Professional Documents
Culture Documents
پاکستان کے دو صوبوں.....
پنجاب اور خیبرپختونخوا کی دل موہ لینے والی الزوال
داستان
2
Part 5
"کہاں چلے؟ تم تو میرے ساتھ کہیں نہیں جا رہے "......وہ
جب اس کے ساتھ آگے بڑھا تو حور نے تیکھے لہجے میں
کہا۔وہ لب بھینچے اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔
وہ ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر اچھال کر آگے بڑھ گئی
تھی۔
چند قدموں پر جا کر رکی اور واپس پلٹی۔
"کہتے ہیں ہم اپنی زندگی سے اور زندگی میں آنے والوں
سے سیکھتے ہیں.....اور تم نے مجھے سکھایا ہے کہ
پرائے پرائے ہی ہوتے ہیں۔"
وہ چند پل غصے سے اسے گھورتی رہی پھر پلٹ گئی۔
"تم طالق چاہتی ہو تو ٹھیک ہے.....مگر میری ایک شرط
ہے۔" وہ کچھ سوچتے ہوئے بوال۔
حور رک چکی تھی۔
"یہ طالق جب ہو گی تو ہم اسی طرح ساتھ بیٹھ کر پیپرز پر
سائن کریں گے جیسے نکاح کے کاغذات پر کیے تھے۔"
3
وہ آگے بڑھتے ہوئے اس کی جانب گہری نگاہوں سے
دیکھتے ہوئے بوال۔
"اوکے۔"وہ اس کو دیکھنے کے حق میں نہیں تھی سو
تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
وہ کئی پل اسی جگہ کھڑا رہا تھا اور پھر پلٹ کر گاڑی میں
بیٹھا اور گاڑی ہوا سے باتیں کرنے لگی تھی۔
نجانے کیوں اسے دیکھتے ہی
آج کل دھڑکنیں رک سی جاتی ہیں.....
کبھی یہ شدت سے دھڑکتے دھڑکتے
سینے میں پاگل سی ہو جاتی ہیں......
4
وہ محبت بھری مسکراہٹ لیے اس کے قریب بیٹھی....اور
دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اس کی پیشانی کو چھوتے بالوں
کو بہت ہی نرمی سے چھوا تھا۔
اس کی گھنی پلکیں چھونا چاہتی تھی مگر دل کی دھڑکنیں
اسے شرم و حیا کا دامن تھما رہی تھیں.....جسے اس نے
تھام لیا اور نیچلے لب کو دانتوں تلے دباتے ہوئے ہاتھ
واپس کھینچ لیا۔
"شاہزیب! اٹھ جائیں۔" جھک کر اس کے کان میں
سرگوشی کرتے ہوئے وہ اٹھ کر آگے بڑھنے لگی تھی جب
شاہزیب نے اس کا دوپٹہ تھام لیا وہ جہاں تھی وہاں ہی رک
گئی۔
"صبح بخیر۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"صبح بخیر.....فریش ہو جائیں ناشتہ لگا دیا ہے۔"
وہ پلٹ کر اس کے ہاتھ میں سے دوپٹہ لیتی تیزی سے مڑ
چکی تھی۔
وہ اس کے چہرے کی اللی پر محضوظ ہوتا مسکراتے
ہوئے واشروم کی جانب بڑھ گیا۔
5
دونوں ناشتے کی میز پر آ کر بیٹھے تھے کہ جب
سکیورٹی روم سے اسے کال موصول ہوئی۔
"سر! کوئی لڑکی ہے۔ آپ سے ملنا چاہتی ہے۔" سامنے
سے کہا گیا تھا۔
"کون لڑکی؟ نام کیا ہے؟ ".....اس نے حیرانگی سے
استفسار کیا۔
"نام ،حوریہ رائے ہے.....کہہ رہی ہیں کہ آپ کی کزن
ہیں۔"
"ہاں وہ میری کزن ہیں ،انہیں فل پروٹوکول سے اندر لے
کر آؤ۔" نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے ہونٹوں کو جتانے
والی مسکراہٹ نے چھوا تھا۔
"حور آئی ہے؟.....سچ میں وہ آئی ہے؟" کائنات تو خوشی
سے پاگل ہو گئی تھی۔
شاہزیب نے مسکراتے ہوئے سر اثبات میں ہالیا۔
"چلیں نا پھر بیٹھے کیوں ہیں۔" وہ کرسی دھکیل کر اٹھی
تھی اور تیزی سے خارجی دروازے کی سمت بڑھی اسے
میں مجبوراً اٹھنا پڑا۔
6
وہ بنگلے کے مین گیٹ کی جانب جاتی راہداری پر ہی تھی
کہ حور بھی ادھر سے اندر داخل ہوئی۔
حور سر جھکائے سوچ رہی تھی کہ کیا کہہ گی کیا نہیں
مگر سامنے سے آتی کائنات کو دیکھ وہ سب بھول کر
تیزی سے آگے بڑھی.....دونوں بہنیں ایک دوسرے کے
بغلگیر ہوئیں پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھیں.......
اندرونی دروازے کی سیڑھیوں پر کھڑے شاہزیب نے ایک
گہری سانس بھرتے ہوئے قدم ان کی جانب بڑھائے۔
"ریلکس کائنات!.....وہ سفر سے آئی ہے آرام کرنے دو
پہلے۔" اس نے کائنات کے شانے پر پیار سے تھپکی دیتے
ہوئے کہا تھا۔
"چلو اندر چلو۔ نسیم بابا! میڈم کا بیگ اٹھا الؤ۔" وہ کہہ کر
پلٹ گیا۔
کائنات نے حور کے آنسو پونچھے تھے روتے روتے
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگی تھیں۔
نجانے کیوں جو بےچینی حور کے دل میں کہیں نا کہیں
تھی وہ سکون میں بدل گئی تھی۔
7
شاہزیب نے اسے مخاطب نہیں کیا تھا اور حور نے بھی
اس سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔
اس نے جب آنکھیں کھولیں تو کسی الگ جگہ کا احساس
ہوا......وہ ہسپتال میں تھی،اپنا دائیں ہاتھ کو اس نے
جیسے ہی اٹھانے کی کوشش کی محسوس ہوا....کسی کی
گرفت میں ہے۔
گردن گھما کر دیکھا تو حیرت سے اس کی آنکھیں یہاں
سے وہاں تک پھیلتی چلی گئیں۔
شکیل خان اس کا ہاتھ تھامے ...آگے کو جھکا....سر اس
کے بازو کے قریب رکھے شاید سو رہا تھا۔
وہ اس کے ہلنے پر نیند سے بیدار ہوا اور تیزی سے
سیدھا ہو بیٹھا۔
"اب کیسا محسوس کر رہی ہو؟" اس کے استفسار پر زری
بےیقینی سے اسے دیکھنے لگی جس پر وہ نگاہیں چرا
گیا۔
"میں نے سوچا تھا کہ اگر ہوش میں آؤں تو منظر بدال ہوا
ہو ".....وہ اپنا ہاتھ اس کے شعلے کی مانند دہکتے ہاتھ
سے بےرخی سے کھینچ چکی تھی۔
8
"کیا یہ منظر تمہیں پسند نہیں آیا؟" شکیل خان نے
استفسار کیا تو وہ عجیب سے انداز میں ہنسی۔
"نہیں ہرگز نہیں شکیل خان! اور پلیز تم میری زندگی میں
مزید کچھ بھی بدلنے کی کوشش مت کرنا......اور ہاں مجھ
سے نرمی سے پیش آنے کی تو کوشش بھی مت کرنا۔" وہ
تیکھے لہجے میں کہہ کر آنکھیں موند گئی تھی۔
شکیل خان میں معافی مانگنے کی ہمت ابھی نہیں تھی.....
مگر انسان ہمت پیدا کرنے کے چکروں میں وقت کو
گزرنے کی مہلت دے دیتا ہے اور معافی کا اچھا وقت گزر
جاتا ہے تو......تب انسان کو احساس ہوتا ہے کہ ہم کچھ
کھو چکے ہیں۔
"مجھے گھر جانا ہے۔" وہ اس کو مسلسل اپنی جانب
دیکھتا پا کر اکتاہٹ بھرے انداز میں گویا ہوئی۔
"کون سے؟" کمال کی نرمی تھی اور شہد جیسا
لہجہ.......ایک پل کو تو زرمینہ کے اندر کچھ چھن سے
ٹوٹا تھا۔
"کسی بھی ،مگر.....مجھ پر ایک احسان کرو گے؟" وہ
بجھے بجھے لہجے میں بولی۔
9
"مجھے تمہارے ساتھ نہیں رہنا.....مجھے تنہا رہنا
ہے۔جہاں کوئی انسان نہ ہو......وہ اسی جگہ ہی جہاں
ہماری زندگی کی شروعات ہوئی۔"
کمال کا ضبط تھا.....اسے اس کے گناہ یاد دالتے ہوئے وہ
وحشت سے مسکرائی تھی۔
"مجھ سے اتنی رحم دلی کی امید مت کرو زرمینہ خان!
میرے ظلم کی انتہا سے اچھی طرح سے واقف ہو تم"......
شکیل خان نے کوشش کی تھی کہ لہجے میں غصہ بھر
سکے مگر ناکام رہا۔
اس کے سارے بل نکل چکے تھے......اور یہ لہجہ شکیل
خان کا ہرگز نہیں ہوتا تھا.......تو وہ واقع ہی بدل گیا؟
"زرمینہ خان نے زندگی سے ایک چیز سیکھی ہے".....
وہ کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
ّٰللا کی جانب سے بہت بڑی نعمت ہے۔" وہ پھر
"کہ تنہائی ہ
ایک جملہ بول کر خاموش ہوئی تھی....شاید اسے بولنے
میں دشواری ہو رہی تھی۔
"تنہائی میں رہ کر اپنے خوابوں میں اپنی مرضی کی
زندگی جیتے ہیں۔"
10
"تم کچھ اچھا نہیں سیکھتی زرمینہ خان! تمہاری یہ ہی
پرابلم ہے۔" وہ دھیمے لہجے میں بوال
"تم نے بھی کہاں کچھ اچھا سیکھا ہے ،کاش تم بھی کچھ
اچھا سیکھا لیتے تو شاید آج مجھ پر ڈھیروں روپے خرچ
نہ کرنے پڑتے......خیر یہ تو میری سزا ہے جو تمہارے
ّٰللا نے مجھے دی۔ کہتے ہیں نا کہ کچھ گناہوں
روپ میں ہ
کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے.....سائیں کی محبت میں
اندھی ہو کر اتنے گناہ کیے....نجی کی دوستی کا بہت فایدہ
اٹھایا....باپ کی عزت رول دی۔ اتنے ڈھیر سارے گناہوں
ّٰللا نے تم جیسے حسین درندے کو میرے کے روپ میں ہ
اوپر عذاب کی مانند نازل کیا ہے۔" آج وہ اس سے ڈر نہیں
رہی تھی.....دوبارہ زندگی ملی تھی.....اور وہ جیسے
شیرنی بن گئی تھی۔ یا شکیل خان کی نرمی کی بدولت اس
کے دل کی بھڑاس باہر نکل رہی تھی۔
"زرمینہ خان!"......
"ارے اتنی محبت سے بار بار میرا نام مت پکارو.....محبت
کو ترسی ہوئی لڑکی ہوں کہیں تمہاری اس دکھاوے کی
محبت پر ایمان لے آئی تو۔" وہ ایک دم سے قہقہہ لگا کر
11
ہنسی تھی ......شکیل خان اس کی جانب زخمی خور نگاہوں
سے دیکھتا رہا۔
"مگر سچ تو یہ ہے شکیل خان! کہ تم اگر سچ میں بھی
محبت کرو تو میں ایمان نہیں الؤں گی۔" ایک دم سے اس
کا لہجہ بدال تھا۔
تلخی سے کہتے ہوئے اس نے رخ پھیر لیا۔
"تم جو فیصلہ کرو گی زرمینہ خان!....مجھے منظور ہو
گا۔" وہ نم آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ،زرمینہ کی بند
پلکیں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھیں۔
"تم نے ٹھیک کہا تھا شکیل خان! اب شاید میں تمہاری ہی
تسبیح کروں گی۔ کیونکہ آنکھیں بند کرتے ہی تمہارا
مکروہ چہرہ دکھائی دیتا ہے اور مجھ پر ڈھایا گیا تمہارا
ظلم و ستم .....سائیں کی سائیلنٹ تو تمہارے وائلنس کے
پیچھے ایک دم سے چھپ گئی ہے۔" پٹ سے آنکھیں
کھولتے ہوئے وہ چھت کو گھورنے لگی تھی۔
شکیل خان سے مزید وہاں بیٹھ نہیں ہوا تھا۔
تیزی سے اٹھ کر وہاں سے ہٹ گیا اور وہ پیچھے ہنستی
چلی گئی۔
12
رات کا دوسرا پہر تھا اور وہ ابھی تک باتیں کر رہی تھیں۔
پہلے ماں کے متعلق.....پھر اتنے دن کیسے گزرے.....حور
کو ایک جانب سے تو تسلی ہوئی تھی کہ شاہزیب کائنات کا
بہت خیال رکھتا ہے......پھر تایا لوگوں کی کارستانیوں کی
باتیں شروع ہوئیں۔
"شاہزیب تایا لوگوں کے خالف ایکشن لینا چاہتے ہیں مگر
اس کے لیے ہمیں ایف آئی آر درج کروانی ہو گی .....تاکہ
وہ لوگ آگے کسی بڑے آفیسر کے پاس جا کر اس کی
کاروائی رکوا نہ سکیں۔"
وہ دونوں کچن میں گھسی کافی بناتے ہوئے بھی باتیں کر
رہی تھیں۔
"تمہارے ہسبینڈ کے آدمی اگر وہاں ہیں تو کچھ نہ کچھ تو
ان کے پاس ہو گا ثبوت کے طور پر؟" اس سوال پر حور
کے زخموں پر مزید جلن ہوئی تھی۔
"ان سب کو شاہزیب دیکھ لے گا......اور اب مجھے ان کا
ڈر ہرگز نہیں ہے .....پہلے تھا کہ میرے پاس کوئی ثبوت
نہیں تھا وہ لوگ صاف مکر جاتے اور تمہیں نقصان
پہنچانے کی کوشش کرتے.....میں الکھ کچھ کہتی رہتی ماما
13
نے یقین نہیں کرنا تھا کیونکہ تایا لوگوں نے اپنی ایمج ان
کے سامنے بتہ اچھا بنایا ہوا تھا ۔" وہ بوجھل دل کے ساتھ
کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
بلیک نائٹ ٹراؤزر اور ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ میں بالوں کے
ڈھیلے ڈھالے جوڑے کے ساتھ وہ کافی تھکی ہوئی لگ
رہی تھی۔
زندگی نے حوریہ رائے کو لڑکپن میں ہی اتنے بڑے بڑے
سبق سکھا دیئے تھے کہ اب وہ ذرا تھکنے تو لگی تھی
مگر ہمت نہیں ہاری۔
"اب تم سیو ہو مجھے ان کا اب کوئی ڈر نہیں......اب
دیکھنا انہیں میں کیسے سبق سکھاؤں گی۔"
جبڑے بھینچے وہ غصے سے بولی۔
"میں تمہارے ساتھ ہوں۔" شاہزیب گال کھنکھارتے ہوئے
کچن میں داخل ہوتے بوال۔
حور چند پل اسے دیکھتی رہی پھر رخ پھیر لیا۔
"حور! مجھے نہیں معلوم کہ تمہیں مجھ سے کیا ناراضگی
ہے؟....جیسا بھی رہا ہے مگر میں نے ہمیشہ تمہاری
14
حفاظت کے متعلق ہی سوچا ہے۔ صرف کائنات کو ہی نہیں
تمہیں بھی پروٹیکٹ کرتا تھا۔" اس نے نرمی سے کہا تھا۔
"مجھے نیند آ رہی ہے۔" وہ تیزی سے اٹھ کر کچن سے
نکل گئی۔
چند پل ان دونوں کے درمیان گہری خاموشی چھا گئی تھی۔
"آپ اٹھ کیوں گئے؟" کائنات نے تیزی سے خوشگوار
لہجے میں استفسار کیا۔
"کیونکہ آپ کا رتجگے کا پالن ہے سوچا اب میں بھی
جاگ لوں تھوڑا۔" وہ مسکراتے ہوئے اس کی جانب بڑھا
تھا۔
"ہوں تو یہ بات ہے؟" وہ شرمیلی سی مسکراہٹ لیے ایک
قدم پیچھے ہٹی۔
"ہوں.....ہوں۔" وہ اثبات میں سر ہالنے لگا۔شاہزیب کی
آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔
"خانزادے! حور آئی ہوئی ہے گھر پر؟ آپ سو رہے
تھے....؟ اور میں آج حور کے ساتھ سونے والی تھی؟ یاد
کرنے کی کوشش کریں۔یاد آیا کچھ.....؟" وہ جب بلکل اس
15
سے ایک قدم کے فاصلے پر آ رکا تو کائنات نے ہڑبڑا کر
دھڑکنوں کو سنبھالتے سرخ ہوتے کہا۔
"نہیں ،بلکل بھی نہیں .....کچھ یاد نہیں آ رہا۔" وہ اس کی
جانب جیسے ہی جھکا وہ دھڑکتے دل کے ساتھ سختی سے
آنکھیں میچ گئی۔
جبکہ وہ اس کی اس ادا پر فدا ہوتا مسکراہٹ لیے ہاتھ بڑھا
کر دائیں جانب ٹرے میں پڑا کافی کا مگ اٹھا چکا تھا۔
تھوڑی ابھی بھی کائنات کے شانے کو چھو رہی تھی۔ وہ
جیسے ہی پیچھے ہٹا کائنات نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کی
جانب دیکھا۔اس کا دھان پان سا سراپا شاہزیب کے سامنے
بہت ہی چھوٹا سا لگ رہا تھا .....حاالنکہ وہ بیس سال کی
تھی مگر اس وقت وہ کوئی
سولہ سترہ سالہ لڑکی لگ رہی تھی۔
شاید یہ ولی خان کی اور انیلہ کی باتوں کا اثر تھا کہ وہ اپنا
اور شاہزیب کی عمر پر تو نہیں مگر قد کاٹھ پر غور کرنے
لگی تھی۔
ّٰللا اتنا چھوٹا قد بھی نہیں دینا چاہیے تھا۔اور تھوڑا
"یا ہ
سی چربی مجھے بھی دی ہوتی تو شاہزیب کے سامنے
16
چونٹی تو نہ لگ رہی ہوتی۔" وہ سوچ رہی تھی مگر اسے
معلوم نہیں ہوا کہ وہ بول بھی رہی ہے۔
"بڑی ہائٹ کا کیا کرو گی؟" شاہزیب اس کے ساتھ آ کھڑا
ہوا۔وہ ہڑبڑا کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"ن نہیں میں تو ویسے ہی سوچ رہی تھی۔"
"ہوں ،اور ہاں چربی بھی چڑھ جائے گی .....مزید ایک
سال انتظار کرو۔" وہ آنکھ دبا کر کہتے ہوئے کافی کے
سیپ بھی بھر رہا تھا۔
"مطلب؟"
"ابھی سمجھنا ہے مطلب؟" وہ سنجیدگی سے اسے
دیکھتے ہوئے .....بوال تو شریر لہجے میں ہی تھا۔
"ہوں۔"
"اچھا اس کے لیے پہلے ایک سوال کا جواب دو۔"
"پوچھیں؟"
"تم اس شادی سے خوش ہو نا؟"
"جی۔"
17
"تو بس پھر شادی شدہ لوگ خوشی سے ہی تو موٹے
ہوتے ہیں۔" وہ شانے آچکا کر ہنستے ہوئے بوال۔
"ٹائم پاس کرنے کے لیے یہ ہی وقت مال تھا؟" وہ اسے
خفگی سے دیکھتے ہوئے بولی۔
"بس اب بہن آ گئی ہے شوہر تو بھول ہی جاؤ گی نا۔" وہ
معصومیت سے کہتے ہوئے منہ پھال گیا۔
"اب اوؤر ایکٹنگ بند کریں اور جا کر سو جائیں۔" اس نے
بیویوں واال رعب جھاڑا۔
"گڈ نائٹ ڈیئر وائف۔" وہ اس کی ناک دبا کر کہتے ہوئے
پلٹ گیا اور کائنات ہنستے ہوئے ایک مگ جو بچ گیا تھا وہ
اٹھا کر کمرے کی جانب بڑھی۔
نجانے دل میں کیسا طوفان برپا ہوا تھا.....
دل ہی نہیں محض....
ہماری پوری دنیا ہی تہس نہس کر گیا
18
حور بستر پر کروٹ پر کروٹ بدل رہی تھی ،اتنا نرم بستر
بھی اسے کانٹوں کی سیج لگ رہا تھا۔
آنکھیں بند کرتے ہی دالور خان جھپک سے سامنے آ جاتا
تو وہ ایک دم سے آنکھیں کھول دیتی۔
بلینکڈ اوڑھتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے اس ظالم کی
خوشبوئیں اس کی سانسوں میں اترنے لگی ہوں۔
یہ نہیں تھا کہ وہ اکیلی ہی بےچین تھی......دوسری
جانب ....اسالم آباد میں....وہ نیلی آنکھوں واال مغرور سا
شہزادہ بھی اسی حال میں تھا.....اپنی خوشبوئیں،اپنے
ہونے کا احساس وہ دالور خان کے پاس چھوڑ آئی تھی۔
وہ بھی اسی کی مانند بستر پر کروٹ پہ کروٹ بدل رہا
تھا۔اس نے بلینکڈ کو خود پر سے ہٹاتے ہوئے وہ
دوسرے ہی لمحے بےقرار سا ہو کر اٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔
"نہیں اتنی آسانی سے تو میں تمہیں نہیں کھو سکتا
حور!" اس نے نفی میں سر جھٹکا۔
"مگر کیا کروں.....؟ کیسے اسے مناؤں؟.....میں جانتا ہوں
کہ وہ بھی مجھے چاہتی ہے ،مگر جو میں نے کیا اس کے
19
بدلے میں وہ معافی کیوں دے گی بھال۔" وہ بےچینی سے
اٹھا تھا اور سگار سلگاتے ہوئے ٹیرس پر چال گیا۔
"کچھ سوچو دالور خان! تم اسے کھو نہیں سکتے......وہ
تمہاری پہلی اور آخری محبت ہے۔" اس کے دل نے دہائی
دی۔
"دل سے نہیں دماغ سے سوچو.....سردار دالور خان کی
طرح سوچو۔" اس نے سگار کا کش بھرتے ہوئے دھواں
ہوا میں اڑیا۔
کچھ اس کے دماغ میں آیا تھا تبھی ہونٹوں کی جانب جاتا
سگار واال ہاتھ ہوا میں ہی رک گیا۔
"نہیں.....نہیں....یہ ٹھیک نہیں رہے گا۔تم ایک مزید غلطی
نہیں کر سکتے.....نہیں دالور خان! بلکل بھی نہیں۔" وہ
سختی سے خود کو ڈپٹ کر اس آئیڈیا پر مزید سوچنے
سے دماغ کو روکنے لگا
"مگر وہ بھی مجھے چاہتی ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا۔"
اس نے شانے آچکائے۔
"چاہتی ہے مگر.....تم اسے دھوکا ہرگز نہیں دے
سکتے .....پہلے اتنا کچھ بگڑ چکا ہے تم مزید بگاڑ دو
20
گے۔" اندر سے کوئی چال چال کر اسے روکنے کی کوشش
کر رہا تھا مگر وہ سننے کے حق میں نہیں تھا۔
"یہ غلط نہیں ہے۔ابھی جب وہ مجھ سے دور جائے گی تو
اسے احساس ہو گا کہ وہ میرے بغیر رہ نہیں سکتی....پھر
لوٹ آئے گی تو......اس میں کوئی حرج نہیں۔ میں جو سوچ
رہا ہوں میں وہ ہی کروں گا۔" اس نے اپنی سوچ پر اپنے
عمل کو سرانجام دینے کی مہر لگا دی تھی اندر بیٹھا ڈر
بس روتا تڑپتا رہ گیا تھا۔
"چلو نجی! ان سوالوں کے جواب دو۔" نیسی نے پینسل
واپس رکھی اور نوٹ بک اٹھا کر اس کے سامنے جا کھڑی
ہوئی۔
"یہ تمہاری پسند اور ناپسند کے متعلق سوال ہیں......ہم
دیکھیں گے کہ تمہیں کون سی پسند فرحان کی پسند سے
بدلنی چاہیے اور کون سی نہیں۔" نیسی نے کہا
"پسند کیسے بدلی جا سکتی ہے؟" اس نے حیرانگی سے
استفسار کیا۔
21
"وہ بھی سکھا دوں گی....خیر چلو اب ٹائم ہو چال ہے
سواالت و جوابات کا۔ ایکٹیو ہو کر بیٹھو ".....نیسی نے کہا
اور نوٹ بک پر ایک نگاہ ڈالی۔
پھر جب اسے دیکھا تو وہ اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی۔
"میرا مطلب ہے سیدھی ہو کر بیٹھو اور دماغ کو جگاؤ۔"
آگے بڑھ کر اس کے ڈھیلے ڈھالے چھوڑے شانوں کو تھام
کر اسے سٹریٹ بیٹھا دیا۔
دونوں شانوں پر بکھرے گھنے اور سلکی بالوں کو کمر پر
گرایا اور ٹی شرٹ کی بےترتیبی بھی درست کی۔
"ہم جب کہیں جاتے ہیں تو اس طرح بیٹھتے ہیں۔ نہ کہ
کمر پیچھے کو نکال کر تھکے ہارے اور بوڑھے لوگوں
کی طرح ،آئی سمجھ میں بات؟" وہ اپنے مخصوص سخت
اور تیز لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
"اوکھا (اوکے)"
"کیا؟"
"میرا مطلب اچھا ،ٹھیک ہے۔"
22
"اچھا کو اوکھا نہیں .......اوکے کہتے ہیں۔سارا لکھ کر دیا
تھا نا پھر بھی کچھ پلے نہیں پڑتا تمہارے؟ ذہن کہاں ہوتا
ہے تمہارا؟" وہ ڈانٹتے ہوئے بولی۔
"فرحان کی طرف۔" کھوئے کھوئے لہجے میں کہتے ہوئے
ٹھنڈی آہ بھر کے اس نے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔
نیسی کو اس پر ترس آیا تھا کہ وہ کتنا کچھ کر رہی تھی
فرحان کی خاطر مگر وہ تو ٹھیک سے اسے دیکھتا بھی
نہیں تھا......نیسی صبح آتے ہی اسے بہترین ڈریس پہنا کر
ریڈی کر دیتی تھی۔
پھر اسے ناشتہ سرو کرنا سکھاتی اور کرنا بھی۔
تب تک فرحان بھی اٹھ جاتا تھا فریش ہو کر نیچے آتا اور
خاموشی سے ناشتہ کر کے نکل جاتا۔
"دیکھو نجی!....یہ الس ویگاس ہے۔ یہاں زندگی گزارنا
جتنا آسان لگتا ہے اتنا ہی یہاں کی برائیوں سے بچنا مشکل
ہے ،تمہیں فرحان کی لگامیں کسنی پڑیں گیں.....اگر تم یہ
رشتہ نبھانا چاہتی ہو تو اس پر کچھ دائرے عائد کرو"....
وہ اس کے ساتھ جھولے پر ہی بیٹھ گئی تھی۔
23
نجی اس کی بات نہیں سمجھی مگر محض سر ہال کر رہ
گئی تھی۔
"اور ہاں،میں تمہاری ٹیچر ہوں.....تمہیں صرف زندگی کے
ساتھ اٹیچ چیزیں ہی نہیں بلکہ زندگی کس طرح گزارتے
ہیں وہ بھی سکھانے آتی ہوں ".....اس نے سامنے
دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا تھا۔
"ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا نجی! ....زندگی میں کسی سے
اتنی امیدیں وابستہ مت کر لینا کہ پھر بعد میں امیدیں
ٹوٹنے پر تکلیف ہو۔
دوسری بات محبت عورت کی فطرت ہے مگر اس محبت کو
اپنی زندگی تباہ مت کرنے دینا......
تیسری بات فرحان تمہارا شوہر ہے اس کے متعلق تمہیں
وہ سب کچھ معلوم ہونا چاہیے جو وہ تمہیں نہیں بتاتا....تم
اس سے وہ سب پوچھو۔ اس سے اتنی دیر باہر سے آنے
کی وجہ پوچھو۔" نیسی نے آخری بات اس کی آنکھوں میں
برا ِہ راست جھانکتے ہوئے کہی تھی۔
نجی کئی پل ساکت بیٹھی رہی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے؟
24
"خیر یہ سب چھوڑو.....ساتھ ساتھ چلتا رہے گا اب سوالوں
کے جواب دو۔" اس نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا تو
نجی نے بھی پلکیں جھپک لیں۔
"کھانے میں کیا پسند ہے؟"
"بڑا گوشت اور بریانی۔"
"بریانی ٹھیک ہے مٹن فرحان کو پسند نہیں۔"
نیسی کی بات پر وہ اسے دیکھے چلی گئی کہ مٹن ہو یا
بیف نجی کو بےحد پسند تھا اور حویلی میں تو ہم وقت
ایک ڈش ساتھ میں بیف مٹن وغیرہ کی ہوتی تھی۔
"تحفے میں کیا لو گی اگر کبھی فرحان دے تو؟" اس سوال
پر نجی کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی
تھی۔ کمرے کے اونچی اور لمبی کھڑکی کے پاس سے گزر
کر اندر آتے فرحان کے قدم رک گئے تھے وہ اب نجی کے
جواب کا منتظر تھا۔
"کانچ کی چوڑیاں ،مہندی ،گالب اور کلیاں.....ان کی محبت
،ان کے وقت میں سے چند پل "....وہ سر جھکائے کہہ
رہی تھی فرحان نے ہاتھ بڑھا کر پردے کو پیچھے کیا تھا
اور اسے دیکھنے لگا۔
25
سلیو لیس ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور نیلی جینز میں کھلے
لمبے بالوں کے ساتھ اس کا سا سراپا کتنا دلکش لگ رہا
تھا۔
"یہ سب تو پینڈو گرلز لیتی ہیں نا .....تمہیں اس سے
تحفے میں ایم بی ڈبلیو یا پھر کوئی مہنگا بنگلہ وغیرہ لینا
چاہیے۔کیا خیال ہے؟"
"کیا کروں گی میں ان سب کا؟ یہ سب تو میرے شوہر کے
پاس ہیں نا تو مجھے کیا ضرورت لینے کی؟
جو میرے پاس نہیں ہے وہ ہی مانگوں گی نا۔" اس کی
آواز میں درد سا اترا تھا۔
"اففف پھر سے وہی چھوٹے لوگوں واال جواب۔"نیسی
آنکھیں گھما کر رہ گئی۔
"کیا ضرورت تھی اس کے اتنا نزدیک جانے کی......اور
اسے یہ امید دالنے کی کہ وہ تنہا نہیں ہے میں اس کے
ساتھ ہوں۔" فرحان مایوسی کے عالم میں سوچتے ہوئے
کھڑکی سے ہٹ گیا تھا۔
****
26
صبح صبح وہ دونوں کچن میں گھسیں ،خوش گپیوں کے
ساتھ ساتھ ناشتہ بنا رہی تھیں جب شاہزیب گال کھنکھارتے
ہوئے کچن میں داخل ہوا۔
"مجھے کچھ ضروری بات کرنی ہے تم دونوں سے۔ذرا
آئیں باہر۔"
"تم جاؤ۔" حور نے کائنات سے کہتے ہوئے پلیٹیں ٹوکری
میں سیٹ کرنے لگی۔
کائنات شاہزیب کی جانب دیکھنے لگی جو لب بھینچے
بےحد سرد نگاہوں سے حور کو دیکھ رہا تھا۔
"تم چلو میں التا ہوں۔" کائنات سے کہہ کر وہ آگے بڑھا۔وہ
اثبات میں سر ہالتی وہاں سے چلی گئی۔
"میں آج جاننا چاہوں گا کہ تم مجھ سے اتنی نفرت کیوں
کرتی ہو؟" وہ اس سے استفسار کر رہا تھا۔
"نفرت؟ "......وہ اس کی بات پر حیران ہی تو رہ گئی تھی۔
ہاں وہ اسے پسند نہیں کرتی تھی اس کی کئی وجوہات تھیں
مگر نفرت.....
27
" نہیں نفرت نہیں کرتی مگر تم مجھے اچھے نہیں لگتے۔
اور وہ ساگر کی شادی کی رات واال حادثہ ".........کہتے
کہتے اس کی زبان ایک دم سے بند ہوئی۔
شاہزیب نے بےحد چونک کر اس کی جانب دیکھا۔
"کیا مطلب؟ ساگر کی شادی؟ ".....اسے لگا شاید اس نے
کائنات پر حملہ کرنے والے کو دیکھ لیا تھا....یا پھر اسے
اٹھا کر کمرے میں لے جاتے ہوئے؟....
"اتنے بھولے مت بنو۔" وہ تمسخرانہ ہنسی۔
"مجھے بس تم سے لڑنا اچھا لگتا تھا کہ جہاں سب میرا
ساتھ دیتے تھے تم مخالفت کرتے تھے.....اور اس دن کے
بعد تو مجھے واقع ہی تم زہر لگنے لگے تھے......میں نے
بہت کوشش کی کہ کائنات کو تمہارے سحر میں جکڑنے نہ
دوں مگر میں ناکام رہی.....خیر وہ پرانی باتیں تھیں"....
اس نے اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھا۔
"اب میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی۔ چند دنوں بعد میں
فرانس جا رہی ہوں......اور پھر شاید کبھی واپس نہ آؤں
مگر تم یہ مت سمجھنا کہ کائنات تنہا ہے۔" آخر پر اس نے
28
دھمکی دی تھی وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے ادھر ادھر
دیکھنے لگا۔
"رشتوں میں غلط فہمیوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی
حور!....میں چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان میں بھی کوئی
غلط فہمی نہ رہے اسی لیے جو بھی ہے کلیئر کر لو۔"
اس نے کہا تھا اور حور بھی پوچھنا چاہتی تھی مگر الج
آڑے آ رہی تھی۔وہ رخ پھیر گئی.....اس سے نگاہیں مال کر
وہ بھال اتنی بڑی بات کیسے پوچھ سکتی تھی.....خواہ
جتنی بھی بولڈ سعی مگر کچھ شرم وحیاء کی حدیں ہوتیں
ہیں.....جسے عورت کبھی پار نہ کرے تو ہی بہتر ہوتا ہے
اس کے لیے بھی اور اس سے جڑے باقی کے رشتوں کے
لیے بھی۔
"اس دن میں اپنے کمرے سے نکلی تھی.....سیڑھیوں پر
پہنچی تو تائی کے خاندان کی ایک لڑکی کی دہائیاں سنائی
دیں.....پھر وہ جس حالت میں....میرے سامنے آئی اور......
پیچھے تم بھی ".....ہچکچاتے ہوئے وہ بات اُدھوری
چھوڑ گئی۔
شاہزیب کی نگاہوں کے سامنے وہ رات گھوم گئی تھی۔
29
جب وہ کافی کی طلب سے کمرے میں سے نکال تھا کہ
سیڑھیوں کے نیچلے گھپ اندھیرے والی جگہ پر کاشی کو
ایک لڑکی کے ساتھ زور زبردستی کرتے دیکھ غصے میں
آ گیا۔
آگے بڑھ کر اسے دبوچ کر ایک دو تھپڑ جڑتے ہوئے پرے
کیا تھا۔
اور لڑکی کا دوپٹہ زمین پر سے اٹھا کر اس کی جانب
بڑھایا....وہ لڑکی اس کا شکریہ ادا کرتی وہاں سے بھاگ
کھڑی ہوئی تھی۔
"یہ سب ہوا تھا حور!......کیا میں تمہیں اتنا گھٹیا ،اتنا گرا
ہوا انسان لگتا تھا جو تم نے اتنا برا سوچ لیا....میرے
متعلق؟" اس نے ساری بات بتاتے ہوئے کہا۔
حور ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹی تھی۔
"ا ایم سوری۔" آنکھوں کی نمی بتا رہی تھی کہ وہ واقع ہی
شرمندہ تھی۔
"اٹس اوکے "....شاہزیب نے کسی بڑے بوڑھے کی مانند
اس کا سر تھپکا تو وہ بےاختیار ہی ہنس دی۔
30
"اوکے اب چلو بہن.....وکیل آیا ہوا ہے وہ بھی کہہ گا کہاں
غائب ہو گئے سب کے سب۔" وہ کہتے ہوئے پلٹ گیا۔
"وکیل؟" وہ حیران سی اس کے پیچھے بڑھی۔
"یہ رائے مینشن والوں کی ساری جائیداد کے کاغذات
ہیں ...جن پر پوری پالننگ کے تحت ان کے سائن لیے جا
چکے ہیں اب تم دونوں سائن کرو پھر میں جانوں اور میرا
کام جانے۔"
اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے پیپرز ان دونوں کے
سامنے رکھے تھے۔
وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگیں۔
"نہیں شاہزیب! ہم صرف اپنا حصہ ہی چاہتے ہیں۔ پراپرٹی
میں سے ان کا حصہ انہیں دیا جائے گا۔" حور نے کہا تو
کائنات نے بھی اس کی تائید میں سر ہالیا۔
"اس میں بچوں کی اور چاچی کی تو غلطی نہیں ہے.....تایا
تائی ،عاصف ان تینوں کو سزا ضرور ملنی چاہیے مگر اس
طرح نہیں.....اس طرح تو ہم بھی ان جیسے ہو جائیں گے
نا پھر....ہمیں ان کی صف سے نکل کر انہیں سزا دینی
ہے۔" حور کی بات پر وہ چند پل کچھ سوچتا رہا۔
31
"اوکے پھر ایسا کرو سب کو برابر وراثت دو اور ساتھ میں
ایک وصیت بناؤ۔" شاہزیب نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"کیسی وصیت؟" حور نے استفسار کیا۔
"رکو بتاتا ہوں۔وکیل صاحب! وصیت کے لیے پیپرز
نکالیں۔" اس نے اپنی جیب میں سے پین برآمد کرتے
ہوئے حور کی جانب بڑھایا۔
"لکھو حور!" اس نے گال کھنکھارتے ہوئے کہنا شروع
کیا۔
"یہ لکھو کہ اگر رائے مینشن میں سے کسی بھی شخص
نے جائداد کے لیے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی
کوشش کی تو اس شخص کے حصے کی وراثت یتیم خانوں
میں تقسیم کر دی جائے گی۔" وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔
حور نے اس کی بات مانتے ہوئے
لکھنا شروع کیا تھا۔
ساری کاروائی کے بعد شاہزیب وکیل کو جب گاڑی تک
چھوڑنے گیا تو اس کے فون پر دالور خان کی کال موصول
ہوئی تھی۔
"اسالم علیکم!" اس نے ہاش بشاش لہجے میں سالم کیا۔
32
"و علیکم السالم! تمہیں کچھ واٹس ایپ کر رہا ہوں امید
کرتا ہوں تمہارے کام آئے گا۔" دالور نے بجھے بجھے
لہجے میں کہا۔
"اوکے۔اور سناؤ کیسے ہو تم؟" وہ ہلکے پھلکے انداز
میں بوال....مگر دالور خان سنجیدہ تھا.....
"شاہزیب! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تم نے حور کے
پیچھے رائے مینشن والوں کو کیوں لگایا؟" اس کے
استفسار پر شاہزیب دھیرے سے مسکرا دیا۔
"اس کی حفاظت کے لیے تم تھے نا اسی لیے۔" اس نے
کمال اطمینان بھرے انداز میں کہا تھا۔
"تمہیں کیسے پتہ؟" دالور خان چونکا۔
"ڈی سی پی شاہزیب خانزادہ ہیں ہم ".....وہ اترانے والے
انداز میں بوال۔
"سیدھی طرح بکو؟ اور تم نے اس سب کے متعلق شازار
کو تو نہیں بنایا؟" دالور خان تیزی سے بوال۔
"نہیں کچھ نہیں بتایا اسے۔"
"دراصل جب ہم نکاح کے بعد رائے مینشن سے یہاں آ
گئے تو میں حور کو ڈھونڈ رہا تھا.....اسے کا پرانا نمبر بند
33
تھا اور جس نمبر سے اس نے مجھے واٹس ایپ کیا وہ
نمبر مجھے یاد نہیں تھا.....اگر میرا فون رائے مینشن میں
نہ گرتا تو میں اس سیل میں سے حور کا نیا نمبر لے سکتا
تھا مگر مجھے وہ سیل فون اور سیم بند کروانا پڑا۔
مجھے اس کے کاغذاتی شوہر پر ذرا بھی یقین نہیں تھا کہ
وہ کیسا شخص ہو گا.....میں اس شخص سے ملنا چاہتی
اتھا....اور حور کی سکیورٹی کا بھی ڈر تھا .....سوچا
یونیورسٹی مالقات ہو جائے گی مگر وہ ان دنوں
یونیورسٹی نہیں جا رہی تھی۔پھر ایک دن میرا کیس کے
سلسلے میں اسالم آباد چکر لگا تھا اور تم دونوں کو ساتھ
دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ اس نے تم سے ہی پیپر میرج
کی ہے۔اسی کیے میں مطمیئن ہو گیا تھا۔" اس کی بت پر
دالور خان کی آنکھیں یہاں سے وہاں تک حیرت سے پھیل
گئیں.....یہ تو چار قدم اس سے آگے نکل گیا تھا۔
"اور میں نے اسے وارث بنایا .....تاکہ ماموں لوگوں کا
دھیان مجھ پر نہ رہے اور میں اپنا کام آسانی سے کر
سکوں۔" شاہزیب نے ساری بات بتاتے ہوئے اس کی سننی
چاہی جو بلکل خاموش ہو گیا تھا۔
34
"ہوں۔ٹھیک ہے.....اچھا میں ایک دو دنوں تک ڈیورس کے
لیے آ رہا ہوں.....مگر حور کو یہ پتہ نہ چلے کہ ہم کزنز
ہیں۔" اس نے کہا تو شاہزیب کی پیشانی پر حیرت کے بل
نمایاں ہوئے۔
"کیا مطلب؟ تم کرنا کیا چاہتے ہو؟" اس نے اچھنبے سے
استفسار کیا۔
"وہ سب بعد میں بتاؤں گا ابھی کے لیے بس اتنا ہی
کرنا۔"
"دیکھو دالور!....تم نے پہلے بھی اتنی بڑی غلطی کی ہے،
اس کی والدہ کی وفات کے متعلق جانتے ہوئے بھی اسے
ممانی کا آخری دیدار نہیں کرنے دیا.....
خیر مزید اسٹوپڈ بن کر غلطیاں مت کرنا.....تم خود
سمجھدار ہو اچھے برے کی پہچان ہے تمہیں۔حیرانی تو
مجھے اس بات کی ہے کہ رشتوں کے ساتھ فیئر بندہ اس
طرح.....کسی کو کیسے تکلیف پہنچا سکتا ہے؟ آخر تم نے
ایسا کیوں کیا؟" شاہزیب کے سوال پر سامنے سے رابطہ
کٹ چکا تھا۔
35
وہ خالی خالی نگاہوں سے فون کی روشن کر بجھ چکی
سکرین کو دیکھتا رہا۔پھر ٹھنڈی آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
اگلے ہی دن شاہزیب ریڈی ہو کر جیسے ہی ٹی وی الونج
میں داخل ہوا تھا۔
وہ رائے مینشن جا رہا تھا....
"تم اکیلے نہیں جاؤ گے......میں تمہارے ساتھ جاؤں گی۔"
حور اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے تیزی سے گوی
"تمہارا وہاں جانا ٹھیک نہیں ہے حور!.....وہ لوگ اس
وقت پاگل کتے جیسے ہوں گے.....جو بنا سوچے سمجھے
کاٹنے کو دوڑیں گے۔" اس نے سمجھداری سے اسے
سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ حور ہی کیا جو مان
جائے.....پر سامنے واال بھی شاہزیب تھا۔
"میں نے کہہ دیا نا کہ تم ہرگز نہیں جاؤ گی میرے ساتھ۔ تو
قدر غصے سے بوال تھا۔
واویال کیسا۔" اس مرتبہ وہ ِ
حور لب بھینچ کر اسے گھورنے لگی۔
"دیکھو حور! تم یہاں کائنات کے پاس ہی رکو کیونکہ مجھ
سے زیادہ اسے تمہاری ضرورت ہے۔حاالنکہ میں نے
سکیورٹی بڑھا دی ہے تم دونوں کی حفاظت کی خاطر
36
مگر.....پھر بھی جب تک وہ لوگ گرفتار نہیں ہو جاتے تب
تک تو تم دونوں کی حفاظت بےحد ضروری ہے۔" شاہزیب
کے پاس اور کوئی طریقہ نہیں تھا اسے روکنے کا تبھی
کائنات کو لے کر ایموشنل بلیک میل کر ڈاال۔
وہ گہری سانس بھر کر صوفے پر بیٹھ گئی تھی۔
"شکل گم کرو اب۔" حور منہ بسورے بولی تو وہ دونوں
مسکرا دیئے۔
شاہزیب جیسے ہی دروازے کی سمت بڑھا کائنات بھاگ کر
اس تک پہنچی تھی۔
وہ بھی اس کے قدموں کی آہٹ سن کر آنکھوں پر گالسز
چڑھاتے ہوئے مسکرایا اور کمرے سے نکلتے ہی دائیں
جانب ہو گیا۔
وہ جیسے ہی کمرے میں سے نکلی شاہزیب نے اس کا ہاتھ
تھام کر اپنی جانب کھینچ لیا تھا ،حور نے آنکھیں سکوڑے
یہ منظر دیکھا تھا .....نگاہوں کے پردے پر غیر متوقع
صورتحال میں دالور خان کی برتھڈے والی رات گھوم گئی
تھی....جب وہ اس کے سینے میں چھپ کر کتنی ہی دیر
آنسو بہاتی رہی تھی.....اور وہ اسے اپنے احصار میں لیے
37
دیوار سے ٹیک لگائے کتنے ہی پل ساکت و جامد بیٹھا رہا
تھا۔اس کی محبت جھلکاتی آنکھوں کا عکس دل کے
شیشے میں نمایاں نظر آ رہا تھا مگر وہ یہ سب جھٹالنا
چاہتی تھی....ایمان نہیں النا چاہتی تھی۔
دل میں ایک درد سا اٹھا تھا ،چہرہ سفید پڑتا گیا ،سختی
سے لب بھینچے وہ سر صوفے کی پشت پر گرا کے نم
ہوئی پلکوں کی جھالر رخساروں پر گرا چکی تھی۔
"مجھے تم سے محبت ہے حور! اس دن سے جس دن پہلی
مرتبہ تمہیں دیکھا......میں سچ کہہ رہا ہوں باخدا اس دل
میں تم سے پہلے کوئی نہیں تھا ،اس دل کے در تم نے وا
کیے ہیں۔"
سماعتوں سے دالور خان کی گھمبیر آواز ٹکرائی تھی۔
"میرے دل میں محض تم ہو حور! نہ کوئی پہلے تھی ،نہ
کوئی اب ہو گی۔"
"تم تنہا نہیں ہو حور! میں تمہارے ساتھ ہوں......ہر مرتبہ
تمہیں اپنے عمل سے بتاتا رہوں گا کہ تمہارا دوست ہے
جو تمہاری بہت کیئر کرتا ہے.....تم اس سے اپنی ہر بات
شیئر کر سکتی ہو......چلو اب یہ گنگا جمنا مت بہاؤ۔"
38
"تمہارے شوہر کی دوسری شادی ہے اور تم خوش ہو رہی
ہو"....
ایک بعد ایک کر کے کئی یادیں بند آنکھوں کے پردے پر
تیزی سے کسی فلم کی مانند چل رہی تھیں۔
اس نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
"تم تو اچھے دوست نہ بن سکے محبوب کیا خاک بنو
گے....اور میں چلی تھی تمہیں شوہر بنانے۔"
"چیٹر......دھوکے باز......بےوفا "....مزید بھی بہت سے
لفظ تھے اس کے پاس دالور کو کوسنے کے لیے مگر اس
وقت وہ بلکل بھی اسے سوچنا نہیں چاہا رہی تھی....مگر
اسی چاہا میں وہ سے ہی سوچے جا رہی تھی۔
ہر ایک بات میں اس کی بات یاد آ رہی تھی۔
ہر ایک خیال میں اس کا خیال تھا۔
وہ سلگ کر اٹھی اور پیر پٹختی سیڑھیاں چڑھ گئی۔
زری کو پرائیویٹ روم میں شیفٹ کر دیا گیا تھا.....وہ
ہسپتال میں ایک پل بھی مزید نہیں رہنا چاہتی تھی مگر
ابھی اسے ڈسچارج نہیں مال تھا سو مجبوراً اسے یہاں رکنا
پڑ رہا تھا۔
39
شکیل خان کی خاموشی اور اس کی نگاہوں میں موجود
شرمندگی زری کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔
اوپر سے اس کا اتنا خیال رکھ رہا تھا۔
زری کو تو اس کا یہ شفقت بھرا روپ دیکھ کر غش پڑ
جاتے تھے۔
"شکیل خان! "....اس نے بہت مدھم سی آواز میں اسے
پکارا تھا۔
وہ جو اس کے چہرے کے زخموں پر مرہم لگا رہا تھا سر
اٹھا کر اس کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگا۔
"تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ اگر معافی کے لیے کر رہے
ہو تو وہ تمہیں کبھی نہیں ملے گی۔" وہ بہت غور سے
جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
شکیل خان نے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔
"مجھے معافی نہیں چاہیے.....تم ٹھیک ہو جاؤ ،پھر جو
فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہو گا۔" اس کی بات پر زری
زور سے ہنسی تھی۔
"لگتا ہے چوٹ میرے سر پر نہیں بلکہ تمہارے سر پر
لگی ہے جس نے تمہارے دماغ کو کافی متاثر کیا ہے.....
40
کہیں تم اپنی یاداشت تو نہیں کھو بیٹھے؟" وہ مصنوعی
فکرمندی اور خوف کے ملے جلے تاثرات سے بول رہی
تھی اور اس کے لہجے سے جھلکتا طنز وہ خوب سمجھ
رہا تھا۔
"شکیل خان! یہ میں ہوں۔ زرمینہ خان......جسے تم دردناک
موت دینا چاہتے ہو۔ یاد کرو ہماری شادی ہوئی تھی ،اور تم
مجھے گلگت بلتستان کے ایک اونچے پہاڑ پر لے گئے
تھے۔تم نے مجھے.....مجھے ہر طرح کی چوٹ".....
بولتے بولتے اس کی آواز آنسوؤں سے بھر گئی تھی۔
وہ خاموش ہوئی پھر تیزی سے آنسو رگڑے اور اٹھ کر
بیٹھ گئی۔
"دیکھو میری طرف شکیل خان! میں ہی وہ بھگوڑی ہوں
میں ہی وہ بے غیرت ہوں جو اپنا سب کچھ قدموں میں
روندے بےسود ایک ساحر کے پیچھے بھاگتی رہی۔مجھے
سزا دو شکیل خان! مجھے میری محبت کی سزا دو۔" وہ
کہتے کہتے ایک دم سے چنخنے لگی تھی۔
وہ جو کبھی ہاتھ لگانے سے میلی ہوتی تھی اس وقت اس
کا رنگ زری جیسا تھا ،بال شانوں پہ بکھرے تھے اور سر
پر بندھی پٹی چہرے پر آئے جابجا زخم اور نیل.....شکیل
41
خان گھبرا کر اٹھا تھا اس کی جانب بڑھنے کی بجائے
کانپتے وجود کے ساتھ دو قدم پیچھے ہٹا۔
ت غیر سے وحشت ہو رہی
اس وقت اسے زری کی اس حال ِ
تھی.....وہ واپس پلٹا اور تیز قدموں سے کمرے میں سے
نکل گیا۔
زری ہاتھوں میں منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی تھی۔
"اپنا خیال رکھیے گا۔" کائنات اس کے سینے پر ہاتھ
رکھتے ہوئے فاصلہ بڑھا کر پیچھے ہٹی تھی۔
وہ دھیمی سی مسکراہٹ لیے اسے اپنی گرفت سے آزاد کر
چکا تھا۔
"اب تو خیال رکھنا ہی پڑے گا۔" اپنی پیشانی پر اس کے
ہاتھ کے سلگتے لمس کو چھوتے ہوئے وہ شرارت سے
گویا ہوا تو کائنات جھنپ کر سر جھکا گئی۔
"تم میری جانب سے بےفکر رہنا......اپنا خیال رکھنا اور
گھر سے باہر بلکل بھی نہیں نکلنا۔اگر کوئی بھی مسئلہ ہو
فوراً مجھے کال کرنا اوکے۔" اس کی رخسار تھپکتے
ہوئے نرم اور مدھم آواز میں بوال۔
42
"اوکے۔" وہ اس کے کوٹ کا کالر درست کرتے ہوئے
اثبات میں سر ہالنے لگی۔
"تو مجھے اجازت ہے؟" اس کے دونوں ہاتھوں کو تھام
کر ہونٹوں سے لگاتے ہوئے وہ اجازت مانگ رہا تھا۔
کائنات نے اثبات میں سر ہالتے ہوئے ایک نگاہ اس پر
ڈالی اور رخ پھیر لیا۔
وہ اس کے بہت قریب سے گزرا تھا اور تیزی سے چلتا بنا
رکے اندرونی دروازے کو پار کر گیا....کہ رکتا تو کائنات
کی نم آنکھوں میں جکڑا جاتا۔
کائنات نے نم آنکھوں سے پلٹ کر اس کی چوڑی پشت کو
دیکھا تھا۔
"ّٰللا میرے شوہر کی حفاظت کرنا۔" اس نے ہونٹوں پر ہاتھ
ہ
رکھتے ہوئے دعا کی تھی پھر پلٹ کر الونج میں جا بیٹھی۔
چند منٹوں بعد حور جب نیچے آئی تو اسے یوں ساکت
بیٹھی دیکھ پریشان ہو گئی تھی۔
"کائنات! تم ٹھیک ہو؟" وہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے
بولی۔
43
"ہوں ٹھیک ہوں۔" چونکتے ہوئے اس نے اثبات میں سر
ہالیا۔
"نہیں .....ٹھیک نہیں لگ رہی ،کیا ہوا؟" اس نے فکرمندی
سے پوچھا تھا۔
وہ گردن گھما کر حور کی جانب دیکھنے لگی....اس فکر
بہت اچھی لگ رہی تھی۔
"فوجی ہو یا پولیس آفیسر.....ان کی بیویوں کی جان ہمیشہ
ہی ڈر کی سولی پر لٹکی رہتی ہے کہ نجانے کب کیا ہو
جائے۔" اس کی گود میں سر رکھ کر لیٹتے ہوئے نم آواز
میں بولی تھی......حور نے دھیرے سے اس کے بالوں میں
انگلیاں چالتے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کا شانا سہالیا۔
"اور شاہزیب جیسے ایمان دار آفیسرز تو پھر ہر وقت موت
سے کھیلتے ہیں......ان پر پیچھلے مہینوں میں دو تین
مرتبہ جان لیوا حملے ہو چکے ہیں اب تو مجھے ڈر ہی لگا
رہتا ہے "...اس کے لہجے میں جو محبت تھی شاہزیب کے
لیے اس پر حور مسکرا دی۔
44
"تم اس کی فکر کر رہی ہو اچھی بات ہے مگر رونے سے
کیا ہوتا ہے؟ کچھ نہیں نا.....تو ایسا کرو وضو کر کے
نوافل ادا کرو دعا مانگو۔" وہ نرمی سے بولی۔
"آج مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے تمہاری جگہ ماما کی
گود میں سر رکھا ہو۔" وہ اس کی جانب کروٹ بدلتے ہوئے
اس کے گرد بازو حائل کر گئی۔
ماں کے ذکر پر لمحوں میں حور کی آنکھیں جھلکی تھیں۔
"پہلے میں تمہیں شاہزیب سے دور رہنے کو اس لیے
کہتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا وہ اچھا انسان نہیں
ہے.....مگر تم کائنات! تم انسانوں کو پڑھنے کا ہنر رکھتی
ہو۔تمہارے فیصلے پر مجھے بہت خوشی ہے۔" وہ اس کے
بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے مطمئن انداز میں بولی تو
کائنات اس کا ہاتھ تھام کر گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے
آنکھیں موند گئی۔
"گھر میں سب کیسے ہیں؟ طیبہ کی ماما کا دل لگ گیا
وہاں؟"
"سب ٹھیک ٹھاک ہیں ،الحمدہلل.......ماں بھی ٹھیک ہیں۔
کبھی کبھی وہ کہتی ہیں کہ انہیں الہور جانا ہے مگر میں
45
ہمیشہ روک لیتا ہوں۔کہ وہ تنہا نہیں رہ سکیں گیں۔" شازار
نے بتایا تھا۔
میرب نے مسکراتے ہوئے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور سر
اثبات میں ہال دیا تھا۔
"حویلی میں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے میرب!....
