوی کو‬
‫خاموش کروانے کے لیے ہاتھ اٹھانے لگے۔" وہ بڑبڑاتے‬
‫ہوئے اس کی پیشانی پر جھکی تھی۔‬
‫"ہاں میں آپ سے بہت محبت کرنے لگی ہوں مگر میں آپ‬
‫کا ظلم و ستم ہرگز برداشت نہیں کروں گی‪ ،‬ہر پختون‬
‫عورت کی مانند اپنے آپ کو پتھر کا نہیں ہونے دوں گی۔"‬
‫اس کی پیشانی چوم کر وہ سیدھی ہوئی تھی اور ایک قدم‬

‫‪205‬‬
‫آگے ہو کر ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ میں قید بوجھے‬
‫سگریٹ کو دھیرے سے نکاال اور پرے اچھال دیا۔‬
‫کئی لمحے سرک گئے وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی‬
‫جب فرحان کسمسایا تو وہ ہڑبڑا کر نگاہوں کا رخ پھیر گئی۔‬
‫"آں‪.....‬تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" نیند کی خماری کی بدولت‬
‫اس کی آواز بوجھل سی ہو رہی تھی۔‬
‫نجی کا دل زور سے دھڑکا وہ آنسو آنکھوں میں لیے سر‬
‫جھکائے بنا اس کے سوال کا جواب دیئے وہاں سے ہٹ‬
‫گئی تھی۔‬
‫فرحان نخوت سے سر جھٹک کر دوبارہ سے لیٹ گیا۔‬
‫"سمجھتی پتہ نہیں خود کو کیا ہے‪.....‬مجھے ان بار‬
‫ڈانسروں اور ویٹریس کے ساتھ‪ "......‬دونوں ہاتھوں کی‬
‫میٹھیوں میں بالوں کو جکڑتے ہوئے وہ ضبط کی انتہا کو‬
‫پہنچ کر سوچ رہا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے نجی بیگم! اب تمہیں میں دکھاؤں گا کہ ویٹرس‬
‫اور بار ڈانسروں کے ساتھ ناجائز تعلقات کیسے استوار‬
‫صے‬‫کیے جاتے ہیں۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے غم و غ ّ‬

‫‪206‬‬
‫کے عالم میں سوچتے ہوئے وہ آخر پر شاطرانہ انداز میں‬
‫مسکرایا تھا۔‬
‫اس کے دماغ میں اس وقت شیطانی سوچیں جنم لے رہی‬
‫تھیں‪....‬اور دل میں نجی کے لیے محض غصہ تھا۔‬
‫"میں نے ساری زندگی شراب شباب سے بچا کر جس بیوی‬
‫کے لیے اپنے جذبات رکھے وہ ہی آج مجھ پر انگلی‬
‫اٹھائے گی‪.....‬میرے مضبوط کردار پر چوٹ کرے گی‪.....‬‬
‫ٹھیک کرتے ہیں وہ مرد جو باہر منہ مارتے ہیں۔" وہ‬
‫نجانے کیا کیا غلط سلط سوچ رہا تھا‪....‬اور اس پر عمل‬
‫کرنے کے متعلق بھی سوچ رہا تھا۔‬
‫وہ ریڈی ہو کر جیسے ہی باہر نکلی شازار کو سیاہ کرتہ‬
‫پاجامہ میں ملبوس ہال میں کھڑا دیکھ ایک دم تھم سی گئی‬
‫تھی وجہ اس کے ہاتھ میں تھاما سلور رنگ کا ریوالور تھا۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہے ہو؟" وہ آنکھیں سکوڑتے ہوئے‬
‫استفسار کر رہی تھی۔‬
‫"میں یہاں آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ آپ کی‬
‫جان کو خطرہ ہے تو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔"‬
‫"مگر میں تو یونیورسٹی جا رہی ہوں تم‪"......‬‬

‫‪207‬‬
‫وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی پھر سے ایک نگاہ اس کی‬
‫تیاری پر ڈالی اور دوسری نگاہ ریوالور میں بلٹس بھرتے‬
‫ہاتھوں کو دیکھا۔‬
‫"نو‪ .....‬مطلب تم میرے ساتھ جاؤ گے؟ نہیں تم نہیں جا‬
‫رہے۔" اس نے سختی سے کہا۔‬
‫"بھابھی! میرا جانا ضروری ہے‪.....‬جب تک الال نہیں آ‬
‫جاتے تب تک میں آپ کی حفاظت کرنے پر پابند ہوں‪.....‬پتہ‬
‫نہیں جبران کیوں آپ کے پیچھے آیا ہے مگر وہ آپ کو‬
‫نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اسی لیے پلیز‬
‫سمجھنے کی کوشش کریں۔" وہ نرم لہجے میں التجاء کر‬
‫رہا تھا۔‬
‫"دالور آئے گا؟" وہ خوشی سے کھنکھتی آواز میں‬
‫استفسار کرتی ایک قدم آگے بڑھی تھی۔‬
‫"جی جی وہ بس ایک دو دن تک آ جائیں گے‪....‬جیسے ہی‬
‫امو جان کی طبیعت سنبھلے گی۔" اس نے سر اٹھا کر اس‬
‫کی خوشی سے چمکتی آنکھوں کو دیکھا۔‬
‫"آنٹی اب کیسی ہیں؟ "‬

‫‪208‬‬
‫"ابھی ٹھیک ہیں کچھ دیر پہلے ہوئی تھی الال سے‬
‫زیر اثر سو رہی ہیں۔" اس‬
‫بات‪....‬مگر نشیلی ادویات کے ِ‬
‫نے مختصر سی تفصیل بتائی۔‬
‫"جب ہوش میں آئیں تو یاد سے میری بات ان سے‬
‫کروانا۔"‬
‫وہ کہتے ہوئے میز پر بکھری اپنی فیشن ڈیزائننگ کی‬
‫اسائنمنٹ سمیٹنے لگی جو اس نے رات بھر جاگ کر بنائی‬
‫تھی۔‬
‫"شازار! پلیز تم کچھ ڈھنگ کا پہن کر آؤ۔نیور مائنڈ پر‬
‫مجھے تمہیں اس حلیے میں ساتھ لے جانے کا دل نہیں کر‬
‫رہا۔" وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔‬
‫شازار جو اپنے شانے پر شال درست کر رہا تھا رک کر‬
‫اسے دیکھنے لگا۔‬
‫"جی بھابھی!" وہ تابعداری سے کہہ کر اپنے کمرے کی‬
‫جانب بڑھ گیا۔‬
‫حور نے اپنی اسائنمنٹ فائل میں ترتیب سے لگائی۔اور‬
‫تفصیلی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔‬

‫‪209‬‬
‫سٹیم پنک تھیم پر اس نے آٹھ فیشن کروکیز بنائی ہوئی‬
‫تھیں‪ ،‬جن میں مختلف رنگ اور کٹ الئنز کا خاص خیال‬
‫رکھتے ہوئے اس نے اپنا پروجیکٹ بہت کمال کا بنایا تھا‬
‫تھیم بورڈ‪ ،‬اور باقی کی ڈیٹیلز جو اس نے لکھی تھی وہ‬
‫بھی بہت خوبصورت انداز میں تھی۔‬
‫"بس اس گارمنٹ میں تھوڑی سی ڈیٹیل باقی ہے۔‬
‫یونیورسٹی جا کر ٹھیک کر لوں گی۔"وہ فائل بند کر کے‬
‫میز پر رکھ چکی تھی۔‬
‫سامنے وال میں جڑے شیشے میں ایک نظر خود کو دیکھا۔‬
‫نیچرل میک اپ اس کے خوبصورت چہرے کو مزید حسین‬
‫تر بنا رہا تھا‪.....‬سفید شرٹ پر مسٹرڈ کلر کا النگ کوٹ‬
‫نیلی نیرو جینز تلے النگ شوز پہنے وہ اپنے سر پر گرم‬
‫ٹوپی پہنے ہوئے تھی۔‬
‫سفید ہاتھوں کی انگلیاں سردی کی شدت سے سرخ ہو رہی‬
‫تھیں۔‬
‫"پتہ نہیں میں نے گلوز کہاں رکھ دیئے تھے‪ ،‬ملے ہی‬
‫نہیں۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے ٹوپی سے نکل کر شانے پر‬

‫‪210‬‬
‫بکھرے بالوں کو کمر پر ڈالتے ہوئے ہاتھوں کو آپس میں‬
‫مسلنے لگی۔‬
‫"چلیں؟" شازار نے گال کھنکھارتے ہوئے اسے اپنی جانب‬
‫متوجہ کیا۔‬
‫اس نے پرنس کوٹ کے تلے سفید شرٹ پہن رکھی تھی‪،‬‬
‫اور نیلی جینز‪....‬ہاتھ میں تھامے مفرل کو گردن کے گرد‬
‫لپیٹتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔‬
‫"یہ‪....‬تمہارے الال کا کوٹ ہے نا؟"‬
‫"جی دراصل‪....‬میں ہسپتال سے ہی ادھر آیا تھا تو الال کا‬
‫پیک ہوا پریف کیس ہی لے آیا تھا۔" اس نے کہتے ہوئے‬
‫ریوالور کوٹ کی اگلی جیب میں رکھ لیا۔‬
‫"اس کی ضرورت نہیں ہے شازار! ہماری یونیورسٹی میں‬
‫سکیورٹی بہت ٹائٹ ہے۔" اس کا اشارہ ریوالور کی جانب‬
‫تھا۔‬
‫"بھابھی! ہم کسی پر یقین نہیں کر سکتے۔" اس نے کہا تو‬
‫وہ سر ہال کر شانے آچکاتی اپنا سامان اٹھا کر پورچ کی‬
‫جانب بڑھ گئی۔وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا تھا۔‬
‫"گاڑی تم ڈرائیور کرو گے؟"‬

‫‪211‬‬
‫"جیسے آپ کو بہتر لگے۔"‬
‫"اوکے تم ہی ڈرائیو کرو۔" وہ اس کی جانب چابی اچھال کر‬
‫لیفٹ سائیڈ والی سیٹ پر براجمان ہو گئی۔‬
‫گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی تھی جب دالور خان کی کال آنے‬
‫لگی۔‬
‫"سپیکر پر ڈالو۔" حور نے اس کے موبائل کی سکرین پر‬
‫چمکتے نام کو دیکھ کر تیزی سے کہا۔‬
‫شازار اس کے لہجے کی بےقراری پر مبہم سی مسکراہٹ‬
‫لیے کال اٹینڈ کر چکا تھا۔‬
‫فون سپیکر پر ڈال کر اس کی جانب بڑھایا۔‬
‫کہ ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرنا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا‬
‫کیونکہ بارش ابھی بھی زوروں سے برس رہی تھی۔‬
‫"اسالم علیکم‪.....‬کیسے ہو خان!"‬
‫اس کی گھمبیر آواز سپیکر سے ابھری تھی‪ ،‬ادھر حور کے‬
‫چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی اور رخساروں پر اللی‬
‫بکھرتی گئی۔ دل جو اتنے دنوں سے اس کی ایک آہٹ کو‬
‫ترس رہا تھا جھوم اٹھا تھا۔‬

‫‪212‬‬
‫ّٰللا کا شکر ہے‪ ،‬آپ کیسے ہیں‪....‬امو‬
‫"و علیکم السالم! ہ‬
‫جان کی طبیعت ٹھیک ہے اب؟" شازار نے ونڈ سکرین کے‬
‫پار سڑک پر دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔‬
‫"ہوں۔ بس ٹینشن زیادہ لے لی تھی تو تبھی تھوڑی طبیعت‬
‫بگڑ گئی۔اب ٹھیک ہیں‪....‬ابھی سو رہی ہیں۔وہاں سب ٹھیک‬
‫ہے؟ تمہاری بھابھی کیا کر رہی ہے؟" آخری سوال پر‬
‫شازار نے گردن گھما کر چشمے کے پیچھے سے حور کو‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫"آپ بات کریں گے ان سے‪...‬؟" شازار نے استفسار کیا تو‬
‫ادھر حور نے سختی سے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫"ہمت نہیں ہے خان!‪ ".....‬وہ بےجان سی آواز میں بوال‬
‫تھا۔ حور کے چہرے پر افسردگی سی چھا گئی تھی۔‬
‫اس کے لہجے سے ٹپکتی ویرانی اس کے دل کو دکھا رہی‬
‫تھی۔‬
‫"الال! یوں گھبرانے سے کیا ہوتا ہے‪ ،‬زندگی پہاڑ جیسی‬
‫ہے‪....‬یوں آپ دونوں ایک دوسرے سے بھاگتے رہو گے‬
‫تو یہ زندگی تنہا ہی کٹ جائے گی۔" شازار نے سمجھداری‬
‫کا مظاہرہ کیا تھا۔‬

‫‪213‬‬
‫ّٰللا بھی معاف‬
‫"وہ مجھے معاف نہیں کرے گی۔ مجھے تو ہ‬
‫نہیں کرے گا۔"‬
‫حور بہت غور سے دالور خان کو سن رہی تھی۔‬
‫اسے محسوس ہوا تھا کہ دالور خان کی طبیعت ٹھیک نہیں‬
‫ہے۔‬
‫اس نے شازار کے شانے پر تھپکی دے کر اپنی جانب‬
‫متوجہ کیا۔‬
‫اشارے سے ہی کہا کہ اس سے پوچھے کہ اس کی آواز‬
‫بدلی بدلی سی کیوں ہے۔‬
‫"کیا؟" وہ سمجھا نہیں۔‬
‫حور نے ایک منٹ کا ویٹ بوال اور اپنے فون پر انگلیاں‬
‫چالنے لگی۔‬
‫"آپ بات کریں گے تو معاف کرے گی نا۔" شازار نے بات‬
‫جاری رکھی تھی۔‬
‫"وہ مجھے چھوڑ کر گئی ہے شازار واپس کیوں آئے‬
‫گی‪ ....‬آ بھی گئی تو ساری زندگی میں اس کی نظروں میں‬
‫گرا ہی رہوں گا۔" اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔‬

‫‪214‬‬
‫حور نے ایک گھوری فون کو نوازی تھی۔‬
‫پھر اپنا فون شازار کے سامنے کر دیا۔‬
‫اس نے گاڑی کی سپیڈ کم کی۔‬
‫"تمہاری‪ ....‬طبیعت‪ ....‬ٹھیک‪ .....‬نہیں لگ رہی‪ .....‬میڈیسن‬
‫وغیرہ لو‪ ".....‬وہ بہت غور سے دیکھتے ہوئے موبائل‬
‫کے نوٹ پر لکھی تحریر ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہا تھا۔‬
‫"سبق پڑھ رہے ہو؟" دالور خان نے استفسار کیا تو حور‬
‫نے اسے گھوری نوازی۔‬
‫"ٹھیک سے بولو۔" اس نے سر کے اشارے سے ہی کہا۔‬
‫"الال! میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کی آواز بہت بدلی بدلی سی‬
‫لگ رہی ہے‪ ....‬طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ میڈیسن وغیرہ‬
‫لیں۔" اس نے کہتے ہوئے حور کو تصدیقی نگاہوں سے‬
‫دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫"ٹھیک ہے لے لوں گا‪....‬بس پیچھلے ایک دن سے سویا‬
‫نہیں تو سر دکھ رہا ہے۔اچھا اب میں فون رکھتا ہوں‪....‬اپنی‬
‫بھابھی کا خیال رکھنا۔" وہ کہہ کر کال کٹ کر چکا تھا۔‬
‫حور نے فون اس کی جانب بڑھا دیا اور سر سیٹ کی پشت‬
‫سے ٹکا لیا۔‬
‫‪215‬‬
‫"آپ الال سے محبت کرتی ہیں‪....‬پھر کیوں نہیں مان جاتیں؟‬
‫ہاں مانتا ہوں بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ان سے جس کی‬
‫سزا بابا سائیں انہیں دے چکے ہیں۔"‬
‫"ک کیا مطلب؟" وہ چونک ک سیدھی ہوئی اور اس کی‬
‫جانب رخ پھیر کر بیٹھ گئی۔‬
‫"انہیں سرداری سے ہٹا دیا ہے اور گاؤں سے بھی نکال‬
‫دیا ہے۔بابا سائیں کو لگتا ہے کہ الال نے آپ کے ساتھ اچھا‬
‫نہیں کیا۔" وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بات کے اختتام پر اس‬
‫کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"کیا؟ انہیں کیسے معلوم ہوا؟"‬
‫"الال مجھ سے بات کر رہے تھے کہ وہ آپ کو منانے‬
‫فرانس جا رہے ہیں‪...‬بابا سائیں نے سن لیا‪ "....‬اس نے کہا‬
‫تو حور لب بھینچ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔‬
‫"دالور خان وہ شخص ہے جس کے بنا میری زندگی‬
‫ادھوری ہے‪....‬وہ میرا دوست ہے‪ ،‬میری محبت ہے‪ ،‬میرا‬
‫شوہر ہے‪.....‬سب کچھ ہے وہ میرا‪....‬مگر میں بھی تو کچھ‬
‫ہونی چاہیے نا اس کے لیے‪.....‬اس نے صرف مجھ سے‬

‫‪216‬‬
‫محبت کی ہے اگر میں اس کی زندگی ہوتی تو وہ مجھے‬
‫اتنی تکلیف نہ دیتا‪....‬مجھے یوں تنہا نہ کر دیتا۔"‬
‫بولتے ہوئے اس کی آواز آنسوؤں میں غوطہ زن ہو چکی‬
‫تھی۔ شازار خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔‬
‫پھر وہ خاموش ہو گئی‪....‬گاڑی میں مکمل سناٹا چھا گیا۔‬
‫گاڑی یونیورسٹی سے انٹر ہو چکی تھی۔‬
‫"میں اس کے ساتھ فیئر تھی‪ ،‬مگر وہ میرے ساتھ فیئر‬
‫نہیں تھا‪....‬اس نے میرے دل میں بےشمار سوراخ کر دیئے‬
‫ہیں۔ ان سوراخوں کو اگر وہ جلد نہیں بھرنے آیا نا تو میں‬
‫مر جاؤں گی۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے آنکھوں پر گوگلز‬
‫چڑھا کے گاڑی سے اتر چکی تھی۔‬
‫"آؤٹ سائیڈرز االؤ نہیں ہیں۔" وہ جب اس کے ہمقدم ہوا‬
‫تو حور نے کہا۔‬
‫"الال نے بات کر لی ہوئی ہے۔" گیٹ پر پہنچتے ہی اس نے‬
‫اپنا آئی ڈی کارڈ گارڈ کو تھمایا تو وہ اسے بہت عزت سے‬
‫کارڈ واپس کرتے ہوئے دروازہ کھول چکا تھا۔‬
‫حور ہقا بقا کھڑی رہ گئی۔‬

‫‪217‬‬
‫"آپ کی یونیورسٹی کے بچے اگلے ویک پیرس کے‬
‫اسٹوڈنٹس فیشن ویک میں حصہ لینے والے ہیں اور تین‬
‫ججیز میں سے ایک جج الال ہوتے ہیں‪ ".....‬اس نے‬
‫مختصر سا کہا۔‬
‫"تو تمہارے الال رشوت بھی لیتے دیتے ہیں؟"‬
‫"نہیں نہیں‪....‬یہ بات نہیں ہے انہوں نے اس یونیورسٹی‬
‫میں بطور پروفیسر دو سال تک جاب کی ہے۔"‬
‫"کیا؟کب؟" حور کو ایک مزید شاک لگا تھا دالور خان کے‬
‫متعلق یہ سن کر۔‬
‫"جب وہ بائیس کے تھے‪".....‬‬
‫"یہاں کون سا سبجیکٹ پڑھاتے تھے؟"‬
‫"ہسٹری آف فیشن کاسٹیوم تھا آئی تھینک۔"‬
‫"شازار خان! تمہارا الال واقع ہی مجھ سے محبت نہیں‬
‫کرتا‪.....‬اس نے مجھے اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا‪ ،‬وہ‬
‫اتنی بڑی میک اپ کمپنی کا پارٹنر ہے‪ ،‬وہ باکسر تھا‪ ،‬وہ‬
‫پروفیسر بھی تھا اور بھی پتہ نہیں اس نے کیا کیا چھپایا‬
‫ہے مجھ سے‪....‬اور ہاں وہ فیشن ویک میں جج بھی ہے۔"‬
‫حور سعی معنوں میں تپ گئی تھی۔‬

‫‪218‬‬
‫شازار ہنس دیا۔‬
‫"پھر تو آپ کو الال کی طبیعت فریش کرنی چاہیے۔" اس‬
‫نے مشورہ دیا۔‬
‫"وہ ہاتھ آئے تب نا۔" اس نے سرد آہ بھری تو شازار پھر‬
‫سے ہنس دیا۔‬
‫"وہ تو ہاتھ میں آنا چاہتے ہیں آپ ہی کوئی فیصلہ نہیں کر‬
‫رہیں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو حور رک گئی۔‬
‫وہ بھی دو قدم آگے جا کر رکا اور پلٹا۔‬
‫"میں نے رات کو ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو گزر گیا وہ‬
‫گزر گیا‪.....‬میں نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں‪....‬جیسے‬
‫تمہیں بہت تنگ کیا ہے‪ ،‬تم اچھے ہو تو سب کو اچھے لگو‬
‫گے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اچھا لگنا محبت ہوتی‬
‫ہے‪.....‬تو میں اس بات کو یا کوئی بھی ایسی جو میرے اور‬
‫دالور کے رشتے کو بگاڑے اسے بھول جاؤں گی۔اور اپنی‬
‫زندگی کی شروعات دالور خان کے ساتھ کروں گی جس کے‬
‫بنا میں سانس بھی نہیں لے سکتی۔" اس نے مسکراتے‬
‫ہوئے کہا تو شازار جو یہاں آنے سے بہت پریشان تھا ہلکا‬
‫پھلکا سا ہو کر مسکرا دیا۔‬

‫‪219‬‬
‫"حوریہ رائے کے ساتھ لڑکا کتنا ہینڈسم ہے۔"‬
‫"دونوں کو ڈیمپل پڑتا ہے‪.....‬لگتا ہے حوریہ کا بھائی‬
‫ہے۔"‬
‫"لگتا ہے یہ سارا خاندان ہی پیارا ہے۔"‬
‫"یار وہ کتنا ہینڈسم ہے۔میں جاؤں اس سے بات کروں؟"‬
‫دو انگریزن لڑکیوں کی گفتگو ان کے کانوں پر پڑی تھی۔‬
‫حوریہ نے چشمہ آنکھوں پر سے ہٹاتے ہوئے پلٹ کر‬
‫سخت گیر نگاہوں سے ان اپنی کالس فیلوز کو گھورا تھا وہ‬
‫دونوں ہڑبڑا کر آگے بڑھ گئیں۔‬
‫"اسالم علیکم مس حور!" عوذر سومرو اس کے پاس‬
‫رکتے ہوئے بوال۔‬
‫"و علیکم السالم!" حور نے سنجیدگی سے جواب دیا۔‬
‫"یہ کون ہیں؟ آؤٹ سائیڈرز آالؤ نہیں ہیں آپ جانتی ہیں‬
‫نا؟" عوذر نے شازار کو چشمے کے پیچھے سے ہی‬
‫گھورا تھا۔‬
‫"مسٹر سومرو! یہ میرے‪ "......‬ایک لمحے کو خاموش‬
‫ہوئی اور شازار کی جانب دیکھا۔‬

‫‪220‬‬
‫"میرے دیور ہیں اور ہم نے پرمیشن لی ہوئی ہے۔ یہ‬
‫میرے ساتھ ہی آج سے رہیں گے۔"‬
‫"اسالم علیکم مائی سیلف شازار خان۔" شازار نے‬
‫مسکراتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔‬
‫"و علیکم السالم! مجھے عوذر سومرو کہتے ہیں۔" وہ‬
‫نگاہیں حور پر جما چکا تھا۔‬
‫"حور! آپ کو میرے ساتھ لیب چلنا ہو گا‪ ،‬کچھ کینڈلز‬
‫ایکسپیرمنٹس کرنے ہیں۔" عوذر نے کہا تو وہ اثبات میں‬
‫سر ہال کر رہ گئی۔‬
‫ان دونوں کے پیچھے جب شازار بڑھا تو عوذر نے رک کر‬
‫اسے گھورا۔‬
‫"آپ لیب میں نہیں آ سکتے ‪ ،‬یہ رولز کے خالف ہے۔" اس‬
‫نے سختی سے کہا۔‬
‫"مسٹر سومرو! میں یہاں‪"....‬‬
‫"اٹس اوکے شازار! آپ ایسا کریں کیفے ٹیریا چلیں۔ میں‬
‫آتی ہوں۔" حور نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ سر‬
‫ہال کر پلٹ گیا۔‬

‫‪221‬‬
‫"کل میں آپ کی ڈور بیل بجا بجا کر لوٹ گیا تھا‪ ،‬کال بھی‬
‫نہیں اٹھائی آپ نے‪....‬سب ٹھیک تھا؟" لیب میں داخل‬
‫ہوتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔‬
‫"ویسے ہی۔" حور سرسری سے انداز میں کہہ کر آگے‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫"سب ٹھیک ہے؟ آپ کا دیور یہاں کیوں آیا ہے؟" وہ اس‬
‫کے پاس رکتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔‬
‫"یہ آپ کا معاملہ نہیں ہے‪ ،‬اسی لیے بہتر ہو گا لیمٹس میں‬
‫رہیں۔" وہ اس کی جانب سختی سے دیکھتے ہوئے تیزی‬
‫سے کہہ کر رخ پھیر گئی۔‬
‫"ایم سوری مگر میرا مطلب تھا کہ‪"...‬‬
‫"مسٹر سومرو! تم اپنا ایکسپیرمنٹ تنہا کرو۔" وہ ٹیوبز‬
‫میز پر پٹخ کر پلٹ گئی تھی۔‬
‫الئیبریری میں موجود لوگوں نے حیرانگی سے عوذر‬
‫سومرو کو بہت عجیب نگاہوں سے دیکھا تھا۔‬
‫وہ شرمندہ سا ہو کر لیب سے نکل گیا۔‬
‫یونیورسٹی میں مشہور ہو چکا تھا وہ‪.....‬کہ حوریہ رائے‬
‫کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور وہ اسے گھاس تک نہیں ڈالتی۔‬
‫‪222‬‬
‫"مجھے نہیں فرق پڑتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں‪ ،‬مگر میں‬
‫اس کے پیچھے ہی ہوں‪ .....‬بےشک وہ آج مجھے گھاس‬
‫نہیں ڈال رہی مگر ایک دن وہ میرے ساتھ ہنسی خوشی جب‬
‫‪....‬جب میرا ہاتھ تھامے یونیورسٹی میں داخل ہو گی‬
‫تو‪....‬تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گیں۔" وہ‬
‫سوچتے ہوئے تصور میں حور کے ساتھ تھا۔‬
‫"پروفیسر عوذر!‪ ....‬آپ کی کالس کا وقت ہو چکا ہے۔"‬
‫اسے ہوش تب آیا جب ایک اسٹوڈنٹ نے آ کر اسے کالس‬
‫کے متعلق کہا تو وہ بری طرح سے خیال سے چونک کر‬
‫اثبات میں سر ہالتے ہوئے مسکرا کر اس لڑکی کے ساتھ‬
‫آگے بڑھ گیا۔‬
‫شاہزیب نے کائنات کو نہ تو حور کی جان کو خطرے والی‬
‫بات بتائی تھی اور نہ ہی امو جان کی طبیعت کی ناسازی‬
‫والی‪.....‬وہ الہور سے سیدھا پشاور پہنچا تھا۔‬
‫حور کی جانب سے وہ دونوں مطمئن تھے کہ شازار وہاں‬
‫تھا۔‬
‫حامد خان ہسپتال کے الن میں پڑے سنگی بینچ پر بیٹھے‬
‫دور غروب آفتاب کو دیکھ رہے تھے۔‬