وہاں دن ہوتا ہے اور پھر رات ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا
اور یہاں دیکھو جب سے آیا ہوں.....دن سست روی سے
گزر رہے ہیں۔" شازار نے کہتے ہوئے ڈوبتے سورج پر
نگاہیں ٹکا دیں۔
"ٹھیک کہہ رہے ہو شازار! الہور میں وقت بہت دھیمی
رفتار سے گزرتا ہے۔"
وہ چند پل خاموشی سے اس کے پہلوؤں میں کھڑی رہی
پھر وہاں سے ہٹ گئی کہ دل اس کی نگاہوں کو بدستور ہی
شازار کی جانب متوجہ کر رہا تھا۔
"پہلی محبت کو بھالنا آسان تھوڑی نہ ہے۔" ٹھنڈی آہ
بھرتے ہوئے اس نے مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائی تھی۔
"ّٰللا میں نکاح شفاف دل سے کرنا چاہتی ہوں کچھ ایسا کر
ہ
دے کہ شازار میرے سامنے ہو اور میں اسے محض ایک
46
دوست کی نگاہ سے دیکھوں۔" وہ لب کچلتے ہوئے سوچ
رہی تھی۔
شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔
کمبائنڈ فنکشن تھے تو سب میرب لوگوں کے فارم ہاؤس پر
اکٹھے تھے۔
ماسوائے دولہا دلہن کے....دونوں فیملیاں بہت خوش
تھیں۔
یوسف ٹیرس پر کھڑا گارڈن میں ہو رہی مایوں کی
ڈیکوریشن کو خالی خالی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جب
شازار اس کے قریب آ رکا۔
"مجھے لگتا ہے تمہیں میرب کو ایک رومانٹک سے ڈنر
پر لے جانا چاہیے اور اپنے دل کی بات اس کے سامنے
بیاں کرنی چاہیے۔" وہ یوسف کی جانب دیکھتے ہوئے
گویا ہوا۔
"میں نے ہی پہلے بھی شادی کے لیے پرپوز کیا تھا۔"
یوسف نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا۔
"تو پھر اب محبت کا اظہار بھی تو ضروری ہے.....تم یہاں
پریشان ہو کہ وہ وہاں پریشان ہے ،درمیان میں میں خواہ
47
مخواہ پریشان ہوا پڑا ہوں۔" وہ جس مزاحیہ خیز انداز میں
بوال تھا یوسف کو ہنسی آ گئی۔
"ہوں ،چلو پھر آج محترمہ میرب کو کینڈل_الئٹ ڈنر
کرواتے ہیں۔کچھ رومانٹک ماحول بناتے ہیں۔ ایک عدد تین
رنگ کے ساتھ مکمل انداز میں پرپوز کرتے ہیں۔" یوسف
نے کچھ سوچتے ہوئے مسکرا کر کہا تھا شازار بھی اثبات
میں سر ہال کر مسکرا دیا۔
وہ دل سے چاہا رہا تھا کہ ان دونوں کے درمیان یہ نکاح
جیسا پاک بندھن کسی بھی غلط فہمی یا پھر سمجھوتے کے
تحت قائم نہ ہو دونوں ایک دوسرے کو سچے دل سے قبول
کریں۔
اور اس کی ترکیب کام کر گئی تھی۔
یوسف کی محبتوں کے اظہار نے میرب پر بہت گہرا اثر کیا
تھا......وہ ہنس رہی تھی ،مسکرا رہی تھی اور دل سے
شکر ادا کر رہی تھی کہ اس کا ہمسفر اس سے محبت کرتا
ہے۔
یوسف نے یقین دالیا تھا کہ وہ ہر حال میں اس کے ساتھ
رہے گا۔
48
اور اب اسے پل کا انتظار تھا جب دل یوسف کی جانب
جھکنا تھا .....جس کا دل میرب کی جانب یونیورسٹی کے
دنوں میں ہی جھک گیا تھا۔
****
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعد قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
49
"جو کرنا تھا وہ تو ہم کر چکے ہیں ،باقی اب آپ سب لوگ
ذرا سسرال چلیں خاطر داری وہ کر دیں گے۔" دالور خان
نے نہایت تحمل سے کہا۔
شاہزیب گالسز کے پیچھے سے ہی اس کی جانب دیکھتے
ہوئے اثبات میں سر ہال کر مسکرا دیا تھا۔
"چلو ثبوت تو ہوں گے سو ہوں گے.....وہ تو فیک بھی
بنائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے آریسٹ وارنٹ کہاں ہیں؟ ایف
آئی آر کہاں ہے۔" عاصف نے تمسخرانہ انداز میں ہنستے
ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
وہ دونوں اس کی ناسمجھی پر مسکرا دیئے۔
"اتنے مہینوں سے خاموش اس لیے نہیں تھے کہ یہاں
ٹافیاں بانٹنے آئیں گے ،تم لوگ لو گے اور ہمیں بھگا دو
گے....ہم چپ چاپ چلے جائیں گے۔" شاہزیب نے کوٹ کی
اندرونی جیب میں سے پیپرز نکال کر ان کے سامنے کیے۔
"یہ رہا آریسٹ وارنٹ اور ایف آئی آر......ہو گئی تسلی؟"
اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
عاصف تلمال کر رہ گیا پھر کچھ سوچ کر پاؤں جلی بلی کی
مانند دالور خان کی جانب بڑھا۔
50
"تمہیں پتہ ہے کہ وہ لڑکی ....حوریہ رائے.....کتنے دن
غائب رہی ہے؟ اور جن کے درمیان رہی ہے وہ کوئی
شریف لوگ نہیں تھے .....نجانے ان لوگوں نے کیا کیا نہیں
کیا ہو گا.....؟ ایسی ناپاک لڑکی تو تمہارے گھر میں قدم
رکھنے کے قابل ".....اس سے پہلے کہ عاصف مزید کچھ
کہتا دالور خان کا ہاتھ ہوا میں گھوم کر اس کے منہ پر آن
پڑا تھا....دوسرے ہی لمحے عاصف لڑکھڑا کر زمین بوس
ہو چکا تھا۔
"میری بیوی کے متعلق مزید کچھ بھی کہا تو تمہیں یہاں
ہی زندہ زمین میں گاڑھ دوں گا سمجھے "......وہ جھک کر
اسے گریبان سے تھامے اپنی جانب کھینچتے ہوئے چنخ
کر بوال تھا۔
اس وقت صحن میں چند افراد تھے۔
جب کہ باقی کے رائے مینشن والے ٹیرس پر کھڑے یہ
منظر دیکھ رہے تھے....اس کے غصے سے سرخ ہوئی
آنکھوں کو دیکھ کر سب سہم گئے تھے۔
چھوٹے واال ماموں بھی بےحد حیران تھا.....اسے تو یقین
ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ان کا بڑا بھائی اللچ کی حد پار کر
جائے گا۔
51
"ان چھٹانک بھر کی لڑکیوں کو تو ہم چھوڑیں گے نہیں۔"
ماموں دانتوں پر دانت جما کر حقارت سے بڑنڑائے۔
"ہاہاہا.....بڑے ماموں! آپ کو ابھی تک یہ ہی نہیں پتہ چال
کہ آخر آپ کے ساتھ ہوا کیا ہے؟" شاہزیب ہنستے ہوئے
مزاحیہ خیز انداز میں بوال۔
" ان چھٹانک بھر کی لڑکیوں کے سامنے کھڑے یہ دو
ہٹے کٹے نوجوانوں نے تم لوگوں کو پوری طرح سے تباہ
و برباد کر دیا ہے۔" اس نے پہلے اپنی اور دالور خان کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے رازداری سے بتالیا تھا۔
تائی کا سر چکرا سا گیا.....وہ سر تھام کر ہائے ہائے
کرتیں زمین پر بیٹھتی چلی گئیں۔
رائے میشن والوں کے ہونٹوں پر تالے لگ چکے
تھے.....سب اپنی اپنی جگہ ساکت کھڑے تھے۔
"آپ پر اور آپ کے اس بیٹے اور بیوی پر پتہ ہے کتنے
کیس فائل ہیں......؟" دالور خان نے آنکھوں پر سے گالسز
ہٹاتے ہوئے ان پر ایک نگاہ ڈالی۔
"حور کا ہسبینڈ کتنا ہی ہینڈسم ہے نا؟" صائمہ نے
ستائشی نگاہوں سے دالور خان کا جائزہ لیا تھا۔
52
وہ اپنے مضبوط کسرتی وجود کے ساتھ لمبا چوڑا قد
لیے.....خاکی پینٹ کوٹ میں ملبوس تھا ،نیلی آنکھیں....
سٹائل کٹ داڑھی اور عنابی ہونٹوں کو باہم بھینچے کشیدہ
پیشانی پر بل لیے وہ واقع ہی بےحد پرکشش لگ رہا تھا۔
"ہائے دونوں بہنیں اتنے سوہنے پٹھانوں کو لے
اڑیں....کتنا پسند تھا مجھے شاہزیب وہ بھی ہاتھ سے نکل
گیا ".....صائمہ نے ٹھنڈی آہ بھری تھی۔
"وہاں باپ گرفتار ہو رہا ہے اور تجھے ان لڑکوں کی پڑی
ہے۔" چھوٹی بہن نے سرگوشی میں اسے ڈانٹ کر کہا تھا۔
اس نے تیکھی نگاہوں سے اسے گھورا اور منہ بسور کر
پیر پٹختی پلٹ کر کمرے میں چلی گئی۔
"اب سنیں جن جرائم میں آپ لوگ بہت لمبا اندر جانے
والے ہو.....گڈنیپ ،تشدد ،دھوکا دہی اور.....مسز عمران
رائے کے قتل کا۔" آخری بات پر رائے مینشن کی دیواریں
ہل گئی تھیں،وہاں کھڑے افراد کو لگا کوئی زلزلہ آیا ہے۔
"بھائی صاحب !.....آ آپ .....آپ اتنے کیسے گر گئے؟"
چاچا کو اپنی آواز گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی
تھی۔
53
"وہ نہیں مرتی تو دونوں لڑکیاں کیسے تنہا ہوتیں؟ ہم نے
تو سوچا تھا حور کو مروا دیں گے اور کائنات کا نکاح
عاصف سے کروا دیں گے ساری جائیداد ہماری ہو جائے
گی مگر ان دونوں حرام زادوں نے ہمارے سارے کیے
کرائے پر پانی پھیر دیا۔" تایا جی نے پھنکارتے ہوئے
کہا ....عاصف نے.....دالور خان کی گن جو اس نے آتے ہی
میز پر ڈال دی تھی اٹھا کر ان دونوں پر تان دی۔
بچے ایک دم سے چنخنے لگے تھے۔
"اندر جاؤ تم سب۔" چاچا نے بلند آواز میں کہا تو سب
عورتیں وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔
باقی مردوں کے تو قدم اور سر دونوں ہی شرم سے جھکے
ہوئے تھے۔
"اب تم دونوں کو کوئی نہیں بچا سکتا۔" وہ شاطرانہ انداز
میں ہنسا تھا۔
"اچھا ایسا ہے کیا؟" شاہزیب نے پھرتی سے اپنے بیلٹ
میں سے ریوالور نکاال اور دو قدم کا فاصلہ ختم کرتے
ہوئے عاصف کی کنپٹی پر نشانہ تان دیا۔
54
"تم گولی چالؤ گے تو جرم کہالئے گا اور اگر میں نے
گولی چالئی تو انکاؤنٹر کہالئے گا۔" شاہزیب نے ریوالور
کا گھوڑا چڑھا لیا تھا۔
"ن نہیں شاہزیب!....نمک حرام کہیں کے مت مارنا میرے
بیٹے کو۔" تائی نے بیٹھے بیٹھے ہی روتے ہوئے کہا۔
"میں نمک حرام ہرگز نہیں ہوں ،میں نے اپنے نانا کا نمک
کھایا ہے جنہوں نے ساری جائیداد اپنے الئق بیٹے کے نام
کی کیونکہ وہ تم لوگوں کو جانتے تھے کہ کتنے قابل ہو تم
لوگ...میں نے عمران ماموں کا نمک کھایا ہے .....جنہوں
نے تم لوگوں کو تم سب کا حصہ دیا مگر پھر بھی تم لوگوں
کی نگاہ ان کی جائیداد پر ہمیشہ رہی۔اور آج ہی تو مجھے
موقع مال ہے نمک حاللی کا۔" شاہزیب تح ّمل سے بول رہا
تھا۔
"تم لوگوں نے ایک غلطی کر دی......ہمیں ہلکے میں لے
لیا۔" دالور خان نے اپنا ریوالور جھپٹ کر ماموں پر تان
چکا تھا۔
وہ دونوں باپ بیٹا سہم چکے تھے۔
"تم لوگوں کی طبیعت فریش تو تھانے جا کر ہو گی۔
55
انسپیکٹر! آریسٹ کریں۔" شاہزیب خانزادہ نے آرڈر دیا تھا۔
لیڈی کانسٹیبل ،انسپیکٹر اور میل پولیس آفیسرز حرکت میں
آئے تھے۔
اس نے اپنا ریوالور بیلٹ میں لٹکا لیا اور دالور خان کی
جانب متوجہ ہوا۔
رول ہے کہ....ہمیں کبھی بھی "جنگ کا ایک بہت اہم ُ
دشمنوں کے سامنے اپنے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہیے۔" اس
نے کہا تو دالور خان مسکرا دیا۔
"مجھے لگا بازوؤں میں جب طاقت ہو تو ہتھیار کی کیا
ضرورت۔" وہ اس کی بات جھٹالتے ہوئے بوال۔
"بازوؤں میں تو سب کے طاقت ہوتی ہے مگر سمجھدار
سپاہی وہ جو ہتھیار کی قدر کرے۔" وہ بھی اسی کے انداز
میں گویا ہوا۔
"میں سپاہی نہیں ہوں.....تم مجھے ون مین آرمی کہہ
سکتے ہو۔" دالور خان نے پیاری سی مسکراہٹ لیے
مزاحیہ خیز انداز میں کہا تو شاہزیب سر ہالتے ہوئے ہنس
دیا۔
56
"آج میں نہ ہوتا تو اس ون مین آرمی کی کھوپڑی اڑ چکی
ہونی تھی اب تک".....
"ایسا ہو ہی نہیں سکتا تھا ،کیونکہ اس نے جو میرا
ہی نہیں تھیں۔" وہ Bulletsریوالور اٹھایا تھا اس میں
شانے آچکا کر کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھا چکا
تھا شاہزیب نے حیرت سے اسے دیکھا تھا۔
"مجھے تو لگتا تھا تم بہت سمجھدار ہو مگر کر دیا نا وہ
ہی سرداروں واال کام .....یقینا ً سرداروں پر لطیفے لکھنے
واال تم سے مل چکا ہے۔" وہ خفگی سے بھنویں آچکا کر
کہتا آگے بڑھا۔
سردار دالور خان مسکرا دیا تھا۔
چند لمحوں میں رائے مینشن گہری خاموشی میں ڈوب چکا
تھا۔
ہر ایک فرد خاموش تھا اور شرمندہ بھی۔
شاہزیب نے سب کو ٹی وی الونج میں جمع کیا تھا۔
اس نے انسپیکٹر کو اشارے سے پیپرز النے کو کہا تو وہ
پھرتی سے باہر نکل گیا۔
57
"ہم اپنے قریبی اور خون کے رشتوں کو محض چند روپوں
کے اللچ میں کھو دیتے ہیں اور یہ ہی انسانیت کا خاتمہ
ہے"......
اس نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے کاغذات کو ایک نظر
دیکھا۔
"سب کا جائداد میں جو حصہ بنتا تھا حور نے تم لوگوں
کے نام کر دیا ہے .....تاکہ آگے سے کوئی مسئلہ مسائل نہ
ہو ،اب تم سب پر انحصار کرتا ہے کہ اپنا حصہ کس طرح
رکھنا ہے اور کیا کرنا ہے...اور ہاں وصیت سب ضرور پڑھ
لینا۔"
اس نے چھوٹے ماموں اور باقی کے لڑکوں میں پیپرز
تقسیم کیے اور اب بھی اس کے ہاتھ میں چند پیپرز موجود
تھے۔
"یہ تم سب لڑکیوں کا حصہ ہے۔" اس نے وہ پیپرز میز پر
ڈال دیئے۔
"سائن کر دو تم سب ،باقی کی کاروائی سٹارٹ کروانی ہے
تو مجھے آج ہی یہ پیپرز واپس لے جانے پڑیں گے۔کیونکہ
حور دو دن بعد فرانس جا رہی ہے وہ چاہتی ہے کہ یہاں
58
کے تمام معامالت سے فارغ ہو کر ہی جائے۔" اس نے
کہتے ہوئے ایک نگاہ دالور خان پر بھی ڈالی تھی جو
صوفے پر بیٹھا سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔
اس کی بات پر لب کچلتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"اوکے شاہزیب! میں نکلتا ہوں کل مالقات ہوگی۔" اس نے
کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھا لیے تھے۔
"بیٹا بیٹھو .....پہلی مرتبہ داماد گھر آیا ہے تھوڑی خاطر
داری تو کرنے دیں۔" ماموں شرمندگی کے زی ِر اثر ان
دونوں سے نگاہیں نہیں مال پا رہا تھا۔
"پھر کبھی حور کے ساتھ آؤں گا تو ضرور خاطر داری
کرواؤں گا۔" دالور خان نے مسکرانے کی ناتواں سی
کوشش کی تھی۔
پھر پلٹ کر تیز قدموں سے آگے بڑھ گیا۔
*****
دوپہر میں نرس اسے میڈیسن دینے آئی تھی۔
"بات سنو ،ابھی دو منٹ بعد پولیس اندر آئے گی وہ تم
سے بیان لینا چاہتی ہے تمہارے شوہر کے
59
خالف.....تمہیں سردار دالور خان کی قسم ایک ایک لفظ سچ
بتانا انہیں۔" نرس روانی سے بول رہی تھی اور وہ حیران
کن نگاہوں سے اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"پولیس؟ مگر کیوں؟"
"جو کہا ہے وہ کرو۔مجھے معلوم ہے کہ تمہارا یہ حال
تمہارے شوہر نے کیا ہے اسی لیے میں نے پولیس کو آگاہ
کر دیا ہے۔" وہ کہہ کر اس کا شانا تھپکنے لگی۔
تبھی انسپیکٹر اور کانسٹیبل کمرے میں داخل ہوئے تھے۔
"بی بی ہمیں خبر ملی ہے کہ تمہارا شوہر تم پر تشدد کرتا
ہے؟" انسپیکٹر نے جانچتی نگاہوں سے اسے دیکھتے
ہوئے استفسار کیا تھا۔
زری کی نگاہ اسی پل بےاختیار ہی اندر داخل ہوتے شکیل
خان پر پڑی۔
"دیکھو تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے ،ایف آئی آر
درج کرواؤ ہم ضرور ایکشن لیں گے۔" انسپیکٹر نے کہا۔
"ہاں میرا شوہر مجھ پر تشدد کرتا ہے۔" چند پل وہ
خاموشی سے شکیل خان کو دیکھتی رہی پھر سپاٹ لہجے
میں گویا ہوئی۔
60
مرہون منت
ِ "یہ جو میں اتنی زخمی ہوں ،یہ سب اس کے
ہیں......اپنی مردانگی دکھائی ہے اس نے مجھ پر۔" وہ
طنزیہ ہنسی تھی شکیل خان بےاختیار ہی سر جھکا گیا۔
"اور میں چاہتی ہوں کہ جتنا اس نے مجھے ٹارچر کیا ہے،
جتنی بری طرح مجھے اس نے پیٹا ہے آپ بھی اس کو
اتنی ہی اذیت ناک مار مارنا کہ یہ بھی میری طرح ہی
ہسپتال پہنچ جائے۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے حقارت سے
کہہ رہی تھی۔
شکیل خان کے ہونٹوں پر مردہ سی مسکراہٹ دوڑ گئی
تھی......وہ آگے بڑھا اور اس کے قریب جا رکا۔
"میں نے جو بھی کیا ہے اس کی معافی تو بلکل بھی نہیں
ملنی چاہیے......مگر پھر بھی ہو سکے تو مجھے معاف کر
دینا۔میں ہر سزا پانے کے لیے تیار ہوں۔"
"جیل سے ہی طالق بھیج دینا۔" وہ کھردرے لہجے میں
گویا ہوئی ،شکیل خان کے سر پر گویا آسمان آ گرا اور
قدموں سے زمین سرک گئی تھی۔
61
"طالق کی امید کبھی مت رکھنا......ہاں اگر کہو گی تو میں
ساری عمر تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گا۔" شکیل
خان نے مضبوط لہجے میں کہا تھا۔
"بہتر رہے گا کہ تم جیسے درندے کی شکل میں کبھی نہ
ہی دیکھوں ".....وہ اس کو دیکھنے کے حق میں نہیں تھی
سو رخ پھیرے ہی بولی۔
"لے جائیں انسپیکٹر صاحب!" وہ کہہ کر آنکھیں موند
چکی تھی۔
"اپنا خیال رکھنا.....اب آئندہ کی زندگی میں کوئی بھی
شکیل خان یا شکیل خان جیسا ظالم شخص تمہاری زندگی
میں نہیں آئے گا۔" وہ چند پل اس کو ساکت پلکوں سے
یوں دیکھتا رہا جیسے نگاہوں میں اسے سما کر لے جائے
گا.....آنکھیں نم ہوئیں تو وہ بےاختیار ہی پلٹ گیا۔
انسپیکٹر نے اسے ہتھکڑی لگائی تھی۔
قدموں کی چھاپ جب دروازے سے نکل گئی تو زری
آنکھیں کھول کر کتنے ہی پل بند ہوئے دروازے کو خالی
خالی نگاہوں سے دیکھتی رہ گئی تھی۔
*****
62
وہ آئینے کے سامنے کھڑا اپنی تیاری کو تنقیدی نگاہوں
سے دیکھ رہا تھا......نجی کا عکس جب آئینے میں نمایاں
ہوا تو وہ خود پر سے نگاہیں ہٹا کر اس کی جانب متوجہ
ہوا۔
"مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" نجی نے اس کی
جانب قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔
"سن رہا ہوں۔" بمشکل وہ اس سے نگاہیں چرا پایا تھا۔
"ہر عورت کا ایک خواب ہوتا ہے کہ اس کا اپنا خود کا گھر
ہو......جسے وہ سجائے سنوارے.....خواہ وہ گھر چھوٹا
ہی کیوں نہ ہو مگر اس میں رانیوں کی مانند راج کرے
اور......اور اس کا جو سر تاج ہو...اس کے تمام نخرے
ہنسی خوشی اٹھائے۔"
وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولتی ہوئی اس کے سامنے
جا کھڑی ہوئی تھی....اب ان کے درمیان فاصلہ دو فٹ کا
تھا۔ اس کی بات پر فرحان ایک نگاہ اسے دیکھ کر غیر
ارادہ طور پر ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔
"میری طرف دیکھیں فرحان!" وہ التجاء آمیز لہجے میں
کہتے ہوئے اس کے سینے پر اپنے ہاتھ رکھ چکی تھی۔
63
"خواہ جیسے بھی سعی مگر میں آپ وائف ہوں......آپ کو
مجھ سے نظریں نہیں چرانی چاہیے.....زیادہ نہیں تو کم از
کم تھوڑا سا تو اختیار دے دیں اپنی زندگی پر۔" دل میں ذرا
سا خوف بھی تھا کہ وہ پیش قدمی کر رہی ہے کہیں فرحان
غصے میں اسے جھٹال نہ دے ،مگر آج وہ دل کی بات
کہنے پر تل چکی تھی۔
"واہ ....نیسی نے بہت اچھا ٹرین کیا ہے تمہیں.....حاالنکہ
میں نے بس اسے تمہیں یہاں کے طور طریقے سکھانے
کے لیے بالیا تھا جبکہ وہ.....وہ تو تمہیں شوہر کو مٹھی
میں کرنے کے حربے سکھا رہی ہے۔" وہ اس کے ہاتھوں
کو تھام کر اپنے سینے پر سے جھٹکتے ہوئے دانتوں پر
دانت جمائے سختی سے بوال تھا۔
نجی نے بےاختیار ہی نفی میں سر ہالیا۔
"میں آپ کو مٹھی میں ہرگز نہیں کرنا چاہتی بلکہ میں تو
خود آپ کی قیدی بنانا چاہتی ہوں۔" وہ ہمت کر کے پھر اس
کی جانب بڑھی تھی۔
یہ ہمت نیسی نے ہی اسے دی تھی کہ.....اگر فرحان نے
اس کی جانب قدم بڑھایا تھا تو اب وہ بڑھائے...اور وہ
خوف زدہ سی اس کی جانب اپنے قدم بڑھا رہی تھی۔
64
"اپنی.....اپنی حد میں رہو۔" فرحان گھبرا کر ایک دم سے
پیچھے ہٹا اور شہادت کی انگلی اٹھا کر اسے تنبیہہ کرتے
ہوئے تیزی سے پلٹ کر کمرے میں سے نکل گیا۔
وہ کئی پل ساکت پلکوں سے دروازے کی سمت دیکھتی
رہی پھر ٹھنڈی آہ بھر کر پلٹ کر بیڈ کے ایک کنارے ٹک
گئی۔
"پتہ نہیں کیا ہے یہ شخص......کبھی اتنی محبت کرتا ہے
کہ میں دنیا بھول جاتی ہوں۔اور کبھی اس طرح التعلقی
اختیار کر لیتا ہے کہ مجھے دنیا سے ڈر لگنے لگتا ہے۔کہا
چل رہا ہے فرحان کے دل و دماغ میں؟" پلکوں کی باڑ
پھیالنگ کر کئی آنسو موتیوں کی مانند اس کر رخساروں
کو تر کرتے ٹی پنک فل سلیوز والی شرٹ میں جذب ہونے
لگے تھے۔
"کیا کمی ہے مجھ میں؟"
خود سے سوال کرتی وہ آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی
تھی۔
" تعلیم کی کمی ہے......مگر میں جاہل تو نہیں ہوں ،کبھی
اونچی آواز میں بات نہیں کی ،بےوجہ کی ضدی اور ہٹ
65
دھرم بھی نہیں ہوں۔ آپ سے بےپناہ محبت کرتی ہوں
اور.....اپنا گھر بسانے کی خواہش مند بھی ہوں۔ پھر کیا
چاہیے مزید آپ کو فرحان؟" وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے
اس سے نہیں خود سے سوال کر رہی تھی۔
اور جواب آئینے کے پاس تو کیا اس کے خود کے پاس
بھی نہیں تھا....کہ آخر اس میں کیا کمی ہے؟
فرحان آخر چاہتا کیا ہے؟
یہ دو سوال اس کے دماغ پر تازیانے بجاتے تھے۔
****
اگلے دن ہی وہ شاہزیب کے سیٹنگ روم میں اس کا انتظار
کرتے ہوئے کتنی مرتبہ اپنے دل کی بےچینی کو کم کرنے
کی خاطر سگار سلگا چکا تھا...اور اسی طرح ہی بنا منہ
سے لگائے ایش ٹرے میں مسل بھی دیتا تھا۔
دوسری جانب وہ تھی.....اوپر سے ایک دم نارمل اور اندر
کی حور چنخ چنخ کر یہ قدم اٹھانے سے روک رہی تھی۔
"ایک مرتبہ پھر سوچ لو حور!....وہ بھی تو لوگ ہیں جو
آؤٹ آف کنٹری ہوتے ہیں....والدین کی وفات پر نہیں آ
سکتے۔" کائنات نے اس کو سمجھانے کی کوشش کی۔
66
"میں تو پاکستان میں تھی نا؟" وہ آئینے میں خود کو
دیکھتے ہوئے بولی۔
"حور! جس طرح تم نے بتایا ہے.......مجھے لگتا ہے
دالور بھائی تم سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اور یار غلطی تو
انسانوں سے ہی ہوتی ہے نا۔وہ تمہیں پریشان نہیں کرنا
چاہتے تھے.....ہاں یہ ان کی غلطی ہے کہ ماما کی وفات
کے متعلق تمہیں آگاہ نہیں کیا مگر اس کے چلتے ہوئے تم
طالق تو نہیں لے سکتی نا.....معافی دو یا سزا دو ،ناراض
ہو جاؤ ان سے مگر خدارا اپنے دل کی سنو۔" کائنات نے
مبہم سی کوشش کی۔
"یہ غلطی تھی؟ نہیں کائنات!......یہ گناہ تھا۔وہ میرا
گناہگار ہے اور تم ٹھیک کہ رہی ہو میں اسے سزا دوں
گی.....ساتھ اپنے آپ کو بھی دوں گی جس نے اس کٹھور
شخص سے محبت کی۔" وہ شرٹ کے کف فولڈ کرتے
ہوئے بولی۔
نیوی بیلو جینز پر ڈھیلی ڈھالی فل سلیوز والی ٹی شرٹ
زیب تن کیے وہ بالوں کو جوڑی کی شکل دیئے ہوئے تھی،
الئٹ میک آپ کے ساتھ وہ بےحد خوبصورت اور ماڈرن
لگ رہی تھی۔
67
دالور خان کے سامنے آج تک اس نے مغربی لباس زیب تن
نہیں کیا تھا.....اور وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ دالور خان
کی پسند اور ناپسند کے متعلق تبھی تو اس نے یہ لباس
پہنا تھا اسے چڑھانے کے لیے....
اور وہ کون سا کم تھا.....موصوف کرتہ پاجامہ زیب تن
کیے ،صوفے پر شاہانہ انداز میں براجمان تھا۔
اگر اسے جھٹکا لگا تھا حور کو اس لباس میں دیکھ کر تو
وہ بھی اس سے ایکسپیکٹ کر رہی تھی کہ وہ اسے
ایمپریس کرنے کے لیے...ڈریس پینٹ کوٹ وغیرہ پہن کر
آئے گا....مگر نہیں....
"تم دونوں بیٹھو میں ذرا آتا ہوں۔" شاہزیب اسے اندر داخل
ہوتا دیکھ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"شاہزیب!.....پلیز وہ رقم ال دینا ذرا۔" اس نے شاہزیب کو
روکتے ہوئے سرگوشی کی تو وہ اثبات میں سر ہال کر وہاں
سے ہٹ گیا۔
"اسالم علیکم!" وہ اس کے سامنے صوفے پر ٹانگ پر
ٹانگ جمائے بیٹھ گئی تھی۔
دالور خان نے خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھا۔
68
"و علیکم السالم!" اس نے سالم کا جواب دے کر سر
جھکا لیا تھا۔
مکمل خاموشی کی بدولت ماحول بہت خطرناک لگ رہا
تھا.....وہ سامنے بیٹھا تھا اور حور کا دل چاہا رہا تھا کہ
وہ وہاں سے بھاگ جائے۔
شاہزیب دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے ہوئے کمرے
میں داخل ہوا۔
اس کی جانب خاکی رنگ کا لفافہ بڑھا کر وہ ایک نگاہ
دالور خان کی خاموشی پر ڈالتا پلٹ گیا تھا۔
حور اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس کے پہلوؤں میں
بیٹھتے ہوئے وہ لفافہ سامنے والی میز پر رکھ چکی
تھی....
"یہ وہ ساری رقم ہے جو میں نے تمہاری خرچ کی تھی
اگر مزید رہ گئی ہو تو بتا دینا۔" وہ سپاٹ لہجے میں بولی۔
دالور خان نے ذرا سی گردن گھما کر اسے دیکھا اور پھر
نگاہیں جھکا نہیں سکا تھا۔
69
"حور! ایک موقع تو دو۔" دالور نے مبہم سی کوشش کے
تحت مدھم سی آواز میں کہا تو اس کا دل ایک دم سے شور
مچانے لگا جس اس نے ڈپٹ کر خاموش کروایا۔
"آج تم کو میں جوئے میں ہار بیٹھی ہوں۔" وہ اس کی
جانب دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں بولی۔
"کیا مطلب؟" اس نے ناسمجھی سے سر ہالیا۔
"میں نے خود سے ہی شرط لگائی تھی کہ اگر آج تم کرتہ
پاجامہ زیب تن کر کے آئے تو ہماری طالق الزمی ہو گی۔"
وہ کہتے ہوئے مبہم سا مسکرائی تھی۔
دالور خان کے ہونٹوں پر بھی زخمی سی مسکراہٹ ابھری
تھی۔
"ڈیورس کے پیپرز؟" وہ ایک دم سنجیدگی سے بولی۔
"تو ایک چانس بھی نہیں ملے گا؟"
"گنجائش نہیں ہے۔" حور کی سفاکی عروج پر تھی......وہ
ساکت پلکوں سے اسے دیکھتا رہا۔
"مسٹر سردار دالور خان! مجھے ابھی شاپنگ پر بھی جانا
قدر
ہے ،میرا ٹائم ویسٹ مت کریں پیپرز نکالیں۔" اس نے ِ
سختی سے کہا۔
70
"حور!.....میں کچھ نہیں کہوں گا۔ تم مجھے اگر موقع نہیں
دینا چاہتی تو ٹھیک ہے مگر.....مگر طالق "......وہ کہتے
کہتے خاموش ہو گیا تھا۔
حور نے لب کچلتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
"میں تو تم سے فیئر تھی نا؟.....تمہیں اپنے متعلق وہ ہر
بات بتائی.....ہر بات شیئر کی ،جو میں کسی سے نہیں کہتی
تھی تم سے کہا.....میں تمہیں اپنا ایک حصہ ماننے لگی
تھی۔" نم آنکھوں سے وہ اس کے میں مزید گہرائی سے
اترتی جا رہی تھی۔
"مگر.....خیر چھوڑو۔" اس نے رخ پھیر لیا تھا۔
دالور خان کا دل چاہا رہا تھا کہ اس کو خود میں بھینچ لے
اور کہہ وہ اس کے بنا جی نہیں سکتا....مر جائے گا
تمہارے بغیر.....مگر وہ کہہ نہیں پایا تھا۔ خاموشی سے
اس کا ہاتھ تھام لیا....جسے حور نے بڑی بےرحمی سے
واپس چھین لیا تھا۔
"ایم سوری۔" وہ ذرا سا اس کی جانب سرکا تھا اور پھر
اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر پیشانی جوڑے ہاتھوں پر ٹکا
دی۔
71
"مجھے معاف کر دو۔میں مانتا ہوں کہ مجھ سے بہت بڑی
غلطی ہوئی ہے مگر میرا مقصد ہرگز غلط نہیں تھا۔" اس
نے مزید کہا۔
"اوکے کیا معاف.....اب پلیز ہاتھ کھول دو اور پیپرز
نکالو۔" وہ اس کو دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے بولی۔
بالآخر دالور نے اپنے دائیں جانب پڑے لیپ ٹاپ کے بیگ
میں سے پیپرز نکالے تھے۔
پھر کچھ بھی مزید بولے بنا اپنی جیب میں سے پین نکاال
تھا اور حور کی جانب بڑھایا.....
"حور! سوچ لو.....تم میری پہلی اور آخری محبت ہو ،اور
مجھے یقین ہے کہ میں بھی تمہاری اولین محبت ہوں۔"
دالور خان نے پیپر کی جانب بڑھتے اس کے ہاتھ کو تھام
لیا تھا۔
"تم تو میرا سب کچھ بن گئے تھے دالور خان! مگر اب
مزید میں تمہارے ساتھ ایک لمحہ نہیں رہنا چاہتی.....
کیونکہ جب جب تمہیں دیکھوں گی مجھے یاد آئے گا کہ
تمہاری وجہ سے میں اپنی ماں کا آخری دیدار نہیں کر
پائی۔" سپاٹ لہجے میں کہتے ہوئے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ
72
پر سے ہٹا کر وہ پیپرز پر سائن کرنے لگی تھی کہ پین کا
سامنے واال سرا نکل کر کاغذات پر گر چکا تھا ساتھی ہی
ساری انک بھی اس جگہ گر کر پیپر تباہ کر چکی تھی
جہاں حور نے سائن کیے تھے۔
دالور خان نے سختی سے لب بھینچ کر اپنی مسکراہٹ کو
چھپایا تھا۔
"یہ سب تم نے جان بوجھ کر کیا نا؟" وہ پھنکاری تھی۔
"نہیں ہرگز نہیں۔ میں ایسا کیوں کروں گا؟" وہ تیزی سے
فیس ایکسپریشنز بدلتے ہوئے بوال۔
حور دانتوں پر دانت جمائے پینک کا جو سرا اس کے ہاتھ
میں تھا میز پر پٹختی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔
"دوبارہ سے پیپرز بنواؤ ،اور سائین کر کے مجھے فرانس
بھجوا دینا۔" وہ کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی بلکہ دندناتی
وہاں سے چلی گئی۔
دالور خان نے بےاختیار ہی سکھ کا سانس لیا۔
73
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
****
"اسالم علیکم! غفور کے بیٹے والے کیس متعلق کوئی
اپڈیٹ؟"
"و علیکم السالم.....یس سر! غفور کے بیٹے کا نام جبران
غفور ہے......بچپن سے ہی سکلپچرز بنانے کا شوقین
تھا......تبھی اس نے ایف ایس کے بعد آرٹ کی فیلڈ چنی۔"
"مجھے اس کی ہسٹری نہیں سننی اے سی پی شہزاد!
ہمارے کام کی انفارمیشن دو۔" شاہزیب نے ٹوکا۔
"یس سر!.....میں نے جبران کے کالج اور یونیورسٹی سے
کچھ انفارمیشنز کالیکٹ کی ہیں۔"
"ہوں۔" وہ الن میں پڑے سنگی بینچ پر بیٹھ گیا۔
"نام جبران غفور
عمر بتیس سال.....
ہائٹ چھ فٹ ایک انچ.....رنگ گورا"....
74
"شہزاد! میں تمہارا سنیئر ہوں اور ہم یہاں کیس کے متعلق
بات کر رہے ہیں نہ کہ ....جبران کا رشتہ کروانے والے
ہیں۔" شاہزیب نے اسے ٹوکا۔
"سر! آگے تو سنیے ،اس بندے میں جو چیز سب سے
مختلف ہے وہ ہے اس کی آنکھیں۔" اے سی پی شہزاد ایک
لمحے کو خاموش ہوا۔
"کیا مطلب؟ ایسا بھی کیا ہے موصوف کی آنکھوں میں؟"
اس کا لہجہ ذرا سا طنزیہ ہوا تھا۔
"بتاتا ہوں سر!.....اس کی آنکھوں کا رنگ بہت یونیک ہے
یعنی چار رنگ ہیں اس کی آنکھوں میں.....بلیک ،ڈارک
بیلو ،گرین اور نیوی بیلو...اپنی پہچان چھپا کر رکھتا ہے،
اس کے لیے وہ دوسروں کے نام اور پہچان کا استعمال
کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ
یونیورسٹی کے بعد ان سے کبھی نہیں مال ،آس پاس کے
لوگوں کا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے پاس آؤٹ
کے بعد سے جبران غفور کو الہور میں نہیں دیکھا
گیا......اور رشتے داروں سے بھی اس کے رابطے استوار
نہیں ہیں....کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ امریکہ رہتا
75
ہے.....کچھ لوگ کہتے ہیں اٹلی میں ہے۔ تو کچھ کا کہنا
ہے کہ ترکی ہوتا ہے۔"
""This case is very interesting.
شاہزیب نے تھوڑی کھجائی۔
"مجرم اگر ٹکر کا ہو تو اور بھی زیادہ مزہ آتا ہے اسے
پکڑنے میں۔" وہ سیدھا ہو نیٹھا۔
"تمہیں کیا لگتا ہے شہزاد! اس وقت وہ کہاں ہو سکتا
ہے؟......وہ مجسمہ ساز ہے تو اس حساب سے وہ کس
شہر میں ہو گا اس وقت؟" سوچتے ہوئے استفسار کیا گیا۔
"غفور کی گرفتاری کے بعد ڈیفنیٹلی انڈر گراؤنڈ ہو گیا ہو
گا۔" شہزاد نے اپنی رائے دی۔
"نہیں شہزاد! یہ جو آرٹیسٹ ہوتے ہیں نا یہ فری رہ ہی
نہیں سکتے.....وہ ہمیشہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں
جس کے لیے وہ انڈر گراؤنڈ ہو بھی گیا تو سامان تو باہر
سے ہی ملے گا نا۔اور ویسے بھی وہ خود کو بہت اسمارٹ
سمجھتا ہے.....اسی لیے ہمیں یہ نہیں سوچنا کہ وہ انڈر
گراؤنڈ ہو گیا ہو گا ".....اس نے نفی میں سر ہالتے ہوئے
پرسوچ نگاہوں کو سامنے فوارے پر ٹکا دیا۔
76
"ایسا کرو.....غفور کے نمبر پر آنے والی کالز لسٹ نکالو
میں آتا ہوں....اور دیکھتے ہیں کہ یہ جبران غفور چھپ کر
کہاں بیٹھا ہے۔"
ّٰللا حافظ کہہ کر کال کٹ
"اوکے سر!" شہزاد نے کہا تو وہ ہ
کرتا اٹھ کھڑا ہوا۔
""Let's get ready for action.
اس نے سوچتے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی تھی
اور قدم ڈرائنگ روم کی جانب بڑھائے۔
دالور خان نے سر اٹھا کر جب ڈیوس کے پیپرز کو دیکھا
تو وہاں ان دونوں کے جو سائن تھے .....غائب ہو چکے
تھے۔
"ایم سوری حور! مگر میں تمہیں ڈیورس دینے کے متعلق
سوچ بھی نہیں سکتا۔" اس نے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور
تیزی سے ڈیورس پیپرز دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے
لیپ ٹاپ بیگ میں تیزی سے گھسا دیا۔
ایک نگاہ پیسوں کے لفافے پر ڈالی پھر لب بھینچے نفی
میں سر ہالتا بنا وہ لفافہ اٹھائے اٹھ کھڑا ہوا۔
77
"کہاں چلے؟" وہ دروازہ دھکیل کر باہر نکال تو شاہزیب
کو دیکھ کر اس کے قدم رک گئے۔
"میں چلتا ہوں یار۔ اگر وہ رضیہ سلطانہ پھر سے آ گئیں
اورمیری خوشی دیکھ لی تو اسے سارا ماجرہ سمجھ آ
جائے گا۔پھر وہ مجھ سے زبانی طالق لینے پر تل جائے
گی۔" دھیمی سی مسکراہٹ لیے کہہ کر وہ اس کے بغلگیر
ہوتے ہوئے وہاں سے چال گیا تھا۔
شاہزیب نے ٹھنڈی آہ بھری اور کمرے میں داخل ہو گیا۔
رقم واال لفافہ میز پر ہی پڑا تھا۔
وہ چند پل وہاں رکا رہا پھر پلٹا اور جیب میں سے فون
نکال کر کوئی نمبر ڈائل کرتے ہوئے دروازہ بند کر کے
کمرے میں سے نکل گیا۔
****
میٹنگ روم میں چار افراد تھے......انسپیکٹر مزمل ،اے
سی پی شہزاد ،شاہزیب کا ایک سسٹم ہیکر دوست
ضیاء......اور خود ڈی سی پی شاہزیب.....
"اس مشن کا نام ہو گا ست رنگا"......
78
اس نے کمرے کی الئٹس آف کرتے ہوئے دائیں دیوار کی
جانب اشارہ کیا۔
"اور اس مشن کی خبر کسی کو بھی نہیں ہونی
چاہیے.....تم سب ایمان دار لوگ ہو تبھی بھروسہ کیا ہے،
امید ہے تم سب میرا ساتھ ایمانداری سے دو گے؟"
"افکورس سر! ان شاءہللا۔" انسپیکٹر مزمل نے پّر اعتماد
انداز میں کہا۔.
"گڈ۔ہمیں اس شخص یعنی جبران غفور کو پکڑنا ہے۔جو
اس وقت کہاں ہے ہمیں اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔"
اس نے شانے آچکاتے ہوئے کہا۔
"اور اب وہ کس گیٹ_اپ میں پھر رہا ہے یہ بھی کوئی
نہیں جانتا۔" ایک پل کو خاموش ہوا اور ان سب کی جانب
دیکھا جو بہت توجہ سے اسے سن رہے تھے۔
اس نے مزید کہتے ہوئے ایک اور انکشاف کیا تھا کہ...
"جبران غفور اپنے والد کو جب بھی کال کرتا ہے وہ اپنے
نمبر سے نہیں بلکہ مختلف نمبروں سے اس سے رابطہ
کرتا ہے.......اور وہ نمبر ہوتے بھی اس ملک کے ہیں
جہاں وہ موجود نہیں ہوتا....ابھی کل ہی جیلر کے نمبر پر
79
اس نے کال کی تھی.....غفور سے بات کی اور وہ نمبر
جس کا تھا وہ اٹلی کا رہائشی تھا....ہم نے اس سے رابطہ
کیا تو معلوم ہوا کہ جس شخص نے اس اٹلین کے نمبر
سے کال کی تھی وہ اپنے چہرے پر ماسک چڑھائے ہوئے
تھا۔" اس کے اس انکشاف پر ایک پل کو ان تینوں کی
پیشانی پر سوچ کے بل نمایاں ہوئے تھے۔
"سر! پھر ہم اسے ڈھونڈیں گے کیسے؟" انسپیکٹر مزمل
نے استفسار کیا۔
"ڈھونڈیں گے مزمل! ہم اسے ضرور ڈھونڈیں گے۔وہ خواہ
کتنا بھی شاطر کیوں نہ ہو مگر ایک پولیس آفیسر سے
زیادہ شاطرانہ دماغ نہیں رکھتا۔" اس نے کرسی سنبھلتے
ہوئے سنجیدگی سے کہا تھا۔
"مگر اس وقت وہ ہم سب سے بڑھ کر شاطر ہے "...ضیاء
نے اپنے لیپ ٹاپ پر انگلیاں چالتے ہوئے کہا۔
"کیا مطلب؟" شاہزیب نے اچھنبے سےا س کی جانب
دیکھا۔
"ایک منٹ باس! "....ایک منٹ کے بعد اس نے اپنا لیپ
ٹاپ شاہزیب کے سامنے کر دیا تھا۔
80
"باس اس وقت وہ پانچ ممالک میں گھس کر بیٹھا
ہے.....اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہے ،اس کے ایک کلک
پر ان پانچوں ممالک کے فون.....لیپ ٹاپ......سی سی ٹی
ویز .....کمپیوٹر سب وہ ہیک کر سکتا ہے.....اس کی ٹیم
بہت وسیع ہے.....بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے اپنی
ایک آرمی تیار کر رکھی ہے۔" ضیاء کی بات پر وہ ایک دم
سے پیشانی پر بل لیے لیپ ٹاپ پر چل رہے گراف کو
دیکھنے لگا۔
"اٹلی ،چاپان ،امریکہ ،فرانس اور پاکستان......ان ممالک
میں اس کے آدمی پھیلے ہوئے ہیں۔
وہ اپنے آدمی کو کال کرتا ہے اور اس کے آدمی آگے غفور
سے اس کی بات پہنچاتے ہیں....اس کام کے لیے وہ اپنا
موبائل فون نہیں بلکہ لوگوں کے فون کا استعمال کرتے
ہیں....یعنی سیدھی بات کہ وہ جب چاہیے جس کا بھی
چاہیے موبائل فون استعمال کرنے کی صالحیت رکھتا
ہے......اس کے عالؤہ وہ جہاں کا بھی سی سی ٹی وی
کیمرہ چاہیے ہینگ کر سکتا ہے۔"
ضیاء نے جھک کر لیپ ٹاپ کے کی بورڈ پر انگلیاں چالتے
ہوئے کہا ایک پل کو رکا اور پھر اس کی جانب دیکھا۔
81
اس کی بات مکمل ہوئی تو ادھر شاہزیب کا فون ِرنگ کیا۔
مزمل اور شہزاد چونکے۔
شاہزیب نے جینز کی جیب میں سے فون نکاال تو کائنات کی
کال تھی۔
" وائف کی کال ہے۔" اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"کوئی شخص آئے گا اور کوئی بھی بہانا بنا کر آپ کا فون
یا لیپ ٹاپ وغیرہ استعمال کرے گا....اپنا کام کرنے کے
لیے......پھر آپ کے لیپ ٹاپ یا فون میں وہ اپنا سسٹم
گھسا دیں گے اور اس طرح آپ کا لیپ ٹاپ وغیرہ اس کے
زیر استعمال بھی رہے گا۔" ضیاء نے ان دونوں کے نالج
میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
"اس شخص کے پاس اتنا دماغ آیا کہاں سے.....؟مجھے تو
لگتا تھا یہ آرٹ کے اسٹوڈنٹس دماغی طور پر ذرا ہلے
ہوئے ہوتے ہیں....اور اس نے تو سب کو ہی ہال کر رکھ دیا
ہے۔" انسپیکٹر مزمل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے
کہا۔
وہ تینوں مسکرا دیئے۔
82
"ڈونٹ وری گائز ہم لوگ فون پر اس مشن کے متعلق کوئی
بات ہی نہیں کریں گے....بلکہ اس کیس کو ہم سیو بھی
اپنے اپنے دماغوں میں کرتے ہوئے ان جدید ٹیکنالوجی کا
استعمال نہیں کریں گے۔بات کرنے کے لیے خط کا ذریعہ
استعمال کریں گے ".....شاہزیب نے اپنا لیپ ٹاپ بند کرتے
ہوئے کہا۔
"یعنی ہم سترہویں صدی میں جیئں گے.....انٹرسٹنگ سر!
مزہ آئے گا خط لکھنے میں ،چلو محبوبہ نے تو لکھا نہیں
آپ ہی لکھ دیجیے گا۔" انسپیکٹر مزمل کی بات پر شہزاد
خالف معمول ہنس دیا تھا۔
ِ نے اسے گھورا جبکہ شاہزیب
"میٹنگ کے لیے کوئی غیر آباد عالقے کا انتخاب کیا کریں
جائے...اور ہاں جہاں بھی ملنا ہو گا اس کا پیغام میں آپ
سب تک خط کی صورت ہی پہنچاؤں گا۔" وہ کہتے ہوئے
اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ تینوں بھی اس کی تعائید میں اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔
"اوکے میں اب نکلتا ہوں تم لوگ بھی نکلو .....ہم اکٹھے
کہیں بھی دکھائی نہیں دینے چاہیے خاص طور پر تم سب
میرے ساتھ تو بلکل بھی نہیں.....کیونکہ غفور سے اس کی
بات کل ہو چکی ہے اور غفور اسے سب بتا چکا ہو گا۔اسی
83
لیے بی کیئر فل وہ مجھ پر نظر رکھے ہوئے ہے۔" اس نے
سنجیدگی سے کہتے ہوئے آنکھوں پر گالسز چڑھائے ،لیپ
ٹاپ بیگ اور اپنی گاڑی کی چابی اٹھا کر وہاں سے نکل
گیا۔
"ہاں جی آ رہا ہوں.......تم لوگ ایئرپورٹ کے لیے نکلو۔"
وہ گاڑی میں سوار ہوتے ہوئے فون پر کائنات سے بوال
تھا۔
کال کاٹ کر فون جینز کی جیب میں ڈالتے ہوئے اس نے
گاڑی میں چابی گھمائی تھی۔
آج حور فرانس جا رہی تھی.......اور دل یہاں ہی کہیں ایک
دالور خان نامی شخص کے پاس چھوڑ کر سینے میں
محض خالی پن لیے وہ کائنات سے بغلگیر ہوئی تھی۔
آنکھوں میں ڈھیروں آنسو لیے وہ انٹرس کی جانب بار بار
دیکھ رہی تھی مگر وہ نہ آیا یہاں تک کہ فالئٹ کا عالن ہو
چکا تھا۔
"اپنا خیال رکھنا حور!......کوئی بھی پریشانی ہو مجھے
ایک فون کرنا بس۔" شاہزیب نے اس کے سر پر ہاتھ
84
رکھتے ہوئے کہا تھا وہ اس کے شانے سے لگ کر پھوٹ
پھوٹ کر رو دی۔
"ایم سوری شاہزیب! میں واقع ہی انسانوں کو پڑھنے کا
سلیقہ نہیں جانتی۔میں نے ہمیشہ تمہیں ہرٹ کیا.....کائنات
کو بھی بہت برا بھال کہا تمہیں لے کر۔" وہ شرمندگی سے
کہہ رہی تھی۔
شاہزیب نے اس کا سر تھپکا۔
"کوئی بات نہیں ،مجھے پہلے برا لگتا تھا مگر اب سوچ
کر ہنسی آتی ہے کہ تم کتنی بچگانہ حرکتیں کرتی تھی۔"
وہ ماحول میں چھائی آسودگی کا اثر ختم کرنے کی خاطر
ہنستے ہوئے کہا۔
"اور ویسے بھی چھوٹی بہنوں کو حق ہوتا ہے اپنے بڑے
بھائیوں پر رعب جما کر رکھنے کا۔چلو اب خاموش ہو
جاؤ۔" اس نے حور کو شانوں سے تھام کر اپنے سامنے
کرتے ہوئے کہا۔
"کائنات!.....تم واقع ہی سمجھدار ہو......تم معصوم ضرور
ہو مگر نادان نہیں۔ مجھے معاف کر دینا میں نے ناسمجھی
میں تمہیں بھی بہت مرتبہ ہرٹ کیا ہے ،مگر تم ٹھیک تھی
85
کائنات! تمہیں اچھے برے کی پہچان ہے اور میں.....میں تو
ہوں ہی بیوقوف ہمیشہ غلط لوگوں پر بھروسہ کر کے
دھوکا کھاتی ہوں۔" حور پلٹ کر اس کے گرد بازو حائل
کرتے ہوئے رو دی تھی۔
"نہیں حور! تم سمجھدار ہو۔" کائنات نے رونے کے
درمیان کہا تھا۔
"اچھا اب بس کرو یار تم دونوں کی دیوانگی لوگ دیکھ
رہے ہیں۔" شاہزیب نے شرارت سے کہا تو وہ روتے
روتے ہنس دیں۔
ان پر ایک الوداعی نگاہ ڈال کر اپنے بیگز کی ٹرالی
دھکیلتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔
جہاز میں سوار ہوتے ہوئے اسے محسوس ہوا تھا کہ کسی
کی نگاہوں کے احصار میں وہ مسلسل ہے اس نے پلٹ کر
ادھر اُدھر دیکھا مگر وہاں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو اس
کی جانب متوجہ ہو۔
اپنا وہم سمجھ کر سر جھٹک کے آگے بڑھ گئی۔
"وہ کیوں آئے گا حور!....دیکھا نہیں تھا کیسے ڈیورس
کے پیپرز خراب ہونے کا غم کر رہا تھا....میں نے نہیں کیا
86
یہ میں کیوں کرتا؟" سوچتے ہوئے آخری فقرہ اس نے
دالور خان کی نقل اتارتے ہوئے کہا تھا۔
ہاں یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ آپ جسے چاہیں....وہ بھی
آپ کو چاہیے اور پھر اس سے کسی غلط فہمی کی وجہ
سے بچھڑنا پڑے.....
بےخیالی میں چلتے ہوئے وہ اپنی سیٹ کی جانب بڑھ رہی
تھی کہ سامنے کھڑے شخص سے ٹکرا گئی۔
وہ پلٹ کر سیاہ گالسز کے پیچھے سے حور کو بری طرح
گھورنے لگا۔
"ایم سوری۔" وہ چونکتے ہوئے بولی۔
"محترمہ میرا سیل فون ابھی ٹوٹ جاتا.....جانتی ہو آئی
فون ہے یہ.....آئی فون ٹویلو .....کبھی دیکھا بھی نہیں ہو
گا۔"
وہ جو کوئی بھی تھا بہت ہی منہ پھٹ اور بدتمیز تو تھا ہی
مگر شو آف کرنے کی بھی بیماری کا شکار تھا۔
حور اس وقت جسمانی طور پر تو وہاں موجود تھی مگر
دماغی و دلی طور پر وہ دالور خان کے پاس تھی تبھی اس
شخص کو کوفت بھرے انداز میں اگنور کرتی آگے بڑھی۔
87
"محترمہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ تم نے میرے گوچی
کے مہنگے ترین جوتوں کو بھی اپنے پیروں تلے کچلتے
ہوئے گندہ کر دیا ہے۔ پتہ نہیں کہاں سے منہ اٹھا کر آ
جاتے ہیں تم جیسے جاہل لوگ......صاف کرو میرے
جوتے۔" وہ آگے بڑھا تھا اور حور کی کالئی مروڑتے
ہوئے اپنی جانب گھما چکا تھا۔
"یہ تم کیا کر رہے ہو بیٹا۔ چھوڑو بچی کا ہاتھ۔" ایک ادھیڑ
عمر شخص نے سختی سے کہا۔
"اے بڈھے چپ چاپ بیٹھا رہے.......تو جانتا نہیں میں کون
ہوں.....ایک منٹ میں تمہاری جان نکال لوں گا اور یہاں
کوئی مجھے چھو بھی نہیں سکے گا اسی لیے رحم کر اپنی
حالت پر اور بیٹھ جا۔" وہ شخص نہایت بدتمیزی سے گویا
ہوا تھا۔
سب سہم کر اپنی اپنی جگہوں پر جم چکے تھے۔
"اور تم دیدے پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو ،اپنے دوپٹے سے
میرا جوتا صاف کرو۔وگرنہ دوپٹہ لینے کے قابل نہیں
چھوڑوں گا۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے پھنکارا تھا۔
88
"یو ایڈیٹ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے
کی؟" حور کے دوسرے ہاتھ میں سے ہینڈ بیگ گر چکا تھا
اور دوسرے ہی لمحے ہاتھ پوری قوت سے اس شخص
کے منہ پر آن پڑا تھا.....