‫‪223‬‬
‫وہ خاموشی سے ان کے پہلوؤں میں جا بیٹھا۔‬
‫"تایا سائیں!‪.....‬سردار کی اس سارے معاملے میں کوئی‬
‫غلطی نہیں ہے‪.....‬میں نے ہی اسے کہا تھا حور سے پیپر‬
‫میرج کرنے کو۔" شاہزیب نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا‬
‫تھا۔‬
‫"دراصل آپ کو تو پتہ ہی ہے نا‪.....‬کہ عدالت ثبوتوں کے‬
‫انحصار پر سزا سناتی ہے‪.....‬اسی لیے ہم نے مل کر یہ‬
‫پالن بنایا تھا۔" وہ مصنوعی شرمندگی لہجے میں لیے کہہ‬
‫رہا تھا۔‬
‫"یہ سچ ہے کہ تم جوانی میں مجھ سے ملے ہو‬
‫مگر‪......‬میرے بچے میں تمہیں اچھے سے جانتا ہوں۔ ماں‬
‫باپ جانتے ہوتے ہیں کون جھوٹ بول رہا ہے اور کب۔"‬
‫انہوں نے اس کا شانا تھپک کر کہا اور اٹھنے ہی لگے‬
‫تھے کہ شاہزیب نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔‬
‫"پھر آپ یہ کیوں نہیں جان رہے کہ سردار کتنا پریشان‬
‫ہے‪ ،‬اسے آپ کی ضرورت ہے‪ .....‬آپ نہیں جانتے مگر یہ‬
‫محبت بہت ظالم شے ہے‪....‬ان حالتوں میں اسے تنہا چھوڑا‬
‫تو جو حالت اس کی میں دیکھ رہا ہوں وہ پاگل ہو جائے‬

‫‪224‬‬
‫گا‪.....‬وہ بہت بہادر ہے مگر اس وقت وہ بہت ٹوٹا بکھرا ہوا‬
‫ہے۔اسے ہماری ضرورت ہے تایا سائیں!"‬
‫وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے انہیں دوبارہ سے‬
‫بیٹھنے پر مجبور کر چکا تھا۔‬
‫"تایا سائیں! ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ سوچیں کہ اگر‬
‫آپ کا لخت جگر خوش رہے گا تو پورا خان پور خوش رہے‬
‫گا‪.......‬امو جان خوش رہیں گیں‪.....‬اور ابھی تو کسی کو‬
‫معلوم بھی نہیں آپ حور اور دالور کی شادی اپنے ہاتھوں‬
‫سے کریں گے تب سب کو علم ہو گا اس شادی کا۔"‬
‫"اس نے جو خود غرضی دکھائی ہے‪.....‬اس کی سزا تو‬
‫اسے ملے گی۔"‬
‫"وہ سزا حوریہ دے لے گی کیونکہ دالور اس کے معاملے‬
‫میں خود غرض بنا تھا۔ہمیں تو اس کا ساتھ دینا ہے بس۔‬
‫اور آپ اور سردار کی صالح ہو گی تو امو جان کی طبیعت‬
‫بہتر ہو گی‪....‬گھر والوں کے چہروں پر چھائی اداسی ختم‬
‫ہو گی۔" وہ کہہ کر خاموش ہوا۔ چور نظروں سے حامد خان‬
‫کو دیکھا جو گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔‬

‫‪225‬‬
‫"تایا سائیں سب کچھ آپ کے ہاتھوں میں ہے‪ ،‬سردار کی‬
‫اور سب کی خوشی‪ ....‬حویلی کی عزت و آبرو۔" اس نے‬
‫مزید کہا تھا۔‬
‫"تم ہمیشہ اپنی چکنی چپڑی باتوں میں مجھے پھنسا ہی‬
‫لیتے ہو۔" حامد خان نے مسکراتے ہوئے اس کا شانا‬
‫تھپکا۔‬
‫وہ ہنس دیا۔‬
‫"تم ٹھیک کہہ رہے ہو‪ ،‬بچوں کی بھی خوشیاں ہوتی‬
‫ہیں‪......‬اگر ہم خان کی مرتبہ اپنی رسم و رواج درمیان میں‬
‫نہ التے تو شاید آج وہ اس حال میں نہ ہوتا‪.....‬خود سے ہی‬
‫باتیں نہ کرتا پھرتا ہوتا‪ .....‬پہلی مرتبہ ہم خود اپنا ایک‬
‫قانون بدلیں گے کہ قبیلے اور خاندان سے باہر بھی شادی‬
‫کر سکتے ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے‬
‫مسکرائے۔‬
‫شاہزیب نے ان کے گرد بازو حائل کر دیئے۔‬
‫"تھینک یو تایا سائیں!"‬
‫"تم مجھے بابا سائیں کہا کرو خانزادے۔" وہ اس کی‬
‫پیشانی چوم کر نم آنکھوں سے بولے تو چند پل وہ انہیں‬

‫‪226‬‬
‫دیکھتا رہا پھر نم آنکھوں کے ساتھ پھر سے ان کے سینے‬
‫لگ گیا۔‬
‫"بابا سائیں!" اس نے انہیں دھیمی آواز میں پکارا تھا۔‬
‫"میرا خانزادہ پتر!‪....‬سب سے زیادہ سمجھدار۔" وہ اس‬
‫کی پیشانی چوم کر فخریہ انداز میں بولے۔‬
‫" اب آپ سردار دالور خان کے پاس چلیں میں سب کے‬
‫لیے کھانا لے آؤں‪ ،‬وہ جھال تو پیچھے دو دنوں سے بھوکا‬
‫ہے۔" وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے ان کے ہاتھ پر بوسا دے‬
‫کر اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫حامد خان نے قدم ہسپتال کی اندرونی جانب بڑھا دیئے‬
‫تھے۔‬
‫****‬
‫دن سے رات ہو گئی تھی اور رات سے آدھی رات‪.....‬‬
‫فرحان جو کل رات سے گھر نہیں لوٹا تھا ابھی بھی اس‬
‫کے آنے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔‬
‫نجی کی جان ہلک میں اٹکی ہوئی تھی اور ساکت پلکیں‬
‫دہلیز پر لگی ہوئی تھیں۔‬

‫‪227‬‬
‫اس کے پاس نہ تو موبائل تھا کہ فرحان کو کال کر لیتی اور‬
‫نیسی بھی پیچھلے دو دنوں سے اپنے بیٹے کے ساتھ‬
‫گھومنے نکلی تھی اس کا ایک مہینے بعد آنے کا پروگرام‬
‫تھا سو اس وقت وہ اور سائیں سائیں کرتا خالی‬
‫گھر‪.....‬کالی رات اور گرجتے بادل تھے۔‬
‫ّٰللا میرا شوہر سعی سالمت مجھ تک پہنچا دے۔ پتہ نہیں‬‫"یا ہ‬
‫ّٰللا فرحان واپس آ جائے۔" وہ‬
‫کل سے کیوں نہیں آیا‪......‬یا ہ‬
‫دل میں کوئی بھی منفی خیال آنے نہیں دے رہی تھی۔‬
‫بادل گرجے اور پھر زور و شور سے برسنے لگے۔ اس‬
‫اندھیری اور برستی رات نے اسے بہت ڈرا دیا تھا۔‬
‫گھر میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔‬
‫کب اس کی گاڑی اندر آئی اور کب وہ کمرے میں داخل ہوا‬
‫اسے معلوم نہیں تھا۔‬
‫وہ بیڈ کے پیچھے چھپی گھٹنوں میں سر دیئے ہچکیوں‬
‫سے رو رہی تھی۔‬
‫ّٰللا میرا شوہر میرے پاس‬
‫ّٰللا‪.....‬فرحان ٹھیک ہو‪.....‬یا ہ‬
‫"یا ہ‬
‫ٹھیک ٹھاک پہنچا دے میں تو اس کے گھر سے نکلتے ہی‬
‫تیری امان کر دیتی ہوں۔ م میں فرحان کے بغیر مر جاؤں گی‬

‫‪228‬‬
‫ّٰللا‪.....‬تمہیں تمہارے محبوب کا واسطہ‬
‫اسے کچھ نہ کرنا ہ‬
‫فرحان ٹھیک ہو۔"‬
‫اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا‪.....‬فرحان پیچھے ہٹ کر بیڈ‬
‫پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا۔‬
‫بہت دیر تک‪....‬وہ روتی رہی اور وہ بےحس و حرکت جامد‬
‫بیٹھا رہا‪.....‬نجی کی سسکیاں اسے کوڑوں کی مانند لگ‬
‫رہی تھیں۔‬
‫پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز اسے ڈرا رہی تھی تبھی وہ‬
‫اپنے بھاری ہوتے سر کو تھام کر اٹھی تھی‪.......‬بیڈ پر‬
‫بیٹھے وجود دیکھ کر ایک لمحے کو تو اسے یقین بھی‬
‫نہیں ہوا کہ فرحان ہے جب یقین ہوا تو وہ تیزی سے اس‬
‫تک پہنچی تھی۔‬
‫بنا کچھ بھی بولے نجی نے اس کے گرد بازو حائل کر دیئے‬
‫تھے۔‬
‫"فرحان! کہاں تھے آپ؟ میں پتہ ہے ڈر گئی تھی‪ .....‬پلیز‬
‫آئندہ ایسا نہیں کریئے گا۔" وہ دیوانہ وار روئے جا رہی‬
‫تھی۔‬

‫‪229‬‬
‫فرحان کے بازوؤں میں جان پیدا ہوئی تھی اس نے اپنا‬
‫احصار نجی کے گرد پھیال دیا۔‬
‫"ایم سوری‪....‬ایم سو سوری نجی! میں نے بہت برا برتاؤ‬
‫کیا تمہارے ساتھ مجھے معاف کر دو۔" وہ اس کی پیشانی‬
‫چوم کر محبت سے بوال تھا۔‬
‫"نہیں میں نے بھی غلط الفاظ کا استعمال کیا تھا‪.....‬میں‬
‫شرمندہ ہوں۔ مگر پلیز آپ جوا چھوڑ دیں نا۔" اس کی‬
‫پیشانی پر اپنی پیشانی ٹکاتے ہوئے وہ آنسوؤں میں غوطہ‬
‫زن آواز میں بولی۔‬
‫"بہت مشکل ہے نجی! یہ بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا‬
‫ہے‪.....‬نہ ملنے پر انسان پاگل ہونے لگتا ہے۔" وہ اس کو‬
‫اپنے پہلوؤں میں بیٹھاتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو تھام‬
‫کر دھیمے لہجے میں گویا ہوا۔‬
‫"کوشش تو کریں۔"‬
‫"تمہیں کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی ؟ کی تھی‬
‫نجی! میں بلکل اپنا ہوش کھو دیتا تھا‪.....‬اور توڑ پھوڑ‬
‫کرنے لگتا تھا‪.....‬میں نہیں چاہتا کہ تمہیں تکلیف‬

‫‪230‬‬
‫پہنچاؤں۔" وہ اس کی جانب بےبس نگاہوں سے دیکھتے‬
‫ہوئے بوال۔‬
‫"کوشش کریں‪......‬اس مرتبہ میں ہوں آپ کے ساتھ‪.....‬ہم‬
‫مل کر اس بری لت سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔ پلیز‬
‫فرحان! میری خاطر‪.....‬ہماری آنے والی اوالد کی خاطر۔"‬
‫آخری جملے پر وہ شرما سی گئی تھی۔‬
‫"کیا؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟" وہ ایک دم سے کھل اٹھا تھا۔‬
‫ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے‬
‫پیالے میں بھرتے ہوئے بوال۔‬
‫نجی نے پلکیں جھکائے شرمیلی سی مسکراہٹ لیے اثبات‬
‫میں سر ہالیا۔‬
‫"اوہ نجی!‪ .....‬تم نے پتہ ہے مجھے کتنی بڑی خوشخبری‬
‫دی ہے‪.....‬اب تو تم جان بھی مانگو تو‪"....‬‬
‫"شششش۔" اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا نجی نے‬
‫اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔‬
‫ّٰللا ماں اور‬
‫"ایسی بات کبھی نہیں کرنا‪....‬میری اوالد کو ہ‬
‫باپ دونوں کے سائے تلے بڑا کرے آمین۔"‬

‫‪231‬‬
‫اس وقت اس کی آنکھوں میں جو خوف کی نمی تھی فرحان‬
‫کو اس کے ہر درد کو سمیٹنے کا من کیا ‪ ،‬نجی کو نرمی‬
‫سے اپنے سینے سے لگا لیا۔‬
‫"ان شاءہللا۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے‬
‫محبت و نرمی سے کہہ رہا تھا۔وہ آنکھیں موندے نم‬
‫آنکھوں سے مسکرا دی۔‬
‫تابندہ بہت غور سے ان کی شادی کی تصویر کو دیکھ رہی‬
‫تھی۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتی کائنات ایک پل کو ٹھٹھکی تھی۔‬
‫"آپ کی چائے۔" کائنات نے تیکھے لہجے میں اس سے‬
‫کہا تھا۔‬
‫"فوٹو شوٹ اچھا ہوا تھا تم لوگوں گا۔ میں بھی شاہزیب‬
‫سے کہوں گے اسی فوٹو گرافر کو بالئے۔" وہ مسکراتے‬
‫ہوئے کہتی پلٹی تھی۔‬
‫کائنات کے حلق سے کافی کا گھونٹ نیچے نہ اترا۔‬
‫"کیا؟ کس لیے؟"‬

‫‪232‬‬
‫"شادی کے لیے۔ اور کس لیے یار‪.......‬بس اب شاہزیب اس‬
‫کیس سے فری ہو جائے پھر ڈیٹ فیکس کریں گے۔" وہ‬
‫مزے سے چائے کے سپ لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔‬
‫اور کائنات کے تو کاٹوں تو بدن میں خون نہ ہو‪.....‬پتھر کی‬
‫مورت بنی بیٹھی اسے دیکھتی رہی‪....‬ہوش تب آیا جب‬
‫آنسو رخساروں پر بہنے لگے۔‬
‫"ایسا کبھی نہیں ہو گا‪ ".....‬وہ میز پر مگ پٹختی بھاگتی‬
‫ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی۔ تابندہ ہونقوں کی مانند‬
‫اسے جاتا دیکھتی رہی۔‬
‫"شاہزیب‪....‬تابندہ سے شادی نہیں کر سکتے‪....‬وہ جھوٹ‬
‫بول رہی ہے‪....‬م میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی۔میری‬
‫الش پر سے گزر کر آپ اس چڑیل سے شادی کریں گے‬
‫شاہزیب!" کائنات کو لگ رہا تھا کہ رفتہ رفتہ اس کا وجود‬
‫بےجان ہو رہا ہے‪.....‬کچھ ہی وقت میں وہ مر جائے گی۔‬
‫بےاختیار ہی وہ اٹھی وہ لڑکھڑاتی ہوئی واشروم میں جا‬
‫گھسی۔‬
‫شاور کے نیچے کھڑے ہوتے ہوئے اس نے شاور آن کر‬
‫دیا تھا۔‬

‫‪233‬‬
‫ٹھنڈا پانی اس کے جھلستے وجود کو سکون نہیں پہنچا پایا‬
‫تھا کیونکہ یہ آگ تو دل میں لگی تھی وہاں تک ٹھنڈک تو‬
‫پانی نہیں پہنچا سکتا تھا۔‬
‫"تو نبیلہ کا شک ٹھیک ثابت ہوا‪.....‬وہ بس مجھے محفوظ‬
‫رکھنے کے لیے مجھ سے شادی کرنے پر مجبور ہوئے‪،‬‬
‫مجھ جیسی کم عقل اور کم عمر لڑکی ان کی بیوی کے میعار‬
‫پر کیسے پوری اترے گی‪....‬ہرگز نہیں۔" اس کا دل کیا کہ‬
‫وہ چنخ چنخ کر روئے‪ ،‬دل پھٹ جائے اور وہ ابھی گر کر‬
‫مر جائے‪.....‬‬
‫"شاہزیب! آپ م م‪...‬مجھ سے‪.....‬محبت نہیں کرتے تھے تو‬
‫شادی مت کرتے‪.....‬محبت تو میں بھی نہیں کرتی تھی مگر‬
‫اب کرنے لگی ہوں‪....‬نہت محبت کرتی ہوں‪ .....‬آپ سے پلیز‬
‫مجھے اس موڑ پر ال کر تنہا نہیں کریں۔" وہ دیوار کے‬
‫ساتھ لگتی نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔‬
‫کئی گھنٹے وہ یوں ہی روتی رہی‪ ،‬اپنی بدقسمتی کا ماتم‬
‫مناتی رہی جب تھک گئی تو لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکلی اور‬
‫بیڈ پر جا گری۔‬
‫یہ وہ کمرہ تھا جہاں ماں رہتی تھیں۔‬

‫‪234‬‬
‫آج بھی ان کی خوشبو بستر سے آ رہی تھی۔‬
‫"ماں‪......‬تم کیوں ہمیں چھوڑ گئیں‪.....‬؟ پہلے پاپا پھر‬
‫آپ‪......‬کیوں غیروں کے سہارے ہمیں چھوڑ دیا۔" وہ خود‬
‫میں سمٹی سینے پر ہاتھ باندھے چنخ چنخ کر ایک مرتبہ‬
‫پھر سے رو دی تھی۔‬
‫"ایک تمہاری بیٹی جال وطن ہوئی بیٹھی ہے دوسری اپنا‬
‫گھر ہونے کے باوجود اس کا گھر نہیں رہنے واال‪.....‬ہم‬
‫تمہارے ساتھ ہی کیوں نہیں مر گئیں‪ .....‬کیوں دنیا کے‬
‫دکھوں کے لیے ہم زندہ ہیں؟" اس کا روم روم تڑپ رہا تھا۔‬
‫سعی معنوں میں اس وقت‪.....‬اسے تنہائی اور اکیلے پن کا‬
‫احساس ہوا تھا۔‬
‫یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گھنے جنگل میں تنہا بھٹک‬
‫گئی‪ ،‬اور اب اسے ان جنگلی‪...‬خطرناک جانوروں سے‬
‫بچانے کے لیے کوئی نہیں آنے واال ہو‪......‬‬
‫اسے کالس روم میں دیکھتے ہی حور کو کوفت ہونے لگی‬
‫تھی‪ .....‬تبھی وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر وہاں سے کھسکنے کو‬
‫ہی تھی کہ عوذر کی اس پر نظر پڑ گئی۔‬

‫‪235‬‬
‫"حور! آپ‪....‬آئیں اور جو میں نے بتایا ہے رپیٹ کریں۔"‬
‫عوذر کی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔‬
‫"میں نے لیکچر سنا ہی نہیں سو رپیٹ کیسے کروں؟" بنا‬
‫لحاظ کیے وہ کھردرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔‬
‫کالس حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی جو اچٹتی‬
‫سی نگاہ عوذر پر ڈالتی کالس روم سے نکل چکی تھی۔‬
‫"اوکے کالس‪......‬آپ لوگ کام شروع کریں۔" اس نے‬
‫چونکتے ہوئے نگاہوں کو دروازے پر سے ہٹایا تھا اور‬
‫کہہ کر کالس روم سے نکل گیا۔‬
‫پیرس میں شدید برفباری کا ماحول تھا‪....‬یہاں کا موسم‬
‫بھی عجیب تھا روؤن میں بارش تو پیرس میں برف‬
‫باری‪.....‬وہ جب سے آئی تھی ایک دن بھی دھوپ نہیں‬
‫نکلی تھی۔‬
‫کالس وال کے پاس کھڑی وہ خالی خالی نگاہوں سے باہر‬
‫پڑتی برف بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔‬
‫شازار ویٹنگ ایریا میں موجود تھا کہ اسے کالس روم میں‬
‫آنے کی اجازت عوذر نہیں دیتا تھا۔‬

‫‪236‬‬
‫"میں ہمیشہ تمہیں اپنے عمل سے بتاتا رہوں گا کہ کوئی‬
‫ہے جو تمہاری بہت فکر کرتا ہے۔"‬
‫اس سکونت پذیر ماحول میں ایک کھنکھتی ہوئی آواز‬
‫گونجی تھی۔ حور نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا‪.....‬وہ‬
‫نہیں تھا بس آواز تھی وہ لب بھینچ کر پھر سے کھڑکی کے‬
‫پار دیکھنے لگی۔‬
‫"تم جھوٹے تھے سردار دالور خان! تمہیں میری فکر نہیں‬
‫تھی۔" اس نے سوچتے ہوئے سینے پر ہاتھ لپیٹ لیے۔‬
‫"اسے تمہاری فکر تھی تبھی تو اس نے تمہیں الکھ چاہنے‬
‫کے باوجود تمہاری والدہ کی وفات کی خبر نہ سنا پایا۔"‬
‫اندر سے آواز آئی تو وہ بےچینی سے دو قدم آگے بڑھی‬
‫تھی۔‬
‫"کاش دالور خان! جیسے میں نے تمہیں اپنا ایک حصہ‬
‫سمجھا کاش تم بھی سمجھتے۔" اس کی آنکھوں میں نمی‬
‫سی اترنے لگی تھی۔‬
‫"دل اس سینے میں ہی دم توڑ گیا ہے۔مجھے یوں لگتا ہے‬
‫ج جیسے میرا اندر ویران ہو گیا ہو۔تم آ جاؤ پلیز‪ ......‬تمہیں‬
‫دیکھ کر سکون ملے گا اس د ِل ناداں کو چین کی دھڑکن‬

‫‪237‬‬
‫ّٰللا یہ کیسا روگ پال کیا ہے میں نے‬
‫نصیب ہو گی‪....‬یا ہ‬
‫اسے بھی تو لگے نا۔"‬
‫"کاش میں تم سے کنٹریکٹ میرج نہ کرتی‪.....‬کاش میں تم‬
‫پر یقین نہ کرتی‪.....‬یا کاش میں ت تم سے محبت‪ ".....‬اس‬
‫کی سوچ ایک دم سے محبت پر آن ٹھہری تھی۔‬
‫آنسوؤں نے اپنا راستہ تالش کیا تھا اور پلکوں کی باڑ‬
‫پھیالنگ کر سفید و گالبی رخساروں پر پھسلتے چلے گئے۔‬
‫"تمہیں آنا ہی پڑے گا‪ ....‬تمہیں میری محبت ضرور کھینچ‬
‫کر میرے پاس الئے گی۔"‬
‫"حور! چھوڑ کر تم آئی ہو وہ تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں‬
‫گیا۔" دل نے دہائی دی تھی۔‬
‫"ہاں تو غلطیاں بھی اس کی تھیں۔"‬
‫"تم کون سا غلطیاں نہیں کرتی۔" اندر سے پھر آواز آئی تو‬
‫وہ آنسو رگڑ کر آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے سر‬
‫جھٹک کر پلٹی تھی‪....‬پھر تیز قدموں کے ساتھ پارکنگ‬
‫ایریا کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫عوذر نے کالس روم کی ونڈو سے اسے پارکنگ ایریا کی‬
‫جانب تیزی سے گاڑی میں بیٹھتے اور جس طرح اس نے‬

‫‪238‬‬
‫گاڑی پارکنگ ایریا سے نکالی تھی وہ یہ سب دیکھ کر بری‬
‫طرح سے گھبرا گیا۔‬
‫دوسرے ہی پل وہ ہاتھ میں تھامے کوفی کے مگ کو‬
‫میز پر پٹخ کر بھاگتا ہوا کالس روم سے نکال تھا۔اسے‬
‫بھاگتا دیکھ کر سب حیران رہ گئے تھے‪....‬وہ سیڑھیاں اترا‬
‫تھا۔‬
‫سب لوگ سے یوں دیوانوں کی مانند بھاگتا دیکھ حیران ہی‬
‫رہ گئے تھے۔‬
‫وہ اسی طرح ہی یونیورسٹی سے نکل کر پارکنگ تک پہنچا‬
‫گاڑی میں بیٹھا اور حور کی گاڑی کے پیچھے گاڑی بھگا‬
‫لے گیا۔‬
‫اس کی گاڑی بہت آگے تھی اور جو رفتار اس کی گاڑی کی‬
‫تھی وہ دیکھ کر عوذر کا دل بیٹھنے لگا تھا‪....‬اس نے اپنی‬
‫گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی کہ جلد حور تک پہنچے اور‬
‫اسے سپیڈ کم کرنے کا اشارہ کر سکے‪....‬‬
‫عوذر نے ہاتھ ہارن پر رکھ دیا تھا۔‬

‫‪239‬‬
‫پیرس شہر سے نکل کر گاڑی کشیدہ روڈ پر دوڑنے لگی‪....‬‬
‫روڈ بلکل خالی تھا‪....‬تو حور نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا‬
‫دی تھی‪.......‬‬
‫وہ کئی دنوں سے اس سڑک کے خالی ہونے کی منتظر تھی‬
‫کیونکہ اسے ریش ڈرائیونگ کرنی تھی آج وہ اپنا شوق‬
‫پورا کرتے ہوئے دل کا غبار بھی کم کر رہی تھی جبکہ‬
‫عوذر کی سانسیں سینے میں دب سی گئیں اور دھڑکنوں‬
‫نے وہ شور مچایا کہ اس کا دم گھٹنے لگا۔‬
‫"اتنے مہینوں سے تمہاری قربت کو ترسا ہوں حور! ابھی‬
‫تو تم مجھے میسر بھی نہیں ہوئی ہو‪.....‬اس طرح تمہیں‬
‫مرنے نہیں دوں گا‪ "......‬وہ بےبسی کی انتہا کو چھوتے‬
‫ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے بڑبڑایا تھا۔‬
‫"خدا کی قسم اگر آج تمہیں کچھ ہو گیا تو سردار دالور خان‬
‫میرے ہاتھوں مرے گا‪...‬یہ سب اسی کی وجہ سے ہو رہا‬
‫ہے۔" وہ کانپتی آواز میں بڑبڑایا تھا۔‬
‫گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے وہ اس سے نزدیک تر ہوتا‬
‫جا رہا تھا۔‬

‫‪240‬‬
‫عوذر کی نگاہ دائیں جانب اچانک ہی پڑی تھی اور اسے‬
‫لگا وہ مزید ایک سانس بھی نہیں لے سکے گا‪....‬دوسری‬
‫سنگل سڑک پر گاڑی میں بیٹھے شخص نے رائفل نکال کر‬
‫حور کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی تھی‪...‬مگر حور کو‬
‫کوئی نقصان نہیں ہوا کہ گاڑی بلیٹ پروف تھی۔‬
‫حور نے تیکھی نگاہوں سے دائیں جانب دیکھا۔‬
‫دو گاڑیوں میں سے کوئی انجان لوگ فائرنگ کر رہے‬
‫تھے۔‬
‫اس نے سپیڈ مزید بڑھا دی تھی۔‬
‫عوذر نے بےحد تیزی سے اپنا ریوالور نکاال اور ان لوگوں‬
‫پر فائرنگ شروع کر دی۔‬
‫"یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟" حور نے سائیڈ مرر سے عوذر‬
‫کو گاڑی کے شیشے کو ڈاؤن کر کے سر باہر نکال کر‬
‫پیچھے مڑ کے فائر کرتے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔‬
‫گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی مگر اب وہ گاڑی روک نہیں‬
‫سکتی تھی۔‬
‫فون پر شازار کا نمبر ڈھونڈنے لگی۔‬