"تم نے....تم نے مجھ پر ہاتھ اٹھایا یو ".....اس شخص
نے ہاتھ اٹھایا تھا ،حور خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی
تھی اور سختی سے آنکھیں میچ کر سر جھکا گئی۔
"کیا بھئی؟ غنڈہ راج ہے کیا تمہارا؟
یہ سب یہاں نہیں چلے گا.......یہ ایک آزاد ملک ہے اور
تمہارے جیسے گھٹیا لوگوں کی یہاں کوئی اوقات نہیں
ہے۔"
اس کے کانوں سے مانوس سی آواز ٹکرائی تھی....پٹ
سے آنکھیں کھول کر وہ سیدھی ہو کر اس کی جانب
دیکھنے لگی۔
ابھی وہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔
پانچ فٹ چھ انچ ہائٹ ،کسرتی بدن پر چپکی ہوئی الئٹ بیلو
ڈریس شرٹ اور نیرو جینز زیب کر رکھی تھی اس شخص
نے۔
89
دنوں ہاتھ کمر پر ٹکائے وہ سامنے کھڑے شخص کی
بےعزتی کر رہا تھا۔
دو منٹ بعد سکیورٹی بھی آ چکی تھی۔
"لے جاؤ اسے اور امید کرتا ہوں کہ ایک عورت کے ساتھ
بدتمیزی کرنے کے جرم میں آپ اسے سخت سے سخت
سزا دیں گے۔" وہ سکیورٹی اہلکاروں سے مخاطب تھا۔
"دیکھ لوں گا تمہیں بھی اور اس لڑکی کو بھی......ویٹ
اینڈ واچ۔" اس نے پھنکارتے ہوئے کہا تھا۔
سکیورٹی گارڈز اسے کھینچتے ہوئے جہاز سے اتر چکے
تھے۔
"افسوس ہوتا ہے مجھے تم جیسے لوگوں پر جو سب مل
کر بھی ایک عورت کی حفاظت نہیں کر سکتے .....بھئی
عالمہ اقبال نے تم جیسے شاہینوں سے ہی کہا تھا کہ یہ
وطن تمہارا ہے.....مگر تم لوگ اس وطن میں رہنے کے
قابل ہرگز نہیں ہو۔" وہ مسافروں کو مخاطب تھا۔
ماحول میں چھائی بدمزگی ایک دم ختم ہو چکی تھی ،وہ
جھک کر اپنے پیروں میں پڑا حور کا بیگ اور ڈاکومنٹس
90
اٹھائے اور اس کی جانب پلٹ چکا تھا اور حور کی آنکھیں
یہاں سے وہاں تک پھیلتی گئیں۔
زیادہ پرانا تو نہیں تھا وہ واقع.....محض چند مہینے....وہ
گھبرا کر ایک قدم پیچھے ہٹی تھی۔
"پ پگال۔" اس کے ہونٹ پھڑپھڑائے تھے۔
"نہیں عوذر سومرو "......وہ اس کو بیگ تھما کر رسمی
سی مسکراہٹ لیے کہتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔
حور کئی پل تو وہاں ساکت کھڑی رہ گئی تھی پھر سر
جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
بزنس کالس میں اس نے جیسے ہی اپنی نشست سنبھالی
دائیں جانب گردن گھما کر دیکھا تو عوذر سومرو سر سیٹ
کی پشت سے ٹکائے اپنے فون پر مدھم آواز میں کسی
سے محو گفتگو تھا۔
اس نے جیسے ہی رخ اس کی جانب موڑا تو حور نے تیزی
سے رخ پھیر لیا۔
غفور اور اس کے گروہ کو عمر قید ہو چکی تھی......مگر
شاہزیب جانتا تھا کہ جبران اپنے باپ کو نکالنے کے لیے
91
کچھ نہ کچھ ضرور کرے گا مگر ایسا نہیں ہوا ایک ہفتہ ہو
چکا تھا اور ادھر مکمل خاموشی تھی۔
خان پور اور نادر پور میں سکونت پذیر ماحول چھا چکا
تھا.....جو دونوں گاؤں کے درمیان سرد ماحول تھا ختم ہوا
تو حامد خان نے نادر پور والوں کے لیے اپنے دروازے
کھول دیئے...لوگ آپس میں ملنے جلنے لگے....نادر پور
والوں کی حویلی پر بہت بڑا تاال لگا دیا گیا تھا.....یوں
محسوس ہوتا کہ اب یہ حویلی دوبارہ کبھی نہیں کھلے گی۔
زرمینہ خان دوبارہ سے گلگت بلتستان جا ہو چکی
تھی۔مگر اس مرتبہ زرمینہ نے اس گھر کی بجائے وہاں
سے نیچے جو چھوٹی سی بستی تھی س کا انتخاب کیا تھا۔
حکیم بابا اسے دیکھ کر پہچان گئے تھے اور اسے
خاموشی سے اپنے گھر رکنے کی اجازت دے دی۔
حکیم بابا اور ان کا بیٹا بہو بہت اچھے لوگ تھے.....وہ
یہاں آرام سے رہ سکتی تھی۔
فرحان اور نجی کے درمیان ایک دیوار سی آن کھڑی ہوئی
تھی جسے نجی توڑنا چاہا رہی تھی مگر فرحان کی جانب
سے مکمل سرد مہری عروج پر تھی۔
92
حامد خان نے شاہزیب کے ولیمے کی دعوت کا اہتمام بہت
بڑے پیمانے پر کیا تھا۔
اور وہ دونوں کل سے ہی خان پور آئے ہوئے تھے۔
ابھی شاہزیب ریڈی ہو رہا تھا جب شازار پریشان سا کمرے
میں داخل ہوا۔
"سردار سے رابطہ نہیں ہوا؟" شاہزیب کو تشویش ہوئی۔
"نہیں یار ،کال ہی نہیں اٹھا رہے"....
"پتہ نہیں الال کہاں ہیں۔ پیچھلے ایک ہفتے سے رابطہ نہیں
ہو رہا....بابا سائیں اتنی مرتبہ میری کالس لے چکے ہیں۔"
شازار نے فون صوفے پر ڈال دیا تھا۔
"سپیشلی آج تو ماشاءہللا شفٹ پر شفٹ لگ رہی ہے۔" منہ
بسورے وہ کہہ رہا تھا۔
"کسی دوست کے پاس ہو گا۔اس کے دوستوں کو کال
کرو۔"
"ٹھیک ہے میں کرتا ہوں۔"
شازار نے اپنے فون میں موجود اس کے سارے دوستوں
سے رابطہ کر لیا تھا۔
93
"بس اب یہ آخری نوید بچ گیا ہے۔" اس نے بتایا تو وہ جو
آئینے میں خود کو دیکھ رہا تھا سر ہالنے لگا۔
نوید سے بات کر کے جب سامنے سے سردار دالور خان
کی حالت کے متعلق معلوم ہوا تو شاہزیب کی پیشانی شکن
آلودہ ہو گئی تھی۔
"تم چلو مردانے میں اس کے بل میں نکال کر التا ہوں۔"
شاہزیب نے کہا تو وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔
"سب تمہارے بارے میں پوچھیں گے ،پہلے کزنز محض
الال کا پوچھ پوچھ کر دماغ چاٹ رہے ہیں اب تمہارے متعلق
بھی.....تم یہاں ہی رکو میں لے آتا ہوں۔" شازار نے دہائی
دی۔
"وہ گھوڑا بےلگام ہو گیا ہے پیارے ،تم اسے قابو میں
نہیں کر پاؤ گے۔ کوئی پوچھے تو کہنا کہ دالور خان شکار
پر گیا تھا لوٹ آیا ہے ،اور......اب میں اور وہ سالون گئے
ہوئے ہیں۔" اس نے سوچتے ہوئے تیز لہجے میں کہا اور
اس کا شانا تھپک کر کھڑکی کی جانب بڑھا۔
"اِدھر سے کدھر؟"
94
"کھڑکی سے پورچ۔" وہ کہہ کر اپنا گرے کوٹ اتارتے
ہوئے اس کی جانب اچھال چکا تھا۔
" میں نیچے جیسے ہی اتروں کوٹ پھینک دینا۔"سیاہ
شرٹ کے کف فولڈ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
"تم گیٹ سے بھی جا سکتے ہو "....شازار نے اس کی
دماغی کیفیت پر افسوس کیا۔
"کمرے سے نکلتا بعد میں ہوں خواتین پکڑ پہلے لیتی
ہیں.....اسی لیے یہ را ِہ فرار بہتر ہے فراز۔" اس نے کہتے
ہوئے کھڑکی سے جھک کر نیچے دیکھا۔
پھر دیوار کے ساتھ والے پائپ کو دیکھا جو اوپر والے
فلور سے نیچے جا رہی تھی۔
ّٰللا کا نام لے کر وہ پائپ سے اتر تو گیا تھا مگر سیاہ شرٹ
ہ
کا کبڑا ہو چکا تھا۔
شازار نے جھک کر اسے دیکھتے ہوئے قہقہہ لگایا پھر
اس کا کوٹ بھی پھینک دیا۔
وہ شرٹ جھاڑ کر کوٹ پہنتا پورچ کی جانب بڑھ گیا تھا۔
شازار مسکراتے ہوئے پلٹ گیا۔
95
"شاہزیب الال کہاں ہیں؟" نازش نے کمرے میں داخل ہوتے
ہوئے پوچھا۔
"وہ.....پتہ نہیں۔" شازار شانے آچکا کر تیزی سے فرار ہو
گیا نازش اپنا سا منہ لے کر کھڑی رہ گئی۔
انٹرنیشنل فیشن اکیڈمی کے پارکنگ ایریا میں اس کی گاڑی
بہت تیز رفتار میں داخل ہوئی تھی۔
اپنی مخصوص جگہ پر گاڑی روکتے ہوئے.....اس نے
گالسز کے پیچھے سے ہی ونڈ سکرین کے پار دیکھا پھر
گردن گھما کر شیشے سے باہر دیکھا.....جہاں بہت سارے
اسٹوڈنٹس کھڑے تھے اور وہ ان کے چہروں سے اندازہ
لگا چکی تھی کہ ایک دوسرے سے اس کے متعلق ہی بات
کر رہے تھے۔
مغرور سی مسکراہٹ لیے اسے نے دراز میں سے مرر اور
ہیئر برش نکال کر بالوں کو درست کیا۔
ہونٹوں پر نیچرل کلر کے شیڈ کی لپ اسٹک کو درست
کرتے ہوئے وہ اپنا ہینڈ بیگ اٹھا کر گاڑی میں سے برآمد
ہوئی تھی۔
96
سنہری سلکی بالوں کو ٹھنڈی ہوا نے چھو کر رقص کرنے
پر مجبور کر دیا تھا۔
جنہیں اس نے سمیٹنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔
سیاہ جینز پر تھائی تک جاتی سیاہ ہی شرٹ اور اس پر
مہرون النگ کوٹ زیب تن کیے اونچے سول والے بند
جوتوں پر چلتی تیز رفتاری سے آگے بڑھتی وہ اپنے کان
میں ائیربرڈ لگا رہی تھی۔
یہاں وہ اپنے کام اور نخروں کی وجہ سے بہت کم دنوں
میں مشہور ہو چکی تھی۔
وہ ایٹیڈیوڈ کوئن کے نام سے بھی اپنے کیمپس ہی نہیں
بلکہ ملحقہ کیمپس میں بھی جانی جاتی تھی۔
روون جہاں اس کا ایپارٹمنٹ تھا .....وہاں سے آئی ایف اے
پیرس جہاں وہ اپنا تین سال کا بیچلر کر رہی تھی کوئی
دوست نہیں تھا....اور اب آنے والی زندگی میں وہ کسی پر
بھی یقین کرنے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
****
97
وہ پیچھلے ایک ہفتے سے نوید کے ہاں تھا......ابھی بھی
زمینی بستر پر چیت لیٹے وہ چھت کو خالی خالی نگاہوں
سے گھور رہا تھا۔
دل میں بےسکونی یہاں سے وہاں تک پھیلی ہوئی تھی۔
پاس پڑا ایش ٹرے سگریٹوں کے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا،
بہت سارے بچے ٹکڑے بالکنی تک بھی بکھرے ہوئے
تھے.......سردار دالور خان اس وقت دیوداس سے کم نہیں
لگ رہا تھا۔
نوید نے دروازہ کھوال تو اندر سے جو سگریٹوں کی بو آئی
شاہزیب نے بےاختیار ہی گدے پر چیت لیٹے سردار دالور
خان کو سخت نگاہوں سے گھورا۔
"سردار......یہ سب کیا ہے؟" وہ اس سے سنجیدگی سے
استفسار کر رہا تھا۔
نوید واپس پلٹ کر جا چکا تھا۔
"تم کہاں سمجھو گے.....تمہاری محبت تو تمہارے پہلوؤں
میں ہے نا۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھ بیٹھا مگر زیادہ دیر تک
بیٹھا نہیں گیا تو پھر سے بستر پر گر گیا۔
98
"تم کس قسم کی حرکتیں کر رہے ہو نظر آ رہا ہے تمہیں؟
یہ جو کام تم کر رہے ہو نا یہ ایک سردار کو سوٹ نہیں
کرتا۔جس پر ڈھیروں زمہ داریاں ہوتی ہیں وہ ایسی
نہیں کرتے "......وہ اس کی جانب جھک effortحرکتیں
کر اس کا شانا جھنجھوڑتے ہوئے درشتی سے بوال۔
سردار دالور خان نے اس کا ہاتھ جھٹک دیا تھا۔
"بھاڑ میں گیا سردار۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے
اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔
دالور نے ہاتھ بڑھا کر سرہانے پڑی سگریٹ کی ڈبی
اٹھائی،ایک عدد سگریٹ نکالی اور جیسے ہی سلگانے لگا
تو شاہزیب نے بےاختیار آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے
گریٹ چھین لی۔
"تم خواہ بھاڑ میں چلے جاؤ مگر میری ایک بات کان
کھول کر سن لو۔" جھک کر اسے گریبان سے تھام کر ایک
جھٹکے سے اپنی جانب کھینچتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں
میں برا ِہ راست دیکھ رہا تھا۔
99
"پہلے شازار نے اپنے قبیلے اور اپنے گھر والوں سے
بغاوت کی.....باپ کی ساری امیدوں پر پانی پھیر
دیا.....انہیں دکھ سے دو چار کر دیا۔"
ایک لمحے کو چپ ہوا اور گھٹنوں کے بل اس کے سامنے
بیٹھ کر پھر سے بوال۔
"اور اب تم وہ ہی کر رہے ہو ".......اس نے سرد سی آہ
بھری۔
"محبت کرنا غلط نہیں ہے مگر اس کے چلتے
ہوئے......خود سے جڑے کئی رشتوں کو دکھ دینا غلط ہے،
باغی ہونا غلط ہے....محبت اگر حاصل ہو سکے تو ٹھیک۔"
وہ اس کا کالر چھوڑ چکا تھا۔
"نہیں ملی تو یوں خود سے جڑے سارے رشتوں کو
تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے۔"
سردار دالور خان کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے....
پیشانی سے غصے کے بل غائب ہونے لگے۔
"مجھے نہیں معلوم کہ تمہارے ساتھ کیا مسئلہ
ہے.......ایک جانب تم حور سے غافل ہو دوسری جانب جب
100
سے وہ گئی ہے سوگ منا رہے ہو.....تیسرا اسے طالق
بھی نہیں دی۔ نجانے تم چاہتے کیا ہو۔"
"میں اسے چاہتا ہوں.....وہ پتہ نہیں کیا چاہتی ہے .....وہ
مجھے نہیں چاہتی کتنی آسانی سے طالق کے کاغذات پر
دستخط کرنے چلی تھی "......وہ منمنایا۔
"تو یوں سب کو پریشان کر کے تم کون سی محبت ظاہر کر
رہے ہو؟ وہ تو یہاں ہے بھی نہیں جو تمہاری حالت پر رحم
کرے .....اگر اسے چاہتے ہو تو اس کے پیچھے جاؤ اور
مناؤ اسے۔"
"وہ نہیں مانے گی شاہزیب! بہت ضدی لڑکی ہے۔" وہ
اپنے ٹوٹے بکھرے لہجے کو سمیٹ نہیں پا رہا تھا۔
"تم منانے کی کوشش کرو دیکھنا مان جائے گی.....اوپر
سے وہ جتنی سخت ہے اندر سے اتنی ہی نرم ہے۔"
"وہ نہیں مانے گی......اس نے کہا تھا کہ جب اسے محبت
ہو گی ت تو قیامت ہو گی......اب وہ قیامت میرے اور اس
پر دونوں پر گزر رہی ہے۔"
" یہ صرف تمہارا مسئلہ ہے۔اپنے مسائل اپنے تک ہی
مت کرو۔" بنا involveرکھو.....اس میں دوسروں کو
101
پلکیں جھپکائے وہ برا ِہ راست اس کی آنکھوں میں
جھانکتے ہوئے سختی سے کہہ رہا تھا۔
"اور جو ایسا کرتے ہیں وہ ........بزدل ہوتے ہیں۔"
شاہزیب نے بات ختم کی۔
ایک لمحہ اس کو دیکھتا رہا پھر اس کا شانا تھپک کر
تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا۔
"مجھے امید ہے تم بزدل نہیں ہو گے۔" اس نے کہتے
ہوئے سوٹ کیس اس کی جانب بڑھایا۔
"اس میں سوٹ ہے یقینا ً تم پر سوٹ کرے گا۔میں باہر
انتظار کر رہا ہوں امید ہے تم بہتر فیصلہ لو گے۔یار خود
دولہا چل کر آیا ہے تمہیں لینے کچھ عقل سے کام لے
لینا۔"
وہ سنجیدگی سے کہتے کہتے آخری فقرے پر مسکرایا اور
پھر باہر نکل گیا۔
سردار دالور خان چند پل بند دروازے کو دیکھتا رہا پھر اس
نے شاہزیب کی باتوں پر غور کیا وہ ٹھیک کہہ رہا
تھا......یہ مسئلہ صرف اس کا تھا جسے وہ اپنے تک ہی
رکھتا تو بہتر تھا اس کے لیے بھی اور سب کے لیے.....
102
بالآخر وہ ہاتھ میں قید سگریٹ کی ڈبی پرے اچھال کر اٹھا
اور سوٹ کیس میں سے ولیمے کا جوڑا نکال کر واشروم
کی جانب بڑھ گیا تھا۔
کالس میں داخل ہوتے ہی اس نے سیاہ گالسز کے پیچھے
سے ایک نگاہ سب پر ڈالی پھر گالسز اتار کر بیگ میں
رکھے اور بنا کسی کو مخاطب کیے وارڈروب کی جانب
بڑھی۔
دائیں دیوار میں میزیں وارڈروب میں ۴۱نمبر والے خانے
کا پاسپورٹ ٹائپ کر کے کھوال اور اپنا بیگ اس میں
رکھتے ہوئے ڈرائنگ کا سامان نکال کر اپنے ورک سپیس
کی جانب بڑھ گئی۔
”“Hey hooriya! How are you.
اس کی ایک انگریزن کالس فیلو نے مسکراتے ہوئے ہائے
کہا تھا۔
”“Assalamu alaikum…!Alhumdulilah.
سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ اپنے بورڈ پر شیٹ درست
کرنے لگی تھی۔
103
اس کے خشک رویّے کی بدولت اب کوئی کالس فیلو زیادہ
مخاطب نہیں ہوتا تھا اور اسے بھی کوئی فرق کہاں پڑتا
تھا۔
104
He is such a sweet person….What a smile….
What a way to talk and….Uffff his
Attitude….”
انگریزن جھوم جھوم کر تعریفیں کر رہی تھی۔
“I can’t believe it…such a boring
subject…will be taught by such a hot
person…..”
دوسری انگریزن بھی اس قصیدے میں شامل ہوئی تھی۔
Listen to me girls…..Add another thing to
your knowledge that…….”
ایک لڑکے نے بلند آواز میں سب کو مشترکہ مخاطب کرتے
ہوئے سسپنس پھیالیا۔
“He is a very expert sculptor…..And and his
anger is very dangerous.so please be
careful.”
وہ لڑکا اپنی بات ختم کرتے ہوئے ہاتھ کھڑے کرتا کالس
روم سے نکل گیا تھا۔
105
“Let’s see what Mr. Ozar Soomro makes
”today.
پہلی انگریزن نے اپنی ماال کے ساتھ کھیلتے ہوئے کچھ
اس انداز میں کہا کہ کالس قہقہوں سے گونج اٹھی۔
"عوذر سومرو؟ "......حور بڑبڑاتے ہوئے تیزی سے
دروازے کی سمت بڑھی مگر تب تک ڈرائنگ کا پروفیسر
دروازے سے اندر انٹر ہو چکا تھا۔
”!“Good morning Ms.Horiya
خوش اخالقی سے پروفیسر نے کہا تھا۔
”!“Good morning professor
سنجیدگی سے کہتے ہوئے وہ پلٹ کر اپنی ورک پلیس پر
جا کھڑی ہوئی۔
"ڈیئر اسٹوڈنٹس....آج آپ کو کالس اسائنمنٹ مل جائے گی
جو کل گھر سے کر کے الئیں گے۔ کیونکہ.....مسٹر سومرو
کے ساتھ آج آپ کو کام کرنا ہے۔"
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے اطالع دی تھی۔
سب ہی بہت خوش ہو گئے تھے۔
106
حور نے سب لڑکیوں کے چہروں پر پھیلتی خوبصورت
مسکراہٹ دیکھتے ہوئے نفی میں سر جھٹکا تھا
“How many poisonous people are hidden
behind beautiful faces, these stupid girls will
”never understand.
(خوبصورت چہروں کے پیچھے کتنے زہریلے لوگ چھپے
ہوتے ہیں یہ بیوقوف لڑکیاں کبھی نہیں سمجھیں گیں۔)
وہ نخوت سے سوچتے ہوئے اپنا سامان واپس وارڈروب
میں رکھنے لگی تھی۔
"وہ پگال ہی ہے۔ کہیں پھر سے تو مجھے اغواء ......نہیں
نہیں.....اب اتنی ہمت نہیں ہے....اس مرتبہ اگر اس نے
اغواء کیا تو جان سے مار ڈالوں گی اس پگلے اور کجلے
دونوں کو۔ویسے اس کا کجال کہاں ہے؟" وہ مسلسل
سوچتے ہوئے اپنی کالس کے ساتھ چل رہی تھی۔
پتہ بھی نہیں چال کہ سکلپچر کالس میں داخل ہو گئی اور
کب پروفیسر عوذر سومرو اندر داخل ہوا۔
وہ گاڑی سے ٹیک لگائے کھڑا سوچ رہا تھا کہ نجانے
رسم سوگ جو ختمِ دالور خان کیا فیصلہ کرے گا....؟اپنی
107
کرے گا یا نہیں......؟کیا وہ بھی شازار خان کی مانند بنتا جا
رہا ہے؟
وہ اضطرابی کیفیت میں ہاتھ مسلنے لگا...
تبھی مین گیٹ کا چھوٹا در کھول کر وہ نکال تھا ،ہونٹوں
پر مسکراہٹ لیے اس کی جانب بڑھا۔
"تم نے ٹھیک کہا ہے خانزادے!.....یہ میرا مسئلہ ہے اور
اس سے دوسروں کو تکلیف نہیں پہنچانی چاہیے خاص
طور پر اپنے والدین کو۔" وہ اس کے شانے پر ہاتھ رکھتے
ہوئے بوال۔
"کاش جس طرح تم نے مجھے سمجھایا اسی طرح میں
بھی شازار کو سمجھا سکتا "......دالور نے اس کے گرد
بازو حائل کرتے ہوئے کہا۔
شاہزیب اس کی پیٹھ تھپکتے ہوئے مسکرا دیا۔
"ویسے تم نے میرا گریبان پکڑنے کی جرات کیسے کی تم
سے ایک دو سال تو تقریبا ً بڑا ہوں گا۔" پیچھے ہٹتے
ہوئے وہ مصنوعی غصے سے اس کا گریبان تھماتے
ہوئے بوال۔
108
"مت بھولو کہ میں تمہارا ساال ہوں اور سالے سے بنا کر
رکھنی چاہیے.....ویسے بھی مجھے تم جیسے بگڑے
ہوئے جاگیرداروں کو سدھارنے کا حق قانون نے دیا ہے۔"
وہ بھی اس کے انداز میں بولتے ہوئے اس کے ڈھیلے
ہاتھوں سے اپنا گریبان چھڑوا چکا تھا۔
دالور خان قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
"تھینک یو بڈی۔" وہ اس کے شانے پر تھپکی دے کر اپنی
گاڑی کی جانب بڑھا۔
"ساتھ ساتھ چلیں؟ میری گاڑی میں؟" شاہزیب نے پیچھے
سے اسے مخاطب کیا وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا۔
"ہوں ٹھیک ہے۔" وہ پلٹا اور گاڑی کے فونٹ کے سامنے
سے گھوم کر لیفٹ سیٹ پر براجمان ہوا تھا۔
شاہزیب نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی۔
اس نے اپنے تعارف کے بعد سکلیچر کے متعلق کلیچر
شروع کر دیا تھا۔
"سکلپچر بنانا بہت آسان ہے مگر اس میں جان ڈالنا اتنا ہی
مشکل ہے جتنا کہ ایک لڑکی کو پٹانا۔" مزاحیہ خیز لہجے
میں کہتے ہوئے وہ سب کو ہنسنے پر مجبور کر چکا تھا۔
109
حور قہقہوں کی آواز پر خیاالت کی دنیا سے جاگتے ہوئے
سامنے دیکھنے لگی۔
عوذر سومرو آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگائے ،ڈریس
پینٹ شرٹ زیب تن کیے وہ مدھم سی مسکراہٹ ہونٹوں پر
سجائے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"میں کوئی تھیوری نہیں بتاؤں گا.....بلکہ اپنے خیاالت اور
ایکسپیرنس اور سکلپچر کے حوالے سے جو تجربات
ہیں....ان کے مطابق آپ لوگوں کو گائیڈ کرنا چاہوں گا تاکہ
آپ سب کو آسانی ہو ......سکلپچر سیکھنے اور سمجھے
میں۔"
حور پر سے نگاہیں ہٹاتے ہوئے وہ پینٹ کی جیبوں میں
ہاتھ ڈالے سب کے چہروں کو دیکھتے ہوئے بوال۔
اس کی انگش زبان سن کر حور کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا
کہ یہ وہ ہی جاہل سا.....میال کچیال مجرم پگال ہے۔
“Sculpture ……. Is a feeling, it is not just
made …. But it is felt …… until we feel it our
”hands fail to make the sculpture Are.
110
(سکلپچر.......ایک احساس ہے ،یہ صرف بنایا نہیں جاتا....
بلکہ اسے محسوس کیا جاتا ہے......جب تک ہم اسے
محسوس نہیں کرتے تب تک ہمارے ہاتھ سکلپچر کو بنانے
میں ناکام رہتے ہیں)
اس کی بات پر سب نے متفقہ طور پر سر ہالیا تھا۔
"مس حور! آپ یہاں آئیں پلیز۔" اس کے مخاطب کرنے پر
حور نے سر اٹھا کر اس کی جانب حیران کن نگاہوں سے
دیکھا تھا...اور پوری کالس کی نگاہوں نے حور کو....کہ
پروفیسر عوذر سومرو اسے جانتے ہیں؟
"میں؟"
"جی جی یہاں حور آپ ہی ہیں۔" اس نے کچھ اس انداز
میں کہا تھا کہ وہ حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھنے
لگی۔
"میرا مطلب حوریہ نام آپ کا ہی ہے نا یہاں۔" وہ مصنوعی
سٹپٹا کر بوال تھا۔
حور اپنے غصے کو دباتی اس کی جانب بڑھی۔
"یہاں بیٹھیں پلیز۔" اس نے اپنی کرسی سیدھی کرتے
ہوئے کہا۔
111
"میں؟"
"آپ سے ہی مخاطب ہوں تو....آپ ہی نا۔" عوذر نے
سنجیدگی سے کہا تو وہ مجبوراً کرسی پر بیٹھ گئی تھی۔
"ریلکس مس حور! ہم آپ کو بارڈر پر نہیں بھیج رہے۔"
وہ اس کی جانب دیکھتے ہوئے بوال تو حور نے تیزی سے
چہرے کے ایکسپریشنز بدلے۔
"آئی ایم فائن پروفیسر!" اس نے بےتاثر لہجے میں کہتے
ہوئے سامنے دیوار کو گھورنا شروع کر دیا تھا۔
"اوکے۔
سو مائی ڈیئر اسٹوڈنٹس ".......اس نے توجہ دوسری
کالس کی جانب کی۔
"آپ کے سامنے حور صاحبہ کو کیوں بیٹھایا آپ سب یہ ہی
سوچ رہے ہوں گے نا......؟" اس کے استفسار پر کئی سر
اثبات میں ہلے تھے۔
وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے حور کی جانب دیکھنے لگا۔
"کیونکہ آج آپ حور کا سکلپچر بنائیں گے ".....س کی
بات پر حور نے بری طرح چونک کر اس کی جانب دیکھا
اور ایک جھٹکے سے اپنی جگہ پر سے اٹھ کھڑی ہوئی۔
112
"وہاں تم میرا سکلپچر نہیں بنا سکے تھے تو اب یہاں بناؤ
گے؟ ایسا سوچ بھی کیسے لیا کہ تم یہ کر پاؤ گے؟" وہ
اس کی جانب بڑھتے ہوئے اردو زبان میں غصے سے چنخ
کر بولی تھی۔
عوذر ہڑبڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا۔
"کیا کر رہی ہیں آپ حور! میری پوری بات تو سن لیں".....
وہ تیزی سے بوال۔
"تمہارے ساتھ کے جتنے بھی لوگ ہیں نا سب کو عمر قید
ہو چکی ہے.....ایک کال کروں گی اور شاہزیب تمہیں
آریسٹ کرنے کے لیے یہاں پہنچ جائے گا۔"
وہاں کسی کو ان کی باتیں سمجھ نہیں آ رہی تھیں۔
بس سب حیران کن نگاہوں سے ان دنوں کے ایکسپریشنز
نوٹ کر رہے تھے۔
حور بےحد غصے میں تھی اور عوذر بےتاثر چہرہ لیے
اسے اطمینان سے دیکھ رہا تھا۔
"میرے راستے سے ہٹو پگلے"....
"عوذر سومرو نام ہے میرا "....وہ دائیں بھنویں کو آچکا
کر بوال۔
113
" میں نے کہا میرے راستے سے ہٹو۔"
"تم غلط سمجھ رہی ہو ،میں کہنے لگا تھا کہ آپ کو حور
کا سکلپچر بنانا ہے میں یہ نہیں کہہ رہا پل بلکہ اس طرح
جس طرح تم ایک جیتی جاگتی انسان ہو سکلپچر بھی ایسا
ہی ہو۔" وہ اپنی صفائی میں بوال۔
حور مزید رکے بنا اسے سامنے سے دھکیل کر کالس روم
میں سے نکل گئی تھی۔
عوذر چند پل اضطرابی کیفیت میں گھیرا وہاں کھڑا رہا پھر
بےحد تیزی سے کالس روم میں سے نکال کر اس کے
پیچھے بڑھا۔
*****
وہ دونوں تو کالس روم سے نکل گئے جب کہ پیچھے کئی
سوال اٹھ رہے تھے۔
”?“Do they already……know each other
”?“What was….going on…..between them
”?“Why was she angry at…..him
114
"میری بات سنو حور!" وہ اس تک پہنچ چکا تھا....اس کی
کالئی تھام کر اپنی جانب متوجہ کرتے ہوئے نرم سے
لہجے میں بوال۔
"میں وہاں اپنی خوشی سے ہرگز نہیں تھا.....اور رہی بات
آریسٹ کی تو میں نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا
تھا۔ مگر پولیس نے خود مجھے آزاد کیا کیونکہ مجھے
وہاں اغواء کر کے رکھا گیا تھا۔میرے والدین اس شخص
کے ٹارچر سہہ رہے تھے جس وجہ سے میں وہاں
تھا....زبردستی مجھ سے وہ کام کروایا جا رہا تھا".......
وہ افسردگی سے اپنی صفائی پیش کر رہا تھا۔
"مجھے کیوں بتا رہے ہو؟ بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہاری یہ
کالس.....اور آئندہ اگر تم نے مجھے ہاتھ لگانے کی کوشش
کی تو جان سے مار ڈالوں گی۔" اپنی کالئی اس کی گرفت
سے آزاد کرواتے ہوئے وہ چال کر کہتی وہاں رکے بنا آگے
بڑھ گئی۔
"تم اس طرح مجھ پر چال نہیں سکتی۔" وہ تیزی سے آگے
بڑھا۔
115
"اگر تم چاہتے ہو کہ میں....تم پر.....نہ چالؤں تو......مجھ
سو ہزار فٹ دور رہنا۔" وہ پلٹ کر الٹے پاؤں چلتی کہتے
ہوئے رخ پھیر گئی۔
عوذر کے قدم تھم گئے تھے۔
117
"آج سے جو سردار اس گدی پر بیٹھے گا وہ ہی جمعہ
والے دن آپ کے فیصلے کرے گا.....وہ ہی آپ سب کی
سنے گا ،بیشک ہم سب آپ سب کے ساتھ ہوں گے ،ہمارا
گھرانہ آپ سب کی حفاظت کے لیے ہمیشہ موجود رہے
گا۔" انہوں نے قدم ایک مالزم کی جانب بڑھائے اور سردار
کی سفید پگ اور شیشیوں جڑی ٹوپی پر سے کپڑا ہٹا دیا۔
پھر آگے بڑھے اور دوسرے تھال پر سے کپڑا ہٹایا اس
میں تلوار تھی۔
"یہ ہماری خاندانی تلوار ہے.....ہمارے دادا پردادا کے دور
کی....جب وہ سردار تھے۔"
وہ اب پلٹ کر تخت کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
انہوں نے دالور خان کو اوپر آنے کا اشارہ کیا تھا وہ ان
کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے آگے بڑھا۔
"سردار پتر!......مجھے نہیں لگتا کہ تمہارا فیصلہ درست
ہے۔" انہوں نے اس کے کان میں گھس کر کہا تھا۔
"مجھ پر یقین رکھیں.....وہ سب سنبھال لے گا ".....دالور
خان نے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
118
"ویسے بھی میں اسے تنہا نہیں چھوڑوں گا......اس کے
ساتھ ہمیشہ رہوں گا۔" اس نے انہیں یقین دالیا تھا۔
حامد خان محض اثبات میں سر ہال کر مبہم سا مسکرا
دیئے۔
دالور خان ہٹ کر کرسی کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا
تھا......
اب سب کی نگاہیں شازار اور شاہزیب پر تھیں کہ ان میں
سے کون سردار چنا جائے گا۔
حامد خان جانتے تھے کہ بہت ساری نگاہیں ہیں جو
شاہزیب کو سردار چن چکی ہیں مگر وہ کچھ نہیں کر
سکتے تھے۔
"سردار دالور خان آج اپنی نشست چھوڑ رہے ہیں.....مگر
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم آپ سب سے آنکھیں میچ
لیں گے.....اور مطمئن رہیں آپ کا نیا سردار ہم سے زیادہ
رحم دل اور آپ کا نگہبان ہو گا۔" اس نے مسکراتے ہوئے
کہا تھا۔
اس کے بعد جس شخص کا نام دالور خان نے لیا تھا سب
کے سب حیران رہ گئے۔
119
"خان! آئیں یہاں.....اپنی نشست سنبھالیں۔" اس نے پھر
سے کہا تھا۔
وہ جو حیراں و پریشاں سا کھڑا آنکھیں پھاڑے ان دونوں
کو دیکھ رہا تھا چونک کر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
"میں؟ میں کیسے الال ......سردار تو آپ ہیں ".....اس نے
تیزی سے ہکالتے ہوئے کہا
"ہم تھے......خان! مگر اب آپ ہیں .....آخر کب تک آپ زمہ
داریوں سے بھاگ سکتے ہیں؟" دالور خان مسکراتے
ہوئے بوال۔
"خانزادے!.....یہ الال کیا کہہ رہے ہیں؟ دیکھو مجھ سے
نہیں ہوتی سرداری ورداری۔" شازار اس کے کان میں
گھس کر خفگی سے بوال تو وہ محض مسکرا دیا۔
"سرداری کون سا مشکل ہے۔"
"یار مجھے بلی چڑھنے سے روک لو۔" وہ التجا پر اتر آیا
تھا۔
اسے اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نہ سرکتے
دیکھ......دالور خان تخت سے اتر کر اس کی جانب بڑھا۔
120
"سائیں !.....شازار خان سرداری کی پگ کیسے سنبھالے
گا؟" نادر پور کے ایک شخص نے استفسار کیا تھا۔
کہ پیچھے کئیں دبی دبی آواز میں سوال اٹھے۔
"بلکل میرا بھی یہ ہی کہنا ہے کہ شازار خان سرداری کے
قابل نہیں ہے۔ اسے سردار مت بنایا جائے۔" شازار تیزی
سے بوال تھا۔
وہ پھرتی سے دالور خان کے عقب سے نکل کر عوام کی
قطار میں جا کھڑا ہوا۔
"میں تم سب کے ساتھ ہوں ،ہم دھرنا دیں گے......ہمیں
شازار خان جیسا سردار ہرگز نہیں چاہیے۔" وہ اپنے ہی
خالف کھڑا تھا۔
سردار دالور خان نے پیشانی پیٹ لی جبکہ شاہزیب بمشکل
اپنی ہنسی دبا رہا تھا۔
"تمہیں سرداری سنبھالنی ہی پڑے گی۔حور کو منانے کے
ارادے سے جو تم لمبی چھٹی چاہتے تھے وہ پالن تو
کینسل ہو گیا....یہ تو دھرنے پر بیٹھنے کی باتیں کر رہا
ہے۔" وہ اپنی ہنسی پر کنٹرول کرتے ہوئے دالور خان کے
کان میں بوال۔
121
"سردار تو یہ بنے گا۔ دیکھتا ہوں کیسے نہیں بنتا۔" دالور
خان نے کہتے ہوئے رخ شازار کی جانب پھیرا۔
"تم زبردستی نہیں کر سکتے اس کے ساتھ۔" شاہزیب نے
کہا۔
"خان! چپ چاپ جا کر تخت پر بیٹھ جاؤ۔" اس نے دبے
دبے غصے میں کہا تو شازار منہ لٹکا کر شاہزیب کی جانب
دیکھنے لگا۔
"آپ شاہزیب کو سردار بنا دیں نا۔" اس کی بات پر اب
شاہزیب کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
"یار میں کیسے بن سکتا ہوں۔ میں تو تم سب کا محافظ
الریڈی ہوں۔" اس نے بات سنبھالی تھی۔
"بس بہت ہوا خانزادو !.....ہم نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی
مخالفت ہم برداشت نہیں کریں گے۔" حامد خان نے سخت
لہجے میں کہا تو وہ تینوں خاموش ہو کر احتراما ً سر جھکا
گئے۔
"شازار خان! آپ جانتے ہیں نا کہ آٹھ نو سال سردار دالور
خان نے تنہا ہی اس قبیلے کو ،اس عالقے کو اور اپنے
بزنس کو سنبھاال ہے......اب دالور خان محض اپنے بزنس
122
کو وقت دینا چاہتا ہے....اور وہ چاہتا ہے کہ یہ قبیلہ ایک
محفوظ ہاتھوں میں دے دیا جائے.....رہی شاہزیب کو
سرداری کی نشست پر بیٹھانے کی بات تو....بیشک شاہزیب
بہت ہونہار ہے وہ سب سنبھال لے گا مگر وہ تو پہلے سے
ہی ہماری حفاظت کر رہا ہے۔" انہوں نے بات ختم کرتے
ہوئے ایک نگاہ اس پر ڈالی تھی۔
"اور تم بھی کوئی ناسمجھ نہیں ہو شازار خان !.....ہمارے
پشاور جانے پر جس طرح تم نے پیچھے سے سب سنبھاال
اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی ہم نے سردار دالور
خان کی بات مانی ہے اور تمہیں سرداری سونپنے والی بات
پر غور کیا ہے۔"
وہ اب نرمی سے کہہ رہے تھے۔ شازار نے سر اٹھا کر ان
کی جانب دیکھا۔
کچھ سوچ کر وہ آگے بڑھا تھا۔
"ٹھیک ہے بابا سائیں! ہم تیار ہیں مگر ہماری ایک شرط
ہے کہ اگر ایک سال تک ہم سے کوئی غلطی نہ ہوئی تو ہم
سرداری کی نشست سنبھالیں گے"....
اس کی بات سے سب ہی متفق نظر آ رہے تھے۔
123
حامد خان نے سردار دالور خان کی جانب دیکھا تو اس نے
اثبات میں سر ہال دیا۔
"ٹھیک ہے خان!" انہوں نے حامی بھر لی تھی۔
"فلحال ہمارا سردار دالور الال ہی ہیں۔" وہ کہتے ہوئے اس
کی جانب متوجہ ہوا۔
دالور خان بےدلی سے مسکرا دیا تھا کہ اب اس کا دل ان
کاموں سے اچٹ ہو چکا تھا.....مگر سب کی خوشی کو
مدنظر رکھتے ہوئے وہ سربراہی کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔
گدی نشینی کے بعد جشن کا سا سماں باندھ گیا تھا۔
ڈھول کی تھاپ پر مرد رقص کرنے لگے تھے....حویلی
میں بھی سنگیت گونج رہے تھے۔
یہ جشن اب پورے سات دن چلنا تھا اور وہ جو یہاں سے
جانے واال تھا حور کو منانے.....ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا
کیونکہ وہ اپنے لوگوں کو مایوس نہیں کر سکتا تھا۔
زری نے سر اٹھا کر پہاڑی کو بہت غور سے دیکھا تھا۔
"کیا دیکھ رہی ہو باجی؟" اس کے پیچھے آ رہی گلنار
(حکم بابا کی بیٹی) نے حیرانگی سے سر اٹھا کر اس کی
نگاہوں کا پیچھا کیا تھا۔
124
"اس پہاڑی پر ایک بہت خوفناک داستان دفن ہے گلنار!"
وہ سر جھکا کر پھولوں والی ٹوکری اٹھا چکی تھی۔
زرمینہ گلگت بلتستان آ تو گئی تھی مگر اس کا دل نہیں کیا
تھا وہاں جانے کو جہاں اس کے ساتھ اس قدر ظالمانہ
سلوک روا رکھا گیا تھا......
وہ پہاڑی سے کوئی پانچ چھ سو کلومیٹر نیچے واقع بستی
میں رہ رہی تھی ....حکیم بابا کے گھر جو اسے پہچان گیا
تھا مگر بابا نے کوئی بھی ذکر نہیں کیا تھا اس واقع کے
متعلق۔
"کیا مطلب باجی؟ کیسی کہانی....مجھے سنائیں نا۔" گلنار
سس آمیز لہجے میں گویا ہوئی۔تج ّ
"ٹھیک ہے سناتی ہوں۔" وہ دونوں چلتی ہوئیں ایک
جھرنے کے قریب صاف جگہ پر کپڑا بچھا کر زمین پر بیٹھ
گئی تھیں۔
گلنار نے ٹوکری میں سے گھر سے الئے میوہ جات اور
چند پکوان برآمد کیے اور دسترخوان پر سجا دیئے۔
وہ آج گھومنے پھرنے نکلی تھیں۔
125
"بہت صدیوں پہلے کی بات ہے.......یہ کہانی ہے ایک
شہزادی ،ایک شہزادے اور ایک ".....وہ کہتے کہتے
لحاظہ بھر رکی۔
"ایک سپاہی کی۔" گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتے ہوئے
ساکت پلکیں سامنے جھرنے پر ٹکا چکی تھی۔
"شہزادی کا والد شہزادے کی ریاست پر قبضہ کرنا چاہتا
تھا.....جس وجہ سے دونوں ہی ریاستوں کے درمیان بہت
گہری دشمنی تھی ......دونوں گاؤں....م میرا مطلب
ریاستوں کے لوگ ایک دوسرے سے بہت نفرت کرتے
تھے۔"
"شہزادہ بہت رحم دل اور بہادر تھا....شہزادی بھی....رحم
دل شہزادے کے قصے سنتی رہتی تھی .....یہ سب سن کر
وہ نہت متاثر ہوتی تھی ....اتنی کہ رفتہ رفتہ وہ اس
شہزادے کے عشق میں مبتال ہو گئی.....وہ اس سے ملنا
چاہتی تھی،اسے اپنے دل کا حال بتانا چاہتی تھی۔"
زری کے ہونٹوں کو ایک زخمی سی مسکراہٹ نے چھوا
تھا۔
126
جہاں سے سب شروع ہوا تھا...وہاں سے اس کی آنکھوں
کے پردے پر یہ سب ایک فلم کی مانند چلنے لگا تھا۔
"اور پھر ایک دن وہ ملے.....شہزادہ بہت خوبصورت تھا،
ہیرے کی مانند چمکتی اس کی آنکھیں شہزادی کو جکڑنے
لگیں ".....وہ کہتے کہتے ایک دم سے اس وقت اپنی
دالور خان سے پہلی مالقات میں کھو سی گئی تھی.....
"پھر کیا ہوا باجی؟ کیا شہزادے کو شہزادی سے محبت
ہوئی؟"
اس کے استفسار پر زری نے مبہم سی مسکراہٹ لیے
اسے دیکھا اور بنا اس کے سوال کا جواب دیئے مزید
بولی۔
"شہزادی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے محل سے
در بدر ہو گئی .....شہزادے کے محل میں نوکر بن کر کام
کرنے لگی....محض سردار کی ایک جھلک کی خاطر.....م
میرا مطلب شہزادے کو دیکھنے کے لیے۔
دن گزرتے گئے ،شہزادی کا نام تک بدل چکا تھا....کیونکہ
اب وہ شہزادی نہیں کنیز تھی۔" یہ کہانی سناتے وقت اس
127
کے حلق میں کانٹے سے اٹک رہے تھے .....کیونکہ یہ
کہانی اس پر گزری اک قیامت تھی۔
"پھر کیا ہوا باجی؟ ".....گلنار دلچسپی سے سن رہی تھی۔
"پھر شہزادی کا والد جو کہ سب کچھ جانتا تھا کہ ان کی
شہزادی دوسری سلطنت میں موجود ہے ....مگر اپنے
منصوبے کو سر انجام دینے کے لیے وہ خاموش رہا....اور
یوں ظاہر کرتا رہا جیسے میں اغواء ہو گئی ہوں......م
میرا.....مطلب شہزادی اغواء ہو گئی ہو۔"
وہ ایک پل کو پھر سے ہڑبڑا کر خاموش ہوئی تھی۔
"وہ لوگ اپنے گھٹیا منصوبوں کو سرانجام دینے کے لیے
شہزادے کی سلطنت پہنچے .....شہزادے پر الزامات لگائے
کہ انہوں نے شہزادی کو اغواء کر لیا ہے دشمنی میں.....
شہزادی دربار میں دیوار کی آؤٹ میں کھڑی سب سن رہی
تھی.....اس سے برداشت نہیں ہوا کہ کوئی اس کے محبوب
پر اتنے برے الزامات لگا رہا تھا۔
وہ سب کے سامنے آئی اور شہزادے کے پاکیزہ کردار کی
قسم اٹھاتے ہوئے ....کہنے لگی کہ وہ خود یہاں آئی ہے،
اظہار محبت دنیا کے سامنے سرعام کیا تھا.....اس
ِ اس نے
128
سرکشی پر دونوں سلطنت کے لوگوں نے شہزادی پر پتھر
برسانے شروع کر دیئے تھے.....اور پھر"......
ایک آنسو پلکوں کی باڑ پھیالنگ کر رخسار پر پھسال تھا۔
"پھر کیا ہوا باجی؟ شہزادی کو شہزادے نے بچا لیا اور
پھر ان کی شادی ہو گئی.....کیونکہ شہزادہ بھی شہزادی کو
چاہتا تھا"....
اپنی جانب سے گلنار نے کہانی مکمل کی تھی جس پر
زرمینہ کے دل میں ایک ٹھیس سی اٹھی۔
ہونٹوں سے ایک سسکاری سی نکلی تھی۔
"ہر کہانی میں شہزادی کو اس کا شہزادہ نہیں ملتا گلنار!"
اس نے انگلی کی مدد سے رخسار پر سے آنسو کی لکیر
مٹائی۔
"شہزادی نے خود کو خود ہی بدنام کیا تھا.....اس نے
شہزادے تک پہنچنے کے لیے ہر اچھے اور کسی حد تک
بہت برے حربے آزمائے تھے۔اس کے چھوٹے موٹے
گناہوں کی یہ سزا تھی کہ اس کی شادی ایک.....س سپاہی
سے کرنے کا فیصلہ شہزادے نے خود کیا۔
129
اور شہزادی نے اپنے عزیز محبوب کی بات کو سر آنکھوں
پر رکھا تھا.....اور تمہیں پتہ ہے وہ جو سپاہی تھا نا وہ
خوبصورت انسانی روپ میں ایک خطرناک درندہ تھا۔" وہ
دھیمی آواز اور ڈرانے والے انداز میں بےحد بولی۔
گلنار کی آنکھیں خوف سے یہاں سے وہاں تک پھیل گئیں۔
"وہ شہزادی کو لے کر غائب ہو گیا.....کہیں دور جنگلوں
اور پہاڑوں میں چال گیا"......
"وہ یہ پہاڑ تھے باجی؟" گلنار نے سر اٹھا کر اس پہاڑ کی
چوٹی کو دیکھا۔
"ہاں کہتے تو ہیں کہ وہ یہ ہی گلگت بلتستان کے پہاڑ
تھے۔"اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"شہزادی پر وہ بہت تشدد کرتا تھا۔اور شہزادی نے اپنے
گناہوں کی سزا سمجھتے ہوئے ہر ظلم قبول کر لیا تھا"....
"پھر کیا ہوا باجی؟ کیا شہزادہ آیا .....شہزادی کو
بچانے؟"
"میں نے کہا ہے نا گلنار! ہر کہانی میں شہزادی کو اس کا
شہزادہ نہیں ملتا۔"
"پھر کیا ہوا؟ جلدی سنائیں نا۔" گلنار بےقراری سے بولی۔
130
"پھر ایک دن یہ ہوا کہ شہزادی اس خوبصورت درندے
کے تشدد کے سامنے ہار گئی.....زندگی اور موت کے
درمیان لٹک گئی۔تب اچانک نجانے وہ درندہ ".....اس کی
آنکھوں کے سامنے شکیل خان آن ٹھہرا تھا۔اس سے ہوئی
آخری مالقات.....وہ کتنا ٹوٹا بکھرا سا لگ رہا تھا اس
دن.....
"وہ سپاہی انسان بننے لگا.....شہزادی کی فکر کرنے
لگا...اس کے لیے راتوں کو جاگنے لگا ،اسے نرمی سے
چھونے لگا......مگر شہزادی اب اس سپاہی سے بےحد
نفرت کرنے لگی تھی۔
نجانے کیوں اس سپاہی نے شہزادی سے کہا کہ تم جو
فیصلہ کرو گی مجھے منظور ہو گا ،اور پھر شہزادی نے
اپنا فیصلہ سنا دیا۔"
"کیا فیصلہ سنایا؟" گلنار نے تیزی سے استفسار کیا۔
"اس نے کہا کہ وہ اس کی زندگی سے چال جائے ،اس
وقت.....اس پل سپاہی کے چہرے پر ویرانی سی بکھر گئی
تھی ،آنسو تھے کہ آنکھوں میں آن ٹھہرے۔اور پھر وہ
خاموشی سے چال گیا۔"
131
"کہاں؟"
"پتہ نہیں۔" زرمینہ نے آہ بھر کر شانے آچکائے۔
"اور شہزادی؟"
"وہ.....اپنی منزل کی تالش میں یہاں وہاں بھٹک گئی۔"
زرمینہ نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"کیا وہ دونوں دوبارہ ملے؟ یا پھر شہزادی شہزادے کے
پاس چلی گئی؟"
"نہیں.....نہ وہ دونوں ملے اور نہ ہی شہزادی شہزادے
کے پاس واپس گئی .....کیونکہ وہ واپس نہیں لوٹنا چاہتی۔
جو سب ختم ہو چکا تھا اسے دوبارہ سے شروع نہیں کرنا
چاہتی تھی۔"
"پھر؟ پھر کیا ہوا؟ یہ کہانی تو ادھوری ہے؟" گلنار نے
افسردگی سے کہا۔
"کچھ کہانیاں ادھوری ہی ہوتی ہیں۔" زرمینہ نے جھرنے
کا پانی مٹھیوں میں بھر کر چہرے پر چھینٹیں ماریں۔
"کیا وہ سپاہی شہزادی سے محبت کرتا تھا؟ ہاں وہ کرتا
تھا اگر محبت نہ کرتا تو بچھڑتے وقت روتا کیوں؟
132
باجی میں سناؤں آگے کی کہانی؟" گلنار سوچتے ہوئے
بےحد تیزی اور پرجوش انداز میں بولی۔
"ہوں سناؤ؟" وہ بےدلی سے مسکرائی...کہ اس کی قسمت
میں بھال اور کیا کہانی تھی یہ ہی ادھوری کہانیاں ہی
تھیں.....
"اپنے گناہوں کی سزا پانے کے بعد سپاہی شہزادی کو
ڈھونڈتا ہوا اس جگہ پہنچتا ہے جہاں شہزادی ہوتی
ہے......پھر وہ اس سے معافی مانگتا ہے مگر شہزادی اس
کے سامنے جان لیوا شرط رکھتی ہے.....کہ وہ اسے
خطرناک آدم خور کے غار سے چمکنے واال تاج ال کر
دے.....اس تاج تک پہنچنا جان سے ہاتھ دھونے
جیسا....کام تھا مگر سپاہی اپنی جان پر کھیل کر اس کی
شرط پوری کرتا ہے ،اور وہ چمکتا ہوا تاج ال کر شہزادی
اظہار محبت کرتے ہوئے ِ کے سر پر رکھتا ہے۔اس سے
بتاتا ہے کہ وہ اس سے بہت محبت کرتا ہے۔ شہزادی بھی
اس سے بچھڑنے کے بعد اسی کے متعلق سوچتی رہتی
تھی اور وہ بھی سپاہی سے محبت کرنے لگی ہے .....پھر
دونوں ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ختم ہو گئی کہانی۔"
گلنار نے اپنی طرف سے کہانی کا اختتام کر دیا تھا۔
133
جبکہ زرمینہ محض کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے سر ہال کر
رہ گئی۔
"محبت تو دوبارہ ہو سکتی ہے....مگر جو آپ کی روح تک
کو زخمی کر دے اس سے بھال کہاں ہوتی ہے محبت،اس
شخص کے ساتھ ہم کبھی نہیں رہ سکتے جو آپ پر ظلم
کرتا ہو "....وہ سوچتے ہوئے آگے بڑھ گئی تھی۔
یہ ضیاء کی لیب تھی جہاں اس وقت وہ لیپ ٹاپ پر نگاہیں
جمائے بیٹھا تھا جبکہ کچھ فاصلے پر ہی شاہزیب بھی
صوفے پر نیم دراز تھا اور مبہم سی مسکراہٹ لیے کائنات
سے چیٹ کر رہا تھا۔
"باس! وائف سے ہی بات کر رہے ہو نا؟" ضیاء نے اس
کی جانب دیکھتے ہوئے تجسس آمیز لہجے میں استفسار
کیا تو وہ گردن گھما کر اسے گھورنے لگا۔
"نہیں میرا مطلب ہے کہ......ایسی کون سی باتیں جو
تمہاری ختم ہی نہیں ہوتیں؟ میں تو بیوی سے دو پل بھی
میسج پر بات نہیں کر سکتا۔" ضیاء نے آخر میں خفگی
سے کہا۔
134
"گرلفرینڈ سے تو گھنٹوں باتیں کرتے تھے .......بیوی
سے کیوں نہیں کر سکتے؟ میں بتاؤں".....