‫‪241‬‬
‫"اوہ شیٹ‪......‬اس کا نمبر تک نہیں ہے میرے پاس‪....‬‬
‫کیسی بددماغ ہوں میں۔" وہ دانت کچکا کر رہ گئی۔‬
‫ایک نگاہ پھر سے سائیڈ مرر پر ڈالی اور گاڑی ذرا سی‬
‫بائیں جانب کر کے پیچھے دیکھا عوذر کی سفید شرٹ‬
‫شانے سے سرخ ہو چکی تھی۔‬
‫ّٰللا۔" خون دیکھتے ہی اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے‬
‫"یا ہ‬
‫لگے‪....‬گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہونے لگی۔‬
‫"ریلکس حور‪ !.....‬ہوش میں رہو‪.....‬اس نے ایک مرتبہ‬
‫تمہاری جان بچائی تھی‪.....‬اب تمہاری باری ہے۔" اس نے‬
‫خود کو یاد دالتے ہوئے اپنے ڈر کو کم کرنا چاہا تھا۔فون‬
‫ڈیش بورڈ پر اچھاال اور دراز کھوال۔‬
‫صبح جب وہ لوگ گھر سے نکلے تھے تو اس نے شازار‬
‫سے ریوالور گاڑی میں ہی رکھوا دیا تھا۔‬
‫"پتہ نہیں اسے چالتے کیسے ہیں۔" گاڑی کی سپیڈ کم‬
‫کرتے ہوئے اس نے کانپتے ہاتھ میں اپنی جانب سے بہت‬
‫مضبوطی سے ریوالور تھاما تھا۔‬
‫"دیکھ کے حور! کہیں خود کو ہی شوٹ نہ کر لینا۔"‬
‫مزاحیہ انداز میں ہمکالمی کرتے ہوئے آنکھوں پر سے‬

‫‪242‬‬
‫ّٰللا کا نام لے کر گاڑی کا‬
‫گالسز اتار کر پرے اچھالے اور ہ‬
‫شیشہ ڈاؤن کرنے لگی۔‬
‫"دو گاڑیاں ہیں‪....‬اور اس میں شازار نے چھ بُلیٹس لوڈ کی‬
‫تھیں۔" وہ اپنے دماغ میں ترتیب دینے لگی کہ کیا کرنا ہے۔‬
‫کچھ سوچتے ہوئے اس نے ہاتھ باہر نکالتے ہوئے ذرا سا‬
‫جھک کر دائیں جانب دیکھا‪ .....‬اور گاڑی کے نچلے حصے‬
‫پر فائرنگ کی تھی۔‬
‫تین بُلیٹس تو زمین کو جا لگیں۔‬
‫"کوئی حال نہیں۔قسمت بھی خراب‪...‬نشانہ بھی خراب‪"....‬‬
‫وہ ہاتھ اندر کر کے گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکی تھی۔‬
‫حور کے پانچ نشانے خطا ہوئے تھے مگر وہ ان لوگوں کو‬
‫اپنی جانب متوجہ کر چکی تھی جس وجہ سے عوذر کو‬
‫سنبھالنے کا وقت مل گیا‪....‬اس نے اپنی گاڑی حور کی‬
‫گاڑی کے بلکل پیچھے کر لی تھی۔‬
‫اپنی پینٹ کی جیب میں سے رومال نکالتے ہوئے ہونٹوں‬
‫کو سختی سے بھینچے ‪ ،‬آنکھیں پھاڑے درد کی شدت کو‬
‫برداشت کرتے ہوئے‪....‬شانے پر بہت مشکل سے رومال‬

‫‪243‬‬
‫باندھا‪ ،‬پھر کوٹ اتار کر پیچھلی سیٹ پر اچھاال اور ریوالور‬
‫میں دو اور گولیاں بہت مشکل سے بھر سکا تھا۔‬
‫آخری گولی بالآخر اگلی گاڑی کے اگلے ٹائر میں جا لگی‬
‫اور وہ گاڑی ڈولتی ہوئی رک چکی تھی۔‬
‫پیچھلی گاڑی بھی رک گئی کہ روڈ سنگل تھا‪....‬وہ لوگ‬
‫ہاتھ ملتے رہ گئے تھے‪.....‬‬
‫عوذر نے مسکراتی نگاہوں سے اس کے سائیڈ مرر میں‬
‫دیکھتے ہوئے سر سیٹ پر گرا لیا تھا۔‬
‫حور نے تیزی سے فون اٹھا کر اس کا نمبر مالیا۔‬
‫مگر وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا۔‬
‫اس نے کچھ فاصلے پر جا کر گاڑی روک دی تھی۔‬
‫عوذر نے بھی بریک پر پاؤں رکھ دیا‪....‬اس کی آنکھوں کی‬
‫پتلیاں سکڑتی جا رہی تھیں‪....‬‬
‫حور تیزی سے گاڑی میں سے اتری اور اس کی گاڑی تک‬
‫پہنچی۔‬
‫"مسٹر سومرو! آپ ٹھیک ہیں؟" اس کی گاڑی کا دروازہ‬
‫کھولتے ہوئے وہ فکرمندی سے استفسار کر رہی تھی۔‬

‫‪244‬‬
‫"زندہ ہوں‪ ....‬ٹھیک کا پتہ نہیں۔" وہ اس کی جانب‬
‫دیکھتے ہوئے مسکرایا۔‬
‫"اوہ‪....‬بہت خون بہہ گیا ہے آپ کا۔ چلیں میری گاڑی‬
‫میں‪ ....‬آپ ڈرائیو نہیں کر پائیں گے۔" وہ خون دیکھ کر‬
‫کبھی کبھی بہت گھبرا جاتی تھی اس وقت بھی وہ گھبرا‬
‫رہی تھی مگر اسے اپنی کیفیتوں پر قابو پانے کا ہنر تھا۔‬
‫عوذر لڑکھڑاتے ہوئے باہر تو نکل آیا تھا مگر اس وقت‬
‫اسے سہارے کی ضرورت تھی۔‬
‫نہ چاہتے ہوئے بھی حور نے اسے سہارا دیا تھا۔‬
‫وہ گاڑی میں بیٹھنے تک حور کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا‬
‫رہا تھا۔‬
‫"پروفیسر! آپ ہوش میں رہنے کی کوشش کریں۔" اس نے‬
‫بےحد تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫اپنے فون پر نزدیکی ہسپتال کی لوکیشن جانچنے کے بعد‬
‫اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی تھی۔‬
‫ساتھ ساتھ وہ عوذر کو ہوش میں رکھنے کے لیے غصے‬
‫اور نرمی سے بولتی گئی تھی‪ ،‬ضرورت پڑنے پر ایک دو‬
‫تمانچے بھی اسے رسید کر چکی تھی۔‬

‫‪245‬‬
‫اسے سٹرکچر پر لیٹا کر وارڈ بوائے اندر لے گئے تو ڈاکٹر‬
‫نے پہلے چپکے سے پولیس کو کال کر دی اور انہیں‬
‫انتظار کرنے کو کہا۔ حور کا دماغ گھوم گیا تھا۔‬
‫"اندھے تمہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ کتنا خون بہہ رہا ہے‬
‫اس کا۔" اس نے ڈاکٹر کا گریبان تھام لیا تھا۔‬
‫"دیکھو وہ میرے لیے جھگڑ رہی ہے‪ ....‬بلکل بیویوں کی‬
‫طرح۔" عوذر نے بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے اسے‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫"دیکھیں مس یہ ایک پولیس کیس ہے۔"‬
‫"بھاڑ میں گئی پولیس‪.....‬میں دیکھ لوں گی پولیس کو بھی‬
‫تم اسے پہلے ایڈمٹ کرو۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے‬
‫غصے سے پھنکاری۔‬
‫"اوکے۔" ڈاکٹر نے اپنی مزید کتے کھانی سے بچنے کی‬
‫خاطر معصومیت سے سر ہال دیا۔‬
‫پولیس آئی تو اس نے ٹھیک بیان دیئے تھے جو کچھ بھی‬
‫ہوا تھا۔‬
‫"وہ کون لوگ تھے اور آپ پر حملہ کیوں کر رہے تھے؟"‬

‫‪246‬‬
‫"تمہیں پولیس آفیسر کس نے بنایا ہے؟" حور نے غصے‬
‫سے اس آفیسر کو گھورتے ہوئے کہا۔‬
‫"دو سو مرتبہ بتا چکی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم وہ کون‬
‫لوگ تھے‪.....‬میرے پروفیسر پر حملہ کیا تھا انہوں نے اور‬
‫وہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کون لوگ تھے‪ ....‬اب آپ لوگ ہم‬
‫سے تفتیش کرنے کی بجائے جا کر مجرم پکڑیں تو بہتر ہو‬
‫گا۔" سینے پر ہاتھ لپیٹتے ہوئے وہ تیکھی نگاہوں کو‬
‫آفیسرز پر گاڑے ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔‬
‫"اوکے اگر آپ کی ضرورت پڑی تو ہم ضرور رابطہ کریں‬
‫گے۔" وہ چند پل اس کی جانب دیکھتا رہا پھر کہتے ہوئے‬
‫وہاں سے ہٹ گیا۔‬
‫حور نے سانس بھرتے ہوئے سر نفی میں جھٹکا اور‬
‫آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫امو جان گھر آ چکی تھیں۔‬
‫ان ایک دو دنوں میں انہوں نے بہت ٹینشن لے لی تھی جس‬
‫وجہ سے ابھی وہ بستر پر ہی تھیں۔‬

‫‪247‬‬
‫"امو جان!‪.....‬ہم بس جلد لوٹ آئیں گے۔دعا کریئے گا ہم‬
‫جن کاموں کے لیے جا رہے ہیں پورے ہو جائیں۔" شاہزیب‬
‫ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ان شاءہللا پتر!‪.....‬سارے کام سیدھے ہو جائیں گے۔اور‬
‫سردار پتر کو سمجھا دینا کہ حور کو منا کر الئے‪ ".....‬وہ‬
‫اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولیں۔‬
‫"ضرور۔ بس آپ سب شادی کی تیاریاں شروع کریں ہم بس‬
‫چند دنوں میں واپس آئیں گے۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫ان دونوں کے پاس وقت بہت کم تھا اور ویسے بھی‬
‫شاہزیب نے نیا منصوبہ بنایا تھا۔‬
‫بنا کسی کو بھی بتائے وہ دونوں دالور خان کے پرائیویٹ‬
‫چاپر میں جا رہے تھے۔‬
‫"کیا بات ہے امو جان!‪.....‬اس بیٹے پر بڑی محبتیں نجھاور‬
‫ہو رہی ہیں۔" دالور خان نے گال کھنکھارتے ہوئے‬
‫مسکراتے ہوئے کہا۔‬
‫"تم بھی آ جاؤ میرے بچے ماں تو اپنے سارے بچوں پر‬
‫برابر کی محبتیں نجھاور کرتی ہیں۔" انہوں نے اپنا دوسرا‬

‫‪248‬‬
‫ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تھا دالور خان دائیں جانب‪ ،‬ان‬
‫کے قریب بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"آپ واقع ہی مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا؟" اس نے‬
‫افسردہ لہجے میں استفسار کیا۔‬
‫"دیکھو پتر! تم نے جو بھی کیا‪.....‬وہ بہت غلط کیا‪.....‬تم‬
‫ایک سردار ہو جسے یہ سب زیب نہیں دیتا تھا‪....‬مگر خیر‬
‫اس سب کے پیچھے تمہارا ارادہ غلط نہیں تھا‪...‬اسی لیے‬
‫ہم تم سے ناراض نہیں ہیں۔ مگر تمہارے بابا سائیں کے دل‬
‫میں ناراضگی باقی ہے‪ ".....‬انہوں نے آخر پر سرد سا‬
‫سانس بھرا۔‬
‫"جانتا ہوں انہیں اب مجھ پر بھروسہ نہیں رہا‪....‬پر ان‬
‫شاءہللا اماں میں ان کا بھروسہ دوبارہ سے پا لوں گا۔" اس‬
‫نے ان کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا تو وہ‬
‫مسکرا دیں۔‬
‫پھر وہ دونوں سب سے ملنے کے بعد پشاور کے لیے نکل‬
‫گئے تھے کہ وہاں سے ہی وہ لوگ چاپر کے ذریعے روؤن‬
‫جانے والے تھے۔‬

‫‪249‬‬
‫رات کے سائے جیسے ہی ڈھلنے لگے فرحان کی بےچینی‬
‫بڑھتی جا رہی تھی‪....‬‬
‫"میں جا رہا ہوں۔" وہ ایک جھٹکے سے صوفے پر سے‬
‫اٹھا تھا اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے مین گیٹ کی سمت‬
‫بڑھا۔‬
‫نجی کچن سے نکل کے بھاگ کر اس تک پہنچی تھی۔‬
‫"فرحان!‪ "......‬وہ اس کا بازو تھام کر اپنا پورا زور لگا کر‬
‫کھینچ رہی تھی۔‬
‫فرحان بےبسی سے رکا اور اس کے ہاتھوں کو دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫نجی کے ہاتھوں پر لگے آٹے کی سفیدی اس کی سیاہ‬
‫شرٹ تباہ کر چکی تھی وہ خوف زدہ سی ہو کر دو قدم‬
‫پیچھے ہٹی۔‬
‫"معاف کریں مگر پلیج(پلیز) آپ نہ جائیں۔" وہ رو دینے‬
‫کو تھی۔‬
‫فرحان ٹکٹکی باندھے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر‬
‫مسکرا کر اس کی جانب بڑھا۔‬

‫‪250‬‬
‫"اوکے چلو ہم کچن میں چلتے ہیں‪ ،‬میں تمہاری مدد کروا‬
‫دیتا ہوں۔" وہ اس کا ہاتھ نرمی سے تھامے کچن کی جانب‬
‫بڑھ گیا۔‬
‫نجی نے بےاختیار ہی اطمینان بھری سانس لی تھی۔‬
‫*****‬
‫شازار اس سے رابطہ کر کے ہسپتال ہی آ گیا تھا۔‬
‫اس وقت وہ عوذر کے پاس بیٹھا تھا اور حور کمرے سے‬
‫باہر ٹہل رہی تھی۔‬
‫اسے جب سے شازار نے بتایا تھا کہ دالور خان آ رہا‬
‫ہے‪.....‬تب سے اس کے دل کی حالت غیر تھی۔‬
‫"جس شخص سے محبت ہو اس سے خود کو دور رکھنا‬
‫کتنا مشکل ہوتا ہے نا۔" سوچتے ہوئے وہ ذرا سا مسکرائی‬
‫تھی۔‬
‫"مگر ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ اس سے بات بھی‬
‫کروں۔" ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ ایک جانب کرسی پر‬
‫بیٹھ گئی تھی۔‬

‫‪251‬‬
‫ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے وہ سامنے گیلری میں‬
‫دور تک نگاہیں دوڑا رہی تھی جب شازار نے گال‬
‫کھنکھارتے ہوئے اسے متوجہ کیا۔‬
‫وہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫"پروفیسر سو چکا ہے‪ ،‬ہم بھی چلیں؟ الال اور شاہزیب‬
‫فرانس لینڈ کر چکے ہیں۔" شازار نے مفرل گلے کے گرد‬
‫لپیٹ کر کوٹ کا کالر درست کرتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫حور انگلیاں پٹختے ہوئے اثبات میں سر ہالتی اس کے‬
‫ساتھ چل دی۔‬
‫"آپ ٹھیک ہیں بھابھی؟" شازار نے محسوس کیا کہ وہ‬
‫بہت زیادہ پریشان ہے۔‬
‫"میری زندگی میں محض ایک ایسا دوست ہے جس کے‬
‫ساتھ میں اپنی ہر قسمی پریشانی شیئر کر سکتی ہوں وہ‬
‫ہے دالور خان‪.....‬مگر آج‪....‬مجھے شدت سے کمی‬
‫محسوس ہو رہی ہے کہ کوئی لڑکی میری مخلص دوست‬
‫ہوتی جس سے میں اپنی پریشانی شیئر کرتی‪.....‬وہ مجھے‬
‫سمجھاتی کہ کیا سعی ہے اور کیا غلط۔ آج جس مشکل میں‬

‫‪252‬‬
‫پھنسی ہوں وہ مجھے اس مشکل سے نکالتی۔" اس نے‬
‫ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔‬
‫"مجھے لگتا ہے آپ کو کائنات بھابھی سے بات کرنی‬
‫چاہیے‪....‬بہنوں سے بہتر اور کوئی مخلص دوست نہیں‬
‫ہوتا۔" شازار نے ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا تو وہ‬
‫اس کی بات سے متفق ہوتے ہوئے تیزی سے فون نکال کر‬
‫کائنات کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔‬
‫شازار نے کیفے پر گاڑی روک دی تھی۔‬
‫"آپ بات کر لیں‪،‬میں کھانے کے لیے کچھ التا ہوں۔" وہ‬
‫گاڑی سے اترتے ہوئے بوال پھر دروازہ بند کرتے ہوئے‬
‫آگے بڑھ گیا۔‬
‫دوسری جانب کائنات جو بستر پر کروٹ کے بل لیٹی ‪،‬‬
‫ساکت نم پلکیں سائیڈ ٹیبل پر رکھی شاہزیب کی فوٹو پر‬
‫ٹکائے بےچین کر دینے والی سوچوں میں گم تھی۔‬
‫فون بیل پر اس نے لپک کر فون اٹھایا کہ شاہزیب کی کال‬
‫ہو گی مگر حور کی کال دیکھ اس کی آنکھیں جھلکنے‬
‫لگیں۔‬

‫‪253‬‬
‫"اسالم علیکم!‪ ".....‬اس نے جیسے ہی کال اٹھائی حور‬
‫نے تیزی سے سالم کیا۔‬
‫"و علیکم السالم!" وہ اپنے آنسو اندر گراتے ہوئے‬
‫مسکراہٹ بھرے لہجے میں بولی۔‬
‫"کائنات! میں بہت پریشان ہوں۔ تم جانتی ہو نا کہ میں دالور‬
‫خان سے بہت محبت کرتی ہوں‪ ،‬مگر اس نے مجھے دھوکا‬
‫دیا ہے۔" اس نے بات کا آغاز کیا۔‬
‫"میں نہ تو اسے معاف کر پا رہی ہوں نہ اس سے دور رہ‬
‫پا رہی ہوں‪ .....‬میں کیا کروں کائنات؟" اس نے الجھن آمیز‬
‫لہجے میں کہا تھا۔‬
‫کائنات اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫ہاتھ بڑھا کر شاہزیب کی فوٹو اٹھائی۔‬
‫"حور! پہلی بات تو یہ کہ وہ تم سے کئی مرتبہ معافی‬
‫مانگ چکا ہے اس بارے میں‪.....‬اور دوسری بات کیا پتہ‬
‫ّٰللا کی جانب سے اسی میں ہی کوئی بہتری تھی۔" کائنات‬
‫ہ‬
‫دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔‬
‫"حور! جس سے محبت ہوتی ہے نا اس کے بغیر ہم رہ‬
‫نہیں سکتے‪ ،‬شوہر ایک ایسا مکان ہے جس کی دیواروں‬

‫‪254‬‬
‫میں عورت محفوظ رہتی ہے۔ تم اپنے گھر کو تباہ مت‬
‫کرو‪...‬شاید میں تمہیں اولڈ فیشن لگوں مگر سچ یہ ہی ہے‬
‫کہ عورت کی شادی ایک مرتبہ ہی ہو اچھی لگتی ہے۔"‬
‫نگاہیں ہنوز شاہزیب کی تصویر پر ٹکا رکھی تھیں‪.....‬‬
‫"ماما ہوتیں تو وہ بھی یہ ہی کہتیں؟" اس نے تصدیق‬
‫چاہی۔‬
‫"بلکل۔ وہ بھی یہ ہی چاہتیں کہ تم اور دالور بھائی ہمیشہ‬
‫ایک ساتھ رہو‪ ،‬اچھے بھی تو بہت لگتے ہیں آپ دونوں‬
‫ایک ساتھ۔" آخری جملہ اس نے حور کو چھیڑنے کے لیے‬
‫کہا تھا۔‬
‫"تھینک یو سو مچ کائنات! تم بہت اچھی بہن ہو‪.....‬اور‬
‫بھی‪ّٰ.....‬للا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔" اس نے‬
‫ہ‬ ‫سمجھدار‬
‫مسکراتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"شاہزیب میرے ساتھ نہ رہے تو میں خوش کیسے رہوں‬
‫گی؟" وہ سوچنے لگی۔‬
‫"ایک بات پوچھوں حور!" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔‬
‫"ہوں ہوں پوچھو نا‪.....‬؟"‬

‫‪255‬‬
‫"کیا ایک بیوی کی محبت اجازت دے گی کہ اس کا شوہر‬
‫دوسری شادی کر لے؟"‬
‫"ایک عام انسان محبت میں شریک برداشت نہیں کرتا اور‬
‫میں تو ہرگز برداشت نہ کرتی۔" اس نے بنا کائنات کے‬
‫لہجے کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کیے جواب دیا۔‬
‫"ہوں ٹھیک ہے۔ اچھا حور! میں اب سوتی ہوں تم بھی آرام‬
‫کرو۔شب بخیر۔" اس نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی۔‬
‫فون سائیڈ پر ڈالتے ہوئے وہ پوری طرح سے تصویر کی‬
‫جانب متوجہ ہو چکی تھی۔‬
‫"شاہزیب! میری محبت خاص ہے‪ ،‬بہت ہی شفاف بلکل‬
‫میرے دل کے آئینے کی مانند جس میں محض آپ کا عکس‬
‫نظر آتا ہے۔" وہ پھر سے لیٹ چکی تھی۔‬
‫تصویر واال فریم واپس سے ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہاتھ‬
‫تصویر پر پھیرا تھا۔‬
‫"نکاح نامے پر دستخط کرتے ہی یہ دل تمہارے نام پر‬
‫دھڑکنے لگا تھا اب کیسے میں رہوں گی تمہارے بغیر؟"‬
‫آنسو پھر سے اپنا راستہ تالش چکے تھے۔‬
‫" مگر وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔"‬

‫‪256‬‬
‫"چھوٹے گا نہیں کیونکہ وہ میری حفاظت کرنا چاہتا‬
‫ہے‪....‬وہ جب تابندہ سے شادی کر لے گا‪......‬ت تو میں‪.....‬‬
‫میری جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔" اندر بیٹھے ڈر‬
‫کی آواز پر دل سہم سا گیا تھا۔‬
‫"نہیں کائنات! ایسا نہیں ہو گا۔"‬
‫"ایسا ہی ہو گا‪.....‬تم نے دیکھا نہیں تابندہ کے سامنے وہ‬
‫کس طرح مجھ سے بات کرتے ہیں‪ ،‬اس کے متعلق کچھ‬
‫بھی غلط کہوں تو غصہ ہو جاتے ہیں اور‪.....‬اور کہتے ہیں‬
‫اس پر یقین ہے انہیں۔"‬
‫اس کے اندر وحشتیں بڑھتی جا رہی تھیں‪.....‬‬
‫****‬
‫شازار کیفے سے نکل رہا تھا اس کی نگاہ گاڑی پر پڑی۔‬
‫چار آدمی تھے جو گاڑی کے شیشے توڑ کر حور کو‬
‫گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی کی جانب لے‬
‫جا رہے تھے‪.....‬حور پوری کوشش کر رہی تھی ان کے‬
‫چنگل سے آزاد ہونے کی‪ ،‬تبھی اس نے گردن گھما کر‬
‫آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے شازار کی جانب دیکھا تھا۔‬

‫‪257‬‬
‫وہ تیزی سے ہوش میں آیا اور ہاتھ میں پکڑا کھانے کا‬
‫ٹرے قریب پڑی میز پر پٹختا تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫"اوئے رک‪......‬چھوڑو انہیں۔" وہ دور سے ہی چالیا تھا۔‬
‫جب تک وہ ان تک پہنچتا وہ ایک شخص نے حور کے منہ‬
‫پر چار پانچ تھپڑ رسید کیے اور گاڑی میں دھکیل دیا۔‬
‫یک بعد دیگر چاروں پانچوں ہٹے کٹے مرد گاڑی میں سوار‬
‫ہو گئے تھے۔‬
‫بےحد تیزی سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا شازار کا‬
‫خون کھول اٹھا تھا۔‬
‫وہ ان لوگوں کا پیچھا کر رہا تھا۔‬
‫اور وہ لوگ رہائشی ایریا سے نکل کر ایک گنجان آباد ایریا‬
‫میں جیسے ہی داخل ہوئے تھے انہوں نے شازار کی گاڑی‬
‫پر فائرنگ شروع کر دی۔‬
‫گاڑی بلیٹ پروف تھی اور وہ مسلسل ایک جگہ وار کرنے‬
‫کی کوشش کر رہے تھے کہ شیشہ ٹوٹ جائے جبکہ شازار‬
‫مسلسل گاڑی دائیں بائیں کر رہا تھا کہ وار ایک جگہ نہ ہو‬
‫اسی دوران حور کا فون رنگ کیا تھا۔‬
‫ایک پھر دو‪....‬یک بعد دیگر کالز آتی گئیں۔‬
‫‪258‬‬
‫زچ ہو کر اس نے ہاتھ بڑھا کر بیگ میں سے فون نکاال‬
‫اور بنا دیکھے کال اٹینڈ کر لی۔‬
‫"اسالم علیکم! حور آپ ٹھیک ہیں؟" پروفیسر عوذر تھا۔‬
‫"نہیں وہ ٹھیک نہیں ہے پروفیسر‪.....‬کچھ لوگوں نے اسے‬
‫گڈنیپ کرنے کی کوشش کی ہے‪....‬میں ان کے ہی پیچھے‬
‫ہوں‪ ....‬آپ پلیز پولیس کو فون کریں‪....‬میں گاڑی کا نمبر‬
‫نوٹ کرواتا ہوں۔" وہ تیزی سے بوال۔‬
‫"مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی الہام ہو رہا تھا کہ حور‬
‫مصیبت میں ہے۔" عوذر سوچتے ہوئے تیزی سے اٹھ‬
‫بیٹھا تھا۔‬
‫شازار نے گاڑی کا جو نمبر نوٹ کروایا وہ دیکھ کر ایک‬
‫لمحے کو تو عوذر گنگ رہ گیا تھا۔‬
‫"اپنے آدمیوں سے کہو حور کو ابھی کے ابھی چھوڑ‬
‫دیں‪....‬نہیں تو انجام کے زمہ دار تم خود ہو گے۔" کسی کو‬
‫کال کرتے ہوئے عوذر نے غصے سے کہا تھا۔‬
‫وہ شدید غصے سے کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل‬
‫ہوا تھا۔‬

‫‪259‬‬
‫سربراہی کرسی پر بیٹھے شخص نے شراب کا پیال بھرتے‬
‫ہوئے اس کی جانب دیکھا اور مسکرا دیا۔‬
‫"ویلکم مسٹر سومرو! ویلکم‪.....‬اب طبیعت کیسی ہے‬
‫تمہاری؟ گھاؤ گہرا تو نہیں تھا؟" وہ مصنوعی فکرمندی‬
‫سے پوچھ رہا تھا۔‬
‫"یہ تم نے کیا نا؟ میں نے تم سے کہا تھا کہ حور سے دور‬
‫رہنا‪......‬مگر تم باز نہیں آئے۔" وہ شدید غصے سے چالیا۔‬
‫"نہیں میں نے کچھ نہیں کیا‪.....‬تم جانتے ہو اگر میں اس‬
‫پر حملہ کرواتا تو وہ بچ نہ پاتی۔"‬
‫"ایسا سوچنا بھی مت۔" کرختگی سے حکم جاری کرتے‬
‫ہوئے وہ مٹھیاں بھینچ گیا۔‬
‫"شاید تم ہمارا میشن بھول گئے ہو عوذر سومرو!" اس‬
‫شخص نے اسے کچھ یاد دالنا چاہا۔‬
‫"میں کچھ نہیں بھوال مگر شاید تم بھول گئے ہو جو حور‬
‫پر حملے کرنے لگے ہو‪.....‬ایک بات یاد رکھنا جبران‬
‫غفور! اگر تم نے حور کو ذرا سی کھروچ بھی پہنچائی تو‬
‫میں تمہیں اور تمہارے پالن کو تہس نہس کر کے رکھ دوں‬
‫گا۔" وہ اس کے گریبان تک پہنچا تھا۔‬