وہ سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"کیونکہ تم اور تمہارے جیسے کئی مرد بیوی کو محض
تمہارا گھر سنبھالنے والی مشین سمجھتے ہو۔"
وہ ہاتھ جھال کر بوال اور کشن کمر کے نیچے درست کیا۔
"تنہائی کے لمحات میں محبت لٹاتے ہو کہ یہ بھی تمہاری
اپنی ضرورت ہے......بچے پیدا کرتے ہو کیونکہ یہ بھی
کہیں نا کہیں تمہاری عزت کا سوال ہوتا کہ....لوگ کیا کہیں
گئے۔"وہ بےحد سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔
"گرلفرینڈ پر ڈھیروں روپیہ اڑا دیں گے جبکہ بیوی کا
میک اپ ہی بہت بڑا بوجھ لگتا ہے۔
گرلفرینڈ گاڑی مانگے گی تو بینک لوٹ کر بھی لے دیں
گے....بیوی اگر مانگے گی تو .....تم نے کیا کرنی
ہے.....گھر سنبھالو گی یا ڈرائیونگ کرو گی....یہ کہہ کر
ٹال دیں گے۔" اس کی باتوں میں واقع ہی سچائی تھی مگر
ضیاء کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا اس کی ان باتوں پر۔
135
"اظہار محبت کے طور پر اگر تم بیوی کو ایک عدد گالب کا
ِ
پھول ،کانچ کی چوڑیاں ،مہندی ....اور اپنا قیمتی وقت دو
گے نا تب بھی وہ خوش ہو جائے گی۔گرلفرینڈ ذرا سی
ناراض کیا ہوئی یہ مجنوں ،دیوداس ،رانجھا بن بیٹھیں گے
اور بیوی خفا ہوئی تو فرق ہی نہیں پڑتا۔"
"یار بیویاں بھی بہت ظالم ہوتی ہیں ،ہم کام سے تھکے
ہارے باہر سے آتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں ،چھوٹو کو
سنبھالو ،موٹو کو فیڈر دو ،میرے ساتھ کچن میں ہاتھ بٹا
دو.....بھال یہ کام بھی مردوں کا ہے کیا؟ ہم رن مرید نہیں
ان کے شوہر ہیں یہ بیویوں کو بھی سوچنا چاہیے نا۔"
ضیاء نے سنجیدگی سے کہا۔
"جب باہر رہ کر پڑھتے ہیں یا جاب کرتے ہیں تو اپنا کام
خود ہی کرتے ہوتے ہیں نا۔اور گھر میں بیوی کا ہاتھ
بٹانے سے تم رن مرید بن جاؤ گے....یہ سوچ کر اس کو
بیماری میں بھی آرام کرنے کی مہلت نہیں دی جاتی۔یہ
ساری جو منفی سوچیں اور عمل ہیں نا یہ ہی انسان کی
زندگی بےرنگ کرتی ہیں...میرے بھائی! بیوی کو اپنی
زندگی سمجھو گے تو زندگی حسین ہو گی۔
اور وہ صرف محبت اور عزت چاہتی ہے۔"
136
بیوی نامے پر وہ اچھی خاصی تقریر جھاڑ کر خاموش ہو
چکا تھا۔
ضیاء جو سانس روکے ،آنکھیں پھاڑے اسے دیکھ رہا تھا
سر ہال کر رہ گیا۔
"باس تو پکا رن مرید بن چکے ہیں بھئی۔" وہ سوچتے
ہوئے آنکھیں گھمانے لگا۔
شاہزیب پھر سے فون پر مصروف ہو چکا تھا۔
"باس! غفور کے لیے جیلر کے فون پر کال آئی ہے۔"
ضیاء نے کچھ دیر بعد کہا تو وہ تیزی سے اٹھ کر اس کی
میز تک پہنچا۔
"نمبر کون سا ہے؟"
"پاکستان کا ہے۔"
"جلدی سے کال ٹریس کرو.....اس کا آدمی ہاتھ آ گیا تو
کچھ نہ کچھ تو اس کے متعلق معلومات حاصل ہو ہی جائے
گی۔" اس نے ہیڈفون لگاتے ہوئے کہا تو ضیاء اثبات میں
سر ہالتے ہوئے پھرتی سے کرسی سے اٹھ کر ساتھ والی
کرسی پر جا بیٹھا۔
"اسالم علیکم!......کیسے ہیں آپ ڈیڈ!"
137
"و علیکم السالم! میں ٹھیک ہوں بیٹا! تم کیسے ہو۔"
"ٹھیک ہوں۔ آپ کی صحت ٹھیک رہتی ہے نا؟"
"ہاں بیٹا بس ٹھیک ہوں۔تم نے کچھ کیا نہیں میری رہائی
کے سلسلے میں؟ اور کتنا وقت رہوں یہاں؟" غفور نے دل
گرفتگی سے سوال کیا تھا۔
"بس کچھ وقت اور ڈیڈ! پھر سب ٹھیک ہو جائے گا.....اس
کے بعد آپ کو کبھی جیل میں نہیں جانا پڑے گا اور کوئی
نہیں ہو گا جو آپ کو ہاتھ بھی لگانے کی کوشش کرے گا۔"
سامنے سے اس کے بیٹے نے کہا تھا۔
"بس جلدی سے کچھ کر لو بیٹا!......میرا دم گھٹتا ہے
یہاں۔" غفور رونے لگا تھا۔
"آپ فکر نہیں کریں ڈیڈ! آپ کی یہ حالت جس نے کی ہے
میں اسے کبھی نہیں بخشوں گا۔اس سے بدتر حالت نہ کی
تو میرا نام جبران غفور نہیں۔" وہ سامنے سے بےحد
غصے میں بوال تھا۔
کال ٹریس ہو چکی تھی وہ دونوں بےحد تیزی سے اپنی
گاڑی تک پہنچے تھے۔
138
"جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارے گاؤں کو ابھی بھی
بہت ساری چیزوں کی عدم موجودگی کا سامنا کرنا پڑ رہا
ہے....جیسے کہ ہمیں اگر شہر جانا ہو تو گاڑی پکڑنے کے
لیے ایک پہاڑی سے دوسری تک کا سفر کرنا پڑتا
ہے.......جو کہ بزرگوں کے لیے بہت ہی تھکا دینے واال
سفر ثابت ہوتا ہے۔"
وہ بہت سنجیدگی سے بات کر رہا تھا اور مردوں کے
مجمعے میں مکمل خاموشی چھائی ہوئی تھی.....سب اسے
غور سے سن رہے تھے۔
"اور نادر پور والوں کو تقریبا ً دو سو کلومیٹر پہاڑ کی
بلندی کی جانب سفر کرنا پڑتا ہے...وہ بھی پگڈنڈی
سے....ہم گڈا(بیل گاڑی) سے سفر کر سکتے ہیں کیونکہ
ہماری چھوٹی سڑک ہے....مگر نادر پور سے سڑک نہیں
جاتی وہ لوگ پیدل سفر کرتے ہیں بس اسٹینڈ تک....اسی
لیے میں نے ایک آسان سا حل نکاال ہے۔" اس نے کہتے
ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائی اور مالزم کے ہاتھ سے
چارٹ لے کر درمیان میں پڑی میز پر بچھا دیا۔
وہ بہت سنجیدگی سے ایک ایک .....پوائنٹ سمجھا رہا تھا۔
139
سردار دالور خان اپنی سربراہی کرسی پر بیٹھا مسکراتے
ہوئے اسے منہماک سا سن رہا تھا....اسے خوشی تھی کہ
شازار گاؤں کے کاموں میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔
اس نے جو پروجیکٹ پیش کیا تھا اس پر الکھوں کے
حساب سے خرچ ہونے واال تھا۔
پانچ سو کلومیٹر بلندی تک سڑک بچھانی تھی....
وہ پیکنگ کر رہا تھا جب شازار کمرے میں داخل ہوا۔
"آپ کہیں جا رہے ہیں؟"
"ہاں بس پیرس.....کیونکہ یہاں تم سب سنبھال لو گے میں
جانتا ہوں۔" وہ پلٹ کر اس کا شانا تھپکتے ہوئے بوال۔
"مگر میں روڈ کا پروجیکٹ اکیلے کیسے سنبھالوں گا؟"
شازار کو فکر ہوئی۔
"تم سنبھال لو گے ،ایک سردار سب کچھ کر سکتا ہے "...
وہ اب وارڈروب کے دراز میں سے کچھ تالش رہا تھا۔
"ٹھیک ہے الال! اپنا خیال رکھیے گا۔میں کوشش کروں گا
کہ آپ کی ہولیڈیز ٹرپ خراب نہ ہو۔" شازار نے مسکراتے
ہوئے کہا۔
140
"ان شاءہللا۔چلو سب کے ساتھ کچھ وقت گزارتے ہیں۔"
اس نے ایک کرسٹل کا چھوٹا سا جار نکاال تھا جس پر
ڈریم جار لکھا ہوا تھا اور نیچے ہی نیلی روشنائی سے
حور کا نام درج تھا۔
"یہ حور کون ہے وہ ہی جو ہمارے گھر پر رہ رہی تھیں؟
آپ کے دوست کی وائف؟" اس نے استفسار کیا تو دالور
خان نے اثبات میں سر ہال دیا۔
"یہ اس کا ڈریم جار میرے اسالم آباد والے گھر ہی رہ گیا
تھا ....اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ...وہ اپنے شوہر کے
ساتھ فرانس ہے تو....تو میں اسے وہاں ہی واپس کر دوں
گا۔" اتنی سی بات کہتے ہوئے وہ کئی بار اٹکا تھا ،نگاہیں
بھی بار بار چرا رہا تھا۔
"الال! کیا میں ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟" شازار نے اس
کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے استفسار کیا۔
"میں جانتا ہوں کہ آپ گل پنار سے شادی کرتے وقت
خوش نہیں تھے مگر مجبوراً کر رہے تھے.....پھر بابا
سائیں نے جب زرمینہ خان سے شادی کا فیصلہ سنایا تو
آپ نے ان کا فیصلہ زندگی میں پہلی مرتبہ رد کر
141
دیا.......اور مجھے اس بات کی بہت حیرانگی ہوئی تھی پھر
آپ پیچھلے کچھ دنوں پریشان تھے کیونکہ وہ اپنے شوہر
کے ساتھ فرانس چلی گئی تھی....اور مجھے یقین ہو گیا کہ
آپ حور کو پسند ".....وہ کہتے کہتے خاموش ہو گیا۔
دالور خان ہارے ہوئے انداز میں بیڈ کے ایک کنارے پر
ٹک گیا تھا۔
"کبھی کبھی انسان کچھ ٹھیک کرنے کے چکروں میں سب
کچھ خراب کر دیتا ہے اور میں نے بھی وہ ہی نا سمجھوں
والی حرکت کی ہے۔"
اس نے تھکن سے چور چور لہجے میں کہا تھا۔
"شازار! ح.....حور میری وائف ہے۔ ہم نے پیپر میرج کی
تھی۔" اس کی بات پر جہاں شازار خان کو شاکڈ لگا تھا
وہاں ہی اندر داخل ہوتے حامد خان کے قدم بھی زمین نے
جکڑ لیے تھے۔
"یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں الال؟"
"ہاں یہ سچ ہے".....
"تم تو شازار سے بھی دو قدم آگے کے نکلے دالور
خان!" حامد چنخ کر کہا تھا۔
142
وہ دونوں ہڑبڑا کر ان کی جانب متوجہ ہوئے۔
دوسرے ہی پل سب وہاں جمع تھے اور وہ کٹہرے میں
کھڑا تھا۔
اس نے سر جھکائے سب کچھ ان کی گوش گزار کر دیا۔
"تو کائنات اور حوریہ بہنیں ہیں.....مجھے تو پہلے ہی
کائنات کو دیکھ کر وہ کچھ جانی پہنچانی سی لگی تھی۔"
وہ جیسے ہی خاموش ہوا نازش بولی
"واہ تمہیں اس سارے معاملے میں بس یہ ہی بات سمجھ
آئی ہے۔" سیرت نے خفگی سے کہا اور ایک نگاہ دالور
خان پر ڈالی۔
"الال! بہنوں کے بھی کچھ ارمان ہوتے ہیں ،کہ وہ اپنے
بھائیوں کی شادی پر کیا کیا کریں گیں.....مگر آپ تینوں
بھائیوں نے ہی ہمارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ہے۔"
"واہ اب تمہیں بس یہ ہی دلچسپ بات ملی ہے؟" شازار نے
تپ کر کہا۔
دالور خان نے شرمندگی سے لب کچلے۔
"چلو نازش! یہاں سے چلتے ہیں۔" وہ تیزی سے اٹھی
تھی اور مجبوراً نازش کو بھی اس کے پیچھے جانا پڑا۔
143
حامد خان چند پل بیٹھے رہے پھر اٹھ کر کمرے میں سے
نکل گئے۔
"تم نے ہمیں شرمندہ کر دیا دالور خان!....کتنا مان تھا
ہمیں تم پر اور تمہاری تابعداری پر۔" امو جان نے زندگی
میں پہلی مرتبہ اسے سردار پتر کے بنا مخاطب کیا تھا۔
وہ نم آنکھوں سے انہیں دیکھنے لگا۔
وہ اس کی بنا ایک بھی سنے وہاں سے ہٹ گئی تھیں۔
کمرے میں اب دادی سائیں اور وہ دونوں بھائی ہی رہ گئے
تھے۔
ّٰللا کا میرے دل کی مردا پوری ہو گئی۔بچی تو
"شکر ہے ہ
بہت پیاری ہے۔ مگر تم نے اس کے ساتھ اچھا نہیں کیا
سردار پتر!.....ایک بچی کو اس کی ماں کے جنازے میں
شریک نہیں ہونے دیا۔" وہ خوشی سے کہتے کہتے آخر پر
افسردہ ہو گئیں۔
"میں بہت برا ہوں نا دادی سائیں...سب کو بہت دکھ دیا میں
نے۔" وہ ان کے قدموں میں بیٹھتے ہوئے سر ان کے
گھٹنوں پر ٹکا گیا۔
144
"سردار پتر! تم نے محبت میں خود غرضی اپنائی....تمہیں
لگا کہ حور کو جب یہ معلوم ہو گا کہ اس کی والدہ وفات پا
گئی ہیں اور بہن اپنے شوہر کے گھر ہے تو وہ تم سے
طالق لے لیتی.....مگر اس سب میں تم نے حور کے
احساسات کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔" دادی سائیں
نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تھا۔
"عورت بہت نازک ہوتی ہے سردار پتر! وہ ذرا سی بات پر
بھی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔ یہ تو پھر اس کی ماں کا
معاملہ تھا"......
ّٰللا مجھے
"کیا وہ اب مجھے کبھی نہیں ملے گی؟ کیا ہ
معاف کرے گا؟" وہ سر اٹھا کر ان کی جانب نم آنکھوں
سے دیکھتے ہوئے بوال۔
ّٰللا راضی
"یہ دونوں ہی ایک باتیں ہیں پتر سائیں.....جب ہ
ہو گا تو وہ خودبخود اس کو تمہاری طرف موڑ دے گا۔"
"میں کیا کروں دادی سائیں!......میں نے سچ میں انجانے
میں ہی سعی کئی گناہ کیے ہیں....مگر میں ان کی سزا میں
حور کو نہیں کھونا چاہتا۔" چند آنسو نیلے چمکتے ہیروں
کو چھوڑ کر رخساروں پر پھسلے تھے۔
145
ّٰللا سے
" اپنی غلطی پر پہلے اس سے معافی مانگو پھر ہ
ّٰللا راضی ہو جائے گا تو دیکھنا سب ٹھیک ہواور جب ہ
جائے گا۔اور ہمیں لگتا ہے تمہیں اپنی امو جان اور بابا
سائیں سے بھی معافی مانگنی چاہیے۔"
"الال! پرفیکٹ کوئی بھی نہیں ہوتا سب سے غلطیاں ہوتی
ہیں ،انجانے میں گناہ بھی سرزد ہو جاتے ہیں مگر مومن
وہ ہی جو اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو۔" شازار نے آگے بڑھ
کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تھا۔وہ سر ہال کر رہ گیا۔
اب اسے سب سے پہلے اپنے والدین کو منانا تھا ،پھر حور
ّٰللا کو۔
کو اور پھر ہ
ّٰللا بھی کہتا ہے کہ میرے جن بندوں کا تم نے دل کیونکہ ہ
دکھایا پہلے ان سے معافی مانگو پھر میں بھی تمہیں معاف
کر دوں گا۔
****
"نیسی! وہ کیا کام کرتے ہیں؟"
کئی دنوں سے جو سوال اس کے دماغ میں گھوم رہا تھا
بالآخر اس نے نیسی سے پوچھ ہی لیا۔
نیسی نے سر اٹھا کر اس کی جانب دیکھا۔
146
"میں جاننا چاہتی ہوں کہ ایسی کون سی نوکری ہے جو
پورا دن اور رات ختم نہیں ہوتی.....تم بھی تو رات کو گھر
جاتی ہو حاالنکہ تمہاری نوکری بھی اتنی ٹف ہے۔"
وہ جیسے جیسے سب سیکھ رہی تھی اس کا دماغ بھی
کھلتا جا رہا تھا ،اوپر سے وہ فرحان پر اتنی توجہ دیتی
تھی کہ اسے لگنے لگا تھا کہ فرحان کچھ عجیب سی
سرگرمیوں میں مشغول ہے۔
"وہ ایک جوہری ہے۔" نیسی نے جتنے اطمینان سے بتایا
تھا اتنا ہی اچھنبا منہاج کو ہوا تھا۔
"یعنی وہ جوا کھیلتا ہے؟"
"ہاں۔ الس ویگاس میں جوا ہی تو روزگار ہے ......تمہیں
نہیں پتہ کہ کتنے بڑے بڑے بزنس مین اپنے کاروبار کو
فروغ دینے کے لیے یہاں سے جوا جیت کر الکھوں کما
چکے ہیں اور ان بزنس مین میں سے فرحان کے پاپا بھی
ایک ہیں۔انہوں نے ہی فرحان کو اس پیشے میں لگایا
ہے۔"
"ت تم کیسے جانتی ہو یہ سب؟ م میرا مطلب فرحان کو کب
سے جانتی ہو؟"
147
"جب وہ پندرہ سال کا تھا اور میں بیس سال کی......ان
دنوں میرا بابا مجھے اور میری ماما کو چھوڑ کر اپنی
انگریزن بیوی کے ساتھ واشنگٹن شفٹ ہو گیا تھا.....میں
نے بہت جگہ اچھی جاب کے لیے ٹرائے کیا مگر ناکام رہی۔
پھر مجھے کیسینو میں ویٹرس کی جاب ملی جہاں میری
مالقات فرحان کے والد سے ہوئی وہ تیس سالہ صوبر سا
شخص مجھے بھا گیا تھا....میں اپنا دل اسے دے بیٹھی
تھی ".....ایک لمحے کو وہ خاموش ہوئی اور نجی کو
دیکھنے لگی جو سانسیں روکے اسے سن رہی تھی۔
"بہت ٹوٹ کر محبت کرنے لگی تھی اس سے ،بنا اس کے
متعلق کچھ بھی جانے۔ اور وہ بھی مجھ سے محبت کرتا
تھا......حاالنکہ میں انگریزن نہیں تھی مگر میں نے اپنی
شرم و حیا کا دامن چھوڑ کر ".......بات اُدھوری چھوڑ کر
وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی۔
"میں نے اپنا تن من سب اس شخص کے نام کر دیا تھا،
شاید اس لیے کہ میرے نزدیک اس سے بڑھ کر کچھ نہیں
تھا....یا شاید میں اس کی محبت میں اس قدر اندھی ہو گئی
تھی کہ سعی غلط کا فرق بھول گئی.....اور تم جانتی ہو نا
148
کہ سب کو ان کے گناہوں کی سزا اس دنیا میں یا اُس دنیا
میں ضرور ملتی ہی ہے۔
مجھے بھی میرے گناہ کی سزا ملی ".....وہ زخمی خور
مسکراہٹ لیے سر جھکا چکی تھی۔
"ک کیا مطلب؟" نجی نے چونک کر اس کی نم آنکھوں
میں دیکھا۔
"میری ماما کی ڈیتھ ہو گئی تھی ،میری طبیعت بھی کافی
ناساز رہنے لگی...جب ریپورٹس کروائیں تو معلوم ہوا کہ
میں پریگننٹ ہوں......میں ان دنوں فرحان کے پاپا سے
رابطہ نہیں کر پا رہی تھی۔ بہت پریشان رہنے لگی
تھی.......اچانک ایک دن وہ آیا اور مجھ سے شادی کی بات
کرنے لگا ،میں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی
تھی.....مگر شادی کے بعد معلوم ہوا کہ اس نے یہ سب
نیشنلٹی کے لیے کیا.....میرا استعمال اس نے اپنے روشن
مستقبل کے لیے کیا۔میرا دل چاہا کہ اسے تباہ و برباد کر
دوں مگر جب پندرہ سالہ معصوم سے فرحان کو دیکھا تو
میرے قدم زمیں نے جکڑ لیے۔"
ان بہت سارے عجیب و غریب انکشافات پر نجی گنگ رہ
گئی تھی....دنیا میں کیا کیا ہوتا ہے۔
149
"آپ فرحان کی ماما ہیں؟ اتنی بڑی لگتی تو نہیں
ہیں.....اور آپ کا بچہ جو پیدا ہونے واال تھا.....کہاں ہے؟"
وہ ساکت پلکوں سے انہیں دیکھتے ہوئے بولی۔
"وہ بورڈنگ اسکول میں ہے ....ماشاءہللا پندرہ سال کا
ہے۔فرحان اس سے ملتا رہتا ہے۔اگر فرحان نہ ہوتا تو شاید
اس وقت ہم روڈ پر پڑے ہوتے۔"
نیسی اپنی زندگی میں ہوئے اتنے بڑے حادثوں کو کتنے
اطمینان سے کہہ کر خاموش ہو گئی تھی۔
"آپ کا اصل نام کیا ہے؟"
"کیا فرق پڑتا ہے۔ مسلم تو اب بس نام کی ہی ہوں۔"
"ایسی بات نہیں ہے آپ ایک مسلمان خاتون ہیں.....اور آپ
کو اسی طرح ہی رہنا چاہیے جیسے ایک مسلم خاتون رہتی
ّٰللا ہمیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا،
ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہ
ّٰللا نے آپ کو تنہا
آپ نے راہ راست کو چھوڑا پھر بھی ہ
نہیں چھوڑا۔ فرحان کی صورت میں گھنا سایہ آپ کے
ّٰللا کی جانب متوجہ ہوتیں تو
سروں پر رکھا سوچیں اگر آپ ہ
وہ کتنا نوازتا۔" وہ کتنی سمجھدار تھی نیسی مسکرا دی۔
150
"تمہیں نہیں بلکہ مجھے تمہاری زیادہ ضرورت ہے
نجی!" نیسی نے اس کے ساتھ جھولے پر بیٹھتے ہوئے
اس کا ہاتھ تھام کر کہا۔
"میں آپ کے ساتھ ہوں۔"
"مگر مجھے بتائیں میں فرحان ہو کیسے روکوں جوا
کھیلنے سے؟" وہ بوجھل سانس بھر کر بولی۔
"محبت سے۔ اسے اپنی جانب کھینچو.....میں جانتی ہوں کہ
وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے مگر ڈرتا ہے کہ تم اس کے
ساتھ چل پاؤ گی کے نہیں.....کبھی وہ سوچتا ہے کہ دنیا کو
بھاڑ میں جھونکے اور تمہاری جانب قدم بڑھائے۔ اس کی
یہ کنفیوژن دور کرو.....کہ تمہارے ساتھ وہ دنیا دیکھ سکتا
ہے ،تم ایک مضبوط عورت ہو۔"
نیسی کی بات پر وہ اثبات میں سر ہالنے لگی۔
"اور آپ کا اصلی نام کیا ہے؟"
"نسرین۔" نیسی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی مبہم
سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجا گئی۔
جبران کا آدمی پکڑا گیا تھا اور اس وقت شاہزیب کے ٹارچر
پر بھی وہ اپنی زبان نہیں کھول رہا تھا۔
151
"تو تم کچھ نہیں بتاؤ گے؟"
"نہیں کچھ نہیں بتاؤں گا.....خواہ مجھے مار ہی کیوں نہ
ڈالو مگر منہ سے ایک لفظ تک نہیں نکالوں گا۔" وہ
شخص کراہتے ہوئے بوال۔
شاہزیب نے ایک زور کا تھپڑ اس کی رخسار پر جڑ دیا تھا۔
"ضیاء! اس کے فون کا آپریشن کرو ،کچھ نہ کچھ تو
ضرور ملے گا۔" وہ تہ خانے سے نکل کر لیب میں داخل
ہوتے ہوئے بوال۔
"کر چکا ہوں باس!.....کوئی نمبر نہیں ہے،سم بھی نئی
ہے جس سے بس جیلر کو ہی کال کی گئی ہے۔"
"ساال یہ کرنا کیا چاہتا ہے؟ ضیاء! مجھے کچھ بہت بڑے
خطرے کی گھنٹیاں بجتی سنائی دے رہی ہیں۔" " مجھے
بھی لگ رہا ہے باس! بس اب ایک ہی امید رکھی جا سکتی
ہے کہ جبران خود کال کرے اور ہم اس تک پہنچیں۔" ضیاء
نے کہا۔
تبھی اس کے فون پر کسی نمبر پر سے کال آئی تھی۔
وہ دونوں الرٹ ہو گئے۔
152
"تم آواز بدل کر اس آدمی کی آواز میں بولو۔" اس نے
ضیاء سے کہا تو وہ اثبات میں سر ہال کر چکا کھنکھارتے
ہوئے کال اٹینڈ کر چکا تھا۔
"اوئے صدیق! کہاں غائب ہے؟ جلدی سے اڈے پر پہنچ
باس نے آن الئن میٹنگ کرنی ہے۔"
"ہاں میں پہنچتا ہوں تم لوگ کہاں ہو؟" ضیاء نے پوچھا۔
"ہم لوگ ادھر ہی ہیں۔ تو پہنچ جلدی۔"
"ادھر کدھر؟"
"ابے سالے اڈے پر......جنگل میں۔ اب جلدی پہنچ۔" کہتے
ہی کال کٹ چکی تھی۔
"آن الئن میٹنگ یعنی جبران ویڈیو کال پر میٹنگ کرنے واال
ہے۔ مگر ہم جنگل تک پہنچیں کیسے؟ اور پتہ نہیں وہ کون
سے جنگل میں ہوں گے۔" شاہزیب نے پرسوچ انداز میں
کہا۔
"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے ".....ضیاء کے دماغ میں کچھ
آیا تھا۔
"کیا؟"
153
"اسے شراب پالتے ہیں".....
غفرہلل کیسے غلط آئیڈیا آتے ہیں تمہیں "....شاہزیب
"است ُ
نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا۔
"یار ایسے لوگ پہلے ہی پیتے ہوتے ہیں ،ایک دفعہ بوتل
تو سامنے رکھو دیکھنا خود ہی گٹک جائے گا۔" ضیاء نے
مسکراتے ہوئے کہا اور شہزاد کو میسج کر دیا کہ ایک
عدد شراب کی بوتل لیتا آئے۔
"پالن سنیں اب باس !.....جبران آپ کو جانتا ہے مجھے
نہیں۔ میں اس شخص کا دوست بن کر اس کے ساتھ جاؤں
گا۔" ضیاء نے کہتے ہوئے میز پر سے ایک منی کیمرہ
اٹھایا تھا اور اپنی شرٹ کے بٹن میں لگانے لگا۔
"اس کیمرہ کے زریعے آپ وہاں جو بھی ہو رہا ہو گا دیکھ
پائیں گے۔"
"ہوں پالن اچھا ہے ،اگر پکڑے گئے نا تو تمہاری ہڈیاں
بھی ہم تک نہیں پہنچیں گیں.....جانتے ہو نا؟" شاہزیب نے
اس کی جانب ایئربرڈ بڑھاتے ہوئے کہا۔
"شہید ہونے سے ڈر نہیں لگتا باس!" ضیاء نے پرجوش
انداز میں کہا تو وہ مسکرا دیا۔
154
"وہ تمہیں گن وغیرہ شاید اندر نہ النے دیں اسی لیے تم
اپنی گن وغیرہ اس شخص کے پاس رکھنا.....اور یہ
ایمرجنسی بٹن ہے۔ اگر تم پکڑے جاؤ اور تم سے ائیر برڈ
وغیرہ چھین جائیں تو اسے پریس کرنا تاکہ مجھے خبر مل
جائے۔" شاہزیب نے ایک گھڑی نما بٹن اس کی کالئی پر
باندھتے ہوئے کہا تھا۔
وہ اثبات میں سر ہالنے لگا اتنے میں شہزاد بھی آ گیا۔
"تم ہی یہ غالظت لے جاؤ۔" شاہزیب نے بھنویں آچکاتے
ہوئے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔
ضیاء قہقہہ لگا کر شراب کی بوتل اٹھاتا تہ خانے میں اتر
گیا۔
155
نے بھی جو کیا سب ٹھیک کیا ،ایک عورت کو اپنایا تو
نکاح کیا....کہ یہ ہی سب سے زیادہ مضبوط رشتہ ہے دو
اجنبیوں کا اور تم "......حامد خان کی آواز غصے سے
کانپ گئی تھی۔
"تم تو بنا نکاح کے...ایک عورت کے ساتھ ایک چھت تلے
رہے ہو دالور خان!".....
" ہمیں لگتا تھا ہمارا یہ بیٹا بہت نیک ہے ،سمجھدار
ہے....مگر ت م تو اپنے دین ایمان سے فارغ ہو دالور خان!
شرم آتی ہے ہمیں تمہیں سردار کہتے ہوئے۔" ان کی باتیں
دالور خان کے دل و دماغ پر تازیانے بجا رہی تھیں۔
"میں نے کوئی گناہ نہیں کیا بابا سائیں!......میں نے کبھی
حور کو ".....وہ کہتے کہتے خاموش ہوا اور لب بھینچ گیا۔
" ہاں مجھے اس سے محبت پہلے سے ہی تھی مگر وہ
مجھے اپنا بہترین دوست سمجھتی تھی اسی لیے....بابا
سائیں! یقین کریں.....میں نے حور سے کاغذی شادی
صرف اسے محفوظ رکھنے کے لیے کی تھی۔"
"تم نے اسے محفوظ رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی
محبت کی تسکین کے لیے کی تھی یہ کاغذی شادی.....اگر
156
تم نے اس کا ساتھ دینا ہوتا تو تم اسی دن ہی ،اسی پل ہی
رائے مینشن والوں کی دھجیاں اڑا سکتے تھے جس دن
اس نے تم سے مدد مانگی......مگر تم خاموش رہے
کیونکہ تم چاہتے تھے کہ وہ لڑکی تمہارے اردگرد رہے،
تمہاری مردانگی کو تسکین ملتی رہے کہ تم اس کی مدد کر
رہے ہو....تم اسے احسانات تلے دبانا چاہتے تھے....ایک
مجبور عورت کی مجبوریوں کا فایدہ اٹھایا ہے تم
نے ".......بابا سائیں چنخ کر کہتے ہوئے بنا رکے بولے
جا رہے تھے۔
وہ یہ سب سن کر اندر سے ٹوٹ گیا تھا اور سر شرمندگی
سے مزید جھک گیا۔
"یہ سچ نہیں ہے بابا سائیں! حور چاہتی تھی کہ اس کے
پاس سارے ثبوت ہوں......جن کی بنا پر وہ اپنے خاندان
والوں کو قانونی سزا دلوانا چاہتی تھی۔" اس نے مردہ سی
آواز میں کہا۔
"تم نے ایک لڑکی ہی نہیں بلکہ ہم سب کو دھوکا دیا
ہے.....اب کیسے تم غلط سعی کے فیصلے کرو گے؟ کیا
تمہیں شرم نہیں آئے گی تخت پر بیٹھتے ہوئے؟ قبیلے کے
سردار بننے کے الئق نہیں ہو تم.....دفع ہو جاؤ یہاں سے۔"
157
وہ اپنی بات پر ہی اٹکے تھے کہ دالور خان غلط ہے ،تبھی
حقارت سے کہتے ہوئے رخ پھیر گئے۔
دالور خان نے تڑپ کر ان کی جانب دیکھا۔
"میں نے سچ میں کوئی گناہ نہیں کیا بابا سائیں!"
"ہمارے قبیلے میں دھوکا دینا سب سے بڑا گناہ تصور کیا
جاتا ہے۔" وہ اس کی کوئی دہائی بھی سننے کو راضی
نہیں تھے۔
"آئندہ اپنی شکل مت دکھانا .....دھوکے باز کہیں کے۔پوری
برداری کو جب تمہارے گھٹیا کارناموں کے متعلق علم ہو گا
تو ہماری آج تک کی بنائی عزت پر پانی پھر جائے
گا.....نکل جاؤ اس حویلی سے اور اس خان پور سے،
کیونکہ تمہارا دانا پانی اب یہاں سے ختم ہو چکا ہے۔" وہ
سفاکی کی حد پار کر چکے تھے۔
"سائیں "!....امو جان کا دل کانپ گیا تھا وہ چنخ کر بولیں۔
"ایک مرتبہ آپ نے پہلے بھی مجھے میرے ایک بیٹے
سے دور کر دیا تھا ،اور اب پھر سے وہی عمل دوہرا رہے
ہیں.....جب سردار پتر".....
158
"مت کہو اسے سردار.....یہ اس الئق نہیں ہے کہ اسے
سردار کہا بھی جائے۔" حامد خان نے تیکھے لہجے میں
اپنی بیوی کی بات کاٹی۔
"ٹھیک ہے پھر اگر سردار دالور خان یہاں نہیں رہے گا تو
ہم بھی یہاں نہیں رہیں گے۔" امو جان نے دالور خان کی
جانب قدم بڑھائے تھے۔
"نہیں امو جان! اگر بابا سائیں مجھے سزا دینا چاہتے ہیں
تو مجھے منظور ہے۔ میں ہر سزا پانے کے لیے تیار
ہوں۔آپ کو میری قسم آپ یہاں ہی رہیں گیں .....یہاں سب
کو آپ کی ضرورت ہے۔" وہ تھکے ہوئے انداز میں کہتا
ایک نگاہ بابا سائیں کی پشت پر ڈال کر کمرے میں سے
نکل گیا۔
امو جان زمین پر بیٹھی دھاڑیں مار مار کر رونے لگی
تھیں۔
"ہمیشہ آپ نے.....آپ نے میرے بیٹوں کو دکھ دیا ہے
سائیں!.....کبھی انہیں انسان ہونے کا احساس نہیں
دالیا۔کبھی برادری کی باتوں تو کبھی قبیلے کی عزت کے
نام پر میرے بیٹوں کی خوشیاں تباہ کی ہیں آپ نے"....وہ
رونے کے درمیان چنخ چنخ کر کہہ رہی تھیں۔
159
سب لوگ نیچے ہال میں ہی بیٹھے تھے ایک دم گھبرا کر
اٹھے اور سیڑھیاں چڑھنے لگے۔
"اگر آپ شازار خان کی خواہش کا احترام کرتے تو آج
میرے بیٹے کی زندگی ویران نہ ہوتی.....طیبہ زندہ ہوتی
اور آج وہ اس حالت میں نہ ہوتا۔ آپ نے میرے بیٹے کو
بےرحمی سے جانوروں کی طرح مارا پیٹا مگر میں نے
افف تک نہ کی۔" وہ ہنوز رونے کے درمیان بول رہی تھیں۔
شازار نے ایک نگاہ باپ پر ڈالی جو پشت پر ہاتھ باندھے
ان سب سے رخ پھیرے اکڑ کر کھڑے تھے۔
"اور اب آپ میرے سردار پتر کو نکال رہے ہیں ،ارے یہ
حویلی اسی کے بل بوتے چلتی ہے.....جس برداری کی
باتوں کا آپ کو خوف ہے ان میں سے آدھوں کے چولہے
میرا سردار پتر چالتا ہے۔ اور اس گاؤں اور عالقے والوں
کی اتنی ہمت کہاں میرے سردار پتر کو کچھ کہنے
کی....اپنے حا کم کو کچھ کہنے کی......اس کی اپنی ذاتی
زندگی سے کسی کو کیا لینا دینا".....
شازار نے انہیں سنبھالنا چاہا مگر وہ اس کے قابو سے
باہر تھیں۔
160
دالور خان نے ماں کی بڑھتی چنخوں سے بےچین ہو کر
اپنے کمرے میں سے بھاگ کر وہاں پہنچا تھا۔
"امو جان!.....میری بات سنیں .....اٹھیں نیچے سے پلیز۔"
دالور خان نے آگے بڑھ کر انہیں شانوں سے تھام کر اپنے
ساتھ لگاتے ہوئے اٹھایا تھا۔
وہ انہیں ساتھ لیے باہر نکل گیا تھا۔
سب ہی اس کے پیچھے بڑھ گئے سوائے شازار کے جو
حامد خان کی جانب بڑھ رہا تھا۔
"بابا سائیں!.....الال نے کچھ بھی غلط نہیں کیا جس سے
ان کی سرداری کی پگ داغ دار ہو......ہاں وہ حوریہ کے
معاملے میں مطلبی ہو گئے تھے مگر یہ ان کا اپنا پرسنل
معاملہ"....
وہ ان کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال۔
"خان! ہمیں کچھ دیر کے لیے اکیال چھوڑ دو اور جاؤ یہاں
سے۔" وہ اکتاہٹ بھرے انداز میں اس کی بات کاٹتے آگے
بڑھے اور کروٹ بدل کر بیڈ پر لیٹ گئے تھے۔
شازار چند پل انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہا پھر
کمرے سے نکل گیا۔
161
جیب میں سے فون نکال کر شاہزیب کو کال کی اور سارے
حاالت سے اسے آگاہ کرتے ہوئے وہ دالور خان کے کمرے
کی جانب بڑھ گیا۔
"آپ سب پریشان نہیں ہوں ،میں آپ سب سے ملتا رہوں
گا۔" دالور خان نے چند کتابیں رکھتے ہوئے سوٹ کیس بند
کیا تھا۔
پھر امو جان کی جانب بڑھا جو اس کے بیڈ پر آنکھیں
موندے لیٹی ہوئی تھیں۔ نازش اور سیرت ان کے دونوں
جانب بیٹھی تھیں۔
"آپ فکر کیوں کر رہی ہیں امو جان!.....میں دس بارہ سال
آپ سے پہلے بھی تو دور رہا ہوں نا۔اور اب تو زیادہ دور
بھی نہیں جا رہا.....خان یا شاہزیب کے ساتھ کبھی بھی آپ
آ سکتی ہیں۔" وہ ان کے قریب بیٹھتے ہوئے بوال پھر
جھک کر ان کی پیشانی چوم لی۔
"مجھے معلوم ہے کہ میں نے اپنا مقام تم سب کی نگاہوں
میں کھو دیا ہے۔" اس نے بہنوں کو دیکھا۔
جو رونے کے ساتھ نفی میں سر ہالنے لگی تھیں۔
162
شاہزیب دروازے سے ٹیک لگائے سر جھکائے کھڑا رہا
تھا،آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
"الال آپ بابا سائیں کو منا لیں۔"
"وہ ٹھیک کر رہے ہیں سیرت!......میں نے ان کا بھروسہ
کھویا ہے اس کی سزا بھی تو مجھے ملنی چاہیے.....ماما
کا خیال رکھنا۔"
وہ امو جان کے ہاتھ چوم کر اٹھ کھڑا ہوا۔
سوٹ کیس اٹھاتے وقت اس کے بازوؤں میں جان نہیں تھی
تبھی ہاتھ سے چھوٹ کر زمین بوس ہو گیا۔
وہ فرانس جانے کے لیے جتنا خوش تھا اب اتنا ہی دکھی
بھی ہو گیا تھا......
شازار نے آگے بڑھ کر بریف کیس اٹھایا تو وہ سب سے
مل کر اس کے پیچھے ہی کمرے سے نکل آیا۔
"الال!.....شاہزیب آ رہا ہے کل تک.....میں اور وہ بابا
سائیں سے بات کریں گے۔ آپ دلبردشتہ نہیں ہونا....ہم بابا
سائیں کو منا لیں گے۔"
وہ اس کے شانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال تو دالور خان
محض خالی خالی نگاہوں سے اسے دیکھتا رہ گیا۔
163
"اور فکر نہیں کریں یہ معاملہ حویلی سے باہر نہیں جائے
گا۔ سب کو یہ ہی معلوم ہو گا کہ آپ فرانس گئے ہوئے
ہیں۔" شازار نے کہا تو وہ محض سر ہال سکا تھا۔
"امو جان اور بابا سائیں کا خیال رکھنا خان!".....
"فکر نہیں کریں۔ آپ جا کر حور کو منائیں۔"
"نہیں خان! اب تب تک اسے نہیں مناؤں گا جب تک بابا
سائیں نہیں کہیں گے۔"
وہ اٹل لہجے میں کہتے ہوئے گاڑی میں سوار ہو گیا تھا۔
شازار کھڑا اسے دیکھتا رہ گیا۔
165
کی گاڑی وہاں سے نکلی تو وہ لوگ اندر کی جانب بڑھ
گئے۔
کچھ فاصلے پر جا کر اس نے گاڑی روکی تھی۔
"باس! انہوں نے مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیا۔ آپ ایسا
کریں شہزاد لوگوں کو سیول میں یہاں بھیج دیں۔ کیونکہ
مجھے لگتا ہے کہ ان کی ٹیم کے جتنے بھی لوگ پاکستان
میں ہیں وہ سب یہاں جمع ہیں۔ اور وہ الئیو آنے واال ہے۔
ہم اس کے آدمیوں کو پکڑ لیتے ہیں پھر اسے ڈھونڈ لیں
گے....ٹینشن نہیں لیں میں نے کیمر".....
"چھوڑو ضیاء تم واپس آ جاؤ وہ لوگ تو بس معمولی
غنڈے ہیں یہ ہمارا کام نہیں کر پائیں گے۔" شاہزیب نے
تیزی سے اس کی بات کاٹی۔
"کیا؟ آپ کس کام ".....اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا
اس کے فون پر میسج کی ٹیون ہوئی۔
"تمہیں جو کہا ہے وہ کرو۔" شاہزیب نے اسے سختی سے
خاموش کروایا۔
"تمہاری چیکنگ کے وقت انہوں نے تمہارے شانے پر بگ
لگا دیا تھا.....وہ ہماری باتیں سن رہے ہیں جیسا کہتا ہوں
166
ویسا ہی کرو۔" اس نے شاہزیب کا میسج پڑھتے ہی اپنے
شانے کو چھوا۔
"ٹھیک ہے باس میں آ رہا ہوں۔" وہ کچھ پریشان ہو گیا تھا
پھر گہری سانس بھر کر بوال اور گاڑی اسٹارٹ کر لی۔
شاہزیب فون ایک جانب رکھ کر لیپ ٹاپ کی جانب متوجہ
ہوا جس پر وہاں کی فوٹیج الئیو آ رہی تھی۔
بڑی سی سکرین پر نظر آتا شخص جبران تھا.....جس نے
اپنے چہرے کو چھپا رکھا تھا۔
"یہ کتنا چاالک ہے کمینہ۔" وہ تلمال کر رہ گیا تھا۔
"اور صدقے جاؤں اس ضیاء کے جس نے اس صدیق پر
صرف کیمرہ ہی لگایا ہے آواز تو سنائی نہیں دے رہی۔" وہ
لیپ ٹاپ پر زور سے ہاتھ مارتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"اگر اس کے منہ پر ماسک نہ ہوتا تو آپ اس کی لپسنگ
پڑھ لیتے۔" شہزاد نے افسردگی سے کہا۔
"سارا کچھ بیکار ".....وہ کہتے ہوئے پلٹا اور ایک دم
سے خاموش ہوا ....دوسرے ہی پل وہ بھاگ کر لیپ ٹاپ
تک پہنچا تھا۔
"کیا ہوا سر؟"
167
"میں نے کچھ دیکھا۔" وہ تیزی سے لیپ ٹاپ کے کی بورڈ
پر انگلیاں چالتے ہوئے بوال۔
"کیا؟" شہزاد بھی اٹھ کر اس تک آیا تھا۔
شاہزیب نے فوٹیج سٹاپ کرتے ہوئے جبران کے بیک
گراؤنڈ پر زوم کی تھی...
"یہ تو کوئی کالک ٹاور ہے "......شہزاد نے غور سے
سکرین کو دیکھا۔
"یہ گروس ہارلوج.......روؤن میں ہے۔اور حور......اوہ
نو "......وہ تیزی سے بےربط بوال پھر جینز کی جیب میں
سے فون نکاال اور حور کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
168
اتنے میں اس کا فون بھی رنگ کیا تھا وہ دروازے کی
سمت بڑھتے بڑھتے رکی اور پلٹی۔
"شاہزیب کالنگ "....فون کی سکرین پر جگمگا رہا تھا۔
"اسالم علیکم!".....
"و علیکم السالم! اچھا حور!.....میری بات غور سے
سنو .....تمہارے ٹاؤن میں جبران غفور چھپا ہوا
ہے....مگر ہم اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے".....
"ک کیا؟ ج جبران کون؟" وہ بری طرح سے گھبرا گئی
تھی۔
"ڈرو نہیں.....پلیز ریلیکس.....جبران غفور ایک مجرم
ہے....جو نجانے کیا مگر کچھ بہت بڑا پالن کر رہا ہے،
خیر یہ سمجھانے کا وقت نہیں ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ وہ وہاں کیوں ہے پر تم سنبھل کر
رہنا.....کل تک دالور خان تمہارے پاس پہنچ جائے گا تب
تک گھر سے باہر مت نکلنا اور نہ ہی کسی کو گھر کے
اندر آنے دینا۔ پرسوں تک میں بھی وہاں آ جاؤں گا اور ہم
اس جبران کو ڈھونڈ لیں گے۔"
169
"ا اوکے.......ت تم میرے ٹچ میں رہنا شاہزیب!" وہ واپس
اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی .....عوذر سومرو ڈور
بیل بجا کر تھک گیا تو واپس پلٹ گیا۔
"ڈرو نہیں۔ میں یہاں ہی ہوں۔" وہ اپنائیت سے بوال تو وہ
سر ہال کر کال کٹ کر گئی۔
ابھی فون سائیڈ ٹیبل پر رکھا ہی تھا کہ عوذر کی کال آنے
لگی۔
وہ اکتا کر کال کاٹ چکی تھی۔
"دالور خان!.....تم میری حفاظت کرنے کیوں آ رہے ہو؟"
آنکھوں میں ڈھیروں پانی بھر گیا تھا۔
دوسری جانب وہ ابھی اسالم آباد پہنچنے واال تھا کہ
شاہزیب کی کال موصول ہوئی۔
اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ فرانس نہیں جائے گا۔
"میری بات غور سے سنو دالور! حویلی میں جو بھی ہوا
مجھے معلوم ہے....اور تم نے جو قسم کھائی ہے حور کو
نہ منانے کی وہ بھی ٹھیک ہے کہ تم پہلے تایا لوگوں کو
منانا چاہتے ہو مگر اس وقت تمہیں حور کے پاس ہونا
چاہیے اس کی جان کو خطرہ ہے۔"
170
"ک کیا؟ کیا بکواس"......
"ہاں یہ سچ ہے .....جبران غفور وہاں ہے.....اس کے ٹاؤن
میں....اور یہ اتفاق نہیں ہو سکتا ،یہ اس کا پالن
ہے.....مگر ابھی مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کیا....؟ مگر
شاید وہ مجھ سے بدلہ لینے کے لیے حور کا استعمال کرنا
چاہتا ہے....یا پھر کسی اور معاملے کے لیے؟ مگر وہ حور
کو ضرور درمیان میں الئے گا۔" شاہزیب نے سختی سے
اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
"اوکے.....م میں دیکھتا ہوں۔" وہ کال کاٹتے ہوئے آنکھیں
موند کر سر سیٹ کی پشت پر گرا گیا تھا۔
"چلو ڈرائیور بابو.....ایئرپورٹ کی جانب گاڑی موڑ لو۔"
اس نے تھکے تھکے لہجے میں کہا تھا۔
"جی صاحب۔" ڈرائیور نے گاڑی ایئرپورٹ کی جانب ڈال
دی تھی۔
*****
ضیاء واپس آیا تو شاہزیب نے خاموشی سے پہلے اس کی
چیکنگ کی کہ کہیں انہوں نے کوئی ہیڈن کیمرہ وغیرہ تو
نہیں چھپایا مگر کچھ نہیں مال تھا۔
171
بگ اتار کر میز پر رکھا اور وہ تینوں کرسیاں کھینچ کر
بیٹھ گئے تھے۔
شاہزیب نے اپنا سیل فون لہرا کر اشارہ کیا کہ اپنے اپنے
سیل فون نکالو۔
اس نے واٹس ایپ گروپ بنایا جس میں ان دونوں کو ایڈ
کیا۔
"مجھے لگتا ہے وہ ہمارے پالن کے متعلق کچھ جان گئے
تھے .....تبھی ان کا آدمی وہاں آیا اور ہم اسے پکڑ پائے
یعنی ہم نے انہیں ٹریک نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمیں
بیوقوف سمجھا۔اب ہم ان لوگوں کو ان کے ہی جال میں
پھنسائیں گے۔" میسج ٹائپ کر کے گروپ میں سینڈ کر دیا۔
"میں تو سوچ رہا ہوں کہ کہیں گھوم پھیر آتے ہیں۔ ویسے
بھی یار حکومت نے ہمارے لیے آج تک کیا کیا ہے۔"
شاہزیب نے اکتاہٹ بھرے انداز میں کہا۔
"ہوں بات تو ٹھیک ہے باس! آپ تو ابھی ہنی مون بھی
نہیں گئے تو آپ ہنی مون"....
اس کے گھورنے پر ضیاء کی زبان کو بریک لگی۔
172
"ہوں ٹھیک ہے تو میں سوچ رہا ہوں میں اٹلی چال
جاؤں......خبر ملی ہے کہ جبران وہاں چھپا ہوا ہے۔"
"ٹھیک ہے باس جیسے آپ ٹھیک سمجھیں....میں بھی
کچھ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزار لیتا ہوں۔" ضیاء
نے چہک کر کہا۔
"یہ بھی ٹھیک ہے چلو حکومت نے تو چھٹیاں دینی نہیں
تھی ہم خود ہی کر لیتے ہیں۔ کہہ دیں گے نا کہ ہم لوگ
جبران کو پکڑنے کے سیکریٹ مشن پر ہیں....کون سا
کسی نے ہم سے تفتیش کرنی ہے۔" شہزاد نے قہقہہ
لگاتے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دیئے۔
اس کے آدمیوں نے ایل ای ڈی کی جانب دیکھا۔
"یہ لوگ تو چھٹیاں پالن کر رہے ہیں باس؟"
"ہوں۔ ان پر کڑی نظر رکھو......مجھے بلکل بھی ان کی
باتوں پر یقین نہیں ہوا۔اور کام جلد از جلد مکمل
کرو......میں مزید انتظار نہیں کر سکتا۔" اس نے اپنی
بھاری بھرکم آواز میں کہتے ہوئے کال کاٹ دی تھی۔
"اسے ہوش دالؤ.....اور اپنے اپنے کام پر جا کر لگ جاؤ۔
دیکھو ذرا تہہ خانے میں جا کر کہاں تک پہنچا کام.....یہ
173
سب لوگ بڑے ہی کوئی سست اور کاہل ہیں۔" ان میں سے
جو ان سب کا لیڈر تھا غصے سے کہتا اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
یہ جگہ بہت ہی عالیشان تھی....بڑا سا بنگال جو کہ صاف
ستھرا تھا.....ان آدمیوں میں محض چند لوگ تھے جو کہ
تھرڈ کالس غنڈے تھے باقی سب کے سب ہیکر اور
پروفیشنل لیول کے لوگ تھے۔
شاہزیب نے انہیں اٹھ کر ادھر اُدھر جاتے دیکھ لیپ ٹاپ پر
سے نگاہیں ہٹا لیں۔
"اوکے گائز.....میں اب چلتا ہوں۔" وہ کچھ سوچ کر اٹھ
کھڑا ہوا۔
اٹھتے اٹھتے اس کی نگاہ شہزاد کی ریسٹ واچ سے
ٹکرائی تھی۔
"نائس واچ شہزاد!....کافی مہنگی لگ رہی ہے۔"
"تھینک یو سر ،میرے سالے نے مجھے تحفے میں دی
تھی۔" وہ مسکراتے ہوئے ایک نگاہ گھڑی پر ڈال کر بوال۔
"ساال کافی امیر لگتا ہے؟" اس نے داد دینے والے انداز
میں کہا۔
174
"جی....ایمپورٹ ایکسپرٹ کا کاروبار ہے اس کا۔" شہزاد
نے مختصر سا کہا۔
"اوکے۔" وہ کچھ جانچتی نگاہوں سے شہزاد کو دیکھتے
ہوئے پلٹ گیا۔
شہزاد اس کے فیس ایکسپریشنز نوٹ کرتے ہوئے
دلبردشتہ سا ہو گیا تھا۔
"سر مجھ پر شک....کر رہے ہیں؟ پر کیوں؟" اس نے
حیرانگی سے سوچا۔
"نہیں وہ ایسا کیوں کریں گے۔ مجھے وہم ہوا پے۔" اس
نے خود کو تسلی دی اور مسکراتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
ّٰللا حافظ کہتے
ّٰللا حافظ۔" وہ ضیاء کو ہ
"اوکے دوست .....ہ
ہوئے باہر نکل گیا۔
فرحان دیر رات کو لوٹا تھا ،کوٹ بازو پر لٹکائے....ٹائی کی
نٹ ڈھیلی کرتے ہوئے وہ جیسے ہی ہال میں داخل ہوا
سیڑھیوں پر بیٹھی نجی کو دیکھ ایک دم سے رک گیا۔
وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹے ان پر تھوڑی ٹکائے رونے
کا شغل منا رہی تھی۔
175
الل رنگ کی شفون والی کرتی پر ہلکا پھلکا ایمبرائیڈری
ورک ہوا تھا ،ریشمی کھلے بال دونوں شانوں پہ بکھرے
تھے ،ریشمی سرخ آنچل پیروں کو چھوتا ایک دو سیڑھیاں
نیچے تک سرکا ہوا تھا۔
وہ ہال میں پڑے صوفے پر کوٹ ڈال کر اس کی جانب بڑھا۔
بنا آواز کیے وہ اس کے قریب جا بیٹھا تھا۔
نجی کو جب اس کی موجودگی کا احساس ہوا تو آنکھیں
کھول کر اس کی جانب دیکھنے لگی۔
"میں .....بہت برا ہوں نا نجی؟" وہ اس کی جانب مزید
سرکتے ہوئے درمیانی فاصلہ مٹا چکا تھا۔
"نہیں ،آپ برے نہیں ہیں .....آپ کی حرکتیں بری ہیں۔" وہ
آنسوؤں سے بوجھل آواز میں بولی تھی۔
"ایم سوری ،دوستوں نے روک لیا تھا۔" وہ شرمندہ ہوا۔
"مجھے فون پر پھر کیوں کہا کہ میں انتظار کروں جب آپ
کو رکنا ہی تھا؟" وہ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گئی۔
"نجی! مجھے معلوم ہے کہ تم ایک بہت ہی سمجھدار اور
اچھی لڑکی ہو۔ مگر "....وہ فاصلے بڑھاتے ہوئے بوال اور
پھر اٹکا۔
176
"مگر آپ کو ایسی لڑکی چاہیے جو آپ کے ساتھ کیسینوز
میں جوا کھیل سکے؟" طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے وہ
کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے اس کی جانب دیکھنے لگی
تھی جو اچھنبے سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔
"فرحان! ہم مشرقی اور خاص طور پر پختون قبائل کی
لڑکیوں کی شادی محض ایک مرتبہ ہوتی ہے اور وہ ساری
زندگی اس شخص کے نام کر دیتی ہیں"......
وہ آنسو پونچھتے ہوئے سنجیدگی سے کہنے لگی۔
"ہم چھوٹے قبیلوں کی لڑکیاں اپنا چہرہ بس اپنے شوہر کو
دکھاتی ہیں اپنا گھونگھٹ بس شوہر کے سامنے ہی پلٹتی
ہیں....ہماری بڑی بڑی خواہشات نہیں ہوتیں۔ میرے قبیلے
میں عورتوں کی تو یہ بھی خواہش نہیں ہوتی کہ ان کا
شوہر ان سے محبت کرے مگر میں یہ خواہش کر رہی
ہوں......مجھے میرے حصے کی محبت چاہیے۔" وہ اٹل
لہجے میں کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔
"مجھے معلوم ہے مگر میں کنفیوژ ہوں نجی! مجھے
سمجھ نہیں آ رہا کہ میں کیا کروں؟.....تم جانتی ہو کہ یہ
فیصلہ بہت مشکل ہے۔" وہ الجھا ہوا تھا۔
177
"نہیں فرحان! مشکل کچھ بھی نہیں ہوتا ،ہم ہر چیز خود
مشکل بنا دیتے ہیں۔" وہ ایک ایک سیڑھی چڑھتی آگے
بڑھ گئی مجبوراً فرحان کو بھی اس کے پیچھے بڑھنا پڑا۔
ان کچھ ہی ہفتوں میں نجی کے برتاؤ میں نمایاں فرق آیا
تھا۔
کہاں وہ اس کے سامنے سر جھکا کر اٹکنے والی نجی اور
کہاں اب یہ ٹھہر ٹھہر کر بےجھجک بولنے والی .....فرحان
کو خوشی ہوئی تھی اس کی تبدیلی سے۔
"فیصلہ بہت آسان ہے۔ یا میں یا کلب اور کیسینوز .....یا
حالل چن لو یا پھر ساری زندگی حرام پر گزارو۔"
وہ اپنے اور اس کے مشترکہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے
الئیٹس آن کر چکی تھی۔
کمرہ پورا دلہن کی مانند سجا ہوا تھا۔
وہ زخم خور نگاہوں سے پھولوں کی سرخ پتیوں سے لدے
بیڈ کو دیکھتا رہا۔
"یہ آسان نہیں ہے .....میں ایک جوہری ہوں نجی! اور جوا
میری زندگی کا ایک حصہ ہے۔" اس نے قدم آگے بڑھائے۔
نجی بیڈ تک پہنچ چکی تھی۔
178
"تو میں کیا ہوں فرحان؟ میں کوئی گوشت پوست کی گڑیا
نہیں ہوں "....تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے اس نے ایک
جھٹکے سے بیڈ کی چادر کھینچی تھی۔
ساری پتیاں ہوا میں اڑ کر کچھ اس پر اور کچھ فرحان پر
جا گریں۔
"میں ایک جیتی جاگتی انسان ہوں....جس کے سینے میں
دل ہے ،میرے بھی کچھ جذبات ہیں ".....وہ بیڈ شیٹ
درست کرتے ہوئے سرہانے زمین سے اٹھا اٹھا کر بیڈ پر
پٹخ رہی تھی۔
فرحان سینے پر بازوں لپیٹے دروازے سے ٹیک لگائے
اسے بہت نرم نگاہوں سے تک رہا تھا....اس کی بےچینی
،غصہ سب ہی فرحان کو بھا رہے تھے۔
"آپ ایک فیصلہ کر لیں.....یا مجھے چھوڑ دیں یا جوا
چھوڑ دیں۔"
"ک کیا؟" وہ اپنی جگہ اچھل پڑا۔
"ہاں جی۔"
"تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں جوا چھوڑ دوں؟....یہ میں نہیں
چھوڑ سکتا۔"
179
"تو مجھے چھوڑ دیں۔" وہ رخ پھیر کر اسے دیکھنے
لگی۔
"تمہیں؟" وہ بڑبڑایا۔
"مجھے تو بہت آسانی سے چھوڑ سکتے ہیں
نا.......الکھوں لڑکیاں روز ملتی ہوں گی کیسینو میں۔"
وہ بلواسطہ اپنا دل جال رہی تھی۔
"کیا کیا بولے جا رہی ہو نجی؟ ہوش میں تو ہو تم؟ میں
جوہری ہوں.....کوئی بدکردار یا اپنے نفس کا غالم نہیں۔"
وہ تیزی سے چلتا ہوا اس تک پہنچا تھا اور اس کی کالئی
تھام کر اپنی جانب کھینچا۔
"جوا کھیلنا کون سا ثواب کا کام ہے ،شاید جب مجھ سے
دل بھر جاتا ہو گا تو آپ باہر جا کر ان بار ڈانسروں یا پھر
ان شراب سرو کرتی ویٹریس".......