‫‪260‬‬
‫جبران کے سکیورٹی اہلکاروں نے اس پر گنز تن دی تھی۔‬
‫"ارے ارے کیا کر رہے ہو تم لوگ‪.....‬یہ میرا خاص آدمی‬
‫ہی نہیں بلکہ میرا دوست بھی ہے‪ ،‬رکھو اپنے ہتھیار‬
‫واپس‪......‬اور تم عوذر! ذرا یہاں بیٹھو اور میری بات‬
‫سنو۔" جبران نے اسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔‬
‫"اسے یہاں تمہارے لیے الیا گیا ہے عوذر!‪ .....‬اتنے دنوں‬
‫سے تم حوریہ رائے سے اپنے دل کی بات نہیں کر پا رہے‬
‫تھے شادی کے لیے خاک منا پاتے‪.....‬اب وہ یہاں ہی ہے‪،‬‬
‫اور ہمیشہ تمہاری رہے گی۔" جبران نے مسکراتے ہوئے‬
‫اس کا شانا تھپکا۔‬
‫"مگر دالور خان کا کیا؟"‬
‫"تم کب سے ڈرنے لگے اچھے لوگوں سے؟ اس کو دیکھ‬
‫لیں گے ہم‪.....‬تم انجوائے کرو۔ ہنی مون پیکج بتاؤ۔"‬
‫"ابھی نہیں شادی کے بعد‪ ،‬تھینک یو یار!‪.....‬اب تم جتنے‬
‫بھی سکلپچر بنانے کو کہو گے میں دل سے بنا کر دوں‬
‫گا‪.....‬کیونکہ تم نے مجھے میری دنیا ال کر دے دی ہے۔"‬

‫‪261‬‬
‫وہ کچھ دیر پہلے واال غصہ بھول بھال کر چہکتے ہوئے‬
‫کہہ کر جبران کے گلے لگ گیا تھا۔جبران کے ہونٹوں پر‬
‫شاطرانہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔‬
‫"پر‪......‬اگر دالور خان کو معلوم ہو گیا کہ حور میرے پاس‬
‫ہے تو؟"‬
‫"اسے کیسے پتہ لگے گا؟ بلکل بھی نہیں لگے لگا کیونکہ‬
‫اس کا بھائی بھی ہمارے قبضے میں ہے‪ ،‬باقی تم باہر جب‬
‫نکلو تو خود کو کول رکھنا‪ ،‬ہو سکتا ہے وہ لوگ تم سے‬
‫بھی پوچھ گچھ کریں۔ یہ دالور خان بہت شاطر بندہ ہے تو‬
‫شاہزیب خان اس سے بھی دو قدم آگے ہے۔" جبران غفور‬
‫نے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا۔‬
‫"ٹھیک ہے۔" وہ اٹھ کر دائیں جانب والی سیڑھیاں چڑھنے‬
‫لگا۔‬
‫"ویسے تم نے حور پر حملہ کیوں کروایا؟" وہ رک کر‬
‫اس کی جانب پلٹا۔‬
‫"مجھے لگا کہ اس گاڑی میں شازار خان ہے‪ ،‬اسی لیے‬
‫میں نے اپنے آدمیوں سے کہا تھا کہ گاڑی میں جو کوئی‬

‫‪262‬‬
‫بھی ہو اسے ختم کر دینا‪ ،‬بس غلط فہمی میں سب ہو گیا۔"‬
‫اس نے کمال مہارت سے جھوٹ بوال تھا۔‬
‫عوذر اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سیڑھیاں‬
‫چڑھ گیا۔‬
‫"تمہارے کمرے میں ہی ہم نے حور ال کر رکھی ہے۔دیکھ‬
‫لو اپنے بھائی کے کمال دنیا میں ہی تمہیں ایک عدد حور‬
‫دستیاب کر دی گئی ہے۔" جبران نے بلند آواز میں اسے‬
‫چھیڑا تھا وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔‬
‫"گھر پر تو الک لگا ہے‪ ".....‬شاہزیب نے دروازہ چیک‬
‫کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"کال بھی دونوں نہیں اٹھا رہے۔" دالور خان بھی فکرمند‬
‫لہجے میں کہتے ہوئے شیشے کی کھڑکی سے اندر‬
‫جھانکنے کی کوشش کرنے لگا جس کے سامنے پردہ تھا۔‬
‫"مجھے شازار نے بتایا تھا کہ حور کے پروفیسر پر کچھ‬
‫حملہ وغیرہ ہوا ہے‪ .....‬ہسپتال چل کر پتہ کرتے ہیں۔" وہ‬
‫لوگ تیزی سے پلٹ کر گاڑی کی جانب بڑھے تھے۔‬

‫‪263‬‬
‫"میرا دل کہہ رہا ہے وہ دونوں مصیبت میں ہیں‪ .....‬ہمیں‬
‫کہیں اور جانا ہےابھی۔" دالور نے تیزی سے پلٹتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫"نہیں دالور خان‪ !......‬ابھی ہم جبران تک نہیں پہنچ‬
‫سکتے‪.....‬پتہ نہیں وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔"‬
‫"جب پتہ نہیں ہے تو پتہ لگانا پڑے گا۔ میں جا رہا ہوں۔"‬
‫"بیوقوفی مت کرو۔" شاہزیب نے اسے بازو سے تھام کر‬
‫پیچھے کھینچا تھا۔‬
‫"ہم اس کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ وہ ہمارے پاس آئے‬
‫گا۔ کچھ ایسا پالن سوچو کہ وہ ہمارے آمنے سامنے‬
‫آئے‪.....‬یعنی تمہارے آمنے سامنے‪.....‬اپنی پوری فوج کے‬
‫ساتھ‪.....‬پھر اس کی غیر موجودگی میں اس کے اڈے پر‬
‫چھاپہ میں ماروں گا۔"شاہزیب نے رازداری سے اس کے‬
‫کان میں کہا تھا۔‬
‫چند پل دالور خان ساکت کھڑا رہا پھر سر اثبات میں ہالتے‬
‫ہوئے گاڑی کی جانب بڑھا۔‬
‫شاہزیب نے بےاختیار ہی اطمینان بھری سانس لی تھی‪....‬‬
‫"ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟"‬

‫‪264‬‬
‫"پیرس سٹی۔ سٹیفن ہارپر کے پاس‪ .....‬وہ یہاں کا جانا مانا‬
‫ڈون ہے‪.....‬جبران غفور جیسے چھوٹے موٹے غنڈے اس‬
‫کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔" اس نے گاڑی میں‬
‫ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔‬
‫"ہوں‪ ،‬میرا رابطہ یہاں کی کوپس سے ہو چکا ہے‪ ،‬ان کا‬
‫سنیئر آفیسر مجھ سے پرسنلی ملنا چاہتا ہے۔" اس نے‬
‫اپنے فون پر میپ آن کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"نیکسٹ ٹاؤن کا بالک نمبر فور میری منزل ہے‪.....‬ہم‬
‫دونوں ٹچ میں رہیں گے‪......‬تم اللیگل طریقے سے کام کرو‬
‫میں لیگل طریقے سے کام کروں گا۔" اس نے کہا تو دالور‬
‫خان اثبات میں سر ہالتے ہوئے مسکرا دیا۔‬
‫"طریقہ بےشک الگ ہو گا مگر ہماری منزل ایک ہے۔"‬
‫اس نے کہتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔‬
‫وہ کمرے میں داخل ہوا تو حور نے چونک کر اس کی جانب‬
‫دیکھا تھا۔‬
‫اس سے زیادہ چونکا عوذر تھا اس کے چہرے پر رقم زخم‬
‫دیکھ کر۔‬

‫‪265‬‬
‫"ایم سوری حور! تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟ میں ان کو‬
‫نہیں چھوڑوں گا۔"‬
‫وہ اس کی جانب بڑھتے ہوئے بوال۔‬
‫"تم انسان نہیں ہو‪ ....‬مجھے لگا تھا کہ واقع ہی تم سدھر‬
‫گئے ہو مگر نہیں‪.....‬کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔"‬
‫وہ اس کے منہ پر زور کا تمانچہ رسید کرتے ہوئے چالئی‬
‫تھی۔‬
‫"میں تم سے محبت کرتا ہوں حور! جبران بھائی تو ہمیں‬
‫ملوانا چاہتے ہیں بس۔"‬
‫"میں النت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر‪......‬اور‬
‫اس اپنے جبران سے کہ دو مجھے جانے دے نہیں تو جہاں‬
‫اسے محض شاہزیب نے پیٹنا ہے مفت میں دالور خان سے‬
‫بھی پٹ جائے گا۔" وہ گردن اکڑا کر اچٹتی سی نظر اس پر‬
‫ڈالتے ہوئے بولی۔‬
‫"فلمی ڈائیالگز بولنے بند کرو اور اب تم کہیں نہیں جا رہی‪،‬‬
‫جبران دالور خان سے طالق نامے پر دستخط کروا لے گا‬
‫اور پھر ہماری شادی ہو جائے گی۔" وہ ہنستے ہوئے بوال‬
‫تھا۔‬

‫‪266‬‬
‫"آخری دم تک ایسا نہیں ہو گا عوذر سومرو! یا تم جو بھی‬
‫ہو‪.......‬میں آج بھی دالور خان کی وائف ہوں اور آنے والے‬
‫وقت میں بھی مسز سردار دالور خان ہی رہوں گی‪ ،‬نہیں‬
‫رہو گے تو تم آزاد نہیں رہو گے۔" وہ نخوت سے سر‬
‫جھٹکتے ہوئے بولی تھی۔‬
‫"ایک بات کان کھول کر سن لو حور! میں تم سے بےپناہ‬
‫محبت کرتا ہوں‪ ،‬یاد ہے جب ہم پہلی مرتبہ ملے تھے اور‬
‫کیسے تم نے مجھے بیوقوف بنایا تھا مگر اب نہیں‪ ،‬اس‬
‫بار نہیں۔ اس بار تم عوذر سومرو کی ہو کر رہو گی جس‬
‫نے تمہاری خاطر اپنے جاں سے عزیز دوست کجلے تک‬
‫کو مار دیا کہ تم اس سے ڈرتی تھی۔" وہ غصے سے‬
‫پھنکارتا کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے کمرے سے نکل‬
‫گیا۔‬
‫حور جو مصنوعی مضبوطی کا مظاہرہ کر رہی تھی ٹوٹ کر‬
‫زمین پر بکھرتی چلی گئی۔‬
‫اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے‪ ،‬اور کب تک رہے گی؟‬
‫مگر اسے یقین تھا کہ ہللا ہمیشہ کی طرح اسے اس مصیبت‬
‫سے ضرور نکال دے گا‪....‬یہ سوچتے ہوئے کتنے آنسو‬
‫ٹوٹ کر رخساروں پر بکھرے تھے۔‬
‫‪267‬‬
‫"کائنات!‪....‬شاہزیب کی کال آئی تھی‪.....‬وہ کہہ رہا ہے کہ‬
‫جب تک میں نہ کہوں تم لوگ باہر نہیں جاؤ گی۔اسی لیے ہم‬
‫گھر رہ کر ہی ایگزامز کی تیاری کر لیں گے۔" تابندہ نے‬
‫کمرے میں داخل ہوتے کہا تھا۔‬
‫اس کے بالوں میں برش چالتے ہاتھ ساکت ہو گئے تھے‪....‬‬
‫وہ تیزی سے فون کی جانب لپکتے ہوئے بولی۔‬
‫"مجھے تو کوئی کال نہیں آئی ان کی؟" آن کرتے ہی‬
‫خاموش فون اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔‬
‫تابندہ پلٹ کر جا چکی تھی۔‬
‫"کل سے آپ کو مجھ سے بات کرنے کا ٹائم نہیں مال اب‬
‫سمجھی وہ ٹائم کدھر جا رہا تھا۔" آنکھوں میں پھر سے‬
‫نمی تیرنے لگی تھی۔دل بوجھل سا ہو گیا۔‬
‫"میں بھی اب باہر جاؤں گی۔جب آپ کو صرف تابندہ کی‬
‫فکر ہے تو میں بھی اپنی فکر نہیں کروں گی۔" وہ سوچتے‬
‫ہوئے اٹھی تھی‪ ،‬شیشے کے سامنے رکتے ہوئے آنسو‬
‫پونچھے اور اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنے لگی۔‬
‫"کیا مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے؟" اس کے ہاتھ‬
‫ایک دم سے ساکت ہو گئے تھے۔‬

‫‪268‬‬
‫"اس گھر کو میں نے محبت سے سجایا ہے میں کیسے‬
‫چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔" دل کرچی کرچی بکھر گیا تھا۔‬
‫"اور شاہزیب‪ .....‬ان کے بنا تو جنا آتا ہی نہیں۔ بچپن سے‬
‫اس کی انگلی تھام کر چلی ہوں۔" بیگ صوفے پر اچھال کر‬
‫وہ تیزی سے دروازے کی سمت بڑھی۔‬
‫کنڈی چڑھا کر وہ واپس پلٹی تھی اور بیڈ پر اوندھے منہ‬
‫گرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫اسے جس جگہ رکھا گیا تھا مکمل اندھیرا تھا‪ ،‬ہوش آنے‬
‫پر خود کو رسیوں میں جکڑے محسوس کیا تھا۔‬
‫اسے یاد آیا کہ وہ حور کے پیچھے تھا۔‬
‫اچانک انہوں نے گاڑی روکی اور حور کو اٹھا کر باہر‬
‫اچھال دیا تھا۔‬
‫وہ اپنی گاڑی میں سے نکل کر بھاگتے ہوئے حور تک‬
‫پہنچا اور اسے اٹھا کر واپس پلٹ ہی رہا تھا کہ انہوں نے‬
‫اس کی پیٹھ پر لوہے کے راڈ سے وار کیا‪ ،‬بےہوش ہونے‬
‫سے پہلے اس نے اپنی گرفت میں سے حور کو لے جاتے‬
‫ہوئے ان لوگوں کو دیکھا تھا۔‬

‫‪269‬‬
‫"بھابھی‪....!.....‬کہاں ہیں آپ؟" اس نے اندھیرے میں‬
‫آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنا چاہا مگر کچھ دکھائی‬
‫نہیں دیا۔‬
‫"وہ یہاں ہیں یا نہیں؟" اس نے دو تین مرتبہ اسے پکارا‬
‫تھا مگر کوئی جواب نہ موصول ہونے پر اندازہ ہو گیا کہ‬
‫حوریہ وہاں نہیں ہے۔‬
‫"پتہ نہیں ہمارے مسنگ ہونے کے بارے میں الال لوگوں‬
‫کو معلوم ہوا ہو گا کہ نہیں؟" وہ اپنے ہاتھوں کو کھولنے‬
‫کی کوشش کرتے ہوئے سوچ رہا تھا۔‬
‫دوسری جانب دالور خان سٹیفن کے پاس بیٹھا تھا۔‬
‫"یہاں ایک جبران نامی شخص ہے جو کہ غنڈہ یا ڈان‬
‫ہے‪....‬کچھ غیر قانونی سر گرمیوں میں انوالو ہے کیا تم‬
‫اسے جانتے ہو؟"‬
‫"جے بی کوئی غنڈہ یا‪.....‬ڈون نہیں ہے۔ وہ کڈنی‪ ،‬دل اور‬
‫دوسرے انسان اعضاء کا ریکٹ چال رہا ہے۔" سٹیفن کی‬
‫بات دوسری جانب بیٹھا شاہزیب بھی سن رہا تھا۔‬
‫"اس سے پوچھو اسے یہ سب کیسے معلوم؟" شاہزیب نے‬
‫تیزی سے استفسار کیا۔‬

‫‪270‬‬
‫"یہ سب تم کیسے جانتے ہو؟ کیا کبھی اس سے ملے‬
‫ہو؟"‬
‫"میرا ایک آدمی اس نے اپنی گینگ میں شامل کیا تھا‪ ،‬مگر‬
‫کام ٹھیک نہ کرنے پر وہ چمڑے کے بیلٹ سے پیٹتا تھا‬
‫میرے مالزم کو‪ ،‬تبھی وہ وہاں سے بھاگ آیا مجھے اس‬
‫نے ایک یو ایس بی دی تھی جس میں اس کے خالف ثبوت‬
‫ہیں‪.....‬مگر اگلے ہی دن جے بی نے اسے مار ڈاال۔"‬
‫"تمہارے پاس اس کے خالف ثبوت تھے مگر تم نے ایک‬
‫ایسے شخص کے خالف آواز نہیں اٹھائی جو تمہارے‬
‫میرے نجانے کتنے ملکوں کو تباہ کر رہا ہے۔" دالور خان‬
‫غصے سے الل پیال ہو رہا تھا۔‬
‫"اس کے پاس میری بیوی بچے ہیں‪ ،‬وہ مجھے بلیک میل‬
‫کرتا تھا‪....‬میں نے اسے ثبوت لوٹا دیا تھا مگر ایک کاپی‬
‫میرے پاس بھی ہے۔" سٹیفن کہتے ہوئے اٹھ کر اپنے‬
‫کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔‬
‫ٹھیک دو منٹ بعد سٹیفن کی چنخوں کی آواز سنائی دی‬
‫تھی۔‬

‫‪271‬‬
‫وہ اور سٹیفن کے آدمی بھاگ کر کمرے کی جانب بڑھے‬
‫تھے۔‬
‫سامنے ہی خون میں لے لت پت سٹیفن زمین پر تڑپتا پڑا‬
‫ہوا تھا۔‬
‫"سٹیفن‪ !....‬کس نے کیا یہ؟" وہ اس کے پاس گھٹنوں کے‬
‫بل بیٹھتے ہوئے فکرمندی سے بوال۔‬
‫"ج جے بی‪ ".....‬اس کے گلے سے خون بہہ رہا تھا۔‬
‫وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔‬
‫"ثبوت کہاں ہے سٹیفن!" دالور خان نے تیزی سے‬
‫ایمبولینس کو کال کرتے ہوئے فون اس کے ایک آدمی کی‬
‫جانب بڑھا دیا تھا۔‬
‫سٹیفن نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور‬
‫دوسرے ہی پل وہ موت کی آغوش میں جا سویا۔‬
‫"سٹیفن اس نو موور‪ .....‬اتنا نزدیک پہنچ گیا تھا میں مگر‬
‫کچھ حاصل نہیں ہوا‪....‬وہ جبران ہمارے یہاں آنے سے آگاہ‬
‫تھا۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔‬
‫"سٹیفن نے تمہیں کچھ نہیں دیا؟" شاہزیب نے استفسار‬
‫کیا۔‬
‫‪272‬‬
‫"نہیں۔ وہ ثبوت لینے آیا تھا مگر‪ ".....‬کہتے کہتے اس کی‬
‫نگاہ سٹیفن کے اس ہاتھ پر پڑی جو اس نے دالور خان کے‬
‫ہاتھ میں دیا تھا‪....‬جو انگوٹھی اس کے ہاتھ کی درمیان‬
‫والی انگلی میں تھی ہال سے اٹھنے تک نہیں تھی۔‬
‫"یعنی‪....‬اس انگوٹھی میں؟" سوچتے ہوئے وہ ایک قدم‬
‫سٹیفن کی جانب بڑھا مگر تبھی اسے کچھ غلط ہونے کا‬
‫احساس ہوا‪.....‬اس نے چونک کر سٹیفن کے آدمیوں کو‬
‫دیکھا جو اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہے‬
‫تھے۔‬
‫وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ سب جبران کے ہاتھوں بک چکے‬
‫ہیں۔‬
‫"ہاں کوئی ثبوت نہیں مال یار‪......‬وہ جبران بہت شاطر بندہ‬
‫ہے بڑی صفائی سے سٹیفن کو ختم کر دیا۔" وہ پھر سے‬
‫اسی ٹون میں بولنے لگا تھا۔‬
‫جھک کر سٹیفن کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ اس میں‬
‫سے انگوٹھی نکال چکا تھا۔‬
‫"مر گیا ہے سٹیفن! نہیں یار بلکل بھی امید نہیں بچی۔"‬

‫‪273‬‬
‫"کیا کہہ رہے ہو تم؟" شاہزیب کو اس کے بےربط بات‬
‫سمجھ نہیں آئی تھی۔‬
‫"دیکھو یار سٹیفن میرا بہت اچھا دوست تھا‪.....‬اس کا‬
‫صدمہ کچھ کم نہیں ہے۔" وہ کہتے ہوئے رفتہ رفتہ چلتا‬
‫کمرے سے نکل گیا۔‬
‫وہ دس بارہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی آئے تھے۔‬
‫"یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے‪ ،‬سٹیفن کے آدمیوں کو‬
‫جبران نے خرید لیا ہوا ہے‪......‬اور وہ مجھ پر حملہ کرنے‬
‫کے متعلق سوچ رہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اسے کیسے‬
‫معلوم ہوا کہ ہم آ رہے ہیں؟" وہ کچھ فاصلے پر جاتے‬
‫ہوئے دھیمی آواز میں بوال تھا۔‬
‫"میں نے وہاں کسی کو نہیں بتایا‪"......‬‬
‫"ہاں بس میں آج تو یہاں ہی رکوں گا جب تک سٹیفن کو‬
‫دفنا نہیں دیا جاتا۔" وہ تیزی سے بوال تھا کہ آدمی سر پر‬
‫پہنچ چکے تھے۔‬
‫"ٹھیک ہے۔اپنا خیال رکھنا‪ ....‬ریوالور ہے نا؟" شاہزیب‬
‫اس کے لیے پریشان ہو گیا تھا۔‬

‫‪274‬‬
‫"وہ تو آتے ہی انہوں نے لے لیا تھا‪ ".....‬دالور خان نے‬
‫سرگوشی میں کہا تھا۔‬
‫"میں ٹھیک ہی کہتا ہوں کہ تمہیں دیکھتے ہوئے لطیفے‬
‫لکھے جاتے ہیں۔ بیوقوف انسان‪.....‬اپنا ہتھیار ایسی‬
‫جگہوں پر نہیں ڈالتے۔" اس کا دماغ گھوم گیا تھا غصے‬
‫سے کہتے ہوئے وہ دالور خان کو ہنسنے پر مجبور کر گیا۔‬
‫ّٰللا حافظ۔" اس نے کہہ کر کال کٹ کر کے‬
‫"چل ٹھیک ہے ہ‬
‫کان میں سے ائیر برڈ نکالے۔‬
‫"تم لوگ ایسا کرو‪....‬ان کے جاننے والوں کو بتا دو اور جو‬
‫بھی تمہاری مرگ کی رسمیں ہیں ان کی تیاری کرو۔" وہ‬
‫ہنوز نارمل انداز میں پیش آ رہا تھا۔‬
‫وہ سب بھی ابھی جبران کے اشارے کا انتظار کر رہے‬
‫تھے تبھی سر اثبات میں ہالتے ایک جانب بڑھ گئے۔‬
‫دالور خان نے بہت کوشش کی فرار کی مگر ہر جگہ اس‬
‫کے لیے پہرا لگا ہو ا تھا۔‬
‫وہ کچھ سوچتے ہوئے سر ہال کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔‬
‫"حور! یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا الیا ہوں‪ .....‬لڑکیوں‬
‫کو چاکلیٹ پسند ہوتی ہے نا۔" عوذر نے ایک بڑی سی‬
‫‪275‬‬
‫ٹوکری جس بھی ڈھیر ساری چاکلیٹس پیک تھیں اس کی‬
‫جانب بڑھائی تھی۔‬
‫ایک لمحہ وہ عوذر کو گھورتی رہی پھر ہاتھ مار کر ٹوکری‬
‫پرے اچھال دی۔‬
‫"بیشک لڑکیوں کو چاکلیٹ پسند ہے مگر اس کی بھی‬
‫پسندیدہ مرد سے مانگ کرتی ہیں اور تم مجھے ذرا بھی‬
‫پسند نہیں ہو۔" وہ حقارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے‬
‫اس سے رخ پھیر گئی تھی۔‬
‫عوذر جبڑے بھینچتے ہوئے اس کی جانب بڑھا تھا۔‬
‫"میں اگر چاہوں تو ابھی ہر حد پار کرتے ہوئے تمہیں‬
‫پوری طرح سے اپنی بنا سکتا ہوں۔" اسے شانوں سے‬
‫تھام کر پیچھے دیوار سے لگاتے ہوئے وہ غصے سے‬
‫غرایا۔ اس کی بےباکی ہر حور اندر سے تو سہم گئی تھی‬
‫مگر باظاہر وہ غصے میں اس کو خود سے دور کرنے کی‬
‫کوشش کر رہی تھی۔‬
‫"مگر میں ایسا نہیں کروں گا‪ ....‬کیونکہ تم میری محبت‬
‫ہو‪....‬کوئی عام لڑکی نہیں کہ عوذر سومرو کی حیوانیت کا‬

‫‪276‬‬
‫نشانہ بن کر تباہ ہو جاؤ۔" وہ ایک دم سے سرگوشی میں‬
‫کہتے کہتے زور سے ہنسا تھا۔‬
‫حور کو اس کا یہ روپ سعی معنوں میں ڈرا گیا تھا مگر وہ‬
‫اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ ڈر رہی ہے۔‬
‫"چھوڑو مجھے جنگلی انسان‪.....‬اپنے گندے ہاتھ مت لگاؤ‬
‫مجھے۔" اس نے زور کا مکا عوذر کے زخمی بازو پر‬
‫رسید کیا تھا وہ کراہتے ہوئے اس کے قدموں میں ہی زمین‬
‫بوس ہو گیا۔‬
‫حور خوف زدہ سی اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی‬
‫ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔‬
‫کمرے کا دروازہ کھول کر وہ ابھی نکلتی کہ سامنے سے‬
‫کسی نے آ کر اس کا راستہ روک دیا۔‬
‫اس شخص کو وہ پہلے سے جانتی تھی‪....‬ہاں یہ وہ تھا جو‬
‫جہاز میں اس سے ٹکرایا تھا۔‬
‫"پہنچانا؟‪....‬میں جبران غفور‪.....‬وہ جہاز واال؟" وہ اس کی‬
‫جانب سر جھکاتے ہوئے سرگوشی میں بوال تھا۔‬
‫حور کے چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔‬

‫‪277‬‬
‫وہ دو قدم پیچھے ہٹی‪.....‬پلٹ کر دیکھا تو عوذر اسے‬
‫غصے سے گھور رہا تھا۔‬
‫وہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔‬
‫"عوذر نے تم تک پہنچنے کے لیے میرے ہاتھوں تمہیں‬
‫ہرٹ کروایا۔" وہ سرگوشی میں کہتے ہوئے اس کی جانب‬
‫بڑھ رہا تھا۔‬
‫"جبران! اسے چھوڑ دو۔" عوذر نے اٹھنے کی کوشش‬
‫کرتے ہوئے تیزی سے کہا تھا۔‬
‫"اوہ کم آن یار‪......‬یاد کرو میں نے بھی تو اپنی گرلفرینڈ‬
‫شیئر کی تھی تمہارے ساتھ‪ ،‬جب تم اس کے غم میں چور‬
‫چور تھے‪....‬بھول گئے کیا وہ جنگل میں گزاری راتیں؟"‬
‫جبران نے خباثت سے کہتے ہوئے حور کو اپنی جانب‬
‫کھینچا تھا‪....‬حور کے حلق سے ایک دم ہولناک چنخ بلند‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫"وہ ایک الگ بات تھی جبران! حور کو چھوڑ دو‪".....‬‬
‫عوذر اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے‬
‫دانتوں پر دانت جمائے گویا ہوا۔‬

‫‪278‬‬
‫جبران نے اپنا منہ حور کے بالوں کے نزدیک کیا تھا عوذر‬
‫کا ضبط جواب دے گیا۔‬
‫"ہوش کرو جبران! وہ میری ہونے والی بیوی ہے۔" پوری‬
‫قوت لگا کر حور کو اس کی گرفت سے چھڑواتے ہوئے‬
‫پرے دھکیل کر جبران پر چالیا تھا۔‬
‫یک بعد دیگر تمانچے جبران کے منہ پر رسید کیے تھے‬
‫بدلے میں اس نے عوذر پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔‬
‫اس نے پلٹ کر حور کو دیکھا جو اس کے دھکیلنے پر‬
‫سیدھی دیوار سے ٹکرا کر بےہوش ہو چکی تھی۔‬
‫"ایم سوری عوذر! م میں اسے دیکھ کر اپنے ہوش کھو‬
‫بیٹھا تھا۔" جبران نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔‬
‫"اسی لیے تم اسے یہاں سے لے کر کہیں بہت دور چلے‬
‫جاؤ پلیز۔یہ گھر مردوں سے بھرا ہوا ہے اتنا حسن دیکھ کر‬
‫کسی کا ایمان بھی ڈگمگا سکتا ہے۔" جبران شرمندگی سے‬
‫کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگا۔‬
‫"ٹ ٹھیک ہے‪......‬میں اسے لے کر جا رہا ہوں۔" عوذر‬
‫نے کہتے ہوئے آگے بڑھ کر حور کو اپنے شانے پر لٹکایا‬
‫اور کمرے سے نکل گیا۔‬

‫‪279‬‬
‫اگر پیچھے پلٹ کر دیکھ لیتا تو شاید جبران کی شاطرانہ‬
‫مسکراہٹ وک دیکھ کر سب سمجھ جاتا۔‬
‫"ایک دفعہ دالور خان کو ختم کر لوں پھر تمہاری باری‬
‫عوذر!‪ .....‬کیونکہ عورت کا معاملہ ہے میرے دوست وہ‬
‫بھی اس عورت کا جس پر میرا دل آ گیا۔"‬
‫وہ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہنس دیا تھا۔‬
‫"دالور خان سوچ رہا ہو گا کہ میں اس کے یہاں آنے سے‬
‫کیسے واقف ہوں۔" وہ زور زور سے ہنستے ہوئے ایک‬
‫جانب بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"عوذر تم کتنے بڑے بیوقوف ہو‪....‬حور کے ہر لباس پر‬
‫بگ تم لگاتے تھے سنتا اسے میں تھا‪ ،‬اب دیکھو نا اگر‬
‫دالور خان مجھ سے بچ گیا تو وہ تمہیں مار دے گا اور تم‬
‫دالور خان کو مار دو گے پھر حور تو میری ہو جائے گی‬
‫نا۔" سوچتے ہوئے وہ ہنسا تھا۔‬
‫******‬
‫میں ہوں جبران غفور‪......‬بچپن سے ہی جو چیز بھی طلب‬
‫کی بنا ضد کے مل جایا کرتی تھی۔‬

‫‪280‬‬
‫جوانی میں قدم رکھا تب بھی ڈیڈی ہر خواہش کو پورا کر‬
‫دیتے تھے۔‬
‫جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میں بگڑتا چال گیا‪......‬مجھے‬
‫اپنی پروفیسر اچھی لگتی تھی میں اسے حاصل کر لیا‪ ،‬مگر‬
‫میرے اپنے ہی والد نے مجھے باغی قرار دیتے ہوئے جیل‬
‫بھیج دیا۔‬
‫اس دن ہی میں نے سوچ لیا ڈیڈی کو چھوڑ دوں گا۔‬
‫سات سال جیل سے رہائی کے بعد میں سدھر گیا تھا سوچا‬
‫کہ اچھی جاب کروں گا اور سیٹل ہو جاؤں گا۔‬
‫مگر جہاں بھی انٹرویو دینے جاتا لوگ میرے گریڈز کو‬
‫دیکھتے ہوئے میری سی وی اٹھا کر ڈسٹبین میں اچھال‬
‫دیتے‪ ،‬دوست مجھے بدکردار کہتے تھے‪ ،‬ڈیڈی مجھے‬
‫عیاش کہتے تھے اور ٹکڑوں پر پلنے واال کتا‪......‬‬
‫مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور پولیس فورس جوائن‬
‫کرنے کا فیصلہ کیا مگر ٹانگ‪ ،‬بازو ‪،‬دائیں پسلی کے‬
‫فیکچر جو اس شازار خان کی وجہ سے ہوئے تھے‬
‫جس‪ .....‬جس نے مجھے ٹرمنل پر سب کے سامنے مارا‬
‫تھا میری پروفیسر کو چھیڑنے پر‪.....‬اس کی وجہ سے میں‬

‫‪281‬‬
‫فزیکل ٹیسٹ پاس نہ کر پایا ڈیڈی نے بھی میری ہلپ نہ کی‬
‫اور کہا اپنے بل بوتے پر کام کروں۔‬
‫مجھے ہر ایک پاکستانی سے نفرت ہو چکی تھی اور میں‬
‫نے سوچ لیا کہ اب میں پورے پاکستان کو تباہ و برباد کر‬
‫دوں گا۔‬
‫میں امریکہ چال گیا مگر وہاں بھی مجھے ریجکشن‪ ،‬ناکارہ‬
‫ہی کہا جانے لگا‪.....‬ہر جگہ‪.....‬ہر جگہ مجھے‪.....‬مجھے‬
‫ڈی گریٹ کیا گیا‪ ،‬کہیں مارکس کم کی وجہ سے تو کہیں‬
‫بداخالقی تو کہیں غصے کی وجہ سے‪......‬کہیں لنگڑا کر‬
‫چلنے کی وجہ سے مذاق اڑایا جانے لگا۔‬
‫ان ہی دنوں میں پاکستان گیا تھا مری میں چکر لگا میرا‬
‫دشمن شازار خان میرے ہاتھوں مرنے ہی واال تھا کہ تبھی‬
‫وہ دکھائی دی‪........‬جنت سے آئی پری تھی وہ‪ ،‬حسن کی‬
‫ملکہ‪.......‬میں اپنا آپ بھال کر اس کی جانب بڑھا تھا مگر‬
‫اس نے بھی میرا دل توڑ دیا۔‬
‫میں نے سوچ لیا کہ جو بھی کرے مگر میں اسے حاصل کر‬
‫لوں گا۔‬

‫‪282‬‬
‫کئی مرتبہ اسے اٹھوانے کی کوشش کی مگر وہ‬
‫دالور‪.....‬ہر مرتبہ میرے راستے میں حائل ہو جاتا تھا‪ ،‬ہر‬
‫مرتبہ اس کے ایک اشارے پر اس کے آدمی میرے آدمیوں‬
‫کو مار گراتے تھے۔‬

‫آگے کی ڈائری کے صفحات جلے ہوئے تھے۔‬


‫شازار نے ڈائری پرے اچھالتے ہوئے ٹارچ کی روشنی میں‬
‫ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں‪.....‬یہ کوئی تہ خانہ تو تھا ہی‬
‫مگر کباڑ خانہ زیادہ لگ رہا تھا‪ .....‬پرانی چیزوں میں اسے‬
‫یہ ایک عدد ٹارچ الئٹ ملی تھی اور ڈائری جو شلف پر‬
‫کھلی پڑی تھی۔‬
‫"جبران غفور! میں تمہیں الال کی خوشیوں میں آگ نہیں‬
‫لگانے دوں گا۔" وہ سوچتے ہوئے ادھر اُدھر نگاہیں‬
‫دوڑاتے سامان میں ہاتھ سے کچھ ڈھونڈنے لگا تھا۔‬
‫"فون نہیں ملے گا شازار!"‬
‫تبھی قدموں کی آہٹ سنائی دی‪ ،‬پھر دروازے پر لگا تاال‬
‫کھلنے لگا وہ تیزی سے کرسی کی جانب بڑھا تھا ٹارچر‬

‫‪283‬‬
‫الئٹ آف کرتے ہوئے وہ ہاتھوں کو ایس طرح پیچھلے کر‬
‫کے بیٹھ گیا جس طرح اسے باندھا گیا تھا۔‬
‫ایک عدد شخص اندر داخل ہوا تھا۔ اسے جانچتی نگاہوں‬
‫سے دیکھتے ہوئے مطمئن ہو کر جیسے ہی پلٹا شازار‬
‫کرسی اٹھا کر اس کی جانب بڑھا۔‬
‫وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا تھا۔‬
‫"معاف کرنا دوست ہماری عادت نہیں ہے کہ پیٹھ پر وار‬
‫کرنے کی۔" زور سے کرسی اس کے سر پر دے مارتے‬
‫ہوئے وہ تیز لہجے میں بوال۔‬
‫پھر اسے اندر کھینچ کر دروازہ مقفل کیا اور اس کے کپڑے‬
‫خود زیب تن کرتے ہوئے اس کے شانوں پر لگے جبران‬
‫کے دیئے بیج کو اتارتے ہوئے اپنے شانوں پر لگا کر‬
‫کمرے میں سے نکل گیا۔‬
‫"ہمیں جلد ہی ایکشن لینا ہو گا‪ ،‬مجھے اپنی ٹیم سے رابطہ‬
‫کرنا ہے اس بارے میں۔"‬
‫"آپ سمجھنے کی کوشش کریں مسٹر چارلی‪.....‬وہ کوئی‬
‫عام مجرم نہیں‪.....‬پتہ نہیں اس کا یونٹ کتنا بڑا ہے‪....‬کون‬
‫کون ہیں جو اس کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے‪ ،‬آپ ایک‬

‫‪284‬‬
‫سمجھدار آفیسر ہیں ‪.....‬اور جانتے ہیں کہ ان جیسے‬
‫لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔" شاہزیب نے اسے‬
‫سمجھداری سے سمجھایا تھا۔‬
‫اتنے میں دالور خان کی کال موصول ہوئی تھی۔‬
‫"ہاں سردار؟ کچھ معلوم ہوا کہ انگوٹھی کیسی تھی؟"‬
‫"اس میں ایک الکر کا کوڈ تھا۔ثبوت اس وقت میرے پاس‬
‫ہیں تم لوگ ریڈی ہو جاؤ۔" دالور خان نے مسکراتے ہوئے‬
‫کہا۔‬
‫"مگر نکلے کیسے وہاں سے؟" شاہزیب نے اس کی‬
‫مسکراہٹ بھانپتے ہوئے سوال کیا تھا۔‬
‫"سلطان فلم میں جس طرح سلمان خان پتنگ کے پیچھے‬
‫بھاگا تھا‪......‬اسی طرح ہی نکال۔" وہ پیشانی پر بکھرے‬
‫بالوں کو سمیٹتے ہوئے ٹائی کی نٹ ڈھیلی کر رہا تھا۔‬
‫"تم ایسا کرو وہاں ہی رکو ہم لوگ نکل رہے ہیں۔ نہیں میں‬
‫آ جاتا ہوں لوکیشن بتاؤ۔" اس نے تیزی سے کہا۔‬
‫"جہاں ڈراپ کیا تھا ابھی وہاں ہی ہوں۔" شاہزیب نے اثبات‬
‫میں سر ہالتے ہوئے کہا تو وہ کال کٹ کرتا ایک نگاہ اپنے‬
‫ہاتھ میں تھامی یو ایس بی کو دیکھا اور پلٹ کر الکر میں‬

‫‪285‬‬
‫ایک عدد چاکلیٹ رکھتے ہوئے وہ شرارت بھرے انداز میں‬
‫مسکرایا تھا۔‬
‫"دالور آ رہا ہے۔اسے کوئی یو ایس بی ملی ہے۔" شاہزیب‬
‫نے بتایا تو چارلی ایک دم سے خوشی سے اچھل پڑا تھا۔‬
‫اس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔‬
‫مگر دوسرے ہی پل اس نے جب شاہزیب پر گن تان دی تو‬
‫وہ ایک دم سے حیران رہ گیا۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہے ہو چارلی؟" وہ سختی سے استفسار‬
‫کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫"میں صرف پولیس آفیسر نہیں ہوں‪....‬میں پہلے جبران کا‬
‫خاص شاگرد اور تمہارے ملک کا دشمن ہوں۔ مسلمانوں کا‬
‫خاتمہ میرا مشن ہے۔"‬
‫وہ جو بول رہا تھا شاہزیب اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ یہ‬
‫بھی ٹیررزم میں شامل ہے۔‬
‫"مسلمانوں کا خاتمہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے مسٹر‬
‫چارلی!" اس نے کہتے ہوئے اپنی کوٹ کی اندرونی جانب‬
‫کی زپ کھولی اور پھرتی سے ایک عدد ریوالور برآمد کیا۔‬

‫‪286‬‬
‫"اس وقت تم نے جو بھی کہا وہ میرے فون میں ریکارڈ ہو‬
‫چکا ہے۔" شاہزیب نے وائز سیو کرتے ہوئے پلے کی تھی۔‬
‫چارلی اس پر جھپٹا۔‬
‫"نہ نہ‪....‬یہ میرے بھائیوں کو فارورڈ ہو چکی ہے۔ یہاں‬
‫سے تو ڈیلیٹ ہو جائے گی مگر ادھر سے اپلوڈ ہونے میں‬
‫وقت نہیں لگے گا اسی لیے ڈراپ یور ریوالور۔" اس نے‬
‫رسانت سے کہتے ہوئے اپنے گلے میں سے ٹائی اتاری‬
‫تھی۔‬
‫آگے بڑھ کر چارلی کے ہاتھ باندھے اور پھر کلوروفارم‬
‫میں رومال تر کرتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔‬
‫"ہم پاکستانی بیوقوف نہیں ہوتے‪ ،‬خاص طور پر ہماری‬
‫کوپس تم لوگوں سے زیادہ شارپ مائنڈڈ ہے۔اور سوری فار‬
‫دیٹ مگر تم اسی کے قابل ہو۔" اس کے منہ پر رومال‬
‫پھینک کر وہ پلٹ گیا تھا۔‬
‫"تم فرانس آرام سے جاؤ‪ ،‬میں سارا کام ختم کر کے‬
‫تمہارے پاس آؤں گا عوذر اور تمہیں مار کر اپنی حور کو‬
‫ہمیشہ کے لیے تم سب سے بچا لوں گی۔"‬

‫‪287‬‬
‫شازار جو بہت احتیاط سے ہر کمرے میں تاک جھانک کر‬
‫رہا تھا جیسے ہی اس کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکا‬
‫جبران خود سے باتیں کرتا دکھائی دیا۔‬
‫"عوذر‪ ......‬بھابھی کو لے کر فرانس کیوں گیا؟ کیا وہ‬
‫جبران کا آدمی ہے؟" وہ سوچتے ہوئے جبڑے بھینچے‬
‫بہت احتیاط سے کھڑکی میں سے اندر کود گیا تھا۔‬
‫"کوئی ہوشیاری مت کرنا۔" شازار نے بیلٹ میں لٹکتے‬
‫ریوالور کو نکالتے ہوئے گھوڑا چڑھا کر جبران کی کن پٹی‬
‫پر رکھ دیا تھا۔‬
‫جبران کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔‬
‫"تم کیا کر رہے ہو مجھے نہیں معلوم‪.....‬مگر جو بھی غیر‬
‫سرکاری سرگرمیاں ہیں ساری روک دو۔"‬
‫"تم مجھے دھمکا نہیں سکتے‪......‬کیونکہ تمہاری پیاری‬
‫بھابھی میرے قبضے میں ہے۔" جبران نے اطمینان سے‬
‫کہا۔‬
‫شازار نے اس کی بات پر غور کیے بنا ہی تیزی سے اس‬
‫کی شرٹ اتاری تھی۔‬

‫‪288‬‬
‫"کوئی ہوشیاری نہیں وگرنہ تمہاری کھوپڑی اڑ جائے‬
‫گی۔" وہ شرٹ کو دو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہوئے‬
‫بوال۔‬
‫"دیکھو تمہیں مجھے پکڑ کر کوئی فایدہ نہیں ہو گا‪.....‬میں‬
‫تو کچھ بھی نہیں جانتا اس سب کے پیچھے عوذر‬
‫ہے‪......‬عوذر سومرو یہ سب کروا رہا ہے۔" وہ ایک دم‬
‫سے رونے والی شکل بناتے ہوئے بوال۔‬
‫"مجھے بیوقوف سمجھا ہے کیا؟ چپ چاپ بیٹھو۔" اس‬
‫کے ہاتھ پیچھے باندھتے ہوئے وہ غرایا۔‬
‫"میرا یقین کرو‪.....‬عوذر سومرو ہی ہے اس سب کے‬
‫پیچھے‪.....‬میں تو بس اس کا غالم ہوں۔" وہ پریقین انداز‬
‫میں کہہ رہا تھا۔‬
‫"ابھی جو میں نے سنا تم دالور الال اور عوذر کو مارنے‬
‫کی جو بات کر رہے تھے؟" وہ اس کی آنکھوں میں‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔‬
‫"ہاں یہ سچ ہے کہ میں حوریہ کو حاصل کرنا چاہتا ہوں‪،‬‬
‫مگر یہ سچ نہیں کہ جو بھی یہاں ہو رہا ہے اس میں میرا‬
‫ہاتھ ہے۔"‬

‫‪289‬‬
‫"کیا ہو رہا ہے یہاں اور پاکستان؟" شازار نے اپنا داؤ‬
‫کھیال۔‬
‫"عوذر سومرو کو پتہ ہے ماں قسم مجھے کچھ نہیں پتہ۔‬
‫پلیز مجھے اس سے بچا لو۔" وہ کہتے کہتے رونے لگا‬
‫تھا۔‬
‫شازار چند پل اسے دیکھتا رہا پھر قریب پڑی میز کو ٹھوکر‬
‫مارتے ہوئے جبڑے بھینچے گہری سانس بھر کر خود کو‬
‫شانت کیا۔‬
‫"عوذر کہاں گیا ہے؟"‬
‫"وہ اس وقت بائے روڈ فرانس جا رہا ہے وہاں سے‬
‫سمندری راستے سے ایک جزیرے پر چال جائے گا۔" اس‬
‫نے تیز لہجے میں بتایا۔‬
‫"ہوں۔ تم میرے ساتھ جاؤ گے۔ چلو‪ ".....‬شازار نے کہتے‬
‫ہوئے اس کے منہ پر پٹی باندھ دی تھی۔‬
‫پھر اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے کمرے سے نکال۔‬
‫"اگر یہ باس نہ و ویال کم ہو گا۔ دیکھتے ہیں اس کے آدمی‬
‫کیا ری_ایکشن کرتے ہیں۔" اس نے سوچتے وہے‬
‫دروازے سے باہر قدم رکھا تھا۔‬

‫‪290‬‬
‫"اپنے ہتھیار ڈال دو‪ ،‬اور اپنی جگہوں پر کھڑے رہو۔"‬
‫اس نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا تو سب کے سب اپنی‬
‫اپنی جگہ پر جم گئے۔‬
‫جبران کا رائٹ ہینڈ اس کی جانب بڑھا تھا مگر جبران نے‬
‫آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے جو کہا وہ سمجھ کر اپنی‬
‫جگہ ہی رک گیا۔‬
‫"باس کو کال کرو۔ کوئی یہاں گڑبڑ کرنے آیا ہے۔" وہ‬
‫کہتے ہوئے پلٹا۔‬
‫شازار کی پیشانی پر سوچ کے بل نمایاں ہوئے‪،‬اس نے‬
‫چونک کر جبران کو دیکھا جو آنکھوں میں معصومیت‬
‫لیے کسی بھیگی بلی کی مانند اسے دیکھ رہا تھا۔‬
‫وہ الجھا الجھا سا آگے بڑھتا رہا۔‬
‫جبران نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے بندھے‬
‫ہاتھوں سے اشارہ کیا تھا جسے اس کے آدمی سمجھ گئے‬
‫تھے۔‬
‫"باس کہہ رہے ہیں الہور اور اسالم آباد میں اس وقت جہاں‬
‫سب سے زیادہ پولیس آفیسرز اور عوام جمع ہے وہاں‬

‫‪291‬‬
‫دھماکہ کروا دو۔ہری اپ بوائز اپنے اپنے کیبن میں چلو۔"‬
‫یہ ایک انگریز تھا جو جبران کا لیفٹ ہینڈ تھا۔‬
‫دالور خان نے لیپ ٹاپ میں یو ایس بی لگاتے ہوئے وہ‬
‫فائل اوپن کی جس پر جے بی لکھا ہوا تھا۔‬
‫اندر ایک عدد ویڈیو تھی جسے اس نے پلے کر دیا۔‬
‫وہ دونوں اس وقت ایک بڑی مال کے پارکنگ ایریا میں‬
‫اپنی گاڑی کے شیشے چڑھائے پردے گرائے بیٹھے ہوئے‬
‫تھے۔‬
‫ویڈیو پلے ہوتے ہی ایک لڑکی سامنے آئی تھی‪ ،‬ہرنی کی‬
‫مانند ڈری ہوئی‪.....‬اور زخمی۔‬
‫"میرا نام نازیہ ہے‪....‬میں جبران کی کالس فیلو تھی‪،‬‬
‫مجھے اس کے سادہ طبیعت بہت بھائی اور میں اس سے‬
‫محبت کرنے لگی۔ وہ یونیورسٹی کے بعد اب مجھے تین‬
‫مہینے پہلے فرانس میں مال تھا جہاں میں اپنی آپریشن‬
‫سپیشلسٹ ڈاکٹر بن رہی تھی۔‬
‫وہ وہاں کیوں آیا تھا؟ اس نے مجھے کہا وہ اپنے ایک‬
‫دوست کو الیا ہے ‪.....‬جس کا کیڈنی ایشو ہے۔ وہ ویسا ہی‬

‫‪292‬‬
‫تھا سادہ مگر اس دن اس کی شخصیت میں مجھے نمایاں‬
‫تبدیلی نظر آئی وہ سب ضدی اور ہٹ دھرم نہیں رہا تھا۔‬
‫وہ مسلسل ہسپتال آتا رہتا تھا۔ مجھے لگتا کہ وہ بہانوں‬
‫بہانوں سے میرے پیچھے آتا ہے اس نے بھی یہ ہی ظاہر‬
‫کیا‪....‬ہم دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا اور لیونگ‬
‫میں رہنے لگے۔‬
‫ایک مہینہ پہلے اس کا اصلی چہرہ میرے سامنے آیا جب‬
‫اس نے‪.....‬اس نے مجھے ہماری خلوت کے لمحات کی‬
‫ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے وائرل کر دے گا اگر‬
‫مجھے میری عزت پیاری ہے تو میں‪...‬میں اس کی ہر بات‬
‫مانوں۔‬
‫غصے میں اس کے منہ سے اس کا سچ نکل گیا کہ‬
‫وہ‪.....‬وہ جبران ہے ہی نہیں‪.....‬وہ‪.....‬وہ پیٹر ہے ایک‬
‫دہشتگرد جس نے جبران غفور کو دوست بن کر ڈھسا تھا‬
‫جبران غفور کو مار کر اس نے اپنی پالسٹک سرجری‬
‫کرواتے ہوئے جبران کا روپ لے لیا تھا اور اسی کی طرح‬
‫جینے لگا مگر پیٹر کے کالے کارناموں میں جبران کا ذکر‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫‪293‬‬
‫میں اس کی ہر بات ماننے پر مجبور تھی کہ بےعزت نہیں‬
‫ہونا چاہتی تھی میں نے حامی بھر لی۔ اس دوران میں نے‬
‫اس کے کئی روپ دیکھے۔‬
‫وہ ایک بہت بڑا مجرم ہے‪.....‬وہ ایک ٹیررسٹ ہے۔"‬
‫لڑکی کی آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی۔‬
‫ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔‬
‫"وہ کڈنی‪ ،‬لیور اور ہارٹ ریکٹ چالرہا ہے‪ ،‬اس نے کئی‬
‫لڑکیوں کی عزتیں پامال کی اور کروائی ہیں۔‬
‫وہ اکیال نہیں ہے بہت سارے لوگ ہیں اس کے ساتھ‪،‬‬
‫امریکی‪ ،‬اٹلی‪ ،‬اسرائیلی‪.....‬اور بھی بہت سارے منافق‬
‫لوگ‪.....‬کل میں نے سنا تھا کہ وہ اگلے مہینے کی پندرہ‬
‫تاریخ کو پاکستان میں بہت بڑا دھماکہ کرنے والے ہیں۔‬
‫امریکہ میں بھی کچھ بڑا ہونے واال ہے جس کا الزام‬
‫مسلمانوں پر آئے گا اور‪.....‬اور پھر بارڈر پر جنگ چھڑ‬
‫جائے گی۔میں کچھ تصویریں شیئر کروں گی جو لوگ اس‬
‫کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جن کو میں نے دیکھا ہے۔" نازیہ‬
‫نے کہتے ہوئے کانپتے ہاتھوں میں تھامی تصویریں‬
‫سکرین پر شو کی تھیں۔‬

‫‪294‬‬
‫"وہ بہت ظالم ہے‪ ،‬اس نے مجھے مار دینا ہے مگر میں‬
‫چاہتی ہوں کہ یہ ویڈیو محفوظ ہاتھوں تک پہنچ جائے۔"‬
‫ویڈیو ختم ہو چکی تھی۔‬
‫وہ دونوں ایک لمحہ خاموشی سے سیاہ ہوئی سکرین کو‬
‫دیکھتے رہے۔‬
‫"آج پندرہ تاریخ ہے‪......‬اس کا پالن مجھے سمجھ آ گیا‬
‫ہے‪ ،‬وہ پہلے پاکستان میں بالسٹ کروائے گا‪ ،‬اس کے‬
‫آدمی وہاں پر موجود اپنے ہی گورے آدمیوں کو آگے کر‬
‫دیں گے‪ ،‬وہاں دنگے فساد ہوں گے اور ادھر امریکہ میں‬
‫دھماکہ ہو گا جس سے لگے گا کہ مسلمانوں نے بدلہ لیا‬
‫ہے‪......‬امریکی حکومت اشتعال میں آ جائے گی‪ ،‬وہاں ان‬
‫کے آدمی دنگے فساد بڑھا دیں گے اور مانگ کریں گے کہ‬
‫انہیں انصاف چاہیے‪ ،‬سفیروں کو نکالنے کی ڈیمانڈ‪ ،‬درآمد‬
‫برآمد کی رکوائی کی مانگ۔عام انسان جو کچھ بھی نہیں‬
‫جانتا ہو گا ان کے جھانسے میں آ جائے گا اور یوں دونوں‬
‫ملک کی عوام انصاف مانگتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں‬
‫گے‪....‬اور پھر ان سب کا نتیجہ جنگ نکلے گا۔" شاہزیب‬
‫نے تیزی سے کہا۔‬
‫دالور خان نے بےاختیار لب کچلے۔‬
‫‪295‬‬
‫"ہمیں آئی ایس آئی کو اطالع کرنی ہو گی۔یہ کام ہم تنہا‬
‫نہیں سنبھال سکتے‪.....‬بہت زیادہ رائتہ پھیالنے کی سوچ‬
‫رہا ہے یہ جبران‪.....‬میرا مطلب پیٹر نے۔"‬
‫"صرف پیٹر ہی نہیں دالور! اس کے ساتھ اور بھی کئی‬
‫لوگ شامل ہیں جو ہم مسلمانوں کا نام استعمال کر رہے‬
‫ہیں۔" شاہزیب کو اس کی بات ناگوار گزری تھی۔‬
‫"ہمیں دنیا کو معلوم نہیں ہونے دینا کہ کوئی جبران نامی‬
‫شخص پاکستانی تھا‪.....‬اس جیسے بیوقوف جو گوروں‬
‫سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں اور بیوقوف بن جاتے‬
‫ہیں ان کے متعلق کوئی نہ ہی جانے تو ٹھیک رہے‬
‫گا‪.....‬اور اگر یہ بات آئی ایس آئی تک پہنچی تو ہمارے‬
‫چیف ضرور امریکہ کی انٹیلیجنس ایجنسی سے رابطہ‬
‫کریں گے مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر بات بہت‬
‫بڑھ جائے گی‪ ،‬اور کیا پتہ کہ کوئی ثابت بھی کر پائے یا‬
‫نہیں کہ وہ جبران نہیں پیٹر ہے۔" شاہزیب نے بےچینی‬
‫سے پہلوؤں بدال۔‬
‫"ہوں اوکے میں تمہارے ساتھ ہوں۔" دالور اس کے شانے‬
‫پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال۔‬