اس کی اگلی بات وہ اچھے سے سمجھ چکا تھا.....تبھی
اس کی بات منہ میں ہی رہ گئی تھی کیونکہ فرحان کا الٹے
ہاتھ کا تمانچہ اس کے چودہ طبق روشن کر چکا تھا۔
"آئندہ سے تم مجھے اسی حلیے میں ،اسی انداز میں نظر
آؤ جس میں تمہیں ،میں نادر پور سے الیا تھا۔تم تو اپنے
180
رنگ ڈھنگ بدلنے کے ساتھ ساتھ ،تہذیب بھی بھول چکی
ہو۔"
وہ اس کے دونوں شانوں کو سختی سے دبوچ کر دانتوں
پر دانت جمائے کرختگی سے بوال اور پھر پیچھے دھکیل
کر پلٹ گیا۔
نجی لڑکھڑا کر بیڈ پر گری تھی۔
اس نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی
فرحان اس پر ہاتھ بھی اٹھائے گا....اس وقت اسے محض
فرحان کی غلطی نظر آ رہی تھی مگر وہ خود بھی کسی حد
تک غلط ضرور تھی.....ایک باکردار مرد یا پھر عورت کو
بدکردار کہا جائے تو بھڑکے گا ہی نا۔
"مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہی نہیں ہے ،نہ ہی حرام کھانا
ہے۔"
آنسو پونچھتے ہوئے وہ اپنے چکراتے سر کو تھام کر
وہاں ہی دوہری ہو کر لیٹ کے آنکھیں موندے پھر سے
گھٹ گھٹ کر روتی چلی گئی۔
اگلی ساری رات فرحان نے الس ویگاس کی کشیدہ سڑکوں
پر محض گاڑی بھگاتے اور سگریٹ پھونکتے گزاری تھی۔
181
وہ کمرے میں داخل ہوئی ،دروازہ مقفل کیا اور اس کی
جانب پلٹی۔ وہ بیڈ کرواؤن سے ٹیک لگائے آنکھیں موندے
ہوئے تھا۔
کائنات کے ہونٹوں کو دھیمی سی مسکراہٹ نے چھو لیا۔
وہ دھیرے سے اس کے پیروں کے قریب بیٹھی اور اپنے
نرم و مالئم ہاتھوں سے جیسے ہی اس کے پیروں کو
دبانے لگی وہ چونک کر کچی نیند سے بیدار ہوا تھا۔
"یہ کیا کر رہو ہو یار!" وہ پاؤں واپس کھینچنے لگا جب
کائنات نے اس کے پیروں پر گرفت مضبوط کی۔
"اگر ایک عورت اپنے شوہر کے پاؤں اپنی دلی خوشی
سے دبائے تو وہ جنتی ہوتی ہے۔"
"ہاہاہاہاہاہا......کس زمانے کی بات کرتی ہو۔ آج کے دور
میں یہ سب نہیں ہوتا اور ویسے بھی مجھے اچھا نہیں لگتا
یہ سب کروانا۔"
"ہاں مانتی ہوں کہ زمانہ بدل گیا ہے ،شوہر کی خدمت میں
آج کل بیویاں اپنی شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔مگر کچھ
مجھ جیسی بھی تو ہیں نا۔"
182
"نہیں تم جیسی اور کوئی نہیں ہے ،تم واحد پیس ہو۔" وہ
اس کا ہاتھ تھام کر پرے کو سرکا اور اپنے نزدیک خالی
جگہ پر اسے بیٹھایا۔
کائنات نے پاؤں اوپر رکھتے ہوئے اس کے سینے پر سر
ٹکا دیا تھا۔
کمرے کی خاموشی کو کائنات کی دھڑکنوں کی آواز توڑ
رہی تھی۔
"کائنات! میں کچھ دن کے لیے فرانس جا رہا ہوں ،جبران
کے کیس کے سلسلے میں......میں چاہتا تھا تمہیں خان پور
چھوڑ دوں مگر ایسا ممکن نہیں ہے کہ تمہارے فائنل
نزدیک ہیں۔اسی لیے تم تابندہ کے پاس رکو گی ،اس طرح
تمہیں بھی یونیورسٹی آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہو
گا۔"
"میم تابندہ؟ م مگر کیوں؟ میں نہیں جاؤں گی اس کے
گھر....میں اپنے گھر ہی رکوں گی۔" وہ کرنٹ کھا کر
سیدھی ہوئی تھی۔
183
"تابندہ کے نام پر تم غصے سے الل پیلی کیوں ہو جاتی
ہو؟" وہ حیران کن نگاہوں سے اس کے بدلتے رنگوں کو
دیکھنے لگا۔
"ن نہیں تو ".....وہ بےاختیار ہی سر جھکا گئی۔
"اچھا پکا؟"
"بلکل۔"
"تو پھر اس کے پاس نہ رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔"
"ہوتا ہے سوال پیدا۔ میں اس کے پاس ہی کیوں رکوں؟"
"کیونکہ مجھے اس پر بھروسہ ہے۔" شاہزیب نے نارمل
سے انداز میں کہا تھا جبکہ کائنات کا خون کھول اٹھا۔
"اس پر یقین ہے مجھ پر نہیں ہے؟ میں تنہا رہ سکتی
ہوں .....آخر کون سی بےاعتباری ہے آپ کو مجھ پر؟" وہ
اس کا ہاتھ اپنے شانوں پر سے جھٹک کر اٹھ کھڑی ہوئی
تھی۔
"یہ تم بات کو کس جانب لے جا رہی ہو؟" وہ اچھنبے
سے اس کے اکھڑے اکھڑے انداز کو دیکھنے لگا۔
184
"پتہ نہیں۔سو جائیں آپ۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتی بیڈ
کے دوسرے کنارے ٹک گئی۔
"مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ تمہیں تابندہ سے کیا
مسئلہ ہے؟ تم نہ تو اس کے ساتھ برتاؤ اچھا کرتی ہو الٹا
جب بھی وہ آتی ہے اس کے سامنے میری بھی انسلٹ کر
دیتی ہو۔پتہ ہے تمہارا ایسا کرنے سے مجھے کتنی
شرمندگی ہوتی ہے۔" وہ نرمی سے کہہ رہا تھا۔
"شاہزیب! پلیز مجھے سونے دیں۔ الئٹ آف کر دیں پلیز۔"
وہ ہنوز بدتمیزی کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
شاہزیب محض اس کی پشت دیکھتا رہ گیا۔
"شاہزیب! کیا آپ واقع ہی مجھ سے محبت نہیں کرتے؟"
وہ خاموشی سے آنسو بہاتی رہی تھی۔
دل میں نجانے کیوں ہمیشہ ہی تابندہ کو لے کر ایک ڈر سا
رہتا تھا.....کیونکہ اس نے محسوس کیا تھا کہ تابندہ کہیں
نہ کہیں شاہزیب کے لیے پسندیدگی کے جذبات رکھتی ہے۔
مگر شاہزیب؟...
185
"نہیں کائنات! تم اپنے شوہر پر شک کر رہی ہو ،اس
محبوب شوہر پر جس نے ہمیشہ تمہاری حفاظت کی۔" اس
کے ضمیر نے مالمت کی۔
"وہ بس میری حفاظت کرتا ہے محبت نہیں کرتا .....اگر
کرتا تو اب میں خفا تھی تو مجھے مناتا اتنے آرام سے سو
نہ جاتا۔" وہ ہونٹوں پر سختی سے ہاتھ جمائے اپنی
سسکیاں روکتی رہی۔
ایک بات تو تہہ ہے شادی شدہ زندگی میں کسی تیسرے کا
تصور بھی ایک خوشحال جوڑے کا سکون برباد کر سکتا
ہے....
میرج الئف میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔
روؤن میں بارش کا سماں تھا ......پیچھلی رات سے مینہ
برس رہی تھی اور وہ اپنے ڈر کو خاطر میں الئے بغیر
کانوں پر ہیڈ فونز لگائے کچن میں گھسی چیز سینڈوچز اور
ساتھ ہی نیٹ سے ریسپی دیکھتے ہوئے کیک بیک کر رہی
تھی۔
ان سب سے جب فری ہو کر وہ کچن سے نکلی تو دن کا
ایک بج رہا تھا۔
186
وہ غیر ارادہ طور پر دالور خان کی منتظر تھی جسے صبح
ہی آ جانا چاہیے تھا مگر اب تو دوپہر بھی ہو چکی تھی۔
"گھر میں بیٹھے بور ہو رہی ہوں ،باہر جا نہیں سکتی۔"
وہ بڑبڑاتے ہوئے بوجھل سی سانس بھر کر صوفے پر
گرنے کے سے انداز میں بیٹھی تھی۔
تبھی ڈور بیل بجی .....ادھر اس کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔
"د دالور خان آ گیا".....
"ریلیکس حور!"......
"کول ڈاؤن.....وہ تمہارا کچھ نہیں لگتا۔" وہ سختی سے
خود کو ڈپٹنے لگی۔
"وہ ہی تو سب کچھ ہے.....تم دل کو ہرگز روک نہیں
سکتی۔" کوئی اندر سے بوال تھا۔
"ایسے جذبات جب شازار خان کے لیے پیدا ہوئے تھے تو
میں نے دل کو لگامیں ڈالی تھیں۔اب بھی ڈال لوں گی۔" اس
قدر غصے سے کہا۔نے ِ
"ہاہاہاہاہاہا.....وہ محبت نہیں پسندیدگی تھی ،دلچسپی تھی۔
جو شازار کے پاکیزہ کردار کو دیکھتے ہوئے تمہارے دل
187
میں پیدا ہوئی.....اسے محبت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔"
سامنے سے ہنستے ہوئے جواب وصول ہوا تھا۔
" وہ محبت تھی.....میں نے کئی راتیں رو کر گزاریں تھیں
اس کی خاطر.....اس کرپٹ انسان کی خاطر میں کتنا تڑپی
تھی......اب میں اس کے سو کول بھائی کے لیے تو تڑپنے
والی نہیں بلکہ شازار خان سے بدلہ لوں گی ....میری جگہ
اب دالور خان تڑپے گا۔" وہ نجانے کیا کیا بڑبڑا رہی تھی۔
"اپنے شوہر سے بدلہ لو گی وہ بھی کسی غیر مرد کے
اگنور کیے جانے کا؟ دماغ چل گیا ہے کیا تمہارا....؟
تم روئی تھی کہ پہلی مرتبہ تمہاری انا کو کسی نے چوٹ
پہنچائی تھی تمہیں ٹھکرا کر....مگر شازار نے جو بھی کیا
کچھ غلط نہیں کیا....وہ ایک ناسمجھی سے کھوال گیا چیپٹر
تھا جو کہ کلوز ہو چکا ہے دوبارہ سے مت کھولو
اسے۔تمہارا مستقبل دالور خان ہے۔" اندر بیٹھے سمجھدار
انسان نے اسے بہت سختی سے ڈپٹا تھا وہ لب بھینچ گئی۔
"دیکھو حور !...جو گزر جاتا ہے وہ ہمارا پاسٹ ہوتا ہے،
مگر جو آج ہے وہ ہم اگر چاہیں تو ہمارا مستقبل بھی بن
سکتا ہے.....دالور خان ایک بہترین مستقبل ہے ،ہاں اس
نے غلط کیا تمہیں ماں کے آخری دیدار سے محروم
188
رکھا....مگر اس کا اٹینشن غلط نہیں تھا۔ اس سے ہمت
نہیں ہوئی تمہیں دکھ دینے کی......سوچو وہ تم سے کس
قدر محبت کرتا ہے۔اور اب ماں تو لوٹ کر نہیں آئے گی
نا.....اور جو ہیں ان کو مت کھونا اب۔" اندر کی سمجھدار
حور اسے نرمی سے سمجھا رہی تھی۔
ضمیر ،دماغ ،دل اور سمجھداری تمام ہی دالور خان کے
حق میں کھڑے تھے تو اس کے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے۔
تبھی پھر سے بیل ہوئی تھی وہ چونک کر دروازے کی
سمت متوجہ ہوئی۔
"اوہ شیٹ وہ تو بھیگ گیا ہو گا۔" وہ بھاگتی ہوئی
دروازے تک پہنچی تھی۔
دروازہ کھولتے ہی جس شخص کو اس نے سامنے دیکھا
اس کا اندازہ اس نے نہیں لگایا تھا۔
" ش شازار خان ".......اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی تھی۔
وہ دروازے کا ہینڈل تھامے ساکت نگاہوں سے اس کی
جانب دیکھ رہی تھی۔
"اسالم علیکم بھابھی!" وہ ایک نگاہ اس پر ڈال کر سر
جھکا گیا۔
189
"و....و علیکم السالم!" وہ بھی تذبذب سی تھی۔
اسے اندر آنے کا راستہ دیتے ہوئے وہ خود وہاں سے ہٹ
چکی تھی۔
ہال میں پہنچتے ہی اپنا فون اٹھایا اور تیز قدموں سے چلتی
ہوئی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
شازار لب بھینچے سوچتا رہا کہ اب کس طرف جائے،
چھتری کو کارنر میں رکھتے ہوئے وہ ہال میں ہی صوفے
پر بیٹھ گیا تھا۔
"شاہزیب! شازار خان یہاں کیا کر رہا ہے؟ ....دالور خان
کیوں نہیں آیا؟" وہ اس کے کال اٹھانے پر برس پڑی تھی۔
"تائی "...وہ کہتے کہتے خاموش ہوا کہ دالور خان نے کہا
تھا حور کو پتہ نہ چلے کہ وہ کزنز ہیں۔
" دالور خان کی والدہ کی طبیعت کافی ناساز تھی اور وہ
دالور خان کو بہت یاد کر رہی تھیں.....اسی لیے اسے
ایئرپورٹ سے واپس جانا پڑا....ڈونٹ وری میں مال ہوں
شازار خان سے بہت اچھا لڑکا ہے۔"
"یہ ہی تو مسئلہ ہے کہ سب بہت اچھے ہیں.....بس میں ہی
بری ہوں۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے غرائی۔
190
"کیا ہو گیا ہے حور! وہ تمہارے بھائیوں جیسا ہے...بلکہ
وہ تمہارا بھائی ہی"....
ّٰللا حافظ۔" اس کی بات تیزی سے کاٹتے
"اوکے ٹھیک ہے ہ
ہوئے وہ رابطہ منسوخ کر چکی تھی۔
"بھائی اور یہ ".......خفگی سے سوچتے ہوئے اس نے
سر ہاتھوں میں گرا لیا۔
"جس شخص کے لیے کبھی....کسی دور میں ہمارے دل
میں کچھ خاص قسم کی فیلنگز رہ چکی ہوں....اسے بھائی
ماننا بےحد مشکل ترین کام ہے.....پھر اس کے ساتھ ایک
چھت شیئر کرنا یہ تو بہت غلط بات ہے.....افف خدایا کیوں
آج میرا پاسٹ مجھے یاد آ رہا ہے۔" وہ بہت زیادہ پریشان
ہو چکی تھی۔
ہاں انسان اس شخص کو کبھی نہیں بھولتا جو پہلی مرتبہ
آپ کے دل کو بھایا ہو......اور شازار خان وہ پہال شخص
تھا۔
"کیا اول فول سوچ رہی ہو حور! وہ تمہارا چھوٹا دیور ہے
اب......تم سردار دالور خان کی بیوی ہو۔" اس نے اپنی
سوچ کی لگامیں کھینچیں۔
191
ّٰللا میری مدد کر میں کس جگہ پھنس گئی
"اففف ہ
ہوں.....دل میں اب دالور خان کے سوا کسی کی جگہ
نہیں.....پھر کیوں میں اس ٹائم پیریڈ کو سوچ رہی ہوں جب
میں شازار نامی سحر میں گرفتار رہی۔" بےبسی سے وہ
رونے لگی تھی۔
"ّٰللا میں گناہگار نہیں ہونا چاہتی ،مجھے دالور خان کا ہی
ہ
رہنا ہے اس کے بنا کسی کو نہیں سوچنا .....مجھے نہیں
معلوم کہ وہ محبت تھی یا شازار خان کی اچھائی اور پختہ
کردار کی بدولت وہ مجھے اچھا لگا مگر اب.....اب میں
سب نارمل چاہتی ہوں۔" وہ ہاتھوں کو آپس میں جوڑے
ّٰللا سے ہمکالم تھی۔
پیشانی پر ٹکائے دل ہی دل میں ہ
"میں نے ہمیشہ جلدبازی میں فیصلے کیے ہیں ،بنا
سوچے سمجھے فیصلے کیے ہیں مگر اب میں مزید
بیوقوفی نہیں کرنا چاہتی.....م میں دالور خان کو کھونا نہیں
چاہتی۔" وہ روتے ہوئے نفی میں سر ہالنے لگی تھی۔
انسان جب بھول بھلیوں میں گم ہوتا ہے تو اس کی حالت
بلکل ایسی ہی ہوتی ہے جیسی اس وقت حور کی تھی۔
بےبس
192
الچار اور بےحد پریشان۔
دالور خان آئی سی یو کے سامنے دیوار سے ٹیک لگائے
کھڑا تھا۔
حامد خان کچھ فاصلے پر کرسی پر بیٹھے تھے۔
مسلسل سفر ،پیچھلے ایک دن سے کچھ نہ کھانے ،اور
نیند نہ لینے کی وجہ سے وہ اس وقت اپنا آپ بہت کمزور
محسوس کر رہا تھا۔
اوپر سے امو جان کی طبیعت کی خرابی کی ٹینشن۔
ساتھ ہی ساتھ دل میں ایک بہت گہرا دکھ تھا کہ اپنی ماں
کے وہ طبیعیت خراب ہونے کی وجہ سے اتنا پریشان
ہے......حور کی والدہ تو پھر دنیا سے رخصت ہوئی
تھیں.....
مزید اس سے کچھ نہ سوچا گیا .....خاموشی سے دو آنسو
ویران آنکھوں میں سے نکلتے ہوئے رخساریں تر کرتے
چلے گئے۔
اس نے ہاتھ اٹھا کر چہرہ صاف کیا تھا۔
193
حامد خان نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور بےبسی سے رخ
پھیر لیا۔
"کائنات!.....پیکنگ کر لی تم نے؟" وہ خاموشی سے ٹی
وی پر چینل سرچ کر رہی تھی جب شاہزیب تیزی سے
سیڑھیاں اترتے ہوئے بوال۔
"نہیں ،میں اپنے گھر ہی رہوں گی۔" وہ سنجیدگی سے
بولی۔
"یہ کیا ضد پکڑی ہوئی ہے تم نے؟ ناسمجھی والی باتیں
در
مت کرو اور چپ چاپ اٹھ کر تیاری کرو "......وہ ق ِ
سختی سے پیش آیا۔
"آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ اگر آپ کو تابندہ مجھ سے
زیادہ بھروسہ مند لگتی ہے ،سمجھدار لگتی ہے تو....
تو.....اسی سے شادی کرتے نا۔" وہ سوچتے ہوئے آنسو
دل پر گراتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اس نے آنکھوں میں نمی
لیے کچھ اس انداز میں دیکھا تھا کہ شاہزیب حیران ہی رہ
گیا۔
194
وہ سیڑھیاں چڑھ کر کمرے میں بند ہو گئی تو وہ ہوش میں
آیا۔
"کیا سوچ رہی ہے کائنات؟ " وہ الجھا الجھا سا اس کے
پیچھے بڑھا۔
دروازہ کھٹکھٹایا مگر سامنے سے نہیں کھوال گیا۔
وہ گہری سانس بھر کر تابندہ کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
"اسالم علیکم! "
"و علیکم السالم شیری! تم لوگ آئے نہیں ابھی تک میں
انتظار کر رہی ہوں۔" تابندہ نے سامنے سے کہا۔
"دراصل کائنات چاہتی ہے کہ وہ یہاں ہی رہے .....اس کا
آئیڈیا ٹھیک ہی ہے یہاں سکیورٹی بھی موجود ہے تو میں
پرسکون رہوں گا۔تم کیوں نہیں ادھر ہی آ جاؤ؟"
اس نے آخر پر سوال کیا تھا۔
"میں؟ اوکے نو ایشو "......وہ کچھ سوچتے ہوئے مسکرا
کر بولی۔
"اوہ تھینک یو سو مچ ،تم نے میری مشکل آسان کر دی۔"
وہ پرسکون سا ہو کر مسکرا دیا تھا۔
195
کال کاٹ کر فون جینز کی جیب میں ڈالتے ہوئے وہ دوبارہ
سے دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔
"کائنات! پلیز دروازہ کھولو ،مجھے تم سے بات کرنی ہے،
میں جا رہا ہوں۔" وہ نرمی سے بوال تھا۔
وہ جو بیڈ پر اوندھے منہ پڑی رونے کا شغل منا رہی تھی
اس کے جانے کی بات سن کر ایک دم سے اٹھ بیٹھی۔
بھاگ کر واشروم گئی ،منہ دھویا مگر آنکھوں اور ناک کی
لو کی سرخی نہ مٹا پائی۔
دروازہ کھلتے ہی شاہزیب نے اس کی روئی روئی سی
آنکھوں میں جھانکا اور دوسرے ہی پل آگے بڑھ کر اس کو
خود سے لگا لیا۔ وہ اس کی قربت پا کر مزید رونے لگی۔
"رو کیوں رہی ہو یار؟"وہ پریشان ہو گیا۔
"پ پتہ نہیں....خودبخود ہی رونا آ رہا ہے۔" وہ ہچکیوں
کے درمیان بولی۔
کیا بتاتی کہ اسے کس قسم کی سوچیں اور خیاالت پاگل کر
رہے ہیں۔
"کوئی تو وجہ ہو گی نا؟"
196
"کوئی وجہ نہیں ہے۔" وہ افسردہ لہجے میں کہتے ہوئے
سر جھکا کر لب کچلنے لگی۔
"اچھا سنو!.....تم یہاں ہی رہو گی تابندہ آ جائے گی
تمہارے پاس ......اوکے۔"
"وہ کیوں آئے گی؟ میں رکھ سکتی ہوں اپنا خیال وہ میری
کیئر ٹیکر نہیں ہے۔" کائنات نے اس سے اپنا آپ چھڑوانے
کے درمیان کہا۔
"کیا بےتکی باتیں کرنے لگتی ہو ،بڑی ہے وہ تم سے
یار.....تمیز سے پیش آیا کرو ،وہ مجھے جب کہتی ہے
تمہاری بیوی بہت بدتمیزی سے پیش آتی ہے تو پتہ ہے
مجھے کتنی شرمندگی محسوس ہوتی ہے۔" وہ الجھی
نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے نرمی سے بول رہا تھا۔
کائنات نے سختی سے لب بھینچ کر سر جھکا لیا۔ آنسو بہت
خاموشی سے اس کی رخساروں کو تر کر رہے تھے۔
"یا وحشت.....کیوں رو رہی ہو؟" وہ اسے مسلسل روتا
دیکھ سٹپٹا کر رہ گیا تھا۔
تبھی ذرا سختی سے بول پڑا تھا جس پر کائنات ڈر کر دو
قدم پیچھے ہٹی۔
197
"کائنات!".....
شاہزیب اس کے اس ردعمل پر اپنی جگہ جم سا گیا تھا۔
"پاگل لڑکی ادھر آؤ "......وہ دوسرے ہی لمحے اپنی
آغوش میں سمیٹ چکا تھا۔
"تمہیں کیا بات پریشان کر رہی ہے کائنات! مجھے بتاؤ
پلیز ".....وہ اس کا سر سہالتے ہوئے دھیمی آواز میں
بوال۔
"آپ نہ جائیں۔" وہ اس کی شرٹ مٹھیوں میں بھینچے
ہچکیوں میں غوطہ زن آواز میں بولی تو مسکرا دیا۔
"اگر میرا جانا ضروری نہ ہوتا تو میں کبھی نہ جاتا۔"
اس کی پیشانی پر بوسا دیتے ہوئے بوال۔
"میرے پاس تمہیں سمجھانے کا وقت نہیں ہے ،مگر اتنا
بتاؤں گا کہ میں فرانس جا رہا ہوں ،جبران غفور کی وہاں
موجودگی پائی گئی ہے۔" اس نے مختصر سا کہا وہ ہنوز
روتی رہی۔
"میں جلد ہی لوٹ آؤں گا۔اور ہاں کچھ باتیں میں ابھی نہیں
بتا رہا مگر جب لوٹوں گا تو تمہیں سب کچھ بتاؤں گا۔ اپنے
198
ایگزامز پر دھیان دینا۔" وہ کہہ کر اسے شانوں سے تھام
کر خود سے جدا کرتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹا۔
"آپ پلیز مجھے ساتھ لے جائیں نا۔ میرا دل بہت ڈر رہا
ہے....پلیز شاہزیب! مت جائیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر
اسے پھر سے روک چکی تھی۔
"تم اپنے فائنلز کی تیاری کرو....میں بس سات کچھ دنوں
میں لوٹ آؤں گا....پرامیس۔" وہ اس کے ہاتھ پر بوسا
دیتے ہوئے لو دیتی آواز میں کہتا پلٹ گیا تھا۔
پھر بنا رکے اور مڑ کر دیکھے.....تیز قدموں سے چلتا اس
سے دور ہوتا گیا۔
وہ بیڈ پر ڈھے سی گئی تھی۔
اکثر وہ جب اسے یونیورسٹی سے لینے آتا تو تابندہ سے
ضرور ملتا تھا.....جس پر نبیلہ کو اکثر شک ہوتا....وہ
اپنے شک کو چھپا نہیں پائی تھی۔
نبیلہ نے کائنات سے کہا....پھر کئی مرتبہ ایسا ہوا اور
کائنات کے معصوم سے دل میں یہ بات سرعت سے بیٹھتی
چلی گئی.....
199
یہ جو محبت و الفت کا رشتہ ہوتا ہے نا یہ کچے دھاگے
کی مانند ہوتا ہے ،شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی
نہیں تو سارے دھاگے ٹوٹ جاتے ہیں۔
اس کے ننھے سے دل میں گہرا سوراخ ہو گیا تھا جس کی
تکلیف روح کو تڑپا دینے والی تھی۔
وہ درد کی شدت برداشت کرتے ہوئے چنخ چنخ کر رو دی
تھی۔
قدموں کی آہٹ پر شازار نے سر اٹھا کر اس کی جانب
دیکھا تھا۔
جہاں پہلے وہ دوپٹے سے بھی بےخبر تھی اب شال
شانوں پر پھیالئے رکھی تھی۔
"تم آرام کرو گے یا کھانا کھاؤ گے؟" اس نے سنجیدگی
سے استفسار کیا تھا۔
"آپ مجھے میرا کمرہ بتا دیں پلیز میں آرام کرنا چاہوں
گا۔" وہ تابعداری سے بوال تھا۔
"چلو دکھاتی ہوں۔" وہ رکھائی سے کہتی ایک تیکھی نگاہ
اس پر ڈال کر پلٹ گئی۔
200
سیدھا جا کر آخر پر ایک کمرے کا دروازہ دھکیل کر وہ
پیچھے ہٹی۔
"کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو الیگزرا سے پوچھ
لینا۔" اس نے دائیں جانب چارج پر لگی ایک الیگزرا کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے حکمیہ انداز میں کہا تھا۔
"جی بھابھی!" وہ سر ہالتے ہوئے دھیمی سی آواز میں
بوال اور اپنا بریف کیس کھینچتے ہوئے کمرے میں داخل ہو
گیا۔
"ہوں.....اچھا لگ رہا ہے بھابھی سننا۔" وہ سوچتے ہوئے
مسکرائی تھی۔
"بات سنیں بھابھی! ".....پیچھے سے شازار کی آواز سن
کر وہ پلٹی تھی۔
"یہ آپ کا۔" شازار نے اس کی جانب ڈریم جار بڑھایا تھا۔
وہ جو اس جار کو مکمل فراموش کر چکی تھی....اس کے
پیروں تلے سے زمین سر گئی تھی۔
"الال نے کہا تھا آپ کو دے دوں۔" وہ ایک نگاہ اس پر
ڈالتے ہوئے پھر سے سر جھکا گیا تھا۔
201
حور نے کانپتے ہاتھوں کو بڑھا کر جار تھام تو لیا تھا مگر
جیسے ہی شازار نے چھوڑا کرسٹل کا جار زمین بوس ہو
کر کئی ٹکڑوں میں تقسیم ہوتا چال گیا۔
"رکیں....میں اٹھاتا ہوں۔" شازار نے اسے جھکتے دیکھ
تیزی سے کہا تھا اور احتیاط سے رنگ برنگے چھوٹے
چھوٹے رول کیے اس کے خوابوں کو سمیٹنے لگا۔
"پلیز انہیں آگ میں جھونک دینا۔" وہ سنجیدگی سے کہتے
ہوئے پلٹ گئی۔
شازار الجھے الجھے انداز میں سے جاتا دیکھتے رہا تھا۔
"ک کہیں دالور خان نے "....اس کی جان خفا ہونے لگی
تھی۔
سانسیں سینے میں دم توڑنے لگیں۔
دل کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔
"نہیں وہ یہ نہیں دیکھ سکتا ".....حور نے سختی سے
نفی میں سر جھٹکا اور تیزی سے دالور خان کا نمبر ڈائل
کیا۔
"اس نے دیکھ لیا ہے حور! تبھی تو وہ آیا نہیں .....تبھی
تو اس نے تم سے بات نہیں کی .....تمہیں جب ایک ایسا
202
شخص چاہیے جو صرف تمہارا ہو بھال پھر دالور خان
کیوں نہیں چاہیے گا کہ اس کی بیوی کا دل صاف
ہو....شفاف آئینہ جس میں صرف اس کا چہرہ نظر
آئے۔مگر تمہارا دل داغ دار ہے ،تمہارے دل کے آئینے میں
کہیں نہ کہیں شازار خان کی جھلک نظر آئے گی۔" وہ جتنا
سوچ رہی تھی سانسیں اتنی ہی تیزی سے اکھڑ رہی تھیں۔
"دالور خان اب میرا نہیں رہے گا؟"
"وہ وہ مجھ سے بات کیوں نہیں کر رہا؟"
نجانے کتنے ہی خوفناک خیاالت آ کر اس کو تڑپا رہے
تھے۔
وہ لڑکھڑا کر رہ گئی ،گرنے سے بچنے کی خاطر اس نے
دیوار کا سہارا لیا تھا۔
"میں صرف دالور خان سے محبت کرتی ہوں۔وہ صرف
میرا ہے۔"
آج اس پر پیچھلی کئی راتوں والی کیفیت طاری تھی جب
اسے اپنے آپ میں سے دالور خان کی خوشبو محسوس
ہوتی اور وہ تڑپ تڑپ کر رو دیتی۔
203
یہاں آ کر ایک رات بھی ایسی نہیں گزری تھی جب اس کی
یاد میں وہ روئی نہ تھی۔
مگر آج ......آج تو اس کو کھو دینے کا ڈر روال رہا تھا۔
شازار نے بہت احتیاط سے کانچ کے ٹکڑے اکٹھے کیے
اور باسکٹ میں ڈال کر کمرے کی جانب بڑھا۔
دیوار کے ساتھ پڑی میز پر سے کرسٹل کا باؤل اٹھایا جس
میں حور کے خواب جمع تھے۔
"وہ انہیں جالنا کیوں چاہتی ہیں؟" وہ متجسس ہوکر ان
میں سے ایک عدد رول شدہ کاغذ اٹھا چکا تھا۔
"نہیں شازار! یہ غلط ہے....کسی کی پرنسپل چیزوں کو
اجازت کے بغیر چھونا بری بات۔" وہ رول واپس رکھ کر
تیزی سے پلٹا اور بیڈ پر کروٹ کے بل لیٹ کر سونے کی
کوشش کرنے لگا۔
*****
فرحان الن میں بیڈ سائز جھولے پر لیٹا ہوا تھا۔
دونوں باہیں دائیں بائیں پھیال رکھی تھیں.....پاؤں زمین کو
چھو رہے تھے۔
204
"فرحان! "....نجی کے ہاتھوں کی گرفت ریلنگ پر سخت
ہوئی تھی۔
نم آنکھوں کے ساتھ وہ پلٹ کر بھاگتے ہوئے سیڑھیاں اتر
کر اس تک پہنچی تھی۔
اس کے بکھرے بال اور دو انگلیوں کے درمیان دبی
سگریٹ دیکھ وہ ہونٹوں پر ہاتھ رکھے برستی آنکھوں
سے اسے دیکھتی رہی۔
رات کو وہ اسے محبت و نرمی سے سمجھانا چاہتی تھی،
اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتی تھی مگر سلگتے دل نے
زبان کو طنز کے تیر چالنے پر مجبور کر دیا تھا۔
"تم بھی ایک عام سے پٹھان نکلے فرحان!....بیوی کو
خاموش کروانے کے لیے ہاتھ اٹھانے لگے۔" وہ بڑبڑاتے
ہوئے اس کی پیشانی پر جھکی تھی۔
"ہاں میں آپ سے بہت محبت کرنے لگی ہوں مگر میں آپ
کا ظلم و ستم ہرگز برداشت نہیں کروں گی ،ہر پختون
عورت کی مانند اپنے آپ کو پتھر کا نہیں ہونے دوں گی۔"
اس کی پیشانی چوم کر وہ سیدھی ہوئی تھی اور ایک قدم
205
آگے ہو کر ہاتھ بڑھا کر اس کے ہاتھ میں قید بوجھے
سگریٹ کو دھیرے سے نکاال اور پرے اچھال دیا۔
کئی لمحے سرک گئے وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی
جب فرحان کسمسایا تو وہ ہڑبڑا کر نگاہوں کا رخ پھیر گئی۔
"آں.....تم یہاں کیا کر رہی ہو؟" نیند کی خماری کی بدولت
اس کی آواز بوجھل سی ہو رہی تھی۔
نجی کا دل زور سے دھڑکا وہ آنسو آنکھوں میں لیے سر
جھکائے بنا اس کے سوال کا جواب دیئے وہاں سے ہٹ
گئی تھی۔
فرحان نخوت سے سر جھٹک کر دوبارہ سے لیٹ گیا۔
"سمجھتی پتہ نہیں خود کو کیا ہے.....مجھے ان بار
ڈانسروں اور ویٹریس کے ساتھ "......دونوں ہاتھوں کی
میٹھیوں میں بالوں کو جکڑتے ہوئے وہ ضبط کی انتہا کو
پہنچ کر سوچ رہا تھا۔
"ٹھیک ہے نجی بیگم! اب تمہیں میں دکھاؤں گا کہ ویٹرس
اور بار ڈانسروں کے ساتھ ناجائز تعلقات کیسے استوار
صےکیے جاتے ہیں۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے غم و غ ّ
206
کے عالم میں سوچتے ہوئے وہ آخر پر شاطرانہ انداز میں
مسکرایا تھا۔
اس کے دماغ میں اس وقت شیطانی سوچیں جنم لے رہی
تھیں....اور دل میں نجی کے لیے محض غصہ تھا۔
"میں نے ساری زندگی شراب شباب سے بچا کر جس بیوی
کے لیے اپنے جذبات رکھے وہ ہی آج مجھ پر انگلی
اٹھائے گی.....میرے مضبوط کردار پر چوٹ کرے گی.....
ٹھیک کرتے ہیں وہ مرد جو باہر منہ مارتے ہیں۔" وہ
نجانے کیا کیا غلط سلط سوچ رہا تھا....اور اس پر عمل
کرنے کے متعلق بھی سوچ رہا تھا۔
وہ ریڈی ہو کر جیسے ہی باہر نکلی شازار کو سیاہ کرتہ
پاجامہ میں ملبوس ہال میں کھڑا دیکھ ایک دم تھم سی گئی
تھی وجہ اس کے ہاتھ میں تھاما سلور رنگ کا ریوالور تھا۔
"یہ تم کیا کر رہے ہو؟" وہ آنکھیں سکوڑتے ہوئے
استفسار کر رہی تھی۔
"میں یہاں آپ کی حفاظت کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ آپ کی
جان کو خطرہ ہے تو اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔"
"مگر میں تو یونیورسٹی جا رہی ہوں تم"......
207
وہ کہتے کہتے خاموش ہوئی پھر سے ایک نگاہ اس کی
تیاری پر ڈالی اور دوسری نگاہ ریوالور میں بلٹس بھرتے
ہاتھوں کو دیکھا۔
"نو .....مطلب تم میرے ساتھ جاؤ گے؟ نہیں تم نہیں جا
رہے۔" اس نے سختی سے کہا۔
"بھابھی! میرا جانا ضروری ہے.....جب تک الال نہیں آ
جاتے تب تک میں آپ کی حفاظت کرنے پر پابند ہوں.....پتہ
نہیں جبران کیوں آپ کے پیچھے آیا ہے مگر وہ آپ کو
نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا اسی لیے پلیز
سمجھنے کی کوشش کریں۔" وہ نرم لہجے میں التجاء کر
رہا تھا۔
"دالور آئے گا؟" وہ خوشی سے کھنکھتی آواز میں
استفسار کرتی ایک قدم آگے بڑھی تھی۔
"جی جی وہ بس ایک دو دن تک آ جائیں گے....جیسے ہی
امو جان کی طبیعت سنبھلے گی۔" اس نے سر اٹھا کر اس
کی خوشی سے چمکتی آنکھوں کو دیکھا۔
"آنٹی اب کیسی ہیں؟ "
208
"ابھی ٹھیک ہیں کچھ دیر پہلے ہوئی تھی الال سے
زیر اثر سو رہی ہیں۔" اس
بات....مگر نشیلی ادویات کے ِ
نے مختصر سی تفصیل بتائی۔
"جب ہوش میں آئیں تو یاد سے میری بات ان سے
کروانا۔"
وہ کہتے ہوئے میز پر بکھری اپنی فیشن ڈیزائننگ کی
اسائنمنٹ سمیٹنے لگی جو اس نے رات بھر جاگ کر بنائی
تھی۔
"شازار! پلیز تم کچھ ڈھنگ کا پہن کر آؤ۔نیور مائنڈ پر
مجھے تمہیں اس حلیے میں ساتھ لے جانے کا دل نہیں کر
رہا۔" وہ صاف گوئی سے بولی تھی۔
شازار جو اپنے شانے پر شال درست کر رہا تھا رک کر
اسے دیکھنے لگا۔
"جی بھابھی!" وہ تابعداری سے کہہ کر اپنے کمرے کی
جانب بڑھ گیا۔
حور نے اپنی اسائنمنٹ فائل میں ترتیب سے لگائی۔اور
تفصیلی نگاہوں سے دیکھنے لگی۔
209
سٹیم پنک تھیم پر اس نے آٹھ فیشن کروکیز بنائی ہوئی
تھیں ،جن میں مختلف رنگ اور کٹ الئنز کا خاص خیال
رکھتے ہوئے اس نے اپنا پروجیکٹ بہت کمال کا بنایا تھا
تھیم بورڈ ،اور باقی کی ڈیٹیلز جو اس نے لکھی تھی وہ
بھی بہت خوبصورت انداز میں تھی۔
"بس اس گارمنٹ میں تھوڑی سی ڈیٹیل باقی ہے۔
یونیورسٹی جا کر ٹھیک کر لوں گی۔"وہ فائل بند کر کے
میز پر رکھ چکی تھی۔
سامنے وال میں جڑے شیشے میں ایک نظر خود کو دیکھا۔
نیچرل میک اپ اس کے خوبصورت چہرے کو مزید حسین
تر بنا رہا تھا.....سفید شرٹ پر مسٹرڈ کلر کا النگ کوٹ
نیلی نیرو جینز تلے النگ شوز پہنے وہ اپنے سر پر گرم
ٹوپی پہنے ہوئے تھی۔
سفید ہاتھوں کی انگلیاں سردی کی شدت سے سرخ ہو رہی
تھیں۔
"پتہ نہیں میں نے گلوز کہاں رکھ دیئے تھے ،ملے ہی
نہیں۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے ٹوپی سے نکل کر شانے پر
210
بکھرے بالوں کو کمر پر ڈالتے ہوئے ہاتھوں کو آپس میں
مسلنے لگی۔
"چلیں؟" شازار نے گال کھنکھارتے ہوئے اسے اپنی جانب
متوجہ کیا۔
اس نے پرنس کوٹ کے تلے سفید شرٹ پہن رکھی تھی،
اور نیلی جینز....ہاتھ میں تھامے مفرل کو گردن کے گرد
لپیٹتے ہوئے وہ مصروف سے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
"یہ....تمہارے الال کا کوٹ ہے نا؟"
"جی دراصل....میں ہسپتال سے ہی ادھر آیا تھا تو الال کا
پیک ہوا پریف کیس ہی لے آیا تھا۔" اس نے کہتے ہوئے
ریوالور کوٹ کی اگلی جیب میں رکھ لیا۔
"اس کی ضرورت نہیں ہے شازار! ہماری یونیورسٹی میں
سکیورٹی بہت ٹائٹ ہے۔" اس کا اشارہ ریوالور کی جانب
تھا۔
"بھابھی! ہم کسی پر یقین نہیں کر سکتے۔" اس نے کہا تو
وہ سر ہال کر شانے آچکاتی اپنا سامان اٹھا کر پورچ کی
جانب بڑھ گئی۔وہ بھی اس کے پیچھے چل دیا تھا۔
"گاڑی تم ڈرائیور کرو گے؟"
211
"جیسے آپ کو بہتر لگے۔"
"اوکے تم ہی ڈرائیو کرو۔" وہ اس کی جانب چابی اچھال کر
لیفٹ سائیڈ والی سیٹ پر براجمان ہو گئی۔
گاڑی روڈ پر دوڑنے لگی تھی جب دالور خان کی کال آنے
لگی۔
"سپیکر پر ڈالو۔" حور نے اس کے موبائل کی سکرین پر
چمکتے نام کو دیکھ کر تیزی سے کہا۔
شازار اس کے لہجے کی بےقراری پر مبہم سی مسکراہٹ
لیے کال اٹینڈ کر چکا تھا۔
فون سپیکر پر ڈال کر اس کی جانب بڑھایا۔
کہ ایک ہاتھ سے ڈرائیونگ کرنا تھوڑا مشکل ہو رہا تھا
کیونکہ بارش ابھی بھی زوروں سے برس رہی تھی۔
"اسالم علیکم.....کیسے ہو خان!"
اس کی گھمبیر آواز سپیکر سے ابھری تھی ،ادھر حور کے
چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوئی اور رخساروں پر اللی
بکھرتی گئی۔ دل جو اتنے دنوں سے اس کی ایک آہٹ کو
ترس رہا تھا جھوم اٹھا تھا۔
212
ّٰللا کا شکر ہے ،آپ کیسے ہیں....امو
"و علیکم السالم! ہ
جان کی طبیعت ٹھیک ہے اب؟" شازار نے ونڈ سکرین کے
پار سڑک پر دیکھتے ہوئے استفسار کیا تھا۔
"ہوں۔ بس ٹینشن زیادہ لے لی تھی تو تبھی تھوڑی طبیعت
بگڑ گئی۔اب ٹھیک ہیں....ابھی سو رہی ہیں۔وہاں سب ٹھیک
ہے؟ تمہاری بھابھی کیا کر رہی ہے؟" آخری سوال پر
شازار نے گردن گھما کر چشمے کے پیچھے سے حور کو
دیکھا تھا۔
"آپ بات کریں گے ان سے...؟" شازار نے استفسار کیا تو
ادھر حور نے سختی سے نفی میں سر ہالیا۔
"ہمت نہیں ہے خان! ".....وہ بےجان سی آواز میں بوال
تھا۔ حور کے چہرے پر افسردگی سی چھا گئی تھی۔
اس کے لہجے سے ٹپکتی ویرانی اس کے دل کو دکھا رہی
تھی۔
"الال! یوں گھبرانے سے کیا ہوتا ہے ،زندگی پہاڑ جیسی
ہے....یوں آپ دونوں ایک دوسرے سے بھاگتے رہو گے
تو یہ زندگی تنہا ہی کٹ جائے گی۔" شازار نے سمجھداری
کا مظاہرہ کیا تھا۔
213
ّٰللا بھی معاف
"وہ مجھے معاف نہیں کرے گی۔ مجھے تو ہ
نہیں کرے گا۔"
حور بہت غور سے دالور خان کو سن رہی تھی۔
اسے محسوس ہوا تھا کہ دالور خان کی طبیعت ٹھیک نہیں
ہے۔
اس نے شازار کے شانے پر تھپکی دے کر اپنی جانب
متوجہ کیا۔
اشارے سے ہی کہا کہ اس سے پوچھے کہ اس کی آواز
بدلی بدلی سی کیوں ہے۔
"کیا؟" وہ سمجھا نہیں۔
حور نے ایک منٹ کا ویٹ بوال اور اپنے فون پر انگلیاں
چالنے لگی۔
"آپ بات کریں گے تو معاف کرے گی نا۔" شازار نے بات
جاری رکھی تھی۔
"وہ مجھے چھوڑ کر گئی ہے شازار واپس کیوں آئے
گی ....آ بھی گئی تو ساری زندگی میں اس کی نظروں میں
گرا ہی رہوں گا۔" اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔
214
حور نے ایک گھوری فون کو نوازی تھی۔
پھر اپنا فون شازار کے سامنے کر دیا۔
اس نے گاڑی کی سپیڈ کم کی۔
"تمہاری ....طبیعت ....ٹھیک .....نہیں لگ رہی .....میڈیسن
وغیرہ لو ".....وہ بہت غور سے دیکھتے ہوئے موبائل
کے نوٹ پر لکھی تحریر ٹھہر ٹھہر کر پڑھ رہا تھا۔
"سبق پڑھ رہے ہو؟" دالور خان نے استفسار کیا تو حور
نے اسے گھوری نوازی۔
"ٹھیک سے بولو۔" اس نے سر کے اشارے سے ہی کہا۔
"الال! میں کہہ رہا ہوں کہ آپ کی آواز بہت بدلی بدلی سی
لگ رہی ہے ....طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟ میڈیسن وغیرہ
لیں۔" اس نے کہتے ہوئے حور کو تصدیقی نگاہوں سے
دیکھا تو اس نے اثبات میں سر ہالیا۔
"ٹھیک ہے لے لوں گا....بس پیچھلے ایک دن سے سویا
نہیں تو سر دکھ رہا ہے۔اچھا اب میں فون رکھتا ہوں....اپنی
بھابھی کا خیال رکھنا۔" وہ کہہ کر کال کٹ کر چکا تھا۔
حور نے فون اس کی جانب بڑھا دیا اور سر سیٹ کی پشت
سے ٹکا لیا۔
215
"آپ الال سے محبت کرتی ہیں....پھر کیوں نہیں مان جاتیں؟
ہاں مانتا ہوں بہت بڑی غلطی ہوئی ہے ان سے جس کی
سزا بابا سائیں انہیں دے چکے ہیں۔"
"ک کیا مطلب؟" وہ چونک ک سیدھی ہوئی اور اس کی
جانب رخ پھیر کر بیٹھ گئی۔
"انہیں سرداری سے ہٹا دیا ہے اور گاؤں سے بھی نکال
دیا ہے۔بابا سائیں کو لگتا ہے کہ الال نے آپ کے ساتھ اچھا
نہیں کیا۔" وہ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے بات کے اختتام پر اس
کی جانب دیکھنے لگا۔
"کیا؟ انہیں کیسے معلوم ہوا؟"
"الال مجھ سے بات کر رہے تھے کہ وہ آپ کو منانے
فرانس جا رہے ہیں...بابا سائیں نے سن لیا "....اس نے کہا
تو حور لب بھینچ کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
"دالور خان وہ شخص ہے جس کے بنا میری زندگی
ادھوری ہے....وہ میرا دوست ہے ،میری محبت ہے ،میرا
شوہر ہے.....سب کچھ ہے وہ میرا....مگر میں بھی تو کچھ
ہونی چاہیے نا اس کے لیے.....اس نے صرف مجھ سے
216
محبت کی ہے اگر میں اس کی زندگی ہوتی تو وہ مجھے
اتنی تکلیف نہ دیتا....مجھے یوں تنہا نہ کر دیتا۔"
بولتے ہوئے اس کی آواز آنسوؤں میں غوطہ زن ہو چکی
تھی۔ شازار خاموشی سے اسے سن رہا تھا۔
پھر وہ خاموش ہو گئی....گاڑی میں مکمل سناٹا چھا گیا۔
گاڑی یونیورسٹی سے انٹر ہو چکی تھی۔
"میں اس کے ساتھ فیئر تھی ،مگر وہ میرے ساتھ فیئر
نہیں تھا....اس نے میرے دل میں بےشمار سوراخ کر دیئے
ہیں۔ ان سوراخوں کو اگر وہ جلد نہیں بھرنے آیا نا تو میں
مر جاؤں گی۔" وہ آنسو پونچھتے ہوئے آنکھوں پر گوگلز
چڑھا کے گاڑی سے اتر چکی تھی۔
"آؤٹ سائیڈرز االؤ نہیں ہیں۔" وہ جب اس کے ہمقدم ہوا
تو حور نے کہا۔
"الال نے بات کر لی ہوئی ہے۔" گیٹ پر پہنچتے ہی اس نے
اپنا آئی ڈی کارڈ گارڈ کو تھمایا تو وہ اسے بہت عزت سے
کارڈ واپس کرتے ہوئے دروازہ کھول چکا تھا۔
حور ہقا بقا کھڑی رہ گئی۔
217
"آپ کی یونیورسٹی کے بچے اگلے ویک پیرس کے
اسٹوڈنٹس فیشن ویک میں حصہ لینے والے ہیں اور تین
ججیز میں سے ایک جج الال ہوتے ہیں ".....اس نے
مختصر سا کہا۔
"تو تمہارے الال رشوت بھی لیتے دیتے ہیں؟"
"نہیں نہیں....یہ بات نہیں ہے انہوں نے اس یونیورسٹی
میں بطور پروفیسر دو سال تک جاب کی ہے۔"
"کیا؟کب؟" حور کو ایک مزید شاک لگا تھا دالور خان کے
متعلق یہ سن کر۔
"جب وہ بائیس کے تھے".....
"یہاں کون سا سبجیکٹ پڑھاتے تھے؟"
"ہسٹری آف فیشن کاسٹیوم تھا آئی تھینک۔"
"شازار خان! تمہارا الال واقع ہی مجھ سے محبت نہیں
کرتا.....اس نے مجھے اپنے متعلق کچھ بھی نہیں بتایا ،وہ
اتنی بڑی میک اپ کمپنی کا پارٹنر ہے ،وہ باکسر تھا ،وہ
پروفیسر بھی تھا اور بھی پتہ نہیں اس نے کیا کیا چھپایا
ہے مجھ سے....اور ہاں وہ فیشن ویک میں جج بھی ہے۔"
حور سعی معنوں میں تپ گئی تھی۔
218
شازار ہنس دیا۔
"پھر تو آپ کو الال کی طبیعت فریش کرنی چاہیے۔" اس
نے مشورہ دیا۔
"وہ ہاتھ آئے تب نا۔" اس نے سرد آہ بھری تو شازار پھر
سے ہنس دیا۔
"وہ تو ہاتھ میں آنا چاہتے ہیں آپ ہی کوئی فیصلہ نہیں کر
رہیں۔" اس نے سنجیدگی سے کہا تو حور رک گئی۔
وہ بھی دو قدم آگے جا کر رکا اور پلٹا۔
"میں نے رات کو ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ جو گزر گیا وہ
گزر گیا.....میں نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں....جیسے
تمہیں بہت تنگ کیا ہے ،تم اچھے ہو تو سب کو اچھے لگو
گے مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اچھا لگنا محبت ہوتی
ہے.....تو میں اس بات کو یا کوئی بھی ایسی جو میرے اور
دالور کے رشتے کو بگاڑے اسے بھول جاؤں گی۔اور اپنی
زندگی کی شروعات دالور خان کے ساتھ کروں گی جس کے
بنا میں سانس بھی نہیں لے سکتی۔" اس نے مسکراتے
ہوئے کہا تو شازار جو یہاں آنے سے بہت پریشان تھا ہلکا
پھلکا سا ہو کر مسکرا دیا۔
219
"حوریہ رائے کے ساتھ لڑکا کتنا ہینڈسم ہے۔"
"دونوں کو ڈیمپل پڑتا ہے.....لگتا ہے حوریہ کا بھائی
ہے۔"
"لگتا ہے یہ سارا خاندان ہی پیارا ہے۔"
"یار وہ کتنا ہینڈسم ہے۔میں جاؤں اس سے بات کروں؟"
دو انگریزن لڑکیوں کی گفتگو ان کے کانوں پر پڑی تھی۔
حوریہ نے چشمہ آنکھوں پر سے ہٹاتے ہوئے پلٹ کر
سخت گیر نگاہوں سے ان اپنی کالس فیلوز کو گھورا تھا وہ
دونوں ہڑبڑا کر آگے بڑھ گئیں۔
"اسالم علیکم مس حور!" عوذر سومرو اس کے پاس
رکتے ہوئے بوال۔
"و علیکم السالم!" حور نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
"یہ کون ہیں؟ آؤٹ سائیڈرز آالؤ نہیں ہیں آپ جانتی ہیں
نا؟" عوذر نے شازار کو چشمے کے پیچھے سے ہی
گھورا تھا۔
"مسٹر سومرو! یہ میرے "......ایک لمحے کو خاموش
ہوئی اور شازار کی جانب دیکھا۔
220
"میرے دیور ہیں اور ہم نے پرمیشن لی ہوئی ہے۔ یہ
میرے ساتھ ہی آج سے رہیں گے۔"
"اسالم علیکم مائی سیلف شازار خان۔" شازار نے
مسکراتے ہوئے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
"و علیکم السالم! مجھے عوذر سومرو کہتے ہیں۔" وہ
نگاہیں حور پر جما چکا تھا۔
"حور! آپ کو میرے ساتھ لیب چلنا ہو گا ،کچھ کینڈلز
ایکسپیرمنٹس کرنے ہیں۔" عوذر نے کہا تو وہ اثبات میں
سر ہال کر رہ گئی۔
ان دونوں کے پیچھے جب شازار بڑھا تو عوذر نے رک کر
اسے گھورا۔
"آپ لیب میں نہیں آ سکتے ،یہ رولز کے خالف ہے۔" اس
نے سختی سے کہا۔
"مسٹر سومرو! میں یہاں"....
"اٹس اوکے شازار! آپ ایسا کریں کیفے ٹیریا چلیں۔ میں
آتی ہوں۔" حور نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا تو وہ سر
ہال کر پلٹ گیا۔
221
"کل میں آپ کی ڈور بیل بجا بجا کر لوٹ گیا تھا ،کال بھی
نہیں اٹھائی آپ نے....سب ٹھیک تھا؟" لیب میں داخل
ہوتے ہوئے اس نے استفسار کیا۔
"ویسے ہی۔" حور سرسری سے انداز میں کہہ کر آگے
بڑھ گئی۔
"سب ٹھیک ہے؟ آپ کا دیور یہاں کیوں آیا ہے؟" وہ اس
کے پاس رکتے ہوئے استفسار کرنے لگا۔
"یہ آپ کا معاملہ نہیں ہے ،اسی لیے بہتر ہو گا لیمٹس میں
رہیں۔" وہ اس کی جانب سختی سے دیکھتے ہوئے تیزی
سے کہہ کر رخ پھیر گئی۔
"ایم سوری مگر میرا مطلب تھا کہ"...