‫‪296‬‬
‫"مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی‪ ،‬سٹیفن نے کہا تھا‬
‫کہ اس کے آدمی نے ریکارڈ کی ہے ویڈیو؟"‬
‫"شاید وہ سب جانتا تھا‪ "......‬وہ دونوں بیک وقت ایک‬
‫ساتھ بولے تھے۔‬
‫"پہلے ہمیں پاکستان میں بالسٹ کروانے ہوں گے‪....‬تم‬
‫ایسا کرو دوبارہ سے شازار کا نمبر ٹرائے کرو میں مال‬
‫میں جاتا ہوں اور ایک عدد نیا سیم کارڈ اور موبائل خرید‬
‫کر اپنی ٹیم سے رابطہ کرتا ہوں‪....‬کیا پتہ کہ چارلی نے اس‬
‫موبائل فون میں کوئی چیپ وغیرہ لگائی ہو۔" شاہزیب نے‬
‫کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھوال تھا۔‬
‫وہ اپنی فیزکل لینگویج نارمل کرتے ہوئے مال کی اندرونی‬
‫جانب بڑھ گیا۔‬
‫اسے تالش تھی ایک موبائل والی شاپ کی۔‬
‫لیفٹ کے ذریعے وہ چوتھے فلور پر گیا موبائل شاپ سے‬
‫نیا موبائل اور سیم خریدا۔‬
‫"ڈی ایس پی شاہزیب خانزادہ؟" وہ شاپ سے جیسے ہی‬
‫نکاال کوئی اس کے ہمقدم ہوا تھا۔‬
‫اس نے رک کر گردن گھما کر اس شخص کو دیکھا۔‬

‫‪297‬‬
‫نیرو کٹی پھٹی جینز پر سفید کاٹن کی شرٹ پہن رکھی تھی‬
‫جس کے اوپر کے دو بٹن یوں ہی کھلے چھوڑے ہوئے‬
‫تھے۔ سنہری بال پیشانی پر بکھرے تھے‪ ،‬دائیں ہاتھ میں‬
‫دو عدد فرینڈشپ بینڈز پہن رکھے تھے‪ ،‬گردن پر دائیں‬
‫جانب کان کے نیچے شیر کا ٹیٹو تھا اور فولڈ کی آستینوں‬
‫سے دائیں کالئی پر بنوایا گیا عقاب کا ٹیٹو بھی نمایاں نظر‬
‫آ رہا تھا۔‬
‫وہ جس حلیے میں اس کے سامنے کھڑا تھا کوئی بگڑا ہوا‬
‫نواب زادہ لگ رہا تھا‪....‬مگر اسے کس طرح جانتا تھا؟‬
‫"جی‪ ،‬آپ کون؟" اس کی پیشانی پر سوالیہ بل نمایاں‬
‫ہوئے۔‬
‫"ہائے میں افنان رندھاوا۔" وہ شاہزیب کی جانب مصافحہ‬
‫کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بوال۔‬
‫"میں نے پہچانا نہیں؟" وہ ابھی بھی کنفیوژ تھا۔‬
‫"آپ مجھے نہیں پہچانتے‪ ،‬مگر میں آپ کو جانتا ہوں۔‬
‫مشن ست رنگا میں‪.....‬میں بھی شریک ہوں۔ باقی آپ میرے‬
‫متعلق اپنے دوست ضیاء سے رابطہ کر لیں۔" اس نے‬
‫کہتے ہوئے قدم آگے بڑھا دیئے تھے۔‬

‫‪298‬‬
‫شاہزیب تیزی سے ضیاء کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔‬
‫"یہ افنان رندھاوا کون ہے؟ اور تم نے اسے ہمارے مشن‬
‫کے متعلق کیوں بتایا؟ کہا تھا نا کہ یہ ایک بہت خاص اور‬
‫سینسٹیو مشن ہے پھر بھی باز نہیں آئے۔" ضیاء نے‬
‫جیسے ہی کال اٹینڈ کی وہ بھڑک اٹھا تھا۔‬
‫"میری بات تو سن لیں باس یار!‪ "....‬ضیاء منمنایا۔‬
‫"ہاں سناؤ؟" اکتاہٹ بھرے لہجے میں بوال۔‬
‫"وہ کوئی عام انسان نہیں ہے‪"....‬‬
‫"تو کیا آسمان سے اترا فرشتہ ہے؟ یا پھر درخت سے آگا‬
‫ہوا پھل؟" ضیاء کی بات کاٹتے ہوئے وہ دبے دبے غصے‬
‫میں بوال۔‬
‫"وہ ایک آئی ایس آئی آفیسر ہے۔پرسوں وہ مجھ سے ملے‬
‫تھے اور بتایا کہ آج یعنی پندرہ تاریخ کو بالسٹ ہونے واال‬
‫ہے جہاں پر زیادہ لوگ جمع ہوں گے‪ .....‬انہوں نے کہا کہ‬
‫یہ کام ان کا ہے‪ ،‬مگر ہم ان کی مدد ضرور کر سکتے‬
‫ہیں۔میں اور شہزاد ان کی ٹیم کے ساتھ ہیں‪....‬اور ہم ان‬
‫جگہوں پر جانچ کر رہے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں لوگ‬

‫‪299‬‬
‫جمع ہیں۔"ضیاء نے مختصر سا بتایا وہ کچھ حد تک‬
‫مطمئن ہو گیا تھا۔‬
‫چند پل وہاں کھڑا رہا پھر پلٹ کر تیز قدموں سے پارکنگ‬
‫ایریا کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫شازار نے جبران کے فون سے دالور خان کو کال کی تھی‬
‫اور جو بھی وہاں ہوا سب بتا دیا۔‬
‫"میری بات غور سے سنو شازار! اس وقت کو تمہارے‬
‫پاس ہے وہ جبران نہیں پیٹر ہے‪ ،‬دہشتگردوں کا ممبر۔"‬
‫دالور خان کی بات پر شازار چونکا۔‬
‫"نہ نہ کوئی ری ایکٹ مت کرنا‪.....‬بلکل نارمل رہو‪ ،‬اور‬
‫اسے اس کا ڈرامہ جاری رکھنے دو اور حور تک پہنچ‬
‫جاؤ‪.....‬ہم تب تک یہاں سنبھال کر شام تک ان شاءہللا‬
‫تمہارے پاس ہوں گے جزیرے پر۔" دالور نے کہا تو وہ‬
‫اوکے کہتے ہوئے دور تک نگاہ دوڑانے لگا کشتی پر‬
‫محض وہ دونوں ہی سوار تھے۔‬
‫"سنو! کچھ ڈرامہ کریٹ کر کے اس کا فون پانی میں‬
‫پھینک دو‪ ،‬اور جتنی ہو جبران کی حفاظت کرنا کیونکہ وہ‬

‫‪300‬‬
‫کئی مجرموں کے متعلق جانتا ہے ہمیں وہ زندہ چاہیے۔"‬
‫شاہزیب نے فون پکڑ کر کان سے لگاتے ہوئے کہا۔‬
‫"اوکے۔تم لوگ ہمیشہ اپنی مرضی چالتے ہو‪......‬میں‬
‫چھوٹا ضرور ہوں مگر عقل مجھ میں بھی ہے‪....‬مجھے پر‬
‫یقین ہی نہیں کرتے‪،‬تم دونوں بھاڑ میں جاؤ۔بھابھی کو میں‬
‫تنہا ہی بچا لوں گا۔"‬
‫"واہ بھئی بہت کوئیک سروس ہے تمہاری۔" سامنے سے‬
‫شاہزیب ہنسا تھا۔‬
‫شازار نے مصنوعی غصے سے لب بھینچے اور فون پرے‬
‫اچھال دیا جو سیدھا پانی میں جا گرا تھا۔‬
‫"اب میں تنہا ہی عوذر کو پکڑوں گا اور یہ ثابت کر دوں گا‬
‫کہ اصل میں جبران وہ ہے تم بےقصور ہو۔" شازار نے‬
‫سختی سے کہتے ہوئے رخ پھیر لیا‬
‫پیٹر اس کے پلٹ جانے پر شاطرانہ سی مسکراہٹ لیے اس‬
‫کی پشت دیکھنے لگا۔‬
‫****‬
‫"اوکے بوائز تو کام شروع کریں۔" افنان نے ان دونوں کو‬
‫اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔‬

‫‪301‬‬
‫وہ دونوں پلٹ کر پیچھلی سیٹ پر بیٹھے افنان کو دیکھنے‬
‫لگے۔‬
‫"سر‪ !....‬مگر آپ اس کے گھر داخل کیسے ہوں گے؟ جب‬
‫سے ہمارے متعلق علم ہوا ہو گا ڈیفنیٹلی اس نے سکیورٹی‬
‫بڑھا دی ہو گی۔وہ نہ ہو کر بھی اپنے گھر موجود ہے۔"‬
‫شاہزیب نے کہا۔‬
‫"کال می افنان‪.....‬اور ویسے بھی ایک بات بتاؤ پہلی نظر‬
‫میں دیکھتے ہوئے تم نے مجھے کیا سمجھا تھا؟"‬
‫"یہ ہی کہ کوئی غنڈہ موالی‪ ،‬بگڑا ہوا امیر زادہ۔"‬
‫"رائٹ‪ ،‬یہ گیٹ اپ اسی لیے تو ہے۔ میں اپنی پوری تیاری‬
‫کر کے آیا ہوں‪ ،‬میں وہاں پیٹر کا کالس فیلو بن کر جاؤں گا‬
‫جو ان کی گینگ میں شامل ہونا چاہتا ہے‪ ،‬ایک وائز ریکارڈ‬
‫ہے جس میں اس کی آواز میں کہا ہوا ہے کہ میں تمہیں‬
‫ملوں گا گھر پر آ جانا۔"‬
‫"اگر یہاں کچھ گڑبڑ ہوئی تو امریکہ کے شہر شکاگو میں‬
‫موجود ان کے آدمی بالسٹ کر دیں گے‪.....‬اور ادھر الہور‬
‫اور اسالم آباد میں بھی‪....‬ہمیں سب سے پہلے سارے‬

‫‪302‬‬
‫بالسٹ رکوانے ہوں گے۔" شاہزیب نے گاڑی اسٹارٹ کرتے‬
‫ہوئے کہا۔‬
‫"ہوں۔ مگر پہلے یہاں واال چیپٹر کلوز کرتے ہیں۔وہاں‬
‫شکاگو میں فہد اپنی ٹیم کے ساتھ موجود ہے وہ سنبھال‬
‫لے گا اور ہم یہاں سے فری ہو کر شکاگو کے لیے فالئی‬
‫کریں گے۔" افنان نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے لیپ ٹاپ‬
‫دالور کی سمت بڑھایا تھا لیپ ٹاپ پر وہ سب واضح دیکھ پا‬
‫رہا تھا۔‬
‫پیٹر کا گھر اور ہر کمرہ‪ ،‬ہر ایک فرد۔‬
‫"ان سب کا حملہ کرنے واال یونٹ یہاں جبران یعنی پیٹر کے‬
‫گھر پر موجود ہے‪ ،‬وہ سب حملے کرتے اور کرواتے‬
‫ہیں‪"....‬‬
‫افنان نے دونوں سیٹوں پر کہنیاں ٹکاتے ہوئے جھک کر‬
‫بیک مرر میں خود کو دیکھتے ہوئے بالوں میں انگلیاں‬
‫چالئی تھیں۔‬
‫شاہزیب نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔‬
‫"مجھے تو ابھی بھی آپ بگڑے ہوئے نواب لگ رہے‬
‫ہیں۔" وہ صاف گوئی سے بوال تو افنان مسکرا دیا۔‬

‫‪303‬‬
‫"وہ تو میں ہوں ہی۔ خیر نیکسٹ سٹاپ پر مجھے اتار دینا‬
‫تم لوگ یہاں سے ہی مجھے گائیڈ کرو گے کہ کوئی گڑبڑ‬
‫تو نہیں۔" اس نے اشارہ لیپ ٹاپ کی جانب کرتے ہوئے کہا۔‬
‫"یس سر۔" شاہزیب نے رفتار کم کر دی تھی۔‬
‫پھر گاڑی رک گئی اور وہ چھچھوروں کی مانند گاڑی میں‬
‫سے نکال تھا۔‬
‫شاہزیب نے دالور خان کو دیکھا جو اس کے یوں منہ‬
‫کھولنے پر مسکرا رہا تھا۔‬
‫"کسی کو لباس سے جج نہیں کرنا چاہیے‪ ،‬بڑے بڑے‬
‫آفیسر بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔" دالور نے اس پر چوٹ‬
‫کی تھی۔‬
‫"مذاق تھا؟ ہنسنا تھا؟" وہ چڑ کر بوال۔‬
‫"ہوں ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے زور سے اثبات میں‬
‫سر ہال کر کہا۔‬
‫****‬
‫دو بج چکے تھے‪.....‬‬

‫‪304‬‬
‫ضیاء لوگوں نے افنان کی ٹیم کے ساتھ مل کر الہو اور‬
‫اسالم آباد میں چھپے دہشتگردوں کے چھوٹے سے گروہ‬
‫کو پکڑ لیا۔‬
‫بم بھی ڈفیوژ ہو چکے تھے اب انہیں انتظار تھا تو بس‬
‫شکاگو سے فہد کے فون کال کا۔ جو اپنی ٹیم کے ساتھ‬
‫ہوتے شکاگو میں دھماکہ آوار شخص ڈھونڈھ رہے تھے۔‬
‫شاہزیب نے برگر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سر سیٹ کی‬
‫پشت سے ٹکایا اور سامنے والی سیٹ پر پڑے لیپ ٹاپ پر‬
‫نگاہ ڈالی۔‬
‫افنان پیٹر کے گھر میں یوں دندناتا پھر رہا تھا جیسے وہاں‬
‫سب ٹھیک ہو‪.....‬‬
‫" دشمنوں کے درمیان شیر کی مانند گھومنا چاہیے۔"‬
‫افنان کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ چونک‬
‫کر سیدھا ہوا۔‬
‫"میں تو کچھ بھی نہیں بوال سر!" اس نے کہا تو افنان‬
‫ہنس دیا۔‬
‫"شکل پڑھنے میں میرا کوئی جواب نہیں۔" افنان کی بات‬
‫پر وہ لیپ ٹاپ کا کیمرہ چیک کرنے لگا۔‬

‫‪305‬‬
‫"کیمرہ آف ہے۔" افنان نے کہا تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہو‬
‫بیٹھاتبھی اس کی نگاہ سامنے بیک مرر پر پڑی تھی۔‬
‫جہاں ایک سیاہ ڈوٹ نظر آیا۔‬
‫"سر! بیک مرر سے پیچھے دیکھتے ضرور ہیں مگر‬
‫کیمرے سے نہیں۔" شاہزیب نے کہا تو وہ قہقہہ لگا کر‬
‫ہنسا تھا۔‬
‫"مجھے فکر ہے تم جیسے قابل آفیسر پر۔" افنان رندھاوا‬
‫نے سچے دل سے کہا تو وہ مسکرا دیا۔‬
‫"پتہ نہیں حور کس حال میں ہو گی۔" دالور نے ٹھنڈی آہ‬
‫بھرتے ہوئے اپنی ریسٹ واچ پر ہاتھ پھیرا یہ وہ ہی گھڑی‬
‫تھی جو حور نے اسے تحفے میں دی تھی جو وہ توڑ آئی‬
‫تھی‪.....‬جسے دالور خان نے دوبارہ سے اسی طرح ہی‬
‫ریپیئر کروا لیا تھا۔‬
‫شاہزیب کا فون رنگ کیا وہ دالور خان کا شانا تھپک کر‬
‫فون کی جانب متوجہ ہوا‪ ،‬کوئی انجان نمبر تھا۔‬
‫وہ حیرانگی سے پہلے فون کی سکرین دیکھتا رہا پھر کال‬
‫اٹینڈ کرتے ہوئے فون کان سے لگا لیا۔‬

‫‪306‬‬
‫"ش شاہزیب! م میں ہوں حور‪ "......‬ہچکیوں میں ڈوبی‬
‫حور کی آواز سن کر وہ تیزی سے سیدھا ہو بیٹھا تھا۔‬
‫"حور!‪ ....‬تم ٹھیک ہو؟ دیکھو پریشان نہیں ہونا شازار‬
‫تمہارے پیچھے ہی ہے۔"‬
‫"شاہزیب! پتہ نہیں ی یہ مجھے کہاں لے آیا ہے‪ ،‬دور دور‬
‫تک کوئی انسان نہیں ہے۔" دور جزیرے پر ادھر اُدھر‬
‫ہراساں نگاہیں دوڑاتی حور کے وجود میں جان باقی نہیں‬
‫تھی وہ ایک دم سے بےجان سی ہو کر گھٹنوں کے بل‬
‫زمین پر گر گئی تھی۔‬
‫دالور خان نے ہاتھ بڑھا کر شاہزیب سے فون تھام لیا۔‬
‫"وہ مجھے پتہ نہیں کہاں لے آیا ہے‪ ،‬شام ہو رہی ہے م‬
‫میں کیسے رہوں گی یہاں‪....‬مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" اس‬
‫کی آنسوؤں میں غوطہ زن آواز سن کر دالور خان کا دل‬
‫چاہا رہا تھا کہ وہ عوذر سومرو اور پیٹر دونوں کو ہی ختم‬
‫کر دے۔‬
‫اس نے تیزی سے اپنے فون پر کوئی ٹیکسٹ ٹائپ کیا اور‬
‫کسی کو بھیج دیا تھا اور پھر حور کی جانب متوجہ ہوا۔‬

‫‪307‬‬
‫"حور! بی ہیو یور سیلف‪.....‬اینڈ پلیز بی سٹرانگ میں آ رہا‬
‫ہوں۔ تم ابھی جلدی سے مجھے لوکیشن واٹس ایپ کرو۔"‬
‫"س سنگل نہیں ہیں کال بھی ڈسکنیکٹ‪ "....‬بات مکمل‬
‫ہونے سے پہلے ہی کال ختم ہو چکی تھی۔‬
‫"میں جا رہا ہوں شاہزیب!‪....‬تم لوگ یہاں سنبھال لو‪.....‬م‬
‫مجھے اس وقت حور کے پاس ہونا چاہیے۔" وہ تیزی سے‬
‫کہتے ہوئے فون پر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا تھا۔‬
‫"اوکے ڈونٹ وری ہم سنبھال لیں گے۔"‬
‫"ڈی سی پی شاہزیب! آپ بھی جائیں‪.....‬پیٹر ایک بہت‬
‫شاطر مجرم ہے‪ ،‬آپ کا وہاں جانا ضروری ہے۔ میں آگے‬
‫سب سنبھال لوں گا۔" افنان جو فون پر سب سن چکا تھا‬
‫رسانت سے بوال تو وہ یس سر کہہ کر رہ گیا۔‬
‫تبھی فہد کی کال موصول ہوئی تھی اس نے خوش خبری‬
‫سنائی تھی کہ بم دھماکہ آوار شخص ان کی گرفت میں ہے‬
‫اور وہ لوگ بم ڈفیوژ کر رہے ہیں۔‬
‫"ہم آ رہے ہیں آپ وہاں سب کو بےہوش کر کے نکلنے کی‬
‫کریں۔" شاہزیب نے کہا تو افنان اثبات میں سر ہالتے ہوئے‬
‫اپنے منہ پر ماسک لگا کر بیگ میں الیا ہوا کیڑے مکوڑے‬

‫‪308‬‬
‫کش اسپرے کی بوتل میں بھر کر الیا ہوا کلوروفارم کی‬
‫نکالتے ہوئے کچن سے نکل گیا۔‬
‫"یہاں مچھر بہت ہو گئے ہیں اوپر سے کاکروچ تو‬
‫دیکھو۔میں نے کتنی مرتبہ پیٹر سے کہا ہے کہ وہ صاف‬
‫ستھرا ماحول رکھا کرو مگر ہمیشہ سے گند ڈالنے کی‬
‫عادت ہے اسے۔" بلند آواز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ سپرے‬
‫کر رہا تھا۔‬
‫جہاں جہاں لوگ تھے شاہزیب اسے گائیڈ کر رہا تھا۔‬
‫دالور خان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔‬
‫"اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک چور کبھی بھی ایک سپاہی‬
‫کی مانند شاطر نہیں ہوتا۔"‬
‫اسے پیٹر کے گھر پر تاال لگا کر کیمرے میں ہائے کہتے‬
‫دیکھ شاہزیب نے مسکراتے ہوئے کہا اور لیپ ٹاپ شٹ‬
‫ڈاؤن کرتے ہوئے اطمینان بھری سانس لی۔‬
‫حور نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں عوذر جزیرے کے‬
‫دوسرے حصے گیا ہوا تھا وہ تیزی سے کوئی اونچی جگہ‬
‫تالشنے لگی مگر کافی دیر تک بھی فون نے سگنل کیچ‬

‫‪309‬‬
‫نہیں کیے تھے تبھی اس نے عوذر کو آتے دیکھا اور‬
‫بےاختیار ڈرتے ہوئے ہڑبڑا کر فون پانی میں اچھال دیا تھا۔‬
‫وہ ایک ہاتھ میں لکڑیاں سمیٹے اسی جانب آ رہا تھا۔‬
‫وہ اس سے رخ پھیر کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔‬
‫" تمہیں بھوک لگی ہو گی نا۔" وہ مچھلی بھون کر کیلے‬
‫کے پتے پر رکھ کر اس کی جانب بڑھ آیا تھا۔‬
‫"نہیں مجھے بھوک بلکل بھی نہیں لگی۔" اس نے حقارت‬
‫سے کہتے ہوئے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور وہاں‬
‫سے اٹھ گئی۔‬
‫"کیا اب تم ساری زندگی یوں ہی مجھ سے جھگڑتی رہو‬
‫گی؟" وہ منمنایا۔‬
‫"اس خوش فہمی میں ہرگز مبتال مت ہونا عوذر‬
‫سومرو!‪ ".....‬وہ بلند آواز میں کہتی آگے بڑھ گئی تھی اور‬
‫وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔‬
‫کوئی ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ ہیلی کاپٹر کی آواز سن کر‬
‫حور کی ہمت بڑھی وہ تیزی سے اٹھ کر کوئی اونچی جگہ‬
‫تالشنے لگی۔‬

‫‪310‬‬
‫عوذر اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھا‬
‫تھا اور بھاگ کر اس تک پہنچا۔‬
‫"یہ تم کیا کر رہی ہو؟ ہوش کے ناخن لو اور آرام سے بیٹھ‬
‫جاؤ۔" اس کا بازو تھام کر جھنجھوڑتے ہوئے درشتی سے‬
‫بوال۔‬
‫"بکواس بند کرو‪ ،‬میں تمہیں کبھی نہیں بخشنے والی۔"‬
‫اسے خود سے دور دھکیلتے ہوئے وہ اپنے گلے میں‬
‫لٹکتا سفید سٹالر اتار کر چند قدم آگے بڑھی اور ایک بڑے‬
‫پتھر پر چڑھنے ہی والی تھی کہ عوذر نے ایک جھٹکے‬
‫سے اسے اپنی جانب کھینچا۔‬
‫"تم میری ہو حور! تم وہاں رہو گی جہاں میں رہوں گا۔"‬
‫اس کے قریب ہوتے ہوئے وہ سخت گیر لہجے میں گویا‬
‫ہوا۔‬
‫"السٹ لوکیشن یہ ہی تھی‪ ".....‬افنان نے لیپ ٹاپ کی‬
‫سکرین پر لوکیشن دیکھتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫"سر یہاں ہم لینڈ نہیں کر پائیں گے۔" پائلٹ نے کہا۔‬

‫‪311‬‬
‫"فالئی ڈائیونگ کرنے کا من ہو رہا ہے۔" شاہزیب نے کچھ‬
‫سوچتے ہوئے کہا تو وہ دونوں ہی اس کی بات پر مسکرا‬
‫دیئے۔‬
‫"سردار صاحب فالئی ڈائیونگ تو آتی ہے نا؟ کہیں اڑتے‬
‫اڑتے زمین پر تو نہیں جا گرو گے۔" شاہزیب نے اسے‬
‫چھیڑتے ہوئے کہا۔‬
‫"چھوٹو تم اپنی سوچو‪ ،‬کہیں تمہارے وزن سے پیراشوٹ‬
‫کی رسیاں تمہیں دھوکا نہ دے دیں۔" وہ اس کی باڈی پر‬
‫چوٹ کرتے ہوئے بوال۔‬
‫"کسی دن وزن کر لینا تم مجھ سے زیادہ موٹے ثابت ہو‬
‫گے۔" شاہزیب نے آنکھوں پر چشمہ لگاتے ہوئے لقمہ دیا۔‬
‫افنان ان کی نوک جھوک پر مسکرا دیا تھا‪.....‬‬
‫"اس مرتبہ تو سردار نے گن ساتھ رکھی ہے نا؟" نیچے‬
‫جاتے ہوئے بلند آواز میں استفسار کیا تھا۔‬
‫وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور اس کے پیچھے کود گیا۔‬
‫تھا۔‬
‫ان کے زمین پر پہنچنے تک دوسرے کنارے سے شازار‬
‫کی بوٹ بھی کنارے آ لگی تھی۔‬
‫‪312‬‬
‫عوذر ہڑبڑا کر حور کا ہاتھ تھام کر اسے کھینچتے ہوئے‬
‫اس جانب بڑھا جدھر پیٹر تھا۔‬
‫دالور خان کو دیکھ کر حور کی جان میں جان آئی تھی۔‬
‫اس کی ہمت بڑھی اور وہ پوری قوت سے اپنا آپ اس سے‬
‫چھڑوا کر دالور خان کی جانب بڑھی تھی۔‬
‫وہ بھی پیراشوٹ اتار کر آنکھوں پر سے چشمہ اتار کر‬
‫پرے اچھالتے ہوئے اس کی جانب تیز قدموں سے بڑھا تو‬
‫حور اس کی باہوں میں آ سمائی تھی۔‬
‫"دالور!" اس کے سسکیاں دالور کے سینے میں چھپ‬
‫گئی تھیں۔‬
‫”‪“Oh strong girl…..I’m here for you.‬‬
‫اس کو اپنی آغوش میں سمیٹتے ہوئے وہ محبت بھرے‬
‫لہجے میں بوال تھا۔‬
‫چند پل یوں ہی اس کی آغوش میں وہ روتی رہی۔‬
‫اِدھر شازار اور شاہزیب نے پیٹر کے ہاتھ کھول کر اسے‬
‫دبوچ لیا تھا۔‬

‫‪313‬‬
‫"اچھا سنو‪ !....‬تھوڑا چھوڑو مجھے اس عوذر سومرو کو‬
‫تو ذرا دیکھوں۔" دالور نے غصے سے آنکھیں پھاڑ کر‬
‫عوذر کو دیکھا تھا جو خالی خالی نگاہوں سے ان کی جانب‬
‫ہی دیکھ رہا تھا۔‬
‫"عوذر‪ "!.....‬پیٹر نے شاہزیب کے بیلٹ سے گن کھینچ کر‬
‫عوذر کی جانب اچھالی تھی۔‬
‫"مار دو اس دالور کو۔" جبران نے پھنکارتے ہوئے کہا۔‬
‫دالور خان ‪،‬حور کو پتھر پر بیٹھا کر عوذر کی جانب پلٹا تھا‬
‫جو اس پر گن تان چکا تھا۔‬
‫حور دالور خان کا ہاتھ تھام کر اٹھتے ہوئے سخت گیر‬
‫نگاہوں سے عوذر کو گھورنے لگی۔‬
‫"تم مجھے مار دو عوذر سومرو! کیونکہ دالور خان کے‬
‫سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے جڑنے نہیں دوں‬
‫گی۔" اس کے لہجے کی مضبوطی اور بات پر عوذر کے‬
‫اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے۔‬
‫"میری بات سنو عوذر! یہ شخص تمہارا استعمال کر رہا‬
‫ہے‪ ،‬یہ ایک دہشتگرد جماعت کا رکن ہے‪ ،‬اس نے تمہارا‬
‫استعمال بم کی درآمد برآمد کے لیے کیا ہے۔یہ جبران‬

‫‪314‬‬
‫نہیں‪.....‬یہ پیٹر ہے۔" افنان رفتہ رفتہ اس کی جانب بڑھتے‬
‫ہوئے بول رہا تھا۔‬
‫"یہ دہشت پھیالنے والوں میں سے ہے‪....‬اس کی مت‬
‫سنو‪ "....‬افنان نے مزید کہا تھا وہ اس کے دماغ مینآ ہنی‬
‫بات بیٹھانے والے انداز میں بول رہا تھا۔‬
‫"یہ سب کا دشمن ہے تمہارا‪ ،‬میرا‪ .....‬انسانیت کا۔"‬
‫اس کی بات پر عوذر نے مڑ کر پیٹر کو دیکھا تھا۔‬
‫"تم چپ چاپ یہاں ہی کھڑے رہو دالور!" دالور آگے‬
‫بڑھنے لگا تو حور نے اس کا بازو تھام کر روک لیا ھا۔‬
‫"کچھ نہیں ہو گا مجھے تم وہاں چلو بوٹ میں۔" وہ اس‬
‫سے اپنا بازو نرمی سے چھڑوا کر بوال۔‬
‫وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات مانتے ہوئے آگے بڑھ‬
‫گئی تھی۔‬
‫وہ مسلسل عوذر کی نگاہوں کے احصار میں تھی‪.....‬وہ‬
‫سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے‪....‬ایک جانب حور کی‬
‫خوشی تھی ایک جانب اپنی خوشی‪.....‬‬
‫بہت ہمت کر کے اس نے پھر دالور پر گن تان دی‬
‫تھی‪....‬ساتھ ہی پلٹ کر کشتی کی جانب دیکھا جہاں حور بن‬
‫‪315‬‬
‫پانی کی مچھلی کی مانند تڑپ اٹھی تھی‪ ،‬عوذر زور کا‬
‫قہقہہ لگا کر ہنستے ہنستے ایک دم سے گن پھینک کر‬
‫گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا تھا۔‬
‫"میدان میں اترو عوذر سومرو! یوں ہار مت مانو‪.....‬میں‬
‫تمہیں اذیت ناک مار مارنا چاہتا ہوں‪ ،‬یوں کمزور مت بنو کہ‬
‫میں کمزوروں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔" دالور خان نے کہا تو وہ‬
‫گردن گھما کر حور کو دیکھنے لگا جو مسکرائی تھی۔‬
‫وہ کچھ سوچ کر اٹھا تھا اور اس کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے‬
‫لگا۔‬
‫دالور خان کے ساتھ الجھتے وقت وہ مسلسل مار کھا رہا‬
‫تھا اور ساتھ ساتھ حور کو بھی دیکھ رہا تھا‪.....‬‬
‫اسے مار پڑتی دیکھ وہ خوش ہو رہی تھی۔‬
‫"بس کرو دالور!" افنان جو مسلسل عوذر کو ہی نوٹ کر‬
‫رہا تھا کہ مار کھا رہا ہے تیزی سے آگے بڑھا۔‬
‫عوذر بےدم سا ہو کر زمین بوس ہو چکا تھا۔‬
‫"آئندہ کسی کی ماں ‪،‬بہن بیوی پر نگاہ تم کبھی نہیں رکھو‬
‫گے۔" وہ غصے سے عوذر کو گھورتا اس سے رخ پھیر‬
‫گیا تھا۔‬

‫‪316‬‬
‫شازار اور شاہزیب بھی ان کے نزدیک آ گئے تھے۔‬
‫"اب ان کا کیا کیا جائے؟"‬
‫"تم لوگ ایسا کرو عوذر کو گرفتار کر کے لے جاؤ اور‬
‫پیٹر میرے حوالے کر دو۔ وہ کیا ہے نا کہ اس سے باقی‬
‫کئی لوگوں کا نام بھی نکلوانا ہے۔"‬
‫"اوکے سر! بٹ میں اس میشن میں آپ کے ساتھ رہوں‬
‫گا۔" شاہزیب نے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اس کا شانا‬
‫تھپکنے لگا۔‬
‫"شیور‪ ،‬تمہارے جیسے قابل اور ایماندار آفیسرز کی اس‬
‫قوم اور ڈیپارٹمنٹ کو ضرورت ہے‪ ،‬اپنی یہ ایمانداری اور‬
‫ڈیوٹی سے محبت کبھی کھونا مت۔"‬
‫"یس سر!" اس نے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا تھا تو وہ‬
‫مسکرا دیا۔‬
‫"دالور!‪ ".....‬حور کے چنخ کر پکارنے ہر وہ سب چونک‬
‫کر اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے‪ ،‬وہ تیز رفتاری سے‬
‫کشتی میں سے بھاگ کر اتر رہی تھی۔‬
‫تبھی ایک فائر ہوا‪....‬حور کے قدم ڈگمگائے وہ ساکت‬
‫ہوئی‪.....‬‬

‫‪317‬‬
‫وہ سب آواز کی سمت پلٹے تھے‬
‫پیٹر نے جو گولی دالور پر چالئی تھی عوذر نے اسے اپنے‬
‫سینے پر لے لیا تھا۔‬
‫شاہزیب نے جھک کر ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھایا اور پیٹر کے‬
‫ہاتھ کا نشانہ لیتے ہوئے کھینچ کر پتھر دے مارا اس کے‬
‫ہاتھ سے ریوالور گر گیا تھا۔‬
‫عوذر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا‪....‬وہ دالور خان کے‬
‫شانے سے لگی ساکت پلکوں سے اسے دیکھ رہی تھی‪،‬‬
‫عوذر کو ہر لمحہ یاد آنے لگا جو اس نے حور کے ساتھ‬
‫گزارا تھا۔‬
‫"میں حور ہوں۔اور تم؟"‬
‫"تم نے اگر میرا سکلپچر بنا دیا تو وہ مجھے لے جائیں‬
‫گے۔"‬
‫"تمہارا جنگل بہت پیارا ہے۔"‬
‫"پروفیسر ہوش میں رہنا۔"‬
‫یک بعد دیگرے کئی جملے اس کی سماعتوں سے ٹکرا‬
‫رہے تھے۔‬

‫‪318‬‬
‫"تم مجھے مار دو عوذر سومرو! کیونکہ دالور خان کے‬
‫سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے جڑنے نہیں دوں‬
‫گی۔"‬
‫جان لبوں پر آ گئی تھی مگر وہ مسلسل جینے کی کوشش‬
‫کرتے ہوئے حور کو دیکھ رہا تھا۔‬
‫دالور خان اور افنان تیزی سے وہاں پڑی ایک لوہے کی‬
‫قدرے موٹی تار کو توڑ کر آگ کی جانب بڑھے تھے۔‬
‫"ہوش میں رہنے کی کوشش کرو عوذر!" شاہزیب نے‬
‫آگے بڑھتے ہوئے اس کے چہرے کو تھپکا تھا۔‬
‫"ایک دفعہ تم ک کہہ دو ک ک کہ عوذر سومرو ہوش میں‬
‫رہنا۔" اس نے حور کی جانب دیکھتے ہوئے سانسوں کی‬
‫ٹوٹتی ماال کے ساتھ کہا تھا۔‬
‫وہ خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔‬
‫" دالور خان کے سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے‬
‫جڑنے نہیں دوں گی۔" آخری جملہ اس کی سماعتوں سے‬
‫ٹکرایا تھا اور حلق میں اٹکی سانسیں پرواز کر‬
‫گئیں‪.....‬اس کی ساکت پلکیں اور کھلی ہوئی آنکھیں جو‬

‫‪319‬‬
‫حور پر ٹکی تھیں اس کی محبت کی گواہی دے رہی تھیں کہ‬
‫وہ ادھوری محبت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔‬
‫حور بےاختیار ہی پلٹ کر دالور خان کے شانے سے جا‬
‫لگی تھی اس کی آنکھوں سے چند آنسو رخساروں پر‬
‫پھسلے تھے کہ کسی نے اس کے محبوب کو بچاتے ہوئے‬
‫اپنی جان دے دی تھی‪......‬‬
‫افنان کے ہاتھ میں گرم کی گئی تار وہاں کی وہاں رہ گئی‬
‫تھی اور وہ جو حوریہ رائے کی خاطر مارنے مرانے پر تال‬
‫ہوا تھا اپنی جان خود ہی دے بیٹھا تھا‬
‫اس نے حور کی خوشی کو اپنی خوشی پر ترجیح دی‬
‫تھی‪....‬‬
‫پیٹر کو جب افنان رندھاوا نے تھرڈ ڈگری ٹارچر دیا تو اس‬
‫نے اپنے ساتھیوں کے نام اور ایڈریس بتا دیئے تھے‪ ،‬اور‬
‫یہ بھی کہ وہ حور کو محض اس لیے اغواء کرنا چاہتا تھا‬
‫کہ اس کے اعضاء بیچ سکے۔‬
‫وہ دونوں اسے اسی جزیرے پر لے گئے تھے اور افنان‬
‫رندھاوا نے شاہزیب سے اس کا انکاؤنٹر کرنے کو کہا وہ‬
‫تذبذب ہوا۔‬

‫‪320‬‬
‫"یہ زندہ رہا تو مزید اپنے جیسے کیڑے مکوڑے پیدا کرے‬
‫گا۔ تم فکر نہیں کرو میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کو جواب دہ ہوں‬
‫تم کسی کو نہیں‪....‬اور میں سب کو جواب دینے کا ہنر رکھتا‬
‫ہوں۔" وہ اس کے شانے پر تھپکی رسید کرتے ہوئے‬
‫مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بوال تھا۔‬
‫شاہزیب نے اثبات میں سر ہالتے ہوئے ریوالور سنبھاال‬
‫تھا۔‬
‫"تمہارے ساتھ کام کر کے اچھا لگا۔امید ہے مزید کیس بھی‬
‫ہم ساتھ سولو کریں گے۔" افنان نے کشتی میں سوار ہوتے‬
‫کہا۔‬
‫"ان شاءہللا سر!"‬
‫"کال می افنان رندھاوا!‪.....‬یار یہ سر ور مجھ سے ہینڈل‬
‫نہیں ہوتا۔" وہ کہتے ہوئے مسکرایا۔‬
‫شاہزیب ہنس دیا۔‬
‫"سردار دالور خان کی اگلے مہینے شادی ہے آپ کو میں‬
‫ایڈوانس میں انوائیٹ کر رہا ہوں‪ ،‬ضرور آئیے گا ہمیں اچھا‬
‫لگے گا۔" شاہزیب نے افنان سے مصافحہ لیتے ہوئے کہا۔‬
‫"ان شاءہللا۔"‬

‫‪321‬‬
‫اسے واپس آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور کائنات کی طبیعت‬
‫بےحد خراب تھی‪ ،‬بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔‬
‫کچن میں جھانکا تو کائنات کھانا بناتے ہوئے نجانے کن‬
‫خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔‬
‫"میں نے کہا تھا نا کہ آرام کرنا یہ کام تو ہوتے ہی رہتے‬
‫ہیں۔" وہ کچن میں داخل ہوتے ہوئے بوال‬
‫کڑاہی میں گوشت جل رہا تھا‪ ،‬کافی پوری طرح سے خراب‬
‫ہو چکی تھی۔‬
‫اور وہ کٹر بورڈ پر ڈھیر ساری مرچیں کاٹے جا رہی تھی۔‬
‫آگے بڑھ کر برنر بند کیا اور اس کی کالئی تھام کر دوسرے‬
‫ہاتھ سے چھوری تھام لی۔‬
‫"کائنات!‪.....‬تم دن با دن کمزور پڑتی جا رہی ہو‪ ،‬کوئی‬
‫پریشانی ہے کیا؟" اس کی ویران آنکھوں تلے سرخ حلقے‬
‫دیکھتے ہوئے شاہزیب تڑپ کر رہ گیا تھا۔‬
‫"م مجھے؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔" وہ بری طرح سے‬
‫سوچوں سے چونک کر بولی تھی۔‬
‫شاہزیب کو اس کی غیر دماغی کی سمجھ نہیں آئی۔‬

‫‪322‬‬
‫"نہیں کچھ ہوا ہے‪ ،‬ادھر آؤ‪ ".....‬وہ اسے باہوں میں بھر‬
‫کر کچن سے نکل کر کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔‬
‫"کائنات! پلیز بتاؤ۔ تم اتنے تھوڑے سے دنوں میں کیا‬
‫سے کیا ہو گئی ہو‪.....‬کیا ہوا ہے؟" وہ اس کو بیڈ پر لٹاتے‬
‫ہوئے خود اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔‬
‫"میرا دل مر رہا ہے‪ ،‬دھڑکنیں کم ہو رہی ہیں۔" وہ اس کی‬
‫جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے نجانے کیا کہہ رہی‬
‫تھی مگر شاہزیب نے اس کے لہجے میں چھپا درد اپنے‬
‫دل میں اترتا محسوس کیا تھا۔‬
‫"کائنات!‪ "......‬اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتا اس کا‬
‫فون رنگ کیا تھا۔‬
‫"اسالم علیکم! شاہزیب تم اور کائنات ابھی تک پہنچے‬
‫نہیں‪ ،‬فیض اور اس کی فیملی بھی آ چکی ہے۔" تابندہ‬
‫پوچھ رہی تھی۔‬
‫"و علیکم السالم! کائنات کو بخار ہے‪ ،‬معزرت خواہ ہوں‬
‫یار ہم شریک نہیں ہو پائیں گے تمہیں اور فیض کو نکاح‬
‫کی ڈھیروں مبارکباد۔" اس نے پیروں کو جوتوں سے آزاد‬
‫کرتے ہوئے بیڈ پر رکھ لیا تھا۔‬

‫‪323‬‬
‫اس کی بات پر کائنات نے چونک کر اس کی جانب دیکھا‬
‫تھا۔‬
‫"آج تابندہ کا نکاح ہے ہم نے جانا تھا مگر اب جب کہ‬
‫تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تو ریسٹ کرو۔"‬
‫وہ فون ایک جانب ڈال کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھ‬
‫چکا تھا۔‬
‫"کیا؟ تابندہ کا نکاح؟ آپ کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟"‬
‫وہ چونک کر اس کی جانب دیکھنے لگی تھی۔‬
‫"کیوں بھئی میں کون سا اس کا ابا ہوں جو میں نہ ہوں گا‬
‫تو وہ فیض کے لیے رضا مندی نہیں دے گی۔"‬
‫"فیض؟"‬
‫"تابندہ کا شوہر‪......‬چلو اب بس مزید کسی کے بارے میں‬
‫بات نہیں ہو گی‪ ،‬اپنے متعلق بات‪"....‬‬
‫"ایم سوری‪ ،‬ایم سوری شاہزیب! م مجھے لگا آپ‪.......‬آپ‬
‫تابندہ سے شادی‪ "...‬بےاختیار سی ہو کر وہ اس کے گرد‬
‫بازو حائل کر چکی تھی اور بات اُدھوری چھوڑ کر پھوٹ‬
‫پھوٹ کے رو دی تھی۔‬

‫‪324‬‬
‫وہ ایک دم سے خاموش ہو کر چند پل تو ساکت بیٹھا اسے‬
‫روتا دیکھتا رہا"ایسا تم نے کیسے سوچ لیا؟" اس کا لہجہ‬
‫کتنا تکلیف سے بھرا ہوا تھا۔‬
‫"ایم سوری۔مگر میں یہ سب سوچنا نہیں چاہتی‬
‫تھی‪......‬میں کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتی۔"‬
‫"پھر سوچ سوچ کر آدھی کیوں ہو گئی ہو؟" وہ اسے‬
‫شانوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتے ہوئے حیرت انگیز‬
‫لہجے میں بوال۔‬
‫"آپ بھی تو تابندہ تابندہ کرتے تھے‪ ،‬اور فرانس جا کر‬
‫بھی مجھ سے بات کرنے کی بجائے اسی سے کرتے تھے‪،‬‬
‫اور‪.....‬اور اس پر یقین ہے کہتے تھے۔ تو میں کیا کرتی؟"‬
‫وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔‬
‫"کائنات! میں نے تمہیں اس لیے کال نہیں کی کیونکہ میں‬
‫تم سے بات کر کے محض تمہیں سوچنے لگتا‬
‫ہوں‪.......‬اسی لیے تابندہ کو کال کر کے کہا کہ میں کیس‬
‫سے دھیان ہٹا نہیں چاہتا تھا‪ ،‬اور یقین کی بات یہ کہ وہ‬
‫بڑی ہے‪ ،‬تمہارا خیال رکھے گی۔پتہ نہیں تم کیا کیا سوچنے‬
‫لگ گئی۔" وہ افسردہ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ‬
‫تھام چکا تھا۔‬
‫‪325‬‬
‫"ایم سوری‪......‬میں آپ کو کھونے سے بہت ڈرتی ہوں‪،‬‬
‫بچپن سے اب تک آپ کے بغیر جینا نہیں سیکھا۔" کائنات‬
‫نے اس ہاتھوں پر پیشانی ٹکا دی تھی۔‬
‫"پاگل میں کون سا تمہارے بغیر رہا ہوں۔ تم تو میری پہلی‬
‫اور آخری محبت ہو یار۔"‬
‫اظہار محبت پر کائنات‬
‫ِ‬ ‫اس کے شوخ لہجے میں کیے گئے‬
‫کے چہرے پر شرم کی اللی بکھر گئی تھی۔‬
‫"آئندہ ایسی غلطی سلط سوچیں کبھی مت پالنا‪ ،‬شاہزیب‬
‫خانزادہ کی زندگی‪ ،‬دل و دماغ میں محض کائنات رائے ہے‬
‫اور کوئی عورت میری بیوی کی جگہ نہیں لے سکتی۔" وہ‬
‫دھیمے لہجے میں بوال۔‬
‫وہ خوشی سے کھل اٹھی تھی۔‬
‫شاہزیب نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک‬
‫کیا جو اب نہ کے برابر تھا۔‬
‫"محبت کا اظہار بھی تو ضروری ہے نا جو آپ نہیں‬
‫کرتے۔"‬
‫"ابھی میں محبت کا اظہار نہیں کرتا؟" اسے صدمہ ہوا تھا۔‬
‫"ناں‪ ".....‬اس نے منہ بسورتے ہوئے نفی میں سر جھٹکا۔‬
‫‪326‬‬
‫"آئی لو یو کہہ کر اظہار کرنا ضروری نہیں ہوتا‪ ،‬بلکہ اپنے‬
‫پارٹنر کا ہر حال میں ساتھ دینا‪ ،‬کبھی تنہا نہ چھوڑنا اور‬
‫اس کی خوشیوں کا خیال رکھنا محبت ہے۔"‬
‫"جس طرح فلک شبیر ہر وقت سارا خان کو گالب رہتا رہتا‬
‫ہے آپ بھی مجھے دیا کریں نا۔" وہ معصومیت سے بولی‬
‫تو قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔‬
‫"ٹھیک ہے مسز شاہزیب خانزادہ! ہم آپ سے اب ہر روز‬
‫اظہار محبت کریں گے۔"‬
‫ِ‬
‫"کس طرح؟" وہ پرجوش انداز میں بولی۔‬
‫"کچھ مختلف انداز‪ ....‬آپ کے سارا اور فلک شبیر سے‬
‫بھی مختلف۔چلو آرام کرو۔" وہ اسے لیٹا کر خود اس کے‬
‫بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں چالنے لگا تھا وہ کئی‬
‫لمحے اس کو نرمی سے دیکھتی رہی پھر نیند کی آغوش‬
‫میں اترتی چلی گئی۔‬
‫شاہزیب دھیرے سے مسکرا کر اس کی پیشانی پر بوسا دیتا‬
‫آنکھیں موند گیا تھا۔‬
‫"مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے‪ ،‬ہمارے جوان غیر‬
‫ممالک کی بھی حفاظت کرنے پہنچ جاتے ہیں‪ ،‬اور مجرم‬

‫‪327‬‬
‫خواہ اپنا ہو یا پرایا اسے سزا دلوانے سے باز نہیں آتے۔تو‬
‫آج مجھے میرے پاکستان کی بہت یاد آ رہی ہے اسی‬
‫لیے‪.....‬ہم آج ہی واپس جائیں گے۔" وہ دالور خان کے‬
‫ساتھ چلتے ہوئے بولی تھی۔‬
‫"کوئی چاالکی قاب ِل قبول نہیں ہے‪ ،‬نیکسٹ ویک تمہارے‬
‫فائنلز ہیں وہ پہلے دے لو پھر پاکستان بھی چلے جائیں‬
‫گے۔" دالور خان نے نرمی سے ٹوکا تو وہ منہ بسور کر‬
‫اسے گھورنے لگی۔‬
‫"حویلی میں ہماری شادی کی تیاری شروع ہو چکی ہیں‪،‬‬
‫جن میں مجھے بھی شریک ہونا ہے یار!‪...‬تم یونیورسٹی‬
‫والوں سے بات کرو کہ ایگزامز نیکسٹ منتھ لے لیں۔" وہ‬
‫التجاء آمیز لہجے میں بولی۔‬
‫"بلکل بھی نہیں‪ ،‬جو جیسا چلتا ہے ویسا چلنے دو‪ ،‬پاور کا‬
‫غلط استعمال نہیں کرتے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے‬
‫ساتھ کھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔‬
‫"تم بہت برے ہو۔"‬
‫"کچھ بھی کہہ سکتی ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔‬

‫‪328‬‬
‫"میں ابھی بابا سائیں کو بتاتی ہوں کہ آپ لندن نہیں یہاں‬
‫روؤن میں میرے ساتھ ہیں۔" وہ ناک سکوڑتے ہوئے‬
‫دھمکانے پر اتر آئی تھی۔‬
‫"بابا سائیں نے بندوق کے سامنے باندھ کر گولی مار دینی‬
‫ہے۔" وہ کوٹ کی جیبوں میں سے ہاتھ نکال کر اس کے‬
‫سامنے جوڑ چکا تھا حور نے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے‬
‫اس کے ہاتھ تھام لیے تھے۔‬
‫"اچھا چلتے ہیں نا‪.....‬مجھے سب کی یاد بھی تو بہت آ رہی‬
‫ہے۔"‬
‫"میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی سب یاد آ رہے ہیں؟" وہ‬
‫مصنوعی خفگی سے گویا ہوا۔‬
‫"جی بلکل‪ ،‬آپ کی اپنی جگہ ان سب کی اپنی۔"‬
‫"جب میں دور جاتا ہوں تو کیا مجھے بھی یاد کرتی ہو؟"‬
‫وہ چلتے چلتے رک گیا تھا۔‬
‫"نہیں‪ ،‬آپ کو کیوں یاد کرنا ہے؟"حور نے سر اٹھا کر برا ِہ‬
‫راست اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکراہٹ‬
‫دبائی۔‬
‫"تو میری یاد نہیں آتی؟" وہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔‬

‫‪329‬‬
‫"جو شخص آپ کی سانسوں میں بستا ہو کیا اسے ایسے‬
‫سواالت زیب دیتے ہیں؟" وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے‬
‫شریر لہجے میں سرگوشی کر رہی تھی۔‬
‫دالور خان کی نیلی آنکھوں میں ڈھیروں خوشیاں چمکی‬
‫تھی۔‬
‫"موویز کم دیکھا کرو۔" وہ اس کے سر پر تھپکی رسید‬
‫کرتا پلٹ کر پھر سے چل دیا تھا۔‬
‫جب سے آئی تھی آج پہلی مرتبہ اس نے پیرس میں دھوپ‬
‫نکلی دیکھتی اور وہ دونوں پیدل ہی گھومنے کے لیے نکل‬
‫آئے تھے۔‬
‫کیفے بار میں گالس وال کے قریب والی کرسیوں پر بیٹھتے‬
‫ہوئے دالور خان نے کافی اور چاکلیٹ کیک کا آرڈر دیا۔‬
‫"مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے حور!" وہ اپنے سامنے‬
‫بیٹھی حور کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں‬
‫بوال۔‬
‫حور نے اس کے چہرے پر چھائی خاموشی بغور نوٹ کی‬
‫تھی۔‬
‫"میں ایک لڑکی کو ڈھونڈ رہا ہوں؟"‬

‫‪330‬‬
‫"لڑکی کو؟" سوالیہ نگاہوں سے وہ اسے دیکھنے لگی۔‬
‫"وہ جو ہماری مالزمہ کنیز تھی‪....‬اصل میں وہ زرمینہ خان‬
‫ہے‪ "....‬دالور نے سب کچھ اسے بتا دیا تھا وہ ساکت‬
‫بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔‬
‫"میرے یہاں آنے سے پہلے شکیل خان کی والدہ آئی تھی‬
‫میرے پاس‪......‬اس نے بتایا کہ شکیل خان نے خود پولیس‬
‫بلوائی اور زرمینہ خان ایف آئی آر درج کروانے پر مجبور‬
‫کر دیا۔میں نے شکیل خان کو رہا تو کروا دیا ہے مگر اس‬
‫کی حالت درست نہیں ہے‪ ،‬جیل میں کچھ باغی گروہ نے‬
‫اسے شدید پیٹا ہے جس وجہ سے اس کے سر پر بہت‬
‫گہری چوٹیں آئی ہیں جیل کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ خود‬
‫اس گروہ کو پیسے دے کر مار کھاتا تھا۔"‬
‫"اس نے ایسا کیوں کیا؟ مطلب ایف آئی آر درج کیوں‬
‫کروائی؟" حور کے استفسار پر اس نے شانے آچکائے۔‬
‫"پتہ نہیں‪ ،‬میں نے بہت کوشش کی کہ پوچھوں اس سے‬
‫مگر اس نے کچھ نہیں بتایا‪ ....‬زرمینہ خان ہی بتا سکتی‬
‫ہے کہ شکیل خان آج اس حالت میں کیوں ہے۔اسی لیے‬
‫مجھے اسے ڈھونڈنا پڑے گا۔"‬

‫‪331‬‬
‫"کہاں ڈھونڈیں گے آپ اسے؟"‬
‫"پتہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے اس سب کا میں ہی زمہ دار‬
‫ہوں‪......‬نہ زرمینہ خان کی شادی شکیل خان سے کرواتا‬
‫اور نہ ہی آج وہ اس حال میں ہوتا۔"‬
‫"دالور خان! تم محض شکیل خان کے متعلق سوچ رہے‬
‫ہو‪ ،‬ایک عورت جو تن تنہا نہ جانے کہاں ہے‪.....‬اس کا‬
‫خیال تمہیں نہیں آ رہا‪.....‬اس نے تم سے محبت کی جس کی‬
‫اتنی بڑی سزا دی تم نے اسے۔" حور کو سچ میں اس پر‬
‫غصہ آ رہا تھا۔‬
‫"میں نے کوئی سزا نہیں دی‪ ،‬شکیل خان جیسا ہمسفر وہ‬
‫ڈیزرو نہیں کرتی تھی‪".....‬‬
‫"تو پھر میں بھی تمہیں ڈیزرو نہیں کرتی‪ ،‬کیونکہ ایک‬
‫وقت تھا جب میں بھی کسی شخص سے محبت کرتی تھی۔"‬
‫دالور خان کی بات کاٹتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولی‬
‫تو وہ دم سادھے اسے دیکھتا رہا۔‬
‫"تم نے محبت کی مگر گناہ نہیں کیا اپنی عزت و آبرو کو‬
‫پیروں تلے نہیں روندا‪......‬اس نے اپنی حدیں پار کیں جو‬