"مسٹر سومرو! تم اپنا ایکسپیرمنٹ تنہا کرو۔" وہ ٹیوبز
میز پر پٹخ کر پلٹ گئی تھی۔
الئیبریری میں موجود لوگوں نے حیرانگی سے عوذر
سومرو کو بہت عجیب نگاہوں سے دیکھا تھا۔
وہ شرمندہ سا ہو کر لیب سے نکل گیا۔
یونیورسٹی میں مشہور ہو چکا تھا وہ.....کہ حوریہ رائے
کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور وہ اسے گھاس تک نہیں ڈالتی۔
222
"مجھے نہیں فرق پڑتا کہ لوگ کیا کہتے ہیں ،مگر میں
اس کے پیچھے ہی ہوں .....بےشک وہ آج مجھے گھاس
نہیں ڈال رہی مگر ایک دن وہ میرے ساتھ ہنسی خوشی جب
....جب میرا ہاتھ تھامے یونیورسٹی میں داخل ہو گی
تو....تو سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گیں۔" وہ
سوچتے ہوئے تصور میں حور کے ساتھ تھا۔
"پروفیسر عوذر! ....آپ کی کالس کا وقت ہو چکا ہے۔"
اسے ہوش تب آیا جب ایک اسٹوڈنٹ نے آ کر اسے کالس
کے متعلق کہا تو وہ بری طرح سے خیال سے چونک کر
اثبات میں سر ہالتے ہوئے مسکرا کر اس لڑکی کے ساتھ
آگے بڑھ گیا۔
شاہزیب نے کائنات کو نہ تو حور کی جان کو خطرے والی
بات بتائی تھی اور نہ ہی امو جان کی طبیعت کی ناسازی
والی.....وہ الہور سے سیدھا پشاور پہنچا تھا۔
حور کی جانب سے وہ دونوں مطمئن تھے کہ شازار وہاں
تھا۔
حامد خان ہسپتال کے الن میں پڑے سنگی بینچ پر بیٹھے
دور غروب آفتاب کو دیکھ رہے تھے۔
223
وہ خاموشی سے ان کے پہلوؤں میں جا بیٹھا۔
"تایا سائیں!.....سردار کی اس سارے معاملے میں کوئی
غلطی نہیں ہے.....میں نے ہی اسے کہا تھا حور سے پیپر
میرج کرنے کو۔" شاہزیب نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا
تھا۔
"دراصل آپ کو تو پتہ ہی ہے نا.....کہ عدالت ثبوتوں کے
انحصار پر سزا سناتی ہے.....اسی لیے ہم نے مل کر یہ
پالن بنایا تھا۔" وہ مصنوعی شرمندگی لہجے میں لیے کہہ
رہا تھا۔
"یہ سچ ہے کہ تم جوانی میں مجھ سے ملے ہو
مگر......میرے بچے میں تمہیں اچھے سے جانتا ہوں۔ ماں
باپ جانتے ہوتے ہیں کون جھوٹ بول رہا ہے اور کب۔"
انہوں نے اس کا شانا تھپک کر کہا اور اٹھنے ہی لگے
تھے کہ شاہزیب نے ان کا ہاتھ تھام لیا۔
"پھر آپ یہ کیوں نہیں جان رہے کہ سردار کتنا پریشان
ہے ،اسے آپ کی ضرورت ہے .....آپ نہیں جانتے مگر یہ
محبت بہت ظالم شے ہے....ان حالتوں میں اسے تنہا چھوڑا
تو جو حالت اس کی میں دیکھ رہا ہوں وہ پاگل ہو جائے
224
گا.....وہ بہت بہادر ہے مگر اس وقت وہ بہت ٹوٹا بکھرا ہوا
ہے۔اسے ہماری ضرورت ہے تایا سائیں!"
وہ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے انہیں دوبارہ سے
بیٹھنے پر مجبور کر چکا تھا۔
"تایا سائیں! ایک مرتبہ صرف ایک مرتبہ سوچیں کہ اگر
آپ کا لخت جگر خوش رہے گا تو پورا خان پور خوش رہے
گا.......امو جان خوش رہیں گیں.....اور ابھی تو کسی کو
معلوم بھی نہیں آپ حور اور دالور کی شادی اپنے ہاتھوں
سے کریں گے تب سب کو علم ہو گا اس شادی کا۔"
"اس نے جو خود غرضی دکھائی ہے.....اس کی سزا تو
اسے ملے گی۔"
"وہ سزا حوریہ دے لے گی کیونکہ دالور اس کے معاملے
میں خود غرض بنا تھا۔ہمیں تو اس کا ساتھ دینا ہے بس۔
اور آپ اور سردار کی صالح ہو گی تو امو جان کی طبیعت
بہتر ہو گی....گھر والوں کے چہروں پر چھائی اداسی ختم
ہو گی۔" وہ کہہ کر خاموش ہوا۔ چور نظروں سے حامد خان
کو دیکھا جو گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے تھے۔
225
"تایا سائیں سب کچھ آپ کے ہاتھوں میں ہے ،سردار کی
اور سب کی خوشی ....حویلی کی عزت و آبرو۔" اس نے
مزید کہا تھا۔
"تم ہمیشہ اپنی چکنی چپڑی باتوں میں مجھے پھنسا ہی
لیتے ہو۔" حامد خان نے مسکراتے ہوئے اس کا شانا
تھپکا۔
وہ ہنس دیا۔
"تم ٹھیک کہہ رہے ہو ،بچوں کی بھی خوشیاں ہوتی
ہیں......اگر ہم خان کی مرتبہ اپنی رسم و رواج درمیان میں
نہ التے تو شاید آج وہ اس حال میں نہ ہوتا.....خود سے ہی
باتیں نہ کرتا پھرتا ہوتا .....پہلی مرتبہ ہم خود اپنا ایک
قانون بدلیں گے کہ قبیلے اور خاندان سے باہر بھی شادی
کر سکتے ہیں۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے
مسکرائے۔
شاہزیب نے ان کے گرد بازو حائل کر دیئے۔
"تھینک یو تایا سائیں!"
"تم مجھے بابا سائیں کہا کرو خانزادے۔" وہ اس کی
پیشانی چوم کر نم آنکھوں سے بولے تو چند پل وہ انہیں
226
دیکھتا رہا پھر نم آنکھوں کے ساتھ پھر سے ان کے سینے
لگ گیا۔
"بابا سائیں!" اس نے انہیں دھیمی آواز میں پکارا تھا۔
"میرا خانزادہ پتر!....سب سے زیادہ سمجھدار۔" وہ اس
کی پیشانی چوم کر فخریہ انداز میں بولے۔
" اب آپ سردار دالور خان کے پاس چلیں میں سب کے
لیے کھانا لے آؤں ،وہ جھال تو پیچھے دو دنوں سے بھوکا
ہے۔" وہ مبہم سی مسکراہٹ لیے ان کے ہاتھ پر بوسا دے
کر اٹھ کھڑا ہوا۔
حامد خان نے قدم ہسپتال کی اندرونی جانب بڑھا دیئے
تھے۔
****
دن سے رات ہو گئی تھی اور رات سے آدھی رات.....
فرحان جو کل رات سے گھر نہیں لوٹا تھا ابھی بھی اس
کے آنے کے کوئی امکانات نہیں تھے۔
نجی کی جان ہلک میں اٹکی ہوئی تھی اور ساکت پلکیں
دہلیز پر لگی ہوئی تھیں۔
227
اس کے پاس نہ تو موبائل تھا کہ فرحان کو کال کر لیتی اور
نیسی بھی پیچھلے دو دنوں سے اپنے بیٹے کے ساتھ
گھومنے نکلی تھی اس کا ایک مہینے بعد آنے کا پروگرام
تھا سو اس وقت وہ اور سائیں سائیں کرتا خالی
گھر.....کالی رات اور گرجتے بادل تھے۔
ّٰللا میرا شوہر سعی سالمت مجھ تک پہنچا دے۔ پتہ نہیں"یا ہ
ّٰللا فرحان واپس آ جائے۔" وہ
کل سے کیوں نہیں آیا......یا ہ
دل میں کوئی بھی منفی خیال آنے نہیں دے رہی تھی۔
بادل گرجے اور پھر زور و شور سے برسنے لگے۔ اس
اندھیری اور برستی رات نے اسے بہت ڈرا دیا تھا۔
گھر میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔
کب اس کی گاڑی اندر آئی اور کب وہ کمرے میں داخل ہوا
اسے معلوم نہیں تھا۔
وہ بیڈ کے پیچھے چھپی گھٹنوں میں سر دیئے ہچکیوں
سے رو رہی تھی۔
ّٰللا میرا شوہر میرے پاس
ّٰللا.....فرحان ٹھیک ہو.....یا ہ
"یا ہ
ٹھیک ٹھاک پہنچا دے میں تو اس کے گھر سے نکلتے ہی
تیری امان کر دیتی ہوں۔ م میں فرحان کے بغیر مر جاؤں گی
228
ّٰللا.....تمہیں تمہارے محبوب کا واسطہ
اسے کچھ نہ کرنا ہ
فرحان ٹھیک ہو۔"
اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا.....فرحان پیچھے ہٹ کر بیڈ
پر گرنے کے سے انداز میں بیٹھا تھا۔
بہت دیر تک....وہ روتی رہی اور وہ بےحس و حرکت جامد
بیٹھا رہا.....نجی کی سسکیاں اسے کوڑوں کی مانند لگ
رہی تھیں۔
پروں کے پھڑپھڑانے کی آواز اسے ڈرا رہی تھی تبھی وہ
اپنے بھاری ہوتے سر کو تھام کر اٹھی تھی.......بیڈ پر
بیٹھے وجود دیکھ کر ایک لمحے کو تو اسے یقین بھی
نہیں ہوا کہ فرحان ہے جب یقین ہوا تو وہ تیزی سے اس
تک پہنچی تھی۔
بنا کچھ بھی بولے نجی نے اس کے گرد بازو حائل کر دیئے
تھے۔
"فرحان! کہاں تھے آپ؟ میں پتہ ہے ڈر گئی تھی .....پلیز
آئندہ ایسا نہیں کریئے گا۔" وہ دیوانہ وار روئے جا رہی
تھی۔
229
فرحان کے بازوؤں میں جان پیدا ہوئی تھی اس نے اپنا
احصار نجی کے گرد پھیال دیا۔
"ایم سوری....ایم سو سوری نجی! میں نے بہت برا برتاؤ
کیا تمہارے ساتھ مجھے معاف کر دو۔" وہ اس کی پیشانی
چوم کر محبت سے بوال تھا۔
"نہیں میں نے بھی غلط الفاظ کا استعمال کیا تھا.....میں
شرمندہ ہوں۔ مگر پلیز آپ جوا چھوڑ دیں نا۔" اس کی
پیشانی پر اپنی پیشانی ٹکاتے ہوئے وہ آنسوؤں میں غوطہ
زن آواز میں بولی۔
"بہت مشکل ہے نجی! یہ بھی ایک طرح کا نشہ ہوتا
ہے.....نہ ملنے پر انسان پاگل ہونے لگتا ہے۔" وہ اس کو
اپنے پہلوؤں میں بیٹھاتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو تھام
کر دھیمے لہجے میں گویا ہوا۔
"کوشش تو کریں۔"
"تمہیں کیا لگتا ہے میں نے کوشش نہیں کی ؟ کی تھی
نجی! میں بلکل اپنا ہوش کھو دیتا تھا.....اور توڑ پھوڑ
کرنے لگتا تھا.....میں نہیں چاہتا کہ تمہیں تکلیف
230
پہنچاؤں۔" وہ اس کی جانب بےبس نگاہوں سے دیکھتے
ہوئے بوال۔
"کوشش کریں......اس مرتبہ میں ہوں آپ کے ساتھ.....ہم
مل کر اس بری لت سے چھٹکارا حاصل کریں گے۔ پلیز
فرحان! میری خاطر.....ہماری آنے والی اوالد کی خاطر۔"
آخری جملے پر وہ شرما سی گئی تھی۔
"کیا؟ تم سچ کہہ رہی ہو؟" وہ ایک دم سے کھل اٹھا تھا۔
ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے وہ اس کے چہرے کو ہاتھوں کے
پیالے میں بھرتے ہوئے بوال۔
نجی نے پلکیں جھکائے شرمیلی سی مسکراہٹ لیے اثبات
میں سر ہالیا۔
"اوہ نجی! .....تم نے پتہ ہے مجھے کتنی بڑی خوشخبری
دی ہے.....اب تو تم جان بھی مانگو تو"....
"شششش۔" اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا نجی نے
اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔
ّٰللا ماں اور
"ایسی بات کبھی نہیں کرنا....میری اوالد کو ہ
باپ دونوں کے سائے تلے بڑا کرے آمین۔"
231
اس وقت اس کی آنکھوں میں جو خوف کی نمی تھی فرحان
کو اس کے ہر درد کو سمیٹنے کا من کیا ،نجی کو نرمی
سے اپنے سینے سے لگا لیا۔
"ان شاءہللا۔" وہ اس کے بالوں میں انگلیاں چالتے ہوئے
محبت و نرمی سے کہہ رہا تھا۔وہ آنکھیں موندے نم
آنکھوں سے مسکرا دی۔
تابندہ بہت غور سے ان کی شادی کی تصویر کو دیکھ رہی
تھی۔
کمرے میں داخل ہوتی کائنات ایک پل کو ٹھٹھکی تھی۔
"آپ کی چائے۔" کائنات نے تیکھے لہجے میں اس سے
کہا تھا۔
"فوٹو شوٹ اچھا ہوا تھا تم لوگوں گا۔ میں بھی شاہزیب
سے کہوں گے اسی فوٹو گرافر کو بالئے۔" وہ مسکراتے
ہوئے کہتی پلٹی تھی۔
کائنات کے حلق سے کافی کا گھونٹ نیچے نہ اترا۔
"کیا؟ کس لیے؟"
232
"شادی کے لیے۔ اور کس لیے یار.......بس اب شاہزیب اس
کیس سے فری ہو جائے پھر ڈیٹ فیکس کریں گے۔" وہ
مزے سے چائے کے سپ لیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
اور کائنات کے تو کاٹوں تو بدن میں خون نہ ہو.....پتھر کی
مورت بنی بیٹھی اسے دیکھتی رہی....ہوش تب آیا جب
آنسو رخساروں پر بہنے لگے۔
"ایسا کبھی نہیں ہو گا ".....وہ میز پر مگ پٹختی بھاگتی
ہوئی کمرے سے نکل گئی تھی۔ تابندہ ہونقوں کی مانند
اسے جاتا دیکھتی رہی۔
"شاہزیب....تابندہ سے شادی نہیں کر سکتے....وہ جھوٹ
بول رہی ہے....م میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گی۔میری
الش پر سے گزر کر آپ اس چڑیل سے شادی کریں گے
شاہزیب!" کائنات کو لگ رہا تھا کہ رفتہ رفتہ اس کا وجود
بےجان ہو رہا ہے.....کچھ ہی وقت میں وہ مر جائے گی۔
بےاختیار ہی وہ اٹھی وہ لڑکھڑاتی ہوئی واشروم میں جا
گھسی۔
شاور کے نیچے کھڑے ہوتے ہوئے اس نے شاور آن کر
دیا تھا۔
233
ٹھنڈا پانی اس کے جھلستے وجود کو سکون نہیں پہنچا پایا
تھا کیونکہ یہ آگ تو دل میں لگی تھی وہاں تک ٹھنڈک تو
پانی نہیں پہنچا سکتا تھا۔
"تو نبیلہ کا شک ٹھیک ثابت ہوا.....وہ بس مجھے محفوظ
رکھنے کے لیے مجھ سے شادی کرنے پر مجبور ہوئے،
مجھ جیسی کم عقل اور کم عمر لڑکی ان کی بیوی کے میعار
پر کیسے پوری اترے گی....ہرگز نہیں۔" اس کا دل کیا کہ
وہ چنخ چنخ کر روئے ،دل پھٹ جائے اور وہ ابھی گر کر
مر جائے.....
"شاہزیب! آپ م م...مجھ سے.....محبت نہیں کرتے تھے تو
شادی مت کرتے.....محبت تو میں بھی نہیں کرتی تھی مگر
اب کرنے لگی ہوں....نہت محبت کرتی ہوں .....آپ سے پلیز
مجھے اس موڑ پر ال کر تنہا نہیں کریں۔" وہ دیوار کے
ساتھ لگتی نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی۔
کئی گھنٹے وہ یوں ہی روتی رہی ،اپنی بدقسمتی کا ماتم
مناتی رہی جب تھک گئی تو لڑکھڑاتی ہوئی باہر نکلی اور
بیڈ پر جا گری۔
یہ وہ کمرہ تھا جہاں ماں رہتی تھیں۔
234
آج بھی ان کی خوشبو بستر سے آ رہی تھی۔
"ماں......تم کیوں ہمیں چھوڑ گئیں.....؟ پہلے پاپا پھر
آپ......کیوں غیروں کے سہارے ہمیں چھوڑ دیا۔" وہ خود
میں سمٹی سینے پر ہاتھ باندھے چنخ چنخ کر ایک مرتبہ
پھر سے رو دی تھی۔
"ایک تمہاری بیٹی جال وطن ہوئی بیٹھی ہے دوسری اپنا
گھر ہونے کے باوجود اس کا گھر نہیں رہنے واال.....ہم
تمہارے ساتھ ہی کیوں نہیں مر گئیں .....کیوں دنیا کے
دکھوں کے لیے ہم زندہ ہیں؟" اس کا روم روم تڑپ رہا تھا۔
سعی معنوں میں اس وقت.....اسے تنہائی اور اکیلے پن کا
احساس ہوا تھا۔
یوں محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گھنے جنگل میں تنہا بھٹک
گئی ،اور اب اسے ان جنگلی...خطرناک جانوروں سے
بچانے کے لیے کوئی نہیں آنے واال ہو......
اسے کالس روم میں دیکھتے ہی حور کو کوفت ہونے لگی
تھی .....تبھی وہ لیپ ٹاپ اٹھا کر وہاں سے کھسکنے کو
ہی تھی کہ عوذر کی اس پر نظر پڑ گئی۔
235
"حور! آپ....آئیں اور جو میں نے بتایا ہے رپیٹ کریں۔"
عوذر کی بات پر وہ اسے گھورنے لگی۔
"میں نے لیکچر سنا ہی نہیں سو رپیٹ کیسے کروں؟" بنا
لحاظ کیے وہ کھردرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔
کالس حیران کن نگاہوں سے اسے دیکھنے لگی جو اچٹتی
سی نگاہ عوذر پر ڈالتی کالس روم سے نکل چکی تھی۔
"اوکے کالس......آپ لوگ کام شروع کریں۔" اس نے
چونکتے ہوئے نگاہوں کو دروازے پر سے ہٹایا تھا اور
کہہ کر کالس روم سے نکل گیا۔
پیرس میں شدید برفباری کا ماحول تھا....یہاں کا موسم
بھی عجیب تھا روؤن میں بارش تو پیرس میں برف
باری.....وہ جب سے آئی تھی ایک دن بھی دھوپ نہیں
نکلی تھی۔
کالس وال کے پاس کھڑی وہ خالی خالی نگاہوں سے باہر
پڑتی برف بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔
شازار ویٹنگ ایریا میں موجود تھا کہ اسے کالس روم میں
آنے کی اجازت عوذر نہیں دیتا تھا۔
236
"میں ہمیشہ تمہیں اپنے عمل سے بتاتا رہوں گا کہ کوئی
ہے جو تمہاری بہت فکر کرتا ہے۔"
اس سکونت پذیر ماحول میں ایک کھنکھتی ہوئی آواز
گونجی تھی۔ حور نے چونک کر ادھر اُدھر دیکھا.....وہ
نہیں تھا بس آواز تھی وہ لب بھینچ کر پھر سے کھڑکی کے
پار دیکھنے لگی۔
"تم جھوٹے تھے سردار دالور خان! تمہیں میری فکر نہیں
تھی۔" اس نے سوچتے ہوئے سینے پر ہاتھ لپیٹ لیے۔
"اسے تمہاری فکر تھی تبھی تو اس نے تمہیں الکھ چاہنے
کے باوجود تمہاری والدہ کی وفات کی خبر نہ سنا پایا۔"
اندر سے آواز آئی تو وہ بےچینی سے دو قدم آگے بڑھی
تھی۔
"کاش دالور خان! جیسے میں نے تمہیں اپنا ایک حصہ
سمجھا کاش تم بھی سمجھتے۔" اس کی آنکھوں میں نمی
سی اترنے لگی تھی۔
"دل اس سینے میں ہی دم توڑ گیا ہے۔مجھے یوں لگتا ہے
ج جیسے میرا اندر ویران ہو گیا ہو۔تم آ جاؤ پلیز ......تمہیں
دیکھ کر سکون ملے گا اس د ِل ناداں کو چین کی دھڑکن
237
ّٰللا یہ کیسا روگ پال کیا ہے میں نے
نصیب ہو گی....یا ہ
اسے بھی تو لگے نا۔"
"کاش میں تم سے کنٹریکٹ میرج نہ کرتی.....کاش میں تم
پر یقین نہ کرتی.....یا کاش میں ت تم سے محبت ".....اس
کی سوچ ایک دم سے محبت پر آن ٹھہری تھی۔
آنسوؤں نے اپنا راستہ تالش کیا تھا اور پلکوں کی باڑ
پھیالنگ کر سفید و گالبی رخساروں پر پھسلتے چلے گئے۔
"تمہیں آنا ہی پڑے گا ....تمہیں میری محبت ضرور کھینچ
کر میرے پاس الئے گی۔"
"حور! چھوڑ کر تم آئی ہو وہ تمہیں چھوڑ کر کہیں نہیں
گیا۔" دل نے دہائی دی تھی۔
"ہاں تو غلطیاں بھی اس کی تھیں۔"
"تم کون سا غلطیاں نہیں کرتی۔" اندر سے پھر آواز آئی تو
وہ آنسو رگڑ کر آنکھوں پر گالسز چڑھاتے ہوئے سر
جھٹک کر پلٹی تھی....پھر تیز قدموں کے ساتھ پارکنگ
ایریا کی جانب بڑھ گئی۔
عوذر نے کالس روم کی ونڈو سے اسے پارکنگ ایریا کی
جانب تیزی سے گاڑی میں بیٹھتے اور جس طرح اس نے
238
گاڑی پارکنگ ایریا سے نکالی تھی وہ یہ سب دیکھ کر بری
طرح سے گھبرا گیا۔
دوسرے ہی پل وہ ہاتھ میں تھامے کوفی کے مگ کو
میز پر پٹخ کر بھاگتا ہوا کالس روم سے نکال تھا۔اسے
بھاگتا دیکھ کر سب حیران رہ گئے تھے....وہ سیڑھیاں اترا
تھا۔
سب لوگ سے یوں دیوانوں کی مانند بھاگتا دیکھ حیران ہی
رہ گئے تھے۔
وہ اسی طرح ہی یونیورسٹی سے نکل کر پارکنگ تک پہنچا
گاڑی میں بیٹھا اور حور کی گاڑی کے پیچھے گاڑی بھگا
لے گیا۔
اس کی گاڑی بہت آگے تھی اور جو رفتار اس کی گاڑی کی
تھی وہ دیکھ کر عوذر کا دل بیٹھنے لگا تھا....اس نے اپنی
گاڑی کی سپیڈ بڑھائی تھی کہ جلد حور تک پہنچے اور
اسے سپیڈ کم کرنے کا اشارہ کر سکے....
عوذر نے ہاتھ ہارن پر رکھ دیا تھا۔
239
پیرس شہر سے نکل کر گاڑی کشیدہ روڈ پر دوڑنے لگی....
روڈ بلکل خالی تھا....تو حور نے گاڑی کی سپیڈ مزید بڑھا
دی تھی.......
وہ کئی دنوں سے اس سڑک کے خالی ہونے کی منتظر تھی
کیونکہ اسے ریش ڈرائیونگ کرنی تھی آج وہ اپنا شوق
پورا کرتے ہوئے دل کا غبار بھی کم کر رہی تھی جبکہ
عوذر کی سانسیں سینے میں دب سی گئیں اور دھڑکنوں
نے وہ شور مچایا کہ اس کا دم گھٹنے لگا۔
"اتنے مہینوں سے تمہاری قربت کو ترسا ہوں حور! ابھی
تو تم مجھے میسر بھی نہیں ہوئی ہو.....اس طرح تمہیں
مرنے نہیں دوں گا "......وہ بےبسی کی انتہا کو چھوتے
ہوئے دانتوں پہ دانت جمائے بڑبڑایا تھا۔
"خدا کی قسم اگر آج تمہیں کچھ ہو گیا تو سردار دالور خان
میرے ہاتھوں مرے گا...یہ سب اسی کی وجہ سے ہو رہا
ہے۔" وہ کانپتی آواز میں بڑبڑایا تھا۔
گاڑی کی رفتار بڑھاتے ہوئے وہ اس سے نزدیک تر ہوتا
جا رہا تھا۔
240
عوذر کی نگاہ دائیں جانب اچانک ہی پڑی تھی اور اسے
لگا وہ مزید ایک سانس بھی نہیں لے سکے گا....دوسری
سنگل سڑک پر گاڑی میں بیٹھے شخص نے رائفل نکال کر
حور کی گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی تھی...مگر حور کو
کوئی نقصان نہیں ہوا کہ گاڑی بلیٹ پروف تھی۔
حور نے تیکھی نگاہوں سے دائیں جانب دیکھا۔
دو گاڑیوں میں سے کوئی انجان لوگ فائرنگ کر رہے
تھے۔
اس نے سپیڈ مزید بڑھا دی تھی۔
عوذر نے بےحد تیزی سے اپنا ریوالور نکاال اور ان لوگوں
پر فائرنگ شروع کر دی۔
"یہ یہاں کیا کر رہا ہے؟" حور نے سائیڈ مرر سے عوذر
کو گاڑی کے شیشے کو ڈاؤن کر کے سر باہر نکال کر
پیچھے مڑ کے فائر کرتے دیکھتے ہوئے سوچا تھا۔
گھبراہٹ بھی ہو رہی تھی مگر اب وہ گاڑی روک نہیں
سکتی تھی۔
فون پر شازار کا نمبر ڈھونڈنے لگی۔
241
"اوہ شیٹ......اس کا نمبر تک نہیں ہے میرے پاس....
کیسی بددماغ ہوں میں۔" وہ دانت کچکا کر رہ گئی۔
ایک نگاہ پھر سے سائیڈ مرر پر ڈالی اور گاڑی ذرا سی
بائیں جانب کر کے پیچھے دیکھا عوذر کی سفید شرٹ
شانے سے سرخ ہو چکی تھی۔
ّٰللا۔" خون دیکھتے ہی اس کے ہاتھ پاؤں کانپنے
"یا ہ
لگے....گاڑی آؤٹ آف کنٹرول ہونے لگی۔
"ریلکس حور !.....ہوش میں رہو.....اس نے ایک مرتبہ
تمہاری جان بچائی تھی.....اب تمہاری باری ہے۔" اس نے
خود کو یاد دالتے ہوئے اپنے ڈر کو کم کرنا چاہا تھا۔فون
ڈیش بورڈ پر اچھاال اور دراز کھوال۔
صبح جب وہ لوگ گھر سے نکلے تھے تو اس نے شازار
سے ریوالور گاڑی میں ہی رکھوا دیا تھا۔
"پتہ نہیں اسے چالتے کیسے ہیں۔" گاڑی کی سپیڈ کم
کرتے ہوئے اس نے کانپتے ہاتھ میں اپنی جانب سے بہت
مضبوطی سے ریوالور تھاما تھا۔
"دیکھ کے حور! کہیں خود کو ہی شوٹ نہ کر لینا۔"
مزاحیہ انداز میں ہمکالمی کرتے ہوئے آنکھوں پر سے
242
ّٰللا کا نام لے کر گاڑی کا
گالسز اتار کر پرے اچھالے اور ہ
شیشہ ڈاؤن کرنے لگی۔
"دو گاڑیاں ہیں....اور اس میں شازار نے چھ بُلیٹس لوڈ کی
تھیں۔" وہ اپنے دماغ میں ترتیب دینے لگی کہ کیا کرنا ہے۔
کچھ سوچتے ہوئے اس نے ہاتھ باہر نکالتے ہوئے ذرا سا
جھک کر دائیں جانب دیکھا .....اور گاڑی کے نچلے حصے
پر فائرنگ کی تھی۔
تین بُلیٹس تو زمین کو جا لگیں۔
"کوئی حال نہیں۔قسمت بھی خراب...نشانہ بھی خراب"....
وہ ہاتھ اندر کر کے گاڑی کی سپیڈ بڑھا چکی تھی۔
حور کے پانچ نشانے خطا ہوئے تھے مگر وہ ان لوگوں کو
اپنی جانب متوجہ کر چکی تھی جس وجہ سے عوذر کو
سنبھالنے کا وقت مل گیا....اس نے اپنی گاڑی حور کی
گاڑی کے بلکل پیچھے کر لی تھی۔
اپنی پینٹ کی جیب میں سے رومال نکالتے ہوئے ہونٹوں
کو سختی سے بھینچے ،آنکھیں پھاڑے درد کی شدت کو
برداشت کرتے ہوئے....شانے پر بہت مشکل سے رومال
243
باندھا ،پھر کوٹ اتار کر پیچھلی سیٹ پر اچھاال اور ریوالور
میں دو اور گولیاں بہت مشکل سے بھر سکا تھا۔
آخری گولی بالآخر اگلی گاڑی کے اگلے ٹائر میں جا لگی
اور وہ گاڑی ڈولتی ہوئی رک چکی تھی۔
پیچھلی گاڑی بھی رک گئی کہ روڈ سنگل تھا....وہ لوگ
ہاتھ ملتے رہ گئے تھے.....
عوذر نے مسکراتی نگاہوں سے اس کے سائیڈ مرر میں
دیکھتے ہوئے سر سیٹ پر گرا لیا تھا۔
حور نے تیزی سے فون اٹھا کر اس کا نمبر مالیا۔
مگر وہ کال نہیں اٹھا رہا تھا۔
اس نے کچھ فاصلے پر جا کر گاڑی روک دی تھی۔
عوذر نے بھی بریک پر پاؤں رکھ دیا....اس کی آنکھوں کی
پتلیاں سکڑتی جا رہی تھیں....
حور تیزی سے گاڑی میں سے اتری اور اس کی گاڑی تک
پہنچی۔
"مسٹر سومرو! آپ ٹھیک ہیں؟" اس کی گاڑی کا دروازہ
کھولتے ہوئے وہ فکرمندی سے استفسار کر رہی تھی۔
244
"زندہ ہوں ....ٹھیک کا پتہ نہیں۔" وہ اس کی جانب
دیکھتے ہوئے مسکرایا۔
"اوہ....بہت خون بہہ گیا ہے آپ کا۔ چلیں میری گاڑی
میں ....آپ ڈرائیو نہیں کر پائیں گے۔" وہ خون دیکھ کر
کبھی کبھی بہت گھبرا جاتی تھی اس وقت بھی وہ گھبرا
رہی تھی مگر اسے اپنی کیفیتوں پر قابو پانے کا ہنر تھا۔
عوذر لڑکھڑاتے ہوئے باہر تو نکل آیا تھا مگر اس وقت
اسے سہارے کی ضرورت تھی۔
نہ چاہتے ہوئے بھی حور نے اسے سہارا دیا تھا۔
وہ گاڑی میں بیٹھنے تک حور کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا
رہا تھا۔
"پروفیسر! آپ ہوش میں رہنے کی کوشش کریں۔" اس نے
بےحد تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا تھا۔
اپنے فون پر نزدیکی ہسپتال کی لوکیشن جانچنے کے بعد
اس نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی تھی۔
ساتھ ساتھ وہ عوذر کو ہوش میں رکھنے کے لیے غصے
اور نرمی سے بولتی گئی تھی ،ضرورت پڑنے پر ایک دو
تمانچے بھی اسے رسید کر چکی تھی۔
245
اسے سٹرکچر پر لیٹا کر وارڈ بوائے اندر لے گئے تو ڈاکٹر
نے پہلے چپکے سے پولیس کو کال کر دی اور انہیں
انتظار کرنے کو کہا۔ حور کا دماغ گھوم گیا تھا۔
"اندھے تمہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ کتنا خون بہہ رہا ہے
اس کا۔" اس نے ڈاکٹر کا گریبان تھام لیا تھا۔
"دیکھو وہ میرے لیے جھگڑ رہی ہے ....بلکل بیویوں کی
طرح۔" عوذر نے بمشکل آنکھیں کھولتے ہوئے اسے
دیکھا تھا۔
"دیکھیں مس یہ ایک پولیس کیس ہے۔"
"بھاڑ میں گئی پولیس.....میں دیکھ لوں گی پولیس کو بھی
تم اسے پہلے ایڈمٹ کرو۔" وہ دانتوں پر دانت جمائے
غصے سے پھنکاری۔
"اوکے۔" ڈاکٹر نے اپنی مزید کتے کھانی سے بچنے کی
خاطر معصومیت سے سر ہال دیا۔
پولیس آئی تو اس نے ٹھیک بیان دیئے تھے جو کچھ بھی
ہوا تھا۔
"وہ کون لوگ تھے اور آپ پر حملہ کیوں کر رہے تھے؟"
246
"تمہیں پولیس آفیسر کس نے بنایا ہے؟" حور نے غصے
سے اس آفیسر کو گھورتے ہوئے کہا۔
"دو سو مرتبہ بتا چکی ہوں کہ مجھے نہیں معلوم وہ کون
لوگ تھے.....میرے پروفیسر پر حملہ کیا تھا انہوں نے اور
وہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کون لوگ تھے ....اب آپ لوگ ہم
سے تفتیش کرنے کی بجائے جا کر مجرم پکڑیں تو بہتر ہو
گا۔" سینے پر ہاتھ لپیٹتے ہوئے وہ تیکھی نگاہوں کو
آفیسرز پر گاڑے ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھی۔
"اوکے اگر آپ کی ضرورت پڑی تو ہم ضرور رابطہ کریں
گے۔" وہ چند پل اس کی جانب دیکھتا رہا پھر کہتے ہوئے
وہاں سے ہٹ گیا۔
حور نے سانس بھرتے ہوئے سر نفی میں جھٹکا اور
آپریشن تھیٹر کی جانب بڑھ گئی۔
امو جان گھر آ چکی تھیں۔
ان ایک دو دنوں میں انہوں نے بہت ٹینشن لے لی تھی جس
وجہ سے ابھی وہ بستر پر ہی تھیں۔
247
"امو جان!.....ہم بس جلد لوٹ آئیں گے۔دعا کریئے گا ہم
جن کاموں کے لیے جا رہے ہیں پورے ہو جائیں۔" شاہزیب
ان کے پاس بیٹھتے ہوئے بوال۔
"ان شاءہللا پتر!.....سارے کام سیدھے ہو جائیں گے۔اور
سردار پتر کو سمجھا دینا کہ حور کو منا کر الئے ".....وہ
اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولیں۔
"ضرور۔ بس آپ سب شادی کی تیاریاں شروع کریں ہم بس
چند دنوں میں واپس آئیں گے۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
ان دونوں کے پاس وقت بہت کم تھا اور ویسے بھی
شاہزیب نے نیا منصوبہ بنایا تھا۔
بنا کسی کو بھی بتائے وہ دونوں دالور خان کے پرائیویٹ
چاپر میں جا رہے تھے۔
"کیا بات ہے امو جان!.....اس بیٹے پر بڑی محبتیں نجھاور
ہو رہی ہیں۔" دالور خان نے گال کھنکھارتے ہوئے
مسکراتے ہوئے کہا۔
"تم بھی آ جاؤ میرے بچے ماں تو اپنے سارے بچوں پر
برابر کی محبتیں نجھاور کرتی ہیں۔" انہوں نے اپنا دوسرا
248
ہاتھ اس کی جانب بڑھایا تھا دالور خان دائیں جانب ،ان
کے قریب بیٹھ گیا تھا۔
"آپ واقع ہی مجھ سے ناراض نہیں ہیں نا؟" اس نے
افسردہ لہجے میں استفسار کیا۔
"دیکھو پتر! تم نے جو بھی کیا.....وہ بہت غلط کیا.....تم
ایک سردار ہو جسے یہ سب زیب نہیں دیتا تھا....مگر خیر
اس سب کے پیچھے تمہارا ارادہ غلط نہیں تھا...اسی لیے
ہم تم سے ناراض نہیں ہیں۔ مگر تمہارے بابا سائیں کے دل
میں ناراضگی باقی ہے ".....انہوں نے آخر پر سرد سا
سانس بھرا۔
"جانتا ہوں انہیں اب مجھ پر بھروسہ نہیں رہا....پر ان
شاءہللا اماں میں ان کا بھروسہ دوبارہ سے پا لوں گا۔" اس
نے ان کے ہاتھ کو ہونٹوں سے لگاتے ہوئے کہا تو وہ
مسکرا دیں۔
پھر وہ دونوں سب سے ملنے کے بعد پشاور کے لیے نکل
گئے تھے کہ وہاں سے ہی وہ لوگ چاپر کے ذریعے روؤن
جانے والے تھے۔
249
رات کے سائے جیسے ہی ڈھلنے لگے فرحان کی بےچینی
بڑھتی جا رہی تھی....
"میں جا رہا ہوں۔" وہ ایک جھٹکے سے صوفے پر سے
اٹھا تھا اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہوئے مین گیٹ کی سمت
بڑھا۔
نجی کچن سے نکل کے بھاگ کر اس تک پہنچی تھی۔
"فرحان! "......وہ اس کا بازو تھام کر اپنا پورا زور لگا کر
کھینچ رہی تھی۔
فرحان بےبسی سے رکا اور اس کے ہاتھوں کو دیکھنے
لگا۔
نجی کے ہاتھوں پر لگے آٹے کی سفیدی اس کی سیاہ
شرٹ تباہ کر چکی تھی وہ خوف زدہ سی ہو کر دو قدم
پیچھے ہٹی۔
"معاف کریں مگر پلیج(پلیز) آپ نہ جائیں۔" وہ رو دینے
کو تھی۔
فرحان ٹکٹکی باندھے اس کی آنکھوں میں دیکھتا رہا پھر
مسکرا کر اس کی جانب بڑھا۔
250
"اوکے چلو ہم کچن میں چلتے ہیں ،میں تمہاری مدد کروا
دیتا ہوں۔" وہ اس کا ہاتھ نرمی سے تھامے کچن کی جانب
بڑھ گیا۔
نجی نے بےاختیار ہی اطمینان بھری سانس لی تھی۔
*****
شازار اس سے رابطہ کر کے ہسپتال ہی آ گیا تھا۔
اس وقت وہ عوذر کے پاس بیٹھا تھا اور حور کمرے سے
باہر ٹہل رہی تھی۔
اسے جب سے شازار نے بتایا تھا کہ دالور خان آ رہا
ہے.....تب سے اس کے دل کی حالت غیر تھی۔
"جس شخص سے محبت ہو اس سے خود کو دور رکھنا
کتنا مشکل ہوتا ہے نا۔" سوچتے ہوئے وہ ذرا سا مسکرائی
تھی۔
"مگر ضمیر اجازت نہیں دے رہا کہ اس سے بات بھی
کروں۔" ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے وہ ایک جانب کرسی پر
بیٹھ گئی تھی۔
251
ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے وہ سامنے گیلری میں
دور تک نگاہیں دوڑا رہی تھی جب شازار نے گال
کھنکھارتے ہوئے اسے متوجہ کیا۔
وہ چونک کر اٹھ کھڑی ہوئی۔
"پروفیسر سو چکا ہے ،ہم بھی چلیں؟ الال اور شاہزیب
فرانس لینڈ کر چکے ہیں۔" شازار نے مفرل گلے کے گرد
لپیٹ کر کوٹ کا کالر درست کرتے ہوئے کہا تھا۔
حور انگلیاں پٹختے ہوئے اثبات میں سر ہالتی اس کے
ساتھ چل دی۔
"آپ ٹھیک ہیں بھابھی؟" شازار نے محسوس کیا کہ وہ
بہت زیادہ پریشان ہے۔
"میری زندگی میں محض ایک ایسا دوست ہے جس کے
ساتھ میں اپنی ہر قسمی پریشانی شیئر کر سکتی ہوں وہ
ہے دالور خان.....مگر آج....مجھے شدت سے کمی
محسوس ہو رہی ہے کہ کوئی لڑکی میری مخلص دوست
ہوتی جس سے میں اپنی پریشانی شیئر کرتی.....وہ مجھے
سمجھاتی کہ کیا سعی ہے اور کیا غلط۔ آج جس مشکل میں
252
پھنسی ہوں وہ مجھے اس مشکل سے نکالتی۔" اس نے
ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔
"مجھے لگتا ہے آپ کو کائنات بھابھی سے بات کرنی
چاہیے....بہنوں سے بہتر اور کوئی مخلص دوست نہیں
ہوتا۔" شازار نے ایک نگاہ اس پر ڈالتے ہوئے کہا تو وہ
اس کی بات سے متفق ہوتے ہوئے تیزی سے فون نکال کر
کائنات کا نمبر ڈائل کرنے لگی۔
شازار نے کیفے پر گاڑی روک دی تھی۔
"آپ بات کر لیں،میں کھانے کے لیے کچھ التا ہوں۔" وہ
گاڑی سے اترتے ہوئے بوال پھر دروازہ بند کرتے ہوئے
آگے بڑھ گیا۔
دوسری جانب کائنات جو بستر پر کروٹ کے بل لیٹی ،
ساکت نم پلکیں سائیڈ ٹیبل پر رکھی شاہزیب کی فوٹو پر
ٹکائے بےچین کر دینے والی سوچوں میں گم تھی۔
فون بیل پر اس نے لپک کر فون اٹھایا کہ شاہزیب کی کال
ہو گی مگر حور کی کال دیکھ اس کی آنکھیں جھلکنے
لگیں۔
253
"اسالم علیکم! ".....اس نے جیسے ہی کال اٹھائی حور
نے تیزی سے سالم کیا۔
"و علیکم السالم!" وہ اپنے آنسو اندر گراتے ہوئے
مسکراہٹ بھرے لہجے میں بولی۔
"کائنات! میں بہت پریشان ہوں۔ تم جانتی ہو نا کہ میں دالور
خان سے بہت محبت کرتی ہوں ،مگر اس نے مجھے دھوکا
دیا ہے۔" اس نے بات کا آغاز کیا۔
"میں نہ تو اسے معاف کر پا رہی ہوں نہ اس سے دور رہ
پا رہی ہوں .....میں کیا کروں کائنات؟" اس نے الجھن آمیز
لہجے میں کہا تھا۔
کائنات اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔
ہاتھ بڑھا کر شاہزیب کی فوٹو اٹھائی۔
"حور! پہلی بات تو یہ کہ وہ تم سے کئی مرتبہ معافی
مانگ چکا ہے اس بارے میں.....اور دوسری بات کیا پتہ
ّٰللا کی جانب سے اسی میں ہی کوئی بہتری تھی۔" کائنات
ہ
دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"حور! جس سے محبت ہوتی ہے نا اس کے بغیر ہم رہ
نہیں سکتے ،شوہر ایک ایسا مکان ہے جس کی دیواروں
254
میں عورت محفوظ رہتی ہے۔ تم اپنے گھر کو تباہ مت
کرو...شاید میں تمہیں اولڈ فیشن لگوں مگر سچ یہ ہی ہے
کہ عورت کی شادی ایک مرتبہ ہی ہو اچھی لگتی ہے۔"
نگاہیں ہنوز شاہزیب کی تصویر پر ٹکا رکھی تھیں.....
"ماما ہوتیں تو وہ بھی یہ ہی کہتیں؟" اس نے تصدیق
چاہی۔
"بلکل۔ وہ بھی یہ ہی چاہتیں کہ تم اور دالور بھائی ہمیشہ
ایک ساتھ رہو ،اچھے بھی تو بہت لگتے ہیں آپ دونوں
ایک ساتھ۔" آخری جملہ اس نے حور کو چھیڑنے کے لیے
کہا تھا۔
"تھینک یو سو مچ کائنات! تم بہت اچھی بہن ہو.....اور
بھیّٰ.....للا تمہیں ہمیشہ خوش رکھے۔" اس نے
ہ سمجھدار
مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
"شاہزیب میرے ساتھ نہ رہے تو میں خوش کیسے رہوں
گی؟" وہ سوچنے لگی۔
"ایک بات پوچھوں حور!" وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
"ہوں ہوں پوچھو نا.....؟"
255
"کیا ایک بیوی کی محبت اجازت دے گی کہ اس کا شوہر
دوسری شادی کر لے؟"
"ایک عام انسان محبت میں شریک برداشت نہیں کرتا اور
میں تو ہرگز برداشت نہ کرتی۔" اس نے بنا کائنات کے
لہجے کے اتار چڑھاؤ کو محسوس کیے جواب دیا۔
"ہوں ٹھیک ہے۔ اچھا حور! میں اب سوتی ہوں تم بھی آرام
کرو۔شب بخیر۔" اس نے کہتے ہوئے کال کاٹ دی۔
فون سائیڈ پر ڈالتے ہوئے وہ پوری طرح سے تصویر کی
جانب متوجہ ہو چکی تھی۔
"شاہزیب! میری محبت خاص ہے ،بہت ہی شفاف بلکل
میرے دل کے آئینے کی مانند جس میں محض آپ کا عکس
نظر آتا ہے۔" وہ پھر سے لیٹ چکی تھی۔
تصویر واال فریم واپس سے ٹیبل پر رکھتے ہوئے ہاتھ
تصویر پر پھیرا تھا۔
"نکاح نامے پر دستخط کرتے ہی یہ دل تمہارے نام پر
دھڑکنے لگا تھا اب کیسے میں رہوں گی تمہارے بغیر؟"
آنسو پھر سے اپنا راستہ تالش چکے تھے۔
" مگر وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔"
256
"چھوٹے گا نہیں کیونکہ وہ میری حفاظت کرنا چاہتا
ہے....وہ جب تابندہ سے شادی کر لے گا......ت تو میں.....
میری جانب پلٹ کر بھی نہیں دیکھے گا۔" اندر بیٹھے ڈر
کی آواز پر دل سہم سا گیا تھا۔
"نہیں کائنات! ایسا نہیں ہو گا۔"
"ایسا ہی ہو گا.....تم نے دیکھا نہیں تابندہ کے سامنے وہ
کس طرح مجھ سے بات کرتے ہیں ،اس کے متعلق کچھ
بھی غلط کہوں تو غصہ ہو جاتے ہیں اور.....اور کہتے ہیں
اس پر یقین ہے انہیں۔"
اس کے اندر وحشتیں بڑھتی جا رہی تھیں.....
****
شازار کیفے سے نکل رہا تھا اس کی نگاہ گاڑی پر پڑی۔
چار آدمی تھے جو گاڑی کے شیشے توڑ کر حور کو
گھسیٹتے ہوئے کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی کی جانب لے
جا رہے تھے.....حور پوری کوشش کر رہی تھی ان کے
چنگل سے آزاد ہونے کی ،تبھی اس نے گردن گھما کر
آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے شازار کی جانب دیکھا تھا۔
257
وہ تیزی سے ہوش میں آیا اور ہاتھ میں پکڑا کھانے کا
ٹرے قریب پڑی میز پر پٹختا تیزی سے آگے بڑھا۔
"اوئے رک......چھوڑو انہیں۔" وہ دور سے ہی چالیا تھا۔
جب تک وہ ان تک پہنچتا وہ ایک شخص نے حور کے منہ
پر چار پانچ تھپڑ رسید کیے اور گاڑی میں دھکیل دیا۔
یک بعد دیگر چاروں پانچوں ہٹے کٹے مرد گاڑی میں سوار
ہو گئے تھے۔
بےحد تیزی سے اپنی گاڑی کی جانب بڑھا تھا شازار کا
خون کھول اٹھا تھا۔
وہ ان لوگوں کا پیچھا کر رہا تھا۔
اور وہ لوگ رہائشی ایریا سے نکل کر ایک گنجان آباد ایریا
میں جیسے ہی داخل ہوئے تھے انہوں نے شازار کی گاڑی
پر فائرنگ شروع کر دی۔
گاڑی بلیٹ پروف تھی اور وہ مسلسل ایک جگہ وار کرنے
کی کوشش کر رہے تھے کہ شیشہ ٹوٹ جائے جبکہ شازار
مسلسل گاڑی دائیں بائیں کر رہا تھا کہ وار ایک جگہ نہ ہو
اسی دوران حور کا فون رنگ کیا تھا۔
ایک پھر دو....یک بعد دیگر کالز آتی گئیں۔
258
زچ ہو کر اس نے ہاتھ بڑھا کر بیگ میں سے فون نکاال
اور بنا دیکھے کال اٹینڈ کر لی۔
"اسالم علیکم! حور آپ ٹھیک ہیں؟" پروفیسر عوذر تھا۔
"نہیں وہ ٹھیک نہیں ہے پروفیسر.....کچھ لوگوں نے اسے
گڈنیپ کرنے کی کوشش کی ہے....میں ان کے ہی پیچھے
ہوں ....آپ پلیز پولیس کو فون کریں....میں گاڑی کا نمبر
نوٹ کرواتا ہوں۔" وہ تیزی سے بوال۔
"مجھے گھبراہٹ ہو رہی تھی الہام ہو رہا تھا کہ حور
مصیبت میں ہے۔" عوذر سوچتے ہوئے تیزی سے اٹھ
بیٹھا تھا۔
شازار نے گاڑی کا جو نمبر نوٹ کروایا وہ دیکھ کر ایک
لمحے کو تو عوذر گنگ رہ گیا تھا۔
"اپنے آدمیوں سے کہو حور کو ابھی کے ابھی چھوڑ
دیں....نہیں تو انجام کے زمہ دار تم خود ہو گے۔" کسی کو
کال کرتے ہوئے عوذر نے غصے سے کہا تھا۔
وہ شدید غصے سے کمرے کا دروازہ دھکیل کر اندر داخل
ہوا تھا۔
259
سربراہی کرسی پر بیٹھے شخص نے شراب کا پیال بھرتے
ہوئے اس کی جانب دیکھا اور مسکرا دیا۔
"ویلکم مسٹر سومرو! ویلکم.....اب طبیعت کیسی ہے
تمہاری؟ گھاؤ گہرا تو نہیں تھا؟" وہ مصنوعی فکرمندی
سے پوچھ رہا تھا۔
"یہ تم نے کیا نا؟ میں نے تم سے کہا تھا کہ حور سے دور
رہنا......مگر تم باز نہیں آئے۔" وہ شدید غصے سے چالیا۔
"نہیں میں نے کچھ نہیں کیا.....تم جانتے ہو اگر میں اس
پر حملہ کرواتا تو وہ بچ نہ پاتی۔"
"ایسا سوچنا بھی مت۔" کرختگی سے حکم جاری کرتے
ہوئے وہ مٹھیاں بھینچ گیا۔
"شاید تم ہمارا میشن بھول گئے ہو عوذر سومرو!" اس
شخص نے اسے کچھ یاد دالنا چاہا۔
"میں کچھ نہیں بھوال مگر شاید تم بھول گئے ہو جو حور
پر حملے کرنے لگے ہو.....ایک بات یاد رکھنا جبران
غفور! اگر تم نے حور کو ذرا سی کھروچ بھی پہنچائی تو
میں تمہیں اور تمہارے پالن کو تہس نہس کر کے رکھ دوں
گا۔" وہ اس کے گریبان تک پہنچا تھا۔
260
جبران کے سکیورٹی اہلکاروں نے اس پر گنز تن دی تھی۔
"ارے ارے کیا کر رہے ہو تم لوگ.....یہ میرا خاص آدمی
ہی نہیں بلکہ میرا دوست بھی ہے ،رکھو اپنے ہتھیار
واپس......اور تم عوذر! ذرا یہاں بیٹھو اور میری بات
سنو۔" جبران نے اسے اپنے قریب بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
"اسے یہاں تمہارے لیے الیا گیا ہے عوذر! .....اتنے دنوں
سے تم حوریہ رائے سے اپنے دل کی بات نہیں کر پا رہے
تھے شادی کے لیے خاک منا پاتے.....اب وہ یہاں ہی ہے،
اور ہمیشہ تمہاری رہے گی۔" جبران نے مسکراتے ہوئے
اس کا شانا تھپکا۔
"مگر دالور خان کا کیا؟"
"تم کب سے ڈرنے لگے اچھے لوگوں سے؟ اس کو دیکھ
لیں گے ہم.....تم انجوائے کرو۔ ہنی مون پیکج بتاؤ۔"
"ابھی نہیں شادی کے بعد ،تھینک یو یار!.....اب تم جتنے
بھی سکلپچر بنانے کو کہو گے میں دل سے بنا کر دوں
گا.....کیونکہ تم نے مجھے میری دنیا ال کر دے دی ہے۔"
261
وہ کچھ دیر پہلے واال غصہ بھول بھال کر چہکتے ہوئے
کہہ کر جبران کے گلے لگ گیا تھا۔جبران کے ہونٹوں پر
شاطرانہ مسکراہٹ بکھر گئی تھی۔
"پر......اگر دالور خان کو معلوم ہو گیا کہ حور میرے پاس
ہے تو؟"
"اسے کیسے پتہ لگے گا؟ بلکل بھی نہیں لگے لگا کیونکہ
اس کا بھائی بھی ہمارے قبضے میں ہے ،باقی تم باہر جب
نکلو تو خود کو کول رکھنا ،ہو سکتا ہے وہ لوگ تم سے
بھی پوچھ گچھ کریں۔ یہ دالور خان بہت شاطر بندہ ہے تو
شاہزیب خان اس سے بھی دو قدم آگے ہے۔" جبران غفور
نے جبڑے بھینچتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے۔" وہ اٹھ کر دائیں جانب والی سیڑھیاں چڑھنے
لگا۔
"ویسے تم نے حور پر حملہ کیوں کروایا؟" وہ رک کر
اس کی جانب پلٹا۔
"مجھے لگا کہ اس گاڑی میں شازار خان ہے ،اسی لیے
میں نے اپنے آدمیوں سے کہا تھا کہ گاڑی میں جو کوئی
262
بھی ہو اسے ختم کر دینا ،بس غلط فہمی میں سب ہو گیا۔"
اس نے کمال مہارت سے جھوٹ بوال تھا۔
عوذر اسے جانچتی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سیڑھیاں
چڑھ گیا۔
"تمہارے کمرے میں ہی ہم نے حور ال کر رکھی ہے۔دیکھ
لو اپنے بھائی کے کمال دنیا میں ہی تمہیں ایک عدد حور
دستیاب کر دی گئی ہے۔" جبران نے بلند آواز میں اسے
چھیڑا تھا وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
"گھر پر تو الک لگا ہے ".....شاہزیب نے دروازہ چیک
کرتے ہوئے کہا۔
"کال بھی دونوں نہیں اٹھا رہے۔" دالور خان بھی فکرمند
لہجے میں کہتے ہوئے شیشے کی کھڑکی سے اندر
جھانکنے کی کوشش کرنے لگا جس کے سامنے پردہ تھا۔
"مجھے شازار نے بتایا تھا کہ حور کے پروفیسر پر کچھ
حملہ وغیرہ ہوا ہے .....ہسپتال چل کر پتہ کرتے ہیں۔" وہ
لوگ تیزی سے پلٹ کر گاڑی کی جانب بڑھے تھے۔
263
"میرا دل کہہ رہا ہے وہ دونوں مصیبت میں ہیں .....ہمیں
کہیں اور جانا ہےابھی۔" دالور نے تیزی سے پلٹتے ہوئے
کہا۔
"نہیں دالور خان !......ابھی ہم جبران تک نہیں پہنچ
سکتے.....پتہ نہیں وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔"
"جب پتہ نہیں ہے تو پتہ لگانا پڑے گا۔ میں جا رہا ہوں۔"
"بیوقوفی مت کرو۔" شاہزیب نے اسے بازو سے تھام کر
پیچھے کھینچا تھا۔
"ہم اس کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ وہ ہمارے پاس آئے
گا۔ کچھ ایسا پالن سوچو کہ وہ ہمارے آمنے سامنے
آئے.....یعنی تمہارے آمنے سامنے.....اپنی پوری فوج کے
ساتھ.....پھر اس کی غیر موجودگی میں اس کے اڈے پر
چھاپہ میں ماروں گا۔"شاہزیب نے رازداری سے اس کے
کان میں کہا تھا۔
چند پل دالور خان ساکت کھڑا رہا پھر سر اثبات میں ہالتے
ہوئے گاڑی کی جانب بڑھا۔
شاہزیب نے بےاختیار ہی اطمینان بھری سانس لی تھی....
"ویسے ہم جا کہاں رہے ہیں؟"
264
"پیرس سٹی۔ سٹیفن ہارپر کے پاس .....وہ یہاں کا جانا مانا
ڈون ہے.....جبران غفور جیسے چھوٹے موٹے غنڈے اس
کے سامنے پانی بھرتے ہیں۔" اس نے گاڑی میں
ڈرائیونگ سیٹ سنبھالتے ہوئے کہا۔
"ہوں ،میرا رابطہ یہاں کی کوپس سے ہو چکا ہے ،ان کا
سنیئر آفیسر مجھ سے پرسنلی ملنا چاہتا ہے۔" اس نے
اپنے فون پر میپ آن کرتے ہوئے کہا۔
"نیکسٹ ٹاؤن کا بالک نمبر فور میری منزل ہے.....ہم
دونوں ٹچ میں رہیں گے......تم اللیگل طریقے سے کام کرو
میں لیگل طریقے سے کام کروں گا۔" اس نے کہا تو دالور
خان اثبات میں سر ہالتے ہوئے مسکرا دیا۔
"طریقہ بےشک الگ ہو گا مگر ہماری منزل ایک ہے۔"
اس نے کہتے ہوئے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔
وہ کمرے میں داخل ہوا تو حور نے چونک کر اس کی جانب
دیکھا تھا۔
اس سے زیادہ چونکا عوذر تھا اس کے چہرے پر رقم زخم
دیکھ کر۔
265
"ایم سوری حور! تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟ میں ان کو
نہیں چھوڑوں گا۔"
وہ اس کی جانب بڑھتے ہوئے بوال۔
"تم انسان نہیں ہو ....مجھے لگا تھا کہ واقع ہی تم سدھر
گئے ہو مگر نہیں.....کتے کی دم کبھی سیدھی نہیں ہوتی۔"
وہ اس کے منہ پر زور کا تمانچہ رسید کرتے ہوئے چالئی
تھی۔
"میں تم سے محبت کرتا ہوں حور! جبران بھائی تو ہمیں
ملوانا چاہتے ہیں بس۔"
"میں النت بھیجتی ہوں تم پر اور تمہاری محبت پر......اور
اس اپنے جبران سے کہ دو مجھے جانے دے نہیں تو جہاں
اسے محض شاہزیب نے پیٹنا ہے مفت میں دالور خان سے
بھی پٹ جائے گا۔" وہ گردن اکڑا کر اچٹتی سی نظر اس پر
ڈالتے ہوئے بولی۔
"فلمی ڈائیالگز بولنے بند کرو اور اب تم کہیں نہیں جا رہی،
جبران دالور خان سے طالق نامے پر دستخط کروا لے گا
اور پھر ہماری شادی ہو جائے گی۔" وہ ہنستے ہوئے بوال
تھا۔
266
"آخری دم تک ایسا نہیں ہو گا عوذر سومرو! یا تم جو بھی
ہو.......میں آج بھی دالور خان کی وائف ہوں اور آنے والے
وقت میں بھی مسز سردار دالور خان ہی رہوں گی ،نہیں
رہو گے تو تم آزاد نہیں رہو گے۔" وہ نخوت سے سر
جھٹکتے ہوئے بولی تھی۔
"ایک بات کان کھول کر سن لو حور! میں تم سے بےپناہ
محبت کرتا ہوں ،یاد ہے جب ہم پہلی مرتبہ ملے تھے اور
کیسے تم نے مجھے بیوقوف بنایا تھا مگر اب نہیں ،اس
بار نہیں۔ اس بار تم عوذر سومرو کی ہو کر رہو گی جس
نے تمہاری خاطر اپنے جاں سے عزیز دوست کجلے تک
کو مار دیا کہ تم اس سے ڈرتی تھی۔" وہ غصے سے
پھنکارتا کرسی کو ٹھوکر مارتے ہوئے کمرے سے نکل
گیا۔
حور جو مصنوعی مضبوطی کا مظاہرہ کر رہی تھی ٹوٹ کر
زمین پر بکھرتی چلی گئی۔
اسے نہیں معلوم تھا کہ وہ کہاں ہے ،اور کب تک رہے گی؟
مگر اسے یقین تھا کہ ہللا ہمیشہ کی طرح اسے اس مصیبت
سے ضرور نکال دے گا....یہ سوچتے ہوئے کتنے آنسو
ٹوٹ کر رخساروں پر بکھرے تھے۔
267
"کائنات!....شاہزیب کی کال آئی تھی.....وہ کہہ رہا ہے کہ
جب تک میں نہ کہوں تم لوگ باہر نہیں جاؤ گی۔اسی لیے ہم
گھر رہ کر ہی ایگزامز کی تیاری کر لیں گے۔" تابندہ نے
کمرے میں داخل ہوتے کہا تھا۔
اس کے بالوں میں برش چالتے ہاتھ ساکت ہو گئے تھے....
وہ تیزی سے فون کی جانب لپکتے ہوئے بولی۔
"مجھے تو کوئی کال نہیں آئی ان کی؟" آن کرتے ہی
خاموش فون اس کا منہ چڑھا رہا تھا۔
تابندہ پلٹ کر جا چکی تھی۔
"کل سے آپ کو مجھ سے بات کرنے کا ٹائم نہیں مال اب
سمجھی وہ ٹائم کدھر جا رہا تھا۔" آنکھوں میں پھر سے
نمی تیرنے لگی تھی۔دل بوجھل سا ہو گیا۔
"میں بھی اب باہر جاؤں گی۔جب آپ کو صرف تابندہ کی
فکر ہے تو میں بھی اپنی فکر نہیں کروں گی۔" وہ سوچتے
ہوئے اٹھی تھی ،شیشے کے سامنے رکتے ہوئے آنسو
پونچھے اور اپنی کتابیں بیگ میں ڈالنے لگی۔
"کیا مجھے یہاں سے چلے جانا چاہیے؟" اس کے ہاتھ
ایک دم سے ساکت ہو گئے تھے۔
268
"اس گھر کو میں نے محبت سے سجایا ہے میں کیسے
چھوڑ کر جا سکتی ہوں۔" دل کرچی کرچی بکھر گیا تھا۔
"اور شاہزیب .....ان کے بنا تو جنا آتا ہی نہیں۔ بچپن سے
اس کی انگلی تھام کر چلی ہوں۔" بیگ صوفے پر اچھال کر
وہ تیزی سے دروازے کی سمت بڑھی۔
کنڈی چڑھا کر وہ واپس پلٹی تھی اور بیڈ پر اوندھے منہ
گرتے ہوئے پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اسے جس جگہ رکھا گیا تھا مکمل اندھیرا تھا ،ہوش آنے
پر خود کو رسیوں میں جکڑے محسوس کیا تھا۔
اسے یاد آیا کہ وہ حور کے پیچھے تھا۔
اچانک انہوں نے گاڑی روکی اور حور کو اٹھا کر باہر
اچھال دیا تھا۔
وہ اپنی گاڑی میں سے نکل کر بھاگتے ہوئے حور تک
پہنچا اور اسے اٹھا کر واپس پلٹ ہی رہا تھا کہ انہوں نے
اس کی پیٹھ پر لوہے کے راڈ سے وار کیا ،بےہوش ہونے
سے پہلے اس نے اپنی گرفت میں سے حور کو لے جاتے
ہوئے ان لوگوں کو دیکھا تھا۔
269
"بھابھی....!.....کہاں ہیں آپ؟" اس نے اندھیرے میں
آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھنا چاہا مگر کچھ دکھائی
نہیں دیا۔
"وہ یہاں ہیں یا نہیں؟" اس نے دو تین مرتبہ اسے پکارا
تھا مگر کوئی جواب نہ موصول ہونے پر اندازہ ہو گیا کہ
حوریہ وہاں نہیں ہے۔
"پتہ نہیں ہمارے مسنگ ہونے کے بارے میں الال لوگوں
کو معلوم ہوا ہو گا کہ نہیں؟" وہ اپنے ہاتھوں کو کھولنے
کی کوشش کرتے ہوئے سوچ رہا تھا۔
دوسری جانب دالور خان سٹیفن کے پاس بیٹھا تھا۔
"یہاں ایک جبران نامی شخص ہے جو کہ غنڈہ یا ڈان
ہے....کچھ غیر قانونی سر گرمیوں میں انوالو ہے کیا تم
اسے جانتے ہو؟"
"جے بی کوئی غنڈہ یا.....ڈون نہیں ہے۔ وہ کڈنی ،دل اور
دوسرے انسان اعضاء کا ریکٹ چال رہا ہے۔" سٹیفن کی
بات دوسری جانب بیٹھا شاہزیب بھی سن رہا تھا۔
"اس سے پوچھو اسے یہ سب کیسے معلوم؟" شاہزیب نے
تیزی سے استفسار کیا۔
270
"یہ سب تم کیسے جانتے ہو؟ کیا کبھی اس سے ملے
ہو؟"
"میرا ایک آدمی اس نے اپنی گینگ میں شامل کیا تھا ،مگر
کام ٹھیک نہ کرنے پر وہ چمڑے کے بیلٹ سے پیٹتا تھا
میرے مالزم کو ،تبھی وہ وہاں سے بھاگ آیا مجھے اس
نے ایک یو ایس بی دی تھی جس میں اس کے خالف ثبوت
ہیں.....مگر اگلے ہی دن جے بی نے اسے مار ڈاال۔"
"تمہارے پاس اس کے خالف ثبوت تھے مگر تم نے ایک
ایسے شخص کے خالف آواز نہیں اٹھائی جو تمہارے
میرے نجانے کتنے ملکوں کو تباہ کر رہا ہے۔" دالور خان
غصے سے الل پیال ہو رہا تھا۔
"اس کے پاس میری بیوی بچے ہیں ،وہ مجھے بلیک میل
کرتا تھا....میں نے اسے ثبوت لوٹا دیا تھا مگر ایک کاپی
میرے پاس بھی ہے۔" سٹیفن کہتے ہوئے اٹھ کر اپنے
کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
ٹھیک دو منٹ بعد سٹیفن کی چنخوں کی آواز سنائی دی
تھی۔
271
وہ اور سٹیفن کے آدمی بھاگ کر کمرے کی جانب بڑھے
تھے۔
سامنے ہی خون میں لے لت پت سٹیفن زمین پر تڑپتا پڑا
ہوا تھا۔
"سٹیفن !....کس نے کیا یہ؟" وہ اس کے پاس گھٹنوں کے
بل بیٹھتے ہوئے فکرمندی سے بوال۔
"ج جے بی ".....اس کے گلے سے خون بہہ رہا تھا۔
وہ آخری سانسیں لے رہا تھا۔
"ثبوت کہاں ہے سٹیفن!" دالور خان نے تیزی سے
ایمبولینس کو کال کرتے ہوئے فون اس کے ایک آدمی کی
جانب بڑھا دیا تھا۔
سٹیفن نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا تھا اور
دوسرے ہی پل وہ موت کی آغوش میں جا سویا۔
"سٹیفن اس نو موور .....اتنا نزدیک پہنچ گیا تھا میں مگر
کچھ حاصل نہیں ہوا....وہ جبران ہمارے یہاں آنے سے آگاہ
تھا۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
"سٹیفن نے تمہیں کچھ نہیں دیا؟" شاہزیب نے استفسار
کیا۔
272
"نہیں۔ وہ ثبوت لینے آیا تھا مگر ".....کہتے کہتے اس کی
نگاہ سٹیفن کے اس ہاتھ پر پڑی جو اس نے دالور خان کے
ہاتھ میں دیا تھا....جو انگوٹھی اس کے ہاتھ کی درمیان
والی انگلی میں تھی ہال سے اٹھنے تک نہیں تھی۔
"یعنی....اس انگوٹھی میں؟" سوچتے ہوئے وہ ایک قدم
سٹیفن کی جانب بڑھا مگر تبھی اسے کچھ غلط ہونے کا
احساس ہوا.....اس نے چونک کر سٹیفن کے آدمیوں کو
دیکھا جو اسے کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھ رہے
تھے۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ سب جبران کے ہاتھوں بک چکے
ہیں۔
"ہاں کوئی ثبوت نہیں مال یار......وہ جبران بہت شاطر بندہ
ہے بڑی صفائی سے سٹیفن کو ختم کر دیا۔" وہ پھر سے
اسی ٹون میں بولنے لگا تھا۔
جھک کر سٹیفن کے ہاتھ کو تھامتے ہوئے وہ اس میں
سے انگوٹھی نکال چکا تھا۔
"مر گیا ہے سٹیفن! نہیں یار بلکل بھی امید نہیں بچی۔"
273
"کیا کہہ رہے ہو تم؟" شاہزیب کو اس کے بےربط بات
سمجھ نہیں آئی تھی۔
"دیکھو یار سٹیفن میرا بہت اچھا دوست تھا.....اس کا
صدمہ کچھ کم نہیں ہے۔" وہ کہتے ہوئے رفتہ رفتہ چلتا
کمرے سے نکل گیا۔
وہ دس بارہ آدمی بھی اس کے پیچھے ہی آئے تھے۔
"یہاں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ،سٹیفن کے آدمیوں کو
جبران نے خرید لیا ہوا ہے......اور وہ مجھ پر حملہ کرنے
کے متعلق سوچ رہے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ اسے کیسے
معلوم ہوا کہ ہم آ رہے ہیں؟" وہ کچھ فاصلے پر جاتے
ہوئے دھیمی آواز میں بوال تھا۔
"میں نے وہاں کسی کو نہیں بتایا"......
"ہاں بس میں آج تو یہاں ہی رکوں گا جب تک سٹیفن کو
دفنا نہیں دیا جاتا۔" وہ تیزی سے بوال تھا کہ آدمی سر پر
پہنچ چکے تھے۔
"ٹھیک ہے۔اپنا خیال رکھنا ....ریوالور ہے نا؟" شاہزیب
اس کے لیے پریشان ہو گیا تھا۔
274
"وہ تو آتے ہی انہوں نے لے لیا تھا ".....دالور خان نے
سرگوشی میں کہا تھا۔
"میں ٹھیک ہی کہتا ہوں کہ تمہیں دیکھتے ہوئے لطیفے
لکھے جاتے ہیں۔ بیوقوف انسان.....اپنا ہتھیار ایسی
جگہوں پر نہیں ڈالتے۔" اس کا دماغ گھوم گیا تھا غصے
سے کہتے ہوئے وہ دالور خان کو ہنسنے پر مجبور کر گیا۔
ّٰللا حافظ۔" اس نے کہہ کر کال کٹ کر کے
"چل ٹھیک ہے ہ
کان میں سے ائیر برڈ نکالے۔
"تم لوگ ایسا کرو....ان کے جاننے والوں کو بتا دو اور جو
بھی تمہاری مرگ کی رسمیں ہیں ان کی تیاری کرو۔" وہ
ہنوز نارمل انداز میں پیش آ رہا تھا۔
وہ سب بھی ابھی جبران کے اشارے کا انتظار کر رہے
تھے تبھی سر اثبات میں ہالتے ایک جانب بڑھ گئے۔
دالور خان نے بہت کوشش کی فرار کی مگر ہر جگہ اس
کے لیے پہرا لگا ہو ا تھا۔
وہ کچھ سوچتے ہوئے سر ہال کر سیڑھیاں چڑھنے لگا۔
"حور! یہ دیکھو میں تمہارے لیے کیا الیا ہوں .....لڑکیوں
کو چاکلیٹ پسند ہوتی ہے نا۔" عوذر نے ایک بڑی سی
275
ٹوکری جس بھی ڈھیر ساری چاکلیٹس پیک تھیں اس کی
جانب بڑھائی تھی۔
ایک لمحہ وہ عوذر کو گھورتی رہی پھر ہاتھ مار کر ٹوکری
پرے اچھال دی۔
"بیشک لڑکیوں کو چاکلیٹ پسند ہے مگر اس کی بھی
پسندیدہ مرد سے مانگ کرتی ہیں اور تم مجھے ذرا بھی
پسند نہیں ہو۔" وہ حقارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے
اس سے رخ پھیر گئی تھی۔
عوذر جبڑے بھینچتے ہوئے اس کی جانب بڑھا تھا۔
"میں اگر چاہوں تو ابھی ہر حد پار کرتے ہوئے تمہیں
پوری طرح سے اپنی بنا سکتا ہوں۔" اسے شانوں سے
تھام کر پیچھے دیوار سے لگاتے ہوئے وہ غصے سے
غرایا۔ اس کی بےباکی ہر حور اندر سے تو سہم گئی تھی
مگر باظاہر وہ غصے میں اس کو خود سے دور کرنے کی
کوشش کر رہی تھی۔
"مگر میں ایسا نہیں کروں گا ....کیونکہ تم میری محبت
ہو....کوئی عام لڑکی نہیں کہ عوذر سومرو کی حیوانیت کا
276
نشانہ بن کر تباہ ہو جاؤ۔" وہ ایک دم سے سرگوشی میں
کہتے کہتے زور سے ہنسا تھا۔
حور کو اس کا یہ روپ سعی معنوں میں ڈرا گیا تھا مگر وہ
اس پر ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی کہ وہ ڈر رہی ہے۔
"چھوڑو مجھے جنگلی انسان.....اپنے گندے ہاتھ مت لگاؤ
مجھے۔" اس نے زور کا مکا عوذر کے زخمی بازو پر
رسید کیا تھا وہ کراہتے ہوئے اس کے قدموں میں ہی زمین
بوس ہو گیا۔
حور خوف زدہ سی اس کے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھتی
ہوئی آگے بڑھ گئی تھی۔
کمرے کا دروازہ کھول کر وہ ابھی نکلتی کہ سامنے سے
کسی نے آ کر اس کا راستہ روک دیا۔
اس شخص کو وہ پہلے سے جانتی تھی....ہاں یہ وہ تھا جو
جہاز میں اس سے ٹکرایا تھا۔
"پہنچانا؟....میں جبران غفور.....وہ جہاز واال؟" وہ اس کی
جانب سر جھکاتے ہوئے سرگوشی میں بوال تھا۔
حور کے چہرے کا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا تھا۔
277
وہ دو قدم پیچھے ہٹی.....پلٹ کر دیکھا تو عوذر اسے
غصے سے گھور رہا تھا۔
وہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔
"عوذر نے تم تک پہنچنے کے لیے میرے ہاتھوں تمہیں
ہرٹ کروایا۔" وہ سرگوشی میں کہتے ہوئے اس کی جانب
بڑھ رہا تھا۔
"جبران! اسے چھوڑ دو۔" عوذر نے اٹھنے کی کوشش
کرتے ہوئے تیزی سے کہا تھا۔
"اوہ کم آن یار......یاد کرو میں نے بھی تو اپنی گرلفرینڈ
شیئر کی تھی تمہارے ساتھ ،جب تم اس کے غم میں چور
چور تھے....بھول گئے کیا وہ جنگل میں گزاری راتیں؟"
جبران نے خباثت سے کہتے ہوئے حور کو اپنی جانب
کھینچا تھا....حور کے حلق سے ایک دم ہولناک چنخ بلند
ہوئی تھی۔
"وہ ایک الگ بات تھی جبران! حور کو چھوڑ دو".....
عوذر اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے
دانتوں پر دانت جمائے گویا ہوا۔
278
جبران نے اپنا منہ حور کے بالوں کے نزدیک کیا تھا عوذر
کا ضبط جواب دے گیا۔
"ہوش کرو جبران! وہ میری ہونے والی بیوی ہے۔" پوری
قوت لگا کر حور کو اس کی گرفت سے چھڑواتے ہوئے
پرے دھکیل کر جبران پر چالیا تھا۔
یک بعد دیگر تمانچے جبران کے منہ پر رسید کیے تھے
بدلے میں اس نے عوذر پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا۔
اس نے پلٹ کر حور کو دیکھا جو اس کے دھکیلنے پر
سیدھی دیوار سے ٹکرا کر بےہوش ہو چکی تھی۔
"ایم سوری عوذر! م میں اسے دیکھ کر اپنے ہوش کھو
بیٹھا تھا۔" جبران نے ندامت سے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
"اسی لیے تم اسے یہاں سے لے کر کہیں بہت دور چلے
جاؤ پلیز۔یہ گھر مردوں سے بھرا ہوا ہے اتنا حسن دیکھ کر
کسی کا ایمان بھی ڈگمگا سکتا ہے۔" جبران شرمندگی سے
کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھنے لگا۔
"ٹ ٹھیک ہے......میں اسے لے کر جا رہا ہوں۔" عوذر
نے کہتے ہوئے آگے بڑھ کر حور کو اپنے شانے پر لٹکایا
اور کمرے سے نکل گیا۔
279
اگر پیچھے پلٹ کر دیکھ لیتا تو شاید جبران کی شاطرانہ
مسکراہٹ وک دیکھ کر سب سمجھ جاتا۔
"ایک دفعہ دالور خان کو ختم کر لوں پھر تمہاری باری
عوذر! .....کیونکہ عورت کا معاملہ ہے میرے دوست وہ
بھی اس عورت کا جس پر میرا دل آ گیا۔"
وہ دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ہنس دیا تھا۔
"دالور خان سوچ رہا ہو گا کہ میں اس کے یہاں آنے سے
کیسے واقف ہوں۔" وہ زور زور سے ہنستے ہوئے ایک
جانب بیٹھ گیا تھا۔
"عوذر تم کتنے بڑے بیوقوف ہو....حور کے ہر لباس پر
بگ تم لگاتے تھے سنتا اسے میں تھا ،اب دیکھو نا اگر
دالور خان مجھ سے بچ گیا تو وہ تمہیں مار دے گا اور تم
دالور خان کو مار دو گے پھر حور تو میری ہو جائے گی
نا۔" سوچتے ہوئے وہ ہنسا تھا۔
******
میں ہوں جبران غفور......بچپن سے ہی جو چیز بھی طلب
کی بنا ضد کے مل جایا کرتی تھی۔
280
جوانی میں قدم رکھا تب بھی ڈیڈی ہر خواہش کو پورا کر
دیتے تھے۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا میں بگڑتا چال گیا......مجھے
اپنی پروفیسر اچھی لگتی تھی میں اسے حاصل کر لیا ،مگر
میرے اپنے ہی والد نے مجھے باغی قرار دیتے ہوئے جیل
بھیج دیا۔
اس دن ہی میں نے سوچ لیا ڈیڈی کو چھوڑ دوں گا۔
سات سال جیل سے رہائی کے بعد میں سدھر گیا تھا سوچا
کہ اچھی جاب کروں گا اور سیٹل ہو جاؤں گا۔
مگر جہاں بھی انٹرویو دینے جاتا لوگ میرے گریڈز کو
دیکھتے ہوئے میری سی وی اٹھا کر ڈسٹبین میں اچھال
دیتے ،دوست مجھے بدکردار کہتے تھے ،ڈیڈی مجھے
عیاش کہتے تھے اور ٹکڑوں پر پلنے واال کتا......
مگر میں نے ہمت نہیں ہاری اور پولیس فورس جوائن
کرنے کا فیصلہ کیا مگر ٹانگ ،بازو ،دائیں پسلی کے
فیکچر جو اس شازار خان کی وجہ سے ہوئے تھے
جس .....جس نے مجھے ٹرمنل پر سب کے سامنے مارا
تھا میری پروفیسر کو چھیڑنے پر.....اس کی وجہ سے میں
281
فزیکل ٹیسٹ پاس نہ کر پایا ڈیڈی نے بھی میری ہلپ نہ کی
اور کہا اپنے بل بوتے پر کام کروں۔
مجھے ہر ایک پاکستانی سے نفرت ہو چکی تھی اور میں
نے سوچ لیا کہ اب میں پورے پاکستان کو تباہ و برباد کر
دوں گا۔
میں امریکہ چال گیا مگر وہاں بھی مجھے ریجکشن ،ناکارہ
ہی کہا جانے لگا.....ہر جگہ.....ہر جگہ مجھے.....مجھے
ڈی گریٹ کیا گیا ،کہیں مارکس کم کی وجہ سے تو کہیں
بداخالقی تو کہیں غصے کی وجہ سے......کہیں لنگڑا کر
چلنے کی وجہ سے مذاق اڑایا جانے لگا۔
ان ہی دنوں میں پاکستان گیا تھا مری میں چکر لگا میرا
دشمن شازار خان میرے ہاتھوں مرنے ہی واال تھا کہ تبھی
وہ دکھائی دی........جنت سے آئی پری تھی وہ ،حسن کی
ملکہ.......میں اپنا آپ بھال کر اس کی جانب بڑھا تھا مگر
اس نے بھی میرا دل توڑ دیا۔
میں نے سوچ لیا کہ جو بھی کرے مگر میں اسے حاصل کر
لوں گا۔
282
کئی مرتبہ اسے اٹھوانے کی کوشش کی مگر وہ
دالور.....ہر مرتبہ میرے راستے میں حائل ہو جاتا تھا ،ہر
مرتبہ اس کے ایک اشارے پر اس کے آدمی میرے آدمیوں
کو مار گراتے تھے۔
283
الئٹ آف کرتے ہوئے وہ ہاتھوں کو ایس طرح پیچھلے کر
کے بیٹھ گیا جس طرح اسے باندھا گیا تھا۔
ایک عدد شخص اندر داخل ہوا تھا۔ اسے جانچتی نگاہوں
سے دیکھتے ہوئے مطمئن ہو کر جیسے ہی پلٹا شازار
کرسی اٹھا کر اس کی جانب بڑھا۔
وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹا تھا۔
"معاف کرنا دوست ہماری عادت نہیں ہے کہ پیٹھ پر وار
کرنے کی۔" زور سے کرسی اس کے سر پر دے مارتے
ہوئے وہ تیز لہجے میں بوال۔
پھر اسے اندر کھینچ کر دروازہ مقفل کیا اور اس کے کپڑے
خود زیب تن کرتے ہوئے اس کے شانوں پر لگے جبران
کے دیئے بیج کو اتارتے ہوئے اپنے شانوں پر لگا کر
کمرے میں سے نکل گیا۔
"ہمیں جلد ہی ایکشن لینا ہو گا ،مجھے اپنی ٹیم سے رابطہ
کرنا ہے اس بارے میں۔"
"آپ سمجھنے کی کوشش کریں مسٹر چارلی.....وہ کوئی
عام مجرم نہیں.....پتہ نہیں اس کا یونٹ کتنا بڑا ہے....کون
کون ہیں جو اس کے ساتھ ملے ہوئے ہوں گے ،آپ ایک
284
سمجھدار آفیسر ہیں .....اور جانتے ہیں کہ ان جیسے
لوگوں کا کوئی دین ایمان نہیں ہوتا۔" شاہزیب نے اسے
سمجھداری سے سمجھایا تھا۔
اتنے میں دالور خان کی کال موصول ہوئی تھی۔
"ہاں سردار؟ کچھ معلوم ہوا کہ انگوٹھی کیسی تھی؟"
"اس میں ایک الکر کا کوڈ تھا۔ثبوت اس وقت میرے پاس
ہیں تم لوگ ریڈی ہو جاؤ۔" دالور خان نے مسکراتے ہوئے
کہا۔
"مگر نکلے کیسے وہاں سے؟" شاہزیب نے اس کی
مسکراہٹ بھانپتے ہوئے سوال کیا تھا۔
"سلطان فلم میں جس طرح سلمان خان پتنگ کے پیچھے
بھاگا تھا......اسی طرح ہی نکال۔" وہ پیشانی پر بکھرے
بالوں کو سمیٹتے ہوئے ٹائی کی نٹ ڈھیلی کر رہا تھا۔
"تم ایسا کرو وہاں ہی رکو ہم لوگ نکل رہے ہیں۔ نہیں میں
آ جاتا ہوں لوکیشن بتاؤ۔" اس نے تیزی سے کہا۔
"جہاں ڈراپ کیا تھا ابھی وہاں ہی ہوں۔" شاہزیب نے اثبات
میں سر ہالتے ہوئے کہا تو وہ کال کٹ کرتا ایک نگاہ اپنے
ہاتھ میں تھامی یو ایس بی کو دیکھا اور پلٹ کر الکر میں
285
ایک عدد چاکلیٹ رکھتے ہوئے وہ شرارت بھرے انداز میں
مسکرایا تھا۔
"دالور آ رہا ہے۔اسے کوئی یو ایس بی ملی ہے۔" شاہزیب
نے بتایا تو چارلی ایک دم سے خوشی سے اچھل پڑا تھا۔
اس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
مگر دوسرے ہی پل اس نے جب شاہزیب پر گن تان دی تو
وہ ایک دم سے حیران رہ گیا۔
"یہ تم کیا کر رہے ہو چارلی؟" وہ سختی سے استفسار
کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔
"میں صرف پولیس آفیسر نہیں ہوں....میں پہلے جبران کا
خاص شاگرد اور تمہارے ملک کا دشمن ہوں۔ مسلمانوں کا
خاتمہ میرا مشن ہے۔"
وہ جو بول رہا تھا شاہزیب اچھے سے سمجھ گیا تھا کہ یہ
بھی ٹیررزم میں شامل ہے۔
"مسلمانوں کا خاتمہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے مسٹر
چارلی!" اس نے کہتے ہوئے اپنی کوٹ کی اندرونی جانب
کی زپ کھولی اور پھرتی سے ایک عدد ریوالور برآمد کیا۔
286
"اس وقت تم نے جو بھی کہا وہ میرے فون میں ریکارڈ ہو
چکا ہے۔" شاہزیب نے وائز سیو کرتے ہوئے پلے کی تھی۔
چارلی اس پر جھپٹا۔
"نہ نہ....یہ میرے بھائیوں کو فارورڈ ہو چکی ہے۔ یہاں
سے تو ڈیلیٹ ہو جائے گی مگر ادھر سے اپلوڈ ہونے میں
وقت نہیں لگے گا اسی لیے ڈراپ یور ریوالور۔" اس نے
رسانت سے کہتے ہوئے اپنے گلے میں سے ٹائی اتاری
تھی۔
آگے بڑھ کر چارلی کے ہاتھ باندھے اور پھر کلوروفارم
میں رومال تر کرتے ہوئے اس کی جانب بڑھا۔
"ہم پاکستانی بیوقوف نہیں ہوتے ،خاص طور پر ہماری
کوپس تم لوگوں سے زیادہ شارپ مائنڈڈ ہے۔اور سوری فار
دیٹ مگر تم اسی کے قابل ہو۔" اس کے منہ پر رومال
پھینک کر وہ پلٹ گیا تھا۔
"تم فرانس آرام سے جاؤ ،میں سارا کام ختم کر کے
تمہارے پاس آؤں گا عوذر اور تمہیں مار کر اپنی حور کو
ہمیشہ کے لیے تم سب سے بچا لوں گی۔"
287
شازار جو بہت احتیاط سے ہر کمرے میں تاک جھانک کر
رہا تھا جیسے ہی اس کمرے کی کھڑکی سے اندر جھانکا
جبران خود سے باتیں کرتا دکھائی دیا۔
"عوذر ......بھابھی کو لے کر فرانس کیوں گیا؟ کیا وہ
جبران کا آدمی ہے؟" وہ سوچتے ہوئے جبڑے بھینچے
بہت احتیاط سے کھڑکی میں سے اندر کود گیا تھا۔
"کوئی ہوشیاری مت کرنا۔" شازار نے بیلٹ میں لٹکتے
ریوالور کو نکالتے ہوئے گھوڑا چڑھا کر جبران کی کن پٹی
پر رکھ دیا تھا۔
جبران کی سانسیں اٹک گئی تھیں۔
"تم کیا کر رہے ہو مجھے نہیں معلوم.....مگر جو بھی غیر
سرکاری سرگرمیاں ہیں ساری روک دو۔"
"تم مجھے دھمکا نہیں سکتے......کیونکہ تمہاری پیاری
بھابھی میرے قبضے میں ہے۔" جبران نے اطمینان سے
کہا۔
شازار نے اس کی بات پر غور کیے بنا ہی تیزی سے اس
کی شرٹ اتاری تھی۔
288
"کوئی ہوشیاری نہیں وگرنہ تمہاری کھوپڑی اڑ جائے
گی۔" وہ شرٹ کو دو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرتے ہوئے
بوال۔
"دیکھو تمہیں مجھے پکڑ کر کوئی فایدہ نہیں ہو گا.....میں
تو کچھ بھی نہیں جانتا اس سب کے پیچھے عوذر
ہے......عوذر سومرو یہ سب کروا رہا ہے۔" وہ ایک دم
سے رونے والی شکل بناتے ہوئے بوال۔
"مجھے بیوقوف سمجھا ہے کیا؟ چپ چاپ بیٹھو۔" اس
کے ہاتھ پیچھے باندھتے ہوئے وہ غرایا۔
"میرا یقین کرو.....عوذر سومرو ہی ہے اس سب کے
پیچھے.....میں تو بس اس کا غالم ہوں۔" وہ پریقین انداز
میں کہہ رہا تھا۔
"ابھی جو میں نے سنا تم دالور الال اور عوذر کو مارنے
کی جو بات کر رہے تھے؟" وہ اس کی آنکھوں میں
دیکھتے ہوئے بوال۔
"ہاں یہ سچ ہے کہ میں حوریہ کو حاصل کرنا چاہتا ہوں،
مگر یہ سچ نہیں کہ جو بھی یہاں ہو رہا ہے اس میں میرا
ہاتھ ہے۔"
289
"کیا ہو رہا ہے یہاں اور پاکستان؟" شازار نے اپنا داؤ
کھیال۔
"عوذر سومرو کو پتہ ہے ماں قسم مجھے کچھ نہیں پتہ۔
پلیز مجھے اس سے بچا لو۔" وہ کہتے کہتے رونے لگا
تھا۔
شازار چند پل اسے دیکھتا رہا پھر قریب پڑی میز کو ٹھوکر
مارتے ہوئے جبڑے بھینچے گہری سانس بھر کر خود کو
شانت کیا۔
"عوذر کہاں گیا ہے؟"
"وہ اس وقت بائے روڈ فرانس جا رہا ہے وہاں سے
سمندری راستے سے ایک جزیرے پر چال جائے گا۔" اس
نے تیز لہجے میں بتایا۔
"ہوں۔ تم میرے ساتھ جاؤ گے۔ چلو ".....شازار نے کہتے
ہوئے اس کے منہ پر پٹی باندھ دی تھی۔
پھر اسے اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے کمرے سے نکال۔
"اگر یہ باس نہ و ویال کم ہو گا۔ دیکھتے ہیں اس کے آدمی
کیا ری_ایکشن کرتے ہیں۔" اس نے سوچتے وہے
دروازے سے باہر قدم رکھا تھا۔
290
"اپنے ہتھیار ڈال دو ،اور اپنی جگہوں پر کھڑے رہو۔"
اس نے سیڑھیاں اترتے ہوئے کہا تو سب کے سب اپنی
اپنی جگہ پر جم گئے۔
جبران کا رائٹ ہینڈ اس کی جانب بڑھا تھا مگر جبران نے
آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے جو کہا وہ سمجھ کر اپنی
جگہ ہی رک گیا۔
"باس کو کال کرو۔ کوئی یہاں گڑبڑ کرنے آیا ہے۔" وہ
کہتے ہوئے پلٹا۔
شازار کی پیشانی پر سوچ کے بل نمایاں ہوئے،اس نے
چونک کر جبران کو دیکھا جو آنکھوں میں معصومیت
لیے کسی بھیگی بلی کی مانند اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ الجھا الجھا سا آگے بڑھتا رہا۔
جبران نے وہاں سے نکلتے ہوئے اپنے پیچھے بندھے
ہاتھوں سے اشارہ کیا تھا جسے اس کے آدمی سمجھ گئے
تھے۔
"باس کہہ رہے ہیں الہور اور اسالم آباد میں اس وقت جہاں
سب سے زیادہ پولیس آفیسرز اور عوام جمع ہے وہاں
291
دھماکہ کروا دو۔ہری اپ بوائز اپنے اپنے کیبن میں چلو۔"
یہ ایک انگریز تھا جو جبران کا لیفٹ ہینڈ تھا۔
دالور خان نے لیپ ٹاپ میں یو ایس بی لگاتے ہوئے وہ
فائل اوپن کی جس پر جے بی لکھا ہوا تھا۔
اندر ایک عدد ویڈیو تھی جسے اس نے پلے کر دیا۔
وہ دونوں اس وقت ایک بڑی مال کے پارکنگ ایریا میں
اپنی گاڑی کے شیشے چڑھائے پردے گرائے بیٹھے ہوئے
تھے۔
ویڈیو پلے ہوتے ہی ایک لڑکی سامنے آئی تھی ،ہرنی کی
مانند ڈری ہوئی.....اور زخمی۔
"میرا نام نازیہ ہے....میں جبران کی کالس فیلو تھی،
مجھے اس کے سادہ طبیعت بہت بھائی اور میں اس سے
محبت کرنے لگی۔ وہ یونیورسٹی کے بعد اب مجھے تین
مہینے پہلے فرانس میں مال تھا جہاں میں اپنی آپریشن
سپیشلسٹ ڈاکٹر بن رہی تھی۔
وہ وہاں کیوں آیا تھا؟ اس نے مجھے کہا وہ اپنے ایک
دوست کو الیا ہے .....جس کا کیڈنی ایشو ہے۔ وہ ویسا ہی
292
تھا سادہ مگر اس دن اس کی شخصیت میں مجھے نمایاں
تبدیلی نظر آئی وہ سب ضدی اور ہٹ دھرم نہیں رہا تھا۔
وہ مسلسل ہسپتال آتا رہتا تھا۔ مجھے لگتا کہ وہ بہانوں
بہانوں سے میرے پیچھے آتا ہے اس نے بھی یہ ہی ظاہر
کیا....ہم دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا اور لیونگ
میں رہنے لگے۔
ایک مہینہ پہلے اس کا اصلی چہرہ میرے سامنے آیا جب
اس نے.....اس نے مجھے ہماری خلوت کے لمحات کی
ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ وہ اسے وائرل کر دے گا اگر
مجھے میری عزت پیاری ہے تو میں...میں اس کی ہر بات
مانوں۔
غصے میں اس کے منہ سے اس کا سچ نکل گیا کہ
وہ.....وہ جبران ہے ہی نہیں.....وہ.....وہ پیٹر ہے ایک
دہشتگرد جس نے جبران غفور کو دوست بن کر ڈھسا تھا
جبران غفور کو مار کر اس نے اپنی پالسٹک سرجری
کرواتے ہوئے جبران کا روپ لے لیا تھا اور اسی کی طرح
جینے لگا مگر پیٹر کے کالے کارناموں میں جبران کا ذکر
ہوتا ہے۔
293
میں اس کی ہر بات ماننے پر مجبور تھی کہ بےعزت نہیں
ہونا چاہتی تھی میں نے حامی بھر لی۔ اس دوران میں نے
اس کے کئی روپ دیکھے۔
وہ ایک بہت بڑا مجرم ہے.....وہ ایک ٹیررسٹ ہے۔"
لڑکی کی آواز مدھم ہوتی جا رہی تھی۔
ان دونوں نے چونک کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
"وہ کڈنی ،لیور اور ہارٹ ریکٹ چالرہا ہے ،اس نے کئی
لڑکیوں کی عزتیں پامال کی اور کروائی ہیں۔
وہ اکیال نہیں ہے بہت سارے لوگ ہیں اس کے ساتھ،
امریکی ،اٹلی ،اسرائیلی.....اور بھی بہت سارے منافق
لوگ.....کل میں نے سنا تھا کہ وہ اگلے مہینے کی پندرہ
تاریخ کو پاکستان میں بہت بڑا دھماکہ کرنے والے ہیں۔
امریکہ میں بھی کچھ بڑا ہونے واال ہے جس کا الزام
مسلمانوں پر آئے گا اور.....اور پھر بارڈر پر جنگ چھڑ
جائے گی۔میں کچھ تصویریں شیئر کروں گی جو لوگ اس
کے ساتھ ملے ہوئے ہیں جن کو میں نے دیکھا ہے۔" نازیہ
نے کہتے ہوئے کانپتے ہاتھوں میں تھامی تصویریں
سکرین پر شو کی تھیں۔
294
"وہ بہت ظالم ہے ،اس نے مجھے مار دینا ہے مگر میں
چاہتی ہوں کہ یہ ویڈیو محفوظ ہاتھوں تک پہنچ جائے۔"
ویڈیو ختم ہو چکی تھی۔
وہ دونوں ایک لمحہ خاموشی سے سیاہ ہوئی سکرین کو
دیکھتے رہے۔
"آج پندرہ تاریخ ہے......اس کا پالن مجھے سمجھ آ گیا
ہے ،وہ پہلے پاکستان میں بالسٹ کروائے گا ،اس کے
آدمی وہاں پر موجود اپنے ہی گورے آدمیوں کو آگے کر
دیں گے ،وہاں دنگے فساد ہوں گے اور ادھر امریکہ میں
دھماکہ ہو گا جس سے لگے گا کہ مسلمانوں نے بدلہ لیا
ہے......امریکی حکومت اشتعال میں آ جائے گی ،وہاں ان
کے آدمی دنگے فساد بڑھا دیں گے اور مانگ کریں گے کہ
انہیں انصاف چاہیے ،سفیروں کو نکالنے کی ڈیمانڈ ،درآمد
برآمد کی رکوائی کی مانگ۔عام انسان جو کچھ بھی نہیں
جانتا ہو گا ان کے جھانسے میں آ جائے گا اور یوں دونوں
ملک کی عوام انصاف مانگتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئیں
گے....اور پھر ان سب کا نتیجہ جنگ نکلے گا۔" شاہزیب
نے تیزی سے کہا۔
دالور خان نے بےاختیار لب کچلے۔
295
"ہمیں آئی ایس آئی کو اطالع کرنی ہو گی۔یہ کام ہم تنہا
نہیں سنبھال سکتے.....بہت زیادہ رائتہ پھیالنے کی سوچ
رہا ہے یہ جبران.....میرا مطلب پیٹر نے۔"
"صرف پیٹر ہی نہیں دالور! اس کے ساتھ اور بھی کئی
لوگ شامل ہیں جو ہم مسلمانوں کا نام استعمال کر رہے
ہیں۔" شاہزیب کو اس کی بات ناگوار گزری تھی۔
"ہمیں دنیا کو معلوم نہیں ہونے دینا کہ کوئی جبران نامی
شخص پاکستانی تھا.....اس جیسے بیوقوف جو گوروں
سے دوستانہ تعلقات قائم کرتے ہیں اور بیوقوف بن جاتے
ہیں ان کے متعلق کوئی نہ ہی جانے تو ٹھیک رہے
گا.....اور اگر یہ بات آئی ایس آئی تک پہنچی تو ہمارے
چیف ضرور امریکہ کی انٹیلیجنس ایجنسی سے رابطہ
کریں گے مگر ایسا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ پھر بات بہت
بڑھ جائے گی ،اور کیا پتہ کہ کوئی ثابت بھی کر پائے یا
نہیں کہ وہ جبران نہیں پیٹر ہے۔" شاہزیب نے بےچینی
سے پہلوؤں بدال۔
"ہوں اوکے میں تمہارے ساتھ ہوں۔" دالور اس کے شانے
پر ہاتھ رکھتے ہوئے بوال۔
296
"مگر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی ،سٹیفن نے کہا تھا
کہ اس کے آدمی نے ریکارڈ کی ہے ویڈیو؟"
"شاید وہ سب جانتا تھا "......وہ دونوں بیک وقت ایک
ساتھ بولے تھے۔
"پہلے ہمیں پاکستان میں بالسٹ کروانے ہوں گے....تم
ایسا کرو دوبارہ سے شازار کا نمبر ٹرائے کرو میں مال
میں جاتا ہوں اور ایک عدد نیا سیم کارڈ اور موبائل خرید
کر اپنی ٹیم سے رابطہ کرتا ہوں....کیا پتہ کہ چارلی نے اس
موبائل فون میں کوئی چیپ وغیرہ لگائی ہو۔" شاہزیب نے
کہتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھوال تھا۔
وہ اپنی فیزکل لینگویج نارمل کرتے ہوئے مال کی اندرونی
جانب بڑھ گیا۔
اسے تالش تھی ایک موبائل والی شاپ کی۔
لیفٹ کے ذریعے وہ چوتھے فلور پر گیا موبائل شاپ سے
نیا موبائل اور سیم خریدا۔
"ڈی ایس پی شاہزیب خانزادہ؟" وہ شاپ سے جیسے ہی
نکاال کوئی اس کے ہمقدم ہوا تھا۔
اس نے رک کر گردن گھما کر اس شخص کو دیکھا۔
297
نیرو کٹی پھٹی جینز پر سفید کاٹن کی شرٹ پہن رکھی تھی
جس کے اوپر کے دو بٹن یوں ہی کھلے چھوڑے ہوئے
تھے۔ سنہری بال پیشانی پر بکھرے تھے ،دائیں ہاتھ میں
دو عدد فرینڈشپ بینڈز پہن رکھے تھے ،گردن پر دائیں
جانب کان کے نیچے شیر کا ٹیٹو تھا اور فولڈ کی آستینوں
سے دائیں کالئی پر بنوایا گیا عقاب کا ٹیٹو بھی نمایاں نظر
آ رہا تھا۔
وہ جس حلیے میں اس کے سامنے کھڑا تھا کوئی بگڑا ہوا
نواب زادہ لگ رہا تھا....مگر اسے کس طرح جانتا تھا؟
"جی ،آپ کون؟" اس کی پیشانی پر سوالیہ بل نمایاں
ہوئے۔
"ہائے میں افنان رندھاوا۔" وہ شاہزیب کی جانب مصافحہ
کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے بوال۔
"میں نے پہچانا نہیں؟" وہ ابھی بھی کنفیوژ تھا۔
"آپ مجھے نہیں پہچانتے ،مگر میں آپ کو جانتا ہوں۔
مشن ست رنگا میں.....میں بھی شریک ہوں۔ باقی آپ میرے
متعلق اپنے دوست ضیاء سے رابطہ کر لیں۔" اس نے
کہتے ہوئے قدم آگے بڑھا دیئے تھے۔
298
شاہزیب تیزی سے ضیاء کا نمبر ڈائل کرنے لگا۔
"یہ افنان رندھاوا کون ہے؟ اور تم نے اسے ہمارے مشن
کے متعلق کیوں بتایا؟ کہا تھا نا کہ یہ ایک بہت خاص اور
سینسٹیو مشن ہے پھر بھی باز نہیں آئے۔" ضیاء نے
جیسے ہی کال اٹینڈ کی وہ بھڑک اٹھا تھا۔
"میری بات تو سن لیں باس یار! "....ضیاء منمنایا۔
"ہاں سناؤ؟" اکتاہٹ بھرے لہجے میں بوال۔
"وہ کوئی عام انسان نہیں ہے"....
"تو کیا آسمان سے اترا فرشتہ ہے؟ یا پھر درخت سے آگا
ہوا پھل؟" ضیاء کی بات کاٹتے ہوئے وہ دبے دبے غصے
میں بوال۔
"وہ ایک آئی ایس آئی آفیسر ہے۔پرسوں وہ مجھ سے ملے
تھے اور بتایا کہ آج یعنی پندرہ تاریخ کو بالسٹ ہونے واال
ہے جہاں پر زیادہ لوگ جمع ہوں گے .....انہوں نے کہا کہ
یہ کام ان کا ہے ،مگر ہم ان کی مدد ضرور کر سکتے
ہیں۔میں اور شہزاد ان کی ٹیم کے ساتھ ہیں....اور ہم ان
جگہوں پر جانچ کر رہے ہیں جہاں زیادہ تعداد میں لوگ
299
جمع ہیں۔"ضیاء نے مختصر سا بتایا وہ کچھ حد تک
مطمئن ہو گیا تھا۔
چند پل وہاں کھڑا رہا پھر پلٹ کر تیز قدموں سے پارکنگ
ایریا کی جانب بڑھ گیا۔
شازار نے جبران کے فون سے دالور خان کو کال کی تھی
اور جو بھی وہاں ہوا سب بتا دیا۔
"میری بات غور سے سنو شازار! اس وقت کو تمہارے
پاس ہے وہ جبران نہیں پیٹر ہے ،دہشتگردوں کا ممبر۔"
دالور خان کی بات پر شازار چونکا۔
"نہ نہ کوئی ری ایکٹ مت کرنا.....بلکل نارمل رہو ،اور
اسے اس کا ڈرامہ جاری رکھنے دو اور حور تک پہنچ
جاؤ.....ہم تب تک یہاں سنبھال کر شام تک ان شاءہللا
تمہارے پاس ہوں گے جزیرے پر۔" دالور نے کہا تو وہ
اوکے کہتے ہوئے دور تک نگاہ دوڑانے لگا کشتی پر
محض وہ دونوں ہی سوار تھے۔
"سنو! کچھ ڈرامہ کریٹ کر کے اس کا فون پانی میں
پھینک دو ،اور جتنی ہو جبران کی حفاظت کرنا کیونکہ وہ
300
کئی مجرموں کے متعلق جانتا ہے ہمیں وہ زندہ چاہیے۔"
شاہزیب نے فون پکڑ کر کان سے لگاتے ہوئے کہا۔
"اوکے۔تم لوگ ہمیشہ اپنی مرضی چالتے ہو......میں
چھوٹا ضرور ہوں مگر عقل مجھ میں بھی ہے....مجھے پر
یقین ہی نہیں کرتے،تم دونوں بھاڑ میں جاؤ۔بھابھی کو میں
تنہا ہی بچا لوں گا۔"
"واہ بھئی بہت کوئیک سروس ہے تمہاری۔" سامنے سے
شاہزیب ہنسا تھا۔
شازار نے مصنوعی غصے سے لب بھینچے اور فون پرے
اچھال دیا جو سیدھا پانی میں جا گرا تھا۔
"اب میں تنہا ہی عوذر کو پکڑوں گا اور یہ ثابت کر دوں گا
کہ اصل میں جبران وہ ہے تم بےقصور ہو۔" شازار نے
سختی سے کہتے ہوئے رخ پھیر لیا
پیٹر اس کے پلٹ جانے پر شاطرانہ سی مسکراہٹ لیے اس
کی پشت دیکھنے لگا۔
****
"اوکے بوائز تو کام شروع کریں۔" افنان نے ان دونوں کو
اپنی جانب متوجہ کیا تھا۔
301
وہ دونوں پلٹ کر پیچھلی سیٹ پر بیٹھے افنان کو دیکھنے
لگے۔
"سر !....مگر آپ اس کے گھر داخل کیسے ہوں گے؟ جب
سے ہمارے متعلق علم ہوا ہو گا ڈیفنیٹلی اس نے سکیورٹی
بڑھا دی ہو گی۔وہ نہ ہو کر بھی اپنے گھر موجود ہے۔"
شاہزیب نے کہا۔
"کال می افنان.....اور ویسے بھی ایک بات بتاؤ پہلی نظر
میں دیکھتے ہوئے تم نے مجھے کیا سمجھا تھا؟"
"یہ ہی کہ کوئی غنڈہ موالی ،بگڑا ہوا امیر زادہ۔"
"رائٹ ،یہ گیٹ اپ اسی لیے تو ہے۔ میں اپنی پوری تیاری
کر کے آیا ہوں ،میں وہاں پیٹر کا کالس فیلو بن کر جاؤں گا
جو ان کی گینگ میں شامل ہونا چاہتا ہے ،ایک وائز ریکارڈ
ہے جس میں اس کی آواز میں کہا ہوا ہے کہ میں تمہیں
ملوں گا گھر پر آ جانا۔"
"اگر یہاں کچھ گڑبڑ ہوئی تو امریکہ کے شہر شکاگو میں
موجود ان کے آدمی بالسٹ کر دیں گے.....اور ادھر الہور
اور اسالم آباد میں بھی....ہمیں سب سے پہلے سارے
302
بالسٹ رکوانے ہوں گے۔" شاہزیب نے گاڑی اسٹارٹ کرتے
ہوئے کہا۔
"ہوں۔ مگر پہلے یہاں واال چیپٹر کلوز کرتے ہیں۔وہاں
شکاگو میں فہد اپنی ٹیم کے ساتھ موجود ہے وہ سنبھال
لے گا اور ہم یہاں سے فری ہو کر شکاگو کے لیے فالئی
کریں گے۔" افنان نے سنجیدگی سے کہتے ہوئے لیپ ٹاپ
دالور کی سمت بڑھایا تھا لیپ ٹاپ پر وہ سب واضح دیکھ پا
رہا تھا۔
پیٹر کا گھر اور ہر کمرہ ،ہر ایک فرد۔
"ان سب کا حملہ کرنے واال یونٹ یہاں جبران یعنی پیٹر کے
گھر پر موجود ہے ،وہ سب حملے کرتے اور کرواتے
ہیں"....
افنان نے دونوں سیٹوں پر کہنیاں ٹکاتے ہوئے جھک کر
بیک مرر میں خود کو دیکھتے ہوئے بالوں میں انگلیاں
چالئی تھیں۔
شاہزیب نے ذرا سی گردن گھما کر اس کی جانب دیکھا۔
"مجھے تو ابھی بھی آپ بگڑے ہوئے نواب لگ رہے
ہیں۔" وہ صاف گوئی سے بوال تو افنان مسکرا دیا۔
303
"وہ تو میں ہوں ہی۔ خیر نیکسٹ سٹاپ پر مجھے اتار دینا
تم لوگ یہاں سے ہی مجھے گائیڈ کرو گے کہ کوئی گڑبڑ
تو نہیں۔" اس نے اشارہ لیپ ٹاپ کی جانب کرتے ہوئے کہا۔
"یس سر۔" شاہزیب نے رفتار کم کر دی تھی۔
پھر گاڑی رک گئی اور وہ چھچھوروں کی مانند گاڑی میں
سے نکال تھا۔
شاہزیب نے دالور خان کو دیکھا جو اس کے یوں منہ
کھولنے پر مسکرا رہا تھا۔
"کسی کو لباس سے جج نہیں کرنا چاہیے ،بڑے بڑے
آفیسر بھی بیوقوف بن جاتے ہیں۔" دالور نے اس پر چوٹ
کی تھی۔
"مذاق تھا؟ ہنسنا تھا؟" وہ چڑ کر بوال۔
"ہوں ہوں۔" اس نے مسکراتے ہوئے زور سے اثبات میں
سر ہال کر کہا۔
****
دو بج چکے تھے.....
304
ضیاء لوگوں نے افنان کی ٹیم کے ساتھ مل کر الہو اور
اسالم آباد میں چھپے دہشتگردوں کے چھوٹے سے گروہ
کو پکڑ لیا۔
بم بھی ڈفیوژ ہو چکے تھے اب انہیں انتظار تھا تو بس
شکاگو سے فہد کے فون کال کا۔ جو اپنی ٹیم کے ساتھ
ہوتے شکاگو میں دھماکہ آوار شخص ڈھونڈھ رہے تھے۔
شاہزیب نے برگر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے سر سیٹ کی
پشت سے ٹکایا اور سامنے والی سیٹ پر پڑے لیپ ٹاپ پر
نگاہ ڈالی۔
افنان پیٹر کے گھر میں یوں دندناتا پھر رہا تھا جیسے وہاں
سب ٹھیک ہو.....