‫‪332‬‬
‫کہ ایک عورت کو زیب نہیں دیتا۔" وہ اسی کے انداز میں‬
‫بوال۔‬
‫"خیر میں مزید اس معاملے میں بحث نہیں کروں گی‪ ،‬ہم آج‬
‫واپس جائیں گے اور تم دالور خان ایک ہفتے کے اندر اندر‬
‫زرمینہ خان کو ڈھونڈو گے۔" وہ حکمیہ انداز میں کہتے‬
‫ہوئے میز پر ہاتھ ٹکا کر اس کی جانب جھکی۔‬
‫"ٹھیک ہے۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے گالس وال کے‬
‫پار ڈوبتے سورج کو دیکھنے لگا۔‬
‫چند پل وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی پھر گہری‬
‫سانس خارج کرتے ہوئے بولھ‬
‫"دالور! میری بات کا برا مت مانا میں تمہیں غلط نہیں کہہ‬
‫رہی‪ ،‬مگر سوچو کہ ایک تنہا عورت کہاں گئی ہو گی؟"‬
‫"میں برا نہیں مان رہا تم ٹھیک ہی کہہ رہی ہو‪ ،‬مجھے‬
‫زرمینہ خان کی مرضی کے خالف اس کی شادی شکیل خان‬
‫سے نہیں کرنی چاہیے تھی۔جب میں نے اس کی زمہ داری‬
‫لی ہی تھی تو اس زمہ داری کو بھی نبھانا چاہیے تھا مگر‬
‫میں یہ نہیں کر پایا۔"‬

‫‪333‬‬
‫"تم اب بھی کر سکتے ہو‪ ،‬ہم مل کر اسے ڈھونڈیں گے۔"‬
‫حور نے میز پر پڑے اس کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫میں لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہال گیا۔‬
‫"یہاں سے بہت لذیز خوشبوؤں آ رہی تھیں تو میں خود کو‬
‫روک نہیں پائی۔" نجی نے مسکراتی نگاہوں سے فرحان‬
‫کو دیکھا تھا۔‬
‫"سرپرائز تھا۔ خیر آ ہی گئی ہو تو میری ہیلپ بھی کروا‬
‫دو۔" وہ بوائل گوشت کو باؤل میں ڈالتے ہوئے اس میں‬
‫مصالحے مکس کرتے ہوئے بوال۔‬
‫"کیا کروں ؟"‬
‫"اچھی بیویوں کی طرح پلو سے ہوا دو۔" فرحان نے شوخ‬
‫لہجے میں کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔‬
‫وہ اس کی بات مانتے ہوئے اپنے دوپٹے سے ہوا دینے‬
‫لگی تھی۔‬
‫"آدھا مہینہ ہو گیا ہے آپ جوا کھیلنے نہیں گئے۔" وہ ذرا‬
‫سا اس کے قریب ہوئی اور اس کی پیشانی پر چمکتی‬
‫پسینے کی بوندیں اپنے آنچل سے صاف کرنے لگی۔‬

‫‪334‬‬
‫"رن مرید بن گیا ہوں۔" اس نے جس انداز میں کہا تھا نجی‬
‫سے ہنسی کنٹرول نہیں ہوئی تھی۔‬
‫"آپ کو پتہ ہے آپ بہت اچھے کھانے بناتے ہیں‪ ،‬شاید یہ‬
‫آپ کا وہ ہنر ہے جسے آپ نے کبھی سمجھا نہیں۔" وہ‬
‫سینڈوچز کے لیے سالئس نکال کر اس کی جانب بڑھاتے‬
‫ہوئے بولی۔‬
‫"مجھے بچپن سے ہی کنگ کا شوق رہا ہے۔ پہلے پہل بہت‬
‫ساری ڈیشز بناتا تھا مگر درمیان میں ایسا وقت گزرا کہ‬
‫میں محض جوا کی لت میں پڑا رہا۔" وہ آگ کی آنچ دھیمی‬
‫کرتے ہوئے اس کی جانب پلٹا۔‬
‫"تھینک یو نجی! تم بہت اچھی وائف ہو تم نے میرا بہت‬
‫ساتھ دیا ہے۔اب مجھے سچ میں یہ کنفیوژن نہیں کہ مجھے‬
‫کیا کرنا ہے‪ ،‬کیونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ ہمارا بہترین‬
‫میچ ہے‪....‬اب دنیا کی کوئی پرواہ نہیں۔" وہ اس کے‬
‫شانوں کو تھام کر مسکراتے ہوئے بوال تو وہ مسرت‬
‫بھرے انداز میں اس کے شانے پر پیشانی ٹکا گئی۔‬
‫وہ بکریاں چراتے ہوئے پہاڑ کی اس چوٹی پر آ گئیں تھی‬
‫جہاں وہ چھوٹی سی کٹیا تھی‪.....‬جس میں وہ کئی اذیت ناک‬
‫راتیں گزار چکی تھی۔‬
‫‪335‬‬
‫بےاختیار ہی اس کے قدم آگے بڑھے تھے۔‬
‫"باجی آگے نہ جائیں یہ تو میرے ابا نے کافی سال پہلے‬
‫بنائی تھی‪......‬اب تو اس میں سانپ اور بچھو کے سوا کچھ‬
‫نہیں ہوں گے۔" گلنار نے خوف زدہ ہو کر کہا تھا۔‬
‫"کچھ نہیں ہوتا‪ ،‬انسانوں میں جانور چھپے ہوتے ہیں وہ‬
‫نقصان پہنچاتے ہیں۔" وہ کہتے ہوئے آگے بڑھی۔‬
‫"ویسے تمہارے ابا نے یہ کیوں بنائی تھی؟"‬
‫"تقریبا ً پندرہ سال پہلے‪......‬ایک لشکر یہاں آیا تھا‪.....‬کوئی‬
‫خان پور کا سردار تھا‪"....‬‬
‫"سردار دالور خان؟" وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹتے‬
‫ہوئے تیزی سے بولی تھی۔‬
‫"نام تو اب یاد نہیں مجھے۔میں تب محض پندرہ سال کی‬
‫تھی"‬
‫"کیا اس کی آنکھیں نیلی تھیں؟" زری بےقراری سے‬
‫بولی۔‬
‫"ہاں۔" گلنار خوشی سے بھرے لہجے بولی۔‬

‫‪336‬‬
‫"مجھے یہ اس لیے یاد ہے کہ مجھے کہانیوں والے‬
‫شہزادے دیکھنے کا شوق تھا‪ ،‬میری دادی نے مجھ سے‬
‫کہا کہ یہ دیکھو لڑکا ایسے ہوتے ہیں کہانیوں والے‬
‫شہزادے۔" وہ اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے مسرور سی ہو‬
‫رہی تھی جبکہ زری دیوانہ وار بھاگتی ہوئی اس گھر تک‬
‫پہنچی۔‬
‫"ت تو تم یہاں رہتے تھے دالور خان۔"‬
‫"وہ لوگ گلگت بلتستان کے سب سے اونچے پہاڑ پر قیام‬
‫کرنا چاہتے تھے‪ ،‬بابا جان نے انہیں یہ پہاڑ دکھایا‪...‬نیلی‬
‫آنکھوں والے لڑکے کو یہ گھر بہت پسند آیا تھا تو اس نے‬
‫بابا کو بہت زیادہ پیسے دیئے تھے بابا نے منع کیا مگر‬
‫اس نے کہا کہ یہ ان کا انعام ہے۔" گلنار بولے جا رہی تھی‬
‫جبکہ زری کا پورا دھیان اس گھر کی جانب ہی تھا۔‬
‫وہ دروازہ کھول چکی تھی۔‬
‫سارا گھر مٹی اور درختوں کے پتوں سے گندا ہا پڑا تھا۔‬
‫وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھتی کمرے کے دروازے تک‬
‫پہنچی تھی جس پر تاال لگا ہوا تھا۔‬

‫‪337‬‬
‫"یہاں تاال کیوں لگا ہے؟ چابیاں شکیل خان کے پاس ہوں‬
‫گیں‪ ".....‬وہ افسردہ سی ہو کر پلٹی مگر دائیں جانب کونے‬
‫میں پڑی کلہاڑی دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ در‬
‫آئی۔‬
‫"باجی نہ کریں‪.....‬جن کا گھر ہے وہ آ گئے تو؟"‬
‫گلنار نے روکنا چاہا مگر وہ اس کی بنا ایک بھی سنے تاال‬
‫توڑ چکی تھی۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی یادوں کی ایک پٹاری کھل گئی‬
‫تھی۔‬
‫اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور دل میں سناٹے اترنے‬
‫لگے۔‬
‫وہاں ہر جگہ شکیل خان کی موجودگی بول رہی تھی‪....‬مگر‬
‫وہ نہیں تھا۔‬
‫"خدا تمہیں بخشے شکیل خان!" دل سے آہ نکلی تھی مگر‬
‫اس نے وہ دعا میں بدل دی۔‬
‫دروازہ مقفل کرتے ہوئے پلٹی تھی ایک نگاہ کچھ فاصلے‬
‫پر کھڑے دالور خان پر ڈالی اور دھیمی سی مسکراہٹ لیے‬
‫ایک لمحے کو ساکت ہو گئی۔‬

‫‪338‬‬
‫"جانتی ہوں کہ تم نہیں ہو‪ ،‬مگر ہر جگہ تم ہی تو ہو۔" اس‬
‫نے درد بھری آواز میں کہتے ہوئے سر جھکایا اور آگے‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫"زرمینہ خان!" دالور کی آواز پر اس کے قدموں کو زمین‬
‫نے جکڑ لیا تھا‪.....‬وہ آنکھیں پھاڑے ساکت کھڑی رہی۔‬
‫"تمہیں لینے آیا ہوں‪....‬چلو۔" وہ آگے بڑھا اور بنا اسے‬
‫دیکھے بوال۔‬
‫"جو حکم سائیں!" زری کی آواز میں آنسو بھرے ہوئے‬
‫تھے۔‬
‫"اونہہ‪....‬یہ دکھاوے کی تابعداری مت کرو‪....‬کیونکہ اگر‬
‫تمہارے نزدیک میرے حکم کی کوئی اوقات ہوتی تو تم آج‬
‫یہاں مجھے نظر نہ آتیں۔" وہ غصیلے انداز میں کہتا آگے‬
‫بڑھ گیا تھا۔‬
‫زرمینہ خان کا سر شرم سے جھک گیا۔‬
‫"یہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ پہلے بھی یہاں آئی تھی‬
‫سردار حکم!‪....‬مگر وہ ظالم شخص اسے بہت مارتا پیٹتا‬
‫تھا‪ ،‬پہلے تو مجھے وہ انسان لگا ہی نہیں تھا‪.....‬کیومکہ‬
‫جس طرح اس نے اِس معصوم کو پیٹا تھا کوئی انسان ایسا‬

‫‪339‬‬
‫نہیں کرتا۔" حکیم بابا کی بات پر دالور خان کو حیرت کا‬
‫شدید جھٹکا لگا تھا۔‬
‫"آپ اس لڑکی کے لیے بہتر فیصلہ کیجیے گا۔" حکیم بابا‬
‫نے دالور خان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا۔‬
‫وہ الجھا الجھا سا ان کے ہاتھ تھام گیا تبھی وہ بھی گلنار‬
‫کے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔‬
‫"اب جب آؤ گی باجی؟" گلنار اس کے بغلگیر ہوتے ہوئے‬
‫بولی تھی۔‬
‫"ان شاءہللا جلد ہی۔" وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے‬
‫ّٰللا حافظ کہتی اسکی جانب بڑھی۔‬
‫کہتے ہوئے سب کو ہ‬
‫وہ حکیم بابا اور اس کے بیٹے سے مصافحہ لیتے ہوئے‬
‫گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اس نے لیفٹ سائیڈ واال‬
‫دروازہ کھول دیا تھا۔‬
‫زری کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔‬
‫اس کی خواہش تھی کہ وہ کبھی دالور خان کے ساتھ لیفٹ‬
‫سیٹ پر بیٹھے اور آج وہ خواہش پوری ہو گئی تھی۔‬

‫‪340‬‬
‫سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا‪.....‬وہ کئی سوچوں میں گم‬
‫تھا اور وہ پرسکون تھی‪ ،‬آنکھیں موندے وہ دالور خان کی‬
‫موجودگی محسوس کر رہی تھی۔‬
‫"خدارا یہ سفر لمبا ہو جائے۔" اس کے دل سے دعا نکلی‬
‫تھی‪ ،‬تبھی بند آنکھوں کے پیچھے شکیل خان جھپک سے‬
‫آن کھڑا ہوا‪،‬وہ اس پر ہنس رہا تھا۔‬
‫زری نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔‬
‫خوف سے سپید پڑتا رنگ وہ دالور سے چھپا نہیں پائی‬
‫تھی جو اس کے اس طرح چونک کر سیدھا ہونے پر اسی‬
‫کی جانب متوجہ تھا۔‬
‫میں سٹی پہنچ کر اس نے گاڑی ایک ہوٹل کے پارکنگ ایریا‬
‫میں روکی تھی۔‬
‫"روم نمبر ون زیرہ ون۔ حور اندر ہی ہیں۔"‬
‫وہ ونڈ سکرین کے پار دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بوال‬
‫تھا۔‬
‫"حور؟"‬
‫"میری وائف۔"‬

‫‪341‬‬
‫"آپ نے شادی کر لی؟ وہ حور جو آپ کے ساتھ‬
‫تھیں؟‪.....‬وہ بہت ہی معصوم اور اچھی لڑکی ہے آپ اسے‬
‫خوش رکھیے گا‪....‬بہت بہت مبارکباد سائیں!"‬
‫وہ خوشی سے سرشار لہجے میں کہتے ہوئے بولی تھی۔‬
‫دالور خان نے چونک کر اس کی جانب سیاہ گالسز کے‬
‫پیچھے سے ہی دیکھا‪ ،‬اس کے چہرے پر واقع ہی خوشی‬
‫کے رنگ نمایاں نظر آ رہے تھے۔‬
‫"ہوں۔ٹھیک ہے۔" وہ لب بھینچ کر رخ پھیر گیا۔‬
‫زری گاڑی سے اتر گئی تھی۔‬
‫"کسی پرائے مرد کے پیچھے اپنے آپ کو ضائع کرنا سب‬
‫سے بڑی بیوقوفی ہوتی ہے زرمینہ!" حور نے اس کے‬
‫ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا تھا۔‬
‫"میرا دل نہیں مانتا حور! کہ میں کسی کے متعلق سوچوں‪،‬‬
‫تم مجھے باغی کہہ سکتی ہو یا کچھ بھی مگر یہ مت کہنا‬
‫کہ میں اپنی محبت فراموش کر دوں۔ میں خود کو ضائع‬
‫نہیں کر رہی بس اپنی محبت بچائے ہوئے ہوں۔"‬
‫"تم جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو عورتوں کو بدنام کرتی‬
‫ہیں کہ وہ بیوفا ہیں۔ تم ایک نامحرم کی محبت کو دامن سے‬
‫‪342‬‬
‫باندھ کر اپنے محرم کو تکلیف پہنچا رہی ہو۔تمہیں معلوم‬
‫بھی ہے شکیل خان کس حال میں ہے‪......‬وہ پاگل ہونے کی‬
‫آخری اسٹیچ پر ہے اور مرنے کے چانس بھی پچاس‬
‫پرسنٹ ہیں۔" حور غصے سے بولتے ہوئے آخر پر تاسف‬
‫سے کہتی اسے دیکھنے لگی۔‬
‫زرمینہ کی سانسیں حلق میں اٹک گئی تھیں‪ ،‬وہ سر اٹھا کر‬
‫حور کو دیکھنے لگی۔‬
‫ّٰللا کبھی معاف نہیں‬
‫"وہ مر جائے گا زری!‪.....‬اور تمہیں ہ‬
‫کرے گا۔ تمہاری خاطر جو دالور خان نے کیا ہے وہ کوئی‬
‫شوہر نہیں کرتا‪.....‬اس نے تمہیں بےشک تشدد کا نشانہ‬
‫بنایا مگر اس کے بدلے میں خود پر خود ہی تشدد کروایا‬
‫اور آج وہ زندگی اور موت کے درمیان لٹکا ہوا ہے‪ ،‬ارے‬
‫کیسی بےرحم عورت ہو تم کہ محض اپنے متعلق سوچ رہی‬
‫ہو۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے اس کے چودہ طبق‬
‫روشن کر چکی تھی۔‬
‫وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے بےآواز روتی چلی گئی۔‬
‫کافی دیر وہ روتی رہی تھی‪....‬حور نے اسے رونے دیا۔‬
‫"میں اس کے ساتھ رہ کر اسے دھوکا نہیں دینا چاہتی۔"‬

‫‪343‬‬
‫"تو میرے شوہر کو اپنے دل و دماغ سے نکال‬
‫دو‪.....‬تمہاری وجہ سے وہ خود کو مجرم سمجھتا ہے‪ ،‬وہ‬
‫سکون کی نیند نہیں سو پاتا کہ اس نے تمہارے اور شکیل‬
‫خان کے ساتھ اچھا نہیں کیا حاالنکہ اس سب میں اس کا‬
‫قصور نہیں یہ تم دونوں کی زندگی تھی۔" حور نے سینے‬
‫پر ہاتھ لپیٹتے ہوئے اسے گھوری نوازی۔‬
‫آج سعی معنوں میں زرمینہ کے دل میں سناٹا چھایا تھا۔‬
‫"ٹھیک ہے تمہارے شوہر کو میں بھول جاؤں گی مگر‬
‫میری ایک شرط ہے‪.....‬میں شکیل خان کے پاس جاؤں گی‬
‫اس کی دیکھ بھال کروں گی اور جب وہ ٹھیک ہو جائے گا‬
‫تو تم سائیں سے کہو گی کہ وہ مجھے شکیل خان سے‬
‫طالق دلوائیں۔ منظور ہے؟"‬
‫زری کی شرط پر وہ ایک لمحے کو سوچتی رہی پھر بولی۔‬
‫"ٹھیک ہے۔ مگر تم اس وقت میں پوری ایمانداری سے‬
‫ایک اچھی بیوی کی طرح شکیل خان کے ساتھ زندگی‬
‫گزارو گی‪ ،‬میں دیکھنے آیا کروں گی‪ ،‬اگر مجھے تمہارے‬
‫کام میں غفلت نظر آئی تو طالق کبھی نہیں ہو گی۔" وہ‬
‫حکمیہ انداز میں کہتی ایک نظر اس پر ڈال کے کمرے میں‬
‫سے نکل گئی تھی۔‬
‫‪344‬‬
‫زرمینہ کئی لمحے وہاں ہی کھڑی رہی پھر تھکے ہوئے‬
‫انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔‬
‫اگلے ہی دن جب حور اور دالور خان کے ہمراہ وہ ہسپتال‬
‫پہنچی تو شکیل خان کو زنجیروں میں جکڑے دیکھتے ہی‬
‫اس کے حلق میں سانسیں اٹک گئی تھیں‪ ،‬دل میں دھڑکنیں‬
‫الجھنے لگیں‪......‬وہ ایک دم سے حلق کے بل چالئی تھی۔‬
‫انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ شکیل خان کو اس حالت میں‬
‫دیکھ کر وہ یوں ری ایکٹ کرے گی۔‬
‫حور ہڑبڑا کر دالور خان کو دیکھنے لگی۔‬
‫"م مجھے اندر جانا ہے‪ ،‬دروازہ کھولو۔" اس نے ڈاکٹر کو‬
‫کہا تھا۔‬
‫"آپ نہیں جا سکتیں‪"......‬‬
‫"جانے دیں اسے۔" حور نے سنجیدگی سے کہا تھا۔‬
‫ڈاکٹر نے چارو ناچار دروازہ کھول دیا تھا۔‬
‫وہ بھاگ کر شکیل خان تک پہنچی تھی۔‬

‫‪345‬‬
‫وہ پیشنٹ یونیفارم میں ملبوس تھا‪ ،‬ڈرا سہما سا گھٹنوں‬
‫کے گرد بازو حائل کیے زمینی بستر پر دیوار سے ٹیک‬
‫لگائے بیٹھا تھا۔‬
‫وہ اپنے پیروں پر زیادہ دیر کھڑی نہیں ہو سکی تھی تبھی‬
‫اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گرنے کے سے انداز میں‬
‫بیٹھی تھی۔‬
‫اس کی نگاہوں کے سامنے وہ شکیل خان آن ٹھہرا تھا جو‬
‫جنگل میں بھی سوٹ بوٹ ہو کر رہتا تھا‪ ،‬پورے گھر میں‬
‫سینہ تانے دندناتا پھرتا رہتا تھا۔‬
‫"ش شکیل خان!" دل تڑپ کر رو دیا تھا وہ بےاختیار ہی‬
‫اس کے گرد بازو حائل کر گئی تھی جس پر شکیل خان ڈر‬
‫کر اس کے بال نوچنے لگا۔ ڈاکٹر اور دالور خان بھاگ کر‬
‫اندر آئے تھے اور اسے شکیل خان کی گرفت سے آزاد‬
‫کروانے لگے۔‬
‫"م میں ہوں زری! تمہاری زری‪ ....‬شکیل خان! مجھے‬
‫دیکھو‪ ،‬تم چاہتے تھے نا کہ میں محض تمہارا ہی نام لوں‬
‫تمہیں ہی سوچوں‪.....‬ہاں شکیل خان م میں نے تم سے‬
‫بچھڑ کر محض تمہیں سوچا ہے۔ سن رہے ہو مجھے میں‬
‫تمہارے سحر میں گرفتار ہوں‪ ،‬تمہاری ستم ظریفی کے‬
‫‪346‬‬
‫باوجود میں بیوفائی نہیں کر پائی۔"وہ اس کا گریبان‬
‫جھنجھوڑتے ہوئے رو رو کر کہتے ہوئے لہرا کر زمین‬
‫بوس ہوتے ہی بےہوش ہو گئی تھی۔‬
‫ڈاکٹر کی مدد سے اسے ایمرجنسی وارڈ میں لےجایا گیا‬
‫تھا۔‬
‫ڈاکٹروں نے بتایا کہ شدید صدمے کی بدولت وہ بےہوش‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫"کائنات! ولی خان یونیورسٹی چھوڑ کر چال گیا ہے۔اس نے‬
‫یہ تمہیں دینے کو کہا تھا۔" نبیلہ نے ایک تہہ شدہ خط اس‬
‫کی جانب بڑھایا تھا۔‬
‫"مجھے کچھ لینا دینا نہیں وہ جائے یا رہے‪ .....‬شکر ہے‬
‫وہ چال گیا نہیں تو میں بہت ان کمفرٹیبل فیل کرتی تھی اس‬
‫کی موجودگی میں۔" اس نے خط کئی ٹکڑوں میں تقسیم‬
‫کرتے ہوئے باسکٹ میں اچھال دیا تھا۔‬
‫"وہ اسی لیے گیا ہے۔" نبیلہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔‬
‫"تم اسے پسند کرتی ہو‪ ،‬بھروسہ رکھو وہ ایک دن تمہارا‬
‫ہو گا ان شاءہللا۔"‬
‫"ت تمہیں کیسے پتہ؟" نبیلہ چونکی۔‬
‫‪347‬‬
‫"بس آنکھیں سب کہتی ہیں۔ تم جس طرح اس کے متعلق‬
‫بات کرتی تھی جس طرح اسے چوری چوری دیکھتی تھی‬
‫سب نظر آتا تھا۔" کائنات نے اسے چھیڑا تو وہ نم آنکھوں‬
‫سے مسکرا دی تھی۔‬
‫ّٰللا بہت بڑا رحیم و کریم ہے وہ بنا مانگے ہی‬
‫"یقین رکھو ہ‬
‫ہمیں اتنا کچھ نوازتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے۔"‬
‫کائنات کی بات سے متفق ہوتے ہوئے وہ اثبات میں سر ہال‬
‫گئی۔‬
‫"میں مزید کوئی گناہ نہیں کرنا چاہتی۔مجھے شکیل خان‬
‫کے ساتھ رہنا ہے۔نجی سے معافی مانگنی ہے اور سائیں‬
‫سے کہیے گا مجھے معاف کر دیں میں نے انہیں بھی بہت‬
‫تکلیف دی ہے۔" وہ آنکھیں موندے ہی بولی تھی۔‬
‫حور مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام گئی۔‬
‫" تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ہللا تمہیں ہمت دے گا۔" حور‬
‫نے نرمی سے کہا۔‬
‫دالور خان نے دروازے پر دستک دی تھی۔‬

‫‪348‬‬
‫شکیل خان کی والدہ کو ساتھ لیے وہ اندر آیا وہ زرمینہ کو‬
‫برستی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس کے پاس پڑی‬
‫کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔‬
‫حور دھیرے سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔‬
‫"شکیل خان کی والدہ بتا رہی تھی کہ وہ زرمینہ خان سے‬
‫محبت کرتا تھا‪ ،‬اس سے برداشت نہیں ہوا کہ وہ اپنی عزت‬
‫پر کھیل گئی ہے تبھی وہ زرمینہ خان پر تشدد کرتا تھا۔"‬
‫دالور خان کے انکشاف پر حور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی‬
‫تھی۔‬
‫"مرد بھی کتنے روپ بدلتے ہیں نا‪ ،‬کبھی نرم بارش بن کر‬
‫برستے ہیں تو کبھی آگ بن کر جھلسا جاتے ہیں۔"‬
‫"میں ہمیشہ نرم بارش ہی رہوں گا‪ ،‬آگ یہاں تم ہو۔" اس‬
‫کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ شریر لہجے‬
‫میں بوال۔‬
‫"بچ کر رہنا پھر۔" وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔‬
‫"اتنی بری بھی نہیں ہو تم جتنا خود کو برا شو کرتی ہو۔"‬
‫"شادی کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا کر کہوگے کنوارا اچھا‬
‫تھا۔" وہ مزید بولی۔‬

‫‪349‬‬
‫"تم بھی یہ ہی کہو گی۔"‬
‫"نہ میں اپنے فیصلوں پر پچھتاتی نہیں۔"‬
‫"تو ہم بھی سردار دالور خان ہیں‪ "......‬وہ گاڑی کی سپیڈ‬
‫بڑھاتے ہوئے بوال تھا۔‬
‫'میں ہار مانتی ہوں۔" حور نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔‬
‫"اور میں بھی۔" اس نے نرمی سے حور کا ہاتھ تھام لیا‬
‫تھا۔‬
‫بالآخر ہماری زندگیوں میں سب کچھ ایک دفعہ بگڑنے کے‬
‫بعد ٹھیک ہو ہی جاتا ہے‪......‬‬
‫سب رشتے کھونے کے غم میں انسان اس ایک رشتے کو‬
‫فراموش کر بیٹھتا ہے جو واحد اس کے پاس بچا ہوتا‬
‫ّٰللا ہمارے‬
‫ہے‪.....‬جو بہت انمول ہوتا ہے اس کے لیے کہ ہ‬
‫لیے کبھی کچھ غلط پالن نہیں کرتا‪.....‬‬
‫ہمارے زندگی گزارنے کے پالن اور خواب غلط ثابت ہو‬
‫ّٰللا کی رضا میں راضی ہونا چاہیے کہ وہ‬
‫سکتے ہیں مگر ہ‬
‫ہی تو سب ٹھیک کرنے واال ہے۔‬

‫‪350‬‬
‫اس کا دیا تھا‬
‫جو بس بجھتا تھا‬
‫اس کی آنکھ تھی‬
‫جو شب و روز جلتی تھی‬
‫بخشا خدا نے سکون‬
‫اس کے قلب کو کچھ اس طرح‬
‫وہ اندھیروں سے نہ کبھی ڈرتی تھی‬

‫******‬

‫‪351‬‬
‫ختم شد‬

‫‪352‬‬

You might also like