" دشمنوں کے درمیان شیر کی مانند گھومنا چاہیے۔"
افنان کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تو وہ چونک
کر سیدھا ہوا۔
"میں تو کچھ بھی نہیں بوال سر!" اس نے کہا تو افنان
ہنس دیا۔
"شکل پڑھنے میں میرا کوئی جواب نہیں۔" افنان کی بات
پر وہ لیپ ٹاپ کا کیمرہ چیک کرنے لگا۔
305
"کیمرہ آف ہے۔" افنان نے کہا تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہو
بیٹھاتبھی اس کی نگاہ سامنے بیک مرر پر پڑی تھی۔
جہاں ایک سیاہ ڈوٹ نظر آیا۔
"سر! بیک مرر سے پیچھے دیکھتے ضرور ہیں مگر
کیمرے سے نہیں۔" شاہزیب نے کہا تو وہ قہقہہ لگا کر
ہنسا تھا۔
"مجھے فکر ہے تم جیسے قابل آفیسر پر۔" افنان رندھاوا
نے سچے دل سے کہا تو وہ مسکرا دیا۔
"پتہ نہیں حور کس حال میں ہو گی۔" دالور نے ٹھنڈی آہ
بھرتے ہوئے اپنی ریسٹ واچ پر ہاتھ پھیرا یہ وہ ہی گھڑی
تھی جو حور نے اسے تحفے میں دی تھی جو وہ توڑ آئی
تھی.....جسے دالور خان نے دوبارہ سے اسی طرح ہی
ریپیئر کروا لیا تھا۔
شاہزیب کا فون رنگ کیا وہ دالور خان کا شانا تھپک کر
فون کی جانب متوجہ ہوا ،کوئی انجان نمبر تھا۔
وہ حیرانگی سے پہلے فون کی سکرین دیکھتا رہا پھر کال
اٹینڈ کرتے ہوئے فون کان سے لگا لیا۔
306
"ش شاہزیب! م میں ہوں حور "......ہچکیوں میں ڈوبی
حور کی آواز سن کر وہ تیزی سے سیدھا ہو بیٹھا تھا۔
"حور! ....تم ٹھیک ہو؟ دیکھو پریشان نہیں ہونا شازار
تمہارے پیچھے ہی ہے۔"
"شاہزیب! پتہ نہیں ی یہ مجھے کہاں لے آیا ہے ،دور دور
تک کوئی انسان نہیں ہے۔" دور جزیرے پر ادھر اُدھر
ہراساں نگاہیں دوڑاتی حور کے وجود میں جان باقی نہیں
تھی وہ ایک دم سے بےجان سی ہو کر گھٹنوں کے بل
زمین پر گر گئی تھی۔
دالور خان نے ہاتھ بڑھا کر شاہزیب سے فون تھام لیا۔
"وہ مجھے پتہ نہیں کہاں لے آیا ہے ،شام ہو رہی ہے م
میں کیسے رہوں گی یہاں....مجھے ڈر لگ رہا ہے۔" اس
کی آنسوؤں میں غوطہ زن آواز سن کر دالور خان کا دل
چاہا رہا تھا کہ وہ عوذر سومرو اور پیٹر دونوں کو ہی ختم
کر دے۔
اس نے تیزی سے اپنے فون پر کوئی ٹیکسٹ ٹائپ کیا اور
کسی کو بھیج دیا تھا اور پھر حور کی جانب متوجہ ہوا۔
307
"حور! بی ہیو یور سیلف.....اینڈ پلیز بی سٹرانگ میں آ رہا
ہوں۔ تم ابھی جلدی سے مجھے لوکیشن واٹس ایپ کرو۔"
"س سنگل نہیں ہیں کال بھی ڈسکنیکٹ "....بات مکمل
ہونے سے پہلے ہی کال ختم ہو چکی تھی۔
"میں جا رہا ہوں شاہزیب!....تم لوگ یہاں سنبھال لو.....م
مجھے اس وقت حور کے پاس ہونا چاہیے۔" وہ تیزی سے
کہتے ہوئے فون پر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگا تھا۔
"اوکے ڈونٹ وری ہم سنبھال لیں گے۔"
"ڈی سی پی شاہزیب! آپ بھی جائیں.....پیٹر ایک بہت
شاطر مجرم ہے ،آپ کا وہاں جانا ضروری ہے۔ میں آگے
سب سنبھال لوں گا۔" افنان جو فون پر سب سن چکا تھا
رسانت سے بوال تو وہ یس سر کہہ کر رہ گیا۔
تبھی فہد کی کال موصول ہوئی تھی اس نے خوش خبری
سنائی تھی کہ بم دھماکہ آوار شخص ان کی گرفت میں ہے
اور وہ لوگ بم ڈفیوژ کر رہے ہیں۔
"ہم آ رہے ہیں آپ وہاں سب کو بےہوش کر کے نکلنے کی
کریں۔" شاہزیب نے کہا تو افنان اثبات میں سر ہالتے ہوئے
اپنے منہ پر ماسک لگا کر بیگ میں الیا ہوا کیڑے مکوڑے
308
کش اسپرے کی بوتل میں بھر کر الیا ہوا کلوروفارم کی
نکالتے ہوئے کچن سے نکل گیا۔
"یہاں مچھر بہت ہو گئے ہیں اوپر سے کاکروچ تو
دیکھو۔میں نے کتنی مرتبہ پیٹر سے کہا ہے کہ وہ صاف
ستھرا ماحول رکھا کرو مگر ہمیشہ سے گند ڈالنے کی
عادت ہے اسے۔" بلند آواز میں بڑبڑاتے ہوئے وہ سپرے
کر رہا تھا۔
جہاں جہاں لوگ تھے شاہزیب اسے گائیڈ کر رہا تھا۔
دالور خان نے گاڑی کی سپیڈ بڑھا دی تھی۔
"اسی لیے کہتے ہیں کہ ایک چور کبھی بھی ایک سپاہی
کی مانند شاطر نہیں ہوتا۔"
اسے پیٹر کے گھر پر تاال لگا کر کیمرے میں ہائے کہتے
دیکھ شاہزیب نے مسکراتے ہوئے کہا اور لیپ ٹاپ شٹ
ڈاؤن کرتے ہوئے اطمینان بھری سانس لی۔
حور نے ادھر اُدھر نگاہیں دوڑائیں عوذر جزیرے کے
دوسرے حصے گیا ہوا تھا وہ تیزی سے کوئی اونچی جگہ
تالشنے لگی مگر کافی دیر تک بھی فون نے سگنل کیچ
309
نہیں کیے تھے تبھی اس نے عوذر کو آتے دیکھا اور
بےاختیار ڈرتے ہوئے ہڑبڑا کر فون پانی میں اچھال دیا تھا۔
وہ ایک ہاتھ میں لکڑیاں سمیٹے اسی جانب آ رہا تھا۔
وہ اس سے رخ پھیر کر پتھر پر بیٹھ گئی تھی۔
" تمہیں بھوک لگی ہو گی نا۔" وہ مچھلی بھون کر کیلے
کے پتے پر رکھ کر اس کی جانب بڑھ آیا تھا۔
"نہیں مجھے بھوک بلکل بھی نہیں لگی۔" اس نے حقارت
سے کہتے ہوئے اس پر ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی اور وہاں
سے اٹھ گئی۔
"کیا اب تم ساری زندگی یوں ہی مجھ سے جھگڑتی رہو
گی؟" وہ منمنایا۔
"اس خوش فہمی میں ہرگز مبتال مت ہونا عوذر
سومرو! ".....وہ بلند آواز میں کہتی آگے بڑھ گئی تھی اور
وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گیا۔
کوئی ایک گھنٹہ گزرا تھا کہ ہیلی کاپٹر کی آواز سن کر
حور کی ہمت بڑھی وہ تیزی سے اٹھ کر کوئی اونچی جگہ
تالشنے لگی۔
310
عوذر اس کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ہڑبڑا کر اٹھا
تھا اور بھاگ کر اس تک پہنچا۔
"یہ تم کیا کر رہی ہو؟ ہوش کے ناخن لو اور آرام سے بیٹھ
جاؤ۔" اس کا بازو تھام کر جھنجھوڑتے ہوئے درشتی سے
بوال۔
"بکواس بند کرو ،میں تمہیں کبھی نہیں بخشنے والی۔"
اسے خود سے دور دھکیلتے ہوئے وہ اپنے گلے میں
لٹکتا سفید سٹالر اتار کر چند قدم آگے بڑھی اور ایک بڑے
پتھر پر چڑھنے ہی والی تھی کہ عوذر نے ایک جھٹکے
سے اسے اپنی جانب کھینچا۔
"تم میری ہو حور! تم وہاں رہو گی جہاں میں رہوں گا۔"
اس کے قریب ہوتے ہوئے وہ سخت گیر لہجے میں گویا
ہوا۔
"السٹ لوکیشن یہ ہی تھی ".....افنان نے لیپ ٹاپ کی
سکرین پر لوکیشن دیکھتے ہوئے کہا تھا۔
"سر یہاں ہم لینڈ نہیں کر پائیں گے۔" پائلٹ نے کہا۔
311
"فالئی ڈائیونگ کرنے کا من ہو رہا ہے۔" شاہزیب نے کچھ
سوچتے ہوئے کہا تو وہ دونوں ہی اس کی بات پر مسکرا
دیئے۔
"سردار صاحب فالئی ڈائیونگ تو آتی ہے نا؟ کہیں اڑتے
اڑتے زمین پر تو نہیں جا گرو گے۔" شاہزیب نے اسے
چھیڑتے ہوئے کہا۔
"چھوٹو تم اپنی سوچو ،کہیں تمہارے وزن سے پیراشوٹ
کی رسیاں تمہیں دھوکا نہ دے دیں۔" وہ اس کی باڈی پر
چوٹ کرتے ہوئے بوال۔
"کسی دن وزن کر لینا تم مجھ سے زیادہ موٹے ثابت ہو
گے۔" شاہزیب نے آنکھوں پر چشمہ لگاتے ہوئے لقمہ دیا۔
افنان ان کی نوک جھوک پر مسکرا دیا تھا.....
"اس مرتبہ تو سردار نے گن ساتھ رکھی ہے نا؟" نیچے
جاتے ہوئے بلند آواز میں استفسار کیا تھا۔
وہ قہقہہ لگا کر ہنسا اور اس کے پیچھے کود گیا۔
تھا۔
ان کے زمین پر پہنچنے تک دوسرے کنارے سے شازار
کی بوٹ بھی کنارے آ لگی تھی۔
312
عوذر ہڑبڑا کر حور کا ہاتھ تھام کر اسے کھینچتے ہوئے
اس جانب بڑھا جدھر پیٹر تھا۔
دالور خان کو دیکھ کر حور کی جان میں جان آئی تھی۔
اس کی ہمت بڑھی اور وہ پوری قوت سے اپنا آپ اس سے
چھڑوا کر دالور خان کی جانب بڑھی تھی۔
وہ بھی پیراشوٹ اتار کر آنکھوں پر سے چشمہ اتار کر
پرے اچھالتے ہوئے اس کی جانب تیز قدموں سے بڑھا تو
حور اس کی باہوں میں آ سمائی تھی۔
"دالور!" اس کے سسکیاں دالور کے سینے میں چھپ
گئی تھیں۔
”“Oh strong girl…..I’m here for you.
اس کو اپنی آغوش میں سمیٹتے ہوئے وہ محبت بھرے
لہجے میں بوال تھا۔
چند پل یوں ہی اس کی آغوش میں وہ روتی رہی۔
اِدھر شازار اور شاہزیب نے پیٹر کے ہاتھ کھول کر اسے
دبوچ لیا تھا۔
313
"اچھا سنو !....تھوڑا چھوڑو مجھے اس عوذر سومرو کو
تو ذرا دیکھوں۔" دالور نے غصے سے آنکھیں پھاڑ کر
عوذر کو دیکھا تھا جو خالی خالی نگاہوں سے ان کی جانب
ہی دیکھ رہا تھا۔
"عوذر "!.....پیٹر نے شاہزیب کے بیلٹ سے گن کھینچ کر
عوذر کی جانب اچھالی تھی۔
"مار دو اس دالور کو۔" جبران نے پھنکارتے ہوئے کہا۔
دالور خان ،حور کو پتھر پر بیٹھا کر عوذر کی جانب پلٹا تھا
جو اس پر گن تان چکا تھا۔
حور دالور خان کا ہاتھ تھام کر اٹھتے ہوئے سخت گیر
نگاہوں سے عوذر کو گھورنے لگی۔
"تم مجھے مار دو عوذر سومرو! کیونکہ دالور خان کے
سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے جڑنے نہیں دوں
گی۔" اس کے لہجے کی مضبوطی اور بات پر عوذر کے
اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے۔
"میری بات سنو عوذر! یہ شخص تمہارا استعمال کر رہا
ہے ،یہ ایک دہشتگرد جماعت کا رکن ہے ،اس نے تمہارا
استعمال بم کی درآمد برآمد کے لیے کیا ہے۔یہ جبران
314
نہیں.....یہ پیٹر ہے۔" افنان رفتہ رفتہ اس کی جانب بڑھتے
ہوئے بول رہا تھا۔
"یہ دہشت پھیالنے والوں میں سے ہے....اس کی مت
سنو "....افنان نے مزید کہا تھا وہ اس کے دماغ مینآ ہنی
بات بیٹھانے والے انداز میں بول رہا تھا۔
"یہ سب کا دشمن ہے تمہارا ،میرا .....انسانیت کا۔"
اس کی بات پر عوذر نے مڑ کر پیٹر کو دیکھا تھا۔
"تم چپ چاپ یہاں ہی کھڑے رہو دالور!" دالور آگے
بڑھنے لگا تو حور نے اس کا بازو تھام کر روک لیا ھا۔
"کچھ نہیں ہو گا مجھے تم وہاں چلو بوٹ میں۔" وہ اس
سے اپنا بازو نرمی سے چھڑوا کر بوال۔
وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی بات مانتے ہوئے آگے بڑھ
گئی تھی۔
وہ مسلسل عوذر کی نگاہوں کے احصار میں تھی.....وہ
سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کرے....ایک جانب حور کی
خوشی تھی ایک جانب اپنی خوشی.....
بہت ہمت کر کے اس نے پھر دالور پر گن تان دی
تھی....ساتھ ہی پلٹ کر کشتی کی جانب دیکھا جہاں حور بن
315
پانی کی مچھلی کی مانند تڑپ اٹھی تھی ،عوذر زور کا
قہقہہ لگا کر ہنستے ہنستے ایک دم سے گن پھینک کر
گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا تھا۔
"میدان میں اترو عوذر سومرو! یوں ہار مت مانو.....میں
تمہیں اذیت ناک مار مارنا چاہتا ہوں ،یوں کمزور مت بنو کہ
میں کمزوروں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔" دالور خان نے کہا تو وہ
گردن گھما کر حور کو دیکھنے لگا جو مسکرائی تھی۔
وہ کچھ سوچ کر اٹھا تھا اور اس کے ساتھ ہاتھا پائی کرنے
لگا۔
دالور خان کے ساتھ الجھتے وقت وہ مسلسل مار کھا رہا
تھا اور ساتھ ساتھ حور کو بھی دیکھ رہا تھا.....
اسے مار پڑتی دیکھ وہ خوش ہو رہی تھی۔
"بس کرو دالور!" افنان جو مسلسل عوذر کو ہی نوٹ کر
رہا تھا کہ مار کھا رہا ہے تیزی سے آگے بڑھا۔
عوذر بےدم سا ہو کر زمین بوس ہو چکا تھا۔
"آئندہ کسی کی ماں ،بہن بیوی پر نگاہ تم کبھی نہیں رکھو
گے۔" وہ غصے سے عوذر کو گھورتا اس سے رخ پھیر
گیا تھا۔
316
شازار اور شاہزیب بھی ان کے نزدیک آ گئے تھے۔
"اب ان کا کیا کیا جائے؟"
"تم لوگ ایسا کرو عوذر کو گرفتار کر کے لے جاؤ اور
پیٹر میرے حوالے کر دو۔ وہ کیا ہے نا کہ اس سے باقی
کئی لوگوں کا نام بھی نکلوانا ہے۔"
"اوکے سر! بٹ میں اس میشن میں آپ کے ساتھ رہوں
گا۔" شاہزیب نے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اس کا شانا
تھپکنے لگا۔
"شیور ،تمہارے جیسے قابل اور ایماندار آفیسرز کی اس
قوم اور ڈیپارٹمنٹ کو ضرورت ہے ،اپنی یہ ایمانداری اور
ڈیوٹی سے محبت کبھی کھونا مت۔"
"یس سر!" اس نے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا تھا تو وہ
مسکرا دیا۔
"دالور! ".....حور کے چنخ کر پکارنے ہر وہ سب چونک
کر اس کی جانب متوجہ ہوئے تھے ،وہ تیز رفتاری سے
کشتی میں سے بھاگ کر اتر رہی تھی۔
تبھی ایک فائر ہوا....حور کے قدم ڈگمگائے وہ ساکت
ہوئی.....
317
وہ سب آواز کی سمت پلٹے تھے
پیٹر نے جو گولی دالور پر چالئی تھی عوذر نے اسے اپنے
سینے پر لے لیا تھا۔
شاہزیب نے جھک کر ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھایا اور پیٹر کے
ہاتھ کا نشانہ لیتے ہوئے کھینچ کر پتھر دے مارا اس کے
ہاتھ سے ریوالور گر گیا تھا۔
عوذر نے سر اٹھا کر اسے دیکھا....وہ دالور خان کے
شانے سے لگی ساکت پلکوں سے اسے دیکھ رہی تھی،
عوذر کو ہر لمحہ یاد آنے لگا جو اس نے حور کے ساتھ
گزارا تھا۔
"میں حور ہوں۔اور تم؟"
"تم نے اگر میرا سکلپچر بنا دیا تو وہ مجھے لے جائیں
گے۔"
"تمہارا جنگل بہت پیارا ہے۔"
"پروفیسر ہوش میں رہنا۔"
یک بعد دیگرے کئی جملے اس کی سماعتوں سے ٹکرا
رہے تھے۔
318
"تم مجھے مار دو عوذر سومرو! کیونکہ دالور خان کے
سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے جڑنے نہیں دوں
گی۔"
جان لبوں پر آ گئی تھی مگر وہ مسلسل جینے کی کوشش
کرتے ہوئے حور کو دیکھ رہا تھا۔
دالور خان اور افنان تیزی سے وہاں پڑی ایک لوہے کی
قدرے موٹی تار کو توڑ کر آگ کی جانب بڑھے تھے۔
"ہوش میں رہنے کی کوشش کرو عوذر!" شاہزیب نے
آگے بڑھتے ہوئے اس کے چہرے کو تھپکا تھا۔
"ایک دفعہ تم ک کہہ دو ک ک کہ عوذر سومرو ہوش میں
رہنا۔" اس نے حور کی جانب دیکھتے ہوئے سانسوں کی
ٹوٹتی ماال کے ساتھ کہا تھا۔
وہ خوف زدہ ہو کر دو قدم پیچھے ہٹی تھی۔
" دالور خان کے سوا میں کسی کا نام بھی اپنے نام سے
جڑنے نہیں دوں گی۔" آخری جملہ اس کی سماعتوں سے
ٹکرایا تھا اور حلق میں اٹکی سانسیں پرواز کر
گئیں.....اس کی ساکت پلکیں اور کھلی ہوئی آنکھیں جو
319
حور پر ٹکی تھیں اس کی محبت کی گواہی دے رہی تھیں کہ
وہ ادھوری محبت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گیا ہے۔
حور بےاختیار ہی پلٹ کر دالور خان کے شانے سے جا
لگی تھی اس کی آنکھوں سے چند آنسو رخساروں پر
پھسلے تھے کہ کسی نے اس کے محبوب کو بچاتے ہوئے
اپنی جان دے دی تھی......
افنان کے ہاتھ میں گرم کی گئی تار وہاں کی وہاں رہ گئی
تھی اور وہ جو حوریہ رائے کی خاطر مارنے مرانے پر تال
ہوا تھا اپنی جان خود ہی دے بیٹھا تھا
اس نے حور کی خوشی کو اپنی خوشی پر ترجیح دی
تھی....
پیٹر کو جب افنان رندھاوا نے تھرڈ ڈگری ٹارچر دیا تو اس
نے اپنے ساتھیوں کے نام اور ایڈریس بتا دیئے تھے ،اور
یہ بھی کہ وہ حور کو محض اس لیے اغواء کرنا چاہتا تھا
کہ اس کے اعضاء بیچ سکے۔
وہ دونوں اسے اسی جزیرے پر لے گئے تھے اور افنان
رندھاوا نے شاہزیب سے اس کا انکاؤنٹر کرنے کو کہا وہ
تذبذب ہوا۔
320
"یہ زندہ رہا تو مزید اپنے جیسے کیڑے مکوڑے پیدا کرے
گا۔ تم فکر نہیں کرو میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کو جواب دہ ہوں
تم کسی کو نہیں....اور میں سب کو جواب دینے کا ہنر رکھتا
ہوں۔" وہ اس کے شانے پر تھپکی رسید کرتے ہوئے
مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے بوال تھا۔
شاہزیب نے اثبات میں سر ہالتے ہوئے ریوالور سنبھاال
تھا۔
"تمہارے ساتھ کام کر کے اچھا لگا۔امید ہے مزید کیس بھی
ہم ساتھ سولو کریں گے۔" افنان نے کشتی میں سوار ہوتے
کہا۔
"ان شاءہللا سر!"
"کال می افنان رندھاوا!.....یار یہ سر ور مجھ سے ہینڈل
نہیں ہوتا۔" وہ کہتے ہوئے مسکرایا۔
شاہزیب ہنس دیا۔
"سردار دالور خان کی اگلے مہینے شادی ہے آپ کو میں
ایڈوانس میں انوائیٹ کر رہا ہوں ،ضرور آئیے گا ہمیں اچھا
لگے گا۔" شاہزیب نے افنان سے مصافحہ لیتے ہوئے کہا۔
"ان شاءہللا۔"
321
اسے واپس آئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور کائنات کی طبیعت
بےحد خراب تھی ،بخار اترنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
کچن میں جھانکا تو کائنات کھانا بناتے ہوئے نجانے کن
خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔
"میں نے کہا تھا نا کہ آرام کرنا یہ کام تو ہوتے ہی رہتے
ہیں۔" وہ کچن میں داخل ہوتے ہوئے بوال
کڑاہی میں گوشت جل رہا تھا ،کافی پوری طرح سے خراب
ہو چکی تھی۔
اور وہ کٹر بورڈ پر ڈھیر ساری مرچیں کاٹے جا رہی تھی۔
آگے بڑھ کر برنر بند کیا اور اس کی کالئی تھام کر دوسرے
ہاتھ سے چھوری تھام لی۔
"کائنات!.....تم دن با دن کمزور پڑتی جا رہی ہو ،کوئی
پریشانی ہے کیا؟" اس کی ویران آنکھوں تلے سرخ حلقے
دیکھتے ہوئے شاہزیب تڑپ کر رہ گیا تھا۔
"م مجھے؟ کچھ بھی تو نہیں ہوا۔" وہ بری طرح سے
سوچوں سے چونک کر بولی تھی۔
شاہزیب کو اس کی غیر دماغی کی سمجھ نہیں آئی۔
322
"نہیں کچھ ہوا ہے ،ادھر آؤ ".....وہ اسے باہوں میں بھر
کر کچن سے نکل کر کمرے کی جانب بڑھ گیا تھا۔
"کائنات! پلیز بتاؤ۔ تم اتنے تھوڑے سے دنوں میں کیا
سے کیا ہو گئی ہو.....کیا ہوا ہے؟" وہ اس کو بیڈ پر لٹاتے
ہوئے خود اس کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔
"میرا دل مر رہا ہے ،دھڑکنیں کم ہو رہی ہیں۔" وہ اس کی
جانب ٹکٹکی باندھے دیکھتے ہوئے نجانے کیا کہہ رہی
تھی مگر شاہزیب نے اس کے لہجے میں چھپا درد اپنے
دل میں اترتا محسوس کیا تھا۔
"کائنات! "......اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتا اس کا
فون رنگ کیا تھا۔
"اسالم علیکم! شاہزیب تم اور کائنات ابھی تک پہنچے
نہیں ،فیض اور اس کی فیملی بھی آ چکی ہے۔" تابندہ
پوچھ رہی تھی۔
"و علیکم السالم! کائنات کو بخار ہے ،معزرت خواہ ہوں
یار ہم شریک نہیں ہو پائیں گے تمہیں اور فیض کو نکاح
کی ڈھیروں مبارکباد۔" اس نے پیروں کو جوتوں سے آزاد
کرتے ہوئے بیڈ پر رکھ لیا تھا۔
323
اس کی بات پر کائنات نے چونک کر اس کی جانب دیکھا
تھا۔
"آج تابندہ کا نکاح ہے ہم نے جانا تھا مگر اب جب کہ
تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تو ریسٹ کرو۔"
وہ فون ایک جانب ڈال کر اس کا سر اپنے سینے پر رکھ
چکا تھا۔
"کیا؟ تابندہ کا نکاح؟ آپ کے بغیر کیسے ہو سکتا ہے؟"
وہ چونک کر اس کی جانب دیکھنے لگی تھی۔
"کیوں بھئی میں کون سا اس کا ابا ہوں جو میں نہ ہوں گا
تو وہ فیض کے لیے رضا مندی نہیں دے گی۔"
"فیض؟"
"تابندہ کا شوہر......چلو اب بس مزید کسی کے بارے میں
بات نہیں ہو گی ،اپنے متعلق بات"....
"ایم سوری ،ایم سوری شاہزیب! م مجھے لگا آپ.......آپ
تابندہ سے شادی "...بےاختیار سی ہو کر وہ اس کے گرد
بازو حائل کر چکی تھی اور بات اُدھوری چھوڑ کر پھوٹ
پھوٹ کے رو دی تھی۔
324
وہ ایک دم سے خاموش ہو کر چند پل تو ساکت بیٹھا اسے
روتا دیکھتا رہا"ایسا تم نے کیسے سوچ لیا؟" اس کا لہجہ
کتنا تکلیف سے بھرا ہوا تھا۔
"ایم سوری۔مگر میں یہ سب سوچنا نہیں چاہتی
تھی......میں کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتی۔"
"پھر سوچ سوچ کر آدھی کیوں ہو گئی ہو؟" وہ اسے
شانوں سے تھام کر اپنے سامنے کرتے ہوئے حیرت انگیز
لہجے میں بوال۔
"آپ بھی تو تابندہ تابندہ کرتے تھے ،اور فرانس جا کر
بھی مجھ سے بات کرنے کی بجائے اسی سے کرتے تھے،
اور.....اور اس پر یقین ہے کہتے تھے۔ تو میں کیا کرتی؟"
وہ روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
"کائنات! میں نے تمہیں اس لیے کال نہیں کی کیونکہ میں
تم سے بات کر کے محض تمہیں سوچنے لگتا
ہوں.......اسی لیے تابندہ کو کال کر کے کہا کہ میں کیس
سے دھیان ہٹا نہیں چاہتا تھا ،اور یقین کی بات یہ کہ وہ
بڑی ہے ،تمہارا خیال رکھے گی۔پتہ نہیں تم کیا کیا سوچنے
لگ گئی۔" وہ افسردہ لہجے میں کہتے ہوئے اس کے ہاتھ
تھام چکا تھا۔
325
"ایم سوری......میں آپ کو کھونے سے بہت ڈرتی ہوں،
بچپن سے اب تک آپ کے بغیر جینا نہیں سیکھا۔" کائنات
نے اس ہاتھوں پر پیشانی ٹکا دی تھی۔
"پاگل میں کون سا تمہارے بغیر رہا ہوں۔ تم تو میری پہلی
اور آخری محبت ہو یار۔"
اظہار محبت پر کائنات
ِ اس کے شوخ لہجے میں کیے گئے
کے چہرے پر شرم کی اللی بکھر گئی تھی۔
"آئندہ ایسی غلطی سلط سوچیں کبھی مت پالنا ،شاہزیب
خانزادہ کی زندگی ،دل و دماغ میں محض کائنات رائے ہے
اور کوئی عورت میری بیوی کی جگہ نہیں لے سکتی۔" وہ
دھیمے لہجے میں بوال۔
وہ خوشی سے کھل اٹھی تھی۔
شاہزیب نے اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر ٹمپریچر چیک
کیا جو اب نہ کے برابر تھا۔
"محبت کا اظہار بھی تو ضروری ہے نا جو آپ نہیں
کرتے۔"
"ابھی میں محبت کا اظہار نہیں کرتا؟" اسے صدمہ ہوا تھا۔
"ناں ".....اس نے منہ بسورتے ہوئے نفی میں سر جھٹکا۔
326
"آئی لو یو کہہ کر اظہار کرنا ضروری نہیں ہوتا ،بلکہ اپنے
پارٹنر کا ہر حال میں ساتھ دینا ،کبھی تنہا نہ چھوڑنا اور
اس کی خوشیوں کا خیال رکھنا محبت ہے۔"
"جس طرح فلک شبیر ہر وقت سارا خان کو گالب رہتا رہتا
ہے آپ بھی مجھے دیا کریں نا۔" وہ معصومیت سے بولی
تو قہقہہ لگا کر ہنسنے لگا۔
"ٹھیک ہے مسز شاہزیب خانزادہ! ہم آپ سے اب ہر روز
اظہار محبت کریں گے۔"
ِ
"کس طرح؟" وہ پرجوش انداز میں بولی۔
"کچھ مختلف انداز ....آپ کے سارا اور فلک شبیر سے
بھی مختلف۔چلو آرام کرو۔" وہ اسے لیٹا کر خود اس کے
بالوں میں دھیرے دھیرے انگلیاں چالنے لگا تھا وہ کئی
لمحے اس کو نرمی سے دیکھتی رہی پھر نیند کی آغوش
میں اترتی چلی گئی۔
شاہزیب دھیرے سے مسکرا کر اس کی پیشانی پر بوسا دیتا
آنکھیں موند گیا تھا۔
"مجھے پاکستانی ہونے پر فخر ہے ،ہمارے جوان غیر
ممالک کی بھی حفاظت کرنے پہنچ جاتے ہیں ،اور مجرم
327
خواہ اپنا ہو یا پرایا اسے سزا دلوانے سے باز نہیں آتے۔تو
آج مجھے میرے پاکستان کی بہت یاد آ رہی ہے اسی
لیے.....ہم آج ہی واپس جائیں گے۔" وہ دالور خان کے
ساتھ چلتے ہوئے بولی تھی۔
"کوئی چاالکی قاب ِل قبول نہیں ہے ،نیکسٹ ویک تمہارے
فائنلز ہیں وہ پہلے دے لو پھر پاکستان بھی چلے جائیں
گے۔" دالور خان نے نرمی سے ٹوکا تو وہ منہ بسور کر
اسے گھورنے لگی۔
"حویلی میں ہماری شادی کی تیاری شروع ہو چکی ہیں،
جن میں مجھے بھی شریک ہونا ہے یار!...تم یونیورسٹی
والوں سے بات کرو کہ ایگزامز نیکسٹ منتھ لے لیں۔" وہ
التجاء آمیز لہجے میں بولی۔
"بلکل بھی نہیں ،جو جیسا چلتا ہے ویسا چلنے دو ،پاور کا
غلط استعمال نہیں کرتے۔" وہ اس کا ہاتھ تھام کر اپنے
ساتھ کھینچتے ہوئے آگے بڑھ گیا۔
"تم بہت برے ہو۔"
"کچھ بھی کہہ سکتی ہو۔" وہ مسکراتے ہوئے بوال۔
328
"میں ابھی بابا سائیں کو بتاتی ہوں کہ آپ لندن نہیں یہاں
روؤن میں میرے ساتھ ہیں۔" وہ ناک سکوڑتے ہوئے
دھمکانے پر اتر آئی تھی۔
"بابا سائیں نے بندوق کے سامنے باندھ کر گولی مار دینی
ہے۔" وہ کوٹ کی جیبوں میں سے ہاتھ نکال کر اس کے
سامنے جوڑ چکا تھا حور نے قہقہہ لگا کر ہنستے ہوئے
اس کے ہاتھ تھام لیے تھے۔
"اچھا چلتے ہیں نا.....مجھے سب کی یاد بھی تو بہت آ رہی
ہے۔"
"میرے ساتھ ہوتے ہوئے بھی سب یاد آ رہے ہیں؟" وہ
مصنوعی خفگی سے گویا ہوا۔
"جی بلکل ،آپ کی اپنی جگہ ان سب کی اپنی۔"
"جب میں دور جاتا ہوں تو کیا مجھے بھی یاد کرتی ہو؟"
وہ چلتے چلتے رک گیا تھا۔
"نہیں ،آپ کو کیوں یاد کرنا ہے؟"حور نے سر اٹھا کر برا ِہ
راست اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے مسکراہٹ
دبائی۔
"تو میری یاد نہیں آتی؟" وہ سنجیدہ ہو گیا تھا۔
329
"جو شخص آپ کی سانسوں میں بستا ہو کیا اسے ایسے
سواالت زیب دیتے ہیں؟" وہ اس کی جانب جھکتے ہوئے
شریر لہجے میں سرگوشی کر رہی تھی۔
دالور خان کی نیلی آنکھوں میں ڈھیروں خوشیاں چمکی
تھی۔
"موویز کم دیکھا کرو۔" وہ اس کے سر پر تھپکی رسید
کرتا پلٹ کر پھر سے چل دیا تھا۔
جب سے آئی تھی آج پہلی مرتبہ اس نے پیرس میں دھوپ
نکلی دیکھتی اور وہ دونوں پیدل ہی گھومنے کے لیے نکل
آئے تھے۔
کیفے بار میں گالس وال کے قریب والی کرسیوں پر بیٹھتے
ہوئے دالور خان نے کافی اور چاکلیٹ کیک کا آرڈر دیا۔
"مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے حور!" وہ اپنے سامنے
بیٹھی حور کی جانب دیکھتے ہوئے سنجیدہ لہجے میں
بوال۔
حور نے اس کے چہرے پر چھائی خاموشی بغور نوٹ کی
تھی۔
"میں ایک لڑکی کو ڈھونڈ رہا ہوں؟"
330
"لڑکی کو؟" سوالیہ نگاہوں سے وہ اسے دیکھنے لگی۔
"وہ جو ہماری مالزمہ کنیز تھی....اصل میں وہ زرمینہ خان
ہے "....دالور نے سب کچھ اسے بتا دیا تھا وہ ساکت
بیٹھی اسے دیکھتی رہی۔
"میرے یہاں آنے سے پہلے شکیل خان کی والدہ آئی تھی
میرے پاس......اس نے بتایا کہ شکیل خان نے خود پولیس
بلوائی اور زرمینہ خان ایف آئی آر درج کروانے پر مجبور
کر دیا۔میں نے شکیل خان کو رہا تو کروا دیا ہے مگر اس
کی حالت درست نہیں ہے ،جیل میں کچھ باغی گروہ نے
اسے شدید پیٹا ہے جس وجہ سے اس کے سر پر بہت
گہری چوٹیں آئی ہیں جیل کے لوگ کہتے ہیں کہ وہ خود
اس گروہ کو پیسے دے کر مار کھاتا تھا۔"
"اس نے ایسا کیوں کیا؟ مطلب ایف آئی آر درج کیوں
کروائی؟" حور کے استفسار پر اس نے شانے آچکائے۔
"پتہ نہیں ،میں نے بہت کوشش کی کہ پوچھوں اس سے
مگر اس نے کچھ نہیں بتایا ....زرمینہ خان ہی بتا سکتی
ہے کہ شکیل خان آج اس حالت میں کیوں ہے۔اسی لیے
مجھے اسے ڈھونڈنا پڑے گا۔"
331
"کہاں ڈھونڈیں گے آپ اسے؟"
"پتہ نہیں مگر مجھے لگتا ہے اس سب کا میں ہی زمہ دار
ہوں......نہ زرمینہ خان کی شادی شکیل خان سے کرواتا
اور نہ ہی آج وہ اس حال میں ہوتا۔"
"دالور خان! تم محض شکیل خان کے متعلق سوچ رہے
ہو ،ایک عورت جو تن تنہا نہ جانے کہاں ہے.....اس کا
خیال تمہیں نہیں آ رہا.....اس نے تم سے محبت کی جس کی
اتنی بڑی سزا دی تم نے اسے۔" حور کو سچ میں اس پر
غصہ آ رہا تھا۔
"میں نے کوئی سزا نہیں دی ،شکیل خان جیسا ہمسفر وہ
ڈیزرو نہیں کرتی تھی".....
"تو پھر میں بھی تمہیں ڈیزرو نہیں کرتی ،کیونکہ ایک
وقت تھا جب میں بھی کسی شخص سے محبت کرتی تھی۔"
دالور خان کی بات کاٹتے ہوئے وہ تیکھے لہجے میں بولی
تو وہ دم سادھے اسے دیکھتا رہا۔
"تم نے محبت کی مگر گناہ نہیں کیا اپنی عزت و آبرو کو
پیروں تلے نہیں روندا......اس نے اپنی حدیں پار کیں جو
332
کہ ایک عورت کو زیب نہیں دیتا۔" وہ اسی کے انداز میں
بوال۔
"خیر میں مزید اس معاملے میں بحث نہیں کروں گی ،ہم آج
واپس جائیں گے اور تم دالور خان ایک ہفتے کے اندر اندر
زرمینہ خان کو ڈھونڈو گے۔" وہ حکمیہ انداز میں کہتے
ہوئے میز پر ہاتھ ٹکا کر اس کی جانب جھکی۔
"ٹھیک ہے۔" وہ سنجیدگی سے کہتے ہوئے گالس وال کے
پار ڈوبتے سورج کو دیکھنے لگا۔
چند پل وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی پھر گہری
سانس خارج کرتے ہوئے بولھ
"دالور! میری بات کا برا مت مانا میں تمہیں غلط نہیں کہہ
رہی ،مگر سوچو کہ ایک تنہا عورت کہاں گئی ہو گی؟"
"میں برا نہیں مان رہا تم ٹھیک ہی کہہ رہی ہو ،مجھے
زرمینہ خان کی مرضی کے خالف اس کی شادی شکیل خان
سے نہیں کرنی چاہیے تھی۔جب میں نے اس کی زمہ داری
لی ہی تھی تو اس زمہ داری کو بھی نبھانا چاہیے تھا مگر
میں یہ نہیں کر پایا۔"
333
"تم اب بھی کر سکتے ہو ،ہم مل کر اسے ڈھونڈیں گے۔"
حور نے میز پر پڑے اس کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں
میں لیتے ہوئے کہا تو وہ مسکرا کر اثبات میں سر ہال گیا۔
"یہاں سے بہت لذیز خوشبوؤں آ رہی تھیں تو میں خود کو
روک نہیں پائی۔" نجی نے مسکراتی نگاہوں سے فرحان
کو دیکھا تھا۔
"سرپرائز تھا۔ خیر آ ہی گئی ہو تو میری ہیلپ بھی کروا
دو۔" وہ بوائل گوشت کو باؤل میں ڈالتے ہوئے اس میں
مصالحے مکس کرتے ہوئے بوال۔
"کیا کروں ؟"
"اچھی بیویوں کی طرح پلو سے ہوا دو۔" فرحان نے شوخ
لہجے میں کہتے ہوئے اس کی جانب دیکھا۔
وہ اس کی بات مانتے ہوئے اپنے دوپٹے سے ہوا دینے
لگی تھی۔
"آدھا مہینہ ہو گیا ہے آپ جوا کھیلنے نہیں گئے۔" وہ ذرا
سا اس کے قریب ہوئی اور اس کی پیشانی پر چمکتی
پسینے کی بوندیں اپنے آنچل سے صاف کرنے لگی۔
334
"رن مرید بن گیا ہوں۔" اس نے جس انداز میں کہا تھا نجی
سے ہنسی کنٹرول نہیں ہوئی تھی۔
"آپ کو پتہ ہے آپ بہت اچھے کھانے بناتے ہیں ،شاید یہ
آپ کا وہ ہنر ہے جسے آپ نے کبھی سمجھا نہیں۔" وہ
سینڈوچز کے لیے سالئس نکال کر اس کی جانب بڑھاتے
ہوئے بولی۔
"مجھے بچپن سے ہی کنگ کا شوق رہا ہے۔ پہلے پہل بہت
ساری ڈیشز بناتا تھا مگر درمیان میں ایسا وقت گزرا کہ
میں محض جوا کی لت میں پڑا رہا۔" وہ آگ کی آنچ دھیمی
کرتے ہوئے اس کی جانب پلٹا۔
"تھینک یو نجی! تم بہت اچھی وائف ہو تم نے میرا بہت
ساتھ دیا ہے۔اب مجھے سچ میں یہ کنفیوژن نہیں کہ مجھے
کیا کرنا ہے ،کیونکہ میں سمجھ گیا ہوں کہ ہمارا بہترین
میچ ہے....اب دنیا کی کوئی پرواہ نہیں۔" وہ اس کے
شانوں کو تھام کر مسکراتے ہوئے بوال تو وہ مسرت
بھرے انداز میں اس کے شانے پر پیشانی ٹکا گئی۔
وہ بکریاں چراتے ہوئے پہاڑ کی اس چوٹی پر آ گئیں تھی
جہاں وہ چھوٹی سی کٹیا تھی.....جس میں وہ کئی اذیت ناک
راتیں گزار چکی تھی۔
335
بےاختیار ہی اس کے قدم آگے بڑھے تھے۔
"باجی آگے نہ جائیں یہ تو میرے ابا نے کافی سال پہلے
بنائی تھی......اب تو اس میں سانپ اور بچھو کے سوا کچھ
نہیں ہوں گے۔" گلنار نے خوف زدہ ہو کر کہا تھا۔
"کچھ نہیں ہوتا ،انسانوں میں جانور چھپے ہوتے ہیں وہ
نقصان پہنچاتے ہیں۔" وہ کہتے ہوئے آگے بڑھی۔
"ویسے تمہارے ابا نے یہ کیوں بنائی تھی؟"
"تقریبا ً پندرہ سال پہلے......ایک لشکر یہاں آیا تھا.....کوئی
خان پور کا سردار تھا"....
"سردار دالور خان؟" وہ ایڑھیوں پر اس کی جانب پلٹتے
ہوئے تیزی سے بولی تھی۔
"نام تو اب یاد نہیں مجھے۔میں تب محض پندرہ سال کی
تھی"
"کیا اس کی آنکھیں نیلی تھیں؟" زری بےقراری سے
بولی۔
"ہاں۔" گلنار خوشی سے بھرے لہجے بولی۔
336
"مجھے یہ اس لیے یاد ہے کہ مجھے کہانیوں والے
شہزادے دیکھنے کا شوق تھا ،میری دادی نے مجھ سے
کہا کہ یہ دیکھو لڑکا ایسے ہوتے ہیں کہانیوں والے
شہزادے۔" وہ اپنا بچپن یاد کرتے ہوئے مسرور سی ہو
رہی تھی جبکہ زری دیوانہ وار بھاگتی ہوئی اس گھر تک
پہنچی۔
"ت تو تم یہاں رہتے تھے دالور خان۔"
"وہ لوگ گلگت بلتستان کے سب سے اونچے پہاڑ پر قیام
کرنا چاہتے تھے ،بابا جان نے انہیں یہ پہاڑ دکھایا...نیلی
آنکھوں والے لڑکے کو یہ گھر بہت پسند آیا تھا تو اس نے
بابا کو بہت زیادہ پیسے دیئے تھے بابا نے منع کیا مگر
اس نے کہا کہ یہ ان کا انعام ہے۔" گلنار بولے جا رہی تھی
جبکہ زری کا پورا دھیان اس گھر کی جانب ہی تھا۔
وہ دروازہ کھول چکی تھی۔
سارا گھر مٹی اور درختوں کے پتوں سے گندا ہا پڑا تھا۔
وہ سنبھل سنبھل کر قدم رکھتی کمرے کے دروازے تک
پہنچی تھی جس پر تاال لگا ہوا تھا۔
337
"یہاں تاال کیوں لگا ہے؟ چابیاں شکیل خان کے پاس ہوں
گیں ".....وہ افسردہ سی ہو کر پلٹی مگر دائیں جانب کونے
میں پڑی کلہاڑی دیکھ کر اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ در
آئی۔
"باجی نہ کریں.....جن کا گھر ہے وہ آ گئے تو؟"
گلنار نے روکنا چاہا مگر وہ اس کی بنا ایک بھی سنے تاال
توڑ چکی تھی۔
کمرے میں داخل ہوتے ہی یادوں کی ایک پٹاری کھل گئی
تھی۔
اس کی مسکراہٹ سمٹ گئی اور دل میں سناٹے اترنے
لگے۔
وہاں ہر جگہ شکیل خان کی موجودگی بول رہی تھی....مگر
وہ نہیں تھا۔
"خدا تمہیں بخشے شکیل خان!" دل سے آہ نکلی تھی مگر
اس نے وہ دعا میں بدل دی۔
دروازہ مقفل کرتے ہوئے پلٹی تھی ایک نگاہ کچھ فاصلے
پر کھڑے دالور خان پر ڈالی اور دھیمی سی مسکراہٹ لیے
ایک لمحے کو ساکت ہو گئی۔
338
"جانتی ہوں کہ تم نہیں ہو ،مگر ہر جگہ تم ہی تو ہو۔" اس
نے درد بھری آواز میں کہتے ہوئے سر جھکایا اور آگے
بڑھ گئی۔
"زرمینہ خان!" دالور کی آواز پر اس کے قدموں کو زمین
نے جکڑ لیا تھا.....وہ آنکھیں پھاڑے ساکت کھڑی رہی۔
"تمہیں لینے آیا ہوں....چلو۔" وہ آگے بڑھا اور بنا اسے
دیکھے بوال۔
"جو حکم سائیں!" زری کی آواز میں آنسو بھرے ہوئے
تھے۔
"اونہہ....یہ دکھاوے کی تابعداری مت کرو....کیونکہ اگر
تمہارے نزدیک میرے حکم کی کوئی اوقات ہوتی تو تم آج
یہاں مجھے نظر نہ آتیں۔" وہ غصیلے انداز میں کہتا آگے
بڑھ گیا تھا۔
زرمینہ خان کا سر شرم سے جھک گیا۔
"یہ لڑکی اپنے شوہر کے ساتھ پہلے بھی یہاں آئی تھی
سردار حکم!....مگر وہ ظالم شخص اسے بہت مارتا پیٹتا
تھا ،پہلے تو مجھے وہ انسان لگا ہی نہیں تھا.....کیومکہ
جس طرح اس نے اِس معصوم کو پیٹا تھا کوئی انسان ایسا
339
نہیں کرتا۔" حکیم بابا کی بات پر دالور خان کو حیرت کا
شدید جھٹکا لگا تھا۔
"آپ اس لڑکی کے لیے بہتر فیصلہ کیجیے گا۔" حکیم بابا
نے دالور خان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا تھا۔
وہ الجھا الجھا سا ان کے ہاتھ تھام گیا تبھی وہ بھی گلنار
کے ساتھ گھر سے نکلی تھی۔
"اب جب آؤ گی باجی؟" گلنار اس کے بغلگیر ہوتے ہوئے
بولی تھی۔
"ان شاءہللا جلد ہی۔" وہ کھوکھلی سی مسکراہٹ لیے
ّٰللا حافظ کہتی اسکی جانب بڑھی۔
کہتے ہوئے سب کو ہ
وہ حکیم بابا اور اس کے بیٹے سے مصافحہ لیتے ہوئے
گاڑی کی جانب بڑھ گیا تھا۔
ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے اس نے لیفٹ سائیڈ واال
دروازہ کھول دیا تھا۔
زری کے دل میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ کبھی دالور خان کے ساتھ لیفٹ
سیٹ پر بیٹھے اور آج وہ خواہش پوری ہو گئی تھی۔
340
سفر خاموشی سے کٹ رہا تھا.....وہ کئی سوچوں میں گم
تھا اور وہ پرسکون تھی ،آنکھیں موندے وہ دالور خان کی
موجودگی محسوس کر رہی تھی۔
"خدارا یہ سفر لمبا ہو جائے۔" اس کے دل سے دعا نکلی
تھی ،تبھی بند آنکھوں کے پیچھے شکیل خان جھپک سے
آن کھڑا ہوا،وہ اس پر ہنس رہا تھا۔
زری نے پٹ سے آنکھیں کھول دیں۔
خوف سے سپید پڑتا رنگ وہ دالور سے چھپا نہیں پائی
تھی جو اس کے اس طرح چونک کر سیدھا ہونے پر اسی
کی جانب متوجہ تھا۔
میں سٹی پہنچ کر اس نے گاڑی ایک ہوٹل کے پارکنگ ایریا
میں روکی تھی۔
"روم نمبر ون زیرہ ون۔ حور اندر ہی ہیں۔"
وہ ونڈ سکرین کے پار دیکھتے ہوئے سنجیدگی سے بوال
تھا۔
"حور؟"
"میری وائف۔"
341
"آپ نے شادی کر لی؟ وہ حور جو آپ کے ساتھ
تھیں؟.....وہ بہت ہی معصوم اور اچھی لڑکی ہے آپ اسے
خوش رکھیے گا....بہت بہت مبارکباد سائیں!"
وہ خوشی سے سرشار لہجے میں کہتے ہوئے بولی تھی۔
دالور خان نے چونک کر اس کی جانب سیاہ گالسز کے
پیچھے سے ہی دیکھا ،اس کے چہرے پر واقع ہی خوشی
کے رنگ نمایاں نظر آ رہے تھے۔
"ہوں۔ٹھیک ہے۔" وہ لب بھینچ کر رخ پھیر گیا۔
زری گاڑی سے اتر گئی تھی۔
"کسی پرائے مرد کے پیچھے اپنے آپ کو ضائع کرنا سب
سے بڑی بیوقوفی ہوتی ہے زرمینہ!" حور نے اس کے
ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے نرمی سے کہا تھا۔
"میرا دل نہیں مانتا حور! کہ میں کسی کے متعلق سوچوں،
تم مجھے باغی کہہ سکتی ہو یا کچھ بھی مگر یہ مت کہنا
کہ میں اپنی محبت فراموش کر دوں۔ میں خود کو ضائع
نہیں کر رہی بس اپنی محبت بچائے ہوئے ہوں۔"
"تم جیسی عورتیں ہوتی ہیں جو عورتوں کو بدنام کرتی
ہیں کہ وہ بیوفا ہیں۔ تم ایک نامحرم کی محبت کو دامن سے
342
باندھ کر اپنے محرم کو تکلیف پہنچا رہی ہو۔تمہیں معلوم
بھی ہے شکیل خان کس حال میں ہے......وہ پاگل ہونے کی
آخری اسٹیچ پر ہے اور مرنے کے چانس بھی پچاس
پرسنٹ ہیں۔" حور غصے سے بولتے ہوئے آخر پر تاسف
سے کہتی اسے دیکھنے لگی۔
زرمینہ کی سانسیں حلق میں اٹک گئی تھیں ،وہ سر اٹھا کر
حور کو دیکھنے لگی۔
ّٰللا کبھی معاف نہیں
"وہ مر جائے گا زری!.....اور تمہیں ہ
کرے گا۔ تمہاری خاطر جو دالور خان نے کیا ہے وہ کوئی
شوہر نہیں کرتا.....اس نے تمہیں بےشک تشدد کا نشانہ
بنایا مگر اس کے بدلے میں خود پر خود ہی تشدد کروایا
اور آج وہ زندگی اور موت کے درمیان لٹکا ہوا ہے ،ارے
کیسی بےرحم عورت ہو تم کہ محض اپنے متعلق سوچ رہی
ہو۔" وہ تیکھے لہجے میں کہتے ہوئے اس کے چودہ طبق
روشن کر چکی تھی۔
وہ گھٹنوں میں منہ چھپائے بےآواز روتی چلی گئی۔
کافی دیر وہ روتی رہی تھی....حور نے اسے رونے دیا۔
"میں اس کے ساتھ رہ کر اسے دھوکا نہیں دینا چاہتی۔"
343
"تو میرے شوہر کو اپنے دل و دماغ سے نکال
دو.....تمہاری وجہ سے وہ خود کو مجرم سمجھتا ہے ،وہ
سکون کی نیند نہیں سو پاتا کہ اس نے تمہارے اور شکیل
خان کے ساتھ اچھا نہیں کیا حاالنکہ اس سب میں اس کا
قصور نہیں یہ تم دونوں کی زندگی تھی۔" حور نے سینے
پر ہاتھ لپیٹتے ہوئے اسے گھوری نوازی۔
آج سعی معنوں میں زرمینہ کے دل میں سناٹا چھایا تھا۔
"ٹھیک ہے تمہارے شوہر کو میں بھول جاؤں گی مگر
میری ایک شرط ہے.....میں شکیل خان کے پاس جاؤں گی
اس کی دیکھ بھال کروں گی اور جب وہ ٹھیک ہو جائے گا
تو تم سائیں سے کہو گی کہ وہ مجھے شکیل خان سے
طالق دلوائیں۔ منظور ہے؟"
زری کی شرط پر وہ ایک لمحے کو سوچتی رہی پھر بولی۔
"ٹھیک ہے۔ مگر تم اس وقت میں پوری ایمانداری سے
ایک اچھی بیوی کی طرح شکیل خان کے ساتھ زندگی
گزارو گی ،میں دیکھنے آیا کروں گی ،اگر مجھے تمہارے
کام میں غفلت نظر آئی تو طالق کبھی نہیں ہو گی۔" وہ
حکمیہ انداز میں کہتی ایک نظر اس پر ڈال کے کمرے میں
سے نکل گئی تھی۔
344
زرمینہ کئی لمحے وہاں ہی کھڑی رہی پھر تھکے ہوئے
انداز میں بیڈ پر بیٹھ گئی۔
اگلے ہی دن جب حور اور دالور خان کے ہمراہ وہ ہسپتال
پہنچی تو شکیل خان کو زنجیروں میں جکڑے دیکھتے ہی
اس کے حلق میں سانسیں اٹک گئی تھیں ،دل میں دھڑکنیں
الجھنے لگیں......وہ ایک دم سے حلق کے بل چالئی تھی۔
انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ شکیل خان کو اس حالت میں
دیکھ کر وہ یوں ری ایکٹ کرے گی۔
حور ہڑبڑا کر دالور خان کو دیکھنے لگی۔
"م مجھے اندر جانا ہے ،دروازہ کھولو۔" اس نے ڈاکٹر کو
کہا تھا۔
"آپ نہیں جا سکتیں"......
"جانے دیں اسے۔" حور نے سنجیدگی سے کہا تھا۔
ڈاکٹر نے چارو ناچار دروازہ کھول دیا تھا۔
وہ بھاگ کر شکیل خان تک پہنچی تھی۔
345
وہ پیشنٹ یونیفارم میں ملبوس تھا ،ڈرا سہما سا گھٹنوں
کے گرد بازو حائل کیے زمینی بستر پر دیوار سے ٹیک
لگائے بیٹھا تھا۔
وہ اپنے پیروں پر زیادہ دیر کھڑی نہیں ہو سکی تھی تبھی
اس کے سامنے گھٹنوں کے بل گرنے کے سے انداز میں
بیٹھی تھی۔
اس کی نگاہوں کے سامنے وہ شکیل خان آن ٹھہرا تھا جو
جنگل میں بھی سوٹ بوٹ ہو کر رہتا تھا ،پورے گھر میں
سینہ تانے دندناتا پھرتا رہتا تھا۔
"ش شکیل خان!" دل تڑپ کر رو دیا تھا وہ بےاختیار ہی
اس کے گرد بازو حائل کر گئی تھی جس پر شکیل خان ڈر
کر اس کے بال نوچنے لگا۔ ڈاکٹر اور دالور خان بھاگ کر
اندر آئے تھے اور اسے شکیل خان کی گرفت سے آزاد
کروانے لگے۔
"م میں ہوں زری! تمہاری زری ....شکیل خان! مجھے
دیکھو ،تم چاہتے تھے نا کہ میں محض تمہارا ہی نام لوں
تمہیں ہی سوچوں.....ہاں شکیل خان م میں نے تم سے
بچھڑ کر محض تمہیں سوچا ہے۔ سن رہے ہو مجھے میں
تمہارے سحر میں گرفتار ہوں ،تمہاری ستم ظریفی کے
346
باوجود میں بیوفائی نہیں کر پائی۔"وہ اس کا گریبان
جھنجھوڑتے ہوئے رو رو کر کہتے ہوئے لہرا کر زمین
بوس ہوتے ہی بےہوش ہو گئی تھی۔
ڈاکٹر کی مدد سے اسے ایمرجنسی وارڈ میں لےجایا گیا
تھا۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ شدید صدمے کی بدولت وہ بےہوش
ہوئی تھی۔
"کائنات! ولی خان یونیورسٹی چھوڑ کر چال گیا ہے۔اس نے
یہ تمہیں دینے کو کہا تھا۔" نبیلہ نے ایک تہہ شدہ خط اس
کی جانب بڑھایا تھا۔
"مجھے کچھ لینا دینا نہیں وہ جائے یا رہے .....شکر ہے
وہ چال گیا نہیں تو میں بہت ان کمفرٹیبل فیل کرتی تھی اس
کی موجودگی میں۔" اس نے خط کئی ٹکڑوں میں تقسیم
کرتے ہوئے باسکٹ میں اچھال دیا تھا۔
"وہ اسی لیے گیا ہے۔" نبیلہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔
"تم اسے پسند کرتی ہو ،بھروسہ رکھو وہ ایک دن تمہارا
ہو گا ان شاءہللا۔"
"ت تمہیں کیسے پتہ؟" نبیلہ چونکی۔
347
"بس آنکھیں سب کہتی ہیں۔ تم جس طرح اس کے متعلق
بات کرتی تھی جس طرح اسے چوری چوری دیکھتی تھی
سب نظر آتا تھا۔" کائنات نے اسے چھیڑا تو وہ نم آنکھوں
سے مسکرا دی تھی۔
ّٰللا بہت بڑا رحیم و کریم ہے وہ بنا مانگے ہی
"یقین رکھو ہ
ہمیں اتنا کچھ نوازتا ہے جو ہمارے لیے بہتر ہوتا ہے۔"
کائنات کی بات سے متفق ہوتے ہوئے وہ اثبات میں سر ہال
گئی۔
"میں مزید کوئی گناہ نہیں کرنا چاہتی۔مجھے شکیل خان
کے ساتھ رہنا ہے۔نجی سے معافی مانگنی ہے اور سائیں
سے کہیے گا مجھے معاف کر دیں میں نے انہیں بھی بہت
تکلیف دی ہے۔" وہ آنکھیں موندے ہی بولی تھی۔
حور مسکرا کر اس کا ہاتھ تھام گئی۔
" تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ہللا تمہیں ہمت دے گا۔" حور
نے نرمی سے کہا۔
دالور خان نے دروازے پر دستک دی تھی۔
348
شکیل خان کی والدہ کو ساتھ لیے وہ اندر آیا وہ زرمینہ کو
برستی نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اس کے پاس پڑی
کرسی پر بیٹھ گئی تھیں۔
حور دھیرے سے اٹھ کر کمرے سے نکل گئی۔
"شکیل خان کی والدہ بتا رہی تھی کہ وہ زرمینہ خان سے
محبت کرتا تھا ،اس سے برداشت نہیں ہوا کہ وہ اپنی عزت
پر کھیل گئی ہے تبھی وہ زرمینہ خان پر تشدد کرتا تھا۔"
دالور خان کے انکشاف پر حور ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئی
تھی۔
"مرد بھی کتنے روپ بدلتے ہیں نا ،کبھی نرم بارش بن کر
برستے ہیں تو کبھی آگ بن کر جھلسا جاتے ہیں۔"
"میں ہمیشہ نرم بارش ہی رہوں گا ،آگ یہاں تم ہو۔" اس
کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے وہ شریر لہجے
میں بوال۔
"بچ کر رہنا پھر۔" وہ مسکراہٹ دباتے ہوئے بولی۔
"اتنی بری بھی نہیں ہو تم جتنا خود کو برا شو کرتی ہو۔"
"شادی کے بعد کانوں کو ہاتھ لگا کر کہوگے کنوارا اچھا
تھا۔" وہ مزید بولی۔
349
"تم بھی یہ ہی کہو گی۔"
"نہ میں اپنے فیصلوں پر پچھتاتی نہیں۔"
"تو ہم بھی سردار دالور خان ہیں "......وہ گاڑی کی سپیڈ
بڑھاتے ہوئے بوال تھا۔
'میں ہار مانتی ہوں۔" حور نے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔
"اور میں بھی۔" اس نے نرمی سے حور کا ہاتھ تھام لیا
تھا۔
بالآخر ہماری زندگیوں میں سب کچھ ایک دفعہ بگڑنے کے
بعد ٹھیک ہو ہی جاتا ہے......
سب رشتے کھونے کے غم میں انسان اس ایک رشتے کو
فراموش کر بیٹھتا ہے جو واحد اس کے پاس بچا ہوتا
ّٰللا ہمارے
ہے.....جو بہت انمول ہوتا ہے اس کے لیے کہ ہ
لیے کبھی کچھ غلط پالن نہیں کرتا.....
ہمارے زندگی گزارنے کے پالن اور خواب غلط ثابت ہو
ّٰللا کی رضا میں راضی ہونا چاہیے کہ وہ
سکتے ہیں مگر ہ
ہی تو سب ٹھیک کرنے واال ہے۔
350
اس کا دیا تھا
جو بس بجھتا تھا
اس کی آنکھ تھی
جو شب و روز جلتی تھی
بخشا خدا نے سکون
اس کے قلب کو کچھ اس طرح
وہ اندھیروں سے نہ کبھی ڈرتی تھی
******
351
ختم شد
352